Language: UR
حضرت میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ کے بارہ میں ملتا ہے کہ آپ بہت ہی قابل انسان تھے، بہت گنوں والے تھے۔ لطیفہ گو بھی تھے اور بہترین سرجن بھی، قرآن کریم ، دین اسلام ، تصوف اور فقہ وغیرہ کا گہرا علم رکھنے والے بہت ہی قابل انسان تھے۔ دو جلدوں پر مشتمل اس مجموعہ میں حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کی سیرت، اور مضامین کو جمع کیا گیا ہے جو آپ نے اپنی زندگی کے مختلف ادوار میں متنوع موضوعات پر مختلف جماعتی اخبارات و رسائل میں شائع فرمائے۔ الغرض اس مجموعہ کی صورت میں ایک عجیب خزانہ جمع کردیا گیا ہے، جس میں تبحر علمی اور جادو بیانی نے سماں باندھا ہوا ہے۔
مضامين اسمعيل افرت ڈاکٹر میر محمد امیل محمداً ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو ) (جلد اوّل)
مضامین حضرت ڈاکٹر میر محمد معیل اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) جلد اوّل.
( احمدی احباب کی تعلیم وتربیت کے لئے) نام کتاب مضامین حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسمعیل جلد اول
پیش لفظ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ صد سالہ جشن تشکر کی خوشی میں کتب شائع کر نے کے منصوبے پر عمل کر رہی ہے." حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل ، اس سلسلے کی سترہ دیں کتاب ہے فَالْحَمْدُ لِله عَلى ذالك حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سر جنوری ۹۹ ار کی اردو کلاس میں فرمایا " حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل بہت قابل انسان تھے.بہت گنوں والے تھے ان کی سیرت پر پوری کتاب شائع ہونی چاہیئے.لطیفہ گو بھی تھے بہترین سرجن اور قرآن کا گہرا علم رکھنے والے تھے بہت قابل انسان تھے.“ ہمیں خوشی ہے کہ ہمیں اطاعت امام کا موقع مل رہا ہے اور موصوف کی سیرت اور مضامین پرمشتمل کتاب طبع ہو رہی ہے.آپ کا منفرد اعزاز یہ ہے کہ آپ اس خوش قسمت خاندان کے چشم و چراغ تھے جو اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کے امام مہدی علیہ السلام کے لئے چنا تھا اور فرمایا تھا.أشكُرُ نِعْمَى رَأيْتَ خديجتي آپ حضرت میر ناصر نواب صاحب کے صاحبزادے اور حضرت سید ہ تصریح یاں گی کے بھائی تھے.آپ کا خدمت دین کا جذبہ آگے نسلوں میں منتقل ہوا.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حرم حضرت مصلح موعود تا حیات لجنہ کی مثالی رہنما ر ہیں اور آپ کے نواسے محترم ہیں.
حضرت میر صاحب کو حضرت اقدس مسیح موعود کی قربت میسر آئی تحریر و تقریر کا ملکہ ہونے کی وجہ سے میچ زماں کے خلق و سیرت پر خوب روشنی ڈالی چنانچہ سیرت المہدی از حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد میں آپ سے ثقہ روایات کثیر تعداد میں مذکور ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو روحانی و جسمانی علاج کے گر سکھائے تھے.نشر میں کئی کتنیہ کے و علاوہ آپ کا شعری مجموعہ بخار دل، جماعت میں معروف و مقبول ہے.حضرت اقدس مسیح موعود کو آپ سے بہت محبت تھی.آپ کے ارشاد پہ کہ خطبہ الہامیہ یاد کریں.حضرت میر صاحب نے چند دنوں میں سارا خطبہ یاد کر کے سُنا دیا.
عرض حال نے ہمارے سامنے محترمہ آیا طیبہ صدیقہ صاحبہ نے حضرت میر صاحب کے مضامین یکجا شائع کرنے کی خواہش ظاہر کی ہم نے حامی بھر لی اور میں قدر ہوسکا" الفضل کی فائلوں سے مضامین فوٹوسٹیٹ کر وا کے لے آئے ہیں اب تم جانو اور تمہارا کام.اس تمہید کے ساتھ محترمہ میری جھولی میں جو فائل ڈال دی عجیب خزانہ تھا تجر علمی اور جادو بیانی نے مل کر سماں باندھا ہوا تھا.مضامین پڑھ کر اسسٹنٹ سرجن کا ایک اور مفہوم ذہن میں آیا کہ حضرت سلطان العلم نے نے کمال حکمت سے زمانے کی جو سرجری کی ہے اس میں آپ نے خوب خوب ہاتھ بٹایا ہے.اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اس کام کے لئے خاص لگن پیدا کر دی پھر میں قدر ڈوبتی گئی زیادہ ڈوب جانے کی خواہش بڑھتی گئی.ایسے باسعادت کام میں جو محنت ہوئی اس کا کیا ذکر بے نتیجہ آپ کے سامنے ہے.پروف ریڈنگ نیز کا ایک شعر ہمیں بھی بطور دعا لگ جائے.نے مدد کی تمنا ہے کہ حضرت میر صاب
سجدے کروں گا شکر کے سرکار فرمائیں گے جب راضی میں تجھ سے ہو گیا بندے مری جنت میں آ حضرت میر صاحب کے مضامین میں جن قرآنی آیات کا ترجمہ شامل نہیں تھا وہ نفس صغیر سے شامل کیا گیا ہے.اسی طرح آیات کے حوالے بھی تحریر کئے گئے ہیں.دو ہستیاں جن کی دعاؤں کے ساتھ یہ کام ہو رہا تھا اب ہم میں نہیں.حضرت خلیفہ المسیح الرابع اور محترمہ آیا طیبہ صدیقہ صاحبہ.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے.ہمارا محبت بھر اسلام انہیں پہنچا دے.اور اُن کی دُعائیں ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں.آمین
بسم الله الرحمن الرحيم اظهار تشکر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ اُس نے محض اپنے خاص فضل و کرم سے میری ایک بہت پرانی خواہش کو پورا کیا.بہت مدت سے یہ خواہش تھی کہ میرے ابا جان ڈاکٹر میر محمد اسمعیل کے تمام مضامین جو سالوں پر محیط عرصے سے افضل میں شائع ہوئے تھے وہ کتابی صورت میں چھپ جائیں میں نے اس سلسلے میں سیدہ چھوٹی آپا سے بھی بات کی تھی وہ اس کام کے لئے تیار تھیں.لیکن پھر وہ بیمار ہوگئیں.گذشتہ سال میں نے اپنے چھوٹے بھائی سید امین احمد سے بھی بات کی کہ تم یہ کام کر سکتے ہو.لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور میرے پیارے بھائی کا انتقال ہو گیا میری خواہش کا علم ہو گیا اور انہوں نے اس کتاب کی تیاری کا ذمہ اٹھا لیا اور وہ لیے یہا ہوتی جو سالوں میں بکھرے پڑے تھے انہوں نے یکجا کر کے ایک لڑی میں پرو دیئے.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے.خدا تعالی بڑا ہی عطا کرنے والا ہے وہ کسی کی سچی خواہش کو کبھی ضائع نہیں کرتا بلکہ پورا کر دیتا ہے.
:
حضرت اقدس مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے ملفوظات ہیں حضرت میر محمد اسمعیل کا ذکر خیر ڈاکٹر صاحب اہمارے دوست دو قسم کے ہیں ایک وہ جن کے ساتھ ہم کو کوئی حجاب نہیں اور دوسرے وہ جن کو ہم سے حجاب ہے.اس لئے ان کے دل کا اثر ہم پر پڑتا ہے اور ہم کو بھی اُن سے حجاب رہتا ہے جن لوگوں سے ہم کو کوئی حجاب نہیں ہے اُن میں سے ایک آپ بھی ہیں." و محفوظات جلد اول مات آج حضرت صاحبزاده بشیر الدین محمود سلمہ اللہ تعالیٰ کی بارات روڑ کی کو قادیان سے علی الصباح روانہ ہوئی.اس بارات میں حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب اور جناب مولانا مولوی سید محمد احسن صاحب اور جناب سید السادات میر ناصر نواب صاحب اور آپ کے صاحبزادہ میر محمد اسمعیل اور ڈاکٹر نور محمد صاحب ، پیر سراج الحق صاحب نعمانی اور مفتی محمد صادق صاحب تھے.حفوظات جلد دوم ۲۹۵)
ہ زلزلہ کا ایک دھکا لگتا ہے تو شہروں کے شہر ویران ہو جاتے ہیں.اس سے خدا تعالی کی قدرتوں کا اظہار ہوتا ہے جب امن کا زمانہ ہوتا ہے تو لوگوں کو منطق یاد آتی ہے اور باتیں بناتے ہیں لیکن جب خدا تعالیٰ ایک ہاتھ دکھاتا ہے تو تمام فلسفہ بھول جاتا ہے ڈاکٹر میر محمد ایل ذکر کرتے ہیں کہ ہر ا پریل شارہ والے زلہ رہیں اُن کے کالج کا ایک ہندو لڑکا، دہر یہ بیافتہ رام رام بول اُٹھا جب زلزلہ تھم گیا توپھر کہنے لگا کہ مجھ سے غلطی ہوئی تھی فرض ایسے لوگ درست نہیں ہوتے جب تک کہ اللہ تعالی عجوبہ قدرت نہ دکھائے وہ ہر چیز پر قادر ہے اور جب تک کہ ایسا نہ ہو توحید قائم نہیں ہو سکتی.ا ( ملفوظات جلد پنجم (۱۵۲) •
۱۳ مارچ 19ء کو حضرت اقدس مسیح موعود نے ایک رڈیا دیکھا کہ میر ناصر نواب صاحب اپنے ہاتھ پر ایک درخت رکھ کر لائے ہیں جو پھلدار ہے اور جب مجھ کو دیا تو وہ ایک بڑا درخت ہو گیا جو پیدا نہ ثبوت کے درخت کے مشابہ تھا اور نہایت سہنر تھا اور پھلوں اور پھولوں سے بھرا ہوا تھا اور پھل اس کے نہایت شیریں تھے اور عجیب تریہ کہ پھول بھی شیریں تھے مگر معمولی درختوں میں سے نہیں دیکھا گیا میں اس درخت کے پھل اور پھول کھا رہا تھا کہ آنکھ کھل گئی " بدر جلد ۲ نمبر) الحکم جلد - انمیره تذکره ص ۵۲)
۱۴ 3 G L G F GUY GE=ZG ارشاد حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی اللہ تعالیٰ آپسے راضی ہو) صاحب جن کو ناظر علی تجویز کیا گیا ہے.ان کے دل میں ارت میں موجود آپ پر لاتی ہو کی محبت بلکہ عشق خاص طور پر پایا جاتا ہے.اس محبت کی وجہ سے روحانیت کا ایک خاص رنگ اُن میں پیدا ہوگیا ہے.اسلئے ہمیں سمجھتا ہوں ایسی ٹھوکر سے وہ جو دوسروں کو لگ جاتی ہیں یا لگ سکتی ہیں.خدا نے ان کو محفوظ کیا ہوا ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ اس تعلق کی وجہ سے جو برکات ان پہ نازل ہوتی ہیں اُن کے باعث جماعت کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گے.الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۲۳ء
۱۴ EG-23-13-EB ES ارشاد حضرت صاحبزادہ مرزا طا رحمه الله تعالى حضرت میر محمد اسماعیل حضرت اماں جان کے بھائی تھے.ڈاکٹر میر محمد اسماعیل بہت قابل انسان تھے.بہت گنوں والے تھے.ان کی سیرت پر تو پوری کتاب شائع ہونی چاہیئے.لطیفہ گو بھی تھے بشاعر بھی تھے اور بہترین سرجن اور زیر دست مرتی اور قرآن کا گہرا علم رکھنے والے بہت قابل انسان تھے." دارد و کلاس ۱۳۱ جنوری ۱۹۹۹مه) جلسہ سالانہ ء میں خواتین سے خطاب سے پہلے حضرت خلیفہ مسیح الرابع نے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل کی نعت یشگاه زی شان خیر الا نام کا تعارف کراتے ہوئے فرمایا.جب سے میں نے ہوش سنبھالی ہے کبھی ایسی نعت حضرت مسیح موعود کی نعتوں کے بعد نہ سنی نہ دیکھی اور میرا خیال ہے ہمیشہ کے لئے یہ نعت حضرت میر صاحب کو خراج تحسین پیش کرتی رہے گی.“ ZY ZG EC E
نمبر شمار 1 پیش لفظ عرض حال اظہار تشکر ۱۵ مندرجات مضمون محمد نمبر ۱۴ حضرت مسیح موعود کے ملفوظات میں حضرت میر محد اسمعیل کا ذکر حضرت این اسیح الثانی کا ارشاد گرامی حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا ارشاد گرامی باب اوّل حضرت میر محمد اسمعیل - سیرت و سوانح ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُوْتِيَهِ مَنْ يَشَاءُ خدائے رحمان کا عطا کر وہ سب سے بڑا اعزازہ پشت در پشت صالحین کا سلسلہ پیدائش دی چین کا ایک واقعہ کامیابی ایک نشان شادیاں اور اولاد اه ☑ ۶۱ ۶۵
14 3 = L G L G & G ES الصفر خدمات خلیه و عادات مبارکه بیماری اور حضرت خلیفہ المسیح کی دُعائیں وصال حضرت مصلح موجود کی تجویز کردہ کتبہ کی عبارت انتقال کے بعد چھپنے والا مضمون زندگی میں موت کی تیاری باب دوم ۷۲ ۸۳ * 2 ۸۹ حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل بزرگان سلسلہ کے تاثرات حضرت مولوی شیر علی صاحب حضرت حافظ مختار شاہ جہانپوری صاحب حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب حضرت غلام رسول صاحب را جیکی حضرت بھائی عبدالرحیم صاحب حضرت حافظ غلام محمد صاحب حضرت جناب مولوی محمد الدین صاحب محترم جناب مولانا جلال الدین شمس محترم جناب مولوی ابو العطاء صاحب محترم جناب خواجہ غلام نبی صاحب محترم جناب مولوی محمد نذیر صاحب لائلپوری محترم جناب ماسٹر فقیر اللہ صاحب ١٠٣ 1.9 ۱۱۴ 23 13 13 13 T
محترم جناب منشی محمد اسمعیل صاحب سیا لکوئی محترم جناب ملک مولا بخش صاحب محترم جناب اخوند عبد القادر صاحب محترم جناب منشی برکت علی صاحب محترم جناب حکیم عبد اللطیف صاحب شهید محترم جناب چوہدری محمد اکبر علی صاحب محترم جناب اخوند فیاض احمد صاحب محترم جناب مولنا غلام باری سیف صاحب محترم جناب ملک محمد عبد اللہ صاحب محترم جناب ملک سیف الرحمن صاحب محترم جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی 114 lic ۱۲۱ ۱۲۳ ۱۲۷ ۱۳۱ ۱۳۲ ۱۳۴ ۱۳۹ IPA ۱۴۹ ۱۵۹ محترم جناب سلیم شاہی مانوری صاحب محترم جناب نسیم سیفی صاحب حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ کے اپنے ابا جان کے متعلق تاثرات ۱۶۲ محترمہ مکرمہ طیبہ صدیقہ صاحبہ کے اپنے ابا جان کے متعلق تاثرات ۱۶۵ محترم جناب سید میر محمود احمد پرنسپل جامعہ احمدیہ کا مضمون خراج محبت 146 افسوس تھے جو قوم کے معمار چل ہے جناب عبد اللطیف ظہور ۱۷۲ آهستید محمد اسمعیل جناب قاضی محمد یوسف صاحب ہوتی مردان خون کے دریا بہا لے دیدہ خونا یہ بار جناب سیف اللہ شوق ۱۷۶ پھر یم سے جاملا در یکدانہ ایک اور جناب روشن دین تنویر ۱۷۷ آه اک خیر مجسم ایک پیکر نور کا
169 ۱۸۵ 19.۱۹۶ ۲۱۷ ۲۲۴ ۲۵۴ ۲۵۶ ۲۶۲ ۲۷۰ ۲۷۵ ۲۷ ۳۱۴ ٣١٩ ۳۳۴ ۳۴۹ ۳۵۱ IA باب سوم توحید و اسلام کلمہ شہادت یعنی وجود باری تعالیٰ پر ہماری گواہی ہمارا خدا سنة الله ذکر الہی شکر الہی مغفرت الہی کے نظارے اللہ تعالیٰ کا ایک نام الصبور بھی ہے اسمائے الہی اور ان کے صحیح معانی پنج ارکان اسلام میرا بندہ باب چهارم قرآن مجید قرآنی پرده قرآن کریم میں حضرت لوط علیہ السلام کا واقعہ قرآن کریم میں حضرت ایوب علیہ السلام کا واقعہ ایک آیت کی مشکلات کاحل موت اور نیند میں قبض روح کا فرق حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلَا نَوْم مقطعات قرآنی مقطعات اور حروف مقطعات 1.
۳۵۲ ۳۵۶ ۳۵۷ ۳۵۸ ۲۶۰،۳۵۹ ۳۹۱ ۳۶۵ ۲۶۷ ۳۶۹ ۲۷۰ ٣٧٣ ۳۸۴ ۳۸۹ ۳۹۲ ۳۹۲ ۳۹۲ ۳۹۳ ۳۹۴ ٣٩٩ ۴۰۳ ۱۹ ۱۳ ۱۴ 10 14 19 مقطعات کی جماعت بندی اصل اور جڑ کو پکڑنا چاہیے مقطعات کی اصلیت ثبوت بذمه مدعی قرینه اول، دوم، سوم قرآن فاتحہ کی تفسیر ہے قرینه چهارم، پنجم ایک اعتراض کا جواب دوسرا اعتراض مثانی کے متعلق مقطعات میں حروف مقطعات کی ترتیب ایک مقطعہ کئی معنوں اور کئی مقاموں کے لئے آسکتا ہے ان حدف مقطعات میں نہیں ہے ۲۲ مقطعات کے بعد رموز ۲۳ حروف مقطعات فاتحہ کی آیتوں میں حروف مقطعات فاتحہ کے الفاظ میں مقطعات کے تعین کا قاعدہ ۲۴ ۲۵ ۲۷ ۲۸ ۲۹ نمونہ تطبیق کا یعنی سورہ مریم کھیعص متحدیث نعمت مضمون مقطعات پر بعض اعتراضات اور اُن کے جواب ن کا مقطعہ اور حضرت خلیفہ اول لغت کی کتا ہیں.ن کا مطلب اور ترجمہ خلیفہ اسی الثانی کے درس میں حروف مقطعات پر مد ایک نیا قرینہ مقطعات قرآنیہ کے متعلق بعض نئی باتیں ۳۲ ۳۴ ۳۴
۲۰۹ ۴۱۳ ۴۲۱ ۴۲۱ ۴۲۲ ۴۲۳ ۴۲۳ ۴۲۴ ۴۲۴ ۴۲۵ ۴۲۵ ۴۲۹ ۴۲۹ ۴۲۷ ۴۲۸ ۴۲۹ ۴۳۰ باب پنجم حضرت محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد کلام الہی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلے تین مسلمان ظالم چھپا بچوں سے جھوٹ نہ بولو شراب کی حرمت و صحابہ کی اطاعت مهمان نوازی بادشاہ دو جہاں کی محل سرا کا ایک نظارہ آپ بیتی حضرت عائشہ سے محبت کی وجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا کسری کے کنگن زمانہ جاہلیت کا ایک مرغوب طعام دختر کشی شہیدلڑکا بس کیا اتنا ہی فاصلہ ہے عجیب جنتی حضرت علی کا اسلام نکاح کی تاکید سب نبیوں نے بکریاں چرائیں ۱۲ ۱۴ ۱۵ 14 K ۱۹
۲۱ بیوقوفی کی حد دختر کشی کی سبرا دین حق کا متلاشی کون ہے اس سے زیادہ خوش نصیب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان اور قوم حیا دار مزدور عرب میں ثبت پرستی کا رواج دینے والا لے ہاتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر پانچ نمازوں کی تعلیم بد بختوں کے کہ توت جانوروں پر ظلم کا نتیجہ اسلامی جہاد کی حقیقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نواسے کا انتقال لڑکے کی فرمانبرداری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ خصوصیتیں زنگروٹ کی عمر مجھ سے زیادہ غریب کون ہے ؟ ترتیب ہجرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اور معماریہ کا ایشیار پیاسے شہید عدل اشتراک گذاری مالی حالت اور آپ کی کرامت صفہ کی شراب نے لنگڑا کر دیا ۴۳۲ ۴۴۲ ۴۳۳ ۴۳۴ ۴۳۵ ۴۳۵ ۴۳۷ ۴۳۷ ۴۳۸ ۴۳۹ ۴۳۹ ۴۳۹ ۴۴۰ م م ۴۴۱ ۴۴۲ ۴۴۳ ۴۴۵ ۴۴۵ ۴۴۵ p ۲۲ ۲۲ ۲۴ ۲۵ P ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۱ google ۳۹ PAT PAT PAL ? I C
۴۴۸ ۲۵۸ ۴۵۸ ۴۵۹ ۴۵۹ ۴۶۲ ۴۶۳ م ۴۶۴ ۴۶۴ ۴۶۵ ۴۶۵ ۴۶۵ M44 ۴۶۸ ۲۲ اربعین آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غزوات حضرت مقداد صحابی کی ایک بات دنیا سے آپ کا تعلق شرم و حیا خدائی دعوت و سبیل مچھلی حضرت بلال پر ظلم صفائی پسندی چور ولی دانتوں کی صفائی جاہلیت کے خون میرے پیروں کے نیچے صدیق اکبر کا جہاد ماں اور بچے پر رحم مال سے بے رغبتی عورت کی معرات ہلکے پیٹ کھاؤ صحابہ کا زنگ مایہ ہمیشہ اپنے قصور کی سزا کے لئے تیار رہتے تہجد گزار لڑکا آپ کا ایک معجزہ وفات کی پیشگوئی عمار کی شہادت کی خبر دینا فوجی کہ تب مسجد میں شفاعت ۴۹ ۵۰ اه ۵۲ ۵۳ ۵۴ ۵۵ 8A ۵۹ 4 ۹۲ YA 49
م ٤٤٣ ۴۷۳ ۴۷۵ ۴۷۵ ۴۷۹ ۴۸۰ ۴۸۰ AL ۴۸۳ ۴۸۳ ۴۸۴ ۲۸۵ ۲۳ 3-23-23-23 ۷۲ ۷۳ ب سے پہلی وحی دوسری دفعہ پھر دھی کے وقت تکلیف وحی کسی طرح آتی مفتی قرآن کا دور جبریل کے ساتھ الے آپ قرض لے کر زیادہ دیتے تھے.،، جانوروں سے نیکی کرنا بھی ثواب ہے بھوکوں کو خدا رزق دیتا ہے شراب کی خرابی (ابتدائے مدینہ) منہ پر ہر گز نہ مارو ام حضرت ابوقدرت کا اسلام لانا حقیقی پاکیزه زندگی AY AA الفخر وفقرى مساوات آپ لین دین کے کھرے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے زیادہ سختی کا دن طار بچوں کو پیارہ کرنا چا کی گواہی بھتیجے کی بزرگی پر ۸۹ کعبہ میں نشست گاہیں ۹۲ زید بن حارثہ کا قصہ خدا کا خوف مشترک شاعروں کا جواب ۹۳ عبد اللہ بن سلام یہودی کا مسلمان ہوتا ابو جہل کا قتل
۴۸۸ ۴۸۹ ۴۹۰ ۴۹۱ ۴۹۲ ۴۹۳ ۴۹۴ ۴۹۵ ۴۹۵ ۴۹۵.۴۹۶ ۴۹۸ ۴۹۹ ۵۰۰ ۵۰۱ ۵۰۲ ۵۰۲ ۵۰۲ ۵۰۳ ۵۰۲ ۵۰۴ ۵۰۴ حسن سلوک اور برداشت زہر والی بکری دعوت ہیں ابتدائے ہجرت میں انصار کی مہمان نوازی رضاعی ماں باپ کی تعظیم انصاف کا تقاضا غزوه اوطاس فتح مکہ کے بعد اشاعتِ اسلام فتح مکه وہ راست مسجد میں بسر کی (مدینہ) تقومی (مرض الموت) اپنے یہودی خادم کی بیمار پرسی عورت کی بے صبری معراج دن کو معراج کا ایک حصہ دوزخی مجاهد حضرت جعفر رض واللہ میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات اسلام کے لئے فقیری اختیار کی (مکہ) خدا کا عاشق آپ کی سخاوت اور احسان لو تم بھی مجھے مارلو حیوانوں پر آپ کا رحم خدا تو بہت سارے تھے لیکن دُعا پھر بھی قبول نہ ہوتی تھی بادشاہ دو جہاں کا ترکہ نہ بخیل ، نہ جھوٹا ، نہ بزدل ٩٥ ۹۷ ۹۸ ١٠٢ ۱۰۴ ۱۰۵ 104 1.6 •A 1.4 118 114 HA 114 ۱۲۰
۲۵ ۵۰۴ ۵۰۵ ۵۰ 3&3-13-13 13 ۱۲۱ ۱۳۲ ۱۲۳ ۱۲۴ ۱۲۵ ۱۲۶ ۱۳۷ ۱۲۸ ۱۲۹ EEE ۱۳۵ ۱۳۹ بیٹیوں والے کو تسکی حضرت خباب پر ظلم گھر کے کام کاج سے عار نہ تھی اپنی ذات کے لئے کبھی بدلہ نہیں لیا كَانَ خُلُقَهُ الْقُران آپ کی وعدہ وفائی ستر پوشی سخت مصیبت کے وقت عہد کی پابندی بہادری کا باپ مطعم بن عدی کی شکر گزاری بنو قریظہ کی ناشکری بنجران کے عیسائیوں کا قصہ حمہ الوداع کا خطبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب نامہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھوٹنا جناب ابو طالب کو امداد کا ثواب ابو جہل کا تکبر بدر کے بعد کفار کے مردوں کو خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک عبرت ناک خواب ۵۰ ۵۰۷ ۵۰۸ ۵۰۸ ۵۰۸ ۵۰۹ ۵۰۹ ۵۱۰ ۵۱۰ ۵۱۲ ۵۱۲ ۵۱۲ ۵۱۳ ۵۱۳ ۵۱۴ داه ۵۱۷ ۵۱۷ ۵۱۷ ۵۱۸ ۵۱۸ DIA ایک پہیلی (مدینہ) بچوں سے مذاق بچوں سے کام کی باتیں ۱۴۱ ۱۴۲ ۱۴۲ صفائی پسندی ۱۴۴ کیا میں اپنے خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں it's آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہادت کا شوق
۵۱۹ صحابہ کرام نہ کی آراء ، آپ کے جمال کے بارے میں ۱۴۶ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) و خاندان شمائل حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) تذکرہ.حضور کے الہام و کشوف در دیا حضرت اقدس مسیح موعود کی رحلت پر بہن کے نام مکتوب حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کا اجالی نقشہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کے لیلتہ القدر ہونے کے متعلق ایک روایت بیٹی مریم صدیقہ کے نام مکتوب حضرت میر محمد الحق کی وفات کس طرح ہوئی ؟ سیرت المہدی سے روایات باب مضم حضرت خلیفہ ایسیح الثانی اللہ تعالی آپ سے راضی ہو) حضرت مصلح موعود کا نام فضل عمر کیوں رکھا گیا ؟ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی خاندانی ترقی باب شتم متفرق مضامین جنازہ کا مسئلہ ۵۲۱ ۵۲۳ ۵۴۶ ۵۵۱ ۵۵۶ ۵۵۹ ۵۶۴ 042 ۵۹۲ ٥٩٥
٥٩٩ 41.۶۱۴ ۶۲۲ ۶۲۷ ۶۳۳ ۶۳۷ पता ۶۴۴ ۶۴۹ ۶۵۱ ۶۵۵ ۶۵۹ Чар ۶۹۳...۲۷ سادہ اور با کفایت زندگی کے متعلق کچھ باتیں تو کر مزدور ہے غلام نہیں نظام تو کی بنیاد حضرت عمرہ کا اسلام بری بیماریاں شاعر شاعر قسط دوم زلزلہ یعنی جنگ عظیم کے وقت کا تعین اطمینان قلب تسبیح اور درود شریف پڑھنا عورت نبی نہیں ہو سکتی معجزات و کرامات کے پڑے میں ایک دھوکا مغربیت کی بیماری اور اس کے عوارض و علامات دنیا میں تکالیف و مصائب کیوں آتے ہیں ؟ عید الا ضحی کی قربانیوں کے گوشت کا مصرف جہنم سزا ہے یا علاج کچھ اخلاق کے متعلق توبہ سے سخت اور کونسی سزا ہے ؟ مرزا غالب اور ان کے طرفدار دعا کی برکات ذاتی تجربات دعاؤں کی درخواستیں K 14 ۱۸
صفحہ نمبر ۴۸ ۷۴۹ ۷۵۰ اه ۷۵۲ ۷۵۲ ۷۵۳ ۷۵۲ ۷۵۶ ፈላለ ۷۵۹ <40 نمبر شمار باب نهم مندرجات جلد دوم مضمون بعض مضامین کے متعلق قرآن مجید سے استدلال دعونی با دلیل نبی کا کام دنیا کیا ہے ؟ خود کشی کی مانعت دہریوں کی نیکیاں مذہب کے طفیل قرآن میں سب خوبیاں الہام حقہ سے محرومی دین میں جبر نہیں عبد اور معبود کے فرائض شرک کیوں نہیں بخشا جاتا نشان پانے کے بعد گمراہی ۱۲ خشیت پیدا کرنے والے اسماء الحسنہ فتح کے بعد صلح کی درخواست ۱۴ نبی کے خواب کی تعبیر ۱۵ 1 قرآن کریم اور صحیفۂ فطرت تقدير معلق اللہ تعالی کا ذاتی نام نبی پر مسمریزم کا اثر
<41 ۷۶۲ ۷۶۳ ۷۶۴ ۷۴ ۷۶۵ << 644 44A 44.221 <<.<< ۷۷۴ ۷۴ 440 ۲۹ 19 ۲۲ ۲۴ ۴۴ ۲۵ غذا کا اثر اخلاق اور اعمال پر رحم کی بے مثال تعلیم اچھا کھانا کھانا اور بازاروں میں پھرنا اسلام میں اعلی صداقتیں نفع مند چیز ہی قائم رکھی جاتی ہے تو یہ کیا ہے ؟ پیشگوئیوں میں اخفا کا پہلو ۲۶ امتی کے معنی ۲۹ چند سے کیوں دیں ؟ عمر میں کمی بیشی فریح اللہ کون ہے ؟ طین لازب نیا آسمان اور نئی زمین پیدا کرنا انسانی فطرت ایک خدا چاہتی ہے انفلوئنزا کے متعلق پیش گوئی سیتی وجی وفائی جنگیں ۲۴ ۳۵.مام منافق عورتیں طوفان نوح میں کون غرق ہوئے پیچھے مذہب کی علامات حضرت صلی الہ علیہ وسلم پر جنون ہونے کے الزام کی تردید مختلف شریعتوں کی مثال جنت کی نعمتیں سلسلہ الہام اور وحی ۴۳ زکوۃ نہ دینا بھی شرک ہے
440 664 644 666 689 CA.۷۸۰ ۷۸۲ ۷۸۲ CAT CAL ZAA <9.491 ۷۹۲ ۷۹۲ ۷۹۲ ۷۹۴ ۷۹۴ ۷۹۵ 13-23-13-1 ترقیوں کے ساتھ ابتلاء قوم ثمود کے غیر مبانعین اُمت محمدیہ میں نبوت حضرت مسیح موعود کا ایک کشف غلامی کی جائزہ صورت ایک لغو سوال مذہب میں میچارٹی نہیں چلتی علیم اور خلق فاتحہ خلف امام قرآنی پیش گوئیاں استعانت دُعا کو کہتے ہیں کان افضل ہے یا آنکھ علم الشرب کی حقیقت خون کا نشان سبت کی مچھلیاں احمدیت کا اعلان ضروری ہے آیت قصاص کا مطلب اذی کے معنی نکاح کے مقاصد تبرکات اسماء الہی کا تعلق آیات کے مضمون کے ساتھ ڈراؤنے خواب عدالتوں کی اصلاح غنی کے لئے الاؤنس نہیں جن سے نکاح حرام ہے ۴۹ ۵۲ ۵۲ ۵۴ ۵۵ ۵۶ 8< ۵۸ ۶۲ ۶۲ ۶۴ 40 46 23 23 23 TP LI
696: ۷۹۹ ۷۹۹ A..۸۰۴ A-4 M.C A-A All AIM AIK AIN Alt AIM ام ANY I ،۲ AM A4 A6 AA محکمات اور متشابهات آخرت کیا ہے ؟ حاجی لوگ خیال رکھیں.شرک اور مغفرت وقت ضائع کرنا عرب کے بدو قرآن کی ایک عجیب خصوصیت نماز با جماعت دو طرفہ محبت بعض قول عمل سے بھی افضل ہوتا ہے اللہ کے معنی مشابه و غیر مشابه ہر آدمی آدم ہے رسولوں سے باز پرس بوجھ سر پر یا پشت پر نبلیوں کی قوم میں رسول حضرت ابراہیم اور جھوٹ دعا بھی عبادت ہے بدی کا علاج شیطان سرحدوں پر چوکیاں سُورَةٌ مِن مِثْلِهِ ا جہنم کا نمونہ ۹۲ قرآن سے اتر کر تورات افضل ہے ۹۳ ایکٹ قتل اولاد نرینہ
۹۴ ۹۵ 44 46 ۹۹ ١٠٢ 414 Al A C AA A1A AA ۸۲۰ AYI AVI ۳۲ 3-13-13-1G قتل انبياء ذبح بقر جہنمی ہونے کا اصل حق تلاوت جو بھی گندے کام بتائے وہ شیطان ہے بہشتی مقبرہ دعوے کے ساتھ دلائل کے نمونے زندگی روحانی اور جسمانی نئی باتیں ۱۰۳ رضاعی رشتوں کی حرمت ۱۰۴ عبرت ۱۰۵ طہارت جسمانی 104 ولدان مخلدون ۱۰۷ آیتوں کا تعلق اور ربط ۱۰۸ وہ جن تھا اور کافر 19 علماء کے بائیں ہاتھ کا کرتب ۱۱۰ العجب ثم العجب ایک نبی کی تکذیب سب کی تکذیب ہے این اور ولد ۱۳ خط و کتابت کا طریق ۱۱۴ حفاظت قرآن 114 وصیت مسیح موعود و خلیفة المسیح الاول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حضرت موسیٰ سے مماثلت 114 ۱۱۸ اظهار على الغيب ۸۲۴ ۸۲۵ ۸۲۵ ۸۲۷ ۸۲۷ ۸۲۹ Ar AP.٨٣١ ۸۳۴ ۸۳۵ ۸۳۵ Ary
۸۳۷ ۸۳۷ ۸۴۰ ۸۴۲ ۸۴۲ ۵۲ ۸۵۳ ۸۵۳ ۸۵۲ A04 AD4 14 [A41 ۳۳ ۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۲ الحمد الله خدا کے سوا کس کا حوصلہ ہے کہ گناہ بخشے مضطر کا لفظ عام ہے عربی اتم الاسنہ ہے أتم الاله ۱۲۳ مکہ اور کید ۱۲۴ نسیان ۱۳۵ استهزاء خدا کی کرنسی ۱۲۷ ۱۲۸ قرآن مجید کو کوئی کتاب منسوخ نہیں کرے گی آدم معصوم تھا.۱۲۹ حیات ۲۰) ایک آیت کے زیادہ معانی ۱۳۱ دنیاوی مصائب ۱۳۲ اختلاف کی وجہ ذاتی عناد بھی ہے ۱۳۳ دنیا میں اجر اور آخرت میں محرومی ۱۳۴ مومن با مذاق ہوتا ہے ۱۳۵ آسمان حملے کرے گا چھینچ کر اپنی کار ۱۳۹ رہبانیہ کے متعلق ولی کسے کہتے ہیں ۱۳۸ سابقون الاولون حضرت ابراہیم کی ثبت شکستی ۱۲۱ مکتی دمدنی سورتیں الله ۱۴۲ خلاصه کتاب الله ۱۴۳ خوفناک بائیکاٹ
۳۴ ۱۲۴ قرآن مجید کا طرز بیان ۱۳۵ انتطار کی حدود ۱۴۹ ناسخ منسوخ دین میں حیلہ آخر بلاک کر دیتا ہے ۱۷۸ سونے کی خاک ۱۳۹ مکالمه مخاطیه ۱۵۰ 181 آیت شہادت في العدالت قلم کا الٹنا بہتا ۱۵۲ انسان بھی معیار ہوتے ہیں ۱۵۳ موسی کی عمر دریا سے نکالے جانے کے وقت ۱۵۴ قبطی کا قتل 100 اسمائے آدم ۱۵۶ نکاح معاہدہ ہے مگر بڑا مضبوط 106 اونٹ کا سوئی کے ناکہ میں سے گزرنا المغضوب عليهم اور ضالین ۱۵۹ ذلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ ۱۹۰ محکم اور متشابہ کے نمونے IDA 141 متضاد صفات البنية ۱۷۳ بہت ہنسنے سے نفاق پیدا ہوتا ہے ۱۹۳ حج ۱۹۴ طہارت کے مختلف طریق 190 صبح کی برکات 194 دعائے قرب ۱۹۷ قیامت میں سوال وجواب ۱۹۸ نماز با جماعت ANI ۸۶۲ 440 A4Y AYC AYA ۸۰ A4 ACP ٨٣ ALD ALL AA AA* AAA AA AAD AAC AAC AAL AAQ TE TE TE EG EG
AAQ 19.۹۰ A91 ۸۹۲ ۸۹۴ ۹۴ ٨٩٨ A44 4..۹۰۱ ٩٠٢ ٩٠٣ 9.6 9.4 ٩٠٩ ۹۱۰ ۹۱۲ ۹۱۳ 141 144 قوم عاد کی حالت ظالموں کا اعتراض حکمت کا ایک نمونہ سائنس کے دقیق مسئلے قرآن مجید میں بکثرت پیش گوئیاں ہیں ۱۷۲ شراب کی حرمت 164 16A اکٹھے مل کر کھانا صفات الہیہ بالارادہ ہیں نہ کہ بالاضطرار دُکھ کیوں ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق ۱۷۹ قرآن میں کسی کی بد گوئی نہیں ہے شادی کی عمر ۱۸۱ علم کے ایک معنی ۱۸۲ ظرف Ar 1A8 حضرت ذکریا کی خاموشی انبیاء کے دشمنوں پر عذاب محدد ۱۸۶ دنیا کی جنت ۱۸۷ الحاد فی اسماء الله IAA عَرَفْتُ رَبِّي بِفَتْحُ الْعَذَائِمُ ۱۸۹ لقاء الہی کا شوق 14.تدبیر و حکمت مدیر اور حکیم کے وجود پر دلیل ہیں ۱۹۱ قیامت ۱۹۲ عجیب خواہش ۱۹۳ پانچ غیب 23 13 23 23T
۹۱۴ ۰۹۱۲ ۹۱۵ ۹۱۵ ۹۱۹ 414 912 ۹۱۸ 414 ۹۴ ۹۲۱ ۹۲۳ ۹۲۳ ۹۲۴ ۹۲۴ ۹۲۵ ۹۲۸ ۹۲۹ ۹۳۱ ۹۳۴ ۹۳۵ ۹۳۵ DEBÆRERES ۱۹۴ تقوی 140 دو خدا 194 قرآن کے ٹکڑے ۱۹۷ سوره انفال اور تو یہ ۱۹۸ نبی کی پہلی زندگی ۱۹۹ زمین و آسمان کی ترتیب ۲۰۰ لوہے کا تریم ہوتا ۲۰۱ محذوف فقرات اجرام فلکی ۲۰۳ ہود نے مجھے بڑھا کر دیا.۲۰۴ اسلام بدی کی جڑ کو اکھیڑ تا ہے ۲۰۵ وضو کا حکم منہ کے بل چلنا ۲۰۷ قرآن مجید انسائیکلو پیڈیا ہے ۲۰۸ مجنون نہ ہونے کی ایک دلیل وہ عورت جس نے اپنی عزت کو محفوظ رکھا ۲۱۰ تقول اور ہلاکت ۲۱۱ غیب حاضر اور غیب غائب ۲۱۲ ازلی ابدی ۲۱۳ قدور را سیات ۲۱۴ شہوات کا علاج ۲۱۵ حضرت ابراہیم اور ان کے چار پرندے ۲۱۶ یوسف معصوم تھا ۲۱۵ ہیرے اور لعل دیا قومت ۲۱۸ نیکی کا بدلہ مزید نیکی کی توفیق "EF BE BY KG E F
۹۳۶ ۹۲۹ ۹۳۹ ۹۴۰ ۹۴۱ ۹۴۳ ۹۴۴ ۹۴۵ ۹۴۶ ۹۴۷ ۹۲۹ ۹۴۹ ۹۵۰ ۹۵۰ ۹۵۲ ۹۵۲ ۹۵۲ ۹۵۶ ۹۵۶ 106 ۹۵۸ 909 ۲۱۹ سوختنی قربانی ۲۲۰ کثرت قبولیت دعا بھی انبیاء کا نشان ہے ملک سلیمان ۲۲۲ خبیث کا مطلب ۲۲۳ اصحاب کہف اور سورج ۲۳۲ بنی اسرائیل کا راستہ سمندر میں بچپن میں کلام ۲۲۶ چوٹی اتارو ۳۳۵ ۲۲۷ حضرت یونس اور مچھلی ۲۲۸ کوہ طور اور گیرا پیار ۲۲۹ قابیل کا استاد کوا اسلام کی تبلیغ ہر ملک اور ہرزمانہ کے لیے ہے ۲۲ مٹھائی تقدیر کو مخلوق نہیں مل سکتی ۲۳۲ ۲۳۳ السلام علیکم ورحمه الله حضرت ابراہیم کا مباحثہ ۴۲ ۳ ۳۲ ساحروں کے سانپ اور عصائے موسی ۲۲۵ مریم کا رزق ۲۳۹ دیدار الہی ۲۳۷ غلط شہرت ۲۳۸ بعض الفاظ کے معنی قرآن خود کرتا ہے ۲۳۹ تنے کے چشمے ۲۲۰ چند کا ہاتھ کاٹو ۲۲۱ ذیح عظیم ۲۴۲ تین پر دے یم گناہ کی پہچان GEBEGEG
ន។ • ۹۶۲ ۹۷۵ 444 946 96.9617 ۹۷۲ १८५ 966 ۹۷۸ ۹۷۹ ۹۸۰ ۹۸۱ 4A1 ۹۸۲ ۹۸۳ ۹۸۴ ۹۸۵ ۹۸۷ شهاب ثاقب قرآنی قصے آئندہ کی پیش گوئیاں ہیں حضرت ابراہیم کا آگ میں ڈالا جانا پہلے اور پچھلے منافق ایک سے ہی ہیں منگنی ہر مسلمان پر تلاوت قرآن فرض ہے پچھلی کا گھر ہو جاتا حضرت موسی کے کپڑے لے کہ پتھر کا بھاگنا حضرت سلیمان کے زمانہ کے شیاطین سامری کا قصہ خدا کے شیر عورت گھر میں رہ ہے عورتیں مردوں کے ماتحت ہیں طلاق کا تعلق عدت سے ہے مایوسی الحیض کی عدت صرف مستند کتابیں بنیاد مباحثہ ہوں شرک خفی آیت لا تقنطوا کے متعلق غلط فہمی صرف اپنی خوبیاں پیش کرو سب معانی کا بیک وقت مفہوم سورہ تین کی قسمیں حضرت سلیمان کی دُعا قرآنی آیات عمرات جنت ہوں گی در شمنی گائے اور قتل کی تحقیق ۲۴۴ ۲۴۵ ۲۴۶ ۲۴۸ ۲۴۹ ۲۵۰ ۲۵۱ ۲۵۲ ۲۵۳ ۲۵۴ ۲۵۵ ٢٥٤ PSA ۲۹۲ ۲۹۳ MYA
٩٩٠ ٩٩٠ ۹۹۱ ۹۹۴ ٩٩٥ ۹۹۷ ٩٩٨ 1...۱۰۰۲ ۱۰۰۵ 1..9 1.4 coff ١٠١٢ ١٠١٢ ١٠١٣ ۱۰۱۴ ۱۰۱۵ محبت الہی کس طرح حاصل ہوتی ہے اقامة الصلوة وحی مسیح موعود رسول الله قرآن مجید کی قسمیں بعض تعریف صرف یہ تبت کے لیے ہیں ایمان کا حقیقہ اور انتظام کا حصہ گانا بجانا اور مزامیر معرفت اور وحی خفی بنی اسرائیل مصر میں کیوں لائے گئے ستر ہاتھ کی زنجیر خدا تعالی کی ہستی پر ایک زیر دست دلیل منافق استعاره زبان نیک فنی کی حدود نشوں کی ممانعت خلیفه راشد ہمعصری سبھی ایک مصیبت ہے سنت اعتدال بہترین طریقہ ہے انبیاء کی اجتہادی غلطی سب قصور معاف کر کے سویا کہ و بچوں کو ذبح کرنا کثرت غریب کیفیت اور کمیت کے لحاظ سے ظاہر سے باطن کی طرف ۲۷۹ ۲۷۲ ٢٤٣ 184 ٢٤ ۲۸۰ PA1 VAY ۲۸۳ ۲۸۴ ۲۸۵ PAY PAC TAA FAQ ۲۹۰ ۲۹۱ ۲۹۲ ۲۹۳
1+14.1014 1.19 1.14 ۱۰۲۰ ۱۰۲۲ ۱۰۲۴ ۱۰۲۵ ۱۰۲۵ ۱۰۲۸ ۱۰۳۲ ۱۰۳۴ ۱۰۳۵ ۱۰۳۷ ۱۰۴۰ بدايف شیطان کس طرح اعمال کو زینت دیتا ہے جل خدا کی رحمت سے نا امیدی یہ تزکیہ بہر سے تہمت والے کا کام ہے ہے؟ وہ کون ہے ؟ قرآن میں اور لوگوں کا کلام ملائکہ کا سجدہ آدم کے لئے تسبیح کا مطلب قرآن کے معنی جہنم کیوں وسیع ہے ؟ مشترکه معیار رسالت کپڑے پاک رکھو رحم اور تازیانہ بعد ضرورت الکشاف تکرار آیات من د سلونی خلیفہ پر فساد اور قتل کا الزام مقربین عبادتیں ترک نہیں کرتے رائع اور ساجد بہجرت کی پیش گوئی انا لله معروف انسان کا اپنے دل پر کوئی اختیار نہیں جنین کا الگ ذبح کرنا بے فائدہ ہے دلدل ۲۹۴ ۲۹۵ ۲۹۷ ٢٩٨ ۲۹۹ i E ۳۰۴ ٣٠ MI ۳۱۲ ۳۱۴ ۳۱۵
3 ۴۱ 33-13-23-13 13 ۱۰۴۰ I.M ۱۰۴۴ ۱۰۴۶ 1.42 ۱۰۴۹ ۱۰۵۰ ۱۰۵۱ ۱۰۵۲ 1.84 ۱۰۵۹ 1.46 ۱۰۹۸ 1.49 1.2K ۱۰۷۴ 1+28 ۱۰۷۵ عصا اور چٹان میں سے پانی نکالنا اصحاب فیل کا قصہ ناقة الله ۳۲۱ ۳۲۲ ۲۲۲ ۳۲۴ ۲۲۵ ٣٢٤ ۳۲۹ جوامع الکلم سیدوں کا بیجا فخر با دزن آیات نوع اور اصحاب کہف کی عمر.علیم الہی سب کے علم پر حاوی ہے اپنے تئیں سنزا بعض زبان زد آیات منافقوں کی علامات اور ان کے حالات قابل عمل آسمانی کتاب کونسی ہے ۳۳۱ سوره یوسف کا خلاصہ ۳۳۲ ال ۳۳۵ ۳۳۷ تقدیر معلق و مبرم جوارح الہی استعارہ ہیں قرآن آسان ہے حکمت چار مہینے اور دس دن خدا کسی کو عذاب دینے ہیں راضی نہیں متخذات اخدان اضطرار کی دعا اللہ کے معنی نکاح بے عیب قدرت معنی کرنے کا ایک اصول ۳۲۹ ۳۴۰
1.66 1.6A 1.A.J.Al 1.AY JAA 1.AA leng 1.4.۱۰۹۳ ۱۰۹۵ 1-90 1.94 1.96 1444 1.44 11..11-1 ١١٠٢ ١١٠٢ ۴۲ بلاغت لفظی عالی شان اور پُر ہیبت کلام امید افزا کلام پر اثر کلام محبت بھرا کلام تفاول قرآن مجید سے بے مانگے مغفرت عورت کا حصہ بچہ میں قرآن مجید کی تقسیم مضامین زوج قرآنی اختلافات في حُجُوْرِكُمْ قرآن اپنی تفسیر آپ کرتا ہے روسیاری مال حرام بود بجائے حرام رفت قسم کا کفارہ قرآن میں مسروقہ قصے نہیں رعایا سب برابر ہے موسی کی کشش حنیف کے معنی مختلف عدتیں عبادت کی بنیاد فائدہ اور نقصان ہے رضي الله عنهم ورضوا عنه انبیاء معصوم ہیں دخان ۳۲۴ ۳۴۵ ۳۴۶ ۳۴۸ ۳۴۹ ۳۵۰ ۳۵۱ Par ۳۵۳ ۳۵۴ ۳۵۵ ۳۵۶ ۳۵۷ ٣٥٨ ۳۵۹ ۳۶۴ ٣٩
١١٠٣ ۱۱۰۴ 11.A (1+q P 1119 1164 111< ۱۱۱۹ ۱۱۲۰ ۱۱۲۱ ۱۱۲۱ ۱۲۲ ۱۱۲۲ ۱۱۲۳ ۱۱۲۳ ۱۲۴ سب سے پہلا گھر خدا کا سید سکندری موَدَّةَ الْقُرْبي نصرت بلوغت تھا الهام فکر کا نتیجہ نہیں ہر انسان کلام الہی سے مشرف ہے مباہلہ انبیاء کا نشان ہے احمدی ہی سچاشتقی ہے قارون مومن خدا کو کتنا پیارا ہے اسلام کی ایک فضیلت زمین ہولے گی ہاتھ ، پیر، زبان، حرکات سب کی گواہی کا میں اور ساحر نماز میں توجہ امي نبي وہ رزق کہاں جاتا ہے قرآن مجید کا قابل حفظ حصہ مجبوری سختی روح اور نفس آسمان سے گرنا منافق کی ایک پہچان سچ نیچ کی وحی خیر امم ۳۶۹ рабо ٣١ ۳۷۴ ٢٩ ٣٨١ PAY WAI ۳۸۴ ۳۸۵ FAA ۲۸۹ ۳۹۱ ۳۹۳
۱۱۲۵ ۱۱۲۷ ۱۲۹ ١١٣٠ ١١٣٠ ۱۱۳۱ ۱۱۳۲ ١١٢٢ ۱۱۳۴ ۱۱۳۴ ۱۱۳۵ ۱۱۳۷ ۱۱۳۸ ۱۱۳۹ ۱۱۴۲ ۱۱۴۳ ۱۱۴۳ ۱۱۴۵ سورتوں میں ربط کامل یقین صرف الہام سے پیدا ہوتا ہے یتیموں کے مال کی حساب فہمی تعزیرات کے اصول جان کے بدلے جان اختلاف اور خبر سیح موعود کی وحی سے قرآن کی تفسیر مناسب اور مطابق سرا دائمی اور غیر مکدر خوشی بعض سورتوں کے نام داڑھی کا فائدہ آدم کی اصل خلافت علم کی ہے موت کی آرزو اہل کتاب کا کھاتا کہتا اور کہتا ربط آیات اسماء الحسنى حضرت ابراہیم کے امتحانات وَإِذَا الموردة سُئِلَتْ وَإِذَا الصُّحُفُ نُشِرَتْ وَإِذَا الْجَحِيمُ سُعْرَتُ الْخَنَّسِ الْجَوَارِ الكُش منی اور نطفہ مشک و عنبر قادیان میں کیوں ہجرت کی جاتی ہے 1 3 2 3 1 3 3 3 2 ٣٩٤ ۴۰۰ ۴۰۱ ۴۰۲ ۴۰۳ ۴۰۵ ۴۰۸ ۲۰۹ ۱۳ ۴۱۴ 14 ۴۱۸
13 13 13 13 LG ۱۱۴۵ سیٹیاں اور تالیاں ۴۱۹ ۱۷ ۱۱۴۷ IIVA ۱۱۴۹ ۱۱۵۲ ۱۱۵۴ ۱۱۵۵ 1186 ۱۱۵۸ 1189 ۱۱۵۹ 114.1141 ۱۱۹۲ 1147 143 ۲۰ یوم الفرقان عملی شکریہ خاتم کے معنی مہر بار یک گناه آیت نور خدا کے رحم پر ایک اعتراض کا جواب تردید کناره خلیفہ اور انجین مومن اور منافق میں فرق قومی عذاب آخرت میں استوائی ۴۲۱ ۴۲۳ ۴۲۴ ۴۲۵ ۴۲۶ ۴۲۷ ۴۲۸ ۴۲۹ ۴۳۰ ۴۳۱ گرمی میں باہر نہ نکلو ۴۳۲ ۴۳۳ ۴۳۴ ۴۳۵ کا بہن کیوں سزا نہیں پاتا لهو الحديث مين اللذينا والأخرة دھونی کے ساتھ دلیل زمین ہی میں سب کا روزگار ہے لا خلافته الا بالمشورة صرف قرآن ہی حفظ کیا جاتا ہے سننا اور نہ ماننا میٹی کا نام شرک کے چار زمانے ۴۳۷ ۴۳۸ ۴۳۹ ۴۴۰ ۴۴۱ ۴۴۲ ۲۴۳ سدرة المنتهى
1149 114.۱۱۷۲ ۱۱۷۳ ۱۱۷۹ HAI ۱۱۹۵ ۱۲۰۳ ١٢٠٣ ۱۲۰۴ ۱۲۰۵ ۱۲۰۵ ۱۲۰۷ ۱۲۷ ۱۲۰۹ ۱۲۱۴ ۱۲۱۸ ۴۴۴ ۴۴۵ ۱۲ ہر دعا مقبول ہے مقبرہ بہشتی کو تنگ نہ سمجھو اور نہ تنگ کرد ۴۲۶ جنتی ہونے کا اصل ۴۴۰ پیدائش عالم ۱۳ ۱۴ ۱۵ باب دهم سوالات کے جوابات حدث ایک آریہ کے سوال کا جواب لیسے دنوں اور راتوں میں نماز کیسے پڑھی جائے گی بسم اللہ پڑھ کر شکار اور جھٹکے کے متعلق ایک سوال حضرت آدم سے پہلے لوگ کیسے تھے بدکاری کے ثبوت کے لئے چار گواہ کیسے خاکسار کے معانی کیا ہیں ؟ خلق ابلیس وشیطان مَا تَرَى في خلق الرحمن من تفاوت مقام ابراہیم شہادت کا اطلاق ثعبان اور بیضا جن، پری، بصوت ، چڑیل، جادو، نظر فری میسن کیا ہے ؟ صحبت کا اثر کس طرح ہوتا ہے غیر مسلم کو السلام عليكم شیخ سعد اللہ لدھیانوی کی وفات 14 23 13 13 13 IT
دعا اور سلام رشتوں کی حرمت روزہ دار کا نسوار منہ میں ڈالنا قرآن پڑھ کے نیشنا شہید کون ہوتا ہے ؟ دین کی خدمت کے جوش میں ایت امانت سورہ واقعہ اور فاقہ کرند که ۱۲۲۳ ۱۲۲۵ ۱۲۳۶ ۱۲۴۲ ۱۲۴۵ ۱۲۴۹ ۱۲۵۱ ۱۲۵۶ ۱۲۵۸ باب یازدهم شجرہ نسب اور برگ و بار شجرہ نسب حضرت خواجہ میر درد صاحب و حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب ۱۳۹۴۷۱۳۶۳ درد محترقه سیده مریم صدیقہ صاحبہ محترمہ سیدہ امتہ اللہ صاحبہ محترمہ سیدہ طیبہ صدیقہ صاحبہ محترم سید محمد احمد صاحب محتر مه سیده امتہ القدوس صاحبه ۱۲۹۵ ۱۲۶۷ ۱۲۹۸ ۱۲۶۹ ١٢٤٠ ۱۲۷۲ ۱۲۷۳ ۱۲۷۴ ۱۲۷۵ ۱۲۷۶ محترم سید سید احمد ناصر صاحب محترمه سیده امته الهادی بیگم صاح محترمہ سیدہ امته الرفيق صاحبه محترمه سیده امتہ السمیع صاحبه محترم سید امین احمد صاحب تصنیفات به تحریر کا عکس k IA 19 ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ لم
7 خُدائی جبر اپنی پیدائش.زمانہ اور نسب دلبر من تیرے ہی ہاتھوں سے تھے اک عجب عالم نظر آیا یہاں قادیاں.دہلی سے جب ہم آگئے زندگی ، استاد هم صحبت عزیز دین و دنیا اور وطن سب تھے نئے ، سرگزشت باز دست خود نوشت جو ہو خوشخط کس طرح با خط لکھے اہلِ جنت سے علائق ہو گئے مل گیا تقدیر سے خیر القرون تھے مسیح وقت کے زیر نظر حضرت مہدی کے قدموں میں پہلے عمر بھر دیکھا کیسے حق کے نشان اہل باطن کی مجالس میں رہے دو خلیفہ جیسے سورج اور چاند یک نبی بہتر زماه و خاوری تربیت تعلیم اور ماحول سب بے عمل یہ فضل تو نے کر دیے از کرم این مطف کردی در نہ من کچھ خاکم بلکہ زاں ہم کمرے حسن کی اپنے دکھا دی اک جھلک دل دواں ہر لحظه در گوائے کے" طائر دل تیر مژگاں کا شکار سوختہ جانے زعشق دلبر جود و احساں نے تیرے گھائل کیا وصل کے آنے لگے پیہم جس کو توہی خود نہ چھوڑے وہ بھلا تیرے قابو سے نکل کیو نکھر سکے کیونکہ نہ وہ " جبر سے دیتا ہے قسمت کے شمار موکشانم مے برکو زور آورے د بخار دل (۱۵۲)
۴۹ باب اول حضرت میر محمد العمل سیرت و سوانح BY TY ZY TY TR
ایک پل بھی اب گزر سکتا نہیں تیرے بغیر اب تلک تو ہوسکا جیسے گزارا ہو گیا بعد مُردن قبر کے کتے یہ یہ کھنا مرے آج ہم دلبر کے اور دلبر ہمارا ہو گیا
اه ذلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَن يَشَاءُ خدائے رحمان کا عطا کہ وہ سب سے بڑا اعزاز جو حضرت میر محمد اسمعیل ( اللہ آپ سے راضی ہو) کو عطا ہوا وہ مہدی معہود مسیح موعود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی آپ پر سلامتی ہو) کا برادر نسبتی ہوتا ہے.رفقائے مسیح میں شمولیت کی سعادت اور پھر قرابت داری منفرد نعمت غیر مترقبہ ہے.آپ اُس مبارک خاتون کے بھائی ہیں جنہیں خدا تعالیٰ نے " میری نعمت میری خدیجہہ قرار دیا.أشكرُ نِعْمَتِي رَأَيْتَ خَدِيجَتِي میرا شکر کہ کہ تو نے میری خدیجہ کو پایا.(براہین احمدیہ مت ۵۵) خالق ارض و سماء کی بسیط حکمتوں سے الجوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاؤں اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانیوں سے اُن کی نسل میں فخر الانبیاء حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسا خیر البشر پیدا ہوا.پھر آپ کی جگر گوشہ حضرت سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بطن سے پیدا ہونے والے حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کو حضرت اسمعیل علیہ السلام جیسی قربانیاں پیش کرنے کی توفیق ملی.جیس کی قبولیت کا ایک رنگ آپ کی نسل میں صالحین کے سلسلوں کی صورت میں ظاہر ہوا.رو حضرت میر محمد اسمعیل صاحب حضرت امام حسین علیہ السلام کی چوالیسویں پشت اور خواجہ میر درد کی پانچویں پشت سے تھے گویا آپ کا خاندان حسینی سادات تھا جس میں کئی با خدا امام اور ولی اللہ پیدا ہوئے.بارہویں صدی ہجری میں حضرت خواجہ محمد ناصر دہلوی بہت بڑے
۵۲ نانی اللہ بزرگ گزرے ہیں.آپ دنیادی وجاہتوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے ذکر الہی میں مستغرق ہو گئے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو لڈیا د کشوف سے نوازا.ایک کشف میں آپ کو ایک بزرگ ملے اور فرمایا.میں حسن مجتبی بن علی مرتضیٰ ہوں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وستم کے منشاء کے ماتحت تمہارے پاس آیا ہوں تا تجھے ولایت اور معرفت سے مالا مال کروں.....ایک خاص نعمت جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے رکھی متقی اور اس کی ابتدا تجھ پر ہوئی ہے اور انجام اس کا مہدی موجود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہو گا.(میخانه در وص۳۷) اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق کا اندازہ آپ کی تصنیف نالۂ عندلیب کے اس بیان سے ہوتا ہے.میری یہ کتاب الہامی کتاب ہے اور میں نے جو کچھ اس میں لکھا ہے وہ مکاشفہ اور معائنہ سے کیا ہے اور خوبی یہ ہے کہ تمام مکاشفے اور الہام قرآن پاک اور حدیث صاحب اولاگ کے مطابق اور موافق ہیں اور مرکز شراعیت سے بال برابر ادھر اُدھر نہیں.ایک دفعہ آپ کو یہ الہام ہوا.( ناله عندلیب (صلاة) ہم نے تمھارے نام کو پسند فرما لیا اور تمھاری اولاد اور تمھارے معتقدین اور مریدوں کے لئے اس میں دونوں جہان کی برکات داخل فرما دیں جو شخص از راہ عقیدت لفظ ناصر کو اپنے یا اپنی اولاد کے نام میں شامل کرے گا اس کی برکت سے ہمیشہ منظفر و منصور رہے گا اور آتش دوزخ
۵۳۰ گی اس پر حرام کر دی جائے گی اور جو شخص اپنی کتاب یا خط کی پیشانی پر ھوالناصر، تحریرہ کہے گا اس کتاب اور خط کے مطالب کو کامیابی ہو (میخانه در دصت) حضرت خواجہ میر ناصر کئی کتابوں کے مصنف اور کئی چیزوں کے موجد تھے.آپ کی داستان حیات تعلق باللہ کے واقعات سے مزین ہے.آپ نے ۲ شعبان و کو وفات پائی.تدفین کے وقت آپ کے بیٹے اور خلیفہ خواجہ میر درد نے کشفا دیکھا کہ سارا وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرمارہے ہیں.خواجہ میر در و ( ۱۳۳ تا ۱۱۹۹) اس خاندان کے عالم با عمل صوفی باصفا نثر و نظم میں کئی کتب کے مصنف اردو کے مشہور شاعر تھے.خاندانی شرافت و بزرگی اور ولایت میں خاص مقام رکھتے تھے اللہ تعالیٰ کی عنایات کے ذکر میں فرماتے ہیں.مجھے حضرت داؤد علیہ السلام کی ولایت کا مقام بخشا حضرت سلیمان علیہ السلام کا مقام ولایت مجھے دیا.حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مقام ولایت مجھے دیا اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کا مقام ولایت مجھے مرحمت فرمایا.پھر حضرت یوسف علیہ السلام کا بھی مقام ولایت مرحمت کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسی علیہ السلام کا مقام ولایت تھی عنایت کیا اور پھر اس جامعیت کے کمال اور اختتام کے لئے ولایت ختم المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم سے مشرف فرمایا اور محمدیت خالص کی پروا میں مجھے چھپایا اور رسول پاک کی ذات میں مجھے فنا کر دیا پیس نہ میں رہا اور نه میرانشان.پھر فرمایا : " مجھے خدا تعالیٰ نے عقل کامل ونفس کامل دروح کامل اور جسید کامل
۵۴ پھر فرمایا کے ساتھ اپنے تمام اسماء کا مظہر پیدا کیا تا کہ میں معرفین کو طریقہ خالصہ محمدیه کی دعوت دول به اور یہ نسبت محمدیہ الخاصہ حضرت امام موعود علیہ السلام کی ذات پاک پرختم ہو گی اور تمام جہان ایک نور سے روشن ہوگا اور اس نیر اعظم کے انوار میں سب فرقوں کے ستاروں کی روشنی گم ہو جائے گی.میخانه درد ر منقول از سیرت اماں جان نصرت جہاں بیگم از شیخ محمود احمد عرفانی پشت در پشت صالحین کے اس سلسلے کے انتہائی خوش نصیب بزرگ حضرت نیر ناصر نواب اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوا انداز اس ماہ میں پیدا ہوئے ، خاندانی ولایت و سجادگی ، فطری نیکی، اور فانی اللہ والدین کی تربیت نے آپ کو نکیسر رو بتجدا کر دیا.آپ کی والدہ اتنی نیک خاتون تھیں کہ قدر کی در بدری میں گھر سے صرف قرآن پاک اٹھایا تھا.حضرت میر ناصر نواب کی سولہ برس کی عمر میں سادات گھرانے میں محترمہ سید بیگم صاحبہ سے شادی ہوئی وہ بھی معروف خاندان سے تعلق رکھتی تھیں.ان کے خاندان کے ایک بزرگ میرزا خواد بیگ ایران سے آئے تھے.اُن کے بیٹے نذر محمد بیگ کی بڑی بیٹی قادری بیگم کے ہاں پیدا ہوئیں.ان کا خاندان بہت پھیلا ہوا تھا.مرزا غالب کے خاندان کو ہارو والوں سے بھی قرابت داری تھی.ان کے نصیب میں مسیحائے وقت سے مہری تعلق جوڑنا لکھا تھا.ان کے ہاں تیرہ بچے ہوئے جن میں سے تین زندہ رہے بڑا اور میں پہلی بیٹی نصرت جہاں پیدا ہوئیں ہوا ہی بشارتوں اور سامانوں سے حضرت مسیح موعود کے عقد میں آئیں.۱۸ جولائی منشاء کو ایک بیٹا پیدا ہوا.حضرت میر ناصر نواب کو مشہور اہل حدیث مولوی نذیر حسین صاحب دہلوی سے عقیدت تھی اپنے بیٹے کو ملانے کے لئے لے گئے
مولوی صاحب نے بچے پہ از راہ شفقت ہاتھ پھیرتے ہوئے یہ شعر پڑھا.برائے کردن تنبیه فتاق دوباره آمد اسمعیل و اسحاق حضرت میر صاحب نے اپنے بیٹے کا نام میر محمد اسمعیل رکھا جب شہداء میں آپ کے ہاں دوسرے بیٹے کی ولادت ہوئی تو اسی شعر کی بہت پر میر حمد اسحق نام رکھا گیا.حضرت میر ناصر نواب کو اپنے ماموں میر ناصر حسین صاحب کے توسط سے محکمہ انہار میں ملازمت مل گئی انہیں کے ذریعے آپ کا تعارف قادیان کے مرزا غلام قادر صاحب (حضرت میں موجود کے بھائی سے ہوا جو کچھ عرصہ محکمہ انہار میں عازم رہے تھے.اُن دنوں حضرت میر ناصر نواب صاحب تلہ نہر کی کھدائی کروا ر ہے تھے کہ اُن کی بیگم کچھ بیمار ہوگئیں.مرزا غلام قادر صاحب نے مشورہ دیا کہ اُن کے والد مرزا غلام مرتضی صاحب STACY سے طبی مشورہ کر لیں.چنانچہ آپ اپنی بیمار بیگم کو لے کہ قادیان آئے.اس طرح دار میں قادیان کی مبارک زمین اور حضرت مرزا غلام مرتضی صاحب کے مبارک خاندان سے تعلق کا آغاز ہوا جو قبول احمدیت اور حضرت مسیح موعود سے مبارک پیوند پر منتج ہوا.حضرت مسیح موعود اور ان کی عروسہ نصرت جہاں بیگم کے رشتہ ازدواج سے ایک ایسے خاندان کا آغاز ہوا میں کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی موجود ہے.مروج ويولد له وہ بابرکت گھر جس میں اس زمانے کی خدیجہ اور اسمعیل و اسحق جیسے نافی اللہ بھائیوں نے پرورش پائی.جنت ارضی کی مثال تھا.حضرت میر ناصر نواب صاحب کی اہلیہ مثالی خاتون تھیں.جماعت احمدیہ میں نانی امان کے لقب سے معروف نہیں.
۵۶ خانوادہ میر درد میں لڑکیوں کو گھر پر ہی قرآن پاک، دینی تعلیم، عربی ، فارسی، اردو پڑھائی بہتی تھی نانی اماں نے اسی سادگی سے تعلیم پائی ہوگی.اللہ تعالیٰ نے اُن میں ایسی خوبیاں یکجا کر دی تھیں جو اچھی بیوی اور اچھی ماں میں موجود ہونی چاہئیں.حضرت میر ناصر نواب صاحب نے حیات ناصر میں بیان فرمایا ہے.اس بابرکت بیوی نے جس سے میرا پالا پڑا تھا مجھے بہت ہی آرام دیا اور نہایت ہی وفاداری سے میرے ساتھ اوقات میری کی اور ہمیشہ نیک صلاح دیتی رہی اور کبھی مجھ پر دباؤ نہیں ڈالا نہ مجھ کو میری طاقت سے بڑھ کر تکلیف دی میرے بچوں کو بہت ہی شفقت اور جانفشانی سے پالا نہ کبھی بچوں کو کو سانہ مارا.اللہ تعالٰی اسے دین ودنیا میں سر خود کھے.....ایسی بیویاں دُنیا میں بہت کم میسر آتی ہیں یہ بھی میری ایک خوش نفیسی ہے جس کا میں شکر گزار ہوں کیئی لوگ بیب دینی اور دنیوی اختلاف کے بیویوں کے ہاتھ سے نالاں پائے جاتے ہیں تو گویا کہ دنیا کی دور نخ میں داخل ہو جاتے ہیں میں تو اپنی بیوی کے نیک سلوک سے دنیا میں ہی جنت میں ہوں.ذلِكَ فَضْل الله يوتيهِ مَنْ يَشَاء والله ذو الفضل العظيم (حیات ناصر مت ۶) آپ نے ایک دعائیہ نظم کہی جس کے تین شعر تو سیدھے در قبولیت تک پہنچے.اسلام پر جبیں ہم ایمان سے مریں ہم ہر دم خدا کے در کی حاصل ہو جہد کسائی جس وقت موت آئے بے خوف ہم سدھاریں دل پر نہ ہو ہمارے اندوہ ایک رائی
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو )
رہا ہے.مہندی کے مقبرے میں ہم پاس پاس سوئیں دنیا کی کشمکش سے ہم کو مے رہائی یہ خوش نصیب جوڑا حضرت اقدس کے قدموں میں پہلو یہ پہلو ابدی نیند سو بچپن کا ایک واقعہ حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کے بچپن کے حالات محفوظ نہیں مگر ایک ایسا واقعہ گذرا ہے جو حضرت میر صاحب کے بچپن کا ہے اور سیح وقت کی صداقت کا ایک نشان بن گیا ہے.۲ ستمبر الہ کی تاریخ کے ساتھ تذکرہ میں درج ہے.ایک دفعہ میری بیوی کے حقیقی بھائی سید محمد اسمعیل کا ارجن کی عمر اس وقت دس برس کی تھی) پٹیالہ سے خط آیا کہ میری والدہ فوت ہوگئی ہے اور اسحاق میرے چھوٹے بھائی کو سنبھالنے والا کوئی نہیں ہے اور پھر خط کے اخیر میں بھی لکھا ہوا تھا.کہ اسحاق فوت ہوگیا ہے اور بڑی جلدی سے بلایا کہ دیکھتے ہی چلے آویں اس خط کو پڑھنے سے بڑی تشویش ہوئی کیونکہ اس وقت میرے گھر کے لوگ بھی سخت آپ سے بیمار تھے...تب مجھے اس تشویش میں یک دفعہ غنودگی ہوئی اور یہ الہام ہوا.إِن كَيْدَ كُنَّ عَظِيم یعنی اے عور تو تمہارے قریب بڑے ہیں.....اس کے ساتھ ہی تفہیم ہوئی کہ یہ ایک خلاف واقعہ بہانہ بنایا گیا ہے تب میں نے شیخ حامل کو جو میرا نو کہ تھا پٹیالہ روانہ کیا جس نے واپس آکر بیان کیا کہ اسحق اور اش
کی والدہ ہر دو زندہ ہیں..( نزول اینچ ص ۲۳ ۲۳۳) حضرت میر صاحب کے الفاظ میں واقعہ کی وضاحت پڑھنے سے اُن کی فطری ماجری اور تقولی کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے فرماتے ہیں.واقعہ یہ ہوا کہ ان دنوں ہم پٹیالہ میں بطور اجنبیوں اور پردیسیوں کے رہتے تھے اور گھر کے صرف چار آدمی تھے یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب حضرت والدہ صاحبہ.یہ خاکسار اور میر محمد اسحاق صاحب.کہ اتنے میں حضرت والدہ صاحبہ کو بخار آنا شروع ہو گیا.اور ساتھ ہی میر محمد اسحاق صاحب کو بھی.والد صاحب قبلہ دفتر چلے جاتے تھے اور میں مدرسہ.والدہ صاحبہ اپنی اور بچے کی بیماری کی وجہ سے سخت پریشان تھیں.حتی کہ ایک دن تو میں نے یہ حال دیکھا کہ بخار کی گھبراہٹ میں کپڑے پھینکتی تھیں اور کبھی اُٹھتی اور کبھی بیٹھتی تھیں.اور سخت بدحواس ہو گئیں تھیں.- میر محمد اسحاق صاحب بھی بخار میں بے چین رہتے اور کبھی بے ہوش پڑے رہتے.اس دن جب دوپہر کو میں اسکول سے آیا تو وہ اسی حالت میں تھیں.فرمانے لگیں کارڈ نے کہ انھی قادیان خط لکھ دے میں کارڈاور قلم دوات لے آیا.اس پر انہوں نے اسی گھبراہٹ میں مجھے کہا کہ اپنی آپا کو خط لکھو کہ تمہاری والدہ فوت ہو گئی ہیں اور اسحاق کو کوئی سنبھالنے والا نہیں ہے.کسی آدمی کو فوراً بھیج دو.میں نے پیشن گر تو دور کیا.بلکہ کچھ پروٹسٹ بھی کیا.انہوں نے اسی گھبراہٹ میں مجھے بھی کچھ سخت سست کہا.اور کہا جو کچھ میں لکھواؤں وہی لکھ.آخر میں میں نے ان کے رعب اور اصرار نے اور ان کی اپنی حالت سجران والی دیکھ کر وہی لکھ دیا.پھر جب یہ مضمون لکھ چکا تو فرمانے لگیں.جس کا مطلب قریباً یہ تھا کہ میں مرگئی تو یہ بھی ہے ماں
۵۹ کے مرجائے گا.یہ لکھ دے کہ اسحق بھی فوت ہو گیا ہے.اور تم دیکھتے ہی فوراً یہاں آجاؤ.چنانچہ میں نے یہ بھی لکھ دیا.اور خط کو ڈال کے بہنے میں ڈال دیا.اس کے بعد دو تین دن میں شیخ حامد علی صاحب مرحوم قادیان سے حضور کے بھیجے ہوئے آگئے ،اتنے میں والدہ صاحبہ کو بخار سے آرام آگیا تھا.(غالباً میر یا تھا) اس وقت سب قبلہ ظاہر ہوا تو حامد علی صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) نے قادیان جا کہ حضرت کے حضور عرض کر دیا.کہ یہ بات یہ تھی.چنانچہ حضور فرماتے ہیں.ہ اور اس خطہ لکھنے کا صرف یہ باعث ہوا کہ چند روز اسحق اور اسمیل کی والدہ سخت بیمار رہیں.اور اُن کی خواہش تھی کہ اس حالت بیماری میں جلد نہ ان کی لڑکی اُن کے پاس آجائے.اس لئے کچھ تو بیماری کی گھراہٹ اور کچھ ملنے کے اشتیاق سے یہ خلاف واقعہ خط میں لکھ کر بھیج دیا.د تریاق القلوب ایڈیشن اول صفحه ۷۴) کل واقعہ یہ ہے کہ والدہ صاحبہ کی بیماری کی سخت گھراہٹ اور بحران اور بیقراری جو اب بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے انکو بہت حد تک معمر قرار دیتی ہے ساتھ ایک دودھ پیتے بچے کا حشر اُن کو نظر آتا تھا کہ کیا ہو گا.اس لئے انہوں نے جلد سے جلد اپنی لڑکی کو قادیان سے بلانے کے لئے ایسا لکھوا دیا.پس کچھ حصہ بیماری کا کچھ خواہش ملاقات کا جو ایسے موقع پر ہوا کرتی ہے الهام إن كيدكن عظيم اب رہی یہ بات کہ الہام ان بد گفت عظیم تو بڑا سخت اور خطرناک الہام ہے سو اس کی بابت یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ زلیخا کے لئے یہ سبب اس کی خاص شرارت کے واقعی یہ الفاظ لفظی اور معنوی طور پر ھیجے تھے لیکن قرآن میں آکر یہ آیت بطور ضرب المثل یا متداول اور متعارف فصیح و بلیغ فقرہ کے لینے چاہیں نہ کہ وہ معنی جو پہلی دفعہ اس
÷ آیت کے لئے گئے تھے.آخرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اپنی ازواج مطہرات کو انت نصواحب یوسف دیا یا تھا وہ بھی اسی رنگ میں فرمایا تھا.انبیاء اور اولیائے کرام کو خدا تعالیٰ معصومیت اور محفوظیت کا مقام دیتا ہے در نہ ہم کہاں اور غلطی اور گناہ سے پاک ہونا چہ معنی ؟ ہاں وہ مرحومہ حضور کے قدموں میں مقبر بہشتی ہیں جگہ پا کر اس بات پر گواہی ثبت کر گیلی کہ ان کو جنت الفردوس میں جگہ مل چکی ہے اور اب اُن کی کسی کمزوری کا ذکر کر نا یا اس کو قابل اعتراض سمجھنا ایسا ہی ہے جیسا کہ ھ گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کہ اور میں جو ابھی زندہ ہوں نہیں جانتا کہ میرا کیا حشر ہوگا.صرف اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت پر امید لگائے بیٹھا ہوں اور میرا دل جانتا ہے کہ ان گناہوں اور غفلتوں کی موجودگی میں جن کا میں مرتکب ہوا ہوں یہ گناہ کچھ مستی ہی نہیں رکھتا اگر کسی دوست کو میرے اعمال نامہ کا ایک صفحہ بھی پڑھنے کو مل جائے تو وہ غالباً اس زمین پر پھر نہ سکے جس پر میں رہتا ہوں اور اس آسمان کے نیچے نہ ٹھہر سکے جس کے نتیجے میں اپنی زندگی گذار رہا ہوں.....اللہ تعالیٰ میری مغفرت فرمائے اور جہنم سے بچائے آمین.ربنا ظلمنا انفسنا وإن لم تغفر لنا وترحمنا لنكونن من الخاسرين مغفرت اور پردہ پوشی کہ مرے آمرزگار تجھ پہ ہیں اعمال اور نیات میری آشکار لاف زہد و راستی اور پاپ دل میں ہے پھیرا ہے زباں میں سب شرف اور پیچ دل جیسے چار سیرت حضرت سیدہ نصرت یہاں حصہ دوم از عرفانی کبیر مست ۲۰ تا ۴ ۳۰)
41 تعلیم تاکہ میں حضرت میر صاحب نے ایف ایس سی کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا.حضرت مسیح موعود اور گھر والوں کا مشورہ تھا کہ ڈاکٹری کی تعلیم حاصل ہوا اس کی تفصیل حضرت میر صاحب خود بیان فرماتے ہیں :- وتشاء میں میں ایف اے کا امتحان دے کر جب قادیاں آگیا تو آتے ہی پہلے تو نتیجہ کا انتظار رہا پھر اس کے بعد یہ کہ اب تعلیم کا رخ کس طرف پھیرا جاوے.دو ماہ کے بعد نتیجہ نکلا تو میں فرسٹ ڈویژن پاس تھا.اس کے بعد حضرت مسیح موعود ا آپ پسرا تھا ہوا اور ان کے تلبیع میں سب کا کا مشورہ یہی تھا کہ ڈاکٹری کی تعلیم شروع کی جارے لیکن مشکل یہ اگر پڑی کہ والد صاحب صرف دس روپے ماہوار خون دے سکتے تھے کیونکہ اُن کی پشن صرف تیس روپے ماہوار تھی مزید یہاں نظریباً ۲۲۰ روپے سالانہ گاؤں کی آمد کا آنا تھا مشورہ تو ہو گیا مگر تعلیم کا خرچ ان کی مقدرت اور حیثیت سے بہت زیادہ تھا یعنی تیس روپے ماہوار عام اخراجات کے لئے اور پچاس روپے سالانہ فیس کالج کی اور قریبا سات سو روپے کی کتابیں و آلات جو مختلف اوقات میں تعلیم کے دوران خریدے جاتے تھے.آخر ایک دن والد صاحب نے گھر میں ذکر کر دیا کہ اس تعلیم کا خرچ میری طاقت سے بڑھ کر ہے میں گاؤں کا سارا روپیہ یعنی دس روپے ماہوار تو اس کو دے سکتا ہوں مگر اس سے زیادہ کی طاقت نہیں رکھتا خیر بابت آئی گئی ہو گئی مگر اکتوبر کا مہینہ نزدیک آرہا تھا جب میڈیکل کالج کا داخلہ ہونا تھا اور میرا اضطراب بڑھتا چلا جا رہا تھا کہ دیکھئے اب دفتر ایگزامینر ریلوے کی کلر کی کہ فی
۶۲ پڑتی ہے یا اور کوئی نوکری کہ اتنے میں ایک دن گھر کی کسی خادمہ نے میرے ہاتھ میں ایک ملفوف خط دیار افسوس وہ خط میرے پاس محفوظ نہیں رہا مگر اس کا خلاصہ مطلب یہ تھا.تم اپنی ڈاکٹری کی تعلیم کے لئے تردد نہ کم و انشاء اللہ مزید جو خرچ در کار ہوگا وہ میں پورا کروں گی اور یہ مت خیال کرو کہ حضرت صاحب سے لے کر دوں گی بلکہ جو میرا ذاتی خرچ ہے اسی سے دیا کروں گی بلکہ انشاء اللہ حضرت صاحب کو بھی اطلاع نہ ہوگی.آخر میں نصرت جہاں لکھا تھا اس کے بعد جب داخلہ کا وقت قریب آیا تو میں نے حضرت والد صاحب سے کہا کہ آپا صاحبہ کا اس مضمون کا خط مجھے ملا ہے اور اب داخلہ قریب ہے آپ تیاری کریں.انہوں نے آپا صاحبہ سے ذکر کیا کہ فلاں تاریخ کو داخلہ ہے اور حمد امیل لاہور ڈاکٹری میں داخل ہونے جا رہا ہے.خیرمیں لاہورگیا.وہاں علم ہواکہ میران بر سب سے اوپر ہے اور سیب فسٹ ڈویژن کے مجھے بارہ پہلے ماہوار وظیفہ بھی ملے گا بفرض نام داخل کا کر میں آگیا یہاں اگر یا ہوار خرجکا یہ انتظام ہوا کہ بارہ پہلے ماہوار وظیفہ سرکاری دوس روپے حضرت والد صاحب کی طرف سے اور دس روپے حضرت اماں جان) کی طرف سے.اس طرح ماہوار خروج بآسانی پورا ہوگیا جو ان دنوں کے مطابق کافی تھا.اب رہیں فیسیں اور کتا ہیں اُن کے لئے پہلے سال تقریباً تین سو روپے داخل کرنا پڑا.دوسرے اور تیسرے سالوں میں قریبا سوروپے اور چوتھے سال پھر قریبا تین سو پچاس روم ہے.آپا صاحب نے ان دس روپے ماہوار اور فیسوں اور کتابوں کے لئے تمام رقم جمع کرنے کی یہ تجویز ہوئی کہ حضرت اماں جان) نے ایک صندوقچی مشتغل جس میں روپے ڈالنے کا سوراخ بنا ہوا تھا.حضرت والدہ
۶۳ صاحبہ کے پاس بطور امانت رکھوا دی اس صند و قیچی میں فقل لگا رہتا تھا اور دوسرے تیسرے روز حضرت اماں جان ) جو دربیہ ان کے پاس ذاتی خرچ کا ہوتا تھا اس مندو تھی میں ڈال دیا کرتی تھیں میں میں سے دس روپے ماہوار والد صاحب کے دس روپیوں کے ساتھ مجھے لاہور پہنچ جایا کرتے تھے.تو پچاس روپے فیس کے اور چار سو روپے نئی کتابوں کی قیمت دستی لے جایا کرتا تھا.ان دنوں لاہور کے اخراجات بمقابل آج کل کم ہوا کرتے تھے میں اپنے تیس پینتیس روپے ماہوار میں سے ایک مکان کرا یہ پھنٹے کو رہا کرتا تھا اور ایک ملازم لڑکا بھی جو باورچی کا کام کر سکتا ہوں کھا کرتا تھا اور ہم دونوں کا کھانا، سقہ، خاکروب، نائی، دھوبی اور بالائی اخراجات سب اس میں پورے ہو جاتے تھے.کپڑے رخصتوں کے ایام میں قادیان میں بن جایا کرتے تھے.ساتھ ہی خدا نے یہ فضل بھی فرمایا کہ مجھے پانچون سال برابہ سرکاری وظیفہ ا آ رہا.اس طرح میری میڈیکل کالج کی تعلیم اس طرح ختم ہوئی جس میں بیشتر حصہ حضرت اماں جان) کی طرف سے اور کچھ میرے وظیفہ کا اور دس روپے ماہوار حضرت والد صاحب کی طرف سے حصہ تھا.اسیرت حضرت اماں جان) نصرت جہاں بیگم ۲۲ تا ۲۶) شقیق بہین نے معزرت نفس کا خیال رکھا اور رازداری سے اپنا قول ہنجھایا اس کا گہرا.اثر حضرت میر صاحب کے دل پر مسلسل رہا فرماتے ہیں.جو روپیہ ان کو ذاتی جیب خرچ کے لئے ملتا تھا اس میں مسلسل اتنے سال اپنے پرشنگی ترستی گوارا فرما کہ انہوں نے میرے پر اتنا بڑا احسان فرمایا جس کے اظہار کا موقع اس سے بہتر اور کوئی نہیں ہو سکتا ان کا
ས་ ایتاء ذی القربی ان کی لمبی اور مسلسل قربانی اور مجھے پر ان کی خاص شفقت اور محبت کے اخلاق فاضلہ کو آئندہ نسلوں کے لئے بطور سبق کے پیش کروں.یہ تو صرف ایک خاص واقعہ ہے جس کا علم چونکہ عام لوگوں کو نہیں ہے اس لئے لکھ دیا ہے ورنہ جو ان کے احسانات مجھ پر نہیں ان کا بیان نہیں ہو سکتا.اور سب سے بڑھ کر یہ احسان کہ ان کے تعلق کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے ایک ایسے عظیم الشان شخص سے ہمارا پیوند کرا دیا کہ اس کے شکر سے ہماری زبانیں بالکل قاصر ہیں.آپ میڈیکل کالج کے آخری سال میں تھے جب ۲ اپریل شاہ کو کانگرہ میں شدید زلزلہ آیا.اس روز کئی دوستوں کے خط حضرت مسیح موعود کی خدمت میں پہنچے کہ ہم کو خدا تعالے نے اس آفت سے بچالیا مگر حضرت میر صاحب کے متعلق کوئی خیریت نامہ تین دن سے موصول نہ ہوا.جس پر حضرت مسیح موعود نے دعا کی تو الہام ہوا.اسٹنٹ سرجن خدا کی قدرت آپ اس سال میڈیکل کالج لاہور کے آخری امتحان میں پنجاب بھر میں اول پر پاس ہو کہ اسسٹنٹ سرجن مقرر ہوئے.شروع میں آپ کی تقرری دہلی میں ہوئی پھر شاہ میں میوہسپتال لاہور کے علاوہ پانی پت گوجرہ ، چکوال سرحد ضلع حصار لائل پور (فیصل آباد) فاضل کا ضلع فیروز پور اور گورہ پورمیں مرین مقرر ہوئے.پھر سول سرجن بھی رہے اور ۱۹۳۶ء میں ریٹائر ہوئے.اخبار بدر ۲۰ جولائی شنہ میں آپ کی کامیابی کی خبر شان سے شائع ہوئی.
40 بلد نمبر 14 جلدا بسم الله الرحمن الرحيم ۲۰ جولائی ۱۹ نحمده و سیسیلی علی رسولہ الکریم ڈاکٹر سیدمحمد امیل صاحب کا اسسٹنٹ سرجنی کا امتحان اور صاحبان بصیرت کے واسطے ایک نشان اللہ تعالیٰ کے لئے سب حمد و ثناء ہے.جو اپنے بندوں کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے اور ان کی محنتوں کو بار آور کرتا ہے.اُس کا بڑا شکر اور احسان ہے کہ مکرمی جناب میر ناصر نواب صاحب کے فرزند ارمند محبی اخویم میر محمد اسمعیل صاحب جن کو اس عاجز کے ساتھ مدت سے ایک خاص محبت کا تعلق ہے میڈیکل کالج کے آخری امتحان میں کامیاب ہوئے.اور نہ صرف یہی بلکہ تمام پنجاب یو.پی اور سنٹرل انڈیا میں اول رہ کر نہایت عمرت کے ساتھ پاس ہوئے.یہ کامیابی نہ صرف احمدیہ برادران کے واسطے بلکہ عام مسلمانوں کے واسطے بھی ایک بڑی خوشی کا موجب ہے اور قابل فخر ہے.بالخصوص اس واسطے کہ میر صاحب موصوف زمانہ تعلیم کالج میں ہمیشہ اعلیٰ اخلاق کے ساتھ کالج کے طلباء اور اساتذہ کو ایک سچے مسلمان کی زندگی کا نمونہ دکھاتے رہے ہیں.اور اپنے فرہن رسا اور نکتہ رسی طبیعت کے ساتھ اپنے یک چلن سے احمدیت کا ایک موثرنمونہ ثابت ہوئے ہیں، اللهم ودفتردو لیکن ان سب باتوں سے بڑھ کر جس بات نے ان کی کامیابی کو ایک بڑی بھاری خوشی کا موقع بنا دیا ہے.وہ یہ ہے کہ ان کی کامیابی کے متعلق خداوند علیم وخبیر نے پہلے سے اپنے برگزیدہ رسول کی معرفت خبر دے دی تھی.اور وہ واقعہ اس طرح سے ہوا تھا کہ ہم اپریل شاد کو جب کہ زلزلہ آیا تھا.اس
44 ون لاہور سے کئی دوستوں کے خطوط آئے شاید وہ بیس کے قریب خط ہوں گے.ہر ایک دوست نے اپنی خیر و عافیت سے اطلاع دی کہ ہم کو خدا وند تعالٰی نے اس آفت سے بچا لیا.مگر میر محمد اسمعیل صاحب کا ایک خط بھی نہ آیا.حالانکہ ان کی عادت تھی کہ ذراهی عجوبہ بات سے اپنی والدہ صاحبہ اور ہمشیرہ صاحبہ کو اطلاع دیا کرتے تھے.پہلے دن تو اُن کی والدہ صاحبہ اور ہمشیرہ صاحبہ نے صبر کیا اور سمجھا کہ شاید کل خط آجائے گا.پھر دوسرے روز بھی کوئی خط نہ آیا.تب ان دونوں کا دل مارے غم کے دھڑکنے لگا.اور سخت پریشانی ان کے لاحق حال ہوئی اور یہ سمجھا کہ اب خیر نہیں بشاید کسی مکان کے نیچے دیے گئے ہوں پھر تیسرے روز بھی کوئی خط نہ آیا.اور کسی دوست نے بھی نہ لکھا.کہ میرمحمد اسمعیل صاحب خیر و عافیت سے ہیں.نیب اُن دونوں کی حالت مارے غم کے قریب موت کے ہوگئی اور حضرت کو دعا کے واسطے کہا.حضرت نے ان کا سخت قلق اور رنج دیکھ کہ بہت توجہ سے دُعا کی.تو جواب میں یہ الہام ہوا یہ اسسٹنٹ سرجن ".اس وقت سمجھ نہ آیا.کہ اس دُعا کے ساتھ اسسٹنٹ سرجن کا کیا علاقہ ہے.بعد اس کے میر محمد اسمعیل صاحب آگئے.اور ان سب کو تسلی ہوئی.حضرت اماں جان پاتے اس الہام کو خوب یادر کھا اور وہ ہمیشہ فرمایا کرتی میں.کہ اسمیل پاس ہو جائے گا.کیونکہ جب زلزلہ کے وقت اس کی خیر و عافیت کے لئے دُعا کی گئی.تو الہام ہوا.کہ اسسٹنٹ سرجن.اس کا یہ مطلب تھا کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے کہ وہ کسی مکان کے نیچے دب گیا ہے.اس کے لئے تو مقدر ہے.کہ وہ اسسٹنٹ سرجن ہو جائے.غرض یہ موقع ایک نہیں.بلکہ کئی طرح کی خوشیوں کا موقعہ ہے جس پر ہم صدق دل کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کو مبارک باد دیتے ہیں.اور جناب میر ناصر نواب صاحب اور عزیزی میر محمد اسحق صاحب رضا اس کو ہمیشہ صحت و عافیت کے ساتھ رکھے) اور ان کی والدہ صاحبہ اور تمام احمدی برادران کو مبارکباد دیتے ہیں.اور
46 اور میڈیکل کالج کے اسٹاف کو مبارکباد کہتے ہیں.جن کی شاگردی میں ایک ایسا لائح ہونہار ڈاکٹر نیا.اور بالآخر دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی میر صاحب موصوف کے واسطے یہ کامیابی دین و دنیا میں حسنات کا موجب اپنی رضامندی کے حصول کا باعث بنائے.اور انسانی ہمدردی کے اس بچے خیر خواہ ہن میں خداتعالی میر صاحب کو دن یدان قائد و خیش علم میں ترقی عطا فرمائے.اور ان کا وجود سلسلہ حقہ احمدیہ کے واسطے بڑے بڑے برکات کا موجب ور آمین ثم آمین.
YA حضرت میر محمد اسمعیل کی شادیاں اور اولاد حضرت میر محمد اسمعیل کی شادی کے لئے پہلی تجو یز ان کی پھوپھی زاد سے ہوئی.اس نسبت پر آپ کے والدین متفق تھے اور بہن بہنوئی بھی.یعنی حضرت اقدس مسیح موعود اور حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں.بچپن میں ایا جان کی نسبت آپ کی پھیپھی زاد سے کر دی گئی.جیسا کہ پرانے وقتوں میں رواج تھا جب ابا جان کی تعلیم مکمل ہوئی تو آپ کو اب شادی کے لئے کہا گیا لیکن ابا جان مانتے نہ تھے اور عذر صرف یہی تھا.کہ دینی طور پر ان کی تربیت اس ماحول میں نہیں ہوئی.حضرت سیدہ نے ابا جان کو بہت کہا مگر آپ نہ مانتے تھے اس لئے بھی کہ حضرت میر محمد مفق صاحب کا رشتہ پہلے طے ہو گیا تھا.آخر حضرت مسیح موعود سے اس امر کا تذکرہ ہوا کہ ہم گھر والوں کی یہ خواہش ہے لیکن میر صاحب نہیں مانتے حضور نے فرمایا لاؤ مجھے کاغذ قلم دو اور آپ نے میر صاحب کے نام نے فرمایا اور نے کچھ لکھا اور میر صاحب نے ہتھیار ڈال دیئے جب دیمہ تک ان کے لطین سے کوئی اولاد نہ ہوئی تو حضرت مرزا محمد شفیع صاحب محاسب صدار تخمین احمدیہ کی صاحبزادی سے دوسری شادی ہوئی جس سے خدا تعالیٰ نے کثیر اولاد عطا فرمائی (دو بھائی ص۳۳) پھپھی زاد سے شادی کے لئے آمادہ کرنے میں آپ کی مہربان آپا کا بھی حصہ تھا.
۶۹ بہت محبت سے مخلصانہ مشورہ دیا.تمھارا خط میں نے پڑھا میرے نزدیک اس موقع کو ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیئے.تم ابھی بچہ ہو تمہیں معلوم نہیں کہ رشتہ ناتا کے وقت کیسی کیسی مشکلیں پیش آتی ہیں اور خاندان جو کسی طور سے عیب نہ رکھتا ہو کسی طرح مشکل سے ملتا ہے اور نئی جگہ میں کیسی کیسی خرابیاں نکل آیا کرتی ہیں.اب خدا نے بشیر الدین کو دوسری طرف سے روک کر تمہاری طرف توجہ دی ہے یہ خدا کا کام ہے اس کی قدر کرنی چاہئیے اگر اس وقت انکار کرو گے تو یہ خدا کے کلام کی بے قدری اور ناشکری ہے بلکہ مجھے ڈر ہے کہ اس ناشکری کی شامت سے مدت تک کوئی دوسرا موقع پیش نہ آوے.اس لئے میں تمہیں صلاح دیتی ہوں کہ اپنے دل کو سمجھاؤ اور جو حضرت صاحب نے لکھا ہے ضرور اس پر عمل کر لو.اللہ تعالی قرآن شریف میں فرماتا ہے بہت سی ایسی باتیں ہیں کہ تم ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہو اور وہ باتیں تمہارے لئے بہتر ہوتی ہیں.اسی غرض سے میں نے یہ خط لکھا ہے.اور مجھے بہت خوشی ہوگی جب میں تمہارا یہ خط پڑھوں گی کہ لو میں نے تمہاری بات مان لی اور اپنی ضد چھوڑ دی اور اس کا جواب مجھے جلدی لکھو کہ سکند رہ جانے کے لئے ہم تیار بیٹھے ہیں.از قادیان والده محمود احمد اس خط کے مندرجات نے بھائی کو قائل کردیا اور کمال اطاعت سے کام لیتے ہوئے رضامندی دے دی چنانچہ آپ کی پہلی شادی جولائی تاکہ میں اپنی پھوپھی زاد محترمہ شرکت سلطان صاحبہ سے ہوئی.
دوسری شادی محترم سیده امته اللطیف صاحبہ بنت حضرت مرزا محمد شفیع صاحب دہلوی (محاسب صدر انجمن احمدیہ) سے شاہ میں ہوئی ، اُن سے اللہ تعالٰی نے تین بیٹے اور سات بیٹیاں عطا فر مائیں.سیده مریم صدیقیہ اہلیہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ ثانی.سیدہ امتہ اللہ حکیم اہلیہ پیر صلاح الدین صاحب - سیدہ طیبہ صدیقہ صاحبہ اہلیہ نواب مسعود احمد خان صاحب م سید محمد احمد صاحب بیگم متر مراته اللطیف صاحبه بنت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب -۵ سیدہ امتہ القدوس صاحبہ المیہ میاں وسیم احمد صاحب قادیان سید احمد ناصر صاحب بیگم ریحانه با سمه صاحبه بنت مرزا عزیز احمد صاحب سیده امته الرفیق صاحبہ اہلیہ سید حضرت اللہ پاشا صاحب - سیده امته السمیع صاحبہ المیہ مرزا رفیع احمد صاحب سید محمد امین صاحب بیگم دا شده میاد که بیگم صاحبه ۱۰ سیده امتہ الہادی صاحبہ اہلیہ کرنل ضیاء الدین صاحب الصفر حضرت میر صاحب پنشن لینے کے بعد قادیان تشریف لے آئے تھے اور آپ حضرت مولوی شیر علی صاحب کے مکان واقع دارالعلوم سے متصل اپنے مکان دارالصفہ میں رہائش پذیر ہو گئے تھے.حضرت مولوی شیر علی صاحب شروع میں دار المسیح اور اس کے قرب وجوار میں رہتے تھے.۱۹۱۳ء کے آخر میں آپ نے دار العلوم میں اپنے رہائشی مکان کی بنیاد رکھی اور اس کے بعد جلد ہی نانا جان حضرت میر ناصر نواب نے حضرت میر صاحب کا مکان دارالصفہ بنوایا.جہاں پہلے پہل حضرت ڈاکٹر صاحب کے سلسلہ ملازمت
41.باہر رہنے کے ایام میں ان کے چھوٹے بھائی حضرت میرا اسحق اپنے خاندان سمیت لیے عرصہ یک قیام فرما ر ہے.( تاریخ احمدیت جلد دہم م) آپ کا اندرون شہر ایک اور مکان تھا جس کا نام کئے عافیت ، آپ نے رکھا تھا.وہ آپ نے سلسلہ کے لئے وقف کر دیا تھا.پہلے افضل کا دفتر اس میں تھا.ہجرت کے بعد اس میں ہسپتال بنایا گیا.خدمات ردو بھائی ص ۲۳) حضرت اقدس مسیح موعود کے زیر سایہ پرورش پانے ، ان گنت نشانات کے چشم دید گواہ ہونے اور حضرت اقدس کی تحریرات و تقاریر نے آپ کے ذات میں وہ روح پھونک دی جو زبان حال سے اقرار کرتی.إِنَّ صَلاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَانِ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين ایسے فنا فی الله وجودوں کی خدمات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا.حضرت اقدس میسج موعود نے ایک خدمت کا ذکر فرمایا ہے.میر محمد اسمعیل انچارج پلینگ ڈیوٹی گورداسپور ملفوظات سوم ماه جنوری اور میں صدر انجمن حمدیہ قادیان کا قیام عمل میں آیا توحضرت اقدس نے آپ کو بھی مجلس معتمدین کا ممبر نامزد فرمایا.پدر ۲۴ فروری شد ۱۹۳۳ء میں حضرت مصلح موعود نے سفر یورپ کے دوران آپ کو نا ظر اعلی تجویز فرمایا.اس اعتماد اور حسین منی کے ساتھ.ان کے دل میں حضرت مسیح موعود کی محبت بلکہ عشق خاص طور پر پایا جاتا
۷۲ ہے اس محبت کی وجہ سے روحانیت کا ایک خاص رنگ ان میں پیدا ہو گیا ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں ایسی ٹھوکر سے جو دوسروں کو لگ جاتی ہے یانگ سکتی ہیں خدا نے ان کو محفوظ کیا ہوا ہے اور میں امید کرتا ہوں کہ اس تعلق کی وجہ سے جو برکات اُن پر نازل ہوتی ہیں ان کے باعث جماعت کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گئے.(خطبہ جمیعہ اور جولائی ۱۹۲۴) حضرت مصلح موعود حضرت میر صاحب پر اتنا اعتماد فرماتے کہ جب کوئی کمیشن مقرر فرماتے تو میر صاحب ممبر ہوتے یا صدرر علیه و عادات مبارکہ قد در میانه رنگ گندمی وجیه تمری چہرہ عشق الہی اور محبت رسول کا تو چہرہ پر عیاں.کشادہ پیشانی بستواں ناک رگھنی داڑھی اعضاء بھاری رحیم بھر بھرا باد قار چال.بات بہت نرمی سے کرتے لیکن ترازو میں تول کر تقریر کی بجائے تحریہ کو اپنے مافی الضمیر کی ادائیگی کا ذریعہ بنایا مسائل پر دقیق اور گہری نظر ڈالئے.آپ کے مضامین اجاب شوق سے پڑھتے.آپ کی مجالس دینی و علمی گفتگو پشتمل ہوتیں.طبیعت میں زہد تھا دنیا کی زخرفات انہیں اپنی طرف متوجہ نہ کر سکیں.وہ دنیا میں رہتے ہوئے بھی اس دنیا میں نہ تھے گویا آپ کی زندگی اس شعر کی مصداق تھی.در جهان و باز بیرون از جہاں بس نہیں آمدنشان کاملاں کاموں کی یہی نشانی ہے کہ وہ دنیا میں رہتے ہوئے دنیا میں نہیں ہوتے ( دو بھائی غلام باری سیف)
۷۳ آپ کی سیرۃ کے ایک موقر گواہ جناب محترم شیخ محمد اسمعیل پانی پتی صاحب تحریر فرماتے نہیں.اُستاذی المحترم حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل عجیب و غریب قابلیتوں اور حیرت انگیز صلاحیتوں کے مالک تھے وہ اگرچہ ہر لحاظ سے ایک ممتاز حیثیت اور ایک بلند شخصیت رکھتے تھے لیکن انہوں نے کبھی اپنے آپ کو بڑا آدمی نہ سمجھا اور نہایت فروتنی اور بڑی خاکساری کے ساتھ اپنی زندگی گزاری ان کی صورت فرشتوں جیسی اور ان کی سیرت ولیوں جیسی تھی.وہ نہایت ہنس نکه نهایت ملنسار، نهایت خوش گفتار اور نہایت بذلہ سنج اور نہایت خوش اخلاق انسان تھے.جو شخص ایک مرتبہ ان سے مل لیتا تھا وہ ہمیشہ کے لئے ان کا گرویدہ ہو جاتا تھا.اُن کی باتوں میں ایسی مٹھاس اور ان کے کلام میں ایسی شیر بنی تھی کہ مال لے ختیار ان کی طرف کھینچے چلے جاتے تھے وہ اپنے اعلیٰ اوصاف اور اپنی بہترین عادات کے مائے سلف صالحین کا ایک دلکش نمونہ تھے.ہمدردی خلائق اور بہبودی اخوان ان کی گھٹی میں پڑی ہوئی تھی.نیکی و شرافت احسان و مروت کا وہ ایک مجسمہ تھے عقل و دانش اور فہم و فراست میں وہ اس حدیث نبوی کے مصداق تھے کہ انتو بِفَراسَةِ المومِنِ وَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُور الله ان کے پاس بیٹھنے اور ان کے پر حکمت کلمات سننے سے جو روحانی سرور حاصل ہوتا تھا اس کی کیفیت الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی ان کا انداز بیاں نہایت دلچسپ اور ان کی گفتگو نہایت پُر لطف ہوتی تھی.پارسائی اور پرہیز گاری ان کی طبیعت ثانیہ بن چکی تھی.اُحد اور اتقا کی روشن کر نہیں ان کے حسین چہرے سے پھوٹ پھوٹ کر نکلتی تھیں.ان کی شفاف پیشان سيماهم في وجوههم مِنْ أَثَرِ السُّجُود کا نقشہ پیش کرتی تھی طبیعت نہایت سادہ پائی متقی غرور و تکبر فخر وتبختر ان میں نام کونہ تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی الفت اور قرآن کی محبت ان کی رگ رگ میں بھری ہوئی تھی وہ میں والہانہ طور پر حضور
۷۴ علیہ السلام کا ذکر کیا کرتے تھے اور میں عمدگی اور خوبی کے ساتھ قرآن کریم کے معارف اور نکات بیان کیا کرتے تھے انہیں سن کر دل چاہتا تھا کہ یہ سلسلہ تقریر کبھی ختم نہ ہو.میرا ان کا تعلق ۳۲ سال رہا اور میں نے ان کے باطن کو ظاہر سے اچھا پایا.جہاں ذاتی کیریکٹر کے لحاظ عجیب انسان تھے وہاں بلند پایه انشا پرداز، فصیح البیاں مقره اش گفته رقم مصنف، قادر الکلام شاعر اور نہایت صوفی منش بزرگ بھی تھے.ان محامد کے ساتھ وہ اپنے فن میں بھی تمام پنجاب میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے.نہایت حاذق ڈاکٹر اور نہایت ماہر سرجن تھے بالخصوص آنکھوں کے آپریشن میں بھی ان کا کوئی عدیل و سہیم نہ تھا نہ تھا وہ جب تک مجھے اپنے اعلیٰ اخلاق اپنے وسیع علم اور اپنے فنی تجربہ سے خلق خدا کو فیض پہنچاتے رہے.(بخار دل)
<8 بیماری اور حضرت خلیفہ ایسے مصلح موعود کی دعائیں ملازمت سے ریٹائر ہونے کے بعد آپ کی صحت کمزور ہو گئی اور اکثر بیمار رہنے لگے.مارچ اپریل ۹۴ سے آپ کو دمہ کے شدید دورے شروع ہو گئے.وسط جون میں حالت نازک ہو گئی.حضرت مصلح موعود نے جولائی ۹۴ کے خطبہ جمعہ میں دعا کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا : ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب قریباً ایک ماہ سے سخت بیمار ہیں اور اب وہ بہت ہی کمزور ہو چکے ہیں اور دو دن سے ان پر قریباً بیہوشی کی سی حالت طاری ہے.ہماری جماعت ابھی تک بہت سی تربیت کی محتاج ہے اور تربیت کے لئے صحابہ کا وجود بہت ضروری ہے.اب حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے بہت تھوڑے صحابہ باقی رہ گئے ہیں خصوصاً ایسے صحابہ جو حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو کے ابتدائی زمانہ کے حالات سے واقف ہیں اور جنہوں نے آپ کے ابتدائی ایام سے ہی آپ کی صحبت سے فیضان حاصل کئے تھے ان کی تعداد بہت ہی کم رہ گئی ہے اس لئے ایسے لوگوں کا وجود حجابات کی ایک قیمتی دولت ہے اور جتنا جتنا یہ لوگ کم ہوتے چلے جاتے ہیں اتنا ہی جماعت کی روحانی ترتی بھی خطرہ میں پڑتی چلی جاتی ہے.اور چونکہ رفقاء کا وجود ایک قومی دولت اور قومی خزانہ ہوتا ہے.اس لئے جماعت کے افراد پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ایسے موقعہ پر خاص طور پر ڈھائیں کریں تا کہ یہ خزانہ ہمارے ہاتھوں سے جاتا نہ رہے اور اللہ تعالٰے رفقاء احمد کے وجود کو ایک لیے عرصہ تک قائم رکھے تاکہ جماعت ایسے مقام پر پہنچ جائے کہ
24 وہ روحانی طور پر اپنے پاؤں پر آپ کھڑی ہو سکے اور جماعت کے اندر ایسے نئے وجود پیدا ہو جائیں جو اپنی قربانی اپنے اخلاص اور اپنے تقویٰی کے لحاظ سے صحابہ کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہوں.جہاں تک جانی اور مالی قربانیاں کرنے والے ہیں اور اس کے لئے ان کے اندر بہت زیادہ جوش بھی پایا جاتا ہے مگر روحانی رنگ ظاہری قربانیوں سے پیدا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنا اس کے کلام پر غور کرنا، اس کی صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنا اور دوسروں کے اندر بھی ان صفات کو پیدا کرنا اس کا نام روحانیت ہے محض قربانیاں تو غیر اقوام اور غیر مذاہب کے لوگوں میں بھی پائی جاتی ہیں.جو چیز دنیا کی دوسری قوموں کے اندر نہیں پائی جاتی اور صرف الہی جماعتوں میں ہی پائی جاتی ہے وہ اللہ تعالٰی کی محبت اور صفات الہیہ کو اپنے اندر جذب کرنا اور لوگوں کو ان چیزوں کی طرف توجہ دلاتا ہے اور یہی اصل روحانیت ہے.اس کے بعد دوسری چیزوں کا نمبر آتا ہے " الفضل ، جولائی ۱۹۴۷، ص۱-۲) حضرت میر صاحب کے علاج معالجہ کی ہر ممکن کوششیں جاری تعیین حضرت ڈاکٹرحمہ اللہ خان صاحب کیپٹن ڈاکٹر شاہنواز صاحب اور صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب شب وروز اس خدمت پر متعین تھے.ڈاکٹر عبد الحق ص ب ڈینٹل سرجن لاہور سے اور ڈاکٹر محمد یعقوب صاحب ماہر ایکس رے امرتسر سے بیگوائے گئے.مگر منشاء الہی کچھ اور تھا.24 وفا (جولائی) کو آپ پر نمونیہ کا سخت حملہ ہوا جس سے پھیپھڑے بھی بہت متاثر ہو گئے اور غشی میں بھی اضافہ ہو گیا.اسی عالم میں ۱۸ روقار جولائی جمعہ کا دن آگیا اور حالت تیزی سے بگڑنے لگی.اس تشویشناک مرحلہ پر حضرت مصلح موعود ان کی کوٹھی ( دار الصفہ میں تشریف لے گئے.نور ہسپتال کے تمام ڈاکٹر بھی پہنچے گئے.معائنہ کے بعد علاج کا مشورہ ہوا حضور نے سب سے پہلے فرمایا کہ آکسین دی جائے جولاہور کے سوانہ مل سکتا تھا.آخر معلوم ہوا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے کارخانہ میں کمرشل آکسیجن ہے وہ لاکرہ شروع کر دی گئی میں سے
" چہرہ کی نیلاہٹ سُرخی میں تبدیل ہوگئی.پھر نسلین کا ایک لاکھ یونٹ دیا گیا اور ساتھ ہی کو نین کا میکہ بھی.مگر بے ہوشی میں کمی نہ ہوئی اور ساتھ ہی ۱۰۴- ۵ تک بخار ہو گیا.اس موقع پر حضرت مصلح موعود نہایت میرا اور اطمینان سے ڈاکٹروں کو ضروری ہدایات دیتے رہے.ساڑھے چھ بجے شام کے قریب حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب نے سورہ یسین کی تلاوت نہایت سوز اور درد میں ڈوبی ہوئی آواز کے ساتھ شروع کر دی.خاندان حضرت مسیح موعود کی قریباً سب خواتین اور بزرگان اور صاحبزادگان خاموشی سے اپنا اپنا حق خدمت ادا فرما رہے تھے جن میں پیش پیش حضرت میر صاحب کی اہلیہ ثانی تھیں.ساڑھے سات بجے کے قریب جبکہ حضرت المصلح الموعود اور ڈاکٹر شاہنواز خاں صاحب محنت میں حضرت میر صاحب کی حالت پر تبصو کر رہے تھے کہ اچانک اندر سے آواز آئی کہ جلدی آئیں حالت خطر ناک ہے.اس پر حضور مع ڈاکٹر صاحب اندر تشریف لے گئے.دیکھا کہ حضرت میر صاحب کا سانس اکھر رہا ہے اور نبض بالکل بند ہے.سات بجبکہ چالیس منٹ پر آپ نے آخری سانس لیا.آہ ! وہ سانس کیا تھا ، صرف مبارک اور پیارے لبوں کی آخری معمولی سی جنبش متقی اور قلب کی حرکت ہمیشہ کے لئے بند ہوگئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.اس سانحہ ارتحال کے بعد حضرت مصلح موعود نے وضو فرما کر خدام کو نماز مغرب پڑھائی اور حضور نے آپ کی وصیت کے مطابق فیصلہ فرمایا کہ آپ کو حضرت نانی اماں کی تیر اور دیوار کے درمیان قطعہ خاص میں جگہ دی جائے.پھر حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.میں شام کے قریب ڈاکٹر شاہنواز خان ناقل صاحب کو ساتھ لے کر ٹیل رہا تھا کہ میری نگاہ سامنے کے مکان پر پڑی جہاں زروسی دھوپ نظر آرہی تھی گویا تین چار منٹ سورج غروب ہونے میں تھے.اس وقت میں نے اس خیال سے کہ شاید میر صاحب کی طبیعت پر کسی خواب کی بناء پر یہ اثر ہو کہ جمعہ :
وفات کا دن ہے اور اگر یہ تین چار منٹ خیریت سے گذر جائیں تو ایک ہفتہ (یعنی اگلے جمعہ تک زندگی اور بڑھ سکتی ہے دعا کرنی شروع کی مگر جلد ہی اندر سے بلاوا آگیا کہ میر صاحب کا سانس اکھڑ رہا ہے.؟ الفضل و اگست ۱۹۴۷، ص۵۷۲) حضرت میر صاحب کی المناک وفات کی خبر آناً فاناً قادیان کے گوشے گوشے میں پھیل گئی اور بہت سے احباب آپ کی کوبھٹی پر جمع ہونا شروع ہو گئے.آپ نے عرصہ ہوا اپنی تجہیز وتکفین سے متعلق خود مفصل ہدایات وصیت کے طور پر تحریر فرما دی تھیں حتی کہ اپنے کفن کا بھی انتظام فرما لیا تھا.چنانچہ رات ہی کو آپ کی وصیت کے مطابق حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب قادیانی ، جناب شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی اور جناب حکیم عبد اللطیف صاحب گجراتی نے آپ کو غسل دیا اور تجہیز و تکفین کی.اگلے دن ( ۱۹ و فالر جولائی) کو صدر ضمین کے تمام دفاتر اور تعلیمی اداروں میں تعطیل کر دی گئی.صبح ہی سے احباب اور خواتین آپ کی کوشٹھی پر جمع ہونا شروع ہو گئے.آٹھ بجے کے قریب سید نا حضرت مصلح موعود بھی تشریف لے آئے.اور ایک بڑے مجمع کے درمیان آپ کا جنازہ اٹھایا گیا.راستے میں مجمع پر لیے بڑھتا چلا گیا.ہر شخص جنازہ کو کندھا دینے اور اس طرح ایک ایسے وجود کا حق الخدمت ادا کرنے کی کوشش کر رہا تھا جو عمر بھر نہایت بے نفسی کے ساتھ بنی نوع انسان کی دینی اور دنیوی خدمت کرتا رہا.جب جنازہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے باغ میں پہنچا تو حضرت مصلح موعود نے اپنی نگرانی میں صفوں کو درست کر دیا اور پھر ایک بہت بڑے مجمع کے ہمراہ جو انیس لیسی صفوں پر مشتمل تھا نماز جنازہ ادا فرمائی.نماز جنازہ میں شامل ہونے والے افراد کی تعداد کا اندازہ چھ اور سات ہزار کے درمیان ہے.نماز جنازہ کے بعد حضرت المصلح الموعود نے اپنے دست مبارک سے کفن کا منہ کھولا اور حضرت میر صاحب کی پیشانی پر بوسہ دیا.پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اور پھر
69 خاندان مسیح موعود کے دیگر افراد نے باری باری بوسہ دیا.اس کے بعد حضور جنازہ کے قریب ہی زمین پر خدام کے ہمراہ تشریف فرما ہو گئے اور احباب کو تنظیم کے ماتحت حضرت میر صاحب کا چهره آغری یار دیکھنے کا موقعہ دیا گیا.آپ کا چہرہ با وجود طویل علالت کے بہت با رونق شگفتہ اور نورانی نظر آتا تھا.بعد ازاں جنازہ اٹھایا گیا.حضرت مصلح موعود نے قبر تک نعش کو کندھا دیا.حضور خود قبر میں اُترے اور میر داؤد احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسحق صاحب اور میر سید احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسمعیل صاحب نے نعش کو لحد میں انا را حضرت میر صاحب کی قبر میں حضور نے اپنے دست مبارک سے مٹی ڈالی.قبر تیار ہو جانے پر حضور نے دعا فرمائی اور پھر واپس تشریف لے آئے؟ الفضل ۲۱ جولائی ۱۹۴۷ ص۲) حضرت میر محمد اسمعیل صاحب سلسلہ کے چوٹی کے بزرگ، ولی اللہ، نہایت بلند پایہ رفیق اور ایک زبر دست ستون کی کی حیثیت رکھتے تھے.آپ کا انتقال ایک زبر دست قومی صدمہ تھا جس کو جماعت احمدیہ نے عموما اور رفقاء مسیح موعود نے خصوصا بہت محسوس کیا اور آپ کی وفات پر نہایت گہرے رنج و غم کا اظہار کیا.( تاریخ احمدیت جلد دہم) 1
? حضرت ڈاکٹر میر محمد اسامیل صاحب کا حال ہزاروں ایجاب کی دلی دعاؤں کے ساتھ حضرت احمد کی گود میں تربیت پانے والے عظیم الشان رفیق اور ولی اللہ کو دفن کیا گیا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون قادیان و ارماہ دیا.جیسا کہ الفضل کے گزشتہ پرچے میں اطلاع دی جاچکی ہے.سیدنا حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے برادر نسبتی.حضرت اماں جان اطال الله بقاءھا کے حقیقی بھائی اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ماموں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کل بتاریخ ۸ در جولائی ۱۹۴۷ء بروز جمعہ المبارک بوقت پونے آٹھ بجے شام انتقال فرما گئے.اور کس محبوب حقیقی سے جاملے.جس کے دیدار کی تمنا میں آپ فرمایا کرتے تھے.تڑپتی روح ہے میری کہ جلدی ہو نصیب اپنے ملاقات شہ خوباں لقائے حضرت باری حضرت میر صاحب کی علالت یوں تو ایک لیے عرصہ سے تشویشناک صورت اختیار کو چکی تھی.لیکن کل نماز جمعہ کے بعد آپ کی حالت زیادہ خراب ہو گئی تھی.جس کے پیش نظر خاندان کے اکثر افراد اور خود حضرت مصلح موجود ایدہ اللہ تعالٰی آپ کی کوٹی دار الصفرہ میں تشریف لے آئے تھے.چنانچہ حضور کی موجودگی میں ہی آپ کی وفات واقع ہوئی.
Ai إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اَلَيْهِ رَاجِعُون كل من عليها نان ويبقى وجه ربك ذو الجلال والاكرام حضرت میر صاحب کی المناک وفات کی خبر آناً فاناً تمام محلوں میں پھیل گئی.اور بہت سے احباب آپ کی کو سٹی پر جمع ہونے شروع ہو گئے.آپ نے عرصہ ہوا اپنی تجہیز تکفین کے متعلق خود مفصل ہدایات وصیت کے طور پر تحریر فرما رہی تھیں.حتی کہ اپنے کفن کا بھی انتظام فرما لیا تھا.چنانچہ رات کو ہی آپ کی وصیت کے مطابق حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب نومسلم مکرم شیخ محمد اسماعیل صاحب اور مکرم حکیم عبداللطیف صاحب شہید نے آپ کو غسل دیا.اور تجہیز و تکفین کی.اگلے دن ( ۱۹ جولائی کو صدر انجمن احمدیہ کے تمام دفاتر اور تعلیمی اداروں میں تعطیل کر دی گئی.صبح ہی سے احباب اور خواتین آپ کی کوٹھی پر جمع ہونے شروع ہو گئے.آٹھ بجے کے قریب سیدنا مصلح موجود ایدہ اللہ تعالیٰ بھی تشریف لے آئے.اور ایک مجمع کے درمیان آپ کا جنازہ اٹھایا گیا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ یا وجود نا سازی طبع کے جنازہ کے ہمراہ پیدل مقبرہ بہشتی تشریف لے گئے.راستے میں مجمع پر لمحہ بڑھتا گیا.ہر شخص جنازہ کو کندھا دینے اور اس طرح ایک ایسے وجود کا آخری حق الخدمت ادا کرنے کی کوشش کر رہا تھا.جو عمر بھر نہایت بے نفسی کے ساتھ بنی نوع انسان کی دینی اور دنیوی خدمت کرتا رہا.جب جنازه باغ حضرت مسیح موعود میں پہنچا.تو حضرت جاب ایدہ اللہ نے اپنی نگرانی میں صفوں کو درست کرایا.اور پھر ایک بہت بڑے مجمع کے ہمراہ جو انہیں لمبی صفوں پرمشتمل تھا.نماز جنازہ ادا فرمائی.نماز جنازہ میں شامل ہونے والے افراد کی تعداد کا اندازہ چھ اور سات ہزار کے درمیان ہے.نماز جنازہ کے بعد حضرت صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دست مبارک سے کفن کا منہ کھولا اور حضرت میر صاحب کی پیشانی پر بوسہ دیا.پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اور پھر خاندان کے دیگر افراد نمی باری باری بوسہ دیا.اس کے بعد حضور جنازہ کے قریب
AV ہی زمین پر خدام کے ہمراہ تشریف فرما ہو گئے اور احجاب کو تنظیم کے ماتحت حضرت میر صاحب کا چہرہ آخری بار دیکھنے کا موقع دیا گیا.آپ کا چہر، با وجود طویل علالت کے بہت با رونق شکفته اور تورانی نظر آتا تھا.بعد ازاں جنازہ اٹھایا گیا.حضرت صاحب ایدہ اللہ نے قبر تک تعش کو کندھا دیا.حضور خود قبر میں اترے اور میر داد و احمد صاحب این حضرت میر محمد اسحاق صاحب اور میر محمد احمد صاحب ابن حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کے ہمراہ نعش کو لحد میں اتارا.اس کے بعد حضور مزار حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) اور مزار حضرت اُم ظاہر پر دعا کے لئے تشریف لے گئے پھر حضرت میر حجاب کی قبر میں اپنے دست مبارک سے مٹی ڈالی.قبر تیار ہو جانے پر حضور نے دعا فرمائی پھر واپس تشریف لے آئے.حضرت میر صاحب کو مزار حضرت مسیح موعود د آپ پر سلامتی ہو) کے احاطہ میں آپ کی خواہش کے مطابق آپ کے والد ماجد حضرت میر ناصر نواب صاحب اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) اور والدہ ماجدہ حضرت نانی اماں اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) کے پہلو میں مزار حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے قدموں میں دفن کیا گیا ہے حضرت میر صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) چوٹی کے بزرگ اور بلند پایہ رفیق تھے.آپ کو حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا نے ملی معتمدین کا رکن مقرر فرمایا تھا.ابتدا کے زمانہ سے ہی حضور کو نہایت قریب سے اور حضور کی مقدسی محبت سے فیوض حاصل کرنے کے خاص مواقع حاصل ہوتے رہے ہیں.تصوف حقیقی اور عشق الہی کا ایک خاص رنگ پا یا جا تا تھا.آپ کے مضامین اور آپ کی تعلیمی اسی رنگ کی بہترین یادگار ہیں.اس کے علاوہ وسیع دینی اور دنیوی علم کے ساتھ بنی توع انسان کی بے غرضانہ خدمت کے لئے ہر وقت تیار رہنا آپ کی ایک نمایاں خصوصیت تھی.غرض آپ کا وجود سلسلے کی اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے ایک ستون کی طرح تھا.آپ کی وفات ایک شدید قومی صدمہ ہے.آپ کی وفات سے ایک ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جس کا پر ہوتا بظاہر بہت مشکل نظر آتا ہے.
حضرت میر محمد امیل صاحبکے کتبہ کی عبارت رقم فرمودہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی مصلح موعود اللہ تعال آپ راضی ہوں اعوذ بالله من الشيطن الرحيم بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ عَدُهُ وَنَصَلَّى عَلَى رسوله الكريم والسلام على عبده المسيح الموعود خدا کے فضل اور رسم کے ساتھ هو الثَّـ تاریخ پیدائش به ۱۸ جولائی سامانه تاریخ وفات : ۱۸ جولائی امداد ساحر میر محمد اسمعیل صاحب حضرت مسیح موعود کے دعونے سے پہلے پیدا ہوئے حضرت (اماں جان) سے سولہ سال چھوٹے تھے اور حضرت میر ناصر تواب اللہ تعالیٰ آپ سے راضی (1) کے ساتویں بچے تھے.حضرت اماں جان) کی پیدائش کے بعد پانچ بچے تولد ہوئے جو سب کے سب چھوٹی عمرمیں ہی فوت ہو گئے.ان کی وفات کے بعد میر محمد اسمعیل صاحب پیدا ہوئے اور زندہ رہے.حضرت میر ناصر نواب صاحب اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوا نے جب پیشن لے که قادیان میں رہائش اختیار کی تو بوجہ اس کے کہ قادیان میں کوئی سکول نہیں تھا.انہوں نے ان کو لاہور پڑھنے کے لئے بھجوا دیا اور ساری تعلیم انہوں نے لاہور میں ہی حاصل کی.
AV حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کو ان سے بہت محبت تھی اور ان کے کاموں میں آپ دلچسپی لیتے تھے.اسی طرح حضرت میر صاحب کا بھی آپ کے ساتھ عاشقانہ تعلق تھا.بھائیوں میں سے حضرت اماں جان کو میر محمد اسمعیل صاحب سے زیادہ محبت تھی.نہایت ذہین اور نہ کی تھے.حضرت مسیح موعود ر آپ پر سلامتی ہوا نے جب خطبہ الہامیہ دیا.تو آپ کے اس ارشاد کو سن کر کہ لوگ اسے یاد کریں.انہوں نے چند دنوں میں ہی سارا خطبہ یاد کر کے حضرت مسیح موعود کو سُنا دیا تھا.یا وجود نہایت کامیاب ڈاکٹر ہونے کے اور بہت بڑی کمائی کے قابل ہونے کے زیادہ تر پر کیس سے بچتے تھے اور غرباء کی خدمت کی طرف اپنی توجہ رکھتے تھے.اسی وجہ سے ملازمت کے بعد کئی اچھے مواقع آپ نے کھوئے.کیونکہ گوان میں آمدن زیادہ تھی.اور رتبہ بڑا تھا.مگر خدمت خلق کا موقع کم تھا.میری بیوی مریم صدیقہ ان کی سب سے بڑی بیٹی تھیں جو تو ام پیدا ہوئیں.پنشن کے بعد قادیان آگئے.لیکن بوجہ صحت کی خرابی کے کوئی باقاعدہ عہدہ سلسلہ کا نہیں ہے سکے.بلکہ جب طبیعت اچھی ہوتی تھی الفضل، میں مضامین لکھ دیا کرتے تھے.بہرحال حضرت میر محمد اسمعیل صاحب حضرت مسیح موعود کے رفقا ہیں سے تھے اور آپ کے منظور نظر تھے.آپ کی وفات کے بعد تمام ابتلاؤں میں سے محفوظ گذرتے ہوئے سلسلہ کی بہت سی خدمات بجالانے کا آپ کو موقعہ ملا.اللہ تعالے ان کے روحانی مدارج کو بلند فرمائے.+
AD حضرت محه محمد معیل صاح مرحوم مغفور ۱۹۴۵ میں حضرت میر صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوا نے اپنے متعلق یہ مضمون لکھ کر مجھے دیا اور فرمایا کہ میرے انتقال کے فورا بعد شائع کر دیا.انتہائی یہ رنج وطلق اور روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ حضرت میر صاحب کے ارشاد کی تعمیل میں آج یہ مضمون اشاعت کے لئے الفضل کے حوالے کر رہا ہوں.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون عمر اور وفات کی تاریخ میں نے خود در روچ کر دی ہے.خاکسار شیخ محمد اسمعیل پانی پتی 19 جولائی اللہ میں محمد اسماعیل ولد حضرت میر ناصر نواب (اللہ تعالٰی آپ سے راضی ہو) دلد سید ناصر امیر صاحب دہلوی آج مورخہ ۱۸ جولائی ۹۴ اکہ بوقت پونے آٹھ بجے شام اپنے احباب واعزہ سے رخصت ہو کہ عالم برزخ میں آگیا ہوں.اللہ تعالیٰ میری پردہ پوشی اور مغفرت فرمائے.آمین.میں نے دنیا میں 44 سال قیام کیا.یعنی ۲۰ شعبان مطابق دار جولائی مار دوشنبہ کے روز پیدا ہوا.اور مہا جولائی شملہ میں اس جہانِ فانی کو چھوڑا.ناظرین اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے قبر کے دکھوں حشر کی تکالیف پل صراط کے مصائب اور دوزخ کے عذابوں سے محفوظ کر کے جنت الفرو اس میں محض اپنے فضل اور رحم سے جگہ عنایت فرمائے اور اپنی نعمتوں سے بہرہ واخر عطا کرے.آمین.ہم میں سے ہر ایک نے خواہ وہ کوئی بھی ہو دنیا کو ایک دن چھونا
ہے.مگر پھر بھی ہم اس طرح سے چھٹے رہتے ہیں جیسے بچہ ماں سے.اور ہر گنہ الگ ہونا نہیں چاہتے.یہاں تک کہ ہم کو زبر دستی اور اکثر اوقات خلاف مرضی اس سے الگ کیا جاتا ہے.حالانکہ اگر موت نہ ہوتی.تو ہم اپنے بڈھوں کو اور ناکارہ لوگوں کو شاید اپنے ہاتھوں سے قتل کرتے.یا دنیا سے تنگ آ جانے کی وجہ سے خود کشیاں کرتے پھرتے دنیا کی زندگی اور اس کے دُکھ آخر کار اس میں ہمارا رہنا دو بھر کر دیتے ہیں خدا تعالیٰ کی کمالی حکمت نے ہمارے لئے ایسا انتظام فرمایا کہ ہم خود ایک عمر کے بعد عالم دنیا سے اکتانے لگتے ہیں.لیکن چونکہ دوسرا حاکم بن دیکھا ہوتا ہے.اور شاید آخرت پر کامل یقین میسر نہیں ہوتا.اور اپنے گناہوں کا ڈھیر سامنے نظر آتا ہے.اس لئے ہم کو دوسرے جہاں کی طرف انتقال کرتے ہوئے سخت ہچکچاہٹ محسوس ہوتی ہے.جان تکہ عالم بقا ہی اصل جگہ ہے.جہاں صفات الہیہ اپنی پوری شدت کے ساتھ ہم پر جلوہ گر ہونے والی ہوتی ہیں.آخرت کی ربوبیت دنیا کی ربوبیت سے شدید تر ہے.آخرت کا رحم دنیا کے رحم سے ارفع تر ہے.اور آخرت کی مالکیت دنیا کی ملکیت سے اعلیٰ ترین.موت کو صرف ایک دروازہ ہے جو ایک خار دار سرنگ کے سرے پر ہے.اور دوست کو دوست سے اور بندہ کو اپنے مالک سے ملاتا ہے.پس چند کانٹوں کی خراشوں سے ڈر کو حریم ازلی کی طرف نہ جانا یا نعمت ابدی سے منہ پھیر لیا.اور اس محسن کے ساتھ والہانہ شوق محبت اور عشق کے ساتھ قدم نہ اٹھانا محض بے وقوفی اور ناداتی ہے.وہاں کا خدا دنیا کے خُدا سے زیادہ مہربان ہے.زیادہ کریم ہے.زیادہ غفور ہے.زیادہ منعم ہے.زیادہ مجیب و قریب ہے.زیادہ رؤف ہے.زیادہ نافع ہے.زیادہ حقان ومستان ہے.اور زیادہ سے زیادہ ہماری خواہشیں پوری کرنے والا ہے.اور یقینا ویسا نہیں ہے جیسا غیر مذاہب والوں نے اس کو سمجھ رکھا ہے یا ہم میں سے اکثر نے اس کو ہوا بنارکھا ہے.اس نے تو انسان کو بہشت کے لئے اور
AL اپنی صفات کے فیضان کے لئے پیدا کیا ہے.پس یہ باطنی اپنے محسن پر کیوں کہ روا رکھی جا سکتی ہے کہ وہ ہم کو وہاں دائمی دکھوں کے لئے لے جاتا ہے.میں نے دنیا میں تکالیف ابتلاء، مصائب اور بیمار ایسے دیکھے مگر ان میں بھی خدا کے فضل اور اس کی رحمت کو ہر قدم پر محسوس کیا.پس اب جبکہ بقائے الہی کا مقام قریب تر ہوتا جاتا ہے میں کیونکر آگے بڑھنے یا انتقال مقامی سے ڈر سکتا ہوں.سواے عزیز و تم بھی اس رحمن رحیم خدا کی محسنانہ صفات پر ایمان بلکہ یقین رکھو.اور موت کو صرف ایک سیٹرھی سمجھو کہ یہ نچلی منزل سے انسان کو بالاخانہ تک پہنچاتی ہے.اللہ تعالیٰ بندہ کی کسی چیز کا محتاج نہیں.نہ اس کے مال کا نہ اس کی عبادت کا.وہ تو صرف اتنا چاہتا ہے کہ بندے اس کو ہی اپنا پیارا رت تسلیم کریں.اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں.اور اسی کو اپنا محسن.اپنا مستم اپنا خیر خواہ اور اپنا مالک سمجھیں.نہیں کیا اتنی سی بات کے لئے انسان اپنی عاقبت کو خراب کر سکتا ہے ؟ اس نے تو فرما دیا ہے کہ مَن قَالَ لا اله الا الله دخل الجنة- پس کیا اس کلمہ کے کہنے اور مان لینے سے جو محض حق ہی حق ہے.کوئی انسان انکار کر سکتا ہے ؟ میں نے ایک عظیم الشان نبی سے لے کر دنیا کی ادنی ترین مخلوق کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.لیکن جو کرم.جو رحم.جو شفقت.جو مروت اور جو احسان مجھے اپنے خداوند میں نظر آیا.بخدا وہ ہر گز کسی دوسرے میں نظر نہیں آیا.پس ایسے خدا کے نقاء سے اور اس کے روبرو پیش ہونے سے ڈبونے کے کیا معنی ہے دنیا کے آرام اور نعمتیں ان آراموں اور نعمتوں کا کیا مقابلہ کر سکتی ہیں جو اس نے ہمارے لئے اگلے جہان میں مقدر کم رکھی ہیں.نیک اخلاق اور مذہبی عبادتیں تو محض ہمارے اپنے قائدہ کے لئے ہیں.نہ کہ خدا کے کسی فائدہ کے لئے ہیں.لیکن اگر ان میں کچھ کمی رہ جائے تو اسے دعاؤں سے پہدی کرد مگر اپنے آقا کا دامن کسی حالت میں نہ چھوڑو ، کیونکہ ایسی وفاداری پیر حال تمہارے لئے با برکت اور سود مند ہو گی.
AA وافوض امرى الى الله ان الله بصير بالعباده وأخر دعوانا ان الحمد لِله رب العالميين.واشهد ان لو اله الا الله وحده لاشريك له واشهد ان محمدا عبده ورسوله.ربنا اننا سمعنا منادي ينادى للايمان ان امنوا بربكم قامتا ربنا فاغفر لنا ذنوبنا وكفر عنا سياتنا وتوفنا مع الابرار - امين خاکسار محمد اسماعیل الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۴۷مه)
٨٩ حضرت میر محمد اسمایل صاحب کی ایک خاص خصوصیت زندگی میں موت کے متعلق تیاری حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اللہ تعالٰی آپ سے راضی ہوا کے متعلق میں نے اپنے ایک مختصر سے مضمون میں بیان کیا تھا کہ کچھ عرصہ سے آپ وصال اللہ کے لئے ہر وقت بے تاب سے نظر آتے اور ایسے اشتیاقیہ الفاظ میں ایسے مسرت آمیز لہجہ میں اس کا ذکرہ فرماتے کہ دنیا سے آپ کی انتہائی دل برداشتگی ظاہر ہوتی تھی.بے شک یہ بات ایک اعلیٰ شان کے مومن کے ہی شایان ہے.اور ہر ایمان دار اپنی معرفت اور صفائی قلب کے لحاظ سے اپنے محبوب حقیقی کے حضور حاضر ہونے کے لئے اس دنیا کو خوشی خوشی چھوڑنے کا جذبہ اپنے اندر رکھتا ہے.اور جسے موقع میسر آئے.کسی نہ کسی رنگ میں اس کا اظہار بھی کرتا ہے لیکن اس سلسلہ میں حضرت میر صاحب سے جو خاص بات ظہور پذیر ہوئی.وہ یہ ہے.کہ آپ نے فرشتہ اصل کو خوش آمدید کہنے کے متعلق تمام تیاری اپنی زندگی میں خود کی اور اس اہتمام سے کی.کہ اپنی موت کا اعلان بھی آپ خود ہی لکھ کر دے گئے ذرا اندازہ لگا لیے اس انسان کی روحانی اور ایمانی قوت کا جس نے اپنے ہاتھ سے سوائے تاریخ اور وقت کے جس کی تعیین اس کے میں میں نہ تھی.یہ الفاظ رقم فرمائے.میں محمد اسمیل داد حضرت میر ناصر نواب اللہ تعالٰی آپ سے راضی ہو) داد سید ناصر امیر صاحب دہلوی آج مورخہ بوقت اپنے احباب واعزہ سے رخصت ہو کر عالم برزخ میں آگیا ہوں.اللہ تعالیٰ میری پردہ
4.پوشی اور مغفرت فرمائے بھین.میں نے دنیا میں سال قیام کیا نہ یعنی دو شعبان شکله بجری مطابق دار جولائی اشارہ دو شنبہ کے روز پیدا ہوا اور میں نے اس جہان فانی کو چھوڑا.ناظرین اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے قبر کے دکھوں حشر کی تکالیف اور پل صراط کے مصائب اور دوزخ کے عذابوں سے محفوظ کی کے جنت الفردوس میں محض اپنے فضل اور رحم اور کریم سے جگہ عنایت فرمائے اور اپنی نعمتوں سے بہرہ وافر عطا فرمائے.آمین.ان سطور کے ایک ایک لفظ سے یہ ظاہر ہے کہ یہ اعلان نہ صرف نہایت سکون دل اور اطمینان قلب کے ساتھ لکھا گیا.بلکہ موقع شناسی سے بھی خوب ہی کام کیا گیا.دُعا کی اور نہایت جامع اور ضرورت کے عین مطابق دعا کی درخواست اس انداز سے کی گئی ہے کہ آپ کو جاننے والا شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جس کا دل کھیل کر پانی نہ ہو گیا ہو اور آپ کی مغفرت اور بلندی درجات کے لئے مضطربانہ دعا نہ نکلی ہوگی.ایسے کی ایسی بیشمار دعائیں شرف قبولیت سے کیوں محروم رہی ہوں گی ایسے وقت کی حضرت میر صاحب ایسے ولی کے لئے کی گئیں.مذکورہ بالا اعلان کے بقیہ حصہ دنیوی زندگی.موت اور پھر آخرت کی زندگی کے فلسفہ پر نہایت طالقانہ کلام کرنے کے بعد اپنی قلبی کیفیت کا نقشہ یوں کھینچا ہے میں نے دنیا میں تکالیف اور مصائب اور بیاسیاں سب دیکھے مگر ان میں بھی خدا کے فضل اور اس کی رحمت کو ہر قدم پر محسوس کیا ہے.اب جبکہ بقائے الہی کا مقام قریب قریب ہوتا جاتا ہے میں کیونکہ آگے بڑھتے یا انتقال مقامی سے ڈر سکتا ہوں." اس سلسلہ میں عزیزوں اور دوستوں کو خوشی خوشی موت قبول کرتے اور بقائے الہی
41 کے حصول میں ہر تکلیف مردانہ وار برداشت کرنے کی نہایت دل نشین الفاظ میں تلقین کرتے ہوئے فرمایا : جو کرم بورهم - جو شفقت جو مروت اور جو احسان مجھے اپنے خداوند خدامی نظر آیا.بخدادہ ہر کسی دوسرے میں نظر نہیں آیا.ایس ایسے خدا کے نقاد سے اور اس کے رو بر دوش ہونے سے ڈرنے کے کیا معنی " جب دیکھا جائے کہ یہ الفاظ اس انسان کے قلم سے نکلے.جو خوشی خوشی موت سے ہمکنار ہوا جیسے موت کسی مرحلہ پر ایک لمحہ کے لئے بھی ہراساں نہ کر سکی.اور حسین نے یہ تحریر اس لئے قلم بند فرمائی.کہ جب وہ شاداں و فرماں موت کی گھائی سے گزر جائے.تو اس کی طرف سے اس کے دوستوں اور عزیزوں تک پہنچا دی جائے.تو یہ ایک ایسی اہم دستاویز بن جاتی ہے.جسے ہر احمدی کو ہر وقت اور خاص کر اس وقت جبکہ خدا تعالٰی کے حضور اپنی جان پیش کر دینے کا موقع میسر آرہا ہو.پیش نظر رکھنا چاہیئے.اور کسی رنگ میں بھی موت کا ڈر یا خوف اپنے پاس تک نہ آنے دینا چاہیئے.کیونکہ بالفاظ حضرت میر صاحب مرحوم و مغفور موت ایک سیڑھی ہے.جو انسان کو نچلی منزل سے بالا خانہ تک پہنچاتی ہے.موت کے مرحلہ سے گزرنے کے بعد چونکہ جسد بے روح کے لئے کچھ اور مرحلے بھی اس دنیا میں باقی تھے.اس لئے ان کے بارے میں بھی حضرت میر صاحب رائٹر تعالٰی آپ سے راضی ہو) نے اپنی خواہش اور تمنا کا اظہار کیا.اور الحمد للہ کہ خدا تعالیٰ نے اپنے اس پیلر سے بندہ کی ان تمناؤں کو بھی اپنے فضل سے اسی طرح پورا فرمایا میں طرح وہ چاہتا تھا.اپنی نعش کو غسل دینے کے متعلق حضرت میر صاحب نے یہ خواہش ظاہر فرمائی اور خدا تعالیٰ کے غنی کا پورا پورا احترام کرتے ہوئے فرمائی کہ
۹۲ میری نعش کو غسل دینے کے لئے اگر شکنی ہو تو شیخ عبدالرحیم صاحب بھائی بھی اور شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی اور حکیم عبد اللطیف صاحب شہید کو بلالیا جائے.شہید صاحب پانی ڈالیں.کفن موجود ہے.آخر جب وہ وقت آیا کہ حضرت میر صاحب کی روح کلی ، اعلیٰ میں پرواز کر گئی.اور صرف ان کی نش، رو گئی.تواس کے متعلق آپ نے جس خواہش کا اظہار فرمایا تھا.اسے پورا کرنے کے لئے خدا تعالٰی نے سامان کر دیئے.مذکورہ بالا تینوں اصحاب زندہ و سلامت تھے.قادیان میں موجود تھے.اور صحت و تندرستی کی حالت میں تھے.وہ اپنا فرض ادا کرنے کے لئے خود پہنچے گئے.خدا تعالیٰ نے انہیں حضرت میر صاحب کی خواہش کو لفظ لفظ پورا کرنے کی توفیق دی.میں نے حضرت میر صاحب کی وفات کے بعد حضرت شیخ عبدالرحیم صاحب بھائی کی سے پوچھا.حضرت میر صاحب نے اپنی زندگی میں آپ سے اس بات کا ذکر کیا ہوگا.اس وقت آپ نے یہ نہ کہا.کہ کون جانتا ہے پہلے کون فوت ہو کہنے لگے.میں نے کہا تھا.مگر میر صاحب نے جواب دیا.آپ لوگ مجھ سے پہلے نہیں فوت ہوں گے.پہلے میری باری ہے.نعش کے غسل کے بعد قبر کا سوال آتا ہے.اس کے متعلق بھی حضرت میر صاحب نے اپنی خواہش کا اظہار فرمایا.اور خدا تعالیٰ کی قضاء قدر کے متعلق اپنی پوری رضا کے ساتھ فرمایا.نیز حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ سے کمال ادب و احترام کے ساتھ حسن طلب میں بھی کمال کر دیا.چنانچہ لکھا.درخواست آخر میں حضرت خلیفہ ایسیح کی خدمت میں السلام علیکم کے بعد عرض ہے کہ کوئی شخص اپنے انجام سے آگاہ نہیں.اللہ تعالیٰ میرا انجام اچھا کیے.اور مجھے بہشتی مقبرہ کا اہل بنائے.اگر یہ فضل مجھ پر خدائے قدوس کی طرف سے ہو جائے تو میری خواہش ہے کہ اپنے لوگوں میں دفن ہوں.
ایک جگہ حضرت والدہ صاحبہ اور دیوار کے درمیان ایک قبر کی ہے حضور کی مہربانی ہوگی اگر مجھے وہاں دفن کیا جائے.وافوض امری الی الله ان الله بصير بالعباد والسلام - محمد اسماعیل » خدا تعالیٰ نے حضرت میر صاحب کی یہ خواہش بھی بعینیہ پوری فرمائی.اسی جگہ ان کی قبر بنی جہاں ان کی خواہش تھی.خاندان حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے ساتھ رشتہ کے لحاظ سے نہایت معزز رتبہ رکھنے کے علاوہ حضرت میر صاحب نے اپنی ساری زندگی اسلام اور احمدیت کی خدمت میں صرف کمد دی.ہر قربانی اور ایثار کے وقت پیش پیش رہے مگر کیا مجال کہ اشارہ بھی کسی بات کا ذکر ہو جبکہ اپنی انتہائی خواہش اور دلی آرزو کو درخواست کے طور پر پیش کیا.اور حضور کی مہربانی ہوگی ، کو ذریعہ قبولیت قرار دے کر خاموش ہو گئے.رضائے امام کو اپنی بڑی سے بڑی خواہش اور تمنا پر مقدم رکھنا اور کسی حالت ہیں بھی انتہائی ادب ، احترام، اطاعت اور فرمانبرداری کے فرض کو نہ بھولنا وہ مقام ہے جو خاصان خدا کا ہی حقہ ہے.اور جیسے حاصل کئے بغیر کوئی انسان نہ دنیا میں فلاح پاسکتا ہے.اور نہ آخرت میں سرخرو ہو سکتا ہے.حضرت میر صاحب مرحوم و مغفور کی زندگی بے شک بہتوں کے لئے روحانی اور جسمانی زندگی تھی لیکن فوت ہو کہ بھی آپ ایسا اسوہ اور نمونہ قائم کر گئے ہیں ہو نسلوں تک کے لئے روشنی کا مینارہ ثابت ہوگا.انشاء الله.ر روزنامه الفضل قادیان ۲۷ اگست ۱۹۴۷) ▸
۹۴
۹۵ باب دوم حضرت ذکر میر حمد العميل بزرگان سلسہ کے تازی
94 •
حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی وفات پر بزرگان سلسلہ کے تاثرات ا.حضرت مولوی شیر علی صاحب شروع شروع میں بندہ کو دار اسیح اور اس کے قرب و جوار میں رہنے کی سعادت نصیب ہوئی.19 کے آخر میں بندہ کے موجودہ رہائشی مکان کی بنیاد رکھی گئی.اور اور اس کے بعد جلسہ میں حضرت ڈاکٹر صاحب مرحوم کا مکان حضرت نانا جان میر ناصر نواب صاحب نے بنوالیا.اور اس طرح گویا ہماری مستقل ہمسائیگی کی بنیادیں پڑ گئیں.پہلے پہل حضرت ڈاکٹر صاحب کے سلسلہ ملازمت باہر رہنے کے ایام میں آپ کے چھوٹے بھائی یعنی حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوا اپنے خاندان سمیت ہمارے ہمسائے میں کافی لمبے عرصے تک رہے.اور وہ اپنے اہل بیت سمیت ہمارے نہایت ہی محسن ہمسایہ تھے.حضرت ڈاکٹر میر صاحب مرحوم کے ریٹا کہ ہو کہ قادیان آنے کے وقت سے باقاعد آپ کی ہمسائیگی بندہ کو میسر آئی.اس عارضی اور مستعار زندگی کے دوران میں آپ نے ہمسائیگی کے تعلق کو جس خوبی اور عمدگی سے نبھایا ہے.بندہ اس کے بیان سے اپنے آپ کو عاجز پاتا ہے.آپ نے ان تمام حقوق کی ادائیگی میں جن کو کہ اسلامی شریعت ایک مسلمان آسایہ پر واجب قرار دیتی ہے نہایت ہی اعلی نمونہ پیش فرمایا.آپ کا سلوک نہایت ہی بلند پایہ اخلاق پر مبنی تھا.یہاں تک کہ بندہ نے دیکھا.کہ آپ کی طرف سے ہمسائیگی
۹۸ کا تعلق یگانگت اور شفقت اور محبت میں تبدیل ہو گیا تھا.اور اس پاک وجود نے دُوئی کے تمام پردوں کو چاک کر کے رکھ دیا تھا.آپ بلا تکلف بلا احساس غیر بیت نہایت ہی اعلی درجہ کے مشفقانہ اور برادرانہ رنگ میں بندہ کے مکان پر تشریف لاتے گھر ملو قسم کے ادنی اونی معاملات پر گفتگو فرماتے اور ہر چھوٹے بڑے امرمیں پچسپی لیتے آپ کی ذات میں میں نے بہترین قسم کا ساتھی.ہر کام کا عمدہ مشیر اور ہم غم میں بہترین غم گسار پایا.میرے لڑکے عزیزم عبدالرحمن کی بیماری میں اکثرآ کر گھنٹوں بیٹھتے اس کی چھوٹی چھوٹی بیماری سے متعلقہ باتوں کو نہایت سکون اور دلجمعی سے سننے اور موقع اور محل کے مطابق بیماری کے تمام خدشات کو اس کے دل و دماغ کی اتھاہ گہرائیوں سے اپنے نہایت فصیح اور محبت بھرے الفاظ سے مٹا ڈالتے.مریض کے لئے اس سے بڑھ کرہ اور کون سا علاج کارگر ثابت ہو سکتا ہے.کہ ایک مشفق اور مہربان ڈاکٹر اس کے تفکرات کا لیکلی خاتمہ کر دے.آپ نے میرے نہایت پریشان کن لمحات میں ایک ہمدر و غمگسار کی طرح ساتھ دیا.بندہ کی اہلیہ کی بینائی بوجہ موتیا بند کے دونوں آنکھوں سے جاتی رہی تھی.اور ان کا اصرار تھا کہ حضرت میر صاحب کے سوا کسی دوسرے سے آنکھیں نہ بنواؤں گی.حضرت میر صاحب کی طبیعت کمزور تھی.جراحی کے تمام کام بوجہ نا سازی طبیع بند تھے.دیگر اطہار کا بھی مشورہ تھا کہ لاہور میں یا امرتسر میں کسی بڑے ہسپتال میں آپریشن کروایا جائے.غرض ایک طرف بندہ کی اہلیہ کا اصرار دوسری طرف حضرت میر صاحب کی ناسازی طبع کی وجہ سے مجبوری میرے لئے حیران کن ثابت ہو رہی تھی.آخر ان حالات میں اپنے محسن سے میں نے اپنی اہلیہ کی اس خواہش کا اظہار کیا.آپ بلا تامل عمل جراحی کے لئے تیار ہو گئے.بس میری کل پریشانی اور حیرانی دور ہوئی اور ان کے ہاتھوں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے میری بیوی کی آنکھوں کو شفا عطا کی.یہ تھا آپ کے اعلیٰ درجہ کے اخلاق کا وہ نمونہ جو آپ ایک کمتر سایہ
۹۹ کے لئے روار کھتے تھے.نہ صرف بندہ بلکہ بندہ کے بچوں کے جذبات اور احساسات کا انتہائی خیال تھا.ان کی زندگی کے آخری ایام کا ایک واقعہ ہے جو بظاہر تو بالکل معمولی نظر آتا ہے.لیکن آپ کے احسانات کے کرشموں میں سے ایک بہت بڑا کرشمہ ہے.میرے لڑکے عبدالرحیم نے پہاڑ پر جاتے جاتے بغیر گھوڑے کے ٹانگہ ان کے باغ میں ان کی بلا اطلاح حفاظت کی خاطر کھڑا کر وا دیا.آپ نے جب ایک ٹانگہ اپنے باغ میں کھڑا ہوا دیکھا تو اپنے نوکر کو تاکیدی حکم دیا کہ اس ٹانگہ کو فوراً باغ سے باہر نکال دو لیکن جونہی آپ کو یہ اطلاع ہوئی کہ یہ عبدالرحیم کا ٹانگہ ہے تو آپ نے فوراً اپنا حکم واپس لیتے ہوئے نوکر کو تاکید فرمائی کہ اس بات کا عبدالرحیم کو علم بھی نہ ہونے پائے کہ میں نے ان کے ٹانگے کو اپنے باغ سے باہر نکالنے کے لئے کہا تھا.بندہ کو علمی رنگ میں بھی آپ سے دو دفعہ خصوصیت کے ساتھ استفاضہ حاصل کرنے کا موقعہ پیش آیا.دو مضمونوں کی تیاری کے لئے میں نے آپ سے امداد چاہی.آپ نے نہ صرف بغیر سوچنے کے ان مضمونوں کے لئے مجھے ضروری مصالح بہم پہنچا دیا.گویا ان مضمون کے متعلق تمام معلومات پہلے ہی سے ان کے دماغ میں موجود تھیں بلکہ جو مصالح انہوں نے بہم پہنچایا.وہ صرف عام باتوں پر مشتمل نہیں تھا.بلکہ نہایت ہی قیمتی اور نادر نکات پرمشتمل تھا.مثال کے طور پر میں صرف ان کا ایک نکتہ بیان کرتا ہوں جس سے ناظرین کو معلوم ہو جائے گا.کہ ان کا دماغ کیسی عجیب اور باریک باتیں نکالتا تھا.ایک مرتبہ آپ نے فرمایا.کہ دوسرے لوگوں نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف میں قصیدے لکھے اور جو قصید سے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا نے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی شان میں لکھے ہیں.ان میں یہ فرق ہے کہ آپ کے شعروں میں مشق اور محبت کا رنگ نظر آ رہا ہے.حضرت مسیح موعود کو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ جو محبت تھی.اس کے بارے میں فرمایا کہ آپ نے جو بعض مخالفوں کے متعلق اور ہلاکت کی پیش گوئیاں فرمائیں.
ان کا موجب ہی عشق تھا.جو آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ تھا.چنانچہ بیگرام کے متعلق جو آپ نے پیش گوئی فرمائی.اس کی محرک بھی وہ گالیاں تھیں جو وہ آنحضرت لی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیتا تھا.اور انھم کے متعلق جو آپ نے ہلاکت کی پیشگوئی فرمائی.اس کا اصل موجب بھی وہی عشق تھا جو آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ تھا.کیو نکہ جہاں آپ نے آتھم کے متعلق پیش گوئی فرمائی.وہاں آپ نے آٹھم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کواپنی کتابوں کے اندرونہ بائبل میں دجال لکھا ہے.یں نے حضرت میر صاحب کی سیرت کے صرف ایک دو پہلوؤں کا ذکر کیا ہے.اگر آپ کی ساری صفات پر یکجائی نظر ڈالی جائے تو ہم کہ سکتے ہیں کہ حضرت میر صاحب مرحوم اپنے رنگ میں ایک بینظیر انسان تھے.اے خدا ! حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہی مانیتوری حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب دونوں بھائی اپنے رنگ میں بے نظیر تھے اور سلسلے کے آفتاب و ماہتاب تھے.حضرت میر محمد اسماعیل صاحب نہایت متقی اور نہایت متواضع تھے.مخلوق خدا کی دینی و دنیوی مدد کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے.اپنی تکلیف نظر انداز کر کے دوسروں کا کام کر دنیا ان کی عادت تھی.جو شخص ایک بار آپ سے ملتا ہمیشہ آپ سے زیادہ ملنے اور باتیں کرنے کی خواہش رکھتا.حضرت مسیح موجود آپ پر سلامتی ہو کے ساتھ آپ کو ایک خاص قسم کا تعلق تھا.آپ کی نظر بہت باریک بین تھی.
1+ حضرت ڈاکٹر غلام غوث صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت میر صاحب رفقاء کے تمام اخلاق کا زندہ نمونہ تھے.آپ نے حضرت عباس کی طرح حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی گود میں پرورش پائی.آپ رفقا ء سے غالباً سب سے زیادہ چندہ دینے والے تھے.شاید ہی سلسلے کی کوئی تحریک ہو جس میں آپ نے حصہ نہ لیا ہو.حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی اللہ تعالی آپ سے راضی ہو) حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کے وجود با وجود میں دونوں طرح کے نمونے اس اعلیٰ مقصد حیات کے بشان اصلی نمایاں طور پر پائے جاتے تھے.اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت اور معرفت کے لحاظ سے آپ کے اندر عبد سلم کا بہترین نمونہ پایا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی شفقت کی رُو سے آپ کے ڈاکٹری معالجات کا فن جو انواع واقسام کے مریضوں اور بیماروں کے علاج کے طور پر شب دروز مسلسل فائدہ بخش ہو تا ر تا شفقت علی خلق اللہ کے معنوں میں احسانات کا ایک وسیع سلسلہ تھا جس کے رو سے آپ کا عبد محسن ہونا نمایاں شان رکھتا تھا.چنانچہ جس جس علاقہ میں بھی آپ نے اپنے اوقات کو اس طرح گذارا وہاں کے سہارا اور تیمار وار اب تک آپ کے حد درجہ مداح پائے جاتے ہیں.اور حدیث نبوی کی رُو سے علاوہ اور لوگوں کے رفقاء حضرت مسیح موعود کا خصوصیت کے ساتھ آپ کا مداح ہونا ہر کات وصیت کے بیان فرمودہ علامات کے یہ بھی آپ کے جنتی ہونے کی ایک بین علامت ہے.آپ قرانی حقائق اور لطائف سے خاص طور پر لطف اندوز ہوا کرتے تھے اور مجھ سے زیادہ تر آپ کی محبت قرآن کریم کی وجہ سے بھی تھی.گو آپ میرے محبوبوں میں سے ایک محبوب ہستی تھے.لیکن خدا کا شکر ہے خدا تعالیٰ کے
١٠٢ پیارے بندوں کی نظر محبت و نگاہ شفقت کبھی نہ کبھی مجھے جیسے غریب اور حقیر پر بھی پر جایا کرتی.أحِبُّ الصَّالِحِينَ وَلَسْتُ مِنْهُمْ تحَلَّ اللَّهُ يَرْزُقَنى صَلَاحًا قرآنی حقائق کا فہم دقیق آپ کو عطا کیا گیا تھا.آپ قرآنی معارف کے خواص تھے اور آپ کا فہم بس دقائق کی گہرائیوں میں دور تک نکل جاتا تھا...روحانی تعلقات کے لحاظ سے بھی مجھے آپ سے گہرا تعلق تھا جس کا ثبوت ذیل کے ایک واقعہ سے بھی ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خاکسار کو حد ہفتہ سے کچھ زائد عرصہ تک درد گرده کا شدید دوره ریاحین کا سلسلہ کسی قدر اب بھی چلا جا رہا ہے.ہاں نسبتاً آج کل کچھ افاقہ ہی ہے اور یہ مضمون بھی بحالت علالت لکھا جارہا ہے.۱۲-۱۳ جولائی کی درمیانی شب کو بوجہ شدید دوره درد گردہ کے مکیں سو نہ سکا اور شدت درد کے باعث آنکھ نہ لگی.ہے.اسی سلسلہ میں مجھ پر اچانک ایک ربودگی اور غنودگی کی کیفیت طاری ہوائی.اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میرے کانوں کے بالکل قریب ہو کر کوئی کلام کرنے کے نہایت فصیح اور موثر لہجہ میں کلام کا طرز ہے.اس وقت مجھے یہی محسوس کیا یا جا رہا تھا کہ یہ اللہ تعالی کی آواز ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نہایت ہی علم اور رحم کے پیرایہ میں یوں کلام فرمایا.میر محمد اسمعیل ہمارے پیارے ہیں.اُن کے علاج کی طرف فکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں.ہم خود ہی ان کا علاج ہیں.،، اس مبشرہ میں ایک امر تو حضرت میر صاحب کے لئے بطور بشارت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا پیارا اور محبوب قرار دیا ہے.دوسرے حضرت میر صاحب طیبی
۱۰۳ اور ڈاکٹری علاج سے بالا اپنے لئے علاج کے خواہاں معلوم ہوتے تھے جس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے دوسرے علاجوں سے ان کے استغناء کا اظہار فرما کر اس اصل علاج کا ذکر فرما دیا جس کی طبیعی طور پر بلحاظ جذبات محبت و ذوق فطرت ان کی شدید خواہش تھی اور وہ علاج اللہ تعالیٰ نے خود ہی ذکرہ فرما دیا کہ ہم خود ہی ان کا علاج ہیں.گویا وہ بقول حضرت امیر خسرو سے از سر بالین من برخیز اسے ناداں طبیب درد من عشق را دار و بهر دیدار نیست حضرت میر صاحب جیسے عاشق وجیہ اللہ کا علاج اللہ تعالی کا دیدار اور وصال ہی ہو سکتا تھا جو بالآخر آپ کو حسب پسند خاطر نصیب ہو گیا.رزقنا الله ما رزقه عشقاً ووصلاً الفضل و اگست ۱۹۴۷، ۴۱۳) حضرت بھائی عبد الرحیم صاحب محترم مکرم ڈاکٹر محمد اسماعیل صاحب کے ساتھ میرے پرانے تعلقات تھے.آپ اپنے فن میں تو ما سر تھے ہیں.ساتھ ہی دینی معلومات میں بھی آپ کی ذہانت قابل داد تھی.تقویٰ پر اکثر و بیشتر گفتگو فرماتے اور ساتھ ساتھ حدیثیں بکثرت پڑھتے جاتے تھے.ان کے اشعار میں علاوہ روایتی طبع کے اوامر و نواہی اور تقوے کے بیان میں بلند پروازی کمال کو پہنچی ہوئی تھی.اگر طبیعت میں ذرا حدت تھی تو ساتھ ہی فورا وقت بھی طاری ہو جاتی تھی.اور اپنی غلطی کے احساس میں جھٹ پشیمان ہو جایا کرتے تھے میں نے آپ میں یہ خاص وصف پایا تھا.خانگی معاملات میں جیسا مجھے معلوم ہے.عدل و انصاف سے آپ
۱۰۴- کام لیتے تھے.تربیت اولاد کا درد بھی آپ میں حد سے زیادہ تھا.میرے ساتھ ان کے تعلقات مود یا نہ تھے.جماعت کے اکثر دوست جب آپ سے اپنا دکھ درد بیان کرتے تو حتی الوسع اور حتی الامکان خاص طور پر مہروی کا اظہار بھی کیا کرتے تھے.اور ان کے امور میں مخلصی کی راہ بھی نکالنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے.آپ کی طبیعت اور آپ کے دل کی کیفیت حدود شریعت سے باہر جاتی میں نے کبھی نہیں دیکھی.جب دیکھا گفتگو میں بہت محتاط پایا.رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک بھی قابل تعریف تھا.با وجود اپنی شدید بیماری کے پھر بھی ان کا حق حتی المقدور ادا کرتے رہتے تھے.میں کیا کیا لکھوں مجھے بھی ان سے اکثر معرفت کے نکات ملے ہیں اللہ تعالی آپ کے درجات بلند کرے.اور فردوس بریں میں اعلیٰ مقامات کا وارث بنائے آمین.جناب حافظ غلام محمد صاحب بی اے حضرت میر محمد اسماعیل کو حضرت سید ولد آدم کی صاحبزادی حضرت فاطمہ الاسرا کی اولاد میں سے ہونے کا فخر بخشا تھا.بلکہ سیدنا حضرت مسیح موعود د آپ پر سلامتی ہوں کا برادر نسبتی بننے کا شرف بھی عطا فرمایا تھا.یہ تو محض خدا تعالیٰ کا فضل اور احسان تھا.لیکن جناب موصوف نے اپنے علم وعمل سے ثابت کر دکھایا تھا کہ واقعی آپ خدا کے ان تمام تفصیلات کے مستحق اور مور د تھے.احقر کی رائے میں آپ مصداق تھے اذكر في الكتاب اسماعيل انه كان صادق الوعد وكان يا مر اهله بالصلوة والزكوة وكان عندريه مرضيا.خدا نے آپ کو دنیا اور آخرت دونوں کی نعماء سے نوازا تھا.کیونکہ آپ نافع التان اور خیر خواہ خلائق تھے.خدا نے آپ کو ایسے پیشے کا مالک بنایا تھا جو خدمت خلق کے
1.0.لئے مخصوص ہے.آپ سرجیکل آپریشن میں بڑے ماہر تھے.ملازمت کے دوران میں جب کبھی بھی قادیان میں تشریف لاتے تو آنکھوں کے مریضوں کا حجم غفیر آپ کے پاس جمع ہو جاتا تھا.اور بڑی خوشی سے ان کی آنکھیں بنا دیتے تھے.میرا اپنا تجربہ ہے کہ مریضوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے ملا کرتے تھے.مولوی ہونے کی وجہ سے آپ کی اردو زبان بڑی شستہ تھی.العقل کو اپنے مضامین اور نظموں سے اکثر نان تے رہتے تھے.آپ کی زندگی اور آپ کے کلام منظوم اور منشور سے ثابت ہے کہ آپ عاشقی خدا، عاشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم.عاشق حضرت مسیح موعود اور عاشق محمود ایدہ اللہ تھے.اسلام اور احمدیت سے والہانہ محبت رکھتے تھے.خدا نے آپ کو دنیا میں بعض حسنات عطا فرمائیں اور آخرت میں بھی.اس لئے کہ آپ دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل کے ماتحت بہشتی مقبرہ میں داخل ہوئے اور آخرت کی کامیابی کے وارث بنے میں ملالہ سے آپ کو جانتا ہوں.آپ ان لوگوں میں سے تھے جن کا ذکر خیر اس آیت کریمہ میں بیان ہوا ہے.التائبون العايدون والحامدون السائحون الراكعون الساجدون الامرون بالمعروف وناهون عن المتكر والحافظون لحدود الله آپ سابق العیات اور اپنے رب کو تضرع اور عاجزی سے پکارنے والے تھے.آپ کی خوش مزاجی اور ظریفانہ کلام نے آپ کو ہر جگہ ہر دلعزیزہ بنا دیا تھا.اکثر وقعہ لوگ آپ سے مختلف مسائل کے متعلق سوال لکھ کر بھیجا کرتے تھے.اور ان کے جواب آپ الفضل میں شائع کر وا دیتے تھے.ملازمت کے دوران میں جہاں جہاں آپ بطور ڈاکٹر کام کرتے رہے اور جو جو واقعات جہاں جہاں پیش آئے وہ آپ نے بطور آپ بیتی کے شائع فرما دیئے.یہ کتاب زندگی کے مختلف تجربات کا نچوڑ ہے.
1.4.حضرت مولوی محمد الدین صاحب حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کی وفات سے جہاں قادیان کی پبلک ایک مہربان شفیق اور محسن معالج کی خدمات سے محروم ہوگئی ہے.وہاں سلسلہ میں ایک بلند پایہ رکن کی موت سے ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے.حضرت میر محمد اسحاق صاحب مرحوم و مغفور کی وفات سے پیدا شدہ خلا بھی ایسا ہے جس کو دوست ابھی تک بھول نہیں سکے.اور نا معلوم که قادر گیتی ان جیسا و جو د پھر کب پیدا کرے.اسی طرح حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کی وفات کا خلا بھی بہت جلد پر ہوتا نظر نہیں آتا.وہ نہ صرف اپنے فن کے استاد و ماہر تھے.بلکہ فطرت انسانی کا گہرا مطالعہ رکھتے تھے.ہر طبیب کے لئے ضروری ہے کہ اس کو انسانی اعضاء کے باریک دربار یک تعلقات کا گہرا علم ہو.لیکن اگر اس کے ساتھ ساتھ فطرت انسانی کا صحیح فہم بھی میسر ہو.تو پھر یہ سونے پر سہاگے کا کام دیتا ہے.حضرت میر صاحب مرحوم ان فوق العادت ہستیوں میں سے تھے.جو پورے جسمانی و روحانی طبیب ہونے کے علاوہ سنن اللہ سے واقف اور راز ہائے اعجاز و کرامت سے پوری طرح آشنا ہوتے ہیں.معلوم نہیں ان جیسا وجود پھر کتنی پشتوں کے بعد پیدا ہو.فی الحال تو ہم سے عدل دیے مثال ہمدرد طبیب اور شفق دوست سے محروم ہو چکے ہیں.انا للہ وانا الیہ راجعون.اللہ تعالیٰ مرحوم و مغفور کو اپنی رحمت کی خاص چادر میں لپیٹ ہے.اور اُن کے اور تمام راستبازوں کے طفیل ہما را انجام بھی نیک کرے.آمین.جناب مولانا جلال الدین صاحب شمس حضرت میر محمد اسماعیل صاحب غفر الله له و نور مرقده حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو کے ایک جلیل القدر رفیق تھے.اور محمد احمد اور محمود کے عاشق صادق
1.6 تھے.آپ کو بوجہ قرابت ورشتہ داری کے حضرت اقدس مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے حلیہ مبارک اور لباس و طعام اور آپ کی زندگی کے بعض مخصوص پہلوؤں کے متعلق عمیق مطالعہ کا شرف حاصل تھا.آپ احمدیت کے درخشندہ ستارے تھے.جولوگوں کی رہنمائی کرتا اور آسمان احمدیت کے وسط میں نہایت آب وتاب سے چمکتا تھا.روحانی علوم میں آپ کو خاص دسترس حاصل تھی.قرآن مجید کے ساتھ عشق تھا.قرآن کی آیات میں تدبیر کے عادی تھے مشکل مقامات کو حل کرتے اور نہایت آسان پیرایہ میں بیان کہ کے اشکال دور کردیتے آپ عالم باعمل تھے.تصوف میں آپ کو کمال حاصل تھا.آپ عالم بھی تھے اور صوفی بھی تھے، زاہد بھی تھے.نہایت شیریں مقال - شیریں زبان اور و پسند ہم جلیس تھے.عمدہ اور دلچسپ نثر لکھتے لطیف اور دل پسند شعر کہتے.حضرت مولوی ابوالعطاء صاحب پرنسپل جماعت احمدیہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) اولیاء اللہ میں سے تھے.ان کا انتقال ایک بہت بھاری نقصان ہے جو ملت کو ہوا ہے.ہم لوگ ان کے انتقال کے بعد بہت سے روحانی فوائد سے محروم ہو گئے ہیں.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون حضرت میر صاحب ماہر ڈاکٹر بھی تھے.اس لئے بے شمار لوگوں کو اُن سے جہانی صحت کا فائدہ بھی ہوا ہے.اور آپ بیماروں سے شفقت اور ہمدردی سے پیش آتے تھے.جب تک توئی کام کرتے رہے.آپ نے کسی مصیبت زدہ کی امداد سے دریغ نہ فرمایا آپ کی روحانیت ہم نشینوں پر اثر انداز ہوتی تھی.اور ان کی مجلس میں بیٹھنے والوں کو خاص لذت حاصل ہوتی تھی.حضرت میر صاحب مرحوم کا مکان الصفہ سڑک پر واقع ہے اور مجھے جامعہ احمدیہ آتے جاتے وقت راستے ہیں پڑتا ہے.اور کبھی لینے کا موقعہ ملتا اور اکثر یکتا.آپ ہمیشہ کسی تبلیغی اور دینی مکر اور گہری سوچ میں منہمک ہوتے تھے.قرآن مجید
کی کسی آیت پر غور کر رہے ہوتے تھے.اور کوئی مفید مشورہ اور سلسلہ کی کسی ضرورت کا تذکرہ کرتے تھے.آخری چند سالوں میں آپ سر گھڑی اپنے مولی سے ملنے کے لئے آمادہ اور تیار بیٹھے تھے بسفر آخرت کے لئے پوری طور پر تیاری کر چکے تھے.دنیا سے مومنانہ طور پر دل برداشتہ نظر آتے تھے حضرت میر صاحب کی بہت سی یادیں اور بہت سے کام ہیں جو ہمیشہ یادر ہیں گے.اور ان کے درجات کی بلندی کا موجب نہیں گئے ہیں آج ایک واقعہ پیش کرتا ہوں.غالباً تین سال گزرے کہ بورڈ نگ تحریک جدید میں ایک تقریب دعوت متھی.احباب نے خواہش ظاہر کی کہ حضرت میر صاحب اس کے صدر ہوں.حضرت میر صاحب کو طبیعی طور پر امتیاز اور علو پسندی سے نفرت تھی.انہوں نے بہت انکار کیا اور آخر مجبور ہو گئے تو اس شرط سے کرسی صدارت پر بیٹھے کہ میں کوئی تقریر نہیں کروں گا.جب دعوت ختم ہو گئی.ایڈریس وغیرہ دیئے جاچکے.تو اجاب نے اصرار کیا کہ حضرت میر صاحب بطور صد رکچھ فرمائیں.بعد مجبوری حضرت میر محمد اسماعیل صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) نے تقریر کی تقریر کیا تھی.سادہ الفاظ مگر دل میں پیوست ہو جانے والے چھوٹے چھوٹے فقرے نگران میں محبت الہی و عشق ربانی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.آپ نے فرمایا کہ یہ درست نہیں ہے کہ دنیا میں اتفاقی واقعات ہوتے ہیں.دنیا میں ہر چھوٹا بڑا کام ہمارے زندہ خدا کے ارادہ سے ہوتا ہے.اور ہر واقعہ میں اس کی تعقیب دیر کام کرتی ہے.اس لئے اتفاق کہنہ کہ خدائی قدرتوں سے رو گردانی نہیں کرنی چاہیئے.اور اس دنیا کے وسیع کارخانہ کو اور اس کے کاموں کو سر انسان اپنے لئے سمجھے تو اسے اللہ تعالیٰ کے فضل کا خاص احساس ہوتا ہے.یہ تقریر ایسے انداز میں ایسے واقعات پر مشتمل تھی کہ سامعین پر ایک وجدانی کیفیت طاری تھی.حضرت میر محمد مامیل صاحب ہمیشہ اسی طریق پر لذت اندوز ہوتے تھے.کہ وہ ہر فضل کو اپنے لئے سمجھتے تھے
-1+4 ایک دفعہ شدت گرمی کے بعد بارش ہوئی.میں حضرت میر صاحب سے ملا تو فرمانے لگے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا کہ لوگ تو پہاڑوں پر چلے گئے ہیں.مگر اسمعیل گرمی میں ہیں.اس لئے اس نے میری خاطر بارش نازل فرمائی ہے.پھر اسی کیفیت میں اور بہت سی رومانی باتیں ارشاد فرمائیں.حضرت میر صاحب عشق الہی کا چلتا پھرتا مجسمہ تھے بسلسلہ کی عزت و عظمت کا قیام ان کا مطمح نظر تھا.وہ ہر وقت دینی مطالعہ میں مستغرق رہتے تھے.خدا کی قدرتوں پر فکر کرتے رہتے تھے.انہیں ظاہری اور خشک باتوں سے ٹوپی نہ تھی.بہت بڑے نکتہ رسی عالم دین تھے.ان کا وصال ان کے لئے تو مسرت اور خوشی ہے.مگر جو لوگ اس سے روحانی وجسمانی فوائد سے محروم ہو گئے ہیں.ان کے لئے رتی اور تکلیف کا موجب ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اپنے عاشق صادق بندہ کے درجات غیر معمولی در پر پڑھائے اور ان کے اہل وعیال پر برکات نازل فرمائے.آمین ثم آمین.مکرم جناب خواجہ غلام نبی صاحب اپنی بہترین خو بیوں اور غیر معمولی مومنانہ صفات کی وجہ سے جماعت احمدیہ کے معز زرین رکن تھے.ایک لمبا عرصہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) سے براہ راست تعلیم وتربیت کے مواقع پانے والے خوش قسمت نہ صرف اپنے تقوی وطہارت اور اعلی ترین مومنانہ شان رکھنے کی وجہ سے بلکہ خاندان حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا سے رشتہ کے لحاظ سے بھی بزرگ ترین ہونے کے باوجود ہر ایک کے ایسے خادم اور غیر اندیش کہ چھوٹے سے چھوٹے بچے کی علالت کی اطلاع پا کر اپنا دکھ درد بھول کر اس کے علاج میں ہمہ تن ہے مصروف ہو جانے والے معالج.دنیوی لحاظ سے اونی سے اونی انسان کی نیکی اور عبادت گزاری کا نہ صرف بہترین الفاظ میں اعتراف کرنے والے بلکہ اس پر رشک کا اظہار کرتے
11.والے مرد صالح مخلوق خدا کے لئے دینی اور جسمانی لحاظ سے فیض عام جاری رکھنے والے حضرت میر محمد اسماعیل اللہ تعالی آپ سے راضی ہو) جو کچھ عرصہ سے اپنے آقا و مولا کے حضور حاضر ہونے کے لئے تیار یہ تیار اور پا بہ کاب نظر آتے تھے.۱۸ جولائی کو جمعہ کے مبارک دن اپنے سب پیاروں اور عزیزوں کو اپنے محبوب حقیقی کی خاطر الوداع کہ کر پیچھے ہی چل دیئے.مجھے نہیں یاد کہ گذشتہ مدت میں حضرت میر صاحب مرحوم و مغفور سے ملاقات کا کوئی موقع میسر آیا ہو.اور اس وقت خوشی اور مسرت کے لہجہ میں باتوں باتوں میں مسکراتے مسکراتے اور حسب معمولی پاکیزہ مزاح کے پھول بکھیرتے بکھیرتے آپ نے اس قسم کا ذکر نہ فرمایا ہو کہ اب کو دُنیا سے دل سرد ہو گیا.اب تو دنیا کی کوئی حسرت نہیں رہی.اب تو موت کے لئے تیار ہوں.اس پر چونک کر جب کہا جاتا ہے شک آپ کو دنیا میں رہنے کی ضرورت اور خواہش نہ ہو.لیکن دنیا کو خاص کر جماعت کو آپ کی بے حد ضرورت ہے.آپ ایسے الفاظ کیوں استعمال فرماتے ہیں.تو گفتگو کا رخ اور طرف پھیر لیتے.مرض الموت کے شدت اختیار کر لینے سے چند ہی روز قبل ایک ملاقات کے موقع پر فرمایلہ ایک اہم کام سرانجام دینے کے لئے میں نے خدا تعالیٰ سے کچھ مہلت مانگی تھی.اب وہ دینی کام مکمل ہوگیا ہے اور میں موت کے لئے تیار ہوں.آخر خدا تعالیٰ کے نزدیک یہ تیاری تکمیل کو پہنچ ہی گئی.اور اس نے اپنے ایک محبوب بندہ کے انتظار کی گھڑیاں ختم کر کے اسے ہمیشہ کی زندگی دے کر اپنے پاس بلا لیا.جماعت کے لئے یہ نہایت شدید صدمہ اور بہت بڑا جھٹکہ ہے لیکن ہر دردمند اور غم رسیده احمدی کے لئے ہی واجب ہے کہ انا للہ وانا الیہ راجعون کے درد کے ساتھ کہے.بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کہ خدا تعالیٰ نے حضرت میر صاحب کو جہاں بچپن سے لے کہ آخری دم تک غیر معمولی
احسانات اور انعامات سے نوازا.وہاں حضرت میر صاحب نے بھی اپنی زندگی کا ایک ایک اور خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اس کی اطاعت اور اس کی مخلوق کی خدمت گزاری میں صرف کر دیا.خدا تعالیٰ نے اس کے لئے آپ کو اہمیت بھی غیر معمولی عطا فرمائی تھی.دین کا حقیقی علم بخشا.اور اس کی اشاعت اور تبلیغ کا بہترین ملکہ دیا.نظم ونشریں کا وہ اثر قوت ، شوکت اور دلکشی ودیعت کی کہ پڑھنے والے پر وجد طاری ہو جاتا.پھر آمد اور روانی کا یہ حال کہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اُس کے تمام پہلوؤں کو نہایت آسان اور عام فہم الفاظ میں واضح کر کے رکھ دیا.آپ اپنے بہترین اور بلند پایہ افکار اور مضامین سے ہمیشہ الفضل کو نوازا کرتے.اور بکثرت نواز تھے.الفضل بھی شکر گزاری کے ہاتھوں.لیتا.اور مفید ترین سمجھ کر شائع کرتا.اس بارے میں آپ کی یہ خصوصیت خاص طور پر قابل ذکر ہے.کہ آپ نے کبھی کسی چیز کی اشاعت پر زور دیا تو الگ رہا.معمولی سے تذکرہ بھی نہ کیا.دیر سے اشاعت یا عدم اشاعت پر بھی کبھی برا نہ منایا.حتی کہ اگر کبھی خود بخود معتدت کی گئی تو فرماتے کہ میرا کام لکھنا ہے.اشاعت یا عدم اشاعت اخبار والوں کا کام ہے.اور ان کا حق ہے جو مناسب سمجھیں.کریں.غرض آپ دینی مسائل کے متعلق بہترین کھنے والے اور بکثرت لکھنے والے تھے.جس سے علم الادیان میں دسترس رکھنے اور خدا تعالٰی کی اس نعمت کا حق ادا کرنے کا ثبوت ملتا.اس کے ساتھ ہی آپ کو خدا تعالیٰ نے علم الابدان بھی خصوصیت سے عطا فرمایا تھا.اور دست شفا بخشا تھا.اس انعام کا بھی آپ نے خوب خوب حق ادا کیا سینکڑوں نہیں ہزاروں اور ممکن ہے لاکھوں مریضیوں نے آپ کے ہاتھ سے شفا حاصل کی ہو.ملازمت کے دوران میں بھی ہمیشہ آپ نے اپنے آرام بلکہ اپنی صحت پر مریضوں کے علاج اور ان کی دیکھ بھال کو مقدم رکھا.اور جب رخصت لے کر قادیان تشریف لائے تو ٹھٹھ کے ٹھٹھر مریضوں کے ہر وقت آپ کو گھیرے رکھتے اور آپ سارا سارا دن
مصروف رہتے.آپ کے اخلاق ایسے اعلیٰ.عادات اتنی پاکیزہ.اطوار اس قدر پیارے شغال ایسے پسندیدہ اور اعمال اتنے قابل تعریف تھے.کہ آپ کو تمام صفات حسنہ کا قابل رشک نمونہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا.آپ کی ایک ایک صفت کے متعلق اتنا کچھ لکھا جاسکتا ہے عقیدت یا خوش فہمی سے نہیں بلکہ واقعات اور شہادت کی بنا پر.کہ کئی کئی صفحات بھر جائیں.اور جب آپ کی سیرت کے متعلق میرے مشاہدات اور معلومات کی یہ وسعت ہے.توان بزرگوں کے معلومات اور مشاہدات کسی قدر وسیع ہوں گے جنہیں آپ کی زیادہ صحبت اُٹھانے کا موقع ملا ہو.کاش ایسے جلیل القدر انسان کی پاکیزہ زندگی کے حالات اور مان واقعات قلم بند کئے جائیں.جو بہتوں کے لئے مشعل راہ ہدایت اور بہتوں کے لئے از یاد کیان کا باعث بن سکتے ہیں.آخر میں دُعا ہے کہ اہلی تیرے لئے پیارے بندے نے دنیا میں تیرا نام بلند کرتے.تیرے دین کی اشاعت کرنے تیرے رسول مقبول صلے اللہ علیہ وسلم کی سیرت پیش کرنے تیرے مامور د مرسل حضرت مسیح موعود کا نام دنیا کے کناروں تک پہنچانے.تیرے خلیفہ حضرت مصلح مو خود ایدہ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت میں دن رات مصروف رہے اور حتی الامکان تیری مخلوقی کے دکھ دور کرنے میں اپنی ساری عمر صرف کر دی.اب اسے تو ہی اجر دے سکتا ہے اور تو اسے بڑے سے بڑا اجر اور بلند سے بلند مرتبہ عطا فرما.اور ان کی تمام اولاد کو اپنے خاص انعامات کا وارث نباہ آمین ا روزنامه الفضل قادیان ۲۶ جولائی ۱۱۹۴۷)
۱۱۳ حضرت مولوی محمد نذیر صاحب لائلپوری پرو فیسر جامعه حمد قادیان حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کی وفات ایک قومی صدمہ ہے.آپ ایک بلند پایہ صوفی اور تعلق باللہ عالم دین تھے مضمون نگاری میں انہیں ایک خاص اور جدید طرز کا ملکہ حاصل تھا.آپ ایک سادہ زندگی بسر کرنے والے اور بے تکلف انسان تھے بعض امراء کو غرباء کے پاس بیٹھنا دو بھر رہا ہے لیکن آپ ایسے اخلاق فاضلہ سے متصف تھے کہ غریبوں میں بیٹھنے میں خوشی محسوس کرتے تھے.اور اس وجہ سے فریاد آپ سے بے تکلفی کے ساتھ ملنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے.جن دنوں آپ لائل پور کے سرکاری ہسپتال میں تشریف لائے.ان دنوں میں لائل پور رہتا تھا.آپ نے اپنے حسن نکن اور ہمدردی سے جماعت کے لوگوں میں اپنی گہری حبت پیدا کرنی مجھ سے کہنے لگے کہ فریاد کو اچھا علاج میسر نہیں ہے.اگر کسی غریب احمدی یا غیر احمدی مریض کو علاج کی ضرورت ہو تو آپ مجھے بلا تکلف کہہ دیا کریں ہیں بلائیں اس کے گھر حاکمہ اس کا علاج کیا کروں گا.آپ ہمدردی اور حسنِ اخلاق کی وجہ سے لائلپور میں مریضوں کا مرتع بن گئے.میں نے ان کو ہسپتال میں دیکھا کہ دن رات اپنی ڈیوٹی نہایت محنت تندہی اور مستعدی سے ادا کرتے تھے.اور خلق خدا کی ہمدردی کا جذیہ آپ کے دل میں بھی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا کہ اتوار کے دن بھی چھٹی نہ کرتے بلکہ سارا دن مریضوں کی آنکھوں کے آپریشن میں مصروف رہتے تھے.آنکھوں کی جراحی کے فن میں چونکہ آپ خوب ماہر تھے.اس لئے اس علاقہ کے صدہا آنکھوں کے مریضوں نے آپ سے فائدہ اٹھایا.آپ کی دیانت داری اور تقوی کا یہ اثر تھا کہ ہسپتال کا عملہ جو آپ کے ماتحت تھا.آپ کے زمانہ میں کسی مریض سے رشوت لینے کی جرات نہیں کر سکتا تھا.حضرت میر صاحب ایک خوش بیاین عالم تھے.فارغ اوقات میں جب احمدی
۱۱۴ احباب میں بیٹھتے تو نہایت عمدہ جاذب اور موثر انداز میں قرآن مجید کے نکات بیان کرتے اور اسی طرح وعظ نصیحت فرماتے اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح اور حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے حالات کا اس محبت سے ذکرہ کرتے کہ سامعین کے دل پگھل جاتے.آپ صوفی تھے مگر زندہ دل.چنانچہ اپنی گفتگو میں بعض اوقات اس طرح عام نہ مزاح سے کام لیتے کہ اس سے دلوں میں شگفتگی پیدا ہو جاتی.ایک دفعہ فرمایا کہ الفضل ، نہیں بعض ایسے مضامین بھی ہونے چاہئیں.جو سادہ طرز اور حکایات کے رنگ میں ہوں جس سے بچے بھی فائدہ اُٹھا سکیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ قوت دی تھی کہ میں مضمون پر قلم اٹھاتے اس کو نہایت خوبی سے نبھاتے.خدا تعالیٰ نے اب انہیں اپنے پاس بلا لیا ہے لیکن ہمارے دل ان کی جدائی سے سخت حزیں اور افسردہ ہیں.اللہ تعالیٰ جنت میں ان کو مدارج عالیہ عطا فرمائے.اور ان کے اعزہ و اقارب اور احباب کے دلوں پر مرہم لگائے اللہ ہم آمین جناب مکرم ماسٹر فقیر اللہ صاحب میر صاحب مرحوم.ایک قابل سرمن - ایک حاذق طبیب، عالم با عمل اور تعقی بزرگ تھے.شروع سے آپ کی طبیعت تنہائی پسند واقع ہوئی تھی.طالب علمی کے زمانہ میں جب آپ کا لج کی رخصتوں پر لاہور سے قادیان تشریف لائے تو سارا دن اندر گھر میں ہی رہتے.صرف نمازوں کے لئے بہت مبارک میں تشریف لاتے.اور نماز سے فارغ ہو کر پھر اندر چلے جاتے.اپنی ملازمت کے زمانہ میں جہاں کہیں آپ گئے.اپنی خداداد قابلیت اور مریضوں کے ساتھ ہمدردی کی وجہ سے نہایت ہر دلعزیز ہو گئے.ریٹائر ہو کہ جب آپ قادیان تشریف لاتے تو ان دنوں میری رہائش لاہور تھی.اس لئے میر صاحب سے ملنے کا بہت کم اتفاق ہوا.اللہ کے شروع میں ہی جب میں حضرت خلیفہ اسیح
۱۱۵ ایدہ اللہ بنصرہ العزیز کی بیعت سے مشرف ہوا.تو اس کے بعد کبھی کبھی میر صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوتا رہا.بیعت کے بعد پہلی دفعہ جب اُن سے ملا ہوں.تو فرمانے لگے کہ مجھے آپ کے بعیت سے مشرف ہونے پر بڑی خوشی ہوئی ہے.میری ہمیشہ یہ خواہش رہتی تھی کہ آپ یہاں آجائیں.سوالحمد للہ کہ آپ آگئے.قرآن کریم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو بڑی محبت تھی.اگر اپنے کسی عزیز ترین شخص کی بھی کوئی بات اسوہ رسول کے خلاف دیکھتے تو اُسے سمجھاتے.اور اگر باوجود کوشش کرنے اور سمجھانے کے وہ اپنی بڑی عادت کو نہ چھوڑتا.تو اس سے قطع تعلق کر لیتے.آپ کا دماغ پڑا صاف تھا.اور ہماری کے آخری ایام تک یہی حالت قائم رہی.ان کی وفات سے دو دن پہلے آپ کا ایک عزیز ڈاکٹر احسان علی صاحب کی دوکان پر کلسیم کا ٹیکہ لگوانے آیا.باتیں کرتے کرتے انہوں نے کہا کہ یہ طلاح مجھے میر صاحب نے بتایا ہے.چونکہ چند دن سے آپ کو بیماری کی شدت کی وجہ سے سخت تکلیف اور تقریباً بیہوشی کی حالت رہتی تھی.اس لئے مجھے تعجب ہوا اور پوچھا کون سے میر صاحب نے آپ کو یہ علاج بتایا.تو کہا.اپنے میر صاحب کی بیمار پرسی کے لئے میں گیا تھا.آپ آنکھیں بند کئے ہوئے پڑے ہوئے تھے.جب مجھے باتیں کرتے ہوئے سنا تو دھیمی آواز میں فرمانے لگے.کہ اُسے کہو چھونا کھائے چونا گویا ایسی حالت میں بھی جیب اس عزیز کی باتیں سنیں تو فوراً بیاری کی تشخیص بھی کر لی.اور علاج بھی بتا دیا عرضی بڑی تو ہوں کے انسان تھے.اللہ تعالیٰ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور نہیں اُن کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق بخشے.در روزنامه الفضل قادیان ۲۵ جولائی ۱۱۹۴۷)
114 نازیم منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی میں میر صاحب کو اس وقت سے جانتا ہوں.جب وہ چھٹی جماعت میں پڑھا کرتے تھے.اس وقت تک مجھے ان کے قریب رہنے کا اکثر موقع ملتا رہا میں نے اس عمر میں بھی آپ کو نہایت ہی خدا ترس ، خلق خدا پر مہربان اور ہمدرد پایا حضرت میر صاحب مرحوم اپنے فرائض منصبی کو نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیتے تھے کبھی ناجائز فائدہ اٹھانے کا مرہم تک نہ کیا.ماشاء اللہ سول سرجن تھے.زندگی میں ایسے کئی مواقع پیش آئے لیکن کمال ثابت قدمی سے اس طرح بچتے رہے میں طرح کہ ایک بلند پایہ مومن کو بچنا چاہیئے.ایک دقعہ سلام میں ایک شخص میرے پاس سیا لکوٹ آیا.حضرت میر صاحب بھی وہیں تھے.وہ ہسپتال کا وارڈ قلی تھا.ہاتھ جوڑ کہ میرے سامنے کھڑا ہو گیا کہ میر صاحب نے مجھے موقوف کر دیا ہے.میں نے پوچھا کیوں؟ کہنے لگا کہ ان کو شک پڑ گیا تھا کہ میں نے کسی مریض سے پیسے لئے ہیں.میں نے اس سے دریافت کیا.کہ اب جبکہ میرے پاس سفارش کے لئے آئے ہو تو یہاں تو سیع سے کام لو.تو اس نے کہا کہ اس کے بغیر سہارا گزارہ نہیں ہوتا.مجبوری ہے.اب تک تو کسی نے سرزنش نہ کی تھی.اب میر صاحب نے شک کی بنا پر مجھے بر طرف کر دیا ہے.میں نے حضرت میر صاحب کو کہا کہ دیکھ لیں غریب آدمی ہے.حضرت پر صاحب کہنے پر راضی ہو گئے.لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس کی سروس بک میں اس کا ذکر ضرور کروں گا.ایک دفعہ میں سیالکوٹ میں ہسپتال میں چار ہا تھا کہ ایک عورت نے آکر میر صاحب سے درخواست کی کہ آپ سے علیحدگی میں کچھ عرض کرنا چاہتی ہوں.مگر میر صاحب نے اسے
114 جواب دیا.کر میں ملطندگی میں باتیں نہیں سنا کرتا ہیں نے اس عورت پر ترس کھا کر میر صحاب کو کہا.کیوں نہیں سن لیتے.تو فرمانے لگے.کہ وہ مجھے علیحدگی میں کچھ روپے بطور رشوت دینا چاہتی ہے.میں نے کہا.آپ کا خیال ہے.چنانچہ وہ چلے گئے.تو عورت نے کچھ رقم پیش کی جسے آپ نے لینے سے صاف انکار کر دیا.آپ کے گھر پر اگر کوئی مرض آتا.تو اس کا علاج بھی اس خندہ پیشانی سے کرتے جس طرح کہ ہسپتال ہیں.الغرض حضرت میر صاحب نے ملازمت کا تمام عرصہ خالصتاً مخلوق خدا کی خدمت ہمدردی اور بھلائی میں گذارا.اور ریٹائر ہونے کے بعد بھی اسی میں کوشاں رہے.خدمت خلق حضرت میر صاحب کے جملہ اوصاف میں ایک خاص وصف تھا.اروت نامه الفضل قادیان ۲۸ جولائی ۱۹۴۷ء) جناب ملک مولا نمیشن صاحب پریذیڈنٹ یونس کمیٹی قادیان اگر چہ میں جب شاہ کے دسمبر میں قادیان میں پہلی دفعہ آیا.اور بیعت کی میرا خیال ہے کہ میں نے تب ہی ان کو دیکھا.مگر زیادہ واقفیت اور محبت کے ازدیاد کے مواقع بعد میں نصیب ہوئے.ان کو قریب سے ملنے کا موقع مجھے اس وقت پیش آیا.جب وہ لاہور کے بڑے ہسپتال میں ہاؤس سرجن تھے.میں اپنے برادر زادہ کو لے کر گیا.جس کی آنکھوں میں گھرے تھے.میر صاحب نے ان کو کلوروفارم سے بے ہوش کر کے عمل جراحی کیا.ہمیں پاس کھڑا تھا.محبت اور رقت قلب کی وجہ سے میں بے ہوش ہو گیا.جب ہوش آئی تو میں بھی ایک میز نہ پڑا ہوا تھا.اور حضرت میر صاحب مجھ کو ہوش میں لانے کی کوشش کر رہے تھے.جلدی ہی مجھے ہوش آگئی.تو میر صاحب نے فرمایا.کہ اگر تم ایسے ہی بہادر تھے.یا کہا کمزور دل تھے تو ساتھ ہی کیوں شہرے تھے.
۱۱۸ اس کے بعد جب میں قادیان آتا تھا تو ڈاکٹر عباد اللہ صاحب مرحوم کے ساتھ جو میرے دوست تھے.موگا میر صاحب سے ملنے کا اتفاق ہوتا تھا.پھر حضرت میر صاحب امرتسر میں ہاؤس سرجن مقرر ہوئے.تو ان سے راہ و رسم زیادہ بڑھ گئی.میرا برادر نسبتی بہت بیمار ہوگیا.کئی ڈاکٹروںکو دکھلایا.حتی کہ دو سول سرجنوں کو بھی.وہ میرے کا مرض بتلاتے رہے.میں نے حضرت میر صاحب سے ذکر کیا.تو انہوں نے ازراہ مہربانی خر اس کو جا کر دیکھا.اور ایک منٹ میں کہہ دیا.کہ اس کے اندر تمام چیپ پڑی ہوئی ہے ہم نے کہا.آپ کے سول سرجن نے تو اور مرض بتلائی ہے.انہوں نے فرمایا میرے ساتھ ان کو بلایا جائے ، چنانچہ بلایا گیا.سول سرجن صاحب حضرت میر صاحب کے دلائل سے فورا قائل ہو گئے.اور اس مریض کا آپریشن کیا گیا.جس سے چھ سات سیر پیپ نکلی.مرض بہت بڑھ چکا تھا.حضرت میر صاحب نے پہلے ہی فرما دیا تھا کہ گو صحت کی امید کم ہے.مگر اس وقت بجز اپریشن کے اور کوئی علاج نہیں.گو وہ مریض جانبر نہ ہو سکا.مگر حضرت میر صاحب کی ذہانت اور قابلیت کا لوہا سب کو ماننا ئیا.پھر جب میں گورداسپور نہیں تھا.تو قادیان کے اکثر دوست جب وہاں کسی کام کو جاتے تھے تو میرے پاس ٹھہرا کرتے تھے.ایک روز جو میں صبح کو بیٹھک میں آیا.تو میں نے دیکھا کہ ایک صاحب ایک پاکیزہ بستر میں آرام سے سوئے پڑے ہیں.تو کہ سے پوچھا.کون صاحب ہیں.تو اس نے کہا مجھے اتنا معلوم ہے، قادیان سے آئے ہیں.اور سور ہے ہیں.میں نے کہا تھا کہ آپ کو جگاؤں.گھما نہوں نے فرمایا کہ مجھے صرف چار پائی دے دو.اور ان کو بے آرام نہ کرو.میں نے آگے بڑھ کر دیکھا.تو حضرت میر صاحب تھے جب جاگے تو میں نے پوچھا.مجھے جگایا کیوں نہ.تو نہایت سادگی سے فرمایا.مجھے صرف سوتا تھا.جگہ مل گئی.لیستر میرے ساتھ تھا.آپ کو تکلیف دینے کی ضرورت نہ تھی.یہ بھی فرمایا کہ ہمارے ہاں دستور ہے کہ جب کہیں باہر جائیں تو اپنا بہتر ساتھ لے جاتے ہیں.اس سے
۱۱۹ ایک تو میزبان خواہ مخواہ کی پریشانی اور تکلیف سے بچ جاتا ہے.دوسرے اپنی مرضی کے مطابق بہتر مل جاتا ہے.لوگ ہر مہمان کے لئے الگ الگ بستر تو مہیا نہیں کر سکتے.اور مہمان مختلف طبیعت اور صحت کے ہوتے ہیں.اس سے انسان کئی کاوشوں اور بیماریوں سے بچ جاتا ہے.پھر گورداسپور کا ہی ذکر ہے کہ حضرت میر صاحب کی رخصت ختم ہوئی تو ابھی ان کے کسی جگہ پوسٹنگ کا فیصلہ نہیں ہوا تھا.اس لئے اُن سے کہا گیا کہ آپ گورداسپور ستال جنرل ڈیوٹی پر حاضر ہو جائیں.جب انہوں نے مجھے کو یہ بتلایا.تو میں نے کہا.یہ تو پولیس کی لین حاضری ہے.یہ اصطلاح آپ کو بہت پسند آئی اور مدت تک محبت سے اس کا ذکر کرتے رہے.انہی دنوں میں وہ واقعہ پیش آیا.جو بالخصوص میرے لئے ان سطور کے کھنے کا محرک ہوا ہے.میں نے حضرت میر صاحب سے عرض کیا.یہاں کے اسٹنٹ سرجن سے لوگ مطمئن نہیں.اگر آپ کچھ کوشش کریں تو آپ نہیں لگ جاویں.فرمایا میں کیوں کوشش کروں.اس سے کیا فائدہ ہوگا.میں نے کہا قادیان کے قریب رہیں گے.ہر ہفتہ کے روز بائیسکلوں پر ہی قادیان جایا کریں گے.اتوار وہاں گزار کہ پیر کو آجایا کریں گے.فرمایا مجھے کیا معلوم ہے کہ قادیان کے قریب رہنا یا اس طرح قادیان جانا میرے دین و دنیا کے لئے مفید ہو گا.میں تو وہاں ہی رہنا چاہتا ہوں.جہاں میرا خدا مجھے رکھے.وہ مجھ سے بہتر جانتا ہے کہ میرا کہاں رہنا مفید ہے.اس سے نہ صرف میرا منہ بند ہو گیا.بلکہ یہ بات ایسی میرے دل میں اتر گئی.کہ بعد کی زندگی میں میرے بہت کام آئی.اور بعد میں لسلسلہ ملازمت میرے تبادلے دُور دُور ہوئے تو مجھے کوئی صدمہ نہیں ہوا.اور میں جھوٹا یہی سمجھتا رہا.کہ جہاں میرا مولا مجھے رکھے.وہی جگہ مفید ہے.اس طرح حضرت میر صاحب کی بات سے مجھے بڑا مد خانی فائدہ پہنچا.جب میرا تبادلہ گورداسپور سے حصار ہوا.تو قادیان اور گھر سے دور جانے کی وجہ سے مجھے کچھ غم ہوا.جسے بعد میں
۱۲۰ میں نے محسوس کیا.کہ میری سوچ غلط تھی.اور سچی بات وہی تھی جو حضرت میر صاحب نے فرمائی تھی.جب میں قادیان میں نیشن لے کر آیا تو حضرت میر صاحب سے اکثر ملنے کا اتفاق ہوتا.اور وہ ہمیشہ محبت سے ملتے اور مشفقانہ سلوک کرتے.کوئی تین سال کی بات ہے نہ میرے لڑکے ملک شبارت لحد کے کان میں سخت در دکئی دن رہا.کئی علاج کروائے.فائدہ نہ ہوا.آخر میں اسے حضرت میر صاحب کی خدمت میں لے گیا.بچے کی بیماری کا ان کو پہلے ہی شیخ فضل احمد صاحب کی زبانی علم ہو چکا ہو چکا تھا.مجھے دیکھتے ہی فرمایا کہ کسنا ہے آپ کے کسی بچے کو تکلیف تھی.میں نے کہا یہ بچہ ہے اس کے کان میں بے چین کرنے والی درد ہے.حضرت میر صاحب نے ہاتھ سے کان پکڑ کہ دیکھا اور ہسپتال کو چل پڑے.ہم ساتھ ہو لئے.پہلے اس کے کان کا معائنہ ہو چکا تھا.مگر نہ معلوم میں جاب نے مرض کو دیکھ لیا.وہاں جا کہ ایک مختصر سا آلہ ہے کہ جو کھر پا سا تھا.اس کے کان کو اندر سے چھینا شروع کیا.جس سے کچھ خون وغیرہ نکلا.لڑکا درد سے اوٹی اوٹی کرتے لگا.اس کی عمر اس وقت میں سال کے قریب تھی.اور وہ خدام الاحمدیہ کا سرگرم نمبر تھا.اُس کی یہ حالت دیکھ کہ حضرت میر صاحب نے کہا.یہ لوگ ہیں جو اپنی مجلسوں میں بیٹھ کر ڈینگیں مارتے ہیں کہ ہم نے دنیا کو فتح کرنا ہے.اور یہ کریں گے اور وہ کریں گے.یه وراسی درد کو برداشت نہیں کر سکتے تو اور کیا کام کریں گے.اس غیرت دلانے والے کلمہ کا بچے پر ایسا اللہ ہوا کہ وہ خاموش ہو گیا.اور اللہ تعالیٰ کا ایسا فصل ہوا کہ اس کا درد اور تکلیف چلتا رہا.تین ماہ کے قریب ہوئے کہ ایک دن شیخ فضل احمد اور اسر خیر الدین صاحب کے حضرت میر صاحب کی خیریت پوچھنے کو گیا.اس سے پہلے دن کا تھا کہ ان کو بہت تکلیف رہی تھی خبرما کہ آپ باہر
۱۲۱ تشریف لے آئے اور محبت سے باتیں کرتے ہوئے میرے گھر کے قریب تک جو ریلوے سٹیشن کے پاس تھا چاہتے.بھائی عبد الرحیم صاحب اور مولوی عبد اللطیف شہید صاحب بھی ساتھ ہو لئے سڑک پر میرے گھر کے پاس پہنچے کہ فرمایا.اب آپ گھر جائیں.میں نے عرض کیا کچھ آرام فرمائیں.کچھ ناشتہ کر یں.فرمایا میرے لئے بیٹھنا یا لیٹنا مشکل ہے.کھانا بھی کچھ نہیں چاہتا.پھر دوسرے دوستوں کے ساتھ واپس چلے گئے.حضرت میر صاحب رحمت.قبض اور محسم محبت تھے.اور مغز شریعت ان پر منکشف تھا.نہایت صاف اور سیدھے اور قول سدید کہنے والے تھے.اللہ تعالیٰ ان پر اپنی بے شمار رحمتیں کرے.جناب اخوند عبد القادر صاحب ایم اے پروفیت تعلیم الاسلام کالج حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب ایک جلیل القدر رفیق تھے.اور حضرت میچ موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھے.زمانہ طالب علمی سے ہی آپ سے واقفیت رہی ہے.مگر زیادہ تر سلسلہ راہ درسم گزشتہ سات آٹھ سال میں ہی قائم ہوا کہ جب میں مستقل طور پر قادیان میں آگیا.آپ بہت بڑی خوبیوں کے مالک تھے.طبیعت کے نہایت نیک تھے.صوفیانہ تنگ غالب تھا.صاف گوئی آپ کا شعار تھا.اور حتی الوسع اپنے فن کے علم و تجربہ سے دوسروں کو مستقید کرنے کا موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.بلکہ باد محمد اکس پیرانہ سالی کے بعض اوقات اہم اپریشن خود ہی نور ہسپتال میں کرتے رہے.اپنے رفقاء اور دوستوں کا خاص خیال رکھتے تھے.طبیعت میں مزاح کا رنگ بھی تھا.جو بعض اوقات عمدہ لطائف کی کیفیت پیدا کر دیتا تھا.اور جیب کبھی ان کے افکار و جذبات نے منظوم کلام کی صورت اختیار کی.ایک دیدائی کیف
۱۲۲ سے معمور ہو کہ پڑھنے والوں نے لطف اٹھایا.ان کا پر معارف کلام آئندہ بھی پڑھنے والوں کے لئے ازدیاد علم کا باعث بن کر خراج تحسین حاصل کرتا رہے گا.آپ کے دوسرے مضامین بھی جو نہایت دلچسپ ہونے کے علاوہ ٹھوس معلومات پر مشمل ہوا کرتے تھے.اپنے اندر نمایاں انفرادیت کی شان رکھتے تھے.ان کے مضامین و کلام کی انفرادیت اس درجہ نمایاں ہوتی تھی کہ اگه آخر یہ با سرنامہ پر ان کا نام نامی نہ بھی ہوتا.تو قارئین کو ابتدائی چند فقرات پڑھنے سے بخوبی معلوم ہو جاتا کہ یہ خیالات کس قلم گوہر کے چکیدہ ہیں احمدیت کی محبت آپ کے وجود میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز سے تو خاص طور پر عشق تھا.مگر اس کے ساتھ ساتھ اسی درجہ حضور والا کا احترام بھی تھا.غرض حضرت میر صاحب ممدوح.اہل کلام.اہل کمال اور اہل فن تھے.اور روحانیات ، اخلاقیات میں نہایت ہی بلند مقام پر فائز تھے.امد ایک تافع وجود تھے.درد مند دل رکھتے تھے.ان کا ہر خاص و عام مدح خواں ہے جماعت اور سلسلہ کے لئے آسمان احمدیت کے ایسے چکتے ہوئے ستارہ کا غروب ہو جانا ایک زبر دست قومی نقصان ہے.اللہ تعالی بیت النعیم میں بھی آپ کو مقام رفیع عطا فرمائے.اور پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق دے.نیز انہیں اپنے اس بزرگ جلیل کے روحانی واخلاقی اوصاف کو اپنے اندر بدرجہ اتم پیدا کرنے اور ان روایات کو قائم رکھنے اور ان کے نقش قدم پر چلنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.آمین ثم آمین.1952 الفضل قادیان ۲۸ جولائی ۱۹۴۷
۱۲۳ محترم خالصاد بینشی برکت علی صاحب جوائنٹ تا ظر بیت المال بے عیب ذات تو خدا ہی کی ہے.لیکن کوئی فرد ایسا نہیں جو عیب سے میرا ہو.و بادان نا خواستہ منظور فرماتے.آپ.لیکن یہ سمجھے ہے کہ حضرت ڈاکٹر میرمحمد اسماعیل صاحب مرحوم اس درجہ مخاط واقع ہوتے تھے کہ کوئی شخص انگشت نمائی نہیں کر سکتا تھا.دنیاوی معرفت کے لحاظ سے سول سرجن کے عہدے پر فائز تھے جسمانی رشتے کے اعتبار سے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے نسبتی پر اور اور حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کے نہ صرف ماموں بلکہ سسر بھی تھے.مگر اللہ اللہ طبیعت نہایت سادہ پائی تھی.کہ خود پسندی و خود ستائی نام کو ہ تھی مجلس میں کبھی نماز جگہ پر نہ بیٹھتے.بلکہ معمولی پسند کرتے.جلسہ ہمیں صدر نا پسند نہ کرتے تھے.اگر کبھی آپ کو مجبور کیا صدارتی ریمارکس میں اعلیٰ درجہ کی نصائح کرتے.آپ حد درجہ متقی اور پرہیز گار تھے.مداہنت قطعا پسند نہیں کرتے تھے.تا ہم حق بات اس طرح کیا کرتے کہ کسی کو کیا معلوم نہ ہوتا.شخصیت نہایت متواضع تھی.اور تواضع اور کوئی تصنع نہ تھا.اور نہ کسی قسم کا رنج دل میں لاتے.بلکہ خوشی محسوس کرتے.عرصہ کی بات ہے جب آپ امرتسر تبدیل ہو کر آئے تو امر تسر جانے والے احمدی احباب اکثر آپ کے مکان پر ٹھہرتے.آپ کبھی دل میں میں نہ لاتے.آپ سب کی اس طرح تواضع کہتے کہ سر کوئی یہ محسوس کرتا کہ گویا حضرت میر صاحب کو ان کے آنے سے خوشی ہوئی ہے.ان دنوں وہاں سول سرعین ایک انگریز تھا جس کا نام قالباً سمتھ صاحب تھا.اُسے آنکھوں کے بناتے ہیں خاص مہارت تھی، اور بلامبالغہ سینکڑوں مرد اور عورتیں آنکھیں بنوانے کے لئے وہاں جاتے تھے اور شفا یاب ہو کر آتے تھے.میری
۱۲۴ والدہ صاحبہ مرحومہ کی نظر بوجہ موتیا بند کے بند ہو گئی تھی میں نے حضرت میر صاحب سے ذکر کیا.تو انہوں نے فوراً انہیں دیکھنے کے لئے بلوالیا حضرت میر صاحب نے ازراہ شفقت خود بڑی احتیاط سے ڈاکٹر سمتھ صاحب سے آپریشن کرا دیا اور پھر والدہ مرحومہ کو ہسپتال میں نہیں رہنے دیا.بلکہ اپنے گھر لے آئے جو ہسپتال کے احاطہ میں سہی تھا.اور جب تک ان کی حالت تسلی بخش طور پر درست نہ ہوگئی.پندرہ بیس دن تک ہم سب کو گھر میں رکھا.اور دونوں میاں بیوی یعنی خود حضرت میر صاحب اور ان کی پہلی اہلیہ محترمہ بڑی محبت سے ان کی خاطر داری کرتے رہے.نہ صرف ہم سب کو کھانا کھلایا جاتا بلکہ والدہ محترمہ کی بیماری کی وجہ سے اگر کسی خاص پر ہیزی کھانے کی ضرورت ہوتی.تو ان کے لئے الگ کھانا پکایا جاتا تھا.یہ وہ شفقت اور احسان ہے جس کو ہم یعنی میں اور میری بیوی کبھی نہیں بھول کتے.اور ہم ڈھا کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ بہتر سے بہتر انہیں احسان کا بدلہ دے اور اب جبکہ وہ اس جہانِ فانی سے رحلت فرما گئے ہیں.پر ور دگار عالم اپنے فضل وکرم سے قرب کے اعلیٰ سے اعلیٰ مقام عطا فرمائے.آمین.ہم صرف حضرت میر صاحب کے احسان کے ہی ممنون نہیں ہیں.بلکہ ان کی اہلیہ صاحبہ کے بھی از حد شکر گزار ہیں کہ انہوں نے بھی بیاری کی حالت میں میری والدہ صاحبہ کی بڑی خدمت کی، اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالٰی انہیں دین و دنیا میں خوشحال رکھے.آمین.ایک بڑی خوبی حضرت میر صاحب میں یہ تھی کہ خدا تعالیٰ پر کامل بھروسہ اور توکل رکھتے.چنانچہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ قیام امرتسر میں ایک وقعہ باتوں باتوں میں مجھے معلوم ہوا کہ یہاں مہمانوں کی اس قدر کثرت ہے کہ بعض اوقات آپ کی ساری تنخواہ مہمان نوازی میں ہی صرف ہو جاتی ہے.مگر آپ بطیب خاطران اخراجات کو برداشت کرتے.متواضع ہونے کے علاوہ آپ نہایت خوش طبع اور بے لوث انسان تھے.ہر شخص جوان سے بات کرتا ہی سمجھتا کہ میرے ساتھ ان کا خاص مشفقانہ تعلق ہے اور سر چیند
۱۲۵ ایک نہیں بلکہ بلا مبالغہ ہزار ہا احباب آپ کی اس خوبی کا اعتراف کریں گے.بے لوث طبیعت کی شملہ میں تو ایک ضرب المثل ہو گئی تھی.ان کے ماتحت وہاں ایک سب اسٹنٹ سرین تھا.جو مذہب شیعہ تھا.اس نے مجھے کئی دفعہ کہا کہ میر صاحب نہایت متوکل انسان ہیں.ان کی طبیعت میں لالچ بالکل نہیں.چونکہ نیک دل خوش مزاج اور متقی اور پرہیز گار ہونے کے علاوہ ڈاکٹر بھی اعلیٰ درجہ کے ہیں.اس لئے لوگ انہیں اکثر بیماری پر بلاتے ہیں.اور کو قانونی اور سرکاری طور پہ 14 روپے فی معائنہ (VISIT ) فیس ملتی ہے مگر وہ پردا نہیں کرتے.اور کئی دفعہ مجھے بھیج دیتے ہیں اور بیمار کی حالت معلوم کر کے اعلیٰ سے اعلیٰ نسخہ تجویز کرتے ہیں.نیز آپ نے کئی اپنے خاص خاص نتھے جو ان کے تجربہ میں آچکے ہیں مجھے بتا دیئے ہیں جن کی وجہ سے میرے علم اور تجربہ میں کافی اضافہ ہوا ہے.اور میں نے دنیادی طور پر بھی بہت فائدہ اٹھایا ہے.لیکن شملہ کی آب و ہوا امیر صاحب کے موافق نہیں تھی.اور علاوہ اس کے اور بھی وجوہات تھیں.جن کی وجہ سے آپ وہاں رہنا پسند نہیں کرتے تھے.ایک وجہ یہ تھی کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ یہاں آپریشن کا موقعہ کم ملتا ہے.کیونکہ یہاں کئی ڈاکٹر ہیںجو اپنے اپنے دائرہ عمل میں آپریشن کرتے ہیں.اور میرے حقیہ میں کام کم آتا ہے جن کا یہ مطلب تھا.کہ آپ قطر تا خلق خدا کو فائدہ پہنچانے کے متمنی تھے.چنانچہ آپ نے جلدی وہاں سے تبدیلی کرالی پنشن لے کر آپ دارالامان میں آئے تو محض اس وجہ سے کہ آپ کی طبیعت میں کسی قسم کا دنیاوی لالچ نہیں تھا.نہ آپ نے پریکٹس کی اور نہ ہسپتال میں کام کہ ناپسند کیا.البتہ آپ دوستوں کی خدمت کے لئے ہر وقت آمادہ رہتے تھے میری داڑھ میں ایک وقعہ درد ہوا.میں نے آپ سے ذکر کیا.شام کا وقت تھا.آپ اس وقت میرے ساتھ ہولئے.اور ایک ڈاکٹر کی دکان سے مجھے ایک دوائی لے دی.کہ آج اسے استعمال کر
۱۲۶ کے رات آرام سے گزارو صحیح کوئی علاج کریں گے.ایک دفعہ میرے ماتھے پر ایک گومرسا اٹھا اور موٹا سا گولین گیا.درد تو کوئی نہیں تھا.مگر بڑا بعدا اور یہ نما معلوم ہوتا تھا.میں نے حضرت میر صاحب سے ذکر کیا گر آپ ہسپتال نہیں جاتے تھے اور نہ آپ پریکٹس کرتے تھے.مگر محض میری خاطر از راہ شفقت فرمایا کہ کل صبح میرے پاس آنا میں خود ہسپتال میں جا کہ آپریشن کہ دوں گا اور اس طرح کروں گا کہ ذرا بھی تکلیف نہیں ہوگی.چنانچہ میں گیا.تو پہلے آپ نے کوئی دوائی لگائی.جس سے گوشت بے حس ہو گیا اور بعد میں چہرا دے دیا جس سے مجھے ذرا بھی تکلیف نہ ہوئی.غرض اس طرح کے کئی احسانات ہیں جو انہوں نے مجھے پر کئے.اور جس کی وجہ سے میں اُن کا نزول سے ممنون ہوں اور ہمیشہ اُن کے لئے دعا گو ہوں.بلکہ یہ سمجھتا ہوں کہ صرف میں ہی نہیں بلکہ اور بھی ہزار ہا لوگ ہیں جن کے ساتھ حضرت میر صاحب کا خاص مشفقانہ سلوک رہا ہے.اور جو حضرت میر صاحب کی تعریف میں رطب اللسان ہیں.جہاں تک مجھے معلوم ہے حضرت میر صاحب ظاہر طور پر عربی کے ڈگری یافتہ عالم نہیں تھے.مگر ذاتی علم و فضل میں دو کمال رکھتے تھے کہ ہر مسئلہ پر حادی تھے.اور قرآن پاک کے مشکل سے مشکل مقامات باسانی عام فہم طرز میں فرما دیتے تھے کئی دفعہ آپ کے فضل میں شائع شدہ مضامین اور طبع شدہ تصانیف اس حقیقت کا بین ثبوت ہیں.نثر کے علاوہ نظم کہنے میں بھی کمال رکھتے تھے.آپ کے اشعار نہ صرف بلند پایہ مضامین پر مشتمل ہوتے بلکہ زبان بھی نہایت پاک صاف ستھری سلیس اور با محاورہ ہوتی تھی.اور ان سب کہنہ مشق شاعروں کی سی روانی ہوتی.بعض نظمیں جو آپ نے خدا تعالیٰ کی حمد اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مدح میں لکھیں.ایسی مقبول عام ہوئیں.کہ آج تک اکثر خوشی کے موقعوں پر پڑھی جاتی ہیں.
۱۲۷ اللہ تعالیٰ آپ کو بہشت بریں میں جگہ دے.اور آپ کے درجات بلند کرے.آمین.( روزنامه الفضل قادیان ۴ را گست ۱۱۹۴۷) ناب حکیم عبد اللطیف صاحب شہید عروسی بود نوبت ما تمت اگر بز کوئی بود خاتمت جیسا کہ احباب جماعت کو علم ہو چکا ہے کہ ہماری جماعت کے درخشندہ گوہر حضرت بند گوار ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) بروز جمعہ المبارک ۲۸ شعبان کو یہ گرائے عالم جاودانی ہو گئے.اور جماعت کے ہر خورد و کلاں کو اپنی حیائی سے مغموم ومحزون چھوڑ گئے.العين تدمع والقلب يحزن وانا بفراقك يا اسماعيل لمحزونون ولا نقول الامايرضى به ربنا و هو ارحم الراحمين وخير الغافرين وانا لله وانا اليه راجعون حضرت میر صاحب اللہ تعالٰی آپ سے راضی ہو) کو جماعت احمدیہ میں جو ارفع و اعلیٰ مقام حاصل ہے.وہ سلسلہ کے کسی فرد سے مخفی نہیں.آپ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود را آپ پر سلامتی ہوم سے نہ صرف شدید روحانی تعلق رکھتے تھے.بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو قریبی جهانی رشتہ بھی حاصل تھا.آپ جسمانی رشتہ کے تعلق کی وجہ سے اپنی ذاتی اعلیٰ استعداد کے باعث حضرت اقدس مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا کی محبت صالحہ میں رہ کہ آپ کو روحانی برکات حاصل کرنے کے ایسے بے نظیر مواقع ملے جو دوسروں کو کم ہی نصیب ہو سکتے ہیں.الا ماشاء الله آپ دہلی کے اولیاء اللہ کے ایک نجیب الطرفین سید خاندان کے فرد تھے.پھر آپ
۱۲۸ کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ درجہ کی فطری استعدادیں عطا کی تھیں.نیز آپ علمی اور مذہبی ماحول میں پروان چڑھے تھے.اور سونے پر سہاگہ یہ کہ آپ کو حضرت مسیح موعود کی پاکیزہ صحبت ایک لیے عرصہ تک میسر آئی تھی.ان سب باتوں کی وجہ سے آپ کا وجود اسلام واحمدیت کا ایک بے نظیر نموز بن گیا تھا.اور آپ ان کامل الایمان لوگوں میں سے ایک تھے جنہیں دیکھ که رفقاء کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی یاد تازہ ہو جاتی ہے.افسوس اسلام واحمدیت ان سابقون الاوائی رفقاء کرام کی تعداد روزیروز کم ہو رہی ہے.اور وہ شارہ ہائے سحر کی طرح ایک ایک کر کے ہم سے رخصت ہو رہے ہیں.اسلام کے خدائی احمد کے خاص پیارے اب رہ گئے ہیں ایسے جیسے سحر کے تارے ہر احمدی کو چاہیئے کہ اپنی روز و شب کی دعاؤں میں رفقا حضرت مسیح موعود ر آپ پر سلامتی ہو) کی صحت و تندرستی اور عمر میں برکت کی دُعا کو بھی شامل رکھے تا موجودہ نسلوں کو زیادہ سے زیادہ لیے عرصے تک روحانی برکات حاصل کرنے کے مواقع میسر آئیں ، آئین خاکسار بمیرند کو حضرت بزرگوار میر صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) کی مصاحبت اور مجالست میں آٹھ سال تک رہنے کا موقع ملا.اس لیے عرصے میں خاکسار نے حضرت میر صاحب کے اوصاف حمیدہ و اخلاق ستودہ کے جو جو کہ شمے دیکھے ہیں میری خواہش ہے کہ جماعت کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کی بہبودی اور افادہ کے لئے ان میں سے بعض کا ذکرہ بالا اقساط الفضل میں کر دوں تاکہ جب فرمان نبوی اذكروا موتاكم بالخير - حضرت میر صاحب کا ذکر خیر بھی ہو جائے اور افراد جماعت کو آپ کی سیرت کا تتبع کر کے آپ کے نقش قدم پر چلنے کی ترغیب و تحریص بھی پیدا ہو جائے.وما توفيقي إلا بالله العلى العظيم حضرت میر صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) ایک باکمال صوفی تھے.اور اللہ تعالیٰ کے مشاق اور محبین میں سے کامل عاشق ، آپ کا دل عشق الہی کا ایک آتشدان تھا.اور آپ
۱۲۹ کی روح هر وقت آستانہ خداوندی پر آب زلال کی طرح بہتی رہتی تھی کسی وجود کے عاشق اہلی ہونے کا سب سے بڑھ کر ثبوت یہ ہے کہ عاشق اپنے ازلی ابدی محبوب حقیقی کی خاطر اپنی جان مال اولاد معزت سب کچھ قربان کر ڈالے اور احکام ایندی کے ماتحت اپنے تن من دھن کو ئی دے.اور دنیا کے کسی مرحلہ میں اُسے لغزش نہ آئے اور دنیا کی کسی مصیبت کے وقت اس کا قدم صراط مستقیم سے نہ ڈگمگا جائے.اور حالت عصر سیسر میں ثابت قدم اور قومی الایمان رہے.حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی طفیل حضرت میر صاحب قبلہ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے عشق اہلی کے یہ تمام مراحل طے فرمائے تھے اور وہ عشاق الہی کی صف اول میں شامل و داخل ہو گئے تھے.اپنے سنِ شعور سے لے کر وفات تک انہوں نے اللہ تعالٰی کی راہ میں کسی قسم کی جانی، مالی بدنی، سانی عالی و قالی قربانی سے دریغ نہیں کیا اور خد اکے پاک دین اور سلسلہ حقہ کی دامے درمے قدمے سخنے مرتے دم تک خدمات بجالاتے رہے اور ان خدمات کے سلسلہ میں ایسے ثابت قدم رہے کہ بطور مثال پیش کئے جاسکتے ہیں.آپ نے سلسلہ کی سر مالی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا.اور اپنی ملازمت کے زمانہ اور اس کے بعد نیشن کے عرصہ میں اپنا مال بے دریغ خدمت سلسلہ کی خاطر چندوں کی صورت میں دیا.آپ موصی تھے اور اپنی وصیت انتہائی باقاعدگی کے ساتھ ادا فرماتے رہے اور ماہوار پیشن ملتے ہی سب سے پہلے اپنا حصہ وصیت ادا فرمانے کا تردد کرتے تھے.خود معذور ہوتے تو کسی کے ہاتھ وصیت کی رقم فوراً داخل خرما نہ کرانے کا بندوبست کرتے.چنانچہ آپ نے مرض الموت کے زمانہ میں پچھلے ماہ کی وصیت خاکسار کے ذریعہ داخل کرائی.آپ نے اپنے وجود یا جود سے جس قدر سلسلہ حصہ کو ہر رنگ میں فائدہ پہنچایا.اس سے جماعت احمدیہ کا ہر فرد آگاہ ہے آپ نے سلسلہ کی جس قدر قلمی خدمات سرانجام دی ہیں.اور میں قدر اعلی علمی لڑ پھر چھوڑا ہیو صد با مضامین کی صورت میں زیب جرائد سلسلہ ہے.
۱۳۰ اور بعض مستقل کتابوں کی شکل میں طبع ہو چکا ہے.اس سے بھی جماعت کا علمی طبقہ بے خبر نہیں.قربانی وایثار کی یہ روح اور خدمت دین کا یہ بے پناہ جذبہ سب ان کے عشق الہی پر دال ہے.الغرض آپ اللہ تعالیٰ کی محبت میں گداز رہتے تھے اور اپنے محبوب ازلی کے خیال میں ہر آن مشغول آپ کا منظوم کلام اس بات کا شاہد عادل ہے کہ آپ مولا کریم کے کس قدر عاشق زار اور محبت بے قرار تھے.آپ کی نظموں کا مجموعہ بخاروں کے نام سے دو حصوں میں طبع ہو چکا ہے جس میں حصہ دوم کو آپ نے کئی سو روپیہ کی لاگت سے چھپوا کہ شائع کر دایا.اور سوائے کچھ نسخوں کے جو دوست احباب میں مفت تقسیم کئے گئے باقی کتاب پیشر کو بطور امداد مفت بخش دیئے.اس مجموعہ کلام میں آپ کی اکثر نظمیں عشق الہی کے عطر سے بھر پور نظر آئیں گی.خود کتاب کا نام بیمار دل بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے.کہ اس کے لکھنے والا ایک بیقرار عاشق ہے جو اپنے دل پر درد کا بنجاران رنگین ترانوں کے ذریعہ نکال رہا ہے چنانچہ.آپ نے خود سر دو کتاب کی تعریف میں مندرجہ ذیل قطعہ نظم فرمایا ہے.بخار دل رکھا ہے نام اس کا کہ آتشدان دل کا یہ دھواں ہے کسی کے عشق نے جب پھونک ڈالی تو منہ سے نکلی یہ آہ وفغاں ہے لگاتی آگ ہے لوگوں کے دل میں ہماری نظم بھی آتش فشاں ہے اپنی سر نظم میں آپ نے اپنے مولا کریم سے اپنی محبت والفت کا اظہار کیا ہے بنجار دل کے ہر دو حصص کے پڑھنے سے آپ کے جذبہ عشق کا کچھ اندازہ لگایا جا سکتا ہے.اور آپ کی
مولا کریم سے والہیت و شیدایت کا پتہ مل سکتا ہے.الغرض آپ ایک سچے عاشق الہی تھے اور فنافی اللہ اور بقا باللہ کی منازل طے کر کے تقائے الہی کی عظیم الشان نعمت حاصل کر چکے تھے.اور ہماری موجود دو نسل اور قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے آپ کا وجود بہترین نمونہ اور روشن مشعل ہے.میں نمونہ اور دوشی مشعل کی روشنی میں ہم اپنے نور ایمان میں بہت کچھ اضافہ کر کے خود بھی عشاق الہی کی صفت میں شامل وماخل ہو سکتے ہیں.محترم چوہدری محمد اکبر علی صاحب کھتے ہیں سہ کا واقعہ ہے کہ بندہ حافظ آباد میں تھا.اور حضرت میر صاحب گوجرانوالہ میں سول سرجن تھے.میرا ایک دوست راجہ خان پونیس کانسٹیبیل گو جرانوالہ میں لگا ہوا تھا.اتفاقاً اُس نے مجھے بلا بھیجا.گوجرانوالہ میں جا کہ معلوم ہوا کہ وہ ہسپتال میں بیمار پڑا ہے.بندہ وہاں گیا تو دیکھا کہ وہ سخت بیمار ہے.اُس نے کہا کہ آپ بھی احمدی ہیں.اور ہمارے سول سرجن بھی احمدی ہیں.رخصت درکار ہے.اب میں گھبرایا کہ میر صاحب میرے واقف نہیں اور ایک اعلیٰ عہدہ پر ہیں شاید ملاقات بھی نہ ہو.بندہ میر صاحب کی کوٹھی پر گیا اور اندر اپنا پتہ بھیجا بہت ہی جلد خود میر صاحب تشریف لائے.نام دریافت کر کے فرمانے لگے.کیا آپ شام کا کھانا کھا ہیں گے.میں نے نفی میں جواب دیا.پھر فرمایا کہ آپ نے ہی حضرت مسیح موعود کی صداقت میں ایک رسالہ بدر کامل چودھویں کا چاند تحریر فرمایا ہے.میرے خیال میں اس وقت وہ مطالعہ کر کے ہی نکلے تھے.میری ہاں پر آپ مجھ سے بغلگیر ہوئے.اور اس قدر خوش ہوئے کہ گویا کوئی فرمانہ ہاتھ لگا ہے.اور اسی وقت ہسپتال میں تشریف لے گئے اور بہار سپاہی کو دس یوم کی رخصت منظور کرادی.آپ حقیقی رنگ میں احمدیت کے سچے عاشق تھے.الفضل ۱۲ اگست ۲۱۹۴۷)
محترم جناب اخوند فیاض احمد صاحب ابھی میں چوتھی یا پانچویں جماعت میں تھا.ابا جی ایک سال کی لمبی رخصت لے کہ بمع اہل و عیال قادیان جاکر رہے.تو ایک مرتبہ فخر الدین ملتانی کی دکان پر اباجی نے مجھے حضرت ماموں جان کی خدمت میں پیش کیا آپ کے الفاظ کا مفہوم جیسے ابھی تک یاد ہے جو آپ نے اس وقت کہے تھے کہ میں اس کو باپ کی نگاہ سے دیکھوں یا ڈاکٹر کی نگاہ سے.چونکہ اباجی میری کمزوری صحت کی وجہ سے حضرت ماموں جان کا مشورہ میری صحت کے متعلق چاہتے تھے اس لئے ابا جی نے جواب دیا.باپ اور ڈاکٹر دونوں کی نگاہ سے نے اور مجھے یاد ہے کہ حضرت ماموں جان نے اپنا ایک کان میرے دل کی جگہ پر لگا کہ میرا معائنہ کیا تھا.پھر جب میں دسویں جماعت میں قادیان میں پڑھتا تھا.اور اباجی ۱۹۳۹ ء میں پیشن لے کر قادیان آگئے.اور کچھ عرصہ ہمارے نانا جان خان بہادر غلام محمد صاحب گلگتی کے پہلے مکان میں بمع اہل وعیال مقیم رہے اور پھر ہم سب محلہ دارا نفصل میں اپنا مکان بن جانے پر وہاں آگئے.تو حضرت ماموں جان سے ملاقات کے موقعے ملتے رہے.190 میں جب میں نے میٹرک پاس کیا اور نہ صرف تعلیم الاسلام ہائی اسکول کے طلبہ بلکہ قادیان سنٹر بھر میں اول آیا.تو کالج میں داخلے اور مضامین کے انتخاب کے لئے اباجی نے حضرت امام الثانی اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت ماموں جان سے مشورے کئے.مجھے یاد ہے جب فزکس اور ریاضی کے انتخاب کے متعلق حضرت ماموں جان سے عرض کیا گیا کہ حضرت امام الشاقی نے اس انقلاب کو پسند فرمایا ہے تو آپ نے بے ساختہ فرمایا کہ جو حضرت صاحب نے فرمایا ہے اسی میں برکت ہے.
١٣٣ غالباً نا ہی کا واقعہ ہے کہ میں ملتان سے (کیونکہ ملتان کالج میں داخلہ لیا ہوا تھا جلسہ سالانہ کے موقع پر خدام الاحمدیہ کے سالانہ تقریری مقابلہ میں شامل ہوا.مقابلہ بیت اقصی میں تھا اور مقابلہ میں کافی خدام شریک تھے جو علمی قابلیت کے لحاظ سے یقیناً مجھ سے بڑھ کر تھے.میری باری آئی.میں نے ایک مضمون لکھے کہ زبانی یاد کر لیا تھا.اور وقت کے مطابق تقریر کے انداز میں وہ مضمون سٹیج پر جاکر دہرا دیا.ابھی میرے بعد بہت سے خدام کی تقریریں ہوتی تھیں کہ میں کسی ضرورت سے بہت کے اندرونی حصہ سے اُٹھ کر باہر جانے لگا تو یہ آمدے میں آتے ہوئے ایک صاحب کے قریب سے گذرا جو محراب کے متون سے پیٹھ لگائے اور کمبل میں لیٹے پٹائے ایسے بیٹھے تھے کہ ان کا چہرہ پوری طرح نظر نہیں آرہا تھا.جوں ہی میں قریب سے گذرا تو مجھے کھیل میں سے حضرت ماموں جان کی آشنا آواز آئی ، خوب تھی تمہاری نظریہ خوب تھی.“ اور اس مقابلہ میں اول آنا میں زندگی بھر انہیں بھول سکتا.۱۹۴۴ ء میں میں نے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا اگر چہ اپنے کالج کی آرٹ کلاس میں سے اول آیا.لیکن نمبر بہت اچھے نہیں تھے.نتیجہ نکلنے کے بعد ایک دن قادیان میں بازار سے گزر رہا تھا کہ ذرا فاصلے سے آواز آئی.(اسلام) مجھے معلوم ہے تم پاس ہو گئے ہو لیکن میں تمہیں مبارک نہیں دوں گا.“ میں نے مڑ کر دیکھا تو حضرت ماموں جان مجھ ناچیز سے مخاطب تھے.جب میں قریب گیا تو یہی الفاظ دہرا کر فرمایا کی تم سمجھتے تھے کہ میں تمہیں بھول جاؤں گا.میں تمہارے ابا جی سے تمہارے پاس ہونے اور نمبروں کے متعلق پوچھ چکا ہوں.میں تو جو بھی اچھالڑ کا قادیان سے نکلتا ہے اس کا خیال رکھتا ہوں اور اس کے والد سے اس کے متعلق پوچھتا رہتا ہوں." میرے اللہ ! آپ اس انسان کی اولاد اور نسل پر اپنی بے پایاں برکتوں کا نزول فرمائیے جو جماعت کے نو جوانوں کا اتنا درد اپنے دل میں رکھتا تھا.
محترم جناب مولانا غلام باری سبف صاحب راقم الحروف نے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کو اُن کی زندگی میں دیکھا.ان کے اکثر مضامین الفضل میں چھپے.انہیں پڑھا.آپ جماعت کے اولین بزرگوں میں سے تھے حضرت میر محمد اسحق صاحب کو دیکھا.سفروں میں ہمرکاب رہا.جلسوں میں آپ کے ساتھ شرکت نصیب ہوئی.آپ کے درس منے آپ سے حدیث، فقہ او منطق پڑھی.آپ میں چونسٹھویں سال میں قدم رکھ رہا ہوں.ہندوستان میں گھوم پھر کہ شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب کے رفیق مولانا محمد قاسم ناناتوی کے شاگردوں سے پڑھا.لیکن میں نے حضرت میر صاحب جیسا حدیث کا درس نہ دیکھا.نہ سُنا.حدیث کے بیان کے وقت وہ سراپا گداز ہوتے.آپ کے درس میں ایسا سماں بندھ جاتا.گویا سامع آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھا ہے.آپ کی شفقت سلسلہ سے فدائیت طلباء سے محبت، نظم و ضبط ، حق گوئی ، جماعت کی تربیت ، اصول پرستی، بے نفسی، قناعت، عبادت اور عشق رسول یاد آتی ہے تو دل بھر آتا ہے.ایسے انسان اس صفحہ مہستی پر کبھی کبھی نمودار ہوتے ہیں.ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے بڑی مشکل سے ہوتا ہے چین میں دیدہ ور پیدا آج سے قریباً پینتیس سال پہلے طالب علمی کے زمانہ میں کسی نے سوال کیا کہ حضرت مسیح موعود کے رفقاء میں سے سب سے بڑے صوفی کون تھے.یاد نہیں میں نے کیا جواب دیا تھا لیکن یہ خوب یاد ہے کہ انہوں نے پھر خود ہی فرمایا.
۱۳۵ حضرت میر محمد اسمعیل صاحب فضیلت کی بحث بہت مشکل ہوتی ہے.لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حضرت پیر صاحب ایک خدا رسیدہ ولی تھے.اور ان کی وفات کے بعد کئی بار عظیم صوفی کے لقب سے انہیں یاد کیا گیا.مسیح پاک کے درخت وجود کی سرسبز شاخو! حضرت مسیح موعود سماء احمد ثبت کے قمر تھے تو رفقاء درخشندہ تارے.وہ شمع جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے قادیان میں روشن ہوئی.یہ سب اُس کے پروانے تھے.یہ سیخ پاک کے شیدائی اور خدائی تھے.یہ احمدیت کی پیشانی کے جھومر تھے.ان میں سے ہر شخص " ينصرك رجال نُوحِى اليهم من السماء کا مصداق تھا.خدائے قدوس کی تقدیر انہیں میسیج پاک کے قدموں میں لائی تھی.اور اس قادرد قدیم خدا کی تقدیمہ کے ماتحت پھر ایک ایک ستارہ اس آسمان سے غروب ہوا.ان میں سے ہر ایک مسیح پاک اور احمدیت کی صداقت کی دلیل تھا.ان میں مسیح کی سچائی کی جھلک نظر آتی تھی.یہ جیتے بھی احمدیت کے لئے تھے اور یہ مرے بھی احمدیت کی خاطر بیماری گنہگار آنکھیں اب انھیں ڈھونڈھ رہی ہیں.اور وہ اگلے جہان میں آنکھیں کھول چکے ہیں اور نہیں کہہ رہے ہیں.دیکھنا اس آسمان کی رونق اور سچ رنگی میں فرق نہ آنے دیتا.انے مسیح پاک کے تدریس و کریم خدا ما ره نگ والے انہیں بھی ان رفقاء مسیح کے رنگ میں رنگ دے کہ تیرے رنگ سے کونسا رنگ بہتر ہے ؟ مِبْعَةَ اللهِ وَمَنْ اَحْسَنَ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةَ وَنَحْنُ له عبدون دو بھائی صدا نے ، ، کا
محترم جناب ملک محمدعبداللہ صاحب حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب حضرت اماں جان کے بھائی تھے.اپنی پیشہ ورانہ قابلیت کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے تقریر اور تحریر میں بھی خاص ملکہ عطا فرمایا تھا.ملک کے بڑے بڑے شہروں میں جہاں بھی بطور ڈاکٹر تعیناتی ہوئی لوگ دُور دُور سے بغرض علاج آپ کے پاس پہنچتے.جلسہ سالانہ کے ایام میں قادیان تشریف لاتے تو ان دنوں عشاء کی عبادت کے بعد بہت اقصٰی میں ذکر حبیب پر تقریر ہوتی جس میں لوگوں کی بڑی تعداد شریک ہوتی.آپ کی تقریر نہایت پرکشش اور موثر ہوتی.میری آپ سے واقفیت کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی کہ آپ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ماموں تھے اور خاکسار حضرت میاں صاحب کا خادم خاص تھا.جو آپ کے دفتر میں تالیف و تصنیف کے کام کے علاوہ آپ کے گھر کے انتظامی امور میں بھی شریک کا ر ہوتا تھا.دوسری وجہ میری ایک تالیف تھی.حضرت امام جماعت احمدیہ الثانی نے اپنی ایک تقریر میں اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ ایک ایسی کتاب تحریر کی جائے جو تمدن (دین حقہ) کے متعلق ہو.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے بحیثیت ناظر تالیف تصنیف یہ کام خاکسار کے سپرد فرمایا اور اس کے متعلق خاص ہدایات بھی دیں.سو آپ کے ارشاد کے ماتحت میں نے یہ کتاب تالیف کی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے اس کتاب کو زیادہ جامع بنانے کے لئے اس کا مسودہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب، حضرت میر محمد اسمعیل صاحب اور صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اللہ تعالٰی سب کے درجات بلند فرمائے) کو بھی دکھلایا.اس کا ذکر حضرت میاں صاحب نے اس کتاب کے دیباچہ میں بھی فرمایا ہے.حضرت میر صاحب کو میری یہ تالیف بہت پسند آئی اور اس کے بعض عنوانات سے متعلق ہدایات بھی دیں.حضرت میر محمد اسمعیل صاحب جب قادیان تشریف لاتے تو آپ کا ایک
۱۳۷ محدود دائرہ احباب تھا جن کی آپ کی کوٹھی سے ملحقہ با قیچہ میں عصر کے بعد مجلس لگتی.ان احباب میں چند ایک کے نام یہ ہیں : محترم سید سردار حسین شاه صاحب او در سیر محترم شیخ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی، محترم عبداللطیف صاحب گجراتی جو سلسلہ احمدیہ کی کتابوں کی طباعت واشاعت کا کام کرتے تھے.اور یہ خاکسار ( ملک محمدعبدالله محترم شیخ محمد الیل صاحب پانی پتی حضرت میر صاحب کے مکان کے ایک بیرونی کمرہ میں رہتے تھے.ان کا کام بھی تالیف و تصنیف کا تھا.بچوں کے متعد د رسالہ جات تالیف کئے دی کریم ملک محمد عبد اللہ صاحب کی کتاب ” میری یادیں“ سے ماخوذ ہے)
محترم ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسله مقدس خاندان حضرت میر صاحب ایک کامل ولی تھے تقوی وطہارت میں ممتاز ، علم وحکمت میں بے مثال اور قابلیت میں حیرت انگیز صلاحیتوں کے مالک.آپ کی خاندانی وجاہت تاریخ کا ایک سنہری باب ہے.حضرت علی ہم آپ کے جد امجد ہیں بستید بہاؤ الدین نقشبند جو نقشبندی سلسلہ کے بانی ہیں.اس خاندان کے ایک مشہور بزرگ گزرے ہیں.اس سلسلہ نے دین حق کی جو خدمات سرانجام دی ہیں وہ ہند دوستان کی مذہبی تاریخ جاننے والوں سے پوشیدہ نہیں.حضرت امام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ اسی سلسلہ کے مشہور رہنما ہیں.جنہوں نے اکھر اور جہانگیر کے زمانہ میں خلاف اسلام فتنوں کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا اور اسلام کی اشاعت میں بے نظیر خدمات سرانجام دیں.خواجہ بہاؤالدین نقشبند کی اولاد میں خواجہ محمد ناصر دہلوی اور ان کے بیٹے اُردو کے باکمال شاعر حضرت خواجہ میر قدو صاحب دہلوی اپنے زمانہ کے پاک باز بزرگ اور مشہور صحافی تھے.خواجہ محمد ناصر کو ایک بار کشف میں حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا ایک خاص نعمت تھی جو
۱۳۹ خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی.اس کی ابتداء تجھ سے ہوئی اور انجام اس کا مہدی موعود پر ہوگا.یہ خواجہ محمد ناصر اور ان کے بیٹے خواجہ میر درد رحمتہ اللہ علیہما ننھیال کی طرف حضرت میر محمد اسماعیل کے نانا لگتے ہیں اور آپ کے ددھیال میں حضرت شیخ علاء الدین عطار نقشبندی جیسے بزرگ شامل ہیں.غرض آپ کا گھرانہ قدیم سے دینی وجاہتوں کا مرکز اور دنیاوی عظمتوں کا مہیط چلا آتا ہے.علاوہ ازیں امام الزمان حضرت مسیح موعود سے آپ کا تعلق رشتہ داری آپ کے لئے اور زیادہ لازوال پر کتوں کا باعث ہوا.حضرت میر صاحب حضرت اماں جان کے حقیقی بھائی تھے اور اس تعلق سے حضرت مسیح موعو در آپ پر سلامتی ہو کے برادر نسبتی تھے.آپ کی پرورش اور تعلیم و تربیت بھی حضرت مسیح موعود کی خاص نگرانی میں ہوئی.بعد میں آپ کو احمدیت کی روایات کو محفوظ کرنے اور سلسلہ کی بے نظیر خدمات سر انجام دینے کی توفیق ملی.حضرت محمد اسمعیل صاحب امداد میں پیدا ہوئے.آپ حضرت اماں جان سے تقریباً 14 سال چھوٹے تھے.آپ نہایت ہی قابل اور ماہر ڈاکٹر تھے.اس کے ساتھ ہی شدت خلق کا خاص ذوق آپ کو عطا ہوا تھا.ان دونوں خوبیوں کی وجہ سے آپ محبوب عوام تھے.دین کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر آپ کو عطا ہوا تھا.قرآن کریم کے معارف اور حقائق پر آپ کی وسیعے نظر تھی.الفضل کی فائلوں کا مطالعہ کرنے والے اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ آپ نے کیسے عجیب و غریب انداز میں روحانی مسائل اور دینی ہدایات کو لوگوں کے ذہن نشین کرایا یہ ذکر و فکر اور دوسرے علمی عنوانوں کے ماتحت آپ بہت دلچسپ مضامین لکھتے رہتے تھے.خاکسار آپ کے سامنے چند ایسی روایات بیان کرنا چاہتا ہے جن سے آپ کی سیرت کے بعض پہلوؤں پر خاص روشنی پڑتی ہے
۱۴۰ حضرت میر صاحب کی روایات حضرت میر محمد اسمعیل صاحب بیان کرتے ہیں کہ شمار میں مجھے رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفاق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحب کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی.آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اول شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ آٹھ کر کے آخر شب میں ادا فرماتے تھے جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص کی قرآت فرماتے تھے اور رکوع و سجود ميں يا حي يا قيوم برحمتك استغيیت اکثر رھتے تھے اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سن سکتا تھا.نیز آپ ہمیشہ سحری نماز تہجد کے بعد کھاتے تھے اور اس میں اتنی تاخیر فرماتے تھے کہ بعض دفعہ کھاتے کھاتے نداد ہو جاتی تھی.اور آپ بعض اوقات نداء ختم ہونے تک کھانا کھاتے رہتے تھے.(سیرة المهدی صفحه (۱۳) یہ پندرہ سال کے ایک نوجوان کا شوق و ذوق تھا جو بعد میں حضرت ڈاکٹر شمیم اسیل کے نام سے مشہور ہوا.حضرت میر صاحب فرماتے ہیں :- جب میں انٹرنس کا امتحان دے کر شاہ میں قادیان آیا تو نتیجہ نکلنے سے پہلے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) اکثر مجھے کہتے تھے کہ کوئی خواب دیکھا ہے.آخر ایک دن میں نے بیان کیا کہ میں نے خواب میں گلاب کے پھول دیکھے ہیں.فرمانے لگے اس کی تعبیر تو غم ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ میں اس سال امتحان میں فیل ہو گیا.دسیرت المہدی صفحه ۶۲) حضرت مسیح موعود کو پرندوں کا گوشت پسند تھا اور بعض دفعہ بیماری وغیرہ کے
کے دنوں میں بھائی عبدالرحیم کو حکم ہوتا تھا کہ کوئی پرندہ شکار کر لائیں اسی طرح جب تازہ شہد منہ چھتا کہ آتا تو آپ اسے پسند فرما کر نوش کرتے تھے.(سیرة المهدی صفحه (۹۶) ایک دفعہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا کے زمانہ میں ایک سچے نے گھر میں ایک چھپکلی ماری اور پھرا سے مذاقاً مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی چھوٹی اہلیہ پر پھینک دیا جس پر مارے ڈر کے ان کی چیخیں نکل گئیں اور چونکہ بیت الذکر کا قرب تھا ان کی آواز بیت الذکر میں بھی سنائی دی مولوی عبدالکریم صاحب جب گھر آئے تو انہوں نے غیرت کے جوش میں اپنی بیوی کو بہت کچھ سخت سست کہا حتی کہ ان کی یہ غصہ کی آواز حضرت مسیح موعود نے اپنے مکان میں بھی سن لی.چنانچہ اس واقعہ کے متعلق اسی شب حضرت صاحب کو یہ الہام ہوا.یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے (احمد یوں) کے لیڈر عبدالکریم کو." لطیفہ یہ ہوا کہ صبح مولوی صاحب مرحوم تو اپنی اس بات پر شرمندہ تھے اور لوگ انہیں مبارک بادیں دے رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام (احمدیوں) کا لیڈر رکھا ہے.آپ کی مہمان نوازی حضرت میر صاحب بڑے ہمدرد اور بہت مہمان نواز تھے.حضرت خان صاحب منشی برکت علی صاحب مرحوم جو حضرت مسیح موعود کے رفیق اور سلسلہ کے مخلص کارکن تھے اور عرصہ تک جائنٹ نا طربال رہے بیان کرتے ہیں کہ ایک بار ان کی بیوی کو موتیا بند ہوگیا.ان دنوں امرتسر میں آنکھوں کے آپریشن کا ماہر ایک انگریز ڈاکٹرن گا ہوا تھا.اور
۱۴۲ حضرت میر صاحب بھی اسی ہسپتال میں تھے چنانچہ آپ نے خاص توجہ سے آپریشن کروایا اور اس کے بعد اپنے گھر لے گئے جو ہسپتال کے احاطہ میں ہی تھا.اور جتنے دن وہاں قیام رہا ان کا اور ان کی اہلیہ کا کھا نا آپ کے ہاں ہی پتا.حضرت خان صاحب ہی کا بیان ہے کہ امرتسر میں کثرت کے ساتھ آپ کے مہمان آتے.یہاں تک کہ بعض اوقات آپ کی ساری تنخواہ مہمان نوازی پر صرف ہو جاتی.مگر آپ کی بشاشت میں ذرہ فرق نہ آتا.جذبہ خیر خواہی شیخ فضل احمد صاحب جو عرصہ تک افسر امانت رہے ان کا بیان ہے کہ ایک بارا نہیں مانی تنگی سے دوچار ہونا پڑا.انہوں نے قادیان میں ایک مکان پانچ ہزار روپیہ خرچ کر کے بنوایا تھا مشکل اتنی زیادہ تھی کہ وہ اس مکان کو دو تین ہزار میں بھی بیچنے پر آمادہ ہو گئے.حضرت میر صاحب سے انہوں نے مشورہ اس کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا جب تک میں نہ کہوں مکان نہ بیچنا مشکل تو ہرت تھی لیکن میں نے آپ کے مشورہ پر عمل کیا.چنانچہ کچھ مدت بعد وہ مکان ساڑھے چھ ہزار ہیں لیکا.جذبہ خیر خواہی کی یہ ایک.عمدہ مثال ہے.اب لڑکا ہوگا مولوی محمد یعقوب صاحب انچارج شعبہ زود نویسی نے بیان کیا کہ حضرت میر صاحب نے اپنے ذوق کے مطابق الفضل میں ایک مضمون لکھا.جس کا خلاصہ یہ تھا کہ اگر کسی کے ہاں لڑکیاں ہی لڑکیاں پیدا ہوتی ہوں اور وہ اپنی لڑکی کا نام بیٹری رکھے تو اس کے بعد جو بچہ پیدا ہوگا وہ لڑکا ہوگا.اس کی ستر فیصدی امید ہے اور میں فیصدی یہ امکان ہے کہ اس کے معابعد تو لڑکی پیدا ہو لیکن پھر اس کے بعد دوسرے نمبر پر لڑکا ہو گا چنانچہ
۱۴۳ میرے ہاں لڑکیاں تھیں.آخری لڑکی جب پیدا ہوئی تو حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس کا نام بشری رکھا.میں گھر واپس آرہا تھا کہ راستہ میں حضرت میر صاحب ہل گئے میں نے ازراہ مذاق کہا میں نے تونہیں رکھنا تھا لیکن حضرت صاحب نے لڑکی کا نام شروی رکھا ہے.دیکھیں آپ کا قاعدہ کہاں تک پورا ہوتا ہے.آپ نے سنتے ہوئے فرمایا تو اب اس کے بعد لڑکا لو.چنانچہ خدا کی قدرت اس کے بعد لڑکا ہوا.کوئی سال بھر بعد میر صاحب ملے تو میں نے ذکر کیا کہ آپ کی بات پوری ہوئی اللہ تعالٰی نے لڑکا دیا ہے.آپ نے پھر سنتے ہوئے فرمایا آپ بھی عجیب ہیں.میں تو سمجھتا تھا ایک تھال مٹھائی کا ہوگا اور آپ اٹھائے خوشخبری سنانے آئیں گے.آپ نے اطلاع ہی سال بھر بعد دی.محبت الہی آپ اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کے عاشق صادق تھے.آپ کی فلم.حضرت احدیت تعالیٰ شانہ کی تعریف اور حضور مسرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی توصیف میں جو مضامین نکلے ہیں اور جو نظمیں آپ نے لکھی ہیں ان کے حرف حرف سے بوٹے عشق مہکتی محسوس ہوتی ہے.آپ نے اللہ تعالٰی کی ان صفات کو جن کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے ایک خاص ترتیب کے ساتھ اپنے ایک مضمون میں اردو کا جامہ پہنایا ہے.مضمون کا عنوان ہے.مجھے کیسا خدا چاہیے " اس کا آغاز یوں کرتے ہیں." اللہ تعالیٰ اور صرف اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات برکات سراپا حسن و احسانات ہے جس کے سوا کوئی ہمارا محبوب اور کوئی ہمارا معبود نہیں.
۱۴۴ وہ ساری کائنات کا رب ہمارا پیدا کر نے والا.پالنے والا اور درجہ بدرجہ ترقی دینے والا ہے اور وہ ساری مخلوقات پر بے انتہا رحم کرنے والا اور نہایت ہی مہربان ہے.آپ نے ایک تمثیلہ لکھا.اس میں آپ نے ایک عیسائی.ایک آریہ اور ایک مولوی کی زبان سے اللہ تعالیٰ کا وہ تصویر پیش کیا جو وہ اپنے عقیدہ کے مطابق رکھتے ہیں.اس کے بعد ایک احمدی میشر کا جو تصور خدا ہے اسے بیان کرتے ہیں.ایک مجلس قائم ہے اور سوال یہ درپیش ہے کہ خدا کیسا ہے ؟ جب سب لوگ اپنے اپنے عقیدے کے مطابق خدا تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق اپنا تصور بیان کر چکتے ہیں تو ایک احمدی مبشر کی زبان سے سہستی باری تعالیٰ کا تصور بیان ہوتا ہے.چنانچہ تحریر فرماتے ہیں :- اس کے بعد ایک سبز عمامہ پوش نوجوان اُٹھا اور اس نے کہا ئیں تو اس کا قائل ہوں جو بے شک صاحب عظمت و جلال ہے.بے شک ليس كمثله شيئ ہے.بے شک انزلی وایدی ہے.بے شک دراء الوراء ہے.بے شک ہمہ علم ہمہ قدرت ہے.مگر ساتھ ہی وہ ہمہ تن شفقت ہمہ تن عشق وفا.ہمہ تن غریب نوازی اور هہمہ تن بندہ پروری ہے.ہمہ تن قدرت دانی بھی ہے.میری حالت سے پورا با خبر ہے.میری دُعاؤں کو سُنتا ہے اور قبول کرتا ہے اور میری تربیت کرتا ہے.تکالیف کے وقت میری تسلی کر تا ہے.بیماری میں میرا علاج کرتا ہے.عرض ایسے ہی وہ دل نشین انداز میں مہستی باری تعالیٰ کا تعارف کراتے چلے جاتے ہیں.آپ کے مضامین سدا بہار گلستان علم و عرفان ہیں.آپ جب بھی پڑھیں گے خواہ بار بار ہی کیوں نہ پڑھیں ایک تازہ ہی لطف اس سے میسر ہوگا اور روحانیت ایک نئی بیداری حاصل کیے گی.
۱۴۵ عشق رسول صلى الله علیہ و آلہ وسلم آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان مجیب عاشقانہ انداز میں بیان کرتے تھے.آپ کی مشہور نظم عليك الصلوة عليك السلام کا انداز کیا ہی محبت خیز ہے.ایک اور نعت کے چند اشعار سنئیے.محمد مصطفے مطلقہ ہے مجھے ہے حسن و با شمائل جامع محمد محسن ارض و سما ہے کمالات نبوت کا خزانہ اگر پوچھو تو ختم الانبیاء ہے غرض سچ مچ محمد ہے محمد جبھی تو چار سُو صل علی ہے " حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہوا سے عقیدت آپ کا حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا سے عجیب انداز عشق تھا حضر تعلیم الثانی نے ایک بار فرمانیا در اُن کے دل میں حضرت مسیح موعود کی محبت بلکہ عشق خاص طور پر پایا جاتا ہے ایسی محبت کی وجہ سے روحانیت کا ایک خاص رنگ ان میں پیدا ہو گیا ہے.اس سے میں سمجھتا ہوں ایسی ٹھوکروں سے وہ جو دوسروں کو اسیح
194 لگ سکتی ہیں خدا نے ان کو محفوظ کیا ہوا ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ اس تعلق کی وجہ سے جو بہ کات ان پر نازل ہوتی ہیں ان کے اور جماعت کے لئے بہت مفید ثابت ہوں گی.الفضل ۲۱ جون ۱۹۵۹)
۱۴۷ احمدیت کا ایک درخشنده تارا جناب شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوں کے رفقاء روز بروز اس دنیا سے کوچ کرتے جارہے ہیں.اپنی میں سے ایک نہایت محترم انسان حضرت ڈاکٹر محمد اسمعیل حساب بھی تھے جو افسوس کہ بہار جولائی کی شام کو ہم سے جدا ہو گئے.إنا لله وإنا إليه راجعون.آج نہیں انہیں مرحوم لکھتے ہوئے بہت ہی رنج اور خلق ہوتا ہے.لیکن موت ہر شخص کو آتی ہے اور اس راستے سے ہر انسان کو گذرتا ہے.مگر موت موت میں بھی فرق ہے.ایک ایسے لوگوں کی موت ہوتی ہے جن کے متعلق اکبر کہتا ہے سے ہم کیا کہیں احباب کیا کار نمایاں کر گئے.بی.اے ہوئے.ڈگری ملی.تو کر ہوئے پھر مر گئے اس کے بالمقابل بعض اشخاص ایسے ہوتے ہیں کہ ان کی ساری عمر خلقت کی بھلائی.خدا کی اطاعت رسول کی تابعداری اور لوگوں سے حسن سلوک - احسان اور مروت اور وعظ و نصیحت میں گزرتی ہے.وہ جب تک جیتے ہیں ایک دنیا کو فیض پہنچاتے ہیں اور جب مرتے ہیں تو ایک عالم ان کو روتا ہے.حضرت میر محمد اسماعیل صاحب اس آخر الذکر گردہ کے ممتاز رکن اور ایسی صفات حسنہ کے مالک تھے کہ جن لوگوں کو ان سے سابقہ پڑا ہے وہ ان کو ساری عمر کبھی نہیں بھولیں گئے.ان کی خوبیاں اوران کی نیکیاں بار بار یاد آئیں گی اور دل کو تڑپا کر چلی جائیں گی.ایسے جامع جميع صفات حسنه بزرگ بہت ہی کم اور شاذو نادر ہی دنیا میں آتے ہیں اور جیب
آتے ہیں تو یقیناً ملک کا فخر ثابت ہوتے ہیں.انسانیت ان پر ناز کرتی ہے اور اخلاق دی خانگی کا سر بلند ہو جاتا ہے.بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں کوئی ایک خوبی بہت عمدہ پائی جاتی ہے.کسی میں دور تین چار خوبیاں دوسروں کی نسبت اچھی ہوتی ہیں.کسی ہیں ٹیکسیاں زیادہ اور عیب کم ہوتے ہیں.لیکن حضرت میر صاحب ایسے عجیب و غریب استان تھے کہ ان کے وجود میں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے خو بیاں ہی خوبیاں کوٹ کر بھر دی تھیں.میرا تعلق ان سے ایک دو سال نہیں پورے تیس سال رہا ہے اور میری طبیعت بہت ی آزاد واقع ہوئی ہے مگر میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ حضرت میر صاحب کی نیکیوں اور خوبیوں زہد اتقا - پر ہیز گاری اور پاکیزگی کی وجہ سے میرے دل میں ان کی وقعت ، عزت عظمت محبت اور الفت روز بروز زیادہ ہی ہوتی گئی.اور آج جبکہ وہ دنیا میں نہیں ہیں میں ان کو ایک خدارسیدہ بزرگ اور ولی کامل سمجھتا ہوں.اللہ تعالٰی ان کو جنت الفردوس میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم اور حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا کے نہایت قرب میں جگہ دے.این دعا از من و از جمله جہاں آمین باد ان کی موت سے زندگی کا لطف جاتا رہا.اور میری باقی زندگی اُن کے بغیر بیت ہی بے لطف اور بے کیف گزرے گی.صد ہزار افسوس ! دروز نا مر الفضل قادیان ۲۲ جولائی ۹۷
۱۴۹ مکرم سلیم شاہجہانپوری صاحب بخار دل حضرت میر محمد اسمعیل بحیثیت شاعر اس جگہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مقصدیت کی اولیت کے متعلق حضرت میر صاحب کا وہ بیان یہاں نقل کر دیا جائے جو آپ نے اپنی شاعری کاوشوں کا تعارف کرواتے ہوئے خود شامل کتاب کیا ہے.فرماتے ہیں وہ شعر کی تعریف اس سے زیادہ نہیں کہ وہ یا وزن ہو، اس کے الفاظ حمدہ اور مضمون لطیف ہو.میرے بزرگوں کو چونکہ شاعری سے مناسبت منفی اس لئے مجھے میں بھی کچھ حصہ اس ذوق کا فطری طور سے آیا ہے کہ دس دس سال تک ایک شعر نہیں کہتا پھر کچھ کہ لیتا ہوں.دوسرے یہ کہ میرے اشعار مطلب کے حامل ہوتے ہیں نہ کہ الفاظ کے ہیں ایک مضمون ذہن میں رکھ کر شعر کہتا ہوں اور الفاظ اس مضمون کے پابند ہوتے ہیں نہ مضمون الفاظ کا.اس لئے یہ اشعار بجائے تغزل کے نظم کی صورت رکھتے ہیں اور بجائے آمد کے ہمیشہ آورد کا رنگ ان میں ہوتا ہے.میرا استاد کوئی نہیں نہ کوئی تخلص ہے.شروع میں (یعنی سارہ میں جب یہ شوق پیدا ہوا تو چند دفعه آشناہ کا تخلص استعمال کیا پھر ترک کر دیا اور ہمیشہ تخلص کے بغیر گزارا کیا میرے کلام میں بیشتر اشعار بسبب مذہبی ماحول اور دینی تربیت کے متصوفانہ رنگ کے ہیں اور سلسلہ احمدیہ کے مقاصد سے تعلق رکھتے ہیں.میں کسی کا عمدہ مصرع یا شعر یا کسی غیر زبان
۱۵۰ کا لفظ اپنے شعر میں پیوند کر لینے سے نہیں ہچکچاتا تاہم اس کو سرقہ نہیں کہا جاسکتا.بہت زیادہ حصہ ان نظموں کا ایسا ہے جو دراصل اپنے لئے کہی گئی ہیں نہ کہ اوروں کے لئے.میری دُعا ہے کہ خدا تعالیٰ ان اشعار کو ہمارے بچوں اور نوجوانوں کے لئے بھی مفید بنائے.جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکا ہے حضرت میر صاحب نے نہ صرف ظاہری اصنافی سخن میں طبع آزمائی فرمائی ہے بلکہ معنویت کے لحاظ سے بھی آپ نے متعد د اور متنوع موضوعات پر اپنی صوفی منشی کے جوہر دکھائے ہیں.ذرا مندرجہ ذیل عنوانات پر نظر ڈالئے تا کہ آپ پر حضرت میر صاحب کی رجحانات شعری کے فہم میں آسانی ہو..1 بنجار دل کی طرح محبت کا ایک آنسو بھی آپ کی ایک نہایت پاکیزہ نظم ہے.جو مولا کا اپنے بندے سے پیار کا تعلق ظاہر کرتی ہے ۲- دعا بندے کا ایک آزمودہ ہتھیار ہے جس کے ذریعہ وہ طاقتور سے طاقتور دشمن پر غلبہ پالیتا ہے.حضرت میر صاحب نے بھی دعائے من " دعائے سکھ عاجزانہ دعا ، ، دُعا برائے معرفت " نماز" وغیرہ نظموں میں قادر و توانا خدا سے مدد طلب کی ہے اور بندہ ، " میرے خدا » (طویل نظم) اور مناجات بدرگاہ قاضی الحاجات کے ذریعہ بندہ کا اپنے مولا سے تعلق قائم ہونے کے لئے استعانت طلب کی ہے.معرفت الہی حاصل ہو جائے تو انسان ضعیف البنیان کو اپنی کمزوری اور ناطاقتی کا احساس شدید سے شدید تر ہو جاتا ہے اور وہ دُعا کے ذریعہ اپنے قادر خدا سے مدد کا طلب گار ہوتا ہے.ارشاد باری تعالٰی :- ترجمہ و (اے میرے حبیب) تم لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تم اللہ تعالٰی سے محبت کرتے ہو تو پھر میری اطاعت کرو.اللہ تعالیٰ (اس کے نتیجے میں) تم کو اپنا محبوب بنائے گا.
۱۵۱ ۴.پیارے خدا کا یہ محبت بھرا ارشاد اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ والہ وتم کے ذریعہ جب لوگوں تک پہنچتا ہے تو ان کے دل اس محسن اعظم کے اخلاق کریمانہ اور حسن مجسم کے انداز محبوبانہ پر شار ہو جاتے ہیں اور بے ساختہ درود و سلام ان کی زبانوں پر جاری ہو جاتا ہے.میر صاحب بھی شیدایان حبیب خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صنف میں شامل ہو کر مدحت خیر الانام میں ایک ایسا ہدیہ عقیدت پیش کرتے ہیں جو مقبولیت کے لحاظ سے نعتیہ شاعری کے میدان میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتا ہے اور جب تک محامد خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دلوں کو گریانے کا فریضہ انجام پاتا رہے گا اور یہ سلسلہ تا قیام قیامت جاری رہے گا) میر صاحب کے اس " سلام مخصور سید الا نام صلی اللہ علیہ وسلم کو نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا.آپ کی محبت رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم میں ڈوبی ہوئی ایک دوسری نظم ، آنچه خوبان همه دارند تو تنها داری بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے.اس کے علاوہ محمد مصطفے ہے مجتہے ہے.اور دیگر نعتیہ کلام آپ کے اس گہرے قلبی لگاؤ کا آئینہ دار ہے جو آپ کو محبوب خدا صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ذات ستودہ صفات سے تھا ه خلق مجم، محسن عالم حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ سلم کی محبت کا تقاضا تھا کہ حضور کے جلیل القدر فرزندید و حانی حضرت باقی سلسلہ سے بھی والہانہ عقیدت اور خادمانہ ارادت کا اظہار کیا جائے اور آقاصلی الہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کے بعد اس کے جلیل القدر خادم کی صفات کے بیان سے بھی دلوں میں گداز پیدا کیا جائے.حضرت میر صاحب نے اس فریقیہ کی ادائیگی کو بھی ضروری خیال کرتے ہوئے اپنی متعد د نظموں میں بانی سلسلہ احمدیہ کو اپنی عقیدتمندی.کا خراج پیش کیا ہے انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ اپنے محبوب کے مسکن بلکہ اس شہر کی گلیوں تک سے محبت و عقیدت پیدا ہو جاتی ہے.حضرت میر صاحب کا محبت پر ور اور عقیدت مند
۱۵۲ دل بھی پھیلا اس جذبہ سے کسی طرح خالی رہ سکتا ہے.آپ نے اپنے مرشد حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے مسکن قادیان سے اپنی محبت کا اظہار متعد د منظومات میں کیا ہے.قادیان سے جدائی کا نقشہ اور فراق کی اذیتوں کا حال در فراق قادیان ، والی تنظیم میں بڑے ہی درد انگیز طریقے سے کیا ہے.اسی قبیل کی ایک دوسری نظم قادیان دارالامان ہے.قصہ ہجر ایک مہجور کی زبان سے ، ہم قادیان سے بول رہے ہیں ، ہم ڈلہوزی سے بول رہے ہیں.یہ تینوں نظموں میں قادیان سے دلی وابستگی کا اظہار ہوتا ہے.- حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے تکمیل اشاعت دین، احیاء دین اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جس جماعت کو قائم فرمایا اس کے افراد مالی ، جانی ، عالی و قالی تعلیمی و تربیتی جمیله اقسام کی قربانیاں دے رہے ہیں اور ہمہ جہتی تدابیر و جہد مسلسل سے خدمات بیما لا ر ہے ہیں.ایسی خادم انسانیت جماعت کے کارکنوں کو خراج عقیدت پیش کرنا اور دنیا کو ان مہمات سے آگاہ کرنا جو کس جماعت کے اولوالعزم اور با حوصله افراد شب و روز کر رہے ہیں.خدمت دین ہی کا ایک حصہ ہے.ندائے احمدیت " احمدی کی تعریف " میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا احمدیت - خدام احمدیت وغیرہ نظموں میں اسی نظریہ کو بحسن و خوبی انجام دیا ہے اور اسی پر اکتفا نہ کرتے ہوئے انفرادی رنگ میں بھی بعض خاص ہستیوں کے پاکیزہ خصائل کو متعارف کروانے کی کوشش بھی کی ہے.حضرت مولوی پر جہان الدین جہلمی کے عنوان سے آپ نے جو نظم لکھی ہے وہ اسی جذبہ کی عکاسی کر تی ہے.اسی قبیل کی ایک اور نظم حضرت مولوی نعمت اللہ خان کی شہادت پر آپ نے رقم فرمائی جس کا عنوان تھا نعمت اللہ نے دکھلا دیا قربان ہو کہ.“ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے لخت جگر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود کے خلاف جب اہل پیغام نے ایک مخالفانہ اور معاندانہ محاذ قائم کیا اور پیغام صلح نہ کے پردے میں شب و روز محمود دشمنی اور شقاوت قلبی کے اظہار کو اپنا پیشہ بنا لیا تو حضرت
۱۵۳ میر صاحب کی رگ حمیت پھڑک اُٹھی اور آپ نے ان زہر آلود تیروں کا جواب منکران محمود " پیغامی لیڈروں سے خطاب " ان کا رنگ ، جیسی نظموں کے ذریعہ دینا ضروری سمجھا لیکن جن دوستوں کو میر صاحب کی ان نظموں کو پڑھنے کا اتفاق ہو وہ اس بات کی شہادت دیں گے کہ باوجود مظلوم ہونے اور انتہائی دل آزاری کے نشانہ بننے کے آپ نے اپنے کلام میں کوئی قابل اعتراض یا دل آزار بات نہیں کی.اور اپنی پاکیزہ تظموں کو ابتذال، تمسخر، یا استہزاء سے ہر گز آلودہ نہیں ہونے دیا جو آپ کی عالی ظرفی اور بلند اخلاقی کا منہ بولتا ثبوت ہے.۹.حضرت میر صاحب نے سلسلہ کے واقعات کو منظوم فرما کہ ایک تاریخی خدمت بھی انجام دی ہے.۱۹۲۲ء میں حضرت مصلح موعود نے جب بیت الفضل ، لندن کا نگ بنیاد رکھا تو میر صاحب نے اس موقعہ پر ایک نظم " مرکزہ کفر میں خانہ خدا کے عنوان سے تحریر فرمائی جس کے ذریعہ تمام افراد جماعت کے جذبات کی ترجمانی کا فرض انجام دیا.- قطعات درباعیات کے علاوہ تربیتی رنگ میں آپ نے تنظمیں بھی لکھی ہیں...مثلا مجھ کو کیا بیعت سے حاصل ہو گیا " " نہ ادھر کے نہ رہے نہ ادھر کے رہے " وقف میں ناریلی کا نتیجہ) ، "خداداری چه غم داری ، اہل خانہ کو وصیت ' نوائے تلخ ، امربیان کو نصیحت قابل توجه خدام، دخیره -11 عقائد کے سلسلہ میں آپ نے بعض مایہ النزاح اور مختلف فیہ مسائل کے بارے میں بڑے لطیف انداز میں اپنے خیالات کا اظہار فرمایا ہے.ایسی نظموں میں ناسخ ومنسوخ قرآن، سنت اور احادیث کے مدارج علم ترب یعنی علم توجد یا مسمریزیم ، کچھ دعا کے متعلق " لاس نظم میں آپ نے دعا کے فلسفہ کو اس طرح عام فہم انداز میں بیان کیا ہے کہ قبولیت دعا کے متعلق تمام شکوک کا ازالہ ہو جاتا ہے.آپ نے نظم
۱۵۲ لکھنے سے بیشتر جو تشریح فرمائی ہے وہ بھی قابل غور ہے.فرماتے ہیں.دعائیں چھ طرح قبول ہوتی ہیں اور اس طرح کی کوئی دُعا بھی رد نہیں ہوتی.ا.یا تو وہ لفظا ہی قبول ہو جاتی ہے.۲.یا اس کی جگہ آخرت کا بدلہ اور نعمت مل جاتی ہے.۳.یا اتنی ہی مقدار میں کوئی بڑی تقدیر دُور ہو جاتی ہے.۲.یا بطور عبادت محسوب ہو جاتی ہے.٥- یا دنیا میں ہی ایک کی جگہ دوسری بہتر خیر مل جاتی ہے.- یا اگر وہ دعا بندہ کے لئے مضر ہو تو منسوخ کر دی جاتی ہے اور یہ نا منظوری بھی اجابت اور رحمت کا رنگ رکھتی ہے.یعنی بندہ ضرور اور تکلیف سے بچ جاتا ہے.۱۳ ترک دنیا کے بارے میں آپ نے متعدد نا صحار نظمیں لکھی ہیں اور ہر نظم میں ایک نئے انداز سے ترک لذات کی طرف توجہ دلائی اور رغبت دلانے کی سعی مشکور کی ہے.مندرجہ ذیل منظومات اسی قبیل سے ہیں نصیحت از الوصیته» بشارات ان الوصیت ترک دُنیا کے معنی ترک فضول ہیں ، دنیا کا انجام دنیا ہے جائے فانی دل سے اسے اتارو.واقعاتی نظموں میں آپ کی ایک مزاحیہ نظم بھی شامل ہے جو راشن بندی سے تعلق رکھتی ہے.اس نظم کا عنوان ہے.قادیان میں ۱۹۳۳ء میں رمضان میں ایک تولہ کا راشن ، اس نظم کے مطالعہ سے زمانہ جنگ کی تکالیف و مشکلات کا نقشہ آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.حضرت میر صاحب کے قلم حقیقت رقم نے اس واقعہ کو بھی تاریخ میں محفوظ کر دیا.یہ نظم آپ کی ہمہ گیر طبیعت کے چہرے سے نقاب کشائی کرنے کا فریضہ انجام دیتی ہے.قادیان کے آریہ بھی اسی قبیل کی نظم ہے.حضرت میر صاحب نے طنز و مزاح کے خار تار میں بھی سمند فکر کی جولانیاں دکھائی ہیں لیکن لطف یہ ہے کہ شرافت دستانت کے دامن سے کسی خار کو الجھنے کی اجازت نہیں دی.آپ نے اپنا مافی الضمیر بھی ادا کر دیا.لیکن ایسی کہنہ مشقتی اور احتیاط کے ساتھ
۱۵۵ کہ نہ کسی تسبیح کے بکھرنے کی نوبت آئی اور نہ کسی زنار کے ٹوٹنے کی صدا سنائی دی.یہ بات آپ کے کمال فن کا زندہ ثبوت ہے.اس لئے تصویر جاناں ہم نے کچھوائی نہیں یہ یہ ایک ایسی مدلل نظم ہے جو آپ کی قادر الکلامی اور حقیقت نگاری کو ایک نئے روپ میں نگاہوں کے سامنے لاکر قارئین کو محو حیرت کہ دیتی ہے.".منظومات کے علاوہ حضرت میر صاحب نے نہایت پاکیزہ جذبات کی حامل عارفانہ غزلیات بھی کہی ہیں جو محبت الہی اور عشق حقیقی میں ڈوب کر تحریر کی گئی ہیں.اور یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ اپنے تسلسل اور مقصدیت کے لحاظ سے یہ غزل نما نظم کہلانے کی زیادہ مستحق ہیں کیونکہ ان کا مرکزی نقطہ خیال عشق حقیقی کے سوا کچھ نہیں نہیں مسلسل غزلیات کے ضمن میں تو کیا آئے " ہو نہیں سکتا ، عشق دمشک " کہ جتنے رنگ مخفی ہیں محبت سب کی میںتقل ہے ، " محبت " دن مدتوں میں آئے ہیں پھر اہل حال ہے.وہ جو رہ تجھے پسند ہے اس پر چلا مجھے ، " آئے گی مرے بعد ، تمہیں میری وفا یاد ، چشم بینا حسن خانی کی تماشائی نہیں." وغیرہ وغیرہ پیش کی جاسکتی ہیں.لیکن واعطانه پند و نصائح با ناصحانه تلفین عمل کے لئے قطعات درباعیات کی اصناف زیادہ موروثیت رکھتی ہیں اور شاعر کو اپنا مافی الضمیر ادا کرنے میں تنگی محسوس نہیں ہوتی.میرانیس، مرزا دبیر ، اکبر الہ آبادی ، امجد حیدر آبادی، حکیم اختر انصاری اکبر آبادی، جوش ملیسائی اور جوش ملیح آبادی اور دور موجودہ میں راغب مراد آبادی اور رئیس امروہوی نے ان اصناف میں اپنی جودت طبع کے خوب خوب جو ہر دکھائے ہیں.ہمارے میر صاحب بھی اس میدان میں اتر ہے ہیں اور آپ کے اشہب قلم کی جولانیوں نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ آپ اس میدان کے بھی شہسوار ہیں.آپ نے اپنے قطعات میں بعض فارسی مصرعے جو ضرب الامثال کی حیثیت رکھتے تھے استعمال کئے ہیں اور ان کو ایسے سلیقے
104 میں کام لائے ہیں کہ ہر مصرعہ اس قطعہ کا جزو لاینفک بن گیا ہے جس میں وہ استعمال کیا گیا.اسی طرح آپ نے عربی فقرات اور مہندی محاورات استعمال کرنے سے بھی احتراز نہیں کیا بلکہ بڑی چابکدستی سے ان فقرات یا محاورات کو اپنے حسب منشاء استعمال کرنے میں کامیاب رہے ہیں.چند مثالیں ملاحظہ ہوں :- اعمال صالحہ کبھی تو چاہیے اے دوست آخرت کا خیال کبھی تو عیش کو چھوڑ اور عمل کا وقت نکال نہ کام آئیں گے عقبی میں مال اور دولت که مال تالب گورست و بعد ازاں اعمال ذات اس کی ہے خیبر محض اسے دوست رحم ہے مغز اور سزا ہے پوست سکھ ہے نعمت تو دکھ علاج ترا هرچه از دوست میرسد نیکوست » نہ بن تو کسی کا بھی دشمن دلائل کو دیکھ اور نشانات روشن نہ کر سوکنوں کی طرح عیب چینی پیا جس کو چاہیں رہی ہے سہاگن
185 ذکر الہی اور اصلاح نفس رکھ زباں کو ذکر سے مولا کے تر تا زباں سے روح تک پہنچے اثر دل بھی سیدھا کر کہیں ایسا نہ ہو به زبان بسیح و در دل گاؤ خر دلاتا ہے صدقہ بلا سے نجات دعائیں پلاتی ہیں آب حیات ہی دو ہیں پس مغز احکام دین اقیمو الصلوة واتو الزكوة مندرجہ بالا سطر میں ہم نے حضرت میر محمد اسمعیل صاحب کے کلام کا ایک منفر سا تعارف پیش کیا ہے.اردو ادب اور خاص کر منظومات میں منتظر کشی بھی ایک صنف ہے اور یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ میرا نہیں اور مرزا دبیر نے اس فن میں اپنے کمالات کا ماہرانہ اور استادانہ مظاہرہ کر کے اردو شاعری کے دامن کو گل ہائے رنگا رنگ سے بھر دیا ہے حضرت میر صاحب نے بھی ایسی تنظمیں رقم فرمائی جن سے منظر کشی کا حق ادا ہو جاتا ہے.ایسی نظوں میں آپ کی نظم، کچھ بارہ بہت مقبول ہے اور منظرکشی کا ایک اچھا نمونہ ہے انہوں نے سوار سے شعر کہنے شرع کئے اور آخر وقت تک کچھ نہ کچھ لکھتے رہے.چوالیس برس کے اس عرصہ میں آپ نے بہت تھوڑی نظمیں کہیں گر جو کچھ کہا بالعموم دین کی تائید، احمدیت کی حمایت، اخلاقی قدروں کی اشاعت اور پند و نصائح کی ترویج کے لئے کہا.ان کی نظمیں خدا اور رسول اور حضرت بانی
سلسلہ احمدیہ کے عشق ومحبت میں ڈوبی ہوئی ہوتی تھیں.ان کا ناصحانہ اور صوفیانہ کلام مید دلنشین اور موثر ہوتا تھا اور جب وہ سلسلہ کے اخبارات میں چھپتا تھا تو احمدی احباب نهایت ذوق و شوق سے پڑھتے تھے.حضرت میر صاحب کے کلام کی مقبولیت اور شہرت اندرون و بیرون ملک دور دور تک پھیل گئی تھی.میر صاحب کو شعر گوئی کا شوق بچپن سے تھا اور یہ شوقی ان کو ورثہ میں ملا تھا.ان کے والد حضرت میر ناصر نواب صاحب بہت خوش گو شاعر الشمس العلماء مولانا الطاف حسین پانی پتی کے شاگرد تھے.ان کی نظموں کے کئی مجموعے چھپے ہوئے موجود ہیں چنانچہ باپ سے یہ شوق بیٹے میں منتقل ہوا اور انہوں نے بڑے ہو کر ایسی نظمیں لکھیں جو احمد یہ لٹریچر میں ہمیشہ زندہ رہیں گی.
189 تحریر و نسیم سیفی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب یہ اللہ تعالٰی کی دین ہے کہ اس نے حضرت میر ناصر نواب صاحب دہلوی کو بھی ایک اعلیٰ پایہ کا شاعر بنایا تھا اور حضرت میر صاحب کے ایک فرزند ارجمند حضرت میر محمد اسماعیل کو بھی ذوق شعری سے وافر حصہ عطا فرمایا تھا.حضرت میر محمد اسماعیل صاحب ڈاکٹر تھے اور لوگوں کا جسمانی علاج کرتے تھے.لیکن اپنی شاعری سے آپ نے روحانی غذا بھی مہیا کی اور روحانی دوا بھی.حضرت میر محمد اسماعیل صاحب نے اگر صرف ایک ہی نظم جس کا عنوان ہے.عليك الصلوة عليك السلام کی ہوتی تو پھر بھی احمدی شعراء میں آپ کا بہت بڑا مقام ہوتا.لیکن اس نظم کے علاوہ میں انہوں نے سادہ عام فہم زبان میں مستعد و نظمیں کہی ہیں.عليك الصلوة عليك السلام کے ایک دربند سنیے.جی تو چاہتا ہے که ساری نظم سنادوں کیونکہ یہ نعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے اور نعتوں میں اس نعمت کا درجہ بہت بلند ہے.بدرگاه ذی شان خیر الانام شفیع الوری مرجع خاص و عام بعد عجز و منت بصد احترام یہ کرتا ہے عرض آپ کا ایک غلام کہ اسے شاہ کونین عالی مقام علیک الصلواۃ علیک السلام
14 خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی بتوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی کہ توحید ڈھومے سے ملتی نہ تھی ہوا آپ کے دم سے اس کا قیام علیک الصلوۃ علیک السلام آپ کی نظمیں پڑھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا موزوں الفاظ آپ کے سامنے قطار اندر قطار کھڑے ہیں اور آپ بلا تکلف ان کو اٹھا اٹھا کر نہایت قرینے سے رکھتے چلے جاتے ہیں.مشکل مذہبی اصطلاحات کو عام فہم الفاظ میں پیش کرنے میں آپ کو ید طولی حاصل تھا.جان پہچان تم سے ہو جائے معرفت سے بھلا ہمیں کیا کام بات مسلنے کو میں ترستا ہوں مجھ کو الہام چاہیے نہ کلام تم پہ مرتے ہیں اسے مرے پیارے عشق کا دے رہے ہو کیا الزام یونہی چھپ چھپ کے ملتے رہنا تم وصل کا تو خیال ہی ہے خام زاہدو! کیا کریں دعاؤں کو مانگنا بھیک ہے ہمارا کام مجھ سے تقولی کا کرتے ہو کیا ذکر ڈرتا رہتا ہوں جب میں تم سے مدام اس طرح اس تنظیم میں متعدد دیگر اصطلاحوں کو عام فہم الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.یہ اشعار تغیل کی جان نہیں تو اور کیا ہیں.تم آئے اور گلے ملنے سے کترائے تو کیا آئے ہم آئیں اور تمہارا دل نہ گر جائے تو کیا آئے مزہ آنے کا ہے تب ہی کہ ہنستے بولتے آؤ اگر چہرے پہ اپنے بے رخی لائے تو کیا لائے
141 رباعیات اور قطعات میں آپ نے حکمت کے انمول موتی پیش گئے ہیں.ہیں گنہ بے حد و عد...بشرک ہے پر سب سے بک اور علاج اس زہر کا...قل هو والله احد اگر تندرستی کی ہے آرزو طبیبوں کی کرنا نہ تم جستجو ہی ایک کافی ہے یارو عمل کلو واشر یو لیک لا تسرفو شاعر ہونے کے علاوہ آپ ایک نہایت اچھے نثر نگار بھی تھے.آپ بیتیوں کو ہمیشہ سے ادب میں وقعت کی نگاہ سے دیکھا جاتا رہا ہے.آپ نے بھی ایک آپ بیتی کھی ہے.ایسے واقعات جن کا براہ راست آپ سے تعلق ہے یا ایسے دلچسپ واقعات جن کے وقوع ہونے سے آپ نے ایک خاص تاثر لیا ان کو قلم بند فرماکہ آپ نے اپنی زندگی کے نہایت مفید تجربوں کو ایک جگہ جمع کر دیا ہے.آپ ایک بلند پایہ انشاء پرداز تھے.اور اس سلسلے میں آپ نے متعدد مضامین تحریر فرمائے ہیں جو کتابی صورت میں تو شائع نہیں ہوئے لیکن احمد یہ جماعت کے اخباروں میں ان کا انبار لگا پڑا ہے.
141 بیٹی کے جذبات اپنے پیارے ابا جان کے لئے حضرت سیدہ مریم صدیقہ فرماتی ہیں در حضرت سید محمد اسمعیل صاحب بظاہر تو دیکھنے والے کو یہی نظر آتا ہو گا کہ ڈاکٹر ہنے اور دنیا میں پھنس گئے ہوں گے مگر ایسا نہیں تھا.اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ میں شفا عطا کی تھی آنکھوں کے تو بہت ہی ماہر تھے.لیکن کبھی لالچ نہیں کی کسی نے فیس دے دی، لے لی ، نہ دی نہ لی.جہاں ذرا بھی محسوس ہوتا کہ یہ نہیں نہیں دے سکتا نہ صرف علاج کرتا بلکہ گھر سے کھانا بیک اُس کے لئے بھجوانا جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ روحانی علاج کی کوشش بھی ساری عمر جاری رہی.آپ کی نظمیں آپ کے الفضل میں مضامین آپ کی محبت الہی ، عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت مسیح موعود سے محبت، خلافت سے محبت کے چھٹے پھوٹتے نظر آتے ہیں.حضرت مسیح موعود کو بہت ہی قریب سے دیکھا آپ کے گھر میں رہے خدا تعالی کی پیشگوئیاں پھدی ہوتی دیکھیں ایمان بالیقین حاصل ہوا.(صت) ابا جان محترم فرمایا کرتے تھے مجھے فیس لینے میں سخت حجاب تھا میں اس غرض کے لئے ہاتھ نہ بڑھا سکتا تھا اس زمانے میں چاندی کے روپے ہوتے تھے.مریضی میری جیب میں فیس ڈال دیتے بعض دفعہ گھر آ کر جب فیس نکالی جاتی تو ان میں سے اکثر کھوٹے سکے ہوتے.(ص) ۱۹۴ء میں حضرت مصلح موعود کو گلے کی تکلیف ہو گئی اور اس کے ساتھ بخار آتے لگا اور حضور کو یہ وہم ہو گیا کہ آپ کو سل ہو گئی ہے چنانچہ آپ ہر وقت تھرما میٹر لگا کہ ٹمپریچر شمیر بھر دیکھتے رہتے.ابا جان روزانہ دیکھنے آیا کرتے تھے کئی دفعہ آپ نے تھرا میٹر توڑ
۱۶۳ بھی دیا کہ نہیں لگائیں گے.ابا جان چلے جاتے تو حضور پھر تھرما میٹر منگوالیتے با وجود اس کے کہ خلیفہ اسیح آپ کے بھانجے بھی تھے اور داماد بھی.تاہم ابا جان آپ کا غیر معمولی (۳۵) احترام کرتے.حضرت سیدہ انصرت جہاں بیگم اماں جان سے ابا جان کو عشق کی حد تک پیار تھا، حضرت سیدہ کسی چیز کی تعریف کرتے ابا جان فوراً دہ چیز آپ کی خدمت میں پیش کر دیتے (اماں جان) کہتی رہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں لیکن ابا جان نہ مانتے فرماتے مجھے ضرور دینی ہے تو پھر خرید کر دے دینا لیکن ابا جان اُسی وقت اُسے پیک PACK کروا دیتے.میرے رشتہ کے لئے گھر تشریف لائیں ابا جان سے کہا میں تمہاری لڑکی مانگنے آئی ہوں.آیا جان نے فرمایا میں آپ کی بات واپس نہیں کر سکتا ہے جائیں.سیدہ موصوفہ نے مزید کہا.بے شک یہ خدا کی تقدیر تھی کہ میں حضرت مصلح موعود کے عقد میں آئی.لیکن اس کی ایک وجہ یہ بھی مفتی کہ ابا جان حضرت سیدہ کی بات ٹال نہ سکتے تھے.حضرت میر محمد اسحق سے سیدہ کو اگر بیٹیوں کی طرح پیار تھا تو ابا جان پر انہیں بہت ناز تھا.ابا جان ہمیشہ عید پہ اپنی آپا کو عیدی بھیجتے.....ابا جان سنایا کرتے تھے کہ آپا جاتی حضرت مسیح موعود کے لئے سیب منگوا کر رکھا کرتے ہیں کبھی گر گرمی محسوس ہوتی تو الماری کھولتے اور کہتے آپا کتنے سیب لادیں.حضرت مسیح موعود تصنیف فرار ہے ہوتے ہماری آواز سُنتے تو سمجھ جاتے کہ ان کا سیب کھانے کو بھی چاہتا ہے آپ کے لبوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی اور میں سیب مل جاتے (خانی) لازمت کے دوران ابا جان بہت معمور الاوقات تھے ہم نے تو آپ کے بڑھاپے ہی کو دیکھا ہے آپ بچوں کو نماز با جماعت کی بہت تاکید فرماتے تھے.گھر میں نماز ادا فرماتے تو ہیں سامنے کھڑا کر لیتے دُعائیں یاد کراتے.بچوں سے پیار بھی تھا.لیکن کڑی نظر رکھتے تھے.میں نے پانچویں تک گھر میں پڑھا.آج یک آپ کے پڑھانے کا دلنشین
147 انداز یاد ہے.مجھے پڑھانے کے بعد فرماتے اب اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو پڑھاؤ میں سب سے بڑی تھی فرمایا کہ تے تھے بڑے بچے کی تربیت پر زور دو اس کا اثر چھوٹوں پر بھی پڑے گا......زمانے کا بڑا فرق ہے اس زمانے میں بچے اتنے بے تکلف نہ ہوتے تھے احترام کے ساتھ ساتھ ایک ڈر بھی تھا.ابا جان کی زندگی بڑی سادہ تھی.گھر میں بہت سادہ لباس زیب تن فرماتے زبان اور تلفظ کا اتنا خیال تھا کہ ایک دفعہ میں نے لفظ غلط کو غلط کہہ دیا ابا جان ناشتہ فرمارہے تھے مجھے بلایا اپنے پاس کھڑا کر دیا اور فرمایا کہ غلط غلط اسی طرح کہتی رہو جب ناشتہ فرما چکے تو مجھے رخصت دی.گھر میں مرکز سے کسی ترکی عالم کو بلا لیتے تاکہ گھرمیں دینی علم کا چر چار ہے.حضرت مولانامحمد السبیل صاحب حلالپوری اور حضرت مولوی غلام نبی صاحب مصری تو مجھے اچھی طرح یاد ہیں.اس طرح اگر کسی بندگی سلسلہ نے علاج کروانا ہوتا تو ابا جان کے پاس تشریف لے آتے.حضرت میر محمد اسحق صاحب آپ سے چھوٹے تھے.ابا جان کو ان سے بہت پیار تھا.میں نے خود دیکھا چھا ایا بیمار ہوتے تو ابا جان اُن کے پاؤں سہلا رہے ہیں.آخرمی بیماری میں ابا جان میر صاحب کے کمرے میں جاتے اور سخت بے چین ہو کہ باہر آتے، دعائیں کرتے اور فرماتے ڈاکٹر اب اُن کو کیوں دیکے پر ٹیکا لگا رہے ہیں بیٹی کے میرے دل پر لگتے ہیں.بھائی کی وفات پر اشعار میں کہا میرا ایک بازو جاتا رہا.ان کی وفات پر جو مضمون لکھا اس میں فرمایا ده آفتاب علم وحکمت اور مجموعه محاسن اخلاق نیوی ہمیشہ کے لئے اس دنیا سے غروب ہو گیا." ردو بھائی)
148 حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی خدا تعالیٰ کے لئے غیرت سیدہ طیبہ صدیقہ صاحبہ ابھی پچھلے ماہ میرے بھائی سید امین احمد کی وفات ہوئی ہے.ان کی اور میری ذات سے متعلق ایک واقعہ ہے تحریر کر رہی ہوں کہ اس کے پڑھنے کے بعد خدا تعالیٰ کی غیرت ہر دل میں پیدا ہو.میرے ابا جان حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کو خدا تعالی کی بہت غیرت تھی.کوئی بات خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف سنتنا پسند نہ فرماتے تھے.اور بے اختیار میں نے بات کی ہو اس کے متعلق ہرقسم کا تبصرہ کر دیتے تھے، اپنی آپ بیتی میں بھی آپ نے ایسا ہی ایک واقعہ لکھا ہے...میرا یہ بھائی ہم سب سے چھوٹا تھا.اور ست ما ہا پیدا ہوا تھا.بہت ہی کمزور تھا.بہت محنت سے اس کی پرورش کی گئی.شروع شروع میں ڈرا پر سے دودھ پلایا جاتا تھا.میں ہی اپنے بھائی کو سنبھالتی تھی.محبت کی وجہ سے بھی اور اپنی والدہ کی بیماری کی دیہ سے بھی.جب وہ بالکل نارمل صحت مند اور بہت پیارا موٹا تازہ بچہ ہو گیا تو ایک دن میرے ایا جان کوئی بات اس کی کمزوری کے متعلق کر رہے تھے جو مجھے اب یاد نہیں.اس وقت میری نه تو اتنی سمجھ والی عمر تھی اور نہ ہی اتنی عقل تھی.میں نے اپنی طرف سے اپنا کارنامہ بیان کرنے کے لئے کہا کہ اگر میں اسے نہ رکھتی تو پھر پتہ نہیں کیا ہوتا.میرا یہ کہنا تھا کہ میرے ابا جان کا منہ سرخ ہو گیا اور کہنے لگے کرمجھے خدا تعالیٰ کی بہت ہی غیرت ہے.اب یہ بڑا ہو گا اور تمہارے گھر میں فوت ہو گا.اس وقت تو اس بات کا عارضی سادھکا لگا.بات آئی گئی ہو گئی.اس کے بعد میری شادی ہوگئی.پھر جوں جوں عقل اور کچھ ترقی کرتی گئی یہ الفاظ جب بھی یاد
194 آتے تھے میں تو بہ واستغفار کرتی تھی کہ خدایا میں نے نادانی میں بیوقوفی سے ایک بات کہہ ی تھی تو رحیم وکریم ہے تو حرف غلط کی طرح اس بات کو مٹا ہے.عمر کے ساتھ ساتھ یہ دعا پڑھتی رہی اور میں خوف کھاتی رہی جب بھی وہ میرے گھر آتا تو میں اس کے لئے بہت دُعا کرتی.اور جب مجھے دعا کی اصل حقیقت کا پتہ چلا تو میرے دل کو کچھ تسلی ہوئی وہ تو بہت بخشے والا ہے.بے عقلی میں کی گئی بات کو ضرور انشاء اللہ معاف کر دے گا.ہمیشہ میں یہ دُعا کرتی رہی کہ اے خدا میرا باپ تیرا پیارا بندہ ہے.تو اس کی کہی ہوئی اس بات کو نہ مان کہ یہ میرے سے بے وقوفی میں سرزد ہوئی تھی.اوران دعاؤں کا عرصہ انسٹھ سال پر محید ہے.پھر خدا تعالیٰ کی قدرت دیکھیں کہ ہمارے گھر کے سارے کام ہماری والدہ کے بعد باری بڑی بہن سیدہ چھوٹی آپا کے ہاں ہوتے تھے.این بیمار ہوا.بیماری کل ایک ہفتہ کی تھی.چھوٹی آپا خود بیمار ہیں میں نے کئی دفعہ کراچی جانے کا پروگرام بنایا لیکن ایک تو ہمت نہ ہوئی.دوسرے وہی الفاظ کانوں میں گونجتے تھے.آخر خدا تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی اور ہمارا بھائی ہم سے جدا ہو گیا.اس وقت کراچی سے فون آیا کہ اسے میرے گھر میں نے کہ آرہے ہیں.اس وقت وہ سارا واقعہ میرے ذہن میں پھر تازہ ہو گیا اور میری روح خدا تعالیٰ کے حضور جھک گئی کہ یہ خدا تعالیٰ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ اس نے میری ساری عمر کی دُعائیں سُن لیں اور مجھے معاف کر دیا.لیکن دوسری طرف میر اسماعیل کی بات بھی رکھوں کہ وہ بھائی خصت میرے گھر سے ہی ہوا.بلانے والا ہے سب سے پیارا ر روزنامه الفضل ربعه صفحه ۴ مورخه ۲ ستمبر ۱۱۹۹۸)
148 حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی سیرت کے بعض پہلو محترم سید محمود احمد ناصر صاحب حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب (جو حضرت اماں جان کے بھائی اور حضرت خلیفہ ایسیح الثانی کے ماموں ہونے کے شرف سے مشرف تھے) کو دیکھنے اور ملنے والے جانتے ہیں کہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا اور اہم پہلو ان کی محبت الہی تھا.جن لوگوں کو ان کے قریب رہنے اور ان کو قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقعہ ملا ہے وہ محسوس کرتے تھے کہ اللہ تعالٰی کی محبت ان کے دل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے.ان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ دن اور رات ان کو ایک لگن سی لگی ہوئی ہے.ایک تڑپ اور بے قراری ہے دا تعالے کے لئے.خدا تعالیٰ کی صفات کے ذکر میں وہ لذت محسوس کرتے اسی رنگ سے اس کا ذکر کرتے جس طرح کوئی اپنے کسی نہایت پیارے کا ذکر کر تا ہے.اس کی رحمتوں اور برکتوں کا ذکر ان کی زبان پر رہتا.اس کے حسن کے تصور سے ان کی روح پر ایک مستی کی سی کیفیت طاری رہتی.اور پھر ان کی روح ہر وقت خدا تعالیٰ کی طرف پرواز کرنے کے لئے تیار رہتی اور یہ شعر ان کی زبان پر رہتا ہے تڑپتی روح ہے میری کہ جلدی ہو نصیب اپنے طلاقات شہ خوباں نہائے حضرت باری
۱۶۸ خدا تعالی کے لئے جو جوش محبت آپ کے دل میں تھا آپ کے عمل میں بھی جھلکتا تھا اور آپ کے کلام میں میں.خدا تعالی کو مخاطب کرتے ہوئے اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں : میری خوشبو مانغمہ مرے دل کی غذا تم ہو مری لذت مری راحت مری جنت شها تم ہو مرے دلیر مرے دلدار گنی لیے بہا تم ہو صنم تو سب ہی ناقص ہیں فقط کامل خدا تم ہو مرے ہر ورد کی دُکھ کی مصیبت کی دوا تم ہو رجا تم ہو غنا تم ہو شفا تم ہو رضا تم ہو جفا میں ہوں و خاتم ہو دُعا میں ہوں عطا تم ہو طلب میں ہوں سخا تم مو غرض میرے پیا تم ہو مرا دن تم سے جنگ لگ ہے مری شیم سے بھی کم مرے شمس التھی تم ہو مرے بدر الدجی تم ہو تمہیں مخفی ہو ہر کے میں تمہی ظاہر ہو ہوتے ہیں ازل کی ابت را تم ہو ایک کی انتہہ تم ہو ہر اک ذرے میں جلوہ دیکھ کر کہتی ہیں یہ آنکھیں تمہی تم ہو تمہی تم ہو خدا جانے کہ کیا تم ہو اس شعر پر حضرت میر صاحب نے یہ نوٹ دیا ہے.یہ مناجات بنا کر ہمیں ایک دن آدھی رات کو اسے پڑھ رہا تھا جب اس شعر پر پہنچا تو مجھے انوار و برکات و قبولیت کا شدت سے احساس ہو.اس پر میں نے اس وقت آخری شعر میں اس کا ذکر کمر کے مناجات
149 کو مکمل کر دیا اور اسے الفضل میں چھپنے کے لئے بھیج دیا.اس لیے پناہ محبت کا جو انہیں خدا تعالیٰ سے بھی اظہار کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کو مخاطب کرتے ہیں.پھر فرماتے ہیں : مجھ پہ اسے جان چھا گئے ہو تم دل میں میرے سما گئے ہو تم پھرتے رہتے ہو میری آنکھوں میں جب سے جلوہ دکھا گئے ہو تم کیا مزا آپ کو آتا تھا عبادت میں مری کیوں مجھے پچھلے پہر آپ جگا دیتے تھے کیوں مرے منہ سے سنا کرتے تھے اپنی تعریف کیوں مرے دل کو لگن اپنی لگا دیتے تھے لطف کیا تھا کہ پھنساتے تھے مصائب میں ادھر اور ادھر رغبت تسلیم درضا دیتے تھے نور عرقاں سے میرا سینہ منور کر کے پتے پتے میں مجھے اپنا پتہ دیتے تھے منعکس ہوتے تھے آئینہ عالم میں تمہی بوئے گل میں بھی مہک اپنی سنگھا دیتے تھے سالک راہ محبت کی نشسکی کے لئے آپ ہر ساز میں آواز سنا دیتے تھے
16.اس را و سلوک کا آخری مرحلہ جو اس نظم میں بیان ہے اس کیفیت کے اظہار پر مشتمل ہے جہاں حضرت میر صاحب اپنے دل پر بارگاہ احدیت سے وصال کی تجلیات کا مشاہدہ کرتے ہیں.فرماتے ہیں.- اسے خوشا وقت کہ پھر وصل کا ساماں ہے دہی دست عاشق ہے وہی یار کا داماں ہے وہی دل کے آئینہ میں عکس رخ جاناں ہے وہی مردم چشم میں نقش شد خوباں ہے وہی ہو گئی دُور غم ہجر کی کلفت ساری شکر صد شکر کہ اللہ کا احسان ہے وہی مژده ای جان و دله و دلم پھر وہی ساقی آیا ہے وہی بزم وہی سانفر گرداں ہے وہی مل گئے طالب و مطلوب گئے آپس میں رب محسن ہے وہی بندہ احسان ہے رہی پھر دہی جنت فردوس ہے حاصل مجھ کو نقل ایماں ہے دہی چشمہ عرفاں ہے دہی فد سے ذرے میں مرے رہ گیا دلدار ازل ذکرہ میں لب پہ وہی فکر میں پنہاں ہے وہی آتش عشق و محبت کا دہی زور ہے پھر قلب بریاں ہے وہی دیده گریاں سے دہی
161 وصال ہی کا یہ سامان کس طرح میسر ہو اس کا ذکر یوں کیا ہے.دوستو مردہ کہ ایک خضیر طریقت کے طفیل پھر مرے دل میں رواں چشمہ میواں ہے وہی اس وسیلہ کے سوا وصل کی صورت ہی نہ تھی قاصد بار گر حضرت ذی شان ہے وہی اس کے ملنے سے ہمیں شاہد گم گشتہ ملا آستانے کا شر حسن کے دریاں ہے وہی اس کے بعد خدا تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.میرا محبوب ہے وہ جان جان عشاق اس سے جو دُور رہا قالب لے جاں ہے وہی عالم کون و مکاں نور سے اس کے روشن تغیر از دسی بوئے گلستاں ہے وہی ذرے ذرے میں کشش عشق کی رکھی میں نے مالک جسم وہی.روح کا سلطاں ہے وہی رنگ سے اس کے ہے نیز نگئی عالم کا ظہور گرمی و رونق بازار حسیناں ہے وہی دل جو انسان کو دیا.درد محبت دل کو جوال قبلۂ دل ہے وہی درد کا درماں ہے وہی جس نے آواز شنی ہو گیا اس کا شیدا دیکھ لے جلوہ تو سو جان سے قرباں ہے وہی
۱۷۲ خود تو جو کچھ ہے سو ہے نام بھی اس کے پیارے حتی و قیوم و و صمد - ہادی و رحماں ہے وہی لاکھ خوشیاں ہوں مگر خاک ہیں بے وصل نگار قرب حاصل ہے جسے خرم و شاداں ہے وہی حب دنیا بھی نہ ہو.خواہش عقیمی بھی نہ ہو جز خدا کچھ بھی نہ ہو.طالب جاناں ہے دہی پھر یہ دُعا کرتے ہیں.اب تو دل میں ہے فقط ایک تمنا باقی آرزو صرف وہی خواہش دارماں ہے وہی در گر قدس سے قائم رہے رشتہ اپنا لیکن اس کا بھی اگر ہے تو نگہباں ہے وہی نشہ جامِ محبت کی دُعا ہے اُس.ساقی میں کدہ محفل مستاں ہے وہی آپ دیتے نہ تھکیں اور میں چیتے نہ جھکوں میرے شایاں ہے ہی آپ کے شایاں ہے ہی، ہاتھ پکڑا ہے تو اب چھوڑ نہ دینا اللہ مدتوں دُور رہا جو یہ پیشماں ہے وہی سچ تو یہ ہے کہ سبھی میری خطا تھی ورنہ اپنے بندوں پہ کرم آپ کا ہر آن ہے وہی ہم تو کمزور ہیں پر آپ میں سب طاقت ہے جو بھی مشکل ہے ہمیں آپ کو آساں ہے یہی
۱۷۳ حضرت میر صاحب کے دل میں یہ محبت الہی کا جو دریا بہہ رہا تھا اس کے نتیجہ میں بارگاه احدیت سے بیشمار تفضلات و احسانات کا مورد تھے اور بہت کثرت سے آپ مخاطبات الہیہ سے مشرف ہوتے تھے ہیں اس تذکرہ کو بارگاہ ایزدی کے ایک اور عاشق صادق مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے کشف کو بیان کر کے ختم کرتا ہوں.19ء میں جب اپنی عمر کے چھیاسٹھویں سال میں اپنی آخری بیماری میں مبتلا تھے اور احباب جماعت کو ان کی صحت کے متعلق سخت فکر تھی حضرت مولوی صاحب کو کشف ہوا جس کے متعلق آپ تحریر فرماتے ہیں.مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میرے کانوں کے بالکل قریب ہو کہ کوئی کلام کرنے لگا ہے.نہایت فصیح اور موثر لہجہ میں کلام کا طرز ہے.اس وقت مجھے یہ محسوس کرایا جا ہاتھا کہ یہ اللہ تعالی ک آواز ہے.چنانچہ اللہ تعالی نے نہایت ہی علم اور رحم کے پیرا یہ میں یوں فرمایا.میر محمد اسماعیل ہمارے پیارے ہیں ان کے علاج کی طرف نکر کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہم خود ہی ان کا علاج ہیں."
16M حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کی یاد میں از جناب عبد اللطیف صاحب ظہور افسوس تھے جو قوم کے معمار مل لیے جو دین مصطفے کے تھے غم خوار پل ہے تھے رحمت کو جن پہ ناز تھا دنیائے عشق میں وہ عاشقان احمد مختارچل بسے بچپن سے جن کو عشق تھا آقائے دین سے ملنے کو اپنے یار سے وہ یار چل بسے روتا رہے گا ابر بھی جن کو ہزار سال گریاں وہ ہم کو چھوڑ کے یکبار چل ہے جنت کا در ظہور تھا جن کے لئے کھلا وہ قادیاں کا چھوڑ کے گلزار میں بسے الفضل ۲۵ جولائی ۱۹۴۷ء)
۱۷۵ تاریخ وفات حضرت میر محمد اسماعیل صاب از جناب قاضی محمد یوسف صاحب ہوتی مردان آه سید محمد اسماعیل احمدی.دہلوی نمود رحیل ده چه خوش مرد با صفا بو دست مومن و متقی - نجیب وسیل خنده رو خوش مزاج صوفی طبع خوش خصال فیلم دنیک موبیل نکته رس نکته گو و قرآن دان با عمل باحیا و مرد عقیل گل سرسید باغ احمدیت در ہمہ وصف بے نظیر و عدیل بود ہمدرد بیوه و سکین خیر خواه تیم د ابن سبیل آن حکیم و معا لج غربا گشت از کثرت علاج ملیل آخرش حکم ارجعی آمد کرد تعمیل حکم عزرائیل بست داشتم بد از مرشعبان بروز آدینه بود یوم جلبیل لام و زارا کشیده یوسف گفت یا بد از رب خویش اجر جزیل (۱۳۶۵) (الفصل ۲ اگست (۱۹)
144 جناب سیف اللہ فاروق صاحب خون کے دریا بہائے دیدہ خوننا بہ بار سامنے ہے آج تیرے میر صاحب کا مزار مظہر اوصاف احمد ستی گردوں وقار اسے کہ تیرے نام سے تھا علیم دیں کا افتخار رہتی دنیا تک رہیں گے کام تیرے یادگار اور تیری نیکیوں کے معترف لیل و نہار
166 جناب شیخ روشن دین تنویر صاحب پھر یم سے جا ملا در یکدانہ ایک اور نور ازل میں ڈھل گیا پروانہ ایک اور پیمانہ تنگ اور وفور سٹے حیات چھلکا مئے حیات سے پیمانہ ایک اور اہل بہشت سے ہی گئے ہم سے چھین کر تسبیح ریز بلبل مستانہ ایک اور د الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۴۷) 19 ام
16A آه ! حضرت میر محمد اسماعیل صاحب آه ای خیر محتجم.ایک پیکر نور کا دیکھ کر جس کو نظر آتا تھا جلوہ طور کا پوچھتا ہے وصف کیا تو ایسے عالی جاہ کا پاک ظاہر پاک باطن عبد تھا اللہ کا نیک طینت نیک سیرت متقی و پارسا حامی دین متیں اور سالک راہِ ہڑئے منبع علم و ہنر اور کان فضل وخير.فیضیاب اس سے سراک ہو تا تھا اپنا ہو کہ غیر خوبیاں کیا کیا گناؤں میر اسماعیل کی چہرہ انور تھا گویا روشنی قندیل کی اسے خدا کے برگزیدہ صوفی معالی مقام رحمتیں اللہ کی تجھے پر ہوں اور لاکھوں سلام ا روزنامه الفضل ۳۱ جولائی ۱۹۴۷) شاعر کا نام درج نہیں ہے
169 باب سوم توحید و سلام
١٨٠ حمد ذات باری تعالی میرا محبوب ہے وہ جان جہانِ معشاق اُس سے جو دُور رہا قالب بیچاں ہے ہی عالم کون ومکاں نور سے اُس کے روشن تعمیر ساز وہی بُوئے گلستاں ہے وہی فقتے وقتے ہیں شش عشق کی میں نے رکھی مالک نیم وہی روح کا سلطان ہے وہی نگے اس کے ہے نیز نگئی عالم کا ظہور گرمی و رونق بازار حسیناں ہے وہی دل جو انساں کو دیا.درد محبت دل کو قبلہ دل ہے وہی.درد کا درماں ہے دری جس نے آواز سُنی ہو گیا اس کا شیدا دیکھ لے جلوہ تو سو جان سے قربان ہے وہی و تو جو کچھ ہے و ہے نام بھی اسکے پیاسے تھی تو قوم ومحمد ہادی و رحمان ہے وہی عشق میں جسکے ثابت نہیں وہ یاد ہے یہ جس پہ بن دیکھے میں لوگ یہ جاناں ہے وہی کہ خوشیاں ہوں گر خاک میں بے مول نگار قُرب مال ہے جسے خرم و شاداں ہے وہی حبت دنیا بھی نہ ہو خواہش عقبی بھی نہ ہو جرمن کچھ بھی نہ ہو طالب جاناں ہے دہی اہشمار ولی ص ۳۳۲)
AI کلمه شهادت یعنی وجود باری پر جاری گواهی اسلام کے پانچ ارکان میں سے پہلا رکن کلمہ شہادت ہے یعنی اَشْهَدُ ان لا اله الا اللهُ وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ ورسوله میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں وہ اکیلا ہے.اس کا کوئی شریک نہیں اور میں یہ گواہی بھی دیتا ہوں کہ محمد صلے اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور پیغمبر ہیں.بغیر اس گواہی کے مسلمان مسلمان نہیں کہلا سکتا.اگر کوئی اس سے شہادت طلب کرے کہ خدا کے وجود کو ثابت کرد.تو اس کا فرض ہے کہ جہاں تک اس کی عقل اور سمجھ ہے اس پر اپنی شہادت پیش کرے ورنہ اس کا دعوے بلا دلیل اس کا ایمان بلا اصلیت اور اس کی گواہی با تائیدی واقعات کے ہوگی.اس لئے ہرمسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے تئیں اس گواہی کے لئے مستعدا در تیار رکھے اور جب بھی ضرورت ہوا سے پیش کرے.یہ نہ ہو کہ ساری عمر تو اَشْهَدُ اَنْ تَوَالِه الا اللہ کہتے گزر جائے اور جب اس شہادت کے متعلق پوچھاجائے تو بیلیں جھانکنے لگے یا دبی زبان سے اقرار کرنے لگے کہ میرے پاس تو کوئی شہادت موجود نہیں.اور عوام الناس کی نسبت یہ شہادت اہل علم لوگوں پر اور بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ الہ تالے نے فرمایا ہے کہ شهد الله أنه لا اله الا هُوَ وَالْمَلَائِكَةُ وَأُولُو الْعِلم تابِما بِالْقِسْطِ (آل عمران : ۱۹)
JAY مطلب یہ کہ خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی توحید پر نہ صرف خود اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے گواہ ہیں.بلکہ تمام اہل علم مسلمان بھی انصاف پر قائم ہو کہ اس بات کے گواہ ہیں.یعنی وہ بھی یہی گواہی اپنی طرف سے نہیں کرتے ہیں.اور یہی گواہی اسلام کا پہلا رکن ہے اور گواہی وہ ہوتی ہے جو محض سنی سنائی نہ ہو بلکہ انسان کو اس کا ذاتی علم بھی ہو.اور اگر اسے بلا کر شہادت طلب کی جائے.تو وہ قسم کھا کر دل کے یقین کے ساتھ اسے بیان کر سکے.یہ گواہی جو باری تعالے کے وجود اور اس کی توحید کے لئے ہے حسب ذیل شقوں منقسم ہے ا.اس کی فطرت کی گواہی -۲- اس کی عقل کی گواہی جن لوگوں کو وہ اپنے تجربہ سے راستباز یقین کرتا ہے ان کی گواہی ہ.اس کے علم کی گواہی ہ اس کی آپ بیتی یا اپنی ذاتی گواہی ان واقعات کی گواہی جو اس نے دوسروں پر گزرتے دیکھے.اور وہ خود بھی ان باتوں کا شاہد ہے.عالم روحانی کی کیفیات جن سے براہ راست ذات باری کی رویت کلام کے رنگ ہیں ظاہر ہوتی ہے.اور جہاں علی وجہ البصیرت کوئی بندہ اپنے بعض تو اس کے ساتھ احساس صفات باری تعالیٰ کر لیتا ہے.اس کے بعد سمجھانے کے لئے بطور نمونہ نہایت مختصر اور سرسری شہادت میں اپنی طرف سے اس معاملہ میں پیش کرتا ہوں.فطرت کی شہادت میری فطرت یہ چاہتی ہے کہ چونکہ میں بے علم.بد اخلاق کمزور - حاجت مند اور مریض ہوں.اس لئے کوئی ایسی طاقتور ہستی ہونی چاہیے جو مجھ پر رحم کرے.میری کمزوریاں
JAP دور کرے.مجھے صحت دے.میرے عیبوں کی پردہ پوشی کرے مجھے رزق دے میری کشتگی کی مرمت کرے.دشمنوں کے حملے مجھ سے دور کرے.میری حفاظت کرے میری خواہشیں پوری کرے میری دُعائیں قبول کرے.میرے علم میں اضافہ کرے مجھے عزت دے.مجھے حکمت بخشے.غلطی کے وقت میری راہنمائی کرے.آنے والے خطرات سے مجھے آگاہ کرے.اور مجھے ہر طرح خوش رکھے.وہ خود ہر علم و قدرت سے آراستہ اور غیر فانی ہو.اور مجھے بھی فنانہ ہونے دے.بلکہ ابدی زندگی عطا فرمائے.عرض یہ میری فطرت کی آواز ہے اور یقیناً میر الفن کسی ایسے ہی وجود کو چاہتا ہے اور اُسے ڈھونڈتا ہے.بلکہ ایک بچے کو ایک جاہل عورت کو ایک بیوقوف مرد کو اور ایک عالم سے عالم شخص کو بھی پوچھ کر دیکھ لو کہ کیا وہ ایسی ہستی کا طالب ہے یا نہیں.یہ ایک سچی پیاس ہے.ایک واقعی بھوک ہے.ایک حقیقی ضرورت ہے.اس لئے اسے اسی طرح پورا ہونا چاہیئے.جس طرح ہماری ہر سچی ضرورت کے پورا ہونے کے لئے دنیا میں سامان موجود ہیں اور وہ پوری ہوتی ہیں.پس اس ضرورت کا بشدت احساس خدا تعالیٰ کے وجود پہ ایک شہادت ہے.عقل کی شہادت دوسری گواہنی میری عقل کی ہے کہ یہ سلسلہ دنیا کا جو ایک حقیر ذرہ سے لے کر اعلیٰ سے اعلیٰ مخلوقات تک بغیر کسی فتور کے کمال عقلمندی اور کمال حکمت دوانائی سے چل رہا ہے تو اس خلق کے پیچھے کوئی خالق.اس حکمت کے پیچھے کوئی حکم اور اس عقلمندی کے پیچے کوئی نہایت دانشمند وجود ہونا چاہیئے.آپ ہی آپ یہ کام نہیں ہو سکتا.کیونکہ وہ چیزیں نہ اپنی آپ خالق ہیں.نہ اتنی عقلمند ہیں.اور تمام مخلوقات کی بناوٹ اور ترتیب کے پردہ کے پیچھے ایک ارادہ اور ایک مشیت ایک حکمت ایک تدبیر جلوہ گر ہے.
۱۸۴ راست بازوں کی شہادت میری تیسری گواہی راست بازوں کی شہادت ہے.میں نے تمام دنیا کے مشہور اور مقتدر راست بازوں اور اپنے زمانہ کے کم از کم تین عظیم الشان صدیقیوں کو دیکھا.اور سر ایک نے ان میں سے یہی گواہی دی کہ اللہ ہے.اور ہم ذاتی طور پر اس کے گواہ ہیں.یہ لوگ ایسے ہیں اور ان کی راست بازی پر مجھے اتنا یقین ہے کہ اگر یہ دن کو رات کہہ دیں تو میں اپنی آنکھوں کو جھوٹا سمجھوں.اور ان کو سچا پس میرے لئے ان کی شہادت کافی ہے.علمی شهادت چوتھی شہادت علمی شہادت ہے وہ بجائے خود ایک لا انتها مجموعہ شہادات کا ہے لیکن مختصر یہ کہ مجھے بڑے بڑے اہل علم سائنسدانوں اور نیچر کے راز وانوں نے یہ علم دیا ہے کہ تمام عالمین میں ایک نظام ہے اور ایک تسلسل ہے ایک ارتقا ہے یعنی UNIFORMITY اور CONTINUITY اور EVOLUTION اور حیثیت مجموعی اس تمام سلسلہ عالمین میں جہاں تک ہماری نظر علم اور قیاس پہنچ چکا ہے.اوّل سے آخر تک ایک چیز بھی ایسی ثابت نہیں ہوئی جو دوسری تمام چیزوں سے کچھ نہ کچھ تعلق نہ رکھتی ہو.اور دوسری مخلوقات کے ساتھ مل کر ایک مکمل سسٹم کے اجزاء میں منسلک نہ ہو.اور ترقی کی طرف نہ جارہی ہو تعجیب بات ہے کہ عام طور پر لوگوں کو اس بات کی خبر تک نہ تھی کہ مخلوق میں یہ کمال اور انضباط موجود ہے.اگر علوم جدیدہ نے اس حقیقت کا انکشاف کیا.این ویقینی ثبوت ہے وجود بازی تعالی کا.اس کے خالق ومالک ہونے کا.اور اس کی توحید کا.ایک چوٹی کا سائنس دان اور ماہر علم نجوم کہتا ہے کہ ہم نے اتنے فاصلوں تک ایسے ایسے مستقل عالم پھیلے ہوئے دیکھے ہیں کہ ہماری قوت واہمہ اور تخیل بھی ان فاصلوں کا اندازہ کرتے ہوئے چکرا جاتی ہے مگر پھر بھی یہ سب عالمین اس طرح ایک دوسرے سے وابستہ ہیں جیسے کسی مشینری کے مختلف پرزے.الفضل (۲ جون ۱۹۳۸ء)
IAD همارا خدا اللہ اور صرف اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات با برکات سراپا حسن احسانات ہے جیس کے سوا کوئی ہمارا محبوب اور کوئی ہمارا معبود نہیں.وہ ساری کائنات کا رب ہمارا پیدا کرنے والا.پالنے والا اور درجہ بدرجہ ترقی دینے والا ہے.وہ ساری مخلوق پر بے انتہا رحم کرنے والا اور نہایت ہی مہربان ہے.نہ صرف اس عارضی دنیا میں ہی وہ ہمارا مالک ہے بلکہ آخرت میں بھی جو دار الجزار اور دائمی ٹھکانا ہے.وہی ہمارا آتھا اور مالک ہوگا وہی حقیقی بادشاہ ہے.نہایت پاک اور بے عیب خود تمام نقصانات سے محفوظ اور دوسروں کو سلامتی نبٹنے والا امن دینے والا نگہبان اور ہمارے اعمال کا محافظہ بڑی عزت و حرمت والا.بگڑی کو سنوار نے اور شکستہ کو جوڑنے والا نہایت خود دار مادہ اور ارواح کو عدم سے وجود میں لانے والا تخلیق کا موجد اور صحیح اندازہ کرنے والا.طرح طرح کی تکلیس اور صورتیں بنانے والا عیب پوش - دباؤ اور دید به دالا - لکھ داتا - روزی رسان مشکل کشا - • ظاہر و پوشیدہ کا واقف اور ازل سے ابد تک ہر بات کا تفصیلی علم رکھنے والا سب کو قبضہ قدرت میں رکھنے والا.کشائش اور فراخی دینے والا.نافرمانوں کو پست اور فرمان واروں کو بلند کرنے والا عزت بخشنے والا.ذلت دینے والا.ہر آدانہ کو سننے والا، ہر چیز کو دیکھنے والا مبین حکم اور فیصلہ فرمانے والا ، عامل و منصف.باریک بین اور لطف کرنے والا.ہر بات سے خبر دار.نہایت بردبار - صاحب عظمت و شکوہ بے حد بخشنے والا گتا ہوں کا.
نهایت قدردان به عالی مرتبت سب سے بڑا سب کا محافظ سب کی روزی پیدا کرنے والا سب کو کفایت کرنے والا اور انسان سے اس کے اعمال کا حساب لینے والا بزرگ قدیس ثانی سخی.چھوٹے بڑے سب کا ہر وقت نگران.دعاؤں کو قبول کرنے والا اور اپکارنے والے کو جواب دینے والا.اپنی تمام صفات میں بے پایاں وسعت رکھنے والا.صاحب حکمت و دانائی ، نہایت درجہ محبت اور دوستی کرنے والا.صاحب شرافت.مرنے کے بعد پھر زندہ کرتے والا ہر جگہ حاضر سراسر حق اور تمام سچائیوں کا سر شیمیہ کام بنانے والا.زور اور سنجیدہ دستگیر- مددگار، وفادار تمام محاسن اور خوبیوں کا منبع اور مرکزیہ تمام مخلوقات اور ان کے افعال واعمال کو شمار میں رکھنے والا ہے.پہلی بار پیدا کر نے والا بھی وہی ہے اور دوبارہ پیدا کرنے والا بھی رہی.زندگی دینے والا بھی وہی اور مارنے والا بھی وہی.قائم بالذات مجسم زندگی.کائنات کے قیام کا باعث - ذره ذره پر تصرف رکھنے والا.عالی شان مایک یگانه دیکتہ بے نیاز ہمہ قدرت اور اپنی قدرتوں کو خوب ظاہر کرنے والہ کسی کو آگے پڑھانے والا کسی کو پیچھے مٹانے والا.ازلی ابدی سب سے زیادہ ظاہر سب سے زیادہ مخفی.مہر ایک کا کام سنبھالنے والا.اعلیٰ اور پسندیدہ اخلاق والا مینعم اعلیٰ اور محسن.حقیقی.تو یہ قبول فرما کہ رجوع پر حمت کرنے والا.ظالموں سے ان کے تعلیم کا بدلہ لینے والا لغزشوں سے درگزر کرنے والا اور گناہوں کو مٹانے والا شفیق و غم گسار تمام نظاموں اور بادشاہتوں کا مالک.صاحب جلال و جمال حق دار کی حق رسی کرنے والا.پراگندوں کو جمع کرنے والا مبنی ہے پر ھا.دوسروں کو مالدار اور غنی بنانے والا مصائب کو ٹالنے والا.دکھ اور ضرر کا مالک نفع اور شکر کا خالق - سراسر نور اور روشنی بخش.سارا ہنا.نئی نئی باتیں نئی مخلوقات اور نئی نئی قدرتیں ظاہر فرمانے والا.غیر متغیر اور غیر فانی.سب کا وارث صحیح راستہ پر چلانے والا اور نہایت درجہ صبر و تحمل والا.یہ ہے ہمارا خدا یہ ہے ہمارا اللہ.یہ ہے ہمارا محبوب اور یہ ہے ہمارا معبود
بے عیب حسین و بے نہایت محسن کوئی نہ ہوا.نہ ہے.دموگا اس بن نہ وہ کسی کی ماں ہے.نہ کسی کا باپ.نہ اس کی کوئی بیوی ہے.نہ اولاد نہ کوئی اس کا ہمسر نہ رشتہ دار نہ کوئی اس کا مثل نہ مانند.نہ وہ کسی کی عبادت کا حاجت مند نہ خدمت کا محتاج غیر محدود ہے.اور درا الورا.اس کی ذات صفات اور افعال میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں.جو چاہتا ہے.کرتا ہے اور کر سکتا ہے.آسمانوں اور زمینوں کا رب.پہلوں اور پھلوں کا داتا.دل کے بھیدوں کا واقف.ہمارے نصور سے بالا تنہ.رگ جان سے زیادہ قریب فریادی کی فریاد کو پہنچنے والا طبیب شافی کنیل.تم الوکیل اپنی تمام مخلوقات سے اُن کی استعداد کے مطابق کام کرنے والا بنجات انسانی کے لئے سر زمانہ میں پیامبر اور انبیاء مبعوث کرنے والا.اور پھر قیامت کے دن ان انسانوں سے اُن کی فطرت عقل علم اور حالات کے مطابق یکمال رعایت.یاز پریس کرنے والا.ہر چیز کو ایک اندازہ اور حدیت میں رکھنے والا.وہ جو کبھی کسی پر ذرہ بھر ظلم نہیں کرتا.وہ جس کا انتقام بھی صرف بندوں کے فائدہ اور اصلاح کے لئے ہے.وہ جس کی سزائیں اور عارضی اور جزا کثیر اور دائمی ہے.وہ جس کا دوزخ بھی شفاخانہ ہے اور چند روزہ.اور جس کی جنت بادشاہی مہمان خانہ ہے اور ابدی.وہ جس کا رحم تمام مخلوقات پر محیط ہے.اور جس کی رحمت ہمیشہ اس کے غضب پر غالب کوئی نہیں جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے حضور کوئی سفارش کر سکے.وہ ہر جگہ موجود ہے.پھر بھی کوئی آنکھ اُسے دیکھ نہیں سکتی.جسم صورت جہت رنگ، ترکیب محدود ہونے اور حلول کرنے سے پاک.سوتا ہے.نہ اونگھتا ہے.نہ تھکتا ہے.نہ کمزور ہوتا ہے.نہ غافل ہے.نہ زوال پذیر جس کی تمام صفات اس کی ذات کی طرح ازلی اور اید لی ہیں.اپنی بات کا سچا.اپنے وعدہ کا صادق.اپنے دلی میں ترم.لائق اعتماد.اور قابل تو کل.بدی - گناہ شرک اور کفر کو نا پسند کرنے
I^^ والا بجبل سے پاک سراپا خیر.جب چاہتا ہے اپنی تقدیر کو جاری کرتا ہے.اور جب چاہتا ہے.اُسے توڑ بھی دیتا ہے.ہر چیز سوائے اس کی ذات کے فانی ہے.کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے وجود پر گواہ.اور اس کے خالق مالک تدریس اور محسن ہونے پر شاہد ہے.جس کی عیادت بوجھ اور چھٹی نہیں.بلکہ سراسر مسرور اور فائدہ ہے.جگہ اور زمانہ روخ اور مادہ.موت اور حیات نیز مخلوقات کے افعال.خیالات اور ارادے سب اُسی کی مخلوق ہیں.اس کی تمام صفات پسندیدہ اور ہر صفت مخلوق کے لئے سر تا سر فضل اور انعام ہے.فالحمد لله رب العالمین.اب ذرا غور کرو.اور اپنے دل سے پوچھو کہ کیا تم ایسی ہستی کے بغیر گزارہ کر سکتے ہو؟ کیا تمہیں ایسے وجود کی ضرورت نہیں.کیا ایسے سربریت کے بغیر خوشی اور اطمینان حاصل کر سکتے ہو.کیا ایسی ذات کے سوا کسی اور پو پھر وسہ اور اعتماد کر سکتے ہو.کیا اس کو چھوڑ کمرہ کوئی اور سہتی تمہارے علم میں ہے جو تمہاری سب کچھ ضرور توں.ساری دلی خواہشوں اور آرزوؤں کو پوراکرنے کی طاقت رکھتی.اور اس کا وعدہ کرتی ہو.یا اس میں خدا تعالیٰ جیسی اعلیٰ اور فیض رساں صفات اور اخلاق ہوں.اگر نہیں تو خوشی سے آؤ مجبوراً آؤ کرتا آؤ.ضرور تا آؤ جس طرح ہو سکے آؤ.اس لئے کہ تمہاری مسبب مرادی اور جذبات تمہاری بوگل ضروریات تمہاری جبکہ حاجات تمہارے سارے فوائد صرف ہی ایک دریا سے پورے ہو سکتے ہیں.اور کسی دروازہ سے نہیں.کیونکہ صرف رہی ہے.جو لازوال دولت کا خرمات ہے.سُبحَانَ رَبِّكَ رَبِّ العِزَّةٍ عَمَّا يَصِفُونَ - وَسَلَامْ.ترجمه تیرارب جو تمام برائیوں کا مالک ہے ، ان کی بیان کردہ باتوں سے پاک ہے اور رسولوں پر ہمیشہ سلامتی نازل ہوتی رہے گی.
١٨٩ اور سب تعریف اللہ تعالیٰ کی ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے.سو یہ ہے ہمار اللہ جیسے قرآن نے پیش کیا.اور یہ ہے ہمارا وہ خدا جو ہمیشہ نبیوں پر ظاہر ہوتا رہا اور ہوتا رہے گا.اسے مانو.اس پر ایمان لاؤ.اُس کے فرمانبردار تھے ہنو ں اس کی رضا چاہو.اُسی سے دُعا مانگو.اور اُسی سے اپنے دل و جان کے ساتھ محبت کرو.تا کہ تم یا مراد ہو.آمین.الفضل ۹ جنوری ۱۹۴۳ء)
14.سنت الله آج کل اکثر لوگ جب کوئی دعویٰ کہ بیٹھتے ہیں تو ان کے ثبوت میں صرف یہ کہنا کافی سمجھ لیتے ہیں کہ یہ بات سُنت اللہ ہے." یا سنت اللہ نہیں ہے.اور اس لفظ کے بوجھ کے نیچے وہ اپنے فریق مقابل کو دبانا چاہتے ہیں.حالا حکم پو چھا جائے.یا تفتیش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ خود منت اللہ کا مفہوم نہیں سمجھتے.سب سے بڑی غلطی جو وہ کرتے ہیں یہ ہے کہ سنت اللہ وہ اس قانون کو کہتے ہیں.جو انہوں نے اپنے مشاہدہ سے اور خود اپنی عقل سے خدا کے لئے تجویز کیا ہو.مثلاً کبھی سے ناصری کے باپ کے متعلق بحث ہو تو فورا کہہ دیتے ہیں کہ ایسے انسان کا ہونا ہو بے باپ کے پیدا ہو سنت اللہ کے خلاف ہے.پر اس کے معنے ان کے دل میں یہ ہوتے ہیں کہ چونکہ ہم نے یا ہمارے ملنے والوں نے ایسا ہوتا نہیں دیکھا.لہذا یہ خدا کی سنت بن گئی.نہ خدا کبھی ایسا کر سکا نہ کرتا ہے نہ کر سکے گا.حالانکہ وہ ان محدود المعقلی محدود العلم انسان خدا تعالٰی کی سنت اس کی قوت اور اس کی قدرتوں کی حدیت کہاں کر سکتا ہے اس سے بڑھ کر احمق بین اور کیا ہوگا کہ ایک ۲۵ - ۳۰ ساله کمر در جاهل انسان ازلی ابدی بڑھ پن - غیر محدود فعال نما یرید اور قادر مطلق خدا کی قدرتوں کا احاطہ کرے اور کہہ دے کہ فلاں بات سُنت اللہ ہے اور خدا تعالیٰ اس کے برخلاف نہیں کر سکتا یا نہیں کرتا.گویا کہ آپ نے اپنی طرف سے خدا کے ہاتھ باندھ دیئے اور حکم دے دیا کہ اس فلاں کام اس طرح سے ہوا.اور دوسری طرح سے نہ ہو.میرے خیال میں سنت اللہ کا یہ مفہوم
191 بچوں کے لئے بھی ہنسی کا مقام ہے.چہ جائیکہ کوئی عقلمند اسے اس طرح پیش کر ہے یہی وہ لوگ ہیں جن کی بابت قرآن مجید میں آتا ہے کہ وہ کہتے ہیں یہ اللہ مغلولہ.یعنی اللہ تعالیٰ صرف علت العلل ہے.مجبوراً اور اضطرارا اپنے ہی قوانین میں مقید ہے.گویا نعوذ باللہ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں.جس طرح مثلاً آگ خاصیت جلانے کی رکھتی ہے اسی طرح خدا تعالی سے بھی خلق اور دیگر صفات مجبوراً اور بعض قواعد کے ماتحت صادر ہوتی ہیں.دراصل یہ تو آریہ کا عقیدہ ہے یا دھریہ کا.کیونکہ وہ بھی نیچر میں ایک گریٹ پاور مانتا ہے.سو جیسا دہریہ کا خدا د لیا ہی نیچری کا.فرق صرف یہ ہے کہ نیچری خدا کا نام لیتا ہے اور وہ یہ نام لینے سے بھی کتراتا ہے.بعض لوگ اپنی عقلی اور مشاہدے سے ہٹ کر قرآن کی طرف بھی رجوع کرتے ہیں اور یوں کہنے لگتے ہیں کہ قرآن مجید نے جو بیان کیا ہے.کہ ہم نے انسان کو جوڑا بنایا.اور اسی جوڑے سے اس کی نسل پھیلائی ہیں ثابت ہوا کہ یہ سنت اللہ ہو گئی.حالانکہ یہ بھی ان کی غلطی ہے.اسے تقدیر کہتے ہیں.اور جیسے خدا کی ایک تقدیر یہ ہے کہ ماں باپ سے مخلوق کا سلسلہ چلائے.اسی طرح دوسری تقدیر یہ ہے کہ بغیر ماں باپ کے بھی یہ سلسلہ چلائے.جیسے ابتدائے آفرینیش کے وقت کیا تھا.پھر تیسری تقدیر یہ کہ ماں باپ میں سے مثلا باپ نہ ہو.اور صرف ماں سے بچہ پیدا ہو جائے.ہاں کثرت قلت کی اور بات ہے.کہ کونسی تقدیم کسی زمانہ اور کن حالات میں جاری ہوتی ہے اور کونسی بکثرت رائج ہے.اور کونسی کم.مگر ہم اسے بھی سنت اللہ نہیں کہیں گے.یہ تو تقدیر کہلاتی ہے.اور ہزاروں تقدیریں ایک ام کے کرنے ک اللہ تعالی کےعلم ہی میں بھی کسی طرح وہ کام ہوتا ہے اور بھی کسی طرح.اور کبھی ایک زمانہ میں ہی کئی مختلف طریقوں سے.و سنت اللہ ، یہ خلاف اس کے اللہ تعالیٰ کی وہ عادت ہے.جو ہمیشہ ایک ہی طرح جاری ہوتی ہے.اور کسی زمانہ میں اور کبھی بھی اس میں تغیر و تبدل نہیں ہوتا.نہ اس کے
۱۹۲ خلاف کبھی اللہ تعالیٰ کی کوئی اور عادت ثابت ہے.کیونکہ منت اللہ موجب کلام اہلی کے خود اللہ تعالیٰ کی طرح ایک غیر متبدل چیز ہے.کسی بات کو سنت اللہ ثابت کرنے کے لئے یہ کافی نہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اپنے کلام میں اس کی بابت صرف اتنا کہ پایا جائے.کہ میں ایسا کیا کرتا ہوں.چنانچہ صرف یہ آیت پیش کرتے سے کہ خدا تعالیٰ ماں باپ سے انسانی بچہ پیدا کرتا ہے.یہ بات سنہ اللہ نہیں کہلائے گی.سنہ اللہ یہ اس وقت کہلاتی جب تحدی کے ساتھ اور حتمی طور پر یہ ذکر ہوتا.کہ آدم کے بعد پھر خدا تعالیٰ ہر گیا کبھی اس دنیا میں انسان کو سوائے ماں باپ کے ملنے کے اور کسی طریق سے پیدا نہیں کرے گا.کیونکہ سُنت اللہ ہمیشہ متحد یا نہ الفاظ میں بیان کی جاتی ہے.مثلا مردوں کے دنیا میں واپس نہ آنے کی بابت جو قانون ہے وہ سنت اللہ کے درجہ کو پہنچا ہوا ہے.کیونکہ وہ ان زور دار الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.وحرم على قرية أهلَكْنَهَا أَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (الانيا (٩٦) یعنی ہم نے قطعی حرام کر دیا ہے کہ جو لوگ ہلاک ہو جائیں گے.وہ ہر گز ہر گز اس دنیا میں کبھی واپس نہیں آئیں گے.اسی طرح آسمان پر کسی میشر کے نہ جاسکنے کی بابت جو فرمان ہے وہ بھی ایک مفتہ اللہ ہے.کیونکہ وہ یہ تحدی تمام بیان کرتا ہے کہ قُل سُبْحَانَ رَبِّي هَل كُنتُ إِلَّا بَشرا رسُولو ربنی اسرائیل (۹۲) ترجمه ، تور انھیں) کہہ (کہ) میرا رب (ایسی بے ہودہ باتوں کے اختیار کرنے سے) پاک ہے.میں (تو) صرف بشر رسول ہوں (آسمان پر نہیں جاسکتا).(90 اسی طرح رسولوں کے غلبہ کے متعلق اللہ تعالیٰ اپنی منت ان تاکیدی الفاظ میں فرماتا ہے.كتب الله لاغلِبَنَّ انَا وَرُسُلِي (المجادله (۲۲) یعنی اللہ تعالیٰ نے یہ اپنے ذمہ فرض قرار دے لیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہمیشہ
١٩٣ ہی غالب ہوں گے.اسی طرح یہ بات کہ رسولوں کے علاوہ کسی کو ہر گنہ سرگتہ اظہار علی الغیب معینی کثرت سے غیب کا علم نہیں دیا جاتا.یہ بھی ایک شنفتہ اللہ ہے.اور ان پر شوکت الفاظ میں اس کا ذکر ہے فَلَا يُظهِرُ عَلَى غَيْبِةٍ أَحَدًا إِلَّا مَنِ ارْتَعَى مِنْ رَسُولٍ رالجن : ۲۸،۲۷) ترجمہ ، اور وہ اپنے غیب پر کسی کو غالب نہیں کرتا سوائے ایسے رسول کے جس کو وہ اس کام کے لئے پسند کر لیتا ہے.بعض جگہ تو اللہ تعالیٰ ایسی متحد یا نہ بات کے بعد خود ہی فرما دیتا ہے.کہ یہ ہماری گفت ہے.اس لئے غیر متبدل ہے.مثلاً یہ کہ جب کوئی نبی وطن سے نکالا جاتا ہے.تو تھوڑی مدت کے بعد ہی اس شہر پر عذاب الہی نازل ہوتا ہے.اور یہ خدا تعالیٰ کی دائمی سنت ہے.اسی طرح یہ کہ خدا کے بنی اس کے سب محکموں کو مانتے ہیں.اور ان پر عمل کرتے ہیں اور خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے.اسی طرح منافق اور بنی کے بدخواہ اس کے شہر سے نکال دیئے جاتے ہیں.اور ان کو کہیں بھی چین نہیں ملا کہتا.اسی طرح جب کفار پہ بعذاب نازل ہونا شروع ہوتا ہے.تو پھر خواہ وہ تو یہ بھی کریں وہ عذاب واپس نہیں کیا جاتا پھر ایک سنت اللہ یہ ہے کہ جب مومن خدا کے حکم کے ماتخت جہاد کرتے ہیں.تو مقابلہ پر کفار ہمیشہ شکست ہی کھاتے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کبھی پیچھے مسلمانوں کے معاندین کی مدد نہیں کرتا.اور کیشان مخالفین پر عذاب الہی نازل ہوتا ہے.اب یہ سب آیات دیکھ لو.اور قرآن مجید میں جو باتیں سفتہ اللہ کہہ کر بیان کی گئی ہیں.ان پر بھی روشنی ڈال کر دیکھ لو کہ سنہ اللہ ہمیشہ غیر متبدل ہوتی ہے.ورنہ امان اُٹھ جاتا ہے.اور جھوٹ اور پیسے میں تمیز نہیں رہتی.اور وہ اس تھری سے بیان کی جاتی ہے کہ سوائے اس کے چارہ نہیں رہتا.کہ وہ ایسا محکم مضبوط بیان خود خدا کی طرف سے ہے.
۱۹۴ جس میں سوائے ایک کے باقی سب راستے بند کئے ہوئے ہیں.جیسا کہ اوپر بطور نمونہ چند باتیں بیان کی گئی ہیں.میں یہ یا ایسی ہی اور بعض عادات الہی سنتہ اللہ کہلاتی ہیں.اور وہ تھوڑی ہیں.باقی جس قدر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنی تقدیریں یا کام بغیر ایسی تحدی کے بیان کئے ہیں.ان کو سنہ اللہ کا نام نہیں دینا چاہیے.ان کاموں کو وہ ہزاروں طریقوں اور عجیب در عجیب تقدیروں اور اندازوں سے کرتا ہے.وہ اکثر اگ سے جلاتا ہے.مگر کبھی اس کی اس خاصیت کو سلب کر لیتا ہے.اکثر انسان کو جوڑے سے پیدا کرتا ہے.مگر گاہے گاہے صرف ماں کے ذریعہ سے بھی اس کو پیدا کر دیتا ہے ہمیشہ ایک ہی طریق پر اپنی صفات دکھانے کا پابند نہیں.کیونکہ اس کی طاقیتں غیر محدود ہیں.ہاں چند محدود امور میں اس نے یہ پابندی اپنے لئے خود مقرر کر لی ہے.کہ فلاں کام میری سنت ہے اور وہ اس عالم میں غیر متبدل اور غیر متحول رہے گی.مگر یہ پابندی کسی زید یکہ یاکسی نیچری کی ڈالی ہوئی پابندی نہیں.بلکہ خود خدا نے ہی اپنے لئے ایسا تجویز کیا ہے پس ہم کو قدرت کے ہر امر کے لئے سنت اللہ کے الفاظ نہیں بولنے چاہئیں.ور نہ ہم خدا کی قدرتوں کو محصورا اور اس کی لا انتہا طاقتوں کو محدود کر دیں گے.بلکہ کسی بات کو سنت اللہ کہنے کے لئے نہیں تین شرطوں کا پابند ہونا پڑے گا.ا.ایک تو یہ کہ خدا تعالیٰ نے خود اپنی عادت اپنے کلام میں کسی امر کے متعلق ایسی ہی بیان کی ہو.نہ یہ کہ کسی انسان نے اس کے لئے تجویز کی ہو.دوسرے یہ کہ نہایت متحدیانہ واضح غیرمشتبہ پر شوکت او قطعی الفاظ میں اس طرح بیان کیا ہو کہ الفاظ سے ہی معلوم ہو جائے کہ یہ اس کی عادت بلا استثناء غیر متبدل اور حتی ہے.تیسرے یہ کہ میں بھی جہاں تک خدا کی شفت کا علم اس کے اپنے کام اور تاریخ اور مشاہد ہ سے حاصل ہوا ہو.وہ بھی اس بات کی تائید کرتا ہو کہ اللہ تعالیٰ نے کبھی اس
۱۹۵ کے بر خلاف نہیں کیا.نیز یہ معلوم ہونا چاہیے.کہ اگر خدا کی ہر تقدیر کو سُنت اللہ کا نام دے دیا جائے تو بعض آیات میں نہیں بہت مشکل پڑے گی.مثلاً سورۃ علق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان کو ہم نے دو آنکھیں ، ایک زبان اور دو ہونٹ دیئے.اگر یہ سنت اللہ مان لی جائے تو نہیں یہ مشکل ہوگی.ہر وہ انسان جس کی دو آنکھیں نہ ہوں.اس کو انسانوں کی جماعت سے خارج کر نا پڑے گا.پس یہاں ہم کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کی عام تقدیر یہی ہے.اور اس میں استثناء ہو بھی سکتا ہے.کثرت پر اس کا اثر ہے.اگر یہ سنت اللہ ہوتی تو پھر اس میں استثناء کی گنجائش نہ ہوتی.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سنت کے بیان کے وقت اس کی یہ تعریف کی ہے.کہ سُنت اللہ میں تبدیل اور تحویل نہیں ہوا کرتی.ہاں تقدیر الہی مستعد و الگ الگ طریقوں سے ایک ہی بات میں ظاہر ہو سکتی ہے اور وہ بکثرت تبدیل بھی ہوتی رہتی ہے.آخری بھی یاد رکھا چاہیے کہ جسے عام لوگ قانون قدرت کہتے ہیں اس کو تقدیر الہلی بھی کہا جاتا ہے.نہ کہ سُنت اللہ.الفضل ۲۰ نومبر ۱۹۲۳م)
۱۹۷ ذکرالہی خدا کے ذکر سے ذاکر کی روح زندہ رہتی ہے.خدا تعالیٰ اس کی دعائیں قبول کرتا ہے اور اُسے معزز و کریم بناتا ہے.اس کے گناہ بخشتا ہے.خدا کی محبت اُسے حاصل ہوتی ہے.اللہ تعالی اس سے محبت کرنے لگتا ہے.اور خود اس کو اللہ تعالیٰ کی ذات سے محبت بڑھتی جاتی ہے اور ملائکہ سے تعلق پیدا ہوتا ہے.ذکر کی قسمیں ذکر کی قسمیں بہت ہیں مثلاً دُعا بھی ذکر ہے اور دعا میں استغفار بھی شامل ہے.تعود بھی وکا ہے.درود شریف بھی دُعا ہے.مگر میں اس قسم کا ذکر یہاں نہیں کروں گا.اسی طرح نماز اور قرآن پڑھنا بھی اعلیٰ ترین اذکار میں داخل ہیں.مگر یہاں ان کا ذکر بھی نہیں ہوگا.سب سے بڑا ذکر انسان کے لئے خدا تعالیٰ کی صفات کا بیان کرنا ہے.پہلے یہ کہ وہ ہے.پھر یہ کہ وہ اکیلا ہے.ازلی ابدی ہے.پھر یہ کہ کس طرح وہ کارخانہ عالم چلاتا ہے.پیدا کرتا ہے.ربوبیت کرتا ہے ماتم کرتا ہے، انصاف کرتا ہے، ہر چیز پر کامل حکمرانی اسی کے لئے ہے پکامل علیم اور کامل قدرت اُسی کے شایاں ہے ، غرض بے حد صفات اس ذات پاک کی دنیا میں ہمارے ذکرہ اور فکر کے لئے ہیں.اور یہی ذکر اعلیٰ درجہ کے لوگوں صاحب عقل انسانوں اور صاحب علم و معرفت بندگوں کے مناسب حال ہے.پہلے یہ اصحاب صفات الہلی میں فکر کرتے ہیں.پھر پلک میں ہندیعہ تحریر و تقریران باتوں کا ذکر پھیلتا ہے.اس جگہ میں اس قسم کے ذکر وفکر کا بیان بھی نہیں کروں گا.کیونکہ یہ ایک لا انتہا سمندر ہے اور اس کے اصل خواص انبیاء علیہم السلام ہیں.
196 عام لوگوں میں مشہور ذکر ہاں عوام الناس کے لئے جو ذکر مشہور ہیں میں ان کو مختصر طور پر بیان کروں گا اور وہ چار ہیں.ا تسبیح ۲ تحمید ۳ تهليل تكبير تسبیح کے معنی یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات ہر نقص، ہر عیب اور ہر کمزوری سے پاک ہیں.۲- تحمید کے معنے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات نہایت اعلی ، نہایت عمده ، نہایت قابل ستائش اور نہایت درجہ کا حسن و احسان اپنے اندر رکھتی ہیں تہلیل کے معنی لا اله الا اللہ کہتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے سوا ہمارا کوئی محبوب اور معبود نہیں.گویا یہ توحید کا اظہار اور اللہ تعالٰی کے لاثانی ہونے کا اقرار اور بیان ہے بگیر اس کے معنے ہیں اللہ تعالی تمام صفات حسنہ کا مالک اور جملہ کمزور ہوں اور برائیل سے پاک ہی نہیں.بلکہ اس کی سبوحیت اور محامد اس درجہ بلند علی اکبر اور اعظم ہیں.کہ ان کا اندازہ کوئی عقل کر ہی نہیں سکتی.پس عرفاً جو فقرات ذکر الہلی کہلاتے ہیں وہ یہ ہیں.تسبیح - سبحان الله (اللہ پاک ہے؟ التحميد - الحَمدُ لِله (سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہیں) نہیں - لا اله الا الله رنہیں کوئی معبود سوائے اللہ تعالیٰ کے) تکبیر اللہ اکبر (اللہ سب سے بڑا ہے) اب خواہ آپ سبحان اللہ پڑھتے ہیں.خواہ اَلحَمدُ للہ کہتے رہیں.خواہ لا اله الا اللہ درد کرتے رہیں خواہ اللہ آئی تو فرماتے رہیں.یہ سب کیا اہلی مصوب ہوگا.اور اگر چاہیں تو چاروں او کار کو مل کر بھی پڑھ سکتے ہیں تو سبحان الله والحمد لله ولا إله الا الله والله
١٩٨ اک ہو، اس طرح ملا کہ پڑھنا ایک کامل اور جامع اور مختصر ذکر ہو جاتا ہے.اسی طرح سُبحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظیم بھی ایک جامع ذکر ہے.جیس کی احادیث میں بہت تعریف آئی ہے.کیونکہ اس میں تسبیح اور تحمید اور تکبیر نین ذکر داخل ہیں.پس خواہ کوئی الگ الگ یہ کلمات ذکر پڑھے.خواہ ملا کر.عام ذکر الہی اپنی چار کلمات میں محدود رہے اور چاروں اوکار والے کلمہ اور اس کے بعد تین اذکار والا جامع کلمہ الگ الگ اذکار پر فضیلت رکھتا ہے.اور ان پر وقت بھی تھوڑا خرچ ہوتا ہے.- ان اذکار کے سوا اسماء و صفات الہی کا ذکر بھی ذکر الہی ہی ہے.مگر وہ جامع نہیں ہے، بلکہ وہ کلمات اکثر فکر کرنے اور تفصیلی ذکر الہی کے لئے ہیں.جامع اور محمبل ذکر رہی ہیں.جن کے ماتحت باقی سب اذکار بطور شاخ کے ہیں.ایک نہایت محمد تفصیلی ذکر وہ ہے جس میں خدا تعالیٰ کی ننانوے صفات کا بیان ہے اور جس کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے کہ جو شخص ان ننانوے اسمائے اللہ کو یاد کرلے گا وہ جنت میں داخل ہو جائے گا.یہ ذکر میں اس مضمون کے آخر میں درج کروں گا.ایک مشہور کلم لا حول ولا تا الا باللہ بھی انکا میں داخل ہے میرے نزدیک یہ بھی دعا ہی ہے جس طرح کہ تعوذ یا استغفار سب سے اعلیٰ ذکر یہ بیان پڑھنے کے بعد اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ آپ کے نزدیک سب سے اعلی ذکر کون ہے.تو میں یہی جواب دوں گا کہ سب او کار یعنی تسبیح ، تحمید، تہلیل اور تکبیر نیز تعوذ لا حول.استغفار اور در دو ضرور اپنے اپنے موقعوں پر کرنے چاہئیں لیکن ذکر الہلی اور دعا اور قرآن تینوں کو ملا کہ ایک عجیب معجون مرکب خدا کی طرف سے بھی نازل ہوئی ہے.اور میرے نزدیک وہ سب سے اعلیٰ ترین ذکر ہے اور اس ذکر کا نام ہے سورۃ فاتحہ یہ مختصر سورت ہر قسم کے
199 ذکر اور ہر قسم کی دعا پر حاوی ہے.اور بلحاظ فضیلت کے میرے علم میں تمام ادعیہ اور تمام اذکار اور تمام اوراد سے افضل اور اعلیٰ درجہ رکھتی ہے.ذکر الہی کا ایک عجیب فائدہ آخرت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جنت جو انسان کو آخرت میں ملے گی وہ اس طرح کی ہوگی میں طرح یہاں زمینداروں کے مربعے یا مصفی کردہ نرم زمین کے ٹکڑے ہوتے ہیں.پھر جس قدر ایک مومن ذکیا اہلی کیسے گا، ہر کلمہ کے بدلہ اس کے لئے اس زمین میں ایک درخت لگا دیا جائے گا.پس انہیں لازم ہے کہ اپنی جنت کو بارونق بناؤ.اور اس میں خوب درخت کرافت کروہ تاکہ جب تم اگلے جہان میں پہنچو تو سپاٹ زمین کی جگہ تم کو لگا لگا یا سرسبز خوشبو دار با تمر اور بارونق باغ ہے.لوگ پھل دار اور پھول دار درختوں کے لئے دنیا میں کتنی کتنی محنتیں کرتے ہیں.لیکن اگر ایک کلمہ سبحان اللہ کے کہنے سے تمہاری جنت میں سبب یا آم یا سنگترہ یا مالٹا کا ایک درخت پیدا ہو جائے تو کیا یہ مہنگا سودا ہے ہے پس ذکر الہی سے زبان کو تر اور دل کو گرم رکھو.اور اپنی جنت کے مراجوں کو آباد کرو.تاکہ دنیا اور آخرت ہیں فائدہ اٹھاؤ.اللہ تعالیٰ کی ننانوے صفات اب میں وہ تفصیلی ذکر الہی میں میں اللہ تعالیٰ کی نانو سے صفات کا بیان ہے.لکھتا ہوں.یہ نہ صرف ایک اعلیٰ درجہ کا وظیفہ ہے بلکہ اس ذکر سے اللہ تعالیٰ کی اکثر صفات عالیہ انسان کے زیر نظر رہتی ہیں.اور اسے اسماء باری کے متعلق وسیع علم حاصل ہوتا ہے جو قبل انکار سے حاصل نہیں ہوسکتا.
۲۰۰ الرحمن هُوَ اللهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلا هُوَ وہ اللہ ایسا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں الرحيم الملك القدوس بخشش کرنے والا مهربان بادشاه نهایت پاک السَّلَامُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَمِنُ الْعَزِيزُ سلامت و بے عیب امن دینے والا نگهبان الْجَبَّارُ المكبر الخَالِق شکستہ کی مرمت کرنیوالا بھائی والا عدم سے وجود میں لانے والا پیدا کرنے والا غالب الباري المصور الغفار القهار الوهاب صورت نیانے والا بخشنے والا زیر دست بہت دینے والا العراق الْفَتَّاحُ العليم القابض رزق دینے والا کھولنے والا علم والا نگی کرنے والا الباسط الْخَافِضُ الرافع الْمُعِبر فراخی کرنے والا پست کرنے والا بلند کرنے والا عزت دینے والا المدل السميع ذلت دینے والا بننے والا العدل اللطيف الْبَصِيرُ الْحَكم دیکھنے والا فیصلہ کرنے والا الْخَيرُ الْحَلِيمُ عدل کرنے والا باریک بین خبردار الْعَظِيمُ الْغَفُورُ السكور صاحب عظمت بہت بخشنے والا قدردان پر دبار العلي بلند مرتبه
بڑا الجليل الكَبِيرُ الحفيظ المُقِيتُ الحبيب حفاظت کرنے والا رزق پیدا کرنے والا کفایت کرنے والا الكريم الرقيب المُجيب بزرگ قدر بیٹا سخی نگیان دعا قبول کرنے والا الْوَاسِعُ الحكيم الودود المجيد - وسیع علم و قدمت والا حکمت والا محبت کرنے والا عالی شان الباعث الشهيد الحق الوكيل مردوں کو اٹھانے والا ہر جگہ حاضر حق کارساز القوى المتين الوَلِي الْحَمِيدُ استوار مددگار تعریف کے قابل الْمُحْصِرُ الْمُبْدِي الْمُعِيدُ گھیر نے والا پہلی دفعہ پیدا کرنے والا دوبارہ پیدا کرنے والا زندہ کرنے والا لمحي الحي مارنے والا زنده الفيوم قائم رکھنے والے الواجد غنی المَاجِدُ الْوَاحِدُ الاحد الصَّمد بزرگ بے پرواہ ایک یکتا القادِرُ المُقتَدِرُ المُقَدِّمُ المقتدر المُقَدِّمُ المُوخِرُ قادر الاول مقدر میں ظاہر کرنے والا آگے کرنے والا پیچھے کرنے والا الاخِرُ الظَّاهِرُ الْبَاطِنُ سب سے پہلے سب سے پیچھے سب سے اوپر سب سے اوپر سب سے مخفی
٢٠٢ الوالي التعالي اليد | التَّوَابُ کارساز بہت بلند محسن توبہ قبول کرنے والا المنتقم الْعَفُو الرؤونُ مَالِكُ الْمُلْكِ بدلہ لینے والا معاف کرنے والا بہت ہی شفیق ملک کا مالک ذوالجلال والاكرام المقسط الجامع صاحب بزرگی اور عظمت کا منصف جمع کرنے والا العي المغنى النافع الضات بے احتیاج غنی کرنے والا نفع دینے والا نقصان دینے والا المَانِعُ النور الْهَادِي الْبَدِيعُ باز رکھنے والا نور ہدایت دینے والی نئی نئی طرح سے پیدا کر نیوالی الباقي الوارث الرشيد الصبور ہمیشہ رہنے والا سب کا وارث راه نما بہت صبر کرنے والا رکھے زباں کو ذکر سے مولی کے تر تازیاں سے روح میں پہنچے اثر زباں کو مولی تر دل بھی سیدھا کر کہیں ایسا نہ ہو یہ زباں بیچ دور دل گاؤ خر ذکر اہلی کے گزشتہ بیان میں خاکسار نے لکھا تھا کہ اگر چہ ذکر کی کئی قسمیں ہیں.نماز بھی ذکر ہے.قرآن کی تلاوت بھی ذکر ہے.دُعا بھی ذکر ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات کا بیان بھی ذکر ہے.مگر عرفا ایک میں ذکر جس میں تسبیح وتحمید تہلیل اور تکبیر کے فقرات ہوں.ذکر الہلی کے نام سے مشہور ہے.منگی
سُبْحَانَ اللهِ بِحَمْدِهِ سُبحانَ اللهِ الْعَظيم - يا سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ یکا للهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ والله اكبر يا ان فقرات کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے ذکر کرنا.یہ ذکر زیان سے بار بار کئے جاتے ہیں اور صرف انہیں رہتے جانا مگر مطلب نہ سمجھنا ان کے فائدہ کو بہت کم کر دیتا ہے.اصل فائدہ ان فقرات کا جب ہوتا ہے کہ انسان علاوہ زبانی ذکر کے غور و فکر کر کے ان کا حقیقی مطلب بھی مجھے تیح ملا تسبیح کو ہی لے لو یعنی سبحان اللہ پڑھا.اس مقبل فقرہ کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سر جب ہر کمزوری اور سر نقص سے پاک ہے لیکن اگر عقلی طور پر تسبیح پڑھنے والا ان تقائمی اور عیوب کو خودی نہ سمجھتا ہو، جن سے خدا تعالیٰ کی ذات منزہ ہے.تو یہ میں لکھی ہے کر منہ سے تو وہ اللہ تعالی کو پاک کہتا ہو.مگر اعتقاداً وہ خدا تعالٰی کی صفات میں عیب اور نقص کا قائل ہو.مثلاً ایک سبحان اللہ کہنے والی شخص مکن ہے کہ تقسیم اور محلول کا قائل ہو یا خدا کے برابر کسی اور مخلوق کا درجہ سمجھتا ہو.یا دعا کا قائل نہ ہو.یا اپنے کسی عزیز کے مرنے پر خدا کو ظالم کہتا ہو.یا خدا تعالیٰ کو محدد و العلم یا محدود القدرت سمجھتا ہو.پس آپ ہی غور کر لیں.کہ ایسے آدمی کا سبحان اللہ کہنا فضول گوئی ہو گا یا نہیں ؟ اس لئے ضروری ہے کہ ہر شخص جو تسبیح پڑھتا ہو.اس کے لئے حسب ذیل اعتقادات کا سمجھنا اور خدا تعالے کے تقدس پر ایمان لانا یعی ضروری ہے.ورنہ سُبحان اللہ پڑھنا ایک امر ہے فائدہ ہوگا.اور وہ اعتقادات یہ ہیں.- خدا تعالے کبھی ظلم نہیں کرتا.-۲ خدا تعالی مددگار کفو اور شریک کا محتاج نہیں..خدا تعالیٰ کا علم ناقص نہیں.بلکہ وہ ہر زمانہ کا تفصیلی علم اشیاء کے متعلق رکھتا ہے.خدا تعالیٰ جسم سے پاک ہے.
۲۰۴ Y کوئی بھی اس کو اپنی قدرت اور فعل کے اظہار سے روک نہیں سکتا..وہ خلق کرتے ہیں روح و مادہ کا محتاج نہیں ے.نہ وہ اونگھتا ہے نہ سوتا ہے - کوئی اس کے حضور سفارش نہیں کر سکتا بغیر اجازت کے.اس کو کسی کی عبادت کی احتیاج نہیں.ا.وہ پاک ہے اس بات سے کہ اس کی قدرتوں کا کوئی احاطہ کر سکے.وہ کسی جسمانی تخت یا کرسی پر بیٹھا ہوا نہیں ہے..نہ وہ کھاتا ہے نہ بنتا ہے.۱۳.وہ پاک ہے ان عیوب سے جو اس کے شان کے بر خلاف ہوں مثلاً جھوٹ بون خودکشی کرنا.مرنا.اپنے جیسا ایک اور خدا پیدا کرنا.بیوی دیکے اختیار کرنا بینیم لینا بھول جانا تھک جاتا.ناقص اور باطل مخلوقا پیدا کرنا علم وحکمت کے بر خلاف کام کرنا بخل کرنا.بندوں کی ہدایت کے سامان مہیا نہ کرنا گناہ معاف نہ کر سکتا.فاضل ہونا.اس کے جواست کا انسانی اعضا کی طرح ہوتا.اس کے غضب کا اس کی رحمت پر غالب ہونا کسی کا اس کی مثل ہونا یا اس کا کسی کی مثل ہونا.زوال پذیر یا تغیر پذیر ہونا وغیرہ وغیرہ تعمید تحمید کے معنے الحمد للہ کے ہیں مگر ساتھ ہی یہ اعتقاد بھی ضروری ہے.کہ واقعی جیسا کہ میں زبان سے کہتا ہوں.ویسے ہی خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کو قابل ستائش قابل تعریف اور قابل حمد بھی یقین کرتا ہوں.اور نہ صرف اُسے ہر کمزوری اور عیب سے پاک سمجھتا ہوں.بلکہ مزید یہاں اس کی صفات کو بھی نہایت اعلیٰ اور نہایت پسندیدہ خیال کرتا ہوں.وہ نہ صرف منہ سے الحمد للہ کہنا اور اعتقاداً اسے رحیم کریم مالک رب اور شانی نہ سمجھنا تمہید کے اصول کے برخلاف
۲۰۵ ہے.اور خدا تعالٰی کی حمد و ثنا کے لئے یہ ضروری ہے کہ دل سے بھی یہ سمجھا جائے کہ وہ ذات بابرکات رب العالمین ہے رحمن ہے رحیم ہے مالک یوم الدین ہے.ہر آواز کو سنتا ہے.ہر چیز کو دیکھتا ہے.ہر بات کی خبر رکھتا ہے.دعاؤں کو قبول کرتا ہے اپنے بندوں سے کلام کرتا اور ان سے تعلق رکھتا ہے.اس کا ہر فعل حق و حکمت پر مبنی ہے.وہی سب کو رزق دیتا ہے عدم سے وجود میں لاتا ہے.پیدا کرتا ہے.مارتا ہے اور پھر دوسرے عالم میں زندہ کرتا ہے.خود ہمیشہ رہنے والی بہتی ہے بشکستہ کی مرمت کرنے والا بیمار کو شفا نمٹنے والا ہر طرح کی قدرت رکھنے والا محدود اعمال کے بدلہ ابدی جزا دینے والا حكم مايشاء فعّال لما يرمن (بوم) بِكُلِّ شَى عَلِیم شہنشاہ سب پر غالب بے حد سخی منصف ابدی.عالی شان - عالم کا تقوم فیض یہاں مصلح روزی رساں - در گذر کرنے والا.توبہ قبول کرنے والا.اکیلا معنی نہیں نے عالم تھا.طاقتور ، علیم، قدردان ، فذه فته کا اندازہ اور حساب رکھنے والا محبت کرنے واہی ذره والا ام اس اداء الا غیر محمد دا سب سے زیادہ ظاہر اور سب سے بڑھ کر بھی.سر جگہ حاضر ناظر اور جس کا عذاب بھی اس کی رحمت کی ایک شاخ ہے.فرض اس قسم کے محامد پر ایمان لانا اور خدا تعالٰی کی اعلیٰ صفات پر یقین کر کے اسکی تحمید کے وقت ان باتوں کو مد نظر رکھنا ہی تو اصل ذکر ہے ورنہ ایک طوطے کے الحمد للہ کہنے اور کسی انسان کے الحمد اللہ کہنے میں کوئی فرق نہیں.بغیر جس طرح تسبیح کے معنے خدا کو میوں سے پاک سمجھنے کے ہیں.اور تحمید کے معنی خدا کی تعریف بیان کرنے کے ہوتے ہیں.اسی طرح تکبیر کے سنتے ہیں.کہ خدا تعالٰی اپنی پاکی اور تعریف میں سب سے بڑھ کر ہے.یعنی وہ رحیم ہے.تو اس کا رحم تمام مخلوقات کے رحم سے بڑھ کہ اور وسیع ہے.اگر وہ رب ہے تو اس کی ربوبیت تمام عالمی پر چھائی ہوئی ہے اور دیگر روایت
کرنے والوں کی ربوبیت سے بے انتہا وسیع ہے.اگر اس کا علم ہے.تو وہ غیر محدود اور ہر چیز پر سر وقت مادی ہے.اور علم رکھنے والی دوسری مخلوقات سے بے انتہا درجے زیادہ بڑھا ہوا ہے.غرض یہ کہ وہ اپنی سبوحیت اور قابل تعریف صفات میں اکبر ہے.یعنی سب سے بعید زیادہ بڑھا ہوا ہے.اگر حاتم کی سخاوت مشہور ہے تو خدا کی سخاوت اکبر ہے.اگر رستم کی طاقت بہت تھی.تو خدا کی اکبر ہے.اگر دنیا میں کسی انسان کا علم بہت وسیع ہے تو خدا کا علم اس سے بھی اکبر ہے.بلکہ قابل تعریف چیز جو کسی کے پاس ہے وہ خدا ہی کی بخشش اور اسی کے خزانہ کا ایک عطیہ ہے.پس جو خوبی بھی نہیں کہیں نظر آتی ہے وہ خدا میں بدرجہ اعلیٰ کامل واتم پائی جاتی ہے بلکہ اس کی صفات منع ہے مخلوقات کی ہر خوبی کا.بلکہ اس کا حسن اصل ہے کائنات کے حسن کا.پر اللہ اکبر کہتے وقت سبحان الله العظیم پڑھتے وقت اور اللہ تعالیٰ کی صفات کی سخت و اُن کی بٹائی اور عظمت کا بھی خیال رکھنا چاہیئے.یہی وجہ ہے کہ صفات میں عظمت اور کبریائی والے اسماء تعداد عدوی سب سے زیادہ وار و ہوئے.مثلا لب بُرُ، عَظِيمُ.مُتَكَبَرُ، تاحُ مَجيد - ماجد - المُتَعَالى - ذوالجلال- اعلى رفيع الدرجات - ذو المعارج وغیرہ.غرض الله آل بو کے ذکر کا کوئی فائدہ نہیں جب تک پڑھنے والا خدا تعالیٰ کو اپنی صفات حمیدہ میں عظیم الشان لا انتہا غیر محدود اور واقعی اکبر نہ سمجھے.تهلیل تہلیل کے معنی ہیں لا الہ الا اللہ کا ذکر کرتا یعنی یہ کہ اللہ کے سوا کوئی قابل عبادت نہیں.دہی اکیلا وجو د ہے جو ہمارا محبوب اور معبود ہو سکتا ہے اور ہے.چونکہ اس کی ذات ہر عیب سے پاک اور ہر تعریف سے آراستہ ہے.اور ہر تقدس اور ہر خوبی اس کی لا انتہا ، غیر محدودو اور اکبر ہے.میں تک کوئی غیر اللہ پہنچ ہی نہیں سکتا.اس لئے نتیجہ ظاہر ہے کہ اس کے سوا ہمارا کوئی معبود بھی نہیں ہو سکتا اور یہی توحید ہے.جب وہی ہمارا خالق ہے اور وہی ہمارا
۲۰۷ تھی.وہی ہمارا قوم ہے اور وہی ہمارا رزاق.وہی ہمارا مشکل کشا ہے اور وہی ہمارا رسید وہی ہر وقت ہمارے جسم کی مشین کو چلانا.ہمارے اعمال کو محفوظ رکھتا.ہماری روح کو اپنی نعمتوں کی لذتوں سے مسرور کرتا ہے.ہماری ضرورتوں کو بہلاتا.اور ہماری دعاؤں کو سنتا ہے.اور ہم ہر لحظہ اسی کی حفاظت اور نگرانی کے محتاج ہیں.تو پھر اس کے سوا کون ہے جو ہمارا محبوب اور معبود ہو سکے.یاسم کسی اور آستانہ سے اپنی امید باندھ سکیں.اسی کا نام تہلیل ہے پس لا اله الا اللہ کا ذکر اس قسم کے یقین اور اس طرح کی ذہنیت کے ساتھ کردو.تا کہ تم حقیقی موحد ہو.اور تمھارے اوراد و اذکار نہ صرف تمہاری زبان ہی پر حاوی ہوں بلکہ تمھاری روح کو بھی روشن اور منور کر سکیں.آمین کچھ اسمائے الہی ایسے ہیں جن سے خدا تعالیٰ کی تسبیح ہوتی ہے.ملا قدوسُ ، حَيٌّ ع ممد وغیرہ کچھ ایسے ہیں جن سے اس کی تحمید ہوتی ہے.ملا رحمن ، رحیم، خالق رَب عَلِيمٌ حَكِيمُ زَانُ - وَقَابُ غَفُورُ و غیرہ کچھ ایسے ہیں جن سے ان کی تعظیم او کبریائی ظاہر ہوتی ہے.مثلاً متكبر عَلَى عَظِيمَ - مَجيدٌ - مَاجِدُ وغيره اور کچھ ایسے ہیں جن سے اس کی توحید کا علم حاصل ہوتا ہے ملا والحد - احد لیکن ایک حصہ اسماء و صفات الہی کا اسلام نے ایسا بھی پیش کیا ہے جس پر مخالف لوگ اعتراض کرتے رہتے ہیں.ان اعتراضات کا دفع کرنا اور ان صفات کے صیح معنوں کا پیش کرنا بھی تسبیح میں داخل ہے.بلکہ موجودہ زمانہ میں ہیں سب سے اعلی قسم کی تسبیح ہے.جن اسماء و صفات پر لوگ اعتراض کرتے ہیں وہ مختصر احسب ذیل ہیں.خير الماكياين - خَادِعُ - کید کرنے والا - اسْتَوى عَلَى الْعَرْشِ والا صاحب گرمی غضب کرنے والا.دھوکہ کھا جانے والا ہاتھ.ساقی.وجہ ید بین وغیرہ اعضا والا.لعنت کرنے والا مضل یعنی گمراہ کرنے والا مہر لگانے والا دلوں کانوں اور آنکھوں پر.
۲۰۸ قَهَارُ خَبَارُ مُنتَقِمُ استہزا کرنے والا تکلیف دینے والا.ایڈا پانے والا.بھول جانے والا متكبر وغيره.اس میں شک نہیں کہ قرآن وحدیث میں اس قسم کے الفاظ ضرور آئے ہیں لیکن ان کے معنی کرتے وقت معترض اپنی نانی کی وجہ سے بعض غلطیوں کے مرتکب ہو کر اور کلام الہی کا یا عربی زبان کا اصل مطلب نہ سمجھ کر ان کو لے دوڑتے ہیں.نہ تو موقعہ محل اور استعارہ اور حسین بیان کا خیال رکھتے ہیں.نہ اُن اصولوں کو مد نظر رکھتے ہیں جو صفات الہی کے سمجھنے کے لئے ضروری ہیں.اور د نفت عربی کو دیکھتے ہیں.اس لئے ضرور ہوا کہ پہلے وہ اصول بیان کئے جائیں جن کے نہ بجھنے سے لوگ ایسے اعتراض صفات باری پر کرتے ہیں.اور یہ اصول قرآن مجید نے ہی خود بیان کر دیتے ہیں.پہلا اصل یہ ہے لله الاسماء المحنة (الاعراف (۱۸) یعنی اللہ کے سب اسماء میں حسن و خوبی ہی ہے.اگر کوئی معنے کسی کمزوری یا عیب یا نقص کے حامل ہوں.تو وہ جائزہ نہ ہوں گے.اور یہی صفات الہی کے سمجھنے کا سارا رانہ ہے.یعنی اسماء الہی کے معافی ہمیشہ خدا تعالیٰ کی عظمت اور شان کے مطابق کرنے چاہئیں.دوسرا اصل یہ ہے کہ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَى وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ( الشورى (۱۲).توجہ نہ اس جیسی کوئی چیز نہیں اور وہ بہت سننے والا اور دیکھنے والا ہے.یمن گر الفاظ کا اشتراک دیگر خدا تعالیٰ اپنی صفات میں دوسروں کی صفات سے مشابہت نہیں رکھتا.مثلاً انسان بھی سمیع و بصیر ہے اور خدا بھی سمیع و بصیر ہے.لیکن انسان کے سمع اور بصر محدود ہیں.دھوکہ کھا سکتے ہیں.خاص خاص اعضاء کے محتاج ہیں.انسان اپنے سننے اور دیکھنے میں ہوا اور روشنی کے بغیر لاچار ہے.پس یہ الفاظ سمجھانے کے لئے ہیں.ورنہ اس کی اصل حقیقت کا
٢٠٩ خدا ہی کو علم ہے.جب خدا ہے شل ہے تو اس کی صفات بھی بے مثل ہونی چاہئیں.تیسرا اصل یہ ہے کہ عربی الفاظ کے معنی اہل عرب کی لغت کے موافق ہی ہونے چاہئیں نہ یہ کہ لفظ تو عربی کا ہو مگر معنے اردو کے کئے جائیں.مگر کید وغیرہ کے الفاظ میں لوگوں کو یہی دھوکا لگا ہے.سب سے پہلے میں لغوی معنوں کے نہ سمجھنے سے جو غلطیاں پیدا ہوئی ہیں ان کا ذکر کروں گا.مگر اور کیڈ عربی میں تدبیر اور جنگ کے معنوں میں بھی آتا ہے بس خير الماکرین کے معنے ہوئے کہ اعلی تدبیر کرنے والا اور اکیڈ گیدا کا ترجمہ ہوا.کہ میں بھی جنگ کروں گا.وَهُوَ خَادِعُهُمُ کے معنی ہیں.کہ خدا ان کے دھوکہ کی ستران کو دے گا.يُخادِعُونَ اللہ کے معنے ہیں کہ منافق لوگ خدا تعالی کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں یا بزعم خود دھوکہ دیتے ہیں یا خدا کو ترک کرتے ہیں.لعنهم الله کے معنی ہیںکہ اللہ تعالے ایسے مجرموں کو اپنے قرب سے محروم کر دے گا.اور اپنی رحمت سے دور وما يضل بالم الا الفاسقین خدا نگاہ اپنی کو کرتا ہے جو یہ کار ، فاسق، یہ عہد ہوتے ہیں اور اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتے.اور دلوں وغیرہ پر بھی انہی لوگوں کے مہر لگاتا ہے جو خدا کو چھوڑ کر اپنی ہواؤ ہوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں (جائیہ) اسی طرح قھار کے معنی غالب کے ہیں نہ کہ ظالم کے اور جبار کے معنی بھی شکستہ کی مرمت کرنے والا ہیں.نہ کہ شکر کے.اور منتقم کے معنی صیح اور مناسب بدلہ یا سزا دینے والا کے ہیں نہ کہ کینہ نواز کے - اللهُ يَسْتَضِ فِی بِهِمْ کے معنی اللہ ان کے استہزا کی مناسب سرا ان کو دے گا تو اللہ فیھم کے معنی ہیں کہ جب انہوں نے اللہ کو بھلا دیا تو اللہ نے بھی ان کو چھوڑ دیا (نیکی بمعنی ترک ) یا انہوں نے اللہ کو بھلا دیا.تو اللہ نے بھی ان کو اس غفلت کی سزادی.مگر اب کے معنی عظمت اور کبریائی کا بھی.انسان کے لئے بسبب اس کی کمزوریوں کے اس لفظ کا استعمال اور بڑائی کا دعو نے غلط ہے لیکن خدا کے لئے بالکل جائز ہے.اسی طرح إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ میں
۲۱۰ اللہ کے ایذا دینے کا مطلب ایک استعارہ ہے.یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں.گویا اپنی طرف سے خدا کو دکھ دینا چاہتے ہیں.اندار پانا، میمون تمسخر کرنا ظلم کرتا.کینه دوری.قریب دھوکا اور گالیاں دینا خدا تعالیٰ کی شان سے بعید ہیں.اور یہ الفاظ بطور استعارہ یا محاورہ کے استعمال کئے گئے ہیں.کریسی کے معنے خود آیت کی رو سے علم کے ہیں.اور عرش کے معنی حکومت کے غضب کا مطلب یہ نہیں کہ جس طرح انسان غصہ میں آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور جوش میں اس کے ہوش بیجا نہیں رہتے اور اس پہ ایک تغیر آجاتا ہے.یہ حالت خدا کی نہیں ہوتی.اس پر کوئی تغییر دارد نہیں ہوتا بلکہ مغضوب کے معنی ہیں خدا کی رضا سے محروم ہو جانا اور خدا کی نعمتوں کا چین جانا.خدا کے ہاتھ سے مراد اس کی طاقت اور قدرت ہے.توجہ سے اس کی توجہ.آنکھ سے مراد اس کی صفت بصر.اور ان کی حقیقت خدا ہی کو معلوم ہے.حبیب اسلام نے خدا کو بے مثل مانا تو لانہ گا اس کی صفات کو بھی بے مثل مانا.اور یوم کشف عَنْ سَانِ ایک محاورہ ہے جس کے سنتے ہیں کہ جس دن حقیقت آشکارا کی جائے گی.یا جس دن محنت اضطراب کا وقت ہوگا.ایک اعتراض یہ بھی کیا جاتا ہے کہ بعض صفات الہیہ آپس میں متضاد ہیں.یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ ایک صفت اگر اس کی اچھی ہے تو دوسری جو پہلی صفت کے عین مخالف ہے وہ لات گائیدی ہو گی.اس مشکل کا حل اس طرح پر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے تو اصلی تضاد اس کی صفات میں نہ ہو گا.مثلاً اگر وہ رحیم ہے تو وہ بے رحم نہیں ہو سکتا اور جو تکالیف اور مصائب لوگوں پر آتے ہیں وہ اس کی بے رحمی کا نتیجہ نہیں بلکہ انصاف ہیں یا کسی اور پر رحم ہیں یا خود اسی شخص پر رحم ہیں جس کی کہنہ کو فی الفو نہیں پاسکتے نیز بعضی قسم کا تضاد معیوب نہیں ہوتا بلکہ موقعہ وقت اور حالات کے لحاظ سے ہوتا ہے.جیسے ایک بادشاہ کی حکومت میں بعض لوگ شاہی دستر خوان پر بیٹھے ہوتے ہیں اور بعض جیل خانوں میں تکلیف اُٹھا رہے ہوتے ہیں.مخلوقات عالم میں جو اختلاف آپس میں پایا جاتا ہے.یہ بھی کمال حکمت کی وجہ سے ہے
۲۱۱ نہ کہ ظلم کی وجہ سے.اسمائے الہی پر ہونے والے اعتراضات دور کرنے کے علاوہ ہماری جماعت کا کام ایک اور قسم کی تبیع بھی ہے.وہ یہ کہ دیگر مذاہب والے اور غیر احمدی یہ عقیدہ رکھتے ہیں.کہ خداتعالی پہلے زمانہ میں تو کلام کیا کرتا تھا مگراب نعوذ باللہ گونگا ہو گیا ہے.نہ اب الہام ہو سکتا ہے نہ دی.گویا ایک بڑا بھاری تعلیق جو پہلے خدا کا انسان سے ہوا کرتا تھا.وہ ٹوٹ گیا ہے.اسی طرح بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ دُعائیں قبول ہونے اور مطلب پورا کرنے کے لئے نہیں ہیں.صرف ایک قسم کی عبادت ہیں.اس عقیدہ سے جو کچھ رہا سہا واسطہ خدا اور انسان کے درمیان تھا وہ بھی جاتا رہا.سو ان صفات کے متعلق اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود آپ پر سلامتی ہو نے اپنی مثال اور قرآنی دلائل سے ثابت کیا ہے کہ خدا تعالیٰ پہلے جیسے لوگوں سے کلام کیا کرتا تھا اب بھی اسی طرح بلکہ آئندہ زمانہ میں بھی انسان سے کلام کرتا رہے گا.اور دعائیں قبول کرنا یعنی مجیب ہونا بھی خدا تعالیٰ کی ایک صفت ہے.اگر دعا نہ ہو تو پھر انسان انسان نہیں بلکہ ایک حیوان ہے اور اس کا کوئی رابطہ اور تعلق ذات باری سے نہیں رہتا.نہ اُسے کوئی خدا شناسی حاصل ہو سکتی ہے.اور نہ اُسے خدا پر کوئی اعتماد اور بھروسہ ہو سکتا ہے.نہ وہ کوئی خماس قائدہ بارگاہ الہی سے حاصل کر سکتا ہے.پس یہ دو بڑی صفات یعنی کلام اور قبولیت دعا ایسی چیزیں ہیں جنہیں حضرت مسیح موعود آپ پر سلامتی ہو نے دنیا پر ظاہر کر کے خدا تعالیٰ کو دو بڑے عیوب سے پاک ثابت کر کے دکھایا ہے.اسم اعظم.خدا تعالیٰ کا صرف ایک نام اس کا اسم معرفہ یا ذاتی نام ہے اور وہ اللہ ہے.اور یہی اسم اعظم ہے.باقی جتنے اسمار میں وہ صفاتی ہیں.اللہ کا لفظ بذات خود کوئی معنے نہیں رکھتا.ایک حدیث سبحان الله و بحمده سبحان اللہ العظیم سے یہ مطلب نبی ہوتا ہے کہ الہ
۲۱۲ وہ وجود ہے جو ہر نقص سے پاک سرحد سے آراستہ اور نہایت عظیم الشان مہستی ہے لیکن صرف اللہ للہ کہتے رہنا کوئی ذکر نہیں.جب تک کوئی صفت اس کے ساتھ ذکر نہ کی جائے رہنا جیسے سُبْحَانَ اللهِ الْحَمْدُ للهِ - لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ ورَ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ العَصرِ اللَّهُ الشَّانِي الله الحى القيوم- هُوَ الاول والأخِرُوا الظَّاهِرُو الْبَاطِنُ پس بغیر کسی صفت کے بیان کے یا بغیر کسی دُعا کے شامل کرنے کے محض اللہ اللہ کہنا مسنون ذکر الہی نہیں ہے.یہ بھی یاد رہے کہ اسلام کے سوا اور کسی مذہب میں خدا تعالیٰ کا کوئی ذاتی نام موجود نہیں ہے مشہور اذکار کے علاوہ جو پہلے بیان ہو چکے ہیں.بعض اور فقرات بھی ذکر الہی کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہیں.اور وہ حسب ذیل ہیں.دیگر مختلف اذکار لك الحمد لا إله الا انت المحتان المنان بديع السموت والارض يا ذو الجلال والاكرام يا حي يا قيوم لا اله الا هو الرحمن الرحيم لا اله الاهو الحي القيوم لا إله إلا أنتَ سُبْحَانَكَ إِلى كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ -: الله لا اله الا انت الاحد الصمد الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا احد.-4 سُهَاتِ اللهِ وَبِحَمْدِهِ عدد خلقه رغى نفسه وزنت عرشه على كل شي قدير
۲۱۳ تعداد ذكر ذکر کی تعداد دو طرح سے ہوتی ہے.انگلیوں پر رہا تسبیح کے دانوں پر مسیح کا استعمال نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہے نہ صحابہت ہے.نہیں نے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا اور ان کے خلفاء کو تسبیح استعمال کرتے دیکھا ہے.اگر تسبیح کا استعمال اپنی بندگی اور ذکر کا رعب جمانے کے لئے ہے تو حرام ہے لیکن اگر کوئی شخص نیک نیتی کے ساتھ تسبیح اس لئے رکھے.کہ ذکر الہی کو یاد کراتی رہے.اور خاص خاص تعداد ذکر پر عمل ہو سکے اور وہ انگلیوں پر گنا نہ جانتا ہو تو جائز ہے.عقد انامل سے اگر ذکر الہی کی گفتی کا کام لیا جائے تو انگلیوں پر ہی ایک ہزار تک گنتی ہو سکتی ہے.لیکن انگلیوں کی گنتی سوائے خاص لوگوں کے کوئی نہیں جانتا اور اگر کوئی سیکھنا چاہیے تو یہ گفتی مشکل نہیں ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انگلیوں پر ہی گنے کی تاکید فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ عليكن بالتسبيح والتهليل والتقديس واحقدن الانامل فاتتهن مسئولات مستنقطقات یعنی اسے عور تو تم تسبیح تہلیل اور تقدیس کیا کرو اور انگلیوں کے ساتھ کیا کرو.کیونکہ انگلیاں قیامت میں پوچھی جائیں گی اور ان کو گویا کیا جائے گا.(تسندی) اس سے معلوم ہوا کہ انگلیوں کے پوروں پر ذکر کرنا افضل ہے.رہا یہ امر کہ ذکر کی گفتی کس قدر ہو.سو یا د رکھنا چاہیئے کہ فرض نماز کے بعد تینتیس تنیس دفعہ سُبحان اللہ اور الحمد لله اور چونتیس دفعہ اللہ اکبر کہے یا بموجب ارشاد حضرت حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی کم از کم ۱۲۷۲ دفع تسبیح اور درود شریف کے ذکر کی تعداد کا تعین ثابت نہیں ہے در حقیقت یہی ہے کہ ذکر الہی بکثرت اور ہر وقت کتنا ضروری ہے.
۲۱۴ تیح اور ذکر الہی کے اوقات علاوہ پنج وقتہ نماز یا نوافل کے اندر ذکر کرنے کے (جن کے اوقات مشہور ہیں) حسب ذیل وقتوں میں تسبیح کرنے کی تاکید قرآن مجید میں پائی جاتی ہے.1.صبح کے وقت ہو شام کے وقت ۳.دوپہر کے وقت کہ تیسرے پہر ہ - طلوع آفتاب سے پہلے ۶ غروب آفتاب سے پہلے ،.رات کے درمیانی حصہ ہیں...نمازوں کے بعدہ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حال تھا کہ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہر وقت خدا کے ذکر میں ہی مصروف رہتے تھے.حتی کہ بیت الخلا جانے کے موقعہ پر اور بیویوں سے خلوت کرنے کے وقت بھی حضور دعا میں مشغول رہتے تھے.ذکر الہی اور جہاد مختلف اوقات کی بیان کی ہوئی مختلف اور متعدد احادیث سے یہ عجیب بات معلوم ہوتی ہے.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ذکر الہلی کو جہاد سے افضل قرار دیا ہے مثلاً حب آپ سے پوچھا گیا کہ قیامت کے دن کون لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک افضل او را علی در جید والے ہوں گے تو حضور نے فرمایا کہ ذکر کرنے والے مرد اور ذکر کرنے والی عورت ہیں.اس پر پوچھا گیا کیا غازی ہے بھی یہ حضور نے جواب دیا ہاں اس غازی سے بھی جو کفار اور مشرکین پر تلوار چلائے یہاں تک کہ اس کی تلوار ٹوٹ جائے اور خون سے رنگین ہو جائے ، ایسے غازی سے بھی ذاکر افضل ہے.صرف یہی ایک حدیث اس مضمون کی نہیں بلکہ مختلف لوگوں نے مختلف طریقوں سے مختلف الفاظ میں اسی کی ہم مطلب متعدد حدیثیں بیان کی ہیں.جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ذکر کرنے والا جہاد کرنے والے سے افضل ہے.ان احادیث نے کچھ مدت تک مجھے تعجب میں ڈالے رکھا لیکن آخر کار اس کے معنی
۲۱۵ مجھ پر کھل گئے.یعنی یہاں ذاکرین کے معنی صرف تیج پھیرنے والوں کے نہیں بلکہ ایسے لوگوں سے مراد ہے جو عقلی زبانی تقریری اور تحریری دلائل سے خدا تعالیٰ کا ذکر پھیلا کر لوگوں کو دہریت کفر اور شرک سے بچاتے ہوں.اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور توحید دنیا کے اندر قائم کرتے ہوں.دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ وہ احمدیت یا (دین حق کے مبلغ ہوں.ان کے مقابل غازی اور مجاہدہ سے یہاں وہ لوگ مراد ہیں.جنہوں نے صرف تلوار کے ساتھ کفار کا مقابلہ کیا ہیں کیا شک ہے کہ عقلی مبلغ اسلام کا درجہ سینی مجاہد سے افضل ہے.کیونکہ ایک تو خدا کا نام کافروں اور مشرکوں کے دلوں کے اندر داخل کرتا ہے.مگر دوسرا صرف تلوار سے ان کا مقابلہ کرتا ہے.اسی وجہ سے ذکر الہی کو ولن کو اللہ اکبر کہ کر تمام اعمال سے افضل بتایا گیا ہے.مقام ذکر الہی مسجدیں گھر راستے دو کا نہیں مجلسیں ہر جگہ ذکر الہی کرنا چاہیے.اور ہر کام کے وقت حل میں خدا کا نام اور اسی سے دُعا ہونی چاہیئے.تب انسانی زندگی میں برکت آتی ہے.نیز کھڑے بیٹھے لیٹے ہر حالت میں ذکر الہی کا حکم ہے.چونکہ ذکر سے محبت پیدا ہوتی ہے.اس لئے ہر کام ہر آن اور ہر حالت میں ذکر کرنے کا یہ مطلب ہے کہ خدا تعالی کی محبت ذاکر انسان پر اس طرح چھا جائے.کہ اس کے ذرہ ذرہ میں مالک کے عشق کانشہ رچ جائے.کیونکہ یہی عبودیت ہے اور اسی کا نام توحید ہے.عرش کے خزانے اذکار میں سے بعض ذکر ایسے ہیں جن کی بابت احادیث میں آتا ہے.کہ وہ عرش کے نیچے جو خدا کے خزانے ہیں اُن میں سے تحفتہ اہل دنیا کے لئے بھیجے گئے ہیں.چنانچہ سورہ فاتحہ اور لا حول ولا قوة إلا بالله منجملہ ان عرش کے فرمانوں کے ہیں.اس تعریف کا اصل
۲۱۹ مطلب تو اللہ ہی کو معلوم ہے لیکن میری سمجھ میں یہ آتا ہے.کہ یہ ایسے ذکر ہیں.جو عالمگیر اور ہایت درجہ وسیع الاثمہ ہیں.کیونکہ عرش سے حکومت الہی خدا کا انکم الحاکمین اور مالک الملک ہونا مراد ہے.پس جس طرح خدا کی حکومت سے کوئی چیز یا ہر نہیں.اور اس کی بادشاہت عالمین پر لیکلی چھائی ہوئی ہے.اسی طرح ان اذکار کا اثر بھی نہایت درجہ وسیع اور عالمگیر ہے.چنانچہ سورہ فاتحہ میں جو چار صفات رب العالمين - رحمن - رحیم اور مالک یوم الدین کی ہیں.وہ اُم الصفات ہیں.اور قرآن میں لکھا ہے کہ یہ چار صفات گویا عرش عظیم کے چار پایوں کی طرح ہیں یعنی تمام عالمین کا انتظام اور حکومت انہی کے بل چل رہی ہے اسی طرح لاحول ولا قوة الا باللہ بھی عرش کا ایک خزانہ ہے.کیو نکہ یہ کلمہ بھی جوامع الکلم میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ کی صفات اور قوتوں کو عالم کی تمام قوتوں کا منبع اور میداد ٹھہراتا ہے اور خدا کے سوا کسی اور کی طاقت اور قدرت کی لیکلی نفی کہتا ہے.اس وجہ سے اس کا اثر بھی تمام مخلوقات پر عادی ہے.پس اپنے کامل وسعت الہ کی وجہ سے یہ دونوں ذکر عرش کا خزانہ کہلانے کے مستحق ٹھہرے قابل افسوس بات جس طرح اور عبادات اسلامی اس زمانہ میں محض چھلکا اور قشرین کہ رہ گئی ہیں.یہی حال آج کل ان اذکار کا بھی ہو گیا ہے.اب سُبحان اللہ صرف ایک تعجب کے اظہار کا فقرہ رہ گیا ہے.اَلحَمدُ للہ خوشی کے اظہار کا.اور لا حول ولا قوة نفرت کے اظہار کا.اور لاالہ الا الله بطور قسم کے استعمال ہوتا ہے.اور اللہ اکسیر احرار کے نعرہ سے بڑھ کر کوئی حقیقت نہیں رکھتا.یہ نہایت درجہ افسوس اور رنج کی بات ہے.ہماری جماعت کے لئے ذکر الہی کو بھی اپنے اسی اصلی مقام پر قائم کرنا ضروری ہے جو خدا کا مقصد ہے.واخر دعونا اَنِ الْحَمدُ لِلّهِ رَب العالمين.الفضل ۱۳۱۱۲۰۷۰۶ تمبر ۶۱۹۴۴
۲۱۷ شکرالهی میرے علم میں دو چیزیں ایسی ہیں جن کو بچہ بچہ جانتا ہے مگر ان کو سمجھنے یا ان سے فائدہ اٹھانے کا طریق عموما لوگوں کو معلوم نہیں ہوتا.ایک یہ کہ شکر کیونکر کیا جائے.دوسرے یہ کہ موت کو کس طرح یاد کیا جائے.موت کے متعلق پھر کسی وقت عرض کروں گا.اس وقت شکریہ کے متعلق مختصراً بیان کرتا ہوں.شکر کے معنے شکر کے معنی ہیں نیکی کے بدلہ کسی کی تعریف کرنا.یا مختصر عرفان احسان اور محمد ثنائے جمیل.یہ انسان کے اعلیٰ اخلاق میں سے ایک خلق ہے.لیکن ایک غلطی ہیں ابھی دور کئے دیتا ہوں.وہ یہ کہ اکثر لوگ شکر کو صبر سے اعلیٰ جانتے ہیں اور بعض میر کو شکر سے اعلیٰ کہتے ہیں اور بخشیں کرتے ہیں.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ میر کا درجہ شکر سے اعلیٰ ہے.یہاں دلائل بیان کرنے کی ضرورت نہیں.صرف ایک غلطی کا دور کہ تا مقصود تھا.ہاں خاص حالات میں خاص لوگوں کے لئے شکر بھی میسر سے بڑھ سکتا ہے منعم اور نعمت واضح ہو کہ اللہ تعالیٰ ہی حسن اور منعم حقیقی ہے.اس کے سوا عالم میں جو بھی چیز ہے وہ نعمت ہے یا نعمت بن سکتی ہے.فرض سوائے منعم حقیقی کے ہر چیز ہر مخلوق پر بازی منعم :
۲۱۸ در اصل کسی نہ کسی رنگ میں نعمت ہی ہے.یہ نہیں کہ صرف روٹی کپڑا میرے ہی نعمت ہیں.ماں بھی نعمت ہے اور باپ بھی بنی بھی نعمت ہے اور استاد بھی.علم بھی نعمت ہے اور صحت بھی.یہاں تک کہ موت بھی نعمت ہے.اور بیماری بھی.بلکہ شیطان اور جہنم بھی نعمت ہیں.ہم بعض چیزوں کو جو نعمت ہیں اپنے لئے غلطی کی وجہ سے زحمت بنا لیتے ہیں.ورنہ مسئلہ ہی ہے کہ ہمارا ایک منعم ہے اور باقی ہر چیز نعمت ہے.نعمت کو منعم جا نا شرک ہے اور منعم حقیقی کو منعم جانا شکر شکرہ کرنے کے لئے یہ کہنا کافی نہیں کہ خدا کا بیڑا شکر ہے.مگر عملاً خدا کی شکایت کرتے رہنا.پس زبان اورول دونوں سے شکر کرنا چاہیے.یعنی احسان ماننا دل سے اور تفصیلی ذکر زبان سے یہ دونوں لازمی ہیں.اس لئے انعامات اور احسانات کا گفتے رہناش کہ کی تکمیل کے لئے ضروری ہے.علاوہ احسان شماری کے ہر چیز کو دیکھ کر انسان سمجھے کہ یہ نعمت ہے.پھر اس نعمت کے فائدے اپنے لئے اور اپنے متعلقین کے لئے اور بنی نوع انسان کے لئے سوچے.جب یہ عادت ہو جاتی ہے تو شا کہ اثر خدا کی نئی نئی تمہیں اپنے اوپر پاتا ہے اور ان کو گنتے گنتے تھک جاتا ہے مگر پھر بھی نہیں گن سکتا.اس حالت کا نام در اصل شکر ہے.اور شکر کا لازمی نتیجہ ہے محسن کی محبت.بظاہر مضر اشیاء بھی نعمت ہیں میں نے بیان کیا تھا.کہ ہمارے چاروں طرف نعمتوں کے ڈھیر کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں.اور ہر چیز سوائے اللہ تعالیٰ کی ذات کے ہماری حقیقی مستم دحسن نہیں ہے.لیکن جب بعض چیزیں بظا ہر ایڈا اور تکلیف بھی پہنچاتی ہیں.ان کو ہم کس طرح نعمت کہہ سکتے ہیں ؟ یہ سوال بعض لوگوں کو آسکتا ہے سو واضح ہو کہ ایسی موذی اور مضر چیزوں سے بچانا بھی خدا کا فضل ہے.اور ایسی مودی چیزیں خود کسی نہ کسی کے لئے نعمت ہوا کرتی ہیں.مثلاً سانپ کا ت ہر آج کل بعض بیماریوں کے لئے شفا ثابت ہوا ہے.
شکر کے طریقے ۲۱۹ شکر کے لئے ضروری ہے کہ آپ جس چیز کو دیکھیں.اس کی حکمت اور فوائد کو معلوم کریں.کیونکہ جب تک کسی چیز کا فائدہ معلوم نہ ہو.اس کا نعمت ہو نا محسوس نہیں ہو سکتا.وہ چیزیں جو آپ کی اپنی ذات کے لئے نعمت ہوں.اُن کی طرف ایسی توجہ خاص طور پر کرنی چاہیئے تاکہ آپ کا نفس قدرشناسی کی وجہ سے خدا کے شکر کی طرف راغب ہو.اسی طرح جب آپ بار بار نعتوں کو گنیں گے.اور ہر روز نئی نئی نعمتوں کو گنیں گے اور ہر روز نئی نئی نعمتوں اور نئے نئے احسانوں کا خیال رکھیں گے.تو گر ابتداء میں تھوڑی نعمتیں ذہن میں آئیں گی اور صرف انگلیوں پر ان کا شمار کر سکیں گے لیکن اس پر عمل کرتے کرتے آخر آپ اس قدر ماہر اور رواں ہو جائیں گے کہ اپنے تجربہ سے ہی آپ کو یہ یقین حاصل ہو جائے گا کہ ہم ان نعمتوں کو نہیں گن سکتے.اور اگر گننا شروع کریں تو تھک جائیں گے.مگر ان کا احاطہ نہیں کر سکیں گے.اس وقت خدا کے احسان اور اپنی احسان فراموشی دل پر نقش ہو کہ بے اختیار یہ آیت آپ کے منہ سے نکلے گی.وَإِنْ تَعُدُّ وَانِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الْإِنسَانَ لَظَلُوم کفار (ابراہیم (۳۵ ) پس بار بار نعمتوں کو گنو اور ہر روز نئی نئی نعمتوں کا خیال رکھو اور ہر چیز کو کسی نہ سی قسم کی نعمت کھو.ان کے فوائد پر غور کرتے رہا کرو.اور صرف ایک اور ایک ذات وَحْدَهُ لا شريك کو اپنا محسن و ستم سمجھو تب شکر کا لطف اٹھا سکو گے یاد رکھو بہت سی نعمتیں مستقل ہیں اور بہت سی نئی نئی ہر روز اور ہر گھڑی نازل ہوتی ہیں.ان کا خاص خیال رکھنا از بس ضروری ہے.ورنہ شکر کا موقعہ بے لذت ہو جائے گا.
۲۲۰ خدا کی نعمتوں کا دوسروں کے سامنے ذکر کرتے رہنا بھی ان کا شکی ہے.اور ان نعتوں کا جائز استعمال بھی ان کا شکر ہے اور ان میں دوسرے لوگوں کو شریک کرنا بھی ان کا شکر ہے.اور ان کی وجہ سے اپنی عبادات میں ترقی کرنا سبھی ان کا شکر ہے.کوثر انا اعطينكَ الكَوثَر میں کوثر کے معنی بکثرت اور لا انتہا نعمتوں کے بھی نہیں.اور مر متنفس نعمتوں کی کثرت سے لدا ہوا.اور الہی انعامات سے دیا ہوا ہے جس کے پاس کم سے کم نعمتیں ہیں.اس پر بھی اس قدر فصلوں کی بھرمار ہے کہ حد و شمار نہیں اور منعم بھی تخیل اور کینوس نہیں.وہ ہم سے کوئی بڑی قیمت بھی نہیں ما لکھنا.صرف شکر اور قدردانی کا طالب ہے.وہ بھی ہمارے ہی فائدہ کے لئے.کیونکہ شکر نعمتوں کو بڑھاتا ہے اور ان میں ترقی کرتا ہے.دینے والے کی طرف سے کمی نہیں.جو کچھ کسر ہے وہ لینے والوں کی طرف سے ہے.اور اگر کوئی شخص کسی نعمت سے محروم رکھا گیا ہے تو اس لئے نہیں کہ منعم کے خزانے خالی ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ نعمت اس شخص کے لئے مضر اور نقصان دہ ہے.اور اس کا نہ ملتا ہی اس کے لئے احسان اور نعمت ہے.ولو بَسَطَ الله الرزْقَ لِعِبَادِهِ لَبَغَوْا فِي الْأَرْضِ (الشوری (۲۰) ترجمہ: اور اگر اللہ اپنے بندوں کے لیے رزق کو بہت وسیع کر دیتا تو وہ ملک میں سرکشی کرنے لگ جاتے.کسی چیز کو نعمت سمجھ کر شکر کرنے میں بعض وفعہ یہ وقت ہوتی ہے کہ اس کا نعمت ہوتا سمجھ میں نہیں آتا.اس لئے ایک اور طریقہ بھی اس کے لئے اختیار کرنا پڑتا ہے.وہ یہ ہے کہ اگر فلاں چیز مجھ سے چھین لی جائے تو کیا نتیجہ ہو یا اس وقت پھر معلوم ہوتا ہے کہ اس چیز کا فائدہ کیا ہے.اکثر نعمتوں کے فائدے نہیں نہیں معلوم ہوتے پھر جب وہ چھن
۲۲۱ جاتی ہیں تب پتہ لگتا ہے ہم پر کیا کیا احسان خدا کی طرف سے ہو رہے تھے.لڑائی سے پہلے رگ در آنه سیر دودھ اور اڑھائی رو پہ من گندم پر غراتے تھے.اور اس نرخ کو ایک صیبت سمجھتے تھے اب جبکہ آٹھ آنہ سیر دودھ اور دس روپیہ من گندم ہو گئی.تو پھر وہ آرام یاد کر کر کے روتے ہیں.ہمارے ہاں ایک بجلی کا پنکھا چھت میں لگا ہوا ہے.سات سال وہ چلتا رہا.اور میں شکر کی توفیق نہ ملی.ایک دن سخت گرمی کے دنوں میں وہ بند ہو گیا.بیس پھر کیا تھا یوں معلوم ہوتا تھا کہ سات سال کی جنت کے بعد ہم آج جہنم کی پاکشتی چکھ رہے ہیں.یہی حال اور نعمتوں کا ہے نعمائے الہی شکر کے لئے انسان سب سے پہلے ان فصلوں کو دیکھے جو اس کی روح کے متعلق ہیں.جن میں ایمان اخلاق اور خوشی وغیرہ جذبات داخل ہیں پھر جسم کا نمبر ہے.جس میں ایس کے حواس دماغی قوئے.صحت.رجولیت اور تمام اعضا کی درستگی داخل ہیں اس کے بعد وہ چیزیں جو مدار زندگی میں مثلاً سورج ہوا پانی خوراکیں وغیرہ.پھر وہ جو یم کی زینت ہیں.اس کے بعد حسب و نسب مال تعلیم زمانه، استاد دوست اولاد خدمتگار مکان - ساز و سامان اس زمانہ کا امن.اور نئی ایجادیں مثلاً ریل، موٹر کار، ریڈیو.پریس وغیرہ وغیرہ پھر طرح طرح کے علاج اور دوائیں.ملازمتیں.یہاں تک کہ آج کل ہم ایک پیسے کی برف سے وہ راحت حاصل کر لیتے ہیں.جس سے شہنشاہ اکبر با وجود اتنی بڑی سلطنت کے مردم تھا.علم کی وہ افراط کہ انشا کبیر اور مہنر کی وہ فرامانی که سبحان اللہ پھر ہر چیز کس قدر سمتی کہ اذا لجنة از لِعَت کا نظارہ سامنے آجاتا ہے.مذہب کے متعلق وہ آسانیاں کہ ہم نے نبی کا زمانہ پایا اور اس کے خلفاء کو دیکھا.زندہ خدا کا زندہ کلام سنا.اس کے نشانات ملاحظہ کئے اور ہدایت کے چمکتے ہوئے سورج کو گویا اپنی گود میں لے لیا.آج کل
۲۲۲ تو انسان دنیا کا کونہ کو نہ اگر چاہے تو دیکھ سکتا ہے.ہمیں تو سر درد کی ایک ٹکیہ ، دمہ کی ایک پڑیا اور انڈی پنڈنٹ قلم کے ایک نیا تک کا شکر یہ بھی ادا نہیں کر سکتا.بڑی بڑی نعمتوں کو کہاں بیان کہ سکتا ہوں.میرے لئے قادیان ایک نعمت ہے.یہاں کی نمازیں ، درس خطبے رمضان طلبہ کانفرنس، عیدیں نکاح اور جنازے ہر چیز ایک گرا نہا نعمت ہے.بیت مبارک ایک نعمت ہے.اخبار الفضل ایک نعمت ہے بہشتی مقبرہ ایک نعمت ہیں.ارتقائے ) میسج موجود ایک نعمت ہیں.احمدیہ جماعت ایک نعمت ہے.غرض کہاں تک بیان کروں ہے زر فرق تا بقدم ہر کجا کہ مے نگرم کرشمہ دامن دل میکشد که جا اینجا است روزانہ اخبارات کتابیں رسالے دل بہلانے کو طرح طرح کے میبوسے طرح طرح کی تر کاریاں طرح طرح کی مٹھائیاں.طرح طرح کی توشبوئیں طرح طرح کے لباس ان کا ذکر بھی جانے دو.ایک تین پیسے کا کارڈ.اور ایک چند روپے کی گھڑی.بلکہ اس کا الارم بھی میرے لئے نئی نعمت ہے.قادیان میں منارہ اس کا گھنٹڈ اور اس کی روشنی سب شکر کے فائل ہیں.بچوں کے لئے یسرنا القرآن اور بڑوں کے لئے خزینۃ العرفان اور تفسیر کبیر جیسی نعمتیں بخشیں.میں باہر نکلتا ہوں تو چھتری لگا کریش کر کر تا ہوں.گھر میں ہوتا ہوں تو بجلی کی روشتی پمپ کے پانی اور برقی پنکھے سے نعمتوں کا لطف اٹھاتا ہوں.گلیوں میں سے گذرتا ہوں تو ایک ادھر سے سلامتی کی دعا کرتا ہے اور ایک ادھر سے بیٹھتا ہوں تو ایسے لوگوں کے در میان جن کی بابت فرمایا گیا کہ لایشقی جلسہم جن سے خدا کلام کرتا ہے.اور وہ خدا سے کلام کرتے ہیں.دین وہ ملا حین میں کوئی نقص نہیں.کوئی رخنہ نہیں.سراسر اپنا فائدہ ہی فائدہ اور آرام ہے.عزیز رشتہ دار ایسے لے کر یا جنت میں ہیں یا جنت میں جائیں گے چنائے وہ ملے جو فرشتہ سیرت ہیں.بیویاں ملیں کہ تیس سال سے ایک نے دوسری کو تو کہہ کر خطاب نہیں کیا.گھر دہ بخشا کہ نہایت آرام دہ اور چھیانوے روپیہ کی مالیت سے خود بخود بڑھتے
۲۲۳ بڑھتے میں ہزار مالیت کا ہو گیا.محلہ وہ عطا فرمایا جو دارالامان کا مرکز ہے.معزت وہ دی جس کا میں مستحق نہ تھا.یا اللہ میں تھک گیا اور ابھی روزانہ نئی نئی نعمتوں اور نئے نئے فصلوں کا تو ذکر بھی نہ کر سکا.مجھے تو بیماری اور موت تک بھی تیری نعمتوں میں سے نظر آتی ہیں.تونے ہی محض اپنے فضل سے میری وصیت میری زندگی میں ادا کرا دی اور تو نے ہی یا وجود امراض کے مجھے غیر معمولی عمر بخشی.جب دنیا کا یہ حال ہے تو آخرت میں جو خیر اور ابھی ہے.کیا کیا فضل نہ ہوں گے پنج ہے وإن تَعدُّوا نِعْمَةَ اللهِ لَا تُحْصُوهَا إِنَّ الإِنْسَانَ تَظلوم كَفَّارُ ایرانیم (۳۵) توجہ ، اور اگر تم اللہ کے احسان گننے لگو تو اُن کا شمار نہیں کر سکو گے ، انسان یقیناً بڑا اسی ظالم (اور) بیماری ناشکر گذار ہے.اگر خدا طاقت عقل اور روانی بخشے تو دنیا کے کاغذ اور سیا سیاں ختم ہو جائیں.قلمیں گھس جائیں.مگر اے میرے خدا میرے منعم خدا تیری نعمتوں کی گنتی اور ان کاش کہ پھر بھی ادا نہ ہو سکے.میری تو مینک کا ایک شیشہ ہی اگر ٹوٹ جائے تو میں مصیبت میں پڑھاتا ہوں.جاڑے میں اگر گرم جرابیں نہ ملیں تو قریب المرگ ہو جاتا ہوں.گھر کی بجلی فیل ہو جائے تو انھوں کی طرح ٹوٹتا پھرتا ہوں اینفرض ایک چھوٹی سے چھوٹی نعمت بھی ضائع ہو جائے تو زندگی تلخ ہو جاتی ہے.بڑی بڑی نعمتوں کے ضائع ہونے کا تو کیا کہنا : اللَّهُمَّ اهْدِنَا الصراط المُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ الْعَمْتَ عَلَيْهِمْ یا اللہ دنیا اور آخرت میں اپنی رضا اور اپنے کوثر سے ہمیں متمتع فرما.اور اپنی لیے نہایت رحمت اور وسیع اور ایدی جنت سے ہم کو سرفراز کرے.آمین الفضل ۱۸ اکتوبر (۱۴۴)
۲۲۴ مغفرت الہی کے نظارے ایک مرتبہ مغفرت اہلی کے مضمون پر غور کر رہا تھا اور اس کے مختلف پہلوؤں کو سورچی کہ لطف اٹھا رہا تھا کہ میرے ذہن پہ ایک ریودگی طاری ہوگئی اور بعض ایسے نظائے نظر کے سامنے سے گزرے جن کے ساتھ میرے اس مضمون کا تعلق ہے.اب خواہ ان معاملات کو دماغی تصور سمجھ لیں، خواہ خیالات کی دو خواہ نیم مکاشفہ کی حالت اس کا کوئی اثر اصل بات پر نہیں پڑتا.فرق صرف اتنا ہے کہ ایک علمی بات معنوی حالت سے ایک صوری شکل کر گئی ورنہ مطلب اور حقیقت در اصل ایک ہی ہے.کیا دیکھتا ہوں کہ ایک میدان میں ایک عظیم الشان دروازه جیسا که شادی بیاه دنیز کی تقریبوں میں نصب کیا ہے، مجھ سے کچھ فاصلہ پر لگا ہوا ہے، نزدیک گیا تو اس کے اوپر نہایت خوبصورت حروف میں لکھا ہوا تھا در كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن : ٣٠) ترجمه ده سر وقت ایک نئی حالت میں ہوتا ہے.اور اس بڑے دروازے کے دونوں طرف بھی عجیب و غریب قطعات لگے ہوئے تھے ، کسی پر لکھا تھا.ني عبادتى اني أَنَا الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الحجم ٥٠) توجبه ملاے پیغمبر!) میرے بندوں کو آگاہ کر دے کہ میں بہت ہی بیچنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہوں.
اور کسی ہے.۲۲۵ إن ربك وَاسِعُ الْمَغْفِرَةُ (النجم (۳۳) ترجمه : تیرا رب بڑی وسیع مغفرت والا ہے.کہیں یہ لکھا تھا.يَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ (ال عمران، ۱۳۰) ترجمه اردہ جیسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے.کسی جگہ یہ تحریر تھا.إنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الغَفُورُ الرَّحِيم والمراج) توجه ، اللہ سب گناہ بخش دیتا ہے.وہ بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.کسی جگہ.يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّنْ ذُنُوبِكُمْ (ابراہیم ؟ (1) ترجمہ.وہ تمھیں اس لئے بلا رہی ہے، تاکہ وہ تمھارے گناہوں میں سے بعض بخش دے.اور کہیں.وَمَن يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا الله وقف (ال عمران (۱۳۹۰) ترجمہ : اور اللہ کے سوا کون قصور معاف کر سکتا ہے، غرض دونوں طرف مغفرت کے متعلق بیبیوں خوبصورت قطعات لکھے ہوئے تھے.میدان حشر میں نے بعض لوگوں کو اس دروازہ پر بطور پہرہ داروں کے متعلق دیکھا اور خیال کیا کہ
شاید یہ فرشتے ہیں، اور ان سے پوچھا کہ کیا میں اندر جاسکتا ہوں.انہوں نے کہا ہاں، آج اللہ تعالٰی کی مغفرت کے پر زور مظاہرے ہو رہے ہیں.بیشک جاؤ اور دیکھ لو.مگر تمہارے ساتھ ایک سرکاری چوکیدار کا ہونا ضروری ہے ، یہ کہہ کر ان کے افسر نے اس جماعت میں سے ایک کو میرے ساتھ کر دیا، اور کہا کہ ان کا نام غفران ہے.یہ تمہارے ہمراہ رہ کر تمہیں میدان حشر کی سیر کرائیں گے، اس دوران میں تم استغفار پڑھتے رہنا اور کسی بات کو دیکھ کہ اعتراض نہ کرتا.پشن کہ جو بہی میں نے اس صحرائے محشر کی طرف قدم بڑھائے تو فرشتہ غفران نے میرا باند پکڑ لیا.بازو پکڑتے ہی ہیں اور وہ دونوں گویا اُڑنے لگے، اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ جہاں اور جدھر ہم جانا چاہتے ہیں ، پل چھپکتے ہیں جا پہنچتے ہیں.چلتے چلتے دیکھتا ہوں کہ جہاں تک نظر کام کرتی ہے انسان ہی انسان ہیں، مگر سب کے سب برہنہ سوائے بعض خاص خاص کے جو کپڑے پہنے ہوئے ہیں.ایک ٹولی یہاں ہے تو دوسری وہاں ہر جگہ جمگھٹے لگے ہیں اور ہر جمگھٹے اور مجمع کے درمیان ایک تراز و یعنی میزان نصب ہے.اسی طرح جہاں تک نظر کام کرتی تھی یا تو انسان نظر آتے تھے یا میرا نہیں تھیں یا فرشتے.مگر کیا مجال ہو ذرا بھر بھی غل یا شور ہو.یوں معلوم ہوتا تھا گویا مُردے کھڑے ہیں اور سوائے اس کے جیسے بولنے کی اجازت ہو.کوئی لفظ کسی کے منہ سے نہ نکلتا تھا.ہاں یا غفور یا ستار یا فتقار کے الفاظ ہر طرف سے نہایت دھیمی آواز میں سنائی دیتے تھے اور کبھی کبھی جیب کسی کی آواز نا واجب طور پر بلند ہو جاتی تو معاً ایک طرف سے بگل بجنا ستائی دے جاتا.وَخَشَعَتِ الْأَمْوَاتُ لِلرَّحْمَنِ فَلَا تَسْمَعُ الأَهَما الم (۹) ترجمہ : اور رحمن (خدا کی آواز کے مقابلہ میں (انسانوں کی آواز میں دب جائیں گی پس تو سوائے کھر ٹیسر کے کچھ سُنے گا.
۲۲۷ جس پر ایک ایسا سکوت طاری ہو جاتا ، جیبا آدھی رات کے وقت قبرستانوں میں ہوا کرتا ہے.عرش عظیم غرض ایسے نظارے دیکھتے ہوئے ہم آگے بڑھے ، اور جہاں بھی پہنچے، یہی حال دیکھا ، حتی کہ میں قریباً تھک گیا ، اتنے میں غفران نے کہا کہ وہ سامنے عرش عظیم ہے ہیں نے نظر اٹھائی تو سوائے ایک روشنی اور نور کے کچھ نظر نہ آیا.مگر خود بخود اس قدر دشت اور رغب اس طرف نظر کر کے مجھ پرطاری ہوا کہ میری گھگھی بندھ گئی.اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اس لا انتہا میدان میں یہ مقام ہر جگہ سے یکساں قریب نظر آتا ہے ، اور وہاں کے احکام ہر شخص کو ایسے ہی صاف سنائی دیتے ہیں گویا وہ ہمارے سامنے اور بالکل پاس ہی ہے بے انتہا فرشتے ، اس جگہ کے گر دچکر لگا رہے تھے.کوئی گروہ یہ کہ رہا تھا.اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْتَغْفِرُكَ لِلَّذِينَ آمَنُوا اور کوئی یہ کہ رَبَّنَا اغْفِرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ اور کوئی رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ (المومنون : ۱۱۹) ترجمه راے میرے رب ! معاف کر، اور رحم کر کا ورد کر رہا تھا.کوئی يَا عَفُورُ الرَّحِيمُ کا اور کوئی یا عَفُوٌّ يَا غَفُورُ يَا سَتَارُ يَا غَفَّارُها غرض وہ لوگ طرح طرح کے جملے پڑھنے جاتے تھے ، اور ایک طرف سے آتے اور دوسری طرف غائب ہوتے جاتے تھے.
۲۲۸ خوشی اور طرب کاسماں ساتھ ہی یہ سبب یومِ مغفرت ہونے کے ایک خوشی اور طرب کا سماں اس نظارہ پر چھایا ہوا تھا.ہر گنہگار کے چہرہ پر اس اور امید کا تیسم موجود تھا.لوگوں کے اعمال نکل رہے تھے ، اور ان کی کمی اور خامیاں فضل اور مغفرت کے انعامات سے پوری ہو رہی تھیں ، کیونکہ آج صفت عفود مغفرت کے مظاہرہ کا دن تھا اور حساب کتاب میں مجید نرمی تھی ، گو دوسری طرف کراماً کاتبین بھی اپنا کام کئے جاتے تھے.مالک و رضوان بھی گاہے گاہے آپس میں جھگڑ لیتے تھے، اور سائقین و شہدا کی کشمکش بھی جاری تھی ، مگر آخری فیصلہ ان تمام جھگڑوں کا بارگاہ حضرت غفور و رحیم سے ہی صادر ہونا تھا.میں اسی سیر میں مشغول تھا کہ غفران نے مجھے کہا چل تجھے بعض لوگ دکھلاؤں جنہیں تو جانتا ہے اور ساتھ ہی بعض دلچسپ حالات مغفرت الہی کے بھی ملاحظہ کراؤں جن سے عام لوگ ناواقف ہیں.باقی یہ حشر اور حساب کتاب تو اسی طرح ہوتا رہے گا.اور جس طرح آج موجب كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن : ٣٠) ترجمه در ده هر وقت ایک نئی حالت میں ہوتا ہے.صفت مغفرت کے تقاضا کا دن ہے ، اسی طرح کوئی دن جلال الہی اور انتقام کا آجاتا ہے تو کوئی عدل وانصاف اور قسط کے اظہار کا کسی دن شفاعت کا مظاہرہ ہوتا ہے تو کسی دن قہر و جبروت کا.مگر یہ سب ایام ان لوگوں کے اعمال اور حالات کے مطابق آتے ہیں جن کا حساب و کتاب ان اسمائے الہی کے مطابق ہونا ہوتا ہے.اس عالم میں رحم کی تو کوئی حد نہیں ، ہاں عدل وانصاف بھی کبھی کبھی ہوتا ہے ، گر ظلم کبھی نہیں...آرمل، تجھے بعض تفصیلی باتیں مغفرت الہلی کے متعلق دکھاؤں تاکہ تیرا ایمان اور محبت
۲۲۹ اپنے مالک اور آقا سے زیادہ ہو اور تاکہ تو جو ہمیشہ اپنے اعمال کی وجہ سے پاکس اور نا امیدی میں گرفتار رہتا ہے کچھ اس عالیشان مغفرت سے بھی آگاہی پائے جو ہر گنہگار کا سہارا اور ہر عاصی کی پشت پناہ ہے اور میں کے بل پر عالمین کی پردہ پوشی اور بخشش رہی ہے." انبیاء کا گھر وہ پشن کر ہمیں اور وہ آگے چلے اور ایک مجمع کے پاس جا کھڑے ہوئے.یہ لوگ سب اعلی کپڑے پہنے ہوئے استغفار میں مصروف تھے.غفران نے کہا یہ انبیاء کا گردہ ہے جو دنیا سے ہی معصوم اور مغفور ہو کہ یہاں آیا ہے.، مغفرت کے نظارے ذرا اور آگے چلے تو دیکھا کہ ایک شخص کے گناہوں کا پلڑا بہت بھاری ہے اور اس کے نیک اعمال بہت کم ہیں.دوزخ کے فرشتے اسے اپنی طرف کھینچنے لگے تو بارگاہ الہی سے آواز آئی." فلاں نیک شخص کو مع اپنے اعمال نامہ کے حاضر کرو.“ یہ کہنا تھا کہ وہ شخص وہاں موجود کر دیا گیا.فرمایا ہے یہ اس گنہگار کا بیٹا ہے، اس کا اعمال نامہ بھی دیکھو ، جب دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ وہ ہمیشہ اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت مانگا کرتا تھا.حکم ہوا کہ بیٹے کی ان دعاؤں کو بھی باپ کی نیکیوں کے پلڑے میں ڈال دو.اُن کا ڈالنا تھا کہ پلڑا جُھک گیا اور بہشت کے فرشتے اسے اپنے مونڈھوں پر بٹھا کرلے گئے.
٢٣٠ (۲) جب ہم آگے بڑھے تو اسی طرح کا ایک اور گنہگار اپنی قسمت کو رورہا تھا.حکم ہوا کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر کتنے مومنین نے دعائے مغفرت کی ہے ؟ جب اس کا حساب لگایا گیا اور وہ دعائیں جو محض نا واقف راہ گزروں نے اس کی قبریم کی تھی، وزن کی گئیں، تو وہ بھی کر دتا پھاند تا مغفرت کے ملائیکہ کی گود میں میٹھے کہ وہاں سے رخصت ہوا.(۳) آگے چلے تو ایک اور گنہگارکشی اعمال صالحہ کی وجہ سے متاسف کھڑا تھا جحکم ہوا کہ میں جس شخص نے کسی قسم کی حق تلفی اس کی کی ہے یا اس کی غیبت دوغیرہ کی ہے.ان لوگوں کی نیکیاں ان حق تلفیوں اور غیبتوں کے عوض اسے دے دو.میں نے دیکھا کہ اوروں کی ہزاروں نیکیاں اس طرح اس شخص کے حصے میں آگئیں اور وہ بخشا گیا.(۴) ذرا اور آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک شخص وہاں بھی مالک کے پنجے میں گرفتار ہے.آواز آئی کہ یہ تو فلاں کتاب کا مصنف ہے جس کی وجہ سے کئی نسلوں نے نیکی اور اسلام سیکھا ہے.پس اس کتاب کے پڑھنے کی وجہ سے ہر نیکی کرنے والا نہ صرف نیکی کا ایک اجر خود پائے گا بلکہ اتنا ہی اجر مصنف کو بھی ملے گا.حساب کتاب کیا گیا تو ایک لا انتها خزانہ باقیات الصالحات کا اس مصنف کے قبضہ میں آگیا.مالک نے اپنی گرفت ڈھیلی کر دی اور رضوان کا اسسٹنٹ اسے لے کہ اپنے ہاں چلا گیا.
٢٣١ (۵) اور آگے چلا تو دیکھا کہ ایک عورت کھڑی رو رہی ہے ، اس کا اعمال نامہ بدکاری سے بھرا پڑا ہے ، ایک یاکسی اور نا امیدی اس پر طاری ہے، آواز آئی کہ اس فاسقہ و قاجرہ عورت نے کوئی پسندیدہ عمل بھی کیا ہے ؟ " کو انا کا نہین میں سے ایک بولا کہ حضور ! ایک دن یہ جنگل میں سفر کر رہی تھی اور ایک کتا پیاس کے مارے زبان لٹکائے کنویں کے کنارے ہانپ رہا تھا.یہ اس کنویں میں اتری ، آپ پانی پیا، پھر اپنی جوتی میں پانی بھر کر سامنے لائی اور کہتے کو پلایا.ارشاد ہوا ہم نکتہ نواز ہیں ، ہمیں اس کا یہ عمل اتنا پسند آیا تھا کہ ہم نے اسی وقت اسے بخش دینے کا عہد کر لیا تھا، اب ہماری مغفرت کی چادر اس پر ڈال دو.اور جہاں جانا چاہتی ہے اسے لے جاؤ.(4) پھر آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک شوری بر پا ہے.ایک عاجز گنہگار ہے اور پاس ہی ایک مرصع نیکو کار.اس گنہگار کی بد اعمالیاں دیکھ کر وہ نیکو کار کہنے لگا کہ خدا کی استجھے خدا کبھی نہیں سنتے گا.اس بات پر حاضرین میں چہ مگوئیاں ہونے لگیں.اور قسم بعض لوگ کہنے لگے کہ یہ مولانا سے فرماتے ہیں، یہ شخص ایسا ہی ہے.بارگاہ الہی کی طرف سے ارشاد ہوا کہ اے شخص تو کون ہے میری مغفرت پر قسم کھانے والا ؟ جاؤ، ہم نے اسے تو بخش دیا اور تیری بابت فیصلہ بعد میں صادر ہو گا.اور دو شخص ہنتا کودتا بہشت کے دروازے کی طرف بھاگا.(<) اسی طرح پھر ایک گروہ میں بعض آدمیوں کا حساب کتاب ہو رہا رہا تھا.یہ لوگ مومن تو تھے مگر ان کے اعمال نامے نیکیوں سے خالی تھے ، کیونکہ گو وہ اپنے وقت کے
۲۳۲ نبی پر ایمان لائے تھے ، مگر عمر نے وفا نہ کی اور جلد ہی فوت ہو گئے ، بعض کے اعمال صالحہ تو محض صفر ہی تھے.ایسے لوگوں کا فیصلہ بارگا الہی سے اس آیت کے ماتحت کیا گیا.إِنَّا لَطْمَعُ أنْ يَغْفِرَ لَنَا رَبُّنَا خَطِينَا أَنْ كُنَّا أَوَّلَ الْمُؤْمِنِينَ (الشعراء:۵۲) توجہ دہم امید کرتے ہیں کہ ہمارا رب ہمارے گناہ اس وجہ سے معاف کر دے گا کہ ہم سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں سے بن گئے.یعنی یہ چونکہ شروع میں ہی نبی کو مان گئے تھے ، اس لئے ان کا السابقون الاولون میں ہونا ہی ان کی مغفرت کے لئے کافی ہے، خواہ مسلمان ہو کر ایک عمل بھی نیک نہ کیا ہو.(A) یہاں سے ہم اور آگے بڑھے ، تو دیکھا کہ وہاں حضرت یعقوب کی اولاد اپنی میزان پر سے نجات پا کہ آرہی تھی.اور ان کی نجات کا باعث دعائے بزرگان تھی ، یعنی ان کے باپ کی وہ دعائیں جو ان کی درخواست يابانَا اسْتَغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا إِنَّا كُنَّا خَطِينَ (يوسف (۹۰) ترجمه داے ہمارے باپ ! آپ ہمارے حق میں (خدا سے) ہمارے گناہوں کی بخشش طلب کریں.ہم یقینا خطا کار ہیں.کے جواب میں بوعده اسْتَغْفِرُ لَكُم رَى إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (يوسف : ٩٩) ترجمه دریک ، ضرور تمھارے لیے اپنے رب سے بخشش طلب کروں گا یقیناً کی گئی تھی.رہی رہے جو بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے.
۲۳۳ (۹) ایک جگہ دیکھا کہ چند شخص اپنے گناہوں کی مصیبت میں گرفتار ہیں اور نجات کی شکل صورت نظر نہیں آتی ہے.حکم ہوا کہ اچھا بتاؤ کہ اس دائیں طرف والے کا جنازہ کس کس نے پڑھا تھا ؟ معلوم ہوا کہ چالیس موحد مسلمان اس کے جنازہ میں شریک تھے.ارشاد ہوا کہ مالک ! اسے چھوڑ دے، ہم نے ان چالیس مومنوں کی شفاعت جو انہوں نے نماز جنازہ میں اس کے لئے کی تھی قبول کر لی.پھر بائیں طرف دالے کی باری آئی تو معلوم ہوا کہ اس کے مرنے کے بعد اس شہر کے اکثر اہل اللہ نے اسے نیکی سے یاد کیا تھا اور تعریف کی تھی کہ اچھا مسلمان آدمی تھا.فرمایا ان کی تعریف کی وجہ سے اسے بھی چھوڑ دو.پھر تیسرے کے بارے میں سوال پیدا ہوا کہ اس کا کیا حال ہے ہے فرشتوں نے عرض کیا کہ صرف دو مومن تھے جو اسے مرنے کے بعد نیک اور اچھا کہتے تھے.ارشاد ہوا کہ چلو اسے بھی جانے دو.چوتھے گنہگار کی بخشش اس لئے ہو گئی کہ اس کے جنازہ میں تین صفیں مسلمانوں کی تھیں.پھر اور آگے چلے تو دیکھا کہ ایک گنہگار مسلمان اس لئے رہائی پا گیا کہ اس کے تین بچے اس کی زندگی ہی میں فوت ہو گئے تھے.دی گئی.اور ایک مومن عورت صرف ایک بچہ کی موت کا صدمہ اٹھانے کی وجہ سے خیش ایک میاں بیوی نظر آئے ، ان کا حساب کتاب ہو رہا تھا ، اتنے میں ایک دو برسی کا بچہ دوڑتا ہوا کہیں سے آگیا اور کہنے لگا کہ یہ میرا باپ ہے اور یہ میری ماں ہیں جنت میں نہیں جاؤں گا جب تک ان دونوں کو ساتھ نہ لے جاؤں.1
۲۳۴ حاضرین کی آنکھوں میں یہ نظارہ دیکھ کہ آنسو آ گئے.اتنے میں ایک اور والدین کا مقدمہ پیش ہوا ، اور اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سانچہ ، جس کے آنول نال ابھی اس کے ناف کے ساتھ ہی تھے، چھینے چلانے لگا اور کہنے لگا.اے رب امینی استقاط شدہ بچہ ہوں اور تیرے فضل سے مجھے جنت میں رہنے کی اجازت ملی ہے.مگر میں ہر گز وہاں اپنے ماں باپ کو دوزخ میں چھوڑ کر نہیں جاؤں گا.“ حکم ہوا کہ تیری خاطر ہم نے ان کی مغفرت کر دی ہے جا ان کو بھی جنت ہیں.وہ بچہ بھی اپنی آنول نال کے ساتھ اپنے والدین کو کھینچتا ہوا جنت کی طرف لے گیا اور سب دیکھنے والے چشم پر آب تھے.(۱۰) پھر ہم آگے چلے.ایک شخص کے اعمال نامہ میں کچھ کسر تھی.وہ اس طرح پوری کی گئی کہ چونکہ وہ اپنے بندگی والدین کی قبر کی ہر جمعہ کے دن زیارت کرتا تھا اس لئے اسے چھوڑ دیا گیا.دائیں طرف ایک ایسا جم غفیر نظر آیا، حسین کے لوگ اپنے اعمال کے وزن کی رو سے بہت ناقص ثابت ہوئے تھے، مگر ان سب کی بخشش اس لئے ہوئی کہ ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تمام رات صبح تک کھڑے یہ دعا فرماتے رہے تھے.إن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمُ عِبَادُكَ وَإِنْ تَغْفِرُ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (المائده : ١١٩) توجه به اگر تو امنین عذاب دینا چاہے تو وہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انھیں بخشتا چاہے تو تو بہت غالب (اور) بڑی حکمتوں والا (خدا) ہے.پس اس دعا کی مقبولیت کے نتیجہ میں امت محمدیہ کے یہ سب لوگ نجات پاگئے.
۲۳۵ رال) وہاں سے چلتے چلتے ہم ایک ایسی جگہ پہنچے جہاں ایک قاتل کھڑا تھا.اس کی بابت یسنا کہ اس شخص نے نانوے خون کئے تھے اس کے بعد اس کے دل میں تویہ کی خواہش پیدا ہوئی ، اور وہ ایک راہب کے پاس گیا اور کہا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے یا نہیں ؟؟ را سب نے جواب دیا.ہر گز نہیں ، اور اس نے غصہ میں آکر را سب کو بھی مارڈالا.پھر وہ آگے چلا لوگوں نے اسے ایک بزرگ کا پتہ دیا کہ شاید وہاں تیری تو یہ کی کوئی صورت نکلے.یہ قاتل اس گاؤں کی طرف روانہ ہوا.راستے میں ایک جگہ وہ قضائے الہی سے مرگیا.اس پر رحمت کے فرشتوں اور مذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہوا.عذاب کے فرشتے کہتے تھے کہ یہ ایک ظالم ڈاکو اور قاتل ہے اور دوسرے کہتے تھے کہ ہاں یہ ٹھیک ہے، مگر یہ تو تو یہ کرنے چلا تھا.غرض ایک ہنگامہ اس امر پر یہ ہاتھا.میں نے سنا کہ بارگاہ الوہیت سے فرمان صادر ہوا کہ بتاؤ اس کی نعش میں اور اس کے وطن میں کتنا فاصلہ تھا ؟ اسی طرح اس کے مرنے کی جگہ میں اور اس بزرگ کے شہر میں کتنا فاصلہ تھا ؟ حضرت میکائیل کے محکمہ سے رپورٹ ہوئی کہ اس کی نعش اس بزرگ کی بستی سے بقدر ایک بالشت کے نزدیک تھی.ارشاد ہوا.ہم نے اس کی توبہ قبول فرمائی اور اسے بخش دیا ، اس پر ہماری مغفرت کی چادر ڈال دو (۱۲) پھر اور آگے چلے.ایک جگہ ایک بہت بڑے گنہگار کا مقدمہ پیش ہو رہا تھا.کرانا کاتبین نے عرض کیا : یا الہ العالمین ار شخص دن کو تو گناہ کرتا تھا اور رات کو روتا تھا کہ اسے میرے رب ! میں نے قصور کیا ہے مجھے معاف فرما.اس پر حضور کے ہاں سے اس کا قصور معاف فرمایا جاتا اور ارشاد ہوتا میرا یہ بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو
گناہوں کو معاف کر سکتا ہے اور ان کے سزا دینے پر بھی قادر ہے.سوائے فرشتو گواہ رہو میں نے اُسے بخش دیا.اس کے کچھ دن بعد وہ پھر گناہ کرتا تھا اور رات کو پھر اسی طرح دعا کر تا تھا کہ خدایا میرے گناہ بخش دے اس وقت بارگاه احدیت سے یہ حکم صادر ہوتا تھا کہ میرا یہ بندہ یقین رکھتا ہے کہ میں اس کے گناہ پر گرفت بھی کر سکتا ہوں اور اسے معاف کرنے کی قدرت بھی رکھتا ہوں، سو تم گواہ رہو کر میں نے اسے پھر بخش دیا.کچھ عرصہ گزرنے کے بعد وہ پھر گناہ کرتا تھا، اور بعد میں اسی طرح پھر تو یہ انتظار کرتا تھا، اور حضور یہی ارشاد فرماتے تھے کہ میرا یہ بندہ یقین رکھتا ہے کہ میں اس کے گناہ پر پکڑ بھی کر سکتا ہوں اور اسے معاف بھی کر سکتا ہوں.پس اسی طرح یہ شخص عمر بھر گناہ کرتا رہا اور اس کا اعمال نامہ سیاہ ہوتا رہا.اب جو کچھ ارشاد ہو کیا جائے." فرمایا کہ میں نے تو تین دفعہ کے بعد ہی کہہ دیا تھا.غَفَرْتُ لِعَبْدِي فَلْيَفْعَلُ مَا شَاءَ میں نے اپنے بندہ کو بخش دیا ، اب جو جی چاہے کیے.کیا یہ حکم ریکارڈ میں نہیں آیا ؟ آخر ڈھونڈنے سے اس فران کی نقل بخاری اور سیمیں مل گئی اور اس علم کی خامی ہوگی.(۱۳) اور آگے بڑھے تو دیکھا کہ ایک شخص کا مقدر میں ہے کرام الکاتبین نے عرض کیا در علاوہ اور قسم کے گناہوں کے اس پر ایک الزام یہ بھی ہے کہ اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں تو میری نعش کو جلا کہ آدھی راکھ ہوا میں اڑا دینا اور آدھی سمندر میں ڈال دیا، کیونکہ خدا کی قسم ! اگر اللہ تعالیٰ نے مجھ پر گرفت کی تو مجھے ایسا عذاب ملے گا کہ
٢٣٧ مجھ سے پہلے کسی کو نہ ملا ہو گا.خیر اس کے کچھ مت کے بعد وہ شخص مر گیا اور لڑکوں نے اس کی وصیت پر عمل کر دیا.جزا کے دن حضور تبارک وتعالیٰ کے حکم سے وہ پھر زندہ کیا گیا ہے اس کی بابت کیا فرمان ہے ؟ ارشاد ہوا اس سے پوچھو کہ تو نے ایسا کام کیوں کیا ؟ ؟ وہ شخص کہنے لگا " میرے خداوند ! میں نے کبھی کوئی نیک عمل نہیں کیا اور ہمیشہ بدعملیوں ہی میں مصروف رہا.اس لئے اے رب میں نے یہ بات تیرے ڈر کے مارے کی اور تو خود سب حقیقت جانتا ہے." حضور باری نے بیسن کر فرمایا " یہ سچ کہتا ہے، اسے چھوڑ دو.اس کے دل میں ضرور میرا حقیقی تقویٰ اور خوف موجود تھا." (IN) ایک طرف کچھ آدمی خوش نوش جنت کی سڑک پر جارہے تھے میں نے ان سے پوچھا کہ تمہاری نجات ہو گئی ؟ کہنے لگے، ہاں، پوچھا کہ کیونکہ ؟ کہنے لگے کہ جب ہم کو ذات باری نے مصیبت میں مبتلا دیکھا تو فرمایا میرا تو بان لوگوں سے وعدہ ہے کہ ان کو جنت میں داخل کروں گا.میں نے کہا کہ وہ وعدہ کیا تھا ؟ کہنے لگے کہ حضور احدیت نے اپنے رسول کی معرفت ہم سے یہ وعدہ فرمایا تھا کہ مَنْ كَانَتْ لَهُ أُنْثَى فَلَم يُودُهَا وَلَمْ يُهتُهَا وَلَمُ يُوثِرُ وَلدَهُ عَلَيْهَا يَعلَى الذُكُورَا دُخَلُهُ اللهُ الْجَنَّةَ
۲۳۸ " جس شخص کی ایک بیٹی ہو، پھر نہ وہ اسے زندہ گاڑدے اور نہ ذلیل رکھے، اور نہ ترجیح دے اس پر اپنے بیٹوں کو، تو اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا.پس اس بات پر عمل کی وجہ سے ہم پر خدا کا فضل ہو گیا ہے.(۱۵) اسی طرح ایک عورت کو دیکھا کہ باوجود اس کے کہ اس کی عبادتیں یعنی روز سے ، نمازیں اور صدقے بہت ہی کم تھے ، تاہم اس لئے جنتی ہوگئی کہ وہ اپنے ہمسایوں کو اپنی زبان سے کبھی کوئی تکلیف نہ دیتی تھی اور سب اس سے خوش تھے.(14) عرض ہم اسی طرح چلتے رہے یہاں تک کہ ایک عظیم الشان گروہ شہدا کا دیکھا جن کی گنتی اور حددلیست خیال دو ہم سے بالا تر تھی.غفران نے بتایا کہ ان میں سے تلوار سے خدا کی راہ میں شہید ہونے والے بہت کم ہیں.مگر خدا تعالیٰ کی مغفرت اور رحم نے شہید بنانے کے لئے اور بہت سے سامان محض اپنے فضل سے پیدا کہ دیئے ہیں.مثلاً.جو شخص خدا کے دین کی خدمت کے کسی کام میں بغیر تلوار کے بھی اپنی موت مرجائے وہ بھی شہید ہے.جو اپنے مال کی حفاظت کرتا ہوا مارا جائے وہ بھی شہید ہے.جو مومن طاعون سے مر جائے وہ بھی شہید ہے.جو عورت بچہ جن کہ مرے وہ بھی شہید ہے.جو ذات الجنب سے مرے وہ بھی شہید ہے.جو دستوں کی بیماری سے مرے وہ بھی شہید ہے.جو اب کہ مرے وہ بھی شہید ہے وغیرہ وغیرہ.
۲۳۹ غرض شہادت مغفرت اور بلندی درجات کے ایسے بہت سے راستے کھول دیتے ہیں کہ اگر مومن خدا کا شکر کرتے کرتے مری جائیں تو بھی اپنے مالک کا حق ادا نہیں کر سکتے.یہاں تک کہ جو شخص شہادت کے لئے دعا مانگتا ہے پھر خواہ اپنے بستر پر یہی اس کی جان نکلے وہ بھی شہید ہی محسوب ہوتا ہے.(۱۷) عورتوں کے لئے تو وہاں بہت ہی نرمی تھی اور عام حکم یہ تھا کہ جو عورت نماز پڑھے روزہ رکھے اپنی عفت کی حفاظت کرے اور خاوند کی نافرمان نہ ہو، وہ بہشت کے جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے.(۱۸) پھر ہم اور آگے چلے وہاں ایک شخص کا مقدمہ میں تھا جو آنحضرت صل الا علیم کے زمانے میں قوت ہوا تھا جب اس نے وفات پائی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس کے جنازہ کے لئے نکلے.حضرت عریض نے عرض کیا حضور یہ ایک ناجر فاسق شخص تھا اس کے جنازہ کی نماز نہ پڑھئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حاضرین جنازہ کی طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کیا کسی نے اسے اسلام کی کسی بات پر عمل کرتے دیکھا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا " ہاں یا رسول اللہ اس نے خدا کی راہ میں ایک رات پہرہ دیا تھا ؟ یشن کہ حضور نے اس کی نماز پڑھی، اس کی قبر پر مٹی ڈالی اور اس کی نعش کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا.اے مرنے والے ! تیرے دوستوں کا خیال ہے تو جہنمی ہے اور میں گواہی دیتا ہوں کہ تو یقیناً جنتی ہے.اور اسے عمر بن خطاب ! تو لوگوں کے تفصیلی اعمال نہ کریدا کمر بلکہ صرف یہ دیکھ لیا کہ کہ آیا وہ اسلام کا مجملاً متبع ہے یا نہیں."
۲۴۰ (19) اسی طرح ایک مومن مجاہد حسین کے اعمال کم تھے، اس کے نیکی کے پلڑے میں اس کا گھوڑا ، گھوڑے کا چارہ اور اس کے گھوڑے کی لید اور پیشاب وغیرہ تک ڈالے گئے ، یہاں تک کہ وہ پلڑا اس کی غفلتوں اور گناہوں کے پلڑے سے مھاری ہو گیا اور وہ اپنے اسی گھوڑے پر سوار ہو کر جنت کی طرف سرپٹ روانہ ہو گیا.اسی طرح لاتعداد انسانوں کی مغفرت اس طرح پر ہوئی کہ ان کو ابتیاء اولیاء نیکوں اور اہل اللہ سے صرف دوستی اور محبت تھی اور المَرمُ مَعَ مَنْ أَحَبَّ کے دورہ کے مطابق وہ سب باوجود کسی اعمال کے ان بزرگوں کے ہمسائے قرار پائے.(۲۰) ایک جگہ دیکھا کہ خدا کا ذکر وتسبیح کرنے والوں کی ایک جماعت فرشتوں کے پروں کے سایہ میں جنت کی طرف جارہی تھی.ان کے پیچھے بجے ایک آدمی تھا جس کی طرف غفران نے اشارہ کر کے کہا کہ اس کا قصہ بھی عجیب ہے.ایک دفعہ باری تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے پوچھا کہ آج تم نے دنیا میں کیا دیکھا ؟ انہوں نے عرض کیا.الہی تیرے کچھ بندے ایک سجد میں تیرا ذکر لعبد ذوق وشوق کر رہے تھے.، فرمایا گواہ رہو کہ میں نے ان کو بخش دیا.فرشتوں نے عرض کیا کہ الہی ! اسی مجلس میں ایک شخص اور بھی موجود تھا مگر وہ ذکر اہلی کے لئے نہیں آیا تھا بلکہ اپنے نج کے کسی کام کو آیا تھا.ارشاد ہوا کہ گواہ رہو.میں نے اسے بھی بخش دیا.هُمُ الَّذِينَ لَا يَشْقَى جَلِسُهُمْ رایسے لوگوں کے پاس بیٹھنے والا بھی نامراد نہیں ہوا کرتا )
۲۴۱ اور یہ وہ شخص ہے جس کی طرف میں نے ابھی اشارہ کیا تھا.(۲۱) پھر ہم اور آگے بڑھے تو غفران نے ایک شخص کی طرف اشارہ کیا جو معرفت کی چادر امد سے چلا جاتا تھا.کہنے لگا کہ اس شخص کا قصہ بھی بچسپی سے خالی نہیں.اس شخص نے ایک بزرگ صحابی کی معیت میں اپنا وطن چھوڑ کہ مدینہ کی طرف اس وقت ہجرت کی جب حضور نے ہجرت فرمائی تھی.مدینہ جا کر ی شخص بیمار ہو گیا اور ایسا ہے صبر سوا کہ تیر کے پیکان سے اپنے ہاتھ کی رگیں خود کاٹ ڈالیں جن سے اتنا خون جاری ہوا کہ یہ مر گیا.اس کے دوست صحابی نے اُسے خواب میں دیکھا کہ اس کی حالت بہت اچھی ہے مگر اپنے دونوں ہاتھ ڈھانکے پھرتا ہے.پوچھا تیرے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہے“ کہنے لگا کہ میرے رب نے مجھے بخش دیا ، اس لئے کہ میں نے اس کے نبی کی طرف ہجرت کی تھی.مگر یہ بھی فرما دیا کہ ہم تیرے ہاتھوں کو درست نہ کریں گے جن کو تو نے خراب کیا ہے.یہ قصد سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللَّهُمَّ وَلِيَدَيْهِ فَاغْفِرُ دیا اللہ ان کے ہاتھوں کی بھی مغفرت فرما) سو یہ شخص آج تک اسی حالت میں رہا.آج اس دعا کی وجہ سے اس کے ہاتھوں کی مصیبت دور ہوگئی اور یہ جنت کو جارہا ہے.یہ.(۲۲) پھر امد آگے بڑھے.تو معلوم ہوا کہ ایک شخص کی بابت حکم ہوا ہے کہ اس کا حساب کتاب ہم خود ذاتی طور پرلیں گے.چنانچہ وہ شخص عرش کے سامنے حضوری میں پیش کیا گیا.
۲۴۲ ارشاد ہوا.تجھے معلوم ہے کہ تو نے ایسے ایسے بھاری گناہ دنیا میں کئے تھے.اس نے عرض کیا." ہاں اے میرے رب کئے تھے." اس کی بوٹی بوٹی خوف کے مارے تھر تھر کانپ رہی تھی کہ لیں اب جہنم کے سوا میں لئے کوئی جگہ نہیں کہ اتنے میں ارشاد ہوا.دیکھے ہیں نے تیرے ان سب گناہوں کی دنیا میں پردہ پوشی کی تھی.اب اسی طرح میں یہاں بھی ان کی پردہ پوشی کروں گا.جا اپنی نیکیوں کا اعمال نامہ لے جا.اور اپنے گناہوں کا ریٹر ہیں ہمارے پاس چھوڑ جا.آگے ہم جانیں ہمارا کام (۲۳) اس کے بعد ایک اور مقدمہ عدالت میں پیش ہوا.ایک مجرم لایا گیا.اور اس کے ساتھ ننانوے بڑے بڑے طومار رجسٹروں اور اعمال ناموں کے تھے.مجھے ارشاد ہوا." دیکھو یہ تیرے اعمال نامے ہیں.اگر تجھے ان سے انکار ہے تو کہہ دے.“ اس نے عرض کیا میرے مولا! جو کچھ ان میں لکھا ہے وہ سب پتا ہے.ارشاد ہوا.کوئی عذر ہے." کہنے لگا کوئی نہیں." حکم ہوا کہ ہمارے ہاں تو تیرا ایک عضد اور ایک بڑی نیکی موجود ہے تجھ پر کوئی علم نہیں ہوگا.اس کے بعد ایک میٹھی پیش کی گئی جس پر لکھا تھا.اَشْهَدُ أَن لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدٌ عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ حکم ہوا کہ اس چھٹی کو اس کی نیکیوں کے پلڑے میں رکھو.رکھتے ہی وہ پلڑا اتنا جھک گیا کہ وہ سب طومار گناہوں کے اس کے مقابلہ ہیں بالکل ہلکے ہو گئے.اور وہ شخص الحمد للہ الحمد للہ کہتا ہوا بہشت بریں کی طرف بھاگتا چلا گیا.
۲۴۰۳ (۲۴) اس کے بعد ہم ایک اور طرف متوجہ ہوئے تو دیکھا کہ خدا وند عالم رب العالمین کی طرف سے ایک منادی کنندہ یہ اعلان کر رہا تھا کہ ايْنَ الَّذِي كَانَتْ تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَصَاحِحِ (السجده : ١٤) رکہاں ہیں وہ لوگ جن کے پہلو میری خاطر رات کے وقت بستروں سے الگ رہتے تھے یہ سنتے ہی ایسے سب لوگ کھڑے ہو کہ ایک جگہ جمع ہو گئے اور ان کو حکم ہوا کہ جاؤ تمہیں بغیر حساب بخش دیا.۲۵ اس کے بعد ایک تیسرا مقدمہ عدالت خاص میں پیش ہوا.ایک شخص کو آگے لایا گیا اور حکم ہوا کہ اس کے صغیرہ گناہ اور چھوٹی چھوٹی خطائیں اسے پڑھ کر سناؤ، پھر پوچھو کہ کہ تو نے یہ گناہ کئے تھے.مگر کبائر اس کے سامنے نہ پیش کرنا..صفائر کو سن کر وہ شخص کہنے لگا " ہاں مول ! یہ سب میری غلطیاں مجھ سے ہی سرزد ہوئی ہیں.میں کیونکر سچی باتوں کا انکار کر سکتا ہوں..اور ساتھ ہی وہ شخص دل میں ڈر رہا تھا کہ اب اس کے بعد میرے کبائر بھی ظاہر کئے جائیں گے کہ اتنے میں حکم ہوا" یا تجھے ہم نے بخشا ، اور تیرے ہر گناہ کے بدلے ایک نیکی تجھے دی." یہ دیکھ کر وہ بے چارا خوشی کے مارے بالکل دیوانوں کی طرح ہو گیا اور کہنے لگا یا الہی یہ تو میرے چھوٹے چھوٹے گناہ تھے.ابھی بڑے بڑے گناہوں اور کیا ئر کو تو پڑھا ہی نہیں گیا.ان کو بھی پیش کیا جاوے.؟ یہ سننا تھا کہ حاضرین بے اختیار ہنس پڑے اور وہ شخص بھی شرمندہ سا ہو کر جنت کی طرف روانہ ہوا اور پیچھے سے ایک فرشتہ نے مغفرت کی چادر اسے اوڑھادی.'
۲۴۴ (۲۹) جن اشخاص کو دنیا میں اپنے قصوروں اور حدود کی سزا مل چکی تھی ان کے ساتھ تو خصوصاً وہاں نرمی اور شفقت کا سلوک ہو رہا تھا.چنانچہ ایک شخص سے دنیا میں ایک برا کام سرزد ہو گیا تھا.وہ خود گیا اور حاکم وقت سے عرض کیا حضور امجھ سے یہ گناہ سرزد ہو گیا ہے، میں نے تو بہ کی ہے، تم مجھے دنیا میں سزا د سے لو میں اپنے رب کے آگے رد سیاہ ہونے سے دنیا کی تکلیف برداشت کر لینا بہتر سمجھتا ہوں..چنانچہ اسے سنگار کر دیا گیا اور جو حشر میں لایا گیا تو اس کو ان خوش کن الفاظ سے مخاطب کیا گیا " اے میرے بندے ! ہمیں تیری اس توبہ کی اس قدر قدر و منزلت ہے کہ اگر وہ ایک پورے شہر کے گنہگاروں پر تقسیم کی جاتی تو ہم ان سب کو بخش دیتے.“ (۲۷) ایک اور شخص کو دیکھا جس نے اپنے زمانہ حکومت میں رعایا پر بہت ظلم کئے تھے.وہ سب مظلوم اس سے بدلہ لینے کے لئے وہاں حاضر تھے.مگر جب یہ سنایا گیا کہ اُس شخص نے آخری عمر میں اپنے سب مظالم سے توبتہ النصوح کر لی تھی اور مدینہ طیبہ ہجرت کر کے چلا گیا تھا اور وہیں مرا تھا تو اس اعلان سے یکدم ان تمام لوگوں پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ سب ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے ہم نے اس شخص کے سب قصور معاف کئے، خدا بھی اسے بخشے.چنانچہ دہ خوش خوش ہنستا ہوا وہاں سے جنت کی طرف رخصت ہوا.(۲۸) اس سے بڑھ کر یہ کہ کروڑوں انسانوں کے حقوق العباد کا بدلہ خدا تعالیٰ نے تحقین کو اپنے پاس سے بڑھ چڑھ کر ادا کر دیا اور ان مظلوموں نے نہایت خوشی سے اپنے دعوؤں اور حقوق سے دستبرداری داخل کر دی اور ان کے گناہ بخش دیئے گئے.نالائق اولاد جن پر ان کے ماں باپ بہت راضی اور خوش تھے وہاں محض اس
۲۴۵ لئے بخشی جارہی تھی کہ وہ رضى الرب فِي رِضَى الوالد کے قانون کے ماتحت خدا کا فضل جذب کر رہی تھی.(۲۹) سب سے حیران کرنے والی بخشش میں نے دو شخصوں کے معاملہ میں دیکھی.دو جہنمی ایک طرف دوزخ میں جانے کے لئے کھڑے تھے کہ ایک مغفور شخص وہاں سے گزرا ایک جہنمی نے اس جنتی سے کہا یہ بھائی صاحب ! کیا آپ مجھے نہیں پہچانتے ؟ میں وہ ہوں جس نے آپ کو فلاں جگہ ایک دفعہ پانی پلایا تھا." اس پر دوسرا جہنمی بولا." مجھے بھی تو آپ نہ بھولے ہوں گے.میں نے آپ کو فلاں جگہ ایک دن وضو کے لئے لوٹا بھر کر دیا تھا.اب ہم تو جہنم کو جائیں گے اور آپ جنت کو.یسی کہ مطلبی کا دل پسیج گیا اور اس نے وہیں بارگاہ حضور رحیم سے ان کے لئے دعا کی.حکم ہوا ان کو بھی اپنے ساتھ جنت میں لے جاؤ.(۳۰) ابھی ہم ان نظاروں سے فارغ نہ ہوئے تھے کہ جہنم کی طرف سے سخت چیچوں کی آواز آنے لگی.رپورٹ ہوئی کہ دو شخص بے حد غل مچارہے ہیں.ارشاد ہوا.ان کو پہلے رو به دو پیش کردہ معرض وہ حضوری میں لائے گئے.پوچھا گیا " اتنا غل کیوں چھاتے ہو“.انہوں نے عرض کیا " الہلی جل گئے ہیں اس عذاب کی برداشت نہیں.ہم پر رحم ہویا ارشاد ہوا ، جاؤ ! فی الحال اپنی جگہ چلے جاؤ تمہارے معاملے پر غور ہو گا یا پریشن کو ایک تو واپس جہنم میں چلا گیا مگر دوسرا وہیں کھڑا رہا.حکم ہوا.تو کیوں نہیں جاتا ہے"
۲۴۶ وہ عرض کرنے لگا.مولا ! کیا تو نے مجھے اس لئے جہنم سے نکالا تھا کہ پھر دوبارہ اسی میں ڈالا جائے“ اس پر حاضرین مہنس پڑے.ارشاد ہوا " اے بے صبر! اچھا جا.ہم نے تجھے بخشا اور ترے ساتھی کو بھی “.(۳۱) غرض اسی طرح کے حالات دیکھتے ہوئے ہم ایک گردہ صحابہ کی طرف گئے وہاں بھی کچھ جھگڑے اور حساب کتاب شروع تھا.ایک صحابی حاطب کے متعلق ان کے گواہوں نے بیان دیا کہ اس شخص نے اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ خیانت کی ہے کہ اس کی سزا دنیا میں سوائے قتل اور عاقبت میں سوائے جہنم کے اور کچھ نہیں.اس نے کفار مکہ کو خط لکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تم پر یکدم مخفی حملہ کرنے والے ہیں ، تم ہوشیار ہو جاؤ.اس نے حضور کا راز فاش کیا ، کفار کو مدد دی ، اور مسلمانوں کو تباہ کر نے کا پورا سامان مہیا کر دیا.اگر خداوند تعالیٰ کی طرف سے حضرت ختمی باب کو ہر وقت اطلاع ز مل جاتی تو فتح مکہ کی ساری تجاویز در ہم یہ ہم ہو کر رہ جائیں.اس سے بڑھ کر غدار ہم کو تو کوئی نظر نہیں آتا.بارگاہ الہی سے ارشاد ہوا کہ تمہاری بات بالکل سچی ہے لیکن تجھ میں ہمارا جو فرمان اہل بدر کے لئے جاری ہوا تھا اس کا ریکارڈ نکالو.یہ ارشاد کی دیر تھی کہ فرمان متعلق اہل بدر حضوری میں پڑھا گیا اور وہ یہ تھا.اعْمَلُوْ مَا شِتُمْ فَإِنِّي غَفَرْتُ لَكُم راب جو چاہو کرو.میں نے تمہاری مغفرت بہر حال کر دی ) نیزار شا ر ہوا کہ بندوں کی بعض اہم خدمات ایسی ہوتی ہیں کہ ان کے بعد ہم ان کو ایسا ہی انعام دیا کرتے ہیں.جانے دو حاطب کو اہل بدر کے ساتھ وہ مغفور ہے.
(۳۲) اس کے بعد سید الشہداء حمزہ بن عبد المطلب شیر خدا کا مقدمی پیشیں ہوا.گواہوں نے کہا کہ یہ ایک دن شراب کے نشے میں بیٹھے اپنی ایک لونڈی کا گانا سن رہے تھے کہ خوش ہو کر فرمانے لگے : مانگ کیا مانگتی ہے ، اس لونڈی کو حضرت علی ابن ابی طالب سے کچھ عناد تھا.کہنے لگی جنگ بدر کے مال غنیمت میں سے علی نور کو دو اوشنیاں اپنے حصے کی ملی ہیں اور وہ فلاں احاطہ میں بندھی ہیں.میرا جی چاہتا ہے کہ ان کی تازہ کلیجی بھون کر کھاؤں؟" اس پر یہ صاحب اُٹھے اپنا خنجر سنبھالا اور اس احاطہ میں پہنچ کر ان زندہ اوشنیوں کے پیٹ چاک کر ڈالے اور پیٹ کے اندر سخت بیدردی سے ہاتھ ڈال کر ان کی کلیاں کھینچے کہ نکال لیں اور اس لونڈی کو لا کر دے دیں کہ کھا لو.بعد میں وہ زخمی جانور وہیں تڑپ تڑپ کہ مر گئے.لوگوں نے حضرت علی ہم کو خبر کی.وہ روتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے کہ یہ واقعہ ہوا ہے.حضور ان کو ساتھ لے کر ان صاحب کے ہاں تشریف لے گئے وہ نشہ میں کیا فرماتے ہیں کیا تم دونوں میرے باپ کے غلام نہیں ہو.“ یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے آئے اور سمجھ لیا کہ وہ شراب کے نشے کی وجہ سے ہوش میں نہیں ہیں.ان سے بات کرنا فضول ہے.اس کے کچھ مدت بعد یہ صاحب اُحد کی جنگ میں مارے گئے ہم ان سے اس فلم کا قصاص چاہتے ہیں جو ان سے سرزد ہوا تھا اور جو مذہب کے متعلق نہ تھا بلکہ انسانیت کے خلاف تھا.اور گو اس وقت تک شراب حرام نہ ہوئی تھی، پھر بھی اس کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی.کیونکہ یہ سخت قساوت قلبی اور ظلم ناحق کا مظاہرہ تھا جسے انسان کی فطرت دھکے دیتی ہے خواہ وہ کسی مذہب وملت کا ہو اس لئے ہم جو سائق ہیں اس کا قصاص طلب کرتے ہیں.بارگاہ خداوندی سے ارشاد ہوا کہ ہم تو اس قصور کا قصاص پہلے ہی لے چکے ہیں.
۲۴۸ حمزہ ہمارا شہر ہے لیکن ہم نے جو قصاص لیا ہے وہ بھی ظاہر ہے اور جو مقام قرب کا ہم نے اسے بخشا ہے وہ بھی ظاہر ہے.کیا یہ صیح نہیں کہ ایک لونڈی نے ان اونٹنیوں کو حمزہ سے کہہ کہ مروایا.اسی طرح وحشی جو ایک غلام تھا اسے بھی العام دے کہ احد میں لایا گیا تھا اور اس کے حربہ نے حمزہ کا پیسٹ اسی طرح چاک کیا جس طرح ان جانوروں کا پیٹ پھاڑا گیا تھا.پھر مہندہ زوجہ ابوسفیان نے حمزہ کا کلیجہ اس زخم میں سے اسی طرح نکالا جس طرح حمزہ نے ان جانوروں کے کلیجے نکالے تھے اور جس طرح اونٹنیوں کے جگر کباب بنا کہ کھائے گئے تھے اسی طرح حمزہ کا جگر بھی ہندہ نے میدان احد میں سب کے سامنے کھڑے ہو کر چایا.اور دوسری اونٹنی کے بدلہ میں اس عورت نے ان کو مسلہ بھی کیا امینی ان کے ناک کان اور ہونٹ کاٹ کر ہار بنا کر اپنے گلے میں ڈالے اور میدان جنگ میں تخریہ لوگوں کو دکھاتی پھری.اور انہوں نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے باپ کا غلام کہا تھا تو ایک حبشی غلام ہی نے ان کا کام تمام کیا اور یہ نصیب نہ ہوا کہ کسی معزز سردار قریش کے ہاتھ سے مارے جاتے.اب بتاؤ کون سی چیز ہے جس کا قصاص حمزہ سے نہ لیا گیا ہو.اونٹنیوں کا میگر کھانے والی بھی ایک مغنیہ تھی اور حمزہ کا جیگر کھانے والی بھی ایک گانے والی تھی جو میدان احمد میں وہ مشہور گیت گاتی پھرتی تھی جس کا پہلا شعریہ ہے نَحْنُ بَنَاتُ الطَّارِقِ نَشِي عَلَى الثَّمَارِقِ ہاں چونکہ وہ ہمارا محبوب بندہ تھا ہم نے اس قصاص کو بھی ایک عزت کی شکل ے دی.اس کا احد میں مارا جاتا اس کے سیدالشہداء مشہور ہونے کا باعث ہوا اور باقی باتیں جو مرنے کے بعد اس سے کی گئیں ان سے بھی اُسے کوئی تکلیف اور اذیت نہ ہوئی، نہ مثلہ ہونے کی ، نہ کلیجہ نکالنے کی اور نہ کلیجہ جانے کی.پس ہم نے ایک ایسی عزت والی مغفرت کی چادر اس پر اوڑھا دی جس کی وجہ سے اس کے مارچ بھی بلند ہو گئے اور تمہارا دعویٰ قصاص بھی پیدا ہو گیا.اب اسے لے جاؤ اور جنت میں اس کے بھتیجے کے پاس ہی اس کا
۲۴۹ مقام بھی بتا دو.ہم اس سے راضی ہیں اور وہ ہم سے (۳۳) یہ فیصلہ سننے کے بعد ہم آگے بڑھے.ایک مسلمان کو دیکھا کہ اس کا ہر عمل عیب دار تھا اور سوائے اس کے اس نے شرک نہیں کیا تھا.باقی ہر طرح اس کی زندگی گنہگار نہ تھی.قریب تھا کہ جہنم کے فرشتے اسے کھینچ کر لے جائیں کہ یہ میر عب و پر شوکت آواز فضا میں بلند ہوئی.مَن عَلِمَ انِي ذُوقدُرَتِهِ عَلَى مَغْفِرَةِ الذُّنُوبِ غَفَرْتُ لَهُ وَلَا أَبَالِي مَا لَمْ يُشْرِكْ بِي شَيْئاً اور یہ شخص کو بڑا گنہگار ہے مگر اسے ہمیشہ یہ یقین تھا کہ میرا خدا غفور الرحیم ہے پس اس یقین کی وجہ سے میں اسے بخشا اور جنت میں داخل کرتا ہوں.اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا آدمی کھڑا تھا جس کے نامہ اعمال میں پہلے ورق سے آخر ورق یک نا فرمانیاں اور فعلتیں ہی غفلتیں لکھی تھیں، لیکن ہر صفحہ پر اس کے ایک دو استغفار بھی ضرور لکھے ہوتے تھے جو گا ہے لگا ہے خدا سے مانگ لیا کہ تا تھا.حکم ہوا کہ میں نے اپنے اس بندے کے سب گاہ اس کے استغفار وں کی وجہ سے محو کر دیئے.(۳۴) پھر ایک اندھے کی بابت جھگڑا شروع ہوا.بارگاہ الہی کی طرف سے حکم آیا کہ ہم نے اس کی دو نہایت پیاری عزیز آنکھیں لے لیں.اب یہ متقی ہے کہ ہم اس کی مغفرت کریں.(۳۵) آگے چل کر نا انتہا بیماروں اور مصیبت زدہ مفلسوں کا ایک جم غفیر تھا جن کے لئے یہ حکم ہوا کہ جن لوگوں کی مغفرت کا مجھے خیال ہوتا ہے ان کو میں دنیا سے رخصت نہیں کرتا.جب تک ان کے ایک ایک گناہ کے بدلے ان کو جسمانی امراض اور رزق کی تنگی دے کر انہیں جنت میں جانے کے قابل نہیں بنا لیتا.
۲۵۰ لا اخْرِجُ اَحَدا مِنَ الدُّنْيَا أرِيدُ اغْفِرُ لَهُ حَتَّى اسْتَولّى كل خطيئته في عُنقه بِسُقْمِ فِي بَدَنِهِ وَاخْتَارِ فِي بِنْتِهِ - خاکسار بھی چونکہ اپنے بچپن کے زمانہ سے ہمیشہ بیماری میں مبتلا رہا ہے اس لئے یہ ارشاد سُن کر بے حد خوش ہوا اور اپنی سب تکالیف مجھے راحت نظر آنے لگیں.تھوڑی دیر بعد میں نے غفران سے کہا." بھائی ، بہت کچھ تم نہ جناب اہلی کی مغفرت کا میں نے دیکھ لیا.یہاں کا معاملہ تو ایک حجر نا پیدا کنار ہے.اور میں اب تھک بھی گیا ہوں.اب تو مجھے واپس لے چل.چنانچہ ہم واپس ہوئے.مگر راستہ میں میری تکان کو دیکھ کہ اس نے مجھے باتوں میں مصروف رکھا اور بتایا گیا کہ مغفرت کی بعض وجوہ اور اسباب کیا ہیں چنانچہ مختصر عرض کرتا ہوں.ا.-1 یہ کہ کوئی شخص خواہ اس کا کتنا ہی ایمان ہو یا کتنے ہی اعلیٰ عمل ہوں ایدی جنت اور دائمی مغفرت کا دارت صرف اپنی کوشش کی وجہ سے نہیں ہو سکتا بلکہ یہ سب چیزیں جاذب فضل خدا ہیں.اس اصل چیز فضل الہی ہے اور کسی انسان کی نجاست عمل پر نہیں بلکہ فضل پر موقوف ہے..دوسرا اصل یہ ہے کہ خداوند تعالی بڑا ہی نکتہ تو از ہے.تیسرا یہ کہ وہ بالا رادہ غفور الرحیم ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے کسی کو بے حساب بخش ہے اور کسی کو ہلکا سا حساب لے کر، اور کسی سے پورا حساب مانگتا ہے.تم اس کا رحم ہمیشہ اس کے غضب پر غالب ہے.اس کی سب سزائیں بھی کسی حکمت مصلحت اور اصلاح پر مبنی ہیں نہ کہ تنگی اور غصہ پر.یہاں تک کہ جہنم بھی ایک شفا خانہ ہے اور عارضی ہے نہ کہ دائمی.
۲۵۱ تمام مخلوقات میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں جو کسی کا کوئی گناہ بخش سکے گیا ہوں کی بخشش صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہی سے مخصوص ہے..< إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلا الله اس کی درگاہ ظلم کے عیب سے بالکل پاک ہے.وہاں یا تو رحم ہے یا الصاف ہے یا مناسب مندرا نیکی کا بدلہ نیک ہے بلکہ بہت بڑھ کر ملتا ہے.بدی کی منا بڑھا کر نہیں بلکہ آسنی ہی دی جاتی ہے.اگر کوئی نیکی کی صرف نیت کرے تو اس نیت کا اجر بھی ملتا ہے لیکن بدی کی نیت کرے اور کر نہ سکے تو کوئی سمترا نہیں.اور اگر بدی کا ارادہ کر کے پھر دہی کرنے سے پہلے ہی اس سے باز آ جائے تو پھر نیکی محسوب ہوتی ہے نہ کہ بدی.- استغفار کی دعا بارگاہ اہلی میں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہے.- کوئی دوسرا شخص کسی کے لئے مغفرت کی دعا کرے تو وہ نہ صرف اسی محض کے لئے مقبول ہوتی ہے بلکہ دعا کرنے والا بھی ہمارہ کی مغفرت کا حصہ پاتا ہے اور زندوں کا بہترین ہدیہ مردوں کے لئے استغفار ہی ہے.غفور الرحیم خدا نے بے انتہا فرشتے عالمین کے ہر گوشہ اور کو نہ کو نہ میں بٹھا رکھتے ہیں اور ایک نہایت معزز اور مقرب طبقہ ملائیکہ کا اپنے ہوش کے گرد مقرر کیا ہے تاکہ وہ ہر وقت انسانوں کے لئے مغفرت کی دعا اور سفارش کرتے رہیں.خدا تعالی مغفرت کرنے سے نہیں ہچکچاتا خواہ کسی مومن کے گناہ پہاڑ جتنے ہوں یا آسمان تک ہوں اور سروز کا انتہا گناہ انسانوں کے اس غفور الرحیم کے فضل و کرم سے یو ہنی معاف ہوتے رہتے ہیں.۱۲ آخرت میں تمام انبیاء خصوصا سرتاج انبیاء حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ملکہ دیگر جملہ مقربین بھی شفاعت کا اذن پائیں گے اور لا تعداد مخلوق ان کی شفاعت سے منشی جائے گی اور نہ صرف بزرگوں اور نیکوں بلکہ قرآن مجید اور اس کی سورتوں کی سفارش
۲۵۲ اور شفاعت بھی گنہگاروں کی مغفرت کرائے گی.- ۱۳ بالآخرده غفور الرحیم یہ کہ کر اپنا ہاتھ جہنم میں ڈالے گا.کہ سب شفاعت کرنے والے اپنی اپنی شفاعت کر چکے ، اب مجھ رحمان خان، منان کی شفاعت کی باری ہے یہ کہ کہ وہ باقی ماندہ سب سزا یافتوں کو نکال لے گا جہنم اپنے سکان سے خالی ہو جائے گا.اور رحمت الہی کی نسیم اس کے دروازوں کو کھڑ کھڑائے گی.اور فرعون اور ابو جہل تک بھی ایک محدود زمانہ کے بعد سجتے جائیں گے اور اس غفور الرحیم کی مغفرت کی چادر میں لیٹے ہوئے نظر آئیں گے جہنم تھی تک مجرم کو اپنے اندر رکھے گی جب تک کہ اس کی اصلاح نہ ہو جائے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ حَتَّى إِذَا هَذَ بُوا وَاتَّقُوا یعنی جونہی الہذيب اخلاق اور پاکیزگی قلب وہاں مجرم کو حاصل ہوگئی اور وہ اس قابل ہو گیا کہ میتیوں کے ساتھ مل کر بکمال اخلاق دنیکی اپنی زندگی وہاں پر امن طور پر بسر کر سکے اسی وقت وہ جنت میں داخل کر دیا جائے گا.۱۴ ، بعض لوگ اس وسوسہ میں پڑے ہوئے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ماں باپ سے بھی زیادہ شفیق ہے تو پھر کیوں وہ ان کو دوزخ میں ڈالے گا.سو اس کی حقیقت یہ ہے کہ جہنم تو دراصل معاند مشترکین، سخت ترین مضدین اور خدا و رسول کا مقابلہ کرنے والوں کے لئے ہی ہے.ماں باپ بھی جب ان کی اولاد ممد اور سرکش ہو جائے تو ان سے بیزار اور ان کے دشمن ہو جاتے ہیں.إنَّ اللهَ لا عَبُ مِنْ عِبَادِهِ إِلَّا المَارِعَ المَرِ الَّذِي يَتَمَرَ دُ عَلَى اللهِ وَابيَ أَن يَقُول لا إله إلا الله.ایسے لوگوں کے سوا گنہ گاروں کے ساتھ جو سلوک یہاں ہو رہا ہے وہ تو نے آج خود دیکھ ہی لیا ہے.فَسُبْحَانَ اللهِ عَمَّا يَصِفُونَ (المومنون : ۹۲)
۲۵۳ اعمال صالحہ ان باتوں کے سوا جو تیری نظر سے گزریں اور ہزاروں طریقے مغفرت الہی کے اجراء کے ہیں.اور لاکھوں اعمال ایسے ہیں جن کو حضرت غفور الرحیم پسند کر کے اس شخص پر اپنی مغفرت کا نور چڑھا دیتے ہیں.کہیں نماز روزہ ، اخلاق پسندیدہ ، بزرگوں کو خوش رکھتا، والدین کی اطاعت ، خاوند کی فرمانبرداری ، یتیموں کی پرورش ، صدقہ و خیرات ، توبہ استغفار تبلیغ ، ذکر اصلی خشیتہ اللہ اور تقولی ، خدا تعالٰی پر امید رکھنا، کہائر سے بچتے رہنا.بزرگوں کا ادب کرنا دوسروں کے قصور معاف کرنا اللہ تعالیٰ سے محبت رکھنا ، احسان، بکثرت اور محبت کے ساتھ درود پڑھنا، اخلاص ، جہاد، قربانیاں، تلاوت قرآن مجید وغیرہ.و غرض تمام اچھے طریقے بلکہ اور جملہ نیک اعمال مومنوں کے لئے مغفرت کو جذب کرتے ہیں اور بعض دفعہ اس درگاہ کی نکتہ نوازی ہی انسان کی بخشش کا موجب ہو جاتی ہے.تیرا پھر کبھی ادھر آنا ہو گا تو باقی مضمون تجھے سناؤں گا." فران کی باتیں ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں کہ وہی بڑا دروازہ جس سے ہم میدان محشر میں داخل ہوئے تھے نظر آنے لگا.اسے دیکھتے ہی جو ر بودگی مغفرت الہی کے نشہ کی مجھ پر مسئولی تھی وہ جاتی رہی اور میں بیدار ہو گیا.کیا دیکھتا ہوں کہ گھر میں اپنے پلنگ پر کاغذ قلم لئے یہی مضمون لکھ رہا ہوں.مگر میں نے اپنے پورے ہوش میں صرف یہ آخری فقرہ لکھا کہ اخر وعوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِينَ
۲۵۴ اللہ تعالیٰ کا ایک نام الصبور بھی ہے ایک دن ایک دوست سے کہہ رہا تھا کہ " انسان کی فطرت ایسی ہے کہ اگر کوئی سائل یا حاجت مند بار بار اس کے پاس آتا ہے تو وہ بیزار ہو جاتا ہے.حتی کہ تنگ ہو کہ یہاں تک کہ دیتا ہے کہ بھائی تو نے تو میرا ناک میں دم کر دیا اور مانگنے چلے آئے ؟ ایسے فقرے تو وہ چندمی روز کے بعد کہنے لگتا ہے.لیکن اگر خدانخواستہ وہ سائل کچھ دن برابر آثار ہے.اور اس بات کی کچھ پروانہ کئے.تو پھر بعض اوقات سخت کلامی اور لڑنے تک کی نوبت بھی آجاتی ہے.اور یہ تو ممکن ہی نہیں کہ ساری عمر کوئی سائل کسی کے پیچھے پڑا رہے اور دو تحمل سے اس کی بات سنتا ہے اور آنکھ میلی نہ کرم ہے.خواہ وہ امیر ہو یا بادشاہ اور خواہ سوال چھوٹا ہو یا بڑا.لیکن خدا تعالٰی کی یہ ایک عجیب صفت ہے کہ ساری عمرون رات اس سے مانگے جاؤ مگر وہ مانگنے سے ناراض نہیں ہوتا.ایک فقیر نہیں لاکھوں کروڑوں فقیر دن رات کے ہر وقت اور ہر لحظہ میں اس کے مجھے پڑے رہتے ہیں.مگر اکس کی آنکھ پر میں نہیں آتا.نہ وہ اکھاتا ہے نہ تنگ ہوتا ہے نہ بیزار.غرض یہ خدا تعالیٰ کی ایک عجیب صفت ہے.اور مجھے اب تک اس صفت کا نام اسمائے الہی میں معلوم نہیں ہوا.ادھر میرے منہ سے یہ فقرہ نکلا.اور ادھر معادل میں یہ پڑا کہ ہمارا دو نام میں کا تو ذکر کر رہا ہے.الصبور ہے یعنی سائلوں سے تنگ نہ آنے والا اور نہ اُن سے اکتانے والا.بلکہ ہر پیچھے پڑنے والے کی بارہ یار کی پکار کو سہنے والا عالی حوصلہ خداوند.کوئی دوسرا "
۲۵۵ ہو تو اتنے اور یار یار کے مانگنے اور پیچھے پڑنے والوں سے تنگ ہو کر اُن کو دھکے دے کر اپنے دروازہ سے باہر نکال دے.مگر یہ اُسی کا حوصلہ اور میر ہے کہ نہ آزردہ ہوتا ہے نه برا کہتا ہے.نہ جھڑکتا ہے.نہ اُن کو کسی قسم کی تکلیف پہنچاتا ہے.اور سوال کرتے ہیں بندہ جو بے احتیاطیاں اور زیا دتیاں کرتا ہے اُسے برداشت کرتا چلا جاتا ہے اور ان پر صبر کرتا ہے.بلکہ جتنا کوئی مانگے اتنا ہی اس سے خوش ہوتا ہے.پس یہ بھی صبور کے ایک معنے ہیں.اور اللہ تعالیٰ کے سوا کون ہے جو یہ نمونہ میر اور عالی مومندگی کا دکھا سکے.سبحان اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيم و الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۴۸ء
۲۵۶ - اسماء الہیہ اور ان کے صیح معنے الله در تمام صفات کا ملہ سے موصوف اور ہر قسم کے نقص سے منزہ رحمن :- بہت مہربان - بلا مبادلہ فصل کرنے والا.رحیم - نہایت رحم والا.نیک اعمال پر عمرات حسنہ مرتب کرنے والا ملائی : بادشاه پورا مالک قدوس در پاک ذات تمام یسوں سے بری سلام سلامتی والا.تمام نقصانات سے محفوظ مُؤْمِنُ : امن دینے والا ، تمام نقائص سے الگ بسلامتی کا سر چشمہ مهيمن، پناہ دینے والا.گواہ.اعمال کا محافظ اور واقف عَزيز غالب - بے نظیر - متصرف معزز کرنے والے.قومی.قاہر جبار در زیر دست بسنوار نے والا.بگڑے کاموں کی اصلاح کرنے والا.ٹوٹے کی مرمت کرنے والا ، بڑے دباؤ والا.متكبر بڑائی والا.کمال عظمت کا مالک اور ستحق بزرگی والا.خَالِق.بنانے والا.اندازہ کرنے والا.ہر چیز کا خلق کرنے والا باری - پیدا کرنے والا.ہر چیز کا عمدہ خلاصہ الگ کرنے والا موحید مُصَورُ صورت بنانے والا.طرح طرح کی شکلیں بنانے والا.عقار بخشنے والا.معاف کرنے والا.ڈھانکنے والا.
۲۵۷ قَهَارُ - دباؤ والا.حکمران - زیر دست غلبہ رکھنے والا.غالب وَهَّابُ.بہت دینے والا.لیے حد عطا کرنے والا.رزاق رزق دینے والا.روزی پہنچانے والا.فتاح کھولنے والا مشکل کشا علم - جاننے والا بہت علم والا.تَابِض.تنگ کرنے والا.لوگوں کے صدقات لینے والا.بندوں کی روزی محدود کرنے والا.یا سط - کشادہ کرنے والا.صدقات کو بڑھانے والا.روزی کو فراخ کرنے والا رافع بلند کرنے والا.درجات او نیچے کرنے والا.بعد مرون رفع کرنے والا.فرمانبرداروں کو بلند کرنے والا.خافض - پست کرنے والا.مرنے کے بعد گنہگاروں کا رفع نہ کرنے والا.نافرمانوں کو ذلیل کرنے والا.معز - عزت دینے والا.مدل - ذلیل کرنے والا.سمع.سُننے والا.بہت سننے والا سب کی سننے والا.دعا قبول کرنے والا بصیر.دیکھنے والا.بنیا.بہت دیکھنے والا.حکم فیصلہ کرنے والا.حاکم.صحیح فیصلہ کرنے والا.عَدَلَ - انصاف کرنے والا.فیصلہ میں ظلم نہ کرنے والا منصف لطیف بھید جاننے والا.ترمی اور مہربانی کرنے والا.باریک بین.خَبر خبردار - واقف - آگاه - داتا حليم تحمل والا بردبار
عظیم - عظمت والا.بزرگ بڑا.غَفُورُ - بخشنے والا.بہت بخشنے والا.شکور نهایت قدردان على - بلندی والا.بہت علو والا.بہت اونچا.بڑی عظمت والا کو.بڑائی والا.بزرگ تو.تمام بزرگیوں کا مستحق حفیظ - حفاظت کرنے والا - نگیان المُقِيْتُ مخلوقات کو روزی پہنچانے والا نگران حسین - کفایت کرنے والا.کافی حساب لینے والا.جَليل - بزرگی والا ، قهری نشانوں والا - بزرگ قدر - گریم - عزت والا بزرگ - رقيب - نگیان نگران مُجيب - قبول کرنے والا.دعا قبول کرنے والا جواب دینے والا.وَاسِحُ واسع کشانش والا - وسیع المعلومات وسيع الفناء حکم حکمت والا.حقائق اشیاء کا پورا علم رکھنے والا مجيد - بڑی شان والا.عظمت و بڑائی والا.بزرگ - وَدُودُ - محبت کرتے حالا.نیک بندوں کو دوست رکھنے والا.باعث.اُٹھانے والا.مردوں کو پھر زندہ کرنے والا.سوتوں کو جگانے والا.زندگی کی روح پھونکنے والا.شهيد - حاضر - نگهبان - گواه - بادشاه - نگران حق سچا مالک.سچائی و صداقت کا سرچشمہ اپنی مستی میں ثابت شدہ وہ وجود جس میں کوئی فنا اور تغیر ثابت نہیں.
۲۵۹ وکیل - کام بنانے والا.کارساز حسین کے سپرد اپنا گل کام کر دیں.اور تمام تصرف اس کے ہاتھ میں ہو.توي - زور آور - توانا متين - قوت والا - استوار ولي - حمایت کرنے والا محب- مددگار سر پرست ، قریب.حميد - خوبیوں والا.ہر قسم کی حمد کا سزاوار مُخصی - گنتی والا.ہر چیز کو احاطہ علم میں لانے والی.مُندِی.پہلی بار پیدا کرنے والا.ابتداء پیدا کرنے والا.مجید دوسری بار پیدا کرنے والا.دوبارہ پیدا کرنے والا.مُخي- جلانے والا.زندگی عطا کرنے والا.منت - مارنے والا.- حی زنده خود زندہ اور دوسروں کی زندگی کا باعث.قوم سب کا تھامنے والا.خود قائم اور دوسروں کے قیام کا ذریعہ کارخانہ عالم کا سنبھالنے والا.واحد - پانے والا.غنی.مقصد میں کامیاب ہونے والا ماجد - عزت والا - بزرگی والا.وَاحِدٌ - اکیلا - تنہا.یگانہ - یکتا.ایک بے ہنمنا.حمد بے احتیاج بے نیاز.تمام مخلوقات کا مرجع.قادِرُ - قدرت والا.مُقْتَدِرُ - مقدور والا - صاحب مقدرت مُقَدِّمُ : آگے کرنے والا.دوستوں کو بارگاہ عزت میں بڑھانے والا.
٢٩٠ مُؤَخِّرُ پیچھے کرنے والا.دشمنوں کو پیچھے ڈالنے والا أول.سب سے پہلے.سب سے پہلا الاخر سب سے پیچھے.سب سے پچھلا ظَاهِرُ.ظاہر سب پر غالب ، آشکار (بلحاظ صفات).باطن - چھپا ہوا.سب سے چھپا ہوا اور مخفی ( ملحاظ ذات) والی.مالک.تمام امور کا متولی.متعالی.پاک صفات والا.مخلوقات کی صفات سے منزہ بر احسان کرنے والا مہربانی سے نیکی کرنے والا.النواب - رجوع ہونے والا تو بہ قبول کرنے والا.رجوع پر حمت ہونے والا.مُنتَقِمُ.بدلہ لینے والا.تا فرمانوں سے بدلہ لینے والا.عَفُو - معاف کرنے والا.گناہوں سے در گزر کرنے والا.گناہوں کو مٹانے والا.روف - نرمی کرنے والا.بہت شفقت کرنے والا.ملك الملك.مُلک کا مالک ذُو الْجَلَالِ وَالإِكرام - صاحب عزت اور خشبش کار بزرگی اور عزت والا.مقسط انصاف کرنے والا.عادل و منصف جامع اکٹھا کرنے والا ، تمام مخلوقات کو جمع کرنے والا تمام کمالات کا جامع.عنی بے پروا.ہر قسم کی ضرورتوں کا متکفل اور خود بے پروا.معنی ہے پیدا کرنے والا.لوگوں کو مالدار اور لیے پر وا کرنے والا.مالح - روکنے والا.جیسے چاہے نہ دینے والا الصّارُ - نقصان پہنچانے والا.خیر و شر کا خالق - اعمال بد کے برے نتائج دینے والا.
نافع نفع پہنچانے والا نیک اعمال کا نیک بدلہ دینے والا.نور روشن کرنے والا.روشنی کا منبع ، ہمہ تور هَادِي - ہدایت کرنے والا.کامیاب کرنے والا.بَدِ لع.نئی طرح پیدا کرنے والا.موجد - - بانی باقی رہنے والا.وہ جو کبھی خانہیں ہو گا وارث - سب کا وارث - فناء موجودات کے بعد باقی رہنے والا.رسید - نیک راہ بتانے والا صفات کمال والا.صَبور - صبر کرنے والا.بڑا صبر کرنے والا.غافر.گناہوں کو بخشنے والا.قابل التوب - توبہ قبول کرنے والا.شدید العقاب.بُرے کاموں کی سخت سزا دینے والا.ذوالطول - مقدور والا - صاحب خیر کثیر ذو العرش - صاحب عرش ذو المعارج.ہر ایک بلندی کا مالک ذو الرحمت.رحمت کا مالک.ذر مغفرت.مغفرت کا مالک.خلاق.بڑا اندازہ کرنے والا.فاطر اول اول پیدا کرنے والا اكرم معزز نصیر - مددگار شاکر - قدر دانی کرنے والا.(ماہنامہ خالد ستمبر اکتوبر ۱۹۵۷ء)
مه پنج ارکان اسلام اکثر لوگ یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ نماز، روزہ، حج ، زکواۃ وغیرہ اعمال صالحہ ہی ہمارا مقصود ہیں جس نے ایسے اعمال کر لئے ہیں وہ اپنے مطلب کو پہنچ گیا.اور غالباً یہ بھی سمجھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کو ہماری ان عبادات کی ضرورت ہے.یہی وجہ ہے کہ اکثر ایسے لوگ اپنے اعمال پر بہت فخر کرتے ہیں اور ان کو ہی مدار نجات یقین کرتے ہیں.حالانکہ یہ اعمال خود مقصود بالذات نہیں ہیں بلکہ ذریعہ ہیں بڑی چیزوں کے حصول کا.جو نجات و فلاح کا اصل باعث ہیں مثال کے طور پر روزہ کو ہی لے لو.اللہ تعالٰی نے کہیں یہ نہیں فرمایا کہ روزہ تمھارا مقصود ہے بلکہ یہ کہا ہے کہ تقویٰ تمھارا مقصود ہے اور روزہ کا حکم صرف اس لئے ہے کہ تم کو تقولے حاصل ہو جائے.پس ثابت ہوا کہ تقوی اصل چیز ہے اور روزہ اس کے حاصل کرنے کا ایک ذریعہ مگر عام طور پر لوگ ذرائع اور اسباب کو چھٹے رہتے ہیں.اصل چیز کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتے.اور یہی وجہ ہے کہ ترقی اور فوائد سے محروم رہتے ہیں.روزہ رکھ لیا اور تسکتی پائی کہ مقصود حاصل ہو گیا.حالانکہ اگر اس روزہ سے تقولی میں ترقی کرتے جب ان کو خوش ہونا چاہیئے تھا.آگے چل کر میں اس مضمون میں بیان کروں گا کہ نماز، روزہ حج زکوۃ کن باتوں کے لئے کئے جاتے ہیں اور ہمیں ہمیشہ ان اصلی اور ضروری باتوں پہ اپنی توجہ رکھنی چاہیئے.اگر دہ حاصل ہو رہی ہوں تو سمجھنا چاہیئے کہ ہماری یہ عبادات صحیح لائن پر چل رہی ہیں ورنہ نہیں.اور یہ کہ ارکان اسلام صرف ذرائع ہیں بعض اور چیزوں کے حاصل کرنے کے جن پر نجات و فلاح منحصر ہے.اور وہ چیزیں اصل ہیں.اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے کہ دور
۲۶۳ لَنْ تَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاتُهَا وَالكِن يَنَالُهُ التَّقْوَى مِنكُمْ (الى ٣٦) یعنی خدا تعالیٰ کو قربانی کا گوشت اور خون نہیں پہنچتا.بلکہ جو چیزا سے پہنچتی ہے وہ پاک دلی ہے.جو قربانی سے پیدا ہوتی ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ کو نمازیں روزہ ، حج ، زکواۃ نہیں پہنچتے.کیونکہ یہ جسمانی اعمال ہیں.اسے تو ان اعمال کی وجہ سے جو دلی پاکیزگی اور محبت الہی پیدا ہوتی ہے وہ پہنچتی ہے.اور اس کے دربار میں صرف انہی کی قدر ہے.نہ کہ جسم کو فاقہ سے رکھنے یا نماز کی اٹھک بیٹھک کی.کیونکہ یہ اعمال صرف وسائل اور ذرائع ہیں تعلق باللہ پیدا کرنے کے لئے اور لیس دوسری بات یہ یاد رکھنی چاہیے کہ یہ سب عبادات اور اعمال ہمارے اور صرف ہمارے اپنے فائدہ کے لئے ہیں.اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی ضرورت نہیں.اس لئے ہم کو یہ نہیں کہنا چاہیئے که اگر ہم روزہ نہ رکھیں گے.یا زکواۃ نہ دیں گے تو خدا کا اس میں کوئی نقصان ہے یادہ غصے ہو جائے گا.بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اگر ہم یہ اعمال نہ کریں گے تو ہم خود بڑے بڑے فوائد سے محروم رہ جائیں گے اور یہ ارکان کیا میکہ تمام اعمال خواہ بڑے ہوں یا خواہ چھوٹے اور تمام کے تمام عقائد خواہ اہم ہوں یا معمولی سب بلا استثناء ہمارے اپنے نفع کے لئے ہیں.نہ خدا تعالیٰ اپنی تعظیم کا محتاج ہے.نہ ہماری عبادتوں کا.اس نے تو صاف صاف فرما دیا ہے کہ خواہ تم میری عبادت اور شکر میں مصروف رہو.خواہ میرا کفر کرتے رہو.دونوں صورتوں میں مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑتا.ہاں پہلی بات میں تمھارا اپنا فائدہ ہے اور دوسری میں تمہارا اپنا نقصان میری ذات ان سب باتوں سے بالا تر ہے.میں تو تمہیں نفع پہنچانا چاہتا ہوں.اور اس نفع کی خاطر کچھ قواعد اور ضوابط تمہارے لئے مقرر فرما دیئے ہیں.اگر ان پر عمل کرو گے تو فائدہ اٹھا لو گے ورنہ نہیں.میرا کچھ نقصان نہ ہو گا.نہ میری کوئی شان تمہاری عبادتوں سے بڑھے گی.نہ میری مرمت ہمارے انکار اور کفر سے گھٹے گی.وَمَنْ جَاهَدَ فَإِنَّمَا يُجَاهِدُ لِنَفْسِهِ إِنَّ اللَّهَ لَغَنِيُّ عَنِ
الْعالَمينَ ) عنکبوت (6) جو شخص بھی کوشش کرتا ہے وہ اپنے نفس کے لئے کرتا ہے.خدا تعالی تو تمام جہانوں سے منی اور بے پروا ہے.ومن ينكر فإنَّمَا يَتْ كُرُ لِنَفْسِهِ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ حميد (لقمان: ۱۳) جو میرا شکر کہتا ہے وہ اپنے نفس کو ہی فائدہ پہنچانے کے لئے کرتا ہے اور جو میرا کفر کرتا ہے.تو میں ان سے بے پروا اور ستائش کے قابل ہوں.اس مضمون کی ایک نہیں بلکہ بہت سی آیات قرآن مجید میں موجود ہیں اور سب کا مطلب یہی ہے کہ حملہ عبادات اور ساری نیکیاں اور تمام کوششیں بندہ کے اپنے فائدہ کے لئے ہی ہیں.خدا کا قطعاً کوئی فائدہ ان میں نہیں ہے.اور اس کے بر خلاف عقیدہ رکھنا ایک بڑا دھوکا ہے جو عام لوگوں کو لگا ہوا ہے.دوسرا دھوکا یہ ہے کہ لوگ ان اعمال کو ہی اصل چیز سمجھ بیٹھے ہیں.اور جن باتوں کے حصول کے لئے یہ اعمال بطور ذرائع کے تھے.ان کا خیال بھی نہیں کرتے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ریح اعمال ضائع ہوگئی اور صرف چھلکا ہی اصل چیز سمجھ لیا گیا.اس لئے میں مختصر یہاں بیان کرتا ہوں کہ نماز کس چیز کے حاصل ہونے کا ذریعہ ہے اور راندہ کسی چیز کے حاصل کرنے کے لئے رکھا جاتا ہے اور حج ادا کر نا کس مطلب کے لئے ہے اور زکوۃ دینے سے ہم کو کس نفع کی امید رکھنی چاہیے.اگر ان اعمال سے دو چیزیں اور وہ فائدے ہم کو حاصل ہو رہے ہوں.تب تو ہمارے ذرائع سمیع ہیں.ورنہ ان میں غلطی ہے.اور اس غلطی کی اصلاح کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہیے.اور جب تک وہ اصل مقصد حاصل نہ ہو.ان اعمال کو ناقص اور یکتا سمجھتے رہنا چاہیئے.مثلاً اگر ہم میں فٹ اونچے کوٹھے پر چڑھنا چاہتے ہوں.اور 10 فٹ لمبی سیڑھی لگا کہ اس پر چڑھنے لگیں تو کبھی کامیاب نہ ہوں گے.اصل مقصد ہمارا کوٹھے پر چڑھنا ہے نہ کہ صرف ایک سیڑھی دیوار سے لگا دیا.پس اصل مقصودان عبادات کا جو کلام الہی نے بیان فرمایا ہے.اسے ہمیشہ ذہن میں مستحضر رکھیں اور ان اعمال کو اصل
۲۶۵ مقصد کا ایک ذریعہ سمجھو.تب تو فائدہ ہوگا ورنہ نہیں اور اعراض حسب ذیل ہیں.نماز نماز اس لئے پڑھی جاتی ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے ا ہم گناہوں سے پاک ہو جائیں.اقمِ الصَّلوةَ طَرَفَى النَّهَارِدَ زُلَفًا مِنَ اليْلِ إِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ (هود : ۱۵) یعنی نماز کی وجہ سے انسان کی اخلاقی بدیاں دور ہو جاتی ہیں اور اسے تزکیہ نفس حاصل ہوتا ہے یا یوں کہو کہ نماز تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے.-۲- اَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكرى (طا (۱۵) یعنی نماز سے وہی فائدے حاصل ہوتے ہیں.جو ذکر الہی سے ہوتے ہیں.مثلاً اللہ تعالیٰ کی محبت قبولیت دعا بخشیت الہی وغیرہ.پس یہ اصل مقصود ہیں.اور نماز ان کے حصول کا ذریعہ ہے.اگر یہ چیزیں نماز کے نتیجہ میں حاصل ہو رہی ہیں تو نماز ٹھیک ہے.ورنہ اس میں نقص ہے.إِنَّ الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا (نساء:۱۰۴) یعنی نماز کی وجہ سے انسان کی زندگی باقاعدہ ہو جاتی ہے اور وہ بھی نماز کے ذریعہ سے عبد اللہ ہو جاتا ہے.-٢ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالمُنكَر ( مكبوت ۴۷۰) نماز روکتی ہے بے حیائیوں اور نا معقول باتوں ہے.پس نمازی دیکھ لے کہ نماز کو تو اللہ تعالیٰ نے میرے نفس کے لئے فحشا و منکر سے بچنے کا ایک ذریعہ بنا یا ہے.اگر نفس ان باتوں سے وقتی پہنے لگا ہے تو نمازہ ٹھیک ہے ورنہ اصلاح کی محتاج ہے.الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمُ خَشِعُونَ (المومنون :۳) نماز سے خشوع قلب اور رقت دل کا حاصل کرنا مقصود ہے.
444.4.٢ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَوَةِ وَإِنَّهَا تَكَبَيْرَةُ إِلَّا عَلَى الخَشِعِينَ (بقرہ : ۴۶) ترجمہ: اور صبر اور دعا کے ذریعہ سے (اللہ سے مدد مانگو اور بیشک فروشنی اختیار کرنے والوں کے سوار دوسروں کے لئے ) یہ رام مشکل ہے.یعنی نماز قبولیت دعا کا ذریعہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی عبادتوں کے بارہ میں افلاا کون عبدا شکورا (الحدیث) کہہ کہ بتا دیا کہ نماز ذریعہ ہے اللہ تعالی کے شکر کے اظہار کا.مختصراً یہ وہ باتیں ہیں.جن کے لئے نماز پر مداومت اختیار کی جاتی ہے اور نماز ان کے حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے.اگر یہ باتیں حاصل ہو رہی ہیں.تو نماز بھی ٹھیک ہے.ورنہ قابل توجه و اصلاح.یاد رہے کہ دنیا ہیں یہ سب اعمال یعنی روزه ، نماز ، حج ، زکواۃ وغیرہ موت تک جاری رہتے ہیں.مگر جنت میں نہ روزہ رہے گا.نہ حج نہ زکواۃ.مگہ نماز کا عمل وہاں بھی رہے گا.کیونکہ نماز تور اصل ایک کا ہے.اور دعا اس وقت تک جب تک بندہ بندہ ہے.اور خدا اس کا رب ہے.ہمیشہ قائم رہے گی.کیونکہ دعا نہ ہو تو بندہ اور خدا کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے.اس لئے یہ عمل ایدی ہے.باقی سب اعمال صرف موت تک ہیں.روزه -1 روزہ ذریعہ ہے.تقویٰ کا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ من قبلكم لعلكم تمونَ (بقره : ۱۸۴) ترجمہ : تم پر (بھی) دونوں کا رکھنا (اسی طرح) قرض کیا گیا ہے جس طرح اُن لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تاکہ تم (روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے بچو.
پس تقولی اصل چیز ہے.نہ کہ روزہ روزہ تو تقوی کے حاصل کرنے کا ایک طریقہ ہے.-۲- روزہ ذریعہ ہے قرب الی کا - وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِى فَإِنِّي قَرِيب (البقره ) ترجمہ : اور اسے رسول () جب میرے بندے تجھ سے میر سے متعلق پوچھیں تو ر تو جواب دے کہ) میں (ان کے) پاس (ہی) ہوں..روزہ حرام خوری سے بچاتا ہے.روزہ بدکاری سے بچاتا ہے.روزہ قبولیت دعا کا سبب ہے.4 - روزہ میر پیدا کرنے کا ذریعہ ہے..۰۳ روزہ ہم دوئی مخلوق پیدا کرنے کا زریعہ ہیں روزہ کے یہ سب فوائد قرآن مجید میں مذکور ہیں.زكوة زکواۃ اس لئے فرض کی گئی ہے کہ وہ ذریعہ ہے تزکیہ نفس کا..وہ مال کو پاک کرتی ہے..اس سے بخل اور مال کی محبت دور ہوتی ہے.- شفقت على خلق اللہ پیدا ہوتی ہے.ه.حکومت اسلامی کا نظام اس سے چلتا ہے.بڑی بڑی قربانیوں کے لئے انسان کی روح تیار ہوتی ہے.شرک دُور ہوتا ہے.- قناعت پیدا ہوتی ہے.یہ سب باتیں قرآن مجید میں مذکور ہیں.مگر طوالت کے خوف سے ان آیات کا نقل کرنا غیر ضروری ہے.
حج - حج کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی محبت ہوش مارتی ہے.دنیا اور اس کی زینت سے بیزاری حاصل ہوتی ہے.گناہ کے میل اور گندگی سے انسان پاک صاف ہو جاتا ہے.- ناسوا اللہ کے سب بت ٹوٹ جاتے ہیں.جھوٹ سے نجات حاصل ہو جاتی ہے.تقومی ترقی کرتا ہے اولاد اور جان کی قربانی کے لئے انسان آمادہ ہو جاتا ہے.یہ سب باتیں سورہ حج میں مذکور ہیں اور یہ اصل مقاصد ہیں.جین کے حصول کے لئے حج کیا جاتا ہے.اعلان کلمه توحید پانچواں رکن اسلام کا توحید کی شہادت یا کلمہ توحید کا اعلان ہے.اس اعلان کلمہ توحید کے ذریعہ حسب ذیل قائد سے حاصل ہوتے ہیں.خدا اپنے اندر استقامت پیدا ہوتی ہے.اعلان کے بعد انسان کو اپنے دعوئی پر مضبوط ہونا پڑتا ہے.اور اپنی عملی زندگی اس کے مطابق بنانی پڑتی ہے.نیز چونکہ مخالفوں کے قائل کرنے کے لئے توحید کے دلائل سوچتے پڑتے ہیں.اس لئے نتیجا اس کا اپنا ایمان اور یقین بھی توحید پر بڑھتا ہے.یہ اعلان تبلیغ کا بھی ایک نہایت موثر ذریعہ ہے.ایسا اعلان نفاق کو دُور کرتا ہے.اور شجاعت ایمانی پیدا کرتا ہے.کلمہ شہادت مشرک کی جڑ کاٹنے کے لئے ایک کلہاڑا ہے.یہ اعلان انسان کے محبت الہی کے دلی جذبات کو باہر لے آتا ہے.پس پنچ ارکان اسلام جو جسمانی مجاہدات ہیں.روح کے کمالات حاصل کرنے کا ذریعہ
٢٩٩ : ہیں اور یہ کمالات اصل مقصد ہیں.لیکن اگر کوئی کہے کہ میں بغیر ان ارکان کے تقوی اور خشیت اور محبت الہی وغیرہ کسی اور طریقہ یا ترکیب سے حاصل کر نوں گا تو یہ غلط ہے.صرف یہی ارکان شریعت اہلی نے نفس کی صفائی.تہذیب اخلاق اور رومانیت کے لئے مقرر فرمائے ہیں.اس لئے ہو شخص ان کے ذریعہ کے سوا کسی اور طریقہ سے عمدہ نتیجہ حاصل کرنا چاہتا ہے.وہ غلط کہتا ہے.اور جو صرف اپنی کو اپنا مدعا اور مقصود سمجھتا ہے اور اصل مقصود سے بے خبر ہے وہ بھی فریب خوردہ ہے.(روزنامه الفضل ، ستمبر ۱۹۴۴ء)
میرا بنده المفضل مورخہ 4 جنوری ۱۹۲ء میں خاکسار نے ایک مضمون بعنوان، میرا خدا ہ لکھا تھا جس میں بتایا تھا کہ اسلام نے جو خدا پیش کیا ہے.وہ کیسا ہے.موجودہ مضمون گویا پہلے مضمون کا جواب ہے.بعینی اسلام نے اس خدا کے مقابل پر جو بندہ پیش کیا ہے وہ کیسا ہونا چاہیے ) میرا بندہ تو وہی کہلا سکتا ہے جو میرا پسندیدہ ہو.وہ مجھے چاہے اور میں اُسے چاہوں مجھے تو وہی بندہ پسند ہے.جو صاحب قلب سلیم ہو.میرا مومن ہو.میرا فرمانبردار ہو.میر القولے خشیت اور عشق اپنے دل میں رکھتا ہو.آخرت پر اور سب رسولوں پر یقین رکھنے والا ہو مخلص.نڈر عقلمند - صاحب علم نیک کردار - انصاف پسنده راستباز - دور اندیش - صابریت کرہ فرمانبردار متواضع - دنیا سے بے رنت.متوکل - موحد وسیع الطرف صادق الوعد - میری رضا کا طالب.میرے دین کا خدمت گزار - پاک ظاہر - صاف باطن امن پسند درد خلائق.رحیم کریم.میرے محبوبوں پر درود بھیجنے والا.نمازوں کا محافظ لغو سے اعراض کرنیوالا اپنے فوج کی حفاظت کرنیوالا میرے ذکر میں شامل تواب جہنم سے خالف جنت کا شائق چھوٹوں پر شفقت کرنے والا.بیٹوں کا ادب کرنے والا.صاحب تمیز و تہذیب سیخی معمور الاوقات مجاہد راستبازہ سادہ مزاج - عاہد حامد امین.اٹھتے بیٹھتے میرا دھیان رکھنے والا.عالم بالمل.حسن معاشرت پر عامل - خداداد - رزق میں سے مخلوق پر خرچ کرنے والا.میانہ رو پچھلی رات کو عبادت کرنے والا.بہت دُعا مانگنے والا.مجاہد.روزے رکھنے والا.میری رخصتوں اور سہولتوں پر دل کی خوشی سے عمل کرنے والا خوف دغم سے آزاد.بداخلاقیوں سے میرا بے تکلفت سہنس مکھ
۲۷۱ خوش مزاج - حلال روزی کمانے والا میرے احسانات کو یاد رکھنے والا اور ان کو بار بار گھنے والا.دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا یہ درگز را در چشم پوشی کرنے والا.نفاق سے دور بھاگنے والا - منبع آنحضرت صلی اللہ علیہ و ابر دلم - اولوا امر کا مطیع راضی بقضاء صاحب وقار جعلیم.مستقل مزاج.دل کا غنی ہمیشہ ترقی کا خواہش مند.روشنی بخش.اور مخلوق کی ہدایت ہیں کوشاں رقیق القلب - ظاہری شکل وصورت شرع کے مطابق رکھنے والا، قرآن مجید بہت شھنے والا اور اسلامی شریعیت کا حامل اور مبلغ.اور میرے نیک بندوں سے انس رکھنے والا ہوں.میرا پیارا بندہ ظالم نہیں ہوتا.مشرک نہیں ہوتا.کافر نہیں ہوتا.چور چغل خور - مفسد.خائن نہیں ہوتا.بخیل.بد مزاج.متکیر جلد باز.بد زبان - بد کارسست الوجود.لاچار خیس اور بد اخلاق نہیں ہوتا.وہ گناہوں سے نفرت رکھتا ہے اور شیطان سے عداوت میرا بندہ کہلانے کے لئے ضروری ہے کہ انسان مجھے اور صرف مجھے اپنا خالق اپنا مالک اور اپنا رب اور اپنا محسن سمجھے کسی کو میرا شریک نہ بنائے.صرف میری ہی عبادت کرے.صرف مجھ سے ہی دُعا مانگے.اور صرف مجھ ہی کو اپنا محبوب سمجھے.میرا بندہ میری تمام مخلوقات کا سرتاج اور میری تمام صفات کا منظر اور میری تمام قدرتوں کا خاص الخاص تم نہ ہونا چاہئے کیونکہ میں نے اسے اسن تقویم میں پیدا کیا تعلق اور کان میں جملہ مخلوقات میں اسے برگزیدہ بنایا.اور تمام اہل جہان پر اسے فضیلت اور عزر یخشی.اس لئے میں بھی توقع رکھتا ہوں کہ وہ مجھے پہچانے اور میرے صفات اور اخلاق کو اختیار کرے.میرے احکام پر عمل کرے.اور میری محبت میں سرشار رہے.اور اپنی تمام طاقتوں کے ساتھ میرا مطیع ہو جائے.پھر جب میرا بندہ ایسا ہو جاتا ہے تو میں بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہوں.اس سے کلام کرتا ہوں.اس کا خیال رکھتا ہوں.اس کی مد کر تا ہوں اس کے دشمنوں کو ذلیل کرتا ہوں.اس کی تعریف اپنے فرشتوں کے سامنے کرتا ہوں.اس کو علم و معرفت بخشا ہوں.اس کو بشارتیں دیتا ہوں.اس کی خواہشیں اور ضرورت میں پوری کرتا ہوں.اس کی دعائیں قبول کرتا ہوں
اس کی دُعائیں قبول کرتا ہوں.اس کا دوست بن جاتا ہوں.اسے ہر قسم کے خوف دھرن سے آزاد کر دیتا ہوں.اسے اطمینان قلب بخشتا ہوں.اس کی تائید و نصرت فرماتا ہوں اور مرنے کے بعد سے اپنی جنت میں داخل کر کے ابدی خوشحالی اور دائمی نعتوں سے مالا مال کر دیتا ہوں.(روز نامه الفضل (۱۹ نومبر ۱۹۴۴ء)
" دیباچه را و سلوک جو ماتنا خدا کو نہ ہو اس کو اے عزیز عقلی دیلین استی و باری کی دے سُنا اتنا وہ مان لے گا دلائل سے بالصور عالم کے کارخانہ کا اک چاہتے خُدا ال قدم یہ ہے کہ ہو ایمان بھی نصیب اس کے لیے کلام خدا کی مد بلا قرآن کی روشنی میں نظر آئے گا اسے موجود ہے وہ ذات جو ہے سب کے مبتدا مخلوق بن گئی ہے وہ کہتا ہے خود بخود بے شل جو کلام ہے وہ کیونکر خود بنا ؟ انسان غیب دانی سے عاری ہے گر تو پھر صدیوں کے غیب کا اُسے کیو کر پتہ لگا ؟ تازہ نشان حضرت مہدی کے پیش کر مومن کو معرفت کی ذرا چاشنی چکھا سارا جہاں ہو جس کا مخالف وہ کس طرح غالب ہر ایک جنگ میں ہوتا ہے برملا اب آگے ہے یقین کا درجہ مرے عزیز ذاتی مشاہدہ سے خدا کا ملے پتا یعنی کہ یہ اس سے کہ اب آگیا ہے وقت گر اصل چاہتے ہو تو خود کو کرد فنا "جو خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا اسے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما نجار دل ۱۳۱۰)
پرسوں کی بات ہے کہ میں نے خواب میں.ناقل دیکھا کریں بٹھا ہوا ہوں اور ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب جو میرے ماموں ہیں وہ آئے ہیں.میں نے ایک لمبے تجربے کے بعد یہ بات معلوم کی ہے کہ اسماء کے ساتھ رویا اور کشوف کا خاص تعلق ہوتا ہے اور مجھے جو خداتعالی سے قبولیت کا تعلق ہے اس کے متعلق میں نے دیکھا کہ ۹۸ فیصدی انہیں کو دیکھتا ہوں.ان کا نام ہے اسمعیل میں کے معنی ہیں خدا نے سُن لی.جب میں کوئی دعا کرتا ہوں تو یہی مجھے دکھائے جاتے ہیں.ہاں کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا کسی ملک کے ذریعے بتا دیتا ہے اور کبھی خود جلوہ نمائی کرتا ہے.“ تقریر حضرت مصلح موعود اصلاح نفس جلسہ سالانه ۲۷ دسمبر ۶۱۹۲۰ انوار العلوم جلد ۵ ص ۴۰)
۲۷۵ $323-13=2G E باب چهارم قرآن مجید
قرآن سب سے اچھا قرآن سب سے پیارا قرآن دل کی قوت قرآن ہے اللہ میاں کا خط ہے می نام جلدی مجھے سیارا استانی جی پڑھاؤ پہلے تو ناظرے سے پھر ترجمہ سکھاتا آنکھیں کروں کی روشن جب پڑھ چکوں میں سرا مطلب نہ آئے جب تک کیونکر عمل ہے ممکن بے ترجمے کے ہرگز ایت نہیں گزارا یا رب تو جم کر کے ہم کو سکھا دے قرآں ہر دکھ کی یہ دوا ہو وزو کا کا ہو چارا دل میں ہو میرے ایماں سینے میں نور فرقان سینی مسیح آئے ایان ساتھ لائے قرآن گم شده بھی نازل ہوا دوبارا وقت ا گیا ہے اسلام کا ہو گرا تو نمی پسندی تغییر کن قضا را دینجار دل ص۵۲
قرآنی پرده حوالہ نمبر (۱) امہات المومنین کا پردہ اپنے گھروں میں (الف) بنساء النبي كشتُنَّ لَاحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ إِنِ الْقَيْتُنَّ فَلَا تَخْضَضْنَ بِالْقَوْلِ فَيَطْمَعَ الَّذِي فِي قَلْبِهِ مَرَضٌ وَقُلْنَ قَوْلاً مَعْرُوفًا وَقَوْنَ فِي بُيُوتِكُن وَلَا تبرجن تبرج الجَاهِلِيَّةِ الأولى ( احزاب (۱۳۳۱ (۳۴) ترجمہ : اے نبی کی بی ہو ا تم اور عورتوں کی طرح نہیں ہو.اگر پرہیز گاری کرد لیپس بات کیاتے میں نرمی نہ کیا کرو.ایسا نہ ہو کہ وہ شخص میں کے دل میں بیماری ہے کوئی طمع کرے.اور تم بات کیا کرو نیکی اور بھلائی کی.اور اپنے گھروں میں ہی رہا کرو.اور اگلے زمانہ جاہلیت کے سے بناؤ سنگارہ نہ دکھاتی پھرو.أيُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلا أَن تُقْذَنَ تكم.......وإذا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَتَلُوهُنَّ مِنْ وراو حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ) احزاب (۵۴) ترجمہ وہ اسے مومنو با نی کے گھر میں ہے اجازت داخل نہ ہو......اور جب تم آپ کی بی ہیوں سے کوئی چیز مانگنا چاہو تو پردہ کے پیچھے سے مانگا کرو.یہ بات بہت پاکیزہ ہے
YZA تمھارے دلوں کے لئے اور ان کے دنوں کھنے لئے ).اس آیت کا نام آیت حجاب ہے.نوٹ اور یہ دونوں آیتیں صرف امہات المومنین کے پردہ کے بارہ میں ہیں.حوالہ نمبر (۱۲) گھر سے باہر کا پر وہ تمام عورتوں کے لئے ياتها النَّبِيُّ قُل لأَزْوَاجِكَ وَبَنتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِنْ جَلَابِيْبِهِنَّ ذَالِكَ أَدْنَى أَنْ تُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ " (احزاب : ۶۰) ترجمہ کر اسے بنی کہہ دو اپنی بیبیوں اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی بی بیوں سے کہ اوڑھ لیں اپنے اوپر بڑی چادریں.یہ اس لئے کہ آسانی سے پہچانی جائیں اور اینڈا سے کچھی رہیں.نوٹ : یہ آیت تمام عورتوں کے لئے ہے اور گھروں سے باہر جو پردہ کرنا چاہیئے اس پر حاوی ہے.حوالہ نمبر (۳) گھروں کے اندر پردہ مومنات کا (الف) وَقُل لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُمْ ذلِكَ اَن کی لَهُمْ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْعُوْنَ وَقُل لِلمُؤْمِنَتِ يَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَلَهَرَ مِنْهَا وَلْيَضْرِ بْنَ بِخُمُرِ مِن عَلَى جُيُوبِهِنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ ادا با بهن أو أباءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَا بِهِنَّ أَوْ أَبْنَاء بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَانِهِنَّ أَوْ بَنِي أَخَوَتِهِنَّ أَرْسَا بِمِنْ أوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَا نُهُنَّ أَوِ التَّبِعِينَ غَيْرِ أُولِي الْإِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ
۲۷۹ أو الطفلِ الَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُوا عَلَى عَوْرَتِ النِّسَاءِ وَلا يَضْرِ بْنَ بِأَرْجُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِنْ نِينَتِهِنَّ والثور : ۳۲) ترجمہ ہاے رسول مسلمان مردوں سے کہہ دو کہ وہ اپنی آنکھیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں.یہ بہت پاکیزہ بات ہے ان کے لئے.یقینا اللہ ان کے اعمال سے خبردار ہے.اور کہہ دو مسلمان عورتوں سے کہ وہ بھی نیچی رکھیں اپنی آنکھیں اور حفاظت کریں اپنی شرم گاہوں کی.اور نہ ظاہر کہیں زینت اپنی سوائے اس کے جو مجبور ظاہر ہے.اور اپنی اوڑھنیوں کی بکل ماریں اپنے گریباتوں پر اور نہ ظاہر کریں سنگار اپنا سوائے اپنے خاوندوں ، اپنے باپوں، اپنے شہروں اپنے سگے یا سوتیلے بیٹیوں ، اپنے بھائیوں بھتیجوں، بھانجوں یا اپنی عورتوں کے سامنے.یا جو غلام ہیں ان کے.یا ایسے تو کر یا لیکن لوگ مردوں یا لڑکوں میں سے جو عورتوں کی چھٹی باتوں سے واقف نہیں ہیں (یعنی تا بالغ یا پیر فرتوت) اور نہ ماریں اپنے پیروں کو زمین پر اس طرح کہ ان کے چھپے ہوئے زیور چھین کار کریں.(ب) وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَاءِ التِي لَا يَرْجُونَ نِكَاحَا فَلَيْسَ عَلَيْهِنَّ جناح أن يَضَعْنَ ثِيَابَهُنَّ غَيْرَ مُتَرْجَتٍ بِزِينَةٍ وَأَنْ يَسْتَعْفِفْنَ خَيْرٌ لَّهُنَّ ( النور : (۶) ترجمہ ، اور بیٹھے رہنے والی عورتوں میں سے جو نہیں امید رکھتیں نکاح کی ریعنی جو بڑھیا ہو گئی ہیں، نہیں نہیں اُن پر گناہ کہ انار رکھیں اپنے کپڑے نہ نمائش کرنے والی ہوں سنگار کی.اور اگر اس سے بھی بچیں تو ان کے لئے اچھا ہے.فوسٹ ، یہ آیات سوائے امہات المومنین کے باقی تمام مومنات کے اپنے گھروں کے اندر کے پردہ کے متعلق ہیں.باہر کے لئے نہیں.'
۲۸۰ حوالہ نمبر (۴) اپنے اپنے گھروں کے اندر کا پردہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ أَيْمَانَكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلتَ مَوتِ مِنْ قَبْلِ صَلوةِ الْفَجْرِ وَحَيْنَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُم مِّنَ الظَّهِيرَةِ وَ مِن بَعْدِ صَلوةِ الْعِشَاء لَن تَلْتُ عَوْرَاتِ لَكُمْ ( النور : ۵۹) (ترجمہ) اے مسلمانو ! تم سے تمھارے غلام اور نا بالغ بچے بھی تین اوقات میں اندر آنے کی اجازت مانگیں یعنی صبح کی نماز سے پہلے اور جس وقت تم دوپہر کو اپنے کپڑے اتارتے ہو.اور رات کی نماز کے بعد یمین وقت تمہارے لئے پر دے کے ہیں.نوٹ : یہ آیت اپنے خاص کمروں میں خاص اوقات کے پروہ کے لئے ہے.یہ وہ کل آیات ہیں جو پردہ کے متعلق قرآن مجید میں آئی ہیں.اور میں نے ان کو شروع میں ہی یکجائی طور پر اس لئے لکھ دیا ہے کہ ایک نظر سے آپ پردہ کی تمام حقیقت کو معلوم کر لیں.اور پیشتر اس کے کہ میں اس مضمون کو بیان کر وں آپ خود اس کی اصل پر حاوی ہو جاویں اور پھر مضمون کے متعلق صحیح یا غلط ہونے کی رائے قائم کر سکیں.ان جوانوں کو میں نے چار ہیڈنگ کے ماتحت اس لئے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں چار قسم کے پردوں کا ذکر ہے اور سر ایک مختلف لوگوں یا مختلف حالات کے ماتحت ہے.لوگوں نے اس مسئلہ میں ایک غلطی یہ بھی کھائی ہے کہ ان مختلف حالات کو ملا دیا ہے بلکہ گڑھ بڑھ کر دیا ہے امد اس کے لئے ان کو بجائے فائدہ کے نقصان پہنچا ہے.پس ہمیشہ ان چار قسم کے احکام کو اپنی اپنی جگہ پر سمجھو تو پردہ کے احکام کے سمجھنے اور ان پر عمل کرتے ہیں توقف واقع ہوگی نہ اعتراض
۲۸۱ ضروری نوٹ ر ان سب حوالوں میں حوالہ نمبر (۱) کی آیت ب کا نام " آیت حجاب" ہے اور یہ آیت صرف اُمہات المومنین کے لئے ہے.پردہ کا مطلب جو فطری حجاب عورت کو مرد سے ہوتا ہے اس کے بقا کے لئے شریعت نے پوہ قائم کیا ہے تا کہ فتنوں کا سد باب ہو اور سوسائٹی میں امن قائم ہو.عام طور پر پردہ کے دو چھتے ہیں.ایک شرعی ، دوسرا رواجی.شرعی اور رواجی پر دہ شرعی پردہ وہ ہے جسے قرآن مجید نے بیان فرمایا ہے اور اس کی ایک حدبندی کر دی ہے کہ اس سے کم نہ ہو.لیکن ملکی یا زمانہ کے حالات کی وجہ سے اس میں رواج کا بھی دخل ہو گیا ہے.یہ رواج حالات کے ماتحت بدلتا رہتا ہے.اور سب جھگڑا زیادہ تر اس رواجی حصہ پر ہی ہوتا ہے.اگرچہ یورپ کی تقلید اب شرعی پردہ سے بھی اُلجھنے لگی ہے مگر بہت سے مسلمانوں پر تعجب ہے کہ وہ رواجی پردہ کو ہی دین کا پردہ سمجھتے ہیں.حالانکہ مروجہ پر وہ خالص اسلامی پر دہ نہیں ہے.علاوہ رواج کے تشدد کے جو شرعی پردہ پر اضافہ کے طور پر ہے.شرعی پردہ میں بھی رواج کو دخل ہے ایک قسم کا رواج وہ بھی ہے جس کی مداخلت کو شرع نے تسلیم کیا ہے.چنانچہ آگے چل کر معلوم ہوگا کہ شرعی پردہ میں جلباب اور زینت اور الاما ظهر منها
۲۸۲ الفاظ کے معانی ملک اور زمانہ رواج کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں.اس لئے ان حالاتت کے مطابق شرعی پردہ میں بھی تغیر ہوتا رہتا ہے.اور اگر چہ مغز پر وہ کا وہی رہے گا مگر اس کے کرنے کے طریق اور زینت کے طریقوں کے تغیر کے ساتھ اس کا بھی بدلتے رہنا اور سوسائٹی کے حالات کے مطابق مختلف مدارج کی عورتوں کا مختلف قسم کا پردہ کرنا یہ ایسی باتیں ہیں کہ عملاً ہمیشہ ایک سی نہیں رہتیں.موجوده معجون مرکب پرده جو ہندوستان میں رائج ہے اسے بھی دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ملک کے ہر حصہ میں اس کی بابت اختلاف ہے حتی کہ مختلف خاندانوں کے پردہ میں فرق ہے.لڑکیوں جوان عورتوں اور بوڑھی عورتوں کے پردہ میں فرق ہے.امیروں اور غریبوں کے پردہ میں فرق ہے.تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ عورتوں کے پردہ میں فرق ہے.اس لئے پردہ کی حقیقت اور اسلامی پردہ کی حدود اور بعض رواجی باتوں کے فوائد اور نقصانات سمجھنے کے لئے مفصل باتیں لکھنے کی ضرورت پیش آئی تاکہ لوگ اصلیت کو سمجھ کر پھر حالات کے ماتحت اس پر جو مناسب ہو کمی بیشی کر لیں.ہندوانہ پردہ ایک پردہ ہندوانہ ہے.وہ یہ کہ عورتیں اپنے میکے کے سر آدمی سے خواہ وہ بدمعاش ہو مجرم ہو.کسی قوم کا ہو.کوئی ہو پر وہ بالکل نہیں کرتیں اور اپنے سسرال میں اپنے خاوند اور شہر جو دونوں محرم ہیں اُن سے ساری عمر گھونگھٹ مارتی ہیں.اور خاوند کے چھوٹے بھائی سے خواہ وہ عورت کا ہم عمر اور جوان ہو نہ صرف پردہ نہیں کرتیں.بلکہ نہایت بے تکلفی سے ہنسی مذاق کرتی رہتی ہیں جو اکثر یہ شرافت سے گر کر مکروہ حد تک پہنچ جاتا ہے.
انتقامی پرده ۲۸۳ ایک پردہ ہندوستان میں انتقامی پر دہ ہوتا ہے وہ یہ کہ شرعا تو وہ لوگ آپس میں نامحرم ہوتے ہیں مگر چونکہ برادری یا رشتہ داری ہوتی ہے اس لئے ہر اس رشتہ دار کے سامنے انہیں اپنی بی بی کو کرنا پڑتا ہے جو اپنی بی بی کو ان کے سامنے کر دے.اور جو الیسا نہ کرے اُس سے اپنی بی بی کا بھی پردہ کرایا جاتا ہے.پشت پرده ایک بیہودہ پر دہ جو خصوصا امرتسر لاہور میں نمایاں طور پر بازاروں میں دیکھا جاتا ہے ده پشت پردہ رہے.یعنی عورتیں بناؤ سنگار کر کے باہر شارع عام پر پھرتی ہیں اور ان کے سر پہ ایک برقعہ بھی ہوتا ہے مگر وہ صرف پشت کی طرف سے دکھائی دیتا ہے.باقی تین اطراف سے برقعہ کو آزاد کر دیا جاتا ہے.یہ غالباً بہت چھوٹی عمر میں برقعہ پہنا دینے کا نتیجہ ہے.چونکہ اس عمر میں لڑکیاں پر وہ کی مکلف نہیں ہوتیں.یہ طبیعت میں حجاب ہوتا ہے.اس لئے برقعہ سر پر رکھ کہ بے تکلف منہ کھولے پڑی پھرتی ہیں.آخر یہی عادت اتنی راسخ ہو جاتی ہے کہ بڑی عمر میں بھی اسی پر کاربند رہتی ہیں.تعزیری پرده اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حکم فرمایا ہے کہ اگر کوئی عورت ایسی ہے جیا ہو کہ اس سے اکثر بے شرمی کی باتیں صادر ہوتی ہوں اور وہ سمجھانے سے اپنی اصلاح نہ کرے تو ثبوت کے بعد ایسی عورت کو ساری عمر گھر سے مت نکلنے دو یہی ایسی بے باک عورت کی سزا ہے جو عادت ہے شرم اور بے حیا ہو.مگر تعجب ہے کہ ہمارے ملک میں یہ سرا شریف اور پاکہ امن
۲۸۴ جی ہیوں کو دی جاتی ہے اور پھر اس سلوک کے ساتھ فخریہ یہ کہا جاتا ہے کہ شریف عورت کی علامت یہ ہے کہ بیاہ ہو کر خاوند کے گھر آئے تو پھر مر کو لاش ہی اس گھر سے نکلے.حالانکہ یہ تو بے جیا اور یہ کہ دار عورتوں کی سترا ہے !!! اب اسلامی پردہ کی حدودشن لیں ا.امہات المومنین کا پردہ اپنے گھروں میں ایک خاص امہات المومنین کا پردہ نہ وہ یہ کہ اُن کے لئے قرآن میں حکم آگیا تھا کہ کوئی نا محرم شخص ان کے گھروں میں داخل نہ ہو.اور انہیں کہا گیا تھا کہ تم اپنے گھروں میں ہی ہو اور بن مشن کر یا جاہلیت کے زمانہ کا سنگار نہ کیا کرو بلکہ اپنی حالت اور لباس سادہ رکھو اور لوگ کسی کام کے لئے یا علم حاصل کرنے کو آدیں تو دروازہ کے باہر سے ہی آواز دے کر اپنا کام بتا دیا کریں یا سود و غیرہ لے دے لیا کریں.یہ مسئلہ پوچھ لیا کریں.اور مسئلہ کا جواب دینے میں ایسی باتیں کرنے میں لجاجت اور نرمی کا لہجہ نہ اختیار کریں بلکہ ایسا جیسے اُستاد کا لب ولہجہ ہوتا ہے.دروازہ پر پردہ پڑا رہ ہے.اور سوائے اشد ضرورت کے باہر نہ نکلا کی ہیں.باہر نکلنے کے وقت کا پردہ سب کا دوسرا پر وہ باہر نکلنے کا : یہ سب شریف عورتوں پر حاوی ہے یعنی امہات المومنین پر بھی جب وہ اشد ضرورت کے لئے نکلیں اور عام مومنات کو تو کوئی باہر نکلنے کی شرعی روک ہی نہیں.اُن کے لئے.اس میں یہ ہدایات ہیں کہ جب گھر سے باہر نکلیں تو اپنے گھر کے لباس کے اوپر ایک بڑی چادر" (جلباب) اوڑھ لیا کریں.یہ اس لئے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ شریف عورت آرہی ہے تو اس کو آسانی سے راستہ پیرہ سے گذر جانے دیں اور ان
۲۸۵ عورتوں کو تکلیف اور اپنا نہ ہو.اینا نہ ہونے سے ایک تو یہ مراد ہے کہ بھیڑ وغیرہ میں راستہ آسانی سے مل جائے.مراد یہ کہ باہر واد حصر ادھر سرک جائیں.دوسرے یہ کہ چادر ہونے کی وجہ سے جسم ڈھک کر چہرہ اور زینت چھپ جائے گی تو کوئی نا معقول آدمی نہ ان کو تاڑے گا نہ گھور کر دیکھے گا.اگر عورت ظاہری زینت اور چہرہ پورے طور پر بالکل کھدار کھ کر یا ہر نکلے کی تو شریہ اور بد معاش آدمی اسے تاکے گا.اس تاکنے اور گھورنے سے ایک شریف عورت کو سخت روحانی ایذا پہنچتی ہے اور اس کا تدارک ایسے ہی لباس سے ہو سکتا ہے جو اس کے زینت اور حسن کو چھپا دے.جلباب باقی یہ کہ بڑی چادر سے کیا مراد ہے.اس کا فیصلہ رواج پر آگیا.اس زمانہ میں عرب میں سادہ چاور کا رواج تھا.چونکہ اس کا سنبھالنا ذرا مشکل تھا.اس لئے اس کے بعد اسلامی ممالک میں اس کی جگہ برقعہ نے لے لی.اب یہ قصے بھی آسانی اور صحت اور موسم کے لحاظ سے طرح طرح کے ہو گئے.لیکن ہیں سب جلباب میں داخل.اس زمانہ میں اچھا اور آرام دہ برقعہ وہ ہے جو کوٹ کی طرح ہو اور پیروں کے قریب تک لمبا ہو اور سر پر ٹوپی مع ایک گردن چھپانے والی جھالر کے ہو.تاکہ سر پہ برقعہ کا بوجھ نہ پڑے اور ہاتھ مفید نہ ہو جائیں.بس اب باہر نکلنے کا پردہ مشرفا کی عورتوں کا اتنا رہ گیا کہ ایسا بڑا کپڑا اوپر ہو جو خود زینت نہ ہو بلکہ عورت کے حسن اور زینت کو چھپائے اور ضروریات کے مطابق اُسے ایسا کر لیا جائے کہ ہوا بند نہ ہو.دکھائی اچھی طرح دے گراں نہ ہو.پیروں میں نہ اُلجھے.شریعت کی صرف ایک شرط ہے وہ پوری ہو کہ جس طرح کے آرام اور آسائش کی باتیں کوئی اس میں اختراع کر سکتا ہے کر لے.لوگ اس میں جیبیں تک لگا لیتے ہیں.یوروپین
نومسلمہ کے لئے لمبا کوٹ اور ٹوپی اور ٹوپی میں نقاب لگ کر جلباب بن سکتا ہے.سوائے امہات المومنین کے باقی سب شریف عورتوں کا اپنے گھروں کے اندر پیدہ یہ تیسرا پردہ ہے جو باہر جانے کا نہیں بلکہ گھروں کے اندر کرنے کا ہے اور یہ تمام عورتوں پر حاوی ہے.سوائے امہات المومنین کے.امہات المومنین اس لئے اس حکم سے باہر ہیں کہ ان کے لئے الگ احکام بیان ہوچکے ہیں اور ان کے گھر الگ الگ اپنے پنجے کے مملوکہ گھر تھے ان میں کوئی اور شریک نہ تھا نہ کسی کو وہاں آنے اور رہنے کی اجازت تھی) اس پردہ کا حکم یہ ہے کہ چونکہ ہر شخص کے متعلقین یا رشتہ دار اس کے گھر میں آتے رہتے ہیں اور اکثر جگہ لوگ مشترک مکانوں میں رہتے ہیں یا الگ مکان بھی ہو تو اس طرح بنے ہوتے ہیں کہ پوری علیحدگی نصیب نہیں ہو سکتی.ایک ہی حویلی کے مختلف حصوں میں مختلف رشتہ دار یا قریبی رہتے ہیں.یا کوٹھے پر ایک گھر رہتا ہے اور دوسرا نیچے پھر شہریت کی کی وجہ سے اکثر ایک دوسرے کے گھروں میں لابدی نظر پڑتی ہے.اور غرباء میں تو یہ بات درجہ کمال کو پہنچی ہوتی ہے.یہاں تک کہ ایک چھت کے نیچے کئی کئی لوگ گزارہ کرتے ہیں.اسی طرح زمیندار طبقہ میں.غرض سوائے امراء اور رئیسوں کے ساری دنیا میں خواہ شہر کے لوگ ہوں یا گاؤں کے یہ حالت میسر نہیں آسکتی کہ ہر میاں بیوی کا بالکل الگ اور باپردہ مکان ہو اور ایسا ہو جہاں کسی کی نظر کسی وقت بھی نہ پڑ سکے.یا جس میں کسی کے عزیز اور رشتہ دار یا نوکر کسی وقت بھی نہ آسکیں.اس لئے شریعت نے لوگوں کی آسانی کے لئے یہ حکم دیا کہ ایسے حالات میں مرد اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور عورتیں اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور ہر طرح کی لیے جائی سے بچیں کوئی کلام وغیرہ بھی بے حیائی کا نہ کریں جو کسی کے کان میں پہنچے اور عورتوں کو
چاہیے کہ ان حالات میں ہمیشہ دو پتہ یا اوڑھنی کا اس طرح بکل ماریں کہ سر اور سینہ ڈھکے رہیں.اور اپنی زینت (سوائے ایسی زینت کے جیسے چھپا نہیں سکتیں) سوائے اپنے محرم رشتہ داروں کے کسی اور کے سامنے کھول کر نہ بیٹھیں.اور پیروں میں زیور ہوں تو چھنکا چھنکا کر نہ چلیں کہ خواہ مخواہ اس طرف نا محرم مرد کا خیال جائے.ہاں اگر کوئی ضعیفہ عورت ہو تو اس کے لئے جائزہ ہے کہ گھر میں اور منی اس طرح پابندی سے نہ اوڑھے بشرطیکہ اس نے زینت نہ کر رکھی ہو.لیکن اگر ضعیفہ بھی احتیاط ہی رکھے تو بہتر ہے.بیس اب شرعی پردہ کا معاملہ بالکل سادہ ہو گیا.دوباتیں رہ گئیں کہ ہر را، زینت کیا ہے؟ (۲) اور الاما ظھر منھا سے کیا مراد ہے ؟ زینت زینت کہتے ہیں بناؤ سنگار آرائش کو.اور وہ دو قسم کی ہے لعینی (1) ایک تو وہ بیرونی آرائش ہے جو انسان کو سنوار دے اور بارونق کر دے.اس لئے زیورات اور بال جو سنوارے جاتے ہیں.چوٹی جس کی بناوٹ اور ساخت میں ہی تکلف ہوتا ہے مہندی اپوڈر سرخی جو رخساروں کو مزین کرنے کے لئے استعمال ہوتے ہیں.ایسے ہی خاص طور کے دلکش رنگدار سبیل بوٹے دار یا گوٹے تھے کے زرق برق کپڑے نیز خوشبوئیں کلائی کی گھڑی.غرض تمام ایسی چیزیں جو بناؤ سنگار اور حسن کے چپکانے کو عورتیں استعمال کہتی ہیں.سب زینت میں داخل ہیں اور ان سب کا ایسے گھروں میں ظاہر اور نمایاں کرنا جہاں ہر وقت نا محرم کی نظر کا احتمال ہو منع ہے.سوائے الاما ظھر منھا کے لینی جن کو چھپایا نہیں جاسکتا مثلاً چیزوں میں سے انگلیوں کی انگوٹھی یا چھلا یا ہا تھوں کی مہندی ایسی زینت ہے جس کو چھپایا نہیں جاسکتا.کیونکہ بغیر ہاتھوں کے باہر رکھے کام نہیں ہوسکتا.یا چہرہ.یا ایسی چوڑیاں ہاتھوں کی یا پیروں کے آواز نہ دینے والے زیور جو ہمیشہ استعمال میں
YAA رہتے ہیں.اسی طرح اوڑھنی کا رنگ.قد، چال آواز.دوسری زینت عورت کے اپنے جسم کی وہ خصوصیات ہیں جن سے خدا تعالی نے کسی عورت کو خاص طور پر ممتاز کیا ہو.سر اور سینہ تو ہر عورت کو ڈھالنا ہی ہے کیونکہ بال اور چھاتی بہر حال عورت کی مخصوص زیست ہیں سوائے ضعیفہ کے.سو ان دو چیزوں کو اوڑھنی سے چھپانے کا حکم تولض سے ثابت ہے.مگر ان کے سوا خدا تعالیٰ کسی کو آنکھ ایسی دیتا ہے کہ وہ اس کے لئے خاص اور ممتاز زینت ہوتی ہے.کسی کی ناک اسی طرح چہرہ کی نمایاں اور مخصوص زمینت ہوتی ہے.کسی کا تمام چہرہ حسن کی کان ہوتا ہے.کسی کی گردن جاذب نظر اور نہایت خوبصورت ہوتی ہے.کسی کا رنگ ایسا سرخ وسفید اور چکدار آب وتاب والا ہوتا ہے کہ دیکھنے والے کی نظر کا چھا نہیں چھوڑتا.کسی کی چال اور کسی کی آواز میں سخت کشش ہوتی ہے.غرض خدا تعالیٰ بعض عورتوں کو بعض بعض اعضاء اور خوبصورتیاں ایسی اعلیٰ اور نمایاں اور فتنے میں ڈالنے والی دیتا ہے کہ وہ اُن کے لئے خاص زینت کا حکم رکھتی ہیں.مگر یہ سب عورتوں میں نہیں ہوتا.خاص خاص میں ہوتا ہے.پس جب یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں عورت کے چہرہ کا حسن زینیت خاص کی حد تک پہنچ گیا ہے یا اُس کے فلاں قلال اعضاء اس کے حسن کی زینت ہیں تو ان کو وہ عورت خاص طور پر چھپائے.سوائے ایسے حالات کے کہ ان کا چھپانا اختیار سے باہر ہو.مثلاً آواز - چال - قد.ایسی عورت کا ماظهر منها ہی تین چیزیں ہیں.باقی جو اوسط صورت شکل کی عورتیں ہیں وہ صرف اپنی نظریں نیچی رکھیں.زیورات یا بیرونی زینت جیسے ذکر ہو چکا ظاہر نہ کریں.اپنے زیور نہ چھنکا ئیں.اور آس پاس رہنے والے مرد بھی اپنی نظریں نیچی رکھیں اور ہر وقت خدا کا خوف دلوں میں رکھیں.تو فقتوں کا باب بند رہے گا.بلکہ ایسی زینت نا محرم مرد کو چھوڑ غیر معتبر عورتوں کو بھی نہ دکھائے تاکہ ان کی معرفت کوئی فتنہ پیدانہ ہو.اور کوئی شریر عورت اس عورت کے حسن کا ذکہ غیروں میں مشہور نہ کرتی پھرے.
' ۲۸۹ الاماظهر منها شریعیت نے اجازت دی ہے کہ وہ زینت جس کا چھپانا اختیار سے باہر ہو.اسے بیشک ظاہر کر دے.اس کا ذکر اوپر آچکا ہے.مگر یہ بھی مختلف طبقوں میں مختلف معنی رکھتا ہے.مثلاً ایک امیر عورت اپنی کئی ایسی زہنیتوں کو چھپا سکتی ہے جن کو ایک مزد در عورت ظاہر کرنے پر مجبور ہے ورنہ روٹی کسی طرح کما سکے.سو اس استثناء کے تحت مزدور، غریب اور مفتی عورتیں جو اپنے ہاتھ سے کام کرتی ہیں اپنے جسم کے بعض حصے کھلے رکھ سکتی ہیں.اور یہی حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا کا فتوی ہے.ایسی عورتوں کو بپاس شرم و حیا اپنے کچھ اعتضاد کھولنے ضروری ہیں جو مختلف حالات میں مختلف ہوتے ہیں.مثلاً اپنے کھیت میں کام کرنے کے وقت بعض دفعہ ان کو اپنا پاجامہ اُونچا کرنا پڑتا ہے يا بعض دوسرے کاموں میں اپنے ہاتھ بازدیک یہ ہنہ کرنے پڑتے ہیں.یہی حال مختلف پیشوں کا بھی ہے.اسی طرح طبیب کے سامنے بعض حالات میں بہت کچھ پردہ ہٹانا پڑتا ہے پھر ماظهر منھا کی حدود پر ملک کا رواج.سو کٹی ، خاندان کی عزت اور عورت کی سوشل پوزیشن کا بھی بہت اثر ہے.امیروں کا ماظھر منھا اور ہے بادشاہوں کا اور غریبوں کا اور.اور پیشہ وروں کا اور جوان عورتوں کا اور لڑکیوں کا اور ادھیڑوں کا اور.اور بوڑھیوں کا اور.اس ضمن میں یہ بھی یادرکھنا چاہیئے کہ اپنا کھیت اور اپنی دکان بھی اپنے گھر کے حکم میں ہی ہے.یعنی یہ گھروں والا پردہ جیسا اپنے گھر میں رکھا جاتا ہے ویسا ہی اپنی دکان یا اپنے کھیت میں رکھنا چاہیے.بازار میں سے گزرنے اور شارع عام کا پردہ الگ پہلے بیان ہو چکا.وہاں خمر کی جگہ جلباب ضروری ہے تا کہ منہ پر گھونگٹ رہے.
۲۹۰ ، چوتھا خاص اوقات کا پردہ ہے جو بچوں اور نوکروں نک سے ہے.یہ پردہ گھروں اور مکانوں کا نہیں بلکہ پرائیویٹ کمروں کا ہے اور اس لئے اوپر کے طبقہ کے لوگوں سے اس کا تعلق ہے.اس کا حکم یہ ہے کہ دن میں تین وقت میں جب میاں بی بی علیحدہ اپنے پرائیویٹ کمرہ میں ہوں تو اس وقت اپنے بچے اور گھر کے پروردہ بھی بغیر اجازت حاصل کئے ان کمروں میں داخل نہ ہوں.یہ خلوت کے وقت کا پردہ ہے.اس پر یہاں زیادہ تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں سمجھدار لوگ اس کی ضرورت کو خود تسلیم کر لیں گے.میرا خیال ہے کہ میں نے شرعی پردہ کا بیان ایسا واضح کر دیا ہے کہ اب مشخص اسے سمجھ سکتا ہے اور پھر اپنے حالات کے مطابق اس پر عمل کر سکتا ہے.شکا ایک شخص اپنے ایک مکان میں شہر سے باہر رہتا ہے اور وہاں کوئی نا محرم نہیں آتا.نہ کسی گھر سے وہاں نظر ہوتی ہے تو کوئی حرج نہیں کہ عورتیں وہاں اپنی زینت اس طرح نہ ڈھانکیں جس طرح بیان ہو چکا.پردہ کی فرضیت اگرچہ سب شرعی ذمہ داریوں کی طرح بلوغت سے ہی شروع ہوتی ہے.مگر عادت ڈالنے کے لئے لڑکیوں کو ، اسال کی عمر سے یہ احتیاطیں شروع کرائی جائیں تا کہ ان کو مشق ہو جائے.سات سال کی عمر سے لڑکی میں لڑکی ہونے کا احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے.اس لئے اس عمر کے بعد سے اسے غیر لڑکوں میں بہت مل کر نہ کھیلنے دیا جائے.پھر اسال کی عمر میں وہ نامحرموں سے بے تکلفی چھوڑ دیں.اب جبکہ شرعی پردہ معلوم ہو گیا تو یہ بھی معلوم ہو گیا کہ عورتوں کو صحت کی خاطر
۲۹۱ میر کرانا.باہرے جانا.پیدل پھر انا اور جنگل میں دوڑنا بھاگنا منع نہیں ہے بلکہ ضروری ہے.اور شارع عام سے ہٹ کر اپنے باغات یا ایسی جگہوں میں جہاں غیر لوگ بے تکلف نہ آ سکتے ہوں.برقعہ یا جلباب اُتار ڈالنے کا کوئی حرج نہیں.وہاں صرف وہی پردہ ہو گا جو گھروں کے اندر کا پردہ ہے.یعنی خمر والا پر دہ.اور اگر سب محرم ہی ساتھ ہوں اور مشکی باغ یا پارک میں غیر آدمی کا آنا منع ہو تو پھر بے تکلف ہو کر اوڑھنیاں بھی اتار دیں یا زیور بھی چھنکاتی پھریں یا اپنی زینت بھی ظاہر کریں تو کوئی مضائقہ کی بات نہیں.رواج کی سختی توڑ دو اس زمانہ میں جبکہ خالص غذائیں ملنی مشکل ہو گئی ہیں اور لوگوں پر غربت بہت طاری ہے گھی دودھ آنا وغیرہ سب اشیا و ناقص ملتی ہیں تعلیم کا بوجھ دماغ پر زیادہ پڑنے لگا ہے اور وق سیل وغیرہ امراض بکثرت مخلوقات کو خصوصاً عورتوں کو ہلاک کئے جاتے ہیں تو صحت کے لئے زیادہ تگ ودو کرنی چاہیے اور عورتوں اور لڑکیوں کو تازہ ہوا زیادہ بہم پہنچائی چاہیئے.چلنا پھرنا، ورزش بھاگ دوڑ ، سورج کی روشنی ،جنگل کا سبزہ.کھیتوں کی ہوا روزانہ یا جہاں تک توفیق ہو.ان نعمائے الہی سے عورتوں کو فائدہ اٹھانے دو.اور رواجی پردہ کے اس حصہ کو توڑ دو جس کی وجہ سے عورتیں گھروں سے با هر سیر یا ورزش کے لئے یا مدرسہ جانے کے لئے نہیں نکل سکتیں.یا سفر نہیں کر سکتیں یا زنانہ انجنوں اور مفید کمیٹیوں میں شامل نہیں ہو سکتیں یا نمائش سینما اور سرکس نہیں دیکھ سکتیں اتھیٹر جو ہو گا اس ملک میں ہوتے ہیں وہ عورتوں کے دیکھنے کے ناقابل ہیں بلکہ ایک حصہ سینا کا بھی) جب یہ فع یا جلباب موجود ہے تو ٹانگہ یا موٹر پر چادریں کہنے کی کوئی ضرورت نہیں.نہ دو دو قدم پر جانے کے لئے ڈولی کی.غیر مردوں سے ضرورت کے وقت عورتیں بات چیت کر سکتی ہیں.قابل اطمینان اور معزز دوکانوں سے سودا خرید سکتی ہیں.(مگر جیسی
۲۹۲ اس زمانہ میں بکثرت لوگوں کی اخلاقی حالت گری ہوئی ہے یہ ضروری ہے کہ کوئی نہ کوئی مرد اپنا محرم ان کے ہمراہ ہو اور سوائے مجبوری کے تنہا نہ نکلیں یا فوری تغیر خطرناک ہے مین علاقوں میں رواجی پر دہ سخت قسم کا ہے وہاں یکدم عورتوں کو گھر سے نکال کے اور ایک چادر پہنا کہ باہر لئے پھرتا اور ایک قوری تغیر سارے کنیہ میں پیدا کر دیتا اور انگشت نما ہونا خطرناک ہے.ہر چیز جو شرعا فرض نہ ہوا سے بتدریج چھوڑنا چاہیے.شرع نے پردہ کی مد مقرر کر دی ہے مگر یہ نہیں کہا کہ جو اس سے زیادہ پر وہ کرے اُسے پکڑ کر باہر نکالو.اگر اس معاملہ کو بتدریج درست نہ کیا جائے گا بلکہ فوری تغیر پیدا کیا جائے گا.تو بعض اخلاقی نقصانات پہنچنے کا احتمال ہے.پیس ایسے علاقوں میں عورتوں اور اپنے دیگر رشتہ داروں کو شرعی پردہ کی حقیقت سے آگاہ کرو.پھر رواج کی سختیاں ان کو سمجھاؤ پھر یہ بتاؤ کہ اس زمانہ میں رواجی حصہ کی وجہ سے بعض نقصانات عورتوں کی صحت اور تعلیم کو پہنچ رہے ہیں.اور ان کا نتیجہ خراب ہے پھر آہستہ آہستہ ملی تغیر پیدا کرو ہماری جماعت کے لئے تو جو اُسوہ حضرت مسیح موعودا آپ پر سلامتی ہوا نے خود قائم کر دیا ہے.وہ کافی ہے.غرض خلاصہ شرعی پردہ کا یہ ہے.(1) باہر نکلنے کا پر وہ : یہ سب کے لئے ایک ہی طرح کا ہے.(ب) گھروں کے اندر کا پر وہ یہ یہ دو قسم کا ہے اور صرف نامحرموں سے ہے.را، امہات المومنین کا مخصوص حکم (احزاب) (۲) دوسری مسلمان عورتوں کا حکم (نور) (ج) خلوت کے اوقات کا پر وہ دور یہ اپنے بچوں اور گھر کے خادموں تک سے ہے اور صرف مخصوص اوقات میں ہے.اس کے بعد آئندہ مضمون میں انشاء اللہ اس امر کو واضح کردیں
۲۹۳ گا کہ امہات المومنین کا پردہ کیوں دوسری عورتوں سے زیادہ سخت تھا.دوسرے یہ کہ شرعی پر وہ پر لوگوں کے کیا اعتراض ہیں اور ان کا کیا جواب ہے.ضروری نوٹ ہر اس مضمون کو دیکھ کہ میرے ایک نہایت بزرگ دوست نے کچھ نوٹ میری کاپی پر کر دیئے تھے.ان کی رائے میرے نزدیک ایسی وقعت رکھتی ہے کہ میں اس کا یہاں درج کہ دینا ضروری سمجھتا ہوں.وهو هذا.نوٹ نمبر ا - - دجالی فتنہ بہت پھیل گیا ہے.اس زمانہ میں عورتوں کی تعلیم اور صحت کا خیال کر کے اگر پردہ میں احتیاطی پہلو اختیار نہ کیا گیا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ تا تریاق از عراق آورده شود.مارگز دیده مرده شود - کیونکہ زہریلی آب وہوا سخت پھیلی ہوئی ہے اور اس زہریلی ہوا میں عورتوں کو علم حاصل کرنے اور عقل اور تربیت کے لئے اگر پھرایا جائے.تو کہیں ایسا نہ ہو کہ تعلیم اور تربیت کرتے کرتے ایمان ہی ہاتھ سے جائے جس تعلیم اور تربیت کی لوگوں کو اس زمانہ میں خواہش ہے وہ پچھلے زمانہ میں نہ تھی.باوجود اس کے انہی عورتوں کے پیٹ سے انبیاء اور اولیاء پیدا ہوتے رہے.دراصل احمدیوں کو دجالی فتنہ کا علاج کرنا چاہیئے.عورتوں کی ایسی تربیت تو یورپ کی تقلید ہے.عورتوں کو تعلیم دیتے دیتے اور ان کی صحت ٹھیک کرتے کرتے کہیں ایمان ہی ہاتھ سے نہ جائے.یورپ کا مقصود دنیا ہے اور احمدی کا مقصد آخرت ہے، تريدون غرض الدنيا والله يريد الآخرة..نوٹ نمبر ۲.جس کی آواز یا چال یا قد فتنہ میں ڈالنے والی ہیں اس کو بالکل ہی پردہ میں رہنا چاہیئے بشرطیکہ شکل بھی اچھی ہے.بقول حضرت خلیفہ اول اللہ آپ سے راضی ہوا حسن دنیا میں بہت کم ہے.اس لئے ایسی عورتیں دنیا میں بہت کم کوئی کوئی ہوتی ہیں.لہذا ایسی ایک آدمہ کو نام کے فائدوں کے لئے قربان کرنا چاہیے.ایسی عورتیں خدا نے صرف حُسن کے نمونہ کے لئے پیدا کی ہیں." دم.م)
۲۹۴ مجھے افسوس ہے کہ باوجود واضح طور پر اظہار مطلب کے پھر بھی بعض احباب نے اس ایک اصلی نکتہ کو نہیں سمجھا جو میں نے اپنے پہلے مضمون میں بیان کیا ہے.اور وہی ایک اصلی نکتہ ہے جس کے سمجھ لینے سے پھر یہ مضمون صاف ہو جاتا ہے.مثلاً ایک دوست یہ مضمون پڑھ کر یہ سوال کرتے ہیں کہ یہ * عورت جب باہر نکلے تو کیا اس کا منہ الاما ظهر منها میں نہیں آسکتا.اس سوال سے معلوم ہوا کہ انہوں نے وہ بنیادی بات ہی نہیں کبھی جس پر میں نے اس مضمون کو قائم کیا ہے اور وہ بنیادی بات یہ ہے کہ خمر والا پردہ جس میں زینت اور الاماظهر منھا کا ذکر ہے وہ گھر سے باہر جانے والی عورت کے ساتھ قطعا کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا.پس یہ سوال ہی نہیں پیدا ہو سکتا.اسی طرح ایک صاحب کہتے ہیں کہ یہ جب عورت باہر نکلے تو کیا کیا زینت چھپائے ؟ یہ سوال بھی غلط ہے کیونکہ زینت کا سوال بھی مجری پر دہ یعنی اس پردہ کے متعلق ہے جو گھروں کے اندر کرنا چاہیے نہ کہ جلبانی پردہ کے متعلق جو باہر نکلنے کا ہے.اسی طرح ایک اور صاحب پوچھتے ہیں کہ : کیا عورتیں سر پر مفکر یاشال باندھ کر باہر نکل سکتی ہیں ہے کیونکہ مقلم بھی خمر میں داخل ہے اور شال یا مفلر میں منہ ضرور کھلا رہے گا.میرا جواب پھر ہی ہوگا کہ مقلم با شال چونکہ فکر یا اوڑھنی کی جگہ استعمال ہو گا اس لئے وہ گھر سے باہر پردہ پر حاوی نہ ہوگا.ہاں اگر گھروں میں اوڑھنا چاہیں تو وہ خمر کا قائم مقام ہو سکتا ہے بشرطیکہ ایسی طرز کا اور اتنا بڑا ہو کہ سینہ کے آگے بھی اس کا ایک حقہ پڑا ہے.
۲۹۵ میں پھر قارئین کرام کو اس بات کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ میں نے عام طور پر تین قسم کے پردے بیان کئے ہیں.اب نہیں ان کا نام بھی رکھ دیتا ہوں :.حجابی پرده، صرف امہات المومنین کے لئے اپنے گھروں کے اندر.- جلبابی پردہ.سب کے لئے گھروں سے باہر.خمری ، پردہ.سوائے اُمہات المومنین کے باقی سب مومنات کے لئے اپنے گھروں کے اندر جلبابی پرده جو عورتوں کو باہر نکلتے وقت کرنا چاہیے.باہر نکلنے کے وقت کا صرف ایک ہی قسم کا پردہ ہے اور وہ جلبابی ہے.اس میں کسی پیڑے کپڑے کے اوڑھ لینے کا حکم ہے اور چہرہ ضرور اس میں چھے گا.کیونکہ آیت کا مفہوم یہ ہے کہ عورتیں اپنے سارے بدن پر ایک بڑی چادر اوڑھ لیں اور اپنا سب کچھ ڈھک لیں.مثلاً اگر سادہ چادر ہے تو گھونگٹ نکال نہیں.اور اگر برقعہ ہو تو اس کا نقاب با جالی اس کے منہ کے آگے رہے جس سے راستہ معلوم رہے.مگر اپنا منہ سامنے والوں کو نظر نہ آسکے.پس اس پردہ میں یہ کوئی بحث ہی نہیں کہ کیا کہا زینت کھولی جائے اور کیا کیا باتیں الا ما ظهر منھا میں داخل نہیں اس پردہ کے حکم میں قطعاً ایسی کسی بات کی طرف اشارہ بھی نہیں.تعجب ہے کہ لوگ بحث کرتے ہیں اس پردہ کے متعلق اور پیش کرتے ہیں وہ آیت جو گھروں کے اندر کے لباس اور پر وہ کے متعلق ہے.جو قطعا ایک غیر متعلق بحث ہے.جلبابی پردہ میں صرف ایک حکم ہے وہ یہ کہ عورت ایک بڑے کپڑے سے اپنا بدن ڈھک لے اور میں.
۲۹۶ خُمری پرده دوسرا پردہ جو عمری ہے اور جس کی آیت کو اکثر زیر بحث لایا جاتا ہے.وہ صرف گھروں کے اندر کا پردہ ہے.باہر کا نہیں ہے.اور اس کی وجوہات میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ سوائے شاذ و نادر کے تمام دنیا کی معاشرت اس طرح کی ہو چکی ہے کہ خواہ شہر موں یا گاؤں ایک دوسرے کے گھر میں لوگوں کی نظر پڑتی ہے.مثلا ایک متوسط الحال شخص ہے اس کے پانچ چھ بیٹے ہیں.وہ ان سب کی شادی کر کے جب بہوؤں کو گھر میں لائے گا تو کیا ہر ایک کے لئے شہر سے باہر نیا مکان چار چار پانچ پانچ ہزار روپیہ خرچ کر کے بنائے گا.ہرگز نہیں بلکہ سب اس کے گھر میں رہیں گے.حالانکہ سب بھائی اپنی بھادیوں کے نا محرم ہوں گے.پس ضرور ہوا کہ شریعیت ایک پردہ ان حالات کے ماتحت ایسی عور توں کے لئے قائم کرتی اور ان کی حفاظت کرتی.سوالیسا پر وہ شریعت نے قائم کر دیا اور اس کا نام خمری پر دہ ہے.اس میں صرف ایک بات ضروری ہے وہ یہ کہ عورت اور ھنی یا دو پٹر یا مناسب مشال سر پہ اس قسم کی اوڑھ لے جس سے بال ڈھک جائیں.اور ایک حصہ اس کے سینہ کے بھی آگے آجائے.یہیں یہ کم از کم ہے.منہ کھلا ر ہے.ہاتھ کھلے رہیں.اور کام کاج کے ضروری اعضاء کھول سکتی ہے.ہاں زینت یعنی زیورات وغیرہ چھائے.مثلا اگر ماتھے پہ زیور ہے تو ذرا دو پیٹڈ نیچے کو کھسکا لے.یا کانوں میں زیور ہیں تو اسی بکل میں کان پوشیدہ ہو سکتے ہیں.لیکن اگر عورت کا چہرہ نہایت ہی خوبصورت اور فتنہ میں ڈالنے والا ہو تو وہ اُسی خمر کا گھونگٹ نکالے رکھے.اور یہ باتیں کوئی نئی نہیں ہیں.ہندوستان پنجاب کے سب شہروں میں شرفاء میں بلکہ ادنی لوگوں تک میں رائج ہیں.بلکہ اس سے زیادہ سختی سے رائج ہیں جتنے کی شریعت نے اجازت دی ہے.در حقیقت خمری پردہ عزیز رشتہ داروں اور ہمیشہ گھر میں آنے جانے والے نیم محرموں کا پردہ ہے.
۲۹۷ اس سے زیادہ اس کی حقیقت نہیں.اور اسی لئے اس میں زینت اور الاما ظهر منها کے الفاظ داخل کئے گئے ہیں کہ حسب حالات اور حسب رواج اور حسب ضرورت اس قسم کے پر دوہ میں کمی بیشی ہوتی رہے.مثلا جب وہی حسین و جمیل عورت ذرا نپختہ عمر کی ہو جائے اور اس کی نوجوانی کا حُسن اُس آب و تاب کا نہ رہے تو پھر وہ اپنا منہ بیشک کھول دے.اسی طرح زمینداروں میں اپنا کھیت اور تناجمہ پیشہ عورتوں میں اپنی دوکان بھی گھر کا حکم رکھتی ہے.وہاں عورتوں کا کام ایسا ہی ہوتا ہے جیسے اپنے گھروں میں اس لئے وہاں بھی خمری پر دہ ہو گا کیونکہ وہ غیر جگہ نہیں ہے بلکہ غرباء اور محنتی عورت کے لئے وہ اس کا اپنا گھر ہی ہے اس لئے دکاندار عورت اپنی دکان میں اور زمیندار عورت اپنی کھیتی ہیں اُسی پیاس میں کام کر سکتی ہے جس میں وہ اپنے گھر میں رہتی یعنی عمر کی پردہ کے ساتھ.اُمہات المومنین کی خصوصیت کیا تھی ؟ اب ہم اس بات کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ امہات المومنین کے پردہ میں کیوں بعض خصوصیات داخل کی گئی ہیں ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وستم کے تعد والدواج کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ ور (1) عورتوں کے لئے دین اسلام کی معلمہ خواتین پیدا کی جائیں.(۲) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے گھر کے اندرونی اخلاق عادات معاملات عبادات اور حالات اُمت کو مختلف اور متعدد طریقوں سے معلوم ہو سکیں.اور یہ کام ایک عورت سے نہیں چل سکتا تھا بلکہ کئی عورتیں اس کام کے لئے ضروری تھیں اور ان معلمہ خواتین کے لئے ضروری تھا کہ یہ
۲۹۸ ا.وہ ہر وقت اپنے گھروں میں حاضر رہیں.کیونکہ اگر وہ بھی اور عورتوں کی طرح محلہ محلہ اور گھر گھر پڑی پھر تیں تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حالات اور دین کے مسائل پوچھنے والے مرد اور عورتیں بڑی مصیبت میں پڑ جاتے.امہات المومنین کے گھر گویا مدرسوں کی طرح تھے اور دن رات وہ مدر سے کھلے رہتے تھے.پس جس طرح مدرسہ کے اوقات میں ایک مدرس کا مدرسہ میں حاضر رہنا ضروری ہے.اسی طرح ان کی حاضری اپنے گھروں میں ضروری تھی تاکہ ایسانہ ہو کہ کوئی مرد یا عورت دین کا علم سکھتے آئے اور ان کو غیر حاضر پا کر نا کام جائے.عورت کی زینت اور سنگار اور بناؤ صرف خاوند کے راضی کرنے اور اس کے خوش کرنے کے لئے ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ دنیا کے سب سے بڑے تارک الدنیا شخص تھے اس لئے آپ کے خوش کرنے کے لئے ان کو زینت الجاہلیتہ کی ضرورت نہ منفی.پھر چونکہ آپ کی وفات کے بعد ان کے لئے نکاح حرام تھا اس لئے بھی ان کو زینت کی ضرورت باقی نہ رہی تھی.کیونکہ جب خاوند کرنا ہی نہیں تو اس قسم کی مردوں کو سجانے والی زینت سے کیا کام.اس لئے بر خلاف تمام عورتوں کے امہات المومنین کے لئے رواجی زینت اور بناؤ سنگار (طہارت اور صفائی الگ چیز ہے) منع کر دیا گیا تھا.ان کی شان دنیا میں اُستاد اور مبلغ کی شان تھی اور ان کا وجود اُمت کے لئے قربان ہونے کی خاطر بنایا گیا تھا.اُن کی جو پوزیشن تھی وہ اس بات کی طلب گار تھی کہ وہ اپنا نفس، اپنی خواہشات اور اپنے سر آرام کو دین اور امت کے لئے نثار کر دیں.وہ امت کی عورتوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نائب تھیں اور جس طرح خود حضور کی زندگی محض خلق خدا کے لئے تھی.اسی طرح آپ کی ازواج بھی محض دین کے لئے وقف تھیں.اسی لئے تو قرآن مجید فرماتا ہے کہ يا نساء النبي لستن كاحد من النساء.یعنی نبی کی بی ہیو تم دنیا کی اور عورتوں کی طرح نہیں ہو جبکہ تمھارا خاص مشن ہے میں
۲۹۹ کو تمہیں پورا کر نا ہو گا.- پھر جب ایک طرف ان کو دنیا کا استاد بنا دیا گیا اور عورتوں کے سوا ہر قسم کے مرد بھی گروہ در گروہ ان کی خدمت میں دین سیکھنے کے لئے آنے لگے اور دوسری طرف با وجود جوان ہونے کے ان کو نکاح کی ممانعت کہ دی گئی تو ضرور تھا کہ ان کی حفاظت اور طہارت کا سامان بھی دوسروں سے بڑھ کر کیا جاتا.سو یہ حکم ملا کہ تم استنادانہ لہجہ میں لوگوں سے بات کیا کرو.ہر گز بات چیت میں اور عورتوں کی سی نرمی اور ملائمت اور لجاجت نہ ہو.دروازہ پر پردہ پڑا رہے تاکہ لوگ باہر ہی سے بات کر لیا کریں.اور اتفاقی نظر بھی کسی کی ان پہ نہ پڑے.اور لوگ ان کو اماں جان کہہ کہ خطاب کریں اور اپنے تئیں صرف شاگرد ہی نہیں بلکہ ان کا بیٹا کھیں.غرض ان پاک عورتوں کے حالات دنیا کی دوسری عورتوں سے بالکل مختلف تھے اس لئے ان کے لئے خاص ہدایات اور احکامات نازل ہوئے تھے.اور یہ احکام گھر کے پردہ کے ہی متعلق تھے.اگر اتفاقیہ ان کو باہر جانا پڑتا تھا تو اس کے متعلق ان کے لئے بھی وہی احکام تھے جو دوسری تمام مومنات کے لئے تھے کیونکہ مومنات کا جلبابی پردہ اتنا کافی اور وافی تھا کہ امہات المومنین کے لئے اس میں کسی اینہادی کی ضرورت نہ تھی.جب سر اور جسم اور چہرہ سب کچھ ڈھک جائے تو پھر کسی اور مزید احتیاط کی کچھ حاجت نہیں رہتی.ہاں گھروں کے اندر کا پردہ چونکہ دوسری مومنات کا بہت نرم ہے اس لئے امہات المومنین کے لئے اس پر دہ میں زیادتی کی گئی.وجہ یہ کہ اعمات المومنین کے پاس ان کے گھر پر ہر قسم کے غیر آدمی ہر وقت تعلیم حاصل کرنے کے لئے ردوسری عورتوں کا یہ حال نہ تھا اور نہ ہو سکتا ہے.
٣٠٠ پرده پر اعتراضات اس کے بعد ہم بعض ان اعتراضات کو لیتے ہیں جو پردہ پر لوگ کیا کرتے ہیں.سوال : پردہ اگر عمدہ اور مفید چیز ہوتا تو کیوں اسلامی ممالک مثلاً ترک اور افغانستان کے لوگ اسے چھوڑ دیتے.جواب : ایک وجہ اس کی یہ ہے کہ مفید شرعی پردہ کے ساتھ غیر مفید حصہ ، رواجی پردہ اتنا سخت تھا کہ لوگ اس سے تنگ آگئے تھے.نتیجہ یہ ہوا کہ ان لوگوں نے پردہ یا لکل ہی چھوڑ دیا.اگر ہمیشہ سے شرعی پردہ پر عمل رہتا تو وہ اتنا سخت نہ تھا نہ اس میں یہ قید تھی کہ عورتیں گھروں میں مقید رہیں.پس جب رواج نے اتنی سختی کی کہ ترازو کا ایک پلڑے بہت مجھک گیا اور اعتدال نہ رہا تو لازمی بات تھی کہ تنگ آکر وہ لوگ اب ترازو کا دوسرا پڑھ بہت جھکا دیتے.اس کو ری ایکشن کہتے ہیں.اور یہ بے اعتدالی نتیجہ ہے.پہلی ہے اعتدالی کا.دوسری وجہ اس کی یورپ کی اندھا دھند تقلید ہے جو مادی خیالات کے لوگ ہر ملک میں کر رہے ہیں.نہ سوچتے ہیں نہ غور کرتے ہیں نہ موازہ نہ کرتے ہیں بلکہ میں طرف اور جس طرح یورپ ان کو نچاتا ہے وہ ناچتے ہیں.یہ حالت یورپ کے رعب اور اپنے دین سے ناواقفی کا نتیجہ ہے.تیسری وجہ یہ ہے کہ خود عورتیں بھی آزادی چاہتی ہیں.وہ کہتی ہیں کہ ہم بھی مردوں کی طرح آزاد پھریں.دُنیا سے ملیں جلیں.تماشے دیکھیں تاچ گانا تھیٹر پر لطف کو چکھیں.بلکه خود گائیں ناچیں.اور کیا وجہ کہ لوگ ہمارے حُسن کی قدر نہ کریں.سو یا د رکھنا چاہیئے کہ اصل میں ہر شخص قانون اور مذہب سے آزادی چاہتا ہے.مرد بھی چاہتے ہیں کہ کیا وجہ ہم محنت کریں.کیوں نہ جین کا مال چاہیں اُٹھا لیں.اور جس عورت کو پسند کریں اپنے قبضہ میں
٣٠١ لے آئیں.جو دشمن ہوا سے مار ڈالیں.اور جو بھی خواہش ہو اسے پورا کر لیں.مگر انہوں نے دیکھا کہ یہ آزادی سوسائٹی کے تباہ کرنے اور ملک کا امن برباد کرنے کا باعث ہے.اس لئے قانون اور مذہب کے نیچے پناہ لے کہ انہوں نے خود اپنی اس مہلک آزادی پر قید لگادی اور نقصان دہ خواہشات کو ملک کے امن اور سوسائٹی کی بہتری پر قربان کر دیا.نفس انسانی کی مثال ایک گھوڑے کی مانند ہے جو اپنے جوہر اور قابلیت اسی وقت دکھاتا ہے جب وہ پابند ہو اور اس کے منہ میں لگام ہو نہ یہ کہ بے لگام اور ہر طرح غیر مفید ہو.سوجس طرح مردوں نے اپنے تئیں بہت سی باتوں میں آزادی کھو کہ مقید کہ دیا ہے.اسی طرح عورتوں کے لئے بھی شرعی پر وہ ایک مناسب قید ہے.بیشک وہ کامل آزادی میں روک ہے مگر یہ روک اخلاقی صحت اور سوسائٹی کے امن اور گھروں کی راحت کے لئے نہایت ضروری ہے.پس وہ عورتیں جو آزادی چاہتی ہیں وہ یہ سوچ لیں کہ آج تو بیشک ان کو یہ آزادی بہت لذت وہ معلوم ہوگی.مگر پھر چند سال بعد قدرتاً وہ اس کی مزید قسط کی طلب گار ہونگی پھر اس سے اگلی قسط کی یہاں تک کہ ان کی حالت یورپ کی آزاد منش عورتوں کی طرح ہو جائے گی............جہاں عورت عورت نہیں بلکہ مرد ہے کیونکہ وہ مردوں والا علم حاصل کرتی ہے.ان کی طرح خود کمائی کرتی ہے.تمہا ر ہتی ہے.شادی اور اولاد کے قیود سے آزاد رہنا چاہتی ہے.برتھ کنٹرول پر عمل کرتی ہے اور..........اس مقام سے بہت آگے پہنچی ہوئی ہے جس درجہ پر ایشیا کا کوئی بڑے سے بڑا آزاد منش بھی کبھی پہنچا ہوگا.پس غور کیہ و کہ کیا یہ آزادی تمھیں پسند ہے ہے کیونکہ پردہ کا دور کرنا اس زمانہ میں یقیناً رفتہ رفتہ عورتوں کو اسی راستہ پر لے جائے گا.جس پر ان سے پہلے ان کی یورو چین نہیں گذر چکی ہیں.دنیا میں ہر شخص کی ہر قوم کی ہر نفس کی آزادی کی ایک حد ہے اگر عورتیں اس حد سے باہر قدم نکالیں گی جو اسلامی شریعت نے ان پر مقرر کی ہے تو وہ یا درکھیں کہ وہ سخت نقصان
٣٠٣ اٹھائیں گی.ہاں جو حصہ شرع نے اُن پر نہیں لگایا اور وہ تکلیف دہ ہے.اُسے بیشک دور کر دیں وہ خدا جو تمھارے نفسوں پر تم سے زیادہ مہربان ہے تمہاری بہتری کے لئے ایک تجویز مقرر فرماتا ہے.اگر اسے قبول نہ کر دگی تو تمہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا بلکہ اس دنیا میں تمھارے اعلیٰ جو ہر اور آئندہ عالم میں تمھارے نیک ثمرات برباد ہو جائیں گے.سوال : پر دہ اگر احکام دین میں داخل ہے تو پھر بتائیے کہ نہ کرنے والی عورت پر اسلام نے کیا سزا مقرر کی ہے ؟ اگر نہیں تو صاف ظاہر ہے کہ پردہ ضروریات دین میں داخل نہیں ہے.جواب : میک پرده احکام دین میں داخل ہے.کیونکہ قرآن مجید میں اس کے متعلق مومنوں کو مخاطب کر کے صاف احکام موجود ہیں.مگر پردہ اسلام نے نیکی اور تقوی کے بہ قرار رکھتے اور دلی پاکیزگی اور طہارت میں امداد دینے کے لئے قائم کیا ہے.اس لئے اس کے نہ کرنے والے پر تعزیہ اور مزا نہیں ہے.یہ تو ایک نیکی ہے.تقویٰ کی ایک شاخ ہے.پرہیز گاری کا ایک شعبہ ہے پس تہ کرنے والا جسمانی اور قانونی تعزیر کے نیچے نہیں آئے گا.اسلام نے علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے مگر کیا کسی ایسے شخص کے لئے کو ئی مترا مقرر کی ہے جو علم حاصل نہ کرے ہے قرآن نے تقویٰ کی باریک در باریک راہوں پر چلنے کے احکام پیش کئے ہیں مگر کیا جو اعلیٰ درجہ کا متفقی نہ رہتے اس کے لئے قید یا تازیانہ وغیرہ سرا تجویز کی ہے ؟ اسی طرح صدقات اور تہجد اور نوافل وغیرہ یہ بہت زور دیا ہے مگر کیا یہ بھی کہا ہے کہ جو صدقہ نہ دے اس کو ۲۰ درے مارے جائیں اور جو نفل نہ پڑھے اُسے درے اور جو تہجد گزار نہ ہوا سے ۱۰۰ درے.پر وہ بھی نیکی اور تقویٰ کی راہوں میں سے ایک راہ ہے.ان باتوں میں داخل نہیں ہے.جن پر سزا اور حدود قائم ہوتی ہیں.وہ تو تین ہی قسم کی چیزیں ہیں یعنی اموال اور دیا اور اعراض کا نقصان.پردہ سے تو صرف نیکی اور تقویٰ میں ترقی ہوتی ہے اور انسان فتنوں اور برائیوں سے بچتے ہیں پس اگر کوئی
٣٠٣ عورت اس کا خیال نہ رکھے گی تو شریعت اسے جوانی سزا نہ دے گی ہاں اس کی نیکی پاکیزگی اور طہارت میں فرق آجائے گا اور فتنوں کا راستہ کھلتا جائے گا.یہاں تک کہ آخر کار ان گناہوں کے ارتکاب تک بھی نوبت پہنچے گی جن پر شریعت نے مزار کی ہے.قرآنی شریعت نے مسلمانوں کے لئے بکثرت ایسی ہدایات دی ہیں کہ جن پر عمل کرنے سے بدی نہیں بلکہ بدی کی جڑ کٹتی ہے اور بدی پیدا ہی نہیں ہونے پاتی اور پردہ بھی انہی باتوں میں سے ایک بات ہے جن سے بدیوں کا سد باب ہوتا ہے اور گناہ کا بیج ہی برباد کر دیا جاتا ہے.پس اس پر تحریر مقرر کرنے کے کیا معنی؟ یہ اعتراض ہی نخوا اور شرعی تعزیرات کے اصول کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوا ہے.ہاں ایک قسم کی تعزیر کا ذکر قرآن میں ان عورتوں کے لئے موجود ہے جو پردہ کے اصول کو بالائے طاق رکھ کر بے حیائی کی باتیں کرتی ہیں.مثلاً اپنا سنگار جان بوجھ کر نامحرموں کو دکھاتی ہیں اور زینت کا اظہار کرتی ہیں اور بار بار بے شرمی کی حرکات کرتی ہیں.مشگلا شارع عام میں اپنی بے پردگی کرتی ہیں اور غیر مردوں سے سہنسی مذاق وغیرہ کرتی ہیں میں ایسی عورتوں کے لئے جو اسلامی پردہ کے حدود کو جان بوجھ کر بے حیائی اور بے شرمی سے توڑتی ہیں اور قرآن نے یہ حکم دیا ہے کہ اُن کو گھروں سے بالکل باہر نہ نکلنے دیا جائے اور ان کو قیدیوں کی طرح گھر میں رکھا جائے تاکہ وہ اپنی حرکات سے لوگوں پر برا اثر نہ ڈالیں پس پردہ کو خراب کرنے والیوں کی تعزیر مزید پر دہ ہے تاکہ ان کی اصلاح ہو جائے.اور اس تعزیر کے لئے ضروری نہیں کہ عدالت کی طرف رجوع کیا جائے.بلکہ یہ کافی ہے کہ خاوند اپنی صورت کی اور باپ یا بھائی وغیرہ ولی اپنی لڑکی اور بہن کی اصلاح کریں.والتي ياتين الفاحشة من نسائكم فاستشهد واعليهن اربعة منكم فان شهدوا فامسكوا من في البيوت حتى يتوفهن الموت أو يجعل الله لهن سبيلا -
یعنی وہ عمر تھیں جو بے حیائی کی مرتکب ہوتی ہیں ان پر چار گواہوں کی گواہیاں مل جائیں.تو ان کو گھروں میں روک رکھو اور باہر نکلنے نہ دو یہاں تک کہ وہ فوت ہو جائیں یا خدا ان کے لئے کوئی راستہ نکال دے مثلاً وہ پوری اصلاح اور توبہ کر لیں.یا طلاق مل جائے یا اگر کنواری یا بیوہ ہوں تو ان کا نکاح ہو جائے وغیرہ.پس یہ ایک قسم کی تعزیر بھی موجود ہے.مگر یہ صرف ان عورتوں کے لئے ہے جو اپنا پردہ توڑ کر بے حیائی کی بھی مرتکب ہوں.مشکلا جیسا اس زمانہ میں بعض لڑکیاں ذرا پڑھ جاتی ہیں تو ناولوں اور بے ہودہ عشقیہ اشعار کے مطالعہ سے متاثر ہو کر رقعہ بازی اور نظر بازی اور عشق بازی میں حصہ لینے لگتی ہیں اور پردہ نظر کا اور کپڑے کا دور کرنے کی کوشش کرتی ہیں.ایسی عورتوں کے لئے یہ شرعی تعزیہ بھی موجود ہے.یہ حالات اس زمانہ میں بہت پائے جاتے ہیں اور یہ آوارگی دینی تعلیم کے نہ ملنے اور شرعی پردہ نہ کرنے سے ہی پیدا ہوئی ہے.سوال : آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ میں احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ عورتیں جنگوں میں جاتی تھیں اور اُحد کے میدان میں تو لکھا ہے کہ ان کی پنڈلیاں تک نکلی تھیں.پس یہ پردہ کیسا تھا ؟ جواب : - اُحد میں جیسا کہ آپ فرماتے ہیں یہی حال تھا.مگر کردہ تو اس کے دو سال بعد جاری ہوا ہے.یہ بات پردہ کے حکم سے پہلے کی ہے مگر اس کے ساتھ یہ بھی یا درکھنا چاہیے کہ جنگ کے میدان کی اور حیثیت ہے.وہاں کسی قوم کی موت اور زندگی کا سوال پیدا ہوتا ہے اور تمام حالات شہری معاشرت کے ساقط ہو جاتے ہیں.وہاں صرف ایک مقصد ہوتا ہے کہ کسی طرح فتح حاصل ہو.پیس ان حالات میں عورتوں کا لڑنا یا زخمیوں کی خبر گیری کرنا وغیرہ سب جائز بلکہ فرض ہو جاتے ہیں.جنگ کے میدان کے حالات کو شہر کے حالات سے کیا مناسبت ؟ جنگ میں جان مال ملک عزت دین کے
۳۰۵ سوال کا فیصلہ ہوتا ہے.وہاں ضرورت ہر چیز کو جائزہ کر دیتی ہے.سوال : جلبابی پردہ میں ہم کہتے ہی کہ منہ کھلا رکھنا چاہیے.آپ کے پاس اس بات کی کیا سند ہے کہ مند کھلا نہیں رہنا چاہیئے، جواب : گھر سے باہر والے یعنی جلی بی پردہ کی جو آیت ہے اس میں سے ہی یہ استنباط ہوتا ہے کہ باہر نکلنے والی بیبیاں اپنا سارا منہ کھلا نہ رکھیں.صرف اتنا کھلا رکھتا تو مجبوری ہے.جس سے نظر اچھی طرح آسکے.وہ آیت یوں ہے.ذالك ادنى ان يعرفن فلا يودين یعنی مسلمان عورت میں جلباب اوڑھ کر باہر نکلا کریں.اس لئے کہ لوگ ان کو پہچان لیں کہ یہ مسلمان عورت آرہی ہے اور اس وجہ سے ان کو تکلیف نہ ہو.اس سے معلوم ہوا که اگر عورتیں منہ کھول کر نکلا کرتیں تو پھر جباب کی ضرورت ہی کیا تھی.دوسرے یہ کہ یہاں جلباب کو مسلمان عورت کی پہچان کا ذریعہ قرار دیا ہے نہ کہ اُس کے چہرہ کو اگر چہرہ کھلا رہتا تو وہ چہرہ پہچان کا موجب ہوتا نہ کہ جلباب.مگر آیت نے یہ فرمایا ہے کہ مسلمان عورت چادر کو اس طرح اوڑھ کر باہر نکلے کہ چادر ہی اس کی پہچان کا ذریعہ ہو.اس لئے ثابت ہوا کہ چہرہ ضرور چھپا ہوا ہو.اور صرف چادر کی وجہ سے لوگوں کو یہ معلوم ہو کہ یہ مسلمان عورت ہے جو جارہی ہے.اس کے جسم اور چہرہ اور اعضاء کی بناوٹ سے پتہ نہ لگے کہ کون سی عورت ہے.یا درکھنا چاہیے کہ یہ جلبانی آیت امہات المومنین پر بھی اسی طرح حاوی تھی جس طرح دیگر مومنات پر اس لئے اگر چہرہ کھلے رکھنے کی اجازت ہوتی تو امہات المومنین کی پہچان تو مدینہ میں ہر شخص کو پہلے ہی سے تھی.وہ ان کے چہروں سے بخوبی واقف تھے.کیونکہ وہ حجاب کے حکم سے پانچ سال پہلے ان کے سامنے بے پردہ پھرتی تھیں پھر ان کے
بارہ میں یہ کیوں کہا گیا ذالك ادنیٰ ان يُعرفن فلا یو ڈین یعنی جب وہ بھی یا ہر نکلیں گی تو جلباب ہی کی وجہ سے لوگوں کو آسانی سے معلوم ہو سکے گا کہ یہ کوئی مسلمان عورت رہے.حالانکہ اگر چہرہ کھلا رکھنے کی اجازت ہوتی تو لوگ جلباب سے نہیں بلکہ چہرہ سے ہی وراً پہچان لیتے کہ یہ قال ام المومنین ہیں ان کے لئے راستہ چھوڑ دو.چنانچہ ایک حدیث میں ہے کہ ام المومنین حضرت سودہ ایک دفعہ باہر جارہی تھیں.حضرت عمرة احبات الموستین کے اپنے گھروں سے باہر نکلنے کے ہمیشہ مخالف تھے.انہوں نے ان کا ڈیل ڈول اور چال دیکھ کر آواز دی کہ اے سودہ ہم نے تم کو پہچان لیا.اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا منہ نہیں کھلا تھا.دو تہ عمر یہ ہرگز نہ کہتے کہ ہم نے تم کو پہچان لیا.کا کسی شخص کو جو منہ کھولے سامنے ہو کوئی دوسرا شخص کہ سکتا ہے کہ ہم نے تم کو پہچان لیا.یہ فقرہ اسی وقت بولا جاتا ہے جب دوسرے انسان کا چہرہ وغیرہ مخفی ہو.سوال : جلبابی پردہ میں اگر منہ نہ کھلا ہو تو عورت چل کس طرح سکے گی اور بغیر نظر کے وہ رستہ کیونکر طے کرے گی ؟ جواب : یہ کس نے کہا ہے کہ آنکھیں بند کر کے چلے سینکڑوں ہزاروں چیادار عورتیں گھونگٹ نکال کہ بازاروں میں جاتی ہیں.اسی طرح برقعہ کی جالی یا مصری طرز یا چادر کے نیچے دوپٹہ کا ایسا بلکل مارتا جس سے نیچے کا نصف چہرہ باپردہ ہو جاتا ہے.راولپنڈی جہلم کے علاقہ کی عورتیں ایسا ئیکل مارتی ہیں کہ اوپر سے ماتھا بند ہو جاتا ہے اور نیچے سے نصف تاک تک.صرف بیچ میں سے آنکھیں کھلی رہتی ہیں.یا اگر یہ سب نا پسند ہوں تو خود کوئی نئی ایجاد کر لیں.تاکہ عورتیں آپ کا احسان مانیں.سوال : ہندی زینت ہے یا نہیں ؟ کیونکہ شنا ہے کہ مسلمان عورتوں کو مہندی لگانے کا حکم ہے.پھر جب مجبوری سے ہاتھ باہر نکالیں گی تو ہر شخص کی نظر پڑے گی.اور بقول آپ کے فتنہ پیدا ہو گا.
جواب :.مہندی لگانے کا کوئی حکم اسلام نے نہیں دیا.مرضی ہے کوئی لگائے یا نہ لگائے.جہاں ہندوستانی عورت میں بہت سی اور عادات میں مبتلا ہیں یہ بھی ان میں سے ایک ہے.اصل میں تو یہ اس لئے لگائی جاتی تھی کہ گھر کے کام کاج اور برتن مانجھنے وغیرہ سے عورتوں کے ہاتھ اکثر میلے رہتے تھے اور باوجود صاف کرنے کے ان میں نرمی اور صفائی نہ آتی تھی اس لئے مہندی کا رواج ہو گیا کہ عیب ڈھک جائے اور مہندی کی سرخی میں ہاتھوں پر جو کام کاج کرنے سے سیاہی آجاتی ہے وہ مختفی ہو جائے.لیکن کیا کہوں خدا شاعروں سے سمجھے انہوں نے اس مہندی کو جو ایک معمولی عیب پوش چیز تھی کہاں تک پہنچایا کہ آخر کار عاشقوں کا خون بن کر معشوقوں کے ہاتھوں اور پیروں میں اُسے جگہ ملی ! آج کل تو مہندی کا رواج ہی اڑنا جاتا ہے اور چند دن تک غالباً وہ فرید آباد کے بازاروں میں بھی دستیاب نہ ہو سکے گی.پس آپ اس کے فتنہ سے نہ ڈریں.اگر ایسا ہی ڈر ہے تو دستانے اور جرابیں حاضر ہیں.ایسی عورتیں باہر نکلیں تو ان چیزوں کا استعمال کر سکتی ہیں.سوال : پردہ صحت کے لئے مضر ہے.جواب : بیشک بعض جگہ کا رواجی پردہ ممکن ہے کہ صحت کے لئے مصر ہو.مگر شرعی پردہ تو ایسا نہیں ہے ، شرعی پردہ میں ہر عورت بازار میں جنگل میں باغ میں اور سفر پر جاسکتی ہے.گھروں کے اندر کھلے منہ پھر سکتی ہے بس صحت کے لئے کسی جگہ بھی ضرر کی کوئی بات نہیں.دوڑنا بھاگنا.زنانہ کلب میں کھیل وغیرہ سب جائزہ ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت عائشریفہ کا دور کرتا ایک مشہور حدیث میں آیا ہے.رہا یہ کہ یورد چین عورتوں کی طرح ان کی صحبت نہیں ہوتی اس کی وجوہات اور ہیں.قومی آزادی حکومت دولت صحت کے قوانین پر چلتا.اعلیٰ غذائیں وغیرہ اس کی وجوہات ہیں جو ہندوستانی عورتوں کا کیا ذکر مردوں کو بھی حاصل نہیں ہیں.جہالت اغربت افلاس ادنیٰ
٣٠٨ خوراک اندھیرے نمناک گھروں اور متعفن گلی کوچوں کی بدولت عورتیں ہی نہیں بلکہ ہندوستانی مرد بھی بکثرت ہلاک ہو رہے ہیں اور مرد عورتوں کی نسبت زیادہ ہلاک ہورہے ہیں.کیونکہ غور سے دیکھو گے تو معلوم ہوگا کہ اوسطاً ہر بستی ہیں بیوہ عورتیں رنڈوے مردوں سے زیادہ تعداد میں پائی جائیں گی.اس سے صاف ظاہر ہے کہ مرد زیادہ مرتے ہیں نیبت عورتوں کے.پس پردہ کی وجہ سے عورتوں کی ہلاکت محض ایک جھوٹا بہانہ ہے.سوال :- پردہ عورتوں کے علم کے حاصل کرتے ہیں روک ہے ؟ جواب :.یہ بھی غلط ہے.جہاں ایسا رواجی پر دہ ہے کہ عورت اپنی آواز غیر مرد کو نہیں سنا سکتی اور مرد غیر محرم عورت سے بات چیت نہیں کر سکتا.وہاں ممکن ہے کو اور غیر عور کر کہ علم حاصل کرنے میں وقت ہو مگر اسلام اس کا ذمہ دار نہیں.اسلامی پردہ حالانکہ امہات المومنین کے لئے دیگر مومنات سے بہت زیادہ سخت تھا مگر علم حاصل کر نا تو الگ وہ تو سارے جہان کی معلمہ بنی ہوئی تھیں.اور دُور دُور سے لوگ ان کے پاس دین حاصل کرتے آتے تھے.پس یہ عذر آپ کا بالکل غلط ہے.علیم کو پردہ سے تعلق نہیں.پرائمری تعلیم لڑکیاں بلوغت سے پہلے حاصل کر سکتی ہیں.اس سے زیادہ پڑھانا ہو تو ان کو وہ علم پڑھاؤ جو عورتوں کے مناسب حال ہوں.باپ بھائی خاوند لڑکے اپنے گھروں میں علم کا چرچا قائم رکھ سکتے ہیں اور عورتوں کو بہت کچھ تعلیم دے سکتے ہیں.گھر میں ہر مضمون کی مفید کتا ہیں مطالعہ کے لئے مہیا ہو سکتی ہیں.قرآن اور دینی کتابیں مترجم مل سکتی ہیں.باتی بی اسے یا مولوی فاضل یا ادیب فاضل بنانا کم از کم میری رائے میں بالکل لغویات ہے.کیونکہ یہ ڈگریاں اور علوم مردوں کی روٹی کمانے کے لئے ہیں اور خدا نے عورت کو روٹی کمانے والے علوم پڑھنے کے لئے نہیں پیدا کیا.بلکہ اس لئے کہ مرد سے کما کر کھلائے اور دہ گھر کا انتظام اور بچوں کی تربیت کرے.اور ان کو نیک اور دیندار بنائے.ان کو وہ علوم جن میں خانہ داری ، رنگ ، ابتدائی حفظان صحت بچوں کی نگرانی اور ان کا پالنا
٣٠٩ اور تربیت وغیرہ داخل ہیں.عورتیں اپنے گھروں میں ہی سیکھ سکتی ہیں.اور اپنے ہی مردوں سے ان کتابوں پر عبور کر سکتی ہیں.ایم اے یا بی اے پاس عورت کا دماغ ایک مرد کا دماغ ہو جاتا ہے اس میں سے نسائیت کا جوہر نکل جاتا ہے.اور اس سے کسی مرد کی شادی ایسی ہے جیسے کسی مرد کی دوسرے مرد کے ساتھ شادی ہو لیکن خوشیاں مناتے ہیں کہ خوب جوڑا ملا.دونوں ایک سے علم کے میاں بیوی مل گئے.حالانکہ ایک ماہ بعد ایسی بیوی ہلائے جان ثابت ہوتی ہے.جس طرح دو مردوں کا میاں بیوی ہونا خلاف فطرق ہے.ایسے ہی ایسی عورت کا بیوی بنا جو پوری مردانہ تعلیم پائی ہوئی ہو نا ممکن ہے کیونکہ چند روز کے بعدی یہ علم والی عورت خاوند سے اسی طرح بیزار ہو جاتی ہے جیسے آج کل امریکہ اور یورپ میں ہورہا ہے.جہاں اب تعلیم یافتہ عورت عورت نہیں بلکہ مرد ہے اور سبب مرد ہوتے کے وہ نہ عورت کے فرائض بچا لاسکتی ہے.نہ مرد کے لئے باعث راحت اور رحمت اور مودت ہو سکتی ہے چنانچہ دیکھ لو کہ کئی ایسی تعلیم یافتہ عور میں ایک ایک سال میں نہیں نہیں طلاقیں حاصل کرتی ہیں.وجہ یہ ہے کہ وہ لبیب مرد بن جانے کے پھر کسی مرد کے گھر میں ہیں نہیں سکتیں.عورت کا کمال یہ ہے کہ وہ عورت ہی رہے اور اپنے ہی دائرہ میں ترقی کرے.یا اگر مردانه علوم میں کامل ہو جائے تو پھر شادی اور خانہ آبادی نہ کرے کیونکہ یہ حالت عورت کا کمال نہیں ہے بلکہ منزل ہے.انشاء اللہ عورتوں کی تعلیم کے مضمون پر میں آئندہ کسی وقت مفصل اپنے خیالات کا اظہار کروں گا اور موجودہ طرز جو عورتوں کی تعلیم کی لوگ اختیار کر تے جاتے ہیں ان کے خطرات اور بد نتائج اور یورپ کی کورانہ تقلید کے نقصانات پر تفصیل سے بحث کروں گا.کیونکہ یہ بڑا لمبا اور مجیدہ مسئلہ ہے.وبالله التوفيق سوال : لنڈن کے بازار میں ایک چادر با برقعہ پوش عورت گذر رہی ہو جہاں موٹروں کی کثرت کی وجہ سے ہر ۲۰ یا ۳۰ سیکنڈ پر پولیس کانسٹیبل کبھی ایک طرف کے لوگوں کو گزارتا ہے کبھی دوسری طرف کے ایسے موقعہ پر اس کے منہ پر گھونگٹ ہو یا الجھنے والا
٣١٠ والا پردہ ہو تو عورت کی جان کا خطرہ ہے.وہاں جلیا بی پردہ نہیں چل سکتا.جواب : بیٹک ایسے موقعہ پر چادر یا برقعہ نہیں چل سکتا مگر وہ لوگ اگر چاہیں تو اپنے ہی لیاس میں جلس بی پر وہ بنا سکتے ہیں.یعنی لمبا کوٹ ، ہیٹ اور اس کے گرد با یک نقاب.اب بھی کئی معزز یاور و پین عورتیں ایسا لباس پہنتی ہیں.ذراسی ترمیم کی ضرورت ہے.یہ کون کہتا ہے کہ جب یوردی بین عورت مسلمان ہو جائے اور پردہ کرنا چاہے تو وہ ہندوستان کا ہی برقعہ یا چادر پہنے.وہ اپنے ملک کے لباس میں خفیف سی ترمیم کے بعد وہی حالت جلباب والی پیدا کر سکتی ہے.اسی طرح ٹوپی کی جگہ شال سے سر اور چہرہ کا ایک حقیقہ چھا سکتی ہے بلکہ چھتری سے بھی مدد لے سکتی ہے.رومن کیتھولک منوں کو دیکھو.کیا یہ لندن میں نہیں پھر سکتیں ؟ اگر یہ پھر سکتی ہیں تو ایک مسلمان عورت بھی پھر سکتی ہے.ننوں کا لباس اور نقاب مل کر پورا جلبابی پردہ بن جاتا ہے.اگر نقاب اٹھانا ہو تو چہرہ کا نچلا حصہ صرف ایک رومال سے چھپ سکتا ہے جو بائیں ہاتھ سے منہ پر رکھ لیا جائے.عرض عمل کرنا ہو تو ہر طریق سے ہو سکتا ہے.اورٹان ہو تو خوئے بدرا بہانہ بسیار والسلام ریویو آف ریل جنر اگست ستمبر ۶۱۹۲۸
۳۱۱ قرآن کریم میں حضرت لوط علیہ السلام کا قضہ اس قصہ میں مشکل مقام صرف اس بات کا جھگڑا ہے.جہاں حضرت لوط علیہ السلام کی بیٹیوں کا ذکر آتا ہے.اور قرآن میں وہ دو جگہ ہے.ایک تو سورہ ہود میں وَجَاءَهُ قَوْمُهُ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ - وَمِن قَبْلُ كَانُوا يَعْمَلُونَ السياتِ قَالَ يَقَومِ هَؤُلاء بَنَاتِي هُنَّ الهَرُ لَكُمْ فَاتَّقُوا اللهَ وَلَا تُخُرُونِ فِي ضَيْفِى اليْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيده قَالُوا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا لَنَا فِي بَنْتِكَ مِنْ حَقِّ وَإِنَّكَ لَتَعْلَمُ مَا نُرِيدُ (ہود: ۸۰۱۷۹) ترجمہ ، اور اس کی قوم (غصہ سے) اس کی طرف بھاگتی ہوئی آئی اور یہ پہلا موقعہ نہ تھا) پہلے (بھی) وہ ( لوگ نہایت خطرناک) بدیاں کرتے تھے.اُس نے کہا اے میری قوم یہ میری بیٹیاں ( جو تمھارے ہی گھروں میں بیاہی ہوئی) ہیں.وہ تمھارے لئے (اور تمھاری آبرو کے بچانے کے لئے نہایت پاک (دل اور پاک خیال) ہیں.پس تم اللہ کا تقوی اختیار کرو اور میرے مہمانوں (کی موجودگی) میں مجھے رسوا نہ کرو کیا تم میں سے کوئی (بھی) سمجھ دار آدمی) نہیں ہے اُنھوں نے کہا کہ تو یقیناً معلوم کر چکا ہے کہ تیری لڑکیوں کے متعلق نہیں کوئی بھی حق (حاصل) نہیں ہے اور جو (کچھ) ہم چاہتے ہیں اُسے تو جانتا ہے.اور دوسری جگہ سورہ حجر میں
قَالَ إِنَّ هَؤُلَاءِ ضَيفى فَلَا تَفْصَحُونِ O واتَّقُوا الله وَلَا تُخْنُونِ قَالُوا أَوَلَمْ نَتْهَكَ عَنِ الْعَلَمِينَO قَالَ هؤلاء بنتى إن كُنتُمْ فَعِلِينَ (الحجر، ٤٢٧٩) ترجمہ : (حین پرہ) اس نے (ان سے) کہا کہ) یہ لوگ میرے جہان ہیں.تم (انھیں ڈا کہ مجھے رسوا نہ کرو اور اللہ کا تقولی اختیار کردہ اور مجھے ذلیل ز کرد اُنھوں نے کہا کیا ہم نے تمھیں ہر ایرے غیرے کو اپنے پاس شہرانے سے روکا تھا اُس نے کہا کہ) اگر تم نے (میرے خلاف) کچھ کرنا رہی ہو تو یہ میری بیٹیاں (تم میں موجود ہی) میں (جو کافی ضمانت ہیں) حضرت لورا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بھتیجے تھے اور ان کے ساتھ ہی ترک وطن کر کے فلسطین میں آئے تھے.یہاں کچھ بستیاں اس مقام پر تھیں.جہاں آج کل بحر مردار یا DEAD SEA واقعہ ہے.ان میں سے سروم ایک بستی تھی جن کے لوگ خاص قسم کی بدکاری میں مبتلا تھے.یعنی ان کے ہاں لواطت کا بہت زور تھا.وہاں حضرت لوط آباد ہو گئے.جب کچھ مدت وہاں رہتے گذری تو اللہ تعالی نے اُن کو رسول مقرر کر کے تبلیغ اس قوم کی اُن کے سپرد کر دی.انہوں نے جب انہیں ان بد افعال سے منع کیا تو ساری قوم دشمن ہوگئی.اول تو یہ وجہ کہ وہ غیر ملک اور غیر قوم کے آدمی تھے.دوسرے یہ کہ ان کا جتھا نہ تھا.کیونکہ کوئی ان پر ایمان نہیں لایا تھا.تیسرے یہ کہ وہ ہر وقت ان کو نا جائزا فعال سے منع کرتے رہتے تھے.غرض تبلیغ کیا شروع ہوئی روز جھگڑا رہنے لگا.پاس اور بھی گاؤں تھے.حضرت لوط وہاں کے لوگوں کو بھی تبلیغ کیا کرتے تھے اور وہ لوگ بھی ان کے پاس آتے جاتے تھے.ان باہر کے لوگوں کی آمدو رفت سدوم میں وہاں کے باشندں کو پسند نہ تھی.بلکہ نہیں ان کی سب سے بڑی وجہ شکایت لوط علیہ السلام کے خلاف رہا کرتی تھی.کہ باہر کے لوگوں کو یہ شخص ہماری بستی میں لاتا ہے.اور یہ ہم کو سخت ناگوار ہے.
٣١٣ ایسا نہ کیا کہ سے در نہ ہم اسے نکال دیں گے.غرض یہ جھگڑے چلتے رہے.یہاں تک کہ جب اتمام محبت ہو چکی اور موعود عذاب کا وقت آگیا.اور کسی کے ایمان لانے کی امید نہ رہی.تو عذاب کے فرشتے متمثل ہو کر شام کے وقت بطور مہمانوں کے حضرت لوط کے ہاں آئے بستی کے لوگوں کو بھی رات کو پتہ لگ گیا کہ لوڈ کے ہاں آج پھر کچھ مہمان باہر سے آئے ہیں.دن کے وقت تو تو داردوں کے آنے سے وہ ناراض ہوتے ہی تھے.یہ رات کو آنا اور پھر شب بھر گاؤں میں ٹھہرنا ہیں غضب ہی ہو گیا.سارے چڑھ دوڑے.اور گھر کے آگے جمع ہو گئے.غل مچنے پر حضرت لوط علیہ اسلام باہر تشریف لائے.دیکھا.تو فرمایا بھائیو ! خدا سے ڈرو.یہ کیا مظاہرہ اور کیسا بلوہ ہے جہانوں کے سامنے تو خدا کے لئے مجھے ذلیل نہ کرو.انہوں نے جواب دیا.کیا ہم تمہیں سرور منع نہیں کرتے تھے کہ غیر علاقہ کے لوگوں کو یہاں نہ بلایا کرو.اب سیدھی طرح یا ان کو ابھی کھڑے کھڑے نکال دو.اور خود بھی نکل جاؤ ورنہ ہم دوسری طرح تمہاری خبر لیں گے.کیا تمہاری صلاح ہے کہ یہاں کوئی چوری یا ڈاکہ زنی کی واردات ہو جائے.تعرض حب بہت نل چپاڑہ ہوا.اور جہانوں کے سامنے بے عزتی کا خوف بھی.توان روز روز کے لڑائی جھگڑوں اور فسادوں سے بچنے کی ایک ترکیب حضرت لوط علیہ السلام کو سوجھی.وہ یہ کہ میں تو غریب الوطن آدمی ہوں.میرا ان پر کوئی اثر نہیں.ایک شرط پر ان سے صلح کر لیتا ہوں.تاکہ امن ہو جائے.وہ یہ کہ میں اپنی دونوں ناکتخدا لڑکیوں کی شادی اس غیر قوم کے لڑکوں سے کر دوں.تاکہ حق قرابت قائم ہو جائے.اور ان کو مجھ پر لسبب ان رشتوں کے اعتماد پیدا ہو جائے اور اجنبیت جاتی رہے.کیونکہ ایسے رشتے قومی جھگڑوں اور برادری کے فسادوں کے دُور کرنے میں بہت کارگر ہوتے ہیں.ایسا ہی مغلوں اور راجپوتوں نے بھی کیا.اور ساتھ ہی غیریت بھی کم ہو جانے کی وجہ سے یہ لوگ غالباً میری نصیحتوں کو بھی سن لیا کریں گے اور ان پر عمل کریں گے.بفرض حضرت لوط نے اپنی طرف سے اس مسلسل فساد کے دُور کرنے کی یہ
۳۱۴ تجویز پیش کی.کہ خدا کے لئے ان جھگڑوں اور ذلیل کارروائیوں اور عداوتوں کو چھوڑ دو.میں تو صلح کا خواہاں اور تمہارا سچا خیر خواہ ہوں.اگر مجھے غیر سمجھے کہ یہ حرکتیں کرتے ہو تو بہتر ہوگا کہ ضلع کی خاطر ہماری تمہاری آپس میں رشتہ داری ہو جائے.دیکھو اس وقت میری دوجیاں جوان موجود ہیں.سارا گاؤں جانتا ہے کہ ان سے زیادہ نیک اور پاک لڑکیاں نہیں اور کہیں نہیں مل سکتیں.ان دونوں کی شادیاں میں تمہارے ہی دو لڑکوں سے کر دیتا ہوں جن سے بھی تم منظور کرہ بشر طیکہ تم امن سے رہو اور خوامخواہ روز روز کے فتنے نہ پیدا کیا کرو.مگر وہ بھلا کہاں سنتے تھے.وہ تو خو د لوڈ کی طرف سے ہی بھرے بیٹھے تھے اور دولوک فیصلہ کرنے آئے تھے کہنے لگے.سفوجی ! یہاں تو بیرونی لوگوں کے آنے اور ٹھہرنے کا جھگڑا ہے.تمہاری بیٹیوں کا کوئی ذکر اور تعلق نہیں.نہ ہمیں ان سے کوئی سروکار ہے.مَا لَنَا فِي بَنْتِكَ مِنْ حَقِّ (هود : ۸۰) ترجمہ تیری لڑکیوں کے متعلق نہیں کوئی بھی حق (حاصل) نہیں ہے.بلکہ تم جانتے ہو.جس لئے ہم آئے ہیں.ہم تم سے تعلق بڑھانے اور صلح کرنے نہیں آئے.بلکہ اس لئے آئے ہیں.کہ اب تم کو یہاں سے نکال کر چھوڑیں اخر جو ا ال نوطٍ مِنْ قَرْيَتِكُمْ (النمل (٥٠) ترجمه : (اے لوگو) لوط کے خاندان کو اپنے شہر سے نکال دو.آج آخری فیصلہ ہمارا تمہارا ہے.ہم نے معلوم کر لیا ہے.کہ تمہارے ہاں کچھ آدمی باہر کے اب بھی اندر چھپے بیٹھے ہیں.عرض یہ سلسلہ جنبانی صلح کی ناکام رہی اور لوط علیہ السلام گھر کے اندر آگئے اور غالباً حضرت لوط علیہ السلام معه لواحقین آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرح گھر کے دوسرے دروازہ یا پچھواڑے سے دشمنوں کی آنکھوں میں خاک جھونک کر اس بستی سے نکل گئے.اس پاک جماعت کے نکل جانے کے بعد وہ پہاڑ جس پر سدوم واقعہ تھا.اور جو
۳۱۵ ایک آتش فشاں پہاڑ تھا.پھوٹ پڑا اور اس بستی پر آگ اور پتھروں کا مینہ جب کہ ایسی آتش فشانی یا VOLCANIC ERUPTIONS کے وقت ہوا کرتا ہے.ہر سا ساتھ ہی زمین بھی شق ہو گئی.اور رفتہ رفتہ ایک جھیل وہاں بن گئی جسے آج کل جھیل مردار کہتے ہیں.یہ کملی واقعہ ہے.اب بتاؤ کہ سوائے مصلی بات کے اس میں کوئی میری بات بھی ہے جو لوط علیہ السلام کی طرف منسوب کی جاسکے.ان چند باتوں کا واضح کرنا ضروری ہے.اول یہ کہ قرآن کی عبارت سے کہیں نہیں معلوم ہوتا کہ فرشتے لڑکوں کی شکل میں متشکل ہو کر آئے تھے وہاں تو مہمان لکھا ہے.کہیں لڑکے ہونے کا اشارہ تک نہیں بلکہ تو رات میں بھی نہیں.اس لئے یہ کہنا کہ لڑکوں کو دیکھ کر وہ لوگ جمع ہو کر آگئے تھے.غلط ہے.عذاب کے فرشتے تو سخت ہیبت ناک اور غضب والی ڈراؤنی شکلوں والے ہوں گے.جیسا کہ غلاظ شداد ہوتے ہیں.خونخوار آنکھوں اور بڑی بڑی داڑھیوں والے نہ کہ امرد.پھر لواطت کا کیا موقع تھا.ان کو لڑکا سمجھنا ساری غلطیوں کی جڑ ہے.دوسرے یہ کہ خود قرآن کہتا ہے.کہ وہ اس وقت یہ فعلی کے ارادہ سے نہیں آئے تھے.بیشک یہ ہر جگہ لکھا ہے کہ اس قوم میں یہ بڑی عادت رائج تھی.مگر کیا یہ عادت آج کل ہندوستان کے بعض شہروں کے لوگوں میں خاص طورپر رائج نہیں ہے ؟ مگر پھر بھی ایسے لوگ تھے باندھ کہا اس کام کے لئے ڈھنڈورہ پیتے ہوئے لوگوں کے دروازوں پر جمع نہیں ہو جایا کرتے در در نامه الفضل ۲۷ مئی ۱۹۳۸ و
٣١٩ وَاذْكُرْ عَبَدَنا ايوب يعنى حضرت ایوب کا قصہ قرآن مجید میں حضرت ایوب علیہ السلام کا قصہ قرآن مجید میں صرف دو جگہ اور وہ بھی بہت اختصار کے ساتھ آیا ہے.ایک تو سورۃ انبیاء میں دوسرے حق میں ہیں اس جگہ دونوں جگہ کی آیات درج کر دیتا ہوں.تاکہ پڑھنے والے کے لئے سہولت ہوا اور حوالہ دیکھتے ہیں دشواری پیش نہ آئے.1 - سورۃ حق کی آیات واذكرُعَيْدَنَا ايَوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطن هبِ وَعَذَابِ هُ أَرْكُضُ بِرِجُلِكَ هَذَا مُعْتَسَلَّم بَارِدُ و شَرَابٌ وَوَهَبْنَا لَهُ أَهْلَهُ وَمِثْلَهُمْ مَّعَهُمْ رَحْمَةً مِنَّا وَ ذِكرُ لِأُولِي الْأَلْبَابِ وَخَذَ بِيَدِكَ ضِعا فَاضْرِبُ بِهِ وَلَا تَحُنَتْ إِنَّا وَجَدُ لَهُ صَابِر أَ نِعْمَ الْعَبْدُ انه آداب ( ص ۴۲ - ۴۵)
۳۱۷ ترجمہ : اور ہمارے بندے ایوب کو یاد کر جب اس نے اپنے رب کو یہ کہتے ہوئے پکارا کہ مجھے ایک کا فرد خمس نے بڑی سخت تکلیف اور عذاب پہنچا ! ہے (ہم نے اسے کہا کہ) اپنی سواری کو ایڈی مار پیر ( سامنے) ایک نہانے والا پانی ہے جو ٹھنڈا بھی ہے اور پینے کے قابل بھی (یعنی صاف ہے) اور اور ہم نے اس کو اس کے اہل بھی دیئے اور اُن جیسے اور بھی اپنے رحم سے دیئے اور عقل والوں کے لئے ایک نصیحت کا سامان بھی بخشا.اور ایوب سے کہا کہا اپنے ہاتھ میں ایک بھور کے گچھے دار ٹہنی پڑے اور اس کی مدد سے تیزی کے ساتھ سفر کہ (یعنی اس سے بار بار کہ سواری کے جانور کو دوڑا) اور حق سے باطل کی طرف مائل نہ ہو.ہم نے اس (یعنی ایلوپ) کو صابر پایا وہ بہت اچھا بندہ تھا.وہ یقینا خدا کی طرف کثرت سے جھکنے والا تھا.۲.سورۃ الانبیاء کی آیات وايوبَ إِذْ نَادَى رَبَّهُ الَي مَسَّنِي الفَر وَأَنتَ أَرْحَمُ الرحِمِينَ فَاسْتَجَبْنَا لَهُ فَكَشَفْنَا مَا بِهِ مِنْ ضُرِ وَأَتَيْنَهُ وأتيته أهلَهُ وَمِثْلَهُم مَّعَهُم رَحْمَةً مِّن عِندنا وذكراى لِلعبدِينَ (الانبياء ۸۵۰۸۲) ترجمہ : اور (تو) ایوب کو بھی یاد کر) جب اس نے اپنے رب کو پکار کہ کہا کہ میری حالت یہ ہے کہ مجھے تکلیف نے آپکڑا ہے اور اے خدا ! تو تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے.پس ہم نے اس کی دعائتی اور جو تکلیف اُس کو پہنچی ہوئی تھی اس کو دور کر دیا
٣١٨ اور اس کو اس کے اہل و عیال) بھی دیئے اور اُن کے سوا اپنی طرف سے رحم کرتے ہوئے اور بھی دیئے اور ہم نے اس واقعہ کو عبادت گزاروں کے لیے ایک نصیحت کا موجب بنایا ہے.میں کل یہ ذکرہ آنجناب کے قصہ کا قرآن مجید میں آیا ہے.اس میں سے سعودۃ بنیاد کی آیات تو بالکل سادہ اور بغیر کسی جھگڑے والی بات کے ہیں لیکن سورۃ حق کی ان آیات کے متعلق اس قدر شکلات مفسرین نے ڈال دی ہیں کہ خدا کی پناہ.یہاں تک کہ معاملہ ابتیار کی تو ہین اور اللہ تعالیٰ کی پاک صفات پر حملہ کی نوبت تک پہنچ گیا ہے.اس قصہ کو ایسا پیچیدہ کر دیا ہے کہ انسانی عقل کو ان آیات کے الفاظ سے دھکا دیتے ہیں جو نہایت سادہ اور قابل قبول واقعات پرمشتمل ہے رنگ آمیزی کی گئی ہے کہ مفرحات کی حد تک پہنچ گئی ہے.تعوذ باللہ اور کسی وجہ سے ؟ صرف عجوبہ پسندی کی وجہ سے جو کہ تمام مفسرین نے اسرائیلی انبیاء کے لئے ضروری بھی ہے.اگر ان آیات میں نشان شدہ آیات کے معنی لغت اور علم اور منقل کے مطابق کئے جاتے تو یہ نوبت نہ پہنچتی صیح معنے سمجھنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ مختصر طور پر شہور معنی پرانے مفسرین کے بیان کئے جاویں.اور اس کے بعد ان آیات کی حقیقت کو واضح کیا جاوے.تاکہ سادہ اور صاف معنی لوگوں کی سمجھ میں آجائیں.سو وہ مشہور قصر یوں بیان کیا جاتا ہے.حضرت ایوب علیہ السلام بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے ایک پیغمبر تھے.اُن پر ایک دفعہ ہماری آئی اور ایسی سخت آئی کہ تمام جسم پر زخم ہو کہ کیڑے پڑ گئے.حتی کہ شہر والوں نے ان کو شہر سے باہر نکال دیا.اٹھارہ سال وہ خدام میں مبتلا ر ہے.ان کی انگلیاں دوغیرہ سب جھڑ گئیں.اور سب دوستوں رشتہ داروں اور رفیقوں نے ساتھ چھوڑ دیا.صرف ایک بیوی رہ گئی.جو شہر سے اُن کے لئے کھانا لاتی تھی.ایک دن اس عقیقہ کو جو ایک دو گھنٹہ کھانا لانے میں دیرہ ہو گئی.تو حضرت ایوب کو اس کی عفت پر شبہ ہو گیا اور
۳۱۹ ناراض ہو کر کہنے لگے کہ میں اچھا ہو گیا.تو خدا کی قسم تجھے سو ٹکٹڑیاں ماروں گا.(جو نعوذ باللہ زانی اور زانیہ کی سترا ہے خیر اٹھارہ سال بعد خدا نے فرمایا کہ فلاں جگہ لات مار.انہوں نے ماری.ایک چشمہ وہاں سے پھوٹ نکلا.آپ نے اس کا پانی پیا اور نہائے تو فوراً اچھے ہو گئے.اچھے ہو کر قسم کے متعلق خدا سے پوچھا.خدا نے کہا.کہ یہ عورت بے گناہ تو ہے.مگر چونکہ تو نے قسم کھائی تھی اس لئے سو تمہاں جمع کمر کے جھاڑو کی طرح بنا کہ اس بے گناہ ی کمر یہ مارہ تاکہ تیری قسم پوری ہو جائے.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.اس کے بعد الله تعالٰی نے ان کی مری ہوئی اولاد کو پھر زندہ کیا.اور مزید اولاد بھی دیا یہ قصہ میں نے ایک قرآن کے حاشیہ پر سے لیا ہے.یہ ہے گی جو ہمارے اہل قلم مفسرین نے انبیاء علیہم السلام اور ان کی پاک منش پیلیوں کی بنائی ہے اور جس پر اُن کو فخر بھی ہے.اور یہ ہے ان کے نزدیک ایک بنی جو تھوڑی سی دیر ہو جانے پر اپنی بیوی پر فوراً بدکاری کی تہمت رکھتا ہے اور بے دیکھے محض ظن پر قسم کھاتا ہے.کہ ضرور تجھے سو لکڑیاں ماروں گا ر یعنی تانیہ کو سزا دوں گا ذرا مجھے اچھا ہو لینے دے.اور یہ ہے خدا ان کا جو سجائے اس پاک دامن کو عفت آپ کہتے کے اور اپنے پیغمبر کو بدظنی سے روکنے کے خود ایک بیگناہ کو سونگھیاں مارنے کی ہدایت کرتا ہے.اور سزا کو کم کرنے کے لئے یہ عجیب حیلہ سکھاتا ہے کہ ان سب لکٹریوں کو ایک جھاڑد کی شکل میں باندھ لے.تاکہ ایک بے گناہ قربانی محیم بیوی کو تھوڑی چھوٹ گئے.انا للہ نے وانا اليه راجعون اس مختصر سان کے بعد اب میں ان آیات کا صاف اور دل لگتا مطلب بیان کرتا ہوں.اور اگر آپ کو پسند آئے تو خاکسار کے لئے دعا فرمائیں.ورنہ پھر اپنے لئے کوئی اور مطلب تلاش کریں.جو اللہ تعالیٰ کی بے عیب ذات اور اس کے رسولوں کے تقدس اور عقل اور سنت الہی کے مخالف نہ ہو.
٣٢٠ سب سے پہلے تو میں چند باتوں کی تردید کروں گا اول تویہ کہ انبیاء علیہ السلام کو کبھی ایسی خبیث بیماری نہیں ہوتی جین کی وجہ سے لوگ ان سے نفرت کریں.کیونکہ پھر وہ فرض رسالت ادا نہیں کر سکتے.نعوذ بالله جذام ہونا یا کیڑے پڑ نا ان کے لئے ایک ایسی بیماری ہے جس سے لوگ یقینا ان سے بھاگنے لگیں گے.پس یہ امر محال ہے.اور حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو نے بھی اس پر روشنی ڈالی ہے لیے (۲) دوسرے یہ کہ وہ اٹھارہ سال یا سالہا سال کے ایک نہایت لیے عرصہ تک ایسے بیمار نہیں ہو سکتے کہ فرائض رسالت نہ ادا کر سکیں.اگر ایوب علیہ السلام ۱۸ سال کوڑی پر شہر سے باہر پڑے رہے.تو انہوں نے کیا تبلیغ اور کیا تعلیم دی ہوگی اور خدا کی کون سی باتیں لوگوں تک پہنچائی ہوں گی.پس نہ ان کو ہدام ہوا نہ کپڑے پڑے.نہ بہت لمبی مدت تک بیکار پڑے رہے.یہ سب لغویات ہیں جن کو عقل سلیم اور تعلیم اسلامی دھکے دیتی ہے.اصل صرف اتنی ہے کہ وہ کچھ مدت کے لئے بیمار ضرور ہوئے تھے.اور اس بیماری کی ان کو سات روز جیسا کہ توریت میں مذکور ہے نہایت سخت تکلیف بھی رہی تھی.(ایوب ب ۲- ۱۳) مگر نہ ان کے ہاتھوں پیروں اور زبان نے جواب دے دیا تھا اور نہ ان کو کوئی قابل نفرت یا بد بو دار بیماری تھی.جیسا کہ ان آیات لے ایک دفعہ حضور نے فرمایا.اور میں نے اپنے کان سے سنا کہ خدا تعالیٰ چوڑھے کو نبی نہیں بناتا.کیونکہ لوگوں پر اس کی بات کا اثر نہیں ہوگا.وہ اُسے کہیں گے بھل تو ہمارا پاخانہ اٹھاتا تھا.اور آج (اس سے آگے الفاظ یاد نہیں رہے) میں کہتا ہوں نبی خاندانی خوبصورت اور عقلمند ہونا چاہیئے.حضور کی تقریر کا مطلب اسی قسم کا تھا.م م
سے ہی ثابت ہو جائے گا.تا.تیسرے یہ کہ حضرت ایوب کے ذمہ قرآن مجید کوئی ایسی بات نہیں لگا تا کہ ان کو ان کی بیوی کی طرف سے کبھی کوئی بنی ہوئی ہو.ہے.نہ یہ بیان کرتا ہے کہ انہوں نے سو ٹکٹڑیاں مارنے کی قسم کھائی تھی.یہ صرف یاروں کی قصہ خوانی ہے یا یہودیوں کی لغویات جن کو سن کر مفسرین اسلامی مسحور ہو گئے اور گویہ سمجھ کر فوراً رونق تفسیر کے لئے ان کو داخل کتب کم لبلبہ قرآن مجید نے تو یہ اصول مقر فرمایا ہے.الطيبات للطيبيين - والطيبون للطلبات.پس تمام پیغمبروں حتی کہ لوڈ اور نوح کی کافر اور مخالف بیبیاں بھی خواہ وہ سلسلہ حقہ کی کتنی ہی مخالف ہوں مگر ید جلین اور یہ کار نہیں ہو سکتیں چہ جائیکہ ایوہے کی.ایوب کی بیماری اب میں اصل قصہ کو جس طرح کہ میں ایسے قرآنی الفاظ سے سمجھا ہوں اور دوستوں کے سامنے رکھتا ہوں.وبالله التوفيق.یہ صاف ظاہر ہے کہ حضرت ایوب ایک دفعہ بیمار ضرور ہوئے تھے اور بیماری بھی بہت تکلیف دہ تھی.غالباً پھوڑے پھنسیاں یا اقلبا سخت قسم کی خارش ہوگی ہو بہت ایدا دیتی ہے اور کچھ مدت تک برابر چلتی ہے اور درمیان میں بعض نہایت سخت تکلیف کے دن بھی آتے ہیں.جس میں بے قراری ، لیے تو ابی ، درد وغیرہ سب عوارض موجود ہو جاتے ہیں.اور مشہور بھی یہی ہے کہ ان کو کوئی جلدی بیماری تھی اور تائید اس بات سے ہوتی ہے که خدا تعالٰی نے بھی بطور علاج ان کو ایک چشمہ میں نہانے اور اس کا پانی پینے کا حکم دیا تھا اس سے واضح ہے کہ جلدی بیماری ہی تھی اور تورات میں بھی لکھا ہے کہ اُسے جلتے ہوئے چوڑے ہوئے اور وہ ایک ٹھیکرا نے کہا اپنے تئیں کھلانے لگا.اور راکھ پر بیٹھ گیا.
(ایوب باب ۲ آیت (۸) حضرت مسیح موجود ( آپ پر سلامتی ہو) کو بھی ایک دفعہ خارش کا مرض ہو گیا تھا.یہ تشار کے قریب قریب کا واقعہ ہے اور کچھ مدت برابر حضور کو اس کی تکلیف رہی تھی.مگر معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ایوب کی یہ بیماری زیادہ تکلیف دہ تھی.جیسا کہ ان کی دعا سے معلوم ہوتا ہے.چنانچہ فرماتے ہیں.الله مسي الفروانتَ اَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (الانبياء (۸۳) ترجمه او کہ میری حالت یہ ہے کہ مجھے تکلیف نے آپکڑا ہے اور اسے خدا ! تو تو سب رحم کرنے والوں سے زیادہ رحم کرنے والا ہے پس نصب ، فقر اور عذاب کے الفاظ سے جسمانی بیماری ہی کی تکلیف معلوم ہوتی ہے.بسیاری کے لئے ایوب کی دُعا جیب بیماری نے بہت تکلیف دی تو حضرت ایوب نے دعا کی کہ رَبَّة انِي مَسَّنِيَ الشَّيْطَنُ بِنُصُبٍ وَعَذَابِ (ص ۴۲۰) یعنی اے میرے رب مجھے شیطان نے دُکھ اور عذاب میں ڈال دیا ہے مطلب یہ ہے کہ اب معاملہ میری برداشت سے باہر ہوتا جاتا ہے.تو ہی اس مصیبت کو دور کہ اس آیت پہ آگے چل کر بھی بحث ہوگی.انشاء اللہ تعالٰی.بیماری کا علاج اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم اس کا علاج بتاتے ہیں ١٠ - أنكض برجلك - - هذَا مَغْتَك بَارِدٌ ، وَشَرَابٌ ترجمہ :- (ہم نے اُسے کہا کہ) اپنی سواری کو ایڈی مار.یہ (سامنے ایک
نہانے والا پانی ہے جو ٹھنڈا بھی ہے اور پینے کے قابل بھی (یعنی صاف ہے) اور آگے ایک جملہ معترضہ جو قرآن مجید کی عام عادت ہے لاکر چو تھا جو اس نسخہ کا بتایا.- وَخُذُ بِيَدِكَ ضِعْنَا فَاضْرِبْ بِهِ رض : ۴۵) ترجمہ ، اور (ایوب سے کہا کہ اپنے ہاتھ میں ایک کھجور کی کیتھے دار ٹہنی پکڑے اور اس کی مدد سے تیزی کے ساتھ سفر کہ (یعنی اس سے مار مار کر سواری کے جانور کو دوڑا.یہ چار جسمانی علاج اس مرض کے خدا نے ان کو بتائے اركضُ بِرجُلِكَ پہلا علاج تگی کے مشہور لغوی معنے دوڑنا اور تیز چلنا بھی ہیں.اور سب لغات میں لکھے ہیں.قرآن مجید نے بھی دوسری جگہ ہی معنے کئے ہیں چنانچہ فرمایا لا تَرْكُضُوا وَارْجِعُوا إِلَى مَا أَخْرِفْتُم فِيهِ (انبياء (۱۳) ترجمہ : (تب ہم نے کہا) دوڑو نہیں ، اور ان چیزوں کی طرف جن کے ذریعہ سے تم آرام کی زندگی بسر کرتے تھے.پس حکم یہ ہوا.کہ اس بیماری کے لئے تم تیز قدم یا دور کر چلا کرد.اگر صرف از گلش ہوتا توشیبہ پڑسکتا تھا کہ سواری پر سیر کیا کہ وہ گھوڑا دوڑایا کرو.بیل گاڑی پر ہوا خوری کیا کرو.مگر برجلك کہہ کر واضح کر دیا کہ ان میں سے کوئی بات بھی کہنے والے کی مراد نہیں ہے.بلکہ مراد یہ ہے کہ اپنے پیروں سے یعنی پیدل سیر کیا کرو.پیدل تیز رفتاری سے چلا کرو.کیونکہ نہ صرف اس مرض کے لئے تازہ ہوا اور فنا ضروری ہے.بلکہ پیل چلنا بھی ضروری ہے.اس سے نہ صرف علاج کی نوعیت معلوم ہوگئی بلکہ یہ بھی معلوم ہو گیا کہ ایسے بیمار تھے کہ شدت مرض کے چند دنوں کے بعد وہ چل پھر سکتے تھے.اور ان کی انگلیاں
۳۲۴ اور پیر اور ٹانگیں گل سڑ نہیں گئی تھیں.بلکہ وہ تیز قدم روزانہ سیر کرنے کے قابل تھے کیونکہ ایسی سیر بہت فرحت اور شگفتگی پیدا کرتی ہے.اور پسینہ آکر روی مواد جسم سے خارج ہو.جاتے ہیں.دوسرے منے اُرگ بر خاک کے یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ حکم خداوندی ہے کہ فلاں جگہ جا کہ ٹھو کہ مارو.یا ایڈی مارو.تو وہاں سے ایک چشمہ پھوٹے گا.تم وہی پانی پینا اور اسی سے غسل کرتا.ہمیں ان معنوں پر بھی کوئی اعتراض نہیں.کیونکہ موسیٰ علیہ اسلام نے بھی عصا ما کہ پہاڑ میں سے ایک چشمہ نکالا تھا.اور سرسبز پہاڑی ملکوں میں یہ کوئی اچنے کی بات نہیں.البتہ ایسی جگہ کا تعین کر دینا خدا کے فضل اور وحی الہی کے غیب سے ہوا تھا.اب آپ کی مرضی ہے.خواہ پہلے منے پیدل سیرو ورزش کے لیں.خواہ ٹھو کہ مار کو چشمہ نکالنے کے میں نہیں کوئی انکار نہیں.دوسری صورت میں وہ چشمہ اسی طرح ان کی ٹھوکر سے پھوٹ کر نکل جس طرح موسی یا اسمعیل نے نکالا تھا اور پہلی صورت میں خدا تعالیٰ نے ان کو ایک چشمہ کا پتہ دیا کہ فلاں جگہ واقع ہے اس کا پانی پیو اور اسی کے پانی سے نہاؤ اور روز وہاں پیدل ڈیل مارچ کرتے جایا کرو.اور آیا کرو.یہ شہر اعلاج ہے هذَا مُعْتَسَل بَارِد وَشَرَابٌ علاج نمبر ۲ و ۳ یہ چشمہ تمہاری بیماری کے لئے شفا ہے.اس میں نہاؤ اور اس کو پیو.معلوم ہوتا ہے کہ وہ چشمہ گندھنگ وغیرہ اجزاء سے مرکب تھا.جو جلدی بیماریوں اور خارش وغیرہ کے لئے اکسیر ہے.اب بھی دنیا کے تمام ملکوں میں جلدی امراض کے لوگ ایسے چشموں پر جاتے اور وہیں بہاتے اور اپنی کا پانی پی کہ شفا پاتے ہیں.پس ایک علاج سیر پیدل دوسرا علاج غسل اس چشمہ کے پانی سے اور تیسرا علاج اس پانی کو پینا تھا.آگے چل کہ چوتھا علاج فرمایا یعنی وَخُذُ بِيَدِكَ ضِعُنا
۳۲۵ وَخُذُ بِيَدِكَ ضِخْتَا فَاضُرِبُ بِهِ علاج نمبر ۲ یعنی اپنے ہاتھ میں ایک صحت نے ضیعت کے معنی لغت میں ہیں سبز اور خشک گھانسی یا سبز اور خشک ٹہنیوں یا شاخوں کا گٹھا.مثلاً چند سبنر شاخیں لے کر خشک گھاس یا ہنی سے اس کو اس طرح باندھ لیا جائے کہ وہ جھاڑو یا چوری کی طرح ایک مکھیاں اُڑانے والی چیز بن جائے ہیں جب زخموں یا پھوڑے پھنسیوں کا علاج ورزش سے اور نسل سے بطور دوا سے ہی ہوا.پانی پینے سے ہوا تو ضروری ہے کہ حیم کے زخموں کی مکھیوں، پچھوں کیڑوں اور ان آفتوں سے بھی پوری حفاظت کی جائے تاکہ مکھی کے بیٹھنے کی وجہ سے اس میں کپڑے وغیرہ نہ پڑ جائیں اور یہ چوری یا سری شاخیں ڈرینگ کا کام کریں.خُذُ بِيَدِكَ سے معلوم ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ ان کے ہاتھ ایسے خراب نہیں ہو گئے تھے کہ کیڑے پڑ گئے ہوں یا انگلیاں جھڑ گئی ہوں.بلکہ ایسے تھے کہ وہ ان سے دن کو جسم پر چوری چھیلنے کا کام لے سکتے تھے.قاضرب بے یعنی اس چوری کو اپنے ہاتھ سے ہلایا کہ تاکہ زخم یا چھوڑے حشرات الارض سے محفوظ رہیں.ضَرَب کے معنے حرکت کہ تا نحوی طور پر بھی ہیں.اور ضرب کا لفظ تو عربی میں ہر فعل کی جگہ آسکتا ہے اور اردو میں ہم یوں ترجمہ کر سکتے ہیں کہ اپنے ہاتھ میں ایک مٹھا شانوں کالے کر ہلایا کہ یا اس سے مکھیاں وغیرہ ہٹایا کہ.یہاں سے یہ بھی واضح ہوا.کہ ہر گزنہ یہاں یا کسی اور جگہ مارنے کا اشارہ یا کتابیہ بیوی کی طرف نہیں.بلکہ ایوب کے سارے قصہ میں کہیں ان کی اہلیہ کا ندمت کے ساتھ ذکر نہیں.نہ یہ ذکر ہے کہ منٹو عدد شاخیں ہے.نہ کہیں ان کے اس قسم کھانے کا ذکر ہے کہ میں اپنی بیوی کو کسی قصور کی وجہ سے اچھا ہو کہ سرا دوں گا.بلکہ ایوب کے قصہ میں صرف
ان کو بیماری کے علاج کا ذکر ہے.اور ایسا علاج ہمارے ملک میں بھی رائج ہے.ا گیا.پس جسمانی علاج تو یہاں ختم ہوا.یعنی ا سیر کرو مگر پالیل.فلاں چشمے کے پانی سے نہایا کرد.۳.اسی چشمہ کا پانی پیا کہ و ہ پھوڑے پھنسیوں یا زخموں سے مکھیوں اور حشرات الارض کو ہٹانے کے لئے ٹہنیوں کی ایک پوری بنالو.اور اس کو اپنے جسم پر پھیلا کر دو.فاضرب به کا صرف یہ مطلب ہے کہ ان شاخوں یا جھاڑو کے ساتھ مار کے مار ہے یہ محذوف ہے.اور آپ نے اس محذوف سے مراد ان کی صورت لی ہے.جس کا تہ کوئی ذکر ہے نہ مناسبت ہے.ہم بھی یہی کہتے ہیں.کہ جس چیز کو مارتا ہے وہ محذوف ہے.مگر وہ عورت نہیں ہے بلکہ شاخوں اور چوری کے لحاظ سے وہ مکھیاں بچھے حشرات الارض وغیرہ ہیں جو زخموں اور پھوڑے پھنسیوں کو گندہ اور خراب کرتے ہیں پیس منے یہ ہوئے کہ اس شاخوں کے میٹھے سے ان نقصان دہ چیزوں کو مارا ڈایا کہ.ولا تحنث گفت میں لا تحنت کے معنی قسم نہ توڑنے کے بھی ہیں.اس لئے مفسروں نے فرض کر لیا کہ انہوں نے ضرور قسم کھائی ہوگی.پھر خدا نے ان کو ایک جیلہ سکھایا.کہ سو چھڑیوں کا ایک مٹھا بنا کر صرف ایک دفعہ اس سے اپنی بیوی کو مارتا کہ قسم کا عہد پورا ہو جائے.اور اگر چہ وہ بے گناہ ہے.مگر تو ضرور اس کو ایک دفعہ سو درے لگا ہی دے.اگر چہ تیر اطن غلط ہی ہے.(عہد کا پورا کرنا دوسرے کے فائدہ کے لئے تھا مگر اب علمار طواہ نے نفط عہد کو لے لیا ہے.خواہ اس سے دوسرے کو نقصان ہی پہنچے.مگر تاکید یہ ہے کہ
عہد کو ضرور پورا کرو - إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون) واضح ہو کہ جنت کے معنی جس طرح قسم توڑنے کے ہیں.اسی طرح تمام لغات میں اس کے دوسرے معنے حق سے باطل کی طرف جھکنے اور میلان کرنے کے بھی آئے ہیں.اور مفردات راغب نے حنث کے معنی زینب یعنی گناہ کے کئے ہیں.خود قرآن مجید نے بھی اپنی ایک اور آیت میں یہی معنے کئے ہیں وَكَانُوا يُصِرونَ عَلَى الْحِنْثِ الْعَظِيمُ (الواقعه (٢٤) یعنی وہ بڑے گناہ پر اصرار کرتے تھے.اور حافظ روشن علی صاحب (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) نے اپنے ترجمہ میں یہاں حنت کے معنی گناہ ہی کے کئے ہیں.پس ولا تحنٹ کے معنی ہوئے کہ باطل یعنی غلطی کی طرف مائل نہ ہو اور گناہ کی بات نہ کہ قسم توڑنے کے معنے کی نہ سیاق وسباق اجازت دیتا ہے.نہ کوئی اور وجوہات ہاں آپ اپ مجھ سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ ایوب کو خدا نے کیوں فرمایا کہ دیکھ غلطی نہ کہ ذیت نہ کہ گناہ اور باطل کی طرف مت مجھک.تو اس کی وجہ کیا ہے.کیلیے اب میں اس کی وجہ عرض کرتا ہوں اور وہ یہ کہ جس طرح اللہ تعالیٰ اجسام کی تربیت کرتا ہے.اسی طرح اخلاق اور روح کی تربیت بھی اپنے کلام اور الہام سے کرتا رہتا ہے.جسمانی نسخہ کے چارا جزار تو ان کو خدا نے بنائے.مگر ایک غلطی روحانی اُن سے سرزد ہو چکی تھی.اس کی اصلاح اور درستگی بھی نہایت ضروری تھی جس پر ان کو متنبہ کیا گیا اور وہ غلطی یہ تھی کہ ایوب نے دُعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ الى مَشَى الشَّيطانُ بِنُصْبِ وَعَذَابِ ( م : ٢٢) یعنی شیطان نے مجھ کو ایڈا اور عذاب میں ڈال دیا ہے.یہ دُعا اپنے ایک نبی کے منہ سے سننی ایسی نا مناسب اور حیرت انگیز تھی.کہ خدا تعالیٰ نے انہیں قدر منع فرمایا
۳۲۸ کہ آئندہ کبھی ایسی بات منہ سے نہ نکالنا.کیا ہمارے پیارے بندوں خصوصا نبیوں پر عذاب بھی آسکتا ہے.کیا شیطان ان کو مکس کر کے بیماری اور ایتدا لگا سکتا ہے ؟ انبیاء پر خواہ کتنی سخت بیماریاں آئیں وہ کبھی مذاب کا رنگ نہیں رکھتیں.بلکہ ہمیشہ بطور اصطفاء کے آتی ہیں.اور شیطان کا نام تو ایسی جگہ بالکل ہی غیر موزوں اور نا مناسب ہے.ان عِبَادِى لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانُ (الحجر ۴۳۱) ترجمه ، جو میرے بندے ہیں ان پر تیرا کبھی تسلط نہیں ہوگا.اور فَلِمَ يُعَذِّبُكُم بِذُنُوبِكُم ( المائده : ١٩) ترجمہ ، پھر وہ تمھارے قصوروں کے سیب سے تمھیں عذاب کیوں دیتا ہے.و لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُون (البقره ۳۹۱) توجه ر اُنھیں نہ کوئی (آئندہ کا خوف ہوگا اور نہ وہ (سابق کوتا ہی پر) نگین ہوں گے.اور اني لا يَخَافُ لَدَى الْمُرْسَلُونَ (النمل (1) ترجیے دیکھیں وہ ہوں کہ رسول میرے حضور میں ڈرا نہیں کرتے.وغیرہ آیات کے بالکل یہ خلاف اس دعا میں الفاظ استعمال کئے گئے ہیں.اگر رسولوں پر مذاب آنے لگے تو پھر امان ہی اُٹھ جائے چنانچہ آپ قرآن مجید کو اوّل سے آخر تک پڑھ جائیں.عذاب یعنی سترا کا لفظ سینکڑوں مقامات (قریباً ۳۱۵) جگہ میں استعمال ہوا ہے ، مگر ایک جگہ بھی دو رسل - انبیاء اولیاء علیکم موسون تک کے لئے بھی نہیں آیا.سو یہ وہ کمزوری یا حنث یا ذنب یا غلطی تھی.جو ایوب سے سرزد ہوئی.پس جسمانی علاج کے ساتھ ساتھ خدا نے ان کا روحانی علاج بھی کر دیا کہ دیکھ آئندہ پھر ایسا کلمہ منہ پر نہ لائیو.یہ بہت گناہ کی بات ہے.آئندہ میں تجھ سے ایسی بات نہ سنوں کہ مجھ پر عذاب نازل ہو رہا ہے یا شیطان کا اثر مجھ پر غالب آگیا
۳۲۹ £ ہے.ہر گرہ ہر گنہ نہیں.واضح ہو کہ ہمو جب اسلامی عقائد کے ابتیا د ملکہ صدیقیوں کو بھی میں شیطان نہیں ہوتا.جیسے کہ احادیث میں آیا ہے کہ عیسی اور اس کی ماں میں شیطان سے پاک تھیں یعنی عیسی بیب بنی ہونے کے اور مریم بسبب صدیقہ ہونے کے تیس شیطان سے محفوظ تھے.اور پھر ایوب کیوں نہ ہوتے.دوسرے یہ کہ نصب اور عذاب کا واقع ہونا تو خدا کے دشمن لیکھرام جیسوں کے لئے مناسب تھا.جیسا کہ الہام عجل جسد له خوار له نصب و عذاب.حضرت مسیح موعود کی وحی اس کے بارے میں ہے.اب اگر ایک بینی انہی الفاظ کو اپنے اوپر چسپاں کرنے گئے تو اللہ میاں کو بڑا لگے یاز لگے.چنانچہ حضرت ایوب نے فوراً اس غلطی سے تو یہ کی اور خدا نے بھی اُن کی تعریف فرمائی کہ وہ اداب یعنی فوراً رجوع کرنے والا تھا اپنی غلطی سے اب اس رجوع کا ثبوت بھی قرآن مجید سے ہی پیش کرتا ہوں.چنانچہ اس توبہ کے بعد پھر بھی حضرت ایویں برابر اپنی بیماری کے لئے دُعا کرتے رہے.مگر وہ دعا یہ بھی.اني منى الفر وَانتَ اَرْحَمُ الرَّحِمِينَ (انبیاء (۸۲) یعنی مجھے بیماری کی تکلیف ہے پس اے اَرْحَمُ الرجین اس تکلیف کو تو مجھ سے دور کر دے.یعنی انہوں نے اپنی دُعا کے الفاظ بالکل تبدیل کر دیئے.پس اصل واقعہ تو یہاں تک ختم ہے مگر اس ضمن میں ایک دور باتیں بیان کرتی ضروری ہیں.اولی تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنی تمام صفات قرآن مجید میں بیان کی ہیں.اور اکثر کی عملی تفصیل بھی دی ہے.اسی طرح صفت شفاء کا ذکر اس جگہ اور بعض اور جگہ کیا ہے.یعنی خدا کے دوستوں اور پیاروں کو اس کی طرف سے ننھے اور دوائیں اور ترکیبیں بیماری دفع کرنے کی بھی بتائی جاتی ہیں.جس طرح کہ یہاں چار تجویزیں بنائی گئیں.اسی طرح شہد کو بھی شفا کہا گیا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک بیماری میں آپ کو
۳۳۰ بعض ہدایتیں دی گئیں اور معوذتین کا درد بتایا گیا.اور حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو کو خاکسار پیپر منٹ ، اور هذا علاج الوقت والترسبی کا الہام ہوا.تیز ایک دفعہ دریا کے پانی اور ریت کی مالش بطور علاج بتائی گئی تھی.اسی طرح روحانی غلطیوں کی اصلاح کے لئے بھی حضرت نوح سے لے کہ حضرت احمد تک تمام انبیاء کو ان کی غلطیوں اور لغزشوں پر تنبیہہ ثابت ہے.اور دراصل تہیہ کیا.یہ تو ایک الہامی تربیت ہے.جو اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے دوستوں کی کرتا ہے..دوسرا اعتراض ان آیات کے متعلق یہ ہو سکتا ہے کہ علاج کے آدھے اجزا ایک طرف ہیں اور آدھے دوسری طرف بیچ میں ایک آیت وَوَحَيْنَا لَن أَهْلَه ، ال کیوں رکھ دی گئی.سو یہ بات بھی قرآنی دستور اور آئین کے بر خلاف نہیں ہے.بارہا ایک مضمون کو قرآن مجید نے بیان کیا ہے.تو ایک آیت بظا ہر تسلسل کو توڑنے والی ائندہ ڈال کر پھر فوراً معا لعد وہی مضمون آگے شروع کر دیا ہے.مثلاً طلاق کے مسئلہ میں جہاں پہلے بھی یہ مسئلہ ہے اور پیچھے بھی بیچ میں یہ مضمون ڈال دیا کہ حَافِظُوا عَلَى الصَّلَاةِ وَالصَّلوةِ الْوُسْطَى وَقَوْمُوا لِلَّهِ قانِتِينَ (البقره: ۲۳۹) ترجمہ و تم (تمام) نمازوں کا اور (خصوص) درمیانی نماز کا پورا خیال رکھو.اور اللہ کے لیے فرماں بردار ہو کر کھڑے ہو جاؤ.خصوصاً قصص قرآنی میں تو ایسا بہت ہوا ہے کہ تسلسل سبب کسی آیت کے ٹوٹا ہوا معلوم ہوتا ہے.ایسی آیت حقیقتہ جملہ معترضہ کے طور پر ہوتی ہے.سو یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے ایوب کو اس کی دعا کے بعد تم بنایا.بیچ میں اپنے فضل اور انعام کا ذکر کر دیا.پھر دہی مضمون علاج کا شروع کر دیا.سو واقف حال لوگوں کے نزدیک یہ کوئی انوکھی بات نہیں ہے.بلکہ کلام الہی کا خاصہ ہے کہ وہ قصہ بیان کرتے ہوئے بیچ میں صفات الہی اور
۳۳۱ انعامات الہی وغیرہ کا ذکر برابر کرتا چلا جاتا ہے.کیونکہ ایسے سارے قصوں کا حقیقی مقصود ہی یہی چیزیں ہوتی ہیں.ایک دلچسپ تفادل 19 اور 19ء میں میں نے اخبار الفضل میں بہت سے مضامین قرآن مجید کی آیات خصوصاً قصص القرآن کی تفصیلات اور حقیقت کے متعلق لکھے تھے اور محض خدا کے فضل سے بعض باتیں اس زمانہ میں ان قصص کے متعلق مجھ پر کھلی تھیں.مگر ان دنوں میں حضرت ایوب کا یہ واقعہ مجھ پر منکشف نہیں ہوا تھا.ایک دن میں نے بہت مبارک میں خاص اسی کے لئے بہت دُعا کی جب دعا کر کے اُٹھا.تو بیت کے جنوبی دروازوں میں سے مجھے دفتر ریویو آف ریلیجر کی سیڑھیاں جو اس زمانہ میں با ہر بازار کی طرف ہوا کرتی تھیں.نظر آئیں.اور میں نے ان سیڑھیوں پر ایک شخص کو چڑھتے دیکھا.جس کی بغل میں ایک جھاڑو تھی.معا مجھے بطور تفادل کے یہ خیال آیا کہ انشاء اللہ یہ ضعت یعنی جھاڑو والا قصہ کسی وقت ضرور میری سمجھ میں آجائے گا.چنانچہ اس واقعہ پر کئی سال گزر گئے کہ پرسوں رات یہ مضمون قصہ ایوب کا مسلسل میرے فرمن میں جس طرح میں نے اس کو یہاں لکھا ہے آگیا.اور میں نے اُسے احباب کے سامنے پیش کر دیا.یقین ہے اکثر دوست بھی اسے پسند فرمائیں گے.الا ماشاء اللہ اور میرے لئے دعائے خیر کریں گے اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے.آپ خود غور فرما کر دیکھ لیں کہ قصہ کسی قدر سادہ اور روحانیت سے پر ہے.اور خدا تعالیٰ کے فضل درحم کا ایک نشان ہے.مگر عجوبہ پسندوں کے طفیل کیا تماشہ بن گیا ہے.بات تو صرف اتنی تھی کہ ایک بنی بیمار ہوا.اللہ تعالیٰ نے اُسے اپنے فضل سے شفایابی کی تدبیریں بائیں وہ اچھا ہو گیا.پھر اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اسے بیماری سے اچھا کیا
۳۳۲ بلکہ اس کے صبر کی وجہ سے اس کے مال اور اہل و عیال میں بے حد برکت دی اور جب اُس نے دُعا مانگتے ہوئے غلطی سے بیماری کو عذاب سمجھا تو اسے اس بات سے منع فرمایا.اس نے بھی فوراً تو یہ کی اور مناسب الفاظ دُعا کے لیے استعمال کرنے شروع کر دیئے.صرف اتنی سی بات تھی جسے الف لیلہ اور داستان امیر حمزہ بنا کر لوگوں نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا.ہماری چشم دید بات ہے کہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا نے بھی میاں عبد الرحیم خان پسر حضرت نواب محمد علی خان کے لئے دعائے صحت کی تھی اور جب الہ کا معلوم ہوا کہ معاملہ تقدیر میرم اور ہلاکت کا ہے.:
۳۳۳ ایک آیت کی مشکلات کا حل قرآن مجید میں ایک آیت آتی ہے.خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ سَاوِرِيكُمْ أَيْتِي فَلَا تَسْتَعْجِلُونِ (انبیا : ۳۸) جس کا ترجمہ یہ ہے کہ انسان کی فطرت میں جلد بازی رکھی گئی ہے.ہمیں ضقریب تم کو اپنے نشانات دکھاؤں گا.پس اے انسانو! تم جلدی مت کرو.یہ آیت مجھے مدتوں دل میں کشکتی رہی اور تعجب اس بات پر تھا کہ اللہ تعالیٰ خود ہی تو فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کی فطرت میں جلد بازی رکھی ہے.پھر خود ہی نصیحت فرماتا ہے کہ میں تم کو اپنے نشانات دکھاؤں گا یگر دیکھنا جلد بازی نہ کرتا.پہلے خود ایک خاصیت انسان کی طبیعت اور فطرت میں رکھ دی پہ صحیت کر دی کہ دیکھنا اس فطرت کا اظہار نہ کرنا یہ تو وہی بات ہوئی کہ ہے در میان قعر در یا تخته بندم که دیام بازمی گوئی که دامن ترنکن بهشیار باش پس انسان کو تعمیل پر مجبور کر کے اس کے بر خلاف اس سے مطالبہ کرتا یہ کیونکہ درست ہو سکتا ہے.بہت سوچا نگہ کوئی حل اس کا سمجھ میں نہ آیا.کچھ مدت گذری کہ ایک دوست نے جمعہ کے دن مسجد اقصٰی میں خطبہ سے پہلے مجھ سے کچھ باتیں کیں.ان کی باتوں سے یکدم میرے ذہن میں اس اعتراض کا جواب آگیا.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر دے.کہ ان کی وجیہ سے میرا مات کا پھنسا ہوا مسئلہ حل ہو گیا اور وہ اس طرح.فرض کرو اس دوست کا نام زید تھا.تو معاملہ یہ تھا کہ زید کے لڑکے کی ایک جگہ
۳۳۴ شادی ہو گئی.زید نے کہا کہ میسر نہ پر رخصت نہ ہو جائے.لڑکی کے باپ بیکر نے کہا کہ ہم اتنی جلدی انتظام نہیں کر سکتے.اگلے جلسہ سر پر رخصت نہ ہونا چاہیے ، غرض اس طرح بحث و تمحیص کے بعد فریقین ایک درمیانی راستہ پر راضی ہو گئے.یعنی یہ کہ کانفرنس کر کے موقع پر اپریل میں رخصتانہ ہو جائے.اور ان میں اس پر جہت پہچان ہو گیا.زید دیکر دونوں چونکہ میرے بھی دوست تھے.اس لئے اس شادی کی باتوں کا ذکر وہ مجھ سے بھی کرتے رہتے تھے.فروری سگنر کا ذکر ہے کہ زید جو لڑکے کے باپ تھے.انہوں نے مجھے ایک جمعہ کے دن مسجد اقصٰی میں کہا کہ میرالہ کا جس کا نکاح ہوا ہے.وہ رخصت لے کر قادیان میں آگیا ہے.آپ لڑکی والوں کو ایک خط لکھ دیں کہ وہ فوراً بھی رخصتانہ کر دیں.میں سن کر حیران ہوا.اور کہا کہ بھائی صاحب بہت لے دے کے بعد ان کا اور آپ کا اس اپریل میں رخصتانہ کا معاہدہ ہوا ہے، اب دو ماہ پہلے بلا کسی خاص وجہ کے کیونکہ میں ایسی نئی تحریک کر سکتا ہوں.وہ بمشکل اپریل پر راضی ہوئے تھے.اب آپ فروری فرمارہے ہیں.آپ نے جو ان سے عہد اور اقرار کیا تھا.وہ بہت ثقہ اور بزرگ لوگوں کے سامنے کیا تھا.یہ بات ایک بالکل تا مناسب ہے.صرف دو ماہ اس اقرار میں باقی ہیں.ابھی لڑکی والے تیار بھی نہ ہوں گے.آپ اتنی محبت نہ فرمائیں.مگر وہ مصر رہے اور بار بار یہی فرماتے رہے کہ کیا حرج ہے.اب لڑکا جو رخصت لے کمہ آ گیا ہے.لڑکی والوں نے جہیز امید ہے کہ تیار کر لیا ہو گا.دو ماہ کا فرق ایسا کون سا بڑا فرق ہے.وغیرہ وغیرہ.وہ تو اپنی تقریر میں مصروف تھے کہ ان کے اس رویہ اور تقریر سے میں سے ذہن میں یکدم اس آیت کا حل آگیا.اور میں نے اُن سے کہا.کہ اب جو جی چاہیں کریں.ایک آیت کے متعلق مجھے دقت تھی.وہ آپ کی اس تقریر اور تعمیل کے رویہ کی وجہ سے حل ہو گئی ہے.فالحمد لله اب میں دوستوں کو وہ حل بتاتا ہوں.اور عجیب بات یہ ہے کہ متعدد دفعہ بعض مشکلات کلام الہی کی فوری طور پر اور اتفاقاً اسی طرح دوسرے شخصوں کی باتوں اور رویہ سے
۳۳۵ مجھے حل ہوگئی ہیں.گویا خدا تعالٰی بعضی اوقات اور لوگوں کے عمل یا کلام سے کلام الہی کی مشکلات کا حل کروا دیتا ہے.ان کی باتیں تو اپنے مطلب کی ہوتی ہیں اور سمجھنے والے کو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ سب بات میری اس مشکل کے حل کروانے کے لئے اور مجھے سمجھانے کے لئے بمقتضائے اہلی واقع ہوئی ہے.اس شادی کے معاملہ میں زید صاحب نے رخصتانہ جلدی کرنے پر بہت زور دیا تھا.مگر لڑکی والے لمبی مہلت چاہتے تھے.آخر لڑکی والوں نے ان کی عجلت دیکھ کر ان کو رعایت دینی شروع کی.یہاں تک کہ آخر انہوں نے کہ دیا کہ اس مجلس مشاورت کے موقعہ پر ہم خانہ کر دیں گے.اس سے کم مہلت دینی ہمارے لئے نا ممکن ہے.کیونکہ جو تیاری ہمارے ذمہ ہے دہ اپریل سے پہلے ہر گز پوری نہیں ہو سکتی.اس پر فریقین کا اتفاق اور معاہدہ ہو گیا.مگر زید جو خُلِقَ الْإِنسَانُ مِنْ عَمَلِ میں نمایاں طور پر ممتاز تھے دوماہ پہلے ہی با وجود معاہدہ پر اور سب حالات کے جاننے کے غل مچانے لگے.اور یہ کوشش شروع کی کہ اپریل کی جگہ فروری میں ہی دلہن ہمارے گھر میں آجائے.ان کے اس پر جوش رویہ کو دیکھ کر اس آیت کے معنی مجھے پر یوں کھل گئے کہ اللہ تعالیٰ بھی تو فرماتا ہے کہ خُلِقَ الْإِنْسَانُ مِنْ عَجَلٍ.اے انسانو! تمہاری نظرت میں میں نے واقعی تعمیل اور جلد بازی کا مادہ سکھا ہے.اس لئے میں تم سے اس فطرت اور جبلت کے بر خلاف جلد بازی نہ کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ اساور يكُم امتی) میں بھی تمہاری فطرت اور طبیعت کی اس جلد بازی اور تجھیل کے مطابق جو میں نے تمہاری جبلت میں خود رکھی ہے جلدی ہی تم کو اپنے نشانات دکھاؤں گا.اور تمہاری تعجیلی فطرت کی خاصیت کو کھلوں گا نہیں.بلکہ تعمیل فطرت انسانی کے مطابق میں بھی منقریب ہی ر یہ س کا ترجمہ ہے) ستجھ کو نشان دکھاؤں گا اور نا مناسب دیر نہیں کروں گا مگر (فلا تَسْتَعْجِلُونِ) تم بھی مہربانی کر کے میرے بندے زید کی طرح بے جا اور نا مناسب جلدی تہ کہ تا.اب آیت کا ترجمہ و مطلب صاف ہو گیا یعنی یہ کہ انسان کی فطرت میں محبت ہے بس
اس محملت کو مد نظر رکھ کہ اللہ تعالٰی بھی جو ان کا خالق فطرت ہے ان کو بہت جلدی ہی نشانات الہیہ دکھائے گا.لیکن اس کے لئے بھی یہ مناسب نہیں کہ وہ ناروا اور نا جائزہ جلدی اور محبت کریں جیسے مثلاً مباہلہ کے موقعہ پر خدا تعالیٰ نے انسانوں کی بے صبر اور جلد باز فطرت کے مطابق ایک سال مذاب کی میعاد رکھ دی ہے.اور واقعی یہ بہت تھوڑی معیاد ہے لیکن بے صبر اور جلد باز انسان چاہتا ہے.کہ تین دن میں مباہلہ کا فیصلہ ہو جائے یا یہ کہ مباہلہ کی مجلس سے منتشر ہونے سے پہلے ہی ہم پر آگ برسنی شروع ہو جائے یا زمین ہم کو نگل جائے ہو اللہ تعالٰی نے قلاتستعجلون فرما کر اس ناجائز اور نامناسب جلدی سے منع فرمایا ہے دور نہ تساود یکم تو خود ہی فرما دیا ہے کہ چونکہ تم جلد باز فطرت رکھتے ہو.اور میں نے ہی نہیں یہ فطرت دی ہے.اس لئے میں خود تم کو نشانات دکھانے میں جلدی کر رہا ہوں.پس تم بھی اتنی مہربانی رکھتا کہ ناجائز اور نامناسب اور بے ہو وہ جلدی نہ کرتا جیسے بعض ملازم کیا کرتے ہیں کہ ان کو گر ہرماہ کی پہلی تاریخ کو ان کا آقا محض اس لئے تنخواہ دے دیتا ہے کہ انہیں گھبراہٹ نہ ہو.تب بھی وہ نالائق نوکر ۲۰ - ۲۲ تاریخ سے ہی مطالبہ شروع کر دیتے ہیں.سوالیسی نا جائز تھیل سے اس آیت میں روکا گیا ہے.اور جو فطرتی اور جائز تعمیل انسان میں ہوا کرتی ہے.اس کے متعلق خود ہی تسلی دے دی ہے.کہ مجھے معلوم ہے کہ تم جلد باز پیدا کئے گئے ہو.اس لئے میں بھی جلدی ہی تمہیں نشانات دکھاؤں گا.نامناسب تاخیر اور دیر نہیں کروں گا ، گویا اس آیت میں ساور یکم کے س کے صحیح معنوں کی طرف خیال نہیں کیا تھا.اور وہ میرے دوست زید نے اپنے رویہ اور تقریر سے حل کرا دیئے.فجزاہ اللہ یاد رہے کہ لا تستعجلون کے لفظ میں جو تعمیل ہے وہ ایسی ہے.جس کی بابت بزرگوں نے فرمایا ہے کہ بے تعمیل کار شیاطین بوو احد استعمال کے معنی یہاں یہ ہوں گے کہ فطرتی علت سے بھی دو قدم آگے نکل جانا لینی نا مناسب اور ناجائز جلد بازی.الفضل 4 فروری ۱۹۴۴ء)
۳۳۷ موت اور نیند میں قبض روح کا فرق سورہ زمر میں آتا ہے.الله يتوفى الْاَنْفُسَ حِينَ مَوْتِهَا وَ الَّتِي لَمْ تَمُتُ فِي مَنَامِهَا فَيُمْسِكُ الَّتِي قَضَى عَلَيْهَا الْمَوْتَ وَيُرْسِلُ الأخْرَى إِلَى أَجَلٍ مُسَمَّى ( الزمر ۴۳۰) یعنی اللہ تعالیٰ جانوں کو قبض کرتا ہے.ان کی موت کے وقت اور جو نہیں مرتیں ان کی جانوں کو نیند میں قبض کر لیتا ہے.پھر ان روحوں کو تو روک لیتا ہے.جن کی موت کا فیصلہ کرتا ہے گر دو سری ارواح کو واپس بھیج دیتا ہے.ایک وقت مقررہ تک.اس آیت کے متعلق بعض مشکلات پیش کی جاتی ہیں.چونکہ یہ آیت اکثر لفظ توفی کی بحث میں بھی آتی ہے.اور اس میں بعض اور معنوی دقتیں بھی ہیں.اس لئے میرا جی چاہا.کہ وہ معنی اپنے احباب کے علم میں بھی لے آؤں جن سے قبض روح اور روح کی واپسی نیز سونے والے اور مرنے والے میں جو فرق ہے.وہ واضح ہو جاتا ہے.اس آیت کا پہلا حصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ روح پر موت اور نیند کے وقت پورا پورا قبضہ کر لیتا ہے.یہاں یہ اعتراض ہوتا ہے کہ کیا جاگنے میں خدا کا قبضہ روح پر کام نہیں ہوتا ہے سورواضح ہو کہ یہاں کامل قبض روح یعنی تونی سے یہ مراد ہے کہ وہ روح ان دونوں حالتوں میں صرف اللہ تعالیٰ ہی کے اختیار میں ہوتی ہے.اور اس کی اپنی مرضی اپنے جو اس اپنی حرکات اپنی خواہش اپنا عمل سب کچھ جاتا رہتا ہے.مرنے والی روح نہ سن سکتی ہے.نہ بول
۳۳۸ سکتی ہے.نہ اپنی مرضی چلا سکتی ہے.نہ اپنی کسی خواہش پر عمل کر سکتی ہے.نہ اس کا کوئی ارادہ بروئے کار آسکتا ہے.جس طرح زندہ انسان میں ہوا کہتا ہے.زندہ انسان کی روح پر خلاف اس کے خواہ خدا کا حکم مانے یا نہ مانے.خواہ نیکی کرے یا بدی کرے.خواہ خدا کے ساتھ موفقت کرے.یا اس کی اور اس کے رسولوں کی مخالفت کیسے خواہ دیکھے رہنے سونگھے.چکھے یا اس کرے یا نہ کرے.فرض مردہ کی روح محض خدا کے اختیار میں ہوتی ہے.بر خلاف زندہ کی روح کے جو اپنا ارادہ حواس اور اختیارات رکھتی ہے.پس مرنے کے بعد خدا کا کامل تصرف اس روح پر ہوتا ہے مگر زندہ کی روح کو کچھ اختیارات ، ملک کی طرف سے ملے ہوتے ہیں جو مرنے پر سلب ہو جاتے ہیں.اور مرنے کے بعد اس روح کا دیکھنا ، سننا و غیرہ قطعاً اس کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نیند میں بھی روح کو قبض کر لیتا ہوں.یعنی پکڑ کہ اس طرح قید کر لیتا ہوں کہ نہ وہ اپنے اختیار سے سن سکتی ہے.نہ بول سکتی ہے.نہ ارادہ کر سکتی ہے.نہ عمل کر سکتی ہے.بلکہ جملہ حواس اور اعمال اس کے مروہ کی طرح ہوتے ہیں.یسی کامل قبض روح یعنی انسان کی جان پر قبضہ باری تعالیٰ کا جس میں انسان کے ارادی اختیارات بالکل سلب ہو جاتے ہیں.صرف دو صورتوں میں ہوتا ہے.ایک مرکہ دوسرے سوتے میں مجبھی تو یہ ضرب المثل ہے کہ سویا اور مرا برایہ.لیکن ہم دوسری طرف یہ بھی دیکھتے ہیں کہ باوجود اس کے کہ انسانی روح دونوں حالتوں میں کامل بے اختیار اور پوری تصرف الہیہ میں ہوتی ہے.پھر بھی ایک مردے اور ایک سونے والے انسان میں نمایاں فرق ہوتا ہے.حالانکہ جب دونوں کی رو میں خدا کے قبضہ میں آگئیں.تو پھر مردہ اور سونے والا ہر حیت سے ایک ہی طرح کا معلوم ہونا چاہیئے اس بات کی وجہ نہ سمجھنے سے لوگوں کے لئے مشکلات پیدا ہوگئی ہیں.کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی دونوں رو میں خدا کے پاس قید ہو جاتی ہیں.ہاں مرنے والی روح کو خدا اسی قید میں روک رکھتا ہے.مگر سونے والے کی روح کو اس قید سے آزاد کر کے واپس کر دیتا ہے.اس کا مطلب غلطی سے لوگوں نے یہ مجھ رکھا ہے.کہ سونے والے کی روح بھی عزرائیل فرشتہ نکالتا ہے اور 3
٣٣٩ بھی عالم برزخ میں مردہ کی روح کی طرح چلی جاتی ہے.پھر جب وہ شخص جاگتا ہے تو فرشتوں کو حکم ہوتا ہے کہ دیکھو مردوں کی ارواح کے تھیلوں میں سے فلاں سونے والی روح کو تلاش کرو.اور اسے جلدی دنیا میں فلاں جگہ پہنچاؤ.اگر یہ نظریه پیچ مان لیا جائے.تو پھر ایک مردے اور ایک ہونے والے کے جسم کا ایک سا حال ہونا چاہیئے.اس دھوکہ میں لوگ فینائی اور میوسل کے الفاظ سمجھنے کی وجہ سے پڑ گئے ہیں.وہ سمجھتے ہیں.کہ خدا محدود ہے.اور ایک تخت پر کرسی بچھا کر بیٹھا ہوا ہے.ارواح اس کے پاس لاکھوں کروڑوں میلوں سے لائی جاتی ہیں.اور اس کے عرش کے نیچے رکھ دی جاتی ہیں اور پھر سونے والی رو میں تلاش کر کے واپس کی جاتی ہیں اور مرنے والوں کی وہیں تھیلوں میں بند پڑی رہتی ہیں.اس قسم کے عقائد کا نتیجہ یہ ہے کہ اس آیت کے معنی سمجھنے میں مشکلات پیدا ہوگئی ہیں.حالانکہ خدا ہر جگہ ہے اور ہر جگہ اس کے قید خانے موجود ہیں.جہاں چاہتا ہے.جیس روح کو قید کر سکتا ہے.اس لئے اس آیت کے صحیح معنے یہ ہوں گے.کہ مرنے والوں کی ارواح کو موت کے فرشتے قبض کر کے عالیم نیز رخ میں تا قیامت قید کر دیتے ہیں.اور وہ دنیا میں واپس نہیں آسکتیں.ان کا قید خانہ بالکل الگ ہے لیکن سونے والے کی روح کو جب خدا اپنے اختیار میں لے لیتا ہے تو اس روح کو اسی دنیا میں اس کے اپنے جسم کے کسی حصہ کو قید خانہ بنا کم قید کر دیتا ہے مشکل اس کی روح اسی کے داغ کے کسی خلا نے میں مقفل کر کے قید کر دی جاتی ہے.اور اس طرح دو انگلی خدا کے قبضہ میں آجاتی ہے.اور جب تک نہ جاگے وہ ایک بے اختیار قیدی کی طرح اس خاتے ہیں بند یتی ہے لیکن جب وہ جاگتی ہے یا کوئی اُسے جگاتا ہے.تو محافظ فرشتہ فوراً قفل کھول کر اس روح کو چھوڑ دیتا ہے اور وہ با اختیار ہوکر اپنے سب کام اپنے دفتر (دباغ) میں آکر کرنے لگتی ہے.اس سے معلوم ہوا کہ ایک ہی قید خانہ دونوں روحوں کے لئے نہیں ہے.بلکہ مرنے والی روح کا قید خانہ عالم برزخ ہے.اور سونے والی روح کا قید خانہ اس کے اپنے جسم میں ہے.یہ اسی طرح ہے جیسے گورنمنٹ انگریزی کا قاعدہ ہے کہ تھوڑی میعاد کے قیدی کو اس کے اپنے شہر کی حوالات یا جیل میں رکھتی ہے اور عمر قیدی کو کالے پانی کی جیل میں بھیج دیتی ہے.ہر شخص کے
۳۲۰ اندر بھی ایک حوالات یا قید خانہ ہے جہاں سوتے وقت اس کی روح اپنے حواس و اختیارات سے معطل ہو کر مثل ایک قیدی کے بند کر دی جاتی ہے.اور خدا تعالیٰ کے کامل تصرف میں ہوتی ہے.جو بھی خواب یا نظارہ خدا چاہے.اس کو دکھائے.اس کا اپنا ارادہ قطعا کوئی نہیں ہوتا.لیکن جب جاگنے کا وقت آتا ہے.تو حوالات کے فرشتے فوراً دروازہ کھول کر اسے آزاد کر دیتے ہیں اور دو ہیم پر قبضہ کر کے اپنے اختیارات مرضی اور ارادہ استعمال کرنے لگتی ہے.اور یہی عمل روزانہ ہوتا رہتا ہے حتی کہ اس کے مرنے کا دن آجاتا ہے.اس وقت موت والے فرشتے اسے چھوٹے میل کی بجائے مستقل اور بڑے جیل خانہ میں لے جاتے ہیں.جہاں وہ ایک معطل حالت میں تا یوم الحساب پڑی رہے گی.اس تشریح سے اس آیت کی جو مشکلات ہیں وہ حل ہو جاتی ہیں.اور اس فرق کی تو جیہ بھی ہو جاتی ہے.کہ مردہ اور سونے والے کے جسموں میں کیوں ایک نمایاں فرق ہوتا ہے.حالا نکہ روح کے اختیارات اور ارادی قوت کے لحاظ سے دونوں حالیتی براہ ہیں.یہ سب غلطی تدا کو محدود سمجھنے اور ایک غلط عقیدہ رکھنے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے.خدا ہر جگہ ہے.اس کے کارکن ہر جگہ ہیں.اس کے قید خانے ہر جگہ ہیں.اور روح کو واپس بھیجنے کے معنے صرف اس کا آزاد کرتا ہے.اور توشی یعنی قبض روح کے معنے اس کے سارے اختیارات سلب کر کے پورے طور پر خدائی تسلط کے ماتحت آجانے کے ہیں.میں اتنا فرق ہے کہ مرنے کی صورت میں تو روح کا تعلق جسم سے ہمیشہ کے لئے کٹ جاتا ہے.لیکن نیند کی صورت میں یہ انقطاع نہ صرف عارضی ہوتا ہے.بلکہ کم درجہ کا بھی ہوتا ہے.(روز نامہ الفضل قادیان ۲۱ ستمبر ۶۱۹۴۰
حضرت سلیمان علیہ السلام کی دعا حضرت سلیمان علیہ السلام کی ایک دُعا کا ذکر قرآن کریم میں آتا ہے جو یہ ہے.رَبِّ اغْفِرْ لِي وَهَبْ لِي مُلْكًا لَّا يَنْعَ لِأَحَدٍ مِنْ بَعْدِية إِنَّكَ أَنتَ الْوَقَابُ (ص: ۳۶) یعنی اے رب مجھے ایسی سلطنت بخیش جو میرے بعد کسی اور کونصیب نہ ہو.تو تو برایش نہار ہے.اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بھلا اتنے بڑے بنی اور یہ ڈھا.مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ تو انسانی فطرت ہے کہ انسان ہر خوبی اور بڑائی کو اپنی ذات سے وابستہ کرنا چاہتے ہے.اس تین ہزار سال پہلے بنی کی دُعا کے متعلق جو اصحاب کہتے ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتی.وہ اپنے پیرو مرشد یعنی حضرت خلیفہ مسیح ایدہ اللہ حضرت مصلح موعود کے عمل کو دیکھ لیں کہ حضور برات میں سبقت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور سلسلہ کی ہر بھلائی کے لئے اتنے حریص نہیں کہ چاہتے ہیں کہ یہ سب کام سب ترقیاں میرے زمانہ اور میرے عہد خلافت میں ہی ہو جائیں نئی ہیوت الحمد بن رہی ہیں.پرانی کی توسیع ہورہی ہے ، منارہ کی تکمیل کر دی ہر وقت یہ فکر ہے کہ دنیا کا کوئی ملک ایسا نہ ہو کہ وہاں ماحمدی مبلغ نہ پہنچ چکا ہو.سلسلہ کی آمد اتنی بڑھ جائے کہ اس پہ آئندہ تنگی نہ آسکے.ہر جگہ درس جاری ہو جائیں.احمدیہ پریس مضبوط ہو جائے جماعت کے تقولے اور نیکی کا معیار نہایت بلند ہو جائے.احمدی تجارت ہیں اور کار خانے جاری ہو جائیں.قادیان کی ترقی ہو جائے.آئندہ کے لئے علماء اور کارکن تیار ہو جائیں تعلیمی ادارے قائم ہو جائیں.نظام سلسلہ نہ صرف انہوں نے بنایا بلکہ یہ دھن ہے کہ وہ ایک کامل
اور مکمل نظام ہو جائے بلکہ آہ کے خلفاء اور آئندہ کے انتظام کے لئے بھی ابھی سے قوانین تیار کر دیئے.تقریر تحریر تفسیر ہر بات میں ہر آئندہ خلیفہ سے بڑھنے کی کوشش میں ہیں.سلسلہ کی دنیادی اور دینی ترقی جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہوتے ہوتے ہو جائے گی وہ اس فکر میں ہیں کہ آج اور میرے زمانہ میں ہی ہو جائے.غرض ہر طرف ایک طوفان پر پاہے نہیں چاہتے کہ کوئی امر نیک ایسا ہو جو میرے عہد خلافت میں تشکیل اور تکمیل نہ پائے تبلیغ ہو تو ایسی ہوں تعلیم ہو تو ایسی ہو.انتظام ہو تو ایسا ہو.رعب ہو تو ایسا ہو.جماعت کی رومانیت ہو تو ایسی ہو.کہ آئندہ کے لئے اسی لائن پہ یہ جماعت کام کر تی رہے.اور میں ہر بات کا ہیڈ ہر بات کا موجد اور ہر بات میں لیڈر ہوں.اور فتح کا سہرا میرے سر بندھے بیس اسی کے معنی یہ ہیں کہ لا نبى لِأَحَدٍ مِن الجُدِی.آپ روز یہ نظارہ ملاحظہ کر رہے ہیں اور پھر اعتراض کرتے ہیں.سلیمان علیہ السلام پر انہوں نے تو دعا ہی کی تھی.یہاں تو عملی کاروائی بھی جاری ہے.تعجب ہے کہ آپ کو اپنے سامنے نظارہ نظر نہیں آتا اور تین ہزار سال پہلے کی دیسی ہی ایک دعا آپ کو کھٹکتی ہے.اولو العریم فطرتیں اگلے زمانوں کا انتظار نہیں کیا کرتیں بلکہ تمام نیکی اور بھلائی اور ترقی آپ سمیٹنا چاہتی ہیں.نہیں یہ تو فطرت انسانی ہے کہ ہر انسان اپنی ذات کے ساتھ کوئی نہ کوئی اعلیٰ خوبی یا کمال والبستہ کرنا چاہتا ہے.اور عزتیں مخصوص کرنا پسند کرتا ہے.وہی فطرتی جذبہ یہاں بھی ہے.اور یہی ہر بنی کرتا آیا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام و من درستی کی دُعا مانگ کر ابو الانبیاء بن گئے اور اس فضیلت کو کسی دوسرے کے لئے نہ چھوڑا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاتم الانبیا بین گئے اور آئندہ کے لئے کوئی نبوت کسی کے لئے نہ چھوڑی (سوائے اس کے جو ان کے صدقہ سے ہی ہے) حضرت سے موٹو ر آپ پر سلامتی ہو اتنی حباً لا یزید علیه غیری من بعدی کی دعا مانگ کر محبت اہلی کے اس مقام پر پہنچے کہ اب کسی غیر کو بغیر حضور کا طفیلی نبینے کے اس دائرہ میں قدم رکھنا محال ہو گیا.
۳۴۳ اب بنی اسرائیل کی سلطنت میں گھن لگ گیا ہے اور زوال کے دن قریب ہیں.میری قوم دنیا داری اور عیاشی میں پڑ گئی ہے.اب ان سے سلطنت کی وسعت ہوئی مشکل ہے.اس لئے یہ دعا کی کہ اسے خدا میں تو مر ہی جاؤں گا اور آئندہ سلطنت بڑھانے والا کوئی نظر نہیں آتا اتنی سی سلطنت تو چند دنوں میں ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتی ہے.اگر لائق انسانوں کا پیدا ہونا امر مقدر نہیں ہے.تو تو اپنے فضل سے کم از کم یہی کہ کہ میری سلطنت کو سی اتنا وسیع کر دے کہ اسے ٹوٹنے اور برباد ہونے میں ایک لمبا عرصہ صرف ہو اور بنی اسرائیل بجائے سو دو سو سال کے ہزار سال تو دنیا میں بعزت رہ سکیں یہیں خود مجھے ہی نئی فتوحات اور علاقے تسخیر کرنے کی توفیق دے.اگر میرے بعد نالائق بھی ہوں گے تو بھی ایک زیادہ بڑی سلطنت ٹوٹنے میں بہت دیر گئے گی بجائے اس موجودہ سلطنت کے جو جلد فنا ہونے کی اہمیت رکھتی ہے.اس پہ خدا تعالیٰ نے ان کو وہ پہاڑی علاقے جن میں جن رہتے تھے عطا کر دیئے تاکہ سلطنت کے حدود اور فرنٹیر مضبوط ہو سکیں.اور بیرونی حملہ اور اس کو آسانی سے نہ توڑ سکے.اور سلطنت کا قیام دیر تک رہ سکے.نیز فرمایا کہ ہم نے جہاز اور تجارتیں کرنا سلیمان کو سکھا دیا تاکہ دولت جمع کر سکے اور سرحد کے پہاڑی علاقے جہاں جنات و شیاطین رہتے تھے (استعارہ) ان کے ہاتھ پر فتح کرا دیئے یا تابع کر دیے تاکہ اس کی سلطنت زیادہ پائدار رہ سکے.کیونکہ آئندہ بادشاہ اگر نالائق بھی ہوں تب بھی ایک زیادہ وسیع اور زیادہ مضبوط سلطنت دیر میں برباد ہوتی ہے.یہ نسبت ایک چھوٹی اور غیر محفوظ اور مفلس سلطنت کے.پس جب سلیمان نے دیکھا کہ میرے جانشین نالائق ہیں.یہ بنی اسرائیل کی عظمت چند دن میں اُڑا کر رکھ دیں گے تو وسعت سلطنت کی دُعا کی کہ نالائقوں کو اس سلطنت کے اڑانے میں بھی دیر لگے.اور یہود کا اقتدار تایدیہ قائم رہے جیسے ایک لائق باپ جب اپنی اولاد کو نالائق دیکھتا ہے تو کمائی اور روپیہ جمع کر کے چھوڑ جاتا ہے کہ یہ تو کمانے سے رہے میں ہی ان کے لئے کافی سرمایہ جمع کر جاؤں.
۳۴۴ اکبر رنک کی فتوحات ہندوستان میں کئی پشت تک چلیں اگر وہ اس وسعت فتوحات کا انتظام نہ کرتا تو شاید شہنشاہ جہانگیر کے سامنے ہی اس کی سلطنت کا خاتمہ ہو جاتا.یادر ہے کہ یہ آیت صرف بنی اسرائیل کے لئے ہے.وہ سلطنت ایک معمولی سلطنت تھی.اس آیت کا یہ مطلب نہیں کہ سلیمان علیہ السلام کے بعد آج تک دنیا میں کسی اور کو ولین عظیم الشان سلطنت نہیں ملی.مطلب صرف یہ ہے کہ قوم یہود کو اس شان کی سلطنت نہیں ملی.اس نکتہ کو نہ سمجھنے سے لوگوں کو یہ ضرورت پیش آئی کہ جب انہوں نے دوسری عظیم الشان اور سلیمان کی سلطنت سے بہت زیادہ بڑی بڑی سلطنین تاریخی طور پر دیکھیں تو ان کو فرضی تو جہیں کرنی پڑیں کہ ہوا ان کی مطیع تھی اور کوہ قاف کے دیو پری جنات ان کے تابع تھے اور ان کو اسم اعظم معلوم تھا.یہ صرف اس لئے کہ سلیمان کی سلطنت کو کسی نہ کسی رنگ میں دنیا کی سب سے بڑی سلطنت ثابت کر سکیں.حالانکہ یہ دعا اور اس کا اثر صرف بنی اسرائیل تک محدود تھا.یعنی سلسلہ موسویہ میں اُن جیساز یہ دست بادشاہ کوئی نہیں ہوا.اور پیں.اگر یہ مفسرین اس آیت اور اس دعا کو بنی اسرائیل کی سلطنت تک محدود رکھتے تو نہ کوہ قاف پر سلیمانی سلطنت کو وسیع کرنا پڑتا نہ معین وانس اور ہوا پانی پر ان کا تسلط تسلیم کرنا پڑتا.اور بہت ساری غلط بیانیوں اور فرضی قصہ کہانیوں کے گھڑنے سے بچ جاتے.اس تمام بیان سے ثابت ہوا کہ - یہ دعا صرف سلسلہ بنی اسرائیل اور یہودی سلطنت کے لئے ہے.اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کو چونکہ آئندہ اعلیٰ کارکن یہودیوں میں نظر نہ آتے تھے.اس لئے انہوں نے مناسب سمجھا کہ ان کی سلطنت کی حدود ہی مضبوط اور وسیع ہو جائیں تاکہ وہ دیر تک محفوظ رہ سکے..تیسرے یہ دعا جیسا کہ میں شروع میں بیان کر چکا ہوں انسانی فطرت کا ایک مظاہرہ ہے.ہرنی بلکہ ہر انسان عظمت اور بڑائی کا خواہشمند ہے اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق سر
۳۴۵ ہر ایک ایسی ہی دُعا کرتا رہتا ہے.چنانچہ جس طرح حضرت سلیمان نے وسعت سلطنت کی دعا کی اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی اولاد میں نبوت کے محصور ہو جانے کی دعا کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے ٹیا بنی بننے اور صرف اپنی امت میں نبوت کے اجراء کی دعا کی اور حضرت مسیح موعود ر آپ پر سلامتی ہوا نے محبت الہی کا ٹھیکہ لے لیا اور حضرت خلیفہ اسیح ہو کہ رہے ہیں وہ ہم سب کے سامنے ہی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان خدائی صفات واحد هو اكبر وغیرہ کا مظہر ہی ہے.پس یہ کوئی تعجب انگیز بات نہیں.آپ کو ایک سنسی کی بات سناؤں.میں بھی ایک ایسی دعا کبھی کبھی مانگ لیا کرتا ہوں.مثلاً یا اللہ مجھے اپنی جنت میں ایک مخصوص نعمت ایسی دیجیو کہ وہ اور کسی جینتی کے ہاں نہ ہو.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود اسے نوش فرمانے کے لئے ہفتہ میں ایک دفعہ ضرور میرے ہاں تشریف لایا کریں.یہ بھی اسی قسم کی فطرت کا ایک مظا ہو ہے جو لوگوں کے نزدیک یہ بات مذاق سمجھی جائے مگر جو ہنتے ہیں وہ انسان کی حقیقی فطرت سے نا واقف ہیں.ر روزنامه الفضل قادیان ۱۴ر اکتوبر ۱۹۴۴)
۳۴۶ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَلا لَوْم آيت الى آیتہ الکرسی) نہیں آتی اس کو اُونگھ اور نہ نیند (ترجمہ) (البقره (۳۵۶) قرآن مجید کا شاید ہی کوئی حقیہ ہو جس پر دشمنوں نے اعتراض نہ کیا ہو.پس آیت الکر یمی جیسی مہتم بالشان آیت کس طرح ان کی زد سے باہر رہ سکتی تھی.چنانچہ اس پر بھی اعتراض کہ دیا اور نقص یہ نکالا کہ یہ بات بلاغت کے بر خلاف ہے کہ اونگھ کا ذکر پہلے کیا جائے اور نیند کا بعد میں.بلکہ یوں چاہیئے تھا کہ اسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھے.کیونکہ جب کسی نقص کا اناله که نا مقصود ہو تو زیادہ بُری چیز کو پہلے رکھتے ہیں اور عبادت اس طرح ہونی چاہیئے تھی کہ خدا تعالیٰ میں نہ صرف یہ کہ نیند کا نقص اور کزوری نہیں ہے بلکہ نیند تو الگ رہی وہ تو اونگھتا تک بھی نہیں.یہ کیا فضول بات ہے.کہ اس کی تعریف میں یہ کہا جائے کہ تہ وہ چند منٹ غافل ہوتا ہے.بلکہ رات بھر بھی نہیں سوتا صیح یوں ہوتا کہ نہ صرف وہ رات بھر نہیں ہوتا بلکہ چند منٹ کے لئے بھی غافل نہیں ہوتا.یا یہ کہ نیند کیا اُسے تو اونگھ بھی نہیں آتی یہ خلاف اس کے آیت کے الفاظ میں اونگھ کو مقدم کیا ہے.حالانکہ نیند کے لفظ کو مقدم کرنا اور زیادہ بڑی چیز کو پہلے رکھنا چاہیئے تھا.یہاں اُلٹ کیوں ہے ؟ مجھے بھی ان کا یہ اعتراض کو کا کرنا تھا.اور اس کے حل کے لئے کئی دفعہ میں نے غور کیا مگر سمجھ میں نہ آیا.کہ آج یکم ذہن میں ایک جواب اس اعتراض کا سوجھ گیا اور میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے احباب کو بھی اس تادیل سے خوش دقت کروں.سو واضح ہو کہ معترضین کا یہ اصول ٹھیک ہے کہ زیادہ بڑے نقص کو پہلے رکھنا چاہیئے اور ہم ان کی دلیل کو مانتے
time ہیں اور اسی لئے قرآن مجید نے بھی زیادہ بری چیز کو پہلے رکھا ہے.صرف ان کی اپنی سمجھ کا پھیر ہے.واقعہ یہ ہے کہ اونگھے نیند کی نسبت زیادہ بڑا نقص اور زیادہ بڑی چیز ہے.کیونکہ از نگو نسبتاً زیادہ مضحکہ خیز اور زیادہ انسانی کمزوری کو ظاہر کرتی ہے.اور خود انسان کے لئے بھی زیادہ حقیر کن حالت ہے.جیسے مثلا ایک آدمی سوتا ہے.اور دوسرا بیٹھا ہوا اونگھ رہا ہو تو ہم پہلے کی بابت یہ کہ سکتے ہیں کہ وہ اپنی مرضی اور ارادہ سے سورہا ہے.مگر دوسرے شخص کے مضحکہ خیز جھٹکے.اس کا زور زور سے جھومنا.اس کا ادھر ادھر گرنا اور مجیب بیست گڑائی دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ کوشش کرتا ہے.مگر اونگھ پر غالب نہیں آسکتا.اور یا وجود ارادہ کے اونگھ سے مغلوب ہوتا جاتا ہے.اونگھ اس سے کھیل رہی ہے.وہ لاچار ہے.اور اس کی حالت سہنسی کے قابل ہے.اس سے ظاہر ہے کہ اونگھ نیند سے زیادہ انسان کی کمزوری اور میر کو آشکارا کرتی ہے.آدمی اس سے لڑتا ہے.مگر وہ اس کا تماشا بناتی ہے.کسی مجلس میں اونگھنے والے کی طرف دیکھو تو تعجب آتا ہے، اس کی اضطراری اور بے ڈھنگی حرکات کا ملاحظہ کرو تو بے اختیار منسی آجاتی ہے.آنکھیں نیم دا ہیں جنکے پر جھٹکے لگ رہے ہیں.کبھی آگے گرتا ہے کبھی پیچھے کبھی دائیں کبھی بائیں.ہوشیار ہونے کی کوشش کرتا ہے مگر کامیاب نہیں ہوتا شکست خوردہ مغلوب ہے بقرض عجیب قابل مضحکہ نظارہ ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ مسجد اقطے میں کوئی جلسہ تھا.ہم لوگ بیٹھے تھے اور حضرت اقدس مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو) لیکچر دے رہے تھے کہ مجلس میں ایک صاحب اونگھنے لگے کبھی وہ ایک طرف کے لوگوں پر جاپڑتے تھے کبھی دوسری طرف کے لوگوں پر آخر وہ یک دم اس طرح پیچھے گئے کہ ان کی ٹانگیں سامنے کے لوگوں کے کندھوں پر تھیں.اور سر پچھلے آدمی کی گود ہیں اور دونوں ہاتھ بڑے زور سے دائیں اور بائیں طرف والے آدمیوں کے مونہہ پر لگے.ساتھ ہی انہوں نے لیے اختیار ایک میچ بھی ماری.اور مجلس کو درہم برہم کر دیا.دیکھنے والوں کا یہ حال تھا کہ منشی کے مارتے ہوئے جاتے تھے مگر حضور کے پاس ادب سے دم بخود تھے.یہ حفارت اور
۳۴۸ نسی کا نظارہ سونے والوں میں کبھی نہیں دیکھا جاتا.اس طرح ایک اور صاحب تھے.اُن کا اونگھتے اونگھتے اس زور سے فرش پر سر کرایا کہ سب لوگ پریشان ہو گئے.اور وہ سخت شرمند اور چوٹ الگ لگی.یہ سب باتیں نیند میں نہیں ہوتیں.وہ بے شک ایک کمزوری اور فضلت کی صورت ہے.مگر اس کے ساتھ ذلت مضحکہ خیزی اور شرمندگی وابستہ نہیں ہے.پس کلام الہی نے بھی زیادہ بڑے نقص اور زیادہ بڑی چیز ہی کو اس آیت میں پہلے رکھا ہے.اب اس روشنی میں اگر آپ آیت کی ترتیب کو دیکھیں گے.تو وہ بالکل صحیح اور صاف اور بلیغ نظر آئے گی اور معترضین کا وسوسہ باطل ہو جائے گا.اور آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ خدا تعالی جوہر عیب سے پاک اور ہر نقص سے منزہ ہے.اسے نہ ذلیل اور اونی قسم کی نیند العینی اونگھ) آتی ہے.نہ طبعی اور با عزت قسم کی.فرض کیجئے کہ آپ اسلام کے سوا کسی اور مذہب کے خدا کا تصور باندھیں تو اپنے تخت پر پڑا سوتا ہے.تو زیادہ سے زیادہ آپ ہی کہیں گے کہ یہ خدائی کے قابل نہیں کیونکہ اپنی مخلوق سے فاضل ہے.مگر حقارت کا جذبہ آپ کے اندر پیدا نہیں ہوگا.لیکن اگر اسی تصویر میں آپ ایسے وجود کو اُونگھتا دیکھ لیں تویقینا اس نظارہ کے بعد آپ اس سے سخت متنفر ہو جائیں گے.بس یہ فرق سے نیند اور اُونگھ میں.1950 اموزنامه الفضل قادیان ۱۹ دسمبر ۲)
۳۴۹ مُقَطَّعَاتِ قرآنی بعد از حمد و شنابر خداو درود بر مصطفحه و صلوة به میرزا یه خاکسار تجمیع برادران احمدیت کی خدمت میں بعد السلام علیکم کے عرض کرتا ہے کہ سالہا سال سے خاکسار کے دل میں مقطعات قرآنی کے حل کرنے کا خیال رہتا تھا.اور ان کے سمجھنے کے لئے دعائیں بھی کیا کرتا تھا.اس کے علاوہ جو جو بھی تحریریں ان کی تفسیر کے متعلق مجھے مل سکتی تھیں.ان کو بھی مطالعہ کیا کرتا تھا.لیکن میرا دل کبھی اُن توجیہات پر پورے طور سے مطمئن نہیں ہوا.اور یہی دھا رہی کہ خدایا تو اپنے فضل سے ان کا حقیقی حل سمجھا.اور ان کی اصلیت کو منکشف فرما.آخر.قریباً دو سال ہوئے کہ اسی ادھیڑئن میں یکدم بجلی کی روشنی کی ایک کرن نے راستہ سمجھا دیا.بلکہ روشن کر دیا.اور حروف مقطعات کی مستعد و توجیہات میں سے ایک حقیقت اور کیفیت مجھ پر ظاہر کر دی.اس فوری انتقاد کے بعد اس کی روشنی میں نہیں نے بطور خود راستہ آگے نکان چاہا اور کئی باتیں خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کی تائید میں پیدا ہوگئیں.چند دوستوں سے بھی ذکر کیا مگر ھو گا ان کو اس معاملہ میں زیادہ شوقین نہ پایا.حالانکہ قرآن مجید کا سچا عشق دنیا میں صرف ایک جماعت کو ہے.اب جبکہ میری تحقیق ایک مدت تک پہنچ گئی اور خود میرے مطمئن کرنے کو کانی ہو گئی.تو میں نے خیال کیا کہ ایک دعوت عام کے ذریعہ سے اس بات کو اخبار میں شائع کہ اؤں تاکہ دوسرے تمام دوست خاص کر جوان باتوں کے اہل ہیں اور شوق رکھتے ہیں اور ان کو آگے چلانے اور راستوں کو آگے کھول لینے کے مشاق ہیں وہ اس پر غور کریں اور جو چیز قبول کرنے والی ہوا سے قبول کریں اور جو رد کرنے والی ہو اُسے روڈ کریں اور جو مزید تشریح کی محتاج ہو اس کی
۳۵۰ تشریح اور تغیر کریں.اور اس سے مجھے بھی اطلاع دیں.کیونکہ ابھی بہت سی باتیں زیادہ روشنی کی محتاج ہیں.اور غور ذکر کے بعد زیادہ بہتر صورت میں بانٹی صورت میں کہی جاسکتی ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کی روشنی میں ایک اور نئی حقیقت اور نئی توجیہ اور تفسیر اپنی حروف مقطعات کی کسی دوست کو مل جائے کیونکہ خدا تعالیٰ کا کلام بے حد وسیع ہے اور اس کے معانی طرح بطرح اور رنگ برنگ کے ہیں جو مختلف ذہنوں اور مختلف دماغوں کی مناسبت سے لوگوں پر کھولے جاتے ہیں.پھر آگے سننے والے بھی اپنی لیاقت ، طبیعت اور مناسبت کے لحاظ سے کوئی ایک معنی کو پسند کرتا ہے اور کوئی دوسرے کو اور کوئی تیسرے کو.پس میں جو اب ایک نئے سنی مقطعات کے بیان کرنے لگا ہوں.اس کے لئے بھی ضروری نہیں کہ گزشتہ معانی منسوخ سمجھے جائیں بلکہ یہ ایک نیا قدم ہے اور نئے معنی ہیں جو پہلے لوگوں کے معانی کو منسوخ نہیں کرتے بلکہ صرف اتنی بات ہے کہ میرے نزدیک یہ توجیہہ گزشتہ توجیہات سے زیادہ نمایاں، زیادہ بہتر اور زیادہ قرین قیاس ہے.ورنہ کلام الہی تو ایک لا انتہا سمندر ہے.اور کسی ایک معنی یا مطلب پر اس کا حصر کر لیتا ایسا ہی ہے جیسے کہ کوئی یہ دعوے کرے کہ سنگترہ صرف ایک مفرح دل پھل ہے.اس کے سوا اس نہیں کوئی اور خاصیت نہیں.سو جب مخلوقات اہی میں سے ہر چیز میں لاتعداد خاصیتیں ہیں اور سر زمانہ میں نئی نئی ظاہر ہو رہی ہیں.اسی طرح مقطعات کے مطلب کو بھی صرف ایک معنی میں محصور کہ دنیا نادانی ہے.ہاں یہ جائز ہو ہوسکتا ہے کہ ایک شخص یہ کہے.فلاں معافی دوسرے معانی سے زیادہ روشن واضح اور صاف ہیں.یا میرا ذ ہن اور میری طبیعت ان کو زیادہ مناسب سمجھتی ہے.ورنہ یہ بات نہیں ہے کہ دوسرے سب معافی غلط ہو گئے.پس مقطعات کی نئی توجیہہ کر کے میں کسی سابقہ بزرگ کی یا صحابی کی نعوذ باللہ توہین نہیں کرنا چاہتا.نہ یہ کہتا ہوں کہ ان کے معنی غلط ہیں.ہاں یہ کہتا ہوں کہ یہ ایک نئے معنے ہیں اور غور کرنے کے لائق ہیں اور میرے نزدیک گزشتہ لوگوں کی توجہات سے زیادہ وسیع اور زیادہ قرین قیاس ہیں اور لیں.
۳۵۱ جو احباب اس مضمون سے اختلاف رکھتے ہوں.اُن کی خدمت میں یہ عرض ہے کہ مہربانی فرما کہ تمام مضمون پڑھ کر پھر اپنے اختلاف کا اظہار کریں.درمیان میں الجھنا شروع نہ کر دیں ممکن ہے آگے چل کر ان کے اعتراض کا جواب مضمون کے اندر ہی انہیں مل جائے ، یا غور کرنے کے بعد خود ان کے اپنے ہی ذہن میں آجائے.مقطعات اور حروف مقطعات قرآن مجید کی اٹھائیس سورتوں پر مضمون سورۃ شروع ہونے سے پہلے آپ نے کچھ بظاہر بے معنی حروف دیکھے ہوں گے.ان کو مقطعات اور حروف مقطعات کہتے ہیں.مشکلا سورہ بقرہ کے سر پر اسم ایک مقطعہ ہے اور اس میں تین حروف ہیں الف لام میم اسی طرح سورہ مریم کے سر پر تھیعص ہے.اس میں پانچ حروف مقطعات ہیں.ا، كاف -۲- ها - - - یا - ٢ - عين - ه - صاد.ان تمام مقطعات کے حرف ہمیشہ الگ الگ بیٹھے جاتے ہیں لا کر نہیں پڑھے جاتے اور نمایاں اور لیا کر کے پڑھنے کیلئے ان پڑھوگا مت اور کھڑی زیر بھی ہوتی ہے.اس مقطعات اور حروف مقطعات میں ابھی آپ فرق سمجھ لیں.اسم الو - کھیعص وغیرہ یہ مقطعات کہلاتے ہیں اور الف لام - میم یا الف.لام - را - یا کاف - ها - یا.عین.صاد.یہ حروف مقطعات ہیں.مقطعات کل مقطعات قرآنی معہ مکررات ۲۸ ہیں.عام طور پر سورہ نون کا ن بھی اس میں شامل کر کے ۲۹ مقطعات کہے جاتے ہیں.مگر میرے نزدیک آج مقطعات میں نہیں ہے.جس کی وجوہات میں اپنی جگہ پر بیان کروں گا.انشاء اللہ قرآن مجید میں حسب ذیل ۱۳ مقطعات ہیں.•
۳۵۲ الم - المص - الرُ المَرا كهيعص - طه - طسم - النّصّ طس - ليس - ص - حم حم عسق.لیکن یہ ایک ایک دفعہ قرآن میں وارد نہیں ہوئے بلکہ بعض کئی کئی دفعہ وارد ہوئے ہیں.چنانچہ ۱۳ مقطعات ۲۸ جگہ دارد ہوئے ہیں.الم ( 4 دفعہ) القص (ایک دفعہ) - الوار پانچ دفع الصور المتم طمیع ( ایک دفعہ) طه (ایک دفعہ) طلسم (دو دفعہ طس (ایک دقعہ) لیس (ایک دفعہ) - ص (ایک دفعہ) خط ( 4 دفعہ) حم عسق ) ایک دفعہ) قی ( ایک دفعہ) اس طرح کل تعداد مقطعات کی ۲۸ ہے.الم - المص - الرا - المرا كهيعص - طه - طسم طس لیس - ص - خم - خم عسق - ق.اس طرح کل تعداد مقطعات کی ۲۸ ہے.مقطعات کی جماعت بندی جاعت بندی یا GROUPING کے لحاظ سے بظا ہر را، ایک کلاس السم کی ہے.جس میں المص بھی شامل ہے (۲) دوسری کلاس اس کی ہے جس میں السما بھی شامل ہے.اس تیسری کلاس طہ کی ہے جس میں طال طلسم طلس داخل ہیں.(۴) چوتھی کلاس حق کی ہے جس میں حم عسق بھی شامل ہے.لیس (۲) صرف حرف من (۷) صرف حرف ق گو اس کلاس بندی میں اور طرح بھی ترمیم ہو سکتی ہے مگر یہ میچ ہے کہ قرآنی ترتیب کے مطابق اسمر الو کی کلاس میں داخل ہے.نہ کہ السمہ کی کلاس میں.اب میں سورۃ وار مقطعات لکھتا ہوں.
بقره أل عمران نساء مائده 战战 مومنون نور فرقان شعراء العام نمل اعراف قصص انفال توبه عنكبوت یونش دوم لقمان يوسف جدد بعد اخواب ابراهیم سيا نحل بنی اسرائیل 710 : فاطر (با ملئكة) نيس صافات زمر مومن حم سجده (فصلت) حمر شوری حم عن زخرف محمد (قتال) i3
دخان جانيه احقاف ۳۵۴ نع حجرات ق اس کے آگے مقطعات کا سلسلہ بند ہے.اوپر ہے قرآن کی سورتوں کے نام آ گئے ہیں.ہے.قرآن اس کے بعد بغیر مقطعات کے ہے.حروف مقطعات ان مقطعات میں جو حروف تہھی آئے ہیں.ان حروف کا نام حروف مقطعات ہے اور عجیب بات یہ ہے کہ جس طرح مقطعات ۱۳ ہیں.اسی طرح حروف مقطعات بھی تیرہ ہیں جو درج ذیل ہیں.حروف مقطعات قرآنی ترتیب کے مطابق ال مص ركه ى ع ط س ح ق حروف مقطعات بترتیب حروف تہجی اح رس ص ط ع ك ل مره ی : ۱۳ ہر ایک حرف کتنی دفعہ مقطعات میں موجود ہے ✓ ۱۳ دقعہ وقعہ こ ی دفعہ ك ا دفعه
۳۵۵ س ه دفعه ل ۱۳ دفعه ۳ دقعہ ا دفعه ط م دفعه ع ۲ دفعه دفعه دفعہ ق ۲ دفعه آمدم بر سر مطلب مقطعات اور حروف مقطعات کے روشناس کرانے کے بعد اور یہ بیان کرنے کے بعد کہ یہ مقطعات بظاہر بے معنی الفاظ نظر آتے ہیں.یہ بتانا ضروری ہے کہ پھر ان کا مطلب کیا ہے.اور اس مطلب کے سمجھنے کے کیا اصول ہیں.یو اپنی اپنی طرف سے ایک شخص ایک بے معنی لفظ کے کوئی معنی کرے اور دوسرا دوسرے معنی کر دے اور تیسرا تیسرے معنی کرنے نگے.تو بلا قرائن عقلی اور قرآنی دلائل و وجوہات کے ہم اس کو محض تفسیر بالرائے کہیں کے شلاق وَالْقُرانِ المَجید میں قاف کا مطلب قاصر قهار قدیر قادر - قل- قال الله - قدرت - اقْتَرَبَ السَّاعَةُ - قلم قلب - قیامت قرآن قارون - یا قاب قوسین اگر کوئی شخص کیسے تو ہم یہی کہیں گے کہ اس کے لئے کوئی قرینہ لفظی یا معنوی یا قرآنی اشارہ یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمه یا عقل سلیم اور ادب لطیف کی تائید بھی تو پیش کرو.کیونکہ وہی بغیر کسی وجہ اور ثبوت کے ایسے معنے تسلیم کر لینے نہایت نا مناسب ہوں گے بعض قی والا لفظ ہونا کافی نہیں.تائیدی اور معنوی ثبوت بھی تو ہونا چاہیئے.نہیں کسی نہ ہر قسم کے دلائل بھی ضروری ہیں جن سے ہمارے کئے ہوئے معنوں کی تائید ہوسکے.
۳۵۶ اصل اور جڑ کو پکڑنا چاہیئے دوسری بات یہ ہے کہ یونہی تیرہ مقامات میں سے کسی ایک کے معنے کر لینے اور یا قبوں کے متعلق سکوت اختیار کرنا مثلاً القہ کے معنی انا اللہ اعلم کہ کہ باقی پر سکوت اختیار کر لیا ٹھیک اصول نہیں.اگر انکشاف حقیقت ہوا ہے تو سب مقطعات پہ یا اکثر یہ تو حاوی ہونا چاہیئے.مثلاً السم کے معنے ہم نے کسی سے پوچھے.اس نے قوراً جواب دیا کہ الف اللہ کال جبریل کا اور مر محمد کا ہے.لیکن اسی اصول کے ماتحت اگر پوچھا جائے کہ عسق سے کس کس کا نام مراد کیا جاوے گا تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں.پھر ایک دوسرے شخص سے پوچھا کہ السنہ کے معنی کیا ہیں ؟ کہنے لگے آنا الله اعلم پوچھا کیا ثبوت ؟ کہا حضرت ابن عباس و یا حضرت مجاہد نے یہ تفسیر کی ہے.پھر پوچھو کہ باقی بارہ مقطعات کی تفسیر ابن عباس یا مجاہد کی بیان کہ وہ لاؤ تو خاموشی.پھر کہو کہ اگر وہ بارہ مقطعات کی تفسیر نہیں کر گئے.تو کم از کم کوئی اصول ہی بتا گئے ہوں گے یا اس آنا الله آغکم سے تم خود ہی کوئی اصول باقی قفل کھولنے کے لئے وضع کرو تو خاموش ہو جاتے ہیں.یا یہ کہ دیتے ہیں کہ جی خدا کا کلام ہے.اس پر جیتنے حروف آئے میں وہ سب خدا کے نام ہیں.مثلا حق سے مراد صادق وغیرہ طہ سے مراد لطیف وغیرہ.غرض اسماء الہلی میں کہیں بھی کوئی دیسا حرف مل جائے.میں جھوٹ اس لفظ کو پکڑ کہ آگے رکھ لیا کرو اور وہی ان حروف مقطعات کے معنی ہیں.سو ایسا طریقہ تو اندھیر نگری ہے.علمی اور تسکین قلب کرنے والا طریقہ نہیں ہے پس میں ان مقطعات کے حل کے لئے ایک اصل ڈھونڈنا چاہیے کہ اصولاً یہ مقطعات ہیں کیا چیز ہے نہ یہ کہ جن حروف مقطعات کو چاہا آگے رکھ کہ جو چاہے معنی کہ دیئے ، اور اب تک تو پرانے لوگ شاید ہی کہتے رہے ہیں.اصولاً پہلے یہ نہیں معلوم کیا گیا.کہ مقطعات ہیں کیا ؟ پھر اگر
۳۵۷ تفصیلات میں کچھ غلطی رہ جائے تو حرج نہیں اس کا درست کر لینا آسان ہے مگر مقطعات کی اصلیت ہی معلوم نہ ہو.جھٹ سن کے معنی سلام ہمیع، قدری ، واسخ یاط کا مطلب معطی مقسط - لطیف ، باسطہ یا ص کا مطلب لجبیر، مصور، صمد وغیرہ لینے لگ جائیں.تو سوائے اس کے کہ سننے والا بے اختیار ہنس دے اور کچھ نتیجہ نہیں نکلتا.پس لازم ہوا کہ پہلے ہم جڑ اور اصلیت مقطعات کی معلوم کریں.اور یہی دہ بات تھی جس کی طرف توجہ نہ کرنے سے پہلے مفسر عمو گا فرضی اور اندازی معنی کرتے رہے اور اس سے آگے نہ بڑھ سکے.مقطعات کی اصلیت.یہ محض خدا تعالیٰ کا فضل اور اس کا رحم تھا.کہ کچھ مدت گزری کہ ایک دن بجلی کی طرح بلا کسی وقتی خور و خوض کے یہ ایک بالکل نئی بات میرے دل میں پڑی کہ قرآنی مقطعات در اصل سونڈ کا نور کے ہی ٹکڑے ہیں اور ان کی یہی اصلیت ہے.اس وقت مجھے کبھی یہ خیال آیا تھا اور نہ یہ بات کبھی اس سے پہلے پڑھی یاشتی تھی.نہ اس کی کوئی دلیل میرے پاس تھی.نہ کوئی قرینہ ذہن میں آیا تھا.بالکل ایک دعوئے ہی دھولے تھا.جس کا ثبوت میرے پاس کوئی نہ تھا.مگر میں نے قرآن کریم کھول کر کچھ توجہ اور مطالعہ کیا تو معلوم ہوا، کہ یہ بات صحیح ہے اور مجھے بعض قرائن اور باتیں ایسی مل گئیں جن سے مجھے انشراح صدر ہو گیا کہ تمام مقطعات صرف فاتحہ کی آیات اور فاتحہ کے الفاظ کا اختصار ہیں.اور جیسی حسیں سورۃ پیر کوئی مقطعہ موجود ہے.وہ سورۃ الحمد کی اس آیت یا لفظ کی تفسیر ہے جس کا اختصاراً وہ مقطعہ ہے.شکر تمام مقطعات کی تفصیل میں جانے کے بغیر اس وقت صرف آپ کے سمجھنے کے لئے میں اس ہی کو لیتا ہوں جو سورہ بقرہ کے مرید ہے.تفصیلی ذکر آگے چل کہ انشاء اللہ کروں گا یہ اسم الف اور لی اور ھر کا مجموعہ ہے.الف
٣٥٨ سے مراد العمت علیھم کا گردہ ہے ل سے مائیں مراد ہیں اور تم سے مغضوب علیہم غرض اس سورۃ میں اکثر ذکر تفصیلی طور پہ اپنی تین جماعتوں کا ہوگا.پھر جب ہم اس سورۃ کو پڑھتے ہیں تو شروع میں متقین کا اور اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُ وا یعنی مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ کا اور اگلے رکوع میں دونوں قسم کے منافقین (ضالین کا ذکر ہے.پھر آگے چل کر انعمت علیھم کی فہرست میں جانچا موسی، ابراہیم ، اسمعیل اسرائیلی اور ابتدائی بنی اسرائیل بسلیمان وغیرہ انعمتَ عَلَيْهِمْ کا ذکر اور مسلمانوں کا حال آخر تک پھیلا ہوا ہے اور مغضوب علیھم یعنی یہودیوں کی کرتوتوں کا تفصیلی ذکرہ اور کفار عرب کی کارروائیاں اور مالین میں عیسائیوں کا ذکر اور عقائد اور منافقین کا ذکر برا پر ساری سورۃ میں چلتا ہے اور اکثر یہی ذکر ہے.لیکن اس کے علاوہ بھی اور مضامین آتے ہیں.ان کی وجہ انشا اللہ آگے چل کر بات ہو گی.تو اس طرح سے فاتحہ کی آیات یا الفاظ مختصر کر کے قرآن مجید کی بہت سی سورتوں پر لکھے گئے ہیں تاکہ پڑھنے والا یہ سمجھ لے کہ فاتحہ کی فلاں آیت کی تفسیر اس سورت میں بیان کی گئی ہے.سو یہ ہے اصلیت ان مقطعات کی چین سے عموماً لوگ نا واقف ہیں.اب میں وہ قرائن اور دلائل بیان کروں گا جن سے اس اصل کو سمجھتے ہیں عضلی مدد ملے گی اور قرآن کی تائید کا بھی بیان کروں گا جو اس دعوے میں مجھے حاصل ہے.ثبوت بدمه مدعی چونکہ مدنی کے ذمہ ہر دھوئی کا ثبوت ہوتا ہے.اس لئے میں بھی اپنے دعویٰ کے ثبوت میں بعض دلائل بیان کروں گا لیکن بعض باتیں اہل علم کے کرنے کی ہوتی ہیں اور ان کا ذہین ایسی مہتم بالشان بات کو اڑا کر پھر اس کے لئے ثبوت و قرائن خود مہیا کرتا ہے اور نئی نئی شاخیں اور دلائل پیدا کرتا ہے.اس لئے اہل علم اصحاب سے خصوصا انہیں
۳۵۹ جن کو قرآن مجید سے شغف ہے میری یہ درخواست ہے کہ میرا یہ خاکہ چونکہ نہایت مختصر ہو گا اس لئے وہ خود بھی اس مسئلہ پر غور کریں اور صرف (جیسے بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے فوری انکار نہ کریں.بلکہ سوچیں.اور اگر یہ اصل اور حل مقطعات کا ان کو کچھ بھی معقول معلوم ہو.تو اس کے لئے مزید تائیدی دلائل اور علمی قرائن مہیا کر یں.میں نے تو صرف اپنی ذاتی اور شخصی تسلی کے لئے بعض قرائن جمع کئے ہیں.امید ہے کہ وہ اصحاب جماعت کے زیادہ وسیع دائرہ کے لئے مزید علمی ثبوت اس کی تائید کے جمع کر سکیں گے.فجزاہم اللہ.قرمینہ اول یہ ہے کہ اب تک مقطعات کے جو معنے کئے جاتے رہے ہیں وہ مہم.بلا دلیل اور غیر تسلی بخش ہیں اور اکثر علماء سابقین اسی طرف گئے ہیں کہ یہ مقطعات الہی اسرار ہیں سے بعض اسرار ہیں.یا یہ کہ غالباً یہ خدا کے نام ہیں، مگر تعین ندارد.پھر یہ کہ مقطعات کو ایک لڑی میں پر دیا نہیں گیا.بلکہ جیسی ضرورت ہوئی معنے کر لئے.اور وہ بھی نہایت مجمل اور مبہم.وجہ اس کی یہی ہے کہ مقطعات کی پشت پر کوئی اصل تسلیم نہیں کی گئی.اب جبکہ ہم نے بتا دیا کہ یہ سب فاتحہ کی آیات ہیں اور جن سورتوں پر آئی ہیں ان سورتوں میں مخصوص طور پر فاتحہ کی اس آیت یا ان آیات کی تفسیر کی گئی ہے تو اب ایک نرش اصل اور سلسل غیر مبہم یا دلیل دیدہ اور کنجی ہمارے ہاتھ میں آگئی جس سے ہم سب خزانہ ان مقطعات کا بیک وقت کھول سکتے ہیں.قرمینه دوم دوسرا قرینہ میرے دعوی کے ثبوت میں یہ ہے کہ تمام حروف مقطعات خود سورہ فاتحہ میں موجود نہیں.کوئی بھی ایسا نہیں جو نہ ہو.اب میں سورہ فاتحہ کے حروف لکھتا ہوں اور نیچے
دوسری سطر میں حروف مقطعات لکھتا ہوں.حروف فاتحہ - اب ت ح د درس ص ض طرح ع ق ك ل م ن وی.۳۰ حروف حروف مقطعات : 1 - ح ر س ص ط ع ق ک ل م ه ی ۱۳ حروف اس فہرست سے یہ معلوم ہوگا کہ تمام کے تمام حروف مقطعات فاتحہ میں موجود ہیں.نیز یہ کہ سات حروف تہجی ایسے ہیں جو سورۃ فاتحہ میں موجود نہیں ہیں یعنی ث.ج خ زش ظرف اگر خدا نخواستند این حروف میں سے ایک حرف بھی حروف مقطعات میں آجاتا تو میرا سارا دعوئے ہی باطل اور نہس نہس ہو کر رہ جاتا.مگر میرے دھونے کی صحت پر یہ بھی ایک زبر دست قرینہ ہے کہ کوئی صرف بھی حروف مقطعات میں سے فاتحہ کے حروف سے باہر نہیں ہے.حالانکہ کلی حروف تہجی ایسے ہیں جو فاتحہ میں پائے نہیں جاتے.قرینه سوم تیسرا قرینہ ان مقطعات کے فاتحہ کی آیات ہونے کا یہ ہے کہ ہر مفسر کا قاعدہ ہے کہ وہ جب کسی آیت یا شعر یا عبارت کی تفسیر کرتا ہے.تو اس کو بطور متن کے ضرور پہلے لکھ دیتا ہے.پھر آگے اس کی تعبیر یا تفسیر مفصل کر کے لکھتا ہے.یہی طریقہ مفسرین والا اللہ تعالیٰ نے بھی سورتوں میں اختیار کیا ہے یعنی پہلے بظاہر ایک بے معنی لفظ لکھا ہے.پھر اس کے بعد ایک سورۃ بطور تغییر اس لفظ کے بیان کی ہے.پس بظا ہر حالات ہر سورۃ جس پر مقطعات آئے ہیں.اس مقطع کی تفسیر ہے جو اس کے سر یہ لکھا گیا ہے.اور یہی دنیا کے جملہ مصنفوں کا طریقہ ہے.خواہ کسی زبان اور کسی مضمون کے ہوں.گویا مقطعات وہ ہینڈ نگ یا سرخیاں ہیں.جن کی تفصیل یا تغییر ان سورتوں میں بیان ہوئی.
ہے.اسی عالمگیر مروجہ اصول پر قرآن بھی چلتا ہے.لیکن یہ بات کہ یہ سرخیاں الحمد کے ہی اجزاء ہیں.اس طرح ثابت ہے کہ خود قرآن کے فرمودہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ یم اور حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوں کے ارشادات کے ماتحت سارا قرآن مجید خود سوره فاتحہ کی تفسیر ہے.اور دوسری طرف موجب مروجہ طریقہ مفسرین بظاہر یہ بے معنی الفاظ اکثر سورتوں سے پہلے اس طرح لکھتے ہیں.کہ گویا وہ سورتیں اپنی الفاظ کی تفسیر ہیں.پیس ایک طرف قرآن فاتحہ کی تفسیر ہے.دوسری طرف نظر آتا ہے کہ قرآنی سورتیں ان مقطعات کی تغییر ہیں.لہذا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ مقطعات ہی خاتمہ ہیں.کیونکہ جب ایک طرف یہ فرمایا گیا.کہ قرآن فاتحہ کی تفسیر ہے.دوسری طرف میں اپنی آنکھوں سے متلی اور رواجی طور سے نظر آتا ہے کہ قرآنی سورتیں ان مقطعات ہی کی تفسیر ہے تو لاز مایہ نتیجہ بر آمد ہوا کہ مقطعات کوئی الگ چیز نہیں بلکہ سورہ فاتحہ ہی کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے تفسیر کی عرض سے قرآنی سورتوں یران مقطعات کی صورت میں پھیلا دیا گیا ہے.قرآن فاتحہ کی تفسیر ہے ہماری جماعت کا یہ مشہور عقیدہ ہے کہ قرآن کا متن فاتحہ ہے.اور باقی قرآن اس فاتحہ کی تفسیر ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہی فرمایا ہے کہ فاتحہ ام الکتاب ہے یا اتم القرآن ہے اور صحایر میں ام القرآن کا لفظ فاتحہ کے لئے بکثرت راچی تھا.اور یہ بات احادیث کی کتابوں سے ثابت ہے.میں جب اس سورۃ کو قرآن کی ماں کیا گیا.تو اس کے دوسرے معنے یہ ہوئے کہ قرآن اس کی تفسیر ہے اور یہ قرآن کا متن ہے علاوہ اس کے خود قرآن بھی فاتحہ کو متن قرآن کہتا ہے.چنانچہ فرماتا ہے.ولقد اتينك سبعا من المثاني والقران العظيمة (الجر: ٨٨)
۳۹۲ ترجمہ : اور ہم نے یقیناً تجھے سات دہرائی جانے والی (آیات) اور بہت بڑی عظمت والا قرآن دیا ہے.اس آیت کی تفسیر جو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے اس میں یہ ذکر نہیں ہے کہ ہم نے تجھے سات آیتیں مکررات ذواتی والی عنایت کی ہیں.اور قرآن عظیم عطا فرمایا ہے.بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تفسیر یہ فرمائی ہے کہ فاتحہ ہی سبعاً من المثانی ہے اور یہی قرآن عظیم ہے.یہ معنی بخاری اور ترندی دونوں ہیں بلکہ دیگر احادیث کی کتب میں بھی موجود ہیں.جہاں آپ نے فرمایا.لا عَنكَ سُوْرَةُ هِيَ أَعْلَمُ النُّورِ فِي أَنفُرانِ....قَالَ الحمد اللهِ رَبِّ الْعَالَمِانَ فِي السَيحُ المَثَانِي وَالقُران العظيم الذى اويته دبخاری پاره ۱۸ صفر ۳ ۴ مترجم مولوی وحید الزمان) اس حدیث کا ترجمہ مولوی وحید الزماں صاحب یوں کرتے ہیں.فرمایا وہ الحمد کی سورت ہے اس میں سات آیتیں ہیں جو دوبارہ پڑھی جاتی ہیں.اور یہی صورۃ وہ بڑا قرآن ہے جو مجھ کو دیا گیا.پس سبع المثانی بھی یہی سورت ہے جس میں سات آیات ہیں اور ہی قرآن عظیم بھی ہے، قرآن عظیم کا لفظی ترجمہ ہی متن قرآن ہے.کیونکہ تن میں وہ سارا بلکہ اس سے زیادہ مضمون مخفی ہوتا ہے جو کسی تفسیر میں بیان ہو.یہاں عظیم کا لفظ بلحاظ تعداد آیات کے نہیں بلکہ عظمت مضمون کے ہے.نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ جب فاتحہ قرآن عظیم ہے تو باقی قرآن جو ہے وہ کتاب مفصل قرآن مبین اور قرآن حکیم ہے.جیسا کہ قرآن کا خود دعوئی ہے یعنی فاتحہ کی تفصیل اور تفسیر کرنے والا اور متن کو بیان کرنے والا اور قرآن عظیم معنی الحمد کی حکمتیں اور معارف بیان کرنے والاگو یا دوسرے الفاظ ہیں.تفسیر فاتحہ ہے.پس اس آیت کی رو سے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر کے مطابق فاتحہ قرآن عظیم ہے.یعنی متن قرآن میں میں سب مضامین بھرے ہوئے ہیں.اور اس کے
٣٩٣ اندر ساری عظمتیں قرآن کی مخفی ہیں اور باقی قرآن اس کی تفصیل اس کا بیان اور اس کی حکمتیں ظاہر کرتا ہے.اس لئے فاتحہ کو قرآن عظیم کہا گیا.اور باقی قرآن کو قرآن عظیم نہیں کہا گیا.بلکہ اس کو کتاب مفصل قرآن مبین اور قرآن حکیم کا نام دیا گیا.سو ہم نے قرآن سے ہی یہ استنباط کہ دیا.کہ فاتحہ متن ہے اور قرآن اس کی تفصیت ہیں جب ایک طرف مفسر خود کہتا ہے کہ قرآن فاتحہ کی تفسیر ہے.دوسری طرف سجائے فاتحہ کے کچھ مقطعات سورتوں کے سر پر بطور متن کے لکھے ہوئے ہیں.تو یہ ظاہر ہو گیا.کہ یہ مقطعات دراصل فاتحہ کے ہی اجزاء ہو سکتے ہیں.جن کی تفسیر ان سورتوں میں مذکو رہے کوئی علیحدہ اور نئی چیز نہیں.چوتھا قرینہ جو منھا قرینہ یہ ہے کہ اگر تمام مقطعات کو ایک سطر میں خوشخط اور صاف صاف لکھا جائے تو اگر چہ یہ الفاظ بظاہر بے معنی ہیں.اور ہر منقطعہ کا سورہ فاتحہ کا جزو ہوتا غور اور فکر کے بعد واضح ہوتا ہے.مگر خدا تعالیٰ نے صرف ظاہری نظر سے بھی کچھ تھوڑی سی پہچان یہاں ایسی رکھ دی ہے کہ معمولی سمجھ کا انسان بھی بعض مقطعہ کو دیکھتے ہی بول پڑے گا کہ یہ تو فاتحہ کی فلاں آیت کا اختصار معلوم ہوتا ہے.اس کے سوا اور طرف اس کا ذہین نہیں جائے گا.مثلا الم - کھیعص.ق.حق النمو وغیرہ کو دیکھ کر نا واقف آدمی کہہ دے گا کہ مجھے معلوم نہیں ان کا کیا مطلب ہے.مگر طلسم کی بابت اس کو اگر پوچھا جائے کہ بھلا یہ کس قرآنی آیت کا اختصار ہو سکتا ہے تو فوراً وہ کہہ دے گا یہ مقطعہ تو حواط مستقیم سے بہت متا جاتا ہے.پس جہاں خدا تعالٰی نے بارہ مقطعات پردہ کے پیچھے اوجھل کر دیئے ہیں کہ انسان کی معمولی نظر ان کی کنبہ کو جلدی نہ معلوم کر سکے وہاں ایک مقطعہ کو بطور نمونہ نہایت واضح طور پر ایسا بنا دیا ہے کہ اس کی بناوٹ دیکھ کر ہی انسان فوراً یہ بول اُٹھے کہ ہو نہ ہو یہ تو صراط مستقیم کا مخفف شده
۳۶۴ مقطعہ ہے.پس جہاں سے بھی یہ نتیجہ نکلا.جب ایک مقطعہ الحمد کے ایک حصہ کا اختصار معلوم ہوتا ہے تو دوسرے مقطعات بھی غالباً فاتحہ ہی کئے ٹکڑے ہوں گے صرف غور کرنے اور سوچنے کی دیر ہے مشتے نمونہ فردارے پانچواں قرینہ پانچواں قرینہ سب سے زبردست ہے اور وہ یہ ہے کہ فاتحہ کو خود اللہ تعالٰی نے سَبْعًا مِنَ الثاني فرمایا ہے.یعنی وہ سات آیتیں جو مثانی ہیں.مثانی کے معنی لوگوں نے عجیب عجیب گئے ہیں یعنی سورہ فاتحہ بار بار پڑھی جاتی ہے اس لئے مثانی ہے.میں پوچھتا ہوں.کیا قرآن کی اور آیات اور درود اور تسبیح اور دعائیں یہ سب بار بار نہیں پڑھے جاتے.پس یہ کوئی ایسا امتیاز نہیں ہے.دوسرے معنی یہ کئے ہیں کہ یہ سورۃ مکہ میں ایک دفعہ نازل ہوئی اور دوسری دفعہ مدینہ ہیں.یہ توجیہ بھی قابل اعتنا نہیں ممکن ہے یہ درست ہو.مگر دو وقعہ صرف فاتحہ کی آیات ہی نازل نہیں ہوئیں.بلکہ قرآن ہیں بہت سی آیات ہیں جو دو دو تین تین سات سات - دس دس دفعہ نازل ہوئیں.اور آیت نباتي الكريكُمَا نَكَذِ بن تو اکتیس دفعہ نازل ہوتی ہے.سو یہ کوئی خصوصیت فاتحہ ہی کی نہیں.بلکہ اور بہت سی آیات کی بھی ہے.نہیں صرف دہرایا جاتا یا ایک دفعہ سے زیادہ نازل ہوتا کوئی خاص خصوصیت فاتحہ کی نہیں.اب ہم لعنت کی طرف رجوع کرتے ہیں.جس کی طرف عربی دان خود رجوع کریں مجھے تو یہ معلوم ہوا ہے کہ مثانی مشمٹی کی جمع ہے.تسهيل العربیہ) یعنی اس کی سب آیتیں دو دو مرتبہ نازل ہوئی ہیں.اور مفردات راغب میں بھی اس کے معنے مکتیر کے لکھے ہیں اور مثانی ان چیزوں کو کہتے ہیں جو ما بعد الاول ہوں یعنی ایک دقعہ کے بعد مکرر آئیں اور بخاری کتاب التفسیر میں بھی یہی ذکر ہے کہ فاتحہ دوبارہ نازل ہوئی ہے.اور شانی کا ترجمہ وہاں مولوی وحید الزماں صاحب نے بھی
۳۶۵ یہی کیا ہے.کہ مہجو دوبارہ پڑھی جاتی ہیں.، پس خلاصہ کلام یہ ہوا کہ سورہ فاتحہ سات آیتوں والی وہ صورت ہے.جو ساری کی ساری مکرر یعنی دو دفعہ نازل ہوئی ہے.دوسری طرف جب ہم قرآن مجید کا رویہ دیکھتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ جو آیت بھی اس میں دوسری تیسری یا زیادہ دفعہ نازل ہوئی ہے وہ تحریر میں آگئی ہے اور قرآن میں موجود ہے.یہ نہیں کہ ایک آیت جب دوسری دفعہ نازل ہو تو اُ سے تحریر میں نہ لایا جائے.جبکہ متبنی دقعہ وہ نازل ہوئی ہے.اتنی ہی دفعہ وہ تحریر قرآن میں موجود ہے بس ضروری ہے کہ فاتحہ بھی جب مکرر نازل ہوئی ہے تو قرآن میں کسی دوسری جگہ موجود ہو.ورنہ دعوئے مثانی ہونے کا غلط ثابت ہوتا ہے.اب ہمیں سوائے اس کے چارہ نہ رہا کہ جب ایک فاتحہ موجود ہے تو دوسری فاتحہ کو تلاش کریں.مگر تلاش کرنے پر وہ نہیں کہیں نہیں ملتی اب آئیے میں آپ کو بتاؤں کہ وہ کہاں ہے ؟ سو دوسری فاتحہ یہی تو ہے جو مقطعات کی صورت میں نازل ہو کر سارے قرآن میں پھیلی پڑی ہے اور باوجود مشانی یعنی مکرر تحریر ہو جانے کے بھی اب تک لوگوں کو نظر نہیں آئی.میں آپ یا تو اسی دلیل کو مانیئے اور اپنی آنکھیں فاتحہ مکرر سے روشن کیجئے.ور نہ آپ ایک عظیم الشان قرآنی صداقت سے بہرہ اندوز نہیں ہوسکیں گے.اور اگر یہ دوسری فاتحہ نہیں ہے.تو پھر آپ فرمائیے کہ وہ مکرر قائمہ کہاں مخفی ہے ؟ ایک اعتراض کا جواب ان قرآن کے بعد اب میں ایک ضروری اعتراض کا جواب لکھتا ہوں جو اس ضمن میں پیدا ہوسکتا ہے.وہ اعتراض یہ ہے کہ جب سارا قرآن فاتحہ ہی کی تفسیر ہے تو پھر بہت سی سورتوں پر مقطعات کیوں نہیں ہیں.مثلا سورۃ قی کے بعد آخر قرآن تک کوئی مقطعات نہیں ہیں.اور درمیان میں تسار، مائدہ، انعام - الغال ينخل بنی اسرائیل کہف - انبیاء
حج - مومنون.نور - فرقان ، احزاب سیا - فاطر صافات.زمر - محمد فتح نجرات جیسی بڑی سورتیں یا دیود اس کے کہ وہ فاتحہ ہی کی تفسیر ہیں.کیوں مقطعات سے خالی ہیں ؟ اس کے جواب میں اگر یہ کہا جائے کہ جب ایک مقطعہ مثلاً انڈا کی ایک سورت قرآن میں آگئی تو اس کے بعد مقبنی سورتیں بغیر مقطعات کے ہوں گی وہ سب اسی مقطعہ السدا کے ماتحت ہی ہوں گی.مثلاً سورۃ آل عمران جس پر السر ہے.اس کے بعد نساء، مائدہ اور انعام بغیر مقطعات کے ہیں.اس لئے یہ مجھنا چاہیئے کہ ان کا مقطعہ بھی السفر ہی ہے.اور جب تک نیا مقطعہ آئندہ سورۃ پر ظاہر نہ ہو.وہی مقطعہ چلتا ہے.گا.یہ توجیہہ ایک عمدہ تو جہ ہے بشرطیکہ اس پر سے ایک اعتراض ہٹا دیا جائے اور وہ اعتراض یہ ہے کہ اس اصول کے ماتحت پھر خود آل عمران پر بھی اللہ نہیں ہونا چاہیئے تھا.رہی سورہ بقرہ والا اسوہ کافی تھا.آل عمران پر دوبارہ السحر لانے کی کیا ضرورت تھی ؟ اور پے در پلے سات سورتوں میں خمر لانے کی کیا حاجت تھی ؟ صرف پہلا حکمر کافی تھا.دوسرا ایک یہ بھی اعتراض ہے کہ مشلاق قرآن مجید کا آخری مقطعہ ہے یا بقبول بعض لوگوں کے آج آخری مقطعہ ہے جس کے بعد سورۃ ان کس تک کوئی مقطعہ نہیں ہے اب سوال یہ ہے کہ سورۃ تی یا سورۃ ان سے آخر قرآن تک یہی قی یان کا مقطع ان باقی سب سورتوں کا بھی منقطعہ ہے ہے لیکن قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قی یا آن کے معنے باقی کی ہر صورت پر حاوی نہیں ہوتے.یعنی یہ دعوی ثابت نہیں ہوتا کہ ق کے بعد کی تمام کی تمام سو میں ساری ہی ہم مطلب ہیں بلکہ مضامین میں اس قدر اختلاف ہے کہ سوائے ایک خاص مقطعہ کے ان کے مضامین نہ قی کے ماتحت آتے ہیں نہن کے.اب اعتراض مندرجہ صدر کا جواب میں اپنے علم کے مطابق دیتا ہوں جس سے اُوپر کی دونوں تو جہات کے بدلے میں ایک نئی توجیہہ پیش کر دوں گا.جو اگر قابل قبول ہو
تو اسے بھی ذہن میں مستحضر رکھا کر ہیں.اعتراض یہ تھا کہ جن سورتوں پر مقطعات نہیں ہیں کیا وہ الحمد کی تفسیر سے باہر ہیں اور اگر باہر نہیں ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ان پر مقطعات نہیں آئے ؟ دوسرا اعتراض مثانی کے متعلق دوسرا اعتراض یہ ہے کہ آپ نے جو معنی مثانی کے کیہ کے فائو سے ان کو مخصوص کہ دیا ہے تو شاید آپ نے غور نہیں کیا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک اور جگہ یہ آیت نازل کی ہے.اللهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ لِتُبَا مُتَشَابِها مَّثَاني تقشعر مِنْهُ جُلُودُ الَّذِينَ يَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ......(الزمره ۳۲) توجہ اور اللہ وہ ہے جس نے بہتر سے بہتر بات یعنی وہ کتاب اتاری ہے.جو متشابہ بھی ہے اور اس کے مضمون نہایت اعلیٰ ہیں.جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہیں اُن کے خیموں کے رونگٹے اس کے پڑھنے سے کھڑے ہو جاتے ہیں.اب اگر مشانی کے معنے مکرر نازل ہونے والی کے ہیں.تو یہاں تو یہ مثانی کا لفظ قرآن مجید کے لئے بھی استعمال ہوا ہے.کیا یہاں بھی آپ وہی معنے اور مطلب لیں گے.ا جواب اول بر میں خود تو اس آیت کو بھی فاتحہ پر ہی لگاتا ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے ایک سورۃ احسن الحدیث نازل کی ہے.اور وہ سورہ شانی ہے.یہاں احسن الحدیث کے معنی سورۃ فاتحہر ہی ہیں.کیونکہ تمام قرآن میں حسن الحدیث یعنی سب سے اعلیٰ اور احسن سورۃ فاتحہ ہی ہے اور احسن الحدیث کے دوسرے لفظی معنے قرآن العظیم ہی کے ہیں.عظیم معینی احسن اور حدیث میعنی قرآن کے یا ایک جملہ فاتحہ کو قرآن عظیم یعنی عظیم الشان پڑھنے کے فائق کام کہا گیا ہے.تو دوسری جگہ اسمی فاتحہ
کو بہترین کلام فرمایا گیا ہے.دوسرا قرینہ یہ ہے کہ یہاں فاتحہ کو کتاب متشابہ بھی کہا گیا ہے اور سبب عجیب در عجیب اور کثرت و وسعت معانی کے جس قدر فاتحہ کی آیات متشابہ ہیں دیسی قرآن کی اور کوئی آیات متشابہ نہیں ہیں (۳) جواب دوم یہ ہے کہ اگر قرآن مفصل پر ہی ان آیات کا اطلاق مان لیا جائے.تو بھی یہاں مشانی کے یہ معنے نہیں کہ قرآن کی ہر آیت دوبارہ نازل ہوئی ہے.یا سرآت قرآن کی متشابہ ہی ہے.بلکہ یہ کہ اس میں سینکڑوں ایسی آیات ہیں جو مکرر نازل ہوتی ہیں.اور ہزاروں ایسی ہیں جو منشا یہ بھی ہیں.اگر موجب آیت مِنْهُ آيَاتٌ معلمات کے اس میں محکم آیتیں بھی ہیں.پس یہ آیت مثانی والی سَبْعًا من المثانی کے مخالف معنی نہیں دیتی.فرق صرف اتنا ہے کہ یہاں صرف مکررات کا ذکر ہے جو قرآن مجید میں بکثرت ہیں اور وہاں سانت مکررات کا ذکر ہے.یعنی سبعًا من المثانی کا.دوسرے لفظوں میں الحمد کی ساتوں آیات کو مکررات کہا ہے مگہ قرآن مفصل کی مکررات کی تعیین نہیں کی.بلکہ صرف یہ کہہ دیا ہے کہ اس کی بہت سی آیات مکررات میں سے ہیں اور بہت سی مشابہ ہیں.خلاصه کلام یہاں تک تو مقطعات کا اصولی بیان مقا یعنی یہ کہ مد - یہ فاتحہ کی آیات یا الفاظ کے اختصارات ہیں.جس سورت پر جو حروف ہیں.اُن کے مطابق اس صورت میں فاتحہ کی تفسیر ہے حسین سورتوں میں مقطعات نہیں ہیں یا جن میں ہیں ان میں بھی ایک تحمیل تفسیر سورہ فاتحہ کی ہوتی ہے.وہ اس لئے کہ ہر سورۃ کے سریہ فاتحہ کا خلاصہ اور اس کی آیت
٣٩٩ بسم الله الرحمن الرحيم موجود ہوتی ہے.پس کوئی سورت اس وجہ سے فاتحہ کے اللہ اور تفسیر سے خالی نہیں..تمام قرآن مجید فاتحہ کی ہی تفسیر ہے - قرآن عظیم فاتحہ ہی ہے فاتحہ کے سوا دوسرا قرآن تو قرآن مبین (مفت) قرآن حکیم رام الکتاب کی حکمتیں کھولنے والا) کتاب فصل ( تفسیر کرنے والی کتاب ہے.-۷ مکرر نزول فاتحہ کا متقطعات کی صورت میں ہوا ہے.اسی وجہ سے اس کا نام سَبْعًا مِنَ المَثانی ہے.کہ ساتوں آیتیں مکرر نازل ہو کر صورت تحریر میں قرآن کے اندر موجود ہیں.تمام حروف مقطعات سورہ فاتحہ میں موجود ہیں.اور کوئی ایسا نہیں جو سورہ فاتحہ میں داخل نہ ہو.و مقطعات میں سے بعض ایسے ہیں جو نمایاں طور پر فاتحہ کے ٹکڑے نظر آتے ہیں.ملا خشم با عشق جو مخفف ہے ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصراط المستقیم دو آیات کا.یہ توموٹی نظر سے دکھائی دیتے ہیں.باقی اسی طرح باریک نظر سے اور مقطعات کو ان سورتوں کے مضمونوں کے ساتھ تطابق دینے کے بعد سمجھ میں آتے ہیں.یعنی یہ دو مثالیں تو واضح ہیں.باقی ایسی واضح نہیں تا کہ سوچنے والوں اور محنت کرنے والوں کے لئے راستہ کھلانا ہے.مقطعات میں حروف مقطعات کی ترتیب حروف مقطعات کے لئے ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ اسی ترتیب سے ہوں میں ترتیب سے وہ اس آیت میں واقع ہوئے ہیں.جن کا وہ مقطعہ ہیں.مثلاً میں پہلے ذکر
٣٤٠ کر چکا ہوں کہ الم سے مراد الْعَمْتَ عَلَيْهِمْ اور ضالین اور مغضوب علیہ لوگ ہیں.یعنی الف سے مراد العمتَ عَلَيْهِم اور ل سے ضالین اور مر سے مراد مغضُوبِ عَلَيْهِمْ - لیکن سورہ فاتو میں مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کا ذکر پہلے ہے اور ضالین کا آخر میں.میں بظا ہر مقطعہ کی شکل امل ہونی چاہئیے بھی.مگر چونکہ اس میں ترتیل اور روانی نہیں رہتی.اور چونکہ ہر حرف کسی لفظ یا آیت کا اختصار ہے.دوسر حروف کا پابند نہیں ہے.اس لئے یہ عایت روانی تلاوت و ترتیل وہ آگے مجھے ہوسکتا ہے.مثلا کھیعص مفصلہ ذیل تین آیات کا اختصار ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَرايَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ الْمَتَ عَلَيْهِمْ......اصلی ترتیب کے لحاظ سے اسے کھیعص ہونا چاہیے.لیکن چونکہ تلاوت کی روانی اور ترتیل میں حرفت مین پر سخت ناگوار ٹھو کہ لگتی تھی.اس لئے ترتیب حروف بدل دی.پس یہ ضروری نہیں کہ یہ حروف آیات ہی کی ترتیب کے موافق ہوں.بلکہ وہ ترتیل اور قرآت کی سہولت کے مطابق ہوں گے.اسی طرح خط جو اهدنا المستقيم کا مخفف ہے.بجائے ملک کے طلط پڑھا جائے گا.کیونکہ یہ معاملہ خوش آوازی اور ترتیل سے پڑھنے کے متعلق ہے.ایک مقطعہ کئی معنوں اور کئی مقاموں کے لئے آسکتا ہے دوسری بات مقطعات میں یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ ایک مقطعہ یا ایک حرف مقطعہ بعینہ ایک ہی آیت یا ایک ہی لفظ کے لئے مخصوص کر دیا جائے.گویا کہ وہ ایک معرفہ کی طرح ہو جائے.بلکہ جس طرح ریلوے میں این ڈبلیو آر (N.WR) سے مراد نارتھے ولیسٹرن ریلو سے تو ہے.مگر یہ ضروری نہیں کہ جہاں کسی ریل کے ڈبہ پر ان کا حرف دیکھا وہاں ہمیشہ اس کے معنی نارتھ ہی لئے جائیں.ایک ہی مال گاڑی کے ایک ڈبہ میں این ڈیلیو
٣٤١ آر میں این کے معنی نارتھ کے ہوں گے اور جس ڈیہ پر این.جی.ایں.اگر (N.G.S.R) لکھا ہو گا.اس کو ہم نظام گارنٹیڈ سٹیسٹ ریلوئے پڑھیں گے.یہ نہیں کہ وہاں بھی این کو تاریخ کا مخفف سمجھیں.یہ نکتہ علاوہ دنیا کے رواج کے میں نے حضرت مسیح موعود ( آپ پر امتی ہوں کے الہامات سے بھی سمجھا ہے.حضور کو اپریل شہر میں الہام ہوا کہ میاں منظور محمد صاحب کی بیوی مرض سیل سے بیمار ہے.اس کی نسبت الہام ہوا ہے.حسم تلك آيات الكتاب المبین به فرمایا که فقط حسم میں بہار کا نام بطور اختصار ہے، یعنی محمد جامی مگر ایک سال پہلے یعنی اپریل شاہ میں حضور کو یہی الہام ہوا کہ حسم هو تلك ایت الكتب TADTOANLANDALANA فرمایا کہ محمد مقطعات میں کسی کا نام ہے.آگے سارے باقی متعلقہ الہامات پڑھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر یہ سب سلسلہ الہامات غیر مبالغین کے لئے ہے.پس یہاں جسم جو کسی کا نام ہے وہ محمود ہی ہو سکتا ہے اور کوئی نہیں.پس یہ معاملہ صاف ہو گیا کہ جس طرح کبھی محمدی بیگم کے لئے حسم آسکتا ہے تو کبھی محمود کے لئے.تو ایک ہی مقطعه بوقت ضرورت مختلف اشخاص یا آیات کے لئے بولا جاسکتا ہے.جہاں ده حروف پائے جاتے ہوں.نیز ان الہامات سے یہ بھی استنباط ہوتا ہے.خسر کا مقطع اسماء کے لئے استعمال ہونا چاہیئے.چنانچہ میری تحقیق میں وہ الحمد کے سب اسماء الہی کا ہی نمائندہ ہے.یعنی فاتحہ کی آیات نمبر ۲-۳-۴ کا.اسی طرح یہ بھی یا درکھنا چاہیے کہ میں طرح ایک ہی مقطعہ دو مختلف معنی دے سکتا ہے.اُسی طرح ایک آیت یا ایک لفظ کے لئے موقع اور محل کے لحاظ سے الگ الگ کئی مقطعات بن سکتے ہیں.مثلاً س اور قی دونوں مستقیم کے لئے استعمال ہو سکتے ہیں.می اور کا دونوں صراط کے لئے مخفف کئے جاسکتے ہیں.حم - الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کی جگہ بھی آسکتا ہے اور الحمد لله رب العلمین کی جگہ بھی اور الْحَمْدُ لِلَّهِ ربِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ.ملک یوم الدین کے مجموعہ کے لئے بھی
٣٧٢ پس جس سورۃ پر یہ مقطعہ ہو گا.ہم اس کے مضامین کو دیکھ کر فتوے دیں گے کہ اس سورۃ کے مضامین کے لحاظ سے یہ منقطعہ فاتحہ کی کسی آیت یا کن آیات کے مجموعہ کا اختصار ہے.ہاں یہ ضروری ہے کہ مقفہ کے حروف ان آیات میں موجود ہوں اور نہ صرف موجود ہوں بلکہ ضروری حصہ ان کا موجود ہو.مثلاً صراط کے حروف مقطعات یا حق بات ہو سکتے ہیں مگر د اور الف نہیں ہو سکتے کیونکہ اختصار کے وقت ہمیشہ نمایاں حروف کو سامنے لایا جاتا ہے.ایک آیت کے لئے کئی مقطعات ہو سکتے ہیں.یہ بات عام ہے اور معیوب نہیں.مگر ایک منقطعہ کے معنی اکثر جگہ ہمیشہ الگ الگ ہوں.یہ بات نہایت شاذ ہے.کیونکہ ایسا ہو تو احسن نہیں رہتا.پس یہ بات گوشانہ ہے مگر ممکن ہے.ن حروف مقطعات میں نہیں ہے میرے نزدیک سورۃ قلم میں جوان ہے وہ مقطعات میں نہیں ہے.اور اس کے چند دلائل ہیں.۱.پہلی دلیل یہ ہے کہ نون ایک بامعنی لفظ ہے جس کے معنی دوات کے سب عربی ڈکشنریوں میں لکھے ہیں.اور مقطعات کے بذات خود کوئی معنی کسی جگہ نہیں ہوئے.۲.دوسری دلیل یہ ہے کہ قرآن میں ہر مقطعہ کے بعد یا آیت کا نشان ہے یا وقف کا نشان ہے.مگرن کے بعد نہ آیت ہے نہ وقف.پس وہ مقطعہ نہ ہوا.یعنی کیا ہوا ٹکڑا جو اگلی آیت سے علیحدہ ہو.جبکہ وہ ایک صاف اور روان عبارت ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ دمات اور قلم اور جو کچھ ان سے لکھا جاتا ہے (ان کے مطالعہ کا نتیجہ تو ہی ہوگا) کہ تو اے محمدؐ اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہے.پس جو لفظ ایک مسلسل آیت کا با معنی حصہ ہے وہ مقطعہ نہ ہوا.تیسری دلیل یہ ہے کہ حرف آن فاتحہ میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا.نہ کسی خاص
۳۷۳ لفظ یا آیت کا نمائندہ کہلا سکتا ہے.زیادہ سے زیادہ ضالین کا نمائندہ آپ اسے بنا سکتے ہیں.مگر یہ غلط ہو گا.کیونکہ ضالین کا نمائندہ یا ض ہو سکتا ہے یال.ان تو فقط جمع کی علامت ہے.مال کی اصلیت اس میں نہیں پائی جاتی.مقطعات کے بعد رموز قرآن میں ۱۳ مقطعات ہیں جو ۲۸ جگہ وارد ہوئے وہ تیرہ حسب ذیل ہیں.- الم -٢- النّص -٣- الو - ٢- المره - كهيعص - طه ام امسة -- ط - ٠٩يس ١٠- ص - ١١ - خم ١٢- حم عسق.4 11.1 ۱۳.ق.ان میں سے.الم 0 حم عسق ، ان آٹھ کے بعد آیت کا نشان ہے.الوقف المواقف حس تف من قف وقف ان مقطعات کے بعد آیت کا نشان نہیں بلکہ صرف وقف کا نشان ہے.آیت آگے جا کہ ختم ہوتی ہے اس سے میں یہ استنباط کرتا ہوں کہ جن مقطعات کے بعد آیت کے نشان ہیں وہ خود پوری ایک آیت یا کئی آیات کے نمائندے ہیں.ورنہ ان کے آگے آیت کا نشان چه معنی دارد - لیکن جمع مقطعات کے بعد صرف وقف کی علامت ہے اور آیت نہیں ہے وہ پوری آیت یا زیادہ کے نمائندہ نہیں ہیں.بلکہ خاص لفظ یا الفاظ کے نمائندہ ہیں مشکل.ا الم ذَلِكَ الْكِتُبُ لَا رَيْبَ فِيهِ ترجمہ یہی کامل کتاب ہے، اس (امر) میں کوئی شک نہیں.حمه تِلْكَ التُ الكِتبِ الْمُبِينِ.
i ترجمہ : یہ ایعنی اس سورۃ کی آیات) ایک مدلل کتاب کی آیات ہیں.لهُ مَا انْزَلْنَا عَلَيْكَ القُرْآنَ لِتَشْقَى له ۳۰۲) ترجمہ ہم نے تجھ پہ (یہ) قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ تو دکھ میں پڑھائے.وغیرہ میں طے اور جسم اور السم پوری آیت ہے کیونکہ اس کے بعد آیت کا نشان ہے.مثلا ممکن ہے کہ طئے اختصار ہو.اهْدِنَا الصراط المستقیم کا جو ایک پوری آیت ہے.یا السر اختصار ہو الحمد کی آخری آیت کا.جیسے کہ پہلے اشارہ ہو چکا ہے يا حسم اشارہ ہو - اَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمُ O ملك یوم الدین.تین آیات کا جو مجموعہ ہیں.اسم اعظم اقم الصفات الہتہ کا.لیکن ہیں یہ سب پوری آیتوں کے نمائندے.بر خلاف اس کے جن مقطعات کے آگے صرف وقف کا نشان ہے اور آیت کا نشان نہیں ہے.مثلاً ا من وَالْقُرانِ ذى الذكي (ص (۲) ذِي ) ۰۳ الريف تِلْكَ أَنتَ الْكِتَبِ الْمينينِ (يف : وقف وَالْقُرانِ الْمَجِيدِ ه ر ٣٠) تف تو ظاہر ہے کہ یہاں حق باقی یا السر فاتحہ کی کسی پوری آیت کے نمائندہ نہیں ہیں.بلکہ صرف کسی لفظ خاص کے یا لبعض الفاظ کے نمائندہ ہیں.کیونکہ السر اور تلك آيات الكِتَابِ الْمُبِینِ مل کر قرآن کی صرف ایک آیت محسوب ہوتی ہے.پس یہ مقطعات خود پوری آیت نہیں ہیں.بلکہ بعض بعض خاص الفاظ کے نمائندے ہیں.مثلاً غالباً ص سے مراد صرف صراط ہے اور ق سے مراد صرف مستقیم ہے اور اس سے مراد غالبا صرف اللہ اور رب ہے.یا ممکن ہے کہ کوئی اور لفظ ہوں.مگر یہ پانچ مقطعات خود پوری آیت نہیں ہیں.اور ن جیسے میں نے پہلے بیان کیا ، نہ آیت رکھتا ہے نہ وقف، اور اپنی
۳۷۵۰ آیت میں بسبب اپنی معافی کے ایک مسلسل با معنی فقرہ بنا دیتا ہے.اس لئے میرے نزدیک ور حروف مقطعات میں سے نہیں ہے.واللہ اعلم بالصواب.(نوٹ : السمرا کو جو میں نے اسمہ کی فوج کی بجائے اس کی فوج میں رکھا ہے.اس کی ایک بڑی وجہ یہی ہے.کہ اس کے بعد وقف کا نشان ہے نہ کہ آیت کا.بر خلاف اس کے المص کے بعد آیت کا نشان ہے.پس وہ اکسیر کی فوج میں داخل ہے).سوره فاتحه بنه اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ) DON NANONGLE ADNANGAGE مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ : صَرَاطَ الَّذِيْنَ الْعَمْتَ عَلَيْهِمُ : غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) یہ نمبر لگائی ہوئی سات آیات خاتمہ کی ہیں.اور آئندہ اکثر جگہ اختصار کے طور پر میں صرف آیت کے نمبر پر اکتفا کہوں گا.مگر اس سے پہلے ایک دوباتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے.را، چونکہ ہر سورت پر بلا استثنا بسم اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِیم خود موجود ہے.اور نہر سورۃ میں صفت رحم کے ماتحت (جو اُم الصفات ہے) کچھ مضمون ضرور موجود ہے.اس لئے اس آیت کو کسی مقطعہ یا حرف مقطعہ کی ضرورت نہیں.کیونکہ پوری ٹیم اللہ لکھ کر پھر اس کا مقطعہ لکھنا تحصیل حاصل ہے.( یادر ہے کہ قرآن میں ایک سورۃ سبام سورۃ توبہ بغیر بسم اللہ کے پائی جاتی ہے.مگر اکثر لوگ واقف ہیں کہ وہ الگ سورنہ نہیں ہے بلکہ سورہ انفال کا حصہ ہے) دوسری وجہ بسم اللہ کا مقطعہ نہ ہونے کی یہ بھی ہے.کہ خود فاتحہ میں دوسری جگہ یہ آیت الرحمن الرحيم موجود ہے.اور مقطعہ
خر میں DOWNLOAD سے لے کر مُلِكِ يَوْمِ الدین تک تمام اسمائے الہی داخل ہیں پس بسم اللہ کے الگ مقطعہ کی یا اس کے لئے خاص حروف مقطعات کی کوئی ضرورت نہیں.حروف مقطعات فاتحہ کی آیتوں میں اب ہم فرداً فرداً سر حرف کو لیتے ہیں کہ وہ فاتحہ کی کس کس آیت میں آیا ہے.سو پہلے ایک لائن میں ہم ان حروف کو لکھیں گے.پھر ہر حرف کے نیچے فاتحہ کی آیت کا نمبر دیں گے.اس گنتی میں پہلی آیت بسم الله الرحمن الرحیم چھوڑ دی گئی ہے.جس کی وجہ اوپر بیان کر دی گئی ہے.حروف مقطعات ا ح ر س ص ط ع ق ك ل م های نمبر آیت فاتحه ۲۲۲ تم تم تم حروف مقطعات فاتحہ کے الفاظ میں ان الفاظ کی مدد سے آپ مقطعات کے متعلق خود سوچ کر کوئی نتیجہ نکال سکیں گے.- الله الحمد - الرحمن الرحيم - اياك - اهدنا - العمت عليهم ل الله - مالك - ضالين.
م..مُلِكِ يَوْمِ الدِّينِ - مُسْتَقِيمَ - انْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ص: قِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ الله ر رحمن - رحيم - ربّ - عَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْ ك : مالك - إِيَّاكَ نَعْبُدُ - إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ل : اهْدِنَا الْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ ى يَوْمِ الدِّيْنِ.اَيَاكَ نَعْبُدُ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ - ضالين ع : عالمين - إِيَّاكَ نَعْبُدُ ايَّاكَ نَسْتَعِينُ الْعَمْتَ عَلَيْهِم مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ صِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ - س إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ المُستَقِيمِ.ح الحَمْدُ - الرَّحْمَنِ الرَّحِيم ق : مُسْتَقِيمَ مقطعات کے تعین کا قاعدہ مقطعات کا تعین یعنی یہ معلوم که تا کہ فلاں مقطعہ فاتحہ کی فلاں آیت یا فلاں الفاظ کا اختصار ہے.یوں کیا جاتا ہے کہ پہلے اس مقطعہ کے حروف سے جب فہرست مندرجہ بالا کے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ ان حروف سے کیا کیا آیتیں اور کیا کیا الفاظ فاتحہ کے بن سکتے ہیں.چنانچہ مثلاً اللہ سے کئی آیات یا الفاظ کی طرف اشارہ نکل سکتا ہے.اس کے بعد آپ کو وہ سورۃ یا سورتیں پڑھنی چاہئیں.جن کے سر پہ البتہ لکھا ہو.پھر جو مضامین بکثرت اور مرکزی طور پہ اس صورت میں بیان ہوں.ان کے مناسید
- ۳۷۸ حال آپ مقطعات کے حرف کے معنی لے کر کہ سکتے ہیں کہ قطعہ فاتر کی فلاں آیت کا منقطعہ ہے.کیونکہ آیت میں اس کے حروف موجود ہیں اور سورۃ میں اس کے مطالب موجود ہیں.مثلا لحم کے حروف سے معلوم ہوا که به حروف الحمد لله.رحمن.رَحيمُ.مَالِكِ يَوْمِ الدِّين - مستقيم - الْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - مَغْضُوبِ عَلیم میں پائے جاتے ہیں.پھر آپ حم والی چھ سورت نہیں یعنی مومن ، سجدہ ، زخرف ، ذخان - جاثیہ.احقاف سب کو پڑھ جائیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ سب سورتیں ملی ہیں اور اکثر حقیہ ان کا توحید اور صفات و اسماء و افعال الہلی سے بھرا پڑا ہے.پس معلوم ہوا کہ محمد کی سورتوں میں اَلْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحمنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِین تک کا بیان اکثر ہے.باقی جو لفظ ہم نے جمع کئے تھے ان کا کوئی نمایاں ذکر نہیں ہے.پس حمد اختصار ہوا.سورۃ فاتحہ کی آیات نمبر ۲ - ۲۰۲ کا اور لیں.اسی طرح آہستہ آہستہ آپ سب کی حقیقت معلوم کر سکتے ہیں.ق کے متعلق کسی قسم کا جھگڑا ہی نہیں کیونکہ یہ فاتحہ میں صرف ایک ہی جگہ لفظ مستقیم میں ہی آیا ہے.اور اس سے سوائے مُستقیم کے لفظ کے ساری آیت اهْدِتا الصراط المستقیم کی مراد نہیں لی جاسکتی.کیونکہ قی کے بعد آیت نہیں ہے بلکہ وقف ہے.م اور طہ کا تعین بھی بہت ضروری ہے.کیونکہ یہ لفظ صراط کا اختصار ہے اور صِرَاطَ المُستَقِيمَ اور حِسَاطَ الَّذِيْنَ الْعَمْتَ عَلَيْهِمُ والی آیتوں میں آتے ہیں.فرق صرف یہ ہے کہ جب کسی مقطع میں آتی ہے.تو فاتحہ کی آیت نمبر والی صراط مراد ہوتی ہے.اور اگر حق کسی مقطعہ میں آئے تو آیت نمبرے والی صراط مراد ہوتی ہے.غرض اسی طرح صوف کو ایک طرف دیکھ کر اور سورتوں کے مضامین کو دوسری طرف پڑھ کر اور غور کر کے تعین کرتے چلے جاؤ.فی الحال جو میں نے نتیجہ نکالا ہے وہ حسب ذیل ہے.ممکن ہے اس میں الحسین غلطیاں ہوں.مگر اس کے لئے مطالعہ ان سورتوں کا ضروری ہے.اور یہ بات خاص محنت
.٣٧٩ چاہتی ہے.اگر مستعد اور شوقین لوگ اس روشنی میں توجہ کریں تو کئی مفید باتیں نکال سکتے ہیں.بہر حال یہ ایک سرسری خاکہ ہے جو فی الحال میری نظر میں ہے.الة من العَمْتَ عَلَيْهِمْ - ضالين اور مَغْضُوبِ علم کا ذکر ہے.یعنی فاتحہ کی آیت نمبرے چنانچہ بقرہ میں یہ تفسیر نہایت نمایاں طور پر ظاہر ہے.اور مومنین انبیاء اور آدم کے حالات نیز ابلیس اہل کتاب کا فروں اور منافقوں کی کرنتھوں سے یہ سورۃ اوّل سے آخر تک بھری پڑی ہے.سورہ شوریٰ کی حمد ہ عشق ہ میں حم والی آیات ۴،۳،۲ کے علاوہ (یعنی اسمائے الہی کے علاوہ) ايَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ امر اهْدِنَا الصراط المستقيم که والی دو آیتیں یعنی نبیرہ اور 4 مزید اس میں داخل ہے.جس مضمون بھی کرتی ہے کیونکہ اس کے آخر میں یہ آیت آتی ہے کہ وَ إِنَّكَ لَتَهْدِي إِلى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ - صِرَاطِ اللَّهِ الَّذِى لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ أَلَا إِلَى اللَّهِ.صير الأمور و الشوری ۵۲۰۵۳) ترجمہ اور تو یقیناً لوگوں کو سیدھے راستہ کی طرف لا رہا ہے اللہ کے راستہ کی طرف جو اس کا بھی مالک ہے جو آسمانوں میں ہے اور اس کا بھی جو زمین میں ہے.سنو اسب باتیں فلہ ہی کی طرف جاتی ہیں ریعنی تمام باتوں کی ابتداء اور انجام خدا ہی کے ہاتھ میں ہے) اور سورۃ کا مضمون بھی ایسا ہی کہتا ہے.لیکن کا مقطعہ دو حروف مقطعات سے مرکب ہے.ہی سے یوم الدین یعنی آیت نمبر ۴ اور اس سے صراط مستقیم والی آیت نمبر 4.چنانچہ اس سورۃ میں جو قرآن مجید کا دل کہلاتی.ایمان کے اصولوں اور آخرت اور حشر ما بعد الموت ہی کا ذکر ہے.
چنانچہ صراط مستقیم کے متعلق تو اس میں دو آیتیں واضح بھی موجود ہیں.-١ إِنَّكَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ - عَلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ - رئيس (۵۰۴) ترجمه ، یقینا تو رسولوں میں سے ہے (اور سیدھے راستہ پر رہے؟ وَانِ اعْبُدُونِي هَذَا صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمُ - ريس (۲۲) توجہ ، اور صرف میری عبادت کرو کہ یہی سیدھا راستہ ہے.علاوہ ازیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کی ضرورت اور رسالت کی ضرورت اور اس کا فائدہ.دشمنوں پر مذاب انعامات الہلی.برزخ ، حشر، اہل حیت، اہل دوزخ خلق آخر و غیرہ کا یعنی صراط مستقیم اور یوم الدین دونوں کا ذکر ہی اس سورۃ کے مرکزی نقطے ہیں.الر کا مقطعہ کامل آیت نہیں ہے اس لئے اس کی تفسیر اللہ اور رب کے لفظوں سے ہی ہوتی ہے.یہ کئی سورتوں پر آتا ہے.مگر اس کی را کے متعلق یہ خیال کہ اس سے رحمن مراد لیا جائے یا رحیم یارب مجھے یہ بات صحیح نتیجہ پر پہنچنے میں محمد ہوئی.کہ ان سب سورتوں میں کئی کئی مضامین ہیں.لیکن ایک اللہ والی سورۃ ایسی بھی ہے جس میں صرف ایک ہی مضمون ہے یعنی یوسف.پس اس سورۃ کے مضامین نے یہ تعین کرا دیا کہ یہ سورۃ تمام کی تمام ربوبیت الہی کے بیان میں ہے.یوسف علیہ السلام کا بچپن میں رویا دیکھنا.پھر بھائیوں کا سلوک.پھر خدا کی ربوبیت جو کنوئیں میں، فاقہ ہیں ، جنگل میں اور عزیز مصر کے ہاں اور قید خانہ میں اور بادشاہ کے دربار میں اور ملازمت ہیں.ہر حال اور ہر ترقی کے وقت اس کے ساتھ رہی اور اس کی ربوبیت کرتی رہی.اس سے معلوم ہوتا ہے یہ را رب کی ہے اور کسی لفظ کی نہیں.پھر دیکھا تو اور سب الر والی سورتوں میں بھی ربوبیت کے ذکر کو نمایاں طور پر پایا.اس لئے ان الفاظ کا یہ نتیجہ نکالا کہ یہ سورتیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے ذکر سے مخصوص ہیں اور الحمد کی آیت ۲ کی جزو ہیں.
٣٨١ الله اور القص در حقیقت ایک ہی چیز ہیں.الہ میں اَنْعَمْتَ عَلیم مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ اور ضالین گروہوں کا ذکر ہے اور القص میں ان کے راستے اور طریقہ (ص = صراط) کا بھی ذکر ہے.چنانچہ املی کی چالاکیاں، سبت والوں کے کر.انبیا کے مخالفین کے حیلے بنی اسرائیل کا بگڑانا.سامری کی شرارتیں وغیرہ میں صحواط یعنی طریقہ کا حصہ زیادہ وضاحت سے بیان کیا گیا ہے.ورنہ آیت کے لحاظ سے القدس بھی آیت نبری ہے اور القص بھی آیت نمبر ، ہے اور القص میں شیطان کہتا ہے لَا تُعدَنَ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ (الاعراف (1) توجہ ، اس لئے میں ان (انسانوں) کے لیے تیرے سیدھے راستہ پر بیٹھ جاؤں گا.اور شعیب کی قوم کو حکم ہوتا ہے + وَلا تَقْعُدُنا بِكُلِّ صِرَاطٍ تُوَعِدُوْنَ وَتَصُدُّونَ عَن سبيل الله (الاعراف : ) ترجمہ : اور ہر درستہ پر ( اس نیت سے نہ بیٹھا کرو کہ جو اللہ پر ایمان لائے اس کو اللہ کے راستے سے ڈراؤ ترض ان طریقوں کا ذکر ہے جن کی وجہ سے ان لوگوں کی چالاکیوں سے صراط مستقیم مشتبہ ہو جائے.سورة رعد كا الهواية السر والی سورتوں کی جماعت میں داخل ہے نہ کہ الشعر والی جماعت ہیں.کیونکہ اس کے آگے آیت کا نشان نہیں بلکہ یہ نامکمل آیت ہے اور آگے صرف علامت وقف ہے پس اسرا کے مطابق اس میں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے اذکار کے علاوہ قریباً ساری سورت میں کفار مکہ (یعنی مغضوب عليهم کے گروہ) کو ہی مخاطب کیا گیا ہے.
۳۸۲ پس یہ مقطعہ السلام چاہیے تھا.لیکن چونکہ مَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کا میم اس میں ترتیلی ٹھو کر پیدا کر تا تھا.اس لئے اس ٹھوکر سے بچنے کے لئے نیز بلحاظ روانی ترتیل کے اُسے الما بنا دیا گیا.طه واهْدِنَا الصِّرَاط المستقيم طسم : اهْدِنَا الصراط المستقيم دونوں ایک ہی چیز ہیں.فرق یہ ہے کہ سورۃ طہ کا وزن اس طرز کا ہے کہ اس کا مقطعہ طلہ کے وزن پر ہونا چاہیئے اور طاس والی سورتوں کی آیتوں کی بناوٹ الیسی ہے.کہ ان سے پہلے طبقہ آنا چاہیئے.مثلاً دیکھو له و ما انزَلْنَا عَلَيْكَ الْقُرَاتِ لِتَشْقَى ، الا تذكرة تِمَن يخشى واطمه ۴۰۳۰) , توجہ ہم نے تجھ پر ایسا قرآن اس لیے نازل نہیں کیا کہ توڑ کھ میں پڑ جائے ( یہ تو ) صرف (خدا سے) ڈرنے والے انسان کے لیے راہ نمائی اور ہدایت (کے لیے) ہے.غرض اس سورۃ کی آیات کھڑی ذکیہ پر ختم ہوتی ہیں.اس لئے منقطعہ بھی اسی وزن کا لایا گیا.پر خلاف اس کے طلسم کی دونوں سورتوں یعنی شعراء اور قصص میں آیتوں کا قافیہ طے کی طرح الف لئے ہوئے نہیں ہے بلکہ یوں ہے.السقوتِلكَ التُ الكِتابِ الْمُبِينِ.لَعَلَّكَ بَاع نفسكَ اَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ) (الشعراء ٢٤) ترجمہ ار شاید تو اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالے گا کہ وہ کیوں نہیں مومن ہوتے.پس مبین - مومنین - خاضعين معرضين یا مومتون - مفسدین
Fir دارشین وغیرہ کا ترتیلی جوڑ طسم سے ہی لگ سکتا ہے.اور تشقی - بخشی على استونی کے قوانی کا جوڑ طے سے ہی لگ سکتا ہے پس یہ ترتیلی خوبصورتی کے لیے ہے ورنہ دونوں جگہ آیت وہی ہے.طس ( مثل) بھی ایک ایسا مقطعہ ہے کہ اس کے بعد آیت کا نشان نہیں.یعنی یہ پوری آیت کا نمائندہ نہیں ہے.بلکہ آیت نمبر 4 کے بعض الفاظ کا - غالبا اھدِنَا کو چھوڑ کر صرف الفاظ صراط مستقیم کا نمائندہ ہے.جیسے کہ ملکہ سبا کو بطفیل حضرت سیلیمان مخصوص طور پر سیدھا راستہ مل گیا تھا کہ ایک بادشاہ نے اس پر چڑھائی کر کے اسے مسلمان بنایا تھا.یہ ایسی ہدایت نہیں جس کے لئے کوئی دعا کے اھد نا کیا کرے.بلکہ یہ ایک غیر معمولی راستنه صراط مستقیم پانے کا تھا.اس لئے اس سورۃ کا مقطع میں نا تمام رہا.یعنی طبس - صراط مستقیم ہی رہا.نہ کہ پوری آیت اهْدِنَا المراة السقم والله اعلم.غرض میں نے منتصر طور پر مقطعات قرآنی پر ایک نئے رنگ میں روشنی ڈالی ہے.اور میں امید کرتا ہوں کہ ایک تفصیلی راستہ بھی کھول دیا ہے.کہ لوگ غور کر کے انفرادی طور پر ہر مقطعہ کے متعلق اور زیادہ صفائی سے علم حاصل کریں.اس وقت تو میں نے ایک نا مکمل سا ڈھانچہ بنا کر پیش کیا ہے.لیکن یہ بات بہت تلاوت اور غور چاہتی ہے.جو اصول میں نے بیان کئے ہیں.وہ میرے نزدیک پختہ ہیں.لیکن ہر مقطعہ کا تعین ارتفصیل وقت اور مطالعہ چاہتے ہیں.ممکن ہے کہ ہر اسد کے وہی ایک معنی نہ ہوں.جو سورہ بقرہ میں واضح ہیں.اور ممکن ہے کہ ہر حمہ کے وہی ایک معنی نہ ہوں جو سوره مومن میں ہیں.پس ترقی ہو سکتی ہے اور مزید اصلاح بھی مگر اصل وہی رہے گا.کہ یہ سورہ فاتحہ کے اجزاء ہیں.
۳۸۴ نمود تطبیق کا یعنی سورہ مریم اور کھیعص یہاں میں بطور نمونہ ایک مقطعہ کا تفصیلی ذکر کروں گا.اور پھر اس سورۃ میں اس مقطعہ کے مضامین اور تطبیق ہونا بتاؤں گا.تاکہ آپ منقطعہ کے مضامین اور اس کی سورۃ کے مضامین خود بھی چیک کر سکیں.اور پھر چیک کر کے یہ معلوم کر سکیں کہ آیا تطبیقی ٹھیک اُترتی ہے یا نہیں.یہی وہ رستہ ہے جس پر چلنے سے آپ مزید انکشافات اور ترجیحات اس مضمون میں کر سکیں گے.انشاء اللہ.اب میں قرآن مجید کے سب سے بڑے مقطعہ کھیعص اور اس کی تفسیر یعنی سورہ مریم کے مضامین کی تطبیق ذرا تفصیلا کرنے لگا ہوں تا کہ میرا نام بیان جواب تک کرتا چلا آیا ہوں آپ کے سامنے میرسن اور روشن ہو جائے.واضح ہو کہ تھیعص سورہ فاتحہ کی تین آیات کا مقطع ہے.یعنی آیت نمبر ہ ، آیت نمبر 4 اور آیت نمبرے کا.دوسرے الفاظ میں میرا یہ مطلب ہے کہ یہ مقطعہ ابال لعبد وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اهْدِنَا القِرَاء المُتَّقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ الْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضالین کا مختلف خلاصہ یعنی متقطعہ ہے جس میں کی اور بع سے آیا کے نعبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِين مراد ہے.اور ل اور ی سے اِهْدِنَا الصراط المستقيم مراد ہے.اور ص سے مراد صراطَ الَّذِينَ....الآیتہ یعنی آخری آیت فاتحہ کی مراد ہے.اس کے بعد ہم سورہ مریم کی تلاوت شروع کرتے ہیں تو ہم کو صراحتا اور نہایت نمایاں طور پر معلوم ہوتا ہے.اس سورۃ میں اکثر یہی مضامین آئے ہیں.بلکہ بعض جگہ تو الفاظ ایسے غیر مسہم ہیں.کہ ایک نا واقف کو بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ یقیناً فاتحہ کی انہی آیات کا بیان اور اپنی کی تفسیر مصور ہی ہے.لیجئے سنتے جائیے.سب سے پہلے حضرت ذکریا کی دعا ہے یہ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ کی تفسیر ہے.
کیونکہ استعانت کے معنے دُعا مانگنے ہی کے ہیں.اسی طرح آگے چل کر حضرت مریم صدیقہ کی دُعا کا ذکر ہے.آگے چل کہ بلکہ ساتھ ہی ساتھ منعم علیہ گروہ کا ذکر ہے.جس میں ذکر یا.مریم صدیقہ بیلی - ابراهیم - موسی.ہارون ، اسمعیل اسحاق - لعقوب اور یں.آدم - نوح علیہم السلام کا بیان ہے.اور ان کے بیان میں یہ آیت آتی ہے.أوليكَ الذِينَ الْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ مِنْ ذُرِّيَّةِ ادم في ( مریم ) ترجمہ : یہ سب کے سب وہ لوگ تھے، جن پر خدا نے نبیوں میں سے انعام کیا تھا.اُن (نبیوں) میں سے جو آدم کی اولاد تھے ان کے ہمراہ مغضوب علیہم اور ضالین کا ذکر بھی چل رہا ہے جن کا ذکر کہیں نام سے کہ اور کہیں جھیل ہے.مثلاً ابراہیم کے باپ کا ذکر اور اس کی لکھی بحثی اور اس کے مظالم ابراہیم پر.پھر ایک جگہ فرمایا نَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلَتْ أَضَاعُوا الصَّلوةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ حَيًّا....(مریم:۹۰) ترجمہ : پھر اُن کے بعد ایک ایسی نسل آئی جنہوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور نفسانی خواہشات کے پیچھے پڑگئے پس وہ عنقریب گمراہی کے مقام تک پہنچ جائیں گے.پھر مومنوں کا ذکرہ فرمایا إِلَّا مَن تَابَ وَا مَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا....(مریم:(۱) ترجمہ سوائے اس کے جو تو یہ کرے گا اور ایمان لائے گا اور نیک عمل کرے گا.پھر جہنمیوں کا ذکر آگے آتا ہے
حَولَ جَهَنَّمَ جِثِيًّان (مریم (۶۹) ترجمہ: پس تیرے رب کی قسم ہم جو تیرے رب ہیں) ان لوگوں کو (پھر ایک دفعہ) اُٹھائیں گے اور شیطانوں کو بھی (اُٹھائیں گے اور) پھر ان سب کو جہنم کے گرد ایسی صورت میں حاضر کریں گے کہ وہ زانوں کے بل گرے ہوئے ہونگے پھر متقیوں کو فرماتا ہے ثُمَّ نُنى الَّذِينَ اتَّقَوا.....(مريم (۱۳) ترجمه در اور ہم متقیوں کو بچائیں گے.اسی طرح سورۃ کے آخر تک یہ مضمون العَمَتَ عَلَيْهِمْ لوگوں اور مَغْضُوبِ عَلَيْهِمُ اور ضالین کے متعلق چلتا رہتا ہے.ضالین کا مخصوص ذکر حسب ذیل آیات میں ہے.ا قُل مَنْ كَانَ فِي الضَّلَةِ فَلْيَمْدُ وَ لَهُ الرَّحْمَنُ مَدًّا لرميم.توجہ.تو کہ دے کہ جو شخص گمراہی میں (بڑا) ہو ( خدائے) رحمی اسے ایک عرصہ تک ڈھیل دیتا جاتا ہے.يز لكن الظَّلِمُونَ الْيَوْمَ فِي ضَالِ مبين (مريم (۳۹) ترجمه، لیکن وہ ظالم آج بہت بھاری گمراہی میں مبتلا ہیں عیسائیت کا ذکر مخصوص طور پر ان آیات میں آتا ہے.- مَا كَانَ لِلَّهِ أَن يَتَّخِذَ مِنْ وَلَدٌ سُحْنَة (مریم) ۳۲) ترجمه, خدا کی شان کے یہ خلاف ہے کہ وہ کوئی بیٹا بنائے.وہ اس بات سے پاک ہے.وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا لَقَدْ جِتُتُم شَيْئًا إِذًا (مرم(٢٩) ترجہ ماور بیلوگ کہتے ہیں کہ (خدائے رحمن نے بیٹا بنا یا ہے (تو
۳۸۷ کہہ دے تم ایک بڑی سخت بات کہہ رہے ہو.-٤ وَمَا يَنْبَغِي لِلرَّجُنِ أنْ يَتَّخِذَ وَلَدًا رمم (۹۳) ترجمہ اور رضائے پر حمن کی شان کے یہ بالکل خلاف ہے کہ وہ کوئی بیٹا بنائے.آیت اِهْدِنَا الصِّراطَ الْمُسْتَقِيم کے متعلق جو بیان موجود ہے.اس میں صراحتا اور نہایت واضح طور پر یہ آیت آتی ہے.وَإِنَّ اللهَ رَبِّي وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ، هَذَا صِرَاد مُّسْتَقِيمَ (مریم:۳۷) تیجہ، اور اللہ میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی رب ہے اُسی کی عبادت کرو یہی سیدھا راستہ ہے.نیزیہ آیت يَابَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَ فِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ فَاتَّبِعُ اَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا (مريم (۲۲) اراے عطا ترجمہ : اے میرے باپ! مجھے ایک خاص علم عطا کیا گیا ہے جو تجھے نہیں ملاپس رباد جو اس کے کہ میں تیرا بیٹا ہوں) تو میری اتباع کہ میں تجھے سیدھا راستہ دکھاؤں گا.پھر جو دعائیں ہیں وہ سب إِيَّاكَ نَسْتَعِین کے ماتحت ہیں.مثلاً حضرت ذکرہ یا اور حضرت مریم کی تفصیلی دعائیں ہیں اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول کہ وَادْعُوا رَتي سے عَلَى الَّا اكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيًّا (مریم (۴۹) ترجمہ ، اور صرف اپنے رب کے حضور دعائیں مانگوں گا (اور) یقیناً میں اپنے رب کے حضور دعا کرنے کی وجہ سے بد نصیب نہیں بنوں گا.اسی طرح ايَّاكَ نَعْبُدُ کی تفسیر اور ذکر میں ا عنده ذكريا
-٢ وَإِنَّ اللهَ رَبِّي وَرَتُكُمْ فَاعْبُدُوهُ (مريم (٣٤) ترجمہ: اور اللہ میرا بھی رب ہے اور تمھارا بھی رب ہے.اُسی کی عبادت کرو.- ياتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَن (مریم (۴۵) ترجمہ کرانے میرے باپ شیطان کی عبادت نہ کر - إذا له عَلَيْهِم أَيتُ الرَّحْمَنِ خَرُّ وَاسْجَد او يكيا (مریم) ۵۹) ترجمہ : جب اُن کے اوپر خدائے رحمن کا کلام پڑھا جاتا تھا، تو سجدہ کر تے ہوئے اور روتے ہوئے (زمین پر) گیر جاتے تھے ه جَنَّتِ عَدْنِ الَّتِي وَعَدَ الرَّحْمَنُ عِبَادَهُ بِالْغَيْبِ مر مريم (۶۲) ترجمہ یہ ریعنی ان جنتوں میں جو ہمیشہ رہنے والی ہیں اور جن کا ( خدائے) رحمن نے اپنے بندوں سے ایسے وقت میں وعدہ کیا ہے جبکہ وہ ان کی نظروں سے ابھی پوشیدہ ہیں.- تلك الْجَنَّةُ التى نُورِثُ مِنْ عِبَادِنَا (مریم: ۶۲) تر ہے کہ یہ وہ جنت ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں میں سے اُن کو کریں گے جو متقی ہوں گے.- رَبُّ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدُهُ وَاصْطَبُو لِعِبَادَتِه (مریم ۶۶) ترجمہ : (وہ) آسمانوں کا بھی رب ہے اور زمین کا بھی (رب) اور جو کچھ ان دونوں کے درمیان (ہے) پس رائے مسلمان) اس کی عبادت کہ اور اس کی عبادت پر ہمیشہ قائم رہ ان سب میں ایاک نعبد کی تفصیل اور تفسیر ہے.عرض تمام مضامین سورہ مریم کے اوپر آگئے اور سب کے سب الا ماشاء اللہ
۳۸۹ اپنی تین آیات فاتحہ کی تفصیل اور تفسیر ہیں.اگر شعبہ ہو تو خود پڑھے اور لطف اٹھائیے اور یشیم بصیرت روشن کیجئے.یہ سورت بہت بہی نہیں ہے.صرف 10 منٹ میں آپ کو یقین آجائے گا.کہ میرا یہ دعوئے کہ یہ فاتحہ کی تین پھلی آیتوں کی تفسیر ہے بالکل سچا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی مانا پڑے گا کہ یہ سورۃ کھیعص اور بسم الله الرحمن الرحیم کی بھی تفسیر ہے پس معلوم ہو کہ کھیحص دراصل فاتحہ ہی کی پچھلی تین آیتوں کا مقطعہ ہے اور یہی ہم نے ثابت کہنا تھا سو کر دیا.اسی طرح اگر آپ خودان مقطعات سے جوس پی لیں تو آپ پر بھی انشاء اللہ تعالے مزید علم منکشف ہوگا اور ہر صورت سے یہ دعوی سچا ثابت ہوگا کہ مقطع است در اصل دوسری دفعه نازل شده فاتحه یا مکررات آیات فاتحہ ہیں.اور جس طرح تفسیر کے وقت ایک مفسر پہلے متن کو رکھتا ہے.پھر اس کی تفسیر بیان کرتا ہے.اسی طرح اللہ تعالٰی نے جس سورۃ کے اوپر فاتحہ کے پیچھے لکھ دیتے ہیں.ان میں مخصوص طور پر فاتحہ کی ان آیات یا الفاظ کی تفسیر ہے اور یں سورۃ پر کوئی مقطعہ نہیں ہے وہ صرف بسم الله الرحمن الرحيم کی تفسیر ہے.سو وہ بھی سورہ فاتحہ ہی کی ایک آیت ہے.میں نے اپنی نوٹ یک میں تمام مقطعات کو ان کی سورتوں کے مضامین سے تطبیق دیا ہے.لیکن چونکہ مضمون نہایت لیا ہو جاتا تھا اور میرا مقصد صرف راستہ دکھانا تھا.اس لئے اتنے پر اکتفا کیا گیا.اب میں جملہ احباب اور پڑھنے والوں سے درخواست کرتا ہوں کہ اگر یہ مضمون ان کو خوش وقت کرے تو عاجز کے لئے دعائے خیر فرمائیں.والسلام تحدیث نعمت سب سے آخر میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر تا ہوں کہ مقطعات کے متعلق اس نے مجھے ایک نیا راستہ بتایا.اور ساتھ ہی تحدیث نعت کے طور پر عرض کرتا ہوں کہ مجھے پیشہ سے مقطعات کے حل کی تلاش کی فکر لگی رہتی تھی.ایک دن بغیر تفکر اور تدیر کے یکدم بجلی کی طرح
۳۹۰ محض اس کے فضل سے یہ نکتہ میرے دل میں گھس گیا.کہ منقطعات فاتحہ ہی ہیں ، جب اس پر میں نے غور کیا تو اسے درست پایا.پھر جب میں نے مقطعات کو جمع کیا اور ان کے معنے اور تغییر سورتوں پر لگانے لگا.تو ن کے معنے اور تعین کو درست نہ پایا.اور اس چیز نے مجھے بہت پریشان کیا.کہ ن مقطعات میں فٹ نہیں آتا.اسی ادھیڑ بن میں کئی دن گزر گئے.تو یکدم قرآن کریم کی یہ آیت دل پر القا ہوئی.أحد عشر كوكيا وَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَأَيْتُهُمُنِي مجدِينَ (یوسف (۵) ترجمه ، (یقین مانیے) میں نے گیارہ ستاروں کو اور سورج اور چاند کو بھی رویا میں) دیکھا ہے (اور مزید تعجب اس پر ہے کہ) میں نے اُن کو اپنے سامنے سجدہ کرتے دیکھا ہے.پس منا مجھے تکتی ہوئی کہ ن واقعی مقطعات میں سے نہیں ہے.بلکہ گل مقطعات تیرہ ہی ہیں اور لطف یہ کہ حروف مقطعات بھی تیرہ ہی ہیں اور تیرہ مقطعات میں سے دو نهایت روشن اور نمایاں ہیں.ایک تو حمہ کا منقطعہ جو لسبب صفات الہی کا جامع ہونے اور فاتحہ کی دوسری تا چہارم آیات کا مقطعہ ہونے کے ایک نمایاں افضلیت رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی تمام صفات عالیہ پر حاوی ہے.دوسرا مقطعہ جو اس سے کم درجہ پر ہے.مگر باقی سب پر نمایاں ہے وہ اس کا مقطعہ ہے جو لسبب انعمت عليهم اور مغضوب علیہم اور ضالین کے بیان کے انسانی تمام حالات پر حاوی ہے اور یہی وجہ ہے کہ یہ دونوں مقطعات تعداد کے لحاظ سے بھی زیادہ ہیں.اور حم اور الم سات سات دفعہ آیات میں وارد ہوتے ہیں.اور باقی مقطعات کی نسبت اپنی تعدادا در معانی کے لحاظ سے سورج اور چاند کی طرح نہایت روشن چمکدار اور ساتھ ہی اس آیت سے مجھے یہ بھی خوشی ہوئی کہ ان مقطعات کا یہ علم جو مجھے معلوم
۳۹۱ ہوا ہے.یہ بھی خدا کے فضل سے ہی ہے اور صحیح ہے اور جو کچھ تائیدی طور پر میں نے خود غور و فکر سے لکھا ہے.وہ بھی خدا ہی کا فضل ہے.ورنہ ایک جاہل اور کم علم بندہ کیا اور اس کی تفتیش کیا ! واخر دعوانا ان الحمد لله رب العالمين گر اصل فاتحہ.قرآن اس کی ہے تعبیر مقطعات ہیں پھر سورتوں یہ کیوں تحریر سو یا د رکھے.کہ یہ الحمد ی کے ہیں ٹکڑے یہ سورتیں اپنی اجزا کی کرتی ہیں تفسیر
۳۹۲ مضمون قطعات بعض اعتراضات اور اُن کے جواب را) ن کا مقطعہ اور حضرت خلیفہ اول ( اللہ آپ سے راضی ہو) اس بارہ میں ایک بزرگ دوست یہ اعتراض کرتے ہیں کہ "ان" حرف مقطعہ ہے اور بے معنی ہے.اور یہ جو آپ نے اس کے معنے مدات کے کئے ہیں یہ غلط ہیں.جوا با عرض ہے کہ یہ معنی میں نے نہیں کئے بلکہ حضرت خلیفہ المسیح اول کے یہ معنی ان کی کتاب میں سے نقل کئے گئے ہیں.کہ دورات اور قلم اور جو کچھ اُن سے لکھا جاتا ہے (ان کے مطالعہ کا نتیجہ تو ہیں ہو گا) کہ تو اے محمد اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں ہے.حضرت خلیفہ اول کے درس قرآن کے نوٹوں کے پہلے ایڈیشن صفحہ ۲۷۶ پر یہ مرقوم ہے.ایت امدن درات - فرمایا قلم دوات کو لو اور جو علوم دنیا میں پیدا ہوئے - سب کو جمع کرد...بلکہ فرمایا.قلم اور دوات کے ساتھ جو کچھ آئندہ بھی کبھی کھا جائے گا اس سے.....اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ اب قلم و دوات کا زمانہ
آنے والا ہے.کر می شیخ یعقوب علی صاحب کے شائع کہ وہ ترجمہ اور نوٹوں میں جو وہ بھی حضرت خلیفہ اسیح اول کے نوٹ ہیں حسب ذیل لکھا ہے : دوات اور قلم کی قسم جو کچھ ران سے لکھتے ہیں با لکھیں گے.اس سورة کون سے شروع کیا گیا ہے.ان کے معنی دوات کے ہیں.یعنی دوات اور قلم کو ہم پیش کرتے ہیں ان سے مراد دوات ہے.اس کے لئے ترتیب آیات تائید کرتی ایپاره تبارك الذي.سورة قلم يشيخ يعقوب على صاحب) ہے.لغت کی کتابیں تسہیل العربية - نون معنی دوات -- اقرب الموارد - النون - الدماة لغات القرآن عبد المحى عرب.النون الدواة قال تعالى ن والقلم یہ لغات بھی مفردات راغب اور خلیفہ اول (اللہ آپ سے راضی ہو) کے درسوں کا خلاصہ ہے.پس معلوم میں کہ سورہ قسم کے تن کے معنی ہی یہاں دوات کے کئے گئے ہیں.نہ کہ " تون" کے.ن کا مطلب اور ترجمہ حضرت خلیفتہ ایس ثانی کے درس میں ضمیمه درس القرآن اخبار الفضل ۲۰ مارچ ۱۹۲۸ از حضرت خلیفه اسبیح ثانی در ن والقلم وما يبهرون ہ قسم ہے جن کی اور قسم ہے قلم کی اور اس کی جس کو وہ لکھتے ہیں.اس لئے یہ عنی ہوئے کہ دولت اور قلم اور وہ جو لکھا جاتا ہے.اس
۳۹۴ کی قسم اس رسول کی شہادت کے طور پر دانت اور قلم اور اس سے جو لکھا جائے گا پیش کرتے ہیں.کہ اس سے یہی ثابت ہوگا کہ تو بڑا غفلت ہے.(یہاں سے یہ بھی ثابت ہوا کہ فلم کا واؤ شیر سے ہے.ماقبل ان پر بھی حاوی ہو سکتا ہے.اب جبکہ قرآن مجید کے دو عظیم الشان مفسروں نے اس ان کے منے روات کے کئے ہیں.تو پھر ہم کو ان کی بات ہی ماننی پڑے گی.باقی یہ بات کہ ن اور نون میں فرق ہے.یہ بھی بالکل معمولی بات ہے.ہر ڈکشنری میں حرف ن کا نام نون ہی لکھا ہے اور تون کا مطلب ت ہی بیان کیا ہے.اسی طرح ت خفیفہ اور ن ثقیلہ کو نونِ خفیفہ اور تونِ ثقیلہ بھی لکھتے ؟ حروف مقطعات پرمد (۲) ایک اور صاحب پوچھتے ہیں کہ حروف مقطعات پر مذکیوں ہے.جیسے اسم لیس وغیرہ پر.سو اس کی وجہ ظاہر ہے یعنی یہ مقطعات خودآیت ہیں اور ان کے بعد آیت کا نشان موجود ہے.میں جب لی جو ایک پوری آیت ہے پڑھی جائے گی اندر اس کے بعد کی لمبی لمبی آیتیں اس کے بعد پڑھی جائیں گی تو ضروری ہے آیتوں کے آخری الفاظ کی طرح مقطعات کے آخری حروف کو بھی لمبا کر کے پڑھا جائے.تاکہ آیات ترتیل میں ہم وزن رہیں.پس جس طرح لیں.والقُرانِ الحكيم ، میں تم حکیم کو لمبا کر کے بموجب قاعدہ قرآت کے پڑھتے ہیں.اسی طرح ہم ٹیس کا مین بھی لمبا کر کے پڑھیں.اس لئے اس پر تہ ڈال دیا گیا.کہ دوسری تمام آیات کے آخری الفاظ کی طرح مقطعہ والی آیت کا آخری حصہ بھی کھینچ کر اور لمبا کر کے پڑھا جائے.پس یہ وجہ ہے مک ڈالنے کی اور لمبا کر کے پڑھنے کی.البتہ جہاں کھڑا ز یہ ہو جیسے کہ الرا
۳۹۵ میں وہاں وہ کھڑا ز پر ہی تہ کا قائم مقام ہو جائے گا.(۳) ایک اعتراض یہ ہے کہ قسط نمبر ا ا میں مضمون کے آخر میں آپ نے حم اور الم کو لکھا ہے کہ وہ قرآن مجید میں سات سات دفعہ وارد ہوئے ہیں.حالانکہ السعر صرف چھ سورتوں کے سر پہ ہے.اس غلطی کی تصیح کریں.جواباً عرض ہے کہ میں نے جیسا کہ اس مضمون میں کسی جگہ بیان کیا ہے.المص کو بھی السر ہی سبھا ہے.بر خلاف اس کے الحمد کو ان کی جماعت سے خارج کیا ہے.المص اور اللہ در اصل ذرا سے فرق کے سوا جو پہلے مذکور ہوچکا ہے.دراصل السفر ہی ہے.اس لئے اسے گنتی میں شریک کر لیا گیا ہے.حق کا حرف صرف ایک مزید چیز ہے.جیسے کہ حمد کی فہرست میں ایک جگہ عشق ایک زیادتی ہے.مگر باد جوداس کے اسے جسم ہی کی گنتی میں رکھا گیا ہے.(ہی) چوتھا اعتراض یہ ہے کہ مثلاً اسم کے لفظ کو آپ نے الْحَمْتُ عَلَيْهِمْ اور مغضوب اور ضالین کا مخفف یا مقطعہ قرار دیا ہے تو بموجب آج کل کے انگریزی رواج کے ان سب الفاظ کا پہلا حرف مقطعہ میں آنا چاہیے نہ کہ درمیان کا جیسے کہ آپ نے مضالین کا درمیانی لام سے لیا ہے.حالانکہ حق لینا چاہیے تھا درمیانی حرف لینے کا قاعدہ غلط ہے.اس کی توجیہہ کر یں جا با عرض ہے کہ آپ تو اس کے معنی آنا اللہ اعلم کیا کہتے ہیں ان کو بھی اس انگریزی قاعدہ کی رُو سے غلط کہہ دیں.کیونکہ الف سے مراد انا اورل سے مراد اللہ اور مر سے مراد اَعْلَمُ آپ بیان کیا کرتے ہیں.اگر درمیان کا حرف ہو جب آپ کی رائے کے نہیں آنا چاہیے تو پہلے آپ خو در جوامع کریں.کیونکہ اللہ کا پہلا حرف نہیں
ہے.اور مراعلم کا آخری حرف ہے.اسی طرح آپ طلسم کے منقطعہ میں کر کے معنی لطیف کرتے ہیں.یہاں بھی ط درمیانی حرف ہے.پس یہ دیگران را نصیحت والی بات کچھ مناسب معلوم نہیں ہوتی اور جب معزز عربی نژاد صحابہ نے آلہ کے معنے انا الله اعلم کے کئے ہیں تو معلوم ہوا کہ ان کی زبان میں یہ بات بالکل جائز ہے.کو موجودہ زمانہ کی انگریزی میں اس کا رواج نہ ہو.اور خواہ آپ اس کے معنوں کے قائل نہ ہوں.تب بھی آپ کو یہ ماننا پڑے گا کہ مستند اہل عرب کے نزدیک یہ ترکیب جائز ہے.اور جو چیز اہل عرب کے نزدیک جائنہ ہے.وہ کسی دوسری زبان کے معیار پر پرکھنے سے نا جائزہ نہیں ہو سکتی.(0) ایک بزرگ نے یہ اعتراض کیا کہ مقطعات کو دو کلاسوں میں تقسیم کرتے ہوئے آپ نے ایک جماعت وہ رکھی ہے جس کے بعد آیت ہے اور دوسری وہ کل کس رکھی ہے جن کے بعد وقف کا نشان ہے.حالانکہ آیتوں اور وقف کے نشان تو بعد کی ایجاد ہیں ہیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں تھے ہی نہیں نہیں یہ آپ کی لاعلمی اور بے وقوفی ہے.اس حصہ کو کاٹ دیں.جواباً میری طرف سے یہ عرض ہے کہ یہ درست ہے کہ قرآنی تحریر میں ہ نشان آیت کا اس زمانہ میں لکھا نہیں جاتا تھا مگر آیتیں تو موجود تھیں.اور خود قرآن مجید میں ان آیات کا صریح ذکر ہے سینیئے -١ مِنْهُ أيتَ مُحْكَمَتْ هُنّ أم الكتب وأخَرُ متشبهت الى عمان.ترجمہ جس کی بعض ( آیتیں تو محکم آیتیں ( ہیں جو اس کتاب کی جڑ ہیں اور کچھ اور (ہیں) جو متشابہ ہیں.- تِلْكَ ايْتُ اللهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ....(البقره ٢٥٣٠)
توجہ.یہ اللہ کی آیات ہیں جنہیں ہم تھے پڑھ کر سناتے ہیں.اس حالت میں کہ تو حق پر قائم ہے.الريف تلك ايت الكتب الحكيم (يونس ٣٠) ترجمه ، الویہ (یعنی اس سورۃ کی آیتیں ) کامل (اور) پر حکمت کتاب کی آیتیں ہیں.وَلَقَد أَنزَلْنَا إِلَيْكَ ايت بينت (البقره...) ترجمہ ، اور ہم نے تجھ پر یقیاً کھلے کھلے نشان نازل کئے ہیں.٥ لَقَالُوا لَن لَا فُصِّلَتْ آياته (حم سجده (۴۵) ترجمہ تو وہ ڑکے والے) کہ سکتے تھے کہ اس کی آیتیں کھول کر کیوں نہیں بیان کی گھیلی.وغیرہ وغیرہ پھر سب سے بڑھ کر فاتحہ کو سبع من المثانی کہہ کر اس کی آیات کی گفتی بھی تعین کر دی ہے.اسی طرح آپ تمام قرآن کو دیکھے ہیں.آیتیوں کے نشان خواہ لگے ہوں یا نہ ہوں.ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہاں سے یہاں تک ایک آیت ہے.آیت تو اپنے قانیوں اور خواتیم اور مضمون سے پہچانی جاتی ہے.جس طرح ہر زبان میں فقروں کی بناوٹ سے ہم بتا دیتے ہیں کہ یہ فقرہ یہاں سے یہاں تک ہے.آگے نیا فقرہ شروع ہوتا ہے.کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرون اولیٰ کے لگ آیتوں پر پہنا ٹھہر نہیں کرتے تھے.میں اس ٹھہرنے کا نام آیت ہے خواہ اس کے تحریری طور پر غیر عربی لوگوں کے لئے بند میں مقرر کئے جائیں.کیا احادیث میں نہیں آتا کہ جو سورہ کہف کی دس پہلی اور دس پچھلی آیتیں تلاوت کرے گا ، وہ فتنہ دجل سے محفوظ رہے گا ؟ کیا اگر قرون اولیٰ میں لوگوں کو آیتیں معلوم نہ تھیں تو اس حدیث کے معنے ہی کیا ہونا ہے.؟ کیا صحابہ کے اقوال میں متعدد جگہ ایسے
٣٩٨ الفاظ نہیں آتے کہ بقدر چالیس آیات حضور یا ہم لوگ پڑھا کرتے تھے اور ایک جگہ تو آیا ہے کہ حضور رات بھر نماز میں آیت ان تعذ بهم عبارك........الاية پڑھتے رہے.پس سورتوں اور آئینوں کا تعین تو خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی کرا دیا تھا.باقی تحریر میں بچوں اور مجھیوں کے لئے آمیتوں کے نشان اگر کسی نے بعد میں لگا دیئے تو اس کا کیا ہرج ہے.بلکہ احادیث سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن مجید کی آیات کو اس طرح ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرتے تھے کہ ان اوقاف کی بابت کسی کو شبہ رہ ہی نہ سکتا تھا.اور فاتحہ کی تو ایک ایک آیت حضور نے صحابہؓ کو الگ الگ گنوائی ہے.چنانچہ فرمایا ہے کہ جب بندہ کہتا ہے اَلحَمدُ لِلَّهِ رَب العالمین تو خدا یوں فرماتا ہے اور جب بندہ کہتا ہے الرَّحْمنِ الرَّحِیم تو خدا یوں فرماتا ہے.اور جب کہتا ہے مالك يوم الدین تو خدا یوں فرماتا ہے.غرض اسی طرح حضور نے فاتحہ کی سب آیتیں گئی ہیں.پس آپ کا اعتراض کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں آیتیں نہ تھیں.میری سمجھ سے باہر ہے.آیتیں تو تمھیں صرف نشانات آیت نہ تھے.اور وقف یعنی آیت سے کسی قدر کم شہر نے کا علم بھی سب کو تھا.ہاں نشان وقف و آیت وغیرہ عجمیوں کے لئے بعد میں لکھنے تجویز کئے گئے.سو اس سے اصل مطلب میں کیا فرق پڑ گیا؟ ابتدائی زمانہ میں تو قرآن مجید پر زیر زیر بھی نہ تھے.تو کیا یہ کہہ دیا جائے کہ اس وقت قرآن کسی اور طرح کا پڑھا جاتا تھا.اسی طرح قرون اولیٰ کے معرب ہر آیت پر پورا ٹھہرتے تھے اور وقف پر اس سے کم وقفہ دیتے تھے.سواب بھی یہی حال ہے اور جب بھی یہی حال تھا.زیادہ ٹھہرنے کا نام آیت اور کم شہرنے کا نام وقف ہے.(4) ایک صاحب اعتراض فرماتے ہیں کہ بسم اللہ کی آیت سورۃ فاتحہ کا جزو نہیں -
۳۹۹ ہے یہ حض آپ کی زبردستی ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کے پاس جو قرآن آیات کے نمبر والا ہے اُسے دیکھ لیں.اگر شک ہو تو فاتحہ کی سات آیات بغیر اسم اللہ کے گن کر دکھا دیں.کیونکہ فاتحہ کی بغیر بسم اللہ کے صرف چھ آیتیں رہ جاتی ہیں.خواہ باقی قرآنی سورتوں میں بسم اللہ محسوب ہو یا نہ ہو.مگر فاتحہ بغیر اہم اللہ کے کامل ہرگز نہیں ہوسکتی.کیونکہ بغیر اس کے فاتحہ کی سات آیات کی گنتی پوری نہیں ہوتی.(۷) پھر ایک اعتراض یہ ہے کہ جب مقطعات بے معنی الفاظ ہیں.تو پھر آپ نے علیم اللہ کو مقطعہ کیوں کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ واقعی در اصل تو بسم اللہ منقطعہ نہیں ہے.بلکہ فاتحہ کی ایک آیت اور فاتحہ کا خلاصہ ہے.مگر صرف سمجھانے کی خاطر اسے وہاں منقطعہ کہہ دیا گیا ہے.کیونکہ قرآنی سورتوں میں یا تو مقطعات کی تفسیر ہے باسیم اللہ کی.اس لئے اسے بھی ایک منقطعہ یا اُم المقطعات کا نام دے دیا گیا ہے.ورنہ دراصل اس میں مقطعات والی خاصیتیں نہیں ہیں.کیونکہ وہ کسی آیت کا اختصار نہیں ہے بلکہ خود ایک پوری با معنی آیت ہے.ہاں یہ ٹھیک ہے کہ ہر سورۃ میں اس کی تفسیر کسی نہ کسی رنگ میں موجود پائی جاتی ہے.ایک نیا قرینہ (^) ایک اعتراض یہ ہے کہ مقطعات فاتحہ کی آیات اور الفاظ کا اختصار سمجھنا آپ نے کسی زبر دست اور مضبوط دلیل سے ثابت نہیں کیا.بعض قرائن پیش کئے ہیں جو خود کچھ زیر دست نہیں ہیں.اس کے جواب میں عرض ہے کہ جو معانی آپ ان مقطعات کے پہلے مانا کر تے تھے وہ کن دلائل اور پختہ حسابی تشریحات پر مبنی ہیں ؟ کہ ان کو ماننے کے لئے
۴۰۰ تو آپ تیار ہیں.مگر ان کے ماننے کے لئے آپ کو ایک اور ایک در کی طرح دلائل اور براہین درکار ہیں.مہربان من ! خدا تعالی رسالت، قیامت اور سب چیزیں جو ایمانیات میں داخل میں ان کا انحصار بھی بعض قرائن پر ہوتا ہے نہ کہ رویت پرہ.پھر یہاں رویت والی دلیلیں ہم کس طرح دکھا سکتے ہیں : کلام اہلی تو رو حانیات میں داخل ہے اور اس کے تمام حقائق و معارف حسابی میزان پر نہیں بلکہ روحانی میزان پر تو نے جاتے ہیں.اور قرائن انشراح صدر اور ایمانی تشریحات پر ان کا مدار ہوتا ہے.پس ایسا مطالبہ غلط ہے.لیکن یہ صحیح ہے کہ ہمارے قرائن لغو اور کمزور نہیں ہیں.مثلاً سبعا من المثاني والا قرینہ کیا کوئی کمزور دلیل ہے ؟ بلکہ تنو دلائل پر بھاری ہے.اور بغیر ماری توجہہ کے اور سب توجہات مقطعات کی ان کو کسی نظام کے ماتحت نہیں لاتیں.پس یہ بھی ایک عمدہ دلیل ہماری صحت خیال کی ہے.نیز بعض مقطعات کا صراحتاً فاتحہ کی بعض آیات کا اختصار ہونا اور نظر آنا نہایت عمدہ دلیل ہے.اس بات پر کہ باقی مقطعات بھی فاتحہ ہی کی آیات ہیں پھر گل حروف مقطعات کا فاتحہ میں موجود پایا جانا کیسی عجیب دلیل ہے جس کو دو کرنا آسان نہیں ہے بلکہ اس ضمن میں ایک نئی بات یہ معلوم ہوئی کہ قرآن مجید میں سات یا سات سے کم آیتوں والی بارہ سورتیں ہیں.مگر عجیب تر بات یہ ہے کہ کسی ایک سات یا اس سے کم آیتوں والی قرآنی سورت میں بھی تمام حروف مقطعات فاتحہ کی طرح موجود نہیں ہیں.مشکلی سورہ ماعون میں حرف کی موجود نہیں.سورہ کافرون میں تے ہیں.فتق - ما موجود نہیں ہیں.اور سورۃ ان اکس میں جے اور ط موجود نہیں ہیں.گویا حکمت الہی ارادہ ۱۳ حروف مقطعات صرف فاتحہ میں ہی رکھتے ہیں.باقی سات یا کم آیتوں والی قرآنی سورتوں میں جو ۱۲ عدد سورتیں ہیں کسی ایک میں بھی پورے حروف مقطعات نہیں پائے جاتے ہیں یہ ایک نیا قریہ قائم ہو گیا کہ صرف فاتحہ میں تمام حروف مقطعات موجود ہیں اور اس کے برابر کی کسی اور سورۃ میں یہ موجود نہیں ہیں.اور یہ بارہ سورتیں حسب ذیل ہیں.
قدر اعصر، فیل - قریش - ماعون - کوثر کافرون - نصر- لہب - اخلاص.فلق اور ناس.(9) ذیل میں پوری آیتوں کے مقطعات کا ایک نقشہ دیا جاتا ہے جس سے آپ کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے گی.نا مکمل آیت یا الفاظ کے مقطعات کا ذکر پہلے آچکا ہے.بسم الله الرحمن الرحيم.....اس کا کوئی مقطعہ نہیں ہے.الحمد لله رب العالمين الرحمن الرحيم.مَالِكِ يَوْمِ الدِّين.ه إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ ذ 4.اهْدِنَا الصِّراط المستقيم.صِرَاطَ الَّذِينَ الْعَمْتَ عَلَيْهِمْ ۴+۳+۲ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الصَّالِينَ كهيعص المين ٠٩١٥ (نوٹ) پیس کی بابت میں نے پہلے لکھا تھا کہ یہ فاتحہ کی آیت ۴ اور 4 کا مقطعہ ہے.مزید غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے یہ آیات ۶۰۵۰۴ تینوں کا منقطعہ ہے.جیسا کہ یہاں اس نقشہ میں ظاہر کیا گیا ہے.(1.) با وجود ان سب کے ہیں پھر ہیں کہتا ہوں کہ ممکن ہے میرے مضمون میں کئی غلطیاں ہوں اور یہ آئندہ غور کرنے والوں کا کام ہے کہ وہ غلطی کو چھوڑ دیں اور صیح اور پسند چیز کو لے لیں اور عاجز کے حق میں دعائے خیر کریں.میرے نزدیک یہ غلطیاں بعض مقطعات میں ہو سکتی ہیں.فاتحہ کا ان مقطعات کے اصل ہوتے پر میں پختگی سے قائم رہوں گا.پس یہ :
خطا شاخوں میں ہو سکتی ہے.اصل دعوے میں نہیں.مذکورہ بالا اعتراضات کے سوا اور کوئی اعتراض کسی طرف سے میرے کان میں نہیں پڑا.اس لئے فی الحال اس پر اکتفا کیا جاتا ہے.صرف شائقین سے ایک ضروری درخواست یہ ہے کہ وہ ساری قسطیں منقطعات قرآنی کی لے کو یکدم ان کو ضرور پڑھ جائیں.اس طرح امید ہے کہ مضمون ایک تسلسل کے ساتھ اُن کے ذہن میں آجائے گا اور کھڑے کھڑے ہو کو جو یہ مضمون چھپا ہے اس کے نقائص بھی دور ہو جائیں گے.
مقطعات قرآنیہ کے متعلق بعض نئی باتیں جب سے میں نے ایک نئی روشنی مقطعات قرآنی پر ڈالی ہے.تب سے ہی قسم قسم کے اعتراضات اس حمل کے متعلق میں سُنتا رہتا ہوں.مگر ساتھ ہی یہ بھی خدا تعالیٰ کا فضل ہے که ان اعتراضات کے جواب بھی سمجھ میں آتے رہتے ہیں.بلکہ یہ بات زیادہ روشن اور واضح ہوتی جاتی ہے کہ مقطعات سورہ فاتحہ کی مخفف شدہ آیات کے سوا اور کچھ نہیں ہیں معترضین کا سب سے بڑا دعویٰ یہ ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کے اسماء ہیں.اس اعتراض کا جواب میں اپنے رسالہ میں دے چکا ہوں.مگر بعض باتیں مزید بھی علم میں آتی ہیں.پہلی بات یہ ہے کہ اگر مقطعات اسماء الہلی ہیں تو پھر الست اور السر کو ایک فقرہ یا مضمون بنا کر کیوں بتایا جاتا ہے.بلکہ چاہیئے تھا کہ آپ ان حروف سے الگ الگ تین اسمار الہی نکالتے.نہ یہ کہ انا الله اعلم اور انا الله اریٰ کی عبادت بنا کہ اس کے معنی پیش کرتے.حالانکہ دوسری جگہ بلا کسی دلیل اور قرینہ کے آپ حق سے صادق اورق سے قادر الحسوے حمید مجید مراد لیتے ہیں.اور تیسری جگہ آن کے معنی دوات تسلیم فرماتے ہیں جو خدا کا نام نہیں ہے.اور چوستی جگہ تھی بعض میں کریم.ہادی.عزیزہ اور صادق الوعد لے کر آپ کوی کے متعلق مشکل آپڑی کیونکہ یہ کسی اسم الہی کے پہلے نہیں آتی.اس لئے مجبوراً اسے جيرُ وَلا يُجَارُ عَلَيْهِ (المومنون : ۸۹) بنا دیا.ترجمہ : ہاں اس کے عذاب کے خلاف کوئی دوسرا پناہ نہیں دے سکتا.دیکھو قرآن مجید کا حاشیہ ترجمہ حافظ روشن علی صاحب)
۴۰۴ پس خود مدعی کو بھی کسی جگہ قرار نہیں اور یہی ثبوت ہے.اس بات کا یہ مقطعات اسمائے الی نہیں ہیں.اسی طرح نیس کے معنے اسے سردار اور طے کے معنی آنحضرت صلی اللہ علیہ دوستم پر لگا کر ان کو بھی مجبور ہو کر اسماء الہی سے خارج کر دیا.اور اپنے دسوئی سے خود ہی دستبردار ہو گئے اور منقطعات کے ایک یونی فارم معنی کہیں بھی نہ کر سکے جیسے کہ ہم نے کئے ہیں.دوسرا اعتراض یہ ہے کہ حقیقۃ الوحی کے حاشیہ ص ۱۳ پر حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو نے آخر کے معنی آنا الله اعلم کر کے پھر ان معنوں کی منطقیانہ توجیہہ بھی کی ہے.اس لئے ہم کو دہی معنی مانتے چاہیں جو حضرت مسیح موجود نے فرمائے ہیں.میرا جواب یہ ہے کہ انا اللہ اعلم تو ابن عباس یا مجاہد کے کئے ہوئے معنے ہیں حضرت مسیح موعود نے ہر گز نہیں کئے.البتہ آپ نے پرانے معنوں کو صرف تسلیم کر کے ان کی منطقیا نہ توجیہہ کی ہے.لیکن باوجود اس توجیہہ کے خود حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو اس تحریرہ کے بعد کی ایک تحریر میں جو حقیقۃ الوحی صفحہ ۲۲۲ پر ہے.ارقام فرماتے ہیں اگر کہو کہ خدا کے الہام میں اُسی وقت کیوں معنی نہ کھولے گئے.تو میں اس کے جواب میں کہتا ہوں کہ مقطعات قرآنی کے اب تک منے نہیں کھوئے گئے.کون جانتا ہے کہ طے کیا چیز ہے.اور ن کیا چیز ہے.اور کھیعص کیا چیز ہے.(حقیقۃ الوحی) یہ تحریہ اسی کتاب کی ہے.جس کی پہلی تحریر پہ آپ نے سند پکڑی تھی.اور یہ بعد کی تحریر ہے.کیونکہ وہ صفحہ ۱۳۳ پر تھی اور یہ صفحہ ۲۲۳ پہ ہے.نہیں معلوم ہوا کہ خود حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو، ان معنوں کو یقینی طور پر صحیح نہیں مانتے بلکہ پانے مشہور معنوں کولے کر ان کی ایک منطقی توجیہہ فرماتے ہیں اور لیں.یہاں تو حضور نے قطعی فیصلہ کر دیا ہے کہ حضور پر یا کسی اور پر مقطعات کے معنے نہیں کھولے گئے اور صفحہ ۱۳۳ کی تحریر
۴۰۵ مقطعات کی پرانی تفسیروں کا ہی ایک بیان ہے ورنہ حضور مقطعات کو اپنی زندگی کے آخر یک منکشف شده نہیں مانتے رہے.اور یہی حتی ہے.تیسری زیر دست الہامی دلیل جو مجھے ملی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود در آپ پر سلامتی ہو) کی ایک وجی مبارک ہے.حمه تِلْكَ آيَاتُ الكِتَابِ الْمُبين.یہ الہام قرآن کی آیت نہیں ہے.بلکہ غیر قرآنی وحی ہے جو حضور کو ہوئی.اور اس میں منقطعہ حمد کے معنی بتائے گئے ہیں.یعنی محمد کیا ہے.یہ کتاب مبین کی آیات ہیں (نہ کہ کچھ اور) اور یہی میرا دعوی ہے.کہ تمام مقطعات فاتحہ کی آیات ہیں.نہ کہ کچھ اور.اور میں نے بھی خستہ سے فاتحہ کی آیات نمبر ۴۰۲۰۲ مراد لی ہیں اور الہام بھی اسی کے مطابق ہے.چوتھی دلیل یہ ہے کہ خود قرآن مجید کی سورہ دخان میں رقوم کا لفظ ایک پوری آیت دق إنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الكَرِيمُ (الدخان: ۵۰) کا مخفف ہے (حضرت مسیح موعود در اسلامی اصول کی فلاسفی ) پس یہ ایک عمدہ نمونہ ہے مقطعات کی تفسیر کے لئے کہ وہ بھی ایک یا کئی آیتوں کے محققات ہیں.اور خود قرآنی مثال سے بڑھ کر ہمارے لئے اور کون سی حجت ہو سکتی کہ ہے.اور میں طرح زقوم مقطعہ ہے ایک آیت کا اسی طرح مقطعات بھی قرآن ہی کی آیات کے اختصارات ہیں.
باب پنجم حضرت محمد مصطفے صلى الله عليه آله وسلم 13 LG TY TG I G
۴۰۸ سلام بحضور سید الانام به درگاه ذی شان خیر الانام شفیع الوری - مرجع خاص و عام و یہ کرتا ہے عرض آپ کا اک غلام.کہ اے شاہ کونین عالی مقام يصدونت بصدا عليك الصلوة عليك السلام حسینان عالم ہوئے شرمگیں دیکھا وہ حسن اور وہ نور جبیں پھر اس پر وہ اخلاق اعمل ترین نکہ دشمن بھی کہنے لگے آفریں نہ ہے خلق کامل.زہے حسن نام عليك الصلوة عليك السلام خلائق کے دل تھے یقیں سے تہی نھوں نے تھی حق کی جگہ گھیر لی ضلالت تھی دنیا پر وہ چھا رہی که توحید ڈھونڈے سے ملتی نہ تھی ہوا آپ کے دم سے اُس کا قیام عليك الصلوة عليك السلام ر کیا آپ نے محبت سے گھائل کیا آپ نے دلائل سے قائل کیا آپ.جہالت کو زائل کیا آپ نے شریعت کو کامل کیا بیان کر دیے سب حلال و حرام عليك الصلوة عليك السلام نبوت کے تھے جس قدر بھی کمال وہ سب جمع ہیں آپ میں لا محال بیا ظلم کا عفو سے انتقام عليك الصلوة عليك السلام مقدس حیات اور مطہر مذاق اطاعت میں یکتا ، عبادت میں طاق سوار جہانگیر یکراں براق که بگذشت از قصر نیلی رواق محمد ہی نام اور محمدی کام عليك الصلوة عليك السلام PAL
نحصر مسایلی نکا حلیہ مبارک قد میانہ قد سے ذرا نکلتا ہوا.حجیم خوش اندام اور گٹھا ہوا جسامت میں معتدل.رعب :- آپ کو دیکھ کہ عظمت اور ادب پیدا ہوتا تھا.بدن نہایت جامہ زیب تھا.مسرور بڑا اور خوبصورت بال سیدھے لیکن قدائل دار کان کی نوک تیک سرمی تیل ڈالا کرتے تھے.مانگ درمیان میں رکھتے تھے اور زینت کر کے آئینہ دیکھا کرتے.چہرہ اورچودھویں کے چاند کی طرح چمک دار سفید رنگ میں ہمیں سرخی دمکتی تھی.کشاده رو - خوش خوب بسنجیده پیشانی به فراغ و بلند - ایر و خمدار - ہالوں سے پر پیوستہ نہ تھے.دونوں کے درمیان ایک رگ تھی.جو جلال کے وقت نمایاں ہو جاتی تھی.ناک در اونچی اور قدر سے لہبی.ریش مبارک و بھری ہوئی اور سیاہ فوت ہوتے وقت سرا در داڑھی میں ۱۷ سے زیادہ سفید بال نہ تھے.رخسار سیک - دمن فراغ - دانت ، چمکدار بار یک جب تبسم فرمانے تو سمبلی کی طرح چمکتے نظر آتے تھے اُحد کی لڑائی ہیں، ایک دانت ٹوٹ گیا تھا.آنکھیں سیاہ بڑی بڑی سرمہ گئیں.ان میں ڈورے تھے.پلکیں لمبی تھیں.گردن بر تصویر کی گردن کی طرح.صفائی میں چاندی کی مانند سینہ اور شکم پسینہ سے ناف تک بالوں کا ایک بار یک خط تھا.سینہ اور شکم
۴۱۰ ہموار بلکہ سینہ قدرے ابھرا ہوا.اور خوب چوڑا.پورے شانے.پشت اور مہر نبوت یہ دونوں بازو اور شانوں پر قدرے بال پشت پر دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت تھی.یہ ایک سرخ سیاہی مائل ابھرا ہوا مشہ تھا جو کبوتر کے انڈے کے برابر تھا اور گول گھنڈی کی مانند شکل میں تھا.اس پر کچھ بال تھے.اور گردا گیز اس کے تل تھے (یہ علامت اہل کتاب کی روایات میں آپ کے علیہ کے متعلق بطور نشان کے موجود تھی.کلائی : دراده ستیلی قریہ گوشت سے پڑا اور نرم.انگلیاں نہیں.چوڑ اور تمام جوڑ مضبوط اور چوڑے.تمام ہڈیاں بھی بھاری اور چوڑی تھیں.پنڈلیاں ، پر گوشت اور سخت.پیر یہ قدم ہموار اور صاف اور بھرے ہوئے کشادہ.تلوے گہرے.راتوں کو عبادت میں کھڑے کھڑے پیر سوج جایا کرتے تھے.چال بیک اور تیز کرد، گویا بلندی سے اُتر رہے ہیں.رفتار میں کوئی آپ کے ساتھ نہ رہ سکتا تھا.بے تکلفی سے تیز چلتے تھے کلام در شیریں کلام - واضح بیان بلا ضرورت نہ بولتے تھے.نرم گو تھے.اکثر خاموش رہتے.جب بولتے تو الفاظ علیحدہ علیحدہ اور صاف صاف واضح ہوتے تھے.کلام مختصر اور جامع اور فصیح و بلیغ اور موثر کرتے چلا کر نہ بولتے تھے.بات کرنے ہیں اشارہ کرتے تو پورے ہاتھ سے اشارہ کرتے تھے.ملنے والوں سے مزاج پرسی کرتے.لوگوں کو پہلے سلام کرتے کسی کا عیب بیان نہ کرتے.نہ کسی کا عیب تلاش کرتے تہ نا جائز جرج کرتے تھے.کسی کی بات نہیں کاٹتے تھے کبھی منہ سے کوئی فحش کلام نہیں نکلنا.مزاح اور نرم مزاج تھے.کبھی کسی مخاطب کی حقارت نہ کرتے تھے.ترکی نعمت کی مذمت کرتے تھے.مزاح بھی کردیا کرتے تھے مگر اس میں بھی جھوٹ نہ ہوتا تھا.
۴۱۱ قوت ہے بہت طاقتور انسان تھے.ان تھک قوی تھے.عرب کے مشہور پہلوان ابور کا نہ کو تین وقعہ پے در پے کشتی میں پچھاڑا.یا وجود اس کے کبھی اپنے ہاتھ سے کسی قادیم کسی عورت کو نہیں مارا.نہ جنگ میں کسی کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا.قوت رجولیت ۲۰ آدمیوں کے برابر عطا ہوئی تھی.۲۵ سال تک عملی اور اصلی ہم ہیچریہ کا نمونہ دکھایا.رعایت ہے آپ سب سے زیادہ اپنی شہوت پر قابو رکھنے والے شخص تھے.خوشبو در نهایت پسند تھی.اور ہمیشہ استعمال فرماتے تھے.صفائی ، بہت محبوب تھی.دانت اور بدن اور پیاس نہایت صاف رکھتے تھے اور دوسروں کو اس کا حکم کرتے تھے.بدبو اور گندگی سے سخت نفرت تھی ہنستا اور جب کسی کو ملتے تو تیسم اور کشادہ روئی سے ملتے.خوش مزاجی نہیں سب سے بڑھ کر تھے.قہقہ نہ مارتے تھے.بلکہ مسکراتے تھے.غصہ ماپنے نفس کے لئے غضب نہ کرتے تھے.قصہ صرف امریق کی مخالفت کے وقت آتا تھلہ اور کبھی اتنا نہ آنا کہ بے قابو ہو جاتے.قصہ میں بھی ہمیشہ حق ہی فرماتے تھے.روبار کبھی کبھی وقت قلب اور دوسروں پر شفقت اور رحم دلی کی وجہ سے یا خدا کا کلام سن کر آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے تھے.سونا.کم سوتے تھے اور بہت ہشیار سوتے تھے.خراٹے بھی لے لیا کرتے تھے.بستر کیل اور یورپیے کا تھا.یا ایسی چار پائی پر سوتے تھے کہ اس کے نشان بدن پر پڑ جاتے تھے.گھر کے تقسیم اوقات میں حصوںمیں وقتی میم کرکھاتھا.ایک یہ الہ تعلی کی عبادت کے لئے ایک گھر والوں کے حقوق ادا کرنے کے لئے اور ایک اپنے آرام کے لئے اس حقہ میں سے بھی لوگ وقت لے لیتے تھے.جب کوئی آپ کے پاس ملتے جاتا تو اُسے کچھ نہ کچھ کھلا دیا کرتے تھے.
۴۱۲ کھانا ، ہمیشہ ہلکے پیٹ کھاتے تھے.کھاتے ہیں بلکہ کسی بات میں تکلف نہ تھا.کثرت سے روزے رکھتے.کھانے کا عیب اور نقص کبھی بیان نہ کرتے.سہارا لگا کہ نہ کھاتے تھے بلکہ فرمایا کرتے تھے کہ میں غلام کی طرح کھاتا ہوں اور غلام کی طرح بیٹھنا ہوں.کبھی تین روز متواتر روٹی سے پیٹ نہیں بھرا.ہر طیب اور پاکیزہ چیز کھا لیتے تھے.مجلس اور اُٹھتے بیٹھے بلکہ سر حرکت اور سکون کے وقت اللہ کا ذکر کرتے اور ستار کرتے رہتے تھے مسجد میں کوئی معین جگہ بیٹھنے کی نہ تھی.آپ کی مجلس علم و علم حیاء صبر اور امانت کا نمونہ ہوتی تھی.اس میں آوازیں بلند نہ ہوتی تھیں.نہ کسی کو ذلیل کیا جاتا تھا.نہ کسی کی پر وہ دری ہوتی تھی.مغرب صحابہ اس طرح بیٹھتے تھے.گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں.کسی کے کلام کی آپ کی فیس میں میقدری نہ کی جاتی تھی یہیں پر سب ہفتے آپ بھی تیسم فرماتے.اور میں بات پر سب توب کرتے.آپ بھی کرتے تھے پردیسیوں اور کیوں کی بے تمیز گفتگو پرتمل فرماتے.کبھی مجلس میں پیر پھیلا کر نہ بیٹھتے اور نہ آنکھ کے اشارہ سے بات کرتے کبھی پہلو کی چیز کو دیکھنا چاہتے تو پورے پھر کر دیکھتے تھے.یعنی کن انکھیوں سے نہ دیکھتے تھے.اسی طرح کسی کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر دیکھنے کی عادت نہ تھی.اکثر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی سورچ میں ہیں.صحت اور مرض الموت ، صحت آپ کی بالعموم اچھی رہتی تھی.بیمار بہت کم ہوتے تھے.جہاں تک میں علامات اور حالات کو معلوم کرکے نتیجہ پر پہنچا ہوں.وہ یہ ہے که قالیاً آپ کی وفات ٹائی فائڈ یعنی محرقہ میعادی سے ہوئی جیسے ہندوستان میں ہوتی پھر اور پنجاب میں تورکی کہتے ہیں.واللہ اعلم - الوزنامه الفضل ۷ راگست ۱۶۱۹۲۸
۴۱۳ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے محامد کلام الہی میں خواه تمام دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی توصیف و تعریف لا انتہا زمانوں یک طرح طرح کے پیرایوں میں کرتی رہے.اور انسانی دماغ آپ کی نعت و محامد میں قرنوں مصروف رہے.پھر بھی یہ ظاہر ہے کہ جو حقیقی تعریف اعلیٰ درجہ کی نعت خلاق دو جہاں اور واقف اسرار کون و مکان بیان کر سکتا ہے وہ کوئی اور نہیں کر سکتا.نہ تو کوئی انسان آپ کے محامد کے کنہ تک پہنچ سکتا ہے.اور نہ کوئی پورے طور پر بیان کر سکتا ہے.اس لئے میں قدر بھی محامد آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کئے گئے ہیں.وہ محض آپ کے جزوی کمالات ہیں.جن پر اپنے اپنے مذاق کے مطابق ہر طبقہ کے مادحین نے وقتاً فوقتاً اظہار خیالات کیا ہے.میں ایک طرف تو آج کل بستر علالت پر پڑا ہوں اور دوسری طرف ایڈیٹر صاحب الفضل " کی تاکید پر تاکید ہے کہ کوئی مضمون دو جو خاتم النبیین نمبر میں درج کیا جائے.اگر چہ اُن کی اس فرمائش کی تعمیل ان پر احسان نہیں.بلکہ خود لکھنے والے کے لئے مین سعادت ہے.تاہم پیاری بھی مجبور کر رہی ہے کہ دماغ پر بوجھ نہ ڈالا جائے.اس لئے بجائے اس کے کہ خود کوئی مضمون سوری کہ ناقص اور نا تمام صورت ہیں.لکھتا.مجھے اس میں بہت آسانی نظر آئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض ان محامد پر ناظرین کو توجہ دلاؤں جو خود خداوند تبارک و تعالٰی نے اپنے کلام پاک میں حضور کے متعلق بیان فرمائے ہیں.اور جو کو الفاظ میں درجہ مختصر ہیں لیکن تمام انسانی محامد کی.::
۴۱۴ اصل اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اعلیٰ کیرکٹر اور حقیقی قوت قدسی اور تعلق باللہ.اور شفقت علی خلق اللہ کو بہترین پیرا یہ میں بیان کرنے والے ہیں.یا در ہے کہ مندرجہ ذیل نعت صرف ایک حصہ ہے.آپ کے ان تمام محامد کا جن سے کلام الہلی بھرا پڑا ہے.مگر یہ چند آیات مخصوص طور پر مشہود اور مشہور ہیں.اس لئے قبر کا وتیمنا ان کو لکھ دینے اور ان کا ترجمہ کرنے پر اکتفا کرتا ہوں.تاکہ میں بھی امسال اس پرچھ کے ذریعہ سعادت اور ثواب میں شریک ہوں.درنہ سے اد چه میدار و بمدرج کسی نیاز مدرج او خود نفر سر مدحت گرے است او در روضه قدس و جلال واز خیال مادمان بالا تر سے (1) لقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُ مِنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُمُ بِالْمُؤْمِنِينَ رَؤُفٌ رَّحِيمُ (توبه : ۱۲۸) یعنی اسے ہر طبقہ کے انسانو! یہ عظیم الشان رسول تم میں سے ہی تمہارے پاس بحوث ہو کہ آیا ہے.ایک طرف تو اس کی خیر خواہی کا یہ عالم ہے.کہ تمہیں تکلیف دینے والی باتیں اسے بہت شاق گزرتی ہیں.دوسری طرف تمہارے فوائد کا نہایت ہی درجہ خواہشمند ہے.اور تیسری طرف مومنوں کے لئے حد درجہ کی شفقت اور رحم اپنے دل میں رکھتا ہے.(۲) الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِى الاقى الَّذِي يَجِدُونَهُ مكتوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلُ يَأْمُرُهُم بِالمترو
۴۱۵ وَيَنْهَاهُمُ من الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْجَبَابِكَ وَيَضَعُ عَنْهُمُ اصْرَهُمُ وَالأغْللَ الَّتِي الذى أنزل معه أوليكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ قُلْ يَا يُّهَا النَّاسُ إني رَسُولُ اللهِ الكُمُ جَمِيعًا الَّذِي لَهُ مُلكُ السَّمَوتِ وَرَسُولِهِ النَّبي الأمي الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللهِ وَكَلِمَتِهِ وَ اَ تَعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ (اعراف ۱۵۹/۱۵۸) یعنی میں اپنی رحمت کو ان لوگوں سے مخصوص کر دوں گا جو اس رسول کی پیروی کرتے ہیں.جو وہ نبی کے نام.اور امتی کے لقب سے پکارا گیا ہے.اور پیش گوئی اہل کتاب کے پاس تورات اور انجیل دونوں میں لکھی ہوئی موجود ہے.یہ نبی سراچھی بات کا حکم کرتا ہے.اور ہر مری بات سے منع کرتا ہے.پاک اشیاء کو حلال ٹھہراتا ہے اور ناپاک اشیاء کو حرام قرار دیتا ہے.اور مخلوقات کی تمام مصیبتوں کے بوجھ اور طوق جو اُن پر لدے ہوئے تھے.اتارتا ہے.سو جو لوگ اس پر ایمان لائے.اور انہوں نے اس رسول کو قوت دی.اور اس کی مدد کی.اور اس نور کی پیروی کی.جو اس کے ساتھ نازل کیا گیا ہے.وہی کامیاب ہونے والے ہیں.اے رسول کی تو بھی کہہ دے کہ اسے تمام لوگو ہمیں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر بنا کر بھیجا گیا ہوں.اس خدا کی بادشاہی آسمان و زمین میں ہے.اس کے سوا کوئی معبود نہیں.وہی زندہ کرتا ہے اور وہی مارتا ہے.پس اس خدا.اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ.جو وہ نبی، کے نام اوراقی کے لقب سے مذکور ہے.اور جو خود اللہ پر اور اس کے کلام پر ایمان رکھتا ہے.اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاؤ.
۲۱۶ (۳) وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ (انبياء )) یعنی اسے رسول کا ہم نے تجھ کو نہیں بھیجا.مگر رحمت بنا کر تمام عالمین کے لئے (۴) إمَّا اَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا وَمُبَا وَنَذِيرا لا لِتُؤْمِنُو اللهِ وَرَسُولِهِ وَتَعَذِّدُوهُ وَتُوَقِّرُوهُ وَتُسَبِّحُوهُ بكْرَةً وَأَصِياً إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَا لِحُونَ الله يَدُ اللهِ فَوقَ أَيْدِيهِمُ (الفتح (تا) یعنی ہم نے تجھ کو مخلوقات کے لئے نمونہ بنا کر بھیجا ہے.تو ماننے والوں کو خوشخبری دینے والا.اور شکرین کو عذاب سے ڈرانے والا ہے.تاکہ تم لوگ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ.اس کے رسول کو قوت دو.اور اس کی تعظیم کرو.اور اللہ کی صبح و شام بسیج کرو.اسے رسول ! وہ سب لوگ جو تجھ سے بیعت کرتے ہیں.وہ دراصل خود اللہ ہی کی بیعت کرتے ہیں.گویا تیرا ہاتھ نہیں.بلکہ خدا کا ہاتھ ان کے ہاتھوں کے اوپر ہوتا ہے.(۵) هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَة عَلَى الدِّينِ كُلِمُ وَكَفَى بِاللهِ شَهِيدًا لى مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاء بَيْنَهُمْ تَرَبهُمُ رلما سُجد ا يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ في وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ (الفتح (۳۰۱۲۹) یعنی اللہ تعالی نے اپنا رسول ہدایت اور دین جوتے کے ساتھ بھیجا ہے.تاکہ تمام اور دونوں ساتھ پر دین اسلام کو غالب کر کے دکھا دے اور خدا کافی ہے.اس کا مددگار.محمد اللہ کا رسول ہے
۴۱۷ اور جو لوگ اس کی جماعت میں ہیں.وہ کافروں پر رعب رکھتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں.تو ان کو دیکھتا ہے.کہ وہ رکوع اور سجدے میں پڑے ہوئے.خدا کا فضل.اور اس کی رضا مندی طلب کرتے رہتے ہیں.امان کے چہروں پر عبودیت الہی کے آثار چمکتے ہیں.(4) لَقَدْ مَنَ الله عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولاً مِنَ الفُهِم يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكتاب والحكمة ، وَ إِن كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَعَى قَلِلٍ مُّبِينِ د ال عمران : (۱۶۵) یعنی اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر یہ کتنا بڑا احسان ہے کہ ان میں سے ہی ایک رسول اُن کے لئے مبعوث کیا.جو خدا کے کلام کی آیتیں ان کو سناتا ہے.ان کو ہر قسم کی اخلاقی اور معافی گندگیوں سے پاک کرتا ہے.اور انہیں کتاب اللہ اور حکمت کی باتوں کی تعلیم دیتا ہے جانا کہ اس کے آنے سے پہلے ہی لوگ سخت گمراہی میں مبتلا تھے.(<) بِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ (ال عمران : ۳۱۰) یعنی یہ بھی خدا کی ایک بڑی رحمت ہے.کہ اے رسول ! تو ان لوگوں کے لئے زم دل اور رقیق القلب ہے.اگر تو خدا بھی سخت زبان یا سنگدل ہوتا.تو یہ سب لوگ تیرے پاس سے بھاگ جاتے.
۴۱۸ (۸) الى أولى بالمؤمنينَ مِنْ اَلْفُسِهِمْ وَأَنْوَاجةَ أَمَّهتُهُمْ (احزاب) یعنی یہ نبی بہت ہی شفقت کرنے والا ہے مسلمانوں پر.ان کی اپنی جانوں سے بھی زیادہ.اور اس کی بیبیاں اُن کی مائیں ہیں.(۹) لَقَد كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَوَ ذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا ( احزاب : ۲۲) یعنی اے لوگو ! تمھارے لئے یہ رسول بہترین نمونہ ہے پیروی کرنے کے لیے.اس شخص کے واسطے جو خدا کی رحمت اور آخرت میں کامیابی چاہتا ہے.اور اللہ کو بہت یاد رکھتا ہے (۱۰) يهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَرْسَنَاكَ شَاهِدٌ وَ مُبْرًا وَنَذِيرًا وعَلعِيًا إلى اللهِ بِإثْنِه وَسِراجا منيرا (احزاب ۴۷۴۶) یعنی اسے بنی ہم نے تجھ کو گواہ خوشخبری دینے واللہ عذاب الہی سے ڈرانے والا.خدا کے حکم سے اس کی طرف لوگوں کو بلانے والا.اور ہابیت کا چمکتا ہوا سورج بناکر دونیا کی طرف بھیجا ہے.إن اللهَ وَمَلَئِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلَّمُوا تَسْلِيمًا ( اعراب ٥٠٠) یعنی اللہ اور اُس کے فرشتے اس نبی پر خاص رحمتیں.اور درود بھیجتے ہیں.سوائے
۴۱۹ مسلمانو انتم بھی اس پر باقاعدہ درود اور سلام کی دعائیں بھیجا کرو.(۱۲) إنا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرُ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرُ إِنَّ شَائِكَ هُوَ الْأَبْتَون کو خبر ۴:۲) یعنی اے محمد ! ہم نے تجھ کو اولاد.اور ہر نعمت بکثرت اور بے انتہاء عطا کی ہے.پس تو بھی اپنے رب کے حضور نماز پڑھ اور قربانی کہ تیرا دشمن ہمیشہ نامراد اور لاولد رہے گا.(۱۳) المُ نَشْرَحْ لَكَ صَدرَكَ.وَوَضَعَنَا عَنكَ وِزيَك الَّذِي الْقَضَ ظَهْرَكَ وَرَفَعْنَا لَكَ ذِكرَك (الم نشرح ٢-٥) کیا ہم نے تیرے سینے کو کھول نہیں دیا.اور تیرے اس بوجھ کو جس نے تیری کمر توڑ دی تھی تجھ پر سے ہٹا نہیں دیا.بلکہ تیرے ذکر کو خوب بلند کیا.(جس کا ایک نمونہ سیرت النبی کے جیسے بھی ہیں.(۱۴) وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الهَوى - إِنْ هُوَ إِلَّا وَى يُوحَى...(انجم ۴-۵) تُم دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ ادنى یعنی یہ رسول.کوئی کلام خواہش نفسانی کے ماتحت نہیں کرتا.بلکہ وحی الہی کے قیمت اس کے جبکہ اقوال وافعال ہیں......اسی طرح یہ مخلوق اور خالق کے درمیان شفیع ہے.اور جیس طرح دو کمانوں کی تاریں درمیان میں مل جاتی ہیں.اسی طرح الوہیت انسانیت کی کمانوں کے درمیان بطور خط مستقیم کے ہے.اور ان دونوں کے آپس کے تعلق کا ذریعہ ہے (۱۵) مَا كَانَ مُحَمَّد أَبا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَالكِن رَّسُولَ (احزاب (۲۱)
اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ (احزاب : اله) یعنی گو محمد صلے اللہ علیہ و آلہ وسلم تم لوگوں میں سے کسی مرد کا جسمانی باپ نہیں ہے.لیکن رسول اللہ ہے اور اس حیثیت سے سب مسلمانوں کا روحانی باپ ہے.بلکہ اس سے بھی بڑھ کر اس کا درجہ ہے کہ یہ خاتم النبیین ہے.یعنی تمام انبیاء کے سب کمالات کو اپنے اندر جمع کرنے والا ہے.اور ان کا فیضان اپنی اُمت میں جاری کرنے والا ہے.اس لئے تمام انبیاء سے اس کا درجہ افضل اور بزرگ تر ہے.(0: (14) إِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ (العلم : ۵) تو عظیم الشان اخلاق والا انسان ہے قل إن كُنتُم تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (ال عمران : ۳۲) یعنی اے رسول تو لوگوں میں اعلان کر دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیردی کہ وہ پھر خدا بھی تم سے محبت کرنے لگے گا.اور تم محبوب الہی بن جائے.الفضل بر نومبر ۱۹۳۲ء)
۴۷۱ آنحضرت صلی الہ علیہ آلہ وسلم میرا ارادہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات چھوٹی چھوٹی کہا نیوں اور قصہ کے پیرایہ میں لکھے جائیں.تاکہ ہمارے بچے اور جوان آپ کی سوانح اور آپ کے زمانہ کے واقعات سے کسی حد تک واقف ہو جائیں.میں ان حالات کے بیان کرتے ہیں نہ تو تسلسل کا پابند ہوں گا کہ ابتداء سے شروع کروں اور تاریخ دار حالات لکھوں.نہ استنباط اور استدلال وغیرہ کروں.بلکہ سادہ اور صاف الفاظ میں بچوں اور نا واقف نوجوانوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اور اس زمانہ کے حالات میں سے ایک درق پیش کر دیا کہ دوں گا تا کہ ہمارے بچے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سوانح سے با خبر ہو جائیں.وباللہ التوفیق پہلے تین مسلمان حضرت حفیف صحابی بیان کرتے ہیں کر میں جاہلیت کے زمانہ میں ایک دفعہ مکہ میں آیا.میرا ارادہ تھا.کہ کچھ کپڑا اور خوش جو اپنے گھر والوں کے لئے خرید وں.اس کام کے لئے ہیں حضرت عباس کے پاس گیا.اور بیٹھ کر سودا کرنے لگا.ہم لوگ اس وقت ایسی جگہ پر بیٹھے تھے.جہاں سے کعبہ میں نظر پڑتی تھی.اس وقت دوپہر ڈھل چکی تھی.
۴۲۲ اتنے میں میں نے دیکھا کہ ایک جوان آیا.اس نے آسمان کی طرف دیکھا.پھر اپنے ہاتھ باندھ کوکیہ کے سامنے کھڑا ہو گیا.تھوڑی دیر میں ایک لڑکا آیا.اور اس شخص کی دائیں جانب کھڑا ہو گیا.پھر ایک عورت آئی اور اُن کے پیچھے کھڑی ہو گئی.اتنے میں اس جوان نے رکوع کیا.تو ساتھ ہی عورت اور لڑکے نے بھی رکوع کیا.پھر وہ جوان رکوع سے اُٹھا تو لڑکا اور عورت بھی ساتھ ہی اُٹھے.پھر جوان نے سجدہ کیا.تو باقی دونوں نے بھی سیدہ کیا.میں نے یہ نظارہ دیکھ کر کہا کہ عیاس ! یہ بڑے اچنبھے کی بات ہے.انہوں نے کہا کہ ہاں واقعی بڑی تعجب کی بات ہے.یہ جوان میرا بھتیجا محمد عبد اللہ کا بیٹا ہے اور یہ لڑکا علی نے میرے بھائی ابو طالب کا بیٹا ہے.اور یہ عورت محمد کی بی بی خدیجہ ہے.میرا بھتیجا محمد کہتا ہے کہ اس کا خدا آسمان اور زمین کا پر درد گار ہے.اور اسی نے محمدؐ کو اس دین کا حکم دیا ہے.خدا تعالی کی قسم اس وقت ان تینوں کے سوا اور کوئی شخص اس دین میں داخل نہیں ہے.ظالم چھاپہ ایک صحابی (ربیعہ نام) بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو لہب کو عکاظ کے میلے میں دیکھا.کہ وہ رسول خدا کے پیچھے مجھے کہتا ہوا چلا جارہا تھا.کہ اے لوگو شخص گمراہ ہو گیا ہے.کہیں تمہیں بھی تمھارے باپ دادا کے مذہب سے گمراہ نہ کر دے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے آگے آگے تیز قدم چلے جاتے تھے.وہ بھی آپ کے پیچھے لگا چلا جاتا تھا ہم سب لوگ جو عمر میں لڑکے ہی تھے.ابو لہب کے ساتھ ہوتے تھے.میری آنکھوں کے سامنے اب بھی وہ نظارہ ہے.کہ ایک شخص پھر پھر کہ پیچھے دیکھتا جارہا تھا.اس کے بال جھے تھے.اور وہ سب سے زیادہ کورا اور خوبصورت تھا میں نے کسی سے پوچھا.یہ کون ہے لوگوں نے کہا یہ محمدؐ ہے.عبداللہ کا بیٹا.پھر میں نے پوچھا.کہ یہ شخص کون ہے جو ان کو پھر
۴۲۳ مارتا اور بڑا میلا کہتا چلا جا رہا ہے.لوگوں نے کہا یہ ان کا چچا ابو لہب ہے.عکاظ مکہ کے پاس ایک جگہ تھی.جہاں خرید و فروخت کی منڈی لگا کرتی تھی اور بڑا میلہ ہوتا تھا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تبلیغ کے لئے تشریف لے جایا کرتے تھے) بچوں سے جھوٹ نہ بولو ایک صحابی (عبید اللہ بیان کرتے ہیں.ایک دقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وستم ہمارے گھر تشریف لائے.اس وقت میں بچہ تھا.اور کھیل رہا تھا.میری والدہ نے کہا.عبداللہ ! یہاں آئی تمہیں ایک چیز دوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تم اُسے کیا دوگی ؟ میری والدہ نے کہا.چھوارا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے.اگر تم بچوں سے کوئی وعدہ کرو.اور پھر اُسے پورا نہ کرو تو ایک جھوٹ تمہارے اعمال نامہ میں لکھا جائے گا.شراب کی حرمت اور صحابیہ کی اطاعت شراب عرب کی گھٹی میں پڑی تھی.لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم.اور حضرت ابو بگیر اور حضرت عثمان نے زمانہ جاہلیت میں بھی کبھی نہیں ہیں.مدینہ میں جب شراب حرام ہوتے کا حکم نازل ہوا.تو آنحضرت نے اس کا ڈھنڈ درا دلوا دیا.اس وقت ابو طواف کے مکان پر صحابہ کی ایک مجلس میں حضرت انس ان لوگوں کو شراب پلا رہے تھے کہ با ہر سے ڈھنڈورا کی آواز آئی.ابو طلوبیہ نے ان سے کہا کہ بیٹا دیکھو تو یہ شور و نقل کیسا ہے وہ باہر جا کر دریافت کر کے آئے اور کہا کہ شراب حرام ہو گئی.ابو طور ہم نے انس سے کہا کہ یہ سب شراب لنڈھا دو.چنانچہ لوگوں نے اس کثرت سے شراب گرائی کہ مدینہ کی گلیوں میں پانی کی طرح رہنے لگی.اور وہ لوگ جو دن رات اس کے عادی تھے.انہوں نے پھر کبھی بھول کر بھی اسے منہ نہیں لگایا.
۴۲۴ مهمان نوازی ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کا فرمان ہو کر آیا.آپ نے اس کی خوب خاطر تواضع کی اور رات کو اوڑھنے کے لئے اپنا کپڑا بھی اُسے دیا.اور اپنے ہاں ہی سلایا.وہ نالائق علی الصبح ہی چلا گیا.اور آپ کے دیئے ہوئے بہترے نت کو بھی شرارت سے پاخانہ کی نجاست سے بھر گیا.دن چڑھے آپ نے اس کا حال دریات فرمایا تو معلوم ہوا.کہ چلا گیا ہے.اور بستر وغیرہ کو گندہ کر گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس کپڑے کو لے کہ دھوتا اور صاف کرنا شروع کیا.صحابہ نے عرض بھی کیا.حضور ہم اسے صاف کردیں گے.آپ نے فرمایا نہیں وہ میرا مہمان تھا.اس لئے اس کی غلاظت کو صاف کرنا بھی میرا ہی حق ہے.اتنے میں اس مہمان کو یاد آیا.کہ ہمیں کوئی ضروری چیز وہیں بھول آیا ہوں.واپس آگیا.تو یا دیکھتا ہے.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی سنجاست خود صاف کر رہے ہیں.آپ نے دیکھ کر کچھ شکوہ شکایت نہ کی.بلکہ خندہ پیشانی سے پیش آئے.یہ حالت دیکھ کر اس کے دل پر آپ کے اخلاق کا اتنا اثر ہوا کہ وہیں مسلمان ہو گیا.آپ نے اس کی گندگی کیا دھوئی کہ کفر سے ہی اُسے پاک کر دیا.ر یہ واقعہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو سُنایا کرتے تھے) بادشاہ دو جہاں کی محل سرا کا ایک نظارہ ایک دفعہ حضرت عمرہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کے بالا خانہ پر حاضر ہوئے.دیکھا.کہ آپ ایک پور کیسے پر لیٹے ہیں اور سوائے تہہ بند کے اور کوئی کپڑا آپ کے بدن پر نہیں.اور حیم پر یورکیے کے نشان پڑ گئے ہیں اور گھر میں سوائے سٹی پھر جو کے اور کھانے کی کوئی چیز نہیں.حضرت عمرہ کی آنکھوں سے یہ حالت دیکھ کہ انتسورواں ہو گئے
۴۲۵ آپ نے فرمایا.عزیز کیوں روتے ہو.وہ بولے یارسول اللہ کیوں نہ روؤں.آپ کی تو یہ حالت.اور قیصر و کسر کی دُنیا کے مزے اُڑا رہے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اسے عمران کی تمہیں یہ پسند نہیں کہ ہمارے لئے آخرت ہو.اور اُن لوگوں کے لئے صرف دنیا کے عیش و آرام ہوں.ریہ مدینہ میں اس زمانہ کا واقعہ ہے.جب مسلمانوں کو مقومات میسر آ چکی تھیں) آپ بیتی ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نبیوں میں سے ایک نبی تھے ان کو اپنی قوم نے اتنا مارا کہ ان کے جسم کو لہو لہان کر دیا.مگر وہ نبی است تکلیف پر بھی اپنے منہ پر سے ہو پونچھتے جاتے تھے.اور کہتے جاتے تھے.کہ اے اللہ میری قوم کو معاف کر انہوں نے نا واقعی میں یہ غلطی کی ہے.حضرت عائشریف سے محبت کی وجہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی ایک بی بی صاحبہ نے عرض کی کہ آپ عائشہ سے کیوں سب سے زیادہ محبت رکھتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اس کی وجہ یہ ہے کہ عائشہ کے سوا اور کسی بی بی کے بستر میں نہیں ہوں.تو مجھے وہی نہیں ہوتی.یعنی عائشہ کے کپڑے اور وہ خود اتنی پاک صاف ہے.کہ جب وہ میرے پاس ہوتی ہے تو وحی برابر آتی ہے.دوسری بی بیوں کا یہ حال نہیں.(اس سے یہ مطلب نہیں کہ دوسری عورتیں پاک صاف نہیں.بلکہ یہ مطلب ہے کہ عائشہ کی ظاہری و باطنی پاکیزگی اس درجہ کمال کو پہنچی ہوتی ہے.کہ وحی کا فرشتہ وہاں آنے سے نہیں رکتا.دوسروں کی حالت ان سے کم ہے)
نوٹ یہ اس سے اس بات کا رد ہوگیا.کہ عائشہ اپنے حسن و نوجوانی یا باکرہ ہونے کی وجہ سے آپ کو عزیز تھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کھانا حضرت عائشہ فرماتی ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ہم نے پیٹ بھر کہ چھوارے کھائے اور جی بھر کو پانی پیا.آپ کا زمانہ تو ہم نے فقر و فاقہ میں ہی کاٹا.اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم خود بھی کم کھاتے تھے.اس لئے ہم نے بھی پیٹ بھر کر کبھی نہ کھایا نہ پیا.کرنے کے کنگن ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سرا قد رضہ سے فرمایا.کہ سراقہ تمہارا کیا حال ہو گا.جب تم ایران کے شہنشاہ کرنے کے کنگن اور کمر بند اور تاج پہنو گے.سراقہ بیچارے یہ بات سُن کر حیران رہ گئے.آپؐ کے اس فرمانے کے بعد حضرت عمرہ کی خلافت کے زمانہ میں کرنے کے کنگن اور کمر بند اور تاج مال غنیمت کے ساتھ مدینہ میں آئے.حضرت عمراض نے سراقہ کو بلا کہ وہ چیزیں پہنا دیں اور فرمایا.اپنے ہاتھوں کو اٹھا کر کہو.الله اک ہیں.سب تعریف اس خدا کی ہے جس نے شہنشاہ کرنے کے زیورات لو جو اپنے نیکی لوگوں کا پروردگار کہا کرتا تھا) ہے کہ بنی مریج کے ایک بدو سرا قدم کو پہنا دیئے.زمانہ جاہلیت کا ایک مرغوب طعام ایک مائی بیان کرتے ہیں.کہ جاہلیت کے زمانہ میں ہم سفر کے لئے نکلے جنگل نہیں مجھے ایک ہرن کے پیر مل گئے.میں نے ان کو لے لیا اور پانی میں بھگو دیا.پھر ایک مٹھی بھر
۴۲۷ کو بھی کسی قافلہ والے سے دستیاب ہو گئے.ان کو پتھروں سے نہیں لیا.پھر میں نے اپنے اونٹ کی فصد لی اور خون لے کر ان سب چیزوں کو ایک ہانڈی میں ڈال کر پکایا اور خوب مزے سے کھایا.زمانہ جاہلیت میں یہی کھانا سب سے لذیذ سمجھا جاتا تھا.ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ خون کا مزا کیسا ہوتا ہے.انہوں نے کہا میٹھا سا ہوتا ہے.دختر کشی ایک دن ایک صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنی جاہلیت کے زمانہ کا قصہ بیان کرنے لگے کہ یا حضرت میری ایک چھوٹی سی لڑکی تھی.میں نے عرب کے دستور کے موافق اسے زندہ درگور کرنا چاہا جنگل میں جا کر ایک گڑھا کھودا.پھر لڑکی کو وہاں لے گیا.اور گڑھے میں دھکیل کر جلدی جلدی اس پر مٹی ڈالنے لگا.یہاں تک کہ دو وب گئی ، جب میں مٹی ڈال رہا تھا.تو وہ معصوم آیا آیا کہ کر جیتی تھی اور مجھ سے ہی معد مانگتی تھی.مگر میں نے بھی دل کو پتھر کر لیا.اور جب وہ بالکل دب گئی.تب گھر کو واپس آیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ قصہ سنا تو آپ کے آنسو بے اختیار جاری ہو گئے.اور فرمایا کہ اس قصہ کو پھر دوسراؤ.انہوں نے دوبارہ بیان کیا.آپ سنتے جاتے تھے.اور آپ کے آنسوپ شپ گرتے جاتے تھے.اکثر لوگ لکھتے ہیں.کہ عرب میں دختر کشی کی رہیم عام نہ تھی.کہیں کہیں اور بہت کم جاری تھی.مگر قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہ تھا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے.وكذلك زين لكثير مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَتْلَ أَوْلَادِهِمْ ستگار هم (الانعام : ۳۸) ترجمہ اور اور اسی طرح مشرکوں میں سے بہتوں کو ان کے شریکوں نے ان کے ہلاک کرنے کے لیے اور اُن کے دین کو اُن پر مشتبہ کرنے کے لیے اپنی اولاد کو قتل کرنا خوبصورت کر کے دکھایا تھا.
۴۲۸ یعنی کثرت سے مشرکین رسم دختر کشی میں مبتلا تھے.اسی طرح حضرت جعفر نے سجاشی کے روبرو دختر کشی کا اپنی قوم قریش میں ہونے کا اقرار کیا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف جاہل بتو ہی نہیں بلکہ عرب کے چوٹی کے قبیلے بھی اس میں مبتلا تھے.شہیدلڑکا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے بدر کی طرف جانے لگے.تو آپ نے مسلمانوں کی مختصر سی جماعت کا جائزہ لیا.اس وقت ایک مسلمان لڑکا بھی شہادت کے شوق میں فوج میں آملا جب معائنہ ہونے لگا.تو وہ لڑکا لوگوں کے بیچھے چھپتا پھرتا تھا.اس کے بڑے بھائی نے پوچھا.یہ تم کیا کر رہے ہو.وہ کہنے لگا.میں اس لئے چھپتا ہوں کہ کہیں آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم مجھے چھوٹا سمجھ کر واپس کر دیں.حالانکہ میں لڑائی میں شریک ہونا چاہتا ہوں تا کہ اللہ تعالیٰ مجھے شہادت نصیب کرے.آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُسے دیکھ لیا.اور فرمایا تم ابھی چھوٹے ہو.لڑائی میں نہ جاؤ.وہ بچارا رونے لگا.آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے اجازت دے دی.اس کی تلوار بہت لمبی تھی.آپ نے اسے اپنی ایک چھوٹی تلوار اس کے قد کے مطابق عنایت کی.پھر وہ بدر کے جنگ میں ہی شہید ہو گیا.اور اس کی خواہش پوری ہوئی.اس وقت اس کی عمر 14 سال کی تھی.بس کیا اتنا ہی فاصلہ ہے یدر کا میدان جنگ گرم تھا.کہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا جو ان ضد تعلے کے راستہ میں مارا جائے گا وہ جنت میں داخل ہوگا.ایک صحابی عمیر اس وقت صف میں کھڑے چھوارے کھا رہے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سنتے ہی کہنے لگے.واہ وا نہ ہے نصیب کیا میرے اور جنت کے درمیان بس اتنا ہی فاصلہ ہے.کہ میں مارا
۴۲۹ جاؤں ! یہ کہہ کر انہوں نے باقی چھوارے اپنے ہاتھ سے پھینک دیئے اور تلوار سونت کر دشمنوں پر جاپڑے اور برا بر لڑتے رہے.یہاں تک کہ شہید ہو گئے اور جنت میں داخل ہو گئے.رضی اللہ تعالی عنہ عجیب منبتی ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجلس میں لوگوں سے پوچھا.اچھا کوئی ایسا مبتی بتاؤ.جس نے ایک وقت کی نماز بھی پڑھی ہو.حاضرین خاموش ہو گئے.اور جواب ز دے سکے.اس پران صحابی نے شنایا کہ ایک شخص تھے عمرہ نام وہ مدینہ میں رہتے تھے.مگر مسلمان نہ ہوئے تھے.حالانکہ ان کے اور سب رشتہ دار مسلمان ہو چکے تھے.ایک دفعہ وہ کہیں باہر سفر پر گئے کہ اُحد کی لڑائی پیش آگئی.اور مسلمانوں کا لشکر مدینہ سے نکل کرہ احمد کے مقام پر آگیا.اور لڑائی شروع ہو گئی.اتنے میں وہ عمرہ بھی سفر سے واپس آگئے اور مدینہ میں آتے ہی پوچھا.کہ میرے چچا کے بیٹے کہاں ہیں.لوگوں نے کہا.کہ اُحد میں پھر انہوں نے اپنے اور رشتہ داروں اور دوستوں کے متعلق پوچھا.معلوم ہوا کہ وہ سب اُحد میں گئے ہیں.ریٹن کر انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے فوجی لباس پہنا.ہتھیار لگائے اور گھوڑے پر سوار ہو کر سیدھا اُحد کا رخ کیا.مسلمانوں نے انہیں دیکھ کر کہا.اسے عمر د.تم کا فر ہو.اس وقت ہم سے الگ رہو.انہوں نے جواب دیا میں اب کا فرنہیں رہا.ہمیں ایمان نے آیا ہوں.یہ کہہ کر انہوں نے کفار کے لشکر پر حملہ کر دیا.اور خوب جان توڑ کر لیے.جب جنگ ختم ہو گئی.تو یہ بھی مردوں میں سے سسکتے ہوئے ہے.مگر ابھی جان باقی تھی.اس لئے انہیں اُن کے رشتہ دار مدینہ میں اُٹھا لائے.کسی نے ان سے اس وقت سوال کیا.کہ عمرو.تم اپنی خواہش یا مطلب کے لئے لڑے تھے.یا صرف اللہ اور رسول کے لئے.انہوں نے جواب دیا کہ جب میں مدینہ پہنچا تو کافر تھا.پھر یک دم مجھے ایک جوش آیا.ایمان میرے اندر داخل ہو گیا اور
۴۳۰ میں سیدھا میدان جنگ میں پہنچا.اور کافروں سے لڑ کر اس حال کو پہنچا.یہ جنگ میں نے صرف اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے لئے لڑی تھی پھر انہی زخموں سے ان کی وفات ہو گئی.سو یہ ایسے بنتی ہیں کہ جنہوں نے ایک نماز بھی نہیں پڑھی تھی.حضرت علی منہ کا اسلام د روزنامه المفضل ۲۲ مئی ۱۹۲۸ء) آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر سب سے اول پہلے دن حضرت خدیجہ ایمان لائیں.اور آپ کے ساتھ انہوں نے نماز پڑھی.ان دنوں حضرت علی بھی آپ کے ساتھ ہی رہتے تھے.جب انہوں نے دونوں کو نماز پڑھتے دیکھا تو عرض کیا کہ اسے بھائی یہ کیا چیز ہے.آنحضرت نے فرمایا کہ یہ خدا کا دین ہے.جو اس نے انسانوں کے لئے پسند کیا اور اپنے پیغمبروں کو اس کی تبلیغ کے لئے بھیجتا ہے.میں نہیں اس اللہ کی طرف اور اس کی عیادت کی طرف بلاتا ہوں اور لات و عزیٰ سے انکار کرنے کی ترغیب دیتا ہوں حضرت علی نے کہا یہ تو ایسی بات ہے جو آج سے پہلے میں نے نہیں سنی تھی.اس لئے ہمیں اس کے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کر سکتا جب تک اپنے باپ ابو طالب سے مشورہ نہ کر لوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو یہ بات پسند نہ تھی کہ جب تک ان کو ان کے ظاہر کرنے کا حکم نہ ہو.لوگوں میں افشائے راز ہو جائے.آپ نے فرمایا.کہ اسے علینہ اگر تم اسلام نہیں لاتے تو کم از کم اس بات کو ابھی پوشیدہ رکھو.اس پر حضرت علی نہ اس بات کو خاموش رہے پھر اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں اسلام کی محبت ڈال دی.اور صبح اٹھ کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہنے لگے کہ اسے محمد کل آپ نے مجھے کیا کہا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میں نے کا جتنا کہ تم شہادت دو کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں.وہ ایک ہے کوئی اس کا شریک نہیں اور لات و عزیٰ کا انکار کہ وہ حضرت علی رڑ نے اس کو منظور کر لیا اور اسلام لائے ، اس وقت حضرت علی غم کی عمر اس برس کی تھی اور حضرت خدیجہ کے دوسرے دن
۴۳۱ مسلمان ہوئے تھے.پھر کچھ مدت تک صرف یہی تین شخص دنیا میں خدا کی نماز پڑھا کرتے تھے.یہاں تک کہ گھر سے باہر کے لوگوں میں حضرت ابو بکر صدیق ایمان لائے.نکاح کی تاکید مکان نام ایک صحابی تھے.وہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ نے ان سے پوچھا اے عکاف تمہاری عورت ہے انہوں نے عرض کیا نہیں.آپ نے فرمایا تم تندرست اور مالدار ہو.عرض کیا ہاں.خدا کا شکر ہے.آپ نے فرمایا پھر تم شیطان کے بھائی ہو.یا تو تم عیسائی در دیش بن جاؤ کیونکہ وہ کنوارے رہتے ہیں.اگر ہم میں رہنا چاہتے ہو تو جو کچھ ہم کر رہے ہیں تم بھی دسی کرد: نکاح کرنا ہماری سنت ہے اور جو شادی نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہیں.اسے مکاف تم پر افسوس جلدی شادی کرو مکان نے عرض کیا یارسول اللہ آپ جس سے چاہیں میرا نکاح کر دیں.میں نکاح کر لوں گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا خدا کا نام لے کر میں نے کلثوم کی بیٹی کر یہ سے تمہارا نکاح کر دیا.سب نبیوں نے بکریاں چرائی ہیں ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حضرت داؤد علیہ السلام بھی بکریاں چرایا کرتے تھے.اور حضرت موسیٰ علیہ السلام بھی.اور میں بھی نبوت سے پہلے مکر کی پہاڑی اجیاد پر بکریاں چرایا کرتا تھا.اسی طرح آپ نے ایک دن فرمایا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں.صحابہ نے عرض کیا.یا رسول اللہ آپ نے بھی.فرمایا ہاں میں نے بھی.مزدوری پہ مکہ والوں کی بکریاں چھایا کرتا تھا.
۴۳۲ بیوقوفی کی حد ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں ہمارے خاندان کے لوگ ایک ثبت کی پوجا کیا کر تے تھے.اس بت کا نام یغوث تھا.اسی طرح ایک سیسے کا بت دوسرے خاندان کے پاس تھا.اس کی شکل عورت کی طرح تھی.ایک اور ثبت کو بھی ہم پوجا کرتے تھے.اس کا نام ذوالخلصہ تھا.ان کے سوا ہم پتھروں کی بھی پوجا کیا کرتے تھے.جہاں کہیں اچھا سا پتھر دیکھتے اُسے اُٹھا لیتے.پھر جب اس سے زیادہ کوئی اچھا پھر مل جاتا تو پہلا پتھر پھینک دیتے اور نئے کی پوجا کرنے لگتے.جب سفر میں ہمارے اونٹ پر سے ایسا کوئی پتھر اسباب میں سے نکل کر گر پڑتا.تو ہم کہا کرتے کہ ہمارا خدا گر پڑا.اب کوئی اور پھر ڈھونڈو.غرض یہی بیہودگیاں رہا کرتی تھیں.یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے مبعوث ہو کر ہم کو ان باتوں سے نجات دی.دختر کشی کی سزا ایک صحابی ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ میری والدہ زمانہ جاہلیت ہی میں مرگئیں.مگر وہ بڑی نیک اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک کرنے والی اور خوبیوں والی بی بی تھیں.کیا ہم امید رکھیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کو بخش دیا ہو گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ تو بتاؤ کہ کبھی انہوں نے کسی لڑکی کو زندہ در گور مینی کیا تھا یا نہیں یہ اس صحابی نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ یہ کام تو انہوں نے کیا تھا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.پھر تو وہ دوزخ کی سیر کہ رہی ہیں.
۴۳۳ دین حق کا متلاشی ایام جاہلیت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک دوست تھے.وہ آپ کے نبی مبعوث ہونے سے پہلے ہی فوت ہو گئے تھے.مگر اُن کے بیٹے سعید جو حضرت عمرض کے بہنوئی تھے.وہ آپ کے دعوے کرنے کے بعد جلد ہی مسلمان ہو گئے تھے.آپ کے اُن دوست کا نام زید بن عمرد تھا.یہ اپنی زندگی میں بچے دین کی تلاش میں لگے رہتے تھے.ایک خدا کی عبادت کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میرا خدا ابراہیم کا خدا ہے.اور میرا دین ابراہیم کا دین ہے.اور جو جانور بہتوں کے نام پر ذبح کیا جاتا تھا اس کا گوشت نہیں کھاتے تھے.ان کا مقولہ تھا کہ بکری کو خدا نے پیدا کیا اور خدا نے ہی آسمان سے پانی بر سایا اور خدا نے ہی اس کے لئے گھاس پیدا کی.پھر تم اس کو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کرتے ہو.اسی طرح وہ لڑکیوں کو زندہ زمین میں گاڑ دینے کے مخالف تھے.اور لوگوں کو اپنے پاکس سے روپیہ دے کر ان کی لڑکیاں نے آیا کرتے تھے.اور ان کی پرورش کیا کرتے تھے.ایک دفعہ وہ اپنے گھر سے دین حق کی تلاش میں نکلے اور نیہودیوں کے پاس خیبر ہی پہنچے مگر ان کا دین انہیں پسند نہ آیا.کیونکہ وہ لوگ خدا کی عبادت بھی کرتے تھے اور ساتھ ساتھ شرک بھی کرتے تھے کہنے لگے.یہ وہ دین نہیں جس کی تلاکش میں میں گھر سے نکلا ہوں.وہاں سے چلتے وقت ایک بڑھا یہودی نیک مرد اُن سے ملا.اور کہنے لگا کہ میں قسم کا دین تم ڈھونڈتے ہو.اس کا پابند سوائے ایک درویش بزرگ کے اور کوئی نہیں اور وہ فلاں جگہ حجرہ میں رہتا ہے.یہ سن کہ زید اس درویش کی طرف روانہ ہوئے.وہاں اس نے ان سے پوچھا.کہ تم کہاں کے رہنے والے ہو.زید نے کہا.ہمیں مکہ کا باشندہ ہوں.در پیش پبولا.کہ جس چیز کی تم تناکش میں ہو.وہ تمہارے ملک بلکہ تمہارے اپنے ہی شہر مکہ میں آگئی ہے.کیونکہ وہاں ایک نبی پیدا ہونے والا ہے.اور اس کے نشان کے لئے جو ستارے
نکلنے تھے وہ نکل چکے.ہاتی جتنے دیں تم نے دیکھتے ہیں وہ سب گمراہی پر ہیں.پھر زید وہاں سے مکہ واپس آگئے.مگر افسوس کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے ہی گئے.وہ دعا کیا کرتے تھے.کہ اسے اللہ اگر مجھے تیری عبادت کرنے کا طریقہ معلوم ہو جاتا تو ہیں اسی طرح تیری عبادت کرتا.مگر افسوس کہ مجھے کچھ خبر نہیں.حضرت عمران کے والد خطاب نے ان کو مکہ سے ڈور ڈال دیا تھا.بیچارے پہاڑیوں پر رہا کرتے تھے.اور کبھی کبھی چھپ کر شہر میں بھی آجایا کرتے تھے.کون ہے اس سے زیادہ خوش نصیب یار کے قدموں میں نکلے جس کا دم جب اُحد کی لڑائی میں بڑا گھمسان ہوا.اور کافروں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو چاروں طرف سے گھیر لیا تو مصعب نے آپ کے آگے سے دشمنوں کو مٹانا شروع کیا یہاں تک کہ وہ خود شہید ہو گئے.اور ابو دجانہ رض جو آپ کی حفاظت کر رہے تھے.دبھی بہت زخمی ہو گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو صدمہ پہنچا.آپ کے دندانِ مبارک شہید ہو گئے اور ہونٹ زخمی ہو گیا.اس وقت آپ نے فرمایا.کوئی ہے جو اس وقت ہمارے لئے اپنی جان قربان کر ے.پانچ انصاریوں کی جماعت لبیک لبیک حاضر حاضر کہتی ہوئی آگے کو لپکی.ان میں ایک صحابی زیادہ بھی تھے.یہ لوگ کفار کے حملہ سے آپ کی حفاظت کرتے رہے.اور ایک ایک کر کے پروانوں کی طرح شمع کے اوپر شار ہو کہ گرتے گئے.یہاں تک کہ زیاد کے سوا باقی سب شہید ہو گئے.آخر یہ بھی لڑتے لڑتے زخموں سے چور ہو کر گر پڑے.اتنے میں اور مسلمان آپ کی حفاظت کو پہنچ گئے.اور انہوں تے مارتے مارتے دشمنوں کو ذرا پیچھے ہٹا دیا.اس وقت زیاد ابھی سسک رہے تھے.
۴۳۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.زیاد تم میرے پاس ہو جاؤ اور اور اپنے قدموں میں ان کا سر رکھ لیا.یہاں تک کہ اس نوش قسمت عاشق زار نے آپ کے قدموں میں اپنی جان خدا کو سپرد کی.انا للهِ وَإِمَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خاندان اور قوم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ دنیا کی سب مخلوقات میں سے خدا نے حضرت ابراہیم کی اولاد کو فضیلت دی.پھر حضرت ابراہیم کی اولاد میں حضرت اسماعیل کو بڑا بنایا.پھر حضرت اسماعیل کی اولاد میں قریش کی قوم کو باقی سب پر فضیلت دی، پھر قریش میں سے بنو ہاشم کو سب پر منتخب کیا.پھر بنو النظم میں سے مجھے سب سے بڑا بنایا.سو میں آدم کی اولاد میں سب سے افضل اور تمام نبیوں کا سردار ہوں.اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ حیا دار مزدور ) زمانہ جاہلیت) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ جب قریش کے لوگ کعبہ کی تعمیر کے لئے پتھر جمع کرنے لگے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اور لوگوں کے ساتھ پھر ڈھو ، ڈھو کر لاتے تھے.ایک دن آپ اسی طرح پتھر ڈھو رہے تھے.اور اس وقت آپ کے بدن پر صرف ایک نہ بند تھا.آپ کے چچا عباس نے دیکھا کہ آپ کے شانے پتھروں سے پھلے جاتے ہیں.ان کو ترس آیا اور کہنے لگے اسے جیتی ہے تم اپنی تہ بند اتار کر مچھروں کے نیچے رکھ لو یہ کہ کہ عباسی نے بڑھے کہ خود ہی آپ کا تہ بند کھینچ لیا.اور آپ کے شانوں پر رکھ دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم جنگے ہو گئے.آپ کو اپنے ننگے ہونے کا اتنا صدمہ ہوا کہ د میں بے ہوش ہو کر گر پڑے.اس موقعہ کے سوا آپ کو کبھی کسی نے بنگا نہیں دیکھا.
ا عرب کے لوگ ایک دوسرے کے سامنے ننگے ہو جانے کو عیب نہیں سمجھتے تھے.بلکہ خانہ کعبہ کا طواف بڑے شوق سے ننگے ہو کہ کیا کرتے تھے.اس یک رسم کو بھی آنحضرت نے ہی فتح مکہ کے بعد حکماً منع فرمایا ) عرب میں بت پرستی کا رواج دینے والا (زمانہ جاہلیت) حضرت اسماعیل کے زمانہ سے کعبہ میں صرف ایک خدا کی پرستش ہوتی تھی.اس کے بعد صدیوں تک یہی حال رہا وہاں نہ کوئی بت تھا نہ تصویر.نہ وہاں کے لوگ جو حضرت اسمعیل کی نسل اور متعلقین میں سے تھے کوئی شرک کرتے تھے.آخر ایک بد بخت عمرو بن لحمی پیدا ہوا جس نے دوسرے ملکوں میں بت پرستی ہوتے دیکھی تو وہاں سے کئی ثبت مکہ میں لے آیا اور کعبہ میں رکھ دئے اس زمانہ سے قریش میں ثبت پرستی پھیل گئی ہی شخص تھا جس نے میتوں کے نام پر جانور چھوڑنے کی رسم عرب میں ایجاد کی تھی.پھر توبت پرستی کو وہ ترقی ہوئی کہ خاص کعبہ ہیں.۳4 بت نصب کر دیئے گئے.اور حضرت ابراہیم ، اسمعیل ، مریم اور علی علیہم السلام کی تصاویر بھی دیواروں پر بنا دی گئیں.اور خدائے قدوس کا حرم جنس بتوں کا گھر بن گیا.آنحضرت نے ایک دفعہ فرمایا.کہ میں نے جہنم کا نظارہ دیکھا.تو کیا دیکھتا ہوں کہ عمر بن بھی بھی اس میں بڑا عذاب بھگت رہا ہے لیے ہاتھ (مدینہ) ایک دفعہ آنحضرت صل اللہ علیہ وسلم کی بیبیاں جمع ہو کہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ ہم میں سے کون مرنے کے بعد سب سے پہلے آپ سے ملے گی.آپ نے فرمایا جس کے ہاتھ سب سے لیے ہیں.امہات المومینی نے کڑی ہے کہ
۴۳۷ اپنے اپنے ہاتھ ناپنے شروع کر دیئے حضرت سودہ کے ہاتھ سب سے لیے نکلے.مگر آنحضرت کے بعد سب سے پہلے حضرت زینب نے وفات پائی.وہ آپ کی بیبیوں میں سب سے زیادہ سنی تھیں.اس وقت لوگوں نے سمجھا کہ لیے ہاتھ سے آپ کی مراد سعادت تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر دستہ وفود).صلح حدیبیہ کے بعد جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ بادشاہوں کو تبلیغی خطوط لکھیں تو لوگوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ یہ بادشاہ لوگ بغیر مہر کا خط نہیں پڑھتے.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک انگوٹھی چاندی کی بنوائی اور اس پر یہ الفاظ نقش کرائے محمد رسول اللہ ہوں یہ تصویر اس مہر کے نقش کی ہے پھر آپ اس انگوٹھی کو پہنے رہتے اور آپ کے سب خطوط پر اس کی مہر لگا کہ تی.آپ کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی حضرت ابو بکرے کے پاس رہی.پھر حضرت عمرف کے پاس پھر حضرت عثمان کے پاس حضرت عثمان سے ایک دفعہ ایک کنوئیں میں گر پڑی.پھر بہترا اسے تلاش کیا.اور کنوئیں میں غوطہ لگانے والے اندر اُترے.اور مٹی تک کنوئیں کی یا سر نکال ڈالی.مگر انگوٹھی کا پتہ نہ چلا.پانچ نمازوں کی تعلیم (شروع نبوۃ مکی) ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ شروع زمانہ نبوت ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ ولیم کے پاس حضرت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فجر کی نماز ادا کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ان کے ساتھ نماز ادا کی.جب ظہر کا وقت آیا.تو پھر جبرائیل آئے اور ظہر کی نماز پڑھی.آنحضرت نے بھی ان کے ساتھ پڑھی.اور عصر کا وقت آیا.تو پھر اسی طرح دونوں نے عصر کی نماز پڑھی.اسی طرح اس دن مغرب اور عشا کی نمازیں پڑھی گئیں.اس کے بعد جبرائیل علیہ السلام نے کہا.کہ آپ کے لئے نمازوں کے اسی طرح پڑھنے کا حکم ہوا ہے.
بدبختوں کی کہ توت (مکہ) ابن مسعود بیان کرتے ہیں.کہ ایک دن آپ کعبہ کے پاس نماز پڑھ رہے تھے.اور ابو جہل اور اس کے کئی دوست بھی پاس ہی مجلس لگائے بیٹھے تھے.آپ کو دیکھ کہ ایک ان میں سے بولا.کہ اس وقت فلاں اُونٹنی ذبح ہوئی ہے.کوئی جا کہ اس کی اوجھڑی اٹھا لاؤ اور جب محمد سجدہ میں جائے تو اس وقت وہ اوجھڑی اس پر رکھ دے.پھر خوب نماشہ ہور بین کر ایک آدمی جس کا نام عقبہ تھا.اُٹھا.اور جا کر اسر، اوجھڑی کو لایا پھر موقعہ تا کتا رہا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گئے تو اس نے اس کو آپ کی پیٹھ پر دونوں شانوں کے پیچے میں رکھ دیا.وہ کم بخت لوگ یہ دیکھ کر قہقہے لگانے لگے.اور ایک دوسرے پر سینی کے مارے گرتے پڑتے تھے.اود مراد بھیڑی کے بوجھ کے بارے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ سے سر نہ اٹھا سکتے تھے.آخر حضرت فا طریقہ آئیں اور اُنھوں نے بڑی مشکل سے اس بوجھ کو آپ کی پیٹھ پر سے کھینچ کر زمین پر پھینکا تو آپ نے سر اُٹھایا اور فرمایا " یا اللہ ان شریروں سے سمجھ “ یہ دعا ان بد معاشوں کو بڑی لگی کیونکہ ان کا عقیدہ تھا کہ کعبہ ہیں دعا مقبول ہوتی ہے.پھر آپ نے نام لے لے کر ان کے لئے بد دعا کی.اور کہا یا اللہ او جہل سے سمجھے یا اللہ عیہ اور شیب سے مجھ یا اللہ ولید اور امیہ سے سمجھ اور ساتویں کا نام بھی لیا جو مجھے اس وقت یاد نہیں رہا.ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ اس خدا کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے.میں نے اپنی آنکھوں سے بدر والے دن ان ساتوں کی لاشوں کو بدر کے کنوئیں میں پڑا ہوا دیکھا
۴۳۹ جانوروں پر ظلم کا نتیجہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جنت اور دوزخ دونوں دکھائے گئے.میں نے دوزخ میں ایک عورت کو دیکھا کہ بلی اسے نوچ رہی ہے.میں نے پوچھا اسے کیوں یہ مذاب ہوتا ہے.تو مجھے بتایا گیا.کہ اس عورت نے ایک بلی کو باندھ رکھا تھا.یہاں تک کہ وہ بھو کی پیاسی مرگئی ، نہ تو خود کھانے کو دیا نہ اُسے چھوڑا کہ کپڑے وغیرہ کھا کر اپنا پیٹ بھر لیتی.اسلامی جہاد کی حقیقت ایک شخص نے آنحضرت صلی للہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ یا سوالی خدا کی راہ میں جہاد کرنے کا کیا مطلب ہے ؟ کیونکہ بعض لوگ عداوت اور دشمنی کی وجہ سے جنگ کرتے ہیں اور بعض اپنی تقدیم یا ملک کی حمیت اور حمایت میں نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا کے لئے جہاد وہ جنگ ہے.جو اس لئے کی جائے کہ صرف اللہ کے نام کا بول بالا ہو.نہ کسی ذاتی دشمنی کی وجہ سے ہو.نہ دوستی اور حمیت کی وجہ سے ریس مال لوٹنا یا دشمنی نکالنا جو وجوہات جہاد ہمارے مخالفین بیان کرتے ہیں.اس کا خود آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اپنی زبان سے رد کر دیا ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک نواسے کا انتقال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی حضرت زینب ان کا ایک سمجھ تھا.ایک مرغ نے اس کی آنکھ میں چونچ ماردی.وہ زخم پک گیا اور آنکھ میں پیپ پڑ کہ دورم دماغ تک چڑھ گیا اور اسی تکلیف سے وہ معصوم قوت ہو گیا.(اسی لئے مرغوں اور مرغیوں سے
۴۴۰ چھوٹے بچوں کی حفاظت کرنی چاہیے.جب وہ بچہ مرنے لگا تو حضرت زینب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا کہ لڑکے کی نوع کی حالت ہے.آپ تشریف لائیں.آپ نے ان کے جواب میں سلام کہلا بھیجا اور فرمایا کہ بچے ہمارے پاس خدا کی امانت ہیں تم میر کو ہاتھ سے جانے زردیا.حضرت زینب نے پھر آدمی بھیجا.کہ آپ ایک دفعہ ضرور تشریعیت لائیں.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں تشریف لے گئے.بچہ کی جاسکتی کی حالت دیکھو کمہ آپ کے آنسو بہنے لگے.ایک صحابی نے عرض کیا.کہ یارسول اللہ یہ آنسو کیسے ؟ آپ نے فرمایا.یہ انسو اس شفقت کی وجہ سے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں میں رکھی ہے اور خدا کبھی اپنے اپنی بندوں پر زیادہ رحم کرتا ہے جو بہت رحم دل ہوتے ہیں.لڑکے کی فرمانبرداری حضرت عمرہ کے بیٹے عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نوجوان ہی تھا.(۱۵.۱ سال کا) کہ میں نے ایک رات خواب میں دوزخ کو دیکھا.میں اسے دیکھ کر ڈرا.ایک فرشتہ نے مجھ سے کہا.تم اس سے نہ ڈرو.میں نے اس خواب کا ذکر اپنی بہن ام المومینین حضرت حفصہ سے کیا.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو سنایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سن کر فرمایا " عبد اللہ اچھا آدمی ہے.کاش کہ وہ تہجد کی نماز بھی پڑھا کرے.مجیب عبداللہ این عمرض کو آپ کے اس فرمانے کی خبر پہنچی تو اسی دن سے تہجد کی نماز با قاعدہ پڑھنے لگے اور مرتے دم تک اس میں ناغہ نہ کیا.یہاں تک کہ رات کو بہت ہی کم سوتے تھے انحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پانچ خصوصیتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دلتا اپنے اصحاب سے فرمایا کہ مجھے ۵ چیزیں ایسی دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئیں.
۴۴۱ - ایک تو ایسا رعب ہے جو مہینے بھر کی مسافت تک غالب ہے.-۲- دوسرے تمام زمین میرے لئے پاک کرنے والی اور مسجد بنا دی گئی ہے ہی میری قسمت میں جس کسی شخص پر نماز کا وقت آجائے تو وہ وہیں زمین پر نماز پڑھ لے.اور پانی نہ ہو تو زمین سے ہی تیم کرے.میرے لئے مال غنیمت حلال کہ دیا گیا ہے.اور مجھ سے پہلے کسی بینی کے لئے یہ - جائز نہ تھا.غرضیکہ جمع کرنے پر دیا جاتا تھا.- چوتھے مجھے قیامت میں شفاعت کی اجازت دی جائے گی.پانچویں سرنی اپنی قوم کی طرف ہی بھیجا گیا گریں تمام دنیا کی طرف بھیجا گیا ہوں.رنگروٹ کی عمر حضرت ابن عمر نہ فرماتے ہیں کہ احد کے دن فوج کے جائزہ کے وقت میں بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا گیا.مگر آپ نے مجھے لڑائی میں جانے کی اجازت نہ دی اس وقت میری عمر ۴ سال کے قریب تھی.پھر خندق کی لڑائی میں آپ کے سامنے پیش ہوا.تو آپ نے مجھے جنگ میں شریک ہونے کی اجازت دے دی.اس وقت میری عمر پندرہ سال کی تھی.مجھ سے زیادہ کون غریب ہے ؟ (مدینہ) ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں صحابہ کے ساتھ تشریف رکھتے تھے کہ ایک شخص آیا اور کہنے لگا.کہ یا رسول اللہ میں یہ یاد ہوگیا.آپ نے پوچھا کیا ہوا ؟ اس نے عرض کیا کہ میں نے اپنا روزہ توڑ دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا نہیں ایک غلام اس کے بدلے آزاد کرنے کے لئے دستیاب ہو سکتا ہے.اس نے عرض کیا نہیں.
آپ نے فرمایا.کیا تم دو مہینے کے لگاتار روزے رکھ سکتے ہو.عرض کیا نہیں.آپ نے فرمایا.کہ ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو.اُس نے عرض کیا نہیں.آپؐ چپ ہو رہے اور وہ شخص بھی وہیں بیٹھ گیا.تھوڑی دیر میں ایک شخصی ٹوکری کھجوروں کی لایا اور آپ کی خدمت میں پیش کی.آپ نے فرمایا.کہ وہ روزہ توڑنے والا کہاں ہے.وہ بولا یا رسول اللہ میں حاضر ہوں.آپ نے فرمایا.لو یہ کھجوریں اٹھالو.اور خیرات کر دو.اس نے کہا یا رسول اللہ کیا اپنے سے زیادہ محتاج کو دوں ؟ خدا کی قسم مدینہ کے ایک سرے سے دوسرے ہے تک ایک گھر بھی میرے گھر سے زیادہ محتاج نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی یہ بات سن کر ہنسے اور فرمایا کہ اچھا جاؤ.اپنے بال بچوں کو ہی کھلا دو.ترتیب ہجرت مدینہ کے صحابیہ بیان کرتے ہیں.کہ ہجرت سے پہلے اسلام سکھانے کے لئے ہمارے پاس مصعب اور ابن ام کلثوم نابینا آئے تھے پھر ہجرت کا حکم ہوا.تو بلال ہوں سند اور عمارہ ان کے بعد حضرت عمرہ میعہ نہیں مہاجرین کے تشریف لائے.پھر خود آنحضرت صل الله علیه وسلم بعد حضرت ابو یکرہ اور ایک غلام کے بپھر حضرت علی آپ کے تشریف انے کے بعد آئے.پھر تو یہ سلسلہ چل نکلا.مدینہ والوں نے کبھی ایسی خوشی نہیں منائی تھی جیسی آپ کے تشریف لانے پر سنائی.یہاں تک کہ مدینہ کی لونڈیاں خوشی کے مارے گھر گھر کہتی پھرتی تھیں کہ اللہ کے رسول ہمارے ہاں آئے ! اللہ کے رسول ہمارے ہاں آئے 11
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فقر اور صحابہ کا ایثار ایک دفعہ ایک مہمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا.آپ نے اپنے سب گھروں میں آدمی بھیج کر کھانا منگوایا.مگر کہیں کچھ نہ ملا.اور سب بی ہیوں نے ہی کہلا بھیجا.کہ پانی کے سوا ہمارے ہاں اور کچھ کھانے کو نہیں ہے.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا.کہ کوئی ہے جو اس مہمان کو آج اپنے ہاں نے جائے.اور کھانا کھلائے، یہ سن کر انصار میں سے ایک صحابی اُٹھے.اور انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ہمیں ان کو اپنے ہاں لے جاؤں گا.چنانچہ وہ ان کو گھر لے گئے.اور اپنی بی بی سے کہا.کہ یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلیم کے مہمان ہیں.ان کی اچھی طرح خاطر کرد.بی بی نے میاں کو الگ لے جا کہ کہا.کہ گھر میں تو سوائے اپنے بچوں کے کھانے کے اور کچھ نہیں ہے.اس انصاری نے کہا.کہ بی بی تم کھانا تیار کہ کے چراغ روشن کر دینا.اور بچوں کو کسی طرح پہلا کر یہ دنیا.پھر مہمان کو اجلہ مجھے کھاتے سلا کے لئے بلا لینا.چنانچوان بی بی نے ایسا ہی کیا.بچوں کو تو پہلا کر سلا دیا.اور کھانا تیار کر کے چراغ جلا کہ مہمان کو ملایا.کھانا اس کے سامنے رکھا.اور دونوں میاں بیوی اس کے ساتھ کھائیے.بیٹھ گئے.اور جیسے کہ پہلے صلاح ہو چکی تھی.وہ بیوی اُٹھیں اور چراغ کی بتی درست کرنے لگیں.اور اس ترکیب سے چراغ بجھا دیا.ان دونوں میں دیا سلائیاں نہ تھیں.اس لیے پرانے مجھے جاتا.تو اس کا پھر ملانا بڑا وقت لیتا تھا.چنانچہ وہ لوگ اندھیرے میں ہی کھانے بیٹھ گئے.وہ مہمان تو کھانا کھاتے رہے.مگر یہ میاں بیوی دو توں صرف خالی منہ اسی طرح چلاتے رہے ہیں سے جہان پہ سمجھے کہ وہ بھی کھا رہے ہیں.عرض مہمان نے تو پیٹ بھر کہ کھانا کھا لیا.اور گھر والے اور ان کے بچے سب بھو کے سورہے.جب صبح ہوئی تو وہ انصاری صبح آنحضرت صلی اللہ علیہ سلیم کی مسجد میں حاضر ہوئے.آپ ان کو دیکھ کر ہنسے اور فرمایا کہ تم میاں بیوی کی رات والی بات سے اللہ تعالی کو بھی مہنسی آگئی.اس کے بعد ان
۴۴۴ لوگوں کے ایثار کی تعریف قرآن مجید میں بھی نازل ہوئی.( یعنی اسلہ نہم) پیا سے شہید ابو جہل کے ایک بیٹے تھے.ان کا نام تھا کہ یہ.وہ بھی فتح مکہ کے زماز تک آنحضرت سے لڑائیاں لڑتے رہے.آخر واحد خدا کو غلبہ اور بتوں کی شکست دیکھ کہ وہ مسلمان ہو گئے.اور پیسے پہلے کفر کے جوش میں آپؐ سے دشمنی کرتے تھے مسلمان ہو کہ اس سے بڑھ کر پویش کے ساتھ اسلام کی خدمت کر نے لگے اُنکے مرنے کا قصہ جیب ہے.ایک جنگ یرموک) میں یہ زخمی ہو کو گرے.ان کے ساتھ اور مسلمان بھی زخمی پڑے تھے.جب لوگ ان مجرد حین کو میدان جنگ سے اُٹھا کر لائے تو ان زخمیوں میں سے ایک شخص حارث نے پانی مانگا.جب پانی آیا تو کریمہ نے پانی کی طرف دیکھا.حارث نے یہ دیکھ کر پانی لانے والے سے کہا کہ یہ پانی مکرمہ کو پلا دو.جب محکمہ نے پانی لیا.تو ایک تیسرے مسلمان نے مین کا نام میاش تھا.ان کی طرف پیاسی نظر سے دیکھا.عکر ممر نے پانی بغیر سیکھے واپس کر دیا.اور لانے والے کو کہا کہ یہ بائی عیبائش کو دے دو جب وہ شخص میباشم کے پاس پانی لے کر پہنچا تو تے ہیں ان کا دم نکل چکا تھا.وہ مکہ مرض کی طرف مڑا اور پانی لے کر چھکا تو دیکھا کہ وہ بھی وفات پاچکے ہیں.وہاں سے ہٹ کر وہ حارث کے پاس پہنچا.معلوم ہوا کہ ان کا بھی انتقال ہو چکا ہے.انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہ تھی سچی ہمدردی اور ایثار صحابہ کا.اور یہی وہ لوگ تھے.جو پہلے دنیا میں بدترین گمراہ اور لوگوں کا حق مار لینے والے اور پانی کے بدلے انسانی جانوں کو تلف کر دینے والے تھے مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک نظر نے ان کی کایا پلٹ دی.اور انہیں خاک سے گندن بنا دیا ، اللهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ.
۴۴۵ عدل فاطمہ نام ایک خاندانی عورت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چوری کی.اور چوری کی سزا یہ تھی کہ چور کا ہاتھ کاٹا جائے.کئی لوگوں نے آپس میں کہا.کہ یہ عورت بڑے معزز خاندان کی ہے.کوئی جرأت والا اس کی سفارش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے جا کر کرے تو اچھا ہو.مگر کسی کو اس بات کی ہمت نہ پڑتی تھی.اسامہ آپ کے بہت پیارے تھے.انہوں نے کہا.اچھا میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کروں گا.جب انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کی سفارش کی تو آپ کا چہرہ غصہ سے سرخ ہو گیا.اور فرمانے لگے.کہ بنی اسرائیل میں یہ دستور ہے کہ جب کوئی بڑا آدمی پوری کرتا ہے تو اسے چھوڑ دیتے ہیں.اور اگر کوئی غریب آدمی چوری کرتا ہے تو اس کا ہاتھ کاٹ ڈالتے ہیں مگر میں ہر گز ایسا نہیں کر سکتا.خدا کی قسم اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے تو ہمیں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں.شکر گذاری ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی انصاری عورتوں اور بچوں کو ایک شادی سے آتے ہوئے دیکھا.آپ انہیں دیکھ کر کھڑے ہو گئے.اور فرمایا.خدا گواہ ہے کہ تم لوگ مجھے سب سے زیادہ پیارے ہو.اصحاب مسقہ کی حالت اور آپ کی ایک کرامت حضرت ابو سرية اصحاب صفہ میں سے تھے.یہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں پڑے رہتے تھے.اور وہیں سوتے تھے.دن کو کچھ مزدوری مل گئی تو کر لی.ورنہ
۴۴۶ خیر.نہ ان لوگوں کے اہل و عیال تھے.نہ اُن کے پاس مال تھا.نہ کسی کے ذمر ان کا کھانا تھا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس صدقہ کی کوئی چیز آتی تھی.تو ان کو دے دیا کرتے تھے.اور جب کوئی تحفہ آتا.تو کچھ اپنے لئے رکھ لیتے.اور باقی ان لوگوں کو بانٹ دیتے تھے.یہ لوگ آپ کی صحبت میں رہ کر دین کا علم سیکھتے تھے.چنانچہ حضرت ابو ہریرہ خود فرماتے ہیں.کہ خدا کی قسم بعض دفعہ بھوک کے مارے میں زمین پر پیسٹ لگا کہ لیٹ جاتا اور بعض دفعہ پیٹ سے پتھر باندھ لیتا تھا.ایک دن میں فاقہ سے تنگ آکر لوگوں کے رستہ میں بیٹھ گیا.چنانچہ حضرت ابو بکر رضہ میرے سامنے سے گذرے.میں نے ان سے قرآن کی ایک آیت کا مطلب پوچھا اور صرف اس لئے کہ مجھے کچھ کھلادیں.مگر انہوں نے خیال نہ کیا.اور مطلب بتا کر چل دیئے.پھر حضرت عمرہ گزرے.میں نے ان سے بھی اسی مطلب کے لئے ایک آیت پوچھی.مگر وہ بھی مطلب بتا کہ یونہی چلے گئے.کچھ دیر گذری اتنے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ و ستم وہیں سے گذرے اور مجھے دیکھ کر مسکرائے اور میرے دل کی بات اور چہرہ کی حالت سمجھ گئے.اور فرمانے لگے.اے ابو ہریرہ.میں نے کہا.لبنك يَا رَسُولُ اللہ فرمایا میرے ساتھ چلو میں آپ کے پیچھے ہو لیا.آپ مجھے گھر میں لے گئے ہیں نے دیکھا کہ ایک پیالہ دودھ کا وہاں رکھا ہے.آپ نے پوچھا یہ کہاں سے آیا.گھر والوں نے کہا.یہ آپ کے لئے ایک عورت تحفہ دے گئی ہے.آپ نے فرمایا کہ ابو س نہ جاؤ سب اصحاب صفہ کو بلالا کہ مجھے یہ بات بہت ناگوار گزری.اور میں نے خیال کیا کہ اتنا سا تو دودھ ہے کسی کی کے پیٹ میں جائے گا.بہتر تو یہ تھا.کہ یہ سب مجھے مل جاتا تو کچھ سہارا ہو جاتا.اب یہ سب اصحاب صفہ آئیں گے تو میرے لئے خاک بچے گا.مگر خیر میں اُٹھا اور سب صفر والوں کو اندر گھر میں بلا لایا.آنحضرت نے فرمایا کہ اے ابو ہریرہ اب تم ان سب کو یہ دودھ پلاؤ.میں نے وہ پیالہ لیا.اور ایک آدمی کو دیا.اس نے پیٹ بھر کہ دودھ اس میں سے پیا اور پھر وہ پیالہ مجھے واپس دے دیار میں نے دوسرے شخص کو وہ پیالہ دیا.اس نے اپنا پیٹ بھر کہ مجھے واپس کیا.
اسی طرح ایک ایک کرکے میں دیتا جاتا تھا.اور وہ لوگ سیر ہو کر مجھے پیالہ واپس کرتے جاتے تھے جب سب پی چکے.تو میں نے وہ پیالہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف بڑھایا.آپ اسے ہاتھ میں نے کر مسکرائے اور مجھ سے فرمانے لگے کہ اب فقط تم اور میں باقی رہ گئے ہیں.یہیں نے کہا.ہاں یارسول اللہ آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ اور اسے پیو میں نے تعمیل حکم کی اور مینی خواہش بھی پی لیا.آپ نے پھر کہا اور ہو.میں نے اور پیا.آپ نے پھر کیا اور یہ میں نے بمشکل اور کچھ پیا.اور عرض کیا.کہ آپ میرے پیٹ میں ذرہ جگہ باقی نہیں رہی.اس پر آپ نے وہ پیالہ خود لے لیا اور بسم الل احد الحمید پڑھ کر باقی بچا ہوا نوش فرمایا.شراب نے لنگڑا کر دیا ایک وقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ لوگ ایک قبیلہ کے آنے انھوں نے عرض کیا یارسول اللہ ہمارے ملک کی آب وہوا اچھی نہیں.اس لئے ہم چھوارے ہو کر ان کا پانی پیا کرتے تھے.کیا ہم ایس کر لیا کریں؟ آپ نے فرمایا ہاں اس کا کچھ مضائقہ نہیں.مگر کسی شراب کے برتن میں چھوارے نہ بھیگونا ورنہ پھواروں کے پانی میں ہی نشہ پیدا ہو جائے گا.اور تم وہ نشہ والا پانی لے کر ایک دوسرے سے لڑنے لگو گے اور یہاں تک نوبت پہنچے گی کہ ایک کی تلوار سے دوسرے کا پیر زخمی ہو جائے گا.اور وہ بیچارا عمر بھر کے لئے لنگڑا ہو جائے گا.آپ کی یہ بات سن کہ وہ لوگ بہت ہی ہنسے آپ نے پوچھا اتنا کیوں ہنستے ہو ؟ انھوں نے عرض کیا کہ خدا کی قسم ایک وفعہ ایسا ہی ہو چکا ہے.ہم لوگوں نے شراب کے برتنوں میں چھوارے بھگو دیئے.پھر جوان کا پانی پیا تو ایسا نشہ ہوا کہ ہم آپس میں ہیں لڑ پڑے اور یہ لگڑا شخص جو سامنے کھڑا ہے.اس کو ایسی سمورنگی کہ بیچارا ہمیشہ کے لئے ایک ٹانگ سے معدار ہو گیا.
۴۴۸ اربعین از کلام حضرت سید المرسلین صلی ال ای هستم علیه آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص میری امت کو دین سمجھانے کے لئے چالیس حدیثیں یاد کر لے تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسے فقہا میں اُٹھائے گا.اور میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا." اس کلام مقدس پر عمل کر کے میں نے بھی ایک مجموعہ چالیس احادیث کا اس طرح سے انتخاب کیا ہے کہ اس کا حفظ کرنا اور مجھنا عوام الناس بلکہ عورتوں اورکم تعلیم یافتہ بچوں کے لئے بھی آسان ہو.یعنی اکثر احادیث صرف دو لفظی ہیں.اور جو بہ لفظی بھی ہیں.ان میں ایک لفظ ایسا موجود ہے جسے ہر ایک اردو دان آسانی سے سمجھ سکتا ہے.اللہ تعالیٰ اس چہل حدیث کو قبول فرمائے اور لوگوں کے لئے نافع بنائے - الدِّينُ النَّصِيحَةُ دین کا خلاصہ خیر خواہی ہے خواہ وہ مخلوق کی خیر خواہی ہو، خواہ رسول کی خیر خواہی ہو.خواہ خدا کی خیر خواہی لعینی جو سلسلہ خدا نے قائم کیا ہے.اس کی ترقی میں کوشاں رہنا.اور تبلیغ میں رسول کی ہر طرح کی امداد کرنا اور مخلوقات پر شفقت کرتا.-۲- اجْتَنِبُو الْغَضَبَ سخت غصہ سے بچو.کہ وہ عموما گالی گلوچ فساد یا قتل تک کا باعث ہوتا ہے.
۴۴۹ ٣- ادوار كوتَكُمْ تم اپنی زکوۃ ادا کیا کرو.کیونکہ زکوۃ قوم کے غرباء کی امداد ہے.اور تمہارے مالوں کو پاک کرتی ہے.احْفَظُ لِسَانَكَ تم اپنی زبان کی حفاظت کہ بہتان ، جھوٹ اور غیبت سے لڑائی اور فساد کی باتوں سے فحش اور گندہ کلامی ہے.ه - اَرْحَامُكُمْ اَرْحَامُكُمْ یعنی تمہارے رشتہ دار آخر تمہارے اولوالارحام ہی ہیں.اس لئے ان کی دلداری سلوک اور امداد دوسروں سے زیادہ چاہیئے.اَرْشِدُوا أَخَاكُمُ اپنے بھائی کو ہدایت کر د یعنی بذریعہ تعلیم و تربیت یا وعظ و نصیحت اُن کی بھلائی میں لگے رہو تا کہ وہ نیک بن جائیں.اشْفَعُو الوَجَرُوا سفارش کیا کہ تم کو سفارش کا بھی اجر لے گا.دنیا میں بعض کام سفارش سے چلتے ہیں.اگر کسی مسحق کی سفارش کرنے سے اسے فائدہ پہنچ سکتا ہے.تو ہر گز و رایج نہیں کرنا چاہیئے.بشرطیکہ کسی پر ظلم نہ ہو.
۴۵۰ اسلِمُ تَسْلِمُ اسلام ناتو تو ہر خرابی برائی اور نقصان سے محفوظ ہو جائے گا.اسی وجہ سے اسلام سلامتی کا مذہب کہلاتا ہے.و اطِعُ آياك.9 اپنے باپ کی اطاعت کہ باپ کی اطاعت اولاد کے لئے نہ صرف سعادتمندی ہے.بلکہ بسبب حقیقی خیر خواہ اور صاحب تجربہ ہونے کے بھی اس کی اطاعت مفید ہے اعتكف وَهُم اعتکاف میں بیٹھ اور ساتھ ہی روزہ بھی رکھے یعنی اعتکاف بغیر روزوں کے نہیں ہوسکتا متکلف کا روزہ دار ہوتا ضروری ہے ورنہ اعتکاف باطل ہے.11- أعلنوا النكاح نکاح اعلان کے ساتھ کیا کر د یعنی تمام خفیہ نکاح نا جائتہ ہیں.١٣ - اكوم الشعر بالوں کی عزت کر.یعنی ان کو پاک صاف رکھ اور کنگھی استعمال کی.دوسرے یہ کہ جب لڑکے کی داڑھی مونچھ نکل آئے تو اس کے ساتھ بچوں کی طرح کا سلوک نہ کر.تیسرے یہ کہ کوئی سفید بالوں والا آدمی ہو تو اس کے بالوں کی وجہ سے اس کی تعظیم کر.
۴۵۱ ١٣- الْأَعْمَالُ بِالْخَوَاتِيمُ عملوں کا دارو مدار انجام پر ہے.اگر انجام اچھا ہوا تو سمجھو کہ اعمال بھی مقبول ہو گئے.ورنہ بیکار ہیں.-١٢- الرمُوا أَوْلَادَكُمُ اپنی اولاد کی عزت کرو تاکہ ان میں خود داری کا احساس پیدا ہو اور وہ بری باتوں اور بڑے اعمال سے بچے رہیں ہمیشہ تو تکار کمر کے بچوں کو مخاطب کر نا بھی نامناسب ہے.١٥- أُوصِيكُم بِالْجَارِ میں تم کو ہمسایہ سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں شہری تمدن اور امن کے قیام کا یہ بھی ایک بڑا بھاری گڑ ہے.(4) الأَمَانَة عِنْ امانت داری عزت ہے.امین کو دنیا میں اتنی عزت ہے کہ سر رسول نے اپنی قوم کو انی لکم رسول امین کہ کہ پہلے اپنی عزت کو تسلیم کر مالیا.پھر ان کو پیغام حق پہنچایا.-1 الايْمَنُ فَالْاَيْمَنُ وائیں طرف والا دائیں طرف والا ہی ہے یعنی بعض حقوق مجلس میں دائیں طرف والوں کے مقدم ہوتے ہیں.ان کا ہمیشہ خیال رکھنا چاہیے.مثلاً تقسیم طعام - طلب
۴۵۲ مشوره وغیره وغیره -IA يَجْلُو المَثَائِخَ ندگوں کی تعظیم کرو.کیونکہ ان کا علم اور تجربہ نوجوانوں سے زیادہ ہوتا ہے.تَعلَمُوا اليَقِين یقین کو سیکھو.انسان کے تمام اعمال کا انحصار یقین پر ہے.اور ایمان کا آخری مرحلہ بھی یقین ہی ہے.ورنہ بے یقین انسان اپنی عمر یونہی لفاظی میں ضائع کہ دیتا ہے اور اپنے اعمال اور ایمان دونوں کے اعلیٰ ثمرات سے محروم رہتا ہے..۲۰ تَهَادُهُ الحابوا ایک دوسرے کو تحفہ دیا کہ دو تاکہ آپس میں تمہاری محبت بڑھے.دنیا میں آپس میں محبت بڑھانے کا سب سے زیادہ کارگر طریقہ ہی ہے.- التَّعْزِيَةُ مَرَّةً تعزیت ایک دفعہ ہی کی کافی ہے.یعنی کوئی مرجائے تو ایک دفعہ وہاں جا کہ تعزیت کرنی کافی ہے.یہ نہیں کہ برابری جمع ہورہی ہے اور چالیس دن تک ہر شخص کے لئے وہاں حاضر ہونا ضروری ہے.یہ سب رسوم غیر اسلامی ہیں.-٣- الْخَالَةُ وَالِدَة خالہ بھی ماں ہی ہے.یعنی اس کی عزت اور خدمت بھی ماں کی طرح کرنی چاہیئے.
۴۵۳ دوسرے یہ کہ اگر کوئی عورت بچے چھوڑ کر مر جائے تو اس عورت کی بہن سے شادی کرنا ایسا ہے.گویا کہ بچوں کی اپنی ماں واپس آگئی.٢٣- الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ دعا ہی تو اصل عبادت ہے.جن لوگوں نے عبادت کو دُعا سے الگ چیز قرار دیا ہے.وہ بڑی غلطی پر ہیں.چونکہ دعا سے بندہ کا تعلق ذات باری تعالیٰ سے قائم ہوتا ہے.اس لئے مغز عبادت یا یوں کہو کہ اصل عبادت دعا ہی ہے.الدُّنْيَا مَراعَةُ الْآخِرَةِ دنیا آخرت کی کھیتی ہے.یعنی جو عمل دنیا میں کاشت کر دگے.اس کا پھیل آخرت میں ضرور ملے گا.دُنیا میں نیک اعمال کر لو تو آخرت میں ان نیک اعمال کا ثمرہ تم کو لئے.-۲۵ صُومُوا تصحوا روزے رکھا کہ دتا کہ صحت حاصل ہو یعنی ایک مقصد روزہ کا یہ بھی ہے کہ انسان کی صحت درست ہو جائے اور فضول مارے جسم کے جل کر جیم اعتدال کی حالت پر آجائے.یہ مطلب نہیں ہے کہ کوئی بیمار ہو تو وہ بھی اسی طرح صحت حاصل کر لیا کرے.٢٦- العَيْنُ حَق ۲۶ نظر گنا رہی ہے.نظر لگا چونکہ علم توجہ ہی کی ایک شاخ ہے.اس لئے اس کا انکار مناسب نہیں.مگر یہ مضمون طوالت بیان چاہتا ہے.اس لئے یہاں اس پر بحث نہیں
۴۵۴ ہو سکتی.- الصبورضا صبر راضی بقضاء ہونے کا نام ہے نہ یہ کہ جب کچھ نہ ہو سکا تو کہ دیا کہ ہم صبر کرتے ہیں.مگر دل میں خدائی تقدیر سے ناراض ہیں.۲۸ - اَلْمُحْتَكِرُ مَلْعُونَ غلہ روکنے والا تا کہ جب مہنگا ہو جائے تب بیچوں.خدا کی رحمت سے دور ہے ایسا شخص ہر مذہب اور ہر قوم کی نظر میں واقعی ملعون ہے اور اس کی نیت ہی یکہ ہے یعنی یہ کہ لوگ بھوکوں مرنے لگیں تو اُن سے خوب روپیہ کماؤں.٢٩- المُسْلِمُ أخو المسلم ۲۹ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے.اس لئے مسلمانوں میں آپس میں برادرانہ سلوک و مروت ہونی چاہئیے.قرآن مجید نے بھی انما المومنون اخقد فرمایا ہے.المَطْعُونُ شَهِيدٌ طاعون سے مرنے والا شہید ہے.یعنی اگر مسلمان طاعون سے مرے تو اس کی موت شہادت کی موت ہے کیونکہ طاعون کی تکلیف اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہے.لَا وَعِيَّةَ لِوَارِبٍ وارث کے لئے وصیت منع ہے.یعنی جو خود شرعی وارث ہو.جیسے بیٹا.باپ
۲۵۵ یا ہوئی.ان کے لئے مزید وصیت کرنا منع ہے جس کا حصہ شرح نے خود مقرر کر دیا ہو.اس کے لئے ورقہ سے زیادہ کی وصیت کرنا نا جائز ہے.مثلاً بہین بھائی ہوتا ان کے لئے تہائی مال میں سے وصیت ہو سکتی ہے.۳۲ - لا تعُدُ فِي صَدقَتِكَ صدقہ واپس نہ لے.جو چیز ایک دفعہ صدقہ کے طور پر دے دی جائے اسے واپیس لينا منع ہے.ہاں اگر کسی اور شخص نے صدقہ دیا ہو تو صدقہ لینے والا اپنے اس صدقہ کو بطور ہدیہ کے اپنے اور دوستوں میں تقسیم کر سکتا ہے، سوائے اس شخص کے جس نے صدقہ دیا ہو.٣٣- لَا مَهْدِى الأَعِيسى عیسی علیہ السلام (جو چودھویں صدی میں آئیں گے) کے سوا کوئی مہدی نہیں لعینی اصل امام مہدی آخرالہ ہاں وہی ہوں گے.-٣٧- اجْتَنِبُوا كُل مُسْكِرٍ ہر نشہ آور چیز سے بچو.کیونکہ ہر نشہ کی عادت صحت کی تباہی.عادت کی غلامی اور عقل کی کوتاہی پیدا کرتی ہے.۳۵ - أَوْلِمُ وَلَوْ بِشَاة ولیمہ ضرور کہ خواہ ایک ہی بکری کا ہو.ولیمہ وہ دعوت ہے جو رقات کے بعد بطور شکریہ اور خوشی کے کی جاتی ہے.
۴۵۶ -٣٧- السّلامُ قَبلَ الكَلامِ بات کرنے سے پہلے سلام کر لیا کہ ویعنی جب کسی سے ملو یا کسی مجاس میں جاؤ.تو پہلے سلام کرو.اس کے بعد جو بات کرنی ہو کہ لو.٣٧.تَرُكُ الدُّعَاء مَعْصِةُ دُعا کو ترک کرنا گناہ ہے.جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ خدا ہماری حالت کو خود جانتا ہے.اس لئے نہیں اس سے مانگنا یا دھا کرنا نا مناسب ہے وہ غور فرمائیں.سَيْدُ القَوْمِ خَادِ مُهُمْ قوم کا سردار در اصل ان کا خادم ہے.یعنی جو کسی قوم کا سردار ہے اسے سرداری تبھی زیب دیتی ہے جب وہ ان کی خدمت کرے.یا جو سردار بنا چاہیے.اُسے چاہئے کہ قومی خدمت میں مہک رہے.-٣- اتَّقُوا اللهَ فِى النِّسَاء ۳۹ عورتوں کے بارے میں خدا سے ڈرتے رہو.کیونکہ وہ کمزور ہیں.کم علم اور محکوم ہیں پس ان کے حقوق کا خیال رکھو اور ان کی عمدہ تربیت کرد...طَلَبُ الحَلَالِ جَهَادُ حلال رزق طلب کرنا بھی جہاد ہے.خصوصا اس زمانہ میں تو حلال روزی حاصل کرنا سخت مشکل ہے.چور بازار دھوکا.فریب ٹھگی.بد عہدی - حقوق کا غضب کر لینا.
خیانت ایسی عام باتیں ہیں کہ حلال اور حرام میں گو یا تمیز ہی نہیں رہی.شیر فروش کے منہ میں روزہ ہوتا ہے اور ہاتھ میں پانی کا لوٹا جو وہ اپنے دودھ میں ملاتا ہے.اسی طرح سو روپیہ ماہوار کا ملازم حلال جورو سے بھاگتا ہے کہ جب میری تنخواہ پانچ سو روپیہ ہو جائے گی.تب میں نکاح کروں گا اور اس وقت تک وہ جتنے طریقے اپنی خواہشات پوری کرنے کے استعمال کرتا ہے.شریعت نے ان سب کو حرام قرار دیا ہے.(نوٹ) اس مجموعہ میں حضرت شاہ ولی اللہ صاحب کی اربعین کی کوئی حدیث الفضل ۲۹ اگست ۱۹۴۷) شامل نہیں کی گئی.
۲۵۸ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات حضرت زید بن ارقم بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم نے انہیں غزوات کئے.ان میں سے بدر، احد، خندق ، حدیبیہ، فتح مکہ ، حنین، تبوک اور خیر کے واقعات بہت مشہور ہیں.احد اور حنین میں بھی اگرچہ فتح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ہوئی.مگر مسلمانوں کو چشم زخم بھی پہنچا اور اپنی غلطی سے) حضرت مقداد صحابی کی ایک بات ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ مقدار نے ایک بات ایسی کمی تھی کہ مجھے وہ دنیا کی تمام فضیلتوں سے زیادہ پسند ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب بدر میں جانے لگے تو مسلمانوں سے جنگ پر جانے کے لئے مشورہ طلب کیا.اس وقت مقدار اُٹھے اور عرض کیا.یا رسول اللہ.آپؐ ہم کو کبھی موسلئے کے ساتھیوں کی طرح یہ کہتے ہوئے یہ مشینیں گئے.کہ تو اور تیرا رب جاؤ اور دشمنوں سے لڑو.بلکہ آپ دیکھ لیں گے.کرہم آپ کے دائیں لڑیں گے اور آپ کے بائیں لڑیں گے.آپ کے آگے لڑیں گے اور آپ کے پیچھے لڑیں گے.اس وقت میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ خوشی کے مارے چمکنے لگا.دُنیا سے آپ کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ معانیہ سے فرمایا کہ میرا تعلق تو دنیا سے صرف اتنا ہے.جتنا کہ ایک اونٹنی سوار جو گرم دوپہر یں کسی کام کے لئے منزل مارے چلا جاتا ہو.جب شدت کی دھوپ اور لو معلوم ہونے لگے وہ ایک درخت کے سایہ کے نیچے ذرا کی فراست نے کو ٹھہر جائے پھر تھوڑا سادوم لے کر اپنا رستہ ہے.
۴۵۹ شرم وحیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شرم و حیا کا یہ حال تھا کہ صحابیہ بیان کرتے ہیں کہ آپ پر ونوشین کنواری تو جوان لڑکی سے بھی زیادہ حیادار تھے.کبھی آپ کی زبان سے کوئی فحش بات نہیں نکلی.نہ عمر بھر کوئی بے شرمی کی بات آپ سے سرزد ہوئی.خدائی دعوت.وسیل مچھلی جائر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سمندر کے کنارہ کی طرف ۳۰ آدمیوں کا ایک لشکر بھیجا اور سردار شکر ابو عبیدہ بن جراح کو مقر فرمایا.میں بھی اسی لشکر میں تھا.جب ہم دُور نکل گئے.تو ہمارا زاد راہ ختم ہو گیا.اس پر ابو عبیدہ نے سارے شکر میں جو کچھ کھانے کا تھا.سب جمع کر لیا.یہ سب مل ملا کہ دو تھیلوں کی کھجوریں نکلیں.اس میں سے دہ نہیں حقہ ردی روزانہ تھوڑی تھوڑی کجھوریں تقسیم کر دیا کرتے تھے.آخر وہ بھی ختم ہونے پر آگئیں.پھر ہم کو صرف ایک ایک کھجور روزانہ ملے گی.آخر کچھ بھی باقی نہ رہا.اس وقت ہم کو اس ایک کھجور کی قدر معلوم ہوئی.پھر ہم لوگوں نے سمندر کا رخ کیا.وہاں کیا دیکھتے ہیں کہ کنارہ پر ایک عظیم الشان مچھلی جیسے غیر روہیل مچھلی) کہتے ہیں پڑی ہے.ہم سب لوگ اسی کو اٹھارہ دن تک کھاتے رہے اور اس کی چربی سے اپنے بدنوں پر مالش کرتے رہے.یہاں تک کہ ہم خوب موٹے ہو گئے.ایک دن ابو عبیدہ نے اس مچھلی کی دو پسلیاں زمین پر کھڑی کروائیں.تو اونٹ سواران کے نیچے سے صاف نکل گیا.پھر جب اپنے کام سے فارغ ہو کہ ہم لوگ مدینہ واپس آئے.تو سب حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا.آپ نے فرمایا.کہ یہ تو اللہ کا بھیجا ہو رزق تھا جو تم کو ملا.اگر تمہارے پاس اس کا کچھ حقہ موجود ہو.تو نہیں بھی کھلاؤ.اس پر ایک شخص اُٹھا.اس نے ایک ٹکڑا اس پھیلی کا لا کہ
آپ کے سامنے حاضر کیا.آپ نے اسے تناول فرمایا.حضرت بلال حبشی پر ظلم بلال رضی اللہ تعالی عنہ ایک حبشی غلام تھے.ان کا مالک قریش میں سے ایک شخص تھا.اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت دشمن تھا.جب بلال غم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے.تو ان کے مالک کو بھی معلوم ہوگیا.اس نے ان کو ہر طرح و مکایا کہ پھر کافر ہو جائیں.مگر یہ نہ مانے.پھران کو مارا پیٹا.مگر یہ اسلام پر قائم رہے.آخر وہ اور ابو جہل ان کو بہت سخت تکلیفیں اور عذاب دینے لگے.لوہے کی زرہ پہنا کر سخت گرمی کے موسم میں ان کو مکہ کے باہر تپتے پتھروں اور جلتی ریت پر لٹا دیتے.دھوپ اور ٹو سے ان کا برا حال ہو جاتا.اور بے ہوش ہو جاتے تھے.پھر ان کے گلے میں رسی باندھ کہ ان کو گھسیٹتے پھرتے.پھر کبھی ان کو ننگا دھوپ میں لٹا کر چھاتی پر چکی کا پاٹ رکھ دیتے.اور ہر طرح کا دکھ ان کو پہنچاتے تھے.اور سخت سخت ماریں ان پر پڑتی رہتی تھیں.اور وہ لوگ انہیں کہتے تھے کہ اللہ کا نام نہ لو.بتوں کو اپنا خدا کو پھر ہم تم کو نہیں ستائیں گے.مگر اس مصیبت اور بے ہوشی میں بھی سر ملا کہ اس بات کا انکار کر دیتے تھے اور کہتے تھے.احد احد میرا خدا تو وہی ہے جو اکیلا ہے.اور اس کا کوئی شریک نہیں.یہ مذاب روزانہ ان کو دیئے جاتے تھے.اور وہ بیچارے صبر کرتے تھے.غرض مدتوں ان مصیبتوں ہیں رہے.آخر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہ رہا گیا.اور آپ نے ایک دن فرمایا.کہ اگر میرے پاس کچھ ہوتا.تو میں بلال کو خرید کہ آزاد کر دیتا.پریشن کر حضرت ابو بکر رض نے انہیں خرید لیا.اور آزاد کر دیا.پھر وہ حضور کی خدمت میں رہنے لگے.یہ بلال من ساری عمر حضور کے مؤذن رہے.اور مسجد نبوی میں پانچ وقت اذان دیا کرتے تھے پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا.تو غم کے مارے مدینہ کو چھوڑ کر ملک شام میں جاہیے اور مدتوں وہاں رہے.
ایک دن انہوں نے خواب میں دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.اسے بلال رضہ تم تو ہمارے پاس سے چلے ہی گئے.کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ تم مدینہ اگر ہماری زیارت کرو.یہ خواب دیکھ کر حضرت بلال و جمع اُٹھتے ہی سیدھے مدینہ کی طرف چل کھڑے ہوئے.اور آنحضرت کی قبر مبارک پر حاضر ہوئے اور اس سے لپٹ لپٹ کر خوب روئے.اتنے میں حضرات حسنی اور حسینی بھی وہیں آگئے.بلال نے ان کو پیار سے اپنے گلے لگا لیا.انہوں نے بلال سے کہا.ہمارا جی چاہتا ہے کہ آج آپ اذان دیں.چنانچہ حضرت بلال خان کے کہنے پر مسجد نبوی کی چھت پر چڑھے.اور جب انہوں نے اپنی طرز پر اللہ اکبر اللہ اکبر کہا تو سارا مدینہ ہل گیا.اور لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ یاد آ گیا.جب انہوں نے اَشْهَدُ أَنْ لا إِلهَ إِلَّا الله کہا.تو تمام شہر میں ایک نکل بر پا ہوگیا.اور لوگ چیخیں مار مار کہ رونے لگے.پھر جب اشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ کہا اور آنحضرت صلی الله علیم کا نام لوگوں نے ان کی زبان سے شنا- تو یہ حالت ہوگئی کہ مرد تو مرد پردہ دار عورتیں ہیں ہوتی بیٹی گھروں سے باہر نکل آئیں.اور مسجد نبوی اور مدینہ کے گلی کوچوں میں وہ کہرام مچا کہ لوگوں کے کلیجے پھٹ پھٹ گئے.اور خود بلال نے بھی غش کھا کر گھر یے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صفائی پسندی ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لانے.تو مسجد میں قبلہ کی جانب کسی کا بلغم لگا ہوا تھا.آپ کے چہرہ پر ناراضگی کے آثار پیدا ہوئے.پھر آپ نے اس کو وہاں سے کھر ہوا کہ اس جگہ کو زعفران سے لہوا دیا.چور ولی ایک دفعہ ایک شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں حاضر ہوا.اور عرض
کیا.یا رسول اللہ میں نے ایک گناہ کیا ہے.یعنی میں ایک قبیلہ کا اونٹ چرا لایا ہوں.آپ نے اس قبیلہ کے لوگوں کو بلایا اور تحقیقات کی تو معلوم ہوا کہ واقعی ان کا ایک اونٹ گم ہے.مجرم بھی اپنے قصور کا اقراری تھا.اس لئے شریعت کے حکم کے مطابق آپ نے چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا.چنانچہ اس کا ہاتھ کاٹا گیا.جب اس کا ہاتھ کٹ کہ زمین پر گیا تو چور نے اس ہاتھ کو مخاطب کر کے کہا کہ وہ اسے ہاتھ تو نے تو چاہا تھا کہ میرے تمام جسم کو دوزخ میں ڈال دے.مگر خدا کا ہزار ہزارٹ کر ہے جس نے مجھے دنیا میں ہی سزا دے کر آخرت کے عذاب سے بچایا.ر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں اگر کسی سے گناہ با قصور ہو جاتا.تو وہ قور أحاضر ہو کہ آپ سے بیان کر دیتا تھا.اور ہرگز نہ چھپاتا تھا.اور شریعت کی سزا بڑی خوشی سے برداشت کرتا تھا.اس لئے تاکہ آخرت میں نجات ہو.اور خدا تعالیٰ ناراض در ہے.اس طرح آپ کے زمانہ میں جب ایسے لوگ اپنے گناہوں کا اقرار آپ کی مجلیس میں آکر کرتے تھے.تو اور لوگ ان کو حقیر نہ سمجھتے تھے.نہ ان کو طعنے دیتے تھے منہ باہر آ کہ ان کا ذکر ذلت کے طور پر کرتے تھے) دانتوں کی صفائی ایک دن کا ذکر ہے.کہ کئی صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا.کہ یہ کیا وجہ ہے کہ مجھے تمہارے دانت زرد اور میلے نظر آتے ہیں.تم لوگ مسواک کیا کرو.اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میری اُمت کو زیادہ تکلیف ہوگی.تو میں ان پر مسواک کرنا بھی اسی طرح فرض کر دیتا.جس طرح وضو کہ تا قرض ہے.
۴۶۳ جاہلیت کے خون میرے پیروں کے نیچے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے دن خطبہ پڑھا.اس میں فرمایا.زمانہ جاہلیت میں میں قدر خون ہوئے.یا جو فخر و غرور کی باتیں تھیں.وہ آج سب میرے پیروں کے نیچے ہیں.اور میں اس وقت سے ان کو مٹاتا ہوں.اور سب سے پہلا عون جیسے میں معاف کرتا ہوں وہ میرے اپنے بھیجے ربیعہ کا خون ہے.؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک چچا تھے.ان کا نام تھا حارث.ان کے ایک بیٹے ربیعہ نام تھے.ان ربیعیہ کو ہذیل نامی ایک عرب نے قتل کر دیا تھا.اور اہمیت کے رواج کے مطابق اس وقت تک اس خون کا بدلہ نہیں لیا گیا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ملک کے امن اور قبائل عرب میں صلح و صفائی کی خاطر سب سے پہلے اپنی طرف سے اپنے خاندان کے اس خون کو معاف کر دیا.اللھم صل علی محمدر.صدیق اکبر کا جہاد حضرت ابو بکر صدیق تحجب مسلمان ہو چکے تو پھر انہوں نے اور لوگوں کو مسلمان بنانے کی کوشش کی.وہ اپنے دوستوں سے ملتے اور ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لالا کہ اسلام کی تعلیم اور قرآن سناتے اور کوشش کرتے.کہ لوگ کسی طرح آپ سے ملیں.اور آپ کی باتوں کو شنیں.چنانچہ ان کی اس کوشش سے حضرت زبیر فی حضرت عثمان سے حضرت عبدالرحمن بن عوف.اور حضرت طلحہ جیسے بزرگ اسلام لائے کئی مسلمان غلام تھے.جن کو مسلمان ہو جانے کی وجہ سے کفار بڑے بڑے مذاب اور تکلیفیں دیتے رہتے تھے.حضرت ابو بکرہ نے ایسے سات غلاموں اور لونڈیوں کو خرید کہ آزاد کیا.انہی میں سے ایک حضرت بلال تھے آنحضرت کے خرافات سے صدیق اکبر کا جہاد (الفضل ۲۴ اگست ۱۹۲۸ء)
۴۶۴ ماں اور بچہ پر رحم ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کئی دفعہ جب میں نماز پڑھاتا ہوں تو میرا ارادہ ہوتا ہے کہ نماز کو لمبی کر دوں گا.اتنے میں پیچھے سے کسی بچے کے رونے کی آواز آجاتی ہے تو میں نماز مختصر کر دیتا ہوں.تاکہ ماں کو تکلیف نہ ہو.مال سے بے رغبتی عقیدہ صحابی کہتے ہیں.کہ میں نے مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک دفعہ عصر کی نماز پڑھی.آپ سلام پھیرتے ہی اٹھ کھڑے ہوئے اور اتنی جلدی گھر میں تشریف لے گئے کہ لوگ حیران ہوئے.تھوڑی دیر کے بعد جب واپس تشریف لائے.تو لوگوں نے عرض کیا.یا رسول اللہ خیر تھی.آپ نے فرمایا.مجھے کچھ سونا یاد آگیا تھا.جو گھر میں پڑا رہ گیا تھا.اور یہ بات بری لگی.کہ مجھے اس کا خیال بھی آئے.اس لئے جلدی سے جا کر اسے خیرات کر آیا.عورت کی عزت حضرت انس بیان کرتے ہیں.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معہ مسلمانوں کی ایک جماعت کے مسنان سے مدینہ واپس آرہے تھے.کہ اچانک آپ کی اونٹنی کا پیر پھیل گیا اور آپ معہ اپنی بیوی صفیہ کے اس پر سے گر پڑے.ابو طلوم صحابی یہ حالت دیکھ کر اپنے اُونٹ پر سے کود ہے.اور دوڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے بعض کیا صدقے جاؤں.کوئی چوٹ تو نہیں لگی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.ابو طلوہ پہلے عورت کی خبر ہ.اس پر ابو طلعون نے اپنے منہ پر کپڑا ڈال لیا.اور حضرت صفیہ کے پاس گئے.اور
۴۶۵ ان پر کپڑا ڈال دیا.پھر سواری کو درست کیا.اور دونوں کو سوار کرایا.ہلکے پیٹ کھاؤ ایک دفعہ ابو حجیفہ ض صحابی نے عمدہ کھانا پیٹ بھر کر کھایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی مجلس میں حاضر ہوئے.اور وہاں بیٹھے بیٹھے زور سے ڈکار لی.آپ نے فرمایا جو لوگ دنیا میں ٹھونس ٹھونس کر کھائیں گے.وہ قیامت میں بھوکے رہیں گے.یہ نصیحت سن کو ابو جحیفہ ہو نے پھر کبھی ساری عمر پیٹ بھر کر کھانا نہ کھایا اگر رات کو کھاتے تو دن کو بھوکے رہتے.اور دن کو کھا لیتے تو رات کو فاقہ کرتے.صحانیه کارنگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب مُردہ دل اور خشک مزاج نہ تھے.اپنی مجلسوں میں اشعار بھی پڑھتے تھے.اور جاہلیت کے زمانہ کے قصے بھی سنایا کرتے تھے سہنسی مذاق بھی کر لیتے تھے.سیر و شکار بھی کیا کرتے تھے.بال بچوں سے بھی مشغول ہوتے تھے لیکن جب کوئی دین کا کام آپٹاتا تھا تو سب باتیں چھوڑ کر اس میں اتنے محو ہو جاتے تھے.کہ گویا دیوانے ہو گئے ہیں.صحابہ ہمیشہ اپنے قصور کی سزا کے لئے تیار رہتے ایک صحابی تھے سلمہ بین صخر ان سے ایک گناہ ہو گیا.انہوں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ مجھے پکڑ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے چلو.ان لوگوں نے انکار کیا.اس پر وہ خود حاضر ہوئے.اور اپنی غلطی بیان کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلمہ تم اور یہ کام انہوں نے جواب دیا.ہاں یارسول اللہ مجھ سے غلطی ہوگئی.آپ جو منا مناسب
ہو دیں.میں خدا کے حکم پر صابر رہوں گا.تہجد گزار لڑکا حضرت ابن عباسش بیان کرتے ہیں کہ میں ایک راست آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں اپنی خالہ کے پاس سو یا لان کی خالہ میمونہ نہ آنحضرت کی بیوی تھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی باری اس دن وہیں کی تھی.آپ پچھلی رات تہجد کی نماز کے لئے اُٹھے.اور پوچھا کہ لڑکا سو رہا ہے.میں نے یہ لفظ امنے.تو میں بھی وضو کر کے آپ کے بائیں طرف نماز پڑھنے جا کھڑا ہوا.آپ نے میرا کان پکڑ کر مجھے اپنے دائیں طرف کر لیا.آپ کا ایک معجزہ ایک دفعہ ابو ہر یہ تم نے عرض کیا.یا رسول اللہ میں آپ کی بہت حدیثیں سنتا ہوں مگر پھر بھول جاتا ہوں.ایسا ہو کہ میں بھولا نہ کہوں.آپ نے فرمایا کہ اپنی چادر پھیلاؤ.میں نے پھیلا دی.تو آپ نے اپنے ہاتھ کو چلو کی طرح بنایا اور میری چادر میں ڈال دیا.اور فرمایا کہ اب اس چادر کو اپنے اوپر لپیٹ لو میں نے لپیٹ لی.اس کے بعد پھر میں کوئی حدیث نہیں بھولا.وفات کی پیش گوئی ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عمر کے آخری دنوں میں ایک خطبہ پڑھا.اس میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بندے کو دنیا و آخرت کے متعلق اختیار دیا.کہ جسے چاہے پسند کر لے.اس بندے نے آخرت کو پسند کر لیا.حضرت ابو بکر نہ یہ بات سن کر رونے لگے.یہاں تک کہ ان کی چھینیں نکل گئیں.بعض صحابہ نے کہا.ان کو اس بات پر ردنا کیوں آیا.تھیلا
۴۶۷ اس میں رونے کی کون سی بات ہے.اچھا ہوا جو اس بندے نے دنیا کو چھوڑ کر آخرت کو پسند کر لیا.( مگر بعد میں صحابہ کو معلوم ہوا کہ اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنا ذکر کیا تھا.یعنی یہ کہ خدا نے مجھے اختیار دیا کہ چاہو تو دنیا میں رہو.چاہے اللہ کی طرف سفر اختیار کرو.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو اختیار کر لیا.اور چونکہ حضرت ابو بکر صدیق رضہ سب سے زیادہ علم اور معقل والے تھے اس لئے وہ فوراً بات کی تہ کو پہنچ گئے حضرت ابو بکرنہ کے اس رونے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اسے ایونکر نہ روڈ.اسے لوگر اگر سب سے زیادہ مجھ پر کسی کا احسان ہے تو ابو بکر کا ہے.سب سے زیادہ ابو بکر نے مجھ پر اپنا مال اور اپنا وقت قربان کیا ہے.اگر میں کسی کو خدا کے سوا جانی دوست بنانا تو ابو بکریم کو ہی بناتا.ہاں وہ میرے اسلامی بھائی اور پیارے ہیں.دیکھو مسجد میں جین جین لوگوں کے دروازے کھلتے ہیں.سب کو بند کر دو.صرف ایک ابو بکر کا دروازہ کھلا رہے.رض رقم شمار کی شہادت کی خبر دینیا جن دنوں مسجد نبوی بن رہی تھی اور صحا یہ تو ایک ایک اینٹ اٹھاتے تھے.اور عمارین یا سر دو دو اٹھا کر لاتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ان کی محنت کو ملاحظہ فرمایا.تو محبت سے ان کی مٹی جھاڑنے لگے.اور فرمایا افسوس اسے شمار تجھے ایک باغی گروہ قتل کرے گا.تو ان کو جنت کی طرف بلاتا ہوگا.اور وہ تجھے دونرخ کی طرفف ملاتے ہوں گے.(چنانچہ ایسا ہی ہوا.حضرت عمار حضرت علی کی خلافت کے زمانہ میں ان کی طرف سے باغیان خلافت سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے) تو جی کر تب مسجد میں ایک دفعہ مشی گن کے باز مدینہ میں آئے.اور اپنا فن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو
۴۶۸ مسجد میں دکھانے لگے.آپ نے ملاحظہ فرمایا.اور اپنے دروازہ پر جومسجد میں کھلتا تھا.اس طرح کھڑے ہو گئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی اندر سے کرتب دیکھ لیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر سے حضرت عائشہؓ کا پردہ کر رکھا تھا.(الفصل ۲۳ اکتوبر ۱۹۲۸ء) شفاعت حضرت ابو ہریرہ صحابی بیان کرتے ہیں.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ پکا ہوا گوشت آیا.آپ نے اس میں سے دست کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور کھانے لگے.دوست کا گوشت آپ کو پسند تھا.آپؐ کھاتے میں فرمانے لگے.کہ میں قیامت کے دن سب کا سردار ہوں گا.اس کی وجہ یہ ہے کہ قیامت کے دن اگلے پچھلے آدمی سب ایک میدان میں جمع ہوں گے.اور ہر ایک آدمی پکارنے والے کی آواز اس میدان میں سن سکے گا.اور ہر طرف دیکھ سکے گا.سورج اس دن بہت قریب ہو جائے گا.اور لوگوں کو بے حد تکلیف ہوگی.اس وقت وہ کہیں گے کہ یا رو اس مصیبت میں کوئی شفاعت کرنے والا تلاش کرد بعض ان میں سے کہیں گے کہ چلو آدم علیہ السلام کے پاس.سب ان کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ آپ سب آدمیوں کے باپ ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے بنایا.اور اپنی روح آپ کے اندر پھونکی اور فرشتوں سے آپ کو سجدہ کرایا.آپ ہماری شفاعت کیجئے.دیکھئے تو ہم کسی مصیبت میں ہیں.آدم علیہ السلام کہیں گے آج میرا رب ایسے حلال میں ہے کہ نہ ایسا کبھی ہوا تھا نہ ہوگا مجھے اس نے ایک درخت کا پھل کھانے سے منع کیا تھا.مگر افسوس کہ میں نے اسے کھا لیا.میں خود آج شرمندہ ہوں اور مجھے اپنی تفکر ہے نفسی نفسی تقسی.پھر لوگ کہیں گے چلو توروح علیہ السلام کے پاس چلو.ان سے سب جا کہ کہیں گے.کہ آپ زمین پر سب سے پہلے رسول ہیں.اور اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام شکر گزار بندہ رکھا.آپ اللہ کے پاس ہماری شفاعت کریں.دیکھے ہم کس مصیبت میں گرفتار ہیں.وہ بھی جواب دیں گے کہ آج میرا ریب اتنے جلال -
۴۶۹ میں ہے.کہ نہ اس سے پہلے کبھی تھا.نہ آئندہ ہو گا.اور مجھے ایک خاص دعا مانگنے کی اجازت ہوئی تھی.وہ میں اپنی قوم کے بر خلاف مانگ چکا ہوں اور تنفسی نفسی نفسی کہیں گے پھر لوگ کہیں گے چلوا براہیم کے پاس چلو.جب ان کے پاس آئیں گے تو کہیں گے کہ آپ اللہ کے نبی اور قلیل ہیں.مہربانی کی کے ہماری شفاعت قدا کے سامنے کریں.دیکھئے ہم کسی مصیبت میں ہیں.وہ بھی فرمائیں گے کہ میرا رب آج نہایت حلال میں ہے.میں نے تین غلطیاں کی ہیں اس لئے خدا کے سامنے کس منہ سے جاؤں.اور نفسی نفسی کہیں گے اور فرمائیں گے کہ تم لوگ موسیٰ کے پاس جاؤ.پھر وہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے کہ اے موسیٰ آپ اللہ کے رسول ہیں اور کلیم اللہ ہیں.آپ ہماری سفارش خدا کے حضور کریں.وہ بھی کہیں گے کہ آج میرا رب نہایت جلال میں ہے.اور میں نے ایک شخص کو قتل کر دیا تھا.اور اس قتل کا مجھے حکم نہ تھا.پھر وہ بھی نفسی نفسی کہیں گے اور فرمائیں گے کہ تم عیسی کے پاس جاؤ.لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے اور کہیں گے.آپ اللہ کے رسول اور اس کا کالمہ اور روح ہیں.آپ نے بچپن میں عقل کی باتیں کیں.آپ ہی خدا را ہماری سفارش فرمائیے.حضرت میٹی کہیں گے.کہ آج میرا پروردگار نہایت جلال میں ہے کبھی اس سے پہلے وہ ایسے جلال میں نہ تھا.نہ آئندہ ہو گا.میں اس کام کے لائق نہیں.تم سب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وتم کے پاس جاؤ.اس پر سب لوگ میرے پاس آئیں گے.اور کہیں گے.کہ اسے محمد آپ خدا کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کی سب اگلی پچھلی بشری کمزوریاں تک معاف کر دی تھیں.آپ اللہ سے ہماری شفاعت کیجئے.دیکھئے ہم کس مصیبت میں ہیں.اس وقت میں عرش کے نیچے جا کر سجدہ کروں گا.اور اللہ تعالیٰ خود مجھے حمد و ثنا کرنے کا طریقہ الہام کرے گا.وہ ایسا طریقہ ہو گا کہ پہلے کسی کو معلوم نہ تھا.پھر جب میں اسی طرح خدا کی تعریف کروں گا.تو مجھے حکم ہوگا.اسے محمد اٹھے ! اور مالگ کیا مانگتا ہے.شفاعت کر ہم تیری شفاعت قبول کریں گے.اس پر میں سجدہ سے سر اٹھاؤں گا.اور کہوں گا.کہ اے رب میری
انت کو بخش دے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا.اے محمد اپنی امت کے ان سب لوگوں کو جن کا حساب نہیں ہو گا.جنت کے دائیں دروازے سے داخل کر دو.اس کے بعد پھر میری شفاعت سے اور ایماندار لوگ بھی دوزخ سے نکالے جائیں گے.یہاں تک کہ جیس کے دل میں ایک جو کے برابر بھی ایمان ہو گا.اس کو بھی خدا کے حکم سے نکال لاؤں گا.اور ہرا ہر دعا کرتا ہوں گا.یہاں تک کہ وہ لوگ جن کے دل میں ایک رائی یا نہ کے برابر بھی ایمان ہوگا.ان کو بھی کال لوں گا.آخر میں پھر میں سجدہ کروں گا.اور خدا کی تعریف کروں گا.تو پھر خدا تعالی فرمائے گا کہ تم شفاعت کر وہ ہیں عرض کر دوں گا.اے رب میری امت میری امت.اس پر حکم ہو گا.کہ چین کے دل میں رائی کے دانہ سے بھی بہت کم ایمان ہو.ان کو بھی نکال تو چنانچہ میں جا کہ ایسے لوگوں کو بھی نکال لوں گا.پھر آخر میں بھی اسی طرح حمد و ثنا کروں گا.اور عرض کروں گا بلکہ اسے پروردگار تو ان لوگوں کی نجات کا بھی حکم دے جنہوں نے لا اله الا اللہ کہا ہے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا.کہ مجھ کو اپنی عزت اور حلال اور بڑائی اور بزرگی کی قسم یکی ان لوگوں کو بھی دوزخ سے نجات دوں گا.جنہوں ADATA ALWATANT TENTA TAD الله کہا ہے.سب سے پہلی وحی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں میری نبوت سے کچھ مدت پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عمدہ خواب آنے شروع ہوئے.جو خواب آپ دیکھتے وہ صاف طور سے پورا ہو جاتا تھا.اس وقت آپ کو تنہائی میں رہنا پسند ہو گیا.اور آپ غار حرا میں خلوت فرمانے لگے.اور کئی کئی رات برابر وہاں خدا کی عبادت کیا کرتے.پھر گھر آتے اور کئی روز کی خوراک لے جاتے.یہاں تک کہ آپ کے پاس وحی آگئی.جب آپ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو اس وقت آپ غار حرا میں تھے.یہ رمضان کا مہینہ.شب قدر کی رات اور پیر کا دن تھا کہ ایک فرشتہ آپ کے پاس آیا.اور آپ کے سامنے ظاہر ہو کہ اس نے آپ سے کہا کہ پڑھو.
امام آپ نے فرمایا میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.اس پر اس فرشتے نے آپ کو پکڑ لیا اور زور سے دبایا یہاں تک کہ آپ کو تکلیف ہوئی پھر چھوڑ کر آپ سے کہا پڑھئے.آپ نے پھر فرمایا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.اس پر فرشتے نے دوبارہ آپ کو زور سے دبایا.یہاں تک کہ آپ کو تکلیف ہوئی پھر چھوڑ دیا اور کہا پڑھیے.آپ نے کہا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں.پھر تیسری دفعہ اس فرشتہ نے آپ کو زور سے دیا یا.پھر چھوڑ دیا اور کہا کہ اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ - خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَى اِقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ (سوره علق: ۲ - ۶) یعنی اپنے رب کا نام لے کر پڑھو جیسں نے ہر چیز کو پیدا کیا.انسان کو گوشت کی بوٹی سے پیدا کیا.پڑھو ! اور تمہارا پر ور دگار یا اکرم کرنے والا ہے.میں نے قلم کے ذریعہ علم سکھایا.اور انسان کو وہ کچھ سکھایا جیسے وہ جانتا نہ تھا.یہ کہ کہ فرشتہ غائب ہو گیا.اور حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دل اس واقع کی ہیبت سے دھڑکنے لگا.آپ غار حرا سے سیدھے حضرت خدیجہ ہے کے پاس واپس آئے.اور کہا کہ مجھے کیل.اوڑھا دو.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر کمبل ڈال دیا.یہاں تک کہ کچھ دیر بعد جب آپ کا دل ذرا ٹھہرا تو آپ نے حضرت خدیجہ سے سب حال بیان کیا.اور کہا کہ میرا تو دم نکلنے لگا تھا.اس پر حضرت خدیجہ نے عرض کیا کہ ایسانہ فرمائیے.خدا کی قسم اللہ آپ کو کبھی پریشان نہیں کرے گا.کیونکہ آپ کوشتہ داروں سے اچھا سلوک کرتے ہیں.لوگوں کا بوجھ بٹاتے ہیں ہمیشہ سچ بولتے ہیں.جو اچھی باتیں اور لوگوں میں نہیں پائی جاتیں.وہ آپ میں موجود ہیں.آپ مہمان نواز ہیں.امد تکالیف میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں.اس کے بعد حضرت خدیجہ آپ کو لے کر اپنے چھاپ کے بیٹے درقرین توفل کے پاس پہنچیں.یہ درقہ عیسائی ہو چکے تھے.اور انجیل سے خوب واقف تھے.اور اتنے عمر رسیدہ آدمی تھے کہ ان کی آنکھیں بھی جاتی رہی تھیں.حضرت خدیجہ نے ان سے کہا.کہ اسے
بھائی.ذرا اپنے بھتیجے کا حال تو سنو.اور پھر اپنی رائے دو.ورقہ نے حال پوچھا.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب واردات بیان فرمائی.ورقہ نے سن کر کہا.کہ اسے محمد یہ تو وہ فرشتہ ہے جسے اللہ نے موسیٰ " پر نازل کیا تھا.اے کاش میں آپ کے نبوت کے زمانہ میں جوان ہوتا.اسے کاش کہ میں اس وقت تک زندہ ہی رہتا.جب آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کیا سچ مچ یہ لوگ مجھے یہاں سے نکال دیں گے.اور قرتے کہا.ہاں.جب سے دنیا پیدا ہوئی ہے.ہمیشہ لوگ آپ جیسے نبیوں سے دشمنی کرتے ہیں.اور اگر میں زندہ رہا تو انشا اللہ پوری طاقت کے ساتھ آپ کی مدد کروں گا.مگر افسوس کہ چند روز کے بعد ہی درقہ کی وفات ہو گئی.اور وحی کا آنا بھی کچھ مدت کے لئے رک گیا.دوسری دفعہ پھر حضرت جائزہ فرماتے ہیں.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہلی دفعہ وحی آنے کے بعد اس کے رُک جانے کا حال بیان فرمانے لگے.تو فرمایا کہ ایک دن میں چلا جارہا تھا.کہ میں نے آسمان سے ایک آواز سنی.اوپر نظر اٹھائی تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو فار ہوا میں کیے پاس آیا تھا.آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے.میں ڈر گیا.گھر کو واپس آیا اور کہنے لگا کہ کمبل اوڑھاؤ کمبل اوڑھاؤ.اس وقت اللہ تعالٰی نے یہ دھی نازل فرمائی.يايها المدثر قمْ فَاحْدِرُهُ رَبِّكَ فَكَبْنه ثِيَابَكَ فَطَهِرُ وَالرُّجْزَ فَاهْجُرُ ) (سوره مدثر ۲ - ۲) یعنی اسے کپڑا اوڑھنے والے کھڑا ہو.اور لوگوں کو ڈرا اور اپنے پروردگار کی بڑائی بیان کرہ اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھ اور ہر ناپاکی کو چھوڑ رہے.اس کے بعد آپ نے فرمایا.کہ وحی کی آمد خوب گرم ہوگئی اور لگا تار آنے لگی.
وحی کے وقت تکلیف حضرت ابن عباس نہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے نازل ہونے کے وقت سخت تکلیف ہوتی تھی.پہلے پہل آپ اپنے ہونٹوں کو جلدی جلدی جاتے تھے تاکہ و حی یاد ہو جائے.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے بنی آپ اپنی زبان کو زیادہ حرکت نہ دیا کریں کہ وحی یاد ہو جائے.آپ صرف سن لیا کریں.پھر یہ ہمارا ذمہ ہے کہ آپ کے ذہن میں ہم اس کو محفوظ کر دیں.جب آپ وحی کو سن چکیں اس کے بعد اسے دہرایا کریں.چنانچہ پھر انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کیا کرتے تھے.وحی کس طرح آتی تھی ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یارسول اللہ آپؐ پر وحی کسی طرح آتی ہے.آپ نے فرمایا.کہ کبھی تو گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے.اور یہ مجھ پر سب قسموں میں سخت ہوتی ہے.پھر جب میں اس کا مضمون یاد کر لیتا ہوں.تو یہ کیفیت دور ہو جاتی ہے.اور کبھی یہ ہوتا ہے کہ فرشتہ آدمی کی صورت بن کر میرے سامنے آجاتا ہے.اور مجھ سے کلام کرتا ہے.اور جو کچھ وہ کہتا ہے میں اسے حفظ کر لیتا ہوں.حضرت عائشہ رضہ فرماتی ہیں کہ میں نے سخت سردی کے دنوں میں بھی آپ پر وحی اترتے دیکھی ہے.اس وقت آپ کی پیشانی سے پسینہ بہنے لگتا تھا.چہرہ مبارک شروع ہو جاتا تھا اور سانس تیز چلنے گتا تھا.قرآن کا دور جبرئیل کے ساتھ حضرت ابن عباس فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یوں تو خود ہی سب
لوگوں سے زیادہ سخی تھے.مگر رمضان کے مہینے میں آپ کی سخاوت بے حد بڑھ جاتی تھی جب اس مہینہ میں حضرت جبرائیل ہر رات کو آپ کے پاس آتے اور قرآن کا دور کی کرتے تھے.آپ قرض لے کر اس سے زیادہ دیتے تھے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص سے ایک اونٹ قرض لیا.کچھ مدت کے بعد وہ شخص آپ سے اس اونٹ کے بدلہ کا اُونٹ لینے آیا اور تقاضا کیا.یہاں تک کہ اس نے بہت سخت کلامی کی اور گستاخی سے پیش آیا.بعض معانی کو یہ بات بہت بڑی معلوم ہوئی اور اُسے مارنے کو اٹھے.آنحضرت صلی الہ علیہ و سلم نے منع کیا.اور فرمایا کہ قرض خواہ کی بات سخت ہی ہوتی ہے.تم کہیں سے اس کے اونٹ کے بدلے ایک اونٹ کا بندوبست کرو.لوگوں نے بہت تلاش کیا اور عرض کی یا رسول اللہ اس کے اونٹ سے بہت اچھے اچھے اونٹ تو ملتے ہیں.مگر اس وقت دنیا نہیں ملتا.آپ نے فرمایا.اچھی قسم کا اونٹ ہی لا کر اسے دے دو.کیونکہ اچھا آدمی وہی ہے جو قرض خواہ کو اس کے قرض سے بڑھ کر ادا کرے.جانوروں سے نیکی کرنا بھی ثواب ہے ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے زمانہ کی ایک عورت کا قصہ اپنے صحابیہ کو سنایا.فرمایا.کہ ایک بہت بڑی اور گی ہنگار عورت تھی.وہ کہیں جارہی تھی.راستہ میں اسے پیاس لگی.تو اس نے ایک کنویں میں اتر کر پانی پیا.جب وہاں سے چلی تو دیکھا کہ پاس ہی ایک کتا پیاس کے مارے بیقرار ہے اور گیلی مٹی چاٹ رہا ہے.اس نے دل میں کہا کہ یہ میری طرح پیا سلہ ہے.اسے پانی پلانا چاہیئے چنانچہ وہ پھر کنوئیں میں اتری اپنی جوتی
۴۷۵ میں پانی بھرا.اس جوتی کو دانتوں سے پکڑ کر کنویں سے باہر آئی.اور اس کتے کو پانی پلایا.اللہ تعالٰی کو اس کا یہ کام ایسا پسند آیا.کہ اس کے پچھلے سب گناہ اس نے بخش دیئے.اور اس کے دل میں نیکی کی محبت اور گناہ کی نفرت ڈال دی.یہاں تک کہ اس نے توبہ کر لی.اور آخر جب مری تو جنت میں داخل ہوئی.صحابہ نے عرض کیا.یا رسول اللہ کیا جانوروں کی خدمت سے بھی میں ثواب ملے گا ؟ آپ نے فرمایا.ہاں ہر جاندار کی خدمت میں ثواب ہے.بھوکوں کو خدا رزق دیتا ہے حضرت ابو سعید صحابی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کوکسی کام کے لئے سفر پر بھیجا.یہ لوگ ایک دن ایک عرب کے قبیلہ کے نزدیک اُترے اور ان لوگوں سے کہا کر ہم مسافر ہیں.ہمارے کھانے کا بندوبست کرد.ان لوگوں نے صحابہ کو کھانا کھلانے سے انکار کر دیا.تھوڑی دیر نہ گزری تھی.کہ اس قبیلہ کے سردار کو سانپ نے ڈس لیا.لوگوں نے بہترے علاج کئے مگر کچھ فائدہ نہ ہوا.اور وہ مرنے کے قریب ہو گیا.کسی نے کہا وہ جو مسافر اُترے ہوئے ہیں.شائد ان میں سے کوئی سانپ کے کاٹے کا علاج یا منتر جانتا ہو.چنانچہ وہ لوگ صحابیہ کے پاس آئے اور حال بیان کیا کہ ہمارے سردار کو سانپ ڈس گیا ہے.اگر تم میں سے کوئی شخص اس کا علاج جانتا ہو تو ہمارے ساتھ چلے.ایک صحابی نے جواب دیا کہ ہاں مجھے اس کا منتر آتا ہے.مگر چونکہ تم نے ہماری دعوت کرنے سے انکار کر دیا ہے.اس لئے اب میں اُجرت لے کر علاج کروں گا.مفت نہیں کروں گا.اس پر ان لوگوں نے کچھ بکریاں دینے کا اقرار کیا.جب معاملہ طے ہو گیا تو وہ صحابی گئے.اور انہوں نے المحمد کی سورت پڑھ کہ اس بیمار پر پھونکنی شروع کی.جوں جوں وہ دم کرتے جاتے تھے.اس شخص کو ہوش آتا جاتا تھا.یہاں تک کہ تھوڑی دیر میں وہ اُٹھ بیٹھا اور اچھا ہو گیا.اس پر ان لوگوں نے وعدہ کی بکریاں صحابیہ کر دیدیں.یکریاں سے کہ صحابہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
کی خدمت میں حاضر ہوئے.جب آپ نے ان کا سارا قصہ سنا تو بہت ہنسے اور فرمایا کہ تمہیں کس نے بتایا کہ الحمد میں یہ تاثیر ہے.اچھا یہ بکریاں تم لوگ بانٹ لو.اور مجھے بھی اپنی اجرت میں سے حصہ دو.شراب کی خرابی رابتدائے مدینہ) حضرت علی نہ فرماتے ہیں کہ بدر کی لڑائی میں ایک اونٹنی میرے حصہ میں آئی.اور ایک اور اونشتی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عطا فرمائی.میں نے ایک دن ان دونوں انٹینوں کو ایک جگہ بٹھا کہ ارادہ کیا کہ ان پر اذخر گھاس جنگل سے کاٹ کر لاؤں گا اور اسے ستاروں کے ہاتھ یہی کہ جب کچھ رقم ہو جائے تو اپنی شادی کی دعوت ولیمہ کروں گا.اذخر بیچنے کے لئے میں نے ایک سنار سے بات چیت بھی کر لی تھی.اس سنار نے کہا تھا.کہ تم لاؤ میں ضرور خرید لوں گا.میں جنگل کو جانے کے لئے تیار تھا کہ اتنے میں پاس کے گھر میں سے میرے چچا حضرت حمزہ شراب کے نشر میں نکلے.وہاں کچھ غزل خوانی بھی سو رہی تھی.گانے والوں نے کہا.کہ اسے حمزہ یہ موٹی موٹی اوشنیاں بیٹھی ہیں ان کو پکڑ لو.اور ذبح کر لو.اس پر حمزہ تلوار ہے کہ میری اونٹنیوں کے پاس آئے.اور ان کے کوہان کاٹ ڈالے اور پیٹ چاک کر کے کلیجھیاں نکال لیں.میں یہ خوفناک نظارہ دیکھ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور آپ سے یہ واقعہ بیان کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھ کر سید ھے اس جگہ پہنچے اور حمزہ پر ناراض ہوئے.کہ تم نے یہ کیا ظلم کیا.حمزہ شراب کے نشے میں کہنے لگے کہ تم کون ہو ؟ میرے باپ کے غلام.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دیکھا کہ ان کے تو ہوش دحواس ہی ٹھکانے نہیں تو واپس چلے آئے.یہ واقعہ شراب کے حرام ہونے سے پہلے کا ہے (خدا تعالٰی کی اپنے خاص بندوں کے ساتھ یہ بھی عادت ہے کہ دنیا سے جانے سے پہلے ان کے سب تصور اور کمزوریاں ہیں دھو ڈالتا ہے.حضرت حمزہ کی اس غلطی کے بدلے ان کے دن بعینہ اُن سے ہی معاملہ ہوا.اور شده
،، نے ان کا پیٹ چاک کر کے ان کی کلیجی کی بوٹیاں چاہئیں.یہ کفارہ خدا نے ان کا نہیں کر دیا.پھر اپنے نیک اعمال اور اسلام کی ابتدائی مدد کی وجہ سے وہ سید الشہدا کہلائے.واللہ اعلم) منہ پر ہرگز نہ مارو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سے اگر کوئی شخص کسی کو مارے بھی تو منہ پر ہرگز نہ مارے.العینی استاد یا ماں باپ جان کر منہ پر تھپڑ مارتے ہیں یہ گناہ کی بات ہے.اور منہ پہ مار کھانے والے بچوں کی آنکھ کان یا دماغ کو بھی بعض دفعہ اس سے ایسا صدمہ پہنچ جاتا ہے کہ ہمیشہ کے لئے عیب دار ہو جاتے ہیں ).(الفصل ۴ دسمبر ۱۹۲۸ء) حضرت ابو دور کا اسلام لانا حضرت ابو ذر فرماتے ہیں کہ میں قبیلہ غفار کا ایک شخص ہوں.جب ہمیں اپنے علاقہ میں یہ خیرپہنچی.کہ مکہ میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا ہے.تو میں نے ان کے حالات معلوم کرنے کے لئے اپنے بھائی کو مکہ بھیجا.چنانچہ دہ گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے.اور پھر گھر میں واپس آئے.جب میں نے اُن سے حال پوچھا تو کہنے لگے کہ میں نے اس شخص کو دیکھا رق ہے.وہ ہر نیکی کا حکم کرتے ہیں اور ہر میری بات سے منع کرتے ہیں.اور کہتے ہیں کہ ان کی اتنی مختصر بات سے میری تسلی نہ ہوئی.اور میں نے خود اپنا سامان تیار کیا اور مکہ کی طرف روانہ ہوا.وہاں میں بہت حیران ہوا.کہ میں کس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ملوں گا.کیونکہ میں ان کو پہچانتا نہ تھا.اور یہ میں نے مناسب نہ سمجھا کہ لوگوں سے آپ کی بابت دریافت کروں میں کعبہ میں اتر پڑا.بھوک پیاس لگتی تو زمزم کا پانی پی لیا کرتا.ایک دن حضرت علی نے میرے پاس سے گذر ہے.انہوں نے مجھے دیکھ کر کہا کہ تم یہاں مسافر معلوم ہوتے ہو.میں نے کہا ہاں.انہوں نے کہا ہمارے گھر ملو.میں اُن کے ساتھ ہو لیا.نہ ہ مجھ سے بولے نہ میں کچھ
بولا.رہیں ان کے پاس کھانا کھایا اور سورہا صحیح ہوئی تو میں پھر کھیر میں گیا.اور ارادہ کیا کہ آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت کسی سے پوچھوں گا.مگر کوئی شخص مجھے ایسانہ ملا جیں سے یہ سوال کرتا.رات ہو گئی اور میں کہجہ میں ہی پڑ رہا.اتفاقاً پھر حضرت علی نے میرے پاس سے گذرے اور کہنے لگے کہ تمہیں آج بھی کوئی جگہ ٹھہرنے کو نہیں ملی.میں نے کہا نہیں.حضرت علی نے کہا چلو میرے ساتھ.راستہ میں انہوں نے پوچھا.کہ تم باہر کے آدمی ہو، تمہارا یہاں کیا کام ہے.جو آئے ہو ؟ میں نے کہا کہ اگر آپ میرا راز پیش نہ کریں تو بیان کرتا ہوں.حضرت علی نے کہا ہاں میں کسی سے نہیں کہوں گا.تم بیشک بیان کرو.میں نے کہا کہ نہیں اپنے علاقہ میں یہ خبر ملی تھی.کہ یہاں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے.اس پر میں نے اپنے بھائی کو یہاں بھیجا.مگر جو کچھ انہوں نے بیان کیا.اس سے میری تسلی نہیں ہوئی.اس لئے میں خود اس تحفہ سے ملنے آیا ہوں.حضرت علی نے کہا.اچھے لئے میں بھی وہیں جا رہا ہوں.مین سے تم ملنا چاہتے ہو.تم میرے ساتھ چلو.اور جہاں میں جاؤں تم بھی داخل ہو جاتا.اور اگر کوئی فسادی آدمی جس سے تم کو خطرہ کا اندیشہ ہوگا مجھے نظر آئے گا تو میں دیوار کے پاس ٹھہر جاؤں گا اور اپنی جوتی درست کرنے لگوں گا تو تم یہ اشارہ سمجھ لینا اور مجھ سے الگ ہو کہ سید سے چلے جانا.میں نے کہا اچھا.اس کے بعد حضرت علی نے مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے.میں آپ سے ملا اور سوال کیا.کہ مجھے اسلام کے احکام سنائیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سناٹے میں اسی وقت مسلمان ہو گیا.اس کے بعد آپ نے فرمایا.کہ اسے ابوزر ابھی اپنے اسلام کو کھلم کھلا ظاہر نہ کرتا.بلکہ بہتر ہے کہ تم اپنے علاقہ کی طرف واپس چلے جاؤ اور جب تمہیں ہمارے غلبہ کی خبر پہنچے تو ہمارے پاس آجانا.میں نے عرض کیا کہ مجھے اس خدا کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے.میں اب اس بات کو برداشت نہیں کر سکتا ہیں تو ابھی پکار پکار کر لوگوں میں اس کو ظاہر کر دوں گا.چنانچہ میں وہاں سے نکلا اور پکارتا ہوا کیہ کی طرف آیا اور کہا اے قریش میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معیون نہیں.
٤٤٩ اور محمد اُس کے بندے اور رسول ہیں.یہ سن کہ قریش کے لوگ کہنے لگے کہ ذرا اس بے ایمان کی خبر لیا.یہ کہہ کر وہ لوگ مجھ پر ٹوٹ پڑے اور مجھے اتنا مارا کہ میری جان نکلنے کے قریب ہوگئی.اتنے میں حضرت عباس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر جھک گئے.اور لوگوں سے کہا.کمبختو یہ تو تقبیلہ غفار کا آدمی معلوم ہوتا ہے.اگر یہ مارا گیا تو یا درکھنا کہ وہ لوگ تمہاری وہ خیر لیں گے کہ تم بھی یاد کرو گے تم نہیں جانتے کہ تمہارے قافلوں اور تجارت کا راستہ انہی کے علاقہ میں سے ہے.یہ سن کر وہ مارنے والے رک گئے اور ادھر اُدھر چلے گئے.خیر میں نے مدرات گزاری.اور جب صبح ہوئی تو میں پھر کعبہ میں گیا اور کل کی طرح پھر کلمہ پڑھا اور اپنا اسلام ظاہر کیا.اس پر پھر وہ لوگ مجھے مارنے لگے.حضرت عائش پھر دوڑے ہوئے آئے اور مجھے اُن سے بچایا.اور وہی بات کہی جو کل کہی تھی.عرض یہ حال میرے مسلمان ہونے والے دن کا ہے.حقیقی پاکیزہ زندگی ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چند صحابہ آپ کی بی بیوں کی خدمت میں حاضر ہوئے تاکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادت کا حال دریافت کریں.انہوں نے خیال کیا کہ شاید آپ گھر میں ہر وقت نماز میں ہی مصروف رہتے ہوں گے.جب بی ہیوں نے آپ کے حالت سنائے اور انہیں آپ کی عبادت معمولی معلوم ہوئی تو وہ کہنے لگے.کہ پھیلا ہم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا نسبت آپ کے تو اگلے پہلے تصور سب خدا نے صاف کر دیئے ہیں.ان میں سے ایک نے کہا کہ میں تو اب ساری رات نماز ہی پڑھا کروں گا دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ ہی رکھا کر وں گا.کوئی دن ناغہ نہیں کروں گا.تیسرے نے کہا میں کبھی شادی نہیں کروں گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ باتیں نہیں تو نہیں بلوا کر پوچھا.کہ کا تم نے ایسا ایسا کہا ہے ؟ وہ بولے ہاں.یارسول اللہ.آپ نے فرمایا.کہ خدا کی قسم میں تم سے زیادہ ڈرنے والا ہوں.مگر پھر بھی میرا یہ حال ہے کہ روزہ رکھتا بھی ہوں.اور چھوڑ بھی دیتا
ہوں.نماز بھی پڑھتا ہوں.اور سوتا بھی ہوں.عورتوں سے نکاح کرتا ہوں.اور ان سے تعلق بھی رکھتا ہوں بیسن ہو ا کہ جو شخص میرے اس طریقہ پر نہیں چلے گا اس کا پھر میرے ساتھ کچھ تعلق نہیں.لونڈیاں آپ سے مدد لیا کرتی تھیں مدینہ میں کئی دفعہ غریب لونڈیاں آپ کو پکڑ لیتیں اور کہتیں کہ یا رسول اللہ یہ سہارا نام ہے اسے کر دیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ ہو لیتے اور ان کا کام کر دیتے.الفقر فخری حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے گھروں میں کئی واقعہ دو دو ماہ تک آگ نہ ملتی تھی.ایک شخص بولا.کہ پھر گذارہ کس طرح ہوتا تھا.بولیں کہ پانی اور کھجور کھا لیتے تھے.یا کبھی کہیں سے کچھ دودھ آجاتا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر کبھی چھاتی کی شکل نہیں دیکھیں.نہ کبھی میدہ آپ کے ہاں آیا.گھر میں کوئی چھلنی نہ تھی.چکی سے موٹا موٹا آٹا پیس کہ منہ کی پھونکوں سے بھوسی اڑا دیتے اور باقی کو گوندھ کر اپکا لیتے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوئے تو آپ کی زدہ تھوڑے سے جو کے بدلے ایک یہودی کے پاس گر دی تھی.اور جین کپڑوں میں آپ فوت ہوئے.ان میں دونوں طرف پیوند لگے ہوئے تھے.حالانکہ وہ ایسا وقت تھا.کہ سارا جزیرہ نمائے عرب آپ کا مطیع اور فرمانبردار ہو چکا تھا.مساوات جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدر کی جنگ کے لئے مدینہ سے نکلے تو فوج میں سواریاں بہت کم تھیں.تین تین آدمیوں کے پیچھے ایک اونٹ تھا اور لوگ باری باری سوار
۴۸۱ ہوتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی دو آدمی ایک اونٹ میں شریک تھے.جب وہ عرض کرتے کہ یا رسول اللہ آپ سوار رہیں.ہم پیدل چلیں گے.تو آپ فرماتے کہ تم مجھے سے زیادہ پیدل نہیں چل سکتے.اور میں بھی تمہاری طرح ثواب کا محتاج ہوں.چنانچہ آپ ان کو اپنی اپنی باری پر سوار کرا دیتے اور خود پیدل چلتے.آپ لین دین کے کھرے تھے خالد بن عمیر ایک صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ مکہ گیا.ان دنوں انحصرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے.اور ابھی ہجرت نہیں ہوئی تھی.وہاں میں نے ایک پاجامہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ فروخت کیا.حضور نے اس کی قیمت میں مجھے چاندی دی.اور جب آپ نے وہ چاندی تولی.تو خوب جھکتی ہوئی تولی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے زیادہ سختی کا دن (طائف) ایک دن حضرت عائشہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ یا رسول اللہ کیا احد سے بھی زیادہ سختی کا کوئی دن آپ پر آیا ہے.آپ نے فرمایا یہ کہ میں نے تمہاری قوم تریشر سے جو مصیبتیں اٹھائی ہیں وہ احد سے بہت بڑھ کر ہیں.اور سب سے زیادہ تکلیف مجھے اس دن پہنچی.جس دن میں طائف میں عبدیالیل کے پاس گیا اور اس نے میری دعوت رو کردی.میں نہایت رنج و ملال کے ساتھ وہاں سے چل نکلا.ان لوگوں نے وہاں کے شہرے اور اوباش میرے پیچھے لگا دیئے.اور انہوں نے کئی میل تک مجھے ہوش نہ آنے دیا.اتنا مارا اور پتھر رہائے کہ مجھے معلوم نہ تھا کہ کدھر جا رہا ہوں.میں نے اپنا منہ بچانے کے لئے اپنا سر نیچے کر رکھا تھا.اور میرے ہوش و ہو اس سیجا نہ تھے.یہاں تک کہ پتھروں کی بارش قرن الثعالب میں جا کہ بند ہوئی تو میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور دیکھا کہ ایک اکبر کے
FAT ٹکڑے نے مجھ پر سایہ کر لیا.اور اس میں جبرائیل علیہ السلام تھے.انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تبلیغ اور ان لوگوں کا سلوک دیکھ لیا.اور اللہ نے آپ کے پاس پہاڑوں کے فرشتہ کو بھیجا ہے.اور آپ کو اجازت دی ہے کہ جو چاہیں آپ اسے حکم کریں.پھر مجھے پیائیوں کے فرشتے نے آواز دی اور سلام کیا.اور کہا کہ اسے محمد اس وقت جو آپ چاہیں میں کردوں.اگر اجازت ہو تو یہ دونوں سامنے والے پہاڑ ان لوگوں پر رکھ دوں.میں نے کہا نہیں میں یہ نہیں چاہتا مجھے امید ہے کہ اللہ ان کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو اس کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے.اللَّهُمَّ عَلى عَلَى مُحَمَّدٍ خیر آپ نے ان اوباشوں کے ظلم سے ایک باغ میں پناہ لی.وہ باغ آپ کے مکہ کے پرانے دشمنوں غلبہ اور شیبیہ کا تھا.اس وقت وہ دونوں وہیں باغ میں موجود تھے.آپ کی مصیبت دیکھ کر ان دشمنوں کو بھی اس وقت ترس آگیا.چنانچہ انہوں نے اپنے ایک عیسائی غلام عداس نامی کو بلا کر کہا کہ ایک خوشه انگوروں کا لے کر اس شخص کو دے آج فلاں جگہ بیٹھا ہے.عداس انگور لے کر حاضر ہوا.اور پیش کر کے کہا کہ اسے کھائیے.آپ جب کھاتے لگے تو پہلے بسم اللہ پڑھی.عداس نے آپ کے چہرہ کو غور سے دیکھا.اور کہا کہ خدا کی قسم یہ کلام تو اس شہر کے لوگ نہیں پڑھا کرتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا تم کہاں کے رہنے والے ہو.اور تمہارا کیا دین ہے بعد اس نے کہا میں عیسائی ہوں اور مینوں کا رہنے والا ہوں.آپ نے فرمایا کہ پھر تو تم یونس کے شہر والے ہو.عداس نے کہا آپ کیا جانیں کہ یونی کون تھے اغضرت صلی الہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ میرے بھائی تھے.میں بھی بنی ہوں اور وہ بھی نبی تھے.پشن کر عد اس جھکے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سر اور ہاتھوں کو بوسہ دیا.یہ نظارہ قیہ اور شعیبہ نے بھی دور سے دیکھا اور کہنے لگے لو اس شخص نے ہمارے غلام کو بھی گراہ کر دیا.جب غلام ان کے پاس واپس آیا.تو انہوں نے کہا.کم بخت تو نے اس شخص کے سر اور ہا تھوں کو کیوں بوسہ دیا.مداس بوہلے حضور اس وقت اس شخص سے بہتر اور کوئی شخص پر وہ
دنیا پر نہیں ہے.عتیہ شیبہ کہنے لگے.عداس افسوس کی بات ہے.تمہارا دین تو اس کے دین سے اچھا ہے.تم ہر گز اپنے دین کو نہ چھوڑو.بچوں کو پیار کرنا ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک دیہاتی آدمی بیٹھا تھا.آپ نے اس کے سامنے اپنے نواسے کو پیار کیا اور چوما وہ کہنے لگا یا رسول اللہ کیا آپ بھی بچوں کو چھومتے ہیں ؟ ہم تو اپنے بچوں کو اس طرح پیار نہیں کرتے.آپ نے فرمایا.کہ بھائی جب اللہ نے تمھارے دل سے ہم چھین لیا تو میں کیا کر سکتا ہوں.چا کی گواہی بھتیجے کی بزرگی پر جناب ابو طالب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چا مرتے دم تک مسلمان نہیں ہوئے گر پھر بھی حضرت صلی الہ علیہ وسلم کی بزرگی کے اتنے قائل تھے کہ انہوں نے آپ کی تعریف میں ایک قصیدہ کہا ہے.اس کا ایک شعر یہ ہے ، وَأَبْيَضُ يُستسقى العَمَامُ بِوَجْهِه شمال البنا في عصمة للمراجل یعنی محمد وہ گورے بننگ کا انسان ہے.کرہم لوگ ان کے طفیل سے بارش مانگا کرتے ہیں.اور سب جانتے ہیں کہ وہ یتیموں کا خبر گیر اور بیوہ عورتوں کا سہارا ہے.کعبہ کی نشست گاہیں جاہلیت کے زمانہ میں قریش کے ہر خاندان کے لئے کعبہ میں بیٹھنے کی جگہیں مقر یقیں جہاں وہ لوگ آکر بیٹھا کرتے اور اپنی مجالس لگایا کرتے تھے
۴۸۴ زید بن حارثہ کا قصہ جاہلیت کے زمانہ میں آپ کے ایک غلام تھے.ان کا نام زید تھا.آپ کے پاس وہ اس طرح آئے تھے کہ ایک دفعہ کئی لٹیروں نے اُن کے قبیلہ پہ ڈاکہ مارا.اور ان کو قید کر کے لے گئے اور غلام بنا کر بیچ دیا.ان کو حضرت خدیجہ کے بھتیجے حکیم نے اپنی پھوپھی کے لئے لیا اور مکہ میں لاکر ان کے حوالہ کر دیا.اس وقت زید کی عمر ہر سال کی تھی.حضرت خدیجہ نے ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نذر کر دیا.اب وہ آپ کی خدمت میں رہنے لگے.اتفاقاً کچھ مدت کے بعد زید کے رشتہ داروں کو ان کا پتہ چل گیا.اُن کے والدین کا نام حارثہ تھا.ان کی تلاش میں اپنے بھائی سمیت مکہ آپہنچے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ اسے عبد المطلب کے صاحبزادے ہم اپنے لڑکے کے لئے حاضر ہوئے ہیں جو آپ کی خدمت میں ہے.آپ ہم پر احسان کریں.اور اس کا فدیہ لے کر اُسے ہمارے حوالے کر دیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.وہ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا زید.آپ نے زید کو بلایا اور پوچھا کہ تم ان کر جانتے ہو.وہ بولے ہاں یہ میرے والد ہیں.اور یہ میرے پچا ہیں.پھر آپ نے فرمایا کہ زبید یہ لوگ تم کو لینے آئے ہیں.اور تم نے میرے حال کو بھی دیکھ لیا ہے.میری طرف سے تمہیں اجازت ہے.خواہ یہاں رہو.خواہ ان کے ساتھ واپس وطن کو چلے جاؤ.زید نے جواب دیا.حضور میں ان کے ساتھ نہیں جاؤں گا.میں تو آپ کے پاس ہی رہوں گا.آپؐ ہی میرے باپ ہیں اور آپ ہی میرے چچا ہیں.ان کا باپ بولا.کم سخت تیرا برا ہو.تو آزادی پر غلامی کو ترجیح دیتا ہے.اور اپنے عزیزوں کو چھوڑ کر غیروں کے پاس رہنا چاہتا ہے.زید نے جواب دیا.ہاں میں نے ان صاحب میں ایسی بات دیکھی ہے کہ اب میں انہیں چھوڑ کر کسی دوسرے کو پسند نہیں کر سکتا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زید کی یہ وفاداری اور شکر کا بند یہ دیکھا تو آپ اس کا ہاتھ پکڑ کر کعبہ کے صحن میں لے گئے
۴۸۵ اور اعلان فرمایا کہ اسے حاضرین گواہ رہو.آج سے میں زید کو آزاد کرتا ہوں.اور اب یہ میرا بیٹا ہے اور میں اس کا وارث ہوں.اور یہ میرا وارث ہے.جب زید کے والد اور چانے یہ حال دیکھا تو ان کو تسلی ہو گئی اور خوشی خوشی اپنے گھر کو واپس چلے گئے.یہ واقعہ نبوت سے پہلے کا ہے.پھر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نبی ہونے کا دعوی کیا اور لوگوں کو مسلمان بنانا شروع کیا.تو زید بھی فور مسلمان ہو گئے.سب سے پہلے مسلمان آپ کے گھر کے لوگ ہی تھے.یعنی حضرت خدیجہ آپ کی ہوئی.حضرت علی مہم جو آپ کے چیرے بھائی تھے اور آپ کے پاس ہی رہتے تھے.اور حضرت زید جو آپ کے منہ بولے بیٹے تھے.جب زید بڑے ہو گئے تو آپ نے اپنی پھوپھی کی بیٹی زینب سے ان کا نکاح کر دیا.حالانکہ قریش اتنی ناک والی قوم تھی.کہ غلاموں کو وہ جانوروں سے زیادہ ذلیل سمجھتے تھے.زید کے آزاد ہو جانے کے بعد لوگ ان کو زید بن محمد (یعنی محمد کا بیٹا زید ) کہا کرتے تھے.پھر مدینہ میں جب یہ خدا کا حکم قرآن میں نازل ہوا کہ کسی کا بیٹا اپنا پیٹا نہیں ہے.اور جس کا بیٹا ہو اسی کے نام سے پکارا جائے تو اس وقت سے پھر وہ زید بن حارثہ کہلانے لگے.خدا کا خوف حضرت عائشہ نہ فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب آسمان پر بادل یا آندھی دیکھتے تو گھبرا جاتے کبھی اندر آتے کبھی باہر جاتے اور آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو جاتا.پھر حبب بارش شروع ہو جاتی.تو آپ کی وہ حالت دور ہو جاتی ہیں نے عرض کیا.یارسول اللہ یہ کیا بات ہے آپ نے فرمایا کہ مجھے خوف آتا ہے کہ یہ ویسا عذاب الہی نہ ہو جیسا کہ عاد کی قوم پر آیا تھا.
مشترک شاعروں کا جواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسان بن ثابت شاعر سے کہا کرتے تھے.کہ تم مشرکوں کی ہجو کرد.جبرئیل تمہاری مدد پر ہیں.(الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۲۸م) عبد اللہ بن سلام یہودی کا مسلمان ہونا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تشریف لائے تو ایک نیک یہودی جن کا نام عبد اللہ بین سلام تھا.آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور کہا کہ میں آپ سے تین باتیں پوچھوں گا.آپ ان کا جواب ٹھیک دیں گے تو میں آپ پر ایمان لے آؤں گا.آپ نے فرمایا پوچھو.انہوں نے تین سوال کئے.آپ نے جواب دیئے.عبد اللہ بن سلام نے آپ کے جواب سن کر کہا.کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک آپ اللہ کے رسول ہیں.اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ہو و لوگ بڑے جھوٹے ہیں.اگر وہ میرے مسلمان ہونے کی خبر پا ئیں گے تو کہیں گے کہ اس کا کیا اعتیار وہ تو آدمی ہی بڑا تھا اگر مسلمان ہو گیا تو کیا ہوا.اس لئے آپ ان کو بلا کر میری بابت تحقیقات کرلیں.چنانچہ یہودی لوگ بلائے گئے اور عبد اللہ بن سلام اندر گھر میںچھپ گئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے پوچھا کہ عبداللہ بن سلام تم میں سے کیسے شخص ہیں ؟ یہودی لگ کہنے گئے.کہ ان کا باپ بھی بڑا عالم تھا اور وہ بھی بڑے عالم ہیں اور ہم سب ہیں بزرگ اور نیک شخص ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا بتاؤ اگر عبداللہ مسلمان ہو چاہئیں.تو پھر تو تم بھی اسلام نے آؤ گے.یہودیوں نے کہا.خدا انہیں بچائے.یہ کبھی نہیں ہوسکتا.یسن کہ عبد اللہ بن سلام مکان کے اندر سے کلمہ پڑھتے ہوئے نکل آئے اور کہنے لگے کہ لوگو میں گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں.اور محمد اس کے سچے رسول ہیں.یہودیوں نے یہ جو حالت دیکھی تو لگے ان کو گالیاں دینے.اور یہ بھی کہا کہ ہم خوب جانتے ہیں.یہ شخص آپ بھی بڑا ہے اور اس کا باپ بھی برا ہے.
۲۸۷ ابوجہل کا قتل حضرت عبید الرحمن بن عوف بیان کرتے ہیں.کہ میں بدر کے دن صف جنگ میں کھڑا تھا میں نے اپنے دائیں بائیں نظر کی مجھے انصار کے دو کم عمر لڑکے دکھائی دیے.مجھے اس وقت افسوس ہوا.اور میں نے دل میں کہا.کاش میرے دونوں طرف کوئی مضبوط آدمی ہوتے ہیں اسی خیال میں تھا.کہ ان میں سے ایک نے مجھ سے پوچھا.کہ چچا آپ ابو جہل کو پہچانتے ہیں ؟ میں نے کہا.ہاں مگر تمہیں اس سے کیا کام.لڑکے نے کہا میں نے سُنا ہے کہ وہ کم بخت آنحضرت مصلی باشد علیہ وسلم کو بہت گالیاں دیا کرتا تھا، اور مجھے اس خدا کی قسم میں کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر میں اس کو دیکھ لوں تو میں اس کو نہ چھوڑوں.پھر خواہ وہ مر جائے خواہ ہیں.عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں کہ میں نے اس لڑکے کی بات سن کر بہت تعجب کیا.اتنے میں دوسری طرف کے لڑکے نے بھی ایسی ہی گفتگو مجھ سے کی.مجھے اور حیرانی ہوئی.تھوڑی دیر میں مجھے ابو جہل بھی نظر آگیا.کہ اپنے شکر میں ادھر ادھر انتظام کرتا پھرتا تھا.میں نے اسے دیکھ کر ان لڑکوں سے کہا.کہ دیکھو وہ سامنے ابو جہل ہے.جسے تم پوچھتے تھے.میرے منہ سے یہ بات نکلنی تھی.کہ وہ شیر کی طرح اُڑے اور تلواریں کھینچ کر ابو جہل پر ٹوٹ پڑے اور اپنی تلوار میں اُسے ماریں کہ وہ مردہ سا ہو کہ گیر پیڑا.پھر وہ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ہم نے ابو جہل کو قتل کر دیا.آپ نے فرمایا.تم دونوں میں سے کسی نے.ہر ایک نے عرض کیا کہ حضور میں نے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم نے اپنی تلواریں پونچھ ڈالی ہیں.انہوں نے کہا.نہیں.آپ نے فرمایا.لاؤ اپنی تلواریں دکھاؤ.چنانچہ آپ نے ان کا ملاحظہ فرما کہ فیصلہ دیا.کہ تم دونوں نے مل کر اسے مارا ہے.ان دونوں لڑکوں کے نام معاد اور معوذ تھے.
۴۸۸ حسن سلوک اور برداشت حضرت انس فرماتے ہیں.کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جارہے تھے.اور آپ پر ایک موٹے حاشیہ کی چادر تھی.اتنے میں ایک گنوار آدمی نے بڑھ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر کو اس زور سے کھینچا.کہ آپ کی گردن پر اس چادر کے حاشیہ کا نشان پڑ گیا.وہ گنوار کہنے لگا کہ مجھے بھی اللہ کے مال میں سے کچھ دلوائیے.آپ اس کی اس حرکت پر سکلائے.اور خادموں سے فرمایا.کہ اسے کچھ دے دو.زہر والی بکری دعوت میں (خیبر) حضرت ابو بکر رض بیان کرتے ہیں کہ جب خیبر فتح ہوا تو یہودیوں کی طرف سے آپ کے لئے ایک بنی ہوئی بکری کھانے کے لئے آئی.اس میں ان ظالموں نے زہر ملا دیا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں جتنے یہودی ہیں سب کو جمع کرکے میرے سامنے بلا لاؤ جب وہ سب آگئے.تو آپ نے فرمایا میں تم سے ایک بات پوچھتا ہوں.کیا تم پیچ سے تا دو گے.انہوں نے کہا ہاں ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کہ بتاؤ تو تمہارا باپ کون ہے ان لوگوں نے کہا فلاں شخص.آپ نے فرمایا جھوٹے تمھارا باپ تو فلاں شخص ہے.انہوں نے کہا.آپ سچ کہتے ہیں.پھر آپ نے فرمایا.کہ اگر اب کچھ پوچھوں.تو مجھے ہے بتا دو گے.انہوں نے کہا ہاں.اگر ہم جھوٹ بولیں گئے.تو اب اسی طرح معلوم کر لیں گے جس طرح آپ نے اب معلوم کر لیا.اس پر آپ نے ان سے پوچھا کہ دوزخ میں کون لوگ جائیں گے.انہوں نے کہا ہم لوگ تو تھوڑے ہی دن دوزخ میں رہیں گئے مگر ہمارے بعد آپ لوگ اس میں ہمیشہ رہیں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بجد انتہا کے بعد ہم کبھی اس میں نہیں رہیں گے.پھر آپ نے فرمایا.کہ اگر اب میں تم سے کوئی بات پوچھوں توسیع کہ دو گے.انہوں نے کہا بے شک ، آر
۴۸۹ نے فرمایا.کیا تم نے اس مکری میں زہر ملایا تھا.انہوں نے کہا ہاں.آپ نے فرمایا.کیوں.انہوں نے کہا ہم نے آپ کا امتحان لیا تھا.اگر آپ جھوٹے بنی ہیں.تو آپ کے مرنے سے نہیں نجات مل جائے گی.اور اگر آپ سچے نبی ہیں.تو پھر آپ سلامت رہیں گے.ابتدائے ہجرت میں انصار کی مہمان نوازی شروع ہجرت کے دنوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم معہ تمام مہاجرین کے انصار کے مہمان تھے.دس دس آدمیوں کی ایک ایک جماعت انصاریوں کے ایک ایک گھر میں اتاری گئی تھی.مقداد بیان کرتے ہیں کہ میں اس جماعت میں تھا.جس میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وقتم شامل تھے.ہمارے والے گھر میں چند بکریاں تھیں.اپنی کے دودھ پر گزارہ تھا.دودھ دوہ کہ سب لوگ اپنا اپنا حصہ پی لیتے اور آپ کے لئے ایک پیالہ میں رکھ چھوڑتے.ایک رات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو واپس تشریف لانے میں بہت دیر ہوئی.تو سب لوگ دودھ پی چلا کہ سور ہے.آپ کے لئے کچھ نہ چھوڑا.(شائد خیال کیا.کہ باہر کھانا کھا لیں گے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو دیکھا کہ پیالہ بالکل خالی ہے.کچھ نہ کہا.پھر کچھ دیر کے بعد فرمایا.کہ یا اللہ جو آج ہمیں کھلائے.تو بھی اسے کھلائیو.مقداد ذکر کرتے ہیں کہ میں سُن کر اُٹھا اور چاہا کہ ایک بکری ذبح کر کے گوشت تیار کروں مگر آپ نے روک دیا.اور بکری کو پکڑ کہ اس کا دودھ دوبارہ دو یا اور جو نکلا پی کر سور ہے.اور دودھ کا حصہ نہ رکھنے والوں کو کسی قسم کی علامت نہ کی.رضاعی ماں باپ کی تعظیم ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عیسی میں تشریف رکھتے تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے.آپ نے ان کے لئے اپنی چادر کا ایک پلہ بچھا دیا.پھر رضاعی ماں آئیں.تو اسرائیلہ ان کے لئے بچھا دیا.آخر میں جب رضاعی بھائی آئے.تو آپ اٹھ کر چھے سرک گئے اوران
۲۹۰ کو اپنے سامنے بیٹھا لیا.انصاف کا تقاضا (فتح طائف) فتح مکہ کے بعد طائف کے لوگوں کو قلعہ بند چھوڑ کر آپ مدینہ تشریف لے آئے تھے.تمام عرب میں اب طائف ہی ایک ایسا مقام تھا.یہاں کے لوگوں نے ہتھیار نہیں ڈالے تھے.اس علاقہ میں مختر نامی ایک مسلمان رئیس تھے.انہوں نے آپ کے بعد طائف والوں کو ایسا تنگ کیا اور دیا یا کہ آخر کار وہ مطیع ہونے پر راضی ہو گئے.اور اسلام بھی لے آئے.محترم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو اس بات کی اطلاع دی.چند دنوں میں خود طائف والوں کا دند حضور کی خدمت میں حاضر ہوا.اور عرض کیا کہ ہماری ایک صورت مختر کے قبضہ میں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحر کو بلا بھیجا.اور جب وہ آئے تو حکم دیا.کہ ان کی عورت کو اس کے گھر پہنچا دو.پھر اس کے بعد ان لوگوں نے عرض کیا.کہ میں زمانہ میں ہم کافر تھے.صخر نے ہمارے شہر پر قبضہ کر لیا تھا.اب ہم اسلام لے آئے ہیں.ہما را چشمہ میں ملنا چاہیئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر صفحہ کو بلا بھیجا.اور فرمایا.کہ جب کوئی قوم اسلام قبول کرتی ہے.توان کی جان اور ان کے مال محفوظ ہو جاتے ہیں.اس لئے تم ان کا چشمہ ان کو واپس کو دو سفر نے تعمیل حکم کی راوی بیان کرتے ہیں.کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں حکم فخر نے منظور کر لئے تو میں نے دیکھا.کہ حضور کا چہرہ مبارک شرم سے سرخ ہوگیا.کہ مصر کو فتح طائف کے بدلے ان دو معاملوں میں الٹی شکست اٹھانی پڑی.مگر کیا کرتے انصاف اور اسلام کا تقاضا یہی تھا..
۴۹۱ غزده اوطاس • حسین کی جنگ کے بعد آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم نے ابو عامر محالی کو ایک شکر کا سردار بنا کہ اور اس کی طرف بھیجا.وہاں ڈرید بن صمہ فوج لئے مقابلہ کو پڑا تھا حضرت ابو موسی اشعری کہتے ہیں.کہ میں بھی لشکر اسلام کے ساتھ تھا.اس جنگ میں کافروں کا پر سالار درید مارا گیا.مگریش کر اسلام کے سردار ابو عامر کو بھی ایک تیرا ایسا لگا کہ اس کے گھٹنے کے اند نیکی گیا.میں نے ابو نام سے پوچھا کہ چھا تمہیں کس نے تیر مارا.انہوں نے مجھے اشارہ سے بتایا کہ وہ شخص میرا قاتل ہے.میں جھپٹ کر اس کے پاس پہنچا.وہ مجھے دیکھتے ہی بھاگا.میں بھی اس کے چھے بھاگتا جاتا تھا.اور کہتا تھا.کہ اوبے جیا بزدل تجھے شرم نہیں آتی.ٹھہرتا کیوں نہیں اس پر وہ ٹھہر گیا.اور میری اور اس کی لڑائی ہوئی ، میں نے اسے ہلاک کر دیا.واپس آکر ابو عامر سے کہا کہ اللہ نے تمہارے قاتل کو ہلاک کر دیا.پھر وہ بولے کہ اب یہ تیر توں کا لو میں نے تیر کالا تو گھٹنے میں سے پانی بہنے لگا.انہوں نے کہا.کہ اسے ابو موسیٰ اس زخم سے میں نہیں بچوں گا، تم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو میری طرف سے سلام عرض کرنا اور کہنا کہ ابو عامر کے لئے بخشش کی دعا کریں.پھر ابو عامر نے مجھے لشکر کا سردار بنایا اور تھوڑی دیر میں فوت ہو گئے ہیں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس ہوا تو اس وقت آپ ایک چارپائی ر لیٹے تھے.اور اس کی رسیوں کے نشان آپ کی پیٹھ اور پہلو پر پڑ گئے تھے.میں نے سب حال عرض کیا اور دعا کی درخواست کی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگوا کر وضو کیا اور پھر ہاتھ اٹھا کر ابو عامری کے لئے دعا فرمائی.میں نے عرض کیا یا رسول اللہ میرے لئے بھی.اس پر آپ نے میرے لئے بھی دعا فرمائی.
۴۹۲ فتح مکہ کے بعد اشاعتِ اسلام حضرت عمر دین مسلم صحابی بیان کرتے تھے کہ ہمارا قبیلہ ایک چشمہ پر رہا کرتا تھا.اور مسافر لوگ اکثر وہاں سے گذرا کرتے تھے.جو کوئی مسافر گزرتا اس سے ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پوچھا کرتے تھے.کہ یہ کیسا آدمی ہے.اور کیا بیان کرتا ہے.مسلمان لوگ ہم کو بتاتے کہ یہ شخص کہتا ہے.کہ میں خدا کا رسول ہوں اور مجھ پر دمی آتی ہے.اور خدا نے مجھے پر یہ وحی بھیجی ہے.پھر وہ ہم کو قرآن سناتے تو ہیں وہ یاد کر لیتا تھا.اور عرب کے لوگ مسلمان ہونے کے لئے صرف فتح مکہ کا انتظار کر رہے تھے.اور کہتے تھے کہ محمد اور کس کی قوم آپس میں نمٹ ہیں.اگر محمد ان پر غالب آگیا تو وہ سچا نبی ہے.پھر جب مکہ فتح ہو گیا.تو ہر قوم اسلام لانے میں جلدی کرنے لگی.اور میرے والد نے بھی اس کام میں بہت جلدی کی.چنانچہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کہ مسلمان ہو گئے.جب وہ مدینہ سے واپس آئے تو کہنے لگے کہ اسے میرے قبیلہ والو میں پیچھے نبی کے پاس ہو آیا ہوں.اور اس نے فرمایا ہے.کہ تم لوگ پانچ پانچ نمازیں ان وقتوں میں پڑھا کرو.اور نماز سے پہلے اذان دیا کرو اور جو تم میں سب سے زیادہ قرآن جانتا ہو وہ نماز پڑھائے ، غرض سب لوگ مسلمان ہو گئے.اور جب تحقیقات کی گئی.تو مجھ سے زیادہ کوئی قرآن کا حافظ نہ نکلا.کیونکہ میں نے مسلمان مسافروں سے سُن سُن کر بہت سی سورتیں یا د کر رکھی تھیں.چنانچہ سب نے مجھے اپنا امام بنا یا.میری عمر اس وقت چھ سات سال کی ہوگی.اور میرے پاس صرف ایک چھوٹی سی چادر تھی.جب میں سجدہ کرتا تونگا ہو جاتا تھا.ایک دن ایک عورت کہنے لگی.کہ لوگو تم اپنے امام کے چوتڑ تو ڑھا لکھو.یہ ہمارے سامنے ننگا ہوتا ہے.اس پر لوگوں نے کپڑا خریدہ کہ ایک لمبا سا کہ یہ مجھے بنا دیا جب میں نے دوہ کر نہ پہنا تو اتنا خوش ہوا کہ بیان نہیں ہو سکتا.
۴۹۳ فتح مكه آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے لئے ماہ رمضان میں دس ہزار صحابیوں کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہوئے.یہ آپ کی ہجرت کے ہم سال کے بعد کا واقعہ ہے.جب آپ مکہ کے قریب پہنچ گئے تو قریش کو معلوم ہوا کہ اس وقت ابو سفیان حکیم بن حزام اور بدیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جاسوسی کے لئے نکلے.جب یہ لوگ موضع مر الظہران پہنچے.تو کیا دیکھتے ہیں کہ وہاں بے حد آ گئیں روشن ہیں.بدیل نے کہا کہ یہ مینی عمر قبیلہ نے جلائی ہوں گی ابوسفیان کہنے لگے کہ بنی عمر کے آدمی اس سے بہت کم ہیں.اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چوکیداروں نے اُن کو پکڑلیا اور آپ کے پاس لے آئے.ابو سفیان مسلمان ہو گئے.جیب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے روانہ ہوئے تو آپ نے حضرت عباس کم سے فرمایا.کہ ابو سفیان کو ایسی جگہ لے جا کر کھڑے ہو.جہاں سے سہارا لشکر اچھی طرح نظر آئے.چنانچہ حضرت عباس ان کو ایک مناسب موقعہ پر لے کر کھڑے ہو گئے.اور ان کے سامنے سے آنحضرت صلی اللہ علی کلم کی فوج کے دستے گزرنے شروع ہوئے.جب پہلا قبیلہ گزرا تو ابوسفیان نے پوچھا.عباس یہ لوگ کون ہیں.انہوں نے کہا یہ قبیلہ فضا ر ہے.ابوسفیان نے کہا مجھے ان سے کچھ واسطہ نہیں.پھر قبیل جھینہ گزرا.تو ابو سفیان نے وہی بات کہی.پھر قبیلہ سعد اور اس کے بعد قبیلہ سلیم گور ہے.اس پر بھی ابوسفیان نے رہی بات کہی.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے ایک ایسا قبیلہ گزرا ہے ابوسفیان نے پہلے نہ دیکھا تھا.انہوں نے عباس سے پوچھا کہ یہ کون ہیں.حضرت میائی نے کہا یہ انصاری ہیں.اور ان کا جھنڈا سعد بن عبادہ کے پاس ہے.اتنے میں سعد بن عبادہ ہوئے کہ اے ابو سفیان آج کا دن کفار کے قتل کا دن ہے.آج کعبہ میں لڑائی ملال ہو جائے گی.ابو سفیان نے کہا.اچھا مصیبت کا دن آیا.پھر ایک سب سے چھوٹی جماعت ان کے سامنے سے گذری جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے مہاجرین اصحاب تھے.اور آنحضرت
۴۹۴ کا جھنڈا حضرت زبیری کے ہاتھ میں تھا.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ابو سفیان کے پاس سے گزرے تو ابو سفیان نے کہا.کہ یا حضرت آپ کو معلوم ہے کہ سعد بن عبادہ انصاری نے کیا کہا ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کیا کہا ؟ وہ کہنے لگے کہ سعد نے کہا کہ آج قریش کے قتل کا دن ہے.اور آج کعبہ میں لڑائی جائنہ کی گئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.سعد نے غلط کیا.آج کا دن تو ایسا دن ہے.کہ اللہ کیہ کو بزندگی دے گا اور اسے غلاف پہنایا جائے گا.غرض اس تزک و احتشام سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں کدار کی طرف سے داخل ہوئے.خالد بن ولید کو حکم منا کر تم دوسری طرف سے داخل ہو.وہاں کچھ مشرکوں نے ان کا مقابلہ کیا جس میں دو صحابی مارے گئے اور بارہ تیره مشترک پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کیه میں تشریف لے گئے.اس وقت کعبہ کے گرد چاروں طرف باہر ۳۶ بہت لگے ہوئے تھے.آپ اپنی چھڑی سے ان کو مارتے جاتے تھے.اور فرماتے جاتے تھے کہ حق آگیا اور جھوٹ بھاگ گیا.اور جھوٹا دین نہ اب کسی کے کام آیا.نہ آئندہ کام آسکتا ہے وہ رات مسجد میں بسر کی (مدینہ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دفعہ نذک سے چار اونٹ اناج کے آئے.آپ نے بلال کو حکم دیا کہ اس غلہ سے جو کچھ قرضہ وغیرہ ہے.وہ ادا کر دو.چنانچہ ایک یہودی کا قرضہ ادا کیا گیا.اور جو حاجت مند تھے ان کو دیا گیا.اس کے بعد بال ہم نے عرض کیا.کہ یا رسول اللہ سب کام ہوگیا.آپ نے پوچھا کہ کچھ کے رہا یا نہیں ؟ بلال بولے.یہاں کچھ باقی ہے.فرمایا کہ جب تک کچھ بھی باقی رہے گا میں گھر میں نہیں جاسکتا.ملال تیرے یا حضرت اب کوئی سائل اور حاجت مند ہی نہیں تو میں کیا کروں ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ رات مسجد میں بسر کی.دوسرے دن جب بلال نے عرض کیا.کہ یا رسول اللہ خدا کے فضل سے وہ سب تقسیم ہو گیا.تو آپ نے اللہ کاشت کر کیا اور اللہ کو گھر میں تشریف لے گئے.
۴۹۵ تقوے (مرض الموت) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مرض الموت کے دنوں میں ایک دن مسجد میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اگہ میرے ذمہ کسی کا قرصہ آتا ہو یا کسی نے مجھ سے کسی قسم کا بدلہ لیتا ہو.تو وہ اب لے لے.میں حاضر ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اعلان سن کہ مجلس میں تانا ہو گی اور صحابہ کے کلیجے پھٹ گئے.صرف ایک شخص نے کہا کہ حضور نے مجھ سے تین درم قرض لئے تھے.چنانچہ وہ اسی وقت ادا کر دیئے گئے اپنے یہودی خادم کی بیا بر پوسی مدینہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک یہودی لڑکا تو کہ تھا اور آپ کی خدمت کیا کرتا تھا.اتفاقاً ایک دن وہ بیمار ہو گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کی بیمار پرسی کے لئے اس کے گھر تشریف لے گئے اور جاکر اس کے سرہانے بیٹھ گئے پہلے تو اس کی طبیعت کا حال پوچھا.پھر فرمایا کہ میاں اب تو تم مسلمان ہو جاؤ.اس لڑکے نے اپنے باپ کی طرف دیکھا ود بھی پاکس ہی بیٹھا تھا.باپ نے کہا کہ بیٹا ابوالقاسم کا کہنا مان لو.میری طرف سے تمہیں امانت ہے.وہ لڑکا کہنے لگا کہ یا رسول اللہ مجھے منظور ہے.اَشْهَدُ أَنْ لا إله إلا الله وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدٌ عَبْدَهُ وَرَسُولُهُ.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے مسلمان ہونے سے بہت ہی خوش ہوئے اور یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لائے.الحمد اللہ ! خدا نے اس لڑکے کو دوزخ سے بچالیا.عورت کی بے صبری (مدینہ) ایک دینی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گذرے تو دیکھا کہ قبر کے
۴۹۶ سرہانے ایک عورت بیٹی آہ و زاری اور بین کر رہی ہے.آپ نے فرمایا.کہ اسے عورت اللہ سے ڈر اور صبر کر.اس عورت نے کہا کہ اے شخص تو اپنی راہ لگ تجھ پر میرے جیسی مصیبت پڑتی تو پھر تجھے پتہ لگتا.لگا ہے مجھے نصیحت کرنے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے خاموش ہو کر چلے آئے.پیچھے لوگوں نے بتایا کہ بیوقوف یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.پریشن کہ وہ آپ کے پاس آئی اور کہنے لگی.کہ اس وقت مجھ سے غلطی ہوئی.میں نے آپ کو پہچانا نہ تھا.اب میں صبر کرتی ہوں.آپ نے فرمایا.اب یہ کہنے کا کیا فائدہ.ثواب تو اسی صبر کا ہے.جو صدمہ کے پہلے دھکے کے وقت کیا جائے.معراج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک واقعہ اپنے معراج کا ذکر صحابیہ کوخودستایا.فرمایا کہ جیب میں مکہ میں تھا.تو ایک رات میں نے دیکھا کہ میرے گھر کی چھت پھٹ گئی.اور جبرائیل علیہ السلام اس میں سے اُتر ہے.پہلے انہوں نے میرا سینہ چاک کیا.اور آب زمزم سے اُسے دھو کر صاف کیا.پھر ایک مشت سونے کا حکمت اور ایمان سے بھرا ہوا لائے.اور اسے سینہ کے اندر ڈال کر اس کو بند کر دیا.اس کے بعد جبرائیل میرا ہاتھ پکڑ کر پہلے آسمان پر لے گئے.اور اس آسمان کے داروغہ فرشتے سے کہا.کہ دروازہ کھول دے.اُس نے کہا تم کون ہو ؟ وہ ہونے میں جبرائیل ہوں پھر اس نے پوچھا کہ تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے ؟ جبرائیل نے کہا ہاں میرے ساتھ گھر ہیں.پھر اس نے کہا.کیا وہ بلائے گئے ہیں.انہوں نے کہا ہاں.اس پر اس دارفو نے دروازہ کھول دیا اور ہم اس آسمان پر چڑھے اور وہاں ایک اور شخص کو بیٹھے دیکھا جس کے دائیں طرف بھی ایک جماعت تھی.اور بائیں طرف بھی جب وہ شخص اپنی دائیں طرف دیکھتے تھے تو ہنس دیتے تھے اور بائیں طرف دیکھتے تھے تو رو دیتے تھے.انہوں نے مجھے دیکھ کر فرمایا.و خوش آمدید ، اے میرے نیک بیٹے اور نیک پغیر ور میں نے جبرائیل سے پوچھا.کہ یہ کون
ہیں.انہوں نے کہا.یہ حضرت آدم علیہ السلام ہیں.اور ان کے دائیں بائیں ان کی اولاد کی روحیں ہیں.ان میں دائیں طرف جنت والے اور بائیں طرف دوزخ والے ہیں.اس لئے وہ دائیں طرف دیکھے کہ خوش ہوتے ہیں اور بائیں طرف دیکھ کر رو دیتے ہیں.پھر جبرائیل مجھے دوسرے آسمان پہلے گئے.اور اس کے داروغہ سے کہا کہ دروازہ کھول دے.وہاں بھی سب وہی گفتگو ہوئی.جو پہلے آسان پر ہوئی تھی.پھر اس نے دروازہ کھول دیا.اس آسمان پر میں نے حضرت عیسی اور حضرت بچی کو دیکھا.انہوں نے بھی مجھے کہا کہ خوش آمدید اے نیک بھائی اور نیک سیغییر.پھر میرے آسمان پر سب رہی باتیں ہوئیں اور وہاں میں نے یوسف علیہ السلام کو پا یا ا نہوں نے بھی مجھے خوش آمدید کہا.اس طرح جو تھے آسمان پر گیا جہاں ادریس علیہ السلام کو دیکھا.انہوں نے بھی مجھے خوش آمدید کہا.پھر ہم پانچویں آسمان پر چڑھے وہاں حضرت ہارون علیہ السلام تھے.ان سے بھی وہی بات ہوئی.آگے چھٹے آسمان پر حضرت موسیٰ علیہ السلام ملے.انہوں نے بھی سلام اور خوش آمدید مجھے کہا.پھر ہم ساتویں آسمان پر گئے.وہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھا.انہوں نے فرمایا کہ خوش آمدید اے نیک پیغمبر اور اسے نیک بیٹے.پھر جبرائیل " مجھے ایسے اونچے مقام پر لے گئے جہاں مجھے قلموں کے لکھنے کی آواز میں سنائی دیتی تھیں.پھر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوا.وہاں سے میری امت پر ۵۰ نمازیں مقرر ہوئیں.اس کے بعد میں واپس ہوا.جب موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے پوچھا کہ اللہ نے آپ کی امت پر کیا فرمت کیا ہے میں نے کہا پچاس نمازیں موسیٰ نے کہا.آپ خدا کے حضور واپس جائیے اور ان کو کم کرائیے.آپ کی امت میں اس قدر عیادت کی طاقت نہیں ہوگی.اُن کے کہنے سے میں واپس ہوا.اور اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا اس نے کچھ نمازیں کم کر دیں.اور میں واپس ہوا.پھر جب میں موسلیم کے پاس سے گزرا.تو میں نے کہا.کہ خدا تعالیٰ نے کچھ نمازیں معاف کر دی ہیں.موسیٰ نے کہا کہ آپ پھر اللہ تعالیٰ کے پاس جائیے آپ کی اُمت میں اتنی بھی طاقت نہیں ہوگی.میں پھر خدا کے حضور واپس گیا اور عرض کیا.وہاں سے پھر کچھ نمازیں معاف ہو گئیں.جب میں موسیٰ کے پاس پھر آیا
۲۹۸ اور ذکر کیا.تو انہوں نے کہا کہ پھر جاؤ تمہاری امت میں اتنی بھی طاقت نہیں ہے.میں پھر اللہ تعالیٰ کے حضور گیا.اور عرض کیا.خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ چھا جاؤ گل پانچ نمازیں تم پر فرض کی جاتی ہیں.اور یہ پانچ پچاس کے ہی برا بر ہیں.میرے ہاں بات نہیں بدلی جاتی.میں یہ حکم لے کر واپس آیا.تو انہوں نے پھر مجھے واپس جانے کی صلاح دی.مگر میں نے کہا.لیس اب نہیں مجھے اپنے خدا سے زیادہ کہتے شرم آتی ہے.اس کے بعد جبرائیل مجھے سدرۃ المنتہی تک لے گئے.وہ ایک بیری کا درخت تھا جس پر طرح طرح کے رنگ چھائے ہوئے تھے اور میری سمجھ میں نہ آیا.کہ وہ کیا تھے.پھر مجھے جنت میں داخل کیا گیا.وہاں میں نے موتیوں کی لڑیاں دیکھیں اور وہاں کی مٹی دیکھی جو مشک کی طرح تھی.حضرت عائشہ فرماتی ہیں.کہ جب اللہ تعالیٰ نے نماز فرض کی تھی تو نماز کی دودو رکھتیں تھیں.سفر میں بھی اور حضر میں بھی.پھر سفر کی نمازہ تو وہی رہی.مگر حضر کی نماز میں ظہر عصر اور عشاء میں زیادتی کا حکم ہوگیا.اور درد کی جگہ چار چار رکعتیں مقر ہو گئیں.دن کو معراج کا ایک حصہ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ فرمانے لگے کہ جب قریش نے معراج کی بابت مجھے جھوٹا کہا.تومیں کعبہ کے صحن میں کھڑا ہو گیا.اور اللہ تعالیٰ نے سبیت المقدس کو میرے سامنے کر دیا.وہ لوگ مجھ سے سوال کرتے جاتے تھے اور میں ان کو وہاں کی سب نشانیاں بتاتا جاتا تھا.
۴۹۹ دوزخی مجاہد خیبر کی لڑائی میں مسلمانوں اور یہودیوں کے خوب خوب مقابلے ہوئے ایک دن جب شام ہوئی.اور دونوں شکر اپنی اپنی جگہ آرام کے لئے واپس ہوئے تو اس دن ایک مسلمان کو دیکھا گیا کہ بڑی بہادری سے لڑا.اور اس نے بڑے دشمن قتل کئے.لوگوں نے اس کی بڑی تعریف کی صبح جب آپ کے سامنے یہ ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا کہ وہ شخص تو دوزخی ہے.پریشن کہ ایک مسلمان اس شخص کے پیچھے ہو لیا.اس دن بھی اس نے خوب جنگ کی اور بہت سے لوگوں کو قتل کیا.اور خود بھی سخت زخمی ہوا.جب وہ زخموں کے درد سے بیتاب ہوا تو اس نے اپنی تلوار کا قبضہ زمین میں رکھ کر اس کی نوک اپنے پسینے نہیں رکھی اور زور سے جو اپنے تئیں دبایا تو تلوار اس کے کلیجہ میں گھس گئی اور وہ مر گیا.اس کی یہ خودکشی دیکھ کر وہ شخص جو اس کے پیچھے لگا ہوا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا.کہ آپ اللہ کے پیچھے رسول ہیں.آپ نے فرمایا کیا بات ہے.اس نے کہا کہ وہ شخص میں کو آپ نے آج ہی فرمایا تھا.که وہ دوزخی ہے.اور لوگ اس بات سے حیران ہوئے تھے.وہ واقعی دوزخی ہی نکلا.میں آج اس کے ساتھ ساتھ ہو لیا تھا.جب وہ سخت زخمی ہو گیا.تو اس نے اپنے تئیں خود ہلاک کر لیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی شخص بظا ہر جنتیوں کے سے کام کرتا ہے مگر خدا کے نزدیک وہ دوزخی ہوتا ہے.پھر آپ نے بلانے سے فرمایا کہ اسے بلال اُٹھ اور لوگوں کو پکار کریشنا دے کہ جنت میں سوائے ایمان والے شخص کے کوئی داخل نہیں ہو گا.اور بعض وقت بے ایمان آدمی سے بھی اللہ تعالیٰ اپنے دین کی مدد کرا دیا کر تا ہے.
۵۰۰ حضرت جعفرون حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ جنگ موتہ میں ہم نے حضرت جعفر کی کاش کو دیکھا.تو اس پر ۹۰ سے زیادہ نیزے اور تلوار کے زخم تھے.یہ جعفرض ابو طالب کے بیٹے اور حضرت علی رض کے بھائی تھے.(الفضل یکم جنوری ۱۹۲۹ء) واللہ ہمیں تو اپنی مُراد کو آپنچ گیا جیان نامی ایک صحابی اپنے مسلمان ہونے کا قصہ یوں بیان کرتے ہیں کہ میں نے کفر کے زمانہ میں ایک دفعہ ایک مسلمان کو نیزہ مارا.وہ نیزہ اس کے جسم کے پار ہو گیا اور دو مسلمان دہیں مر گیا.گر نیزہ کھاتے ہی مرتے ہوئے اس کے منہ سے یہ کلے نکلے.کہ کعبہ کے رب کی قسم میں تو اپنی مراد کو پہنچ گیا.پیش کر حیران ہوا، کہ یہ اس نے کیا کہا.پھر میں نے اور لوگوں سے اس کا مطلب پوچھا.اور سوال کیا.کہ ایک دن جب میں نے ایک مسلمان کو قتل کر دیا اور اس میں کامیاب ہو گیا تو مرنے والا انٹر کہنے لگا کہ کامیاب نہیں ہوا.یہ کیا بات ہے ؟ لوگوں نے مجھے بتایا.کہ اس کا مطلب یہ تھا کہ میں شہید ہو گیا اور خدا کے راستہ میں جان دینے کی سعادت مجھے مل گئی.اس سے بڑھ کر اور کی کامیابی ہے.پیشن کر میرے دل پر اس بات کا نہایت ہی گہرا اثر ہوا.اور یہی بات میرے اسلام قبول کرنے کا باعث ہوگئی.ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی تھے خزیمیا نام.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و تم کے دعوئے نبوت سے پہلے تجارت کے لئے نکلے.اور اسی قافلہ کے ساتھ مل گئے.جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت خدیبہ کا مال ہے کہ تجارت کے لئے جارہے تھے.اس سفر میں خریدی کو
۵۰۱ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات اور عادات دیکھنے کا خوب موقعہ ملا.آخر ایک دن انہوں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ اے محمد ! میں آپ میں ایسی خصلتیں دیکھتا ہوں کہ میرا خیال ہے کہ آپ ہی وہ نبی ہیں.جو عرب کی سرزمین سے پیدا ہوں گے.ہمیں آپ کی تصدیق کروں گا اور جب آپ دعونے کریں گے تو آپ کے پاس حاضر ہو جاؤں گا.یہ خز بیڈ پھر سال ہا سال آپ سے نہیں ملے.فتح مکہ کے بعد وہ مسلمان ہو کر حاضر ہوئے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دیکھے کہ 66 فرمایا ب خوش آمدید اے سب سے پہلے مہاجر ، خرید نے عرض کیا.یا رسول اللہ میں حاضر ہونے سے اس واسطے نہیں رکا کہ مجھے کوئی شبہ تھا.یا وہ بات جو میں نے آپ سے کبھی تھی.اس سے برگشتہ ہو گیا تھا.بلکہ میں تو آپ کو برابر مانتا تھا.اور قرآن پر یقین رکھتا تھا اور نیتوں کا منکر ہو گیا تھا.مگر بات یہ ہوئی کہ ہمارے ملک میں پے در پلے ایسے قحط پڑے کہ میں نکل نہ سکا.اسلام کے لئے فقیری اختیار کی دیکتا مصعب بن زبیر صحابی کا خاندان بہت امیر تھا.وہ مکہ کے رہنے والے تھے.خود وہ نہایت اعلیٰ درجہ کے کپڑے پہنا کرتے تھے اور امیرانہ زندگی بسر کرتے تھے.اسی طرح جب گھر سے باہر نکلتے تو بڑے ٹھاٹھ اور بانکپن کے ساتھ.جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی منادی کی.تو خدا نے ان پر بھی فضل کیا اور وہ مسلمان ہو گئے.ان کی ساری برادری اور قوم پھر تو ان کی دشمن ہوگئی.اور وہ سب امیری ٹھاٹھ خاک میں مل گئے.ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اس حال میں دیکھا.کہ صرف ایک پرانی چادر اُن کے بدن پر تھی.اور اس نہیں بھی کئی پیوند چھڑے کے لگے ہوئے تھے.ان کی یہ حالت دیکھ کہ آپ کو ان کا وہ زمانہ بھی یاد آگیا جب وہ امیرانہ حالت میں رہا کرتے تھے اور آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے.
۵۰۲ خدا کا عاشق ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پچھلی رات کے وقت دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جگہ سے غائب ہیں.اُٹھ کر ادھر ادھر تلاش کیا.کہیں پتہ نہ لگا.وہ باہر نکلیں اور دیکھتے دیکھتے قبرستان تک پہنچ گئیں.وہاں کیا دیکھتی ہیں کہ آپ زمین پر چادر کی طرح پڑے ہیں اور اللہ تعالے کو مخاطب کر کے یہ فرما رہے ہیں کہ سجدت لک روی وَجَنانِی الیعنی میری جان دول تیرے آگے سجدے میں گرے ہوئے ہیں حضرت عا تشرینم یہ حالت دیکھ کر مجھے پاؤں وہاں سے چلی آئیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں عشق کی حالت دیکھ کر مکہ کے کافر بھی کہا کرتے تھے کہ عشق مُحَمَّدُ رَبَّه - یعنی محمد تو اپنے خدا کے عشق میں دیوانہ ہورہا ہے.صلے اللهُ عَلَيْهِ وَ البَا وَ سَكُمْ ایه واقع حضرت مسیح موعود کی زبان سے سننے میں آیا ہے) آپ کی سخاوت اور احسان صفوان نامی ایک شخص مکہ کے شرفاء میں سے تھے.وہ فتح مکہ تک آپ کے سخت دشمن تھے.جب مکہ فتح ہو گیا.تو اس کے کچھ دن بعد وہ بھی مسلمان ہو گئے.وہ بیان کرتے ہیں کہ مسلمان ہونے کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مال دینا شروع کیا.اور اتنا دیا کہ میرے دل سے آپ کی سب دشمنی نکل گئی.پھر آپ مجھے برابر دیتے رہے یہاں تک کہ آخر میرے دل میں سب سے زیادہ آپ کی محبت ہوگئی.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھی ہے.کہ اے مسلمانو آپس میں تحفے دیتے رہا کرو.تاکہ محبت بڑھے)
تو تم بھی مجھے مارلو عبد اللہ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو حجۃ الوداع کے دن اونٹ پر سوار دیکھا.میں بڑھتا بڑھتا آپ کے پاس پہنچا.اور محبت کے مارے آپ کے پیروں سے لپٹ گیا.آپ کے ہاتھ میں اس وقت ایک کوڑا تھا.اتفا قادہ تجھے لگ گیا.میں نے عرض کیا.یا رسول اللہ.مجھے اس چوٹ کا قصاص (بدلی) ملنا چاہیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فورا وہ کوڑا دے دیا تھا اور فرمایا.کہ تو تم بھی مجھے مار لو.میں نے آپ کی پنڈلی اور قدموں کو بوسہ دیا.اور آنکھوں سے لگایا اور اس طرح سے اپنا بدلہ لے لیا.حیوانوں پر آپ کا رحم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زندہ جانور کے بدن میں سے گوشت کاٹ لیتے کو حرام فرمایا ہے.اسی طرح باندھ کر کسی جانور پر نشانہ بازی کرنے کو منع کیا ہے.اسی طرح جانوروں کو آپس میں لڑانے کو منع فرمایا ہے.نیز فرمایا ہے کہ گھوڑوں کی دم اور ایال نہ کاٹو.ایال تو ان کا لحاف ہیں.اور وم ان کا مور چھل جس سے مچھر کھی وغیرہ اڑاتے ہیں.خدا تو بہت سارے تھے.مگر دُعا پھر بھی قبول نہ ہوتی تھی حضرت عروہ صحابی نے ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا.کریا رسول اللہ ہم لوگ زمانہ جاہلیت میں کئی خداؤں کی پوجا کیا کرتے تھے.اور ان.دعا ئیں بھی مانگا کرتے تھے.مگر پھر بھی ہماری دعائیں قبول نہ ہوتی تھیں.پھر خدا نے ا پیر شتل سے حضور کو ہماری طرف بھیجا.اور ہم کو ان سب بے برکت خداؤں سے نجات دی.
۵۰۴ بادشاہ دو جہاں کا ترکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات کے وقت نہ کوئی تعر یہ چھوڑا.زہیں.نہ کوئی لونڈی نہ غلام.آپ کی ملکیت میں سے اس وقت صرف ایک سفید فیچر تھا.جو باقی رہا.یا کچھ ہتھیار.ان میں سے بھی ایک زرہ ایک یہودی کے ہاں گروی پڑی تھی.نہ بخیل نہ جھوٹا نہ بزدل منین کی جنگ سے واپسی کے وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی طرف چلے آرہے تھے کہ ایک ایک بہت سے گنوار بدوؤں نے آپ کو گھیری.اور آپ سے مانگنے لگے.یہاں تک کہ آپ کو ایک درخت کے نیچے لے گئے.اور آپ کی چادر کھینچنے لگے.آپ اس وقت سوار تھے.آپ نے اُن سے فرمایا.کہ میری چادر چھوڑ دو.کیا تم مجھے بخیل سمجھتے ہو.خدا کی قسم اگر اس جنگل کے کانٹوں کے برا یہ میرے پاس بکریاں ہوں.تو میں سب کی سب تم لوگوں کو دے دوں.اور تم مجھے جیل نہ پاؤ گے.نہ جھوٹ بولنے والا.نہ میر ول.بیٹیوں والے کو تسلی ا نام ایک انصاری آپ کے پاس ایک دفعہ حاضر ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے چہرہ پر رنج وغم کے آثار دیکھے.فرمایا یا بات ہے ؟ انہوں نے عرض کیا.یا رسول اللہ میری کئی لڑکیاں ہیں.ان کی وجہ سے میرا دل غمگین رہتا ہے.اور میں تو ان کی موت کی دعا مانگتا رہتا ہوں.آنحضرت صلی اللہ علہ وسلم نے فرمایا.اس اتم ایسی بد دعا نہ کیا کرو.دیکھو لڑکیوں میں بھی برکت ہوتی ہے.یہی لڑکیاں نعمت کے وقت شکر کرنے والی مصیبت کے وقت تمہاری ہمدردی میں رونے والی اور تمہاری بیماری کے وقت تیمارداری اور خدمت کرتے
۵۰۵ والی ہوتی ہیں.ان کا بوجھ زمین پر ہے.اور ان کی روزی اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہے.پھر تم کیوں تاجق رنج کرتے ہو.حضرت خبائی پر یکم حضرت خباب مکہ میں شروع اسلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے تھے.یہ ایک عورت کے غلام تھے.اور لوہاری کا کام کیا کرتے تھے.ان کو بھی خدا کے راستہ میں سخت سخت تکلیفیں دی جاتی تھیں.سب سے پہلے گھر سے باہر کے لوگ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے.وہ یہ ہیں یہ حضرت ابو بکردنم جاب.جیت ، بلال ، عمار عمار کی والدہ اور والد.حضرت ابو بکریم کے سوا باقی یہ لوگ یا تو غلام تھے یا پیشہ ور تھے.اور تھے بھی اونی درجے کے.اس لئے ان پر بڑے بڑے ظلم توڑے جاتے تھے.ان کو لو ہے کی زد میں پہنائی جاتی تھیں.اور چلچلاتی دھوپ میں لٹایا جاتا تھا اور ان پر پتھر رکھے جاتے.گلے میں رسیاں باندھ کر زمین پر گھسیٹا جاتا.لوہا گرم کر کے بدن کو داغ دیئے جاتے مگر یہ لوگ استقلال سے اسلام پر قائم تھے.حضرت حجاب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ ہم نے تنگ آ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی تکلیفوں کی شکایت کی.آپ کعبہ کے سایہ میں اپنی چادر پرلیٹے تھے.ہم لوگوں نے عرض کیا.یا رسول اللہ آپ ہمارے لئے خدا سے مدد کیوں نہیں مانگتے ؟ آپ یہ سی کہ اُٹھ بیٹھے.آپ کا چہرہ مبارک شرخ ہو گیا اور فرمانے لگے.تم سے پہلی امتوں میں جو ایمان والے گزر چکے ہیں.ان کی تو یہ حالت تھی.کہ ایک کو پکڑ کر زمین کھود کر آدھا گاڑ دیتے تھے.اور پھر آرہ سے اُسے لکڑی کی طرح چیر ڈالتے تھے.مگر وہ اپنے دین پر قائم رہتے تھے.اور کسی کا گوشت لوہے کی کنگھیوں سے ادھیڑا جاتا تھا.اور وہ لنگھیاں ہیں کی ہڈیوں تک پہنچ جاتی تھیں.مگر وہ اپنے دین سے نہ پھرتے تھے.یا د رکھو کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو بھی یقین غلبہ دیگا.یہاں تک کہ ایک سوار عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تنک
;" 004 چلا جائے گا.اور ایسا امن ہو گا.کہ اسے خدا کے سوا اور کسی کا خوف نہ ہو گا.اور یہ جو بھیڑیئے رانسان) تم کو نظر آتے ہیں.یہ بکریوں کی حفاظت کریں گے.مگر تم لوگ جلدی کرتے ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان جناب کی دکان پر کبھی کبھی تشریف لے جایا کرتے تھے.اور ان سے بہت محبت کیا کرتے تھے.جب خیاب کی مالکہ کو یہ خبر ملی.تو وہ لوٹا گرم کر کے ان کے سر پر رکھا کرتی.انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا حال سنایا.حضور نے دعا فرمائی کہ اے اللہ جناب کی مدد کر.اس کا نتیجہ یہ ہوا.کہ جہائے کی مالکہ کے سرمیں ایسی مرضی پیدا ہو گئی.کہ وہ کتوں کی طرح بھونکتی رہتی تھی.حکیموں نے یہ نسخہ تجو یہ کیا کہ اس کے سر پر داغ دیئے جائیں.چنانچہ جناب بھی لوہا گرم کر کے اس کے سر کو داغ دیتے رہتے تھے.یہ خدائی انتقام تھا ) حضرت عمروض نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ایک دن ان سے پوچھا کہ اے جیاب ناؤ تمہیں مکہ کے کافروں سے کیا کیا تکالیف پہنچا کرتی تھیں.جناب بولے.اسے امیر المومنین ہے میری بیٹھ دیکھ لو حضرت عمراض نے دیکھ کر کہا کہ میں نے آج تک ایسی پیٹھ کسی کی نہیں کبھی.جناب کہنے لگے کہ آگ روشن کی جاتی تھی.اور اس مکتی آگ پر دہ لوگ مجھے لٹا دیتے تھے.اور پکڑ کر دبائے رکھتے تھے.یہاں تک کہ میری چربی پگھل کہ آگ کو بجھا دیتی تھی.راب اے پڑھنے والے یہ حال سن کر پیچ پنچے بتاتا کہ لوگ جو اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام زیر دستی اور تلوار کے زور سے پھیلا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو جبر یہ مسلمان بناتے تھے آیا یہ اعترین ٹھیک ہے ؟ تم فوراً بول اٹھو گے کہ ہر گز نہیں.حقیقت ہی ہے.کہ جو شخص بھی مسلمان ہوتا تھا وہ اپنے دل کی محبت اور خدا پر ایمان لاکر مسلمان ہوتا تھا.کیا جائے جیسے لوگ زیر دستی مسلمان کئے جاسکتے تھے ؟)
گھر کے کام کاج سے عار نہ تھی ایک دفعہ بعض لوگوں نے حضرت عائشہ سے سوال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ ہلم گھر میں کیا کیا کرتے تھے.ان کا شائد خیال ہو گا.کہ گھر میں نقل ہی پڑھتے رہتے ہوں گے حضرت ما نشر نہ بولیں.کہ گھر کا کام کاج کیا کرتے تھے.اور کیا کرتے تھے (کپڑوں میں پیوند لگاتے تھے.گھر میں جھاڑو دے لیتے تھے.دودھ دوھ لیا کرتے تھے.بازار سے سودا سلف خرید کر لاتے تھے.جوتی پھٹ جاتی تو خود ہی گانٹھیا کر تے تھے.ڈول کو سی لیا کرتے تھے.اُونٹ کو باندھنا چارہ دینا.آٹا تیک گوندھ لینا.غرض سب کام گھر کے کہ لیا کرتے تھے.اس کے علاوہ گھر میں عورتوں کو وعظ ونصیحت بیویوں کی دلداری.سوال کرنے والیوں کو مسئلے بتانا اور صدقہ خیرات وغیرہ کرنا.یہ سب کچھ موا کرتا تھا.) اپنی ذات کے لئے کبھی بدلہ نہیں لیا حضرت عائشہ فرماتی ہیں.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی عمر بھر اپنے نفس کی خاطر کسی سے بدلہ نہیں لیا.ہاں کوئی سزا کسی شریعیت کے جرم کی ہوتی تھی تودہ ودیا کر تے تھے كَانَ خُلُقُهُ الْقُران حضرت عائشہ سے بعض لوگوں نے سوال کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا حال بتائیے.حضرت عائشہ نہ بولیں کہ میں آنا یاد رکھو کہ آپ کا خلق قرآن تھا الینی جو باتیں قرآن میں منع ہیں.وہ آپ میں نہ تھیں اور جن کا حکم ہے وہ سب آپ کیا کرتے تھے.
۵۰۸ آپ کی وعدہ وفائی ایک صحابی (عبد اللہ بن ابی الحماء) بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے دعویٰ نبوت سے پہلے ایک معاملہ خرید و فروخت کا کیا.اس دوران میں ہیں نے کہا کہ اسے محمد آپ یہیں ٹھہریئے میں ابھی آتا ہوں.آپ نے فرمایا اچھا مگر نہیں وہاں سے چا کہ اس وعدہ کو بھول گیا.پھر تین دن کے بعد وہاں آیا.تو آپ کو اس جگہ موجود پایا.آپ نے مجھ پر کچھ اظہار فقہ یا ناراضگی کا نہ فرمایا.صرف اتنا کہا.کہ اسے جوان تم نے مجھے تکلیف دی میں اس جگہ تین دن سے تمہارا انتظار کر رہا ہوں.ستر پوشی عرب کے لوگ زمانہ جاہلیت میں جنگل میں قضائے حاجت کے لئے جایا کرتے تھے.اور وہاں مل مل کر پاس پاس بیٹھ جایا کرتے تھے.ایک دوسرے کے سامنے ننگا ہوتا کوئی عیب نہ تھا.اور سارے جہان کی باتیں وہاں بیٹھ کر کیا کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رواج کو بھی بند کیا.اور فرمایا کہ خدا تعالیٰ اس بات سے ناراض ہوتا ہے.سخت مصیبت کے وقت عہد کی پابندی ہجرت کے ایک سال کے بعد ابو حذیفہ اور ایو حسل و مسلمان مکہ سے مدینہ کی طرف آنے لگے.قریش نے ان کو روکا.مگر انہوں نے جانے پر اصرارہ کیا.آخر ان کو اس اقرار پھر جانے دیا.کہ جنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہ دیں.جب یہ لوگ روانہ ہو کہ بید کے مقام پر پہنچے.تو وہاں دونوں شکر آمنے سامنے پڑے تھے اور لڑائی تیار تھی.انہوں نے اپنا حال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو منایا.آپ نے فرمایا کہ حبیب تم عہد کر کے آئے ہو.تو
۵۰۹ بہر حال اپنا عہد پورا کر و.ہم لوگ عہد شکنی نہیں ہیں.باقی رہا مدد کا سوال.سو ہم کو خدا کی مدد کافی ہے.چنانچہ یہ دونوں صحابی لڑائی میں شریک نہیں ہوئے.حالانکہ موقعہ ایسا نازک تھا.کہ دنیا کے لوگ سارے عہد و پیمان ایسے اوقات میں بالائے طاق رکھ دیتے ہیں.بہادری کا باپ (بدر) حضرت زبیر صحابی کہتے ہیں.کہ بدر کے دن کا فروں میں ایک بہادر سردار تھا.اس کا نام بعیدہ تھا.وہ سر سے پیر تک لوہے میں غرق تھا.صرف آنکھوں کے سوراخ کھلے تھے.وہ میدان میں آکر للکارا.اور کہا ہے کوئی جو میرے مقابلہ کو نکلے.میں بہادری کا باپ ہوں.لابوذات الکرش) حضرت زبیر یہ کہتے ہیں ہیں اس کے مقابلہ کو نکلا.احساس پر نیزہ کا دار کیا.اور ایسا تاک کر اس کی آنکھ میں نیزہ مارا.کہ دماغ میں گھس گیا اور وہ کم بخت اُسی وقت گر کر مر گیا.مگر میر انیزہ اس کے سرمیں ایسا پھنسا کہ میں نے بڑی مشکل سے ہلا ہلا کر اسے نکالا اور نیزہ دونوں طرف سے ٹیڑھا ہو گیا پھر یہ نیزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر سے مانگ لیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بطور یادگار سب خلفاء کے پاس رہا.مطعم بن عدی کی شکر گذاری انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق ایک دن فرمایا.اگر آج مسلم بن عدی زندہ ہوتا.اور ان کم بختوں کی سفارش کرتا.تو میں اس کے کہنے سے سب کو چھوڑ دیتا.ا یہ مطعم وہ شخص تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو طائف سے واپسی کے وقت اپنی پناہ میں مکہ کے اندر لایا تھا) الفضل ۸ جنوری ۱۹۲۹ء)
۵۱۰ بنو قریظہ کی ناشکری جب بنو نضیر اور بنو قریظہ یہودیوں نے آپ کے بر خلاف سازش اور جنگ کی تو بنو نظیر تو شکست کھا کر جلاوطن ہو گئے مگر بنو قریضیہ وہیں رہے.اور آپ نے اُن پر یہ احسان کیا کہ بنو نضیر کی زمینیں بھی ان کو دے دیں.مگر خندق کی لڑائی کے وقت ان بد بختوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بر خلاف شرارتیں کہیں.اور جنگ کی تیاری کی.اس پر آپ نے مجبور ان سے لڑائی کی.اور ان کوشکست دی.پھر ان کے اپنے فیصلہ کے مطابق ان کے سپاہی مارے گئے.اور مال اسباب عورتیں بچے مسلمانوں کے قبضہ میں آئے.ان لوگوں میں جو لوگ مسلمان ہو گئے تھے.ان کو آپ نے امن دے دیا.پھر مدینہ کے باقی سب یہود کو بھی آپ نے ان کی با سیار کی شرارتوں کی وجہ سے وہاں سے جلا وطن کر دیا.اور وہ خیبر کی طرف چلے گئے.نجران کے عیسائیوں کا قصہ انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عاقب اور سید نجران کے عیسائیوں کے سردار حاضر ہوئے.پہلے ان کا ارادہ ہوا.کہ آپ اور وہ لوگ ایک دوسرے کے لئے بد دعا کریں.کہ جو جھوٹا ہو وہ ہلاک ہو جائے.مگر ایک ان میں سے کہنے لگا کہ بھائی اگر یہ شخص سچائی ہے اور ہم نے اس سے مباہلہ کیا.تو ہم اور ہماری اولاد سب تباہ ہو جائیں گے.پھر ان دونوں نے صلاح کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ ہم لوگ آپ کے فرمانے کے مطابق جزیہ ادا کرتے رہیں گے.ہم مباہلہ نہیں کرتے.آپ ہمارے ساتھ کسی امانت دار شخص کو بھیجے ہیں.آپ نے فرمایا.ہاں میں تمہارے ساتھ نہایت امانت دار آدمی کو کہ دوں گا.یہ کہہ کہ آپ نے فرمایا کہ اسے ابو عبیدہ بن جراح اٹھو اور ان کے ساتھ جاؤ.
ااه حجۃ الوداع کا خطبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع میں یہ خطبہ پڑھا کہ زمانہ پھر اپنی اصلی حالت پر آگیا ہے (یعنی مشرک جو مینے آگے پیچھے کر لیتے تھے اور سال کا حساب غلط کر دیتے تھے.وہ بات اب موقوف کی جاتی ہے) سال کے بارہ مہینے ہیں.اور ان میں چار مہینے حرمت والے ہیں.جن میں جنگ وغیرہ کر نی حرام ہے.ان چار مہینوں میں تین تونگا تار ہیں.یعنی ذیقعدہ ذوالحجہ اور محرم اور جو تھا رجب ہے.پھر آپ نے فرمایا.یہ کونسا مہینہ ہے.ہم نے عرض کیا.کہ اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں.آپ کچھ دیر خاموش ہو گئے جس سے ہم نے خیال کیا.کہ اب اس کا نام بدل کر کوئی اور نام رکھیں گے پھر آپ نے فرمایا.کیا اس شہر کا نام تک نہیں ہے.ہم نے عرض کیا.کہ بیشک یہی ہے.پھر آپ نے فرمایا.کہ یہ کون سا دن ہے.ہم نے عرض کیا.کہ اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتے ہیں.آپ خاموش ہو گئے.یہاں تک کہ ہم نے خیال کیا.کہ آپ اس کا کوئی اور نام تجویز کریں گئے.پھر آپ نے فرمایا.کیا یہ قربانی والا حل نہیں ہے ؟ ہم نے عرض کیا ہاں یا رسول الله تو آپؐ نے فرمایا کہ سن لو تمہارے خون اور مال اور عزت ایک دوسرے پر ایسے ہی حرام ہیں جیسے کہ اس دن کی حرمت اس شہر اور اس مہینے میں اور دیکھو تم سب اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے.اور وہ تم سے تمہارے عملوں کی باز پرس کرے گا.کہیں ایسا نہ کرتا کہ ایک دوسرے کی گردن مار کر گمراہ ہو جاؤ سن لو جو لوگ یہاں موجود ہیں.وہ اس بات کو ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاں موجود نہیں ہیں.کیونکہ بعض دفعہ سننے والے کی نیست و شخص بات کو زیادہ سمجھتا ہے جسے بعد میں خبر پہنچے.
۵۱۲ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب نامہ حضرت اسمعیل علیہ السلام کی اولاد میں ایک شخص عدنان گذرے ہیں.ان سے معد پیدا ہوئے.اور معد سے نزار اور نزار سے الیاس اور الیاس سے بدر کہ اور بدر کہ سے فریہ اور خزیمہ سے کنانہ اور کنانہ سے نظر اور نظر سے مالک اور مالک سے فہرتا اور نہر ا سے غالب اور غالب سے موسی ملا اور لوی سے کوے اور کتب سے عمرہ اور مرہ سے کلائی اور کلاب سے تھی اور قصی سے عبد مناف اور مناف سے ہاشم.ان ہاشم کے بیٹے عبدالمطلب تھے.اور عبد المطلب کے بیٹے عبداللہ تھے.اور عبد اللہ کے بیٹے محمد تھے (صلی اللہ علیہ وسلم) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چالیس سال کی عمر میں پہلے پہل وحی نازل ہوئی.اس کے بعد آپ ۱۳ برس تک مکہ میں رہے پھر آپ نے ہجرت کی.ہجرت کے بعد آپ مدینہ میں دس پرس زندہ رہے اور وفات کے وقت آپ کی عمر ۳ ۶ سال کی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا گلا گھوٹنا (مکہ) لوگوں نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ میں سب سے بڑی تکلیف کیا پہنچی تھی.انہوں نے بیان کیا.کہ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کعبہ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ عقبہ نے آکر اپنی چادر آپ کے گلے میں ڈال دی پھر اُسے مروڑ نا شروع کیا.یہاں تک کہ وہ چادر آپ کے گلے میں پھانسی کی طرح ہو گئی.وہ ظالم
۵۱۳ اُسے اور چکر دیتا رہا.یہاں تک کہ آپ کا دم بند ہو گیا.اور قریب تھا کہ آپ مر جائیں.حضرت ابو بکرام بھی اس وقت وہاں تھے.انہوں نے اس کم بخت کے ہاتھ پکڑ لئے.اور مشکل آپ کو چھڑایا.اور قرآن کی یہ آیت پڑھی.کیا تم اس شخص کو صرف اس تصور پر قتل کرتے ہو کہ وہ صرف اللہ کو اپنا پر ور دگار کہتا ہے.(اتقتلون رجلا ان يقول ربي الله) جناب ابوطالب کو امداد کا ثواب ایک دفعہ حضرت عباس نی آپ کے چاہنے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا که یارسول اللہ کیا آپ کی وجہ سے آپ کے چا ابو طالب کو بھی کوئی خواب ہوگا.کیونکہ وہ آپ کی حمایت کیا کرتے تھے.اور آپؐ کی خاطر لوگوں سے مقابلہ کیا کرتے تھے.آپ نے فرمایا ہاں ان پر اتنی تھوڑی تکلیف ہے کہ جہنم کا عذاب صرف ان کے ٹخنوں تک ہے.اگر وہ میری امداد نہ کرتے تو مندر کے سب سے پہلے درجہ میں ہوتے، مگر جہنم کی آگ ٹھنے بیک کی بھی ایسی سخت ہوگی.کہ اس کی گرمی سے ان کا دماغ کھولنے لگے گا.ابوجہل کا تکبر بعد کے دن فتح کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی جاکر اور جہل کا حال تو دیکھو.اس پر ابن مسعودونو اس کی تلاش میں نکلے دیکھا کہ اسے معاذ اور معوذ نے قتل کر دیا تھا.مگر ابھی ذرا سادم با تی تھا.ابن مسعودوں نے اس سے کہا کہ کیوں جناب آپ ہی ابو جہل ہیں تا.اس نے کہا ہاں.اس پر ابن مسعود نے اس کی ڈاڑھی پکڑ لی وہ بولا کیا آج مجھ سے بھی بیٹا کوئی آدمی مارا گیا ہے ؟ ابن مسعود اس کی گردن کاٹنے لگے.تو کم بخت بولا کہ لمبی گردن رکھ کر سر کاٹنا تا کہ لوگوں کو معلوم ہو.کہ میں سب کا سردار ہوں.ابن مسعود نے کہا کہ تیری یہ حسرت بھی
۵۱۴ پوری نہ ہو گی.چنانچہ انہوں نے سر کو اس طرح کا ٹا کہ گردن بالکل اس کے ساتھ نہ تھی اور اسے لا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈال دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اس امت کا فرعون تھا.(بلکہ فرعون سے بدرجہا زیادہ شقی.کیونکہ فرعون تو جب ڈوبنے لگا تو اس کا نمبر سب ہوا ہو گیا.اور وہ کہنے لگا.کہ میں موسی کے رب پر ایمان لایا.مگر یہ ابو جہل مرتے مرتے بھی تکبر کے مارے کہتا تھا.کہ ذرالمبی گردن رکھ کے کاٹنا.فرعون تو دریا میں غرق ہوا.مگر ابو جہل بدر کے کنویں میں غرق کیا گیا).بدر کے بعد کفار کے مردوں کو خطاب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدر میں تھے کے بعد تین دن تک ٹھہرے تین دن کے بعد آپ سوار ہوئے اور اس کنویں کے کنارے پر تشریف لائے.جہاں کفار کی لاشوں کو ڈلوا دیا تھا.وہاں کھڑے ہو کر آپ نے نام نام ایک ایک سردار کو پکارا.اور کہا کہ کیا تمہیں یہ آسان نہ تھا.کہ تم اللہ اور اس کے رسول کی بات مان لیتے ہم سے تو جو وعدہ ہمارے رب نے کیا تھا.وہ سینچا ہو گیا.کیا تم نے بھی آگے جا کہ اپنے رب کا وعدہ سچا پا با حضرت عمریض نے عرض کیا.یارسول الله کیا یہ مُردے سنتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ خدا گواہ ہے یہ مردے اس وقت زندوں سے زیادہ میری بات سن رہے ہیں.جنگ بعد میں جو صحابہ شریک ہوئے.ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے زیادہ فضیلت والا فرمایا ہے.بلکہ یہاں تک کہا کہ اللہ تعالی نے ان لوگوں کے بارہ میں فرمایا ہے کہ اسے اہل بدر اب جو چاہو کرو.میں نے تمہیں بخش دیا.جو مسلمان بدر میں شریک ہوئے تھے ان کو بدری کہتے ہیں.
۵۱۵ آنحضرت صلی اللہ علیہ وستم کا ایک عبرتناک خواب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ صبح کی نماز پڑھ کر جانماز پر ہی سور نی نکلتے تک بیٹھے رہتے کبھی تو حاضرین اپنے حالات اور جاہلیت کے زماز کی باتیں سناتے اور کبھی انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود لوگوں سے پوچھا کرتے کہ اگر تم میں سے کسی نے کوئی خواب دیکھا ہے.تو بیان کرے.اس پر اگر کسی نے کوئی خواب دیکھا ہوتا.تو وہ آپ کو سناتا.اور آپ اس کی تعبیر فرماتے.ایک دن آپ نے اسی طرح پوچھا.صحابہ نے عرض کیا.کہ آج ہم نے کوئی خواب نہیں دیکھا.آپؐ نے فرمایا آج میں نے ایک عجیب خواب دیکھا ہے.وہ یہ کہ میرے پاس دو آدمی آئے اور مجھے ایک جگہ لے گئے.وہاں میں نے دیکھا کہ ایک شخص بیٹھا ہے اور دوسرا کھڑا ہے.جو کھڑا ہے.اس کے ہاتھ میں لوہے کی ایک میچ ہے.وہ اس سیخ کو بیٹھے ہوئے آدمی کے جبڑے میں اس زور سے گھسیڑ تا ہے کہ اس کی گدی تک پہنچ جاتی ہے.پھر نکال کر دوسرے جڑے کی طرف ہی عمل کرتا ہے.اور برابر اسی طرح عذاب دیئے جاتا ہے.کہیں نے پوچھا.یہ کیا ہے.تو ان دونوں نے بیان کیا.کہ یہ ایسا آدمی ہے جو جھوٹی باتیں مشہور کیا کرتا تھا.اور ہوتے ہوتے اس کی باتیں دنیا بھر میں مشہور ہو جاتی تھیں اور یہ اس کی سزا ہے.پھر تم آگے چلے تو دیکھا کہ ایک شخص چت لیٹا ہے اور ایک دوسرا آدمی اس کے سرہانے پتھر لئے کھڑا ہے.اور دور سے اس کے سر پر پھر مارتا ہے.جب پتھر لڑک کمر پر سے جا پڑتا ہے.تو وہ مارنے والا پھر اسے اٹھا کر لاتا ہے.اور جب تک وہ آئے اس شخص کے سر کا زخم اچھا ہو جاتا ہے.واپس آکر پھر وہ اسی طرح سر پر پتھر مارتا ہے.غرض اسی طرح ہوتا رہتا ہے.میں نے پوچھا.کہ یہ کیا ہے.تو میرے ساتھیوں نے کہا کہ یہ در شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کا علم دیا تھا.مگر یہ نہ رات کو قرآن پڑھتا.نہ دن کو اس پر عمل کرتا تھا.اب اس کو برا یہ ہی سزا ہوتی رہے گی.
۵۱۶ پھر ہم آگے چلے.تو ایک غار دیکھا.جس کا منہ تنگ تھا.مگر اندر اس کے بہت جگہ تھی.اس میں آگ جل رہی تھی اور اس آگ میں ننگے مرد اور ننگی عورتیں جل رہی تھیں جیب آگ زور سے بھڑکتی.تو وہ لوگ اس کے شعلوں کے ساتھ اُچھلتے تھے.میں نے پوچھا.یہ کون لوگ ہیں تو مجھے بتایا گیا کہ یہ بد کار لوگ ہیں.پھر ہم آگے چلے.تو دیکھا کہ ایک خون کی نہر ہے.میں کے بیچ میں ایک آدمی کھڑا ہے اور ایک آدمی اس کے کنارے پر کھڑا ہے کنارے والے آدمی کے پاس بہت سے پتھر رکھے تھے.جب اندر والا آدمی باہر نکلنا چاہتا تو باہر والا پتھر کھینچ کر اس کے منہ پر مارتا جس سے وہ پھر بیچ میں جا پڑتا ہے میں نے پوچھا.یہ کیا ہے.جواب ملا کہ یہ سود کھانے والا شخص ہے.پھر ہم آگے گئے.تو ایک نہایت سرسبز باغ میں پہنچے.اس میں ایک بڑا بھاری درخت تھا.اور اس درخت کی جڑ میں ایک بزرگ بیٹھے تھے.ان کے گرد بہت سے بچے بھی تھے.اور درخت کے پاس ہی بیٹھا ہوا ایک اور شخص آگ دہک رہا تھا.میں نے پوچھا کہ یہ کون ہیں.جواب ملا کہ یہ بزرگ حضرت ابراہیم ہیں.اور بچے جوان کے گرد ہیں.یہ وہ بچے ہیں جو چھوٹی عمر میں معصوم مر گئے ہیں.اور یہ شخص جو اگ درکا رہا ہے.یہ دوزخ کا داروغہ مالک نام ہے.پھر میرے دونوں رفیق مجھے ایک درخت پر چڑھا لے گئے.اوپر جا کر میں نے ایک گھر دیکھا.وہ مجھے اندر لے گئے وہاں بہت سے جوان مرد اور عورتیں اور بچے تھے.پھر اس گھر سے نکل کر مجھے درخت کی دوسری شاخ پر لے گئے.وہاں بھی ایک گھر تھا.اور بہت شاندار اور خوبصورت تھا.اور اس میں بہت سے بڑھے اور جوان تھے میں نے پوچھا یہ گھر کیسے ہیں.میرے ساتھیوں نے کہا کہ پہلا گھر تو مام جنتیوں کا ہے.اور دوسرا شہیدوں کا.پھر میں نے پوچھا کہ تم دونوں شخص کون ہو.انہوں نے کہا کہ ہم جبرائیل اور میکائیل ہیں.اور انہوں نے مجھے کہا.کہ ذرا اپنا سر اٹھا کر دیکھئے تو میں نے دیکھا کہ بادل کی طرح اوپر کوئی چیز ہے میں نے کہا کہ یہ کیا.انہوں نے کہا.کہ یہ آپ کا گھر ہے.میں نے کہا ذرا مجھے اس
۵۱۷ میں لے چلو.انہوں نے کہا ابھی آپ کی زندگی کچھ باقی ہے.اگر باقی نہ ہوتی تو آپ اسے دیکھ لیتے.ایک پہیلی (مدین) ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ درختوں میں ایک ایسا درخت ہے جس کے پتے نہیں کرتے.اور وہ مومن سے مشابہ ہے.بتاؤ وہ کون سا درخت ہے.تو حاضرین مختلف جنگلی درختوں کے نام لینے لگے.آخر نہ بتا سکے تو عرض کیا.یا رسول اللہ آپ ہی بتا دیجئے.آپ نے فرمایا.وہ کجھور کا درخت ہے.حضرت عمراض کے لڑکے عبداللہ بھی اسی جینس میں تھے.انہوں نے گھر میں آکر اپنے والد سے کہا.کہ میرے دل میں بھی کھجور کا وخت ہی تھا.مگر بڑے بڑے آدمیوں کی شرم کی وجہ سے میں بول نہ ہو سکا.حضرت عمر رض نے فرمایا.بیٹا اگر تم اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہیلی بوجھو دیتے تو مجھے بہت ہی خوشی ہوتی.بچوں سے مذاق ایک صحابی کہتے ہیں کہ مجھے خوب یاد ہے.جب میری عمرہ برس کی تھی تو میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے گیا.آپ اس وقت ایک ڈول میں سے پانی پی رہے تھے.پانی پی کر آپ نے ایک گھلی بھیر کر منی سے میرے منہ پر ماری.بچوں کے کام کی باتیں ایک دفعہ ابن مسعودؓو صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا عمل سب سے زیادہ اچھا ہے.آپ نے فرمایا.وہ نماز جو وقت پر ڑھی جائے ، انہوں نے عرض کیا.اس کے دوسرے درجہ پر فرمایا کہ ماں باپ کی فرما بودازی
۵۱۸ صفائی پسندی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے.کہ ہر شخص جمعہ کے دن نہائے مسواک کرے.صاف کپڑے پہنے ، خوشبو لگائے.پھر مسجد میں جمعہ کی نماز کے لئے جائے.کیا میں اپنے خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں مغیرہ صحابی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تہجد کی نماز میں اتنی اتنی دیر تک عبادت کرتے رہتے تھے کہ آپ کے پیر کھڑے کھڑے سوج جایا کرتے تھے.جب رگ عرض کرتے کہ حضور اتنی تکلیف نہ اٹھائیں.اللہ تعالیٰ نے تو آپ کو بخش دیا ہے یہ سن کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے.تو کیا میں اپنے خدا کا شکر گزار بندہ بھی نہ ہوں ؟ مشرم و حیا ایمان کی نشانی ہے ایک وفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں جارہے تھے کہ آپ نے دیکھا ایک النصاری اپنے چھوٹے بھائی پر خفا ہورہا تھا اور کہہ رہا تھا.کہ بھلے مانس تو اتنی شرم کیوں کرتا ہے.آپ نے فرمایا.یہ کیوں کہتے ہو شرم و یا تو بہت اچھی چیز ہے.بلکہ ایمان کی نشانی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہادت کا شوق ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے سامنے بیان کیا.کہ میرا دل توہی چاہتا ہے کہ خدا کے راستے میں مارا جاؤں.پھر زندہ کیا جاؤں.پھر مارا جاؤں.عرض اسی طرح ہمیشہ قربان ہوتا رہوں.(روز نامه الفضل ۲۲ جنوری ۱۹۲۹)
۵۱۹ صحابیہ کی رائے آپ کے جمال کی بابت برائو ، کہتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم سے زیادہ کوئی حسین جیل نہیں دیکھا.الدوسری یہ کہتے ہیں.ہمیں نے ساری عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت کوئی شخص نہیں دیکھا.آپ کا چہرہ سورج کی طرح نورانی تھا.اور جب آپ نے تو دیوار پر چک معلوم ہوتی تھی.جائز کہتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک چاند کی طرح نورانی تھا.آپ جس گلی کوچہ سے نکل جاتے تھے.وہ معطر ہو جاتا تھا.ام معید اور صحابہ کہتی ہیں کہ آپ غور سے دیکھنے میں سب سے زیادہ خوش اندام معلوم ہوتے اور پاس سے دیکھنے میں سب سے زیادہ حسین.حضرت علی - فرماتے ہیں.جو آپ کو پہلے پہل دیکھتا.تو مرعوب ہو جاتا.اور جو ملتا جلتا رہتا.وہ آپ سے محبت کرنے لگتا.میں نے نہ آپ کی زندگی میں اور نہ آپ کے بعد کسی کو ایسا حسین وجمیل دیکھا.انس بیان کرتے ہیں.کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن کی خوشبو سے زیادہ نہ کسی شک میں خوشبو پائی نہ منیر ہیں.نہ کسی اور چیز ہیں.اگر آپ کسی سے مصافحہ کرتے تو تمام دن اس شخص کو آپ کے مصافحہ کی خوشبو آتی رہتی اور اگر کسی بچے کے سر پر ہاتھ پھیر دیتے تو خوشبو کے سبب وہ اور لڑکوں میں پہچانا جاتا.غرض حسن و جمال کا یہ عالم تھا کہ خود بھی جب کبھی آئینہ دیکھتے تو فرمایا کرتے تھے.اللهم كما احسنت خلقى فاحس خلفی.یعنی اے اللہ جس طرح تو نے مجھے جسمانی طور پرچین بنایا.اسی طرح تو میرے اخلاق بھی نہایت پسندیدہ بنا دے.صلى الله عليه واله وسلم
۵۲۰
۵۲۰ باب ششم حضرت مسیح موعود فتيح آپ پر سلامتی ہو) و خاندان
۵۲۲ LG LG EG EGES تیرے انوار سے روشن جہاں ہے تھرے انوار سے روشن جہاں ہے تیرا فیضان بحر بیکراں ہے تیری تعلیم کی حکمت یہاں ہے تری تبیلیغ مشہورِ زماں ہے ترا روضہ ہے یا باغ جناں ہے تیرا مرکز ہے یا دارالاماں ہے تری اولاد رحمت کا نشاں ہے کوئی ساقی کوئی پیر مغاں ہے تیرا مداح خلاق جہاں ہے کہ تو اسلام کی روح و رواں ہے ہر اک جانب یہی شور و فعال ہے خبرے اے سیما تو کہاں ہے تجھے حق نے عطا کی کھرانی بنی جاتی ہے دنیا قادیانی اُٹھا.لے کر محمد کے علم کو کلام اللہ کی شان اتم کو کر دلائل سے.دعا سے معجزوں سے ہلا ڈالا عرب کو اور جسم کو قلم کر دیں حریفوں کی زبانیں چلایا تو نے جب سیف قلم اثر کیسا تھا تیرنے میتھل میں گئے دشمن سبھی ملک عدم کو ہزاروں رحمتیں تجھ پر خدا کی نشاں کیا کیا دکھائے تو نے ہم کو ترے صدقے امام آسمانی غلام احمد نبی قادیانی (نجار دل ۱۳۳)
۵۲۳ شمائل حضرت مسیح موعود احمدی تو خدا کے فضل سے ہندوستان کے ہر گوشہ میں موجود ہیں بلکہ غیر ممالک میں بھی گھر احمد کے دیکھنے والے اور نہ دیکھنے والے احمدیوں میں بھی ایک فرق ہے.دیکھنے والوں کے دل میں ایک سرور اور لذت اس کے دیدار اور محبت کی اب تک ہاتی ہے.نہ دیکھنے والے بار ہا تاسف کرتے پائے گئے کہ ہم نے جلدی کیوں نہ کی اور کیوں نہ اس محبوب کا اصلی چہرہ اس کی زندگی میں دیکھ لیا.تصویر اور اصل میں بہت فرق ہے.اور وہ فرق بھی وہی جانتے ہیں جنہوں نے اصل کو دیکھا.میرا دل چاہتا ہے احمد ر آپ پر سلامتی ہو ) کے حلیہ اور عادات پر کچھ تحریہ کر دوں.شائد ہمارے وہ دوست جنہوں نے اس ذات با برکات کو نہیں دیکھا خط اُٹھا دیں.حلیہ مبارک بجائے اس کے کہ میں آپ کا حلیہ بیان کروں اور ہر چیز پر خود کوئی نوٹ دوں یہ بہتر ہے کہ میں سرسری طور پر اس کا ذکر کرتا جاؤں اور نتیجہ پڑھنے والے کی اپنی رائے پر چھوڑ دوں آپ کے تمام حلیہ کا خلاصہ ایک فقرہ میں یہ ہو سکتا ہے کہ آپ مردانہ حسن کے اعلیٰ نمونہ تھے ؟ مگر یہ فقرہ بالکل نا مکمل رہے گا اگر اس کے ساتھ دوسرا یہ نہ ہو کہ یہ حسنِ انسانی ایک روحانی چمک دمک اور انوار اپنے ساتھ لئے ہوئے تھا "
۵۲۴ اور جس طرح آپ جمالی رنگ میں اس امت کے لئے مبعوث ہوئے تھے اسی طرح آپ کا جمال بھی خدا کی قدرت کا نمونہ تھا اور دیکھنے والے کے دل کو اپنی طرف کھینچتا تھا.آپ کے چہرہ پر نورانیت کے ساتھ رعونت ہیبت اور استکبار نہ تھے.بلکہ قرنتی، خاکساری اور محبت کی آمیریش موجود تھی چنانچہ ایک دفعہ کا واقعہ میں بیان کرتا ہوں کہ حضرت اقدس چولہ صاحب کو دیکھنے ڈیرہ یا با ناتک تشریف لے گئے تو وہاں پہنچ کہ ایک درخت کے نیچے سایہ میں کپڑا بچھا دیا گیا اور سب لوگ بیٹھ گئے.اس پاس کے دیہات اور خاص قصبہ کے لوگوں نے حضرت صاحب کی آمدن کہ ملاقات اور مصافحہ کے لئے آنا شروع کیا.اور جو شخص آتا مولوی سید محمد احسن صاحب کی طرف آتا اور ان کو حضرت اقدس سمجھ کر مصافحہ کر کے بیٹھ جاتا.غرض کچھ دیر تک لوگوں پر یہ امر نہ کھلا.جب تک خود مولوی صاحب مو صورت نے اشارہ سے اور یہ کہہ کر لوگوں کو ادھر متوجہ نہ کیا." حضرت صاحب یہ ہیں.بعینہ ایسا واقعہ بحرت کے وقت بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ میں پیش آیا تھا.وہاں بھی حضرت ابو بکر صدیق ر کو رسول خدا سمجھ کر مصافحہ کرتے رہے جب تک کہ انہوں نے آپ پر چادر سے سایہ کر کے لوگوں کو ان کی غلطی سے آگاہ نہ کر دیا.جسم اور قد آپ کا جسم دبلا نہ تھا.نہ آپ بہت موٹے تھے.البتہ آپ دوسرے جسم کے تھے.قد متوسط تھا.اگر چہ تایا نہیں کیا مگر اندازاً پانچ فٹ آٹھ انچ کے قریب ہوگا.کندھے اور چھاتی کشادہ اور آخر عمر تک سیدھے رہے نہ کر مجھکی نہ کندھے تمام جسم کے اعضاء میں تناسب تھا.یہ نہیں کہ ہاتھ بے حد لیے ہوں یا ٹانگیں یا پیٹ اندانہ سے زیادہ نکلا ہوا قرض کسی قسم کی بد صورتی آپ کے جسم میں نہ تھی.جلد آپ کی متوسط درجہ کی تھی نہ سخت نہ گھروری باور نہ ایسی علائم جیسی عورتوں کی ہوتی ہے.آپ کا جسم پلیسلا اور نرم نہ تھا بلکہ مضبوط اور
۵۲۵ جوانی کی سی سختی لئے ہوئے.آخر عمر میں آپ کی کھال کہیں سے بھی نہیں سکی نہ آپ کے حسیم پر جھریاں پڑیں.آپ کا رنگ زنگم چو گندم است و بمو فرق بین است زان سال که آمدست در اخبار سرورم آپ کا رنگ گندمی اور نہایت اعلیٰ درجہ کا گندمی تھا.یعنی اس میں ایک نورانیت اور سُرخی جھلک مارتی تھی.اور یہ چمک جو آپ کے چہرہ کے ساتھ وابستہ تھی عارضی نہ تھی بلکہ دائمی کبھی کسی صدمہ رنج انہلا مقدمات اور مصائب کے وقت آپ کا رنگ زرد ہوتے نہیں دیکھا گیا اور ہمیشہ چہرہ مبارک کندن کی طرح دیکتا رہتا تھا.کسی مصیبت اور تکلیف نے اس جنگ کو دور نہیں کیا.علاوہ اس چمک اور نور کے آپ کے چہرہ پر ایک بشاشت اور قسم ہمیشہ رہتا تھا اور دیکھنے والے کہتے تھے کہ اگر پیشخص مفتری ہے اور دل میں اپنے تئیں جھوٹا جانتا ہے تو اس کے چہرہ پہ یہ بشاشت اور خوشی اور فتح اور طمانیت قلب کے آثار کیونکر ہو سکتے ہیں.یہ نیک ظاہر کسی بد باطن کے ساتھ وابستہ نہیں رہ سکتا.اور ایمان کا نور ید کار کے چہرہ پر درخشندہ نہیں ہو سکتا.آتھم کی پیش گوئی کا آخری دن آگیا اور جماعت میں لوگوں کے چہرے پژمردہ ہیں اور دل سخت منقبض ہیں.بعض لوگ نا واقعی کے باعث مخالفین سے اس کی شرطیں لگا چکے ہیں.ہر طرف سے اداسی کے آثار ظاہر ہیں.لوگ نمازوں می و سیخ چین کہ رورہے ہیں کہ اے خداوند میں رسوا مت کہ یو.عرض ایپ کر ام پی رہا ہے که مشیروں کے رنگ بھی فق ہو رہے ہیں.مگر یہ خدا کا شیر گھر سے نکلتا ہے ہنستا ہوا اور جاعت کے مریم آوردوں کو مسجد میں بلاتا ہے مسکراتا ہوا.ادھر حاضرین کے دل بیٹھے جاتے ہیں.ادھر وہ کہہ رہا ہے کہ لو پیش گوئی پوری ہوگئی.اطلع الله علی همه رقمه.
۵۲۶ جیسے الہام ہوا.اس نے حق کی طرف رجوع کیا حق نے اس کی طرف رجوع کیا.کسی نے اس کی بات مانی نہ مانی اُس نے اپنی بات سُنادی اور سفنے والوں نے اس کے چہرہ کو دیکھ کر یقین کیا کہ یہ سچا ہے.ہم کو غم کھا رہا ہے اور یہ بے فکر اور بے نظم مسکرا مسکرا کر باتیں کر رہا ہے.اس طرح کہ گویا حق تعالیٰ نے آنھم کے معاملہ کا فیصلہ اسی کے اپنے ہاتھ میں دے دیا.اور طرح پھر اس نے انھم کا رجوع اور بیقراری دیکھ کہ خود اپنی طرف سے مہلت دے دی اور اب اس طرح خوش ہے جس طرح ایک دشمن کو مغلوب کر کے ایک پہلوان پھر محض اپنی دریا دلی سے خود ہی اسے چھوڑ دیتا ہے کہ جاؤ ہم تم پر رحم کرتے ہیں ہم مرے کو مارنا اپنی ہتک سمجھتے ہیں.لیکھرام کی پیش گوئی پوری ہوئی مخبروں نے فورا اتہام لگانے شروع کئے.پولیس میں تلاشی کی درخواست کی گئی.صاحب سپرنٹنڈنٹ پولیس یکا یک تلاشی کے لئے آموجود ہوئے لوگ الگ کر دیئے گئے اندر کے باہر باہر کے اندر نہیں جاسکتے.مخالفین کا یہ زور کہ ایک حرف بھی تحریر کا مشتبہ نکلے تو پکڑ لیں مگر آپ کا یہ عالم کہ وہی خوشی اور مسرت چہرہ پر ہے اور خود پولیس افسروں کو لے جائے جا کر اپنے لیتے اور کتابیں تحریریں اور خطوط اور کو ٹھریاں اور مکان دکھا رہے ہیں.کچھ خطوط انہوں نے مشکوک سمجھ کر اپنے قبضہ میں بھی کر لئے ہیں.مگر یہاں وہی چہرہ ہے اور وہی مسکراہٹ ، گویا نہ صرف بیگناہی بلکہ ایک فتح مبین اور اتمام محبت کا موقعہ نز دیک آنا جاتا ہے.یہ خلاف اس کے باہر جو لوگ بیٹھے ہیں ان کے چہروں کو دیکھو وہ ہر ایک کنسٹیبل کو باہر نکلتے اور اندر جاتے دیکھ دیکھ کر رہے جاتے ہیں.ان کا رنگ فق ہے ان کو یہ معلوم نہیں کہ اندر تو وہ جس کی آبرو کا انہیں حکم ہے خود افسروں کو بلا بلا کہ اپنے لیتے اور اپنی تحریریں دکھلا رہا ہے اور اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ ایسی ہے جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اب حقیقت پیش گوئی کی پورے طور پر کھلے گی اور میرا دامن ہر طرح کی الائش اور سازش سے پاک ثابت ہوگا.غرض یہی حالت تمام مقدمات، ابتلاؤں مصائب اور مباحثات میں رہی اور یہ وہ اطمینان
۵۲۷ قلب کا اعلیٰ اور اکمل نمونہ تھا جسے دیکھ کر بہت سی سعید روحیں ایمان لے آئی تھیں آپ کے بال آپ کے سر کے بال نہایت باریک ، سیدھے چکنے چکدار اور نرم تھے.اور مہندی کے رنگ سے رنگین رہتے تھے.گھنے اور کثرت سے نہ تھے.بلکہ کم کم.اور نہایت ملائم تھے.گردن تک لیے تھے.آپ نہ سر منڈواتے تھے نہ خشخاش یا اس کے قریب کرواتے تھے بلکہ اتنے لمبے رکھتے تھے جیسے عام طور پر پٹے رکھے جاتے ہیں.سر میں تیل بھی ڈالتے تھے.چنبیلی یا حتا د غیرہ کا.یہ عادت تھی کہ بال سوکھے نہ رکھتے تھے.دیش مبارک آپ کی داڑھی اچھی گندار متنی، بال مضبوط موٹے اور چمکدار سید ھے اور نرم حتا سے شرخ اور رنگے ہوئے تھے.داڑھی کو لمبا چھوڑ چھوڑ کر حجامت کے وقت فاضل بال آپ کتر دا دیتے تھے.یعنی بے ترتیب اور ناہموار نہ رکھتے تھے بلکہ سیدھی نیچے کو اور برابر رکھتے تھے.داڑھی میں بھی ہمیشہ تیل لگایا کرتے تھے.ایک دفعہ ایک معینی گال پہ ہونے کی وجہ سے وہاں سے کچھ بال پورے بھی کتروالے تھے.اور وہ تبرک کے طور پر لوگوں کے پاس اب تک موجود ہیں.ریش مبارک تینوں طرف چہرہ کے تھی.اور بہت خوبصورت نہ اتنی کم کہ چھوری اور نہ صرف ٹھوڑی پر ہو نہ اتنی کہ آنکھوں تک بال پہنچیں.وسمه مهندی ابتداء ایام میں آپ وسمہ اور مہندی لگایا کرتے تھے.پھر دماغی دورے بکثرت ہونے کی وجہ سے سر اور ریش مبارک پر آخر عمر تک مہندی ہی لگاتے رہے وسمہ ترک کہ
۵۲۸ دیا تھا.البتہ کچھ روز انگریزی دسمہ صبی استعمال فرمایا.مگر پھر ترک کر دیا.آخری دنوں میں میر حامد شاہ صاحب سیالکوٹی نے ایک وسمہ تیار کر کے پیش کیا تھا وہ لگاتے تھے.اس سے ریش مبارک میں سیاسی آگئی تھی.مگر اس کے علاوہ ہمیشہ برسوں مہندی پر ہی اکتفا کی جو اکثر جمعہ کے جمعہ یا لبعض اوقات اور دنوں میں بھی آپ نائی سے لگوایا کرتے تھے.ریش مبارک کی طرح موچھوں کے بال بھی مضبوط اور اچھے موٹے اور چمکدار تھے.آپ نہیں کرواتے تھے.مگر نہ اتنی کہ جو وہا ہیوں کی طرح مونڈی ہوئی معلوم ہوں.نہ اتنی ایسی کہ ہونٹ کے کنارے سے بچی ہوں.جسم پر آپ کے بال صرف سامنے کی طرف تھے.پشت پر نہ تھے اور بعض اوقات سینہ اور پیٹ کے بال آپ مونڈ دیا کرتے تھے.پاکتروا دیتے تھے.پنڈلیوں پر بہت کم بال تھے.اور جو تھے وہ نرم اور چھوٹے.اس طرح ہاتھوں کے بھی.چہرہ مبارک آپ کا چہرہ کتابی یعنی معتدل لمبا تھا.اور حالانکہ عمر شریف ۷۰.اور ۸۰ کے درمیان تھی پھر بھی جھریوں کا نام ونشان نہ تھا اور نہ متفکر اور غصہ در طبیعت والوں کی طرح پیشانی پرشکن کے نشانات نمایاں تھے.رنج.فکر.تم دو یا غم کے آثار چہرہ پر دیکھنے کی بجائے زیارت کنندہ اکثر تبسم اور خوشی کے آثار ہی دیکھتا تھا.آپ کی آنکھوں کی سیاہی ، سیاہی مائل شربتی رنگ کی تھی.اور آنکھیں بڑی بڑی تھیں مگر پوٹے اس وضع کے تھے کہ سوائے اس وقت کے جب آپ ان کو خاص طور پر کھولیں ہمیشہ قدرتی غض بصر کے رنگ میں رہتی تھیں.بلکہ جب مخاطب ہو کر بھی کلام فرماتے تھے تو آنکھیں نیچی ہی رہتی تھیں اسی طرح جب مردانہ مجالس میں بھی تشریف لے جاتے تو بھی اکثر ہر وقت نظر نیچے ہی رہتی تھی.گھر میں بھی بیٹھتے تو اکثر آپ کو یہ نہ معلوم ہوتا کہ
۵۲۹ اس مکان میں اور کون کون بیٹھا ہے.اس جگہ یہ بات بھی بیان کے قابل ہے کہ آپ نے کبھی عینک نہیں لگائی اور آپ کی آنکھیں کام کرنے سے کبھی نہ تھکتی تھیں.خدا تعالیٰ کا آپ کے ساتھ حفاظت مین کا ایک وعدہ تھا جس کے ماتحت آپ کی چشمان مبارک آخر وقت تک بیماری اور تکان سے محفوظ رہیں.البتہ پہلی رات کا بلال آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں نظر نہیں آتا.ناک حضرت اقدس کی نہایت خوبصورت اور بلند بال تھی.پتلی سیدھی، اونچی اور موزوں نہ پھیلی ہوئی تھی نہ موٹی.کان آنحضور کے متوسط یا متوسط تھے ذرا پیڑے.نہ باہر کو بہت بڑھے ہوئے نہ بالکل سر کے ساتھ لگے ہوئے قلمی آم کی قائش کی طرح اُوپر سے بڑے نیچے سے چھوٹے.قوت شنوائی آپ کی آخر وقت تک عمدہ اور خدا کے فضل سے برقرار رہی.رخسار مبارک آپ کے نہ پچکے ہوئے اندر کو تھے نہ اتنے موٹے کہ بہت باہر کو نکل آویں نہ رخساروں کی پٹیاں اُبھری ہوئی تھیں.بھنویں آپ کی الگ الگ تھیں.پیوستہ نہ ابرو نہ تھے.پیشانی اور سر مبارک پیشانی مبارک آپ کی سیدھی اور بلند اور چوڑی تھی اور نہایت درجہ کی فراست اور ذہانت آپ کے چین سے سیکھتی تھی.علیم قیافہ کے مطابق ایسی پیشانی بہترین نمونہ اعلیٰ صفات اور اخلاق کا ہے.یعنی جو سیدھی ہو نہ آگے کو نکلی ہوئی نہ مجھے کو دھسی ہوئی.اور بلند ہو یعینی اونچی اور کشادہ ہو اور چوڑی ہو.بعض پیشانیاں گو اونچی ہوں مگر چھڑان ماتھے کی تنگ ہوتی ہے.آپ میں یہ تینوں خوبیاں جمع تھیں.اور پھر یہ خوبی کہ چین میں بہت کم پڑتی تھی.سر آپ کا بڑا تھا.خوبصورت بڑا تھا.اور علم قیافہ کی رو سے ہر سمت سے پورا تھا.یعنی لمبا بھی تھا اور چوڑا بھی تھا.اور اونچا بھی اور سطح اوپر کی.اکثر حصہ ہموار اور پیچھے سے بھی 0
۵۳۰ گولائی درست تھی.آپ کی کن پٹی کشادہ تھی اور آپ کی کمال عقل پر دلالت کرتی تھی.لب مبارک آپ کے لب مبارک پتلے نہ تھے.مگر تا ہم ایسے موٹے بھی نہ تھے کہ بڑے لگیں.دہانہ آپ کا متوسط تھا.اور جب بات نہ کرتے ہوں تو منہ کھلا نہ رہتا تھا.بعض اوقات مجنیں ہیں جب خاموش بیٹھے ہوں تو آپ عمامہ کے شمد سے دری این مبارک ڈھک لیا کرتے تھے.دندان مبارک آپ کے آخر عمر میں کچھ خراب ہو گئے تھے یعنی کیڑا لبعض ڈاڑھوں کو لگ گیا تھا جس سے کبھی کبھی تکلیف ہو جاتی تھی.چنانچہ ایک دفعہ ایک ڈاڑھ کا سرا ایسا نوکدار ہو گیا تھا کہ اس سے زبان میں زخم پڑ گیا تو رہتی کیا تھاس کو کھو کر برابر بھی کرایا تھا.مگر کبھی کوئی دانت نکلوایا نہیں.مسواک آپ اکثر فرمایا کرتے تھے.پیر کی ایڑیاں آپ کی بعض دفعہ گرمیوں کے موسم میں پھٹ جایا کرتی تھیں.اگرچہ گرم کپڑے سردی گرمی برا بہ پہنتے تھے.تاہم گرمیوں میں پسینہ بھی خوب آجا تا تھا.گر آپ کے پسینہ میں جو کبھی نہیں آتی تھی خواہ کتنے ہی دن بعد گر تا بدلیں اور کیسا ہی موسم ہو.گردن مبارک آپ کی گردن متوسط لمبائی اور موٹائی میں تھی.آپ اپنے مطالع نبی کریم صلی اللہ علیکم کی طرح ان کے اتباع میں ایک حد تک جسمانی زینت کا خیال ضرور رکھتے تھے غسل جمعہ احجامت خاب مسواک روغن اور خوشیو کنگھی اور آئینہ کا استعمال برابر مسنون طریق پر آپ فرمایا کرتے تھے.مگر ان باتوں میں انہماک آپ کی شان سے بہت دور تھا.باس سب سے اول یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیئے کہ آپ کو کسی قسم کے خاص لباس کا
۵۳۱ شوق نہ تھا.آخری ایام کے کچھ سالوں میں آپ کے پاس کپڑے سادے اور سلے سلائے بطور تحفہ کے بہت آتے تھے.خاص کر کوٹ صدری اور پائجامہ قمیض وغیرہ جو اکثر شیخ رحمت اللہ صاحب لاہوری ہر عید بقر عید کے موقعہ پر اپنے ہمراہ نذر لاتے تھے وہی آپ استعمال فرمایا کرتے تھے.مگر علاوہ ان کے کبھی کبھی آپ خود بھی بنوایا کرتے تھے.عمامہ نواکثر خود ہی خرید کہ باندھتے تھے جس طرح کپڑے بنتے تھے اور استعمال ہوتے تھے.اسی طرح ساتھ ساتھ خرچ بھی ہوتے جاتے تھے یعنی ہر وقت تبرک مانگنے والے طلب کرتے رہتے تھے.بعض دفعہ تو یہ نوبت پہنچ جاتی کہ آپ ایک کپڑا بطور تبرک کے عطا فرماتے تو دوسرا بنوا کہ اس وقت پہنتا پڑتا.اور بعض سمجھدار اس طرح بھی کرتے تھے کہ مثلاً ایک کپڑا اپنا بھیج دیا اور ساتھ عرض کر دیا کہ حضور ایک انتہا ہوا تبرک مرحمت فرما دیں.خیریہ تو جہ معترضہ تھا.اب آپ کے لباس کی ساخت سنے جھوٹا یہ کپڑے آپ زیب تن فرمایا کرتے تھے.کر تہ یا قمیض ، پائجامہ ، صدر ہیں.کوٹ اعمامہ.اس کے علاوہ رو حال بھی ضرور رکھتے تھے اور جاڑوں میں جرا ہیں.آپ کے سبب کپڑوں میں خصوصیت یہ تھی کہ وہ بہت کھلے ہوتے تھے.اور اگر چہ شیخ صاحب مذکور کے آوردہ کوٹ انگریزی طرز کے ہوتے مگر وہ بھی بہت کشادہ اور لیے یعنی گھٹنوں سے نیچے ہوتے تھے.اور جیتے اور چوغہ بھی جو آپ پہنتے تھے تو وہ بھی ایسے لیے کہ بعض تو ان میں سے ٹھنے تک پہنچتے تھے.اسی طرح کرتے اور صدیاں بھی کشادہ ہوتی تھی.بنیان آپ کبھی نہ پہنتے تھے بلکہ اس کی تنگی سے گھبراتے تھے.گرم قمیض جو پہنتے تھے.ان کا اکثر اوپر کا بٹن کھلا رکھتے تھے.اسی طرح صدری اور کوٹ کا اور قمیض کے کنوں میں اگر ٹین ہوں تو وہ بھی ہمیشہ کھلے رہتے تھے آپ کا طرز عمل ما انا من المتکلفین کے ماتحت کسی مصنوعی جکڑ بندی میں جو شرعا غیر ضروری ہے پابند رہنا آپ کے مزاج کے خلاف تھا اور نہ آپ کو کبھی پر واہ تھی کہ لباس عمدہ ہے یا برگیش کیا ہوا ہے یا بین سب
۵۳۲ درست لگے ہوئے ہیں یا نہیں صرف لباس کی اصلی غرض مطلوب تھی.بارہا دیکھا گیا کہ بین اپنا کاج چھوڑ کر دوسرے ہی میں گئے ہوئے ہوتے تھے بلکہ صدری کے بٹن کوٹ کے کاموں میں لگائے.ہوئے دیکھے گئے.آپ کی توجہ ہمہ تن اپنے مشن کی طرف تھی اور اصلاح امت میں اتنے محمو تھے کہ اصلاح پاس کی طرف توجہ نہ تھی.آپ کا لباس آخر عمر میں چند سال سے بالکل گریم وضع کا ہی رہتا تھا.یعنی کوٹ اور صدری اور پاجامہ گرمیوں میں بھی گرم رکھتے تھے.اور به علالت طبع کے باعث تھا سردی آپ کو موافق نہ تھی اس لئے اکثر گرم کپڑے لکھا کر تے تھے البتہ گرمیوں میں نیچے کو تہ عمل کا رہتا تھا بجائے گرم کرنے کے پاجامہ آپ کا معروف شرعی وضع کا ہوتا تھا پہلے فرامیہ یعنی ڈھیلا مردانہ پاجامہ بھی پہنا کرتے تھے مگر آخر عمر میں ترک کر دیا تھا) مگر گھر میں گرمیوں میں کبھی کبھی دن کو اور مادہ تا رات کے وقت تہ بند باندھ کر خواب فرمایا کرتے تھے.صدری گھر میں اکثر پہنے رہتے گھر کوٹ موما باہر جاتے وقت ہی پہنتے.اور سردی کی زیادتی کے دنوں میں اوپر تلے دو دو کوٹ بھی پہنا کرتے.بلکہ بعض اوقات پوستین بھی.صدری کی جیب میں یا بعض اوقات کونٹ کی جیب میں آپ کا رومال ہوتا تھا.آپ ہمیشہ بڑا رومال رکھتے تھے.نہ کہ چھوٹا جنٹلمینی رومال جو آج کل کا بہت مروج ہے اس کے کونوں میں آپ مشک اور ایسی ہی ضروری ادویہ جو آپ کے استعمال میں رہتی تھیں اور ضروری خطوط وغیرہ باندھ رکھتے تھے.اور اسی اعمال میں نقد وغیرہ جو نذر لوگ مسجد میں پیش کرتے تھے باندھ لیا کرتے.گھڑی بھی آپ ضرور اپنے پاس رکھا کر تے تھے مگر اس کی گنجی دینے میں اکثر ناغہ ہو جاتا تھا.اس لئے اکثر وقت غلط ہی ہوتا تھا.اور چونکہ گھڑی جیب میں سے اکثر نکل پڑتی اس لئے آپ اُسے بھی رومال میں باندھ لیا کرتے.گھڑی کو ضرورت کے لئے رکھتے نہ زیبائش کے لئے.
۵۳۳ آپ کو دیکھ کہ کوئی شخص ایک لمحہ کے لئے بھی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس شخص کی زندگی میں یا لباس میں کسی قسم کا بھی تصنع ہے یا یہ زیب و زینت دنیوی کا دلدادہ ہے.ہاں البته والرجز فاهجو کے تحت آپ صاف اور ستھری چیز ہمیشہ پسند فرماتے اور گندی اور میلی چیز سے سخت نفرت رکھتے.صفائی کا اس قدر اہتمام تھا کہ بعض اوقات آدمی موجود نہ ہو تو بیت الخلاء میں خود فینائل ڈالتے تھے.عمامہ شریف آپ معمل کا باندھا کرتے تھے.اور اکثر وس گنز یا کچھ او پہ لیا ہوتا تھا.شملہ آپ لیا چھوڑتے تھے کبھی کبھی شملہ کو آگے ڈال لیا کرتے.اور کبھی اس کا پگر دین مبارک پر بھی رکھ لیتے.جبکہ مجلس میں خاموشی ہوتی.عمامہ کے باندھنے کی آپ کی خاص وضع تھی.نوک تو ضرور سامنے ہوتی مگر سر پر ڈھیلا ڈھالا لپٹا ہوا ہوتا تھا.عمامہ کے نیچے اکثر رومی ٹوپی رکھتے تھے اور گھر میں عمامہ اُتار کر صرف یہ ٹوپی ہی پہنے رہا کرتے.مگر نرم قسم کی دوسری جو سخت قسم کی نہ ہوتی.جما ہیں آپ سردیوں میں استعمال فرماتے اور ان پر مسح فرماتے.بعض اوقات زیادہ سردی میں دو دو جرا ہیں اوپر تلے چڑھا لیتے.مگر بارہا جوراب اس طرح پہن لیتے کہ وہ پیر پر ٹھیک نہ چڑھتی.کبھی تو سر آگے ٹکتا رہتا اور کبھی جراب کی ایڑی کی جگہ پیر کی پشت پر آ جاتی کبھی ایک جراب سیدھی دوسری اُلٹی.اگر جراب کہیں سے کچھ پھٹ جاتی تو بھی مسح جائزہ رکھتے بلکہ فرماتے تھے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ایسے موزوں پر بھی مسح کر لیا کرتے تھے جس میں سے ان کی انگلیوں کے پوٹے باہر نکلے رہا کرتے.جوتی آپ کی دیسی ہوتی.خواہ کسی وضع کی ہو.پچھواری ، لاہوری لدھیانوی سلیم شاہی ہر وضع کی بہن لیتے مگر ایسی جو کھلی کھلی ہو.انگریزی بوٹ کبھی نہیں پہنا گر کا بی حضرت صاحب کو پہنے میں نے نہیں دیکھا.جوتی اگر تنگ ہوتی تو اس کی ایڈی بٹھا لیتے.مگر ایسی ہوتی کے ساتھ باہر تشریف
۵۳۴ نہیں لے جاتے تھے.لباس کے ساتھ ایک چیز کا اور بھی ذکر کر دیتا ہوں وہ یہ کہ آپ عصا ضرور رکھتے تھے.گھر میں یا جب مسجد مبارک میں روزانہ نماز کو جانا ہوتا.تب تو نہیں مگر مسجد اقصٰی کو جانے کے وقت یا جب باہر سیر وغیرہ کے لئے تشریف لاتے تو ضرور ہاتھ میں ہوا کرتا تھا اور موٹی اور مضبوط لکڑی کو پسند فرماتے مگر کبھی اس پر سہارا یا ہو مجھ دے کہ نہ چلتے تھے جیسے اکثر ضعیف العمر آدمیوں کی عادت ہوتی ہے.موسم سرما میں ایک دہشتہ لے کہ آپ مسجد میں نماز کے لئے تشریف لایا کرتے تھے جو اکثر آپ کے کندھے پر پڑا ہوا ہوتا تھا.اور اسے اپنے آگے ڈال لیا کہ تے تھے.جب تشریف رکھتے تو پھر پیروں پر ڈال لیتے.کپڑوں کی احتیاط کا یہ عالم تھا کہ کوٹ، صدری، ٹوپی.علامہ رات کو اتار کر نیکہ کے نیچے ہی رکھ لیتے.اور رات بھر تمام کپڑے جنہیں محتاط لوگ شکن اور میل سے بچانے کو الگ جگہ کھونٹی پر ٹانگ دیتے ہیں وہ بستر پر سر اور جسم کے نیچے کئے جاتے اور صبح کو ان کی ایسی حالت ہو جاتی کہ اگر کوئی فیشن کا دلدادہ اور سلوٹ کا دشمن ان کو دیکھ لے تو سر سیٹ ہے.موسم گرما میں دن کو بھی اور رات کو تو اکثر آپ کپڑے اتار دیتے اور صرف چادر یانگی باندھ لیتے گرمی دانے بعض دفعہ بہت نکل آتے تو اس کی خاطر بھی کرتہ اُتار دیا کرتے.تہ بند اثر نصف ساق تک ہوتا تھا.اور گھٹنوں سے اوپر ایسی حالتوں میں مجھے یاد نہیں کہ آپ پر بستہ ہوئے ہوں.آپ کے پاس کچھ کنجیاں بھی رہتی تھیں.یہ یا تو رو مال میں یا اکثر آزار بند میں باندھ کر رکھتے.روئی دار کوٹ پہننا آپ کی عادت میں داخل نہ تھا.نہ ایسی رضائی اوڑھ کر باہر تشریف لاتے بلکہ چادر پشمینہ کی یا دھہ رکھا کرتے تھے اور وہ بھی سر پر کبھی نہیں اور ھتے تھے بلکہ کندھوں اور گردن تک رہتی تھی.گلوبند اور دستانوں کی آپ کو عادت نہ تھی بیستر آپ کا ایسا ہوتا تھا کہ ایک لحاظ میں میں ۵ - ۶ سیر روٹی کم از کم ہوتی تھی.اور اچھا لمبیا
۵۳۵ چوڑا ہوتا تھا.چادر بستر کے اوپر اور تکیہ.اور تو شک آپ گرمی جاڑے دونوں موسموں میں بسبب سردی کی ناموافقت کے بھواتے تھے.تخریبہ وغیرہ کا سب کام پلنگ پر ہی اکثر فرمایا کرتے اور دوات قلم بستہ اور کتا ہیں یہ سب چیزی پلنگ پر موجود رہا کرتیں تھیں.کیونکہ یہی جگہ میز کہ کسی اور لائبریر ہی سب کا کام دیتی تھی.اور ما انا من المتکلفین کا عملی نظارہ خوب واضح طور پر نظر آتا تھا.ایک بات کا ذکر کر نا میں بھول گیا.وہ یہ کہ آپ امیروں کی طرح ہر رونہ کپڑے نہ بلکہ لا کر تے تھے.بلکہ جب ان کی صفائی میں فرق آنے لگتا.تب بدلتے تھے.خوراک کی مقدار قرآن شریف میں کفار کے لئے وارد ہے یا کلون كما تاكل الانعام اور حدیث شریف میں آتا ہے کہ کا فرسات انتری میں کھاتا اور مومن ایک میں مراد ان باتوں سے یہ ہے کہ مومن طبیب چیز کھانے والا اور دنیا دار یا کافر کی نسبت بہت کم خور ہوتا ہے.جب مومن کا یہ حال ہوا تو پھر انبیاء اور مرسلین علیہم السلام کا توی کہنا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دستر خوان پر بھی اکثر ایک سالن ہی ہوتا تھا.جبکہ شستشو یا صرف کجھور یا دودھ کا ایک پیالہ ہی ایک غذا ہوا کرتی تھی.اسی سنت پر ہمارے حضرت اقدس (آپ پر سلامتی ہو) بھی بہت ہی کم خود تھے.اور بمقابلہ اس کام اور محنت کے جس میں حضور دن رات لگے رہتے تھے.اکثر حضور کی غذا دیکھی جاتی تو بعض اوقات حیرانی سے بے اختیار لوگ یہ کہ اُٹھتے تھے کہ اتنی خوراک پر یہ شخص زندہ کیونکہ رہ سکتا ہے.خواہ کھانا کیسا ہی عمدہ اور لذیذ ہو اور کیسی ہی بھوک ہو آپ کبھی حلق تک ٹھونس کر نہیں کھاتے تھے.عام طور پر دن میں دو وقت مگر بعض اوقات جب طبیعت خراب ہوتی تو دن بھر میں ایک ہی دفعہ کھانا نوش فرمایا کرتے تھے.علاوہ اس کے چائے وغیرہ ایک پیالی صبح کو بطور ناشتہ بھی پی لیا کرتے تھے مگر جہاں
تک میں نے غور کیا آپ کو لذیذ مزیدار کھانے کا شوق ہرگز نہ تھا.اوقات معمولاً آپ صبح کا کھانا ۱۰ بجے سے ظہر کی اذان تک اور شام کا نماز مغرب کے بعد سے سونے کے وقت ایک کھا لیا کرتے تھے کبھی شاذ و نادر ایسا بھی ہوتا تھا کہ دن کا کھانا آپ نے بعد ظہر کھایا ہو شام کا کھانا مغرب سے پہلے کھانے کی عادت نہ تھی.مگر کبھی کبھی کھا لیا کرتے تھے مگر معمول دو طرح کا تھا.جن دنوں میں آپ بعد مغرب عشا تک باہر تشریف رکھا کرتے تھے اور کھانا گھر میں کھاتے تھے ان دنوں میں یہ وقت عشا کے بعد ہوا کرتا تھا دورنہ مغرب اور عشاء کے درمیان.مدتوں آپ باہر مہمانوں کے ہمراہ کھانا کھایا کرتے تھے اور یہ دستر خوان گول نکرہ یا مسجد مبارک میں بچھا کرتا تھا اور خاص مہمان آپ کے ہمراہ دستر خوان پر بیٹھا کرتے تھے.یہ عام طور پر وہ لوگ ہوا کرتے تھے جن کو حضرت صاحب نامزد کر دیا کرتے تھے.ایسے دسترخوان پر تعداد کھانے والوں کی دس سے پچیس تک ہو جایا کرتی تھی.گھر میں جب کھانا نوش جان فرماتے تھے تو آپ کبھی تنہا مگر اکثرام المومنین اور کسی ایک یا سب بچوں کو ساتھ لے کر تناول فرمایا کرتے تھے.یہ عاجز کبھی قادیان میں ہوتا تھا تو اس کو بھی شرف اس خانگی دستر خوان پر بیٹھنے کا مل جایا کرتا تھا.سحری آپ ہمیشہ گھر میں ہی تناول فرماتے تھے.اور ایک دو موجودہ آدمیوں کے ساتھ یا تنہا سوائے گھر کے باہر جب کبھی آپ کھانا کھاتے تو آپ کسی کے ساتھ نہ کھاتے تھے.یہ آپ کا حکم نہ تھا مگر خدام آپ کو عزت کی وجہ سے ہمیشہ الگ ہی برتن میں کھانا پیش کیا کرتے تھے.اگر چہ اور مہمان بھی سوائے کسی خاص وقت کے الگ الگ ہی برتنوں میں کھایا کر تے تھے.
۵۳۷ کس طرح کھانا تناول فرماتے تھے جب کھانا آگے رکھا جاتا یا دستر خوان بجھتا تو آپ اگر مجلس میں ہوتے تو یہ پوچھ لیا کرتے کیوں جی شروع کریں ؟ مطلب یہ کہ کوئی مہمان رہ تو نہیں گیا.یا سب کے آگے کھانا آ گیا.پھر آپ جواب ملنے پر کھانا شروع کرتے.اور تمام دوران میں نہایت آہستہ آہستہ چاچیا کر کھاتے.کھانے میں کوئی جلدی آپ سے صادر نہ ہوتی.آپ کھانے کے دوران میں ہر قسم کی گفتگو فرمایا کر تے تھے.سالن آپ بہت کم کھاتے تھے اور اگر کسی خاص دعوت کے موقعہ پر دو تین قسم کی چیزیں سامنے ہوں تو اکثر صرف ایک ہی پہ ہاتھ ڈالا کرتے تھے.اور سالن کی جور کا بی آپ کے آگے سے اُٹھتی تھی وہ اکثر ایسی معلوم ہوتی تھی کہ گویا اسے کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا.بہت بوٹیاں یا تر کاری آپ کو کھانے کی عادت نہ تھی.بلکہ لعاب سے اکثر چھوا کر پکڑا کھا لیا کرتے تھے.بقیہ چھوٹا ہوتا تھا اور روٹی کے ٹکڑے آپ بہت سے کر لیا کرتے کڑ تھے اور یہ آپ کی عادت تھی.دستر خوان سے اُٹھنے کے بعد سب سے زیادہ کھڑے روٹی کے آپ کے آگے سے ملتے تھے اور لوگ بطور تبرک کے اُن کو اٹھا کر کھا لیا کرتے تھے.آپ اس قدر کم خود تھے کہ باد جو دیکہ سب مہمانوں کے برابر آپ کے آگے کھانا رکھا جاتا تھا مگر پھر بھی سب سے زیادہ آپ کے آگے سے بچتا تھا.اور بعض دفعہ تو دیکھا گیا کہ آپ صرف روٹی کا نوالہ منہ میں ڈال لیا کرتے تھے.اور پھر انگلی کا سرا شور ہے میں ترکی کے زبان سے چھوا دیا کرتے تا کہ لقم نمکین ہو جاوے.پچھلے دنوں میں جب آپ گھر میں کھانا کھاتے تھے تو آپ اکثر صبح کے وقت مکی کی روٹی اکثر کھایا کرتے تھے اور اس کے ساتھ کوئی ساگ یا صرف انسی کا گلاس یا کچھ مکھن ہوا کرتا تھا.یا کبھی اچار سے بھی لگا کہ کھا لیا کرتے تھے.آپ کا کھانا صرف اپنے کام کے لئے قوت حاصل کرنے کے لئے ہوا کرتا تھانہ کہ لذت نفس کے لئے.بارہا آپ نے فرمایا کہ میں توکھانا کھا کر بھی معلوم
۵۳۸ نہیں ہوا کہ کیا پکا تھا اور ہم نے کیا کھایا.بڑیاں چوسنے اور بڑانوالہ اُٹھانے.زور زور سے چپڑ چپڑ کرنے.ڈکاریں مارنے یار کا بیاں چاٹنے یا کھانے کے مدح و ذم اور لذائد کا تذکرہ کرنے کی آپ کی عادت نہ تھی بلکہ جو پکتا تھا وہ کھایا کرتے تھے کبھی کبھی آپ پانی کا گلاس یا چائے کی پیالی بائیں ہاتھ سے پکڑ کر پیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ ابتدائی عمر میں دائیں ہاتھ میں ایسی چوٹ لگی تھی کہ اب تک بوھیل چیز اس ہاتھ سے برداشت نہیں ہوتی.آریوں بیٹھ کہ آپ کو کھانے کی عادت نہ تھی بلکہ آلتی پالتی مار کر بیٹھتے یا بائیں ٹانگ بٹھا دیتے اور دایاں گھٹنا کھڑا سکتے.کیا کھاتے تھے ؟ میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ مقصد آپ کے کھانے کا صرف قوت قائم رکھنا تھا نہ کہ تقت اور ذائقہ اُٹھانا.اس لئے آپ صرف وہی چیزیں ہی کھاتے تھے جو آپ کی طبیعت کے موافق ہوتی تھیں.اور جن سے دماغی قوت قائم رہتی تھی تاکہ آپ کے کام میں سرج نہ ہو.علاوہ بریں آپ کو چند بیماریاں بھی تھیں جن کی وجہ سے آپ کو کچھ پر سینز بھی رکھنا پڑتا تھا.مگر عام طور پر آپ سب طیبات ہی استعمال فرمالیتے تھے.اور اگر چہ آپ سے اکثر یہ پوچھ لیا جاتا کہ آج آپ کیا کھائیں گے.مگر جہاں تک نہیں معلوم ہے خواہ کچھ پکا ہو آپ اپنی ضرورت کے مطابق کھا ہی لیا کرتے تھے.اور کبھی کھانے کے بد مزہ ہونے پر اپنی ذاتی وحید سے خفگی نہیں فرمائی.بلکہ اگر خراب پکتے ہوئے کھانے اور سالن پر نا پسندیدگی کا اظہار بھی فرمایا تو صرف اس لئے اور یہ کہہ کر مہمانوں کو یہ کھانا پسند نہ آیا ہوگا.روٹی آپ تندوری اور چولھے کی دونوں قسم کی کھاتے تھے.ڈیل روٹی چائے کے ساتھ یا بسکٹ اور بکریم بھی استعمال فرمالیا کرتے تھے.بلکہ ولایتی بسکٹوں کو بھی جائزہ فرماتے تھے.اس لئے کہ ہمیں کیا معلوم کہ اس میں چربی ہے.کیونکہ بنانے والوں کا ادعا تو
۵۳۹ مکھن ہے.مچھر ہم ناحق بدگمانی اور شکوک میں کیوں پڑیں.مکی کی روٹی بہت مدت آپ نے آخری عمر میں استعمال فرمائی کیونکہ آخری سات آٹھ سال سے آپ کو دستوں کی بیماری ہو گئی تھی اور ہضم کی طاقت کم ہوگئی تھی.علاوہ ان روٹیوں کے آپ شیر مال کو بھی پسند فرماتے تھے اور باقرخانی قلیہ وغیرہ غرض جو جو اقسام روٹی کے سامنے آجایا کر تے تھے آپ کسی کو رو نہ فرماتے تھے.سالن آپ بہت کم کھاتے تھے.گوشت آپ کے ہاں دو وقت پکتا تھا مگر دال آپ کو گوشت سے زیادہ پسند تھی.یہ دال ماش کی یا اور دھکی ہوتی تھی جس کے لئے گورداسپور کا ضلع مشہور ہے.سالن ہر قسم کا اور تو کاری عام طور پر ہر طرح کی آپ کے دستر خوان پر دیکھی گئی ہے اور گوشت بھی ہر حلال اور طیب، جانور کا آپ کھاتے تھے.پسندوں کا گوشت آپ کو مرغوب تھا اس لئے بعض اوقات جب طبیعت کمزور ہوتی تو نیتر فاختہ وغیرہ کے لئے شیخ عبدالرحیم صاحب تو مسلم کو ایسا گوشت مہیا کرنے کو فرمایا کیتے تھے.مرغ اور بٹیروں کا گوشت بھی آپ کو پسند تھا.مگر بٹیرے جب سے کہ پنجاب میں طاعون کا زور ہوا کھانے چھوڑ دیے تھے.بلکہ منع کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اس کے گوشت میں طاعون پیدا کرنے کی خاصیت ہے.اور بنی اسرائیل میں ان کے کھانے سے سخت طاعون پڑی تھی.حضور کے سامنے دو ایک دفعہ گوہ کا گوشت پیش کیا گیا مگر آپ نے فرمایا کہ جائنہ ہے.جس کا جی چاہے کھا لے.مگر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چونکہ اس سے کہ بہت فرمائی اس لئے ہم کو بھی اس سے کہ بہت ہے.اور جیسا کہ دہاں ہوا تھا یہاں بھی لوگوں نے آپ کے مہمان خانہ بلکہ گھر میں بھی کچھ بچوں اور لوگوں نے گوہ کا گوشت کھایا مگر آپ نے اُسے قریب نہ آنے دیا.مرغ کا گوشت ہر طرح کا آپ کھا لیتے تھے.سالن ہو یا بھنا ہوا کباب ہو یا پلاؤ مگر اکثر ایک ران پر ہی گزارہ کر لیتے تھے اور وہی آپ کو کافی ہو جاتی تھی بلکہ کبھی کچھ بھی بھی رہا کرتا تھا.پلاؤ بھی آپ کھاتے تھے مگر ہمیشہ نرم اور گداز اور گلے گئے ہوئے چاولوں کا اور
۵۴۰ میٹھے چاول تو کبھی خود کہہ کر پکھوا لیا کرتے تھے مگر گریڈ کے اور دہی آپ کو پسند تھے.بعدہ کھانے یعنی کباب مرغ پلاؤ یا اٹھے اور اسی طرح فرینی میٹھے چاول وغیرہ تب ہی آپ کہہ کر پکوایا کرتے تھے.جب ضعف معلوم ہوتا.جن دنوں میں تصنیف کا کام کم ہوتا یا صحت اچھی ہوتی تو ان دنوں میں معمولی کھانا ہی کھاتے.اور وہ بھی کبھی ایک وقت ہی صرف اور دوسرے وقت دودھ وغیرہ سے گزارہ کر لیتے.دودھ بالائی مکھن یہ اشیاء بلکہ بادام روفن تک صرف قوت کہ قیام اور ضعف کو دور کرنے کو استعمال فرماتے تھے اور ہمیشہ معمولی مقدار میں بعض لوگوں نے آپ کے کھانے پر اعتراض کئے ہیں.مگر ان بیوقوفوں کو یہ خبر نہیں کہ ایک شخص جو عمر میں بوڑھا ہے اور اُسے کئی امراض گئے ہوئے ہیں اور یاد جودان کے وہ تمام جہان سے مصروف پیکار ہے.ایک جماعت بنا رہا ہے جس کے فرد فرد پر اس کی نظر ہے.اصلاح امت کے کام میں مشغول ہے.ہر مذہب سے الگ الگ قسم کی جنگ ٹھنی ہوئی ہے.دن رات تصانیف میں مصروف ہے جو نہ صرف اردو بلکہ فارسی اور عربی میں اور پھر وہی ان کو لکھتا اور وہی کاپی دیکھتا.دہی پروف درست کرتا اور وہی ان کی اشاعت کا انتظام کرتا ہے پھر سینکڑوں مہمانوں کے شہر نے اتر نے اور علی حسب مراتب کھلانے کا انتظام مباحثات اور وفود کا اہتمام.نمازوں کی حاضری مسجد میں روزانہ مجلسیں اور تقریریں.ہر روز بیسیوں آدمیوں سے ملاقات.اور پھر ان سے طرح طرح کی گفتگو مقدمات کی پیروی.روزانہ سینکٹیں خطوط پڑھنے اور پھر ان میں سے بہتوں کے جواب لکھنے پھر گھر میں اپنے بچوں اور اہل بیت کو بھی وقت دیتا اور باہر گھر میں بیعت کا سلسلہ اور نصیحتیں اور دعائیں.غرض اس قدر کام اور دماغی محنتیں اور تفکرات کے ہوتے ہوئے اور پھر تقاضائے عمر اور امراض کی وجہ سے اگر صرف اس عظیم الشان جہاد کے لئے قوت پیدا کرنے کو وہ شخص بادام روغن استعمال کر سے تو کون بیوقوف اور ناحق شناس ظالم طبع انسان ہے جو اس کے اس فعل پر اعتراض کرے.کیا وہ نہیں جانتا کہ بادام روغن کوئی مزیدار چیز نہیں اور لوگ لذت
۵۴۱ کے لئے اس کا استعمال نہیں کرتے.پھر اگر مزے کی چیز بھی استعمال کی تو ایسی ثبت اور کام کرنے والے کے لئے تو فرض ہے.حالانکہ ہمارے جیسے کاہل الوجود انسانوں کے لئے وہی کھانے تعیش میں داخل نہیں.اور پھر جس وقت دیکھا جائے کہ وہ شخص ان مقوی غذاؤں کو صرف بطور قوت لا یموت اور رسد رمق کے طور پر استعمال کرتا ہے تو کون عقل کا اندھا ایسا ہو گا کہ اس خوراک کو لزائد حیوانی اور حظوظ نفسانی سے تعبیر کرے.خدا تعالیٰ ہر مومن کو بیٹنی سے بچائے.دودھ کا استعمال آپ اکثر رکھتے تھے اور سوتے وقت تو ایک گلاس ضرور پیتے تھے اور دن کو بھی پچھلے دنوں میں زیادہ استعمال فرماتے تھے.کیونکہ یہ معمول ہو گیا تھا کہ ادھر دودھ پیا اور ادھر دست آگیا.اس لئے بہت ضعف ہوتا جاتا تھا.اس کے ٹور کرنے کو دن میں تین چار مرتبہ تھوڑا تھوڑا دودھ طاقت قائم کرنے کو پی لیا کرتے تھے.دن کے کھانے کے وقت پانی کی جگہ گرمی میں آپ کسی بھی پی لیا کرتے تھے اور برف موجود ہو تو اس کو بھی استعمال فرما لیتے تھے.ان چیزوں کے علاوہ شیرہ بادام بھی گرمی کے موسم میں میں میں چند دانہ مغز با دلم اور چند چھوٹی الائچی اور کچھ مصری پیس کر چھین کر پڑھتے تھے.پیا کرتے تھے.اور اگر چہ معمولاً نہیں مگر کبھی کبھی رفع ضعف کے لئے آپ کچھ دن متواتر بینینی گوشت یا پاؤں کی پیا کرتے تھے.اور یہ یخنی بھی بہت بد مزہ چیز ہوتی تھی یعنی صرف گوشت کا ابلا ہوا رس ہوا کرتا تھا.میوہ جات آپ کو پسند تھے اور اکثر قدام بطور تحفہ کے لایا بھی کر تے تھے.گا ہے یگا ہے خود بھی منگواتے تھے.پسندیدہ میووں میں سے آپ کو انگور ہمیٹی کا کیلا.ناگپوری نگرے ، سیب ، سر دے اور سر ولی آم زیادہ پسند تھے.باقی میرے بھی گاہے ما ہے جو آتے رہتے تھے کھا لیا کرتے تھے گا کبھی آپ کو پسند تھا.
۵۲۲ شہتوت پیدانہ کے موسم میں آپ پیدا نہ اکثر باغ کی جنس سے منگوا کر کھاتے تھے اور کبھی کبھی ان دنوں سیر کے وقت باغ کی جانب تشریف لے جاتے اور مع سبب رفیقوں کے اسی جگہ پیدا نہ تڑوا کر سب کے ہمراہ ایک ٹوکرے میں نوش جان فرماتے.اور خشک میووں میں سے صرف بادام کو ترجیح دیتے تھے.چائے کا میں پہلے اشارہ کر آیا ہوں.آپ جاٹوں میں صبح کو اکثر مہمانوں کے لئے روزانہ بنواتے تھے اور خود بھی پی لیا کرتے تھے.مگر عادت نہ تھی سبز چائے استعمال کرتے.اور سیاہ کو ناپسند فرماتے تھے.اکثر دودھ والی سیٹھی پیتے تھے.زمانہ موجودہ کے ایجادات مثلاً برف اور سوڈا لیمونیڈ، جنیر وغیرہ بھی گرمی کے دنوں میں پی لیا کرتے تھے بلکہ شدت گرمی میں برف بھی امرت سر لاہور سے منگوایا کرتے تھے.بازاری مٹھائیوں سے بھی آپ کو کسی قسم کا پر ہیز نہ تھا نہ اس بات کی پرپھول تھی کہ ہندو کی ساخت ہے یا مسلمانوں کی.لوگوں کی نذرانہ کے طور پر آوردہ مٹھائیوں میں سے بھی کھا لیتے تھے اور خود بھی روپیہ دو روپیہ کی مٹھائی منگوا کر رکھا کرتے تھے.پیٹھائی بچوں کے لئے ہوتی تھی.کیونکہ وہ اکثر حضوری کے پاس چیزیں یا پیسہ مانگنے دوڑے آتے تھے میٹھے بھرے ہوئے سمو سے یا بیدانہ عام طور پر یہ دو ہی چیزیں آپ ان بچوں کے لئے منگوار کہتے.کیونکہ یہی قادیان میں ان دنوں میں لگی بنتی تھیں.ایک بات یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ آپ کر اپنے کھانے کی نسبت اپنے مہمانوں کے کھانے کا زیادہ فکر رہتا تھا.اور آپ دریافت فرمالیا کرتے کہ فلاں مہمان کو کیا کیا پسند ہے.اور کس کس چیز کی اس کو عادت ہے.چوہدری محمد علی صاحب ایم اے کا جب تک نکاح نہیں ہوا.تب تک آپ کو ان کی خاطر داری کا اس قدر اہتمام تھا کہ روزانہ خود اپنی نگرانی میں ان کے لئے دودھ ، چائے، لیکٹ، مٹھائی، انڈے وغیرہ برابر صبح کے وقت بھیجا کرتے اور پھر لے جانے والے سے دریافت بھی کر لیتے تھے کہ انہوں نے اچھی طرح سے کھا
۵۴۳ بھی لیا.تب آپ کو تکتی ہوتی.اسی طرح خواجہ صاحب کا بڑا خیال رکھتے اور بار بار دریافت فرمایا کرتے کہ کوئی مہمان بھوکا تو نہیں رہ گیا یا کسی کی طرف سے ملازمان لنگر خانہ نے تعامل تو نہیں کیا.بعض موقعہ پر ایسا ہوا کہ کسی مہمان کے لئے سائن نہیں بچا یا وقت پر ان کا کھانا رکھنا بھول گیا تو اپنا سالن یا سب کھانا اس کے لئے اٹھوا کر بھیجوا دیا.بار ہا ایسا بھی ہوا کہ آپ کے پاس تھنے میں کوئی چیز کھانے کی آئی یا خود کوئی چیز آپ نے ایک وقت منگوائی پھر اس کا خیال نہ رہا اور وہ صندوق میں پڑی پڑی سڑ گئی.خراب ہو گئی.اور اسے سب کا سب پھینکنا پڑا.یہ دنیا دار کا کام نہیں.ان اشیاء میں سے اکثر چیزیں تحفہ کے طور پر خدا کے وعدوں کے ماتحت آتی تھیں.اور بار ہا ایسا ہوا کہ حضرت صاحب نے ایک چیز کی خواہش فرمائی اور وہ اسی وقت کسی تو دار و یا مرید با اخلاص نے لاکہ حاضر کر دی.آپ کو کوئی عادت کسی چیز کی نہ تھی.پان البتہ کبھی کبھی دل کی تقویت یا کھانے کے بعد منہ کی صفائی کے لئے یا کبھی گھر میں سے پیش کر دیا گیا تو کھا لیا کرتے تھے.یا کبھی کھانسی نزلہ یا گلے کی خواہش ہوئی تو بھی استعمال فرمایا کرتے تھے.حقہ تمباکو کو آپ ناپسند فرمایا کرتے تھے.بلکہ ایک موقع پر کچھ حقہ نوشوں کو نکال بھی دیا تھا.ہاں جن ضعیف العمر لوگوں کو مدت العمر سے عادت لگی ہوئی تھی ان کو آپ نے بسبب مجبوری کے اجازت دے دی تھی.کئی احمدیوں نے تو اس طرح پر حقہ چھوڑا کہ ان کو قادیان میں وارد ہونے کے وقت حقہ کی تلاش میں نیکیوں میں یا مرزا نظام الدین وغیرہ کی ٹولی میں جانا پڑتا تھا.اور حضرت صاحب کی مجلس سے اٹھ کر وہاں جانا چونکہ بہشت سے نکل کر دوزخ میں جانے کا حکم رکھتا تھا اس لئے با غیرت لوگوں نے ہمیشہ کے لئے حقہ کو الوداع کہی.ہاتھ دھونا وغیرہ کھانا سے پہلے عموما اور بعد میں ضرور ہاتھ دھویا کرتے تھے.اور سردیوں میں اکثر
۵۴۴ گرم پانی استعمال فرماتے.صابون بہت ہی کم ہو تے تھے.کپڑے یا تولیہ سے ہاتھ پونچھا کرتے تھے.بعض لاتوں کی طرح داڑھی سے چکنے ہاتھ پونچھنے کی عادت ہر گز نہ تھی.گلی بھی کھانے کے بعد فرماتے تھے اور خلال بھی ضرور رکھتے تھے.جو اکثر کھانے کے بعد کیا کرتے تھے.رمضان میں سحری کے لئے آپ کے لئے سالن یا مرغی کی ایک ران اور فرنی عام طور پر ہوا کر تے تھے اور سادہ روٹی کے بجائے ایک پر اٹھا ہوا کرتا تھا.اگر چہ آپ اس میں سے تھوڑا سا ہی کھاتے تھے.کھانے میں مجاہدہ اس جگہ یہ بھی ذکر کہ نا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اوائل عمر میں گوشہ تنہائی میں بہت بہت مجاہدات کئے ہیں اور ایک موقعہ پر متواتر چھ ماہ کے روزے منشائے الہی سے رکھے اور خوراک آپ کی صرف نصف روٹی یا کم روزہ افطار کرنے کے بعد ہوتی تھی.اور سحری میں بھی نہ کھاتے تھے.اور گھر سے جو کھانا آتا وہ چھپا کر کسی مسکین کو دے دیا کرتے تھے.تاکہ گھر والوں کو معلوم نہ ہو.مگر اپنی جماعت کے لئے عام طور پر آپ نے ایسے مجاہدے پتہ نہیں فرمائے.بلکہ اس کی جگہ تبلیغ اور قلمی خدمات کو مخالفان اسلام کے بر خلاف اس زمانہ کا جہاد قرار دیا پس ایسے شخص کی نسبت یہ خیال کر تا کہ وہ دنیاوی لذتوں کا خواہشمند ہے سراسر ظلم نہیں تو کیا ہے ؟ لنگر خانہ میں آپ کے زمانہ میں زیادہ تر وال اور خاص مہمانوں کے لئے گوشت پکا کر تا تھا مگر جلسوں یا عیدین کے موقعہ پر یا جب کبھی آپ کے بچوں کا عقیقہ یا کوئی اور خوشی کا موقعہ ہو تو آپ عام طور پر اُس دن گوشت یا پلاؤ یا زردہ کا حکم دے دیا کرتے تھے کہ تقریبا کو بھی اس میں شریک ہونے کا موقع ملے
الام کھانا کھلانے کی بابت آپ کو ایک الہامی حکم ہے یا ایھا النبی المعمو الجائع والمعتر یعنی اسے بنی پھو کے اور سوال کرنے والو کو کھلاؤ.ادویات آپ خاندانی طبیب تھے.آپ کے والد ماجد اس علاقہ میں نامی گرامی طبیب گزر چکے ہیں.اور آپ نے بھی طلب سبقاً سبقاً پڑھی ہے مگر باقاعدہ مطلب نہیں کیا.کچھ تو خود بیمار رہنے کی وجہ سے اور کچھ چونکہ لوگ علاج پوچھنے آجاتے تھے.آپ اکثر مفید اور مشہور ادو یہ اپنے گھر میں موجود رکھتے تھے نہ صرف یونانی بلکہ انگریزی بھی.اور آخر میں تو آپ کی ادویات کی الماری میں زیادہ تر انگریزی اور یہ بھی رہتی تھیں.آپ کئی قسم کی مقوی دماغ ادویات کا استعمال فرمایا کرتے تھے.مثلاً کوکا کولا مچھلی کے تیل کا مرکب.انہیٹن سیرپ اکونین فولاد و غیره احد خواه کیسی ہی تلخ یا بد مزہ دوا ہو آپ اس کو بے تکلف پی لیا کرتے.سر کے دورے اور سردی کی تکلیف کے لئے سب سے زیادہ آپ مشک یا عبر استعمال فرمایا کرتے تھے اور ہمیشہ نہایت اعلیٰ قسم کا منگوایا کرتے تھے.یہ مشک خرید نے کی ڈیوٹی آخری ایام میں حکیم محمد حسین صاحب لاہوری موجد مفرح عنبری کے سپرو تھی.خیر اور شک دونوں مت تک سیٹھ عبدالرحمن صاحب مداسی کی معرفت بھی آتے رہے.مشک کی تو آپ کو اس شد ضرورت رہتی کہ بعض اوقات سامنے رومال میں باندھ رکھتے تھے کہ جس وقت ضرورت ہوئی خور انکال لیا.اسیرۃ المہدی حصہ دوم ص ۱۱ تا مت (۱۳)
۵۴۶ تذكرة حضور کے الہام و کشوف و رویا میں نے ۱۳ مٹی کے الفضل میں تذکرہ میں سے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو کے کچھ رویا دالہامات لکھے تھے.جو حضور کی وفات کے بعد پورے ہو کر حضور کی صداقت پر دلیل ٹھہرے.اور مزید وعدہ کیا تھا.آج کی محبت میں کچھ اور باتیں حضور کے الہامات و کشوف و روبار میں پیش کرتا ہوں تاکہ احباب کے لئے ازدیاد ایمان کا باعث ہوں اور مخالفین کے لئے حجت.حضور کی ایک مشہور دیا ہے کہ ع (1) " خود میرے کام کرنا یا رب نہ آزمانا " اس دعا کی قبولیت حضور کی زندگی میں تو ظاہری تھی.لیکن و مٹی شاہ کو وفات سے قریباً دو ہفتہ پہلے خدا تعالیٰ نے آئندہ کے لئے بھی یہ وعدہ فرما دیا کہ.الرحيل ثم الرحيل.ان الله يحمل كل حمل کوچ کا وقت آ گیا.اللہ تعالٰی تمھارے سارے بوجھ اٹھا لے گا.) یعنی سارے کام خود کرے گا.پس یہ الہام جواب ہے حضور کی اس دعا کا کہ مہ خود میرے کام کرنا یارب نہ آزمانا.(۲) در اپریل شاہ کو ایک الہام حضور نے شائع فرمایا کہ
۵۴۷ الَّذِيْنَ اعْتَدَ وَا مِنْكُمْ فِي السَّبْتِ (البقره : 44) ترجمہ : اور تم ان لوگوں کے انجام ) کو جنہوں نے تم میں سے (ہوتے ہوئے) سبت کے معاملہ میں زیادتی کی تھی.اور کہا کہ قوم مخالف کی طرف اشارہ ہے.اس کا ترجمہ ہے کہ وہ قوم مخالف ایسی ہوگی.جو تم میں سے ہی ہوگی.اور وہ لوگ بہت کے دن یعنی ہفتہ کے دن ظلم اور سرکشی کریں گے.اب ہم تاریخ سلسلہ کو دیکھتے ہیں.کہ ہم میں سے ہی ایک گروہ نے مہینہ کے روز جو خلافت ثانیہ کی بعیت کا پہلا دن تھا.بغاوت اور سرکشی اختیار کی تھی ہیں یہ الہام ہفتہ والے دن کے باغیوں اور سرکشوں کا صرف غیر مبایعین پر ہی پورا ہوتا ہے اور لفظاً نفطاً پورا ہوتا ہے.یعنی را کچھ سرکش لوگ ہوں گے (۲) وہ اسی جماعت میں سے ہوں گے (۲) وہ ہفتہ کے دن سرکشی کریں گے.اب اس سے زیادہ واضح اور صاف پیش گوئی اور کیا ہوسکتی ہے.(تذکرہ من) (۳) نیاست کابل میں قریباً پچاسی ہزار کے آدمی مریں گے " ( تذکره ۶۵۲) یہ وحی بار چار کی ہے اور نہیں اکیس سال بعد بچہ سقہ کی جنگوں میں بقول اخبارات کے قریبا نوے ہزار آدمی ہلاک ہوئے.یہ تعداد تو لوگوں کے اندازے تھے.اصل اور صحیح تعداد تو وہی ہے جو خدا تعالیٰ نے بتائی.اور کسی عدد کا ایک پیشگوئی میں بتایا جانا پھر اس پیشگوئی کا اسی عدد کے مطابق پورا ہوتا ایسا غیب کسی انسان کا کام نہیں ہو سکتا.بلکہ صرف ایک عالم الغیب سہتی کا کام ہے.جیسے آج کل کے بعض بڑے بڑے حساب وانوں نے یہ نظریہ پیش کیا ہے.کہ دور شمسی ۴۸ ہزار سال میمک چلتا ہے.پھر اس میں ایک فنا یا عظیم الشان تغیر آ جاتا ہے.لیکن ان کی اس گنتی ہیں فداسی کسر رہ گئی.اور کچی گنتی رہی ہے.جو مغرب کے ایک امی نے جسے خود ہزار سے اوپر
۵۴۸ می نہ آتی تھی.ایک عالم الغیب ہستی سے خیبر یا کہ یہ بتایا تھا کہ در تَعْرُجُ الْمَلَيْكَةُ وَالرُّوحُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ خَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ فَاصْبرة برا جميلاً (معارج (۵۹) ترجمہ ، عام فرشتے اور کلام الہلی لانے والے فرشتے اُس (خدا) کی طرف اتنے وقت میں چڑھتے ہیں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہوتی ہے.پس تو اچھی طرح صبر کر یعنی ایسا دن پچاس ہزار سال کا ہوتا ہے.(۴) بر من اوتار سے مقابلہ کرنا اچھا نہیں (تذکرہ مناہ) مدت ہوئی ایک دفعہ ایک ہندو سے میری گفتگو ہو رہی تھی.اس نے کہا.کہ ہندوؤں میں کچھوا اور مگر مچھ تیک اوتار ہوئے ہیں.اور کھتری پیش اور شور بھی اپنے اپنے وقت میں اوتار ہوئے ہیں لیکن دنیا میں آج تک کوئی ریمین اوتار نہیں ہوا.اور وہی آخری اوتار ہو گا.جس کا انتظار ہے.یہاں پر یمن کا لفظ کسی خاص ذات یا گوت پر نہیں بولا گیا.بلکہ اس مقصد کو ظاہر کہتا ہے کہ وہ افتار جنگ و جہاد سے تعلق نہیں رکھے گا.بلکہ علم کے نور سے قلوب کو تسخیر کرے گا.کیونکہ یہ من کا کام ہی یہ ہے کہ وہ علم پڑھے اور پڑھائے.پس اہل ہنود کی تاریخ کے مطابق بھی حضور کا یہ الہام صحیح ٹھہرتا ہے کیونکہ حضور نے ہی دلائل و براہین اور نشانات کے زور سے دیگر تمام مذاہب پر غلبہ پایا ہے.(۵) ردیا.دیکھا کہ مرزا نظام الدین کے مکان پہ مرزا سلطان احمد کھڑا ہے.اور سب باس سرتا پا سیاہ ہے.ایسی گاڑھی سیا سی کہ دیکھی نہیں جاتی.اسی وقت معلوم ہوا
۵۲۹ کہ یہ ایک فرشتہ ہے جو سلطان احمد کا لباس پہن کر کھڑا ہے.اس وقت میں نے گھر میں مخاطب ہو کر کہا.کہ یہ میرا بیٹا ہے.تب دو فرشتے اور ظاہر ہو گئے اور تین کرسیاں معلوم ہوئیں.اور تینوں پر وہ تین فرشتے بیٹھ گئے.اور بہت تیز قلم سے کچھ لکھنا شروع کیا.میں کی تیز آواز سنائی دیتی تھی.اُن کے اس طرز کے لکھنے میں ایک رکاب تھا.میں پاس کھڑا ہوں کہ بیداری ہوگئی.(تذکرہ (۴۸۸) حضور نے اس خواب کی ایک تعبیر قبل از وقت بھی کی تھی.مگر یہ پیشگوئی عجیب واقعات اور غیب اپنے اندر رکھتی ہے جس کا اس وقت شاہ میں کسی کو بھی علم نہ تھا.اس رویا میں در حقیقت مرزا سلطان احمد صاحب ہی کا ذکر خیر اور ان کی بابت ہی پیش گوئی تھی یعنی گو مخالفت اور دیگر وجوہ سے وہ سر تا پاسیاہ حالت میں ہیں.لیکن نظام سلسلہ یعنی اس خلیفہ کی بیعت میں داخل ہو کہ جو اس سلسلہ کے نظام کا پانی ہوگا.وہ فرشتہ بن جائیں گے.اور خدا کے نزدیک کرسی نشین اور معزز ہو جائیں گے اس وقت میری روح بھی بول اُٹھے گی.کہ یہ میرا بیٹا ہے.نیز اس رویا میں یہ بھی اشارہ ہے کہ مرزا سلطان مجعد صاحب مرحوم سمیت حضور کے تین بیٹے اہل قلم ہوں گے.اور ان کی قلموں کی آواز میں تحریریں کا شہرہ دنیا نبی سُن لے گی.سو حضرت خلیفہ البیع الثانی اور مرزا بشیر احمد اور مرزا سلطان احمد صاحب واقعی ایسے ہی مشہور اہل قلم ہیں.میں اس دیار کا ہر حصہ ہم نے اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھ لیا.فالحمد الله (4) "جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا.اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور نہی ہے ، ( تذکرہ ۳۲۷) یہ الہام نہایت واضح طور پر مسئلہ جنازہ کو صاف کر دیتا ہے.یعنی جو بھی تیری محبت میں داخل نہیں ہو گا اور تیرا مخالف رہے گا.......وہ جہنمی ہے اور جب جہنمی ثابت ہو گیا ہوگا
۵۵۰ تو اس کا جنازہ پڑھنا بموجب آیت مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَبُ الْجَحِيمِ (التوبه : ۱۱۳) ترجمہ بعد اس کے کہ اُن پر ظاہر ہو گیا کہ وہ دوزخی ہیں.کے منع ہے.(<) مولوی محمد علی صاحب کو رویا میں کہا.آپ بھی صالح تھے اور نیک ارادہ رکھتے تھے.آؤ ہمارے ساتھ بیٹھ جاؤ، اس رویا کی تعبیر تو یہ ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جب مولوی محمد علی صاحب کا صالح اور نیک ہونا ایک امر ماضی ہو جائے گا.لیکن ایک دوسری تعبیر اس رویا کی یہ بھی ہے.کہ مولوی محمد علی سے مراد ان کی جماعت ہے.کیونکہ امیر سے بعض دفعہ اس کا سارا گر وہ مراد ہوتا ہے.اور تعبیر یہ ہوا کہ ان کی جماعت میں صالح اور نیک ارادہ رکھنے والے اجزاء بھی ہیں.وہ سب انشاء اللہ واپس آکر حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا کے ساتھ شامل ہو جائیں گے.یعنی جو عضو بھی اہل پیغام کا اپنے اندر نیکی اور صلاحیت رکھتا ہو گا وہ آخر حضور کے قدموں میں آگرے گا.خواہ مولوی محمد علی صاحب خود منحرف ہی رہیں.کیونکہ صالح اور نیک حصہ کا آکر ساتھ بیٹھ جانے کی خبر ہے وہاں جو غیر صالح اور غیر حصہ ہے (خواہ وہ خود امیر ہی ہو) وہ نہیں آئے گا.یہی وجہ ہے کہ جس میں غیر مبالع میں نیکی اور صلاحیت ہوتی ہے.وہ ضرور اس پیشگوئی کے مطابق حضور کے قرب میں آجاتا ہے.اور یہی سلسلہ جاری رہے گا.جب تک طبیب غیر صالح سے الگ نہ ہو جائے.کلر جس کی فطرت نیک ہے وہ آئے گا انجام کار چنانچه ماسٹر فقیر اللہ صاحب ، خان بہادر صاحب، محمد صادق صاحب اسید احمد علی شاه صاحب اور ان کا صاحبزادہ خان بہادر ڈاکٹر محمد شریف صاحب وغیرہ وغیرہ احباب جو مولوی محمد علی صاحب کے صالح اور نیک اعضا تھے ان سے الگ رہ گئے.(الفضل کا جھلائی
از دو جهان سیتی ۱۹۹۰ ۵۵۱ مکرمہ مخدومه جناب ہمشیرہ صاحبه سلامت باشد.....حضرت اقدس...کے وصال کی خیر وحشت اثر معلوم ہو کہ جو صدمہ ہوا اس کے بیان کی ضرورت نہیں یہ ساتھ ہی میرا تو یہ حال ہے کہ میں لکھتا جاتا ہوں اور اختیار نہیں آتا کہ یہ واقعہ ریح ہے.دل کو یقین نہیں آتا یا یہ کہو کہ دل یقین کرنا نہیں چاہتا گریو امر ہونا تھا اور خدا تعالیٰ کے ہاں سے مقدر تھا وہ ہوا.اس میں کسی انسان اور فرشتے کا دخل نہیں.آج تک کوئی انسان موت سے بچا ہے نہ بچے گا.تمام پیمبر، انبیاء اولیاء، بزرگ، پیر، صاحب کرامات خدا کے پیارے.قرض بڑے بڑے رہنے والے حتی کہ سب کے سردار حضرت محمد مصطفے صل اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی چند روزہ زندگی بسر کری کے اس جہان سے رحلت کی.ہزاروں روئے.لاکھوں نے اپنی جان اُن پر تصدق کرنی چاہی ، نہایت تضرع اور سچے دل سے ہر شخص نے دُعا کی یہ پیالہ مل جائے مگر نہ ٹل سکا.اور آخر سب کو پنا ہی پڑا.نبی رسول خدا کے پیارے دوست ہوتے ہیں.وہ ان کو کچھ مدت کے لئے دنیا میں ہدایت کے لئے بھیجتا ہے جب وہ اپنا کام کر چکتے ہیں تو پھر دنیا میں انکی ضرورت نہیں رہتی جب تک وہ یہاں رہتے ہیں لوگ ان کے مخالف اور درپئے آزار رہتے ہیں.ہر طرح کے دُکھ دیتے ہیں اور سب وشتم کرتے ہیں.غرض ہر انداز اور بہرطور سے اُن کو تکلیف اور ایذا دینے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں.یہیں خدا بھی جب ان کا کام ہو چکتا ہے تو فوراً ہی ان کو اپنے پاس دائمی آرام اور ہمیشہ ک راحت میں بلا لیتا ہے.اور نہیں چاہتا کہ ضرورت سے زیادہ وہ دنیا میں رہ کہ تکلیف اٹھا دیں بغرض انبیاء اور اولیا کی موت
۵۵۲ ایسی نہیں ہوتی کہ مرتے وقت اُن کو کوئی کادش یا ہم وحزن ہو بلکہ وہ ان کو دنیا سے بشارت اور دائمی برکت اور رحمت کے ساتھ لے جاتی ہے.اور وہ لوگ میں طرح ایک ہو کا بچہ دیر کے بعد اپنی ماں کی گود میں سبک کر جاتا ہے اسی طرح اپنے رب سے وصال پاتے ہیں اور پھر ہمیشہ کے لئے اُس کے طرح طرح کے افضال اور الطاف کے مور دیتے ہیں نہیں موت کا وارد ہونا اس شخص کے لئے تو موجب فکر و تشویش ہو سکتا ہے جسے اگلے جہاں میں اپنے اعمال کا فکر ہو مگر جو شخص معصوم خدا کی درگاہ میں وہی جاتا ہے نہیں بلکہ اس کا عزیز مہمان اور پیارا دوست بن کر جاتا ہے.تو اس کے انتقال پر ہم کو رشک کرنا چاہیئے کہ جس طرح یہ مرنے والا تیرا مقرب اور پسندیدہ درگاہ تھا.اسی طرح تو ہم کو بھی توفیق دے کہ تیرے فضل سے ہم بھی مریں تو تیرے نیک اور پائے بندے ہو کہ مری اور آخرت میں ہم اس کے ساتھ ایسے ہی وابستہ رہیں میں طرح دنیا میں تھے.دوسری بات جو ہم کو اس واقعہ سے پیش آئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی ہمارا امیر اور ہماری استقامت اس ابتلا کے موقع پر آزمانی چاہتا ہے.ایک ہمارا سب سے پیارا اس جہاں سے رحلت فرما ہوا.اگر ایسی حالت اور نا گہانی صدمہ کے وقت انسان شدت غم میں خدا تعالیٰ کی حدود سے باہر نہ جاوے اور جو کچھ سر پر گندا ائس کو خدا کی طرف سے سمجھے کہ اُسی سے صبر بھی مانگے اور ہر حال میں جیسا کہ ہم نے بیعت کے وقت سے اقرار کیا تھا اپنے عملوں سے بھی کر دکھا دے کہ خدا کی رضا پر ہر طرح راضی ہے تو اللہ تعالیٰ بھی اس کے دل کو صبر و قرار اور تسکین سے بھر دیتا ہے اور اس کے ایمان میں ترقی دیتا ہے.دل پر جور پنج گزرتا ہے وہ فطرتی ہے مگر کثرت ہوم کے وقت کسی ایسی بات کا ہو جانا ممکن ہے جو خدا کی نظر میں ناپسندیدہ ہو.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۱۸ سال کی تھیں جب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی.انہوں
۵۵۲ نے اور آپ کی ازواج نے جو نمونہ آپ کی وفات کے وقت دکھایا وہ قابل تقلید نمونہ ہے.تم بھی اس فرقہ کی عورتوں کے لئے نمونہ ہو احتیاط رکھنی چاہئیے کہ ایسے موقع پر جبکہ مردوں کے جس کے چھوٹے ہوئے ہیں.کوئی ایسی بات نہ ہو جس کی تقلید کر کے آئندہ امت کی عورت میں کوئی بڑی رسم اختیار کر لیں.تمہارے افعال، تمہارے اقوال تمہاری باتیں آئندہ کے لوگ سند پکڑیں گے.پس اللہ تعالیٰ کی رضا میں تمہاری ہر بات ہو اور کوئی نمونہ ایسا نہ چھوڑ جاؤ جس پر قیامت تک کسی کی حرف گیری ہو سکے.عورت کے لئے خاوند کا مرنا سب سے بڑھ کر صدمہ اور غم ہے مگر ہمیشہ کے لئے نہیں اگر کوئی مرجاتا اور کوئی ہمیشہ کے لئے زندہ رہ جاتا تو واقعی یہ صدمہ سخت صدمہ تھا مگر جب سب ایک راہ چل رہے ہیں اور آگے پیچھے سب کو مرنا ہے تو اگر یہی سمجھ لیا جائے کہ مرنے والا سفر پر گیا ہے یا چند دن کے لئے غائب ہے اور پھر ہم اس کو ضرور ملیں گے.اور یہ طاقات ایسی ہوگی کہ پھر اس میں جدائی نہ ہوگی تو کیا یہ خوش آئند خیال نہیں ہے ؟ ہاں اور لوگوں کو تو ڈر ہو سکتا ہے کہ نیوی شاید وہاں اپنے میاں سے یا میاں اپنی بیوی سے وہاں نہ مل سکے.کیونکہ ہر ایک کو اپنے اعمال کے سبب اجر دیا جاوے گا اور انجام کی کسی کو خبر ہے مگر یہاں تو یہ بات نہیں ہے.ایمان لانے والی بی بی جو خدا تعالیٰ کی بشارت اور خوشخبری سے دُنیا میں اُس کے ساتھ رہی ہو.وہ اگلے جہاں میں بھی اپنے میاں کے ساتھ ہوگی اور ضرور ہوگی.جماعت احمدیہ کے لئے یہ ایک مفت ابتلا ہے.پہلے وہ ایک لیے فکر کی طرح تھے اور نام کے مدد گار تھے.اب ان کو معلوم ہوگا کہ کتنا بڑا کام وہ شخص اکیلا کرتا رہا.نمیرا ایمان ہے کہ اگر یہ فرقہ یع ہے اور یقیناً پیچ پر ہے تو خدا اس کو ہر طرح کی ہلاکت سے بچائے گا اور ہر دشمن کی دشمنی سے محفوظ رکھے گا اور اسے دنیا کے اطراف میں پھیلا دے گا وہ شخص تو اپنا کام پورا کر گیا.بلکہ دمیت بھی ایک چھوڑ دو دفعہ ھیوادی تھی.
۵۵۴ اور لوگوں پر تبلیغ پوری ہو چکی تھی اور یہ ایک دن آنے والا باقی تھا سو آ گیا.مگر وہ دن بھی خدا کا نشان ہو کہ آیا اور دور پیش گوئیوں کو پورا کر گیا یعنی ایک تو الہام انتقال کے متعلق الرحيل ثم الرحيل والا اور مباش این از بازی روزگار اور دوسرے ده پرانا اور بار بار ہونے والا الہام یعنی دانے ہجرت اور وطن کی جدائگی میں رحلت ہوگی.غرض خدا کے بندے مرتے مرتے بھی اپنا خدا کی طرف سے ہونے کا ثبوت دے جاتے ہیں.اور ان کی ذات تو ایسی تھی کہ ان کا مرنا جینا سب خدا کی مرضی اور اس کی فرمانبرداری ہیں تھا.مگر ہم کو بھی جو پسماندگان میں رہ گئے ہیں.ایسا ہی نمونہ دکھانا چاہیئے جس میں خدا تعالیٰ کی مرضی پر سر رکھ دینے اور راضی بقضا ہونے کی خود ہمارے دل گواہی دے دیں.آپ مجھ سے بڑی ہیں اور سب باتوں میں مجھ سے زیادہ واقف ہیں اور مجھے ایسا لکھنے کی ضرورت کچھ نہیں مگر میں اندازہ کر سکتا ہوں کہ اس ناگہانی حادثہ کا آپ کے دل پر کیا صدمہ ہوا ہو گا.دنیا کی زندگی ایک تو خود چند روزہ ہے.مگر ان چند روزہ میں بھی اس سرائے کے مسافر اس طرح تعلق پذیر ہو جاتے ہیں کہ جدائی کا دی ایک بڑا سخت دن ہوتا ہے اور جو اس سختی کو اللہ کی مرضی کے مطابق سہہ لیتا ہے وہ آئندہ اس سے بڑھ کر خوشی دیکھے گا مجھے خود بے حد رنج ہے کہ میں ایسی دور ایسے ایسے وقت پر پڑا ہوا ہوں.علاوہ ازیں یہ کہ دریا کی طغیانی کے سبب راستے بہت مشکل اور قریباً مسدود ہیں.آپ کی بھاوج بھی آنے کو تیار سمجھی ہیں.عرضی رخصت کی گئی ہوئی ہے اگر منظور ہوئی تو حاضر خدمت ہوں گا.ایک ہی ذات سب کا آسرا ہے.اسی سے ہر وقت دُعا کرنی چاہیئے کہ وہ ہر مصیبت پر ثابت قدم رکھے اور اعلی درجہ کا نیک نمونہ آئندہ نسلوں کے لئے بنائے اور ہماری زندگی اور موت اسی ایمان پر ہو.اور جس کی جدائی سے آج دل کو تپش سی لگی ہوئی ہے.اس کے ساتھ اور اس کے قدموں میں ہمارا حشر
۵۵۵ ہو.اور ہمیشہ اس کے اصحاب اور متعلقین میں داخل رہیں خدا کے ہزار ہزار درود اور سلام تجھ پر ہوں اسے غلام احمد کی روح ! اور بڑی بڑی برکتیں اور مراتب اور درجات اللہ تعالیٰ تجھے دیو سے بدلے اس رمت اور شفقت کے جو تو نے امت محمدی سے کی اور جو تعلیم تو نے ہم کو دی.اللهُمَّ صَلِّ عَلى محمد وعلى ال محمدة بارك وسلّم - محمد اسمعیل از کتاب حضرت اماں جان)
۵۵۶ سیرت حضرت سید نصرت جہانگیر کا مالی نقشه حضرت میر ڈاکٹر محمد اسمائیل صاحب کی تحریر کا ایک کمال دنیا کو کوزے میں بند کر دینا بھی ہے حضرت سیدہ نصرت جہاں حرم حضرت مسیح موعود کی سیرت کا اجمالی نقشہ پیش کرتے ہوئے تحریہ فرماتے ہیں.ا بہت صدقہ خیرات کرنے والی.ہر چندہ میں شریک ہونے والی.اول وقت اور پوری توجہ اور انہماک سے پنچ وقتہ نماز ادا کرنے والی.صحت اور قوت کے زمانہ میں تہجد کا التزام رکھتی تھیں.ہ.خدا کے خوف سے معمور A -9 صفائی پسند شاعر با مذاق مخصوص زنانہ جہالت کی باتوں سے دُور گھر کی عمدہ منتظم اولاد پر از حد شفیق ا.خاوند کی فرمانبردار ۱۲.کینہ نہ رکھنے والی ۱۳ عورتوں کا مشہور وصف ان کی تر یا مہت ہے مگر میں نے حضرت محمد وحہ کو اس کا یا مگرمیں محمد عیب سے ہمیشہ پاک اور بری دیکھا.:
وئیں نے اپنی ہوش میں نہ کبھی حضور کو حضرت اماں جان سے ناراض دیکھا نہ سُنا بلکہ ہمیشہ وہ حالت دیکھی جو ایک آئیڈیل Ideal جوڑے کی ہونی چاہیے بہت کم خاوند اپنی بیویوں کی وہ دلداری کرتے ہیں جو حضور حضرت اماں جان) کی فرمایا کرتے تھے اور ہندوستانی میں بھی اکثر کلام کر تے تھے مگر شاذ و نادر پنجابی میں بھی.حالانکہ کہتے مگریش بچوں سے اکثر پنجابی بولا کرتے تھے.اسيرة حضرت سیدہ (نصرت جہاں بیگمی مش ۲ حصہ دوم
زمانه حضرت سیدہ نصرت جہاں گیر کے لیلہ القدر کرنے کے متعلق ایک روایت بزبان حضرت میر محمد اسماعیل رمضان ۳۶وار کا ذکر ہے.قادیان میں لوگ حسب معمول لیلتہ القدر کی تلاش میں تھے کہ ایک روز مکرمی اخونم با لب فضل احمد صاحب بٹالوی مہاجر نے مجھے اپنی رویا ستائی کہ مجھے آج معلوم ہوا ہے کہ حضرت سیدہ نصرت جہاں) ليلة القدر ہیں.میں پہلے تو اس فقرہ کوشن کہ کچھ حیران حیران سا ہوا پھر مجھے پر بھی واضح ہو گیا کہ حقیقتا انسان ہی لیلۃ القدر ہوتے ہیں نہ کہ زمانہ بعض مبارک وجودوں سے مستورا در مبارک ہو کر لیلتہ القدر کہلاتے لگتا ہے.مگر یہ خاصیت اس زمانہ کی نہیں ہے بلکہ اس مبارک وجود کے فیضان کی ہے.جو اُسے با برکت کہ دیتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت مسیح موعود اور اسی طرح دیگر سب انبیا علیہم السلام کے زمانے ان کی برکات کی وجہ سے لیلتہ القدر کہلاتے ہیں.اور جب تک ایسے وجود دنیا میں رہتے ہیں.برکات کی ایک قضا عالم پر چھائی رہتی ہے.پس اگر چہ لیلتہ القدر کہنے کو ایک زمانہ یا ایک رات ہوتی ہے مگر اُس کی پشت پر کسی زندہ وجود کے برکات ہوتے ہیں.جو اُسے بابرکت بنائے رکھتے ہیں.ان معنوں میں کیا شک ہے کہ حضرت علیا کا وجود بھی ایک بہت بڑی لیلۃ القدر ہے.....محمد اسماعیل الصفہ قادیان
۵۵۹ پیاری بیٹی محترمہ مریم صدیقہ صاحبہ کے نام مکتوب حضرت میر محمد اسمعیل نے اپنی بیٹی کو شادی کے بعد گھر سے رخصت کرتے ہوئے بعض ہدایات اپنے قلم سے نوٹ بک میں تحریر کر کے دیں حضر مصلح موعود اللہ آپ سے راضی ہو) کے متعلق الہی بشار میں تحریر کرنے کے بعد تحریر فرمایا.مریم صدیقہ ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ ویرہ کا نہ......تم اپنی خوش قسمتی پر جتنا بھی ناز کر دکم ہے.مریم صدیقہ جب تم پیدا ہوئیں تو میں نے تمھارا نام مریم اسی نیست سے رکھا تھا کہ تم کو خدا تعالی اور اس کے سلسلہ کی خدمت کے لئے وقف کروں ، اس وجہ سے تمہارا دوسرا نام تذر الہی بھی تھا.اب اس نکار سے مجھے یقین ہو گیا کہ میرے بندہ نواز خدا نے میری درخواست اور نذر کو قبول کر لیا تھا اور تم کو ایسے خاوند کی زوجیت کا شرف بخشا جس کی زندگی اور اس کا ہر شعبہ اور ہر لحظہ خدا تعالیٰ کی خدمت اور عبادت کے لئے وقف ہے.پس اس بات پر بھی شکر کرو کہ تم کو خدا تعالئے نے قبول فرما لیا اور میری نذر کو پورا کر دیا.فالحمد لله......اس کے بعد محترم میر صاحب نے خاوند کی اطاعت کے بارہ میں ارشاد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم درج کیا اور فرمایا.سمجھنے کے لئے بڑی موٹی بات یہ ہے کہ جس گھر میں خاوند بیوی کا مطیع ہو جائے یا بیوی خاوند کی مطلع ہو جائے وہی گھر بہشت بن جاتا ہے اگر دونوں اپنے تئیں بادشاہ خیال کریں تو ایسا گھر جہنم سے بہتر ہو
04.J جاتا ہے.جب ایک سلطنت میں دو بادشاہ نہیں سما سکتے تو ایک گھر میں کس طرح سما سکتے ہیں پس عورت کو خاوند کے گھر جانے سے پہلے ہی سوچ لینا چاہیے کہ میں نے کامل اطاعت سے اپنے گھر اور آخرت کو جنت بنانا ہے." میری پیاری مریم صدیقہ انہیں معلوم ہے کہ تمہاری تین سکونہیں پہلے موجود ہیں.وہ تمھاری شادی سے پہلے بھی تمھاری بھابی جان تھیں اور تم ہم اور سب ان کی عزت اس لئے کرتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے ان کو حضرت خلیفہ المسیح کی بیویاں بنایا تھا.اب تم بھی اس جماعت میں داخل ہوگئی ہو پس ہمیشہ ان کو اپنا بزرگ اور عزیز اور بہنوں کی طرح خیال کرو.بلکہ پہلے سے زیادہ ان کی عزت کرو جس طرح چھوٹی بہن اپنی بڑی بہن کی عزت کرتی ہے.اور ان کے بچوں کو ایسی ہی نظر سے دیکھو جس طرح ایک بہن دوسری بہن کے بچوں کو دیکھتی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ کیونکہ حضرت مسیح موجود آپ پر سلامتی موم کی نسل اور ذریت ہیں.خدا تعالیٰ تم کو توفیق مریم صدیقہ ! تم اندازہ نہیں کر سکتی کہ حضرت خلیفہ ایسیج پر خدمت دین کا کتنا بوجھ ہے اور اس کے ساتھ کسی قدر ذمہ داریاں اور تفکرات اور موم و غم وابستہ ہیں اور کس طرح وہ اکیلے تمام دنیا کے بر سر کار تار ہیں.اور اسلام کی ترقی اور سلسلہ احمدیہ کی بہبودی کا خیال ان کی زندگی کا مرکزی نکتہ ہے.پس ایسے مبارک وجود کو اگر تم کبھی بھی خوشی دے سکو اور کچھ بھی ان کی تکان اور تفکرات کو اپنی بات چیت، خدمت گزاری اور اطاعت سے ہلکا کر کس کو تو سمجھ لو کہ تمہاری شادی اور تمہاری زندگی بیڑی
841 کامیاب ہے اور تمہارے نامہ اعمال میں وہ ثواب لکھا جائے گا جو بڑے سے بڑے مجاہدین کو ملتا ہے.بیوی کا پہلا فرض ہے کہ جب وہ خاوند کے گھر جائے تو اس کی میمنی پہچاننے کی کوشش کرے.اور اس کی طبیعت اور مزاج کا علم حاصل کرے.پھر اگلا مرحلہ یعنی خاوند کو راضی رکھنا بہت آسان ہو جاتا ہے.مگر بعیض باتیں ایسی ہیں جو عوا خاوند کی تکلیف کا باعث ہوتی ہیں.اُن سے خاص کہ احترانہ چاہیے اور یہیں اُن کا ذکرہ کر دیتا ہوں.اُن میں سے ایک بات یہ ہے کہ بیوی اکثر اوقات خرچ کے لئے تقاضا کرتی ہے.خرچ حکمت سے لینا چاہیئے.نہ کہ تقاضہ اور تنگ کر کے اور جب خاوند کے پاس روپیہ موجود نہ ہو اس وقت مطالبہ کرنا اس کو تکلیف دیا ہے.ایک بات یہ ہے کہ بیوی اکثر اوقات بد مزاج یا خاموش رہے اور جب خاوند گھر میں آئے تو اُسے سچے دل سے خوش آمدید نہ کرے یا اس کی بات کاٹے یا ایسے الفاظ لوگوں کے سامنے رکہے جس میں خاوند کی کسی قسم کی تحقیر ہو یا بہت نخرے کرے اور ناز برداری کی خواہش رکھے.اس کی خیر خواہی کی بات کو نہ مانے.مثلاً وہ کہے کہ میرے ساتھ کھانا کھاؤ تو جواب کہ مجھے بھوک نہیں.وہ کوئی دوا تجویز کرے تو کہے یہ مجھے مفید نہیں ہوگی میں اسے استعمال نہیں کروں گی.وہ کوئی کپڑا یا تحفہ لا کہ دے تو اُسے حقارت سے دیکھے.عرض کیسی جیسوں چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن میں بیبیاں فیل ہو جاتی ہیں اور اپنی زندگی کو اغ کر لیتی ہیں.بحث کرنا اور مخالف جواب دینا یہ خاوند کے دل سے بیوی کی محبت کو اس طرح اڑا دیتا ہے جس طرح ریتہ اہل کے لکھے کو اور یہ
۵۹۲ عادت آج کل کی تعلیم یافتہ لڑکیوں میں بہت ہے.مریم صدیقہ تمہاری زندگی آب خلیفہ کی رضا جوئی اور خدا تعالے کی محبت کے لئے ہے.اس لئے دنیا کی چیزوں اور زہنیتوں سے ابھی سے اپنے دل کو ہٹا تو بجائے رنگین کپڑوں، عمدہ جوتوں ، نفیس زیورات کے قرآن مجید، نمازیں ، روزے نیک کام، عمدہ اخلاق، دینی کتابوں کا مطالعہ پاک خواتین اسلام کے نقش قدم پر چلنا بسلسلہ کی خدمات میں حصہ لینا.یہ باتیں تمہارا مقصود ہو جائیں.اور دنیا کی زیب و زینت اصل مقصد نہ رہے.مریم صدیقہ صبح کی نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت اگر ہمیشہ کرتی رہو گی تو تمہارے دل میں ایک نور پیدا ہوگا." اس کے بعد محترم میر صاحب نے اپنی بچی کو صفائی کے بارہ میں ہدایات دیں.جن میں یہ درج ہے کہ صبح، دوپہر شام تین وقت مسواک کرو اور فرمایا خوشبو اور عطر کو شارح نے بہت پسند کیا ہے.آپ نے فرمایا.مصنوعی پوڈر اور لپ سٹک وغیرہ چیزیں جلد کو آخر کار خراب کر دیتی ہیں اور بعض ان میں سے زہریلی بھی ہوتی ہیں اور جو لوگ ایسی چیزوں کے بہت دلدادہ ہوتے ہیں.وہ آخر اد تی خیالات میں ہی محصور ہو جاتے ہیں اور حسنِ اخلاق کی جگہ حسین اعضاء ہی ان کا منتہائے نظر ہو جاتا ہے.پس سوائے گا ہے لگا ہے استعمال کے ان کی طرف زیادہ توجہ نہیں چاہیئے.مریم صدیقہ جس نیک بی بی کو گھر کی صفائی.پکانا ، سینا اور خانہ داری آتی ہے وہ خاوند کو زیادہ خوش کر سکتی ہے یہ نسبت اس کے جو سکھی ناول میں اقعے ہی پڑھتی رہتی ہے یا اپنے ہی بناؤ سنگار میں مصروف رہتی ہے."
۵۹۳ بیماری میں زیادہ گھیرا ہٹ اور بے صبری نہ کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں.دبے قراری کا اظہار ایک معیوب بات ہے، میر ایک اعلیٰ خلق ہے خصوصاً عورتوں کے لئے اور بھوک، بیماری، درد اور اذیت پر صبر کرنا ، صدق، تقولی اور ایمان کی علامت ہے.مریم صدیقہ ! ہر معاملہ میں اور ہر تکلیف اور شکل اور آرام اور راحت میں خدا تعالیٰ تمہاری زندگی کو اپنے فضل سے نہایت کامیاب زندگی بنا دے گا میں بھی تمھارے لئے خدا تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں اور کہتا رہا ہوں.اللهُمَّ إِنِّي أَعُوْذُ بِكَ وَذريتها مِنَ الشَّيْطِنِ الرَّحِيمُ يا مريم اثنتي لربك واسجدي واركَعِي مَعَ الرَّاكِعِين پھر ان کو قادیان کی سکونت مل جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :- اس خوش نصیبی پر جتنا بھی ناز کر کم ہے.جو لڑکیاں قادیان میں پیدا ہوئیں اور یہاں جوان ہوئیں اور بیاہ کر باہر چلی گئیں اُن کے دل سے پوچھنا چاہیے کہ ان پر کیا گزرتی ہے.یہ تندرستی اور صحت کا خیال رکھنے کی تاکید کی اور فرمایا.صحت کے گرنے سے انسان کے خیالات، اخلاق اور اس کے نیک اعمال سب میں ناگوار تغیر آجاتا ہے..اختتام آپ نے ان الفاظ پر کیا وہ اميك بتقوى الله والمواظمة على ذكر الله خدا حافظ والسلام - محمد اسمعیل ر دو بھائی صفات و ۴ تا ۵۶)
۵۹۴ حضرت میر محمد الحق صاحب کی وفات کس طرح ہوئی ؟ میر صاحب ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) کو کئی سال سے ایک بیماری تھی جو عود کہ کر کے آتی تھی.یعنی اُن کے ذرائع کا مصفا پانی ناک کے راستے پکنا شروع ہو جاتا.اور پھر خود ہی بند ہو جایا کرتا تھا.یہ ایک بہت شاد بیماری ہے جس کا کوئی علاج اب تک معلوم نہیں ہوا.ہر حملہ کے بعد مرحوم بہت کمزور ہو جاتے تھے اور اہل خانہ سے اُسے چھپانے کی کوشش کرتے تھے تا کہ وہ گھیرا نہ جائیں.لاہور کے جلسہ مصلح موعود سے واپس تشریف لائے تو نزلہ ہو گیا پنجار آنے لگا اور ناک میں سے پانی گرتا پھر شروع ہو گیا.۱۲ مارچ کو مجھے بلایا.میں نے نسخہ تجویز کیا اشارہ سے کہا کہ والدہ دادو کو اس پانی کے گرنے کی خیر نہ ہو.14 مارچ کی شام کو ہ بچے شیخ احسان علی صاحب کی دکان کے آگے ملے.فرمایا کہ سر میں شدید درد ہے.کئی ٹکیاں اسپرین کی کھا چکا ہوں اب گھر جا رہا ہوں (گیسٹ ہاؤس میں مقیم تھے) میں بیسن کہ بہت مبارک میں عصر کی نمازہ پڑھنے چلا گیا.نماز سے فارغ ہوا تھا کہ کسی نے کہا کہ میر صاحب دار الشیوخ میں بڑ کے درخت کے نیچے پڑے ہیں اور گر کر بے ہوش ہو گئے ہیں.جب میں وہاں پہنچا.تو دیکھا کہ لڑکے انہیں دیا ر ہے تھے اور پیر جی رہے تھے.میاں عبد المنان صاحب بھی پاس تھے.فرمایا کہ ناقابل برداشت ورد میرے سر میں ہے.اور بغیر مارنیا کے کسی چیز سے فائدہ نہ ہوگا.میں نے شیخ احسان علی صاحب کے ہاں سے مارقیبا انجیکشن تیار کرا کے منگوائی اور لگا دی.تھوڑی دیر کے بعد قدرے سکون ہو گیا.اتنے میں حضرت مصلح موعود ) نے گیسٹ ہاؤس تک جانے کے لئے اپنی موٹر بھی
۵۶۵ دی.تھوڑی دیر میں لیٹے لیٹے چارپائی پر بیٹھ گئے اور نہایت جوش سے کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں (یا تم گواہ رہو) کہ الله تعالى وحده لا شريك ہے.اس کے بعد ہم نے کہا کہ موٹ احاطہ سے باہر کھڑی ہے اس پر سوار ہو جائیں.فرمانے لگے میرے لئے اب یہ بھی ناممکن ہے.اس پر کئی لڑکوں نے ان کی چار پائی اُٹھائی.اور باہر موٹر کے پاس لے گئے.فرمانے لگے یونہی گھرے چلو مجھے اور مولوی عبدالمنان صاحب کو فرمایا کہ گھر تک ہمراہ رہیں.گھر میں جا کر لٹایا گیا.بیوی سامنے آئیں.تو ہاتھ اُٹھا کہ فرمانے لگے.بالکل فکر نہ کرو میں اچھا ہوں مجھے کچھ تکلیف نہیں ہے.اور اس طرح ان کی نسلی کی.اتنے میں انہیما تیار کیا گیا.اور کئی دفعہ کوشش کی مگر کامیابی نہیں ہوئی.بعدہ دن کے کھانے کے قے آئی پھر میلہ جلد غنودگی بڑھنے لگی.گرتے جاری رہی.سخت در در سرتے اور فضلت کی وجہ سے نصف شب کے قریب خیال ہوا کہ یہ یوریمیا Uremia ہے پیشاب ریڑ کی نلکی سے نکالا گیا تو اس میں کافی ایلینون کی Alhumen تھا مگر بعض اور علامات سے رات کے دو نیکے یہ فیصلہ کیا گیا کہ دماغ کا پانی میعینی Cerebro-Spinal Fluid کمر میں سوراخ کر کے نکالا جائے.وہ نکالا گیا.تو بہت زور سے دھار باندھ کر اور دودھ کی طرح سفید یعنی پیپ سے ملا ہوا نکلا.جس میں خوردبینی امتحان کرنے پر ہر قسم کے پیپ کے جراثیم پائے گئے.معلوم ہوا کہ وہ یانی جو ہمیشہ ناک میں سے نکلا کرتا تھا اور دماغ کے اندرا در پردوں میں اس کا منبع تھا.وہ سیٹک Septic ہو گیا ہے.اور سرسامی کیفیت فضلت تشنج تھے اور آنکھوں کا ایک طرف کو پھر جانا اور تیلیوں کا سکڑ جانا سب اسی وجہ سے ہے اور صورت درم دماغ Meningitis کی قائم ہوگئی ہے.ایک دفعہ بے ہوش ہو کر پھر ہوش نہیں آیا.تیز بخار اس دوران ہمیں ا چڑھا رہا.ان چوبیس گھنٹوں میں انسان دعا اور دوا سے کوشش اور جد و جہد کرتے رہے.گر تقدیر الہی انکار کر تی رہی.یہاں تک کہ مغرب کے وقت روح مبارک قفس عنصری سے پرواز کر گئی اور وہ آفتاب علم و حکمت اور مجموعه محاسن اخلاق نبویه همیشه
۵۶۶ کے لئے اس دنیا سے غروب ہو گیا.قادیان امر تسر اور لاہور کے معالجوں نے اپنے سیالات حرب استعمال کر لئے اور بیماری کے خلاف اپنی فولادی سوئیوں بشیشہ کی نیکیوں اور ربڑ کی بھکاریوں کے ساتھ جنگ کرتے رہے.مگر اصل مقدر نے سب پر فتح پائی اور افا جار أَجَلُهُمْ فَلَا يستأْخِرُونَ سَاعَةً وَلَا تَقْدِمُونَ (یونس : (۵) کہتے ہوئے اس مطمہ اور راضِيَةً مَرْضِيّة (الفجر: ۲۹ نفس کو لے جا کہ بارگاہ الہی میں پیش کر دیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِذَا الَيْهِ رَاجِعُونَ.والفضل یکم اکتوبر (۱۴۴)
۵۶۷ سیرت المهدی (حصہ اول، دوم وسوم) حضرت میر محمد اسمعیل کی بیان کردہ چند روایات روایت ۲۶ : ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے بیان کیا کہ وہ جب حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو نے لدھیانہ میں دھوئی مسیحیت شائع کیا.تو میں ان دنوں چھوٹا بچہ تھا.اور شاید تیسری جماعت میں پڑھتا تھا.مجھے اس دعونے سے کچھ اطلاع نہیں تھی.ایک دن میں مدرسہ گیا تو بعض لڑکوں نے مجھے کہا کہ وہ جو قادیان کے مرزا صاحب تمھارے گھر میں ہیں.انہوں نے دعوئے کیا ہے کہ حضرت عیسی فوت ہو گئے ہیں اور یہ کہ آنے والے سیح وہ خود ہیں.ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے کہ میں نے ان کی تردید کی کہ یہ کسی طرح ہو سکتا ہے.حضرت عیسی تو زندہ ہیں اور آسمان سے نازل ہوں گے خیر جب میں گھر آیا.تو حضرت صاحب میٹھے ہوئے تھے.میں نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا.کہ میں نے سُنا ہے.آپ کہتے ہیں کہ آپ مسیح ہیں.ڈاکٹر صاحب نے کہا.کہ میرا یہ سوال سُن کر حضرت صاحب خاموشی سے اُٹھے اور کمرے کے اندر الماری سے ایک نسخہ کتاب فتح اسلام جو آپ کی جدید تصنیف تھی الاکہ مجھے دے دیا.اور فرمایا.اسے پڑھو.ڈاکٹر صاحب فرماتے تھے.کہ یہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی صداقت کی دلیل ہے کہ آپ نے ایک چھوٹے بچے کے معمولی سوال پر اس قدر سنجیدگی سے توجہ فرمائی.ورنہ یونہی کوئی بات کہہ کر ٹال دیتے.روایت علا حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کا امرتسر میں آتھم کے ساتھ مباحثہ ہوا تو دوران مباحثہ میں ایک دن عیسائیوں نے خفیہ طور پر ایک اندھا اور ایک پہرا اور ایک لنگڑا مباحثہ کی جگہ میں لاکر ایک طرف بیٹھا دیئے اور پھر اپنی تقریر میں حضرت مناب
کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ مسیح ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیجئے.یہ اندھے اور بہرے اور لنگڑے آدمی موجود ہیں میسیج کی طرح ان کو ہاتھ لگا کر اچھا کر دیجئے.میر صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہم سب حیران تھے.کہ دیکھئے اب حضرت صاحب اس کا کیا جواب دیتے ہیں.پھر جب حضرت صاحب نے اپنا جواب لکھوانا شروع کیا تو فرمایا کہ میں تو اس بات کو نہیں مانتا کہ مسیح اس طرح ہاتھ لگا کر اندھوں اور بہروں اور لنگڑوں کو اچھا کر دیتا تھا.اس لئے مجھ پر یہ مطالبہ کوئی حجت نہیں ہو سکتا.ہاں البتہ آپ لوگ مسیح کے بجرے اس رنگ میں تسلیم کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ کا یہ بھی ایمان ہے کہ جس شخص میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہو وہ درسی کچھ دکھا سکتا ہے جو مسیح دکھاتا تھا.پس میں آپ کا بڑا شکر گذار ہوں کہ آپ نے مجھے اندھوں اور پیروں اور لنگڑوں کی تلاش سے بچا لیا اب آپ ہی کا تحفہ آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ یہ اندھے بہرے اور لنگڑے حاضر ہیں.اگر آپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہے تو مسیح کی سنت پر آپ ان کو اچھا کر دیں.میر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب نے جب یہ فرمایا تو پادریوں کی ہوائیاں اُڑگئیں اور انہوں نے جھٹ اشارہ کر کے ان لوگوں.....کو وہاں سے رخصت کروا دیا.میر صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ نظارہ بھی نہایت جیب تھا کہ پہلے تو عیسائیوں نے اتنے شوق سے ان لوگوں کو پیش کیا اور پھر ان کو خود ہی ادھر اُدھر چھپانے لگ گئے.روایت ۳۲۹ میں نے کبھی حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی زبان سے حصہ کی حالت میں بھی گالی یا کالی کا ہم رنگ لفظ نہیں سنا.زیادہ سے زیادہ بیوقوف یا جاہل یا احمق کا لفظ فرما دیا کرتے تھے اور وہ بھی کسی ادنیٰ طبقہ کے ملازم کی کسی سخت غلطی پر شاذ و نادر کے طور پر.خاکسار عرض کرتا ہے کہ مجھے جہاں تک یاد ہے حضرت صاحب کسی ملازم کی سخت فصلی یا بے وقوفی پر جانور کا لفظ استعمال فرماتے تھے جس سے منشاء یہ ہوتا تھا کہ تم نے جو فیل کیا ہے.یہ انسان کے شایان شان نہیں.بلکہ جانوروں کا سا کام ہے.
۵۶۹ روایت ۳۳ - مجھے پچیس سال تک حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا کے عادات و اطوار اور شمائل کو بغور دیکھنے کا موقع ملا ہے.گھر میں بھی اور باہر بھی ہیں نے اپنی سازی عمر میں آج تک کامل طور پر تصنع سے خالی سوائے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے کسی کو نہیں دیکھا.حضور کے کسی قول یا فعل یا حرکت و سکون میں بناوٹ کا شائبہ تک بھی میں نے کبھی محسوس نہیں کیا.روایت ۳۳۷ ابتدائی ایام کا ذکر ہے کہ والد بزرگوار (یعنی خاکسار کے نانا جان حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اپنا ایک بانات کا کوٹ جو مستعمل تھا ہمارے خالہ زاد بھائی سید محمد سعید کو جو ان دنوں قادیان میں تھا کسی خادمہ عورت کے ہاتھ بطور ہدیہ بھیجا.محمد سعید نے نهایت حقارت سے کوٹ واپس کر دیا اور کہا کہ میں مستعمل کپڑا نہیں پہنتا.جب وہ خادمہ یہ کوٹ واپس لا رہی تھی راستہ میں حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ اس نے جواب دیا کہ میر صاحب نے یہ کوٹ محمد سعید کو بھیجا تھا مگر اس نے واپس کر دیا کہ میں اترا ہوا کپڑا نہیں پہنتا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ اس سے میر صاحب کی دل شکنی ہو گی.تم یہ کوٹ نہیں دے جاؤ.ہم پہنیں گے اور ان سے کہہ دینا کہ میں نے رکھ لیا ہے.روایت ۳۷۲ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی زندگی کے آخری زمانہ میں اکثر دفعہ احباب آپ کے لئے نیا کرتہ بنوا لاتے تھے اور اسے بطور نذر پیش کر کے تبرک کے طور پر حضور کا اترا ہوا کرتہ مانگ لیتے تھے.اسی طرح ایک دفعہ کسی نے میرے ہاتھ ایک نیا گر تہ بھجوا کہ پرانے اترے ہوئے کرتے کی درخواست کی.گھر میں تلاش سے معلوم ہوا کہ اس وقت کوئی اُترا ہوا ہے دُھلا کرتہ موجود نہیں.جس پر آپ نے اپنا مستفعل گرتہ دھوبی کے ہاں کا ڈھلا ہوا دیے جانے کا حکم فرمایا.میں نے عرض کیا کہ یہ تو دھوبی کے ہاں کا ڈھلا ہوا کرتہ ہے اور وہ شخص تبرک کے طور پر میلا کرتہ لے جانا چاہتا ہے.حضور نہیں کہ فرمانے لگے کہ وہ بھی کیا برکت ہے جو دھوبی کے ہاں ڈھلنے سے جاتی رہے.چنانچہ وہ کرتہ اس شخص کو
دے دیا گیا.روایت ۳۷۵.حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) اپنی جسمانی عادات میں ایسے سادہ تھے کہ بعض دفعہ جب حضور جراب پہنتے تھے تو بے توجہی کے عالم میں اس کی ایڑی پاؤں کے تلے کی طرف نہیں بلکہ اوپر کی طرف ہو جاتی تھی اور بار بار ایک کاج کا بٹن دوسرے کاج میں لگا ہوا ہوتا تھا.اور بعض اوقات کوئی دوست حضور کے لئے گر گابی ہدیہ لاتا تو آپ کیسا اوقات دایاں پاؤں بائیں میں ڈال لیتے تھے اور بایاں دائیں میں چنانچہ اسی تکلیف کی وجہ سے آپ دیسی جوتی پہنتے تھے.اسی طرح کھانا کھانے کا یہ حال تھا کہ خود فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں تو اس وقت پتہ لگتا ہے کہ کیا کھا رہے ہیں کہ جب کھاتے کھاتے کوئی کنکر وغیرہ کا ریزہ دانت کے نیچے آجاتا ہے.روایت ۳۸ میں انٹرنس کا امتحان دے کر شہداء میں قادیان آیا تو نتیجہ نکلنے سے پہلے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو اکثر مجھ سے پوچھا کرتے تھے کہ کوئی خواب دیکھا ہے ؟ آخر ایک دن میں نے بیان کیا کہ میں نے خواب میں گلاب کے پھول دیکھتے ہیں.فرمانے گئے اس کی تعبیر تو غم ہے چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ میں اسی سال امتحان میں فیل ہو گیا.نیز ویسے بھی جن دنوں میں کوئی اہم امر حضور کے زیر نظر ہوتا تھا تو آپ گھر کی مستورات اور بچوں اور خادمہ عورتوں تک سے پوچھا کرتے تھے کہ کیا تم نے کوئی خواب دیکھا ہے ؟ اگر کسی نے دیکھا ہوتا تو بڑے غور اور توجہ سے سنتے تھے.روایت ۲۲۰ حضرت مسیح موجود در آپ پر سلامتی ہوا سر کے بال منڈوانے کو بہت ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ خارجیوں کی علامت ہے.نیز حضرت صاحب فرماتے تھے کہ ہمارے سر کے بال عقیقہ کے بعد نہیں مونڈے گئے.چنانچہ آپ کے سر کے بال نہایت باریک اور ریشم کی طرح ملائم تھے اور نصف گردن تک لیے تھے لیکن آپ کی ریش مبارک کے بال سر کے بالوں کی نسبت موٹے تھے.
روایت ۴۲ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کو پرندوں کا گوشت پسند تھا.اور بعض دفعہ بیماری وغیرہ کے دنوں میں بھائی عبدالرحیم صاحب کو حکم ہوتا تھا کہ کوئی پرندہ شکار کہ لائیں.جب تازہ شہد معر چھتہ کے آتا تھا تو آپ اسے پسند فرما کر نوش کرتے تھے.شہد کا چھتہ تلاش کرنے اور توڑنے میں بھائی عبد العزیز ماہر تھے.روایت ۵۲۰ مقبرہ بہشتی میں دو قبروں کے کہنے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے خود لکھے ہوئے ہیں اور وہ اس بات کا نمونہ ہیں کہ اس مقبرہ کے کتنے کس طرح کے ہونے چاہئیں.اب جو کہتے عموماً لکھے جاتے ہیں ان سے بعض دفعہ یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ پیشخض کہاں دفن ہے یا اس کے اندر کیا کیا خوبیاں تھیں یا سلسلہ کی کس کس قسم کی خدمت اس نے کی ہے دو کہتے ہو حضور نے خود لکھے وہ مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم اور صاحبزادہ مبارک احمد کے ہیں.روایت ۵۳۹ سفرملتان کے دوران میں حضرت صاحب ایک رات لاہور ہیں.شیخ رحمت اللہ صاحب مرحوم کے ہاں بطور مہمان ٹھہرے تھے.ان دنوں لاہور میں ایک کے پتی آئی ہوئی منفی.اس میں قد آدم موم کے بنے ہوئے مجھتے تھے.جن میں بعض پرانے زمانہ کے تاریخی بت تھے اور بعض میں انسانی جسم کے اندرونی اعضاء طبی رنگ میں دکھائے گئے تھے شیخ صاحب مرحوم حضرت صاحب کو اور چند احباب کو وہاں لے گئے اور حضور نے وہاں پھر کر تمام نمائش دیکھی.روایت ۵۲ جب حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) اپنی کسی تقریر یا مجلس میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرماتے.تو بسا اوقات ان محبت بھرے الفاظ میں ذکر فرماتے کہ ہمارے آنحضرت نے یوں فرمایا ہے.اسی طرح تحریر میں آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ دستہ کے نام کے بعد قم یا صلتم نہیں لکھتے تھے بلکہ پورا درود یعنی صلی اللہ علیہ وسلم کھا کم تے تھے.
۵۷۲ روایت ۵۵۴ حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو) صدقہ میں جانور کی قربانی بہت کیا کرتے تھے گھر میں کوئی بیمار ہوا یا کوئی مشکل درپیش ہوئی یا خود یا کسی اور نے کوئی منذر خواب دیکھا تو فوراً بکرے یا مینڈھے کی قربانی کرا دیتے تھے.زلزلہ کے بعد ایک دفعہ قالباً مفتی محمد صادق کے لڑکے نے خواب میں دیکھا کہ قربانی کرائی جائے جس پر آپ نے چودہ بکرے قربانی کرا دیئے.غرضیکہ ہمیشہ آپ کی سنت یہی رہی ہے.اور فرماتے تھے کہ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی تھی.روایت ۶ قریات ایک گول کمرہ ہی مہمان خانہ ہوتا تھا.پھر اس میں پریس آگیا.جب یہاں مہمان خانہ تھا تو یہیں کھانا وغیرہ کھلایا جاتا تھا.اور کا تب بھی اسی جگہ مسودات کی کا پیاں لکھا کرتا تھا.اور حضرت صاحب کا ملاقات کا کمرہ بھی یہی تھا.ان دنوں میں مہمان بھی کم ہوا کرتے تھے بیشہ میں حضرت والد صاحب بینی میر نا صرنواب مصاب پنشن لے کر قادیان آگئے.اور چونکہ اس وقت پر ہیں اور مہمانوں کے لئے فصیل قصبہ کے مقام پر مکانات بن چکے تھے.اس لئے میر صاحب گول کمرہ میں رہنے لگے اور انہوں نے اس کے آگے دیوار روک کر ایک چھوٹا سا محسن بھی بنا لیا.روایت ۲ - حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) عموما رات کو سونے سے پہلے دلوایا کہ تے تھے کبھی خود باہر سے خدام میں سے کسی کو بلا لیتے تھے مگر اکثر حافظ معین الدین عرف ما تا آیا کرتے تھے.ہمیں بھی سوتے وقت کئی دفعہ دہانے بیٹھ جایا کرتا تھا.ایک دفعہ فرمانے لگے میاں تم نے مدت سے نہیں دیا یا.آؤ آج ثواب حاصل کر لو.روایت 42 بعض اوقات گرمی میں حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی پشت پر گرمی دانے نکل آتے تھے تو سہلانے سے اُن کو آرام آتا تھا.بعض اوقات فرمایا کیتے.کہ میاں جنون ، کرو جس سے مراد یہ ہوتی تھی کہ انگلیوں کے پوٹے بالکل آہستہ آہستہ اور نرمی سے پشت پر پھیر و.یہ آپ کی اصطلاح تھی.
۵۷۳ <44 روایت ۶.میں نے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی دو دفعہ بیعت کی.ایک دفعہ غالباً شاہ میں مسجد اقصٰی میں کی تھی.اس وقت میرے ساتھ ڈاکٹر لوڑے خان صاحب مرحوم نے معیت کی تھی.دوسری دفعہ گھر میں میں دن حضرت ام المومنین نے ظاہری بیعت کی اسی دن میں نے بھی کی منفی.حضرت ام المومنین کی بیعت آپ نے ان کا ہاتھ پکڑ کر لی تھی.باقی تمام مستورات کی صرف زبانی بیعت لیا کرتے تھے.روایت ۸۷۲ - حضرت مسیح موعود در آپ پر سلامتی ہو) کے اس سفر دہلی میں جو آپ نے اوائل دعوئی میں شہداء میں کیا تھا ئیں اور والدہ صاحبہ حضرت صاحب کے ساتھ تھے.میر صاحب یعنی والد صاحب کی تبدیلی پٹیالہ ہوئی تھی.وہ وہاں نئے کام کا چارج لینے گئے تھے.اس لئے ہم کو حضرت صاحب کے ساتھ چھوڑ گئے تھے.حضرت صاحب نواب لوہارو کی کوٹھی کے اوپر جو مکان تھا اس میں اُترے تھے یہیں ایک طرف مردانہ اور دوسری طرف زنانہ تھا.اکثر اوقات زنانہ سیڑھی کے دروازوں کو بندر کھا جاتا تھا.کیونکہ لوگ گالیاں دیتے ہوئے اُوپر چڑھ آتے تھے اور نیچے ہر وقت شور و غوغا رہتا تھا.اور گالیاں پڑتی رہتی تھیں.بد معاش لوگ اینٹیں اور پتھر سینکتے تھے میری والدہ صاحبہ نے ایک روز مجھے شنایا کہ جو بڑھیا روٹی پکانے پر رکھی ہوئی تھی.وہ ایک دن کہنے لگی کہ بیوی یہاں آج کل دہلی میں کوئی آدمی پنجاب سے آیا ہوا ہے اور وہ کہتا ہے کہ میں حضرت عیسی ہوں اور امام مہدی ہوں.اس نے شہر میں بڑا فساد مچارکھا ہے اور کفر کی باتیں کر رہا ہے.کل میرا بیٹا بھی چھڑی لے کہ اس کو مارنے گیا تھا.کئی ہے کئے گھر دروازہ ان سے بند تھا.کھل نہ سکا.مولویوں نے کہہ رکھا ہے کہ اس کو قتل کر دو.مگر میرے لڑکے کو موقعہ نہ ملا ، اس بیچاری کو اتنی خبر نہ تھی کہ جن کے گھر میں بیٹی وہ یہ باتیں کر رہی ہے یہ اپنی کا ذکر ہے اور اسی گھر پر حملہ کر کے اس کا بیٹا آیا تھا.اور بیٹے صاحب کو بھی پتہ نہیں لگا.کہ میری ماں اسی گھر میں کام کرتی ہے.
۵۷۴
۵۷۵ 3-23-23-23-23 یاب هفتم حضرت خلیفة ربیع الثانی (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) EG EG EG EG EG
حضرت خلیفتہ اسی الثانی آپ وہ ہیں جنہیں سب راہ نما کہتے ہیں اہل دل کہتے ہیں اور اہلِ دُعا کہتے ہیں آپ کو حق نے کہا سخت ذکی اور فہیم، منظر حق و علی ، فلل خدا کہتے ہیں رستگاری کا سب آپ میں قوموں کے لیے ہر مصیبت میں تمہیں لوگ دوا کہتے ہیں استجابت کے کرشمے ہوئے مشہور جہاں آپ کے در کو در فیض و عطا کہتے ہیں کوئی آتا ہے یہاں مسائل دنیا بن کر مطلب اپنا وہ زر و مال غنا کہتے ہیں رزق اور عزت و اولاد کے گاہک ہیں کئی بخشوانے کو کوئی اپنی خطا کہتے ہیں کوئی دربار میں آتا ہے کہ مل جائیں علوم کوئی اپنے کو طلب گارہ شفا کہتے ہیں نیک بننے کے لیے سینکڑوں در پرمیں ہے خود کو مشتاق رو زہد و تقی کہتے ہیں طالب جنت فردوس نہیں اکثر عاقل دار فانی کو فقط ایک سرا کہتے ہیں میں بھی سائل ہوں طلبگار ہوں اس مطلب کا کوئے احمد کا مجھے لوگ گدا کہتے ہیں میری اک عرض ہے اور عرض بھی مشکل ہے بہت دیکھئے آپ بھی سن کر اُسے کیا کہتے ہیں جس کی فرقت میں ترمیتا ہوں وہ کچھ رحم کرے یعنی بل جائے مجھے جس کو خدا کہتے ہیں پیچ کس نیست که در کوئے تواش کارے نیست سرکس این جا بامید نو سے می آید بتجار دل ص ۵۰۰۴۹)
866 - مصلح موعود کا نام فضل عمرکیوں رکھا گیا ؟ حضرت مصلح موعود کی ایک پہچان حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے یہ فرمائی ہے کہ الہام مجھ پر اس کا ایک نام فضل عمر بھی ظاہر کیا گیا ہے.یعنی اس کی شناخت ان فضیلتوں کی موجود گی سے ہو سکے گی جو حضرت عروض میں پائی جاتی ہیں اور ان میں ایک فضیلت تو ایسی ہے کہ وہ سوائے حضرت خلیفہ اسیح ثانی ایدہ اللہ کے دنیا کے کسی اور فرود بشر میں پائی ہی نہیں جا سکتی.يعنى.い آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ثانیہ کے زمانہ میں.حضور کا دوسرا خلیفہ ہونا جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بہشت اولی کے وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دوسرے خلیفہ تھے.یہ فضل با فضیلت ایسی محکم اور ایسی غیر منفک ہے کہ حضرت فضل عمر سے.....ہ تو پہلے کوئی ایسا شخص ہوا ہے جسے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا کا دوسرا خلیفہ ہونے کا فخر حاصل ہو.نہ آئندہ کوئی ایسا شخص پیدا ہو سکتا ہے.جو اس عہدہ پر سرفراز ہو سکے.تیسرا چوتھا پانچوں یوان غرض ہر نمبر کا خلیفہ اس سلسلہ میں آسکتا ہے مگر نہیں آسکتا تو دوسرامد ہے غیر مالین سو وہ تو سرے سے خلافت ہی کے قائل نہیں.اور جو کچھ اور لوگ مصلح موعود ہونے کے مدعی ہیں ان سب میں سے کسی ایک کو بھی جماعت احمدیہ کی خلافت بحیثیت دوسرے خلیفہ مسیح موعود ہونے حاصل نہیں.اور نہ انہوں نے کبھی ایسا دھونی کیا.پس یہ ایک ایسا محکم تعین کا نشان مصلح
۵۷۸ موجود کے لئے بیان کیا گیا ہے.جس میں اشتباہ کا دخل ہی نہیں رہا.اور سوائے ایک انسان کے کوئی اس عہدے کا مدعی ہی نہیں ہو سکتا.اور اس صفاتی نام سے ہی پتہ لگ جاتا ہے کہ مصلح موعود کون ہے.اور اگر غور کی جاوے تو ایسی محکم علامات چار ہیں.- آپ کا حضرت مسیح موعود کے تخم ذریت اور نسل سے ہوتا.-۲- آپ کا نوسالہ میعاد کے اندر پیدا ہوتا.آپ کا بشیر اول کے معا بعد تولد ہونا ہ اور آپ کا حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی جماعت کا دوسرا خلیفہ ہوتا.اس مخصوص فضل کے سوا لبعض اور فضیلتیں بھی حضرت عمر رض کی ہیں جو حضرت فضل عمر میں پائی جاتی ہیں.چنانچہ جس طرح حضرت عمر رض کے زمانہ میں فتوحات بہت وسیع ہو گئی تھیں اور اسلام نے بہت ترقی کی منفی اور اثر متمدن ممالک میں افواج اسلامیہ اور مبلغین اسلام جا پہنچے تھے.اسی طرح حضرت فضل عمر کے زمانہ میں بھی احمدیت اور دین حق کے مبلغ دنیا کے اکثر مالک اور زمین کے اکثر گوشوں اور کناروں تک پہنچ گئے ہیں.پہنچ چکے ہیں.اور سلسلہ کی کتابیں.حالات اور اخبارات اکثر بیرونی اور اجنبی ممالک میں نفوذ کر چکے ہیں اور احدیت کی فتوحات رعب - دسعت اور عشائم محتاج بیان نہیں ہے.نیز حضور کے علوم نے لوگوں کو نہایت درجہ سیراب کر دیا ہے.اسی طرح حضرت عمرہ کی بابت بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک خواب ہے کہ میں نے دیکھا کہ ایک کنواں ہے جس پہ ڈول رکھا ہے.ابو بکر رض نے ایک دو ڈول ناتوانی کے ساتھ کنوئیں میں سے نکالے.پھر وہ ڈول ایک چرب بن گیا.اور عمر نے اس سے اتنا پانی نکالا.کہ آدمی اور اونٹ سب سیراب ہو گئے.سو یہ دوسری مماثلت ہے حضرت فضل عمر کی حضرت عمرہ کے ساتھ.
اسی طرح ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے روبار میں دکھایا گیا کہ میں نے دودھ پیا.یہاں تک کہ میرے ناخنوں تک اس کی تری پہنچ گئی.پھر میں نے اپنا بچا ہوا دودھ عمر بن خطائی کو دے دیا.صحابہ نے عرض کیا اس کی تعبیر کیا ہے ؟ فرمایا اس سے مراد علم ہے.پس جس طرح حضرت عمرہ کو نبوت کے علم میں سے حقہ ماتھا.اسی طرح حضرت فضلی کو بھی وہی حقہ ملا ہے.اور دوست دشمن اس کرامت کے معروف ہیں.زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں صرف یہ یادرکھنا کافی ہوگا کہ حضرت عمران کی کام کرنے کی طاقت اور آنجناب کا علم جن کا ہم نے نمبر ٢ اور غیر ی میں ذکر کیا ہے.ایسا ہی حال حضرت فضل عمر کا بھی ہے کہ جسمانی کام کی قوت اور علمی قوت دونوں کا مظاہرہ قریباً قادیان میں رہنے والے احمدی کے سامنے ہوتا رہتا ہے اور اسی کی طرف حضرت مسیح موعود کے اس الہام میں اشارہ ہے کہ ایک فرزند تمہیں عطا کیا جائے گا.جو قوی الطاقین ہوگا.اور یہ کہ وہ علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائے گا.۴ حضرت عمر رض اپنی اس بات پر بھی فخر کیا کر تے تھے کہ میں نے بعض دفعہ جو باتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیں تو میری عرضداشت کے اور میری مرضی کے مطابق قرآنی آیتیں بھی نازل ہو گئیں.منجملہ ان کے ایک آیت حجاب بھی ہے حضرت فضل عمر کی عمر حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو) کے زمانہ میں اتنی تو نہ تھی کہ وہ حضور کو کوئی مشورہ دیا کرتے.لیکن ایک بزنگ توار د الہامی کا یہاں بھی پایا جاتا ہے.اس کی مثال وہ رد یا حضرت فضل عمر کی ہے جس میں آپ نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود آپ پر سلامتی ہو) کو انى مع الافواج انيك بغتة والا الہام ہوا ہے.چنانچہ جب حضرت مسیح موعود ر آپ پر سلامتی ہوا سے دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ
۵۸۰ ہاں آج رات واقعی مجھے یہ الہام ہوا ہے.پس جس طرح حضرت عمر کا القاریاتی حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وحی کی صورت میں ظاہر ہوا.اسی طرح حضرت فضل عمر کا ردیا حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی وحی کی صورت میں نمودار ہوا یہ چوتھی ماثلت ہے.پانچویں ماثلت یہ ہے کہ حضرت عمرہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دنیا میں ان کے جنتی ہونے کی بشارت دے دی تھی.اسی طرح حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوجانے بھی حضرت فضل عمر کو اپنی اولاد میں ہونے کی وجہ سے جنت کی بشارت اسی دنیا میں دے دی.جب آپ نے یہ فرمایا کہ مقبرہ بہشتی میں داخل ہونے کے لئے میری نسبت اور میرے اہل و میاں کی نسبت خدا نے استثنا رکھا ہے....اور شکایت کرنے والا منافق ہو گا.یعنی میری اولاد اور میری بیوی کو خدا تعالیٰ نے جنتی بنایا ہے.اور مجھے ان کے بہشتی ہونے کی اطلاع اس کی طرف سے مل چکی ہے.علاوہ ازیں مخصوص طور پر بھی حضور کے جنتی ہونے کی بشارت حضور کے تولد ہونے سے پہلے ہی ابہانا بنادی گئی تھی.جیسے کہ فرمایا تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا.یعنی بر خلاف قول مولوی مصری کے پسر موعود کا انجام اچھا ہوگا.اور اس کی روح کا رفع آسمان کی طرف ہوگا.اس موقع پر ایک ضمنی بات بیان کرنی ضروری ہے کہ پیغامی کہا کرتے ہیں کہ اداروں کے لئے تو یہ مقبر بہشتی تھا مگر مسیح موعود کے اہل وعیال کے لئے یہ خاندانی مقبرہ ہے کیونکہ ان کی طرف سے کوئی وصیت کی رقم داخل نہیں کی گئی.اس کے جواب میں یا درکھنا چاہیے کہ حضور نے مقبرہ کی بنیاد رکھنے کے وقت اپنی جائیداد میں سے اس وقت کے حساب سے ایک ہزار روپیہ کی زمین چندہ میں یعینی وصیت میں دی تھی.حضور کو تو وصیت کی ضرورت نہ تھی.کیونکہ آپ کو تو فریقین با اتفاق رائے جنتی مانتے ہیں پس یہ ہزار روپے کی زمین حضور نے خود اپنے اہل و عیال ہی کی طرف سے دی تھی.
۵۸۱ چھٹی مشابہت حضرت عمریض اور حضرت فضل عمر کے مزاجوں کی مماثلت ہے حضرت شہر کی غیرت دینی اور حلال.کون ہے جو نہیں جانتا.اور یہاں حضرت فضل عمر کے بارے میں یہ الہام ہے.جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الہی کا موجب ہو گا.“ نیز " خدا کی رحمت اور غیوری نے اسے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے." سب جماعت کے لوگ جانتے ہیں کہ دینی معاملہ میں غیرت اور جلال حضرت فضل عمر کی ایک نمایاں خصوصیت ہے جس طرح کہ وہ حضرت عمرض کی تھی.(ع) ساتویں مشابہت حضرت عمرہ کے ساتھ حضرت فضل عمر کی یہ ہے کہ آپ بھی محدث ہیں یعنی ملہم.اور حضور کے حق میں خدا نے فرمایا ہے کہ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے (یعنی کلام ) اسی طرح حضرت عمریضہ کی بابت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اہم سابقہ کے محدثوں کی طرح عمرہ بھی ایک محدث اور مہم ہے.چنانچہ کئی آیتوں کے مضامین پہلے حضرت عمریض کے دل پر نازل ہوئے پھر قرآن میں دمی منتلو کی صورت میں آگئے اور بعضی آپ کے رویا ور اور کشف بھی مشہور ہیں.اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میرے بعد فوراً ہی کسی نبی نے آنا ہوتا تو وہ عمر ہوتا.یا یہ کہ میں نہ مبعوث ہوتا تو عم مبحوث ہوتا.یہ سب باتیں نور نبوت اور الہامی فطرت اور وحی کی برداشت کی طاقت پر دلالت کرتی ہیں.اور ان ہی باتوں کو احمدیہ جماعت کے لوگ حضرت فضل عمر میں بھی ہمیشہ سے دیکھ
۵۸۲ رہے ہیں.ایک دفعہ آنحضرتصلی الہ علیہ وسلمنے فرمایا کہ ایک شخص اپنی گائے لئے جاتا تھا کہ تھکان کے مارے خود اس گائے پر سوار ہو گیا.گائے نے اس سے کہا کہ ہم تو کاشتکاری کے لئے پیدا کی گئی ہیں نہ کہ سواری کے لئے.صحابہ نے عرض کیا سبحان اللہ کیا گائے بیل بھی بولا کرتے ہیں.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میں تو اس بات کو مانتا ہوں، بلکہ ابوبکگران اور عمر یہ بھی مانتے ہیں.حالانکہ وہ دونوں اس مجلس میں موجود نہ تھے.اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں حضرت ابو بکرم اور حضرت عمر یہ دونوں صاحب کشف تھے.کیونکہ سب معاملہ اس گائے کی تقریر کا کشفی ہے.رہا اس کا ثبوت سو یہ ہے کہ ایک.دفعہ اپنی خلافت کے زمانہ میں حضرت عمریض نے جمعہ کا خطبہ پڑھتے پڑھتے یا ساریۃ الجبل ياسارية الجبل، پکار کر فرمایا.حاضرین خطبه حیران ہوئے.اور بعد نماز جمعہ اس کی بابت آپ سے سوال کیا.آپ نے فرمایا کہ میں نے اسلامی تشکر کو میدانِ جنگ میں سخت مصیبت میں دیکھا اور ساتھ ہی یہ نظارہ دیکھا.کہ اگر وہ پہاڑ کی طرف پنا دے لیں تو بیچ سکتے ہیں.اس لئے میں نے سردار لشکر ساریہ کو آواز دی کہ پہاڑ کی پناہ لو.پہاڑ کی پناہ لو.کچھ مدت کے بعد جب اس شکر کے لوگ مدینہ میں آئے تو انہوں نے بیان کیا کہ ہم دشمن کے نرغے میں آگئے تھے.لیکن ایک آواز آئی کہ اے ساریہ پہاڑ کی پناہ لو.پس ہم ادھر چلے گئے.اور تباہی سے محفوظ ہوگئے.سو یہ مشہور کشف ہے جو حضرت عمرہ کو صاحب کشف ہونا ثابت کرتا ہے.اسی طرح اذان کے کلمات بھی آپ کی معرفت ہی ہم مسلمانوں کو ملے ہیں.پس چونکہ وہ خود محدث ملہم اور صاحب کشف تھے.اس لئے ان کے لئے یہ مانا کیا مشکل تھا کہ بیل کلام کرتا ہے یا بھیڑیا ہوتا ہے.جہاں عام لوگوں کے لئے یہ بات واقعی ناقابل فہم تھی.اسی طرح ہمارے فضل عمر بچپن سے صاحب کشف و رڈیا والہام ہیں اور ان کا صرف ایک يمزقنهم والا الهام ؟ والا الہام ہی رہ سے آج تک ہتھوڑے کی طرح اہل پیغام کو توڑ توڑ کر پراکند کر کے دائمی محبت ان لوگوں پر پوری کر رہا ہے.اور جب سے یہ دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی
۵۸۳ ہے تب سے تو یہ سلسلہ بہت نمایاں اور کثرت سے ہو گیا ہے.یہ ساتویں مشابہت ہوئی.(^) آٹھویں مشابہت حضرت فضل عمر کی حضرت عمرف سے یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان اللہ وضع الحق علے نسان عصر یعنی اللہ تعالیٰ نے حق کو عمر کی زبان پر رکھا ہے اور ایک جگہ روایت ہے کہ خدا نے حق کو عمرہ کی زبان اور دل دونوں پر جاری کیا ہے.سو ایسے ہی الفاظ حضرت فضل عمر کے حق میں الہام الہی نے فرمائے ہیں جہاں آپ کو منظہر الحق و العلا کہا گیا ہے.اور آپ کا نام روح الحق رکھا گیا ہے.اور آپ کے آنے کو جَاء الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ (بنی اسرائیل (۸۲) ترجمہ محق آگیا ہے اور باطل بھاگ گیا ہے.فرمایا گیا ہے.فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلَّا الضَّالُ : (يونس (۳۳) ترجیہ ، اور حق کو چھوڑ کر گمراہی کے سوا کیا حاصل ہو سکتا ہے.پس یہ آٹھویں مماثلت ہوئی.(۹) تویں ماثلت دین کے متعلق ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رویا دیکھی کہ لوگ میرے سامنے پیش کئے جارہے ہیں اور وہ قمیض پہنے ہوئے ہیں.کسی کی قمیض چھاتی تک ہے کسی کی اس سے بھی کم اتنے میں عمر یہ آپ کے روبرو لائے گئے.اس حال میں کہ ان کی قمیض اتنی لمبی تھی کہ زمین پر گھسٹتی جاتی تھی.اور وہ اسے کھینچتے تھے.صحابہ نے عرض کیا حضور اس خواب کی کیا تعبیر ہے آپ نے فرمایا دین ! سو یہاں بھی یہی حال ہے کہ اس قصد دین اور قرآن کے حقائق و معارف حضرت فضل عمر کو دیئے گئے ہیں کہ ہر جلسہ پر آنے والا.ہر ھیں میں حاضر ہونے والا.ہر خطے کا سننے والا.اور ہر وہ شخص جو آپ کی کتابوں اور تفسیر کا مطالعہ کرتا ہے اس یقین سے بھر جاتا ہے کہ واقعی سر سے پیر تک پیشخص دین اور کلام اللہ کے }
OAF معارف سے اس طرح بھرا ہوا ہے میں طرح بلاٹنگ پیپر اگر پانی میں ڈالا جائے تو پانی سے بھر جاتا ہے.اور اس کے سرٹن مو سے دین ہی دین پھوٹ پھوٹ کر نکل رہا ہے.اور ہمارے لئے تو یہی کافی ہے کہ نبوت جیسے عظیم الشان دینی مسئلہ کی حقیقت حضور کی وجہ سے ہی جماعت میں ممکن ہوئی.(۱۰) دسویں مشابہت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں دعا فرمایا کرتے تھے کہ یا الہی اسلام کو معزز اور غالب کر دے یا تو ابو جہل کو مسلمان کر کے یا عمر ابن خطاب کو مسلمان کردے سو حضرت عمر رض کو خدا نے مسلمان کر دیا اور ان کی وجہ سے اسلام کی نصرت، عزت اور غلبہ کچھ تو فوراً ظاہر ہو گیا.لیکن آگے چل کر آپ کی خلافت کے زمانہ میں تو اس قدر غلبا اور نصرت اسلام کو حاصل ہوئی کہ حد بیان سے باہر ہے.بالکل اسی طرح حضرت فضل عمر بھی حضرت پیچ موجود در آپ پر سلامتی ہو) کی چالیس شبانہ روز کی دعاؤں کے نتیجہ میں پیدا ہوئے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ میری اولاد کے ذریعے خدا نے ترقی و نصرت اسلام کی بنیاد ڈالنے کا وعدہ کیا ہے.وہ وعدہ بھی ہم نے اس مصلح موعود کے زمانہ میں بشدت پورا ہوتا دیکھ ي فالحمد لله على ذالك ران مذکورہ بالا باتوں کے علاوہ نظام سلسلہ کا قیام اور ہر قومی محکمہ کا الگ الگ تعیین.مجلس شوری کا قائم کرتا سنہ ہجری شمسی کی ترویح.مختلف قسم کی جماعتی مردم شماریوں کی ابتدار شعر کا ذوق - قوت تقریر امیرالمومنین کا لقب اختیار کرنا سیاست و تدبیر.عورتوں کے حقوق اور تعلیم کا انتظام.دین کے لئے واقعین کا سلسلہ چلاتا.غرض یہ اور ایسی بہت سی اور باتیں ہیں جو حضرت عمرہ کی طرح اس زمانہ میں آپ کی امتیازی خصوصیات میں داخل ہیں.
۵۸۵ سید نا حضرت محمود کی شان سیدنا حضرت امیر المومنین مخلیفة المسیح الثانی ایده الله منصرہ العزیز جنہیں خدا تعالیٰ نے حسن واحات میں حضرت مسیح موعود کا نظیر قرار دیا ہے جنہیں آسمانی نوروں سے معمور فرمایا ہے.ان کو اللہ تعالیٰ نے حقائق و معارف قرآن سے امتیازی طور پر پہرہ در فرمایا ہے صیغہ زمین پر اہل علم وادب موجود ہیں میں قیام اور گدی نشین بھی موجود ہیں.مگر کوئی انسان اس حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا کہ معارف قرآن مجید کے بیان کرنے میں دنیا کا کوئی عالم یا صوفی آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتا.یہ حقیقت تجربہ شدہ ہے.اگر کسی کو اس میں شبہ ہو تو آج بھی میدان مقابلہ میں نکل کر آزما ہے.(روزنامه الفضل ۲۲ فروری ۶۱۹۴۴
814 حضرت خلیفة المسیح الثانی کی خاندانی ترقی پیش گوئیاں تیرا گھر برکت سے بھرے گا.اور میں اپنی نعمتیں تجھ پر پوری کروں گا.اور خواتین مبارکہ سے چین میں سے تو بعض کو اس کے بعد پائے گا.تیری نسل بہت ہوگی.اور میں تیری ریت کو بہت بڑھاؤں گا.اور برکت دوں گا.اور تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی.تیری ذریت منقطع نہیں ہوگی.اور آخری دنوں تک سرسبز رہے گی.۲ الهامی دُعا : رَبِّ لَا تَذَرُنِي فَرْداً و أنت خير الوارثین کی اس وقت کا الہام ہے کہ آپ کی پہلی بیوی اور پہلے لڑکے مخالف تھے.اور آپ واقعی دنیا میں اکیلے اور ہے وارث نظر آتے تھے.ينقطع اباءك وييد منك یعنی تیرے باپ دادوں کا سلسلہ منقطع ہو جائے گا.اور تجھ سے ایک خاندان کا نیا سلسلہ شروع ہوگا.اس الہام سے معلوم ہوتا ہے کر وہ سلسلہ نیک لوگوں کا ہو گا.اگر وہ بھی بڑے ہوں گے.تو یہ پیشگوئی اور خوشخبری بالکل لغو اور فضول ہے.کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دوسری شاخوں کو بُرا اور بے کار سمجھ کر مٹا دیا لیکن یہ غضب کیا کہ ان سے زیادہ بہتر لوگ ان کی جگہ قائم کر دیئے ،
۵۸۷ اپنی نسل کی ترقی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ساری پرانی شاخیں کاٹ دیں.سوائے حضور کی اپنی نسل کے اور سوائے حضور کے خاندان کے ، ان لوگوں کے جو حضور کے دامن کے نیچے آگئے اور پھر اس شارخ کو ترقی دینی شروع کی.اور ہمارے دیکھتے دیکھتے آج حضرت مسیح موعود در آپ پر سلامتی ہوم کی مصلب سے ستر (6) متنفس زندہ موجود ہیں.جن میں سینتیس (۳۷) مرد اور تین ہیں عورتیں ہیں.اسی طرح آج یو پچیس سالہ حویلی کا دن ہے.حضرت خلیفہ ثانی کی ملی را ولاد چھپیس نفوس ہیں.یعنی نیره لڑکے تولڑکیاں - ایک ہوتا.ایک نواسہ ایک نواسی.دوسری ترقی بذریعہ پرانے خاندان کے افراد کے یعنی علاوہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) اور اپنی میلی نسل کے حضور نے اپنے خاندان کو مزید ترقی اس طرح دی کہ جو لوگ حضور کے خاندان میں تو تھے.مگر مخالف اور احمدیت سے الگ تھے.ان کو اپنی قوت قدسی سے احمدیت کے اندر کھینچ لیا.شلا مرزا سلطا محمد صاحب مرحوم عمالقہ کی اولاد.تائی صاحبہ بعزیز بیگم صاحبہ زوجہ مرزا فضل احمد مرحوم - مرزا احمدبیگ ہوشیار پوری کے خاندان کے کئی اقراء.یہ سب لوگ خلافت ثانیہ میں جماعت ہیں حاصل ہوئے.اور یہ وہ بڑے بڑے جن تھے.جو حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے زمانہ میں مخالف بلکہ اشد مخالف تھے اور قابو میں نہ آتے تھے.عرض یہ جین اسی طرح مطیع کہ لئے جس طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے زمانہ کے چھٹے ہوئے جن حضرت سلیمان علیہ سلام نے مطیع کئے تھے.
تیسری ترقی قادیانی خاندان کی ترقی پھر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ایک تیسری خاندانی ترقی کی.وہ ہے قادیان میں جات احمدیہ کے ایک حصہ کو جمع اور آباد کیا.قادیانی مہاجرین کا رشتہ حضور سے صرف روحانی نہیں ہے جیسے باہر کے احمدیوں کا بلکہ نیم حیوانی اور نیم روحانی رشتہ ہے اور ان کے تعلقات حضور سے مثل اپنے خاندانی بزرگ کے ہیں.سوچیں قدر نے محلے اور نئی آبادی یہاں موجود ہے.وہ بھی حضور کا ایک خاص خاندان ہے جس کا نام اصحاب الصفہ ہے.اور میں کی بنیاد حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو نے رکھی تھی.میرے دیکھتے دیکھتے قادیان کی آبادی ڈیڑھ ہزار افراد سے تقریبا دس ہزار افراد تک پہنچ گئی.اور سات آٹھ وسیع محلے بالکل نئے آباد ہو گئے.چوتھی ترقی روحانی خاندان کی ترقی جماعت احمد یہ روحانی ذریت ہے.حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) اور ان کے خلفاء کی.اس روحانی خاندان کی ترقی حضور کے عہد میں دو طرح ہوئی.ایک تو تعداد کے لحاظ سے جماعت کی ترقی جس کا اندازہ مبایعین کی فہرستوں سے ہوسکتا ہے.جو ہمیشہ الفضل میں شائع ہوتی رہتی ہیں.دوسری ترقی بموجب پیش گوئی تیری نسل کثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی ، وہ ترقی ہے.جو علاوہ جماعت احمدیہ کی عام ترقی کے مختلف غیر ممالک میں اس سلسلہ کے قائم ہونے کے متعلق ہے اور اس کے ماتحت حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے زمانہ میں فالستان امریکہ مصر فلسطین جادا ، سماٹرا ، ماریشش، افریقہ ، غربی و شرقی وغیرہ میں نئی جماعتیں پیدا ہوئیں.
۵۸۹ حضور کے اپنے خاندان کی علمی ترقی ایک بیٹا مولوی فاضل.اور آکسفورڈ کا بی.اسے آنرز.دوسرا بیٹا مولوی فاضل بی اے تیسرا ایم بی بی ایس میں تعلیم پاتا ہے.باقی چھوٹے سب مدرسہ احمدیہ میں دینی تعلیم میں مصروف ہیں.ایک داماد ہی.اے آئی ہیں.ایس.ایک بھتیجا گر یجو یٹ اور بیرسٹر.علاوہ ازیں آپ کے خاندان کی لڑکیاں بعض میٹرک پاس ہیں اور دینیات کالج میں ڑھتی ہیں.بعض مولوی ہیں.بعض ادیب بعض الیف.اسے اور بعض امسال بی.اے ہیں چاہیں ایک حضور کے روحانی خاندان کی ترقی علیم عزت اور وجاہت میں حضور کی توجہ سے سوا سے اوپر تو مولوی فاضل ہوں گے.اور بہت سے فارغ التحصیل جامعہ احمدیہ کے علار ایک لشکر گریجوایٹوں کا جنتی کہ کئی عورتیں گر پچھوایٹ اور بی.ٹی اور لیڈی ڈاکٹر ہیں.ڈپٹی کمشنر انجنیئر وکیل بیرسٹر ، معزز سرکاری ملازم معزز تجار، اور معزز زمیندار حضور کی جماعت میں داخل ہیں.پھر سر ظفر اللہ خان صاحب ہیں جنہیں سب لوگ جانتے ہی ہیں.اور ان کے متعلق تو حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا ایک رویا ر مشہور ہے کہ حضور نے نہیں اپنے بیٹے کی طرح دیکھا.اور سر پر ہاتھ پھیر لے اس طرح وہ بھی حضور کے خاندان میں داخل ہیں.حضور کی اور حضور کے خاندان کی مالی ترقی راجپورہ کی زمین اور سندھ کا تیس میل لمبا علاقہ اس پر شاہد ہے.مکانات شاہد ہیں.مکہ قصیر خلافت بیت الحمد اور مسجد افظی کے قریب کے مکانات مالی ترقی اس طرح بھی ثابت ہے.کہ حضور اور حضور کے خاندان کے چندے سب لوگوں سے زیادہ ہوتے ہیں.
۵۹۰ خواہ تحریک جدید کے ہوں خواہ کسی اور دینی تحریک کے.اس سے نہ صرف مالی ترقی ملکہ مالی قربانی کی روح بھی نہایت نمایاں نظر آتی ہے.حضور کے روحانی خاندان کی مالی ترقی قادیان کے مکانوں کی حیثیت دیکھ لو.اور اس چندہ کو دیکھ لو جو کہ میں آیا تھا.اور اب شہر میں آیا ہے.میرے خیال میں قریبا دس گنے کا فرق ہے.علمی ترقی جس قدر نئے اور اچھوتے مضامین پر حضرت خلیفہ اسیح کی تقریریں اور تحریریں موجود ہیں اور میں قدر قرآن مجید کے حقائق اور معارف حضور نے بیان فرمائے ہیں.وہ میرے نزدیک حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے بعد صرف آپ ہی کا حصہ تھا.اور اگر غور کیا جائے تو گزشتہ اولیاء اللہ اگر زندہ ہوتے تو حضور کے آگے زانوئے ادب تہ کرتے.مذہبی اور اخلاقی ترقی خاندان کی جو تغیر حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) اور حضرت خلیفہ ثانی نے اپنے خاندان کی مذہبی اور اخلاقی حالت میں پیدا کیا ہے.اگر میں اسے ذرا بھی کھول کر بیان کروں تو لوگ حیران ہو جائیں.مگر یہ ایک الگ اور لمبا مضمون ہے.یہ خاندان حق پر ہے اب حضرت خلیفہ ثانی اور حضور کے سب خاندان کے حق پر ہونے کی الہامی دلیل
بھی نوٹ کریں.۵۹۱.حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے ایک نہایت خطرناک بددعا اپنے لئے اور اپنے سب متعلقین اور اولاد کے لئے کی ہے جس میں یہ مصرعہ آتا ہے تا آتش افشان به در و دیوار من اس میں خدا سے التجا کی ہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں اور تیرے دین کو برباد کرنے والا ہوں تو مجھے اور میری سب اولاد کو تباہ کر دے.اب اگر حضور کی سب اولاد دین اسلام اور احمدیت کو برباد کرنے والی ہو گئی ہے تو خدا تعالیٰ کو لازم تھا کہ اس بددعا کا اثرات پر دکھانا.نہ یہ کہ اللہ ان کو ترقی دیتا اور ان کی تائید و نصرت کہتا.اس سے معلوم ہوا کہ وہ سب حق پر جمع ہیں..اسی طرح حضور کا ایک الہام ہے من اعرض عن ذكرى نبتيله بذرية فاسقة ملحدة يميلون الى الدنيا ولا يعبد ونتي شياء ا تذکرہ مشام) یعنی جو میرے ذکر سے روگردان ہو گا.ہم اس کی اولاد کو فاسق اور محمد کو دیں گے.اور ایسی اولاد خدا کی عبادت نہیں کرے گی بلکہ دنیا میں گر پڑیں گے.اس کلام اہنی سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر (بقول غیر مبایعین) حضرت خلیفہ ثانی اور حضرت مسیح موعود کی تمام اولاد گمراہ اور ید کارا در گره کنندہ ہیں تو خود حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو بھی کبھی دستباز نہیں ہو سکتے.کیونکہ بری اور فاسق اور دنیا دار اولاد اس بات کی منزل ہے کہ ان کا باپ خود بے ایمان ہو.پس حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو) کو راستباز سمجھتے ہو.تو کبھی ان کے لئے وہ ذلت اور منرا تجویز نہ کرو.جو خدا نے بے ایمانوں کے لئے فرمائی ہے..حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کو یہ پیغامی سرغنے کہتے تھے کہ حضور جماعت کا نا جائز روپیہ خرچ کرتے ہیں.ان سے حساب لیا جائے.اسی طرح اب کہتے ہیں کہ جماعت کا روپیہ سیاسیات اور نا جائزہ امور پر خرچ ہوتا ہے.حالانکہ قرآن مجید میں خدا نے حضرت سلیمان
۵۹۲ کو مخاطب کر کے فرمایا ہے هذَا عَطَاؤُنَا فَا مَنْ أَوْ أَمْسِكْ بِغَيْرِ حِسَابِ ( ) یہ ہماری بخشش ہے خواہ اسے دے خواہ روک لے تجھ پر اس کے حساب کی ذمہ داری نہیں ہے.اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء سے حساب نہیں لیا جا سکتا.اور جو مانگتا ہے.وہ خود خدا کی سنت اور قرآن کے احکام سے ناواقف ہے.خواہ دنیا کے سامنے وہ مفسر اور مترجم قرآن ہی بنتا پھرے.دوسرے یہ بھی یا درکھنا چاہیے کہ حضرت خلیفہ ایسیح کو بھی حضرت مسیح موعود ر آپ پر سلامتی ہو) کے الہامات میں سلیمان کہا گیا ہے.اس لئے حضور پر بھی اخراجات کے متعلق کوئی اعتراض نہیں ہو سکتا اور خامنن او آمْسِكُ بِغَيْرِ حِسَابٍ کا حکم حضور پر بھی حاوی ہے.والفضل و ار تاریخ ۶۱۹۴۹
۵۹۳ باب شتم متفرق مضامین ELLE 13 E G E F
۵۹۴
۵۹۵ جنازہ کا مسئلہ منافقین کے جنازہ کے بارہ میں جو دراصل عرب کے مشرکین ہی تھے اور بظاہر مسلمان ہو گئے تھے.اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے کہ اسْتَغْفِرْ لَهُمُ اوْلَا تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِ لَهُم سبعين مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ (توبه ٨٠٠ ) یعنی ان منافقوں کے لئے تو ستر مرتبہ بھی استغفار کرے گا.تو اللہ تعالے ان کو نہیں بخشے گا یہی وہ آیت ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں اب ان لوگوں کے لئے ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کروں گا.شائد کہ یہ بجتے جائیں.تو پھر یہ آیت نازل ہوئی.وَلَا تُصَل عَلَى أَحَدٍ مِنْهُم مَّاتَ اَبَداً وَ لَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِه إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَمَا تُوا وَهُمْ فسقُونَ (تویه (۸۷) لینے ان منافقوں کا جنازہ نہ پڑھ اور نہ ان کی قبر کے پاس کھڑا ہو.کیونکہ یہ آخردم تک کا فررہے ہیں.تیسری آیت ان مشرکین کے جنازہ کے متعلق یہ ہے کہ ار مَا كَانَ لِلنَّبِي وَالَّذِينَ المَنوا أَن يَسْتَخْفِ وَاللمُشركين ولو كانوا أولى قُربى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيِّنَ لَهُمْ أَنَّهُم اَصْحَبُ الْجَحِيمِ (توبه (۱۱۳)
۵۹۶ یعنی نہ نبی اور نہ دوسرے مومن مشرکوں کے لئے دعائے مغفرت کریں.اور ندان کا جنازہ پڑھیں.خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں.کیونکہ جو کفر پر مر جائے اس کے متعلق تو پورے طور پر ظاہر ہو گیا.کہ وہ جہنمی ہے.ان آیات سے جب جنازہ کی ممانعت ایسی واضح ہے.تو پھر کیا سبب ہے کہ غیر احمدی اصحاب کے جنازہ کے بارے میں اختلاف ہے.اور خود حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے بھی بعض خاص حالات میں نرمی کی تعلیم دی ہے.تو اس کی کیا وجہ تھی.اور پھر اب وہ نرمی کیوں دکھائی نہیں جاتی.اس کا کیا سبب ہے.سینیٹے اول یہ کہ الہی سلسلے آہستہ آہستہ اور بتدریج شکل اختیار کرتے ہیں.اسی طرح ان کے احکام بھی بتدریج استحکام پکڑتے ہیں.حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے زمانہ میں بعض باتیں اس طرح فیصل شدہ نہیں تھیں.جیسے اب ہوگئی ہیں.کیونکہ خلفاء کی تمکین دین کا حصہ باقی تھا.جو ان کی معرفت پورا ہوتا ہے.اور میں طریقہ پر وہ چلائیں وہ بھی الہی طریقہ ہی ہوتا ہے.کیونکہ جو دین ان کا ہوتا ہے.خدا تعالیٰ اس کی تسکین کرتا ہے.پس خلفائے راشدین جس امر کو جماعت کے لئے مقرر کر دیں.وہی موجب قرآن مجید درست ہے.اور اپنی کا دین چلے گا.غیر مبالعین کا دین نہیں چلے گا.اور اسی کا نام سبیل المومنین بھی ہے.حضرت مسیح موعود آپ پر سلامتی ہو) بھی پہلے عام مسلمانوں کا جنازہ پڑھا کرتے تھے.پھر آپ نے ترک کر دیا.لیکن اس پر بھی کسی کسی آدمی کو کبھی کبھی بطور شاذ اجازت ملی.حالانکہ مسئلہ نبوت اور مسئلہ کفر و اسلام صاف فرما چکے تھے.اسی اثناء میں آپ کی وفات ہو گئی.اور آپ کے بعد آپ کے خلیفہ نے اس مسئلہ کے متعلق یہی فیصلہ کیا کہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کا اصلی منشاء جنازہ کے متعلق ہی تھا.کہ بالآ خروہ ترک کر دیا جائے.اس لئے جماعت اب قطعی ترک کو اختیار کرے.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.۲.رہی یہ بات کہ حضرت مسیح موعود را آپ پر سلامتی ہو نے خود کیوں نہیں ایسا قطعی فیصلہ
۵۹۷ فرمایا.تو اس کا جواب یہ ہے کہ حضور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیردی کی.اور حیں طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میں ستر دفعہ سے بھی زیادہ مغفرت مانگوں گا.اور عملاً نجاشی کا جنازہ پڑھا تھا.اسی طرح بعض حالات میں حضرت مسیح موعود نے بعض لوگوں کے دوستوں اور عزیزوں کو جنازہ کی اجازت دے دی اور وہ بھی اس شرط پر کہ شخص توقی ید گو نہ ہو.دشمن نہ ہو بلکہ خاموش ہو.اور حسن ظن رکھتا ہو.اور امام جنازہ احمدی ہو.اور ساتھ ہی فرما دیا کہ ان کا جنازہ ہم پر فرض نہیں.صرف احسان کے طور پر پڑھا جا سکتا ہے.شائد استقلال آیت اور سنت سے کیا تھا آیت تو پہلے گزر چکی ہے.مَا كَانَ لِلنَّبِي وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُ والمُشْرِكِينَ (التوبه (۱۳) یعنی قرآن کی رو سے مشرک کا جنازہ تو قطعا حرام ہے.باقی رہے اہل کتاب ان کی بایت خاموشی ہے.غالباً آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے اسی وجہ سے بجاشی کا جنازہ جو گونہ مصدق تھا.مگر ظاہر میں مسلمان نہ تھا.پڑھا تھا.اس لئے کہ وہ مسلمانوں کا محسن اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف مائل تھا.اور اہل کتاب تھا.گردہ با قاعدہ کلمہ گو اور نماز روزہ ادا کرنے والا نہیں تھا.صرف مجمیل مصدق تھا.مگر اور اہل کتاب کا جنازہ نہیں پڑھا تھا.جس سے ثابت ہوا کہ کسی محسن اہل کتاب کا لطور شاذ کے اپنے امام کے پیچھے جنازہ جائز رکھا گیا تھا.اور اسی طرح پر بطور شاذ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کی اجازت تھی.پھر جب خلافت اسلامیہ کا زمانہ آیا.تو غلفار نے ساری اور پیچ پیچ سوچ کر جماعت کا فائدہ اسی میں مد نظر رکھا کہ اب دقت آگیا ہے.کہ ایسا جنازہ بھی نہ پڑھا جائے.ورنہ جماعت کے لئے یہ بات مضر ہوگی.اس لئے نجاشی کے بعد پھر آج تک کسی نیم مومن اہل کتاب کا جنازہ کسی مسلمان نے کسی زمانہ میں بھی نہیں پڑھا.مرض دین کی تمکین اس مسئلہ پر خلفاء اور مومنین نے یہی کی.کہ اسلام میں یہ بات اب نا جائز ہے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود کا زمانہ آیا.آپ نے پہلے سب مسلمان مخالفین کو مسلمان ہیں قرار دیا پھر فاسق پھر کافر.اور رفتہ رفتہ نمازیں اور لڑکیاں دینے کے تعلقات بالکل الگ ہو گئے.جنازے
۵۹۸ میھی اسی طرح الگ ہوتے چلے گئے.اور آخر میں یہ رہ گیا کہ کوئی سیخانشی کی طرح خاموش ہو.اور سلسلہ کی طرف رغبت رکھتا ہو اور و قسمتی نہ کرتا ہو.اور کسی احمدی کا خاص محسن ہو.تو ان خاص لوگوں کو اجازت دے دی گئی.کہ اپنے امام کے پیچھے ان کا جنازہ پڑھ لیں.کیونکہ متوفی مشرکین میں نہیں بلکہ اہل کتاب میں داخل ہے.اس مرحلہ پر حضور کا انتقال ہو گیا.آپ کے بعد جب خلفاء کی تسکین دین کا زمانہ آیا تو انہوں نے تمام باتوں کو اور اسلاف کے عمل اور سبیل المومنین کو دیکھ کر اور حضرت مسیح موعود کے تدریجی انقطاع پر غور کر کے ضروری تھا کہ آئندہ بھی اسی طرح بند کر دیا جائے جیسا کہ تیرہ سو سال تک پہلے مسلمانوں میں بند رہا.اور اس مسئلہ کا ماشا اب ہم پر ایسا ہی فرض ہے جیسا کہ دیگر اسلامی مسائل کا مانتا.ورنہ ہم یہ عہد اور غیر سبیل المومنین پر چلنے والے ہوں گے.بے شک مشرکین کا جنازہ قطعی حرام ہے.لیکن اہل کتاب کا لبعض خاص حالات ہیں صرف جواز کے ماتحت آتا تھا مگر خلفاء نے اس نادر الوقوع جوانہ کو بھی بالکل ناجائز کر دیا.یہ ہے حقیقت میری تحقیق میں جنازہ کے مسئلہ کی.اس میں حرمت کا حصہ بھی واضح ہو گیا.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود کے جواز والے حقہ کی بھی توجہ ہوگئی.اور خلفاء کے فتوی کی بھی اتباع کی ضرورت معلوم ہوگئی آگے واللہ اعلم بالصواب.میں نے تو یہ مسئلہ اس طرح سمجھا ہوا ہے.(نوٹ ملا.اس طرح کا ایک اور نمونہ بھی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مشرکین بھی کو جزیرہ عرب سے نکال دیا تھا.مگر اہل کتاب کو نہیں نکالا.بلکہ رہنے دیا تھا.حضرت تعریض نے اپنے زمانہ میں ان کو بھی بالکل نکال دیا.کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا منشاء ہی تھا.کہ آخر کار ان کو بالکل ہی نکال دیا جائے تو امن ہو سکتا ہے).(نوٹ ملا) مذکورہ بالا بیان کا مطلب یہ نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے سابقین نے اور حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوم کے بعد خلفان آخرین نے کوئی نیا دین گھڑ لیا.ملک مطلب صرف اتنا ہے کہ گرا نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح موعود زندہ رہتے تو خود بھی ہیں فیصلہ فرماتے جو خلفاء ا روزنامه الفضل ۷ ستمبر ۱۹۲۸ء) نے کیا).
۵۹۹ سادہ اور باکفایت زندگی کے متعلق کچھ باتیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی (اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوا نے اپنے ایک خطبہ میں فرمایا تھا کہ علاوہ اُن مقررہ باتوں کے جو ہمیں اپنے خطبات میں تحریک جدید کے متعلق بیان کر چکا ہوں.اجاب کو دیگر اور شاخوں اور باتوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے اور تحریک جدید کے جلسوں میں ان کو بیان کرنا چاہیے.اس کے لئے یہ خاکسار مختصرا بطور تمہید کے اس ہیڈنگ کے ماتحت بعض ایسی باتوں کا ذکر کرتا ہے.تا کہ ایجاب کو اس بات کی طرف توجہ پیدا ہو.کہ ان پر یا ان جیسی اور باتوں پر عمل کرنے سے ہم اپنے اخراجات میں مزید کفایت پیدا کر سکتے ہیں.یا ہماری زندگی اس طرح اور زیادہ سادہ ہو سکتی ہے اور پس انداز کیا ہوا روپیہ آئندہ دینی یا دنیا دی مگر ضروری کاموں کے لئے کام آسکتا ہے.کیا یہ عجیب بات نہ ہوگی کہ ہم ایک سالن تو کھاتے رہیں.مگر ساتھ ہی ایسی بے اعتدالیاں بھی جاری رکھیں جن کی وجہ سے ہماری سادہ زندگی ایک عجیب معجون مرکب بن جائے جس کا ایک حصہ تو نہایت یا کفایت ہو اور دوسرا حقہ قابل اعتراض اور شرخا نہ پیس ایسی ٹھوکروں سے بچنے کے لئے ہم میں سے ہر ایک کو ایک تفصیلی نظر اپنے ارد گرد اپنے کھانے کپڑے.رہائش سفر اور تعلیمی اخراجات وغیرہ پر ڈالنی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ ایک سوراخ کو بند کر کے ہم قدرے فائدہ اٹھا لیں مگر دوسرے اور بڑے سوراخ کی طرف سے لا پروائی کر کے نتیجہ یہ ہو.کہ اصل مقصد ہی فوت ہو جائے.جن امور کو میں ذیل میں بیان کروں گا ان پر عمل کر تا ہر شخص کے لئے لازمی نہیں ہے.تاہم ان باتوں کا خیال رکھنے سے ہم میں سے بعض احباب اپنے اخراجات میں سے معقول بہت نکال سکتے ہیں یا یہ ہو سکتا ہے کہ ان باتوں کو دیکھ کہ ان کو بعض دیگر ایسے
اخراجات کی اصلاح کا خیال پیدا ہو جائے.جو یوں خود بخود نہ پیدا ہو سکتا.اس لئے محض بطور اشارہ کے میں ایسے بعض امور کا ذکر کر دیتا ہوں.جو سادہ زندگی اور با کفایت زندگی بسر کرتے ہیں ہمارے کام آسکتی ہیں.کھانے کے متعلق بعض امور.1 برف پوتل در شہروں بلکہ قصبات تک میں بہت سے لوگ برف اور بوتل کے بہت شائن نظر آتے ہیں.اور بچوں کا تو کچھ حال ہی نہ پوچھو.شائد لبعض گھروں میں تمام دن کی برف اور بوتلوں کا خرچ اصل کھانے سے زیادہ جائے تا ہے.اسی طرح بعض لوگ بلا کسی خاص ضرورت کے اپنے ہاں ہمیشہ برف اور بوتلیں ذخیرہ رکھتے ہیں بلکہ دکاندار سے باندھ لگالیتے ہیں.پھر خواہ ٹھنڈک ہو.یا بارش برف ان کے ہاں ضرور آجاتی ہے.خواہ کچھل پھل کہ ضائع ہوتی رہے.حالانکہ تریش یوتل اور ٹھنڈی برف خصوصاً بچوں کے گلے کے لئے اور ان کے دانتوں کے لئے اور ان کے معدہ کے لئے بہت مضر ہے.اگر متواتر یا بکثرت استعمال کی جائے.شہر کے لوگ تو پانی پی ہی نہیں سکتے جب تک کہ وہ یخ کی طرح ٹھنڈا نہ ہو.اور اس طرح وہ اپنے دانتوں اور قوت ہاضمہ کو تباہ کرتے ہیں.اور مالی بوجھ اتنا پڑتا ہے کہ متوسط الحال لوگوں کے ہاں بعض مہینوں میں صرف ہیں ایک خرم دس سے پندرہ روپیہ تک جاپہنچتا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ بعض برف بیچنے والے ایک پیسے کی برف کوٹ کر اور اسے رنگ کر تنکوں کے سروں پر بطور گولے کے بنا لیتے ہیں.اور ایسے گولے پیسے پیسے بچتے پھرتے ہیں.بے شک وہ تو ایک پیسے کی برف سے تین آنے کما لیتے ہیں لیکن کیا کبھی آپ نے بھی حساب کیا ہے کہ آپ کے بچے بعض اوقات ایک آنہ یا دوآنہ روزانہ اسی کھیل میں ضائع کر دیتے ہیں.حالانکہ اس وقت خود آپ کے گھر میں بھی برف موجود ہوتی ہے.
이 پس میری نصیحت یہ ہے کہ سوائے اشد ضرورت کے عمومی طور پر برف ہوٹل کا رواج اٹا دیا جائے.ہاں مہمان کے لئے یا کبھی سخت گرمی ہو یا طبیعت بیمار ہو تو بے شک یہ بھی خدا کی نعمت ہے مگر آج کل تو یہ نعمت زحمت بنی ہوئی ہے.یہی حال آئس کریم کا ہے جو آج کل وباء کی طرح پھیلی ہوئی ہے.-۲ نئے اور بُری عادتیں مر حرام نشوں کے علاوہ بعض مکروہ نشے بھی ہیں.جو ہمارے اخراجات بڑھانے کا باعث ہیں.اور ان میں سے مشہور یہ ہیں.پان ، زردہ ، حقہ سگریٹ ، نسوار یعنی ہلاکس - پوست - افیون اور کسی حد تک چائے.عادت کی غلامی کے علاوہ یوں بھی عمو گا یہ سب کسی نہ کسی طرح کا نقصان انسانی صحت کو پہنچاتے ہیں.اور اس زمانہ میں تو لوگوں نے مفید اشیاء کا ناشتہ ترک کر کے عادتا چائے کو اختیار کر لیا ہے جس کے نتیجہ میں وہ نقصان اٹھاتے ہیں.خواہ وہ نقصان مالی ہو یا صحت کا یا اخلاقی.دوسروں کا کیا کہوں.خود میرے ہاں ایک آنہ سے دو آنہ تک روزانہ کے پان آتے ہیں.حالانکہ ہمارے ہاں کوئی بھی ترده یا تمباکو نہیں کھاتا.مگر کیا ہے ؟ صرف ایک عادت اور وہ بھی نقصان ده یعنی دانت نگین ہو جاتے ہیں.منہ ہر وقت چلتا رہتا ہے.ہونٹ سرخ رنگے جاتے ہیں اور بائی خر اکثر پاپن کھانے والے تمہا کو کے چکر میں آجاتے ہیں اور ایک عادت سے دوسری عادت کی طرف ترقی کرتے ہیں.میں نے دیکھا ہے کہ بعض گھروں میں کئی روپے ماہوار کی صرف چائے خرید ہی جاتی ہے اور جو زردہ کھاتے ہیں.وہ تنباکو سے ترقی کر کے خوشبو دار قوام اور مفرح گولیوں تک پہنچتے ہیں.جو نہ صرف نقصان دہ ہیں.بلکہ بہت قیمتی چیزیں ہیں جن پر لاکھوں روپیہ امراء اور شوقینوں کا سالانہ خرچ ہو جاتا ہے.یان زردہ سے بڑھ کر سگریٹ ہیں جو ہر وقت جیب میں رہ سکتے ہیں.میں نے بعض شخصوں کو دیکھا.جو روزانہ پچاس سگریٹ تک پی جاتے ہیں.اور بعض محقہ نوش لوگوں کو دیکھا ہے کہ خوشبو کے لئے قیمتی مصالحے تمہا کو میں ملاتے ہیں.اور اس طرح اپنا مال ضائع کرتے ہیں
4-4 عرض اس امر میں مناسب یہ ہے کہ عادتاً پان ازردہ ، حقہ سگریٹ اور چائے وغیرہ کو ترک کر دینا چاہیے.ہاں چائے یا پان بوقت ضرورت گاہے گاہے بے شک استعمال ہو سکتے ہیں.لیکن تیا کو افیون - پوست - قوام - زردہ کی گولیاں یا نسوار تو سوائے ضعیف العمر عادی آدمیوں کے کسی احمدی کو چکھنا بھی قابل شرم ہے.۳.کھانے کے اوقات میں کمی : بعض گھروں میں ہر وقت ہانڈی چڑھی رہتی ہے اور دستر خوان بچھا رہتا ہے اور سوائے مسلسل اور متواتر کھانے کے ان کے ہاں اور کوئی ذکر ہی کم ہوتا ہے.اور کے تو معتقد که زیستن از بهر خوردن است کا نظارہ ان کے ہاں ہر وقت دکھائی دیتا ہے یہ بات نہایت ہی معیوب ہے.سوائے کمزوروں اور بچوں کے میرے نزدیک کسی شخص کو تین دفعہ سے زیادہ کھانا نہیں کھانا چاہیئے.نخواہ صبح کا ناشتہ ، دوپہر کا کھانا اور رات کا کھانا.یا صبح کا کھانا.تیسرے پہر کا ناشتہ اور رات کا کھانا.بہر حال ہر وقت کھانے کا شغل جیب پر بہت بوجھل ہوتا ہے.اور جیب سے زیادہ معدہ پر اور صحت پر.عموما یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود یا ان کے بچے چھوڑے ہوتے ہیں یعنی ان کا جی ہر مزیدار چیز کے کھانے کو ٹوٹتا رہتا ہے.اس طرح ہر موسم پر ہر پھل اور ہر تہ کاری اور ہر قسم کے کھانے اور ہر طرح کے چٹنی اچار مربیوں اور ہر طرح کے مزیدار کھانوں اور ہر طرح کی پینے کی اشیاء کے لئے ان کی طبیعت بے قرار رہتی ہے اور نتیجو ظاہر ہے کہ ہر چیز ان میں سے پیسہ خرچ کر کے حاصل ہوتی ہے.پس اپنے کھانے کے اوقات مقر اور محدود کرنے چاہئیں.اور بچوں کے چھورپنے کا سختی سے مقابلہ کرتے رہنا چاہیئے.یادر ہے کہ صرف وہی بچے چھوڑے نہیں ہوتے.جو ہر کھانے والی چیز پر کرتے ہیں.بلکہ وہ بچے بھی چھوڑے ہیں چین کو خاص خاص کھانے کی چیزوں سے نفرت ہو.یعنی اگر ایک لٹکا میٹھا ، گھیا یا کر دیا توری نہیں کھاتا.یا دال اور پہلے شوربے سے نفرت کرتا ہے تو دراصل وہ
بھی چھورا ہے.کیونکہ وہ ہمیشہ لذیذ اور پسندیدہ اشیاء کھانا چاہتا ہے.عموماً والدین تعریفی رنگ میں اپنے بیٹے کی اس خاصیت کو بیان کر کے کہتے ہیں کہ مہارا لڑکا تو بیچارا فلاں فلاں چیز سکھتا ہی نہیں.گویا کہ وہ ایک تارک الدنیا ہوتی ہے.حالانکہ بیٹے صاحب کبھی عمدہ اعلیٰ اور لذیذ اشیاء سے انکار نہیں کرتے بلکہ انہیں حاصل کرنے کے لئے صوفی بنتے ہیں.اصل صوفی وہ ہیں جو غریبانه امیرانہ سب قسم کی اشیا کھا لیا کریں.پس اس بری عادت کا بھی مقابلہ اور اصلاح ضروری ہے.-۲- کم خرچ اور مفید ناشتہ ، میرا خیال ہے کہ ہم میں سے اکثر احباب نے اپنے کھانوں میں واقعی سادگی اختیار کرتی ہے.مگر یہ بات ناشتوں میں نہیں دیکھی گئی.اول تو وہ سادہ کم خرچ نہیں ہوتے.دوسرے وہ مفید نہیں ہوتے.مفید نہ ہونے کی مثال تو چائے کا دائمی استعمال ہے.جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.مگر سادگی اور کفایت کے متعلق یہ عرض ہے کہ ناشتہ میں بھی بہت سی چیزیں نہیں ہونی چاہئیں.اور بعض چیزوں سے تو خصوصا پر سیز کرنا چاہیئے کہ وہ گہراں ہیں اور نہایت مضر اور تقبیل مثلاً پیٹری جو معدہ اور انتڑیوں میں لیں اور لٹی کی طرح چپک جاتی ہے.اور جگہ کے لئے تو پتھر کی طرح ہے پیکٹوں کا بھی قریباً یہی حال ہے جو اعلیٰ اور زود ہضم ہوتے ہیں.وہ تو اتنے مہنگے ہوتے ہیں کہ ایک بسکٹ بعض اوقات تین پیسہ فی عدد کے حساب سے پڑتا ہے.اور اگر ایک آدمی شوق کرے تو آٹھ دس آنہ کے صرف ٹیکٹ ہی ایک ناشتہ میں کھا سکتا ہے اور غور کر کے دیکھو تو لیکٹ کیا ہیں ہے سوکھے ٹکڑے اور ریس اس صورت میں آپ سوال کریں گے کہ پھر ہمارا ناشتہ کن اشیاء کا ہونا چاہئیے.سو میرے خیال میں نوجوانوں اور بچوں خصوصاً طالب علموں کو صبح کا ناشتہ دودھ اور پراٹھے سے کرنا چاہیئے.ایک پراٹھا اور ایک سیٹھی پیالی دودھ کی طالب علموں کے لئے اسکول جانے سے پہلے کھاتی بہت اچھی ہے.ہاں یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ گھی اچھا ہو.اس کے علاوہ بجائے دودھ کے دودھ کی بستی یا دہی کی لسی گرمیوں میں بہت مقید ہوتی ہے یا بجائے پراٹھے کے روٹی کے ساتھ مکھن
Y.N یا دہی استعمال کر سکتے ہیں.تازہ یا باسی روٹی ایک تلے ہوئے انڈے کے ساتھ (جو گھر کی مرغی کا ہو کیونکہ دوست پڑتا ہے) بھی موزوں ہے.فریاد تو باسی روٹی کے ساتھ ستی یا باسی دال سالن کھا لیتے ہیں.اسی طرح مجھنے ہوئے چنے کشمش ملا کہ.ابلے ہوئے لیکن چنے.ابلے ہوئے آلو.یا دودھ سویاں عمدہ ناشتہ کا کام دیتے ہیں.یہ توضیع کے ناشتوں کا حال ہے.جو لوگ تیسرے پہر ناشتہ کرتے ہیں.ان کے لئے موسمی پھل یا ترکاری مثلاً آم - خربوزہ.پھوٹ.امرود - تربوز - کڑی تھے.یعنی وہ پھل جو موسمی ہونے کی وجہ سے سہتے مل جاتے ہیں.استعمال ہو سکتے ہیں.ورنہ سادہ دودھ ہی سہی رضا میں یہ بھی بیان کر دیتا ہوں کہ جن لوگوں کو ضعف دماغ کی شکایت رہتی ہے ان کے لئے بہترین ناشتہ بادام کا شیرہ اور نیم برشت انڈے کی زردی ہے) نفر با د تیسرے پہر اگر بھوک لگے تو مجھنے ہوئے دانے کئی یا باجرہ یا چنے یا جوار کے کھایا کرتے ہیں اور خدا اعتدال کے اندر رہ کر بھی مفید ہیں.بہت چھوٹے بچے ہو ہر وقت کھانے کی گردان کرتے رہتے ہیں.اگر ان کو ثقیل اشیاء ہر وقت دی جایا کریں توان کے پیٹ خراب ہو جاتے ہیں.اس لئے ان کے لئے پھیکے یا نمکین مرمرے (یعنی چاول سمجھنے ہوئے) بہت ہلکے اور زود معلم مہیا رکھتے چاہیئے.اور بجائے اس کے کہ دن بھر وہ لڈو یا پیڑے کھاتے رہیں.اور دن رات اسہال میں مبتلا رہیں.یہ بہتر ہوگا کہ علاوہ کھانے اور دودھ کے جب وہ ضد کریں تو ایک مٹھی مرمرے دے کر ان کو بہلا دیا جائے.-۵ سالن میں اسراف :- نہ صرف یہ مناسب ہے کہ ایک سالن پکا کر پھر سیخوں کے کباب، دہی بھلتے کباب - یوندی - پکوڑی وغیرہ اشیاء دستر خوان پر بلاوجہ زائد کی جائیں بلکہ اکٹر ڈھونڈ ڈھونڈ کر قیمتی اور نایاب ترکاریاں اور سبزیاں منگوانا بھی باکفایت اور سادہ زندگی کے اصول کے خلاف ہے.مثلا با وجود اس کے کہ بازار میں کرد، آلو - اردی کور یلئے بینگن ، ساگ بھنڈیاں توریاں وغیر ہستی اور طرح طرح کی ترکاریاں موجود ہیں.پھر بھی ان کو چھوڑ کر یہ کوشش کر نا کہ لوہے کی پھلیاں اور بے موسم مرحو آج کل گراں ہیں وہ حاصل کئے جائیں یا جس موسم
۶۰۵ میں ٹماٹر نایاب ہوں.ان دنوں چار آنہ یا آٹھ آنہ سیر والے ٹماٹروں کو خرید تا اسراف نہیں ہے تو اور کیا ہے.میں نے بعض لوگوں کو دیکھا ہے کہ تمام گرمی اور برسات مبھیر تو کریلے کھاتے نہیں جب کریلے دو پیسے سیر ہوتے ہیں لیکن جاڑے میں جب آٹھ آنے سیر ہو جاتے ہیں تو دوسری جگہ سے کربلے منگواتے ہیں.اسی طرح بلا خاص موسم اور ضرورت کے عمو گا مچھلی اور مرغی پکواتے رہنا کس قدر صحت اور سادگی کے اصول کے برخلاف ہے.نیز یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ہر تم کاری موسم کے شروع میں بہت گراں ہوتی ہے.حتی کہ آٹھ آنہ یا دو پہ سینک بک جاتی ہے.ان چند مہنگے دنوں میں گراں قدر ترکاریوں کا خریدنا اوسط درجہ کے آدمیوں کے لئے مناسب نہیں معلوم ہوتا.- بعض کھانے کی اشیاء اکٹھی اور یہ وقت خرید نا مہ اس میں بھی کافی بچت ہو جاتی ہے.مثلا غلہ ، دالیں.پیاز وغیرہ ولایتی گھی کا مناسب استعمال پر اس میں کچھ شک نہیں کہ خالص گھی بہت مفید صحت چیز ہے اور ولایتی گھی محض تیل ہے اور کچھ نہیں مگر تاریخ میں نصفا نصف کا فرق ہے.گھی ایک روپیہ سیر آتا ہے اور ولایتی گئی قریب اللہ آنہ سیر اور مزے میں فرق کرنا بہت مشکل ہے.لیکن خشک اشیاء مثلا قیمہ، کباب وغیرہ میں تو ولایتی گھی کا پتہ بھی نہیں لگتا.ہاں شور ہے اور سائن ہو تو اس میں ولایتی گھی کا پتہ لگ جاتا ہے.پس بعض اوسط حال کے آدمیوں کے لئے یہ مناسب ہوگا.کہ وہ اصلی کبھی اپنے لئے استعمال کیا کریں اور ولایتی گھی ملازمین وغیرہ کی ہانڈی میں ڈلوایا کریں.اور خود بھی جب قیمیہ یا کباب یا خشک بھنی ہوئی اشیاء پکوائیں تو اس میں ولایتی گھی ڈلوا لیا کریں.اس طرح اُن کے پیٹ میں اصلی گھی بھی جاتا رہے گا اور باورچی خانہ کا خروج بھی ہلکا ہو جائے گا اور کھانا بھی بدمزہ یا بو دارہ نہ ہو گا.
سیشنری کے متعلق 4.4 اس میں بڑا اندھیر کا خرچ ہوتا ہے.اگر سستے پیڑا ور لفافے لے لئے جائیں تو اس میں کون سی ذلت ہے.بعض لوگ اگر توجہ کہیں تو اپنی سٹیشنری کا خرچ چوتھائی کر سکتے ہیں.یکن یہ تو امیروں کی بابت ہے.بڑا اندھیر تو سکولوں اور ماسٹروں کی طرف سے ہوتا ہے.غریبوں کو روٹی تو میسر نہیں.مگر لڑکے لڑکیاں ہر دوسرے تیسرے دن تقاضا کرتے ہیں کہ ماسٹرجی کہتے ہیں.کہ تاریخ کی کاپی ڈھائی آنے والی لاؤ اور جغرافیہ کی چار آنے والی.اور فلاں مضمون کی اتنے والی.وہ آگئیں تو معلوم ہوا کہ کبھی استعمال ہی نہیں کی گئیں.پھر مہینہ بعد اور طرح کی کاپیاں وغیرہ لانے کا حکم ہوگیا.غرض ایک ٹوئٹ ہے جو تعلیم دینے والوں کی معرفت لڑکوں اور لڑکیوں کے والدین پر پڑتی ہے بسکولوں کی کتابوں.اور فیسوں کے علاوہ یہ مصیبت جونک کی طرح ان کا خون چوستی ہے.حالانکہ ہماری جماعت کے استاد اگر تحریک جدید کے ماتحت اس پر غور کریں تو لوگوں کو بہت ساری بچیت ہو سکتی ہے.حساب کا تمام رف کام سلیٹوں پہ ہو سکتا ہے.اور ہر کاپی کے ورقوں کے دونوں طرف کھا جاسکتا ہے.ایک کاپی پر دو دو مضمونوں کے نوٹ آسکتے ہیں.غرض کا غذ سیاہی قلم پنسلوں وغیرہ کے متعلق جور تم خرچ ہوتی ہے وہ ایک روپیہ میں سے بارہ آنے پر اکتی ہے.اس اسراف میں طالب علموں کا بھی برابر کا قصور ہے لیکن اُستاد جہاں اس بات کا ذمہ دار ہے کہ لڑ کا ترقی کرے.وہاں اس بات کا بھی اخلاقی طور پر ذمہ دار ہے کہ اس کے اخراجات نا مناسب نہ ہوں.بہر حال اگر اس پر چیک رکھا جائے اور استاداد در طلبہ ادھر توجہ دیں.تو والدین کی ایک معقول رقم بچ سکتی ہے
برتن чов برتنوں کے متعلق ایک صورت کفایت کی یہ ہے کہ قلعی کرانے والے برتن کم استعمال کئے جائیں.ایک دیگچی جو دورو پے کو آتی ہے.اس پر تین سال میں تین روپے صرف تلکھی کے خرچ ہو جاتے ہیں.فضول تار مغرب سے ایک کو یہ بھی آگئی ہے کہ فلاں جگہ کھانا ہے.فورا تار دے دو کسی دوست کو کوئی خوشی پہنچے تو فور اتار دے دینا.غرض تار کیا ہے.ایک فیشن ہو گیا ہے.میں نے دیکھا.کہ کسی شخص نے جمعہ کو ایک خط اپنے دوست کو لکھا کہ میرا بھائی بہار ہے.وہ خط وہاں ہفتہ کو پہنچ گیا.لیکن اس دوست نے اس کا جواب تک نہ لکھا.درنہ اس کا خط وہاں اتوار کو مل جاتا.پیر کے دن اُن دوست کو خیال آیا کہ اوہو! پرسوں سے خط آیا ہوا ہے ہم نے اپنے دوست کو اس کا جواب تک نہیں دیا.پھر کیا تھا ڈیل تار لکھ مارا در VERY ANXIOUS HOW IS YOUR BROTHER WIRE IMMEDIATELY گویا نہ صرف اپنے پیسے ضائع کئے اور تار دو دن چھوڑ کر بے وقت بھیجا بلکہ بیچارے دوست پر بھی جرمانہ کر دیا.کہ تم تاریخیں جواب دو.ہم نہایت متفکر ہیں.میں کہتا ہوں کہ اگر پی نے متفکر ہوتے.تو کیوں دو دن پڑے سوتے رہتے.کوئی لڑکا پاس ہو جائے.تو گویا شرعی فریضہ ہے کہ ہر شخص آٹھ دس آنے ضرور ضائع کرے.اس طرح لوگوں کا سینکڑوں روپیہ خرچ ہو جاتا ہے.جس میں زیادہ حصہ اسراف میں داخل ہوتا ہے.کسی کو بیمارسن لیں.تو بجائے خط کے یہ فرض سمجھا جاتا ہے کہ تار بھیجا جائے
۶۰۸ اسی طرح جہاں لفافہ کی جگہ کارڈ جا سکتا ہو وہاں فریاد کے لئے ایک پیسہ بچا لیا بھی عقلمندی بلکہ ثواب ہے.عرض فضول تار اور فضول ٹکٹوں کے اسراف کا خیال رکھو.اگر یے طور پر پابند تحریک جدید ہونا چاہتے ہو.باس کے متعلق کفایت میری یہاں ہرگز یہ مراد نہیں.کہ سب لوگ ہر ایک بات پر عمل کریں.جو یہاں ذکرہ ہوتی ہے.بلکہ مطلب صرف اتنا ہے کہ جو بات کسی شخص کے حالات اور حیثیت کے مطابق مفید ہو وہ اسے اختیار کیے.بستر کی چادریں : سفید لٹھا کی چادریں بہت گراں پڑتی ہیں.اور جلدی ختم ہو جاتی ہیں.مناسب یہ ہے کہ صرف گھر کے معزنا اور بڑے لوگ ایسی چادریں استعمال کریں.لڑکوں وغیرہ کے لئے آج کل کھیوں کی شکل کی بنی ہوئی میل خوری چادریں بہت سستی مل جاتی ہیں جو دیر پا بھی ہوتی ہیں.رومال در صورتیں اور نوجوان طالب علم پیشی زمین روالوں کے بڑے شائق ہوتے ہیں.اگر یہ رومال دوکانوں سے خریدے جائیں.تو بعض اوقات ایک روپیہ یا بارہ آنہ فی مدد ملتے ہیں.وہی رومال دہلی یا لاہور میں لڑکے بازاروں میں بیچتے پھرتے ہیں.اور تین آنہ فی عدد دستیاب ہو جاتے ہیں.روزانہ استعمال کے رویال سفید یا خالی لٹھ کے گھروں میں بنالینے چاہئیں.جو بہت سستے پڑتے ہیں.رنگین کپڑے ، عورتیں اور لڑکیاں اگر گرمی کے موسم میں اپنے کپڑے رنگ لیا کریں.اور سفید نہ رکھا کریں.تو ایک گونہ کفایت ہو جاتی ہے.رنگین کپڑے کم مسلے ہوتے ہیں.اور سفید دوسرے دن ہی بدلنے کے قابل ہو جاتے ہیں.ساتھ ہی دھوبی کابل
4-9 بھی بڑھ جاتا ہے.زینت کے اخراجات آج کل مغرب زدہ عورتیں بہت سا روپیہ کریم.پوڈر ، سرخی ،لپ شک ہنجن وغیرہ اشیاء پر بے دردی سے صرف کرتی ہیں.میں جب ایسی عورت کو دیکھتا ہوں کہ نا مناسب طور سے اس نے اپنے تئیکس ان اشیاء سے آراستہ کیا ہے تو میری زبان پر اس وقت ایک لفظ گردش کرنے لگتا ہے.اور وہ نقطہ ہے PAINTED WOMEN وجہ یہ ہے کہ قدرے سفیدی اور بے معلوم سُرخی جو غیر قدرتی نہ معلوم ہو وہ کھپ جاتی ہے.اور بڑی نہیں لگتی.لیکن سانو سے رنگ پر اتنا سفیدہ کہ بھوتنا معلوم ہو.اور ہونٹوں پر اتنی شرفی که خون پیا ہوا نظر آئے.سخت مکروہ اور ناقابل برداشت نظارہ ہے.پھر اس پر لطف یہ کہ ہر پانچ منٹ کے بعد سُرخی سفیدہ کی تجدید کی جاتی ہے.اور دن رات یہی عمل جاری رہتا ہے.خیر یہ تو اپنا اپنا نفاقی ہے.لیکن شکر ہے کہ میرے گھر میں ابھی تک یہ وباء داخل نہیں ہوئی.ہاں ان سب اشیاء میں سے منجن یا ٹوتھ پاؤڈر بہت ضروری اور مفید چیز ہے.لیکن اکثر بازاری منمین بہت قیمتی ہوتے ہیں.اس وجہ سے لوگوں کو بہت زیمر باہر ہوتا پڑتا ہے.دوسری طرف یہ بھی ہے کہ دانت صاف کر نا کم از کم تین دفعہ روزانہ ضروری ہے صبح کے وقت دوپہر کو بعد از طعام اور رات کو سوتے وقت اگر بازار منجین وغیرہ خریدے جائیں تو غریب آدمی کا دیوالیہ نکل جائے.در روزنامه الفضل ۱۲۹ جولائی ۶۳۹)
41- نوکر مزدور ہے.غلام نہیں ہے ایک دوست انبالہ سے اپنے خط میں مجھے تحریر فرماتے ہیں.السلام علیکم.گزارش ہے کہ آپ کا ایک مضمون 'الفضل' کی ایک قریبی اشاعت میں شائع ہوا جس میں سادہ زندگی کے متعلق نہایت قیمتی نصائح ارشاد فرمائی ہیں.مگر میرے نزدیک جہاں بناسپتی گھی کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے یہ تحریر فرمایا ہے کہ بناسپتی گھی مار بمین کے لئے استعمال کریں.قابل اعتراض ہے.اور اس کا اکثر غیر احمدی اشخاص نے تمسخر اڑایا ہے چونکه خاکسار خود بھی اس کے خلاف ہے.اس لئے مخالفین کو کوئی جواب نہیں دے سکتا.اس لئے ملتمس ہوں کہ اس کی تشریح فرمائیں کہ آیا یہ از روئے شریعیت جائز ہے یا نہیں.کیا کھانے کے معاملہ میں ملازم اور آقا کے درمیان کوئی امتیاز روا ہے.4 اس خط کے آنے سے پہلے بھی چند دوستوں نے زبانی طور پر یہی اعتراض کیا.میرے نزدیک چونکہ یہ اعتراض نا واقعی پر مبنی ہے.اس لئے اس کا جواب لکھتا ہوں.واضح ہو کہ اول تو کوئی ایک شخص کسی گھر مں ملازم ہو تو اس کے لئے علیحدہ ہانڈی پکانا.یا ایسی تجویز بتانا سراسر بے وقوفی ہے.کیونکہ دس بارہ کھانے والوں کے سالن میں سے ایک آدمی کا سالن بآسانی نکل سکتا ہے.اور علیحدہ سالن پکانا اسراف میں داخل ہو گا پس یہ بات تو صرف ایسے گھرانوں یا خاندانوں میں چل سکتی ہے جہاں کئی کئی نوکر ہوں.سر اور ان کی تعداد اتنی ہو کہ الگ ہانڈی پکانے میں خرچ کی کفایت ہو سکے.اس لئے یہ تجویز صرف ایسے ہی لوگوں کے لئے ہے جن کے پاس کئی ملازم ہوں.مثلاً ایک باورچی، ایک شیخی.
411 یعنی برتن مانجھنے والا.ایک ڈیوڑھی کا ملازم.ایک دو عورتیں گھر کا اُوپر کا کام کرنے کے لئے جانوروں کا تو کیہ ، ڈرائیور، مہترانی وغیرہ وغیرہ.اس حالت میں جب پانچ سات آدمی اپنے گھر کے ہوں اور چار پانچ یا زیادہ ملازم اوپر کے ہوں تو ان کی ہانڈی بآسانی اور بکفایت الگ پک سکتی ہے.بلکہ گھی کا سوال جانے دو.اگر گھر والوں کے لئے پلاڈ یا مرغی یا پھلی یا ایسی ہی چیز پکائیں تو کیا ان نصف درجن ملازموں کے لئے بھی ایسا ہی انتظام کرنا پڑے گا.اور آقا نے اگر پیٹ بھر کہ صرف پلاؤ کھایا ہے.تو کیا ہر ملازم بھی اس دن پیٹ بھر کہ پلاؤ ہی کھائے گا.اس کے معنے تو یہ ہوئے کہ جس دن گھر والوں کے لئے ایک مرغ یا سیر مھر پلاؤ پکے.اس دن ملازمین کے لئے چار مرغ اور پانچ سیر ملاؤ تیار ہوا کر ہے.کیونکہ بعض ملازمین ماشاء اللہ آقا سے چار گنا کھاتے ہیں اور آٹھ گنا کھا سکتے ہیں اگر کھانا لذیذ ہو.اور جو آقا ایسا انصاف کرے گا جیسا کہ آپ چاہتے ہیں.اُسے تو چند روز میں ہی ان نوکروں کو برخاست کرنے کی ضرورت پیش آجائے گی یادہ بیچارہ خود پیلی دال یا قلیسہ کھانا شروع کر دے گا.اب میں یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ غلطی کہاں سے آئی یہ بات یہ ہے کہ اسلام میں غلاموں کے ساتھ سلوک کی نہایت درجہ تاکید وارد ہوئی ہے اور حکم ہے کہ جو خود کھاؤ وہی غلام کو دو اور جو خود پہنو دہی اُسے پہناؤ اور جو کام اس سے کراؤ اس میں خود برابر کے شریک ہو جاؤ، وجہ یہ ہے کہ غلام کا کوئی اور ٹھکانہ نہیں ہے.نہ وہ کہیں اپنی مرضی سے جاسکتا ہے.نہ وہ اپنی مرضی سے کام چھوڑ سکتا ہے.اور جو بھی وہ کھاتا ہے وہ مالک کے قبضہ میں چلا جاتا ہے.عرض غلام کی پوزیشن اپنی غلامی کے دوران میں صفر کے برا یہ ہے.اس لئے شریعیت نے اس کے لئے ایسے سلوک کا حکم فرمایا ہے جس کا اُوپر ذکر ہوا.لیکن کسی رواج کسی شریعت کسی عقل نہ کسی گورنمنٹ نے یہ نہیں بتلایا کہ غلام اور ملازم دونوں کی ایک ہی پوزیشن ہے نو کر جس وقت چاہے نوکری چھوڑ سکتا ہے.نوکر جو کام نہ کرنا چاہے اس کا انکار کر سکتا ہے.نوکر تنخواہ لیتا ہے اور جہاں چاہے اپنا مال خرچ کر سکتا ہے.اپنی تنخواہ میں سے میں قسم کا
چاہیے.کھا نہیں سکتا ہے.یا جہاں چاہیے اپنا مال خرچ کر سکتا ہے.پیپسی دونوں میں اتنا ہی بھاری فرق ہے جتنا ایک آزاد اور قیدی ہیں.آپ کس طرح غلاموں کے مسائل کو آزاد لوگوں پر لگا سکتے ہیں ؟ شائد آپ نے یہ سُنا ہوا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں کے بھی حقوق کھانے پینے اور مشقت محنت وغیرہ میں رکھے ہیں جتنے آقاؤں کے.آپ نے دیکھا کہ غلام تو نظر نہیں آتے چلوان حقوق کو آزاد ملازمین پر چسپاں کر دو.حالانکہ یہ بالکل نامناسب اور فلط فتویٰ ہے کہ ایک جماعت کا فتویٰ دوسری جماعت پر لگا دیا جائے.اگر یہ بھی ہے تو پھر ہم کو نوکروں کے کپڑے بھی آقاؤں جیسے بنانے پڑیں گے اور میں روٹیاں باورچی پکائے گا تو ہیں بابو صاحب پکائیں گے.اسی طرح ڈپٹی صاحب کا چپڑاسی ہفتہ میں تین دن ڈاک لے جائے گا اور تین دن وہ خود لے جائیں گے اور صبح کو مہترانی پاخانہ کرائے گی اور شام کو گھر مالی خود - کیونکہ غلاموں کے لئے نہ صرف کھانے پینے کے حقوق برابر ہیں.بلکہ کپڑے اور شفت و محنت میں بھی ان کے لئے برابری کے حقوق مقرر کر دیئے گئے ہیں.بر خلاف اس کے نوکر ایک ایسا آزاد شخص ہے کہ وہ جب چاہے ملازمت اختیار کر سکتا ہے.جب چاہے ترک کر سکتا ہے.بعض تنخواہ لیتے ہیں.بعض کھانا ، کپڑا اور ساتھ ہی تنخواہ بھی لیتے ہیں.لیکن عقل اور شریعت کے نزدیک وہ مزدور ہیں.اور ایک مزدورہ ایک غلام کی طرح اپنے آقا کا برابر کا شریک نہیں ہے.وہ آزاد ہے بلکہ جس دن ناراض ہوتا ہے کبھی کبھی تو وہ آقا اور اس کے گھر والوں کو دس گالیاں دے کر نکل جاتا ہے اور کھنا لکھن اپنا حساب گیتوا لیتا ہے.پھیلا اس کا اور غلام کا کیا مقابلہ ہے اور غلام کے مسائل کو مزدور پر کیوں تھوپا جاتا ہے ؟ تو کر یعنی مزدور کو وہی کھانا ملے گا جو عرف عام میں اس ملک کے تو کر دن کو ملا کرتا ہے.ورنہ اس نئے مسئلہ کے مطابق تو گھر کے دستر خوان پر سب ملازمین کو گھر والوں کے برابر بیٹھ کر کھانا کھانا چاہیئے.اور گھر میں جو پھل میوہ تحفہ تخالف آئیں.وہ سب ملازمین کے ساتھ برابر کے حصہ میں بانٹ لینے چاہئیں.پس دو مختلف حالات کو غلط طور سے گریڈ کہ
۶۱۳ دینے سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی ہے.جن لوگوں کا ایسا خیال ہے.میں ان سے پوچھتا ہوں.کہ کیا ان کی بیوی ہانڈی روٹی تیار ہوتے ہی بہترین حصہ سالن روٹی کا تازہ تازہ اور گرم گرم چینی کے برتن اور عمدہ دسترخوان میں لگا کر اپنے نوکروں کو بھیجتی ہے جیسا کہ گھر کے مالک کے لئے ؟ یا وہ نوکروں کو بعد میں معمولی برتنوں میں پہلے خود کھا کہ یا اپنا حصہ نکال کر تقسیم کرتی ہے.اگر وہ مساوات ، نہیں برتی تو پھر پہلے اصلاح اپنے گھروں سے شروع ہونی چاہیئے.میرا اپنا تو یہی خیال ہے کہ وہ بیوی صبیح عمل کرتی ہے.کیونکہ نوکر روٹی کپڑے، پر یا " روٹی اور تنخواہ پر رکھے جاتے ہیں.یعنی اس قسم کی روٹی کپڑے پر جو اس ملک میں نوکروں کا طبقہ اپنے گھروں میں استعمال کرتا ہے اور جس کا عام رواج پایا جاتا ہے.نہ وہ روٹی کپڑا ء جو آقا خود استعمال کرتے ہیں.ہاں یہ ضرور خیال رکھنا ہوگا کہ تو کر پیٹ بھر کر کھائے ھو کا نہ رہے.اور خراب گندا مضر صحت برنزه کھانا اُسے نہ دیا جائے بلکہ آقا کی حیثیت کے مطابق ملازم کا کھانا بھی ہو اور جس قدر بھی نیک سلوک کیا جائے وہ کار ثواب ہے لیکن اصل بات یہی ہے کہ غلام بیٹے کی طرح ہوتا ہے اور ملازم مزدور کی طرح.اس وجہ سے دونوں کے لئے الگ الگ احکام ہیں.الفضل دراگست (۱۹۳۹ء)
داله تنظیم نو کی بنیاد جنگ کے بعد کا نظام پہلی جنگ کے دوران میں بھی فریقین جنگ ایک نئے نظام کا ذکر کیا کرتے تھے.پھر ہم نے گزشتہ ۲۵ سال میں دیکھ لیا.کہ وہ صرف ایک بہانہ تھا.اب پھر اس کا بہت ذکر ہورہا ہے.لیکن آخر یہی ثابت ہوگا کہ نظام کو کے معنے یہ ہیں کہ شکست خوردہ یمن کو کس طرح ہمیشہ ہمیش کے لئے بے کار بنا دیا جائے.اور اپنے مفاد کی کس طرح بیش از پیش مضبوطی کر لی جائے، اور کس طرح جنگ کے اثرات اور صدمات کو زائل کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ خوشی عیاشی اور عیش وعشرت میں مشغول ہوا جائے ہیں یہ ہے وہ نظام تو جس کی ہمیں اس جنگ کے بعد انتظار کرنی چاہیئے.اور پھر یہ بھی یا درکھنا چاہئیے کہ یہ نظام کو بھی زیادہ دیر تک چل نہیں سکے گا.کیونکہ اس کے پیچھے خدائی تائید اور الہی نصرت اور مخلوق کا حقیقی فائدہ موجود نہیں ہے.اسلام کا بابرکت نظام بر خلاف اس کے ہم جو احمدی جماعت کے لوگ ہیں.وہ بھی ایک نظام نو کے منتظر ہیں.اور اس تاریخ سے منتظر ہیں.جب نومبر الشام میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مسیح پاک کی زبان سے یہ ارشاد فرمایا : کہ ہم ایک نیا نظام اور نیا آسمان اور نئی زمین چاہتے
۶۱۵ ہیں.پھر اسی کشف میں حضور نے ارادہ الہی سے اس نے آسمان اور زمین کو پیدا کیا.پھر منشائے حق کے مطابق اس کی ترتیب اور تفریق کی.پھر آسمان دنیا کو پیدا کیا پھر فرمایا کہ اب ہم انسان کو مٹی کے خلاصہ سے پیدا کریں گے." تفصیل کے لئے دیکھو آئینہ کمالات اسلام ماه تا ۵۶۶) اس سے معلوم ہوا کہ الہی منشا بھی ایک نئے نظام کے قیام کا ہے.اور وہ نیا نظام مقامی اور ملکی یا قومی نہیں ہو گا.بلکہ سارے عالم کے لئے ہوگا.اور ضروری ہے کہ کھانے تمام نظام توڑے جائیں.تاکہ یہ با برکت نظام اس آخری زمانہ میں دنیا کی سرسبزی اور شادابی کے لئے قائم کیا جائے، اس نئے نظام کا تفصیلی ذکر کرنے کا یہاں موقعہ نہیں نہ ضرورت ہے.کیونکہ وہ پہلے ہی تیرہ سو سال سے دنیا میں موجود اور محفوظ رکھا ہوا ہے.اس کی برکتوں کا پہلے بھی یہ دنیا تجربہ کر چکی ہے.اور اس سے قائدہ اٹھا چکی ہے.وہ کوئی نیا نظام نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ نیا ہے.یعنی نظام کا خاکہ اور ڈھانچہ تو پورا موجود ہے لیکن ایک چیز اور صرف ایک چیز کی کسر ہے اور اس چیز کا نام ہے بنیا د نظام کو کیا کوئی مسلمان قرآن مجید کی موجودگی اور اسلام کی کامل شریعیت کے ہوتے ہوئے یہ کہ سکتا ہے.کہ ان کے بعد کوئی اور نیا نظام بھی آسکتا ہے.اگر یہ عقیدہ رکھا جائے.تو نہ آنحضرت خاتم النبیین ٹھہر سکتے ہیں نہ قرآن مجید کامل کتاب اور نہ شریعت اسلامیہ کمل شریعت.پس اگر نظام کو کوئی نئی چیز ہے تو اسلام اور قرآن کو تو جواب ہے.لیکن اگر قرآن - اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دائمی اور رہتی دنیا تک کی چیزیں ہیں.تو پھر نظام نو کے معنوں پر ہمیں غور کرنا پڑے گا.اور میں غور وفکر کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ اس نظام نو کے لفظ کا صرف اتنا مطلب ہے.ہم اسی قرآنی حکومت کو دنیا میں پھر قائم کریں گے جو قرون اول میں تھی.اور اسی شریعت کو پھر نا فذ کریں گے.جو خلفائے راشدین کے زمانہ میں چلتی تھی.اور اسی نظام کو پھر زندہ کریں گے جو
الى أمر الله فَلَا تَتَعْجِلُوهُ (الخل (۲) ترجمه : (اسے شکرو ! اللہ کا حکم آیا ہی چاہتا ہے اس لیے (اب) تم اس کے جلد آنے کا مطالبہ نہ کرو.میں بیان فرمایا گیا ہے.اور وہی احیائے دین اور اقامتہ شریعیت کا نظارہ اس دنیا کو پھر دکھائیں گے جو حضور علیہ السلام کی معرفت پیدا ہونا مقدر ہے ایک سوال اور اس کا جواب ہاں اب صرف یہ معلوم کرنا باقی رہ گیا ہے کہ پھر اسے نظام کو بانٹے آسمان اور نئی زمین کا نام کیوں دیا گیا ہے.اور کونسی چیز نئی پیدا ہوگی جو پہلے نہیں تھی.کیونکہ شریعیت کا نظام تو پورا اور مکمل ساڑھے تیرہ سو سال سے موجود ہے.لینی محل اور قصر شریعت تو بنا بنا یا تیار ہے.پھر وہ نئی بات کیا ہے جس کا ہمیں انتظار ہے.اور جس کے لئے اس وقت تمام عالم بے تاب اور بے قرار نظر آتا ہے.پس جب نظام کو کا مصالحہ سامنے ہے اور اس کا میٹریل موجود ہے.یعنی شریعت کرائے اسلامیہ اور قرآنی ہدایات تمام یا محفوظ و مضمون ہیں.تو وہ کیا کمی ہے.جس کی وجہ سے یہ پرانا نظام نیا ہو جائے گا.یا نیا کہلاتے کا مستحق ہوگا ؟ کیونکہ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں.کہ کوئی مسلمان بھی کسی نئی شریعیت نئی حکومت یا نئی ہدایت کے ماننے کے لئے تیار نہیں.اور تجربہ اور عقلاً خود ہم پر بھی واضح ہو چکا ہے کہ اسلامی اور قرآنی شریعیت اور نظام کے آگے اور اس کے مقابل میں خواہ کوئی نظام بھی ہو.وہ ایک منٹ کے لئے بھی کھڑا نہیں ہو سکتا.اس صورت حالات میں ہر شخص یہ کہ سکتا ہے کہ عجیب نظام تمہارے پاس موجود ہے تو اسے قائم کر دو.دیر کیا ہے اور انتظار کس بات کا ہے یہ سوال نہایت معقول ہے.لیکن ہم بھی اس کے جواب ہیں یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس ایک کامل نظام ایک بہترین نظام ایک دائمی نظام واقعی موجود
416 تو ہے لیکن افسوس ہمارے پاس اس کی بنیاد موجود نہیں.جس پر وہ کھڑا کیا جا سکے ہیں اس بنیاد کا تیار کرتا ہی ایسا کام ہے جس کی وجہ سے ہم اسے ایک نظام نو کہ سکتے ہیں.پرانی بنیاد پھٹ گئی.خراب ہوگئی، نم ہوگئی ضائع ہوگئی.اب اوپر کا محل اور قصر گیا ہوا اوندھا اور بے کار پڑا ہے.جب تک اسے نئے سرے سے ایک نئی اور مضبوط بنیاد پر نہ رکھا جائے.اس کی کوئی حیثیت اور کوئی اہمیت نہیں.وہ قابل درآمد نہیں.اور اس سے کوئی بھی قائدہ اٹھا یا نہیں جا سکتا.پس یہ وہ بنیاد ہے.یہ وہ پرانے نظام کے لئے نئی بنیا د یا لفظ دیگر نظام نو کی نیاد ہے جس کی تعمیر کی فکر میں جماعت احمدیہ لگی ہوئی ہے اور جن کے درست ہوتے ہی پھر وہی اگلا نظام ایک نئی شان اور ایک نئی شرکت کے ساتھ ظاہر ہوگا.اور پھر جب تک وہ بنیاد قائم رہے گی.تب تک وہ بھی اپنا کمال اور رونق دکھاتا رہے گا.پہلی دفعہ جب یہ نظام قائم ہوا تو ایک مدت چل کہ پھر اس کی بنیادوں میں پانی بھرنا شروع ہو گیا.چوہوں اور نیونوں نے بل بنا کہ اسے کھو کھلا کر دیا.اور یہ بنیاد اسی طرح شن اور خراب ہوتی چلی گئی.یہاں تک کہ و قصر رہیں متزلزل ہو کہ جھک گیا.لیٹ گیا.نکا ہو گیا.اور قوموں کی جائے پناہ اور آرامگاہ نہ رہ سکا.اب جو نئی بنیادین رہی ہے.اس میں یہ خیال بھی رکھا جائے گا کہ پھر ویسی باتیں اور وہ نقائص پیدا نہ ہونے پائیں.اور انشاء اللہ اب ایسا ہی ہو گا.منظم نو کی بنیاد اس مضمون کا ہیٹنگ نظام نو کی بنیاد ہے جو اب خراب ہو چکی تھی.اور اب پھر اس کی تعمیر حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو نے شروع کی.اور ان کی خلافت اور جماعت اس کی تکمیل میں مصروف ہے.آپ اس وقت ہمہ تن یہ معلوم کرنے کے مشتاق ہوں لگے کہ وہ بنیاد کیا ہے.اور اس سے کیا مراد ہے.اول تو آپ مضمون کی رفتار سے خود ہی
سمجھ گئے ہوں گے.اور اگر نہ سمجھے ہوں.تو میں ایک فقرہ نہیں اپنا مطلب عرض کئے دیتا ہوں کہ نظام تو کی بنیاد سے مراد راستباز متفقی انسانوں کی ایک ایسی مقدس جماعت جن کے دلوں دماغوں جانوں اور جسموں پر مبارک شریعیت نفر آئے اسلامیہ کو کھڑا کیا جاسکے اور جسے کوئی زلہ لہ کوئی پانی کوئی جانور کوئی پوسیدگی اور کوئی حملہ دشمن کا کمزور نہ کر سکے.یہ ہے چند مختصر الفاظ میں اس بنیاد کی حقیقت جسے قرآن مجید نے وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ (احزاب (٤٣) ترجمہ لیکن انسان نے اس کو اٹھا کیا کے دو پیارے مگر آنها، نقطوں میں بیان کر دیا ہے.جس کی تعریف كَانَّهُمْ بُنْيَانَ مَرْصُوص (الصف (٥) ترجمہ : گویا وہ ایک دیوار ہیں جس کی مضبوطی کے لئے اس پر سیسہ پگھلنا کہ ڈالا گیا ہوں.کے الفاظ خداوندی میں کی گئی ہے.اور جیسے معرفاً ہم بھی ہمیشہ حاملان شرع متیں ، کی اصطلاح سے اپنی تحریر اور تقریر میں بولتے اور لکھتے رہتے ہیں.پس معلوم ہوا کہ نظام کو کی بنیاد جماعت احمدیہ اور صرف جماعت احمدیہ ہے اور کچھ نہیں.اور بغیر اس جماعت کی موجودگی کے نظام تو اور کسی بنیاد پر رکھا نہیں جاسکتا اور نہ اس کا کوئی اور قائمقام یہ کام دے سکتا ہے.بنیاد کی تعمیر کے لئے تین ضروری چیزیں لیکن نظام کو جو دنیا کو مصائب و آلام سے نجات دلانے والا ہو.وہ چونکہ تمام جہان کے لئے ہے.اس سے اس کی بنیاد بھی اس کے مطابق وسیع اور عظیم الشان ہونی چاہیئے.نیز اگر کسی بنیاد میں سجائے پختہ عمدہ کنکریٹ کے کچی پکی اینٹیں بھر دی جائیں
419 تب بھی وہ مکان مضبوط اور قائم نہیں رہ سکتا.بلکہ جلدی متزلزل ہو جاتا ہے.چنانچہ دنیا کی دیگر تعمیروں کی طرح اس بنیاد کے لئے بھی تین چیزیں ضروری ہیں.الجب تک وہ پوری نہ ہوں گی تب تک نظام کو تمام دنیا کے لئے کارآمد اور مفید نہیں ہو سکتا.اور وہ تین چیزیں یہ ہیں.ا ایمان یقین اور تقوی الله - ایسے لوگ جو ان صفات سے بکمال متصف ہوں.نہ صرف کچھ لوگ ایسے ہوں.بلکہ جہاں جہاں اور جس جس ملک یا روئے زمین پر یہ نظام پھیلتا جائے.وہاں ان کی مستقل پارٹی یعنی اکثریت ہو.اور ہوتی چلی جائے.ایمان یقین اور تقوئے یا درکھیں کہ اگر پہلی چیز نہ ہو گی.تو پھر یہ عمارت کھڑی ہی نہیں ہو سکتی.اپنی چیزوں کا فقدان تھا جو اللہ تعالٰی کو ایک نبی بھیجنے کی ضرورت پیش آئی.دنیا میں کوئی اللی نظام بغیر ایک عظیم الشان نبی کے قائم نہیں ہو سکتا.نہ بھی ہوا ہے.تمام مذاہب باطل ہو گئے.تمام فرقے اُمت محمدیہ کے کھو کھلے اور بے برکت ہو گئے.ایمان ثریا پر چلا گیا.اور تقویٰ " تریر زمین کہیں روشنی نہ رہی.نظام شریعت کی جگہ رسم ورواج اور کتاب الجھیل نے لے لی تب خدا تعالیٰ نے نئی زمین اور نئے آسمان بنانے کا ارادہ کیا اور مردوں کو زندہ کرنے کے لئے ایمان اور تقویٰ دے کہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کو بھیجا تا کہ وہ ان کی تخم ریزی افراد میں کیہ کے ایک جماعت قائم کریں.جو دنیا کے روحانی نظام کو کی حامل بن سکے.سواے بھائیو! وہ تم ہو.وذالك فضل الله يوتيه من يشاء.
۶۲۰ خلافت کی برکات مگر ایک نظام کے لئے یہ ضروری اور لایدی ہے.بلکہ پہلی ضرورت اس کی یہ ہے کہ اس کا ایک چلانے والا ہر وقت موجود ہو.پس نبی کی وفات کے بعد سلسلہ خلافت جاری ہوا اور جب تک یہ خلافت زندہ رہے گی.یہ نظام بھی زندہ رہے گا.کیونکر ان مومن متقی لوگوں کا گلہ بان خلیفہ ہی ہوتا ہے.در نہ لوگ پراگندہ بھیڑوں کی طرح منتشر ہو کہ بھیڑیوں کا شکار ہو جاتے ہیں.پس ضروری ہے کہ ہم نہ صرف متقی مومن ہوں مطیع خلافت بھی ہوں.اور اپنے ایمان اور یقین اور تقوے میں ہمیشہ ترقی کرنے کی کوشش میں لگے رہیں.منتقل میجارٹی کی اہمیت تیسری بات یعنی اکثریت اس لئے ضروری ہے کہ اگر بالفرض یہ جماعت ایک صوبہ یا ایک ملک تک ہی محدود رہے.تب تمام دنیا کے وسیع علاقے میں اپنا نظام قائم نہیں کر سکتی.یا بالفرض ہر ملک میں کچھ احمدی پائے جائیں مگر ان کی اکثریت نہ ہو تب بھی غلبہ کفر کا باقی رہے گا اور نظام شریعیت کا نفاذ اور اس پر عمل محال ہو جائے گا.پیس نیا آسمان اور نئی زمین بنانے کے لئے یہ ضرورت ہے کہ یہ جماعت ہر ملک اور ہر خطہ زمین میں اس قدر بڑھ جائے کہ دوسرے لوگ بقول حضرت مسیح موعود صرف سانسی اور خانه بدوش اقوام کی طرح رہ جائیں.اگر یہ اکثریت ہم پیدا نہ کر سکے تو گو ایک محدود علاقے میں نئے نظام کو صرف ایک نا تمام حد تک چلانے میں کامیاب بھی ہو جائیں.تب بھی یہ نظام تو آفاق پر چھا نہیں سکے گا.
خلاصہ کلام ۶۲۱ خلاصه کلام به که خود کو ایمان و یقین و تقولی اور حشیتہ اللہ سے بھیر لو پھر اپنی تعداد میں اضافہ کرتے جاؤ.اور جس قدر بھی نظام چل سکتا ہے.اُسے خلافت کے ماتحت چلائے جاؤ اور بڑھاتے جاؤ.اور ساتھ ساتھ ہر ملک، ہر یا اعظم اور دنیا کے ہر حصہ پر چھا جانے کی کوشش کرتے رہو.یہاں تک کہ وہ مبارک نظام وہ امر اللہ حیس کا خدا نے تم سے وعدہ کیا ہے قائم ہو جائے اور دنیا کے دکھ دردست کر انصاف مدل خدا ترسی کا دور دورہ تا قیامت چلتا ہے.اگر تمام دنیا بھی کہنے کو ظاہری طور پر احمدی ہو جائے اور ان میں خدا ترسی.خداشناسی اور ایمان نہ ہو.تو ایسے لوگ ہر گر کوئی نظام الہی نہیں چلا سکیں گے.اگر وہ خود مناریٹی یا اقلیت میں ہوں گے تب بھی یہی نتیجہ ہو گا.پس ساری شرائط کو پورا کرو تا کہ وہ نظام جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے اور پورے طور پر وہ قرآن مجید احادیث اور کتب حضرت مسیح موعود میں موجود ہے اور کچھ حقہ اس کا اس وقت تمہاری اپنی جماعت میں بھی نظر آتا ہے.وہ مکمل ہو کر خدا کی بادشاہت اسی طرح اس زمین پر یعنی جلوہ گر ہو جیس طرح وہ آسمانوں پر ہے.آمین.الفضل 11مارچ ۱۹۴۳)
۶۲۲ حضرت عمرہ کا اسلام حضرت عمریضہ قریش کے معزز خاندان میں سے تھے.اور جب کبھی قریش کی آپس میں یا کسی غیر سے لڑائی ہوتی تو عرض ہی اُن کے سفیر بن کر جایا کرتے تھے.حضرت عمرام چالیسویں مسلمان مرد تھے، آپ سے پہلے ۳۹ مرد اور گیارہ عورتیں مسلمان ہو چکی تھیں.ان دنوں انحصارات صلی اللہ علیہ وسلم ارقم کے گھر میں تبلیغ کیا کرتے تھے.حضرت عمراض اصحاب فیل کے حملہ سے سال بعد پیدا ہوئے.بڑے لیے قد اور اونچی آواز والے آدمی تھے.ان کا رعب اور اثر بھی بہت تھا.ان کی عادت تھی کہ زمانہ کفر مں مسلمانوں کو بہت ستایا کرتے تھے.آپ کے مسلمان ہونے سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے.یا اللہ یا تو عمر من خطاب مسلمان ہو جائے یا عمر وبن ہشام (یعنی ابو جہل) تاکہ اسلام کو غلبہ حاصل ہو..اس دعا کے بعد ایک دن کعبہ میں قریش نے کمیٹی کی اور یہ پاس کیا کہ محمد صلی ال ل ی اتم نے بہت فساد پھیلار کہا ہے جو شخص اسے قتل کر دے گا.اسے تنا اونٹ انعام میں دیئے جائیں گے.حضرت عمریضہ وہاں سے جوش میں اُٹھے کہ میں جا کہ محمد کو قتل کرتا ہوں.دستہ ہیں ان کو ایک شخص ملا اس نے پوچھا.عمر کہاں جاتے ہو.عمرہ نے کہا محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کرنے چلا ہوں.اُس نے نہیں بہت ستایا ہے.وہ شخص بولا.عمر یہ تمہاری سخت غلطی ہے.عمر کہنے لگے.معلوم ہوتا ہے کہ تو بھی مسلمان ہو گیا ہے.اگر یہ بات درست ہے
تو پہلے تیری ہی گردن اڑا دوں گا.وہ شخص پیچ پیچ مسلمان تھا.کہنے لگا.خیر لوگوں کو قتل کرتے پھرتے ہو.پہلے اپنوں کی تو خبر ہو.ان کو مار لو.تو پھر اور طرف رُخ کرتا.عمرہ پوچھنے لگے وہ کون ہے مسلمان بولا پہلے تو اپنی سگی بہن اور اس کے میاں سعید کی خبر لو.عمر نے یہ سن کر سیدھا بین کے گھر کا رخ کیا.اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ دستور تھا کہ جو مسلمان نظری منفیلس ہوتا.اسے کسی کھاتے پیتے مسلمان کے سپرد کر دیتے تاکہ تقریب کا گزارہ ہو سکے.چنانچہ عمر کے بہنوئی سعید کو بھی دو غریب مسلمان سپرد کر رکھے تھے.عمر نے وہاں پہنچے کہ دروازہ کھٹکھٹایا.اندر سے آواز آئی کون ؟ عمر نے کہا.میں ہوں خطاب کا بیٹا.اس وقت انہوں نے بنا کہ اندر کئی آدمی بیٹھے کچھ پڑھ رہے ہیں.حضرت عمر خود بیان کرتے ہیں کہ میری آواز ہیں.شن کر یہ لوگ ادھر اُدھر چھپ گئے اور گھبراہٹ میں دو کتاب بھی رہیں بھول گئے.پھر میری بہن نے دروازہ کھول دیا.میں نے اس سے پوچھا سُنا ہے تم بھی مسلمان ہو گئی ہو.انہوں نے کہا.ہاں.اس پر میں نے جو کچھ میرے ہاتھ میں آیا.اٹھا کہ مارنا شروع یہاں تک کہ اس کا سر پھٹ گیا.اور توان کی نکی بہنے لگی.وہ رونے لگیں اور کہتی جاتی تھیں بھائی چاہے مار ڈالو میں تو اب مسلمان ہو چکی.میں نے جو خون دیکھا.تو ہٹ کر پورے ایک تخت پر جا بیٹھا.وہاں ایک کتاب پڑی دیکھی.میں نے کہا یہ کیا کتاب ہے مجھے دور میری بہن تے کہا کہ خیروار اسے ہاتھ نہ لگانا.اس کتاب کو پاک لوگوں کے سوا کوئی نہیں چھو سکتا.تم لوگ خدا کے حکم کے مطابق غسل نہیں کرتے.اس لئے ناپاک ہو.ناچار میں نے غسل کیا اور اس کتاب کو پڑھنے لگا.جب میں نے بسم الله الرحمن الرحیم پڑھی تو بے خود ہو گیا اور کتاب ہاتھ سے رکھ دی.پھر جب ذرا دل ٹھکانے ہوا تو یہ آیت پڑھی.سَحَ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتَ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الحكيم (الحشر (۲) ترجمه و آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اللہ کی تسبیح کہ رہا ہے اور وہ
۶۲۴ (اللہ) غالب اور حکمت والا ہے.جب قرآن میں کہیں اللہ تعالیٰ کا کوئی نام آتا تو میں بے خود ہو جاتا.پھر ذرا آپے میں آتا تو پڑھنے لگتا.آخر جب میں اس آیت پر پہنچا.امِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَانْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَكُمْ مستخلفين فيه (الحديد :) ترجمہ و اے لوگو ! اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، اور جین (جائیدادوں) کار پہلی قوموں کے بعد تم کو مالک بنایا ہے اُن میں سے خرچ کرو.تو مجھ سے نہ رہا گیا اور میں نے کہہ دیا اَشْهَدُ أَنْ لا إلهَ إِلَّا اللَّهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحمَّدٌ رَسُولُ الله میرا کلمہ سن کر جو مسلمان اندر ادھر اُدھر مجھے ہوئے تھے وہ بات شکل آئے اور خوشی کے مارے اللہ آنے کو کے نعرے لگانے لگے اور مجھے کہا اے عمر انہیں خوشخبری ہو.کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی پیر کے دن بہ دعا کی تھی کہ خدایا.یا تو عمر کو مسلمان کر دے یا ابو جہل کو.سوخدا نے تم کو یہ فخر نصیب کیا.اس کے بعد میں نے ان لوگوں سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت کہاں ہیں.لوگوں نے مجھے پتہ بتایا.میں وہاں گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا.اور کہا.نہیں معمر ہوں.دروازہ کھولو مسلمان میرے ظلموں اور سختیوں سے واقف تھے.اور میرے مسلمان ہو جانے کی ابھی کسی کو خبر نہ تھی.اس لئے دروازہ کھولنے میں پس و پیشیں کرنے لگے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.بے شک دروازہ کھول دو.اگر خدا کو منظور ہوا تو عمر ہدایت یا جائے گا.ان لوگوں نے دروازہ کھول دیا.اور دو آدمیوں نے میرے بازو پکڑ لئے اور مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب لے گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اسے چھوڑ دو.انہوں نے میرے ہاتھ چھوڑ دیئے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا.آپ نے میرا کرتا پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا.اور فرمایا.اے خطاب کے بیٹے.اب تو مسلمان ہو جاؤ.اسے اللہ اسے ہدایت
۶۲۵ دستے میں نے کہا اشهد ان لا الهَ إِلَّا اللهُ وَاشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ الله س کر مسلمانوں نے تکبیر کے نعرے اس زور سے بلند کئے کہ تمام مکہ گونج اٹھا.اس کے اب مجھے یہ جوش اٹھا کہ یا تو مسلمانوں کو یہ کا فرلوگ مارا نہ کریں ورنہ پھر مجھے بھی ان کی طرح مار پیا کر رہے.اور جو مصیبت عام مسلمانوں کو پہنچتی ہے مجھے بھی پہنچے.یہ ارادہ کر کے میں اپنے ماموں کے پاس گیا.اور ان سے کہا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں.انہوں نے مجھے بہت کہا.کہ اس دین کو چھوڑ دو.مگر میں نے یہی جواب دیا کہ نہیں.آخر انہوں نے مجھے گھر سے باہر نکال کر دروازہ بند کر لیا ہیں تنے کہا.کچھ لطف نہ آیا.مار نہیں پڑی.اس کے بعد میں قریش کے سب ریکسوں کے دروازہ پر گیا اور اسی طرح اپنے اسلام کا اظہار کیا.مگر کسی نے مجھے نہ مارا.صرف گھر سے باہر نکال دیا.میں نے پھر ہی کہا.کہ کچھ مزا نہ آیا.آخر ایک شخص نے مجھ سے کہا.کہ عمر کیا تم اپنے اسلام کا اصلات کرنا چاہتے ہو ؟ میں نے کہا.ہاں.اس پر اس نے کہا.کہ جب سب رئیں کعبہ میں جیسے ہوں.اس وقت جمیل کو کہ دنیا دہ ڈھنڈورہ دے دے گا.میں نے کہا.اچھا.جب لوگ کعبہ میں جمع ہو گئے.تو میں نے جیل کے کان میں چپکے سے کہ دیا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں.اس نے اسی وقت فکل مچا دیا.بیسن کر سب لوگ مجھ پر پل پڑے.اور مارنے لگے ہیں بھی انہیں مارنے لگا.اتنے میں میرے ماموں نے مجھے پہچان لیا.اور بآواز بلند کہا.لوگو ! میں اپنے بھانچے کو پناہ دیتا ہوں.یہ سن کر لوگ پرے ہٹ گئے.اس کے بعد پھر میں نے یہی دیکھا.کہ لوگ مجھے تو کچھ نہیں کہتے مگر اور تقریب سلمان روزانہ مار کھاتے ہیں.یہ دیکھ کر پھر مجھ سے نہ رہا گیا.اور ایک دن جب لوگ کعبہ میں جمع ہوئے.تو میں نے اپنے ماموں سے کہا.کہ بیٹے ہیں آج سے آپ کی پناہ واپس کر تا ہوں.انہوں نے ہر چند مجھے منع کیا.مگر میں نے نہ مانا.اور ان کی پناہ لوگوں کے سامنے واپس کر دی.اس کے بعد نہیں برا بہ مشرکوں کی مار کھاتا رہا.اور مارتا بھی رہا.یہاں تک کہ خدا تعالے نے اسلام کو غالب کر دیا.ایک دن حضرت عمر نہ پر لوگوں نے حملہ کیا.اور ان کو کعبہ میں خوب مارا.انہوں نے
مقابلہ کیا.اور صبح سے دوپہر ہو گئی.آخر حضرت عمرم تھک کر گر پڑے.مگر ان لوگوں نے ان کو مارنانہ چھوڑا.حضرت مریم مار کھاتے جاتے تھے.اور فرماتے تھے کہ اے ظالمو ا تم سے جو ہو سکے کرو.خدا کی قسم اگر ہم مسلمان تین سو ہو جاتے.تو پھر تم دیکھتے ہم تم کو کعبہ سے کان پکڑ کر باہر نکال دیتے.(خدا کی قدرت ایسا ہی ہوا.یعنی بدر میں ۳۰۰ کے قریب مسلمانوں نے کفار قریش کے پورے ساز و سامان سے آراستہ شکر کو اس طرح تباہ کر دیا کہ آج تک عقلمند اس واقعہ پر حیران ہیں) اور اس طرح انہوں نے ثابت کر دیا.کہ جو کچھ انہوں نے کہا تھا.وہ یونہی نہ تھا.بلکہ اس کے ساتھ پورا عزم اور ارادہ شامل تھا.اروزنامه الفضل ۲۱ مئی ۶۱۹۲۸
۶۲۷ سنٹی الاسقام یعنی بڑی بیماریاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں سے ایک دعایہ بھی ہے کہ اللهم انى اعوذ بك من البرص والجدام والمجنون ونستي الاسقام یعنی اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں.جلد کے سفید داغوں سے اور کوڑھ سے اور جنون سے اور سب بڑی بیماریوں سے.یہ دُعا پڑھ کر مجھے کئی دفعہ خیال آیا کرتا تھا.کہ ایسی بڑی اور خبیث بیماریاں کیا کیا ہو سکتی ہیں.پھر میں نے اپنی سمجھ اور تجربہ کے مطابق ایک فہرست تیار کی کہ میرے نزدیک اس قسم کے امراض انسان کے لئے بہت بُرے ہیں.اور وہ اس فہرست میں داخل ہیں جن سے پناہ مانگنی چاہیئے.سوئیں ان امراض کو اس مضمون میں لکھ دیتا ہوں.آگے جس قدر میں کا تجربہ وسیع ہو.وہ مزید ایزادی بھی کہ سکتا ہے.اور یہ بھی درست ہے کہ ایک بیماری امیر کے لئے بڑی نہ ہو.مگر وہی ایک غرب کے لئے تباہی کا باعث بن جائے.یا ایک زمیندار کے لئے خبیث نہ ہو.مگر ایک ملازم پیشہ کے لئے سیٹی الاسقام بن جائے.یا ایک فقیر تو اس پر صبر کر سکے گر ایسا شخص جس کی عمر ناز و نعمت میں گزری ہو اس کی برداشت نہ کر سکے.بلکہ خود کشی کا مرتکب ہو جائے.پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیئے.کہ قریبا ہر بیماری ایسے مقام اور ایسے حالات کو پہنچ سکتی ہے کہ وہ سیتی الاسقام میں داخل ہو جائے.میں خدا ہی ہے جو
نے فضل سے اس کا سینہ والا حصہ دُور کر سکتا ہے.وھو الشافی اب میں وہ فہرست لکھتا ہوں.ا.وہ بیمار ماں جو انسان کی شکل کو مسخ کر دیں اور اُسے بد صورت بنا دیں.مثلاً ہے حد موٹاپن بیکٹا پن.یا ناک بیٹھ جانا، برص وغیرہ نیز بعض در بیماریاں جن کو ڈاکٹر لوگ Deformities کہتے ہیں..وہ بیماریاں جن سے دوسروں کو گھن آئے یا تیمار دار تنگ آجائیں.مثلاً پرانے دست یا گندے مزمن زخموں میں پیپ لہو بہتے رہتا یا جن کے ساتھ غلاظت بہ بو اور گندگی وابستہ ہو میتلا ناک میں کیڑے پڑ جانا.دہ بیماریاں جن سے خدا کی طرف سے توجہ جاتی ہے.یا عبادت اور دعا کا لطف مفقود ہو جائے جیسے بعض قسم کے مراق -.وہ بیماریاں جن سے اخلاق خراب ہو جائیں.میری مراد اس سے صرف یہی نہیں ہے کہ وہ بیمار بد مزاج ہو جائے.بلکہ بعض بیماریاں ایسا رنگ بھی اختیار کر لیتی ہیں کہ مریض پور جھوٹا اور بد چلن ہو جاتا ہے.یا بہت نحو بکواس کرتا رہتا ہے..ایسی بیماریاں جن کی وجہ سے اس مریض پر لوگ ہنسی مذاق کریں.مثلاً لبعض قسم کے ا ا اور نا درہم اور جنون اور بعض قسم کے رھتے.یا زیادہ ہکلا پن.ه بسیار یا ان جین میں بیمار کو سخت گھبراہٹ ہو.دو جن میں مورت نجات واقع ہو جاتی ہو.اور گنہگار کو تو بر نصیب نہ ہو ، ہاں مغفور لوگوں کے لئے کوئی سرچ نہیں.وہ بیماریاں جو عذاب الہی کے رنگ میں نازل ہوں مثلاً طاعون.و وہ امراض مین میں قدرتی راستے بند ہو جائیں.مثلاً پیشاب، پاخانہ.ایک سائنس وغیرہ کے راستے.
۶۲۹ -- وہ بیماریاں جن میں آدمی سسک سسک کر اور بڑے لیے عرصہ تک مبتلا ہو کر مرے.وہ امراض جن کا بظا ہر کوئی علاج نہ ہو اور ان کی وجہ سے ایسے بیمار میں بجائے صبر کے نا امیدی پیدا ہو ۱۲- ده درد اور تکالیف جو نا قابل برداشت ہو جائیں یا بار بار دورہ کر کے آتے ہوں.۱۳ وہ امراض خبیثہ جو اکثر حالات میں معاصی کا نتیجہ ہوتے ہیں مثلاً آتشک، سوزاک یا استمنا بالیدہ کے نتیجہ میں جریان اور نامردی نیز وہ بیماریاں جو شراب اور دیگر نشوں کی کثرت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں.۱۲ - جماس خمسہ میں سے کسی جس کا مستقل طور پر مارا جانا.خصوصاً اندھا پہرا یا گونگا ہو جاتا.۱۵- اموال العمر جس میں انسان کا حافظہ اور عقل مفقود ہو کر آدمی حیوان کی طرح ہو جاتا ہے -۱۲ نیز ایسی دماغی اور اعصابی بیماریاں جن سے آدمی آدمی نہیں رہتا مثلاً بعض مرگی کے اقسام اور بعض خاموش قسم کے جنون اور بعض قسم کے قالی ۱۷.وہ امراض جن سے انسان مستقل طور پر دوسروں کا محتاج اور ان پر ناگوار بوجھ ہو جائے.وہ امراض جن کی وجہ سے اوپر والوں کی نظر میں حقیر و ذلیل ہو جائے.یا جن کی وجہ -JA سے سب لوگ اس پر ترس کرتے ہوں.19 ایسے لیے اور متعدی امراض جن کی وجہ سے مریض کے اپنے عزیز واقارب بھی اس سے پر ہیز کریں.ملال - جزام - آتشک و غیره نیز بد بودار امراض جین کی وجہ سے شخص ایسے آدمی سے بھاگے مثلاً سخت قسم کا بغل گند یا متہ کے سانس اور ناک میں سے سخت بدلیو کا نکلتے رہنا.۲۰.ایسے امراض جن کی وجہ سے لوگوں کو اس مریض سے ضرر کا خوف پیدا ہو.مثلاً
دیوانگی.۶۲۰ ۲۱ وہ امراض جن کی وجہ سے خود کشی کے خیالات پیدا ہوتے ہوں.یا وہ ہماری خورشی پر منتج ہو ۲۲.ایسی مستقل اور موذی بیماری جس سے زندگی تلخ ہو جائے.مثلاً میک Ticks وہ اور ۲۳ وہ بیماری جس کی وجہ سے انسان مسجدوں اور بزرگوں کی مجلسوں سے محروم ہو جائے لگا ہر وقت بلغم کا آتے رہتا.یا گندے قسم کے ناسور یا متعفن امراض.۲ ایسے امراض جن کی وجہ سے مکروہ نشے یا محرمات بکثرت استعمال کرنے پڑیں.۲۵.ہر قسم کا جنون ۲۶.جن میں عمر متنا سب سے پہلے ہی کسی جوان عورت کے خاوند کی رجولیت جاتی ہے.۲۷ وہ امراض جن کی وجہ سے عقل و شعور میں مستقل طور پہ بہت کمی آجائے.۲۰ وہ بیماریاں جن کی وجہ سے شرم و حیا زائل ہو جائے.اور جن کی وجہ سے لوگوں کے سامنے یار یار ہے پر دہ اور ننگا ہوتا ہے.مثلاً دوسروں سے پیشاب نکلوانا یا ایسی معذوری کہ استنجا اور آید ست ہمیشہ نا محرموں سے کرانا پیڑے.-۱ وہ امراض جو آئیندہ نسلوں میں منتقل ہوں اور نسل کو زیادہ خراب کرتے چلے جائیں.وہ امراض اور لاچاریاں جو انسان کو باوجود مساعد حالات موجود ہونے کے دینی اور دنیوی ترقی سے مانع ہوں.۳۱.وہ بیماریاں جن کے نتیجہ میں ایک پھٹکارا در نخوست چہرہ پر برسنے لگے.۲۲.وہ بیماریاں جو دنیا میں ہی خدائی انتقام کے طور پر لوگوں کے لئے عبرت ہو جائیں.ملا کسی غریب کو مارنے کے بعد مارنے والا کا ہاتھ مفلوج ہو جائے.یا کسی مریضی انسان پر تمسخر کرتے کرتے وہی بیماری تمسخر کرنے والے میں پیدا ہو جائے.دہ بیماریاں جو والدین یا بزرگوں کی بددعا کا نتیجہ ہوں.
واضح ہو کہ انبیاء کو اللہ تعالی مخصوص طور پر بڑے اور خبیث امراض سے محفوظ رکھتا ہے.اور کسی مدعی نبوت کا ان میں مبتلا ہوتا اس کے دعوئے نبوت کے لئے کافی تردید ہے.ایک دفعہ ایک دوست نے مجھ سے پوچھا کہ فلاں صاحب نے جو رسول ہوتے کا دعوے کیا ہے.وہ چونکہ ہمیشہ سے بہت نیک اور پارسا آدمی ہے تو کیا ہم ان کو رسول مان لیں.میں نے کہا مومن اور نیک ہوتا اور بات ہے.اور رسالت اور نموت الگ چیز ہے بشلاً میں اس شخص کو رسول اس لیے نہیں مانتا کہ اس کے چہرہ سے تاک جھڑ گئی ہے.اب یہ نقص ولایت میں تو ہارج نہیں ہے.مگر رسالت میں قطعی طور سے ہارج ہے.نیز اپنی صاحب کو بارہا میں نے چار پائیوں سے اس لئے بندھے ہوئے اور رسیوں سے جکڑے ہوئے دیکھا ہے.کہ ان پر سخت قسم کے دورے جنون کے پڑتے تھے.اور وہ لوگوں کو مارتے اور گالیاں دیتے تھے.پس یہ بھی رسالت کے منافی ہے.ہاں البتہ حضرت داؤد کے لئے تورات میں بعض حالات ایسے بیان ہوئے ہیں.جن سے ان کا آخری عمر میں سالہا سال بے کار ہو جانا ثابت ہوتا ہے.لیکن یہ اسلامی عقیدہ نہیں ہے.اور تورات کی ہر بات ماننے کے قابل بھی نہیں ہے.نیز یہودیوں میں بہت سے لوگ ان کے دشمن بھی تھے.غالباً یہ اُن کی اڑائی ہوئی مبالغہ آمیز باتیں ہوں گی.واللہ اعلم.اسی طرح حضرت ایوب کے جسم کے مسٹر جانے اور کیڑے پڑ جانے کا بھی ہمارے مفسرین کے ہاں بہت ذکر آتا ہے.سو جیسا کہ وہ بیان کرتے ہیں.وہ بیان بھی بالکل غلط اور مزمل حیثیت انبیاء ہے اور ہم نے تو اپنی آنکھوں سے ایک ایسانی اس زمانہ میں دیکھا ہے جس کی صداقت کے نشانات میں سے ایک نشان اس کی بیماریاں بھی تھیں نگر با وجود ان بیماریوں کے اس کا جسمانی اور روحانی حسن روز افزوں ترقی پر تھا.اور اس کا مرنا بھی اس طرح ہوا جس طرح انگریزی میں ایک مشہور مثل ہے کہ Dying in harness
۹۳۲ حضرت یعقوب علیہ السلام کا نابینا ہوتا تو عارضی ہی تھا.مستقل نہ تھا.اور بقول بعض بزرگوں کے ابیضت عینا کے معنی یہ ہیں.کہ ان کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈیڈ یا گئیں.لیکن تورات میں حضرت اسحق کا نہ صرف آخری عمر میں اندھا ہو جاتا لکھا ہے.بلکہ یہ بھی کہ ان کے نابینا ہو جانے کی وجہ سے لوگوں نے ان کو دھوکہ دے کہ ایک غیر حق بیٹے کو نبی بنوا لیا !! حالانکہ موٹی بات ہے.کہ اگر نبی ہی اندھا ہو جائے تو وہ لوگوں کو ہدایت کیا دے گا.بلکہ الٹ لوگ اُسے دھوکا دے لیا کریں گے جیسا کہ تورات نے حضرت اسحق کے بارے میں لکھا ہے.ہمارے حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کو تو خدا تعالیٰ نے فرما دیا تھا کہ تیرے تین اعضا پر ہماری خاص رحمت ہے.اور ان میں سے ایک عضو آنکھ ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خاص تیری آنکھیں ملاقات رہیں گی.اور دوسرے نبی اندھے بھی ہوسکتے ہیں.بلکہ حضور کو یہ تسلی اس واسطے دی گئی تھی کہ آپ کو ذیا بیطس وغیرہ کی تکلیف کی وجہ سے اور ہمیشہ قلمی محنت کرنے کے سبب سے آنکھوں کا خطرہ دیگر انبیاء سے زیادہ لاحق تھا.بیس ایسی تسلی خدا کی طرف سے طنی ضروری تھی.تاک بے فکر ہو کر تحریہ کا کام کر سکیں.جو حضور کا خاص نشان اور معجزہ تھا.بالآخر یہ عرض ہے کہ دراصل میرا مقصد احباب کو اس مسنون دعا کی طرف توجہ ولانے کا تھا.کہ وہ اسے بھی اپنے معمولات میں شامل کریں.اور بڑی بیماریوں اور امراض کے گندے حصوں سے نجات حاصل کریں.آمین.الفضل ۶ دسمبر ۱۹۴۳ء)
Math شاعر بعض لوگوں کا یہ حال ہے.کہ جہاں شعر اورست معری کا نام آیا.فوراً یہ خیال کرنے لگتے ہیں.کہ یہ بدعت ہے کفر ہے.اور ناجائز امر ہے.اور یہ اکثر ید یہی لوگ ہی ہوتے ہیں حالانکہ ان کے لئے فیصلہ کا راستہ بہت آسان تھا.یعنی یہ کہ وہ دیکھ لیتے.کہ خود کلام الہی شعر و شاعری کے متعلق کیا فتوئے دیتا ہے.آیا اسے لیتی ایک ناجائمہ امر ٹھہراتا ہے.یا اچھی شاعری اور بڑی شاعری دو الگ قسمیں شعر کی ٹھہرا کر ایک کو جائزہ اور دوسری کو نا جائہ فرماتا ہے.کیونکہ مسلمانوں کے آپس کے جھگڑوں میں سب سے اعلیٰ اور سب سے صحیح تر حکم اللہ تعالیٰ کا اپنا فرمان ہی ہو سکتا ہے.قرآن مجید میں ایک سورۃ کا نام سورۂ شعرا ہے.اس میں شاعروں اور ان کی شاعری کا بھی ذکر ہے.اور شاعروں کے حق میں یہ فرمان صادر ہوا ہے.والشُّعَرَاء يَتَّبِعُهُمُ الْغَانَ لَمْ تَرَ أَنَّهُمْ فِي كُل وَادِ يَهِيمُونَ وَانَّهُمْ يَقُولُونَ مَا لَا يَفْعَلُونَ لِي إِلَّا الذين امنوا وعملوا الصَّالِحَتِ وَذَكَرُوا اللهَ كَثِيرا وَانتَصَرُوا مِن بَعْدِ مَا ظُلِمُوا وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا آتَى مَنْقَلَبِ يَنْقَلِبُونَ (الشعرار ۲۲۵ تا ۲۲۸) اور وہ شاعر بھی شیطانی لوگ ہیں.کہ گمراہ لوگ جن کی پیروی کرتے ہیں.کیا تو نہیں دیکھتا کہ وہ ہر جنگل میں سرگردان پھرتے ہیں اور یہ کہ دو کہتے تو ہیں پر کرتے نہیں بجزان
شاعروں کے جو ایمان لائے اور کام کئے اچھے اور یادیں اللہ کو بہت اور معلوم ہونے کے بعد بدلہ لیا.اور عنقریب ظالم بھی جان لیں گے.کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا) یہاں اللہ تعالیٰ نے دو قسمیں شاعروں کی بیان فرمائی ہیں.جن میں سے ایک کو تیرا کہا ہے اور دوسروں کی تعریف کی ہے اور جو بڑے ہیں ان کے متعلق کہا ہے کہ ان میں تین صفات بڑی ہیں.اس لئے وہ مردود ہیں اور جو نیک ہیں.ان کی بھی تین ہی صفات کی تعریف کی ہے جن کی وجہ سے وہ اچھے ہیں.اب اس معیار سے سر عقل مند شخص فوراً بڑے اور اچھے شاعر میں تمیز کر سکتا ہے.اور اگر وہ اچھی صفات پانی مسلسلہ احمدیہ میں پائی جائیں.اور میری صفات میں سے ایک بھی نہ پائی جائے.تو پھر کسی کا حق ہے کہ کوئی برائی کا کلمہ ایسے بزرگ کے حق میں استعمال کر سکے.ہاں اگر اس کے مخالف بات ثابت ہو.تو پھر وہ بیشک اعتراض کر سکتے ہیں.مگر یہ ہرگز جائز نہیں.کہ خدا تعالیٰ کے کلام میں تو اچھے شاعر کی تعریف کی گئی ہو.مگر کوئی مسلمان کہلانے والا محض شاعر ہونے کی وجہ سے اس کی مذمت کرنے لگے.اب سنیئے کہ میرے شاعروں کی صفات کیا کیا ہیں.را ایک تو یہ ان کے متبع اور ان کو پسند کرنے والے اور ان کو اپنا لیڈر سمجھنے والے گمراہ شریعہ اور فاسق اور تاجر لوگ ہوا کرتے ہیں.یعنی وہ شاعر غیر مومن ، غیر متقی ، بدکار، شرابی ید چین طبقہ میں ہر دلعزیز ہوتے ہیں جیسے کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض شاعروں کی غزلیں ہمیشہ رنڈیاں گاتی ہیں.اور آوارہ لوگوں کو ان کے دیوانوں کے سینکڑوں اشعار از کہر ہوتے ہیں اور ناچائنہ عاشقی معشوتی کے مصالحہ سے ان کے اشعار بھرے ہوئے ہوتے ہیں کہیں شراب و کباب کی تعریفیں ہوتی ہیں.کہیں امروؤں کا حسن بیان ہوتا ہے.کہیں خدا تعالے کی نافرمانی اور شیطان کی تعریف ہوتی ہے.کہیں نا محرموں کی خوبصورتی کا ذکر ہے.تو کہیں شہوانی جذبات کو تحریک دی جاتی ہے.کہیں قیامت ، دوزخ جنت سے تمسخر ہوتا ہے تو کہیں نیکی نماز روزہ حج وغیرہ نیک اعمال پر آوازے کیسے جاتے ہیں.سوجیں شاعر کے ہاں اس قسم کے
۶۳۵ شعر اکثر ہوں اور بے دین، فاسق فاجر طبقہ اس کا مرید ہو وہ بڑا شاعر ہے.دوسری علامت بُڑے شاعروں کی یہ ہے کہ وہ ہر جنگل میں سرگردان پھرتے ہیں لینی کبھی کم یلا کا واقعہ لکھ کر لوگوں کو رلاتے ہیں اور کبھی نہ لیہ اور مزاحیہ کلام سے لوگوں کو ہنساتے ہیں کبھی موحد بن جاتے ہیں.اور کبھی مشرک کبھی بے جا تعریف امرا کی کرتے ہیں کبھی کسی کی ہجو میں صفحے کے صفحے سیاہ کر دیتے ہیں.کبھی سوال کرتے اور مانگتے ہیں.کہیں نیچرل کے رنگ میں سر نکالتے ہیں تو کہیں سیاسی رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں.عرض کچھ پتہ نہیں لگتا کہ ان کا اصلی اور مرکزی نقطہ کیا ہے.بلکہ ہر فن مولا بازیگروں کی طرح جیسا موقع ہوا اور مانع کی آوارگی جدھر بھی لے جائے ویسے ہی اشعار کہنے لگتے ہیں.بلکہ ایک ہی تغزل کے ہرشعر میں ایسے ایسے مضامین ہوتے ہیں جن میں آپس میں بعد المشرقین ہوتا ہے.ابھی ایک آدمی کی تعریف کر رہے ہیں.جب حسب خواہش انعام نہ ملا.تو انسی کی ہجو اور مذمت میں مصروف ہیں.مرکزی اصل اور استقلال کسی ایک مضمون یا حال سے نہیں ہوتا بلکہ تھالی کے بینگن ہوتے ہیں.۱۳ تیسری صفت ان بڑے شاعروں کی یہ ارشاد فرمائی کہ جو اشعار وہ لکھتے ہیں.ان کے مضمون کے بر خلاف خود عمل کرتے ہیں.یعنی اگر اخلاقی شاعر ہیں.تو خود نمایاں طور پر یک اخلاق ہیں.یا مذہبی لیڈر ہیں تو خود شراب بدکاری و جوئے وغیرہ میں مبتلا ہیں.نہ نماز پڑھتے ہیں.نہ روزہ رکھتے ہیں.نہ اسلام کے ظاہری احکام پر عمل ہے اور کہنے کو مصلح امت کہلانے کا دھوئے ہے.اس سے آگے چل کر قرآن کریم فرماتا ہے.یہ تو بڑے شاعروں کی پہچان ہم نے تم کو بائی ہے.اب بطور استثناء ایک فرقہ نیک اور صالح شاعروں کا بھی ہے ان کی پہچان حسب ذیل ہے.
۱۳ راه اول یہ کہ وہ مومن اور نیک عمل ہوتے ہیں.بد معاش منڈی کے سر کردہ نہیں.بلکہ ان کے اثر سے دوسرے لوگ بھی ایمان اور نیکی ہیں ترقی کرتے ہیں.۱۲ دوسرے یہ کہ نیک شاعروں کے اشعار کا مرکزی نقطہ اللہ تعالیٰ کی ذات والا صفات ہوتا ہے.ہر پھر کر ان کے شعروں میں اسی کا ذکر اسی کی تعظیم اسی سے دعا اسی کے کلام کے حقائق و معارف اس کے رسول کی نعت اور اسی کے احکام کی تبلیغ ہوتی ہے.تیسری تعریف اچھے شعراء کی یہ فرمائی.کہ جیب گمراہ کا فریبا بد دین لوگ اسلام قرآن یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا بزرگان دین یا خودان پر یا خدائی تعلیموں پر ظالمانہ حملے اور اعتراضات کریں تو وہ سینہ سپر ہو کر ڈیفینس کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور ان حملوں کا جواب دیتے ہیں اور دلائل سے زبانی اور قلمی جہاد کرتے ہیں.نیز خدا کے لئے، خدائی سلسلوں کے لئے ، خدا کے مرسلوں کے لئے اور اپنے لئے غیرت دکھاتے ہیں.اور ظالم دشمن سے بند یعہ اشعار کے یہ رعایت اخلاق بدلہ لیتے ہیں.سو ایسے شاعر بھی خدا کے نزدیک پسندیدہ ہیں.اب اس تفصیل کے بعد جب ہم حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہوا کے اشعار کو جو حضور نے اپنی کتابوں میں لکھتے ہیں.بغور دیکھیں تو خدا کے پسندیدہ شاعروں والی تینوں.باتیں ہیں ان میں بہت نظر آئیں گی.یا تو ایمان اور اعمال صالحہ کا ذکر ہے.یا اللہ تعالیٰ کی جھر اس کے رسول کی نعت قرآن کی مرح اور اسلام کی صداقت کا ذکر ہے.یا پھر جو حملے ظالم دشمن نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ دستم.دین اسلام اور قرآن پر کئے ہیں.اور سلسلہ حقہ احمدیہ پر الزامات لگائے ہیں.ان کا جواب ہے اس سے زیادہ ان تین باتوں سے باہر حضور کا ایک شعر بھی نہیں ہے.بر خلاف اس کے پہلی تین باتیں جو بڑے شاعروں کی بیان کی گئی ہیں.ان میں سے ایک بات بھی حضور کے کلام اور حضور کی جماعت اور حضور کے اخلاق میں نہیں پائی جاتی.اور یہی آپ کے پاک اور محبوب الہی شاعر ہونے کی دلیل ہے
شاعر (قسط دوم ) الفضل مورخہ 14 جنوری ۱۹۴۷ء میں کی یہ قرآن مجید کی رائے شاعروں کی بابت لکھ چکا ہوں کہ دو قسم کے شاعر ہیں.ایک خدا تعالٰی کے ہاں پسندیدہ اور ایک غیر پسندیدہ اور یہ نہیں ہے کہ شعر ہمیشہ ہی بڑا ہوتا ہے شعر تو صرف ایک موزوں کلام ہے جو اگر بدی کی تعلیم دیتا ہے تو برا ہے.اور اگرنیکی کی تو اچھا ہے.آج میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے اسی شعر و شاعری کی بابت بیان کر تا ہوں.صحیح بخاری میں حضور کا ایک قول مروی ہے کہ ان من الشعر لحكمة - يعنی بعض شعر میں حکمت ہوا کرتی ہے.اب حکمت ایک ایسی مفید اور بابرکت چیز ہے.جس کی خوبی میں کسی کو بھی کلام نہیں.یہاں تک کہ و من يوت الحلمة فقد أوتي خيرا (البقره ۲۷۰۰) اجے حکمت عملی سمجھ لو کہ اُسے خیر کثیر مل گئی اس کی تعریف خود قرآن مجید میں موجود ہے.علاوہ ازیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی کبھی کبھی گوشتہ شعراء کا عمدہ کلام سنا کر تے تھے.اسی طرح کفار عرب اور یہود جب اپنے اشعار میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی برائیاں اور جو بیان کیا کرتے تھے.تو ان کا جواب آپ اپنے بمباری شاعر حسان بن ثابت سے دلوایا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ حسان تو بھی ان مشرکوں کی جو کہ چہر پیل تیری مدد پر کھڑے ہیں.اسے حسان تو میری طرف سے ان کا جواب دے.اور ساتھ ہی دُعا فرماتے کہ یا اللہ حسان کی تائید روح القدس سے فرما.اور ان سے یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اے حسان جب تک تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے مخالفوں کا مقابلہ کرتارہے گا.
جبرئیل بھی تیری تائید و نصرت کرتا رہے گا.نیز اپنا منیران کے لئے بجھوا دیا کرتے تھے پھر خود معہ صحابہ کرام ان کے ایسے اشعار سنا کرتے تھے سو یہی حال حضرت مسیح موعود ر آپ پر سلامتی ہو کے اشعار کا ہے کہ وہ بھی از اول تا بالا خرقہ العالی اور اس کے رسول کی حمد و نعت یا مخالفین اسلام کے مقابلہ میں کہے گئے ہیں.ایک دفعہ کسی صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا کہ حضور کی رائے شعر کی بابت کیا ہے.حضور نے فرمایا کہ مومن کبھی تلوار سے جہاد کرتا ہے.اور کبھی زبان سے یعنی دین کی تائید میں شعر کہنا لسانی جہاد میں داخل ہے.اور آج کل توسیقی جہاد کے سب راستے بند ہیں.صرف دلائل کا زبانی جہادری دنیا میں باتی ہے.پس اس جہاد کو جو شخص خدا اور اس کے رسول کے لئے کہے وہ ایسا ہی مجاہد ہے جیسے کہ زمانہ سابق والا تلوار کا مجاہد.اسی طرح کسی اور شخص نے حضور سے شعر کے بارہ میں پوچھا.تو آپ نے فرمایا کہ شعر بھی تو کلام ہی ہے.اس کا مضمون اچھا ہو.تو وہ بھی اچھا ہے.اور مضمون بڑا ہو تو وہ بھی بڑا ہے.غرض مدار صرف مضمون پر ہے نہ کہ شعر ہونے پر.علاوہ ازیں نہایت صحیح روایات سے ثابت ہے کہ حضور نے خود بھی بعضی شعر کہے ہیں.مثلاًاے اللهم لاعيش الا عيش الآخره فاغفر الانصار والمهاجرة یعنی اسے اللہ اصل زندگانی تو آخرت کی زندگانی ہی ہے.پس تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما.اسی طرح ایک جہاد میں حضور کی انگشت مبارک زخمی ہوگئی تو آپ نے اُسے دیکھ کر فرمایا ہے هل انت الا اصبح دمين وفي سبيل الله ما لقيت یعنی تو تو ایک ذراسی انگلی ہے جس میں سے خون نکل آیا ہے اور تو نے اللہ کی
ура راہ میں یہ تکلیف اٹھائی ہے.پھر رنج کا ہے گا.اسی طرح جب جنگ احزاب سے پہلے خندق کھودی جاتی تھی.اور غالباً اس وقت بھی جب مسجد نبوی تعمیر ہو رہی تھی تو حضور جو مزدوروں کی طرح صحابہ کے ساتھ مل کر کام کیا کرتے تھے.پکار پکار کر بعض اشعار پڑھا کرتے تھے.اور کبھی صحافیہ اشعار پڑھتے تو حضوران کا جواب دیا کرتے تھے.اب صرف ایک بات رہ جاتی ہے.وہ یہ کہ قرآن مجید کسی شاعر کا قول نہیں ہے ؟ یا یہ کہ ہم نے اس رسول کو اشعار کی تعلیم نہیں دی یہ ایسی آیات جو قرآن مجید میں مذکور ہیں.ان سے کیا مراد ہے ؟ سوداضح ہو کہ ان کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ شعر ہمیشہ بڑی چیز ہی ہوا کرتا ہے.بلکہ صرف اتنا مطلب ہے کہ قرآن مجید اشعار میں نازل نہیں کیاگیا بلکہ نشر میں نازل کیا گیا ہے.شائد اس بیان سے بعض لوگ یہ دھوکہ کھائیں.کہ چونکہ کوئی الہلمی کلام یا الہام شعار میں نہیں ہوتا.اس لئے شعر ضرور کوئی مکر وہ چیز ہے.سو یا د رہے کہ یہ خیال بھی غلط ہے.دنیا میں خدا کا کلام اور وحی و الہام اشعار کی صورت میں بھی نازل ہوا ہے.اور اب تک ہوتا ہے.حضرت داؤد کے زیور حضرت سلیمان علیہ السلام کی نغزل الغزلات - حضرت ایوب علیہ السلام کے نکات تصوف سب گیتوں یا شعروں میں موجود ہیں.جہاں یہ درست ہے کہ چونکہ قرآن موسی کی کتاب کی طرح شریعت کی ایک کتاب ہے.اس لئے شرعی کلام سوائے نیٹر کے اشعار کی صورت میں نازل نہیں کیا جاتا.کیونکہ نشر تو ہر کوئی سمجھ سکتا ہے.بچہ عورت اور کم علم سادہ لوح انسان سب اس کا مطلب اخذ کر لیتے ہیں.اس لئے شریعت اپنے بیان کے لئے ہمیشہ سادہ اور غیر چیپیدہ نثر کے الفاظ چاہتی ہے.تاکہ ہر طبقہ کے لوگ اسے سمجھ سکیں.اور یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید شعروں میں نہیں ہے.کیو نکہ اشعار شرعی نبی کے الہام کے مناسب حال نہیں ہوا کرتے لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ شعر کوئی قابل مذمت چیز ہے.جیسا کہ بعض نا واقف سمجھتے ہیں کفار نے بارہا قرآن پر یہ اعتراض کیا ہے کہ یہ کامنوں کے اقوال ہیں.یا شاعر کے اشعار اور بعض نے تو کہہ دیا کہ یہ کلام نہیں بلکہ جادو اور سیحر ہے.ان اعتراضات
45%.کی وجہ یہ ہے قرآن کی آیات کا ہنوں کے موزون فقروں کی طرح قدرے قافیہ دار ہیں اور شاعروں کے اشعار کی طرح ان کی فصاحت و بلاغت اور بلند پروازی نہایت اعلیٰ درجہ کی ہے.بلکہ اس سے زیادہ یہ کہ اس میں ایک تیسری چیز بھی ہے اور وہ ہے اس کا انقلابی اثر اس کی قلوب پرکشش اور اس کی کایا پلٹنے والی خاصیت.پس ان وجوہ سے اسے سحر کہا جاتا تھا.حالانکہ نہ وہ شعر ہے زکہانت نہ سیحر بلکہ ان تینوں کا مجموعہ اور ان سب سے بالاتر اور ارفع و اعلیٰ چیز ہے.جو علاوہ ان جملہ کمالات کے انسان کے نفس کو پاک صاف کرتا.فرمن کو ہدایت اور عقل کو روشن ضمیری نیتا.اور روح کو معرفت بصیرت حکمت نورانیت ، رشد اور حق سے بھر پور کر دیتا ہے.دوسری وجہ قرآن کے اشعار میں نہ ہونے کی یہ بھی ہے.که ده اکثر عقل سے اپیل کرتا ہے.نہ کہ جذبات سے اور ٹھوس دلائل پر اپنی صداقت کا انحصار رکھتا ہے.نہ کہ لطائف پر.تیسرے یہ کہ شعر لبیب قافیہ اور ان بحروں کی پابندی کے اتنی زیادہ سنجیدہ اور قابل وثوق چیز نہیں ہے.جیسے کہ نثر اور اس میں حشود زائد الفاظ کا میعی امکان ہے جو نثر میں نہیں ہوتا.اس لئے شرعی وحی کے لئے وہ نثر سے کم درجہ پر بھا گیا ہے.امور نار الفضل ۲۶ جنوری ۱۰ فروری ۶۱۹۴۴
۶۴۱ زلزلہ عینی جنگ عظیم کے وقت کا تعین مدت سے میرا خیال تھا کہ حضرت مسیح موعودا آپ پر سلامتی ہوں کی وحی والہامات کے تعلق بعض خاص باتیں جو میرے ذہن میں ہیں.ان سے احباب کو بھی گاہے گاہے خوش وقت کروں.سو آج میں خلافت ثانیہ کے برحق ہونے اور سارہ کی جنگ عظیم سے اس کا تعلق ہونے کے متعلق حضور کا ایک رویا پیش کرتا ہوں.ا رویا ۲۶ مئی شاء دیکھا کہ کسی نے کہا کہ آنے والے زلزلہ کی یہ نشانی ہے.جب میں نے نظر اٹھائی.تو دیکھا.کہ اس ہمارے خیمہ کے سر پر سے جو باغ کے قریب نصب کیا ہوا ہے ایک چیز گری ہے.خیمہ کی چوب کا اوپر کا سرا دہ چیز ہے.جب میں نے اٹھایا.تو وہ ایک لونگ ہے جو عورتوں کے ناک میں ڈالنے کا ایک زیور ہے.اور ایک کاغذ کے اندر لیٹا ہوا ہے.میرے دل میں خیال گندا.کہ یہ ہمارے ہی گھر کا رات سے کھویا ہوا تھا اور اب ملا ہے اور زمین کی بلندی سے ملا ہے اور یہی نشانی زلزلہ کی ہے.(تذکرہ منہ) کی “ ناظرین دیکھیں کہ کیسا روشن اور واضع خواب ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ خیمہ (یعنی جماعت احمدیہ) کے سر پہ سے ایک چیز گری ہے (جو نیمہ کی چوب کا کلس ہوا کرتا ہے) پہلارے یہاں اس سے خلیفہ جماعت مراد ہے.کیونکہ وہی درجہ کے لحاظ سے سب سے مرکزی اور بلند مقام جماعت میں رکھتا ہے.اس کے گرنے سے مراد حضرت خلیفہ اول ا اللہ تعالٰی آپ سے راضی ہو) کی وفات ہے پھر جب حضور نے اسے دیکھا.تو بدل کہ تاک کا زیور لونگ جماعت احمدیہ
۶۴۲ کے سواگ کا نشان ہو گیا.یعنی خلافت ثانیہ یا سلسلہ کی خاص ترقی اور بہار کا وقت حضور تے پھر فرمایا کہ یہ ہمارے ہی گھر کا دت سے کھویا ہوا تھا.یعنی چھے سال جماعت کا انتظام خلیفہ ادل کے پاس رہا.اب خلافت اس مدت کے بعد پھر ہمارے گھر میں آئے گی.اور جس سال یہ واقعہ ہو گا.وہی سال زلزلہ کا ہوگا.یعنی جب ان میں خلافت ہمارے خاندان میں آئے گی.تو اسی سال جنگ عظیم بھی ہوگی.اور پہلے اور دوسرے خلیفہ کی عظمت ہیں یہ فرق ہو گا کہ پہلا تو کس ہو گا.مگر دوسرا نہ صرف زینت بلکہ قیمت کے لحاظ سے بھی پہلے سے اعلیٰ درجہ ہوگا.اور زمین کی بلندی سے ملنے کا مطلب یہ ہے کہ جماعت کا بہترین حصہ اس کا انتخاب کرے گا.اسی طرح کا غذ میں لپٹا ہونے سے یہ مراد ہے کہ وہ اپنے ظہور سے پہلے ایسا مخفی ہو گا.کہ عام طور پر لوگ اس کی اصلی قدر وقیمت نہ جانتے ہوں گے.ناظرین پر واضح ہو کہ کاغذ کی گرانی اور جگہ کی کمی کی وجہ سے مزید اور مفصل تاویلیں اور تعبیریں یہاں مشکل ہیں.صرف یہ اور بتا دینا ضروری ہے کہ اُسی وقت جب یہ رویاء ہوا حضور کو دو الہام بھی ہوئے تھے.جن میں سے ایک شر الذین انعمت عليهم غیر مبایعین کے لئے ہے اور رو اليها روحها دریجانها حضرت اماں جان کے لئے یعنی وہ وقت ایسا ہو گا.کہ جن تیرے منعم علیہ مرید شرارت کریں گے.اور وہی وقت ہو گا کہ حضرت اماں جان) کی طرف آرام اور اعلیٰ پرکات دوبارہ لوٹائے جائیں گے.فالحمد للہ کہ یہ سب باتیں پوری ہو کر خلافت ثانیہ کی صداقت اور سلسلہ احمدیہ کی سچائی کا ثبوت اور نشان ٹھہریں اور پہلی جنگ عظیم کے زلزلہ کے وقت کا تعین بھی اس سے ہو گیا.(۲) ایک اور زلزلہ عظیمہ یعینی دوسری جنگ " رویا میں دیکھا کہ میں قادیان کے بازار میں ہوں.اور ایک گاڑی پر سوار ہوں جیسے کہ ریل گاڑی ہوتی ہے.آگے ایک مکان نظر آیا.اُس وقت زلنہ لہ آیا.
گھر ہم کو کوئی نقصان اس زلزلہ سے نہیں ہوا.(تذکرہ م۴۹۵) تعبیر اس رویا کی یہ ہے کہ ایک زلزلہ ران پانچ موجود زلزلوں میں سے) اس وقت آئے گا جب قادیان میں ریل گاڑی جیسی ایک گاڑی چلے گی.یعنی ڈیزل کار.سو یہ کارہ اسٹی ار کو پہلی دفعہ قادیان آئی.اور ۲۰ ستمبر ایک برابر دن میں کئی کئی دفعہ چلتی رہی.اس ستمبر کے شروع میں دوسری جنگ عظیم شروع ہوگئی.اور پھر وہ ڈیزل کا ر ایسی غائب ہوئی کہ آج تک اس لائن پر کسی نے اُسے نہیں دیکھا.مکان سے مراد اس رویا میں ریلوے ٹیشن ہے.پس ڈیزل کار کا متواتر چند ماہ تک قادیان میں چلنا دوسرے زلزلہ کی علامت تھی.اور ایک بشارت اس الہام میں بھی ہے کہ اس دوسری جنگ میں اس جماعت کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.انشاء اللہ.پس یہ رویا بھی پورا ہو کہ حضرت مسیح موعود (آپ پر سلامتی ہو) کی صداقت کا نشان مٹھورا.(۳) تغییر کبیر کی مقبولیت فرمایا یہ آج ہی ایک خواب میں دیکھا کہ ایک چوغہ زرین حسین پر بہت شہری کام کیا ہوا ہے.مجھے غیب سے دیا گیا ہے.ایک چور اس ہونہ کو لے بھاگا اُس چور کے پیچھے کوئی آدمی بھاگا.جس نے چور کو پکڑ لیا.اور چوغہ واپس لے یا.بعد اس کے وہ چونہ ایک کتاب کی شکل میں ہو گیا.جس کو تفسیر کبیر کہتے ہیں.اور معلوم ہوا.کہ چور اس کو اس غرض سے لے کہ بجھا کا تھا.کہ انس تفسیر کو نابود کر دے.(تذکره ص۵۳۲) اس دنیا میں نہ صرف تفسیر کبیر کے مقبول ابھی ہونے کا اشارہ ہے بلکہ اس کے لئے جانے والے کا نام اتنی دفعہ چو د کھا گیا ہے گویا علامہ مٹی میں اس شخص کا یہیں نقیب قرار دے دیا گیا ہے.صدق الله ورسوله - ( روزنامه الفضل ۱۳ مٹی ۱۹۴۴ء)
۶۴۴ اطمینان قلب اطمینان کے معنے ہیں بھروسہ کرنا.امن میں رہنا، اچھے کانا.پیٹھ خمدار کرنا.آرام کرنا خاموشی اور تسکین پانا پس اطمینان قلب کے معنی ہیں کسی بات یا حالت پر دل کا آرام و سکین پالینا اور اس کو انشراح حاصل ہو جانا اور جب یہ حالت کسی کو خدا تعالیٰ کی ذات اور مذہب اور رسول اور حشر اور عاقبت کے متعلق حاصل ہو جاتی ہے اور احساس لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ولا هُمْ يَحْزَنُونَ کا اُسے مل جاتا ہے.تو ایسے شخص کے نفس کو نفس مطمئنہ کہہ سکتے ہیں.یعنی اس میں شکوک وشبہات اور اضطراب کی حالت باقی نہیں رہی.بلکہ اس نے اپنی عقل علم اور تجربہ سے وہ درجہ یقین کا حاصل کر لیا ہے جس کے بعد بے اطمینانی رخصت ہو جاتی ہے.ایسے انسان پر ہدایت کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں.خدا تعالے سے تعلق کے آثار شروع ہو جاتے ہیں.نقد جنت کے آثار دکھائی دینے لگتے ہیں.اور وہ تمام باتیں جن کو اس دنیا میں علامات وصل الہی کہا جاتا ہے.اپنا ظہور شروع کر دیتی ہیں.اور وہ مومن ایک یقینی صراط مستقیم پر چلنے لگتا ہے اور سمجھتا ہے کہ میں آخر کار دوسرے اور مستقل عالم میں جنت میں چلا جاؤں گا.اس خیال سے اس کا قلب مطمئن اور دل خوش رہتا ہے خواہ راہ نہیں اُسے عارضی تکالیف بھی پیش آئیں.لیکن منزل مقصود سامنے نظر آتی رہتی ہے.اور اس وجہ سے اس کا شوق سفر بھی برابر قائم رہتا ہے.یہاں تک کہ آخر کار وہ واقعی طور سے جنت میں داخل ہو جاتا ہے.
۶۴۵ اضح ہو.کہ انسان کے لئے صرف اسی دنیا کی زندگی نہیں ہے.بلکہ اس کا اصل مقصود امینی غیر متد نعمتوں کے گھر کا حصول ہے.اور دنیا جو ہے اس میں اُس کے لئے امتحانات ابنتنا ، فتن مصائب رکھے گئے ہیں.جن کو صبر سے برداشت کرنے اور وفاداری سے طے کرنے کے بعد وہ نفس مطمئنہ آخر کار اصلی جنت پالیتا ہے.عام لوگوں کا خیال ہے کہ یہ جو آیت قرآن میں آتی ہے کہ.الا ان اولياء الله لا خَوْنَ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (يونس :۲۳) توجه و سنو! جو لوگ اللہ سے سچی محبت رکھنے والے ہیں اُن پر نہ کوئی د خوف ( مستولی ہوتا) ہے اور نہ وہ چمگین ہوتے ہیں.یہ ثابت کرتی ہے کہ اویا و اللہ پر کبھی کوئی خوف اور حزن بالکل آتا ہی نہیں مگر یہ خیال قابل اصلاح ہے کیونکہ ولَنَبْلُونَكُمْ بِشَيء مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوع.....(البقره ) ترجمه ، اور ہم تھیں کسی قدر خوف اور بھوک (ہے).....ضرور آنا ئیں گے.والی آیت کے خلاف ہے.یہاں تو یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم تم پر خوف اور مجھوک اور موتیں اور ناکامیاں وارد کر کے تمہارا امتحان لیتے رہیں گے.پس خوف اور غم تو ضرور دنیا کی زندگی میں مومنوں کے لئے مقدر ہے.اور پہلی آیت کا صرف یہ مطلب ہے کہ یہ خوف اور مصائب تقل نہیں ہوں گے.اور ایسے نہیں ہوں گے کہ مومن کی کمر سمت توڑ دیں.اور ان کے ساتھ کئی بشارات بھی ہوں گی.جو مومن کے دل کو مضبوط و مطمئن رکھیں گی.یہ معنی کہ مومن کو خوف و غم ہوتا ہی نہیں بالید است غلط ہے کیونکہ اگر ان کا احساس ہی مٹ جائے تو پھر میر کیا اور اس کا اجر کیسا ؟ پس یہ چیزیں عارضی طور پر آتی ہیں اور چلی جاتی ہیں.مگر اطمینان اور بشارات مستقل طور پر مومن کے ساتھ لگی رہتی ہیں.مومن کو اپنے خدا کے قریب میں ایسا ہی اطمینان ہوتا ہے.
جیسے ایک بچہ کو اپنی ماں کی گود ہیں.لیکن بچہ کو تکلیفیں بھی آتی ہیں.روتا بھی ہے بیچنا ہے.پیار بھی ہوتا ہے.مگر اس کا اطمینان زائل نہیں ہوتا.اور اپنی ماں پر وہ ہمیشہ پختہ توکل رکھتا ہے اور اسی سے تسکین پاتا ہے اور اسی کے ساتھ اس کا ولی آرام وابستہ ہے.خواہ اس کی گود میں اس کا دم بھی نکل جائے.مگر وہ غیر سے راحت نہیں پاسکتا.یہی حال بعینہ اس مومن کا ہوتا ہے.جو اپنے رب کی رضا حاصل کر لیتا ہے.خواہ اس دنیا میں بطور امتحان و ابتلاء کے اس کو کتنی ہی تکالیف پہنچیں.کیونکہ اسے خدا کے سوا اپنا محسن حقیقی کوئی بھی نظر نہیں آتا پس وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کے معنی یہ ہیں کہ دائمی خوف اور حزن ان کو نہیں پہنچ سکتا.صرف عارضی اور وہ بھی بشارات الہیہ سے مرکب ہو کر ملتا ہے.دوسرا مطلب یہ بھی ہے کہ ان کو آخرت کے متعلق کوئی خوف اور حزن نہیں ہوتا دل امیدوں سے بھر پور اور شوق لقاء الہی سے معمور ہوتا ہے اور دنیا کی تکالیف بالکل بے حیثیت اور بے حقیقت معلوم ہوتی ہیں.انسان مدنی الطبع ہونے کی وجہ سے جین لوگوں کی مصاحبت اور رفاقت کا عادی ہو جاتا ہے.ان کی جدائی اسے قدرتی طور پر رنج پہنچاتی ہے مگر خدا کی معیت کا خیال اُس کو طاقت دیتا ہے.اور کسی کے مرنے سے اس پر دیوانوں کی سی حالت طاری نہیں ہوتی.بلکہ وہ صرف انا للہ پڑھ کر صبر کرتا ہے.اور کسی مخلوق کو اپنا رب خیال نہیں کرتا.وہ تعزیزوں کی جدائی کی وجہ سے رد بھی لیتا ہے جیسا کہ چوٹ کی وجہ سے کوئی شخص آبدیدہ ہو جاتا ہے مگر پھر اس جگہ کو سہلا کر اور اپنے رب کو اپنے قریب پا کر ہنس بھی دیتا ہے.سو اس قسم کا حزن منع نہیں ہے جو عارضی چوٹ کی طرح ہو.مگر بد بخت ہے وہ شخص جو ہر وقت خوف وحزن میں گھرا ہوا ہے.اُسے آخرت اور جنت اور قرب الہلی کی کچھ خبر نہیں.اور جو مصیبت بھی اس پر آتی ہے.وہ ایک دائمی شکل اختیار کر لیتی ہے اور نجات و فلاح کی اُمید کا نشہ اس کے دل و دماغ پر چھایا ہوا نہیں.مومن تو دنیا کے لیے سے لیے اور بڑے سے پیسے دُکھ اُٹھائے گا.کہ حد سے حدیہ دُکھ دس ہیں پچاس سال تک چلیں گے پھر
40'6 آرام ہی آرام ہے.لیکن کافر کے لئے کوئی آئندہ امید کی شعاع نہیں ہوتی.اور وہ نہیں جانتا کہ میرا حشر کیا ہو گا.اور خواہ بظاہر وہ اپنے چہرہ کو خوش و خرم بنانے کی کوشش بھی کرے.لیکن اس کا دل اس دنیا کی ناکامیوں سے سوختہ اور آئندہ کی نا امیدیوں سے غمگین رہتا ہے.موسن کے منوں کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص کے پاس سفر میں ہزار روچیہ کے نوٹ ہوں اور کچھ پیسے بھی ہوں.راستہ میں اگر کوئی جیب کترا اس کے پیسے نکال ہے مگر نوٹ محفوظ رہیں.تو اگرچہ ان پیسوں کے ضائع ہونے کا تھوڑا سا افسوس اس کو ہوگا.مگر ہزار روپیہ بچ جانے کی بہت بڑی خوشی بھی ہوگی.اور اس نقصان کو کوئی عقل مند بڑا نقصان نہیں کہے گا.بلکہ بسا اوقات شکر کرے گا اور اسی اظہار تشکر کو دوسرے الفاظ میں انا لله وانا إِلَيْهِ رَاجِعُون کہتے ہیں حقیقی جون اور خوف تو دنیا داروں کا ہوتا ہے جن کی اگر بیوی مر جائے تو گویا ان کا خدا مر گیا.اور اگر یٹا مرگیا تو ان کا کوئی رب نہ رہا.مگر دیندار چونکہ اپنے مالک پر توکل رکھتا ہے اور اس کی حکمتوں پریقین رکھتا ہے.اس لئے وہ کجھ لیتا ہے کہ اگرچہ بظاہر یہ تلخ گھونٹ ہے لیکن میرے فائدے کے لئے ہے.پس جس طرح لوگ کڑوی دوا کو بھی شوق سے پی جاتے ہیں.اسی طرح اولیاء اللہ ان تلخ گھونٹوں کو خدا کی حکمت اور خدا کی طرف سے دوا سمجھ کر بعد خوشی پی لیتے ہیں.اگر چہ پیتے وقت حلق کڑوا بھی ہو جاتا ہے اور منہ بھی بنتا ہے اور آخ آخ بھی کرتے ہیں.مگر اس کو اپنا علاج اور دوا ابلکہ شفا یقین کمر کے نگلتے بھی جاتے ہیں.اور نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ واقعی ان کو فائدہ معلوم ہوتا ہے اور شفا پاتے ہیں.اور اگر کوئی عزیز ان کا مر بھی جائے.تو وہ بھی ان کو چند روز کے بعد اگلے جہان میں مل جاتا ہے.اب یہ سوال رو گیا کہ ہندو اور عیسائی اور دیگر مذاہب کے لوگ بھی آپنے مذہب پر اپنا اطمینان قلب ظاہر کرتے ہیں اور بظا ہر اپنے اپنے مذہب پر مطمئن نظر آتے ہیں.تو ایک مسلمان کے اطمینان اور ان کے اطمینان میں کیا فرق ہوا ؟ سو اس کے متعلق یہ یادرکھنا چاہیئے.کہ ان کا اطمینان جہالت کا اطمینان ہے.اگر کچھ مدت بھی اُن کے مذہب پر جرح جاری رکھی
۶۴۸ جائے.تو ان کا سب اطمینان کا فور ہو جاتا ہے.کیونکہ اس کی پشت پر بصیرت تجربہ اور علم نہیں ہوتے.مگر مومن چونکہ قدم قدم پر ذاتی مشاہدہ اور تجربہ اور بصیرت رکھتا ہے اس لئے نہ وہ شکوک وشبہات میں مبتلا ہوتا ہے نہ بیشارات اللہ اُسے گھبراہٹ میں پڑنے دیتی ہیں.اس پر جب مصائب آتے ہیں تو ساتھ ہی غیبی اطلاع - ردیا.الہام اور سکینت بھی آتے ہیں اور طرح طرح کی ایسی نصرتی اور تائیدات الہیہ دیکھتا ہے کہ اس کا ایمان اور اطمینان پہلے سے بھی زیادہ اپنے خداوند خدا پر ہو جاتا ہے.حضرت یعقوب علیہ السلام پر بیٹے کی جدائی آئی تو ساتھ ہی بلکہ اس سے پہلے ہی یوسف کی اپنی رویا نے اسے مطمئن کر دیا.اور خدا تعالیٰ نے وہ وقتاً فوقتاً دونستی فرمانی که همیشه يا بني اذهبو نتحسسوا من يوسف و اخيه ولا تائيسوا من روح الله ہی کا وعظ کرتے رہے اور آخر میں بھی یہی فرمایا کہ الم اقل لكم اني اعلم من الله ما لا تعلمون بے شک ان کو یوسف کا غم تھا.مگر آخر فصبر جمیل کہنے والے بھی تو وہی تھے.ان کے حزن میں اضطرارا کرب اور بے صبری کا رنگ نہ تھا.بلکہ ان کا حزن ایمان توکل اور امیدوں سے بھرا ہوا تھا.اپنے غم کے آنسوؤں سے بھری ہوئی آنکھوں کو دامان الوہیت سے پونچھنے والے اور رحمت خداوند سے تسلی پانے والے بھی تو وہی حضرت تھے.یہ درد سے اور غیب کی اطلاعات اور بشارات اور تسکین اور نصرتیں سوائے اسلام کے ہرگز کسی اور مذہب کے انسان کو نہیں میں.اور یہی وہ چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ہمارا ایمان آخرت پر قائم ہے.درنہ دوسرے اہل مذاہب خواہ منہ سے کچھ کہیں آخرت کے بارہ میں بالکل کورسے ہیں.(روزنامہ الفصل ۱۶ مکی ۱۹۴۴ء)
۶۴۹ م ازکم باره وقت بی اور درود شریف پڑھنا دفعہ چند روز ہوئے حضرت خلیفہ ایسیح الثانی اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہوا نے خطبہ پھیر میں ارشاد فرمایا کہ ہر احمدی کو چاہیئے.کہ روزانہ ایک دفعہ بارہ بار سبحان الله وبحمده سبحان العظیم.اور بارہ دفعہ درود شریف پڑھا کرے.اس خطبہ کے بعد ایک دوست فرمانے لگے کیوں جی 9 بارہ کے بعد کو اس ذکر کے ساتھ کیا خصوصیت ہے پہلے تو ہم ۳۳ بار سو بارہ ستر بار وغیرہ کی تعداد شنا کہتے تھے.میں نے عرض کیا کہ مذہبی دنیا میں بھی پہلے بارہ کے عدد کا ذکر موجود ہے چنانچہ بنی اسرائیل کے بارہ نقیبوں کا ذکر قرآن میں ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو مدینہ والوں سے ہجرت سے پہلے بیعت کی.اس میں بھی بارہ نقیا ہی مقرر فرمائے.تھے.اسی طرح اور بھی بعض جگہ بارہ کا عدد آیا ہے.سو یہ بھی غیر مانوس نہیں ہے بلکہ ایک ندیسی گنتی ہے.اسی طرح نظام عالم میں بھی یہ درد ایک بڑی اہمیت رکھتا ہے.کیونکہ سال بارہ مہینوں کا ہی ہوتا ہے.باتی رہی یہ بات کہ ذکر الہی میں یہ گنتی آپ نے آج ہی شنی.تو یہ کم از کم تعداد ہے.آپ بے شک ، دفعہ یا سو دفعہ تسبیح اور درود پڑھیں کوئی منع نہیں کرتا.یہ تو تو اقل درجہ ذکر کا ہے تاکہ جماعت کا کوئی فرد بھی ذکر و صلوٰۃ سے محروم نہ رہ جائے.یہ مطلب ہرگزہ نہیں ہے کہ جو لوگ سو دفعہ درود یا تسبیح پڑھتے ہوں.وہ اس تعداد کو گھٹا کر اب صرف بارہ دفعہ پڑھا کریں.
۶۵۰ ایک مصلحت اس گنتی کی یہ بھی ہے کہ یہ عدد موجودہ زمانہ سے خاص تعلق رکھتا ہے.عرب میں دش ، نشر یا نتو وغیرہ کے اعداد نمایاں تھے.مگر آج کل اکثر چیزوں کی.گفتی در حین اور گریس کے حساب سے ہوتی ہے.اب جو یہ درود آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ ہم کے حضور میں درجن درجن کے حساب سے بکثرت جاتے ہوں گے تو حضور نے ضرور پوچھا ہوگا کہ یہ نئے بارہ بارہ درددوں کے لئے بنڈل بکثرت کہاں سے آرہے ہیں.فرشتوں نے عرض کیا ہو گا کہ حضور یہ جماعت احمدیہ کا امام بجوار ہا ہے.تو جیسا کہ ہر نئی چیز ایک لطف اپنے اندر رکھتی ہے حضور نے بھی یقینا ایک خوشی محسوس کی ہوگی.اور حضور کی یہ خوشی بھی ہمارے لئے ایک نعمت ہے.تیسری خصوصیت یہ ہے کہ بارہ دفعہ بیج یا در دو پڑھنے میں خود پڑھنے والوں کے لئے ایک بڑی آسانی اور سہولت ہے.آپ اپنے انگوٹھے سے اگر اپنی چار انگلیوں کے پوروں پر گنتی کریں گے تو معلوم ہوگا کہ وہ بارہ پور سے ہیں.اور نچوں اور عورتوں تک کے لئے یہ گنتی گنتی نہایت آسان ہے.بعض دیہاتی یا سادہ طبیع آدمی تو ہیں.تک کی گفتی بھی نہیں کر سکتے.ان کے لئے ایک ہاتھ کی انگلیوں کے پوروں پر اپنے انگوٹھے کی مد سے یہ دو پورا کرنا نہایت آسان ہو گیا ہے.پس اس طرح عام لوگوں کے لئے بہت سہولت ہو گئی ہے.اروز یہ الفضل محکم جوان ۱۹۴۲ء)
401 عورت نبی نہیں ہو سکتی یہ سوال آج کل بھی کبھی کبھی اٹھتا رہتا ہے کہ عورت بنی ہو سکتی ہے یا نہیں ؟ مگر اس کا جواب ایک مسلمان کے لئے بہت آسان ہے.کیونکہ قرآن مجید میںاللہ تعالیٰ فرماتا ہے.١- وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ الاَ رِجَالاً نَوْحَى إِلَيْهِمْ مِنْ أَهْلِ الفرائی (یوسف ۱۱۰) یعنی نہیں بھیجے ہم نے رسول بنا کہ تجھ سے پہلے مگر مرد جن کی طرف ہم نے وحی کی تھی اور وہ بستیوں کے رہنے والے تھے.وما ارسلنا قبلككَ إِلَّا رِجَالًا نُوحِي إِلَيْهِمْ فَسْتَلُوا أَهْلَ الذكرِ إِن كُنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (انبياء ، ٨ ) A S اور نہیں رسول بنا کر بھیجے تھے ہم نے تجھ سے پہلے مگر مرد پس علما سے دیانت کر لو اگر تم کو خبر نہ ہو.ان آیات سے یہ واضح ہے کہ آج تک سب رسول یا نبی مردوں میں سے ہی ہوتے رہے ہیں اور دیگر سب اہل مذاہب بھی اس بات کے گواہ ہیں.یعنی یہ بات آدم کے وقت سے یونہی چلی آتی ہے کہ کوئی عورت کبھی بینی یا رسول نہیں ہوئی.نہ کسی الہی کتاب میں کسی ایسی عورت کا ذکر ہے.جو خدا کی طرف سے بنی بنائی گئی ہو.قرآن مجید نے مومتوں کے چار در ہے.نی ، صدیق ، شہید اور صالح بیان کئے ہیں.ان میں سے عورتیں صرف آخری تین درجے حاصل کر سکتی ہیں.چنانچہ اُمہ صدیقہ میں مریم کو ان سب میں بڑا درجہ دیا گیا ہے.اگر یہ کہا جائے کہ بیشک آج تک تو کوئی عورت نبی نہیں ہوئی مگر آئندہ شاید ہو جائے.تو اس
۶۵۲ غیر معمولی بات کے ثبوت میں یا تو کوئی آیت و حدیث ہم کو ملنی چاہیئے تھی یا کسی عورت کا خاص ذکر پیش گوئیوں میں پایا جانا چاہیئے تھا کہ وہ قیامت سے پہلے مبعوث ہونے والی ہے تورین ہر طرح سے یہ عقیدہ غلط ہے.عقلاً بھی اگر دیکھا جائے.تو معلوم ہوگا کہ عورت مامور نہیں ہوسکتی.کیونکہ اس کی فطرتی کمزوریاں اس کے مامور ہونے میں مانع ہیں.مثلاً حیض، نفاس ، حمل ارضاعت.اس کا شادی شدہ ہونا.اور اس کا مطیع ہونا.اس کا مردوں کے لئے محل شہوت ہوتا.اور اس کا مرد سے کمزور ہونا جسمانی، ذہنی اور انتظامی قومی کے لحاظ سے چونکہ تاریخی طور پر ہم کو کوئی کمی بیتہ نظر نہیں آتی اور مقفلی طور پر کوئی صورت ماموربین نہیں سکتی.اس لئے فیصلہ نہایت صاف ہے کہ عورت کا بنی بننا محال ہے.مردوں کی طاقت.علم ، رعب اور سیت بھی عورت کے بنی بنتے ہیں روک ہیں وَهُوَ فِي الْخِصَامِ غَيْرُ مُبِينِ (الزخرف ١٩٠) ترجمه دور اور جھگڑے میں اپنا مافی الضمیر ٹھیک طرح ادا نہیں کر سکتی وہ خدا کے حصہ میں آتی ہے اور غالب رہنے والا مرد انسان کے حصہ میں) ہاں اُسے الہام ہو سکتا ہے.بچے خواب آسکتے ہیں.وہ ولی ہو سکتی ہے مگر مامور کی طرح پبلک کو دعوت الی الحق اپنے تئیں ہادی پیش کر کے نہیں کر سکتی.وہ اور کوئی اس کے ماننے پر مکلف اور مجبور نہیں.اسلامی شریعت میں تو پردہ ہی سب سے پہلی روک ہے ، اگر وہ محمد رسول اللہ کی اُمت میں اور آپ کی شریعت پر عامل ہے.تو اسے پردہ کرنا پڑے گا.اگرہ تہ کرے گی تو مسلمان اس کی بات کسی طرح مانیں گے.اور اگر پردہ کرے گی.تو وہ ایک IN APPROACH ABLE.نبی کی طرح بے فائدہ وجود ہوگی یہ پھر اس زمانہ میں اگر کوئی عورت اپنے تئیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یا حضرت مسیح
۶۵۳ موعود را آپ پر سلامتی ہوا سے بڑھ کر ہونے کا دعوی کرتی ہے تو وہ یقینا بیتہ ہونے کا دعوی کرتی ہے.اور یہ امر محال ثابت ہو چکا ہے اگر وہ کے میں نبیہ نہیں ہوں.مگر بڑھ کر ہوں.تو یہ ایک قابل مضحکہ دعویٰ ہوگا.ہاں عورت غیر مامور ولی ہو سکتی ہے.مگر اس صورت میں وہ کسی کو اپنا متبع ہونے کی تبلیغ نہیں کر سکتی.اور اپنی طرف دعوت نہیں دے سکتی.مگر ایسی تم ترا میں عورتیں اس مست میں اور گزشتہ قوموں میں گذر چکی ہیں اس زمانہ کی کوئی خصوصیت نہیں ہے.اگر کوئی عورت بچے خواب یا الہامات حاصل بھی کرے.تب بھی وہ زیادہ سے زیادہ صدیقہ بن جائے گی.اور ایک صدیق کی نسبت پھر بھی اس کا دائرہ عمل نہایت درجہ محدود رہے گا.شاید کوئی معترض کہہ دے کہ جب ایک عورت بادشاہ ہو سکتی ہے.تو وہ نبی بین کم ہدایت بھی کر سکتی ہے.اس کا جواب ایک تو نقلی ہے جو گذر چکا ہے مگر عقلی جواب یہ ہے کہ بادشاہت تو وہ دوسرے مردوں کے سہارے اور ان کی مدد سے کرتی ہے لیکن ثبوت تو ایسی چیز نہیں ہے اور بادشاہ تو نا بالغ بچے بھی ہو سکتے ہیں.پھر کیا نابالغ بچے نبی بھی ہو ہو سکتے ہیں ؟ے پس یہ دلیل محض ایک لفظی دھوکا ہے.اصل بات یہ ہے کہ بادشاہت اور حکومت تو چلتی ہی ہے بہت سے مددگاروں کے سہارے سے ، حالانکہ نبوت خدا تعالے کی طرف سے ایک شخص کے مامور ہو کر تمام مخلوقات کو ہدایت کی طرف بلانے کا نام ہے.نہ کہ لوگوں کی مدد سے جتھہ بنانے کا نام نبوت ورسالت کو الگ رہی.قانون اسلامی کے ماتحت تو عورت خلیفہ بھی نہیں ہو سکتی.جیسا کہ سورہ نور میں يجَالُ لا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْحُ (النور (۳۸) ترجمه ، ( یہ ذکر کرنے والے) کچھے مرد ہیں جن کو اللہ کے ذکر سے اور نماز کے
قائم کرنے سے اور زکواۃ کے دینے سے نہ تجارت اور نہ سود اینچنا غافل کرتا ہے.کی آیت سے ظاہر ہے کہ یہ عہدہ بھی مردوں سے ہی مخصوص ہے.شاید کسی کو خیال پیدا ہو.کہ کیا کوئی عورت مصلح موعود کا دعوی کر سکتی ہے ؟ سو یہ امر بھی ممتنع ہے.کیونکہ مصلح موعود بھی موجب پسر موعود- فرزند دلبند.وجیہہ اور پاک لڑکا زگی غلام وغیرہ الفاظ اور مذکر ضمیروں کے ایک مرد ہی ہو سکتا ہے نہ کہ عورت.شاید کسی کے دل میں یہ وسوسہ گذرے کہ حضرت مسیح موجود آپ رسلامتی ہوا کو یا مریم کے خطاب سے الہام کیا گیا ہے.اس لئے شاید عورت بھی نبوت کی حقدار ہے.اس کا جواب یہ ہے کہ استعارہ ایسے الفاظ کا استعمال مضائقہ نہیں رکھتا.مریم کے لفظ میں تھا ایک عورت سے ہی مشابہت ہے.مگر بعض الہامات میں ایک جانور یعنی شہر سے مشابہت موجود ہے اور خود حضور نے اپنے نہیں ایک درخت سے بھی مشابہت دی ہے جیسا کہ فرمایا ہے اک شجر ہوں جس کو داڑی صفت کے پھیل گئے پس یہ سب طبیغ و لطیف استعارات ہیں.حقیقت مراد نہیں ہے.ہمیشہ محکمات کی پیروی لازم ہے نہ کہ متشابہات کی.(روز نامہ الفضل نے بھون ۱۹۴۴ء) :
۶۵۵ معجزات و کرامات کے پردہ میں ایک دھوکہ بعض لوگ جب بعض قسم کے جنونوں کو پہچان نہیں سکتے.تو وہ حیران ہو کہ دریافت کرنے گتے ہیں.کہ ہم نے فلاں شخص سے یہ عجیب بات صادر ہوتے دیکھی ہے.اس کی کیا توجیہ ہے ؟ مثال کے طور پر ایک نوجوان کو جب ایک خاص قسم کا عصبی حملہ ہوتا ہے تو وہ بعض وقد شمی آگے کر کے کہ دیا تھا کہ خدا نے اس وقت میرے ہاتھ میں ایک مینڈک پیدا کیا ہے.یہ کہہ کر میٹھی کھوں تو واقعی ایک مینڈک پھوک که با ہر نکل آتا.اور لوگ حیران رہ جاتے.ایک اور نوجوان مجھے گوجرانوالہ میں ملا کہ میں گجرات میں ہوتا ہوں تو دھڑام کے ساتھ یہاں گوجرانوالہ میں پلک جھپکتے میں آپڑتا ہوں.اسی طرح گو جر امالہ سے گھبرات چلا جاتا ہوں بعض ایسے آدمی ہیں جو کلمہ کا ٹھپہ یا بیچ لئے پھرتے ہیں کہ یہ غیب سے ہم کو ملا ہے اور ہماری کرامت کا نشان ہے.مگران امور کے سواحب ان لوگوں سے باتیں کہو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بالکل دین کی اصلیت سے ناواقف.خدا کی صفات سے نابلد اور معجزہ کی حقیقت سے بے خبر ہوتے میں اور Mono Mania یعنی جنون کی ایک خاص قسم ان پر مسلط ہوتی ہے.چونکہ ان شہیدوں کی وجہ سے عوام ان کی بعض اوقات ان کے دھوکہ میں آجاتے ہیں.اس لئے آج میں ایسے معجزات کی ایک اصلیت لکھتا ہوں.تاکہ حقیقت سے اطلاع پا کر نا واقف لوگ دھوکہ میں نہ پھنسیں.حقیقت ان معجزات کی یہ ہے کہ یہ خود ان کی بیماری کا ایک مظاہرہ ہوتے ہیں.اور عجیب قسم کا مظاہرہ ہیں.قریب اور افتراء نہیں ہیں.بلکہ مرض کا جزو ہیں.اور خود بیمار
۶۵۶ بھی ان کو اپنی سچائی کا نشان سمجھتا ہے اور واقعی یقین کر لیتا ہے کہ میرے ہاتھ میں پہلے کچھ نہ تھا اور ابھی ابھی یہ مینڈک پیدا ہوا ہے.اور میں واقعی گجرات میں تھا کہ یکدم بغیر ریل کے گوجرانوالہ میں آگیا ہوں.اور یہ ٹھیے یکدم غیب سے میرے پر فلاں وقت نازل ہوئے.چونکہ یہ مانومینیا Mono Mania اور موم نمیونزم Somnambulism کی شاخیں ہیں.اس لئے بعض سادہ اور نا واقف انسان چکر میں آجاتے ہیں.اصلیت اس شعبدہ کی یہ ہے کہ ایسا انسان بیب اپنی عصبی اور دماغی بیماری کے بعض حصہ اپنے افعال کا بھول جاتا ہے.یا اُسے یا د ہی نہیں رہتا.کہ میں نے فلاں حصہ اس فعل کا خود کیا ہے.دماغ اس کے افعال کے ایک حصہ کو ایسا پھلا دیتا ہے.که واقعی وہ ایک کام کر کے پھر بھی ہیں یقین رکھتا ہے.کہ میں نے یہ نہیں کیا.اس کا جنون اس کے افعال کے بعض حصوں پر غالب آجاتا ہے.چنانچہ کئی لوگوں نے سوتے سے اُٹھ کر قتل اور خون کہ دیئے ہیں.اور پھر گھر میں آکر لیٹ گئے اور دوسرے دن ان کو پتہ بھی نہ تھا کہ یہ کام ہمارے ہاتھ سے ہی ہوا ہے.گویا دہ عصبی نیند تھی یا جنون کے جوش میں ایک وارفتگی تھی.جوان کی قوت حافظہ کو دبا لیتی تھی.ایسا انسان اگر کو ئی مینڈک پیدا کرتا ہے تو اسکی حقیقت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک مینڈک پڑتا ہے اسے اپنے ہاتھ میں آتا ہے اور کہتا ہے کہ دکھ بھی لاتے میرے ہاتھ پر یہ معجزہ جاری کیا ہے.یہ کہہ کہ ہاتھ کھوتا ہے.اور لوگ اس میں سے ایک اصلی مینڈک پھر کتا دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں.بات صرف اتنی تھی کہ ایسے شخص نے جس وقت سے وہ مینڈک پکڑا تھا.اور جب اُسے لوگوں کو ہ کھایا تھا.درمیانی عرصہ کا سارا فعل سبب شدت خواہش نفس اور شدت جنون اسے بالکل بھول جاتا ہے.اور دماغ کی سطح سے اس فعل کے تاثرات گم ہو کر اندرونی طبقوں میں چلے جاتے ہیں.اور ایک حصہ اپنے فعل کا اس کے مرض کی وجہ سے اس کے دماغ سے سراسر محو ہو جاتا ہے.ایسے لوگ بعض اوقات ساری ساری رات پھرتے رہتے ہیں.اور پھر صبح کے قریب آکر اپنی چار پائی
486 پر سو جاتے ہیں.اور صبح ان کو ذرا بھی یاد نہیں ہوتا.کہ ہم گھنٹوں دیواروں اور سڑکوں اور جنگوں میں پھرتے رہے ہیں.پس اس بیماری میں مریض ایک حصہ اپنے معمل کا بھول جاتا ہے.چنانچہ جو شخص گجرات سے گوجر انوالہ ایک منٹ میں آتا تھا.اس کی بھی یہی حالت تھی.کہ وہ گھر سے چلتا تو اس پر وہ کیفیت نقظۂ نومی کی وارد ہو جاتی.وہ ریل میں سفر کر تا تھا اور گوجرانوالہ اتر کر اپنے مقام پر پہنچے کہ کہا کرتا تھا.کہ دیکھو میں گجرات میں تھا یہاں کسی طرح پہنچے گیا.گھر سے نکل کر گوجرانوالہ اپنے مقام پر پہنچنے بیک کے فعل کا سارا حافظہ اس کے دماغ سے جا تا رہتا تھا.اسی طرح جو شخص کلمہ GALAT WALA TANA اللہ کے مصنوعی رو پے جو دنیا میں ہزاروں عمد کہتے ہیں اور رائج ہیں حاصل کر کے ان کو لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے.اور ممکن ہے کہ ان ٹکڑوں کو حاصل کرنا اور چھپا کہ رکھنا وغیرہ اس کا جنون بالکل دبائے.اور دماغ سے اس حافظہ کو بالکل کھو کہ دے.اور پھر اس کا جنون اُسے ہی دھوکہ دے کہ دیکھ یہ غیب سے تیرے پاس آئے ہیں اور چونکہ تو مقربان بارگاہ الہی سے ہے.اس لئے تیرے لئے خدا نے یہ معجزہ قرار دیا ہے.پس یہ بیماری کی علامت یعنی حافظہ کا خوابیدہ ہو جانا اس قسم کے جنون کی ایک عجیب علامت ہے.جس سے ناواقف آدمی دھو کہ کھا سکتا ہے.اسے پرانے لوگ اشراق کے نام سے تعبیر کرتے تھے.بلکہ ایسی حالت کو سلف مسمریزم کہ کے خود اپنے پر طاری کیا کرتے تھے اور اسے علم اشراق کے نام سے موسوم بھی کیا کرتے تھے.مگر اس زمانہ میں جو ایک علمی زمانہ ہے.ایسے معجزات کوئی معنے نہیں رکھتے.اور بھا بہتی کے تماشے سے زیادہ ان کی کوئی وقعت نہیں.اصل معجزہ مصفا علم غیب اور الہامی پیشگوئی کا معجزہ ہے جو شائع ہو کر اور پورا ہو کر خداوند عالم الغیب کے وجود پر گواہ ہوتا ہے.اور اس سے بھی بڑھ کر معجزہ تائید و نصرت الہی کا ہے.جو باد جود تمام دنیا کی مخالفتون کے ایک ملزمہ انسان کو ہر میدان میں فتح دیتی ہیں.نہ کہ مینڈک یا ٹھیکریاں جن میں ہزاروں دھوکوں کا احتمال ہے.اور یمن کا پیش کرنا بھی جانے شرم ہے.جب ایسے نقطہ نرمی والے
480 اپنی بیماری سے صحت پا جاتے ہیں.تو وہ تو ہاتھ منہ دھوکہ دلیری سے کہہ دیتے ہیں کہ ہم بیمار ہو گئے تھے.الحمد اللہ اب خدا کے فضل سے محبت ہوگئی ہے.اور واقعی مقابل الزام نہیں ہیں.کیونکہ سیار تھے.اگر کوئی سادہ مزاج مھلا مانس آدمی ایسے انسان کے پیچھے چل پڑے تو اس کے لئے مصیبیت ہے.وہ اس وقت خدا جانے کیا عذر کر سکے گا.سوائے اس کے کہ اندر ہی اندر اس کا نفس اسے شرمندہ کرتا رہے.اور ہر مجلس میں لوگ اس پر نداق کریں.بعض نا تجربہ کار لوگوں کا خیال ہے کہ جو مجنون ہوتا ہے.وہ ضرور لوگوں کو پتھر مارا کرتا ہے.اور کپڑے پھاڑ کر برہنہ پھرتا رہتا ہے اور اس کے ہوش و حواس مختل ہو جاتے ہیں.سو ایسے لوگوں پر واضح ہو کہ وللجنون فنون کا فقرہ بڑا ہی سچا فقرہ ہے اور اس مرض کے متعلق ایک صداقت یہ بھی ہے کہ دیوانہ بیکار خویش میشیار - جنون کی بہت سی قسمیں ہیں.اور بعض جنون سوائے ایک خاص دہم کے باقی ہر طرح اچھے پھلے نظر آتے ہیں.اور اپنی چالاکیوں سے سیدھے سادھے آدمیوں کو حیران کر دیتے ہیں.مگر آخر چند دن میں ہی مجنون ان کے اقوال وافعال سے چھلکنے لگتا ہے.(روزنامہ الفضل یکم جولائی ۱۱۹۲۴)
۶۵۹ مغربیت کی بیماری اور اسکے عوارض وعلامات میں نے بہت دفعہ دیکھا ہے کہ بعض جوشیلے نوجوان بڑے زور شور سے دھواں دھار تقریریں کرتے ہیں اور اُٹھتے ہی میز پر مکا اور فرش پر بوٹ کی ایڈی مار کہ یہ فقرہ زبان پر لاتے ہیں.کہ ہم مغربیت کو فنا کر کے رکھ دیں گئے.یا مغربیت کی موت ہمارے ہاتھوں سے واقع ہوئی مقدر ہو چکی ہے.یا یہ کہ ہم اسلام کو دوبارہ دنیا میں قائم کر کے رہیں گے اب مغربیت اپنا بوریا بستر باندھ لے.جب وہ ایسے ایسے فقرے چُست کر چکتے ہیں.تو ان کی تقریر کے بعد اگر اپنی سے مغربیت کے معنی یا مغربیت کے آثار و قرائن کے متعلق پوچھا.جائے تو معلوم ہوگا.کہ وہ اس لفظ کے مفہوم سے ہی نا واقف ہیں.ہاں ایک لفظ طوطے کی طرح راٹ رکھا ہے یا اگر میل معنی کسی کتاب میں سے پڑھ لئے ہوں گے تو تفاصیل کے متعلق کر دے ہوں گے اور اگر غور سے دیکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ پچاس فیصد مغربیت خود ان کے اپنے گھروں یا سو سائٹی میں گھسی ہوئی نظر آئے گی بلکہ عملاً شائد وہ خود ہی مخربیت کا نمونہ ہوں گے.خواہ مجلسوں میں بطور رواج وہ اس مغربیت کو گالیاں ہی دیتے رہتے ہوں.ہر چیز اپنے آثار اور صفات سے پہچانی جاتی ہے.اسی طرح ہندوستان والوں کے لئے اور خصوصا ہندی مسلمانوں کے لئے اس مرض کے بعض مشہور علامات ہیں جنہیں دیکھ کر ہم معلوم کر سکتے ہیں کہ یہ لوگ مغربیت کی بیماری میں مبتلا ہیں ورنہ صرف مختصر کتابی تعریف شنا کر مریض کو اپنے مرض کا قائل نہیں کیا جاسکتا.مگر جب ذرا تفصیل سے اس بیماری کی علامات بتائی بہائیں.تب اکثر لوگوں کو پتہ لگتا ہے.کہ ہم میں یہ مرض سرایت کر چکا ہے.
میں نے دیکھا ہے کہ بعض احمدی نوجوان بھی ایسے دھوکوں میں مبتلا ہیں.اس لئے لیکن آج نہایت اختصار کے ساتھ کچھ علامات مغربیت کی بیان کروں گا.جین میں ہندوستان کے مسلمان گرفتار ہیں.مغربیت کیا ہے ؟ اصولاً تو جیسے حضرت خلیفہ ایسی الثانی بھی اپنے لیکچروں میں بیان فرما چکے ہیں.مغربیت مادیت اور قومیت کا مجموعہ ہے یعنی مغربی اقوام کے نزدیک مادی ترقی ہی انسان کی اصل ترقی ہے.مگر اس کے ساتھ وہ اپنی قومیت کو بھی لازم و ملزوم سمجھتے ہیں.یعنی نہ صرف اپنی قوم کو دیگر اقوام پر فضیلت دیتے ہیں.بلکہ مغربی قوموں کو دنیا کی دیگر تمام قوموں سے دماغ اور عقل میں بڑھ کر سمجھتے ہیں.خواہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہی ہوں پس ان کا عقیدہ یہ ہے کہ تمام ترقی مغربی اقوام کے دماغوں سے وابستہ ہے.اور وہ ترقی سائنس کے ذریعہ مادی لائنوں پر ہی ہوئی اور ہوگی.مگر صرف اتنی سی بات سے ہم اس مرض کی تشخیص نہیں کر سکتے.بلکہ ہم بعض علامات کو دیکھ کر تشخیص کریں گے کہ تلاش شخصی با فلاں خاندان یا فلاں قوم ہم میں سے مغربیت کی بیماری میں مبتلا ہے یا مبتلا ہوتی جاری ہے اور جب مغربیت کی بیماری کی الیکشن کسی شخص یا قوم میں سرایت کر جاتی ہے.تو خواہ وہ خود کتا ہی انکار کویں پہنچانے والا علامات کو دیکھ کر یہ فورا کہہ دے گا کہ جب اس مرض کے آثار بہار میں موجود ہیں تو پھر کس طرح اس کا انکار کیا جا سکتا ہے.اب میں مختصر البعض عوارض آپ کو بتاتا ہوں.جو مغربیت کے ساتھ وابستہ ہیں عمومگا ہندوستانی تہذیب کا اور خصوصاً اسلام کا ان عوارض سے کوئی تعلق نہیں.مگر جب یہ عوارض بکثرت اور مستقل طور پر مریضی کے اندر رہ جائیں.تو سمجھ لو کہ اسلام اب رخصت ہو رہا ہے.یه آثار مغربیت عموما مذہب اخلاق ، سیاست اور معاشرت کے دائروں میں ایک
441 مخصوص تغیر پیدا کرتے ہیں.ان کے علاوہ مغربیت کا ایک عجیب حربہ جس سے اس کی بیہ ترقی ہوئی ہے پروپیگنڈا ہے.اسی وجہ سے حضرت مسیح موعودا آپ پر سلامتی ہوا نے بھی اس کے مقابل پر اشاعت کا لفظ اختیار کیا ہے.فرق صرف یہ ہے کہ اشاعت تو صداقت کے پھیلانے کے لئے کی جاتی ہے.اور پروپیگنڈہ جھوٹ اور وجل کے لئے بس اس حربہ کی بدولت اور حکومت و دولت کی وجہ سے مغربیت اکثر اقوام عالم پر چھا گئی ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا.کہ پاک مذہب اسلام اور سابقہ بہتر تہذ یہیں اکثر لوگوں کی نظروں سے پست ہوگئیں.اور وہ ایک ایسی رو میں بہہ گئے جو ان کی عاقبت کے لئے تو یقینا مگر بہت حدتک ان کی دنیا کے لئے بھی تباہ کن ہے.اب میں ان فرضی پہلوانوں کے لئے جو روزانہ ایک لیکچر مغربیت کو توڑنے پر دیا کرتے ہیں حسب ذیل علامات پیش کرتا ہوں اور ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ عوارض خودان میں تو نہیں ہیں.اور اگر ہیں تو انہیں جھوٹی شیخیاں مارنے کی بجائے خود اپنی اصلاح کی تکمہ کرنی چاہئے.(1) را بیجاریٹی پر انحصار اور ووٹوں کا اقتدار (۲) ہر وقت اپنے حقوق اور مطالبات کا خیال اور مقدمہ بازیاں یا عرضی بازیاں انسیار یٹی پر زور (۴) آپوزیشن (۱۵ سیاست اور معاہدات میں جھوٹ اور دھیل.اور لفظی پیر پھیر (۲) بعض مخصوص فقروں کا استعمال مثلاً جب کوئی معاملہ کسی نے پیش کیا تو کہنے لگے.J.WILL DO (I will try to help you) YOUR MATTER IS UNDER CONSIDERATION MY BEST FOR YOU وغیره وغیره
حالانکہ یہ سب فقرے رواجی فقرے ہوتے ہیں اور دھوکہ دہی اور جھوٹ کے طور پراستعمال کئے جاتے ہیں.ریم) دوسری اقوام یا غیر مغربی انسانوں کو ذلیل اور حقیر سمجھنا مگر مغربی اقوام کے لوگوں کی تعظیم کرنا (1) قانون کے الفاظ کے تحت چالاکی سے سب کچھ کر لینا.(9) DIVIDE AND RULE پر عمل (۱۰) جاسوسی پر سیاست کی بنیاد (۱) تسلی تفاخر اور تکبیر (۱۲) EARTH HUNGER (۲) رار داڑھی مونڈھنا.یا اسے نہایت باریک کتر کے صرف دکھادے کے لیے بہانہ کرنا.(۲) فیشن پرستی تلفات تعیش کی زندگی.زرق برق اور دکھاوا ہمیشہ میز کرسی پر کھانا.مخصوص مغربی کھانوں کا استعمال مخصوص مغربی لباسوں اور مخصوص مغربی معاشرت کی فصل.تاریخ گانا ریڈیو گر میوفون - سینما اور موٹر میں انہماک شراب سگرٹ ، سگاں سر کے ہانوں کے چھتے آگے کی طرف بطریق فیشن رکھنا.نیز چھری کانٹا.کھانے کی گھنٹی.اور بلا ضرورت پور مین کھانے اور بند ڈیوں کی غذا میں سوڈالیمین ، آئس کریم.پیٹری چاکلیٹ کیک - لیکٹ ڈبل روٹی کا عادتاً استعمال کثرت فرنیچر کی ، خصوصاً غیر ضروری پر تکلف فرنیچر آرائش تصاویر امر پردوں کی جن سے مسکان آراستہ کیا جائے.(۳) بڑی عمر میں شادی یا کنواری رہنا.عورتوں کی ملازمت کا فیشن ، عورتوں کی ماڈرن تعلیم مردان کائن پر سفیدی سُرخی لپ اشک پر زور - خاص قسم کی مغربی خوشبوئیں.ناخن پیٹ کم تا.اور یہ سب زینت کا انہماک خاوند کے لئے نہیں بلکہ سوک ٹمٹی کے لئے مجلسوں کے لئے یا غیر مردوں کے لئے ہوتا ہے.مکاح ثانی کو نفرت سے دیکھنا.زیورات میں کپڑوں میں مکان میں برتنوں ہیں.نوکروں میں مغربی طرز زمینت اور اسراف پر عمل علی الاعلان عورتوں مردوں کی
چوما چاٹی اور بجنگیر ہوتا.خواہ وہ خاوند بیوی ہوں بہن بھائی ہوں یا باپ بیٹی.عورتوں کی نامحرموں سے بے تکلفی اور میل ملاپ عورتوں کے فوٹو کھینچ لانے اور یوں بھی فوٹوں کی کثرت باریک کپڑے جس میں عورتیں ننگی نظر آئیں.اسی طرح عورتوں کا گلا کٹا ہوا قمیض میں میں حسیم کا اوپر کا حصہ نظر آئے.عورتوں کا ننگے سر پھرتا.عور توں یا لڑکیوں کا بلا وجہ بال کٹوانا.زمانہ کرتے جس میں پوری آستین نہ ہو.گھگرا جس میں لاتیں یا رانیں یہ منہ دکھائی دیں.ایسا کیا ہوا لباکس میں میں عورتوں کے جسم کی بناوٹ اور محاسن معلوم ہوں.عورتوں کی شرعی لیے پڑگی کورٹ شپ.اپنے تئیں میم صاحب اور اپنے میاں کو صاحب اور چھ کو بابا کہلوانا بیوی یا بچوں پر یور این گورس رکھنا.مل کر ایک برتن میں کھانا نہ کھانا حتٰی کہ ایک برتن میں کھانے کے وقت بھائی کا بھائی سے اور بیٹے کا باپ سے اور دوست کا دوست سے نفرت محسوس کرنا.مردوں کو حسب ذیل مخصوص کپڑوں سے انس ہونا.ہیٹ پتلون کالر ٹائی ، پاک صاف انسان کا پست خورده بس سمجھنا.راتوں کو بہت دیر تک جاگنا.اور صبح کو 9 بجے اٹھنا.کموڈ کا دائمی اور مستقل استعمال بعد فراغت کا غذ سے طہارت کرنا.ہر وقت مغربی زبانوں کا استعمال بلکہ رشتہ داروں تک کو بھی مانا.پاپا.ڈیڈ DAD ) بے کی یعنی بیس والف.آنٹی.ڈارلنگ وغیرہ کہتا نیز مسٹر مسٹر کا رواج - طرز گفتگو اور لب ولہجہ مغربی صاحب لوگوں کا سارکھنا.لباس میں اسراف مثلاً کئی کئی قسم کے بوٹ ٹوپیاں.ہر جگہ اور ہر مقام وموقع کے لئے الگ الگ طرح کے پاس.کھانے پینے کے کئی کئی اوقات بغلوں اور زیر ناف کی صفائی نہ رکھنی حسن پرستی.اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ.فیشن اپل بالوں کے ساتھ ہر وقت ننگے سر یا ہر پھرتا.لہو و لعب کی زندگی سگریٹ اسکار - شراب -
۶۶۴ (٥) محض اسباب پر ایمان رکھنا اور مسب الاسباب کا خانہ بالکل خالی رکھنا اسلام عَلَيْكُمْ - بِسْمِ اللهِ الْحَمْدُ لله.انشاء اللہ وغیرہ کے اسلامی اقوال کا ترک کرنا اور ان کی جگہ گڈ مارننگ گڈ نائٹ - ٹانا.بائی پائی وغیرہ فقرات کا رواج.اتوار کو پبلک رخصت کا دن گھنا.اسلامی رسوم کو لغو یا برا سمجھنا.اور فیشن کو دین اور ایمان سے بڑھ کر جانتا.دہریت کے مقائد.بزرگوں کا ادب نہ کرنا.کتوں سے شغف جذب جھوٹ کی کثرت اسلامی مسائل کو مغرب کے مذاق پر ڈھالنا.خدا اور عاقبت کا خوف نہ ہونا.صرف جسمانی فوائد اور دنیاوی لزائد میں منہمک رہنا.حلال وحرام کی تمیز کا احساس مٹ جانا.اسلامی معاشرتی مسائل پر مذاق اڑانا یا ان پر اعتراض کرتے رہنا.کھڑے ہو کر پیشاب کرتا اور اس کی چھینٹوں سے احتیاط نہ رکھتا.مغربی فلاسفروں اور مصنفوں کی عزت اپنی قوم و تن سیب کے بزرگوں اور مصنفوں سے زیادہ کرنا.پیسے کمانے کے خیال کو سر دیگر خیال پر مقدم رکھنا دعاؤں کی قبولیت کو درہم اور خوابوں کی صداقت کو لغو یقین کرتا.اپنے ملک کی عمدہ سے محمدہ پیداوار کو بھی مغرب کی اونی پیداوار سے کم درجہ کھینا.فرض مغربیت میں اخلاق محض دکھا دا ہیں.اور اپنی قوم کے لئے مخصوص ہیں.سیاست محض دھوکا بازی ہے.معاشرت کے معنی عیاشی کے ہیں.اور نہ جب سے مراد دہریت اور نفسانی آزادی ہے.اس مغربیت کا توڑ صرف وہ ایک مقدس کلمہ ہے جسے اس زمانہ کا بنی بطور علاج کے خدا کی طرف سے دنیا کے لئے لایا.اور میں کو اس نے ان الفاظ میں ہمارے سامنے پیش کیا.کہ : میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.ا دید زنامه الفضل ۲ اگست ۱۱۹۴۲)
۶۶۵ کلمہ طیبہ لا اله الا الله محمد رسُولُ الله نہیں کوئی محبوب تیرے سوا نہیں کوئی مطلوب تیرے سوا نہیں کوئی مقصود تیرے سوا نہیں کوئی معبود تیرے سوا پیارے ترا نام اللہ ہے خلائق کا تو ہی شہنشاہ ہے ہر اک عیب سے پاک ہے تیری ذلت ستائیش کے قابل ہیں جبل صفات کریں تاکہ بندے سعادت و صبول محمد کو بھیجا بنا کر رسول بخار دل ص ۱۲)
دنیا میں تکالیف اور مصائب کیوں آتے ہیں سوال : ایک دو سال کا نتھا بچہ بخار اور درد قولیج میں مبتلا تھا.اس کی تکلیف اور اضطراب کو سخت سے سخت دل انسان بھی نہیں دیکھ سکتا تھا.رفع تکلیف کے لئے کبھی وہ اپنے ماں باپ کی طرف دیکھتا اور کبھی ڈاکٹر کے سامنے کروی سیلی دوا کے لئے منہ کھولتا.اسی تکلیف میں ایک دن رات رہ کر وہ مرگیا.سوال یہ ہے کہ رب رحیم وکریم جو رافت اور شفقت کا شیع ہے.چھوٹے اور معصوم بچوں پر مصائب اور تکالیف کیوں وارد کرتا ہے ؟ حالانکہ وہ ظلام للعبد نہیں ہے.اگر ماں باپ کا شافع بنتا ہے تو معصوم بچہ کو یہ ستر کیوں ملی ؟ اور وہ دوسروں کے فائدہ کے لئے خود کیوں زیر بار آئے ہے الا تزر وازرة وزر أخرى (انجم (۳۹) ترجمہ دار جو یہ ہے کہا کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی جواب ہو یہ سوال بچوں کی تکلیف کا بہت لمبا جواب چاہتا ہے اور خدا تعالے کی عمیق در عمیق حکمتوں کا بیان اس میں کرنا پڑتا ہے.اس کے لئے مختلف زمانوں کے لوگ بھی اگر میرا یہ روشنی ڈالتے رہیں تو بھی پورا حل نہیں ہوسکتا.مگر اللہ تعالیٰ کے صفات و افعال پر نظر کر کے اور اس کے کام کو دیکھ کر ہم محمداً بعض باتیں بتا سکتے ہیں.لیکن زیادہ مفصل طور سے اس کے لئے زبانی گفتگو شاید زیادہ بہتر ہوگی.پھر بھی بہت سی باتیں حجاب میں رہ جائیں گی.اور اگر واقعات کی تفصیل میں جانے لگیں تو شائد هم نوع بھی کافی نہ ہو.اور ہر بات کو دلائل سے میرین کرنے لگیں.تو کاغذ دماغ اور اخبار کی گنجائش سب چکر میں آجائیں اس لئے نہایت مختصر طور پر اکثر دلائل کو چھوڑ کر ایک سرسری بیان لکھتا ہوں.
چند مختصر باتیں ا پہلی بات تو یہی ہے کہ خدا تعالیٰ ظالم نہیں بلکہ رحیم ہے.دوسری یا درکھنے والی بات یہ ہے جسے لوگ بھول گئے ہیں کہ تکالیف اور مصائب اور بیماریاں اور افلاس، حتی کہ سرائیں جہنم اور غضب الہی بھی خدا تعالے کے رحم کے باپ کی ایک فصل اور اس کے محکمہ کرم وشفقت کی ایک شارع ہیں.اس سے زیادہ ان کی حقیقت نہیں.تمام دکھ خدا تعالیٰ نے سکھ کی طرف جانے کا ایک ذریعہ بنائے ہیں.بغیر ان کے انسان خدا کی رحمت اور آرام کا پورا حقیہ نہیں پاسکتا.اور یونہی بے مطلب و بے معنی نہیں ہیں.بلکہ کمال درجہ کی حکمت پر مبنی ہیں.وہ چاہتا تو سکھ ہی سکھ ہوتا.مگر پھر یہ عالم اور یہ نظام نہ ہوتا طبعی اور جسمانی تکالیف سے اس دنیا میں کوئی بندہ خالی نہیں.نہ کا قرینہ مسلمان نہ وحشی -٣ انسان نہ انبیا ء نہ بچے نہ پڑے.نہ جوان نہ بوڑھے نہ نیک نہ یک.ہاں اگلے جہاں میں جینت ایدی سکھ کے لئے بنائی گئی ہے اور دوزخ عارضی دکھ باسنزا کے لئے تاکہ بعض لوگ جو اپنی بیماریوں کی وجہ سے نعمائے جنت کی لذت حاصل نہ کر سکتے تھے.وہ وہاں اپنا علاج کرا کے تعھمائے الہی کی لذت اور حلاوت پاسکیں.خیال اور تو ہنی دکھ یا قلبی اذیتیں اکثر انسان کی خود ساختہ ہیں.اس کی حرص و ہوا کا نتیجہ 1.ہیں.دنیا طلبی اور لا مذہبی ان کی جڑ ہے اگر ہم بعض دکھوں کی حکمت معلوم کر لیں.تو ہمارے لئے یہ کافی ہے.اور ہم اس نظریہ پر قائم ہو سکتے ہیں کہ سارے دکھ سکھ خدا کی حکمت کا ہی نتیجہ ہیں.یہ ضروری نہیں کہ کہ ہر دکھا اور ہر سکھ کی وجہ ہم کو معلوم ہو جائے.صرف چند کی حکمت معلوم کر کے ہم سب کی حکمت کے قائل ہو سکتے ہیں.سستے نمونہ از خروارے ربَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً (ال عمران (۱۹۲)
44A ترجمہ : اے ہمارے رب تو نے اس (عالم) کو لیے فائدہ نہیں پیدا کیا.- ہر انسان شجره انسانی کی ایک شاخ ہے اور ہر بچہ اپنی قوم یا خاندان کے درخت کی ایک شاخ ہے.بالکل علیحدہ چیز نہیں ہے.اس وجہ سے بہت سی باتوں میں اچھی یا بری دکھ کی یا سکھ کی وہ اپنے والدین خاندان یا قوم سے ورثہ بھی لیتا ہے.وہ دنیا میں اکیلا منقطع فرد نہیں ہے بلکہ ایک عظیم الشان سلسلہ کی کڑی ہے.یہ بھی ایک وجہ دُکھ سکھ کی ہے.- بچوں کو معصوم کہا جاتا ہے ہمارے نزدیک بچوں سے زیادہ انبیاء علیہم السلام معصوم ہیں.مگر دکھ اور بیماریوں سے وہ بھی بیچے ہوئے انہیں ہوتے اور الگ ہیں، تو انسانوں لئے ہے شرعی اور طبعی قانون دونوں الگ الگ ہیں.شرعی تو مکلف انسانوں کے لئے ہے گر طبیعی پر انسان کے لئے یکساں ہے الا ماشاء الله 9 موت کے راستہ میں قدرت نے سخت دُکھ اور تکالیف لکھ دی ہیں تاکہ لوگ ہر قیمت ادا کر کے موت سے کہیں.وہ نہ لوگ ذرا ذراسی بات پر خود کشیاں کر لیتے یا علاج میں لاپر دائی کرتے.نظام عالم نہایت در بعد اختلاف چاہتا ہے.اور اسی اختلاف کی وجہ سے اس باغ و بہار کی ساری رونق ہے.اس اختلاف میں بد صورتی افلاس اور دکھ درد دیکھ کر چین آدمی حیران رہ جاتے ہیں.حالانکہ اختلاف کے لئے لازمی ہے کہ ہر قسم کا سکھ اور ہر قسم کا دکھ دُنیا میں موجود ہو.- یہ دنیا انسان کا اصل گھر نہیں بلکہ صرف چند سالہ عارضی سرائے ہے.اصل گھر اس کا ایک ابدی جنت ہے.جہاں کوئی تکلیف نہیں.جہاں اس کی ہر خواہش ہمیشہ پوری ہوتی رہے گی.دنیا نہیں بلکہ عالم آخرت ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے.اس اصل کے تر سمجھنے اور صرف دنیا کی ساٹھ ستر سالہ زندگی کو ہی اصلی حیات انسانی اور اس جگہ کو دارالجزاء کجھ لینے سے اکثر شکوک وشبہات اس قسم کے پیدا ہوتے ہیں.دنیا تو دارالعمل اور دارالامتحان
ہے.444 لا.سارے دکھ خدا تعالیٰ ہی کی طرف سے نہیں آتے.بلکہ ایک انسان دوسرے انسان کو دکھ دیتا ہے.یا خود انسان اپنی غفلت و نسیان یا کم علمی یا کم عقلی کی وجہ سے اپنے آپ کو بھی دُکھ میں ڈال لیتا ہے.خدا کی طرف سے جو دُ کھ نظر آتے ہیں.ان میں سے ایک حصہ تو ظاہر کمال حکمت پر مبنی ہے.اور ایک حصہ ایسا ہے جو باریک بینی کا محتاج ہے اور ایک حصہ ایسا ہے.جو آئندہ زندگی کے لئے مفید ہے.خواہ بظاہر اس وقت اس کا حاضر قائدہ نہ ہو یادہ دُکھ ہے جس کی چیزا خدا کی طرف سے بہت بڑھ چڑھ کہ آخرت میں ملے گی اور اس وقت انسان کہے گا کہ یہ تو بڑے نفع کا سودا تھا جسے میں نے خسارہ سمجھ رکھا تھا مجھے قربانی بنایا گیا.دوسروں کے قائدہ کے لئے اور اب مجھے اس قربانی کا فائدہ اور جزا اضعافا مضاعقہ مل گئے.دکھ کا وجود شکر کے احساس کے لئے ضروری ہے ورنہ سکھ پھر کچھ بھی نہیں رہے گا نہ اس کی قدر ہوگی.نہ اس میں راحت محسوس ہوگی.۱۴ دنیا میں شکر بہت زیادہ ہے اور دُکھ بہر حال کم.قرآن نے انا اعطينكَ الْكَوْثَر (الكوثر : ۲) (اے نبی کا یقیناً ہم نے تجھے کو شر عطا کیا ہے.میں کثرت نعما و الہی کی طرف اشارہ کیا ہے.ناشکرے انسان کے پاس سے لاکھوں میں سے ایک نعمت چھن جائے.تو اس قدر شکل بچاتا ہے کہ خدا کی پناہ.حالانکہ ابھی نانوے ہزار نو سو نانی سے نعمتیں اس کے پاس موجود ہوتی ہیں وَإِن تَعُدُّوا نِعْمَةَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَاء والخل ١٩٠) ترجمہ ہر اور اگر تم اللہ کے احسان شمار کر نے لگو تو کبھی غم ان کا احاطہ نہ کہ دارد اگر اللہ انکار کرنے لگو تو ہم ان نہ سکو گے.
46.دار إِنَّ الْإِنْسَانَ لَظُومُ كَفَّار (ابراہیم (۳۵) ترجمه انسان یقیناً بڑا ہی ظالم (اور) بڑا ہی ناشکر گذار ہے.اس قسم کے سوال سے ظاہر ہے کہ لوگ ہر بیماری اور موت کی تکالیف کو گناہ کی سزا سمجھتے ہیں جبھی تو ایک معصوم بچے کے مرض کی تکلیف پر اعتراض کیا جاتا ہے.حالانکہ ہی تکلیف ایک نبی کو بھی ہو سکتی ہے.جو بچوں سے زیادہ معصوم ہے.یہاں تو معصومیت اور گناہ کا سوال ہی نہیں ہے.بلکہ صرف سوال یہ ہے کہ بیماری اور تکلیف دنیا میں کیوں ہے.1.امن کے زمانہ میں تمیم دل لوگ بعض غلط نظریے قائم کر لیتے ہیں.اگر ان کو فوجی زمانوں کا حال معلوم ہوتا.اور قوموں کی کشمکش کی تاریخیں یاد ہو ہیں.علیم نباتات اور علیم حیوانات سے واقف ہوتے.اور کروڑوں اربوں ادنی مخلوقات کا پیدا ہو کہ بظاہر بلا وجہ فنا ہوتے نظر آتا.اور مخلوقات کا ہر وقت ایک دوسرے کو کھائے جانے کا علم ہوتا.اور ان کے سفر زیادہ دراز اور تجربے زیادہ وسیع ہوتے.پھر تو شاید وہ خدا کو ظالم نہیں بلکہ اظلم قرار دیتے (نعوذ باللہ) حالانکہ یہ سب باتیں اس کی بعید دست قدرت.لا انتہا علم اور لیے نہایت حکمت کی گواہ اور شاعر ہیں.کم علم اور کم عقل انسان ما تعالی کی چند مصلحتوں پر حاکم نینا چاہتا ہے.اور اس کو خدا کے زیادہ عظیم الشان کام اور پیر مصیبت مصالح نظر آجائیں.تو شاید اس کا کلیجہ ہی پھٹ جائے.ہمارا رب بے شک رحیم کریم ہے.بلکہ رحم و شفقت کا منبع ہے لیکن سوائے رحم کے اس کی اور صفات بھی ہیں.اگر وہ نہ ہوتیں.تو یہ کارخانہ عالم بھی نہ چل سکتا.جہاں وہ ریم کریم ہے.وہاں وہ مالک یوم الدین بھی ہے منتقیم بھی ہے.ضار مانع.مذل اور NANON بھی ہے.ورنہ وہ رب العالمین اور کامل خدا نہ ہوتا.ہاں یہ درست ہے کہ اس کی رحمت ہمیشہ اس کے غضب پر غالب ہے.اور اس کا غضب اس کی رحمت ہی
पढा کی ایک شاخ ہے.کیونکہ وہ بندہ کے فائدہ کے لئے ہی ہے.نہ کہ اپنے کسی حصہ کی تسکین کے لئے.-JA الازِرُ وَانِيَةٌ ولد أخرى (النجم : ۳۹) تریکیہ : ( جو یہ ہے کہ) کہ کوئی بوجھ اُٹھانے والی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھا سکتی.کہ کہ یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ بچہ کیوں والدین کے لئے قربان ہو.حالانکہ معلوم ہونا چاہیے کہ تمام دنیا کے والدین اور عزیز ان کا مال اور محنت اور توجہ سب ان بچوں کے لئے قربان کئے جارہے ہیں.اس صورت میں اگر کبھی کبھی ہو بھی ان کے لئے قربان کر دیا جائے.تو کیا ہرج ہے ؟ بلکہ ضروری ہے.بچوں کی تکالیف میں ان کو اور دوسروں کو کیا فائدے ہیں ؟ اب میں اصل مضمون کی طرف آتا ہوں.کہا جاتا ہے کہ رحیم کریم خدا چھوٹے اور معصوم بچوں پر مصائب اور تکلیف کیوں وارد کرتا ہے.حالانکہ وہ اپنے میں ومَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِلْعَبدِ (ق) (۳۰) کہتا ہے.ترجمہ ہو اور نہ ہیں اپنے بندوں پر کسی قسم کا نظلم کرنے والا ہوں.اس کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی لڑکے کے ماں باپ یا استاد اس کی بہتری اور فائدہ کے لئے اسے ماریں یا تکلیف دیں.تو کیا لوگ ان کو ظالم کہیں گے یا خیر خواہ ؟ یہی ہمارا جواب ہے.ہر تکلیف ظلم نہیں ہوتی.خدا کی طرف سے آئی ہوئی تو تمام تکالیف مصلحت حکمت اور فائدہ کے لئے ہوتی ہیں.اور مر جانا کوئی انوکھی بات نہیں.بلا استثناء ہر متنفس نے مرتا ہے.کوئی آگے جائے گا.کوئی چھے.یہ تو اس دُنیا کے لئے مقدر ہو چکا ہے اور مرنے کے بغیر انسان کے اعلی جو سر نہیں کھلتے.جس طرح ماں باپ کے ہاں سے رخصت ہوئے بغیر لڑکی کے اصل جو ہر نہیں کھلتے.کیونکہ اس عالم سے پر سے ایک اصلی اور دائمی عالم ہے.جس کے
٩٢ لئے انسان پیدا کیا گیا ہے.ہمیں یہ اعتراض مرنے کا بالکل باطل ہے.کیونکہ بہا انسان طرح طرح کی مصیبتیں اٹھا کر ستر سال میں مرتا ہے.اور اس کے انجام کی کسی کو خبر نہیں کہ کیا ہو گا.لیکن دو پرس کا بچہ جلدی مرکز تھا اسی لسبب بے گناہ ہونے کے جنت کی طرف جاتا ہے.جہاں اس کے دیگر رشتہ دار بھی اسے مل جائیں گے.بتائیے وہ نقصان میں ہے یا نفع ہیں ؟ رہا یہ امر کہ بچوں کو مرتے وقت تکالیف کیوں ہوتی ہیں.یہ بھی کوئی مخصوص امر نہیں.ہر جاندار کو موت کے دروازہ میں سے گزرنا پڑتا ہے.اور ہر موت کے ساتھ حکمت الہی نے تکالیف وابستہ کر دی ہیں.ورنہ یہ جہان اجڑ جاتا.لوگ اگلے جہان کے شوق میں ایک ایک دن میں فوج در فوج خود کشیاں کر لیتے.یا احتیاطیں پر ہیز اور علاج نہ کیا کرتے.یہ ہماری کی تکلیفیں اور سکرات الموت ہی تو ہیں جن کے خوف سے انسان مرنے سے ڈرتا ہے ورنہ اگر مرنا بغیر دیکھ کے ہوتا.تو انسان دنیا میں رہنا ہی پسند نہ کرتا.بیماری کے دُکھے ڈال کم اللہ تعالیٰ بندوں کو مجبور کرتا ہے کہ اپنا علاج کرو.بھوک اور افلاس کا ڈکھ ڈال کر مجبور کرتا ہے کہ محنت کرد اور کھا کر کھاؤ.وغیرہ وغیرہ.غرض ہر دکھ کسی سکھ کے حصول کے لئے ہے.اور یہ چیز اس دنیا کے لئے جو دار المحن.دارالعمل.دارالامتحان اور دار الابتلاع ہے ضروری ہے.ورنہ انسان کسی ایدی زندگی اور دائمی اور کا ستی نہ ہو سکتا.بلکہ جوانوں کی طرح پھر جگ کر مر کر مٹی ہو جاتا.اس کے لئے کوئی دارالجزاء نہ ہوتا.نہ ترقی کے سلمان ہونے نہ بدی نعتیں.پس معصوم کچھ کا مرنا اس کے لئے آئندہ جہان میں مفید ہے.مرنا ہر جاندار کے لئے لازمی ہے.اور مرنے کو دکھوں سے وابستہ کرنا حکمت کے ماتحت ہے.ہاں بطور نمونہ نہیں اتنا ثابت کرنا چاہیئے کہ بچوں کے یا انسانوں کے دکھوں میں کیا فائدے ہیں.بیماری کا دُکھ تو بچوں اور بڑوں سب پر حاوی ہے.اس لئے میں یہاں بچوں اور بڑوں دونوں کے متعلق کچھ فوائد بیان کروں گا.یہ ضروری نہیں کہ صرف بیماری کے مرکھ کے فوائد ہی بیان کروں.بلکہ دوسرے مصائب مثلاً افلاس وغیرہ کا بھی ضمناً ذکرہ آجائے گا.
بیش دکھ افراد یا قوموں پر سزا کے طور پر وارد ہوتے ہیں.کیونکہ وہ خدائی اور عقلی قوانین پر عمل نہیں کرتے.ایسے دکھوں میں بد پر میزیاں بھی داخل ہیں.ایک بچہ کو تولنج کا درد کیوں ہوا.یا تو ماں باپ نے جہالت کی وجہ سے یا لاڈ پیار کے سبب سے اسے ثقیل غذا کھلادی یا بچہ نے آپ ہی کوئی ایسی چیز کھالی.قانون طبیعی سے چونکہ بچے.بڑا.عقلمند ہے معقل ارادتاً ید پرہیزی کرنے والا یا بھول کر اور غفلت سے کرنے والا سبھی سزا پاتے ہیں.اس لئے اس دُکھ کا سمجھ لینا آسان ہے.تکالیف کی حکمتیں ا سب سے بڑی حکمت تکالیف میں یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان کے ذریعہ بھی اپنے آپ کو پہچانا چاہتا ہے.بہت کم لوگ ہیں جو نعمتوں اور احسانوں کی معرفت خدا کو پہچانتے ہوں.اکثر وہ ہی گروہ ہے جو مصائب اور تکالیف بیماریوں اور شدائد کی وجہ سے اس کی طرف توجہ کرتا ہے.اور یہ ایک عظیم الشان قائدہ ہے کہ خداشناسی دکھ اور تکالیف کے راستہ سے حاصل ہوتی ہے.انسان اپنی مصیبت درد اور لاچاری کو دیکھ کر خدا کی طرف توجہ کرتا ہے بنا ہے کہ فرعون کو کبھی نزلہ اور درد سر کی تکلیف نہ ہوئی تھی نہ اُسے عمر بھر بخار چڑھا تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ وہ خدائی کا دعوی کرنے لگا.اور موسیٰ علیہ السلام کے مقابلہ میں کھڑا ہوگیا.اگر کوئی شخص مصائب اٹھا کر خدا کی طرف رجوع کرے.یا اس کا بچہ تکلیف میں ہو.تو دُعا کرے.اس کے مرنے پر صبر کرے.اور خدا کی طرف اپنی توجہ پھیرے.یعنی ایک سچھ قربانی دے کر ابدی منبت خرید نے تو میرے خیال میں ماں باپ اور بچہ دونوں کے لئے یہ بہت نفع مند سودا ہے.بچہ تو اپنی معصومیت کی وجہ سے اور ماں باپ رجوع الی اللہ کی وجہ سے نجات پائیں گے.۲.کسی بچہ کی بیماری اس کا قربانی کا پیکر اپنے کے لئے بھی ہوتی ہے.کئی بچوں پر تجربہ کر کے ڈاکٹر اس مرض کا علاج اور وقتیں وغیرہ معلوم کر لیتے ہیں.اور چند بچے خواہ مر
۶۷۴ بھی جائیں.مگر آئندہ بچوں کی نسل کے لئے اس بیماری کا علاج معلوم ہونے سے اور لاکھوں بچے بھی جاتے ہیں.امریکہ میں زرد بخار کا علاج اور ٹی کا معلوم کر نے کے لئے کئی ڈاکٹروں نے خود اپنے آپ کو وہ بیماری لگا کہ ہلاک ہونے دیا مگر مقصد حاصل کرلیا.یوں علم میں بھی ترقی ہوئی اور خدا کی حکمتیں بھی ظاہر ہوئیں.اسی طرح بعض بچے بھی آئندہ ہونے والے بچوں اور نسلوں کے لئے قربان ہو کر یا ڈاکٹروں کے زیر تجربہ اور زیر مشتق رہ کر مفید بن جاتے ہیں ہیں یہ نسل انسانی کا فائدہ ہے جو مقدم ہے انفرادی فائدہ پر.اور اس میں علم و حکمت کی ترقی ہے اور خدا کا حکم ہونا ثابت ہوتا ہے.موت کے علاوہ بعض بیماریاں خو د رحمت ہوتی ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے آئندہ زیادہ مہلک قسم کی بیماریاں اس بیمار کو نہیں ہوتیں.مثلا اگست 19ء میں جس جس کو انفلوئنزا ہوا.وہ سب بچے گئے.پھر انہیں اکتوبرش اللہ کا انفلوئنزا نہیں ہوا.جو نہایت درجہ ملک تھا.پس پہلی بیماری رحمت تھی.اسی طرح ویکسی نیشن یعنی Coeur pox کی بیماری برداشت کر لینے کے بعد چپ یعنی Small pox نہیں ہوتی ہو سخت مہلک ہے.بچے سر مجاری میں بڑوں کی نسبت کم تکلیف محسوس کرتے ہیں.کیونکہ ان کے اعصاب اس وقت پختہ نہیں ہوتے..- بیماریاں اور تکالیف خدا تعالیٰ کی جلالی صفات کا مظہر ہیں.اگر صرف جمالی صفات والا ہی خدا ہوتا.تو وہ کامل خدا نہ ہوتا.اور خدا وہی ہے جس کے قبضہ میں آرام اور دکھ دونوں ہی ہوں تبھی تو قرآن میں آیا ہے کہ مَا لا يَنْفَعُهُمْ وَلَا يَضُرُّهُمْ (الفرقان (۵۶) یعنی مشرک ایسے معبودوں کو پوجتے ہیں جو نہ نفع دے سکتے ہیں نہ ضرر کامل اختیارات والا خدا وہی ہے جو دونوں کا مالک ہو.انسان بھی انہی دو باتوں کی وجہ سے خدا کی طرف رجوع کرتا ہے.درتہ اگر دنیا میں تکالیف نہ ہوں تو نہ انسان کے اخلاق ظاہر ہوں.نہ وہ خدا کی حکمتوں کا کھوج
460 لگا سکے.نہ خدا سے ڈر سے.نہ کوئی اجر حاصل کر سکے.اور شاید سوائے خاص شکر گزار لوگوں کے کوئی نجات بھی نہ پاسکے.- بچپن کی بیماریاں اور تکالیف بھی قیامت کے دن حساب میں آئیں گی.اور ان کے می نمبر ملیں گے میں طرح بیڑے انسانوں کی بیماریوں کا اجر ملے گا.پھر کس بات پر اعتراض ؟ بیماریوں سے بعض بچے اندھے لولے لنگڑے یا معذور ہو جاتے ہیں ایسی بیماریاں اور ایسے مستقل نقائص آئندہ کے لئے ایسے بچوں کی زندگی کو سنوار دیتے ہیں.ورنہ بہت سے ان میں سے شیطان کو مات کر دیتے.لیکن یہ معذوریاں ان کی طبیعت کو ذہین صابر اور نیک بنا دیتی ہیں.اگر بچہ بیمار نہ ہو.نہ اسے تکالیف پہنچتی رہیں.خواہ معذور نہ بھی ہو.تو بھی بڑے ہو کر ان مصائب کی وجہ سے تعمیل جفا کشی تلخی کی یہ داشت اور نیک اخلاق اس میں پیدا ہو جاتے ہیں.و ممکن ہے کہ ایک ماں باپ کے دو بچوں میں سے ایک مرجائے اور دوسرا بڑھی عمر پائے لیکن اگلے جہاں میں پہلا جنتی ہو اور دوسرا و نرخی پس کون فائدہ ہیں رہا ہے یہی تو وہ مخلوق ہے جس کی بابت روایتیں آئی ہیں کہ وہ جنت کے لئے پیدا ہوئے ہیں.انسان کے لئے تکلیف کا وجود اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے راحت کا مزا اس کی قدر اور شکر پیدا ہوتے ہی اس دنیا میں جو شخص کبھی دیکھی نہ ہو وہ یقیناً فرعون بن جاتا ہے جو کھانا بھی ہے اور غراتا بھی ہے.11- بچہ چونکہ سب سے زیادہ عزیز چیز ہے.اس لئے اس پر بھی ضرور آفت آنی چاہیئے موجب آیت ولنبلونکم کے ( محمد ،۳۲) ۱۲.کیا بچے ہمیشہ تندرست رہا کریں ؟ پھر شاید یہ کہا جائے.کہ کسی جوان کی موت نہ ہو.اور آخر میں یہ کہ کوئی انسان بھی نہ مرے یہ سب مغویات ہیں.اور کسی اور عالم کا افسانہ
464 ہیں.اس دنیا کی بناوٹ کے ساتھ یہ تھیوریاں نہیں چل سکتیں.- 18 -۱- قدرت الہی ہر چیز کا رنج یا پنیری بہت کثرت سے پیدا کرتی ہے.پھر ناقص اور کمزور حصہ تلف ہو جاتا ہے.اور اچھا باقی رہتا ہے.جب ہر چیز کا پیج اور پنیری بکثرت تلف ہوتے رہتے ہیں.تو انسانی بچہ کے تلف ہونے پر کیا اعتراض.-۱۲.جب کسی قوم کی آئندہ نسلیں کمزد را در خراب ہونے لگتی ہیں.تو ان کے بچے بہت مرتے لگتے ہیں.اور اس طرح وہ قوم اپنی آنے والی تباہی سے واقف ہو جاتی ہے.اور بچاؤ کی تدبیروں میں لگ جاتی ہے.پس یہ وارنگ Warning بھی ایک حکمت ہے.مرنا بغیر ہمار ی کی تکالیف کے نہیں ہوتا.اس لئے تکلیفیں ضروری ہیں.کیونکہ روح اور رحیم کا اس قدر گہرا تعلق ہے کہ بغیر تکلیف کے علیحدگی ناممکن ہے.گویا ناخن کو گوشت سے جدا کرتا ہوتا ہے.اگر بغیر دکھ کے بچے یکدم مرجایا کرتے.تو نہ اُن کا علاج ہو سکتا.نہ علوم کھلتے.نہ لوگوں کو ہمدردی اور تیمارداری کا موقع ملتا.۱۲ بیمار بچوں اور دیگر مصیبت زدہ اشخاص میں دوسروں کے لئے خاص شفقت اور رحم پیدا ہو جاتا ہے.کیونکہ وہ اپنے دکھوں کو دیکھتے ہیں.ا تقومی کی جڑ بیماری کا پر میز ہے.جب مریض بچہ بیماری کے لئے پر مینز کرتا ہے اور ضبط کی عادت ڈالتا ہے تو وہ بڑا ہو کر بھی تقویٰ اختیار کر سکتا ہے میرے نزدیک تو کوئی شخص متقی نہیں ہوسکتا.جب تک کہ وہ جسمانی پر ہیز گار بھی نہ ہو.کیونکہ دونوں کی پشت پر ایک ہی طاقت کام کرتی ہے.۱۸ بچہ اطاعت نہیں کرتا.جب تک اُسے لالچ یا ڈر نہ ہو.ڈر خواہ مار کا ہو خواہ بیماری کا.پس بیماری کے دکھ سے بھی بچوں میں اطاعت کا مادہ پیدا ہوتا ہے.جو جڑ سے عبوریت کی -19.دکھی کو دیکھ کر دوسرے لوگوں میں خدا کے شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ الحمد للہ ہم اس مصیبت سے محفوظ ہیں.اور خدا کے شکر کا جذبہ بھی انسان کے تعلقات کو خدا سے
مضبوط کرتا ہے.4<< بچوں کی تکلیف کو دیکھ کر یوں میں شفقت اور رحم جوش مارتے ہیں اور یک اخلاق کا جوش عظیم الشان تغیر اور نتائگی پیدا کر تا ہے.جو بچے اندھے کا نے لنگڑے لولے ہو جاتے ہیں.خدا تعالیٰ اُن کے مخفی جو ہر اور اپنی مخفی حکمتیں دکھانا چاہتا ہے.وہ طرح طرح کی خلاف توقع لیا قتیں اور کام سیکھ جاتے ہیں جن سے انسانی کمالات کا اظہار ہوتا ہے.۲۲.خدا تعالیٰ چاہتا ہے کہ جس طرح میں انسان کی ربوبیت کرتا ہوں.اسی طرح والدین اور دیگر عزیز بھی بچہ کی تربیت پر ہمہ تن متوجہ رہیں.ورنہ اس کی سزا بیماری اور موت ہے.پس این موتیں اور بعض بیماریاں سرا ہیں والدین کے لئے کہ انہوں نے بچہ کی حفاظت کیوں نہ کی اور تاکہ وہ اور دیگر ناظرین آئندہ کے لئے محتاط رہیں.اگر بیماریوں میں سخت سخت دُکھ نہ ہوں تو لوگ مر جانے کو معمولی بات سمجھیں.علاج وغیرہ نہ کرائیں.نہ پر میز و احتیاط کریں نہیں موت کو سخت دکھ سے وابستہ کر کے خدا نے انسان کو علاج کی طرف مجبور کیا.تاکہ وہ خدا کی حکمتوں دوائیوں اور علوم کو باطل نہ کرنے پادے.۲۴.جب بچہ بیمار ہوتا ہے.تو اوپر والے دعائیں کرتے ہیں.ان کو خدا یاد آتا ہے.اور اگر مر جاتا ہے.تواکثر وقعہ ان کے آئندہ ہونے والے بچوں کو فائدہ ہو جاتا ہے.مثلاً اگر ٹیکہ لگوانے میں سستی کی وجہ سے ایک بچہ چیچک سے ضائع ہو گیا.تو اس کے والدین آئین رو اپنے ہر بچہ کو بر وقت ٹیکہ لگوایا کریں گے.۲۵ بیماریاں اور دکھ نہ ہوتے تو خلوقات ہیں تعاون محبت علاج معالجہ کا سلسلہ نرینگ Nursing یعنی تیمار داری.مال وقت اور محنت کی قربانی سب مفقود ہوتے.اسی طرح صبر استقلال شفقت اور رحم کے مظاہرے دُنیا میں نہ پائے جاتے جو بنی نوع انسان کے
لئے فخر ہیں.رشتہ داروں کو اپنا نفس کھلنا پڑتا ہے.رضا بقضا ہونا پڑتا ہے اور ا لنبلونکم والے ابتلاؤں کو پاس کرنا پڑتا ہے.نیک اور غدار سیدہ ہونے کے سب دعو سے پہلے جاتے ہیں.۲۶.ایک ٹھوکر کھا کہ آئندہ ویسی بد پر ہی لوں سے بچوں کو بچانا آجاتا ہے.-۲۷ ڈاکٹروں حکیموں کی نئی نئی دواؤں کا تجربہ ہوتا ہے نیز بیماریوں کے علم میں اضافہ ہوتا ہے.انسان روئے زمین پر خدا کا خلیفہ اور اس کا مظہر ہے.نہیں بچوں کو بیماری اس لئے بھی بھیجی جاتی ہے کہ خدا کا خلیفہ اور نائب ایک فوج خدائی صفات یعنی رحم کرم شفقت.شفه احیاء ربوبیت وغیرہ کی اپنی طرف سے اس دکھ کے مقابل پہ لاکر کھڑی کر دے.اگر بیماری موت اور شفا نہ ہوتے تو انسان بھی خدا کا ادھورا سا خلیفہ ہوتا.نہ کہ کامل ۲۹.بچوں کو بیماریوں میں صرف جسمانی تکلیف کا احساس ہوتا ہے.اور وہ بھی بڑوں سے کم بیٹوں کو تو اپنی بیماری میں اہل و عیال کے آئندہ گزارہ کا غم اور جینوں ضروری کاموں کا جو معلق رو گئے ہوں : فکر ہوتا ہے.اور بیماری کے درد کے ساتھ ان کو سخت ذہنی فکر اور رنج دھن بھی ہوتے ہیں.جن سے بچہ بالکل آزاد ہوتا ہے.نہ وہ موت کو جانتا ہے نہ ذمہ داری کو اس لئے سوائے جسمانی وکھ کے اُسے غم فکر رنج وغیرہ نہیں ہوتے.علاوہ ازیں چونکہ اس کے احساسات بھی قومی نہیں ہوتے.اس لئے مجسمانی درد بھی اسے بڑے آدمی کی نسبت بہت کم ہوتا ہے.پس یہ بھی خدا تعالیٰ کا فضل ہے.خلاصہ مضمون لمبا ہو گیا ہے.اس لئے میں مختصراً اس کا خلاصہ حسب ذیل کر دیتا ہوں.(اول) موجودہ عالم کا تمام نظام بدلنے کے سوا معترض خوش نہیں ہو سکتا اور تمام نظام
469 عالم کے بدل دینے سے یہ بہتر ہے کہ اعتراض ہی واپس لے لیا جاوے.(دوم) یہ دنیا اصل مقام انسان کا نہیں ہے بلکہ اصل جگہ اس کے رہنے کی ایک اور عالم ہے.(سوم) اس دنیا میں بھی شکر کی مقدار ڈکھ کی نسبت زیادہ ہے.ورنہ کیا وجہ ہے کہ شیخی مرنے سے ڈرتا ہے.خواہ کیسی ہی تکالیف میں ہو.(چہارم) انسان کی پیدائش کی غرض خداشناسی ہے اور یہ غرض اس دنیا میں دکھ اور سکھ کی موجودگی سے پوری ہوتی ہے.(پنجم) قیامت میں بچہ ہو یا بڑا.ہر ایک کو اپنے اپنے دکھ کے نمبر ملیں گے.اشتم مفلس اور غریب لوگ امراء کی نسبت پانچ سو سال پہلے جنت میں جائیں گے یہ ان کے افلاس کی جزا ہے..کئی بیماریاں مومن کو شہید کے درجہ تک پہنچا دیتی ہیں.یہ ان تکالیف کا بدلہ ہے.(اسم) وَلَوْبَسَطَ اللَّهُ ازْقَ لِعِبَادِ البَغَوْا فِي الأَرضِ (الشورى، ۲۸) اگر اللہ تعالیٰ بندوں کے لائے رزق کے دروازے کھول دیتا تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ وہ سرکش اور باغی ہو جاتے.پس دُنیا کے امن کی خاطر بھی مصائب ضروری ہیں.رہمی یہ موجودہ نظام دنیا کا بغیر اختلاف کے نہیں چل سکتا تھا.اس لئے کمال حکمت سے خدا تعالیٰ نے خوشی مال صحت آزادی ، عزت علم عقل اور بیماری ، دکھ موت، افلاس رنج غم تفکر وغیرہ چیزیں لوگوں میں تقسیم کر دیں تاکہ وہ کارخانہ عالم کو ایک دوسرے کے تعاون کے ساتھ چلا سکیں.غریب امیر کا کام کر ہے.امیر غریب کی پرورش کرے ، اہل علم طرح طرح کے علم کے نتائج سے اس باغ دنیا کو آنہ استہ کریں.اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہو.انسان اپنے رب کو پہچانے.اس کی اطاعت کرے اور دنیا کو اس سے روشناس کرائے اور بالآخر مرنے نکے بعد ایدی جنت کا وارث ہوا اور اس کی ساری تکالیف میٹ جائیں.بلکہ ان میں سے ہر
4A.ایک کا بدلہ بڑھ چڑھ کر اسے ملے تاکہ پھر اُسے کسی قسم کی شکایت اپنے مالک کے متعلق زر ہے (دہم) اگر یہ سوال کہ بچہ کو باپ دادا کے افعال کی سزا کیوں ملتی ہے.اُس سمچھ نے کیا گناہ کیا تھا ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ بچہ کو سزا کے طور پر وہ بیماری نہیں ہوئی.اور اس وجہ سے دہ قابل ملامت نہیں ہے.وہ اپنی تکلیف کا اجر خدا کے ہاں سے پائے گا.ہر بچہ کو مشخص تکلیف پہنچا سکتا ہے.اس کی ماں اسے زیادہ کھلا کر تکلیف دے سکتی ہے.اس کا باپ اُسے آتشک کا ورثہ دے کر اُسے بیمار کر سکتا ہے.اس کا بھائی اینٹ مار کہ اس کا سر پھاڑ سکتا ہے.اس بچہ کی ہر ایسی تکلیف کے بدلے وہ مودی آخرت میں سزا پائے گا.میں نے اسے تکلیف دی اور خود بچر آخرت میں جزا پائے گا جس نے لیے تصور دوسروں کا ظلم برداشت کیا.خدا کی طرف سے تو ہر طرح فضل ہی فضل ثابت ہے.(روزنامه المفضل ۲۴ اکتوبر ۱۱۹۴۴)
عید الاضحی کی قربانیوں کے گوشت کا مصرف ہمارے ملک کا رواج اب اس گوشت کے متعلق یہ ہوتا جاتا ہے کہ کچھ آپ پکایا.یہ اور اگر ہو سکا تو کچھ ایک دو دن کے لئے رکھ لیا.باقی میں سے عمدہ حصہ دوستوں کے ہاں بھیج دیا اور دوست بھی وہ جین سے کام پڑھتا رہتا ہے.مثلا کسی ڈاکٹر سے علاج کرایا تھا تو اس کے ہاں ایک ران سی دی کسی وکیل سے مشورہ لیا تھا تو کچھ اس کے ہاں بھیج دیا.کسی کے ہاں سے اُن کے ہاں گوشت آیا تھا تو انہوں نے ان کے ہاں بھیج دیا.پھر کچھ تھوڑا سا اور ناقص حصہ غرباء کو بھی دے دیا اور غربا بھی وہ جو اپنے کام آتے رہے ہوں اور ان لوگوں کے کے ہاں تو ضرور گوشت بھیجا جاتا ہے جن کے ہاں کئی کئی بکرے خود کٹ چکے ہوں اور انہیں گوشت کی ہر گنہ کوئی ضرورت نہ ہو.یعنی نیوتہ آیا.بھاجی کے طور پر وہ بھی عوض معاوضہ ہوتا ہے.میرے نزدیک شرح نے یہ سب صورتیں نا جائز رکھی ہیں حرام نہیں کہیں لیکن جو الفاظ قرآن مجید نے قربانیوں کے گوشت کے متعلق فرمائے ہیں.یہ باتیں ان کی روح اور مقصد سے دور سے جاتی ہیں.اور ایک قسم کی رسم بن گئی ہیں یا منیتی جاتی ہیں.کلام الہلی نے دو آیتوں میں اس گوشت کا مصرف یوں بتایا ہے فَكُلُوا مِنْهَا وَالعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِير (الج : ٢٩) یعنی ده گوشت خود بھی کھاؤ اور بھو کے فقیروں کو کھلاؤ.(۲۹: -٢ تَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَالْمُعْتَد (الح (٣٤)
۶۸۲ یعنی اس میں سے خود کھاؤ اور نہ سوال کرنے والے اور سوالی فقیروں کو کھلاؤ.مگر ہوتا کیا ہے متمول یا متوسط درجہ کے لوگ جو روزانہ گوشت کھاتے ہیں.ان کے ہاں بہت زیادہ گوشت پہنچتا ہے.یہ نسبت اس کے کہ سوالی فقیروں یا خود دار مفلس کو ملے.پھر آج کل تو ایک روپیہ یا سوار و پیه سیر گوشت بازار میں پکتا ہے.غریب بیچارے اُسے کہاں کھا سکتے ہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ دن میں دو دفعہ گوشت اڑاتے ہیں.ان کے ہاں بقرعید کے دن بھی گوشت کی بھر مار ہو جاتی ہے.اور سب پر طرہ یہ کہ قربانی کا گوشت متمول لوگوں کے ہاں بطور نہوتہ کی بھاجی اور غرباء میں بطور اجرت کے تقسیم ہوتا ہے.قادیان میں ان رسوم کے توڑنے کی کوشش کی گئی ہے.وہ اس طرح کہ گھر گھر سے قربانی کا گوشت لے کو نظر بار میں تقسیم کیا جاتا ہے.یا لنگر خانہ اور دار الشیوخ میں بھیج دیا جاتا ہے مگر ابھی رسم کے بہت سے حصہ کو توڑنے کی اور اس تقسیم کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے.قادیان سے باہر کے لوگوں کو بھی یہ خیال رکھنا چاہیئے کہ یہ خدا کا فضل ہے جو نہیں خود بھی اس کے کھانے کی اجازت ہے.ورنہ اکثر حصہ تو اس کا غربا کا حق ہی ہے.جیسا کہ قرآن مجید سے ظاہر ہے.یہ منع نہیں ہے کہ کوئی دوسرا نہ کھائے یا جہنوں نے خود قربانی کی ہو.وہ دوسروں کے ہاں کا حصّہ واپس کردیں لیکن جائز ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خود دار غرباء اور منگتے فقیروں کو تو اوجھڑی پھیپھڑوں والا گوشت اور ہڈیاں وغیرہ سیر ڈیڑھ سیر مل جائیں اور ملاحظہ دالوں متمولوں اور امیروں کے گھر بہترین حصہ چلا جائے یا ان لوگوں کو ہی ملے جو کیتوں کی طرح ہمارے گھر کا کام کاج کرنے آیا کریں یا امیر ہمسایہ کے ہاں ایک ران هیچی جائے.اور غریب ہمسایہ کے ہاں پاؤ بھر کی بوٹی یا تمام بکرے میں سے سری کلیجی گردے فضلات اور عمدہ گوشت - قیمہ اور کباب بنانے کا چن چن کر خود رکھ یا جائے اور باقی تلچھٹ غریبوں کا حصہ بنے.اسلامی اعمال کے سب امور نیتوں پر موقوف ہیں.مگر بعض اعمال ان نیتوں کا پردہ فاش کر دیتے ہیں جو ان اعمال کے پیچھے
۶۸۳ ہوتی ہیں.پس خدا تعالیٰ کے حکم کے مقصد کو جو قربانی کے گوشت کے متعلق ہے پورا کرنے والے ہو.اس میں سے خود کھاؤ تمہارے دوست بھی کھا سکتے ہیں.عمر جین کا حق صراحتاً مذکور ہے اور مقلاً بھی وہ اس کے زیادہ حصہ کے مستحق ہیں.ان کو نہ بھولو.ان کا پور احتقی ان کو پہنچاؤ (الفصل یکم دسمبر ۱۹۴۲ء)
جہنم سزا ہے یا علاج ؟ سوال : سزا اس لئے ہوتی ہے کہ یا تو مجرم پھر وہ گناہ نہ کر سکے.مثلا قتل کے بدار قتال یا اس لئے کہ دوسروں کو عبرت ہو.اگلا جہان نہ دار العمل ہے.نہ وہاں عبرت کا سوال ہے.پھر جہنم کیوں بنایا گیا ؟ جواب ہر اول تو اس کا جواب یہ ہے کہ جہنم شفاخانہ یا علاج گھر ہے.پس دوسروں کی عبرت کا سوال تو نہیں ہے.مگرہ آئندہ گناہ سے رکھنے کا ضرور سوال ہے.کیونکہ جو لوگ وہاں جائیں گے ان کی روحیں بیمار ہوں گی.اور اس قابل نہیں ہوں گی کہ وہ نعمائے جنت یا وصل الہی کی لذت اٹھا سکیں.جس طرح یہاں بیمار کو ٹھنڈا پانی بُرا لگتا ہے.مزیدار پھل نا موافق آتے ہیں میٹھی چیز بوجہ مرض کے کڑوی لگتی ہے.جوان حسین تندرست بیوی بسبب نامردی کے بلائے جان اور خار پہلو ہوتی ہے.وغیرہ وغیرہ میں ضروری تھا کہ انسان جو یہاں سے ایسی بہت سی روحانی اور اخلاقی بیماریاں لے کر اپنے ساتھ اگلے جہان میں گیا ہے.اسے بھی ایک شفا خانہ میں داخل کیا جائے.جہاں کے علاج سے اس کی بد اخلاقیاں اور خدا ناشناسی کی بیماریاں دور ہوں.پھر اس کے بعد شفا پا کہ وہ جنت کا لطف اٹھا سکے.فرض کہ دایک عادی چور، خائن - تارک الصلوۃ آدمی توراً بغیر ان امراض کا علاج کئے جنت میں بھیج دیا جائے تو نتیجہ یہ ہو گا ای غیر مضرت یافتہ شخص وہاں لوگوں کی جو چیز پسند آئے گی چرالے گا.ان کی بیویوں پر نظر یک ڈالے گا یا ان کو چھیننے کی کوشش کرے گا.خدا سے دعا نہ مانگے گا کیونکہ نماز دعا ہی ہے) پس وہ جنت والوں کے لئے سخت اینڈا اور دکھ کا موجب ہوگا ، اس لئے اسے ایک عرصہ دوزخ میں رہنا ضروری ہے کہ وہ یہ سب بُرائیاں اور بد اخلاقی حین کی اپنی روح کو عادت ڈال کر وہ
۶۸۵ ساتھ لے گیا ہے.دوزخ میں علاج اور پرہیز کر کے چھوڑ دے.اور نیک اخلاق انسان بن کر گتاہوں سے صاف ہو کر جنت میں جائے ، تاکہ وہاں فساد نہ پھیلائے.نیز اس میں خدا تعالے سے دعا کرنے اور اس کی صفات کے سمجھنے کی اہلیت پیدا ہو.تاکہ خداشناسی کی وجہ سے خدا کا کلام اور قبولیت دعا کا درجہ اسے ملے.ورنہ جنت بے کار ہے.پیس عبرت کا سوال نہیں.ہاں یہ سوال ہے کہ وہ جنت میں جا کہ چونکہ پھر دہی بدیاں کرے گا اس لئے اس کی اصلاح کا ہونا اور بیماریوں سے اچھا ہونا ضروری ہے.رہی یہ بات کہ جب وہ حشر میں خدا کو دیکھ لے گا.تو پھر تو وہ ایماندار ہو ہی جائے گا.اور آئندہ خود ہی برے کام چھوڑ ے گا.اس لئے دوزخ کی ضرورت نہیں.اس کا جواب یہ ہے کہ دوزخی بھی تو خدا سے جہنم میں جانے سے پہلے ہی کہیں گے.کہ خداوند ہم نے تجھے اور تیری جزا سزا کی عدالت کو دیکھ لیا ہے.اب پھر سہیں دنیا میں واپس بھیج دے ہم وہاں خداشناس اور صالح بن کر تجھے دکھا دیں گے.تو ہم کو دوزخ میں نہ ڈال.مگر خدا تعالیٰ ان کی اس بات کا جواب پہلے ہی قرآن میں دے چکا ہے.وَلَوْ رُدُّوَ العَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ تَكْذِبُونَ (الانعام: ٣٩) یعنی تم جھوٹے ہو.اگر ہم تم کو واپس بھی کر دیں.تو تم ضرور پھر وہی شرارتیں اور ید اخلاقیاں کر د گئے.اس سے ثابت ہوا کہ وہ لوگ اگر جنت میں چلے بھی جائیں.تو وہ وہی کر تو میں وہاں بھی کریں گے.بس شفا خانہ میں سے شفایاب ہو کر جانا پڑے گا.صرف حشر کی دہشت کافی نہیں.اور اسی شفا خانہ کا نام جہنم ہے.ور سرا جو اب اس اعتراض کا یہ ہے کہ دنیا کا تمام معامله خرید و فروخت بدلہ اور جزا سزا پر ہے.اب ایک آدمی نے ایک قتل کیا.اور دنیا میں ہی اس کی سزا پائی.یعنی پھانسی.اور ایک دوسرے آدمی نے سو قتل کئے.وہ بھی دنیا سے پھانسی پا کر رخصت ہوا.ان حالات میں اگر جہنم نہ ہو.تو پھر وہ نانوے قتل کہاں گئے ؟ ایک خون کرنے والا ایک پھانسی کی سزا پا کہ جنت میں چلا گیا.اس طرح سوخون کرنے والا ایک پھانسی کی منرا نا کر اپنے سر پہ نانوے
خونوں کا بوجھ لے کر بھی جنت میں چلا گیا.اب وہ اس بوجھ کو کہاں پھینکے بے پس انسانی فضل اور خدا کا کلام دونوں ایسے شخص کے لئے جہنم کی ضرورت کو تسلیم کرتے ہیں.اور اس صورت میں خواہ غیرت یا آئندہ خون نہ کر سکنے کا سوال پیدا بھی نہ ہو.مگر پچھلی ستر ضرور ملنی چاہیئے محض اعمال ہی جہنم کا مطالبہ کرتے ہیں.خواہ اس میں شفا خانہ والا حقہ اُڑا بھی دیا جائے ، ایک شخص نے زنا کیا.اور پہلی مرتبہ ہی اُسے آتشک اور سوناک ہو گیا.یہاں تک کہ وہ ساری عمر دکھوں اور زخموں میں میشکن رہا.اولاد سے بھی محروم رہا.غرض اس کی زندگی ایک دو رخ میں کئی.ایک دوسرا شخص ساری عمرید کاری کرتا رہا.مگر بعض وجوہ سے اُسے کوئی بیماری نہ لگی.اولاد بھی ہوئی صحت بھی اچھی رہی.تو یہ بھی نہ کی.اب بتائیے یہ ہزاروں دفعہ کا زانی کیا یونہی دندناتا جنت میں چلا جائے گا.صرف اس بات پر کہ عبرت لینے والا کوئی نہیں ہے یا آئندہ یہ گناہ دوسرے جہان میں کر نہیں سکتا.يقيناً معقل حجاب دے گی.کہ جیسا جہنم پہلے شخص کو ملا ہے.اس سے ہزار کی جہنم دوسرے کے لئے اگلے جہان میں ہونا چاہیئے.تیسرا جواب یہ ہے کہ وہاں عبرت بھی موجود ہے.دوزخ میں لوگ جائیں گے.ان میں سے کوی کسی گناہ کا مرکب ہوگا کوئی کسی گناہ کا جب ایک چور اپنی چری کے عوض جہنم میں تکلیف اٹھا رہا ہوگا.تو اُس کے دیگر ساتھی جو جو نہیں ہونگے بلکہ صرف جوئے کی وجہ سے وہاں ہونگے.انکو چور کے حال سے حیرت ہوگی.ان کو بے شک چوری کی ستر نہیں ملی.کیونکہ انہوں نے عملاً کوئی چوری نہیں کی تھی.لیکن ان میں بہت سی خیانتیں منفی طور پر موجود تھیں.اور موقع پا کر وہ چوری بھی کر سکتے تھے کیونکہ ان کا تزکیہ نفس نہیں ہوا تھا.پس ایسا جوئے باز اس چور سے عبرت پکڑ کر اپنا تزکیہ نفس ان دیگر گنا ہوں سے بھی کرے گا.جو اس کے اندر مخفی طور پر موجود تھے.گر ظاہر نہیں ہوئے تھے.اس طرح سے جہنی اپنی اپنی سزائیں بھی پائیں گے اور دوسروں سے عبرت بھی حاصل کریں گے.اپنی سزا اور دوسروں سے عبرت ان کے کامل تزکیہ کا باعث ہوگی.پھر وہ جنت میں چلے جائیں گے.یہیں عبرت کا منتصر بھی دوزخ کی سزاؤں میں موجود ہے.
۶۸۷ پوتھے یہ کہ خواہ حیرت نہ ہو.اور خواہ آئندہ وہاں گناہ کرنے کا موقعہ بھی نہ مل سکے.تب بھی حقوق العباد میں میں قدر ایک مجرم نے دوسروں کو دکھ دیا ہے اتنادُ کھ بطور بدلہ کے اس کے نفس کو بھی سہنا چاہیئے.پانچویں یہ کہ تکالیف غیر متز کی انسان کی تکمیل نفس کا موجب ہوتی ہیں.اس طرح مدیریت بھی ان لوگوں کی روح کی تکمیل کی جگہ ہے جو دنیا میں اپنے نفس کی تکمیل د ترقی کے مدارج طے نہ کر سکے تھے پس جبرت وغیرہ کا اعتراض قائم نہ بھی رہے تب بھی دیگر دیو ہات سے ایک مجرم کا جہنم میں جانا ضروری ہے.پوچھا جاتا ہے کہ کیا جنتی اور دوزخی ایک ہی جگہ رہ سکتے ہیں ؟ ہاں یہ ممکن تو ہے.کیونکہ جنت میں روحانی اور جسمانی الخامات ہیں.اورجہنم میں حسرت کی آگ دل کا غم اور جسمانی تکالیف ہیں.پس جس طرح اس دنیا میں دونوں قسم کے لوگ پہلو یہ پہلو رہ سکتے ہیں.اسی طرح یہ بات وہاں بھی ممکن ہے.لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ جنت اور دوزخ بالکل الگ الگ مقام ہوں گے.کیونکہ ایک تو قرآن وحدیث میں دونوں مقامات کو بالکل الگ الگ اور ممتاز طور پر علیحدہ علیحدہ جگہ بیان کیا گیا ہے.مگر ایک اور دلیل بھی ہے.وہ یہ کہ ایک قلیل عرصہ کے لئے ایک خوش و خرم انسان ایک معموم انسان کے پاس رہ سکتا ہے.یا ایک بیمار ایک تندرست کے ساتھ اکٹھے بسر کر سکتا ہے.لیکن نہایت لمبے عرصہ اور مدت دراز تک یہ صحبت ناممکن ہے.بیمار نمیگین مغضوب اور مصیبت زدہ کا قریب ایک جینیتی کے عیش کو ہر حال مکت را در متعفن کر دے گا.اور اس کی زندگی محض ایک دوزخی انسان کے قرب کی وجہ سے تلخ ہونی شروع ہو جائے گی.پس مقلاً بھی محنتی اور دوزخی کا ایک دوسرے سے دور دور الگ رہنا ضروری ہے اور نقلاً تو یہ ثابت ہے ہی.واللہ اعلم بالصواب • اگر جنت اور دوزخ محض روحانی ہی ہوتے تو کسی قدر ان کے ساکنین کے اکٹھے رہنے کا اسکان ہوسکتا تھا.مگر جبکہ وہ روحانی اور جسمانی دونوں ہیں.تو پھر مل مل کر ان کا رہنا نہایت
YAA مشکل ہے.وہ مشترکہ مقام نہ رہے گا.بلکہ دونرخیوں کے ہر وقت سامنے رہنے کی وجہ سے جیتی بھی خوش نہیں رہ سکیں گے.الفضل ۱۴ اپریل ۶۴۵)
4A4 کچھ اخلاق کے متعلق اخلاق کے متعلق لوگ اکثر پوچھتے رہتے ہیں.آج میں مختصر طور پر ایک ضروری اصول ان کے متعلق عرض کہ دیتا ہوں.میرے خیال میں اچھے اخلاق کئی قسم کے ہوتے ہیں.طبیعی تقاضے جن پر اخلاق کا دھوکہ ہوتا ہے بعض لوگوں میں بعض طبیعی تقاضے جو ابھی اخلاق کا زنگ نہیں پکڑتے یعنی عقل کے ماتحت نہیں ہوتے.اور موقع اور ضرورت کے مطابق صادر نہیں ہوتے.وہ بھی بہت پسندیدہ ہوتے ہیں.مشکل ایک انسان طبعی طور پر ہی نہایت حلیم اور بردبار ہوتا ہے.یہ اس کا طبیعی تقاضا ہوتا ہے میر خلق لبعض الخفض پیدا نکلی اور طبیعی طور پر ہی ہنس مکھ اور خوش رہنے والا ہوتا ہے.اسی طرح بعض لوگ طبیعی طور پر ایثار کرنے والے یا سخی ہوتے ہیں.ان لوگوں کو اگر اپنے طبیعی تقاضوں پر فخر ہو.تو ایسا ہی ہوگا.جیسا کہ ایک ہیجڑا یا نا مرد کے کہ دیکھو میں حفیف اور پاکباز ہوں کہ مجھ سے بدکاری صادر نہیں ہوتی.ایسے انطلاق کا اجر خدا کے ہاں کچھ نہیں ہے.سوائے اس کے کہ وہ شخض بعض گناہوں یا نکا لیف میں پڑنے سے کیا جاتا ہے.مثلاً جو طبعی طور پر نہایت درجہ حلیم ہے چونکہ وہ کسی سے لڑے بھڑے گا نہیں.اس لئے لڑائی فساد کے نقصانات سے بچارہے گا.یا اگر کوئی محنت بد کاری نہ کرے گا.تو دنیا میں زنا کے ارتکاب اور آخرت میں بدکاری کی سزا سے نہیں مل سکتی.ہاں ایک طرح سے یہ لوگ میٹھی میں تکالیف اٹھا سکتے ہیں.وہ یہ کہ ایسا حلیم شخص دیوئی کا مرتکب ہو سکتا ہے.یا ایس طبیعی صابر الستان
49.بے غیرتی میں مبتلا ہو سکتا ہے.کیونکہ وہ عقل کے ماتحت اپنے طبعی تقاضوں کو لگام دے کر نہیں کھتا پر ایسے لوگوں کو صاحب اخلاق فاضلہ کہنا غلط ہے.گو بات بھی درست ہے کہ اچھے طبعی تقاضے برے طبعی تقاضوں کی نسبت بہر حال پسندیدہ ہوتے ہیں.اخلاق فاضلہ یہ طبعی تقاضے نہیں ہوتے بلکہ واقعی اخلاق ہوتے ہیں.یعنی ایسے طبعی تقاضے ہو عقل کے ماتحت چلائے جاتے ہیں ان کی تین قسمیں ہیں.اخلاق قسم اوّل یہ وہ اخلاق حسنہ ہیں جو انسان انسان کے لئے دکھاتا ہے.ان میں مذہب کا دخل نہیں.ایک دہریہ بھی یہ اخلاق رکھ سکتا ہے اور اپنی اخلاق پر ساری دنیا کا کاروبار چلتا ہے.چونکہ انسان مدنی الطبع ہے.اس لئے اس کا گزارہ ہی نہیں ہو سکتا.جب تک وہ نیک اخلاق بر عمل استعمال نہ کرے.وہ لوگوں کے ساتھ نیکی کرتا ہے.تاکہ لوگ اس کے ساتھ نیک سلوک کریں.وہ اپنے عہد پورے کرتا ہے.تاکہ لوگ اس کے عہد پورے کریں.وہ لوگوں کے ساتھ ہمدردی کرتا ہے تاکہ وقت پڑنے پر وہ اس کے ساتھ ہمدردی کریں.وہ دوسروں کی تیمار داری کرتا ہے تاکہ بیماری کے وقت دوسرے اس کے کام آئیں.وہ اپنے ہمسایوں کے دفن کفن میں شریک ہوتا ہے تاکہ تمہائے اس کے دفن کفن میں شریک ہوں.یہ اخلاق مذہب نہیں ہیں.لیکن مذہب کی بنیاد ہیں.اور اس بنیاد پر مذہب کی دیواریں کھڑی کی جا سکتی ہیں.اور ان اخلاق کے سوا انسان کو چارہ بھی نہیں.فرض کرو ایک شخص بیمار ہے لاچار ہے.اس کی خدمت دوسرے انسان ہی کہ سکتے ہیں.فرشتے عام طور پر اس کے لئے آسمان سے نازل نہیں ہوتے.یا کوئی مرگیا ہے.تواش کی قبر دوسرے انسان ہی کھودتے ہیں.جنات نہیں کھو دیں گے بغرض اکثر حالات میں انسان ہیں انسان کے کام آتا ہے.خواہ وہ دوست ہوں بیوی بچے ہوں.رشتہ دار ہوں.بہائے ہوں یا گورنمنٹ کے کارندے ہوں.اس وجہ سے دنیاوی زندگی اور امن کے لئے اخلاق کا یہ حقہ بھی
۶۹۱ لازمی اور ضروری ہے.مگر چونکہ یہ آپس کے لین دین کا حقیقہ ہے.اس لئے اس محکمہ میں انسان انسان کو اجر دے دیتا ہے.خدا کے ہاں اس کا خاص اجر نہیں ما ہیں دنیا میں آدمی کا اپنا بھائی ہی اس کا بدلہ اتار دیتا ہے اخلاق قسم ثانی یہ اعلیٰ اخلاق ہوتے ہیں.ان میں طبعی تقاضے صرف عقل کے ماتحت ہی نہیں ہوتے.بلکه ده عقل خود دین کے ماتحت بھی ہوتی ہے.ایسے اخلاق دین کی بنیاد نہیں.بلکہ خود دین ہی ہوتے ہیں.ان کے اظہار سے مومن کی یہ نیت ہرگز نہیں ہوتی کہ بنی نوع انسان کے ساتھ میں اس لئے اخلاق فاضلہ پر توں کہ وہ لوگ وقت پر میرے کام آئیں.بلکہ وہ اپنے ان اخلاق کو اس لئے استعمال کرتا ہے کہ اس کا خدا اس سے راضی ہو.وہ مخلوقات سے کسی امیر کی توقع نہیں رکھتا.اور یہی وہ اخلاق ہوتے ہیں جن کا اشارہ اس آیت میں کیا گیا ہے.اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء ولا شكورا (وبر (1) یعنی اے ہمارے ہم جنس حاجت مندو ہم تم کو محض خدا کی رضا کے لئے فائدہ پہنچاتے ہیں.ہمارا ہر گرہ مقصد نہیں.کہ تم ہم کو کسی قسم کا بدلہ دو.یاشکر کا ایک کلمہ تک زبان پر لاؤ.ان اخلاق کا اجر خدا کی طرف سے انسان کو دنیا اور آخرت دونوں جگہ ملتا ہے.انسان ان اخلاق کا اجر نہیں دے سکتا.یہ صرف خدا اسی کا کام ہے کہ ان کے عوض وہ بندے کو نیک اجر عطا فرمائے.پہلے دونوں قسم کے اخلاق کو اس قسم کے اخلاق سے کوئی مناسبت نہیں.اخلاق کی تیسری قسم یہاں تک ان اخلاق کا ذکرہ تھا.جو انسان انسان کے لئے ظاہر کرتا ہے.لیکن ایک تیری قسم بھی اخلاق کی ہے.یو انسان انسان کے لئے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کی ذات کے لئے ظاہر کرتا ہے
۶۹۲ قسم دوم کے اخلاق میں گو جز او اجر مدنظرنہ ہو.مگر جن لوگوں سے حسن سلوک کیا جاتا ہے دو پھر بھی حسن کے مشکور ہوتے ہیں اور اپنی طرف سے بدلہ یا دعا دینے کی کوشش کرتے ہیں.مگر اس قسم سوم کے اخلاق دکھانے والا مومن کسی دوسرے انسان پر اپنا نیک خلق ظاہر نہیں کرتا.نہ کسی مخلوق کا اس کے اور خدا کے درمیان قدم آتا ہے بلکہ یا اخلاق براہ راست ذات باری کے ساتھ دکھائے جاتے ہیں.مثلاً خدائی ابتلاؤں اور آزمائشوں پر میرا لہلی انعامات پر شکر اور عبادت، خدا کے دین کے لئے استقامت اور استقلال ، مالک کے عطا کردہ رزق پر قناعت ماخدا تعالیٰ کے منشا کے مطابق قربانیاں ، الہی خلال کے اظہار کے لئے غیرت اور خود اللہ تعالیٰ سے محبت اور عشق کا تعلق وغیرہ بغرض یہ وہ اخلاق ہیں.جو مذہب کا مرکزی نقطہ ہیں.اور ان کا اجر خود اللہ تعالیٰ آپ ہے.اخلاق کی اس قسم میں طبیعی تقاضے عقل کے ماتحت اور فضل دین کے ماتحت اور دین عشق و محبت کے جذبہ کے ماتحت کام کرتے ہیں.ار روزنامه الفضل ۲ مئی ۱۹۴۵)
تو سب سے زیادہ سخت اور کونسی سزا ہے عیسائی اور آریہ صاحبان یہ کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب کے مطابق کوئی گناہ معاف نہیں ہو سکتا اور ضروری ہے کہ انسان کو اس کے ہر گناہ کی سزا ملے.اس لئے عیسائیوں کو کفارہ کی پناہ لینی پڑی.اور انہوں نے اپنے گناہ خدا کے فرزند پر لاد دیئے.اور پھر وہ جہنم میں چند روز کے لئے داخل ہوا تاکہ ان کے گناہوں کا کفارہ ٹھہرے.دوسری طرف آریہ صاحبان کو تناسخ ایجاد کرنا پڑا تا کہ لوگ اپنے گناہوں کی سزاؤں میں ہر قسم کی جونوں میں چکر کھاتے اور تکلیفیں اٹھاتے پھریں.پر خلاف اس کے ایک مسلمان کہتا ہے کہ میرا خدا تعالیٰ میرے گناہ معاف کرتا ہے وہ سزا بھی دیتا ہے مگر اس میں عضو کی بھی طاقت ہے.اور ایک اعلیٰ طریقہ معافی کا اس نے یہ بھی مقرر کیا ہے کہ انسان اس گناہ سے سچی تو یہ کمرے لیکن اس تو بہ کے لفظ کو دوسرے مذاہب والوں نے ایک تمسخر بنا رکھا ہے اور کہتے ہیں کہ پہلے تو گناہ کر لیا.پھر منہ سے تو بہ تو یہ کہہ دیا.چلو گناہ معاف ہو گیا.گناہ تو تبھی معاف ہو سکتا ہے جب اس کی سزا انسان کو ملے.اور جو نا فرمانی اس نے کی تھی اس کے تلخ معاوضہ کو خود چکھے در نہ تو یہ کا لفظ صرف ایک بہانہ ہے اور طفل تسلی ہے.اور ایک دھوکہ ہے جس کی وجہ سے انسان گناہوں پر اور دلیر ہو جاتا ہے.وہ مذہب سچا نہیں ہو سکتا جس میں گناہ کی سزا نہ ہو.بلکہ صرف تو یہ تو یہ کہہ دینے سے دو گناہ معاف ہو جائے.در اصل یہ سزا اعتراض تو بہ کے معنی سمجھنے سے پیدا ہوا ہے اور نیز اس خیال
.༥༤་ سے پیدا ہوا ہے کہ اسلام گناہ کو بے سرا کے چھوڑ دیتا ہے.اگر توبہ کے حقیقی معنی اور گناہ کے سنرا کی نوعیت معترض پر واضح ہو جائے تو امید ہے کہ پھر ایسے اعتراض کی گنجائش نہ ہے.میں اس مسئلہ کو دلائل سے نہیں بلکہ مثال سے واضح کرتا ہوں کیونکہ عمل کو انسان دلائل کی نسبت زیادہ آسانی سے سمجھ سکتا ہے.مثال نمبر ا مسٹر متلاشی مسیح نے اپنے دفتر کی رقم میں سے کچھ رقم کا فین کیا.کیونکہ پہلی بار ایسا کیا تھا.ان کے ضمیر نے ملامت کی اور وہ اپنے پادری صاحب کے پاس پہنچے اور کہا کہ مجھ سے ایک بڑا کام ہو گیا ہے آپ مجھے مشورہ دیں کہ کیا کروں.انہوں نے کہا کہ تم بچے دل سے خداوند مسیح پر ایمان رکھو وہ تمہارے سبب بوجھ اٹھا لے گا.اس پر متلاشی مسیح صاحب نے امنا و صدقنا کہا اور سارے گناہ کا بوجھ ان کے دل پر سے دُور ہو گیا.اور ان کی تسلی ہو گئی کہ جب میرے گناہ کا اٹھانے والا موجود ہے پھر مجھے کیا فکرہ.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اپنے بد اعمال میں اور دلیر ہو گئے اور دل کھول کر ہر نا جائز آمدنی پر ہاتھ مارنے لگنے اور اس بات پر مطمئن ہو گئے کہ ایک عیسائی کے لئے کوئی گناہ گناہ ہی نہیں.اور اس طرح کفارہ ان کی اصلاح کرنے میں فیل ہوا ؟ مثال نمبر ۲ اور ایک ماشہ نے بعض بد اطوار دوستوں کے اثر کی وجہ سے ایک نامناسب مجلس میں شمولیت اختیار کی اور حالات کا اثر ایسا ہوا کہ ان لوگوں کے ساتھ ہی وہ بھی بدکاری ہیں ملوث ہو گئے.مگر چونکہ ایک بڑا گناہ کیا تھا ان کو صبر نہ آیا اور سیدھے سوامی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے کہ مجھ سے ایک بڑا پاپ سرزد ہو گیا ہے مجھے کوئی صلاح دیں.
۶۹۵ سوامی جی نے تفاصیل سُن کر کہا کہ شاستروں میں لکھا ہے جو عورت ایسا پاپ کرے وہ دوسرے جنم میں گائے پیدا ہوگی.مرد کے بارے میں صراحت نہیں شاید وہ سانڈ پیدا ہو.یا ایسا ہی کوئی اور جنم لیتا ہو.جہانہ جی نے کہا کہ آئندہ جہنم کی بابت میں نہیں پوچھتا.اب کیا کروں اس پر سوامی صاحب سر ہلا کہ بولے کہ اب تو جو کہ چکے سو کہ چکے وہ تو معاف ہوتا نہیں اور آئندہ جو جنم لو گے وہ رکھتا نہیں.بیسن کر بے چارے واپس آگئے اور اپنے دوستوں کے سامنے یہ حال شنایا تو وہ کہنے لگے کہ بھٹی دو جنینم تو جب آئے گا سو آئے گا.تم اب کیوں ایسے پر ہیز گار بنتے ہو.اب تو تم کو سانڈ بنتا ہی ہے.وہ سزا تو مل نہیں سکتی.اس دُنیا کے مزے کیوں چھوڑتے ہو.ایک دفعہ بیل بنے یا سانڈ جنم لیا سب برابر ہے.چنانچہ ماشہ جی نے سمجھ لیا کہ جو ہو گیا اس کی تلافی نہیں ہو سکتی اور آئندہ جو ہوگا دیکھا جائے گا.اگر بیل یا سانڈ بھی بن گئے تو بھی کیا نقصان ہے.اس لئے وہ بھی بے پرواہ ہو کر دنیا کی بد اعمالیوں میں غرق ہو گئے اور آریہ محبت ان کو پاک نہ کر سکا.اور نہ آئندہ ان کی اصلاح ہوئی.مثال نمبر ۳ اب شیخ عبد التواب کا حال سینے.یہ صاحب ایک متمول باپ کے وارث ہوئے لیکن تعلیم دینی اچھی تھی اور بزرگوں کی صحبت کا فیض حاصل کر چکے تھے.باپ کی دولت ملتے ہی حسب معمول آوارہ گردان کے گرد بھی جمع ہونے شروع ہوئے اور رفتہ رفتہ بڑی صحبت اور آزادی کی وجہ سے یہ بھی پھسل پڑے.چنانچہ ایک دن یہاں تک نوبت پہنچی کہ شراب نوشی تک کا ارتکاب کر لیا.فطرت نیک تھی اور دین کا علم دل میں محفوظ نشہ اترنے کے بعد تین دن سرگرداں رہے.اپنی حالت اور اپنے خاندان کی حالت اور اپنے گناہ اور اپنی تعلیم اور ان باتوں کے نتائج پر غور کیا تو نہایت پریشان ہوئے اور
سوچنے لگے کہ کیا کیا جائے.نیر استہ تو ہلاکت کا ہے اور چند دن میں مال صحبت ، عزت اور خاندان سب کی تباہی ہے.اور اس سے زیادہ خدا کی ناراضی.اس وقت ان کے استاد صوفی حقیقت الدین کی تعلیم ان کے کام آئی اور انہوں نے اللہ کہ پہلے غسل کیا.پھر اپنے کرے کا دروازہ بند کر کے نفل نماز میں کھڑے ہو گئے.اور نہایت گریہ وزاری اور عجز و انکسار سے اس نماز کے ہر رکن کو ادا کیا.سرجھکا ہوا تھا.اور آنکھوں سے مسلسل اشک رواں تھے.قیام میں نہایت عاجزی سے یہ دعا کی کہ یا اللہ میں نے بڑا گناہ کیا ہے.تیرے حکم کی مخالفت کی اور اپنے نفس پر سخت ظلم کیا.میں اپنی نالائقی کا اقرار کرتا ہوں.میں سخت نادم اور شرمندہ ہوں.مجھے معاف فرما اور درگزر فرما.نہیں نالائق کمزور اور بے مجھے بندہ ہوں میری چشم پوشی اور پر وہ پوشی فرما.اسی در کے سوا اب کہاں معافی مانگنے جاؤں کہ تیرے ہوا کوئی بخشنے والا نہیں.غرض پڑے سوز و گداز سے وہ اپنے گناہ کا اقرار کرتے اور اپنے خدائی سے معافی مانگتے رہے.رکوع میں گئے تو اس سے بھی زیادہ رقت تھی اور بار بار عاجزانہ کہتے تھے کہ اے میرے خداوند جہاں تک میری طاقت اور سمجھ ہے آئندہ ساری عمر کبھی ایسا فعل پھر نہیں کروں گا.کبھی نہیں کہ دوں گا کبھی نہیں کردوں گا.کبھی نہیں کروں گا اور پکا عہد کرتا ہوں کہ اگر انسان کی نسل اور مسلمان کا فرزند ہوں تو اب ہرگز ہرگز ایسی بات کے پاس بھی نہیں بھٹکوں گا.اے میرے رب میں بچے دل سے تیری ہی قسم کھا کہ اقرار کرتا ہوں کہ مجھ سے پھر ایسی غلطی سرزد نہ ہو گی.مجھے معاف کر کہ تو غفور و رحیم ہے اور مجھے طاقت دے کہ میں اپنے تو بہ کے عہد پر قائم رہوں کہ تیرے فضل اور رحم کے سوا میں کمزور ہوں.سجدہ میں گئے تو سوز و گداز اور بھی زیادہ ہو گیا.اور سر نیاز کو زمین پر رکھتے ہی عبدالتواب کی چیخیں نکل گئیں اور انہوں نے اپنے رب کے حضور گریہ کیا کہ عرض کیا کہ اسے میرے اللہ جو کچھ سرزد ہو چکا اسے معاف فرما اور آئندہ کے لئے توفیق دے کہ پھر ایسی بات میں مبتلا نہ ہوں اور میرے عہد کو نبھانے میں میری مدد کہ جو غلطی کر چکا ہوں وہ پھر نہ
کروں اور اس کی جو مزا ہے اس نے مجھے محفوظ رکھے.کیونکہ تو معاف کرنے پر بھی ویسا ہی قادر ہے.جیسا سزا دینے پر مجھے اپنے اعمال نامے سے اس برے عمل کے دھونے کے لئے توفیق دے.تا ہمیں اس کے مقابل پر کثرت سے نیک عمل کروں اور تیری مخلوقات کو بھی جو اسی طرح کی گندگیوں میں پڑی ہے ایسے گناہوں سے نکالوں اور ان کی زندگی کو درست بناؤں.غرض شیخ عبد التواب کی وہ نماز تو یہ کیا تھی وہ ان تمام سزاؤں سے بہت سخت سزاستی جو کوئی گورنمنٹ یا پولیس یا برلوری یا حاکم کسی مجرم کو دے سکتے ہیں بلکہ ان سزاؤں سے تو ملزم بچنا چاہتا ہے اور اگر دی جائیں تو اس کے اندر مترا کے بعد ایک جذبہ کینہ اور غصہ کا اس کے یہ خلاف پیدا ہوتا ہے اور ہر گرنہ آئندہ کی اصلاح نہیں ہوتی.۳۰ سال کی قید با مشقت اور ہزار بید پشت پر وہ ندامت اور دل کی نرمی پیدا نہیں کر سکتے جتنا انسان کے اپنے نفس کی سچی تو یہ.اور تمام خلائق کی لعنت و سلامت وہ اصلاح انسان کے اندرونہ کے نہیں کر سکتی جتنا تائب ضمیر کی روحانی گذازگی.اور ہزار آدمیوں کی ضمانتیں کسی انسان کو آئندہ کے لئے اس جرم سے نہیں روک سکتیں چنانچہ سچی توبہ کے وقت کا ولی اقرار جو وہ اپنے خدا کے آگے سر جھد کا کرہ کرتا ہے کہ اب آئندہ مجھ سے ایسا فعل سرزد نہیں ہوگا.اور کوئی سخت سے سخت سزا کسی گنہگار انسان کو آئندہ کے لئے نیکو کار نہیں بنا سکتی مینا ایک بچے تو بہ کرنے والے کا عہد کہ میں ہمیشہ اس گناہ کی تلافی کے لئے اس کے بالمقابل کی نیکیاں نہ صرف خود کروں گا بلکہ سوسائٹی میں سے اس بدی کی جھڑا کھیر کہ نیکی کے پودوں کی نشو و نما کمروں گا.چنانچہ عبد التواب نے ایسا ہی کیا اس کے تین دن جو تو یہ استغفار میں گزرے وہ ایک جہنم کی سزا کے دن تھے ضمیر اس کو سیٹ کار رہا تھا اس کی عقل اس کو شرمندہ کر رہی تھی اس کا دین اس کو علامت کہ رہا تھا حتی کہ آخر اس نے سچی توبہ کا فیصلہ کر لیا وہ اس سے زیادہ رویا جتنا کسی عدالت سے سزا پانے پہ روتا ہے.اس کا عہد ہزار رجسٹریوں سے
۲۹۸ زیادہ پختہ عہد تھا اور اس کی آئندہ زندگی ایسی پاک ہو گئی جیسا بھٹی سے نکل کر سونا گندن ہو جاتا ہے.چنانچہ ایسا ہوا کہ نہ صرف اس نے اس گناہ سے بلکہ ہر گناہ سے توبہ کی اور آئندہ ہمیشہ وہ لوگوں کی اصلاح میں مصروف رہا.بیسیوں شرابیوں سے اس نے شراب چھڑائی اور سینکڑوں بد اعمال اس کی صحبت میں بیٹھ کر نیک کردار بن گئے.گناہوں کا حقیقی علاج تو بہ ہی ہے اب اسے پادری اور مہاتہ صاحبان سچ بتائیے کہ گناہ کی سزا عبد التواب کو ملی یا ان دوسرے دونوں صاحبوں کو جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے پھر یہ اعتراض کہ تو یہ ایک بہانہ ہے اور بے سزا کے گناہ کا معاف ہوتا ایک بیہودگی ہے کہاں تک درست ہے ؟ بات یہ ہے کہ آپ کو خود کبھی سچی توبہ کی چاشنی نصیب نہیں ہوتی.میرے دوستو فرق صرف یہ ہے کہ آپ کی تجویز کر وہ سزا جسمانی اور ہلکی ہے اور توبہ کی سزا روحانی اور شدید ہے آپ کی سزا کے بعد انسان پھر گناہ کرتا ہے بار بار کرتا ہے بلکہ ولیر اور ڈھیٹ ہو جاتا ہے اور سچی توبہ کی سزا بھگتنے کے بعد نہ صرف وہ خاص گناہ نہیں کرتا بلکہ دوسرے گناہوں کو بھی ترک کر دیتا ہے اور نیکی میں ترقی کرتا ہے.خدا آپ کو بھی سچی توبہ نصیب کرے.اف وہ ندامت یا وہ ذلت کا احساس ! وہ دل کھیل کر نکلنے والے آنسو یا دہ سوزوگداز یا وہ کلیجہ بھون کر باہر نکلنے والی افسوس کی آہیں نا اسے آریہ مت والو ! تم نے یه خوفناک سزائیں دیکھی ہی نہیں.وہ اپنے آقا کے سامنے ہاتھ جوڑنا وہ اس کے پیروں پر یسر رکھ کر گڑ گڑا کر معافیاں مانگتا.وہ قسمیں کھا کھا کر آئندہ اس کی نافرمانی سے بچنے کا عہد کرنا دہ ساری عمر تلافی مافات کے طور پہ نیک اعمال کرنے کی کوشش میں لگے رہنا.اسے پادری صاحبان آپ نے ان باتوں کی چاشنی چکھی ہی نہیں ! پھر ایسی سچی توبہ کے بعد ضمیر نے سے بوجود اُتر کم اس کا ہلکا ہو جاتا اور اپنے خدا
میں اپنی پناہ اور ابدی راحت محسوس کرنا اور اس رب العالمین تواب الرحیم کا بھی تو یہ کو قبول کر کے اس عاجز بندے کو قبولیت کا نشان دنیا اور رجوع بر حمت کر کے اس کی زندگی کو نیکی اور فضل سے معمور کر دینا اور آئندہ گناہ سے بچنے کی طاقت بخشنا اور ایسے تائب بندے کے ساتھ پہلے سے زیادہ محبت اور کرم اور رحم سے پیش آنا اس کی پردہ پوشی کرتا اور اس کے گناہ کی سزا سے اُسے محفوظ رکھنا اور اسے روحانیت کے میدان میں پڑھنے کی قوت عطا فرمانا.اسے تائب احمدی ) (تمہارے سوا کوئی ان رازوں سے واقف ہی نہیں.استدامه الفضل ۲۰ جولائی ۱۹۶۲ء
مرزا غالب اور ان کے طرفدار حضرت ڈاکٹ میر محمد اسمعیل صاحب کے مجموعہ کلام بخار دل میں ایک شگفتہ تحریر مرزا غالب اور ان کے طرف دار کے عنوان سے شائع شدہ ہے.عنوان کے نیچے ایک غزل (غالب کے رنگ میں لکھا ہے.مضمون کا متن یہ ہے مرزا غالب شکل گوش مر بھی تھے اور فلاسفر بھی.لیکن جب جام دو آتشہ کے نشہ میں شعر کہتے تھے تو کبھی کبھی کوئی لفظ یا نفره شعر می محذوف بھی ہو جایا کرتا تھا.اگرچہ کینچ تان کہ اس شعر کے معنے تو نکل سکتے تھے مگر اس کھینچا تانی کے لئے بھی ماڈرن دماغ ہی چاہیے تھا.شاعر پرستی بھی ایک فیشن ہے.اس موجودہ زمانہ میں جب غالب بے حد ہر دو عربی ہوگئے ہیں تو ہر شخص خواہ لائق ہو یا نالائق ان کی تائید کرنے لگا ہے.لیے معنی اشعار کے معنی نکلنے لگے ہیں.اور ٹٹ پونجھے بھی غالب دان بن گئے ہیں.جو باتیں مومن زوق اور دیگر آئمہ الشعراء کی سمجھ میں نہ آئی تھیں وہ آج کل کے سینما بین نوجوانوں کو نظر آنے لگی ہیں.اس زمانہ کے ایک مشاعرے میں ایک بڑے قادر الکلام شاعر نے خود مرزا غالب کو مجلس میں مخاطب کر کے یہ کہا تھا کہ کلام میر سمجھے اور کلام میرا مجھے مگر اُن کا کہا یہ آپ مجھیں یا خدا سمجھے اور غالب آپ بھی اپنے اس نقص کے معترف تھے کہ میرے بعض اشعار بے معنی ہوتے ہیں.چنانچہ خود ان کا ہی کلام ہے کہ سو
نہ سہی گہ میرے اشعار میں معنی نہ سہی میرا یہ مطلب نہیں کہ غالب معمولی شاعر تھے.بلکہ مطلب یہ ہے کہ گو وہ نہایت اعلیٰ اور فلسفیانہ اشعار کہتے تھے مگر بعض اشعار ان کے مشکل اور دقیق اور بعض واقعی بے بنی ہوا کرتے تھے.اور سب اہل الرائے اوریوں اور شاعروں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے.مگر آج کل ایک فرقہ ایسا پیدا ہو گیا ہے جو ان کو نا واجب طور پر آسمان پر چڑھا رہا ہے.اپنی میں سے ہمارے ایک دوست محمد جی صاحب بھی تھے.وہ کہا کرتے تھے.واہ غالب.غالب.غالب تیرا کلام کیسا عجیب ہے.میرے نزدیک تیرا ایک شعر بھی بے معنی نہیں ہے.ایک بندکش بھی بغیر خوبی کے نہیں ہے.وہ لوگ بد تمیز ہے علم اور احمق ہیں جو تیرے اشعار کو مشکل یا بے معنی کہتے ہیں مجھ سے پوچھیں تو میں ان کو تیرے اشعار آب دار کی تغییر کر کے بتاؤں.جولائی شاہ کا زمانہ تھا کہ ایک دن جب میں ایسے فقرے سنتے سنتے تھک گیا تو ان سے عرض کیا کہ بھائی محمد جی صاحب ہمارے پاس بھی آپ کے سکریم محترم غالب کی ایک غیر مطبوعہ غزل ہے.جب جانیں تم اس کے صبح پینے کر دو.ورنہ شیخی بگھارنا کوئی خوبی نہیں کہنے لگے ابھی لائیے ابھی.میں نے عرض کیا کل پیش کروں گا.چنانچہ رات کو مہاری پارٹی نے غالب بن کر ان کے طرز کی ایک غزل بنائی.اس سازش میں تین چارہ آدمی شریک تھے.دوسرے دن جب محمد جی صاحب تشریف لائے تو ہم نے وہ غزل پیش کی.پہلے تو دیہ تک اُسے پڑھتے رہے.پھر فرمانے لگے.بے شک ہے تو یہ غالب ہی کی پھر بھومنے لگے واہ کیا کلام ہے.کیا باریک نکات ہیں.کیا الفاظ کی بندش ہے، کیا گہرائیاں ہیں.کیا معانی ہیں بس قربان ہونے کو جی چاہتا ہے.یہ کہ کہ انہوں نے ایک ایک شعر کی باریکیاں اور معنے بیان کرنے شروع کئے جب آخری شعر کی تفسیر سے فارغ ہوئے تو حاضرین نے ایک قہقہ لگایا.پھر تالیاں پیٹیں.اور
آخر میں تین دفعہ ہپ ہپ ہرے کا نعرہ بلند کیا.محمد جی صاحبہ بیچارے پریشان سے ہو گئے.کہنے لگے کیا بات ہے.آخر جب اصل بات معلوم ہوئی تو شرمندگی کے مارے ان کی یہ حالت ہو گئی کہ جیسے گھڑوں پانی سر پر پڑ گیا ہو.بار بار پوچھتے تھے کہ سچ بتاؤ.واقعی یہ غزل غالب کی نہیں ہے.کہیں مجھے بنا تو نہیں رہے.مگر جب انہیں یقین آگیا تو پھر ایسے فرد ہوئے کہ مدتوں تک ان کی زیارت نصیب نہ ہوئی.اس کے بعد جب بھی ملے تو اکھڑے اکھڑے.اور اس واقعہ کے بعد تو انہوں نے غالب کا نام ہی لینے کی گویا قسم کھالی.ناظرین کے تفنن طبع کے لئے وہ غزل درج ذیل ہے.رواضح ہو کہ اس واقعہ سے غالب مرحوم کے کمال اور ان کی شاعری کی سبکی یا تو میں ہرگز مقصود نہیں بلکہ موجودہ زمانے کے بعض غالب شناسوں کی حالت کا دکھانا مقصود ہے)
غزل کے چند اشعار : سوزش دل تو کہاں اس حال میں جان و تن ہیں سوزن جنجال میں چشم بینا چشمه منقار ہے وقت افعال ہے اقوال میں نور کا عالم پوری ہو یا کہ جور ہے صفائی سیم تن کی کھال میں پر نفس کہنا بعد سے لگاؤ میش روغن گل بیضئہ گھڑیال میں غالب تیره دروں بیرون سیاه زلف مشکیں پنجه خلخال میں استشمار دل)
۰۴ دعا کی برکات.ذاتی تجربات اپنے فن یعنی شفائے امراض کی لائن میں تو میں نے اس قدر عجائبات خدا تعالیٰ کے فضلوں اور دعا کی قبولیتوں کے دیکھتے ہیں کہ کوئی شمار و حساب نہیں.مثلا ڈاکٹروں کی دلچسپی کے لئے لکھتا ہوں کہ ایک دفعہ حضرت مولوی عبد القادر صاحب مرحوم کی آنکھیں میں نے بنائیں اور دونوں ایک ہی دفعہ چوتھے دن پٹی کھولنے پر دیکھا تو دونوں Plastic Iritis یعنی اندرونی پردوں میں سوزش اور ورم آنکھوں میں سخت تھا بلکہ دونوں Ant Chambers اس طرح بھرے ہوئے تھے.جیسے پیپ سے بھرے ہوئے نہیں مجھے مرحوم کے ساتھ بہت انس تھا اس لئے بہت بے قرار ہوا.حضرت صاحب کے گوش گزار کر کے دُعا کے لئے عرض کیا.اور حضرت اماں جان سے بھی.نیز خود بھی بہت دُعا کی.چنانچہ دیکھتے دیکھتے چند دنوں میں ہی بلکہ ایک ہفتہ کے اندر دونوں آنکھیں بالکل صاف ہوگئیں.اور جیسا کہ عموما قاعدہ ہے مجھے بھی اس مرض کے Double Plastic Iritis کوئی نشان یا آثار باقی نہ رہے.اور وہ دونوں آنکھوں سے بالکل جنگے پہلے ہو گئے.ورنہ اس طرح سخت قسم کے کا جو اتنے جلدی آپریشن کے بعد پیدا ہوا ہو.اس طرح کامل طور پر صاف ہو جانا کہ گویا کہ کوئی بیماری ہی نہیں : ہوئی.اور دونوں آنکھوں کا اس طرح بچے جاتا میرے علم میں کبھی نہیں آیا.بلکہ لوگوں کو اندھا ہوتے ہی دیکھا ہے.غرض نا امید بیماروں کی شفا کے نمونے بیان کرنے لگوں.تو یہ مضمون الف لیلہ ہی بن جائے ، اور سنو ۱۹۰۵ء میں میں لازم ہوا اور ملازم ہوتے ہی تین ماہ کے اندر اتنا مفروض
6-8 ہو گیا.کہ اس سے مجھے سخت تکلیف محسوس ہوئی اور اتنی پریشانی بڑھی کہ آخر میں نے دعا کی کہ یا اللہ مجھے کبھی قرض کی بلاہیں نہ پھنسا ئیو اور پھر اسی وقت یقین آگیا کہ اب یہ منظور ہوگئی.اب تیس سال کے بعد میں اس بات کے اظہار میں کوئی حرج نہیں دیکھتا کہ میں یہ بیان کردوں کہ پھر کبھی مجھ پر کسی قسم کا قرضہ نہیں چڑھا اور میں ان تیس سال کی ہر رات قرضے کی طرف سے اس آرام اور بے فکری کی نیند سویا ہوں کہ میرا دل ہی اس احسان الہی کی قدر کر سکتا ہے.جب میں لوگوں کو قرضہ کی تکالیف اور وعدوں پر ان کی ادائیگی کے لئے اضطراب کو دیکھتا ہوں تو ہزار نعمتوں کی ایک نعمت اسے پاتا ہوں.اور ہمیشہ دیکھتا ہوں کہ اگر میں کسی دن مرجاؤں تو انشاء اللہ کسی کا مقروض نہیں مروں گا اور اگر دست گرداں شائد کسی کا کچھ روپیہ دینا بھی ہو تو وہ اس کے فضل سے گھر میں موجود ہوگا.اور آئندہ کی بات معلوم نہیں.اور خدا کا علم سب علموں پر غالب ہے اور اس کا امراض کے علم پر غالب ہے.اور وہ خود اپنے امر پر غالب ہے.بات میں سے بات نکل آتی ہے.اس لیے فکری کی نیند پر مجھے یاد آیا کہ ایک اور وجہ بھی بے فکری کی نیند کی ہے.جو حضرت خلیفہ ایسیح نے ایک دفعہ اپنے لیکچرمیں بیان کی تھی.وہ یہ کہ جب انسان سونے کے لیے لیٹے تو اس وقت تمام لوگوں کے قصور معاف کر کے سوئے ہیں اس وقت سے اس پر عامل ہوں اور دل ہی میں نہیں بلکہ زبان سے ایسے الفاظ ادا کر کے سوتا ہوں کہ میرے ذمہ کسی کا قصور نہیں.خداوند تو گواہ رہو لہ میں نے جو قصور کسی کا میری ذات کے متعلق تھا وہ معاف کر دیا.سو اس دن سے عجب راحت سوتے وقت اور عجیب معافیاں اپنے گناہوں اور غفلتوں کی اس رب العزت کی طرف سے پاتا ہوں.بعض چھوٹے چھوٹے واقعات قبولیت دعا کے بڑے مزیدار ہیں.مثلاً ایک لمبا سفر رات کا پیش آگیا.میں دائم المریض ساری رات کا سفر اور جانے کا موسم.پرتھ ریزرو کھانے کا موقع نہیں طا.ڈھائی ٹکٹ لیا ، سوار ہوئے اتمام میتھ ریند و شدہ پائے.آدھ گھنٹہ پہلے
6.4 سب مسافراد پر نیچے اپنے ہر تھوں پر دراز اور ہم ہیں کہ ڈبہ کے دروازے میں اس کے فضل کے انتظار میں کھڑے ہیں.اتنے میں ایک شخص پانچ منٹ ٹین کی روانگی سے پہلے آیا اور جبریہ ایک مسافر کو اوپر کے یہ تھے سے اتار کر لے گیا کہ کل چلے جانا آج فلاں کام بڑا ضروری رہ گیا.ہے.اب وہ ہر تھے اوپر کا تھا اور مجھے اوپر تکلیف ہوتی ہے اس لئے میں نیچے کا یہ متھ چاہتا تھا.اتنے میں ایک انگریز نیچے کے برتھ سے اٹھا اور مجھے مخاطب ہو کر کہنے لگا مجھے امید ہے آپ کو اعتراض نہ ہوگا اگر میں اس اُوپر والے خالی برتھ پر سو جاؤں مجھے یہ نیچے کی جگہ پسند نہیں (شاید اس لئے کہ اسکے دونوں طرف نیٹو ، یعنی کالا لوگ سورہا تھا آپ میری جگہ اس درمیانی یر تھے پر آرام کریں میں بہت مشکور ہوں گا میں نے کہا اچھا اور میں اپنا لیستر بچھا کر لیٹ گیا.گر نیند کہاں.اس ذرا سے واقعہ نے میرا دل اس میرے اپنے امیرے رفیق میرے رحیم و کریم اور میر نے پرسنل خدا کے احسان کے شکر میں بالکل پگھلا دیا.ایک دفعہ میرا تبادلہ شملہ کا ہو گیا.وہاں ایک ایسے کہ تل (کرنل جو ڈوائن) سول سرین تھے.جن کی سخت زبانی اور سخت گیری کی شہرت اس قدر تھی کہ میں نے روانہ ہوتے وقت بہت دعا کی کہ خدایا تو مجھے ہرقسم کی سختی سے بچائیوں.غرض میں شملہ پہچا تو معلوم ہوا کہ وہ چارے کل سے بیمار ہیں اور واکر Walker ہاسپٹل میں داخل ہو گئے ہیں.ایک ہفتہ یا عشرہ کے بعد معلوم ہوا کہ ان کو ڈاکٹری سرٹیفیکیٹ ویل ڈائیریا Hill Diarrhea کا دیا گیا ہے اور وہ لمبی چھٹی پر ولایت جا رہے ہیں.غرض دس روز بعد وہ وا کہ اسپتال سے بالا بالا ہی ولایت ہمیشہ کے لئے چلے گئے.نہ پھر مہندوستان میں آئے نہ میں نے ان کی شکل کبھی دیکھی.اور خدا تعالیٰ نے ان کی جگہ ایک نیک نہا دوافسر کو تیل پہلے کو جو اتفاقی شملہ پر رخصت لے کر آئے ہوئے تھے وہیں لگوا دیا.اور وہ میرے بڑے محسن ثابت ہوئے.یہاں تک کہ جب میں تبدیل ہو کہ لائلپور جانے لگا تو انہوں نے اپنی لائبریری میں سے مجھے کئی قیمتی کتابیں بطور تحفہ دیں.
6.6 اب اس سے بڑھ کر لو یا ایک سال اس جگہ جہاں میں متعین تھا ایک سخت عالمگیر قسم کی مصیبت آئی.اس میں خدا تعالیٰ کی حکمت سے ایسے اسباب امتحان کے پیدا ہو گئے کہ سب سے زیادہ میرا مالی نقصان ہوا اور صحت کو سخت دھکا لگا.اور کام نے مجھے توڑ دیا.لیکن بعض لوگوں نے میری باتوں کو بڑے رنگ میں مشہور کیا اور میری بعض باتوں کی رپورٹ طلاء القوم میں سے ایک بڑے آدمی کی معرفت نامناسب کرائی گئی وہ میرے مخالفین کی پشت پر تھا.اس نے بعض اختیارات میرے سلب کر لئے اور اپنے لوگوں کے سپرد کر دیئے جو ایک شریف آدمی کی توہین کے طریقے تھے.وہ سب اختیار کئے گئے ہیں ڈر کے مارے دُعا بھی نہیں کرتا تھا کیونکہ میں نے اس مصیبت میں امتحان کا رنگ محسوس کر لیا تھا.مگر بہر حال گو لفظی سوالی نہ تھا صورت سوالی ضرور تھا.آخر پڑے تونغا کے بعد یوں ہوا کہ ایک شخص کو خدا تعالیٰ نے میری طرف سے خود بخود میرا وکیل بنا کہ کھڑا کر دیا اور اس نے بغیر میرے علم اور اطلاع کے ایک ایسا ایڈریس حاکم وقت کے سامنے پیش کیا کہ حاکم نے میرا نام لے کہ میرے کام کی تعریف اس ایڈریس کے جواب میں کی پھر شام کو ایک دوسرے حاکم نے مجھے کہا کہ معاملہ ہم پر کھل گیا ہے.کہ یہ لوگ پشت کی طرف سے تم پر چھری چلا رہے تھے.سرکار نے مجھے نقصانات کا کچھ معاوضہ بھی دیا اور خطاب بھی اور میرے خدا نے بہت بہت بہت زیادہ مجھ پر انعام فرمایا.اور ان لوگوں کی پارٹی ٹوٹ گئی اور و منتشر کر دیئے گئے.ہمیں قادیان میں رخصت پر آیا پھر میں اپنی بیوی کی بیماری کے علاج کے لئے لا مور گیا.جس روز ہم نے قادیان واپس آنا تھا اس سے ایک دور در پہلے سارا شہر بلکہ سارا صوبہ زلزلہ کی زد میں آگیا.وہ بڑا آدمی جو جوان اور مٹائٹا تندرست تھا اور میں کی طاقت پر ان لوگوں نے ریشہ دوانیاں کی تھیں اور میری ذلت کے در پلے ہوئے تھے.عین اسی روز اس نے ایک بڑی بھاری دعوت کی اور جب وہ ختم ہوئی تو آدھ گھنٹہ بعد بے چارا دم کے دم میں رخصت ہوا.سو خدا مجھے قادیان لے گیا اور میرا سالانہ جلسہ جو میں نے تین سال سے (الا ما شاء الله) کبھی ناغہ نہیں کیا تھا اس سے جبر یہ مجھے جدا کیا کہ چل موقعہ پر چل میں تجھے کیا بات دکھاتا ہوں.
C.^ سو کیا عظمت اور شفقت ہے اس خدا کی جو اپنے ذلیل بندوں کا ایسا خیال رکھتا ہے جیسا ایک ماں بھی نہیں رکھتی.اور دکھاتا ہے میں یوں بھی کیا کر تا ہوں.اس کے بعد اس نے مجھے ایک نہایت عمدہ جگہ پر میری مرضی دریافت کر کے بھیج دیا اور وہاں میرے کاموں کے بوجھ ہلکے کر دیئے اور تنخواہ بہت بڑھا دی.اور کیا بیان کروں کیا کیا احسانات کئے جن میں سے بعض نا قابل بیان ہیں اور ایک یہ بھی کہ اس متوفی کی بیوہ اور بچوں کے علاج معالجہ کی مدت دراز تک مفت اور خاص توجہ اور شفقت کے ساتھ توفیق دی کہ خود مجھ پر یہ ثابت کر دے کہ میرے دل میں اس سے کسی قسم کی عداوت نہ تھی بلکہ وہ الہی تقدیر تھی جویر امیر است ١٩٢٤ء نازل ہوئی تھی.غالبا شوراء کا واقعہ ہے کہ میرا تبادلہ گورداسپور سے گوجرہ کا ہو گیا.میں سیدھا اپنی موٹر سائیکل اور سائڈ کار بذریعہ نہر کی بیٹری قادیان ہوتا ہوا آگے چلا.ایک کرایہ کا مستری موٹر سائیکل کو چلا رہا تھا اور میں سائڈ کار میں بیٹھا تھا.جب ہم دونوں قادیان سے اٹھارہ میں میل نکل آئے تو وہ موٹر سائیکل ایک جگہ نہر کے کنارے یکدم ٹوٹ گیا.جنڈیالہ ریلوے اسٹیشن وہاں سے کئی میل تھا.میں نے مستری کو تو کہا کہ نزدیک کسی گاؤں میں جا کر کوئی گڈا کیا یہ پہ لے آئے اور خود نہر کے کنارے دُعا میں مصروف ہو گیا.خیر ایک دو گھنٹ میں ایک ٹوٹا پھوٹا گڈ تو آ گیا اور موٹرسائیکل بھی اس پر لاو دی مگر مجھے یہ تشویش کہ اب غروب آفتاب کا وقت ہو گیا ہے اور جنڈیالہ پانچ سات میل ہے اور راستہ میں بالکل جنگل ہے.نہ مستری قابل اعتماد ہے اور نہ گڑے والے سکھ قابل اطمینان معلوم ہوتے ہیں.اور میری جیب میں کافی نقدی موجود ہے.میرے لئے رات کو اتنا چلنا بھی مشکل ہے.خدایا تو ہی کوئی انتظام کہ ابھی ہم روانہ بھی نہ ہوئے تھے کہ اتنے میں پیچھے سے موڑ کا ہارن سنائی دیا.میں نے کہا کہ کوئی انگریز ہو گا جو دورہ یا سفر یہ جارہا ہو گا اتنے میں وہ کا ریکدم میرے منہ کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی.حیران رہ گیا جب اندر حضرت صاحب اور چوہدری
4-9 ظفر اللہ خان صاحب کے چہرے نظر آئے پہلے دھوکہ ہوا کہ یہ یہاں کہاں ؛ شاید میرا خواب ہے یا دہم.مگر جب وہ ہنسے اور بولے تو مجھے یقین آیا کہ فرشتے نہیں بلکہ انسان ہیں.لیں میں ان کے ساتھ بیٹھ گیا اور سیدھا چوہدری صاحب کی اس کا رمیں لاہور تک آ گیا.یہ سب لوگ سہنسی خوشی کی باتیں کر رہے تھے.مگر اس مجیب اور بہ وقت آسمانی مدد سے میر اول شکر کے جذبات سے آتا لبریز ہو گیا تھا کہ سارے راستے میں بڑی مصیبت سے اپنے تئیں ضبط کرتا آیا.ورنہ روتے روتے شاید میری چیخیں نکل جائیں.لوگ ان باتوں کو اتفاقی سمجھیں مگر جس پر گزرتی ہوں اس کے دل سے پوچھنا چاہیئے.کہ آقا کے احسان غلاموں پر کس طرح ہوتے ہیں اور تکلیفوں سے وہ ان کو کسی طرح نجات دیتا ہے اور کسی کسی رنگ میں اور یہ لطف ہمیشہ اپنی کو آتا ہے جو کسی واقعہ یا حادثے کو دنیا میں اتفاقی نہیں سمجھتے بلکہ ان کا ایمان ہوتا ہے.کہ بلا مشیت اور ارادہ الہی کے کوئی بات بھی دنیا میں ظہور پذیر نہیں ہوتی اور نہ ہو سکتی ہے.واقعات کو اتفاقی کہہ دینا اور It happened by chance کا نقرہ منہ پر لانا صرف دہریوں کا کام ہے یا ان لوگوں کا جو بہت سی باتوں کو تصرف اہلی سے باہر یقین کرتے ہیں.ہیں اتفاق ، اور Chance کا خیال بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ پھر ان کا دل کہتا ہے کہ جب سو میں سے پچاس با تیں اتفاقی بغیر کسی ارادے اور مشیت کے خود بخود قانون قدرت میں واقعہ ہوتی رہتی ہیں تو باقی پچاس بھی ایسی ہی مان لو اور تمام انتظام کو اتفاقی سمجھ کر کسی مدیر بالا رادہ، علیم، لطیف، خیر ستی کا انکار ہی کر دو اور اپنے سر سے ایک خواہ مخواہ کا بوجھ اتار پھینکو سویہ بھی ہے ایک وجہ مہر یہ ہونے کی اور علاج اس کا یہی ہے کہ تم کبھی یوں نہ کہو کہ فلاں بات اتفاقاً ہو گئی ہے یا فلاں حادثہ اتفاقاً پیش آگیا ہے بلکہ ہمیشہ یوں کیا کردو کہ خدا کا کرنا ایسا ہوا یا اللہ تعالیٰ نے یوں چاہا.تب خدا کے فضل سے تم منفی دہریت کی آگ سے محفوظ رہو گے جو آج کل دنیا پر مسلط ہو رہی ہے.
61.اگر اسی طرح قبولیت دعا کے نمونے ہر احمدی اپنی ذات میں دیکھے تو حیران رہ جائے.مگر بات اتنی ہے کہ بعض لوگ دیکھتے ہیں مگر غور نہیں کرتے اور ہر دعا کے آئینہ ہیں اپنے رب کے چہرے پر نظر نہیں ڈالتے بلکہ صرف مطلب لے کر اور آئینہ اوندھا رکھ کر واپس چلے آتے ہیں.پس ڈھونڈو اپنے رب کو اپنی دعاؤں میں اور ان دعاؤں کی قبولیتوں میں اور تم پاؤ گے اس کو چھپا ہوا وہیں جہاں تمہاری دعا ہے.چونکہ دُعا کا مسئلہ اس وقت در پیش ہے ، اس لئے آخر میں میں بھی خلاف اپنی قدیم نامناسب عادت کے پڑھنے والے احباب کی خدمت میں یہ التماس کرتا ہوں کہ وہ میرے لئے بھی فلاح دارین کی دعا کریں اور یہ کہ مجھے اور میرے اہل و عیال کو خدا ہدایت نصیب کرے اور صراط مستقیم پر ہمیشہ قائم رکھے اور ہمیں اپنی قبروں کے لئے کچھ جگہ مقبرہ بہشتی ہمیں مل جائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں جسمانی اور روحانی رزق دے کر اپنی معرفت، محبت عبدیت اور قرب کی چاشنی عطا فرمائے اور اپنی دائمی رضا سے سرفراز کرے، اپنے کلام معینی قرآن مجید اور کتاب حکیم سے مناسبت بخشے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب ہو.حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) کے قدموں میں حشر ہوا اور حضرت خلیفہ ایسے میرا جنازہ پڑھائیں اور میت کو اپنا کندھا دیں.آمین.اور ساتھ یہ فضل ساری جماعت پر ہوں کیونکہ بغیر سب کی شمولیت کے کچھ لطف اور کچھ مزا نہیں اور ساری جماعت سے مراد نہ صرف موجودہ بلکہ گزشتہ اور آئندہ سب کی سب جماعت ہے.آمین.الفضل ۱۷ فروری ۱۱۹۶۱)
دعاؤں کی درخواستیں حال ہی کا ذکر ہے کہ متفرق اوقات میں مجھے چند آدمی ملے.جن کا ذکر کرنا کچھ مناسب سمجھتا ہوں.پہلے صاحب فرمانے لگے (سلام و دعا) مزاج شریف.میرے لئے دعا ضرور کیجئے.ضرور، ضرور بالضرور.یاد رکھیں بھول نہ جائیں.آج کل کچھ تنگی ہے.دوسرے صاحب نے کہا اسلام و دعا) غریبوں کو آڑے وقت کی دُعا میں ضرور یاد رکھیں.ہمارے گھر میں کچھ تکالیف ہیں.تیسرے صاحب نے فرمایا ( سلام و دعا) در دول سے دُعا کی ضرورت ہے.امید ہے آپ ضرور ہماری درخواست کو قبولیت دیں گے.امسال میرے لڑکے نے امتحان دیا ہے مقابلہ کا.چوتھے صاحب بولے.(سلام و دعا) بھائی جی مجھے آج کل بڑے ابتلا ہیں اور ہم دعا کے مقامی ہیں.بڑے ہی محتاج ہیں.فجر سے پہلے کی عبادت کی دُعا کی ضرورت ہے.ام اللیل چاہئیں.ایک مقدمے میں بے گناہ پھنس گیا ہوں.پانچویں صاحب یوں گویا ہوئے اسلام و دعا ) امید ہے دعاؤں میں آپ مجھے اور میرے بیوی بچوں کو یاد کرتے ہوں گے.خاص دعا درکار ہے.آپ سے درخواست ہے ہمارا تو آپ لوگوں پر بھروسہ ہے.میں آپ کو بذریعہ خط یاد دہانی کرواتا رہوں گا.آج کل گھر کے سب لوگ بیمار ہیں.
۷۱۲ چھٹے صاحب نے کہا اسلام و دعا) ہمارے تو سارے کالم دعاؤں سے ہی چلتے ہیں.میں آج کل ان کی بڑی خاص ضرورت درپیش ہے.خاص کہ میرا تو سارا کام دعاؤں سے ہی ہوتا ہے.دعاؤں سے بیٹا نصیب ہوا.دعاؤں سے مقدمے سے خلاصی ہوئی.دعاؤں سے ملازمت ملی.ہمارا تو سارا انحصار ہی دعاؤں پر ہے.اب فصلوں کو نقصان پہنچ رہا ہے.اس کے لئے دعا فرمائیے.ساتویں صاحب نے فرما با سلام و دعا) دعا ضرور فرمانا.دعا.درد دل کی دعا.یہ کہ کہ آگے چلے گئے.مگر پھر پلیٹے.اور ہاتھ پکڑ کر کہنے لگے کہ سخت حاجت ہے دعا کی.اچھا وعدہ کریں کہ ضرور کریں گے.میں آپ کا ہاتھ نہیں چھوڑوں گا.جب تک آپ مجھ سے پکا وعدہ نہیں کہ لیں گے.آپ کو معلوم ہے میرے ہاں بیٹیاں ہی بیٹیاں ہیں.اولاد نرینہ کے لئے توجہ فرمائیں.ان ساتوں احباب کا جواب یہ ہے کہ ان کے اس مظاہرے پر اور ان کی وجہ سے جو حالات پیدا ہو گئے ہیں، ان پر اہم اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں کہتے ہیں.دُعا کی حقیقت گھر سب سے پہلے میں اپنی پوزیشن صاف کرنا چاہتا ہوں تا کہ کسی شخص کو دھوکہ نہ لگے.د کا ان عظیم الشان نعمتوں میں سے ہے جن سے فیج اعوج نے (-) کو بالکل محروم کر دیا تھا.اور پھر حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اس نعمت سے ہم کو مالا مال کیا.دعا ہمارے لئے اس سے زیادہ قوت اور سہارا ہے.جتنا ایک چھوٹے بچے کے لئے اس کا رونا اور چیچنا.اپنی ماں کو بلانے کے لئے.دعا خدا سے ملنے کا اس پر ایمان لانے اور اس ایمان کو قائم رکھنے کا ایک یقینی وسیلہ ہے.دُکھا اللہ تعالی کی ہر صفت کو جوش میں لانے کا ایک ذریعہ ہے.دُعا عبادت ہے بلکہ عبادت کا مغرد ہے.دُعا کے بغیر خدا اور ہندسے کا کوئی تعلق قائم ہو
ہی نہیں سکتا.دعا ہر مصیبت کی سپر ہوتی ہے.اور دُعا خدا تعالیٰ کی تمام تقدیروں کو جو خاص تقدیروں کو بھی تڑوا دیتی ہے.اگر ہم دھانہ کریں تو بقول کشف حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ ہم کوں کھانے والی بھیڑوں سے بھی زیادہ خدا کی نظر سے ناپاک اور ذلیل ہوں گے.یہ تو ہے دعا اور اس میں داخل ہے ہر قسم کی دُعا.فجر سے پہلے کی دعا گریہ وزاری کی دعا.اضطراب اور تڑپ کی اور جوش کی اور اخلاص کی دعا.خاص موقع کی دعا.دکھے ہوئے دل کی.عام مجلسوں کی دعا.(عبادت) کی دُعا.خاص توجہ والی دھا.اور ہے خاص توجہ کی دعا.دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی دعا.اور صرف بہوں سے نکلی ہوئی دعا.بار بار کی دعا.دل میں صرف ایک سیکنڈ کے لئے کی ہوئی دکھا.کبھی سے کبھی پر بھی دعا جیسے کوئی ان پڑھے پنجابی شخص (عبادت) میں کوئی عربی دُعا مانگا کرے.یا بے الفاظ کی دُعا جیسے کوئی خدا کے آگے ہاتھ جوڑ کر یا حاجزی کے ساتھ صرف سجدہ ہی میں پڑجائے بغیر اس کے کہ کوئی لفظ بھی منہ سے نکالے کے مرض کا ہر رنگ میں وکل ہے.یہ ضروری نہیں کہ مضطر کی دعا ہی دُعا ہے.بلکہ ہمارا تجربہ ہے کہ محض ادھر منہ سے بات نکلی امداد ضرور بات قبول.یہ نہیں کہ ہو.بہت الدعایا بہت الذکر میں داخل ہوں.اور رو رو کر سخت تشریع اور خشوع و خضوع سے دعا مانگیں تو اسے دعا سمجھیں بلکہ مثال کے طور پر حسب ذیل بھی دعائے مستجاب ہے جس کے پیچھے ان میں سے کوئی بات بھی نہ تھی.چند سال کا ذکر ہے کہ ایک دن رات کو بعد مغرب کھانا کھا کہ ہم سب اماں جان کے دستر خوان پر ہی بیٹھے تھے.کہ کسی نے کہا اس وقت گنے کھانے کو جی چاہتا ہے.....خدا کھلادے (یعنی وہ گنا جسے پونڈا کہتے ہیں اور پنجابی میں ہونا) حضرت اماں جان نے ایک آدمی بازار دوڑا دیا.وہ جواب لایا بازار میں کوئی پونڈا نہیں ملا.فارم کی طرف کوئی آدمی بھیجا گیا.اُدھر سے بھی جواب صاف آیا کہ گئے ہیں پونڈے نہیں ہیں.خیر جب دونوں تیر خالی گئے تو صبر سے بیٹھ گئے.ابھی باتیں کر ہی رہے تھے اور پانچ منٹ فارم والے پیغام یہ کو آئے ہوئے نہیں عاجزی ہو رہی
۷۱۴ گزرے تھے کہ بہت مبارک کے دروازے سے کریمی مفتی فضل الرحمان صاحب نے حضرت امام ابن کو یکدم آواز دی کہ اماں جان یہ گئے گورداسپور کے میں لایا ہوں.آج وہاں کسی مقدمے پر گیا تھا.اور ابھی تانگے پر سیدھا آرہا ہوں.یہ کہ کہ ایک پھاندی پونڈوں کی پردہ میں سے دھڑام کی کے اندر پھینک دی.یہ کہہ کر وہ تو چلے گئے مگر ان پرندوں کا عند الطلب غیب سے آجانے کا لطف ہماری ساری پارٹی کو خوب آیا.خصوصا جبکہ وہ اس خاص طرح آئے تھے.اور شخص بطور دعوتِ خداوندی ان کو نہایت شوق سے کھاتا تھا.بعض لوگ غلطی سے یہ بھی کہتے تھے کہ کاش کچھ اور چیز اس وقت مانگی جاتی.حالانکہ خدا نے میں گئے نہیں کھلائے تھے.بلکہ اپنے اسماء جمیع مجیب ، کلیم اور معطی کا جلوہ دکھایا تھا.گویا گنوں کے پردہ میں خود کو ظاہر کیا تھا.ایسے موقعہ پر یہ کہنا کہ کاش کوئی زیادہ قیمتی چیز ما لگتے تو مل جاتی ایک غلطی تھی.کیونکہ خود خدا سے بڑھ کہ کون سی چیز قیمتی ہو سکتی ہے.اب میں سمجھتا ہوں کہ میں نے اپنی پوزیشن ایسی واضح کر دی ہے کہ جو بات میں آگے بیان کرنے لگا ہوں.اس سے کسی صاحب کو نہ تو میرے عقیدہ دُعا کے متعلق دھوکا لگے گا نہ اسے یہ خیال پیدا ہوگا کہ میں اللہ کی پناہ خدا کی کسی قسم کی سیکی کرنی چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے نفسوں کے شر سے محفوظ رکھے.اب آپ ان نقائص کو دیکھئے جو ایسی باتوں یا ان کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.ا خدا کے فضل کا ذکر ضروری ہے.آپ ان ساتوں صاحبان کی تقریہ پھر پڑھیں.اور دیکھیں کہیں انہوں نے خدا کے فضل کا بھی نام لیا ہے.دعا ہر حال بندے کی کوشش اور جدو جہد کا نام ہے.اور اگر ہم لوگ رفتہ رفتہ ہر چیز کا انحصار دعاؤں پر ہی رکھ دیں گے.اور خدا کے فضل کا لفظی اقرار ہمارے مونہوں سے نکلنا بند ہو جائے گا.تو ہم رفتہ رفتہ ایک مشرکانہ رنگ میں مبتلا ہو جائیں گے.ہمارے لبوں سے سب سے زیادہ خدا کے فضل کا نام نکلنا چاہیے نہ کہ بندے کی کوششوں کا.ہم کو انعالی کے براہ راست رحم پر اس
۷۱۵ سے زیادہ ایمان اور اس سے زیادہ یقین رکھنا چاہیے جتنا ہم انسان کی تدبیروں پر کرتے ہیں کیونکہ دعا گو وہ روحانی چیز ہو بہر حال ایک انسانی تدبیر ہے.پس ہر گز یہ نہیں کہنا چاہیئے کہ میرے ہاں دعاؤں سے بیٹا ہوا.یا میں دعاؤں سے نو کر ہوا.یا میں دعاؤں سے صحت یاب ہوا.بلکہ پہلے یہ اقرار کرنا چاہیئے کہ خدا کے فضل سے اور حضرت باقی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی دعا سے یہ بیٹا ہوا.اور خدا کے فضل سے اور حضرت امام جماعت کی دعاؤں سے مجھے صحت ہوئی.پس یا درکھو کہ ایسانہ ہو کہ خدا تعالیٰ کے اپنے فضل و کریم کو رفتہ رفتہ بھول جاؤ اور سارا انحصار انسانی کوششوں پر بیان کرنے لگو.اور آہستہ آہستہ خدا تعالیٰ کا نام اس کی نعمتوں سے الگ ہو جائے.بے شک دعاؤں کا بھی صاف نام لو اور بڑے زور سے لو.مگر فصل کرنے والی ذات کی طرف سے توجہ نہ پھرے.میں الفضل میں درخواست دعا کے کالم کو الترانا دیکھتا ہوں اور یہ بات خصوصا دیکھتا ہوں کہ یہ لوگ اس بات کو کس رنگ میں لیتے ہیں.مگر سالہا سال میں شائد ایک وقعہ بھی یہ نہیں دیکھا کہ جہاں دعا سے اولاد ہونے کا ذکر ہو.وہاں اللہ میاں کا بھی کوئی حصہ نمایاں طور پر اس میں ظاہر کیا گیا ہو.پس اختیاط لازم ہے.- درخواست دعا میں دُعا کے لئے اپنے بھائیوں سے درخواست کرنے کو بہت اچھا سمجھتا ہوں.اس سے آپس میں تعلق بڑھتا ہے اور قربانی کا مادہ زیادہ ہوتا ہے.کیونکہ دعا بعض اوقات قربانی کی کیفیت کو چاہتی ہے.اور جو لوگ سرسری اسی وقت جواب میں دعا کر دیتے ہیں.اور کہہ دیتے ہیں کہ اللہ فضل کرے.وہ بھی جائز ہے.اور ایسی دعائیں بھی منظور ہوتی رہتی ہیں.نیز بار بار ذکر دعا سے دعا کا خیال مردوں کو عورتوں کو اور بچوں کو اتنا ہو جاتا ہے کہ دعا ایک قومی شعار بن جاتی ہے.مگر پھر بھی بعض لوگوں کا طرز ادا یا طرزز در خواست ایسی ناگوار معلوم ہوتی ہے کہ اس کی اصلاح کی ضرورت ہے.مثلاً یہی کہ ہاتھ پکڑ کر وعدے لینے لگے.یا کوئی فجر سے پہلے کی عبادت کرتا ہو یا نہ کرتا ہو اسے بار بار یہ کہنا
614 کہ بھائی صاحب ہیں فجر سے پہلے کی عبادت کی دعائیں درکار ہیں.یا درد دل کے مقدس لفظ کو اس طرح گلیوں اور بازاروں میں پکار کہ کہنا کم از کم میرے لئے تو نا قابل برداشت ہے.پس اپنے الفاظ کو درست طور پر پیش کردہ نہ ایسے طور پر کہ حضارت اور بے ہودگی پیدا ہو اور پیچھے پڑنا تو خوامخواہ اگلے کو بھی شرمندہ کرنا ہے.شائد کوئی قرض خواہ اپنے قرض داروں کو پر سر بازار اتنا ذلیل نہیں کرتا ہو گا جتنا کسی حساس کا ایسے الفاظ دکانوں پر یا بازاروں میں سنتا.اس سے بہتر تھا کہ وہ صاحب زیادہ ثقاہت سے کام لیتے اور ایسی حرکتیں نہ کرتے.٠٣ اعلیٰ مقصد کے لئے دُعا.آپ پھر ان سات شخصوں کی دُعا کی درخواستوں کو پڑھیں.آپ حیران ہوں گے.کہ کسی ایک نے بھی نیکی اتقوامی ، آخرت بہشتی مقبرہ کی نعمت ، معرفت علم کلام الہی ، خدا تعالٰی سے تعلق، اور محبت اور رضا کے لئے یا دنیا کی ہدایت اور اشاعت احمدیت کی دعا کے لئے کہا ہو.اگر زیادہ وضاحت چاہتے ہیں تو پھر الفضل کے دُعا کے کالموں کو دیکھے نہیں.اور اپنی حالت پر روئیں.کہ سوا دنیا کے اور سخت ذلیل چیزوں کے عموما لوگ کسی اعلیٰ مقصد کے لئے دُعا نہیں کراتے، نہ غالباً خود کرتے ہوں گے.میں دنیاوی معا سے منع نہیں کرتا کیاؤ اور ضرور کراؤ ، مگر تمہارا خدا تو وہ ہے جس نے تمہیں یہ کہا ہے کہ جو صرف دنیا کے قائدہ سے مانگتا ہے اُسے کہہ دو کہ ہمارے پاس دنیا اور آخرت دونوں کے قائد سے موجود ہیں.دونوں کیوں نہیں مانگتا.پس میں خدا تعالی کا یہ پیغام تمہیں سُنا دیتا ہوں کہ تمہارے خدا کے پاس دونوں نعمتیں ہیں اور دنیادی چیزوں کی دعا کے وقت آخرت کی کوئی چیز ضرور بالضرور شامل کر لیا کرو.اور پہلے اس کا نام لیا کرو.ورنہ تخت دنیا دار شہر و گے پھر کس منہ سے دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے کہلا سکو گے.ر اس کے بعد آپ فرماتے ہیں کہ دعا کے سلسلے میں درخواست کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی شکایت کا انداز نہیں ہونا چاہیئے، اور امام جماعت وقت سے دعا کی درخواست کرنی چاہیئے)
آپ فرماتے ہیں در سب سے بڑا خطرہ جس کا احساس مجھے ہونے لگا ہے وہ یہ ہے کہ جب ایسے دُعا کے طالبوں کو میں یہ کہتا ہوں کہ دیکھو حضرت امام جماعت جو ہمارے سردار ہیں.ان سے دُعا کراؤ.ان کا رتینہ خدا نے اتنا بلند کیا ہے کہ بسبب حسن و احسان میں حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد کا منظر ہونے کے اور سبب ان کی جانشین ہونے کے وہی حق رکھتے ہیں کہ لوگ ان کی طرف بار بارا اور ہر مصیبت اور تکلیف میں دعا کی درخواست کریں.کیونکہ دکا در اصل....کا امتیازی نشان یا معجزہ ہے.اور حضرت بانی سلسلہ عالیہ محمد ی نے میشہ دکھا کے مقابلہ اور کثرت قوایت دعا کا چیلی یار یار دیا ہے.میں اس نشان کی قدر کرو ہمیشہ حضرت صاحب سے دعا کرایا کرو.اس پہ جو جواب مجھے ملتے ہیں وہ چونکا دینے والے ہیں اور وہ جھو گا ایسے رنگ کے ہوتے ہیں.کہ آپ نے واقعی یہ درست فرمایا مگر دیکھو کہ حضرت صاحب کو اتنے رقعے پڑھنے کی فرصت یہ نگرد کہاں اتنی بڑی جماعت بن گئی ہے کہ حضرت صاحب کو کیا پتہ کہ ہم کون ہیں.غریبوں کو بیڑے ہو آدمی پہنچانتے بھی کہاں ہیں.اور پھر ان کو دن رات امامت کے کام ہوئے انہیں فرصت کہاں ملتی ہے.جو ہم جیسے حقیروں کی طرف توجہ کریں.میر صاحب فرماتے ہیں یہ جواب جھوٹ اور سفید جھوٹ اور خطر ناک جھوٹ ہے.حضرت امام جماعت ہر خط اور سر رقعہ پڑھتے ہیں.اور سب سے زیادہ اس کا مضمون یا د رکھتے ہیں اور ہر شخص کو دوسرے لوگوں کی نسبت زیادہ جانتے اور پہچانتے ہیں اور باوجو دن رات کام میں مصروف ہونے کے حقیر سے حقیر شخص کی طرف پوری توجہ کرتے ہیں.اور بارہا انہوں نے اس جھوٹ کی علی الاعلان مجلسوں کے موقعوں پر تردید فرمائی ہے کہ بعض لوگ ہیں پھر وہی بات دئے جاتے ہیں.(اس کے بعد فرماتے ہیں کہ اپنے لئے آپ بھی دعا کرو.اور کہ قبولیت دعا کو حضرت امام جماعت کی طرف منسوب کرد.اس مضمون کے آخیر پر آپ فرماتے ہیں.
دعا فروشوں سے خطاب اب میرا روئے سخن بعض ان دوستوں کی طرف ہے جو گو نیک ہیں اور نیک نیت بھی ہیں.مگر کسی غلطی کی وجہ سے انہوں نے ایک گوناں دُعا فروشی کا رنگ اختیار کر لیا ہے.ہیں اس کے متعلق کوئی تفصیل نہیں دوں گا.صرف یہ عرض کروں گا کہ یہ کام مکروہ ہے.بے شک وہ دعا کریں مگر اس کا معاوضہ کچھ کہہ کر طلب نہ کریں.کیونکہ اس سے دعا کی برکت اور عظمت اور اصل قد کم ہو جاتی ہے.اور دنیا کی دیگر ادئی اشیاء کی طرح ایک معمولی حیثیت کی قابل خرید و فروخت چیز رہ جاتی ہے.مجھے یقین ہے کہ اگر دعا سے پہلے کسی نذرانے کا سوال قطعا نہ آئے تو پھر بھی اتنا ہی یا اس سے بڑھ کہ نذرانہ پہنچے گا اور توحید و توکل کا درجہ اور بلند ہو گا.اور لوگوں کی اعتقادی حالت اور زیادہ بہتر ہو جائے گی.اور روحانی فضا اور زیادہ صاف ہو جائے گی.اور عوام الناس ڈھا کر انے والوں کی توجہ مرکز امامت کی طرف زیادہ رہے گی اور لیں.میں تو صرف اصلاح چاہتا ہوں.جتنی بھی ہو سکتی ہے اور توفیق اللہ ہی دینے والا ہے.(الفضل ، نومبر ۱۹۳۶ء) ( منقول از الفضل ۱۷ اکتوبر ۱۱۹۹۵)
619 اظہار تشکر اس کتاب کی اشاعت میں حضرت ڈاکٹر میں محمد اسمعیل صاحب کے اہل خاندان کا مالی تعاون حاصل ہوا ہم ان کے شکر گزار ہیں اودعا گو ہیںکہ تار و می خاران کے اخلاص اموال اور نفوس میں برکت عطا فرماتا چلا جائے اور نسلاً بعد نسل اپنی رحمتوں کے سائے میں رکھے.آمین بغرض دعا معاونین خواتین و حضرات کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں.مکرم سید محمد احمد صاحب و بیگم مگرمه امته اللطیف صاحبه مکرمہ بیگم سید سید احمد ناصر صاحب (مکرمہ ریحانه باسمه صاحبه) مکرم سید امین احمد صاحب مع بیگم صاحبہ -۴ مکرمہ سیدہ طیبہ صدیقہ صاحبہ بیگم نواب مسعود احمد خان صاحب مکرمہ سیدہ امتہ اللہ بیگم صاحبہ بیگم پیر صلاح الدین صاحب ۰۱۲ مگر میر سیدہ امتہ الہادی بیگم صاحبہ بیگم پیر ضیاء الدین صاحب مگر در سیده امتہ القدوس صاحبه و مکرم صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب مکر در سپیده امتہ السمیع صاحبه و مکرم صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب کر مرستنده امته الرفیق پاشا صاحبہ بیگم حضرت اللہ پاشا صاحب مکرم سید هارون مکرم احمد صاحب د بیگیر ساره نسیم احمد صاحب مرمر سیدہ عائشہ صدیقہ اشمع احمد و ڈاکٹر احمد حمید صاحب مکرم سید طاہر احمد صاحب ۱ مکرم سید مدثر احمد صاحب ۰۱۴ مکرم سید انیس احمد صاحب -۱۵ مکرم سید صبیحہ سلطانہ صاحبہ بیگم مرزا سلطان احمد صاحب بگیم -14 -1.IA مکرمہ فوزیہ فرمانه صاحبه بگیم مرزا کلیم احمد صاحب مکرم سید مجیب احمد صاحب مکرم سیده ما هم امین صاحبه
۷۲۰ ۱۹ مکرم نواب مود و د احمد خان صاحب مکرمہ نصرت جہاں بیگم میر محمود احمد صاحب ۰۲۰ الان مکر مہ امته الناصر بیگم ظہیر احمد خان صاحب ۲۲ مکرمه امتہ المومن خان صاحبه بگیم نواب مود و د احمد خان صاحب مود مکرم مامون احمد خان صاحب ابن نواب مود د د احمد خان صاحب ۲۴ مکرمه ماریچه عنبر صاحبه بنت نواب مود و د احمد خان صاحب -۲۵ مکریمہ امته المالک فرخ صاحبہ بیگم پیر منیر احمد صاحب -۲۹ مکرمہ صاحبزادی امتہ العلیم عصمت صاحبہ بیگم نواب منصور احمد خان صاحب ۲۷ مکرم مرزا طیب احمد صاحب مع مکرمه امتہ النور صاحبہ -۲۸ مکرم مرزا عبد الصمد صاحب مع مکرمہ صوفیہ احمد صاحبہ ۲۹ مکرمه صاحبزادی امتہ الحفیظ صاحبہ مکرمہ صاحبزادی حمیرا امتہ الحمید صاحبه مگر یہ صاحبزادی شہرہ امته اللطیف صاحبہ مکرم مرزا محمد احمد مصطفى مع بیگم صاحبہ ۳۳ مکرم بید حسن زین العابدین صاحب این سید محمود احمد صاحب.۲۲ مکرمہ تمیم صادقہ بیگم ر صادقہ بیگم نواب حامد احمد خان صاحب د احمد خرم صاحب مع بیگم صاحبہ مکرم پیر جوا واحمد صاحب مع بیگم صاحبہ ۱۳۵ مکرم پیر سعد احمد صاحب مع بیگم صاحبہ ۳۸ مکرم پیر محمد احمد صاحب ۳۹ مکرم پیر ذکی احمد صاحب مع بیگم صاحبہ ۴۰ مکرم پیر عمیر احمد صاحب مکرمہ قراة العین بشری صاحبہ بیگم پر محمد طاہر صاح ۴۲ مکرم سید خضر پاشا صاحب