Language: UR
2 احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے ) حُسنِ اخلاق ( مضامین، تقاریر کی تیاری کے لئے مواد ) 00000000000000000000000000000000000000000000000000000 انتساب خاکسارا اپنی یہ کتاب حسنِ اخلاق اپنے پیارے والدین محترم صوفی عبد القدیر صاحب مرحوم بدوملہوی درویش قادیان اور والدہ محترمہ امت القیوم صاحبہ مرحومہ کے نام کرتی ہے.اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے آمین ثم آمین.لعة الرشید ارسله
4 3 بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيم پیش لفظ بفضلہ تعالیٰ لجنہ اماء اللہ کے شعبہ اشاعت کے صد سالہ جشنِ تشکر پر کتب کی اشاعت کے سلسلے کا شمارہ نمبر 95 کی کتاب پیش کرنے کی توفیق مل رہی ہے.الحمد للہ علی ذالک.زیر نظر کتاب محترمه امه الرشید ارسله صاحبہ نے مرتب کی افسوس کہ اُن کی زندگی نے مہلت نہ دی اور وہ کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی اس دُنیا سے رخصت ہو گئیں.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے.امۃ الرشید ارسلہ محترم صوفی عبد القدیر صاحب بدو ملهوی درویش قادیان ولد مولوی عبدالحق صاحب بدوملہوی کی صاحبزادی تھیں.مکرم محمد حسین صاحب ولد عبد الکریم صاحب سے شادی ہوئی جن کا تعلق میمن خاندان سے تھا.تیرہ سال پیر الہی بخش کالونی میں رہنے کے بعد 1983 سے حلقہ میں رہائش پذیر تھیں.آپ کو زندگی بھر وقف کی روح کے ساتھ خدمت دین کی توفیق ملی.گھر پر ہی جلسے اجلاس کرواتیں.اللہ تعالیٰ نے تین بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا.گھر میں تربیتی ماحول تھا.حلقے والوں کو قرآن کریم ناظرہ اور ترجمہ پڑھاتیں.اس طرح مقابلہ جات کے لئے تیاری کرواتیں تقریریں اور مضامین لکھ کر دیتیں.آپ کے جذبے کو اللہ تعالیٰ نے دوام بخشا.زیر نظر کتاب مضامین کے لئے مواد جمع کرنے میں آسانی کا باعث بنتی رہے گی.اس سے پہلے ان کی دو کتب سفر آخرت اور غیبت.ایک بدترین گناہ شائع ہو چکی ہیں.قارئین سے درخواست ہے کہ ان کتب سے استفادہ کرتے ہوئے مرحومہ کے لئے بلندی درجات کی دعا کریں.
65 6 72 78 الله الله الله 88 م 73 83 86 90 95 102 108 113 119 124 129 136 حیا و پاکدامنی غض بصر ایفائے عہد امانت غصہ پر قابو پانا بشاشت - ملاطفت عفو و درگزر عدل و احسان مسابقت في الخيرات صداقت (سچائی) تعاون باہمی حُسن ظر.توکل 13 14 15 16 17 18 19 صفحہ نمبر 20 7 21 10 22 15 23 18 24 23 25 29 26 33 27 39 42 49 54 ة ان له الله له له له و حه ی ام 59 5 نمبر شمار 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 حُسن اخلاق فہرست مضامین مضمون انسانی پیدائش کی غرض انسان کامل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصلاح بین الناس امر بالمعروف نہی عن المنکر والدین سے حُسنِ سلوک رشتہ داروں سے حسن سلوک اور صلہ رحمی ہمسائیوں سے حسن سلوک تیموں اور مسکینوں سے حسنِ سلوک ماتحتوں سے حسن سلوک مهمان نوازی ایثار عاجزی، انکساری اور توضع صفائی
8 7 انسانی پیدائش کا مقصد وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِ نُسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: 57) ترجمہ: اور میں نے جن اور انس کو پیدا نہیں کیا مگر اس غرض سے کہ وہ میری عبادت کریں.ا ”میں نے جن اور انسان کو اسی لئے پیدا کیا ہے کہ وہ مجھے پہچانیں اور میری پرستش کریں پس اس آیت کی رُو سے اصل مدعا انسان کی زندگی کا خدا تعالیٰ کی پرستش اور خدا تعالیٰ کی معرفت اور خدا تعالیٰ کے لئے ہو جانا ہے یہ تو ظاہر ہے کہ انسان کو تو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہے کہ اپنی زندگی کا مدعا اپنے اختیار سے آپ مقرر کرے کیونکہ انسان نہ اپنی مرضی سے آتا ہے اور نہ اپنی مرضی سے واپس جائے گا بلکہ وہ ایک مخلوق ہے اور جس نے پیدا کیا اور تمام حیوانات کی نسبت عمدہ اور اعلیٰ قومی اس کو عنایت کئے اُسی نے اُس کی زندگی کا ایک مدعا ٹھہرا رکھا ہے خواہ کوئی انسان اس مدعا کو سمجھے یا نہ سمجھے مگر انسان کی پیدائش کا مد عا بلاشبہ خدا کی پرستش اور خدا کی معرفت اور خدا تعالیٰ میں فانی ہو جانا ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 ص 414) حقیقی اخلاق إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ با الْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَ إِيْتَآيءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالمُنْكَر وَالْبَغْى * يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (حل : 91) ترجمہ: - یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے.وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم عبرت حاصل کرو.تفسیر : - اللہ تعالیٰ حکم کرتا ہے کہ تم عدل کرو اور عدل سے بڑھ کر یہ ہے کہ باوجود رعایت عدل کے احسان کرو اور احسان سے بڑھ کر یہ ہے کہ ایسے طور سے لوگوں سے مروت کرو کہ جیسے کہ گویا وہ تمہارے پیارے اور ذوالقربیٰ ہیں اب سوچنا چاہیے کہ مراتب تین ہی ہیں اول انسان عدل کرتا ہے یعنی حق کے مقابل حق کی درخواست کرتا ہے پھر اگر اس سے بڑھے تو مرتبہ احسان ہے اور اگر اس سے بڑھے تو احسان کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے اور ایسی محبت سے لوگوں سے ہمدردی کرتا ہے جیسے ماں اپنے بچے کی ہمدردی کرتی ہے یعنی ایک طبعی جوش سے نا کہ احسان کے ارادہ سے.“ جنگ مقدس ، روحانی خزائن جلد 6 ص 127) نیکیوں کی ماں حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں.نیکیوں کی ماں اخلاق ہی ہے خیر کا پہلا درجہ جہاں سے انسان قوت پاتا ہے اخلاق ہے.دو لفظ ہیں.ایک خلق اور دوسرا خُلق.خلق ظاہری پیدائش کا نام ہے اور خلق باطنی پیدائش کا جیسے ظاہر میں کوئی خوبصورت ہوتا ہے اور کوئی
10 9 بہت ہی بدصورت اسی طرح پر کوئی اندرونی پیدائش میں نہایت حسین اور دل رُبا ہوتا ہے اور کوئی اندر سے مج% وم اور مبروص کی طرح مکروہ.لیکن ظاہری صورت چونکہ نظر آتی ہے اس لئے ہر شخص دیکھتے ہی پہچان لیتا ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے اور نہیں چاہتا کہ بدصورت اور بد وضع ہومگر چونکہ اس کو دیکھتا ہے اس انسان کامل حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم لئے اس کو پسند کرتا ہے اور خُلق کو چونکہ دیکھا نہیں اس لئے اس کی خوبی سے نا آشنا ہو کر اس کو نہیں چاہتا ایک اندھے کے لئے خوبصورتی اور بدصورتی دونوں ایک ہی ہیں اسی طرح پر وہ انسان جس کی نظر اندرونہ تک نہیں پہنچتی اس اندھے ہی کی مانند ہے.خلق تو ایک بدیہی بات ہے مگر خلق ایک نظری مسئلہ ہے اگر اخلاقی بدیاں اور ان کی لعنت معلوم ہو تو حقیقت کھلے.غرض اخلاقی خوبصورتی ایک ایسی خوبصورتی ہے جس کو حقیقی خوبصورتی کہنا چاہیے بہت تھوڑے ہیں جو اس کو پہچانتے ہیں اخلاق نیکیوں کی کلید ہیں جیسے باغ کے دروازے پر قفل ہو تو دور سے پھل پھول نظر آتے ہیں مگر اندر نہیں جا سکتے لیکن اگر قفل کھول دیا جاوے تو اندر جا کر پوری حقیقت معلوم ہوتی ہے اور دل و دماغ میں ایک سرور اور تازگی آتی ہے اخلاق کا حاصل کرنا گویا اس قفل کو کھول کر اندر داخل ہونا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحہ 354-355) " جس کو اخلاقی تزکیہ کہتے ہیں بہت ہی مشکل ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا.اس فضل کے جذب کرنے کے لئے بھی تین پہلو 66 ہیں اول مجاہدہ اور تذبیر.دوم دعا سوم صحبت صادقین.“ ( ملفوظات جلد 7 ص (274) قال اللہ تعالیٰ 1- ترجمہ: یقیناً تمہارے لئے اللہ کے رسول میں نیک نمونہ ہے ہر اس شخص کے لئے جو اللہ اور یوم آخرت کی 66 اُمید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے.“ (احزاب : 22) -2 ترجمہ : پس اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تو ان کے لئے نرم ہو گیا اور اگر تو تند خو (اور ) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گرد سے دُور بھاگ جاتے.“ (ال عمران: -160) 3 - ترجمہ : - یقیناً تمہارے پاس تمہی میں سے ایک رسول آیا.اسے بہت سخت شاق گزرتا ہے جو تم تکلیف اُٹھاتے ہو (اور) وہ تم پر (بھلائی چاہتے ہوئے) حریص ( رہتا) ہے.مومنوں کے لئے بے حد مہربان (اور ) بار بار رحم کرنے والا ہے.(التوبہ: 128) صلى الله معرفت الہی حاصل کرنے کیلئے نبی کریم ﷺ کے اخلاق کو رہبر بنائیں اللہ تعالیٰ کی محبت کامل طور پر انسان اپنے اندر پیدا نہیں کر سکتا جب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق اور طرز عمل کو اپنا رہبر اور ہادی نہ بناوے.
12 11 چنانچہ اللہ تعالیٰ اس بابت قرآن کریم میں فرماتا ہے.قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله (ال عمران : 32) یعنی محبوب الہی بننے کے لئے ضروری ہے کہ رسول اللہ کی اتباع کی جاوے ستچی اتباع آپ کے اخلاق فاضلہ کا رنگ اپنے اندر پیدا کرنا ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد 3 صفحہ 87) اللہ جلشانہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم: 5) یعنی تو ایک بزرگ خلق پر قائم ہے سو اسی تشریح کے مطابق اس کے معنی ہیں یعنی یہ کہ تمام قسمیں اخلاق کی سخاوت ، شجاعت ، عدل ، رحم ، احسان ، صدق ،حوصلہ وغیرہ تجھ میں جمع ہیں غرض جس قدر انسان کے دل میں قو تیں پائی جاتی ہیں جیسا کہ ادب ، حیا ، دیانت ، مروت ، غیرت ، استقامت،عفت، زہادت ، اعتدال، مواسات، یعنی ہمدردی ایسا ہی شجاعت ، سخاوت عفو،صبر، احسان ،صدق، وفا وغیرہ جب یہ تمام طبعی حالتیں عقل اور تدبر کے مشورے سے اپنے اپنے محل اور موقع پر ظاہر کی جائیں گی تو سب کا نام اخلاق ہوگا اور یہ تمام اخلاق در حقیقت انسان کی طبعی حالتیں اور طبعی جذبات ہیں اور صرف اس وقت اخلاق کے نام سے موسوم ہوتے ہیں کہ جب محل اور موقع کے لحاظ سے بالا رادہ ان کو استعمال کیا جائے چونکہ انسان کے طبعی خواص میں سے ایک یہ بھی خاصہ ہے کہ وہ ترقی پذیر جاندار ہے اس لئے وہ بچے مذہب کی پیروی اور نیک صحبتوں اور نیک تعلیموں سے ایسے طبعی جذبات کو اخلاق کے رنگ میں لے آتا ہے.اور یہ امر کسی اور جاندار کے لئے نصیب میں نہیں.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 333-334) احادیث مبارکہ 1- حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: - ” مجھے جبرائیل نے بتایا.میں نے زمین کے مشرق اور مغرب کو پلٹ کر دیکھا تو میں نے محمد سے افضل کوئی شخص نہیں پایا.“ (دلائل النبوة للبيهقى جلد 1 صفحه 176 ) -2- حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا.میں قیامت کے دن تمام بنی آدم کا سردار ہوں گا مگر اس پر مجھے کوئی فخر نہیں اور کوئی بھی بنی آدم اور اس کے سوا ایسا نہیں مگر وہ اس دن میرے جھنڈے کے نیچے ہو گا نیز فرمایا قیامت کے دن میں نبیوں کا امام اور ان کا خطیب اور شفاعت کرنے والا ہوں گا مگر بغیر کسی فخر کے ( ترمذی کتاب المناقب باب فضل النبی) -3- حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.قیامت کے دن تم میں سے سب سے زیادہ مجھے محبوب اور سب سے زیادہ میرے قریب وہ لوگ ہوں گے جو سب سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہوں گے اور تم میں سے سب سے زیادہ مبغوض اور مجھ سے زیادہ دُور وہ لوگ ہوں گے جو ثر تاریعنی منہ پھٹ ، بڑھ بڑھ کر باتیں بنانے والے ہیں اور متفیق یعنی لوگوں پر تکبر جتلانے والے ہیں.نرمندی کتاب البر والصله باب فی معالی الاخلاق) (منقول از حديقة الصالحین صفحه 647) -4 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے
14 13 زیادہ اچھے اخلاق کے مالک تھے.(مسلم کتاب الفضائل باب کا ن رسول اللہ احسن الناس خلقاً) 5- حضرت عبد اللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نہ تو خود حد سے بڑھتے تھے اور نہ حد سے بڑھنا پسند کرتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے تم میں سے بہتر وہ ہے جو سب زیادہ اچھے اخلاق والا ہے.کتاب الادب باب لم یکن النبی صلی اللہ علیہ وسلم فاحشا ولا تفحشاء) 6- حضرت معاذ بن حبل بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.” جہاں بھی تم ہو اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کرو اگر کوئی بُرا کام کر بیٹھو تو اس کے بعد نیک کام کرنے کی کوشش کرو یہ نیکی اس بدی کو مٹا دے گی اور لوگوں سے خوش اخلاقی اور حسن سلوک سے پیش آؤ.“ ( ترندی کتاب البر والصلۃ باب فی معاشرۃ الناس) آنحضرت ﷺ کی راہ کو ہرگز نہ چھوڑو حضرت اقدس مسیح موعود فرماتے ہیں میں تمہیں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ بہت سے لوگ ہیں جو اپنے تراشے ہوئے وظائف اور اوراد کے ذریعہ سے ان کمالات کو حاصل کرنا چاہتے ہیں یا خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں لیکن میں تمہیں کہتا ہوں کہ جو طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اختیار نہیں کیا وہ محض فضول ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر منعم میھم کی راہ کا سچا تجربہ کار اور کون ہوسکتا ہے جن پر نبوت کے بھی سارے کمالات ختم ہو گئے.آپ نے جو راہ اختیار کی وہ بہت ہی صحیح اور اقرب ہے اس راہ کو چھوڑ کر دوسری راہ ایجاد کرنا خواہ وہ بظاہر کتنی ہی خوش کن معلوم ہوتی ہو میری رائے میں ہلاکت ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھ پر ایسا ہی ظاہر کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اتباع سے خدا ملتا ہے اور آپ کی اتباع کو چھوڑ کر خواہ کوئی ساری عمر ٹکریں مارتا رہے گو ہر مقصود اس کے ہاتھ نہیں آسکتا.ނ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 236) سے ہمیں نور ملا نور پیمبر سے ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے مصطف ا پر اس سے ترا بے حد ہو سلام اور رحمت نور لیا بار خدایا ہم نے ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر رُسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 225-226 )
16 15 اصلاح بین الناس.امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قال اللہ تعالیٰ 1- ترجمہ: ان کے اکثر خفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی کی بات نہیں.سوائے اس کے کہ کوئی صدقہ یا معروف کی یا لوگوں کے درمیان اصلاح کی تلقین کرے.اور جو بھی اللہ کی رضا حاصل کرنے کی خواہش میں ایسا کرتا ہے تو ضرور ہم اسے ایک بڑا اجر عطا کریں گے.66 (النساء: 115) 2- ترجمہ: اور چاہیے کہ تم میں سے ایک جماعت ہو.وہ بھلائی کی طرف بلاتے رہیں اور اچھی باتوں کی تعلیم دیں اور بُری باتوں سے روکیں.اور یہی ہیں وہ جو کامیاب ہونے والے ہیں.“ (ال عمران : 105) 3 " تم بہترین امت ہو جو تمام انسانوں کے فائدہ کے لئے نکالی گئی ہو.تم اچھی باتوں کا حکم دیتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو.اور اللہ پر ایمان لاتے ہو.“ (ال عمران : 111) 4 - مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بُری باتوں سے روکتے ہیں.“ (التوبہ:71) 5- تو بہ کرنے والے ، عبادت کرنے والے ، حمد کرنے والے (خدا کی راہ میں) سفر کرنے والے (اللہ ) رکوع کرنے والے ہسجدہ کرنے والے ، نیک باتوں کا حکم دینے والے اور بُری باتوں سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے (سب سچے مومن ہیں ) اور تو مومنوں کو بشارت دے دے.(التوبہ: 112) 6-اے میرے پیارے بیٹے نماز کو قائم کر اور اچھی باتوں کا حکم دے اور ناپسندیدہ باتوں سے منع کر.(لقمان: 18) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1 - حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں کے لئے آسانی مہیا کرو، ان کے لئے مشکل پیدا نہ کرو، خوشخبری دو ان کو مایوس نہ کرو.(مسلم کتاب الجہاد باب في الامر بالتيسير وترك التنفير ) 2- حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تم میں سے جو شخص بُرائی دیکھے اور اس میں اس کے روکنے کی مؤثر طاقت ہو تو وہ اس کو ہاتھ سے روک دے.اور اگر اس میں ایسا کرنے کی طاقت نہ ہو تو زبان سے روکنے کی کوشش کرے.اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو یعنی اس کی بات کا اثر نہ ہو تو دل میں بُرا منائے اور یہ کمزوری کے لحاظ سے ایمان کا آخری درجہ ہے یعنی بُرائی کو اگر دل میں بھی بُرا نہ مانے تو اس کے ایمان کی کیا قدر و قیمت ! ( حديقة الصالحين ص 337)
18 17 3.حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا مجھے سے قبل اللہ تعالیٰ نے جس قدر بھی نبی مبعوث فرمائے انہیں کچھ مخلص ساتھی ایسے ملے جو ان کے طریقہ کار پر عمل پیرا ہوتے اور ان کی کامل اتباع کرتے پھر ان کی وفات کے بعد کچھ ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو ایسی باتیں کہتے جن پر خود عمل نہ کرتے اور ایسی باتیں کرتے جن کا انہیں حکم نہیں دیا گیا تھا.پس جو شخص ان سے ہاتھ کے ذریعہ جہاد کرے وہ صحیح مومن ہے جو اُن سے اپنی زبان کے ذریعہ جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اور جو اُن سے اپنے دل کے ذریعہ جہاد کرے یعنی دل میں بُرا منائے وہ بھی مومن ہے اس کے بعد ایمان میں سے ذرہ برابر بھی باقی نہیں رہتا.(حدیقۃ الصالحين ص 379-377) فرمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں اول خدا کی توحید اختیار کرو.دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی.كُنتُمْ أَعْدَاءً فَالَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ (ال عمران: 104 ) یاد رکھو تالیف ایک اعجاز ہے جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے 66 نہیں ہے.وہ مصیبت اور بلا میں ہے اس کا انجام اچھا نہیں.“ ( ملفوظات جلد اوّل 336) امر بالمعروف کا بیڑا اُٹھاتے ہیں جو لوگ ان کو دینا چاہتے ہیں ہر طرح کا یہ عذاب پر جو مولیٰ کی رضا کے واسطے کرتے ہیں کام اور ہی ہوتی ہے اُن کی عز و شان و آب و تاب وہ تجر ہیں سنگباروں کو بھی جو دیتے ہیں پھل ساری دنیا سے نرالا اُن کا ہوتا ہے جواب لوگ اُن کے لاکھ دشمن ہوں وہ سب کے دوست ہیں خاک کے بدلے میں ہیں وہ پھینکتے مُشک و گلاب ( کلام محمود صفحه 110 ) قال اللہ تعالیٰ والدین سے حسنِ سلوک -1- ترجمہ : اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا 66 شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو.“ (النساء : 37) 2.”اور تیرے رب نے فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ تم اُس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین سے احسان کا سلوک کرو اگر ان دونوں میں سے کوئی ایک تیرے پاس بڑھاپے کی عمر کو پہنچے یا وہ دونوں ہی تو اُنھیں اُف تک نہ کہہ اور انہیں ڈانٹ نہیں اور انہیں نرمی اور عزت کے ساتھ مخاطب کر.“ ( بنی اسرائیل : 24 )
20 19 3.”اور ہم نے انسان کو تاکیدی نصیحت کی کہ اپنے والدین سے احسان کرے.اسے اس کی ماں نے تکلیف کے ساتھ اُٹھائے رکھا اور تکلیف ہی کے ساتھ اُسے جنم دیا.اور اس کے حمل اور دودھ چھڑانے کا زمانہ تمہیں مہینے ہے.یہاں تک کہ وہ اپنی پختگی کی عمر کو پہنچا اور چالیس سال کا ہو گیا تو اس نے کہا کہ اے میرے رب ! مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کر سکوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری ذریت کی بھی اصلاح کر دے.یقیناً میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں.“ (الاحقاف: 16) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1 - حضرت ابوطفیل بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو مقام جعرانہ میں دیکھا.آپ ﷺ گوشت تقسیم فرما رہے تھے اس دوران ایک عورت آئی تو حضور نے اس کے لئے اپنی چادر بچھا دی اور وہ عورت اس پر بیٹھ گئی.میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ خاتون کون ہے جس کی حضور اس قدر عزت افزائی فرما رہے ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ حضور کی رضاعی والدہ ہیں.“ (ابو داؤد کتاب الادب، باب بر الوالدین ،حدیقۃ الصالحين ص 420) 2- ایک بار حضور تشریف فرما تھے کہ آپ کے رضاعی والد آئے حضور نے اُن کے لئے چادر کا ایک گوشہ بچھا دیا پھر رضاعی ماں آئیں تو آپ نے دوسرا گوشہ بچھا دیا پھر آپ کے رضاعی بھائی آئے تو آپ اُٹھ کھڑے ہوئے اور اُن کو اپنے سامنے بٹھا لیا.(ابو داؤد کتاب الادب باب تبر الوالدین) 3.حضرت ابو بکر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں بہت بڑے کبیرہ گناہ نہ بتاؤں ہم عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ! کیوں نہیں.فرمایا کہ اللہ کے ساتھ شریک کرنا اور والدین کی نافرمانی کرنا اس وقت آپ ٹیک لگائے ہوئے تھے کہ اُٹھ بیٹھے اور فرمایا خبر دار اور جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی نیز جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی چنانچہ آپ یہی فرماتے رہے یہاں تک کہ میں نے دل میں کہا کہ آپ شائد خاموش نہیں ہوں گے.( صحیح بخاری کتاب الادب باب 562 حدیث 916 صفحہ 338) 4.حضرت عبداللہ بن عمرہؓ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ کیا میں جہاد کروں ؟ فرمایا کہ ” کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟ عرض کی ہاں فرمایا تو ” ان کی خدمت کرو یہی تمہارا جہاد ہے.“ ( صحیح بخاری کتاب الادب باب 559 حدیث 912 صفحہ 336) 5.حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑے کبیرہ گناہوں سے ایک یہ ہے کہ آدمی اپنے والدین پر لعنت کرے دریافت کیا گیا کہ کو ئی اپنے والدین پر کسی طرح لعنت کر سکتا ہے؟ فرمایا کہ آدمی دوسرے کے والد کو گالی دیتا ہے تو وہ اس کے ماں باپ کو گالی ( صحیح بخاری کتاب الادب باب 560 حدیث 913 صفحہ 336) دیتا ہے.حسنِ سلوک کا ایک واقعہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے پاس کھجور کے کئی درخت تھے ایک دفعہ کھجور کے درختوں کی قیمت غیر معمولی طور پر بڑھ گئی انہی ایام میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے ایک درخت کا تنا کھوکھلا کر کے اس کا مغز نکالا اور اپنی والدہ کو کھلایا
22 21 لوگوں نے حضرت اسامہ سے کہا ان دنوں کھجوروں کی قیمت بہت بڑھی ہوئی ہے آپ نے ایسا کر کے قیمت گرا دی فرمایا یہ میری والدہ کی فرمائش تھی اور وہ جس چیز کا مطالبہ کرتی ہیں اگر میرے بس میں ہو تو میں ضرور پوری کرتا ہوں.طبقات ابن سعد جلد 4 صفحہ 71 بیروت 1957 ء) دوسرا واقعہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین آدمی جا رہے تھی کہ انہیں بارش نے آلیا چنانچہ وہ ایک پہاڑ کی غار میں چھپ گئے غار کے منہ پر پہاڑ کے اوپر سے ایک بہت بڑا پتھر آگرا اور وہ بند ہو کر رہ گئے.چنانچہ وہ آپس میں کہنے لگے کہ کوئی ایسا نیک عمل دیکھو جو تم نے محض رضائے الہی کے لئے کیا ہو اور اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دُعا کر وشائد یہ مشکل آسان ہو جائے.چنانچہ اُن میں سے ایک نے کہا اے اللہ میرے والدین زندہ تھے اور انتہائی بڑھاپے کی عمر کو پہنچے ہوئے تھے نیز میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھی تھے میں اُن کے لئے بکریاں چرایا کرتا تھا جب میں شام کو واپس لوٹتا تو بکریاں دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے والدین کو دُودھ پلایا کرتا تھا ایک روز جنگل میں دُور جا نکلا اور شام کو دیر سے واپس لوٹا وہ اس وقت سو چکے تھے میں حسب معمول دُودھ لے کر اُن کے سرہانے آ کھڑا ہوا میں نے نیند سے بیدار کرنا پسند نہ کیا اور بچوں کو اُن سے پہلے پلا دینا بھی اچھا نہ لگا حالانکہ بچے میرے قدموں میں رو پیٹ رہے تھے حتی کہ صبح تک میری اور اُن کی حالت یہی رہی اے اللہ ! تو جانتا ہے اگر میں نے یہ کام تیری رضا کے لئے کیا تو اس پتھر کو ہٹا دے تاکہ ہم آسمان کو تو دیکھیں پس اللہ تعالیٰ نے اُسے تھوڑا سا ہٹا دیا کہ اس میں سے انہیں آسمان نظر آنے لگا باقی دو نے بھی اپنی اپنی نیکیوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ ہم نے محض اللہ کی رضا کے لئے کیا اے اللہ ! جتنا راستہ بندرہ گیا ہے اُسے کھول دے پس اللہ تعالیٰ نے اُن کے سامنے سے پتھر ہٹا دیا.( صحیح بخاری کتاب الادب باب 560 صفحہ 336-337) حضرت اقدس مسیح موعود کا والدین سے حسن سلوک حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب بیان کرتے ہیں بارہا دیکھا گیا کہ جب کبھی آپ والدہ صاحبہ کا ذکر کرتے تو آپ کی آنکھیں ڈبڈبا آتی تھیں اور آپ ایک قادرانہ ضبط سے اس اثر کو ظاہر نہ ہونے دیتے تھے.(حیاتِ احمد صفحہ 347) حضرت صاحب جب والد صاحب کی خدمت میں جاتے تو نظر نیچے ڈال کر چٹائی پر بیٹھ جاتے تھے آپ کے سامنے کرسی پر نہیں بیٹھتے تھے.(حیاتِ احمد صفحہ 345) آپ اپنے والدین کے نہایت فرمانبردار تھے اس لئے والد صاحب کا حکم نہ ٹالتے تھے اپنے والد صاحب کے حکم کے ماتحت ان کی زمینداری مقدمات کی پیروی میں لگ گئے لیکن آپ کا دل اس کام میں نہ لگتا تھا بعض اوقات کسی مقدمہ میں ہار کر آتے تو آپ کے چہرے سے بشاشت کے آثار ہوتے اور لوگ سمجھتے کہ شائد فتح ہو گئی ہے پوچھنے پر معلوم ہوتا کہ ہار گئے ہیں وجہ دریافت کرنے پر فرماتے منشائے الہی یہی تھا اور اس مقدمہ کے ختم ہونے سے فراغت تو ہو گئی یاد الہی میں مصروف رہنے کا موقع ملے گا والد صاحب چاہتے کہ آپ یا تو زمینداری کے کام میں مصروف ہوں یا کوئی ملازمت اختیار کریں آپ ان دونوں باتوں سے متنفر تھے لیکن آپ اپنے والد کے حکم کے ماتحت اور ان کے آخری ایام کو جہاں تک ہو سکے با آرام کرنے کے لئے اس کام میں لگے ضرور رہتے تھے گو
24 23 فتح و شکست سے آپ کو کوئی دلچسپی نہ تھی.( منقول از سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت خلیفت ابی الثانی مرزا بشیر الدین محمد احم ) تسخیر خلق خُلق و محبت ، تم کرو ہر ہاتھوں ایک سے خلوص و محبت نصیب ہو نکلیں تمہاری گود سے پل کر وہ حق پرست سے جن کے دین کو نصرت نصیب ہو ایسی تمہارے گھر کے چراغوں کی ہو ضیاء عالم کو جن سے نور ہدایت نصیب ہو در عدن رشتہ داروں سے حسن سلوک اور صلہ رحمی قال اللہ تعالیٰ 66 1 - ترجمہ: ”اور قرابت دار کو اس کا حق دے.“ (بنی اسرائیل: 27) 2- ترجمہ: اور والدین سے احسان کا سلوک کرو گے 66 اور قریبی رشتے داروں سے.“ (البقره: 84) 3- ترجمہ: اور اللہ سے ڈرو جس کے نام کے واسطے دے کر تم ایک دوسرے سے مانگتے ہو اور رحموں (کے تقاضوں ) کا بھی خیال رکھو.(النساء : 2) 4- ترجمہ: یقیناً اللہ عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے.(النحل: 91) 5- ترجمہ: اور وہ لوگ جو اُسے جوڑتے ہیں جسے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا.“ (الرعد: 22) 6- ترجمہ: تو کہہ دے کہ تم (اپنے ) مال میں سے جو کچھ بھی خرچ کرنا چاہو تو والدین کی خاطر کرو اور اقرباء کی خاطر اور یتیموں کی خاطر اور مسکینوں کی خاطر اور مسافروں کی خاطر“ (البقرہ: 216) 7- ترجمہ: اور مال دے اس کی محبت رکھتے ہوئے (البقره: 178) 66 اقرباء کو.“ 8 - ترجمہ: اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں قتال نہیں کیا.“ (الممتحنة: 9) 9- ترجمہ: ” کیا تمہارے لئے ممکن ہے کہ اگر تم متوتی ہو جاؤ تو تم زمین میں فساد کرتے پھرو.اور اپنے رحمی رشتوں کو کاٹ دو؟ ( ہر گز نہیں ).( محمد : 23) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " بے شک اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کیا اور جب اس کی تخلیق سے فارغ ہوا تو رشتہ داری اس کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئی یہ مقام اُس کا ہے جو رشتہ
26 25 داری توڑنے سے تیری پناہ چاہے.ارشاد ہوا ہاں کیا تو اس بات پر راضی نہیں کہ جو تجھے جوڑے میں اس سے تعلق جوڑوں اور جو تجھ سے توڑے میں اُس سے تعلق توڑ لوں ؟ عرض کی کہ اے رب! کیوں نہیں فرمایا کہ تجھے یہ شرف دیا.“ ( صحیح بخاری مترجم جلد سوم کتاب الادب باب 569 من وصل وصلہ اللہ حدیث نمبر 925 صفحہ 369) کسی نے بارگاہ رسالت میں عرض کی کہ یا رسول اللہ مجھے کوئی عمل بتائیے جو جنت میں لے جائے.ارشاد فرمایا اللہ کی عبادت کرو کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ.نماز قائم کرو ، زکوۃ دو اور صلہ رحمی کرو.( صحیح بخاری باب 566 فضل صلة الرحم حدیث 921 صفحہ 367 ) آپ نے فرمایا بیشک مہربانی ایک ایسی شاخ ہے جو رحمن سے ملی ہوئی ہے پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو اس سے ملے گا تو میں اس سے ملوں گا اور جو اس سے تعلق توڑے گا تو میں اس سے قطع تعلق کرلوں گا.( صحیح بخاری جلد سوم کتاب الادب حدیث 926-927 صفحہ 369) پھر فرمایا.جس کو یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اس کا رزق فراخ ہو اور اس کی عمر دراز ہو جائے تو اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کیا کرے.( صحیح بخاری جلد سوم باب 568 حدیث 923 صفحہ 368) 1- محمد بن جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اُن کے والد ماجد جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ نے انہیں بتایا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا کہ رشتہ داری توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا.“ ( صحیح بخاری جلد سوم باب 568 حدیث 922 صفحہ 368) 2.حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آہستہ نہیں بلند آواز سے سنا.”ہاں میری اُن سے رشتہ داری ہے جسے میں تری کے ساتھ کر رکھتا ہوں یعنی رشتہ داری کے باعث صلہ رحمی کرتا ہوں.“ ( صحیح بخاری جلد سوم باب 570 حدیث 928 صفحہ 369-370) 3 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ! میرے ایسے رشتہ دار ہیں کہ اگر میں ان سے صلہ رحمی کروں اور بنا کر رکھوں تو وہ مجھ سے قطع تعلق کرتے ہیں.اگر حُسن سلوک کروں تو بدسلوکی سے پیش آتے ہیں اور اگر میں اُن کے حق میں بُرد باری سے کام لوں تو وہ میرے خلاف جہالت یعنی اشتعال انگیزی کا رویہ اختیار کرتے ہیں آپ نے یہ سُن کر فرمایا جیسا تو نے کہا ہے اگر تو ایسا ہی ہے تو تو ان کے منہ میں مٹی ڈالتا ہے یعنی تیرا ہاتھ اوپر ہے تیرا احسان اُن پر ہے اور جب تک تو اس حالت میں ہے اُن کے خلاف اللہ تعالیٰ تیری مدد کرتا رہے گا.( حديقة الصالحين صفحہ 423-424) -4 روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بدلہ لینے والا صلہ رحمی کرنے والا نہیں بلکہ صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب اُس سے رشتہ توڑا جائے تو وہ جوڑے.( صحیح بخاری جلد سوم کتاب الادب باب 571 حدیث 929 صفحہ 370) 5.عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہیں حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ وہ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ ان کاموں کے بارے میں حضور کا کیا خیال ہے جو میں زمانہ جاہلیت میں کیا کرتا تھا جیسے صلہ رحمی ، غلام آزاد کرنا اور صدقہ دینا کیا اُن کا مجھے کوئی اجر ملے گا.آپ نے فرمایا تم اپنے سابقہ بھلائیوں کے سبب ہی دولت اسلام سے مشرف ہوئے ہو.“
28 27 (صحیح بخاری جلد سوم کتاب الادب باب 572 حدیث 930 صفحہ 370) 6- عمر بن زبیر کا بیان ہے کہ حضرت اسماء بنت ابو بکرؓ فرماتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ میں میری والدہ میرے پاس آئیں اور مسلمان نہ تھیں پس میں نے نبی کریم سے دریافت کیا کہ کیا ان کے ساتھ صلہ رحمی کروں ؟ فرمایا.ہاں.( صحیح بخاری جلد سوم کتاب الادب باب 563 حدیث 918 صفحہ 366) 7- حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حجۃ الوداع کے سال مکہ میں میں بیمار پڑ گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے.میں نے حضور کی خدمت میں اپنی بیماری کی شدت کا ذکر کرتے ہوئے عرض کیا کہ میرے پاس کافی مال ہے اور ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی قریبی وارث نہیں کیا میں اپنی جائداد کا دو تہائی حصہ صدقہ کردوں؟ حضور نے فرمایا نہیں.اس پر میں نے درخواست کی آدھا حصہ؟ آپ نے فرمایا نہیں.پھر میں نے عرض کیا کہ تیسرے حصے کی اجازت دی جائے تو آپ نے فرمایا ہاں، جائداد کے تیسرے حصہ کی اجازت ہے اور اصل میں تو یہ تیسرا حصہ بھی زیادہ ہی ہے کیونکہ اپنے وارثوں کو خوشحال اور فارغ البال چھوڑ جانا اس بات سے بہتر ہے کہ وہ تنگدست اور پائی پائی کے محتاج ہوں اور لوگوں سے مانگتے پھریں تم جو بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر خرچ کرو گے.وہ اپنے رشتہ داروں اور وارثوں پر ہو یا دوسرے غرباء اور مساکین پر اللہ اس کا ثواب تمہیں ضرور دے گا.(صحیح بخاری جلد سوم کتاب الفرائض باب ميراث البنات حديث (636 1638 خلقت انس میں ہے انس و محبت کا خمیر واقعہ گر محبت نہیں بیکار ہے انسان ہونا در عدن جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کی ادائیگی کے بعد مکہ سے روانہ ہونے کا قصد کر چکے تھے تو حضرت حمزہ کی یتیم بچی امامہ جو مکہ میں رہ گئی تھی چاچا کہہ کر دوڑتی ہوئی آئیں حضرت علیؓ نے انہیں ہاتھوں میں اُٹھا لیا اور حضرت فاطمہ الزہرا کے حوالے کر دیا کہ یہ لو تمہارے چا کی بیٹی ہے حضرت علی کے بھائی جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے دعویٰ کیا کہ یہ بچی مجھے ملنی چاہیے کیونکہ میرے چچا کی ہے.اور اس کی خالہ میرے گھر میں ہے حضرت زید نے بڑھ کر کہا حضور لڑکی مجھے ملنی چاہیے کہ حمزہ میرے دینی بھائی تھے حضرت علی کا دعویٰ تھا کہ یہ میری بھی بہن ہے اور میری ہی گود میں آئی تھی.آنحضور اس خوشکن منظر کو دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے پھر سب کے دعوے سن کر بچی کو یہ کہتے ہوئے اس کی خالہ کی گود میں دے دیا کہ خالہ ماں کے برابر ہوتی ہے.(صحیح بخاری باب عمرۃ القضاء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا معاند رشتہ داروں سے حسن سلوک کا واقعہ ” جب گورا دسپور کی عدالت نے مقدمہ دیوار کے گرائے جانے کا فیصلہ صادر کیا تو عدالت نے مخالفین مرزا نظام الدین اور مرزا امام الدین کے خلاف ہر جانہ اور خرچہ کی ڈگری بھی کر دی جس پر حضرت اقدس کے معاند سخت پریشان ہوئے وہ اپنی ابتر مالی حالت کی وجہ سے مطلوبہ رقم، ایک سو چوالیس روپے پانچ آنے سات پائی، ادا کرنے کے قابل نہ تھے انہوں نے حضرت اقدس کی
30 29 خدمت میں بذریعہ خط درخواست کی کہ انہیں یہ رقم معاف کر دی جائے جس پر حضرت اقدس نے ان دیرینہ مخالفوں کو ڈگری کی رقم معاف فرما دی.“ قال اللہ تعالیٰ ( تاریخ احمدیت جلد سوم ) ( منقول از انصار اللہ مارچ 2001ءصفحہ 18 ) ہمسائیوں سے حسن سلوک 1- ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی اور جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے.“ (النساء: 37) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1- ایک دفعہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت اقدس محمد مصطفی سے دریافت فرمایا کہ یا رسول اللہ ! میرے دو پڑوسی ہیں اگر میں تحفہ دینا چاہوں تو کس کو بھیجوں.فرمایا : ”جس کا گھر قریب تر ہے وہی تحفہ کا زیادہ مستحق ہے.(صحیح بخاری جلد سوم کتاب الادب باب حق الجواهر في قرب ابواب ) 2.حضرت ابن عمرؓ اور حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جبرائیل ہمیشہ مجھے پڑوسی سے حسن سلوک کی تاکید کرتا آ رہا ہے یہاں تک کہ مجھے خیال ہوا کہ کہیں وہ اُسے وارث ہی نہ بنا دے.“ ( بخاری کتاب الادب باب الوصايا بالجار ) 3.حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم سے عرض کیا مجھے کس طرح معلوم ہو کہ میں اچھا کر رہا ہوں یا بُرا کر رہا ہوں.حضور نے فرمایا جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم بہت اچھے ہو تو سمجھ لوکہ تمہارا طرز عمل اچھا ہے اور جب تم پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم بڑے بُرے ہو تو سمجھ لو تمہارا رویہ بُرا ہے.(ابن ماجہ ابواب الزهد باب ثناء الحسن) -4- حضرت ابوذر بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا.”اے مسلمان عورتو! کوئی عورت اپنی پڑوسن سے حقارت آمیز سلوک نہ کرے اگر بکری کا ایک پایہ بھی بھیج سکتی ہو تو اسے بھیجنا چاہیے.(اس میں شرم کی کوئی بات نہیں.) ( بخاری کتاب الادب باب لا تحقرن جارة لجارتها ) 5- حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ نے فرمایا ” اللہ تعالیٰ کے نزدیک ساتھیوں میں سے وہ ساتھی اچھا ہے جو اپنے ساتھی کے لئے اچھا ہو اور پڑوسیوں میں وہ پڑوسی بہترین ہے جو اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرے.“ ( ترمذی ابواب البر والصلة باب ماجاء في الحق الجواهر) 6- پڑوس کے ساتھ حسن سلوک کرنا اور اس کے حقوق کی ادائیگی کرنا واقعتاً فضل الہی پر منحصر ہے اور انسان کو سچے ایمان کا وارث بنا دیتا ہے
32 31 واقعہ (جامع ترندی کتاب الزهد حدیث نمبر (2227) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ میرے پاس استراحت فرما رہے تھے تو ایک پڑوس کی بکری آگئی اور جو روٹی میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پکا کر رکھی ہوئی تھی وہ اُٹھا کر چل پڑی.میں اُس کے پیچھے بھاگی تاکہ اس کو مار کے بھگا دوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دیکھو پڑوسی کو اس کی بکری کی وجہ سے تکلیف نہ پہنچاؤ جو لے گئی ہے لے جانے دو.واقعہ الادب مفرد ترمذى لايؤذى جاره حدیث 120) ( منقول از روز نامه الفضل 12 اپریل 2002) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص پڑوسی کی شکایت لے کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو فرمایا جا صبر کر یہ شخص دو یا تین بار حضور ﷺ کی خدمت میں شکایت لے کر آیا تو پھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کو فرمایا کہ جا اور اپنا مال و متاع باہر رکھ دے یعنی اپنے گھر کا سامان سڑک پر لے آچنا نچہ اس نے اپنا مال رستے میں رکھ دیا اس پر لوگوں نے اس کے بارے میں پوچھا کہ تم اس طرح کیوں کر رہے ہو تو ان کو بتا تا رہا کہ کس وجہ سے ہو رہا ہے تب لوگوں نے ہمسایہ پر لعنت ملامت کی اور کہنے لگے اللہ اسے یوں کرے وغیرہ وغیرہ اس پر اس کا ہمسایہ اس کے پاس آیا اور کہنے لگا تو اپنے گھر میں واپس چلا جا اب تو مجھ سے کوئی ناپسندیدہ بات نہیں دیکھے گا.واقعہ ترندی کتاب الزهد باب مثل الدنيا رابعة نفر) حضرت عبداللہ بن مبارک رضی اللہ عنہ ایک دفعہ حج سے فارغ ہو کر حرم میں سو گئے خواب میں دیکھتے ہیں کہ دو فرشتے آسمان سے آئے ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ اس سال کتنی خلقت حج کے لئے آئی دوسرے نے کہا کہ چھ لاکھ پھر پوچھا کتنے لوگوں کا حج قبول ہوا.دوسرے نے جواب دیا کہ کسی کا حج قبول نہیں ہوا.یہ سن کر آپ گھبرائے کہ اس قدر خلقت کی تمام سفر کی تکلیفیں اکارت گئیں.اس کے بعد دوسرے فرشتے نے کہا دمشق میں ایک شخص علی بن موفق نامی موچی رہتا ہے اگر چہ وہ حج پر نہیں آیا لیکن اس کا حج قبول ہو گیا اور یہ خلقت ساری محض اس کے طفیل بخشی گئی یہ خواب دیکھ کر آپ جاگے اور دمشق میں جا کر علی بن موفق موچی کی زیارت کا ارادہ کر کے چل پڑے وہاں پہنچ کر اس کے گھر جا کر پکارا علیک سلیک کے بعد فرمایا کہ مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے اس نے کہا فرمائیے.تب آپ نے سارا خواب کا واقعہ بیان کیا.عبد اللہ مبارک کا سوال سنتے ہی وہ بیہوش ہو گیا جب ہوش آیا تو کہا کہ حج کے ارادے سے میں نے ساری عمر میں تمہیں ہزار درہم جمع کئے تھے حج کے لئے بالکل تیار تھا کہ ایک دن میری بیوی نے کہا ہمسائے کے گھر سے گوشت پکنے کی خوشبو آ رہی ہے ذرا سا لے آؤ.چنانچہ میں ان کے گھر گیا اور تھوڑا سا سالن طلب کیا اس نے کہا یہ گوشت تم پر حلال نہیں کیونکہ سات دن کے فاقہ کے بعد بچوں کو بھوک سے بیتاب دیکھ کر آج تھوڑا سا مردار پکایا ہے یہ سُن کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی فوراً آکر تمہیں ہزار درہم لئے اور ہمسایہ کو دے دیے تا کہ وہ اپنے بال بچوں پر خرچ کرے یہ حالات سن کر آپ نے کہا واقعی فرشتوں نے
34 33 سچ کہا تھا.(تذکرۃ الاولیاء باب نمبر 3 ص 135) ( منقول از روز نامه الفضل 13 جون 2001) تیموں اور مسکینوں سے حُسنِ سلوک قال اللہ تعالیٰ 1 - ترجمہ:- اور وہ کھانے کو، اس کی چاہت رکھتے ہوئے، مسکینوں اور یتیموں اور اسیروں کو کھلاتے ہیں.(الدھر:9) 2- ترجمہ: - اور ان کے اموال میں سوال کرنے والوں اور بے سوال ضرورت مندوں کے لئے ایک حق تھا (الذاریات: 20) -3- ترجمہ - یا ایک عام فاقے والے دن میں کھانا کھلانا.ایسے یتیم کو جو قرابت والا ہو.یا ایسے مسکین کو جو (البلد : 15-17) خاک آلودہ ہو.4 - ترجمہ: - خبردار در حقیقت تم یتیم کی عزت نہیں کرتے اور نہ ہی مسکین کو کھانا کھلانے کی ایک دوسرے (الفجر:18,19 ) کو ترغیب دیتے ہو.5- ترجمہ:- اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگرایسے طریق پر کہ وہ بہترین ہو یہاں تک کہ وہ اپنی بلوغت کی عمر کو پہنچ جائے اور عہد کو پورا کرو یقیناً عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا.( بنی اسرائیل: 35) -6- ترجمہ: اور وہ تجھ سے تیموں کے بارے میں پوچھتے ہیں.تو کہہ دے ان کی اصلاح اچھی بات ہے.اور اگر تم ان کے ساتھ مل جل کر رہو تو وہ تمہارے بھائی بند ہی ہیں.اور اللہ فساد کرنے والے کا اصلاح کرنے والے سے فرق جاننا ہے اور اگر اللہ چاہتا تو تمہیں ضرور مشکل میں ڈال دیتا.یقیناً اللہ کامل غلبہ والا (اور) حکمت والا ہے.(البقرہ:221) 7- ترجمہ: اور تم میں سے جولوگ وفات دیے جائیں اور بیویاں پیچھے چھوڑ رہے ہوں،ان کی بیویوں کے حق میں یہ وصیت ہے کہ وہ (اپنے گھروں میں) ایک سال تک فائدہ اُٹھائیں اور نکالی نہ جائیں.ہاں اگر وہ خود نکل جائیں تو تم پر کوئی گناہ نہیں.قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم (البقره: 241) 1- یتیم کی پروش کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا.کہ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا جنت میں اس طرح نزدیک ہوں گے اور آپ نے انگشت شہادت اور درمیانی انگلی کے درمیان تھوڑا سا فاصلہ رکھ کر دکھایا کہ اس طرح.“ ( صحیح بخاری جلد سوم کتاب الادب باب 580 حدیث 943 صفحہ 374)
36 35 2- صفوان بن سلیم (تابعی) اس حدیث کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا.وو بیوہ اور مسکین کے لئے امدادی کوشش کرنے والا.اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے یا اُس شخص کی مانند ہے جو دن کو ہمیشہ روزے رکھے اور راتوں کو قیام کرے.“ (صحیح بخاری جلد سوم کتاب الادب باب 581 حدیث 944 صفحہ 374) 4- حضرت عبداللہ بن ابی اوفی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میں تکبر نام کو نہ تھا نہ آپ ناک چڑھاتے اور اس بات پر بُرا مناتے اور بچتے کہ آپ بیواؤں اور مسکینوں کے ساتھ چلیں اور ان کے کام آئیں اور ان کی مدد کریں یعنی بے سہارا عورتوں اور مسکینوں اور غریبوں کی مدد کے لئے ہر وقت کمر بستہ رہتے اور اس میں خوشی محسوس کرتے.(مسند دارمی باب فی تواضع رسول الله ) 5- حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا مساکین سے محبت کرو پس میں نے رسول اللہ کو یہ دعا کرتے ہوئے سنا.اے اللہ مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ مجھے مسکینی کی حالت میں موت دے اور مجھے مسکینوں کے گروہ سے ہی اُٹھانا.ابن ماجہ کتاب الزهد بحالة الفقراء) 6- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دل کی سختی کی شکایت کی آپ نے فرمایا اگر تو دل کو نرم کرنا چاہتا ہے تو مسکین کو کھانا کھلا اور یتیم کے سر پر دست شفقت رکھ.(مسند احمد باقی مسند المکثرین حدیث نمبر 7260) 7- آپ نے فرمایا کہ جو شخص رضائے الہی کی خاطر یتیم بچے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرے گا اس کے ہاتھ کے نیچے جتنے بال ہوں گے اسے ان کی تعداد کے مطابق نیکیاں حاصل ہوں گی.(مسند احمد بن حنبل) 8 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں.ایک دفعہ میں نے یہ شعر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے پڑھا.ترجمہ: -وہ سفید نورانی چہرے والا شخص جس کے منہ کا واسطہ دے کر بادل سے بارش طلب کی جاتی ہے تیموں کے لئے موسم بہار اور بیواؤں کی عزت کا محافظ ہے.اس پر حضرت ابو بکر صدیق بے اختیار پکار اُٹھے بخدا وہ تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 7 مطبوعہ بیروت) 9.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسلمانوں کے گھروں میں سب سے بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے اور بد ترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ بُرا سلوک ہوتا ہے.(ابن ماجہ ابواب الادب باب حق الیتیم) واقعہ حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دن پہلے پہر ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک پورا قبیلہ مسافر وار حاضر خدمت ہوا اس کی ظاہری حالت اس درجہ خراب تھی کہ کسی کے بدن پر کوئی کپڑا ثابت نہ تھا برہنہ تن برہنہ پا کھالیں بدن سے بندھی ہوئی تلوار میں گلوں میں پڑی ہوئی ان کی یہ حالت دیکھ کر آپ بے حد متاثر ہوئے چہرہ مبارک کا رنگ بدل گیا اضطراب میں آپ اندر گئے باہر آئے پھر حضرت بلال کو اذان دینے کا حکم دیا نماز کے بعد آپ نے خطبہ دیا اور تمام مسلمانوں کو ان کی امداد و اعانت کے لئے آمادہ کیا.(صحیح مسلم ،صدقات)
38 37 فرمودات حضرت مسیح موعود علیہ السلام حقیقی نیکی کرنے والوں کی یہ خصلت ہے کہ وہ محض خدا کی محبت کے لئے وہ کھانے جو آپ پسند کرتے ہیں مسکینوں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم تم پر کوئی احسان نہیں کرتے بلکہ یہ کام صرف اس بات کے لئے کرتے ہیں کہ خدا ہم سے راضی ہو اور اُس کے منہ کے لئے یہ خدمت ہے ہم تم سے نہ تو کوئی بدلہ چاہتے ہیں اور نہ چاہتے ہیں کہ تم ہمارا شکر کرتے پھرو.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن 10 صفحه 357) واقعہ ایک دفعہ ایک معزز احمدی قادیان تشریف لائے وہ بوجہ عدیم الفرصتی کے ایک گھنٹہ کے لئے حضرت اقدس کی ملاقات کو آئے تھے.صاحب حیثیت تھے اور بالکل مختصر ملاقات کو آئے تھے پھر واپس چلے جانا تھا.حضرت میر محمد اسحاق صاحب ایسے لوگوں کی تاک میں رہا کرتے تھے تا کہ ان کو بھی ثواب میں شامل کر لیں جانتے تھے کہ صاحب حیثیت ہیں تو طریقہ بہت اچھا ڈھونڈا انہوں نے فوراً بھائی احمد دین ڈنگوی کی دکان سے ان کے لئے لسی اور ناشتہ کا انتظام کیا ان کو ساتھ لے کر دار الشیوخ میں تشریف لائے جب کسی اور ناشتہ پیش کیا تو ویسے بھی اس وقت آنے والے کی عزت افزائی ہونی چاہیے تھی.مہمان کی خدمت ہونی چاہیے تھی تو ذاتی طور پر جب ان کولسی کا ناشتہ وغیرہ ملا تو بہت خوش ہوئے تو کہا آؤ آپ کو دار الشیوخ دکھا دوں دارالشیوخ میں تشریف لائے اور فرمایا کہ جماعت کے یتیم اور مسکین ہیں اور ایک بہت پیاری بات کہی.”یہ میرا باغ ہے میں نے یہ باغ لگایا ہے.“ دیکھو خدا تعالیٰ نے اس باغ کو ساری دنیا میں پھیلا دیا.اس کثرت سے یہ باغ ملک ملک لگ رہے ہیں کہ میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ اس زمانے میں نیکی اور خلوص اور تقویٰ نے جو بنیادیں ڈالی تھیں انہیں پر یہ عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں وہ بیج جو بوئے گئے تھے وہ اس وقت باغ کہلانے کے ابھی حقیقت میں مستحق نہیں تھے کیونکہ تھوڑے سے چند پودے تھے اب تو وہ عالمی باغ بن گئے ہیں تمام جہاں پر ان کا عرصہ محیط ہو چکا ہے فرمایا اللہ کی خاطر ہے آپ بھی اس کی آبیاری میں حصہ لیں و ہ احمدی دوست چند منٹ میں آپ کی باتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ پانچ صد روپے کی رقم ان یتامی کی اعانت کے لئے پیش کر دی.یہ پانچ صد روپے کی جو رقم ہے بظاہر دیکھنے میں اس وقت کے لحاظ سے اگر چہ بڑی تھی مگر پھر بھی کچھ نہیں اب واقعہ یہ ہے کہ میں بعض ایسے یتامی کو جو دارالشیوخ میں پلے تھے ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے زندگی بھر ایک کروڑ روپے دوسرے یتامیٰ اور ضرورت مندوں کے لئے خرچ کئے ہوں گے تو براہ راست وہ پودے جو وہاں لگے تھے ان کا فیض بھی پھیلا ہے ان کی جڑیں بھی پھیلی ہیں ان کی شاخیں بھی پھیلی ہیں اور بڑے وسیع علاقوں میں محیط ہیں.الفضل 4 مئی 1999) آج دنیا میں کہیں بھی کوئی بھی حقیقی رنگ میں یتامیٰ کا پرسان حال نہیں.جماعت احمدیہ واحد جماعت ہے جو اپنی بساط بھر کوششوں سے اس خزاں میں بہار پیدا کر رہی ہے اور یہ اسوہ نبی پر عمل ہے.
40 39 39 قال اللہ تعالیٰ ماتحتوں سے حُسنِ سلوک 1- ترجمہ: اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے (النساء:37) ہاتھ مالک ہوئے.قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم 1 - حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین باتیں جس میں ہوں اللہ تعالیٰ اُسے اپنی حفاظت اور رحمت میں رکھے گا اور اسے جنت میں داخل کرے گا.پہلی یہ کہ وہ کمزوروں پر رحم کرے دوسری یہ کہ وہ ماں باپ سے محبت کرے.تیسری یہ کہ خادموں اور نوکروں سے اچھا سلوک کرے.( ترندی صفۃ القیامة ) 2.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کا خادم اُس کے پاس کھانا لے کر آئے تو اگر کسی وجہ سے اُسے پاس بٹھا کر نہ کھلا سکو تو کم از کم ایک دو لقمے تو اس کو کھانے کو دے دو کیونکہ اس نے یہ کھانا محنت کر کے تمہارے لئے تیار کیا ہے اس میں اس کا بھی حق ہے.( بخاری جلد اول کتاب العتق باب 1600 حدیث 2376 صفحہ 929) 3- ابو مسعود کہتے ہیں کہ میں ایک دفعہ اپنے غلام کو مار رہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی جان لو.جان لو.مُڑ کر دیکھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ اے ابو مسعود! جتنا قابو تمہیں اس غلام پر ہے اس سے زیادہ خدا کو تم پر ہے.ابو مسعودؓ کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس نصیحت کا مجھ پر اتنا گہرا اثر ہوا کہ میں نے پھر کبھی کسی غلام کو نہیں مارا.( ترمذی ابواب البر والصله باب ماجاء في ادب الخادم) -4- ہمام بن منبہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”تم میں سے یہ کوئی نہ کہے کہ اپنے رب کو کھانا کھلا ، اپنے رب کو وضو کروا.اپنے رب کو پلا بلکہ میرا سردار اور میرا آقا کہنا چاہیے.اور تم میں کوئی عبدی یا امتی نہ کہے بلکہ میرا خادم، میری خادمہ اور میرا غلام کہنا چاہیے.“ ( صحیح بخاری جلد اول کتاب العتق حدیث 2372 صفحہ 928) واقعہ نمبر 1 حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے اچھے اخلاق کے مالک تھے ایک بار آپ نے مجھے کسی کام کے لئے بھیجا میں نے کہا میں نہیں جاؤں گا لیکن دل میں میرے یہ تھا کہ میں ضرور جاؤں گا کیونکہ حضور حکم دے رہے ہیں بہر حال میں چل پڑا اور بازار میں کھیلتے ہوئے بچوں کے پاس سے گزرا اور اُن کے پاس کھڑا ہو گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پیچھے سے میری گردن پکڑ لی میں نے مڑ کر آپ کی طرف دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے.آپ نے فرمایا انس! جس کام کی طرف میں نے تجھے بھیجا تھا وہاں گئے.میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ! ہاں ابھی جاتا ہوں.انس کہتے ہیں خدا کی قسم ! میں نے نو سال تک حضور کی خدمت کی مجھے علم نہیں کہ آپ نے کبھی فرمایا ہو کہ تو نے یہ کام کیوں کیا یا کوئی کام نہ کیا تو آپ نے فرمایا ہو کہ تم نے یہ کام کیوں نہیں کیا.(مسلم كتاب الفضائل باب كان رسول الله احسن الناس خلقا)
42 41 واقعہ نمبر 2 ایک خادم ربیعہ اسلمی کی خدمتوں سے خوش ہو کر نبی کریم نے کچھ انعام اس کی مرضی کے مطابق دینا چاہا فرمایا مانگ لو جو مانگتا ہے اس خوش نصیب نے بھی یہی کہا کہ یا رسول اللہ ! جنت میں آپ کی رفاقت چاہیے.فرمایا کچھ اور مانگ لو اس نے کہا بس میں یہی خواہش رکھتا ہوں.آپ نے فرمایا جس سے تم محبت کرتے ہو جنت میں اس کے ساتھ ہی ہو گے اور سجدوں کے ذریعے اور نماز کے ذریعے میری مدد کرو کہ تمہاری یہ خواہش پوری ہو جائے.(مسلم کتاب الصلوۃ باب فضل السجود ) واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک دفعہ حضور اندر لکھ رہے تھے کہ منشی غلام محمد صاحب کا بیٹا روتا اور چلاتا ہوا بھاگتا آیا اور اس کے پیچھے منشی غلام محمد صاحب جوتا ہاتھ میں لئے ہوئے شور مچاتے ہوئے آئے کہ باہر نکل میں تجھ کو مار ہی ڈالوں گا حضرت اقدس یہ شورسُن کر باہر نکلے اور منشی صاحب سے پوچھا کہ کیا ہوا ؟ وہ یہی کہتے جاتے تھے کہ میں نے اس کو مار ہی دینا ہے آخر حضرت صاحب کے اصرار پر بتایا کہ حضور میں نے اس کو نیا جوتا لے کر دیا تھا اس نے گم کر دیا ہے اب میں اس کو مار ہی دوں گا.حضرت اس کو سن کر ہنس پڑے اور منشی صاحب کو کہا کہ اس پر اتنا شور مچانے کی کیا ضروت ہے اور مارتے کیوں ہو بات تو صرف جوتے کی ہے میں ہی نیا جوتا خرید کر دوں گا.اس پر منشی صاحب خوش ہو کر چلے گئے اور بیٹے کو کہا اچھا اب آجا ! حضرت صاحب جو تا خرید کر دیں گے.حضرت صاحب اس واقعہ کو بیان کرتے تھے اور ہنستے تھے کہ دیکھو یہ اس نے کیا کیا تنخواہ کے علاوہ اس کی خوراک وغیرہ کا خرچ بھی آپ دیتے اور اس پر کھانا بھی وہ حضرت ہی کے ہاں سے لے لیتا اور بعض ضروری پارچہ جات ، بستر وغیرہ یا سردی کا موسم ہو تو رضائی اور گرم کوٹ بھی لے لیتا.حضرت مسیح موعود اس کی ان باتوں کو سمجھتے مگر کبھی نہ تو ناراض ہوتے اور نہ اُس کو الگ کرتے.“ سیرت حضرت مسیح موعود از حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ 354) قال اللہ تعالیٰ مہمان نوازی 1 - ترجمہ: ” کیا تجھ تک ابراہیم کے معزز مہمانوں کی خبر پہنچی ہے ؟ جب وہ اس کے پاس آئے تو انہوں نے کہا سلام ! اس نے بھی کہا سلام! (اور جی میں کہا ) اجنبی لوگ (معلوم ہوتے ہیں) پھر وہ جلدی سے اپنے گھر والوں کی طرف گیا اور ایک موٹا تازہ ( بھنا ہوا) بچھڑا لے آیا پھر اسے ان کے سامنے پیش کیا اور پوچھا کیا تم کھاؤ گے نہیں؟ تب اُس نے ان کی طرف سے خوف محسوس کیا.انہوں نے کہا ڈر نہیں.اور انھوں نے اُسے ایک صاحب علم بیٹے کی خوشخبری دی.“ (الذاریات: 25 تا 29) 2- ترجمہ:.اُس نے کہا یہ میرے مہمان ہیں پس مجھے رسوا نہ کرو.اور اللہ سے ڈرو اور مجھے ذلیل نہ کرو.“ ( الحجر : 70-69)
44 43 قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم 1- حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ علیہ و ستم سے عرض کیا کہ کون سا اسلام سب سے بہتر ہے فرمایا (ضرورت مندوں کو) کھانا کھلاؤ اور ہر اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے سلام کہو.( بخاری کتاب الاستئذ ان باب السلام للمعرفة و غير المعرفة ) 2- حضرت شریح بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالیٰ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کرے اور ایک دن رات سے تین دن رات تک اُسے مہمان رکھے اگر اُس سے زائد عرصہ مہمان اس کے پاس ٹھہرتا ہے اور وہ اس کی مہمان نوازی کرتا ہے تو یہ اس کی طرف سے صدقہ اور نیکی کی بات ہوتی ہے.مہمان کے لئے یہ مناسب نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ بلا اجازت اس کے ہاں ٹھہرا رہے اور میزبان کو تکلیف میں ڈالے.(ابوداؤد كتاب الاطعمة باب الضيافة) 3.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری سنت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ میز بان اعزاز و تکریم کے ارادہ سے مہمان کے ساتھ گھر کے دروازے تک الوداع کہنے آئے.(ابن ماجہ ابواب الاطعمه باب الضيافة) -4- حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم میں سے کسی کو کھانے کی دعوت دی جائے تو وہ اسے قبول کرے اگر روزے سے ہے تو حمد و ثنا اور دعا کرتا رہے اور معذرت کرے اگر روزہ دار نہیں تو جو کچھ پیش کیا گیا ہے وہ خوشی سے کھائے.مسلم كتاب النكاح باب الامر باجابة الداعي الى دعوة) واقعہ نمبر 1 عبد اللہ بن طغفہ بیان کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کثرت سے مہمان آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ ہر کوئی اپنا مہمان لیتا جائے ایک رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بہت سے مہمان آگئے.آپ نے فرمایا کہ ہر کوئی اپنے حصے کا مہمان ساتھ لیتا جائے.عبد اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان میں تھا جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گئے تھے چنانچہ جب آپ ﷺ گھر پہنچے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا : کیا گھر میں کھانے کو کچھ ہے؟ انہوں نے عرض کی جی ہاں حریسہ نامی کھانا ہے جو میں نے آپ کے افطار کے لئے تیار کیا ہے تو راوی کہتے ہیں کہ وہ کھانا ایک برتن میں ڈال کر لائیں ( تھوڑا سا ہو گا ) اس میں سے رسول اللہ نے تھوڑا سا لیا اور تناول فرمایا اور پھر فرمایا کہ بسم اللہ کر کے کھائیں پھر ہمیں بھی دیا چنانچہ ہم نے اس کھانے میں سے اس طرح کھایا کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے تھے.پھر اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عائشہ! کیا تمہارے پاس پینے کو کوئی چیز ہے؟ انہوں نے کہا جی ہاں حریرہ ہے جو میں نے آپ کے لئے تیار کیا ہے فرمایا لے آؤ حضرت عائشہ وہ لائیں تو وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پکڑا اور برتن کو اپنے منہ کی طرف بلند کیا تھوڑا سا نوش کر کے فرمایا : بسم اللہ کر کے پینا شروع کرو پھر ہم اس سے اس طرح پینے لگے کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے ، تھے.روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم کہاں سونا چاہتے ہو؟ یہاں یا مسجد میں ہم مسجد چلے گئے وہیں سوئے صبح حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے نماز کے لئے ہر ایک کو جگایا.(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 428 مطبوعہ بیروت)
46 45 واقعہ نمبر 2 حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم کے گھر کے قریب سے گزرتے تو ان کے گھر آتے اور ان کو سلام کہتے حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ جب نبی کریم کی شادی زینب بنت حجش سے ہوئی تو مجھے میری والدہ ام سلیم نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تحفہ بھیجیں تو کتنا اچھا ہوگا اس پر میں نے کہا بھیج دیں تو میرے کہنے کے بعد میری والدہ نے کھجور اور پنیر کو ایک برتن میں ڈالا اور ان کو ملا کر حنین نامی کھانا تیار کیا اور پھر وہ کھانا مجھے دے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا جب میں آپ کے پاس پہنچا تو آپ نے مجھے ارشاد فرمایا اس برتن کو رکھو پھر کچھ آدمیوں کا نام لے کر فرمایا کہ ان کو بلا لاؤ اور ہر وہ شخص جو تمہیں ملے اسے کہنا کہ میں بلا رہا ہوں حضرت انس کہتے ہیں کہ میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلّم کے ارشاد کے مطابق کیا جب میں واپس آیا تو گھر آدمیوں سے بھرا ہوا تھا پھر میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو دیکھا کہ آپ نے اپنا دستِ مبارک اس کھانے پر رکھا اور اس کو برکت دینے کے لئے کچھ دیر دعا کرتے رہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دس دس افراد کو بلانے لگے جو اس برتن میں کھاتے تھے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان کو فرماتے تھے کہ بسم اللہ پڑھ کر کھاؤ اور ہر شخص اپنے سامنے سے کھائے.آنحضور اسی طرح ان سب کو بلاتے رہے یہاں تک کہ ان سب نے کھانا کھا لیا.( بخاری کتاب التوحيد باب الهدية للروس) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی 1 - حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب ڈاکٹر عبد اللہ صاحب کا واقعہ بیان کرتے ہیں ( یہ نو احمدی تھے ) ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں حضرت مسیح موعود سے نیاز حاصل کرنے کے لئے لاہور سے دو دن کی رخصت لے کر آیا (ڈاکٹر صاحب لاہور میں انجمن حمایت اسلام کے شفاخانہ میں کام کرتے تھے ) رات کی گاڑی پر بٹالہ اُترا اس لئے رات کو میں وہیں رہا اور صبح سویرے اُٹھ کر قادیان کو روانہ ہو گیا اور ابھی سورج تھوڑا ہی نکلا تھا کہ یہاں پہنچ گیا.میں پرانے بازار کی طرف سے آ رہا تھا جب میں بیت اقصیٰ کے قریب جو بڑی حویلی (ڈپٹی منکر داس کی حویلی ) ہے وہاں پہنچا تو میں نے اس جگہ (جہاں اب صاحبزادہ مرزا شریف احمد کا مکان ہے اور اس وقت یہ جگہ سپید ہی تھی) حضرت مسیح موعود کو ایک مزدور کے پاس جو اینٹیں اُٹھا رہا تھا کھڑے ہوئے دیکھا حضرت صاحب نے بھی مجھے دیکھ لیا.آپ مجھے دیکھتے ہی مزدور کے پاس سے آ کر راستہ پر کھڑے ہو گئے.میں نے قریب پہنچ کر سلام کیا.آپ نے جواب دیا اور فرمایا کہ اس وقت کہاں سے آ رہے ہو؟ میں نے عرض کیا کہ میں رات بٹالہ رہا ہوں اور اب آپ کی خدمت میں وہاں سے سویرے چل کر حاضر ہوا ہوں.آپ نے فرمایا پیدل آئے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں.افسوس کے لہجہ میں فرمایا کہ تمہیں تو بڑی تکلیف ہوئی ہوگی.میں نے عرض کیا کہ کوئی تکلیف نہیں ہوئی.آپ نے فرمایا اچھا بتاؤ چائے پیو گے یاکسی میں نے عرض کیا کہ کچھ نہیں پیوں گا.آپ نے فرمایا تکلف کی کوئی ضرورت نہیں ہمارے گھر گائے ہے جو کہ تھوڑا دودھ دیتی ہے گھر والے چونکہ دہلی گئے ہوئے ہیں اس لئے اس وقت کسی موجود ہے اور چائے بھی.اس لئے جو چاہو پی لو میں نے کہا لسی پیوں گا.آپ نے فرمایا اچھا چلو ( بیت ) مبارک میں بیٹھو میں (بیت) مبارک میں آکر بیٹھ گیا تھوڑی دیر کے بعد بیت الفکر کا دروازہ کھلا میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت صاحب ایک کوری ہانڈی معہ کوری چینی کے جس میں لسی تھی خود اُٹھائے ہوئے دروازے
48 47 سے نکلے چینی پر نمک تھا اور اس کے اوپر ایک گلاس رکھا ہوا تھا حضرت صاحب نے وہ ہانڈی میرے سامنے لا کر رکھ دی اور خود اپنے دستِ مبارک سے گلاس میں کسی ڈالنے لگے میں نے خود گلاس پکڑ لیا اتنے میں چند اور دوست بھی آگئے میں نے انہیں بھی لسی پلائی اور خود بھی پی پھر حضرت صاحب خود وہ ہانڈی اور گلاس لے کر اندر تشریف لے گئے.آپ کی اس شفقت اور نوازش کو دیکھ کر میرے ایمان کی بہت ترقی ہوئی.(سیرت حضرت مسیح موعود حصہ اوّل صفحہ 136 تا 139 ) 2- ایک گھر کی خادمہ سے کسی مہمان کو کوئی تکلیف پہنچی حضرت مسیح موعود کو خبر ہوئی تو حضور کا چہرہ مارے غصہ کے سرخ ہو گیا اور آپ نے فرمایا مجھے اس سے اس قدر تکلیف ہوئی ہے کہ اگر میرے چاروں بچے بھی مر جاتے تو اتنی تکلیف نہ پہنچتی.(الفضل 23 ستمبر 2000) 3- آپ کی طبیعت نہایت درجہ مہمان نواز تھی اور جو لوگ جلسہ کے موقع پر یا دوسرے موقعوں پر قادیان آتے تھے خواہ وہ احمدی ہوں یا غیر احمدی وہ آپ کی محبت اور مہمان نوازی سے پورا پورا حصہ پاتے تھے آپ کو ان کے آرام اور آسائش کا از حد خیال رہتا تھا آپ کی طبیعت میں تکلف بالکل نہ تھا اور ہر مہمان کو ایک عزیز کے طور پر ملتے تھے اور اس کی خدمت اور مہمان نوازی میں دلی خوشی پاتے تھے اوائل زمانہ کے آنے والے لوگ بیان کرتے ہیں کہ جب کو کی مہمان آتا تو آپ ہمیشہ اسے ایک مسکراتے ہوئے چہرہ سے ملتے تھے.مصافحہ کرتے خیریت پوچھتے عزت کے ساتھ بٹھاتے گرمی کا موسم ہوتا تو شربت بنا کر پیش کرتے سردیاں ہوتیں تو چائے وغیرہ تیار کروا کر لاتے.رہائش کی جگہ کا انتظام کرتے اور کھانے وغیرہ کے متعلق مہمان خانہ کے منتظمین کو خود بُلا کر تاکید فرماتے کہ کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.ایک پرانے رفیق نے جو دنیا وی لحاظ سے معمولی حیثیت کے تھے بیان کیا کہ جب شروع شروع میں قادیان آیا تو اس وقت گرمی کا موسم تھا حضرت مسیح موعود حسب عادت نہایت محبت اور شفقت کے ساتھ ملے اور مجھے خود اپنے ہاتھ سے شربت بنا کر دیا اور لنگر خانے کے منتظم کو بلا کر میرے آرام کے بارے میں تاکید فرمائی اور مجھے بار بار فرمایا کہ کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ بلا تکلف کہہ دیں ایک بار سردیوں میں آیا نماز اور کھانے سے فارغ ہو کر سونے کے لئے لیٹ گیا کہ کسی نے میرے کمرے کا دروازہ آہستہ سے کھٹکھٹایا میں اُٹھ کر بیٹھ گیا تو آپ خود بنفس نفیس ایک ہاتھ میں لالٹین لئے اور دوسرے میں ایک پیالہ تھامے کھڑے تھے مسکراتے ہوئے فرمایا.اس وقت کہیں سے دودھ آ گیا تھا 66 میں نے کہا آپ کو دے آؤں شائد رات کو دودھ پینے کی عادت ہوگی.“ (سلسلہ احمدیہ از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صفحہ 44-45 منقول از مصباح مارچ 2005) مہماں جو کر کے اُلفت آئے بصد محبت پر دل کو پہنچے غم جب یاد آئے وقت رخصت دل کو ہوئی ہے فرحت اور جاں کو میری راحت روز کر مبارک سبحان من برانی ڈرمین پھول تم پر فرشتے نچھاور کریں اور کشادہ ترقی کی راہیں کریں آرزوئیں مری جو دعائیں کریں رنگ لائیں مرے مہماں کے لئے میرے آنسو تمہیں دیں زم زندگی دور تم سے کریں ہر غم زندگی مہماں کو ملے جو رم زندگی وہی امرت بنے میزباں کے لئے کلام طاہر
50 49 قال اللہ تعالیٰ ایثار 1- ترجمہ: ” اور وہ لوگ جنہوں نے ان سے پہلے ہی گھر تیار کر رکھے تھے اور ایمان کو ( دلوں میں ) جگہ دی تھی وہ ان سے محبت کرتے تھے جو ہجرت کر کے ان کی طرف آئے اور اپنے سینوں میں اس کی کچھ حاجت نہیں پاتے تھے جو اُن (مہاجروں ) کو دیا گیا اور خود اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے تھے باوجود اس کے کہ انہیں خود تنگی در پیش تھی ، پس جو کوئی بھی نفس کی خساست سے بچایا جائے تو یہی وہ لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں.“ (الحشر :10) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم 1 - حضرت ابو بصرہ غفاری بیان کرتے ہیں کہ میں قبول اسلام سے سے قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضور نے مجھے بکری کا دودھ پیش کیا جو آپ کے اہل خانہ کے لئے تھا.حضور نے مجھے سیر ہو کر دودھ پلایا اور صبح میں نے اسلام قبول کر لیا.بعد میں مجھے پتہ لگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم کے اہل خانہ نے وہ رات بھوکے رہ کر گزاری جبکہ اس سے پچھلی رات بھی بھوکے رہ کر گزاری تھی.( مسند احمد بن حنبل جلد 6 صفحہ حدیث 397 حدیث نمبر 25968 ) 2- عبد اللہ بن ابو بکر بن حزم عروہ سے روایت ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا میرے پاس ایک عورت آئی جس کی دو بیٹیاں اس سے کھانا مانگ رہی تھیں.میرے پاس اس وقت ایک کھجور کے سوا کچھ نہ تھا میں نے وہی اسے دے دی اس نے وہ دونوں بیٹیوں میں بانٹ دی اور خود نہ کھائی پھر کھڑی ہوئی اور چلی گئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لے آئے تو میں نے آپ کو بتایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا جو ان بیٹیوں کے ذریعے آزمائش میں ڈالا گیا تو وہ اس کے لئے جہنم سے آڑ ہوں گی صحیح بخاری جلد اول حدیث نمبر 1328 صفحہ 573) 3- ایک دفعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چادر کی شدید ضرورت تھی ایک صحابیہ نے اپنے ہاتھ سے چادر بن کر آپ ﷺ کی خدمت میں پیش کی.آپ اسے زیب تن کر کے صحابہ کی مجلس میں آئے تو آپ کے جسم مبارک پر وہ بہت بیچ رہی تھی مگر حضرت عبد الرحمان بن عوف نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ یہ چادر مجھے دے دیں رسول اللہ جب مجلس سے واپس تشریف لائے تو چادر ان کو بھیجوا دی.دوسرے صحابہ حضرت عبد الرحمان بن عوف سے بہت ناراض ہوئے کہ اُنہوں نے چادر کیوں مانگی مگر انہوں نے کہا کہ میں نے تو یہ چادر اس لئے مانگی تھی کہ مجھے بطور کفن پہنائی جائے چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.( صحیح بخاری کتاب الجنائز باب 811 حدیث نمبر 1197 صفحہ 524) واقعہ نمبر 1 ایک دفعہ ایک فاقہ زدہ شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت مبارک میں حاضر ہوا اتفاق سے آپ کے گھر میں پانی کے سوا کچھ نہ تھا اس لئے آپ نے فرمایا ”آج کی شب کون اس مہمان کا حق ضیافت ادا کرے گا؟ ایک
52 51 انصاری حضرت ابوطلحہ نے کہا میں یا رسول اللہ.چنانچہ اس کو ساتھ لے کر گھر آئے بی بی سے پوچھا کچھ ہے؟ بولیں صرف بچوں کا کھانا ہے بولے بچوں کو تو کسی طرح بہلاؤ جب میں مہمان کو گھر لاؤں تو چراغ بھیجا دینا اور میں اس پر یہ ظاہر کروں گا کہ ہم بھی ساتھ کھا رہے ہیں چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا صبح کو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا کہ رات خدا تمہارے حسن سلوک سے بہت خوش ہوا اور یہ آیت نازل فرمائی (ترجمہ) وہ دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں گو وہ خود تنگدست ہوں.(مسلم کتاب الاشربه باب اکرام الضيف و فضل ایثاره) واقعہ نمبر 2 حضرت عائشہ کے ایثار کا ایمان افروز واقعہ یوں ہے کہ آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم اور حضرت ابو بکر کے پہلو میں اپنی قبر مخصوص کر رکھی تھی لیکن جب حضرت عمر نے ان سے جگہ اپنے لئے چاہی تو حضرت عائشہ نے یہ تختہ جنت ان کو دے دیا اور فرمایا :- واقعہ نمبر 3 ” میں نے خود اپنے لئے اس کو محفوظ رکھا تھا لیکن آج اپنے اوپر آپ کو ترجیح دیتی ہوں.“ سیرت عائشه از علامہ سید سلیمان ندوی صفحه 116) ایک جنگ میں حضرت عکرمہ حضرت حارث بن ہشام اور حضرت سہیل بن عمر و زخم کھا کر زمین پر گر پڑے اور اس حالت میں عکرمہ نے پانی مانگا.پانی آیا تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت سہیل پانی کی طرف دیکھ رہے تھے بولے اُن کو پلاؤ حضرت سہیل کے پاس پانی آیا تو انہوں نے دیکھا کہ حضرت حارث کی نگاہ بھی پانی کی طرف ہے بولے ان کو پلاؤ بالآخر یہ ہوا کہ کسی کے منہ میں پانی کا ایک قطرہ نہ گیا اور سب نے تشنہ کامی کی حالت میں جان دے دی.اسوۂ صحابہ اوّل صفحه 194 از مولانا عبدالسلام ندوی) ایثار دراصل فیاضی کا سب سے بڑا اور سب سے آخری درجہ ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسروں کی ضرورتوں کو اپنی ذاتی ضرورت پر مقدم رکھا جائے.خود بھوکا رہے اور دوسروں کو کھلائے خود تکلیف اُٹھائے اور دوسروں کو آرام پہنچائے.مکہ کے مہاجر جب بے خانماں ہو کر اپنا سب کچھ مکہ میں چھوڑ کر مدینہ آئے تو انصار نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا ان کو اپنے گھر دیے باغ دیے، کھیت دیے اپنی محنتوں میں ان کو شریک کیا اور خود ہر طرح کی تکلیفیں اٹھا کر ان کو آرام پہنچایا.پھر بنو نظیر کی زمین مسلمانوں کے ہاتھ آئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ سلّم نے دو انصاریوں کے سوا باقی ساری زمین مہاجرین کو دے دی تو انصار نے ہنسی خوشی اس فیصلہ کو تسلیم کر لیا.اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا پسند آئی اور ان کی مدح و ستائش کی.فرمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام انسان چونکہ ناقص اور ثواب حاصل کرنے کے لئے اعمالِ صالحہ کا محتاج ہے اس لئے کبھی وہ تواضع اور تذلل کے طور پر اپنے خدا کو خوش کرنے کے لئے اپنے آرام پر دوسرے کا آرام مقدم کر لیتا ہے اور آپ ایک حظ سے بے نصیب رہ کر دوسرے کو وہ حظ پہنچاتا ہے تا اس طرح پر اپنے خدا کو راضی کرے اور اس کی اس صفت کا نام عربی میں ایثار ہے....یہ صفت ایثار جس میں ناداری اور لا چاری اور ضعف اور محرومی شرط ہے ایک عاجز انسان کی نیک صفت ہے کہ باوجود یکہ دوسرے کو آرام پہنچا کر اپنے آرام کا سامان اس کے پاس نہیں رہتا پھر بھی وہ اپنے پر سختی کر کے دوسرے کو آرام پہنچا دیتا ہے.“
54 53 (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد 13 ص336 ) واقعہ حضرت مسیح موعود کے ایثار کا حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی اپنی روایات میں لکھتے ہیں.ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی آئے تھے جن کے پاس کوئی پارچه سرمائی نہ تھا.ایک شخص نبی بخش نمبر دار ساکن بٹالہ نے اندر سے لحاف بچھونے منگوانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا.میں عشاء کے بعد حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ دیئے بیٹھے ہوئے تھے اور ایک صاحبزادہ جو غالباً حضرت خلیفہ اسیح الثانی تھے پاس لیٹے تھے اور ایک شتری چوغہ انہیں اوڑھا رکھا تھا معلوم ہوا کہ آپ نے بھی اپنا لحاف بچھونا طلب کرنے پر مہمانوں کے لئے بھیج دیا.میں نے عرض کیا کہ آپ کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہا اور سردی بہت ہے.فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہیے اور ہمارا کیا ہے رات گزر ہی جائے گی.( رفقاء احمد جلد چہارم صفحہ 113) ہوئی طے آدم و حوا کی منزل اُنس و قربت سے مگر ابلیس اندھا تھا کہ چمٹا حق کی لعنت سے خدا کا قرب پائے گا نہ راحت سے نہ غفلت سے یہ درجہ گر ملے گا تو فقط ایثار و محنت سے کلام محمود قال اللہ تعالیٰ عاجزی ، انکساری اور تواضع 1 - ترجمہ: اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں ”سلام“ (الفرقان: 64) 2- ترجمہ: اور نخوت) سے انسانوں کے لئے اپنے گال نہ پھلا اور زمین میں یونہی اکڑتے ہوئے نہ پھر.اللہ کسی تکبر کرنے والے(اور ) فخر و مباہات کرنے والے کو پسند نہیں کرتا.“ (لقمان: 19) 3- ترجمہ: اور اپنا پر مومنوں میں سے ان کے لئے جو تیری پیروی کرتے ہیں، جھکا دے.“ (شعراء : 216) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم 1- حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا صدقہ دینے سے مال کم نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کا بندہ جتنا کسی کو معاف کرتا ہے.اللہ تعالیٰ اتنا ہی زیادہ اسے عزت میں بڑھاتا ہے جتنی زیادہ کوئی تواضع اور خاکساری اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اتنا ہی اسے بلند مرتبہ عطا کرتا ہے.(مسلم) کتاب البرو الصلة باب استحباب العفو والتواضع
56 99 55 2.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب میرا بندہ عاجزی اور فروتنی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ساتویں آسمان پر رفع کرتا ہے.ہے.( کنز العمال جلد 2 صفحہ 25) 3- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ جس نے عاجزی اور انکساری کی وجہ سے عمدہ لباس ترک کیا حالانکہ وہ اس کی استطاعت رکھتا ہے تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ اختیار دے گا کہ ایمان کی پوشاکوں میں جو پوشاک چاہے پہن (ترمذى كتاب الصفة القيامة باب ماجاء في صفة) 4 حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر انسان کا سر دو زنجیروں میں ہے ایک زنجیر ساتویں آسمان تک جاتی ہے اور دوسری زنجیر ساتویں زمین تک جاتی ہے جب انسان تواضع یا عاجزی اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ زنجیر کے ذریعہ اسے ساتویں آسمان تک لے جاتا ہے اور جب وہ تکبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ زنجیر کے ذریعے زمین تک لے جاتا ہے انتہائی نیچے گرا (کنز العمال) دیتا ہے.5- حضرت ابو سعید خذری روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا :- جس نے اللہ کی خاطر ایک درجہ تواضع اختیار کی اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند فرمائے گا یہاں تک کہ علیین میں جگہ دے گا اور جس نے اللہ کے مقابل ایک درجہ تکتبر اختیار کیا تو اللہ تعالیٰ اس کو ایک درجہ گرا دے گا یہاں تک کہ اسے اسفل السافلین میں داخل کرے گا.“ (مسند احمد بن حنبل مسند المكثرين من الصحابة ) ( منقول از الفضل 9 جولائی 2002) واقعہ نمبر 1 حضرت ابوہریرہ نے بتایا کہ ایک دفعہ کسی مسلمان اور یہودی کی آپس میں تلخ کلامی ہو گئی اور بحث کے دوران وہ مسلمان قسم کھاتے ہوئے یہ کہہ بیٹھا کہ مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے محمد مصطفی ﷺ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے اس پر اسے یہودی نے جواب دیا اور مجھے قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام جہانوں پر فضیلت دی ہے اس کا یہ کہنا تھا کہ اس مسلمان نے اپنا ہاتھ اُٹھایا اور یہودی کو ایک طمانچہ لگا دیا اس پر یہودی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے اور مسلمان کے درمیان جس طرح جھگڑا ہوا تھا اس کی تفصیل حضور سے عرض کی حضور نے اس کی بات سُن کر فرمایا کہ دیکھو یہود کے سامنے حضرت موسی" پر میری فضیلت نہ بیان کیا کرو کیونکہ اس سے ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے کسی کے جذبات کو ٹھیس پہنچے.( بخاری کتاب الانبیاء وفاء موسیٰ ) واقعہ نمبر 2 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے.وہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک (اجنبی شخص حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا حضور کے چہرے پر نگاہ پڑی اور آپ کا ایسا رعب اس پر طاری ہوا کہ خوف سے کانپنے لگا حضور نے اس کی یہ حالت دیکھی تو فرمایا بس بس ذرا حو صلے سے کام لو کیوں اتنے خوفزدہ ہو رہے ہو میں کوئی بادشاہ تو نہیں میں تو (اس) ایک قریش عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی.( منقول از روزنامه الفضل 20 اگست 2001)
58 57 فرمودات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تکبر ایسی بلا ہے کہ انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتی یاد رکھو تکبر شیطان سے آتا ہے اور تکبر کرنے والے کو شیطان بنا دیتا ہے جب تک انسان اس راہ سے قطعاً دور نہ ہو قبول حق و فیضان الوہیت ہرگز نہیں پاسکتا کیونکہ یہ تکبر اس کی راہ میں روک ہو جاتا ہے پس کسی طرح بھی تکبر نہیں کرنا چاہیے.علم کے لحاظ سے نہ دولت کے لحاظ سے نہ وجاہت کے لحاظ سے نہ ذات اور خاندان اور حسب نسب کی وجہ سے کیونکہ زیادہ تر تکبر انہیں باتوں سے پیدا ہوتا ہے جب تک انسان اپنے آپ کو ان گھمنڈوں سے پاک صاف نہ کرے گا اس وقت تک وہ جلشانہ کے نزدیک پسندیدہ و برگزیدہ نہیں ہوسکتا.( تفسیر حضرت اقدس مسیح موعود جلد چہارم صفحہ 149) تکبیر سے نہیں ملتا وہ دلدار ملے جو خاک میں اُس کو ملے یار کوئی اس پاک سے جو دل لگاوے کرے پاک پاک آپ کو تب اُس کو ناداں پاوے مغرور و گمراه ہے وہ کہ اپنے نفس کو چھوڑا ہے بے راہ غیر کی ہر دم نظر بدی پر مگر اپنی بدی سے ہے ہے ہے ( درمین صفحه 93) واقعہ: - چھوڑو غرور و کبر کہ تقویٰ اسی میں ہے ہو جاؤ خاک مرضی مولا اسی میں ہے ( در ثمین صفحه 133 ) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود کی تواضع انکساری.ایک دفعہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب دوپہر کے وقت اندر مکان میں ایک چارپائی پر لیٹ گئے آپ وہاں ٹہل رہے تھے ایک دفعہ مولوی صاحب جاگے تو آپ فرش پر چار پائی کے پاس لیٹے ہوئے تھے.مولوی صاحب ادب سے گھبرا کر اُٹھ کر بیٹھ گئے.آپ نے بڑی محبت سے پوچھا کہ کیوں اُٹھ بیٹھے ہیں مولوی صاحب نے عرض کیا کہ آپ نیچے سوئے ہیں میں اوپر کیسے سو سکتا ہوں مسکرا کر فرمایا.میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا اور بچوں کو شور کرنے سے روکتا تھا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے.“ ( صداقت حضرت مسیح موعود صفحہ 160 مصنفہ حضرت مرزا عبد الحق صاحب) واقعہ نمبر 2:- مخلوقِ خدا کی ہمدردی میں آپ کے وقت کا بہت سا حصہ خرچ ہو جاتا تھا قادیان کے گرد و نواح کی گنوار عورتیں دوائی کے لیے آ جا تیں تو آپ دوسرے کام چھوڑ کر اس طرف توجہ فرماتے ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے خود اپنے ذاتی مشاہدہ کی بنا پر کہ دو تین گھنٹے اسی میں صرف ہوئے ہیں اسے تضیع اوقات سمجھ کر عرض کیا تو فرمایا.یہ بھی ویسا ہی دینی کام ہے یہاں کوئی ہسپتال نہیں
60 59 میں ان لوگوں کی خاطر ہر طرح کی انگریزی اور یونانی دوائیں منگوا کر رکھتا ہوں جو وقت پر کام آجاتی ہیں یہ بڑا ثواب کا کام ہے مومن کو ان کاموں میں سست اور بے پروا نہ ہونا چاہئے قال اللہ تعالیٰ سیرت مسیح موعود از حضرت مولا نا عبدالکریم صاحب صفحہ 38) صفائی 1- ترجمہ: اے ابنائے آدم ! ہر مسجد میں اپنی زینت ( یعنی لباس تقومی) ساتھ لے جایا کرو.“ (اعراف:32) 2- ترجمہ: ”اور جہاں تک تیرے کپڑوں (یعنی قریبی 66 ساتھیوں ) کا تعلق ہے تو (انھیں ) بہت پاک کر “ (المدثر : 5) 3- ترجمہ: - " پھر چاہیے کہ وہ اپنی ( بدیوں کی ) میل ( الحج : 30) کو دور کریں.“ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1- حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا.طہارت ، پاکیزگی اور صاف ستھرار ہنا بھی ایمان کا ایک حصہ ہے.“ 2.وضو کے بغیر نماز نہیں ہوتی.مسلم کتاب الطہارت باب فضل الوضوء ) (ترمذی کتاب الطهارة باب لا تقبل صلواة بغير طهور) 3.یعنی نماز کی کنجی وضو ہے.(ترمذی كتاب الطهارة باب ان الصلوة طهور حديث (3) 4- حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا ! دس باتیں فطرت انسانی میں داخل ہیں مونچھیں تراشنا ، داڑھی رکھنا ، مسواک کرنا ، پانی سے ناک صاف کرنا ، ناخن کٹوانا ، انگلیوں کے پورے صاف رکھنا.بغلوں کے بال لینا، زیر ناف بال لینا ، استنجا کرنا.راوی کہتا ہے کہ میں دسویں بات بھول گیا ہوں.شائد وہ ( کھانے کے بعد ) کلی کرنا ہے.(مسلم کتاب الطهارت باب خصال الفطرة) 5- حضرت عطاء بن سیار بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص پراگندہ بال اور بکھری داڑھی والا آیا حضور نے اُسے اشارہ سے سمجھاتے ہوئے فرمایا کہ سر کے اور داڑھی کے بال درست کرو جب وہ سر کے بال ٹھیک ٹھاک کر کے آیا تو حضور علیہ السلام نے فرمایا کیا یہ بھلی شکل بہتر ہے یا یہ کہ انسان کے بال اس طرح بکھرے اور پراگندہ ہوں کہ شیطان اور بھوت لگے.(موطا امام مالک جامع ما جاء فی الطعام والشرب و اصلاح الشعر ) واقعہ نمبر 1 بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے دیواروں پر دھبے تھے.آپ ﷺ کے ہاتھ میں کھجور کی ٹہنی تھی اس سے گھر چ گھر چ کر آپ نے تمام دھبے مٹا دیئے.( صحیح بخاری جلد اول کتاب الصلوۃ باب 274 صفحه 252 حديث 393)
62 61 واقعہ نمبر 2 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور ﷺ کی وفات سے کچھ دیر قبل میرا بھائی عبدالرحمان میرے حجرے میں داخل ہوا اس کے ہاتھ میں مسواک تھی.میں نے اپنے سینے کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلّم کو سہارا دیا ہوا تھا میری نظر حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑی.میں نے دیکھا کہ آپ عبدالرحمان کی طرف دیکھ رہے تھے مجھے خیال آیا حضور کو مسواک کرنا بہت پسند ہے اور صحت کے زمانے میں اس کا بہت اہتمام کرتے تھے جبکہ بیماری میں ایسا نہ کر سکتے تھے شاید اس وقت مسواک کرنا چاہتے ہیں اس لئے میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم پوچھا ”عبدالرحمان سے مسواک لے کر آپ کو دوں؟“ میرے سوال پر حضور نے سر سے اشارہ کیا ہاں.اس پر میں نے عبدالرحمان سے مسواک لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی.آپ نے مسواک منہ میں رکھی لیکن ضعف بہت تھا دانتوں سے چبانے کی طاقت نہ تھی میں نے پوچھا.”میں مسواک آپ کے لئے اپنے دانتوں سے چبا کر نرم کر دوں.آپ نے سر سے اشارہ کیا کہ ہاں.پھر میں نے حضور سے مسواک پکڑی اور اس کو اپنے دانتوں میں خوب چبا کر آپ کے لئے بالکل نرم اور ملائم کر دیا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے دانتوں پر اچھی طرح پھیرا.( بخاری کتاب المغازی باب مرض النبي و وفاۃ حدیث نمبر 4084) غنسل کو عام طور پر مستحب اور بعض حالتوں میں ضروری قرار دیا گیا بعض حالات میں جب تک ایک شخص غسل نہیں کر لیتا وہ عبادت کے اہل نہیں سمجھا جاتا.اسی طرح ہر جمعہ کے دن غسل ضروری ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں.کہ رسول اللہ کے صحابہ اپنے کام خود کرتے اور ان سے پسینے کی بُو آتی آپ نے فرمایا کیا بہتر ہے تم نہا کر آیا کرو ( بخاری کتاب البیوع باب كسب الرجل و عملۂ بیدہ حدیث 1929) حضرت عثمان کونسل کا اتنا خیال تھا کہ اسلام لانے کے بعد روزانہ ایک بار غسل کر لیا کرتے تھے.(مسند احمد بن حنبل جلد 1 صفحہ 67) صحابہ کرام اگر چہ سادہ زندگی بسر کرتے تھے اور مالی حالت بھی نہ گفتہ بہ تھی مگر غنسل اور طہارت کے لئے حضرت انس کے ہاں ایک حمام تھا.(بخاری کتاب الصوم باب اغسال الصائم) بالوں کی صفائی کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ یہ تھا کہ با قاعدگی سے سر اور داڑھی کے بالوں میں تیل لگاتے تھے اور سکھی کرتے تھے.(شمائل ترمذی باب ترجل رسول الله) کپڑوں کی صفائی.ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا اصلحوا لباسکم یعنی اپنے لباسوں کو صاف ستھرا اور درست رکھو (ابو داؤد كتاب اللباس ) بچے کی پیدائش کے فوراًبعد اس کو غسل دیا جاتا ہے جس سے گندگی اور آلائش سے پاکیزگی حاصل ہوتی ہے پھر بچے کو گھٹی دی جاتی ہے جس سے پیٹ کی صفائی ہو جاتی ہے.بال اُتروانے کا حکم ہے اگر بال نہ اُتروائے جائیں تو گندگی اور گند ذہنی سے بچے کا واسطہ ساری عمر کا ہو جاتا ہے.فرمودات حضرت اقدس مسیح موعود 1 - نکته معرفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.
64 63 اگر قرآن کو غور سے پڑھو تو معلوم ہو گا کہ خدا تعالیٰ کے بے انتہا رحم نے یہی چاہا ہے کہ انسان باطنی پاکیزگی اختیار کر کے روحانی عذاب سے نجات پاوے اور ظاہری پاکیزگی اختیار کر کے دنیا کے جہنم سے بچا رہے جو طرح طرح کی بیماریوں اور وباؤں کی شکل میں نمودار ہو جاتا ہے اور اس سلسلہ کو قرآنِ شریف میں اول سے آخر تک بیان فرمایا گیا ہے جیسا کہ مثلاً یہی آیت إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ وَيُحِبُّ الْمُتَطَهِّرين - بتلا رہی ہے کہ توابین سے مراد وہ لوگ ہیں جو باطنی پاکیزگی کے لئے کوشش کرتے ہیں اور مُتَطَهِّرین سے وہ لوگ مراد ہیں جو ظاہری اور جسمانی پاکیزگی کے لئے جدو جہد کرتے رہتے ہیں.“ ایام صلح روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 338,337) 2.حضرت مسیح موعود بھی عام طور پر ہر وقت باوضو رہتے تھے جب کبھی رفع حاجت سے فارغ ہو کر آتے وضو کر لیتے سوائے اس کے کہ کسی بیماری یا کسی اور وجہ سے رُک جاویں.(سیرت المہدی جلد اوّل صفحه (2) 3 حضرت مسیح موعود مسواک بہت پسند کرتے تازہ کیکر کی مسواک کیا کرتے تھے مسواک کے علاوہ بھی مختلف چیزوں سے دانتوں کو صاف کرتے (سیرت المہدی جلد 3 صفحہ 103 و فتاوی حضرت مسیح موعود ص 15) -4- حضرت مسیح موعود کو طاعون کے ایام میں اتنا خیال رہتا کہ فینائل لوٹے میں حل کر کے خود اپنے ہاتھ سے گھر کے پاخانوں اور نالیوں میں جا کر ڈالتے تھے.بعض اوقات گھر میں ایندھن کا ڈھیر لگوا کر آگ بھی جلوا یا کرتے تھے تا کہ ضرر رساں جراثیم مر جائیں اور آپ نے ایک بہت بڑی آہنی انگیٹھی بھی منگوائی ہوئی تھی جسے کو ٹلے ڈال کر اور گندھک وغیرہ رکھ کر کمروں کے اندر جلایا جاتا تھا اور اس وقت دروازے بند کر دیئے جاتے تھے.(سیرۃ النبی جلد 2 صفحہ 59) 5- فرمایا ”یاد رکھو کہ ظاہری پاکیزگی اندرونی طہارت کو مستلزم ہے اسی لئے ہر مسلمان کے لئے لازم ہے کہ کم از کم جمعہ کے دن ضرور غسل کرے.ہر نماز میں وضو کرے.جماعت کھڑی ہو تو خوشبو لگائے عیدین اور جمعہ میں جو خوشبو لگانے کا حکم ہے وہ اسی بنا پر قائم ہے اصل وجہ یہ ہے کہ اجتماع کے وقت عفونت کا اندیشہ ہوتا ہے اس لئے غسل کرنے اور کپڑے پہننے اور خوشبو لگانے سے سمیت (زہر ) اور عفونت سے روک ہوگی جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے زندگی میں یہ قانون مقرر کیا ہے ویسا ہی قانون مرنے کے بعد بھی رکھا ہے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 164) -7- حضرت مسیح موعود کی صفائی رکھنے کی تاکید حضرت مفتی صاحب کے مکان کی نسبت دریافت کر کے فرمایا کہ:- اس کے مالکوں کو کہو کہ روشندان نکال دیں اور آج کل گھروں میں خوب صفائی رکھنی چاہیے.کپڑوں کو بھی صاف ستھرا رکھنا چاہیے.آج کل دن بہت سخت ہیں اور ہوا زہریلی ہے اور صفائی رکھنا تو سنت ہے قرآن شریف میں لکھا ہے وَثِيَابَكَ فَطَهَرُ.(المدثر : 5) ( ذكر حبيب ) پھر سید فضل شاہ صاحب کو فرمایا کہ.آپ کا کمرہ بہت تاریک رہتا ہے اس میں تم بھی بہت زیادہ معلوم ہوتی ہے آج کل وبائی دن ہیں رعایت اسباب کے لحاظ سے ضروری ہے کہ وہاں آگ وغیرہ جلا کر مکان گرم کر لیا کریں.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 690)
66 65 قال اللہ تعالیٰ حیا و پاکدامنی 1- ترجمہ: اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں یہ بات اُن کے لئے زیادہ پاکیزگی کا موجب ہے.“ (النور: 31) 2- ترجمہ: ” اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں.“ (احزاب: 36) -3- ترجمہ: اور عمران کی بیٹی مریم کی مثال دی ہے) جس نے اپنی عصمت کو اچھی طرح بچائے رکھا.“ (التحريم: 13) 4 ترجمہ: ” اور وہ خاتون جس نے اپنی عصمت کو اچھی 66 طرح بچائے رکھا تو ہم نے اس میں اپنے امر میں سے کچھ پھونکا اور اُسے اور اُس کے بیٹے کو ہم نے تمام جہانوں کے لئے ایک نشان بنا دیا.“ (انبیاء : 92) 5- ترجمہ: ” اور وہ جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت (المومنون :6) 66 کرنے والے ہیں.“ 6 - ترجمہ: سوائے اپنی بیویوں کے اُن (عورتوں) کے جن کے مالک اُن کے دائیں ہاتھ ہوئے 7- ترجمہ:.پس جس نے اس کے سوا ( کچھ ) چاہا تو یہی ہیں وہ جو حد سے بڑھنے والے ہیں.“ (المعارج: -31-32) 8- ترجمہ: اور وہ لوگ جو نکاح کی توفیق نہیں پاتے انھیں چاہیے کہ اپنے آپ کو بچائے رکھیں.‘ (النور :34) 9.ترجمہ: اور اگر وہ احتیاط کریں تو ن کے لئے بہتر ہے.66 (النور: 61) 10- ترجمہ: ” اور زنا کے قریب نہ جاؤ.یقیناً یہ 66 بے حیائی اور بُرا رستہ ہے.(بنی اسرائیل : 33) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1- آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کے اندر حیا نہیں اس کا کوئی دین نہیں اور جس کو اس دنیا میں حیا میسر نہیں آئی وہ جنت میں داخل نہ ہو سکے (کنز العمال جلد 3 صفحہ 125) گا.2.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دوزخیوں کے دو گروہ ایسے ہیں کہ ان جیسا میں نے کسی گروہ کو نہیں دیکھا ایک وہ جن کے پاس بیل کی دموں کی طرح کوڑے ہوتے ہیں جن سے وہ لوگوں کو مارتے پھرتے ہیں اور دوسرے وہ عورتیں جو کپڑے تو پہنتی ہیں لیکن حقیقت میں وہ جنگی ہوتی ہیں ناز سے چکیلی چال چلتی ہیں لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے جتن کرتی پھرتی ہیں بختی اونٹوں کی لچکدار کو ہانوں کی طرح ان کے سر ہوتے ہیں ان میں سے کوئی جنت میں داخل نہ ہو گی اور اس کی خوشبو تک نہ پائے گی
68 67 حالانکہ اس کی خوشبو دُور کے فاصلے سے بھی آ سکتی ہے.(مسلم کتاب اللباس) حیا اُٹھنے کے نتیجے میں دین سے رابطہ ٹوٹنے کے تدریجی مراحل.3- آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالیٰ جب کسی بندے کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس سے حیا چھین لیتا ہے جب اس سے حیا چھین لی جاتی ہے تو تو اسے اس حال میں پائے گا کہ وہ ہر معاملہ میں خدا سے ناراض ہو گا اور اس کے نتیجہ میں وہ خدا کی ناراضگی کا مورد بنے گا اس کے نتیجہ میں اس سے امانت کا خُلق چھین لیا جائے گا اور وہ سخت خائن بن جائے گا اور جب امانت اُٹھ جائے گی تو رحمت چھن جائے گی اور رحمت کھینچی گئی تو وہ بارگاہ الہی سے مردود اور ملعون قرار دیا جائے گا اور بالآخر دین کا جوا اپنی گردن سے اُتار پھینکے (ابن ماجه الفتن باب زهاب الامانة) گا.-4- اللہ تعالیٰ حیاء اور شادی کو پسند کرتا ہے صرف پسند نہیں کرتا بلکہ خود بھی بہت حیا دار اور ستار ہے.(مسند احمد جلد 4 صفحہ 224) 5.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شریعت کی وضاحت کرتے ہوئے بے شمار نازک اور باریک مسائل بیان فرمائے مگر حیا کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا.آپ پاکیزگی اور تقویٰ کے انتہائی مقام پر فائز تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو امت کے باپ کی جگہ قرار دیا مگر پھر بھی آپ ﷺ کی حیا کا بلند تقاضا یہ رہا کہ عورتوں کی بیعت لیتے وقت کبھی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا بلکہ زبانی بیعت لی.( بخاری کتاب التفسیر سوره المتحنه ).6 - عبد الرحمن بن زید کا بیان ہے کہ میں علقمہ اور اسود کے ساتھ عبد اللہ مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ چند تہی دست نوجوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھے تو رسول اللہ نے ہم سے فرمایا.اے نوجوانو ! جو تم میں سے عورتوں کے حقوق ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو وہ ضرور نکاح کرے کیونکہ یہ نگاہ کو جھکاتا اور شرم گاہ کی حفاظت کرتا اور جو اس کی طاقت نہ رکھے تو اس کے لئے روزے ہیں کیونکہ یہ جنسی خواہش کو کم کرتے ہیں.( صحیح بخاری کتاب النکاح صفحہ 52 حدیث 59) -7- حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ سات آدمی ایسے ہیں جن کو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ سائے میں رکھے گا جس روز کہ خدا کے سائے کے علاوہ کوئی سایہ نہ ہوگا.انصاف کرنے والا حاکم اللہ کی عبادت کرنے والا جوان ، وہ شخص جس نے تنہائی میں خدا کو یاد کیا اور آنسو جاری ہو گئے.وہ آدمی جس کا دل مسجد میں اٹکا رہے.وہ دو شخص جو اللہ کے لئے محبت کریں وہ شخص جس کو اقتدار اور حسن و جمال والی عورت اپنی طرف بلائے اور وہ کہہ دے کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں اور وہ آدمی کہ جب خیرات کرے تو اتنی پوشیدہ رکھے کہ بائیں ہاتھ کو پتہ نہ لگے کہ دائیں ہاتھ نے کیا کیا ہے.( بخاری شریف کتاب المحاربین ، من ترک الفواحش حدیث نمبر 1711) واقعہ نمبر 1.آپ ﷺ کے بچپن میں کعبہ کی تعمیر ہو رہی تھی حضور ﷺ اور حضور کے چچا عباس پتھر اٹھا اٹھا کر جمع کر رہے تھے تو آپ کے چچا عباس نے آپ سے کہا بھیجے اپنا تہہ بند اپنے شانے پر رکھ لوتا کہ پتھروں وغیرہ کی رگڑ نہ لگے اور غالباًا حضرت عباس نے خود ہی ایسا کر دیا مگر چونکہ آپ کے جسم کا کچھ ستر والا حصہ نگا ہو گیا جس کی وجہ سے آپ شرم کے مارے زمین پر گر گئے اور آپ کی آنکھیں پتھر اگئیں اور آپ بیتاب ہو کر پکارنے لگے میرا تہہ بند اور پھر آپ کا
70 69 تہہ بند جب درست کر دیا گیا تو آپ نے اطمینان محسوس کیا واقعہ نمبر 2 (بخارى كتاب البنيان الكعبه باب نمبر 1) پاکدامنی کی دنیوی برکت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم زمانہ قدیم کے تین آدمیوں کا قصہ بیان کرتے ہیں جو ایک ساتھ سفر کر رہے تھے کہ دفعتہ پانی برسنے لگا تینوں نے پانی سے بچنے کے لئے ایک پہاڑ کے غار میں پناہ لی سوئے اتفاق پہاڑ کے اوپر سے ایک پتھر لڑھک آیا جس سے غار کا سوئے اتفاق سے پہاڑ کے اوپر سے ایک پتھر لڑھک آیا جس سے غار کا منہ بند ہو گیا اب نجات کی صورت اس کے سوا نہ تھی کہ اپنے اپنے اعمال صالحہ کے واسطے سے خدا سے دعا کریں چنانچہ اسی طرح ہر ایک نے دعا کی اور ان اعمال صالحہ کے واسطے سے خدا سے دعا کی اور ان اعمال کی برکت سے پتھر رفتہ رفتہ ہٹ گیا ان میں پاکباز آدمی کی دعا یہ تھی خدا وند تو جانتا ہے کہ میرے چچا کی ایک لڑکی تھی جو مجھے سب سے زیادہ پیاری تھی اور میں دل و جان سے اُسے چاہتا تھا میری تمنا تھی کہ اس سے اپنی نفسانی خواہش پوری کروں لیکن وہ سو دینار لئے بغیر تیار نہیں ہوتی تھی میں نے تگ و دو کی تو مطلوبہ سو دینار حاصل ہو گئے تو میں نے اس کے سپرد کر دیئے اس نے خود کو میرے سامنے پیش کیا جب میں نے اپنی نفسانی خواہش پوری کرنی چاہی تو کہنے لگی خدا سے ڈر اور شرعی حق کے بغیر مہر بکارت کو نہ توڑ.میں اسی طرح کھڑا ہوا اور سو دینار بھی چھوڑ دیئے اگر تو جانتا ہے کہ میں نے ایسا صرف تیرے خوف سے کیا تھا تو ہمیں راستہ عطا فرمادے پس اللہ تعالیٰ نے اور وہ باہر نکل آئے.( صحیح بخاری جلد دوم کتاب الانبیاء پارہ 14 صفحہ 330-331 باب حدیث الغار 352 حديث 682) ذکر اس عورت کا جس نے اپنی عزت کو محفوظ رکھا دنیا میں ہر زمانہ میں لا تعداد عورتیں ہوئیں جو پاکدامن تھیں اور اب بھی ہیں ایسی عورتیں نہ صرف مسلمانوں میں بلکہ غیر مسلموں میں سے بھی ہوئیں اور ہیں.عورت چونکہ عفت پسند ، بد نامی سے بچنے والی ، پاکدامن ہوتی ہے اور غیر مسلم عورتوں میں بھی ایسی عورتوں کی کمی نہیں...عمران کی بیٹی مریم نے پاکدامنی ختیار کی تو ہم نے اسے یہ انعام دیا کہ مسیح جیسی مقدس روح اسے عطا فرمائی اگر پاکدامنی کا ایک عظیم الشان اجر ہے تو کروڑوں خدا کی بندیاں ہیں جنہوں نے بد کاری نہیں کی بلکہ بہت ساریوں نے ساری عمر بیوگی یا تجر د میں ہی گزار دی اور پاکدامن رہیں ان کو یہ انعام کیوں نہیں ملا؟ سو حقیقت اس پاکدامنی کی یہ ہے ا کہ دنیا میں ملکوں اور قوموں اور حکومتوں کے نظام کے لحاظ سے عورتیں عموماً کسی نہ کسی حفاظت کے ماتحت ہوتی ہیں اس لئے ان کی پاکدامنی بہت حد تک اس حفاظت کی وجہ سے ہے جو والدین ،رشتہ دار، برادری اور رسم و رواج ان کی کرتے ہیں انسانی اخلاق بھی اس کا محافظ ہے اور بالآخر تقویٰ یا خدا کا خوف ان سے آخری بات یعنی با وجود تمام مواقع اور آزادیوں کے موجود ہونے کے جو عورت محض خدا کے خوف سے اپنی پاکدامنی کو قائم رکھے.خدا کے ہاں اسے عظیم الشان اجر ملتا ہے دوسروں کی عفت رواجی ہے اس عورت کی عفت علی وجہ البصیرت اور ایمان اور تقویٰ کی وجہ سے ہے.منقول از مضامین ڈاکٹر میر محمد اسماعیل جلد دوم صفحہ 925,926 ) دو عضو اپنے جو کوئی ڈر کر بچائے گا سیدھا خدا کے فضل سے جنت میں جائے گا
72 71 وہ اک زباں ہے عضو نہانی ہے دوسرا ہے حدیث سیدنا سید الوری در متین صفحه 115 حضرت مسیح موعود علیہ السلام پاکدامنی کے بارے میں فرماتے ہیں.اخصان...سے مراد خاص وہ پاکدامنی ہے جو مرد اور عورت کی قوت تناسل سے علاقہ رکھتی ہے اور محصن یا مصنہ اُس مرد یا اُس عورت کو کہا جائے گا جو حرام کاری یا اس کے مقدمات سے مجتنب رہ کر اس ناپاک بد کاری سے اپنے تیں روکیں......اس جگہ یاد رہے کہ یہ خلق جس کا نام احصان یا عفت ہے یعنی پاکدامنی.یہ اسی حالت میں خلق کہلائے گا جب کہ ایسا شخص جو بد نظری یا بدکاری کی استعداد اپنے اندر رکھتا ہے یعنی قدرت نے وہ قومی اس کو دے رکھے ہیں جن کے ذریعہ اس جرم کا ارتکاب ہوسکتا ہے اس فعل شنیع سے اپنے تئیں بچائے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحه 340) قال اللہ تعالیٰ رکھا کریں.“ غض بصر 1- ترجمہ: ” مومنوں کو کہہ دے کہ اپنی آنکھیں نیچی (النور:31) 2- ترجمہ: ” اور مومن عورتوں سے کہہ دے کہ وہ اپنی 66 آنکھیں نیچی رکھا کریں.“ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ย (النور:32) 1.حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ میں نے حضرت ابو ہریرہ کے قول سے بڑھ کر نہیں دیکھا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم سے روایت کی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زنا میں جو حصہ مقر ر فرما دیا ہے وہ یقیناً اسے مل جاتا ہے چنانچہ آنکھ کا زنا دیکھنا ہے زبان کا زنا بات کرنا.نفس کا زنا خواہش و تمنا کرنا اور شرم گاہ ان سب کی تصدیق یا تردید کر دیتی ہے.“ (صحیح بخاری جلد سوم کتاب الاستئذان صفحه 461 حديث 1173) 2- فرمودات حضرت مسیح موعود علیہ السلام وووو 1- پردہ کی یہی فلاسفی اور یہی ہدایت شرعی ہے.خدا کی کتاب میں پردہ سے یہ مراد نہیں کہ فقط عورتوں کو قیدیوں کی طرح حراست میں رکھا جائے.یہ اُن نادانوں کا خیال ہے جن کو طریقوں کی خبر نہیں.بلکہ مقصود یہ ہے کہ عورت مرد دونوں کو آزاد نظر اندازی اور اپنی زینتوں کے دکھانے سے روکا
74 73 جائے کیونکہ اس میں دونوں مرد اور عورت کی بھلائی ہے.بالآخر یہ بھی یادر ہے کہ خوابیدہ نگاہ سے غیر محل پر نظر ڈالنے سے اپنے تئیں بچا لینا اور دوسری جائز النظر چیزوں کو دیکھنا اس طریق کو عربی میں غض بصر کہتے ہیں اور ہر ایک پر ہیز گار جو اپنے دل کو پاک رکھنا چاہتا ہے اس کو نہیں چاہیے کہ حیوانوں کی طرح جس طرف چاہے بے محابا نظر اُٹھا کر دیکھ لیا کرے بلکہ اس کے لئے اس تمدنی زندگی میں غض بصر کی عادت ڈالنا ضروری ہے اور یہ مبارک عادت ہے جس سے اس کی یہ طبعی حالت ایک بھاری خلق کے رنگ میں آجائے گی.“ اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 344) ”انسان کے لئے لازم ہے کہ چشم خوابیدہ ہو تا کہ غیر محرم عورت کو دیکھ کر فتنہ میں نہ پڑے کان بھی فروج میں داخل ہیں جو قصص اور فحش باتیں سُن کرفتنہ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 55 نیا ایڈیشن) میں پڑ جاتے ہیں.قال اللہ تعالیٰ ایفائے عہد 1- ترجمہ: یقینا اللہ نہیں خلاف کرتا وعدہ کا.“ (ال عمران : 10) (روم : 7) 2- ترجمہ: - ( یہ ) اللہ کا وعدہ ہے (اور ) اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا.“ 3 - ترجمہ: اللہ ہر گز اپنے وعدہ کے خلاف نہیں (حج:48) کرے گا.“ -4- ترجمہ: یقیناً تو وعدہ خلافی نہیں کرتا.“ (ال عمران : 195) 5- ترجمہ: - " (یعنی) وہ لوگ جو اللہ کے (ساتھ کیسے ہوئے ) عہد کو پورا کرتے ہیں اور میثاق کو نہیں توڑتے اور وہ لوگ جو اُسے جوڑتے ہیں جسے جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اور اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور بُرے حساب سے خوف کھاتے ہیں.“ (الرعد: 21-22) 6- ترجمہ: ”اور تم اللہ کے عہد کو پورا کرو جب تم عہد کرو اور قسموں کو ان کی پختگی کے بعد نہ توڑو جبکہ تم اللہ کو اپنے اوپر کفیل بنا چکے ہو.(النحل:92) -7- ترجمہ: اور عہد کو پورا کرو یقیناً عہد کے بارے میں پوچھا جائے گا.“ ( بنی اسرائیل: 35) 8- ترجمہ: اور وہ جو اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں جب وہ باندھتے ہیں.(البقره: 178) 9.ترجمہ: ” اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور عہد کی نگرانی کرنے والے ہیں.“ (المومنون : 9) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1 - حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص میں یہ چار عادتیں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے.(۱) جب بات کرے تو جھوٹ بولے.(۲)جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے.(۳) جب معاہدہ کرے تو اُسے توڑ دے.(۴) جب جھگڑے تو
76 75 گالیاں دے.اگر کسی کے اندر ان میں سے ایک عادت پائی جائے تو اس کے اندر نفاق کا حصہ موجود ہے یہاں تک کہ اس کو چھوڑ دے.( صحیح بخاری جلد دوم کتاب الجهاد والسير حديث 212 صفحہ 212) 2- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بغیر کسی جائز وجہ کے کسی معاہدہ کرنے والے کو قتل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دے گا.( ابوداؤد كتاب الجهاد باب في لاوفاء بالعهد) 3 حضرت عبداللہ بن ابی الحمسا کہتے ہیں کہ میں نے زمانہ بعثت سے قبل نبی کریم سے ایک سودا کیا ان کا کچھ واجب الا دا حصہ میرے ذمہ رہ گیا میں نے آپ سے طے کیا کہ فلاں وقت اسی جگہ آکر میں آپ ﷺ کی ادائیگی کر دوں گا مگر میں واپس جا کر وعدہ بھول گیا.تین روز بعد مجھے یاد آیا تو میں مقرر جگہ حاضر ہوا کیا دیکھتا ہوں کہ نبی کریم اپنی جگہ موجود تھے آپ یہ فرمانے لگے اے نوجوان! تم نے ہمیں سخت مشکل میں ڈالا میں تین روز سے یہاں (اس وقت) تمہارا انتظار کر رہا ہوں.(ابو داؤد كتاب الادب باب في العدة 4344) -4- مکی زندگی میں بعثت سے قبل حضرت محمد یہ معاہدہ حلف الفضول میں شریک ہوئے تھے جس کا بنیادی مقصد مظلوموں کی امداد تھا آپ فرماتے تھے کہ اس معاہدہ میں شرکت کی خوشی مجھے اونٹوں کی دولت سے بڑھ کر ہے اور اسلام کے بعد بھی مجھے اس معاہدہ کا واسطہ دے کر مدد کے لئے بلایا جائے تو میں ضرور مدد کروں گا.واقعہ نمبر 1 (احادیث منقول از روزنامه الفضل 3 جولائی 2004) وفائے عہد کا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم کو اس قدر خیال تھا کہ ایک دفعہ حکومت کا ایک ایلچی آپ ﷺ کے پاس کوئی پیغام لے کر آیا اور آپ ﷺ کی صحبت میں کچھ دن رہ کر اسلام کی سچائی کا قائل ہو گیا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اُس نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ میں تو دل سے مسلمان ہو چکا ہوں میں اپنے اسلام کا اظہار کرنا چاہتا ہوں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا یہ مناسب نہیں ہے تم اس وقت حکومت کی طرف سے ایک امتیازی عہدہ پر مقرر ہو کر آئے ہو اس حالت میں جاؤ اور وہاں جا کر اگر تمہارے دل میں اسلام کی محبت پھر بھی قائم رہے تو دوبارہ آکر اسلام کو قبول کر لو.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ 268-269) واقعہ نمبر 2 سراقہ سے ایفائے عہد ہجرت مدینہ کے سفر میں سو اونٹوں کے انعام کے لالچ میں رسول اللہ کا پیچھا کرنے والے سراقہ بن مالک کی روایت ہے کہ جب میں تعاقب کرتے کرتے رسول کریم کے قریب پہنچا تو میرا گھوڑا بار بار ٹھوکر کھا کر گر جاتا تب میں نے آواز دے کر حضور کو بلایا اور حضور کے ارشاد پر ابوبکر نے مجھ سے پوچھا آپ ہم سے کیا چاہتے ہو؟ میں نے کہا آپ مجھے امن کی تحریر لکھ دیں انہوں نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر وہ تحریر لکھ دی اور میں واپس لوٹ آیا.فتح مکہ کے بعد جب حضور جنگ حنین سے فارغ ہوئے تو حضور سے ملاقات کے لئے حاضر ہوا.حضور انصار کے ایک گھوڑے پر سوار دستے کے حصار میں تھے وہ مجھے پیچھے ہٹاتے اور کہتے تھے کہ کیا کام ہے؟ حضور اپنی اونٹنی پر سوار تھے میں نے اپنا ہاتھ بلند کیا اور وہی تحریر رسول اللہ کو دکھائی اور کہا میں سراقہ ہوں اور یہ آپ کی تحریر امن ہے رسول کریم نے فرمایا آج کا دن عہد پورا کرنے کا
77 دن ہے پھر آپ نے فرمایا کہ سراقہ کو میرے قریب کیا جائے میں آپ کے قریب ہوا اور بالآ خر آپ سے ملاقات کر کے اسلام قبول کرلیا.السيرة النبویہ لا بن ہشام جز 2 ص34-35) ( منقول از روز نامه الفضل 7 جولائی 2004 صفحہ 4) وہ سچا اور کے عہد والا قال اللہ تعالیٰ 78 امانت جو منہ سے کہہ چکا وہ کر رہا ہے نبھا دی اُس نے جس سے دوستی کی پھرا ہے جب بھی بندہ ہی پھرا ہے کچھ اس کے احسانوں کا بدلہ نہیں کسی بڑا ہے کسی نے جان بھی دے دی تو کیا بخت ہے ہے 1 - ترجمہ: یقینا ہم نے امانت کو آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اسے اُٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے جبکہ انسانِ کامل نے اسے اُٹھا لیا یقیناً وہ (اپنی ذات پر بہت ظلم کرنے والا اور اس ذمہ داری کے عواقب کی ) بالکل پرواہ نہ کرنے (الاحزاب: 73) ظالم ہے بنده والا تھا.جو اس سے عہد کر کے توڑتا ہے ذرا آگے بڑھے اور ہم نے دیکھا وہ خود ملنے کو بڑھتا آ رہا ہے در عدن 2- ترجمہ: یقیناً اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم 66 امانتیں ان کے حق داروں کے سپرد کیا کرو.“ (النساء: 59) 3- ترجمہ:.پس اگر تم میں سے کوئی کسی دوسرے کے ہے پاس امانت رکھے تو جس کے پاس امانت رکھوائی گئی اسے چاہیے کہ وہ ضرور اس کی امانت واپس کرے اور اللہ اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرے.(البقرہ: 284) 4- ترجمہ: اور وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور اپنے 66 عہدوں کا پاس رکھنے والے ہیں.“ (المعارج: 33) 5- ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ اور
80 79 (اس کے ) رسول سے خیانت نہ کرو ورنہ تم اس کے نتیجہ میں خود اپنی امانتوں سے خیانت کرنے لگو گے جب کہ تم (اس خیانت کو ) جانتے ہو گئے (الانفال : 28) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1 - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا جس میں امانت نہیں اس میں ہی میں امامت نہیں میں ایمان نہیں جس میں عہد کا لحاظ نہیں اس میں دین نہیں.( کنز العمال جلد 2 صفحہ 15 ) 2- ایک دفعہ ایک صحابی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے مشورہ کیا تو آپ نے فرمایا جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانت دار ہوتا ہے.ادب المفرد باب المستشار موتمن 3- ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں کھجور کے ایک ڈھیر میں سے گھر کے کسی بچے حضرت امام حسن یا امام حسین میں سے کسی نے کھجور لے کر منہ میں ڈال لی.آپ نے فوراً وہ کھجور بچے کے منہ سے نکلوا دی کیونکہ وہ صدقہ کا مال تھا جو کہ غریب مسلمانوں کی امانت تھی.( بخاری کتاب الزکوة) -4 حضرت ابو امامہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن میں جھوٹ اور خیانت کے سوا تمام بُری عادتیں ہو سکتی ہیں.(مسند احمد بن حنبل) 5- حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کسی شخص کے دل میں ایمان اور کفر نیز صدق اور کذب اکٹھے نہیں ہو سکتے اور نہ ہی امانت اور خیانت اکٹھے ہو سکتے ہیں.(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 349) 6- ایک دفعہ رسول کریم نماز پڑھانے کے بعد خلاف معمول تیزی سے گھر تشریف لے گئے اور ایک سونے کی ڈلی لے کر واپس آئے فرمایا کچھ سونا آیا تھا جو کہ سب کا سب تقسیم ہو گیا تھا.یہ سونے کی ڈلی بچ گئی تھی جو میں لے آیا ہوں کہ قومی مال میں سے کوئی چیز ہمارے گھر میں نہ رہ جائے.واقعہ نمبر 1 ( بخاری کتاب الزکوة ) غزوہ خیبر کے موقع پر جب یہود شکست کے بعد پسپا ہوئے اس طویل محاصرے کے بعد مسلمانوں نے جو کئی دن سے بھوکے پیاسے تھے یہود کے مال مویشی پر مال غنیمت کے طور پر قبضہ کر لیا اور کچھ جانور ذبح کر کے ان کا گوشت پکنے کے لئے آگ پر چڑھا دیا.اس بات کا علم ہونے پر رسول کریم نے اسے سخت ناپسند فرمایا که مال غنیمت تو با ضابطہ طور پر تقسیم کیا جاتا ہے اور اس بات کو آپ نے خیانت گردانا اور فرمایا گوشت کے بھرے سب برتن اُلٹا دیئے جائیں اس طرح آپ نے صحابہ کو امانت کا عملی سبق دیا اور خود صحابہ میں جانور تقسیم فرمائے.واقعہ نمبر 2 (مسند احمد جلد 4 صفحہ 89) غزوہ خیبر کا ہی واقعہ ہے کہ یہود کے چرواہے نے اسلام قبول کر لیا اب سوال پیدا ہوا کہ اس کے ذمہ جو یہود کی بکریاں ہیں ان کا کیا کیا جائے ؟ حضور نے اس جنگ کے عالم میں یہ فیصلہ فرمایا کہ بکریوں کا منہ قلعے کی طرف کر کے ہانک دو.خدا ان کو ان کے مالک کے پاس پہنچا دے گا.اسلام لانے والے غلام نے ایسا ہی کیا اور بکریاں قلعے کے پاس پہنچ گئیں جہاں سے قلعے والوں نے ان کو اندر داخل کر لیا رسول کریم نے جنگ کے موقع پر جس میں سب کچھ
82 81 جائز سمجھا جاتا ہے امانت کا دامین نہ چھوڑ ا حالانکہ وہ بکریاں اس محاصرے میں کئی دن کی خوراک کا کام دے سکتی تھیں.(السيرة النبوۃ ابن ہشام) فاقوں مر جائے پر جائے نہ امانت تیری دور و نزدیک ہو مشہور امانت تیری دریغ جاں بھی دینی پڑے تو نہ ہو اس سے حالت میں نہ جھوٹی ہو ضمانت تیری نسی فرمودات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کلام محمود صفحه 285 1 - خدا تعالیٰ نے قرآن شریف میں تقویٰ کو لباس کے نام سے موسوم کیا ہے چنانچہ لباس التقوى قرآن شریف کا لفظ ہے یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ روحانی خوبصورتی اور روحانی زینت تقویٰ سے ہی پیدا ہوتی ہے اور تقویٰ یہ ہے کہ انسان خدا کی تمام امانتوں اور ایمانی عہد اور ایسا ہی مخلوق کی تمام امانتوں اور عہد کی حتی الوسع رعایت رکھے یعنی ان کے دقیق در دقیق پہلوؤں پر تا مقدور کار بند ہو جائے.(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 210) دوسری قسم ترک شر کے اقسام میں سے وہ خلق ہے جس کو امانت و دیانت کہتے ہیں یعنی دوسرے کے مال پر شرارت اور بد نیتی سے قبضہ کر کے اُس کو ایذا پہنچانے پر راضی نہ ہونا سو واضح ہو کہ دیانت اور امانت انسان کی طبعی حالتوں میں سے ایک حالت ہے اسی واسطے ایک بچہ شیر خوار بھی بوجہ اپنی کم سنی اپنی طبعی سادگی پر ہوتا ہے اور نیز بباعث صغرسنی ابھی بُری عادتوں کا عادی نہیں ہوتا اس قدر غیر کی چیز سے نفرت رکھتا ہے کہ غیر عورت کا دودھ بھی مشکل سے پیتا ہے اگر بے ہوشی کے زمانے میں کوئی اور دایہ مقرر نہ ہو تو ہوش کے زمانے میں اس کو دوسرے کا دودھ پلانا نہایت مشکل ہو جاتا ہے اور اپنی جان پر بہت تکلیف اُٹھاتا ہے...امین اور دیانتدار بننا بہت نازک امر ہے جب تک انسان تمام پہلو بجا نہ لاوے امین اور دیانت دار نہیں ہوسکتا.اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 344-345) واقعہ حضرت میاں عبد اللہ صاحب سنوری جو کہ حضرت مسیح موعود کے مقرب رفیق تھے.حضور سے آپ کے تعلقات دعوئی سے قبل کے تھے اور آپ کو بہت سفروں میں رفاقت کی سعادت حاصل ہوئی تھی.آپ کی امانت کے بارے میں واقعہ بیان کرتے ہیں.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان کے شمالی جانب سیر کے لئے تشریف لے گئے میں اور شیخ حامد علی ساتھ تھے.راستہ میں ایک کھیت کے کنارے ایک چھوٹی سی بیری تھی اور اسے بیر لگے ہوئے تھے اور ایک بہت عمدہ پکا ہوا لال بیر راستہ پر گرا ہوا تھا میں نے چلتے چلتے اُسے اُٹھا لیا اور کھانے لگا حضرت صاحب نے فرمایا نہ کھاؤ اور وہیں رکھ دو.آخر یہ کسی کی ملکیت ہے.میاں عبد اللہ صاحب کہتے ہیں کہ اس دن سے آج تک میں نے کسی بیری کے بیر بغیر اجازت مالک اراضی کے نہیں کھائے کیونکہ میں جب کسی بیری کی طرف دیکھتا ہوں تو مجھے یہ بات یاد آ جاتی ہے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ اس علاقہ میں بیریاں عموماً خود رو ہوتی ہیں اور اُن کے پھل کے بارے میں کوئی پرواہ نہیں کی جاتی.“ (سيرة المهدی جلد اول صفحہ 102-103 )
84 83 قال اللہ تعالیٰ غصہ پر قابو رکھنا 1 - ترجمہ : ” اور غصہ دیا جانے والے.“ (ال عمران : 135) 2- ترجمہ: اور جب وہ غضب ناک ہوں تو بخشش سے کام لیتے ہیں.“ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (شوری: 38) 1- سعید بن مسیب نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پہلوان وہ نہیں ہے جو کسی کو پچھاڑ دے جبکہ پہلوان وہی ہے جو غصے کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھ سکے.( صحیح بخاری جلد سوم کتاب الادب صفحہ 411 حدیث 1046) 2 عدی بن ثابت کا بیان ہے کہ حضرت سلیمان بن سُر و رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور دو آدمیوں نے ایک دوسرے کو گالی دی اور ہم بھی وہاں بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے ایک اپنے ساتھی کو غصے میں گالی دے رہا تھا اور اس کا چہرہ سرخ ہو گیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں ایک ایسا کلمہ جانتا ہوں اگر یہ اسے کہہ دے تو اس کا غصہ جاتا رہے فرمایا کہ وہ اَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ ہے.(صحیح بخاری جلد سوم کتاب الادب صفحہ 411 حدیث 1047) 3- ابو صالح نے حضرت ابو ہریرہ سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا کہ مجھے کوئی وصیت فرمائیے ارشاد ہوا کہ غصے میں نہ آیا کرو اس نے بار بار یہی گزارش کی اور آپ نے فرمایا کہ غصہ میں نہ آیا کرو.(صحیح بخاری جلد سوم کتاب الادب صفحہ 412 حدیث 1048) 4- آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا غصہ شیطان سے ہے اور شیطان آگ سے بنا ہے اور آگ کو پانی ٹھنڈا کرتا ہے تو جس کو غصہ آئے تو اس کو چاہیے وضو کرے.5- حضرت ابو ذر بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کو غصہ آئے وہ اگر کھڑا ہے تو چاہیے کہ بیٹھ جائے اگر اس سے بھی کم نہ ہو تو چاہیے کہ لیٹ جائے.(سنن ابی داؤد كتاب الادب من كم غيظا حدیث نمبر 4 اور 5) واقعہ نمبر 1 حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریم کے پاس مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے پھر آپ کھڑے ہوئے مسجد کے عین درمیان میں پہنچے اچانک ایک آدمی نے آپ کو پکڑا اور اس نے آپ ﷺ کی چادر سے پکڑ کر پیچھے سے کھینچا.چادر بہت موٹی تھی اس کے کھینچنے کی وجہ سے آپ ﷺ کی گردن سرخ ہوگئی اس نے کہا اے محمد میرے لئے میرے ان اُونٹوں پر سامان لاد دو اور پھر نہایت گستاخی سے کہنے لگا تم کوئی اپنے مال سے یا اپنے باپ کے مال سے تو نہیں دیتے نا آپ نے فرمایا نہیں.استغـفـر الله استغفر الله.استغفر الله ٹھیک ہے مگر جب تک تم میری گردن نہیں چھوڑو گے میں تم کو مال نہیں دے سکتا اس نے کہا نہیں ہر گز نہیں میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.
86 85 نے فرمایا میری گردن چھوڑو تو میں مال دوں مگر اس اعرابی نے کہا میں آپ کو نہیں چھوڑوں گا.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ جب ہم نے اعرابی کی یہ بات سنی تو ہم اس کی طرف دوڑے اس پر آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے فرمایا میں تم کو تاکیدی حکم دیتا ہوں کہ جب تک میں نہ کہوں تم میں سے کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلے اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ارشاد فرمایا کہ اس کے ایک اُونٹ پر جو اور ایک اونٹ پر گندم لا د دو پھر آپ ﷺ تشریف لے گئے.(نسائی کتاب حدیث 4694) فرمودات حضرت مسیح موعود نیک آدمی وہ ہیں جو غصہ کھانے کے محل پر اپنا غصہ کھا جاتے ہیں اور بخشنے کے محل پر گناہ کو بخشتے ہیں بدی کی جزا اُسی قدر بدی ہے جو کی گئی ہو لیکن جو شخص گناہ کو بخش دے اور ایسے موقعہ پر بخش دے کہ اس سے کوئی اصلاح ہوتی ہو کوئی شر پیدا نہ ہوتا ہو یعنی عین عفو کے محل پر نہ غیر محل پر تو اس کا وہ بدلہ پائے گا قرآنی تعلیم یہ نہیں کہ خواہ مخواہ اور ہر جگہ شر کا مقابلہ نہ کیا جائے اور شریروں اور ظالموں کو سزا نہ دی جائے بلکہ یہ تعلیم ہے کہ دیکھنا چاہیے کہ وہ محل اور موقعہ گناہ بخشنے کا ہے یا سزا دینے کا.پس مجرم کے حق میں اور نیز عامہ خلائق کے حق میں جو کچھ فی الواقعہ بہتر ہو وہی صورت اختیار کی جائے.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 351) گالیاں سُن کر دُعا دو پا کے دُکھ آرام و رو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار دار مین صفحه 144 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا غصہ پر قابو ر کھنے کا واقعہ 1904ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور آئے اور میاں معراج الدین صاحب کے مکان پر اُترے تھوڑے ہی عرصے کے بعد ایک مولوی تانگے پر سوار ہو کر اس طرف آیا اور حضور کو گالیاں دینا شروع کر دیں بالآخر جب اس طرح گالیوں کو کارگر نہ دیکھا تو ٹانگے سے اتر کر سڑک پر جو ایک درخت تھا اس پر چڑھ گیا اور حضور کو گالیاں دینی شروع کیں بعض آدمی اس کی گالیاں کو سُن کر جوش میں آنے لگے تو حضور نے فرمایا.کہ جو کچھ کہتا ہے اسے کہنے دو اور کوئی جواب نہ دو قال اللہ تعالیٰ ( رفقائے احمد جلد 10 ص 175 ) بشاشت اور ملاطفت 1 - ترجمہ: اور لوگوں سے نیک بات کہا کرو.“ 66 (البقره: 84) 2- ترجمہ: یقیناً میرا رب جس کے لئے چاہے بہت لطف و احسان کرنے والا ہے.بے شک وہی دائی علم رکھنے والا ( اور ) بہت حکمت والا ہے.“ (یوسف :101) 3 - ترجمہ: اللہ اپنے بندوں کے حق میں نرمی کا سلوک کرنے والا ہے وہ جسے چاہتا ہے رزق عطا کرتا ہے 66 اور وہی بہت طاقتور ( اور ) کامل غلبہ والا ہے.“
88 87 تھا 66 (شوری:20) -4- ترجمہ: یقیناً ابراہیم بہت نرم دل (اور ) برد بار (التوبہ: 114) 5- ترجمہ: ” پس اس سے نرم بات کہو.ہوسکتا ہے وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے.“ (45:') 6- ترجمہ: پس اللہ کی خاص رحمت کی وجہ سے تُو اُن کے لئے نرم ہو گیا.اور اگر تو تند خو (اور ) سخت دل ہوتا تو وہ ضرور تیرے گرد سے دُور بھاگ جاتے “ (ال عمران: 160) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1- حضرت عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے نرمی کو پسند کرتا ہے نرمی کا جتنا اجر دیتا ہے اتنا سخت گیری کا نہیں دیتا.بلکہ کسی اور نیکی کا بھی اتنا اجر نہیں دیتا.(مسلم کتاب البر والصلة باب فضل الرفق) 2- حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی چیز میں جتنا بھی رفق اور نرمی ہو اتنا ہی یہ اس کے لئے زینت کا موجب بن جاتا ہے اور جس سے رفق اور نرمی چھین لی جائے وہ اتنی ہی بدنما ہو جاتی ہے یعنی رفق اور نرمی میں ہی حسن ہے.(مسلم کتاب البر والصلة باب فضل الرفق) 3.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو نرمی سے محروم رہا وہ بھلائی سے محروم رہا اور فرمایا تین خصلتیں جس شخص میں ہوں گی خدا اپنے سایہ کو اس پر پھیلائے گا اور اس کو جنت میں داخل کرے گا یعنی کمزور کے ساتھ نرمی کرنا ماں باپ پر مہربانی کرنا اور غلام پر احسان کرنا.( صحیح مسلم و ترمذی ابواب الزھد ) 4.حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں بتاؤں آگ کس پر حرام ہے؟ آگ حرام ہے ہر اُس شخص پر جو لوگوں کے قریب رہتا ہے یعنی نفرت نہیں کرتا ان سے نرم سلوک کرتا ہے ان کے لئے آسانی مہیا کرتا ہے اور سہولت پسند ہے.( ترمذی صفۃ القیامة ) واقعہ نمبر 1 حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں ایک اعرابی نے مسجد میں پیشاب کر دیا لوگ کھڑے ہو گئے کہ اس پر ٹوٹ پڑیں اور پکڑ لیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے چھوڑ دو اور پانی کا ڈول بہا دو ( تا کہ پیشاب کا اثر زائل ہو جائے ) کیونکہ تمہیں آسانی پیدا کرنے والے بنا کر بھیجا گیا تنگی کرنے والے اور سختی سے پیش آنے والے بنا کر نہیں بھیجا گیا.واقعہ نمبر 2 ( صحیح بخاری جلد اوّل صفحہ 189 حدیث 217) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت مانگی.اس وقت آپ کے پاس ازواج مطہرات میں سے قریشی عورتیں بیٹھی ہوئی تھیں اور آپ سے سوال کر رہی تھیں کی عطیات بڑھا دیئے جائیں اور وہ اونچی آواز سے گفتگو کر رہی تھیں جب حضرت عمرؓ نے اجازت مانگی تو وہ پردے میں چھپ گئیں.پس بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی اور یہ اندر داخل ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تبسم ریز تھے.عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ میرے ماں باپ آپ پر قربان اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کو ہنساتا ہے.آپ نے فرمایا مجھے ان عورتوں پر تعجب
06 90 89 ہے جو میرے پاس تھیں کہ انھوں نے تمہاری آواز سنی تو پردے میں جا چھپیں.عرض گزار ہوئے یا رسول اللہ حق دار تو آپ زیادہ ہیں کہ آپ سے زیادہ ڈرا جائے پھر ان کی جانب متوجہ ہو کر کہا اے اپنی جان سے دشمنی کرنے والیو ! تم مجھ سے ڈرتی ہو لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں انہوں نے کہا آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نہیں بلکہ غصے والے اور سخت گیر ہیں رسول اللہ نے فرمایا کہ ابن خطاب سنو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر شیطان تمہیں کسی راستے پر چلتا ہوا دیکھ لے تو تمہارے راستے کو چھوڑ کر دوسرے راستے پر چل دے گا.( صحیح بخاری جلد سوم کتاب الادب حدیث نمبر 1019 صفحہ 402) دل جس کا ہوا حامل اسرار محبت چہرے پر برسنے لگے انوار محبت لائے نہ اگر لب بھی گفتار محبت آنکھوں سے عیاں ہوتے ہیں آثار محبت وو در عدن فرمودات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام رفق اور قول حسن ” یہ خلق جس حالت طبعی سے پیدا ہوتا ہے اُس کا نام طلاقت یعنی کشادہ روئی ہے.بچہ جب تک کلام کرنے پر قادر نہیں ہوتا بجائے رفق اور قولِ حُسن کے طلاقت دکھلاتا ہے یہی دلیل اس بات پر ہے کہ رفق کی جڑھ جہاں سے یہ شاخ پیدا ہوتی ہے طلاقت ہے طلاقت ایک قوت ہے اور رفق ایک خلق ہے جو اس قوت کو محل پر استعمال کرنے سے پیدا ہو جاتا ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 350) عفو درگزر عفو درگز ر اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی صفت ہے.اللہ تعالیٰ کے خاص ناموں میں الْعَفُو در گزر کرنے والا غَافِرٌ ، غَفُورٌ اور غَفَّارٌ بہت معاف کرنے والا ہے شامل ہیں.قال اللہ تعالیٰ 1 - ترجمہ :.اور غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں.66 (ال عمران : 135) -2- ترجمہ : پس چاہیے کہ وہ معاف کر دیں اور در گزر کریں.کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تمہیں بخش دے اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.“ (النور: 23) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1- ایک شخص نے حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر پوچھا کہ یا رسول اللہ میں اپنے خادم کا قصور کتنا معاف کروں آپ پہلے تھوڑی دیر چپ رہے اس نے پھر یہی پوچھا تب آپ نے فرمایا ہر روز ”ستر دفعہ اس سے مقصود تعداد کی تحدید نہیں بلکہ عفو و درگزر کی کثرت ہے.(ترمذی ابواب البر والصله باب ماجاء فی ادب الخادم) 2- حضرت معاذ بن انس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم
92 91 نے فرمایا سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور جو تجھے نہیں دیتا ہے اسے بھی دے اور جو تجھے بُرا بھلا کہتا ہے اس سے تو درگزر کرے.(مسند احمد جلد 3 صفحہ 438) 3- حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی اور جو شخص دوسرے کے قصور معاف کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اور عزت دیتا ہے اور کسی کے قصور معاف کر دینے سے کوئی بے عزتی نہیں ہوتی.(مسند احمد صفحہ 235/2، صفحہ 438/2) 4- ترجمہ: اور اللہ اس شخص کو جو عفو ، در گذر کرتا ہے نہیں بڑھاتا مگر عزت (ترمذی ابواب البر والصله باب ماجاء في التواضع) میں.واقعہ نمبر 1 آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں بلکہ مجرموں میں سے ابوسفیان کی بیوی ھند بنت عتبہ بھی تھی جس نے اسلام کے خلاف جنگوں کے دوران کفار قریش کو اُکسانے اور بھڑ کانے کا فریضہ خوب ادا کیا تھا اور رجزیہ اشعار پڑھ کر اپنے مردوں کو انگیخت کیا تھا کہ اگر فتح مند ہو کر لوٹو گے تو ہم تمہارا استقبال کریں گے ورنہ ہمیشہ کے لئے جدائی اختیار کر لیں گی.(ابن ہشام جلد 3 صفحہ 151 دارالمعرفہ بیروت) اسی طرح جنگ اُحد میں اسی ھند نے رسول اللہ کے چچا حضرت حمزہ کی نعش کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا تھا ان کے ناک کان اور دیگر اعضاء کاٹ کر لاش کا حلیہ بگاڑا اور ان کا کلیجہ چبا کر آتش انتقام سرد کی تھی.فتح مکہ کے بعد جب رسول اللہ نے عورتوں کی بیعت لی تو یہ ھند بھی نقاب اوڑھ کر آگئی کیونکہ اس کے جرائم کی وجہ سے اسے واجب القتل مجرمہ قرار دے دیا گیا تھا بیعت کے دوران اس نے بعض شرائط بیعت کے بارے میں استفسار کیا تو نبی کریم پہنچان گئے کہ ایسی دیدہ دلیری ہند ہی کر سکتی ہے آپ نے پوچھا کیا تم ابوسفیان کی بیوی ہند ہو؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں تو اب مسلمان ہو چکی ہوں جو کچھ پہلے گزر چکا آپ اس سے درگزر فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ بھی ایسا ہی سلوک فرمائے گا.رسول کریم کا حوصلہ دیکھئے کہ آپ نے اپنے محبوب چا کا کلیجہ چبانے والی ہند کو معاف فرما کر ہمیشہ کے لئے اس کا دل جیت لیا اس پر آپ کے عفو و کرم کا ایسا اثر ہوا کہ اس کی کایا پلٹ گئی اس نے اپنا دل بھی شرک و بت پرستی سے پاک کیا اور گھر میں بھی موجود بت تو ڑ کر نکال باہر کئے.اس شام ہند نے رسول اللہ کے لئے ضیافت کے اہتمام کی خاطر دو بکرے ذبح کروا کر اور بھون کر حضور ﷺ کی خدمت میں بھجوائے اور خادمہ کے ہاتھ پیغام بھجوایا کہ ھند بہت معذرت کرتی ہے کہ آج کل جانور کم ہیں اس لئے حقیر تحفہ پیش کرنے کی توفیق پا رہی ہوں قبول فرمائیں.ہمارے محسن و آقا و مولا جو کسی کے احسان کا بوجھ اپنے اوپر نہ رکھتے تھے اسی وقت دعا کی کہ اے اللہ ! ان بکریوں کے ریوڑ میں بہت برکت ڈال دے یہ دعا اس شان کے ساتھ قبول ہوئی کہ ھند سے بکریاں سنبھالی نہ جاتی تھیں پھر تو هند رسول اللہ کی ایسی دیوانی ہوئی کہ خود کہا کرتی تھی کہ یا رسول اللہ ایک وقت تھا جب آپ کا گھر میری نظر میں دنیا کا سب سے زیادہ ذلیل اور حقیر گھر تھا مگر اب یہ حال ہے کہ روئے زمین پر تمام گھرانوں سے معزز مجھے آپ کا گھر ہے.(سیرت الحلبیہ جلد3 صفحہ 118 مطبوعہ بیروت) منقول از روزنامه الفضل 11 مارچ 1999 )
94 93 واقعہ نمبر 2 ابتدائے اسلام کے وقت اتوار اور جمعرات کے دن خانہ کعبہ کے دروازے کھولے جاتے تھے کہ لوگ اندر جاسکیں اس وقت خانہ کعبہ کے دربان عثمان بن طلحہ تھے ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب خانہ کعبہ کے اندر داخل ہونے لگے اور دربان عثمان بن طلحہ نے آپ کو اندر جانے کی اجازت نہ دی اور سختی سے پیش آیا اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن طلحہ کے رویہ کو دیکھ کر فرمایا: - اے عثمان ! ایک دن آئے گا جب تو خود دیکھے گا کہ یہی چابیاں میرے ہاتھ میں ہوں گی اور جسے میں چاہوں گا یہ چابیاں دوں گا.“ مکہ کا دن وہی دن تھا اور عثمان بن طلحہ اپنے اس رویہ کو یاد کر کے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے چابیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر رہا تھا کہ نہ جانے اب اس سے انتقاماً کیا سلوک ہوتا ہے مگر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم خانہ کعبہ سے باہر تشریف لائے تو چابیاں عثمان بن طلحہ کے حوالے کر دیں اور فرمایا.میں یہ چابیاں ہمیشہ کے لئے تمہیں اور تمہارے خاندان کو دیتا ہوں اور سوائے ظالم کے کوئی بھی تم سے یہ چابیاں نہیں چھین سکے گا.“ السيرة الحلبيلہ جلد 3 صفحہ 101 ) واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عفو اور درگزر کا ایک دفعہ حضرت مسیح موعود بیت اقصیٰ میں لیکچر دے رہے تھے کہ دوسکھ بھی وہاں آگئے انہوں نے حضور کی تقریر میں مداخلت شروع کر دی اندھا سکھ بولا پیارو ، متر و میری اک غرض اس کا انداز یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ تقریر میں رخنہ ڈال کر اپنے مذہب کے متعلق کچھ پر چار کرنا چاہتا تھا جس پر قریب کے لوگوں نے اسے روک دیا کہ بولو نہیں وعظ ہو رہا ہے دومنٹ کے بعد پھر اس اندھے سکھ نے پہلے کی طرح کہا پھر لوگوں نے اسے روک دیا اس پر نو جوان سکھ نے گالیاں دینی شروع کر دی اس وقت پولیس کا انتظام تھا اور محمد بخش تھانیدار بھی آیا ہوا تھا لوگوں نے تھانیدار سے کہا دو سکھ بیت الذکر میں گالیاں دے رہے ہیں تھانیدار اس وقت مرزا نظام دین کے دیوان خانے میں کھڑا تھا اور سپاہی اس کے ساتھ تھے وہ گئے اور ان سکھوں کو پکڑ کر دیوان خانہ میں لے گئے.حضرت صاحب کو تقریر ختم کرنے کے دو گھنٹے بعد کسی شخص نے آکر بتایا کہ تھانیدار نے ان سکھوں کو مارا ہے.حضرت صاحب نے اسی وقت فرمایا : ”تھانیدار سے کہو کہ ان کو چھوڑ دو.“ اس پر تھانیدار نے ان سکھوں کو چھوڑ دیا.(سيرة المہدی جلد 3 صفحہ 239
96 95 قال اللہ تعالیٰ عدل و احسان 1- ترجمہ:.اور جب تم لوگوں کے درمیان حکومت (النساء: 59) کرو تو انصاف سے حکومت کرو.2- ترجمہ: اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کی خاطر مضبوطی سے نگرانی کرتے ہوئے انصاف کی تائید میں گواہ بن جاؤ.اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو.انصاف کرو یہ تقویٰ کے سب سے زیادہ قریب ہے.“ (المائدہ:9) 3- ترجمہ: یقیناً اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.“ (المائدہ:43) -4- ترجمہ: پس اگر وہ لوٹ آئے تو ان دونوں کے درمیان عدل سے صلح کرواؤ اور انصاف کرو.یقینا اللہ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.66 (الحجرات: 10) 5- ترجمہ: اور احسان کرو یقیناً اللہ احسان کرنے (البقره: 196) والوں سے محبت کرتا ہے.“ -6- ترجمہ: اللہ یقیناً عدل کا اور احسان کا اور اقرباء پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے.“ (النحل: 91) 7- ترجمہ:.اور جب بھی تم کوئی بات کرو تو عدل سے کام لوخواہ کوئی قریبی ہی ( کیوں نہ ) ہو.“ (انعام: 153) 8- ترجمہ: اور احسان کا سلوک کر جیسا کہ اللہ نے تجھ پر احسان کا سلوک کیا.“ (القصص: 78) 9.ترجمہ: اللہ احسان کرنے والوں کا اجر ہرگز ضائع (التوبه : 120) نہیں کرتا.“ 10 - ترجمہ: اور والدین کے ساتھ احسان کرو.“ (النساء : 37) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم 1 - حضرت حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دوسروں کی دیکھا دیکھی یہ نہ کہو کہ لوگ ہم سے حسن سلوک کریں گے تو ہم ان سے حسنِ سلوک کریں گے اور اگر انہوں نے ہم پر ظلم کیا تو ہم بھی اُن پر ظلم کریں گے بلکہ تم اپنے نفس کی تربیت اس طرح کرو کہ لوگ تم سے حسنِ سلوک کریں تو تم اُن سے احسان کا سلوک کرو اور اگر وہ تم سے بدسلوکی کریں تو بھی ظلم سے کام نہ لو.(جامع ترمذی کتاب البر والصلۃ باب فی الاحسان حدیث نمبر (1930) 2 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن جبکہ خدا کے سایہ کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہو گا سات آدمی ہیں اللہ تعالیٰ اس دن انہیں اپنے سایہ میں لے لے گا جن میں ایک
98 97 شخص امام عادل ہو گا.( صحیح بخاری) 3- ایک دفعہ ایک صحابی نے اپنے بیٹے کو قیمتی تحفہ دیا اور اپنی بیوی کی خواہش صلى الله پر رسول کریم ﷺ کو گواہ بنانے کے لئے حاضر ہوا.آپ نے اس سے پوچھا کیا سب بچوں کو ایسا ہی صبہ کیا ہے انہوں نے نفی میں جواب دیا.آپ نے فرمایا پھر ظلم کی اس بات پر میں گواہ نہیں بن سکتا.(بخاری کتاب الهبه باب الشهادت في الهبه 2398) 4.حضرت جابر بن عبد اللہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اس پر رحمت نازل فرمائے گا جو خرید و فروخت اور حق طلبی کے معاملہ میں سیر چشمی کا مظاہرہ کرے.( صحیح بخارى كتاب البيوع صفحه 777 حديث 1936) -5 حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ قریش ایک مخزومی عورت کے بارے میں بہت ہی پریشان تھے جس نے چوری کی تھی لوگ کہنے لگے کہ اس بارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ سلم سے گفتگو کون کرے بعض آدمیوں نے کہا حضرت اسامہ بن زید کے سوا ایسی جرات کون کر سکتا ہے کیونکہ وہ رسول خدا کے چہیتے ہیں پس اس بارے میں حضرت اسامہ نے رسول اللہ سے گفتگو کی آپ نے فرمایا کیا تم اللہ تعالیٰ کی حدود کے بارے میں سفارش کرنے آئے ہو ؟ پھر آپ نے کھڑے ہو کر خطبہ دیا اور فرمایا بے شک تم سے پہلے لوگ اسی لئے ہلاک ہوئے تھے کہ جب کوئی مالدار چوری کرتا تو اُسے چھوڑ دیتے اور جب غریب آدمی چوری کرتا تو اس پر حد قائم کر دیتے.خدا کی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا.( صحیح بخاری جلد دوم صفحه 335 کتاب الانبیاء حدیث نمبر 692) 6- حضرت معاذ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم صلى الله جب مجھے یمن میں حاکم بنا کر بھیجنے لگے تو فرمایا.” تم کس طرح فیصلہ کرو گے؟“ میں نے عرض کیا حضور قرآن کریم کے احکامات کے مطابق فیصلہ کروں گا اس پر آپ نے فرمایا کہ اگر ایسا معاملہ آ جائے جس کے بارے میں قرآن میں کوئی واضح حکم موجود نہ ہو تو پھر کس طرح کرو گے؟ میں نے عرض کی حضور ﷺ کی سنت کی روشنی میں فیصلہ کروں گا حضور فرمانے لگے اگر میری سنت میں بھی کوئی ایسی مثال نہ ملے تو پھر کس طرح کرو گے؟ میں نے عرض کیا حضور ” پھر میں اجتہاد اور غور وفکر کروں گا اور پھر جو رائے بنے اس کے مطابق فیصلہ کروں گا.اس پر حضور نے خوش ہو کر فرمایا تمام تعریفوں کا مستحق اللہ تعالیٰ ہی ہے جس نے رسول اللہ کے ایلچی کو ایسی فراست اور صحیح سوچ دی.واقعہ نمبر 1 ( ترمذی ابواب الا حکام باب فی القاضي كيف يقضى) ( حديقة الصالحین حدیث 636 صفحہ 604) ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلّم سے تقاضا کرنے آیا تو اس نے سختی کی آپ کے اصحاب نے اُسے پیٹنا چاہا تو رسول اللہ نے منع فرمایا اسے جانے دو کیونکہ قرض خواہ کو کہنے کا حق ہوتا ہے.پھر فرمایا اسے اتنے ہی سالوں کا اُونٹ دے دو لوگ عرض گزار ہوئے کہ یا رسول اللہ اس سے زیادہ عمر کا ہے فرمایا.وہی دے دو کیونکہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو اچھی طرح ادا کرے.صحیح بخاری جلد اول کتاب الوکاله صفحه 840 حدیث 2146) واقعہ نمبر 2 حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر کے دوران میں نبی کریم کے ساتھ تھا اور میں سُست رفتار اونٹ پر سوار تھا جو لوگوں
100 99 پیچھے رہ گیا تھا پس نبی کریم میرے پاس سے گزرے اور فرمایا کون ہے؟ عرض گزار ہوا کہ میں جابر بن عبداللہ ہوں فرمایا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ عرض کی کہ میں سست رفتار اونٹ پر سوار ہوں فرمایا تمہارے پاس چھڑی ہے میں نے کہا ہاں فرمایا تو مجھے دو میں نے پیش کر دی.آپ نے اُسے مارا اور ڈانٹا پس وہ اس وقت سب لوگوں سے آگے نکل گیا فرمایا کہ یہ میرے ہاتھوں بیچ دو میں نے عرض کی یا رسول اللہ یہ آپ ہی کا ہے فرمایا.میں نے اسے چارسو دینار میں خرید لیا اور تم مد مدینہ منورہ تک اس پر سوار رہو جب ہم مدینہ کے قریب پہنچے تو اپنے مکان کی طرف جانے لگا فرمایا کہاں کا ارادہ ہے؟ عرض گزار ہوا کہ ایک عورت سے شادی کی ہے جو بیوہ تھی فرمایا کہ کنواری لڑکی سے کیوں نہ کی کہ تم سے کھیلتی اور تم اس سے کھیلتے عرض گزار ہوا کہ میرے والد محترم فوت ہو گئے اور کئی بیٹیاں چھوڑی ہیں لہذا میں نے چاہا کہ کسی تجربہ کار اور بیوہ عورت سے شادی کروں فرمایا یہ بات ہے جب ہم مدینہ پہنچے تو فرمایا اے بلال! کچھ زیادہ دینار.پس انہوں نے مجھے چار سو دینار اور کچھ قیراط زیادہ دیئے.حضرت جابر نے فرمایا کہ رسول اللہ نے جو زیادہ عطا فرمایا تھا وہ مجھ سے کبھی جدا نہیں ہوتا اور وہ قیراط جابر بن عبداللہ کی تھیلی سے جدا نہیں ہوتے.( صحیح بخاری جلد اول کتاب الوکالہ صفحہ 847-848 حدیث 2148) عدل کے معنی انصاف یعنی کسی کو اُس کا حق ٹھیک ٹھیک ادا کرنا اور احسان کے معنی حق سے بڑھ کر مروت اور نیکی کرنا ہے.فرمودات حضرت مسیح موعود علیہ السلام " ” دوسرا خلق اخلاق ایصالِ خیر میں سے عدل ہے اور تیسرا احسان اور چوتھا ایتاء ذی القربی یعنی اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ نیکی کے مقابل پر نیکی کرو اور اگر عدل سے بڑھ کر احسان کا موقع اور محل ہو تو وہاں احسان کرو اور اگر احسان سے بڑھ کر قریبیوں کی طرح طبعی جوش سے نیکی کرنے کا محل ہو تو وہاں طبعی ہمدردی سے نیکی کرو اور اس سے خدا تعالیٰ منع فرماتا ہے کہ تم حدود اعتدال سے آگے گزر جاؤ یا احسان کے بارے میں منکرانہ حالت تم سے صادر ہو جس سے عقل انکار کرے یعنی یہ کہ تم بے محل احسان کرو یا برمحل احسان کرنے سے دریغ کرو.اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحه 353) واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عدل و انصاف کا حضرت اقدس کے ابتدائی زمانہ میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جب آپ نے والد کی طرف سے مقدمہ میں دوسرے کے حق میں گواہی دی آپ کے والد کے مزارعین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت، دیانت داری ، انصاف اور عدل کو دیکھتے ہوئے عدالت میں کہہ دیا کہ اگر حضرت مرزا غلام احمد گواہی دے دیں کہ ان درختوں پر ان کے والد کا حق ہے تو ہم حق چھوڑ دیں گے مقدمہ واپس لے لیں گے عدالت نے آپ کو بلایا وکیل نے آپ کو بہت سمجھانے کی کوشش کی.آپ نے فرمایا میں تو وہی کہوں گا جو حق ہے کیونکہ میں نے بہر حال عدل و انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں چنانچہ آپ کی بات سُن کر عدالت نے مزارعین کے حق میں ڈگری دے دی اور اس فیصلے کے بعد اس طرح خوش خوش واپس آئے کہ لوگ سمجھے کہ آپ مقدمہ جیت کر آ رہے ہیں.حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں میں سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن
102 101 کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دینا یہ بہت مشکل اور فقط جواں مردوں کا کام ہے.اکثر لوگ اپنے شریک دشمنوں سے محبت تو کرتے ہیں اور میٹھی میٹھی باتوں سے پیش آتے ہیں.مگر ان کے حقوق دبا لیتے ہیں.ایک بھائی دوسرے بھائی سے محبت کرتا ہے اور محبت کے پردے میں دھوکا دے کر اس کے حقوق دبا لیتا ہے....پس خدا تعالی نے اس آیت میں محبت کا ذکر نہ کیا بلکہ معیار محبت کا ذکر کیا.کیونکہ جو شخص اپنے جانی دشمن سے عدل کرے گا اور سچائی اور انصاف سے درگز رنہیں کرے گا وہی ہے جو سچی محبت بھی کرتا ہے.“ نور القرآن جلد 2 روحانی خزائن جلد 9 ص 410,409) لاکھ دوزخ سے بھی بد تر ہے جدائی آپ کی بادشاہی سے ہے بڑھ کر آشنائی آپ کی حسن و احسان میں نہیں ہے آپ کا کوئی نظیر آپ اندھا ہے جو کرتا ہے بُرائی آپ کی کلام محمود صفحه 275 قال اللہ تعالیٰ مسابقت في الخيرات 1- ترجمہ:.ہر ایک کے لئے ایک مطمح نظر ہے جس کی طرف وہ منہ پھیرتا ہے پس نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تمہیں اکٹھا کر کے لے آئے گا یقیناً اللہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائی (البقره: 149) قدرت رکھتا ہے.“ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1- حضرت ابو ایوب انصاری بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلّم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا گر بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے.آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کی عبادت کرو.اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ.نماز باجماعت پڑھو.زکوۃ دو اور رشتہ داروں سے صلہ رحمی اور حسنِ سلوک کرو.(مسلم کتاب الایمان باب بیان الايمان الذي يدخله به الجنة) 2- حضرت ابوسعید خذری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے کوئی وصیت کیجئے.آپ نے فرمایا اللہ کا تقویٰ اختیار کرو کیونکہ تمام بھلائیوں کی یہ بنیاد ہے.اللہ تعالیٰ
104 103 کے راستے میں جہاد کرو کیونکہ یہ مسلمان کی رہبانیت ہے.اللہ تعالیٰ کا ذکر کرو کیونکہ یہ تیرے لئے نور ہے.قشیریہ باب التقویٰ صفحہ 56) 3- حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص خدا کی راہ میں جس نیکی میں ممتاز ہوا اسے اس نیکی کے دروازے میں جنت کے اندر آنے کے لئے کہا جائے گا اُسے آواز آئے گی اے اللہ کے بندے! یہ دروازہ تیرے لئے بہتر ہے اسی سے اندر آؤ اگر وہ نماز پڑھنے میں ممتاز ہوا تو نماز کے دروازے سے بلایا جائے گا اگر جہاد میں ممتاز ہوا تو جہاد کے دروازے سے اگر روزے میں ممتاز ہوا تو سیرابی کے دروازے سے اگر صدقہ میں ممتاز ہوا تو صدقہ کے دروازے سے بلایا جائے گا.حضور کا یہ ارشادسُن کر حضرت ابو بکر نے پوچھا اے اللہ کے رسول ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں جسے ان دروازوں میں سے کسی ایک سے بلایا جائے اسے کسی اور دروازے کی ضرورت تو نہیں لیکن پھر بھی کوئی ایسا خوش نصیب بھی ہو گا جسے ان سب دروازوں سے آواز پڑے گی ؟ آپ نے فرمایا ہاں اور مجھے امید ہے کہ تم بھی ان خوش نصیبوں میں شامل ہو.( صحیح بخاری جلد اول کتاب الصوم صفحہ 721 حدیث 1770) 4- حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور جب رمضان میں جبرائیل آپ کے پاس قرآن کریم کا دور کرنے آتے تو آپ ﷺ پہلے سے بھی زیادہ سخاوت کا اظہار فرماتے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بھلائی اور سخاوت میں آپ ﷺ موسلا دھار بارش اور اس میں چلنے والی تیز ہوا سے بھی تیز رفتار دکھائی دیتے.(ریاض الصالحين باب الجود) 5- حضرت معادؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کوئی ایسا کام بتائیے کہ جو مجھے جنت میں لے جائے اور دوزخ سے دور رکھے آپ نے فرمایا تم نے ایک بہت بڑی اور مشکل بات پوچھی ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو یہ آسان بھی ہے فرمایا تو اللہ کی عبادت کر، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا، نماز پڑھ، باقاعدگی سے زکوۃ ادا کر، رمضان کے روزے رکھ ، اگر زادِ راہ ہو تو بیت اللہ کا حج کر.پھر آپ نے یہ فرمایا کیا میں بھلائی اور نیکی کے دروازوں کے متعلق تجھے نہ بتاؤں؟ سنو! روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے.صدقہ گناہ کی آگ کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بھجا دیتا ہے.رات کے درمیانی حصے میں نماز پڑھنا اجر عظیم کا موجب ہے پھر آپ نے سورۃ السجدہ کی آیت نمبر 17 پڑھی کہ اُن کے پہلو ان کے بستروں سے تہجد کی نماز پڑھنے کے لئے الگ ہو جاتے ہیں.پھر آپ نے فرمایا کیا میں تمہیں سارے دین کی جڑ بلکہ اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتاؤں ؟ میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ ! ضرور بتائیے.آپ ﷺ نے فرمایا دین کی جڑ اسلام ہے اس کا ستون نماز ہے اور اس کی چوٹی جہاد ہے.پھر آپ نے فرمایا.کیا میں تجھے اس سارے دین کا خلاصہ نہ بتاؤں میں نے عرض کیا جی ہاں.یا رسول اللہ ضرور بتائیے.آپ نے اپنی زبان کو پکڑا اور فرمایا اسے روک کر رکھو.میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول ملا ہم جو کچھ بولتے ہیں کیا اس کا بھی ہم سے مواخذہ ہوگا.آپ نے فرمایا.و تیری ماں تجھے گم کرے یعنی افسوس اور تاسف کے وقت یہ فقرہ بولا جاتا ہے یعنی کہ لوگ اپنی زبانوں کی کائی ہوئی کھیتیوں یعنی اپنے بُرے بول اور بے موقع باتوں کی وجہ 66 سے جہنم میں اوندھے منہ گرتے ہیں.“ ترندی کتاب الایمان باب في حرمة الصلواة)
106 105 واقعہ نمبر 1 ایک دفعہ آپ ﷺ کو اپنے لئے لباس کی حاجت تھی کہیں سے دس درہم آئے ایک سوالی نے تن ڈھانپنے کے لئے کپڑا مانگا آپ نے چار درہم کی چادر لے کر اسے دی اور چار درہم کی اپنے لئے چادر لی دو درہم لے کر نکلے کہ کہاں ان کا بہتر مصرف ہو کہ راستہ میں ایک بچی روتی دیکھی آپ نے اس کا حال پوچھا اس نے کہا کہ میں فلاں گھرانے کی لونڈی ہوں انہوں نے مجھے دو درہم دے کر آٹا خرید نے بھیجا تھا وہ گم ہو گئے ہیں اس لئے پریشان ہوں.آپ نے دو درہم اُسے دے دیئے مگر وہ پھر بھی بیٹھی رو رہی تھی فرمایا اب کیا مشکل ہے بولی گھر سے آئی اتنی دیر ہو چکی ہے کہ اب گھر والے دیر کی وجہ سے ناراض ہوں گے.فرمایا چلو میں ساتھ چلتا ہوں جب آپ اس لونڈی کے سفارشی بن کر اس مسلمان گھرانے میں پہنچے تو ان کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا کہنے لگے یا رسول اللہ ؟ اس لونڈی پر تو ناراض ہونے کا سوال کیا ہم آپ مہ کے اعزاز میں اسے آج سے آزاد کرتے ہیں رسول اللہ اس گھر سے نکلے تو خوش ہو کر فرمارہے تھے دیکھو اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے کے دس درہموں میں کتنی برکت ڈال دی دو آدمیوں کو تن ڈھانپنے کو کپڑا میسر آ گیا اور ایک لونڈی بھی آزاد ہو گئی.واقعہ نمبر 2 ( منقول از روزنامه الفضل 2 اپریل 2001) حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک واقعہ بیان کیا کہ ایک آدمی بے آب و گیاہ جنگل میں جا رہا تھا بادل گھرے ہوئے تھے اس نے بادل میں سے آواز سنی کہ اے بادل فلاں نیک انسان کے باغ کو سیراب کر وہ بادل اس طرف کو ہٹ گیا پتھر یلی سطح مرتفع پر بارش برسی.پانی ایک چھوٹے سے نالے میں بہنے لگا وہ شخص بھی اس نالے کے کنارے کنارے چل پڑا کیا دیکھتا ہے کہ یہ نالہ ایک باغ میں جا داخل ہوا اور باغ کا مالک کدال سے پانی ادھر اُدھر مختلف کیاریوں میں لگا رہا ہے اوراس آدمی نے باغ کے مالک سے پوچھا اے اللہ کے بندے تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے وہی نام بتایا جو اس مسافر نے اس بادل میں سے سنا تھا.پھر باغ کے مالک نے اس مسافر سے پوچھا اے اللہ کے بندے تم مجھ سے میرا نام کیوں پوچھتے ہو؟ اس نے کہا میں اس بادل میں سے جس کی بارش کا تم پانی لگا رہے ہو یہ آواز سنی تھی کہ اے بادل فلاں آدمی کے باغ کو سیراب کر تم سے ایسا کون سا ایسا عمل کیا ہے جس کا یہ بدلہ تجھ کو ملا ہے باغ کے مالک نے کہا اگر آپ پوچھتے ہیں تو سنیں میرا طریق کار یہ ہے کہ اس باغ سے جو پیداوار ہوتی ہے اس کا ایک تہائی خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہوں.ایک تہائی اپنے اور اپنے اہل وعیال کے لئے رکھتا ہوں اور باقی ایک تہائی دوبارہ ان کھیتوں میں بیج کے طور پر استعمال کرتا ہوں.(مسلم كتاب الزهد باب الصدقة في المساكين) واقعہ مسیح موعود علیہ السلام کے رفیق کی مسابقت فی الخیرات قادیان میں ایک نابینا حافظ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے رفقاء میں سے تھے ایک روز ایک حکیم صاحب کے پاس گئے اور یہ شکایت کی کہ میرے کانوں میں شائیں شائیں کی آواز سنائی دیتی ہے اور سنائی بھی کم دیتا ہے کوئی علاج بتا ئیں.حکیم صاحب نے بتایا کہ آپ کے کانوں میں خشکی ہے دودھ پیا کریں.اس پر انہوں نے کہا روٹی تو مجھے حضور کے لنگر سے مل جاتی ہے دودھ کہاں سے پیوں.اسی دوران حضرت مولوی شیر علی صاحب وہاں سے
108 107 گزرے انہوں نے یہ ساری گفتگوسُن لی اور خاموشی سے چلے گئے اسی روز رات کے وقت ایک شخص حافظ کے پاس آیا اور قریباً ڈیڑھ سیر دودھ دے کر چلا گیا اور پھر یہ سلسلہ جاری رہا وہ شخص خاموشی سے آتا اور دودھ دے کر چلا جاتا.حضرت حافظ صاحب نے یہ قصہ شیخ عبدالعزیز کو سنایا.شیخ عبد العزیز فرماتے ہیں میرے دل میں خیال آیا کہ دیکھوں کہ یہ کون شخص ہے جو مسلسل ڈیڑھ سال سے دودھ لے کر آتا ہے اور کبھی ناغہ بھی نہیں کرتا نہ ہی رقم کا مطالبہ کرتا ہے چنانچہ اس خیال کے تحت میں ایک روز اس شخص کے آنے سے پہلے ہی حافظ صاحب کے دروازے کے آس پاس گھومنے لگا اتنے میں ایک شخص ہاتھ میں برتن لئے ان کے گھر کے اندر چلا گیا چونکہ سردیوں کے دن تھے حافظ صاحب اندر چار پائی پر بیٹھے تھے اس شخص نے حسب معمول دودھ دیا میں اسے دیکھنے کے لئے جب اندر داخل ہوا وہ آہٹ سُن کر کونے میں جا کر کھڑا ہوا اندھیرے کی وجہ سے میں پہچان نہ سکا میں نے پاس جا کر پوچھا کہ بھائی تم کون ہو؟ مجھے دھیمی آواز آئی شیر علی.میں سخت شرمندہ ہوا کہ جس کام کو حضرت مولوی صاحب راز رکھنا چاہتے تھے میں نے اسے افشاء کر دیا مجھے دیر تک آپ کے سامنے جاتے ہوئے شرم محسوس ہوتی تھی.خدا (سیرت شیر علی ) ( منقول از الفضل 28 جون 2003) سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار فکر نثار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اس پر میں رہتے ہیں روز و شب وہ دلدار ہوتا ہے کب ای که راضی اسے چکے مال مال و جاں بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار لگاتے ہیں دل اپنا اُس پاک ނ وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے درین صفحہ 15 قال اللہ تعالیٰ صداقت (سچائی) 1 اور وہ لوگ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب وہ لغویات کے پاس سے گزرتے ہیں تو وقار کے ساتھ گزرتے ہیں.“ (الفرقان:73) 66 2.”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کے ساتھ ہو جاؤ.“ (التوبة: 119) 3.”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صاف سیدھی بات کیا کرو.(احزاب: 71) 4.”اے وے لوگو جو ایمان لائے ہو! تم کیوں (الصف: 3) وہ کہتے ہو جو کرتے نہیں.“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سچائی کی وجہ سے اپنے دوستوں دشمنوں میں صادق لقب سے پہچانے جاتے تھے.قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم 1 - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” الصدق شفیعی‘ صدق میرا شفیع
110 109 ہے یعنی صدق ہی وہ خلق ہے جس سے مجھے خدا سے ملایا گیا ہے اور اس کے ہمرنگ کر دیا ہے.2- حضرت حسن بن علی بیان کرتے ہیں کہ مجھے آنحضور کا یہ فرمان اچھی الشفاء جلد اوّل ص 55 مکتبہ نعیمیہ لاہور ) طرح یاد ہے کہ شک میں ڈالنے والی باتوں کو چھوڑ دو شک سے میرا یقین تلاش کرو کیونکہ یقین بخش سچائی اطمینان کا باعث ہے اور جھوٹ اضطراب اور پریشانی کا موجب ہوتا ہے.( بخاری کتاب البیوع باب تفسير الشبهات ابواب القيامة) 3.حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جو کچھ سنتا تھا لکھ لیا کرتا تھا اور اس کو حفظ کرتا تھا.قریش کے بعض لوگوں نے مجھے روکا اور کہا کہ تم حضور کی ہر بات لکھ لیتے ہو حالانکہ حضور انسان ہیں اور خوشی اور غصے میں بھی کلام فرماتے ہیں.میں نے اس بات کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا ضرور لکھو خدا کی قسم اس منہ سے حق و حکمت کے علاوہ کچھ نہیں نکلتا.(مستدرک حاکم جلد اول ص 105 باب العلم ) 4- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ! تم صدق کو لازم پکڑو اور ہمیشہ سچ بولو کیونکہ صداقت نیکی کی طرف راہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے.(مسلم كتاب البر والصلة باب قبح الكذب و حسن الصدق) 5- آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص قید ہو کر آیا جو بہت سے مسلمانوں کے قتل کا موجب بن چکا تھا.حضرت عمرؓ کا یہ خیال تھا کہ یہ شخص واجب القتل ہے اور وہ بار بار حضور کے چہرے کی طرف دیکھتے تھے کہ اگر آپ اشارہ فرمائیں تو وہ اسے قتل کر دیں جب وہ شخص اُٹھ کر چلا گیا تو حضرت عمرؓ نے کہا.یا رسول اللہ ! یہ شخص تو واجب القتل تھا.آپ نے فرمایا اگر واجب القتل تھا تو تو نے اُسے قتل کیوں نہ کیا ؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! اگر آپ آنکھ سے اشارہ کر دیتے تو میں ایسا کر دیتا.آپ نے فرمایا نبی دھو کے باز نہیں ہوتا یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں منہ سے اس سے پیار کی باتیں کر رہا ہوتا اور آنکھ سے اُسے قتل کرنے کا اشارہ کرتا.(ابن ہشام جلد 2 صفحہ 217) واقعه فرمودہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام مقدمہ ڈاک خانہ 1877 میں امرتسر کے ایک عیسائی وکیل رلیا رام نے آپ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا جس کی تفصیل میں حضرت اقدس نے شیخ محمد حسین بٹالوی کے نام خط میں اپنی راست بازی بیان کرتے ہوئے فرمایا.اس عاجز نے (دین) کی تائید میں آریوں کے مقابل پر ایک عیسائی کے مطبع میں جس کا نام رلیا رام تھا اور وہ وکیل بھی تھا اور امرتسر میں رہتا تھا اور اس کا ایک اخبار بھی نکلتا تھا ایک مضمون بغرض طبع ہونے کے ایک پیکٹ کی صورت میں جس کی دونوں طرفیں کھلی تھیں بھیجا اور اس پیکٹ میں ایک خط بھی رکھ دیا چونکہ خط میں ایسے الفاظ تھے جن میں (دین) کی تائید اور دوسرے مذاہب کے بطلان کی طرف اشارہ تھا اور مضمون کے چھاپ دینے کے لئے تاکید بھی تھی.اس لئے وہ عیسائی مخالفت مذہب کی وجہ سے افروختہ ہوا اور اتفاقاً اس کو دشمنانہ حملہ کے لئے یہ موقع ملا کہ کسی علیحدہ خط کا پیکٹ میں رکھنا قانو نا ایک جرم تھا جس کی اس عاجز کو کچھ بھی اطلاع نہ تھی اور ایسے جرم کی سزا میں قوانین ڈاک کے رُو سے پانچ سو روپیہ جرمانہ یا چھ ماہ تک قید ہے سو اس نے مخبر بن کر افسران ر ڈاک سے اس عاجز پر مقدمہ دائر کرا دیا اور قبل اس کے جو مجھے اس مقدمہ کی کچھ اطلاع ہو رویاء میں اللہ تعالیٰ نے میرے پر ظاہر کیا کہ رلیا رام وکیل نے ایک سانپ میرے کاٹنے کے لئے مجھ کو بھیجا ہے اور میں نے اسے مچھلی کی طرح
112 111 تل کر واپس بھیج دیا ہے میں جانتا ہوں کہ یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ آخر وہ مقدمہ جس طرز سے عدالت میں فیصلہ پایا وہ ایک ایسی نظیر ہے جو وکیلوں کے کام آ سکتی ہے.غرض میں اس جرم میں صدر ضلع گورداسپورہ میں طلب کیا گیا اور جن جن وکلاء سے مقدمہ کے لئے مشورہ لیا گیا انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ بجز دروغ گوئی کے اور کوئی راہ نہیں اور یہ صلاح دی کہ اس طرح اظہار دے دو کہ ہم نے پیکٹ میں خط نہیں ڈالا رلیا رام نے خود ڈال دیا ہوگا اور نیز بطور تستی دہی کے کہا کہ ایسا بیان کرنے سے شہادت پر فیصلہ ہو جائے گا اور دو جھوٹے گواہ دے کر بریت ہو جائے گی.ورنہ صورت مقدمہ سخت مشکل ہے اور کوئی طریق رہائی نہیں مگر میں نے ان سب کو جواب دیا کہ میں کسی حالت میں راستی کو چھوڑنا نہیں چاہتا جو ہوگا سو ہو گا تب اسی دن یا دوسرے دن مجھے ایک انگریز کی عدالت میں پیش کیا گیا اور میرے مقابل پر ڈاکخانہ جات کا افسر بحیثیت سرکاری مدعی ہونے کے حاضر ہوا اس وقت حاکم عدالت نے اپنے ہاتھ سے میرا اظہار لکھا اور سب سے پہلے مجھ سے یہی سوال کیا یہ کیا خط تم نے اپنے پیکٹ میں رکھ دیا تھا اور یہ خط اور یہ پیکٹ تمہارا ہے تب میں نے بلا توقف جواب دیا کہ یہ میرا ہی خط اور میرا ہی پیکٹ ہے اور میں نے اس خط کو پیکٹ کے اندر رکھ کر روانہ کیا تھا.مگر میں نے گورنمنٹ کی نقصان رسانی محصول کے لئے بدنیتی سے یہ کام نہیں کیا بلکہ میں نے اس خط کو اس مضمون سے علیحدہ نہیں سمجھا اور نہ اس میں کوئی نج کی بات تھی.اس بات کو سنتے ہی خدا تعالیٰ نے اس انگریز کے دل کو میری طرف پھیر دیا اور میرے مقابل پر افسر ڈاکخانہ جات نے بہت شور مچایا اور لمبی لمبی تقریریں انگریزی میں کیں جن کو میں نہیں سمجھتا تھا مگر اس قدر سمجھتا تھا کہ ہر یک تقریر کے بعد زبان انگریزی میں وہ حاکم نو نو (No-No ناقل) کر کے اس کی سب باتوں کو رد کر دیتا تھا.انجام کار جب وہ افسر مدعی اپنے تمام وجوہ پیش کر چکا اور اپنے تمام بخارات نکال چکا تو حاکم نے فیصلہ لکھنے کی طرف توجہ کی اور شاید سطر یا ڈیڑھ سطر لکھ کر مجھ کو کہا کہ اچھا آپ کے لئے رخصت.یہ سُن کر میں عدالت کے کمرہ سے باہر ہوا اور اپنے محسن حقیقی کا شکر بجا لایا جس نے ایک انگریز کے مقابل پر مجھ کو ہی فتح بخشی اور میں خوب جانتا ہوں کہ اس وقت صدق کی برکت سے خدا تعالیٰ نے اس بلا سے مجھے نجات دی میں نے اس سے پہلے یہ خواب بھی دیکھی تھی کہ ایک شخص نے میری ٹوپی اتارنے کے لئے ہاتھ مارا میں نے کہا کیا کرنے لگا ہے تب اس نے ٹوپی کو میرے سر پر ہی رہنے دیا اور کہا خیر ہے خیر ہے.“ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد نمبر 5 ص297 تا299) نوٹ :- ڈاکخانہ کا یہ قانون آج کل نہیں ہے مگر جس زمانہ میں حضرت اقدس کے خلاف مقدمہ دائر ہوا تھا اس وقت یہ قانون تھا.دیکھئے ایکٹ نمبر 1886-4 دفعہ 12 56 نیز گورنمنٹ آف انڈیا نوٹیفیکیشن نمبر 2424 مورخہ 7 دسمبر 1877 دفعہ 43.راستی کے سامنے کب جھوٹ پھلتا ہے بھلا قدر کیا پتھر کی لعل بے بہا کے سامنے در یمشین صادق ہے اگر تو صدق دکھا قربانی کر ہر خواہش کی ہیں جنسِ وفا کو ماپنے کے دنیا میں یہی پیمانے دو جو سچے مومن بن جاتے ہیں موت بھی اُن سے ڈرتی ہے تم سچے مومن بن جاؤ اور خوف کو پاس نہ آنے دو کلام محمود 154
114 113 قال اللہ تعالیٰ 66 1- ترجمہ : ” اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد مانگو اور یقیناً یہ عاجزی کرنے والوں کے سوا سب پر بوجھل ہے.“ (البقره:46) 2 - ترجمہ: اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو (اللہ سے ) صبر اور صلوۃ کے ساتھ مدد مانگو.یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے.“ (البقره: 154) 3- ترجمہ : ” اور ہم ضرور تمہیں کچھ خوف اور کچھ بھوک اور کچھ اموال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان کے ذریعہ آزمائیں گے.اور صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دے.“ (البقره:156) 66 4- ترجمہ: اور اچھی باتوں کا حکم دے اور ناپسندیدہ باتوں سے منع کر اور اُس (مصیبت) پر صبر کر جو تجھے پہنچے.یقینا یہ بہت اہم باتوں میں سے ہے.“ (لقمان: 18) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی مسلمان کو کوئی مصیبت کوئی دُکھ، کو ئی رنج و غم، کوئی تکلیف اور پریشانی نہیں پہنچتی یہاں تک کہ ایک کانٹا بھی نہیں چھتا مگر اللہ تعالیٰ اس کی تکلیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتا ہے.66 (مسلم) كتاب البر والصلة باب ثواب المؤمن فيها مصيبة من مرض و حزن 2- حضرت عبد اللہ بن قیس سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر کوئی بھی تکلیف دہ بات کو سُن کر صبر کرنے والا نہیں یعنی اللہ تعالیٰ سے بڑھ کر صبر کرنے والا کوئی نہیں ؟ وہ اس طرح کہ لوگ اللہ کا شریک بناتے ہیں اور اس کا بیٹا قرار دیتے ہیں اس کے باوجود وہ انہیں رزق دیئے جاتا ہے اور عافیت دیئے جاتا ہے اور عطا کئے جاتا ہے.“ 66 (مسلم) كتاب صفة القيامت) 3- حضرت حسن روایت کرتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ کی راہ میں بہنے والا قطرہ خون اور رات کے وقت تہجد میں خشیت باری تعالیٰ کے نتیجہ میں آنکھ سے ٹپکنے والے قطرے سے زیادہ کوئی قطرہ اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور نہ ہی اللہ کو کوئی گھونٹ غم کے اس گھونٹ سے زیادہ پسند ہے جو انسان صبر کر کے پیتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کو غصہ کے گھونٹ سے زیادہ کوئی گھونٹ پسند نہیں جو غصہ دبانے میں وہ پیتا ہے.“ مصنفہ ابن ابی شیبۃ جلد 7 صفحہ 88) -4- حضرت عائشہ روایت کرتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جسے زیادہ بیٹیوں سے آزمایا گیا اس نے صبر کیا تو اس کی بیٹیاں اس کے لئے آگ سے پردے یا ڈھال کا باعث ہوں گی.واقعہ نمبر 1 (ترمذی كتاب البر والصلة )
116 115 دعا کے لئے بنیادی چیز صبر ہے.یہ روایت طائف کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے ابن شہاب روایت کرتے ہیں کہ مجھے عروہ نے بتایا کہ اُم المومنین نے انہیں بتایا کہ میں نے رسول اللہ سے عرض کی کہ کیا آپ پر یومِ احد سے سخت دن بھی آیا ہے اس پر رسول اللہ نے فرمایا." مجھے تیری قوم سے تکالیف پہنچی ہیں اور ان تکالیف میں سے شدید ترین عقبہ والے دن پہنچی تھی (یعنی طائف والے دن کی طرف اشارہ ہے) جب میں نے اپنے آپ کو عبدیالیل بن عبد کلال کے سامنے پیش کیا اور اس نے اس بات کا جواب نہ دیا جس کا میں نے ارادہ کیا تھا میں غم زدہ ہونے کی حالت میں لوٹ رہا تھا کہ میں قرن الثالب چوٹی پر پہنچا.میں نے اپنا سر اٹھا کر دیکھا تو ایک بادل مجھ پر سایہ کر رہا تھا میں نے دیکھا تو اس میں جبرائیل تھے انہوں نے مجھے مخاطب کر کے پکارا اور کہا.اللہ تعالیٰ نے تیری قوم کے بارے میں سن لی ہے اور اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کے فرشتے کو آپ کے پاس بھیجا ہے تا کہ آپ اسے اس کا حکم دیں جو آپ اپنی قوم کے بارے میں چاہتے ہیں.پس مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے پکارا اس نے مجھے سلام کیا اور کہا اے محمد اب فیصلہ آپ کے ہاتھوں میں ہے اگر چاہیں تو میں دونوں پہاڑوں کو ان پر الٹا دوں اس پر نبی نے فرمایا.” میں تو خواہش رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سے ایسی نسل پیدا کرے جو خدائے واحد کی عبادت کرے اور اس کا کسی کو شریک نہ قرار دے.“ واقعہ نمبر 2 بخاری باب اذا قال احد كم امین ایک عورت کا ذکر ہے کہ اس کا بچہ مر گیا تھا اور وہ قبر پر کھڑی سیا پا کر رہی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے تو آپ نے فرمایا تو خدا سے ڈر اور صبر کر اس کمبخت نے جواب دیا کہ تو جا تجھ پر مجھ جیسی مصیبت نہیں پڑی.بد بخت نہیں جانتی تھی کہ آپ سے گیارہ بچوں کے فوت ہونے پر بھی صبر کرنے والے ہیں جب اس کو بعد میں معلوم ہوا کہ اس کو نصیحت کرنے والے خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تھے تو پھر آپ کے گھر آئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ میں صبر کرتی ہوں.آپ نے فرمایا کہ الصبر عند الصدمة الاولى صبر وہ ہے جو پہلے ہی مصیبت پر آ جائے.( منقول از الفضل 22 ستمبر 2001) فرمودات حضرت مسیح موعود علیہ السلام د 1- منجملہ انسان کے طبعی امور کے ایک صبر ہے جو اس کو ان مصیبتوں اور بیماریوں اور دُکھوں پر کرنا پڑتا ہے جو اس پر ہمیشہ پڑتے رہتے ہیں اور انسان بہت سیاپے اور جزع فزع کے بعد صبر اختیار کرتا ہے لیکن جاننا چاہیے کہ خدا کی پاک کتاب کے رو سے وہ صبر اخلاق میں داخل نہیں ہے بلکہ وہ ایک حالت ہے جو تھک جانے کے بعد ضرور تا ظاہر ہو جاتی ہے یعنی انسان کی طبعی حالتوں میں سے یہ بھی ایک حالت ہے کہ وہ مصیبت کے ظاہر ہونے کے وقت پہلے روتا چیختا سر پیٹتا ہے.آخر بہت سا بخار نکال کر جوش تھم جاتا ہے اور انتہا تک پہنچ کر پیچھے ہٹنا پڑتا ہے.بلکہ اس کے متعلق خلق یہ ہے کہ جب کوئی چیز اپنے ہاتھ سے جاتی رہے تو اس چیز کو اللہ تعالیٰ کی امانت سمجھ کر کوئی شکایت منہ پر نہ لاوے اور یہ کہہ کر کہ خدا کا تھا خدا نے لے لیا اور ہم اس کی رضا کے ساتھ راضی ہیں..66 اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد 10 ص 361-362) 2.جو تکالیف خدا کی طرف سے ہوں وہ جب انسان پر پڑتی ہیں اور وہ ان پر صبر کرتا ہے تو اس کی ترقی کا موجب ہو جاتی ہیں...غرض تکالیف دو قسم کی ہیں
118 مشتمل 117 ایک حصہ وہ ہے جو احکام پر صوم و زکوۃ وصلوۃ و حج جب تک پورا اخلاق نہ ہو انسان ان سے پہلو تہی کر سکتا ہے پس اس کسر کو نکالنے کے لئے تکالیف سماویہ کا ورود ہوتا ہے تا کہ جو کچھ انسانی ہاتھ سے پورا نہیں ہوا وہ خدا کی مدد سے پورا ہو جائے.ہے مگر اس میں بہانوں کی گنجائش ہے (ملفوظات جلد پنجم صفحہ 661-662) 3- ربنا أفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ تَوَفَّنَا مُسْلِمِيْنَ (الاعراف: 127) اے خدا اس مصیبت میں ہمارے دل پر وہ سکینت نازل کر جس سے صبر آ جائے.اور ایسا کر کہ ہماری موت اسلام پر ہو جاننا چاہیے کہ دکھوں اور مصیبتوں کے وقت میں خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے دل پر ایک نور اُتارتا ہے جس سے وہ قوت پا کر نہایت اطمینان سے مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں اور حلاوتِ ایمانی سے ان زنجیروں کو بوسہ دیتے ہیں جو اس کی راہ میں ان کے پیروں میں پڑیں جب با خدا آدمی پر بلائیں نازل ہوتی ہیں اور موت کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں تو وہ اپنے رب کریم سے خواہ نخواہ کا جھگڑا شروع نہیں کرتا کہ مجھے ان بلاؤں سے بچا کیونکہ اس وقت عافیت کی دعا میں اصرار کرنا خدا تعالیٰ سے لڑائی اور موافقت تامہ کے مخالف ہے بلکہ سچا محب بلا کے اُترنے سے اور آگے قدم رکھتا ہے اور ایسے وقت میں جان کو ناچیز سمجھ کر اور جان کی محبت کو الوداع کہہ کر اپنے مولیٰ کی مرضی کا بکتی تابع ہو جاتا ہے اور اس کی رضا چاہتا ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 ص 420) ما مرگ آید صد ہزار کے حیات تازه بینم از نگار جب تک ہم پر لاکھوں موتیں وارد نہ ہوں تب تک ہمیں اُس محبوب کی طرف سے نئی زندگی کب مل سکتی ہے.(ڈرشین فارسی صفحہ 237) اے مرے پیارو شکیب و صبر کی عادت کرو وہ اگر پھیلائیں بد بو تم بنو مشک تتار گالیاں سُن کے دعا دو پا کے دُکھ آرام رو کبر کی عادت جو دیکھو تم دکھاؤ انکسار گالیوں سے بھرے بے رنگ خطوط مکرم میر شفیع احمد صاحب بیان کرتے ہیں جب آخری دفعہ حضرت مسیح موعوڈ لاہور جا کر ٹھہرے تو میں ان دنوں حضور کی ڈاک لا کر حضور کو پہنچایا کرتا تھا ہر روز ڈاک میں دو تین خط بیرنگ ہوا کرتے تھے جو میں وصول کر لیا کرتا تھا اور حضرت صاحب کو پہنچا دیتا تھا ایک دن میں نے خواجہ کمال الدین صاحب کے سامنے بیرنگ خط وصول کئے تو خواجہ صاحب نے مجھے روکا کہ بیرنگ خط مت لو میں نے کہا میں ہر روز وصول کر لیتا ہوں اور حضرت صاحب کو پہنچاتا ہوں اور حضرت صاحب نے مجھے کبھی نہیں روکا مگر اس پر بھی خواجہ صاحب نے مجھے سختی سے روک دیا.جب میں حضرت صاحب کی ڈاک پہنچانے لگا تو میں نے عرض کی حضور ! آج مجھے خواجہ صاحب نے بیرنگ وصول کرنے سے سختی سے روک دیا ہے حضور فرما ئیں تو اب بھی بھاگ کر لے آؤں حضرت صاحب مسکرائے اور فرمایا کہ ان بیرنگ خطوں میں سوائے گالیوں کے کچھ نہیں ہوتا اور یہ خط گمنام ہوتے ہیں.اگر یہ پتہ لکھ دیں تو ہم انہیں سمجھا سکیں مگر شاید یہ لوگ ڈرتے ہیں کہ ہمارے خلاف کوئی قانونی چارہ جوئی نہ کریں حالانکہ ہمارا کام مقدمہ کرنا نہیں.(سيرة المهدى جلد 2 ص 142
120 119 حضوران خطوط کو صندوقوں کے اندر تالہ لگا کر محفوظ رکھتے تھے ایک دفعہ فرمایا.ان کا وزن چارمن ہو گیا ہے.“ تاریخ احمدیت لاہور صفحہ 95-142) رہنا ہو راحت سے تو رہ کامل قناعت سے کبھی بھی کر نہ ہو تیری زباں حرف شکایت سے اگر قال اللہ تعالیٰ تعاون باہمی 1- ترجمہ: اور نیکی اور تقویٰ میں باہم ایک دوسرے سے تعاون کرو اور گناہ اور زیادتی کے کاموں ) میں تعاون نہ کرو اور اللہ سے ڈرو.یقیناً اللہ سزا دینے میں بہت سخت ہے.“ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (المائدہ : 3) 1.حضرت اسود بن یزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک دن حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کیا کیا کرتے تھے؟ حضرت عائشہ نے کہا! آپ ﷺ کام کاج میں گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے اور جب نماز کا وقت ہوتا تو باہر نماز کے لئے چلے جاتے.صحیح بخاری کتاب الاذان جلد اوّل صفحہ 335 حدیث 640) 2.ہشام بن عروہ اپنے والد حضرت عروہ سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ نے کسی شخص سے پوچھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں کوئی کام کاج کیا کرتے تھے.حضرت عائشہ نے کہا ہاں حضور اپنی جوتی خود مرمت کر لیتے تھے اپنا کپڑا سی لیا کرتے تھے اور اپنے گھر میں اسی طرح کام کیا کرتے جس طرح تم سب اپنے اپنے گھروں میں کام کرتے ہو.(مسند احمد ص 167/6-121/6 ) 3 حضرت تیم داری بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا.”دین سراسر خیر خواہی اور خلوص کا نام ہے ہم نے عرض کیا کس کی خیر خواہی؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی اور اس کی کتاب اور اس کے رسول کی اور مسلمانوں کے آئمہ اور عام مسلمانوں کی خیر خواہی اور ان سے خلوص کا تعلق رکھنا.“ مسلم کتاب الایمان باب بيان انه لا يدخل الجنة الا المؤمنون) 4- حضرت زید بن ثابت بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس وقت تک انسان کی ضرورتوں کو پورا کرتا رہتا ہے جب تک وہ اپنے مسلمان بھائی کی حاجت روائی کے لئے کوشاں رہے.قشيرية باب الفتوة ص113) 5- حضرت ابو بردہ اپنے والد حضرت ابو موسی اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ بنی کریم نے فرمایا ایک مومن دوسرے مومن کے لئے دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کرتا ہے.پھر آپ ﷺ نے انگشت ہائے مبارک کو آپس میں پیوست کر کے بتایا.نبی کریم جلوہ افروز تھے کہ ایک آدمی سوال کرنے یا کسی حاجت کا طالب ہو کر آیا تو آپ نے چہرہ انور ہماری طرف پھیر کر فرمایا سفارش کرو کہ تمہیں ثواب ملے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی زبان پر جو بات چاہتا ہے پوری فرما دیتا ہے.
122 121 ( صحیح بخاری کتاب الادب باب 592 صفحہ 380-381 حدیث 964) نہ حُسنِ خُلق ہے تجھ میں نہ حسن سیرت ہے تو ہی بتا نقش و نگار کیسے ہیں نہیں مصیبتوں میں تعاون نہیں تو کچھ بھی جو غم شریک نہیں غمگسار کیسے ہیں کلام محمود واقعہ نمبر 1 کھجور کے 300 پودے حضرت سلمان فارسی نے جب اسلام قبول کیا اس وقت وہ مدینہ کے ایک یہودی کے غلام تھے اور اس نے حضرت سلمان فارسی کی آزادی کی قیمت یہ مقرر کی کہ وہ کھجور کے تین سو پودے لگا ئیں.تلائی گوڈی کر کے پانی دے کر انہیں تیار کریں اور مالک کے حوالے کر دیں نیز چالیس اوقیہ (ایک پیمانہ ) چاندی ادا کریں صلى الله حضرت سلمان نے جب آنحضور ﷺ کو یہ اطلاع دی تو حضور نے صحابہ سے فرمایا اپنے بھائی کی مدد کرو چنانچہ صحابہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کھجور کے پودے لے آئے کوئی تمہیں کوئی ہمیں کوئی دس یہاں تک کہ تین سو پودے جمع ہو گئے.پھر حضور نے ان کے لئے گڑھے کھودنے کا حکم دیا چنانچہ صحابہ نے اپنے بھائی کی پوری پوری مدد کی اور تمام گڑھے اجتماعی وقار عمل سے کھو دے جب حضور کو اطلاع کی گئی تو حضور نے تمام پودے اپنے ہاتھوں سے گڑھوں میں لگائے.صحابہ کہتے ہیں کہ ہم ایک ایک پودے کو حضور کے قریب لاتے اور آپ اپنے دست مبارک سے گڑھے میں رکھ دیتے.حضرت سلمان کہتے ہیں خدا کی قسم ان پودوں میں سے ایک بھی نہیں مرا اور سارے کے سارے پھولنے لگے اسی طرح اس یہودی کی شرط پوری ہو گئی اسی طرح کسی نے حضور گوسونا پیش کیا جو حضور نے حضرت سلمان کو دے دیا اور انہوں نے آزادی حاصل کر لی.(سیرۃ ابن ہشام جلد 1 ص 234 مطبع مصطفی البابی الحلبی 1936 ) واقعہ نمبر 2 - تعمیر مسجد قبا مدینہ سے تین میل کے فاصلے پر ایک بستی تھی جس کا نام قبا تھا رسول کریم کی ہجرت سے قبل کئی مہاجرین مکہ سے آکر اس بستی میں ٹھہر گئے تھے حضور نے خود ہجرت فرمائی تو مدینہ جانے سے قبل اسی بستی میں قیام فرمایا.یہاں آپ نے سب سے پہلے یہ کام کیا کہ ایک مسجد کی بنیاد ڈالی جسے مسجد قبا کہتے ہیں مسجد کی تعمیر میں آپ نے خود صحابہ کے ساتھ مزدوروں کی طرح حصہ لیا روایت ہے کہ حضور نے صحابہ سے فرمایا قریب کی پتھریلی زمین سے پتھر جمع کر کے لاؤ.پتھر جمع ہو گئے تو حضور نے خود قبلہ رُخ ایک خط کھینچا اور خود اس پر پہلا پتھر رکھا پھر بعض صحابہؓ سے فرمایا اس کے ساتھ ایک پتھر رکھو پھر عام اعلان فرمایا کہ ہر شخص ایک ایک پتھر رکھے.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ حضور خود بھاری پتھر اٹھا کر لائے یہاں تک کہ جسم مبارک جھک جاتا پیٹ پر مٹی نظر آتی صحابہ عرض کرتے.ہمارے ماں باپ آپ پر فدا ہوں آپ یہ پتھر چھوڑ دیں ہم اُٹھا لیں گے مگر آپ فرماتے نہیں تم ایسا ہی اور پتھر اُٹھا لاؤ.أمعجم الكبير الطبر انى جلد 24 ص 318 مکتبہ ابن تیمیہ قاہرہ) حضرت عبد اللہ بن رواحہ اس موقعہ پر جوش دلانے والے اشعار پڑھتے تھے اور آنحضور قافیہ کے ساتھ آواز ملاتے تھے.
124 123 ( وفاء الوفاء جلد اول ص 179 تا 181 نور الدین سمبوری مطبع آداب 1326ھ ) فرمودات حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1- اور منجملہ انسان کے طبعی امور کے جو اس کی طبیعت کے لازم حال ہیں.ہمدردی خلق کا ایک جوش ہے.قومی حمایت کا جوش بالطبع ہر ایک مذہب کے لوگوں میں پایا جاتا ہے اور اکثر لوگ طبعی جوش سے اپنی قوم کی ہمدردی کے لئے دوسروں پر ظلم کر دیتے ہیں گویا انہیں انسان نہیں سمجھتے سو اس حالت کو خُلق نہیں کہہ سکتے یہ فقط ایک طبعی جوش ہے اگر غور سے دیکھا جائے تو یہ حالت طبعی کوؤں وغیرہ پرندوں میں بھی پائی جاتی ہے کہ ایک کوّے کے مرنے پر ہزار ہا کوے جمع ہو جاتے ہیں.لیکن یہ عادت انسانی اخلاق میں اس وقت داخل ہو گی جب کہ یہ ہمدردی انصاف اور عدل کی رعایت سے محل اور موقع پر ہو اس وقت یہ ایک عظیم الشان خُلق ہو گا جس کا نام عربی میں مواسات اور فارسی میں ہمدردی اسلامی اصول کی فلاسفی ، رُوحانی خزائن جلد 10 ص363) ہے.2- رسول کریم اپنے صحابہ کو اس بات کی نصیحت فرماتے کہ آپس میں تعاون کے ساتھ کام کیا کرو چنانچہ اپنی جماعت کے لوگوں کے لئے آپ نے اصول مقرر کر رکھا تھا کہ اگر کسی شخص سے کوئی ایسا مجرم سرزد ہو جائے جس کے بدلے میں اُسے کوئی رقم ادا کرنی پڑے اور وہ اس کی طاقت سے باہر ہو تو اس محلہ والے یا شہر والے یا قوم والے مل کر اس کا بدلہ ادا کریں گے.(دیباچہ تفسیر القرآن صفحہ 64) واقعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعاون کا حضرت مفتی محمد صادق صاحب لکھتے ہیں ایک دفعہ میں وضو کے واسطے پانی کی تلاش میں لوٹا ہاتھ میں لئے اس دروازے کے اندر گیا جو بیت المبارک سے حضرت صاحب کے اندرونی مکانات کو جاتا ہے تا کہ وہاں حضرت صاحب کے کسی خادم کو لوٹا دے کر پانی اندر سے منگوالوں اتفاقاً اندر سے حضرت صاحب تشریف لائے مجھے کھڑا دیکھ کر فرمایا آپ کو پانی چاہیے.میں نے عرض کیا ہاں حضور ! آپ نے لوٹا میرے ہاتھ سے لیا اور فرمایا میں لا دیتا ہوں اور خود اندر سے پانی لے کر آئے اور مجھے عطا کیا.(ذکر حبیب) قال اللہ تعالیٰ -1- ترجمہ: اور یقیناً ہم نے لقمان کو حکمت عطا کی تھی ( یہ کہتے ہوئے) کہ اللہ کا شکر ادا کر اور جو بھی شکر ادا کرے تو وہ محض اپنے نفس کی بھلائی کے لئے ہی شکر ادا کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو یقیناً اللہ غنی ہے(اور ) بہت صاحب تعریف ہے.“ (لقمان: 13) -2- ترجمہ: اور جب تمہارے رب نے یہ اعلان کیا کہ اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں ضرور تمھیں بڑھاؤں گا اور اگر تم ناشکری کرو گے تو یقیناً میرا عذاب بہت سخت ہے.“ (ابراہیم : 8) 3- ترجمہ: اور جہاں تک تیرے رب کی نعمت کا تعلق ہے تو (اسے) بکثرت بیان کیا کر.“ (الضحی : 12)
126 125 4- ترجمہ: اور اللہ کی نعمت کا شکر ادا کرو اگر تم اسی کی (النحل: 115) عبادت کرتے ہو.“ 5- ترجمہ:.پس میرا ذکر کیا کرو میں بھی تمہیں یاد 66 رکھوں گا اور میرا شکر کرو اور میری ناشکری نہ کرو.“ (البقره:153) 6- ترجمہ: اے آل داؤد! (اللہ کا) شکر بجا لاتے ہوئے (شکر کے شایانِ شان) کام کرو.اور تھوڑے ہیں میرے بندوں میں سے جو درحقیقت ) شکر ادا کرنے والے ہیں (سبا:14) 7- ترجمہ: اے میرے ربّ! مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کر سکوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی اور ایسے نیک اعمال بجالاؤں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری ذریت کی بھی اصلاح کر دے یقینا میں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں.“ (الاحقاف: 16) قرآن کریم نے جہاں شکر گزاری کے فائدے بیان فرمائے ہیں وہاں ساتھ ہی نعماء پر سچے شکریہ کی دعا بھی سکھائی ہے.8- ترجمہ: اے میرے رب! مجھے توفیق بخش کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر کی اور میرے ماں باپ پر کی اور ایسے نیک اعمال بجا لاؤں جو تجھے پسند ہوں.اور تو اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں (النحل: 20) داخل کر 66 قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1- بارش ہوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم نے بدن پر قطرہ لیا اور شکر کیا اس لئے کہ بارش کا قطرہ خدا کی تازہ نعمت تھا.(ابو داؤد کتاب الادب باب القطر ) 2- نیا لباس پہنا تو اس خدا کا شکر ادا کیا جس نے تن ڈھانپنے اور جمال کے لئے لباس عطاء فرمایا اور پرانا لباس صدقہ کر دیا.(ترمذی باب الدعوات) 3- تہجد کے لئے اُٹھتے تو شکر ادا فرماتے اے پروردگار ! تیرا شکر ہے تیرے لئے ہی حمد ہے تو آسمانوں کے قیام کا موجب ہے.اللہ تیرا شکر ہے اتنا شکر جس سے زمین و آسمان اور ان کے درمیان فضا بھر جائے اور اس سے بھی زیادہ.( ترمذی کتاب الدعوات) 4- آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کھانا کھاتے تو خواہ وہ کتنا ہی معمولی ہوتا دل سے اللہ کا شکر بجالاتے سب تعریف اس ذات کے لئے ہے جس نے مجھے کھلایا مجھے پلایا اور مجھے مسلمان بنایا.(شمائل ترمذی) 5- دعا کے لئے ہاتھ اُٹھتے تو خدا کے شکر سے بات شروع ہوتی آپ نے فرمایا جب انسان دعا میں توحید کا اقرار کرے اسی کے لئے حکومت اور حمد قرار دے اور خدا سے بخشش مانگے تو خدا اُس کی دعا قبول کرتا ہے.(ترمذی) 6- بازار تشریف لے جاتے تو دعا میں حمد الہی کا ذکر کرتے آپ ﷺ نے فرمایا جو یہ دعا پڑھے گا اس کے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھ دی جائیں گی کہ ہمارا خدا بڑا دیائو ہے اس کی رحمت کی کوئی حد و بست نہیں اس کے خزانے نہ ختم ہونے والے ہیں وہ رحیم و کریم آقا ہے.سفر پر روانہ ہوتے یا واپس آتے تو حمد وشکر سے لبریز ہوتے آپ نے دعا
128 127 سکھائی رَبَّنَا حَامِدُونَ کہ ہم گھر لوٹے تو بہ کرتے ہوئے اس کی حمد وشکر کے ترانے گاتے ہوئے آئیں کہ پروردگارشکر ہے گھر خیر سے آئے.( ترمذی باب الدعوات ) 7- کسی مصیبت زدہ کو دیکھتے تو دعا کرتے اللہ تیرا شکر ہے تو نے مجھے اس سے عافیت میں رکھا جس میں اسے مبتلا کیا اور مجھے بہت مخلوق پر فوقیت بخشی.( ترمذی باب الدعوات ) 8- فرمایا.”جب جنت کے باغیچوں میں جاؤ تو وہاں اس کا پھل کھاؤ جنت کے باغیچے مساجد ہیں اور وہاں پھول چنا سُبْحَانَ اللَّهِ الْحَمْدُ لِلَّهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کہنا ہے.(ترمذی باب الدعوات) 9- آپ نے ایک خشک ٹہنی پر چھڑی سے ضرب لگائی تو پتے جھڑنے لگے آپ نے فرمایا الْحَمْدُ لِله.سُبْحَانَ الله لا اله الا اللہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے گناہوں کو اس طرح جھاڑتا ہے جیسے اس درخت کے پتے گرے.( ترمذی باب الدعوات) واقعہ نمبر 1 حضرت سعد بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ سے مدینہ طیبہ روانہ ہوئے اور جب مقام زوعرا کے قریب پہنچے تو سواری سے اُتر گئے اور ہاتھ اُٹھا کر دیر تک بار الہی میں دعا کی پھر مسجد میں گئے اور دیر تک اسی حالت پڑے رہے پھر سر اُٹھا کر تضرع کے ساتھ دعا شروع کی اور اس کے بعد جبینِ نیاز خاک پر رکھی اس دعا و سجود سے فارغ ہو کر آپ نے صحابہ سے فرمایا.”میں نے اپنی اُمت کی مغفرت کے لئے خدا سے دعا مانگی تھی جس کا ایک حصہ مقبول ہوا میں شکر کے لئے سجدے میں گرا پھر مزید درخواست کی اس نے وہ بھی قبول کی میں سجدہ شکر بجا لایا اور پھر دعا و زاری کی اس نے وہ بھی قبول کی اس نے اس کو بھی درجہ استجابت بخشا اور پھر میں سجدہ میں گر پڑا.“ (ابو داؤد کتاب السجود) واقعہ نمبر 2 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب کی عنایات اور اس کے فضلوں کا جس طرح شکر ادا کرتے اس کا اندازہ حضرت عائشہ کی ایک روایت سے ہوتا ہے آپ بیان کرتی ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اُٹھ کر نماز پڑھتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں متورم ہو کر پھٹ جاتے.ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ صلى الله اے اللہ کے رسول آپ ہے کیوں اتنی تکلیف اُٹھاتے ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ہے کے اگلے پچھلے سب قصور معاف فرما دئے ہیں یعنی ہر قسم کی غلطیوں اور لغزشوں سے محفوظ رکھنے کا ذمہ لے لیا ہے اس پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ کیا میں یہ نہ چاہوں کہ اپنے رب کے فضل و احسان پر اس کا شکر گزار بندہ بنوں.“ ( صحیح بخاری ابواب التهجد باب 719 حدیث 1058) عجب میرے خدا میرے پہ احساں تیرا کس طرح شکر کروں اے مرے سلطان تیرا کس زباں سے میں کروں شکر کہاں ہے وہ زباں کہ میں ناچیز ہوں اور رحم فراواں تیرا اگر ہر بال شکر تو پھر بھی ہو جائے سخن ہے امکاں ނ ور باہر 66
130 129 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک انتہائی خوبصورت انداز تشکر ایک دن ایک سائل نے بعد فراغتِ نماز جب کہ آپ اندرونِ خانہ تشریف لے جا رہے تھے سوال کیا مگر ہجوم کے باعث اس کی آواز اچھی طرح نہ سنی جاسکی اندر جا کر واپس تشریف لائے اور خدام کو سوالی کے بلانے کے لئے ادھر اُدھر دوڑایا مگر وہ نہ ملا شام کو وہ پھر آیا.اس کے سوال کرنے پر آپ نے اپنی جیب نکال کر کچھ دیا.چند یوم بعد کسی تقریب پر فرمایا کہ اس دن جو وہ سائل نہ ملا مجھے پر ایسا بوجھ تھا کہ جس نے مجھے سخت ނ بے قرار کر رکھا تھا اور میں ڈرتا تھا کہ مجھ سے معصیت سرزد ہوئی ہے کہ میں نے سائل کی طرف دھیان نہ کیا اور یوں جلدی جلدی اندر چلا گیا.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ وہ شام کو واپس آ گیا ورنہ خدا جانے میں کس اضطراب میں پڑا رہتا اور میں نے دعا بھی کی تھی کہ اللہ تعالیٰ اسے واپس لائے.‘“ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 303) قال اللہ تعالیٰ حسن نحن ނ 1 - ترجمہ : اے لوگو جو ایمان لائے ہو! ظن بکثرت اجتناب کیا کرو.یقیناً بعض ظن گناہ ہوتے ہیں.“ (الحجرات:13) یعنی ایک مسلمان کو چاہیے کہ دوسرے مسلمان کا گلہ نہ کرے کیا کوئی مسلمان اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاوے.“ ( ترجمه از ست بچن روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 260) قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم 1- حضرت ابو ذرغفاری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو فسق اور کفر کی تہمت نہ لگائے کیونکہ وہ شخص خدا تعالیٰ کے نزدیک کافر یا فاسق نہیں تو کہنے والے پر یہ کلمہ لوٹے گا یعنی کہنے والا خدا کی نظر میں کافر اور فاسق ہوگا.“ ( بخاری کتاب الادب يَنْهَى مِنَ الرِّبَابِ وَاللَّحْنِ حديث 981 صفحہ 387) 2- حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.حسنِ ظن ایک حسین عبادت ہے.“ (مسند احمد و ابو داؤد کتاب الادب باب حسن الظن ) 3- حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: - حضرت عیسی علیہ السلام نے ایک مرتبہ ایک شخص کو چوری کرتے دیکھا تو اس سے کہا کہ تم چوری کرتے ہو؟ تو وہ شخص خدا کی قسم کھا کر کہنے لگا کہ میں نے چوری نہیں کی.اس پر حضرت عیسی کہنے لگے میں تمہاری قسم پر اعتبار کرتا ہوں اور اپنے نفس کو جھٹلاتا ہوں.“ (مسلم کتاب الفصائل باب فضائل عیسی علیہ السلام) -4 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اپنے بندے سے اُس کے اس حسنِ ظن کے
132 131 مطابق سلوک کرتا ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے جہاں بھی وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں.خدا کی قسم اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنا خوش وہ شخص بھی نہیں ہوتا جسے جنگل بیابان میں اپنی گمشدہ اُونٹنی مل جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو شخص مجھ سے بالشت بھر قریب ہوتا ہے میں اس سے گز بھر قریب ہوتا ہوں اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں.اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں.“ واقعہ نمبر 1 66 ( بخاری کتاب الدعوات باب التوبہ مسلم) حضرت ابو حنیفہ عطاء بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن رواحہ نے ایک لونڈی کو جو اُن کی بکریاں چرایا کرتی تھی.ایک بکری کا خاص طور پر خیال رکھنے کی ہدایت کی چنانچہ وہ بکری موٹی تازی ہو گئی.ایک دن چرواہن بعض اور جانوروں کی دیکھ بھال میں مصروف تھی کہ ایک بھیڑیئے نے آ کر اس بکری کو چیر پھاڑ دیا عبد اللہ بن رواحہ نے اس بکری کو نہ پا یا تو اس کے متعلق پوچھا.چرواہن نے سارا واقعہ بتا دیا جس پر انہوں نے چرواہن کو تھپڑ مار دیا بعد میں اپنے فعل پر شرمندہ ہوئے اور اس واقعہ کا ذکر آنحضور" سے کیا.آپ نے اس بات کو بڑی اہمیت دی اور فرمایا کہ تم نے ایک مومنہ کے منہ پر تھپڑ مارا اس پر عبد اللہ بن رواحہ نے عرض کیا حضور وہ تو جشن ہے اور جاہل سی عورت ہے اسے دین وغیرہ کا کچھ علم نہیں.حضور نے اس چرواہن کو بلا بھیجا اور اس سے پوچھا اللہ کہاں ہے اس نے کہا آسمان پر پھر آپ نے دریافت کیا میں کون ہوں؟ اس نے جواباً کہا اللہ کے رسول یہ سُن کر آپ نے فرمایا یہ مومنہ ہے اسے آزاد کر دو اس پر عبد اللہ بن رواحہ نے اسے آزاد کر دیا.واقعہ نمبر 2 (مسند الامام الاعظم الایمان والاسلام) ( منقول از حدیقة الصالحین صفحه 244-245 حدیث (179) حضرت اسامہ بن زید بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں جہینہ قبیلہ کے نخلستان کی طرف بھیجا جنہوں نے مسلمانوں کو قتل کر کے جلا دیا تھا ہم نے صبح صبح ان کے چشموں کو جالیا.میں نے اور ایک انصاری نے ان کے ایک آدمی کا تعاقب کیا جب ہم نے اس کو جا لیا اور اسے مغلوب کر لیا تو وہ بول اُٹھا خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں یعنی اس نے اظہار کیا کہ وہ مسلمان ہے اس بات پر میرا انصاری ساتھی تو رک گیا لیکن میں نے اسے قتل کر کے چھوڑا جب ہم مدینہ واپس آئے اور آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا ! اے اُسامہ! کلمہ توحید پڑھ لینے کے باوجود تم نے اسے قتل کر دیا ؟ کیا تو نے اس کے لا الہ الا اللہ کہنے کے باوجود اُسے قتل کر دیا؟ بار بار یہ دھراتے جا رہے تھے یہاں تک میں نے تمنا کی کاش میں آج سے پہلے مسلمان ہی نہ ہوتا.( تا کہ یہ غلطی مجھ سے سرزد ہی نہ ہوتی ).( صحیح بخاری جلد دوم کتاب المغازی باب بعث النبی اسامہ بن زید الی الحرقات من جهينة ) فرمودات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام 1- فساد اس سے شروع ہوتا ہے کہ انسان ظنُونِ فاسدہ اور شکوک سے کام لینا شروع کرے.اگر نیک ظن کرے تو پھر کچھ دینے کی توفیق بھی مل جاتی ہے
134 133 جب پہلی ہی منزل پر خطا کی تو پھر منزل مقصود پر پہنچنا مشکل ہے.بدظنی بہت بُری چیز ہے.انسان کو بہت سی نیکیوں سے محروم کر دیتی ہے اور پھر بڑھتے بڑھتے نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ انسان خدا پر بدظنی شروع کر دیتا ہے.66 ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ (375) 2.بعض گناہ ایسے باریک ہوتے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہوتا ہے اور سمجھتا ہی نہیں جوان سے بوڑھا ہو جاتا ہے مگر اسے پتہ نہیں لگتا کہ گناہ کرتا ہے مثلا گلہ کرنے کی عادت ہوتی ہے ایسے لوگ اس کو بالکل ایک معمولی اور چھوٹی بات سمجھتے ہیں حالانکہ قرآن شریف نے اس کو بہت بڑا قرار دیا ہے چنانچہ فرمایا ہے.أَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَّا كُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا (الحجرات: 13) خدا تعالیٰ اس سے ناراض ہوتا ہے کہ انسان ایسا کلمہ زبان پر لاوے جس سے اس کے بھائی کی تحقیر ہو اور ایسی کارروائی کرے جس سے اس کو حرج پہنچے.ایک بھائی کی نسبت ایسا بیان کرنا جس سے اس کا جاہل اور نادان ہونا ثابت ہو یا اس کی عادت کے متعلق خفیہ طور پر بے غیرتی یا دشمنی پیدا ہو.یہ سب بُرے کام ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 653-654) ہیں.3" ہر شخص میں محبت اپنے ظن کی نسبت سے ہوتی ہے.انا عِندَ ظَنِّ عَبْدِی بسی سے یہی تعلیم ملتی ہے.صادق عاشق جو ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ پر حسن ظن رکھتا ہے کہ وہ اس کو کبھی نہیں چھوڑے گا خدا تعالیٰ تو وفاداری کرنا پسند کرتا ہے بلکہ وہ چاہتا ہے کہ انسان صدق دکھلاوے اور اس پرظن نیک رکھے کہ تا وہ بھی وفا دکھلائے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ 35) بہتیری بد ظنیاں جھوٹیاں ہیں اور بہتیری لعنتیں اپنے پر ہی پڑتی ہیں سنبھل کر قدم رکھو.“ کشتی نوح.روحانی خزائن جلد ۱۹ص۳۱) دوزخ میں دو تہائی آدمی بدظنی کی وجہ سے داخل ہوں گے.“ واقعہ ( ملفوظات جلد ۸ص۴۶۶ص) حضرت مولانا عبد الکریم سیالکوٹی لکھتے ہیں محمود چار برس کا تھا.حضرت معمولاً اندر بیٹھے لکھ رہے تھے.میاں محمود دیا سلائی لے کر وہاں تشریف لائے اور آپ کے ساتھ بچوں کا ایک غول بھی تھا کچھ دیر تک آپس میں کھیلتے جھگڑتے رہے پھر جو کچھ دل میں آئی اُن مسودات کو آگ لگا دی اور آپ لگے خوش ہونے اور تالیاں بجانے اور حضرت لکھنے میں مصروف ہیں سر اٹھا کر دیکھتے بھی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے اتنے میں آگ بجھ گئی اور قیمتی مسودے راکھ بن گئے اور بچوں کو کسی اور مشغلہ نے اپنی طرف کھینچ لیا.حضرت کو سیاق عبارت کے ملانے کے لئے کسی گزشتہ کاغذ کے دیکھنے کی ضرورت ہوئی اس سے پوچھتے ہیں خاموش.اُس سے پوچھتے ہیں دبکا جاتا ہے.آخر ایک بچہ بول اُٹھا کہ میاں صاحب نے کاغذ جلا دیئے.عورتیں ، بچے اور گھر کے سب لوگ حیران اور انگشت بدنداں کہ اب کیا ہو گا اور درحقیقت عادتاً ان سب کو اعلیٰ قدر مراتب بُری حالت اور مکروہ نظارہ کے پیش آنے کا گمان اور انتظار تھا مگر حضرت مسکرا کر فرماتے ہیں خوب ہوا اس میں اللہ تعالیٰ کی کوئی بڑی مصلحت ہوگی اور اب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس سے بہتر مضمون سمجھائے.حضرت اقدس کو اپنے خدا پر اس قدر یقین و ایمان تھا.اس قدر حسن ظن تھا کہ وہ ضرور اس سے بہتر مضمون دکھا دے گا آپ اپنے مضامین کو اور کتب کو
136 135 وہ بد نما قال اللہ تعالیٰ اپنی محنت نہیں عطیہ خداوندی سمجھتے تھے.تم دیکھ کر بھی بد کو بچو بد گمان سے ڈرتے ނ رہو عقاب خدائے جہان شاید تمہاری آنکھ ہی کر جائے کچھ خطا شاید وہ بد نہ ہو جو تمھیں ہے شاید تمہارے فہم کا ہی کچھ قصور ہو شاید وہ آزمائش رب وہی کرتا ہے ظن غفور بلا ہو درمین کہ جو رکھتا ہے پردے میں وہی عیب توکل 1 - ترجمہ: اور چاہیے کہ مومن اللہ ہی پر توکل کریں.“ (ال عمران: 161) 2- ترجمہ: ” اور جو اللہ پر توکل کرے تو وہ اس کے لئے کافی ہے.“ (طلاق:4) 3- ترجمہ: اور اللہ ہی پر چاہیے کہ تو گل کرنے والے تو کل کریں.اگر عشاق کا ہو پاک دامن یقیں سمجھو کہ مشکل یہی ہے تریاق دامن درمیاں میں خار کم ہیں بوستاں میں ہے در مشین گا.(ابراہیم : 13 ) 4.ترجمہ:.اور توکل کر اُس زندہ پر جو کبھی نہیں مرے قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (الفرقان : 59) 1 - فرمایا جو تو کل کرے اللہ تعالیٰ اس کے لئے کافی ہے.حصین بن عبدالرحمن کا بیان ہے کہ سعید بن جبیر کے پاس بیٹھا ہوا تھا تو اُنہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے حوالے سے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.میری امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب جنت میں داخل ہوں گے یہ وہ لوگ ہوں گے جو نہ غیر شرعی جھاڑ پھونک کریں نہ شگون لیں اور اپنے رب پر بھروسہ کریں.( صحیح بخاری جلد سوم کتاب الرقاق صفحہ 543 باب 827 حدیث 1392 )
138 137 2- حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب ایک شخص نے پوچھا کہ کیا میں اونٹ کا گھٹنا باندھ کر تو کل کروں یا اونٹ کو کھلا چھوڑ دوں اور خدا پر توکل کروں.آپ نے فرمایا پہلے اُونٹ کا گھٹنا باندھو پھر تو کل کرو.“ (ترمذی صفۃ القیامۃ باب ما جاء فی الصله اوانی العوض) 3- حضرت عبد اللہ بیان کرتے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کے وقت نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو دعا کرتے کہ اے اللہ تیرے لئے ہر قسم کی تعریف ہے تو زمیں و آسمان کا نور ہے اور تیرے لئے ہر قسم کی تعریف ہے اور تو زمین و آسمان کا رب ہے اور اس کا بھی جو ان کے درمیان ہے تو حق ہے اور تیرا وعدہ بھی سچ ہے حق ہے اور قیامت بھی حق ہے پھر فرماتے کہ اللہ ! میں نے تیری فرمانبرداری اختیار کی اور تجھ پر ایمان لایا اور تجھ پر توکل کیا اور تیری طرف ہی جھکا اور تیری خاطر ہی جھگڑا کیا اور تجھے ہی حکم بنایا پس تو مجھے معاف فرما دے ہر وہ خطا جو مجھ سے سرزد ہوئی ہے اور جو آئندہ ہوگی اور ہر وہ خطا جو پوشیدہ طور پر یا اعلانیہ کروں بخش دے وہ گناہ جو میں نے پہلے کئے اور جو بعد میں کئے اور جو میں نے چھپائے اور جو میں نے ظاہر کئے اور تو ہی میرا معبود ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں.( ترمذی ابواب الدعوات از الفضل 22 نومبر 2005) 4- حضرت عمر بن عاص سے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن آدم کے دل کی ہر وادی میں ایک گھائی ہوتی ہے اور جس کا دل گھاٹیوں کے پیچھے لگا رہتا ہے تو اللہ اُس کی پرواہ نہیں کرتا کہ کون سی وادی اس کی ہلاکت کا سبب بنتی ہے اور جو اللہ پر توکل کرتا ہے تو اللہ اُسے ان سب ابن ماجہ کتاب الزہد باب التوكل ) گھاٹیوں سے بچا لیتا ہے.5.حضرت عمر سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ سے سُنا ”اگر تم اللہ پر توکل کرو جس طرح کہ اس پر تو کل کرنے کا حق ہے تو وہ ضرور تمہیں اس طرح رزق دے گا جس طرح کہ پرندوں کو دیتا ہے جو صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر لوٹتے ہیں.(ابن ماجہ ابواب الزہد باب المتوکل و یقین ) واقعہ نمبر 1.دینار صدقہ کر دیئے ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی خدا تعالیٰ پر کامل یقین اور توکل کی آئینہ دار ہے.آپ نے تو کل تام کا ایسا عظیم الشان نمونہ دکھایا کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں ملتی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری بیماری میں کس طرح تو کل کا اظہار فرمایا اے عائشہ ! وہ سونا جو تمہارے پاس تھا کیا ہوا؟ انہوں نے کہا وہ میرے پاس ہے.آپ نے فرمایا وہ صدقہ کر دو پھر حضرت عائشہ ” کسی کام میں مصروف ہو گئیں پھر ہوش آیا تو پوچھا کہ کیا صدقہ کر دیا؟ انہوں نے کہا ابھی نہیں کیا پھر آپ نے اُن کو بھیجا کہ لے کر آؤ.آپ نے وہ دینار منگوائے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر گئے اور فرمایا محمد کا اپنے رب پر کیا تو کل ہوا اگر خدا سے ملاقات اور دنیا سے رخصت ہوتے یہ دینار اس کے پاس ہوں پھر حضور نے وہ دینار صدقہ کر دیئے اور اسی روز آپ کی وفات ہو گئی.واقعہ نمبر 2 (صحیح ابن حیان بن ذكر من يستحب للمرء ان يكون ) حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنگی مہم پر گئے جب حضور صحابہ کے ساتھ واپس آ رہے تھے کہ قافلہ ایک روز دو پہر کو ایک ایسی وادی میں پہنچا جہاں بہت سے کانٹے دار درختوں کے جھنڈ
140 139 تھے آپ نے وہیں پڑاؤ فرمایا اور لوگ بکھر کر مختلف درختوں کے نیچے آرام کے لئے چلے گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کیکر کے درخت کے نیچے آرام فرمایا اور اپنی تلوار اس کے ساتھ لٹکا دی ہم سب سو گئے اچانک کیا سنتے ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں بلا رہے ہیں جب ہم آپ کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ وہاں آپ کے پاس ایک دیہاتی آدمی کھڑا ہے آپ نے فرمایا اس نے سوتے میں مجھ پر میری تلوار سونت لی تھی اور جب میں بیدار ہوا تو وہ تلوار اس کے ہاتھ میں لہرا رہی تھی یہ مجھ سے کہنے لگا کہ بتا تجھے کون بچا سکتا ہے؟ میں نے تین بار اللہ اللہ اللہ کہا اس کی تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی اور وہ کچھ بھی نہ کر سکا.حضور نے اسے کوئی سزا نہ دی.ایک اور روایت میں جابڑ کہتے ہیں کہ غزوہ ذات الرقاع کا واقعہ ہے کہ ایک دن ہم ایک جگہ سایہ دار درختوں کے پاس پہنچے وہاں آرام کرنے کا فیصلہ ہوا ہم نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کے لئے ایک سایہ دار درخت منتخب کیا.آپ آرام فرما رہے تھے کہ اچانک ایک مشرک وہاں پہنچا.آپ کی تلوار درخت سے لٹک رہی تھی اور آپ سوئے ہوئے تھے اس نے تلوار سونت لی اور حضور کو جگا کر کہنے لگا تم مجھ سے ڈرتے نہیں ؟ حضور نے اسے جواب دیا نہیں اس نے کہا مجھ سے تمہیں کون بچا سکتا ہے؟ آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ حضور" کے اس جواب کا اس کافر پر ایسا رعب پڑا کہ تلوار اس کے ہاتھ سے گر پڑی.حضور نے تلوار اُٹھائی اور فرمایا.اب مجھ سے تجھے کون بچا سکتا ہے؟ اس پر وہ بدو گھبرا گیا اور کہنے لگا آپ درگزر فرما دیں.آپ نے فرمایا کہ تو گواہی دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں اس نے جواب دیا میں یہ نہیں مانتا لیکن میں آپ سے عہد کرتا ہوں کہ آئندہ آپ سے کبھی نہیں لڑوں گا اور نہ اُن لوگوں کے ساتھ شامل ہوں گا جو آپ سے لڑتے ہیں.آپ نے اُسے آزاد فرما دیا اور وہ اپنے ساتھیوں میں جاملا اور ان کو بتایا کہ میں ایسے شخص کے پاس سے آیا ہوں جو دنیا میں سب سے بہتر ہے.( بخاری کتاب المغازی باب غزوہ ذات الرقاع ) فرمودات حضرت مسیح موعود علیہ السلام 1- توکل کرنے والے اور خدا تعالیٰ کی طرف جھکنے والے کبھی ضائع نہیں ہوتے جو آدمی صرف اپنی کوششوں میں رہتا ہے اس کو سوائے ذلت کے اور کیا حاصل ہو سکتا ہے جب سے دنیا پیدا ہوئی ہمیشہ سے سُنت اللہ یہی چلی آتی ہے کہ جو لوگ دنیا کو چھوڑتے ہیں وہ اس کو پاتے ہیں اور جو اس کے پیچھے دوڑتے ہیں وہ اس سے محروم رہتے ہیں.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ 248) 2- تو کل یہی ہے کہ اسباب جو اللہ تعالیٰ نے کسی امر کے حاصل کرنے کے واسطے مقرر کئے ہوئے ہیں ان کو حتی المقدور جمع کرو اور پھر خود دعاؤں میں لگ جاؤ کہ (اے ) خدا تو ہی اس کا انجام بخیر کر صد ہا آفات ہیں اور ہزاروں مصائب ہیں جو ان اسباب کو بھی برباد اور تہہ و بالا کر سکتے ہیں ان کی دست بُرد سے بچا کر ہمیں کچی کامیابی اور منزل مقصود پر پہنچا.( ملفوظات جلد سوم صفحہ 146) ایک شخص نے اپنی خانگی تکالیف کا ذکر کیا فرمایا تم پورے طور پر خدا پر تو کل، یقین اور امید رکھو تو سب کچھ ہو جائے گا.( ملفوظات جلد دوم صفحہ 550) -4- ایک دن مجلس مسیح موعود میں تو کل کی بات چل پڑی جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.میں اپنے قلب کی عجیب کیفیت پاتا ہوں جیسے سخت حبس ہوتا اور گرمی کمال شدت کو پہنچ جاتی ہے، تو لوگ وثوق سے امید کرتے ہیں کہ اب بارش ہو
142 141 گی.ایسا ہی جب میں اپنی صندوقچی کو خالی دیکھتا ہوں تو مجھے خدا کے فضل پر یقین واثق ہوتا ہے کہ اب یہ بھرے گی اور ایسا ہی ہوتا ہے.“ اور خدا کی قسم کھا کر فرمایا کہ :- ”جب میرا کیسہ خالی ہوتا ہے تو جو ذوق وسرور اللہ تعالیٰ پر تو گل کا اس وقت مجھے حاصل ہوتا ہے میں اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا اور وہ حالت بہت ہی زیادہ راحت بخش اور طمانیت انگیز ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ کیسہ بھرا ہوا ہو.اور فرمایا.ان دنوں میں جبکہ دنیوی مقدمات کی وجہ سے والدصاحب اور بھائی صاحب طرح طرح کے ہموم و عموم میں مبتلا رہتے تھے وہ بسا اوقات میری حالت کو دیکھ کر رشک کھاتے اور فرمایا کرتے تھے کہ یہ بڑا ہی خوش نصیب آدمی ہے اس کے نزدیک کوئی غم نہیں آتا.“ واقعہ:- ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 216-217) حضرت خلیفة المسیح الثانی فرماتے ہیں زلزلے کا ذکر ہے باہر باغ میں ہم ہوتے تھے.حضرت بانی سلسلہ کو ایک ضرورت پیش آئی.فرمانے لگے.قرض لے لیں پھر فرمانے لگے کہ قرضہ ختم ہو جائے گا تو پھر کیا کریں گے ، چلو خدا سے مانگیں.عبادت کر کے جب آئے تو فرمانے لگے ضرورت پوری ہوگئی ایک شخص بالکل میلے کچیلے کپڑوں والا عبادت کے بعد مجھے ملا اس نے ایک تھیلی نکال کر دی اس کی حالت سے میں یہ سمجھا کہ یہ پیسوں کی تھیلی ہو گی کھولا تو معلوم ہوا کہ دو سو روپیہ ہے تو خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی حاجات کو جو اس پر توکل رکھتے ہیں اس طرح پورا کیا کرتا ہے تم کبھی دوسرے پر بھروسہ نہ رکھوسوال ایک زبان سے ہوتا ہے ایک نظر سے.تم نظر سے بھی کبھی سوال نہ کرو پس تم جب ایسا کرو گے تو پھر خدا تعالیٰ خود سامان کرے گا اس صورت میں جب کوئی تمہیں کچھ دے گا بھی تو دینے والا پھر تم پر احسان نہیں سمجھے گا بلکہ تمہارا احسان اپنے اوپر سمجھے گا.روزنامه الفضل 26 دسمبر 2005) بارگاہِ ایزدی سے تو نہ یوں مایوس ہو مشکلیں کیا چیز ہیں مشکل کشا کے سامنے حاجتیں پوری کریں گے کیا تیری عاجز بشر کر بیاں سب حاجتیں حاجت روا کے سامنے چاہیے تجھ کو مٹانا قلب نقش دوئی جُھکا بس مالک ارض و سما کے سامنے ڈریشین یہ متاع ہوش دینداری کبھی لٹنا بھی ہے اس جہاں کی قید و بندش سے کبھی چھٹنا بھی ہے کر تو کل جس قدر چاہیے کہ اک نعمت ہے یہ یہ بتا دے باندھ رکھا اُونٹ کا گھٹنا بھی ہے کلام محمود
144 143 نام کتاب حسن اخلاق مرتبہ ناشر شمارہ نمبر طبع.تعداد کمپوزنگ پرنٹر امۃ الرشید ارسله لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی 95 اوّل 1000 خالد محمود اعوان شریف سنز پرنٹنگ پریس Husn-e Akhlaque By Amatur Rashid Arsala Published by:Lajna Ima'illal Karachi الْخُلُقُ وعاءُ الدين حسن خلق دین کا برتن ہے (کنز العمال جلد 3 ص 5 كتاب الاخلاق حديث نمبر 5137) اظہار تشکر و درخواست دعا ہم اپنی مرحومہ بہن محترمہ اعۃ الرشید ارسلہ صاحبہ کے بلندی درجات کے لئے دعا گو ہیں.مرحومہ نے وعدہ کیا تھا کہ حُسن اخلاق کا خرچ ادا کریں گی اُن کی یہ خواہش پوری کرنے کے لئے ان کے شوہر محترم محمد حسین صاحب نے اس کتاب کا خرچ اُن کی طرف سے ادا کیا ہے.فجر اھم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء.اللہ تعالیٰ مرحومہ کی اس علمی اور مالی صدقہ جاریہ کو قبول فرمائے اور اُن کے خاندان کے اموال، نفوس اور اخلاص میں برکت عطا فرماتا چلا جائے.آمین اللھم آمین Printed by: Sharif Sons printing Press
حسنِ اخلاق کے حصول کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا اللَّهُمَّ اهْدِنِي لَأَحْسَنِ الَا خَلاقَ لَا يَهْدِى لَا حُسَنِهَا إِلَّا أَنْتَ وَ أَصْرَقْ عَنِي سَيَاتِهَا لَا يُصْرِقُ عَنِى سَيَا تِهَا الا انت.(مسلم باب الدعا فی الصلوۃ) اے میرے خدا ! تو اعلیٰ خلاق کی طرف میری رہنمائی فرما کیونکہ تیرے سوا کوئی بہتر اخلاق کی راہ نہیں دکھا سکتا.بُرے اخلاق کو مجھ سے دُور رکھنا کیونکہ تیرے سوا کوئی انہیں دُور نہیں کر سکتا.آمین