Ibn Sultan-ul-Qalam

Ibn Sultan-ul-Qalam

ابنِ سلطانُ القلم

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی سیرت و سوانح


Book Content

Page 1

ابنِ سلطان القلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی سیرت و سوانح تالیف: میر انجم پرویز (مربی سلسله)

Page 2

ابن سلطان القلم اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے مکرم و محترم میر انجسم پرویز صاحب مربی سلسلہ لندن کو کہ انھوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے بارہ میں اپنی زیر تالیف بہت ہی گراں قدر کتاب " ابن سلطان القلم "مجھے پڑھنے کے لیے دی اور اس کتاب نے تو گویا میری حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب سے ایک طرح کی ملاقات کر وادی ہے.فجزاہ اللہ تعالی احسن الجزاء.اس سے قبل ان کے بارہ میں اس قدر معلومات اور کوائف میرے علم میں نہ تھے.میں نے اس کتاب کا مسودہ بالاستیعاب پڑھا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ تالیف بہت دلچسپ، جامع ، مفید اور تاریخی معلومات سے بھر پور ہے.یہ تالیف کیا ہے، گویا ماضی میں ایک علمی اور تحقیقی سفر ہے جو بہت سے غیر معروف حقائق اور پوشید ہ واقعات کی دنیا میں لے جاتا ہے.فاضل مؤلف نے بڑی محنت شاقہ سے اس بکھرے ہوئے قیمتی مواد کو اکٹھا کیا ہے اور ایسا مجموعہ مرتب کیا ہے جس سے جماعتی لٹریچر میں بیش قیمت اضافہ ہو گا.تاریخ احمدیت سے متعلق بہت سے نامعلوم یا غیر معروف حالات وواقعات اس تالیف میں بہت خوبصورتی سے مستند انداز میں باحوالہ درج کیے گئے ہیں.اس کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی کتب اور مضامین کی حتی الامکان جامع فہرست بھی اس کتاب میں شامل ہے اور اس دور کے اخبارات ور سائل میں جو تبصرے ان کے بارہ میں شائع ہوئے ان کو بھی بڑی محنت سے یکجا کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فاضل مؤلف کو اس تحقیقی تالیف کی جز اعطا فرمائے اور اس کتاب کا مطالعہ قارئین کے لیے ازدیاد علم و عرفان کا موجب بنائے ، آمین.خاکسار عطاء المجیب را شد امام مسجد فضل لندن و مبلغ انچارج بریطانیہ

Page 3

ابن سلطان القلم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند اکبر حضرت صاحبزادہ مرز اسلطان احمد صاحب کی سیرت و سوانح تالیف: میر انجم پرویز (مربی سلسله) ف ف ف ف ف ف ف فا

Page 4

بسم الله الرحمن الرحيم نام کتاب: ابن سلطان القلم نام مولف: میر انجم پرویز (مربی سلسله) ایڈیشن اول: اول سنه اشاعت: 2019 سرورق: صفدر حسین عباسی تعداد: 1000 مطبع: Print Plus UK PH: 01274305555

Page 5

01 i V 04 05 06 07 08 10 11 13 14 14 فہرست مضامین حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ( محترم چودھری محمد علی مضطر صاحب) ابن سلطان القلم ( محترم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب) باب اول : بنیادی تعارف تعلیم، شادی اور اولاد فصل اول: بنیادی تعارف حناندان پیدائش بچپن کا ایک واقعہ والد بزرگوار سے کسب فیض تحصیلداری کا امتحان اور دعا کی درخواست حضرت مسیح موعود سے دلی اعتقاد کی دلیل اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کا امتحان علم طب کا حصول مطالعہ کا شوق.

Page 6

15 فصل دوم: شادی اور اولاد حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب حضرت مرز اعزیز احمد صاحب کی شادی اور اولاد حضرت صاحبزادہ مرزار شید احمد صاحب حضرت مرزا رشید احمد صاحب کی شادی اور اولاد شجرہ نسب حضرت مرز اسلطان احمد صاحب فصل سوم: حضرت مرز اسلطان احمد صاحب سے متعلق متفرق امور تذکرہ رؤسائے پنجاب تایا سے تعلق قادیان کے نمبر دار جائیداد کا معاملہ تایا کے متبنیٰ کا معاملہ قادر آباد اور احمد آباد آپ کے چھوٹے بھائی الہام أَخُوكَ ڈائیڈ“.والد محترم کا آپ کو دین کی ترغیب دینا.حضرت مصلح موعود کا آپ کو حقیقی بھائی سمجھنا ایک ہند و پر نالش کا واقعہ 16 18 20 21 23 68222 14 24 25 26 26 27 2222220 28 29 30 31 32 32

Page 7

35 37 37 38 3 3 3 3 2 39 باب دوم: ملازمت کے مراحل اور واقعات فصل اول: ملازمت کے مراحل ڈپٹی کے عہدے کے لیے دعا کا خط گورنمنٹ کی طرف سے آپ کو سفارت کی پیشکش دوران ملازمت میں دوسروں پر احسانات مقدس باپ کا اثر اور ملازمت فصل دوم: ملازمت کے دوران میں پیش آنے والے بعض واقعات 41 42 43 44 48 50 50 53 54 4 7 % dumt 45 47 سادگی غیرت و حمیت.واقعہ بہاولپور رعایا کی جان ومال کی حفاظت بے داغ کردار واقعہ گوجر انوالہ دانشمندی اور شجاعت کی مثال صاف گوئی اور بے باکی عدالت میں گواہیوں کا حال خان بہادر“ کا خطاب بذریعہ الہام والد صاحب کی وفات کی خبر والد صاحب کے جنازہ میں شرکت جنازہ کے بعد

Page 8

باب سوم: قبول احمدیت فصل اول: بیت تو ہر ایک کو لگ جانے ہیں“.اعلان احمدیت دستی بیعت حفظ مراتب کا خیال 67 69 73 75 55856602 10 57 78 ہم تیرے لیے رسوائی والی کوئی بات باقی نہ چھوڑیں گے آپ کی بیعت ایک نشان تھا.پہلی حالت کا ذکر.بیعت کے بعد آپ کا اخلاص تین کو چار کرنے والا“.الهامی شخص فصل دوم: احمدیت میں داخل نہ ہونے کی وجوہ اپنی کمزوری اس پاک سلسلہ کی بدنامی نہ ہو.میں دنیا داری میں گرفتار ہوں.میری حالت ایسی نہیں کہ بیعت کو نبھا سکوں.حضور کی تعلیم کی بجا آوری کی تاب نہیں.آپ کی روح احمدیت کو قبول کیے ہوئے تھی 82 84 85 85 223 11 82 83

Page 9

88 88 89 91 92 93 2223 فصل سوم: احمدیت سے وابستگی ”میاں محمود میرے بھائی ہیں“ جماعت کے لیے غیرت کا اظہار ”دلہن کو پہلے حضرت خلیفتہ المسیح کے پاس لے جاؤ“ حضرت اماں جان سے دعا کی درخواست.خواجہ کمال الدین صاحب کی ایک مذموم کوشش فصل چهارم والد ماجد کا غیر معمولی احترام ہمیشہ ادب اور تعظیم کو ملحوظ رکھا دوست کے مذاق پر آپ کا اظہار غیرت بشپ آف لاہور کی زبان درازی اور آپ کارڈ عمل ”وہ بے شک اللہ تعالیٰ کے مرسل اور نبی ہیں“ تمھارے تو دادا اور پیر بھی تھے “.حضرت مرز اعزیز احمد صاحب کی تجدید بیعت سٹرائیک میں شمولیت کے بارہ میں ضروری وضاحت باب چهارم: آخری ایام ووفات، افضال الہیہ اور اخلاق فاضلہ 94 96 97 98 99 2 2 2 2 2 2 2 95 102 103 106 107 فصل اول: آخری ایام حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا عریضہ تعزیت

Page 10

108 109 110 111 112 112 113 114 114 115 116 116 117 117 118 119 119 121 121 ومنات کی خبر مختلف رسائل میں ہمہ گیر و ہمہ رس انشا پرداز محسن علم وادب فصل دوم افضال الہیہ ، خدمات جلیلہ ، اخلاق فاضلہ حضرت مسیح موعود سے مشابہت حضرت اقدس کے مکان میں حضرت اقدس کی میزبانی کا شرف حضرت خلیفہ المسیح الاول کی شفقت لائبریری کی معاونت مدرسہ تعلیم الاسلام کو عطیہ ”حیات احمد کی تالیف میں معاونت سفر ولایت اور حج بیت اللہ آل انڈیا مسلم کانفرنس دہلی میں شرکت خاندان کے بارہ میں حکام کے خطوط وسندات بیٹے کے استاد کی تکریم.بیٹے کو نصائح غیرت دینی لیکھرام کو مباحثے کا چیلنج عیسائیوں سے قلمی جنگ کا شوق عیسائی پادریوں سے مباحثہ صاحب کردار

Page 11

122 123 125 126 127 128 130 132 133 134 135 137 161 163 165 172 173 تبلیغ احمدیت امانت و دیانت.فصل سوم: آپ کی نسبت حضرت مسیح موعود کے بعض نشانات والہامات ”اس کی موت کے دن صلح ہو گی“.عزیز کے باپ کے سر پر سلطان کا لفظ حجۃ اللہ القادر وسلطان احمد مختار “ یہ میرا بیٹا ہے پاس ہو جائے گا“.66 ایک فرشتہ سلطان احمد کالباس پہن کر کھڑا ہے سلطان احمد آئے ہوئے ہیں.”اے عمی ! بازی خویش کر دی.درشنی آدمی باب پنجم روایات حضرت مرزا سلطان احمد صاحب باب ششم: علمی وادبی زندگی اور علمی خدمات فصل اول: عظیم علمی و ادبی قدو قامت کے حامل ذوق شعر و سخن ادبی زندگی مضمون نویسی مضامین کی فہرست (کتاب کے آخر میں ملاحظہ فرمائیں)

Page 12

174 176 177 178 179 179 180 182 183 183 184 185 186 186 187 187 188 189 189 190 192 فصل دوم مختلف رسائل واخبارات کی آراء اور تبصرے تمام خیابان گلزار علم آپکی تراوش قلمی کے رہین منت زر کاری دارد.آپ کے مفید علمی اور محققانہ مضامین کی شہرت نہایت اعلیٰ درجے کے عالمانہ خیالات دماغ نکتہ آفرین اور قلم ندرت رقم آپ کا نام علمی وادبی دنیا میں محتاج تعریف نہیں بہارِ تعلیم کی کرشمہ آرائیوں کی تصویر کشی کہنہ مشق اور شہرہ آفاق سحر نگار ائق تقلید فلسفیانہ قابلیت اور معقول مذاق مفید فاضلانه و محققانه مضامین آپ کی عالی قدر علمی یادگاریں اردو کا سرمایہ صحیح اور غور کرنے والا دماغ بالغ نظری، نکته سنجی، دقیقه شناسی فاضل اور واقف کار مضمون نگار دلکش اور لاجواب مضامین اردو انشا پردازی کے روح رواں.زود نگاری کی ایک مثال فلسفیانہ مضامین لکھنے میں بے مثال شہرت اس کا قائم مقام آیا نہ پھر محسن اردو اردو کا ایک بھلایا ہو ا صاحب قلم

Page 13

194 203 204 204 205 206 207 210 212 214 214 215 215 217 218 218 219 219 221 222 آپ کا ایک مضمون بعنوان ” اردو زبان فصل سوم: حضرت مرز اسلطان احمد صاحب کی تصنیفات معاصرین میں آپ کا مقام و مرتبہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اور علامہ اقبال گاه به سلطان باشی، گاه باشی به فقیر جناب اکبر الہ آبادی کی رائے.آپ کی جملہ کتب کی فہرست (مطبوعہ و غیر مطبوعہ) آپ کی کتب کا تعارف ا.ایک اعلی ہستی ۲.علوم القرآن نبوت الصلاة ۵.جبر و قدر ۶.اساس الاخلاق.صداقت.قوت اور محبت و فرحت ۱۰.مرآۃ الخیال یعنی منٹل فلاسفہ 11.الوجد ۱۲.فنون لطیفہ ۱۳.امثال

Page 14

۱۴.فن شاعری ۱۵.چند نثر نما نظمیں ۱۶.صدائے الم.ے ا.ملت اور معاملات قومی ۱۸.زمینداره ببینک ۱۹.مشیر باطن ۲۰.نظم خیال ۲۱.بزم خیال (ناول) ۲۲.دل سوز (ناول) ۲۳.یاد گارِ حسین ۲۴ تبصره بر اسرار بے خودی ۲۵.ریاض الاخلاق ۲۶.سراج الاخلاق ۲۷.خیالات ۲۸.مکتوبات اكبر..فہارس مضامین حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مضامین جن کے رسالوں کے نام معلوم نہیں ہو سکے فہرست مضامین "ریاض الاخلاق".223 224 227 228 229 229 230 231 233 233 234 235 236 236 236 238 267 267 272 273 275 00000 فہرست مضامین سراج الاخلاق فہرست مضامین ”خیالات “ شکریہ احباب

Page 15

i ان الحر الحب حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب بقلم مکرم محترم چو دھری محمد علی صاحب) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد میں حضرت مرز اسلطان احمد صاحب آپ کی پہلی بیوی سے فرزند اکبر تھے.آپ نے اپنے مقدس باپ کے گھر میں پرورش پائی، ان سے بچپن میں بعض کتابیں جیسے: تاریخ فرشتہ، نحومیر اور گلستان و بوستان سبقاً پڑھیں.یہ کیونکر ممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود کی قوت قدسیہ نے آپ کی زندگی، آپ کے اخلاق اور صلاحیتوں پر گہرے نقوش مرتسم نہ کیے ہوں.جب آپ کی زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ساری زندگی محنت، دیانت ، سچائی، فرض شناسی اور حسن اخلاق سے عبارت تھی.امانت و دیانت کا یہ حال تھا کہ دفتر میں اپنے مضمون وغیرہ لکھنے کے لیے الگ ذاتی قلم دوات رکھی ہوئی تھی.خاکسار سمجھتا ہے کہ یہ سب حضرت مسیح موعود کی تاثیر قدسی اور آپ کا فیض تھا.آپ کو اپنے والد بزرگوار سے غیر معمولی تعلق خاطر تھا.یہی وجہ ہے کہ حضور کی وفات پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاتا اس کی خبر دی.آپ ایک ٹریکٹ ”الصلح خیر“ میں حضرت اقدس کے ساتھ اپنی عقیدت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

Page 16

”میری عقیدت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نہ صرف اس وقت سے ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحیت کا دعویٰ کیا بلکہ ان ایام سے میں عقیدت رکھتا ہوں کہ جبکہ میری عمر بارہ تیرہ برس کی تھی.میں اپنے والد صاحب مرحوم مرزا غلام احمد صاحب کو ایک سچا انسان اور پکا مسلمان الموسوم مسیح موعود سمجھتا ہوں اور ان کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہوں اور میں اپنے آپ کو اس رنگ میں ایک احمدی سمجھتا ہوں.میں نے کبھی اپنی زندگی میں ان کے دعاوی اور ان کی صداقت اور سچائی کی نسبت کوئی مخالفانہ حصہ نہیں لیا..جب یہ حالت ہے تو مجھے کوئی یہ الزام نہیں دے سکتا کہ میں ان کا منکر تھا یا ہوں.“ تحصیلداری کا امتحان ہو یا کسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کا یا ڈپٹی کمشنر کے عہدے کا معاملہ، ہر موقع پر اپنے بزرگ باپ کی خدمت میں دعا کی درخواست کرتے.آپ کو حضرت مسیح موعود کی صداقت، بزرگی اور تقرب الی اللہ پر بچپن سے جو یقین تھا اس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ای اے سی کے امتحان کے وقت لاہور میں جب دوسرے اُمیدواروں نے آپ کا مذاق اُڑایا تو آپ نے ان کو تحدسی کے ساتھ فرمایا کہ میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا.اس یقین کی وجہ یہ تھی کہ اپنے والد بزرگوار کو دعا کی درخواست کر کے آئے تھے اور حضور نے دعا کرنے کا وعدہ بھی فرمایا تھا.نیز یہ کہ آپ نے خواب میں دیکھا تھا کہ حضرت مسیح موعود نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو کرسی پر بٹھایا ہے، اس لیے آپ کو اپنی کامیابی کا یقین ہو گیا تھا.پس آپ اپنے زمانہ طالب علمی میں بھی جانتے تھے کہ آپ کے والد ماجد کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک عظیم مقام ہے.

Page 17

نے زندگی میں ہر موقع پر حضرت مسیح موعود کے لیے بے مثال غیرت کا مظاہرہ کیا اور کسی کو آپ کے روبرو حضرت اقدس کے خلاف زبان درازی کی جرأت نہ ہو سکتی تھی.محترم کرنل داؤد صاحب مرحوم نے خاکسار سے بیان کیا کہ ایک مرتبہ گورنر پنجاب کی دعوت میں بشپ آف لاہور حضرت اقدس کے خلاف زبان درازی کرنے لگا تو آپ نے اسے ایسا کرنے سے منع کیا لیکن وہ باز نہ آیا، آپ نے پھر منع کیا.جب تیسری دفعہ اس نے جسارت کی تو آپ نے کھانے سے بھری پلیٹ اس کے منہ پر دے ماری.ہر ایسے موقع پر آپ ایک مخلص مومن کی طرح غیرت دکھاتے تھے اور کسی کو حضرت اقدس کے خلاف کوئی بات کرنے کی اجازت نہ دیتے تھے.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی ادبی زندگی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاثیر اور فیض سے ہرگز الگ نہیں کی جا سکتی.بچپن میں آپ نے اپنے عظیم باپ سے تعلیم حاصل کی اور درسا کئی کتابیں پڑھیں.اسی طرح آپ میں مطالعے کا شوق بھی یقیناً اپنے والد بزرگوار کو دیکھ کر ہی پیدا ہوا ہو گا.جب حضرت اقدس نے قلمی جہاد کا آغاز فرمایا اس وقت حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب عنفوانِ شباب میں تھے، اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آپ میں انشا پردازی کی استعداد پیدا کرنے میں آپ کے والد بزرگوار کے افاضہ کا بنیادی کردار اور دخل ہے، جبھی تو آپ کی تحریر میں ایک حد تک اپنے والد بزرگوار کی تحریر کا رنگ پر تو نظر آتا ہے.

Page 18

iv اردو ادب میں آپ کا بہت بڑا نام ہے لیکن از بس افسوس کی بات ہے کہ تاریخ ادب میں آپ کے نام کو یکسر فراموش کر دیا گیا ہے.ایک دفعہ پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے معروف ادبی شخصیات کی کتب دوبارہ شائع ہوئیں.اس کا تذکرہ آل انڈیا ریڈیو پر ہو رہا تھا.خاکسار نے وہ پروگرام خود سنا ہے، جس میں بڑی حیرت اور افسوس کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ اتنے گراں پایہ شخص کو فراموش کر دیا گیا ہے.دنیا نے آپ کو بھلا دیا لیکن ہمیں آپ کی یاد اور آپ کے تذکرے کو ہمیشہ زندہ رکھنا چاہیے.اس کا ایک طریق یہ ہے کہ آپ کے گرانقدر مضامین اور گنجینۂ معنی کتب کو جمع کر کے دوبارہ شائع کیا جائے.کاش! کوئی اس اہم کام کا بیڑا اُٹھا سکے.عزیزم میر انجم پرویز نے آپ کے حالات زندگی کو پہلی دفعہ یکجا کرنے کی سعادت پائی ہے.میں نے اس کتاب کے مسودے کو پڑھا ہے اور میرے نزدیک یہ جماعتی لٹریچر میں ایک اچھا اضافہ ہے.اللہ تعالیٰ عزیزم کی اس خدمت کو قبول فرمائے، جزائے خیر سے نوازے اور آئندہ انھیں مزید خدمات کی توفیق عطا فرمائے.آمین خاکسار عمری (دستخط محترم چودھری محمد علی صاحب مضطر) ۲۰ فروری، ۲۰۱۵ء

Page 19

الله الرحمن الرحيم ابن سلطان القلم اللہ تعالیٰ کا بے حد کرم اور احسان ہے کہ اس نے اس عاجز کو سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے تین بیٹوں (حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب) کو دیکھنے اور ان سے ملنے کی سعادت عطا فرمائی اور ایسا ہی ممکن ہو سکتا تھا کیونکہ حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی پہلی شادی سے عطا ہونے والے دونوں بیٹے یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب تو اس عاجز کی ولادت سے بہت پہلے ہی اس دنیائے فانی سے رخصت ہو چکے تھے.رض اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے مکرم و محترم میر انجم پرویز صاحب مربی سلسلہ لندن کو کہ انھوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے بارہ میں اپنی زیر تالیف بہت ہی گراں قدر کتاب ”ابن سلطان القلم “ مجھے پڑھنے کے لیے دی اور اس کتاب نے تو گویا میری حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب سے ایک طرح کی ملاقات کروادی ہے.فجزاہ اللہ تعالی احسن الجزاء.اس سے قبل ان کے بارہ میں اس قدر معلومات اور کو ائف میرے علم میں نہ تھے.V

Page 20

vi میں نے اس کتاب کا مسودہ بالاستیعاب پڑھا ہے.اللہ تعالیٰ کے تالیف بہت دلچسپ، جامع، مفید اور تاریخی معلومات سے بھر پور ہے.یہ تالیف کیا ہے، گویا ماضی میں ایک علمی اور تحقیقی سفر ہے جو بہت سے غیر معروف حقائق اور پوشیدہ واقعات کی دنیا میں لے جاتا ہے.فاضل مؤلف نے بڑی محنت شاقہ سے اس بکھرے ہوئے قیمتی مواد کو اکٹھا کیا ہے اور ایسا مجموعہ مرتب کیا ہے جس سے جماعتی لٹریچر میں بیش قیمت اضافہ ہو گا.تاریخ احمدیت سے متعلق بہت سے نامعلوم یا غیر معروف حالات و واقعات اس تالیف میں بہت خوبصورتی سے مستند انداز میں باحوالہ درج کیے گئے ہیں.اس کے علاوہ حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی کتب اور مضامین کی حتی الامکان جامع فہرست بھی اس کتاب میں شامل ہے اور اس دور کے اخبارات ور سائل میں جو تبصرے ان کے بارہ میں شائع ہوئے ان کو بھی بڑی محنت سے یکجا کر دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فاضل مولف کو اس تحقیقی تالیف کی جزا عطا فرمائے اور اس کتاب کا مطالعہ قارئین کے لیے ازدیاد علم و عرفان کا موجب بنائے ، آمین.خاکسار عطاء المجیب راشد امام مسجد فضل لندن و مبلغ انچارج بریطانیه ۱۵/ اکتوبر،۲۰۱۸ء

Page 21

ابن سلطان القلم ~ 1 - باب اول: تعارف،تعلیم ،شادی اور اولاد فصل اول حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا الہام ہے: يَنْقَطِعُ آبَاؤُكَ وَيُبْدَأُ مِنْكَ.تیرے باپ دادوں کا ذکر منقطع ہو جائے گا.یعنی بطور مستقل ان کا نام نہیں رہے گا اور تیرے بعد سلسلہ خاندان کا تجھ سے شروع ہو گا.' حضرت مرز اسلطان احمد صاحب کا بنیادی تعارف یہی ہے کہ آپ امام الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی زوجہ اولیٰ سے فرزند اکبر تھے.آپ کی پہچان حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہے.جسمانی فرزندی کے علاوہ آپ کو اپنی عمر کے آخری حصہ میں حضرت اقدس کی روحانی فرزندی میں داخل ہونے کی سعادت بھی نصیب ہوئی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی ذہنی قابلیت اور انتظامی صلاحیت سے نوازا تھا.آپ نے اُس وقت، جب ہندوستان میں انگریز حکمران تھے ، ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک ا تذکرہ مجموعہ الہامات، رؤیا و کشوف حضرت مسیح موعود علیہ السلام، صفحہ ۵۳ اور ۵۴۲

Page 22

ابن سلطان القلم ~ 2 ~ ترقی حاصل کی، جو ایک ہندوستانی کی معراج سمجھی جاتی تھی.خان بہادر کا خطاب بھی پایا، تاہم اعلیٰ دنیاوی منصب حاصل ہونے کے باوجود آپ نے انتہائی سادہ مگر پر وقار زندگی بسر کی.آپ ایک محنتی، فرض شناس اور ذمہ دار افسر تھے.امانت و دیانت اس حد تک تھی کہ کبھی دفتر کا قلم بھی ذاتی استعمال میں نہ لائے.علاوہ ازیں آپ عظیم علمی و ادبی قد و قامت کی حامل شخصیت تھے.تصنیف و تالیف سے خاص شغف تھا.آپ نصف صدی سے زیادہ عرصہ تک افق ادب پر چھائے رہے اور کئی ایک اخبارات و رسائل میں متواتر اور مسلسل بیش قیمت علمی مضامین لکھتے رہے.آپ کی ساٹھ کے قریب تصنیفات اور چار سو سے زائد مضامین آپ کی روائی قلم اور کثرت نگاری کا منہ بولتا ثبوت ہیں، لیکن اس کثرتِ تالیف و تحریر کے باوصف آپ نے نہ صرف زبان کے اعلیٰ معیار کو قائم رکھا بلکہ مضمون کا حق ادا کرنے میں بھی کبھی کوئی سمجھوتا نہ کیا اور جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا اس کا حق ادا کر دیا.آپ کے پیدا کر دہ لٹریچر سے بلاشبہ اُردو ادب میں بیش بہا اضافہ ہوا.آپ کے والد بزرگوار رئیس قادیان حضرت مرزا غلام احمد علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے امام مہدی اور مسیح موعود نبی اللہ بنا کر مبعوث کیا، جنھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آخرین کی جماعت قائم کی، جو جماعت احمد یہ کہلاتی ہے، لیکن آپ حضرت اقدس مسیح موعود کی زندگی میں آپ کے دست مبارک پر بیعت کر کے اس پاک جماعت کا حصہ نہ بن سکے باوجودیکہ آپ حضرت اقدس کو سچا اور راستباز سمجھتے تھے اور آپ کی غیر معمولی بزرگی اور خدارسیدہ ہونے کے قائل تھے.اس کی وجہ آپ یہ بتاتے

Page 23

ابن سلطان القلم ~ 3 ~ تھے کہ میں حضور کی تعلیم کی بجا آوری کی تاب نہیں رکھتا اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے اس پاک سلسلہ کی بدنامی ہو.دوسری طرف جب ہم آپ کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ آپ ایک اعلیٰ اخلاق کے مالک، صاحب کردار، سچائی پر کار بند ، امین اور منکسر المزاج شخص تھے.یہی نہیں بلکہ آپ صاحب رؤیا والہام بھی تھے اور حضرت مسیح موعود کے الہامات ورؤیا وغیرہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے متعدد دفعہ آپ کو شامل فرمایا.یہ سب افضال الہیہ آپ کے عند اللہ مقام کی واضح طور پر نشاندہی کرتے ہیں.ہر چند آپ کی روح شروع سے احمدیت قبول کیے ہوئے تھی لیکن آپ کو بیعت کی توفیق حضرت خلیفہ المسیح الثانی " کے عہد سعادت مہد میں حاصل ہوئی.بعض احمدی احباب آپ کو بیعت کی تحریک بھی کیا کرتے تھے، جن کو آپ یہی جواب دیتے تھے کہ میں حضرت اقدس کو خوب جانتا ہوں اور میں محض اپنی کمزوری کی وجہ سے بیعت سے محترز ہوں.اس سے یقینی طور پر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ آپ کو یہ اور اک تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کس قسم کی جماعت قائم کرنا چاہتے ہیں اور اپنے متبعین کو کس معیار پر دیکھنا چاہتے ہیں اور آپ اپنے آپ کو اُس انتہائی معیار پر نہیں پاتے تھے اور اسی کو آپ اپنی کمزوری گردانتے تھے، ورنہ آپ کی زندگی اعلیٰ اخلاق کی آئینہ دار نظر آتی ہے.دوسرے حضرت مسیح موعود کے بعض الہامات میں بھی یہ اشارات پائے جاتے تھے کہ آپ ضرور بیعت کر لیں گے مگر حضرت مصلح موعودؓ کے عہد میں.اس سے قبل بیعت کرنا آپ کے لیے مقدر نہ تھا.اس طرح آپ کا ایک مدت تک بیعت نہ کرنا اور پھر آخری عمر میں بیعت کر لینا ہر دو امور حضرت مسیح موعود کی

Page 24

ابن سلطان القلم ~ 4.صداقت کے نشان تھے.قارئین کرام مندرجہ بالا تمام امور کی تفصیل آئندہ صفحات میں ملاحظہ فرمائیں گے.خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند ہونے کی حیثیت سے آپ کے خاندان کا تعارف دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خاندان کا تعارف ہے، جو اپنے علاقے میں ایک معزز خاندان تھا اور اس کا سلسلہ نسب برلاس سے، جو امیر تیمور کا چچا تھا، ملتا ہے اور جب امیر تیمور نے علاقہ کش پر بھی، جہاں اس کا چچا حکمران تھا، قبضہ کر لیا تو بر لاس خاندان خراسان چلا آیا اور ایک مدت تک یہیں رہا، لیکن دسویں صدی ہجری یا سولھویں صدی مسیحی کے آخر میں اس خاندان کا ایک ممبر مرزا ہادی بیگ بعض غیر معلوم وجوہات کے باعث اس ملک کو چھوڑ کر قریباً دو سو آدمیوں سمیت ہندوستان آگیا اور دریائے بیاس کے قریب کے علاقے میں اُس نے اپنا ڈیرہ لگایا اور بیاس سے نو میل کے فاصلے پر ایک گاؤں بسایا اور اس کا نام ”اسلام پور“ رکھا.چونکہ آپ ایک نہایت قابل آدمی تھے اس لیے دہلی کی حکومت کی طرف سے اس علاقے کے قاضی مقرر کیے گئے اور اس عہدے کی وجہ سے آپ کے گاؤں کا نام بجائے اسلام پور کے ”اسلام پور قاضی“ ہو گیا، یعنی اسلام پور جو قاضی کا مقام ہے.پھر مرورِ زمانہ سے اسلام پور کا نام تو بالکل مٹ گیا اور صرف قاضی رہ گیا جو پنجابی تلفظ میں ”قادی“ کہلانے لگا اور آخر اس سے بدل کر ” قادیان“ بن گیا.

Page 25

ابن سلطان القلم ~ 5 ~ اس خاندان کے ممبر مغلیہ حکومت کے ماتحت معزز عہدوں پر مامور رہے اور جب مغلیہ خاندان کو ضعف پہنچا اور پنجاب میں طوائف الملو کی پھیل گئی تو یہ خاندان ایک آزاد حکمران کے طور پر قادیان کے ارد گرد علاقہ پر، جو تقریباً ساٹھ میل کا رقبہ تھا، حکمران رہا لیکن سکھوں کے وقت میں اس ریاست کی حالت ایسی کمزور ہو گئی کہ سب علاقہ اس خاندان کے ہاتھوں سے نکل گیا اور بالآخر قادیان پر بھی سکھ قابض ہو گئے اور اس خاندان کے لوگ ریاست کپور تھلہ میں چلے گئے جہاں تقریباً سولہ سال مقیم رہے.اس کے بعد مہاراجہ رنجیت سنگھ کا زمانہ آگیا اور اُنھوں نے سب چھوٹے چھوٹے راجوں کو اپنے ماتحت کر لیا اور اس انتظام میں اس خاندان کو بھی ان کی جاگیر کا بہت کچھ حصہ واپس کر دیا.پھر جب انگریزی حکومت نے سکھوں کی حکومت کو تباہ کیا تو ان کی جاگیر ضبط کر لی گئی، مگر قادیان کی زمین پر ان کو مالکیت کے حقوق دیے گئے.اُس وقت اس خاندان کے سر براہ حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب رئیس قادیان تھے.ان کی وفات (۱۸۷۶ء) کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے جناب مرز اغلام قادر صاحب جانشین ہوئے.ان کا ایک بیٹا تھا جو کمسنی میں فوت ہو گیا.اُنھوں نے اپنے بھتیجے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو اپنا متبنی کر لیا.پیدائش حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عمر ابھی تقریباً سولہ برس تھی جب آپ کی پہلی شادی اپنے حقیقی ماموں جناب مرزا جمعیت بیگ صاحب کی صاحبزادی ا سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام، تصنیف حضرت خلیفۃ المسیح الثانی.صفحہ ۱ تا ۵

Page 26

ابن سلطان القلم ~ 6 ~ حرمت بی بی صاحبہ سے ہوئی.اللہ تعالیٰ نے اس بیوی سے آپ کو دو فرزند عطا کیے، جن میں سے بڑے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب اور چھوٹے صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی پیدائش ۱۸۵۳ء میں ہوئی، جبکہ صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب ۱۸۵۵ء میں پیدا ہوئے.۲ بچپن کا ایک واقعہ : حضرت مرزا سلطان احمد صاحب تین سال کے تھے بلکہ اس سے بھی شاید کچھ کم ہی ان کی عمر ہو گی جب وہ گھر کے دالان میں زمین پر کھیل رہے تھے.دالان میں ایک اوکھلی تھی.کھیلتے کھیلتے آپ اتفاقا سر کے بل اس اوکھلی میں گر پڑے.اب اس سے آپ نکل تو سکتے نہیں تھے بلکہ سیدھے بھی نہیں ہو سکتے تھے.تھوڑی دیر تک اسی حالت میں پڑے رہے.آخر اپنی رہائی کی کوششوں میں ناکامیاب رہ کر رو پڑے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی پاس ہی ٹہل رہے تھے، لیکن اپنے خیالات میں ایسے غرق تھے کہ آپ کو اس کا بالکل پتا نہ چلا.حضرت والدہ صاحبہ ( یعنی دادی مرزا سلطان صاحب) بچے کے رونے کی آواز سن کر دوڑتی ہوئی آئیں اور مرزا سلطان احمد صاحب کو نکال کر پیار کے ساتھ اُٹھایا." ا سیرت المہدی جلد اول صفحه ۲۰۷ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحه ۶۱ حیات احمد جلد اول صفحہ ۲۱۶.جدید ایڈیشن

Page 27

ابن سلطان القلم ~ 7 ~ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے آج کل کی اصطلاح میں جسے با قاعده یا سکول کی تعلیم کہا جاتا ہے، کوئی تعلیم حاصل نہیں کی تھی.اگر سکول ہی کی تعلیم کو تعلیم کہا جائے تو آپ صرف پرائمری پاس تھے، لیکن اگر تعلیم کے صحیح معنوں پر غور کیا جائے تو آپ کی مشرقی طریق پر معقول تعلیم ہوئی تھی.اُردو تو خیر آپ کی زبان تھی ہی، فارسی میں بھی ادیبانہ شان تھی.یوں نہیں کہ عربی سے ناواقف نہ تھے بلکہ اس زبان کی ادبیات پر بھی عبور تھا.انگریزی زبان سے بھی ضروریات زمانہ کے لحاظ سے بہت حد تک واقف تھے.ހ ۱۸۷۲ء میں حضرت اقدس علیہ السلام نے مولوی اللہ دتا صاحب آف لودی تنگل ضلع گورداسپور کو مرزا سلطان احمد صاحب اور مرزا فضل احمد صاحب کی تعلیم کے لیے بلایا تھا، اس لیے کہ وہ ایک جید عالم تھے.مولوی الہ دتا صاحب جب قادیان میں آئے تو اکثر حضرت اقدس سے بعض مسائل پر تبادلہ خیالات بھی ہوا کرتا تھا.تاہم مولوی صاحب زیادہ عرصہ تک قادیان میں نہ رہ سکے اور اس کام کو چھوڑ کر چلے گئے.۲ ا نیرنگ خیال (لاہور) جوبلی نمبر.مئی، جون ۱۹۳۲ء صفحہ ۲۸۵.چیف ایڈیٹر: حکیم محمد یوسف حسن مکتوبات احمد جلد چہارم صفحه ۳۰۳، طباعت ۲۰۱۵ء

Page 28

ابن سلطان القلم ~ 8 ~ لاہور سے شائع ہونے والے معروف علمی وادبی رسالہ ”نیرنگ خیال“ جو بلی نمبر کی مئی، جون ۱۹۳۴ء کی اشاعت میں آپ کے حصول تعلیم کی مزید تفصیلات بیان ہوئی ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کچھ دنوں تک دیوبند میں بھی پڑھتے رہے اور دیوبند ہی سے سے نکل کر گھر والوں کی اطلاع کے بغیر آپ نے سرکاری نوکری بھی کر لی تھی.دہلی میں بھی اسی سلسلہ حصولِ تعلیم میں آپ کا قیام رہا.۱۸۹۹ء میں جب آپ پہلی بار بسلسلہ ملازمت لاہور وارد ہوئے تو ان دنوں میں آپ نے حصولِ تعلیم کے بارہ میں کہا تھا کہ آپ نے شاہی طریقہ سے تعلیم نہیں پائی بلکہ طالبعلمی کی ہے.آپ دہلی کی کسی مسجد میں رہتے تھے اور تعلیم پاتے تھے.والد بزگوار سے کسب فیض: بچپن میں آپ نے اپنے والد ماجد یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بھی چند کتب سبقا پڑھی تھیں، جن میں تاریخ فرشتہ، نحو میر اور گلستان و بوستان شامل ہیں.آپ خود بیان کرتے ہیں کہ والد صاحب کبھی کبھی پچھلا پڑھا ہوا سبق سنا بھی کرتے تھے مگر پڑھنے کے متعلق مجھ پر کبھی ناراض نہیں ہوئے، ا یہ تاریخ درست معلوم نہیں ہوتی، کیونکہ اپریل ۱۸۹۰ء میں جب حضرت مسیح موعود علاج کی غرض سے لاہور تشریف لے گئے تھے تو اس وقت حضرت مرزا سلطان احمد صاحب وہاں نائب تحصیلدار تھے.دیکھیں : حیات احمد جلد سوم صفحہ ۹۲.(مؤلف) ۲ نیرنگ خیال جوبلی نمبر مئی، جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۸۵،۲۸۶

Page 29

ابن سلطان القلم ~ و ~ حالانکہ میں پڑھنے میں بے پروا تھا.ممکن ہے آپ اپنے والد بزرگوار سے اور ہے.بھی کسب فیض کرتے، لیکن آپ کے دادا محترم مرزا غلام مرتضی صاحب نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس خیال کی بنا پر پڑھنے سے روک دیا کہ کہیں آپ بھی حضرت اقدس کی طرح صرف دین کے ہو کے نہ رہ جائیں اور آپ ہی کے رنگ میں رنگین نہ ہو جائیں.' حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے مشاغل دینیہ کے علاوہ اپنے پاس آنے والے بچوں کو نماز، درود شریف اور دوسرے احکام دین کی عملی تعلیم دیا کرتے تھے اور اس کے علاوہ بعض لوگوں کو متعارف کتب کے سبق بھی پڑھا دیا کرتے تھے.ان پڑھنے والوں میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب بھی ایک وقت تک آپ سے بعض در سی کتب عربیہ پڑھا کرتے تھے.۲ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب بیان فرماتے ہیں: ”حضور نے اگر چہ خود با قاعدہ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دی، لیکن ابتدائی ایام میں جبکہ اللہ تعالیٰ کی وحی سے آپ مامور ہو کر ابھی مبعوث نہ ہوئے تھے ، خان بہادر مرز اسلطان احمد صاحب کو یہ سعادت حاصل ہوئی.خان بہادر نے مجھے بتایا کہ میں کتابیں سرھانے رکھ کر سو جایا کرتا تھا، بہت محنتی نہ تھا، لیکن سبق سمجھ لیا اور کچھ یاد بھی رکھا.حضرت مسیح موعود میرا آموختہ سنا بھی کرتے تھے اور میں بھول بھی جاتا تھا، مگر یہ کبھی نہیں ہوا کہ ا سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه ۱۹۷، ۱۹۸ حیات احمد جلد اول، صفحہ ۳۱۹.جدید ایڈیشن

Page 30

ابن سلطان القلم ~ 10 ~ پڑھنے کے متعلق مجھ سے ناراض ہوئے ہوں یا مجھے مارا ہو.' حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب اپنے والد بزرگوار کے علاوہ اپنے دادا حضرت مرز اغلام مرتضیٰ رض صاحب سے بھی پڑھتے رہے.۲ تحصیلداری کا امتحان اور دعا کی درخواست: بھیجا.مارچ ۱۸۸۴ء میں آپ نے تحصیلداری کا امتحان دیا.اس موقع پر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں دُعا کے لیے ایک رقعہ لکھ کر نے وہ رقعہ پھینک دیا اور فرمایا ”ہمیشہ دنیاداری ہی کے طالب ہوتے ہیں.“ اُسی وقت یہ الہام ہوا.پاس ہو جاوے گا.جس آدمی کے ہاتھ یہ رقعہ بھیجا گیا تھا اُس نے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو آ کر سارا واقعہ بتا دیا.چنانچہ اسی طرح ہوا اور آپ امتحان میں پاس ہو گئے." حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب رضی اللہ عنہ ”حیاتِ احمد“ میں یہی واقعہ بیان کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ کی شان کریمی کے قربان! مرزا سلطان احمد صاحب نے اس ایمان سے محرک ہو کر جو اُن کو حضرت کی دعاؤں کی قبولیت پر تھا، خط تحریر سیرت حضرت مسیح موعود از عرفانی صاحب، صفحہ ۳۷۷ سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۱۸۶ تذکره صفحه ۹۵ طبع ۲۰۰۴ء ۴ سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه ۲۰۵

Page 31

ابن سلطان القلم ~ 11 - کیا.خدا تعالیٰ نے ان کے حسن ظن کو ضائع نہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ مقام کہ دنیا کے اغراض کے لیے بیٹے کے واسطے بھی دعا پسند نہ کی.اللہ تعالیٰ باپ اور بیٹے کا یہ فعل پسند آیا اور نماز میں آپ کو بشارت مل گئی کہ پاس ہو جائے گا.آپ نے مسکرا کر اس کو بیان کیا کہ ہم نے تو دعا نہیں کی، مگر خدا تعالیٰ نے کامیابی کی بشارت دے دی.چنانچہ اسی کے موافق وہ پاس ہو گئے اور اُن کی ترقیات کا سلسلہ جاری ہو گیا.خاکسار کے نزدیک دنیوی غرض کے لیے بہت زیادہ ہم و غم کرنا اور تذلل وانکسار کا اظہار کرنا حضرت اقدس کی ناپسندیدگی کا موجب ہوگا، ورنہ جب حضرت مرزا سلطان صاحب نے ڈپٹی کے عہدے کے لیے حضرت اقدس سے دعا کی درخواست کی تو آپ نے نہ صرف دعا کی بلکہ ایک موقع پر قبولیت دعا کے نشان کے طور پر اس واقعہ کو خود بیان بھی فرمایا.حضرت مسیح موعود سے دلی اعتقاد کی دلیل: حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دعا کی درخواست کرنا دراصل آپ کے حضرت اقدس سے دلی اعتقاد، تعلق خاطر اور ربطِ محبت کی دلیل ہے اور یہ بات خود حضرت مسیح موعود نے بیان فرمائی ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ا حیات احمد جلد دوم صفحہ ۳۹۷- جدید ایڈیشن

Page 32

ابن سلطان القلم ~ 12 ~ وو ”دلی دعا اور ربط کو خاص مدعا میں بہت دخل ہے.جس سے دلی ربط اور توجہ ہو، اگر چہ اس کے حق میں کسی وقت دعانہ کرے تب بھی اثر ہو جاتا ہے.مجھ کو یاد ہے کہ شاید عرصہ تین ماہ یا کچھ کم و بیش ہوا ہے کہ اس عاجز کے فرزند نے ایک خط لکھ کر مجھ کو بھیجا کہ جو میں نے امتحان تحصیلداری کا دیا ہے اس کی نسبت دعا کریں کہ پاس ہو جاؤں اور بہت کچھ انکسار اور تذلل ظاہر کیا کہ ضرور دعا کریں.مجھ کو وہ محط پڑھ کر بجائے رحم کے غصہ آیا کہ اس شخص کو دنیا کے بارے میں کس قدر ہم وہم ہے.چنانچہ اس عاجز نے وہ خط پڑھتے ہی بہ تمام تر نفرت و کراہت چاک کر دیا اور دل میں کہا کہ ایک دنیوی غرض اپنے مالک کے سامنے کیا پیش کروں! اس خط کے چاک کرتے ہی الہام ہوا: ”پاس ہو جائے گا.“ وہ عجب الہام بھی اکثر لوگوں کو سنایا گیا، چنانچہ وہ لڑکا پاس ہو گیا، فالحمد للہ.سو خداوند کریم کی عالیشان درگاہ میں نازک آداب ہیں.جب کوئی عرض آداب کے مطابق ہوتی ہے تو قبول ہو جاتی ہے اور ربط محبت و اعتقاد کرنا ان معاملات میں بہت کچھ دخل رکھتا ہے.صاحب محبت اور ارادت کے بہت سے ایسے آفات اور مکروہات بباعث عین محبت دور کیے جاتے ہیں کہ اس کی اس کو خبر نہیں ہوتی.166 اس ارشاد سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مرز ا سلطان احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واجب ادب و احترام کو ملحوظ رکھ کر دعا کی تھی اسی لیے اللہ کے ہاں پایہ قبول کو پہنچ گئی.ا مکتوبات احمد جلد سوم صفحه ۴۳-۴۴

Page 33

ابن سلطان القلم ~ 13 - ~ اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کا امتحان: مشہور صحافی جناب سید شفیع احمد صاحب محقق دہلوی کی ایک روایت کے مطابق حضرت مرزا سلطان احمد صاحب جب ای اے سی ( Extra Assistant Commissioner) کا امتحان دینے کے لیے قادیان سے لاہور تشریف لے گئے تو دوسرے امیدواروں نے آپ کا خوب مذاق اُڑایا کہ ان کو بھی امتحان کا شوق چرایا ہے.گویا یہ تاثر قائم کیا کہ آپ کی کامیابی سراسر محال ہے.یہ سن کر آپ نے دل میں کہا کہ میں حضرت والد صاحب کی خدمت میں دعا کی درخواست کر کے آیا ہوں اور آپ نے دعا کا وعدہ بھی کیا ہے.خدا کرے میں کامیاب ہو جاؤں.انھی خیالات کے ہجوم میں آپ سو گئے اور قریباً چار بجے صبح خواب دیکھا کہ حضرت صاحب تشریف لائے اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر کرسی پر بٹھا دیا.اس خواب کی آپ نے یہ تعبیر فرمائی کہ میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا اور یہی بات آپ نے تحدی کے ساتھ مذاق اُڑانے والوں سے بھی کہہ ڈالی.چنانچہ آپ بفضلہ تعالیٰ کامیاب ہو گئے.' رؤیا میں حضرت مسیح موعود کا آپ کو پکڑ کر کرسی پر بٹھانا اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کی دعاؤں کی برکت سے آپ ترقیات حاصل کریں گے اور اس میں کیا شک ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فیض سے ہی آپ کو تمام مناصب و مراتب حاصل ہوئے.ا سیرت المہدی جلد سوم صفحه ۲۳۵ تا ۲۳۷

Page 34

ابن سلطان القلم ~ 14 - علم طب کا حصول: علم طب آپ کا خاندانی علم تھا.آپ کے باپ دادا علم طب میں خاصی دستگاہ رکھتے تھے اور ہمیشہ مفت علاج کرتے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے بھی طب پڑھی تھی، لیکن اسے بطور پیشہ اختیار نہیں کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی اولاد کو علم طب پڑھنے کی بطورِ خاص تاکید فرمایا کرتے تھے.مطالعہ کا شوق: حضرت صاحبزادہ صاحب کو بچپن ہی سے مطالعہ اور کتب بینی کا بے حد شوق تھا.آپ کی ایک روایت ہے کہ دادا صاحب کی ایک لائبریری تھی جو بڑے بڑے پٹاروں میں رہتی تھی اور اُس میں بعض کتابیں ہمارے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں.میری عادت تھی کہ میں دادا صاحب اور والد صاحب کی کتابیں وغیرہ نکال کر لے جایا کرتا تھا.چنانچہ والد صاحب اور دادا صاحب بعض وقت کہا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں کو یہ ایک چوہا لگ گیا ہے." ا سیرت المہدی جلد اوّل صفحه ۳۵ ۲ سیرت المہدی جلد اول صفحه ۲۱۳

Page 35

ابن سلطان القلم ~ 15 - ~ فصل دوم شادی اور اولاد حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی پہلی شادی سردار بیگم صاحبہ سے ہوئی اور دوسری شادی مرزا امام الدین صاحب کی بیٹی خورشید بیگم صاحبہ سے ہوئی.آپ کی پہلی شادی اُنھی دنوں میں ہوئی جن دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری شادی حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم صاحبہ دختر حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی سے ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شادی حضرت اتاں جان سے ۱۷/ نومبر ۱۸۸۴ء کو بروز سوموار ہوئی تھی.' حضرت اتاں جان رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ : ” جس دن میں قادیان بیاہی ہوئی پہنچی تھی اسی دن مجھ سے چند گھنٹے قبل مرزا سلطان احمد اپنی پہلی بیوی یعنی عزیز احمد کی والدہ کو لے کر قادیان پہنچے تھے اور عزیز احمد کی والدہ مجھ سے کچھ بڑی معلوم ہوتی تھی.مرزا فضل احمد کی شادی مرزا سلطان احمد صاحب سے بھی کئی سال پہلے ہو چکی تھی.،، نیز حضرت اتاں جان رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں: ا سیرت المہدی جلد اول صفحه ۴۴ و تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۲۴۴ سیرت المہدی جلد اول صفحہ ۲۰۶

Page 36

ابن سلطان القلم ~ 16 ~ ”مرزا سلطان احمد کی پہلی بیوی ایمہ ضلع ہوشیار پور کی رہنے والی تھی اور حضرت صاحب اس کو اچھا جانتے تھے.مرزا سلطان احمد نے اس بیوی کی زندگی میں ہی مرزا امام الدین کی لڑکی خورشید بیگم سے نکاح ثانی کر لیا تھا.اس کے بعد عزیز احمد کی والدہ جلد ہی فوت ہو فوت ہو گئی.166 مرزا امام الدین صاحب سلسلہ کے سخت مخالف تھے تاہم آپ کی بیٹی، جو صاحبزاہ مرزا سلطان احمد صاحب کے نکاح میں آئیں، ہمت کر کے سلسلہ میں داخل ہو گئیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کی اولاد کو برومند فرمایا.اللہ تعالیٰ نے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو اولادِ نرینہ سے نوازا.آپ کی پہلی بیوی سے حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب اور دوسری بیوی سے حضرت صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب پیدا ہوئے.حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب: حضرت صاحبزادہ صاحب رضی اللہ عنہ ۳/ اکتوبر ۱۸۹۰ء کو پیدا ہوئے.تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں ابتدائی تعلیم پائی، جس کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے علی گڑھ تشریف لے گئے.آپ لمبے عرصہ تک ایک محنتی، دیانتدار اور فرض شناس افسر کے طور پر سرکاری ملازمت میں رہے اور بالآخر ۱۹۴۵ء میں اے ڈی ایم Additional District Magistrate) کے اعلیٰ عہدہ ا سیرت المہدی جلد اول صفحه ۲۰۷ حیات احمد جلد دوم صفحه ۵۵۰-جدید ایڈیشن

Page 37

ابن سلطان القلم ~ 17 - ~ سے ریٹائر ہوئے.اس کے بعد بقیہ ساری زندگی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت کے لیے وقف رکھی.قیام پاکستان اور ہجرت کے بعد ۱۶/ جولائی ۱۹۴۹ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کو صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا.اس عہدہ پر آپ ۳۰/ اپریل ۱۹۷۱ء تک فائز رہے.حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کا وجود باجود اپنے نہایت اعلیٰ اوصاف اور اہم دینی خدمات کے علاوہ اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نشان تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بذریعہ خواب آپ کے قبولِ احمدیت کا نظارہ دکھایا گیا تھا، جو حیرت انگیز رنگ میں پورا ہوا.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے والد بزرگوار سے بہت پہلے یعنی مارچ ۱۹۰۶ء میں حضرت مسیح موعود کے دستِ مبارک پر بیعت کرنے کا شرف حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائی.بیعت سے سات برس قبل ۲۰ / اکتوبر ۱۸۹۹ء کو حضور کو یہ خواب دکھایا گیا کہ ایک لڑکا ہے جس کا نام عزیز ہے اور اس کے باپ کے نام کے سر.وہ لڑکا پکڑ کر میرے پاس لایا گیا اور میرے سامنے بٹھایا سلطان کا لفظ ہے.وہ پر گیا.میں نے دیکھا کہ وہ ایک پتلا سا لڑکا گورے رنگ کا ہے.166 حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے تحریر فرمایا ہے کہ رویا مذکورہ اشارة درج ہوئی تھی، ورنہ صاف طور پر آپ نے فرمایا تھا کہ عزیز احمد خلف مرزا سلطان احمد کو میں نے دیکھا.ا تذکره صفحه ۲۸۴ طبع ۲۰۰۴ء ہے.166

Page 38

ابن سلطان القلم ~ 18 ~ چنانچہ یہ رؤیا اس طرح پوری ہوئی کہ اواخر فروری ۱۹۰۶ء میں اس رؤیا کے قریباً ساڑھے چھ سال بعد حضرت مرزا عزیز احمد صاحب ابن حضرت مرزا سلطان احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے جماعت میں داخل ہو گئے.اس رویا میں عزیز احمد کو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی طرف منسوب کرنے سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ نہ صرف حضرت مرزا عزیز احمد صاحب بلکہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب بھی حضور کی بیعت میں داخل ہو کر جسمانی رشتہ کے علاوہ روحانی طور پر بھی فرزندی میں داخل ہو جائیں گے.سو الحمد للہ کہ حضرت ممدوح بھی ۲۵ دسمبر ۱۹۳۰ء کو اپنے چھوٹے بھائی حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے ہاتھ پر بیعت کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں داخل ہو گئے.حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کی شادی اور اولاد: حضرت مرزا عزیز احمد صاحب نے دو شادیاں کیں: پہلی شادی جنوری ۱۹۱۱ء میں مکرمہ شریفہ بیگم صاحبه دختر مرزا اسلم بیگ صاحب لاہور سے ہوئی، جو تین بچے چھوڑ کر فوت ہو گئیں: (۱) مرزا سعید احمد صاحب (۱۳ جنوری ۱۹۳۸ء کو دورانِ تعلیم لندن میں وفات پائی) | الحکم ۱۰/ مارچ ۱۹۰۶ء صفحه ۱

Page 39

ابن سلطان القلم ~ 19 ~ (۲) صاحبزادی نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا ظفر احمد صاحب مرحوم (۳) مرزا مبارک احمد صاحب (۲۳ جولائی ۱۹۴۲ء کو لاہور میں فوت ہوئے.) حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کی پہلی بیوی کے انتقال کے بعد مارچ ۱۹۳۰ء میں آپ کی دوسری شادی حضرت میر محمد اسحق صاحب رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی محترمہ سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ سے ہوئی جن کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار صاحبزادیاں اور دو صاحبزادے عطا فرمائے، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:' (۱) محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب: ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان و امیر مقامی.سابق صدر مجلس انصار اللہ پاکستان.(۲) صاحبزادی ریحانه باسمه صاحبہ اہلیہ محترم سید احمد ناصر صاحب ابن حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ (۳) محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب: ناظر دیوان صدر انجمن احمد یہ پاکستان، سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ وسابق صدر مجلس انصار اللہ پاکستان.(۴) صاحبزادی در شہوار دردانہ صاحبہ اہلیہ محترم ملک فاروق احمد صاحب ابن محترم ملک عمر علی صاحب مرحوم آف ملتان (۵) صاحبزادی عتیقہ فرزانہ صاحبہ اہلیہ محترم مرزا اور میں احمد صاحب ابن محترم صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ا روزنامه الفضل ربوه ۲۸ جنوری ۱۹۷۳ء

Page 40

ابن سلطان القلم ~ 20 ~ (۶) صاحبزادی نزہت صاحبہ اہلیہ مکرم مرزا فرید احمد صاحب ابن حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفة المسیح الثالث حضرت صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرز اسلطان احمد صاحب کی دوسری شادی مکر مہ خورشید بیگم صاحبہ سے ہوئی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد مرزا امام الدین صاحب کی بیٹی تھیں.مکرمہ خورشید بیگم صاحبہ کے بطن سے ۱۵ / جون ۱۹۰۵ء کو صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب پیدا ہوئے.محترمہ خورشید بیگم صاحبہ شادی کے بعد جلد فوت ہو گئیں.حضرت مصلح موعودؓ ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں: ”مرزا امام دین صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت مخالف تھے ، لیکن جیسے اللہ تعالیٰ نے ابو جہل کے ہاں عکرمہ جیسا بزرگ بیٹا پیدا کر دیا تھا، اسی طرح مرزا امام دین صاحب کی لڑکی خورشید بیگم ، جو ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب سے بیاہی ہوئی تھیں، بڑی نیک اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور سلسلہ احمدیہ کی سچی 166 عاشق تھیں.انھوں نے اپنی وفات تک ایسا اخلاص دکھایا کہ حیرت آتی ہے.“ صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے دسہ مبارک پر بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت کی سعادت پائی.آپ نے سندھ میں پانچ ہزار ایکڑ زمین لے کر کاشتکاری کا آغاز فرمایا.اس فارم کا نام نسیم آباد رکھا.ا روزنامه الفضل ۳۰ مئی ۱۹۵۹ء صفحه ۳

Page 41

ابن سلطان القلم ~ 21 ~ ۱۹۶۲ء کی زرعی اصلاحات کے نتیجہ میں آپ کو بہت سی زمین سے دستبردار ہونا پڑا.اس کے بعد آپ نے لاہور میں رہائش اختیار کر لی.ایک مختصر سی علالت کے بعد ۱۷ / اکتوبر ۱۹۷۷ء کو اوکاڑہ میں وفات پائی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور قبرستان عام میں آپ کی تدفین عمل میں آئی.حضرت مرزا رشید احمد صاحب کی شادی اور اولاد: آپ کی شادی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی سب سے بڑی صاحبزادی امتہ السلام صاحبہ سے جون ۱۹۲۴ء میں ہوئی.یہ رشتہ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی خواہش پر ہوا تھا.صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب کی اولاد حسب ذیل ہے: (۱) صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ (جو ایک حادثہ میں فوت ہو گئیں) (۲) صاحبزادہ مرزا نسیم احمد صاحب جن کی شادی صاحبزادی شاہدہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب سے ہوئی.(۳) صاحبزادی صبیحہ بیگم صاحبہ جن کی شادی صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب ابن حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی سے ہوئی.(۴) حضرت صاحبزادی آصفہ بیگم صاحبہ جن کی شادی حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ سے ہوئی.

Page 42

ابن سلطان القلم ~ 22 ~ (۵) صاحبزادی انیسہ فوزیہ صاحبہ جن کی شادی ملک شیر احمد صاحب ابن ملک یار محمد صاحب سے ہوئی.(1) صاحبزادہ مرزا سلیم احمد صاحب جن کی شادی ایک اٹالین خاتون اینا صاحبہ سے ہوئی.(۷) صاحبزادہ مرزا شمیم احمد صاحب جن کی شادی صاحبزادی فوزیہ شمیم ص بنت حضرت نواب محمد عبد اللہ خاں صاحب سے ہوئی.صاحبہ

Page 43

شجرہ نسب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب: ابن سلطان القلم ~ 23.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام زوجه اولی: حرمت بی بی صاحبہ اولاد حضرت مرزا سلطان احمد صاحب حضرت مرزا فضل احمد صاحب زوجه ثانیه: حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ اولاد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت مرزا بشیر احمد صاحب حضرت مرزا شریف احمد صاحب حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبه حضرت امة الحفیظ بیگم صاحبة ~ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب زوجہ اوٹی : سردار بیگم صاحبہ اولاد : حضرت مرزا عزیز احمد صاحب زوجه ثانیه : خورشید بیگم صاحبہ بنت مرزا امام الدین صاحب اولاد : حضرت مرزا رشید احمد صاحب زوجہ اولی شریفہ بیگم صاحبہ بنت مرزا اسلم بیگ صاحب زوجہ : امۃ السلام صاحبہ بنت حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اولاد : مرزا سعید احمد صاحب نصیرہ بیگم صاحبہ زوجہ مرزا ظفر احمد صاحب مرزا مبارک احمد صاحب ی زوجہ ثانیہ : نصیرہ بیگم صاحبہ بنت حضرت میر محمد اسحاق صاحب اولاد : مرزا خورشید احمد صاحب ریحانه باسمه صاحبه زوجہ سید احمد ناصر صاحب مرزا غلام احمد صاحب در شهوار در دانه صاحبه زوجہ ملک فاروق احمد صاحب عتیقہ فرزانہ صاحبہ زوجہ مرزا اور میں احمد صاحب نزہت صاحبه زوجہ مرزا فرید احمد صاحب اولاد : قدسیہ بیگم صاحبہ مرزا نسیم احمد صاحب صبیحہ صاحبہ زوجہ مرزا انور احمد صاحب آصفہ بیگم صاحبہ زوجہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب انیہ فوزیہ صاحبہ زوجہ ملک شیر احمد صاحب مرزا سلیم احمد صاحب مرزا شمیم احمد

Page 44

ابن سلطان القلم ~ 24 - فصل سوم ~ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سے متعلق متفرق امور تذکرہ رؤسائے پنجاب: تذکرہ رؤسائے پنجاب میں لکھا ہے کہ ”غلام مرتضیٰ، جو ایک لائق حکیم تھا، ۱۸۷۶ء میں فوت ہوا اور اس کا بیٹا غلام قادر اس کا جاستین ہوا.غلام قادر حکام مقامی کی امداد کے لیے ہمیشہ تیار رہتا تھا اور اس کے پاس اُن افسران کے، جن کا انتظامی امور سے تعلق تھا، بہت سے سر ٹیفکیٹ تھے.یہ کچھ عرصے تک سرٹ گورداسپور میں دفتر ضلع کا سپرنٹنڈنٹ رہا.اس کا اکلوتا بیٹا کم سنی میں فوت ہو گیا اور اس نے اپنے بھتیجے سلطان احمد کو متبنی کر لیا جو غلام قادر کی وفات یعنی ۱۸۸۳ء سے خاندان کا بزرگ خیال کیا جاتا تھا.مرزا سلطان احمد نے نائب تحصیلداری سے گورنمنٹ کی ملازمت شروع کی اور اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کے عہدہ تک ترقی پائی.یہ قادیان کا نمبر دار بھی تھا، مگر اس نمبر داری کا کام بجائے اس کے اس کا چچا نظام الدین کرتا تھا جو غلام محی الدین کا سب سے بڑا بیٹا تھا.مرزا سلطان احمد کو خان بہادر کا خطاب اور ضلع منٹگمری میں پانچ مربعہ جات اراضی عطا ہوئے اور ۱۹۳۰ء میں اس کا انتقال ہو گیا.اس کا سب سے بڑا لڑکا مرزا عزیز احمد ایم.اے اب خاندان کا سر کردہ اور پنجاب میں اکسٹرا اسسٹنٹ

Page 45

لمشنر ابن سلطان القلم ~ 25 - ~ ہے.خان بہادر مرزا سلطان احمد کا چھوٹا بیٹا رشید احمد ایک اولوالعزم زمیندار ہے اور اس نے سندھ میں اراضی کا بہت بڑا رقبہ لے لیا ہے.نظام الدین کا بھائی امام الدین، جس کا انتقال ۱۹۰۴ء میں ہوا، دہلی کے محاصرہ کے وقت ہاؤسن صاحب کے رسالہ میں رسالدار تھا اور اس کا باپ غلام محی الدین تحصیلدار تھا.“ تایا سے تعلق: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو چونکہ دنیاوی اموال اور جائیدادوں سے کوئی غرض نہ تھی اور ابتدا سے اور ابتدا سے آپ دنیا کے جھگڑوں سے قطعا بیزار اور لا تعلق تھے اس لیے کاروبار اور جائیداد کے سب انتظامات آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کے ہاتھ میں تھے.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب اپنی ضروریات اور اخراجات کے لیے اپنے تایا مرزا غلام قادر صاحب کی طرف ہی رجوع کرتے تھے اور اپنے والد صاحب سے زیادہ اُن سے آپ کا تعلق تھا.وہ بھی آپ کو بیٹیوں کی طرح رکھتے تھے.آپ خود روایت کرتے ہیں کہ ”والد صاحب کے ہمارے ساتھ بہت کم تعلقات تھے.یعنی میل جول کم تھا.اور چونکہ تایا صاحب مجھے بیٹوں کی طرح رکھتے تھے اور جائیداد وغیرہ ا تذکرہ رؤسائے پنجاب از سر لیپل ایچ گرفین، کرنل میسی.ترجمہ سید نوازش علی جلد دوم صفحہ نمبر ۶۹۶۸.سنگ میل پبلی کیشنز لاہور

Page 46

ابن سلطان القلم ~ 26 - ~ بھی سب اٹھی کے انتظام میں تھی، والد صاحب کا کچھ دخل نہ تھا، اس لیے 166 بھی ہمیں اپنی ضروریات کے لیے تایا صاحب کے ساتھ تعلق رکھنا پڑتا تھا.صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے والد بزرگوار خالصةً خدا خواہی اور دینی مہمات میں مشغول تھے اور دنیا کے کاموں، زمین جائیداد کے انتظام اور دیگر مالی معاملات سے بالکل لا تعلق تھے، اس لیے طبعا باپ بیٹے میں ایک حجاب بیگانگی حائل ہو گیا تھا.قادیان کے نمبر دار: مرزا غلام قادر صاحب کی وفات کے بعد صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب سرکاری کاغذات میں قادیان کے نمبر دار تھے، البتہ نمبر داری کا کام بجائے ان کے مرزا نظام الدین صاحب کرتے تھے ، جو حضرت اقدس کے چچا مرز اغلام محی الدین صاحب کے بیٹے تھے.جائیداد کا معاملہ : ۹/ جولائی ۱۸۸۳ء کو جب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے تایا مرزا غلام قادر صاحب بعمر ۵۵ سال لاولد فوت ہو گئے.تمام دنیوی امور ان کی ذات سے وابستہ تھے.حضرت مسیح موعود کو دنیوی امور سے کوئی دلچسپی نہ تھی.حرمت ا سیرت المہدی جلد اول صفحہ ۲۰۲ ۲ کتاب تذکرہ رؤسائے پنجاب جلد دوم ص ۶۹،۶۸، سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر ۱۳۴

Page 47

ابن سلطان القلم ~ 27 ~ بی بی صاحبہ بیوہ مرزا غلام قادر صاحب جو تائی صاحبہ کے نام سے معروف ہیں) کی اولاد، ایک بیٹی اور ایک بیٹا، صغر ستی ہی میں وفات پاگئی.تائی صاحبہ کو مرزا سلطان احمد صاحب سے بچپن سے محبت تھی، مگر جب ان کا بیٹا فوت ہوا تو یہ محبت اور بھی بڑھ گئی.لہذا انھوں نے کہنا شروع کر دیا کہ مرزا سلطان احمد میرا متبنی ہے.' اپنے خاوند کی وفات کے بعد وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئیں اور آپ التجا کی کہ مرزا غلام قادر صاحب کی جائیداد مرزا سلطان احمد صاحب کے نام بطور متبنی کرا دیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی بھاوج کی خوشی اور دلداری کی خاطر مرزا غلام قادر صاحب کی تمام جائیداد مرزا سلطان احمد صاحب کے نام کرا دی اور اپنے نام نہیں کرائی.ނ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے انتظام خانہ داری اور زمینداری کو نہایت مشکلات کے طوفان میں سنبھال لیا.وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بعض اوقات مشورہ بھی لیتے تھے اور آپ ان کو ایسی راہ بتاتے تھے ، جس سے کسی قسم کا تنازعہ اور جھگڑا پیدا نہ ہو، خواہ بظاہر اپنا نقصان بھی ہو جائے." تایا کے متبنی کا معاملہ : یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے متبنیٰ کیسے قبول کر لیا؟ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے والدہ صاحبہ حیات احمد جلد دوم صفحہ ۲۱۱- جدید ایڈیشن حیات احمد جلد دوم صفحہ ۲۱۱- جدید ایڈیشن

Page 48

ابن سلطان القلم ~ 28 ~ سے پوچھا کہ حضرت صاحب نے متبنی کی صورت کس طرح منظور فرمالی؟ والدہ صاحبہ نے فرمایا: یہ تو یونہی ایک بات تھی ورنہ وفات کے بعد متبنیٰ کیسا!؟ اسی حوالے سے حضرت مصلح موعودؓ کا ایک جامع بیان یہاں نقل کر دینا خالی از فائدہ نہ ہو گا.آپ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود کے بھائی چونکہ لا ولد فوت ہوئے تھے اس لیے ان کے وارث بھی آپ ہی تھے ، لیکن اس وقت بھی آپ نے ان کی بیوہ کی دلدہی کے لیے جائیداد پر قبضہ نہ کیا اور ان کی درخواست پر نصف حصہ تو مرزا سلطان احمد صاحب کے نام پر لکھ دیا، جنھیں آپ کی بھاوج نے رسمی طور پر متبنی قرار دیا تھا.آپ نے تبنیت کے سوال پر تو صاف لکھ دیا کہ اسلام میں جائز نہیں، لیکن مرزا غلام قادر مرحوم کی بیوہ کی دلد ہی اور خبر گیری کے لیے اپنی جائیداد کا نصف حصہ بخوشی خاطر دے دیا اور باقی نصف پر بھی خود قبضہ نہ کیا، بلکہ مدت تک آپ کے رشتہ داروں ہی کے قبضے میں رہا.قادر آباد اور احمد آباد: ،، حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بیان فرماتے ہیں: ”خاکسار عرض کرتا ہے کہ ہمارے دادا صاحب کے دولڑکے تھے ایک حضرت صاحب جن کا نام مرزا غلام احمد تھا اور دوسرے ہمارے تایا مرزا غلام ا سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ ۱۶،۱۷ ۲ سیرت حضرت مسیح موعود.انوار العلوم جلد ۳، صفحہ ۳۴۸

Page 49

ابن سلطان القلم ~ 29 ~ قادر صاحب جو حضرت صاحب سے ! سے بڑے تھے.ہمارے دادا نے قادیان کی زمین میں دو گاؤں آباد کر کے ان کو اپنے بیٹوں کے نام موسوم کیا تھا.چنانچہ ایک کا نام قادر آباد رکھا اور دوسرے کا احمد آباد.احمد آباد بعد میں کسی طرح ہمارے خاندان کے ہاتھ سے نکل گیا اور صرف قادر آباد رہ گیا.چنانچہ قادر آباد حضرت صاحب کی اولاد میں تقسیم ہوا اور اسی میں مرزا سلطان احمد صاحب کا حصہ آیا، لیکن خدا کی قدرت اب قریباً چالیس سال کے عرصہ کے بعد احمد آباد جو ہمارے خاندان کے ہاتھ سے نکل کر غیر خاندان میں جا چکا تھا، واپس ہمارے پاس آگیا ہے اور اب وہ کلیہ صرف ہم تین بھائیوں کے پاس ہے، یعنی مرزا سلطان احمد صاحب کا اس میں حصہ نہیں.نیز خاکسار عرض کرتا ہے کہ قادر آباد قادیان سے مشرق کی جانب واقع ہے اور احمد آباد جانب شمال.آپ کے چھوٹے بھائی: 166 کے چھوٹے بھائی صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب ۱۸۵۵ء میں پیدا ہوئے.ان کی شادی اپنے ماموں مرزا علی شیر صاحب کی بیٹی سے ہوئی جس کا نام عزت بی بی تھا.دوسری شادی بیگم بی بی صاحبہ سے ہوئی جو کشمیر کی رہنے والی تھیں." ا سیرت المہدی جلد اول روایت نمبر ۲۵ ۲ تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ ۶۱ سیرت المہدی جلد اوّل صفحہ ۲۰۷ روایت صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب (ناظر دیوان)

Page 50

ابن سلطان القلم ~ 30 مرزا فضل احمد صاحب محکمہ پولیس میں ملازم تھے.معزز سرکاری عہدے پر فائز تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت و ماموریت کے بعد مرزا سلطان احمد صاحب کے پاس ہی رہتے تھے.ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرنے کی توفیق نہ ملی.۱۹۰۴ء میں ان کا انتقال ہو گیا.قادیان میں اپنے خاندانی قبرستان میں مدفون ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کسی نے آپ کی وفات و تدفین کا ذکر بعد نماز مغرب کیا تو آپ نے قدرتی اثر سے متاثر ہونے کے باوصف یہی فرمایا کہ : 'ہم سب مرنے والے ہیں، بلکہ جس قدر انسان زمین پر چلتے پھرتے ہیں، یہ چلتی پھرتی قبریں ہی ہیں.اناللہ وانا الیہ راجعون.ان کے کوئی اولاد نہ ہوئی.ان کی وفات کے بعد صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب ہی ان کی دونوں بیویوں کی سرپرستی کرتے رہے.' الہام أَخُوكَ ڈائیڈ“: مکرم محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ناظر دیوان اپنے والد بزرگوار حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب سے روایت کرتے ہیں کہ ”جب حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے برادر خورد صاحبزادہ مرزا فضل احمد صاحب کی وفات ہوئی تو آپ کو کشف میں ایک پوسٹ کارڈ دکھایا گیا، جس پر یہ الفاظ درج تھے: حیات احمد جلد دوم صفحه ۳۵۲.سیرت حضرت مسیح موعود از عرفانی صاحب صفحہ ۲۴۹.حیات النبی جلد اول صفحه ۵۳

Page 51

ابن سلطان القلم ~ 31 - ~ أَخُوْک ڈائیڈ (died)“ یعنی تیرا بھائی فوت ہو گیا ہے.اس طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے بھائی کی وفات کے بارہ میں خبر دے دی.“ 166 والد محترم کا آپ کو دین کی ترغیب دینا: حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے والد محترم یعنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دن رات دینی کاموں میں مصروف رہتے.عبادات، قرآن کریم کا مطالعہ اور دوسری دینی خدمات آپ کا اوڑھنا بچھونا تھیں اور پ کی خواہش تھی کہ آپ کی ساری اولاد اپنی تمام تر قوتیں دین کی خدمت میں صرف کرے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے ہر چند اپنی ساری زندگی نہایت شرافت اور دیانتداری کے ساتھ بسر کی اور اپنے والد محترم کی سچے دل سے عزت کرتے تھے اور شروع سے آپ کی سچائی اور بزرگی کے قائل تھے لیکن دین کے معاملہ میں آپ کو اس قدر شوق اور شغف نہیں تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش تھی.آپ نے خود لکھا کہ ”میرے والد صاحب میری بعض کمزوریوں کی وجہ سے میرے فائدے کے لیے مجھ پر ناراض بھی ہوئے اور میں صدق دل سے اعتراف کرتا ہوں کہ ان کی ناراضگی واجبی اور حق تھی.“ ،، ا به روایت محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے خاکسار سے بیان فرمائی.(مؤلف) الفضل ۱۴ جنوری ۱۹۱۹ء

Page 52

ابن سلطان القلم ~ 32 ~ سیرت المہدی میں حضرت مولانا عبد الرحیم درد صاحب ایم ا روایت ہے کہ میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب سے دریافت کیا کہ کیا حضرت صاحب کبھی کسی پر ناراض بھی ہوتے تھے ؟ مرزا صاحب نے جواب دیا کہ اُن کی ناراضگی بھی صرف دینی معاملات میں ہوتی تھی.بعض اوقات مجھے نماز کے لیے کہا کرتے تھے.' رض حضرت مصلح موعود کا آپ کو حقیقی بھائی سمجھنا: حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا: لوگ سوتیلے بھائیوں میں فرق کرتے ہیں، مگر میں تو کوئی فرق نہیں سمجھتا.ایک انگریز نے مجھ سے سوال کیا کہ کیا مرزا سلطان احمد صاحب تمہارے حقیقی بھائی ہیں؟ چونکہ میں ان کو حقیقی ہی سمجھتا ہوں.میں نے کہہ دیا کہ ہاں وہ حقیقی بھائی ہیں.بعد میں مجھے خیال آیا وہ میری اصطلاح نہیں جانتا ہو گا، کہیں مجھے جھوٹا ہی خیال نہ کرے.“ ایک ہند و پر نالش کا واقعہ : ،، ایک مرتبہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے ایک اُفتادہ اراضی کے متعلق دعویٰ کیا.یہ اراضی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تھی اور پنڈت شنکر داس ا سیرت المہدی جلد اول صفحه ۲۰۰ ۲ الفضل ۶ جون ۱۹۲۴ء صفحہ ۶۹.خطبات محمود جلد سوم صفحہ ۱۷۲

Page 53

ابن سلطان القلم ~ 33 ~ نے اس پر مکان بنالیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام خود اس واقعہ کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں: ”میرے بیٹے سلطان احمد نے ایک ہندو پر بدیں بنیاد نالش کی کہ اس نے ہماری زمین پر مکان بنالیا ہے اور مسماری مکان کا دعوی تھا اور ترتیب مقدمہ میں ایک امر خلاف واقعہ تھا، جس کے ثبوت سے وہ مقدمہ ڈسمس ہونے کے لائق ٹھہرتا تھا اور واقعہ مقدمہ کے ڈسمس ہونے کی حالت میں نہ صرف سلطان احمد کو بلکہ مجھ کو بھی نقصان تلف ملکیت اٹھانا پڑتا تھا.تب فریق مخالف نے موقع پا کر میری گواہی لکھا دی اور میں بٹالہ میں گیا اور بابو فتح دین صاحب سب پوسٹ ماسٹر کے مکان پر جو تحصیل بٹالہ کے پاس ہے جا ٹھہرا اور مقدمہ ایک ہندو منصف کے پاس تھا جس کا اب نام یاد نہیں رہا، مگر ایک پاؤں سے وہ لنگڑا بھی تھا.اس وقت سلطان احمد کا وکیل میرے پاس آیا کہ اب وقت پیشی مقدمہ ہے، آپ کیا اظہار دیں گے ؟ میں نے کہا کہ وہ اظہار دوں گا جو واقعی امر ہے اور بیچ ہے.تب اس نے کہا کہ پھر آپ کے کچہری جانے کی کیا ضرورت ہے؟ میں جاتا ہوں تا مقدمے سے دست بردار ہو جاؤں.سو وہ مقدمہ میں نے اپنے ہاتھوں سے محض رعایتِ صدق کی وجہ سے آپ خراب کیا اور راست گوئی کو اِبْتِغَاءَ لِمَرْضَاتِ الله مقدم رکھ کر مالی نقصان کو بیج سمجھا.“ ا حیات احمد جلد اول صفحہ ۱۰۲.جدید ایڈیشن ۲ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد پنجم صفحه ۳۰۰،۲۹۹

Page 54

ابن سلطان القلم ~ 34 ~ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچ کی برکت کا ظہور یوں ہوا کہ حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں وہ مکان اور اس سے ملحقہ مکانات بذریعہ خرید جماعت کے قبضہ میں آگئے.حیات احمد جلد سوم صفحہ ۹۱.جدید ایڈیشن

Page 55

ابن سلطان القلم ~ 35 - ~ باب دوم: ملازمت کے مراحل اور واقعات فصل اول آپ نے سرکاری ملازمت پٹواری کے عہدہ سے شروع کی تھی اور ، درجہ بدرجہ ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک پہنچے.پٹواری سے قانون گو، پھر نائب تحصیلدار، پھر تحصیلدار، پھر اکسٹر اسسٹنٹ کمشنر اور افسر مال ہوئے اور ایک دفعہ مختصر زمانے کے لیے قائمقام حاکم ضلع یا ڈپٹی کمشنر کے فرائض بھی آپ نے انجام دیے تھے.پنجاب کے اکثر اضلاع میں بحیثیت افسر محکمہ بندوبست فرائض انجام دیے، جس کا آپ نے اپنی کتاب ”امثال“ میں بھی ذکر کیا ہے.ایک بار گورنمنٹ کی طرف سے ریاست بہاولپور میں مشیر مال بنا کر بھی بھیجے گئے تھے، جہاں خاصی مدت تک آپ کا قیام رہا.' بعض روایات کے مطابق آپ نے اپنی ملازمت نائب تحصیلداری سے شروع کی.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب آپ کی ملازمت کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں: نیرنگ خیال جوبلی نمبر.مئی، جون ۱۹۳۴ء

Page 56

ابن سلطان القلم ~ 36 - ~ ”مرزا سلطان احمد صاحب نائب تحصیلدار کے عہدے سے اپنی ملازمت کا آغاز کر کے افسر مال کے عہدے تک پہنچے اور چند دن تک گوجرانوالہ میں قائمقام ڈپٹی کمشنر بھی رہے تھے.پنشن کے بعد ریاست بہاولپور میں وزیر مال کے جلیل القدر عہدہ پر بھی کچھ عرصہ کام کیا.ملازمت کے دوران مرزا صاحب موصوف کا دامن ہر جہت سے بے داغ رہا.آپ کے دل میں مسلمانوں کی ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، مگر دوسری قوموں کے ساتھ بھی انصاف کا اعلیٰ نمونہ دکھایا.166 حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں کہ اپریل ۱۸۹۰ میں جب حضرت مسیح موعود علاج کے لیے لاہور تشریف لے گئے ہیں تو ان ایام میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب لاہور میں نائب تحصیلدار تھے.۲ نیز حضرت عرفانی صاحب ستمبر ۱۹۱۵ء میں تحریر کرتے ہیں: خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب حضرت مرزا صاحب کے نشانوں میں سے ایک نشان ہیں.آج کل سونی پت حصہ ضلع میں سب ڈویژنل آفیسر ہیں، جہاں وہ ریاست بہاول پور کی ریونیو منسٹری سے اپنی میعاد پوری کر کے گئے ،، ا روزنامه الفضل ۵/اکتوبر ۱۹۹۳ء حیات احمد جلد سوم صفحہ ۹۲- جدید ایڈیشن حیات احمد جلد اول صفحہ ۸۲- جدید ایڈیشن

Page 57

ابن سلطان القلم ~ 37 - ~ ڈیٹی کے عہدہ کے لیے دعا کا خط: حضرت مرزا سلطان احمد صاحب جیسا کہ اپنے تعلیمی سفر میں بھی ہر مرحلے پر حضرت مسیح موعود کی خدمت میں دعا کی درخواست کرتے رہے، اسی طرح ملازمت کے لیے بھی ہمیشہ حضور کی دعاؤں کے طلبگار رہے.چنانچہ ایک روایت میں مکرم قاضی عبد الرحیم بھٹی صاحب آف قادیان کی اہلیہ نے بیان کیا کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جہلم کے مقدمہ (۱۹۰۳ء) سے واپس تشریف لائے تو چار پائی پر بیٹھ گئے اور اپنے پاؤں کپڑے سے صاف کیے.پھر فرمایا: تم کو معلوم ہے سلطان احمد ڈپٹی ہو گیا ہے.ہم کو خط لکھا تھا دعا ” کرو.ہم نے دعا کی، وہ ڈپٹی ہو گیا ہے.166 گورنمنٹ کی طرف سے آپ کو سفارت کی پیشکش: بزم اقبال نے آپ کی کتاب تبصرہ بر اسرارِ بے خودی“ شائع کی، جس کے دیباچہ میں تحریر ہے کہ ” خان بہادر مرزا سلطان احمد بی.اے پاس کرنے کے بعد نائب تحصیلدار مقرر ہوئے اور ڈپٹی کمشنر سے ریٹائر ہوئے.ریٹائر ہونے کے بعد گورنمنٹ انگریزی ان کو اپنا سفیر بنا کر افغانستان بھیج رہی تھی، مگر انھوں نے انکار کر دیا اور گوشہ عافیت میں بیٹھ کر اطمینان کے ساتھ ادبی خدمات میں مشغول ہو گئے.ا سیرت المہدی جلد دوم صفحه ۲۴۹- جدید ایڈیشن تبصره بر اسرارِ بے خودی صفحه ۴،۳ ،،

Page 58

ابن سلطان القلم ~ 38 ~ دورانِ ملازمت میں دوسروں پر احسانات: حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر حضرت صاحبزادہ مرز اسلطان احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا: ” بہت سادہ مزاج، بہت کثرت سے لوگوں پر احسان کیے ہوئے ہیں.بہت بڑے بڑے لوگ جو امیر کبیر خاندان بن گئے ہیں وہ ان کی وجہ سے، ان کے احسانات کی وجہ سے بنے ہیں، کیونکہ یہ حکومت میں اعلیٰ عہدے پر فائز تھے.جہاں جاتے تھے وہاں لوگوں سے احسان کا تعلق ہوتا تھا اور ساتھ ہی طبیعت میں بہت انکسار، اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے.اس زمانے میں یہ ڈپٹی کمشنر کے طور پر ریٹائر ہوئے تھے.اس زمانے میں ڈپٹی کمشنر کا عہدہ بہت بڑا ہوا کرتا تھا.آج کل کے وزیروں کی بھی کوئی حیثیت نہیں، مگر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کو بڑے اختیار تھے.چنانچہ بہت سے خاندان جو اس وقت بہت امیر کبیر ہیں (پاکستان میں) ان کا نام لینے کی ضرورت نہیں، چوٹی کے امیر خاندان ہیں.وہ ان کے بنائے ہوئے ہیں.ان کے والدین کے ان کے ساتھ تعلق تھے، ان کو زمینیں الاٹ کیں، چیزیں الاٹ کیں، بے شمار امیر کر دیا اور اپنے اوپر ایک پیسہ خرچ نہیں کیا.اسی طرح بالکل سادہ مزاج، کوئی کمائی نہیں کی.ا روزنامه الفضل ۱۳ مارچ ۱۹۹۹ء 166

Page 59

ابن سلطان القلم ~ 39 - حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے ایک دوست حبیب ! صاحب اسٹنٹ انسپکٹر آف سکولز کبیر والا ضلع ملتان نے آپ کے نام اپنے خط مورخہ ۱۷ / اپریل ۱۹۴۱ء میں تحریر کیا: ”سید ولایت شاہ صاحب شجاع آباد ضلع ملتان کے ایک معزز غیر احمدی بزرگ تھے (وہ جون ۱۹۴۰ء میں فوت ہو چکے ہیں) انھوں نے متعدد بار مجھ سے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم و مغفور کے واقعات بیان کیے.صاحب حضرت مرزا صاحب مرحوم کے گہرے دوست بلکہ تھے.پرورده حضرت مرزا صاحب نے شجاع آباد کے عرصہ قیام میں ان سے بہت اچھا سلوک کیا تھا اور ان کی دنیوی ترقیات اور عزت کا باعث بھی حضرت مرزا صاحب مرحوم کی ذات والا صفات تھی.میں جون ۱۹۳۵ء سے اپریل ۱۹۴۹ء تک شجاع آباد میں اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز رہا ہوں.سید صاحب مذکور میرے ہمسایہ تھے اور غیر احمدی تھے لیکن مسلک صلح کل تھا اور حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے احسانات کو بار بار یاد کرتے تھے.مقدس باپ کا اثر اور ملازمت: 166 حضرت سیّد شفیع احمد صاحب محقق دہلوی بیان کرتے ہیں کہ ”اپنے مقدس باپ کا اثر ان کے اندر اس قدر موجود تھا کہ نائب تحصیلدار کے بعد تحصیلدار، پھر ای اے سی، پھر افسر مال، پھر ڈپٹی کمشنر وغیرہ ا مضامین بشیر جلد اول صفحه ۴۴۷-۴۴۹

Page 60

ابن سلطان القلم ~ 40 - رہے، مگر کسی جگہ آج تک مرزا صاحب سے کسی کو شکایت نہیں ہوئی.انھوں نے کبھی کسی کو دکھ نہیں دیا، نہ ظلم کیا، نہ جھوٹ بولا اور نہ رشوت قبول کی، بلکہ ڈالی تک قبول نہ کرتے تھے.یہ تمام خوبیوں کا مجموعہ انھیں وراثتاً باپ سے ملا تھا.نہ صرف اس قدر بلکہ ان کے بچوں میں بھی فطرتا یہ باتیں موجود ہیں.مرزا عزیز احمد صاحب ایم اے بھی سرکاری ملازم ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ ان کے دفتر والے ماتحت اور افسر بلکہ ہمسایہ تک ان کے چلن اور اخلاق کے مداح ہیں.166 ا ”سیرت المہدی“ جلد سوم صفحہ ۲۳۵،۲۳۷- مطبوعہ قادیان اپریل ۱۹۳۹ء

Page 61

ابن سلطان القلم ~ 41 ~ فصل دوم ملازمت کے دوران میں پیش آنے والے بعض واقعات سرکاری ملازمت میں انھوں نے اپنے فرائض بڑی محنت، ذہانت اور دیانت داری سے انجام دیے.جس جگہ بھی رہے، نیک نام رہے، بالادست افسر بھی خوش، ماتحت عملہ اور اہل معاملہ عوام بھی مطمئن.وہ اپنی ان خوبیوں کی بدولت ترقی کرتے کرتے ڈپٹی کمشنر کے عہدے تک پہنچے جو اُس زمانے میں ایک ہندوستانی کی معراج تھی.ذیل میں آپ کی ملازمت کے دوران میں پیش آنے والے بعض واقعات کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے آپ کے اعلیٰ اخلاق اور عظیم کردار پر بھی روشنی پڑتی ہے.سادگی ساده لباس، سادہ طبیعت، انکسار اور مروّت اُن کے مزاج کا خاصہ تھا.اُن کی ذات کے جو ہر اس وقت پوری طرح نمایاں ہو کر سامنے آئے جب وہ ریاست بہاولپور کے وزیر بنا کر بھیجے گئے.کوٹھی میں داخل ہوتے ہی ملازمین سے کہا: ۱ انجمن صفحه ۱۳۵ از فقیر سید وحید الدین صاحب.آتش فشاں پبلی کیشنز لاہور

Page 62

ابن سلطان القلم ~ 42 - ہے.”سلطان احمد اس ٹھاٹھ باٹھ اور سازو سامان کا عادی نہیں چنانچہ اُن کے کہنے سے تمام اعلیٰ قسم کا فرنیچر اور ساز و سامان اکٹھا کر کے ایک کمرے میں مقفل کر دیا گیا.انھوں نے رہنے کے لیے صرف ایک کمرہ منتخب کیا.نمائش اور دکھاوا تو انھیں آتا ہی نہ تھا.لباس اور رہائش کی طرح کھانا بھی سادہ کھاتے.' غیرت وحمیت: مکرم احمد شجاع پاشا صاحب اپنی کتاب ”لاہور کا چیلسی“ میں تحریر کرتے ہیں: ”مرزا سلطان احمد ایک معزز سرکاری عہدہ پر فائز ہونے کے علاوہ بڑے پائے کے ادیب شاعر اور سخن فہم تھے.جب ابٹسن (Ibbetson) نے، جو بعد میں صوبہ پنجاب کے لفٹیننٹ گورنر مقرر ہوئے، اپنی ”سینس رپورٹ“ (Report Census) لکھی تو اس میں انھوں نے مسلمانوں کے خلاف بہت زہر اگلا.مرزا سلطان احمد نے، اگرچہ اس زمانے میں اُٹھی کے ماتحت ایکسٹرا کمشنر تھے، اس رپورٹ کے خلاف ایک مدلل اور بے ریا درشت رسالہ شائع کیا جس نے نہ ۱ انجمن صفحه ۱۳۵ از فقیر سید وحید الدین صاحب.آتش فشاں پبلی کیشنز لاہور پورا نام: Sir Denzil Charles Jelf Ibbetson (1847-1908).دو دفعہ لفٹیننٹ گورنر رہے ہیں.پہلی دفعہ ۶/ مارچ سے ۲۶ / مئی ۱۹۰۷ء تک، دوسری دفعہ ۱۲/ اگست ۱۹۰۷ سے ۲۲ جنوری ۱۹۰۸ تک.۱۸۸۱ء کے Census کی Report انھوں نے ۱۸۸۳ء میں لکھی.اس کا جواب صاحبزادہ صاحب نے ”صدائے الم “ کے نام سے دیا.

Page 63

ابن سلطان القلم ~ 43.صرف ابٹسن (Ibbetson) کے دانت ہی کھٹے کر دیے بلکہ مرزا سلطان احمد کی غیرت و حمیت کا سکہ مسلمانوں کے دل پر بٹھا دیا.166 واقعہ بہاولپور...رعایا کی جان و مال کی حفاظت.جب آپ بہاولپور میں وزیر مالیات اور ایک بااختیار حاکم تھے آپ کو معلوم ہوا کہ نواب صاحب کی دادی صاحبہ بالقابہا کا ایک پروردہ خادم ہمیشہ قانون کے خلاف بے عنوانیاں کرتا اور غریب رعایا کو پریشان کرتا رہتا تھا.مرزا صاحب سے پہلے کے حکام تو اس شخص پر اس کی لغویتوں کے باوجود صاحبہ کے ڈر سے ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتے تھے لیکن جب آپ وہاں پہنچے اور تھوڑے عرصہ کے بعد اس شخص کے کرتوتوں کی رپورٹ آپ کو ملی تو آپ نے بے دھڑک اس کو پکڑ کر حوالات میں بھیج دیا.اُس کے ورثاء روتے دھوتے بیگم صاحبہ کی ڈیوڑھی پر حاضر ہوئے اور فریادی ہوئے.مرزا صاحب کی بھی بیگم صاحبہ کی ڈیوڑھی میں طلبی ہوئی.جواب طلب کیا گیا کہ تم نے ہمارے آدمی کو جیل کیوں بھیجا.مرزا صاحب کا جواب یہ تھا کہ حضور کے حکم سے.وہ کیسے؟ وہ یوں کہ مجھے حضور کی ریاست کی طرف سے حضور کی رعایا کے حقوق اور اُن کی جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لیے اس عہدہ پر مقرر کیا گیا ہے.جب مجھے معلوم ہوا اور مجھ پر ثابت ہو گیا کہ وہ ا لاہور کا چیلسی.صفحہ ۱۹ از حکیم احمد شجاع مرحوم.تاریخ اشاعت: ۱۹۸۸ء ناشر میںیکجز لمیٹڈ،لاہور

Page 64

ابن سلطان القلم ~ 44 - ~ شخص حضور کی رعایا کے لیے سبب زحمت ہے تو میں نے حضور کے ہی دیے ہوئے اختیارات سے کام لے کر اُس کو سزا دے دی.اگر میں ایسا نہ کرتا تو اس فرض کی بجا آوری میں کوتاہی ہوتی جس کے بجا لانے کے لیے حضور کی ریاست نے مجھے مقرر کیا ہے.بیگم صاحبہ آپ صاحبہ آپ کے جواب سے بہت خوش ہوئیں اور منہ چڑھے خادم نے اپنے کیے کی سزا پائی.بے داغ کردار جب بڑے بڑے اختیارات کی باگیں مرزا سلطان احمد صاحب کی مٹھی میں تھیں اور وہ اپنی ایک گردش چشم یا ایک جنبش قلم اور زبان کی معمولی سی حرکت سے متعلقہ لوگوں کے کام بنا اور بگاڑ سکتے تھے.ہر نازک موقع پر ترغیب و تحریض کی آلائشوں سے ان کا دامن پاک رہا.ایسا ہی ایک واقعہ یہ ہے کہ جب وہ ایک ضلع میں حاکم با اختیار ہو کر گئے جہاں کے بعض بڑے بڑے لوگ اپنی شورہ پستی میں شہرہ آفاق تھے.ان کا دستور تھا کہ جب کوئی نیا حاکم ان کے ضلع میں جاتا تو وہ اسے کسی نہ کسی طرح اپنے شیشہ میں اُتار لیتے اور اپنے رنگ پر لے آتے.جب مرزا سلطان احمد صاحب وہاں پہنچے تو یہ انسانی بھیڑیے بھی شیر دار بکریوں کی صورت میں آپ کے سامنے آئے.مگر ان کو معلوم نہ تھا نیرنگ خیال جوبلی نمبر.مئی، جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۸۸

Page 65

ابن سلطان القلم ~ 45 ~ کہ مرزا ایسی مٹی سے نہ بنا تھا جو ان کی باتوں یا گھاتوں میں آجاتا.آپ نے ان کی وہ تواضع کی کہ آئندہ ہمیشہ کے لیے ان حاکموں کے دشمنوں، پبلک کے دشمنوں اور نفس کے بندوں نے حکام کو رسوا کرنے والی اپنی ایسی حماقتوں سے توبہ کر لی.واقعہ گوجرانوالہ...دانشمندی اور شجاعت کی مثال: جب ملازمت سے اُن کے سبکدوش ہونے کا وقت آیا تو انھی دنوں پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے بعد حکومت کے خلاف ترک موالات (non Cooperation) کے ہنگامے شروع ہو گئے.پہلے لاہور اور پھر گوجرانوالہ ان ہنگاموں کی لپیٹ میں آگیا.مرزا سلطان احمد صاحب گوجرانوالہ میں ڈپٹی کمشنر تھے.وہاں سب سے زیادہ ہنگامے ہوئے.عوام کے جوش و خروش کا یہ عالم ا تھا کہ لیڈروں کی ہدایات کے برخلاف انھوں نے آئینی حدود کو توڑ دیا.بعض سرکاری عمارتوں کو نقصان پہنچایا اور ریلوے اسٹیشن تو پورے کا پورا جلا دیا.ایک جم غفیر ہاتھوں میں بانس، لاٹھیاں اور اینٹ پتھر لیے ہوئے ضلع کچہری کی طرف بڑھا.ایسے وقت میں مرزا سلطان احمد سے کہا گیا کہ وہ عوام کے اس مشتعل گروہ کو منتشر کرنے اور آگے بڑھنے سے روکنے کے لیے گولی برسانے کا حکم دے دیں.نیرنگ خیال جوبلی نمبر.مئی، جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۸۹

Page 66

ابن سلطان القلم ~ 46 - ~ ایسے وقت میں اگر کوئی اور کمزور دل و دماغ کا انسان ہوتا تو کیا کرتا یہ ایک الگ سوال ہے لیکن اب مرزا سلطان احمد صاحب کی حالت پر بھی غور اور ان کے فیصلہ کو بھی ملاحظہ فرمائیے.ان کی ذمہ داریوں کو بھی پیش نظر رکھیے.فوجی اور دیگر اعلیٰ حکام کی خواہش بھی ذہن میں رکھیے.پھر سُنیے کہ مرزا سلطان احمد صاحب نے کیا کیا اور وہ کیا جس کی ایک ہندوستانی حاکم.غالبا امید نہیں کی جا سکتی.آپ نے کہا میں ان معصوم بچوں اور ان بے خبر لوگوں پر گولی چلانے کا حکم نہیں دے سکتا، کیونکہ میرے نزدیک شورش کے ذمہ دار یہ نہیں کوئی اور ہیں اور وہ جو ذمہ دار ہیں وہ لوگ اس مجمع میں موجود نہیں.آپ کے اس فیصلہ کی وجہ سے گوجرانوالہ دوسرا جلیانوالہ باغ بن جانے سے محفوظ رہا.گو عمارات وغیرہ کا نقصان ضرور کچھ نہ کچھ ہوا.مرزا سلطان احمد صاحب ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ اگر اپنے تدبر اور خوش بیانی سے کام نہ لیتے تو یہ مشتعل لوگ نہ جانے کیا کر کے دم لیتے.مرزا صاحب نے اُس پر جوش ہجوم کے سامنے ایسی سلجھی ہوئی تقریر کی کہ نفرت و غصہ کی یہ آگ ٹھنڈی ہو گئی.وہی جلوس مرزا سلطان احمد صاحب کی سر کردگی میں شہر کو واپس ہوا اور جن کی زبانوں پر انگریز مردہ باد“ کے نعرے تھے، وہ اب ”مرزا سلطان احمد زندہ باد“ کے جیکارے لگانے لگے.یہ نازک موقع گزر گیا.تحقیقاتی کمیٹیاں بیٹھیں.آپ بھی کمیشن کے سامنے پیش ہوئے.آپ کے یہ جواب پبلک میں آئے اور ان پر ولایت کے

Page 67

ابن سلطان القلم ~ 47 ~ دار العوام میں سوال و جواب اور چہ میگوئیاں ہوئیں.لوگوں کا خیال تھا کہ مرزا صاحب کی پنشن اور سرکار کے عطا کیے ہوئے مربع جات ضبط ہوں گے اور معتوب ٹھہرائے جائیں گے، مگر آپ نے کسی بات کی پروا نہ کی اور آخر میں یہ سب افواہیں بھی بے بنیاد ثابت ہوئیں.طور ترک موالات کے ہنگامے ٹھنڈے پڑ گئے تو گورنر پنجاب نے ایک ملاقات میں مرزا سلطان احمد صاحب سے کہا کہ آپ گوجرانوالہ کا انتظام ٹھیک پر نہ کر سکے.مرزا صاحب اس کے جواب میں بولے کہ لاہور میں تو Your Excellency بنفس نفیس موجود تھے پھر بھی یہاں کے ہنگاموں کو نہ روک سکے.آپ یہاں روکتے تو یہ ہنگامے وہاں نہ پہنچتے.مرزا صاحب کے اس جرأت مندانہ معقول جواب پر لاٹ صاحب خفیف ہو کر رہ گئے.' صاف گوئی اور بے باکی: مکرم فقیر سید وحید الدین صاحب بیان کرتے ہیں: انگریز حکومت نے جب پنجاب میں مارشل لا نافذ کیا ہے تو وہ بڑی سختی اور شدید آزمائش کا زمانہ تھا.امر تسر ، لاہور، گوجرانوالہ اور حافظ آباد کے باشندوں پر سب سے زیادہ سختی کی گئی.میں اُس زمانے میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا.بڑے تشدد اور جبر و استبداد کا دُور تھا.برطانوی ملوکیت چنگیزیت پر انجمن «صفحه ۱۳۸، ۱۳۷ از فقیر سید وحید الدین صاحب.آتش فشاں پہلی کیشنز لاہور، نیرنگِ خیال جوبلی نمبر.مئی، جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۸۸،۲۸۷

Page 68

ابن سلطان القلم ~ 48 - اتر آئی تھی.ہر روز ایک سے ایک زیادہ سخت حکم نافذ ہوتا.ان مظالم کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.قرار مارشل لا جب ختم ہوا تو انگریز سرکار نے اس ”لا قانونی دور“ کے واقعات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی مقرر کی، جس کے صدر مسٹر ہنٹرا پائے.عوام کی طرف سے ممتاز قومی نمائندے گواہ کی حیثیت سے ہنٹر کمیٹی کے سامنے پیش ہوئے.مرزا سلطان احمد صاحب نے جس صاف گوئی، بے باکی اور اخلاقی جرات کے ساتھ اس کمیٹی کے رُو برو گواہی دی اور واقعات کا تجزیہ کیا وہ ”ہنٹر کمیٹی کی رپورٹ میں زریں ورق کی صورت میں محفوظ رہے گا.“ عدالت میں گواہیوں کا حال: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ عدالتوں میں گواہیوں کے سلسلہ میں آپ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم جو ہمارے بڑے بھائی تھے اور ای.اے.سی (Extra Assistant Commissioner تھے، وہ اپنا تجربہ ا پورا نام: Lord William Hunter (1865-1957).اور ہنٹر کمیٹی کا قیام اور رپورٹ : ۱۹۲۰-۱۹۱۹ ۲ انجمن صفحه ۱۳۹ تا ۱۴۱

Page 69

ابن سلطان القلم ~ 49 - سنایا کرتے تھے کہ جتنے جوش سے کوئی شخص قرآن کریم ہاتھ میں لے کر میرے سامنے گواہی دیتا تھا میرے تجربہ میں اُتنا ہی وہ جھوٹا ہوتا تھا.وہ ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے کہ ایک شخص جو میرا اچھا واقف تھا اُس کا مقدمہ میرے سامنے پیش ہوا.وہ کہنے لگا مجھے کوئی اور تاریخ دی جائے کیونکہ جو گواہ میں نے پیش کرنے تھے وہ فلاں فلاں وجہ سے حاضر نہیں ہو سکتے.میں نے ہنس کر کہا میں تو تمھیں بڑا عقلمند اور ہوشیار آدمی سمجھا کرتا تھا لیکن اب میری طبیعت پر یہ اثر ہوا ہے کہ تم بڑے بیوقوف ہو.وہ کہنے لگا کیوں؟ میں نے کہا.گواہوں کے لیے جگہ اور وقت کی کیا ضرورت ہے.اگر تمہارے پاس کچھ ہے تو روپیہ اٹھنی دے کر بعض آدمی گواہی کے لیے لے آؤ.چنانچہ وہ باہر چلا گیا اور عملی طور پر تھوڑی دیر کے بعد ہی کچھ گواہ لے آیا.گواہی لیتے وقت میں ہنستا بھی جاؤں اور اُن سے مذاق بھی کرتا جاؤں.وہ لوگ قرآن کریم سر پر رکھ کر اور قسمیں کھا کھا کر کہتے تھے کہ واقعہ یوں ہوا.حالانکہ تھوڑی ہے.دیر ہوئی میں نے خود مدعی کو اس غرض کے لیے باہر بھیجا تھا کہ وہ کچھ دے دلا کر چند گواہ لے آئے.جب وہ گواہی دے چکے تو میں نے انھیں پکڑا اور اُن سے کہا کہ تم بڑے کذاب ہو، تمھیں واقعہ کا کچھ بھی علم نہیں لیکن محض چند ٹکوں کی وجہ سے تم اتنا جھوٹ بول رہے ہو کہ قرآن کریم کی بھی پروا نہیں کرتے.ا تفسیر کبیر جلد ۶ صفحه ۵۸۰ 166

Page 70

ابن سلطان القلم ~ 50 ~ خان بہادر “ کا خطاب: آپ کو انگریزی حکومت کی طرف سے ”خان بہادر “ کا خطاب ملا.یہ خطاب یقیناً آپ کی قابلیت کی وجہ سے اور آپ کی خدمات کے اعتراف میں آپ کو دیا گیا تھا لیکن آپ اس خطاب کو اپنے لیے باعث افتخار و شرف نہ گردانتے تھے اور نہ ہی اسے کوئی آسمانی خطاب سمجھتے تھے.عام طور پر اپنے نام کے ساتھ ”خان بہادر “ لکھا بھی نہیں کرتے تھے.اپنے و ایک دفعہ ایک انگریز افسر نے آپ سے پوچھا کہ خان بہادر ! آپ ستخطوں کے ساتھ ”خان بہادر “ کیوں نہیں لکھتے.آپ نے جواباً اسے کہا.”صاحب ! خان بہادر کا خطاب سرکار سے مجھے اب ملا ہے اور مرزا کا لقب مجھے آبًا عَنْ جَدٍ حاصل ہے.خان بہادر کا خطاب مشروط ہے اور مرزا کا خطاب غیر مشروط.اس لیے میں وہی خطاب اپنے نام کے ساتھ لکھتا ہوں جو ہر حال میں میرے نام کے ساتھ رہا اور رہے گا.166 بذریعہ الہام والد صاحب کی وفات کی خبر : دوران ملازمت آپ کو ایک ایمان افروز واقعہ یہ پیش آیا کہ بذریعہ الہام آپ کو اپنے والد گرامی کی وفات کی خبر دی گئی.مکرم مولوی برکات احمد صاحب راجیکی بیان کرتے ہیں کہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے بیان فرمایا کہ نیرنگ خیال جوبلی نمبر.مئی، جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۹۱،۲۹۲

Page 71

وو ابن سلطان القلم ~ 51 - ~ جب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وصال ہوا تو لاہور سے بذریعہ تار کپور تھلہ کی جماعت کو اطلاع پہنچی.ہم سب احباب جماعت صدمہ رسیدہ دلوں کے ساتھ قادیان کی طرف روانہ ہوئے.جب ہم امرتسر پہنچے تو ریلوے پلیٹ فارم پر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ابن سیدنا حضرت اقدس علیہ السلام کو پر آشوب اور بے قراری کی حالت میں ٹہلتے ہوئے دیکھا.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ان دنوں جالندھر میں افسر مال تھے اور اس وقت جالندھر سے روانہ ہو کر قادیان تشریف لے جا رہے تھے.ہم نے آگے بڑھ کر اظہار تعزیت و افسوس کیا جس کا آپ نے مناسب جواب دیا اور فرمایا کہ میرے ساتھ ایک عجیب واقعہ گزرا ہے.ہمارے دریافت کرنے پر آپ نے بتایا کہ میں دورہ پر تھا اور جالندھر کے بعض نواحی دیہات میں گھوڑے پر جا رہا تھا.(حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اپنی ملازمت کے دوران میں عام طور پر صرف ایک دو اہلکاروں کو ساتھ لے کر دورہ پر نکلتے تھے.زیادہ عملہ ساتھ لے جانا رعایا پر بوجھ سمجھتے ہوئے ناپسند فرماتے تھے.ناقل) کہ اچانک مجھے زور سے یہ الہامی آواز سنائی دی: ”ماتم پرسی“ و اس آواز کے سنائی دینے کے ساتھ ہی مجھ پر شدید ہم کیفیت طاری ہو گئی اور میری کمر بوجھ سے دب گئی.چونکہ میرا زیادہ تعلق تائی صاحبہ سے تھا.اس سے میرا ذہن سب سے پہلے انھی کی طرف منتقل ہؤا کہ شاید ، ان کی وفات ہو گئی ہو لیکن معا بعد مجھے خیال پیدا ہوا کہ تائی صاحبہ کا مقام

Page 72

ابن سلطان القلم ~ 52 ~ اللہ تعالیٰ کے حضور اتنا بلند نہیں، بلکہ حضرت والد ماجد (مسیح موعود علیه السلام) وفات پاگئے ہیں اور وہی علو مرتبت کے اعتبار سے یہ مقام رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کے لیے اظہار تعزیت فرمائے.اس یقین کے پختہ ہونے پر میں گھوڑا تیز کر کے جالندھر شہر پہنچا اور سیدھا کچہری میں ڈپٹی کمشنر کے پاس، جو انگریز تھا، گیا اور اسے درخواست دی کہ میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا ہے.مجھے پانچ دن کی رخصت دی جائے.ڈپٹی کمشنر صاحب میری درخواست پڑھ کر کہنے لگے کہ آپ کے والد صاحب مشہورِ خلائق شخصیت تھے.ان کی علالت کی کوئی خبر یا اطلاع شائع نہیں ہوئی.کیا آپ کو کوئی تار ملا ہے کہ ان کی وفات اچانک ہو گئی ہے.میں نے جوابا کہا کہ مجھے تار وغیرہ تو کچھ نہیں ملا لیکن مجھے الہام ”ماتم پرسی“ ہوا ہے جس سے میں یقین کرتا ہوں کہ میرے والد صاحب وفات پا گئے ہیں.میری یہ بات سن کر ڈپٹی کمشنر صاحب ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ الہام ولہام کوئی چیز نہیں.یہ محض آپ کا وہم ہے.آپ کے والد خیریت سے ہیں کوئی فکر نہ کریں.پھر کہا میں رخصت دینے میں روک نہیں ڈالتا.اگر آپ چاہیں تو پانچ دن سے زیادہ رخصت لے لیں.چونکہ اس وقت مجھے غم اور تشویش تھی اور میں جلد قادیان پہنچنا چاہتا تھا اس لیے میں نے مسئلہ الہام وغیرہ پر بحث کو طول دینا مناسب نہ سمجھا اور رخصت لے کر رختِ سفر باندھنے کے لیے اپنی رہائش گاہ پر آیا.ابھی میں بستر وغیرہ تیار کر رہا تھا کہ لاہور سے مرسلہ تار آگیا جس میں لکھا تھا کہ

Page 73

ابن سلطان القلم ~ 53 ~ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور میں وفات پا گئے ہیں.جنازہ قادیان لے جایا جارہا ہے.قادیان پہنچیں.میں نے جب تار پڑھا تو یہ خیال کر کے کہ یہ انگریز الہام کا منکر ہے اس پر مجبت کر آؤں، دوبارہ کچہری گیا اور ڈپٹی کمشنر صاحب کو تار دکھا کر کہا کہ آپ الہام کے منکر تھے، لیجیے اب یہ تار کے ذریعہ سے بھی اس کی تصدیق ہو گئی ہے.ڈپٹی کمشنر صاحب تار دیکھ کر حیرت زدہ ہو گئے اور منہ میں انگلی ڈال کر کہنے لگے کہ: دو یہ بات میری سمجھ سے بالا ہے“ حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت والد صاحب کو اُسی دن حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے تار ملی کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام وفات پاگئے ہیں.آپ یہ تار لے کر ڈی سی صاحب کے پاس گئے تو وہ سخت حیران ہوا اور اُس نے از راہ مذاق یہ بھی کہا کہ : ”تم بھی ملهم اور تمہارا والد بھی مہم“.اس ڈی سی کا نام Mr.Baron تھا، جو بعد میں پنجاب کا سیکر ٹری بھی بن گیا تھا.والد صاحب کے جنازہ میں شرکت: حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب تحریر فرماتے ہیں: اصحاب احمد جلد چہارم صفحه ۲۳۰ تا ۲۳۳ جدید ایڈیشن روزنامه الفضل ۱۲۲ پریل ۱۹۷۳ء.مضمون مکرم چودھری سعید احمد صاحب عالمگیر

Page 74

ابن سلطان القلم ~ 54 ~ ”حضرت اقدس کا وصال ہو گیا اور احمدی دنیا اور دوسرے لوگ یہی سمجھتے رہے کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب احمدیت کے قائل نہیں لیکن خدائے علیم و بصیر ان کے دل کی حالت کو جانتا تھا کہ وہ نہ صرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے جسمانی بیٹے ہیں بلکہ ان کے روحانی فرزند ہونے کا بھی مقام حاصل ہے جو اس لطف خداوندی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کے وصال کے روز آپ کو ”ماتم پرسی“ کے الہام سے نوازا اور پ کے قلب میں اس کی یہ تعبیر ڈالی گئی کہ والد صاحب فوت ہو گئے ہیں.لہذا آپ اس یقین کے ساتھ تمام روکوں کو دور کر کے اپنے دورہ کے مقام سے قادیان روانہ ہو گئے اور حضرت اقدس کے جنازہ میں شامل ہوئے.جنازہ کے بعد: 166 ہفت روزہ ”البدر“ نے ۴ جون ۱۹۰۸ء کی اشاعت میں تحریر کیا: حضرت صاحب کے بڑے لڑکے مرزا سلطان احمد صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر بھی جنازہ پر پہنچ گئے تھے اور نماز جنازہ میں اور تدفین میں شامل ہوئے اور بعد اس کے کہ وہ حضرت ام المؤمنین کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور بہ ادب تمام سلام کر کے عرض کی کہ میری بعض ذاتی غلطیاں تھیں جن کی وجہ سے میں پیچھے رہا ،، ورنہ میں نے کبھی حضرت کی مخالفت نہیں کی تھی.“ الفضل قادیان مورخہ ۷ / جولائی ۱۹۳۱ء ۲ اخبار البدر“ قادیان مورخہ ۴ / جون ۱۹۰۸ء، صفحہ ۷

Page 75

ابن سلطان القلم ~ 55 - ~ فصل اول وو قبول احمدیت بیت تو ہر ایک کو لگ جانے ہیں“: حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نے فروری ۱۹۰۶ء میں بروز جمعہ المبارک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.آپ بیان کرتے ہیں: ”میرے بیعت کرنے کے بعد جب میرے والد صاحب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب قادیان تشریف لائے تو مکرمہ تائی صاحبہ ان کے پاس گئیں اور میری شکایت کی جس کے یہ الفاظ تھے : سلطان احمد ! تیرے منڈے نوں کی وا وگ گئی اے؟ (یعنی تیرے لڑکے کو کیا ہو گیا ہے؟) جس پر حضرت والد صاحب نے فرمایا کہ تائی! میں آپ کا مطلب نہیں سمجھا.جس پر تائی صاحبہ نے دوبارہ فرمایا کہ تمہارے لڑکے کو بیت لگ گئے ہیں.(یعنی تمہارے لڑکے نے بیعت کر لی ہے.اس پر والد صاحب نے فرمایا: ”اس نے اچھا کیا ہے.ہم سے تو اچھا ہی رہے گا.نمازیں تو پڑھے گا.“ ا ” بیت لگنا“ پنجابی کے زیر اثر یا طنز کہا ہے، مراد بیعت کرنا ہے.(مؤلف)

Page 76

ابن سلطان القلم ~ 56 ~ پھر تائی صاحبہ نے خود بیعت کر لی تو میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت وہ جھاڑو دے رہی تھیں.میں نے از راہ مذاق اُنھی کے الفاظ میں اُنھیں کہا کہ تائی! اب آپ کو کیا وا وگ گئی ہے.جس پر تائی صاحبہ نے کہا کہ عزیز احمد ! بڑوں سے یوں باتیں نہیں کیا کرتے ، بُری بات ہے.پھر میں نے ان کو کہا تائی آپ کو بھی بیت لگ گئے ہیں.اس پر وہ میرا مذاق سمجھیں اور فرمانے لگیں کہ عزیز احمد ! بیت تو ہر ایک کو لگ جانے ہیں.“ 166 تائی صاحبہ نے جو یہ فرمایا کہ بیت تو ہر ایک کو لگ جانے ہیں، اس میں غالباً اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب بھی بالآخر بیعت سے مشرف ہو جائیں گے.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے بارہ میں بیان کرتے ہیں: ” در حقیقت آپ کی روح احمدیت قبول کیے ہوئے تھی.اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ جب آپ کے بیٹے حضرت مرزا عزیز احمد صاحب نے ۱۹۰۶ء یا ۱۹۰۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی تو آپ کی تائی صاحبہ نے طنزًا آپ سے کہا کہ تیرا بیٹا بھی ایسا ویسا ہو گیا ہے تو اس پر آپ نے برجستہ یہ جواب دیا کہ ”اچھا ہوا، نماز تو پڑھا کرے گا.،، ا روز نامه الفضل ربوه ۱۹ مارچ ۱۹۷۳ء (مکرم چوہدری سعید احمد صاحب عالمگیر افسر خزانہ صدر انجمن احمدیہ نے حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کی زندگی کے بہت سے واقعات لکھ کر ان سے تصحیح کروائی.یہ واقعات الفضل میں شائع ہوئے.ان میں سے ایک واقعہ یہ ہے.) ۲ الفضل اار دسمبر ۱۹۴۰ء

Page 77

ابن سلطان القلم ~ 57 - ~ اعلان احمدیت حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو دراصل شروع ہی سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بے حد عقیدت و شیفتگی تھی اور آپ حضرت اقدس کو بے مثال عاشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھتے اور آپ کے دعاوی کو برحق تسلیم کرتے تھے اور آپ کی روح تحریک احمدیت کو قبول کر چکی تھی مگر آپ کو اس کے اظہار و اعلان میں بہت تامل تھا اور اس بات کا علم حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو بھی تھا اور حضور ہمیشہ ان کے حلقہ بگوش احمدیت ہونے کے لیے دعائیں کرتے رہتے تھے.چنانچہ جون ۱۹۲۴ء میں حضور نے ان کے فرزند صاحبزادہ مرزا رشید احمد صاحب کا خطبہ نکاح پڑھا ایجاب و قبول کے بعد ارشاد فرمایا: ان کے خاندان میں اب ایک ہی وجود ایسا ہے جس نے ابھی تک اس ہدایت کو قبول نہیں کیا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لائے ان کے لیے بھی دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے....جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے میں برابر ان کے لیے دعا کرتا رہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ ان کو ہدایت دے.میں سنتا رہتا ہوں کہ وہ احمدیت کو ہدایت کی راہ ہی خیال کرتے ہیں مگر کوئی روک ہے جس کے لیے دعا کرنی چاہیے کہ خدا تعالیٰ اس روک کو ہٹا دے.آمین.تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحہ ۹۲ تا ۹۴ سے اقتباس.جلد تا الفضل ۶ جون ۱۹۲۴ء

Page 78

ابن سلطان القلم ~ 58 ~ الحمد للہ خدا کے خلیفہ برحق کی دعا در گاہِ عالی میں مقبول ہوئی اور آخر اکتوبر ۱۹۲۸ء کے پہلے ہفتہ میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے اعلان احمدیت کر دیا اور اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اعلان الفضل میں شائع کرایا: تمام احباب کی اطلاع کے لیے میں یہ چند سطور شائع کرتا ہوں کہ میں حضرت مرزا علیہ السلام کے سب دعوؤں پر ایمان رکھتا ہوں اور مجھے ہے کہ وہ اپنے دعویٰ میں صادق اور راستباز تھے اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور تھے جیسا کہ میرے ان مضامین سے آپ لوگوں پر ظاہر ہو چکا ہو گا جو سلسلہ احمدیہ کی خدمات کے متعلق میں شائع کرتا رہا ہوں مگر اس وقت تک بوجہ بیماری اور ضعف کے میں ان مسائل کے متعلق یورا غور نہیں کر سکا جن کے بارے میں قادیان اور لاہوری احمدیوں میں اختلاف ہے اور اسی وجہ سے اب تک اپنی احمدیت کا اعلان نہیں کر سکا.مگر اب میں نے سوچا ہے کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں اس لیے میں اس امر کا سردست اعلان کر دوں کہ میں دل سے احمدی ہوں.جب مجھے اللہ توفیق دے گا تو میں اختلافی مسائل غور کر کے اس امر کا بھی فیصلہ کر سکوں گا کہ میں دونوں جماعتوں میں سے کس کو حق پر سمجھتا ہوں.پس سر دست اپنے احمدی ہونے کا اعلان ان چند سطور کے ذریعہ سے کر کے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ مجھے دوسرے سوال کے متعلق بھی اپنے پاس سے ہدایت فرمائے اور وہ راہ دکھائے جو اس کے نزدیک درست ہو.آمین.پر

Page 79

ابن سلطان القلم ~ 59 - (خان بہادر ) مرزا سلطان احمد (خلف اکبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام) اس اعلان کے علاوہ آپ نے ایک ٹریکٹ ”الصلح خیر “ نامی شائع کیا ~ جس میں تحریر فرمایا: ”میری عقیدت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ نہ صرف اس وقت سے ہے جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیحیت کا دعویٰ کیا بلکہ ان ایام سے میں عقیدت رکھتا ہوں کہ جبکہ میری عمر بارہ تیرہ برس کی تھی.میں تصدیق کرتا ہوں اور صدقِ دل سے مانتا ہوں کہ میرے والد صاحب مرحوم کی ہستی ایسی عظیم الشان تھی جو اسلام کے واسطے ایک قدرتی انعام تھا...میں اپنے والد صاحب مرحوم مرزا غلام احمد صاحب کو ایک سچا انسان اور پکا مسلمان الموسوم مسیح موعود علیہ السلام سمجھتا ہوں اور ان کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہوں اور میں اپنے آپ کو اس رنگ میں ایک احمدی سمجھتا ہوں.آپ مجھ سے پوچھیں گے کہ کیوں حضرت مولوی نور الدین صاحب یا میاں محمود صاحب یا مولوی محمد علی صاحب کی بیعت نہیں کی.اس کا جواب یہ ہے میں نے کبھی اپنی زندگی میں باوجود اس کے کہ میرے والد صاحب مرحوم میری بعض کمزوریوں کی وجہ سے میرے فائدہ کے لیے مجھ پر ناراض بھی تھے اور میں اب صدقِ دل سے یہ اعتراف کرتا ہوں کہ ان کی ناراضگی واجبی اور حق تھی.باوجود ان کی ناراضگی کے بھی میں نے کبھی اخیر تک بھی ان کے ا الفضل ۲ اکتوبر ۱۹۲۸ء

Page 80

ابن سلطان القلم ~ 60 ~ دعاوی اور ان کی صداقت اور سچائی کی نسبت کبھی کوئی مخالفانہ حصہ نہیں لیا جس کو میرے احمدی اور غیر احمدی دوست بخوبی جانتے ہیں جو قریباً ۳۰ سال سے میرے ساتھ تعلق رکھتے ہیں.اس سے زیادہ اور کیا میری صداقت ہو گی اور بایں حالات کون کہہ سکتا ہے کہ میں ان کا مخالف یا ان کے دعاوی کا منکر ہوں.جب یہ حالت ہے تو مجھے کوئی یہ الزام نہیں دے سکتا کہ میں ان کا منکر تھا یا ہوں...بیعت کیا چیز ہے ایک یقین اور صداقت کے ساتھ ایک مقدس انسان کے ہاتھ میں ہاتھ دینا اور اس کے ساتھ ہی صدق دل سے خدا کو اس امر پر شاہد کرنا.پس میں اب تک اپنے والد صاحب مرحوم کو سچا مسیح موعود مانتا ہوں اور میرا خدا اس پر شاہد ہے.میں اعلان اور اظہار کو بیجہ یقین کرتا ہوں.“ 166 دستی بیعت: آپ نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں ۲۵ / دسمبر ۱۹۳۰ء کو بیعت کی.اس بیعت کے بارے میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ مرزا سلطان احمد صاحب اپنی لمبی بیماری کے دوران، جو انھیں پنشن کے کچھ عرصہ بعد لاحق ہو گئی تھی، پہلے لاہور تشریف ا ٹریکٹ ”الصلح خیر » صفحه ۲-۳

Page 81

ابن سلطان القلم ~ 61 - ~ فرما تھے.پھر قادیان آگئے اور یہاں علاج معالجہ کا سلسلہ شروع ہو گیا.اسی لمی اور آخری بیماری کے دوران خاکسار کو بہت کچھ طبی خدمت کا موقع ملتا رہا.آپ فرماتے ہیں کہ میں نے کبھی مرزا صاحب کو مغموم نہ پایا.اکثر لطائف کے رنگ میں بات کرتے تھے.“ ایک روز خاکسار نے مندرجہ ذیل رؤیا مرزا صاحب کو سنایا: ".”خاکسار نے ۱۲ / رمضان ۱۹۳۰ء کو جب میں فجر کی نماز کے بعد لیٹ گیا تھا تو رویا میں دیکھا کہ شور بپا ہے اور اعلان سا ہو رہا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آ رہے ہیں پھر دیکھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جن کے ہمراہ اس وقت صرف یہ ناچیز راقم ہے حضرت کے استقبال کے لیے چوک مسجد مبارک سے ریلوے اسٹیشن سے آنے والے راستہ کی طرف بڑھے ہیں اور ابھی تھوڑا سا آگے بڑھے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آتے ہوئے نظر آتے ہیں.اس وقت حضور نے نہایت سفید براق نقاب پہنا ہوا ہے جس کو حضور نے جب اُتارا تو حضور کا چہرہ مبارک ایسا منور نظر آیا جس کی مثال بیان نہیں کی جاسکتی.اس وقت پہلے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مصافحہ کیا، اس کے بعد خاکسار نے.حضور پرنور نے خاکسار کے ہاتھ کو کچھ زیادہ دیر تک اپنے ہاتھ میں تھامے رکھا.ابھی میرا ہاتھ حضور کے ہاتھ میں ہی تھا کہ ایک طرف تو حضور کی شکل میں کچھ تبدیلی

Page 82

ابن سلطان القلم ~ 62 - ~ نظر آئی اور حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی شبیہ سے کچھ مشابہ ہو گئی اور دوسری طرف میرے دل میں یہ خیال آنے لگا کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب لاہور میں بیمار تھے اور تندرست ہو کر آئے ہیں.مگر یہ خیال زیادہ غالب نہ آیا کہ میری آنکھ کھل گئی.اس وقت جب میں نے یہ خواب دیکھا تو میرا بدن خوشی کے اثر سے، جو رؤیا کی حالت میں پہنچی تھی، چارپائی پر تھر تھرا 66 رہا تھا.“ جب میں نے یہ رویا مرزا صاحب کو سنائی تو آپ اسے سن کر بہت مغموم ہو گئے اور آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور رقتِ قلب کے ساتھ خاکسار سے مخاطب ہوئے کہ ڈاکٹر صاحب! میرے لیے دعا کریں کہ میں بھی انسانوں میں شامل ہو جاؤں“ آپ نے یہ الفاظ کچھ ایسے رنگ میں کہے تھے کہ میرے دل پر ان سے وہ کا بہت گہرا اثر ہوا.میں ان کے لیے دعا کرتا رہا اور علاج معالجہ بھی چلتا رہا اور کبھی سلسلہ احمدیہ کا تذکرہ بھی ہو جاتا تھا.آخر اللہ تعالیٰ اپنے فضل دن لے آیا کہ مرزا صاحب کے اہل بیت کی طرف سے خاکسار کو بلایا گیا کہ رت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں عرض کر کے حضور کو بلا لاؤں تا کہ حضور مرزا (سلطان) صاحب کی بیعت لے لیں.اس وقت مجھے بہت خوشی پہنچی اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نظارہ سامنے آگیا کہ بڑا بھائی چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر خدا کی راہ میں بکنے لگا ہے.میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں مرزا

Page 83

ابن سلطان القلم ~ 63.~ صاحب کے ہاں تشریف لے جانے اور بیعت لینے کے لیے عرض کیا.حضور اُسی وقت میرے ہمراہ مرزا صاحب کے مکان پر تشریف لے گئے اور اور اس کمرہ میں تشریف لے گئے جہاں مرزا صاحب بستر علالت پر تھے.مرزا صاحب کی طبیعت اس وقت اچھی تھی.کوئی بخار وغیرہ یا کسی قسم کا عارضہ نہ تھا، بجز اس تدریجی کمزوری کے جو ٹانگوں میں پیدا ہو گئی تھی اور آپ کھڑے نہ ہو سکتے تھے.دونوں بھائیوں نے ایک دوسرے کی مزاج پرسی کی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ مرزا صاحب کی چارپائی کے پاس کرسی پر بیٹھ گئے.دونوں بھائیوں پر خاموشی طاری تھی تو کچھ توقف کے بعد میں نے مرزا صاحب کا ہاتھ پکڑ کر کہا کہ جیسا کہ آپ خواہش ظاہر کر چکے ہیں اب آپ ہاتھ بڑھائیں اور بیعت کر لیں.چنانچہ آپ نے برضاور غبت ہاتھ بڑھایا اور حضرت خلیفۃ المسیح رضی اللہ عنہ نے ان کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا تاکہ اس دیر سے بچھڑے ہوئے بھائی کو اپنے عالی مقام، والا شان، خدا کے جری کی آغوشِ شفقت میں داخل کر لیں.بیعت شروع ہوئی.حضور دھیمی آواز میں بیعت کے الفاظ کہتے تھے اور مرزا صاحب ان کو دہراتے تھے.جس وقت یہ الفاظ بولے گئے: " آج میں محمود کے ہاتھ پر اپنے تمام گناہوں سے توبہ کر کے احمدی جماعت میں داخل ہوتا ہوں.“

Page 84

ہر ابن سلطان القلم ~ 64 ~ تو اس وقت میرے قلب کی عجیب کیفیت ہو گئی.اللہ تعالیٰ قدرت کا عجیب نظارہ آنکھوں کے سامنے آگیا کہ ایک چھوٹے بھائی کو جو بڑے بھائی سے عمر میں بہت چھوٹا ہے بلکہ اس کی اولاد کے برابر ہے خدا تعالیٰ نے وہ مرتبہ دیا ہے کہ وہ اپنے بڑے بھائی سے یہ الفاظ کہلوا رہا ہے کہ میں آج اپنے تمام گناہوں سے توبہ کر کے، جن میں میں گرفتار تھا، سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں.پھر اس کے بعد یہ الفاظ بھی دہرائے گئے کہ آئندہ بھی قسم کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کروں گا.دین کو دُنیا پر مقدم رکھوں گا اور جو آپ نیک کام بتائیں گے ان میں آپ کی فرمانبرداری کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تمام دعووں پر ایمان رکھوں گا.وغیرہ وغیرہ اس کے بعد حضور نے حسب معمول دعا کروائی اور دعا کے کچھ دیر بعد واپس اپنے مقام پر تشریف لے گئے اور یہ ناچیز بھی خوشی سے لبریز دل کے ساتھ اپنے کام پر چلا گیا.مرزا صاحب نے میرے رؤیا بیان کرنے پر مجھ سے جو برفت قلب کہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب دُعا کریں کہ میں بھی انسانوں میں داخل ہو جاؤں، کچھ ایسے رنگ میں یہ الفاظ کہے گئے تھے کہ خدا تعالیٰ کے حضور قبولیت پکڑ گئے اور حضرت مرزا صاحب کو سلسلہ میں داخل ہونا اور بہشتی مقبرہ میں اپنے عالی شان والد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں سونا نصیب ہوا.حضرت

Page 85

ابن سلطان القلم ~ 65.مرزا صاحب نے ۲۵ / دسمبر ۱۹۳۰ء کو بیعت کی تھی اور ۲ / جولائی ۱۹۳۱ء کو وفات پائی.آپ کی بیعت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی پیشگوئی جو موعود فرزند کے بارے میں تھی کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا، پوری ہوئی اور آپ کا بیعت کرنا ایک غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوا.حفظ مراتب کا خیال: حضرت مصلح موعودؓ نے خود تشریف لا کر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی بیعت لی.اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب بیمار تھے، دوسرے آپ کو بڑے بھائی کا احترام بھی ملحوظ تھا.اس بارے میں محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب ابن حضرت مصلح موعودؓ اپنی کتاب ”یادوں کے دریچے“ میں تحریر فرماتے ہیں: ”جب تایا جان (حضرت مرزا سلطان احمد صاحب) نے بیعت کرنا چاہی تو حضرت مصلح موعود خود تایا جان کے گھر تشریف لے گئے اور وہاں جا کر بیعت لی.یہ بڑے بھائی کے احترام کی وجہ سے تھا.خلافت کا مقام اپنی جگہ اور بڑے بھائی کا ،، احترام اپنی جگہ.اس سے بڑھ کر حفظ مراتب کی شان کہاں مل سکتی ہے.“ ا الفضل ۱ار دسمبر ۱۹۴۰ء یادوں کے دریچے از صاحبزاده مرز امبارک احمد صاحب صفحہ ۳۲.سن اشاعت ۲۷ مئی ۱۹۱۴ء

Page 86

ابن سلطان القلم ~ 66 ~ ہم تیرے لیے رسوائی والی کوئی بات باقی نہ چھوڑیں گے: حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ۲۵ دسمبر ۱۹۳۰ء کو بیعت سے شرفیاب ہوئے اور ایک دن بعد ۲۶ دسمبر کو جلسہ سالانہ تھا جس کے افتتاحی خطاب میں اختتامی دعا سے قبل حضرت مصلح موعود نے خصوصی طور پر اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ” دعا سے پہلے میں ایک اور بات بیان کرنا چاہتا ہوں.یہ اجتماع کا موقع ہے اور اس پر اس بات کا بیان کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق خدا تعالیٰ کا الہام ہے لَا نُبْقِى لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا کہ ہم تیرے لیے رسوائی والی کوئی بات باقی نہ چھوڑیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر مخالفین کی طرف سے ایک بہت بڑا اعتراض یہ کیا جاتا تھا کہ آپ کا بیٹا آپ کے سلسلے میں شامل نہیں.مخالف کہتے کہ اگر مرزا صاحب سچے ہوتے تو ان کا اپنا بیٹا کیوں نہ انھیں مانتا.اگر چہ یہ کوئی اعتراض نہیں جس سے حضرت مسیح موعود کی صداقت پر حرف آسکتا.حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے نے بھی ان کو نہ مانا تھا.اس سے حضرت نوح علیہ السلام کی صداقت باطل نہیں قرار دی جاسکتی.پس مخالفین کا یہ اعتراض محض جہالت اور نادانی کی وجہ سے تھا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے بھی دور کر دیا اور ایسے لوگوں کا منہ بند کر دیا.چنانچہ کل مرزا سلطان احمد صاحب میری بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے اور اس طرح بھی دشمن کا منہ بند ہو گیا.اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ حضرت مسیح موعود

Page 87

ابن سلطان القلم ~ 67 ~ کا کوئی بیٹا آپ کی جماعت میں داخل نہیں.اب حضرت مسیح موعود کی ساری کی ساری اولا د احمدیت میں داخل ہو گئی ہے.“ اس پر تمام مجمع نے نہایت بلند آواز سے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی " کے حضور مبارکباد پیش کی اور حضور نے ”خیر مبارک“ کہا.' آپ کی بیعت ایک نشان تھا: حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۳/ جولائی ۱۹۳۱ء میں صاحبزادہ صاحب کے قبول احمدیت کے نشان اور بیعت کے بعد آپ کے اخلاص کے بعض واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک الہام وَلَا نُبْقِي لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا.یعنی ہم تیرے متعلق ایسی تمام باتوں کو تیرے لیے شرمندگی یا رسوائی کا موجب ہو سکیں مٹا دیں گے.اس الہام کو میں دیکھتا ہوں کہ ان عظیم الشان کلماتِ الہیہ میں سے ہے جو متواتر پورے ہوتے رہتے ہیں اور جن کے ظہور کا ایک لمبا سلسلہ چلا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق جو اعتراض کیسے جاتے ہیں ان میں سے ایک اہم اعتراض یہ بھی تھا کہ آپ کے رشتہ دار آپ کا انکار ا افتتاحی تقریر جلسه سالانه ۱۹۳۰ء.انوار العلوم جلد ۱۱، صفحہ ۵۱۳

Page 88

ابن سلطان القلم ~ 68 ~ کرتے ہیں اور پھر خصوصیت سے اعتراض کیا جاتا تھا کہ آپ کا ایک لڑکا آپ کی بیعت میں شامل نہیں.یہ اعتراض اس کثرت کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ جن لوگوں کے دلوں میں سلسلہ کا درد تھا وہ اس کی تکلیف محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتے تھے.میں دوسروں کا تو نہیں کہہ سکتا لیکن اپنی نسبت میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے متواتر اور اس کثرت سے اس امر میں اللہ تعالیٰ سے دُعائیں کیں کہ میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے ہزار ہا دفعہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کی ہو گی اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں بغیر ذرہ بھر مبالغہ کے کہ بیسیوں دفعہ میری سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر ہو گئی.اس وجہ سے نہیں کہ جس شخص کے متعلق اعتراض کیا جاتا تھا وہ میرا بھائی تھا بلکہ اس وجہ سے کہ جس شخص کے متعلق اعتراض کیا جاتا تھا وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیٹا تھا اور اس وجہ سے کہ یہ اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر پڑتا تھا.میں نے ہزاروں دفعہ اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور آخر اللہ تعالیٰ نے اس کا نتیجہ یہ دکھایا کہ مرزا سلطان احمد صاحب جو ہماری دوسری والدہ سے بڑے بھائی تھے اور جن کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ ان کے لیے اب احمدیت میں داخل ہونا ناممکن ہے، احمدی ہو گئے.ان کا احمدی ہونا ناممکن اس لیے کہا جاتا تھا کہ جس شخص نے اپنے باپ کے زمانہ میں بیعت نہ کی ہو اور پھر ایسے شخص کے زمانہ میں بھی بیعت نہ کی ہو جس کا ادب اور احترام اس کے دل میں موجود ہو، اس کے متعلق یہ امید

Page 89

ابن سلطان القلم ~ 69 ~ نہیں کی جاسکتی کہ وہ کسی وقت اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کرے گا، لیکن کتنا زبر دست اور کتنی عظیم الشان طاقتوں اور قدرتوں والا وہ خدا ہے جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مدتوں پہلے فرما دیا تھا.وَلَا نُبْقِي لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا.یعنی ہم تیرے اوپر جو جو اعتراض کیے جاتے ہیں ان کا نشان بھی نہیں رہنے دیں گے بلکہ سب کو مٹا دیں گے.تین سال کے قریب ہوئے مرزا سلطان احمد صاحب شدید بیمار ہوئے.قریباً ایسی ہی بیماری تھی، نفخ تھا اور بخار بھی تھا.میں ڈاکٹر صاحب سے ان کا علاج کراتا تھا لیکن سب سے بڑی فکر جو مجھے ان کے متعلق تھی وہ یہ تھی کہ اگر یہ اسی حالت میں فوت ہو گئے تو مخالفوں کا اعتراض باقی رہ جائے گا..پہلی حالت کا ذکر : 1 اسی تسلسل میں حضرت مصلح موعود مزید فرماتے ہیں: عام طور پر میں دیکھتا ہوں لوگوں کو پہلی حالت کا ذکر کرنے میں ایک قسم کا حجاب ہوتا ہے چنانچہ جب ہماری تائی صاحبہ بیعت میں داخل ہوئیں تو ہماری جماعت میں سے کئی لوگ کہنے لگے تائی صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مخالفت نہیں کیا کرتی تھیں مگر چھپانے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی.یہ واقعات ہیں جو اللہ تعالیٰ کی شان کو زیادہ ظاہر کرنے والے ہیں.الفضل قادیان مورخہ ۱ ار جولائی ۱۹۳۱ء

Page 90

ابن سلطان القلم ~ 70 ~ میں نے دیکھا ہے ہم چھوٹے ہوتے تھے.ایک سیڑھی تھی جو دونوں گھروں کے درمیان تھی.ہم وہاں سے گزرتے تو ہماری تائی صاحبہ اکثر کہتیں.”جیسے کو ا ویسے کو کو “ یعنی جس رنگ کا باپ ہے یہ بچے بھی اسی رنگ میں رنگین ہیں.مجھے یہ کہتے ہوئے کچھ حجاب نہیں آتا.کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ یہ قلب کی حالت ہو اور پھر ہدایت نصیب ہو تو یہ تو معجزہ ہو جاتا ہے اور پھر ان کا درجہ بھی بڑھ جاتا ہے، کیونکہ باوجود اتنی مخالفت کے اللہ تعالیٰ نے آخر کوئی نیکی دیکھی ہی تھی جو انھیں ہدایت دے دی.یہی حال میں دیکھتا ہوں مرزا سلطان احمد صاحب کا تھا.اس رنگ میں تو نہیں جس رنگ میں تائی صاحبہ کا تھا مگر ایک اور رنگ میں ان کا بھی ضرور ایسا ہی حال تھا.اس میں شبہ نہیں مرزا سلطان احمد صاحب ہمیشہ یقین رکھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جھوٹ نہیں بولتے.اپنا باپ ہونے کے لحاظ سے نہیں بلکہ فی الواقع ان کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی راستبازی گھر کر چکی تھی، مگر یہ نہیں کہ وہ آپ کے الہامات کی ایسی عظمت اور شان سمجھتے ہوں جیسے ایک مامور کے الہامات کی سمجھنی چاہیے.مجھے ان کا ایک فقرہ خوب یاد ہے.شروع شروع میں جب میں نے ان سے ملنا شروع کیا تو ایک دن باتوں باتوں میں کہنے لگے.مجھے یقین ہے ہمارے والد صاحب کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے بھی بڑھ کر محبت تھی.اپنے رنگ میں تو انھوں نے یہ فقرہ محبت میں ہی کہا ہو گا، مگر مجھے بڑا بُرا

Page 91

ابن سلطان القلم ~ 71 - معلوم ہوا، کیونکہ خدا کے مقابلہ میں کسی رسول سے زیادہ محبت ہو ہی کس " طرح سکتی ہے.اسی طرح ایک دفعہ کہنے لگے اگر یہ سٹیشن کا قانون پہلے نکلتا تو ہمارے والد صاحب ضرور قید ہو جاتے کیونکہ انھوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان قائم رکھنے کے لیے کسی مصیبت کی بھی پروا نہیں کرنی تھی.اس قسم کے الفاظ ممکن ہے محبت کی وجہ سے اُن کے منہ سے نکلے ہوں مگر ایسے الفاظ ہم لوگوں کے مونہوں سے جو مامورین کی حقیقی قدر و منزلت جانتے ہیں کبھی نہیں نکل سکتے.غرض الہام الہی کا ادب اور وقار احمدیت کی حد تک ان کے دل میں نہ تھا.اگرچہ وہ یقین رکھتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جھوٹے نہیں.ایسی قلبی کیفیت کے باوجود اللہ تعالیٰ نے انھیں ہدایت دی اور ایسے وقت میں دی کہ صاف طور پر وہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان معلوم ہوتا ہے.دسمبر ۱۹۳۰ء میں انھوں نے بیعت کی اور چھ مہینوں کے بعد وہ فوت ہو گئے، سے صاف طور پر پتہ چلتا ہے کہ ان کی بیعت الہی تصرف کے ماتحت ہوئی.اللہ تعالیٰ خوب جانتا تھا کہ اب یہ جلدی فوت ہو جانے والے ہیں اس لیے اگر انھوں نے بیعت نہ کی تو ایک مخزیہ رہ جائے گی.پس خدا نے انھیں بیعت میں جس داخل کر کے اس مخزیہ کو بھی دور فرما دیا.اس سے پہلے بعض دوست جب انھیں بیعت کے لیے کہتے تو وہ یہی جواب دیتے کہ میں یہ تو سمجھتا ہوں کہ سلسلہ سچا ہے مگر مجھے اس بات سے

Page 92

ابن سلطان القلم ~ 72 ~ سکتا بغیر ہے.شرم آتی ہے کہ اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کروں.قریباً سال بھر ان کی یہ حالت رہی اور اس سے پہلے ان کی یہ حالت تھی کہ وہ کہتے تھے یہ سلسلہ تو سچا ہے مگر ابھی میں نے فیصلہ کرنا ہے کہ لاہوری حق پر ہیں یا قادیانی جماعت.مجھے ان کے جب یہ خیالات معلوم ہوئے تو میں نے انھیں تحریک کی کہ اپنی احمدیت کا اعلان کر دیں کیونکہ اس سوال کا فیصلہ بھی تو ایک شخص حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لا اس پر انھوں نے اعلان کر دیا کہ میں سلسلہ احمدیہ میں تو داخل ہوتا ہوں مگر ابھی میں کہہ نہیں سکتا کہ قادیانی جماعت حق پر ہے یا لاہوری.اس اعلان کے ایک سال بعد انھیں شرح صدر ہو گیا اور انھیں یقین ہو گیا کہ جماعتِ قادیان ہی صداقت پر ہے اور یہی سلسلہ سچا ہے، مگر شرم یہ آتی کہ میں اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر کس طرح بیعت کروں.آخر ایک دن ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے.مرزا سلطان احمد صاحب بیعت کرنا چاہتے ہیں اور انھوں نے کہا ہے.میں تو چل نہیں سکتا، آپ کو کسی دن فرصه رصت ہو تو میری بیعت لے لیں.اس دن میری طبیعت اچھی نہیں تھی اور میں بیمار تھا مگر میں نے کہا میں ابھی ان کے پاس چلتا ہوں، ممکن.ہے بعد میں دل بدل جائے اور پھر یہ وقت ہاتھ نہ آئے، اس لیے میں اسی وقت گیا اور انھوں نے میری بیعت کر لی.ا الفضل قادیان مورخہ ۱ار جولائی ۱۹۳۱ء 166

Page 93

ابن سلطان القلم ~ 73 ~ حضرت مصلح موعود بیان اسی حوالے سے مزید فرماتے ہیں: ”مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کو بعض لوگ تبلیغ کرتے رہتے تھے.جب ان کی سمجھ میں بات آگئی تو انھوں نے کہا کہ اب اور تو کوئی روک نہیں ، صرف رم آتی ہے کہ چھوٹے بھائی کی بیعت کروں اور چھوٹے بھائی کے ہاتھ میں ہاتھ دوں.انھوں نے کہا کہ نہیں تو لاہور والوں کی جماعت میں ہی شامل ہو جائیں، تو انھوں نے کہا کہ وہاں تو میں شامل نہیں ہوتا، یہ کڑوا گھونٹ پی لوں گا.آخر وہ بیعت پر آمادہ ہوئے.بیعت کے بعد آپ کا اخلاص: حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے بیعت کے بعد اپنے قول وفعل سے انتہائی اخلاص اور اطاعت کا نمونہ پیش کیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے اس مخلصانہ کردار کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” بیعت کے بعد میں یہ دیکھتا رہا کہ ان کی بیعت خلوص دل سے ہے یا صرف ظاہری طور پر.مگر میں نے دیکھا بیعت سے پہلے میرے نام جو ان کے رقعے آتے تھے ان میں ایک ایسا رنگ پایا جاتا تھا جس طرح کوئی علیحدہ ہوتا ہے مگر بیعت کے بعد میرے نام ایک دن انھوں نے ایک رقعہ لکھا.میں نے اسے پڑھا اس کے نیچے میرزا سلطان احمد لکھا ہوا تھا مگر پڑھنے اور یہ یقین بعض اہم اور ضروری امور.انوار العلوم جلد ۱۶، صفحہ ۲۶۳

Page 94

ابن سلطان القلم ~ 74 ~ ہونے کے باوجود کہ یہ مرزا سلطان احمد صاحب نے ہی رقعہ لکھا ہے مجھے شبہ ہوا کہ یہ کسی اور نے نہ لکھا ہو کیونکہ وہ رقعہ اس قدر مخلصانہ انداز میں لکھا ہوا تھا اور اس قدر ادب اور احترام اس میں پایا جاتا تھا جس طرح پرانے مخلص احمدی خط لکھا کرتے ہیں.اس میں شبہ نہیں کہ انھیں ایسی حالت میں بیعت کی توفیق ملی جب ان کے قومی مضمحل ہو چکے تھے اور دوسروں کو ہی چار پائی سے اٹھانا پڑتا تھا اور دوسروں کو ہی کھلانا اور پلانا پڑتا تھا، مگر ہدایت دماغ کے ساتھ تعلق رکھتی ہے، ظاہری جسم کے ساتھ تعلق نہیں رکھتی.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لیے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی اس وقت تک توبہ قبول فرماتا ہے مَا لَمْ يُغَرْغِرُ جب تک نزع کی حالت نہیں آتی.گویا جب تک اس کا دماغ معطل نہیں ہوتا اللہ تعالیٰ دماغ کے موت کے اثر سے مؤثر ہو جانے سے پہلے پہلے ہر شخص کی توبہ کو قبول کر سکتا ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے کہ اس نے عین وفات کے قریب انھیں بیعت کی توفیق عطا فرمائی.بیعت کے بعد ان کے اندر اس قدر اخلاص پیدا ہو گیا تھا کہ مرزا سلطان محمد صاحب جب ایک دفعہ قادیان آئے تو بعض اور دوستوں اور میاں بشیر احمد صاحب کو بھی خیال آیا کہ انھیں تبلیغ کرنی چاہیے.چونکہ مرزا سلطان احمد صاحب سے ان کے پرانے تعلقات تھے اس لیے انھیں تحریک کی گئی کہ وہ

Page 95

ابن سلطان القلم ~ 75 ~ مرزا سلطان محمد صاحب کو تبلیغ کریں.چونکہ آپ چل نہیں سکتے تھے اس لیے دو آدمیوں کا سہارا لے کر اس مکان پر گئے جہاں مرزا سلطان محمد صاحب ٹھہرے ہوئے تھے.وہاں جاکر انھیں تبلیغ کی اور کہنے لگے جب تبلیغ کرنی ہے تو اپنے مکان پر بلا کر نہیں کرنی چاہیے بلکہ وہیں چلنا چاہیے جہاں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں.چنانچہ باوجود بیماری کی سخت تکلیف کے وہ وہاں گئے اور انھیں تبلیغ کی.پس اللہ تعالیٰ کا یہ ایک عظیم الشان فضل ہوا ہے کہ ہمارے رستہ میں جو ایک مخزیہ تھی.اللہ تعالیٰ نے اسے دور کر دیا اور جس طرح تائی صاحبہ کو بیعت میں داخل کر کے اللہ تعالیٰ نے الہام پورا کیا اسی طرح مرزا سلطان احمد صاحب کو بھی بیعت میں داخل کر کے اللہ تعالیٰ نے اس مخزیہ کو دور کر دیا جو آپ کے بیعت میں داخل نہ ہونے کی وجہ سے تھی.تین کو چار کرنے والا“: 166 محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب تاریخ احمدیت میں رقم طراز ہیں: حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مرزا سلطان احمد صاحب سے انتہا درجہ کی محبت و الفت تھی اور وہ اکثر حضرت اقدس علیہ السلام کے سامنے آپ کی بعض کتب کی تعریف کیا کرتے تھے اور منشا یہ ہوتا تھا کہ حضور کی ر کرم صاحبزادہ صاحب کی طرف ہو جائے اور ان کے لیے دعا فرمائیں.الفضل قادیان مورخہ ۱ ار جولائی ۱۹۳۱ء

Page 96

ابن سلطان القلم ~ 76 ~ ایک دفعہ آپ نے اپنے معمول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سامنے مرزا سلطان احمد صاحب کی ایک کتاب کا ذکر کیا تو حضور نے فرمایا: ”مرزا سلطان احمد سے کہو کہ خدا سے صلح کر لے“ لیکن صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی میں اپنے مقدس باپ کی بیعت کا موقع میسر نہ آیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انتقال کے بعد خلافتِ اولیٰ کا زمانہ آیا.مگر اب بھی حضرت خلیفہ المسیح اوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے خاص عقیدت کے باوجود صاحبزادہ صاحب سلسلہ احمدیہ میں داخل نہ ہوئے.اس کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خلافت کا دور شروع ہوگیا اور اب بظاہر مرزا سلطان احمد کے حق کی طرف آنے کا امکان یکسر ختم ہو گیا.کیونکہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی آپ کے چھوٹے بھائی تھے اور باہم عمر کا تفاوت اس درجہ تھا کہ مرزا سلطان احمد صاحب کی شادی انھی دنوں میں ہوئی تھی جن دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری شادی ہوئی تھی.چنانچہ وہ خود بھی حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی سے خلافتِ ثانیہ کے ابتدا میں یہ تذکرہ کیا کرتے تھے کہ بڑے مرزا صاحب زندہ ہوتے تو میں ان کی بیعت کر لیتا.اب میں اپنے چھوٹے بھائی کی بیعت کیا کروں.چنانچہ اسی تذبذب میں خلافت ثانیہ کے بھی ۱۵ سال گزر گئے اور عمر کا آخری حصہ آ پہنچا.ہاتھ پاؤں جواب دے گئے اور پاؤں کو بآسانی ہلانے کی سکت بھی باقی نہ رہی کہ یکایک

Page 97

ابن سلطان القلم ~ 77 - ~ انھوں نے دسمبر ۱۹۳۰ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر رض کر لی اور اس طرح حضرت مصلح موعود کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کے تین زندہ صلبی و روحانی بیٹوں (حضرت مصلح موعود، حضرت علیہ السلام مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب) میں مرزا سلطان احمد صاحب کا بھی اضافہ ہو گیا.عجیب بات یہ ہے کہ خود مرزا سلطان احمد صاحب کو بھی مدتوں قبل بذریعہ رویا یہ بتایا گیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کھڑے ہیں اور وہ بھی حضور علیہ السلام کے پاس ہیں اور وہاں ایک جگہ پر چار کرسیاں بچھی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ سے کہا کہ ایک کرسی پر تم بیٹھ جاؤ.“.حضرت مصلح موعود ” بیان فرماتے ہیں: میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کئی رنگ میں تین کو چار کرنے والا ہوں.166 (۱) اول اس طرح کہ مجھے سے پہلے مرزا سلطان احمد صاحب، مرزا فضل احمد.صاحب اور بشیر اول پیدا ہوئے اور چوتھا میں ہوا.(۲) دوسرے اس طرح کہ میرے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تین بیٹے ہوئے اور اس طرح میں نے ان تین کو چار کر دیا.یعنی مرز امبارک احمد ، مرزا شریف احمد ، مرز ابشیر احمد اور چوتھا میں.ا تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۲۹۰،۲۹۱

Page 98

ابن سلطان القلم ~ 78 ~ (۳) تیسرے اس طرح بھی میں تین کو چار کرنے والا ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندہ اولاد میں ہم صرف تین بھائی یعنی میں، مرزا بشیر احمد صاحب اور مرزا شریف احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان کے لحاظ سے آپ کے روحانی بیٹوں میں شامل تھے.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب آپ کی روحانی ذریت میں شامل نہیں تھے.انھوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے تین کو چار کرنے والا بنادیا.(۴) پھر اس لحاظ سے بھی میں تین کو چار کرنے والا ہوں کہ میں الہام کے چوتھے سال پیدا ہوا.۱۸۸۶ء میں حضرت مسیح موعود نے یہ پیشگوئی کی تھی اور ۱۸۸۹ء میں میری پیدائش ہوئی.166 اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذکر حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۲ مارچ ۱۹۴۴ء کو لاہور میں منعقد ہونے والے ایک جلسہ میں تقریر کرتے ہوئے بھی کیا.یہ تقریر میں ہی مصلح موعود کی پیشگوئی کا مصداق ہوں“ کے عنوان سے انوار العلوم جلد ۱۷ میں شامل ہے.الهامی شخص: حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اُردو کلاس نمبر ۳۳۶ میں حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا: ا الموعود.انوار العلوم جلد۱۷، صفحہ ۶۳۷

Page 99

وو ابن سلطان القلم ~ 79 ~ یہ حضرت مسیح موعود کے سب سے بڑے بچے تھے.میرے ابا جان فرمایا: ہے..سے بڑے تھے لیکن یہ پہلی بیگم میں سے تھے ان کا قصہ بڑا عجیب حضرت مسیح موعود کی دعائیہ نظموں میں ان کا نام نہیں آتا اس کی کیا وجہ ہے؟“ پھر خود ہی فرمایا: ”اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام الہام میں چھپا دیا تھا.مصلح موعود کے متعلق الہام یہ ہوا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا.تین بھائی تھے اور یہ چوتھے ہو گئے پیشگوئی اس میں یہ تھی کہ جب تک حضرت مصلح موعود خلیفہ نہیں ہوں گے اس وقت تک یہ بیعت نہیں کریں گے.حضرت مصلح موعود تین کو چار کرنے والے بنے.مرزا سلطان احمد صاحب بیعت نہیں کرتے تھے مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ان کے دل میں بہت احترام تھا.سچا کہتے تھے مگر بیعت نہیں کرتے تھے.لوگوں کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بیعت کیوں نہیں کرتے اور ان کو بھی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ بیعت کیوں نہیں کر رہے.یہ کہا کرتے تھے کہ میرے اعمال اتنے اچھے نہیں ہیں کہ میں اپنے باپ کی طرف منسوب ہوں.اس لیے ان کی طبیعت میں ایک انکسار تھا.ہمیشہ اپنے آپ کو چھوٹا کہتے تھے.بہت سادہ مزاج، بہت کثرت سے لوگوں پر احسان کیسے ہوئے ہیں.وجہ سے، بہت بڑے بڑے لوگ جو امیر کبیر خاندان بن گئے ہیں وہ ان کی وجہ.ان کے احسانات کی وجہ سے بنے ہیں، کیونکہ یہ حکومت میں اعلیٰ عہدے پر

Page 100

ابن سلطان القلم ~ 80 ~ فائز تھے.جہاں جاتے تھے وہاں لوگوں سے احسان کا تعلق ہوتا تھا اور ساتھ ہی طبیعت میں بہت انکسار، اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے تھے.کہتے تھے میں بیعت کس طرح کر سکتا ہوں، میرا باپ تو اتنا بڑا آدمی ہے، میں کچھ بھی نہیں ہوں.ان کو اصل وجہ پتہ نہیں تھی.اصل وجہ وہ الہام تھا.اس وقت تک بیعت نہیں کریں گے جب تک مرزا محمود احمد خلیفہ نہیں ہو گا.اس کا مطلب ہے اس وقت تک زندہ بھی رہیں گے.ان کے بڑے بیٹے کا نام مرزا عزیز احمد تھا.ہم ان کو بھائی جان عزیز احمد کہا کرتے تھے.مرزا عزیز احمد صاحب نے بیعت کر لی تھی لیکن انھوں نے نہیں کی، اس لیے لوگ حیران تھے کہ یہ کیا واقعہ ہوا.آخر ایک دن خود ہی پیغام بھیجا کہ میں آپ کی بیعت کرنا چاہتا ہوں.الہامی شخص بن گئے، کیونکہ ان کا نام ایک الہام میں تھا.ان کی پیدائش حضرت مصلح موعود سے بہت پہلے کی تھی.حضرت مصلح موعود کے متعلق حضرت مسیح موعود نے ۱۸۸۶ء میں پیشگوئی فرمائی اور ۱۸۸۹ء میں آپ کی ولادت ہوئی.مرزا سلطان احمد صاحب کی پیدائش ۱۸۵۱ء میں ہوئی (اس وقت حضرت مسیح موعود کی عمر ۱۶ سال کی تھی.) پیشگوئی یہ تھی کہ یہ زندہ رہے گا جب تک چھوٹا بیٹا خلیفہ نہ بن جائے.عمر کے آخر پر انھوں نے بیعت کرنی تھی.بیعت سے پہلے یہ فوت ا یہاں حضرت خلیفہ المسیح الرابع ” نے اردو کلاس میں انداز ا تاریخ پیدائش بیان کی ہے.

Page 101

ابن سلطان القلم ~ 81 - نہیں ہو سکتے تھے، یہ الہام تھا.انھوں نے ۱۹۳۰ء میں بیعت کی تھی.۱۹۳۰ء میں ان کی عمر ۸۰ سال تھی.دیکھو! پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی.۸۰ سال تک ان کی زندگی کی ضمانت تھی یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ پہلے مر جائیں.۸۰ سال کی عمر میں اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کی اور ۱۹۳۱ء میں وفات ہو گئی.صرف ایک سال موت سے پہلے بیعت کر لی.اس خاندان کے بڑے بڑے دلچسپ قصے ہیں.اس زمانے میں یہ ڈپٹی کمشنر کے طور پر ریٹائر ہوئے تھے.اس زمانے میں ڈپٹی کمشنر کا عہدہ بہت بڑا ہوا کرتا تھا.آج کل کے وزیروں کی بھی کوئی حیثیت نہیں، مگر اس وقت کے ڈپٹی کمشنر کو بڑے اختیار تھے.چنانچہ بہت سے خاندان جو اس وقت بہت امیر کبیر ہیں پاکستان میں اُن کا نام لینے کی ضرورت نہیں.چوٹی کے امیر خاندان ہیں.وہ اِن کے بنائے ہوئے ہیں.اُن کے والدین کے ان کے ساتھ تعلق تھے، اُن کو زمینیں الاٹ کیں، چیزیں الاٹ کیں، بے شمار امیر کر دیا اور اپنے اوپر ایک پیسہ خرچ نہیں کیا.اسی طرح بالکل سادہ مزاج، کوئی کمائی نہیں کی.ا روزنامه الفضل ۱۳/ مارچ ۱۹۹۹ء

Page 102

ابن سلطان القلم ~ 82 فصل دوم اپنی کمزوری: احمدیت میں داخل نہ ہونے کی وجوہ آپ ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور راستبازی، تقویٰ اور طہارت کے معترف رہے اور احمدیت میں داخل ہونے میں روک اپنی عملی کمزوری قرار دیتے.گویا اس وقت بھی آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی پر کوئی اعتراض نہیں کرتے تھے، بلکہ ان عقائد کے قبول نہ کرنے کی وجہ اپنی کمزوری بتاتے تھے.یہ بھی آپ کی سعادت کی بہت بڑی علامت تھی اور کیا عجب ہے کہ اسی کے نتیجہ میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان لانے کا شرف حاصل ہوا.اس پاک سلسلہ کی بد نامی نہ ہو : محترم راجہ علی محمد صاحب افسر مال راولپنڈی لکھتے ہیں: سید فقیر افتخار الدین صاحب جو لاہور کے رہنے والے تھے اور ضلع ہوشیار پور میں مہتمم بندوبست کے عہدہ پر فائز رہ کر بوجہ علالت ۱۹۱۳ء میں اس عہدہ سے سبکدوش ہوئے ان کے اور حضرت مرزا صاحب مرحوم کے آپس میں الفضل قادیان مورخہ ۷ / جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۳

Page 103

ابن سلطان القلم ~ 83.نہایت پرانی اور گہری دوستی و یگانگت کے تعلقات تھے اور ایسی دوستی کہ جس یا دنیاوی تعلقات میں بہت کم مثالیں ملتی ہیں.میں ۱۹۱۱ء میں فقیر صاحب کی پیشی میں تھا.مجھ پر بھی ان کی نظر عنایت عام مروجہ صورتوں سے بہت بڑھ کر تھی.میرے ساتھ ہمیشہ وہ اپنے عزیزوں سا سلوک فرماتے تھے.میں بھی کسی کسی موقع پر ان کی خدمت میں احمدیت کی صداقت کے متعلق عرض کر دیتا نے ایک دن اس ضمن میں فرمایا کہ میں اور مرزا سلطان احمد صاحب اس لیے غیر احمدی نہیں کہ ہم احمدیت کو حق اور صداقت نہیں سمجھتے، بلکہ ہم نہیں چاہتے کہ اس پاک سلسلہ میں ہمارے جیسے آدمی شامل ہو کر اس کی تھا.بدنامی کا موجب ہوں.166 میں دنیا داری میں گرفتار ہوں: حضرت سیّد شفیع احمد صاحب محقق دہلوی بیان کرتے ہیں کہ کسی نے حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب سے دریافت کیا کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو مان کیوں نہیں لیتے؟ جواب دیا: میں دنیا داری میں گرفتار ہوں اور میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ بیعت کر لینے کے بعد بھی میرے اندر دنیا کی نجاست موجود رہے...الفضل قادیان مورخہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۱۰ ۲ ”سیرت المہدی“ جلد سوم صفحه ۲۳۷، ۲۳۵ مطبوعہ قادیان اپریل ۱۹۳۹ء ،،

Page 104

ابن سلطان القلم ~ 84 میری حالت ایسی نہیں کہ بیعت کو نبھا سکوں: مکرم چودھری سعید احمد صاحب عالمگیر افسر خزانہ صدر انجمن احمد یہ تحریر کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نے فرمایا: ”حضرت والد صاحب جب میانوالی میں مال افسر تھے اور ابھی انھوں نے بیعت نہیں کی تھی ان کے پاس قادیان کے دو دوست بطور خدمت گار کے رہتے تھے.یعنی مکرم فضل الدین صاحب والد حسن دین صاحب درویش قادیان اور قاضی علی محمد صاحب ولد قاضی نور محمد صاحب.یہ دونوں اصحاب مخلص اور جو شیلے احمدی تھے.یہ حضرت والد صاحب کو ہر وقت تبلیغ کرتے رہتے تھے اور مجبور کرتے تھے کہ بیعت کر لی جائے.بعض اوقات ان کے اس رویہ سے والد صاحب چڑ بھی جایا کرتے تھے مگر یہ باز نہیں آتے تھے.چنانچہ میرے سامنے بھی کئی بار حضرت والد صاحب نے ان کو سرزنش کی.حضرت والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ان کے علاوہ اور بھی بھی بہت سے دوست مجھے بیعت کرنے کے لیے کہتے رہتے ہیں مگر میرا سب کو یہی جواب تھا کہ میں حضرت والد صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خوب جانتا ہوں، وہ بے شک اللہ تعالیٰ کے مرسل اور نبی ہیں مگر میری حالت ایسی نہیں کہ بیعت کو نبھا سکوں اور اسی لیے میں ان کی بیعت نہیں کرتا.“ ا روز نامه الفضل ربوه ۲۲/ اپریل ۱۹۷۳ء 166

Page 105

ابن سلطان القلم ~ 85 - حضور" کی تعلیم کی بجا آوری کی تاب نہیں رکھتا: محترم ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب مزید فرماتے ہیں: ~ آپ کی احمدیت سے وابستگی اس واقعہ سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ چند مخلص احمدی احباب جو آپ سے دوستانہ اور بے تکلفانہ تعلق رکھتے تھے آپ کی خدمت میں وفد کے طور پر حاضر ہوئے تاکہ انھیں حلقہ احمدیت میں لانے کی کوشش کریں.آپ نے ان کی باتوں کو سن کر فرمایا: میں اپنے والد صاحب کے مقام کو آپ سے زیادہ جانتا ہوں.ظاہری بیعت سے جو ڑ کا چلا آ رہا ہوں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں حضور علیہ السلام کی فرمودہ تعلیم کی بجا آوری کی تاب و تواں اپنے اندر نہیں رکھتا.“ آپ کی روح احمدیت کو قبول کیے ہوئے تھی: حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب فرماتے ہیں: حضرت مرزا سلطان احمد صاحب جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پہلی زوجہ محترمہ کے بطن سے تھے، نے ایک لمبے عرصے تک کھلے طور پر احمدیت قبول کرنے کا اعلان نہ کیا تھا لیکن آپ کی روح احمدیت کو قبول کیے ہوئے تھی.آپ نہایت درجہ فہیم، علم دوست اور بلند اخلاق کے ا ایاز محمود.صفحہ ۱۷۶

Page 106

ابن سلطان القلم ~ 86 ~ مالک تھے اور خوب سمجھتے تھے کہ اسلام کی روح جو اُن کے گرانقدر والد مسلمانوں میں پیدا کرنا چاہتے ہیں وہ روح مسلمانوں میں مفقود تھی اور خود مرزا سلطان احمد صاحب پر بھی ماحول نے اثر ڈالا ہوا تھا اور وہ اپنے آپ کو ان نقوش پر جن پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام چلانا چاہتے تھے کہ بندہ دنیا نہ رہے بلکہ بندہ خدا بن جائے، پر چلنے سے عاری سمجھتے تھے لیکن آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس استغنا سے بھی واقف تھے کہ خدا کی راہ میں حائل ہونے والے کو خواہ وہ حضور کا جگر گوشہ ہی کیوں نہ ہو ذرہ بھر وقعت نہ دی جائے.یہی وجہ ہے کہ آپ گوشہ تنہائی اور دور رہنے میں عافیت سمجھتے تھے لیکن اس کے باوجود ہر آن حضور کے حکم کی جو کاروبار دنیا کے متعلق ہوں تعمیل کرنے کو حرز جان سمجھتے تھے اور حضرت اقدس کی شخصیت کے متعلق نہایت غیرت رکھتے تھے.ادھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی جبر کے سخت خلاف تھے، بلکہ آپ کی ماموریت کا کارنامہ ہی یہ تھا کہ لوگوں کو اسلام کا حسین چہرہ دلائل، حسن اخلاق اور نور سماوی کی جھلک کے ذریعے دکھلائیں.حضور ہر گز یہ گوارہ نہ فرماتے تھے کہ اپنے بیٹے کو جبری حکم کے ذریعے اسلام کے جملہ احکام کا پابند فرمائیں.یہی وجہ ہے کہ باپ اور بیٹے میں بُعد جاری رہا.حتی کہ حضرت اقدس کا وصال ہو گیا اور احمدی دنیا اور دوسرے لوگ یہی سمجھتے رہے کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب احمدیت کے قائل نہیں لیکن خدائے علیم

Page 107

ابن سلطان القلم ~ 87.~ و بصیر ان کے دل کی حالت کو جانتا تھا کہ وہ نہ صرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے جسمانی بیٹے ہیں بلکہ ان کے روحانی فرزند ہونے کا بھی مقام - حاصل ہے جو اس لطف خداوندی سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت اقدس کے وصال کے روز آپ کو ”ماتم پرسی“ کے الہام سے نوازا اور آپ کے قلب میں اس کی یہ تعبیر ڈالی گئی کہ والد صاحب فوت ہو گئے ہیں لہذا آپ اس یقین کے ساتھ تمام روکوں کو دور کر کے اپنے دورہ کے مقام سے قادیان روانہ ہو گئے اور حضرت اقدس کے جنازہ میں شامل ہوئے.166 ایاز محمود صفحه ۱۷۵-۱۷۶

Page 108

ابن سلطان ال فصل 88- احمدیت سے وابستگی ”میاں محمود میرے بھائی ہیں“: فتنه احرار کے زور کے زمانہ میں چند متعصب لوگ جو غیر از جماعت تھے آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ آپ کی زمین کے دو چھوٹے ٹکڑے میاں محمود (حضرت خلیفۃ المسیح الثانی) آپ کی اجازت کے بغیر زیر کاشت لے آئے ہیں.اس پر آپ ان لوگوں پر سخت ناراض ہوئے اور فرمایا: فوڑا یہاں سے چلے جاؤ.میاں محمود میرے بھائی ہیں.اگر وہ میرے مکان کی چھت پر بھی ہل چلوا دیں تو بھی میں ان سے اختلاف نہیں کروں گا.“ یہ بظاہر ایک وقتی بات تھی لیکن اس کے اندر یہ شہادت پائی جاتی ہے کہ آپ بخوبی سمجھتے تھے کہ حضرت محمود " جس کارِ دین کو سرانجام دے رہے ہیں وہ وہی کام ہے جسے ان کے گرانقدر والد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سرانجام دے رہے تھے..یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے کسی کی زمین بلا اجازت کاشت نہیں کی تھی.یہ محض مخالفین کی شرارت اور افترا تھا.حضرت ایاز محمود.صفحہ ۱۷۶-۱۷۷

Page 109

ابن سلطان القلم ~ 89 - مرزا سلطان احمد صاحب نے فرض محال کے طور پر کہا ہے کہ اگر ایسا ہوا بھی ہو یا اس سے بڑھ کر اگر وہ میرے مکان پر ہل بھی چلا دیں تب بھی میں ان سے اختلاف نہیں کروں گا اور تم اپنی سازش اور فتنہ پردازی میں کامیاب نہیں ہو گے.جماعت کے لیے غیرت کا اظہار : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جب مخالفین نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے خلاف شر انگیز خبریں اُڑائیں اور یہ کوشش شروع کی کہ کسی طرح آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوسری زوجہ محترمہ حضرت اماں جان سیّدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی اولاد کی مخالفت پر آمادہ کیا جائے تو اس پر آپ نے ایک دوست کے نام مندرجہ ذیل خط تحریر فرمایا جو کہ پیسہ اخبار میں شائع ہو گیا تھا.د مکرم بنده! والا نامہ پہنچا.نفس پر مشکور فرمایا.ہمیشہ لوگ اپنی ذات پر اور اپنے دوسروں کا فیصلہ کیا کرتے ہیں.ذاتی کاوشوں کا مذہبی رنگ میں لا کر نتائج نکالنے کے عموما عادی ہوتے ہیں.جن جلد بازوں نے میرے متعلق یہ خبریں اُڑائیں انھوں نے یہ سمجھا کہ سچا اسلام صرف یہی ہے کہ ایک لڑکا اپنے باپ کے مرنے پر شرارت اُٹھائے اور فصل بندی کر دے، لیکن ان کو یہ معلوم نہ تھا کہ میں اس قسم کے اسلام سے بیزار ہوں اور میری رائے میں جو اسلام یہ

Page 110

ابن سلطان القلم ~ 90 سکھاتا ہے کہ باپ کی بے عزتی اور بے وقری کی جائے اور باپ کے پسماندگان کے ساتھ فساد کیا جائے وہ کفر اور ارتداد سے بھی بدتر ہے.اگر ایسے شرمناک اسلام کی وجہ سے بہشت بھی مل سکے تو میری رائے میں وہ دوزخ سے بھی بدتر ہے.لعنتی ہے وہ بیٹا اور کم بخت ہے وہ لڑکا جو باپ کی میت کو خراب کرے اور چھوٹے بھائیوں سے ناحق اُلجھے.مسلمان ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ ماں باپ کے قدموں کے نیچے بہشت اور دوسری طرف یہ امید رکھتے ہیں کہ ایک سمجھدار لڑکا باپ کی تخریب کا موجب ہو اور دین و دنیا میں روسیاہی سہیڑے.اور میں اگر یہ حرکت کرتا بھی تو کیا اس تصور پر کہ قادیان میں ان کی بدولت روز و شب قرآن کریم کی تلاوت اور اذان کی آواز گونجتی ہے.ست اعمال تھا.مجھے اسلامی جوش اس قدر مجبور کرتا کہ میں اس قدر مومن جاتا کہ قرآن خواں جماعت کو قادیان سے نکالنے کی فکر کرتا.حاشا وکلا...قادیان کی جماعت خدا کے فضل و کرم سے بمقابلہ میرے ہزاروں درجه نیک، متقی، عامل شریعت، شب بیدار اور پرستار خدائے لایزال ہے اور میرے اعمال آپ خوب جانتے ہیں کیا ہیں.کیا باوجود ان اعمال کے ایسی جماعت کی مخالفت کر سکتا ہوں.لوگ انھیں کافر سمجھیں اور قابل دار.وہ مجھ ہو سے حد درجہ نیک اور قابل عزت ہیں.....میں

Page 111

ابن سلطان القلم ~ 91 ~ مرزائی ٹولہ کو اگر خدا اپنی مرضی سے قادیان سے نکالے تو نکالے.نہ وہ سلطان احمد کے کہنے سے نکلتے ہیں اور نہ سلطان احمد ان کو نکالتا ہے بلکہ ان کی مناسب دلجوئی پر مستعد اور تیار ہے.میں کیا؟ کل خاندان سے کسی ایک نے بھی مخالفت نہیں کی.آخر غیرت بھی تو کوئی شے ہے اور وہ ہے اور وہ منجملہ فرائض اسلام آپ بالکل مطمئن رہیں نہ مجھ سے کوئی ایسی شرمناک حرکت سرزد ہوئی اور نہ ان شاء اللہ تعالیٰ ہو گی.سلطان احمد جالندھر ۲ / جون ۱۹۰۸ء۱ آپ کے مندرجہ بالا خط سے ظاہر ہوتا ہے کہ باوجود بیعت نہ کرنے اور دور دور رہنے کے آپ نے نہ صرف مخالفت نہ کی بلکہ نہایت غیرت کے.ہے.مندی کا ثبوت دیا اور انکسار دکھایا.”دلہن کو پہلے حضرت خلیفہ المسیح کے پاس لے جاؤ“: حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب بیان کرتے ہیں: ”حضرت والد صاحب نے اگر چہ ابھی بیعت نہ کی تھی مگر جماعت اور خلافت کے ساتھ اُن کو جو عقیدت تھی وہ مندرجہ ذیل واقعہ سے ظاہر ہے.میری پہلی شادی مکرم مرزا محمد اعظم بیگ صاحب کی دختر سے ہوئی.ہم بارات لے کر لاہور گئے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ساتھ الحکم ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۸ء ۲ ایاز محمود.صفحہ ۱۷۷-۱۷۹

Page 112

ابن سلطان القلم ~ 92 ~ تھے.ہم حضور کو اس وقت میاں صاحب کہہ کر پکارا کرتے تھے.ہمارا قیام فقیر افتخار الدین صاحب کے گھر پر تھا.بارات جب لاہور سے روانہ ہو کر بٹالہ کے اسٹیشن پر پہنچی تو حضرت نواب محمد علی خاں صاحب نے ہمیں لینے کے لیے دو رتھ بھجوائے ہوئے تھے.یہ ایک قسم کی پہلی ہوتی تھی جس کے دو بڑے بڑے پیسے ہوتے تھے اور بیل پا کرتے تھے) ان دنوں ابھی قادیان تک ریل نہیں گئی تھی.جب ہم قادیان پہنچے تو حضرت والد صاحب نے فرمایا کہ دُلہن کو گھر لے جانے کی بجائے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے پاس لے جاؤ اور دعا کے لیے جاؤ.چنانچہ...والد صاحب کے ارشاد کی تعمیل کر دی.' حضرت اماں جان سے دعا کی درخواست: آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جنازہ اور تدفین میں شمولیت کے بعد حضرت اماں جان کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ”میری بعض ذاتی غلطیاں تھیں جن کی وجہ سے میں پیچھے رہا، ورنہ میں نے کبھی حضرت کی مخالفت نہیں کی اور میں نے سنا ہے کہ بعض نادان لوگوں کا خیال ہے کہ میں جائیداد وغیرہ کے متعلق جھگڑا کرنا چاہتا ہوں، سو یہ بالکل غلط ہے.میں کوئی ا روز نامه الفضل ربوه ۲۲/ اپریل ۱۹۷۳ء

Page 113

ابن سلطان القلم ~ 93 ~ ایسا ارادہ کبھی نہیں کرتا اور میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ میرے واسطے دعا فرما دیں کہ میری کمزوریوں کو اللہ تعالیٰ دور فرما دے.خواجہ کمال الدین صاحب کی ایک مذموم کوشش: 166 خواجہ کمال الدین صاحب حضرت خلیفہ اول کی وفات کے وقت لندن میں تھے.آپ نومبر ۱۹۱۴ء میں حج بیت اللہ کر کے بمبئی پہنچے.واپسی پر خان بہادر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب بھی ان کے ساتھ تھے.گاڑی جب آگرہ کے قریب پہنچی تو خواجہ صاحب نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سے عرض کیا کہ در حقیقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جانشینی اور خلافت کے حقدار تو آپ ہیں.آپ ہمارے ساتھ لاہور چلیں اور خلافت کا اعلان فرمائیں اور ہم سب آپ کی بیعت کریں گے.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے ہنس کر جواب دیا کہ میں تو ابھی احمدی بھی نہیں.میرا خلافت کا کیا حق ہے؟" ا ” البدر “۴/ جون ۱۹۰۸ء صفحہ ۷ تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحه ۱۶۲

Page 114

ابن سلطان القلم ~ 94 ~ فصل چهارم والد ماجد کا غیر معمولی احترام ہمیشہ ادب اور تعظیم کو ملحوظ رکھا: حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب اپنے والد ماجد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بے حد عزت و احترام کرتے تھے اور آپ کی شان میں ذرا سی گستاخی بھی پسند نہ فرماتے تھے.شاید اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبول احمدیت کی توفیق عطا فرمائی.آپ کی سیرت کا یہ نمایاں وصف آپ کی فطری سعادت مندی اور نیک طینتی پر دلالت کرتا ہے.آپ کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے روزنامہ الفضل لکھتا ہے: باوجود بے حد خطرناک اور پیچیدہ حالات میں سے گزرنے کے جن میں شیطان کو اپنی شرارت کا بہت کچھ موقع مل سکتا ہے انھوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں کبھی کوئی بے ادبی کا کلمہ نہ کہا.بلکہ ہمیشہ پوری طرح ادب اور تعظیم کو ملحوظ رکھا.حتی کہ بعض ایسے مواقع پر جبکہ کسی فتنہ جو اور شرارت پسند نے ان کی حمایت کے پردہ میں حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا تو انھوں نے بڑی

Page 115

ابن سلطان القلم ~ 95 ~ غیرت اور حمیت کا اظہار کرتے ہوئے اس کے فعل کے خلاف سخت نفرت اور ناراضگی کا اظہار کیا.یہی وجہ تھی کہ مخالفین سلسلہ عالیہ احمدیہ کو آپ کی طرف کوئی بات منسوب کر کے شرارت کرنے کی جرات نہ ہوتی.دوست کے مذاق پر آپ کا اظہارِ غیرت: 166 محترم راجہ علی محمد صاحب افسر مال راولپنڈی ایک غیر احمدی دوسر افتخار الدین صاحب آف لاہور کی زبانی تحریر کرتے ہیں کہ ”مرزا سلطان احمد صاحب کے ساتھ اگرچہ میرے تعلقات بہت پرانے ہیں.ضلع ملتان میں جب ہم اکٹھے تھے اس سے بھی پہلے کے ہیں، لیکن ان کی صحیح سیرت کا مجھے تب ہی اندازہ ہوا جبکہ میں کابل میں برٹش ایجنٹ تھا اور حضرت مرزا صاحب ( مسیح موعود علیہ السلام) نے ۱۹۰۸ء میں رحلت دیا.فرمائی اور میں نے مذاق کے طور پر اپنے خط میں ان کو ”خدا کا پوتا“ لکھ میری اس حرکت سے مرزا سلطان احمد صاحب کو سخت رنج ہوا اور انھوں نے مجھے لکھا کہ افسوس ہے میرے اور تمہارے بہت قدیم سے تعلقات ہیں لیکن آج تک تم مجھے پہچان نہیں سکے اور میرے ساتھ سلسلہ خط و کتابت بند کر دیا، جس پر میں نے معافی مانگی.“ الفضل قادیان مورخہ ۷/ جولائی ۱۹۳۱ء الفضل قادیان مورخہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۳۱ء

Page 116

ابن سلطان القلم ~ 96 آپ کے دل میں حضرت اقدس علیہ السلام کا اس قدر احترام تھا کہ اپنے کسی عزیز دوست کو بھی آپ کے خلاف بات کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے اور سخت غیرت کا اظہار فرماتے تھے اور جب کوئی دشمن ایسا کرتا تو آپ کا رد عمل اس سے زیادہ سخت ہو تا.بشپ آف لاہور کی زبان درازی پر آپ کا رد عمل : محترم چودھری محمد علی صاحب مضطر ایم اے (وکیل التصنيف ربوہ) بیان کرتے ہیں کہ ان سے محترم کرنل داؤد صاحب مرحوم نے بیان کیا: ایک مرتبہ لاہور میں پنجاب کے سینئر افسران کی دعوت تھی جس میں علاوہ دیگر افسران کے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب بھی مدعو تھے.بشپ آف لاہور بھی وہاں موجود تھے.صاحبزادہ صاحب نے چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت نہیں کی تھی، بشپ صاحب نے غالباً اس خیال سے کہ یہ بھی حضرت اقدس علیہ السلام کے مخالفین میں شامل ہیں، آپ کے خلاف زبان درازی کرنی چاہی.صاحبزادہ صاحب نے انھیں دو ایک بار ایسا کرنے سے روکا لیکن وہ باز نہ آئے.جس پر صاحبزادہ صاحب نے کھانے سے بھری پلیٹ بشپ صاحب کو دے ماری.آپ اگرچہ ابھی تک حضرت اقدس علیہ السلام کی بیعت سے مشرف نہ ہوئے تھے لیکن آپ علیہ السلام کے لیے دل میں ایک غیرت اور احترام کا تعلق رکھتے تھے، لہذا آپ نے اس بات کی کوئی پروا نہ کی

Page 117

ابن سلطان القلم ~ 97 ~ کہ دعوت میں موجود حاضرین و افسران بشپ آف لاہور کے رویے کے خلاف آپ کے اس ردِ عمل پر کیا کہیں گے.166 ”وہ بے شک اللہ تعالیٰ کے مرسل اور نبی ہیں: مکرم چوہدری سعید احمد صاحب عالمگیر افسر خزانہ صدر انجمن احمدیہ تحریر کرتے ہیں: حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے گو بہت بعد میں بیعت کی مگر بیعت میں دیری کسی مخالفت کی بنا پر نہ تھی.آپ بار بار اپنے دوستوں کو فرمایا بہتر کرتے تھے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ سے جانتا ہوں مگر میں بیعت کی شرائط کو پورا کرنے کا اہل نہیں ہوں.اس بارہ میں حضرت مرزا عزیز احمد صاحب نے خاکسار کو جو واقعات سنائے ان سے واضح ہے ہوتا ہے کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بڑی قدر اور عزت تھی.چنانچہ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ والد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ بہت سے دوست مجھے بیعت کرنے کے لیے کہتے رہتے ہیں مگر میرا سب کو یہی جواب تھا کہ میں حضرت والد صاحب (یعنی حضرت مسیح موعود ا یہ روایت محترم چودھری محمد علی صاحب نے خاکسار سے بیان کی، جسے خاکسار نے لکھ کر آپ کی خدمت میں پیش کیا اور آپ کے ملاحظہ اور تصدیق کے بعد کتاب ہذا میں شامل کی.(مؤلف)

Page 118

ابن سلطان القلم ~ 98 علیہ الصلوۃ والسلام) کو خوب جانتا ہوں، وہ بے شک اللہ تعالیٰ کے مرسل اور نبی ہیں مگر میری حالت ایسی نہیں کہ بیعت کو نبھا سکوں اور اس لیے میں ان کی 166 بیعت نہیں کرتا.“ تمہارے تو دادا اور پیر بھی تھے“: حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب مزید بیان کرتے ہیں: ”جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وصال ہو گیا تو میں اپنے پہلے خسر کے گاؤں اعظم آباد میں تھا جو کہ کوٹ رادھا کشن ریلوے اسٹیشن کے پاس ہے.میرے خُسر اس وقت لاہور گئے ہوئے تھے جب اُن کو حضور کی وفات کا علم ہوا تو مجھے اطلاع کرنے کے لیے گاؤں واپس تشریف لائے اور مجھے قادیان جانے کے لیے کہا.اس کے بعد حضرت والد صاحب کی طرف سے بھی تار ملا مگر میں بیماری یا اپنی بدقسمتی کی وجہ سے وقت پر قادیان نہ پہنچ سکا.اس کے کچھ عرصہ بعد جب میں قادیان گیا تو حضرت والد صاحب مجھے حویلی کے احاطہ میں ملے اور فرمایا کہ ”میرے تو والد فوت ہو گئے تھے.تمہارے تو دادا اور پیر بھی تھے مگر تم وفات کے وقت نہیں آئے.تمھیں شرم کرنی چاہیے تھی.“ ا روزنامه ا امه الفضل ربوه ۲۲ اپریل ۱۹۷۳ء

Page 119

ابن سلطان القلم ~ 99 ~ حضرت والد صاحب نے مجھے اس سے سخت الفاظ پھر کبھی نہ کہے اور نہ کبھی اس واقعہ سے قبل کہے تھے حالانکہ حضرت والد صاحب نے ابھی تک حضور علیہ السلام کی بیعت بھی نہ کی تھی.حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کی تجدید بیعت: اپنے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے فرزند حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب علی گڑھ کالج میں زیر تعلیم تھے.ان دنوں کالج کے طلبہ نے اُستادوں کی مخالفت میں سٹرائیک کیا جس میں صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب بھی شریک ہوئے.چونکہ یہ امر سلسلہ کی تعلیم کے خلاف تھا اس لیے جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے صاحبزادہ صاحب کو خارج از بیعت کر دیا.اس پر صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نے ایک معافی نامہ حضرت اقدس کی خدمت میں ارسال کیا.محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ابا جان (حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب) فرمایا کرتے تھے کہ میں تو پریشان تھا ہی مگر ہمارے والد یعنی مرزا سلطان احمد صاحب اس قدر پریشان ہوئے کہ مجھے بار بار فرماتے تھے کہ جلدی معافی کا خط لکھو.حتی کہ جب ان کو معلوم ہوا کہ میں ستی کر رہا ہوں تو خود بٹھا کر مجھ سے معافی کا خط لکھوایا.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنے والد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت پر دل سے یقین رکھتے تھے." ا روزنامه الفضل ربوه ۲۲ اپریل ۱۹۷۳ء ۲ رسالہ المنار، جولائی اگست ۲۰۱۸.ٹی آئی کالج اولڈ سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن جرمنی

Page 120

ابن سلطان القلم ~ 100 ~ محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ معافی نامہ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنے ہاتھ سے لکھ کر ابا جان (حضرت مرزا عزیز احمد کو دیا تھا اور کہا تھا کہ اس کی نقل کر کے اپنے دستخطوں کے ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بھیجوا دو.چنانچہ والد صاحب نے یہ معافی نامہ نقل کیا اور اپنے دستخط کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھجوا دیا.ملفوظات جلد پنجم میں ”مرزا عزیز احمد کی تجدید بیعت“ کے زیر عنوان لکھا ہے: ”مرزا عزیز احمد صاحب نے میانوالی سے جہاں آپ بتقریب موسمی رخصت مقیم ہیں مفصلہ ذیل خط حضرت کی خدمت میں بھیجا: نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم بسم اللہ الرحمن الرحیم بخدمت امام زمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام السلام علیکم ورحمة الله وبركاته فدوی اپنے گذشتہ قصوروں کی معافی طلب کرتا ہے اور التجا کرتا ہے کہ اس خاکسار کی گذشتہ کوتاہیوں کو معاف کر کے زمرہ تابعین میں شامل کیا جائے.نیز اس عاجز کے حق میں دعا فرما دیں کہ آئندہ اللہ تعالی ثابت قدم رکھے.حضور کا عاجز عزیز احمد “ یہ بات محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے خاکسار سے بیان کی.(مؤلف)

Page 121

اس کے جواب میں حضرت صاحب نے فرمایا کہ: ابن سلطان القلم ~ 101 - ”ہم وہ قصور معاف کرتے ہیں.آئندہ اب تم پر ہیز گار اور سچے مسلمانوں کی طرح زندگی بسر کرو اور بُری صحبتوں سے پرہیز کرو.بُری صحبتوں کا انجام آخر بُرا ہی ہوا کرتا ہے.“ ~ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اس واقعہ کے ضمن میں فرماتے ہیں: ”جب صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب علی گڑھ کالج میں پڑھا کرتے تھے تو آپ سے یہ غلطی سرزد ہو گئی کہ آپ سٹوڈنٹس کی سٹرائیک میں شامل ہو گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انھیں فورا جماعت سے خارج کر دیا.اس پر مرزا عزیز احمد صاحب کو سخت صدمہ پہنچا.سوائے معافی نامہ پیش کرنے کے کوئی چارہ نہ تھا لیکن حضرت اقدس کا رعب و دبدبہ تھا کہ مرزا عزیز احمد صاحب کو اس کا مضمون نہ سوجھتا تھا.ایسے آڑے وقت میں ان کے والد مرزا سلطان احمد صاحب نے، جو کہ خود احمدیت میں داخل نہ ہوئے تھے لیکن حضرت مسیح موعود کے مزاج شناس تھے، معافی نامہ کا مضمون لکھ کر ان کو علیگڑھ بھیج دیا.چنانچہ اس معافی نامہ کے پہنچنے پر حضرت اقدس نے ان کو معاف کر دیا اور احمدیت کے قلعہ عافیت میں انھیں داخل کر لیا.یہ واقعہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا احمدیت کے ساتھ دلی وابستگی کا ثبوت بن گیا.“ ۱ بدر جلد ۶ نمبر ۴۲ مورخه ۷ ار اکتوبر ۱۹۰۷ء بحوالہ ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۱۷۳ الفضل ۱۱؍ دسمبر ۱۹۴۰ء بحواله محمود ایاز صفحه ۱۸۰

Page 122

ابن سلطان القلم ~ 102 ~ سٹرائیک میں شمولیت کے بارہ میں ضروری وضاحت: مکرم محترم چودھری محمد علی صاحب وکیل التصنیف بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نے خاکسار کو بتایا کہ وہ سٹرائیک میں شامل نہیں ہوئے تھے.خاکسار نے عرض کیا کہ پھر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں وضاحت کیوں نہ پیش کی؟ تو صاحبزادہ صاحب آبدیدہ ہو گئے اور فرمانے لگے: آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دیکھا نہیں.میں ان کے سامنے کیا وضاحت کرتا.میں سٹرائیک میں تو شامل نہیں ہوا تھا لیکن کلاس میں بھی نہیں گیا تھا، جبکہ دوسرے احمد می طلبہ کلاس میں شامل ہوئے تھے.166 یہ بیان اپنے اندر ایک لطافت اور محبت سمیٹے ہوئے ہے.اس سے اصحاب احمد کے کمال ادب کا بھی اندازہ ہوتا ہے اور ان کی اطاعت کے معیار کا بھی پتہ چلتا ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے سٹرائیک میں شمولیت نہ کی تاہم کلاس میں نہ جانے کو ہی حضور کی تعلیمات کی نافرمانی پر محمول کیا.نیز اپنی براءت پیش کرنے کی بجائے مقام ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے معافی کے راستے کو اختیار کیا.یہ تھے اصحاب احمد جنھوں نے اولین کے نمونوں کو زندہ کر دکھایا.ا یہ روایت محترم چودھری محمد علی صاحب نے خاکسار سے بیان کی.(مؤلف)

Page 123

باب چهارم: ابن سلطان القلم ~ 103 - وفات ، افضال الہیہ ، اخلاق فاضلہ فصل اول ~ حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو عوارض اور بڑھاپے نے بہت کمزور کر دیا تھا.آخری بیماری میں بالکل صاحب فراش ہو گئے تھے لیکن حواس میں کسی قسم کا فرق نہ آیا تھا.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب آپ کے آخری ایام کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ”حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم اپنی لمبی بیماری کی ابتدا میں جو انھیں پنشن کے کچھ عرصہ بعد لاحق ہو گئی تھی لاہور میں تشریف فرما تھے اور پہلے پہل ان کے مرض کا علاج معالجہ ہوتا رہا.مگر کچھ عرصہ بعد آپ قادیان تشریف لے آئے.یہاں بھی علاج معالجہ کا سلسلہ جاری رہا لیکن اگر اس کا کچھ فائدہ بیان کیا جاسکتا ہے تو صرف اس قدر کہ مرض نے زیادہ تدریجی رنگ اختیار کر لیا.مرزا صاحب مرحوم کی بیماری کی کیفیت یہ تھی کہ ٹانگوں پر سختی واقع ہو گئی تھی جس کی وجہ سے تھوڑے وقت کے لیے بھی سیدھا کھڑے نہ رہ سکتے تھے، بلکہ آگے کی طرف قدم لینے پر مجبور ہو جاتے

Page 124

ابن سلطان القلم ~ 104 ~ تھے اور وہ بھی اس طرح جیسے کوئی لڑکھڑا رہا ہے لیکن یہ طاقت بھی آہستہ آہستہ مفقود ہو گئی اور آپ چارپائی پر لیٹنے پر مجبور ہو گئے.لمبی اور آخری بیماری کے دوران میں خاکسار کو بھی بہت کچھ خدمات کا موقع ملتا رہا.میں نے مرزا صاحب مرحوم کو کبھی مغموم نہ پایا اور 166 اکثر لطائف کے رنگ میں بات کرتے تھے.“ جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی بیعت لینے کے لیے بنفس نفیس تشریف فرما ہوئے تو اس وقت صاحبزادہ صاحب بستر علالت پر تھے.حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ ”مرزا سلطان احمد صاحب کی طبیعت اس وقت اچھی تھی.کوئی بخار وغیرہ یا کسی قسم کا عارضہ نہ تھا.بجز اس تدریجی کمزوری کے جو لاتوں میں پیدا ہو گئی تھی اور شدید قبض کی شکایت تھی.آپ اسی حالت میں لاتوں کی کمزوری کی وجہ سے لیٹے رہنے پر مجبور تھے مگر آپ کے علمی مشاغل جاری تھے مثلاً ،، اخبار پڑھنا وغیرہ..“ باوجود اس ضعف و نقاہت کے آپ نے اپنی زندگی بھر کے رفیق کتاب و قلم کو نہیں چھوڑا.ہاتھوں میں رعشہ کی وجہ سے خود لکھ نہیں سکتے تھے اس لیے خطوں وغیرہ کا جواب املا کروایا کرتے تھے اور آخر تک یہی الفضل قادیان ۱۱؍ دسمبر ۱۹۴۰ء الفضل قادیان ۱۱؍ دسمبر ۱۹۴۰ء

Page 125

ابن سلطان القلم ~ 105 - ~ خواہش رہتی تھی کہ کوئی کتاب پڑھنے کو میسر آجائے.آپ کا علمی مشاغل میں اس قدر شغف دیکھ کر غالب کا یہ شعر یاد آجاتا ہے گو ہاتھ میں جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے مکرم فقیر سید وحید الدین صاحب بیان کرتے ہیں: ”مرزا سلطان احمد پر فالج کا حملہ جان لیوا ثابت ہوا.علاج معالجے کے لیے انھیں لاہور لایا گیا.راقم الحروف کے ایک بزرگ سید اصغر علی شاہ کے ہاں اُن کا قیام رہا.یہ مکان ہمارے مکان سے ملحق تھا.میں اکثر مرزا صاحب کی خدمت میں حاضر ہوتا.اپنے خطوں کے جوابات وہ مجھ سے لکھواتے.میرے لیے بڑی مشکل کا سامنا تھا.مرزا صاحب بیمار ہونے کے باوجود روانی کے ساتھ خط کی عبارت فرفر بولتے اور میں اپنی بدخطی چھپانے کے لیے آہستہ لکھتا.میری شست نگاری، اُن کی زود گوئی کا ساتھ کہاں دے سکتی تھی.جب میں خط لکھ چکتا تو مرزا صاحب اُسے پڑھتے اور میں اُن کے تیوروں سے بھانپ لیتا کہ میری تحریر سے وہ مطمئن نہیں ہیں بلکہ کچھ دل گرفتہ ہی ہیں.میں دل ہی دل میں شرمندہ ہوتا.مجھے اُن کا ایک جملہ جو انھوں نے اپنے دوست کے خط میں مجھ سے لکھوایا تھا، آج تک یاد ہے: یہ خط وہ شخص کسی اور سے لکھوانے کا محتاج ہے، جو جب قلم اُٹھاتا تھا تو صفحے کے صفحے بے تکان لکھتا چلا جاتا اور پھر بھی اُس کا قلم وو رکنے کا نام نہ لیتا.“ بھی

Page 126

ابن سلطان القلم ~ 106 ~ اس بیماری سے وہ جانبر نہ ہو سکے.چند دن کے لیے طبیعت بحال بھی ہوئی تو وہ موت کا سنبھالا تھا.“ وفات: 166 حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب طویل علالت کے دوران نمونیا کا حملہ ہونے کی وجہ سے ۲ / جولائی ۱۹۳۱ء بروز جمعرات صبح کے وقت انتقال فرما گئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کا انجام نہایت ہی مبارک کیا.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نعش کو مقبرہ بہشتی کے اس احاطہ میں دفن کرنے کا فیصلہ فرمایا جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مزار ہے اور خدا تعالیٰ نے حقیقی طور پر حضرت مرزا صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذریت میں داخل کرنے کا نشان قائم کیا.شام پونے پانچ بجے کے قریب جنازہ اٹھایا گیا اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ایک بہت بڑے مجمع کے ساتھ باغ میں نماز جنازہ پڑھائی اور لمبی دعا کی.نماز جنازہ کے بعد سب مجمع کو شکل دکھائی گئی.حضرت خلیفة المسیح الثانی نے جنازہ کو کندھا دیا اور لاش اٹھا کر قبر میں رکھی.اس وقت انجمن صفحہ ۱۴۱،۱۴۲.از جناب فقیر سید وحید الدین صاحب

Page 127

ابن سلطان القلم ~ 107 ~ جبکہ قبر میں مٹی ڈالی جا رہی تھی حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر دُعا کی.پھر سیدہ امتہ الحی صاحبہ مرحومہ کی قبر پر دعا کی.بالآخر حضرت مرزا صاحب مرحوم کی قبر پر دُعا کر کے واپس تشریف لائے.حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب کا عریضہ تعزیت: چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ۴ جولائی ۱۹۳۱ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک عریضہ تعزیت ارسال کیا.اس میں لکھا: آج الفضل میں جناب میرزا سلطان احمد صاحب کی وفات کی خبر پڑھی إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ مُجھے جب کبھی مرحوم کی بیماری کے آخری ایام میں مرحوم کی خدمت میں حاضر ہونے کا اتفاق ہوا تو مرحوم کو دیکھ کر مصرع میری زبان پر جاری ہو جایا کرتا تھا: ،، دھوئے گئے ہم اتنے کہ بس پاک ہو گئے ““ الفضل قادیان ۱۶ جون ۱۹۳۱ء ۲ تاریخ احمدیت جلد پنجم صفحه ۲۸۷

Page 128

ابن سلطان القلم ~ 108 ~ وفات کی خبر مختلف رسائل میں ہمہ گیر و همه رس انشا پرداز ہمہ : حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا انتقال ادب اردو کے لیے بہت بڑا نقصان تھا جو ادبی حلقوں میں بہت محسوس کیا گیا.مثلاً ”ادبی دنیا“ کے ایڈیٹر جناب احسان اللہ خاں تاجور نجیب آبادی (۱۸۹۴-۱۹۵۱ء) نے اپنے رسالہ میں آپ کی تصویر دے کر یہ نوٹ شائع کیا کہ دنیائے ادب اس ماہ اردو کے نامور بلند نظر اور فاضل ادیب خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب سے بھی محروم ہو گئی.آپ نہایت قابل انشا پرداز تھے.اردو کا کوئی حصہ ان کی رشحات قلم سے محروم نہ رہا ہو گا.قانون و عدالت کی اہم مصروفیتوں کے باوجود بھی مضامین لکھنے کے لیے وقت نکال لیتے تھے.بہت جلد مضمون لکھتے تھے.عدالت میں ذرا سی فرصت ملی تو وہیں ایک مضمون لکھ کر کسی رسالہ کی فرمائش پوری کر دی.اردو زبان کے بہت سے مضمون نگاروں نے ان کی طرز انشا کو سامنے رکھ کر لکھنا سیکھا.افسوس کہ ایسا ہمہ گیر و ہمہ رس انشا پرداز موت کے ہاتھوں نے ہم سے چھین لیا.مرزا صاحب مرحوم سیلف میڈ (خودساز) لوگوں میں سے تھے.آپ نے پٹواری کی حیثیت سے ملازمت شروع کی اور ڈپٹی کمشنر تک ترقی کی.آپ مرزا غلام احمد صاحب (مسیح موعود ) کے فرزند تھے...اردو میں بیش قیمت

Page 129

ابن سلطان القلم ~ 109 - ~ لٹریچر آپ نے اپنی یادگار کے طور پر چھوڑا ہے.علم اخلاق پر آپ کی کتابیں اردو زبان کی قابل قدر تصانیف میں سے ہیں.محسن علم و ادب: 166 انجمن حمایت اسلام لاہور کے ترجمان رسالہ ”حمایت اسلام“ ۹/ جولائی ۱۹۳۱ء نے لکھا: ” یہ خبر گہرے حزن و ملال کے ساتھ سنی جائے گی کہ مرزا غلام احمد قادیانی کے بڑے صاحبزادے خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب جو پراونشل سول سروس کے ایک ہر دلعزیز اور نیک نام افسر تھے اس جہان فانی رحلت کر گئے.خان بہادر صاحب مرحوم نے علم و ادب پر جو احسانات کیے ہیں وہ کبھی آسانی سے فراموش نہیں کیے جاسکتے.ان کے شغف علمی کا اس امر سے پتہ چل سکتا ہے کہ وہ ملازمت کی انتہائی مصروفیتوں کے باوجود گراں بہا مضامین کے سلسلے میں پیہم جگر کاری کرتے رہے.ہمیں مرحوم کے عزیزوں اور دوستوں سے اس حادثہ میں دلی ہمدردی ہے.باری تعالیٰ مرحوم کو فردوس کی نعمتیں اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.“ ٢،، ادبی دنیا لاہور اگست ۱۹۳۱ء صفحہ ۶۹ حمایت اسلام، لاہور ۹/ جولائی ۱۹۳۱ء صفحہ ۴

Page 130

ابن سلطان القلم ~ 110 ~ فصل دوم افضال الہیہ، خدمات جلیلہ ، اخلاق فاضلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشابہت: حضرت مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کی شکل و شباہت بہت کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشابہ تھی اور کچھ لکھا ہوا پڑھتے وقت گنگنانے کی آواز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز سے بالکل ملتی تھی.اکثر لوگ ان سے ملاقات کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شبیہ مبارک کی یاد تازہ کر کے مسرت حاصل کیا کرتے تھے.آپ نہایت متواضع اور وسیع الاخلاق انسان تھے.قوت تحریر اور زور قلم آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے 1 ورثہ میں پایا تھا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر کے کام کا طریق کار بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: (آپ) لکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی تحریر کو پڑھتے بھی جاتے تھے اور آپ کی عادت تھی کہ جب آپ اپنے طور پر پڑھتے تو آپ کے ہونٹوں سے گنگنانے کی آواز آتی تھی اور سننے والا الفاظ صاف نہیں سمجھ سکتا تھا.خاکسار ا الفضل ۴ جولائی ۱۹۳۱ء

Page 131

ابن سلطان القلم ~ 111 - نے مرزا سلطان احمد صاحب کو پڑھتے سنا ہے ان کا طریق حضرت صاحب کے طریق سے بہت ملتا ہے.“ حضرت اقدس کے مکان میں: حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ کے مکان میں رہنے کا شرف حاصل رہا، جس کی تصدیق بعض روایات کرتی ہیں.۱۸۷۷ء میں حضرت اماں جان کے والد حضرت میر ناصر نواب صاحب کا تبادلہ کچھ عرصہ کے لیے قادیان میں ہو گیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم ے لکھتے ہیں کہ حضرت والدہ صاحبہ نے مجھے وہ کمرہ دکھایا جس میں اُن دنوں میں حضرت صاحب رہتے تھے.آج کل وہ کمرہ مرزا سلطان احمد صاحب کے قبضہ میں ہے." اسی طرح حضرت میاں معراج الدین عمر صاحب کی ایک روایت کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش اُس مکان میں ہوئی جو حضور علیہ السلام کا آبائی گھر تھا، جو بعد میں صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب اور ان کی اولاد کے پاس آیا." ا سیرت المہدی جلد اول صفحه ۱۵ ۲ سیرت المہدی جلد اول صفحه ۴۴ الحکم ۱۴ر اگست ۱۹۳۵ء

Page 132

ابن سلطان القلم ~ 112 ~ حضرت اقدس کی میزبانی کا شرف: ۱۸۹۰ء حضرت اقدس علیہ السلام کئی ماہ تک شدید بیمار رہے حتی کہ بظاہر زندگی کی امید منقطع ہو گئی.بیماری کا یہ حملہ مارچ ۱۸۹۰ء کے آخری ہفتہ میں ہوا.مئی میں آپ ڈاکٹری علاج کے لیے لاہور تشریف لائے اور اپنے فرزند اکبر صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نائب تحصیلدار کے مکان پر ٹھہرے اور مشہور ناولسٹ مسٹر احمد حسین کے والد ڈاکٹر محمد حسین صاحب کے زیر علاج رہے.1 حضرت اقدس اُس وقت تک جبکہ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب لاہور میں تھے اگر کبھی لاہور تشریف لے جاتے تو ان کے پاس قیام کرتے تھے.یہ ان کی سعادتمندی کا ثبوت ہے." حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی شفقت: حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب فرماتے ہیں: ایک دفعہ گھر میں کوئی بیمار ہوا تو رات کے وقت حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے خاکسار کو حضرت خلیفۃ المسیح الاول " کی خدمت میں بھیجا.خاکسار حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کو بیمار دیکھنے کے لیے عرض تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحه ۳۸۴ حیات احمد جلد دوم صفحہ ۳۹۶.جدید ایڈیشن

Page 133

ابن سلطان القلم ~ 113 ~ کیا.آپ نے معائنہ کے بعد دوا تجویز کی.حضرت مرزا سلطان صاحب رات بے وقت تکلیف دینے پر معذرت کرنے لگے.حضرت خلیفہ اول نے وفورِ محبت آپ کے گلے میں باہیں ڈال دیں اور فرمایا: ”میاں! تکلیف کیسی؟ ہم تو تمہارے غلام بلکہ تمہارے غلاموں کے بھی غلام ہیں.لائبریری کی معاونت: 166 انجمن دسمبر ۱۹۱۶ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے اپنی تمام بیش بہا کتابوں کا ذخیرہ صدر انجمن احمدیہ کے نام وقف کر دیا اور صدر احمدیہ نے حضرت خلیفہ اول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کتب خانہ اور تشخیز اور ریویو کی لائبریری میں اسے مدغم کر کے ایک مستقل مرکزی لائبریری ”صادق لائبریری“ کے نام پر قائم کر دی.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے اپنی لائبریری بھی اس میں شامل کر دی.۱۹۴۷ء میں اس کا بیشتر حصہ قادیان میں رہ گیا.تاہم جو کتابیں بھی لائی جاسکیں وہ از سر نو مرتب کی گئیں اور دوبارہ ربوہ میں اس کا قیام عمل میں آیا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ارشاد پر مئی ۱۹۵۲ء کو یہ مرکزی لائبریری اور حضور کی ذاتی لائبریری دونوں ملا کر ایک کر دی گئیں اور اس مجموعہ کا نام خلافت لائبریری رکھا گیا." ا بروایت صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب تاریخ احمدیت جلد چهارم صفحه ۱۹۴

Page 134

ابن سلطان القلم ~ 114 تعلیم الاسلام کو عطیہ : حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب جن کا نکاح لاہور ہو چکا تھا.آپ اپنی دلہن کو لے کر قادیان تشریف لے آئے.سب سے پہلے دلہا دلہن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے حضور حاضر ہوئے اور بیعت کی.اس کے بعد قادیان میں بھی ولیمہ ہوا.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے.آپ نے اس خوشی میں مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کو ایک سو روپیہ دیا اور پھر جلد واپس تشریف لے گئے.وو حیات احمد کی تالیف میں معاونت: آپ کی خدمات میں اس خدمت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی کے کئی واقعات کے راوی اور آپ کی سیرت کے کئی پہلوؤں کے شاہد ہیں.چنانچہ اس سلسلے میں آپ نے کئی روایات ایسی بیان فرمائیں جو آج جماعتی تاریخ کا اہم حصہ ہیں.اس کے علاوہ آپ نے ”حیاتِ احمد کے کئی واقعات کی تصدیق و توثیق یا اصلاح بھی فرمائی.حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب مؤلف ”حیات احمد تحریر فرماتے ہیں: میں نے خان بہادر میرزا سلطان احمد صاحب اور مرزا فضل احمد صاحب مرحوم سے بھی واقعات اور حالات کی توثیق کرائی.اس کے متعلق میر اطریق عمل یہ ۱ بدر ۵/ جنوری ۱۹۱۱ء

Page 135

ابن سلطان القلم ~ 115 ~ تھا کہ میں خان بہادر صاحب سے بعض واقعات بیان کرتا اور ان سے توثیق چاہتا اور وہ ان کو ، اگر وہ صحیح ہوتے تو اسی طرح تصدیق کرتے اور یا جو اس میں اصلیت ہوتی اس کو 166 بیان کر دیتے.مرزا فضل احمد صاحب مرحوم سے مجھے بہت زیادہ وقت نہیں ملا.“ سفر ولایت اور حج بیت اللہ : حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے ۱۹۱۳ء یا ۱۹۱۴ء میں سفر ولایت بھی کیا اور حج بیت اللہ اور زیارت روضہ نبی کریم سے بھی مشرف ہوئے تھے.آپ کے سفر یورپ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ” انگریزوں کے متعلق عام طور پر کہا جاتا ہے کہ کہ وہ بڑے دولت مند ہیں حالانکہ ان میں بڑے بڑے غریب بھی ہوتے ہیں.ہمارے بڑے بھائی مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم و مغفور نے ایک دفعہ سنایا کہ جب وہ لنڈن میں تھے تو ایک دن جس مکان میں وہ رہتے تھے اس کا کوڑا کرکٹ اٹھا کر خادمہ نے جب باہر پھینکا تو ایک انگریز لڑکا دوڑ کر آیا اور اس نے کوڑا کرکٹ کے ڈھیر میں سے ڈبل روٹی کا ایک ٹکڑا نکال کر کھالیا.حیات احمد جلد اول صفحہ ۴۲۷، ۴۲۸- جدید ایڈیشن نیرنگ خیال جوبلی نمبر.مئی جون ۱۹۳۴، ص ۲۹۲ خلافت راشده، انوار العلوم جلد ۱۵ صفحه ۵۴۹ ،،

Page 136

ابن سلطان القلم ~ 116 ~ آل انڈیا مسلم کا نفرنس دہلی میں شرکت: ہندوستان کے مسلمان، ہندو اور دیگر قومیں انگریزوں سے آزادی کی جد وجہد میں مصروف تھیں.کانگریس کی منعقدہ آل پارٹیز کنوینشن میں مسلمانوں کے مطالبات کو پامال کر دیا گیا، جس کی وجہ سے ہندو مسلم اتحاد نہ ہو سکا.نتیجہ مسلمانوں کی تمام مشہور مذہبی و سیاسی جماعتوں کے نمائندے دہلی میں جمع ہوئے اور ۳۱ دسمبر ۱۹۲۸ء سے ۲ جنوری ۱۹۲۹ء تک آل انڈیا مسلم کا نفرنس کا انعقاد کیا، جس میں مختلف جماعتوں کے نمائندے اور سر بر آوردہ ارکان شامل ہوئے.ان سر بر آوردہ لوگوں میں جناب مرزا سلطان احمد صاحب بھی شامل تھے.' خاندان کے بارہ میں حکام کے خطوط وسندات : حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے آباؤ اجداد ایک بہت بڑی ریاست کے خود مختار مالک تھے اور ان کے مغلیہ سلطنت کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے، لہذا ان کو مغلیہ سلطنت سے گاہے گاہے خوشنودی کی اسناد اور تعریفی خطوط محفوظ موصول ہوتے رہتے تھے، جو صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے پاس تھے اور انھوں نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو دیے جو سیرت المہدی میں درج ہو کر اب جماعتی تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں." ا تاریخ احمدیت جلد ۵ صفحہ ۸۳ ۱۱۷۱.جدید ایڈیشن ۲ سیرت المہدی ، جلد اول روایت نمبر ۷۲۱

Page 137

ابن سلطان القلم ~ 117 - ~ بیٹے کے استاد کی تکریم: حضرت ماسٹر عبد الرحمن صاحب سابق مہر سنگھ بیان کرتے ہیں: صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب نبیرہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام) نے جب دسویں جماعت کا امتحان دینا تھا تو میں ان کو گھر میں پڑھایا کرتا تھا.میں ان کے ساتھ بٹالہ گیا جہاں اُنھوں نے امتحان دینا تھا اور ان کے امتحان کے لیے جانے سے قبل میں دو نفل پڑھتا تھا.ایک روز میں نے سلام پھیرتے ہی جلدی سے انھیں کہا کہ فلاں سوال نہیں آتا تو جلدی سے کر لو، یہ امتحان میں آئے گا.چنانچہ وہ سوال امتحان میں آگیا.ان کے کامیاب ہونے پر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے ایک تھالی مٹھائی اور بیس روپے بھجوائے.ماسٹر صاحب نے روپے لینے کی بجائے یہ پسند کیا کہ محلہ دار الفضل والی سات آٹھ کنال اراضی کے مالکانہ حقوق ان کو منتقل کر دیے جائیں جو آپ نے خرید کی ہوئی تھی.چنانچہ حضرت ممدوح نے ایسا ہی کر دیا.بیٹے کو نصائح: محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ابن حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ ”جب ہمارے والد صاحب ملازم ہوئے تو دادا جان صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے تین باتیں انھیں بطور نصیحت بیان فرمائیں.فرمایا: اصحاب احمد جلد ہفتم ۹۷ ۹۶ جدید ایڈیشن

Page 138

ابن سلطان القلم ~ 118 ~ بات جس کے بارے میں مجھے یقین ہے کہ تم کبھی اس کے مر تکب نہ ہو گے یعنی رشوت نہیں لو گے.دوسرے اگر کبھی تمہارا کوئی ماتحت کسی سے تھوڑے بہت پیسے لے لے تو اس پر زیادہ سختی نہ کرنا.تیسرے اگر کوئی شخص تمہارے پاس آئے تو اسے انتظار نہ کروانا.“ محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے مؤخر الذکر بات سے متعلق بتایا کہ ہم نے ہمیشہ یہ بات والد صاحب کی زندگی میں مشاہدہ کی ہے کہ وہ کبھی کسی کو انتظار نہ کرواتے تھے اور ہمیشہ اس طرح بیٹھتے تھے کہ آنے والے کی طرف دھیان رہے.جب آنے والے کو دیکھتے تو فورا بلا لیتے.غیرت دینی محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ابن حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ والد صاحب مرحوم حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان حمد صاحب کا ایک واقعہ ہمیں بتایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک انگریز افسر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے خلاف بہت بیہودہ گوئی کی.حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے اسے کہا دو عورتیں ہیں جن پر الزام تراشی کی جاتی ہے ایک وہ تھی جو کنواری ہوتے ہوئے حاملہ ہو گئی اور ایک ا نصائح اور غیرت دینی کا واقعہ محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب ناظر دیوان نے خاکسار سے بیان کیا.(مؤلف)

Page 139

ابن سلطان القلم ~ 119 - شادی شدہ ہو کر بھی حاملہ نہ ہوئی.اس جواب پر وہ انگریز افسر شرمندہ اور لا جواب ہو کر رہ گیا.لیکھرام کو مبانے کا چیلنج: آریا سماج کا لیڈر پنڈت لیکھرام ۱۹/ نومبر ۱۸۸۵ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نشان نمائی کی دعوت کے سلسلہ میں مرزا نظام الدین وغیرہ کی ترغیب پر قادیان آیا تھا.لیکھرام اپنی مجلسوں میں بھی اسلام پر سوقیانہ حملے کرتا تھا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی اطلاع مرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کو ہوئی اور ان کو غیرت دینی کے لیے اس قدر جوش آیا کہ انھوں نے لیکھرام کو مباحثہ کا چیلنج دیا.یہ شوخی لیکھرام کی مسئلہ جنت پر تھی.قادیان کے مسلمانوں میں بھی جوش پیدا ہو گیا اور مرزا سلطان احمد صاحب پورے تیار ہو کر بازار کو چلے بھی گئے مگر عقلمند ہندؤوں نے سمجھا کہ اس میں خیر نہ ہو گی.اس وقت کو ٹلا دیا اور لیکھرام کو باہر نہ آنے دیا.عیسائیوں سے قلمی جنگ کا شوق:.سلسلہ احمدیہ کے اولین مؤرخ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ایڈیٹر الحکم حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی دینی غیرت کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں: ا حیات احمد ، جلد دوم صفحہ ۱۸۷.جدید ایڈیشن

Page 140

ابن سلطان القلم ~ 120 ~ منشی نبی بخش صاحب پٹواری کو ہمارے قادیان کے احباب اکثر جانتے ہیں، کیونکہ وہ اپنی عمر کے آخری حصے میں قادیان میں خان بہادر مرزا ހނ 166 سلطان احمد صاحب کے مختار اور ان کی طرف سربراہ نمبر دار بھی رہے ہیں.انھی ایام میں خود خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کو بھی عیسائیوں سے قلمی جنگ کا شوق پیدا ہو گیا تھا.چنانچہ مرزا صاحب بھی اخبار نور افشاں کے جواب میں لمبے لمبے مضامین بنگلور کے اخبار منشور محمدی میں لکھا کرتے تھے.یہ شوق ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اتباع میں پیدا ہوا تھا، کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قلمی جنگ کا بھی اعلان ہو چکا تھا اور منشورِ محمدی کے صفحات آپ کے مضامین کے رہین منت ہیں.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو عیسائیوں سے قلمی جنگ کا شوق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع میں ہو ا تھا.اس بات کا مزید ثبوت حضرت مولانا یعقوب علی عرفانی صاحب کے اس بیان سے بھی ہوتا ہے جس میں آپؐ فرماتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بدء شباب کے ساتھ ہی عیسائی مذہب کے حملوں سے واقف ہو چکے تھے اور چونکہ یہ اس زمانہ کی بات ہے جبکہ مرزا سلطان احمد صاحب آپ کے گھر میں پیدا ہوئے.اس لیے مرزا سلطان احمد صاحب کی زندگی کے ابتدائی زمانہ میں یہ نظر آتا ہے کہ حضرت اقدس بڑے جوش اور جرات سے عیسائی مذہب کے خلاف قلم اُٹھا رہے ہیں.چنانچہ مرزا سلطان احمد صاحب کا بیان ہے کہ: حیات احمد ، جلد اول صفحہ ۳۶۹.جدید ایڈیشن

Page 141

ابن سلطان القلم ~ 121 - ~ عیسائی مذہب کے خلاف حضرت کو اس قدر جوش تھا کہ اگر ساری دنیا کا جوش ایک پلڑے میں اور حضرت کا جوش ایک پلڑے میں ہو تو آپ کا پلڑا بھاری ہو گا.166 عیسائی پادریوں سے مباحثہ : قادیان میں بعض عیسائی مشنری پادری بیٹ مین وغیرہ آجایا کرتے تھے، مگر ان میں سے کبھی کوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے گفتگو نہیں کرتا تھا، بلکہ بازار وغیرہ میں وعظ وغیرہ کہہ کر واپس چلے جاتے تھے.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو البتہ شوق پیدا ہو گیا تھا اور وہ التزام کے ساتھ عیسائیوں کے رد میں مضامین لکھنے لگے تھے اور اگر موقع ملتا اور قادیان کوئی مشنری آجاتا تو اس سے مباحثہ کر لیتے تھے.صاحب کردار: آپ بڑے محنتی، جفاکش، کام کرنے والے، کام سے نہ تھکنے نہ اکتانے والے، بے خوف، جری ،دل، عادل اور انصاف پسند انسان تھے.انصاف کا خون کر دینے والی تمام کمزوریوں کے دُشمن تھے.عدل و انصاف کے قیام کی راہ میں آپ بڑی سے بڑی ہستی سے بھی ٹکرا جانے کی معمولی بات بلکہ اپنا اہم حیات احمد جلد اوّل صفحہ ۴۰۰- جدید ایڈیشن حیات احمد جلد اوّل صفحہ ۴۱۶، ۴۱۷- جدید ایڈیشن

Page 142

ابن سلطان القا ~ 122 فرض خیال کرتے تھے.آپ انگریزی قوم یا گورنمنٹ انگریزی کے بہت مذاح تھے.اس گورنمنٹ کو بہترین گورنمنٹ خیال کرتے تھے اور تحریر و تقریر میں اعلان کرتے تھے کہ انگریزی حکومت ہندوستانیوں کے لیے موجودہ حالات میں رحمتِ الہی ہے اور ان کے خلاف کسی قسم کی سیاسی شورش کو نا مناسب اور خدا کے حضور میں گناہ اور احسان فراموشی خیال کرتے تھے لیکن باوجود اس عقیدہ کے اپنے فرائض کی بجا آوری اور اپنے اختیارات کے استعمال اور قیام عدل میں ان پر کبھی بھی دولت کا جادو، حُسن کا سحر ، حکومت کا اثر، انگریز کا رعب اور عصبیت دین کا جذبہ کچھ بھی اثر انداز نہیں ہو سکتا تھا.تبلیغ احمدیت: محترم چودھری عبد القدیر چٹھہ صاحب درویش قادیان سلسلہ کے معروف خدمت گزاروں میں سے ہیں.قادیان میں نظارت امور عامہ اور محاسب جیسے اہم شعبوں کے علاوہ بطور وکیل اعلیٰ تحریک جدید بھی خدمت کی توفیق پائی.وفات کے وقت ناظر بیت المال خرچ اور افسر دار الضیافت دونوں مناصب پر فائز تھے.محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی، ربوہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے تبلیغ احمدیت کا بھی موقع دیا.محترم چودھری عبد القدیر چٹھہ صاحب ہمیں بتایا کرتے تھے ا نیرنگ خیال جوبلی نمبر مئی، جون ۱۹۳۴ء صفحہ ۲۸۷

Page 143

ابن سلطان القلم ~ 123 ~ کہ ان کے دادا چودھری غلام حسین چٹھہ صاحب کو صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب احمدیت کے بارہ میں کتابیں پڑھنے کے لیے دیا کرتے تھے.اس طرح ان کے قبول احمدیت میں صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کا بھی کردار ہے.مکرم چودھری عبدالواسع چٹھہ صاحب نائب ناظر امور عامه قادیان ابن مکرم چودھری عبد القدیر چٹھہ صاحب نے بتایا کہ مکرم چودھری غلام حسین چٹھہ صاحب صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے دفتر میں بطور پٹواری کام کرتے تھے اور چونکہ مذہب سے دلچسپی رکھتے تھے اس لیے صاحبزادہ صاحب ان کو جماعتی کتب ورسائل پڑھنے کے لیے دیا کرتے تھے.چنانچہ انھوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی بیعت کرلی تھی لیکن قادیان نہ آسکے.امانت و دیانت مکرم محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب نگران ریسرچ سیل و قبر مسیح سیل اور صدر نور فاؤنڈیشن (سابق پرنسپل جامعہ احمدیہ، ربوہ) بیان کرتے ہیں: ”میں نے سنا ہے کہ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کا قلم اس قدر رواں تھا کہ دو مقدموں کے دوران میں جو تھوڑا سا وقت ملتا تھا اس میں مضمون لکھ لیتے تھے اور خاص طور پر قابل ذکر بات یہ ہے کہ مضمون وغیرہ لکھنے کے لیے ا یہ واقعہ محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب ناظر اعلیٰ و امیر مقامی نے خاکسار سے بیان کیا.(مؤلف)

Page 144

ابن سلطان القلم ~ 124 - ~ سرکاری قلم استعمال نہیں فرماتے تھے بلکہ ذاتی قلم دوات رکھی ہوئی تھی.دفتر کا قلم صرف دفتری امور کے لیے مختص تھا.“ 166 آپ کے اخلاق اور عظیم کردار کے بارہ میں مزید جاننے کے لیے کتاب ہذا کے باب دوم کا مطالعہ کرنا مفید ہو گا جس میں آپ کی ملازمت کے دوران میں پیش آنے والے واقعات درج ہیں، جن سے آپ کی نیک سیرت پر روشنی پڑتی ہے.ا خاکسار نے محترم میر محمود احمد ناصر صاحب سے اس واقعہ کی تصدیق کروا کر کتاب میں شا شامل کیا.(مؤلف)

Page 145

ابن سلطان القلم ~ 125 - فصل حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی نسبت حضرت مسیح موعود کے نشانات والہامات اس موضوع پر مکرم محترم غلام احمد خان صاحب ایڈووکیٹ سابق امیر جماعت احمدیہ پاکپتن کا الفضل قادیان مورخہ ۴/ اگست ۱۹۳۱ء میں تحریر کردہ مضمون ذیل میں پیش کیا جاتا ہے: ”ماہ رمضان گذشتہ میں میں نے اخبار الفضل کے ذریعہ ظاہر کیا تھا کہ حضرت میرزا سلطان احمد صاحب کے احمدی ہونے اور بالخصوص بیعت خلافت سے مشرف ہونے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یہ پیشگوئی کہ خدا تین کو چار کرے گا اپنے نئے رنگ اور نئی شان میں پوری ہوئی.اب میں حضرت میرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اور نشانات جو پورے ہوئے بیان کرتا ہوں.”اس کی موت کے دن صلح ہو گی“: حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب سراج منیر صفحہ ۷۹ پر پینتیسویں پیشگوئی میں شیخ محمد حسین بٹالوی کا ذکر کیا ہے اور پھر ایک خواب بیان فرمایا ہے جس کا ایک حصہ یہ ہے.

Page 146

ابن سلطان القلم ~ 126 " ~ پھر ایک آواز دینے والے نے آواز دی کہ ایک شخص، جس کا نام سلطان بیگ ہے، جان کندن میں ہے.میں نے کہا کہ عنقریب وہ مر جائے گا، کیونکہ مجھے خواب میں دکھلایا گیا ہے کہ اس کی موت کے دن صلح ہو گی.“ تشریح: سلطان بیگ کے نام سے ظاہر ہے کہ جس شخص کا ذکر ہے وہ قوم کا مغل ہے.پھر یہ وہ سلطان بیگ ہے جو خواب آنے کے وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مخالف ہے، اس لیے صلح کا محتاج ہے.جان کندن میں ہونے سے مراد وہ لمبی بیماری ہے جس میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب بہت مدت تک مبتلا رہے اور بالآخر چلنے پھرنے کے بھی ناقابل ہوگئے، یہاں تک کہ حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو آپ کی بیعت لینے کے لیے آپ کے پاس جانا پڑا.موت کے دن سے مراد موت کا سال ہے، کیونکہ مذہبی اصطلاح میں کبھی دن سال کے برابر ہوتا ہے.اس جگہ دن ایک سال کے برابر ہے اور خواب کی یہ تعبیر ہوئی کہ حضرت میرزا سلطان احمد صاحب کی موت کے سال صلح ہو گی اور وقوع میں بھی یہی آیا ہے کہ آپ کی صلح یعنی بیعت کا دن یعنی سال ابھی گزرنے نہیں پایا تھا کہ آپ کا وصال ہو گیا.پھر شیخ محمد حسین بٹالوی کے ذکر میں آپ کا ذکر اس لیے آیا کہ آپ کو شیخ صاحب مذکور سے مخالفت مسیح موعود علیہ السلام اور پھر رجوع یا صلح میں ایک گونہ مناسبت تھی.عزیز کے باپ کے سر پر سلطان کا لفظ : پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

Page 147

ابن سلطان القلم ~ 127 - ۲۰ / اکتوبر ۱۸۹۹ء کو خواب میں مجھے یہ دکھایا گیا کہ ایک لڑکا ہے جس کا نام عزیز ہے اور اس کے باپ کے نام کے سر پر سلطان کا لفظ ہے.وہ لڑکا پکڑ کر میرے پاس لایا گیا اور میرے سامنے بٹھایا گیا.میں نے دیکھا کہ وہ ایک پتلا سا لڑکا گورے رنگ کا ہے.“ 166 اس خواب میں جناب میرزا عزیز احمد صاحب کے والد ماجد حضرت میرزا سلطان احمد صاحب مرحوم کا ذکر ہے.حجۃ اللہ القادر وسلطان احمد مختار“: پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”آج اس موقع کے اثنا میں جبکہ یہ عاجز بغرض صحیح کاپی کو دیکھ رہا تھا کہ بعالم کشف چند ورق ہاتھ میں دیے گئے اور ان پر اور ان پر لکھا ہوا تھا ”فتح کا نقارہ بجے“.پھر ایک نے مسکرا کر ان ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری“.جب اس عاجز نے دیکھا تو وہ اسی عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی، مگر نہایت رعب ناک، جیسے سپہ سالار مسلح فتحیاب ہوتے ہیں اور تصویر کے یمین ویسار میں ”حجۃ اللہ القادر و سلطان احمد مختار “ لکھا تھا.“ اس کشف میں اگرچہ حضرت مسیح موعود کا نام سلطان احمد مختار رکھا گیا ہے.تاہم اس میں حضور کے بیٹے سلطان احمد کی صلاحیت کی نسبت اشارۃ ذکر ہے.ا ضمیمہ تریاق القلوب ۴، اشتہار ۲۲ اکتوبر ۱۸۹۹ء حواله مکاشفات صفحہ ۱۷.تذکرہ صفحه ۲۸۴ طبع ۲۰۰۴ء ۲ ۲۲ اکتوبر ۱۸۸۳ء براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحه ۵۱۵،۵۱۶.تذکره صفحه ۸۸

Page 148

ابن سلطان القلم ~ 128 - 66 ”یہ میرا بیٹا ہے : ~ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ پیشگوئی مصلح موعود ”تین کو چار کرنے والا ہو گا“ کے بارے میں فرماتے ہیں: تیسرے اس طرح بھی میں تین کو چار کرنے والا ثابت ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندہ اولاد میں سے ہم صرف تین بھائی یعنی میں، مرزا بشیر احمد صاحب اور مرزا شریف احمد صاحب حضرت مسیح موعود عليه الصلوۃ والسلام پر ایمان رکھنے کے لحاظ سے آپ کے روحانی بیٹوں میں شامل تھے.مرزا سلطان احمد صاحب آپ کی روحانی ذریت میں شامل نہیں تھے.اُنھیں حضرت خلیفہ اول پر بڑا اعتقاد تھا مگر باوجود اعتقاد کے آپ کے زمانہ میں وہ احمدی نہ ہوئے، لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک رؤیا سے معلوم ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے ہدایت مقدر کی ہوئی ہے اور رؤیا یہ ہے کہ آپ نے دیکھا کہ ”مرزا نظام الدین کے مکان پر مرزا سلطان احمد کھڑا ہے اور سب لباس سر تا پا سیاہ ہے.ایسی گاڑھی سیاہی کہ دیکھی نہیں جاتی.اسی وقت معلوم ہوا کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو سلطان احمد کا لباس پہن کر کھڑا ہے.اُس وقت میں نے گھر میں مخاطب ہو کر کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے.166 آپ کا مرزا سلطان احمد صاحب کے متعلق یہ کہنا کہ ”یہ میرا بیٹا بتا رہا تھا کہ اُن کے لیے آپ کی روحانی ذریت میں شامل ہونا مقدر ہے، ا تذکره صفحه ۴۴۸

Page 149

ابن سلطان القلم ~ 129 - مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل کے زمانہ میں وہ احمدیت میں داخل نہ ہوئے.جب میرا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کیسے کہ وہ میرے ذریعے سے احمدیت میں داخل ہو گئے.اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک بیٹے کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حالات میں میرے ہاتھ پر بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی، حالانکہ وہ میرے بڑے بھائی تھے اور بڑے بھائی کے لیے اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر بیعت کرنا بہت مشکل ہوتا ہے.چنانچہ بیعت کے بعد انھوں نے خود بتایا کہ میں ایک عرصہ تک اسی وجہ سے بیعت کرنے سے رُکتا رہا کہ اگر میں بیعت کرتا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کرتا یا حضرت خلیفہ اول کی کرتا جن پر مجھے بڑا اعتقاد تھا.اپنے چھوٹے بھائی کے ہاتھ پر کس طرح بیعت کر لوں، مگر کہنے لگے آخر میں نے کہا یہ پیالہ مجھے پینا ہی پڑے گا.چنانچہ انھوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے تین کو چار کرنے والا بنا دیا.کیونکہ پہلے روحانی لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذریت میں ہم صرف تین بھائی تھے مگر پھر تین سے چار ہو گئے.“ مرزا سلطان احمد صاحب کے سیاہ لباس سے آپ کی وہ حالتِ انکارِ مسیح موعود علیہ السلام مراد ہے جس میں آپ کی ساری عمر گزری.مگر اُسی وقت ہوا کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو سلطان احمد کا لباس پہن کر کھڑا ہے اور یہ معلوم وہ حالت رجوع اور صلح تھی جو کہ بیعت خلافت کے بعد ظہور میں آئی.اس الموعود انوار العلوم جلد۷ اصفحہ ۶۳۶

Page 150

ابن سلطان القا ~ 130- ~ وقت گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے گھر میں مخاطب ہو کر کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے.ورنہ اس سے پہلے مرزا سلطان احمد صاحب روحانی طور پر عاق سمجھے گئے تھے.بیعت خلافت کے بعد ہی حقیقتا روحانی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بیٹے کہلائے.چنانچہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے بھی آپ کی بیعت کے بعد آپ کے اخلاص کا ذکر کیا ہے.پھر آپ کے بحیثیت فرشتہ گرسی پر بیٹھنے کے بھی یہی معنے ہیں کہ آپ روحانی طور پر معزز اور مکرم ہو گئے، جس کا ذکر اس الہامِ الہی میں بھی ہے: وَلَا نُبْقِي لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا یعنی ہم تیری نسبت ایک بات بھی ایسی باقی نہیں چھوڑیں گے جو موجب رسوائی اور طعن و تشنیع ہو.چنانچہ میرزا سلطان احمد صاحب کا سیاہ لباس یعنی مخالفت مسیح موعود علیہ السلام مخزيات ذكرا میں شامل تھا.پھر آپ کی بیعت کے بعد فرشتہ ہو جانے سے یہ الہام الہی پورا ہوا اور حضرت مسیح موعود وو السلام کا رعب دوبالا ہو گیا.الحمد اللہ علی ذلک پاس ہو جائے گا“: پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے بارے میں الہام ہوا تھا پاس ہو جائے گا.“ ۲۳ نومبر ۱۹۰۳ء بمطابق ۲ / رمضان کو میں نے دیکھا کہ سلطان احمد کی تائی مسماۃ حرمت بی بی ایک مکان پر جو سکھوں کے دھر مسالہ سے مشابہ ا تذکره صفحه ۴۵۲

Page 151

ابن سلطان القلم ~ 131 - ~ ہے میرے پاس آئی اور لڑائی کا ارادہ رکھتی ہے اور کھڑی ہو کر میری طرف ایک سوٹا چلایا جو سیاہ رنگ کا تھا.میں نے اپنی سفید سوئی سے اس کو روک دیا.بعد اس کے میں نے اس کو کہا کہ اگر میں نفسانی آدمی ہوں تو تم مجھے فنا کر سکتی ہو ، لیکن اگر میں نفسانی آدمی نہیں تو تم مجھے فنا نہیں کر سکتیں.خدا کا کلام ذو الوجوہ اور ذوالمعنی ہوا کرتا ہے.عمومی بالا تشریح کے علاوہ ایک اور تشریح اس الہام کی واقعات کے رو سے ہو گئی ہے اور وہ اس طرح کہ میرزا سلطان احمد صاحب احمدی ہو گئے اور مبالعین حضرت خلیفۃ المسیح الثانی میں شامل ہو گئے.اسی حالت میں انجام بخیر کے ساتھ وفات پا کر بہشتی مقبرہ میں مدفون ہوئے.اس بہشتی مقبرہ میں جس کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا كُلُّ مَقَابِرِ الْأَرْضِ لَا تُقَابِلُ هَذِهِ الْأَرْضَ“.پھر جس کی نسبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ”خدا کے کلام کا یہ مطلب ہے کہ صرف بہشتی ہی اس میں دفن کیا جائے گا.“ غرضیکہ حضرت میرزا سلطان احمد صاحب مرحوم اس دارالابتلاء کے روحانی امتحان میں بھی پاس ہو گئے.ذلك هو الفوز العظیم.غرض میرزا سلطان احمد صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کی حالت انکار بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان تھی اور پھر آپ کا احمدی ا تذکره صفحه ۴۱۴ ۲ بدر جلد ۶ نمبر ۱۹۰۷۱۴ء رساله الوصیت حاشیہ صفحہ ۲۲

Page 152

ابن سلطان القلم ~ 132 ~ ہونا اور بیعت خلافت کرنا اور اسی حالت میں وفات پا کر بہشتی مقبرہ میں دفن ہونا بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا نشان ہے.166 یہاں مکرم محترم غلام احمد خان صاحب ایڈووکیٹ سابق امیر جماعت احمدیہ پاکپتن کا تحریر کردہ مضمون ختم ہو جاتا ہے.اسی موضوع سے متعلق مزید کچھ روایات ذیل میں درج کی جاتی ہیں.ایک فرشتہ سلطان احمد کالباس پہن کر کھڑا ہے: ۴ اپریل ۱۹۰۵ء کو ایک زور آور زلزلے کا نشان ظاہر ہوا جس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے علاوہ دیگر پیشگوئیوں کے ۳/ اپریل ۱۹۰۵ء کو ایک رؤیا بھی دیکھی جو آپ نے کئی ایک کو سنائی.ملفوظات جلد چہارم.میں یہ رؤیا اس طرح مذکور ہے: / اپریل ۱۹۰۵ ء - رؤیا دیکھا کہ مرزا نظام الدین کے مکان پر مرزا سلطان احمد کھڑا ہے اور سب لباس سر تا پا سیاہ ہے.ایسی گاڑھی سیاہی کہ دیکھی نہیں جاتی.اسی وقت معلوم ہوا کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو سلطان احمد کا لباس پہن کر کھڑا ہے.اس وقت میں نے گھر میں مخاطب ہو کر کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے.تب دو فرشتے اور ظاہر ہو گئے اور تین کرسیاں معلوم ہوئیں اور تینوں پر وہ تین فرشتے بیٹھ گئے اور بہت تیز قلم سے کچھ لکھنا شروع کیا جس کی تیز آواز سنائی دیتی تھی.اُن کے اس طرز کے لکھنے میں ایک رعب تھا.میں پاس کھڑا ہوں کہ بیداری ہو گئی." 1 الفضل قادیان مورخه ۴/ اگست ۱۹۳۱ء صفحه ۶ ۲ ملفوظات جلد چہارم صفحه ۲۵۵

Page 153

ابن سلطان القلم ~ 133 ~ اس رؤیا کے کئی تعبیریں ہو سکتی ہیں.حضرت مصلح موعودؓ کے نزدیک اس رؤیا سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے لیے ہدایت مقدر کی ہوئی تھی.چنانچہ یہ رویا درج کر کے آپ بیان فرماتے ہیں: ” آپ کا مرز اسلطان احمد صاحب کے متعلق یہ کہنا کہ 'یہ میرا بیٹا ہے، بتا رہا تھا کہ ان کے لیے آپ کی روحانی ذریت میں شامل ہونا مقدر ہے ، مگر حضرت مسیح موعود “ اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے زمانے میں وہ احمدیت میں داخل نہ ہوئے.جب میرا زمانہ آیا تو اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان کیے کہ وہ میرے ذریعے سے احمدیت میں داخل ہو گئے.166 سلطان احمد آئے ہوئے ہیں: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ملفوظات میں آپ کے بارہ میں ایک اور رؤیا کا ذکر ملتا ہے.اور وہ یہ کہ ۲۶ جنوری ۱۹۰۳ء کو جب حضور نماز ظہر کے لیے تشریف لائے تو حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے بیان کیا کہ رات کو میں نے خواب دیکھا کہ سلطان احمد (حضور کے لڑکے) آئے ہوئے ہیں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ ”میرے گھر میں ایک ایسی ہی خواب آئی تھی اس کی وہی تعبیر بتلائی جو آپ نے کبھی یعنی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی نشان ظاہر ہو گا.سلطان سے مراد براہین اور نشان ہوا کرتا ہے.الموعود.انوار العلوم جلد۱۷، صفحہ ۶۳۶ ۲ ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۰ ،،

Page 154

ابن سلطان القلم ~ 134 ~ ”اے عمی ! بازی خوبیش کر دی“: مرزا غلام قادر صاحب کے انتقال ہونے سے دو تین دن پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دکھایا گیا کہ گویا مرزا سلطان احمد صاحب مرزا غلام قادر صاحب کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں کہ ”اے عمی! بازی خویش کردی و مرا افسوس بسیار دادی“ یعنی : اے چا! تو اپنی جان پر کھیل گیا اور مجھے بہت افسوس میں چھوڑ گیا.' اس واقعہ کو بہتر ہو گا کہ حضرت اقدس کے الفاظ میں لکھ دیا جائے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ”اپنے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کی نسبت پیشگوئی ہے جس میں میرے ایک بیٹے کی طرف سے بطور حکایت عن الغير مجھے یہ الہام ہوا.”اے عمی! بازی خویش کردی و مرا افسوس بسیار دادی“ یہ پیشگوئی بھی اس شرمپت آریہ کو قبل از وقت بتلائی گئی تھی اور اس الہام کا مطلب یہ تھا کہ میرے بھائی کی بے وقت موت ہو گی، جو موجب صدمہ ہو و گی.جب یہ الہام ہوا تو اس دن یا اس سے ایک دن پہلے شرمپت مذکور کے گھر میں ایک لڑکا پیدا ہوا ہے جس کا نام میں نے امین چند رکھا ہے.میں نے کہا کہ ابھی مجھے الہام ہوا ہے کہ ”اے عمی! بازی خویش کردی و مرا افسوس بسیار دادی“ اور ہنوز اس الہام کے میرے پر معنی نہیں کھلے.میں ڈرتا ہوں کہ اس سے مراد تیرا لڑکا امین چند ہی نہ ہو کیونکہ تیری میرے پاس آمدو رفت بہت ہے اور ا ترجمه الهام از تذکره جدید ایڈیشن ص.

Page 155

ابن سلطان القلم ~ 135 ~ الہامات میں کبھی ایسا اتفاق ہو جاتا ہے کہ کسی تعلق رکھنے والے کی نسبت الہام ہوتا ہے.وہ یہ بات سن کر ڈر گیا اور اس نے گھر میں جاتے ہی اپنے لڑکے کا نام بدلا دیا.یعنی بجائے امین چند کے گوکل چند نام رکھ دیا.وہ لڑکا اب تک زندہ ہے اور ان دنوں میں کسی ضلع کے بندوبست میں مسل خوان ہے اور بعد اس کے میرے پر کھولا گیا کہ یہ الہام میرے بھائی کی موت کی طرف اشارہ ہے.چنانچہ میرا بھائی دو تین دن کے بعد ایک ناگہانی طور پر ہو گیا اور میرے اس لڑکے کو اس کی موت کا صدمہ پہنچا اور اس پیچ میں آ کر شرمیت مذکور جو سخت متعصب آریہ ہے گواہ بن گیا.“ فوت غرض جس طرح پر حضرت مرزا غلام مرتضیٰ مرحوم کی وفات کی خبر قبل از وقت آپ کو دی گئی تھی اپنے بڑے بھائی مرزا غلام قادر مرحوم کی وفات کی خبر بھی اللہ تعالیٰ نے قبل از وقت دی اور یہ واقعہ ۱۸۸۳ء میں ہوا.درشنی آدمی اس الہام کی تائید میں ایک اور مبشر رؤیا بھی حضرت والد صاحب قبلہ کی وفات کے دوسرے یا تیسرے دن آپ نے دیکھی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ : اس عاجز کو بھی اس بات کا ذاتی تجربہ ہے کہ بعض اوقات خواب یا کشف میں روحانی امور جسمانی شکل پر متشکل ہو کر مثل انسان نظر آجاتے.مجھے یاد ہے کہ جب میرے والد صاحب غفر اللہ لہ جو ایک معزز رئیس اور

Page 156

ابن سلطان القلم ~ 136 ~ اپنی نواح میں عزت کے ساتھ مشہور تھے انتقال کر گئے تو ان کے فوت ہونے کے بعد دوسرے یا تیسرے روز ایک عورت نہایت خوبصورت خواب میں میں نے دیکھی جس کا حلیہ ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے اور اس نے بیان کیا کہ میرا نام رانی ہے اور مجھے اشارت سے کہا کہ میں گھر کی عزت اور وجاہت ہوں اور کہا کہ میں چلنے کو تھی مگر تیرے لیے رہ گئی.“ اس رؤیا کے وقت آپ نے دیکھا تھا کہ گویا اصل مکان موجودہ مرزا سلطان احمد صاحب والے میں ایک دالان میں بیٹھا ہوں.مغربی کو ٹھڑی سے ایک برقعہ پوش عورت نکلی.انھی دنوں میں میں نے ایک نہایت خوبصورت مرد دیکھا اور میں نے اسے کہا کہ تم ایک عجیب خوبصورت ہو.اس نے اشارہ سے میرے پر ظاہر کیا کہ میں تیرا بخت بیدار ہوں اور میرے اس سوال کے جواب میں کہ تو عجیب خوبصورت آدمی ہے اس نے یہ جواب دیا کہ ہاں میں درشنی آدمی ہوں.166 حیات احمد جلد اول صفحہ ۱۱۱،۱۱۰

Page 157

ابن سلطان القلم ~ 137 - باب پنجم : روایات حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب منقول از "سیرت المهدی" مصنفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب (1) خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے عزیزم رشید احمد (جو مرزا سلطان دریافت احمد صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے) کے ذریعہ مرزا سلطان احمد صاحب سے در کیا تھا کہ آپ کو حضرت مسیح موعود کے سن ولادت کے متعلق کیا علم ہے؟ انھوں نے جواب دیا کہ جہاں تک مجھے معلوم ہے ۱۸۳۶ء میں آپ کی ولادت ہوئی تھی.(4) خاکسار عرض کرتا ہے کہ میں نے مولوی رحیم بخش' صاحب ایم اے افسر ڈاک کی معرفت مرزا سلطان احمد صاحب سے دریافت کیا تھا کہ آپ کی پیدائش کس سال کی ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ مجھے اچھی طرح معلوم نہیں.ا جماعت میں ”مولانا عبد الرحیم درد صاحب کے نام سے زیادہ معروف ہیں.آئندہ صفحات میں بھی مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے سے مراد حضرت مولانا عبد الرحیم درد صاحب ہی ہیں.

Page 158

ابن سلطان القلم ~ 138 ~ بعض کاغذوں میں تو ۱۸۶۴ء لکھا ہے مگر ہندو پنڈت مجھے کہتا تھا کہ میری پیدائش ۱۹۱۳ بکرمی کی ہے.اور میں نے سنا ہے کہ والد صاحب کی عمر میری ١٩١٣ء ولادت کے وقت کم و بیش اٹھارہ سال کی تھی.خاکسار عرض کرتا ہے بکرمی والی روایت زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے کیونکہ دوسرے قرائن اس کے مؤید ہیں.نیز یہ بات بھی کہ ہندو عموماً جنم پتری کی حفاظت میں بہت ماہر ہوتے ہیں.اس لحاظ سے مرزا سلطان احمد صاحب کی پیدائش ۱۸۵۶ء کے قریب کی بنتی ہے اور اگر اُس وقت حضرت صاحب کی عمر اٹھارہ سال سمجھی جاوے تو آپ کا سن ولادت وہی ۱۸۳۷ء کے قریب پہنچتا ہے.پس ثابت ہوا کہ ۱۸۳۶ء والی روایت صحیح ہے.اس کا ایک اور بھی ثبوت ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت صاحب نے لکھا ہے (دیکھو التبلیغ آئینہ کمالات اسلام اور بیان بھی فرمایا کرتے تھے کہ میری والدہ صاحبہ فرمایا کرتی تھیں کہ ہمارے خاندان کے مصیبت کے دن تیری ولادت کے ساتھ پھر گئے تھے اور فراخی میٹر آگئی تھی اور اسی لیے وہ میری پیدائش کو مبارک سمجھا کرتی تھیں.اب یہ قطعی طور پر یقینی ہے کہ راجہ رنجیت سنگھ کے زمانہ میں ہی خاندان کے مصائب کے دن ڈور ہو کر فراخی شروع ہو گئی تھی اور قادیان اور اُس کے ارد گرد کے بعض مواضعات دادا صاحب کو راجہ رنجیت سنگھ نے بحال کر دیے تھے اور اپنے ماتحت دادا صاحب کو معزز فوجی عہدہ بھی دیا تھا اور راجہ کے ماتحت دادا صاحب نے بعض فوجی

Page 159

ابن سلطان القلم ~ 139 - خدمات بھی سرانجام دی تھیں.پس ثابت ہوا کہ حضرت صاحب کی پیدائش بہر حال راجہ رنجیت سنگھ کی موت یعنی ۱۸۳۹ء سے کچھ عرصہ پہلے ماننی پڑے گی.لہذا اس طرح بھی ۱۸۳۶ء والی روایت کی تصدیق ہوتی ہے.وهو المراد اور جو حضرت صاحب نے ۱۸۳۹ء لکھا ہے اس کو خود آپ کی دوسری تحریریں رد کر رہی ہیں.چنانچہ ایک جگہ آپ نے ۱۹۰۵ء میں اپنی عمر ۷۰ سال بیان کی ہے اور وہاں یہ بھی لکھا ہے یہ تمام اندازے ہیں.صحیح علم صرف خدا کو ہے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میری تحقیق میں اوائل ۱۲۵۲ھ میں آپ کی ولادت ہوئی تھی اور وفات ۱۳۲۶ ھ میں ہوئی.واللہ اعلم.(۳) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ میں بچپن میں والد صاحب یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تاریخ فرشتہ، نحو میر اور شائد گلستان بوستاں پڑہا کرتا تھا اور والد صاحب کبھی کبھی پچھلا پڑھا ہوا سبق بھی سنا کرتے تھے مگر پڑھنے کے متعلق مجھ پر کبھی ناراض نہیں ہوئے.حالانکہ میں پڑھنے میں بے پروا تھا لیکن آخر دادا صاحب نے مجھے والد صاحب سے پڑھنے سے روک دیا اور کہا کہ میں نے سب کو ملاں نہیں بنا دینا.تم مجھ سے پڑھا کرو مگر ویسے دادا صاحب والد صاحب کی بڑی قدر کرتے تھے.

Page 160

ابن سلطان القلم ~ 140 ~ (له) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ والد صاحب اپنے چوبارے کی کھڑکی سے گر گئے اور دائیں بازو پر چوٹ آئی چنانچہ آخر عمر تک وہ ہاتھ کمزور رہا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ والدہ صاحبہ فرماتی تھیں کہ آپ کھڑ کی سے اترنے لگے تھے سامنے سٹول رکھا تھا وہ اُلٹ گیا اور آپ گر گئے اور دائیں ہاتھ کی ہڈی ٹوٹ گئی اور یہ ہاتھ آخر عمر تک کمزور رہا.اس ہاتھ سے آپ لقمہ تو منہ تک لے جا سکتے تھے مگر پانی کا برتن وغیرہ منہ تک نہیں اُٹھا سکتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ نماز میں بھی آپ کو دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کے سہارے سے سنبھالنا پڑتا تھا.(۵) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ رحیم بخش صاحب ایم اے کہ والد صاحب باہر چوبارے میں رہتے تھے وہیں اُن کے لیے کھانا جاتا تھا اور جس قسم کا کھانا بھی ہوتا تھا کھا لیتے تھے.کبھی کچھ نہیں کہتے تھے.(1) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ والد صاحب تین کتابیں بہت کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے یعنی قرآن مجید، مثنوی رومی اور دلائل الخیرات اور کچھ نوٹ بھی لیا کرتے تھے اور قرآن شریف بہت کثرت سے پڑھا کرتے تھے.

Page 161

(۷) ابن سلطان القلم ~ 141 - ~ بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ والد صاحب میاں عبد اللہ صاحب غزنوی اور سماں والے فقیر سے ملنے کے لیے کبھی کبھی جایا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مولوی عبداللہ صاحب غزنوی کی ملاقات کا ذکر حضرت صاحب نے اپنی تحریرات میں کیا ہے اور سماں والے فقیر کے متعلق شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ اُن کا نام میاں شرف دین صاحب تھا اور وہ موضع سم نزد طالب پور ضلع گورداسپور کے رہنے والے تھے.سم میں پانی کا ایک چشمہ ہے اور غالباً اسی وجہ سے وہ سم کہلاتا ہے.(V) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ دادا صاحب ہمارے تایا مرزا غلام قادر صاحب کو کرسی دیتے تھے.یعنی جب وہ دادا صاحب کے پاس جاتے تو وہ اُن کو کرسی پر بٹھاتے تھے لیکن والد صاحب جاکر خود ہی نیچے صف کے اوپر بیٹھ جاتے تھے.کبھی دادا صاحب ان کو اوپر بیٹھنے کو کہتے تو والد صاحب کہتے کہ میں اچھا ہوں.(4) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ والد صاحب کا دستور تھا کہ سارا دن الگ بیٹھے پڑھتے

Page 162

ابن سلطان القلم ~ 142 ~ رہتے تھے اور ارد گرد کتابوں کا ایک ڈھیر لگا رہتا تھا.شام کو پہاڑی دروازے یعنی شمال کی طرف یا کبھی مشرق کی طرف سیر کرنے جایا کرتے تھے.(1+) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ والد صاحب اردو اور فارسی کے شعر کہا کرتے تھے اور فرخ تخلص کرتے تھے.(11) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ والد صاحب دادا صاحب کی کمال تابعداری کرتے تھے افسروں وغیرہ کے ملنے کو خود طبیعت ناپسند کرتی تھی لیکن دادا صاحب کے حکم سے کبھی کبھی چلے جاتے تھے.(۱۲) بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے نے کہ میں نے مرزا سلطان احمد صاحب سے پوچھا کہ حضرت صاحب کے ابتدائی حالات و عادات کے متعلق آپ کو جو علم ہو وہ بتائیں تو انھوں نے جواب دیا کہ والد صاحب ہر وقت دین کے کام میں لگے رہتے تھے.گھر والے اُن پر پورا اعتماد کرتے تھے.گاؤں والوں کو بھی اُن پر پورا اعتبار تھا.شریک جو ویسے مخالف تھے اُن کی نیکی کے اتنے قائل تھے کہ جھگڑوں میں کہہ دیتے تھے کہ جو کچھ یہ کہہ دیں گے ہم کو منظور ہے.ہر شخص اُن کو امین جانتا تھا.

Page 163

ابن سلطان القلم ~ 143 ~ مولوی صاحب کہتے ہیں میں نے پوچھا کہ کچھ اور بتائیے.مرزا صاحب نے کہا اور بس یہی ہے کہ والد صاحب نے اپنی عمر ایک مغل کے طور پر نہیں گزاری بلکہ فقیر کے طور پر گزاری اور مرزا صاحب نے اسے بار بار دہرایا.مولوی صاحب نے کہا کہ میں نے دریافت کیا کہ کیا حضرت صاحب کبھی کسی پر ناراض بھی ہوتے تھے ؟ مرزا صاحب نے جواب دیا کہ اُن کی ناراضگی بھی صرف دینی معاملات میں ہوتی تھی.بعض اوقات مجھے نماز کے لیے کہا کرتے تھے مگر میں نماز کے پاس تک نہ جاتا تھا.ہاں ایک بات میں نے خاص طور پر دیکھی ہے کہ حضرت صاحب (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان میں ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے.اگر کوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ذرا سی بات بھی کہتا تھا تو والد صاحب کا چہرہ سرخ ہو جاتا تھا اور آنکھیں متغیر ہو جاتی تھیں اور فورا ایسی مجلس سے اُٹھ کر چلے جاتے تھے.عشق مولوی صاحب نے بیان کیا کہ مرزا صاحب نے اس مضمون کو بار بار دھر ایا اور کہا کہ حضرت صاحب سے تو بس والد صاحب کو عشق تھا.ایسا میں نے کبھی کسی شخص میں نہیں دیکھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت خلیفہ ثانی بیان کرتے تھے کہ جب دسمبر ۱۹۰۷ء میں آریوں نے وچھو والی لاہور میں جلسہ کیا اور دوسروں کو بھی دعوت دی تو حضرت نے بھی ان کی درخواست پر ایک مضمون لکھ کر حضرت

Page 164

ابن سلطان القلم ~ 144 ~ مولوی صاحب خلیفہ اول کی امارت میں اپنی جماعت کے چند آدمیوں کو لاہور شرکت کے لیے بھیجا، مگر آریوں نے خلاف وعدہ اپنے مضمون میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سخت بد زبانی سے کام لیا.اس کی رپورٹ جب حضرت صاحب کو پہنچی تو حضرت صاحب اپنی جماعت پر سخت ناراض ہوئے کہ ہماری جماعت کے لوگ اس مجلس سے کیوں نہ اُٹھ آئے اور فرمایا کہ یہ پرلے درجہ کی بے غیرتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک مجلس میں بُرا کہا جاوے اور ایک مسلمان وہاں بیٹھا رہے اور غصہ سے آپ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور آپ سخت ناراض ہوئے کہ کیوں ہمارے آدمیوں نے غیرت دینی کام نہ لیا.جب انھوں نے بد زبانی شروع کی تھی تو فورا اس مجلس سے اُٹھ آنا ނ چاہیے تھا اور حضرت خلیفہ ثانی بیان کرتے تھے کہ میں اُس وقت اُٹھنے بھی لگا تھا مگر پھر مولوی صاحب کی وجہ سے ٹھہر گیا اور حافظ روشن علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب نے مجھ سے کہا کہ حافظ صاحب وہ کیا آیت ہے کہ جب خدا کی آیات سے ٹھٹھا ہو تو اس مجلس میں نہ بیٹھو.اس پر میں نے حَتَّى يَخُوضُوْا فِي حَدِيْثٍ غَيْرِهِ والی آیت پڑھ کر سنائی اور حافظ صاحب کہتے ہیں کہ اس وقت حضرت مولوی صاحب سر نیچے ڈالے بیٹھے تھے.(۱۳) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ میاں جان محمد والد صاحب کے ساتھ بہت رہتا تھا اور

Page 165

ابن سلطان القلم ~ 145 - میاں جان محمد کا بھائی غفارہ والد صاحب کے ساتھ سفروں میں بعض دفعہ بطور خدمت گار کے جایا کرتا تھا اور بعض دفعہ کوئی اور آدمی چلا جاتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ میاں جان محمد قادیان کا ایک نیک مزاج ملا تھا اور حضرت صاحب کے ساتھ بہت تعلق رکھتا تھا.اوائل میں بڑی مسجد میں نماز وغیرہ بھی وہی پڑھایا کرتا تھا غالباً حضرت خلیفہ ثانی کو بھی بچپن میں اُس نے پڑھایا تھا.غفارہ اُس کا بھائی تھا.یہ شخص بالکل جاہل اور ان پڑھ تھا اور بعض اوقات حضرت صاحب کی خدمت میں رہتا تھا.بعد میں جب قادیان میں آمد و رفت کی ترقی ہوئی تو اُس نے لگے بنا کر یگہ بانی شروع کردی تھی.اس کے لڑکے اب بھی یہی کام کرتے ہیں.بوجہ جاہل مطلق ہونے کے غفارے کو دین سے کوئی مس نہ تھا مگر اپنے آخری دنوں میں یعنی بعہد خلافت ثانیہ احمدی ہو گیا تھا.شیخ یعقوب علی صاحب نے لکھا ہے کہ حضرت صاحب کی نصیحت سے غفارے نے اوائل میں جب وہ حضرت صاحب کی خدمت میں تھا، نماز شروع کر دی تھی مگر پھر چھوڑ دی.اصل میں ایسے لوگ اعراب کے حکم میں ہوتے جان محمد مرحوم نیک آدمی تھا اور کچھ پڑھا ہوا بھی تھا.اُس کے لڑکے میاں دین محمد مرحوم عرف میاں بگا کو ہمارے اکثر دوست جانتے ہوں گے.قوم کا کشمیری تھا.ہیں مگر (اله) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ والد صاحب کے ہمارے ساتھ بہت کم تعلقات تھے.یعنی

Page 166

ابن سلطان القلم ~ 146 ~ میل جول کم تھا وہ ہم سے ڈرتے تھے اور ہم اُن سے ڈرتے تھے.(یعنی وہ ہم سے الگ الگ رہتے تھے اور ہم اُن سے الگ الگ رہتے تھے کیونکہ ہر دو کا طریق اور مسلک جدا تھا) اور چونکہ تایا صاحب مجھے بیٹوں کی طرح رکھتے تھے ور جائیداد وغیرہ بھی سب اٹھی کے انتظام میں تھی.والد صاحب کا کچھ دخل نہ تھا اس لیے بھی ہمیں اپنی ضروریات کے لیے تایا صاحب کے ساتھ تعلق رکھنا پڑتا تھا.(۱۵) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ والد صاحب کی ایک بہن ہوتی تھیں اُن کو بہت خواب اور کشف ہوتے تھے مگر دادا صاحب کی اُن کے متعلق یہ رائے تھی کہ اُن کے دماغ میں کوئی نقص ہے لیکن آخر انھوں نے بعض ایسی خواہیں دیکھیں کہ دادا صاحب کو یہ خیال بدلنا پڑا.چنانچہ انھوں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ کوئی سفید ریش بڑھا شیخ اُن کو ایک کاغذ جس پر کچھ لکھا ہوا ہے بطور تعویذ کے دے گیا ہے.جب آنکھ کھلی تو ایک بھوج پتر کا ٹکڑہ ہاتھ میں تھا.جس پر قرآن شریف کی بعض آیات لکھی ہوئی تھیں.پھر انھوں نے ایک اور خواب دیکھا کہ وہ کسی دریا میں چل رہی ہیں جس پر انھوں نے ڈر کر پانی پانی کی آواز نکالی اور پھر آنکھ کھل گئی دیکھا تو اُن کی پنڈلیاں تر تھیں اور تازہ ریت کے نشان لگے ہوئے تھے.دادا صاحب کہتے تھے کہ ان باتوں سے خلل دماغ کو کوئی تعلق نہیں.

Page 167

(14) ابن سلطان القلم ~ 147 - ~ بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ والد صاحب سخت بیمار ہو گئے اور حالت نازک ہو اور حکیموں نے ناامیدی کا اظہار کر دیا اور نبض بھی بند ہو گئی مگر زبان جاری رہی والد صاحب نے کہا کہ کیچڑ لا کر میرے اوپر اور نیچے رکھو چنانچہ ایسا کیا گیا اور اس سے حالت رُو بہ اصلاح ہو گئی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب نے لکھا ہے کہ یہ مرض قولنج زحیری کا تھا اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دکھایا تھا کہ پانی اور ریت منگوا کر بدن پر ملی جاوے.سو بدن پر ملی جاوے.سو ایسا کیا گیا تو حالت اچھی ہو گئی.مرزا سلطان احمد صاحب کو ریت کے متعلق ذہول ہو گیا تھا.(12) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ والد صاحب عموماً غرارا پہنا کرتے تھے مگر سفروں میں بعض اوقات تنگ پاجامہ بھی پہنتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ جیسا کہ ناظرین بھی سمجھتے ہوں گے.مرزا سلطان احمد صاحب کی سب روایات حضرت مسیح موعود کے زمانہ شباب یا کہولت کے متعلق سمجھنی چاہئیں.طفولیت یا بڑھاپے کی عمر کے متعلق اگر ان کی کوئی روایت ہو تو یہ سمجھنا چاہیے کہ عموماً انھوں نے وہ کسی اور سے سُن کر بیان کی ہے.الا ماشاء اللہ.(IA) بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے نے کہ میں نے مرزا سلطان احمد صاحب سے سوال کیا تھا کہ حضرت صاحب سے زیادہ تر

Page 168

ابن سلطان القلم ~ 148 ~ قادیان میں کن لوگوں کی ملاقات تھی؟ مرزا صاحب نے کہا کہ ملا وامل اور شرم پت ہی زیادہ آتے جاتے تھے کسی اور سے ایسا راہ رسم نہ تھا.(19).بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے نے کہ بیان کیا ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے کہ ایک دفعہ مسٹر میکانکی ڈپٹی کمشنر گورداسپور قادیان دورہ پر آئے.راستہ میں انھوں نے دادا صاحب سے کہا کہ آپ کے خیال میں سکھ حکومت اچھی تھی یا انگریزی حکومت اچھی ہے؟ دادا صاحب نے کہا کہ گاؤں چل کر جواب دوں گا.جب قادیان پہنچے تو دادا صاحب نے اپنے اور اپنے بھائیوں کے مکانات دکھا کر کہا کہ یہ سکھوں کے وقت کے بنے ہوئے ہیں مجھے امید نہیں کہ آپ کے وقت میں میرے بیٹے ان کی مرمت بھی کر سکیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ سکھوں کی حکومت قدیم شاہی رنگ کے طرز پر تھی اب اور رنگ ہے اور ہر رنگ اپنی خوبیاں رکھتا ہے.(۲۰) بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے نے کہ بیان کیا ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے کہ میں نے تحصیلداری کا امتحان ۱۸۸۴ء میں دیا تھا اس وقت میں نے والد صاحب کو دعا کے لیے ایک رقعہ لکھا تو انھوں نے رقعہ پھینک دیا اور فرمایا “ ہمیشہ دنیا داری ہی کے طالب ہوتے ہیں” جو آدمی رقعہ لے کر گیا تھا اس نے آکر مجھے یہ واقعہ بتایا.اس کے بعد والد

Page 169

ابن سلطان القلم ~ 149 - ~ صاحب نے ایک شخص سے ذکر کیا کہ ہم نے تو سلطان احمد کا رقعہ پھینک دیا تھا مگر خدا نے ہمیں القا کیا ہے کہ اس کو پاس کر دیا جاوے گا.اس شخص نے مجھے آکر بتا دیا چنانچہ میں امتحان میں پاس ہو گیا.(۲۱) بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے نے کہ بیان کیا ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے کہ دادا صاحب نے قریباً ساٹھ سال طبابت کی مگر کبھی کسی سے ایک پائی تک نہیں لی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب بھی یہی فرمایا کرتے تھے کہ بڑے مرزا صاحب نے کبھی علاج کے معاوضہ میں کسی سے کچھ نہیں لیا یعنی اپنی طبابت کو ہمیشہ ایک خیراتی کام رکھا اور اس کو اپنی معاش کا ذریعہ نہیں بنایا بلکہ بعض دفعہ بعض لوگوں نے آپ کو بہت بہت کچھ دینا چاہا مگر آپ نے انکار کر دیا.خاکسار عرض کرتا ہے مجھے تعجب آتا ہے کہ میاں معراج دین صاحب عمر نے اپنے مضمون میں ہمارے دادا صاحب کے متعلق یہ کس طرح لکھ دیا کہ خوش قسمتی سے طبابت کا جوہر ہاتھ میں تھا اس کی بدولت گزارا چلتا گیا اور پھر یہ بات اس زمانہ کے متعلق لکھی ہے کہ جب پڑدادا صاحب کی وفات ہوئی تھی.چہ خوش یک نہ شد دو شد.(۲۲) بیان کیا مجھ سے مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے نے کہ بیان کیا ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے کہ والد صاحب رجب علی کا اخبار سفیر

Page 170

ابن سلطان القلم ~ 150 ~ امر تسر اور اگنی ہوتری کا رسالہ ہندو بندو” اور اخبار “منشور محمدی” منگایا اور پڑھا کرتے تھے اور موخر الذکر میں کبھی کبھی کوئی مضمون بھی بھیجا کرتے تھے.خاکسار عرض کرتا ہے کہ آخری عمر میں حضرت صاحب اخبار عام لاہور منگایا کرتے تھے.(۲۳) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ بٹالہ کے راجہ تیجا سنگھ کو ایک خطرناک قسم کا پھوڑا نکلا بہت علاج کیے گئے اور (خدا کے فضل سے) وہ اچھا ہو گیا.اس پر راجہ مذکور نے دادا صاحب کو ایک بڑی رقم اور خلعت اور دو گاؤں شتاب کوٹ اور حسن پور یا حسن آباد جو آپ کی قدیم ریاست کا ایک جزو تھے پیش کیے اور ان کے قبول کرنے پر اصرار کیا مگر دادا صاحب نے یہ کہہ کر صاف انکار کر دیا کہ میں ان دیہات کو علاج کے بدلے میں لینا اپنے اور اپنی اولاد کے لیے موجب ہتک سمجھتا ہوں.(۲۴) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ دادا صاحب نہایت وسیع الاخلاق تھے اور دشمن تک سے نیک سلوک کرنے میں دریغ نہ کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ جوتی ولد دولہ برہمن جس نے ایک دفعہ ہمارے خلاف کوئی شہادت دی تھی بیمار ہو گیا تو دادا صاحب نے اس کا بڑی ہمدردی سے علاج کیا اور بعض لوگوں نے جتلایا

Page 171

ابن سلطان القلم ~ 151 - بھی کہ یہ وہی شخص ہے جس نے خلاف شہادت دی تھی مگر انھوں نے اس کی کوئی پروا نہیں کی.ایسی ایسی اور بھی کئی مثالیں ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادا صاحب کی بلند ہمتی اور وسعت حوصلہ مشہور ہے.(۲۵) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے کہ دادا صاحب شعر بھی کہا کرتے تھے اور تحسین تخلص کرتے تھے.چنانچہ اُن کے دو شعر مجھے یاد ہیں.اے وائے کہ ما به ما چه کردیم کردیم ناکردنی ہمہ عمر درد سر من مشو طبيا ! ایں دردِ دل است درد سر نیست خاکسار عرض کرتا ہے کہ دادا صاحب کے بعض شعر حضرت صاحب نے بھی نقل کیے ہیں اور مرزا سلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دفعہ اُن کا کلام جمع کر کے حافظ عمر دراز صاحب ایڈیٹر ”پنجابی“ اخبار کو دیا تھا.مگر وہ فوت ہو گئے اور پھر نہ معلوم وہ کہاں گیا.نیز مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ تایا صاحب بھی شعر کہتے تھے.اُن کا تخلص مفتون تھا.نیز بیان کیا کہ ایک دفعہ ایک ایرانی قادیان میں آیا تھا.وہ دادا صاحب سے کہتا تھا کہ آپ کا فارسی کلام ایسا ہی فصیح ہے جیسا فصیح ایرانی شاعروں کا ہوتا ہے.

Page 172

(۲۶) ~ ابن سلطان القلم ~ 152 بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ بٹالہ کے ایک ہندو حجام نے دادا صاحب سے کہا کہ میری معافی ضبط ہو گئی ہے.آپ ایجرٹن صاحب فنانشل کمشنر سے میری سفارش کریں.دادا صاحب اُسے اپنے ساتھ لاہور لے گئے.اُس وقت لاہور کے شالامار باغ میں ایک جلسہ ہو رہا تھا.دادا صاحب نے وہاں جا کر جلسہ کی کارروائی ختم ہونے کے بعد ایجرٹن صاحب سے کہا کہ آپ اس شخص کا ہاتھ پکڑ لیں.صاحب گھبرایا کہ کیا معاملہ ہے مگر دادا صاحب نے اصرار سے کہا تو اُس نے ان کی خاطر اس حجام کا ہاتھ پکڑ لیا.اس کے بعد دادا صاحب نے صاحب سے کہا کہ ہمارے ملک میں دستور ہے کہ جب کسی کا ہاتھ پکڑ لیتے ہے ہیں تو پھر خواہ سر چلا جائے چھوڑتے نہیں.اب آپ نے اس کا ہاتھ پکڑا اس کی لاج رکھنا.پھر کہا کہ اس کی معافی ضبط ہو گئی ہے.کیا معافیاں دے کر بھی ضبط کیا کرتے ہیں؟ اس کی معافی بحال کر دیں.ایجرٹن صاحب نے اس کی مسل طلب کر کے معافی بحال کر دی.مرزا سلطان احمد صاحب نے بیان کیا کہ یہی ایجرٹن صاحب بعد میں پنجاب کا لفٹنٹ گورنر ہو گیا.(۲۷) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ دادا صاحب میں خود داری بہت تھی.ایک دفعہ رابرٹ

Page 173

ابن سلطان القلم ~ 153 ~ کسٹ صاحب کمشنر سے ملاقات کے لیے گئے.باتوں باتوں میں اُس نے پوچھا کہ قادیان سے سری گوبند پور کتنی دور ہے؟ دادا صاحب کو یہ سوال ناگوار ہوا.فورا بولے میں ہر کارہ نہیں اور سلام کہہ کر رخصت ہونا چاہا.صاحب نے کہا مرزا صاحب آپ ناراض ہو گئے ؟ دادا صاحب نے کہا کہ ہم آپ سے اپنی باتیں کرنے آتے ہیں اور آپ ادھر اُدھر کی باتیں پوچھتے ہیں جو آپ نے مجھ سے پوچھا ہے وہ میرا کام نہیں ہے.صاحب دادا صاحب کے اس جواب پر خوش ہوا.(۲۸) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ جب ڈیوس صاحب اس ضلع میں بندوبست تھا اور اُن کا عملہ بٹالہ میں کام کرتا تھا.قادیان کا ایک پٹواری جو قوم کا برہمن تھا اور محکمہ بندوبست مذکور میں کام کرتا تھا.تایا صاحب مرزا غلام قادر صاحب کے ساتھ گستاخانہ رنگ میں پیش آیا.تایا صاحب نے وہیں اس کی مرمت کر دی.ڈیوس صاحب کے پاس شکایت گئی.اُس نے تایا صاحب پر ایک سو روپیہ جرمانہ کر دیا.دادا صاحب اُس وقت امر تسر میں تھے اُن کو اطلاع ہوئی تو فورا ایجرٹن صاحب کے پاس چلے گئے اور حالات سے اطلاع دی.اُس نے دادا صاحب کے بیان پر بلا طلب مسل جرمانہ معاف کر دیا.

Page 174

(۲۹) ~ ابن سلطان القلم ~ 154 بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ تایا صاحب پولیس میں ملازم تھے.نسبٹ صاحب ڈپٹی کمشنر ضلع نے کسی بات پر اُن کو معطل کر دیا.اس کے بعد جب نسبٹ صاحب قادیان آیا تو خود دادا صاحب سے ذکر کیا کہ میں نے آپ کے لڑکے کو معطل کر دیا ہے.دادا صاحب نے کہا اگر قصور ثابت ہے تو ایسی سخت سزا دینی چاہیے کہ آئندہ شریف زادے ایسا قصور نہ کریں.صاحب نے کہا جس کا باپ ایسا ادب سکھانے والا ہو اس کو سزا دینے کی ضرورت نہیں اور تایا صاحب کو بحال کر دیا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ تایا صاحب نے بھی محکموں میں کام کیا ہے.پولیس میں بھی کام کیا ہے.ضلع کے سپر ڈنڈنٹ بھی رہے ہیں اور سُنا ہے نہر میں بھی کام کیا تھا اور بعض کاغذات سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکاری کاموں کی ٹھیکہ داری بھی کی ہے.چنانچہ میں نے ۱۸۶۰ء کے بعض کاغذات دیکھے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تایا صاحب بہت سے نے چھینہ کے پاس کسی پل کا بھی ٹھیکہ لیا تھا.(۳۰) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ مہاراجہ شیر سنگھ کاہنوو ان کے چھنب میں شکار کھیلنے کے لیے آیا.دادا صاحب بھی ساتھ تھے مہاراجہ کے ایک ملازم کو جو قوم کا

Page 175

سنگھ ابن سلطان القلم ~ 155 - ~ جلاہا تھا سخت زکام ہو گیا.داد صاحب نے اس کو ایک نسخہ لکھ دیا اور وہ اچھا ہو گیا لیکن پھر یہی بیماری خود شیر سنگھ کو ہو گئی اور اس نے علاج کے لیے دادا صاحب سے کہا دادا صاحب نے ایک بڑا قیمتی نسخہ لکھا.شیر سنگھ نے کہا کہ جولاہے کو دو ڈھائی پیسہ کا نسخہ اور مجھے اتنا قیمتی؟ دادا صاحب نے جواب دیا.شیر اور جولاہا ایک نہیں ہو سکتے.شیر سنگھ اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اُس زمانہ کے دستور کے مطابق عزت افزائی کے لیے کڑوں کی ایک جوڑی پیش کی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ اس علاج کے بدلے میں نہ تھی بلکہ مشرقی رؤساء اور بادشاہوں کا یہ دستور رہا ہے کہ جب کسی بات پر خوش ہوتے ہیں تو ضرور کچھ چیز تقریب و انعام کے طور پر پیش کرتے ہیں.شیر سنگھ نے بھی جب ایسا برجسته کلام سنا تو محظوظ ہو کر اس صورت میں اظہار خوشنودی کیا.مگر (۳۱) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش.صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ مرزا امام الدین صاحب نے دادا صاحب کے قتل کی سازش کی اور بھینی کے ایک سکھ سوچیت سنگھ کو اس کام کے لیے مقرر کیا.سوچیت سنگھ کا بیان ہے کہ میں کئی دفعہ دیوان خانہ کی دیوار پر اس نیت سے چڑھا مگر ہر دفعہ مجھے مرزا صاحب یعنی دادا صاحب کے ساتھ دو آدمی محافظ نظر آئے اس لیے میں جرات نہ کر سکا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ کوئی تصرف الہی ہو گا.

Page 176

(۳۲) ~ ابن سلطان القلم ~ 156 بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ دادا صاحب حقہ بہت پیتے تھے مگر اُس میں بھی اپنی شان دکھاتے تھے.یعنی جو لوگ اپنے آپ کو بڑا سمجھتے ہوں اُن کو اپنا حقہ دیتے تھے لیکن غریبوں اور چھوٹے آدمیوں سے کوئی روک نہ تھی.(۳۳) نہیں بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش وو دو صاحب ایم اے کہ دادا صاحب کا تکیہ کلام “ ہے بات کہ نہیں ” تھا جو جلدی میں “ ہے با کہ نہیں " سمجھا جاتا تھا.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس کے متعلق اور بھی کئی لوگوں سے سنا گیا ہے.(۳۴) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ قادیان میں ایک بغدادی مولوی آیا.دادا صاحب نے اُس کی بڑی خاطر و مدارت کی.اس مولوی نے دادا صاحب سے کہا کہ مرزا صاحب! آپ نماز نہیں پڑھتے؟ دادا صاحب نے اپنی کمزوری کا اعتراف کیا اور کہا کہ ہاں بے شک میری غلطی ہے.مولوی صاحب نے پھر بار بار اصرار کے ساتھ کہا اور ہر دفعہ دادا صاحب یہی کہتے گئے کہ میرا قصور ہے.آخر مولوی نے کہا آپ نماز نہیں پڑھتے.اللہ آپ کو دوزخ میں ڈال

Page 177

ابن سلطان القلم ~ 157 - ~ دے گا.اس پر دادا صاحب کو جوش آگیا اور کہا “تمھیں کیا معلوم ہے کہ وہ مجھے کہاں ڈالے گا.میں اللہ تعالیٰ پر ایسا بدظن نہیں ہوں میری امید وسیع ہے.خدا فرماتا ہے لا تقنطوا من رحمت اللہ تم مایوس ہو گے میں مایوس نہیں ہوں.اتنی بے اعتقادی میں تو نہیں کرتا” پھر کہا “اس وقت میری عمر ۷۵ سال کی ہے.آج تک خدا نے میری پیٹھ نہیں لگنے دی تو کیا اب وہ مجھے دوزخ میں ڈال دے گا” خاکسار عرض کرتا ہے کہ پیٹھ لگنا پنجابی کا محاورہ ہے جس کے معنے دشمن کے مقابلہ میں ذلیل و رسوا ہونے کے ہیں ورنہ ویسے مصائب تو دادا صاحب پر بہت آئے ہیں.(۳۵) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش.صاحب ایم اے کہ دادا صاحب نے طب کا علم حافظ روح اللہ صاحب باغبانپور لاہور سے سیکھا تھا.اس کے بعد دہلی جا کر تکمیل کی تھی.(۳۶) بیان کیا مجھ سے رحیم بخش صاحب ایم اے نے کہ بیان کیا ان سے مرزا سلطان احمد صاحب نے کہ دادا صاحب کی ایک لائبریری تھی جو بڑے بڑے پٹاروں میں رہتی تھی اور اُس میں بعض کتابیں ہمارے خاندان کی تاریخ کے متعلق بھی تھیں.میری عادت تھی کہ میں دادا صاحب اور والد صاحب

Page 178

ابن سلطان القلم ~ 158 ~ کی کتابیں وغیرہ چوری نکال کر لے جایا کرتا تھا.چنانچہ والد صاحب اور دادا صاحب بعض وقت کہا کرتے تھے کہ ہماری کتابوں کو یہ ایک چوہا لگ گیا ہے.(۳۷) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ تایا صاحب کی شادی بڑی دھوم دھام سے ، ہوئی تھی اور کئی دن تک جشن رہا تھا اور ۲۲ طائفے ارباب نشاط کے جمع تھے مگر والد صاحب کی شادی نہایت سادہ ہوئی تھی اور کسی قسم کی خلاف شریعت رسوم نہیں ہوئیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بھی تصرف الہی تھا، ورنہ دادا صاحب کو دونوں بیٹے ایک تھے.(۳۸) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ہماری دادی صاحبہ بڑی مہمان نواز، سخی اور غریب پرور تھیں.(۳۹) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ میں نے سنا ہوا ہے کہ ایک دفعہ والد صاحب سیشن عدالت میں اسیسر مقرر ہوئے تھے مگر آپ نے انکار کر دیا.

Page 179

(۴۰) ابن سلطان القلم ~ 159 - ~ بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ آخری عمر میں دادا صاحب نے ایک مسجد تعمیر کروانے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے موجودہ بڑی مسجد کی جگہ کو پسند کیا اس جگہ سکھ کارداروں کی حویلی تھی.جب یہ جگہ نیلام ہونے لگی تو دادا صاحب نے اس کی بولی دی مگر دوسری طرف دوسرے باشندگان قصبہ نے بھی بولی دینی شروع کی اور اس طرح قیمت بہت چڑھ گئی.مگر دادا صاحب نے بھی پختہ قصد کر لیا تھا کہ میں اس جگہ میں ضرور مسجد بناؤں گا.خواہ مجھے اپنی جائیداد فروخت کرنی پڑے.چنانچہ سات سو روپیہ میں یہ جگہ خریدی اور اس پر مسجد بنوائی.خاکسار عرض کرتا ہے کہ اس وقت کے لحاظ سے اس جگہ کی قیمت چند گنتی کے روپے سے زیادہ نہ تھی مگر مقابلہ سے بڑھ گئی.(لدا ) بیان کیا مجھ سے رحیم بخش صاحب نے کہ بیان کیا اُن سے مرزا سلطان احمد صاحب نے کہ جو عورت والد صاحب کو کھانا دینے جاتی تھی بعض اوقات واپس آکر کہتی تھی ”میاں اُن کو (یعنی حضرت صاحب کو) کیا وہ ہوش ہے.یا کتابیں ہیں اور یا یہ ہیں.خاکسار عرض کرتا ہے کہ ناظرین کو یاد ہو گا کہ میں نے تمہید میں یہ لکھا تھا کہ بغرض سہولت میں تمام روایات صرف اردو زبان میں بیان کروں گا.خواہ وہ کسی زبان میں کہی گئی ہوں.سو جاننا چاہیے کہ فقرہ مندرجہ بالا بھی دراصل پنجابی میں کہا گیا تھا.یہ صرف بطور

Page 180

~ ابن سلطان القلم ~ 160 مثال کے عرض کیا گیا ہے.نیز ایک اور عرض بھی ضروری ہے کہ جہاں خاکسار نے یہ لکھا ہے کہ ”بیان کیا مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے.“ اس سے مطلب یہ ہے که مولوی صاحب موصوف کو میں نے کوئی معین سوال دے کر مرزا صاحب موصوف کے پاس بھیجا اور اُس کا جواب مرزا صاحب کی طرف سے دیا گیا وہ نقل کیا گیا اور جہاں مولوی صاحب کی طرف سے روایت کو منسوب کیا ہے وہاں میرے کسی معین سوال کا جواب نہیں بلکہ جو مرزا صاحب نے دوران گفتگو میں مولوی صاحب کو کوئی بات بتائی وہ نقل کی گئی ہے.قادیان (۴۲) بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم اے کہ ایک دفعہ قادیان میں ہیضہ پھوٹا اور چوہڑوں کے محلہ میں کیس ہونے شروع ہوئے.دادا صاحب اُس وقت بٹالہ میں تھے.یہ خبر سُن کر آگئے اور چوہڑوں کے محلہ کے پاس آکر ٹھہر گئے اور چوہڑوں کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا اور اُن کو تسلی دی اور پھر حکم دیا کہ قادیان کے عطار آملہ ، کشئے ، گڑ ( یعنی قند سیاہ لیتے آویں اور پھر اُن کو مٹی کے بڑے بڑے برتنوں میں ڈلوا دیا اور کہا کہ جو چاہے گڑ والا پیے اور جو چاہے نمک والا ہیے.کہتے ہیں دوسرے دن مرض کا نشان مٹ گیا.********

Page 181

ابن سلطان القلم ~ 161 - ~ ششم علمی و ادبی زندگی اور علمی خدمات فصل اول عظیم علمی و ادبی قد و قامت کے حامل: حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی صلاحیتوں سے نواز رکھا تھا.آپ اُردو زبان کے ایک بلند پایہ مصنف اور عظیم المرتبہ مضمون نگار تھے.آپ کا قلم بہت رواں اور زبان نہایت شستہ اور اعلیٰ تھی.ساٹھ کے مشتمل قریب آپ کی تصنیفات ہیں جو مختلف موضوعات اور متنوع معلومات پر ہیں.تصنیفات کے علاوہ آپ کے سینکڑوں مضامین مختلف علمی و ادبی جرائد و مجلات کی زینت بنتے رہے.یہ تصنیفات اور مضامین نہ صرف آپ کی فصاحت و بلاغت اور زبان دانی پر دلالت کرتے ہیں بلکہ آپ کی وسعتِ علمی، بالغ نظری، نکتہ دانی اور کثرت نگاری پر بھی شاہد ناطق ہیں.آپ نے جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا اس پر ایسے علمی، فلسفیانہ اور مدلل رنگ میں بحث کی ہے کہ جس کو دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے.اتنا

Page 182

ابن سلطان القلم ~ 162 ~ ہر زیادہ لکھنے کے باوجود آپ نے نہ صرف زبان و بیان کے انتہائی معیار کو رکھا بلکہ موضوع کو اس طرح زیر بحث لائے کہ اس کا حق ادا کر دیا اور کسی موضوع کے ساتھ نا انصافی نہیں ہونے دی.تاریخ علم و ادب میں اس رعایت کے ساتھ لکھنے والے کی مثال کم ہی مل سکے گی.آپ اپنے معاصرین میں ممتاز مقام رکھتے تھے.ہر رسالہ آپ کے مضامین کو اپنی زینت بنانا اپنے لیے باعث فخر گردانتا اور دیگر تمام بڑے قلم کاروں کے بالمقابل آپ کے مضمون کو سر فہرست جگہ دی جاتی تھی.عظیم علمی و ادبی قدو قامت کی حامل یہ شخصیت اس عظیم ہستی کے فرزند اکبر تھے جس کو خدائے رحمن نے سلطان القلم کے خطاب سے نوازا اور دنیا والوں نے اس کے قلم کو سحر اور زبان کو جادو قرار دیا.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی تحریرات میں اپنے والد بزرگوار کے قلم کی سحر انگیزی کا عکس نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے.نصف صدی سے زیادہ عرصہ ہندوستان کے افق ادب پر چھایا رہنے والا یہ شخص یکا یک منظر علم و ادب سے غائب ہو گیا اور آج اردو ادب کا طالبعلم آپ کا نام تک نہیں جانتا، محض اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اُس وقت تک آپ کی روح کو قبض نہیں کیا جب تک آپ کو شخص ا مولانا ابوالکلام آزاد ایڈیٹر اخبار وکیل امرتسر نے حضرت مسیح موعود کے بارہ میں لکھا: ” وہ بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص جو دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا، جس کی نظر فتنہ اور آواز حشر تھی، جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے.وہ شخص مذہبی دنیا کے لیے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان بنارہا.“

Page 183

ابن سلطان القلم ~ 163 - ~ امام الزمان علیہ السلام کی روحانی فرزندی سے سرفراز نہیں فرما دیا اور جب تک حضرت اقدس علیہ السلام سے کیسے ہوئے وعدهِ لَنْ نُبْقِيَ لَكَ مِنَ الْمُخْزِيَاتِ ذِكْرًا کو پورا نہیں فرما دیا.یہی وہ مجرم تھا جس کی پاداش میں کم ظرف دُنیا والوں نے آپ کے نام کو عمداً فراموش کر دیا، لیکن یہ بے مروت دنیا والے نہیں جانتے که در حقیقت اسی جرم کے صدقے آپ کا نام رہتی دنیا تک باقی رہے گا اور ہمیشہ عزت و تکریم سے یاد کیا جاتا رہے گا.ذوق شعر و سخن حضرت مرزا سلطان احمد صاحب جس خاندان سے تعلق رکھتے تھے اس میں ذوقِ شعر و سخن بہت عام تھا.یہ ذوق آپ کو وراثت میں ملا تھا.آپ کے والد ماجد حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ السلام بھی اردو، عربی اور فارسی میں نہایت بلند پایہ شعر کہتے تھے، مگر بطور پیشہ یا برائے دل لگی نہیں، بلکہ آپ نے اپنی اس صلاحیت کو عشق حقیقی کے اظہار اور پیغام حق کی منادی کا ذریعہ بنایا تھا.ابتدا میں آپ «فرخ» تخلص کرتے تھے، پھر اسے چھوڑ دیا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں: خاکسار عرض کرتا ہے کہ مرزا سلطان احمد صاحب سے مجھے حضرت مسیح موعود کی ایک شعروں کی کاپی ملی ہے جو بہت پرانی معلوم ہوتی ہے.غالباً

Page 184

ابن سلطان القلم ~ 164 ~ نوجوانی کا کلام ہے.حضرت صاحب کے حضرت صاحب کے اپنے خط میں ہے جسے میں پہچانتا ہوں.کئی جگہ فرخ تخلص استعمال کیا ہے.166 حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے دادا نے بھی طبیعت رسا پائی تھی.وہ فارسی میں نہایت عمدہ شعر کہتے تھے اور تحسین تخلص کرتے تھے.مرزا سلطان احمد 66 صاحب نے ایک دفعہ ان کا کلام بلاغت نظام حافظ عمر دراز صاحب ایڈیٹر ” پنجابی اخبار “ دیا تھا، مگر ان کے ساتھ ہی یہ قیمتی خزانہ بھی معدوم ہو گیا." حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے آپ کے دو شعر اپنے حافظے سے بیان کیے، جو سیرت المہدی میں درج ہیں.اے وائے کہ ما به ماچه کردیم کردیم ناکردنی ہمہ عمر درد سر من مشو طبیبا! ایں دردِ دل است دردِ سر نیست اسی طرح حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے تایا صاحبزادہ مرزا غلام قادر صاحب بھی شعر کہتے تھے اور ”مفتون" تخلص کرتے تھے." ا سیرت المہدی جلد اول صفحه ۲۱۳، ۲۱۴ ۲ تاریخ احمدیت جلد اول صفحه ۱۲۳، جدید ایڈیشن ترجمہ: افسوس کہ ہم نے اپنے ساتھ کیا کیا.ہم نے تمام عمر نا کر دنی ہی کی.اے طبیب! تو میرے سر کا در دنہ بن.یہ دردِ دل ہے دردِ سر نہیں.۴ سیرت المہدی جلد اول صفحه ۲۰۹

Page 185

ابن سلطان القلم ~ 165 - حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب خود بھی شعر کہتے تھے.آپ کی منظومات و غزلیات پر مشتمل ایک کتاب ”چند نثر نما نظمیں“ کے عنوان سے شائع شدہ ہے.علاوہ ازیں آپ اُردو و فارسی شاعری کا انتہائی اعلیٰ ذوق رکھتے تھے، اور اس حوالے سے بھی آپ کا مطالعہ نہایت گہرا اور وسیع تھا، جس کا ثبوت آپ کی تحریرات میں نہایت عمدہ اشعار اور چنیدہ مصرعوں کے بے ساختہ اور برمحل استعمال سے ملتا ہے.آپ کی تحریریں پڑھیں تو یوں لگتا ہے کہ کسی ماہر سنار نے سونے کے زیورات میں انتہائی مہارت سے نگینے جڑ دیے ہوں.آپ کے شعری ذوق کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ آپ کے اُن سینکڑوں مضامین سے بخوبی ہو سکتا ہے، جو آپ نے زبان و ادب اور شعر کے متعلق تحریر کیے.علاوہ ازیں آپ نے ”فن شاعری“ کے عنوان سے ایک انتہائی شاندار کتاب تحریر کی اور اس میں فن شعر پر فلسفیانہ تنقید و تبصرہ فرمایا.ادبی زندگی: ذیل میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا خود تحریر کردہ مضمون نقل کیا جاتا ہے جس میں آپ نے اپنی ادبی زندگی پر روشنی ڈالتے ہوئے درج ذیل امور بیان کیے ہیں.مثلاً: ادب میں آپ کن شعراء اور نثر نگاروں کو پسند کرتے تھے؟ کس قسم کے مضامین اور کتابیں آپ کو اچھی لگتی تھیں؟ ماحول، وقت اور موسم آپ کے دل و دماغ پر کیسے اثر انداز ہوتے اور خیالات میں

Page 186

ابن سلطان القلم ~ 166 ~ کس طور پر تموج پیدا کرتے تھے ؟ آپ کی نظر میں آپ کی تصانیف میں سے بہترین تصنیف کون سی ہے؟ وغیرہ.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں: (1) الف میں فارسی کے دواوین میں سے حافظ، سعدی، صائب، غنی اور واقف کو پسند کرتا ہوں اور رباعیات حضرت خیام، مثنوی مولانا روم علیہ الرحمة، ابیات مولانا جامی، بوستان، کریما.ب: نثر میں سے گلستان اخلاقی رنگ میں.(۲) الف اردو دواوین میں سے دیوان غالب، دیوان سودا، دیوان میر، دیوان داغ دیوان ،حبیب کلام اقبال، کلام حضرت اکبر الہ آبادی، کلام حضرت ریاض، کلام حضرت مظفر، کلام حضرت جلیل، کلام جلال، کلام پنڈت بشن نرائن ابر لکھنوی، کلام حضرت حالی، مولانا آزاد مرحوم.ب: نثر میں سے کلام مولانا عبد الحلیم ناولسٹ، مولانا سیّد احمد صاحب مرحوم، ادبی رنگ میں توبتہ النصوح مولوی نذیر احمد صاحب، تصانیف مولوی عبد الحلیم صاحب شرر تصانیف پنڈت سرشار صاحب لکھنوی، طرز تحریر پنڈت چک بست، کلام مولوی ظفر علی خاں بی اے (علیگ) مالک رسالہ پنجاب ریویو، ا ان کا پورا نام ”ملا پناہ واقف تھا.یہ ترکی آزربائیجانی زبان کے شاعر تھے اور آذربائیجان کے رہنے والے تھے.ان کی پیدائش ۰۹۶ اھ اور وفات ۱۱۵۸ھ میں ہوئی.بہت بڑے شاعر اور سیاستدان تھے.وزیر اور پھر وزیر اعظم بنے.مختلف علوم کے ماہر تھے جس کی وجہ سے ان کو ”ملا“ کہا گیا.انھی کے حوالے سے ایک ضرب المثال بھی بنی ”ہر دانش آموز ملا واقف نمی گردد کہ ہر شاگرد ملا واقف نہیں بنتا.(مؤلف)

Page 187

ابن سلطان القلم ~ 167 - ~ مضامین شیخ عبد القادر ایڈیٹر مخزن پنجاب، سید ناصر علی صاحب خان بہادر مالک صلائے عام دہلی، تنقیدات رسالہ زمانہ، مبدیات ایڈیٹر رسالہ الناظر لکھنو.اوپر جس قدر حوالے دیے گئے ہیں یہ استقرائی ہیں اور ان کا نام باعتبار جدا گانہ رنگوں کے لیا گیا ہے.اس سے یہ مراد نہیں کہ ان میں اضافہ نہیں ہو سکتا اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی اور صاحب ان میں کچھ کمی بھی کر سکیں.میں نے ان کا نام بطور ایک نظیر کے لیا ہے.ج: اوائل عمر میں مجھے ہمیشہ وہ کتاب اور وہ تصنیف یا تالیف پسند ہوا کرتی تھی جس میں حقیقت الامور پر بحث کی گئی ہو، جو نرا قصہ اور کہانی نہ ہو.میں صوفیانہ رنگ کی تصانیف خواہ کسی مذہب کی ہوں زیادہ پسند کرتا رہا ہوں.فلسفی رنگ کی کتابوں اور تصانیف سے مجھے شروع سے ایک خاص قسم کا شوق رہا ہے اور یہی سلسلہ مجھے سب سے زیادہ پسند بھی آیا ہے اور یہی رنگ مجھے زیادہ محفوظ کرنے کا ذریعہ ہے.دواوین اور اشعار میں سے میں وہ سلسلہ پسند کرتا ہوں کہ جن میں سوز وگداز ہو اور جن میں شاعر نے کوئی حقیقت ظاہر کی ہو.ان کا ایک مصرع بھی میرے دل پر خاص اثر کرتا اور مجھے ایک خاص حظ بخشتا ہے.اسی طرح فلسفی رنگ کی بحثیں اور صوفیانہ رنگ کی تصانیف سے میں ایک خاص خوشی کا احساس کرتا ہوں.بعض دفعہ مجھے ساری کتاب ناپسند ہوئی.کبھی اس کا ایک جملہ بمقابلہ ساری کتاب کے میرے لیے ایک خوش کن ذخیرہ ثابت ہوا.

Page 188

ابن سلطان القلم ~ 168 ~ ایک دفعہ مجھے ہندی دوہوں کی ایک کتاب ملی.میرے دل پر ان دوہوں نے اتنا اثر کیا کہ میں کبھی کبھی اکیلا ہو کر انھیں بار بار پڑھتا تھا.اس وقت میرے دل سے ایک جوش اٹھتا تھا اور میں اپنے دل میں ایک خاص قسم کا سرور محسوس کرتا تھا.بعض دفعہ ایک شعر نے وہ حالت کی ہے کہ ہزاروں شعر سے بھی وہ سماں نہیں پیدا ہوا.ایک دفعہ ایک پنجابی فقیر صبح ہی صبح پنجابی زبان میں یہ گا رہا تھا کہ ”جو پتا ایک دفعہ اپنی شاخ سے گر جاتا ہے وہ پھر کبھی اس شاخ پر نہیں لگ سکتا.“ میں نے دیکھا کہ ایک اچھا پڑھا لکھا آدمی یہ سن کر زار زار رو تا تھا اور اس کی حالت واقعی کسی اور رنگ میں تھی.میرے مطالعہ کی ترقی اور وسعت کا باعث اس قسم کی کتابیں اور مضامین ہوئے ہیں.اب مجھے یہاں تک خبط ہے کہ میں ایسے ہی مضامین یا اشعار، فقرات، جملوں کی تلاش میں صدہا صفحے پڑھ ڈالتا ہوں.اگر ایک ہزار صفحہ کی کتاب سے ایک فقرہ بھی میرے مذاق کے مطابق آیا تو میں سمجھ لیتا ہوں کہ کتاب کی قیمت وصول ہو گئی اور میرا وقت رائیگاں نہیں گیا.مجھے کسی کتاب نے اتنا فائدہ نہیں پہنچایا اور نہ محظوظ کیا جس قدر اس قسم کے فقرات اور مضامین نے فائدہ پہنچایا اور محظوظ کیا.میری رائے میں اگر کسی کتاب کا ایک فقرہ بھی دل پر اثر کرتا ہے اور خیالات میں تموج اور جوش پیدا کرنے کی قابلیت رکھتا ہے تو وہ کتاب کی جان، کتاب کی کفالت ہے اور وہ کتاب لائق انتخاب ہے.

Page 189

ابن سلطان القلم ~ 169 - ~ (۳) میں کوئی خاص ایسی کتاب بیان نہیں کر سکتا کہ جس نے میری علمی زندگی میں کوئی خصوصیت پیدا کی ہو اور میں اس خصوصیت کی وجہ.تصنیف یا تالیف کی طرف متوجہ ہوا ہوں.میں نے اپنے ارد گرد ایک لمبی چوڑی کتاب لکھی دیکھی اور اسے دلچسپ پایا.ایک ایک لفظ اور ایک ایک فقرہ نے میرے خیالات میں خاص تموج پیدا کیا.بعض دفعہ ایک ہی فقرہ اور ایک صفحے لکھ گیا.نہ ہاتھ روکے بیٹھے صدہا ہی بیت نے مجھ پر وہ اثر کیا کہ میں سے رکا اور نہ قلم رُکتا ہے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں ایک اعلیٰ پایہ کی کتاب کوئی اڑھائی سو صفحہ تک پڑھ گیا لیکن میرے دل و دماغ پر کوئی خاص اثر نہ ہوا.میں جب کسی مضمون کے لکھنے پر قلم اٹھاتا تھا تو ایک دو سطریں لکھ کر خودبخود رک جاتا تھا.میں قریباً اکتا گیا.دیوانِ صائب پاس پڑا تھا، اُٹھا کر پڑھنے لگا.میں نے مندرجہ ذیل شعر دو دفعہ پڑھے ہوں گے کہ دل و دماغ میں اس قسم کا جذبہ ہوا کہ میں رات کے ایک بجے تک لکھتا رہا اور نئے نئے مضامین پیش ضمیر آنے لگے.ہر چه دیدیم دریں باغ نه دیدن به بود ہر گلے تازه که چیدیم نه چیدن به بود ہر کجا منزلِ آرام تصور کردیم چوں نفس راست نمودیم رسیدن به بود

Page 190

ابن سلطان القلم ~ 170 ~ ہر متاع که خریدیم به اوقات عزیز بود اگر یوسف مصری نه خریدن به بودا اس کا باعث کیا تھا کہ ان مضامین نے دل و دماغ پر اثر کیا اور جذب مضامین کی طاقت خود بخود پیدا ہو گئی تھی؟ محض تاثیر.میری رائے میں سلسلہ تصنیف اور تالیف کے واسطے کسی بڑے مصالحے کی ضرورت نہیں.صرف چند مؤثر جاذب فقرات کی ضرورت ہے.(۴) جو کتابیں حقیقی واقعات اور صادق امور پر لکھی گئی ہیں یا جن میں اخلاقی رنگ یا فلسفیانہ طرز میں بحث کی گئی ہے، ان کے لفظ لفظ نے میری زندگی اور میرے ضمیر پر خاص اثر کیا ہے.کتاب پر ہی موقوف نہیں ایسے مؤثر فقرات نے بھی میری زندگی اور میرے دل و دماغ پر اثر کیا ہے.پڑھ کر ہی نہیں بلکہ سن کر بھی بہت متاثر ہوا ہوں.خوش مضمون، خوش صدا کا مجھ پر ایک خاص اثر ہوتا ہے اور ان حالات میں میرے دل میں جدت مضامین کا تموج ہوتا ہے.اگر کوئی شخص بانسری خوش الحانی سے بجا رہا ہو اور ارد گرد کوئی شور و شغب نہ ہو تو میرے دل و دماغ میں مضامین جدید کا ایک خاص تموج پیدا ہوتا ہے اور لکھنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی.موسم کی خوش " ا ترجمہ : جو کچھ بھی ہم نے اس باغ میں دیکھا اس کا نہ دیکھنا بہتر تھا.ہر تازہ پھول جس کو ہم نے چنا اس کا نہ چننا اچھا تھا.جس جگہ بھی ہمیں آرام کی ضرورت پڑی وہاں کچھ آرام کر لینے کے بعد منزل پر پہنچنا بہتر تھا.ہر متاع جو ہم نے اوقات عزیز کے بدلے خریدی اگر وہ یوسف مصری بھی ہوتا تو اس کا نہ خرید نا بہتر تھا.

Page 191

ابن سلطان القلم ~ 171 - گواری بھی مجھ پر یہی اثر کرتی ہے.کبھی کبھی مایوسی اور اداسی کا بھی یہی فوری اثر ہوتا ہے.~ ایک دفعہ طبیعت کند پڑی ہوئی تھی.بہتیرا چاہا کہ کچھ لکھوں یا لکھ سکوں مگر طبیعت کہنے میں نہ آئی.دیوان حضرت مینائی اٹھا لیا.کھولتے ہی اس شعر پر نظر پڑی.ہر جام میں ہے جلوۂ مستانہ کسی کا میخانہ ہمارا ہے جلو خانہ کسی کا نہیں معلوم اس بزرگ شاعر کے اس شعر میں کیا کچھ اثر بھرا تھا طبیعت پڑھتے ہی کھل گئی اور قلم خود بخود عرصہ قرطاس پر چل پڑا.(۵) میں نے سب سے پہلے پہل پنجابی زبان میں مولوی غلام رسول صاحب مرحوم کی بحر میں سسی پنوں کی داستان لکھی.ناظرین نے اسے بہت پسند کیا اور میں بھی ایک حد تک اسے پسند کرتا تھا کیونکہ وہ ایک درد کی کہانی تھی.اس سے میری طبیعت مضامین نویسی پر متوجہ ہوئی اس کے بعد دوسرے نمبر کی کتاب (مرآۃ الخیال) منثل فلاسفی پر لکھی گئی.(۶) یہ کہنا کسی قدر مشکل ہے کہ کونسی کتاب میری تصنیفات میں سے بہترین کے درجہ میں ہے.کسے بہتر کہوں اور کسے ناقص.درجہ بدرجہ میں شاید میری رائے میں کوئی بہتر ہو اور دوسروں کے خیال میں مجموعہ ناقص.حسن اپنی اپنی پسند، کتاب و مضمون اپنی اپنی پسند“ ہاں اتنا کہوں گا کہ جیوں

Page 192

ابن سلطان القلم ~ 172 ~ جیوں زمانہ گزرتا جاتا ہے اور پیک عمر منازل تجربہ طے کرتے کرتے بڑھتا جاتا ہے پچھلے خیالات میں سے بعض خیالات قابل ترمیم یا قابل تشریح ضرور معلوم دیتے ہیں.ہوئی و پچھلے سال فن شاعری پر ایک چھوٹا سا رسالہ جو لکھا ہے وہ میری اور چند مبصرین کی رائے میں ایک اچھے پیرایہ میں لکھا گیا ہے.اب ایک کتاب سات سو صفحہ کی موسوم به اساس الاخلاق مطبع وکیل ہند امر تسر میں شائع ہے.میری رائے میں اس رنگ میں اردو زبان میں بہت کم کتابیں لکھی گئی ہیں.اس کتاب میں خاص اصولوں کی پابندی سے اس اساس الاخلاق پر بحث کی گئی ہے.اگر نقادانِ ملک نے اسے پسند کیا تو میری رائے میں میری پینتالیس چھیالیس تصانیف میں سے یہ کتاب بہترین ہو گی اور شاید بعض کی نظروں میں یہی کتاب بہترین میں سے شمار ہو کیونکہ ہر ایک کا مذاق جدا جدا ہے.اگر سب نہیں تو فقرے دو فقرے شاید اچھے نکل آئیں.مضمون نویسی 166 حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے بارہ میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ وہ فطرتاً ادیب اور قلم کار تھے.صناع کامل نے آپ کو لکھنے کی خاص صلاحیت ودیعت کی ہوئی تھی.آپ کا توسن خامہ جب چلتا تو رکنے کا نام نہ لیتا تھا.حکیم انشاء اللہ خان انشا کا یہ شعر آپ کی تلاطم خیز طبیعت پر خوب صادق آتا ہے.ا نقوش.آپ بیتی نمبر صفحہ ۵۷۶ تا ۵۷۸

Page 193

ابن سلطان القلم ~ 173 - بولے ہے یہی خامہ کہ کس کس کو میں باندھوں بادل سے چلے آتے ہیں مضموں مرے آگے آپ اعلیٰ سرکاری عہدوں پر فائز رہے.جائیداد کا انتظام ہر چند خود نہ کرتے تھے، لیکن اس کی نگرانی بھی یقیناً آپ کی توجہ اور اہتمام کی متقاضی تھی.ان ذمہ داریوں اور فرائض منصبی کی ادائیگی کے باوجود آپ مطالعہ اور تحریر کے کام سے کبھی لا تعلق نہیں رہے.دریائے طبیعت ہمیشہ موج پر آیا رہتا تھا.اپنے کاموں کے دوران میں جو وقفہ ملتا اس میں بھی مضمون لکھ لیا کرتے تھے.سید میر محمود احمد ناصر صاحب نگران ریسرچ سیل و صدر نور فاؤنڈیشن، ربوہ کی روایت گذشتہ صفحات میں گزر چکی ہے، جس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کا قلم اس قدر رواں تھا کہ دو مقدموں کے دوران میں جو تھوڑا سا وقت ملتا تھا اس میں آپ کے مضامین کی فہرست: مضمون لکھ لیتے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے مضامین کی فہرست چونکہ بہت طویل ہے ، اس لیے کتاب کے آخر میں دے دی گئی ہے.

Page 194

ابن سلطان القلم ~ 174 فصل مختلف رسائل واخبارت کی آراء اور تبصرے صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے گرانقدر مضامین مختلف علمی وادبی رسائل واخبارات کی زینت بنتے رہے.بعض رسائل واخبارات کے مدیران مختلف وقتوں میں آپ کے مضامین پر تبصرے بھی شائع کرتے رہے.ان تبصروں اور آراء سے دنیائے علم و ادب میں آپ کے عظیم مقام و مرتبے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے.ان میں سے بعض تبصرے ذیل میں درج کیے جاتے ہیں: تمام خیابان گلزار علم آپکی تراوش قلمی کے رہین منت : ابو الافضال مالک و ایڈیٹر اخبار المشیر و رسالہ ضیاء الاسلام مراد آباد آپ کے بارے میں رقم طراز ہیں: مسلمانوں کے علمی طبقہ میں بہت کم افراد ایسے ہوں گے جو عالی جناب خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب سابق اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر پنجاب حال ریونیو ممبر ریاست بہاولپور کے نام نامی اور اُن کے علمی کارناموں سے بے خبر ہوں.حقیقت یہ ہے کہ مرزا صاحب ممدوح کے رشحات قلم کی آبیاری سے چمن علم کی نہ صرف کوئی ایک کیاری (شعبہ علم) سیراب ہوئی ہے بلکہ یوں کہا جاسکتا ہے کہ آپ کی تراوش قلمی کے رہین منت تمام خیابان گلزار علم ہیں لیکن

Page 195

ابن سلطان القلم ~ 175 ~ خصوصیت کے ساتھ تصوف، فلسفہ اور اُردو ادب پر آپ کے اتنے احسانات ہیں کہ یہ شعبے کبھی مرزا صاحب کی منت پذیری سے سبکدوش ہی نہیں ہو سکتے.کچھ عرصہ سے مرزا صاحب کی طبع عزیز نے مسائل مذہبی کو موجودہ زمانہ کے متکلمانہ طرز پر نئے قالب میں ڈھالنا شروع کیا ہے اور حقیقت الامر یہ ہے کہ جناب ممدوح جس مسئلہ کو اپنا نصب العین قرار دیتے ہیں اُس کے متعلق آپ کی فکر رسا اور طبع موزوں تقریباً تمام موجودہ قسم کے اعتراضات کی مسکت اور دلنشین جوابات کو ایسا مکمل گلدستہ تیار کر دیتے ہیں کہ جدید و قدیم دونوں خیال کے اصحاب اُس گلدستہ کے گونا گوں بوقلمون پتیوں اور معطر و خوشنما پھولوں کے نظارے و مہک سے اپنے مشام جان اور باطنی آنکھوں کو محظوظ و مسرور کرتے ہیں.ناظرین و شائقین اب سے قبل ”النساء فی الاسلام“ کے مطالعہ سے بہرہ اندوز ہو چکے ہیں.اب مرزا صاحب ممدوح نے یہ دوسرا گلدستہ عطر پاش موسومه الصلوۃ اپنی مہربانی سے ہم کو مرحمت فرمایا ہے، جس کو ہم نے علاوہ اپنے ماہوار پرچہ ضیاء الاسلام میں شائع کرنے کی علیحدہ بصورت کتاب بھی طبع کیا ہے.امید ہے کہ ناظرین حقیقت صلوۃ کے متعلق اس رسالہ میں اچھوتے گلہائے مضامین کو ملاحظہ فرما کر مرزا صاحب کی منت پذیری میں ہمارے ہم زبان ہوں گے اور ہم علاوہ اظہار سپاس گزاری کے مرزا صاحب کے واسطے صدق دل سے دست بدعا ہیں کہ خداوند عالم جناب ممدوح کو توفیق عطا فرمائے

Page 196

ابن سلطان القلم ~ 176 ~ کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ اس قسم کے نادر مضامین سے صاحبانِ مذاق سلیم کی ضیافت طبع فرماتے رہیں.خاکسار ابو الافضال مالک و ایڈیٹر اخبار المشير ورسالہ ضیاء الاسلام مراد آباد - ۱۵ / دسمبر ۱۹۱۲ء.زر کاری دارد: 166 رسالہ ”المجدد“ کے ایڈیٹر تحریر کرتے ہیں: کون شخص ہے جو عالی جناب مرزا سلطان احمد خان صاحب اکسٹر ا ا کمشنر کے اسم گرامی سے نا آشنا ہے.آپ کی زبر دست انتشار پر دازی اور عالمانہ و فاضلانہ مضامین کی دھاک دُنیا کے اِس سرے سے اُس سرے تک بندھی ہوئی ہے.ہندوستان بھر میں شاید ہی کوئی ایسار سالہ یا اخبار ہو گا جس میں آپ کے علمی، اخلاقی، تاریخی مضامین شائع نہ ہوتے ہوں.ایک طرف تو ملازمت سرکاری اور دوسری طرف شوق مضمون نگاری، زراکارے دارد والا معاملہ ہے.اس سے آپ کے اعلیٰ کمالات علمی کا پتہ چلتا ہے.ہم اپنے بیان کی صداقت کیلیے آج کے نمبر میں کلک اعجاز رقم کا ایک عالمانہ مضمون بعنوان ”احساس و ادراک، جو انھوں نے خاص ”المجدد “ کیلیے مرحمت فرمایا ہے، درج ذیل کرتے ہیں.میرے دماغ میں ایسے الفاظ نہیں ملتے کہ آپ کے اس محققانہ ا رسالہ ضیاء الاسلام مراد آباد.۱۵ر دسمبر ۱۹۱۲ء

Page 197

ابن سلطان القلم ~ 177 - مضمون کے اوصاف بیان کیے جائیں.دراصل آپ نے روحانی فلسفہ کے مخال اور معترضین مذاہب کے اوہام باطلہ کی کھلے بندوں تردید فرمائی ہے.(ایڈیٹر ) آپ کے مفید علمی اور محققانہ مضامین کی شہرت: الفین رسالہ ”رہنمائے تعلیم “ کے ایڈیٹر نے بایں الفاظ آپ کو خراج تحسین پیش کیا: ”جناب خان بہادر مر زا سلطان احمد صاحب کے اسم گرامی سے اخباری دنیا سے دلچسپی لینے والا کون ایسا شخص ہے جو واقف نہیں.آپ کا نام ماشاء اللہ ہندوستان کے ان مایہ ناز قابل مضامین نگاروں میں جن پر ہندوستان بجاطور پر فخر کر سکتا ہے، اس وقت ایک ممتاز درجہ رکھتا ہے اور آپ کے مفید علمی اور محققانہ مضامین نے پبلک میں اس قدر شہرت اور عزت و توقیر حاصل کر رکھی ہے کہ آپ کے مضامین حاصل کرنے اور پبلک کی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہندوستان بھر کا ممتاز سے ممتاز اردو رسالہ ساعی اور خواہاں رہتا ہے.چنانچہ ہم نے بھی ایک ماہ کے قریب گزرتا ہے جناب سے خواہش کی تھی کہ وہ رہنمائے تعلیم کو بھی اپنے مضامین سے متمتع فرمایا کریں اور شکر ہے کہ جناب نے نیاز مند کی چٹھی پہنچتے ہی حسب ذیل عالمانہ مضمون بھیج کر مشکور احسان کیا ہے.مضمون اپنی نوعیت میں ایسا مفید ہے کہ اگر اس کو غور سے پڑھ کر اس پر عمل کیا جائے تو ہندوستانیوں کی یہ شکایت کہ ہندوستان سے ایجادیں نہیں نکلتیں بہت جلدی رفع ہو جائے.آپ نے رہنمائے تعلیم کی جو تعریف کی ہے وہ در حقیقت آبِ زر سے لکھنے کے قابل ہے.ا رسالہ ”المجدد صفحہ ۴۵.تاریخ معلوم نہیں ہو سکی.

Page 198

ابن سلطان القلم ~ 178 ~ في الحقيقت قدرت کے آثار اور خود انسان ایسی چیزیں ہیں کہ جو انسان کے لیے غیر محدود علمیت بہم پہنچا سکتے ہیں اور انسان کے سب سے بڑے رہنمایانِ تعلیم بن سکتے ہیں، لیکن انسان کا ان سے کام لینے کے لیے تیار ہو ناشر ط ہے اور اگر اس کلمہ کو مان لیا جائے کہ انسان اسی حالت میں علمی معراج کو پہنچ سکتا ہے، جبکہ وہ قدرت اور آثار قدرت کی شاگردی کرے تو صاف طور پر یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ ہندوستان ہر قسم کی علمی ترقیوں میں یورپ و امریکہ کی اسی حالت میں برابری کر سکتا ہے، جبکہ اس کے باشندے ان ممالک کے عالموں کی طرح قدرت اور آثار قدرت بلکہ خود اپنی نسبت واقفیت حاصل کرنے کے درپے ہو جائیں.آخر میں جناب مرزا صاحب کا ایسا مفید اور عالمانہ مضمون عنایت کرنے کے لیے جس سے قوم کی نئی پود (طالب علم) جو کہ کسی روز کو ملک کی لیڈر بننے والی ہے حد درجہ کا فائدہ اُٹھائے گی، دلی شکریہ ادا کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ جناب والا آئندہ 166 بھی اس طرح مضامین بھیج کر مشکور احسان فرماتے رہا کریں گے.ایڈیٹر “ نہایت اعلیٰ درجے کے عالمانہ خیالات: رسالہ ایشیا امرتسر نے آپ کے مضمون ”نسبتی معیار “ پر لکھا: یہ مضمون ہمارے مکرم عالی جناب مرزا سلطان احمد خان صاحب اکسٹرا دو اسسٹنٹ کمشنر کے خدا داد زور قلم کا نتیجہ ہے.آپ نے ” نسبتی معیار“ کے عنوان سے ا رسالہ ”رہنمائے تعلیم “ لاہور، جنوری ۱۹۱۳ء صفحہ ۴۵

Page 199

ابن سلطان القلم ~ 179 - نہایت اعلیٰ درجے کے عالمانہ خیالات کا اظہار فرمایا ہے.ہم اس سبق آموز اخلاقی سبجیکٹ (موضوع) کو نہایت شکریہ کے ساتھ ایشیا کے صفحات کی زینت بناتے ہیں اور آئندہ آپ کی شفقت سے امید کرتے ہیں کہ اسی طرح ہمیں کوئی نہ کوئی مفید سبق دیتے رہیں گے.(ایڈیٹر ) دماغ نکتہ آفرین اور قلم ندرت رقم: دو رسالہ ”مخزن لاہور آپ کے مضمون ”کھیل“ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے: یہ مضمون ہمارے محترم قلمی معاون خان بہادر مرزا سلطان احمد خان صاحب ممبر مال کونسل آف ایجنسی ریاست بہاولپور کے دماغ نکتہ آفرین اور قلم ندرت رقم کا چکیدہ ہے اور ایسے ہی مضامین کی ملک کو ضرورت بھی ہے جن سے نئی نئی امنگوں کا اُبھار ہو تا اور دماغوں میں جدت کا نور پر تو فگن ہو سکتا ہے.آپ کا نام علمی وادبی دنیا میں محتاج تعریف نہیں: ،، رسالہ ”منروا“ رقم طراز ہے: ”جناب مرزا سلطان احمد خان صاحب بی اے اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر کا نام نامی علمی وادبی دنیا میں محتاج تعریف نہیں.آپ باوجود ایک اعلیٰ اور ذمہ وار افسر ہونے کے تھوڑا بہت وقت نکال کر اپنے عالمانہ اور فلسفیانہ خیالات سے علم دوست ا رسالہ ایشیا امرتسر، نومبر ۱۹۰۷ء صفحہ ۳ ۲ رسالہ مخزن لاہور، نومبر ۱۹۱۱ء صفحہ ۱۵.ایڈیٹر شیخ عبد القادر صاحب بی اے

Page 200

ابن سلطان القلم ~ 180 ~ احباب کو مستفید فرماتے ہیں اور اردو کے تمام سر بر آوردہ رسالے آپ کے بیش بہا مضامین سے مالا مال نظر آتے ہیں.ہم نہایت ممنون ہیں کہ آپ نے ”منروا“ کی قلمی معاونت کی طرف توجہ مبذول فرمائی ہے اور پہلا مضمون ”دل بدست آور کہ حج اکبر است“ دلی شکریے کے ساتھ زیب منرو ا کیا جاتا ہے.“ بہار تعلیم کی کرشمہ آرائیوں کی تصویر کشی: ”ہم جناب مرزا سلطان احمد صاحب کی اس کرم فرمائی کے از حد رہین منت ہیں کہ آپ سات سمندر پار لندن میں جا کر بھی اپنے پیارے ”اقبال“ کو نہیں بھولے اور از راہِ غایت تلطف وہ مضمون مرحمت فرمایا ہے جو ملک کے ہر گوشے مین بنظر استحسان دیکھا جائے گا.بہار کے عام احسان سے کوئی فردِ بشر نا آشنا نہیں ہے.جب بہار کا موسم آتا ہے تو ہر درخت اور پودا فیضانِ بہار سے سر سبز و شاداب ہو جاتا ہے.سبزہ کی افراط کا یہ عالم ہوتا ہے کہ شجر تو شجر ہجر بھی سبزہ کی دولت سے مالا مال ہو جاتے ہیں، بلکہ حضرتِ غالب کے اس قول پر بھی کہ.سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی بن گیا روئے آب پر کائی صداقت کی مہر ثبت ہو جاتی ہے.ا رسالہ ” منروا“ امرت سر.اگست ۱۹۰۹ء صفحه ۱۵

Page 201

ابن سلطان القلم ~ 181 - فرنگستان بالخصوص انگلستان بہارِ تعلیم کی عام لطف فرمائی سے نہال ہو رہا ہے.ہر بچہ تعلیم عامہ کا دودھ پیتا ہے.تعلیم عامہ کی گود میں پرورش پاتا ہے ، تعلیم عامہ کی دایہ کے زیر سایہ تربیت یاب ہوتا ہے.اخبار بینی کے عالم کا یہ شوق ہے کہ معمولی سے معمولی اخبار کی اشاعت بھی لاکھوں تک پہنچ جاتی ہے.ادنیٰ سے ادنی مزدور جس طرح اکل و شرب کو لازم سمجھتا ہے اسی طرح مطالعہ اخبار کو بھی ضروری خیال کرتا ہے.بچے جس طرح ناشتے کے بغیر گل نہیں پاتے اسی طرح اخبار کے بغیر بھی آرام نہیں لیتے.کلب گھروں پر جاؤ، ہوٹلوں میں جا نکلو، باغوں کی سیر کرو، جہاں دیکھو گے اخبارات ورسائل میز کی زیب و زینت بڑھاتے نظر آئیں گے.(کوشا وہ سر زمین جہاں علم کے چشمے پھوٹتے ہیں، تعلیم کی نہریں چلتی ہیں اور تعلم کے دریا بہتے ہیں) اور اسی قسم کے بہارِ تعلیم کی کرشمہ آرائیوں کے اور مناظر ہیں جن کی تصویر مرزا صاحب موصوف نے موئے قلم حقیقت رقم سے کچھ اس طرح کھینچی ہے کہ آنکھوں کے سامنے ہو بہو وہی سماں بندھ جاتا ہے.آپ کی رائے ہے اور درست رائے ہے کہ حزب الوطنی (کا نگریس) اور مجالس سیاسی (لیگیں) قائم کرنے سے پہلے ضروری کیا از حد ضروری ہے کہ ملک کے ہر فرد کے دماغ کی کاروباری تعلیم کے سرچشمے سے آپ پاشی کی جائے تاکہ وہ صنعت و حرفت کے بحر نا پیدا کنار میں غوطہ زن ہو کر وہ وہ لآلی شہوار اور جواہر آبدار نکالے جو ملک و قوم کے تاج شہرت کی زینت بنیں.پھر آپ فرماتے ہیں اور بجا ارشاد فرماتے ہیں کہ ہندوستان میں جرائد کی عدم اشاعت اور صحائف کی کس مپرسی کا راز فقدانِ تعلیم کے صندو قچے میں مقفل ہے اور بس.

Page 202

ابن سلطان القلم ~ 182 ~ ہم مرزا صاحب کی اس تکلیف فرمائی کا ایک دفعہ اور شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جناب نے اپنے منفعت بخش مشاہدات فرنگستان کو ناظرین ”اقبال“ کے لیے مسلسل طور پر قلمبند کرناشروع کر دیا ہے.سر محرر کہنہ مشق اور شہرہ آفاق سحر نگار : 166 رسالہ ”العالم“ کے مارچ ۱۹۲۰ء کے شمارہ میں آپ کا مضمون بعنوان ”العالم “ شائع ہوا.اس پر تبصرہ کرتے ہوئے رسالہ کے ایڈیٹر مکرم محمد عالم صاحب تحریر کرتے ہیں: العالم کے عنوان کی تحت میں جو مضمون آپ کے پیش نظر ہے یہ ہمارے محترم اور کرم فرما جناب مرزا سلطان احمد خاں صاحب اکسٹر اسسٹنٹ کمشنر کا نتیجہ فکر ہے جو ایک کہنہ مشق اور شہرہ آفاق سحر نگار ہیں.آپ کی وسعت نظر اور تحقیق ادبیات مسلم ہے اور اس دعویٰ کے ثبوت کے لیے ان کا مندرجہ ذیل محققانہ مضمون کافی ہے.ہندوستان کا کوئی ایسا رسالہ نہیں جس کو آپ کی قلمی اعانت کا فخر حاصل نہ ہو.خدا کا شکر ہے کہ ”العالم“ بھی اس فخر سے محروم نہیں رہا اور مرزا صاحب موصوف نے نہایت مہربانی سے اپنے چشمہ فیض سے ”العالم “ کو بھی سیراب کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جس کے لیے ہم ان کے بدل مشکور مشکور ہیں." ،، ا رسالہ ”اقبال“ ماه اکتوبر ۱۹۱۴ء صفحه ۳، ۴ رسالہ ” العالم “.تاریخ معلوم نہیں ہو سکی.

Page 203

ابن سلطان القلم ~ 183 - ~ لائق تقلید فلسفیانہ قابلیت اور معقول مذاق: رسالہ افادہ کے ایڈیٹر تحریر کرتے ہیں: ”جناب خان بهادر مولوی مرزا سلطان احمد صاحب سی.آئی.ای اکسٹرا سسٹنٹ کمشنر نے محض اپنی قدردانی سے مضمون ذیل روانہ فرمایا ہے.مولوی صاحب ممدوح کی نمایاں شخصیت ایک عرصہ دراز سے قوم کے علمی کارناموں میں بہت سعی مشکور حاصل کر رہی ہے.آپ کی فلسفیانہ قابلیت اور معقول مذاق نونہالان قوم کے لیے لائق تقلید ہے.رسالہ افادہ کے متعلق جن مشفقانہ خیالات کا اظہار باعتبار ہمدردی و علم پرستی جناب موصوف نے فرمایا ہے افادہ اس کا شکریہ ادا کرتا ہے اور از حد ممنون ہے.مفید فاضلانه و محققانه مضامین رسالہ ”رہنمائے تعلیم“ کے ایڈیٹر آپ کے مضمون ”صحیفہ قدرت“ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: کچھ عرصہ تک متواتر عالی جناب خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب بی اے سب ڈویشنل افسر سونی پت کے مفید فاضلانہ و محققانہ مضامین درج رسالہ ہوتے رہے تھے ، لیکن اس کے بعد جناب مرزا صاحب موصوف سے کچھ عرصہ تک مضامین طلب نہیں کیے گئے تھے ، جس سے رسالہ ہذا اُن کے مضامین سے خالی رہا، ا رسالہ ”افادہ“.تاریخ معلوم نہیں ہو سکی.

Page 204

ابن سلطان القلم ~ 184 ~ ور نہ جناب مضامین نویسی میں ایسے مشاق ہیں کہ ہر رسالہ اور اخبار کے مفید مطلب بے تکان بے شمار طویل مضامین لکھ سکتے ہیں اور علاوہ ازیں جناب کے اخلاق کا یہ حال ہے کہ جب بھی جناب سے مضمون مانگا جاتا ہے آپ بلا توقف اس درخواست کو قبول فرماتے اور فورا ہی مضمون لکھ کر ارسال کر دیتے ہیں.چنانچہ اب جب آپ سے مضمون طلب کیا گیا تو آپ نے ہماری درخواست پہنچتے ہی رسالہ کی زینت کے لیے فورا یہ مفید فاضلانہ مضمون لکھ کر افتخار بخشا ہے.امید ہے کہ ہمارے ناظرین کرام اس مضمون سے پورا پورا فائدہ اُٹھائیں گے اور اس کے صلے میں جناب کا تہ دل سے شکریہ ادا کریں گے.(ایڈیٹر ) آپ کی عالی قدر علمی یادگاریں اردو کا سرمایہ : مدیر رسالہ ”تعلیم و تربیت“ آپ کے مضمون بعنوان ”تربیت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یه گرانقدر علمی عطیہ ہمارے دیرینہ کرم فرما خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب افسر مال اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر گوجرانوالہ کے قلم معجز رقم کا نتیجہ ہے.آپ کے فلسفیانہ مضامین کی شہرت، عالمانہ قابلیت اور قوت استدلال جس قدر مسلم ہے وہ کسی تشریح مزید کی محتاج نہیں.فن زراعت سے آپ کو خاص دلچسپی ہے، جس میں آپ نے کئی ایک کتابیں تصنیف فرمائی ہیں.ا رہنمائے تعلیم، جولائی ۱۹۱۵ء صفحہ 0

Page 205

ابن سلطان القلم ~ 185 - ~ کارکنان تعلیم کے لیے آپ کا یہ وصف قابل تقلید ہے کہ باوجود سرکاری فرائض کی بوجہ احسن ادائیگی کے جو ہیڈ ماسٹری یا ڈسٹرکٹ انسپکٹری سے زیادہ وقت جاری چاہتے ہیں اور زیادہ نازک بھی ہیں) آپ کئی ایک اخبار ورسائل میں متواتر اور مسلسل بیش قیمت علمی مضامین لکھتے اور تصنیف و تالیف کا سلسلہ مزید برآں رکھتے ہیں.مدینہ کا نفرنس، فنون لطیفہ وغیرہ آپ کی عالی قدر علمی یادگاریں اُردو لٹریچر میں بیش قرار اضافہ کر رہی ہیں.امید ہے کہ کارکنان تعلیم اگر تعلیم و تربیت کے حال پر توجہ فرماویں تو اس علمی خادم کی ہستی کچھ نہ کچھ ہو جائے.“ (ایڈیٹر) صحیح اور غور کرنے والا دماغ: رسالہ ”الناظر “ کا آپ کے مضمون ” نظام نسبت“ پر تبصرہ درج ذیل ہے: ”ہمارے محترم دوست خان بہادر میرزا سلطان احمد صاحب کو قدرت نے ایک صحیح اور غور کرنے والا دماغ عنایت کیا ہے اور آپ فلسفہ کے اُن عمیق مسائل پر تشخص کرنے کے عادی ہیں جن سے واقفیت دین و دنیا کی خیر وبرکت کا موجب موجب ہوتی ہے.آپ نے ایک نہایت قیمتی مضمون به عنوان بالا فرمایا ہے اور ہم امید کرتے ہیں ناظرین اس کے مطالعہ سے مستفید زیب رقم و ہوں گے.(ایڈیٹر ) ا تبصر واز ایڈیٹر ” تعلیم و تربیت“ نے نومبر دسمبر سن معلوم نہیں ہو سکا.(مؤلف) ۲ رسالہ ”الناظر “.تاریخ معلوم نہیں ہو سکی.(مؤلف)

Page 206

ابن سلطان القلم ~ 186 ~ بالغ نظری، نکته سنجی، دقیقه شناسی: رسالہ ”نقاد“ کے مدیر نے آپ کے مضمون ”تنقید“ پر مختصر اور جامع تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ”ہم خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب کے ممنون ہیں کہ انھوں نے یہ پر مغز مضمون خاص ”نقاد کے لیے مرحمت فرمایا، جس کے ہر فقرہ سے اُن کی بالغ نظری، نکتہ سنجی اور دقیقہ شناسی عیاں ہوتی ہے.ایڈیٹر فاضل اور واقف کار مضمون نگار : 166 رسالہ "عصر جدید “ کے ایڈیٹر آپ کے مضمون ”زمینداروں کی جائیداد “ پر تبصرہ کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: ” فاضل اور واقف کار مضمون نگار کا یہ مضمون میں نہایت خوشی کے ساتھ چھاپتا ہوں.اُن کی دلچسپی اور عام خیر خواہی کا ثبوت اس سے ملتا ہے کہ ”عصر 66 جدید “ اپریل ۱۹۰۴ء پہنچنے سے تین چار روز کے اندر یہ مضمون وصول ہوا ہے.مرزا سلطان احمد فلسفیانہ دماغ رکھتے ہیں.جیسا اُن کے ”رسوم“ کے مضمون سے ظاہر ہوتا ہے، لیکن اُن کی طبیعت عملی باتوں کی طرف راغب ہے اور یہ اجتماع ہر طور سے مبارک ہے.اُن کی تحریریں زمینداروں کے متعلق اور جدا رسالے شائع ہو چکے ہیں.جو معاملہ انھوں نے پیش کیا ہے وہ ادھر کے زمینداروں کے لیے لائق غور ہے.ا رسالہ ”نقاد “، اپریل ۱۹۱۳ء صفحه ۴

Page 207

ابن سلطان القلم ~ 187 - ~....ہم مرزا صاحب کے ممنون ہیں کہ انھوں نے ایک ایسی مفید بحث شروع کی ہے.امید ہے کہ صوبجات متحدہ کے اخبارات اور رسائل رئیس اور زمیندار انجمنیں اُن کی طرف توجہ کریں گی.(ایڈیٹر) دلکش اور لاجواب مضامین: رسالہ ”الحجاب“ کے مدیر لکھتے ہیں: خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب مشیر مال ریاست بہاولپور کے مضامین اپنے رنگ میں ایسے دلکش اور لاجواب ہوتے ہیں کہ گھنٹوں پڑھو اور طبیعت مزے لیا کرے.حال ہی میں آپ کو اپنی انشا پردازی کے صلے میں ٹیکسٹ بک کمیٹی پنجاب سے درجہ اول کا انعام مل چکا ہے.رسالہ الحجاب جس قدر آپ کی ذات پر ناز کرے بجا ہے کیونکہ بیشتر آپ کی توجہ کا حصہ اسی کو ملتا ہے.اب ہم کو آپ کے مضامین کی مسلسل اشاعت کا فخر ،، حاصل ہو ا ہے ، جس کے لیے ہم اپنے مخدوم کے ممنون ہیں.قیصر “ اردو انشا پردازی کے روح رواں: رسالہ ”الحجاب“ کے مدیر اپریل ۱۹۱۱ء کے پرچے میں آپ کے مضمون ”خواتین اسلام اور مسلم یونیورسٹی“ پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ا رسالہ ”عصر جدید “ اپریل ۱۹۰۴ء رساله الحجاب، جون ۱۹۰۱۱ء صفحه ۳

Page 208

ابن سلطان القا ~ 188- خان بهادر مولوی سلطان احمد صاحب افسر مال ریاست بہاولپور جو اُردو انشا پردازی کے روح رواں ہیں اپنے اس قابلِ قدر مضمون میں نہایت مؤثر پیرایہ سے خواتین کو مسلم یونیورسٹی کے واسطے چندہ دینے کی ترغیب دیتے ہیں اور اپنے اس موسمی مضمون میں نہایت اثر انداز لہجے میں ان سے التجا کرتے ہیں.خدا کرے کہ ہمارے خان بہادر صاحب مد ظلہ کی پُر درد آواز بے کار نہ جائے اور مسلم یونیورسٹی کے کشکول میں بیگماتی ہاتھ بھی کچھ ڈالتے نظر آئیں.(قیصر.ایڈیٹر ) زود نگاری کی ایک مثال: مدیر رسالہ ”انسان“ اپریل ۱۹۱۲ء کی اشاعت میں لکھتے ہیں: ”چونکہ مختلف عقائد اور مذاہب کے رو سے پہلا انسان ایک ہی تسلیم نہیں کیا جاتا، اس لیے مختلف مذاہب کے مستند اہل قلم سے اپنے اپنے نکتہ خیال کے مطابق مذکور الصدر مضمون پر لکھنے کی درخواست کی گئی تھی.چنانچہ سب سے پہلے مرزا سلطان احمد صاحب کا مضمون اسلامی نکتہ خیال سے ملا جو ہدیہ ناظرین ہے.(ایڈیٹر ) یہ آپ کی زود نگاری کی ایک مثال ہے، جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپ کس قدر سرعت سے مضمون لکھ لیتے تھے ، تاہم مضمون کو دیکھ کر ایسے لگتا ہے جیسے کئی ماہ کی محنت اور عرق ریزی کے بعد لکھا گیا ہو.ا رسالہ ”الحجاب“، اپریل ۱۹۱۱ء صفحہ ۳ رسالہ ”انسان“، اپریل ۱۹۱۲ء صفحہ ۳

Page 209

ابن سلطان القلم ~ 189 - ~ فلسفیانہ مضامین لکھنے میں بے مثال شہرت : مشہور و معروف ادیب اور رسالہ ”مخزن“ کے ایڈیٹر شیخ عبد القادر مرحوم نے اپنے نہایت بلند پایہ علمی پرچہ کے اگست ۱۹۰۴ء کے شمارہ میں صاحبزادہ صاحب کا فوٹو مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ شائع کیا تھا: نٹگمری ” دوسری تصویر جناب مرزا سلطان احمد صاحب اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر می کی ہے.آپ کے اعلیٰ خاندان کا 'پنجاب چیفس، میں خصوصیت سے ذکر ہے.فلسفیانہ مضامین لکھنے میں جو شہرت آپ نے حاصل کی ہے وہ محتاج بیان نہیں.آپ کی عالمانہ قابلیت اور قوت استدلال مسلّم ہے.باوجود اپنے فرائض منصبی کے مضامین نگاری آپ کا خاص مشغلہ ہے.166 اس کا قائم مقام آیا نہ پھر : ادارہ ”بزم اقبال“ نے علامہ اقبال کی مثنوی اسرارِ بے خودی، پر آپ کا تنبصر ہ شائع کیا جس کے دیباچہ میں لکھا: ہزاروں اعلیٰ پائے کے فلسفیانہ مضامین اور ادبی مقالات انھوں نے ملک کے مختلف اخبارات ورسائل کے لیے لکھے.اُس وقت شائع ہونے والا کوئی بھی ادبی پر چہ ایسا نہ تھا جس میں ان کے فاضلانہ اور عالمانہ مضامین شائع نہیں ہوئے.ان کے مختلف اور متفرق مضامین کے بارہ مجموعے آج بھی ربوہ کی مرکزی لائبریری میں محفوظ ہیں، جنھیں تبصره بر اسرارِ بے خودی صفحه ۵،۴

Page 210

ابن سلطان القلم ~ 190 ~ دیکھ کر بے اختیار ان کی بے نظیر قابلیت اور اعلیٰ علمی لیاقت کا اعتراف کرنا پڑتا ہے.ہزار ہا علمی و ادبی اور فلسفیانہ و محققانہ مضامین لکھنے کے علاوہ ساٹھ سے زیادہ کتابیں انھوں نے لکھیں جو مختلف مسائل پر مشتمل ہیں.یہ فاضل یگانہ اور ادیب شہیر ۲ جولائی ۱۹۳۱ء کو اس دنیائے فانی کو چھوڑ کر عالم جاودانی کی طرف روانہ ہو گیا، مگر اپنا کوئی مثیل و نظیر چھوڑ کر نہیں گیا، جو اس کی طرح رسائل و جرائد میں علم اور ادب کے دریا بہاتا.سچ ہے.محسن اُردو: جو گیا اس کا قائم مقام آیانہ پھر ' مکرم مولانا نیم احمد سیفی صاحب مدیر روزنامہ " لفضل " ربوہ تحریر کرتے ہیں: «محسنین اردو میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو زبان کو فروغ دینے کے لیے جو مختلف ذرائع استعمال کیے جا سکتے ہیں، آپ نے تقریباً ان تمام ذرائع کو استعمال کیا اور ایسے وقت میں کیا جب کہ اردو زبان کو خاص طور پر اس بات کی ضرورت تھی کہ صاحب اقتدار لوگ اسے سہارا دیں اور نہ صرف قلمی خدمت انجام دیں بلکہ اشاعت و ترویج کے لیے قلمی جواہر پاروں کو اپنی جیب خرچ کر کے شائع کریں اور ملک کے مختلف طبقوں تک اس کی سے روپیہ رسائی کا سامان بہم پہنچائیں.ا تبصره بر اسرار بے خودی صفحه ۵۰۴

Page 211

ابن سلطان القلم ~ 191 - مرزا صاحب موصوف نہ صرف ایک اچھے نثر نگار تھے اور اس کے ساتھ ہی ایک اچھے ناظم بھی، بلکہ انھوں نے اپنی ستر (۷۰) کے قریب کتب کو زیادہ تر اپنی جیب سے روپیہ خرچ کر کے چھپوایا اور اس طرح اردو کی قلمی خدمت کے ساتھ ساتھ مالی خدمت بھی کی.میں یہاں اس بات کو پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نہ صرف اردو کے محسن تھے بلکہ مسلمانوں کی بھی انھوں نے ایسی ایسی خدمات سر انجام دیں کہ ان کے وقت میں کم لوگ ہی ایسا کر سکتے تھے.یہ بات تو عام طور پر دیکھی گئی ہے کہ کسی مصنف نے ایک ہی موضوع پر متعدد کتب تصنیف کی ہوں.یہ بھی علمی تبحر کی دلیل ہے لیکن کہ کوئی مصنف ایک سے زیادہ موضوعات پر ایک ہی جیسی قدرت اور روانی و سلاست کے ساتھ قلم اُٹھا سکے، بہت ہی کم دیکھنے میں آتی ہے اور جس مصنف میں یہ بات پائی جاتی ہو اس کے تجر علمی کا تو پھر کہنا ہی کیا! مرزا سلطان احمد صاحب نے مذہبیات پر قلم اٹھایا تو نہایت بیش قیمت جواہر پارے یادگار چھوڑے.اخلاقیات پر لکھا تو یوں محسوس ہوا کہ گویا اخلاقیات آپ کا خاص موضوع ہے.فلسفہ کے متعلق گوہر فشانی کی تو فلاسفروں کو دنگ کر دیا.ان سب باتوں سے مختلف لیکن ایک نہایت ہی اہم مضمون جس کے ساتھ مسلمانوں کی بہبود وابستہ تھی اس پر بھی لکھا اور وہ تھا: زمیندارہ بینکاری

Page 212

ابن سلطان القلم ~ 192 ~ یہ ہیں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب سلیس سلیس اور عام فہم نثر میں مذہبیات، اخلاقیات، معاشیات اور ایسے ہی دیگر متعدد موضوعات پر بے شمار کتابیں لکھنے والے اور پرانی اقدار کو قائم رکھتے ہوئے نئی نظم کے پیش روؤں کی صف اول کے شاعر.اُردو کا ایک بھلایا ہوا صاحب قلم: سیاست جدید آپ کے بارہ میں لکھتا ہے : اس بیسویں صدی کے شروع کے ہیں سالوں میں اُردو کے کسی بھی قابل ذکر رسالہ کو اُٹھا کر دیکھ لیجیے اس کے مضمون نگاروں میں ایک نام مرزا سلطان احمد کا ضرور نظر آئے گا.عمومی، علمی وفلسفیانہ موضوعوں پر قلم اُٹھاتے تھے.اُن کے مضامین عام اور عوامی سطح سے بلند اور سنجیدہ مذاق والوں کے کام کے ہوتے تھے.رسالہ الناظر مشہور زمانہ کانپور ادیب الہ آباد، مخزن لاہور، پنجاب لاہور وغیرہ میں اُن کی گلکاریاں نظر آتی تھیں.رفتہ رفتہ اُردو والوں نے انھیں بالکل ہی بھلا دیا.اُن کے قلم سے چھوٹی بڑی بہت سی کتابیں نکلی تھیں جن کی میزان چار درجن سے کم نہ ہو گی.کسی کتاب کو اُن کے خصوصی طرزِ تحریر کے باعث قبولیت عام نصیب نہ ہوئی اور اب جب کہ پاکستان کے قیام کے بعد اس سر زمین میں اُردو کی خدمت ہو رہی ہے اور بہت پرانے مصنفوں ۱ روز نامه الفضل ۵ / اکتوبر ۱۹۹۳ء.مضمون مولانا نسیم احمد سیفی صاحب

Page 213

ابن سلطان القلم ~ 193 - ~ اور مؤلفوں کی کتابیں جو گمنام اور مثل گمنام کے ہو چکی تھیں وہاں بڑے آب و تاب سے چھاپی جارہی ہیں.ان کے ذخیرہ تصانیف کی طرف سے کسی کو بھی تاحال توجہ کی توفیق نہیں ہوئی.“ (سیاست جدید کانپور) معاصر محترم ”سیاست جدید کا یہ شذرہ نہ کسی مزید تائید کا محتاج ہے توضیح و تشریح کا.خدمت زبان قومی کے سلسلہ میں ہماری ذمہ داریت اور فرض شناسی کی شومی که زبانِ اُردو کے ایک محسن و مربی کے بارے میں بھی سرحد پار کے پرستارانِ اُردو ہی کو ہمیں کچوکا دینے کی ضرورت محسوس ہوئی.لہذا ہم نے اسے بغیر کسی مزید تبصرے کے (پاکستان میں حکومت کی سرپرستی قائم اور جاری تصنیف و تالیف کے جید اداروں (ادارہ ثقافت اسلامیہ مجلس ترقی ادب، انجمن اردو اور گلڈ کتاب گھر) کی توجہ اور آگہی کے لیے من و عن نقل کر دیا ہے.اس امید پر کہ یہ علمی ٹہوکا کارگر ثابت ہو گا اور مستقبل ریب ہی میں ان میں سے کسی ایک کو ان نوادراتِ ادب کی اشاعت جدید کی توفیق مل جائے گی.اللہ کرے!' ا ہفت روزہ لاہور.۹ر اگست ۱۹۶۵ء صفحه ۵

Page 214

ابن سلطان القلم ~ 194 ~ آپ کا ایک مضمون بعنوان ”اردو زبان“: حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی قوت و شوکت تحریر اور مضمون نگاری کے بارہ میں مختلف رسائل و اخبارات کے تبصرے اور آراء پڑھ کر قاری میں بالطبع اس بات کا اشتیاق پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی تحریرات کا کوئی نمونہ بھی دیکھے.بعض بزرگان جیسے محترم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب اور محترم ڈاکٹر سلطان مبشر صاحب نے بھی یہی صلاح دی کہ اگر زیادہ نہیں تو کم از کم آپ کا ایک مضمون تو ضرور شامل کتاب ہونا چاہیے.مگر اس میں ایک مشکل یہ تھی کہ آپ کا کون سا مضمون منتخب کیا جائے، کیونکہ آپ کے مضامین میں اس قدر تنوع ہے کہ کوئی شعبہ علم ایساد کھائی نہیں دیتا جس میں آپ نے کچھ نہ کچھ رقم نہ فرمایا ہو ، لیکن کتاب کا حجم زیادہ مضامین کا متحمل نہیں.لہذا بطور نمونہ از خروارے آپ ایک مضمون بعنوان ” زبان اردو ہدیہ قارئین ہے.یہ یہ مضمون رسالہ ”مخزن لاہور ، جون ۱۹۱۹ میں شائع ہوا.آپ لکھتے ہیں: اردو زبان اگر زبانِ اردو کی وسعت کے واسطے خود اردو ہی علمی الفاظ یا علمی اصطلاحات کا ذخیرہ مہیا کر سکے تو اس سے زیادہ تر خوشی کی بات اور کیا ہو سکتی ہے؟ اور اگر اپنی ہمسایہ زبانوں فارسی، عربی اور سنسکرت و بھاشا سے بعض الفاظ لے لیے جائیں تو یہ بھی کوئی برائی نہیں، لیکن بحث تو یہ آپڑتی ہے کہ اب اردو صرف اپنی ہمسایہ زبانوں ہی کی محتاج نہیں بلکہ زیادہ تر ان زبانوں کی ہے جو ہندوستان سے باہر یورپ اور جاپان کے ملک اور اقوام میں

Page 215

ابن سلطان القلم ~ 195 ~ بولی جاتی ہیں.وہ زندہ زبانیں، جن کا ذخیرہ الفاظ ہر رنگ میں دن بدن ترقی پارہا ہے ، اردو زبان کو اپنی طرف کھینچ رہی ہیں.اگر ہم یہ ضرورت نہیں رکھتے یا اردو اس سے مستغنی ہو چکی ہے تو پھر یہ بحث یہیں ختم ہو جاتی ہے، لیکن یہ ضرورت ختم ہوتی نظر نہیں آتی، بلکہ ہر رنگ میں اس قدر الفاظ جدیدہ اور مصطلحات مروجہ دن بدن رواج پارہے ہیں کہ ان سے احتراز اور استغنا کوئی معنے نہیں رکھتا.ایک طرف اس قدر آمد ہے اور دوسری طرف ایسا سامان کوئی نہیں کہ ان کا کسی رنگ میں خیر مقدم کیا جائے.(۱) اہل زبان و اہل مذاق میں سے بعض اس امر پر زور دے رہے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو دائرہ اردو سے باہر نہ نکلا جائے کیونکہ زبان دوغلی ہو جاتی ہے.(۲) بعض یہ کہتے ہیں کہ خود ہی جدید الفاظ اور جدید اصطلاحات کی بنیادر کھی جائے (۳) بعض کا یہ خیال ہے عمل تعریب و تفریں کو وسعت دی جائے.(۴) بعض کی رائے ہے کہ دوسری علمی زبانوں کے بعض اصلی الفاظ اور اصلی مصطلحات لے لیے جائیں.بظاہر اس اربعہ عناصر کی ہر رنگ میں ضرورت ہے مگر یہ فیصلہ کون کرے کہ ان میں سے کون سی غالب اور مقدم شق ہے اور کون سی نہیں.جتنی تجویزیں اوپر بیان ہوئی ہیں وہ اپنی اپنی جگہ پر سب کی سب ضروری اور مناسب اور موزوں معلوم ہوتی ہیں.اگر اردو اپنے زور پر خود ہی جدید الفاظ اور جدید اصطلاحات کی موجد ہو سکتی ہے تو ازیں چہ بہتر ! آپ اس میدان ہی میں قدم زن ہو کر دیکھ لیجیے، مگر یہ طریق اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جب یہ بات ذہن نشین کر لی جائے کہ اردو میں جدید الفاظ وضع ہو

Page 216

ابن سلطان القلم ~ 196 ~ سکتے ہیں اور ان کی کیفیت یہی ہو سکتی ہے.میرے خیال میں الفاظ جدید وضع تو ہو سکتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کا بر محل استعمال بھی ہو سکتا ہے، مگر یہ کام ذرا مشکل ہے.جس طرح الفاظ متروک پر نکتہ چینی ہوتی ہے اسی طرح الفاظ جدید پر بھی ہو گی اور بات کہسائی میں جا پڑے گی.ایک دفعہ ایک دوست نے ”اور کوٹ “ کا ترجمہ ”اپریلہ “ کیا اور ہمیشہ یہی استعمال کرتے رہے.خط و کتابت میں بھی یہی لکھا پڑھا.ان کے حلقہ میں تو یہ سکہ چل گیا، مگر اکثر نے اعتراض کیا.ترجمہ تو کسی حد تک درست ہے، کیونکہ ”اور کوٹ“ کے او پر اور کوئی کپڑا نہیں ہوتا اور لفظ ” اپریلہ “ ایک وسعت کے ساتھ یہی مفہوم ادا کر رہا ہے.اب اگر کوئی یہ کہے کہ ”میرا اپریلہ لاؤ“.اپریلہ پہنا دو“.اپریلہ سی دو“ تو لوگ پہلے پہل نکتہ چینی کریں گے ، مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس دوست کے رفتہ رفتہ نوکر چاکر کنبے والے اس نام سے قریباً ایسے ہی مانوس ہو گئے جیسے ”اور کوٹ“ سے تھے.جدید الفاظ میں موزونیت اور جامعیت بھی ہونی چاہیے.میری رائے میں اپریلہ اور کوٹ سے کم موزوں اور کم جامع نہیں ہے.اگر یہ لفظ رفتہ رفتہ بولنے اور لکھنے پڑھنے میں آجائے تو اس میں کیا نقص ہے.بجز اس کے کہ اہل زبان کے زبان زد نہیں ہے یا ان کی زبان میں نہیں پایا جاتا.بے شک اس کا کوئی جواب نہیں، مگر اس سے اس قدر تو ثابت ہو گیا کہ بڑے بھلے جدید الفاظ وضع ہو سکتے ہیں.تو وضع الفاظ جدید کی صورت ایک نہیں ہے.کبھی کسی پہلے لفظ کی شان ملحوظ رکھ کر ایک جدید لفظ وضع کیا جاتا ہے اور کبھی محض جدید.دیکھو تابع مہمل الفاظ چیز ویز، کام وام وغیرہ وغیرہ پہلے لفظوں کی شان کے اعتبار پر وضع ہوئے ہیں اور بولے بھی جاتے

Page 217

ابن سلطان القلم ~ 197 ~ ہیں.بعض لوگوں نے اپنے اپنے رنگ میں اور جدید الفاظ وضع کر رکھے ہیں اور ان کو بول چال میں بھی استعمال کرتے ہیں، لیکن محک لسان پر وہ اب تک پر کھے نہیں گئے.اس واسطے ان کا رواج زیادہ نہیں ہوا.میر اتو یہ خیال ہے کہ ہر زبان میں رفتہ رفتہ ایسے الفاظ لکھے گئے ہیں اور رفتہ رفتہ ایک مدت کے بعد جزو لسان ہوتے گئے.اگر الفاظ مہملہ ہم وضع کر سکتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ با معنی الفاظ نہ وضع کر سکیں.یہ بڑی پیچیدہ بحث ہے کہ کس طرح الفاظ خلعت معانی سے مزین ہوتے ہیں.میری رائے میں تحقیق معانی کا بہت کچھ حصہ محض اعتباری ہے.اگرچہ بعض السنہ ( عربی و سنسکرت) کے معانی اور الفاظ میں ضرور کوئی نہ کوئی نسبت ہوتی ہے، مگر اکثر دوسری زبانیں اس سے ایک بڑی حد تک معری نظر آتی ہیں.یہ بحث کہ جدید الفاظ کہاں تک اور کیونکر وضع ہو سکتے ہیں.اگر چہ بظاہر ایک وقت رہتی ہے لیکن اگر وسعت نظر سے اس پر غور کیا جائے تو اس میں وہ مشکلات نہیں ہیں جو زیر نظر رہتی ہیں.آخر پرانے الفاظ بھی تو کسی نہ کسی وقت وضع ہوئے ہی تھے اور ان کے واضعین انسان ہی تھے.شروع میں واضعین الفاظ کی وضع تابع ضروریات تھی تو اب بھی اسی قسم کی ضروریات کے تابع یہ کام ہو سکتا ہے.انسینہ کی غیر علمی اصطلاحات کے تراجم میں ضرور ایک دقت حائل ہے، لیکن بجائے تراجم کے جدید اصطلاحات اپنی زبان ہی میں بنالی جائیں تو اس میں کیا نقص ہے ؟ ایسی اصطلاحات کا خود اپنی زبان کے دائرہ ہی میں وضع کرنا مشکل ہو گا، مگر آخر یہ مشکل یوں ہی حل بھی ہو سکتی ہے.

Page 218

ابن سلطان القلم ~ 198 ~ اگر چہ بعض لوگوں کے خیال میں جدید الفاظ کی وضع اس وقت ایک کٹھن کام ہے اور کوئی اس کا ذمہ وار نہیں ہو سکتا، مگر ضرورت ہر وقت ایسا نہیا کر اسکتی ہے اور پہلی نظیریں اس کی تائید میں ہیں.ہر زبان میں ہزاروں الفاظ ایسے ہیں جو جدید ہیں اور جدید الفاظ کسی نہ کسی ضرورت کے پیش کرنے پر وضع کیے گئے ہوں گے.وہی ضروریات اب بھی در پیش ہیں.اگر یہ منزل کڑی ہو تو اس میں کیا عیب و نقص ہے کہ جن اصطلاحات کا ترجمہ نہیں ہو سکتا یا ابھی تک زبانِ اردو ان کی متحمل نہیں ہوئی، ایسی اصطلاحات بجنسم لے لی جائیں.یہ خیال کہ ایک غیر زبان کی اصطلاحاتِ علمیہ کا اردو میں لینا زبان کی بدنامی یا نقص کاموجب ہے صحیح نہیں.اس وقت صد بہا الفاظ اور بیسیوں اصطلاحات اردو میں السنہ تغیر کی کھپ چکی ہیں اور روز بروز ایک خاموشی کے ساتھ کھپ رہی ہیں.ذرا دفتروں، کچہریوں، بازاروں، پلیٹ فارموں، ٹرینوں وغیرہ میں پھر کر دیکھو کہ جاہل بچے اور عور تیں بھی غیر زبانوں کے الفاظ و اصطلاحات بول رہی ہیں اور بالکل اسی طرح جیسے اپنی زبان کے الفاظ ہوتے ہیں.رفتہ رفتہ ایسے الفاظ اردو زبان میں کھپتے جائیں گے اور ایک دن ایسے الفاظ بلا کراہت اردو کے جزو سمجھے جائیں گے.اردو در اصل زیادہ تر ان زبانوں کا نچوڑ ہے جو خود ہندوستان میں کسی وقت مروج تھیں یا اب کسی حد تک مروج ہیں.کتاب امثال پنجابی“ میں یہ بات مختصر بیان کی گئی ہے کہ پنجابی اور اردو الفاظ یا پنجابی اور اردو زبان میں کہاں تک وابستگی اور مشابہت ہے.ایسی وابستگی و مشابہت ہندوستان کی دوسری زبانوں کے ساتھ نہیں ہے.مقابلہ کرنے سے پتا لگتا ہے کہ اردو زبان پنجابی کی اصلاح یافتہ زبان ہے یا پنجابی زبان کا ایک دوسرا اصلاح یافتہ رخ.

Page 219

ابن سلطان القلم ~ 199 ~ بہت سے الفاظ پنجابی زبان کے بادنی تغیر اردو بن جاتے ہیں اور بہت سے بجنسم اردو میں ہیں.یہی وجہ ہے کہ پنجاب میں اردو زبان بمقابلہ مدراس، گجرات وغیرہ کے زیادہ تر سہولت سے جگہ لے رہی ہے.صدر با الفاظ دونوں زبانوں کے ملتے ہیں اور دونوں زبانوں میں ایک ہی مضمون ادا کیا جائے تو قریباً دونوں زبانوں کے الفاظ بہت تھوڑے سے تصرف کے بعد، جو زیادہ تر لب ولہجہ اور آب و ہوا کے تابع ہوتا ہے، مشترک نکلیں گے.مثلاً: پنجابی میں ایک شخص کہتا ہے: اردو بھائی جی بھائی صاحب سلام علیکم.کل تساں ضرور میرے مکان السلام علیکم.کل تم ضرور میرے مکان پر اوپر آونا.مینوں تساڈے نال اک کم ہے.آنا.مجھے تم سے ایک کام ہے.میں چاہتا میں چاہنا ہاں کہ تسیں آؤ تے ایہہ کم چھیتی ہوں کہ تم آؤ تاکہ یہ کام جلدی ہو مک جاوے.اس تھوں پہلے بھی اک واری جائے.اس سے اول بھی ایک بار تم کو یہ تسانوں لکھیا گیا سی.مہربانی کر کے ہن اس لکھا گیا تھا.مہربانی کر کے اب اس میں دیر وچ دیر نہ ہووے، نئیں تے میرا کم وگڑ نہ ہو، نہیں تو میرا کام بگڑ جائے گا.تم جاوے گا.تسیں جاندے ہو.میں ہو روی جانتے ہو میں اور بھی بہت سے کام رکھتا بہتیرے کم رکھناں ہاں.تساڈی ٹھل ہوں.تمہاری دیر میرے واسطے زہر میرے واسطے زہر ہے.بھائی جی جیو کر ہے.بھائی جی! جس طرح ہو سکے اسی ہووے تو کر آؤ، تے مینوں آون تھوں طرح آؤ اور مجھ کو آنے سے پہلے پیغام پہلے سہنیا بھیج دینا جی.بھیج دینا.

Page 220

ابن سلطان القلم ~ 200 ~ دونوں کو پڑھو اور کہو کہ ان میں کہاں تک مغائرت ہے.میری رائے میں پنجابی کے رقعہ کے پڑھنے سے معلوم ہو سکتا ہے کہ اردو میں بعض الفاظ کی اصلاح کی گئی ہے یا ان کا تلفظ کسی اور رنگ میں رکھا گیا ہے.دوسرے الفاظ میں یہ کہو کہ پنجابی ہی سے اردو بنی ہے اور پنجاب ہی اردو کی پہلی منزل ہے.مثلاً : تسی کی جگہ تم اوپر کی بجائے پر وچ کی جگہ میں وگڑ کی جگہ بگڑ نال کی جگہ ساتھ چاہنا کی جگہ چاہتا کم کی جگہ کام جاندے کی جگی جانتے ہور کی جگہ اور ٹھل کی جگہ دیر چھیتی کی جگہ جلدی جیو کر کی جگہ جیسے استھوں کی جگہ اس سے آؤن کی جگہ آنے واری کی جگہ باری تھوں کی جگہ سے سی کی جگہ تھا سہنیا کی جگہ پیغام ہن کی جگہ اب ان انیس الفاظ کے مقابلہ سے آپ معلوم کر سکتے ہیں کہ پنجابی اور اردو الفاظ میں کہاں تک لفظی اور تلفظی اتحاد ہے.اور ایک ادنی تغیر سے کس آسانی سے پنجابی الفاظ اردو کا جامہ پہن لیتے ہیں.ان انیس الفاظ کے سوا جو الفاظ ہیں وہ گو یا اردو ہی ہیں.اور وہ جیسے اردو میں بولے جاتے ہیں ایسے ہی پنجابی میں بھی استعمال کیے جاتے

Page 221

.ابن سلطان القلم ~ 201 - ~ ہیں.جس طرح اردو میں عربی اور فارسی کے الفاظ مخلوط ہیں اور بولے جاتے ہیں ، اسی طرح پنجابی میں بھی مخلوط ہو کر بولے جا رہے ہیں.جس طرح بھاشا اور سنسکرت کے الفاظ اردو میں مل گئے ہیں اور بولے جاتے ہیں اسی طرح پنجابی کی کیفیت ہو رہی ہے.اس پنجابی کی مثال ہی سے یہ پتا لگ سکتا ہے کہ السنہ غیر کے الفاظ اردو کس وسعت اور کس خوبی سے قبول کرتی ہے.اور تعریف یہ ہے کہ اردو زبان غاصب نہیں ہے.اگر چہ پنجابی، عربی، فارسی اور سنسکرت کچھ کچھ غاصب ہیں، مگر اردو زبان میں ہر غیر زبان کا لفظ اسی حیثیت سے مستعمل ہوتا ہے جیسے کہ خود اپنی اصلی زبان میں.یہ دلیل ہے اس بات کی کہ اردو زبان الفاظ السنہ غیر کا کس خوبی سے خیر مقدم کرتی ہے اور کہاں تک جامعیت رکھتی ہے.بے شک کسی زبان کے واسطے یہ ایک کمی ہے کہ اس کا ذخیرہ لفظی بہت کچھ السنہ غیر کا محتاج ہو، لیکن یہ ایک مجبوری ہے اور اردو کے مقابلہ میں بعض دوسری زبانیں بھی اس نقص سے خالی نہیں ہیں.مثلاً انگریزی زبان کا ذخیرہ الفاظ قریباً فیصدی تیں پینتیس السنہ غیر کا محتاج ہے اور اس بد صورتی سے کہ الفاظ السنہ غیر کی صورت ہی انگریزی زبان میں مسخ ہو جاتی ہے.اگر الفاظ السنہ غیر کو انگریزی میں سے نکال دیا جائے تو وہ قریباً ایک مفلس زبان ہو جائے گی.بالخصوص اصطلاحاتِ علمیہ کا تو بہت کچھ حصہ السنہ غیر سے وابستہ ہے.زبانیں دو قسمیں رکھتی ہیں: (الف) السنہ ابتدائی.(ب) السنہ مابعدی

Page 222

ابن سلطان القلم ~ 202 ~ السنہ ابتدائی عموما ان نقائص سے مبرا ہیں، لیکن السنہ مابعدی میں یہ وصف نہیں ہے.کیونکہ دراصل وہ السنہ ابتدائی ان کی ذریات ہیں اور یہ بات ظاہر ہے کہ ذریات کو اپنے اصل سے کوئی نہ کوئی نسبت ہوتی ہے اور نسبتا اس سے محدود بھی.بہر صورت السنہ مابعدی کے واسطے اس قسم کی مشکلات لازمی ہیں اور تاوقتیکہ ان کے ہاتھ میں کافی سرمایہ نہ آجائے وہ کسی نہ کسی صورت میں دوسری زبانوں یا اجتہاد جدید کی محتاج رہیں گی.بہت سے الفاظ اپنی جامعیت اور وسعت معانی کے اعتبار سے غیر زبانوں میں سے مل سکتے ہیں، جن کا اردو زبان میں استعمال کیا جانا درست ہے اور اس سے اردو زبان کے حسن طلاقت میں کوئی فرق نہیں آسکتا.چاہے یہ کیسا ہی تکلیف دہ عمل ہو.اردو زبان روز بروز ایسے الفاظ کا خیر مقدم کرے گی اور کر رہی ہے.شاید کسی زمانے تک کتابوں اور رسالوں میں ان کا دخل نہ ہو سکے ، مگر بول چال اور زبانیں ان سے خالی نہیں رہ سکتیں.اخبارات اور رسالوں میں تو ضرور کسی نہ کسی رنگ میں وقتاً فوقتاً ان کی کھپت ہوتی رہے گی اور ایک زمانہ میں علمی اردو بھی ان سے ویسے ہی خلط ملط ہو جائے گی جیسے اور پر انے الفاظ سے ہے.***** سلطان احمد

Page 223

فصل ابن سلطان القلم ~ 203.~ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی تصنیفات آپ کی کل تصانیف انسٹھ (۶۹) ہیں، جو متفرق اور متنوع موضوعات پر لکھی گئی ہیں.بعض شعر و ادب سے تعلق رکھتی ہیں اور بعض خالص دینی موضوعات پر بحث کرتی ہیں، بعض معاشرتی علوم کو موضوع بناتی ہیں تو بعض سائنسی علوم کو بیان کرتی ہیں.اسی طرح بعض معاشیات اور زراعت جیسے انوکھے موضوعات پر نکتہ آفرینی کرتی نظر آتی ہیں.تاریخ وسیرت ، موازنہ اور تصوف وغیرہ مضامین بھی آپ کی انشا پردازی سے بے فیض نہیں رہے.غرض ہر قسم کے موضوع پر آپ نے اظہار خیال کیا اور جس موضوع پر بھی قلم اُٹھایا اس پر گہرے فلسفیانہ رنگ میں بحث کی.عام سطحی رنگ میں گفتگو نہیں کی اور نہ ہی محض متفرق معلومات کی جمع و ترتیب پر اکتفا کیا ہے.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کے پیدا کردہ شاندار لٹریچر سے سرمایہ ب میں بیش بہا اضافہ ہوا، جس کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.کے معاصرین آپ کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے.آپ کے علمی وادبی مقام و مرتبے کا اندازہ درج ذیل آراء سے بخوبی ہو جاتا ہے.

Page 224

ابن سلطان القلم ~ 204 ~ معاصرین میں آپ کا مقام و مرتبہ : جناب حافظ قاری فیوض الرحمن (ایم اے ایم او ایل پی ایچ ڈی ایم اے عربی.اردو، عربی، اسلامیات نے اپنی کتاب ”معاصرین اقبال“ میں آپ کے بارہ میں لکھا ہے کہ ”مولانا ابو الکلام آزاد خواجہ حسن نظامی، مفتی کفایت اللہ ، اکبر الہ آبادی ان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے.166 حضرت مرزا سلطان احمد صاحب اور علامہ اقبال: اس سلسلہ میں مزید تحریر کرتے ہیں: ”مرزا سلطان احمد کو مسلمانوں کے رفاہی کاموں سے بڑی دلچپسی تھی.وہ انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیتے تھے.اقبال سے ان کی پہلی ملاقات انجمن ہی کے جلسوں میں ہوئی تھی.اس کے بعد علامہ اقبال اور ان میں دوستانہ تعلقات قائم ہو گئے.۱۹۱۲ء میں انجمن کے ایک اجلاس کی دوسری نشست کی صدارت انھوں نے کی، جس میں علامہ اقبال نے شمع و شاعر دو نشستوں میں پڑھی تھی.“۲ ا معاصرین اقبال، صفحه : ۳۵۹ مطبوعه ۱۹۹۳ء، ناشر : نیشنل بک سروس اردو بازار لاہور.بحوالہ روزنامہ الفضل ۶ جنوری ۲۰۰۵ء مضمون مولانا دوست محمد شاہد صاحب ۲ معاصرین اقبال، صفحه : ۳۵۸ مطبوعه ۱۹۹۳ء، ناشر : نیشنل بک سروس اردو بازار لاہور.بحوالہ روزنامہ الفضل ۶ جنوری ۲۰۰۵ء مضمون مولانا دوست محمد شاہد صاحب

Page 225

ابن سلطان القلم ~ 205.~ گاه به سلطان باشی، گاه باشی به فقیر : انجمن حمایت اسلام کے جلسے اس زمانے میں بڑے اہم تصور کیے جاتے تھے، جن میں علامہ اقبال بھی بعض دفعہ اپنا کلام سامعین کی نذر کیا کرتے تھے.نامور اور صاحب اثر شخصیات انجمن کے جلسوں کی صدارت کے لیے منتخب کی جاتی تھیں.انجمن کا ستائیسواں جلسہ ۱۶ر اپریل، ۱۹۱۲ء کو اسلامیہ کالج لاہور کے ریو از ہوسٹل کے وسیع میدان میں منعقد کیا گیا، جس کے پہلے اجلاس کی صدارت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے کی اور دوسرے اجلاس کی صدارت جناب فقیر افتخار الدین صاحب نے کی.اس وقت وہاں تقریبا دس ہزار سامعین جمع تھے.اقبال نے دو نشستوں میں اپنی نظم ”شمع و شاعر “ پیش کی، جس کے پہلے چھ بند پہلی صدارت میں اور باقی چھ بند دوسری صدارت میں پیش کیے.دوسری نشست میں نظم سے پہلے اقبال نے یہ قطعہ بھی پیش کیا: ہم نشین بے ریایم از ره اخلاص گفت اے کلام تو فروغ دیده برنا و پیر در میان انجمن معشوق ہر جائی مباش گاه به سلطان باشی، گاه باشی به فقیر گفتمش اے ہم نشیں ! معذور می دارم ترا در طلسم امتیاز ظاہری ہستی اسیر من که شمع عشق در بزم جہاں افروختم سوختم خود را و سامان دوئی ہم سوختم ا ترجمہ اشعار : میرے مخلص دوست نے مجھے خلوص نیت سے کہا کہ تیر اکلام پیر وجواں کی آنکھ کو روشن کر دیتا ہے.تو بزم میں معشوق ہر جائی نہ بن، کبھی تو سلطان کے ساتھ ہوتا ہے اور کبھی فقیر کے ساتھ.میں نے اس سے کہا کہ اے میرے دوست! میں تجھ سے معذرت چاہتا ہوں، تو ظاہری امتیاز کے طلسم میں گرفتار ہے.میں نے تو بزم جہان میں شمع عشق روشن کی ہے.میں نے خود کو بھی جلا دیا ہے اور سامانِ دوئی کو بھی جلا دیا ہے.

Page 226

ابن سلطان القلم ~ 206 ~ گاه به سلطان باشی گاہ باشی بہ فقیر“ اس مصرع میں سلطان سے مراد حضرت مرزا سلطان احمد صاحب ہیں اور فقیر سے مراد جناب فقیر افتخار الدین صاحب ہیں.' جناب اکبر الہ آبادی کی رائے: لسان العصر جناب اکبر حسین اکبر الہ آبادی آپ کے کس درجہ مداح تھے؟ اس کا اندازہ ان مکتوبات سے ہو سکتا ہے، جو انھوں نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے نام رقم فرمائے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے یہ مکتوبات قادیان سے مکتوبات اکبر“ کے نام سے شائع کر دیے تھے.ان کے دوسرے ایڈیشن کا اعزاز ”نیا اداره ۱۵ سرکلر روڈ لاہور“ کو نصیب ہوا.(1) جناب اکبر الہ آبادی صاحب نے اپنے ۱۸؍ فروری ۱۹۱۲ء کے مراسلہ میں تحریر کیا: ”آپ کی کثرت معلومات اور زور قلم اور بلند خیالی اور عارفانہ طبیعت آپ کے لیے بڑی نعمتیں ہیں.“ (صفحہ ۲۳) (۲) ۲۴ جنوری ۱۹۱۳ء کے مکتوب میں لکھا: میں آپ کو نیاز نامہ لکھنا چاہتا تھا.ایک مضمون تصوف کی نسبت بہت اچھا تھا اور حال میں کسی اخبار میں آپ کا ایک عمدہ مضمون دیکھ کر آپ کے ثبات قدم اور صحیح الخیالی پر خوش ہوا تھا.اس کی داد دینی تھی اگرچہ آپ کو اس کی ضرورت نہیں ہے.جس طرح ایک تندرست جوان اپنی تندرستی کا احساس ا غیر مطبوعہ آپ بیتی، غلام رسول مہر ص ۱۱-۱۳، بحوالہ علامہ اقبال اور غلام رسول مہر کے روابط

Page 227

ابن سلطان القلم ~ 207.~ راحت کے ساتھ کرتا ہے اسی طرح آپ ایسا ایک صحیح الخیال فلاسفر اپنے خیالات کی لذت سے متمتع ہوتا ہے، مدح ہو یا نہ ہو.آپ کی تصنیفاتِ حال میں ”کتاب النساء فی الاسلام“ نہایت عمدہ کتاب ہے.قومی اور مذہبی لٹریچر میں نہایت قیمتی اضافہ ہے.اس لائق ہے کہ انگریزی میں ترجمہ ہو.“ (صفحہ ۲۶-۲۷) (۳) جناب اکبر الہ آبادی نے ۱۳ مئی ۱۹۱۷ء کو بذریعہ مکتوب الفاظ میں آپ کو خراج تحسین ادا کیا: ”آپ کے چند لفظ بحر معنی کی ہزاروں موجوں کا جوش دکھاتے ہیں.“ (صفحہ ۴۸) (۴) لسان العصر نے ۳۱ اکتوبر ۱۹۱۸ء کے گرامی نامہ کا آغاز ہی ان سنہری الفاظ سے کیا: ”آپ کی تصانیف کا کیا پوچھنا نہایت واضح، قرآن کے موافق، مذاق اسلامیہ کے مطابق، اللہ جزائے خیر دے.“ (صفحہ ۵۵) آپ کی جملہ کتب کی فہرست: حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی بعض کتب کے آخر میں آپ کی جملہ كتب مطبوعہ و غیر مطبوعہ کی فہرستیں شائع شدہ ہیں.سب کو یکجا کرنے سے آپ کی کل کتب ۵۹ بنی ہیں، لیکن خاکسار کا ذاتی خیال یہ ہے کہ ان میں سے بعض کتابوں کے نام مختلف جگہوں یا فہرستوں میں مختلف درج ہو گئے ہیں.مثلاً ” ایک اعلیٰ ہستی“ اور ”ہستی مطلق ایک ہی کتاب کے دو نام معلوم ہوتے ہیں.”چند نظمیں“ اور ”چند نثر نما ا الفضل ۱۶ جنوری ۲۰۰۵ء

Page 228

ابن سلطان القلم ~ 208 66 ~ نظمیں بھی شاید ایک ہی کتاب ہو.اسی طرح ممکن ہے کہ ”ملت اور قومی معاملات کو دوسری فہرست میں اختصارا محض ”ملت“ کے نام سے درج کر دیا گیا ہو.اگر ایسا ہو تو آپ کی کتب کی تعداد ۵۶ ہو جائے گی، لیکن خاکسار کے اس خیال کی تصدیق اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ سب کتب دستیاب ہوں.بہر حال سر دست سب نام ذیل میں پیش کیے جاتے ہیں.ان میں سے جن کا سنہ اشاعت معلوم ہو سکا ہے وہ بھی ساتھ درج کر دیا گیا ہے: استی و پنوں (پنجابی) ٢- تبين الحق ۳- مرآة الخيال (۱۸۸۲) ۴- صدائے الم (اپریل ۱۸۸۶) ۵- معیار ے اخلاق احمدی ۶- اصول ۸- ریاض الاخلاق (۱۹۰۰) ۹ - سراج الاخلاق (۱۹۰۳) ۱۰- رفیق ۱۱- فرحت (۱۸۹۰) ۱۲- صداقت (۱۸۹۳) ۱۳.دل نواز ۱۴.نظم خیال ۱۵- بزم خیال ۱۶- راز الفت ۱۷ - الفت ۱۸-دل سوز ۱۹- فن شاعری (۱۹۰۷) ۲۰ - امثال (مئی ۱۹۱۱) ۲۱.مشیر باطن ۲۲- اساس الاخلاق ۲۳ - زمینداره بنک (۱۹۰۳) ۲۴- حیات صادقہ

Page 229

۲۵- نساء المؤمنين ۲۷- نبوت (۱۹۱۸) ۲۹ - یاد گارِ حسین ۳۱- یادِ رسول صلی الله علم ۳۳- اعتصام ۳۵- ملت ۳۷- جبر و قدر ابن سلطان القلم ~ 209 - ۲ - الصلوة (۲ جون ۱۹۱۲) ۲۸- خیالات (جون ۱۹۰۷) ۳۰- ایثار حسین ۳۲- زبان ۳۴-علوم القرآن (۱۹۲۰) ۳۶- النظر ۳۸- فنون لطیفه (اواخر ۱۹۱۲) ~ ۳۹- چند نظمیں (زندگی) ۴۰-درس بے خودی ۴۱.مکتوبات اکبر (۱۹۶۷) ۴۲- طلاق و کثرت ازدواج ۴۳- قوت و محبت (۱۹۲۰) ۴۴ - الوجد ۴۵- تنقید بر مثنوی مولانا قدوائی ۴۶- ذبح گائے ۴۷.ہستی مطلق ۴۸- فلسفه ۴۹-صفاتِ باری ۵۰- سفر نامه لندن ۵۱.ذات باری ۵۲.ایک اعلیٰ ہستی (۱۹۱۹) ۵۳.ملت اور قومی معاملات (۱۹۲۷) ۵۴.تبصره بر اسرارِ بے خودی ۵۵.طلسم احمر ۵۶.چند نثر نما نظمیں ۵۷.اصولِ خمسه اسلام ۵۸.اسوہ رسول ۵۹- اساس القرآن

Page 230

ابن سلطان القلم ~ 210 - ~ کتب کا تعارف آپ کی تمام کتب خاکسار کو مہیا نہیں ہو سکیں.خلافت لائبریری ربوہ میں آپ کی اکیس کتب ملیں اور پھر پنجاب پبلک لائبریری لاہور سے مزید پانچ کتب میسر آ گئیں.اس کے علاوہ انٹر نیٹ سے دستیاب ہوئیں.اس طرح خاکسار کو آپ کی کل ۲۸ کتب دیکھنے کا موقع ملا.ممکن ہے پاکستان کی بعض قدیم لائبریریوں سے آپ کی مزید کتب بھی دستیاب ہو جائیں.اسی طرح ہندوستان اور انگلینڈ کی لائبریریوں میں بھی آپ کی کتب یقیناً موجود ہوں گی.سر دست ان ۲۸ کتب کا مختصر تعارف پیش ہے.ایک اعلی ہستی یہ رسالہ ۱۹۱۹ء کی تحریر ہے اور روز بازار الیکٹرک پریس ہال بازار امرتسر سے شائع شدہ ہے.اس رسالہ میں آپ نے خدا تعالیٰ کی ہستی پر عقلی رنگ میں بحث کی ہے اور منطقی دلائل سے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک قادرِ مطلق ہستی ہے جو انسان اور اس کائنات کی خالق و مالک ہے اور انسان اپنی ادرا کی قوتوں کو عمل میں لا کر اس اعلیٰ ہستی کے بارہ میں جان سکتا ہے.اس

Page 231

ابن سلطان القلم ~ 211 - ~ بحث میں آپ اس اعلیٰ ہستی کے وجود سے انکار کرنے والوں کے دلائل کا رڈ بھی ساتھ ساتھ کرتے گئے ہیں.مذہبیات میں آپ کی یہ چھوٹی سی کتاب اللہ تعالیٰ کے وجود اور کی ہستی کے اکاون (۵۱) دلائل پر مشتمل ہے.نہایت سلیس پیرائے میں اور عام فہم طریق پر آپ نے اپنے قارئین کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کون و مکان کو پیدا کرنے والی ایک ہستی ہے اور وہ سب سے برتر و اعلیٰ ہے.اس کتاب میں ”لائے اور ہستی“ کے عنوان سے آپ لکھتے ہیں: ”انسان یہ بھی جانتا ہے کہ لائے محض سے کوئی حقیقی وجود پیدا نہیں ہو سکتا.جیسا کہ لاشے محض دو قائموں کے برابر نہیں ہو سکتی.یہ مان لیا گیا ہے کہ نیست سے ہست نہیں ہو سکتا.جب ہم فرض کرتے ہیں کہ ایک نیست ہے تو اس کے ساتھ ہی یہ بھی فرض کرنا پڑتا ہے کہ اس سے ہست نہیں ہو سکتا.کیونکہ نیست نہ تو کوئی ہستی ہے اور نہ کوئی وجود اور نہ کوئی طاقت.جو کچھ بھی نہیں وہ کیا طاقت اور ہستی رکھے گا اور اس کی قیمت کیا کچھ ہو گی.جب ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ نیست سے ہست مشکل ہے تو پھر ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ ہم اپنے ارد گرد ایک عالم ہست دیکھتے ہیں جس سے ہم انکار نہیں کر سکتے، تو ہمیں کہنا پڑتا ہے کہ یا تو یہ عالم ہست خود بخود نیستی سے منتقل بہ ہست ہوا ہے اور یا یہ کہ اس کے سوا کوئی اور ہستی اس کی ہستی کا باعث ہوئی.اگر یہ ہستیاں خود بخود ہی وجود پذیر ہوئی ہیں تو یہ درست نہیں کیونکہ نیست سے

Page 232

ابن سلطان القلم ~ 212 ہست ہو نہیں سکتا.اس صورت میں یہ ماننا پڑے گا کہ کوئی دوسرا ہست ان ہستیوں کا باعث ہے.جو قدیم سے موجود ہے اور جس کی ہستی بجائے خود کوئی آغاز اور شروع نہیں رکھتی اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ایسی ہستی قدامت تقدیس کے ساتھ ہی قوی تر ، بالا تر، قادر تر بھی ہو گی، کیونکہ جب تک وہ یہ صفات نہ رکھے تب تک وہ تسلیم نہیں کی جاسکتی.“ کتنی عام فہم ہے یہ مثال اور کتنے اچھے رنگ میں پیش کی گئی ہے.ساری کتاب ایسی ہی مثالوں سے پر ہے.میں سمجھتا ہوں کہ ایسی تحریریں نہ صرف اردو زبان پر ایک احسان کا رنگ رکھتی ہیں بلکہ عمومی طور پر ان کو بنی نوع انسان پر بھی احسان کا درجہ دیا جا سکتا ہے، کیونکہ اتنی عام فہم تحریروں سے بنی نوع انسان کو اپنے خالق کا پتہ دینا اور اس سے قریب سے قریب تر لانا اگر نوع انسان پر احسان نہیں تو اور کیا ہے؟' ۲- علوم القرآن: ۱۹۲۰ء میں الناظر پریس واقع بلدہ لکھنو سے شائع ہوئی.اس کتاب کے ۳۱۷ صفحات ہیں.۲۹ فروری ۱۹۲۰ء کی تالیف ہے، مگر پنجاب پبلک لائبریری لاہور میں موجود نسخہ ۱۹۸۵ء میں قادریہ بکس سنت نگر لاہور نے اردو آرٹ پر میں سے طبع کرا کے نشر کیا اور اس کے کل ۷ ۳۱ صفحات ہیں.6-8-8009-969:ISBN ا روزنامه الفضل ۵/ اکتوبر ۱۹۹۳ء

Page 233

ابن سلطان القلم ~ 213 - ~ اس کتاب کے تین حصے ہیں.پہلے حصے میں سات تبصرے اور متفرق مضامین شامل ہیں.پہلے تبصرے میں نبی کی بعثت کے اغراض، دوسرے میں نزولِ قرآن مجید کی اغراض بیان کی ہیں، جن پر تصنیفات مشاہیر اسلام گواہ ہیں جو متنوع علوم پر مشتمل ہیں.تیسرے تبصرے میں طبیعات کا بیان ہے.چوتھے میں قرآن کریم نے جو عقل، سماعت اور علم کی طرف توجہ دلائی ہے اس کا بیان ہے.پانچویں میں یہ حقیقت بیان کی ہے کہ تاویلات قائم مقام قرآن کریم کی نہیں.چٹھے میں قرآن اور مناظر قدرت کا ذکر ہے.ساتویں تبصرے میں بتایا کہ قرآن کریم کی بعض آیات پر عمل اور بعض سے اعراض ہی دنیا میں ذلت اور آخرت میں عذاب کا موجب ہے.پھر قرآن کریم کی غلط تفسیر اور اس کا صحیح پہلو، ملی غیرت کا فقدان، فطرت اور اقتضائے فطرت، علوم وفنون، غرض دعوتِ قرآن، قرآن مجید کی مجموعی شان نزول و غیرہ موضوعات کو زیر بحث لائے ہیں.حصہ دوم میں قرآن کریم کے مختلف علوم پر آیات قرآنیہ کی روشنی میں بحث کی ہے، جن میں علم الاخلاق، علم الحیوانات، علم نباتات، جمادات، علم آب، علم ہوا، علم آتش، علم ہیئت، ریاضی، علم النفس والقوی یا سائیکالوجی، علم الانسان، علم طب، فن تشریح، علم زبان، علم بلاغت و فصاحت، منطق، علم الکلام، فن مناظرہ، تاریخ، جغرافیہ، سیاحت، علم المعیشت، فن زراعت، تجارت اور علم خواب شامل ہیں.حصہ سوم میں دیگر علوم، جو مسلمانوں سے خاص ہیں، بیان کیے ہیں، جیسے : علم تفسیر القرآن، تعبير القرآن، رموز القرآن، علم الفقه، علم الميراث، علم الرجال، علم الحديث، علم الدعوات، علم الہیات، علم صوفیہ وغیرہ.

Page 234

ابن سلطان القلم ~ 214 ~ نبوت: ۱۹۱۸ء میں کاشی رام پریس لمیٹڈ لاہور میں طبع ہوئی اور اس کے ۵۶ صفحات ہیں.اس کتاب میں نبوت کے بارہ میں مباحث بیان کیے گئے ہیں.اُمتِ واحدہ اور امتِ وسطی سے کیا مراد ہے؟ کل امتوں کے نبی، نبیوں کی درجہ بندی، اقسام نبوت، شروع ہی میں کیوں ایک نبی نہ بھیجا گیا اور نبوت و الہام کی ضرورت وغیرہ جیسے اہم سوالات اُٹھائے گئے ہیں اور ان پر بحث کی گئی ہے.نیز اس رسالہ میں ختم نبوت کے مسئلہ پر بھی بات کی گئی ہے.- الصلوة: ۸۸ صفحات پر مشتمل اس کتابچہ میں محترم صاحبزادہ صاحب نے نماز کو موضوع بنایا ہے.آپ نے بیان کیا ہے کہ تمام مذاهب باوجود چند در چند اختلافات کے ذاتِ صمدی کا اعتراف کرتے ہیں اور تمام مذاہب میں دعا اور عبادت کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے.دعا کیوں کی جاتی ہے؟ عبادت اور دعا کے دنیا میں کس قدر طریقے ہیں؟ دعا پر ہونے والے اعتراضات اور ان کے جوابات وغیرہ موضوعات پر بحث کرنے کے بعد اسلامی عبادت اور اس کی جامعیت پر قلم اُٹھایا ہے.ازاں بعد نماز اور اس کے ارکان کی فلاسفی، اوقاتِ خمسہ کی حکمت اور نماز کے دیگر مسائل میں کیا سے زیادہ کیوں‘ کے سوال کو اُٹھا کر نہایت خوبصورت اور پر حکمت جوابات دیے ہیں.پھر آخر میں بیان کیا

Page 235

ابن سلطان القلم ~ 215 - ~ ہے کہ اخلاقی، تمدنی اور معاشرتی اعتبارات سے نماز کا کیا اثر ہے؟ اور اغیار کے مقابلہ میں نماز کا کیا اثر ہے؟ یہ کتاب ۲ جون ۱۹۱۲ء کی تصنیف ہے اور دسمبر ۱۹۱۲ء کو افضل المطابع پریس مراد آباد سے شائع ہوئی.۵- جبر و قدر ۵۴ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ مطبع روز بازار الیکٹرک پریس بازار امرتسر میں زیور طباعت سے آراستہ ہوا.اس رسالہ میں صاحبزادہ صاحب نے جبر و قدر کے مسئلہ پر مذاہب دنیا سے الگ ہو کر بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ انسانی زندگی کے حالات و واقعات پر غور کرنے سے کیا نتائج نکلتے ہیں.آپ نے لکھا ہے کہ ہم ایک حد تک مختار بھی ہیں اور اس حد سے نکل کر مجبور بھی.تخیل اور ارادہ میں مختار ہیں، لیکن تحمیل تخیل در تکمیل ارادہ کے بعض حصوں میں مجبور ہیں.جس نے یہ اختیارات دے رکھے ہیں اس نے اپنے ہاتھوں میں بھی ان کی ڈوری رکھی ہے.اور ۶- اساس الاخلاق اس ضخیم کتاب کے ۷۴۳ صفحات ہیں.اٹھارہ صفحات کا دیباچہ اس کے علاوہ ہے.روز بازار سٹیم پریس امرتسر سے طبع ہوئی.صاحبزادہ صاحب ای اے سی اُس وقت ممبر مال ریاست بہاولپور تھے.

Page 236

ابن سلطان القلم ~ 216 - اس کتاب میں اخلاق کے ہر شعبہ پر اصولی رنگ میں بحث کی گئی ہے.اگر چہ کہیں کہیں فروعی رنگ میں بھی جزوی اخلاق کا ذکر آگیا ہے.کتاب میں.اصولاً یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ سب اخلاق کا ماخذ اور مرجع کیا کچھ ہے اور ان کی ضرورت کہاں تک ہے اور ان میں کن کن وجوہ سے ترقی اور تنزل ہوتا رہتا ہے.اخیر کتاب میں محبت، دیانت، عدالت، صداقت اور شجاعت پر نمبردار بحث کی گئی ہے.نیز اس کتاب میں حکماء قدیم و جدید کے خیالات و آراء اخلاق کے محاسن و نقائص ہر باب میں پیش کیے ہیں.علاوہ ازیں اس میں بتایا گیا ہے کہ اخلاق کی تکمیل اسی صورت میں ہو سکتی ہے کہ جب بالخصوص شخصیت، قومیت، سوسائٹی، قدرت اور حکومتِ وقت کے فرائض کا تحفظ مد نظر رہے.اگر شخصیت کامل ہے تو اخلاق بھی کامل ہیں اور اگر شخصیت کامل نہیں تو اخلاق بھی کامل نہیں.شخصیت کے بعد قوم اور سوسائٹی کی نوبت آتی ہے.اگر کوئی قوم یا سوسائٹی عام طور پر بُری حالت میں ہو اور اس کے چند افراد مہذب بھی ہوں، پھر بھی اس قوم یا سوسائٹی کو خلیق نہیں کہا جا سکتا.آپ نے یہ بھی بیان کیا ہے ہندوستانیوں میں ابھی بحیثیت قوم وہ اخلاق پیدا نہیں ہوئے، جو حاکم قوموں کے لیے ضروری ہیں، اسی لیے قدرت نے انگریز قوم کا حکومت کے لیے انتخاب کیا ہے.کتاب کے سر ورق پر کتاب کا مختصر تعارف یوں درج ہے: "علم الاخلاق کی ایک حکیمانہ تالیف، جس میں واقعات کی بنا پر زور دار فلسفی دلائل سے انسانی زندگی کی

Page 237

ابن سلطان القلم ~ 217 - ~ تہذیب و شائستگی پر ہر پہلو سے بحث کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ قوم کی زندگی کے لیے کس قسم کے اخلاق و آداب ضروری و مفید ہو سکتے ہیں اور ان کا اصولی فلسفہ کیا ہے.مشرقی زبانوں میں اس موضوع کی یہ پہلی کتاب ہے جو اس صدی میں علم الاخلاق کی حقیقت پر تالیف ہوئی ہے.“ ۷- صداقت یہ رسالہ ۸۴ صفحات پر مشتمل ہے.۱۸۹۳ء میں اسلامیہ پریس لاہور سے شائع ہوا.اس رسالہ میں صداقت کے متعلق ان امور کی بحث کی گئی ہے کہ جو صداقت کے متلاشیان کے واسطے کم سے کم ایک راہنما کا کام دینے کے قابل خیال کیسے جا سکتے ہیں.صداقت کیا شے ہے؟ اس کی اقسام کیا ہیں؟ اصولِ تصدیق صداقت کیا ہیں؟ وغیرہ امور پر بڑے خوبصورت انداز میں منطقی اور فلسفیانہ رنگ میں بحث فرمائی ہے.صداقت کو گیارہ اقسام میں تقسیم کیا ہے جو درج ذیل ہیں: (۱) صدقت عامه (۲) صداقت خاصه (۳) صداقت علمی (۴) صداقت عملی (۵) صداقت عقلی (1) صداقت نقلی (۷) صداقت واحدانی (۸) صداقت یقینی (۹) صداقت موقت (۱۰) صداقت اعتباری (۱۱) صداقت قائم بذاتہ

Page 238

ابن سلطان القلم ~ 218 ~ ۸- قوت اور محبت: ۱۹۲۰ء میں آپ نے یہ رسالہ تصنیف کیا.۱۹۲۸ء میں راست گفتار پریس امرتسر میں طبع ہوا.اس کتاب میں آپ نے قوت اور محبت، دونوں جذبوں پر فلسفیانہ رنگ میں بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ انھی دو جذبوں کی وجہ سے ہر چھوٹی طاقت بڑی طاقت کی طرف متوجہ ہوتی ہے اور یہی دو باتیں ہیں جو ہمیں خدا تعالیٰ کی طرف لے جاتی ہیں.آپ نے ان دونوں قوتوں میں فرق بیان کرتے ہوئے تحریر کیا کہ محبت بھی ایک قوت ہے، لیکن جو وسعت اور جامعیت قوت میں ہے وہ محبت میں نہیں.اس لیے دونوں میں اشتراک بھی ہے اور امتیاز بھی.پھر آپ نے قرآن و حدیث سے دونوں قوتوں کے بارہ میں دلائل پیش کیے ہیں اور یہ ثابت کیا ہے کہ خدا تعالیٰ قوت بھی ہے اور محبت بھی.یکم اکتوبر ۱۸۹۰ء کو مطبع اسلامیہ لاہور سے شائع ہونے والا یہ رسالہ ۹- فرحت: ۵۶ صفحات پر مشتمل ہے.خوشی کی تعریف کیا ہے.خوشی کی اقسام کون سی ہیں.خیالی خوشی، ارادی خوشی خوشی به امید شکیه ،خوشی یقینی ، خوشی، اعتباری خوشی، حواسی خوشی،

Page 239

ابن سلطان القلم ~ 219 ~ خوشی به نتیجہ وغیرہ اقسام بیان کرنے کے بعد خوشی کے حدود اور حقیقت وہمی خوشی پر تفصیلی بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ حقیقی خوشی غنا اور قناعت سے پیدا ہوتی ہے.اپنی بحث میں حکیموں اور فلاسفروں کے اقوال اور دیگر مثالیں بھی دی ہیں.١٠- مرآة الخيال یعنی منٹل فلاسفه: ۱۸۸۲ء میں یہ رسالہ مطبع صفدری بمبئی میں طبع ہوا اور اس کے ۶۴ صفحات ہیں.مختصر تمہید کے بعد کتاب کو پانچ ابواب میں تقسیم کیا ہے.یہ ابواب صاحبزادہ صاحب کے الفاظ ہی میں درج ذیل ہیں: باب اول در بیان تعریف و فوائد و مقام و اقسام و طاقت و معیاد قوت متخیله باب دوم در بیان: طریق مدوت خیالات باب سوم در بیان: تسلسل خیالات باب چهارم ان عوارض اور امراض کے بیان میں جو قوت متخیلہ پر وارد اور مؤثر ہو سکتے ہیں.باب پنجم در بیان: فوائد و تدابیر آراستگی و صحت قوت متخیله 11- الوجد: تصوف کے بارہ میں یہ گرانقدر تصنیف لاہور پرنٹنگ پریس لاہور سے شائع ہوئی.۸۸ صفحات پر مشتمل ہے.

Page 240

ابن سلطان القلم ~ 220 ~ اس کتاب میں آپ نے بیان کیا ہے کہ منطق، سائنس اور فلسفہ، صداقت کی تلاش اور تنقید کے لیے ضروری علوم ہیں، لیکن یہ علوم ہمیں ظاہری اور معاشرتی منازل تک پہنچاتے ہیں.زندگی کے اُس ساحل پر نہیں لے جاتے جو روحانی ساحل سے موسوم ہے.انسانی تصویر کے ظاہری حصے کا باطنی حصہ ، ایک تعلق ضرور ہے، لیکن جن محنتوں اور ریاضتوں سے اہل اللہ منازلِ وجدان تک پہنچتے ہیں، وہ حکیموں اور فلاسفروں کی ریاضت اور تفکر سے کچھ اور ہی سماں رکھتی ہیں.وجد یا وجد ان سے وہ حالت اور حقیقت مراد ہے، جس کی وجدان وجہ سے انسان دوسری روحوں پر افضل و اشرف شمار ہوتا ہے اور یہ حقیقت اللہ تعالیٰ نے انسان کے اندر ودیعت کی ہوئی ہے، اسی کو پانے کا نام وجد ہے.مَنَ عَرَفَ نَفْسَهُ عَرَفَ رَبَّهُ.پھر وجد کے مراحل ہیں.پہلا مرحلہ تزکیہ ہے.دوسرا زینہ خدا پرستوں کا اقتدا آخر پر حقیقی وجد کی تعریف کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ تمام ہے.اولیاء اور بزرگان کی زندگیوں اور عبادتوں کا یہ منشا نہیں رہا کہ لوگ ان کی پوجا کریں، بلکہ یہ رہا ہے کہ ان کی معیت و بیعت سے لوگ خدا پرستی کی راہیں دیکھیں اور اشاعت اخوتِ اسلامی اور ندائے قومی پر ہی ان کا خاتمہ ہوا.پس حقیقی اور اصلی وجد یہ ہے کہ اپنی پر سوز صداؤں سے قوم اور اجزائے قوم کو وجد میں لائیں.

Page 241

۱۲- ۱ فنون لطیفہ ابن سلطان القلم ~ 221 - ~ ۱۹۱۲ء کے اواخر میں یونین سٹیم پریس لاہور سے شائع ہوئی.اڑھائی سو کے قریب صفحات ہیں.اس کتاب کے دو حصے ہیں.پہلے حصّے میں فنون کی اقسام پر عمومی بحث اور نیچر کے ساتھ اس کے تعلق کو بیان کیا گیا ہے اور دوسرے حصے میں فنونِ لطیفہ کی اقسام پر بحث کی گئی ہے.علم کی مختلف شاخوں میں سے بعض کو فنون سے تعبیر کیا جاتا ہے.فن کیا ہے؟ آپ کے نزدیک جب انسان نیچر اور مواد نیچر میں دست اندازی کرتا ہے اور ایک خاص طریق کے ساتھ سامان نیچر کو اپنے تصرف میں لاتا ہے تو وہ ایک فن سے کام لیتا ہے.مشاہدات، محسوسات، تخیلات کی اختراعی صور تیں ایک فن ہے.فن کو دو بنیادی اقسام میں تقسیم کیا ہے.(۱) فنون متعارفه (۲) فنون لطیفہ فنونِ متعارفہ وہ ہیں جن پر عام زندگیوں کا بہت کچھ مدار ہے، مثلاً: کاشت کاری کفش سازی ،خیاطی معماری نجاری، قصابی، حجام گری، ظروف سازی، کشیده کاری، رنگ سازی اور قالین بافی وغیرہ.فنون لطیفه دراصل فنونِ متعارضہ ہی کا دلآویز اور نرالا روپ ہے.فنونِ متعارفه چند منزلوں پر ہی رہ گئے ہیں اور فنونِ لطیفہ عام لوگوں سے نکل کر مشاہیر کی گود میں پرورش پا کر نکلتے ہیں.

Page 242

ابن سلطان القلم ~ 222 ~ فنون لطیفہ کی پانچ قسمیں ہیں.(۱) فن شاعری (۲) فن موسیقی (۳) فن تعمیر (۴) فن سنگ تراشی (۵) فن مصوری کتاب کے دوسرے حصے میں انھی پانچ فنون پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی گئی ہے.۱۳- امثال: ۳۱۵ صفحات پر یہ کتاب صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی مشتمل پ ہے.ایک معرکۃ الآراء تصنیف ہے، جو مئی ۱۹۱۱ء میں صادق الانوار سٹیم پریس بہاولپور میں طبع ہوئی.اس کتاب میں ضرب الامثال پر فلسفیانہ رنگ میں بحث کی گئی ہے.ابتدا میں پنجابی اور اُردو میں جو نسبت ہے اس پر تبصرہ کیا گیا ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ اُردو زبان دراصل پنجابی کی ہی اصلاح یافتہ شکل ازاں بعد صفحہ نمبر ۲۰۴ تک امثال پر مختلف جہات سے بحث کی ہے، جس میں المثل یا کہاوت کی تعریف، مآخذ و اسنادِ امثال، امثال اور اقوال و محاورات، امثالِ ،شعریه اقسام ،امثال امثال باعتبار مفهوم عامه و مفهوم خاصه اور تنقید امثال وغیرہ موضوعات شامل ہیں.آخر پر پنجابی زبان کی ۱۴۶۴ ضرب الامثال اردو ترجمے کے ساتھ درج کی گئی ہیں اور ساتھ ساتھ حواشی میں ضروری تشریحات بھی دی گئی ہیں.ضرب

Page 243

ابن سلطان القلم ~ 223 - ~ ۱۴- فن شاعری: یہ رسالہ ۱۹۰۷ء میں مطبع احمدی علی گڑھ سے شائع ہوا جس کے مالک و مہتمم رشید احمد صاحب تھے.کتاب ۱۶۸ صفحات پر مشتمل ہے جس کا انتساب صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب نے سید محمد حسین اکبر الہ آبادی صاحب کے نام کیا.اس وقت صاحبزادہ صاحب میانوالی میں متعین تھے.اس کتاب میں صاحبزادہ صاحب نے شاعری اور فن شاعری پر نئے اور پرانے خیالات کے اعتبار سے نہایت عمدہ پیرایہ میں بحث کی ہے اور بتایا ہے کہ شاعری کی کیا کیا تعریفیں کی گئی ہیں اور کیا شاعری ایک فن ہے یا علم ؟ اس کے علاوہ فلسفی اور تاریخی لحاظ سے شاعری کا شروع، شاعری کا موضوع و مدعا، شاعروں کے مدارج، شاعری کے مدارج، زمانہ اور شاعری، شاعری کے اولیات، ضرورت، مماثلات اور تناسبات، شاعری کے اقسام اور متعلقات، شاعری باعتبار مختلف واقعات، درد و سوز و با اعتبار تفریح، شاعری کا نتیجہ یا شاعر کی علمی خدمات اور شاعر کی زندگی وغیرہ اس کتاب کے اہم موضوعات ہیں.تحریر میں جابجا فارسی اور اُردو اشعار کا برجستہ استعمال کیا ہے، جس سے آپ کے مطالعہ شعر کی وسعت کا خوب اندازہ ہوتا ہے.اس کتاب میں آپ نے اُردو شاعری کے نقائص اور محاسن بھی بتائے ہیں اور الزامی طور پر یورپین شاعری کے نقائص کی طرف بھی اشارہ کیا ہے.ملک کے نوجوانوں کو اس شاعری کی طرف دعوت دی ہے جس کی ملک و ملت کو ضرورت ہے.

Page 244

ابن سلطان القلم ~ 224 - ۱۵- چند نثر نما نظمیں: مطبع روز بازار الیکٹرک پریس ہال بازار امرتسر سے شائع ہونے والی یہ مشتمل ہے.کتاب ۲۴۸ صفحات پر ” نثر نما نظموں“ سے یہ مطلب نہیں جو آج کل ”نثری نظموں“ سے لیا جاتا ہے، جن میں وزن کا خیال بھی نہیں رکھا جاتا، بلکہ یہاں نثر نما نظموں سے یہ مراد ہے کہ ان نظموں میں صرف شعر گوئی کے ظاہری تعبیرات اور نکات شاعری کو ملحوظ رکھ کر نثر کے الفاظ اور فقرات کو منظوم کیا گیا ہے.ان میں ان تعبیرات مشتمل پر زور نہیں دیا گیا، جو عموماً غزل گو شعراء کے پیش نظر ہوتی ہے.اس کتاب کے دو حصے ہیں.پہلے حصہ میں، جو ۱۵۲ صفحات پر منظومات شامل ہیں اور دوسرے حصے میں غزلیات ردیف وار درج کی گئی ہیں.حصہ نظم میں حمد باری تعالیٰ اور نعتِ رسول کے بعد مختلف علمی، اخلاقی اور تربیتی موضوعات کو نظم کیا گیا ہے.ہر دو حصوں میں سے چند اشعار بطور ہے، نمونہ پیش ہیں: وقت ہر شے سے محترم ہے یہاں وقت ہر شے سے مغتنم ہے یہاں وقت تقدیر ، وقت ہے اکسیر وقت تدبیر ، وقت ہے تسخیر ہنس کے جو اپنا وقت کھوئے گا وقت بے وقت آپ روئے گا

Page 245

ابن سلطان القلم ~ 225 - ~ وقت جا کر نہیں پھر آنے کا تجربہ خوب ہے زمانے کا اپنے اوقات کے رہو پابند ہے زمانے کی سود مند پند ******* مرا دل اسیر بلا ہو گیا الہی ! یہ الفت میں کیا ہو گیا بلا کی کشش ہے تری آنکھ میں پڑی جس پہ، دل سے ترا ہو گیا کیا یہ طبیبوں نے کیسا علاج مرا عارضہ تو سوا ہو گیا محبت میں مجھ کو ملا یہ صلہ کہ دشمن زمانہ مرا ہو گیا عجب طرح کی ہے یہ دیوانگی دلا! کچھ تو کہہ تجھ کو کیا ہو گیا

Page 246

ابن سلطان القلم ~ 226 - نظم بعنوان " تفهیم بصیرت" نہیں لازم کہ ہر شے کی فقط تم ابتدا دیکھو نگاہِ غور سے انجام دیکھو ، انتہا دیکھو کہا کس نے کہ دنیا میں کوئی ثانی نہیں تیرا اٹھا کر ہاتھ میں آئینہ شکل اپنی ذرا دیکھو بڑھی جاتی ہیں قو میں آگے اور ہم سب سے پیچھے ہیں اگر ہے شرم تو غیرت کی عینک کو لگا دیکھو بزرگوں کی کمائی جتنی تھی وہ تو لٹا بیٹھے اثاثہ جو بچا ہو خال سے اس کو لگا دیکھو ہوئی غارت حکومت اور لیاقت بھی حکومت کی اثر عزت کا جو باقی ہے اب وہ بھی گیا دیکھو عداوت کا ہوا چرچا ، اخوت اُڑ گئی یکسر حسد سے، کبر و نخوت سے ہر اک کو آشناد یکھو ہوا تھا حکم حق ہم کو کہ انساں بھائی بھائی ہیں کیا ہے مومنوں نے کیا عمل اس پر، ذرا دیکھو ہوئی کیوں ایسی حالت کوئی جاکر قوم سے پوچھے خدارا خواب غفلت سے ذرا سر کو اُٹھا دیکھو گل و بلبل کے قصوں نے کہو پھل تم کو کیا بخشا اگر کچھ درد رکھتے ہو تو قصہ قوم کا دیکھو

Page 247

ابن سلطان القلم ~ 227 - کوئی عاقل کرے آگاہ، تم میں یہ خرابی ہے تو گوش دل سے اس کو سن کے اس کی انتہاد دیکھو یہ لازم ہے کہ اس کو دل میں نقش کالحجر کر لو اگر دیوار پر فقرہ نصیحت کا لکھا دیکھو پڑی منجھدار میں ہے ڈگمگاتی قوم کی کشتی توکل بر خدا ہے ، ناخدا کا حوصلہ دیکھو ہر اک جانب سے ذلت اور مصیبت کی چڑھائی ہے گھرا کن کن مصائب میں ہے اپنا قافلہ دیکھو ۱۲ صدائے الم : -17 الم: لگے ہیں بے عدد کشتوں کے پشتے سامنے اپنے بتائیں کس کو اور کس سے کہیں یہ ماجرا دیکھو ۵۸ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ اپریل ۱۸۸۶ء میں وکٹوریہ پریس لاہور سے شائع ہوا.اس مختصر رسالہ میں صاحبزادہ صاحب نے مسٹر ابٹسن (Ibbetson) صاحب بہادر کمشنر مردم شماری پنجاب کی ان نکتہ چینیوں کا جواب دیا ہے جو انھوں نے اپنی مردم شماری کی رپورٹ میں اسلام پر کی تھیں.کتاب کے دو ابواب ہیں.پہلے باب میں آپ نے مسٹر ابٹسن (Ibbetson) صاحب کے اعتراضات درج کر کے لکھا ہے کہ اسلام کے بارہ میں ان کی رائے اُن کی ~

Page 248

ابن سلطان القلم ~ 228 ~ اسلام سے ناواقفیت پر دلالت کرتی ہے، مگر ہم اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ان کی رائے کو مذہب اسلام اور اصولِ اسلام کے موافق نہیں، مگر مسلمانوں کی موجودہ حالت کے موافق ہے.پھر آپ نے مسلمانوں کی موجودہ حالت کا نقشہ کھینچ کر اُن کو اسلامی تعلیم کے مطابق اپنے اندر تبدیلی پیدا کرنے اور اسلامی تاریخ کی اعلیٰ اقدار و روایات کو زندہ کرنے کی تحریک کی ہے.دوسرے باب میں آپ نے مسٹر ابٹسن (Ibbetson) کی نکتہ چینیوں کے مسکت اور مدلل جوابات دیے ہیں اور قرآن و احادیث سے حقیقی تعلیم پر روشنی ڈالی ہے.۱۷.ملت اور معاملات قومی: -12 اسلام کی ۸۲ صفحات کا یہ رسالہ ۱۹۲۷ء میں روز بازار الیکٹرک پریس ہال بازار امرتسر میں طبع ہو کر شائع ہوا.اس کتاب میں بتایا گیا ہے کہ تنزیل اقوام کا موجب کون کون سے اسباب ہوتے ہیں اور ملتِ اسلامیہ کے اعمال میں کیا کچھ کمیاں واقع ہو گئی ہیں جن کو دور کرنے کی ضرورت ہے.اسی ضمن میں لکھا ہے کہ ہماری فطرت کے دو ہی حصے ہیں: ایک حصہ وجدانی اور دوسرا معاشی.مذہبی قوانین میں اسے حقوق اللہ اور حقوق العباد کہتے ہیں.دنیا معاملات کا نام ہے.صحت معاملات کا معیار یہ نہیں کہ کسی ڈر یا مجبوری کی صورت میں کسی قول یا معاہدے کو پورا کر دیا جائے

Page 249

ابن سلطان القلم ~ 229 ~ بلکہ صحت معاملات کے واسطے مقدم یہ ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اس کی بابت ایک حس، ایک تڑپ اور ایک غیرت ہو ، جو باوجود چند در چند مشکلات کے بھی صحت معاملات کے لیے کوشاں و خواہاں رہے.تنزل اقوام کے اسباب میں بے حسی، بے غیرتی اور خود داری کا فقدان شامل ہیں.آخر پر قرآن کریم کی روشنی میں ملتی معاملات تفصیلاً بیان کیے ہیں اور بتایا ہے کہ ہم پر اس سلسلے میں کیا کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.۱۸- زمینداره بینک: ۶۰ صفحات کا یہ رسالہ ۱۹۰۳ء میں مطبع رفاہِ عام لاہور سے شائع ہوا.اس رسالہ میں زمیندارانِ پنجاب کے اسباب افلاس و افلاس و آسودگی پر بحث کر کے زمیندارہ بینک کے قائم کرنے کی ایک عملی تجویز بتائی گئی ہے.نیز اس کی افادیت پر روشنی ڈالی گئی ہے.کتاب کے آخر میں قواعد زمیندارہ فنڈ بیان گئے ہیں اور پھر حساب کتاب کے بارہ مختلف نقشہ جات دیے دیے گئے ہیں.کیے ۱۹ مشیر باطن: یہ انتہائی گہرے، فلسفیانہ رنگ میں لکھا گیا ایک بیش قیمت رسالہ ہے، جس میں انسانی ضمیر اور کانشنس کو موضوع بنایا گیا ہے.۱۵۵ صفحات پر مشتمل چھوٹی تقطیع کا یہ رسالہ آپ نے نئی صدی کے آغاز پر تحریر کر کے سید فقیر افتخار الدین.

Page 250

ابن سلطان القلم ~ 230 ~ صاحب میر منشی نواب لفٹننٹ گورنر بہادر پنجاب کی نذر کیا ہے.اس اس رسالے.کے چند مضامین درج ذیل ہیں : اعتباری تقسیم، ایک جامع مانع اصولِ اخلاق اور تمیزی قاعدہ، قاعدہ تمیزی کی حد وسعت، قاعدہ تمیزی کا ثبوت کیا ہے، انتباہی آوازوں اور دیگر صداؤں میں امتیاز، قاعده تمیزی کا خارجی واقعات سے مقابلہ ، ہماری اعلیٰ ضرورت اور ہمارا راز زندگی، ضرورت من حیث الاخلاق، ایک باطنی مشیر ، اجتہاد مشیر باطنی، ضمیر کی اجتہادی نظیریں، اجتہادی نظیروں کا نتیجہ ، ہمارا ضمیر اور لغزش، یہ کیونکر معلوم ہو کہ ہمارا ضمیر ماؤف ہے، ماؤف ضمیر صحیح المزاج کیونکر ہو، انسانی ضمیروں کی ترتیب، درجے اور طریق عمل وغیرہ.۲۰.نظم خیال: ۷۲ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ مطبع کرشن چند ر لاہور سے شائع ہوا.اگر چہ سنہ اشاعت تحریر نہیں تاہم سرورق پر لکھا ہے کہ مرزا سلطان احمد مصنف فرحت، اخلاق ،احمدی، رفیق، صدائے الم ، دلنواز، بزم خیال، یاد گار حسین، صداقت، دلسوز وغیرہ.جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا سنہ اشاعت مذکورہ کتب کے بعد کا ہے.کتاب کے سرورق پر تحریر ہے: ” اختلاف خیالات برا عمل نہیں لیکن ایک اختلاف خیال سے دشمن بن جانا ایک بُرا عمل ہے.“ اس مختصر جملہ کتاب کے مضمون کو سمو دیا گیا ہے.پہلے اس موضوع پر بحث کی گئی ہے کہ اس کائنات میں

Page 251

ابن سلطان القلم ~ 231 ~ اختلاف ایک طبعی چیز ہے اور اس میں صانع کی عجیب اور نادر حکمتیں ہیں اور اگر اختلاف نہ ہو کیا کیا نقائص اور مشکلات ہو سکتی ہیں.پھر یہ بتایا ہے کہ جب کارخانہ عالم کی ترتیب اور صورت یکساں نہیں تو طبائع کا اختلاف بھی ایک ضروری امر ہے، اسی لیے خالق نے ہر انسان کی طبیعت اور مذاق ایک دوسرے سے مختلف بنایا ہے.پھر بتایا کہ جیسے سب طبائع کا آپس میں مختلف ہونا ضروری ہے ایسے ہی ایک طبیعت کے خیالات اور قیاسات کا مختلف اسباب کے نتیجہ میں تبدیل ہو جانا بھی ضروری ہے.پھر یہ بتایا کہ مختلف خیالات اور قیاسات کے نتائج صحیحہ میں تو حد ضروری ہے.پھر اظہارِ خیالات کی حدود و قیود، اختلاف خیالات کی سود مندی، اختلاف خیالات اور اولوالعزمی میں نسبت، اختلاف خیالات کے اظہار کا طریقہ ، اختلاف خیالات اور عمل باہمی کے موضوعات پر بحث کی ہے.ابراہیم ذوق کا ایک شعر بہت خوب ہے ؎ گلہائے رنگا رنگ سے ہے زینت چمن اے ذوق! اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے ۲۱- بزمِ خیال حصہ اول (ناول): ناول نگار خود دیباچہ ناول میں تحریر کرتے ہیں: ” یہ ناول اس غرض سے نہیں لکھی گئی کہ اس کے مصنف کا نام ناولسٹوں کی فہرست میں لکھا جائے.اس کی تدوین سے یہ غرض ہے کہ دلچسپ قصوں اور دلآویز

Page 252

ابن سلطان القلم ~ 232 ~ واقعات کے پیرائے میں اہل قوم اور اہل ملک کو ان باتوں اور ان ضروریات سے آگاہ کیا جائے کہ جن کی انھیں بلحاظ مقتضیات زمانہ اشد ضرورت ہے.بالفعل اس کی پہلی جلد معرض طبع میں آکر شائع کی جاتی ہے.اگر وقت سے یاری اور زندگی نے وفا کی تو ان شاء اللہ اس کے اور حصص بھی اپنے وقت پر شائع ہوتے رہیں گے.“ جیسا کہ مصنف نے بیان کیا ہے کہانی کے ساتھ اس ناول میں ضروری مضامین بیان کیے گئے ہیں، جیسے: پرنس حامد کے عزم سفر کے ضمن میں سفر کے موضوع پر عالمانہ بحث کی گئی ہے.اسی طرح مقتول اسلم کی سرگذشت میں قاتلوں کی سزایابی اور طافی نامی مجرم کا حکم سز اسن کر عبرت ناک اور دلوں کو ہلا دینے والی تقریر کرنا، افضل کا اپنی بیوی حمیدہ کو الوداعی نصیحت، سوداگر زادے کا جھوٹا عشق اور صائب کی قیمتی نصیحتیں اور حقیقت عشق کا بیان، دریائے چناب کی طغیانی میں اسعد کے کنبے کے غرق ہو جانے پر اسعد کا پُر درد نوحہ ، زمانے کی نیرنگی اور دوستوں کی بے وفائی، راجہ اور نواب کی عشق بازیاں اور بالآخر ان کی مایوسانہ پشیمانی وغیرہ.ناول کیا ہے، ہمارے گردو پیش ہونے واقعات کا نقشہ اور معاشرے کی خرابیوں نشان دہی اور ضروری نصیحت و عبرت کا مرقع ہے، جو ۱۸۹۳ء میں بفرمائش فضل الدین تاجر کتب قومی و مالک اخبار اشاعت لاہور بازار کشمیری از محمدی پریس لاہور زیور طباعت سے آراستہ ہوا.صاحبزادہ صاحب اس وقت لاہور میں نائب تحصیلدار کے عہدہ پر فائز تھے.

Page 253

۲۲- دل سوز (ناول): ابن سلطان القلم ~ 233 - ~ یہ ناول صفدر نامی ایک شخص کی داستانِ عشق ہے، جس کی محبوبہ کا نام شائشتہ ہے.صفدر کا کتا بیٹی دونوں کے مابین قاصد کا کام کرتا ہے.بعض حاسد مخالفت کرتے ہیں.صفدر سکتہ یا قومہ میں چلا جاتا ہے.سب اس کو مردہ سمجھ کر کفن دفن کی تیاری کرتے ہیں، لیکن وہ مردہ نہیں ہوتا اور ڈاکٹر ہارو کے علاج سے شفایاب ہو جاتا ہے.آخر پر صفد ر اپنی محبوبہ سے ملاقات کر لیتا ہے.اس ناول کی سن تالیف ۱۸۹۶ء ہے اور مطبع کرشن چند لا ہور ہے.۲۳- یاد گار حسین: یہ رسالہ ، جس کے ۹۶ صفحات ہیں، محرم الحرام ۱۳۴۱ھ میں مرغوب ایجنسی لاہور نے کپور آرٹ پر نٹنگ ورکس لاہور سے چھپوایا.زیاد گارِ حسین، شہادتِ حضرت امام حسین پر عالمانہ بحث ہے، جس میں اول شہادت کی ماہیت بیان کی گئی ہے، پھر شہادت امام حسین کی فضیلت بیان کی ہے اور بتایا ہے کہ یہ شہادت دراصل حضرت اسماعیل کی قربانی کی تکمیل ہے.فضیلت شہادتِ حسین ہی کے ضمن میں غیر مسلم محققوں کے تاثرات بیان کر کے ثابت کیا ہے کہ اس واقعہ سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے.مثلا: مسٹر جیمس کا کرن صاحب کی رائے جو انھوں تاریخ چین میں درج کی ہے.نیز مسٹر گبن کی رائے جو انھوں نے اپنی کتاب گبز رومن ایمپائر “ کی جلد 9 کے صفحہ ۳۴۶ پر بیان کی

Page 254

ابن سلطان القلم ~ 234 ہے.اسی طرح مسٹر جان لونگ نے حضرت امام حسین کے واقعہ شہادت کے بارہ میں چار سوشعر پرمشتمل پر درد انگریزی نظم لکھی.ازاں بعد واقعہ شہادت بقلم مسٹر آرتھر این والسٹن سی آئی ای، جو اس نے اپنی تصنیف "Hours with Muhammad" میں مختصر اور دردناک ناک پیرایہ میں لکھا ہے، کا ترجمہ پیش کیا ہے اور آخر پر نتیجہ و اثر شہادت امام حسین بیان کیا ہے.گویا اس واقعہ نے اپنوں اور غیروں پر عمل مسمریزم کر کے مسحور بنادیا ہے.-۲۴- تبصره بر اسرارِ بے خودی بڑی تقطیع کے ۳۹ صفحات پر مشتمل آپ کی یہ تصنیف مکرم محمد اسماعیل پانی پتی صاحب کو مرتب و پیش کرنے کی توفیق ملی، جسے ”بزم اقبال“ نے شائع کیا.کتاب کے مقدمے میں تعارف کچھ یوں درج ہے: ”علامہ اقبال کی مشہور مثنوی ”اسرارِ بے خودی“ پہلی مرتبہ ۱۹۱۵ء میں شائع ہوئی تو اس کے خلاف مخالفت کا ایک طوفان برپاہو گیا.شمالی ہند کے اخباروں میں بکثرت مضامین مثنوی کی مخالفت و موافقت میں لکھے گئے اور عرصے تک یہ سلسلہ جاری رہا.اسی زمانہ میں خان بہادر مرز اسلطان احمد نے (جو اس وقت سونی پت ضلع رہتک میں اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر تھے) ایک نہایت بے نظیر ، دلچسپ اور پر مغز تبصرہ اس مثنوی پر کیا تھا، جس میں انھوں نے مثنوی اسرارِ بے خودی کی حمایت میں ایسے فصیح و بلیغ اور عالمانہ و فاضلانہ رنگ میں اظہارِ خیال کیا کہ اسے پڑھ کر بڑا سرور حاصل ہوتا ہے.جس

Page 255

ابن سلطان القلم ~ 235 - ~ لطیف پیرایہ میں اور جس حسین طرز سے اور جس بالغ نظری کے ساتھ یہ تبصرہ لکھا گیا ہے وہ اپنی نظیر آپ ہے.اسرارِ بے خودی، پر اس سے بہتر اور اس سے اعلیٰ محاکمہ یقیناً آج تک نہیں لکھا گیا.کلام اقبال کی آج تک متعدد شرحیں لکھی گئی ہیں، مگر اس کی نظیر و مثیل نہ زمانہ ماضی میں ملتی ہے ، نہ عہد حاضر میں نظر آتی ہے.عجیب اتفاق ہے کہ یہ شاندار تبصرہ آج تک زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوا اور اس کافل سکیپ سائز کے اسی صفحات پر خود مصنف کے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا مسودہ ربوہ کی مرکزی لائبریری میں موجود ہے.اقبال کے متعلق ہر چیز اور ہر شے کی فراہمی بزم اقبال کا خوشگوار فرض ہے، جسے وہ خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دے رہی ہے.اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ تبصرہ بھی ہے، جو آج پہلی مرتبہ باذوق اور اہل علم حضرات کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے.امید ہے کہ قارئین کرام اسے ذوق و شوق کے ساتھ پڑھیں گے اور تبصرہ نگار کی لیاقت و قابلیت، حسن بیان اور زور تحریر کی داد دیں گے.“ ۲۵- ریاض الاحلاق: ۱۵۰ صفحات پر مشتمل یہ رسالہ دراصل صاحبزادہ صاحب کے متفرق مضامین کا مجموعہ ہے، جس کو مکرم مولوی سید ممتاز علی صاحب نے مرتب کیا ہے اور یہ مجموعہ ۱۹۰۰ء میں رفاہِ عام سٹیم پریس لاہور میں طبع ہوا.اس میں مختلف موضوعات پر ۵۲ مضامین شامل ہیں، جن کی الگ فہرست کتاب کے آخر میں آپ کے مضامین کی فہارس میں شامل ہے.

Page 256

ابن سلطان القلم ~ 236 ۲۶.سراج الاخلاق یہ کتاب بھی دراصل صاحبزادہ صاحب کے ۲۱ مضامین کا مجموعہ ہے جس کے کل ۱۵۵ صفحات ہیں.اس مجموعہ کو بھی مولوی سید ممتاز علی صاحب نے ترتیب دے کر ۱۹۰۳ء میں رفاہ عام سٹیم پریس لاہور سے طبع کروایا.اس مجموعہ میں شامل مضامین کی فہرست کتاب کے آخر میں آپ کے مضامین کی فہارس میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے.۲۷- خیالات: ۳۴۰ صفحات پر مشتمل یہ کتاب ان مضامین مختلفہ کا مجموعہ ہے جو مختلف معروف رسائل میں وقتاً فوقتاً زیب اشاعت ہوتے رہے.اِن رسائل میں مخزن، دکن ریویو، زمانہ، اُردوئے معلی، منتقلی، تہذیب اور عصر جدید شامل ہیں.جون ۱۹۰۷ء میں یہ مجموعہ رفاہِ عام اسٹیم پریس لاہور میں طبع ہو کر شائع ہوا.اس مجموعہ میں کل ۲۹ مضامین شامل ہیں، جن کی الگ فہرست کتاب کے آخر میں آپ کے مضامین کی فہارس میں دی گئی ہے.۲۸- مکتوبات اكبر: یہ کتاب ہر چند محترم صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کی اپنی تصنیف نہیں لیکن آپ نے اسے ترتیب دے کر شائع کروایا اور اس کا دیباچہ رقم فرمایا ہے.

Page 257

ابن سلطان القلم ~ 237 ~ کتاب ہذا میں مکرم سید اکبر حسین صاحب اکبر اللہ آبادی کے وہ مکتوبات شامل ہیں، جو انھوں نے محترم صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے نام تحریر کیے تھے.یہ مکتوبات گرانقدر علمی و ادبی نکات کا حسین مرقع ہیں، جو ۱۹۶۷ء میں پہلی بار ”نیا ادارہ" کی طرف سے سویرا آرٹ پریس لاہور میں طبع ہو کر شائع ہوئے.

Page 258

ابن سلطان القلم ~ 238 فہارس مضامین از قلم معجز رقم خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب آپ کے مضامین اپنے وقت کے مختلف علمی و ادبی جرائد ومجلات کی زینت بنتے رہے.خلافت لائبریری ربوہ میں آپ کے مضامین کی بارہ جلدیں موجود ہیں، جن میں تقریباً ساڑھے تین سو مضامین ہیں.ان تمام مضامین کو اصل رسالوں سے الگ کر کے ۱۲ جلدوں کی صورت میں جمع کر دیا گیا ہے.یہ کہنا غلط ہو گا کہ آپ نے صرف اسی قدر مضامین لکھے ہیں جو ان بارہ جلدوں میں آگئے ہیں کیونکہ یہ تمام مضامین بیسویں صدی (۱۹۰۰ء کے بعد) کے ہیں اور ان میں کوئی مضمون بھی انیسویں صدی کا نہیں، حالانکہ بیسویں صدی سے قبل آپ متعدد کتب تصنیف فرما چکے تھے.لہذا یہ کیونکر ممکن ہے کہ بیسویں صدی سے قبل آپ نے کوئی مضمون رقم ہی نہ فرمایا ہو.دوسرے خاکسار کو انٹر نیٹ پر بیسویں صدی کے آغاز میں شائع ہونے والے بعض رسالے دستیاب ہو گئے، جن میں ایسے ۲۶ مضامین کا سراغ مل گیا، جو خلافت لائبریری میں موجو دبارہ جلدوں میں شامل نہیں تھے.اس طرح ان نئے دریافت ہونے والے مضامین سے آپ کے مضامین کی تیرھویں جلد بن جاتی ہے.بہر حال اس سے یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان جلدوں میں موجود مضامین کے علاوہ آپ کے اور بہت سے مضامین بھی ہیں، جن کی بازیافت کے لیے اُس زمانے کے رسائل و اخبارات کی مزید کھوج لگانے کی ضرورت ہے.

Page 259

ابن سلطان القلم ~ 239 ~ ان ۱۲ جلدوں اور انٹرنیٹ سے ملنے والے مضامین کے علاوہ آپ کی کتب میں سے تین کتابیں دراصل آپ کے متفرق مضامین کے مجموعے ہیں.ان میں سے ایک کتاب ریاض الاخلاق“ کے نام سے شائع شدہ ہے.یہ مجموعہ سنہ ۱۹۰۰ء میں شائع ہوا، جس میں آپ کے ۵۲ مضامین شامل ہیں.ممکن ہے سنہ ۱۹۰۰ ء سے پہلے کے تمام یا بیشتر مضامین اس مجموعہ میں ہی آگئے ہوں.اسی طرح آپ کے مضامین کا ایک مجموعہ ”خیالات“ کے عنوان سے جون ۱۹۰۷ء میں شائع ہوا، جس میں آپ کے ۲۹ مضامین شامل ہیں، جو مختلف معروف رسائل میں وقتاً فوقتاً اشاعت پذیر ہوتے رہے.ان ۲۹ مضامین میں سے چند ایک مذکورہ بالا بارہ جلدوں میں بھی شامل ہیں جن کی وضاحت فہرست میں کر دی گئی ہے.تیسری کتاب ”سراج الاخلاق“ ہے جس میں آپ کے ۲۱ مضامین شامل ہیں.ترتیب میں مذکورہ بارہ جلدوں میں سے ہر ایک جلد کے مضامین کو ایک جگہ درج کرنے کی بجائے ہر رسالے کے مضامین کو تاریخ وار یکجا کیا گیا ہے، کیونکہ یہ جلدیں باقاعدہ کتابی صورت میں طبع شدہ نہیں، بلکہ مختلف رسالوں سے مضامین کو بغیر کسی ترتیب کے الگ کر کے ان کی جلد بندی کر دی گئی ہے.بعض مضامین کے ایک سے زیادہ نسخے بھی ہیں.نہ رسالوں کی کوئی ترتیب ہے اور نہ تاریخ اشاعت کا کوئی لحاظ.لہذا کسی جلد کو پہلی یا دوسری یا تیسری قرار نہیں دیا جا سکتا.غرض بغیر کسی ترتیب کے مضامین جمع کر دیے گئے ہیں.یہی وجہ ہے کہ بعض مضامین کے بارہ میں یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کس رسالے میں طبع ہوئے، اسی طرح بعض کی تاریخ کے بارہ میں جانکاری نہیں مل

Page 260

ابن سلطان القلم ~ 240 ~ سکی.بعض رسائل میں ہر صفحہ کے سر پر صفحہ نمبر کے علاوہ رسالے کا نام اور شمارہ نمبر یا تاریخ وغیرہ درج ہے، جس سے مکمل حوالہ دستیاب ہو گیا ہے، لیکن جن رسالوں میں یہ طریق اختیار نہیں کیا گیا، ان کے بارے میں مکمل معلومات میسر نہیں آسکیں، لہذا ایسے مضامین کی الگ فہرست دے دی گئی ہے.بعض رسالوں میں صفحات کے سر پر صرف رسالے کا نام درج ہے، تاریخ یا شمارہ درج نہیں اس لیے ایسے مضامین کے صفحات نمبر ہی درج کر دیے گئے ہیں.علاوہ ازیں جس مضمون میں آپ کے نام کے ساتھ عہدہ یا جگہ وغیرہ درج ہے، وہ بھی دے دی گئی ہے تا کہ یہ اندازہ ہو سکے کہ کون سا مضمون آپ نے کہاں سے لکھا اور اُس وقت آپ کس عہدے پر فائز تھے.ریاض الاخلاق“، ”سراج الاخلاق“ اور ”خیالات کے مضامین کی فہرستیں آخر میں الگ سے درج کی گئی ہیں.ان ضروری وضاحتوں کے بعد ذیل میں حضرت مرز اسلطان احمد صاحب کے قلم ندرت رقم سے ضبطِ تحریر میں آنے والے مضامین کی رسالہ وار فہرست پیش ہے: اخبار الحكم “ قاديان تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات نمبر شمار عنوان مضمون 1 فلسفه قرآنی ۱۷ اپریل ۱۹۱۸ء م " رساله ریویو آف ریلیجنز“ تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات نمبر شمار عنوان مضمون 1 ما فوق العادت جلد ۲۰ نمبر ۱۱ قادیان ۹

Page 261

ابن سلطان القلم ~ 241 - ~ نمبر شمار عنوان مضمون رسالہ ”مخزن لاہور تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 تبادلہ خیالات (۱) مئی ۱۹۰۲ء اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ۹ جولائی ۱۹۰۲ء ايضاً ٨ ايضاً 11 ۹ ا.۱۲ 1+ ۱۷ ۱۲ 1.ا.۱۳ 11 ۱۲ ۱۲ ۱۲ تبادلہ خیالات (۲) تحسین و نفرین جلد ۳ نمبر ۵.اگست ۱۹۰۲ء تعجب ایٹی کیٹ (etiquette) جلد ۴ نمبرا، اکتوبر ۱۹۰۲ء نومبر ۱۹۰۲ء سوانح عمری (۲) جلدے نمبر ا، اپریل ۱۹۰۴ء سوانح عمری (۳) حسن اور جذب حسن جلد ۱۱ نمبر ۵، اگست؟۱۹۰ جلد ۹ نمبر ۲، مئی ۱۹۰۵ء میانوالی ، پنجاب تخم تاثیر جلد ۱۲ نمبر ۳، نومبر ۱۹۰۶ء میانوالی، پنجاب عورت جلد ۱۲ نمبر ۴، جنوری ۱۹۰۷ء تصویر جلد ۱۳ نمبر ۵،اگست۱۹۰۷ء میانوالی، پنجاب لطافت فروری ۱۹۱۰ء راز اپریل ۱۹۱۰ء خدائی فوجدار جلد ۱۹ نمبر ۳، جون ۱۹۱۰ء مسٹر خواہ مخواہ جلد ۲۰ نمبر ۲، نومبر ۱۹۱۰ء بہاولپور سفارش جون ۱۹۱۱ء بہاولپور ہوائی مجسٹریٹ جلد ۲۲ نمبر ۴، جولائی ۱۹۱۱ء وزیر مال بہاولپور کھیل ممبر مال کو نسل نومبر ۱۹۱۱ء ریاست بہاولپور پاسبان عقل جون ۱۹۱۲ء بہاولپور ۶ ۹ ا.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ 14 ۱۷ ۱۸ ۱۹ σ

Page 262

۹ ۲۰ ง σ ۱۲ ۱۲ ۱۲ ง ۱۷ 3 3 ۶ + ۵ 11 > Δ + ۴ ۶ > ابن سلطان القلم ~ 242 ~ فراموشی جلد ۲۳ نمبر ۴، جولائی ۱۹۱۲ء بہاولپور ۲۱ کھڑ پینچ اگست ۱۹۱۲ء بہاولپور ۲۲ خون جگر دسمبر ۱۹۱۲ء بہاولپور ۲۳ قصے اور کہانیاں جنوری ۱۹۱۳ء بہاولپور - خدائی طاقت کا اظہار جلد ۲۴ نمبر ۶ مارچ ۱۹۱۳ء جذبہ اور مذاق کی نزاکت اور خوبی جلد ۲۴ نمبرے ، اپریل ۱۹۱۳ء مئی ۱۹۱۳ء معیار قومیت پر چہ میگوئیاں فطرت و تربیت جون ۱۹۱۳ء بہاولپور کہاوت جلدے نمبر ۳، جون ۱۹۰۴ء نیکی، بدی اور تکلیف تمبر ۱۹۱۴ء مقیم لندن حافظہ اور تخیل (1) مئی ۱۹۱۵ء قادیان حافظہ اور تخیل (۲) جون ۱۹۱۵ء اليضاً تحریکات عامه (۱) اگست ۱۹۱۵ء - تحریکات عامه (۲) ستمبر ۱۹۱۵ء سونی پت صابن کی ٹکیہ جون ۱۹۱۶ء جہلم و عنوان کے نیچے لکھا ہے: "سلسلہ کیلیے دیکھو با مئی ۱۹۱۶ء.۵ صفحات صرف جون کے ہیں.فروری ۱۹۱۸ء گوجر انوالہ مئی ۱۹۱۸ء جولائی ۱۹۱۸ء ایک زبر دست ہاتھ عیش تنگدستی اپنی اپنی قسمت - ( مضمون کا ابتدائی صفحہ مفقود ہے) ستمبر ۱۹۱۸ء، صفحات:۲۹ تا۳۲ اتحاد مطالب اکتوبر ۱۹۱۸ء زبان اردو جون ۱۹۱۹۴ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ ۳۱ ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ ۴۰

Page 263

4 3 ابن سلطان القلم ~ 243.~ ۶ گل و بلبل جولائی ۱۹۱۹ء گوجر انوالہ ۴۲ ۴۳ وحشت مناظرہ علوم هم هم گذشتہ ماؤں کے بیٹے ۴۵ اگست ۱۹۱۹ء نومبر ۱۹۱۹ء گوجر انوالہ دسمبر ۱۹۱۹ء اگست ۱۹۲۰ء لاہور رساله الناظر“لکھنؤ تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات N > 1.۱۲ عنوان مضمون "الناظر" کی سہ سالہ خدمات پر مختصر تبصرہ مئی ۱۹۱۳ء فلسفه سعدی فرد اور قوم یکم جولائی ۱۹۱۷ء صفحات ۱۲ تا ۲۱ تہذیب اور شعائر تہذیب قمار زندگی * صفحات ۴۰ تا ۵۱ صفحات ۲۱ تا ۲۷ گوجر انوالہ و رسالہ ”مغلیہ گزٹ" میں بقیہ قمار زندگی" کے نام سے مضمون ہے.الفاظ السنه مترادفات صفحات ۳۲ تا ۳۷ گوجر انوالہ ។ صفحات ۲۴ تا ۳۰ گوجرانوالہ 2 سنسکرت اور ہندی صفحات ۲۵ تا ۲۸ گوجر انوالہ م وسعت اُردو بہاولپور ۱۳ دانست صفحات ۲۷ تا ۳۲ ។ جماعتی حسیات صفحات ۵ تا ۱۰ ۶ یؤمنون بالغیب صفحات ۲۹ تا۳۷ σ اخلاقی جرات صفحات ۱۸ تا ۲۳ ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ ។ २ 1

Page 264

11 1.N ۹ 11 3 ۶ > ۶ - ~ ابن سلطان القلم ~ 244 تمهیدی فیضان مذہب علمی رنگ میں مضمون کے بعد بزبان فارسی منظوم تاریخ اجر ارسالہ ” الناظر " درج ہے: مصلح ملک باد الناظر + قدر دانش شوند اہل زمن ازالہ پٹڑھوں اپنے تاریخ + که بود کامیاب ناظر من (۱۳۲۷ھ) تقسیم منت جلد ۴ نمبر ۲۴ کیا اور کیوں ؟ جلد ۵ نمبر ۲۷ فطنت (۱) جلد ۶ نمبر ۲۱ بزدلی جلد ۶ نمبر ۳۶ سہارا جلد نمبر ۳۱ مساوات اور پردہ جلدے نمبر ۴۱ عمومیت و خصوصیت فلسفه جلد ۹ نمبر ۵۳ نظام نسبت مضمون نمبر ۱۵ تا۲۳ کے بلہ میں مضمون کے آگے پیچھے کسی اعلان وغیرہ سے اندازہ کیا گیا ہے کہ یہ غالباً الناظر“ ہی میں چھپے ہیں.دو رساله مغلیہ گزٹ “ لاہور ۱۴ ۱۵ ។ ۱۷ ۱۸ > ۱۹ σ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ نمبر شمار 1 عنوان مضمون علم اور مغل تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات اپریل ۱۹۱۸ء ریونیو آفیسر گوجرانوالہ حس متفردہ اور حس مجموعی مئی ۱۹۱۸ء ايضاً २ نوم وجہ تسمیہ مغل اور مرزا جون ۱۹۱۸ء ايضا ۴ روایات مسٹر منوچی جولائی ۱۹۱۸ء ايضاً 3 3 3 یاد ایام (۱) ستمبر ۱۹۱۸ء ايضاً ۶ یاد ایام (۲) اکتوبر ۱۹۱۸ء ايضاً L اقبال مجرم نومبر ۱۹۱۸ء ايضاً ۶

Page 265

~ 245 ~ + २ ۶ 3 ابن سلطان القلم تفرقہ یا پھوٹ تیرہ کا ہندسہ جنوری ۱۹۱۹ء فروری ۱۹۱۹ء ايضاً نشو و نمائے قوم (آخری صفحات نہیں) مارچ ۱۹۱۹ء ايضاً فیروزه خیالستان تخلف مئی ۱۹۱۹ء اليضاً جون ۱۹۱۹ء ايضاً اگست ۱۹۱۹ء ايضاً ستمبر ۱۹۱۹ء ايضاً پہلے افراد بعد کو قوم روایات قومی ممتاز محل آگرہ دسمبر ۱۹۱۹ء چند حروف جنوری ۱۹۲۰ء بقیه قمار زندگی (انتخاب از اخبار وطن لاہور) مارچ ۱۹۲۰ء یہ بقیہ ہے.رسالہ ”الناظر “ میں بھی ” قمار زندگی“ کے نام سے مضمون ہے.کتمان راز عام تعلیم مئی ۱۹۲۰ء اگست ۱۹۲۰ء ايضاً ايضاً ریونیو آفیسر گوجرانوالہ ايضاً اليضاً ستمبر ۱۹۲۰ء پنشنر ای اے سی، لاہور २ نم 3 ۶ 3 ریٹائرڈ ای اے سی، اکتوبر ۱۹۲۰ء رئیس اعظم قادیان 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ 17 ۱۷ ۱۸ > ۱۹ اپنی اپنی قیمت ۲۱ قومی حس د, رساله زمانه“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 تاریخ (۱) مارچ ۱۹۰۵ء ۹ تاریخ (۲) اگست ۱۹۰۵ء خود غرضی جنوری ۱۹۰۹ء آزاد و مقید تعلیم مارچ ۱۹۰۹ء > >

Page 266

۹ 1.3 > 3 3 ۶ ง L ง 2 ~ ابن سلطان القلم ~ 246 جدائی سرمایه اسکول فلسفہ اگست، ستمبر ۱۹۰۹ء دسمبر ۱۹۱۰ء مارچ ۱۹۱۳ء ستی جولائی ۱۹۱۵ء بہاولپور زبان بھاشا نومبر ۱۹۱۶ء جہلم سوامی بابا لعل جی فروری ۱۹۲۰ء گوجر انوالہ ہندی مذاق ستمبر ۱۹۲۰ء چند ربحان بر جمن لاہوری مئی وجون ۱۹۲۱ء دماغی غلامی جنوری ۱۹۲۳ء اخلاقی نصاب اور ہماری اخلاقی کمزوریاں رسالہ ”تمدن“ دہلی تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 11 - σ > z 2 - ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ نمبر شمار عنوان مضمون 1 ڈاکیہ جنوری ۱۹۱۸ء مارچ ۱۹۱۸ء دماغ اور عمل اپریل ۱۹۱۸ء २ شخصیت مئی ۱۹۱۸ء 3 بشره جون ۱۹۱۸ء ۶ طلسم حافظہ جولائی ۱۹۱۸ء زبان اور حسن بیان ستمبر ۱۹۱۸ء کمزور اکتوبر ۱۹۱۹ء بس میں ہی ہوں نومبر ۱۹۱۹ء

Page 267

ابن سلطان القلم ~ 247.~ 3 ۶ گل و خار جنوری ۱۹۲۰ء گوجر انوالہ دل کی سزا فروری ۱۹۲۰ء قرآن اور محبت اپریل ۱۹۲۰ء خربوزہ کو خربوزہ دیکھ کر رنگ بدلتا ہے مئی، جون ۱۹۲۰ء (غالبا) تمدن، صفحات ۲۱ تا ۴۴۶ رسول بشیر و نذیر 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ₹ نمبر شمار عنوان مضمون رسالہ ”رہنمائےتعلیم“ لاہور تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 رہنمائے تعلیم جنوری ۱۹۱۳ء ریونیو ممبر کو نسل پیجینسی ریاست بہاولپور اسباق الأشياء اپریل ۱۹۱۳ء ايضاً حرف مئی ۱۹۱۳ء 1.२ انسان کے پہلے دو سبق اگست ۱۹۱۳ء ايضاً ۶ 3 کتابوں کا مطالعہ (۱) فروری ۱۹۱۴ء (مضمون کے آخر پر قوسین میں لکھا ہے بقیہ پھر “) اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر پنجاب N ۶ اعلیٰ واد فی تعلیم مارچ ۱۹۱۴ء ايضاً صحیفه قدرت جولائی ۱۹۱۵ء سوفی پیت شرف جسمانی مئی ۱۹۱۹ء ای اے سی گوجرانوالہ 11 ۹ چھیڑ جولائی ۱۹۱۹ء ايضاً 1.علم، عالم، معلوم اکتوبر ۱۹۱۹ء ايضاً Δ 11 چشم حافظه دسمبر ۱۹۱۹ء افسر مال ضلع گوجر انوالہ 2 ۱۲ فیش زده فروری ۱۹۲۰ء لاہور N

Page 268

ابن سلطان القلم ~ 248 ~ ۱۳ زر اپریل ۱۹۲۰ء لاہور ۱۴ ہر دلعزیزی جون ۱۹۲۰ء ای اے سی لاہور نمبر شمار عنوان مضمون 1 م ۶ L رساله ادیب اله آباد ۹ 2 تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات معاشرتی مذہب جلد انمبرا، جنوری ۱۹۱۰ ء اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر قومی یاد گاریں جلد انمبر ۳، مارچ ۱۹۱۰ء روپیہ کی قیمت گھٹ رہی ہے جلد نمبر ۶، جون ۱۹۱۰ء تبادلہ اشیاء جلد ۲ نمبر ۳، ستمبر ۱۹۱۰ء مجموعہ کسوشیل: ہندوستان کی مفتوح جلد ۳ نمبر ۱، اقوام کے واسطے ایک ضرورت جنوری ۱۹۱۱ء قاعده جلد ۳ نمبر ۵، مئی ۱۹۱۱ء تخت و تاج جلد ۳ نمبر ۶، جون ۱۹۱۱ء - 3 - I - I I I ۶ I سیف و قلم جلد ۴ نمبر ۴ ، اکتوبر ۱۹۱۱ء تاریخ تکوین فلسفه جلد ۵ نمبر ا، جنوری ۱۹۱۲ء دربار شهنشاه جلد ۵ نمبر ا، جنوری ۱۹۱۲ء میں نے کیا دیکھا جلد ۶ نمبر ۶، دسمبر ۱۹۱۲ء ۹ 1.11 جلدے نمبر ۳، مارچ ۱۹۱۳ء ”میں“ کی فلاسفی جلدے نمبر ۵، مئی ۱۹۱۳ء جلد 4 نمبر ا، جولائی ۱۹۱۲ء کے شمارے میں آپ کی کتاب ”امثال“ کا ذکر آیا ہے.جلد ۳ نمبر ۳، مارچ ۱۹۱۱ء کے شمارے میں آپ کی تصویر چھپی ہے.۱۲ ۱۳ L

Page 269

ابن سلطان القلم ~ 249 - ~ نمبر شمار عنوان مضمون و, ،، رساله "رفيق التعليم" تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 ضرورت اتفاق اکسٹرا اسسٹنٹ مارچ ۱۹۱۸ء کمشنر گوجرانوالہ قلم بے شگاف اگست ۱۹۱۸ء اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر گوجرانوالہ لسانی مشکلات اکسٹرا اسسٹنٹ اپریل ۱۹۱۹ء کمشنر گوجر انوالہ تعلیم کے حصے اپریل ۱۹۲۰ء ڈپٹی کمشنر م ۵ چیونٹی جون ۱۹۲۰ء 3 ۶ قحط اور سلاطین گذشتہ اکتوبر ۱۹۲۰ء ڈپٹی کمشنر نوم २ ง اخلاقی سائنس دسمبر ۱۹۲۲ء ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر ۶ قادیان Δ ادب جدید فروری ۱۹۲۳ء ايضاً ۹ اراده ستمبر ۱۹۲۶ء 1.11 معاملہ فہمی کا گر مئی ۱۹۲۷ء ۱۲ ។ ھے دائرہ علم و جہالت جرائم اور دماغی عارضہ ستمبر ۱۹۲۷ء بی.اے 1.اکتوبر۱۹۲۷ء ریٹائرڈاکسٹرا اسٹنٹ کمشنر نمبر شمار رساله تصوّف“ عنوان مضمون ایمان بر رسول عربی اقوال الصوفياء تاریخ اشاعت مقام / عهده کاتب صفحات فرروی ۱۹۲۲ء سابق ڈپٹی کمشنر ، پنجاب مارچ ۱۹۲۲ء 3 3 معلمائے ہستی اپریل ۱۹۲۲ء ۶

Page 270

3 ง 2 نم २ २ ابن سلطان القلم ~ 250 - ~ تبلیغ صوفيا مئی ۱۹۲۲ء فلسفه باطن جولائی ۱۹۲۲ء تصوف (۱) اگست ۱۹۲۲ء تصوف (۲) ستمبر ۱۹۲۲ء فسانه تقدیر (۱) اکتوبر ۱۹۲۲ء ۶ ง Δ 11 میلاد شریف دنیا کے نجات دہندہ کی یاد نومبر ۱۹۲۲ء فسانه تقدیر (۳) جنوری ۱۹۲۳ء ہ جنوری ۱۹۲۳ء کے شمارہ میں لکھا ہے: ”سلسلہ کے لیے دیکھو تصوف‘ ماہ دسمبر ۱۹۲۲ء“.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مضمون متعدد اقساط میں ہے.اکتوبر، دسمبر ۱۹۲۲ء اور جنوری ۱۹۲۳ء.واللہ اعلم بالصواب.رسالہ ”نظام المشائخ “ دہلی نم ۱۲ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 تَخَلَّقُوْا بِأَخْلَاقِ اللهِ جلد ۱۸ نمبر ۵ گوجر انوالہ 1.نظام المشائخ جلد ۲۲ نمبر ۶ لاہور صفحات ۱۵ تا ۲۲ اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر گوجرانوالہ २ سماع صفحات ۱۰ تا ۱۶ ایم آراے ایس z 3 وعدہ کی یاد جبر و قدر > رسول خدا نما إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيْم گوجر انوالہ گوجرانوالہ بہاولپور ، پنجاب ۶ 1.11 ۶ نو مسلم ۹

Page 271

ابن سلطان القلم ~ 251 ~ ر ساله "نقیب نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 نقیب کائنات انسانی اور عقل و فطری تمیز پہلے شمارہ کیلیے تعارفی مضمون اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر م २ 7 زبانوں اور علوم وفنون کے بنیادی ذرائع رموز بے خودی شیطان r/1 ٢/٢ ۵/۲ 3 اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر σ اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر σ جلد ۳ نمبر ۵ اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر 1.۶ نکات بیدل ۵/۴ ۶ ง تین دن کی خدائی جلد ۶ نمبر ۱،۲ اسٹنٹ کمشنر ۱۶ > حسن مئی ۱۹۲۲، جلد ۵ نمبر ۴ اکسٹرا اسٹنٹ کمشنر 11 رساله ”صوفی“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 کعبه جولائی ۱۹۱۰ء جالندھر پنجاب نهم صوفیوں کی خدمات مارچ ۱۹۱۲ء گوجر انوالہ رموز بے خودی جولائی ۱۹۱۸ء اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر گوجرانوالہ २ م ذوق و مستی اپریل ۱۹۲۱ء 3 3 مذہبی گفت و شنید جولائی ۱۹۲۱ء २ ۶ آزاد ر سول اکتوبر ۱۹۲۲ء پنشنز ڈپٹی کمشنر Z ہم خود ذمہ دار ہیں اگست ۱۹۲۷ء قادیان

Page 272

ابن سلطان القلم ~ 252 رساله یدبیضا“ میانمیرلاہور نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 بصریات (۱) جمادی الاولی ۱۳۴۶ھ قادیان م بصریات (۲) ( غالباً) جمادی الثانیہ ۱۳۴۶ھ 3 २ 7 پیر شو بیاموز (۱) جلد ۲ نمبر ۱۰ نوم پیر شو بیاموز (۲) جلد ۲ نمبر ۱۱ २ جلد ۳ نمبر ۴ ۶ 1.1.۹ راز راحت خوشی و غم صدائے بازگشت جلد ۳ نمبر۷ جالندھر پنجاب جلد ۳ نمبر ۱۰،۹ علمی پلیٹیں اور دل و دماغ جلد ۴ نمبر ۱۰۲ جالندھر پنجاب ۶ دو رساله عصر جديد نمبر شمار عنوان مضمون 1 ،، تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات منٹگمری اپریل ۱۹۰۴ کے بعد کا شمارہ زمینداروں کی جائیداد معلوم ہوتا ہے رسول کا احترام عقلاً واجب ہے صفحات ۹۳ تا ۲۰۴ ۱۲ ۱۶ ۱۴ ۱۵ 11 میانوالی جالندھر جالندهر مسلمان فقیر اور گداگر م موجودات (۱) موجودات (۲) وجود مطلق (۱) میانوالی وجود مطلق (۲) میانوالی 3 ۶ Z ง

Page 273

1 ۴ عنوان مضمون نسبت و حدت خوشامد ابن سلطان القلم ~ 253 - ~ رساله تنوير الشرق“ تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات مئی ۱۹۰۸ء جالند ھر پنجاب اگست ۱۹۰۸ء جالندھر پنجاب ง ง علوم قدیم و علوم جدید ذہنی زندگی دسمبر ۱۹۰۸ء جالند هر پنجاب جنوری ۱۹۰۹ء جالند ھر پنجاب > 1.۶ آرزو دستاویز ١٩٠٩ء جالند ھر پنجاب جنوری ۱۹۱۰ء جالند ھر پنجاب ۶ ง L فلسفہ اور اسلام تنویر الشرق کے اگست کے پرچہ میں آغا فتق جالند ھر پنجاب ۳ صاحب کا مضمون پڑھ کر یہ مضمون لکھا.رساله نظام لاہور نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 وضعداری مارچ ۱۹۱۹ء ریونیو آفیسر گوجرانوالہ Δ دست چپ اپریل ۱۹۱۹ء گوجر انوالہ ۶ لوری جون ۱۹۱۹ء گوجر انوالہ م سیہ کون ہے؟ اگست ۱۹۱۹ء ۶ بانسری نظام ستمبر ۱۹۱۹ء افسر مال قادیان 11 نظام ریونیو آفیسر گوجرانوالہ ۶ ایک ہی موضوع پر دو مضامین ہیں.غالب رسالہ ”نظام“ میں چھپے ہیں.تاریخ اشاعت معلوم نہیں ہو سکی.

Page 274

ابن سلطان القلم ~ 254 ~ نمبر شمار عنوان مضمون رساله النظاميه“لکھنؤ تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 خير الزاد التقوى نومبر ۱۹۱۵ء 3 ترتیب نظام مئی ۱۹۱۶ء - N شامت اعمال جلد ۴ نمبر ۶ گوجر انوالہ م معجزه صفحات ۳ تا ۷ جہلم 3 3 ۶ 3 قرآنی نقطہ خیال سے ”فی سبیل اللہ“ صفحات ۷ ۱ تا ۲۳ قرآن کا تفسیری پہلو صفحات ۱۶ تا ۲۱ رساله”انسان“امرتسر ۶ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 پہلا انسان اپریل ۱۹۱۲ء انسان کی ہستی اگست ۱۹۱۲ء شخصیت اور جامعیت اکتوبر ۱۹۱۲ء २ عہد طفلی نومبر ۱۹۱۲ء 9 5 - 6 7 3 مینائے جہاں اپریل ۱۹۱۳ء N نمبر شمار عنوان مضمون رساله علی گڑھ ،، تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 مذہب اور سائنس (۱) مارچ ۱۹۰۵ء میانوالی پنجاب 11 خمسه متناسبه مئی ۱۹۰۶ء میانوالی پنجاب انجام جولائی ۱۹۰۶ء میانوالی پنجاب 11 ง

Page 275

ابن سلطان القلم ~ 255.~ २ اتفاق فروری ۱۹۰۶ء میانوالی پنجاب 3 پر دہ اور بے پردگی (۱) دسمبر ۱۹۰۶ء میانوالی پنجاب 11 11 رساله ”تعلیم وتربیت“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عهده کاتب صفحات انسانی آزادی فروری ۱۹۱۸ء ۶ - حسن معیشت مارچ ۱۹۱۸ء گوجر انوالہ نم بزدلی اور تہور اکتوبر ۱۹۱۸ء + ۵ - تربیت نومبر، دسمبر گوجر انوالہ ۶ 3 ' کسب - الکاسب حبیب اللہ " جون...دو نمبر شمار عنوان مضمون رساله ”شمس بنگاله“ تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 تباین اشکال (۱) نمبر ۳ پہلے سات صفحات +6 موجود ہیں، آخر سے موجود نہیں) २ 7 تباین اشکال (۲) احساس فروری ۱۹۰۸ء جالند ھر پنجاب مارچ ۱۹۰۸ء جالندھر پنجاب 1.خبط اپریل ۱۹۰۸ء جالندھر پنجاب 1.3 تحریکات ستمبر ۱۹۰۸ء جالندھر پنجاب 11 رساله نقاد " نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات تمدن فروری ۱۹۱۳ء مدینہ کا نفرنس مارچ ۱۹۱۳ء وزیر مال بہاولپور Λ 1.

Page 276

ابن سلطان القلم ~ 256 ~ تنقید اپریل ۱۹۱۳ء وزیر مال بہاولپور ۱۳ مئی ۱۹۱۳ء وزیر مال بہاولپور 11 " رساله الادب نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 حیوانات ۶ اپریل ۱۹۲۰ء برج بھاشا مئی ۱۹۲۰ء مذہب اور انسانیت صفحات : ۸ تا ۱۲ م الادر صفحات ۱۱ تا ۱۸ نمبر شمار 1 २ ۹ 3 عنوان مضمون رساله شباب اردو“ تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات ورد زبان (مضمون مکمل نہیں) نومبر ۱۹۲۰ء علم و تمیز مارچ ۱۹۲۱ء +۳ 3 شرح و تفسیر دسمبر ۱۹۲۱ء ہر گل را رنگ و بوئے دیگر است اگست ۱۹۲۲ء رساله افاده “ حیدرآباددکن - - २ २ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 افاده صفحات ۱۴ تا ۱۹ ۶ صفحات ۳۲ تا ۳۶ 3 २ قومی بیداری شعور حیوانی صفحات ۳۵ تا ۳۹ صفحات ۱۴ تا ۱۸ 3 3

Page 277

ابن سلطان القلم ~ 257 ~ رسالہ ”استانی“ دہلی تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات نمبر شمار عنوان مضمون 1 مرد اور عورت کا باہمی تناسب صفحات ۵ تا ۱۴ عورت کا مر تبہ ہندوستانی انگریزوں کے مقابلہ میں صفحات ۴۰ تا ۴۸ م عورت اور سہارا 3 نمبر شمار عنوان مضمون رساله ایشیا امرتسر تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 نسبتی معیار نومبر ۱۹۰۷ء گالی فروری ۱۹۰۸ء 3 ہماری آزادی اگست ۱۹۰۸ء جالندھر 2 نمبر شمار عنوان مضمون رساله "تعلیمی گزٹ“ امرتسر تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 حضور مارچ ۱۹۱۸ء ។ دلچپسی مئی ۱۹۱۸ء م تكلف اگست تا اکتوبر ۱۹۱۸ء رساله ”آزاد“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 مقررہ وقت جنوری ۱۹۰۸ء اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر L σ ۹ ۹

Page 278

ابن سلطان القلم ~ 258 ~ امتحان مصیبت ایثار نفسی جولائی ۱۹۰۸ء اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر نومبر، دسمبر ۱۹۰۸ء اکٹر اسٹنٹ کمشنر رساله کشمیری میگزین“ 1.نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات بات نومبر ۱۹۱۱ء ریونیو منسٹر ۶ ریاست بہاولپور زندگیاں مئی ۱۹۱۲ء ریونیو ممبر بہاولپور اسٹیٹ روپیہ دسمبر ۱۹۱۲ء ریونیو منسٹر بہاولپور ۶ از گلرخ ریاست کشمیر د, " نمبر شمار عنوان مضمون 1 کلام اکبر جنوری، فروری ۱۹۱۸ء تنازع لِلْبُقَاءِ رساله خیال میرٹھ تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات جون ۱۹۱۸ء گوجر انوالہ دام خیال جنوری ۱۹۱۹ء گوجرانوالہ م نمبر شمار 1 عنوان مضمون رسالہ ”الحجاب“ دہلی تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات خواتین اسلام اور مسلم یونیورسٹی اپریل ۱۹۱۱ء بہاولپور اسٹیٹ ایک بچہ کی صدا جون ۱۹۱۱ء بہاولپور اسٹیٹ م بچوں سے محبت جولائی ۱۹۱۱ء بہاولپور اسٹیٹ

Page 279

ابن سلطان القلم ~ 259 - ~ نمبر شمار عنوان مضمون 1 ایک آنہ فنڈ لکھنؤ رساله انکشاف“ تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات اکسٹرا اسسٹنٹ ستمبر، اکتوبر ۱۹۱۸ء کمشنر گوجرانوالہ مشاہیر ملی مارچ لغایہ اکتوبر ۱۹۱۹ء اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر گوجر انوالہ تعمیر قومیت اکتوبر تا دسمبر ۱۹۲۲ء اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر رساله ”ترجمان“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 ترجمان اکتوبر ۱۹۱۵ء جلد نمبرا ۶ فلسفه معانی جون ۱۹۱۶ء 7 زبان کا ارتقا اگست ۱۹۱۷ء نمبر شمار 1 عنوان مضمون " رساله القريش“ امرتسر تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات صدیق اکبر رضی اللہ عنہ صدیق نمبر.یکم اپریل ۱۹۱۹ء جنوری ۱۹۲۶ء اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر گوجر انوالہ صدائے بازگشت پنشنر ڈپٹی کمشنر نبی نمبر ( نام کے ساتھ رسول عربی نے کیا کہا اور کیا چاہا یکم ستمبر ۱۹۲۶ء درج ہے) رساله ”صحیفه وارث“ دیوه شريف نمبر شمار عنوان مضمون گناه ۶ ۴ تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات صفر ۱۳۳۹ھ ۶ -

Page 280

ابن سلطان القلم ~ 260 ~ صوفی مشنری ربیع الثانی ۱۳۳۹ھ لاہور عشق رسول دیقعد والحرام ۱۳۴۶ھ اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ،، رسالہ ”پیام ہستی نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 پیام هستی نومبر ۱۹۲۵ء ۶ پیام حجاب جنوری ۱۹۲۶ء رساله ”زمیندارہ گزٹ “لائلپور نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 کیفیت کیکر (۱) مارچ ۱۹۲۸ء ریٹائرڈ ڈپٹی کمشنر کیفیت کیکر (۲) اپریل ۱۹۲۸ء ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر ۶ رساله الادیب‘ناگپور نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 اُردو جلد ۳ نمبر ۲،۳ اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر N فریب تخیل جلد ۳ نمبر ۴ اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر ។ رسالہ ”الکمال“ لاہور نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 الكمال نومبر ۱۹۲۲ء زمانہ فروری ۱۹۲۳ء

Page 281

ابن سلطان القلم ~ 261 - ~ رسالہ ”المذہب دہلی نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 مذہب دسمبر ۱۹۱۹ء مبدء فیض ۱۵ جنوری ۱۹۲۰ء لاہور رساله دربار“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 کامیاب زندگی نومبر ۱۹۱۲ء دربار دربار رسالہ ”اقبال“ نمبر شمار عنوان مضمون شاہی دربار نمبر بہاولپور پنجاب تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 مارچ ۱۹۱۴ء ។ نمبر شمار 1 بہار عنوان مضمون اکتوبر ۱۹۱۴ء رساله المجدد“ ادراک و احساس - باعتبار اقسام (۱) ادراک و احساس- باعتبار اقسام (۲) نمبر شمار 1 عنوان مضمون قیمت وو σ تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات " رسالہ ”صبح نہار“ جالند ھر پنجاب سوم جالند ھر پنجاب تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات ایم آراے ایس Λ بہاولپور (پنجاب)

Page 282

ابن سلطان القلم ~ 262 ~ زندگیاں ایم آراے ایس ۹ بہاولپور (پنجاب) رساله استبصار“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 شروع ۲۵ مارچ ۱۹۱۰ء جالند ھر پنجاب 1.علمی اردو زبان جلد نمبر ۵ جالندھر رساله العصر“لکھنؤ نمبر شمار عنوان مضمون 1 برخوردار تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات اگست تاد سمبر ۱۹۱۳ء نیک ارادہ جلد ۵ نمبر ۴-۶، २ اکتوبر - دسمبر ۱۹۱۶ء نمبر شمار عنوان مضمون ،، رسالہ ”تہذیب رامپور تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 عمل قدرت اکسٹرا اسسٹنٹ نمبر اجلد ۲، جنوری ۱۹۰۶ء ۱۲ کمشنر میانوالی بنجاب ہمارا مبلغ علم نمبر ۵ جلد ۲، مئی ۱۹۰۶ء اکسٹرا اسسٹنٹ 11 کمشنر میانوالی بنجاب " رساله اسوه حسنه نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 رسول مقبول کا اُسوہ حسنہ ستمبر و اکتوبر ۱۹۲۶ء - م

Page 283

ابن سلطان القلم ~ 263 - ~ رساله الفلاح“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 مسلمان گداگر یکم اکتوبر ۱۹۲۳ء ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر رئیس اعظم قادیان رساله تنظیم امرتسر نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات مقتدر مسلمان کا فرض مئی ۱۹۲۷ء ریٹائر ڈ ڈپٹی کمشنر رسالہ ”پیشوا“ دہلی نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 سیرت محمدیہ جلد نمبر و آرایم ایس رساله نظر“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 تواریخ فلسفه جولائی ۱۹۲۷ء پنشنر ڈپٹی کمشنر ۴ رساله التبليخ" تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات نمبر شمار عنوان مضمون 1 تبلیغ اسلام رساله انعام " ۴ نمبر شمار عنوان مضمون 1 جدید معلومات تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات اکتوبر ۱۹۲۲ء رئیس قادیان

Page 284

ابن سلطان القلم ~ 264 ~ نمبر شمار عنوان مضمون ترقی رساله ترقی“ تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات جلد نمبر ۲ ۶ - نمبر شمار عنوان مضمون رساله دین و دنیا“ دہلی تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 دین و دنیا جلد ۲ نمبرے (غالباً اکتوبر یا نومبر ۱۹۲۲) نمبر شمار عنوان مضمون رساله ”مدنی بڑی تقویم " تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 دو ہو کر ایک ۵۱۳۴۰ ۲ - رساله نیاز“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 بزم ادب جنوری ۱۹۲۲ء - نمبر شمار 1 نمبر شمار عنوان مضمون رساله ”ضیاء حقیقت“ تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات ضیاء حقیقت- تجربہ سے کام لو جون ۱۹۲۰ء اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر " رساله الحسن“ عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات گناہ پر گناہ اور گنہگار کی شہادت مئی ۱۹۲۱ء ۶ -

Page 285

ابن سلطان القلم ~ 265.~ رساله عبرت نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات تاریخ Λ جنوری ۱۹۱۶ء افسر مال لاہور د, رساله الرفيق“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 مذاہب کی اندرونی تفریق میانوالی ۹ رساله الاخوت“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 الاخوت جنوری ۱۹۰۹ء جالندھر Λ نمبر شمار 1 عنوان مضمون رساله ”منروا‘امرتسر تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات دل بدست آور که حج اکبر است اگست ۱۹۰۹ء رساله ”فردا“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 سچ سچ ہے جنوری و فروری ۱۹۱۰ء م " رساله پرہیز گار“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات 1 پر ہیز گاری جولائی ۱۹۱۱ء

Page 286

ابن سلطان القلم ~ 266 ~ " رسالہ ”شاہدِ سخن نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات ہوا و ہوس اکتوبر ۱۹۱۳ء بہاولپور رساله "ضیاء الاسلام “مرادآباد نمبر شمار عنوان مضمون 1 ہمت افزائی تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات نومبر ۱۹۱۳ء بہاولپور (پنجاب) نمبر شمار عنوان مضمون 1 گناه دو رساله صحيفه القمر " تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات جلد ۲ شماره ۷،۶ z - رساله العالم“ نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات العالم مارچ ۱۹۲۰ء ۹ - نمبر شمار عنوان مضمون 1 دلکش رساله دلنواز“ کہروڑ تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات صفحات ۲ تا ۶ گوجرانوالہ ************

Page 287

ابن سلطان القلم - 267 - ~ ~ مضامین جن کے رسالوں کے نام معلوم نہیں ہو سکے نمبر شمار عنوان مضمون تاریخ اشاعت مقام / عہدہ کاتب صفحات ۹ ។ > ۶ م 1.یاد رسول صفحات ۹ تا ۱۷ گوجر انوالہ مضمون کا انتقام حضرت مسیح موعود کی اس نظم سے کیا ہے جس کا مطلع ہے: پہلوان حضرت رب جلیل بر میان بسته ز شوکت منجرے مذہب (مضمون کے آخر پر لکھا ہے : بھا بقیہ) صفحات ۹ تا ۱۶ قرآنی رنگ میں حکمت سے مراد صفحات ۷ ۱ تا ۲۳ مرسل عالم داخلہ باجازت اسوہ رسول صفات الہی صفحات ۱۵ تا ۲۲ - صفحات ۵ تا ۷ گوجر انوالہ صفحات ۴۱ تا ۴۶ گوجر انوالہ گوجرانوالہ صفحات ۲۱ تا ۲۷ اسلام کی کشادہ دلی مدیر کا نام سید محمد خسرو پوری ہے.اور یہ پہلا شمارہ ہے بلاقیمت تبلیغی پر چہ ہے جو مسلمانوں کے ایمان و عقائد کو استوار کرنے کی غرض سے جاری کیا گیا.توسیع زبان اُردو (۱) صفحات ۴۱ تا ۴۴- مضمون کے آخر اکسٹرا اسسٹنٹ پر لکھا ہے: ”باقی آئندہ“ کمشنر میانوالی اساس الاخلاق (۲) صفحات ۲۰ تا ۴۴- مضمون کے آخر پر لکھا ہے: "باقی آئندہ“.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مضمون کی متعدد اقساط ہیں.تحقیر قرآن صفحات ۲۱ تا ۲۷ احمد پور شرقیہ ریاست بہاولپور میں ۱۹۲۰ میں بعض مسلمانوں نے قرآن کریم کے ۱۹ بنڈل بطور ردی ہندو دکانداروں کو فروخت صفحات ۱۲ تا ۲۱ نتگمری پنجاب کیے اس پر آپ نے یہ مضمون تالیف کیا.ہستی کے دو پہلو اثر صفحات ۱۵ تا ۲۲ جدید طرز معاشرت (۱) صفحات ۳۸۵ تا ۳۹۰ منٹگمری پنجاب اندرونی ضابطہ صفحات ۷ ۱ تا ۲۲ > ។ ۶ - २ 7 3 ۶ ง Λ ۹ 1.۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵

Page 288

۱۲ 11 11 1.σ ۹ +۲ 4 ~ ابن سلطان القلم ~ 268 عزت فیضانِ فلسفہ صفحات ۸ تا ۱۹ میانوالی پنجاب صفحات ۱۹ تا ۲۹، سنه ۱۹۱۳ صفحہ ۳۰ پر ایک نوٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ آگرہ کا رسالہ ہے.مبادی علوم مذاق صفحات ۱۴ تا ۲۴ جالند هر پنجاب صبح عیش تعصب اور عصبیت ثمرة الادب (غالباً) رسالہ شمر ۃ الادب.ایڈیٹر کا نام نصیر ہے.جنگی سیرٹ صرف پہلے دو صفحات ہیں.اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر زكوة صفحات ۵ تا ۹ ایک ملک کی مختلف قومیں ١٩٢٠ء اکسٹرا اسسٹنٹ کمشنر مضمون کے آخر پر لکھا ہے : ”سلطان احمد لاہور “ اس کے نیچے اعلان بعنوان ” جنتری ۱۹۲۰ء مفت“ درج ہے.نکتہ چینی صفحات ۳۱تا۳۷ بہاولپور پنجاب ہمت افزائی ۱۹۰۸ ویا اس کے بعد کا معلوم ہوتا ہے بہاولپور پنجاب ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷

Page 289

ابن سلطان القلم 269 - ~ ~ ذیل میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے ان مجموعہ ہائے مضامین کی فہرستیں درج کی جاتی ہیں جو کتابی صورت میں شائع ہوئے.یہ تین کتب ہیں جو ریاض الاخلاق، سراج الاخلاق اور خیالات کے نام سے شائع ہوئیں..مضامین "ریاض الاخلاق“ نمبر شمار 1 7 ۶ ۲۱ ۲۳ ۲۵ ۳۳ ۳۶ ۴۰ تیاگ نمبر ۳ تیاگ نمبر ۴ طالب علم مراد بر نیت و نیت بر مراد زندگی نمبر ا زندگی نمبر ۲ طمانیت قلب نمبر ا 11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۹

Page 290

۴۳ ۴۸ ۵۱ ง ۸۲ ۸۵ M ۸۹ ۹۱ ۹۲ ۹۳ ۱۰۵ 1+2 1+9 = ۱۱۳ ۱۱۵ ۱۲۰ ابن سلطان القلم ~ 270 ~ ۱۶ ۱۷ ۱۸ طمانیت قلب نمبر ۲ طمانیت قلب نمبر ۳ زمانه خودی مساوات نظر اور خیال اثر خیال قوت واہمہ خاکساری کشف عمل دُوئی انسانی محبت ضرورت جہالت اور عقل تم بر داشت کرو کچھ پروا نہیں شرم اور بے شرمی اولوالعزمی غریبی اور بے وقوفی رو سوال ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ I ۳۲ ۳۵ } } } }

Page 291

~ ابن سلطان القلم ~ 271 قانون اور اخلاق ۱۲۱ جماعت ۱۲۲ ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۶ ۱۲۸ ۱۲۹ ۱۳۰ ۱۳۲ ۱۳۴ ۱۳۶ ۱۳۷ ۱۴۰ ۱۴۳ ۱۴۴ ۱۴۶ ۱۴۷ ایک عمدہ نام راز اور آزادی اپنی پہلی حالت خوشامد نظر پر دماغ کا اثر قدرت اپنا کام کر رہی ہے ایک وسیع خاندان کا باہمی تعلق عشرت خود بینی تبدیل رائے اقبال جدت شرم آبائی عیسی بدین خود، موسی بدین خود ناکامی نحوستوں کی جڑ ہے ۳۶ ۳۷ ۳۸ ۳۹ ۴۰ ۴۱ ۴۲ ۴۳ ۴۵ ۴۶ } ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۰ ۵۱ ۵۲

Page 292

صفحہ نمبر ۴۵ ۵۱ ۵۷ ۶۴ 44 ۶۹ ۷۴ 29 ۸۳ ۸۶ 1+4 111 ١١٣ ۱۱۸ ۱۲۴ ابن سلطان القلم ~ 272 ~ نمبر شمار 1 २ 3 11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ضامین ”سراج الاخلاق" ت مضا مضمون نیکی اور بدی تعریف دوستانه فرمائش پاکیزگی ہماری زندگی کا اعلیٰ مشن تعجب غم و خوشی زبان اظہار خلاف حقیقت تبادلہ خیالات تحسین و نفرین بزدلی دروغ مصلحت آمیز به زراستی فتنه انگیز ڈیوٹی رعب ۱۲۸ ۱۳۰ ایاز حد خود بشناس وفائے عہد ۱۶ ۱۷

Page 293

ابن سلطان القلم ~ 273.~ ۱۳۲ ۱۳۷ ۱۴۳ ۱۵۳ 66 دیانت و امانت غیرت خود غرضی مضامین ”خیالا " مضمون اخلاق، مذہب، قانون ہستی کے دو پہلو (نامعلوم رسائل کی فہرست میں بھی شامل ہے) اثر ( نامعلوم رسائل کی فہرست میں بھی شامل ہے) سوانح عمری ( مخزن میں دوسری اور تیسری قسط چھپی ہے) نسبتی قانون مبادی علوم (نامعلوم رسائل کی فہرست میں بھی شامل ہے) علم اور عقل ہماری غایت رسوم و اصلاح رسوم زبان نطق کے تاریخی حالات تقدیر، قسمت صفحہ نمبر 1.۱۹ ۲۶ Σ ۴۹ ۵۶ ۶۶ LL ۸۶ ۱۰۵ ۱۱۲ ۱۴۰ ۱۸ ۱۹ ۲۱ نمبر شمار ۴ ۵ ۶ ۹ 1.11 ۱۲

Page 294

۱۵۴ ۱۶۴ 12+ 129 ۱۸۴ ۲۰۸ ۲۱۵ ۲۲۸ ۲۴۸ ۲۵۷ ۲۶۹ ۲۸۰ ۲۸۸ ۲۹۹ ۳۲۰ ۳۲۹ ابن سلطان القلم ~ 274 ~ ۱۴ ۱۵ ۱۶ قومیت کہاوت (رسالہ مخزن) شخصی خصوصیات ہماری قیمتیں طلسم خواب سوسائٹی اور تنہائی عربت خمسه متناسبه (رسالہ علیگڑھ) بصریات (رسالہ ” ید بیضا) اتفاق (رسالہ علیگڑھ) عمل قدرت (رسالہ تہذیب) مقولات اور قابل ہمارا مبلغ علم (رسالہ تہذیب) قیافہ کشش جنسی دائرہ علم و جہالت انجام (رسالہ علیگڑھ) ******** ۱۷ ۱۸ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹

Page 295

ابن سلطان القلم ~ 275 ~ شکریہ احباب اللہ تعالیٰ کا سراسر احسان ہے کہ اس نے خاکسار کو سلطان القلم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند اکبر حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی سیرت و سوانح پر کتاب تالیف کرنے کی توفیق عطافرمائی.خاکسار کا ارادہ کوئی کتاب لکھنے کا نہیں تھا.تالیف کی تقریب کچھ یوں ہوئی کہ خاکسار کو ۲۰۰۶ کے وسط میں ایک جماعتی رسالہ میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب پر ایک مضمون لکھنے کا حکم ہوا.چنانچہ تعمیل ارشاد میں مواد جمع کرنا شروع کیا تو یہی خیال تھا کہ حضرت مر زاسلطان احمد صاحب کے بارے میں بہت محدود معلومات میسر آسکیں گی، لیکن جب مواد جمع کیا تو خاصا ضخیم مضمون بن گیا، جس کی ایک نقل خلافت لائبریری کو ان کے تقاضے پر دی گئی.انھی دنوں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنصر و العزیز کا ایک خط بنام محترم ناظر اعلیٰ صاحب پاکستان آیا، جس میں تحریر تھا کہ ’صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب کے علمی و تحقیقی مضامین اور تالیفات کے بارہ میں مواد اکٹھا کروائیں اور پھر مجھے بتائیں.“ یہ خط بغرض تعمیل صدر لائبریری کمیٹی محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کے پاس آیا تو خلافت لائبریری والوں نے خاکسار کا یہ مضمون ان کو بھجوا دیا ہے.محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب

Page 296

ابن سلطان القلم ~ 276 - نے خاکسار کو بلوایا اور فرمایا کہ میں نے آپ کا مضمون پڑھ لیا ہے.مضمون بہت اچھا ہے لیکن اس میں دو تین روایات نہیں آئیں.آپ نے وہ روایات خاکسار سے بیان کیں اور فرمایا کہ بے شک میری روایت سے شامل کر دیں.چنانچہ خاکسار نے ان روایات کے نوٹس لے لیے.پھر خاکسار نے عرض کیا کہ میں نے بھی دو روایات سنی ہیں لیکن شامل نہیں کیں.ایک محترم میر محمود احمد ناصر صاحب انچارج ریسرچ سیل کی ہے اور دوسری محترم چودھری محمد علی صاحب وکیل التصنیف کی.دونوں روایات سن کر آپ نے فرمایا کہ ان کو بھی ضرور شامل کریں.چنانچہ خاکسار نے محترم چودھری صاحب کی روایت لکھ کر محترم چودھری صاحب کو چیک کروائی اور محترم میر صاحب کی روایت ان کے سامنے زبانی بیان کر کے تصدیق کر والی.پھر ان سب روایات کو ضبط تحریر میں لا کر محترم صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا.اس واقعہ کے بعد جلد ہی (اپریل ۲۰۰۷ء میں) خاکسار مرکز کی ہدایت پر عربی زبان کی تحصیل کے لیے سیر یا چلا گیا.وہاں ۲۰۰۸ء میں خاکسار کو معلوم ہوا کہ مضمون روز نامہ الفضل میں شائع ہو گیا ہے.سیریا سے واپس آکر ۲۰۱۲ میں خاکسار نے اس پر مزید کام کیا اور بہت کچھ ایز ادیاں اور تبدیلیاں کیں، ابواب اور فصول میں تقسیم کر کے باقاعدہ ایک کتاب کی صورت میں ترتیب دیا ہے.وقتاً فوقتاً اس میں مزید اضافہ بھی ہوتا رہا.

Page 297

، ابن سلطان القلم ~ 277 ~ اس کے بعد خاکسار نے بعض بزرگوں اور بعض علماء کی خدمت میں مسودہ پیش کیا.سب نے پڑھ کر ضروری اصلاح فرمائی اور بیش قیمت نصائح اور مشوروں سے نوازا.ان میں محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب، محترم صاحبزاده مرزا غلام احمد صاحب اور محترم چودھری محمد علی صاحب ” مضطر بھی شامل ہیں جو اس وقت دنیائے فانی سے کوچ کر چکے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے، درجات بلند کرے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقامات سے سر فراز فرمائے، آمین.اسی طرح دیگر بزرگان و علماء، جنھوں نے کتاب کو پڑھ کر خاکسار کی رہنمائی اور مدد فرمائی، ان میں محترم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب امام مسجد فضل لندن، محترم مرزا ناصر انعام صاحب پر نسپل جامعہ احمدیہ یو کے ، محترم مولانا اسفندیار منیب صاحب انچارج شعبہ تاریخ احمدیت، محترم ڈاکٹر سلطان احمد مبشر صاحب، محترم ڈاکٹر مرزا سلطان احمد صاحب، محترم مولانا طارق احمد حیات صاحب، محترم شکیل احمد خان صاحب استاد تاریخ وسیرت جامعہ احمدیہ ربوہ، محترم انور اقبال ثاقب صاحب استاد جامعہ احمد یہ گھانا اور محترم سید عمران احمد شاہ صاحب ریسرچ سیل ربوہ شامل ہیں.خاکسار ان تمام بزرگان و علماء کا تہ دل سے ممنون ہے.اللہ تعالیٰ سب کو جزائے خیر سے نوازے اور ان کے علم و فضل میں بے پناہ برکت عطا فرمائے.آمین

Page 298

ابن سلطان القلم ~ 278 - علاوہ ازیں محترم چودھری محمد علی صاحب نے اپنی اہم مصروفیات اور ضعف پیری کے باوصف محض از راه لطف و کرم کتاب کا دیباچہ تحریر فرما کر گراں بار احسان کیا.اس پر خاکسار آپ کا مکرر شکر گزار ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے، آمین.اسی طرح نہایت مہربان بزرگ محترم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب نے بھی کتاب پر اپنا تبصرہ تحریر فرما کر اس حقیر کی حوصلہ افزائی فرمائی.اللہ تعالیٰ آپ کو بھی جزائے خیر عطا فرمائے، عمر و صحت میں برکت دے اور آپ کے فیض کو دوام بخشے ، آمین.علاوہ ازیں مکرم k طارق احمد صاحب قادیان، مکرم طاہر احمد مختار صاحب مربی سلسلہ ربوہ اور مکرم صفدر حسین عباسی صاحب یو کے نے بعض امور میں خصوصی تعاون فرمایا.اسی طرح فارسی کے اساتذہ مکرم محمود طلحہ صاحب اور مکرم کاشف علی صاحب نے فارسی اشعار کے ترجمہ میں مدد کی.خاکسار ان سب احباب کا بھی بے حد شکر گزار ہے.ان کے علاوہ بھی جن دوستوں نے کسی بھی رنگ میں خاکسار کی مدد فرمائی وہ سب بالفعل شکر یہ اور دعائے خیر کے مستحق ہیں.خاکسار میر انجم پرویز ۲۷/مئی، ۲۰۱۹ء

Page 298