Language: UR
حضرت مرزا طاہر احمد، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایم ٹی اے پر ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل کے حوالہ سے لیکچروں کا ایک سلسلہ شروع کیاتھا، اس مجموعے کو یہاں کتابی شکل میں جمع کیا گیا ہے۔ حضورؒ روحانی اور جسمانی طب میں ماہر فن تھے، آپ نے ہومیو پیتھی کا مطالعہ عالم نوجوانی سے شروع کیا اور پھر اس میدان میں خدمت انسانیت کے لئے ساری عمر کمربستہ رہے، آپ کے لیکچرز نہایت تفصیلی، عام فہم اور مثالوں سے مزین ہوتے تھے جن سے مبتدی بھی اتنا ہی فائدہ اٹھا سکتا ہے جتنا کوئی طبیب۔ اس کتاب کے موجودہ ایڈیشن کو مرتب کرتے ہوئے حضورؒ نے ہومیو ادویات اور ان کے طریقہ استعمال کو مزید عام فہم بنانے کی سعی فرمائی اور کتاب کے آخر پر متفرق انڈیکس اور روزمرہ کے نسخے بھی درج ہیں۔ موجودہ ایڈیشن میں 184 ادویات پر سیر حاصل بحث کے علاوہ تشخیص امراض کےحوالہ سے درست رہنمائی بھی موجود ہے۔
یعنی عی علاج بالمثل جدید ایڈیشن مشتمل جلد اول و دوم (ترمیم واضافوں کے ساتھ ) مسلم ٹیلی ویژن احمدیہ انٹر نیشنل پر نشر کئے گئے حضرت مرزا طاہر احمد امام جماعت احمدیہ کے لیکچرز کا مجموعہ
ہو میو پیتھی.یعنی علاج بالمثل جدید ایڈیشن - جلد اول و دوم (ترمیم واضافہ کے ساتھ ) Homoeopathy Vol: 1 & 2 (Urdu) Fully revised Televised Lectures of Hadhrat Mirza Tahir Ahmad Head of the worldwide Ahmadiyya Muslim Community Islam International Publications Ltd.Vol: 1 was first published in UK in 1996 and third (revised) edition was published in 1998 Present edition Vol: 1 & 2 (fully revised) published in UK in 1999 Published by: Islam International Publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane Tilford, Surrey GU10 2AQ United Kingdom Printed in UK by: Biddles Ltd Guildford and King's Lynn Composed by: Tahir Mahmood Ahmad Faheem Ahmad Khalid Tariq Nafees Cheema ISBN 1 85372 668 0
بسم الله الرحمن الرحيم واذل چرخد والشعراء : ۸۱ فهُوَ يَشفِينِ اور جب میں بیمار ہوتا ہوں تو وہ مجھے شفا دیتا ہے.
ریاچه فہر اس نئے ایڈیشن کے متعلق کچھ ضروری باتیں 1- ابراٹینم 2- ابنتهم -3 ایسیٹک ایسڈ -4 ایکونائٹ 5 اکٹیار یہی موسا 6- ایڈرینالین 7 ایسکولس -8 ایتھوزا 9 - ایگیریکس 10- ایگنس کاسٹس 11 - ایلیم سیپا 12- ایلو 13 - الیومن ( پھٹکڑی ) 14 - اليومينا 15 ایمبرا گریسا 16 - امونیم کارب 17 - انتظر اسینم 1 Abrotanum 5 Absinthium 7 Acetic Acid 9 15 Aconitum Napellus Actaea Racemosa 19 Adrenalin 21 Aesculus Hippocastanum Aethusa Cynapium Agaricus Muscarius 25 له شه ته 29 35 Agnus Castus 37 Allium Cepa 41 Aloe 45 Alumen 49 Alumina 55 Ambra Grisea 57 Ammonium Carb 61 Anthracinum
63 Anthrakokali 65 Antimonium Crudum 67 Apis Mellifica 71 Argentum Metallicum 77 Argentum Nitricum 83 Arnica 93 Arsenicum Album 101 Arsenicum Iodatum 105 Arsenicum Sulphuratum Flavum 107 Arum Triphyllum 109 Asafoetida 111 Aurum Metallicum 117 Aurum Muriaticum 121 Baptisia 125 Baryta Carb 133 Belladonna 143 Bellis Perennis 145 Benzoicum Acidum 149 Berberis Vulgaris 153 Bismuthum 155 Borax 18 - انتظر ا کو کلی 19.اینٹی مونیم کروڈ 20 امیس 21 - ارجنٹم مٹیلیکم 22 ارجنٹم نائیٹریکم 23- آرنیکا 24 - آرسینک البم 25- آرسینک آئیوڈیٹم 26- آرسینک سلف 27- آرم ٹرائی فلم 28 اسا فوٹیڈا آرم مٹیلیکم 29- آرم 30 آرم میور 31- پیشیا 32 برائیٹا کارب 33 - بیلاڈونا 34- بیلس 35 - بینز و ٹیکم ایسڈم 36- بر برس 37- بمتهم 38- بوریکس
157 Bovista 159 Bromium 161 Bryonia alba 173 Bufo 177 Cactus Grandiflorus 181 Cadmium Sulf 185 Caladium 187 Calcarea Arsenica 191 Calcarea Carbonica 199 Calcarea Fluorica 203 Calcarea Iodide 205 Calcarea Phosphorica 209 Calcarea Sulphurica 215 Calendula Officinalis 217 Camphora 223 Cannabis Indica 227 Cannabis Sativa 229 Cantharis 233 Capsicum 237 Carbo Animalis 241 Carbo Vegetabilis 39- بووسٹا 40- برویم -41 برائیونیا 42- بوفو 43- کیکٹس 44 کیڈ میم سلف 45 کیلیڈیم 46- کلکیریا آرس 47- کلکیریا کارب 48 کلکیر یا فلور 49- کلکیریا آیوڈائیڈ 50- کلکیر یا فاس 51- کلکیر یا سلف 52- کیلنڈ ولا 53- کیمفر 54- کینا بس انڈیکا 55- کینا بس سٹائیوا -56 کیتھرس 57- کپسیکم 58- کار بو اینیمیلس 59- کار بوویچ
249 Carbolic Acid 251 Carboneum Sulphuratum 60- کار بالک ایسڈ 61- کار بو نیم سلف 255 Carcinosin 259 Cardus Marianus 261 Caulophyllum 263 Causticum 267 Ceanothus 62- کارسینوسن 63- کارڈس مریانس 64- کولو فائیلم -65 کاسٹیکم 66- سیانو تهس 269 Chamomilla 275 Chelidonium Majus 279 Chenopodium 283 Chininum Arsenicosum 67- کیمومیلا 68- چیلی ڈونیم 69 چینوپوڈیم -70 چینینم آرس 289 Cholesterinum 291 Cicuta Virosa 295 Cina 299 303 Cistus Canadensis 307 Clematis Erecta 309 Cocculus 313 Coccus Cacti 315 Coffea Cruda 319 Colchicum 71 - کولسٹرینم 72 سیکوٹاوروسا 73 - سائنا -74.سنکونا آفیشی نیلس (چائنا) (Cinchona Officinalis (China 75.سسٹس کینا ڈینس -76 کلیمیٹس 77- کاکولس 78 کو کس کی کٹائی 79 - کافیا کروڈا -80 کا چیکم
81- کولوسنتھ 82- کونیم 83 کرو ٹیلس ہری ڈس 84 کروٹن ٹگلیم -85 -86 عليكم کیو پرم" سائیکیمن 87.ڈیجی ٹیلس 88.ڈائسکوریا ولوسا 89- دفتھیریم 90.ڈروسرا 91 - ڈلکا مارا 92.الیکٹریسی ٹاس 93 الیکٹری سٹی 94 - یو پاٹوریم 95- يوفریزیا 96 - فیرم مٹیلیکم 97 - فیرم فاس 98 - فلور یکم ایسڈیم -99 جسمبر 100- گلونائن 101- گریفائیٹس 323 Colocynthis 325 Conium Maculatum 331 Crotalus Horridus 337 Croton Tiglium 341 Cuprum Metallicum 345 Cyclamen Europaeum 349 Digitalis 355 Dioscorea Villosa 357 359 363......367 Diphtherinum Drosera Rotundifolia Dulcamara Electricitas 369 Electricity 371 Eupatorium Perfoliatum 375 Euphrasia 379 Ferrum Metallicum 383 Ferrum Phosphoricum 389 Fluoricum Acidum 395 Gelsemium 401 Glonoine 407 Graphites
102- گریشولا 103- گائیکم 104.ہماٹا کسی لان 405.ہیڈی اوما 106 - ہیکل الاوا 107 - ہیلی بورس 108.ہیلو نیس 109.ہیپر سلف 110.ہورا برازیل 111 - ہائیڈ رنجیا 112- ہائیڈ رائٹس 113- ہائیڈ روکو ٹائل 114.ہائیڈ روسائینک ایسڈ 115.ہائیڈ روفو بینم 116.ہائیوسائیمس 117- اگنیشیا 118- انسولین 119- آیوڈم 120- اپی کاک 121.آئرس ٹینکس 122 - آئرس و رسیکل 413 Gratiola 417 Guaiacum 423 Haematoxylon 425 Hedeoma 427 Hekla Lava 431 Helleborus Niger 435 Helonias 437 Hepar Sulphuris Calcareum 443 Hura Braziliensis 445 Hydrangea 447......Hydrastis 451 Hydrocotyle 453 Hydrocyanic Acid 455 Hydrophobinum 457 Hyoscyamus 463 Ignatia 467 Insulin 469 Iodum 475 Ipecacuanha 479 Iris Tenax 483 Iris Versicolor
123 - کالی بائیکروم 124- کالی کارب 125- کالی میور 126- کالی فاس 127- کالی سلف 128- کرئیوز وٹم 129- لیک کینا ئینم 130- ایک ڈیفلوریٹم 131- ليكيس 132- لیکٹک ایسڈ 133- لا روسیراکس 134 لیڈم 135 - لیم تنگ 136 - میگنیشیا کارب 137- میلنڈرینم 138- ملیر یا آفیسی نیلیس 139 - مینگینم 140.میڈورائینم 141 - مرکزی کے مرکبات 142- ملی فولیم 143 - مورگن کو 485 Kali Bichromicum 495 Kali Carbonicum 503 Kali Muriaticum 505 Kali Phosphoricum 515 Kali Sulphuricum 521 Kreosotum 525 Lac Caninum 531 Lac Defloratum 539 Lachesis 553 Lactic Acid 555 Laurocerasus 559 Ledum 565 Lillium Tigrinum 569 571 Magnesia Carbonica Malandrinum 575 Malaria Officinalis 577 Manganum 583 Medorrhinum 591 Mercurius 601 Millefolium 605 Morgon Co
144.میوریٹک ایسڈ 145 - نیٹرم کارب 146 - نیٹرم میور 147- نیٹرم فاس 148.نیٹرم سلف 149 - نکس وامیکا 150.اوپیم 151- فاسفورس 152- فائٹولا کا 153 - پکرک ایسڈ 154- پائیپر ٹائیگر 155- پلاٹینم 156 - پلم مٹیا 157- سورائینم 158- پیولیکس 159 پاستیل 160- پائیر و بینم 161 - ریڈیم برومائیڈ 162- رس گلا برا 163- رسٹاکس 164- ریومکس کرسپس 607 Muriaticum Acidum 611 Natrum Carbonicum 617 Natrum Muriaticum 627 Natrum Phosphoricum 633 Natrum Sulphuricum 637 Nux Vomica 645 Opium 651 Phosphorus 663 Phytolacca 667 Picricum Acidum 671 Piper Nigrum 673 Platinum 675 Plumbum Metallicum 681 Psorinum 687 Pulex Irritans 689 Pulsatilla 699 Pyrogenium 703 705 707 715......Radium Bromide Rhus Glabra Rhus Tosxicodendron Rumex Crispus
165 - روٹا 166 - سباڈیلا 167 - سبائنا 168 - سینگونیر یا 169.سیکیل کورنیٹم 170 - سینیشو آرس 171- سینیگا 172- پیا 173- سليشا 174 - سپائی جیلیا 175- سپونجیا ٹوسٹا 176.سٹینم 177.سٹیفی سیگریا 178- سٹر نشیم کارب 179- سلفر 180.سلفیورک ایسڈ 181.ٹیریٹولا ہسپانیہ 182- ٹیوبرکولینم 183- وریٹرم البم 184- زنگ انڈیکس تشخیص امراض 719 Ruta Graveolens 723 727 Sabadilla Sabina 731 Sanguinaria 735 Secale Cornutum 741 Senecio Aureus 743 Senega 745 Sepia 749 Silicea 761 Spigelia 765 Spongia Tosta 769 Stannum 773 Staphysagria.777 Strontium Carbonicum 779 Sulphur 787 Sulphuricum Acidum 791 Tarentula Hispania 797 Tuberculinum 801 Veratrum Album 805 Zincum Metallicum 813 Rapertory
دیباچه 1 بسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ دیباچہ ہومیو پیتھی میں میری دلچسپی کے اسباب کی داستان دلچسپ ہے.ہندوستان کی تقسیم کے بعد پاکستان بننے کے ابتدائی سالوں کی بات ہے کہ مجھے بار بار سر درد کے دورے پڑا کرتے تھے جسے انگریزی میں میگرین (Migraine) اور اردو میں در دشقیقہ کہتے ہیں.یہ بہت شدید درد ہوتا ہے جس کے ساتھ متلی، قے اور اعصابی بے چینی بہت ہوتی ہے.میں کئی کئی دن اس بیماری میں مبتلا رہتا تھا.علاج کے طور پر اسپرین استعمال کرتا جس کی وجہ سے معدہ کی جھلی اور گردوں پر برا اثر پڑتا اور دل کی دھڑکن بھی تیز ہو جاتی.میرے والد مرحوم ایک ایلو پیتھک دوا سینڈول (Sandol) اپنے پاس رکھا کرتے تھے جس کی انہیں خود بھی ضرورت پڑتی تھی.برصغیر کی تقسیم کے بعد یہ دوا پاکستان میں نہیں ملتی تھی بلکہ کلکتہ سے منگوانی پڑتی تھی.اس سے مجھے جلد آرام آجاتا.ایک دفعہ جب مجھے سر درد کی شدید تکلیف ہوئی تو ابا جان مرحوم کے پاس سینڈول موجود نہ تھی اس لئے آپ نے اس کی بجائے کوئی ہو میو پیتھک دوائی بھجوا دی.مجھے اس وقت ہومیو پیتھی پر کوئی یقین نہیں تھا لیکن تبر کا میں نے یہ دوا کھالی.مجھے اچانک احساس ہوا کہ درد بالکل ختم ہو گیا ہے اور میں بے وجہ آنکھیں بند کئے لیٹا ہوں.اس سے پہلے کبھی کسی دوا کا مجھ پر ایسا غیر معمولی اور اتنا تیز اثر نہیں ہوا تھا.
دیباچہ 2 اس کے بعد ایک اور واقعہ ہومیو پیتھی میں میری دلچسپی کا موجب یہ بنا کہ جب میری شادی ہوئی تو میری اہلیہ آصفہ بیگم (رحمہا اللہ ) کو ایک پرانی تکلیف تھی جس کا انہوں نے مجھ سے ذکر کیا.حضرت اباجان کے پاس ہو میو پیتھی کی کتابیں بہت تھیں.میں نے سوچا کہ ان میں سے کوئی دوائی ڈھونڈتا ہوں.اللہ تعالیٰ کا ایسا تصرف ہوا کہ پہلی کتاب کو جس جگہ سے میں نے کھولا وہاں ایک دوائی نیٹرم میور (Natrum Mur) کی جو علامات درج تھیں وہ بالکل وہی تھیں جو آصفہ بیگم نے بتائی تھیں.وہ دوا میں نے اونچی طاقت میں انہیں دی.ان کو اس کی ایک خوراک سے ہی ایسا آرام آیا کہ پھر کبھی زندگی بھر وہ تکلیف دوبارہ نہیں ہوئی.اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ ہو میو پیتھی خواہ میری سمجھ میں آئے یا نہ آئے ، اس کا فائدہ ضرور ہوتا ہے اور اس میں ضرور کچھ حقیقت ہے.اس کے بعد میں نے حضرت ابا جان کی لائبریری سے ہومیو پیتھی کی کتابیں لے کر پڑھنا شروع کیں.بعض اوقات ساری ساری رات انہیں پڑھتا رہتا.لمبا عرصہ مطالعہ کے بعد میں نے دوائیوں اور ان کے مزاج سے واقفیت حاصل کی اور ان کے استعمال اور خصوصیات کا اچھی طرح ذہن میں نقشہ جمایا اور پھر مریضوں کا علاج شروع کیا.ہو میو پیتھی کی ایجاد ہومیو پیتھی کے موجد کا نام ڈاکٹر ہانیمن ہے جو 1755ء میں Saxony میں پیدا ہوا.اس کا پورا نام سیموئیل کرسچن فرائیڈرک ہانیمن (Samuel Christian Friedrich Hannemann) تھا.اسے زبانیں سیکھنے کا بڑا شوق تھا.چنانچہ اس نے آٹھ زبانوں پر عبور حاصل کیا اور ابھی اس کی عمر صرف 12 سال کی تھی کہ اس نے یونانی (Greek) زبان پڑھانی شروع کر دی اور اس طرح چھوٹی عمر میں ہی زبانوں کا استاد بن گیا.اس نے لائپسگ (Leipzig) ( آسٹریا) میں ڈاکٹری پڑھنی
دیباچه 3 شروع کی.پھر یہ وی آنا (Vienna) گیا اور وہاں سے ایرلانگن (Erlangen) گیا جہاں 1779ء میں یہ میڈیکل ڈاکٹر بنا اور ڈریسڈن (Dresden) میں پریکٹس شروع کر دی.چونکہ پریکٹس کے دوران یہ غریبوں پر بہت احسان کرتا تھا اس لئے اس کی آمد زیادہ نہیں تھی.الہذا اس نے پریکٹس کے ساتھ ساتھ زبانوں کے ترجمے کا کام بھی جاری رکھا.ایلو پیتھک ڈاکٹر بننے کے گیارہ سال بعد اس نے ہومیو پیتھک طریق علاج دریافت کیا.چھ سال زیادہ تر اپنے اوپر اور اپنے قریبی عزیزوں پر تجربے کرتا رہا اور 1796ء میں پہلی بارطبی رسالوں میں مضامین کے ذریعے اس نے اپنے ہومیوں پیتھی فلسفہ سے دنیا کو آگاہ کیا.1810ء میں اس نے پہلی بارا اپنی مشہور عالم طبی کتاب Organon of Rational Medicine شائع کی جسے ہانیمن کا آرگنان کہا جاتا ہے اور 1811ء تا1821ء کے عرصہ میں اس نے میٹریا میڈیکا (Materia Medica) تیار کی.اس وقت کے تمام روایتی معالجین نے اس کی سخت مخالفت شروع کر دی.1820ء میں مخالفین کے دباؤ کے نتیجہ میں حکومت نے اس کے طریقہ علاج کو غیر قانونی قرار دے کر اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ کیا لیکن پہلے اس سے کہ اس فیصلے پر عملدرآمد ہوتا اس نے آسٹریا کے شہزادہ کارل شوارزن برگ (Karl Schwarzenberg) کو لائسنگ (Leipzig) بلا کر کامیابی سے اس کا علاج کیا.پرنس کو اس علاج سے اتنا فائدہ پہنچا کہ اس نے آسٹریا کے King Friedrich سے درخواست کی کہ ہومیو پیتھی کے خلاف ہر پابندی کو ختم کر دیا جائے اور آئندہ بھی کوئی پابندی نہ لگائی جائے.مگر ہانیمن کی بدقسمتی سے یہی شہزادہ ٹھیک ہونے پر فوراً عیاشی اور شراب نوشی میں مبتلا ہو گیا اور اسی سال پھر بیمار پڑا تو ایلو پیتھک علاج شروع کیا لیکن تھوڑی مدت میں ہی دم تو ڑ گیا.اس کا سارا الزام آسٹریا کی حکومت نے ہانیمن پر تھونپ دیا.اس کا رعایا پر ایسا سخت رد عمل ہوا کہ اس کی کتابیں جگہ جگہ جلائی جانے
دیباچه 4 لگیں اور ہانیمن کو اس ملک سے فرار ہوکر کو تھن (Cothen) میں پناہ لینی پڑی.یہاں ڈیوک آف کو تھن (Duke of Cothen) نے اس کی سر پرستی کی.وہ چودہ سال کو تھن میں رہا اور اس عرصہ میں مزمن بیماریوں پر گہرا تحقیقی کام کیا.اس تحقیقی کام کی پہلی جلد 1828ء میں شائع ہوئی.1830ء میں اس کی بیوی کی وفات ہوئی اور 1835ء میں اس نے ایک فرانسیسی خاتون سے شادی کی اور پیرس منتقل ہوگیا.1835ء سے لے کر 1843ء یعنی اپنی وفات تک یہ فرانس میں رہ کر ہومیو پیتھی کی پریکٹس کرتا رہا.1835ء وہی سال ہے جس میں جماعت احمدیہ کے بانی مرزا غلام احمد پیدا ہوئے.ہومیو پیتھی سے مراد علاج بالمثل ہے یعنی بیماریوں کا ملتی جلتی بیماریاں پیدا کرنے والے مادودں سے علاج.یہ علاج ہانیمن کے وقت تک رائج علاج کے بالکل برعکس اصول پر مبنی تھا.یہ درست ہے کہ کئی بیماریوں کے رائج علاج ایسے بھی تھے جو دراصل ہو میو پیتھک اصل کے مطابق کام کرتے تھے مگر معالجین کو اس اصول کا کوئی علم نہیں تھا.وہ محض تجربے کی بنا پر محدود دائرے میں بعض دواؤں کو ہومیو پیتھک طریق علاج کے مطابق شفا دینے کے لئے استعمال کرتے تھے.مثلاً اپی کاک (Ipecac) اور او پیم (Opium) کو خفیف مقدار میں ہلکے نیچر کی صورت میں ملا کر متلی اور قے کے رجحان کو روکنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا.حالانکہ یہ دونوں دوائیں ایسی ہیں کہ انکی مقدار ذراسی بڑھا دی جائے تو ان میں متلی اور قے پیدا کرنے کا رجحان بشدت پایا جاتا ہے.ہانیمن نے اسی قسم کی بہت سی دوائیں اپنی ایلو پیتھک پریکٹس کے دوران معلوم کیں اور اس بات پر غور کیا کہ آخر کیوں یہ دوائیں ایک بیماری پیدا بھی کرتی ہیں اور ہلکی مقدار میں اس کا انسداد بھی کرتی ہیں.اس غور کے دوران اس نے انسانی نظام دفاع کا راز معلوم کیا.اطباء عموماً یہ تو جانتے تھے کہ انسانی جسم میں دفاع کی طاقت ہے مگر یہ نہیں جانتے تھے کہ دفاع کی طاقت کتنی وسیع ہے اور کن اصولوں کے مطابق کام کرتی ہے اور یہ بھی نہیں
دیباچہ 5 جانتے تھے کہ اگر بیماریاں جس میں پھولتی پھلتی رہیں تو اس دفاع کی طاقت کو ان کے خلاف کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے.یہ ہو میو پیتھی کا وہ مرکزی راز تھا جس کی دریافت کا سہرا ہانیمن کے سر پر ہے.اس نے انسانی طبعی نظام دفاع کو اتنی گہرائی سے سمجھا اور اس کی طاقتوں کا ایسے حیرت انگیز طریق پر مشاہدہ کیا کہ آج بھی یقین نہیں آتا کہ واقعتا انسانی جسم کو خدا تعالیٰ نے ایسی عظیم اور لطیف طاقتیں عطا فرمائی ہیں.مگر مشاہدہ مجبور کرتا ہے کہ انسان یقین کرے.اس اصول کے حق میں بہت سے مزید شواہد ہانیمن کے سامنے آئے کہ جسم ہر بیرونی حملے کے خلاف ایک طبعی رد عمل دکھاتا ہے.ہر وہ چیز جس سے جسم اجنبیت محسوس کرے، خواہ وہ غذا ہو یا دوا ہو یا کسی قسم کا زہر ہو، جسم کا دفاعی رد عمل اس کے خلاف حرکت میں آجاتا ہے.یہ بیرونی حملہ جتنا کمزور ہو اتنا ہی آسانی سے جسم اس کے خلاف کامیاب دفاع کرتا ہے.ڈاکٹر ہانیمن نے اس طبعی نظام دفاع سے استفادہ کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ اگر انسانی جسم میں کوئی ایسی بیمائی موجود ہو جس کو جسم نے کسی وجہ سے نظر انداز کر دیا ہو اور اس کا مقابلہ نہ کر رہا ہوتو اگر بہت ہی لطیف مقدار میں کوئی ایساز ہر جس کی علامتیں اس بیماری سے ملتی ہوں جسم میں داخل کر دیا جائے مگر اسے ہلکا کرتے کرتے باکل اثر کر دیا گیا ہو تو جسم اس نہایت کمزور بیرونی حملہ کے خلاف جو ردعمل دکھائے گا اسی ردعمل سے اس اندرونی بیماری کو بھی ٹھیک کر دے گا جو اس زہر کی علامتوں سے قریبی مشابہت رکھتی ہے.پس وہ طریقہ علاج جس میں انہی زہریلی اشیاء کو ویسی ہی بیماری دور کرنے کے لئے استعمال کیا جائے جیسی وہ خود پیدا کرسکتی ہیں، اسے ہومیو پیتھی یا بالمثل طریقہ علاج کہا جاتا ہے.مگر لازم ہے کہ اس زہر کو جب ہو میو دوا کے طور پر استعمال کیا جائے تو اسے اتنا ہلکا کر لیا جائے کہ وہ اپنا زہر یلا اثر پیدا کرنے کی طاقت سے کلیتا محروم ہو چکی ہو.باوجود اس کے جسم کی لطیف دفاعی صلاحیت کا شعور اس
دیباچہ 6 موہوم حملہ کو پہچان کر اس کے خلاف رد عمل دکھائے گا.بسا اوقات یہ زہر ہلکا کرتے کرتے عملاً بالکل معدوم کر دیا جاتا ہے اور ایک نقطہ پر پہنچ کر اصل زہر کا کوئی نشان بھی اس دوا مین باقی نہیں رہتا جس سے دوا بنانے کا آغاز ہوا تھا.جوں جوں اس عمل کو اور آگے بڑھاتے چلے جائیں یعنی اس محلول کو جس میں ابتداء کسی زہر کا قطرہ ڈالا گیا تھا مزید محلول ڈال کر یہ امر یقینی بنا دیا جائے کہ اصل زہر کی ایک لطیف یاد کے سوا اس محلول میں اس زہر کا کوئی ایٹم تک باقی نہیں رہا تو جتنی بار اس عمل کو آگے بڑھائیں گے اتاہی اس محلول کی ہومیو پیتھک پوٹینسی اونچی ہوتی چلی جائے گی.حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس محلول میں گھلی ہوئی موہوم یاد کے پیغام کو روح سمجھ جاتی ہے اور روح کے تابع جسم بھی عمل دکھاتا ہے اور اس کا دفاعی نظام اس حملہ کے خلاف بیدار ہو جاتا ہے.اگر روح میں یہ صلاحیت نہ ہو کہ زہر کی محض ایک یاد کے حملہ کو سمجھ سکے اور بعینہ اس کے خلاف دفاع کے لئے جسم کے دفاعی نظام کو تیار کر سکے تو 30 طاقت سے اوپر کوئی ہومیو پیتھی طاقت بھی کام نہیں کر سکے گی.لیکن مشاہدہ بتاتا ہے کہ ایک قانون کی طرح لازما بہت اونچی طاقتیں یعنی ایک لاکھ طاقت میں بھی ہو میود وا قطعی اثر دکھاتی ہے.یہ اتنا لطیف نظام ہے کہ کہ روح کے وجود کو تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں رہتا.اصل زہر کا موجود ہونا تو کجا، ہومیو پیتھی دوا کی اونچی طاقتوں میں اس کے واہمہ کا موجود ہونا بھی ممکن نہیں ، پھر بھی وہ دوا بھر پور اثر کرتی ہے.ہومیو پیتھی کے منکرین تو الرجی کے نظام کی بھی کوئی معقول تو جیہ پیش نہیں کر سکتے.ایک دفعہ امریکہ میں ایک ایسی خاتون پر جسے انڈے سے الرجی ہو جاتی تھی ڈاکٹروں نے تجربہ کیا اور اسے ایک ایسی عمارت میں رکھا جس کی کسی منزل پر بھی انڈا رکھنے کی اجازت نہیں تھی خواہ وہ کسی پرندے کا بھی ہو، وہاں کچھ عرصہ تک وہ بالکل ٹھیک رہی لیکن ایک دن اسے اچانک شدید الرجی ہوگئی.اس پر فوری طور پر تحقیق شروع ہوئی اور نیچے سے اوپر تک اس بلند و بالا عمارت کے ایک ایک کونے کی مکمل
دیباچه 7 تلاشی لی گئی.بالآ خر جب وہ سب سے بالائی منزل کی چھت تک پہنچے تو دیکھا کہ وہاں ایک گھونسلے میں ایک کبوتری نے ایک انڈا دیا ہوا تھا.یہ چھت بیمار عورت کے فلیٹ سے پندرہ ہیں منزل او پر تھی.اس سے یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ انسانی جسم اتنے دور دراز کے لطیف اثرات کو بھی جو ہواؤں میں گھل کر کالعدم ہو چکے ہوں گے محسوس کر لیتا ہے جب کہ کسی انتہائی جدید ز و حس برقی آلہ کے لئے بھی یہ ممکن نہ تھا کہ اس انڈے کے وجود کو محسوس کر سکے.الرجی کے ضمن میں ہونے والی تحقیقات سے ایک اور بات بھی سامنے آئی ہے کہ الرجی کے بعض مریض موسم میں آئندہ ہونے والی تبدیلی کے اثرات بھی اتنے دن پہلے محسوس کر لیتے ہیں کہ جب ابھی انتہائی لطیف سائنسی آلات نے بھی انہیں محسوس نہ کیا ہو.مثلاً بعض مریض ایسے ہیں جنہیں بجلی کے کڑکنے اور موسم میں اضطراب پیدا ہونے سے الرجی ہو جاتی ہے.چنانچہ تحقیق سے جو حیرت انگیز بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ موسم کی ظاہری تبدیلیاں ابھی پیدا ہی نہیں ہوئی تھیں اور ان کے کوئی آثار بھی کسی سائنسی آلہ کے ذریعہ منضبط نہیں ہو سکے تھے پھر بھی ایسے مریضوں میں اس الرجی کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے جس کا تعلق اس بگڑے ہوئے موسم سے تھا.اللہ تعالیٰ نے پرندوں کو بھی یہ ملکہ عطا فرمایا ہے کہ وہ موسم کی تبدیلی سے پہلے ہی اسے محسوس کر لیتے ہیں اور شور مچانے لگتے ہیں.روح ضرور ردعمل دکھاتی ہے.ہو میو پیتھی میں جسم در حقیقت روح کے تابع رد عمل دکھاتا ہے نہ کہ از خود.ہو میو پیتھی میں جو دوائی دی جاتی ہے وہ اتنی لطیف ہوتی ہے کہ اس میں کوئی بھی جسمانی مادہ باقی نہیں رہتا.اس لئے ظاہر ہے کہ جسم اس کے خلاف کوئی رد عمل دکھا ہی نہیں سکتا.صرف روح ہی جو ایک لطیف حقیقت ہے اور کوئی مادی وجود نہیں رکھتی اس لطافت کو محسوس کر سکتی ہے.حضرت بانی سلسلہ احمد یہ نے بھی اس طرز کے علاج کے لئے روحانی علاج کا لفظ استعمال کیا ہے.یہ وہ پیروں فقیروں والی
دیباچه روحانیت نہیں ہے بلکہ یہ روح کا ذکر ہے.پروونگ(PROVING) 8 ہومیو پیتھک ادوبیہ کے اثرات معلوم کرنے کے عمل کو طریقہ آزمائش (Proving) کہا جاتا ہے.مختلف دواؤں کے خواص جاننے کا ایک ذریعہ ہزاروں سال تک پھیلا ہوا وسیع انسانی تجربہ ہے.انسان کو مختلف زہروں سے بار ہا واسطہ پڑتا رہا ہے جس سے ان زہروں کا مزاج کا اسے پتہ چلا ہے.سقراط کو آج سے 2500 برس پہلے جو زہر دیا گیا اس کا نام کو نیم (Conium) تھا.اس وقت سے پہلے سے بھی انسان کو اس زہر کے اثرات بہت حد تک معلوم تھے مگر سقراط اپنے جسم کے اندر اس زہر سے پڑنے والے بار یک اثرات جب تک اس میں سکت رہی تفصیل سے بیان کرتا رہا.اس سے پہلے وہ دنیائے طب کو معلوم نہیں تھے جوں جوں زہر کی علامات بڑھتی گئیں وہ اپنے شاگردوں کو بتا تا رہا کہ اس ا زہر کے کیا کیا اثرات جس کے کس کس حصہ پر کس ترتیب سے پڑ رہے ہیں.ڈاکٹر ہانیمن بھی زہروں کو نہایت خفیف مقدار میں خود اپنے اوپر استعمال کرنے کے بعد ان کے لطیف اثرات کو بڑی باریکی سے مرتب کرتارہا اور اس کے اس فعل نے سقراط کی یاد کو زندہ کر دیا ڈاکٹر ہانیمن نے یہ بھی معلوم کیا کہ جوز ہر تجربہ کی خاطر کسی صحت مند انسان کو بہت تھوڑی مقدار میں بار بار دیا جائے اس سے اس زہر کی بہت بار یک علامتیں بھی نکھر کر سامنے آجاتی ہیں اور اس کا یہ اثر مستقل نہیں رہتا.زہر کے اثرات تفصیل سے جانچنے کے اس طریق کو Proving کہا جاتا ہے.ہانیمن کے طریق پر ہی بعد میں کئی ہومیو پیتھک اطباء نے نئے نئے زہروں کو اپنے اوپر آزمایا اور ان کے تفصیلی اثرات مرتب کئے اور اس طریق پر ہومیو Materia madica (میٹریا میڈیکا) میں نہایت مفید اضافہ کرتے چلے گئے.مگر جہاں تک Proving کے اس طریق کا تعلق ہے ہانیمن کے اصولوں کے پیش نظر کسی ایک شخص کی
دیباچه Proving پر اعتماد نہیں کیا جاتا بلکہ مختلف وقتوں میں مختلف موسموں میں مختلف ملکوں میں کسی دوا کی Proving کرنے والے جب اپنے اپنے مشاہدہ کی رو سے اس کے اثرات بیان کرتے ہیں تو ان میں سے صرف متفقہ اثرات کو قبول کیا جاتا ہے اور یہ حقیقی معنوں میں Proving کہلاتی ہے.ان مختلف Proving کرنے والوں کی ذہنی افتاد اور جسمانی ساخت کی مختلف تفاصیل بھی درج کی جاتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے الگ الگ اثرات کو بھی مرتب کر لیا جاتا ہے.مثلاً ایک دوا ایک موٹے آدمی پر زیادہ اثر دکھاتی ہے اور سو کھے پر کم.یا اس کے برعکس معاملہ ہوسکتا ہے.ایسی صورت میں یہ لکھا جائے گا کہ یہ دوا اکثر موٹے آدمیوں پر اثر کرتی ہے اور شاذ کے طور پر پہلے آدمیوں پر بھی وغیرہ وغیرہ.اپنے اس تجربہ کے دوران وہ ایک دوسرے سے کوئی مشورہ نہیں کرتے.نہ ہی ان کو یہ علم ہوتا ہے کہ کس نباتاتی یا معدنی مادہ کا محلول بنا کر ان پر تجربہ کیا جارہا ہے نیز اس تجربہ کو مختلف موسموں میں بھی دہرایا جاتا ہے.اس طریق پر اس تجرباتی محلول کے جو اثرات ذہن اور جسم پر پڑتے ہیں، تجربہ کرنے والا احتیاط سے ان کو مرتب کرتا ہے.سب تجارب کا تجزیاتی مطالعہ کرنے کے بعد فیصلہ کیا جاتا ہے کہ اس دوا کے کیا اثرات ہیں.ڈاکٹر ہانیمن نے ان تجارب کی روشنی میں سب سے زیادہ اہمیت ذہنی علامتوں کو دی ہے.اگر کسی خاص ذہنی افتاد کے مریض پر کوئی دواز یادہ اثر کرتی ہے تو ویسی ہی ذہنی افتاد کے دوسرے شخص پر بھی ویسا ہی اثر دکھائے گی لیکن جسمانی ساخت کے ایک جیسے ہونے کے باوجود یہ دستور بسا اوقات صادق نہیں آتا.دوا بنانے کا طریق ہومیو پیتھی میں دوا بنانے کے دو طریق ہیں.سب سے پہلے دوا کے اصل جز وکو الکحل میں ملا کر کچھ عرصہ کے لئے رکھا جاتا ہے پھر اسے چھان لیا جاتا ہے.اس پہلی حالت کو پوٹینسی نہیں کہتے.یہ محلول
دیباچه 10 مدر ٹیچر (Mother Tincture) کہلاتا ہے.کئی دواؤں کو مدرٹنکچر میں ہی استعمال کیا جاتا ہے.مثلاً جگر کی بیماری میں کارڈس میر یانس (Cardaus Marianus) مدر (Cardaus Marianus) مدرنیچر ہی استعمال ہوتی ہے.اگر اس کے آٹھ دس قطرے تھوڑے سے پانی میں گھول کر پلائی تو یہ دوا جگر کی بہت سی بیماریوں میں مفید ثابت ہوتی ہے.آپ جب بھی کسی ہو میو دوا کے ساتھ Q لکھا ہوا پائیں تو وہ مدر ٹیچر ہی کا نشان ہوگا.مدر ٹنکچر سے ہومیو دوا بنانے کا عام طریق یہ ہے کہ الکحل یا مقطر پانی (Distilled Water) کے 100 قطرے ایک شیشی میں ڈال لیں اس میں صرف ایک قطرہ کسی دوا کی مدر نگچر کا ڈال کر اس کا ڈھکنا بند کر کے دوبار زور دار جھٹکا دیں جس سے وہ قطرہ تمام محلول میں اچھی طرح گھل کر ایک جان ہو جائے.جو دوا اس سے تیار ہوگی اس کو ایک پوٹینسی یا ایک طاقت کہیں گے.مثلاً اگرا یکونائٹ مدرٹنکچر کا ایک قطرہ تقریباً 100 قطرے محلول میں ڈال کر دو چار زور دار جھٹکے دیں تو اسے ایکونائٹ 1“ کہیں گے.اس ایکونائٹ 1 کی طاقت بڑھانا مقصود ہو تو پھر اس کا صرف ایک قطرہ کسی محلول کے تقریباً 100 قطروں میں ملا دیں اور زور دار جھٹکے دیں تو جو دوا تیار ہوگی اسے ایکونائٹ 2 کہیں گے.ایکونائٹ 2 کا ایک قطرہ لے کر وہی عمل دہرائیں کہ محلول کے سو قطروں میں اسے ملا کر جھٹکے دیں تو ایکونائٹ 3 تیار ہو جائے گی.اسی طرح 30 بار کریں توا یکونائٹ 30 طاقت تیار ہوگی.ہم جو روز مرہ ہومیو دوائیں استعمال کرتے ہیں وہ اسی طرح بنائی جاتی ہیں اور ان کی طاقت کے ساتھ لفظ ”“ لکھا جاتا ہے.”‘ کا صرف یہ مطلب ہے کہ دوا کی ہر پوٹینسی میں اس کی نچلی طاقت سے ایک قطرہ لے کر 100 قطرے محلول میں ملایا گیا ہے.اگر ہر بار محلول کے 100 قطروں کی بجائے صرف دس قطرے لے کر ان میں مدد نیچر کا قطرہ ڈالیں اور اس عمل کو اسی طرح دہراتے رہیں تو ہر بار جو دوا تیار ہو گی اس کی طاقت کے سامنے ”D “ لکھا جائے گا.”D “ اس کے عدد کو ظاہر کرتا ہے.بائیو کیمک
دیباچہ 11 دوا ئیں اسی طریق پر محلول کی بجائے ایک قسم کے ہلکے میٹھے سے تیار کی جاتی ہیں.مثلاً مدر ٹیچر ایک قطرہ لے کر دس گنا Dextrose میں جو پھلوں سے تیار کردہ میٹھے کی بہت ہلکی قسم ہے خوب اچھی طرح پیس کر اسے یکجان کر دیں.بعض دوا ساز مدرٹنکچر کی بجائے اصل زہر کا جس سے دوا تیار کرنا مقصود ہو ایک چھوٹا سا ذرہ دس گرام Dextrose میں ملا دیتے ہیں اور اسے اچھی طرح گھوٹ کر ملا دینے کے بعد جو دوا بنتی ہے اسے 1X کہتے ہیں.جب اس میں سے ایک گرام لے کر اسے مزید دس گرام Dextrose میں خوب پیس کر یک جان کر دیں تو یہ 2X دوا بن جائے گی.اس 2X میں سے ایک گرام لے کر دس گرام Dextrose میں اسی طریق پر اچھی طرح ملا کر یکجان کر دیں تو یہ 3X پوٹینسی بن جائے گی.غرضیکہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ دوا کی طاقت بڑھ رہی ہے تو ہرگز یہ مراد نہیں ہوتی کہ اصل زہر کی طاقت بڑھ رہی ہے نہیں ، بلکہ ہر دفعہ جب اصل زہر کی طاقت کم ہو کر سوواں حصہ رہ جاتی ہے تو جو د وابنتی ہے اس کی ایک طاقت بڑھ جاتی ہے.اسی طرح بائیو کیمک دوا کا حال ہے.ہر دفعہ اصل زہر دسواں حصہ کم ہوتو بائیو کیمک دوا کی ایک طاقت اونچی ہو جائے گی.ہومیو پیتھک دواؤں کے ساتھ عام طور پر C لکھنے کا رواج نہیں رہا بلکہ 1-2-3یا30-200 وغیرہ لکھا جاتا ہے.چونکہ دنیا میں یہ معروف ہو چکا ہے اس لئے C لکھنے کی ضرورت نہیں سمجھی جاتی.لیکن بعض ملکوں میں بعض کمپنیاں اپنی بنی ہوئی دواؤں کے ساتھ ” یا ”D وغیر وضر و لکھتی ہیں لیکن بائیوکیمک دواؤں کے ساتھ ”X“ لکھنے کا رواج ہر جگہ اسی C‘یا “ ضرو 66 طرح قائم ہے.بائیو کیمک دواؤں کے ساتھ آپ ہمیشہ 1.12X.6X.3X.2X وغیرہ لکھا ہوا دیکھیں گے.اگر ایک ہزار طاقت ہو تو انگریزی میں وہ 1M کہلائے گی.10M لکھا جائے تو دس ہزار طاقت ہوگی.اگر ایک لاکھ طاقت بنائی گئی ہو تو اسے CM کہتے ہیں.
دیباچه 12 ہومیو پیتھک ادویہ کا استعمال روز مرہ علاج میں یہ بات یاد رکھیں کہ وہ مریض جو گہری اور دیرینہ بیماریوں میں مبتلا ہیں مثلاً دمه، مرگی وغیرہ.انہیں سرسری نسخہ دنیا درست نہیں بلکہ وقت نکال کر ایسے مریضوں کا تفصیلی انٹرویوں لینا چاہیے اور بیماری کے متعلق تمام باتیں پوچھ کر ان کی مزاجی دوا تلاش کرنی چاہیے.بہت سے مریض ایسے بھی ہیں جنہیں میں نے ان کی بیماری سے متعلق معرف دوائیں اور ٹکسالی کے نسخے دیئے مگر انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوا.لیکن جب مریض کو سامنے بٹھا کر اس کی تفصیلی علامتیں معلوم کیں اور بیماری کو بھلا کر صرف علامتوں کو دیکھا تو تشخیص کردہ دوا نے حیرت انگیز طور پر کام کیا.مثلا مرگی کے مریضوں میں بیماری کے حملہ کے آغاز پر ہونے والا اورا (Aura) الگ الگ ہوتا ہے اور اس کی علامات مختلف ہوتی ہیں.بعض دوائیں ایسی ہیں جن کا مرگی کے مرض میں ذکر نہیں ملتا.مثلاً ایک مریض کو سر میں شور محسوس ہوتا تھا اور شور سے چوٹ سی لگتی تھی جس سے اسے وحشت ہوتی تھی اور نیند نہیں آتی تھی.سر اور دل شکنجے میں جکڑا ہوا محسوس ہوتا تھا.اسے میں نے کیکٹس (Cactus) دی تو اس کی کایا پلٹ گئی اور وہ آرام سے سونے لگا.اور اسے مرگی کے مرض سے نجات مل گئی.جبکہ کیکٹس کا مرگی کی دواؤں میں کوئی ذکر نہیں.ایسے مریضوں کو جن کا اور ا سر میں، ہوا نہیں چند دن زیر نظر رکھ کر ان کے لئے نسخہ تجویز کرنا چاہیے.سر تمتما اٹھے اور خون کا دباؤ بہت بڑھ جائے تو وہاں کیکٹس دینی چاہیے.اسی طرح بعض اور بیماریوں میں مثلاً پتے کی تکلیف میں مریض کی ساری علامتیں دیکھنی چاہئیں.اس سلسلہ میں بہت سی دوائیں کام دے سکتی ہیں.ایک دفعہ میں نے ایک مریض کو پتہ کے درد کے لئے تمام معروف دوائیں دیں لیکن اسے فرق نہیں پڑا.وقت نکال کر جب اس کی عمومی علامات کا جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ کسی نفسیاتی اور اعصابی دباؤ کی وجہ سے اس کا اعصابی نظام درہم برہم ہو
دیباچه 13 گیا ہے.دراصل وہ سپیا (Sepia) کا مریض نکلا اور سپیا دینے پر اس کی آنکھیں کھل گئیں.درد جاتارہا اور وہ بالکل ٹھیک ہو گیا.اس سے پتہ چلتا ہے کہ ضدی بیماریوں میں لازماً مریض کو سامنے بٹھا کر اسکی تفصیلی چھان بین ہونی چاہیے.ایک دفعہ ایسا ہی تجربہ مجھے گردے کے ایک مریض کے بارہ میں ہوا.میں اسے مرض کے حاد حملے کو فوراً روکنے کے لئے ایکونائٹ اور بیلاڈونا کا مشہور نسخہ دیتا رہا لیکن اسے کوئی فائدہ نہیں ہوا.اس وقت مجھے خیال آیا کہ میں اسے وہ دوائیں دے رہا ہوں جو تب کام آتی ہیں جب مریض کو گرمی نقصان پہنچائے اور ٹھنڈ سے فائدہ ہو.اس مریض کو گرم غسل لینے سے شدید تکلیف پہنچتی تھی.میں نے اس بات کو پیش نظر رکھ کر جب اس کو میگنیشیا فاس اور کولو سنتھ ملا کر دیں تو وہ دیکھتے دیکھتے ہی ٹھیک ہو گیا.ہومیو پیتھی میں کوئی بھی ٹکسالی کا نسخہ ہمیشہ نہیں چل سکتا.سب سے اہم بات یہ ہے کہ کچھ دیر کے لئے بیماری کو بھول کر مریض کو دیکھ کر اس کی ذاتی علامتوں کو پیش نظر رکھیں.گرمی اور سردی کی دوائیں ذہن میں الگ الگ رکھنی چاہئیں.اس کا بہت فائدہ ہوتا ہے.مثلاً اگر مریض کی طبیعت گرم ہے تو اسے ٹھنڈی دوا ئیں دینے سے فائدہ کی بجائے نقصان ہوتا ہے.مریض کے مزاج کے رخ اچھی طرح ذہن میں رکھنے چاہئیں کہ کون سا ایسا مریض ہے جس کو گرمی نقصان پہنچاتی ہے یا سردی سے تکلیف بڑھتی ہے یا حرکت نقصان پہنچاتی ہے اور آرام سے تکلیف بڑھتی ہے.اگر یہ چیزیں ذہن نشین ہوں تو مریض سے بات کرتے ہوئے مرض سے ہٹ کر مریض کی طرف توجہ دی جاسکتی ہے.اگر روز مرہ کی مصروفیت کی وجہ سے وقت نہ ملے تو مرض کے حوالے سے دوائیں دی جاتی ہیں.میں بھی ہمیشہ وقت کی کمی کی وجہ سے ایسے ہی نسخوں کی تلاش میں رہا جن سے جلد فائدہ ہو جائے.لمبے تجربے کے پیش نظر احتیاط سے بنائے ہوئے یہ نسخے کام اکثر صورتوں میں آجاتے ہیں لیکن جو مریض باقی رہ
دیباچه 14 جائیں ان کے بارہ میں مذکورہ بالا طریق اختیار کرنا لازم ہے.عام طور پر ہومیو پیتھ اس فلسفے کو قبول کرتے ہیں کہ ہو میو پیتھی کی ایک دوائی کو دوسری میں نہ ملایا جائے.میں بھی شروع شروع میں ایسا ہی کرتا رہا.مگر پھر مجھے یہ طریق بدلنا پڑا.اس کی وجہ میری یہ مشکل تھی کہ ایک دوا کی پہچان کے لئے جتنا وقت چاہیے.مجھے وہ وقت اکثر میسر نہیں آتا تھا.ربوہ کے قیام کے دوران میرا اصل کام جو جماعت کی طرف سے سپر در ہایا وقف جدید کا کام تھا یا انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ وغیرہ کا.اس طرح انجمن اور تحریک جدید کمیٹیوں میں بیٹھنے کے لئے بھی وقت نکالنا پڑتا تھا اور ان سب مصروفیات کے علاوہ میں وقف جدید کیدفتر میں ہی شام کو ہومیو پیتھک ڈسپنسری بھی کھولتا تھا جہاں بعض دفعہ سوسو مریض آجایا کرتے تھے یہ ڈسپنسری ابتدا میں گھر پر چلتی تھی جس کے لئے زیادہ تر مغرب اور عشاء کے درمیان وقت میسر آتا تھا.یہ مصروفیات مجھے مجبور کرتی تھیں کہ اپنے علم اور تجربات کی روشنی میں ایسے مرکبات بنالوں جو اکثر مریضوں کیلئے کارآمد ثابت ہوں.جن کو فائدہ نہ ہو انہیں متبادل مرکبات دیا کرتا تھا اور آخر پر جو چند مریض رہ جاتے تھے ان کا علاج مذکورہ بالا طریق پر کرتا تھا.پس مرکب بنانے پر مجبور ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے.دوسری وجہ یہ ہے کہ ہومیو پیتھک طریقہ علاج تو دن بدن نئی دواؤں سے مزین ہو رہا ہے اور ایسی دوائیں دریافت ہورہی ہیں جو سابقہ دواؤں سے بہتر اثر دکھاتی ہیں یا سابقہ دواؤں میں ان مریضوں کا علاج ہی نہیں.اس لئے جب مرکبات بنائے جاتے ہیں تو دراصل ایک نئی دودا وجود میں آتی ہے.کیونکہ اکثر دوائیں جو پہلے استعمال ہو رہی ہیں وہ قدرتی مرکبات ہی تو ہیں.مثلاً نکس وامیکا کو ایک دو کہنا اس لئے درست نہیں کہ نکس وامیکا تو بہت سی دواؤں کا قدرتی طور پر بننے والا ایک مرکب ہے.پس میں ہمیشہ اپنے بنائے ہوئے مرکبات پر اس پہلو سے غور کرتا ہوں کہ آخری نتیجہ کے طور پر ان کی کون سی علامات قابل اعتبار ہیں اور ہر گز ضروری نہیں کہ ہر دوا جو اس مرکب میں شامل ہو اس کی تمام
دیباچه 15 علامات مرکب میں بھی موجود ہیں کیونکہ دوائیں ایک دوسرے کے اثر کو اندر ہی اندر زائل بھی کرتی رہتی ہیں اور آخری صورت میں بعض دفعہ بالکل مختلف تاثیر بھی ظاہر ہوتی ہے.وائرس (Virus) وائرس (Virus) اپنے ارتقاء میں سب سے تیز ہے.کوئی اور چیز اتنی تیزی سے شکلیں بدلتی نظر نہیں آتی جتنی وائرس ہے.اگر ہومیو پیتھک طریق پر صحیح دوا دے کر اسے ختم نہ کیا جا سکے تو اینٹی بائیوٹک دوا دینے سے جو وائرس کی قسم مرے گی اس کے بدلے پہلے سے زیادہ خطرناک ایک نی قسم پیدا ہو جائے گی اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے کینسر میں بھی تبدیل ہوسکتا ہے.ایک عام اصول یہ عام اصول یا درکھیں کہ جہاں عوارض مزمنہو چکے ہوں یا اس نوعیت کے ہوں کہ بہت آہستہ آہستہ بڑھ کر انہوں نے نظا جسم پر قبضہ کیا ہو ان کے علاج کے لئے ایسی دواؤں کی ضرورت پڑتی ہے جس کے مزاج میں آہستگی پائی جاتی ہے اور وہ لمبے عرصہ تک استعمال کرتے رہنے پر آہستہ آہستہ اپنا اثر دکھاتی ہیں.دیرینہ بیماریوں میں جو دوائی تجویز کریں وہ چھ ماہ ، سال تک دیتے رہیں.پہلے کچھ عرصہ 30 طاقت میں دیں.پھر جب وہ اثر بند کر دے تو 200 میں شروع کردیں.ہفتہ دس دن میں ایک دفعہ اور اس کے بعد پھر مہینے میں ایک دو بار 1000 میں دیتے رہیں.پھر آخری خوراک (Dose) ایک لاکھ میں دے کر چھ مہینے یا سال کے بعد اسے دہرا کر علاج بند کر دیں اور اس کے رفتہ رفتہ ظاہر ہونے والے اثرات کا بغور مطالعہ کریں.طاقت (Potency) پوٹینسیوں کی بحث ایک الگ مضمون ہے.اس میں بہت سائنٹیفک طور پر ریسرچ ہوئی ہے کہ
دیباچه 16 کس قسم کے مریضوں اور اور بیماریوں میں کون کون سی پوٹینسیاں استعمال ہونی چاہئیں.معدے کی تکالیف میں نسبتاً چھوٹی پوٹینسیاں زیادہ اثر کرتی ہیں.اعصابی تکالیف ہوں تو 200 یا زیادہ اونچی طاقتوں کی ضرورت پیش آسکتی ہے.گہری نفسیاتی بیماریوں میں بڑی پوٹینسی میں فائدہ ہوتا ہے.کینسر کی بعض قسموں میں زیادہ اونچی طاقت دینی پڑتی ہے.لیکن بعض مریضوں کی حالت اتنی بگڑ چکی ہوتی ہے کہ ان کو اونچی طاقت دینا ان کے لئے زہر ثابت ہوتا ہے.ہلے رفتہ رفتہ ان کی جسمانی حالت کو اعتدال پر لانے کی کوشش کرنی چاہیے اور مناسب غذا اور وٹامنز کے استعمال سے بھی استفادہ کرنا چاہیے.جب مریض میں رد عمل برداشت کرنے کی طاقت پیدا ہو جائے تو پھر میں طاقت سے علاج شروع کر کے طاقتوں کو تدریجا بڑھایا جا سکتا ہے.ایک دوسرے کی دشمن دواؤں کو کبھی اکٹھا نہیں دینا چاہیے یہ تو تیز گرم چائے میں آئس کریم ملانے والی بات ہے.اگر چہ کینٹ نے بعض دواؤں کے استعمال میں لاکھ طاقت سے بہت ڈرایا ہوا ہے.ان میں خصوصیت سے سلیشیا (Silicea) شامل ہے حالانکہ سلیشیا کو ایڈز اور بعض قسم کے کینسرز میں میں نے لاکھ سے نیچے ہزار تک کی طاقتوں میں مفید ہی نہیں پایا.ہومیو پیتھی میں اگر دی گئی دوا کا اثر نمایاں نہ ہو تو دو ہی طریقے ہیں.یا تو دواد ہرادی جائے اور جب دیکھیں کہ بار بار دہرانے سے بھی اثر نہیں ہوتا تو تجربتا اونچی پوٹینسی دے کر دیکھ لینا چاہیے.دوسرا طریق یہ ہے کہ پوٹینسی وہی رہنے دی جائے اور بیچ میں ایسی دوا دی جائے جور د عمل کو بحال کر دے.سل کے مریضوں کو سلفر اونچی طاقت میں دینے سے لازماً احتراز کرنا چاہیے.ان کا علاج ہمیشہ چھوٹی طاقتوں سے شروع کرنا چاہیے.ہومیو پیتھک دوا کی خوراک (DOSE) پوچھتے ہیں کہ کوئی ہو میو پیتھی دو دن میں کتنی دفعہ اور کتنی مقدار میں کھانی چاہیے؟ اس مسئلے
دیباچہ 17 پر ہومیو پیتھ آج تک متفق نہیں ہو سکے.ہر ایک اپنے تجربے کے مطابق مختلف طریق استعمال کرتا ہے.میں نے اپنی کتاب میں ہر جگہ اپنے تجربہ کے مطابق ہی کارآمد طاقتیں تجویز کی ہیں اور مختلف ہومیو پیتھس کے تجارب کے پیش نظر ان کی کتابوں میں مذکور طاقتوں کا بھی ذکر کر دیا ہے.اور یہ بات معالج پر کھلی چھوڑ دی ہے کہ وہ جو طریق چاہے اختیار کرے.جن طاقتوں کے مؤثر ہونے پر میں خود شاہد ہوں ان کو استعمال میں لانے والے شاذ کے طور پر ہی ان سے استفادہ کرنے سے محروم رہیں گے.سوائے اس کے کہ وہ ان دواؤں کو اس طاقت میں استعمال کریں جو ان مریضوں کے مناسب حال نہ ہو.ہومیو پیتھک ادویات کی مقدار اتنی اہم نہیں ہوتی.مریض چند گولیاں کھائے یا زیادہ کھائے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا.البتہ کوئی دوائی جتنی دفعہ کھائی جائے اس سے ضرور فرق پڑتا ہے.ہومیو پیتھی دوا ایک دفعہ کھانے کو ایک سٹرائیک (Strike) کہا جاتا ہے.دوا کے منہ میں ڈالتے ہی جس میں اس کا رد عمل شروع ہو جاتا ہے.اور دن رات میں جتنی بار یہ دوائی کی جائے گی ہر دفعہ تحریک کا اعادہ کرے گی.بعض ہومیو پیتھک معالجین اصرار کرتے ہیں کہ دوا ہاتھ کی بجائے کاغذ پر ڈال کر کھانی چاہیے ور نہ اس کا اثر ضائع ہو جائے گا.حالانکہ عام طور پر ہاتھ منہ سے زیادہ صاف ہوتے ہیں اور منہ میں کئی قسم کی آلائشوں کی تہیں چڑھی ہوتی ہیں.اگر منہ دوا کے اثر کو قبول کر سکتا ہے تو پھر ہاتھ پر ڈال کر کھانے سے کیا فرق پڑ سکتا ہے.اگر کاغذ پر ڈالی جائے تو کاغذ پر بھی تو آلودگی ہوتی ہے.عام خوردنی نمک کی ہومیو پیتھک پوٹینسی کو نیٹرم میور (Natrum Mur) کہا جاتا ہے.منہ میں پہلے ہی اتنی مقدار میں نمک موجود ہوتا ہے کہ اس کی ہومیو پیتھک خوراک کھائی جائے تو ایسا ہی ہے جیسے نمک کی کان میں نمکین پانی کا معمولی سا قطرہ ڈال دیا جائے لیکن اس کے باجوداثر ہوتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے
دیباچه 18 کہ اس اثر کا مادی ذرات سے تعلق نہیں ہوتا.دوا بناتے ہوئے جب محلول سے اصل مادہ بالکل غائب ہو جاتا ہے تو اس کے اندر محض اس کی ایک یا دسی باقی رہ جاتی ہے جو منہ یا خون میں شامل ہو کر اپنا اثر ضرور دکھاتی ہے اور روح اس پیغام کو سمجھ لیتی ہے.در اصل خدا تعالیٰ نے یاد کا ایک ایسا نظام بنارکھا ہے کہ وہ بھی نہیں ملتا.یہ ایک روحانی نظام ہے جس کا مادے سے بھی ایک تعلق ہے.دوا کب کھائی جائے دوا کھانے میں یہ احتیاط لازم ہے کہ کھانے معا پہلے یعنی آدھے گھنٹے تک اور آدھے گھنٹے بعد تک نہ کھائی جائے تو بہتر ہے.اگر اس وقفہ سے کم میں بھی کھانی پڑے تو کچھ نہ کچھ اثر ضرور دکھائے گی لیکن دوا کا بہترین وقت خالی پیٹ کا ہے.اگر فوری ضرورت پیش آئے تو پھر کسی بھی وقت ہو میو دوائی لی جاسکتی ہے.نہارمنہ یارات کے کھانے کے دو دچار گھنٹے بعد دواکھانا بہر حال بہتر ہے.مریض کی خوراک ہومیو پیتھی طریق علاج میں خوراک کے بارے میں کوئی خاص پابندی نہیں ہے کہ کیا کھایا جائے اور کیا نہ کھایا جائے.ہومیو پیتھی دوائیں ہر قسم کی خوراک کھانے کے باوجود مکمل اثر دکھاتی ہیں اور کسی قسم کا خلل واقع نہیں ہوتا.لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر مریض کو ایسی غذا کے استعمال سے پر ہیز کرنا چاہیے جس سے اس کی تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہو اورہ اس کے مزاج سے موافقت نہ رکھتی ہو.اس کا فیصلہ طبیب سے بڑھ کر مریض خود کر سکتا ہے.ہو میو پیتھک دواؤں کو محفوظ رکھنے کا طریقہ ہومیو پیتھک دوائیں لمبے عرصہ تک خراب نہیں ہوتیں.سوسال سے زائد مدت تک بھی پڑی
دیباچہ 19 رہیں پھر بھی اثر دکھاتی ہیں.لیکن عموماً انہیں معتدل درجہ حرارت پر خشک جگہوں پر رکھنا چاہیے.شیشیوں کے ڈھکنے اچھی طرح سے بند ہوں.درجہ حرارت بڑھنے سے عموماً دوا خراب نہیں ہوتی لیکن اگر دو انکلچر کی صورت میں ہو اور شیشی کے ڈھکنے کو احتیاط سے بند نہ کیا گیا ہو تو درجہ حرارت بڑھنے سے دوا سوکھ جاتی ہے.اگر شیشی بالکل خشک ہو جائے تو تازہ دوا بنانی چاہیے لیکن ایک قطرہ بھی موجود ہو تو اس میں دوبارہ محلول ڈال کر اسے بھر سکتے ہیں.اس طرح دوا کی پوٹینسی ایک درجہ زیادہ ہو جائے گی یعنی 30 سے 31 یا200 سے 201 لیکن عموماً اس کے اثر میں کوئی فرق نہیں پڑے گا.ہومیو پیتھی دواؤں کے بارے میں یہ احتیاط لازم ہے کہ انہیں براہ راست دھوپ میں نہ رکھا جائے کیونکہ سورج کی شعاعوں سے ان دواؤں کا اثر زائل ہوسکتا ہے.اگر دوا کی خالی شیشیاں دوبارہ استعمال میں لانی ہوں تو انہیں پانی میں ابال کر خشک کر کے دھوپ میں رکھ دیں تا پہلی دوا کے تمام اثرات مٹ جائیں.سب دواؤں کو الگ الگ شیشیوں میں رکھنا چاہیے.اگر چہ بعض دواؤں کے نسخے بنا کر رکھنے سے اثر کلیتا زائل تو نہیں ہوتا لیکن وہ دوائیں جو ایک دوسرے کے اثر کو زائل کر دیں اور آپس میں ہم مزاج نہ ہوں انہیں الگ الگ رکھنا ضروری ہے.ضرورت کے مطابق تازہ مکسچر بنایا جائے تو بہتر ہے به نسبت اس کے کہ مکسچر بنا کر رکھا جائے.دوا کو حتی الامکان تیز خوشبو کے اثرات سے بچا کر رکھنا چاہیے خصوصاً کافور کی خوشبو تو اکثر ہومیو پیتھی ادویہ کے اثر کو زائل کر دیتی ہے.اگر کمرے میں خوشبو یا تیز دوا کا سپرے کیا گیا ہو تو جب تک اس کا اثر زائل نہ ہو جائے مائع ہو میو پیتھک دواؤں کی شیشیاں نہ کھولی جائیں.الیکٹرولائٹ (Electrolyte) خون کا وہ سیال مادہ جس میں سرخ اور سفید ذرے معلق رہتے ہیں اسے پلازما کہتے ہیں.اس
دیباچہ 20 میں بارہ نمکیات ہوتے ہیں جنہیں الیکٹرولائٹ کہتے ہیں.ایک نظریہ یہ ہے کہ ان نمکیات کے توازن کے بگڑنے کا نام بیماری ہے.یہ نظریہ بائیو کیمک (Bio-Chemic) نظریہ کہلاتا ہے اور ان کے نزدیک ان بارہ نمکیات کے صحیح استعمال سے ہی ہر قسم کی بیماری قابو میں آسکتی ہے.اس دعوے میں کچھ نہ کچھ صداقت ضرور ہے مگر اس میں کچھ مبالغہ آمیزی سے کام لیا گیا ہے.ہومیو پیتھی اور بائیوکیمی میں فرق بائیوکیمی کا دوسرانام Tissue Remedies 12 ہے.انسانی خون کے نظام میں بارہ کیمیائی مادے(Chemicals) ایک خاص توازن میں پائے جاتے ہیں.اگر یہ توازن بگڑ جائے تو انسان ضرور بیمار پڑ جاتا ہے.قانون قدرت کے مطابق بارہ کیمیائی مادوں کا باہم متوازن ہونا ضروری ہے.یعنی جس مقدار میں اور جس تناسب میں اللہ تعالیٰ نے انہیں خون میں معلق فرمایا ہے وہ تناسب بگڑتے ہی ضرور کسی بیماری پر منتج ہوگا.بعض دفعہ خطرناک بیماریاں ان نمکیات کا توازن بگڑنے سے نہیں پیدا ہوتیں بلکہ بیرونی وجو ہات مثلاً مہلک جراثیم وغیرہ کے حملہ سے پیدا ہوتی ہیں.وہ بیماریاں ان نمکیات کا توازن بگاڑنے کا موجب بن جاتی ہیں جو ایک دفعہ بگڑ جائے تو بیماریوں کو مزید بڑھا دیتا ہے اور بسا اوقات مریض کے لئے جان لیوا ثابت ہوتا ہے.بائیو کیمک طریق علاج میں اس پر بہت تحقیق ہوئی ہے کہ ان کیمیائی مادوں سے بنائی ہوئی بائیو کیمک دوائیں کس کس بیماری اور کس کس قسم کی مضر علامات کو درست کرنے میں مفید ثابت ہوتی ہیں.مثلاً جہاں اکثر اعصابی بیماریوں میں کالی فاس مفید بتائی جاتی ہے وہاں اکثر تشنجی بیماریوں میں میگ فاس مفید بتائی جاتی ہے.بائیو (Bio) کا مطلب ہے زندگی اور کیمک ” کیمیکل کا مخفف ہے.وہ کیمیکل جو زندگی برقرار
دیباچه 21 رکھنے کے لئے ضروری ہیں، ان میں ایک دوا سلیشیا ہے جو کسی کیمیائی مرکب سے نہیں بلکہ سلیکون (Silicon) سے بنتی ہے جو زمین کا ایک عالمگیر جزو ہے اور ہر مٹی میں پایا جاتا ہے انسانی جسم پر سلیشیا کا زیادہ تر اثر اس طرح ہوتا ہے کہ یہ ہر بیرونی حملے کے خلاف جسم کو متحرک کر دیتی ہے.اسی دوا سے اونچی طاقت کی ہو میو پیتھک دوائیں بھی بنائی جاتی ہیں.صرف سلیشیا پر ہی بس نہیں تمام بائیو کیمک ادویہ X طاقت کے علاوہ C طاقت میں یعنی روز مرہ استعمال ہونے والی ہو میو طاقت میں بھی بنائی جاتی اور کامیابی سے استعمال ہوتی ہیں.بعض معالج سمجھتے ہیں کہ بائیو کیمک دواؤں کی حدود کے اندر رہتے ہوئے وہ ہر بیماری کا علاج کر سکتے ہیں اس لئے یہ ہو میو پیتھی طریق علاج کی ایک الگ شاخ بن گئی ہے جب کہ ہومیو پیتھک معالج سینکڑوں ہومیو پیتھک دواؤں کے علاوہ بائیو کیمک دوائیں بھی استعمال کرتے ہیں.کسی بیماری کے پیدا ہونے کیلئے ہر گز ضروری نہیں کہ پہلے خون میں موجود بارہ نمکیات کا توازن بگڑے تو اس کے نتیجے میں کوئی بیماری لگے.ہزاروں بیماریاں ایسی ہیں جو نمکیات کے توازن سے بے نیاز الگ محرکات اور وجوہات سے پیدا ہوتی ہیں.مثال کے طور پر ٹائیفائیڈ اور پولیو بیرونی جراثیم کے حملے سے ایسے شخس کو بھی لاحق ہو جاتے ہیں جس کا نمکیات کا نظام متوازن ہوتا ہے.اگر دوسری ہومیو دواؤں سے ٹائیفائیڈ اور پولیو کا صحیح علاج کیا جائے اور اعصاب میں زندگی کی کچھ رمق باقی ہو تو زندگی ان کے خلاف دفاع شروع کر دیتی ہے اور رفتہ رفتہ بیماری کے اثرات مٹنے لگتے ہیں.ایک تنبیہ ایک امر سے میں یہاں تمام معالجین کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ بائیو کیمک ادویات کا مسلسل استعمال خون کا وقتا فوقتا تجزیہ کرائے بغیر انتہائی خطرناک نتائج کا حامل بھی ہوسکتا ہے اور ان کا اندھا دھند استعمال نمکیات کا توازن درست کرنے کی بجائے انہیں حد سے زیادہ بگاڑ بھی سکتا ہے.ایسی
دیباچه 22 مثالیں موجود ہیں کہ بائیو کیمک کے ٹانک استعمال کرنے سے بعض بچوں کو بلڈ کینسر ہو گیا اور وہ سنبھالے نہیں سنبھلے.یہ خطرات بڑے گہرے ہیں.ایک غلطی کا ازالہ ہومیو پیتھک دواؤں کے بارے میں یہ خیال کہ یہ بالکل بے ضرر ہیں یعنی ان کے غلط استعمال سے بھی نقصان نہیں پہنچ سکتا، درست نہیں ہے.اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کسی اناڑی اور بیوقوف کے ہاتھ میں بہت تیز رفتار کار آجائے تو باوجود اس کے کہ وہ کا ر حفاظتی نقطہ نگاہ سے بہت ماہرانہ طریق پر بنائی گئی ہو ایک اناڑی کے ہاتھ میں نہایت خطرناک ثابت ہو سکتی ہے.ایلو پیتھک معالج کتنے بھی سمجھدار کیوں نہ ہوں، ان کی یہ مجبوری ہے کہ ان کی دوائیں ایک مرض کو تو دور کر دیتی ہیں مگر دوسرا پیدا کر دیتی ہیں.مرزا طاہر احمد
دیباچه 23 اس نئے ایڈیشن کے متعلق کچھ ضروری باتیں جب انگلستان میں پہلی بار ہومیو پیتھی کلاس کا آغاز کیا گیا تو بنیادی مقصد یہ تھا کہ مسلم ٹیلی ویژن احمد یہ (MTA) کے ذریعہ جوں جوں اس ٹیلی ویژن کا دائرہ کار دنیا میں پھیلتا چلا جائے، دنیا بھر میں ہو میو پیتھی کی ترویج ہو سکے.شروع میں اس کلاس کیلئے جو شاگر دسٹوڈیو میں اکٹھے کئے گئے ان میں چند ایک ایلو پیتھک ڈاکٹر اور ہومیوڈاکٹر بھی شامل تھے مگر یہ معدودے چند تھے.بھاری اکثریت ایسے طلباء اور طالبات کی تھی جن کو ہو میو پیتھی تو در کنار دنیا کے کسی علم طب کی الف ب بھی نہیں آتی تھی اور اکثر کو سائنس کی بھی کوئی سدھ بدھ نہیں تھی.میرے لئے یہ بہت بڑا چیلنج تھا کہ میں ہو میو پیتھی کو اس طریق پر پڑھاؤں کہ رفتہ رفتہ ہومیو پیتھک فلسفہ کے علاوہ ہومیو پیتھک دواؤں کے متفرق اثرات اور مریضوں اور مرضوں کی شناخت کے طریق وغیرہ سے ان سب کو اچھی طرح آگاہ کر سکوں.اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے مجھے یہی ترکیب سجھائی دی کہ شروع سے لے کر آخر تک ہر دوا کے ذکر میں بار بار تفصیل کے ساتھ نہ صرف اس دوا کا ذکر کروں بلکہ ملتی جلتی تمام دواؤں کا ذکر بھی اسی باب کے تحت کر دوں.اسی طرح مریضوں کی نوعیت کے متعلق بھی تفصیل سے روشنی ڈالوں اور مختلف امراض کے لئے بض نسخے چٹکلوں کے طور پر تجویز کروں جنہیں ہو میو پیتھی کا ایک ابتدائی طالبعلم اپنے روز مرہ کے استعمال میں لاکر ان سے استفادہ کر سکے.اس کا ایک ضمنی فائدہ یہ بھی ہونا تھا کہ میرے طلباء کا ہومیو پیتھی پر یقین بڑھتا چلا جاتا.اس طریق تعلیم کو اختیار کرتے ہوئے میں نے ہر دوا کے ذکر میں نہایت تفصیل کے ساتھ ملتی جلتی دواؤں کا بھی ذکر کیا.ان امراض کی قسموں کا بھی بیان کیا جوان
دیباچہ 24 دواؤں کے زیر اثر ٹھیک ہو سکتی ہیں اور سب دواؤں کے مزاج پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی.غرضیکہ ہر دوا کے ذکر میں اس کثرت سے متفرق امراض اور دیگر دواؤں کا ذکر کرتا رہا کہ ان ابتدائی طالبعلموں کو گویا گھوٹ گھوٹ کر ہومیو پیتھی پلانی پڑی.لیکچرز کے طور پر تو یہ طریق بہت ہی مفید اور کامیاب رہا.لیکن ایک مستقل کتاب کے اندران سب امور کا دہرا نا مناسب نہیں تھا.اس کتاب کے پہلے ایڈیشن کی لفظی مرمت تو میں نے کر دی تھی.ہاں ! اس میں بھی کتابت کی بہت سی غلطیاں رہ گئی تھیں.مگر اس پہلو سے میں سابقہ ایڈیشن کا مطالعہ نہیں کر سکا تھا کہ کتاب کے پڑھنے والے رمذکورہ بالا تکرار کا کیا اثر پڑے گا.جب میں نے اس پہلو سے کتاب کا مطالعہ کیا تو اسے سخت اعصاب شکن پایا.ایک بالکل نیا قاری کتاب کے مصنف کے متعلق یہی رائے قائم کر سکتا ہے کہ مصنف کی یادداشت سخت کمزور ہے اور وہ ان باتوں کو مسلسل ہر باب میں دہراتا چلا جا رہا ہے جو پہلے باب میں بیان ہو چکی تھیں.چونکہ اب میرا ارادہ یہ ہے کہ اس کتاب کو انگریزی اور دنیا کی دیگر اہم زبانوں میں ترجمہ کر کے بکثرت شائع کیا جائے اس لئے یہ نیا ایڈیشن بہت احتیاط سے تیار کیا جا رہا ہے اور حتی المقدور کوشش کی گئی ہے کہ مضمون کی تکرار صرف اتنی رکھی جائے جتنی طبیعت پر گراں نہیں گزرتی بلکہ یادداشت کو تازہ کر دیتی ہے.علاوہ ازیں یہ بھی کوشش کی گئی ہے کہ ملتی جلتی دواؤں کا صرف ان امراض کے تعلق میں ذکر کر دیا جائے جن سے ان کا تعلق ہے.صرف ان کے نام درج ہیں اور بعض جگہ یہ لکھا ہوا ہے کہ جس نے تفصیل دیکھنی ہو وہ ان کے باب میں مطالعہ کر لے.اس طرح کتاب کا حجم تو بہت کم ہو گیا ہے لیکن افادیت کم ہونے کی بجائے بڑھ گئی ہے.اس ایڈیشن کا انڈیکس بھی از سر نو تیار کرنا پڑا ہے اور اس میں دوسری جلد کی دواؤں کو بھی حروف تہجی کے لحاظ سے ترتیب دے کر بیچ میں شامل کر لیا گیا ہے.اس بنا پر بھی نیا انڈیکس تیار ہونا ضروری تھا.بہت خوشکن بات یہ ہے کہ جلد دوم کی دواؤں کو جلد اول میں شامل کرنے کے باوجود کتاب کا حجم بڑھنے
دیباچه 25 25 کی بجائے کم ہو گیا ہے.کتاب کے اس ایڈیشن میں چند رنگین تصاویر کا اضافہ بھی کیا گیا ہے جوان جڑی بوٹیوں یا عناصر کی ہیں جن سے یہ ادویات تیار کی جاتی ہیں.آخر پر قارئین سے گزارش ہے کہ میری بشری کمزوری کی بنا پر لازماً کچھ غلطیاں اس نئے ایڈیشن میں بھی رہ گئی ہوں گی.اس طرح کئی کتابت کی غلطیاں بھی ہوں گی جو عموماً مصنف سے بھی منسوب ہو جاتی ہیں.اس قسم کی سب غلطیوں سے متعلق میں قارئین سے دلی معذرت چاہتا ہوں اور میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ درگزر فرمائے اور یہ کوشش بنی نوع انسان کیلئے ان چند غلطیوں کے باوجود غیر معمولی فائدہ کا موجب بنے.والسلام خاکسار مرزا طاہر احمد
ابراٹینم 1 1 ابراٹینم ABROTANUM ابراٹینم ایک ایسی دوا ہے جس کا نام سنتے ہی انتقال مرض کا مضمون ذہن میں ابھرتا ہے.انتقال مرض کو انگریزی میں میٹاسٹیسز (Metastasis) کہتے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی مرض ایک عضو کو چھوڑ کر کسی دوسرے عضو کی طرف منتقل ہو جائے جیسا کہ عموماً کن پیٹڑوں کی بیماری میں یہ عادت پائی جاتی ہے کہ گلے پر اور کان کے پیچھے جو ابھار پیدا ہوتا ہے وہ وہاں سے دب جاتا ہے اور اعضائے تناسل کی طرف منتقل ہو جاتا ہے.اس کے دینے کی وجوہات مختلف ہیں مثلاً جراثیم کش دواؤں کے استعمال سے یا مقامی طور پر لیپ وغیرہ کرنے کے نتیجہ میں بھی ایسا ہو سکتا ہے اور بعض اوقات بخار کی حالت میں سردی لگ جانا وجہ بن جاتا ہے.وہ سب دوائیں جو انتقال مرض میں کام آتی ہیں اور اسے واپس اپنی پہلی جگہ کی طرف لوٹا دیتی ہیں ان میں ابراٹینم کو نمایاں مقام حاصل ہے.بعض اوقات اسہال کے دب جانے کے نتیجہ میں اچانک جوڑوں کے درد شروع ہو جاتے ہیں اور کبھی دل پر شدید حملہ ہو جاتا ہے.اسی طرح بعض دفعہ عورتوں کا ایامِ حیض کا خون اچانک بند ہو جانے پر ان کو ذہنی یا دوسرے عوارض لاحق ہو جاتے ہیں.انتقال مرض کو ہم مختلف دواؤں کے تعلق میں بار بار بیان کریں گے تا کہ یہ اچھی طرح ذہن نشین ہو جائے اور معلوم ہو جائے کہ کون کون سی دوائیں کس کس انتقال مرض کو درست کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں.اگر کسی مریض کو جوڑوں میں درد کی بیماری ہو مثلا گاؤٹ (Gout) یا وجع المفاصل اور ساتھ ہی دل میں کچھ بے چینی کا احساس پایا جائے جیسے خون دل کو چھیلتا ہوا گزرتا ہو، نیز ایسے مریض کو اگر نکسیر اور پیشاب میں خون آنے کی تکلیف بھی ہو تو اس بات کا
ابراٹینم 2 بھاری امکان ہے کہ یہ مریض ابراٹینم سے شفا پائے گا..ابراٹینم کے بنیادی مزاج میں یہ بات بھی داخل ہے کہ اس کا مریض اسہال کے دوران آرام پاتا ہے کیونکہ وہ فاسد مادے جو جوڑوں کی تکلیف پیدا کرتے ہیں اسہال کے ذریعہ خارج ہوتے رہتے ہیں.پس ایسے مریضوں کے اسہال کا اگر ابراٹینم کے ذریعہ ہی علاج کیا جائے تو رفتہ رفتہ اسہال بھی دور ہو جائیں گے اور جوڑوں میں درد کی شکایت بھی ختم ہو جائے گی.اگر جوڑوں کے درد کسی دوا یا مقامی علاج مثلاً ٹکور وغیرہ سے ٹھیک ہو جائیں اور اسہال لگنے کی بجائے پلوریسی (Pleurisy) یعنی ذات الجنب کی تکلیف شروع ہو جائے جو ملتی جلتی بالمثل دواؤں سے ٹھیک نہ ہو تو ہو میو پیتھ کا فرض ہے کہ وہ یہ تحقیق کرے کہ ذات الجنب کی تکلیف شروع کیسے ہوئی تھی.اگر اس سے پہلے جوڑوں کے درد پائے جاتے تھے جن کے ٹھیک ہونے کے بعد پلوریسی شروع ہوئی تو لازماً ابراٹینم ہی اس مریض کی دوا ہوگی.اس کا پہلا اثر تو یہ ہوگا کہ پلوریسی کے ٹھیک ہونے پر ضرور کسی نہ کسی جوڑ میں تکلیف دوبارہ شروع ہو جائے گی.اس کا علاج مسلسل ابراٹینم سے ہی جاری رکھنا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے چاہا تو اسی دوا سے جوڑوں کے درد بھی ٹھیک ہو جائیں گے.یہ دوا بچوں کے سوکھے پن کی بیماری میں بھی بہت مفید ثابت ہوتی ہے لیکن محض اس صورت میں جب اس کی مخصوص علامت بچوں میں پائی جائے.سوکھے کے مریض بچوں کے علاج میں ایتھوزا (Aethusa)، نیٹرم میور (Natrum Mur)، اور کلکیریا کارب (Calc.Carb) کو بھی بہت شہرت حاصل ہے.کلکیریا کارب کا سوکھا پن صرف ٹانگوں سے تعلق رکھتا ہے جبکہ ابراٹینم کا سوکھا پن بھی گوٹانگوں سے شروع ہوتا ہے مگر ٹانگوں تک محدود نہیں رہتا اور اوپر کے بدن کی طرف منتقل ہونے لگتا ہے.صرف اسی ایک علامت کا پایا جانا ہی ابراٹینم کی تشخیص کرنے کے لئے کافی ہے.اگر 30 طاقت میں دن میں تین بار د واشروع کروائی جائے تو خدا کے فضل سے یہ کمل شفا کا موجب ہو سکتی ہے.
ابراٹینم 3 اگر جوڑوں کے دردوں کے عوارض بظا ہر ٹھیک ہو جائیں لیکن مریض کا دل بیمار پڑ جائے تو متعلقہ دواؤں کی تلاش میں ابراٹینم کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے.اسہال اچانک بند ہونے کے نتیجہ میں بعض اوقات جوڑوں کے دردوں کے علاوہ خونی بواسیر کی شکایت بھی ہو جاتی ہے.اس کا بھی ابراٹینم سے ہی علاج کیا جائے.ایسے مریض کا عمومی مزاج سردی بہت محسوس کرتا ہے اور تکلیفیں ٹھنڈے اور بھیگے موسم میں بڑھ جاتی ہیں.ایسے مریض کو اکثر کمر درد کی بھی شکایت رہتی ہے جو ہمیشہ رات کو بڑھ جاتی ہے.کمر کا ایسا درد جو رات کے پچھلے پہر یعنی تین چار بجے کے قریب بڑھے وہ ابراٹینم کی نہیں بلکہ کالی کا رب (Kali Carb) کی نشان دہی کرتا ہے.ابراٹینم کا در درات کے کسی معین حصے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ اکثر رات پڑنے پر کمر درد میں اضافہ ہونے لگتا ہے.اگر ایسے مریض میں ابراٹینم کی مرکزی علامت بھی پائی جائے یعنی اس کا ہر مرض اسہال لگ جانے سے ٹھیک ہو جائے تو ایسا کمر درد بھی ابراٹینم سے شفا پا جائے گا.اسہال سے بہتری محسوس کرنے کی علامت کسی حد تک نیٹرم سلف Natrum Sulph) اور زنک (Zinc) میں بھی پائی جاتی ہے لیکن ان کی دوسری امتیازی علامتیں بغیر دقت کے شناخت کی جاسکتی ہیں.ابراٹینم کے در دبعض اوقات تیز اور کاٹنے والے ہوتے ہیں جو جوڑوں کے علاوہ خواتین کی بیضہ دانیوں (Ovaries) پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں.ایسی مریضہ جس کی بیضہ دانی میں اس قسم کے کاٹنے والے درد ہوں اور وہ عموماً جوڑوں کے درد کی بھی شاکی رہے یا رات کو بڑھنے والا کمر درد ابراٹینم کے مشابہ ہو اور اسے اسہال سے آرام ملتا ہو تو اس کے بانجھ پن کا بھی ابراٹینم ہی بہترین علاج ثابت ہوگا.طاقت : 30
4
ابنتيم 5 2 بسنتی ABSINTHIUM (Common Worm Wood) ابسنتھیم کا سب سے نمایاں اثر دماغ پر ہوتا ہے اور یہ مرگی کے مرض میں بہت کارآمد ثابت ہوئی ہے.اگر مرگی میں کیو پرم (Cuprum) کی طرح جسم نیلا ہو چا تا ہو اور ہاتھ پاؤں مڑنے لگیں تو ان علامات میں کیو پرم کے علاوہ ابسنتھیم بھی دوا ہو سکتی ہے.مرگی کے حملہ سے قبل مریض اعصابی بے چینی محسوس کرتا ہے، اچانک متلی ہوتی ہے، وہمی نظارے اور خیالی چیز میں نظر آنے لگتی ہیں ،جسم کا نپتا ہے اور زبان دانتوں میں آ جاتی ہے.منہ سے جھاگ نکلتی ہے اور مریض بے ہوش ہو جاتا ہے.اعصابی ہیجان کے ساتھ عمومی بے خوابی بھی پائی جاتی ہے اور ہسٹریا کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں.اس دوا سے تعلق رکھنے والی مرگی زہریلی کھمبیاں (Mushroom) کھانے ہونے والے زہر کے اثر سے ملتی ہے.کھمبیاں کھانے میں ہمیشہ احتیاط سے کام لینا چاہئے ، کبھی خود تو ڑ کر نہیں کھانی چاہئیں کیونکہ ان کی بعض قسمیں بہت خطرناک ہوتی ہیں.سے پیدا جن کی پہچان ما ہر ین ہی کر سکتے ہیں.سنتھیم کا مریض کھلی فضا اور اونچی جگہوں سے گھبراتا ہے، چکر آتے ہیں جن میں پیچھے کی طرف گرنے کا اندیشہ ہوتا ہے.مریض کی یادداشت کمزور ہو جاتی ہے اور وہ تو ہمات کا شکار رہتا ہے، ہر چیز سے بے پرواہ ہو جاتا ہے، خیالات پریشان ہوتے ہیں، آنکھوں کی پتلیاں غیر متوازن ہو کر مختلف سمتوں میں گھومتی ہیں، نظر دھندلا جاتی ہے اور گدی میں درد جلسیمیم سے مشابہ ہوتا ہے.
رین پر 6 است تھیم میں معدے کی علامتیں بھی نمایاں ہیں.بھوک نہیں لگتی اور غذا ہضم نہیں ہوتی.ڈکار متلی، قے ، معدے میں اپھارہ اور ہوا کا سخت زور، ایسے مریض کو عموما قبض رہتی ہے، پیشاب بہت آتا ہے ، جن کا رنگ گہرا اور بوسخت ہوتی ہے.بعض دفعہ مریض کی زبان موٹی ہو کر باہر نکل آتی ہے اور کا نچتی ہے، بولنے میں دقت ہوتی ہے اور فالجی اثرات نمایاں ہوتے ہیں.عورتوں میں سن پاس سے قبل ہی حیض بند ہو جائے اور ابستھیم کی دیگر بنیادی علامتیں موجود ہوں تو ابسنتھیم حیض کو دوبارہ جاری کر دیتی ہے.سینہ میں دل کے مقام پر بوجھ محسوس ہوتا ہے اور دل کی دھڑکن بے قاعدہ اور بہت تیز ہو جاتی ہے.گلے میں زخم اور حلق متورم ، گولا پھنسنے کا احساس ہوتا ہے.پاؤں بہت ٹھنڈے، کمر اور کندھوں میں درد، اعضاء کانپتے ہیں اور تشخی علامات نمایاں ہوتی ہیں.طاقت: 30 یا حسب تجر بہ چھوٹی یا اونچی طاقت
7 3 ایسیٹک ایسڈ ACETIC ACIDUM ایسیٹک ایسڈ (سرکہ.ایک تیزابی محلول) ایسیٹک ایسڈ معدے کے کینسر میں مفید دوا سمجھی جاتی ہے.پیٹ میں شدید کاٹنے والا درد ہوتا ہے.شدید پیاس، قے کا رجحان اور جلن پائی جاتی ہے.عموماً سب تیزابوں میں جلن کی علامت ملتی ہے اور جسم میں سوجن ہوتی ہے.آپریشن کے بعد مریض کی حالت بہت خراب ہو جائے اور وہ سخت نڈھال ہو تو بعض دفعہ ایسیٹک ایسڈ دینے سے اس کی حالت سنبھل جاتی ہے.اس ضمن میں سٹر نشیم کا رب اور کار بو ویج بھی بہت مفید دوائیں ہیں.کہا جاتا ہے کہ کپڑے کو ایسیٹک ایسڈ x 1 میں بھگو کر معدے کے مقام پر رکھنے سے معدے کے کینسر کی گلٹی گھلنے لگتی ہے.کیونکہ 1x میں گلٹی کو گھو لنے اور اس میں پیپ پیدا کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے.ڈاکٹر اونز (Dr Owens) کی رائے میں (Epithelial Cancer) کینسر کے لئے اسے اندرونی اور خارجی دونوں طرح استعمال کرنا چاہئے.معدے اور سینے میں شدید اور تکلیف دہ جلن جس کے بعد جلد ٹھنڈی اور ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ آئے ، یہ اس کی نمایاں علامت ہے.ایسیٹک ایسڈ میں اسہال آتے ہیں جو بہت کمزور کر دیتے ہیں.ذیا بیطس کے لئے بھی مفید دوا ہے.اگر جسم میں خون کی کمی کے نتیجہ میں سخت کمزوری ہو، بار بار بے ہوشی طاری ہو ، سانس میں گھٹن کا احساس ہو تو ایسیلک ایسڈ مفید دوا ہے.اس کی خاص علامت یہ ہے کہ بخار کی حالت میں بہت پسینہ آتا ہے، بائیں گال پر سرخ داغ پڑ جاتے ہیں اور پیاس نہیں لگتی.اس کی ایک خاص علامت کمر کا ایسا درد ہے جسے صرف پیٹ کے بل لیٹنے سے ہی
ایسیٹک ایسڈ آرام آتا ہے.8 طاقت: 3 سے 30.اس کی خوراک جلد جلد نہیں دہرانی چاہئے.
ایکونائٹ 9 4 ایکونائٹ نپیلیس ACONITUM NAPELLUS (Monks Hood) ہومیو پیتھی کو اگر آپ اچھی طرح سمجھ لیں اور اس پر عبور حاصل کر لیں تو روز مرہ کی بیماریاں اکثر آغاز ہی میں قابو آ جائیں گی اور مزید پیچیدگی پیدا نہیں ہوگی.بیماریوں کے آغاز میں ایکونائٹ کا نمبر پہلا ہے جس کا پورا نام Aconitum Napellus ہے.ار، دو میں اسے میٹھا تیلیا“ کہا جاتا ہے مگر عام طور پر یا یکونائٹ کے نام سے ہی مشہور ہے.یہ ایک زہر ہے جس کا انسانی جسم کے مختلف حصوں پر اثر پڑتا ہے.کچھ تو طب کی کتابوں میں روایتی طور پر دوسرے زہروں کی طرح اس کا ذکر بھی ملتا ہے لیکن زیادہ تر تفصیلی اور باریک اثرات کا علم ڈاکٹر ہانیمن اور ہومیو پیتھی کا تجربہ کرنے والے دوسرے ڈاکٹروں نے اپنی اپنی ذات پر آزمائش (Proving) کے ذریعے حاصل کیا.آزمائش کا طریقہ یہ نہیں کہ ایکونائٹ یا کسی اور زہر کو خالص حالت میں استعمال کر لیا جائے بلکہ جو بنیادی اصول ہانیمن نے پیش کیا اور ا یکونائٹ کے حوالے سے اسے ثابت کیا وہ یہ تھا کہ اگر کسی زہر کو ہلکا کر کے کا لعدم کر دیں کہ وہ بالکل خفیف اور زہر یلے اثر کے لحاظ سے غیر مؤثر ہو چکا ہو.یہ اگر کسی صحت مند انسان کو بار بار دیا جائے تو جسم اس کی مسلسل چوٹ سے مغلوب ہو جاتا ہے اور اس کے خلاف رد عمل دکھانے کی بجائے ایسی علامتیں ظاہر کرتا ہے جو اصل زہر میں تھیں لیکن یہ علامتیں اتنی خطر ناک نہیں ہوتیں کہ مستقل نقصان پہنچائیں یا زندگی کے لئے خطرہ بن جائیں بلکہ خفیف اور عارضی ہوتی ہیں اور ان کے ذریعہ اصل زہر کا مزاج نہایت بار یکی اور تفصیل سے سمجھا جا سکتا ہے.زہروں یا دواؤں کی گہری پہچان کے لئے یہ طریق جسے پروونگ (Proving) کہا جاتا ہے ،
ایکونائٹ 10 نہایت مؤثر ہے.اس طریق آزمائش سے ایکونائٹ کی جو خصوصیات سامنے آئیں ان میں انتہائی خوف، بیماری کی شدت اور اچانک پن نمایاں ہیں.بیماری اچانک حملہ کرتی ہے اور مریض خیال کرتا ہے کہ وہ اس بیماری سے بچ نہ سکے گا.ایکونائٹ عموماً خشک اور ٹھنڈے موسم کی دوا کہلاتی ہے کیونکہ اس کی بیماریاں زیادہ تر خشک سرد موسم میں لگتی ہیں.مگر ضروری نہیں کہ ایکونائٹ صرف سردخشک موسم کی بیماریوں میں ہی استعمال ہو.ہر قسم کی بیماریاں ہر موسم میں اگر اچانک اور تیزی سے شروع ہوں اور شدید خوف دامن گیر ہو تو بلاتر ددا یکونائٹ کا استعمال کرنا چاہئے.تو و ایکونائٹ کو اگر رسٹاکس سے ملا کر دیا جائے تو یہ نسخہ بیماریوں کے آغاز میں اور بھی زیادہ مؤثر اور وسیع الاثر ثابت ہوتا ہے.میرے نزدیک یہ اسپرین (Asprin) کا بہترین بدل ہے.ہرایسی بیماری کے آغاز میں جس میں بے چینی اور بخار کی کیفیت ہو اور محسوس ہوتا ہو کہ کچھ ہونے والا ہے ایکونائٹ اور رسٹاکس کی 200 طاقت میں دو تین خوراکیں بیماری کو آغاز ہی میں ختم کر دیتی ہیں.ایک دفعہ میرے موجودہ سیکورٹی آفیسر (ریٹائرڈ میجرمحمود احمد صاحب) ہمارے ساتھ سائیکلنگ پر گئے.سخت بارش ہو رہی تھی اور سردی بھی بہت تھی.ہم سب بھیگ گئے.صبح انہیں بخار ہو گیا اور جسم میں شدید درد تھا.انہیں ایکونائٹ (Acconite) 200+ رسٹاکس (Rhustox) 200 ملا کر اور آرنیکا (Arnica) 200 برائیونیا (Bryonia) 200 ملا کر نصف نصف گھنٹے کے وقفہ سے باری باری کھانے کی ہدایت دی گئی تو چند گھنٹوں میں بیماری کا نام ونشان باقی نہ رہا اور وہ پوری صحت کے ساتھ ڈیوٹی پر حاضر ہو گئے.سردی اور بھیگنے کے نتیجہ میں محض ایکونائٹ اور رسٹاکس پر انحصار نہیں کرنا چاہئے بلکہ آرنیکا اور برائیونیا کو بھی ملا کر باری باری دینا چاہئے.یہ نسخہ میں نے لمبے تجربہ کے بعد اخذ کیا ہے.اس کا انتڑیوں ، پھیپھڑوں اور میعادی بخار سے بھی تعلق ہے اس کے علاوہ ملیریا اور پیچش پر بھی فوری اثر کرتا ہے.بسا اوقات بیماری کی نوعیت ایسی ہوتی ہے کہ وہ ان دواؤں کے بس میں نہیں ہوتی اور
ایکونائٹ 11 بالمثل صحیح دوا کے استعمال کے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتی.بعض دفعہ انفلوئنزا کے آغاز میں یہ نسخہ نا کام ہو جاتا ہے سوائے اس کے کہ بالکل شروع میں دیا جائے.اگر ذرا دیر ہو جائے تو پھر انفلوئنزا کی دوسری بالمثل دوائیں دینی پڑیں گی.عرصے کے لحاظ سے بیماریاں دو قسم کی ہوتی ہیں.ایک حاد (Acute) یعنی آناً فاناً شدت سے حملہ آور ہونے والی جو ٹھیک بھی جلد ہو جاتی ہیں.دوسری مزمن (Chronic) بیماریاں جو آہستہ آہستہ جسم میں نفوذ کرتی ہیں.لمبی بیماریوں کی بھی کئی قسمیں ہیں.کچھ تھوڑا عرصہ رہنے والی ہیں جیسے ٹائیفائیڈ وغیرہ اور کچھ لمبا عرصہ جسم سے چمٹ جانے والی ہیں.مثلاً تپ دق ، دمہ یا پھر غدودوں کا آہستہ آہستہ پھول کر کینسر میں تبدیل ہو جانا.ا یکونائٹ کو حاد بیماریوں کے علاج میں استعمال ہونے والی دواؤں میں سر فہرست رکھا جاتا ہے.گردے کے درد شروع ہونے پر ایکونائٹ (Aconite) 1000 کو بیلاڈونا (Belladonna)1000 کے ساتھ ملا کر پندرہ منٹ کے وقفہ سے دو خوراکیں دی جائیں تو متعد دمریضوں کو فوری فائدہ ہوتا ہے.ہاں اگر گردے کے تشیخی در دکو گرمی سے آرام آتا ہو تو یہ نسخہ کوئی فائدہ نہیں دے گا.یہ صرف ان مریضوں میں کام کرے گا جن کو گرم ٹکور نقصان پہنچاتی ہے.جہاں گردے کی تکلیف میں گرمی سے افاقہ ہوتا ہو وہاں بعض دفعہ کولوسنتھ CM کی ایک ہی خوراک فوری فائدہ پہنچائے گی یا پھر میگ فاس 6x کو گرم پانی میں گھول کر گھونٹ گھونٹ پلایا جائے تو تشنج دور ہو جائے گا اور جہاں سردی سے آرام محسوس ہو وہاں ایکونائٹ اور بیلا ڈونا کام کرے گی.اگر اچانک پیچش کے ساتھ خوف کا عنصر نمایاں ہو تو ا یکونائٹ اس پیچش میں بھی فوری فائدہ دیتی ہے.خشک گرمی کی پیچش میں تو یہ لا جواب ہے.دل کی بیماریوں میں بھی ایکونائٹ بہت کام آتی ہے.میرے والد مرحوم جو خود بھی ایک بہت اچھے ہومیو پیتھ تھے وہ اکثر دل کی تکلیف میں ایکونائٹ اور کریٹیکس Crataegus) Q) ملا کر دیا کرتے تھے.ایکونائٹ کو مد نکچر کی صورت میں ہی کریٹیکس مدر ٹنکچر سے ملا کر ٹانک بنایا جاتا مدرنیچر
ایکونائٹ 12 ہے.آٹھ دس قطرے کر ٹیکس Q کے اور صرف ایک دو قطرے ایکونائٹ Q کے پانی میں ملا کر دیں تو اللہ کے فضل سے بہت مؤثر ثابت ہوتے ہیں.ا یکونائٹ کی زیادہ مقدار خطرناک ثابت ہو سکتی ہے اس لئے احتیاط کرنی چاہئے.ایسا مریض جس کے دل کے دھڑ کنے کی رفتار معمول سے زیادہ ہو اس کے لئے ایکونائٹ بہت مفید ہے.بعض دفعہ معدے میں ہوا پیدا ہونے سے یا اعصابی کمزوری کی وجہ سے دل بہت تیزی سے دھڑ کنے لگتا ہے.نیند بھی نہیں آتی.اگر کسی چیز کا خوف ہو، کوئی بری خبر سنی ہو یا امتحان دینے کے لئے جانا ہو یا کوئی ابتلاء در پیش ہو تو ہیجان سے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے.ایکونائٹ 30 ی 200 میں دینے سے دھڑکن معمول پر آجاتی ہے اور طبیعت پر سکون ہو جاتی ہے.ایکونائٹ بعض ذہنی امراض میں بھی مفید ہے.صدمے یا مایوسی سے دماغ پر اچانک اثر ہو جائے اور ہر چیز سے بے جا خوف آنے لگے تو بیماری کی ابتداء میں ہی ایکونائٹ استعمال کرنے سے نمایاں فرق پڑتا ہے لیکن اگر بیماری لمبی ہو جائے تو پھر دوسری دوائیں استعمال کروانا چاہئیں جن میں سلفر نمایاں ہے.سلفر کو ایکونائٹ کی مزمن دوا کہا جاتا ہے.سلفر کی جو علامات مستقل لمبی بیماریوں میں ملتی ہیں وہ عارضی طور پرا نیکونائٹ میں پائی جاتی ہیں.روزمرہ کی زندگی میں ایسی بیماری جو جراثیم کے حملہ کی وجہ سے ہو مثلاً باسی غذا کھالی.جائے جس میں تعفن پیدا ہو چکا ہو اور اس سے اسہال شروع ہو جائیں یا اچانک پیچش لگ جائے، اسی طرح برسات کے موسم میں خونی پیچش جس سے مریض ڈر جائے.ان سب بیماریوں میں ایکونائٹ مفید ثابت ہوسکتا ہے.بعض بیماریوں میں مریض خوف سے چیخیں مارتا ہے اور چکر بھی آنے لگتے ہیں.مثلاً اگر راستہ چلتے ہوئے اچانک کتا جھپٹے تو انسان خوف زدہ ہو جاتا ہے اور اس کا سر گھومنے لگتا ہے.ایسی حالت میں ایکونائٹ فوری فائدہ دیتا ہے.اگر آنکھوں میں اچانک سوزش ہو جائے تو بھی ایکونائٹ اور بیلا ڈونا بیک وقت
ایکونائٹ 13 ذہن میں آتے ہیں.مزید علامات ظاہر ہونے کا انتظار کئے بغیر دونوں کو اکٹھا استعمال کرنا چاہئے کیونکہ یہ ایک دوسرے کی مددگار ثابت ہوتی ہیں.ہاں اگر کسی ایک دوا کی علامتیں بہت واضح ہوں تو دوسری دینے کی ضرورت نہیں.مثلاً اگر بیلا ڈونا کی علامات بالکل واضح ہوں تو ایکونائٹ ساتھ ملانے کی کوئی ضرورت نہیں، یا اکیلی ہی بیماری پر غلبہ پالیتی ہے اور لمبے عرصہ تک کام کرتی ہے.سردی لگنے کی وجہ سے اچانک کان میں شدید درد شروع ہو جائے تو بھی یہ دوا فوری اثر دکھاتی ہے.ایکونائٹ میں ہر درد کے مقام پر دھڑکن کا احساس ہوتا ہے، مریض شور اور موسیقی وغیرہ بالکل برداشت نہیں کر سکتا.ایکونائٹ کی ایک خاصیت پلسٹیلا سے بھی مشابہ ہے.بخار یا تکلیف کا اثر چہرے کے ایک طرف زیادہ نمایاں ہوتا ہے.ایک گال سرخ ہو جاتا ہے اور ایک زرد.عام طور پر بچوں میں یہ علامت نمایاں ہوتی ہے.شروع میں ہی ایکونائٹ دے دی جائے تو بیماری فورا ختم ہو جائے گی.اگر دیر ہو جائے تو پلسٹیلا، لائیکو پوڈیم یا نیٹرم میور میں سے شاید کوئی کام آئے.دانتوں میں سردی کی وجہ سے درد ہو یا گلے میں تکلیف ہوتو بھی ایکونائٹ کی ضرورت ہوگی.اگر جسم کے کسی حصہ میں خون کا دباؤ زیادہ ہو جائے تو اندرونی یا بیرونی جریان خون شروع ہو جاتا ہے مثلاً انٹریوں سے خون بہنے لگے گا.کوئی بھی وجہ ہوا گر ایسا اچانک ہوا ہو اور خوف بھی ساتھ ہو تو بلا خوف ایکونائٹ استعمال کریں.اگر کسی صدمہ کے نتیجہ میں پیشاب بند ہو جائے تو فوری طور پر پہلے ایکونائٹ دیں.کسی عزیز کی اچانک وفات سے یا اچانک کوئی مالی صدمہ پہنچا ہو تا یکونائٹ کا فوری استعمال جسم کو اس کے بداثر سے بچالیتا ہے.بعض ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ ایکونائٹ عورتوں کی بیماریوں میں مردوں کی نسبت زیادہ موثر ہوتی ہے.اگر عورتوں کی اندرونی متکالیف اور رحم کی سوزش وغیرہ کے آغاز میں ایکونائٹ دے دیں تو اللہ کے فضل سے بیماریاں آگے نہیں بڑھیں گی.
ایکونائٹ 14 ایکونائٹ کی تکلیفیں کھلی ہوا میں کم ہو جاتی ہیں.رات کو گرم کمرے میں یا خشک اور ٹھنڈی ہوا سے بڑھ جاتی ہیں.مددگار دوائیں : سلفر.کافیا.آرنیکا.بیلا ڈونا.برائیونا.فاسفورس.سپانجیا دافع اثر دوائیں نکس وامیکا.سلفر طاقت مدار نیچر یا بالعموم 1000،200،30 یاCM حسب حالات معالج کو خود فیصلہ کرنا ہو گا
ایکٹیا 15 5 ایکٹیاریسی موسا ACTAEA RACEMOSA (Black Snake-Root) اس دوا کو سی می سی فیوجا" (Cimicifuga) بھی کہتے ہیں.عورتوں کی بیماریوں میں یہ غیر معمولی اثر رکھنے والی دوا ہے خصوصاً حمل کے دوران پیدا ہونے والی بعض تکلیفوں میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے.اگر ماہانہ ایام میں عموماً کھل کر خون جاری ہو جائے تو عورتوں کی اکثر تکلیفیں خود بخود ٹھیک ہو جاتی ہیں لیکن ایکٹیاریسی موسا میں یہ الٹی بات ہے کہ خون کی مقدار میں جتنا اضافہ ہو درد اور دوسری تکلیفیں اسی نسبت سے بڑھتی چلی جاتی ہیں اور بسا اوقات خون بند ہونے کے بعد بھی کسی حد تک جاری رہتی ہیں.ایکٹیا جوڑوں کے درد میں بھی بہت مفید ہے.عضلات میں پھوڑے کی طرح درد ہوتا ہے.گردن اور کمر کے عضلات میں درد بجلی کے کوندوں کی طرح ہر طرف پھیل جاتا ہے.آرام کرنے سے تکلیف میں کمی ہوتی ہے اور حرکت سے بڑھ جاتی ہے.ٹھنڈک اور نمی سے آرام آتا ہے.ایکٹیا ریسی موسا میں بھی ابراٹینم کی طرح انتقال مرض پایا جاتا ہے.عموماً جسمانی بیماریاں ذہنی بیماریوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں.بچوں کی جسمانی بیماریاں کسی علاج سے بظا ہر ختم ہو جائیں تو ذہنی علامات ظاہر ہو کر ہسٹیریائی کیفیات پیدا ہو جاتی ہے.کوئی بچی بہت نازک مزاج اور حساس ہو تو بالکل خاموش ہو جاتی ہے.زور دے کر بلائیں تو رو دے گی.سب دنیا سے بے نیاز ، اپنی ذات میں گم سم رہنے لگے گی.ایکٹیا ریسی موسبا اس کا بہترین علاج ثابت ہو سکتی ہے.اس دوا کا غم سے بہت گہرا تعلق ہے.غم کے بداثرات جسمانی بیماریوں کی شکل
ایکٹیا 16 اختیار کر لیتے ہیں.نازک مزاج عورتوں کو صدمہ کی وجہ سے ماہانہ نظام میں بے قاعدگی، جوڑوں کا درد اور دوسرے جسمانی عوارض لاحق ہو جاتے ہیں.اگر ذہن پر صدمہ کا اثر ہو تو خوف اور وہم میں مبتلا ہو جاتی ہیں، دوا بھی استعمال نہیں کرتیں کہ اس میں زہر وغیرہ نہ ملا دیا ہو.اگر دیگر علامتوں کے ساتھ وہم بھی پایا جائے تو ایکٹیاریسی موسا کی ایک دو خورا کیس ہی سب وہموں کو دور کر دیتی ہیں اور مریضہ صحت یاب ہونے لگتی ہے.ایکٹیا میں دو متقابل دواؤں کی علامتیں پائی جاتی ہیں.بعض پہلوؤں سے یہ برائیونیا اور بعض پہلوؤں سے رسٹاکس سے مشابہ ہے.برائیونیا میں حرکت سے اور رسٹاکس میں آرام سے تکلیف بڑھتی ہے.ایکٹیا میں جس پہلو پر لیٹیں اسی پہلو میں تکلیف بڑھے گی اور اعصاب پھڑ پھڑانے لگیں گے.سردرد عموماً آنکھ کے ڈیلوں اور سر کے پیچھے ہوتا ہے جسے دبانے سے آرام آتا ہے لیکن حرکت سے بڑھ جاتا ہے.چکر آتے ہیں، سر میں بھاری پن نمایاں ہوتا ہے ،نظر دھندلا جاتی ہے.پڑھائی، فکر اور مثانے کی تکلیفوں سے سر درد شروع ہو جاتا ہے.ایکٹیار یہی موسا میں ابراٹینم کی طرح قبض اور اسہال آپس میں ادلتے بدلتے رہتے ہیں، معدہ میں شدید درد ہوتا ہے جس میں آگے کی طرف جھکنے سے آرام آتا ہے.ریڑھ کی ہڈی اور اعضائے تناسل پر بوجہ کی وجہ سے متلی اور قے کا رجحان.نوجوان بچیوں کو پہلے عمل میں شدید متلی ہوتی ہے اور کسی دوائی سے بھی آرام نہیں آتا.اس تکلیف میں گہرے غور و فکر ، مزاج شناسی اور علامات کا باریک بینی سے جائزہ لے کر دوا تجویز کرنی چاہئے.اگر مریضہ میں ایکٹیار یہی موسا کی دیگر علاماتیں موجود ہوں تو متلی کے لئے اسی سے فائدہ ہوگا.بعض کمزور اعصاب کی عورتوں میں وضع حمل کے وقت جب دردیں اٹھتی ہیں تو جنین کو باہر دھکیلنے کی بجائے دائیں ، بائیں پھیل جاتی ہیں.کولہوں میں تشخی علامات پیدا ہوتی ہیں جو وضع حمل کی تکلیفوں میں ایکٹیا ریسی موسا کی خاص پہچان بن جاتی ہیں.اگر
ایکٹیا 17 بر وقت صحیح دوا دی جائے تو در دیں نارمل ہو کر صحیح رخ میں اٹھتی ہیں اور بچے کی ولادت آسانی سے ہو جاتی ہے.کولو فائیلم بھی وضع حمل کے موقع پر استعمال ہونے والی اہم دوا ہے لیکن اس میں فرق یہ ہے کہ دردیں جنین کو نیچے دھکیلنے والے اعصاب میں جانے کی بجائے ران کے اندر سے نیچے اتر کر دائیں بائیں پھیل جاتی ہیں اور رحم کا منہ نہیں کھلتا.بعض اوقات معالجین اور دائیاں وضع حمل کو آسان کرنے کے لئے عورتوں کو ارگٹ دے دیتی ہیں لیکن اس سے رحم کا منہ اور بھی سختی سے بند ہو جاتا ہے اور شدید تکلیف ہوتی ہے.کئی عورتوں کی موت بھی واقع ہو جاتی ہے.لاڑکانہ انور آبادسندھ میں ایک دفعہ جلسہ کے دوران ایک شخص نے نہایت دردمندی سے دعا کی درخواست کی کہ اس کی بیوی در دزہ میں مبتلا ہے ، رحم کا منہ نہیں کھل رہا اور خطرہ ہے کہ اس تکلیف سے موت واقع ہو جائے گی.میں نے اپنے سفری بیگ میں سے اسے کولو فائیلم دی کہ فوراً اپنی بیوی کو کھلا دو.دس پندرہ منٹ کے بعد ہی اللہ کے فضل سے سب پیچیدگیاں دور ہو گئیں اور نارمل طریق سے صحت مند موٹا تازہ بچہ پیدا ہوا.ہومیو پیتھک دواؤں کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے.بروقت اس کی چند گولیاں دینے سے ہی بعض دفعہ زندگی کو لاحق مہیب خطرے ٹل جاتے ہیں.ایسی عورتیں جن کا حمل رحم کے عضلات اور متعلقہ اعضاء میں کمزوری کی وجہ سے شروع دنوں میں ہی ضائع ہو جاتا ہو یا حمل بہت مشکل سے ٹھہرے ایسی عورتوں کی کولو فائیلم بھی دوا ہوسکتی ہے.وضع حمل کے وقت ایکٹیاریسی موسا اور کولوفائیلم کے ساتھ کو بھی یا درکھنا چاہئے.اگر وضع حمل کے وقت دردوں کا زور کمر میں ہو اور در دیں نیچے جا کر واپس کمر میں آتی ہوں تو جلسیمیم بہت مفید ہے.کالی کا رب میں درد میں اندر رحم کی طرف جانے کی بجائے دونوں رانوں کی بیرونی سمت میں منتقل ہو جاتی ہیں.پلسٹیلا میں اعصابی کمزوری اور خوف کی وجہ سے دردیں بہت کمزور اور کم ہوتی ہیں.ایکٹیا ریسی موسا میں حیض بے قاعدہ یا دیر سے آتے ہیں.رحم کے مقام پر اور کمر میں شدید درد ہوتا ہے.اعضاء بوجھل محسوس ہوتے ہیں.ایکٹیا ریسی موسا کی مریضہ
ایکٹیا 18 بہت ست، غم میں ڈوبی ہوئی ، پریشان حال دکھائی دیتی ہے.دماغ پر گہرے بادل سے چھائے ہوئے محسوس ہوتے ہیں ، ڈراؤنے خواب آتے ہیں،مسلسل بولتی ہیں، کسی خاص چیز پر توجہ مبذول نہیں کرسکتی ، خوفزدہ ہو جاتی ہے ، خصوصاً موت کا خوف اسے گھیرے رکھتا ہے جوا یکونائٹ کی یاد دلاتا ہے.ایکٹیاریسی موسا میں گلے میں خراش ہوتی ہے.خشک کھانسی رات کے وقت اور باتیں کرنے سے بڑھ جاتی ہے.دل کی دھڑکن زیادہ اور نبض کمزور اور بے قاعدہ ہوتی ہے.انجائنا کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں.بائیں بازو کا سن ہونا ایکٹیاریسی موسا کی خاص علامت ہے.کمر اور ریڑھ کی ہڈی میں بھی شدید درد ہوتا ہے اور گردن اور کمر کا اوپر والا حصہ اکڑ جاتا ہے.بازوؤں اور ٹانگوں میں بے چینی اور بے آرامی کا احساس ہوتا ہے، خارش ہوتی ہے.اعصاب کو جھٹکے بھی لگتے ہیں.نیند نہیں آتی ، دماغ بے چین ہوتا ہے، لہریں کسی دوڑتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ دماغ اصل سے بڑا ہو گیا ہے.کان شور سے زود حس ہو جاتے ہیں.ایکٹیا کی تکالیف صبح کے وقت اور سردی سے بڑھ جاتی ہیں.سوائے سردرد کے جسے گرمی سے اور کھانا کھانے سے آرام آتا ہے.دافع اثر دوائیں : ایکونائٹ.پیٹیشیا طاقت : 30 سے اوپر سی ایم (CM) تک
ایڈرینالین 19 6 ایڈرینالین ADRENALIN (Epinephrin) ایڈرینالین گردوں کے اوپر واقع غدودوں (Suprarenal Glands) سے نکلنے والی رطوبت ہے جو بہت سے غدودوں کا توازن درست رکھتی ہے.اسے ہو میو پیتھی میں بطور دوا استعمال کیا جاتا ہے.غصہ، ڈر اور خوف کے نتیجہ میں جو بداثرات پیدا ہوتے ہیں وہ سب اس کے مریض میں موجود ہوتے ہیں.دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے.خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے.گھٹن اور تنگی کا احساس ہوتا ہے.انتڑیوں کے فعل کی رفتار ست ہو جاتی ہے، منہ خشک رہتا ہے.اس کے محلول میں شریانوں کے اردگرد کے عضلات کو سکیڑنے کی صلاحیت موجود ہے.ہومیو پیتھی طریق علاج میں یہ دوا ہر قسم کے سیلان خون کو روکنے میں مدد دیتی ہے.پھیپھڑوں، ناک، انتڑیوں ، رحم یا کہیں اور سے خون جاری ہو جائے اور اسے روکنے کے لئے کسی دوا کی واضح علامتیں نہ ہوں تو ایڈرینالین کو بھی فوری ضرورت کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے.خصوصا کسیر میں اسے بہت مفید پایا گیا ہے.کئی سرجن آپریشن سے پہلے اس کا استعمال کرتے ہیں تا کہ خون ضائع نہ ہو.ایک معالج نے انجائنا اور اس سے ملتی جلتی علامات میں بھی ایڈرینالین کو مفید بتایا ہے.دل کے اردگرد اور سینے کی ہڈی میں کھانا کھانے کے بعد اور چلنے سے درد ہو تو اس ڈاکٹر کے مطابق یہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہے.سینے کی مٹن اور تنگی کے لئے بھی مفید ہے.رگوں کے سکڑنے کے نتیجہ میں خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اس لئے یہ ہو میو پیتھی پوٹینسی میں بلڈ پریشر کے لئے بھی مفید ہوسکتی ہے.چونکہ اس بارے میں میرا ذاتی تجر بہ نہیں ہے اس لئے محض دوسرے اطباء کی رائے پیش کر رہا ہوں.بہت احتیاط سے مریض
ایڈرینالین 20 کا جائزہ لے کر ایڈرینالین کے عمل کو سمجھنا چاہئے.البتہ میں نے ایڈرینالین کو چند بیماریوں میں بہت مفید پایا ہے.پیشاب کے ساتھ جب خون آنے لگے تو یہ دوا فائدہ دیتی ہے.پیشاب زیادہ اور بار بار آتا ہے اور پیشاب سے پہلے اور بعد میں جلن ہوتی ہے.نیٹرم میور میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے.اگر پاؤں کی انگلیوں پر گئے پڑ گئے ہوں جنہیں Com کہتے ہیں تو ان کے لئے بھی یہ دوا مفید ہے.اس کے مریض کی ٹانگیں عموماً تھکی تھکی رہتی ہے.پنڈلیوں میں درد اور شیخ ہوتا ہے.طاقت: 30 سے 200 تک
ایسکولس 21 7 ایسکولس ہیپو کا سٹینم AESCULUS HIPPOCASTANUM (Horse Chestnut) ایسکولس کا سب سے نمایاں پہلو ذہنی انتشار ہے.تھکاوٹ اور کمزوری کی وجہ سے دماغ میں اضطراب پیدا ہونا طبعی عمل ہے مگر ایسکولس ایسی دوا ہے جس میں سونے سے ذہنی انتشار میں اضافہ ہو جاتا ہے.جب مریض سو کر اٹھتا ہے تو اس کے دماغ میں الجھاؤ ہوتا ہے اور وہ سمجھ نہیں سکتا کہ وہ کہاں ہے، اس کے گردونواح میں کیا ہے اور کون لوگ ہیں.اگر کسی نئی جگہ میں سو کر اٹھیں تو صحت مند انسان کا ذہن بھی بعض دفعہ الجھ جاتا ہے کہ وہ کہاں ہے.یہ انتشار عارضی اور وقتی ہوتا ہے جو سفر کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.اگر مریض مستقل طور پر اس انتشار کا شکار ہو جائے، یادداشت میں کمی آجائے، طبیعت میں غم یا غصہ پایا جائے اور ہر کام سے نفرت ہونے لگے تو ایسکولس دوا ہے.ایسکولس کی علامات رکھنے والے بچوں کی یادداشت کمزور ہوتی ہے.طبیعت میں غصہ پایا جاتا ہے، نیند میں ڈر کر چونک اٹھتے ہیں، بہت حساس اور زودرنج ہو جاتے ہیں.اگر ایسے بچے پر ناراضگی کا اظہار کیا جائے تو صدمہ سے مغلوب ہو کر بعض دفعہ وہ بے ہوش ہو جاتا ہے.اور کئی دفعہ یہ بے ہوشی مرگی میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے.ایسکولس کو صرف بچوں کی دوا نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ یہ ہر عمر میں کام آنے والی دوا ہے.آنکھوں کی سرخی ایسکولس کی نمایاں علامت ہے.آنکھ کے وہ ریشے جن میں خون گردش کرتا ہے کمزور ہو جاتے ہیں اور ذرا بھی دباؤ محسوس ہو تو آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں.بعض ہو میو پیتھ ڈاکٹروں نے اس سرخی کو آنکھوں کی بواسیر قرار دیا ہے.آنکھوں میں بھاری پن محسوس ہوتا ہے.پانی بہتا ہے، آنکھ کے پوٹوں اور بائیں آنکھ کے نچلے
ایسکولس 22 عضلات میں پھڑ کن پائی جاتی ہے، آنکھوں کی پتلیوں میں درد ہوتا ہے.ایسکولس کا مریض عموماً سردی محسوس کرتا ہے اور اسے دردوں کو گرمی پہنچانے سے آرام آتا ہے.پلسٹیلا کی طرح در دسارے جسم میں دوڑے پھرتے ہیں.لیکن ان دونوں دواؤں میں ایک فرق پایا جاتا ہے کہ پلسٹیلا میں درد ہمیشہ گرمی سے بڑھتے ہیں اور سردی سے آرام آتا ہے.پلسٹیلا میں غم کا رجحان اور مزاج میں نرمی ہوتی ہے.ایسکولس میں بھی غم کی طرف میلان ہوتا ہے لیکن مزاج میں نرمی نہیں ہوتی اور تکلیفوں کو گرمی سے آرام آتا ہے.ایسکولس کے مریض کی کمر میں مستقل تھکی تھکی سی درد کا احساس رہتا ہے.ریڑھ کی ہڈی میں کمزوری آ جاتی ہے.کمر اور ٹانگیں جواب دے جاتی ہیں.چلنے سے پاؤں لڑکھڑاتے ہیں، بیٹھ کر اٹھنا مشکل ہو جاتا ہے.کندھوں کے درمیان درد، گردن کی پشت میں تھکاوٹ کا احساس، دائیں کندھے اور سینہ میں درد، جس میں سانس اندر کھینچنے سے اضافہ ہو، ہاتھ پاؤں میں سوزش، دھونے سے ہاتھ سرخ ہو جائیں، جوڑوں میں اکڑن اور درد، جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوں ، بجلی کے جھٹکے کی طرح چیرنے والے درد، درد کو ٹکور سے آرام.یہ سب ایسکولس کے دائرہ عمل میں ہیں.ایسکولس میں ایک خاص قسم کی بواسیر ہے جس میں انگور کے خوشوں کی طرح نیلگوں رنگ کے دو چار سے اکٹھے ہوتے ہیں جن میں شدید جلن کا احساس ہوتا ہے.کھڑے ہونے اور چلنے سے درد شدت اختیار کر جاتا ہے.مقعد میں جلن، خشکی اور یہ احساس جیسے چھوٹی چھوٹی کر چیاں بھری ہوئی ہیں، اجابت سخت، خشک اور مشکل سے ہوتی ہے.اور اجابت کے بعد سخت در دو ہوتا ہے.ایسکولس میں گردوں کا درد بھی نمایاں ہے.خصوصاً بائیں گردے میں درد.بار بار پیشاب کی حاجت مگر مقدار میں کم ، سیاہی مائل جلتا ہوا پیشاب آتا ہے.عورتوں میں دوران حیض شدید کمر درد اور کمزوری کا احساس، رحم کا اندر کی طرف گرنا ایسکولس کی خاص علامت ہے.لیکوریا گہرے زرد رنگ کا ، گاڑھا اور لیس دار
ایسکولس ہوتا ہے.23 ایسکولس میں دل کی علامات بھی نمایاں ہیں.دل کے مقام پر جلن اور درد، دل کی دھڑکن میں اضافہ جس کی وجہ سے رگوں میں ہر جگہ دھڑکن نمایاں ہوتی ہے.سینے میں گرمی محسوس ہوتی ہے.ایسکولس میں کھانا کھانے کے بعد مسلسل بے چینی ، جلن اور ایسا احساس رہتا ہے جیسے ابھی تے آنے والی ہو.نظام ہضم میں کمزوری واقع ہو جاتی ہے.معدے میں پتھر کا سا بوجھ ، کھانا کھٹاس میں تبدیل ہو جاتا ہے اور کھٹی ڈکاریں آنے لگتی ہیں.منہ کا ذائقہ دھات کی طرح کسیلا، لعاب لیس دار زبان پر سفید یا زرد موٹی تہہ اور منہ میں تھوک کی زیادتی ایسکولس کی نمایاں علامتیں ہیں.گلے میں گرمی خشکی اور زخمی ہونے کا احساس ہوتا ہے، نگلتے ہوئے درد جو کانوں کی طرف جاتا ہے.ایسکولس میں سردی سے، چلنے پھرنے سے کھانے کے بعد اور نیند سے جاگنے کے بعد تکلیفیں بڑھتی ہیں.بواسیر کی تکلیف بھی عموماً سردی میں بڑھ جاتی ہے.تازہ کھلی ہوا میں اور لیٹنے اور آرام کرنے سے تکلیفیں کم ہو جاتی ہیں.ایسکولس ویری کوز وینز (Varicose Veins) یعنی وریدوں کے گچھے پھول جانے کی بھی بہترین دوا ہے.عموماً عورتوں میں حمل کے دوران ٹانگوں پر جالا سا بن جاتا ہے ، ہر طرف نیلے رنگ کی وریدیں پھیلنے لگتی ہیں جو بہت تکلیف دہ ہوتی ہیں، اس بیماری میں ایسکولس بہت مفید دوا ثابت ہوئی ہے.دافع اثر دوا نکس وامیکا طاقت: 30 سے 200 تک
24
ایتھوز اسائی پیم 8 25 25 ایتھوز اسائی چیم AETHUSA CYNAPIUM (Fools Parsley) ایتھوزا اگر بالمثل ہو تو بے مثل کام کرتی ہے.ایلو پیتھک طریقہ علاج میں اس کا نعم البدل میرے علم میں نہیں آیا.یہ بچوں کے سوکھے پن کی بہترین دوا ہے.ایسے بچے دودھ بالکل ہضم نہیں کر سکتے.دودھ پیتے ہی تے کردیتے ہیں.قے کے بعد کمزوری کا شدید غلبہ ہوتا ہے.فوراً بھوک لگ جاتی ہے لیکن دوبارہ دودھ پلانے پر حالت پھر وہی ہو جاتی ہے.عموماً شدید قبض ہوتی ہے.اگر اسہال شروع ہو جائیں تو وہ بہت معمولی مقدار میں آتے ہیں.پہلے زردی مائل پھر سبز رنگ کے صفراوی مادے کا اخراج ہوتا ہے.پیٹ میں شدید مروڑ اٹھتے ہیں، اسہال کے علاوہ بار بار پھٹے ہوئے دودھ کی قے کا رجحان بھی ملتا ہے مگر اس میں اسهال شاذ کے طور پر پائے جاتے ہیں.بچوں کی بھاری اکثریت شدید قبض کا شکار ہوتی ہے.ایسے بچوں پر عموماً غنودگی طاری رہتی ہے اور وہ کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں.ایک دفعہ ایک سوکھے کا مریض بچہ میرے پاس لایا گیا.اس کی شکل بیماری کی وجہ سے انتہائی خوفناک ہو چکی تھی.بڑا سا سر، پکا ہوا چہرہ اور جسم ہڈیوں کا پنجر بن چکا تھا.اس کے ماں باپ نے بتایا کہ کوئی دوا کام نہیں کر رہی.ایک ماہ سے شدید قبض ہے.دودھ پیتے ہی قے کر دیتا ہے.میں نے اسے ایتھوزا دی.بہت جلد قبض ختم ہو گئی اور طبیعت بہتری کی طرف مائل ہونے لگی ، دودھ ہضم ہونے لگا اور ایک ہفتہ میں ہی بچے کی کایا پلٹ گئی اور وہ اللہ کے فضل سے مکمل طور پر صحت مند ہو گیا.ابراٹینم میں بھی سوکھا پن پایا جاتا ہے.لیکن سب سے پہلے ٹانگیں سوکھتی ہیں پھر
ایتھوز اسائی پیم 26 چھاتی اور گردن.لیکن ایتھوزا میں سارا جسم بیک وقت سوکھتا ہے.ایتھوزا کی ایک اور اہم علامت یہ ہے کہ گرمی سے بچے کی بیماری سرکی طرف منتقل ہو جاتی ہے.ایسا بچہ جس کے دماغ میں کچھ خلل ہو اور گرم موسم میں دودھ پیتے ہی قے کر دینے کی علامت نمایاں ہو اس کی دوا ایتھوزا ہی ہے.یہ پیٹ کی بیماری اور دماغی خلل دونوں بیماریوں کو ٹھیک کرے گی.اگر روائتی طریقہ علاج سے ایسے بچہ کی معدہ کی علامتیں اور دودھ الٹنے کا رجحان ٹھیک کیا جائے تو وہ بچہ ذہنی توازن کھو دیتا ہے.ایسی صورت میں ایتھوزا کو نہ بھولیں ورنہ ایسا بچہ مستقل دیوانہ ہو جائے گا.ایتھوزا کی علامتیں رکھنے والے بچے کو میں نے کبھی ایتھوزا کے سوا کسی اور دوا سے شفا پاتے نہیں دیکھا.پس لازم ہے کہ جب ایتھوزا کی علامات ہوں تو ایتھوزا ہی دی جائے.ایتھوزا میں بیماریاں بہت شدت سے حملہ کرتی ہیں اور ہر تکلیف میں شدت نمایاں ہوتی ہے جس کے بعد ذہنی اور جسمانی کمزوری اور نیند کا غلبہ ہونا شروع ہو جاتا ہے غشی طاری ہو جاتی ہے، مریض مختلف قسم کے تو ہمات کا شکار رہتا ہے، بلیاں، کتے اور چوہے نظر آنے لگتے ہیں، ذہنی یکسوئی نہیں رہتی ، بہت غمگین اور بے چین ہوتا ہے،سرشکنجہ میں کسا ہوا محسوس کرتا ہے، سر کے پچھلے حصہ میں درد جو گردن ، کندھوں اور کمر میں پھیل جاتا ہے.دبانے اور لیٹنے سے آرام محسوس ہوتا ہے.نیز اجابت اور ہوا کے اخراج کے بعد سر کی علامات کو آرام ملتا ہے.بال کھنچے ہوئے محسوس ہوتے ہیں، غنودگی کے ساتھ چکر آتے ہیں اور دھڑ کن محسوس ہوتی ہے.جب چکر ٹھیک ہو جائیں تو سرگرم ہونے لگتا ہے.روشنی سے زود حسی پائی جاتی ہے، پیوٹوں کے کنارے سوج جاتے ہیں.سوتے ہوئے آنکھ کی پتلیاں ادھر ادھر حرکت کرتی ہیں.آنکھیں نیچے کی طرف کھینچ جاتی ہیں اور چیزیں اصل حجم سے بڑی دکھائی دینے لگتی ہیں.کانوں میں درد ہوتا ہے اور گرم پانی نکلنے کا احساس ہوتا ہے، پھنکارنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں.ناک گاڑھی رطوبت کی وجہ سے بند ہو جاتا ہے، ناک کی نوک پر چھیلنے کا احساس اور چھینکنے کی بے سود کوشش
27 ایتھوز اسائی پیم ایتھوزا کی علامات میں سے ہے.چہرے پر سرخ نشان ظاہر ہو جاتے ہیں، جبڑے کی ہڈیوں میں درد اور کھچاؤ محسوس ہوتا ہے.منہ خشک اور زبان لمبی محسوس ہوتی ہے.گلے میں جلن اور آبلے نمودار ہو جاتے ہیں جن کی وجہ سے نگلنے میں دقت ہوتی ہے.کبھی سانس میں اتنی تنگی اور گھٹن ہوتی ہے کہ مریض بول نہیں سکتا.سینہ میں بھی جکڑ اؤ کا احساس ہوتا ہے.ایتھوزا عورتوں کی تکلیفوں کے لئے بھی اچھی دوا ہے، حیض کے دوران پانی کی طرح پتلا خون جاری ہوتا ہے، سینے کے غدود پھول جاتے ہیں اور ان میں شدید درد ہوتا ہے.ایسی عورتیں جن میں ایتھوزا کی کچھ علامات پائی جائیں، رحم کی تکلیفیں اور انتڑیوں کی طبعی حرکت میں کمزوری ہو، بغیر متلی کے کھانا الٹنے کا رجحان ہو ایتھوزا دینے سے آرام پاتی ہیں.ایتھوزا کی علامات صبح تین چار بجے بڑھتی ہیں، ٹھنڈے پانی اور بستر کی گرمی سے بھی بیماریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے.دماغی علامات کے سوا کھلی ہوا میں دیگر تکلیفوں میں کمی آ جاتی ہے.یہ دوا بچوں کے دانت نکلنے کے زمانے میں اسہال لگ جانے کی بہترین دواؤں میں سے ہے.ایتھوزا میں ہاتھ پاؤں کے سونے اور تشیخی دوروں کی علامت بھی ملتی ہے.کہنی کے جوڑوں میں شیخ ہوتا ہے.بازوؤں میں سن ہونے کا احساس، انگلیاں اور انگوٹھے اندر کی طرف مڑ جاتے ہیں.مرکی میں بھی یہ دوا مفید ہے.اعضاء سرد ہوتے ہیں اور جسم میں اینٹھن ہوتی ہے اور منہ سے جھاگ نکلتی ہے.بچہ سرنہیں سنبھال سکتا.دودھ پیتے ہی قے کر دیتا ہے اور قے کے فوراً بعد دودھ طلب کرتا ہے.ایتھوزا کے بارے میں بعض ہومیو پیتھک معالجین کا کہنا ہے کہ وہ طلباء جو کمرہ امتحان میں گھبرا جائیں اور پر چھصل نہ کرسکیں ان کے لئے بہت مفید ہے.200 طاقت میں ایک خوراک صبح امتحان کے لئے جانے سے پہلے استعمال کی جائے تو غیر معمولی فائدہ پہنچاتی ہے.مددگاردوا کلکیریا کارب طاقت : 30 سے 200 تک
28
ایگیریکس 9 29 29 ایگیریکس مسکیریس AGARICUS MUSCARIUS (Fly Fungus) ایگیر میکس ایک ایسی دوا ہے جس کی سب سے نمایاں علامت جسم کا کانپنا ہے.عضلات کی کمزوری اور نفسیاتی تناؤ سے اعصاب اور عضلات لرزتے ہیں.ہاتھ کا نپتے ہیں.اعصاب میں جھٹکے لگتے اور سارے جسم میں کپکپی محسوس ہوتی ہے.ایکٹیاریسی موسا (سی می سی فیوجا) کی نمایاں علامت بھی جھٹکے لگنا ہے لیکن بنیادی فرق یہ ہے کہ ایکٹیا میں مریض جس کروٹ لیٹے اسی کروٹ مٹکے لگتے ہیں جبکہ ابگیر ٹیکس میں سارا جسم کا نپتا ہے.رعشہ اور بیج دونوں ملتے ہیں.آنکھیں بھی لرزتی اور ڈولتی رہتی ہیں اور نظر ایک جگہ لگتی نہیں.ایک دفعہ ایک نوجوان اس تکلیف میں مبتلا تھا میں نے اسے ایکگیر یکس دی تو اتنا نمایاں فائدہ ہوا کہ عام روز مرہ کے سب کام عمدگی سے کرنے لگا ورنہ یہ تکلیف عمر کے ساتھ ساتھ بڑھ رہی تھی.ایگیریکس میں آنکھوں کی علامتیں بہت نمایاں ہوتی ہیں.ایک کی بجائے دودو نظر آتے ہیں.آنکھوں کے سامنے کالے دھبے ناچتے ہیں، بھینگا پن، آنکھوں میں جلن ، خارش اور تھکاوٹ عمومی علامتیں ہیں.ایک جگہ نظر کو جمانا مشکل ہوتا ہے اور مریض پڑھنے میں دقت محسوس کرتا ہے.آنکھوں کی پتلیاں گھڑی کے پینڈ ولم کی طرح حرکت کرتی رہتی ہیں.زرد لیس دار رطوبت نکلتی ہے جس کی وجہ سے آنکھیں چپک جاتی ہیں.مریض کا دماغ کمزور ہوتا ہے.دماغی محنت اور لکھنے پڑھنے سے تھکاوٹ محسوس کرتا ہے.ایسے بچے عموم ضدی، چڑ چڑے اور بہت حساس ہوتے ہیں.اگر انہیں معمولی سی ڈانٹ ڈپٹ بھی کی جائے تو صدمہ سے بے ہوش ہو جاتے ہیں.ایسکولس میں یہ علامت زیادہ ملتی ہے.
ایگیریکس 30 اگر کسی بچے میں یہ سب علامتیں موجود ہوں لیکن آنکھیں دائیں بائیں متحرک رہنے کی خاص علامت نہ بھی ہو تو ایگیر سیکس ضرور دینی چاہئے.بعض بچوں میں شروع سے ہی ذہنی کمزوری پائی جاتی ہے.صبح کے وقت اس کیفیت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور انہیں کوئی نئی بات بتائی جائے تو سمجھتے نہیں.ست اور بے شعور سے لگتے ہیں، بے حس ہو جاتے ہیں اور تھکن محسوس کرتے ہیں.لیکن جوں جوں دن گزرتا ہے تکلیف کم ہونے لگتی ہے.شام کے وقت یا رات کے پہلے حصہ میں بالکل ٹھیک ہو جاتے ہیں.ہر بات سمجھنے لگتے ہیں اور ہشاش بشاش نظر آتے ہیں، ایسے بچوں کو ایسکولس دیں.یہ بیماریاں اگر چہ ایگیر یکس میں بھی ملتی ہیں لیکن بیماری کے گھٹنے بڑھنے کے مخصوص اوقات ایسکولس سے ایکیر سیکس کو ممتاز کر دیتے ہیں.ایگیریکس میں اعصابی کمزوری سے بسا اوقات بہرہ پن پیدا ہو جاتا ہے.ٹھنڈی ہوا لگنے سے کانوں میں درد، سرخی اور جلن کا احساس ہوتا ہے ،سردی کی وجہ سے پاؤں میں بھی سوزش اور خارش ہو جاتی ہے اور وہ سرخ ہو جاتے ہیں.بعض اوقات سخت سردی کے موسم میں باہر سے گرم کمرے میں داخل ہونے سے ہاتھ پاؤں میں گہری کھجلی ہونے لگتی ہے اور سرخی اور ورم نمایاں ہوتے ہیں اس تکلیف کو Chillblain کہتے ہیں.ہر وہ بیماری جس میں خون کا اجتماع کسی خاص عضو کی طرف ہو جائے اور اس کے نتیجہ میں تناؤ، بے چینی ، سرخی اور درد پیدا کرنے والی خارش ہو اس میں ایکیریکس بہت مفید ہے.بعض قسم کی الرجیوں میں بھی ایسی علامتیں پیدا ہو جاتی ہیں مثلاً ملیریا کے علاج کے نتیجہ میں ہاتھ پاؤں میں سوزش، سرخی ، بے چینی اور سخت تکلیف دہ خارش ہو اور مریض میں ایگیریکس کی دوسری علامتیں بھی موجود ہوں تو یہ دوا تیر بہدف ثابت ہوتی ہے اور الرجی کو دور کرنے والی کسی اور دوا کی ضرورت پیش نہیں آتی.ایک دوخوراکوں سے ہی اللہ کے فضل سے تکلیف دور ہو جاتی ہے.کبھی اس کی بجائے فاسفورس بھی مفید ثابت ہوتی ہے.بعض بچوں کو بولنے میں دقت پیش آتی ہے.بہت کوشش کر کے بولنا پڑتا ہے.بار بار بات کو دہراتے ہیں اور ا سکتے ہیں.اس بیماری کا اصل تعلق خوف سے ہوتا ہے
ایگیریکس 31 اور اس کا نفسیاتی علاج بھی ضروری ہے.عموماً سٹرامونیم کو گہرے اعصابی خوف سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن لکنت یا ہکلانے کے مرض میں اس کا نمایاں فائدہ مشاہدہ میں نہیں آیا ہے.اس لئے بیماری کی اصل وجہ کو پیش نظر رکھ کر دوا استعمال کرنی چاہئے.ایکیر ٹیکس بھی لکنت میں مفید ثابت ہوسکتی ہے.ایگیر یکس میں انتقال مرض کا رجحان بھی پایا جاتا ہے.بعض دفعہ عورتوں میں بچوں کو دودھ پلانے کے زمانے میں کسی حادثے ، صدمہ یا ذہنی دباؤ کی وجہ سے دودھ خشک ہو جاتا ہے اور اس کا دماغ پر گہرا اثر پڑتا ہے.ایسے موقع پر ایگیر یکیس فائدہ مند ہے.اگر عورت کا دودھ کم اُترے یا خشک ہو جائے اور اس دوران دماغ پر حملہ ہو تو اس کی دوا ایگیر میکس ہو سکتی ہے.عام طور پر دودھ سوکھنے کی صورت میں پلسٹیلا زیادہ مفید ہے لیکن یہ صرف ایسی عورتوں کے کام آتی ہے جن کی علامات پلسٹیلا کی ہوں.ورنہ دودھ جاری کرنے کی اور بھی دوائیں ہیں.مثلاً Aconite ایگنس کاسٹس Agnus Castus ایکونائٹ ایسا فوٹیڈا Asafoetida برائیونیا کلیریا کارب Calcarea Carbonica کاسٹیکم کیمومیلا Bryonia Causticum Chamomilla ایک ڈیفلور بیٹم Lac-Defloratum فاسفورک ایسڈ Phosphoric Acid فائٹولا کا سیکیل ارٹیکا Secale Urtica سليشيا Phytolacca Silicea ایگیر میکس میں ایسکولس کی طرح دردوں کا رجحان اور دباؤ نیچے کی طرف ہوتا ہے لیکن در دیں ٹھہری ہوئی یا ست رو (Dull) نہیں ہوتیں کیونکہ اعصاب میں ایسی حرکت پائی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں درد کبھی ایک طرف اور کبھی دوسری طرف لپکتا ہوا محسوس ہوتا ہے.ایسی صورت میں ایگیر میکس زیادہ مفید ہے.ایگیر یکس کے مریض کے پیٹ میں بہت ہوا بنتی ہے.انتڑیوں کی طبعی حرکت میں
ایگیریکس 32 کمزوری واقع ہو جائے اور پیٹ غیر معمولی طور پر ہوا سے بھر جائے تو ایگیر میکس مفید ہے.نکس وامیکا بھی انتڑیوں کی حرکت کو بحال کرنے کے لئے بہت زوداثر ہے اور اس کے لئے بہت زیادہ علامتیں ڈھونڈنے کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی.پیٹ کی عارضی اور مستقل دونوں بیماریوں میں نکس وامیکا اچھا اثر دکھاتی ہے.نہ سلفر کی طرح بہت گہری اور نہ ایکونائٹ کی طرح عارضی بلکہ درمیانی کیفیت کی دوا ہے.ایگیر سیکس کا مریض عموماً گم سم ہوتا ہے اور اس کی خاص علامت یہ ہے کہ چہرے کے اعصاب اور عضلات پھڑکتے ہیں.یہی علامت انتڑیوں میں بھی پائی جاتی ہے.اگر انتڑیوں میں بار بار پھڑکن کا احساس ہولیکن نیچے کی طرف حرکت نہ ہو تو ایگیر میکس دوا ہو گی.ایگیر یکس میں وہمی نظارے بھی ملتے ہیں.عورتوں کے رحم میں زہر یلے مادے پیدا ہونے لگیں تو ان کے نتیجہ میں بالعموم وہمی نظارے دکھائی دینے لگتے ہیں.بچہ پیدا ہونے کے بعد رحم کی پوری طرح صفائی نہ ہو تو اس سے بھی ذہن پر برا اثر پڑتا ہے.ایسی فیکشن صورت میں پلسٹیلا رحم کی صفائی کے لئے اچھی عمومی دوا ثابت ہوتی ہے.رحم میں ہو جائے اور بخار ہو تو سلفر اور پائیر و جینم 200 طاقت میں ملا کر استعمال کرنی چاہئیں.اگر ایسی مریضہ کو وہمی نظارے نظر آنے لگیں اور اس کا دودھ بھی خشک ہو جائے تو ابگیر سیکس کام آئے گی.انفیکشن میں سلفر اور پائیر وجینم کے ساتھ سلیشیا، کالی میور ، فیرم فاس اور کالی فاس سب کو 6x کی طاقت میں ملا کر دینا اچھا نسخہ ہے.ایگیر یکس میں ایگزیما بھی ملتا ہے.اس ایگزیما کی پہچان زرد رنگ کے مواد والے چھالے ہیں جو اعصابی ریشوں کے ساتھ ساتھ جلد پر نکلتے ہیں.اکثر دیکھا گیا ہے کہ اعصابی کمزوریاں ایگزیما میں بدل جاتی ہیں.بعض اور بیماریوں میں بھی اعصاب کی رگوں کے ساتھ ساتھ چھالے نکلتے ہیں جوعموماً ہر پیز (Herpes) کی پہچان ہے جس کی مختلف اقسام ہوتی ہیں لیکن ایگیر یکس ہر چیز کی دوا نہیں ہے اور اس کے ایگزیما اور چھالوں کا تعلق ہر چیز سے نہیں ہے.
ایگیریکس 33 ہر پیز (Herpes) بہت تکلیف دہ بیماری ہے.اس کو اعصاب کی دوسری بیماریوں سے امتیازی طور پر سمجھنا چاہئے اور اس کا بر وقت صحیح علاج کرنا چاہئے ورنہ بعض دوسری خطرناک پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں.میں پہلے سلیشیا ، کالی فاس اور کالی میور دیا کرتا تھا جن سے کسی حد تک فائدہ بھی پہنچتا تھا لیکن بعد میں تجربہ سے ثابت ہوا کہ ہر چیز کا بہترین علاج وہ نسخہ ہے جو میں عموماً سانپ بچھو کے کاٹے کے علاج میں دیتا ہوں.مکرم آفتاب احمد خان صاحب مرحوم کو ایک بار ہر چیز کا بہت شدید حملہ ہوا تھا.میں نے انہیں آرنیکا 200 ، لیڈم 200 اور آرسنگ 200 میں دیں.غیر معمولی تیزی سے شفا ہوئی.لیکن کوئی ایسا معین نسخہ میرے علم میں نہیں ہے جو ہر دفعہ کام آئے کیونکہ یہ بیماری اپنی طرز بدلتی رہتی ہے اور بھیس بدل بدل کر سامنے آتی ہے.ایگیر یکس کے مریض کو اپنے اعضا پر قابو نہیں رہتا، ہاتھوں سے چیزیں گرتی رہتی ہیں.اکثر عورتوں اور بچیوں کے ہاتھ سے برتن گر کر ٹوٹ جاتے ہیں، کوئی چیز پکڑنی ہو تو گرفت مضبوط انہیں ہوتی ، انگلیاں خود بخود کھل جاتی ہیں.شدید عضلاتی دردیں اور تشیخ بھی پایا جاتا ہے، ہاتھ پاؤں میں پیلسن ہوتی ہے.ایکیر ٹیکس میں کھانا کھانے کے بعد ، کھلی ٹھنڈی ہوا اور سرد موسم میں تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.نیند سے طبیعت بحال نہیں ہوتی.دن بھر غنودگی چھائی رہتی ہے.خارش ہوتی ہے جس میں جلن نمایاں ہے.تریاق: طاقت : ابسنتھیم.کا فیا.کیمفر 30 سے 200 تک عموماً
34
ایگنس کاسٹس 35 10 ایگنس کاسٹس AGNUS CASTUS (The Chaste Tree) ایگنس کاسٹس کا زیادہ تر تعلق عورتوں کی بیماریوں سے ہے.عموماً بچوں کی ولادت کے بعد ان کے اعصاب کمزور ہو جاتے ہیں اور لچک ختم ہو جاتی ہے،عضلات ڈھیلے ہو کر لٹکنے لگتے ہیں اور سکڑ کر واپس اپنی اصل حالت میں جانے کی طاقت نہیں رکھتے جیسے بعض دفعہ ربڑ ڈھیلا ہو کر لٹک سا جاتا ہے.رحم کے نیچے گرنے کا احساس ہوتا ہے.حیض میں کمی آجاتی ہے.بانجھ پن پیدا ہو جاتا ہے اور ازدواجی تعلقات سے نفرت ہونے لگتی ہے.زردی مائل لیکوریا کا اخراج ہوتا ہے.مریضہ میں بے چینی ، خوف اور مایوسی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں.وہ ہر وقت غمگین رہتی ہے اور بعض اوقات ہسٹیر پائی علامات پیدا ہو جاتی ہیں.رحم میں سوزش ہوتی ہے.ناک سے خون بہتا ہے.ایکنس کا سٹس ان سب علامات میں مفید ہے.ایکنس کاسٹس کے مریض کو بیماری کے نتیجہ میں خودکشی کا خیال آنے لگتا ہے.دنیا کی ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتا ہے اور آنے والی موت کے بارے میں سوچتا رہتا ہے.سب سے نمایاں دوا جس میں خود کشی کا رجحان اور گہرا غم پایا جاتا ہے وہ آرم میور (Aurum Mur) ہے.ایکنس کاسٹس میں یہ رجحان صرف وقتی طور پر بیماری کے دوران ہوتا ہے.مریض کے مزاج کا مستقلاً حصہ نہیں بنتا جیسا کہ آرم میور میں ہوتا ہے.مریض کی یادداشت کمزور ہو جاتی ہے، دماغ غیر حاضر رہتا ہے.اعصابی کمزوریاں روز مرہ کی بات ہے، بے ہمتی اور ناطاقتی کا احساس ہوتا ہے.ایگنس کاسٹس میں کنپٹیوں اور پیشانی میں شدید درد ہوتا ہے جو حرکت سے بڑھتا ہے.
ایگنس کاسٹس 36 ایگنس کاسٹس روشنی سے زودحسی میں بھی کام آتی ہے.کئی دوسری دواؤں میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے لیکن ایگنس کاسٹس میں روشنی سے زود حسی کے نتیجہ میں سر میں درد شروع ہو جاتا ہے.اگر سر میں پہلے ہی درد ہو تو روشنی نا قابل برداشت ہو جاتی ہے اور آنکھیں نہیں کھلتیں.اگر ایگنس کانسٹس کی خصوصی علامتیں نہ ہوں اور روشنی میں آنکھ کھولنے سے تکلیف ہوتی ہو تو ایسے درد کی بہتر دوا گریفائٹس ہے.ایگنس کاسٹس میں ناک کی ہڈی میں درد ہوتا ہے جسے دبانے سے آرام آتا ہے.بعض قسم کی خوشبوؤں سے زود حسی ہوتی ہے، رخساروں پر خارش اور چیونٹیاں رینگنے کا احساس بھی ایگنس کاسٹس کی خاص علامت ہے.ایگنس کاسٹس میں پیٹ میں ہوا بھی پائی جاتی ہے.معدہ سے گڑ گڑاہٹ کی آوازیں آتی ہیں.آنتیں نیچے گرنے کا احساس ہوتا ہے اور مریض پیٹ کو ہاتھوں سے پکڑتا ہے.ایگنس کاسٹس مردانہ کمزوریوں میں بھی مفید دوا ہے.خصوصاً اوائل عمر میں کی جانے والی غلطیوں کے نتیجہ میں کمزوری اور ناطاقتی کا شکار ہونے والے مریضوں کی کمزوریاں دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.عام اعصابی کمزوریاں دور کرنے میں بھی کالی فاس کی طرح اچھا اثر رکھتی ہے.مددگار دوائیں: کلیڈیم.سیلینیم دافع اثر دوائیں: کیمفر نیکس وامیکا طاقت : 30 سے اونچی پوٹینسیاں سی.ایم (CM) تک
ایلیم سیپا 37 11 الم سیپا ALLIUM CEPA (Red Onion) ایلیم سیپا سرخ پیاز سے تیار کی جانے والی دوا ہے جو سردی کے موسم میں ہونے والے نزلہ زکام میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے.پیاز چھیلنے سے جو علامات ظاہر ہوتی ہیں وہی اس کے نزلہ میں بھی پائی جاتی ہیں.گلا بیٹھ جاتا ہے، ناک سے پہلی رطوبت بہتی ہے.جس میں تیزابیت ہوتی ہے، آنکھوں سے بکثرت پانی بہتا ہے لیکن اس میں تیزی نہیں ہوتی اور وہ آنکھوں میں سرخی نہیں پیدا کرتا.یہ ایلیم سیپا کی امتیازی علامت ہے جو اسے یوفریزیا (Euphrasia) سے الگ کرتی ہے.یو فریز یا میں آنکھوں سے بہنے والے پانی میں جلن اور خارش ہوتی ہے اور آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں.ایک اور نمایاں فرق یہ ہے کہ ایلیم سیپا کی کھانسی میں دن رات کا کوئی فرق نہیں ہوتا، ہر وقت گلے میں خراش ہوتی ہے جو کھانسی پیدا کرتی ہے.یوفریز یا میں کھانسی کو دن میں آرام رہتا ہے کیونکہ نزلہ کا پانی آنکھوں کے راستے باہر نکلتا رہتا ہے.رات کو سونے کے بعد یہ مواد گلے میں گرنے لگتا یا پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے جس سے کھانسی ہونے لگتی ہے اور مریض اٹھ جاتا ہے.بعض اوقات کھانسی کے بہت شدید دورے ہوتے ہیں.صبح اٹھنے پر رفتہ رفتہ کھانسی کی شدت کم ہونے لگتی ہے.آنکھوں سے پانی دوبارہ جاری ہو جاتا ہے اور سرخی پیدا کرتا ہے.ایلیم سیپا آنکھوں میں سرخی پیدا نہیں کرتی اس کی بجائے کانوں پر اس کا زور ٹوٹتا ہے.درد ہوتا ہے، رطوبت بہتی ہے اور شنوائی پر اثر پڑتا ہے.اگر نزلے کے نتیجہ میں یہ ہوا ہو تو ایلیم سیپا کان میں تکلیفوں کی بھی بہترین دوا ثابت ہوگی.ورنہ کان میں تکلیف
38 ایلیم سیپا کی دوسری دوائیں پلسٹیلا ، کیمومیلا یا امونیم کا رب اپنی مخصوص علامات کی وجہ سے پہنچائی جاتی ہیں.اظم سیپا میں تکلیفیں دائیں سے بائیں منتقل ہونے کا رجحان ہے.لیکیسس میں بھی یہ بات نمایاں ہے، بائیں طرف بیماری کا آغاز ہوتا ہے جب جسم کا دفاعی نظام اس کے خلاف بیدار ہوتا ہے تو بیماری دائیں طرف پناہ لے لیتی ہے.اکثر سانپوں کے زہر کا اثر بائیں طرف نمایاں ہوتا ہے.عجیب بات ہے کہ سانپوں میں پیاز کے خلاف منافرت پائی جاتی ہے.سندھ میں سانپوں سے بچنے کے لئے یہ ترکیب استعمال کی جاتی ہے کہ بستر کے اردگرد پیاز ڈال کر سو جاتے ہیں.سانپ قریب بھی نہیں آتا کیونکہ وہ پیاز سے دور بھاگتا ہے.ایلیم سیپا میں آرام سے تکلیف بڑھتی ہے اور حرکت سے کم ہو جاتی ہے.رات کو لیٹنے سے بھی تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے.مرطوب اور سرد موسم میں نزلہ شروع ہو جاتا ہے لیکن کھلی ہوا سے افاقہ ہوتا ہے.زکام کے ساتھ سر میں درد ہوتا ہے جو خصوصاً داہنی کنپٹی میں شدت سے محسوس ہوتا ہے اور پیشانی تک پھیل جاتا ہے.ایلیم سیپا میں زکام بائیں نتھنے سے شروع ہو کر دائیں طرف منتقل ہونے کا رجحان رکھتا ہے.ایلیم سیپا کالی کھانسی میں بھی مفید ہے اور خسرہ میں بھی.اگر بچے کو الٹیاں بھی آئیں ، بد ہضمی ہو، بدبودار ہوائیں خارج ہوں اور خسرہ کی علامات ظاہر ہونی شروع ہو جا ئیں تو اہم سیپا بہت مفید ثابت ہوتی ہے.نیز بچوں کے پیٹ درد کے لئے بھی یہ اچھی دوا ہے..ایلیم سیپا میں پیٹ میں ایسا درد اٹھتا ہے جس کے ساتھ پیشاب کی حاجت ہوتی ہے.مثانے میں جلن اور پیشاب کا رنگ سرخ ہوتا ہے.مثانہ کے مقام پر درد ہوتا پہ ہے.نزلہ زکام میں پیشاب بار بار آتا ہے.زکام کی وجہ سے آواز میں بوجھل پن ،حلق میں خراش اور سانس کی نالی میں درد نمایاں ہوتے ہیں اور شدید کھانسی اٹھتی ہے ، بہت
39 ایلیم سیپا چھینکیں آتی ہیں.گردن کے پچھلے حصہ میں شدید درد، رات کو سردی کی شدید لہر کمر سے نیچے اترتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جس کی وجہ سے بار بار پیشاب آتا ہے.بعض دفعہ نزلہ زکام کے ساتھ جلد پر سرخ چھوٹے چھوٹے دانے نمودار ہو جاتے ہیں.سوئیاں چبھنے کا احساس ہوتا ہے اور جسم کے بعض حصوں میں حدت اور جلن محسوس ہوتی ہے.ایلیم سیپا اعصابی دردوں میں بھی مفید ہے.اگر زکام کے ساتھ جسم میں خصوصاً چہرہ، دانت سر اور گردن میں درد ہوں تو ایلیم سیپا ان سب کے لئے بہترین دوا ہے.مددگار دوائیں : فاسفورس.تھو جا.پلسٹیلا دافع اثر دوائیں : آرنیکا.کیمومیلا.ور میٹرم اہلم طاقت : 30 سے 200 تک
40 40
41 12 ایکو ALOE (Socotrine - Aloes) ایلو ایلو ایک ایسے پودے سے تیار کی جانے والی دوا ہے جسے اردو میں کنوار گندل کہتے ہیں.پیٹ میں ہوا، اسہال اور الٹی کا رجحان اس دوا کی نمایاں علامتیں ہیں اور بھی ایسی سینکڑوں دوائیں ہیں جو اسہال، الٹی اور پیٹ کی ہوا کے لئے استعمال ہوسکتی ہیں لیکن سب دواؤں کی اپنی اپنی علامتیں ہیں جو ایک کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں.ایلو کی ایک خاص علامت ایسی ہے جو لائیکو پوڈیم میں بھی پائی جاتی ہے یعنی سمندری جانور خصوصاً آؤسٹر (Oyster) کھانے سے اسہال لگ جاتے ہیں.جس مریض میں بھی سمندری جانور کھانے سے اسہال کا رجحان ہو وہاں لائیکو پوڈیم کے علاوہ ایلو کی طرف بھی دھیان جانا چاہئے.ایلو کے مریض کے پیٹ کی ہوا سارے پیٹ میں تناؤ پیدا نہیں کرتی بلکہ لائیکو پوڈیم کی طرح دائیں طرف نیچے کی طرف اس کا دباؤ ہوتا ہے.عام طور پر ہومیو پیتھک ڈاکٹر پیٹ کی ہوا کے لئے تین دواؤں پر زیادہ زور دیتے ہیں.کار بودیج جس میں ہوا کا دباؤ اوپر کی طرف ہوتا ہے، لائیکو پوڈیم جس میں دباؤ نیچے کی طرف ہوتا ہے اور چائنا جس میں دباؤ سارے پیٹ میں ہر طرف ہوتا ہے.پیٹ کی ہوا کی علامتیں صرف ان تین دواؤں تک محدود نہیں بلکہ بکثرت دوسری دواؤں میں بھی پائی جاتی ہیں اور محض ان تین دواؤں کو مد نظر رکھ کر علاج کرنا کافی نہیں.اس قسم کے چٹکلے کتابوں میں اس لئے درج ہوتے ہیں کہ فوری ضرورت کے طور پر بعض دفعہ یہ کام آ جاتے ہیں.معدے اور انٹریوں میں ہوا زیادہ دیر رکنے سے درد قولنج (Colic) بھی ہو سکتا ہے.وقت کی کمی اور مریض کی تیزی سے بگڑتی ہوئی حالت ڈاکٹر کواکثر ٹکسالی کی دواؤں کا
42 سہارا لینے پر مجبور کر دیتی ہیں.لیکن پیٹ کی ہوا کا اصل اور مستقل علاج تو مزاجی دوا کا استعمال ہے ورنہ کچھ عارضی افاقہ کے لئے کبھی ایک دوا کا سہارا لینا پڑے گا کبھی دوسری کا.انتڑیوں کی طبیعی حرکت میں کمی واقع ہو جائے تو نکس وامیکا سب سے اچھا کام کرتی ہے.ہوا میں غیر معمولی بد بو پائی جائے تو کار بو ویج غالباً بہتر اثر کرے گی.معدہ کے منہ پر تیزابیت کی وجہ سے شکنجہ سا آ جائے اور کھانا متعفن ہونے کی وجہ سے سخت بد بو پیدا ہواور ہوا معدہ میں اکٹھی ہوتی رہے تو یہ باتیں کار بو بیچ کی پہچان میں محمدثابت ہوتی ہیں.چانکا پیٹ کی ہوا میں اس صورت میں مفید ہے جبکہ چاکا کی دوسری علامتیں بھی موجود ہوں یعنی مریض کے مزاج میں خشکی اور ملیریا کے بداثرات کی عمومی علامتیں ملتی ہوں.بعض دفعہ لعابوں کی کمی کی وجہ سے انتریوں میں جگہ جگہ ہوا رک جاتی ہے.چائنا ایسے مریضوں سے تعلق رکھتی ہے جن کے لعاب خشک ہو رہے ہوں اور انتڑیوں کے گلینڈز اپنا پورا کام نہ کریں.اس طویل ضمنی بحث کے بعد اب ہم واپس اصل دوا کی طرف لوٹتے ہیں.سمندری غذا خصوصاً آؤ سٹر کھانے کا رد عمل ایلو کے مریض پر فوری اسہال کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے.متلی اور قے کے ساتھ سر میں درد ہوتا ہے عموماً اس کا سر درد ماتھے یعنی سر کے اگلے حصہ سے شروع ہوتا ہے.آنکھیں سرخ اور بوجھل ہو جاتی ہیں اور کھولنی مشکل ہوتی ہیں، ہونٹ خشک ہو جاتے ہیں، کھانا چباتے ہوئے کانوں میں شور محسوس ہوتا ہے.بعض اوقات صبح اٹھتے ہی ایلو کے مریض کے ناک سے خون جاری ہو جاتا ہے.مریض کا منہ کڑوا ہو جاتا ہے.دائیں طرف پسلیوں کے نیچے در دبھی ایلو کی خاص علامت ہے.اسہال کے ساتھ پیٹ میں مروڑ بھی اٹھتے ہیں.بواسیر کے مسے گچھوں کی صورت میں لٹکے ہوئے ہوتے ہیں اور ان میں شدید جلن اور درد ہوتا ہے.ٹھنڈا پانی لگانے سے
ایلو 43 سکون محسوس ہوتا ہے.اگر اسہال کی بجائے قبض ہو تو پیٹ کے نچلے حصہ میں شدید دباؤ محسوس ہوتا ہے.ایلو کا مزاج رکھنے والا مریض عموماً گوشت کھانا پسند نہیں کرتا حالانکہ گوشت کھانے سے اسے کوئی تکلیف نہیں ہوتی.عورتوں کے ماہانہ ایام میں ایلو کی تکلیفوں میں اضافہ ہو جاتا ہے.چلنا اور کھڑا ہونا دشوار معلوم ہوتا ہے.رحم بو جھل اور کمر کے نچلے حصہ میں درد ہوتا ہے اور وقت سے بہت پہلے کثرت سے خون آنے لگتا ہے.ایلو کی ایک علامت گلے کی خراش اور کھانسی بھی ہے، جوڑوں میں بھی درد ہوتا ہے.اس کی بیماریاں صبح کے وقت بڑھ جاتی ہیں.خشک اور گرم موسم میں بیماریاں شدت اختیار کر لیتی ہیں.سردی اور تازہ ہوا میں آرام ملتا ہے.عموماً کھانا کھانے کے بعد اس کی علامات ظاہر ہوتی ہیں یا شدت پکڑ جاتی ہیں.مددگار دوائیں : سلفر دافع اثر دوائیں : سلفر.اوپیم طاقت : 30
44
اليومن 45 13 الیومن ( پھٹکری) ALUMEN (Common Potash Alum) الیومن پھٹکری کو کہتے ہیں جو کسی بھی زخم سے جریان خون کو فوری روکنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے یہ کولائیڈل (Colloidal) کی صورت میں معلق ذرات پر اثر اندازی کے لحاظ سے بہت شہرت رکھتی ہے.اگر کسی محلول یا گیس میں چھوٹے چھوٹے ذرات معلق ہو جائیں تو ایسے ذرات کو کولائیڈل (Colloidal) کہا جاتا ہے.پھٹکری ہوا یا کسی گیس میں موجود کو لائیڈل ذرات پر اثر انداز نہیں ہوتی لیکن ہر محلول کے کولائیڈل ذرات کو اکٹھا کر کے چھوٹی چھوٹی پھٹکیوں کی صورت میں منجمد کر دیتی ہے.بالکل ایسا ہی اثر متعد دسانپوں کے زہر کا خون پر پڑتا ہے.عموماً خون سے بننے والی ایسی پھٹکیاں دل کے حملوں کا محرک ہو جاتی ہیں.پھٹکری کو اگر براہ راست انسانی خون میں داخل کیا جائے تو خون کے سرخ اور سفید ذرات کو تو پھٹکیوں کی صورت میں منجمد کر دیتی ہے مگر الیکٹرولائٹ کا وہ مرکب جس میں بارہ نمک خاص توازن سے گھلے ہوئے ہوتے ہیں ان پر کوئی اثر نہیں کرتی.پھٹکری کو ایسے مٹی ملے پانی کو صاف کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے جس میں مٹی کے ذرات کو لائیڈل شکل میں معلق ہوں.سندھ کے ان علاقوں میں جہاں زیر زمین پانی سخت کھاری ہے پینے کے لئے نہر کا پانی ہی استعمال ہوتا ہے.اس میں معلق مٹی اور ریت کے ذرات کو پھٹکیاں بنا کر نیچے بٹھا کر پانی کو نتھارنے کے لئے بکثرت پھٹکری استعمال ہوتی ہے.چونکہ پھٹکری کا کچھ نہ کچھ حصہ نھرے ہوئے پانی میں باقی رہ جاتا ہے اس لئے ایسے علاقوں میں پھٹکری کے زہر سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا زیادہ پایا جانا تعجب انگیز نہیں.پھٹکری کے
اليومن 46 زہر کے بداثرات کے نتیجہ میں عموماً گہرے السر بنتے ہیں اور اگر پھوڑے بنیں تو ان پھوڑوں کے رفتہ رفتہ بگڑ کر کینسر بننے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے.اسی طرح گلے اور زبان میں خصوصیت کے ساتھ یہ زہر حملہ کرتا ہے اور وہاں بھی السر یا کینسر پیدا کر دیتا ہے نیز اس کے نتیجہ میں گلینڈ ز سوج کر سخت ہونے لگتے ہیں.ٹانسلز سوج کر رفتہ رفتہ بڑے اور سخت ہو جاتے ہیں.عورتوں میں رحم اور سینے کے غدود اسی طرح موٹی موٹی سخت گٹھلیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں.سلفر کی طرح سر کی چوٹی پر گرمی اور دباؤ کا احساس ہوتا ہے لیکن سلفر کا مریض ہاتھ کا دباؤ یا کپڑا لینا پسند نہیں کرتا جبکہ الیومن میں دباؤ کا احساس ہونے کے باوجود مریض کو بیرونی طور پر دبانے سے آرام محسوس ہوتا ہے.الیومن میں عضلاتی کمزوریاں بھی بہت نمایاں ہیں.اس پہلو سے یہ پلمبم (Plumbum) سے بہت مشابہ ہے.خصوصاً دونوں کی فالجی علامتیں ایک دوسرے سے کافی حد تک مشابہت رکھتی ہیں.پس جزوی طور پر الیومن پلمبم کی فاجی علامتوں کے مشابہ اثرات پیدا کرتی ہے.الیومن کے یہ تمام زہریلے اثرات جن کا اوپر ذکر گزر چکا ہے ایلومینیم کی ہومیو پیتھک دوا سے شفایاب ہو سکتے ہیں.قطع نظر اس کے کہ یہ بیماریاں کیوں پیدا ہوئیں.اگر ان کی شکل الیومن سے ملتی ہو اور مریض کا عمومی مزاج بھی الیومن کی یاد دلاتا ہوتو یہ ساری بیماریاں اللہ کے فضل سے ایلومینیم کے مناسب استعمال سے دور ہوسکتی ہیں.کچھ نسوانی بیماریوں کا ذکر اوپر گزر چکا ہے.ان کے علاوہ رحم کے اعصاب کا کمزور ہو کر نیچے کی طرف ڈھلک جانا بھی الیومن کی یاد دلاتا ہے.اگر آواز مستقل طور پر بیٹھ جائے تو یہ بھی الیومن کی ایک نمایاں علامت ہے.وقتی طور پر آواز بیٹھنے کے لئے بوریکس یا کو کا یا آرسنک استعمال ہوتے ہیں.لیکن جب تک مریض کی دیگر علامتیں نہ ملتی ہوں محض آواز بیٹھنے کی علامت پر انحصار نہیں کرنا چاہئے.گلے کی بیماریوں میں بھی وہی دوا مفید ثابت ہو گی جو مریض کی عمومی مزاجی دوا
اليومن 47 ہو.الیومن کے مزاج میں یہ بات داخل ہے کہ اس کے مریض کا گلا بعض دفعہ مستقل طور پر بیٹھ جاتا ہے.یہ ایک ایسی دوا ہے جو بہت گہرا اور لمبا اثر کرنے والی بھی ہے اور عارضی بیماریوں میں بھی شفا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے.الیومن انتڑیوں کی بیماریوں میں بھی بہت کارآمد ہے.شدید قبض اور ضدی جریان خون کے لئے مفید ہے.بوڑھے لوگوں کی سانس کی تکلیفوں میں بھی بہت کارآمد ہے.اگر سانس کی نالیوں میں سختی اور کھچاؤ کا احساس ہو، غذا نگلنے میں خصوصاً مائع نگلنے میں وقت پیش آئے اور زبان کے غدود سخت ہو جائیں تو یہ دوا بہت مفید ثابت ہے.الیومن میں شدید سردرد کی علامت بھی ملتی ہے جس کے ساتھ سر پر بوجھ کا احساس ہوتا ہے.دبانے سے آرام آتا ہے.تمام عضلات میں کمزوری پائی جاتی ہے.تکلیفوں میں سردی سے اضافہ ہو جاتا ہے سوائے سر درد کے جسے ٹھنڈک پہنچانے سے آرام ملتا ہے.دافع اثر دوائیں: کیمومیلا نکس وامیکا.سلفر.اپی کاک طاقت 30 سے 200 تک
48
49 14 اليومينا ALUMINA (Oxide of Aluminum-Argilla) اليومينا الیو مینا جس سے الیومن کا کیمیاوی مرکب بنتا ہے ایک ایسی دھات ہے جس سے بکثرت برتن بنائے جاتے ہیں.اکثر باورچی خانوں میں اور کسی حد تک غسل خانوں میں بھی الیو مینا کے بنے ہوئے برتن استعمال ہوتے ہیں.ایک زمانے میں جب یہ دھات یورپ میں نئی نئی دریافت ہوئی تو بہت مہنگی ہوتی تھی اور امراء اور رؤسا ہی اس کے برتن استعمال کرتے تھے اور یدان کی امارت کی علامت تھی.اب صنعتی انقلاب کے نتیجہ میں ایلومینم بہت ہی سنتی دھات کے طور پر دستیاب ہے اور اب یہ غربیوں کی نمایاں علامت بن گئی ہے جو بکثرت اس کے برتن استعمال کرتے ہیں.جہاں تک کھانے پکانے یا دیگر استعمال کے برتنوں کا تعلق ہے جدید تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ الیومینا کا مستقل استعمال انسانی صحت پر بہت گہرے منفی اثرات ڈالتا ہے.یہ زہر بہت آہستگی سے اثر انداز ہوتا ہے مگر مستقلاً انسانی وجود کا حصہ بن جاتا ہے.یہ خون کی نالیوں کو سکیڑتا ہے نیز ان نالیوں میں رفتہ رفتہ ایسے مادوں کی تہ جمنے لگتی ہے.جن کی وجہ سے تنگ ہوتے ہوتے تقریباً بند ہو جاتی ہے اور دل کے حملے کا موجب بنتی ہے.دماغ کو خون پہنچانے والی نالیوں پر بھی اس سے ملتا جلتا اثر ہوتا ہے اور انسان آرٹیر یوسکلر وس (Arteriosclerosis) کا شکار ہو جاتا ہے.اس کے نتیجہ میں بڑھاپے کے اثرات تیزی سے ظاہر ہوتے ہیں، یادداشت کمزور ہوتی چلی جاتی ہے،عضلات سخت ہو کر بریکار ہونے لگتے ہیں، بلڈ پریشر کبھی کم اور بھی زیادہ ہو جاتا ہے.مریض تیزی سے ذہنی اور عضلاتی لحاظ سے معذور ہونے لگتا ہے.اگر اسے الیو مینا دیں تو
اليومينا 50 جلد فائدہ کی امید نہ رکھیں کیونکہ یہ بہت آہستہ اثر کرنے والی دوا ہے.جوز ہر آہستہ آہستہ جسم پر اثر دکھاتا ہے وہ جب دوا بنتا ہے تو وہ دوا بھی آہستہ آہستہ اثر دکھاتی ہے.بعض اوقات اس کا اثر سالوں پر محیط ہوتا ہے.اس لئے اگر مستقل اور دائمی علاج کے لئے الیو مینا کو استعمال کریں تو اونچی طاقت میں لمبے وقفوں کے بعد دیں مثلاً ایک مہینے کے بعد ایک ہزار طاقت میں یا دس ہزار کی طاقت میں.اگر 200 کی طاقت میں استعمال کریں تو ہر دس دن کے بعد ایک خوراک دیں.اگر اس دوا نے کام کیا تو مہینوں یا سالوں مسلسل استعمال کرنے سے پورا اثر ظاہر ہوگا.آغاز میں تو بہتری کے کوئی آثار ظاہر نہیں ہوتے لیکن پھر وہ ریشے جو بے جان ہو چکے ہیں ان میں رفتہ رفتہ جان پڑنے لگتی ہے اور کچھ عرصہ استعمال کے بعد کچھ نہ کچھ بہتری کی طرف مائل تبدیلیاں دکھائی دینے لگتی ہیں.اس لئے الیو مینا ایسے مریض کو دینی چاہئے جو جلد باز نہ ہو اور یہ جان لے کہ بیماری گہری اور لمبی ہے اور دوا کے مسلسل ایک دو سال استعمال سے بالآخر بیماری کا رخ پلٹے گا اور زندگی کے کچھ اور دن اچھے گزر جائیں گے.الیو مینا کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کی خارش میں جلد پر کوئی ابھار نہیں بنتے.بالکل صاف شفاف جلد پر پہلے خارش ہوتی ہے.پھر خارش سے جلد میں سوزش پیدا ہو جائے تو سختی سے کھجلی کرنے سے دانے یا آبلے بن جاتے ہیں.بعض اوقات چھیلنے سے خون بھی رسنے لگتا ہے.متاثرہ حصہ بالکل ماؤف ہو جاتا ہے اور انفیکشن کی وجہ سے کئی اور پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں.خارش کی عام دواؤں میں عموماً جلد پر ابھار پہلے پیدا ہوتے ہیں اور خارش بعد میں شروع ہوتی ہے.الیو مینا اس کے برعکس ہے.الیو مینا میں آنکھوں کے چھپر (Lids) سوجنے کی علامت بھی نمایاں ہے.پپوٹے موٹے اور بوجھل ہو جاتے ہیں، پلکیں جھڑ جاتی ہیں، بینائی دھندلا جاتی ہے، صبح کے وقت اٹھنے پر روشنی سے زود حسی ہوتی ہے اور آنکھوں کے چھپر چپکے ہوئے ہوتے ہیں، سب اشیاء زرد دکھائی دیتی ہیں.الیو مینا میں معدہ جواب دے جاتا ہے، بھوک بالکل ختم ہو جاتی ہے، گوشت سے
اليومينا 51 نفرت ہو جاتی ہے نا قابل ہضم چیزیں مثلاً مٹی ، کوئلہ وغیرہ کھانے کی خواہش کے ساتھ معدہ میں سوزش اور تشیخ کسی چیز کا ذائقہ ٹھیک نہیں رہتا ، کھٹے ڈکار آتے ہیں.الیو مینا ان سب علامات میں مفید ثابت ہو سکتی ہے.آرٹیر یوسکلر وسس سے ملتا جلتا اثر معدے پر بھی ظاہر ہوتا ہے.معدے کی رگیں اور خون کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں جس کی وجہ سے معدہ بہت تیزی سے بڑھاپے کے آثار ظاہر کرتا ہے.یہ معدہ کی عارضی بیماریوں مثلاً تیزابیت وغیرہ اور مزمن بیماریوں میں بھی کام آتی ہے.بواسیر کے پرانے مسوں کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.اس کی سب سے نمایاں علامت تیزابیت ہے.مردوں اور عورتوں دونوں کی بیماریوں میں تیزابیت کے آثار بہت نمایاں ہوتے ہیں.عورتوں کے لیکوریا میں اتنی تیزابیت ہوتی ہے کہ اس کے نتیجہ میں کئی دوسری بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں.عورتوں کے تعلق میں اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ حمل کے دوران شدید قبض ہو جاتی ہے جبکہ عام حالات میں قبض نہیں ہوتی.اگر قبض کا حمل کے ساتھ تعلق ہو تو الیو مینا آپ کے ذہن میں ابھرنی چاہئے.یہ وہ تکلیف ہے جس میں الیو مینا عارضی طور پر بھی کام دکھاتی ہے اور دیرہ بینہ بیماری میں بھی.یہ دائمی کھانسی میں بھی بہت اہمیت رکھتی ہے.عام طور پر وہ کھانسی جو دائی ہو اور گلے کی بجائے پھیپھڑے کی خرابی سے تعلق رکھتی ہو اس میں پیسلینیم ، فاسفورس، آرسنگ آئیوڈائیڈ اور کالی کا رب عموماً مفید ثابت ہوتی ہیں لیکن اگر مزاجی علامتیں الیو مینا کی ہوں تو صرف الیو مینا سے ہی مستقل فائدہ ہوسکتا ہے.الیو مینا کی ذہنی علامات میں ایک نمایاں علامت یہ ملتی ہے کہ آہستہ آہستہ انسان کی قوت فیصلہ ماؤف ہونے لگتی ہے اور مریض کر نہ کر ، کی غیر معین حالت میں معلق رہتا ہے.رفتہ رفتہ ذہن دھندلا جاتا ہے اور ابہامات کا شکار ہو جاتا ہے.مریض جو کچھ سنتا ہے اور جو کچھ دیکھتا ہے اسے یوں لگتا ہے کہ وہ نہیں بلکہ کوئی اور سن اور دیکھ رہا ہے.بعض دفعہ اسے یوں لگتا ہے کہ اگر وہ کسی اور کے ذہن میں منتقل ہو تو اس کی آنکھوں سے دیکھ سکے گا.رفتہ رفتہ بڑھتے چلے جانے والا یہ رجحان آخر ایسے مریض کو پاگل کر دیتا
اليومينا 52 چلے ہے مگر وہ دوسروں کے لئے خطرناک نہیں ہوتا بلکہ فکر ونظر کی صلاحیتوں سے عاری ہوکر اپنی ذات میں کھو جاتا ہے.اس کی ذہنی بیماری بعض اوقات بے صبری کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے.یوں لگتا ہے جیسے وقت گزر ہی نہیں رہا اور دل چاہتا ہے کہ جلد گزرے.تیز دھار آلات اور ہتھیاروں کو دیکھ کر ایسے مریضوں کے دل میں ایک زور دار لہر اٹھتی ہے کہ میں ان ہتھیاروں سے خود اپنے آپ کو زخمی نہ کرلوں.ایسے مریض خود کشی نہیں کرتے بلکہ محض ڈراتے ہیں کہ وہ خود کشی کر لیں گے.جیسے بعض لوگ اونچی جگہ سے نیچے دیکھیں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں چھلانگ ہی نہ لگاویں.الیو مینا کا مریض بہت عمگین رہتا ہے اور اپنے ماحول سے تنہا کہیں دور جانے کی خواہش رکھتا ہے.کبھی خوف کھاتا ہے کہ کہیں میں پاگل ہی نہ ہو جاؤں.صبح اٹھنے پر نفسیاتی علامات زیادہ ہوتی ہیں.کبھی الیو مینا کا اثر کھانا اور پانی نکلنے والے عضلات پر پڑتا ہے اور چیز نکلنے میں رفتہ رفتہ دقت ہونے لگتی ہے.کبھی ان عضلات کی کمزوری سے کھانا سانس کی نالی میں یا اوپر ناک کی نالی میں چلا جاتا ہے.فالجی اثر بعض اوقات مثانے پر پڑتا ہے اور مقعد پر بھی.پیشاب پوری طرح خارج کرنے کے لئے بھی اور فضلہ نکالنے کے لئے بھی مسلسل زور لگانا پڑتا ہے ، فضلہ نرم بھی ہو تو زور لگائے بغیر نہیں نکلتا.پیشاب کی علامتیں پراسٹیٹ گلینڈ بڑھ جانے کی علامات سے ملتی جلتی ہیں.بسا اوقات اجابت کی شکل میں بکری کی مینگنیوں یا اونٹ اور گھوڑے کی لید سے ملتی ہے یعنی چھوٹی چھوٹی یا بڑی بڑی گٹھلیوں کے ایک دوسرے کے ساتھ چپکنے سے جو فضلہ بنتا ہے کبھی پتلا اور کبھی موٹا ہوتا ہے اور خارج ہوتے وقت تکلیف دیتا ہے.گریفائٹس اور پلیمم کے مریضوں میں بھی فضلہ کی ایسی ہی علامات پائی جاتی ہیں.کبھی فالج کی بنا پر بغیر محسوس ہوئے پیشاب قطرہ قطرہ نکلتا رہتا ہے اور عضلات میں سکت نہیں 0 ہوتی کہ اسے بند کر سکیں.یہی علامت فضلے کے بے اختیار تھوڑا تھوڑا نکلتے رہنے کی
اليومينا صورت میں بھی ظاہر ہوتی ہے.53 53 الیو مینا کے مریض کو چکر بہت آتے ہیں اور چلتے پھرتے سر گھومتا اور توازن بگڑتا رہتا ہے.پاؤں سن ہو جانے کا رجحان بھی ملتا ہے اور در دایک مقام سے سائیکل کے پہلے کے تاروں کی طرح چاروں طرف پھیلتے ہیں.یہ سب علامات کسی مریض میں اکٹھی ہو جائیں تو الیو مینا اس کی یقینی دوا بن جائے گی.ٹانگوں اور بازوؤں کی متوازن حرکت پر ارادہ کو اختیار نہ رہے اور چلنے میں پاؤں ادھر ادھر پڑیں تو الیو مینا کا لمبا استعمال ضرور فائدہ دیتا ہے.نزلاتی اور جلدی علامات بکثرت ملتی ہیں.نزلہ ناک میں مستقل اڈہ بنا بیٹھتا ہے ناک ہر وقت خشک مواد سے بھرا رہتا ہے جو بسا اوقات لمبے خشک ہوئے ہوئے ”چوہوں“ کی شکل میں ناک کو بھر دیتے ہیں.آنکھوں پر نزلہ گرے تو نظر دھندلا دیتا ہے.اندرونی جھلیوں یعنی معدے انتڑیوں اور گردے کی جھلیوں پر لمبے عرصہ تک سوار رہتا ہے.جب بھی نزلہ ہو یا سردی لگ جائے سر درد شروع ہو جاتا ہے.نزلاتی جھلیوں کی طرح جلد بھی ہر قسم کی بیماریوں کا شکار رہتی ہے.کھجلا کر جگہ جگہ سے موٹی کھال کی طرح ہو جاتی ہے.زخم بھی بنتے ہیں اور نا سور بھی.سلفر کی طرح بستر کی گرمی سے خارش بہت بڑھ جاتی ہے.چہرے پر یوں لگتا ہے جیسے جالا سا تنا گیا ہو یا انڈے کی سفیدی لگانے کے بعد خشک ہو گئی ہو.ناک کی چونچ میں کٹاؤ پڑ جاتا ہے.آنکھوں پر سوزش اور بعض دفعہ ککرے بن جاتے ہیں.الیومینا کا فاتجی اثر فلیکرز (Flexors) پر بھی پڑتا ہے اور ایکسٹینسر ز (Extensors) پر بھی فلیکسر زان عضلات (Muscles) کو کہتے ہیں جو ہاتھ پاؤں کو اندر کی طرف کھینچتے ہیں اور ایکسٹینسر زان عضلات کو کہتے ہیں جو ان کو باہر کی طرف کھولتے ہیں.عموماً جن غذاؤں سے الیو مینا کے مریض کی تکلیفیں بڑھتی ہیں ان میں نمک ،شراب، سرکہ، مرچیں ، آلو اور گیس والے مشروبات شامل ہیں.بواسیر اور مقعد کا کناروں سے پھٹ جانا یہ اس کی خاص علامت ہے.ا
اليومينا 54 تمام مردانہ علامتوں میں بے طاقتی اور رات کو احتلام ہو جانا شامل ہیں.پراسٹیٹ بڑھ جاتا ہے.پراسٹیٹ گلینڈ کے مقام پر اور اردگرد بھراؤ اور تناؤ کا احساس رہتا ہے.جنسی اعضاء میں نیم فالجی علامتیں ملتی ہیں جس کی وجہ سے عمومی صحت کے باوجود انسان نا کا رہ ہو جاتا ہے.عورتوں کے جنسی اعضاء میں عموماً لمبے نزلے کے بداثرات پائے جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ہر قسم کا لیکوریا جاری ہو جاتا ہے اور مستقل بہتا رہتا ہے.اسی طرح رحم کے نیچے گرنے کا احساس بھی نمایاں ہے.کھڑے ہونے اور چلنے سے تکالیف بڑھ جاتی ہیں.اگر سوزاک کو دوسری دواؤں سے دبا دیا گیا ہولیکن اس کے دیر پا اثر باقی رہ جائیں اور عورتوں کے اعضاء میں خصوصاً بے چینی اور گرمی کا احساس ایک مستقل بیماری بن جائے تو اس میں ایلیو مینا بھی دوا ہو سکتی ہے.کھانسی کے ساتھ بعض دفعہ چھینکیں بھی آتی ہیں اور گلے میں ایسا احساس ہوتا ہے جیسے پرندے کے پر سے گدگدی کی جارہی ہے.ایلیو مینا کی کمر درد میں جلن بعض دفعہ اتنی شدید ہوتی ہے جیسے ماؤف مقام پر گرم استری رکھ دی گئی ہو.پاؤں کے تلوے کمزور اور نرم پڑ جاتے ہیں اور کچھ سوج بھی جاتے ہیں.جس پہلو پر انسان لیٹے یا بیٹھے وہ بہت جلد سو جاتا ہے اور ٹانگوں میں سونے کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے.سردی گرمی کے احساس میں ایک تضاد یہ ملتا ہے کہ مریض ٹھنڈا ہوتا ہے اور خوب اچھی طرح اپنے آپ کو لپیٹ کر رکھنا چاہتا ہے مگر اس کے باوجود چہرے پر ٹھنڈی ہوا کے جھونکے پسند کرتا ہے.بستر کی گرمی شروع میں تو بہت پسند آتی ہے مگر گرم ہونے پر خارش کا دورہ شروع ہو جاتا ہے.ہاتھ بہت ٹھنڈے رہتے ہیں اور سوتے وقت بہت آہستہ گرم ہوتے ہیں.جلد عمو ما خشک رہتی ہے اور پسینہ بہت کم آتا ہے یا بالکل نہیں آتا.مددگار دوائیں : برائیونیا دافع اثر دوائیں : اپی کاک.کیمومیلا طاقت 30 سے سی.ایم (CM) تک
ایمبرا گریسا 15 55 ایمبرا گریسا AMBRA GRISEA (Ambergis-A morbid Secretion of the Whale) ایمبرا گریسا دبلے پتلے، زودرنج، چڑ چڑے اور جلد غصہ میں آجانے والے بچوں اور بڑوں کی دوا ہے.زود حسی اس کی نمایاں علامت ہے.کم عمری میں ہی توازن کھو دینے اور چکرانے کا رجحان ملتا ہے جیسے بہت بوڑھے لوگوں میں طبعی طور پر یہ عارضہ پایا جاتا ہے.لہذا یہی دوا معمر مریضوں کی عمومی بیماریوں میں مفید ثابت ہوتی ہے.ایمبرا گر یا کامریض عموما غم میں ڈوبا رہتاہے خواہ کوئی معین غم اس کے ذہن میں نہ بھی ہو.یہ ایسے مریضوں کی دوا ہے جو طبعاً اور فطرتا غمگین ہوں، ان کا رجحان اندھیرے میں بیٹھا رہنے کی طرف ہو، بات بات پر دل ڈوبتا ہوا محسوس ہو اور زندگی کی کوئی خواہش باقی نہ رہے.ہر چیز سے بیزار اور بے پرواہ ہو جائے.اگر ان علامتوں کے ساتھ وقت سے بڑھاپے کی جسمانی علامتیں بھی ظاہر ہوں تو ان کا علاج ایمبرا گر لیسا ہے.ایسے مریضوں کو چکر بہت آتے ہیں.سر اور معدہ میں کمزوری کا احساس ہوتا ہے ، پیشانی پر بوجھ ، دماغ میں شدید درد کی لہریں اٹھتی ہیں ،غنودگی طاری ہو جاتی ہے.حافظہ کمزور ہوتا ہے.سرکی بیرونی علامتوں میں بالوں کا تیزی سے جھڑنا شامل ہے.ایسے مریض کی نکسیر پھوٹے تو بہت زیادہ پھوٹتی ہے اور دانتوں سے جریان خون ہو تو بہت زیادہ ہوتا ہے.معدے میں ہوا بہت پیدا ہوتی ہے اور ڈکار ایسے آتے ہیں جیسے کھٹاس بہت ہو لیکن اس کے ساتھ معدے میں جلن کی بجائے ٹھنڈک کا احساس پایا جاتا ہے.ذہنی انتشار اس کی ایک طبعی علامت ہے.سرسن ہونے کا احساس جو تمام جسم میں پھیلتا ہوا محسوس ہوتا ہے.
ایمبرا گریسا 56 ایمبرا گریسا میں بیماریاں عموماً ایک طرف ہی ٹھہری رہتی ہیں.یہ رجحان برائیونیا، بیلا ڈونا اور سپائی جیلیا میں بھی پایا جاتا ہے.ایمبر اگر یسا میں دائیں اور بائیں کا فرق نہیں ہے.اگر دائیں طرف ہی بیماری ہو تو دائیں طرف ہی رہے گی اور اگر بائیں طرف ہو تو بائیں طرف ہی رہے گی.ایمبرا گریا کی ایک علامت جو بظاہر اپنا بھی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ مریض موسیقی کو برداشت نہیں کر سکتا اور اس کے سر درد میں اضافہ ہو جاتا ہے.اعصابی تناؤ اور جسمانی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.گویا موسیقی اس کو سکون بخشنے کی بجائے اس کے اعصاب میں اضطراب پیدا کر دیتی ہے.ایمبرا گریسا میں بڑھاپے کی طبعی علامتیں مثلا ہاتھ پاؤں کا سونا، دل کا دھڑکنا اور اعصاب کا ڈھیلا پن سرعت سے بڑھنے لگتا ہے.یہ دوا فوری صدمہ کی شدت کو کم کرنے میں بھی کام آتی ہے.میں نے کئی بار ا سے ایسی مریض خواتین میں استعمال کیا ہے جو جذباتی صدمہ پہنچنے کے نتیجہ میں گہرے غم کا شکار ہوگئی تھیں.عارضی طور پر غم کے صدمہ کے لئے اکیشیا سے بہتر کوئی اور دوا نہیں.دافع اثر دوائیں : کیمفر کافیا.نکس وامیکا.پلسٹیلا.سٹیفی سیگریا طاقت : 30 سے 200 تک
امونیم کارب 57 16 امونیم کارب AMMONIUM CARB (Carbonate of Ammonia) امونیم کا رب بہت گہری اور خون کے نظام پر اثر انداز ہونے والی دوا ہے.اس کا اثر سانپ کے زہروں سے ملتا ہے.سندھ میں بعض قابل ہومیو پیتھک ڈاکٹر امونیم کا رب کو سانپ کاٹنے کے تریاق کے طور پر بہت کامیابی سے استعمال کرتے رہے ہیں.کالے رنگ کا پتلا خون بہتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ اندرونی جھلیاں جواب دے گئی ہیں.اگر جھلیاں جواب دے جائیں تو یہ اکثر بیماری کے آخری خطرناک مرحلے کی علامت ہوتی ہے.ناک، منہ، گلے، معدے اور انتڑیوں وغیرہ سے خون رسنے لگتا ہے.اگر یہ سیاہ رنگ کا ہو اور کچھ پہلا ہو تو امونیم کا رب اس کی بہترین دوا ہے کیونکہ سانپ کے کاٹے سے بھی پتلے یا گاڑھے سیاہ خون کا جریان ہوتا ہے.یہی وجہ ہے کہ امونیم کا رب ہومیو پیتھی میں اس کے توڑ کے طور پر استعمال ہوتی ہے.بعض بیماریوں میں اندرونی جھلیاں سرخ خون کے خلیوں کو روکنے کے قابل نہیں رہتیں.اس مرض کے لئے دوسری دوائیں استعمال کی جاتی ہیں جن کا کتاب میں اپنی اپنی جگہ ذکر موجود ہے.سیاہ خون کا اخراج اکثر ایسی بیماریوں میں ہوتا ہے جو موت پر منتج ہوتی ہیں اور اگر فوری علاج نہ کیا جائے تو مریض کی زندگی کو شدید خطرہ لاحق رہتا ہے.بعض اور دواؤں میں بھی سیاہ خون کے بہاؤ کا ذکر ملتا ہے لیکن ان کے با ہم فرق کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے ورنہ محض اس علامت کا کسی دوا میں پایا جانا کام نہیں دے گا.بواسیر میں سیاہی مائل نیلے خون کا جریان ہو تو یہ اندرونی جھلیوں کے نظام کی خرابی نہیں بلکہ پورٹل سسٹم (Portal System) کا درہم برہم ہوتا ہے.ہومیو پیتھک اصطلاح میں پورٹل سسٹم جگر
58 امونیم کارب اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے والی وریدوں کے نظام کو کہا جاتا ہے جن میں گندہ خون ہوتا ہے.اگر اس نظام میں خرابی ہو اور سیاہ خون کا جریان ہو تو سلفر، ہیما میلس (Hamamelis) اور اس قسم کی اور دوائیں بھی حسب علامت کام آسکتی ہیں.لیکن اگر انتڑیوں اور گردے وغیرہ جواب دے جائیں اور جہاں جہاں اندرونی جھلیاں ہیں وہاں سے سیاہ رنگ کا زہر یلا خون جاری ہو جائے تو یہ مختلف چیز ہے.یہاں امونیم کا رب کو یا درکھنا ضروری ہے.ایسے نازک اور تشویش ناک مرحلہ میں یہ سب سے اچھی دوا ثابت ہوتی ہے.سانپوں کے کاٹے میں یہ عجیب بات پائی جاتی ہے کہ اس میں خون جمنے اور بہنے دونوں باتوں کا رجحان ہوتا ہے.Orifices سے خون بہتا ہے یعنی ہر اس جگہ سے جہاں جلد اور اندرونی جھلیوں کا جوڑ ہے مثلاً ناخن اور جلد کا جوڑ ، ہونٹوں کے باہر کی جلد کے ساتھ اندر کی جلد کا جوڑ وغیرہ.جلد اور جھلیوں کے جوڑ ایک طرح سے سلائی والی لکیر کے مشابہ ہوتے ہیں جہاں دو کنارے آپس میں ملتے ہیں.پس جہاں کہیں بھی جلد اور جھلیوں کا جوڑ ہو وہاں سے خون رسنے کارجحان سانپوں کے زہروں میں نمایاں طور پر ملتا ہے اور یہی رجحان امونیم کا رب میں بھی ہے.امونیا کارب کی مریض عورتوں میں ہسٹیر پائی علامت نمایاں ہوتی ہے اور لیکیس کی طرح سونے سے ان کی بیماریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے.پرسوتی بخار اور بعض ایسے بخار جو زہریلے مادے پیدا کر کے دماغ پر اثر انداز ہو جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں مریض کو عجیب و غریب ڈرواؤ نے خواب نظر آنے لگتے ہیں ، ان خوابوں سے بھی مرض کی پہچان ممکن ہے.اگر خواب میں سانپ زیادہ نظر آئیں تو بیماری کا نیٹرم میور سے تعلق ہوتا ہے.سانپ کا ز ہر تو لیکیسس ہوتا ہے نہ کہ نیٹرم میور.سلیشیا میں بے چین کر دینے والے جو خواب آتے ہیں ان کی خاص علامت یہ ہے کہ مریض نیند کی حالت میں چلنے لگتا ہے اور بعض دفعہ لمبا عرصہ چلنے کے بعد واپس اپنے بستر پر پہنچ کر سو جاتا ہے.ایک دفعہ سلیشیا کی ایک مریضہ سوتے میں اپنا بستر لپیٹ کر اٹھائے ہوئے دوسرے گھر پہنچی اور دروازہ بند
امونیم کارب 59 پا کر بستر وہیں پھینکا اور واپس اپنے گھر پہنچ کر خالی چار پائی پر دراز ہوگئی اور اگلے دن اسے کچھ بھی یاد نہیں تھا.نیند کی حالت میں بے چینی اور نیند کی کمی کا احساس سونے سے دور نہ ہو تو اس کی وجوہات معلوم کرنی چاہئیں کہ نیند کیوں بے چین کرتی ہے اور تکلیف کو کیوں بڑھا دیتی ہے.اگر معین وجہ معلوم ہو جائے تو اس سے تعلق رکھنے والی دوا اس کی ساری بیماری پر اثر انداز ہوگی بشرطیکہ اس میں دیگر اہم علامتیں بھی پائی جاتی ہوں.کانوں سے بد بودار مواد رسنے لگے تو امونیم کا رب ضرور ذہن میں آنی چاہئے.کانوں کی مزمن بیماریوں میں یہ بہت مفید دوا ہے.اس کی بو میں مردہ چیز کی عفونت پائی جاتی ہے کیونکہ اس کی بیماریوں میں نظام حیات درہم برہم ہو جاتا ہے اور اعضا کے ماؤف حصے تیزی سے مرنے لگتے ہیں.کان کے اندر بھی اسی وجہ سے بد بودار پیپ بن کر جھلیوں کو کھانے لگتی ہے.موت کے ساتھ عفونت وابستہ ہے.یہ ایک خاص قسم کی بو ہوتی ہے جو دوسری عام بد بوؤں سے بہت ہی مختلف ہوتی ہے.کان کے ایسے مریضوں میں مستقل علاج کے لئے امونیم کا رب کام آئے گی.اگر اچانک شدید درد شروع ہو جائے اور مریض سخت بے چین ہو تو پلسٹیلا اللہ کے فضل سے فوری فائدہ پہنچاتی ہے بشرطیکہ اس کے مزاج میں نرمی پائی جاتی ہو اور رونے کی طرف رجحان ہو.اگر کان کے درد کے ساتھ مزاج سخت برہم ہو جائے تو کیمومیلا کواولیت حاصل ہے اور اگر نزلہ کان کی طرف منتقل ہونے سے درد کا تعلق ہو تو ایلیم سیپا چوٹی کی دوا ہے.خون کا دباؤ زیادہ نمایاں ہو اور درد کے ساتھ سرخی اور تمتما ہٹ بھی ہو تو پلسٹیلا کے ساتھ بیلا ڈونا30 بھی ملالینی چاہئے.امونیم کارب غدودوں اور سلی امراض میں بھی بہت مفید ہے.بعض اوقات گردن کے غدود سوج کر سخت ہو جاتے ہیں اور گلٹیاں بن جاتی ہیں.دائمی سوزش امونیم کا رب کی خاص علامت ہے.اس لئے یہ کینسر کی گلٹیوں میں بھی مفید ہے.اگر جلدی بیماریاں علاج سے دبا دی جائیں اور وہ غدودوں میں پناہ لے لیں اور لمبے عرصہ تک ان کی
60 امونیم کارب طرف توجہ نہ دی جائے تو اس کے نتیجہ میں غدودوں میں کینسر پیدا ہونے کا خطرہ لاحق ہو جائے گا.امونیم کا رب بھی گٹھلیوں کے کینسر میں کام آنے والی دوا ہے.اس میں گلینڈز اس وقت پھولتے ہیں جب پیار یا بیرونی سطور ہیں جب بیماریاں بیرونی سطحوں سے اندر کی طرف منتقل ہو کر غدودوں کی جھلیوں میں گھر بنا لیں.دافع اثر دوائیں : آرنیکا.کیمفر طاقت: 30 یا حسب ضرورت اونچی
انتظر اسینم 61 17 انتظر اسینم ANTHRACINUM یہ دوا بیمار بھیڑوں کی تلی کے متعفن مواد سے تیار کی جاتی ہے.السر اور سیلان خون کے لئے یہ بہت اعلیٰ دوا ہے.اکثر ڈاکٹر اسے بہت کم استعمال کرتے ہیں لیکن میں نے اسے بہت مفید دوا پایا ہے.ایسی پھنسیاں جو غدودوں کی سوزش کے نتیجہ میں پیدا ہوں وہ بہت سخت اور گانٹھ دار ہوتی ہیں.ان میں ایسی نیلا ہٹ پائی جاتی ہے جو بہت بدزیب دکھائی دیتی ہے اور درد بھی ہوتا ہے لیکن ان میں پیپ نہیں بنتی.ایسی پھنسیوں میں انفراسیلم تیر بہدف ثابت ہوتی ہے.ایک دو ماہ کے مسلسل استعمال سے یہ پھنسیاں آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہیں.جسم کے اندرونی حصہ میں پائے جانے والے زخم جن سے خون رستا ہو اور ایسے تمام السرجن کے کینسر بننے کا خدشہ ہو ان میں انتظر اسینم مؤثر ثابت ہوسکتی ہے.جلد کے بعض حصے جو بیماری کے نتیجہ میں ادھڑ جائیں اور نگی خون آلود جلد نظر آئے تو اس میں بھی انتظر اسینم بہت مفید ہے.اس علامت کے پیش نظر میرا خیال ہے کہ السر نیٹو کلائنٹس (Ulcerative Colitis) یعنی بڑی آنت کے نچلے حصہ کے زخموں میں اسے مفید ہونا چاہئے.اس بیماری میں انتڑی کی جھلی کے نرم اور ملائم حصے گل کر جھڑ جاتے ہیں اور اندر سے انتڑی نگی ہو جاتی ہے.جس سے خون نکلتا رہتا ہے.ایلو پیتھی میں ابھی تک اس بیماری کا کوئی مستقل علاج دریافت نہیں ہوا.وقتی تکلیف کو روکنے کے لئے جو دوائیں دی جاتی ہیں ان کے ضمنی بداثرات بھی ہوتے ہیں.البتہ آپریشن کے ذریعہ اس انتری کو کاٹ دیا جائے تو علاج ہو جاتا ہے اور یہ بیماری آگے نہیں بڑھتی.کسی بیماری کو غلط دواؤں کے نتیجہ میں دبا دینے سے السر نیٹو کلائیٹس ہونے کا امکان ہوتا ہے.اس میں
انتظر اسینم 62 انتظر اسینم کو اثر کرنا چاہئے کیونکہ میں نے اس قسم کی ملتی جلتی بیماریوں میں اسے استعمال کیا ہے اور بہت مفید پایا ہے.انتظر اسینم زخموں اور پھوڑوں کو مندمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور جسم میں مزید پھوڑے پھنسیاں بننے کے رجحان کا بھی قلع قمع کر دیتی ہے.اگر جسم کے کسی حصہ سے بھی سیاہی مائل خون کا اخراج ہو تو اس میں انتظر اسینم مفید ہوسکتی ہے.دافع اثر دوائیں : ایس.کیمفر.کار بوو پیج.کرئیوز وٹ.سلیشیا.رس ٹاکس طاقت : 30 سے 200 تک
انتھرا کوکلی 83 63 18 انتظر ا کو کلی ANTHRAKOKALI یہ دوا جلد کی بیماریوں اور خارش وغیرہ میں مفید ہے.جلد خشک اور جگہ جگہ سے پھٹ جائے اور آبلے بنیں تو اسے استعمال کرنا چاہئے.ناک کے نتھنوں اور ناخنوں کے کنارے پھٹنے لگیں اور زخم بن جائیں تو انتظر اکو کی مفید ثابت ہوتی ہے.اس میں منہ خشک رہتا ہے.حلق میں بھی خشکی محسوس ہوتی ہے.خشک صفراء کی زیادتی کی وجہ سے قے آتی ہے.پیٹ میں ہوا بنتی ہے.مریض شدید پیاس محسوس کرتا ہے ، پیشاب بہت آتا ہے.طاقت : 30
64
اینٹی مو نیم کروڈ 65 19 اینٹی مونیم کروڈ ANTIMONIUM CRUDUM (سرمه) اینٹی مونیم کروڈ کی سب سے نمایاں علامت معدے کے نظام کا درہم برہم ہو جانا ہے.زبان پر سفید میل کی موٹی سی تہہ جم جاتی ہے.ڈاکٹروں نے عموماً زبان کے سفید رنگ پر بہت زور دیا ہے.حالانکہ بسا اوقات چاکلیٹ کھانے یا چائے پینے سے زبان کا رنگ نسواری ہو جاتا ہے اس لئے اینٹی مونیم کروڈ کی سفیدی نسواری رنگ میں بھی بدل سکتی ہے.بنیادی علامت یہی ہے کہ زبان پر جو بھی تہہ جسے وہ بہت موٹی ہوتی ہے اور اگر خوراک کے اثر سے رنگ تبدیل نہ ہو تو وہ ہمیشہ سفید ہوگی.اینٹی مونیم کروڈ اپنی عمومی علامتوں سے پہچانی جاتی ہے.وہ مریض جو بے تحاشا کھانا کھاتے ہیں اور ہر وقت کھاتے چلے جاتے ہیں.بیماریوں کے حملہ سے پہلے نا قابل برداشت بھوک کا دورہ پڑتا ہے.پھر اچانک جب معدہ جواب دے جائے تو اس وقت زبان پر مذکورہ علامت پوری طرح ظاہر ہوتی ہے.اینٹی مونیم کروڈ کافی گہری اور وسیع الاثر دوا ہے.زیادہ کھانے کی وجہ سے قے کا رجحان ہو تو اس کے استعمال سے قے رک جاتی ہے.اس کے علاوہ پاؤں کے موہکوں میں یہ اچھا اثر دکھاتی ہے.پاؤں کے نیچے سخت کیل کی طرح موہکے ہو جاتے ہیں.ناخن بگڑ جانا یا نا خون پر لکیریں پڑنا بسا اوقات کسی اندرونی بیماری کی علامت ہوتی ہے.اینٹی مونیم کروڈ کے مریض کے ناخنوں اور انگلیوں کے قریب سے بنتے ہیں.نائن اکھڑ نے لگتے ہیں یا پچک جاتے ہیں اور ان میں لکیریں سی پڑ جاتی ہیں.موٹے موٹے ابھار بن جاتے ہیں.پاؤں میں بھی موہکے اور مسے بنتے ہیں.مسوڑھے پھول جاتے ہیں اور دانتوں سے الگ ہو جاتے ہیں.
اینٹی مونیم کروڈ 66 دانتوں میں کیڑا لگ جاتا ہے.اگر یہ علامتیں نمایاں ہوں تو اینٹی مونیم کروڈ کی پہچان بن جاتی ہیں.اینٹی مونیم کروڈ اور اینٹی مونیم ٹارٹ کا دانت کا درد اعصابی بھی ہوتا ہے.خونی پیچش میں عام طور پر مریض کے فضلے کے اندر خون ملا ہوا ہوتا ہے لیکن اینٹی مونیم کروڈ میں جو اجنبی بات ہے وہ یہ ہے کہ اس میں صحت مند انسان کے فضلے کی طرح فضلہ بندھا ہوا اور خون کی آمیزش سے پاک ہوتا ہے لیکن اس کے اردگر دخون کی ایک تہہ سی لپٹی ہوئی ہوتی ہے.اینٹی مونیم کروڈ کے مریض کی ایڑیوں میں درد ہوتا ہے.معدہ کی خرابی کے ساتھ جلدی امراض ابھر آتے ہیں.اس کی تکلیفوں میں کھلی ہوا سے اور مرطوب گرم موسم سے کمی آ جاتی ہے لیکن مریض گرمی برداشت نہیں کر سکتا خصوصاً سورج کی روشنی نا قابل برداشت ہوتی ہے.اس کی علامات میں معدے کی خرابی ،متلی، پھیپھڑوں پر اثر ، ناخنوں اور ناک کے کناروں پر اثر ، ناک کے کنارے اور ہونٹ کے کنارے چھل جانا اور خشک ایگزیما شامل ہیں.مددگار دوا: سلفر سلف دافع اثر دوا ہیپر طاقت : 30
67 20 امیں میلیفی کا APIS MELLIFICA (The Honey Bee) امیس طبی نقطہ نظر سے شہد کی مکھی کے ڈنک میں موجود زہر کو کئی بیماریوں کے علاج میں استعمال کیا جاتا ہے.قدیم طب میں بھی زہر یلے کیڑے مکوڑوں کے کاٹنے کا علاج اس سے کرتے تھے.شہد کی مکھی کے کاٹنے سے جو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں ان سے ملتی جلتی بیماریوں میں ایپیس بہت مفید ہے.ایس کے مریض کے درد میں جلن اور چھن کا احساس ہوتا ہے جو ہمیشہ ٹھنڈک سے آرام پاتا ہے اور گرمی سے بڑھ جاتا ہے.اس کی علامات عموماً دائیں طرف سے شروع ہوتی ہیں اور بائیں طرف منتقل ہونے لگتی ہیں.جلد پر سخت دیکھن کا احساس ہوتا ہے اور مریض کوئی دباؤ حتی کہ کپڑے کا لمس بھی برداشت نہیں کر سکتا.خون میں حدت اور تمازت پائی جاتی ہے اور مریض کھلی ہوا میں آرام پاتا ہے.حرارت سے بیماری کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے.ہر قسم کی سوزش اور ورم میں ایپس اس صورت میں بہت مفید ہے جب ٹکور یا گرمی سے تکلیف بڑھتی ہو.ان علامتوں کی موجودگی میں ایپس گردن توڑ بخار (Meningitis) کا بھی بہترین علاج ثابت ہوتی ہے.اگر ایپس مین جائنٹس میں ہر وقت استعمال کروائی جائے تو مرض بگڑ کر مرگی میں تبدیل نہیں ہوتا جبکہ روایتی طبی علاج سے مینجائٹس ٹھیک بھی ہو جائے تو اس کے دیر پا منفی اثرات باقی رہ جاتے ہیں جن میں سے ایک مرگی بھی ہے.اگر گرمی کی بجائے سردی سے تکلیف بڑھتی ہو تو ایپس جیسی علامات کے مریض کو ایپوسائینم (Apocynum) فائدہ دے گی.
امیس 68 حمل کے دوران خصوصاً آخری دنوں میں بعض عورتوں کو سنج ہو جاتا ہے.عمومی تاثر یہ ہے کہ ایسی حالت میں گرم پانی سے نہانے سے سکون ملتا ہے لیکن اگر مریضہ کا مزاج ایپس سے ملتا ہو تو گرم پانی کے غسل سے سخت قسم کے شیخ ہونے لگتے ہیں یہاں تک کہ رحم کا منہ سکڑنے کی وجہ سے بچہ رحم کے اندر مر جاتا ہے اور ایسی مریضہ فوری طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے مر بھی سکتی ہے.اسی طرح چھوٹی عمر کے بچے جو اپنی تکلیف بیان نہیں کر سکتے اگر وہ مزاجاً ایپس سے مشابہت رکھتے ہوں تو گرم غسل دینے سے ان کی تکلیفیں ہمیشہ بڑھیں گی اور جگہ جگہ شیخ ہونے لگیں گے.ہومیو پیتھک ڈاکٹر ز کا مشاہدہ ہے کہ یہ شیخ جان لیوا بھی ثابت ہو سکتے ہیں.اس لئے یہ معلوم کرنا بہت ضروری ہے کہ مریض کی تکلیف ٹھنڈ سے بڑھتی ہے یا گرمی سے.اگر گرمی سے تکلیف بڑھے تو اپس کے علاوہ بیلاڈونا اورا یکونائٹ ایک ہزار طاقت میں ملا کر دو تین خوراکیں دس پندرہ منٹ کے وقفہ سے دینے سے بیماری کے آغاز میں ہی بہت نمایاں افاقہ محسوس ہوتا ہے.اگر ٹھنڈ سے تکلیف بڑھے تو میگ فاس دینی چاہئے.وسائینم (Apocynum) اور ایپس میں یہ فرق ہے کہ ایپوسائینم ٹھنڈے مزاج کی دوا ہے اور ایپس گرم مزاج کی.چھوٹا بچہ اگر کپڑا لینا پسند نہ کرے اور ٹانگیں مار کر جلد کپڑا اتار دے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ گرمی پسند نہیں کرتا.ایپوسہ ایپس کے مریض کی ایک نمایاں علامت یہ ہے کہ اس کی ورموں میں ٹیسوں کا احساس ضرور ہوتا ہے جیسے مکھی نے ڈنک مارا ہو.ایپوسائینم میں ٹیسوں کا احساس نہیں ہوتا.ایپس کے مریض کی ورم بعض دفعہ دماغ کی بیرونی جھلی میں بھی ظاہر ہوتی ہے اور اس کی بھی یہی خاص پہچان ہے کہ گرمی سے تکلیف میں اضافہ اور بہت تیز ٹیسیں پڑنے کا احساس.بچہ جو اس تکلیف کو بیان نہیں کر سکتا وہ اچانک بڑے زور سے چیخ مارتا ہے اس لئے ڈاکٹر کا کام ہے کہ فوراً اس علامت کی طرف توجہ کرے اور ایپس دینے میں دیر نہ کرے.ایپس دل کے پردوں پر بھی ایسا ہی اثر کرتی ہے.پھیپھڑوں کے غلاف پر بھی اور جگر کے غلاف پر بھی.گویا اس کا زیادہ تعلق عضلات سے بڑھ کر ان غلافوں سے ہے جن
امیس 69 غلافوں میں عضلات لیٹے ہوئے ہوتے ہیں.ایپوسائینم (Apocynum) کا بھی یہی حال ہے کہ یہ زیادہ تر غلافوں کی دوا ہے.یہ دونوں دوائیں پیٹ کی لعاب نکالنے والی جھلیوں پر اثر انداز ہوتی ہیں جیسا کہ انتڑیوں کی جھلیوں پر یا گردے کی جھلیوں پر جو خون سے پیشاب کو نتھارتی ہیں.دونوں میں عموماً ورم پھلپھلی ہوتی ہے مگرا یپوسائینم کی ورم بعض دفعہ سخت بھی ہو جاتی ہے.اگر جلد کو دبایا جائے تو جیسا کہ ورم والی جگہ میں عموماً ہوتا ہے دبانے کا نشان کچھ دیر تک اس طرح رہتا ہے اور آہستہ آہستہ اٹھ کر باقی جگہ سے مل جاتا ہے.اگر ایپس کے مریض کے گردے خراب ہوں تو آنکھ کے نیچے پھلی ورم ان کی نشاندہی کرتی ہے.اگر اس کے ساتھ گردوں میں ٹیسیں پڑنے یا گرمی سے تکلیف کے بڑھنے کی علامت موجود ہو تو قطعی طور پر یہ مرض ایپس کے دائرہ اثر میں ہوگا.اگر آنکھ کے اندر تکلیف ہو تو آنکھ کا اندرونی حصہ اور پپوٹوں کے نیچے کی جھلیاں سوج کر بھیا تک منظر پیش کرتی ہیں.ان میں شوخ سرخی کے علاوہ چھن دار درد بھی ہوتا ہے اور ایپس کی بنیادی علامت یعنی گرمی سے تکلیف کا بڑھنا اس کی نشاندہی کرتا ہے.ایسا مریض دھوپ میں آنکھ نہیں کھول سکتا.انیس کی بعض تکلیفیں دائیں طرف ہوتی ہیں.بری خبر سننے سے یا حسد اور جلن سے دائیں طرف فالج ہو جاتا ہے.البتہ آنکھ کی تکلیف اکثر بائیں آنکھ سے شروع ہوتی ہے.گلے کی خرابی میں بھی اسی طرح پہلے بائیں طرف سوزش ہو گی پھر دائیں طرف منتقل ہو گی.جو لیکیس کی بھی ایک نمایاں علامت ہے لیکن ایپس میں گرم پانی کے غراروں کی بجائے ٹھنڈے پانی کے غراروں سے آرام آتا ہے.ایس کے مریض کا پیٹ اکثر ہوا سے تن جاتا ہے جس کے نتیجہ میں دائیں طرف پسلی کے نیچے بیج ہونے لگتا ہے اور مریض ماؤف جگہ کو دبا کر رکھنے سے آرام پاتا ہے اور جب تناؤ اور بڑھ جائے تو بائیں طرف بھی دل کے نیچے تشنج ہونے لگتا ہے جیسے شکنجہ پڑ گیا ہو.اگر مریض گرمی سے بے چینی محسوس کرے تو ایپس تیر بہدف ثابت ہوتی ہے اور ایک دو
امیس 70 خوراکوں میں ہی آرام آجاتا ہے.ایپس عرصہ اثر کے لحاظ سے درمیانہ درجہ کی دوا ہے اور اس میں فائدہ کچھ دیر استعمال کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن بہت لمبے انتظار کی ضرورت پیش نہیں آتی.عموماً دس پندرہ دن یا ہفتے کے اندر ہی اثر شروع ہو جاتا ہے.ہاں انتڑیوں میں شکنجہ پڑنے کی صورت میں فوری اثر دکھاتی ہے.گھنٹہ دو گھنٹہ میں نمایاں فرق پڑ جاتا ہے.دماغ کے ورم میں بھی فوری اثر دکھاتی ہے لیکن اگر بچے کو ہائیڈروکسیفلیس (Hydro Cephalus) ہو یعنی سر بڑا ہوتے چلے جانے کی بیماری ہو تو اگر چہ ایپس کا فوری فائدہ دکھائی دیتا ہے لیکن یہ اس مرض کی مستقل دو ا نہیں ہے.اس لئے فوری طور پر اس مرض کی مستقل دو اسلیشیا استعمال کرانی چاہئے جو کہ سب دواؤں میں زیادہ مؤثر ہے.یہ چھوٹی طاقتوں سے شروع کر کے بعض دفعہ بہت اونچی طاقتوں میں بھی دینی پڑتی ہے.پیٹ کی تکلیفوں میں ہوا کے تناؤ میں ایپس فوری فائدہ دیتی ہے لیکن انتریوں کی بعض مزمن تکلیفوں میں لمبے عرصہ تک اسے استعمال کرانا پڑتا ہے.ایک عمومی اصول یا درکھنے کے لائق ہے کہ جہاں علامتیں آہستہ آہستہ پیدا ہوں وہاں دوا بھی آہستہ آہستہ اثر دکھائے گی.جہاں علامتیں فوری پیدا ہوں وہاں دوا بھی فوری اثر دکھاتی ہے.گردے کی تکلیف میں جب ایپس کو لمبا عرصہ استعمال کرنا پڑتا ہے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ فائدے کے آثار بھی بہت دیر بعد ظاہر ہوتے ہیں.اگر گردے کی بیماری میں ایپس کام کر رہی ہو تو مستقل بیماری ٹھیک ہونے میں تو وقت لگے گا لیکن ہفتہ دس دن کے اندر گر دے پیشاب زیادہ بنانے لگیں گے جو اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ ایمپس نے کام کرنا شروع کر دیا ہے.اس صورت میں دوا کی طاقت آہستہ آہستہ بڑھا دینی چاہئے اور خوراکوں کا وقفہ لمبا کر دینا چاہئے.اس کا طریق کار تفصیل سے ٹیوبر کیولینم یا ٹیسیلینم میں بیان ہوا ہے اسے Rising Potency کہا جاتا ہے.مددگاردوا نیٹرم میور دافع اثر دوائیں : کینتھرس.اپی کاک لیکیس.لیڈم.نیٹرم میور طاقت : 30 سے 200 تک
71 21 ار جنم میٹیلیکم ARGENTUM METALLICUM (Metallic Silver) ار جانم مٹیلیکم چاندی کو کہتے ہیں.چاندی دو دھات ہے جو عموماً خالص حالت میں جسم میں جذب نہیں ہوتی لیکن کچھ اور عناصر سے مل کر اس کے مرکبات جسم میں جذب ہو سکتے ہیں.طب یونانی میں چاندی کے ورق طاقت کے لئے استعمال کئے جاتے ہیں لیکن اصل چاندی جسم کا جزو نہیں بنتی.آج کل تو سکہ کوٹ کر چاندی کے نام پر ورق بنائے جاتے ہیں جو صحت کے لئے سخت مضر ہوتے ہیں.جہاں تک ہومیو پیتھک اثرات کا تعلق ہے ہر دھات جو جلد یا انتریوں کو مس کر رہی ہو نہایت لطیف ذرات کی صورت میں کچھ نہ کچھ مقدار جسم میں جذب ہوتی رہتی ہے جو جدید ترین آلات سے بھی معلوم نہیں کی جاسکتی.ارجنٹم میٹیلیکم کا سب سے زیادہ اثر کرکری ہڈیوں پر ہوتا ہے یعنی وہ ہڈیاں جن میں لچک پائی جاتی ہے اور وہ بآسانی مڑ جاتی ہیں.یہ ہڈیاں موٹی اور سخت ہونے لگتی ہیں، ناک کی ہڑی موٹی ہو جانے کے باعث سانس لینے میں دقت ہوتی ہے.اسی طرح کان کی ہڈیوں میں چھوٹی چھوٹی گانٹھیں سی پڑ جاتی ہیں اور وہ سوج کر موٹی ہونے لگتی ہیں.یہی علامتیں بڑھ کر ان ہڈیوں کے کینسر میں بھی تبدیل ہوسکتی ہیں.ارجنٹم میٹیلیکم دماغ پر بہت گہرا اثر کرنے والی دوا ہے.دماغ کے خلیے آہستہ آہستہ گھلنے لگتے ہیں اور بڑھاپے کی علامتیں وقت سے بہت پہلے ظاہر ہونے لگتی ہیں.قوت فکر یہ کمزور ہونے لگتی ہے.یہ کمزوری دماغ کے مرکزی حصہ سے شروع ہو کر رفتہ رفتہ جسم کے دوسرے اعضاء پر قبضہ کر لیتی ہے.ہاتھ پاؤں مڑنے لگتے ہیں.ذہنی صلاحیتیں
72 متاثر ہوتی ہیں اور یادداشت اتنی کمزور ہو جاتی ہے کہ بعض دفعہ مریض بالکل نیم پاگل سا ہو جاتا ہے اور اول فول بکتا ہے.سوچنے کی طاقت میں کمی آنے لگتی ہے.کوئی بات سوچے تو چکر آنے لگتے ہیں.یہ خطرے کا الارم ہے کہ دماغ کے خلیے سکڑنے لگے ہیں.اس وقت فوراً ارجنٹم میٹیلیکم اونچی طاقت میں دینی چاہئے جسے پندرہ میں دن یا مہینے کے بعد دہراتے رہنا چاہئے.دمہ کے مریض سانس کی تنگی دور کرنے کے لئے جو Inhaler استعمال کرتے ہیں اس کے زہر کا اثر بھی ارجنٹم کے اثر سے ملتا جلتا ہے اور وہ بھی دماغ کے خلیوں کو سکیڑتا ہے یہاں تک کہ وہ بالکل ماؤف ہو جاتے ہیں.ارجنٹم مٹیلیکم کی لیکیس سے اس پہلو سے مشابہت ہے کہ تکلیفیں سونے کے بعد بڑھ جاتی ہیں خصوصاً اعصاب میں بہت کمزوری واقع ہو جاتی ہے.سارے بدن کے اعصاب کمزوری محسوس کرتے ہیں.ارجنٹم میٹیلیکم کا ٹانگوں کے عضلات سے بھی گہرا تعلق ہے.اعصابی دردیں زیادہ تر دونوں ٹانگوں اور پاؤں میں پائی جاتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ ریشے پھٹ کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے.یہ دردرات کو سوتے ہوئے اور سرد مرطوب موسم میں بڑھ جاتے ہیں.بائی کی دردیں بھی ہمیشہ طوفانی اور بھیگے ہوئے موسم میں زیادہ ہو جاتی ہیں.برسات کے موسم میں بارش سے پہلے اور بعد میں تکلیف بڑھ جاتی ہے.ان دردوں کے ساتھ سوزش نہیں ہوتی مگر مریض سخت بے آرام ہوتا ہے.عام طور پر ہلکی حرکت موافق آتی ہے.تیز حرکت سے جوڑوں میں درد شروع ہو جاتا ہے.آہستہ حرکت سے دردوں کو نسبتا سکون ملتا ہے.تکلیف نیند سے نہیں بلکہ آرام کرنے سے بڑھتی ہے.ساری رات رسٹاکس کی طرح جسم میں دردیں اکٹھی ہوتی رہتی ہیں.فرق یہ ہے کہ رسٹاکس میں بہت جسمانی بے چینی ہوتی ہے جس سے مریض کروٹیں بدلتا رہتا ہے.ارجنٹم مٹیلیکم جلد کے کینسر اور اندرونی جھلیوں کے کینسر میں بہت مفید ہے.رحم کے منہ کے کینسر کو عموماً ہر قسم کے معالج نا قابل علاج مرض تصور کرتے ہیں لیکن
73 ار جسم میٹیلیکم ارجنٹم میٹیلیکم اس میں بہت کامیابی سے استعمال ہوتی ہے اور مکمل شفا کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے.اگر پوری شفانہ بھی ہو تو لمبے عرصہ تک مریض کو سکون مل جاتا ہے ٹیرنٹولا ہسپانیہ (.Terentula Hisp) ہیلونیس (Helonias) اور کار بوائیمیلیس (Carbo Animalis) بھی رحم کے منہ کے کینسر میں بہت مفید ہیں.ارجنٹم میٹیلیکم میں جگہ جگہ السر پائے جاتے ہیں لیکن کرکری ہڈیوں کے السر میں یہ بالخصوص زیادہ اثر دکھاتی ہے.وریدوں کے خلیوں سے بھی اس کا تعلق ہے.اس میں ایک عجیب اور غیر معمولی علامت پائی جاتی ہے جو عام طور پر دوسری دواؤں میں نہیں ملتی ، وہ یہ کہ عورتوں کے اندرونی اعضاء میں یہ بائیں طرف اور مردوں کے اندرونی اعضا میں دائیں طرف اثر دکھاتی ہے.عموماً دائیں بائیں یا اوپر نیچے کے دھڑ کا فرق کرنے والی دوا ئیں تو بہت ہیں لیکن عورتوں اور مردوں کی تکالیف میں دائیں اور بائیں کا فرق کرنا اسی دوا کا خاصہ ہے.اس میں عورتوں کی Ovary یعنی انڈا بنانے والی تھیلی بیمار ہو کر پھول جاتی ہے اور مختلف قسم کے مادے جم جم کر اسے سخت اور موٹا کر دیتے ہیں.رحم بھی پھیل جاتا ہے اور اس میں لچک نہیں رہتی.ایک دفعہ پھیل جائے تو دوبارہ اپنی اصل حالت کی طرف نہیں لوٹتا.ہر بچے کی پیدائش کے بعد یہ تکلیف بڑھ جاتی ہے اور بعض دفعہ رحم نیچے گر جاتا ہے.ارجنٹم مٹیلیکم ایسی مریض خواتین کی بہترین دوست ثابت ہوتی ہے اور شفا کا موجب بن جاتی ہے.رحم میں تختی اور رحم کے منہ پر اینٹھن اور اکڑاؤ کی علامت ظاہر ہو، نیز ایسا لیکوریا ہو جس میں غیر معمولی بد بو اور تعفن پایا جائے تو یہ باتیں نشاندہی کرتی ہیں کہ یہ عام لیکوریا نہیں ہے بلکہ کسی گہری مرض کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے.اس وقت ارجنٹم میٹیلیکم استعمال کی جائے تو بیماری کی شروع میں ہی روک تھام ہو جاتی ہے.اگر ٹانگوں میں درد ہے اور اصل وجہ معلوم نہ ہو سکے تو ارجنٹم میٹیلیکم ضرور استعمال کرنی چاہئے.سن یاس کے زمانہ میں یعنی حیض بند ہونے کے بعد بھی خون جاری ہو جائے تو ارجنٹم مٹیلیکم اچھا اثر دکھا سکتی ہے.یہ عموماً دبلی پتلی اور لمبے ہاتھوں والی عورتوں کے
74 کام آنے والی دوا ہے لیکن یہ ضروری نہیں.نسبتاً موٹی خواتین کی بیماریوں میں بھی مفید ثابت لیکن بیضروری ہوسکتی ہے.بعض لوگوں کو نیند آتے وقت یا نیند کے دوران جھٹکے لگتے ہیں.یہ بہت تکلیف دہ عارضہ ہے.اس میں گرائینڈ لیا (Grindelia) چوٹی کی دوا ہے.آرسنک بھی اچھا اثر دکھاتی ہے.ارجنٹم میٹیلیکم بھی مفید ہے بشرطیکہ اس تکلیف کا تھکاوٹ سے تعلق ہو سخت محنت ومشقت سے تھکے ہوئے بدن کو سونے سے قبل جھٹکے لگیں تو ارجنٹم مٹیلیکم سے خدا تعالیٰ کے فضل سے فوری شفا ہو جاتی ہے.ویسے اس بیماری میں اکثر گرائینڈ ملی ہی کام آتی ہے.جس کی ایک ہی خوراک ہفتوں تک اثر دکھاتی ہے، بار بار ضرورت پیش نہیں آتی.ارجنٹم میٹیلیکم کی تکلیفیں عین بارہ بجے ، جب سورج نصف النہار پر ہو، بڑھ جاتی ہیں، چکر آتے ہیں.سر کا درد ماتھے اور پیشانی تک محدودر ہتا ہے یا پھر سر کے کسی ایک طرف مقام بنا لیتا ہے جو زیادہ تر دائیں طرف ہوتا ہے.آہستہ آہستہ بڑھتا ہے لیکن یکدم ختم ہو جاتا ہے.اس درد کا چہرے کی اعصابی دردوں سے بھی تعلق ہے کیونکہ یہ بنیادی طور پر اعصابی دوا ہے اور سردرد کا بھی اعصاب سے تعلق ہے.اگر خارش صرف ایک کان تک محدود ہو اور مریض اسے کھجلا کھجلا کر زخمی کر دے اور کان موٹا ہونے لگے تو یہ ارجنٹم مٹیلیکم کی خاص علامت ہے.دونوں کانوں کا موٹا ہو جانا کوڑھ کی ابتدائی علامت ہوتی ہے.یہ مرض بہت آہستہ آہستہ بڑھنے والا ہے.اس علامت کے ظاہر ہوتے ہی ہائیڈ روکوٹائل (Hydrocotyle) دینی چاہئے.یہ کوڑھ کی روک تھام کے لئے بہترین دوا ہے.ذیا بیٹیس اور پیشاب میں البو من آنے کی بیماری میں ارجنٹم میٹیلیکم بہترین دوا ہے.اگر دوسری علامتیں ملتی ہوں تو مکمل شفا ہو جاتی ہے.گردوں کی اندرونی جھلیوں میں خرابیاں پیدا ہو جا ئیں تو بھی ارجام مٹیلیکم مفید ہے.ارجنٹم میٹیلیکم میں پیشاب کی دو طرح کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں.اگر سیاہی مائل
75 پیشاب ہو تو اس کا مطلب ہے کہ اس میں البیومن آ رہی ہے.اگر شوگر آئے تو اکثر ایسے مریضوں کولسی کی طرح پیشاب آتا ہے اور بہت زیادہ ہوتا ہے.ایسے بچے جو بچپن سے ہی ذیابیطس کا شکار ہو جائیں ان میں یہ علامت ملتی ہے.اس میں ارجنٹم میٹیلیکم تب مفید ثابت ہوگی جب وہ مریض کی عمومی مزاجی دوا ہو.ایسے مریض جنہیں ذیا بیطس ہو اور گردے جواب دے رہے ہوں اور ان کا رات کو بستر میں پیشاب نکل جاتا ہو تو ان سب عوارض کے لئے ارجنٹم مٹیلیکم مفید ہے.ارجنٹم میٹیلیکم میں غیر معمولی کمزوری ا احساس پایا جاتا ہے.سارا بدن اندرونی طور پر بے حد کمزور محسوس ہوتا ہے.بدن بے جان سا ہو جاتا ہے.اس گہری تھکاوٹ کا علاج ارجنٹم میٹیلیکم.سیم زیادہ بولنے اور گانے والوں کے لئے بھی مفید دوا ہے.آواز کے بیٹھ جانے میں یہ دوا بہت شہرت رکھتی ہے.اس میں آواز بعض دفعہ بالکل بند ہو جاتی ہے.جوں جوں کوئی بولے آواز غائب ہوتی جائے گی.بعض اور دواؤں میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے لیکن ان میں تفریق کرنا مشکل امر نہیں ہے.مثلاً رسٹاکس کے مریض بولنا شروع کریں تو آواز شروع میں بیٹھی ہوئی معلوم ہوتی ہے لیکن بولتے رہنے سے رفتہ رفتہ آواز صاف اور بہتر ہوتی جائے گی.اگر بولنے سے تکلیف کم ہونے کی بجائے بڑھتی جائے تو عموماً بوریکس (Borax) استعمال ہوتی ہے لیکن اگر مریض مزاجی طور پر ارجنم میٹیلیکم کا ہوتو یہ بوریکس سے بہت زیادہ مؤثر ثابت ہوگی.ارجنٹم میٹیلیکم میں حجرہ میں شدید در داورسوزش نمایاں ہوتے ہیں.ہنسنے سے کھانسی میں اضافہ ہو جاتا ہے.یہ علامت فاسفورس میں بھی بہت نمایاں ہے.اگر فاسفورس سے فائدہ نہ ہو تو ارجنم مٹیلیکم دینی چاہئے.ارجنٹم میٹیلیکم کے مریضوں کو سردی کی وجہ سے نزلہ زکام ہو جاتا ہے اور گلے پر اثر پڑتا ہے، سینہ کے بالائی حصہ میں دکھن کا احساس ہوتا ہے، دو پہر کے وقت بخار ہو جاتا ہے، سینہ میں شدید کمزوری اور بائیں جانب پسلیوں میں درد شروع ہو جاتا ہے.ارجا ارجنٹم میٹیلیکم پھیپھڑوں کی تکلیف میں
ار جینم مینٹیلیکم 76 بھی مفید ہے.ویسے چھاتی کی تکلیفوں میں جو عموماً کمزوری اور بلغمی مزاج کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ارجنٹم سے زیادہ ٹینم (Stanum) مفید ہے لیکن اگر کوئی ارجنٹم مٹیلیکم کا مزاجی مریض ہو تو ٹیم کے مقابل پر یہ بہت زیادہ مفید ثابت ہوگی.اور عالم میلیالیکم میں وقت سے بہت پہلے ارجنٹم بڑھاپے کے آثار ظاہر ہوتے ہیں.بیس پچیس سال کی عمر میں ہی منہ جھریوں سے بھر جاتا ہے.وقت سے پہلے ظاہر ہونے والے بڑھاپے میں سارسا پر یلا چوٹی کی دوا ہے.چینینم آرس (Chininum Ars) میں بھی وقت سے پہلے آنے والا بڑھاپا نمایاں ہوتا ہے مگر چینینم آدرس کا بے وقت کا بڑھا یا لمبی اور گہری بیماریوں کا نتیجہ ہوتا ہے.جگر اور تلی جواب دے جاتے ہیں.سارسا پر یلا میں جلد سکڑ کر بالکل چرمر ہو جاتی ہے.ارجنٹم مٹیلیکم میں پیٹھ کے بل لیٹنے سے دھڑکن زیادہ محسوس ہوتی ہے.اس کا تعلق پھیپھڑوں میں پانی کے اجتماع سے بھی ہے.پھیپھڑوں میں بلغم یا پانی بھرا ہو تو پیٹھ کے بل لیٹنے سے وہ ان تمام خلاؤں میں بھر جاتا ہے جن میں سانس کی ہوا بھرنی چاہئے.بیٹھنے یا کھڑا ہونے پر یہ پانی پھیپھڑے کے اوپر کے حصہ سے نچلے حصہ کی طرف اتر جاتا ہے جس سے مریض سانس لینے میں کچھ آسانی محسوس کرتا ہے.عورتوں میں حمل کے دوران دل کی دھڑکن زیادہ ہو جاتی ہے.کبھی کبھی اچانک دل بہت شدت سے دھڑ کنے لگتا ہے.ایسی صورت میں ارجنٹم میٹیلیکم خدا کے فضل سے بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے.ا ارجنٹم میٹیلیکم کی تکلیفوں میں چھونے سے اور دن کے بارہ بجے اضافہ ہو جاتا ہے.کھلی ہوا میں اور رات کو لیٹنے سے کھانسی میں کمی واقع ہو جاتی ہے لیکن دیگر جسمانی عوارض میں لیٹنے سے تکلیفیں بڑھتی ہیں.دافع اثر دوائیں: مرک سال.پلسٹیلا طاقت : 30 سے سی ایم (CM) تک
ارجنٹم نائیٹریکم 77 22 ارجنٹم نائیٹریکم ARGENTUM NITRICUM (Nitrate of Silver) ارجنٹم نائیٹریکم ایک ایسی دوا ہے جسے زمانہ قدیم میں مرگی کے مرض میں استعمال کیا جاتا ہے.لیکن اس کے استعمال سے اگر مرگی کو آرام آئے تو جلد پر خارش ہونے لگتی تھی.اسی طر ح روایتی طریقہ علاج میں اسے آنکھوں کی بیماریوں کے لئے بھی استعمال کیا جاتا تھا.ارجنٹم نائیٹر کیم چاندی کا زیور پہننے والے لوگوں میں پیدا ہونے والی علامات پر اونچی طاقت میں اثر انداز ہوسکتی ہے.لمبے ایلو پیتھک استعمال کے نتیجہ میں یہ رفتہ رفتہ ذہنی صلاحیتوں پر منفی اثر ڈالتی ہے.اگر ویسے ہی دماغ کمزور ہو جائے اور تخلیقی صلاحیتیں متاثر ہونے لگیں تو ارجنٹم نائیٹریکم ضرور پیش نظر رکھنی چاہئے.اس میں یادداشت کمزور ہو جاتی ہے اور ایسا مریض غیر معقول استدلال کرنے لگتا ہے.تو ہمات کا شکار ہو جاتا ہے اور خیالی ہیولے نظر آنے لگتے ہیں.اگر ہیولے نظر نہ آئیں تو بھی سمجھتا ہے کہ کوئی چیز گردو پیش میں موجود ہے.وہ بعض خاص مقامات میں جانے سے ڈرتا ہے.ایسے خوفزدہ بچوں کو اپنے ساتھ لے کر ایسی جگہ جانا چاہئے جہاں سے وہ خوف محسوس کرتے ہیں اور انہیں بتانا چاہئے کہ یہاں کچھ بھی نہیں.ارجنٹم نائیٹریکم ایسی علامتوں کو دور کرنے کے علاوہ بعض دوسری گہری بیماریوں کو بھی دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.ارجنٹم نائیٹریکم کا مریض اونچی جگہ سے نیچے دیکھے تو ڈرے گا کہ کہیں میں چھلانگ نہ لگا دوں،اس لئے اونچائی پر جانے سے حتی المقدور احتراز کرتا ہے.لیکن ارائم نائیٹریکم کے مریض میں یہ
78 ارجنٹم نائیٹریکم علامت بھی ملتی ہے کہ نیچے سے اوپر کسی بلند عمارت کو دیکھنے سے بھی سخت خوفزدہ ہو جاتا ہے.اسی طرح مریض اونچی چھت والے ہال میں جانے سے بھی ڈرتا ہے کہ کہیں چھت اس پر نہ گر جائے.اکثر ہومیو پیتھ ڈاکٹروں نے اپنی کتب میں اس علامت کو زیادہ واضح نہیں کیا صرف یہی لکھا ہے کہ اونچی عمارتوں کو دیکھنے سے خوف آتا ہے اور مرگی کے حملہ کا خطرہ ہوتا ہے لیکن میں نے جن مریضوں کو قریب سے دیکھا اور ان کی علامات کا تجزیہ کیا تو واضح طور پر وہ علامات سامنے آئیں جنہیں میں بیان کر چکا ہوں.ایسے مریض کو پل پر سے گزرتے ہوئے بھی خوف ہوتا ہے کہ کہیں میں دریا میں چھلانگ نہ لگا دوں.جب مرض بہت بڑھ جائے تو پل سے گزرتے ہوئے چھلانگ لگانے کا جوش دل میں اٹھتا ہے.ایسا مریض خوف سے کانپتا ہے اور کمزوری بھی محسوس کرتا ہے.ارجنٹم نائیٹریکم میں کسی امتحان یا کسی اہم ملاقات سے پہلے خوف سے اسہال شروع ہو جاتے ہیں.بعض لوگ ایسی کیفیت میں مضطرب ہو جاتے ہیں اور انہیں سخت غصہ آتا ہے.ارجنٹم نائیٹریکم میں غیر معمولی ذہنی تھکان اور معدہ کی تیزابیت کی وجہ سے یادداشت متاثر ہوتی ہے.ایک بیماری جو آرٹیر یوسکلر وسس (Arterio-Sclerosis) کہلاتی ہے یعنی دماغ کی طرف خون لے جانے والی شریانوں کا تنگ ہو جانا، اس میں ماضی قریب کے گزرے ہوئے واقعات بھول جاتے ہیں.بعض دفعہ دماغ کی طرف خون لے جانے والی شریانوں میں وقتی صحیح بھی پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے مریض سب کچھ بھول جاتا ہے.اگر تشیع کار، خان زیادہ ہو جائے تو مریض مستقل طور پر یادداشت کھو بیٹھتا ہے.اس کا معدے کی عارضی خرابی اور ذہنی تھکان سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.ارجنٹم نائیٹریکم میں یہ علامتیں بھی ملتی ہیں مگر اس میں یادداشت کا کھو دینا اکثر مستقل علامت کے طور پر ظاہر ہوتا ہے.اس بیماری میں الیو مینا بھی مفید دوا ہے.اسے لمبے عرصہ تک استعمال کیا جائے تو فائدہ ہوگا.ارجنٹم نائیٹر کیم میں دل کمزور ہو جاتا ہے اور اس میں کیو پرم اور کار بو انیمیلس کی
ارجنٹم نائیٹریکم 79 طرح نیلاہٹ کا رجحان ہوتا ہے.کیو پرم میں تشیخ کی وجہ سے جسم نیلا ہو جاتا ہے.کار بو ایمیلس میں آکسیجن کی کمی اور خون کی خرابی کی وجہ سے نیلا ہٹ ہوتی ہے.ارجنٹم نائیٹریکم میں نیلا ہٹ کا رجحان کار بو انیمیلس سے مشابہ ہے.ان دونوں دواؤں کی نیلا ہٹ سارے جسم پر ظاہر ہوتی ہے جیسے کسی کا دم گھٹ جائے تو جسم نیلا ہو جاتا ہے.کیوپرم میں وقتی تشیخ سے ہاتھ پاؤں بھی مڑ جاتے ہیں اور مریض کا چہرہ اور ہونٹ نیلے ہو جاتے ہیں.نائیٹریکم میں زخموں کا رجحان بھی ہوتا ہے.ایلو پیتھک طریقہ علاج میں پہلے آنکھ کی ہر بیماری میں سلورنا ئیٹریٹ کے قطرے استعمال ہوتے تھے.ہومیو پیتھی میں بھی یہ ہلکے محلول کی نکل میں دی جائے تو آنکھوں کے زخموں کے لئے بہت مفید ثابت ہوئی ہے.خصوصاً آنکھ کے کورنیا کے زخم میں ارجنٹم نائیٹریکم مفید دوا ہے.اس میں روشنی سے بہت زود حسی بھی ملتی ہے.آنکھوں میں درد اور تھکن کا احساس ہوتا ہے.مستقل آشوب چشم جس میں پیپ کی طرح کا مواد جاری رہتا ہو اس میں بھی ارجنٹم نائیٹریکم اچھا اثر دکھاتی ہے.اس میں پیوٹے سوج جاتے ہیں.پپوٹوں کے اندرونی حصہ میں سوزش اور سرخی کے دائرے بن جاتے ہیں.یہ بیماری برصغیر پاک و ہند میں گرمیوں کے موسم میں بہت عام ہوتی ہے.ارجنٹم نائیٹریکم عورتوں کی تکلیفوں میں بھی مفید ہے.حیض کے آغاز میں معدہ میں درد ہوتا ہے، رحم کی گردن پر زخم بن جاتے ہیں جن سے خون رستا ہے.حیض ختم ہونے کے ایک دو ہفتہ بعد ہی دوبارہ خون جاری ہو جائے جو مقدار میں کم ہوتو یہ ارجنٹم نائیٹریکم کی خاص علامت ہے.اس کے علاوہ اگر مزاج ارجنٹم نائیٹریکم سے مشابہ ہو تو یہ رحم کی دوسری تکلیفوں میں بھی مفید ہے.زخموں سے خون بہنے اور قے کے ساتھ خون آنے کا رجحان ہوتا ہے.معدے کے ایسے السر جو پرانے ہو چکے ہوں اور جن میں کوئی دوا کام نہ کرے ان میں ارجنٹم نائیٹریکم بھی استعمال کروا کے دیکھنی چاہئے.اس کے علاوہ السر کے مریضوں کو ملٹھی
80 ارجنٹم نائیٹریکم کوٹ کر کھانے سے بہت فائدہ ہوتا ہے.کچے کیلے کو سکھا کر پیس کر اس کے سفوف کو دن میں دو تین بار کھلایا جائے تو یہ کچھ عرصہ کے بعد زخموں پر تہہ سی بنا دیتا ہے جو نہ صرف السر کو ڈھانپ لیتی ہے بلکہ اس سفوف میں شفا کا مادہ بھی پایا جاتا ہے.میں نے ایک سائنسی معلومات کے رسالہ میں پڑھا ہے کہ کچے کیلے کے پاؤڈر پر جو تحقیق کی گئی ہے اس سے قطعی طور پر ثابت ہوا ہے کہ یہ معدے کے السر کا بہترین علاج ہے.خود میں نے کئی مریضوں کو یہ استعمال کروایا ہے اور ہمیشہ فائدہ ہوا ہے.ارجنٹم نائیٹریکم کے مریض کو معدے میں پرانے السر ہوں تو جسم میں خون کی کمی ہو جاتی ہے.ساتھ ہی میٹھا کھانے کی شدید خواہش ہوتی ہے.میٹھے کی خواہش اور بھی بہت دواؤں میں پائی جاتی ہے.بعض لوگ بہت میٹھا کھاتے ہیں لیکن انہیں کچھ نہیں ہوتا جبکہ ارجنٹم نائیٹریکم کے مریض کو میٹھا موافق نہیں آتا.اس کے کھانے سے معدے کا نظام بگڑ جاتا ہے اور دوسری تکلیفوں میں بھی اضافہ ہوتا ہے.اگر میٹھے کی خواہش کے ساتھ پیٹ میں ہوا اور تناؤ بھی ہو تو یہ علامت اگر چہ لوگوں میں عام طور پر پائی جاتی ہے لیکن ارجنٹم نائیٹریکم کے مریض میں بہت نمایاں ہوتی ہے.ارجنٹم نائیٹریکم کا مریض دائیں کروٹ نہیں سوسکتا.یہ علامت ناجا (Naja) میں بھی ملتی ہے.دائیں کروٹ لیٹنے سے نبض تیز ہو جاتی ہے.کالمیا،سپونجیا ، کالی نائیٹریٹ، الیومن، پلاٹینا لیم ٹگریم وغیرہ سب میں یہ علامت مشترک ہے.ان دواؤں کی ایک دوسرے سے تفریق ان کی دوسری امتیازی علامتوں سے کی جاسکتی ہے.ارجنٹم نائیٹریکم کی تکلیفیں گرم کمرے میں یا آگ کے پاس بیٹھنے سے بڑھ جاتی ہیں.اس میں چہرے کا پسینہ بہت نمایاں ہوتا ہے.یوں معلوم ہوتا ہے جیسے پانی سے اندر سے پھوٹ رہا ہے.ارجنٹم نائیٹریکم میں چہرہ پر مردہ اور نیلگوں ہو جاتا ہے، آنکھیں اندر دھنسی ہوئیں اور بے رونق ہوتی ہیں.تھو جا کی طرح مریض میں مسے بننے کا رجحان بھی ہوتا ہے.گلے میں بھی آبلے بن جاتے ہیں.گلے میں ہسپر سلف کی طرح پھانس اٹکنے کا احساس بہت نمایاں ہوتا ہے.اسے نکالنے کی کوشش میں تکلیف اور بھی بڑھ جاتی ہے کیونکہ یہ صرف احساس ہوتا ہے، حقیقت میں کچھ نہیں ہوتا.نائیٹرک ایسڈ میں بھی یہ علامت ملتی ہے.
ارجنٹم نائیٹریکم 81 صرف گلے میں ہی نہیں بلکہ جسم کے مختلف حصوں میں کوئی چیز چیھنے کا احساس ہوتا ہے جہاں ذرا بھی ہاتھ لگ جائے تو بہت درد ہوتا ہے.ارجنٹم نائیٹریکم میں دودھ پلانے والی ماؤں کی علامات ان کے بچوں میں ظاہر ہو جاتی ہے اگر ماں بہت زیادہ میٹھا کھائے تو بچے کو اسہال لگ جاتے ہیں.ارجنٹم نائیٹریکم میں قے اور اسہال بیک وقت شروع ہو جاتے ہیں.سبزی مائل دست آتے ہیں، بچہ جو کچھ پیتا ہے فوراً نکل جاتا ہے.ایسے بچے عموماً سوکھے پن کا شکار ہو جاتے ہیں.ضروری نہیں کہ شیر خوار بچوں میں ماں کے دودھ کی وجہ سے سوکھا پن پیدا ہو.بچے بذات خود بھی ارجم نائیٹریکم کے مریض ہو سکتے ہیں.ان کے سوکھے پن میں یہ علامت ملتی ہے کہ سبز رنگ کے اسہال ہوتے ہیں.قے اور اسہال اکٹھے یا باری باری ہوتے رہتے ہیں.اسہال کے ساتھ آؤں بھی آتی ہے.ارجنٹم نائیٹریکم میں جسم کے اندرونی اعضاء میں درد ہوتا ہے.مثلاً جگر یا تلی میں دکھن ہوتی ہے، معدے میں درد ہوتا ہے ، ضروری نہیں کہ دکھن کا یہ احساس سارے پیٹ میں پھیلا ہوا محسوس ہو.ارجنٹم نائیٹریکم میں پیشاب غیر ارادی طور پر خود بخود نکل جاتا ہے.بچوں میں رات کو بستر گیلا کرنے کی علامت بھی ملتی ہے.ایک اور علامت یہ ہے کہ پیشاب کی خواہش ہوتی ہے لیکن پیشاب آسانی سے نہیں آتا.پیشاب کی نالی میں درد، ورم اور خارش کا رجحان ہوتا ہے.سوزاک کی بھی یہ بہترین دوا ہے.ارجنٹم نائیٹریکم حمل کے دوران پیدا ہونے والی اکثر تکالیف میں مفید ہے.اس کے مریض میں دل کی کمزوری پائی جاتی ہے جس میں حمل کے دوران بوجھ پڑنے سے اضافہ ہو جاتا ہے اور یہ تکلیف سارے حمل کے زمانہ میں رہتی ہے.یہ تکلیف جسمانی حرکت اور جذباتی ہونے سے بڑھ جاتی ہے.ارجنٹم نائیٹریکم میں ڈراؤنی خوا ہیں آتی ہیں.صبح اٹھنے کے بعد ٹانگوں میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے چوٹیں لگی ہوں.چلنے سے دکھن ہوتی ہے، پنڈلیوں میں کمزوری کا احساس ہوتا ہے، باز و بے حس ہو جاتے ہیں، کمر
82 ارجنٹم نائیٹریکم میں درد ہوتا ہے اور ریڑھ کی ہڈی بہت زود حس ہو جاتی ہے، رات کو بہت درد ہوتا ہے.ارجنٹم نائیٹریکیم میں نچلے دھڑ کا فالج بھی ملتا ہے اور ریڑھ کی ہڈی کے اردگرد کے ریشوں میں سختی پیدا ہو جاتی ہے.ہر قسم کی گرمی اور حرارت میں ، کھانا کھانے کے بعد تکلیفوں میں اضافہ ہو جاتا ہے.تازہ ہوا اور سردی سے تکلیف کم ہو جاتی ہے.مددگار دوائیں : آرسنک - مرکسال.فاسفورس پلسٹیلا دافع اثر دوا نیٹرم میور طاقت : 30 سے 200 تک مرگی ، بلندی کے خوف اور ڈراؤنی خوابوں کے رجحان کو ختم کرنے کی خاطر بہت اونچی طاقت میں دی جائے.
آرنیکا 83 23 آرنیکا ARNICA MOUNTINA ہومیو پیتھی میں آرنیکا کو بہت اہم مقام حاصل ہے.یہ دوا پہاڑی تمباکو کے پودے سے تیار کی جاتی ہے.پہاڑی تمباکو دوا کے طور پر لمبے عرصہ سے استعمال ہو رہا ہے.عرصہ دراز تک اسے چوٹوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا رہا.پہاڑی علاقوں میں چوٹیں کھانا اور گر جانا معمول کی بات ہے.خدا تعالیٰ نے وہاں ہی اس کا علاج بھی پیدا کر دیا ہے.ہو میو پیتھی میں اس کا استعمال اکثر نئی یا پرانی چوٹوں کو دور کرنے کے لئے ہوتا ہے.آرنیکا کی سب سے اہم علامت خون کو منجمد کرنا ہے.یہ اثر پھٹکری کے اثر سے ملتا جلتا ہے اس لئے دل کی تکلیفوں میں یہ ایک لازم دوا بن جاتی ہے.آرنیکا جسے ہوئے خون کو پگھلا دیتی ہے لیکن اس کے باوجود ایلو پیتھک دواؤں کی طرح خون کو زیادہ پتلا نہیں کرتی اور بوقت ضرورت خون کی جمنے کی صلاحیت کو بھی زائل نہیں کرتی.دل کے حملہ میں عموماً آرنی کا کولیکیس سے ملا کر دیا جا تا ہے کیونکہ کیس اس سانپ کے کاٹے کی دوا ہے جس کا زہر خون کو جما کر پھٹکیاں بنادیتا ہے اور خون منجمد ہونے کی وجہ سے دل پر حملہ ہو جاتا ہے.بعض سانپوں کے زہر دل کے اعصاب پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں لیکن خون پر بداثر نہیں ڈالتے.ایسے سانپوں میں نا جا‘ سب سے اول نمبر پر ہے.اس کا زہر دل کے اعصاب پر حملہ کرتا ہے جبکہ لیکلیس خون خراب کر کے دل کو نقصان پہنچاتا ہے.آرنیکا اور لیکیسس دونوں کا خون کے جمنے سے تعلق ہے.اس لئے ایسی ملتی جلتی دواؤں کو ایک دوسرے کے بعد استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بعض دفعہ ان دواؤں کے اثرات ایک دوسرے سے ٹکرا جاتے ہیں اور ایسا مریض ہاتھ سے نکل جاتا ہے.دو تین
آرنیکا 84 دواؤں کو ایک دوسرے کے بعد دینا یا ملا کر ایک نسخہ کی صورت میں دینا ایک ایسافن ہے جو دواؤں کے مزاج کے گہرے مطالعہ اور تجربہ سے نصیب ہوتا ہے.اسی خطرہ کے پیش نظر میں آرنیکا کو لیس سے ملا کر دیتا ہوں یا پھر دونوں میں سے صرف ایک دوا استعمال کراتا ہوں.اگر دل کا حملہ خون جمنے کی وجہ سے ہوا ہو تو آرنیکا خون کو مناسب حد تک پتلا کرتی ہے.حادثات اور چوٹوں کے لئے آرنیکا بہترین دوا ہے.چوٹ کھائی ہوئی جگہ نیلی یا کالی ہو جائے اور خون جم گیا ہو تو آرنیکا بلا خوف و خطر استعمال کریں.ایک دفعہ میرے پاس ایک ایسا مریض لایا گیا جس کا سارا جسم سر سے پاؤں تک لاٹھیوں کی ضربوں سے کالا اور نیلا ہورہا تھا.حالت اتنی خطر ناک تھی کہ لگتا تھا کہ جلد مرجائے گا.میں نے اسے آرنیکا کی بہت سی خوراکیں دے کر گھر بھجوا دیا.دوسرے دن شام تک جب اس کی طرف سے کوئی اطلاع نہیں ملی تو تشویش لاحق ہوئی.پتہ کروایا تو جواب ملا کہ وہ تو رات ہی کو بالکل ٹھیک ہو گیا تھا اور اب بھاگا دوڑا پھر رہا ہے.الحمد للہ آرنیکا200 کواگرا یکونائٹ 200 سے ملا کر دیا جائے تو اکیلی آرنیکا کے مقابل پر یہ دونوں دوائیں مل کر زیادہ اچھا اور فوری اثر دکھاتی ہیں.ماؤف حصہ پر سرخی زیادہ نمایاں ہو تو آرنیکا کے ساتھ بیلاڈونا ملا کر دینا زیادہ مفید ہے کیونکہ یہ سرخی بتاتی ہے کہ چوٹ والی جگہ کی طرف خون کا غیر معمولی رجحان ہے.عموماً جس جگہ چوٹ لگے وہاں ابھار بن جاتا ہے جو چوٹ والے حصہ کو چھپالیتا ہے.یہ ابھار دوران خون زیادہ ہونے کی وجہ پیدا ہوتا ہے جو جسم کے طبعی رد عمل کے طور پر صدمہ کی اطلاع ملتے ہی تیزی سے اس طرف دوڑتا ہے چونکہ آرنیکا میں متاثرہ حصہ کی طرف خون کا رجحان بڑھانے کا مزاج نہیں پایا جاتا اس لئے آرنیکا اکیلی کافی نہیں ہوتی.اسے بیلا ڈونا کے ساتھ ملا کر دینا چاہئے.ایکونائٹ بھی اس صورت حال میں عمومی طور پر مفید ہے.اس لئے روزمرہ کے طور پر یه نسخه بلاتر درد استعمال کیا جائے تو کوئی نقصان نہیں.ہاں بعض صورتوں میں زیادہ فائدہ کی
آرنیکا امید ہوسکتی ہے.85 آرنیکا چھوٹی طاقت سے لے کر بڑی طاقت تک یکساں کام کرتی ہے لیکن تکلیف زیادہ گہری ہو تو اونچی طاقت میں دینی بہتر ہے.ایک دفعہ ایک فوجی افسر میجر ممتاز ایکسرسائز کے دوران ہمالہ کی ایک برفانی چوٹی سے پچھتر فٹ گہرائی میں جا گرے تھے.ان کی چوٹیں اس قدر شدید تھیں کہ ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کر دیا تھا.میں نے انہیں آرنیکا ایک ہزار اور نیٹرم سلف ایک ہزار پوٹینسی میں پہلے دن دو دفعہ پھر روزانہ ایک دفعہ استعمال کروائی.اللہ کے فضل حیرت انگیز طور پر شفایاب ہو گئے.میرے ایک سابقہ مریض جو اسی طرح کی سخت چوٹ کا شکار ہوئے تھے.ایک دفعہ لنڈن ملنے آئے تو میں انہیں پہچان نہیں سکا.کیونکہ جب میں ان کا علاج شروع کیا تھا تو ریڑھ کی ہڈی چوٹ کے صدمے سے ٹوٹ چکی تھی اور ڈاکٹروں نے فیصلہ دیا تھا کہ ساری عمر چلنے کے قابل نہیں ہو سکو گے اگر یہ مریض بچ بھی گیا تو عمر بھر بستر پر لیٹنا ہوگا.زیادہ سے زیادہ شفا کی صورت میں وہیل چیئر (Wheel Chair) کے بغیر ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت ممکن نہیں ہوگی.میں انہیں اس لئے نہیں پہچان سکا کہ گوشکل کی عمومی مشابہت تو تھی مگر یہ میرے دفتر میں اپنے قدموں پر چل کے داخل ہوئے اور کسی سوٹی کے سہارے کی بھی ضرورت نہیں پڑی.تب مسکراتے ہوئے انہوں نے مجھے یاد کرایا کہ میں وہی مریض ہوں جسے ڈاکٹروں نے تو لا علاج قرار دیا تھا مگر آپ نے ہمت بند ہا ئی تھی اور دعا کے ساتھ جو دوائیں تجویز کی تھیں میں مسلسل وہی دوائیں استعمال کر رہا ہوں اور کسی دوسری دوا کی ضرورت نہیں پڑی.اب خدا کے فضل سے میں سہولت سے چلنے پھرنے کے قابل ہو گیا ہوں.مجھے یاد آ گیا کہ ان کی خطرناک حالت کے پیش نظر میں نے بہت غور کے بعد ایک نسخہ سوچا تھا جس میں آرنیکا، روٹا ، ہائی پیر یکم ، کلکیریا فاس اور سمفائٹم شامل تھیں.ان سب دواؤں کو ملا کر 30 طاقت میں مسلسل دن میں تین چار دفعہ کھانے کی ہدایت دی تھی اور یہ بھی سمجھایا تھا کہ کچھ عرصہ بعد چند دن کا ناغہ کر دیا کریں.چنانچہ انہوں نے مسلسل یہی نسخہ جاری رکھا اور اللہ کے فضل سے شفا کا یہ
آرنیکا 86 اعجازی نشان ظاہر ہوا.اگر چوٹوں کے بداثرات مثلاً سوزش، درد، اینٹھن اور ابھار وغیرہ دیر تک باقی رہیں تو ان کو مٹانے کے لئے یہ بہترین نسخہ ہے.پہلے مریض کی دوا میں میں نے نیٹرم سلف 1000 اس لئے داخل کیا تھا کہ گدی کی خطرناک چوٹ میں نیٹرم سلف سے بہتر کوئی دوا مجھے معلوم نہیں.عام طور پر ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑنے کے لئے نہایت موثر نسخہ حسب ذیل تین دواؤں پر مشتمل ہے.سمفائٹم، روٹا اور کلکیر یا فاس.سالہا سال کے تجربے کی بنا پر میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے ہڈی جڑنے کی رفتار توقع سے دگنی تیز ہو جاتی ہے اور اس سے ایسی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں بھی جڑ جاتی ہیں جن کے درمیان فاصلہ زیادہ ہو چکا ہو.رفتہ رفتہ دونوں طرف سے یہ ہڈیاں بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل جاتی ہیں.چوٹ کے علاوہ جسمانی محنت سے تھکن اور درد کا احساس ہو تو اس میں بھی آرنیکا بہت مفید ہے.اگر زیادہ جسمانی مشقت سخت کھیلوں کے نتیجہ میں جسم درد سے ٹوٹ رہا ہو تو اس کے لئے تیر بہدف نسخہ آرنیکا 200 اور برائیو نیا 200 ملا کر دینا چاہئے.عورتوں کے متفرق عوارض میں آرنیکا ایک بہت کارآمد دوا ہے.وضع حمل کے وقت غیر معمولی زور لگنے اور خون کے زیادہ دباؤ کی وجہ سے بعض عضلات زخمی ہو جاتے ہیں اور خلیے پھٹ جاتے ہیں جس کی وجہ سے مستقل در دیں ٹھہر جاتی ہیں.اگر ولادت سے چند دن قبل آرنیکا 1000 طاقت میں دی جائے تو وضع حمل کے وقت اور بعد میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں اور کئی قسم کے نقصانات سے بچالے گی.بچہ کی پیدائش کے ہر دور میں آرنیکا بہت مفید ہے.اگر پیدائش کے بعد پر سوتی بخار ہو جائے تو سلفر اور پائیر وجینم ملا کر دینے سے بہت فائدہ ہوتا ہے لیکن اگر پہلے آرنیکا دی جائے تو غالبا ان دواؤں کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی.ان دونوں دواؤں کے ساتھ ملا کر بھی دے سکتے ہیں لیکن جتنی دوائیں آپ ملا کر دینا شروع کریں اتنا ہی مرض سے واضح طور پر نپٹنے کی صلاحیت میں کچھ کمی آجاتی ہے اور ایک دوسرے سے ملتی جلتی دوائیں جو مرض سے مشابہت نہ رکھتی ہوں بے ضرورت ملا دی جائیں تو وہ اپنا اثر بڑھاتی نہیں بلکہ ضرورت
آرنیکا 87 کی دوا کو جو اس نسخہ میں شامل ہو کمزور کر دیتی ہیں.میں بعض اوقات محض وقت کی کمی کی وجہ سے بعض دوائیں ملا کر استعمال کرتا ہوں.بہت لمبے تجربے کے بعد چند دواؤں کو آپس میں ملا کر دینے سے جو فائدہ سامنے آتا ہے وہ اکثر اسی طرح سب مریضوں پر اثر انداز ہوتا ہے.جہاں روزمرہ کی فوری ضرورت میں ایسے نسخے ہمیشہ مفید ثابت ہوں وہاں بعض متعصب ہومیو پیتھ ڈاکٹروں کا یہ اعتراض جڑ دینا کہ اصولاً ایک ہی دوا استعمال ہونی چاہئے درست نہیں.احتیاط کے ساتھ بعض روزمرہ بیماریوں کو ، علامتوں کے چکر میں پڑے بغیر اگر آزمودہ مجرب نسخوں سے ٹھیک کیا جا سکتا ہو تو ٹھیک نہ کرنا مریض پر احسان نہیں ظلم ہے.ضروری نہیں کہ نسخہ میں موجود سب دوائیں کام کریں لیکن کوئی ایک دوا بالمثل ثابت ہو کر اپنا کام دکھاتی ہے.آرنیکا کے مریض کے مزاج میں خوف نہیں ہوتا لیکن رات کو سوتے وقت ڈراؤنے اور وحشت ناک خواب آتے ہیں مگر دن بھر جاگنے میں کوئی خوف نہیں ہوتا.عورتوں کے حمل کے دوران جنین کی حرکت کی وجہ سے رحم میں درد محسوس ہوتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھ جاتا ہے.یہ دردرات کو خوف میں تبدیل ہو کر ذہن پر اثر انداز ہوتا ہے اور ڈراؤنے خواب آتے ہیں.نیند کے غلبہ کی وجہ سے تکلیف شعوری طور پر محسوس نہیں ہوتی بلکہ ڈراؤنے خوابوں کا روپ دھار لیتی ہے.اگر کوئی بیماری گہری ہو اور شدت اختیار کرے تو بعض دفعہ آرنیکا کا مریض بھی موت کے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے.اوپیم میں بھی ایسا خوف پایا جاتا ہے لیکن اوپیم کا مزاج آرنیکا سے الگ ہے.بیماری زیادہ ہو یا کم ، او پیم کے مریض کو اگر خوف ہے تو رات ہو یا دن وہ خوف یکساں رہے گا.مگر سوائے اس کے کہ کوئی بیماری بہت زیادہ سنگین ہو جائے آرنیکا کے مریض کو روزمرہ کی عام بیماریاں خوفزدہ نہیں کرتیں.آرنیکا کے خون کے اخراج میں سیاہی کے ساتھ تعفن بھی ملتا ہے.آرنیکا کا مریض ملیریا اور ٹائیفائیڈ کے آغاز کے مریض سے مشابہ ہوتا ہے، جسم ٹوٹتا ہے، جلد میں کچا پن آجاتا ہے اور دکھن کا احساس ہوتا ہے.جلد معمولی لمس سے بھی تکلیف محسوس کرتی ہے.عام طور پر ملیریا بخار کے آغاز میں بدن
آرنیکا 88 کی دیکھن اسی طرح ہوتی ہے.ٹائیفائیڈ کا بھی اسی قسم کا مزاج ہے جیسے کسی کو مار پڑے اور اندرونی چوٹیں لگیں لیکن خون جاری نہ ہو.آرنیکا کے مریض کے وجع المفاصل میں بھی یہی علامتیں ملتی ہیں.اگر پاؤں میں موچ آ جائے یا پھر کھنچ جائے اس وقت آرنیکا صحیح پوٹینسی میں دی جائے تو بہت جلد اثر دکھاتی ہے.اگر چھوٹی پوٹینسی میں استعمال کریں تو بار بار دینے سے اتنا فائدہ نہیں ہوتا جتنا اونچی طاقت میں ایک دفعہ دینے سے ہی غیر معمولی اثر ظاہر ہوتا ہے.آرنیکا کے مریض کو اپنا بستر سخت محسوس ہوتا ہے خواہ وہ کتنا ہی نرم کیوں نہ ہو.بار بار کروٹیں بدلتا ہے.جسم کو بار بار حرکت دینا اور جگہ بدلنا آرسنک اور رسٹاکس میں بھی بہت نمایاں ہے.لیکن آرنیکا میں یہ کروٹیں بدلنا بے چینی کی بنا پر نہیں ہوتا بلکہ مریض جس کروٹ بھی لیے جسم دیکھتا ہے.آرنیکا کی بعض اور دواؤں سے بھی مشابہت ہے.مثلاً بیلا ڈونا کی طرح سرگرم ہوتا ہے اور باقی جسم ٹھنڈا رہتا ہے.بخار جسم کے اندر چلے جائیں تو خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں.آرنیکا کی ایک خوراک اونچی طاقت میں دیں تو سارا جسم دوبارہ گرم ہونا شروع ہو جاتا ہے اور جو علامتیں دب گئی تھیں وہ دوبارہ جسم پر ظاہر ہونے لگتی ہیں اور علاج کے لئے وقت مل جاتا ہے.لیکن اگر پہلے ہی واضح طور پر بیماری کا علم ہو تو پھر علامتوں کو دوبارہ ابھارنے کے لئے آرنیکا به ضروری نہیں.وہی بالمثل وہ کام کرے گی جس کا مرض تقاضا کرتا ہے.ایک دفعہ ایک خاتون موچ آجانے کے باعث مسلسل تکلیف میں تھیں اور چند قدم چلنا بھی دوبھر تھا.ہومیو پیتھک دوا تو کھاتی تھیں مگر ساتھ ہی ماؤف حصے کی مالش بھی بہت کرتی تھیں.میں نے انہیں آرنیکا ، برائیو نیا اور کاسٹیکم دی اور مالش سے پر ہیز کرنے کو کہا کیونکہ اس سے عضلات پھر زخمی ہو جاتے تھے.ایک ہفتہ کے اندر ہی ان کی طرف سے اطلاع ملی کہ بالکل ٹھیک ہیں.آرنیکا کے ساتھ دوسری دوائیں اس لئے ملائی تھیں
آرنیکا 89 که بعض دفعه صرف چوٹ کا ہی اثر نہیں ہوتا بلکہ بعض عضلات کمزور ہو جاتے ہیں اور برائیو نیا عضلات کے اندر کی تکلیفیں جو چوٹ سے علاوہ ہوں ان کی بھی اچھی دوا ہے اور عضلات میں طاقت پیدا کرتی ہے.کاسٹیکم میں عضلات ڈھیلے ہو کر مفلوج سے ہو جاتے ہیں یا ہر نیا کی علامتیں پیدا ہو جاتی ہیں.66 اگر تکلیف دائیں طرف ہو تو آرنیکا ، بیلاڈونا اور برائیونیا کا نسخہ مفید ہو گا.بائیں طرف تکلیف کے لئے آرنیکا لیکیس اور لیڈم بہت بہتر نتائج پیدا کرتی ہیں.اگر چوٹ یا حادثے کی وجہ سے پٹھ اپنی جگہ سے ہل جائے اور موچ کی کیفیت ہو تو عموماً آرنیکا کی اونچی طاقت سے بہتر کوئی اور دوا کام نہیں کرتی.چند گھنٹوں میں فرق پڑ جاتا ہے.اگر کمر میں کسی جھٹکے کے نتیجہ میں ”چک“ پڑ جائے یعنی عارضی طور پر عضلات اپنی جگہ سے ٹل جائیں تو یہ کیفیت خود بخود کچھ عرصہ کے بعد ٹھیک ہو جاتی ہے اور کسی مستقل بیماری کا حصہ نہیں بنتی.لیکن بعض دفعہ یہی مستقل بیماری بن جاتی ہے اور کمر کو جھٹکا لگنا عمر بھر کا روگ لگا دیتا ہے.پہلے سے کمزور عضلات اور بھی سکڑ جاتے ہیں یا ڈھیلے پڑ جاتے ہیں.اس صورت میں آرنیکا مددگار ہوتی ہے مگر یہ براہ راست عضلات کی اندرونی کمزوریوں کی دوا نہیں ہے.اس تکلیف کو رفع کرنے کے لئے ایک امکانی دوا سی می سی فیوجا“ بھی ہوسکتی ہے جو عضلات کی گہری تکلیفوں میں کام آتی ہے.اگر کمر میں درد ٹھہر جائے تو آغاز میں آرنیکا اور برائیو نیا استعمال کرنی چاہئے لیکن اگر آفاقہ عارضی ہو تو آرنیکا کے ساتھ برائی اونیا کی بجائے رسٹاکس ملا کر دیکھیں کیونکہ رسٹاکس عضلات کی گہری کمزوریوں کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.اس لئے فالج کی بھی بہت مؤثر دوا ہے، عضلات کو تقویت پہنچاتی ہے اور ان میں جان ڈال دیتی ہے.پھیلے ہوئے دل کی بھی دوا ہے.لمبے پرانے فالجوں میں بھی سلفر کے ساتھ ملا کر دینا بہت مفید ثابت ہوتا ہے.اس کے بعد کلکیریا کا رب کی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے کیونکہ یہ سلفر اور رسٹاکس دونوں کی مزمن (Chronic) دوا ہے یعنی ان کے اچھے اثرات کو آگے بڑھاتی ہے.
آرنیکا 90 آرنیکا ہر چیز (Herpes) میں بھی بہت مفید دوا ہے.اس بیماری کی ایک قسم عام ہے جو اعصابی کمزوری یا انفیکشن سے تعلق رکھتی ہے دوسری قسم جنسی بے راہ روی سے پیدا ہونے والی ہر چیز ہے.اعصابی کمزوری کی وجہ سے ہونے والی ہر چیز میں آرنیکا بہت مفید ہے.اس کے ساتھ آرسنک اور لیڈم ملا کر دینا زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے.ان تینوں دواؤں کا نسخہ ہر قسم کے زہر یلے جانوروں کے کاٹے کا بھی علاج ہے.آرنیکا میں جس طرح جلد پر کمزوری اور بے چینی پیدا کرنے والی دکھن ہوتی ہے اسی طرح اندرونی جھلیوں اور انتڑیوں کا حال ہوتا ہے.خصوصاً ملیر یا اور ٹائیفائیڈ کے بخاروں میں اندرونی نزلاتی جھلیوں میں بہت درد ہوتا ہے.آرنیکا میں سیلان خون کا بھی رجحان پایا جاتا ہے اس لئے خون کی باریک رگوں کے پھٹ جانے میں یہ بہت مفید دوا ہے.اگر تے ، دست اور بلغم میں خون آنے لگے تو اگر کسی دوسری معین بالمثل دوا کا علم نہ ہو تو آرنیکا کو موقع دینا چاہئے.بعض دفعہ بیماری بہت بڑھ جائے تو سب اندرونی جھلیاں جواب دے جاتی ہیں اور سخت بد بودار خون کے دست آتے ہیں.اس صورت میں اکیلے آرنیکا کے بس کی بات نہیں.معین بالمثل دوا کی تلاش ضروری ہے.آرنیکا کے مریض کے سانس اور پسینہ میں بعض دفعہ پیٹیشیا کے مریض کے سانس اور پسینے کی طرح بد بو ہوتی ہے.جب بیماری زیادہ بڑھ جائے تو آرنیکا کا مریض بھی آرسنگ کے مریض کی طرح موت کے خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے.آرنیکا کے مریض کا سرگرم ہوتا ہے لیکن اسے ٹھنڈا کرنے کا مطالبہ نہیں کرتا ، صرف جسم کو گرم کرنا چاہتا ہے.آرسنک کا مریض اس سے متضاد ہے.وہ بیک وقت سر کو ٹھنڈا اور جسم کو گرم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے.دائمی طور پر ٹھنڈا ہونے کے لحاظ سے وہ سورائینم کے مریض سے ملتا ہے لیکن سورا ئینم میں مریض سر سے پاؤں تک ٹھنڈا ہوتا ہے.بلیس بھی سخت سردی کی دوا ہے خصوصاً اگر پاؤں ٹھنڈے ہوں.سونے کے بعد پاؤں ٹھنڈے ہونا اس کی خاص علامت ہے لیکن لیکیس میں ٹھنڈ دائمی نہیں ہے، آتی ہے اور چلی جاتی ہے اور اخراجات میں دائمی تعفن کی
آرنیکا 91 علامت نہیں ملتی لیکن سورا ئینم کا مریض بد بودار مریض ہے.سخت سردی محسوس کرتا ہے، بعض دفعہ مچھلی کی طرح جسم پر پتلے پتلے چھلکے سے نکل آتے ہیں جو بہت بھیا نک ہوتے ہیں.آرسنک میں بھی یہ علامت ہے.اگر ان میں بد بو بھی ہو تو آرسنک اور سورا ئینم دونوں اس کی بہترین دوا ئیں ثابت ہوسکتی ہیں.آرنیکا کے مریض کو اگر بخار لمبا ہو جائے تو نیند میں پیشاب کے علاوہ اجابت بھی ہو جاتی ہے.پیشاب گہرے رنگ کا ہوتا ہے، پیشاب میں خون آتا ہے، مثانہ میں پینٹھن ہوتی ہے.مثانے میں بوجھ اور گردوں میں درد محسوس ہوتا ہے.سردی لگتی ہے اور متلی اور قے کا رجحان ہوتا ہے.اجابت کا رنگ سیاہی مائل ، حاجت بار بار ہوتی ہے.اسہال کے ساتھ انتڑیوں میں شدید درد ہوتا ہے اور ہر اسہال کے بعد مریض بہت کمزوری محسوس کرتا ہے اور لیٹ جانے کو جی چاہتا ہے.آرنیکا کالی کھانسی کی بھی بہت مفید دوا ہے.اس کی خاص علامت یہ ہے کہ بچہ کھانسی سے پہلے یا بعد میں تکلیف کی شدت سے روتا اور چیختا ہے.زور لگنے سے رگیں اور بار یک خلیے پھٹنے لگتے ہیں.اگر آرنیکا نہ دی جائے تو کبھی ایسے مریض اندھے بھی ہو جاتے ہیں.اندرونی دباؤ کی وجہ سے ایسی کیفیت ہو جاتی ہے جیسے جسم کو بہت کوٹا پیٹا گیا ہے.آرنیکا ایسی کھانسی کو فی ذاتہ ٹھیک نہیں کرتی بلکہ قدرے سکون بخش دیتی ہے اور مریض کی حالت نا قابل برداشت نہیں رہتی.کھانسی کے لمبے بداثرت بھی باقی نہیں رہتے.ڈروسرا (Drosera) کالی کھانسی اور اس سے مشابہ کھانسیوں میں بہت مفید ہے.رات کو ایک دفعہ تمہیں طاقت میں دینے سے غیر معمولی فائدہ ہوتا ہے.آرنیکا کا مریض چڑ چڑا، نمکین ، پریشان اور مایوس رہتا ہے لیکن یہ مزاج صرف بیماری کے دوران ہوتا ہے ورنہ اس کے مستقل مزاج میں مایوسی اور چڑ چڑا پن نہیں ہوتا.یہ دوا بیماریوں سے متاثر ہو کر اپنا ایک خاص مزاج بنا لیتی ہے.جب بیماری زیادہ بڑھ جائے تو درد کا احساس کم اور غنودگی کا غلبہ زیادہ ہو جاتا ہے.ذہنی لحاظ سے آخر تک تندرست رہتا ہے.کوئی بات پوچھنے پر بالکل ٹھیک جواب دے گا.
آرنیکا 92 دل کی بیماری میں ایسا درد ہوتا ہے جیسے دل کو شکنجہ میں کس دیا گیا ہے اور مریض گھبرا کر دل پر ہاتھ مارتا ہے.نبض بے قاعدہ ہوتی ہے، محنت اور مشقت کے بعد دل کی دھڑکن بہت بڑھ جاتی ہے جو آرام کرنے سے ٹھیک ہو جاتی ہے.مریض نئی جگہ جانے کی خواہش کرتا ہے اور وہ سوچتا ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے سے آرام آجائے گا.آرنیکا کو اپنڈکس کی تکلیف میں برائیو نیا اور آئرس ٹینیکس (Iris Tenax) کے ساتھ ملا کر دینا بہت مفید ثابت ہوتا ہے.وضع حمل کی طرح ہر آپریشن سے پہلے آرنیکا 1000 طاقت میں دینا کئی قسم کی پیچیدگیوں سے بچالیتا ہے.مددگار دوائیں : ایکونائٹ.اپی کاک دافع اثر دوا کیمفر طاقت : 30 سے سی.ایم (CM) تک
93 24 آرسینک البم ARENICUM ALBUM (Arsenious Acid) آرسینک آرسینک ایک بہت مہلک زہر ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ایک دفعہ جسم میں سرایت کر جائے تو اس کو کبھی نہیں چھوڑتا.دس ہزار سال کے بعد بھی اس شخص کی لاش میں اس کے آثار موجود ہوں گے کیونکہ یہ ہڈیوں اور بالوں کا جزو بن جاتا ہے.آرسینک جو علامات پیدا کرتا ہے ان میں بے چینی سب سے نمایاں ہے.ایسی بے چینی اگر جسمانی ہو تو رسٹاکس اور ذہنی ہو تو آرسینک دوا ہے.اس میں ایکونائٹ کی طرح موت کا خوف بھی پایا جاتا ہے مگر ویسی شدت نہیں ہوتی بلکہ بے قراری، بے چینی اور وہم ہوتے ہیں اور مریض سمجھتا ہے کہ اسے کچھ ہونے والا ہے.بعض عورتوں میں صدموں اور پر سوتی بخاروں (Septic Fevers) کی وجہ سے آرسینک کی علامات پیدا ہو جاتی ہیں اور وہ ہر وقت بے چینی میں مبتلا رہتی ہیں.اس کا مریض بے حد نازک اور نفیس مزاج ہوتا ہے جو کپڑے کی ذرا سی سلوٹ بھی برداشت نہیں کر سکتا.کمرے کی سب چیزیں ترتیب اور سلیقے سے رکھتا ہے.اگر کوئی ذرا بھی چھیڑ دے تو غصہ سے بھڑک اٹھتا ہے.آرسینک کے مریض کے اخراجات سخت ہد بودار اور متعفن ہوتے ہیں.پیچش اور اسہال کی رنگت سیاہی مائل ہوتی ہے اور تھوڑی تھوڑی اجابت بار بار ہوتی ہے، بے چینی کی وجہ سے انتڑیوں کی طبعی حرکت متاثر ہوتی ہے اور بہت سے زہر یلے مادے جو قدرتی طور پر نکل جانے چاہئیں وہ جسم میں جذب ہونے لگتے ہیں جن کی وجہ سے بے چینی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وقفہ وقفہ سے بعض مریضوں کو شیخ کا دورہ
آرسینک 94 بھی پڑتا ہے.اگر وقت پر آرسینک دے دی جائے تو انتڑیوں کی حرکت معمول پر آ جاتی ہے اور مریض کی طبیعت بحال ہو جاتی ہے.آرسینک کا گردوں کی بیماریوں سے بھی گہرا تعلق ہے.گردوں کی جھلیوں کو بعض تیزابی مادے نقصان پہنچاتے ہیں اور پیشاب میں البیومن آنے لگتی ہے.بے حد دماغی بوجھ اور مسلسل ذہنی کام دونوں مل کر اندرونی اعصاب میں بے چینی پیدا کر دیتے ہیں جس سے گردے کی جھلیاں زود حس اور ضرورت سے زیادہ فعال ہو جاتی ہیں.آرسینک کے مریض کی پیاس بھی بے چینی کا مظہر ہوتی ہے.گھونٹ گھونٹ پانی پیتا ہے لیکن پیاس بجھتی نہیں.اصل میں یہ پیاس ہے ہی نہیں محض بے چینی ہے جس سے بار بار منہ خشک ہوتا ہے جسے تر کرنے کے لئے مریض گھونٹ گھونٹ پانی پیتا ہے.اگر بیماری لمبی ہو جائے تو پیاس کلیتا غائب ہو جاتی ہے لیکن بے چینی قائم رہتی ہے.اس صورت میں سارا جسم بے قراری سے حرکت کرتا ہے.اگر جسم میں طاقت نہ ہو تو مریض دائیں بائیں سر پنکتا ہے.منہ خشک ہونے کے باوجود پانی پینے کو دل نہیں چاہتا.مریض سیمیم کے مریض کے مشابہ ہو جاتا ہے لیکن ایک فرق نمایاں ہے کہ جلسیم کا مریض بے چین نہیں ہوتا.آرسینک کا مریض مسلسل کروٹیں بدلتا ہے.تھوڑا تھوڑا پیشاب آتا ہے.اگر گلے اور مثانے کی تکلیفوں میں آرسینک کی طرح بے چینی پائی جائے تو ہو سکتا ہے یہ بیماری کینسر ہو.اسے آرسینک پوری طرح شفا نہ دے تو اس کا استعمال پھر بھی جاری رکھنا چاہیئے کیونکہ یہ مرض میں کمی ضرور پیدا کر دیتا ہے.لیکن اس کے ساتھ متعلقہ کینسر کی بالمثل دوافوری تلاش کرنی چاہئے.اگر کینسر یا کسی اور بیماری کا مریض اپنے انجام کے قریب پہنچ چکا ہو اور اسے انتہائی تکلیف اور بے چینی ہو تو ایسی صورت میں اونچی طاقت یعنی ایک لاکھ میں آرسینک دینے سے مریض کو فوری سکون ملتا ہے.لیکن اس عرصے میں اگر کوئی اور مؤثر دوا جس کا براہ راست اس کینسر سے تعلق ہو معلوم نہ ہو سکے تو آرسینک کے بعد مریض آرام تو پاتا ہے مگر اس کا بچنا محال ہوتا ہے.پس اگر وقت آچکا ہے تو وہ تکلیف کی بجائے آسانی سے
آرسینک 95 جان دے گا.خدا تعالیٰ نے بے چینی اور تکلیف کا احساس بھی جسم کے دفاعی نظام کو متحرک کرنے کے لئے پیدا فرمایا ہے.یہ اپنی ذات میں بیماری بھی ہے اور شفا کا محرک بھی.اگر یہ دونوں باتیں نہ ہوں تو جسم کی توجہ مقابلہ کے لئے بیدار ہی نہیں ہوتی.میں نے ایک مریضہ کو آرسینک ایک لاکھ اس حالت میں دی کہ ڈاکٹر بالکل مایوس ہو چکے تھے اور درد کم کرنے والی دوائیں بھی بند کر دی تھیں کیونکہ ان سے بے چینی میں اضافہ ہو جاتا تھا.اس کے بعد وہ جتنی دیر بھی زندہ رہیں بہت اطمینان اور سکون سے وقت کاٹا.گویا آرسینک موت کا موجب نہیں بنتی.البتہ اگر موت آ گئی ہو تو آخری لمحوں کو آسان کر دیتی ہے.آرسینک کے مریض کا سارا جسم ٹھنڈا ہوتا ہے اور گرمی پہنچانے سے آرام محسوس ہوتا ہے لیکن معدے اور سر کی تکلیفوں میں سردی آرام دیتی ہے.بیماری ایک حالت سے دوسری حالت میں بدلتی رہتی ہے.سر میں درد ہو تو دباؤ سے آرام محسوس ہوتا ہے.شدید متلی اور قے کارجحان بھی پایا جاتا ہے.معین وقفہ سے بیماری کا لوٹ آنا بھی آرسینک کی ایک خصوصیت ہے.اگر کوئی درد شقیقہ میں مبتلا ہو، تکلیف میں سردی سے آرام آئے ، سات یا چودہ دن کے معین وقفہ سے درد کا دورہ ہو تو غالب امکان ہے کہ وہ آرسینک کا مریض ہے.اگر ایسے درد کو کسی اور دوا سے دبا دیا جائے اور بر وقت صحیح تشخیص نہ ہو سکے تو بسا اوقات یہ درد یا مستقل ٹھہر جاتا ہے یا جوڑوں کے ہو درد میں تبدیل ہو جاتا ہے.اگر جوڑوں کا صحیح علاج کیا جائے تو درد از سر نوسر کی طرف منتقل ہو جائے گا.اس صورت میں آرسینک سے وہ درد ٹھیک ہو جائے گا اور دوبارہ جوڑوں کی طرف منتقل نہیں ہوگا.بسا اوقات عورتوں کے رحم کی بیماریاں پہنی بیماریوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں.اگر کسی دوا سے ماہانہ نظام ٹھیک ہو جائے لیکن بے چینی ،توہمات ،موت کا خوف اور پاگل پن کی علامات ظاہر ہونے لگیں تو یہ اچھا سودا نہیں.اگر آرسینک کی علامات ہوں تو آرسینک دینے سے یہ سب بیماریاں ایک دفعہ دور ہو جائیں گی.
آرسینک 96 خشک کھانسی اور خشک دمہ میں بھی آرسینک کو بہت شہرت حاصل ہے.ناک میں سوزش ہو جائے ، خارش محسوس ہو، چھینکیں آنے کا رجحان ہو، ناک سے پانی کی طرح پتیلی رطوبت بہے اور گلے کے گلینڈ ز سوج جائیں تو ان علامتوں سے بھی آرسینک کی نشاندہی ہوتی ہے.آرسینک دل کے لئے بھی اچھی دوا ہے.اس کے مریض کی نبض باریک ہوتی ہے مگر با وجود کمزوری محسوس کرنے کے نبض میں تیزی اور تناؤ پائے جاتے ہیں.ایکونائٹ اور بیلا ڈونا کے مریض کی نبض بھر پور اور کار بوویج کے مریض کی نبض بالکل کمزور اور نرم ہوتی ہے.ذراسا زور سے دبانے سے غائب ہو جاتی ہے.یہ بنیادی فرق یا درکھیں تو نبض کے ذریعہ مریض کی شناخت آسان ہو جائے گی اور آپ صحیح دوا تک بآسانی پہنچ جائیں گے.گینگرین (Gangrene) کے تکلیف دہ مرض میں جس میں اعضاء گلنے سڑنے لگتے ہیں.آرسینک بہت اہمیت رکھتی ہے.میرے تجربے میں یہ بات ہے کہ جہاں ڈاکٹروں نے گینگرین کے خطرے کی وجہ سے اعضاء کاٹنے کا قطعی فیصلہ کرلیا تھا وہاں مریض نے میرے کہنے پر آرسینک 200 یا اونچی طاقت میں استعمال کی اور خدا تعالی سے فضل سے گینگرین کی جو علامتیں ظاہر ہو چکی تھیں وہ سرے سے غائب ہو گئیں.ایک نوجوان کا ہاتھ مشین میں آ کر کچلا گیا، اس کے زخم مندمل نہیں ہوئے اور بگڑ کر گینگرین میں تبدیل ہو گئے.ڈاکٹر نے مایوس ہوکر پہلے انگوٹھا اور پھر بازوکٹوانے کا مشورہ دیا.میں نے اس کے لئے آرسینک سی ایم (CM) تجویز کی اور ہفتہ دس دن کے بعد دہرانے کو کہا.چند ہفتوں کے بعد اس نے لکھا کہ درد تو ہے لیکن سیاہی رفتہ رفتہ سرخی میں تبدیل ہو رہی ہے.کچھ ہی عرصہ میں اللہ کے فضل سے بالکل ٹھیک ہو گیا اور بازو کٹوانا تو کجا، ہاتھ کی انگلیاں کٹوانے کی نوبت بھی نہ آئی.لیکن ایک بات یادرکھیں کہ اگر آرسینک سے نمایاں فائدہ سامنے نہ آئے تو بہتر ہے کہ کوئی اور دوا مثلاً سلیشیا یا سلفراونچی طاقت میں دے کر مرض کو قابو میں لائیں ورنہ بہتر ہے کہ سرجن کا مشورہ قبول کر لیا جائے.آغاز
آرسینک 97 میں اگر ہاتھ کٹوانے سے جان بچ سکتی ہے تو دیر ہو جانے پر بعض دفعہ بازو بھی کٹوانا پڑتا ہے اور پھر بھی یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ گینگرین جسم اور دماغ کو متاثر نہ کرے گی.عام ناسوروں میں جو گہرے ہوں اور ہڈی کو بھی کھا رہے ہوں تو آرسینک سے زیادہ کالی آیوڈائیڈ (Kali Iodide) یا آرسینک آیوڈائیڈ بہتر کام کرتی ہیں.آرسینک کی بیماریاں دن یا رات کو بارہ بجے کے بعد شدید ہو جاتی ہیں.رات کو مرض میں اضافہ ہو جاتا ہے اور مریض خوف محسوس کرتا ہے اور اکیلا رہنا پسند نہیں کرتا.تکلیف بہت بڑھ جائے تو کسی کی موجودگی بھی فائدہ نہیں دیتی.آرسینک کے مریض کے جسم میں جگہ جگہ سوزش کی علامات ملتی ہیں خواہ وہ بیرونی ہوں یا اندرونی.آنکھ میں بھی آرسینک کے مریض کی سوزش بہت نمایاں ہوتی ہے جو ساری آنکھ پر اثر انداز ہوتی ہے لیکن کالی کارب میں یہ سوزش اوپر کے چھپر تک محدود رہتی ہے.ایپس میں سوزش کے ساتھ آنکھ کے نیچے پھیپھلی ورم پیدا ہو جاتی ہے.آرسینک کے مریض کے چہرے پر بھی بعض دفعہ وقت سے پہلے بڑھاپے کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں.یہ علامت سارسا پر یلا (Sarsaparilla) اور چینینم آرس (Chininum Ars) میں آرسینک کے مقابل پر بہت زیادہ پائی جاتی ہے.اگر پراسٹیٹ گلینڈ ز، گردے اور مثانے کی بیماریوں میں آرسینک کی علامات موجود ہوں لیکن آرسینک اکیلی کافی نہ ہو تو فاسفورس اس کی مددگار دوا ثابت ہوتی ہے.دونوں کو یکے بعد دیگرے دینا بھی میرے تجربے کے مطابق بہت مفید ثابت ہوا ہے.یہی نسخہ کینسر میں بھی بہت افاقہ کا موجب بنتا ہے.یہ نسخہ ایک ایسے مریض پر بھی استعمال کیا گیا جس کے متعلق ڈاکٹروں کا فیصلہ تھا کہ ایک ہفتے سے زیادہ زندہ نہیں رہے گا.لیکن اسے ان دواؤں سے نمایاں فائدہ ہوا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے بعد ازاں وہ ایک سال کی مدت تک بغیر تکلیف کے زندہ رہا.آرسینک کی بے چینی بعض دفعہ پاگل پن میں تبدیل ہو جاتی ہے.خود کشی کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے اور مریض اس وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ میری بخشش کے دن گزر چکے
آرسینک 98 ہیں.اگر مروجہ طب کے ذریعہ ایسی مریضہ کی ماہواری کا علاج کیا جائے جسے زیادہ خون آتا ہو تو اس کی بیماری بظاہر دب جاتی ہے مگر رحم کے اندر سٹراند کے آثار پیدا ہو جاتے ہیں اور مستقل بد بودار، لیس دار مادہ یا خون کے لوتھڑے نکلنے لگتے ہیں.اسی طرح دیگر اخراجات کو بھی علاج کے ذریعہ بند کیا جائے تو بہت خطرناک اثرات ظاہر ہوتے ہیں جو بعض اوقات ذہنی بیماریوں پر منتج ہو سکتے ہیں.سارے جسم میں دردیں اور بے چینی ہوتی ہے اور جسم میں زہر یلے مادے جمع ہونے لگتے ہیں.جن کے اخراج کی کوئی صورت نہیں ہوتی اور گردوں پر بہت برا اثر پڑنے لگتا ہے.ایسی صورت میں ضروری ہے کہ اخراجات کو دوبارہ جاری کیا جائے.اس میں آرسینک ایک اہم دوا ہے.کالی آیوڈائیڈ اور آرسینک آیوڈائیڈ کو باری باری یا اکٹھے ملا کر دینا بھی مفید ہے.علاوہ ازیں سلفر اور پائر و جینم 200 کو ملا کر دینا رحم کے اکثر تعفنات اور ان کے نتیجے میں بخار یا دینی انتشار کو دور کرنے میں بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے.آرسینک اور سیکیل کار (Secale Car) (ارگٹ ) بہت سی علامتوں میں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں.سیکیل کار خون کے گہرے امراض میں استعمال ہوتا ہے.جس بیماری میں بھی کالے رنگ کا متعفن خون خارج ہونے لگے اور سیکیل کی نمایاں علامت یعنی شدید گرمی کا احساس موجود ہو تو یہ دوا بسا اوقات تیر بہدف ثابت ہوتی ہے.آرسینک سے جو علامات ملتی ہیں ان میں بے چینی اور خون کے تعفنات شامل ہیں.لیکن ایک امتیازی فرق یہ ہے کہ سیکیل کار کا مریض شدید گرمی محسوس کرتا ہے اور آرسینک کا مریض سخت سردی کے احساس سے اپنے جسم کو ہر وقت ڈھانپتا رہتا ہے اور آگ کے پاس بیٹھنا پسند کرتا ہے.سیکیل کا مریض گرمی محسوس تو کرتا ہے مگر اس کی اندرونی گرمی کو افاقہ بھی بیرونی گرمی پہنچانے سے ہوتا ہے.اگر دباؤ محسوس ہو تو دباؤ ہی سے آرام آتا ہے.سخت بد بودار اخراجات، موت کا خوف اور گھونٹ گھونٹ پانی پینا.یہ تصویر ذہن کو فوری طور پر آرسینک کی طرف منتقل کرتی ہے.آرسینک کی بیماریوں میں تکرار پائی جاتی ہے.خاص معین مدت کے بعد مرض عود کر آتا ہے.چار، سات یا چودہ دن کے بعد خاص وقفوں میں مرض دہرایا جاتا ہے لیکن ان
آرسینک 99 کے علاوہ بعض ایسے امراض جو بار بار پلٹ آئیں مثلاً ملیر یا وغیرہ ان میں بھی آرسینک بہت مفید ثابت ہوتی ہے.ملیریا کی روک تھام کے لئے بھی یہ بہترین دوا ہے لیکن اسے اونچی طاقت میں مثلاً ایک ہزار یا ایک لاکھ طاقت میں بخار کی علامتیں ظاہر ہونے سے پہلے ہی روک تھام کی خاطر دینا چاہئے.بخار کے دوران نہیں دینی چاہئے.ہاں اگر بخار کی علامتیں آرسینک کا مطالبہ کریں تو بخار کے حملوں کے درمیان جب پہلے بخار کا زور ٹوٹ چکا ہو یا ٹوٹ رہا ہو تو اس وقت آرسینک بے دھڑک دی جاسکتی ہے.نیٹرم میور کا بھی ملیریا سے گہرا تعلق ہے مگر اس میں بھی یہی احتیاط لازم ہے جو آرسینک کے متعلق بیان کی گئی ہے.ملیریا سے مستقل نجات اونچی طاقت میں آرنیکا کو بھی بڑی شہرت حاصل ہے اور خود میرے تجربے میں آرنیکا کی یہ صلاحیت بار بار آئی ہے.ملیریا کے تعلق میں عام طور پر ہومیو پیتھک کتب میں چائنا پر زور دیا گیا ہے لیکن میرے تجربے میں یہ اتنی کار آمد ثابت نہیں ہوئی.آرسینک اور آرنیکا دونوں اس سے بہت بہتر دوائیں ہیں اور اسی طرح ہر قسم کے بخار کی ابتدائی اعضاء شکنی کے وقت برائیو نیا اور رسٹاکس 200 کو باری باری دینا بہت مفید ثابت ہوا ہے.یہ اصول بہر حال ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ بیریا کے چڑھتے بخار میں دوا نہیں دینی.ہومیو پیتھی دوا اگر مؤثر ہوگی تو پھر دوبارہ بخار ہوگا ہی نہیں یا اس کے دوسرے حملہ کی شدت پہلے سے کم ہوگی.اسی طرح اگر بخار کا وقت بدل جائے یعنی بعد میں آنے کی بجائے جلدی آجائے یا تاخیر سے ہو تو بشرطیکہ دونوں صورتوں میں بخار کا حملہ مدہم ہو تو یہ بھی دوا کے مؤثر ہونے کی علامت ہے.اگر علاج کے دوران ان صورتوں میں سے کوئی اثر نمودار نہ ہو تو پھر یا علاج بدلیں یا مریض کو کسی اور معالج کے سپر د کریں.بعض دفعہ ایسے مریض کو ایلو پیتھک ڈاکٹر سے علاج کا مشورہ بھی دینا پڑے تو حرج نہیں کیونکہ جان بچانا اولین فریضہ ہے.خشک دمہ میں جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے آرسینک اچھا کام کرتی ہے اور اس دمہ میں بھی جس کا تعلق دل کی کمزوری سے ہو.دل کی بیماریوں سے آرسینک کا ایک گہرا تعلق ہے.مریض کے لئے چلنا خصوصاً بلندی پر چڑھنا بہت مشکل ہوتا ہے، چڑھتے وقت
آرسینک 100 بہت تکلیف ہوتی ہے اور جلد جلد سانس پھولنے لگتا ہے.اسی طرح ہوائی جہاز کا سفر بھی ایسے مریض کے لئے خطرناک نہیں تو مشکل ضرور ہوتا ہے.اگر مریض کو سفر سے پہلے آرسینک بار بار کھلایا جائے اور سفر کے دوران بھی استعمال کے لئے دیا جائے تو حیرت انگیز فائدہ ہوتا ہے.وضع حمل کے بعد بعض اوقات پیشاب بند ہو جاتا ہے.اس میں اگر چہ کا سٹیکم اولین دوا ہے.لیکن اس کی ناکامی کی صورت میں آرسینک کو موقع دینا چاہئے.گلا بیٹھنے میں بھی آرسینک بہت مفید ہے.کانوں کے اندر جلن اور دکھن کا احساس ہو، بد بودار مواد خارج ہو جس سے خراش پیدا ہوتی ہو ، ناک میں بھی جلن ہو ، آنکھوں سے بھی جلن اور خراش پیدا کرنے والا پانی بہے تو آرسینک سے فائدہ ہو سکتا ہے.آرسینک کی علامتوں میں مرطوب موسم میں ، آدھی رات کے بعد، سر د غذا کے استعمال اور سمندر کے کنارے جانے سے اضافہ ہو جاتا ہے.گرمی اور گرم مشروبات سے تکلیف میں کمی ہوتی ہے.مددگار دوائیں : رسٹاکس.کار بو ویج.فاسفورس.تھوجا دافع اثر دوائیں: اوپیم.کار بود یج.چائنا.ہپر سلف نکس وامیکا طاقت : 30 سے سی.ایم (CM) تک
آرسینک آئیوڈائیڈ 101 25 آرسینک آئیوڈائیڈ (آرسینکم آئیوڈیٹم) ARESNICUM IODATUM (Iodide of Arsenic) آرسینک آئیوڈائیڈ کا آرسینک البم سے بہت گہرا تعلق ہے.آرسینک آئیوڈائیڈ زخموں کے ناسور بنے اور گینگرین میں تبدیل ہونے کی بہترین روک تھام ہے.پھیپھڑوں کے نچلے حصہ میں زخم اور ہوا کی نالی میں سوزش ہو تو یہ بہت موثر ہے.آرسینک آئیوڈائیڈ میں ہر قسم کی بیماریاں پائی جاتی ہیں اور اس کی علامات کا عام آرسینک سے امتیاز بعض دفعہ مشکل ہوتا ہے.آرسینک کا مرض بہت ٹھنڈا ہوتا ہے.لیکن آئیوڈیٹم کا مریض بہت گرمی محسوس کرتا ہے.اور تیز چلنے اور تیزی سے حرکت کرنے سے اس کی بے چینی کا اظہار ہوتا ہے.ایسا بچہ جو بہت شرارتی اور پھر تلا ہو قابو میں نہ آئے خوب کھائے پیئے لیکن دبلا پتلا ہو آئیوڈین کا مزاج رکھتا ہے.یہی مزاج آرسینک آئیوڈائیڈ میں بھی کسی حد تک دکھائی دیتا ہے.اس دوا کے مریضوں میں تضادات ملتے ہیں.کبھی مریض کی علامات آرسینک سے ملتی ہیں اور کبھی آئیوڈین سے جو دومتضاد علامتوں والی دوائیں ہیں.بہت سی دیگر علامتوں کو پیش نظر رکھ کر اس دوا کی نشاندہی کرنی پڑتی ہے.آرسینک آئیوڈائیڈ بہت وسیع الاثر دوا ہے.اس کے تمام اخراجات کا ٹنے اور چھیلنے والے ہوتے ہیں.جس مخرج سے بھی گزریں وہاں سرخی، جلن اور سوزش پیدا کر دیتے
آرسینک آئیوڈائیڈ 102 ہیں.ناک کی اندرونی سطح متورم اور سخت ہو جاتی ہے حلق اور کان کے درمیان سوزش کی وجہ سے بہرہ پن پیدا ہو جاتا ہے.آرسینک آئیوڈائیڈ پھیپھڑوں کی ہر قسم کی تکلیفوں اور زخموں کے لئے مؤثر ثابت ہے اسی لئے اسے تپ دق میں بھی استعمال کیا جاتا ہے.بہت زیادہ مقدار میں بلغم کا اخراج ہوتا ہواور یہ بلغم پھیپھڑوں کے نچلے حصہ میں بنتا ہو سانس کی تکلیف اور کھانسی مزمن ہو جائے تو آرسینک آئیوڈائیڈ کو نہیں بھولنا چاہئے.لیوپس (Lupus) اور جلد کے کینسر میں بھی بہت مؤثر دوا ہے.اسی طرح رحم اور یعنی اووری (Ovary) جس میں افزائش نسل کے لئے انڈے بنتے ہیں اس کے کینسر کو اگر ٹھیک نہ بھی کر سکے تو فوری طور پر بڑھنے سے روکتی ہے.ڈاکٹر کینٹ کے نزدیک تو ہر کینسر کی بڑھوتی کی رفتار فوری طور پر روکنے کے لئے آرسینک آئیوڈائیڈ بہت مفید ہے.میرا تجربہ ہے کہ ایسی صورت میں آرسینک آئیوڈائیڈ کے ساتھ کچی بوٹی کو استعمال کروانا زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے.آرسینک آرئیوڈائیڈ مختلف قسم کے ایگزیموں پر بھی اچھا اثر رکھتی ہے.مثلاً ایسے ایگزیے جن میں جلد بہت خشک ہو اور بڑے بڑے چھلکے اترتے ہوں جن کے نیچے سے زخمی اور چھلی ہوئی جلد ظاہر ہو اور رطوبت نکلتی ہو.آرسینک آئیوڈائیڈ چنبل (Psorisis) کے علاج میں بھی کام آتی ہے.اس مرض میں دوائیں عمو ماوقتی آرام پہنچاتی ہیں مکمل شفا نہیں ہوتی.اگر غدودوں سے بیماری باہر نکالنے کے لئے دوا دیں تو بہت سخت رد عمل ہوتا ہے اور سارا جسم چنبل سے بھر جاتا ہے.جلد کو ٹھیک کرنے کے لئے دوائی کے استعمال سے بیماری دب کر کسی اور رنگ میں ظاہر ہوتی ہے.ابھی تک کوئی ایسی دوا سامنے نہیں آئی جو دونوں قسم کے اثرات کو سنبھال لے.ہاں سلفر اور سورائینم ایک ہزار طاقت میں باری باری دینے سے کسی حد تک فائدہ ہوتا ہے.ہائیڈرو کو ٹائل (Hydrocotyle) بھی اثر کرتی ہے.یہ بہت طاقتور دوا ہے جو کوڑھ میں بھی مفید ہے.آرسینک بھی سورک (Psoric) دواؤں میں
آرسینک آئیوڈائیڈ 103 شمار ہوتی ہے جو اندرونی جھلیوں اور جلد کے درمیان اثر دکھاتی ہے.بعض دواؤں کا انتڑیوں اور جلد سے تعلق ہے اور بعض کا رحم اور جلد سے.غدودوں اور جلد سے تعلق رکھنے والی دواؤں میں سلفر اور مرکزی بہت نمایاں ہیں.آرسینک آئیوڈائیڈ کی سفلس کے مختلف مراحل میں بھی ضرورت پڑسکتی ہے.آرسینک آئیوڈائیڈ میں سر کے پیچھے گدی میں درد اور کمر میں جلن کی علامات پائی جاتی ہیں.بائیں ٹانگ میں سردی کی لہر دوڑتی ہے اور سنسناہٹ ہوتی ہے.کلائی کی ہڈی میں لکھتے ہوئے درد ہوتا ہے.آرسینک آئیوڈائیڈ کا مریض سردی محسوس کرتا ہے اس کے باوجودا سے پسینہ بھی آتا ہے.اس کی تکالیف بڑھ جائیں تو منتلی بھی شروع ہو جاتی ہے.سخت پیاس لگتی ہے مگر فاسفورس کی طرح پانی پیتے ہی تھوڑی دیر میں قے ہو جاتی ہے.معدے میں شدید درد ہوتا ہے جس میں کولو سنتھ کی طرح آگے جھکنے سے آرام آتا ہے، سخت سوزش پیدا کرنے والے اسہال جو صبح کے وقت شروع ہوتے ہیں ، معدہ ہوا سے بھرا رہتا ہے، بھوک بہت لگتی ہے مگر کھا نا جسم کو نہیں لگتا.طاقت : 30 سے 200 تک
104
آرسینک سلف فلیوم 105 26 آرسینیکم سلفیور بیم فلیوم ARSENICUM SULFURATUM FLAVUM آرسینک سلف فلیوم عموماً برص میں کام آنے والی دوا ہے.یہ ہرقسم کی خارش، برص اور جلد پر آتشک کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے دانوں کے لئے بھی بہت مؤثر ہے.سینہ کے اندر سے چھن دار درد کے کوندے باہر کی طرف لپکیں نیز پیشانی میں دائیں طرف کان کے پیچھے چھن ہو تو آرسینک سلف فلیوم کی یہ نمایاں علامات ہیں.اس میں اکثر دردسوئی کی طرح چھن پیدا کرتا ہے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا ہے.تمام جسم میں چیونٹیاں رینگنے کا احساس ہوتا ہے.شیخ اور عضلات کا کپکپانا بھی پایا جاتا ہے.گرمی کے احساس کے ساتھ ساتھ نبض تیز اور بے قاعدہ ہو جاتی ہے.چلنے یا دوڑنے سے درد میں اضافہ ہو جاتا ہے.درد میں بہت شدید اور نا قابل برداشت ہوتی ہیں.آرسینک سلف فلیوم کا مریض بہت جلد غصہ میں آ جاتا ہے.صبح کے وقت اٹھنے پر بے حد چڑ چڑا ہوتا ہے.سر میں چکر آتے ہیں جن میں دائیں طرف گرنے کا اندیشہ ہوتا ہے.سرٹھنڈا محسوس ہوتا ہے، صبح کے وقت آنکھیں چپکی ہوئی ، سرخی مائل زرد رطوبت نکلتی ہے، کانوں سے بھی بد بودار رطوبت بہتی ہے.نزلہ زکام ہو تو ناک سے بے حد مواد نکلتا ہے.نقاہت اور کمزوری محسوس ہوتی ہے.آرسینک سلف فلیوم کی اصل شہرت جلدی امراض میں ہے.برص کے سفید داغوں میں بہت کثرت سے استعمال ہوتی ہے.اس کے علاوہ چنبل اور کیل مہاسوں میں بھی مفید ثابت ہوئی ہے.ایسے زخم جو مندمل نہ ہوں اور ان میں جلن اور سخت تکلیف ہو تو آرسینک سلف فلیوم بھی استعمال کرنی چاہئے.اس کی علامات صبح اور شام کو بڑھتی ہیں.
آرسینک سلف فلیوم 106 مریض کھلی ہوا پسند نہیں کرتا اور اس کی تکلیفوں میں کھلی ہوا سے اضافہ ہو جاتا ہے.طاقت : 30 سے 200 تک
آرم ٹرائی فلم 107 27 آرم ٹرائی فلم ARUM TRIPHYLLUM (Indian Turnip) آرم ٹرائی فلم ایک سبزی سے تیار کی جانے والی دوا ہے جو کدو اور شلجم کے مشابہ ہوتی ہے اور جنگلوں میں کثرت سے اگتی ہے.اس میں شدید خراش اور سنسناہٹ پیدا کرنے والا زہر پایا جاتا ہے.جسم کے کسی حصہ سے یہ ذرا بھی چھو جائے تو وہاں بے انتہا سنسناہٹ ہونے لگتی ہے.اکثر یہ بات تجربہ میں آئی ہے کہ ناک کے اندر یا ناک کی نوک پر شدید سنسناہٹ کا یہ مؤثر علاج ہے.ناک کی اندرونی خارش بسا اوقات نزلے پر فتح ہو جاتی ہے.ایسے بچے جو ہر وقت ناک کریدیں اور اندرونی جھلیوں کو زخمی کر لیں ان کے لئے بھی اس دوا کو یا درکھنا چاہئے.نزلاتی تکلیفوں کے دوران اگر آنکھوں میں خارش ہو اور پانی ہے، اوپر کے پپوٹوں میں لرزہ ہو تو آرم ٹرائی فلم سے فائدہ ہو سکتا ہے.اس کا نزلہ بہت شدید ہوتا ہے اور مسلسل بہہ بہہ کر دماغ کو کھوکھلا کر دیتا ہے.ناک سے بے حد پانی بہتا ہے اور سخت خارش ہوتی ہے.گلے میں یہ خارش اور سنسناہٹ لمبے عرصہ تک رہے تو فالجی اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں اور سنسناہٹ کی بجائے بے حسی پیدا ہو جاتی ہے.اس کی فالجی علامات بعض دفعہ گلے کے نگلنے والے یا گھونٹ بھرنے والے عضلات میں ظاہر ہوتی ہیں اور خطرہ رہتا ہے کہ ایسا مریض جب لقمہ لے تو لقمہ غلط نالی میں نہ داخل ہوجائے یا گلے کے اندر ہی اٹکا نہ رہ جائے.اسی طرح وہ لوگ جو پانی پینے میں جلدی کرتے ہیں اگر آرم ٹرائی فلم کے مریض ہوں تو خطرہ ہے کہ پانی معدے میں جانے کی بجائے او پر ناک کی نالی میں چڑھ جائے.گلے کے غدود متورم ہو جاتے ہیں.منہ اور حلق میں گھٹن، کچا پن، دکھن اور
108 آرم ٹرائی فلم جلن کا احساس ہوتا ہے، زبان پر سرخی اور دکھن کے علاوہ جلن دارسنسناہٹ بھی پائی جاتی ہے.اس تکلیف کو عموماً Strawberry Tongue کہا جاتا ہے.منہ میں زخموں اور چھالوں کی وجہ سے اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ پانی پینا بھی دوبھر ہو جاتی ہے.اس تکلیف میں آرم ٹرائی فلم غیر معمولی اثر دکھانے والی دوا ہے.اس میں آواز کا زیر و بم بدلتا رہتا ہے ، زیادہ بولنے اور سردی کی وجہ سے آواز بیٹھ جاتی ہے اور کبھی کبھی اچانک اونچی بھی ہو جاتی ہے.مریض کو بھوک نہیں لگتی مگر بعض دفعہ سر درد کی وجہ سے کھانا پڑتا ہے جسے کھانے سے آرام ملتا ہے.اسہال ٹائیفائیڈ کے اسہال سے مشابہ ہوتے ہیں.پھیپھڑے دکھتے ہیں.اندرونی جھلیوں میں سنسناہٹ کی وجہ سے یا کھجلی ہوگی یا وہ دکھنے لگیں گی.اگر اس کا بروقت علاج نہ ہو تو اندرونی اعضا میں فالجی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں مثلا انتریوں کی حرکت اگر بالکل بند نہ ہو تو کمز ور ضرور پڑ جاتی ہے.یہ دوا عام طور پر چہرے ، سر اور ناک کے بائیں حصہ پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے.چھاتی کی تکلیفوں کے دوران پیشاب کم مقدار میں آتا ہے.اگر اس دوا کے استعمال سے افاقہ ہوتو پیشاب بہت کھل کر آنے لگتا ہے.جلسیم میں مریض کا پیشاب عموماً کھلا اور بے رنگ ہوتا ہے.آرم ٹرائی فلم میں پیشاب عموماً تھوڑا اور رنگ دار ہوگا.جب یہ اثر دکھائے تب پیشاب بہت کھل جاتا ہے اور بے رنگ ہو جاتا ہے.جلد پر خسرے کی طرح دانے نکلتے ہیں.جلد کچی کچی ہو جاتی ہے اور تھوڑی سی خراش سے ہی خون رسنے لگتا ہے.مریض کا ، سر در دگرم مشروب پینے یا گرم کپڑا لپیٹنے سے بڑھ جاتا ہے.دافع اثر دوائیں : ایسیٹک ایسڈ.پلسٹیلا طاقت : 30
ایسا فیٹیڈا 109 28 ایسا فیٹیڈا ASAFOETIDA (ہینگ) ہینگ کو عموماً گرم مسالے کے طور پر یا قوت ہاضمہ کو بڑھانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.اس سے تیار کردہ ہومیو پیتھک دوا معدہ اور خوراک کی نالی کے تشیخ میں مفید ہے.اس کی سب سے نمایاں علامت سر کا سن ہونا ہے.سن ہونے کا احساس بسا اوقات سر کی بیرونی جلد تک ہی محدود رہتا ہے لیکن کبھی سر کے اندر دماغ میں بھی محسوس ہوتا ہے اور دونوں صورتوں میں کچھ درد کا احساس بھی پایا جاتا ہے.ہائیڈ روسائینک ایسڈ، ٹیر مینٹولا ہسپانیہ اور کو نیم میں بھی سن ہونے کا احساس عام ہے.ایسا فیٹیڈا میں مریض بہت زود حس ہوتا ہے.رات کو تکلیف بڑھ جاتی ہے.کھلی ہوا، حرکت اور دباؤ سے کمی محسوس ہوتی ہے.ہڈیوں کے بھر بھرا ہونے کی خطرناک بیماری بھی اس کے دائرہ میں شامل ہے.چنانچہ سفلس کے مریضوں کی طرح ناک کی اندرونی ہڈیوں کے گلنے سڑنے کے نتیجہ میں دائمی خطرناک بد بودار نزلہ ملتا ہے.دافع اثر دوائیں : چائنا ،مرکزی طاقت 30
110
آرم میٹ 111 29 آرم مٹیلیکم AURUM METALLICUM آرم مٹیلیکم کا سب سے زیادہ تعلق مریض کے پہنی رجحانات سے ہے.اس کی اکثر بیماریاں بھی ذہنی تکالیف کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں.ذہن پر پڑنے والے بداثرات جسمانی بیماریوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں.اس دوا میں سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ ایسا مریض اپنی ذات کا اعتماد کھونے لگتا ہے.ہر وقت اپنے آپ کو ملامت کرتا ہے.خود کو بے کار اور نا کارہ وجود سمجھتا ہے اور اپنے آپ کو زمین پر بوجھ تصور کرتا ہے.جب ایسے خیالات بڑھ جاتے ہیں تو آخر کار خودکشی کے رجحان پر منتج ہوتے ہیں اور مریض واقعتا خود کشی کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے.آرم مٹیلیکم کا مریض بظاہر اپنی ذات میں گم، مایوس اور پڑ مردہ دکھائی دیتا ہے لیکن جب اسے کسی بات پر غصہ دلا دیا جائے تو اس کی اپنی جان لینے کی خواہش دوسروں کی طرف منتقل ہو جاتی ہے اور وہ قتل تک کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے.جب اپنی ذات اور ماحول سے بیگانگی اور دنیا کی بدسلوکی کا احساس دب کر اندرونی دینی ناسور بن جاتا ہے تو دبا ہوا نفرت کا جذبہ اچانک ابھر آتا ہے.عام طور پر اس بے چینی اور تکلیف کا رخ اس کی اپنی ذات کی طرف ہی رہتا ہے لیکن اگر اسے کوئی بہت تنگ کرے تو اس کا انتقامی جذ بہ بھڑک اٹھتا ہے اور پھر ایسا مریض انتہائی تشدد پر اتر آتا ہے.اس لئے آرم میڈیاکم کے مریضوں سے چھیڑ خانی کرنے سے گریز کرنا چاہئے.اسی طرح بلاوجہ انہیں بحثوں میں الجھانا نہیں چاہئے.آرم میٹ میں پاگل پن کا رخ جذبات سے ذہن کی طرف ہے.اگر مریض کی انا کچلی جائے ، زندگی کی ناکامیاں اس پر چھا جائیں اور وہ اپنے آپ کو جذباتی طور
آرم میٹ 112 ناکام و نامراد محسوس کرے تو یہ جذباتی اذیت اور عذاب کی کیفیت رفتہ رفتہ مستقل پاگل پن میں تبدیل ہو سکتی ہے ورنہ شروع شروع میں وہ ان تمام کیفیات کے باوجود سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری نہیں ہوتا اور حقائق کا موازنہ کرسکتا ہے.آرم میٹیلیکم میں جسمانی لحاظ سے سب سے زیادہ جگر متاثر ہوتا ہے اور جگر کی خرابی ہمیشہ دل کی تکلیف کے ساتھ منسلک ہو جاتی ہے.دل کے عضلات کمزور پڑ جاتے ہیں اور جگر جواب دے جاتا ہے.ایسے مریض میں یہ دونوں بیماریاں اکٹھی ملتی ہیں.دل کی اندرونی جھلی میں سوزش کے نتیجہ میں دل میں درد محسوس ہوتا ہے.دل پھیلنے لگتا ہے اور پھیپھڑوں میں پانی بھر جاتا ہے.آرم میٹ میں پانی کی دردیں بھی پائی جاتی ہیں.جوڑوں میں سوزش ہو جاتی ہے.ہڈیوں کے ارد گرد پائی جانے والی باریک جھلی میں خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں جس کی وجہ سے ہڈیاں متاثر ہوتی ہیں اور بعض اوقات بھر بھری ہو جاتی ہیں.کرکری ہڈیوں یعنی لچک دار ہڈیوں میں بھی کمزوری واقع ہو جاتی ہے.ہڈیوں کے ریشوں میں سختی پیدا ہو جاتی ہے.اس لحاظ سے یہ ارجنٹم نائٹریکم سے مشابہ ہے.ہڈیوں میں چاقو لگنے کی طرح کا درد ہوتا ہے.بعض اوقات جوڑوں کو حرکت دینا مشکل ہو جاتا ہے.جیسے کندھے کا جوڑ ہلتا ہی نہیں.اسے عموماً Frozen-Shoulder کہتے ہیں.بسا اوقات چوٹ لگنے کی وجہ سے بھی جوڑ ہلانا جلانا مشکل ہوتا ہے لیکن اگر بائی کی دردوں کی وجہ سے جوڑ حرکت نہ کرے تو آرم میٹ بہترین دوا ہے.آرم میٹیلیکم میں خون کی وریدیں موٹی ہونے لگتی ہیں.ان میں خون کے لوتھڑے بن جاتے ہیں اور خون کی رگوں میں دھڑکن اور تپکن پیدا ہوتی ہے.خون کے سرخ ذرات جوڑوں میں جمع ہو جاتے ہیں جس سے جوڑوں کی تکلیفیں پیدا ہو جاتی ہیں.دل اور جگر کی خرابی کی وجہ سے جسم کے کچھ حصے اور جسم کی ہر جگہ کی غدودیں پھول جاتی ہیں.عورتوں میں ٹانگوں اور ٹخنوں کے گرد سوجن نمایاں ہوتی ہے کیونکہ حمل کے دوران انہیں بہت بوجھ اٹھانا پڑتا ہے اور کمزوری کا احساس باقی رہ جاتا ہے.اس لئے ٹانگوں اور
آرم میٹ 113 ٹخنوں پر سب سے پہلے اثرات ظاہر ہوتے ہیں.ایسی حالت میں اور بھی کئی دوائیں کام آ سکتی ہیں مگر ان کی معین علامتیں آرم مٹیلیکم سے الگ موجود ہونا ضروری ہے.آرم میٹ میں شدید سر درد ہوتا ہے جس کے ساتھ یہ احساس ہوتا ہے کہ گویا ہوا چل رہی ہے.سر درد کے دوران چہرہ سوج جاتا ہے اور کھچاؤ کی وجہ سے چہرے پر چمک سی آجاتی ہے.آرم کے مریض میں سر کے بال جھڑنے کا رجحان بھی ملتا ہے جو گنجے پن پر منتج ہو جاتا ہے.بال جھڑنے میں ایسڈ فاس کو بھی بہت شہرت حاصل ہے.اگر کسی معین دوا کا علم نہ ہو سکے تو عمومی طور پر ایلو پیشیا(Alopecia) کا نسخہ [ میسی لینیم 200 + نیٹرم میور 30 + ٹیوکریم (Teucrium Marum) 30 + پکرک ایسڈ 30] بہت مفید ہے مگر یادر ہے کہ ایلو پیشیا چھوٹے چھوٹے گول دائروں میں بال جھڑنے کی بیماری کو کہتے ہیں لیکن اس نسخے کو میں نے عام گنجے پن پر بھی کامیابی سے استعمال کر کے دیکھا ہے، شرط یہ ہے کہ چہرے پر بھی اس بیماری سے دھدری جیسے نشان ظاہر ہوں.اس وقت یہ نسخہ بہترین ثابت ہوتا ہے.دیگر مزاجی علامتیں موجود ہوں تو گریفائٹس اور فاسفورس بھی گنجے پن میں بہت اچھا اثر دکھاتے ہیں.ایک عمومی نسخہ نیٹرم میور اور میسی لینیم دوسو طاقت میں بھی آزمودہ ہے.اس کے گنجے پن کا تعلق زیادہ تر سفلسی مادوں سے ہوتا ہے.کتابوں میں زیر نظر دوا آرم میٹیلیکم کو بھی گنجے پن کے بہترین علاج کے طور پر بتلایا گیا ہے لیکن اگر مریض آرم مٹیلیکم کا ہو تو یہ اثر دکھائے گا ورنہ نہیں.اس کے گنجے پن کا تعلق زیادہ تر دبے ہوئے سفلسی مادوں سے ہوتا ہے.آرم میٹ کے اثر کو مزید بڑھانے کے لئے سیفیلینم ایک لاکھ طاقت میں دینی چاہئے اور دو مہینے کے بعد دہرانی چاہئے.اگر فرق نہ پڑے تو آرم مٹیلیکم دیں اور اس کے بعد نیٹرم میور اور بیسی لینیم ملا کردیں.آرم میٹ میں روشنی سے بہت زود حسی پائی جاتی ہے.گیس لائٹ میں خصوصیت سے آنکھ کو تکلیف ہوتی ہے.تیز شعلے دیکھنے سے گھبراہٹ ہوتی ہے.آرم میٹ میں
آرم میٹ 114 ایک علامت دیکھی ہوئی ہے کہ اس میں چاند کی روشنی سے سکون ملتا ہے.میرے نزدیک یہ عام سی بات ہے کوئی راہنما علامت نہیں.آرم میٹ میں آنکھوں کے سامنے ستارے ٹوٹتے دکھائی دیتے ہیں.کلکیر یا میں چمکدار ستارے نیچے سے اوپر کی طرف جاتے ہوئے نظر آتے ہیں جبکہ آرم میٹ میں اوپر سے نیچے کی طرف.یہ علامت را ہنما ہے اور آرم میٹ کی پہچان میں مدد دیتی ہے.بعض دفعہ آنکھیں پھول کر باہر آ جاتی ہیں.ایلو پیتھی میں اس کا علاج عموماً آپریشن سے کیا جاتا ہے.اس بیماری کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں.غدودوں کی خرابیاں، گٹھلیاں یا سلی مادوں کی موجودگی سے آنکھ کے ڈھیلے پھول جاتے ہیں.آرم میٹ میں کوئی معین وجہ تو نہیں بتائی گئی لیکن اسے ایسی پھولی ہوئی آنکھ کے علاج میں مفید بتایا گیا ہے.میں نے نیٹرم میور اور بیسی لینیم کو بھی اس میں بہت مفید پایا ہے.اگر آنکھ میں خون کا دباؤ زیادہ ہوتو ہیلا ڈونا اور آرنیکا بھی ساتھ ملا کر دینا چاہئے.سب سے اہم بات یہ پیش نظر رکھنی چاہئے کہ مریض کے مزاج کو سمجھ کر دو تشخیص کی جائے.ہر مریض کا کوئی نہ کوئی خاص نسخہ ہے جو اس کے مزاج اور روزمرہ کے سے تعلق رکھتا ہے، وہ معلوم کرنا چاہئے لیکن اگر بہت سی علامتیں گڈ مڈ نظر آئیں اور تشخیص نہ ہو سکے تو پھر مذکورہ بالا مجوزہ نسخہ استعمال کر کے دیکھیں.میں نے تو اسے بہت مفید پایا ہے.آرم میٹ کان کے زخموں میں بھی مفید ہے.کان کی بیرونی ہڈیوں سے تکلیف شروع ہو کر کان کے اندر منتقل ہو جاتی ہے اور باریک ہڈیوں کے جال کو متاثر کرتی ہے، جس سے کان کے اندر تعفن پیدا ہو کر بد بودار مواد خارج ہونے لگتا ہے.آرم میٹ میں ناک کے نزلے مزمن ہوتے ہیں اور ان کا بلغمی جھلیوں جسے تعلق نہیں ہوتا بلکہ ہڈیوں کی خرابی سے تعلق ہوتا ہے.نیٹرم میور کا تعلق ناک کی جھلیوں سے ہوتا ہے، ہڈیوں سے نہیں.اگر نزلہ میں نیٹرم میور دیا جائے تو ابتدا میں علامات شدت اختیار کر جاتی ہے اور ناک سے بہت پانی بہتا ہے لیکن جب ٹھیک ہو جائے تو کوئی علامت بھی باقی نہیں رہتی.
آرم میٹ 115 ہومیو پیتھک طریقہ علاج میں آرم میٹ کا پرانے دبے ہوئے سفلس سے جو تعلق بتایا جاتا ہے اس کی تصدیق میں ایلو پیتھک محققین کے سامنے نئے شواہد آئے ہیں.امریکہ میں جب بعض ایڈز کے مریض زیادہ خطرناک صورت اختیار کر گئے تو ان میں سفلس کی علامتیں بھی ظاہر ہوگئیں جو پہلے قطعا موجود نہیں تھیں.مزید چھان بین پر یہ انکشاف ہوا کہ ایسے مریضوں کے آباء واجداد میں سے بعض کو یقینی طور پر سفلس ہوا تھا جو اس وقت کے علاج سے بظاہر ٹھیک ہو گیا تھا.آرم میٹ کی ایک علامت یہ ہے کہ ناک کے اوپر نیلے رنگ کی وریدوں کا جال بن جاتا ہے اور ان میں خون جمنے کا رجحان بھی ہوتا ہے جیسے ویری کوز وریدوں (Vericose Veins) کا مرض ہو.آرم میٹ میں ناک کے علاوہ ہونٹ بھی نیلے ہو جاتے ہیں.آرم میٹ کی جگر کی تکلیفوں میں جگر پتھر کی طرح سخت ہو جاتا ہے.گٹھلیاں سی بن جاتی ہیں.(Inguinal Hernia) ہرنیا میں بھی یہ مفید دوا ہے.رحم کی سختی اور سوزش میں مفید ہے.حیض کا خون دیر سے آتا ہے اور مقدار میں کم ہوتا ہے.یہ علامت نیٹرم میور میں بھی پائی جاتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ نیٹرم میور میں حیض کے دنوں میں کمر میں شدید درد ہوتا ہے اور شادی شدہ عورتوں کی بجائے اکثر کنواری بچیوں میں یہ تکلیف زیادہ پائی جاتی ہے.ایسی علامات میں بسا اوقات نیٹرم میور کی صرف ایک ہی خوراک اثر دکھاتی ہے.آرم میٹ میں کسی مخصوص درد کی علامت نہیں ملتی لیکن ادھر ادھر پھرنے والی دردیں رہتی ہیں جو کسی خاص مقام کی نشاندہی نہیں کرتیں.آرم میٹ کی اکثر علامتیں ارجنٹم میٹیلیکم سے ملتی ہیں لیکن بعض فرق کرنے والی علامتیں بھی ہیں.ارجنٹم میٹ میں جسم کی تکلیفوں کے دوران نرم اور آہستہ حرکت سے آرام آتا ہے جبکہ آرم میٹ میں ایسی حرکت سے تکلیف ہوتی ہے خصوصاً تیز چلنے سے دل پر خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے اور دل میں جکڑن اور گھٹن کا احساس ہوتا ہے لیکن ارجنٹم میں اس سے بالکل برعکس کیفیت ہوتی ہے.
آرم میٹ 116 مدد گار دوائیں آرم میور.ایسا فیٹیڈا.کالی آئیوڈائیڈ.فاسفورس دافع اثر دوائیں : بیلاڈونا.کیو پرم.چائنا طاقت: 30 سے 1000 تک
آرم میور 117 30 آرم میور AURUM MURIATICUM آرم میور سونے کے نمک سے تیار کی جانے والی دوا ہے.اس کی اکثر تکلیفیں دل کے گرد گھومتی ہیں اور آرم مٹیلیکم کی طرح اس میں جگر اور دل کی بیماریاں اکٹھا حملہ کرتی ہیں.پیشاب میں یوریا بھی آتا ہے.یہ دوا غدودوں کی بیماریوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے.چنانچہ اسے غدودوں کے کینسر میں بھی مفید بتایا گیا ہے.اگر اس کی علامتیں موجود ہوں تو یہ دوا خطرناک کینسر میں بھی شفا بخش ثابت ہوتی ہے.آرم میور کی خاص علامت جلن دار در دیں ہیں.جسم میں جہاں کہیں بھی درد ہو گا وہاں جلن پائی جائے گی.اس کی تکلیفیں ٹھنڈے بھیگے ہوئے موسم میں آرام پاتی ہیں جبکہ بھیگا ہوا گرم موسم آرم میور کی تکلیفوں میں اضافہ کر دیتا ہے.آرم میٹیلیکم کی طرح اس میں بھی خود کشی کا رجحان پایا جاتا ہے.لیکن مریض اپنی ذات کی تنہائی میں قید ہونے کی بجائے بدمزاج ، چڑ چڑا اور جھگڑالو ہو جاتا ہے.آرم میور کی تکلیفوں میں دھڑکن پائی جاتی ہے.اگر آنکھوں میں آ تشک (Syphilis) سے مشابہ علامتیں پائی جائیں یعنی ہڈیاں گلنے اور کھوکھلی ہونے کا رجحان ہو تو اس میں مفید ہے.آرم میور کے مریضوں کی نظر مصنوعی روشنی میں کمزور ہو جاتی ہے.اگر ویسے نظر بالکل ٹھیک ہولیکن رات کے وقت روشنیوں میں نمایاں کمزوری ہو تو آرم میورا سے دور کرنے کے لئے اچھی دوا ہے.آرم میور میں موسیقی سننے سے تکلیفوں کو آرام ملتا ہے.اس علامت کا تعلق کانوں سے ہے.کان کی تکلیفوں کو موسیقی سے آرام آئے تو پھر یہ دوا مفید ہوگی.رات کو
118 آرم میور کان کے پیچھے جلن اور خارش ہوتی ہے.نیز یہ ناک کی تکلیفوں اور پرانے نزلوں میں بھی مفید دوا ہے.آرم میور میں ناک کے جمے ہوئے مواد کو اکھیڑنے کی کوشش کریں تو خون نکلنے لگتا ہے.زردی مائل سبز مواد خارج ہوتا ہے.نتھنوں کے کناروں پر لیوپس (Lupus) ہو جائے تو اس میں آرم میور کو مفید بتایا گیا ہے.آرم میور میں اجابت سبزی مائل یا مٹیالے رنگ کی ہوتی ہے.یہ علامت جگر کی خرابی کی نشاندہی کرتی ہے.بسا اوقات بالکل بے رنگ سفیدی مائل اجابت ہوتی ہے.اسہال رات کو بڑھتے ہیں.پیشاب بھی رات کو زیادہ آتا ہے.بعض اوقات رات کو بستر میں پیشاب نکل جاتا ہے.منہ سے رالیں بہتی رہتی ہیں.آرم میور رحم کے بڑھ جانے اور اس کی تختی میں خصوصا رحم کی گردن کی تختی میں بہت مفید دوا ہے.رحم کی گردن کی تکلیفوں میں کار بو اینیمیس ، ٹیرنڈلا ہسپانیہ اور لیپس البس (Lapis Albus) بھی بہت مفید ہیں.اگر ذہنی ہیجان کی وجہ سے نیند اڑ جائے تو اور دواؤں کے علاوہ آرم میور بھی کام آ سکتی ہے بشرطیکہ جسم میں جگہ جگہ دھڑکنیں پائی جائیں.ایسے مریض کو تشدد آمیز یا غم ناک خواب نظر آتے ہیں.مریض عموماً اپنی بیماری کی کیفیت کے مطابق خواب دیکھتا ہے.اگر تشدد والے خواب نظر آئیں تو اس کا مطلب ہے کہ بیماری خطرناک حد تک پہنچ چکی ہے.اگر غم کی خوا ہیں آتی ہیں تو مرض ابھی ابتدائی حالت میں ہے اور نسبتاً جلد افاقہ ہونے کا امکان ہے.اکثر ہو میو پیتھ آرم میور کو پلسٹیلا اور کالی سلف کے مشابہ دوا سمجھتے ہیں لیکن در حقیقت ان میں بہت فرق ہے.حمل کے بالکل ابتدائی ایام میں بلکہ پہلے دن شک پڑتے ہی آرم میور CM ایک خوراک دینے سے خدا کے فضل سے اکثر بیٹا پیدا ہوتا ہے.اگر زیادہ دن او پر چڑھ جائیں تو پھر یہ دوا بے اثر ہو جاتی ہیں.بیٹا ہونے کے معاملہ کو قاعدہ کلیہ ہرگز نہیں بنایا جا سکتا.میرے علم میں ایسی عورتیں بھی ہیں جنہوں نے دن چڑھتے ہی آرم میور CM کی
آرم میور 119 خوراک کھائی تھی مگر اس حمل میں بیٹی ہی پیدا ہوئی.ہاں دوسرے حمل میں بیٹا پیدا ہوا.پس بیٹی اور بیٹے کے معاملہ میں کوئی قاعدہ کلیہ پیش نہیں کیا جا سکتا.اس دوا کے اثر کا میں نے بہت سے مریضوں میں بغور مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ یہ دوا کھانے سے بعض دفعہ حمل ٹھہرتا ہی نہیں لیکن اگر حمل ٹھہر جائے تو غالباً 80 فیصد یا اس سے زائد حاملہ عورتوں کے بیٹا پیدا ہو گا.میرا یہ مشاہدہ صرف ان مریضوں کے تعلق میں نہیں جن کو میں براہ راست خود دوا دیتا ہوں بلکہ اب تو اس دوا کی شہرت عام ہو چکی ہے اور ہر سال مجھے بیسیوں ایسے خط ملتے ہیں جن میں اس کے غیر معمولی اثر کا ذکر ہوتا ہے.مثلاً لاہور سے ایک خط میں ایک خاتون نے یہ لکھا کہ میری دیورانی، جٹھانی اور خود میرے ہاں کوئی بیٹا نہیں تھا.ہم تینوں نے کتاب میں مندرج ہدایت کے مطابق یہ نسخہ استعمال کیا اور خدا کے فضل سے تینوں کے بیٹے ہی پیدا ہوئے.طاقت : 30 سے CM تک
120
پیٹیشیا 121 31 بیٹیشیا BAPTISIA پیٹیشیا روز مرہ کی تکلیفوں میں کام آنے والی بہت معروف اور مجرب دوا ہے.اس کا تعلق تعفنات سے ہے.اگر انتڑیوں میں بہت زیادہ تعفن پایا جائے خصوصاً ٹائیفائیڈ کی بیماری میں ایسے اسہال آتے ہوں جن میں انتہائی خطرناک بد بو ہو تو پیٹیشیا سے بہتر اور کوئی دوا ں ہے.ایسے اسہال کی یہ اولین دوا ہے لیکن اس میں کھلے اسہال نہیں ہوتے ، معمولی یا درمیانے درجے کے لٹی کی طرح کے اسہال ہوتے ہیں جن میں شدید بد بو ہوتی ہے.پیشیا گلے کی خرابیوں میں بھی بہت مفید ہے.گلا متعفن بیماریوں کی وجہ سے سخت متاثر ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ اس کے ساتھ درد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مریض کو گلے کی بیماری کی خطرناک صورت کا احساس نہیں ہوتا لیکن گلے کے غدود یعنی ٹانسلز (Tonsils) کے اندر درد کی علامات ملتی ہیں.ہاں اس کے اردگرد کے ریشوں میں درد نہیں ہوتا جو گلے کی عام خرابیوں میں ضرور پایا جاتا ہے.اگر گلے کی تکلیف میں درد نہ بھی ہو لیکن گلا متعفن ہو تو اس میں پیٹیشیا بہت مؤثر دوا ہے.خون میں زہر پھیل جائے اور رحم یا جسم کے کسی دوسرے عضو میں زخم متعفن (Septic) ہوں تو ان میں بھی بیٹیشیا بہت اچھی ہے لیکن سلفر 200 اور پائیر وجینم 200 ملا کر دی جائے تو یہ سب سے اچھا علاج ہے.ہاں پیلیشیا کی علامتیں ہوں تو ان دونوں دواؤں کی مددگار کے طور پر اسے 30 طاقت میں ساتھ دیا جائے تو سونے پر سہاگے کا کام کرے گی.
پیٹیشیا 122 ٹائیفائیڈ کی صورت میں جب پیشیا کی علامتیں ہوں تو پیٹیشی لا زمی دوا بن جاتی ہے لیکن اس کی مددگار کے طور پر ٹائیفائیڈ بینم 200 اور پائیر وجینم 200 ملا کر اس کے اثر کو اور بھی تیز کر دیتی ہیں.ٹائیفائیڈ میں پیٹ کا تناؤ بخار کی نسبت سے بہت زیادہ ہوتا ہے.سارا جسم گھل کر ختم ہورہا ہوتا ہے جبکہ پیٹ پھول کر بہت بڑا ہو جاتا ہے.ایسی صورت میں بیٹیشیا کی علامات موجود ہوں تو اس کے ساتھ ٹائیفائیڈ یم اور پائیر وجینم حسب ذیل طریق پر استعمال کرانی چاہئے :- جب تک بخار ٹوٹ کر درجہ حرارت نارمل نہ ہو جائے یعنی نہ صبح بخار ہو نہ رات کو بخار ہو اس وقت تک ٹائیفائیڈ بینم اور پائیر وجینم دن میں تین دفعہ اور پیٹیشیا30، پانچ چھ دفعہ با قاعدگی سے دیں.جب درجہ حرارت بالکل نارمل ہو چکا ہو تو پھر کم سے کم مزید ایک ہفتہ تک پائیر وجینم اور ٹائیفائیڈ مینم روزانہ ایک دفعہ اور پیشیا دن میں تین دفعہ.تیسرے ہفتہ پائیر وجینم اور ٹائیفائیڈ ینم ہفتہ میں دو دفعہ اور بیٹیشیا حسب سابق دن میں تین دفعہ دیتے چلے جائیں.اگر پورے اکیس دن یہ احتیاط برتی جائے تو اللہ کے فضل سے ٹائیفائیڈ کے اعادے کا کوئی احتمال نہیں رہے گا اور اس کے کوئی باقی ماندہ بداثرات بھی نہیں ہوں گے.اگر پیٹیشیا کی علامتیں نہ ہوں اور مریض مائل بہ قبض ہو تو پیٹیشیا کی بجائے اسی طریق + پر کالی فاس اور فیرم فاس 6x میں ملا کر دیں اور ٹائیفائیڈ بینم اور پائیر وجینم والا نسخہ مذکورہ بالا ہدایت کے مطابق ساتھ دیتے رہے.کسی ڈاکٹر نے ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ایک آدمی ٹائیفائیڈ بخار کے بعد نا بینا ہو گیا لیکن جب وہ کسی دوا کے نتیجہ میں دوبارہ بخار میں مبتلا ہو گیا تو اس کی بصارت واپس آ گئی.ہومیو پیتھی میں ایسے محیر العقول واقعات شاذ کے طور پر ہی سہی مگر مشاہدہ میں ضرور آتے رہتے ہیں.حالانکہ ایلو پیتھک ماہرین اعصاب کا دعوی ہے کہ اعصاب ایک دفعہ مردہ ہو جائیں تو ان کو از سر نو زندہ نہیں کیا جا سکتا.بہر حال یہ بات مسلم ہے کہ ٹائیفائید بہت خطرناک بیماری ہے.ٹائیفائیڈ کے بداثرات دماغ پر ظاہر ہوں تو پاگل کر دیتے ہیں اور ایسا پاگل پن عموماً عمر بھر کا روگ بن جاتا ہے.ایسے مریض میں سٹرامونیم اور
پیٹیشیا 123 ہائی مس کی علامتیں پائی جاتی ہیں.یہ دونوں دوائیں ٹائیفائیڈ میں بھی مفید ہیں.ان سے مکمل شفا تو نہیں ہوتی لیکن علامات قدرے نرم ہو جاتی ہیں.بیٹی یا دانتوں کے لئے بھی مفید دوا ہے.دانت اور مسوڑھے خراب ہوں ، بد بودار پیپ بنے لگے اور مسوڑھے دانت چھوڑ دیں تو پیلیشیا بھی دوا ہو سکتی ہے.پیشیا کی ایک علامت یہ ہے کہ مریض غنودگی اور نیم بے ہوشی کی کیفیت میں رہتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ اس کے اعضاء الگ الگ ہو گئے ہیں.اس کی شخصیت اعضاء میں بکھر جاتی ہے.اس کی غنودگی الگ الگ اعضاء پر قبضہ کئے رکھتی ہے.جب اسے مجبور کر کے اٹھایا جائے تو پھر وہ غنودگی کے عالم میں ہی اٹھتا ہے اور بکھرے ہوئے اعضاء کو جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے.بعض دفعہ ان سے مخاطب بھی ہوتا ہے.بعض دفعہ سمجھتا ہے کہ اس کی ایک ٹانگ اس کی دوسری ٹانگ سے باتیں کر رہی ہے.اسے جھنجھوڑ کر کوئی سوال کیا جائے تو سوال کا جواب دیتے دیتے پھر سو جاتا ہے.پیپلیشیا ایسے ذہنی الجھاؤ کا بہترین علاج ہے بشرطیکہ اس کی کچھ دوسری علامتیں بھی پائی جاتی ہوں.پیٹیشیا میں عمو مامٹیالے یا ہلکے زرد رنگ کے لئی کی طرح کے اسہال ہوتے ہیں اور بعض دفعہ اسہال کا رنگ سلیٹی ہوتا ہے.بعض اوقات ماتھے پر پسینہ آتا ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ مریض کی تمام طاقتیں جواب دے رہی ہیں.جب یہ صورت حال ہو تو زبان چمڑے کی طرح اکٹر کر خشک ہو جاتی ہے اور دانتوں کے ارد گرد زخم بننے لگتے ہیں اور بد بو آتی ہے.اگر اس کیفیت میں بروقت بیشی مل جائے تو مریض اکثر موت کے کناروں سے لوٹ آتے ہیں.بیلیشیا میں منہ میں زخم ہوتے ہیں جو گینگرین کی شکل بھی اختیار کر لیتے ہیں.اکثر زخموں میں درد نہیں ہوتا البتہ منہ کا مزہ خراب ہو جاتا ہے.بیٹیشیا کے زخم کے اردگر د فالجی علامتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور اردگرد کے ماحول سے زخم کا تعلق ٹوٹ جاتا ہے.یہ بہت خطر ناک علامت ہے.جس زخم کے اردگرد کا حصہ ماؤف ہو جائے تو اسی نسبت سے وہاں ہو میو پیتھک دوا کا پیغام پہنچنے میں دقت ہوسکتی ہے.اس لئے مرض کو بر وقت پہچان
پیٹیشیا کر دوا دینی چاہئے تا کہ معاملہ آگے نہ بڑھ جائے.124 پیشیا کے گلے کی خرابی میں یہ علامت پائی جاتی ہے کہ مائع چیز پینے میں وقت نہیں ہوتی لیکن ٹھوس غذا نگلنے میں دشواری ہوتی ہے.مریض اگر کوشش کرے تو خوراک سانس کی نالی النے میں دشواری ہو میں چلی جاتی ہے.پیشیا کی کئی بیماریوں میں فالجی کمزوری پائی جاتی ہے.دراصل انتڑیوں میں اسی کمزوری کی وجہ سے اپھارہ بڑھتا ہے.دواؤں کا بنیادی مزاج یاد رکھنا ضروری ہے.بیٹیشیا کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ اس میں پوری طرح فالج کا اثر ظاہر نہیں ہوتا ، صرف کوئی عضو کسی حد تک ماؤف ہو جاتا ہے اور زخموں کے گرد ایسا فالجی اثر ہوتا ہے جو احساس کو مدہم کر دیتا ہے اور درد محسوس نہیں ہوتا.اگر اس خاص علامت کو یا در کھا جائے تو پیٹیشیا کا بروقت استعمال ہو سکے گا.مددگار دوائیں برائیونیا.آرسنک - آرنیکا.پائیر وجینم سلفر ٹائیفائیڈ مینم طاقت : 30 سے 200 تک
برائیٹا کارب 125 32 برائیٹا کارب BARYTA CARB برائیٹا کارب کی علامات کو بعض ہو میو پیتھ ایک ہی لفظ میں بیان کرتے ہیں یعنی Dwarfishness، اسے اردو میں بونا پن کہا جاسکتا ہے.برائیٹا کارب کا بونا پن محض جسمانی نہیں بلکہ بسا اوقات پہنی بھی ہوتا ہے اور یہ دونوں کمزوریاں ساتھ ساتھ چلتی ہیں لیکن میں نے اپنے تجربہ میں ہمیشہ یہ دیکھا ہے کہ اگر صرف جسمانی لحاظ سے ہی بونا پن پایا جائے تو اس میں بھی برائیٹا کا رب بہت اچھا کام کرتی ہے اس لئے اسے خواہ مخواہ ذہنی علامات سے باندھ لینا درست نہیں ہے.میں نے اچھے سمجھدار بونوں اور بہت ذہین مگر چھوٹے قد والوں کو برائیٹا کارب استعمال کروائی ہے.اللہ کے فضل سے دونوں صورتوں میں بہت اچھا اثر دکھاتی ہے.اس کے ساتھ اگر چھوٹی طاقت میں سلیشیا بھی دی جائے یعنی 6x میں اور ساتھ کلکیر یا فلور 6x ملالی جائے تو یہ قد بڑھانے کے لئے اکثر بہترین نسخہ ثابت ہوتا ہے.وہ بونے جن کا ذہن بھی نشو ونما سے محروم ہو ان میں بھی تو یہ بہر حال کام کرتی ہے اس کے علاوہ وہ فالج جو پرانے ہو چکے ہوں ان پر بھی برائیٹا کا رب کا واضح اثر پڑتا ہے.خصوصاً ٹائیفائیڈ اور پولیو کے چھوڑے ہوئے فالج کے بداثرات میں جہاں دوسری دوائیں بالکل ناکام ہو گئی ہوں وہاں سلفر یا رسٹاکس کے ساتھ برائیٹا کا رب کو باری باری دینا بعض دفعہ حیرت انگیز نتائج ظاہر کرتا ہے.ہاں اگر ٹائیفائیڈ کے فالج کا اثر اعصابی نظام (Nerves System) پر ہو تو اس کا کوئی علاج اب تک معلوم نہیں ہو سکا.ٹائیفائیڈ کا زہر اعصاب کو مار دیتا ہے اور موت کا علاج کوئی نہیں.لیکن دیگر عضلاتی فالجوں میں جہاں اعصاب مر نہ گئے ہوں مگر کمزور پڑ چکے ہوں، خواہ وہ ٹائیفائیڈ کے زہر کے نتیجہ میں
126 برائیٹا کارب ہی ہوں، مؤثر ہومیو پیتھک علاج کیا جاسکتا ہے.دیگر دواؤں کے علاوہ برائیٹا کا رب بھی بہت واضح اثر دکھاتی ہے.اگر مختلف اعضاء اور ٹانگوں پر ٹائیفائیڈ یا پولیو کا اثر ہوتو ٹائیفائیڈ میں نسبتاً کم مگر پولیو میں نسبتا زیادہ فائدہ ہوتا ہے.اگر مکمل شفانہ بھی ہو تو اتنا نمایاں فرق پڑ جاتا ہے کہ مریض بہتر ہو جاتا ہے، سوکھتی ہوئی ٹانگ دوبارہ موٹی ہونے لگتی ہے.ہاتھ سوکھ رہا ہوتو دوبارہ اپنی اصل حالت کی طرف آنے لگتا ہے مگر ضروری نہیں کہ ایسے ہر بیمار کو کمل شفا نصیب ہو جائے.برائیٹا کارب کی علامتیں رکھنے والے بچے عموماً بہت جھینپنے والے ہیں.سکول میں پیچھے پیچھے رہتے ہیں اور کوئی اجنبی آ جائے تو فوراً چھپ جاتے ہیں.اگر اس کے ساتھ کچھ جسمانی ساخت کی خرابیاں بھی ہوں تو از ما براین کار دینی چاہئے.بچوں کی ٹانگوں میں کمزوری کے لئے برائیٹا کارب اور کلکیریا کارب دونوں مشہور دوائیں ہیں لیکن ان میں ایک فرق بہت واضح ہے.کلکیریا کارب کے بچوں کی ٹانگیں کمزور ہوتی ہیں.ان میں ہڈیوں کی صحیح نشو و نما نہیں ہوتی اس لئے صاف پتہ چلتا ہے کہ کمزور ٹانگوں والا بچہ ہے جو جلدی چل نہیں سکتا لیکن پیٹ موٹا اور سر بڑا ہوتا ہے.برائیٹا کا رب کے مریض بچوں میں جسمانی لحاظ سے ٹانگیں ٹھیک بھی ہوں تو بھی ان میں کمزوری پائی جاتی ہے اور وہ بہت دیر سے چلنا سیکھتے ہیں.ٹانگوں کی کمزوری اور دیر سے چلنے کی علامت بوریکس اور نیٹرم میور میں بھی پائی جاتی ہے.نیٹرم میور میں دو کمزوریاں اکٹھی ہو جاتی ہیں.مریض صرف چلنے میں ہی نہیں بلکہ بولنے میں بھی دیر کرتا ہے.اگر مریض چلنے میں تو دیر نہ کرے مگر محض بولنا دیر سے سیکھے تو ایسے مریض کے لئے کالی فاس بہت بہتر دوا ہے.میرا تجربہ ہے کہ کالی فاس 6x نیٹرم میور سے ملا کر دینا دیر سے چلنے اور بولنے والے بچوں کے لئے بہت مفید نسخہ ہے.بعض بچیوں میں یہ علامت پائی جاتی ہے کہ ان میں بلوغت کے آثار بہت دیر سے ظاہر ہوتے ہیں.اس علامت میں برائیٹا کا رب بہت مفید ہے.اس دوا کا سب سے زیادہ اثر گلینڈ ز پر ظاہر ہوتا ہے.گلینڈز ( غدود ) میں سوزش ہو جاتی ہے.جہاں جہاں بھی
برائیٹا کارب 127 گلینڈز ہوں ، خصوصاً گلے کے اوپر والے حصہ میں وہاں مستقل سوجن ہو جاتی ہے.ہر دفعہ بیماری کا حملہ اس سوجن میں اضافہ کر دیتا ہے.اسی طرح جسم پر چربی کے ٹیومر بن جاتے ہیں.پیٹھ اور جسم کے دیگر حصوں پر موٹی موٹی گلٹیاں نظر آئیں گی.بعض لوگوں کے جسم پر بہت بھدے چھوٹے چھوٹے گول ابھار بن جاتے ہیں لیکن ان کا برائیٹا کا رب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.ان کے لئے مزاج کو پرکھ کر زیادہ گہری تلاش کرنی پڑتی ہے.برائیٹا کا رب میں جو گلینڈ ایک دفعہ موٹا ہو جائے وہ کم نہیں ہوتا.باقی جسم سوکھ بھی جائے تو سوجی ہوئی گلٹیاں یا بڑھا ہوا پیٹ کم نہیں ہوں گے.ایسی صورت میں بار بار برا ئیٹا کا رب اونچی طاقت میں دینی پڑتی ہے.برائیٹا کا رب لمبے عرصہ تک مسلسل دی جاسکتی ہے.برائیٹا کا رب اوپر کے بلڈ پریشر (Systolic) میں مفید ہوتی ہے لیکن نچلے بلڈ پریشر (Diasystolic) پر اثر انداز نہیں ہوتی.جو مریض لمبے عرصہ تک برائیٹا کا رب استعمال کرے اس کا بلڈ پریشر متواتر چیک کرتے رہنا چاہئے کہ کہیں او پر کا بلڈ پریشر زیادہ تو نہیں گر گیا.اگر اوپر کا بلڈ پریشر زیادہ گر چکا ہو تو کچھ عرصہ تک برائیٹا کا رب روک کر حسب ضرورت دوبارہ استعمال کی جاسکتی ہے.آرٹیمر یوسکلر وسس (Arteriosclerosis) یعنی ذہن کی شریانوں کے سکڑ جانے سے جو تکلیفیں پیدا ہوتی ہیں ان کے علاج کے طور پر برائیٹا کا رب ایک نہایت اہم دوا ہے.اسی طرح ایسے مریض کو مستقلاً کریٹیکس (Crataegus) دینا بہت فائدہ مند ثابت ہوتا ہے.لیکن یا درکھیں کہ آرٹیر یوسکلر وسس کا مریض بہت آہستہ آہستہ بنتا ہے یعنی بیماری سال ہا سال میں اپنی تکمیل کو پہنچتی ہے اور دور بھی آہستہ آہستہ ہی ہوتی ہے.پس یہ امید نہ رکھی جائے کہ ادھر برائیٹا کا رب دی اور ادھر مریض دو چار مہینے کے اندر بالکل ٹھیک ہو جائے گا.کم سے کم ایک سال یا دو سال تک اسے صبر کے ساتھ استعمال کروانا چاہئے.اس پہلو سے یہ اکثر بوڑھوں کی بہترین دوست ثابت ہوتی ہے اور فی الحقیقت یہ ارذل العمر کی دوا ہے.پس یا بچوں میں اس کی زیادہ ضرورت پیش آتی ہے یا بہت
برائیٹا کارب 128 بوڑھوں میں.بعض دفعہ بیماریاں آکر گزر جاتی ہیں لیکن باقی رہ جانے والے اثرات چھوڑ جاتی ہیں.برائیٹا کا رب ایسے دیر پا بد اثرات کو دور کرنے میں مفید ہے.ڈاکٹر کینٹ کے مطابق برائیٹا کا رب ملیریا کی بھی ایک اچھی دوا ہے لیکن اس کا مجھے کوئی تجربہ نہیں.ہاں ملیریا کے باقی رہنے والے بداثرات میں یہ ضرور فائدہ پہنچاتی ہے.کینٹ نے لکھا ہے کہ ہر قسم کے چربی کے غدود، رسولیاں، لیوپس (Lupus) حتی کہ تپ دق کے پھوڑوں میں بھی برائیٹا کا رب اچھا اثر دکھاتی ہے لیکن مجھے ان امور کا بھی کوئی تجربہ نہیں.جسم کی بیرونی سطح پر ابھرنے والے موٹے موٹے ٹیومر جو بہت بدزیب دکھائی دیتے ہیں اور تکلیف دہ ہوتے ہیں میں نے بارہا ان میں برائیٹا کارب استعمال کروائی مگر فائدہ نہیں ہوا.ممکن ہے وہ چربی کے ٹیومر نہ ہوں کیونکہ برائیٹا کارب کا تعلق صرف چربی کے ٹیومر سے ہوتا ہے اور ان میں واقعتاً یہ فائدہ دیتی ہے.اسی طرح میرے استعمال میں لیوپس پر بھی اس کا کوئی خاص اثر ظاہر نہیں ہوا.کینٹ کی رائے کے مطابق اگر مریض کے مزاج کے موافق علاج کرنا ہو تو برائڈیٹا کارب کی سب طاقتیں استعمال کرنی چاہئیں.صرف ایک ہی پوٹینسی پر انحصار کر کے بیٹھ نہیں رہنا چاہئے کیونکہ بعض دفعہ بہت گہری بیماری میں برائیٹا کارب کی چھوٹی پوٹینسیاں کام نہیں کرتیں.کچھ عرصہ کے بعد ہزار پھر دس ہزار پھر پچاس ہزار اور پھر ایک لاکھ پوٹینسی تک بھی مناسب وقفے ڈال کر استعمال کرنی چاہئے.جس بیماری میں یہ ابتدا میں کامیاب ثابت ہو اس کو بالآخر کلیۂ جڑ سے بھی اکھیڑ پھینکتی ہے.برائیٹا کارب کا مریض بسا اوقات انجانے خطروں سے خوفزدہ رہتا ہے.اسی طرح یہ بعض وہموں کو دور کرنے میں بھی خصوصی اثر دکھاتی ہے.بعض مریضوں کو سر ہلانے پر یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کا دماغ بھی اندر ہل رہا ہے.یہ علامت خصوصیت سے برائیٹا کا رب سے تعلق رکھتی ہے.اگر دماغ کو خون کی فراہمی کچھ عرصہ تک رک جانے کی وجہ سے مرگی کا مرض پیدا ہو جیسا کہ مینجائٹس (Meningitis) میں ہو جایا کرتا ہے
برائیٹا کارب 129 تو اس مرگی میں برائیٹا کا رب کو اگر با قاعدہ لمبے عرصہ تک استعمال کیا جائے تو یہ شفا کا موجب بن سکتی ہے.اگر خون کی شریان پھٹ جائے اور سرخ رنگ کا خون بہنے لگے تو فاسفورس کے علاوہ برائیٹا کا رب بھی استعمال کی جاسکتی ہے.کا برائیٹا کارب کی آنکھوں کی بیماریوں میں آنکھوں کے پیوٹے ایک دفعہ اندرونی رساؤ کے جیم جانے کی وجہ سے موئے ہو جا میں تو موٹے ہی رہ جاتے ہیں.برائیٹا کا رب کی یہ علامت ہر قسم کے غدودوں میں بھی پائی جاتی ہے.گلے کے غدود اگر ایک دفعہ سوج جائیں تو پھر کم ہونے کا نام نہیں لیتے اور مستقل سوجے ہی رہتے ہیں.برائیٹا کارب بالوں کے گرنے ،خشکی اور گنجے پن کا بھی علاج ہے.خشکی اور ایگزیما کی علامت دوسری دواؤں میں بھی پائی جاتی ہے لیکن ممکن ہے کہ برائیٹا کارب کے مریضوں کے بالوں کی جڑوں میں فاسد مادے بیٹھنے سے بال کمزور ہو رہے ہوں.یہ نظر کی کمزوری میں بھی مفید ہے.اگر ایک عمر کے بعد نظر دھندلانے کا عمل شروع ہو جائے تو برائیٹا کارب معمول کے طور پر لمبے عرصہ تک کھلانا مضر نہیں، ہاں فائدے کا امکان ہے.بعض دفعہ کولیسٹرول لیول زیادہ ہونے کی وجہ سے آنکھوں پر اثر پڑتا ہے.اس صورت میں کولیسٹر وینم 30 اور فائٹولا کا 30 اور فاسفورس 30 طاقت میں ملا کر دینے سے فائدہ ہوگا.لیکن فاسفورس 30 کو مسلسل لمبے عرصہ تک استعمال نہیں کرنا چاہئے.اس میں خطرہ ہوتا ہے کہ لمبا استعمال خون کو ضرورت سے زیادہ گاڑھانہ کر دے.آنکھ کے کورنیا کی تکلیفوں میں بھی برائیٹا کا رب مفید ہے.بعض دفعہ آنکھوں میں گوہانجنیاں نکلنے کا رجحان ہوتا ہے ان میں بھی برائیٹا کارب اچھی دوا ہے.بعض دفعہ گلے کے غدود سوج کر کن پیٹروں کی طرح موٹے ہو جاتے ہیں ان میں بھی برائیٹا کا رب بہت مفید ہے.کن پیروں میں بھی یہ مفید ثابت ہوسکتی ہے.بوڑھے آدمیوں کی زبان کے فالج کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے.اگر بوڑھوں کی چھاتی میں بلغم ہو، سینہ کھڑ کھڑاتا رہے اور دوسری دوائیں فائدہ نہ دیں تو برائیٹا کا رب
برائیٹا کارب 130 ضرور استعمال کرنی چاہئے.اسی طرح سینیگا اور امونیم کا رب بھی بوڑھوں کے پھیپھڑوں کی تکلیفوں میں بہت کام آتی ہیں.برائیٹا کارب کا کان کے درد سے بھی تعلق ہے.اگر یہ درد مزمن ہو جائے تو بعض دفعہ نزلے کے آثار نہیں بھی ہوتے لیکن پھر بھی کان میں درد ہوتا رہتا ہے.اگر اس کے ساتھ کان میں بوجھ بھی محسوس ہو تو برائیٹا کا رب بہت اچھی دوا ہے.برائیلا کا رب میں اجابت با ہم جڑی ہوئی تھلیوں کی شکل میں اور سخت ہوتی ہے اور نکس وامیکا کی طرح یہ احساس رہتا ہے کہ کھل کر اجابت نہیں ہوئی.پیٹ میں درد بھی ہوتا ہے.مراد نہ اور زنانہ جنسی کمزوریوں میں بھی برائیٹا کارب مفید دوا ہے لیکن اگر بہت اونچی طاقت میں دے دی جائے تو بعض دفعہ برعکس نتیجہ نکلتا ہے یعنی جنسی کمزوریاں بڑھ جاتی ہیں اس لئے رفتہ رفتہ پوٹینسی کو بڑھانا چاہئے.عورتوں میں جنسی کمزوریوں کے ساتھ بانجھ پن بھی پایا جاتا ہے.اس میں بیضہ دانیاں یعنی Ovaries سوج کر موٹی ہونے کی بجائے سکڑ کر چھوٹی ہو جاتی ہیں.اس بیماری میں برائیٹا کا رب فوراً استعمال کرنی چاہئے کیونکہ یہ علامت بعض اوقات کینسر میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے.برائیا کا رب میں گلے اور ٹانگوں کا فالج نمایاں ہے لیکن اگر جسم کے صرف ایک طرف فالج کا حملہ ہو تو زیادہ تر سلفر، کاسٹیکم ، رسٹاکس، لیکیس اور کیڈ میم سلف حسب علامات استعمال ہو سکتی ہیں.برائیٹا کا رب نیچے کے دھڑ کے فالج میں اچھی دوا ہے.اس کے علاوہ کا کولکس بھی نچلے دھڑ کے فالج میں خصوصی اثر رکھتی ہے مگر اونچی طاقت میں دینی چاہیئے.برائیٹا کارب کی کھانسی کی یہ عجیب علامت ہے کہ جب تک مریض پیٹ کے بل لیٹا ر ہے کھانسی میں افاقہ رہتا ہے اور ہر دوسری کروٹ پر کھانسی بڑھ جاتی ہے.برائیٹا کا رب میں جلد پر مسے بھی بہت اگتے ہیں.بسا اوقات پاؤں بدبودار ہوتے ہیں.اگر نیچے کے دھڑ میں شدید درد ہو جو بعض دفعہ فالج کا پیش خیمہ ہو جاتی ہے تو اس میں برائیٹا کارب
برائیٹا کارب مفید ہوسکتی ہے.131 ایک بچے کی ٹانگیں پولیو کے حملہ کی وجہ سے ٹیڑھی ہو گئی تھیں اسے سلفر اور برائیٹا کارب دی گئیں جن سے اتنا نمایاں فائدہ ہوا کہ وہ اب معمول کے مطابق زندگی گزار رہا ہے اگر چہ مکمل صحت نہیں ہے لیکن چلتا پھرتا ہے، حالانکہ ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی یہ تکلیف بڑھتی جائے گی.ہومیو پیتھک دوائیں دیکھنے میں معمولی لگتی ہیں مگر یہ بہت گہرے اور دور رس اثرات کی حامل ہوتی ہیں.مددگار دوائیں : ڈلک مارا.سلیشیا.سورا ئینم دافع اثر دوائیں : کیمفر.اینٹی مونیم ٹارٹ.بیلاڈونا.زنکم طاقت: 30 سے سی.ایم (CM) تک
132
بیلاڈونا 133 33 بیلاڈونا BELLADONNA (Deadly Night Shade) بیلاڈونا کا پودا اکثر یورپ کے گھنے اور سایہ دار علاقوں میں اگتا ہے.جولائی کے مہینہ میں اس کے پھول نکلتے ہیں اور ستمبر میں سرخ رنگ کا پھل لگتا ہے.بیلا ڈونا بہت زہریلا پودا ہے.جڑی بوٹیوں کے ماہرین اسے مختلف بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کرتے ہیں.اس کی مرہم بنا کر زخموں پر لگائی جاتی ہے.جب پھولوں کا موسم اپنے جو بن پر ہوتا ہے تو اس سارے پودے سے عرق نکال کر ہو میو پیتھی دوا تیار کی جاتی ہے.بیلا ڈونا دوران خون پر اثر انداز ہونے والی دوا ہے.دل، پھیپھڑے، دماغ اور اعصابی نظام بھی اس سے متاثر ہوتے ہیں.ایکونائٹ کی طرح بیماری کا اچانک حملہ بیلا ڈونا کی بھی خاص علامت ہے لیکن بیلاڈونا ایکونائٹ کے مقابل پر زیادہ لمبا اثر رکھنے والی دوا ہے.بیلا ڈونا کی نمایاں خاصیت سوزش ہے جس سے خصوصاً دماغ، پھیپھڑے، جگر اور انتڑیاں متاثر ہوتے ہیں.بیلا ڈونا کی علامات رکھنے والی بیماریوں میں اچانک پن تو بالکل ایکونائٹ کی طرح ہی ہے لیکن اس میں کوئی خاص خوف نہیں پایا جا تا.مریض دبے لفظوں میں تکلیف کا اظہار کرتا ہے ورنہ خاموش رہتا ہے، زیادہ بولنا پسند نہیں کرتا سوائے اس کے کہ رات کو ڈراؤنی خوابیں آنے لگیں تو شور مچا کر اٹھ جاتا ہے ورنہ عام طور پر چادر لے کر الگ تھلگ پڑا رہنے والا مریض ہے.قدموں کی ہلکی سی چاپ یا روشنی دردوں کو بڑھا دیتی ہے، جلد بہت حساس ہو جاتی ہے اور درد کے مقام پر ذرا سا کپڑا لگنا بھی نا قابل برداشت ہو جاتا ہے.ماؤف حصہ میں سرخی نمایاں ہوتی ہے، شدید جلن کا احساس ہوتا ہے ،خون کا دباؤ
بیلاڈونا 134 زیادہ ہونے سے تشنجی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے اور جھٹکے لگتے ہیں.اگر معدہ اور اعصابی نظام بگڑنے کی وجہ سے سوتے میں جسم کو جھٹکے لگیں تو گرائینڈ میلیا (Grindelia) بہترین دوا ہے.بیلا ڈونا میں بھی جسم کو جھٹکے لگنے کی علامت پائی جاتی ہے.گرائنڈ یلیا میں سارے جسم کو جھٹکا نہیں لگتا بلکہ محسوس ہوتا ہے کہ دل کو جھٹکا لگا ہے.بیلاڈونا میں تمام جسم اچانک لرز اٹھتا ہے اور اسی جھٹکے سے مریض کی آنکھ کھل جاتی ہے اور بار بار ایسا ہوتا ہے، مریض سونہیں سکتا.بیلا ڈونا کی ایک خوراک دینے سے ہی بعض اوقات تکلیف فی الفور ختم ہو جاتی ہے.اگر سر اور آنکھوں کی بیماریوں میں روشنی نا قابل برداشت ہو تو یہ بھی بیلا ڈونا کی علامت ہے.بیلا ڈونا کی علامتیں اگر کسی مریض کی علامتوں سے مل جائیں تو یہ اتنی زوداثر دوا ہے کہ ادھر مریض کو دوا کھلائی ادھر مرض غائب ہو گیا.وہ حیرت سے پوچھتا ہے کہ کیا دیا تھا کہ تکلیف یکدم غائب ہو گئی.بیلا ڈونا میں دماغی علامتیں ایکونائٹ کے مقابل پر بہت زیادہ ہوتی ہیں.بیلا ڈونا دماغ پر بھی حملہ کرتی ہے اور شدید پاگل پن کا دورہ پڑسکتا ہے.بیلا ڈونا کا پاگل بہت متشدد پاگل ہوتا ہے.اگر کسی پاگل میں بے انتہا جوش ہو، کسی کو مارنے یا خودکشی کرنے کی کوشش کرے، غصے میں بہت تیزی ہو اور سنبھالنے والوں کو بھی مارے تو اسے فوراً بیلا ڈونا دینا چاہئے لیکن اگر مرض مزمن ہو جائے تو پھر بیلا ڈونا کام نہیں کرے گا.ہاں کسی کو اچانک پاگل پن کا دورہ پڑے، جیسا کہ بعض بیماریوں میں سرسام کے نتیجہ میں ہو جاتا ہے تو بیلا ڈونا فوری اثر دکھا سکتا ہے.اگر مستقل مریض ہو تو سلفر اور سٹرامونیم وغیرہ زیادہ مؤثر ہیں.بعض پاگل اتنے جو شیلے ہو جاتے ہیں کہ انہیں زنجیروں سے باندھنا پڑتا ہے.یہ خاص بیلاڈونا کی علامت ہے لیکن بیلا ڈونا دے کر وقتی آرام ہو تو مطمئن نہیں ہو جانا چاہئے بلکہ گہری دسر پا اثر والی دوا تلاش کرنی چاہئے.مزمن پاگل پن میں ضرور کوئی مزاجی دوا ڈھونڈنی پڑے گی.ایکونائٹ اور بیلا ڈونا دیر پا اثر کرنے والی دوائیں نہیں ہیں.بعض دفعہ بیماری کا حملہ عارضی ہوتا ہے لیکن مستقل بیماری وقتی طور پر ٹھیک ہونے
بیلاڈونا 135 کے باوجود موجود رہتی ہے اور بار بار لوٹ آتی ہے.سٹرامونیم بیلاڈونا سے زیادہ لمبا اثر کرنے والی دوا ہے.ٹائیفائیڈ میں بھی بعض بیلا ڈونا کی علامات پیدا ہو جاتی ہیں، دماغ کو بخار چڑھ جاتا ہے اور مریض ہذیان بکنے لگتا ہے.اگر اس میں پیلاڈونادیں تو وقتی افاقہ تو ضرور ہو گا لیکن کچھ پیچیدگیاں بھی پیدا ہو سکتی ہیں کیونکہ ٹائیفائیڈ کا بیلاڈونا سے مزاجی تعلق نہیں ہے.سٹرامونیم بیلا ڈونا کی نسبت ٹائیفائیڈ سے زیادہ قریب ہے کیونکہ یہ کسی حد تک مزمن دوا ہے.اس لئے یہ ٹائیفائیڈ میں دماغ کی ہذیانی کیفیت کو بھی دور کر سکتی ہے اور ٹائیفائیڈ سے شفا کا موجب بھی بن سکتی ہے.دماغی مریضوں کو سٹرامونیم اور سلفر فائدہ پہنچاتی ہیں خواہ انہیں ٹائیفائیڈ ہو یا نہ ہو.بعض دفعہ پاگلوں میں تشدد کے علاوہ مخش گوئی کا رجحان بھی ملتا ہے.اس کا مطلب ہے کہ اندرونی جنسی عضلات میں کوئی سوزش ہے.اسے ٹھیک کرنا ضروری ہے.بعض لوگوں کے ذہن پر پرانے صدموں کا اثر ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ پاگل ہو جاتے ہیں.بعض غم اور مالی نقصان کے اثر سے ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں.پاگل پن کے علاج میں بہت گہرائی میں جا کر مرض کی تشخیص ضروری ہے لیکن بعض اوقات معالجین کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا اس لئے روز مرہ کے نسخہ کے طور پر سٹرامونیم اور سلفر سے کچھ نہ کچھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں.بیلا ڈونا کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کا بخار مسلسل چلتا ہے ، جب ٹوٹے گا تو دوبارہ نہیں ہوگا.ٹائیفائیڈ کا بخار بالکل الگ مزاج رکھتا ہے یعنی اکثر رات کو تیز ہو جاتا ہے اور صبح کے وقت کسی حد تک اتر جاتا ہے مگر اگلے دن پھر واپس آ جاتا ہے اور اتنی شدت کا ہوتا ہے کہ ختم ہونے سے پہلے مریض کو مار بھی سکتا ہے.بیلا ڈونا کا بخار جب ختم ہوتا ہے تو اچانک ختم ہوتا ہے.بعض دفعہ وہ بخار جو ٹھیک نہ ہوں مگر کسی تیز دوا کے اثر سے دب گئے ہوں اور پھر دوبارہ اچانک ظاہر ہو جائیں ان میں بیلا ڈونا مؤثر ثابت ہوسکتا ہے.مگر ایسے بخار جو آہستہ آہستہ چڑھتے ہیں ان کی دوا بیلا ڈونا نہیں.بیلا ڈونا کے مریض کی جلد پر نکلنے والے دانوں اور غدودوں کی تکلیف میں سوزش
بیلاڈونا 136 نمایاں ہوتی ہے.گلا اچانک پھول جاتا ہے اور سخت سوزش ہوتی ہے، گھونٹ بھرنا بھی دوبھر ہوتا ہے.ایسی تکلیف میں بیلاڈونا بہت مفید ہے.اس کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ بیرونی طور پر گلینڈز کے اوپر چھوٹے چھوٹے سرخ دانے بن جاتے ہیں.کچھ دیر تک یہ سرخی رہتی ہے پھر میلے میلے سے رنگ میں تبدیل ہو جاتی ہے.جوڑوں کے درد میں بھی سوزش اور سرخی نمایاں ہوتی ہے جن پر بڑے بڑے سرخ دانے بھی بنتے ہیں جو بعد میں رنگ بدل لیتے ہیں.لیکن ان میں پیپ نہیں بنتی.پتے کے اچانک درد میں بھی ، اگر اس میں تیزی اور اشتعال پایا جائے تو بیلاڈونا فوری آرام پہنچا سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ یہ تکلیف گرمی سے بڑھتی ہو.بیلا ڈونا کے بعد پھر مستقل علاج کے لئے سلفر، نیٹرم سلف لائیکو پوڈیم اور چیلی و وتیم کی ضرورت پیش آسکتی ہے.پتے سے تشیع کے علاوہ گردوں کے شدید درد میں بھی پیلاڈونا بہت مفید ہے.اگر اس کے ساتھ ایکونائٹ ملا کر دی جائے تو اور بھی اچھا کام کرتا ہے.دونوں ملا کر ایک ہزار طاقت میں دس پندرہ منٹ کے وقفہ سے دو تین بار دہرائی جاسکتی ہیں.اگر فائدہ نہ ہو اور مریض کو گرمی سے آرام آتا ہو تو اس کی بجائے کولو سنتھ CM یا میگ فاس 6x پانی میں ملا کر بار بار دینا مفید ہے.شیخ بظاہر ایک ہی طرح کا ہوتا ہے لیکن مزاج کے فرق سے علاج مختلف ہو جائے گا.بیلا ڈونا کے مزاج میں سوجن بھی داخل ہے.چوٹوں کے نسخہ میں آرنیکا کے ساتھ بیلاڈونا ملا کر دینا آرنیکا کا فائدہ بڑھا دیتا ہے کیونکہ چوٹ لگنے کے ردعمل کے نتیجہ میں خون تیزی سے متاثرہ عضو کی طرف حرکت کرتا ہے.اسی وجہ سے ڈاکٹر عموماً فوری علاج کے طور پر ٹھنڈی ٹکور تجویز کرتے ہیں.بیلاڈونا ٹھنڈی ٹکور سے بھی زیادہ زود اثر ہوتا ہے.اگر آرنیکا کے ساتھ ملا کر دیں تو ہر چوٹ کے آغاز کے لئے یہ بہترین نسخہ ہے.بیلا ڈونا کے مریض کی عام تکلیفیں گرمی سے بڑھتی ہیں لیکن ماؤف حصہ پر ٹھنڈی ٹکور سے آرام آتا ہے.اگر جگر اور انتڑیوں میں ورم اور سوزش ہو تو سارا جسم ٹھنڈا ہو جاتا
بیلاڈونا 137 ہے.اس صورت میں اگر مریض بیلا ڈونا کا بھی ہوگا تو بھی اسے بیرونی گرمی فائدہ پہنچائے گی.بیلا ڈونا میں ہر ماؤف مقام پر دھڑکن پائی جاتی ہے.بعض دفعہ تو سارا جسم دھڑکتا ہوا محسوس ہوتا ہے.جہاں بھی درد ہو اگر دوا چا نک ہواور اس میں دھڑکن بھی پائی جائے، جھٹکے اور وہ شور سے تکلیف بڑھتی ہو، گرمی کا احساس ہوتو بیلا ڈونا کام آئے گا.اس میں سنج کا رجحان بھی بہت نمایاں ہوتا ہے.بیلا ڈونا ان اعصابی ریشوں کی دوا ہے جو وریدوں اور رگوں وغیرہ کے ارد گرد لیٹے ہوئے ہوتے ہیں.ان کو طبی اصطلاح میں سرکولر فائمبر ز (Circular Fibres) کہا جاتا ہے.جہاں بھی سرکولر فائیر زمیں تشیخ ہو گا اگر وہ گرمی سے بڑھے تو بیلاڈونا ایسے شیخ کو دور کرنے میں بہت مؤثر ہے.بعض دفعہ وضع حمل کے وقت رحم کے منہ کی نالی میں شیخ : جاتا ہے.بیلاڈونا کی دوسری علامتیں ہوں تو فوراً اثر ظاہر ہوگا ورنہ کوالوفائیم اکثر اس تشیخ کو دور ہو کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے.جن بچوں کی عارضی بیماریوں میں بیلا ڈونا کام آئے ان کی مزمن بیماریوں میں کلکیریا کارب مفید ثابت ہوتی ہے.جو شیخ حرکت اور جھٹکے سے بڑھ جائے اس کا علاج بیلا ڈونا ہے.اس کی ایک اور عجیب علامت یہ ہے کہ بیماری کے دوران کھانا کھانے سے طبیعت کچھ سنبھل جاتی ہے یہاں تک کہ اگر پاگل کو بھی کچھ کھلا دیں تو اس کا جوش کچھ دیر کے لئے ٹھنڈا پڑ جائے گا.یہ علامت فاسفورس اور سورائیٹم میں بھی پائی جاتی ہے.پاگل کو بھوک لگتی ہے لیکن چونکہ وہ بتاتا نہیں اس لئے اگر اسے کچھ کھانا دیا جائے تو اس کے اندر کی طلب اور بے چینی دور ہو جاتی ہے.فاسفورس کا مریض بھی سخت بھوکا ہوتا ہے اور کھانا کھانے کے فوراً بعد سے دوبارہ بھوک لگ جاتی ہے.بیلا ڈونا میں مریض کے دماغ پر خون کا دباؤ زیادہ ہو جائے تو اسے طرح طرح کے نظارے اور جن بھوت نظر آنے لگتے ہیں.ڈراؤنے خواب مثلاً آگ لگنے کے خواب
بیلاڈونا 138 بھی آتے ہیں.ایسے مریض کو بیلا ڈونا دیں تو آگ لگنے کے خواب آنے بند ہو جائیں گے.بیلا ڈونا میں گہری بے ہوشی کا رجحان ملتا ہے.جس میں آنکھ کی ایک پتلی پھیل جاتی ہے.یہ علامت او پیم سے بھی ملتی ہے جبکہ اوپیم باقی علامتوں میں بیلا ڈونا سے مختلف ہے.بچے کا بخار بہت تیز ہو اور اس کا سر پر زیادہ اثر ہو، پاؤں برف کی طرح ٹھنڈے ہوں تو بیلاڈونا ہی اولین دوا ہونی چاہئے.بخار میں جسم ٹھنڈا ہو جائے لیکن سر پر گرمی کا احساس ہو تو یہ بہت خطرناک علامت ہے.مائیں سمجھتی ہیں کہ بخار اتر گیا ہے لیکن وہ بیماری کی بے ہوشی سی ہوتی ہے.اگر صحیح دوا دیں تو ایک دم سارا جسم گرم ہو جائے گا ورنہ خطرناک بیماریاں مثلاً گردن توڑ بخار، مرگی وغیرہ پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے.ایسے موقع پر فوری اثر کرنے والی دواؤں میں بیلا ڈونا بھی ایک ہے.اگر صحیح دوا جلد نہ دی جائے تو ایسی حالت میں بچے مر بھی جاتے ہیں.اگر مریض کو شدید چکر آئیں اور ہیجانی کیفیت ہو تو بیلا ڈونا فوری آرام دے گی.فاسفورس میں بھی یہ علامت ہے.سردرد ہو تو سر کی جلد دکھنے لگتی ہے، کنگھی کرنا یا ہاتھ لگانا تکلیف دہ ہوتا ہے.سر کی جلد کی زود حسی بیپر سلف میں بھی پائی جاتی ہے اور یہ علامت اتنی زیادہ نمایاں ہے کہ بعض عورتیں اس کے اثر سے بے ہوش ہو جاتی ہیں.خیالات کے ہجوم اور ہیجانی کیفیت کی وجہ سے نیند اڑ جائے تو بیلاڈونا ، کافیا اور فاسفورس سب مفید ہیں.اعصابی ہیجان کی وجہ سے نیند اڑ جائے تو ذرا سے شور یا بستر کو ٹھوکر لگنے سے سخت اذیت پہنچتی ہے اور مرض میں ایک دم اضافہ ہو جاتا ہے.نکس وامی کا میں بھی شور سے تکلیف بڑھتی ہے.چونکہ نکس وامیکا میں بیلا ڈونا کا عصر بھی پایا جاتا ہے.اس لئے نکس وامیکا کی کئی علامتیں بیلاڈونا سے ملتی ہیں.بعض مریض بہت آہستہ رد عمل دکھاتے ہیں.ان کو وہی دوائیں موافق آتی ہیں جو آہستہ آہستہ اثر کرنے والی ہوں لیکن اس کے برعکس بعض مریضوں کی تکلیفیں تیزی سے بڑھتی ہیں اور وہی دوائیں ان کے لئے مفید ہوتی ہیں جن میں تیزی سے بیماریاں بڑھنے کا رجحان ملتا ہے.بعض مریضوں کے ردعمل کی حس بہت تیز ہوتی ہے.ہومیو دوائیں
بیلاڈونا 139 ہومیو پیتھک اثر دکھانے کی بجائے اس اصل زہر کی علامتیں اس مریض میں پیدا کر دیتی ہیں جس زہر سے وہ ہو میو پیتھک دوا بنائی گئی تھی.جو دوائی بھی دیں اس کی علامتیں مریض میں ظاہر ہونے لگتی ہیں.اس پہلو سے اس کو احتیاط سے دوا دینی پڑتی ہے اور دوا کی طاقت کم کرنی پڑتی ہے لیکن ان کی اس زود حسی کا علاج بھی ضروری ہے.تین دوائیں ایسی ہیں جو ایسی زود حسی کو دور کر سکتی ہیں.بیلا ڈونا نکس وامیکا اور زنکم میٹ.زنکم میٹ سب سے زیادہ حساس دوا ہے، اتنی حساس کہ اس کا مریض بعض دفعہ چھوٹی طاقت کی دوا بھی قبول نہیں کر سکتا اس لئے ایسے مریض کو پہلے زنگ دینا چاہئے جس سے جسم میں دوسری دوائیں قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو جائے گی مگر زنک بھی چھوٹی طاقت سے شروع کرنا چاہئے مثلاً 30 طاقت میں.بیلا ڈونا کی ایک علامت جلسیمیم سے مشابہ ہے.مریض کے سردرد کو پیچھے کی طرف سر جھکانے سے آرام آتا ہے اور اگر سامنے کی طرف جھکا ئیں تو تکلیف بڑھتی ہے لیکن اس میں بعض دفعہ استثناء بھی ہوتے ہیں.ایسے مریض کو بیلا ڈونا یا جلسیمیم دینا چاہئے.بعض اوقات ناک میں جمے ہوئے نزلاتی مواد یا سائینس (Sinus) کے اندر جمے ہوئے مواد کے باعث ہونے والے سر درد کی طرف سر جھکانے سے بڑھ جاتے ہیں.عام طور پر بیلا ڈونا وقتی بیماری کی دوا ہے جو تکلیف فی الفور آئے وہ فوراً کافور بھی ہو جاتی ہے لیکن کبھی کبھی سر در دختم ہونے کے بعد بھی کئی کئی دن سر میں بوجھل پن اور تھکاوٹ کا احساس رہتا ہے.بال کٹوانے اور حجامت بنوانے سے بھی سر میں درد شروع ہو جاتا ہے.بیلاڈونا میں آرام کرنے سے آرام آتا ہے اور حرکت سے تکلیف بڑھتی ہے.بیلا ڈونا کی اکثر مزاجی تکلیفیں اوپر سے نیچے کی طرف اترتی ہیں.اگر سر ٹھیک ہو جائے تو جوڑوں اور اعصاب میں اوپر سے نیچے کی طرف در دیں حرکت کریں گی.نیچے سے اوپر کی طرف حرکت کرنے والی بیماریوں کے علاج میں لیڈم (Ledum) نمایاں شہرت رکھتی ہے.
بیلاڈونا 140 بیلا ڈونا آنکھوں کی بیماریوں کے لئے بھی بہت مفید دوا ہے.آنکھیں غیر معمولی سرخ ہو جاتی ہیں اور پیوٹے سوج جاتے ہیں.آنکھوں کے سامنے تارے ناچتے ہیں.ایک خاص علامت یہ ہے کہ آنکھیں بالکل خشک رہتی ہیں جبکہ یوفریزیا (Euphrasia) میں سرخی کے ساتھ پانی بہتا ہے.بیلا ڈونا اور یوفریز یا سرخی کی علامت اور شدت میں مشابہت رکھتی ہیں لیکن یوفریز یا میں اتنی زیادہ سوزش نہیں ہوتی البتہ تیز پانی بہتا ہے.آنکھ کے بلڈ پریشر میں بیلاڈونا بہت مفید ہے.ایک مریض جس کی آنکھوں کی بلڈ پریشر کی تکلیف اتنی بڑھ گئی تھی کہ ڈاکٹروں نے اسے لا علاج قرار دے دیا تھا اور خطرہ ظاہر کیا تھا کہ مزید دباؤ بڑھنے سے خلیے پھٹ سکتے ہیں جس سے مریض مستقل اندھا ہو سکتا ہے.جو نسخہ میں نے اس مریض کو دیا اس کا مرکزی جز و بیلاڈونا تھا.حیرت انگیز طور پر ایک ہفتہ کے اندر آنکھ کا بلڈ پریشر اعتدال کی طرف مائل ہو گیا اور اب وہ مریض بالکل صحت یاب ہو چکا ہے.جلسیمیم بھی آنکھ کے دباؤ کو کم کرنے کے لئے مفید ہے اور کالے موتیا کی بھی مؤثر دوا ہے.اس کے ساتھ کلکیر یا فاس 6x میں دینا چاہئے.نکس وامیکا اور بیلاڈونا دونوں میں کیو پرم کا مادہ پایا جاتا ہے اور کیو پرم تشیخ کی بہترین دواؤں میں سے ہے.اگر دماغ کے اعصابی ہیجان کی وجہ سے جسم کانپنے لگے یا خون کا دباؤ بہت بڑھ جائے.اس وقت اس دباؤ کو کم کرنے کے لئے بیلا ڈونا استعمال ہوتا ہے اور یہ مؤثر اور فوری دوا ہے.بعض دفعہ بیلاڈونا کی پیاس برائیو نیا سے ملتی ہے یعنی بہت شدید پیاس لیکن پانی پینے سے تسکین نہیں ملتی اور بعض دفعہ آرسنک کی طرح منہ خشک ہوتا ہے اور مریض تھوڑا تھوڑا پانی پی کر پیاس بجھانے کی کوشش کرتا ہے.آرسنک اور برائیو نیا کی دوسری علامتیں بیلا ڈونا سے مختلف ہیں مگرمنہ کی خشکی میں تینوں مشترک ہیں.بیلا ڈونا مزاج کی عورتوں میں کھٹی چیزیں کھانے کا شوق ہوتا ہے.اسہال لگ جائیں تو مقدار میں بالکل تھوڑے ہوتے ہیں.بیلا ڈونا میں بواسیر کے مسے بھی پائے جاتے ہیں.پیشاب بار بار آنے کی بیماری میں
بیلاڈونا 141 بھی بیلا ڈونا سودمند ثابت ہوتا ہے.بشرطیکہ گردے یا مثانے میں انفیکشن کی وجہ سے ایسا ہوورنہ براہ راست بیلاڈونا میں پیشاب کے بار بار آنے کی علامت موجود نہیں.اگر کسی دوا سے گردے کی پتھری کسی دوا سے پارہ پارہ ہو کر پیشاب کے رستے نکلنے لگے تو پیدا ہونے والی سوزش کا علاج بیلاڈونا سے بھی ممکن.اگر رحم میں تیزی سے واقع ہونے والے شیخ کے دورے پڑتے ہوں اور یہ تکلیف گرمی سے بڑھتی ہو تو بیلا ڈونا سے اس کا فوری مؤثر علاج ہو سکتا ہے.بچے کی پیدائش کے بعد زچگی کی حالت میں اگر اچانک شدید خون بہنے لگے تو بیلا ڈونا بہت اچھی دوا ہے.اس میں بیلا ڈونا بیماری کا رجحان دائیں طرف زیادہ ہو گا اور گرمی سے تکلیف بڑھے گی.وہ حاملہ عورتیں جن میں حمل ضائع ہونے کا خدشہ رہتا ہے اگر وہ بہت نازک طبع اور حساس ہوں، آوازوں اور قدموں کی چاپ بھی برداشت نہ کر سکیں ، اعصاب زودحس ہو جائیں تو ان میں حمل ضائع ہونے کے رجحان کو روکنے کے لئے بیلا ڈونا بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے.بیلاڈونا کے مریض کی کھانسی کی آواز عمو مازور دار اور بھیا نک ہوتی ہے.بیلا ڈونا اگر چہ عارضی دوا ہے لیکن شروع ہی سے علامتیں پہچان کر دی جائے تو مزید بیماریاں پیدا نہیں ہوتیں.بیلا ڈونا کی ایک علامت ٹانگوں میں Cramps یعنی اینٹھن کارجحان بھی ہے.بیلا ڈونا میں شیخ سر کو پیچھے کی طرف کھینچتا ہے.بیلا ڈونا کی طرح ایپس میں بھی گرمی کی شدت اور سوجن کی علامت پائی جاتی ہیں.بیلا ڈونا اور انہیں میں فرق یہ ہے کہ بیلا ڈونا میں چونکہ ماؤف حصہ کے علاوہ باقی جسم ٹھنڈا ہوتا ہے اس لئے مریض گرم ہونا چاہتا ہے اور اپنے آپ کو گرم کپڑوں میں پیٹتا ہے.انہیں میں مریض کا سارا جسم جلتا ہے اور اسے کسی قسم کی گرمی برداشت نہیں ہوتی بلکہ اگر ایسے مریض کو آگ کے سامنے بٹھا دیا جائے تو شیخ شروع ہو جاتا ہے.بیلاڈونا اور انہیں دونوں کے مریضوں کو گرمی سے چھپا کی نکل آتی ہے.پلسٹیلا میں بھی
بیلاڈونا 142 یہ علامت ہے.ایسی صورت میں پلسٹیلا اور بیلا ڈونا ملا کر دینا مفید رہتا ہے.بعض دفعہ ایسی چھپا کی کا معدہ سے بھی تعلق ہوتا ہے.اگر معدہ خراب ہو اور اس کے نتیجہ میں چھپا کی ہوتو پلسٹیلا اور نکس وامیکا کام آتی ہیں.بیلاڈونا میں جلد پر سرخ دھبے اور پیپ والے زخم ظاہر ہوتے ہیں، سوزش بھی ہوتی ہے جو ایپس سے مشابہ ہوتی ہے جلد پر ظاہر ہونے والے دانوں اور چھالوں سے بھی دواؤں کی پہچان ممکن ہے مگر اس کے علاوہ بعض اور علامتیں بھی مددگار ہو جاتی ہیں.آرم ٹرائی فیلم بھی چھپا کی کی بہت اچھی دوا ہے لیکن اس کی ایک علامت ہے کہ ناک میں اور ہونٹوں کے ارد گرد کھجلی ہوتی ہے.بیلا ڈونا کا کلکیریا کارب سے بھی تعلق ہے خصوصاً نیم مزمن بیماریوں میں.جہاں بیلا ڈونا کام کرنا چھوڑ دے وہاں کلکیریا کارب بہت کارآمد دوا ہے.بعض دفعہ بیلاڈونا کی علامتیں سلفر کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں اور سلفر کلکیریا کارب کی علامتیں پیدا کر دیتا ہے.کلکیریا کارب بہت سی دواؤں کا جنکشن یعنی مقام اتصال ہے لیکن اگر کلکیریا کارب کے بعد سلفر دیں تو نقصان دہ ہے.اس لئے دونوں کے بیچ میں لائیکو پوڈیم دینا ضروری ہے.البتہ سلفر کے بعد کلکیریا کارب براہ راست دی جاسکتی ہے.بیلا ڈونا کی علامات میں چھونے ، جھٹکا لگنے، شور وغل اور ہوا کے جھونکوں سے اضافہ ہو جاتا ہے.نیم دراز ہونے کی حالت میں افاقہ محسوس ہوتا ہے.مددگار دوائیں : کلکیریا کارب.ایکونائٹ.سلفر دافع اثر دوائیں: کیمفر.کافیا.اوپیم.ایکونائٹ طاقت : 30 سے سی.ایم (CM) تک
بیلس 143 34 بیلس BELLIS PERENNIS بیلس ٹخنے کی موچ، پٹھوں کے درد اور چوٹ کے نتیجہ میں اجتماع خون کے لئے بہترین دوا ہے لیکن یہ آرنیکا اور روٹا کی طرح بہت کثرت سے استعمال نہیں ہوتی ، حالانکہ ان تکالیف میں یہ بہت اہم ہے.ٹخنے کی موچ بہت تکلیف دہ چیز ہے اور زندگی بھر ٹھیک نہیں ہوتی لیکن بیلس دینے سے ٹخنے کا بہت پرانا درد بھی رفتہ رفتہ ٹھیک ہو جاتا ہے.بسا اوقات چلتے چلتے ٹخنے مڑ جاتے ہیں اور شدید درد ہوتا ہے.آرنیکا سے وقتی فائدہ ہو جاتا ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد در دوبارہ ظاہر ہوتا ہے.ایسی تکلیف کے دائمی ہونے کا رجحان بیلس کے استعمال سے ختم ہو جاتا ہے.بیلس کی تکالیف ٹھنڈی ہوا سے شدت اختیار کر لیتی ہیں.محنت کش کسانوں اور مزدوروں کی جسمانی تھکاوٹ اور درد کو دور کرنے کے لئے بیلس بہترین دوا ہے.لمبے عرصہ کی مسلسل محنت کے نتیجہ میں جوڑ جواب دے جائیں تو بیلس دینے سے فائدہ ہوتا ہے.ایام حمل میں عورتوں کی ٹانگوں میں اکثر وریدیں یعنی نیلے خون کی رگیں (Vericose Viens) ابھر آتی ہیں.اس تکلیف میں بیلس بہت اہم دوا ہے لیکن اکثر ہومیو پیتھ معالجین اسے بھلا دیتے ہیں اور دوسری دواؤں پر ہی توجہ دیتے ہیں.پیٹ کی بیرونی دیواروں میں درد اور دکھن کے لئے بھی بیلس بہت مفید ہے.رحم اور پیٹ کے پٹھوں میں درد ہوتا ہے اور بعض عورتیں بیٹھ کر اٹھنے میں تکلیف محسوس کرتی ہیں اور انہیں پکڑ کر اٹھانا پڑتا ہے.ان کے لئے بھی یہ دوا مفید ہے.بیلس کا ریڑھ کی ہڈی کے عضلات سے گہرا تعلق ہے.عضلات میں کمزوری آجاتی ہے جس کی وجہ سے ہڈی کے مہرے ادھر ادھر مڑ جاتے ہیں.ریڑھ کی ہڈی کے
بیلس 144 عضلات کو طاقت بخشنے کے لئے بیلس بہترین ثابت ہوتی ہے.ایک آدھ مہرے میں بھی تکلیف ہو تو چلنا پھرنا دو بھر ہو جاتا ہے اس صورت حال میں بیلس بہت نمایاں اثر دکھاتی ہے.ریڑھ کی ہڈی کی چوٹ اور اعصاب میں سوزش کے لئے بھی بیلس بہت اچھی ہے دمچی کی تکلیف کے لئے بھی ہائی پیر یکم (Hypericum) بہت خاص دوا ہے.اسے بیلس یا آرنیکا سے ملا کر دیں تو انشاء اللہ فائدہ اور بھی زیادہ ہو گا.ٹھنڈے پانی سے نہانے اور ٹھنڈی ہوا سے مرض بڑھتا ہے.مددگار دوائیں آرنیکا.آرسنک سٹیفی سیگر یا.برائیونیا طاقت : 30 سے 200 تک
بنزوئیک ایسڈ 145 35 بنز نوئیکم ایسڈم BENZOICUM ACIDUM (Benzoic Acid) بنزوئیک ایسڈ کی سب سے واضح علامت پیشاب میں شدید بو ہے جو گھوڑے کے پیشاب کی بدبو سے مشابہ ہوتی ہے اور اس پیچھا چھڑوانا بہت مشکل ہوتا ہے.یہ ایسی غیر معمولی بد بو ہوتی ہے کہ بعض دفعہ کپڑے دھونے سے بھی ختم نہیں ہوتی.جس گھر میں ایسے مریض ہوں اگر وہ کپڑوں کی صفائی کا خاص اہتمام نہ کریں تو ایسے گھر میں داخل ہوتے ہی شدید بو کا جھونکا آتا ہے.بعض بچے رات کو بھی بستر گیلا کر دیتے ہیں جس سے دوہری مصیبت بن جاتی ہے.سارا گھر بد بو سے بھر جاتا ہے اور کپڑوں پر ایسے داغ لگ جاتے ہیں جو دھونے سے بھی نہیں اترتے.پیشاب بہت گہرے رنگ کا سیاہی مائل ہوتا ہے.ایسے مریضوں میں اگر یورک ایسڈ کی زیادتی ہوتو یہ دوا کام آتی ہے.گردوں میں درد اور اس کے دیگر افعال میں کمزوری واقع ہو جاتی ہے.عموماً کھلا پیشاب آتا ہے لیکن پیشاب کی مقدار کم ہو جائے تو جوڑوں میں درد ہونے لگتا ہے.بنزوئیک ایسڈ کا مریض لکھتے ہوئے لفظ چھوڑ دیتا ہے.وقتی طور پر تحریر کی غلطی ذہنی الجھاؤ کی وجہ سے بھی پیدا ہوتی ہے.بعض دفعہ ذہن بہت تیز کا م کرتا ہے لیکن ہاتھوں کی رفتار اس نسبت سے ذہنی رفتار کا ساتھ نہیں دیتی.یہ علامت بعض اور دواؤں میں بھی موجود ہے.اسے کسی خاص دوا سے منسلک کرنا درست نہیں ہے.جب بھی تحریر میں لفظ چھوٹ رہے ہوں یا ایک لفظ کی بجائے کوئی دوسرا لفظ لکھا جائے تو اس کا مطلب ہے کہ ذہن الفاظ سے زیادہ معافی کی طرف متوجہ ہے.اس لئے بیک وقت دونوں میں اعتدال قائم نہیں رکھ سکتا.ایسے لوگوں کی تحریروں میں جہاں سوچ کی رفتار لکھنے کی رفتار
بنزوئیک ایسڈ 146 سے بہت زیادہ ہو جائے ایسی غلطیاں ہو جایا کرتی ہیں.اس لئے خواہ مخواہ ان لوگوں پر بنزوئیک ایسڈ استعمال نہیں کرنا چاہئے.ہاں اگر ذہنی پریشانی اور پیشاب کی علامتیں بنزوئیک ایسڈ والی ہوں اور پھر تحریر میں غلطیاں بھی ہوں تو بنز و ٹیک ایسڈ سے آرام آئے گا.جزو ٹینک ایسڈ میں سر میں چکر آتے ہیں اور کسی ایک طرف گرنے کا خوف رہتا ہے.سر درد ہوا کے جھونکوں، سردی لگنے اور سر کو نگا کرنے سے بڑھ جاتا ہے.کنپٹیوں کی شریانوں میں گرمی کا احساس جس کی وجہ سے کانوں کے اردگر دسوزش والی پھپھلی ورم ہو جاتی ہے.سردرد کے ساتھ متلی اور قے کا رجحان بھی ہوتا ہے، سر پر ٹھنڈا پسینہ آتا ہے، ہاتھ بھی بہت ٹھنڈے ہو جاتے ہیں، ناک میں خارش اور درد کے ساتھ سونگھنے کی حس کم ہو جاتی ہے، آنکھوں میں جلن اور تپکن، آنکھوں کی تکلیفیں کھلی ہوا میں اور ٹیوب لائٹ میں بڑھ جاتی ہیں.سردرد گدی سے شروع ہوتا ہے.جنز ویک ایسڈ میں چہرے پر سرخ رنگ کے چٹاخ بن جاتے ہیں جو صحت کی علامت نہیں بلکہ بیماری کی نشاندہی کرتے ہیں.عموماً عورتوں کے چہرے پر یہ علامت ظاہر ہوتی ہے.چہرہ کے ایک جانب گرمی اور جلن کا احساس ہوتا ہے.بعض دفعہ چہرے پر چھوٹے چھوٹے آبلے پڑ جاتے ہیں.چہرے کی علامات بیرونی گرمی سے اور دبانے سے کم ہو جاتی ہیں.بنزوئیک ایسڈ میں کھانا کھاتے ہوئے پسینہ آتا ہے، معدہ میں سختی اور دباؤ کا احساس، جگر کے مقام پر چھن اور درد، اسہال جھاگ والے، بد بودار اور پتلے ہوتے ہیں.ہوا بہت خارج ہوتی ہے.بنزوئیک ایسڈ میں صبح کے وقت مریض کی آواز بیٹھی ہوئی ہوتی ہے.سبزی مائل بلغم خارج ہوتی ہے.کھانسی رات کو بڑھ جاتی ہے.رات کو سوتے ہوئے درد میں اضافہ ہوتا ہے.آدھی رات کے بعد شدید دھڑکن اور گرمی کی شدت کی وجہ سے مریض کی آنکھ کھل جاتی ہے.
بنزوئیک ایسڈ 147 بنزوئیک ایسڈ کے بارے میں اکثر کتب میں یہ لکھا ہوا ہے کہ اس میں گاؤٹ (Gout) کے حملہ کی ابتداء معدہ سے ہوتی ہے.معدہ میں السر یا ہاضمہ کی خرابی کی وجہ سے درد ہوتا ہے لیکن بعض اوقات معدہ میں گاؤٹ کی وجہ سے بھی درد ہوتا ہے.اس کی تفصیل اس وقت میرے علم میں نہیں کہ معدہ میں گاؤٹ کیسے ہوتا ہے.غالبا معدہ میں پیدا ہونے والے فاسد تیز ابوں میں یورک ایسڈ بھی ہو گا جو گاؤٹ پیدا کرنے والا ہے مگر معدہ میں بنز و ٹیک ایسڈ کے پیدا ہونے کا کوئی قطعی ثبوت میرے علم میں نہیں.ہاں یہ بعید نہیں کہ بنز و ئیک ایسڈ جب جوڑوں کی دیگر جھلیوں میں گاؤٹ پیدا کر سکتا ہے تو یہ خون کی وساطت سے معدہ کے عضلات کو بھی متاثر کرے اور گاؤٹ کی تکلیف کا آغاز وہیں سے ہو.یہ درست ہو یا غلط، لیکن اکثر اسے بنزوئیک ایسڈ کی علامت کے طور پر بیان کیا جاتا ہے.کلائی ،گھٹنوں ، پاؤں کے انگوٹھوں وغیرہ کی سوجن اور در دبنز و یک ایسڈ کی زیادتی سے بھی ہو جاتی ہیں.اسی طرح ریڑھ کی ہڈی میں دباؤ اور ٹھنڈک کا احساس اور زبان کا سوجنا بھی بنز و ئیک ایسڈ کی علامات ہیں جو پکرک ایسڈ اور مرکری میں بھی پائی جاتی ہیں.طاقت : 30 سے 200 تک
148
بر برس 149 36 بر برس ولگرس BERBERIS VULGARIS (Bar berry) بر برس پہاڑی علاقوں میں پیدا ہونے والا پودا ہے.اس کے تازہ پتوں کو تپ محرقہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.بر برس کو عموم مد بھر میں استعمال کرتے ہیں اور اکثر ہو میو پیتھک معالجین اسے صرف گردے کی تکلیفوں میں ہی دیتے ہیں حالانکہ یہ پتے کی پتھری اور جگر کی گہری بیماریوں کے لئے بھی ایک مؤثر دوا ہے.اگر جگر کی خرابی کی وجہ سے دل کی تکلیف ہو تو وہاں بھی بر برس مفید ہوگی لیکن یہ براہ راست دل کا ٹانک نہیں ہے.اول طور پر جگر کی خرابی کی دوا ہے.اگر جگر کی خرابی کی وجہ سے دل کی تکلیف ہو تو اسے بھی ٹھیک کر سکتی ہے.جوڑوں کے درد میں بر برس اچھا اثر دکھاتی ہے.اس کے استعمال سے جسم کے تیزابی مادے بذریعہ پیشاب نکلنا شروع ہو جاتے ہیں اور جسم ہلکا ہو جاتا ہے.جوڑوں کے درد میں کمی آ جاتی ہے.بر برس کے مریض کے نتھنوں میں اس طرح بے چینی اور خارش سی ہوتی ہے جیسے اندر کوئی چیز رینگ رہی ہو.اکثر بائیں نتھنے میں نزلہ بیٹھ جاتا ہے جو سخت ضدی ہوتا ہے.منہ میں خشکی سے زبان چپکتی ہے اور جلی ہوئی اور چھلی ہوئی محسوس ہوتی ہے.کبھی کبھی منہ میں دھنکی ہوئی روئی کی طرح کا تھوڑا تھوڑا جھاگ دار تھوک پیدا ہوتا ہے جو منہ اور گلے کو تر نہیں کرسکتا.کبھی زبان پر چھالے بھی ہو جاتے ہیں.مردوں کی پیشاب کی نالی جو خصیوں کے اندر مادہ منویہ کی نالی میں سے گزرتی ہے اس میں درد کی لہریں دوڑتی ہیں جو گر دے اور مثانے کی تکلیف کے دوران زیادہ زور پکڑ جاتی ہیں.پیشاب کے بعد یہ احساس رہتا ہے کہ ابھی کچھ پیشاب باقی ہے اور انسان دیر
بر برس 150 تک اسے نکالنے کے لئے زور لگاتا رہتا ہے.پیشاب میں کبھی کبھی پیپ جیسی چیز یا ناک جیسا مادہ اور کبھی سرخ ذرے شامل ہوتے ہیں اور پیشاب سخت متعفن ہوتا ہے.کندھوں، بازوؤں ، ہاتھوں، ٹانگوں اور پاؤں میں اور ناخنوں کے اندر بہر دار درد اور کمزوری بر برس کی خصوصی علامتیں ہیں.بر برس کے دردوں کی خاص علامت یہ ہے کہ یہ ایک مقام سے سائیکل کے پہیہ کے تاروں کی طرح چاروں طرف پھیلتے ہیں.گردے کے درد کی بھی یہی عادت ہے کہ نیچے مثانہ کی طرف بھی ٹیسیں چلتی ہیں اور اوپر کم اور جگر کی طرف بھی.درد کی جواہریں نیچے اترتی ہیں وہ مردوں کے خصیوں کی طرف جانے والے اعصابی ریشوں کے راستے خصیوں میں بھی محسوس ہوتی ہیں.اکثر ایسے مریض کو پیشاب کی حاجت بیٹھے بیٹھے اگر نہ بھی محسوس ہو تو کھڑا ہوتے ہی یا چلنے پر پیشاب کی سخت حاجت ہوتی ہے جس کا روکنا مشکل ہوتا ہے.اگر مریض مردانہ یورینل (Urinal) یا کموڈ (Commode) میں کھڑا ہو کر پیشاب کرے تو پیشاب کا بڑا حصہ خارج ہونے کے باوجود پیشاب کی پتیلی دھار ختم ہونے میں ہی نہیں آتی اور یوں لگتا ہے کہ گردہ مسلسل پیشاب بنائے چلا جا رہا ہے.بربرس میں پیشاب کی تکلیف کی جو علامتیں ظاہر ہوتی ہیں.ان میں کبھی پیشاب زیادہ اور پتلا ہو جاتا ہے اور کبھی کم اور گاڑھا ہو کر بہت بد بودار ہو جاتا ہے کیونکہ اس میں بہت فاسد مادے موجود ہوتے ہیں.پیشاب کی زیادتی یا پیشاب کی کمی یہ دونوں علامتیں بربرس میں پائی جاتی ہیں.اگر پیشاب زیادہ آئے تو گر دے صاف ہو جاتے ہیں اور بد بو وغیرہ ختم ہو جاتی ہے.پیشاب بہت کم ہو جائے تو بہت گہرے رنگ کا تھوڑا پیشاب آئے گا جو سخت بدبودار ہوتا ہے.جب پیشاب کم ہو تو پیشاب کی نالی میں کچھ کچھ جلن ہوتی رہتی ہے.پر برابر یوا(Pereira Brava) کا گردے کا درد عموماً ایک رخ پر چلتا ہے.اکثر گر دے کے نیچے ر ان کی طرف اترتا ہے لیکن بر برس میں دردخواہ گردے میں ہو یا پتے میں، چاروں طرف ھیلتا ہے.اس علامت کے ساتھ پتے کی درد میں بر برس بہت مؤثر ہے.ہفتہ دس دن کے اندر ہی پتے کی پتھریاں ٹوٹ ٹوٹ کر فضلے کے ساتھ خارج ہونے لگتی ہیں.
بر برس 151 بر برس میں وجع المفاصل (Rheumatism) یعنی عام بڑے جوڑوں کے درد سے زیادہ گاؤٹ (Gout) یعنی ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کے جوڑوں کے درد کی علامت پائی جاتی ہے.پنجوں اور ہاتھوں کی انگلیوں وغیرہ میں جو درد ہوتے ہیں ان کا بنزوئیک ایسڈ (Benzoic Acid) کی طرح بر برس سے بھی گہرا تعلق ہے.کولہوں یا ٹانگ کا دردکھڑے ہونے پر شروع ہو جاتا ہے اور تھوڑا سا چلنے سے ہی ٹانگ درد سے بھر جاتی ہے.پاؤں میں بھی خصوصاً ایڑیوں اور تلووں میں تکلیف ہوتی ہے.نقرس Gout) کے دردوں میں بعض دفعہ بنزوئیک ایسڈ ، بر برس کا بہترین متبادل ثابت ہوتا ہے.ان دونوں دواؤں کو ادل بدل کر بھی دیا جا سکتا ہے.بر برس کے بارے میں اچھے ہومیو پیتھک معالجین بتاتے ہیں کہ جگر کی خرابی کے نتیجہ میں اگر دل کمزور ہو تو یہ پہلے جگر ٹھیک کرتی ہے پھر دل بھی خود ہی ٹھیک ہو جاتا ہے.اگر جسم میں کہیں تیزابی مادے اور یوریا وغیرہ جمع ہو جائیں تو یہ دوا ان کو وہاں سے ہلاتی رہتی ہے اور خون میں شامل کرتی ہے پھر ان کو گردوں کے ذریعہ باہر نکال دیتی ہے.خون میں تیزابی مادے شامل ہو جائیں تو وقتی طور پر دل بھی متاثر ہو سکتا ہے اور جب تک یہ تیزابی مادے خارج نہ ہو جائیں دل میں احساس رہتا ہے ورنہ اس دوا کا براہ راست دل کی بیماریوں سے کوئی تعلق نہیں ہے.اگر بر برس کے استعمال کے دوران دل پر برا اثر پڑے تو مریض کو زیادہ پانی پلانا چاہئے تا کہ پیشاب زیادہ آئے اور فاسد مادے اور تیزاب پیشاب کے ذریعہ تیزی سے خارج ہوں اور دل کو تنگ نہ کریں.تشیخ کے دوران بر برس کے مریض کی بے اختیار چینیں نکل جاتی ہیں.بر برس کے نقرس کے درد حرکت سے بڑھتے ہیں.مریض زمین پر آہستہ آہستہ پاؤں رکھتا ہے اور اس کی تکلیف دور ہونے میں کچھ وقت لگتا ہے.سر کے اوپر کسی چیز کے لیٹنے کا احساس ہوتا ہے.گلونائن میں بھی سر پر پٹی بندھی ہونے کا احساس ہوتا ہے.ٹوپی اور بند کالر نا قابل برداشت ہوتے ہیں لیکن بر برس میں سر پر کچھ بھی نہ ہو پھر بھی کچھ بندھے ہونے کا احساس ہوتا ہے.سورائینم کے مریض کی
بر برس 152 طرح بر برس کے مریض کو بھی بھوک کے دورے پڑتے ہیں.بر برس کی دردوں کی ایک علامت یہ ہے کہ جیسے کسی نے چاقو گھونپ دیا ہو خصوصاً جگر اور پتے دونوں میں یہ چا تو گھونپنے کا سا احساس ہوتا ہے.اس کی دردیں ماؤف جگہ سے پھلجڑی کی طرح چاروں طرف پھیلتی ہیں.بر برس میں یرقان بھی پایا جاتا ہے اور اجابت کا رنگ بدل کر مٹی کی طرح ہو جاتا ہے.ایسی صورت میں کارڈووس میریانس (Cardus Marianus) بھی ساتھ ملا کر دینی فائدہ مند ہوتی ہے اور اس کا کوئی نقصان نہیں ہے بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی مددگار ہو جاتی ہیں.میں جگر کی تکلیف میں مدد نکچر دیتا ہوں جبکہ گردے کی تکلیف اور گاؤٹ وغیرہ میں 30 طاقت میں بھی دی جاسکتی ہے.بر برس اور کارڈووس دونوں کے مزاج ملتے ہیں.گردے کی شدید درد اور پتھری کے لئے بر برس مفید ہے لیکن یہ کچھ لمبا عرصہ کھلانی پڑتی ہے تا کہ پتھری رفتہ رفتہ کھل کر باہر آ جائے لیکن اگر پتھری اگزالک ایسڈ کی ہوگی تو بر برس فائدہ نہیں دے گی بلکہ کلیتا بے اثر ہوگی.اگزالک ایسڈ کی پتھری Oxalates سے بنتی ہے اور وہ بہت سخت ہوتی ہے اور ایک خاص قسم کی شعاؤں سے اس کا علاج ہوتا ہے.میرے تجربہ کے مطابق سلیشیا اور کلکیر یا فلور x 6 ملا کر کچھ عرصہ کھلایا جائے تو یہ رفتہ رفتہ اس پتھری کو بھی گھلا دیتی ہیں.بر برس کی ایک علامت یہ ہے کہ منہ میں کوئی چیز چپکنے کا احساس رہتا ہے.جھاگ کی طرح چپکنے والا تھوک بنتا ہے.زبان پر بہت باریک باریک دانے نکل آتے ہیں اور زبان زخمی ہو جاتی ہے.صبح کے وقت متلی محسوس ہوتی ہے اور سینے میں جلن بھی.بر برس میں حرکت کرنے اور کھڑے ہونے سے ٹانگوں میں درد کے ساتھ پیشاب کی تکلیف بھی بڑھ جاتی ہے.دافع اثر دوائیں : کیمفر.بیلاڈونا.کیمومیلا طاقت : مدرانکچر (0)
سمتھ 153 37 ہمیتھ BISMUTHUM بسمتھ کو پرانے زمانے میں ایلو پیتھک ڈاکٹر اسہال کی بیماری میں استعمال کرتے تھے.یہ اسہال کو تو خشک کر دیتی ہے مگر انتڑیوں کی اس مرض کو دور نہیں کرتی جس کی اسہال محض ایک علامت ہوتے ہیں.درد کا احساس بدستور رہتا ہے.ہومیو پیتھی میں اس کی دماغی علامات بہت نمایاں ہوتی ہیں.مریض ایک منٹ کے لئے بھی تنہا نہیں رہنا چاہتا.ہر وقت کسی نہ کسی کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہے.بڑھاپے میں اکثر ایسے مریض ملتے ہیں جن کے پاس ہر وقت ضرور کوئی نہ کوئی ہونا چاہئے.انہیں اپنی کہانی سناتے رہنے کی تمنا ہوتی ہے.بسمتھ دانت کے دردوں میں بھی مفید ہے.مسوڑھے سوج جاتے ہیں.زبان سفید اور متورم ہو جاتی ہے.کناروں پر سیاہی مائل زخم ہو جاتے ہیں جو گینگرین کی یاد دلاتے ہیں.بسمتھ کے مریض کی قوت ہاضمہ کمزور ہو جاتی ہے اور فاسفورس اور ایتھوزا کی طرح معدے میں پانی نہیں ٹھہرتا ، گرم ہوتے ہی تے ہو جاتی ہے جبکہ ٹھوس غذا کھانے پرتے نہیں ہوتی.بہت بد بودار ڈکار آتے ہیں.پیٹ کا دردڈائسکو ریا سے مشابہ ہوتا ہے.مریض پیچھے کی طرح جھکتا ہے.درد کی نوعیت عام پیٹ درد سے مختلف ہوتی ہے جسے مریض بیان نہیں کرسکتا.اسہال کے دوران در دنہیں ہوتا.بسمتھ سے اسہال خشک کر دیئے جائیں تو درد شروع ہو جائے گا.معدہ میں سوزش ہوتی ہے.بسمتھ انجائنا میں بھی مفید دوا ہے.اس میں عموماً سینے کی ہڈی کی بجائے بائیں طرف دل سے درد اٹھتا ہے اور کندھے سے ہو کر انگلیوں کے کناروں تک جاتا ہے.بسا اوقات
154 یہ درد انجائنا کے علاوہ معدے میں السر یا سوزش کی وجہ سے بھی ہوتا ہے.دونوں صورتوں میں بسمتھ دوا ہوسکتی ہے.جسمجھ میں بائیوکس کی طرح پر تشدد جنسی خوابوں کا رجحان ملتا ہے.بسمتھ کے اسہال میں ضرور کوئی فاسد مادہ ایسا ہوتا ہے جو نیند کے دوران انتڑیوں سے خون میں مل کر دماغ پر اثر انداز ہوتا ہے اور پریشان خوا میں اس کے نتیجہ میں آتی ہیں.مددگار دوائیں : آرسنک.بیلا ڈونا.کرئیوز وٹ دافع اثر دوائیں : نکس وامیکا.کیمپسیکم طاقت : 30 سے 200 تک
بوریکس 155 38 بوریکس BORAX ( پھول کیا ہوا سہا گہ ) بوریکس کو ایلو پیتھک طریقہ علاج میں آنکھوں کی تکلیفوں میں استعمال کیا جاتا ہے.اس کے علاوہ گلے کی تکلیفوں میں اسے شہد کے ساتھ ملا کر دیتے تھے.ہومیو پیتھک طریق علاج میں بوریکس زیادہ وسیع الاثر دوا ثابت ہوتی ہے اور عورتوں کی بعض گہری امراض میں بھی بہت اچھا اثر دکھاتی ہے.دودھ پلانے والی عورتوں کے منہ میں زخم اور چھالے بن جائیں اور ان کے بچے بھی اس بیماری سے متاثر ہوں تو ان کے لئے یہ بہترین دوا ہے.بوریکس میں زخم اور چھالے بنے کا رجحان عام ہوتا ہے.زبان پر بھی سرخ اور دکھن پیدا کرنے والے آبلے سے بن جاتے ہیں.بوریکس کا مزاج رکھنے والی عورتوں میں بہت گرم اور جلن پیدا کرنے والا لیکور یا بہت زیادہ مقدار میں بہتا ہے.اس بیماری میں مبتلا اکثر عورتیں بانجھ پن کا شکار ہو جاتی ہیں.جب تک ان کا علاج بوریکس سے نہ کیا جائے بچہ پیدا نہیں ہوتا.اس لئے اس علامت کو بانجھ پن کا علاج کرتے وقت پیش نظر رکھنا چاہئے.بوریکس اس میں بے مثل دوا ہے.بوریکس کی مریضہ کو حیض وقت سے پہلے اور بہت کثرت سے آتا ہے.اس دوران پیٹ میں شدید درد ہوتا ہے جو کمر کے پیچھے تک جاتا ہے.کالی کھانسی میں بھی بور ٹیکس ایک مفید دوا سے تشنجی کھانسیوں میں اکثر اچھا اثر دکھاتی ہے.اس میں کھانسی کا دورہ انتہائی شدت سے ہوتا ہے.چھاتی کے اندر سے کھڑ کھڑاہٹ کی آواز آتی ہے.سینے میں درد اور سوئیاں چھنے کا احساس ہوتا ہے.پاؤں کے تلوؤں میں بھی سوئیاں چھتی ہیں.
بوریکس 156 بور میکس کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ نیچے کی طرف حرکت کرتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے.اگر بچے کو کھٹولے میں اتارا جائے تو وہ گھبراہٹ محسوس کرتا ہے اور خوفزدہ ہو کر چیختا ہے.یہ علامت صرف بچوں میں ہی نہیں بڑوں میں بھی پائی جاتی ہے.لفٹ سے نیچے اترتے ہوئے گھبراہٹ ہوتی ہے یا کاراونچائی سے نیچے ڈھلان پر آ رہی ہو تو دل بیٹھنے لگتا ہے.آوازوں سے زورد حسی پائی جاتی ہے.مریض کسی اچانک شور اور دھماکے کی آواز سے گھبرا جاتا ہے.اس دوا میں گلا بیٹھنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے.بوریکس کے تمام اخراجات میں گرمی پائی جاتی ہے.آنکھ سے بھی گرم پانی بہتا ہے لیکن اس میں جلن نہیں ہوتی بلکہ نزلاتی علامات نمایاں ہوتی ہیں.آنکھوں کے گروں میں بھی مفید ہے.ناک میں مواد خشک ہو کر جم جاتا ہے جواکثر سبزی مائل ہوتا ہے.بوریکس کے مریضوں کا معدہ خراب ہو تو زیادہ ہوا پیدا ہونے کے علاوہ قے کا رجحان ہوتا ہے جو ایک دفعہ شروع ہو جائے تو رکنے میں نہیں آتی.سبزی مائل کھٹا مواد خارج ہوتا ہے.اعصابی تھکاوٹ کی وجہ سے رات کو پسینہ آتا ہے.اگر کسی بیماری کے نتیجہ میں جنسی طاقتیں جواب دے جائیں تو ان کے لئے بھی بوریکس بہت کارآمد دوا ہے.پلوریسی (یعنی ذات الجنب ) میں بوریکس کی علامتیں برائیونیا سے ملتی ہیں.اگر برائیو نی فائدہ نہ دے یا ایک مقام پر رک جائے تو بوریکس اس کے اثر کو آگے بڑھاتی ہے.مرگی میں بھی بوریکس کو مفید دوا سمجھا جاتا ہے.اس کی تکلیفیں گرمیوں میں بڑھ جاتی ہیں.مددگار دوائیں برائیو نیا.سلفر - کلکیریا کار دافع اثر دوائیں : کیمومیلا.کافیا غیر مطابقت ایسیٹک ایسڈ.وینی گر ( سرکہ ).شراب طاقت : 30
بووسٹا 157 39 بووسٹا BOVISTA بووٹا کو عام انگریزی میں Puff - Ball بھی کہتے ہیں.یہ روایتا بچوں کے ایگزیما میں استعمال ہوتی رہی ہے.ایسے مریض جنہیں ایگزیما ہو اور خون بہنے کا رجحان ہو اور وہ کچھ ہکلاتے بھی ہوں تو ان کے لئے یہ ایک بہت اعلیٰ دوا بتائی جاتی ہے.عام انسانوں کے مقابل پر اس کے مریضوں کا دم لکڑی کے دھوئیں سے بہت زیادہ گھٹتا ہے.اگر دھواں ادھ جلے کوئلے کا ہو تو اس سے ہر انسان کے خون میں کاربن مونو آکسائیڈ (Carbon MonoOxide) شامل ہو کر اسے گہری نیند سلا دیتی ہے.یہ نیند صحت مند نہیں ہوتی بلکہ اس زہر کے مہلک اثر سے آتی ہے.اگر فوری طور پر اس کا علاج نہ ہو اور مریض کو ایسے کمرے سے کھلی ہوا میں باہر نہ لے جایا جائے تو اکثر اس کی یہ میٹھی نیند سے موت سے ہم آغوش کر دیتی ہے.ساری جلد کا رنگ نیلا پڑ جاتا ہے.کار بو ویج اور آرنیکا 30 طاقت میں ملا کر دینا اس کا فوری کامیاب علاج ہے لیکن بعض کتابوں میں بو وسٹا کو بھی اس تکلیف کے ازالے کے لئے ایک اچھی دوا بتایا گیا ہے.بووسٹا میں منہ اور ناک کے کناروں پر زخم بن جاتے ہیں اور زخموں پر ایک پتلے چھلکے کی طرح تہہ آ جاتی ہے.نیٹرم میور میں بھی یہ علامت ہے لیکن اس کے زخموں میں کچا پن پایا جاتا ہے اور کوئی تہ نہیں جمتی.بوسٹا میں نزلاتی مواد کوکس (Coccus) کی طرح دھاگے دار ہوتا ہے.ناک اور مسوڑھوں سے خون بہتا ہے.سر کی جلد میں کھجلی کے ساتھ دماغ میں بھی مبہم سی درد کا احساس رہتا ہے.بوسٹا میں تنگ کپڑوں سے گھبراہٹ ہوتی ہے.کوئی چیز بھی کسی ہوئی ہو تو اس سے تکلیف ہوتی ہے.یہ علامت لیکیس میں بھی ہے.
بووسٹا 158 بودسٹا میں دو حیضوں کے درمیان کسی وقت اسہال لگ جاتے ہیں.حیض کا خون اکثر وقت سے پہلے اور بہت کھلا آتا ہے.جس کے بعد سبزی مائل گاڑھے لیکوریا کی شکایت بھی پیدا ہو جاتی ہے.بعض دفعہ دو حیضوں کے درمیان ہلکا سا خون جاری ہوتا ہے یا داغ لگنے لگتا ہے.پیٹ کے درد کو آگے جھکنے سے آرام ملتا ہے اور ناف کے اردگرد در دزیادہ ہوتا ہے.بعض دفعہ قولنج کے دورے کے ساتھ پیشاب میں سرخی آ جاتی ہے.اس کی ایک علامت یہ ہے کہ درد قولنج میں کھانے سے کچھ افاقہ ہوتا ہے.بووسٹا میں بغل کے پسینہ سے پیاز کی بو آتی ہے.ہاتھوں کی پشت پر ایگزیما ہو جاتا ہے.جذبات کی شدت اور ہیجانی کیفیت سے جلد کی علامات پر بداثر پڑتا ہے.بوسٹا میں جلد پر دباؤ ڈالنے سے گڑھا سا بن جاتا ہے جو کافی دیر تک رہتا ہے.جلد کی تکلیفیں گرمی سے بڑھتی ہیں.یرانی چھپا کی میں اگر رسٹاکس پورا فائدہ نہ دے تو بووٹ مکمل شفاء کا موجب بن سکتی ہے.کلکیر یا، رسٹاکس ، سپیا اور سی سی کیوٹا (Sicicuta) سے موازنہ کر کے دیکھیں.ان سے موازنہ کرنا طبیب کے لئے اس کو بہتر سمجھنے میں معاون ثابت ہوسکتا ہے.بعض کتابوں میں 3 سے 6 طاقت تجویز کی گئی ہے لیکن تجربہ بتاتا ہے کہ 30 طاقت روز مرہ کے استعمال میں بہترین کام آتی ہے.اس کے مریض کو بعض دفعہ بغیر ایگزیما کی علامتوں کے مقعد میں بہت کھجلی ہوتی ہے اور سارے جسم پر پھنسیاں بھی نکل آتی ہیں.صبح اٹھنے پر چھپا کی ہو جاتی ہے جس میں نہانا بہت مضر ثابت ہوتا ہے.بو وسٹا کوکول تار کا ایک اچھا تریاق بتایا جاتا ہے.
برومیم 159 40 برومیم BROMIUM برو میم کو ایک زمانے میں خناق (Diphtheria) کے لئے خاص دوا سمجھا جاتا تھا.ایک لمبے عرصہ تک یہ نو آموز ہو میو پیتھ معالجوں کی پسندیدہ دوا تھی.آج کل مغرب میں مدافعتی ٹیکوں کی وجہ سے خناق پر بہت حد تک قابو پالیا گیا ہے مگر غریب ممالک میں اب بھی بعض دفعہ یہ بیماری وبا کی طرح پھوٹ پڑتی ہے.اس میں بردمیم سے بہت بہتر اور مؤثر دوائیں میور ٹیک ایسڈ، کالی میور اور ڈفتھیربینم ثابت ہوتی ہیں.برومیم میں ڈفتھیر یا کی بجائے گلے کی دوسری بیماریاں عام ملتی ہیں.غدودسوج کر سخت ہو جاتے ہیں اور گٹھلیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں گل کر اور پیپ بن کر ختم نہیں ہوتیں.اس دوا کا غدودوں کی ہر قسم کی سوزش سے گہرا تعلق ہے لیکن عام ہومیو پیتھ اس سے پورا استفادہ نہیں کرتے.تھائیرائیڈ (Thyroid) کی ہر قسم کی خرابی میں بہت کارآمد ہے.اگر دوسری دوائیں علامات ملنے کے باوجود کام نہ کریں اور غدود بہت سخت ہو جائیں اور رفتہ رفتہ بڑھیں تو ایسی صورت میں برو میم کو فراموش نہیں کرنا چاہئے.اس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ سخت جمی ہوئی گٹھلیوں کو بھی آہستہ آہستہ گھلانے لگ جاتی ہے مگر اسے تدریجا لمبے عرصہ پر پھیلا کر دینا چاہئے.30 طاقت سے شروع کریں پھر 200 دیں، پھر کچھ دیر ٹھہر کر 1000 اور پھر اس سے اونچی طاقت میں دے کر دوائی دینی بند کر دیں.اس کے مریضوں میں معدے کے زخم عام پائے جاتے ہیں.اگر پسی ہوئی کافی کے رنگ کی الٹیاں آئیں اور معدے میں السر ہوا اور گٹھلیوں کا بھی رجحان ہو تو اس صورت میں برومیم بہت مفید ثابت ہوتی ہے بلکہ یہ معدے کے کینسر کی بھی بہت اہم دوا ہے.
برومیم 160 برومیم نرخرہ کے ورم (Laryngitis) میں بھی بہت مفید ہے کیونکہ اس میں بھی زخم بننے کا رجحان ہوتا ہے.ایسے مریضوں کو دمے میں بھی فائدہ دیتی ہے.سینے کی ہڈی میں جلن اور درد بھی برومیم کی علامت ہے.اس میں تشیخ بھی ہوتا ہے اور یہ سانس گھٹنے میں بھی مفید ہے.اس کے مریضوں کو سمندر کے کنارے جا کر آرام محسوس ہوتا ہے اور سمندر سے دور خشک علاقوں میں بیماری بڑھ جاتی ہے.مددگار دوائیں : کو نیم.سپونجیا.آئیوڈم.ارجنٹم نائیٹریکم دافع اثر دوائیں : ایمونیم کا رب.کیمفر کارب.کیمفر طاقت : 30 سے CM تک
برائیونیا 161 41 برائیو نیا ایلیا BRYONIA ALBA برائیو نیا ایلبا جنگلی درختوں اور جھاڑیوں پر چڑھنے والی ایک خودرو بیل ہے جس کی جڑ نہایت زہریلی اور کڑوی ہوتی ہے.اس کو پیس کر ہو میو پیتھی پوٹینسی میں دوا بنائی جاتی ہے.برائیونیا کا انسانی جسم کے اکثر اہم اعضاء سے تعلق ہے.جن میں پھیپھڑے، جگر اور دل شامل ہیں.ان کی بیرونی جھلیوں پر برائیونیا زیادہ اثر انداز ہوتی ہے مگر جگر کے معاملہ میں زیادہ گہرا اثر رکھتی ہے.اسی طرح بعض دفعہ پھیپھڑوں کی گہری بیماریوں مثلاً نمونیہ اور اس کے بداثرات میں بھی مفید ثابت ہوتی ہے لیکن تپ دق اور دوسری لمبی چلنے والی بیماریوں میں برائیو نیا اکیلی فائدہ مند نہیں بلکہ دوسری زیادہ گہری دواؤں کی مددگار بن جاتی ہے.برائیو نیا عضلات کے علاوہ انتڑیوں کی جھلیوں پر بھی اثر رکھتی ہے.برائیو نیا کا مریض اکثر قبض کا شکار ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ اسے سخت پیچش بھی شروع ہو جاتی ہے.جس میں خون شامل ہوتا ہے.خشکی کی وجہ سے انتڑیاں جگہ جگہ سے پھٹ جاتی ہیں اور سخت تکلیف دہ کھلی پیچش لگ جاتی ہے.اگر مریض میں برائیو نیا سے ملتی جلتی علامات پائی جائیں تو پیچش میں یہ فوری اثر رکھنے والی دوا ہے.بعض ہو میو پیتھک ڈاکٹر ز نے اپنی کتب میں برائیو نیا کے بارے میں یہ تاثر دیا ہے کہ یہ کمزور، ڈھیلے ڈھالے اور جلد تھک جانے والے عضلاتی ریشوں کی دوا ہے حالانکہ یہ درست نہیں.برائیو نیا مضبوط ، طاقتور عضلاتی ریشوں کی بھی بہترین دوا ہے.برائیونیا کے لئے ہر گز یہ شرط نہیں کہ ریشے کمزور ہوں گے تو یہ اثر کرے گی.سارے جسم کے عضلات میں درد ملیریا کے بخار میں پیدا ہونے والے درد کے مشابہ ہوتا ہے.یہ
برائیونیا علامت برائیو نیا میں نمایاں طور پر پائی جاتی ہے.162 بعض لوگوں کو ایسی بیماریاں لگ جاتی ہیں جن کے نتیجہ میں ان میں چلنے پھرنے کی سکت نہیں رہتی.ان میں عام کمزوری نہیں ہوتی لیکن کچھ عرصہ چلنے سے جسم بھاری محسوس ہوتا ہے اور یہی بھاری پن گہرے درد میں تبدیل ہو جاتا ہے.ٹانگیں بے جان ہو جاتی ہیں.ایسے مریضوں میں برائیو نیا بہت مفید ہے لیکن اسے مستقل دینا پڑتا ہے.لمبی سیر پر جانے سے پہلے یا سخت کھیلوں کے آغاز پر ہی برائیو نیا 200 آرنیکا کے ساتھ ملا کر استعمال کی جائے تو بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے.بعض اوقات عورتوں میں بچے کی پیدائش کے بعد ٹانگ سوج جاتی ہے اسے White Leg کہتے ہیں.غالباً خون کے جمنے کے نتیجہ میں خون کا Clot بن کر خون کا دوران رک جاتا ہے.بعض خواتین کا یہ مرض پرانا ہو جائے اور وہ معذور ہو جائیں اور کوئی علاج نہ ہو سکے اور ٹانگوں پر نیلے اور کالے دھبے بننے لگ جائیں اور ویری کو ز و نیز کی علامتیں ظاہر ہو جائیں تو بیماری کے اس درجہ تک پہنچنے کے بعد آرنیکا اور برائی اونیا ملا کر دینا بھی کوئی فائدہ نہیں دے سکتا.ہاں ان کے علاوہ ایسکولس 30 میں دی جائے تو بہتر نتائج ظاہر ہوتے ہیں.اگر یہی تکلیف بائیں طرف ہو تو آرنیکا 200 طاقت کو کیس 200 طاقت سے ملا کر دیا جائے اور ساتھ ہی ایسکولس 30 بھی.برائیو نیا کو کسی مستقل اثر رکھنے والی دوا مثلاً سلفر، لائیکو پوڈیم کے ساتھ ادل بدل کر دیا جائے تو مزمن بیماریوں کو بھی جڑ سے اکھیڑ سکتی ہے.جگر کی گہری بیماریوں میں حسب ذیل نسخہ بہت مؤثر ثابت ہوتا ہے.برائیو نیا 200 دن میں ایک دو بار اور سلفر 30 دن میں 3 دفعہ روزانہ.اس کے ساتھ کارڈووس میر یانس مدر ٹنکچر کے چند قطرے پانی میں ملا کر دن میں 3 دفعہ دی جائے.Hepititis B میں بھی یہ بہت اچھا نسخہ ثابت ہوا ہے.یہی نسخہ جگر کے کینسر میں بھی بہت مفید ہے.بعض ایسے مریض تجربہ میں آئے ہیں جن کو ڈاکٹروں نے قطعی طور پر جگر کا کینسر تشخیص کیا اور ہر قسم کی ریڈی ایشن (Radiation) اور دواؤں کے استعمال
برائیونیا 163 کے بعد لاعلاج قرار دے دیا.جب یہ سمجھا کہ اب دو تین دن کے مہمان ہیں تو انہیں ہسپتال سے فارغ کر کے گھر بھجوا دیا گیا.اس وقت جب اسی نسخہ سے ان کا علاج کیا گیا تو تین دن میں مرنے کی بجائے تین دن میں صحت کے آثار واپس لوٹ آئے جس کی پہلی علامت یہ ظاہر ہوئی کہ پیاس اور بھوک جو بالکل مٹ چکی تھی از سرنو بحال ہونے لگی.جگر کے بہت سے دوسرے مریضوں نے بھی اس نسخے سے استفادہ کیا ہے اور ابھی تک بقید حیات ہیں.) بعض اوقات جگر کی امراض تلی میں منتقل ہو جاتی ہیں خصوصاً مزمن ملیریا میں ایسا ہوتا ہے.پہلے جگر خراب ہوتا ہے پھر تلی پھول جاتی ہے.ایسے مریضوں کو کارڈ ووس میر بانس کے علاوہ سیا نوٹس (Ceanothus) در سنیچر میں دینی چاہئے.سیا نوتھس تلی کی بہترین دوا ہے.بعض دفعہ ایسے مریضوں کے پیٹ پھول جاتے ہیں، تلی اور جگر کی جگہ پر سوزش اور ان میں تحقیق پیدا ہو چکی ہوتی ہے.ایسے مریضوں کا علاج جگر ی مندرجہ بالا ادو ی اور سیا نٹس سے کرتے ہیں.اللہ کے فضل سے دو تین مہینے کے اندر اندر حیرت انگیز طور پر شفا ہو جاتی ہے یہاں تک کہ پیٹ اپنے پہلے حجم پر واپس لوٹ آتا ہے اور دبانے سے بھی تکلیف کا احساس نہیں ہوتا.جن علاقوں میں ملیریا کثرت سے ہوتا ہے وہاں یہ تکلیفیں عام ہوتی ہیں.وہاں یہی نسخہ استعمال کرنا چاہئے.ہر حرکت سے درد اور بیمار حصہ کی تکلیف کا بڑھنا برائیو نیا کا خاصہ ہے.اس کی رسٹاکس سے بھی کچھ مشابہت ہے.رسٹاکس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آرام کرنے سے درد بڑھتا ہے اور حرکت سے کم ہو جاتا ہے.یہ بات بعینہ درست نہیں.رسٹاکس کا مریض جب چلتا ہے تو گوشروع میں اس کا درد بڑھتا ہے اور کچھ چلنے کے بعد آرام محسوس ہوتا ہے مگر اس دوران در دکلیتًا رفع نہیں ہوتا بلکہ کھڑے ہونے پر یا آرام کرنے پر پہلے سے بھی بڑھ کر تکلیف محسوس ہوتی ہے.برائیو نیا کا مریض دو چار دن مسلسل آرام کرے تو اسے افاقہ ہو جاتا ہے لیکن رسٹاکس کا مریض آرام کرے تو درد اور بڑھتا چلا جائے گا.
برائیونیا 164 اکثر وہ تکلیفیں جو سردی کے موسم کے ختم ہونے کے بعد گرمیوں کے آغاز میں شروع ہوتی ہیں ان میں برائیو نیا بہت کام آتی ہے.اس تبدیل ہوتے ہوئے موسم میں عموماً نمونیہ بہت کثرت سے ہوتا ہے کیونکہ جب اچانک گرمی آتی ہے تو جسم کا بیرونی حصہ تکلیف محسوس کرتا ہے لیکن اندرونی حصہ ابھی اس تبدیلی کا عادی نہیں ہوتا اس لئے یکدم گرم کپڑے اتار دینے سے کئی قسم کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں جو براہ راست گرمی سے نہیں بلکہ گرمی میں ٹھنڈ لگنے سے بڑھتی ہیں.ایسے موسم کے نمونیہ کے لئے برائیو نیا بہترین دوا ہے.برائیو نیا کی علامات والانمونیا اکثر دائیں پھیپھڑے میں ہی رہتا ہے.دائیں سے بائیں حرکت نہیں کرتا.لائیکو پوڈیم کا نمونیہ دائیں سے شروع ہو کر بائیں پھیپھڑے کو بھی متاثر کرتا ہے اور وہاں ٹھہر جاتا ہے.برائیونیا میں تکلیفیں اوپر سے نیچے کی طرف بھی حرکت کرتی ہیں اور رفتہ رفتہ پھیپھڑوں کے نچلے حصہ میں منتقل ہو جاتی ہیں اور وہاں جا کر مقام بنا لیتی ہیں.برائیونیا چونکہ مزمن بیماریوں کی دوا نہیں ہے اس لئے بیماری کی اس حالت میں اور دوائیں دینی پڑتی ہیں.کالی کا رب ان میں سے ایک نمایاں دوا ہے جو پھیپھڑوں کے نچلے حصے سے تعلق رکھتی ہیں.آرسنک آئیوڈائیڈ اور کالی آئیوڈائیڈ بھی مفید ہیں.اگر تپ دق کی وجہ سے پھیپھڑوں پر داغ پڑ جائیں اور سوراخ ہو جائیں تو مر کسال اور کالی کا رب دینے سے بہت فائدہ ہوتا ہے.ایک خاتون کے پھیپھڑوں میں سل کے نتیجہ میں سوراخ ہو گئے تھے اور ڈاکٹروں کے نزدیک ان کا کوئی علاج نہیں تھا.جب ہومیو پیتھک طریق پر ان کا علاج مرکسال 200 اور کالی کا رب 30 سے کیا گیا تو چند مہینوں میں وہ بالکل صحت یاب ہو گئیں.جب ہسپتال کے ڈاکٹروں نے ایکسرے لیا تو ان سوراخوں کا نام ونشان بھی نہیں تھا.وہ یہ یقین کرنے کے لئے تیار نہیں تھے کہ یہ وہی مریضہ ہیں.ہو میو پیتھی دوائیں جب اثر دکھاتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو کتنی عظیم دفاعی طاقتیں عطا فرمائی ہوئی ہیں جن کا ڈاکٹروں کو ابھی تک بہت باریک ریسرچ
برائیونیا 165 کے باوجود پتہ نہیں چل سکا.ان عظیم دفاعی طاقتوں کا جسم کی کیمسٹری سے گہرا تعلق ہے مثلاً جگر کو یہ پیغام ملتا ہے کہ فلاں بیماری سے مقابلہ کرنے کے لئے فلاں کیمیکل کی ضرورت ہے، وہ پیدا کرنا شروع کر دو.کسی اندھے ارتقائی عمل سے تو یہ ممکن نہیں.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنی گہری باتیں اتفاقاً ایک طویل ارتقا کے عمل سے خود بخود ایک مضبوط اور مربوط نظام بن کر جسم کا حصہ بن جائیں اور ایسی قطعیت کے ساتھ کام کریں کہ ان کے باریک مخفی اسرار کبھی مٹ نہ سکیں.اگر کسی کی صحت اچھی ہو تو روایتی علاج کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی اور نظام دفاع از خود بیماریوں سے نپٹ لیتا ہے لیکن اگر طبعی نظام دفاع از خود مقابلے کے لئے تیار نہ ہو تو ہومیو پیتھک دوا اس کو متحرک کر دیتی ہے.سادہ زندگی گزارنے والے لوگ جو محنت کش ہوتے ہیں وہ اکثر امیر لوگوں کی بڑی بڑی بیماریوں سے بچے رہتے ہیں کیونکہ ان کے جسم کے اندر ہر وقت ایک دفاعی نظام ان کی حفاظت کا انتظام کرتا ہے.حالانکہ وہ اسی فضا میں سانس لیتے ہیں اور اسی علاقہ میں رہتے ہیں جہاں رہنے والے دوسرے لوگ کئی قسم کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں.جسم کا دفاعی نظام خدا تعالیٰ کے وجود اور اس کی عظمتوں کی نشاندہی کرتا ہے.ہومیو پیتھک معالجین کو اس پر بھی غور وفکر کرنا چاہئے کیونکہ یہ نظام اس عظیم الشان نظام کی خوبیوں کو اجاگر کرتا ہے اور انہیں ایک روشن حقیقت کے طور پر سامنے لے آتا ہے.برائیونیا کے مریض جوڑوں کے دردوں میں گرمی سے آرام محسوس کرتے ہیں.کھانسی عموماً حرکت اور شور کی وجہ سے زیادہ ہو جاتی ہے اور بیلا ڈونا کی علامتیں دکھائی دیتی ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ برائیو نیا میں بیلاڈونا کا اچانک پن نہیں ہے.برائیونیا میں آہستہ آہستہ تکلیفیں بڑھتی ہیں اور آخر اتنی شدت اختیار کر لیتی ہیں کہ ہر قسم کی حرکت ، آواز اور شور سے تکلیف ہونے لگتی ہے اور پھر ایسا مریض تیمارداری کے لئے آنے والوں کو بھی نا پسند کرتا ہے اور چڑنے لگتا ہے.اس غصہ اور چڑ چڑاہٹ کی وجہ یہ ہے کہ مریض کو ہر حرکت سے تکلیف ہوتی ہے.منہ کی حرکت سے بھی اسے تکلیف ہوتی ہے اور وہ بولنا نہیں چاہتا اور وہ کمزوری بھی محسوس کرتا ہے.اگر ایسے مریض کو نمونیہ ہو یا
برائیونیا 166 سر میں درد ہو تو اسے ہرگز بلانا نہیں چاہئے.وہ ایک غنودگی کی کیفیت میں رہتا ہے.اگر مرض لمبا ہو جائے تو مستقل بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے لیکن حرکت کرنا اور بولنا بالکل فائدہ نہیں دیتے.برائیونیا کے مریض کے سر درد کو سردی سے آرام آتا ہے.درد عموماً سر کے پچھلے حصہ میں یا ماتھے میں ہوتا ہے.پیاس کی شدت بھی برائیونیا کی نمایاں علامت ہے، مریض بہت ٹھنڈا پانی پسند کرتا ہے.پانی پی کر اسے سکون ملتا ہے لیکن تھوڑی دیر میں ہی دوبارہ پیاس بھڑک اٹھتی ہے.بہت زیادہ پانی کی پیاس برائیونیا کی یاد دلاتی ہے.لیکن برائیو نیا میں بعض صورتوں میں پیاس بالکل غائب بھی ہو جاتی ہے.معدہ میں سوزش ہوتی ہے.منہ خشک ہو جاتا ہے اور زبان لکڑی کی طرح اکڑ جاتی ہے مگر پیاس بالکل نہیں ہوتی.اس وقت زبان پر زردی مائل نہ جمنے لگتی ہے.یہ اولا سیمیم کی خاص علامت ہے جو شاذ کے طور پر برائیونیا میں بھی ظاہر ہوتی ہے.کینٹ نے بھی یہی لکھا ہے کہ برائیونیا میں بعض اوقات پیاس بالکل ختم ہو جاتی ہے.برائیونیا کے چکر کانوں میں خرابی کی وجہ سے اور حرکت کرنے سے آتے ہیں.گاڑی یا سمندری جہاز میں جو چکر آتے ہیں اور متلی ہوتی ہے ایسے مریضوں کے لئے فوری علاج کی خاطر بعض نسخے استعمال کئے جاسکتے ہیں جو بہت مفید ہیں.ایسے موقعوں پر نسخوں کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کہ ہر مریض سے انفرادی طور پر علامت پوچھنا بسا اوقات ممکن نہیں ہوتا.اس نسخہ میں برائیو نیا کا کولس ، نکس وامیکا اور اپی کاک شامل ہیں.کا کولس کا تعلق بھی کانوں کی خرابی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے چکروں سے ہے جن میں یہ سب سے گہری دوا ہے.دراصل کان کی خرابی کے چکروں میں برائیو نیا اور کا کولس مشابہ ہیں.کان کی درمیانی ٹیوبوں میں ایک مائع موجود رہتا ہے جو ذرا بھی حرکت کرے تو اعصاب کے ذریعہ دماغ تک اس حرکت کی اطلاع پہنچتی ہے اور توازن یا عدم توازن کا احساس پیدا ہوتا ہے.مسلسل بدلنے والی حرکت سے چکر آنے لگتے ہیں.اگر حرکت کی وجہ سے تکلیف ہو یا کان کی ایسی بیماری ہو جس سے اس مائع کے اردگرد جو
برائیونیا 167 احساس کی جھلیاں ہیں.وہ غیر معمولی طور پر حساس ہو جا ئیں تو اس کے نتیجہ میں جو چکر آتے ہیں ان کا علاج برائیو نیا اور کا کولس سے کیا جاتا ہے.فرق یہ ہے کہ برائیونیا میں کان کی سوزش کے نتیجہ میں حرکت سے چکر آتے ہیں لیکن کا کولس میں حرکت سے چکر اعصابی خرابی کی وجہ سے آتے ہیں.جہاں ظاہری طور پر کان میں کوئی مستقل خرابی نہ ہو اور پھر بھی چکر آ ئیں وہاں کا کولس مفید ہے.جہاں انفیکشن اور چکر ہوں وہاں برائیو نیا برائیونیا بہتر ہے.برائیونیا کالے موتیے میں بھی مفید ہے لیکن اگر پیاس مفقود ہو تو بہتر دوا جلسیمیم ہے.یہ بھی اعصابی چکروں کی اچھی دوا ہے مگر برائیو نیا کا دائرہ زیادہ وسیع ہے جو مختلف جھلیوں پر اور کسی حد تک اعصاب پر بھی اثر انداز ہوتا ہے.کالے موتیے کا زیادہ تعلق اعصاب سے ہے.برائیو نیا اور جلسیمیم کے ساتھ کلکیر یا فاس 6x اور کالی فاس 6x میں دی جائیں تو بہت مؤثر ثابت ہوتی ہیں.بعض اوقات برائیو نیا دینے کے بعد پیاس غائب ہو جاتی ہے اس وقت جلسییم دی جاسکتی ہے اور ان دونوں کو ایک دوسرے کے بعد استعمال کیا جا سکتا ہے.یہ دوائیں سردرد کے لئے بھی اچھی ہیں لیکن جلسیمیم کے سردرد میں ٹھنڈی ہوا سے تکلیف بڑھتی ہے اور برائیو نیا کے سردرد میں ٹھنڈ سے آرام آتا ہے.ویسے جلسیمیم میں سردی و گرمی کا فرق لازم نہیں کیونکہ جب درد بڑھ جائے تو اس پر سردی یا گرمی کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا.برائیو نیا کا سر در دلا زما گدی ، ماتھے یا آنکھوں میں اپنا مقام بناتا ہے.اگر آنکھوں میں ٹھہر جائے تو بہت شدت اختیار کر لیتا ہے.درد کی لہریں اٹھتی ہیں.بعض دفعہ کسی تیز دوا کے اثر سے جوڑوں کے دردٹھیک ہو جائیں تو ان کا حملہ آنکھوں پر ہو جاتا ہے اور درد آنکھ کو اپنا مرکز بنالیتا ہے.آنکھ میں ذراسی حرکت بھی ہو تو محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے نشتر چبھو دیا ہے.اس تکلیف کا بر برس کی طرح برائیو نیا سے بھی تعلق ہو سکتا ہے.جلسیمیم کا در دسارے سر کے علاوہ پیچھے کی طرف جا کر گردن اور بازوؤں کے اعصاب تک ممتد ہو جاتا ہے.جلسیمیم کے درد کا عمومی تعلق روزمرہ کے اوقات، جن کا انسان عادی ہو، کی بے قاعدگی سے بھی ہوتا ہے.
برائیونیا 168 اگر نیند کے وقت میں فرق پڑ جائے یا کھانے کے اوقات بدل جائیں تو بعض دفعہ سردرد شروع ہو جاتا ہے.ایسا سر درد جسیمیم سے ٹھیک ہوسکتا ہے.برائیو نیا کا سر درد وجع المفاصل ، معدہ کی خرابی یا بخاروں سے تعلق رکھتا ہے.ملیر یا اور ٹائیفائیڈ دونوں بیماریوں میں برائیو نیا بہت مؤثر ہے.برائیونیا میں اگر جسم دکھے گا تو سر درد بھی ضرور ہو گا.بخار کی حالت میں بعض دفعہ درد کے ساتھ ہذیان بھی شروع ہو جاتا ہے اور مریض اوٹ پٹانگ باتیں کرنے لگتا ہے.ویسے برائیونیا کے ہذیان میں مریض زیادہ باتیں نہیں کرتا.بائیوٹکس، سٹرامونیم ، سلفر اور بیلا ڈونا کے ہذیان شدت میں بہت زیادہ ہوتے ہیں اور بخاروں کے زہریلے مادوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں.اگر سر درد کی دوا پہچانی جائے تو مرض کی شناخت بھی ہو جاتی ہے.بیلا ڈونا کا سر دردخواہ ٹائیفائیڈ میں ہو یا کسی اور بیماری میں ، اچانک ہو گا.سردرد کے ساتھ چہرہ تمتمانے لگے گا خواہ جسم میں خون کی کمی ہی کیوں نہ ہو.خوف کی بجائے تشدد کارجحان پایا جاتا ہے.کمزور ہونے کے با وجود غیر معمولی طاقت آجاتی ہے اور ایسے مریض کو قابو میں رکھنا مشکل ہو جاتا ہے.ہائی مس (Hyscyamus) میں مریض ہذیان کے نتیجہ میں گند بکنے کی طرف مائل ہوتا ہے.یہ علامت اتنی نمایاں ہے کہ گھر والوں کے علاوہ ڈاکٹر بیچارہ بھی شرم سے پانی پانی ہو جاتا ہے.مریض کے اخلاق اور رجحانات میں کوئی خرابی نہیں ہوتی.لیکن ایسا صرف اعضائے تناسل میں سوزش کی وجہ سے ہوتا ہے جس سے دماغ میں بھی تیزی پیدا ہو جاتی ہے.یہ سب علامات مل کر ہذیان کی کیفیت پیدا کرتی ہیں.ہا ئیوٹکس کے مریض کی ایک اور خاص پہچان یہ ہے کہ وہ چٹکیاں بھر بھر کے جسم اور کپڑوں کو چتا اور نو چتارہتا ہے.ایسی کوئی علامت برا ئیونیا میں نہیں پائی جاتی.برائیونیا کی ایک علامت یہ ہے کہ ہونٹوں کے کنارے پھٹ جاتے ہیں اور ہونٹوں پر پڑیاں سی جم جاتی ہیں، مریض گھبرا کر انہیں اتارنے کی کوشش کرتا ہے تو خون رسنے لگتا ہے.نیٹرم میور میں بھی یہ علامت ہے اور نیٹرم میور برائیونیا کی مزمن دوا بھی ہے.برائیونیا کے مریض کے اخراجات رک جائیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے لیکن پسینہ
برائیونیا 169 آئے تو یہ مریض کے لئے باعث رحمت ہے.برائیو نیا کی کھانسی میں بلغم بہت خشک اور چھٹی ہوئی ہوتی ہے اور بہت مشکل سے نکلتی ہے.چمٹ رہنے والی بلغم میں برائیو نیا اور اپی کاک کے علاوہ ہسپر سلف اور کو کس بھی اہم دوائیں ہیں.برائیونیا میں پھیپھڑے کی خرابی بڑھنے سے خشکی کے باعث جگہ جگہ سے جھلیاں پھٹ جاتی ہیں جن سے ہلکا ہلکا خون رس کر بلغم میں شامل ہو جاتا ہے اور یہ بلغم لوہے کے زنگ کی طرح دکھائی دیتا ہے.یہ زنگ نما بلغم برائیونیا کی خاص نشانی ہے.برائیو نیا ہڈیوں کے کینسر میں فاسفورس کی مدد گار ثابت ہوتی ہے.اسے تمیں طاقت میں فاسفورس کے ساتھ ادل بدل کر دینا چاہئے.اگر عورتوں کی دائیں بیضہ دانی میں تکلیف ہوتو برائیو نی فائدہ پہنچاسکتی ہے.سینے کی گلٹیوں میں خواہ وہ کینسر کی ہوں یا بغیر کینسر کے، اگر ان میں سختی پائی جائے اور حرکت سے درد ہو تو سب سے پہلے برائیونیا استعمال کرنی چاہئے.برائیو نیا کا مریض جسے دائیں طرف پھیپھڑے کا نمونیہ ہو وہ عموماً دائیں طرف ہی لیٹتا ہے کیونکہ دبے ہوئے پہلو میں سانس کے آنے جانے سے حرکت کم ہوتی ہے.بعض اوقات سوتے ہوئے میں جسم کو جھٹکے لگنے لگتے ہیں اور آنکھ کھل جاتی ہے.ہو میو پیتھی میں بخار کے لئے عام طور پر تین اصطلاحیں استعمال ہوتی ہیں.Continuous Fever یعنی مسلسل چڑھنے والا بخار جو ایک دفعہ چڑھے تو یا جان لیوا ثابت ہوتا ہے یا اگر اتر جائے تو پھر دوبارہ واپس نہیں آتا.Remittent Fever وہ بخار ہے جواونچ نیچ دکھاتا ہے.کبھی کم ہو جاتا ہے اور کبھی زیادہ لیکن بخار ٹوٹتا نہیں بلکہ جاری رہتا ہے.Intermittent Fever اس بخار کو کہتے ہیں جو بیچ میں بالکل ٹوٹ جاتا ہے مگر پھر ہو جاتا ہے.ملیر یا اسی قسم میں داخل ہے یعنی بار بار آنے والا بخار.ٹائیفائیڈ Remittent بخار کہلاتا ہے جو کم تو ہو جاتا ہے مگر ٹوٹتا نہیں.برائی اونیا مسلسل بخاروں میں نہیں بلکہ Remittent اور Intermittent بخاروں میں کام آ سکتی ہے.ملیریا میں بسا اوقات برائیو نیا کی ضرورت پڑتی ہے اور ٹائیفائیڈ میں بھی یہ کام آتی ہے.
برائیونیا 170 برائیونیا کی غدودوں کی بیماریاں آہستہ آہستہ پیدا ہوتی ہیں اور پھر بڑھتے بڑھتے مستقل ہو جاتی ہیں.اس پہلو سے یہ کاسٹیکم (Causticum) سے مشابہ ہے.کاسٹیکم میں بھی بیماریاں بڑھنے کی رفتار آہستہ ہوتی ہے لیکن مسلسل بڑھتی چلی جاتی ہیں اور رفتہ رفتہ ریشوں اور غدودوں میں تبدیلیاں واقع ہونے لگتی ہیں اور گلینڈز میں مادے بیٹھ جاتے ہیں.اگر غدود مستقل طور پر متورم ہو کران کی ہیئت میں تبدیلیاں پیدا ہوجائیں تو برائیو نیا بھی دوا ہوسکتی ہے.برائیو نیا کو آرنیکا کے حوالے سے بھی یا درکھنا چاہئے.غدودوں کی بیماریوں میں برائیونیا کی مشابہت فائٹولا کا سے بھی ہے.دونوں میں غدود پھول جاتے ہیں.اگر برائیو نیا اثر نہ دکھائے تو اس کے بعد فائٹولا کا دینا چاہئے.کالی میور، سلیشیا، فیرم فاس، کلکیر یا فاس، کلکیر یا فلور وغیرہ ملا کر بار بار دی جائیں تو یہ بھی غدودوں کی پرانی بیماریوں کے لئے موثر نسخہ ہے.گلے کی خرابی سے جو تعفنی بخار ہوتے ہیں وہ نہایت ضدی اور خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انفیکشن گلینڈز کے ایسے حصوں میں اپنی جگہ بناتی ہے جہاں خون کا دوران پورا نہیں ہوتا اس لئے جسم کے دفاعی مادے بھی وہاں زیادہ اثر نہیں دکھا سکتے.اگر بیماری شروع ہونے کے بعد دو تین دن کے اندر مندرجہ بالا دوائیں فائدہ نہ دیں تو لازم ہے کہ زیادہ اثر کرنے والی بالمثل دوا تلاش کی جائے.گلے کے جس انفیکشن میں بخار روزانہ پہلے سے زیادہ ہوتا چلا جائے اور خصوصاًرات کے آخری حصہ میں بہت زور دکھائے تو صبح کے وقت درجہ حرارت کم ہونے پر ہرگز یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ مریض ٹھیک ہو رہا ہے.اس غلط فہمی کے نتیجہ میں بے احتیاطی اور بد پر ہیزی بھی ہو جاتی ہے.دوسری رات کو بخار پہلے سے بھی زیادہ ہوگا.اگر دو تین دفعہ ایسا ہوتو بچوں میں یہ جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے اس لئے گلے کے بخار کو معمولی نہیں سمجھنا چاہئے.ڈاکٹر عموماً فوراً اینٹی بائیوٹک دے دیتے ہیں جن سے بخار تو اتر جاتا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں اس کا حملہ بار بار ہونے لگتا ہے.بعض دفعہ ایک حملہ کے ختم ہوتے ہی دوسرا حملہ شروع ہو جاتا ہے.پھر زیادہ طاقتور اینٹی بائیوٹک دینی پڑتی ہے.
برائیونیا 171 ایسے مریضوں کا جگر لاز م تباہ ہو جاتا ہے، بھوک ختم ہو جاتی ہے، بچے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ جاتے ہیں، گلے مزید پھولنے لگتے ہیں، بخار غدودوں کو اور بھی موٹا کر دیتا ہے.پس جہاں تک ممکن ہوا اینٹی بائیوٹک دواؤں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے.سلفر اور پائیر وینم 200 کی طاقت میں انفیکشن کا مقابلہ کرنے کے لئے عمو منا اچھی دوائیں ہیں اور بہت گہرا اثر رکھتی ہیں.اسی طرح سلیشیا بھی اونچی طاقت میں بعض دفعہ بہت مفید ثابت ہوتی ہے.یہ فائدہ نہ دیں تو بیلا ڈونا، فائیٹو لا کا، کلکیر یا فلور، فیرم فاس اور پیٹیشیا 30 میں ملا کر بار بار دی جائیں تو بعض دفعہ ایک ہی رات میں یہ مرض قابو میں آجاتا ہے.اس نسخہ کے علاوہ اگر فیرم فاس، سلیشیا ، کالی میور، کلکیر یا فاس، میگ فاس 6x میں ملا کر دن میں چھ سات مرتبہ جاری رکھی جائیں تو بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے.اگر اس سے ایک رات میں بخار نہ ٹوٹے تو عموماً دو تین راتوں کے اندرکم ہوتے ہوتے ٹوٹ جاتا ہے.نکس وامیکا کی طرح اگر برائیونیا بھی ضرورت سے زیادہ استعمال کی جائے تو سر درد شروع ہو جاتا ہے.دونوں کا تریاق جلسیمیم ہے.برائیونیا میں بیاری کا ادلنا بدلنا دوطرح سے شروع ہوتا ہے.ایک یہ اخراجات یا پسینہ وغیرہ کے رکنے سے تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.علاج کریں تو اخراجات دوبارہ شروع ہو جاتے ہیں.اندرونی جھلیاں بھیگ جاتی ہیں اور جلد سے پانی کا عام اخراج شروع ہو جاتا ہے.دوسرے یہ کہ اگر عورتوں کا ماہانہ نظام بند ہو جائے تو ناک سے خون جاری ہو جاتا ہے.اگر ایسی صورت میں برائیو نیا دیں تو بہت جلد افاقہ ہوتا ہے.سانس کی نالی میں چپکی ہوئی بلغم سے عارضی دمہ کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.کھانس کھانس کر بہت مشکل سے ایسی بلغم کو نکالنا پڑتا ہے.اگر بلغم دھاگے دار ہو تو کوکس بہر حال اس کی سب سے بہتر دوا ہے.اگر نزلہ بگڑ جائے اور گہری انفیکشن ہو جائے تو بلغم کا رنگ سبزی مائل ہو جاتا ہے جو مرض کے مزید بگڑنے کی علامت ہے.برائیونیا میں مرض آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں لیکن یہ مراد نہیں ہے کہ کئی دن کے بعد
برائیونیا 172 بیماری ظاہر ہوتی ہے.اگر برائیو نیا کے مریض کو صبح سردی لگی ہو تو شام کو اس کے اثرات ظاہر ہو جائیں گے اور اگلے روز صبح تک مرض پوری شدت سے حملہ کر چکا ہوتا ہے.جوڑوں کے در داور اعصابی تکلیفیں بڑھتی اور مزمن شکل اختیار کر لیتی ہیں.جو امراض فوری نوعیت کے ہوں ان میں بھی برائیونیا کا یہی مزاج ہے.برائیونیا کی بیماریاں عموماً نو بجے شام کو زیادہ ہو جاتی ہیں اور ساری رات رہتی ہیں.کیمومیلا اور نیٹرم میور میں صبح نو بجے تکلیفیں بڑھتی ہیں.ان اوقات کی پابندی کی کوئی ٹھوس اطمینان بخش وجہ معلوم نہیں ہو سکی مگر قدرت نے دواؤں کو ایسا ہی بنایا ہے.برائیونیا کی طرح چیلی ڈونیم (Chelidonium) دائیں طرف کی دوا ہے.جگر کی خرابی سے گہرا تعلق رکھتی ہے.اس کے ہر اخراج میں زرد رنگ نمایاں ہوتا ہے.بلغم بھی زرد ہوتی ہے.چیلی ڈو نیم میں جگر کی دردیں پیچھے کمر کی طرف نکلتی ہیں جیسے پتے کی دردیں پیچھے کمر کو جاتی ہیں اور حرکت سے تکلیف بڑھتی ہے.اگر حاملہ عورت بہت تھک جائے یا لو لگنے سے حمل کے ساقط ہونے کا خطرہ لاحق ہو جائے تو برائیو نیا دینی چاہئے لیکن آرنیکا 200 ساتھ ملالی جائے تو تھکاوٹ کے بداثرات کی بھی روک تھام ہو جاتی ہے.اگر کوئی چوٹ لگ گئی ہو تو برائیو نیا آرنیکا کے ساتھ ملا کر اسقاط کا خطرہ ٹالنے میں بہت مفید ہے مگر فوراً دینی چاہئے اور ساتھ ایکونائٹ بھی ملا لینی چاہئے.مددگار دوائیں : رسٹاکس.ایلومینا دافع اثر دوائیں : ا یکونائٹ.کیمومیلا نکس وامیکا طاقت : 30 سے 1000 تک
173 42 بوفو BUFO بوفو مینڈک (Toad) کی گردن کے غدود سے نکلنے والے لعاب سے تیار کی جاتی ہے.یہ خاص طور پر ذہنی صلاحیتوں اور دماغ پر اثر انداز ہوتی ہے.اس کے مریض کی یادداشت کمزور ہو جاتی ہے.ذہن دھندلا جاتا ہے اور سخت ذہنی تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے.بوفو اعصاب کی بہترین دواؤں میں سے ہے.اعصابی کمزوریوں، فالجی احساسات اور عضلات کے تشنج میں مفید ہے.چھوٹے چھوٹے عضلات میں تشنجی کیفیت پیدا ہوتی ہے.آنکھ یا کسی خاص عضو کا پھڑکنا، جگہ جگہ اچانک تشیخی کیفیات کا پیدا ہونا بونو کی خاص علامت ہے.بوفو میں جلد میں زخم پیدا کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے.اکثر عام ٹکسالی کے ہومیو پیتھ معلمین اسے جنسی امراض میں تو استعمال کرتے ہیں مگر جلدی امراض اور عضلاتی تشنجات میں اسے شاذ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے.اگر کوئی نوجوان بے راہ روی کا شکار ہو جائے تو اس کی دوا بوفو ہے اور یہ جلق (Self-abuse) کو روکتی اور اس کے بداثرات کو دور کرتی ہے.بعض نوجوان جنہوں نے اپنی بیوقوفیوں سے اپنی جان پر ظلم کیا ہو اور وہ مرگی کا شکار ہو جائیں تو ان کے لئے بھی بوفو بہت مفید دوا ہے.ایسے مرگی کے مریض کو پہلے بوفو دینی چاہئے پھر اس کی ناکامی کی صورت میں دوسری دوائیں تلاش کرنی چاہئیں.بوفو میں بھی سارسپر یلا (Sarsaparilla) کی طرح بڑھاپے کا وقت سے پہلے آنا پایا جاتا ہے.برائیٹا کا رب میں بھی یہ علامت ہے لیکن بوفو کا عمر سے پہلے کا بڑھاپا جلد کے سکڑنے یا جھریوں سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ دماغی کیفیت سے تعلق رکھتا ہے یعنی دماغ میں
174 پاگل پن کی بجائے بھولا پن آ جاتا ہے.اگر ساٹھ سال کا بوڑھا آدمی پندرہ سولہ سال کے لڑکوں کی طرح باتیں کرنے لگے تو اسے بھی بوفو دینی چاہئے.اگر وقت پر علاج نہ ہو تو ایسا شخص مجہول سا ہو جاتا ہے.اس میں لوگوں سے بات کرنے اور اسے دوسروں کو سمجھانے کی صلاحیت نہیں رہتی.بوفو میں تضادات پائے جاتے ہیں.مریض تنہائی پسند ہوتا ہے، لوگوں سے گھبرا تا ہے لیکن تنہائی میں ڈرتا ہے.اس کے نتیجہ میں اسے بہت غصہ آتا ہے اور غصے میں آ کر چیزوں کو دانت سے کاٹنے لگتا ہے.گویا اپنی بے بسی اور بے اختیاری کا اظہار اس طریقہ سے کرتا ہے مگر دوسرے لوگوں کو نقصان نہیں پہنچاتا.مریض ہنستا بھی ہے، رونے بھی لگ جاتا ہے اور بچوں کی طرح اچھل کود بھی کرتا ہے.بوفو کے مریض کا کردار اس کی معصومیت اور بچپنے سے پہچانا جاتا ہے.شاذ کے طور پر یہ کیفیت بڑھ کر پاگل پن میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے.بونو اس سلسلہ میں بہت گہری دوا ہے اور لمبے عرصہ تک مسلسل اثر کرتی ہے.بوفو میں جزوی فالج کا رجحان ملتا ہے.مختلف اعضاء کے مفلوج ہونے کے نتیجہ میں ان کے اوپر کی جلد بے حس ہو جاتی ہے.اس میں عضلات کا شیخ بھی عام ہے.مرگی کے حملہ سے پہلے شیخ کے نتیجہ میں منہ پورا کھل جاتا ہے.منہ سے خون نکلتا ہے اور جھٹکے سے زبان یا ہونٹ کٹ جاتے ہیں اور بہت تکلیف دہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے.اس کے ساتھ عموماً سردرد کا حملہ ہوتا ہے، آنکھ کی پتلیاں پھیل کر ایک جگہ ساکت و جامد ہو جاتی ہیں.مریض روشنی برداشت نہیں کرسکتا.جلد میں زخم اور ناسور بننے کا رجحان ہوتا ہے.آنکھ خون سے بھر جاتی ہے.آنکھ کے کو دنیا میں بھی زخم ہو جاتے ہیں.آنکھ اور بدن پر کہیں کہیں چھالے بھی بن جاتے ہیں جو کچھوں کی صورت میں ہوتے ہیں.اینٹی مونیم کروڈ اور اینٹی مونیم ٹارٹ بھی ایسے چھالوں میں مفید بتائی جاتی ہیں.بونو ہر قسم کی جلدی امراض میں مفید ہے بشرطیکہ بوفو کی دیگر علامات بھی نمایاں ہوں بوفو میں ایمرا گر یسا کی طرح موسیقی سے نفرت ہو
بوفو 175 جاتی ہے.مریض میں رفتہ رفتہ ہکلانے اور تھتھلانے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے.مریض کی بات سمجھنی مشکل ہو جاتی ہے جو اسے غصہ دلاتی ہے.ایسا مریض جس میں مرگی کی معروف علامتیں نہ پائی جاتی ہوں لیکن مریض بیٹھے بیٹھے ساکت و جامد ہو جاتا ہو، آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہوں اور مریض ہر چیز سے بے نیاز ہو جاتا ہو، بوفو اس کیفیت کے لئے بہترین دوا ہے.یہ کیفیت وقتی طور پر ہوتی ہے.جب مریض کے ہوش وحواس بحال ہو جائیں تو اسے علم نہیں ہوتا کہ اسے کیا ہوا تھا.چونکہ بونو کی مرگی کا جنسی کمزوری سے بھی تعلق ہے.اس لئے بعض مریضوں کو ہم بستری کے وقت بھی مرگی کا دورہ پڑ جاتا ہے.اس کی مریض عورتوں میں حیض وقت سے بہت پہلے آتے ہیں یا بالکل بند ہو جاتے ہیں.رحم میں جلن اور شیخ کے رجحان کے ساتھ چھالے نکل آتے ہیں جن سے گندا مواد رس رس کے پیپ یا خون ملا لیکوریا خارج ہوتا ہے جو گینگرین کے مادہ کی طرح سخت بد بودار ہوتا ہے.ان علامات میں یہ دوا بہت مفید ثابت ہوتی ہے.یہ چھاتی کے کینسر میں بھی مفید ہے.مکمل شفا بخش تو نہیں ہے لیکن آرام دیتی ہے اور دوسری دواؤں کی مددگار بن جاتی ہے اور تکلیف کو کم کر دیتی ہے.بوفو کی کھانسی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے.بلغم کے ساتھ خون کا اخراج بھی ہوتا ہے اور جلن کا احساس بہت نمایاں ہوتا ہے.اس کی بیماریاں بہت تیزی سے بڑھتی ہے اور پھیلتی ہیں اور مریض جلد موت کے منہ میں چلا جاتا ہے.اس کی تکالیف گرم کمرے اور نیند سے جاگنے پر بڑھتی ہیں جبکہ نہانے اور گرم پانی میں پاؤں رکھنے سے افاقہ ہوتا ہے.مددگار دوائیں : برائیٹا کارب دافع اثر دوائیں : میس.سینیگا طاقت : 30 سے 200 اور اونچی طاقتیں
176
177 43 کیکٹس گرینڈی فلورس CACTUS GRANDIFLORUS (Night-Blooming Cereus) کیکٹس یعنی تھوہر کا درخت صحراؤں میں اگتا ہے.اگر چہ یہ بہت بد زیب سمجھا جاتا ہے لیکن صحراؤں میں اس کا بھی ایک عجیب حسن ہوتا ہے.ہر طرف پھیلا ہوا آنکھوں کو بھلا دکھائی دیتا ہے.تھوہر کا پھل بہت لذیذ ، خوشنما اور خوبصورت ہوتا ہے.رس بھی مزیدار ہوتا ہے لیکن پینے کے بعد نا خوشگوار سی بو آتی ہے.اس پھل کے زیادہ استعمال سے گردوں پر برا اثر پڑتا ہے.پیشاب کی سخت تکلیف ہو جاتی ہے.نہ صرف جلن بلکہ شیخ بھی شروع ہو جاتا ہے.کینتھرس میں بھی پیشاب میں بہت جلن ہوتی ہے.قطرہ قطرہ آگ کی طرح جلتا ہوا پیشاب آتا ہے.کیکٹس میں اس جلن کے ساتھ شیخ بھی پایا جاتا ہے.یہ کیکٹس کی خاص علامت ہے کہ جہاں ہے.بھی تکلیف ہو وہاں سنج ضرور ہوگا.کیکٹس کا اعصاب کے چلے دار ریشوں اور والوز (Valves) پر بہت گہرا اثر پڑتا ہے.اس کی بیماریوں کے حملے میں اچانک پن پایا جاتا ہے.دل پر بھی حملہ اچانک ہوتا ہے جیسے کسی نے یک لخت شکنجے میں جکڑ دیا ہو.دل کی بیماریوں میں خصوصاًوہ بیماریاں جن میں عضلات پھیل جائیں اور والوز خراب ہو جا ئیں کیکٹس بہت مفید ثابت ہوتا ہے.گلے میں بھی تشنج کی علامت ظاہر ہو تو سخت قسم کی جکڑن کا احساس ہوتا ہے.ہر جگہ خون کا دباؤ زیادہ ہو جاتا ہے.دل، گردوں، انتڑیوں اور چہرے کی طرف خون کا اجتماع کیکٹس کے علاوہ بیلاڈونا میں بھی پایا جاتا ہے.دھڑکن اور شیخ کی علامات بھی مشترک ہیں لیکن کیکٹس میں بخار نہیں ہوتا.بیلا ڈونا میں ماؤف حصہ گرم ہو جاتا ہے.گرمی اس کی خاص علامت ہے.کیکٹس میں ماؤف حصہ میں خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے لیکن گرمی کا احساس اور
178 بخارنہیں ہوتے.کیکٹس کے مریض مرض کے اچانک حملہ سے سخت خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور ایکونائٹ کی طرح علامتیں ظاہر ہو جاتی ہیں.بیماری کے اچانک پین اور کیکٹس کے خصوصی مزاج کی وجہ سے موت کا خوف طاری ہونا قدرتی بات ہے.ماؤف حصہ میں سبج اتنا شدید ہو جاتا ہے کہ جیسے لوہے کی تاریں کسی جارہی ہوں.ہر جگہ تنگی اور گھٹن کا احساس غالب ہوتا ہے.گلے میں ہو تو کالر کے بٹن بند کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے لیکیسس اور گلونائن میں بھی کسی حد تک یہ علامت پائی جاتی ہے.کیکٹس میں تشیخ کی وجہ سے ماؤف حصہ زخمی ہو جاتا ہے.رحم کے اندر بھی یہی کیفیت ہوتی ہے.نو بیاہتا عورتوں کے لئے یہ دوا بہت اہم ہے بشرطیکہ شیخ کی وجہ سے سخت تکلیف ہو.جسم کے کسی ایسے حصہ پر جہاں عموماً تشخ کا اثر نہیں ہوتا وہاں گھٹن اور شیخ کا احساس ہو تو یہ کیکٹس کی نمایاں علامت ہے.گنٹھیا اور بائی کی دردوں میں بھی ماؤف حصہ میں تشیخ ملتا ہے.خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے.کو ٹھیکم اور بنزوئیک ایسڈ میں پاؤں کا انگوٹھا سوجتا ہے مگر تشنج نہیں ہوتا.کیکٹس میں ایسی ماؤف جگہ پر شیخ بھی ہو جاتا ہے.یہ دوا دل کے لئے تب مفید ثابت ہوتی ہے جب تکلیف دل تک ہی محدودر ہے اور وہیں جکڑن کا احساس ہو.انجائنا میں سینہ کے درمیان کی ہڈی میں تکلیف ہوتی ہے.اگر دل بڑھ جائے اور اس کی حرکت معمول کے مطابق نہ رہے، تیز سوئی کی چھن کی طرح درد ہوا اور سرسراہٹ ہونے لگے ( بشر طیکہ دل کے گر دسخت جکڑن کا احساس ہو ) تو ایسا انجائنا کا مریض بھی کیکٹس سے کلی شفا پا سکتا ہے.گردوں کی تکلیفیں مزمن ہو جائیں تو جسم میں پھلپھلی اور میں پیدا ہو جاتی ہیں.خصوصاً پاؤں اور ٹانگوں میں.ایسی صورت میں کیلٹس کی دوسری علامتیں نمایاں ہوں تو بفضلہ تعالیٰ یہ سارے بدن کو شفا بخش دیتی ہے.بعض دفعہ کوئی اور علامت نمایاں نہ ہو تو سکڑن کا اچانک پن اور اس کی شدت کیکٹس کو ظاہر کرنے کے لئے کافی ہے.اس لئے ان علامتوں کے ساتھ بلاتر در کیکٹس دے دینی چاہئے کیونکہ اگر کیکٹس ہی دوا ہو تو افاقہ تیزی سے ہوگا.اگر نہ ہو تو نقصان بھی نہیں کیکٹس کو ہنگامی دواؤں کے طور پر ہمیشہ اپنے
179 ساتھ رکھنا چاہئے.بائی کی دردیں جو کیکٹس سے تعلق رکھتی ہیں ان میں بازوؤں اور رانوں کے عضلات میں کھچاؤ اور سکڑن کی علامت ظاہر نہیں ہوتی کیونکہ کیکٹس کا صرف چھلے دار ریشوں سے تعلق ہے.لمبے عضلات پر اس کا تشنجی اثر نہیں ہوتا.کولوسنتھ (Colocynthis) لمبے عضلات پر اثر رکھنے والی اہم دوا ہے.بیلا ڈونا بھی مفید ہے لیکن کیکٹس کا لمبے عضلات پر اثر نہیں ہے.بیلا ڈونا میں خون کا دوران دماغ کی طرف ہو جائے تو بیماری کے شدید حملہ کی صورت میں کیو پرم کے اثر کی طرح جکڑن کا احساس ہو گا لیکن کیکٹس دماغ میں سکرن کا احساس پیدا نہیں کرتا کیونکہ دماغ میں چھلے دار ریشے نہیں ہوتے.کیکٹس کا مریض دماغ پر حملہ سے بے ہوش اور مدہوش سا ہو جاتا ہے لیکن اسے تشبیح نہیں ہوتا.بیلاڈونا میں دماغ کا کمپاؤ پاؤں کے انگوٹھے تک اثر کرتا ہے اور وہاں شیخ شروع ہو سکتا ہے.کیکٹس میں چکر بھی نمایاں ہیں جو جسمانی محنت اور تھکاوٹ سے بڑھ جاتے ہیں.آرام سے افاقہ ہوتا ہے، حرکت سے تکلیف.سردرد دائیں طرف زیاد و جو شور اور تیز روشنی سے بڑھ جاتا ہے.کیکٹس میں دھڑکن بھی پائی جاتی ہے.بعض اوقات سارا جسم دھڑک رہا ہوتا ہے.بیلا ڈونا میں بھی بہت دھڑکن ہے لیکن ساتھ جسم میں گرمی اور حدت کا احساس بھی ہوتا ہے جو کیکٹس میں مفقود ہے.اگر بائیں بازو میں سن ہونے کا رجحان ہو اور کھچاؤ بھی محسوس ہو تو یہ علامت کیکٹس کا تقاضا کرتی ہے.بعض دفعہ دل کی بیماری کے آغاز میں یہ علامت پیدا ہوتی ہے مگر ضروری نہیں کہ بائیں بازو کا درد دل ہی کا ہو ، معدے کی تیزابیت سے بھی یہ علامت پیدا ہوتی ہے.لیکن اگر تنگی اور گھٹن ساتھ ہو جیسے کسی نے مضبوطی سے بھینچ دیا ہے یا دھڑکن اور سن ہونے کا بھی احساس ہو تو کیکٹس ہی دوا ہوگی.اگر کبھی کیکٹس کے مریض کو بخار ہو تو گیارہ بجے صبح شروع ہوتا ہے.قبل از دو پہر
کیکٹس 180 شدید سردی لگتی ہے.پیاس، سردرد اور بخار کے وقت جسم میں گرمی اور سانس میں دقت محسوس ہوتی ہے.دماغی محنت سے سر میں گرمی کا احساس کیکٹس کی خاص علامت ہے.سرشکنجہ میں کسا ہوا ، سکتہ کا خدشہ اور آنکھیں سرخ.خون کے اجتماع کی وجہ سے شنوائی پر بھی اثر پڑتا ہے، کانوں میں تپکن اور بھنبھناہٹ کی آوازیں آتی ہیں.غذا کی نالی میں سکڑن، زبان خشک ، خوراک نگلنے میں دقت اور نگلنے کے لئے پانی کی ضرورت پیش آتی ہے.معدہ میں بھی سکڑن اور دھڑ کن ، بوجھل پن کا احساس، خون کی قے آنے کا احتمال، اجابت سخت اور کالے رنگ کی ہوتی ہے لیکن اگر اسہال لگیں تو صبح کے وقت لگتے ہیں بواسیر کے مسے جو متورم ہوں اور درد کریں، مقعد میں بوجھ محسوس ہو، یہ سب کیکٹس کی علامات ہیں.ملیریا بخار یا دل کی تکلیف کے ساتھ انتڑیوں سے خون بھی بہنے لگتا ہے.کیکٹس میں مثانہ کی گردن بھی سکڑتی ہے جس کی وجہ سے پیشاب رک جاتا ہے.بعض دفعہ مثانہ سے خون بھی جاری ہو جاتا ہے اور کبھی یہ خون پیشاب کی نالی میں منجمد ہو کر مرض کو اور بھی سنگین بنا دیتا ہے.ہاتھ پاؤں متورم، ہاتھ نرم اور ٹھنڈے برف، پاؤں بڑے ہونے کا احساس اور ٹانگوں میں بے چینی سب علامات کیکٹس کی تصویر ہیں جو رات کو بڑھ جاتی ہیں اسی طرح بائیں کروٹ لیٹنے سے ، شور وغل سے، روشنی ، گرمی، دھوپ اور محنت سے بھی علامات بڑھ جاتی ہیں.دافع اثر دوائیں : کیمفر.ا یکونائٹ.چائنا طاقت : 30
کیڈمیم سلف 181 44 کیڈمیم سلف CADMIUM SULPH کیڈمیم سلف بہت گہرا اثر رکھنے والی دوا ہے.اس کے مریض جسمانی اور ذہنی محنت سے بہت گھبراتے ہیں اور کوئی کام نہیں کرنا چاہتے.انہیں کام سے نفرت ہوتی ہے.سلفر کے مریض بھی نکھٹو ہوتے ہیں.بہت پیسہ کمانے کی سکیمیں بناتے رہتے ہیں لیکن انہیں کام کرنے کی توفیق نہیں ملتی.اور پیم کا مریض بھی خیالی پلاؤ پکاتا رہتا ہے اور مختلف ترکیبیں سوچتارہتا ہے لیکن اس کے لئے ہاتھ پاؤں ہلانا اور کام کرنا سخت دو بھر ہوتا ہے.کیڈمیم سلف میں بے چینی اور بے قراری نمایاں ہوتی ہیں.اس لحاظ سے یہ آرسینک سے مشابہ دوا ہے لیکن آرسینک کے مریض کے مزاج کا ایک پہلو کیڈ میم سلف کے بالکل برعکس ہوتا ہے.آرسینک کا مریض اپنی روز مرہ زندگی میں کوئی بھی بے ترتیبی برداشت نہیں کرتا.ہر چیز قرینہ سے رکھتا ہے اور محنت سے بھی نہیں گھبرا تا جبکہ کیڈ میم سلف کا مریض سلفر کے مریض کی طرح سست ہوتا ہے اور اس کی چیزوں میں بے ترتیبی ملتی ہے.معدہ میں کیڈ میم سلف کا اثر آرسینک کی طرح ہوتا ہے.معدہ میں بے چینی ہوتی ہے.بعض مریض اس بے چینی کی وجہ سے سو بھی نہیں سکتے.کیڈ میم سلف ایسی بے چینی کے لئے اچھی دوا ہے.اس کا آرسینک سے ایک فرق یہ بھی ہے کہ آرسینک کا مریض بے چینی سے کروٹیں بدلتا رہتا ہے اور ایک حالت میں نہیں رہ سکتا جبکہ کیڈمیم کا مریض حرکت سے تکلیف محسوس کرتا ہے.اس کی کا ہلی اور سنتی بے چینی پر غالب آجاتی ہے اور وہ کوئی حرکت بھی پسند نہیں کرتا.وہ اپنی بے چینی کا اظہار صرف زبان سے کرتا ہے.
کیڈمیم سلف 182 کیڈمیم سلف میں تشیخ بھی پایا جاتا ہے اور زنک کی طرح اس کا اثر عضلات پر ظاہر ہوتا ہے.زنگ کا مریض متاثرہ عضو کو ہر وقت حرکت دیتا رہتا ہے اور اپنا ایک پاؤں دوسرے پاؤں پر ملتا رہتا ہے یا ٹانگ ہلاتا رہتا ہے.کیڈ میم کا مریض جسم میں ہر جگہ بے چینی تو محسوس کرتا ہے مگر زنگ کی طرح متحرک نہیں رہتا.کیڈمیم سلف آنکھ کی تکلیفوں میں بھی مفید ہے.پپوٹوں کے ورم ، آنکھ کے درد، زخموں اور ناسوروں میں اگر دیگر علامتیں ملتی ہوں تو بہت کارآمد ہے.یہ آنکھ کے چھپر کے فالج کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے.آنکھوں کے ظاہری عوارض کے علاوہ اندرونی اعصابی ریشوں کو طاقت بخشنے میں بھی مفید ہے.کیڈ میم زیادہ تر ایک جانب کی تکالیف کی دوا ہے.اس میں مرض عموماً ایک ہی طرف پایا جاتا ہے.میں نے اسے عموماً بائیں طرف کے فالج میں مفید دیکھا ہے.فالج کا اثر ایک آنکھ پر یا جسم کے ایک جانب ہوتا ہے.Apoplexy کے نتیجہ میں ایک بازو یا ٹانگ میں کمزوری رہ جائے تو فاسفورس بھی مفید دوا ہے.کیڈمیم کے مریض میں جلد کے فالج کے بعد بے حسی تو معروف بات ہے لیکن یہ امر نظر انداز نہیں ہونا چاہئے کہ فالج ہونے سے پہلے جلد بہت زیادہ زود حس ہو جاتی ہے.مفلوج حصوں میں درد اور چیونٹیاں رینگنے کا احساس ہوتا ہے.بعض اعضاء انفرادی طور پرسن ہو جاتے ہیں چنانچہ ناک یا کان کا سن ہو جانا بھی اس دوا میں نظر آتا ہے.ایک تکلیف دہ علامت یہ ہے کہ نگلنے کی طاقت کم ہو جاتی ہے اور نگلنا مشکل ہو جاتا ہے.بسا اوقات عمر کے ساتھ ساتھ یہ طاقت کم ہونے لگتی ہے اور کھانا سانس کی نالی میں چلا جاتا ہے اور بہت خطرناک ثابت ہوتا ہے.ایسے مریضوں کے لئے کیڈ میم سلف بہت مفید بلکہ ضروری دوا بن جاتی ہے.بعض بچوں میں بھی یہی علامت پائی جاتی ہے.کیڈمیم سلف ہڈیوں پر بھی اثر انداز ہونے والی دوا ہے.کیڈ میم سلف کا نزلہ مزمن ہو جائے تو ناک کی ہڈیاں گھلنے لگتی ہیں.مرکزی کی طرح کیڈ میم میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے.
کیڈمیم سلف 183 کیڈمیم سلف میں جلد پر چھوٹے چھوٹے دانے ابھر آتے ہیں جیسے رونگٹے کھڑے ہو جانے پر ہوتا ہے.اگر مرغابی کے پر نوچ لئے جائیں تو اس کی جلد پر جیسے دانے نمایاں ہوتے ہیں یہ دانے بھی ان سے مشابہ ہوتے ہیں.انہیں انگریزی محاورے میں Goose Flesh کہا جاتا ہے.کیپسیکم میں بھی یہ علامت نمایاں ہے.کیڈمیم سلف معدہ کے لئے بھی بہت مفید دوا ہے.اگر معدہ بالکل جواب دے جائے ، کوئی چیز ہضم نہ ہو ، خوراک معدہ میں ہی گلنے سڑنے لگے، گندے بودار ڈکار اور شدید متلی اور ابکائیاں آئیں تو کیڈ میم سلف بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے.یہ کینسر میں بھی مفید ہے لیکن شفا نہیں دیتی صرف تسکین بخش سکتی ہے اور تکلیف کی شدت کو کم کرتی ہے.اگر بیماری کے نتیجہ میں عضلات لگنے لگیں اور مریض رفتہ رفتہ کمزور ہو جائے تو کیڈ میم سلف ایسے گرتے ہوئے مریض کو سنبھال لیتی ہے.کیڈمیم سلف میں حرکت کرنے اور سونے سے تکلیفیں بڑھتی ہیں.کھانا کھانے کے بعد آرام کرنے سے افاقہ ہوتا ہے.مریض ہر وقت بھوک محسوس کرتا ہے.معدہ اور نظام ہضم جواب بھی دے جائیں لیکن بھوک ختم نہیں ہوتی.اگر کسی مریض کو اس قسم کی بھوک کے ساتھ سیاہ رنگ کی الٹیاں آئیں اور حالت اتنی بگڑ جائے کہ گویا موت کی علامتیں ظاہر ہوں تو اس وقت کا ر بوو یج کے بجائے کیڈ میم سلف موت سے واپس کھینچ لاتی ہے بشرطیکہ تقدیر جاری نہ ہو چکی ہو.طاقت : 30 تک
184
کیلیڈیم 185 45 کیلیڈیم CALADIUM (امریکہ میں اگنے والا ایک شلجم ) کیلیڈیم کو عام طور پر تمباکو کی عادت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے اس دوا نے شہرت پائی ہے حالانکہ یہ محض اتنی مختصر اثر والی دوانہیں ہے.اس میں کئی اور نمایاں علامات بھی پائی جاتی ہیں.اس کی دماغی علامات بہت عجیب وغریب ہیں.کیلیڈیم کے زہر کا یادداشت پر بہت برا اثر پڑتا ہے.کوئی کام کرتے ہی بھول جاتا ہے.کیلیڈیم Epilepsy یعنی مرگی کی بھی دوا ہو سکتی ہے.شریانوں کی سختی (Arteriosclerosis) کا اثر بھی بہت بڑھ جائے تو کیلیڈیم کی یاد دلاتا ہے لیکن آرٹیریوسکلر وسس کی براہ راست دوا نہیں ہے.کیلیڈیم کی خاص علامت یہ ہے کہ مریض کوئی کام کر کے سوچے گا کہ اس نے کیا ہے یا نہیں.کوئی بات کسی کو کہنی تھی ، نہ معلوم کہی کہ نہیں.خط لکھنا تھا ،لکھا تھا کہ نہیں.غرضیکہ روز مرہ کی زندگی میں ایک غیر یقینی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے لیکن یہ علامت کھانے پینے کے معاملہ میں ظاہر نہیں ہوتی.مثلاً ناشتہ کر کے نہیں بھولے گا، روزمرہ کی باتیں اس لئے بھولتی ہیں کہ انسان اپنی سوچوں میں کھویا رہتا ہے اور اسے یاد نہیں رہتا کہ جو کام اسے کرنا تھاوہ کیا ہے یا نہیں.بعید نہیں کہ کیلیڈیم کا مریض ذہنی دباؤ محسوس کرتا ہو کیونکہ اس کا دماغ بیک وقت دو طرح کے کام کرتا ہے.ایک اپنے روز مرہ کے کام اور دوسرے دماغی طور پر اپنے خیالات میں جکڑارہنا.اسی لئے دماغ غیر حاضر رہتا ہے.جیسے فلسفی باتیں بھول جاتے ہیں.ایسے مریض ذہنی طور پر بہت تھک جاتے ہیں اور آخر علمی کام ان کے بس میں نہیں رہتا.
کیلیڈیم 186 یہ تمباکونوشی کی کثرت سے پیدا ہونے والی جنسی کمزوریوں میں بھی مفید ہے.اس لحاظ سے یہ پکرک ایسڈ اور سیلینیم سے مشابہ ہے.اس کا مریض مستقل خوف کا شکار رہتا ہے.اندھیرے کا خوف ،مستقبل کا خوف حتی کہ اپنے سایہ سے بھی خوفزدہ ہو جاتا ہے.کیلیڈیم کے مریض کو چکر بھی آتے ہیں.آنکھیں بند کرنے سے چکروں میں اضافہ ہو جاتا ہے.کو نیم میں چکروں کی علامت اس سے بالکل برعکس ہوتی ہے اور چکر آنکھیں کھولنے سے بڑھتے ہیں.لیٹنے اور آنکھوں کو حرکت دینے سے بھی چکر آنے لگتے ہیں.ایسے چکروں میں کو نیم اکیلی فائدہ نہیں دیتی بلکہ کا کولس کے ساتھ ملا کر دینے سے چکروں کی بہت طاقتور دوا بن جاتی ہے.ان دونوں میں حرکت سے تکلیف بڑھتی ہے.کیلیڈیم میں گرمی سے تکلیف بڑھتی ہے.گرم موسم یا گرم کمرہ میں بیماری میں اضافہ ہوتا ہے.جبکہ جسم کو ٹھنڈک پہنچانے سے آرام ملتا ہے مگر معدے میں ٹھنڈی چیزوں سے تکلیف بڑھ جاتی ہے اس لحاظ سے یہ فاسفورس کے بالکل برعکس ہے.فاسفورس میں معدہ کو ٹھنڈی چیز سے آرام ملتا ہے.کیلیڈیم کے مریض کی نیند ہلکے سے شور سے بھی متاثر ہوتی ہے.ایک دفعہ آنکھ کھل جائے تو دوبارہ ساری رات نیند نہیں آتی.کیلیڈیم میں جلد میں سنسناہٹ ہوتی ہے جیسے کوئی کیڑا چل رہا ہے.اس کے پسینہ میں میٹھی سی بو ہوتی ہے جس کے اوپر لکھیاں بھنبھناتی ہیں، جلد پر بہت خارش ہوتی ہے جس کی کوئی معین وجہ نہیں ہوتی.جسم میں کیڑا چلنے کا احساس بہت بڑھ جائے تو سارے بدن پر ہر وقت خارش ہونے لگتی ہے.ایگزیما یا دانوں کی کوئی علامت ظاہر نہیں ہوتی.بعض دفعہ عورتوں میں یہ خارش اندرونی اعضاء میں شدید عذاب کی صورت اختیار کر کے اعصاب شکنی کا باعث بنتی ہے.کیلیڈیم کی تکالیف حرکت سے بڑھ جاتی ہیں.پسینہ آنے اور سونے سے تکلیف میں کمی ہو جاتی ہے.مددگار دوا نائیٹرک ایسڈ.دافع اثر دوا: آرم ٹرائی فلم.طاقت: 30
کلکیریا آرس 187 46 کلکیریا آرس CALCAREA ARS مرگی کے مرض میں اگر چہ کلکیر یا سلف زیادہ مشہور ہے لیکن کلکیر یا آرس بھی مرگی کی اہم دوا ہے اور کلکیر یا سلف کے بعد اس کا نمبر آتا ہے.اس کے متعلق ڈاکٹر کینٹ نے لکھا ہے کہ کلکیر یا آرس کے استعمال سے مرگی کی بیماری سے مکمل نجات مل سکتی ہے.ہر مرگی قابل علاج نہیں ہوتی کیونکہ بعض دفعہ اس کا سر کی ساخت کی خرابی سے بھی تعلق ہوتا ہے.اس کا اپریشن ضروری ہوتا ہے.کلکیریا آرس میں جسم کے اعصاب پھڑکنے کا رجحان پایا جاتا ہے اور فالجی کمزوریاں بھی ملتی ہیں.دراصل کیلیشیم ایک شدید کمزوری پیدا کرنے والی دوا ہے.اگر جسم میں اس کا توازن معمولی سا بھی بگڑ جائے تو بہت زیادہ کمزوری پیدا ہوتی ہے.بلڈ پریشر بھی متاثر ہوتا ہے اور بعض دفعہ مریض اچانک بے دم ہو کر گر جاتا ہے.مویشیوں میں یہ بیماری عام ملتی ہے.کیلشیم کا توازن بگڑنے سے وہ ایک دم نڈھال ہو کر گر جاتے ہیں.تاہم عموماً روزمرہ کی کمزوری کا شکار ہونے والے مریضوں کا کلکیریا کے توازن بگڑنے سے تعلق نہیں ہوتا بلکہ معدے میں تیز اب پیدا ہونے کی وجہ سے بعض دفعہ اچانک کمزوری کے دورے پڑتے ہیں.یہ کمزوری خطرناک اور ڈراؤنی تو ضرور محسوس ہوتی ہے مگر مہلک ثابت نہیں ہوتی.ایسے مریض بعض دفعہ بے ہوش بھی ہو جاتے ہیں لیکن یہ مرگی کی بیماری نہیں ہوتی.اگر مرگی میں اس قسم کے کمزوری اور بے ہوشی کے حملے ہوں تو وہ زندگی کا مستقل حصہ ہوتے ہیں.اچانک بے ہوشی کا دورہ لازم نہیں کہ مرگی کی وجہ سے ہی ہو.مرگی کا مرض جو پیدائشی ساخت کی خرابی کی وجہ سے ہو بعض دفعہ مریض کی سوچ اور فکر پر بھی اثر انداز ہوتا ہے.اس کے ماتھے سے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ ذہنی طور پر کمزور -
کلکیریا آرس 188 صلى الله ہے.اس کی آنکھوں میں بھی کچھ حماقت کے آثار نظر آتے ہیں یا اگر وہ غیر معمولی حساس ہو تو اپنی چھوٹی چھوٹی سوچوں میں مگن رہتا ہے اور سنجیدہ ، گہرے غور وفکر کے قابل نہیں ہوتا.بعض معاندین آنحضرت ﷺ اور دیگر انبیاء پر اعتراض کرتے ہیں کہ انہیں الہام وغیرہ کچھ نہیں ہوتا تھا، یہ محض مرگی کی ہی ایک قسم تھی جو انہیں لاحق تھی.لیکن انبیاء جو عظیم کام دنیا میں کرتے ہیں ان پر اس قسم کے لغو اعتراضات وارد ہو ہی نہیں سکتے.انتہائی شدید دباؤ کے وقت بھی انبیاء کسی تکلیف میں مبتلا نہیں ہوتے بلکہ جب دباؤ شدید ہو تو مرگی کے مرض کا حملہ ضرور ہونا چاہئے.عظیم رومن شہنشاہ سیزر کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہ ایسی تقریروں کے دوران جب شدید ذہنی دباؤ ہوتا تھا لوگوں کے سامنے بے ہوش ہو کر گر جایا کرتا تھا جبکہ آنحضرت ﷺ انتہائی خطرناک حالات کا سامنا کرتے ہوئے اور بھی زیادہ مستعد اور سب صحابہ سے بڑھ کر چاق و چوبند ہو جاتے تھے.اُحد کی سنگلاخ زمین اور حسنین کا میدان کارزاران بد بخت معترضین کے منہ میں خاک ڈالتے رہیں گے.الہام کے وقت بعض دفعہ جور بودگی سی طاری ہوتی ہے وہ ہرگز مرگی سے کوئی دور کی مشابہت بھی نہیں رکھتی.اعصابی دباؤ اور معدے کا تیزاب مل کر بعض دفعه سخت کمزوری پیدا کر دیتے ہیں یہاں تک کہ انگلی ہلانا بھی مشکل ہو جاتا ہے.مجھے خود یہ تکلیف ہو چکی ہے اور تکلیف کے دوران بعض دفعہ یہ محسوس ہوتا تھا کہ ابھی جان نکل جائے گی.کئی کئی دن تک بستر سے باہر نہیں نکل سکتا تھا.یہ مرض عارضی ہوتا ہے.اگر تیزابیت کا مؤثر علاج کر دیا جائے تو یہ تکلیف ہمیشہ کے لئے پیچھا چھوڑ دیتی ہے.کلکیر یا آرس میں جو کمزوری پائی جاتی ہے وہ بھی ضروری نہیں کہ مرگی ہی کی علامت ہو.کلکیر یا آرس کے مرکب میں آرسنک کا جز ومعدہ میں تیزاب پیدا کرنے میں نمایاں کردار ادا کرتا ہے.لیکن اس سے جو شدید کمزوری پیدا ہواس کے علاج کے لئے آرسنک سے بہت زیادہ موثر دوا نکس وامیکا ہے.
189 کلکیریا آرس میر یا آدرس کانکس وامیکا اور دوسری دواؤں سے فرق یہ ہے کہ اس میں مستقل فالجی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جبکہ محض تیزاب کی زیادتی کی وجہ سے فالج نہیں ہوا کرتا.کلکیر یا آرس کی فالجی علامتیں شروع ہوں تو ہاتھ کانپنے لگتے ہیں اور جسم پر بھی کپکپی طاری ہونے لگتی ہے.یہ فالج کا آغاز ہے.مرگی کا مرض پہچاننے کے لئے ڈاکٹروں نے اورا (Aura) کا محاورہ استعمال کیا ہے یعنی مرگی کے حملہ کے آغاز میں جسم میں کسی جگہ جو سنسنی سی پیدا ہوتی ہے اسے ”اور“ کہتے ہیں.بعض مریضوں کا ”اور معدے سے شروع ہوتا ہے بعض کا دل سے.مثلاً دل پر کمزوری کا احساس ہوتا ہے اور گھبراہٹ ہوتی ہے.کلکیریا آرس میں مرض کے حملہ کا آغاز ہمیشہ دل سے ہوتا ہے اس لئے اگر مریض کو یہ احساس ہو کہ دل میں کچھ ہو رہا ہے اور پھر مرگی سے مشابہ دورہ پڑے تو ایسی صورت میں کلکیریا آرس مکمل شفا بخشنے کی صلاحیت رکھتی ہے.ایک اور علامت یہ ہے کہ مرگی کا دورہ پڑنے سے پہلے آواز بیٹھ جاتی ہے اور مریض بول نہیں سکتا.سیڑھیاں چڑھتے وقت اگر سانس اکھڑے تو کلکیریا آرس اچھی دوا ہے.اس میں بیماریاں زیادہ تر بائیں طرف حملہ کرنے کا رجحان رکھتی ہیں.سٹیفی سیگر یا (Staphysagria) کی طرح اس دوا میں بھی غصہ ، نا پسندیدگی اور ناراضگی کے بداثرات سے پیدا ہونے والی بیماریاں شامل ہیں.اس میں جو خیالی نظارے دکھائی دیتے ہیں ان میں بھوت پریت اور دیگر وہمی نظارے شامل ہیں.بعض دفعہ اس کے مریض آگ کی خواہیں بکثرت دیکھتے ہیں.یہ علامت نیٹرم میور میں بھی ہے جس میں زیادہ تر آگ لگنے اور سانپوں کے خواب آتے ہیں.اگران علامتوں کے ساتھ مستقل پاگل پن کا حملہ ہو جائے تو ایسے پاگل پن میں گلگیر یا آرس اچھی دوا ثابت ہوسکتی ہے.اگر خون کا دبا ؤا چانک سر کی طرف زیادہ ہو جائے اور چکر آنے لگیں اور توازن برقرار نہ رہے، ساتھ تشخجی کیفیت بھی ہو تو کلکیریا آرس اس میں بھی مفید ہے.پرانے اور ضدی سردرد میں کلکیریا آرس بھی کام آ سکتی ہے.اگر کسی اور دوا سے فائدہ نہ ہو تو
190 کلکیریا آرس کالکیر یا آدرس کو بھی استعمال کر کے دیکھ لینا چاہئے.اس کے سردرد کی علامت سیمی سی فیوجا (Cimicifuga) سے بالکل الٹ ہے.سیمی سی فیوجا میں ماؤف حصہ کے بل لیٹنے سے درد میں اضافہ ہو جاتا ہے بلکہ بعض دفعہ دکھتے حصہ کو دبانے سے اعصاب بھی پھڑ کنے لگتے ہیں.کلکیریا آرس میں جس کروٹ مریض لیٹے گا اس کے مخالف سمت در دشروع ہو جائے گا.اگر دائیں طرف لیٹے گا تو سر درد کا حملہ بائیں طرف ہو جائے گا.جب بائیں طرف سر رکھے گا تو درد دائیں طرف منتقل ہو جائے گا.یہ کلکیریا آرس کی خاص علامت ہے.جس پرانے سر درد میں یہ علامت پائی جائے اس میں کلکیر یا آرس بہت مؤثر ثابت ہوگی.اس کے علاوہ اور کوئی واضح علامت ایسی نہیں ہے جو کلکیریا آرس کے سر درد کا خاصہ ہو.چہرے اور سر کی جلد پر ایگزیما بھی اس میں عام پایا جاتا ہے.گردوں میں بھی درد ہوتا ہے اور دکھن کا احساس ہر وقت رہتا ہے جو پتھری کی وجہ سے نہیں بلکہ عام سوزش کی وجہ سے ہوتا ہے.اس میں لیکوریا زردرنگ کا ہوگا جو کاٹنے والا تیزابی مادہ رکھتا ہے.بعض دفعہ لیکور یا عورتوں کے لئے تکلیف کا باعث بننے کے علاوہ نفسیاتی الجھنیں بھی پیدا کر دیتا ہے.اس قسم کے لیکوریا میں کلکیریا آرس کے علاوہ کالی فاس اور آرسنک بھی مفید دوائیں ہیں جو سخت بد بودار اور سوزش والے لیکوریا کا توڑ ہیں.رحم کے کینسر میں اگر مسلسل ہلکا ہلکا خون جاری رہے اور وہ تیزابی اور بد بودار ہو تو اس میں بھی کلکیر یا آرس بہت فائدہ بخش ہے.دافع اثر دوائیں : کار بوویج گلونائن پلسٹیلا طاقت: 30 سے 1000 تک
کلکیریا کارب 191 47 کلکیریا کاربونیکا CALCAREA CARBONICA کیلشیم کاربونیٹ دودھ کا بنیادی جزو ہے.اس سے ہڈیاں، آنکھ کا سفید حصہ اور بعض دیگر اہم اعضاء تخلیق پاتے ہیں.دودھ جو مکمل غذائیت کا حامل ہے اس میں کیلشیم سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے.کیلشیم کا توازن بگڑنے سے متفرق عوارض خصوصاً ہڈیوں کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں.کلکیریا کارب غدودوں، جلد اور ہڈیوں پر اثر انداز ہونے والی اہم دوا ہے.ایسے مریض کو بہت جلد سردی لگ جاتی ہے، پاؤں کبھی ٹھنڈے ہوتے ہیں اور کبھی گرم.چھاتی میں جکڑے جانے کا احساس ہوتا ہے.کھانسی رات کو خشک اور دن کو عام طور پر بلغمی ہوتی ہے.بلغم زردی مائل بد بودار ہوتا ہے اور بہت مشکل سے نکلتا ہے.بچوں کے دانت نکالنے کے زمانے میں انہیں جو کھانسی شروع ہو جاتی ہے اور بآسانی پیچھا نہیں چھوڑتی بسا اوقات وہ کلکیریا کارب سے ٹھیک ہو جاتی ہے.کلکیریا کارب کا مزاج رکھنے والے لوگوں کے چہرے عموماً بے رونق ہوتے ہیں ، جلد چکنی اور زردی مائل.بعض ایسے مریض بات کرتے کرتے ایک دم نڈھال ہو جاتے ہیں اور خون کی کمی کا بھی شکار رہتے ہیں.دماغی محنت انہیں کمزور کر دیتی ہے جس سے بعض دفعہ وہ پسینہ پسینہ ہو جاتے ہیں اور سانس لینے میں انہیں دقت پیش آتی ہے.سردی اور نمی کو پسند نہیں کرتے.تازہ ہوا اور خنکی سے بھی نفرت ہوتی ہے.بھیگنے پر رسٹاکس کی طرح بیماریاں فوراً آ گھیرتی ہیں.خون کی کمی میں کلکیریا کارب نمایاں اثر رکھتی ہے.خون کی یہ کمی دراصل معدے کی جھلیوں کی خرابی کی وجہ سے ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں وہ لعاب پیدا نہیں ہوتے جو وٹامن بی 12 کو ہضم کرتے ہیں.خون کی ایسی کمی کا مستقل علاج محض وٹامن بی 12 سے
192 کلکیریا کارب کر نا ممکن نہیں البتہ یہ بیماری کے ظاہری بداثرات کو دور کرنے کے لئے مسلسل دینی پڑتی ہے.چونکہ معدہ اسے ہضم نہیں کرتا اس لئے اسے بذریعہ انجیکشن دینا پڑتا ہے اور ایسے مریض کو عمر بھر وٹامن بی 12 کے ٹیکے لگانے پڑتے ہیں.ایسے مریض کو اگر ہو میو پیتھی دوا کی صورت میں کلکیریا کا رب دی جائے تو ان ٹیکوں کی ضرورت نہیں رہتی اور جسم خود بخودخون بنانے لگتا ہے.کلکیریا کارب میں عضلات کا ڈھیلا پن پایا جاتا ہے.اگر عضلات ڈھیلے ہو کر لٹک جائیں اور جسم موٹا ہونے لگے تو سارا نظام صحت بگڑ جاتا ہے.کچھ عرصہ تک مسلسل کلکیریا کارب دینے سے فائدہ ہوتا ہے.جسم میں کیلشیم کی کمی واقع ہو جائے تو ہو میو پیتھی پوٹینسی میں دوا کھلانے سے یہ کمی دور ہو جاتی ہے.بعض اوقات اچانک کھڑا ہونے سے گھٹنے کے عضلات جسم کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتے اور انسان گر جاتا ہے.بلڈ پریشر کی کمی کی وجہ سے بھی ایک دم کھڑا ہونا مشکل ہوتا ہے.اگر عضلاتی کمزوری سے ایسا ہو تو کلکیر یا کارب بہت مفید ہے.گہری اور مزاج سے مطابقت رکھنے والی دوائیں جو انسانی جسم کی تعمیر میں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں اگر مناسب وقفوں کے ساتھ مستقل استعمال کی جائیں تو یہ علاج وقت تو لے گا مگر بہت مفید اور دیر پا اثرات کا حامل ہوگا اور ہر بیماری کا الگ الگ علاج کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی.مریض بحیثیت مجموعی شفا پا جاتا ہے.یادر ہے کہ کلکیریا کارب کے بعد اگر سلفر دینی ہوتو پہلے لائیکو پوڈیم دینی ہوگی پھر سلفر دی جاسکتی ہے.سلفر سے جو اندرونی بیماریاں جلد پر اچھلتی ہیں بسا اوقات نکس وامیکا ان کا توڑ ثابت ہوتا ہے (مثلاً بواسیر کے مسوں میں) لیکن بواسیر کے مسوں کے علاج کے لئے کلکیریا کارب بھی اچھی دوا ہے.اس کے علاوہ اور بھی دوائیں کلکیریا کارب سے مشابہ ہیں.مثلاً ایسکولس (Aesculus) میں بھی کلکیریا کی طرح بواسیری مسوں میں خون اور پیپ کی علامات ملتی ہیں.کلکیریا کارب کینسر کے رجحان کوروکنے کے لئے ایک اونچا مقام رکھتی ہے لیکن
193 کلکیریا کارب مریض کا عمومی مزاج اس سے ملنا ضروری ہے ورنہ کام نہیں کرے گی.بعض بیماریوں میں زخموں کو چیرا دینا پڑتا ہے.کلکیریا کارب ایسے چیروں کی ضرورت کو ختم کر سکتی ہے.گہرے پھوڑے جو بیرونی جلد کی سطح کے نیچے ہوتے ہیں ان میں کلکیریا کارب بہت موثر ثابت ہوتی ہے اور سلیشیا سے بھی بہتر اثر دکھاتی ہے.پھوڑایا تو از خود کھل کر غائب ہو جاتا ہے یا پیپ بنتی ہے تو معمولی اور پھوڑا بغیر کسی تکلیف اور تیکن کے گھل جاتا ہے.ایسی صورت میں یہ وقتی دوا کے طور پر فائدہ دے گی.کلکیریا کارب کا مریض واضح طور پر پہچانا جاتا ہے.جسم فربہی مائل ہو ، زرد رنگت ، سر نسبتا بڑا، پسینہ آنے کا رجحان ہو.جسم کبھی ٹھنڈا کبھی گرم، سارے جسم کا نظام ست ہو تو یہ کلکیریا کارب کے مریض کی عمومی تصویر ہے لیکن مریض میں اس کی ہر علامت کا موجود ہونا ضروری نہیں ہوتا، نہ ہی کوئی ایک علامت اکیلی کلکیریا کارب کی نشاندہی کر سکتی ہے.مثلاً بعض بچوں کا سر پیدائشی بناوٹ کے لحاظ سے بڑا ہوتا ہے ،ضروری نہیں کہ وہ کلکیریا کارب کے مریض ہوں، بعض ہو بھی سکتے ہیں.بعض دفعہ کلکیریا کی علامتیں عمر کے ساتھ رفتہ رفتہ ظاہر ہوتی ہیں.کلکیریا کے مریض کے ناک میں اکثر مواد اکٹھا ہوکر جم جاتا ہے اور اس کی وجہ سے سانس لینے میں دقت محسوس ہوتی ہے.کلکیریا کارب دینے سے یہ مواد جھلیوں سے الگ ہوکر بآسانی باہر نکل جاتا ہے اور کسی قسم کے اپریشن کی ضرورت پیش نہیں آتی.جسم میں کیلشیم کا توازن بگڑنے سے بعض دفعہ ہڈیوں کے کونے بڑھنے لگتے ہیں اور گھٹنوں کے جوڑوں کی ہڈیوں میں کیلشیم کے ابھار سے بن جاتے ہیں جو بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں اس کا علاج کلکیریا کارب سے ہو جاتا ہے.اگر کوئی بچہ ٹانگوں میں کمزوری کی وجہ سے دیر سے چلنا سکھے تو کلکیریا کارب اس کا علاج ہے.اگر بچہ دیر سے بولنا شروع کرے تو برائیا کا رب بہترین ہے.جہاں یہ دونوں علامتیں پائی جائیں تو نیٹرم میور مفید ہوگی.اگر بچے کے جسم میں پیدائشی طور پر سوڈیم کا توازن بگڑ جائے تو اس سے ذہنی
194 کلکیریا کارب صلاحیتوں پر اثر پڑتا ہے نیز ٹانگیں بھی کمزور ہو جاتی ہیں اور مریض سوکھے کا شکار ہو جاتا ہے.نیٹرم میور کی خاص علامت یہ ہے کہ ٹانگیں اور اوپر کا دھڑ دونوں بیک وقت سو کھتے ہیں اور زبان پر بھی اثر ہوتا ہے چنانچہ بچہ دیر سے چلنا اور بولنا سیکھتا ہے.لیکن کلکیریا کارب میں زبان متاثر نہیں ہوتی اور بچہ معمول کے مطابق بولنا سیکھ لیتا ہے، ہاں چلنا دیر میں سیکھتا ہے.چھوٹا قد بھی کلکیریا کارب کی ایک علامت ہے.اگر جسمانی کمزوری کے ساتھ ذہنی کمزوری بھی نمایاں ہو تو یہ برائیٹا کارب کی علامت ہے.اگر کلکیریا کارب کے مزاجی مریض کی ہڈیوں میں ٹیڑھا پن پیدا ہونے لگے اور وہ بد نما دکھائی دینے لگیں تو کلکیریا کارب دینے سے بتدریج مگر واضح بہتری کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں.مریض اندرونی طور پر سردی محسوس کرتا ہے مگر بعض اوقات ہاتھ پاؤں جلتے ہیں.طوفان آنے سے قبل مریض کی بیماری کی علامات بڑھنی شروع ہو جاتی ہیں مثلاً اگر گرد کا طوفان آنے والا ہو تو کئی گھنٹے پہلے دمے کی علامات والا مریض وہ علامات ظاہر کرتا ہے جو گرد کی صورت میں بعد میں ظاہر ہوتی ہیں.ایسے مریضوں کی ایک دوا کلکیریا کا رب بھی ہے.وہ مریض جو زیادہ لمبا عرصہ دینی کام نہ کر سکے اور تھک جائے اور جسم کے دوسرے حصوں میں بھی کمزوری کی علامتیں ظاہر ہوں، اس کا سارا نظام ہی کمزور پڑ جاتا ہے اور وہ بہت جلد تھکنے لگتا ہے.کلکیر یا کارب دینے سے وہ آرام محسوس کرے گا اور بے چینی زیادہ عرصہ باقی نہیں رہے گی.اگر کلکیر یا کا مریض بہت ہیجانی (Excited) ہو جائے تو اسے کئی قسم کے نظارے دکھائی دینے لگتے ہیں.خصوصا نوکدار چیزیں نظر آنے لگیں گی، تصویر یں اور اجسام ناچتے ہوئے دکھائی دیں گے.اسی طرح بے جان اشیاء، کیل، تار، چھنے اور کاٹنے والی چیزیں نظر آئیں گی.اگر بچوں میں ایسی علامتیں ہوں تو کلکیریا کارب الا ما شاء اللہ یقینی دوا ہے.عام کمزوری کی علامت ہو، سردی محسوس ہوتی ہو مگر ہاتھ پاؤں جلیں تو بھی کلکیریا کارب علاج ہے.کلکیریا کا ذہنی مریض اکثر چٹکیاں بھرتا رہتا ہے اور اسے سونے سے پہلے مختلف چہرے دکھائی دیتے ہیں لیکن موت کا خوف نہیں ہوتا.ناخنوں کے ساتھ جلد کھڑ جاتی ہے جو بہت تکلیف کا باعث بنتی ہے.یہ علامت
کلکیریا کارب 195 پٹرولیم میں بھی ہے ، جلد خشک ہو کرنا خنوں کو چھوڑ دیتی ہے جیسے خشک ایگزیما ہو.عام طور پر غم اور گہری اداسی کے دورے میں سوڈیم کی دوائیں مؤثر ہوتی ہیں ان میں نیٹرم میور، آرم میور اور گریشیولا (Gratiola) بھی شامل ہیں.اگر مریض غم زدہ ہو کر زندگی میں دلچسپی لینا چھوڑ دے تو ایمبرا گر لیسا اور آرنیکا بھی مؤثر ہیں.کلکیریا کارب کی ایک خاص علامت ڈپریشن ہے جو کسی اور دوا میں نہیں کہ ایک چھوٹی سی عمر کی بچی بھی غمزدہ ہو کر ہر چیز سے بے نیاز ہو کر بیٹھ جاتی ہے حالانکہ ابھی اس کے کھیلنے کودنے کے دن ہوتے ہیں.اگر بلوغت سے پہلے خصوصاً لڑکیوں میں اداسی کا ایسا دورہ پڑے تو اس کے فوری علاج کی ضرورت ہے کیونکہ وہ مایوس ہو کر بعض دفعہ خود کشی کی خواہش کرتی ہیں لیکن ان میں تشدد نہیں ہوتا اور غم کی کوئی ظاہری وجہ بھی دکھائی نہیں دیتی.یہ کلکیریا کارب کی ایک خاص علامت ہے.اس کا مریض زیادہ سوچ بچار نہیں کرتا.عام غم سے بھی جلد تھک جاتا ہے اور جسمانی کمزوری کی شکایت کرتا ہے.اگر کلکیر یا کا رب کے ساتھ کیلشیم کی ٹکیاں بھی استعمال کروائیں تو یہ تھکاوٹ کا اچھا علاج ہے.کلکیریا کارب کے مریض کو طرح طرح کے ڈراؤنے خواب آتے ہیں اور اندھیرے میں جن بھوتوں کے خیال سے ڈرتا ہے.خواب میں اپنے آپ کو بھی یا کسی حادثے میں ملوث دیکھے گا یا آگ لگنے کے خواب دیکھے گا.اس کی علامتوں میں ہر قسم کا سر درد ہوتا ہے لیکن دوسری دواؤں سے تمیز کرنے والی نشانی یہ ہے کہ سر در دروشنی سے بڑھتا ہے.دن کے وقت رات کی نسبت زیادہ سر درد ہوتا ہے.گریفائٹس کا سر دردبھی روشنی سے بڑھتا ہے کیونکہ دونوں میں کاربن کا عنصر موجود ہے.کار بود بیج میں بھی یہی علامت ہے.سر درد میں ٹھنڈی ٹکور سے آرام محسوس ہوتا ہے.اگر بچے کا سر بڑا ہونے لگے ، آنکھوں کی پتلیاں کمزور ہو جائیں اور بچہ رات کو سوتے میں دردناک چیخ مارے تو عموماً ایسے بچوں کا اپریشن کروانا پڑتا ہے جس میں شفا کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں.بچہ نیم پاگل سا ہو کر رہ جاتا ہے.اگر وقت پر ہومیو پیتھی علاج کیا جائے تو کلکیریا کارب کام کر سکتی ہے مگر زیادہ تر سلیشیا کی ضرورت پڑتی ہے جس
196 کلکیریا کارب کے اثر سے بعض دفعہ آنکھوں کے رستے اور بعض دفعہ کانوں کے رستے اچانک پانی خارج ہونا شروع ہو جاتا ہے.کبھی ایک آنکھ یا کان سے بکثرت پانی بہہ کر بچے کا تکیہ گیلا کر دیتا ہے اور اس طرف سے سر چھوٹا ہونے لگتا ہے.پھر چند دن کے بعد یہی عمل دوسری طرف شروع ہو جائے گا.اس بیماری کا جسے انگریزی میں ہائیڈرو کیفیس (Hydrocephalous) کہتے ہیں، بسا اوقات میں نے انہی دو دواؤں سلیشیا اور کلکیریا کارب سے ایسے متعدد بچوں کا کامیاب علاج کیا ہے.اگر بیماری کافی زیادہ آگے بڑھ چکی ہو تو کلکیریا کارب اونچی طاقت میں مفید ثابت ہوسکتی ہے مگر ضروری نہیں.آنکھ کے کورنیا میں بعض دفعہ سفید مواد آ جاتا ہے جو آہستہ آہستہ بہنے لگتا ہے اگر انفیکشن پرانی ہو تو مواد میں زردی آجاتی ہے.ایسی صورت میں بعض اور مشابہ دواؤں کے علاوہ کلکیریا کارب بھی مفید ہے.اگر کان کا مواد زرد رنگ کا ہو تو کلکیریا کارب کے دوا ہونے کا امکان اور بھی بڑھ جاتا ہے.کان کے پردوں میں پیدا ہونے والی کمزوری یا آہستہ آہستہ ظاہر ہونے والا بہرہ پن جس میں کان رفتہ رفتہ آوازوں کی تمیز کرنا چھوڑ دیتا ہے کلکیریا کارب کا تقاضا کرتا ہے.بعض اور دوائیں بھی مثلاً چینوپوڈیم (Chenopodium) مفید ثابت ہوسکتی ہیں.آنکھوں کی تھکاوٹ اور دباؤ سے پیدا ہونے والی کمزوری میں بھی کلکیریا کارب اچھی دوا ہے لیکن اونو سموڈیم (Onosmodium) آنکھوں کی تھکاوٹ کے لئے زیادہ موثر ہے.اس میں سر میں درد بھی ہوتا ہے جو آ کر ٹھہر جاتا ہے لیکن زیادہ شدت اختیار نہیں کرتا.اگر جلسیم 200 بھی ساتھ ملا کر دیں تو غیر معمولی فائدہ ہوتا ہے.بعض دفعہ موسم بدلنے سے طبیعت بوجھل اور پڑ مردہ ہو جاتی ہے.فضا میں کوئی ایسا اثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے جسم وقتی طور پر کمزوری محسوس کرتا ہے.کلکیریا کارب چونکہ مستقل اور لمبا عرصہ چلنے والی بیماریوں کی دوا ہے اس لئے ایسی مستقل بیماریوں میں کلکیریا کارب کی شفایابی کا عمل بھی آہستہ ہوتا ہے اور لمبے عرصہ تک وقفہ ڈال ڈال کر دینی پڑتی ہے.کلکیریا کارب کے مریضوں میں انڈا کھانے کی شدید خواہش ہوتی ہے.علاوہ ازیں
197 کلکیریا کارب ایسی چیزیں بھی کھاتا ہے جو ہضم نہیں ہوتیں مثلاً مٹی، کاغذ وغیرہ.اکثر ایسے بچے مستقل بد ہضمی کا شکار ہو جاتے ہیں.مریض کو سر کی چوٹی پر بوجھ کا احساس ہوتا ہے، سر میں درد ہو تو ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوتے ہیں.ذہنی دباؤ سے سر درد میں اضافہ ہو جاتا ہے.سر کی جلد پر خارش ہوتی ہے.آنکھیں روشنی برداشت نہیں کر سکتیں.پرانی قبض میں بھی کلکیریا کارب مفید ہے.سلیشیا اور ور ٹیم البم (Veratrum Album) بھی قبض کی اچھی دوائیں ہیں.وریٹرم البم عموماً کھلے اسہال میں کام آتی ہے اس لئے معالج کا ذہن قبض کی طرف نہیں جاتا حالانکہ یہ بخت ضدی قبض کے لئے بھی مفید ہے.بچوں میں ایسی ضدی قبض سلیشیا سے بھی کھل جاتی ہے لیکن اگر وہ اثر نہ کرے تو ور میٹرم البم ضرور دیں.کلکیریا کارب کی علامتیں ہوں تو وہی کام کرے گی.اس کے استعمال سے چند دنوں میں پیٹ میں نرمی پیدا ہو جاتی ہے اور قبض آہستہ آہستہ ختم ہو جاتی ہے.اس بیماری میں اس کا فوری اثر نہیں ہوتا.کلکیریا کارب مردوں اور عورتوں دونوں کی اندرونی کمزوریاں دور کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتی ہے.رحم کے نیچے کی طرف گرنے کے رجحان کو روکتی ہے.یہ ماہواری نظام کی خرابیاں بھی دور کرتی ہے اور عادتا بہت زیادہ خون جاری ہونے کی بہت اہم دوا ہے.یہ صرف بلیڈ نگ (Bleeding) ہی نہیں روکتی بلکہ اندر جو غدودیں وغیرہ بڑھ جاتی ہیں ان کا بھی علاج کرتی ہے.جہاں کسی ایک دوا کی واضح تشخیص نہ ہو سکے حسب ذیل تین دوائیں ملا کر دی جائیں تو حیض کے دوران زیادہ خون جاری ہونے کا اکثر مؤثر علاج ثابت ہوتی ہیں.وہ دوائیں یہ ہیں.کلکیریا کارب، میوریکس (Murex) اور سبائنا.30 طاقت میں چند مہینے تک دی جائیں ، شروع میں تین دفعہ روزانہ، پھر فائدہ ہونے پر صرف ایک دفعہ روزانہ کافی ہے.رحم کی رسولیوں کا بھی یہ مؤثر علاج ہے.کلکیر یا مزاج کی عورتوں کو بعض دفعہ بہت گاڑھا ہر وقت رسنے والا لیکوریا لاحق ہوتا ہے.اگر ایسی مریضہ میں بار بار حمل ضائع ہونے کا رجحان بھی ہو تو کلکیریا کا رب بہت قیمتی دوا ثابت ہوتی ہے.میں نے ایک دفعہ
198 کلکیریا کارب ایک ایسی ہی مریضہ کو یہ دوا دی جس نے اتنا اچھا اثر دکھایا کہ اسے اگلے حیض سے پہلے ہی حمل ٹھہر گیا اور بچے کی پیدائش تک اسقاط کی تکلیف نہیں ہوئی حالانکہ اس سے پہلے کئی حمل ضائع ہو چکے تھے.اسقاط حمل سے بچاؤ کے لئے صحیح دوا کی معین تشخیص بہت ضروری ہے.فیرم فاس، کلکیر یا فاس اور کالی فاس جو عمومی کمزوری اور خون کی کمی کو دور کرتی ہیں.یہ دوران حمل بھی اسقاط کے خلاف اچھا اثر دکھاتی ہیں.دوسری مددگار دوا جو اسقاط میں بہت مفید ہے کولو فائیلیم ہے.لیکن اگر مریض کی ساخت کلکیریا کارب والی ہو تو اسے بلاتر دو کلکیریا کا رب ہی دیں پھر کسی اور دوا کی غالبا ضرورت پیش نہیں آئے گی.چونکہ کلکیر یا کومزاجی دوا کے طور پر لمبے عرصہ تک دینا پڑتا ہے اس لئے مسلسل دیتے چلے جانے کی بجائے وقفے ڈال ڈال کر دینا بہتر ہے.کبھی دیں اور کبھی روک لیں.مریض کے ٹھیک ہونے کے بعد بھی چھ ماہ تک یہی عمل جاری رکھنے میں کوئی حرج نہیں.اگر کھانسی لمبی ہو جائے اور تھوک کے ذریعے خون آئے تو یہ بھی کلکیریا کی علامت ہے.اس میں کالی کا رب کی طرح پاؤں ٹھنڈے ہوتے ہیں.اگر عمومی کمزوری بہت بڑھ جائے تو ایسا مریض زیادہ دیر تک بیٹھ بھی نہیں سکتا اور کرسی سے پھسل پھسل جاتا ہے.اگر کسی مریض میں انتہائی کمزوری کے باعث بار بار سر تکیے سے نیچے ڈھلکتا ر ہے تو اس کی سب سے نمایاں دوا میوریٹک ایسڈ (Muriatic Acid) ہے جو فوری اثر دکھاتی ہے.اگر روز مرہ اسی طرح ہو تو اس کی بہتر دوا کلکیریا کا رب ہے.کلکیریا کارب میں کمر کے نچلے حصہ میں درد ہوتا ہے، کمر میں کمزوری محسوس ا ہوتی ہے اور بیٹھ کر اٹھنے سے تکلیف بڑھ جاتی ہے.مددگار دوائیں : سلفر، کلکیریا سے پہلے اور لائیکو پوڈیم بعد میں اور بیلا ڈونا.رسٹاکس.سلیشیا دافع اثر دوائیں کیمفر.اپی کاک نکس وامیکا.ٹائیٹرک ایسڈ طاقت 30 سے سی ایم (CM) تک
کلکیر یا فلور 48 199 کلکیر یا فلوریکا CALCAREA FLUORICA (Fluoride of Lime) کیلشیم فلورائیڈ ایک معدنی عنصر ہے جو چمکدار پتھریلی شکل میں دنیا بھر میں پایا جاتا ہے.صنعتی دنیا میں یہ ایک بہت مفید اور کارآمد شے ہے.انسانی جسم میں دانتوں ، ہڈیوں کی سطح، جلد کے لچکدار ریشوں ، عضلات اور خون کی رگوں کی بیماریوں سے اس کا گہرا تعلق ہے.اس کی کمی سے غدودوں میں پتھر کی طرح کی سختی پیدا ہو جاتی ہے اور دانت اور ہڈیاں بھر بھرے ہو جاتے ہیں.ہومیو پیتھی پوٹینسی میں تیار کردہ دوا کلکیر یا فلور خلیوں اور عضلات میں پیدا ہونے والی سختی کو دور کرنے کے لئے بہترین دوا ہے اور بہت گہرا اثر رکھتی ہے.اس کا جسم کے ہر عضو سے تعلق ہے خصوصاہڈیوں کی نشو ونما متاثر ہوتی ہے.ہڈیوں کی سطح اور وریدوں میں گانٹھیں اور گومر سے بن جاتے ہیں.رحم ڈھیلا ہو کر لٹک جاتا ہے.ناخن بدنما ہو جاتے ہیں.عورتوں کے سینے میں سخت گلٹیاں بنتی ہیں.یہ اور دوسری ہر قسم کی گلٹیاں جن میں کینسر بنے کا رجحان ہوان میں کلکیر یا فلور استعمال کرنی چاہئے.میرے مشاہدہ میں کئی ایسے مریض آئے ہیں جن کی کلائی کے غدود پھول کر سخت ہو گئے تھے.شروع میں روٹا اور ملتی جلتی دوائیں استعمال کروایا کرتا تھا لیکن افاقہ نہیں ہوتا تھا.کلکیر یا فلور دینے سے ایسے ہر مریض کو نمایاں فائدہ ہوا.بعض دفعہ گھٹنوں کے پچھلی طرف کے غم میں گلٹیاں بن جاتی ہیں، ان میں بھی کلکیر یا فلور اچھا اثر دکھاتی ہے.رحم کے غدودوں کے نسخہ میں دیگر دواؤں کے علاوہ کلکیر یا فلور بھی ضرور شامل کرنی چاہئے بسا اوقات یا کیلی ہی بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے.کلکیر بافلور آنکھ کے پردہ کے زخموں میں بھی بہت مفید ہے.خصوصا اگر کنارے بہت
کلکیر یا فلور 200 سخت ہو گئے ہوں.آنکھوں کے سامنے ستارے ناچتے ہوں، کورنیا پر دھبے نظر آتے ہوں، آنکھ کی رگیں سخت ہو جائیں تو کلکیر یا طور کو یاد رکھیں.کانوں کے پردوں میں تختی پائی جائے، کانوں میں گھنٹیاں بجتی ہوں، کان بہتے ہوں اور ناک کے پچھلے حصہ کے غدود جو گلے کے جوڑ سے ملتے ہیں بڑھ جائیں تو ان کے لئے کلکیر یا فلور کے علاوہ برائیٹا کارب بھی اچھی ثابت ہوتی ہے، لیکن جو غدود آہستہ آہستہ بڑھ کر پتھر کی طرح سخت ہو جائیں ان کی سب سے اہم دواکلکیر یا فلور ہی ہے.نزلہ زکام میں سخت بد بودار اور گاڑھی سبزی مائل رطوبت خارج ہوتی ہے.رخساروں اور جبڑوں کی ہڈی پر سوزش، دانتوں میں درد، مسوڑھے سوجے ہوئے ، زبان پر سختی اور سوزش نمایاں، دانت ہلنے لگتے ہیں اور کھانا کھاتے ہوئے سخت درد ہوتا ہے.حلق میں درد جسے گرم مشروب پینے سے آرام آتا ہے اور ٹھنڈی چیزوں سے تکلیف بڑھ جاتی ہے.مردوں اور عورتوں کے جنسی اعضاء کی تکلیفوں سے بھی اس کا تعلق ہے.بعض اوقات اعضائے رئیسہ میں خون کی نیلی رگ بن جاتی ہے جس سے خون نکلنے لگتا ہے.اس کے لئے کلکیر یا فلور کے علاوہ برائیٹا کا رب بھی مفید ثابت ہو سکتی ہے.کلکیر یا فلور اس بواسیر میں بہت کارآمد ہے جس کے مسے پھول کر بہت سخت ہو چکے ہوں اور اگر تھائیرائیڈ گلینڈ بھی سوج کر پتھر کی طرح سخت گلہڑ بن گیا ہو تو وہ بھی کلکیر یا فلور کے دائرہ کار میں آتا ہے.ایک دفعہ ایک مریض کو ایسے ہی پتھر کی طرح سخت مسوں کے لئے میں نے کلکیر یا فلور 1000 طاقت میں دی.ان کا تھائیرائیڈ بھی بہت بڑھا ہوا تھا جسے وہ کپڑے سے ڈھانپ کر رکھتے تھے اور مجھے اس کا علم نہیں تھا.انہیں شدید بخار ہو گیا لیکن وہ بہت بہادر آدمی تھے.سمجھ گئے کہ دوا کا اثر ظاہر ہوا ہے.کسی اور علاج کی طرف راغب نہ ہوئے.ایک ہفتہ کے اندراندر بخار اتر گیا اور بواسیر کے پتھر یلے مسے کے علاوہ گلہڑ بھی غائب ہو گیا.اس کی صرف تھیلی سی باقی رہ گئی.وہ بھی آہستہ آہستہ سکڑ کر چھوٹی ہو گئی.اسی طرح ایک نوے سالہ بزرگ مریض کو موتیا کے لئے کلکیر یا فلور اور زنکم سلف اونچی طاقت یعنی CM میں استعمال کروائی.اللہ کے فضل سے ان کی آنکھ شیشے
کلکیر یا فلور 201 کی طرح صاف ہو گئی اور وفات تک انہیں موتیا کی تکلیف دوبارہ نہیں ہوئی ورنہ اتنی زیادہ عمر میں اپریشن بھی ناممکن تھا.موتیا کے سلسلہ میں یہ بات یا درکھیں کہ کلکیر یا فلور کالے موتیے میں مفید نہیں ہے کیونکہ اس کی وجوہات بالکل اور ہوتی ہیں.کلکیر یا فلور میں متلی اور قے کی علامت بھی ملتی ہے خصوصاً بچوں کو غیر ہضم شدہ غذا کی قے آتی ہے.جو بچے پڑھائی کا بہت بوجھ محسوس کرتے ہیں اور ذہنی تھکاوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں وہ عموماً کھانے کے بعد متلی اور قے کا رجحان رکھتے ہیں.وجع المفاصل کی تکلیف کے ساتھ اسہال شروع ہو جاتے ہیں.بواسیر کے ساتھ کمر اور پیٹ میں درد ہوتا ہے.کمر کا درد حرکت سے بڑھ جاتا ہے لیکن مسلسل حرکت سے اس میں کمی آ جاتی ہے.بچوں کی ریڑھ کی ہڈی میں سوزش کی وجہ سے ران کی ہڈی بھی بڑھ جاتی ہے جو بہت تکلیف دہ ہوتی ہے.پیٹھ کے نچلے حصہ میں درد اور گردن کے غدود اکڑے ہوئے ہوں.انگلیوں کے جوڑوں پر کا تھیں اور سوزش اور گھٹنوں اور ٹانگوں میں اچانک شدید درد شروع ہو جاتا ہے.پاؤں پر سخت بد بودار پسینہ آتا ہے.ہاتھوں ، بازوؤں ، ٹانگوں اور کمر پر سے سے اگنے لگتے ہیں.کلکیر یا فلور میں مختلف جگہ جلد بہت نمایاں سفید ہو جاتی ہے.اپریشن کے بعد سلے ہوئے زخموں کے اردگرد جلد سکڑ جاتی ہے، زخموں میں پیپ بنتی ہے اور کنارے سخت ہوکرا بھر جاتے ہیں.کلکیر یا فلور عموماً آہستہ اثر کرنے والی دوا ہے اس لئے مسلسل کچھ عرصہ تک وقفوں وقفوں کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے.جب نتائج ظاہر ہونے لگیں تو بلا وجہ بار بار دہرانے سے احتراز لازم ہے.بسا اوقات اونچی طاقت میں زیادہ بہتر کام کرتی ہے.اس کی تکلیفیں موسم کی تبدیلی ، آرام اور مرطوب موسم میں بڑھ جاتی ہیں ، گرمی پہنچانے اور نکور سے افاقہ ہوتا ہے.طاقت بائیوکیمک 6x یا ہومیو پیتھک 30 سے سی.ایم (CM) تک
202
کلکیریا آیوڈائیڈ 203 49 کلکیر یا آیوڈائیڈ CALCAREA IODIDE (Iodide of Lime) کلکیر یا آیوڈائیڈ خاص طور پر غدودوں سے تعلق رکھنے والی دوا ہے.غدودسوج کر موٹے ہو جاتے ہیں.یہ علامت کئی دواؤں میں پائی جاتی ہے.جب لڑکیاں بلوغت کی عمر کو پہنچیں اور ان کے گلے کے غدود (Thyroid Glands) پھول جائیں تو اس وقت کلکیر یا آیوڈائیڈ کو فراموش نہیں کرنا چاہئے.کلکیریا کا خصوصیت سے اس دور سے تعلق ہے.ایسی بچیوں کو بلاتا خیر یہ دوادینی چاہیئے.کلکیر یا آیوڈائیڈ میں رحم کی رسولیاں بھی پائی جاتی ہیں.عام طور پر بچوں اور بعض دفعہ بڑوں میں ناک اور کان کی اندرونی جھلیاں پھول جاتی ہیں اور چھوٹی چھوٹی تھیلیاں سی بن جاتی ہیں.اگر ناک میں ایسی علامتیں پیدا ہوں تو مریض بہت خراٹے لینے لگتا ہے.ایسی صورت میں کلکیر یا آیوڈائیڈ بہت کارآمد بتائی جاتی ہے لیکن 30 طاقت میں اسے دو تین ماہ تک استعمال کرنا چاہئیے.غدود موٹے ہو جائیں تو ایک دم چھوٹے نہیں ہو سکتے.کلکیر یا آیوڈائیڈ کے زخموں میں مزمن ہونے کا رجحان پایا جاتا ہے.کالی آیوڈائیڈ میں یہ رجحان اس سے بھی زیادہ ہوتا ہے.اس میں زخم آ کر ٹھہر جاتے ہیں.کلکیر یا آیوڈائیڈ میں بال گرنے کا مرض بھی ملتا ہے.بال گرنے سے روکنے کے لئے کوئی ایسی دوا نہیں ہے جو بالعموم ٹکسالی کے نسخے کے طور پر استعمال کی جاسکے.ایک ضروری بات یا درکھیں کہ عموماً کلکیریا کے بعد سلفر نہیں دی جاتی کیونکہ اس سے نقصان پہنچتا ہے لیکن کلکیر یا آیوڈائیڈ کے بعد سلفر آیوڈائیڈ بہترین کام کرتی ہے.
204 کلکیر یا آیوڈائیڈ بیچ میں کوئی دوسری دوا داخل کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی.عموماً کلکیریا کے بعد لائیکو پوڈیم دے کر سلفر دیتے ہیں پھر کلکیریا.لیکن کلکیر یا آیوڈائیڈ کے بعد سلفر آیوڈائیڈ کی ضرورت پیش آتی ہے جو بے دھڑک دی جا سکتی ہے.کلکیریا آیوڈائیڈ سے مریض کی حالت کچھ سنبھلتی ہے لیکن مکمل شفا نہیں ہوتی اس کے لئے سلفر آیوڈائیڈ دینا ضروری ہے.طاقت : 30 یا حسب ضرورت اونچی طاقت میں
کلکیر یافاس 205 50 کلکیر یا فاس CALCAREA PHOSPHORICA کلکیر یا فاس کیلشیم اور فاسفورس کا مرکب ہے اور اس پہلو سے بہت گہری دوا ہے، اس سے زیادہ تر بائیو کیمک طریقہ علاج میں استفادہ کیا گیا ہے.لیکن وہاں بھی اس کا استعمال مزید توجہ کا محتاج ہے.کلکیریا فاس میں یہ بات یادرکھنے کے لائق ہے کہ یہ عورتوں کی بہترین دوست دوا ہے اور اس کی بہت سی علامتیں ایسی ہیں جو عورتوں کی روز مرہ بیماریوں میں ملتی ہیں.ان میں کلکیریا فاس کو ہمیشہ یادرکھنا چاہئے.جب بچیوں میں بلوغت کے آثار ظا ہر ہونے لگیں تو کئی قسم کی تکلیفیں شروع ہو جاتی ہیں.حیض کے ایام بہت تکلیف دہ ہوں ، خون زیادہ آئے یا ایام میں کمی بیشی ہوتو کلکیریا فاس کی ضرورت پڑتی ہے.اگر اس ابتدائی دور میں سردی لگنے کی وجہ سے ایام میں بے قاعدگی پیدا ہو جائے تو ساری عمر کا روگ لگ جاتا ہے اور اس وقت تک پیچھا نہیں چھوڑ تا جب تک کلکیر یا فاس استعمال نہ کی جائے.حیض کے ایام میں پیدا ہونے والی ہر بے قاعدگی کو فوراً وقتی طور پر پیدا ہونے والی علامتوں سے پہچانا بہت مشکل ہے جب تک بیماری کے پورے پس منظر سے واقفیت نہ ہو.اگر بڑی عمر میں جا کر ایسی تکلیفیں ظاہر ہوں تو علاج کرتے ہوئے عموماً خیال نہیں آتا کہ بچپن میں کیا بداحتیاطی ہوئی تھی.اس لئے ضروری ہے کہ بیمار خواتین سے ان کے آغاز جوانی میں واقع ہونے والے اندرونی عوارض کی تفصیل پوچھی جائے اور پتہ کیا جائے کہ بیماری کا آغاز کب اور کیسے ہوا تھا؟ اگر حیض کے ایام میں سردی لگ جائے اور حیض کی بے قاعدگی شروع ہو جائے تو کلکیر یا فاس کو فوراً استعمال کروانا چاہئے.اس کے استعمال کے بعد یہ تکلیفیں خدا کے فضل سے دوبارہ نہیں ہوں گی.
کلکیر یافاس 206 کلکیر یا فاس اور سیمی سی فیوجا میں یہ علامت مشترک ہے کہ حیض کے آغاز میں رحم میں اینٹھن ، درد اور شیخ ہوتا ہے لیکن ایک پہچان ایسی ہے جو دونوں کو ایک دوسرے سے ممتاز کر دیتی ہے وہ یہ کہ سیمی سی فیوجا میں جوں جوں خون کا بہاؤ زیادہ ہوتا ہے تکلیف بڑھتی ہے جبکہ کلکیر یا فاس میں خون شروع ہونے سے پہلے در دیں شروع ہو جاتی ہیں اور بہت تکلیف دہ تشخی دورے پڑتے ہیں اور سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے لیکن جب خون جاری ہو جائے تو آرام محسوس ہوتا ہے اور دوران حیض کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی.کلکیریا فاس کی یہ علامت اسے دوسری دواؤں سے ممتاز کرتی ہے عام طور پر میگنیشیا فاس شیخ کی بہترین دوا کبھی جاتی ہے اور صرف رحم میں ہی نہیں بلکہ سارے جسم کے شیخ میں کام آسکتی ہے.اگر شیخ کوگرمی پہنچانے سے آرام محسوس ہوتو میگنیشیا فاس دیں لیکن اگر سردی سے آرام آئے تو بیلا ڈونا، ایپس سیکیل اور پلسٹیلا بھی اچھی دوائیں ہیں.کلکیر یا فاس کے شیخ میں بھی گرمی پہنچانے سے آرام آتا ہے.کلکیر یا فاس عورتوں کے جنسی اعضاء میں شیخ کی بہترین دوا ہے.اگر جنسی خواہشات ضرورت سے زیادہ ہو جا ئیں جو ایک طبعی کیفیت کے نتیجہ میں نہیں بلکہ بیماریوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں تو کلکیر یا فاس کے علاوہ پلاٹینا، گریشیولا اور اوری کینم (Origanum) بھی کام آ سکتی ہیں.اگر پیشاب کرتے ہوئے رحم باہر آ جائے تو فوراً کلکیر یا فاس دینی چاہئے.کلکیر یا فاس میں عموماً کالے رنگ کے خون کے لوتھڑے آتے ہیں جب کہ کلکیر یا کارب اور فاسفورس میں خون کا رنگ سرخ ہوتا ہے.حیض عموماً وقت سے پہلے جاری ہو جاتا ہے.اگر جلدی خون شروع ہو جائے تو وہ سرخ ہوگا لیکن اگر دیر ہو جائے تو خون سیاہی مائل ہوگا.بعض دفعہ شروع میں سرخ پھر سیاہی مائل ہو جاتا ہے.کلکیر یا اس میں لیکور یا انڈے کی سفیدی کی طرح ہوتا ہے.صبح کے وقت علامات شدت اختیار کر لیتی ہیں.دودھ پلانے والی عورتوں کا دودھ نمکین ہوجاتا ہے اور بچہ دودھ پینے سے انکار کردیتا ہے.کلکیر یا فاس کا مریض بے ساختہ آہیں بھرنے لگتا ہے.سینہ دکھتا ہے.دم گھٹنے والا کھانسی
207 کالکبیر یا فاس شروع ہو جاتی ہے.لیٹنے سے آرام محسوس ہوتا ہے.آواز بیٹھ جاتی ہے.بائیں پھیپھڑے کے نچلے حصہ میں درد ہوتا ہے.ہوا لگنے یا خنکی سے جوڑوں کا درد شروع ہو جاتا ہے.خصوصاً کمر اور گردن میں اکڑاؤ پیدا ہو جاتا ہے.سر بو جھل محسوس ہوتا ہے اور اعضاء سن ہو جاتے ہیں.سردی یا موسم کی تبدیلی سے بیماریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے.سیڑھیاں چڑھتے ہوئے تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے.کھانا کھانے کے دو گھنٹے بعد دردمیں شروع ہو جاتی ہیں.کچھ کھا پی لینے سے تکلیف میں افاقہ ہوتا ہے.گرمی اور خشک موسم میں بیماری کم ہو جاتی ہے.کسی صدمہ کے اثر سے یادداشت میں فرق پڑ جاتا ہے.مریض کہیں اور جانے کی خواہش کرتا ہے تا تکلیف میں کمی ہو.کلکیریا فاس میں سردرد بہت شدید ہوتا ہے.سر گرم محسوس ہوتا ہے اور بالوں کی جڑوں میں درد ہوتا ہے.گلے کے غدود سوج جاتے ہیں اور منہ کھولنے سے درد ہوتا ہے.بچہ کے دانت نکالنے کے زمانے کی تکلیفوں کے لئے بھی یہ مفید ہے.اس میں دانت بہت آہستہ بڑھتے ہیں اور کیڑا لگنے کا رجحان پایا جاتا ہے.بچوں میں ایک علامت یہ ہے کہ وہ سارا وقت دودھ پینا چاہتے ہیں اور پھر الٹی کر دیتے ہیں.پیٹ میں شدید درد ہوتا ہے اور مروڑ اٹھتے ہیں.سخت اجابت کے بعد خون بھی آنے لگتا ہے.پھلوں کا جوس پینے سے اسہال جاری ہو جاتے ہیں جو سبزی مائل ہوتے ہیں.پیشاب بہت آتا ہے جس کے ساتھ کمزوری ہو جاتی ہے.گردوں کے مقام پر درد ہوتا ہے.اگر بوجھ اٹھایا جائے تو کمر میں درد ہوتا ہے.مددگار دوائیں روٹا.ہیپر سلف طاقت بائیو کیمک 6x میں ہومیو پیتھک 30 سے سی.ایم (CM) تک
208
کلکیر یا سلف 209 51 کلکیر با سلف CALCAREA SULPHURICA (Sulphate of Lime-Plaster of Paris) کلکیریا سلف اور کار بو نیم سلف میں سلفر کا عنصر مشترک ہے اور سلفر کی بہت سی علامات بھی لیکن کاربن کی بجائے کلکیریا کا عنصر شامل ہونے کی وجہ سے دونوں دوائیں الگ الگ مزاج رکھتی ہیں.کلکیر یا سلف کی ایک خاص علامت گہرے Abscess یعنی پھوڑے پیدا ہونے کا رجحان ہے.اس لحاظ سے یہ سلفر اور کلکیریا کارب دونوں سے ملتی ہے اور پائیر وجینم سے بھی اس کی مشابہت ہے.پائیرو بینم (Pyrogenium) متعفن پھوڑوں میں اس صورت میں کام آتی ہے جب خون میں تعفن پھیل جائے.سلیشیا کے پھوڑوں میں بھی تعفن ہوتا ہے لیکن اس میں عمو مأخون میں تعفن نہیں ہوتا ، جب ہو تو بہت سخت ہوتا ہے.گندے خون کے نتیجہ میں جو پھوڑے نکلتے ہیں ان میں پائیر وجینم کے علاوہ کلکیر یا سلف مفید ہے.اسی طرح کینسر کا رجحان رکھنے والے پھوڑوں سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے اور کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچاتی ہے.وہ کینسر کے زخم جوجلد پر ظاہر ہو کر نا سور بن جاتے ہیں اور رسنے لگتے ہیں ان میں بھی مفید ہے.کلکیر یا سلف مرگی کی بہترین دوا بتائی جاتی ہے.اس زمانہ میں مرگی کی بیماری میں بہت اضافہ ہو گیا ہے.اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں.وضع حمل کے وقت بعض ایسے علاج کئے جاتے ہیں جن کا بچوں کے دماغ پر اثر پڑتا ہے.بعض دواؤں کے بداثرات کے نتیجہ میں بھی مرگی کے دورے پڑنے لگتے ہیں.ایسے بچوں کے لئے ٹکسالی کے نسخوں کے علاوہ ایسی دوائیں ڈھونڈنی چاہئیں جن سے مرگی کا مکمل علاج ہو سکے.کلکیر یا سلف کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس سے مرگی کا قلع قمع ہو سکتا ہے.ڈاکٹر کینٹ جو ہومیو پیتھ بننے سے پہلے
210 کلکیر یا سلف بہت چوٹی کے ایلو پیتھک ڈاکٹر اور سرجن بھی تھے اور سارے جسمانی نظام کو سمجھتے تھے وہ کلکیر یا سلف کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ مرگی کو جڑوں سے اکھیڑ دیتی ہے.بعض اوقات دماغ میں ٹیومر کی وجہ سے مرگی ہو جاتی ہے.دماغ میں چوٹ لگنے کی وجہ سے بھی مرگی کے دورے پڑنے لگتے ہیں.بعض لوگوں کی کھوپڑی کی بناوٹ پیدائشی طور پر ہی ایسی ہوتی ہے کہ دیکھتے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ مرگی کا مریض ہے.ایسے مریض کے اندر مستقل پیدائشی نقص ہوتا ہے جس کا جڑ سے اکھیڑا جانا بظاہر ناممکن ہے.کینٹ کا یہ فقرہ کہ کلکیر یا سلف مرگی کا علاج ہے، ایسے پیدائشی مریضوں پر اطلاق نہیں پاتا.ہاں ان کا یہ تجربہ درست ہے کہ بہت سے مرگی کے مریضوں کو کلکیر یا سلف نے غیر معمولی فائدہ دیا ہے.اگر بچپن میں کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جس کے نتیجہ میں مرگی کے دورے پڑنے لگیں تو ایسی مرگی کا علاج ممکن ہے.ان بیماریوں میں ہیضہ اور پیچیش بہت نمایاں ہیں.اگر زہر یلے دست اور خطر ناک پیچش ہو اور ڈاکٹر کوئی دوا دے کر اس کو زبردستی ٹھیک کر دیں تو اس بات کا خطرہ ہوتا ہے کہ ایسے بچے کو مرگی ہو جائے.میں ایسے مریضوں کو کیو پرم دیتا رہا ہوں.اس کے علاوہ آرٹی میسا (Artemisia) مدرکچر بھی دی ہے.وقتی فائدہ تو ضرور ہوتا ہے لیکن ان کے ذریعہ مکمل شفا نہیں دیکھی.یہ دوائیں مستقل دینی پڑتی ہے.اونچی طاقت میں بھی دے کر دیکھی ہیں.دوروں میں لمبا وقفہ تو ضرور پڑ جاتا ہے لیکن مکمل شفا نہیں ہوتی.اس کا مطلب ہے کہ ہمیں بعض اور دوائیں تلاش کرنی چاہئیں جو مرگی کو مستقلاً جڑ سے اکھیڑ دیں.کینٹ کے نزدیک کلکیر یا سلف یہ طاقت رکھتی ہے.میرے مشاہدہ میں مرگی سے مکمل شفامحض اس صورت میں ہوئی ہے کہ وہ بیماری عود کر آئی جس کو دبانے کے نتیجہ میں مرگی شروع ہوئی تھی.اصل بیماری دوبارہ ظاہر ہونے پر بعض مددگار دوائیں دی جاسکتی ہیں مثلاً بخار کے لئے آرسنک وغیرہ اور پیٹ کا شیخ دور کرنے کے لئے میگ فاس وغیرہ لیکن اینٹی بائیوٹک اور بہت طاقتور دوائیں جو بیماری کو دبا دیں، ان سے احتر از لازم ہے.
211 کلکیر یا سلف مرگی کا علاج کرتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ "اورا (Aura) کہاں سے شروع ہوا ہے.اس کی تفصیل کے لئے دیکھیں کلکیریا آرس.بعض مریضوں میں جہاں خون کا رجحان چہرہ اور سر کی طرف ہو، عموماً بیلا ڈونا کی طرف خیال جاتا ہے لیکن بیلا ڈونا اس میں علاج نہیں ہے، کچھ تھوڑا فائدہ دے کر رک جاتی ہے.اور بھی کئی دواؤں میں خون کا رجحان سر کی طرف ہوتا ہے مثلاً ہائیڈ روسائینک ایسڈ (Hydrocyanic Acid).یہ گردن کے اندر سانس کی نالیوں میں تشیخ پیدا کرتا ہے اور چہرہ ایک دم تمتما اٹھتا ہے.خون چہرہ کی طرف ایک دم اکٹھا ہو جاتا ہے.ایسی صورت میں ہائیڈ روسائٹینک ایسڈ بھی مرگی کی دواؤں میں ایک نمایاں دوا بن جاتی ہے.اس کے علاوہ ہائیڈ روفو بینم (Hydrophobinum) کا بھی اس بیماری سے تعلق ہے.اس میں چمکدار چیزوں سے مریض کوگھبراہٹ ہوتی ہے.اگر چمکدار چیزیں دیکھنے سے مرگی کا دورہ پڑنے کا احتمال ہو تو اس صورت میں ہائیڈ رو فو بینم بہت مفید ہے اور یہ ایسی دوا ہے جسے ہائیڈ روسائینک ایسڈ سے ملا کر بھی دیا جائے تو یہ ایک دوسرے سے ٹکراتی نہیں ہیں بلکہ ایک دوسرے کی مددگار ہو جاتی ہیں.جس مریض کی مرگی ہومیو پیتھک دواؤں سے قابو میں نہ آئے اسے لازماً ایلو پیتھک طلب کی طرف منتقل کر دینا چاہیے.ایسی بہت طاقتور ایلو پیتھک دوائیں دریافت ہو چکی ہیں جو شیخ کو روک دیتی ہیں اور مریض ایک قسم کی دائمی غنودگی میں رہتا ہے لیکن تکلیف سے بچا رہتا ہے اور اس سے زیادہ اس کے لئے کچھ ہو نہیں سکتا.ایلو پیتھی کے علاوہ چینی طریقہ علاج بھی آزمایا جاسکتا ہے.کلکیر یا سلف عضلات کے کھچاؤ میں بھی بہت مفید دوا ہے.اگر طاقت سے بڑھ کر بوجھ اٹھا لیا جائے تو کمر پر بوجھ پڑ جاتا ہے.بعض دوسری دواؤں کے علاوہ کلکیر یا سلف بھی اس میں مفید دوا ثابت ہو سکتی ہے لیکن اس کا صرف کمر کے عضلات سے نہیں بلکہ سارے جسم کے عضلات سے تعلق ہے.بوجھ اٹھانے سے ٹانگ یا بازو کے پٹھے هیچ جاتے ہیں.یہ دوا ایسے سب عضلات پر اچھا اثر دکھاتی ہے جو طاقت سے بڑھ کر بوجھ
کلکیر یا سلف 212 اٹھانے سے بیمار پڑ جائیں.اگر چہرہ پر خون کا دباؤ بہت زیادہ ہو جائے اور شدید سنج پیدا ہو اور تشیخی رجحان صرف چہرہ پر ہی نہیں بلکہ جسم کے مختلف اعضاء میں بھی پایا جائے، چھاتی ، بازو، ٹانگ یا سر میں بھی اچانک خون کا دباؤ اور جکڑنے کا احساس ہو تو کلکیر یا سلف بھی علامتیں ملنے پر بہت مؤثر ثابت ہوسکتی ہے.ہڈیوں کی دردوں میں بھی مفید ہے.گلینڈز کی سوزش اور عضلات کے پھڑ کنے میں بھی کلکیر یا سلف کام آتی ہے خصوصاً اگر چہرے کے اعصاب پھڑ کنے لگیں.کمزور اعصاب کے مریضوں میں ذہنی دباؤ ہو اور عضلات ذہنی دباؤ کی وجہ سے پھڑکنے لگیں تو اس مرض میں کلکیر یا سلف کے علاوہ ایگیریکس اور کالی فاس بھی مفید ہیں.مریض کی تکلیف کھڑے ہونے سے بڑھتی ہے.بعض دفعہ وہ عورتیں جو کھڑے ہو کر کھانا وغیرہ بناتی ہیں ان میں یہ علامت نمایاں طور پر پائی جاتی ہے.کلکیر یا سلف میں شروع میں تو چلنے سے مریض کو آرام آتا ہے لیکن چلنے کے بعد جب خون گردش میں آتا ہے اور ٹانگیں گرم ہو جاتی ہیں تو اس کی تکالیف بڑھ جاتی ہیں.کلکیر یا سلف کا مریض عموماً اندیشوں کی حالت میں صبح آنکھ کھولتا ہے.یہ علامت کلکیر یا سلف کی دوسری علامتوں کے ساتھ مل کر اسے یقینی بنادیتی ہے.ذہنی محنت سے دماغ جلد تھک جائے یا چکر آنے لگیں اور چکر کے ساتھ مرگی سے مشابہ دورے پڑنے لگیں تو بھی کلکیر یا سلف مؤثر ثابت ہوسکتی ہے.آنکھوں کی بیماریوں میں اگر چیزیں دو دو نظر آنے لگیں اور روشنی آنکھوں میں چھے تو اس دوا کو یا درکھیں.بڑی عمر میں کانوں میں ہر طرح کی آوازیں آنے لگیں تو بھی یہ دوا مفید ہے.کلکیر یا سلف میں مستقل جاری نزلہ ہوتا ہے جو آ کر ٹھہر ہی جاتا ہے اور اندرونی جھلیوں کو گلا دیتا ہے.ایسے مستقل نزلاتی مریض بہت تکلیف دہ زندگی گزارتے ہیں.اگر دیگر علامتیں ملتی ہوں تو اس بیماری کے لئے یہ تیر بہدف دوا ثابت ہوتی ہے.کلکیر یا سلف زبان کے کھچاؤ اور سختی کے لئے بھی مفید ہے یعنی یہ فالجی کیفیت پر
کلکیر یا سلف 213 اثر انداز ہوتی ہے اور اس میں اچانک تشبیح کی علامت پائی جاتی ہے اور دم گھٹتا ہے.اس قسم کی گھٹن کا مزاج ہپر سلف میں بھی ملتا ہے.سانس کی نالی میں گھٹن اور تنگی کا احساس اور نزلہ کے بعد مستقل خراش باقی رہ جاتی ہے جس کی وجہ سے معمولی ہوا اندر جانے سے یا بولنے سے بھی سانس گھٹتا ہے.اگر تشخیص درست ہو تو کلکیر یا سلف گردے کی پرانی سوزش میں بھی مفید ہے.کلکیر یا سلف میں کسی ایک جگہ گرمی محسوس نہیں ہوتی بلکہ سارے جسم کو گرم کپڑا اوڑھنے سے اور بستر کی گرمی سے گھبراہٹ ہوتی ہے.کلکیر یا سلف جس کی مزاجی دوا ہوگی اس کے دمے اور کان کی تکلیفوں میں بھی فائدہ دے گی.اسی طرح جس شخص کی یہ مزاجی دوا ہو اس کے ملیریا کے قلع قمع کے لئے بھی یہ بہت کافی ہے.اس تعلق میں اس کی صرف یہ علامت بیان کی گئی ہے کہ بخار کے آغاز میں سردی پاؤں سے شروع ہوتی ہے.لیکن بہت سی دوسری دواؤں میں بھی یہی علامت پائی جاتی ہے.اس لئے صرف اسی علامت سے کلکیر یا سلف کی شناخت نہیں ہوسکتی.علامت کی تمیز کرنے کے لئے دیگر علامتوں کو بھی دیکھنا ہوگا.کلکیر یا سلف کی ایک علامت یہ ہے کہ آنکھوں سے زرد رنگ کی گاڑھی رطوبت خارج ہوتی ہے،نظر دھندلا جاتی ہے اور اکثر چیزیں صرف آدھی نظر آنے لگتی ہیں.کان سے بھی خون کی آمیزش کے ساتھ رطوبت نکلتی ہے.ناک سے بھی نزلہ میں زردی مائل مواد خارج ہوتا ہے.گلے میں درد اور زرد رنگ کی بلغم کا اخراج ہوتا ہے.اسی طرح اسہال میں بھی پیپ کی طرح کا چکنا مواد نکلتا ہے جس میں بسا اوقات خون کی آمیزش بھی ہوتی ہے.کلکیر یا سلف میں خارش بھی ہوتی ہے، زخموں سے پیپ نکلتی ہے اور یہ زخم جلد.مندمل نہیں ہوتے.پیلے رنگ کے کھرنڈ بن جاتے ہیں.بالوں کی جڑوں میں سخت سے دانے بنتے ہیں جن میں خارش ہوتی ہے اور جلد خون نکل آتا ہے.بچوں کے خشک ایگزیما میں بھی کلکیر یا سلف کی یہی علامت ہے.کلکیر یا سلف کے مزاجی مریض میں نیند کا
کلکیر یا سلف 214 سکون بسا اوقات اس کے پریشان خوابوں سے بکھر جاتا ہے.اس دوا کی چند خوراکوں ہی سے وہ پریشانی خواب و خیال ہو جاتی ہے اور مریض کی نیند گہری اور پرسکون ہو جاتی ہے.طاقت: 30 سے سی.ایم (CM) تک
کیلنڈ ولا 215 52 کیلنڈ ولا CALENDULA OFFICINALIS (Marigold) کیلنڈ والا کے لوشن کو عام طور پر زخموں کے علاج کے لئے بیرونی طور پر استعمال کیا جاتا ہے.مگر اندرونی طور پر بھی یہ دوا ہو میو پیتھک پوٹینسی میں کھلانے سے زخموں کے بھرنے میں بہت مفید ثابت ہوئی ہے.پرانے زخم جو مندمل ہونے کا نام نہ لیں ان میں اند مال کا رجحان پیدا کرنے میں کیلنڈ ولا 200 طاقت میں بہت مؤثر ثابت ہوئی ہے.جن زخموں میں بیرونی طور پر لوشن کے استعمال سے فائدہ نہیں ہوتا ، یہ ان کو بھی خشک کر دیتی ہے.کیلنڈ ولا اور ہمیپر سلف یا سلیشیا میں یہ بنیادی فرق ہے کہ کیلنڈ ولا اندرونی جسمانی کمزوری کو دور کر کے شکست وریخت کے کام کی مرمت کے لئے جسمانی صلاحیت کو بیدار کرتی ہے جبکہ ہسپر سلف اور سلیشیا انفیکشن کا مقابلہ کرتی ہیں.ایسے مریض جن کے اپریشن ہوئے ہوں اور ان کے زخم مندمل نہ ہوتے ہوں ان کے لئے کیلنڈ ولا بہت مفید ہے بشرطیکہ ریڈی ایشن (Rediation) کے ذریعہ زخم کے اردگرد کے خلیوں کو ضائع نہ کر دیا گیا ہو.مقامی طور پر زخموں پر خالص شہد لگانے سے بھی فائدہ ہوتا ہے اور شہد میں بھی بعض دفعہ کیلنڈ والا سے بھی بڑھ کر شفا کا اثر ملتا ہے.ہر قسم کے بیڈ سور (Bed Sores) کے لئے عموماً آرنیکا اور ہائی پیریم (Hypericum) استعمال کئے جاتے ہیں لیکن اگر یہ دونوں دوائیں کام نہ کریں تو کیلنڈ والا دوسو طاقت میں دینے سے کچھ فائدہ ضرور ہوگا.مکمل شفا بھی ہوسکتی ہے.دانت نکلنے کے بعد خون بند نہ ہو تو کیلنڈ والا اس میں بھی مفید ہے.مرطوب اور ابر آلود موسم میں اس کی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.
کیلنڈ ولا 216 مددگار دوائیں : هیپر سلف دافع اثر دوائیں : چیلی ڈونیم طاقت: Q تا 200
کیمفر 217 53 کیمفر CAMPHORA (Camphor) کیمفر یعنی کافور کی سب سے نمایاں علامت یہ ہے کہ اس کے مریض میں بیماری کے دوران جسم کی بیرونی سطح بالکل ٹھنڈی ہو جاتی ہے لیکن اندرونی طور پر مریض کو بہت گرمی کا احساس ہوتا ہے.بے حد نقاہت اور کمزوری محسوس ہوتی ہے.تشنجی کیفیات بھی بہت نمایاں ہیں.اگر جسم بالکل ٹھنڈا ہو اور شیخ کی کیفیت پائی جائے تو کوئی بھی بیماری ہو اس میں کیمفر مفید ہوگی.ہیضہ میں بھی بہت مؤثر دوا ہے خصوصاً گم ہیضہ جس میں بغیر درد کے دست ہوتے ہیں یا دست ہوتے ہی نہیں لیکن یکدم توانائی ختم ہو کر سارا جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے.اس میں کیمفر چھوٹی طاقت میں دینے سے غیر معمولی فائدہ پہنچتا ہے.اگر ہیضہ کی حالت میں معدہ اور ہاتھ پاؤں میں تشنج نمایاں ہو تو کیو پرم دوا ہے لیکن تشنج کے ساتھ اعضاء برف کی طرح ٹھنڈے ہو جا ئیں اور ٹھنڈا پسینہ آئے تو یہ کیمفر کی خاص علامت ہے.کیمفر کے ہیضہ میں متلی بھی نمایاں ہوتی ہے.کیمفر میں شدید خوف اور اندیشے بھی پائے جاتے ہیں.اس پہلو سے یہ ایکونائٹ سے مشابہ ہے سوائے اس کے کہ ایکونائٹ میں ایسی سردی نہیں ہوتی جو کیمفر کا طرۂ امتیاز ہے.اگرا یکونائٹ کی طرح اچانک بیماری شروع ہو اور اس میں خوف غالب ہو اور تشیخ بھی پایا جائے لیکن مریض بہت ٹھنڈا ہو توا یکونائٹ کی بجائے کیمفر دوا ہوگی.اگر بیماری میں شدت ، تپش اور تیزی پائی جائے تو ایکونائٹ مفید ہے.کیمٹر کا لیفترس (Canthuries) سے بھی ایک تعلق ہے اور پینتھرس کے اثر کو زائل بھی کرتا ہے.کیتھرس میں گردوں کی جھلیاں متورم ہو جاتی ہیں اور پیشاب کی نالی میں جلن
کیمفر 218 اور سوزش پیدا ہو جاتی ہے.قطرہ قطرہ پیشاب بہت جل کر آتا ہے.یہ علامتیں ایک حد تک کیمفر میں بھی پائی جاتی ہیں.بعض اوقات سینتھرس کا زہر دینے سے گردوں میں مستقل سوزش ٹھہر جاتی ہے جو مریض کو اعصابی لحاظ سے بھی متاثر کرتا ہے، ایسی صورت میں کیمفر اس اثر کو زائل کرتی ہے اور یہ صرف عارضی دوا نہیں بلکہ مستقل طور پر بھی بعض بیماریوں کے بداثرات مثانے کے لئے مفید ہے.کیمفر کا مریض پہنی لحاظ سے بہت کمزور ہو جاتا ہے.حافظہ جواب دے دیتا ہے، اکیلے رہنے سے خوف محسوس کرتا ہے، چکر آتے ہیں اور بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے.آنکھیں بند کر کے لیٹا رہتا ہے، لگتا ہے کہ سو گیا ہے لیکن سوتا بھی نہیں.دنیا سے بے تعلق سا ہو جاتا ہے.اس میں جنون اور شدید غصہ کی علامت بھی پائی جاتی ہے.یہ علامت کینتھرس اور ہائیوںمس (Hyoscyamus) دونوں میں ملتی ہے.سوزش دماغ کی طرف منتقل ہوتی ہے اور مریض دیوانگی اور تشدد پر اتر آتا ہے.اگر رحم کے انفیکشن کے نتیجہ میں بخار ہوتو پائیر چین اور سفر کے علاوہ کیمفر بھی اچھی دوا ہے.اگر جسم ٹھنڈا ہو تو کیمفر سے علاج شروع کرنا چاہئے.بعض اوقات بخار دب جاتا ہے اور جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے.اس وقت سلفر کی بجائے کیمفر ضروری ہے.جب وہ بخار کو باہر نکال لائے تو سلفر اور پائیر و جینم ملا کر دینی چاہئے.کیمفر میں جسم ٹھنڈا ہونے کے باوجود پسینہ میں تر بتر ہوتا ہے لیکن مریض جسم پر کپڑا اوڑھنا برداشت نہیں کرتا ، اندرونی گرمی کے شدید احساس کی وجہ سے بعض دفعہ کپڑے بھی اتار پھینکتا ہے.جسم پر کپڑا برداشت نہ کرنے کی علامت سیکیل (Secale Car) میں بھی پائی جاتی ہے.لیکن فرق یہ ہے کہ سیکیل کا مریض گرمی محسوس کرتا ہے اور اس کا جسم بھی گرم ہوتا ہے.کیمفر کا مریض باوجود ٹھنڈا ہونے کے کپڑا نہیں لیتا.کیمفر کی علامتیں ایکونائٹ کے علاوہ کیمومیلا سے بھی ملتی ہیں.کیمومیلا کا مریض غصیلا اور غیر مطمئن ہوتا ہے، کوئی چیز مانگے تو لے کر پرے پھینک دیتا ہے.اگر ایسے مریض کیمومیلا کا نمایاں مزاج نہ رکھتے ہوں تو پھر کیمفر سے ان کا علاج کیا جا سکتا ہے.
کیمفر 219 کیمفر میں گرمی اور سردی کا اولنا بدلنا بھی پایا جاتا ہے.جب جسم ٹھنڈا ہو تو درمیان میں ایک دم جسم تھوڑی دیر کے لئے گرم بھی ہو جاتا ہے.یہ کیفیتیں اولتی بدلتی رہتی ہیں جس کا مطلب ہے کہ بخار دب کر اندرونی اعضاء میں منتقل ہورہا ہے.جب بخار دب کر اندر ریڑھ کی ہڈی میں چلا جائے یا دماغ میں منتقل ہو جائے تو جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے.مگر جسم بار بار بیماری کے خلاف مدافعت کرتا ہے اور اسے دھکیل کر باہر لانے کی کوشش کرتا ہے.لہذا جسم کبھی ٹھنڈا اور کبھی گرم ہو جاتا ہے.اس صورت حال میں کیمفر بہت مفید ہے.عورتوں کی ادھیڑ عمر میں جب حیض بند ہونے کا وقت آئے تو بسا اوقات کئی قسم کی تکلیفیں شروع ہو جاتی ہیں.چہرے پر گرمی کی لہریں محسوس ہوتی ہیں.اس میں دوسری دواؤں کے علاوہ کیمفر کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیئے.ایسی عورتیں جو کیمفر سے آرام محسوس کرتی ہیں کپڑا اتار دیں تو سخت ٹھنڈ محسوس کرتی ہیں اور کپڑا اوڑھیں تو پسینہ سے تر بتر ہو جاتی ہیں.کیمفر کا سر درد سارے سے میں نہیں ہوتا بلکہ یا تو سر کی پشت پر شروع ہوگا یا پیشانی پر وہ سر درد جو سر کے پیچھے اور گردن کے نچلے حصہ میں محدود ہو نیز دھڑکن بھی پائی جائے اس کا کیمفر سے علاج ممکن ہے.تشنج اور دندل پڑنے ( بتیسی بند ہونے ) میں کیمفر بطور علاج مشہور ہے.بسا اوقات گرمی کی شدت سے یا اندرونی کمزوریوں کی وجہ سے عورتوں کو دندل پڑ جاتے ہیں.منہ زبردستی کھول کر اندر دوا ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے.کیمفر کی چھوٹی طاقت کی ہومیو دوا سے صرف ہونٹ گیلا کر دیں تو وہ خود بخود داثر دکھائے گی اور یہ کیفیت جاتی رہے گی یہ شیخ اور دندل پڑنے سے ہونٹ نیلے ہو جاتے ہیں.صرف ہونٹ ہی نہیں بلکہ زبان بھی نیلی ہو جاتی ہے.یہ کیمفر کی خاص علامت ہے.کیمر کے مریض کی پیاس پانی پینے سے بھی نہیں.بہت ہی ٹھنڈا پانی پینے کو دل چاہتا ہے.گیس کی تکلیفوں میں متلی اور قے کا رجحان پایا جاتا ہے.قے کے بعد معدے میں
کیمفر 220 ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے.اگر متلی اور قے نہ ہو تو جسم برف کی طرح ٹھنڈا ہوتا ہے، غذا کا ذائقہ کڑ وامحسوس ہوتا ہے.کیمفر میں اسہال کی نسبت قے کا زیادہ رجحان ہوتا ہے.اسہال تھوڑے تھوڑے آتے ہیں اور ان کے ساتھ کمزوری اور شیخ ضرور ہوتے ہیں.اگر اسہال اور الٹیاں بہت زیادہ ہوں اور صبح پنڈلیوں پر اثر کرے تو وریٹرم البم (Veratrum Album) چوٹی کی دوا ہے.دونوں دواؤں میں جسم ٹھنڈا ہوتا ہے لیکن ور پیٹرم البم میں صرف پیشانی پر ٹھنڈا پسینہ آتا ہے.اور میٹرم البم دو انتہاؤں کے درمیان ہے، یا سخت قبض ہوتی ہے یا بہت کھلے اسہال.انتہائی سخت اور ضدی قبض جو ہفتہ ہفتہ چل رہی ہو، اس میں جب کوئی اور دوا کام نہ آئے تو ور بیرم البم کی چند خوراکیں اثر دکھاتی ہیں.مثانے میں فالجی اثرات نمایاں ہوں اور زور لگا کر پیشاب آئے تو کیمفر مفید دوا ہے.مثانہ پیشاب سے بھرا ہونے کے باوجود پیشاب رک جاتا ہے.جلن اور تشیخ پیدا ہوتا ہے.مثانے کے فالجی اثرات میں کیمفر بہت نمایاں ہے.کیمفر کا جنسی اعضاء پر بھی اثر ظاہر ہوتا ہے.اگر بہت زیادہ مقدار میں استعمال کیا جائے تو مریض ہمیشہ کے لئے جنسی طاقت سے محروم ہو جاتا ہے.بعض اوقات اس کے بالکل برعکس نتیجہ پیدا ہوتا ہے اور غیر معمولی جوش پیدا ہو جاتا ہے جو صحت کی علامت نہیں ہے.جہاں کسی دوا میں اس قسم کی متضاد علامتیں ملتی ہوں اسے خاص طور پر ذہن میں رکھنا چاہئے تا کہ عین موقع پر وہ دو یا د آ جائے.کیمفر میں بار بار نزلے اور بلغمی کھانسی کا بھی رجحان ہے اور اس لحاظ سے یہ اینٹی مونیم کروڈ اور امونیم کا رب کے ہم پلہ ہے.یہ دونوں دوائیں اس مستقل کمزوری کو جو بار بار نزلے کو دعوت دیتی ہو، دور کرتی ہیں.موسم کی معمولی سی تبدیلی سے فور نزلہ شروع ہو جاتا ہے.ناک ٹھنڈی ہوتی ہے اور رطوبت بہتی ہے.ہوا کی نالیوں میں بلغم پھنسنے کا رجحان ہوتا ہے جس سے سانس گھٹتا ہے.گہرا سانس مشکل سے آتا ہے، سانس کھینچنے پر کھانسی شروع ہو جاتی ہے اور دل کی دھڑکن بہت تیز ہوتی ہے.
کیمفر 221 کیمفر کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ درد کا احساس درد کی جگہ پر توجہ دینے سے کم ہو جاتا ہے.مریض سردی اور چھونے سے زود حس ہوتا ہے جس سے تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے.اپریشن کے بعد اگر جسم کا درجہ حرارت بہت زیادہ گر جائے اور خون کے دباؤ میں کمی ہو تو کار بو ویج کے علاوہ کیمفر کی چند خوراکوں سے بھی فوری فائدہ ہوتا ہے.کیمفر کے مریض کی آنکھیں بے ہوشی کی حالت میں ایک جگہ گڑی ہوئی اور پتلیاں پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہیں.اسے تمام اشیاء بہت چمکدار اور بھر کیلی نظر آتی ہیں.آنکھوں کے سامنے چنگاریاں اور روشنی کے دھبے نظر آتے ہیں.آنکھوں کی تکلیفیں سورج کی روشنی میں بڑھ جاتی ہیں.چہرہ زرد اور کھنچا ہوا اور زندگی کے احساسات سے عاری معلوم ہوتا ہے.ٹھنڈا پسینہ بھی آتا ہے جو کینسر کا خاصہ ہے.عام طور پر سردی لگنے سے دست شروع ہو جاتے ہیں جو سیاہی مائل ہوتے ہیں اور بہت کمزوری پیدا کرتے ہیں.زبان اور منہ میں ٹھنڈک کا احساس نمایاں مگر ساتھ ہی ایک نہ بجھنے والی پیاس.مددگاردوا کینتھرس دافع اثر دوائیں : فاسفورس.اوپیم طاقت : 30 تک
222
کینیبس انڈیکا 223 54 کینییس انڈیکا CANNABIS INDICA کینییس انڈیکا ہندوستانی حشیش یعنی بھنگ کو کہتے ہیں.یہ کوہ ہمالیہ کی وادیوں اور تبت کی سطح مرتفع پر اگتی ہے.قدیم زمانہ سے آج تک اسے نشہ کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے.جو لوگ بھنگ کو بہت زیادہ مقدار میں استعمال کرتے ہیں وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ جاتے ہیں.وہ گویا آسمانوں کی سیر کرتے ہیں، ان کے لئے وقت تھم جاتا ہے اور ایک لمحہ قبل کی باتیں بھی صدیوں پرانی معلوم ہوتی ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ وہ بیشگی کی زندگی میں داخل ہو گئے ہیں.ہو میو پیتھی میں اس دوا کی جو علامتیں ظاہر ہوئی ہیں ان میں بھی اڑنے اور فضا میں لہرانے کا احساس بیان کیا جاتا ہے.وقت ٹھہر جاتا ہے، گزرتا ہی نہیں.اگر یہ کیفیت کسی عام آدمی کی ہو تو اس کی روز مرہ کی زندگی اجیرن ہو جائے.تھوڑا سا کام کر کے یہ محسوس ہوتا ہے کہ میں گھنٹوں سے کام کر رہا ہوں.احساسات اور جذبات میں مبالغہ کی شدت پیدا ہو جاتی ہے.سب اعضاء میں جوش ہوتا ہے جس کی وجہ سے بعض دفعہ ہاتھ پاؤں لرزنے لگتے ہیں اور بے حد کمزوری پیدا ہو جاتی ہے.خون کا دوران دماغ کی طرف نہیں جاتا، چہرہ خون سے بھر جاتا ہے اور آنکھیں پتھرا جاتی ہیں.اس بیماری کا نام Catalepsy ہے.کینیبس Catalepsy میں بہت مفید ہے.اس کی کئی علامتیں او پیم سے ملتی جلتی ہیں.اوپیم بھی Catalepsy کی بہترین دوا ہے.کینیبس میں جلد کی حس ختم ہو جاتی ہے.مریض خیالات اور نظاروں سے مزے اٹھاتا ہے جبکہ ہائیوںمس اور سٹرامونیم کے نظارے خوفناک ہوتے ہیں جن سے مریض لطف اندوز نہیں ہوتا.بھنگ پینے والے اپنے وجود کو دو حصوں میں تقسیم سمجھتے ہیں.ایک ان کی ذاتی شخصیت ہوتی ہے اور دوسری کو وہ آسمانوں میں مقیم سمجھتے ہیں.اسی وجہ سے اس کے اکثر
کینییس انڈیکا نشہ بازوں کو بہت پہنچے ہوئے پیر سمجھا جاتا ہے.224 کینہس کے مریض سنجیدہ باتوں پر بھی ہنتے رہتے ہیں.نہ بنسی پر قابو ہوتا ہے نہ رونے پر کبھی ہنستے ہیں تو ہنتے ہی چلے جاتے ہیں اور روتے ہیں تو روتے ہی چلے جاتے ہیں.یہ رجحان گہرے مرض کی نشاندہی کرتا ہے.ہنسنا اور رونا دھوپ چھاؤں کی طرح ساتھ ساتھ چلے اور اس میں پاگل پن کی مستقل علامت کی بجائے وقتی نشے کی کیفیت ہو تو یہ کینیس انڈیکا کی علامت ہے.نشہ ختم ہونے کے بعد جو علامتیں پیدا ہوتی ہیں وہ الگ سے سمجھنی چاہئیں.دماغ کو نقصان پہنچنے کے نتیجہ میں مریض موت سے بہت خوفزدہ رہتا ہے.کینیس کے مریض کو ہر وقت یہ خدشہ بھی رہتا ہے کہ وہ پاگل ہو جائے گا.اندھیرے سے ڈرتا ہے.ایسا مریض مسلسل بے تکی بحثیں کرتا رہتا ہے.اس کی سوچ میں منطقی ربط نہیں رہتا.بھنگ کے عادی لوگ عام طور پر بات کرتے ہوئے فقرہ مکمل نہیں کرتے.جولوگ نشہ کے بغیر ہی ایسار جحان رکھتے ہوں.ان کو کینیپس کے استعمال سے فائدہ ہوسکتا ہے.ہو میو پیتھ معالجوں نے پروونگ (Proving) کے دوران یہ تجربہ کیا ہے کہ کینیبس کے مریض میں خیالات کا ہجوم اتنا زیادہ ہو جاتا ہے کہ ان کے بیان کی کوشش میں مریض بے ربط جملے بولنے لگتا ہے.خیالات برانگیختہ ہو جاتے ہیں.دماغ میں صرف الفاظ ہی نہیں بلکہ خیالات اور تصورات بھی نامکمل ہوتے ہیں.اچھی بھلی بات کرتے کرتے بغیر دلیل اور بغیر منطق کے کچھ اور بولنے لگتے ہیں کیونکہ اچانک ایک نیا خیال ذہن میں آجاتا ہے.اس سے وہ بہت پر جوش ہو جاتے ہیں اور پھر اسی کی باتیں کرنے لگتے ہیں.تصور کی دنیا میں کھو جاتے ہیں.موسیقی سے بہت لطف اندوز ہوتے ہیں.کبھی جذبات میں جوش اور انتشار بھی پایا جا تا ہے.کیمپس کے مریض کے سر میں لہریں مارتے ہوئے درد کا احساس ہوتا ہے جس کے ساتھ دھڑکن بھی سنائی جاتی ہے، گدی میں بوجھ محسوس ہوتا ہے، کنپٹیوں میں بھی دھڑکن کا احساس ہوتا ہے.
225 کینیبس انڈیکا یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ایک شخص کے ذہنی خیالات دوسرے کے ذہن کی طرف منتقل ہو سکتے ہیں.دور کی جگہ پر رکھی ہوئی چیزیں ایک چھٹی جس کے ذریعہ معلوم ہو جاتی ہیں.دنیا کے بعض مؤقر سائنس دانوں نے اپنے تجربات سے بذریعہ تحقیق یہ ثابت کیا ہے کہ یہ محض و ہم نہیں بلکہ انسان کے اندر ایک دبا ہوا ملکہ ہے.اگر کسی نفسیاتی بیماری کی وجہ سے یہ کیفیت ہو تو کینییس استعمال کرنی چاہئے.کینیس کا مریض نیند میں دانت کٹکٹاتا ہے.بولتے ہوئے ہکلاتا ہے.پانی پینے سے تو نہیں گھبرا تا مگر پانی سے ہاتھ پاؤں دھونے اور نہانے سے گھبراتا ہے.پیٹ میں بہت ہوا بنتی ہے.سارے پیٹ میں سخت تناؤ ہوتا ہے.کینیس کے مریض کو بکثرت پیشاب آتا ہے اور یہ علامت اسے او پیم سے ممتاز کرتی ہے.اوپیم میں پیشاب رک جاتا ہے اور خشکی پائی جاتی ہے.تمام اخراجات خشک ہو جاتے ہیں.کینیبس میں گردوں کی بیماریاں بھی ہوتی ہیں.بار بار پیشاب آتا ہے لیکن ہر دفعہ پیشاب آنے کے لئے کچھ انتظار کرنا پڑتا ہے اور پیشاب ختم بھی آہستہ آہستہ ہوتا ہے.پیشاب کی نالی میں جلن اور ہلکے درد کی شکایت بھی ہوتی ہے.کینی بس سٹائیوا میں بھی یہ علامت ملتی ہے لیکن کینیس انڈیکا کے مقابل پر بہت زیادہ.اس لئے سوزاک کی دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے.سوزاک کے بعض مریضوں کو اس کی CM میں ایک ہی خوراک دینے سے شفا ہو جاتی ہے.یہ دبے ہوئے سوزاک کو ابھارنے اور پھر ٹھیک کرنے میں بھی بہت مفید ثابت ہوئی ہے.اس مرض کے ازالے کے لئے مرک کا ر بھی CM طاقت میں مفید بتائی جاتی ہے.لینس انڈیکا میں حیض دب جاتا ہے اور حمل ضائع ہونے کا رجحان بھی ہوتا ہے.جنسی جوش اور تحریک پائی جاتی ہے.دل کی تکلیف رات کو زیادہ محسوس ہوتی ہے.دباؤ اور سانس گھٹنے کا احساس ساری رات رہتا ہے جو دن میں چلنے پھرنے سے ٹھیک ہو جاتا ہے.رات ہوتے ہی تکلیف دوبارہ شروع ہو جاتی ہے.کمر کے عضلات کی کمزوری کی وجہ سے کئی لوگ کبڑے ہو جاتے ہیں.اگر شروع میں علامات پید اہوتے ہی
226 کینیس انڈیکا یہ دوادی جائے تو فائدہ کا امکان ہے ورنہ یہ بیماری بڑھ جانے کے بعد کوئی دوا فائدہ نہیں دیتی.وقت سے پہلے کپڑے پہنا کے رجحان کو ختم کرنے کے لئے کی نہیں اٹھ یا مفید ثابت ہو سکتی ہے.نچلے دھڑ میں خصوصاً چلتے ہوئے ٹانگوں میں دردیں ہوں تو کینیس انڈیکا سے فائدہ ہوگا.بازوؤں اور ہاتھوں میں کپکپاہٹ ہوتی ہے جو نچلے دھڑ تک جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے.ٹانگوں میں فالجی کیفیت بھی پائی جاتی ہے.کینیس انڈیکا کی پہچان کرنے والی ایک علامت یہ ہے کہ مریض کو نیند آتی ہے لیکن وہ سو نہیں سکتا.کینییس انڈیکا میں جلد کسی ہوئی اور تنی ہوئی ہوتی ہے.یہ علامت او پیم میں بھی پائی جاتی ہے.کی نیبس کی تکلیفیں صبح کے وقت، دائیں لیٹنے اور تمباکو وغیرہ قسم کے نشوں کے استعمال سے بڑھ جاتی ہیں.تازہ ہوا اور آرام کرنے سے سکون محسوس ہوتا ہے.نیند آتی ہے پر نہیں آتی.طاقت: بالعموم 30 طاقت یا بہت اونچی
ائیوا 227 55 کینیبس سٹائیوا CANNABIS SATIVA کینیبس سٹائیوا کی علامتیں کینیس انڈیکا سے بہت حد تک ملتی ہیں بلکہ کئی ہومیو پیتھ ایک کی جگہ دوسری کو بھی استعمال کر لیتے ہیں.یہ ایک دوسرے کے اثر کو زائل بھی کرتی ہیں.کینی بس سٹائیوا کی علامات کینیبس انڈیکا سے زیادہ شدید ہوتی ہیں.مثلاً کینیس انڈیکا کے مریض میں یہ احساس پایا جاتا ہے کہ میں دو شخصیتوں میں منقسم ہو گیا ہوں.مریض بہت یقین، وضاحت اور لطف کے ساتھ یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بیک وقت دو دنیاؤں میں بس رہا ہے لیکن کینیس ٹائیوا میں ذاتی تشخص کے بارے میں مستقل شک پیدا ہو جاتا ہے کہ میں کیا ہوں.بولنے اور لکھنے میں کنٹرول نہیں رہتا.لکھتے ہوئے لفظ بدلتا جاتا ہے.اس کی بات چیت نا قابل فہم ہو جاتی ہے.فقروں میں غیر ضروری لفظ داخل کرتا رہتا ہے.اس حالت میں جب وہ بولتا ہے تو سمجھتا ہے کہ کوئی اور بول رہا ہے.نفسیات کے ماہرین اس قسم کی باتوں پر غور کرتے ہیں لیکن اس کا کوئی علاج نہیں کر سکتے.صرف تسکین بخش ادویہ دے دیتے ہیں.لیکن ہو میو پیتھی میں دوا دینے سے ایسے مریض ٹھیک ہو سکتے ہیں.کینیس ٹائیوا کے مریض کو یہ احساس ہوتا ہے کہ سر کے اوپر یا پچھلی طرف ٹھنڈے پانی کی بوند میں گر رہی ہیں.اس کے مریض کی آنکھیں خون سے بھر جاتی ہیں.آنکھ میں اور آنکھ کے اردگر در گیں ابھر آتی ہیں.نکسیر بھی پھوٹتی ہے.ایک رخسار سرخ اور دوسرا از رد ہو جاتا ہے.یہ علامت پلسٹیلا کی بھی ہے.لینس سٹائیوا میں منہ اور گلا خشک ہوتا ہے.دم گھٹتا ہے.
كينيبس- سٹائیوا 228 نگلنے میں تکلیف ہوتی ہے.مریض سخت تھکاوٹ محسوس کرتا ہے.گردوں میں سوزش ہو جاتی ہے.پیشاب قطرہ قطرہ جلن کے ساتھ بار بار آتا ہے.پیشاب سے فارغ ہونے کے بعد شدید ٹانکہ بھرنے والے درد کا احساس ہوتا ہے.آخر میں مثانے کی نالی اور پیشاب کا سوراخ اچانک تشیخ کی وجہ سے بند ہو جاتے ہیں اور سخت تکلیف ہوتی ہے.پیشاب کی نالی میں شدید درد ہوتا ہے اور مریض کو چلتے ہوئے بھی تکلیف ہوتی ہے.کینی بس سٹائیوا میں دمہ کی علامت بھی پائی جاتی ہے.چھاتی سے گڑ گڑاہٹ کی آواز آتی ہے.کھلی ہوا میں سکون ملتا ہے.اگر مثانے کی تکلیف اور دمہ اکٹھے ہوں تو کینیس سٹائیوا ممکنہ دوا ہو سکتی ہے.دراصل چھاتی کی بہت سی امراض دبے ہوئے سوزاک کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں اور اسی وجہ سے دمہ بھی ہوتا ہے اور اس کا اثر پیشاب کی نالی پر بھی ظاہر ہوتا ہے.اگر پیشاب کی نالیوں میں سوزش کی مشابہت سوزا کی امراض سے ہو اور دمہ بھی ہو تو کینی بس سٹائیوا بہت مفید دوا ہے.کینیں سنائیوں میں دل سے بھی پانی کی بوند میں گرنے کا احساس ہوتا ہے.دھڑکن کے ساتھ درد محسوس ہوتا ہے.سیڑھیاں چڑھتے ہوئے گھٹنے کی ہڈی میں تکلیف ہوتی ہے اور پاؤں بوجھل ہو جاتے ہیں.لیٹنے کے بعد بھی تکلیفیں بڑھتی ہیں.دافع اثر دوا کیمفر طاقت 30
229 56 CANTHARIS کینتھرس کینتھرس ایک زہریلی مکھی ہے.پرانے زمانے میں سمندر میں سفر کرنے والے ملاح اس کا زہر فاحشہ عورتوں کو استعمال کرواتے تھے کیونکہ اس سے جنسی اعضاء کو انگیخت ملتی ہے.اس زمانے میں اکثر بندرگا ہیں فحاشی کے اڈے بن چکی تھیں.اب قانونی طور پر کینتھرس کے استعمال پر پابندیاں لگادی گئی ہیں.اس لکھی کے کاٹنے سے سخت جلن پیدا ہوتی ہے.ہو میو پیتھی میں اس کے زہر کو جلنے کی تکالیف دور کرنے کے لئے بھی استعمال کیا جاتا ہے.اس کے چھالے بہت بڑے نہیں ہوتے.بڑے چھالوں میں رسٹاکس کیا تھرس سے بہتر کام کرتی ہے.رسٹاکس میں بھی بہت جلن ہوتی ہے.اگر آگ نے سارے بدن کو متاثر کر دیا ہو تو رسٹاکس 1000 طاقت میں چند بار دینے سے جلنے کی غیر معمولی تکلیف میں بہت جلد کمی آ جاتی ہے.کیلنڈ ولا بھی ان دواؤں میں سے ہے جو ایسے موقعوں پر کام آتی ہیں.کینتھرس میں اچانک ہر چیز سے لاتعلقی ، دہنی پراگندگی اور بے ہوشی کی علامت پائی جاتی ہے.عجیب وغریب خیالات کا ہجوم ہو جاتا ہے.یہ سب علامتیں کینیس انڈیکا کی یاد بھی دلاتی ہے لیکن ان دونوں میں ایک نمایاں فرق یہ ہے کہ کینیس انڈیکا میں مریض پراگندہ خیالات کا لطف اٹھا رہا ہوتا ہے.بیماری کا احساس نہیں ہوتا.لیکن کینتھرس میں ذہنی پراگندگی بہت بڑھ جاتی ہے اور مریض کو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کر رہا ہے.یہ احساس بھی ہوتا ہے کہ کوئی بیرونی طاقت اس پر قبضہ کئے ہوئے ہے جس کے زیر اثر وہ بول رہا ہے.کینیں سٹائیوا میں بھی اسی قسم کی علامت ملتی ہے.
230 کینتھرس میں زہر کے اثر کے دوران مریض اپنا تشخص بالکل کھو دیتا ہے اور یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ کسی اور شخص کے زیر تصرف ہے.یا حساس مستقل ہو جائے تو یہ پینتھرس کے زہر کا یہ نہیں بلکہ مستقل دماغی خلل کا نتیجہ ہوا کرتا ہے.ہو سکتا ہے ایسے مریض کو لینتھر س اونچی طاقت میں دینے سے یہ بیماری ٹھیک ہو جائے.لینتھرس کا مزاجی مریض تشدد پسند اور اذیت پسند ہوتا ہے.اسے غصہ بہت سخت آتا ہے.ایسے اذیت پسند لوگوں کے لئے کلینتھرس اونچی طاقت میں بہترین علاج ثابت ہوسکتی ہے.جو لوگ جنسی تشدد پسند ہوتے ہیں ان کے لئے سینتھرس مفید ہے.کینتھرس میں مریض پانی سے خوفزدہ ہوتا ہے.چھلکتے ہوئے پانی کی چیک دیکھتے ہی اسے شیخ ہو جاتا ہے.اس میں بے چینی بہت ہوتی ہے جو شدید غصہ پر منتج ہوتی ہے.کینتھرس کی جلن بہت بے چین کرتی ہے.وحشت اور غصے کے دورے پڑتے ہیں.قتل کرنے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے.ہائیوںکس کی طرح معصوم بچیوں کا مخش کلامی کرنا کینتھرس میں بھی پایا جاتا ہے.و کاٹنے والی شدید دردوں میں بھی لینتھرس بہت مفید ہے.اعصابی رگوں کے ساتھ ساتھ جلد پر چھالے اور سوزش پائے جاتے ہیں.یہ چھالے چہرے پر نمایاں ہوتے ہیں.اس وجہ سے بہت خطرناک اور بہت گہرے اثرات چھوڑ جاتے ہیں.اگر آنکھوں کے قریب چہرے کے اعصاب پر ہوں تو مریض اندھا بھی ہوسکتا ہے.اگر صرف ایک ہی طرف اثر ہو تو ایک آنکھ ضائع ہو سکتی ہے.اس لئے اس کا فوری علاج ضروری ہے.عام طور پر آرسنک، لیڈم اور لیکیسس کا نسخہ مفید ہے.اگر بے چینی نہ ہو تو آرنیکا لیکلیس اور لیڈم فوری طور پر دیں.اگر ان دونوں نسخوں سے فرق نہ پڑے تو پھر سینتھرس کے استعمال میں تاخیر نہ کریں.اگر چھالے بڑے بڑے ہوں رسٹاکس بھی اس تکلیف میں بہت مفید ثابت ہوگی.رسٹاکس کے مقابل ر کی تھرس کے مریض کو بے چینی بہت زیادہ ہوتی ہے جو آرسنک سے مشابہ ہے کینتھرس کے چھالوں کا رنگ تیزی سے بدلتا ہے اور اردگرد کی ساری جلد سیاہی مائل ہو جاتی ہے اور چہرے پر گینگرین کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں.اس کیفیت میں بلاتاخیر سینتھرس دینی چاہئے.
کینتھرس 231 لمس کے ساتھ جلن کا شدید احساس ہوتا ہے.اگر انتہائی سردی کے نتیجہ میں خون کا درجہ حرارت بھی تیزی سے گرنے لگے تو ایسے مریض کی زندگی بچانے کے لئے لینتھرس بھی بہت کام آتی ہے.یہ سمجھتے ہوئے رد عمل کو بیدار کر دیتی ہے.کینتھرس میں پیٹ ہوا سے تن جاتا ہے، معدہ اور خوراک کی نالی میں جلن ہوتی ہے اور سخت پیاس لگتی ہے.مرک کار سینتھرس کی مزمن دوا ہے.پیشاب کی شدید تکلیفوں میں مبتلا مریضوں کو مرک کارCM دینے سے بہت جلد فائدہ ہوتا ہے.لینس سٹائیوا بھی CM طاقت میں بہت اچھا اثر دکھاتی ہے.نیٹرم میور بھی 200 یا اونچی طاقت میں مفید ثابت ہوسکتی ہے.اگر کسی کے پیشاب میں البیومن (Albumen) آئے تو لینتھرس کی دوسری علامتیں موجود ہونے کی صورت میں یہ البیومن کا بھی مؤثر علاج ہے.البیومن نہ ہو تو عموما لینتھرس کے مریض کے پیشاب کی رنگت گہری سرخ ہوتی ہے.عورتوں کی علامتوں میں حیض کی یہ مخصوص علامتیں شامل ہیں کہ حیض جلد اور بہت زیادہ آتے ہیں.سیاہی مائل خون کا اخراج ہوتا ہے.اگر بچے کی پیدائش کے بعد آنول (Placenta) اندر رہ جائے تو سیکیل کی طرح کیف تھرس کی مریضہ میں بھی رحم میں گینگرین بننے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے.بیماری اس حد تک نہ بڑھی ہو تو رحم عموماً سوزش کا شکار رہتا ہے اور گندی رطوبت کا مسلسل اخراج ہوتا رہتا ہے.بیضہ الرحم (Ovaries) میں بھی شدید درد اور جلن پائے جاتے ہیں.دل کی دھڑکن کمزور اور بے قاعدہ ہوتی ہے.کمر کے نچلے حصہ میں در درہتا ہے.عرس کی تکلیفیں لمس سے ٹھنڈے پانی سے اور پیشاب کرتے ہوئے بڑھ جاتی ہیں.دافع اثر دوائیں : ایکونائٹ کیمفر پلسٹیلا.کینیبس سٹائیوا 30 یا بہت اونچی طاقت :
232
233 57 CAPSICUM (Cayenne Pepper) کیپسیکم کی سیکم سرخ مرچ سے تیار کردہ دوا ہے.اگر کوئی دبلا پتلا سوکھا ہوا شخص آرام سے نہ بیٹھ سکے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے مرچیں لگ رہی ہیں لیکن کیپسیکم کا مریض اس سے بالکل متضاد ہوتا ہے.خوب موٹا تازہ ، عضلات ڈھیلے ہوکر لٹکے ہوئے اور چہرے پر خون کی رگوں کا جالا سا بنا ہوا.چہرے کی رنگت اور تمازت کے لحاظ سے کیپسیکم کا مریض عادی شرابی کے مشابہ دکھائی دیتا ہے.شراب کا اثر چہرہ کے باریک ریشوں پر پڑتا ہے اور وہاں سرخ رنگ کے جالے سے بن جاتے ہیں.مرچیں کھانے سے بھی خون کا دوران بار بار بیرونی سطح یعنی جلد کی طرف ہوتا ہے کیونکہ مرچ خون میں غیر معمولی تموج پیدا کر دیتی ہے.غذا گرم ہو یا سرد، زبان کو اس کی تیزی زیادہ محسوس ہوتی ہے.گرم چیز زیادہ گرم اور ٹھنڈی چیز زیادہ ٹھنڈی معلوم ہوتی ہے.جن لوگوں کو مرچیں کھانے کی عادت ہو جب وہ مرچیں چھوڑ دیں تو ان کی بھوک ختم ہو جاتی ہے کیونکہ غدود اور معدے کی جھلیوں کو مرچوں سے انگیخت کی عادت پڑ چکی ہوتی ہے.جب مرچیں تحریک پیدا کریں تو غدودوہ تیز اب نکالتے ہیں جو بھوک لگاتا ہے.اگر چہ مرچیں جلن اور گرمی پیدا کرتی ہیں لیکن کیپسیکم کا مریض خود ٹھنڈا ہوتا ہے اور گرم کمرے میں رہنا پسند کرتا ہے.اس کی ایک حیرت انگیز علامت یہ ہے کہ مریض زیادہ دیر گھر سے باہر نہیں ہوسکتا.اگر کوئی زیادہ مرچیں کھانے کا عادی نہ بھی ہو اور اسے گھر سے باہر اداسی کا دور پڑتا ہوتو کیپسیکم کی ایک دوخوراکیں دینے سے اس میں گھر جانے کی تمنا کی حد تک کم ہو جاتی ہے.
کپسیکم 234 کیپسیکم کا مریض بہت ضدی ہوتا ہے.لہذا بعض ایسے علاقوں کے لوگ جہاں بہت مرچیں کھائی جاتی ہیں ضدی ہوتے ہیں لیکن ہر مرچ کھانے والا ضروری نہیں کہ ضدی ہو.کیپسیکم میں غصہ، چڑچڑاپن او بے اطمینانی کی علامات کیمومیلا سے ملتی ہیں.ایک گال سرخ ہوتا ہے اور ایک زرد.بچوں کی بیماریوں میں یہ علامت اکثر دکھائی دیتی ہے.سر کی جلد پر پسینہ آتا ہے.مریض کو خود کشی کا خیال تو آتا ہے لیکن عملی قدم نہیں اٹھاتا اور ڈرتا ہے.اکیلا رہنے کی خواہش کرتا ہے.سریا کوئی اور عضو بڑا محسوس ہونے لگتا ہے.سباڈیلا میں بھی یہ علامت ہے.کیپسیکم میں دھڑکن کا احساس بھی ہوتا ہے.سر میں شدید درد جو آرام کرنے سے زیادہ ہو جاتا ہے اور حرکت سے کم.گلا خراب ہونے سے کان کے پیچھے کی ہڈی میں سوزش ہو جاتی ہے جو مستقل مظہر جاتی ہے.اس کے لئے فائٹول کا اور کونیم وغیرہ بھی مفید دوائیں ہیں.کیپسیکم کے نزلہ میں مریض کا چہرہ تمتمایا ہوا اور ٹھنڈا ہوتا ہے.ناک کی نوک سرخ ہوتی ہے.ناک میں جلن اور سرسراہٹ ہوتی ہے، ناک بند بھی ہو جاتا ہے.کھانسی کے ساتھ شدید بو آتی ہے اور حلق میں درد ہوتا ہے.زبان پر چھوٹے چھوٹے آبلے بن جاتے ہیں جن کو چھونے سے درد ہوتا ہے.نگلنے میں دقت ہوتی ہے.کیپسیکم کے مریض کے چہرے پر جلد جھریاں پڑ جاتی ہیں.جلد کی لچک ختم ہو جاتی ہے اور موٹی موٹی لکیریں نمایاں ہونے لگتی ہیں.عضلات ڈھیلے اور لٹکے ہوئے ہوں اور دوران خون میں خلل واقع ہو جائے تو کیپسیکم مفید دوا ہے.تو.خسرو میں چہرہ بہت تمتمایا ہوا ہو اور کوئی دوسری دوا اثر نہ کرے تو اس میں کیپسیکم دی جا سکتی ہے.اگر گلے کے غدود پھول جائیں لیکن سخت نہ ہوں بلکہ اسفنج کی طرح پھولے ہوئے اور دباؤ ڈالنے سے دب جائیں تو یہ کیپسیکم کی خاص علامت ہے.کیپسیکم میں کھانے کے بعد معدہ کی جلن نمایاں ہو جاتی ہے.پیچش اور اسہال میں گرمی کا احساس ہوتا ہے.فارغ ہونے کے بعد بھی جلن رہتی ہے.ٹھنڈے پانی کی شدید
کپسیکم 235 پیاس ہوتی ہے.بواسیر کے مسے پھلبھلے اور ان میں سرخی اور جلن نمایاں ہوتی ہے.اگر آواز مستقل بیٹھ جائے تو یہ بھی کیپسیکم کی ایک علامت ہے.اگر مزید علامتیں پیسیکم سے ملتی ہوں تو اس سے فائدہ ہوگا.آواز بیٹھنے کی صورت میں فاسفورس، کاسٹیکم ، بھی سلفر، لائیکوپوڈیم، کوکا ،سورا ئینم اور بوریکس عموماً کام آتی ہیں.حجرہ اور ہوا کی نالی میں خشک کھانسی کے ساتھ سرسراہٹ اور کھانسنے سے مثانہ میں دباؤ پیدا ہوتا ہے.سانس کے ساتھ سینے میں درد، دل کے نچلے حصہ میں پسلیوں کے پاس درد، مریض کھلی ہوا پسند نہ کرے، گرمی سے اور کھانا کھانے سے کچھ آرام آئے ، مریض جسم کے مختلف اعضاء میں درد محسوس کرے، چہرے کے بعض عضلات میں درد کے ساتھ جھٹکے بھی لگتے ہوں ،کنپٹی کی ہڈیوں پر ابھار بن جائیں جن میں سوزش نمایاں ہو.یہ سب علامتیں کیپسیکم میں پائی جاتی ہیں.کیپسیکم ان بوڑھے آدمیوں کے لئے مفید دوا ہے جنہوں نے تمام عمر دماغی محنت کی ہو مگر آخری عمر میں حوادث زمانہ سے ان کا رہن سہن اچھا نہ رہا ہو.دافع اثر دوائیں : سائنا، کیلیڈیم طاقت 30 سے 200 تک
236
کاربو انیمیلس 237 58 کار بوایتیمیس CARBO ANIMALIS کار بو انیمیلس ، کار بوو پیج سے بہت مشابہ دوا ہے.کار بوو یج نباتات کے کوئلے سے بنتی ہے جبکہ کار با ایمیلس حیوانات کے کوئلے سے بنائی جاتی ہے.اگر چہ کیمیاوی لحاظ سے ان دونوں میں بہت تھوڑا فرق ہے مگر بعض علامتوں میں نمایاں فرق دکھائی دیتا ہے.کار بو انیمیلس کی علامتیں رکھنے والی بیماریاں کینسر کی شکل اختیار کر لینے کا رجحان رکھتی ہیں.عمر رسیدہ افراد کی بیماریوں میں یہ دوا بطور خاص بہت مفید ہے.اس کا مریض خون کی کمی کا مستقل شکار رہتا ہے.چہرہ پیلا پڑ جاتا ہے، قومی مضمحل ہو جاتے ہیں اور جسم کی دفاعی طاقتیں جواب دینے لگتی ہیں.کار بود یج کی طرح اس میں بھی غدود سخت ہو جاتے ہیں جو کینسر میں تبدیل ہو سکتے ہیں.اگر وریدوں میں خون جم جائے اور وہ نیلے جال کی صورت میں جگہ جگہ سے ابھر گئی ہوں تو اس بیماری میں بھی کار بو انیمیلس مفید ہے.اس پہلو سے اس دوا کا مزاج ایسکولس سے ملتا ہے.کار بود ایمیلس کا مریض غمگین ، اداس اور تنہائی پسند ہوتا ہے.عموم خاموش رہتا ہے،رات کو بے چین اور خوفزدہ ہو جاتا ہے.خون کا دوران سر کی طرف ہوتا ہے.ذہن الجھا ہوا نظر دھندلا جاتی ہے، آنکھوں پر بوجھ محسوس ہوتا ہے ، گدی میں درد ہوتا ہے، ہونٹ اور گال نیلگوں ہو جاتے ہیں، ناک سوج جاتا ہے اور اس پر نیلے رنگ کی غدو دسی ابھر آتی ہے.قوت شنوائی بھی متاثر ہوتی ہے، آوازوں کی سمت کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے، خشک زکام ہوتا ہے اور قوت شامہ ختم ہو جاتی ہے.چہرے پر تانبے کے رنگ کے دانے اور کیل بنتے ہیں.سر اور چہرے پر گرمی کا احساس ہوتا ہے.بوڑھے لوگوں کے چہرے اور ہاتھوں پر مسے نکلتے ہیں.مریض ڈراؤنے خواب دیکھتا ہے.
کاربواینیمیلس 238 کار بو انیمیلس کے مریض کو معدے میں شدید کمزوری اور خالی پن کا احساس ہوتا ہے.کھانے کے بعد تھکن اور کمزوری ، وزن اٹھانے اور محنت مشقت سے بھی سخت کمزوری محسوس ہوتی ہے.کولہوں اور کلائیوں میں درد ہوتا ہے.عورتوں کے رحم کے منہ پر کینسر ہو جائے تو معالجین رحم نکالنے کا مشورہ دیتے ہیں.حالانکہ یہ علاج بھی کارگر نہیں ہوتا.اگر کار بوا سیمیلی آغاز میں ہی دے دی جائے تو شفا بخش ثابت ہوتی ہے.عام سوزش اور دردوں میں بھی مفید ہے.رحم کے منہ پر زخم ہو جائے تو لیکوریا بھی جاری ہو جاتا ہے جس میں بہت جلن ہوتی ہے.کار بو ویج میں بھی ایسی ہی جلن کی علامت ہوتی ہے لیکن صرف اندرونی طور پر، بیرونی سطح پر ٹھنڈک کا احساس رہتا ہے.رحم سے جلن دار لیکوریا کا اخراج ہو تو فوراً کار بود نیمیس استعمال کروانی چاہئے.اگر تاخیر ہو جائے تو علامتیں بڑھ کر کینسر میں تبدیل ہو سکتی ہیں.حمل کی متلی کی بھی اچھی دوا بتائی جاتی ہے اور اس کی خاص علامت یہ ہے کہ رات کے وقت متلی میں اضافہ ہوجاتا ہے.اگر دودھ پلانے کے زمانے میں سخت کمزوری واقع ہو جائے اور اعصاب جواب دے جائیں تو کار بو ایمیلس کو فراموش نہیں کرنا چاہئے.یہ غم رحم کی طرح رحم کے عمومی کینسر کی بھی دوا ہے.ہو جاتا ہے.اس کی خاص علامت یہ ہے کہ غدودیں پھول جاتی ہیں.ہونٹوں اور گالوں کا رنگ نیلا کار بو انیمیلس میں حیض عموماً جلد اور مقدار میں زیادہ اور لمبا چلنے والا ہوتا ہے.حیض کے دوران مریضہ سخت کمزور ہو جاتی ہے.سیپیا سے مشابہ ناک کے اوپر سیاہی مائل نشان بن جاتا ہے جو رخساروں کے اطراف میں گالوں پر اترتا ہے.سیپیا سے یہ نشان دور نہیں ہوتا کیونکہ سپیا کا اپنا ایک خاص مزاج ہے.جب تک وہ نہ ہوسپیا سے فائدہ نہیں ہوتا.عورتوں کی جسمانی کیفیت اور ساخت سپیا کی پہچان ہے، وہ نسبتا پتلی ہوتی ہے، اپنوں سے اجنبیت محسوس کرنے لگتی ہے، محبت کے جذبات میں کمی آجاتی ہے.
239 کار بواینیمیلس خصوصاً خاوند اور بچوں کو دلی محبت کے باوجود پسند نہیں کرتی اور بیزار ہو جاتی ہے.اگر ایسی عورت کے ناک پر نشان ہو تو سپیا دینی چاہئے، فائدہ نہ ہوتو کار بو انیمیس ضرور دیں.میرا تجربہ ہے کہ وضع حمل کے بعد ہونے والی تکلیفوں میں کار بو انیمیلس بہت مؤثر ہے.اس سے ناک کا نشان بھی ختم ہو جاتا ہے.کار بو انیمیلس حمل کی متلی میں بھی مفید ہے.اگر مریضہ میں اس کی دیگر علامات موجود ہوں تو یہ سینے میں تختی اور درد کے لئے بھی اچھی دوا ہے.سماعت کی خرابی میں بھی یہ اچھا کام کرتی ہے.بسا اوقات دونوں کانوں کی قوت سماعت بگڑ جاتی ہے.سماعت میں آوازوں کی پہچان نہیں رہتی.آواز کی سمت کا تعین کرنا مشکل ہو جاتا ہے.سماعت پر اثر انداز ہونے والی نمایاں دواؤں میں چینوپوڈیم (Chinopodium) بھی شامل ہے.اگر اعصابی کمزوری پیدا ہو جائے یا رطوبتوں کے لمبے عرصہ تک جمتے رہنے سے کان بند ہو جائیں تو چینو پوڈیم دوا ہوسکتی ہے.اسے 30 یا 200 طاقت میں دو تین مہینے استعمال کرتے رہنا چاہئے.بعض دفعہ ایسے مریض کو اچانک فائدہ محسوس ہوتا ہے اور اس سے پہلے کان میں بار بار جھپکے آنے لگتے ہیں.کار بو انیمیلس مواد جمنے کا علاج نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی اعصابی کمزوری کا علاج ہے اور بسا اوقات یہ کمزوری دونوں کانوں میں بیک وقت پائی جاتی ہے جبکہ چینوپوڈیم کا اثر اکثر ایک ہی کان پر پڑتا ہے.پر چہرے پر کیل مہاسے نکلیں.ہاتھ پاؤں سردی کی وجہ سے متورم ہو جائیں تو کار بو انیمیکس اچھی دوا ہے.ہاتھوں اور چہرے پر مسے نکلنے کا رجحان روکنے میں بھی یہ مفید ثابت ہوتی ہے.جسم میں تخلیقی توازن بگڑنے سے ہڈیوں میں غیر ضروری ہر ھوتی ہونے لگتی ہے جس میں کینسر کا رجمان پایا جاتا ہے.اگر جسم میں کوئی غیر معمولی تبدیلی رونما ہوا کار با المجلس فورا دینی چاہئے.کاربوا تیمیس کے مریضوں کے ٹخنے کمزور ہو جاتے ہیں جو چلتے چلتے بار بار مڑ جاتے ہیں
کار بود انیمیلس 240 اس لئے ان میں موچ آنے کا رجحان پایا جاتا ہے.ٹخنوں کو تقویت دینے کے لئے یہ لمبا عرصہ 30 طاقت میں دینی چاہئے.مگر اس مرض میں بیلس (Bellis) کو نہ بھولیں.ہاتھ سو جاتے ہیں، کلائیوں، پنڈلیوں میں درد اور شیخ چلتے ہوئے زیادہ ہوتا ہے.انگلیوں کے جوڑوں میں سختی پائی جاتی ہے.کمر میں درد اور کھچاؤ ہوتا ہے.کار بو ایمیلس کے مریض کے پھیپھڑوں میں زخم بن جاتے ہیں.سینے میں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے.کھانسی کے ساتھ سبزی مائل بلغم خارج ہوتی ہے.رات کو بد بودار پسینہ آتا ہے.ٹھنڈی ہوا میں علامات میں اضافہ ہو جاتا ہے، گرمی سے کمی محسوس ہوتی ہے.مددگار دوائیں : ہیلو نیں.کلکیر یا فاس دافع اثر دوائیں: آرسنک نکس وامیکا طاقت: عموماً 30.کینسر کے علاج میں 200 سے CM تک
کار بوویچ 241 59 کار بودیج CARBO VEGETABILIS کار بوویج نباتاتی کاربن (Vegetable Carbon) کو کہتے ہیں یعنی لکڑی کا کوئلہ.ڈاکٹر ہانیمن نے جب اسے اپنے اوپر آزمایا تو انہیں اس میں بعض ایسے دیر پا اثرات نظر آئے جن کی وجہ سے انہوں نے اسے بہت گہری بیماریوں میں استعمال کیا.ایلو پیتھک طریقہ علاج میں کار بود بیج کو ٹکیہ کی شکل میں پیٹ کی ہوا کم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.یہ ٹکیہ معدہ کی ہوا کو کسی حد تک جذب کر لیتی ہے مگر معدے میں پیدا ہونے والے تیز اب کے خلاف رد عمل نہیں دکھاتی.ہومیو پیتھی میں بھی کار بو ویج کو پیٹ میں پیدا ہونے والی ہوا دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.معدہ میں جو عوامل ضرورت سے زیادہ ہوا پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں یہان کے خلاف بھی رد عمل دکھاتی ہے.کار بودیج ایک ایسی دوا ہے جس کا شمار زندگی بچانے والی چوٹی کی دواؤں میں کیا جاتا ہے.جب کسی بیماری کے بہت بڑھ جانے کے نتیجہ میں زندگی کی رمق کا لعدم ہو جائے تو ان نازک لمحات میں کار بو ویج ڈوبتی ہوئی زندگی کو واپس کھینچ لانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے.کار بوویج کے ان غیر معمولی اثرات کی کنہ تک پہنچنا تو مشکل امر ہے لیکن بارہا تجربوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ جب زندگی بالکل ختم ہونے کے قریب ہو تو کار بو ویج فوراً اثر کرتی ہے اور جسم کی حرارت بحال کر دیتی ہے.اس خاص اثر سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ کار بوی گرتے ہوئے بلڈ پریشر کو بھی اونچا کرتی ہوگی.جب میں نے اس پر تجربہ کیا تو واقعتا سیاثر نمایاں نظر آیا لیکن یہ بات بھی واضح ہوئی کہ یہ بے وجہ بلڈ پریشر کو زیادہ نہیں کرتی.یعنی یہ خطرہ نہیں ہے کہ کار بوو بیج کھانے سے بلڈ پر یشر ضرورت سے زیادہ ہو جائے گا بلکہ اگر خون کا دباؤ معمول سے زیادہ گر گیا ہو تو یہ اسے
کار بوویچ 242 نارمل کر دیتی ہے.مریض جب آخری دموں پر ہو تو خون کا دباؤ اکثر گر جاتا ہے.کار بو ویج کی ایک خوراک سے ہی اچانک گرمی پیدا ہونے لگتی ہے.ایک دفعہ ایک مریض کو دل کا شدید حملہ ہوا.جب میں وہاں پہنچا تو وہ بظاہر بے جان ہو چکے تھے.ماتھے پر سخت ٹھنڈا پسینہ تھا اور سانس کا لعدم تھا.میں نے فوراً کار بوویج کے دو تین قطرے ان کے منہ میں ٹپکا دیئے.تھوڑی دیر میں ہی ان کا سانس بحال ہو گیا.ماتھے کا پسینہ ختم ہو گیا اور جسم میں آہستہ آہستہ گرمی پیدا ہونے لگی.ان کی حالت سنبھلنے پر میں نے انہیں دل کی طاقت کے لئے دوائیں دیں لیکن اس مزید علاج کے قابل بنانے میں کار بوویج نے حیرت انگیز اثر دکھایا.ان کے علاوہ میں نے اور بھی بہت سے مریضوں پر یہ تجربہ کیا ہے اور ہمیشہ اسے بہت مؤثر پایا ہے.اس لئے زندگی بچانے کی دوا کے طور پر اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھنا چاہئے.کار بود بیج کا گہرا تعلق دمہ سے بھی ہے.دمہ میں یہ عموماً ایسے مریضوں کے کام آتی ہے جن کا جسم سخت ٹھنڈا اور پسینہ سے شرابور ہو جائے اور کمزوری کا یہ عالم ہو کہ بلغم باہر نکالنے کی بھی طاقت نہ ہو.ایسے مریض عموماً دو طرح کے ہوتے ہیں.ایک وہ جو امونیم ٹارٹ کی علامات رکھتے ہیں.ان کی علامتیں امونیم ٹارٹ کی سطح تک پہنچنے سے پہلے اپی کاک سے ملتی ہیں.جب اپی کاک کی علامتیں زیادہ بگڑ جائیں تو پہلے اینٹی مونیم کروڈ کی علامات پیدا ہو جاتی ہیں.ساتھ ہی معدے کی تکلیف بھی شروع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے زبان پر بہت گہری سفید رنگ کی تہہ جم جاتی ہے.اگر ایسے مریض کی حالت زیادہ خراب ہو جائے ، سینہ بلغم سے بھرا ہوا ہو اور وہ سخت کمزور ہو چکا ہو تو اینٹی مونیم ٹارٹ مرتے ہوئے مریض کو سنبھال لیتی ہے اور اس خطر ناک مرحلہ سے اسے باہر نکال لاتی ہے.لیکن یہ دمہ کا مستقل علاج نہیں ہے.کار بو ویج بھی اینٹی مونیم ٹارٹ سے ملتی جلتی دوا ہے.ایک دفعہ دمہ کا ایک مریض اسی کیفیت سے دو چار تھا اور حالت بہت تشویشناک تھی.میں نے اسے کار بوو یج دی جس سے فوراً اس کے جسم میں کچھ طاقت پیدا ہوئی.بلغم باہر نکالی اور سانس جو بند ہو رہی تھی بسہولت دوبارہ جاری ہوگئی.اس کے بعد دمہ کا
کار بوویچ 243 علاج کیا گیا اور وہ مریض شفایاب ہو گیا.کاربو ویج بہت نازک لمحات میں کام آنے والی دوا ہے اور دمہ کی بیماری میں اس کی خاص علامت یہ ہے کہ ٹھنڈا پسینہ آتا ہے اور مریض کا بدن بھیگ جاتا ہے لیکن وہ ہوا کا مطالبہ کرتا ہے چنانچہ بعض دفعہ اس کے چہرے پر تیزی سے پنکھا جھلنا پڑتا ہے.اس کے برعکس آرسنک کا مریض بالکل خشک ہوتا ہے اور اس کے سینہ میں بلغم بھی نہیں کھڑ کھڑاتی.کار بوویج دل کی بیماریوں میں جہاں دل کے اعصاب جواب دے رہے ہوں، بہت مفید ہے.یہ عموماً اعصاب کا بہترین ٹانک ہے.معدہ میں ہوا کا دباؤ اوپر کی طرف ہو تو اس میں بھی کار بو ویج اچھی دوا ہے.بہت سی دواؤں میں پیٹ کی ہوا کا ذکر ملتا ہے اور صرف علامتوں سے دوا پہچانا مشکل ہے اس لئے مختلف دوائیں آزمانی پڑتی ہیں.لمبا طبی تجر بہ دواؤں کو پہچاننے میں مدد دیتا ہے یعنی دوائیں بار بار کے تجربہ سے اپنی علامتیں خود ظاہر کرتی ہیں خواہ پر دونگ (Proving) میں وہ علامتیں ظاہر نہ ہوئی ہوں.آرسنک آیوڈائیڈ میں بھی معدہ کی ہوا کا ذکر ملتا ہے.لیکن دراصل یہ معدہ کے تیزابی ناسوروں اور ان کے بداثر سے پیدا ہونے والی تکلیفوں کی دوا ہے.کار بوویج میں ہوا سارے پیٹ میں نہیں بلکہ ایک حصہ میں اوپر کی طرف دباؤ ڈالتی ہے جس میں تعفن بھی پایا جاتا ہے.کار بودیج کے اسہال میں بھی بد بو ہوتی ہے اور مریض بہت کمزوری محسوس کرتا ہے.اس لحاظ سے اس کی علامات پیٹیشیا سے ملتی ہیں لیکن پیٹیشیا اس بیماری میں زیادہ گہری دوا ہے اور ٹائیفائیڈ کے بدبودار اسہال میں بھی بہت مفید ثابت ہوتی ہے.کاربو و یج وہاں کام نہیں کرتی.کار بودیج کی علامات میں ہاتھ اور پاؤں کا سونا بھی شامل ہے.ٹانگیں بھی سن ہو جاتی ہیں خاص طور پر پنڈلیوں کے اعصاب پر اثر ہوتا ہے.پنڈلیوں کے عضلات کو عموماً دوسرا دل کہا جاتا ہے کیونکہ یہ خون کو نیچے سے پمپ کر کے اوپر بھیجتے ہیں.اچانک کھڑے ہونے سے سر خالی خالی ہو جائے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ پنڈلیوں سے خون صحیح طرح پمپ ہو کر اوپر نہیں آیا.اس کیفیت میں کار بوویج بہت مفید ہے کیونکہ یہ
کار بوویچ 244 دوران خون کی کمزوری اور عضلاتی کمزوریوں دونوں کو دور کرتی ہے.یہی وجہ ہے کہ موت کے قریب کے لحات میں نئی حرکت پیدا کرنے میں کار بوو بیج کام آتی ہے.کار بودیج کی ایک اور اہم بنیادی علامت یہ ہے کہ یہ جسم کو کالی کا رب کے لئے تیار کرتی ہے.کالی کا رب میں بہت سی علامتیں کار بود یج سے ملتی ہیں لیکن کار بو ویج اپنے اثرات کے لحاظ سے بہت نرم دوا ہے جبکہ کالی کا رب بہت سخت رد عمل دکھاتی ہے.چونکہ کالی کا رب کی اکثر بیماریاں مزمن ہوتی ہیں اور اگر براہ راست کالی کا رب سے ہی شروع کیا جائے تو خطرہ ہوتا ہے کہ بہت شدید رد عمل پیدا ہو جائے گا.اس لئے کالی کا رب سے پہلے کار بوویج دینی چاہئے خصوصا ہاتھ پاؤں اور کلائی کے جوڑوں کے درد میں علاج کا آغاز کار بو و بیج سے کرنا چاہئے.جب میں نے ہومیو پیتھی شروع کی تو شروع شروع میں میں پہلے کار بو ویج دیتا تھا.تجربہ سے مجھے علم ہوا کہ کار بود یج بذات خود در دوں اور تکلیفوں میں کچھ نہ کچھ اثر دکھاتی ہے اور کمر درد اور اعصابی دردوں میں مفید ثابت ہوتی ہے لیکن اگر بلڈ پریشر زیادہ ہو اور چہرے پر تناؤ ہو تو بیلاڈونا اور ایکونائٹ کار بوویج کی نسبت زیادہ مفید ہیں.ایکونائٹ اور بیلاڈونا کے علاوہ رسٹاکس دینے کے بعد بھی حسب علامات کار بو ویج یا کالی کا رب دئے جا سکتے ہیں اور ان کے بعد اثر کو مزید آگے بڑھانے کے لئے کلکیریا کا رب کام آتی ہے.ان دواؤں میں کاربن کا عنصر مشترک ہے اور کاربن کا اعصاب سے گہراتعلق ہے.کار بو ویج کے مریض کے معدے میں تیزابیت کی زیادتی ہائیڈروکلورک ایسڈ یعنی نمک کے تیزاب کے زیادہ پیدا ہونے سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے برعکس اکثر اس کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.جب معدے کا قدرتی تیز اب کم ہو تو کھانا اندر گلتا سڑتا رہتا ہے اور اس کے نتیجہ میں فاسد تیزاب پیدا ہونے لگتے ہیں.ان تیزابوں کی زیادتی نظام ہضم پر قیامت ڈھا دیتی ہے.مبتدی کو سمجھانے کی خاطر سادہ الفاظ میں یہ بتانا کافی ہوگا کہ معدے کی دو گردنیں ہوتی ہیں جن کے کنارے پر منہ بنے ہوتے ہیں جو بند بھی ہو
کار بوویچ 245 سکتے ہیں اور کھل بھی سکتے ہیں.معدے کا ایک منہ اوپر کی طرف دل کے قریب واقع ہوتا ہے اس کو Cardic End کہتے ہیں یعنی دل والا کنارہ اور دوسرا منہ معدے کی اس گردن کے کنارے پر ہوتا ہے جو نیچے انتریوں کی جانب کھلتی ہے.فاسد تیزابیوں کے باعث یہ دونوں منہ سکڑ جاتے ہیں اور کھانے کا محلول جس میں فاسد تیز ابوں کا غلبہ ہوتا ہے، گیسوں سے معدے کو بھر دیتا ہے.اوپر کی طرف کا منہ نسبتا آسانی سے کھل جاتا ہے.ایسی بد بودار گیسوں کے ڈکار کچھ تیزاب کے ساتھ کھانے کی نالی کی طرف چڑھتے ہیں.اس وقت وہاں سخت تیزابیت کا احساس ہوتا ہے اور ڈکاروں سے گندی بو بھی آتی ہے.انتڑیوں کی طرف واقع منہ پر جب دباؤ زیادہ ہو تو تب کھلتا ہے.ویسے بھی کھانے کو ہضم ہونے کے لئے معدے میں تین گھنٹے درکار ہوتے ہیں.اس کے بعد یہ محلول نیچے انتڑیوں کی طرف اتر جاتا ہے.اور ساری انتڑیوں کی نالی کو تعفن سے بھر دیتا ہے.اس محلول پر جرثومے اور پیٹ کے کیڑے بھی خوب پلتے ہیں جن کی وجہ سے مزید تعفن پیدا ہوتا ہے.کار بوویج ان علامتوں کی اصلاح کے لئے استعمال کی جاتی ہے جو کچھ دیر کے مسلسل استعمال کے بعد اس نظام کو معمول پر لے آتی ہے.ނ کار بو ویج اور کار بو اینی میلس دونوں اس پہلو سے قدر مشترک رکھتی ہیں کہ اگر انہیں مناسب طاقت میں دیا جائے تو پیٹ کے جرثومے اور کیڑے مارنے کے کام آتی ہیں لیکن بعض جرثومے اور کیڑے معدہ اور انتڑیوں میں مستقل ٹھکانہ بنا لیتے ہیں اور ان نجات حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے.میرے تجربہ میں پیٹ کے عام کیڑوں کے لئے سب سے مؤثر دوائیں سینٹونینم (Santoninum)، سائنا (Cina) اور ٹیوکریم (Teucrium) ہیں.ان کے علاوہ اگر چہ ہو میو پیتھی کتابیں ، سباڈیلا کا ذکر نہیں کرتیں اور سباڈیلا کو محض چھینکوں اور ناک کی خارش کے ضمن میں بیان کیا جاتا ہے لیکن میں نے اسے پیٹ کے کیڑوں کے لئے بھی کامیابی سے استعمال کیا ہے کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ناک کی الرجی اور خارش وغیرہ نظام ہضم میں کیڑوں کی موجودگی کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے.وہ جو معدے اور انتڑیوں میں سنسناہٹ
کار بوویچ 246 پیدا کرتے ہیں وہی ناک اور منہ کی طرف منتقل ہو جاتی ہے.بورک (Boericke) ریپرٹری میں بھی سباڈیلا کا ذکر کیٹروں کے تعلق میں موجود ہے.حالانکہ سباڈیلا کے باب میں بورک اس کا ذکر نہیں کرتا.علاوہ ازیں ایک دوا کا ربوا نیمیلس ہے جو پیٹ کے کیڑوں خصوصاً کدو دانوں (Hookworms) کے لئے چوٹی کی دوا ہے اور بھی بہت سی دوائیں ہیں جو پیٹ کے مختلف کیڑوں کے تدارک کے لئے استعمال ہوتی ہیں.اس کے لئے عند الضرورت کسی تفصیلی ریپرٹری کا مطالعہ کریں..کار بو ویج میں شام کے وقت گلا بیٹھنے کی علامت پائی جاتی ہے.ہاتھ پاؤں سوتے ہیں.دماغی اور جسمانی طور پر ستی طاری ہو جاتی ہے اور سارا نظام حیات ہی ست رفتار ہو جاتا ہے.جسم کے اندر جلن کا احساس ہوتا ہے جبکہ بیرونی طور پر سردی محسوس ہوتی ہے.مریض عمو ما غم ، خوشی اور تعجب کی خبروں سے بے نیاز ہو جاتا ہے گویا ، دماغ ان باتوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتا.محسوس ہوتا ہے کہ سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی.اس میں سر درد عموماً گدی میں بیٹھ جاتا ہے جس کا نزلہ سے تعلق ہوتا ہے.بالآخر سارے سر میں درد محسوس ہوتا ہے جیسے ہتھوڑے چل رہے ہوں.ہتھوڑے چلنے کی علامت نیٹرم میور میں بھی ہے.سر کے بال بھی گرنے لگتے ہیں.ماتھے پر ٹھنڈا پسینہ آتا ہے.رات کو مریض خوفزدہ ہو جاتا ہے اور جنوں اور بھوتوں کا خیال آنے لگتا ہے.کانوں سے سخت بد بودار مادے خارج ہوتے ہیں جو عموماً کسی گہری انفیکشن اور بخار کے نتیجہ میں نکلتے ہیں.کار بو ویج میں دائمی نزلہ جسم کے کسی بھی عضو پر حملہ آور ہوسکتا ہے اور عموماً ایسا مریض مستقل بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے.اگر کار بوویج کے نزلہ کو کسی اور طریقہ علاج سے دبا دیا جائے تو خطرناک نتیجہ ظاہر ہوتا ہے.اس کا کار بو ویج سے ہی علاج ہونا چاہئے.کار بو ویج میں یہ خوبی بھی ہے کہ کسی دبی ہوئی بیماری کی علامتیں واضح نہ ہوں تو انہیں نمایاں کر دیتی ہے.منہ میں زخم ہو جائیں اور سفید سفید نشان بن جائیں، مسوڑھے خراب ہو جائیں اور دانت ہلنے لگیں تو بشرطیکہ کار بودیج کی دیگر علامتیں موجود
کار بوویچ 247 ہوں ، اس بیماری کا بھی یہی علاج ہے.معدے کے زخموں کے لئے بھی یہ ایک مفید دوا ہے.اس میں اسہال سخت متعفن اور بد بودار ہوتے ہیں اور جگر بھی متورم ہو جاتا ہے.تمام اعضاء ڈھیلے پڑ جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ ٹانگیں اور پاؤں مرجھانے لگتے ہیں.پاؤں میں کئی قسم کی تکلیفیں ظاہر ہوتی ہیں.ویریکوز و بینز (Varicose Veins) میں بھی یہ مفید دوا ہے.کالی کھانسی کے آغاز میں اور کھڑ کھڑاتی ہوئی کھانسی کے لئے بھی یہ اچھی دوا ہے.کھانسی کی علامتیں لیکیسس سے ملتی ہیں.دمہ کا حملہ اچانک رات کے وقت ہوتا ہے.عورتوں میں اگر رقم اپنی جگہ سے گر جائے اور سخت ہد بودار سیاہ رنگ کا مواد نکلنے لگے تو کار بو ویج دینی چاہئے.اگر دودھ پلانے والی عورت کا دودھ کم ہو جائے اور کمزوری بہت ہو اور بار بار بخار ہوتا ہو تو کار بو ویج بہت مفید ہے.اس کے مریض عموماً آگ لگنے، چوری ہونے اور حادثات کی خواہیں دیکھتے ہیں.مددگار دوائیں : کالی کا رب.ڈروسرا دافع اثر دوائیں : کیمفر.ایمبراگر لیسا.آرسنک طاقت: 30 سے 200 تک
248
کاربالک ایسڈ 249 60 کار بالک ایسڈ CARBOLIC ACID ایک زمانے میں کاربالک ایسڈ سے بنا ہوا صابن ہسپتالوں اور ڈسپنسریوں میں جراثیم کے خلاف حفظان صحت کے لئے بہت استعمال ہوتا تھا.اس کی بو بہت تیز ہوتی ہے.ہومیو پیتھک دوا کے طور پر کار بالک ایسڈ کا استعمال بالکل مختلف ہے.شہد کی مکھیاں یا بھڑ کاٹنے کی وجہ سے جب جسم میں خطرناک رد عمل اور الرجی ظاہر ہو تو اس میں کاربالک ایسڈ بہترین دوا ثابت ہوتی ہے.اس کی ایک دو خوراکیں دینے سے ہی مکمل شفا ہوسکتی ہے.کاربالک ایسڈ احساسات پر اثر انداز ہونے والی دوا ہے.اس کے مریض کی سونگھنے کی صلاحیت غیر معمولی طور پر تیز ہو جاتی ہے.معمولی سی بو بھی جو عام طور پر محسوس نہیں ہوتی ایسے مریض کو فورا محسوس ہو جاتی ہے.کاربالک ایسڈ میں درد بہت شدید اور اچانک ہوتے ہیں.اچانک آتے ہیں اور اچانک چلے بھی جاتے ہیں.بعض اعضاء پر فالجی اثر پایا جاتا ہے.اسی طرح بعض اعضاء پر ربڑ کے بینڈ بندھے ہونے کا احساس ہوتا ہے.اگر ہونٹوں اور گالوں کے اندرسوزش کے حلقے بن جائیں تو اس میں بھی کار بالک ایسڈ مفید ثابت ہوتی ہے.آنکھ کے اوپر اور اس کے اردگرد اعصابی درد ہوتا ہے.اگر یہ درد آنکھ میں اپنا مستقل مقام بنالے تو کار بالک ایسڈ مفید دوا ثابت ہوگی.اس کی ایک علامت یہ ہے کہ بھوک غائب ہو جاتی ہے، ہوا سے پیٹ میں تناؤ محسوس ہوتا ہے.پیٹ کے ایک خاص حصہ میں ہوا کا غیر معمولی زور کار بالک ایسڈ کی خاص علامت ہے کیونکہ کا ربالک ایسڈ چھوٹے دائروں میں تشنجی کیفیات پیدا کرتا ہے.انتڑیوں وغیرہ کے کسی حصہ پر اس کا اثر پڑتا ہے اور ایسی جگہوں پر ہوا تناؤ پیدا کرتی ہے.اور ہے.
کاربالک ایسڈ 250 اس صورت میں کاربالک ایسڈ کو دیا درکھنا چاہئے.کاربالک ایسڈ کے مریض کے منہ کا مزا بگڑ جاتا ہے.پیاس مٹ جاتی ہے، بھوک کم ہو جاتی ہے.کبھی شدید قبض اور کبھی بہت اسہال لگ جاتے ہیں.اسہال بہت بد بودار ہوتے ہیں.اگر قبض ہو تو سانس سے بھی بد بو آتی ہے.اس کا مطلب ہے کہ اس دوا میں بہت تعفن کا مادہ پایا جاتا ہے.قبض کے دوران جو متعفن مادہ باہر نہیں نکل سکتا وہ انتریوں کی جھلیوں کے راستے خون میں جذب ہو کر پھیپھڑوں تک پہنچتا ہے اور سانس میں بدبو پیدا کرتا ہے.کار بالک ایسڈ البیومن (Albumen) کی بہت اہم دوا ہے.اس کے مریض کو اگر البیومن آئے تو اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ بعض دفعہ لگتا ہے کہ پیشاب کی بجائے سیاہی خارج ہے.ہو رہی ہے.اس علامت میں تیرے بن تھینا (Terebinthina) بھی بہت مفید کاربالک ایسڈ کے مریض کو رات کو بار بار پیشاب آتا ہے جو پروسٹیٹ گلینڈ کی خرابی سے بھی ہوسکتا ہے.یہ دوا گردوں اور پراسٹیٹ گلینڈ دونوں کی انفیکشن میں مفید ہے.اگر رات کو بار بار پیشاب کی حاجت محسوس ہو تو اس کو بھی زیر نظر رکھیں.بعض معالجین کا خیال ہے کہ اس تکلیف میں یہ 1x پوٹینسی میں اچھا کام کرتی ہے لیکن میرا اس بارے میں ذاتی تجربہ نہیں ہے.کاربالک ایسڈ کمر کے اذیت ناک درد میں بھی کارآمد ہوسکتی ہے.خاص طور پر اگر درد کمر سے نیچے دونوں کولہوں میں اترے تو یہ اس کی خاص علامت ہے.اگر بچیوں میں آغاز بلوغت سے قبل لیکوریا ہو جائے تو کار بالک ایسڈ شافی دوا ثابت ہو سکتی ہے.اس کے مریض کے حیض اور لیکوریا کی رطوبت میں بد بو ہوتی ہے.اگر کاربالک ایسڈ کا مریض ہو تو اس کے پاؤں اور ٹانگوں میں اینٹھن اور ہڈیوں میں درد کا رجحان بھی اسی دوا کے استعمال سے ختم ہوسکتا ہے.اس کی جلدی علامات میں خارش پیدا کرنے والے چھالے، جلن اور درد ملتے ہیں.دافع اثر دوائیں : سرکہ.چاک.آئیوڈم طاقت 30 تک
کار بو نیم سلف 251 61 کار بونیم سلفیور بیٹم CARBONEUM SULPHURATUM (Alcohol Sulphuris-Bisulphide of Carbon) کار بو نیم سلف میں سلفر اور کاربن کے عناصر موجود ہوتے ہیں لہذا یہ بھی انسانی نظام پر ایک بہت گہرا اثر کرنے والی دوا ہے.اس کا دائرہ بہت وسیع ہے اور بہت گہری بیماریوں میں کام آتی ہے.کار بونیم سلف کی علامتیں رکھنے والا مریض کار بو ویج کے مریض کی طرح کھلی اور تازہ ہوا پسند کرتا ہے.اگر چہ اس کا جسم ٹھنڈا ہوتا ہے لیکن کھڑکی بند کرنا برداشت نہیں کرتا کیونکہ اسے آکسیجن کی کمی محسوس ہوتی ہے.کاربونیم سلف میں سلفر موجود ہوتی ہے جس کا مزاج اس کے برعکس ہے.اس کے باوجود مریض کھڑکیاں کھلی رکھنا چاہتا ہے لیکن ہوا کے جھونکے براہ راست برداشت نہیں کر سکتا.بعض اور دواؤں کی طرح اس میں بھی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے سینے پر بوجھ محسوس ہوتا ہے اور کمزوری لاحق ہو جاتی ہے.اگر یہ بوجھ سینے کی درمیانی ہڈی (Sternum) پر محسوس ہو تو یہ انجائنا کی ابتدائی علامت بھی ہو سکتی ہے اس لئے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ کسی کلینک سے معائنہ کروالینا چاہئے.سینے پر کچھ بوجھ محسوس ہو تو ضروری نہیں ہے کہ دل کی تکلیف ہو.بسا اوقات اعصابی نظام کی کمزوری یا پھیپھڑوں اور معدہ کی بیماریوں کی وجہ سے بھی یہ علامت ظاہر ہوتی ہے اس لئے یہ کوئی خاص امتیازی علامت نہیں ہے.کار بو نیم سلف کے مریض کی تکلیفیں نہانے سے بڑھ جاتی ہیں جو سلفر کے عنصر کی موجودگی سے ہوتا ہے جس کے مزاج میں نہانے سے نفرت پائی جاتی ہے.یہاں بھی ایک بار یک فرق مد نظر رکھنا چاہئے کہ سلفر کے مریض کی تکلیفیں نہانے سے بڑھتی نہیں بلکہ وہ نہانے سے گھبراتا ہے جبکہ کار بونیم سلف میں نہانے سے واقعتا بیماری میں اضافہ
کار بونیم سلف 252 ہو جاتا ہے.دونوں کے اثرات الگ الگ طریق پر ظاہر ہوتے ہیں.کئی ہو میو پیتھک معالجین نے اپنے تجربہ کی بناء پر لکھا ہے کہ کار بو نیم سلف چہرے پر ظاہر ہونے والے خطرناک مرض لیوپس (Lupus) کی بہترین دوا ہے اور اس سے مکمل شفا ہو جاتی ہے.ہومیو پیتھک معالجین کو اس پر مزید تجربہ کرنا چاہئے.میں نے اس سلسلہ میں کافی مطالعہ کیا ہے لیکن لیوپس کے بارے میں کوئی امتیازی علامت ایسی نہیں ملی جو اسے دوسری علامات سے الگ کر دے.کینسر کو بڑھنے سے روکنے کے لئے بھی کار بونیم سلف بہت مفید پائی گئی ہے.کاربن اور سلفر سے مل کر ایسی دوا بنتی ہے جو سارے انسانی جسم پر بہت گہرا اثر ڈالتی ہے.جو دوا لیوپس جیسی بیماری میں شفا دے سکے وہ لازماً بہت اہم اور گہری دوا ہوگی.مختلف قسم کے کینسر کی شفا کے لئے الگ الگ دوا ئیں چاہئیں لیکن بعض دوائیں ایسی ہیں جو ہر قسم کے کینسر میں اتنا فائدہ ضرور دے دیتی ہیں کہ ایک دو سال تک کینسر کی بڑھوتی رک جاتی ہے اور اس عرصہ میں اصل دوا تلاش کی جاسکتی ہے.کار بونیم سلف ، آرسنک ، آئیوڈائیڈ اور گریفائیٹس ، تین چوٹی کی دوائیں ہیں جو کینسر میں مفید ہیں.جلد کے کینسر میں پائیر وجینم اور سورائینم بھی مفید ہیں.ان میں فرق کرنا مشکل نہیں ہے کیونکہ ان کے مریضوں کی اپنی اپنی شخصیت اور مزاج ہوتے ہیں.جہاں مریض کے بارے میں زیادہ معلومات حاصل نہ ہوسکیں وہاں آرسنک آئیوڈائیڈ سے علاج شروع کرنا چاہئے جو انتڑیوں کے کینسر میں بھی بہت مفید ہے.کار بو نیم سلف جوڑوں کے درد سے بھی تعلق رکھتی ہے خصوصاً اگر یہ تکلیف پرانی ہو جائے تو کار بو نیم سلف رفتہ رفتہ شفا دے دیتی ہے.بازوؤں اور ٹانگوں میں تشیخ اور درد ہوتا ہے جو لہروں کی صورت میں حرکت کرتا ہے، بار بار عود کر آتا ہے اور دیر تک جاری رہتا ہے.باز و اور ہاتھ سن ہو جاتے ہیں.اعصاب میں سوجن بھی نمایاں ہوتی ہے.کار بونیم سلف کے دونوں عناصر کاربن اور سلفر ایک دوسرے سے متضاد علامات رکھتے ہیں.سلفر گرم اور کا ر بن بہت ٹھنڈی دوا ہے.اس میں بیرونی طور پر ہمیشہ سردی کا احساس ہوتا ہے اور جسم ٹھنڈا رہتا ہے لیکن اندرونی طور پر بعض جگہوں میں جلن ہوتی ہے.سلفر
کار بو نیم سلف 253 میں مسلسل گرمی پائی جاتی ہے جو جسم کا جزو بن جاتی ہے.ہاتھ پاؤں اور سر کی چوٹی جلتے ہیں.پلسٹیلا میں بھی گرمی کا احساس ہوتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ پلسٹیلا میں پیاس نہیں ہوتی اور سلفر پیاس والی دوا ہے.کار بونیم سلف کا مریض سردی برداشت نہیں کرتا پاؤں ذرا بھی ٹھنڈے ہو جائیں تو فورا بیمار پڑ جاتا ہے.اگر کسی کا مزاج کار بوٹیم سلام کا ہو تو اسے اپنے پاؤں گرم رکھنے چاہئیں.کار بو نیم سلف کی بعض علامتیں آرنیکا سے بھی ملتی ہیں.آرنیکا میں خواہ ظاہری چوٹ لگے نہ لگے، چوٹ سے مشابہ درد پیدا ہوتے ہیں جیسے جسم کو کوٹا بیٹا گیا ہو.کار بو نیم سلف کی دردیں بھی اس سے مشابہ ہوتی ہیں.ذہنی علامتوں کے لحاظ سے بھی یہ بہت اہم دوا ہے.مریض بہت جوشیلا ہوتا ہے، قوت برداشت نہیں رہتی ، غصہ بہت آتا ہے، کھوٹے کھرے کی تمیز ختم ہو جاتی ہے، خود کشی کرنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے.سر میں خشکی سکری اور بال جھڑنے کی علامات بھی ملتی ہیں.آنکھوں کے پیوٹوں کی بیماریوں میں بھی کار بو نیم سلف بہت مفید ہے لیکن اسے آنکھوں کی تکلیفوں میں صرف اس وقت استعمال کریں جب یہ مزاجی دوا ثابت ہو.کار بو نیم سلف میں سردرد زیادہ تر بائیں طرف ہوتا ہے لیکن دائیں طرف بھی ہوسکتا ہے.اس میں دائیں بائیں کا فرق قطعی نہیں.ہاں عموماً صرف ایک طرف درد ہونے کارجحان پایا جاتا ہے.نظر کی کمزوری اور رنگوں کی پہچان کا فقدان بھی کار بو نیم سلف کی علامت ہے.کار بونیم سلف میں کان سے بد بودار مواد نکلتا ہے جس میں خون کی آمیزش بھی ہوتی ہے.قوت سامعہ کمزور ہو جاتی ہے.کانوں میں گھنٹیاں بجنے کی آواز آتی ہے.کانوں کی تکلیف کی وجہ سے چکر آتے ہیں، جلد بے حس ہو جاتی ہے ، خارش کے ساتھ چھوٹے چھوٹے زخم بن جاتے ہیں جو پھیلتے ہیں، چہرے پر کیل مہاسے بھی نکلتے ہیں.ایک اور بات جو خصوصیت سے کار بو نیم سلف میں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جلد اور اندرونی جھلیاں رفتہ رفتہ بے حس ہو جاتی ہیں اور زبان بھی احساس سے عاری ہو جاتی ہے.منہ کے اندرونی حصے
کار بونیم سلف 254 خصوصاً زبان کا بے حس ہونا اس دوا کا نمایاں حصہ ہے.وہ اعصابی ریشے جو جلد یا اندرونی جھلیوں کے قریب ہوں ان کا فالج کار بونیم سلف سے تعلق رکھتا ہے، اسے یاد رکھنا چاہئے.دانت کے اعصاب کے کنارے ننگے ہو جائیں تو وہاں سردی سے زود حسی پائی جاتی ہے.ٹھنڈی ہوا سے دانت اور چہرے کی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں اور صرف دانت کے اعصاب ہی نہیں سارے چہرے کے اعصاب زود حس ہو جاتے ہیں.کاربونیم سلف میں غدودوں کی عمومی سختی بھی پائی جاتی ہے.کار بو نیم سلف بہت سی مردانہ کمزوریوں میں بھی مفید ہے اور عورتوں کی کمزوریوں میں بھی.بیضہ دانی (Ovary) پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور اس کے سکڑنے کی علامت اس دوا میں پائی جاتی ہے جو دراصل کینسر کا آغاز ہوتا ہے.دوا نسبتا اونچی طاقت میں استعمال کرنی چاہئے.200 طاقت سے آغا ز ا چھی تدبیر ہے.اگر پاؤں کی انگلیوں اور ٹخنوں میں اکثر اؤ ہو تو کار یو نیم سلف اگر مزاجی دوا ہو گی تو اسے بھی ٹھیک کر دے گی.طاقت: 30 سے 200 ،1000 یا حسب ضرورت ایک لاکھ تک
کارسینوسن 255 62 کارسینوسن CARCINOSIN ( کینسر کے مادہ سے تیار کردہ ایک دوا) ہومیو پیتھ ڈاکٹروں نے کینسر کے مواد سے مختلف ہومیو پیتھک دوائیں بنائی ہیں جن میں کارسینوسن امتیازی مرتبہ رکھتی ہے.اسے پھیپھڑوں کے کینسر Carcinoma کے فاسد مادے سے تیار کیا گیا ہے.سب سے پہلے ڈاکٹر برنٹ (Dr.Brunt) نے اس پر تجربات کئے.بعد میں ڈاکٹر کلارک (Dr.J.H.Clarke) نے ان کے تجربات کو آگے بڑھایا.کارسینوسن سینے کے کینسر میں بہت مفید ہے.اگر ٹانگوں میں نیلے خون کی رگیں بڑھ جائیں تو ان کو بھی کارسینوسن سے افاقہ ہوتا ہے.اگر انتڑیوں میں کینسر کا رجحان ہوتو کارسینوسن کے اثر سے مریض کی انتڑیوں سے خارج ہونے والے مواد پر پلنے والے کئی قسم کے چھونے اور دیگر کیڑے فضلے میں نکلنے لگتے ہیں.علاوہ ازیں ایسے مریضوں کو جن میں خاندانی طور پر کینسر کی روایات ملتی ہیں جب بھی کارسینوسن دی جاتی ہے اگر ان کے اندر کینسر کا دیا ہوا مادہ ہوگا تو ضروران کے گلوں کے غدود پھول جاتے ہیں اور جو بہت پر درد ہوتے ہیں.یہ بہت قطعی علامت ہے جو اگر چہ کتابوں میں نہیں لکھی ہوئی مگر مجھے اپنے تجربہ سے معلوم ہوتی ہے.اس امر کا کسی مخصوص ملک،علاقے یا آب و ہوا سے تعلق نہیں بلکہ یہ بات دنیا بھر پر یکساں اطلاق پاتی ہے.جن لوگوں میں یہ رد عمل ظاہر ہو ان کو یہ دوا دیتے رہنے سے اس بیماری میں نمایاں فائدہ ہوتا ہے.ڈاکٹر کینٹ نے کارسینوسن کے بارے میں لکھا ہے کہ اس سے کینسر کے درد کی شدت ، چھن اور جلن میں کمی آ جاتی ہے.مریض کئی سال چین سے زندہ رہتا ہے.
کارسینوسن 256 کینٹ کے نزدیک اگر چہ مکمل شفا نہیں ہوتی مگر کینسر پھیلنے کی رفتار بہت کم ہو جاتی ہے اور تکلیف کافی حد تک قابو میں آجاتی ہے.ڈاکٹر کینٹ کی باتیں اکثر درست ہوتی ہیں.اس لئے غالباً ان کا یہ تبصرہ بھی درست ہوگا.لیکن میں نے کینسر کے بعض مریضوں میں کارسینوسن کو اس طرح کامیابی سے استعمال کیا ہے کہ پھر سالہا سال تک ان میں کینسر کی کوئی علامت لوٹ کر نہیں آئی مگر مریضوں کی اکثریت کے معاملہ میں کینٹ کا بیان ہی درست ہے.کارسینوسن کے علاوہ دو دوائیں کینسر کے زخم پر پلنے والے بیکٹیریا سے تیار کی گئی ہیں.یہ دونوں کینسر کے علاج میں زیادہ مؤثر ثابت نہیں ہوئیں.مائیکر وکوکسین (Micro Cocccine) مائیکر وکوکس جرثومہ سے تیار کی گئی ہے.ڈاکٹرونیٹر نے اسے صرف کینسر کی زود حسی دور کرنے میں مفید پایا ہے.دوسری دوا اوسلو کوکسین (Oslo Coccine) ہے جو اگر چہ کینسر میں فائدہ مند نہیں ہے مگر انفلوئنزا میں بہت مفید ثابت ہوئی ہے.ڈاکٹر فوبسٹر (Dr.Fobester) نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ کارسینوسن کھانے سے کینسر کی سب علامتیں پردونگ (Proving) کے طور پر ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ جن حصوں میں کمزوری ہو وہاں کچھ تبدیلی ظاہر ہوتی ہے.ہوسکتا ہے (Lymphatic Glands) کار د مل گلے کی سوزش کی صورت میں اسی وجہ سے ظاہر ہوتا ہو کہ ان میں کینسر کا مادہ پایا جاتا ہو.ان سب باتوں میں ابھی تحقیق کی ضرورت ہے.ڈاکٹر فوبسٹر نے اپنا ایک تجربہ بتایا ہے کہ کارسینوسن کھانے کے دس دن بعد جسم کا درجہ حرارت زیادہ ہو جاتا ہے اور بخار رہنے لگتا ہے.ڈاکٹر فوبسٹر کے مطابق جن مریضوں میں کینسر کا رجحان ہو ان میں مندرجہ ذیل دوائیں مفید ثابت ہوتی ہیں.ٹیوبرکولینم ، میڈ ورائیٹنم ، نیٹرم میور اور سیپیا.ان دواؤں کا تفصیلی ذکر کتاب میں موجود ہے.الیو مینا، آرسنک البم ، آرسنک آیوڈائیڈ ، پلسٹیلا سٹیفی سیگریا ، فاسفورس اور کلکیر یا فاس وغیرہ بھی بہت مفید ہیں اور کینسر کے تعلق میں زیر نظر رہنی چاہئیں.سیپیا اور سٹیفی سیگریا کا جذبات کو دبا دینے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بیماریوں
کارسینوسن 257 سے تعلق ہے جن میں سے ایک کینسر بھی ہو سکتی ہے.فاسفورس اور کلکیریا فاس کا ہڈیوں کے کینسر سے گہرا تعلق ہے اور یہ پھیپھڑوں سے بھی تعلق رکھتی ہیں.لائیکو پوڈیم کا تعلق پتے اور ،(Pancrias) کے کینسر سے ہے.اس میں یہ خوبی ہے کہ یہ جگر کے لعاب یعنی صفراء کو پتلا کرتا ہے اور وہ نارمل ہو جاتا ہے.سلیشیا کو پراسٹیٹ کے کینسر میں بہت مفید پایا گیا ہے.علاوہ ازیں ایڈز کی انتہائی مہلک بیماری میں بھی سلیشیا CM طاقت میں انتہائی مؤثر ثابت ہوئی ہے.ایڈز بھی کینسر ہی کی طرح ایک لاعلاج بیماری سمجھی جاتی ہے.مختلف ممالک میں ایڈز پر میرے زیر نگرانی سلیشیا CM کے تجربے ہوئے ہیں.بہت سے مریضوں میں سلیشیا نے حیرت انگیز اثر دکھایا ہے.کینسر سے تعلق رکھنے والی دواؤں پر مزید تحقیق ہونی چاہئے.مریض کا مکمل کلینیکل ٹیسٹ (Clinical Test) ہو.اس کے بعد ہومیو پیتھک دوا دے کر دوبارہ ٹیسٹ ہوں تا کہ جن مریضوں کو یقینی طور پر فائدہ ہوا ہے ان کی اندرونی تبدیلیوں کا علم ہو سکے کہ ان میں کیا تبدیلیاں واقع ہوئیں.اس کے لئے جدید ترین کلینیکل لیباریٹریز سے تعاون لینا پڑے گا.سب ہومیو پیتھک دواؤں کو کینسر کے حوالے سے غور سے پڑھیں اور پھر سب علامات کے فرق کو ذہن نشین کر لیں.اس طریق پر کار بند ہونے سے آپ خود بھی استفادہ کرسکیں گے اور تمام بنی نوع انسان کو بھی فائدہ پہنچاسکیں گے.شرط یہ ہے کہ اپنے کامیاب تجربات کو بخل سے کام لیتے ہوئے اپنے تک ہی محدود نہ رکھیں.کارسینوسن ، ریڈیم برومائیڈ (Radium Bromide) کے ساتھ ادل بدل کر CM پوٹینسی میں دینا تابکاری کے مہلک اثرات سے طبعی دفاع پیدا کر سکتی ہے.
کارسینوسن 258 مددگار دوائیں: ریڈیم برومائیڈ نیز کینسر کی نوعیت اور حملے کی شدت کے اعتبار سے مذکورہ بالا دوائیں جو اس کی مددگار بتائی گئی ہیں ان میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد حسب ضرورت استعمال ہوسکتی ہیں.عام طور پر ہڈیوں اور پھیپھڑوں میں کینسر کا اثر پھیلنے سے روکنے کے لئے فاسفورس اور برائیونیا بہت ضروری ثابت ہوتی ہیں.ان کو اس مقصد کے لئے اکثر 30 طاقت میں ہی استعمال کرنا چاہئے.30 طاقت کام کرنا چھوڑ دے تو پھر 200 طاقت میں دی جائیں.تکرار طاقت : 200 سے ایک لاکھ طاقت میں مفید ثابت ہوئی ہے.عام طور پر 15 دن میں ایک بار کافی ہے مگر کینسر کے شدید حملے کی صورت میں خصوصاً جبکہ جراحی کا عمل ہو چکا ہو پہلے چند روز ، روزانہ ایک لاکھ میں ایک خوراک دی جاسکتی ہے.جراحی کے عمل کے بعد بے چینی کو دور کرنے کے لئے آرسنیک CM بھی بہت زوداثر ثابت ہوتی ہے جسے ایک خوراک دینے کے بعد اس وقت تک نہ دہرایا جائے جب تک بے چینی کا حملہ دوبارہ مائل بشدت نہ ہو.ایسی صورت میں ضرور دہرائیں.
کارڈس میر یانس 259 63 کارڈس میر یانس CARDUUS MARIANUS کارڈس میریانس جگر کی ایک بہت اہم دوا ہے.میں نے اسے بارہا جگر کے مریضوں میں باقاعدگی سے استعمال کروایا ہے.اسے لمبا عرصہ کھلاتے رہنے سے بھی کوئی منفی اثر نہیں دیکھا.اس دوا کا خاص اثر جگر اور دوران خون کے نظام پر ہوتا ہے.گوا سے عموماً جگر کی دوا ہی سمجھا جاتا ہے لیکن اس میں اور بھی بہت سی علامتیں ملتی ہیں مثلا اس کے مریض میں نکسیر بنے کا رجحان ہوتا ہے اس کے ساتھ سر پر ٹھنڈی ہوا محسوس ہوتی ہے، آنکھوں میں باہر کی طرف دباؤ محسوس ہوتا ہے، ڈیلا با ہر کو ابھرا ہوا دکھائی دیتا ہے.بیلاڈونا میں بھی یہ علامت ہے.کارڈس میریانس میں پہلے ناک میں جلن محسوس ہوتی ہے پھر نکسیر پھوٹتی ہے.کارڈس میریانس میں معدے کی علامتیں بھی ملتی ہیں کیونکہ جگر خراب ہو تو معدہ ضرور متاثر ہوتا ہے.منہ کا مزہ کڑوا ہو جاتا ہے یا پھیکا اور بدمزہ.زبان گندی ہو جاتی ہے، کھانے کی خواہش مٹ جاتی ہے.معدے کی خرابی سے پیدا ہونے والی بد بو بھی آتی ہے.اگر معدے میں یہ احساس ہو کہ درد بائیں سے دائیں طرف حرکت کر رہا ہے تو یہ بھی کارڈس میر بانس کی علامت ہے.اس کا مطلب ہے کہ جگر کی بیماری معدے تک پھیل گئی ہے.اس صورت میں سیاہ رنگ کے خون کی قے آتی ہے.دائیں پسلیوں میں اور سینے میں درد ہوتا ہے جو حرکت سے بڑھتا ہے.سینے کا درد کندھوں، کمر اور پیٹ تک پہنچتا ہے.بائیں جانب لیٹنے سے دائیں طرف درد ہوتا ہے جیسے کوئی نیچے کی طرف گھسیٹ رہا ہو.یہ علامت اور بھی بعض دواؤں میں ملتی ہے.
کارڈس میر یانس 260 یہ دوا پتے کی پتھریوں میں بہت مفید ثابت ہوئی ہے.پتے کی جھلی کے اوپر سوجن آ جاتی ہے اور دور دہوتا ہے.تلی کے پاس چھین کا احساس ہوتا ہے.بائیں طرف کی جلد بہت زود حس ہو جاتی ہے اور دکھتی ہے.شدید قبض ہو جاتی ہے جو مسلسل جاری رہتی ہے.اجابت مٹیالے رنگ کی ہوتی ہے.خونی بواسیر بھی ہو جاتی ہے.پیشاب اکثر گہرے رنگ کا ہوتا ہے.جگر کی بیماریوں کی وجہ سے کھانسی ہو جاتی ہے.جس کا اثر مائیں پھیپھڑے کے نچلے حصہ پر ہوتا ہے.چیلی ڈونیم اور ایسکولس کے مریضوں کی طرح شانے کی چپٹی ہڈی (Scapula) میں درد ہوتا ہے.دائیں کو لہے کی ہڈی اور جوڑ میں بھی درد ہوتا ہے جو نیچے ٹانگ تک پھیلتا ہے.تشیخ بھی ہوتا ہے.اگر کو لہے کی تکلیفیں حرکت سے بڑھیں تو اس میں کارڈس میریانس بہت مفید دوا ہے.کارڈس میریانس میں ویریکوز وینز Vericose) (Veins ابھرنے کا رجحان بھی ملتا ہے.وہ تمام دوائیں جن میں سیاہ خون بہنے کی علامت پائی جاتی ہے ان میں نیلی رگوں کے جالے بننے کا رجحان بھی ملتا ہے.پاؤں متورم ہو جاتے ہیں.پاؤں اور پنڈلیوں میں تشبیح ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے چلنا مشکل ہوتا ہے.اگر تیز چلنے سے پیج ہو تو برائیونیا اور آرنیکا ملا کر دینے سے بہت فائدہ ہوتا ہے.کارڈس میر بانس کے مریضوں کی تکلیف جب بڑھ جائے تو چند قدم چلنے سے بھی تشیخ ہونے لگتا ہے.پاؤں میں کمزوری کا احساس ہوتا ہے کارڈس میر یانس ایسے انفلوئنزا میں بھی مفید ہے جس میں جگر متاثر ہو.طاقت : Q سے 30 تک لیکن اکثر مدرنیچر میں استعمال کی جاتی ہے
کولو فائیلم 261 64 کولو فائیلم CAULOPHYLLUM کولو فائیلم ہاتھ اور پاؤں کی انگلیوں کے جوڑوں میں نقرس یعنی Gout کی وجہ سے درد اور ختی پیدا ہونے کا اچھا علاج ہے.نقرس نہ بھی ہو تو ہاتھ پاؤں کی انگلیوں اور جوڑوں کے عمومی درد میں اور جگہ بدلتے رہنے والے دردوں میں بہت کارآمد ہے عام طور پر ماؤف حصوں میں شیخ کا رجحان ملتا ہے.کولو فائیلم کو میں نے مخصوص علامتوں والے لنگڑی کے درد (Sciatica) میں بھی بہت مفید پایا ہے حالانکہ اس پہلو سے اس کا کتابوں میں ذکر نہیں ملتا.یہ درد کمر سے دونوں ٹانگوں میں یا بعض دفعہ ایک ٹانگ میں نیچے اترتا ہے اور کولو فائیلم کی مریض عورتوں میں حمل کے دوران جو تکلیفیں ملتی ہیں ان سے مشابہت رکھتا ہے.اسی مشابہت کی بنا پر میں نے اسے لنگڑی کے درد میں کامیابی کے ساتھ استعمال کرا کے دیکھا ہے.لنگڑی کے درد کو انگریزی میں مختصراً Sciatica کہا جاتا ہے جو دراصل ان اعصاب کا نام ہے جن میں یہ درد پایا جاتا ہے.کولو فائیلم عورتوں کے لئے دوران حمل بہت ہی مفید اور اہم دوا ہے.یہ رحم کو طاقت بخشتی اور مضبوط بناتی ہے.میں نے بہت دفعہ ایسے موقعوں پر جب حمل ضائع ہونے کا شدید خطرہ تھا کولو فامیلم کو استعمال کروایا ہے.اللہ کے فضل سے حمل کا بقیہ زمانہ بخیر و عافیت گزرا.اگر بچہ کی پیدائش کے وقت دردیں رحم کی طرف منتقل ہونے کی بجائے دونوں رانوں کے اندر کی طرف یا ران کے پیچھے کی طرف عرق النساء (Sciatica) کے اعصاب کے خطوط پر اتریں اور رحم کی گردن میں تشیخ ہو تو کولو فائیلم بہترین ثابت ہوتی سیکیل کار بھی نم رحم کے تشیخ کی دوا ہے لیکن اس کا تشیخ کولو فائیلم کے تشنج سے بہت ہے.زیادہ سخت ہوتا ہے اور سیکیل کی دوسری علامتیں اسے کولو فائیلم سے واضح طور پر
کولو فائیلم 262 جدا کر دیتی ہیں.اگر ایسی تکلیف سیکیل کے غلط استعمال سے پیدا ہو تو اس کے توڑ کے طور پر کولو فائیلام کام آ سکتی ہے.بعض معالج حمل کے آخری مہینہ میں باقاعدگی سے تمہیں طاقت میں کولو فائیلم دیتے ہیں.اس سے وضع حمل میں بہت آسانی پیدا ہو جاتی ہے اور زچگی کا یہ عرصہ سہولت سے گزرتا ہے اور کوئی پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی.وہ جنین جو رحم میں تر چھا پڑا ہو اس کی قدرتی پیدائش قریباً ناممکن ہوتی ہے اس لئے لازما عمل جراحی کے ذریعہ سے اسے نکالنا پڑتا ہے.پلسٹیلا دینے سے بھی اس کی پوزیشن درست نہیں ہوتی.اگر کوئی دوا کام آ سکتی ہے تو وہ کولو فائیلم ہے جسے 200 طاقت میں آرنیکا 200 کے ساتھ ملا کر دینے سے بسا اوقات جنین کی حالت درست ہو جاتی ہے.اگر ایک دو ہفتے تک ہفتہ میں دو تین بار آرنیکا اور کولو فائیلم 200 طاقت میں دینے سے کوئی واضح فائدہ نہ ہو تو غالباً اس کا علاج صرف بر وقت جراحی سے ہو سکے گا جس کے متعلق کوئی اچھا سرجن ہی فیصلہ کر سکتا ہے کہ کب ہونی چاہئے؟ بعض اوقات حمل کے ایام پورے ہونے سے پہلے ہی جراحی ضروری سمجھی جاتی ہے.اگر عورتوں کے چہرہ پر بھورے تل نکل آئیں تو کولو فائیلام اس کی بہترین دوا ہے جو بعض دفعہ مردوں میں بھی کام آتی ہے.اس کے استعمال سے کبھی تو اتنا فائدہ پہنچتا ہے کہ چہرہ بالکل صاف ہو جاتا ہے اور تلوں کا نام ونشان مٹ جاتا ہے.چہرے کی جلد کا رنگ بدل جائے اور سیا ہی سی چھا جائے تو اس کی بھی کولو فائیلم دوا ہو سکتی ہے جو اپنی دیگر عمومی علامتوں سے پہچانی جائے گی.اس کی اولین دوا آرسنک سلف فلیوم (Arsenicum Sulfuratum Flavum) ہے جبکہ سیکیل کور (Scale Cornatum) کی مریضہ عورتوں میں سیکیل کو رہی رنگت درست کر سکتی ہے.کولو فامیلم کا اثر کافی (Coffee) سے زائل ہو جاتا ہے.اس لئے اس دوا کے استعمال کے دوران کافی سے پر ہیز کرنا چاہئے.مددگار دوا آرنیکا طاقت 30 سے 200 تک
کاسٹیکم 263 65 کاسٹیکم CAUSTICUM کاسٹیکم ایک بہت گہرا اثر رکھنے والی دوا ہے جو عام روز مرہ کی بیماریوں میں بھی بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے.اسے عموماً فوری علاج کے لئے اور عضلاتی فالج خصوصاً لقوہ کے لئے ہی استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ وہ امراض بہت ہیں جن میں کاسٹیکم مفید ہے.کاسٹیکم کے اکثر امراض آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں.اگر سردی لگنے کی وجہ سے فالج ہو جائے تو سمجھا جاتا ہے کہ اچانک ہو گیا ہے لیکن دراصل یہ سردی چند دن پہلے لگتی ہے اور رفتہ رفتہ جسم میں بے چینی، کمزوری اور تھکاوٹ کا احساس ہونے لگتا ہے پھر فالج کی علامات ظاہر ہوتی ہیں.اچانک فالج کا مزاج ا یکونائٹ میں پایا جاتا ہے.کاسٹیکم میں دو تین دن پہلے یا کم از کم چوبیس گھنٹے پہلے سردی لگنے سے اس کے بداثرات آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا کر بیماری کی شکل اختیار کر لیتے ہیں.ایسے مریضوں میں جہاں خوف وجہ نہ ہو بلکہ ہکلانے کا آغاز زبان کے جزوی فالج سے ہوا ہو کا سٹیکم بہترین علاج ہے.اس فالج کے نتیجہ میں اگر بچہ ایک دفعہ ہکلانا شروع کر دے تو خوف بھی آخر ساتھ شامل ہو جاتا ہے.ایسے موقع پر اگر سٹرامونیم کے ساتھ کاسٹیکم ملا کر دی جائے تو فالج کا اثر بہت جلد زائل ہونے لگتا ہے.کاسٹیکم کی بیماریوں میں اعصاب پر ایسا اثر ہوتا ہے جو اعضاء کا مستقل حصہ بن جاتا ہے.گلٹیاں سخت ہونے لگتی ہیں.اگر فالج کا بہت لمبا اثر ہوتو اعضاء سخت ہوکر اکڑ جاتے ہیں.اگر دیگر علامات بھی کاسٹیکم کی ہوں تو یہ بہترین علاج ہے.ہسٹریا بھی آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور اس کے دوروں میں رفتہ رفتہ شدت پیدا ہونے لگتی ہے یہاں تک کہ شیخ شروع ہو جاتا ہے.کاسٹیکم کی علامات رکھنے والا مریض بہت
کاسٹیکم 264 حساس ہوتا ہے ، شور اور ذرا سی لمس بھی برداشت نہیں کرسکتا، سردی اور گرمی دونوں ہی موافق نہیں.عموماً اکیلے اکیلے عضلات پر تشیخ کا اثر ظاہر ہوتا ہے.جوڑوں کے درد میں گرمی پہنچانے سے آرام آتا ہے، سوائے انگلیوں کے جہاں گرمی کی بجائے سردی سے آرام ملتا ہے.اس کی کھانسی میں بھی یہی مزاج ہے کہ ٹھنڈے پانی سے آرام آتا ہے.پیس اگر مریض کا مزاج کا سٹیکم کا ہو تو اس کو عموما گرمی سے تکلیف پہنچتی ہے سوائے گلے اور ہاتھوں کے.کاسٹیکم بے چینی پیدا کرنے والی دوا ہے.کاسٹیکم کا مرگی کے آغاز سے بھی تعلق ہے.سر کی ساخت کی خرابیوں میں اور خطرناک حادثات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مرگی کسی علاج سے ٹھیک نہیں ہوا کرتی بلکہ اس کا علاج اگر ممکن ہے تو سرجری سے ممکن ہے.اس ضمن میں امریکہ کے ایک ڈاکٹر کو دائی مرگی کے 34 کامیاب اپریشن کرنے پر نوبل انعام بھی ملا تھا.کاسٹیکم کی ایک علامت یہ ہے کہ اگر جلدی امراض کو دبا دیا جائے تو دماغی امراض پیدا ہو جاتی ہیں.سر درد جو فالج پر منتج ہو اس کی بھی کاسٹیکم دوا ہوسکتی ہے.بعض قسم کی سر درد سے مریض وقتی طور پر اندھا ہو جاتا ہے.اگر ایسی سردرد سے بینائی جاتی رہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد واپس آ جائے اور کوئی فالجی علامت ظاہر نہ ہو تو کاسٹیکم کی بجائے جلسیمیم زیادہ مؤثر ہوگی.اگر فالجی علامتیں ظاہر ہوں تو پھر کاسٹیکم دوا ہے.آنکھوں کے چھپر کا تدریجی فالج بھی کاسٹیکم کیکا مطالبہ کرتا ہے.یہ مرض چونکه ست رفتا ر ہے اس لئے شفا کا عمل بھی وقت چاہتا ہے.مستقل مزاجی سے علاج جاری رکھنا چاہئے.کبھی کبھی سلفر کے ساتھ ادلنا بدلنا بھی مفید ثابت ہوتا ہے.بعض اوقات آنکھوں میں مختلف قسم کے دھبے نظر آتے ہیں.سبز رنگ کے دھبے کاسٹیکم کی خصوصی علامت ہیں.کاسٹیکم میں سے بھی بہت ہوتے ہیں.اگر باریک اور نرم نرم ہوں تو تھو جا اور میڈ ورائینم دونوں مفید ہیں.لیکن اگر بہت بڑے بڑے اور بکثرت مسے ہوں تو کاسٹیکم اور نائٹریکم ایسڈ زیادہ مفید ہیں.ان دونوں کے مسے الگ الگ
کاسٹیکم 265 پہچانے جاتے ہیں.کاسٹیکم کے مسے چہرے اور ناک پر نکلتے ہیں.ناک پر موٹا سامسہ نکل آئے تو یہ کاسٹیکم کی خاص نشانی ہے.کاسٹیکم کی ایک اور علامت گلے کے اندر فالجی کیفیات کا پیدا ہونا ہے.کاسٹیکم میں صبح کے وقت گلا بیٹھتا ہے.کاسٹیکم کے گلے کی فالجی علامات تدریجاً پیدا ہوتی ہیں اور نگلتے ہوئے خطرہ ہوتا ہے کہ لقمہ غلط نالی میں نہ چلا جائے.ایسی بہت سی اور دوائیں بھی ہیں مگر کام وہی آئے گی جو مزاجی ہو.کاسٹیکم کا مزاجی مریض وہمی نہیں ہوتا اور کاسٹیکم کے مریض کی بھوک بعض دفعہ کھانا دیکھتے ہی ختم ہو جاتی ہے.اگر وضع حمل کے وقت عورت کے گردوں پر اثر ہو، خوف، دباؤ یا سوزش کی وجہ سے پیشاب بند ہو جائے تو بسا اوقات کاسٹیکم ناگزیر ہو جاتی ہے.بلکہ ایسی حالت میں یہ جان بچانے والی دوا بن جاتی ہے.بعض عورتوں کو جنہیں وضع حمل کے بعد چوبیس گھنٹے تک پیشاب نہیں آیا جب کاسٹیکم دی گئی تو شروع میں خون والا پیشاب آیا.جس کا مطلب یہ ہے کہ گردوں میں سوزش تھی ، فالجی حالت نہیں تھی.پھر پیشاب کے ساتھ خون کم ہونے لگا اور کھل کر پیشاب آنا شروع ہو گیا.بعد میں انہیں پر برا بر یوا ( Pareira Brava) کا کورس دیا گیا کیونکہ پر یا گردوں کو دھونے اور پیشاب کو زیادہ کرنے میں عمومی طور پر اچھا اثر ظاہر کرتی ہے.اگر عام حالات میں پیشاب رک جائے تو کاسٹیکم کی علامتیں بالکل مختلف ہوں گی.مریض بیٹھ کر پیشاب نہیں کر سکتا.کھڑا ہونے کی حالت میں پیشاب دباؤ کی وجہ سے خود بخود بہتا ہے، بے حسی ہوتی ہے اور پتہ بھی نہیں چلتا.جب یہ علامتیں اکٹھی ہو جائیں تو کاسٹیکم بہت نمایاں فائدہ پہنچاتی ہے.میں یہ علامت نمایاں ہے کہ اگر انتڑیوں میں خصوصاً بڑی آنت کے آخری حصہ (Rectum) میں فالج ہو رہا ہو تو اجابت غیر شعوری طور پر ہوتی رہتی ہے کیونکہ وہاں فضلہ جمع ہو کر گٹھلیاں سی بن جاتی ہیں.اس لئے چلتے پھرتے وہی گٹھلیاں لاشعوری طور پر نکلتی رہتی ہیں.گو ایسے مریض بہت کم ملتے ہیں مگر میرے مشاہدہ میں بھی دو تین
کاسٹیکم 266 ایسے مریض آئے ہیں.ایسے تمام مریض بوڑھے تھے.کاسٹیکم کے مریض کی زبان پر سرخی مائل چمک پائی جاتی ہے.خواتین کے ماہانہ ایام کے دوران خون آنے سے پہلے اور بعد میں تشنج ہوتا ہے لیکن حیض کے دوران تشیخی علامات نہیں ہوتیں.اگر خون رک جائے تو شیخ ہوگا، چل پڑے تو شیخ ٹھیک ہو جائے گا.اگر ماہانہ ایام کے دوران کوئی صدمہ پہنچ جائے یا کسی وجہ سے خوف طاری ہو یا کسی عزیز کی وفات ہو جائے تو حیض بند ہو جاتے ہیں.اس صورت میں کاسٹیکم بھی دوا ہوسکتی ہے.اسی طرح کسی صدمہ یا غم کی خبر سے دودھ پلانے والی عورتوں کا دودھ خشک ہو جاتا ہے اس وقت بھی کاسٹیکم مفید ہے.کاسٹیکم کے مریض کے گلے کے فالج کا صرف نگلنے کے عضلات سے ہی تعلق نہیں ہوتا بلکہ بولنے کے آلے پر بھی یہ اثر انداز ہوتا ہے.فاسفورس، برائیونیا اور کاسٹیکم.یہ تین دوائیں ایسی ہیں جن کی آپس میں مشابہت ہے.اگر انہیں عارضی بیماریوں میں ملا کر دیا جائے تو نقصان نہیں پہنچتا بلکہ مثبت اثر بڑھ جاتا ہے.یہ نسخہ 30 طاقت سے اونچا استعمال نہیں کرنا چاہئے.لیکن اگر یہ نسخہ کام نہ کرے اور اس میں شامل کوئی ایک دوا مریض کی علامتوں سے زیادہ مشابہ ہو تو نسخہ نا کام بھی ہو جائے تو وہ اکیلی دوا کام کر جاتی ہے.مددگار دوائیں : کار بودیج.پیٹر وسیلینم (Petrosel) دافع اثر دوائیں : کولوسنتھ.ڈلکا مارا.گائیکم نکس وامیکا طاقت: 30 سے سی.ایم (CM) تک
سیانوس 267 66 سیانو تهس CEANOTHUS سیانو تنس ، نیو جرسی امریکہ میں اگنے والی ایک چائے کی طرح کی بوٹی کا نام ہے.یہ بنیادی طور پر متلی (Spleen) کی دوا ہے.ملیریا کی وجہ سے تلی متاثر ہوتی ہے.ایسا مریض خون کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے.اس کی تکلیفیں عموماً بائیں طرف نمایاں ہوتی ہیں.اس طرف بوجھ اور ابھار محسوس ہوتا ہے.صرف جگر بڑھنے کے نتیجہ میں پیٹ کے دائیں طرف سختی ملتی ہے مگر تلی بھی خراب ہو جائے تو دونوں طرف سختی محسوس ہوگی.تلی کی خرابیوں کے لئے اس سے بہتر دوا میرے علم میں نہیں.اگر تلی میں سختی پیدا ہو جائے تو خون کی شریانیں سخت ہو جاتی ہیں.اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے ایسے مزمن بلڈ پریشر میں جس کا تعلق جگر اور تلی سے ہوسیا نوتھس کو استعمال کرنا چاہئے.یہ خون کے دباؤ کو کم کرتی ہے.بلڈ پریشر کا تعلق عموماً دل اور گردے سے ہوتا ہے لیکن جب بیماری کا مرکز جگر اور تلی ہو تو اس صورت میں سیا نوٹس دینی چاہئے.بعض دفعہ وہ عورتیں جن کے جسم میں خون کی کمی ہو جائے انہیں حیض کا خون مسلسل آنے لگتا ہے جو خون ملے پانی کی طرح کچلہوا ہوتا ہے اور بند نہیں ہوتا.ایسی صورت میں بھی سیا نوتھس بہت مفید دوا ہے.جگر اور تلی کے مریض کو قبض یا اسہال میں سے کوئی ایک عارضہ ضرور لگا رہتا ہے.سیا نوتھس کے مریض کو زیادہ تر اسہال لگتے ہیں.پیشاب کی حاجت بار بار ہوتی ہے.پیشاب جھاگ دار، سبزی مائل ہوتا ہے اور اس میں صفراء اور شوگر دونوں پائے جاتے ہیں.اسی تعلق میں ایک دوا ٹینوسپورا کارڈی فولیا (Tinospora Cordifolia) ہے.یہ آیورویدک طب میں تلی کی تکلیفوں کے لئے بطور خاص استعمال ہوتی ہے اور
سیانوتهس اسے بہت مفید پایا گیا ہے.268 اس کی تکالیف میں حرکت کرنے اور بائیں طرف لیٹنے سے اضافہ ہوتا ہے.طاقت : مدرنیچر یا 1x
کیمومیلا 269 67 کیمومیلا CHAMOMILLA کیمومیلا ایک ایسی بوٹی سے تیار کی جانے والی دوا ہے جو گندم اور مکئی کے کھیتوں میں اگتی ہے.اسے مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال کیا جاتا رہا ہے.خصوصا بچے کی پیدائش کے بعد رحم کی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے مفید ہے.اکثر لوگ اس کی پتیوں کو بطور چائے بھی استعمال کرتے ہیں.ہومیو پیتھی میں اس کے تازہ پودے کو پھولوں سمیت پیس کر الکحل میں ملا کر دوا تیار کی جاتی ہے.یہ بہت حساس اورز و درنج بچوں کی دوا ہے جو بہت ضدی اور غصیلے ہوتے ہیں.ذرا ذراسی بات پر ان کا پارہ آسمان پر چڑھ جاتا ہے.بیمار ہو جا ئیں تو انہیں سنبھالنا مشکل ہوتا ہے.جس طرح بھی بہلانے کی کوشش کریں غصہ کم نہیں ہوگا.کوئی چیز مانگیں گے لیکن ملنے پر پھینک دیں گے.کہیں جانا چاہیں تو وہاں پہنچ کر دھکے دیں گے کہ مجھے کیوں یہاں لائے ہو؟ غصہ کی حالت میں بدتمیز ہو جاتے ہیں.اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کیمومیلا کا مریض واقعتا عام لوگوں کی نسبت تکلیف کو زیادہ محسوس کرتا ہے.اس کی بیماریاں اعصاب اور جذبات سے تعلق رکھتی ہیں.یہ بے انتہا حساس لوگوں کی دوا ہے جو بظاہر بد خلق بھی ہوں لیکن اندرونی طور پر بے حد حساس ہوتے ہیں.خاموش رہتے ہیں لیکن معمولی سی بات پر بھی ایک دم غصہ میں آ جاتے ہیں، اعصابی تناؤ پیدا ہو جاتا ہے.بظاہر بہت خاموش اور ست رو دکھائی دیتے ہیں.ایسے مریض کو کیمو میلا اونچی طاقت میں فوری فائدہ پہنچاتی ہے.ایک تو احساسات اعتدال پر آ جاتے ہیں، دوسرے باقی دواؤں کو کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے.یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ مریض پر کوئی جنون سوار ہو تو جب
کیمومیلا 270 تک وہ ٹھیک نہیں ہو گا اس وقت تک عام دواؤں کو جو فائدہ دینا چاہئے وہ نہیں دیتیں کیونکہ سارے جسم کی توجہ ایک خاص طرف ہی رہتی ہے.انسانی رد عمل توجہ کو چاہتا ہے.اگر کیمومیلا کا مریض ہو اور بعض علامتیں کیمومیلا کی نہ ہوں تو عین ممکن ہے کہ وہ معین بیماری ٹھیک نہ ہو کیونکہ ہر دوا کا ایک آدمی کے مزاج کے سو فیصد مطابق ہونا ضروری نہیں.انسانی جسم بہت ہی وسیع اور بہت پیچیدہ نظام رکھتا ہے اس لئے بعض دفعہ ایک دوا کے بعد اور دواؤں کی ضرورت بھی پڑتی ہے.کیمومیلا غیر معمولی حساس مریضوں کی دوا ہے اس لئے اس میں اعصابی بے چینی سے جھٹکے بھی لگتے ہیں اور عضلات پھڑکتے ہیں.شکنجے پڑنے کا احساس بھی ہوتا ہے اور عضلاتی اور اعصابی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے.کیمومیلا میں کافیا نکس وامیکا اور او پیم کی بھی کچھ مشابہتیں پائی جاتی ہیں.کافیا اور نکس وامیکا کا مریض بھی کافی زود حس ہوتا ہے.اوپیم کا مریض بظاہر بے حس، بے پرواہ اور غنودگی کی سی حالت میں رہتا ہے لیکن درحقیقت وہ اندرونی طور پر بہت حساس ہے.او پیم اگر زہر کے طور پر کام کرے تو مریض کا دماغ سخت مشتعل، بے چین اور بے سکون ہو جاتا ہے.بڑی مقدار میں دی جائے تو پہلا رد عمل بے ہوشی کی صورت میں اور دوسرا اعصاب میں تناؤ اور خشکی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور کیمو میلا کی بعض علامتیں پیدا ہو جاتی ہیں.اس لئے اوپیم مزاج کے بعض مریضوں میں سخت غصہ پایا جاتا ہے.الگ تھلگ رہتے ہیں، تنہائی اور خاموشی کو پسند کرتے ہیں، ہر چیز ان کے اعصاب میں جھنجناہٹ پیدا کرتی ہے اور وہ بہت زود حس ہو جاتے ہیں.بچوں کو معمولی سی تکلیفوں اور بخار وغیرہ سے تشنج ہو جائے، اگر مزاج کیمومیلا کا ہو تو فوری فائدہ دیتی ہے.کیمومیلا بچوں کی پیچش میں بہت اچھی دوا ہے.ایسی چپش جو لیس دار ہو اور سبز رنگ کی ہو جیسے اس میں گھاس کتر کر ڈالا گیا ہو تو اس میں کیمومیلا کو اولیت حاصل ہے.اپی کاک بھی اس کی اچھی دوا ہے.اس میں اجابت کی علامتیں کیمومیلا سے ملتی ہیں لیکن مزاج کا بہت نمایاں فرق ہے.
کیمومیلا 271 کیمومیلا میں اکثر درد گرمی سے آرام پاتے ہیں.سوائے دانتوں، چہرے اور جبڑے کے اعصاب کے جنہیں ٹھنڈ سے آرام ملتا ہے.کیمومیلا کے مریض کے اعصاب ڈھکے چھپے ہوں تو انہیں گرمی سے آرام آئے گا.اگر اعصاب کے کنارے نگے ہوں تو وہاں گرمی سے تکلیف ہو گی.یہ سب تفصیلات عموماً کتابوں میں درج نہیں ہوتیں.معالجین کو باریک بینی سے سب علامات کا جائزہ لینا چاہئے تا کوئی الجھن دماغ میں نہ رہے اور صحیح دوا تک رسائی ممکن ہو جائے.کیمومیلا کے دانت کے درد میں ایک خاص بات یہ ہے کہ رات کو شروع ہو کر صبح تک غائب ہو جاتا ہے.عموماً رات کے پہلے حصہ میں زیادہ تکلیف ہوتی ہے.بارہ ایک بجے کے بعد جب رات صبح کی طرح پلٹ جائے تو در دختم ہونے لگتا ہے.آرسنک کے دانت درد کا ساری رات سے تعلق ہے.کیمومیلا میں مسوڑھے سوج جاتے ہیں، چھالے بنتے ہیں اور دانت مسوڑھوں کو چھوڑ نے لگتے ہیں.وہ لوگ جو دانتوں کی صفائی میں بداحتیاطی سے کام لیتے ہیں عموماً ان تکلیفوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں.کیمومیلا کے مزاج کی یہ مستقل علامت ہے کہ اس کے مریضوں میں فراخ دلی کی کمی ہوتی ہے، طبیعت میں کسی قدر خساست پائی جاتی ہے.کسی دوسرے کی پرواہ نہیں کرتے ، نہ کسی کی تکلیف محسوس کرتے ہیں نہ کسی کی ضرورت کا خیال رکھتے ہیں لیکن ہر وقت اپنے معاملہ میں بے حد ز و دجس ہوتے ہیں.ہر وقت اپنی ہی ذات سے چمٹے رہتے ہیں اور صرف اپنا ذاتی مفاد ہی پیش نظر رہتا ہے.دوسروں پر اچانک غصہ آنا بھی اسی مزاج کا حصہ ہے.کیمومیلا کی تکلیفیں نیٹرم میور کی طرح صبح نو بجے زیادہ ہو جاتی ہیں.بعض اوقات رات کو نو بجے بھی علامات تیز ہو جاتی ہیں.مریض کے کانوں میں شور کی آواز میں آتی ہیں، پٹاخے بجتے ہیں اور کان ہوا کے جھونکوں کے لئے بہت حساس ہو جاتے ہیں اور تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.ویسے مریض کھلی ہوا کو پسند کرتا ہے لیکن کا نوں کو ڈھانپ کر باہر نکلتا ہے.جو لوگ عام طور پر مفلر باندھ کر باہر نکلتے ہیں وہ یا تو بہت سردی محسوس کرتے
کیمومیلا 272 ہیں یا ویسے ہی ہوا سے نفرت کرتے ہیں لیکن کیمومیلا کا مریض اس سے مختلف ہے.وہ صرف کان کو ہوا سے بچانا چاہتا ہے، چہر نہیں ڈھانپتا.گلے میں درد شیخ اور سوزش کے ساتھ طبیعت میں غصہ بھی ہو تو کیمومیلا بہترین دوا ہے.کیمومیلا میں بہت شدید پیاس ہوتی ہے.کافی (Coffee) پینے کی وجہ سے نیند نہ آئے تو عموماً نکس وامیکا مفید ہے لیکن کافی کے بداثرات کو کلیتا مٹانے کے لئے کیمومیلا زیادہ مؤثر ہے اور کیمومیلا کے بداثرات کافی سے دور کئے جاسکتے ہیں.اگر گندے انڈوں کی بو والی گیس پیدا ہو اور ڈکار بھی ایسی ہی بو کے ہوں تو اس کے ازالہ کے لئے کیمومیلا اچھی دوا بتائی جاتی ہے.اکثر ایلو پیتھک ڈاکٹر درد کے احساس کو کم کرنے کے لئے مارفین استعمال کرتے ہیں.خصوصاً دل کے دوروں میں درد کی شدت کو کم کرنے کے لئے مارفین بہت کثرت سے استعمال ہوتی ہے.اس کے استعمال کے بعد ردعمل کے طور پر بہت الٹیاں آتی ہیں.کیمومیلا ان الٹیوں کو بند کرنے میں بہت مفید دوا ہے.کیمومیلا کے پیٹ درد میں مریض تکلیف کی شدت سے دو ہرا ہو جاتا ہے.یہ علامت کولو سنتھ میں بھی پائی جاتی ہے، دردنا قابل برداشت ہوتے ہیں، ناف اور جگر کے مقام پر درد ہوتا ہے.شدید غصہ کے دورہ کے بعد پیٹ میں تشیخی کیفیت پیدا ہوتی ہے، بد بودار ڈکار آتے ہیں،گرم اشیاء سے نفرت ہو جاتی ہے ، زبان کا رنگ زردی مائل اور منہ کا مزاکٹر وا ہوتا ہے.اگر قے آئے تو وہ بھی کڑوی ہوتی ہے، پیٹ میں بہت بوجھ محسوس ہوتا ہے.یہ سب کیمومیلا کی علامات ہیں.بعض عورتوں کو حیض کے خون میں چھیچھڑے سے آتے ہیں.یوں محسوس ہوتا ہے کہ اندرونی جھلیوں کا ٹکڑا کٹ کر ساتھ آیا ہو.اس خاص تکلیف کا بھی کیمو میلا سے گہرا تعلق ہے اور یہ اس کا اچھا علاج ہے.کیمومیلا میں دوران حمل اور وضع حمل کے وقت تشیخ ہو جاتا ہے.بچے کی پیدائش کے بعد بہت خون بہنے لگے تو اس میں بھی کیمومیلا کو یا درکھنا چاہئے.بعض دفعہ
کیمومیلا 273 یدا کیلی ہی اس جریان خون کے لئے مفید ہوتی ہے.جس کا بچے کی پیدائش سے تعلق ہو.بعض عورتوں کو بچوں کو دودھ پلاتے ہوئے جسم کے کسی حصہ میں تشیخ ہو جاتا ہے.اگر یہ شیخ بالخصوص ٹانگوں یا گردن میں ہو تو کیمومیلا کی ایک دو خوراکوں سے ہی فائدہ ہوگا بلکہ یہ دوا بچے کے لئے بھی مفید ہوگی.دودھ پیتے بچے کو دو دینی ہو تو اس کی ماں کو دی جائے.جب وہ دودھ پلائے گی تو بچے کو بھی دوا پہنچ جائے گی لیکن بعض اوقات ایسا نہیں بھی ہوتا اس لئے براہ راست دوا دی جا سکے تو دینی چاہئے.اگر بچے کی بیماری کی علامتیں ایسی ہوں جو ماں کے عمومی مزاج کے مطابق ہوں یعنی ماں کو بھی ایسی بیماریاں ہوں تو پھر ماں کو دوار بنا ہی بہت کافی ہے.کیمومیلا کھانسی کے لئے بھی مفید دوا ہے.بچہ کو سوتے ہوئے یا غصہ آنے پر کھانسی شروع ہو جائے تو کیمومیلا بہت اچھا کام کرتی ہے.کالی کھانسی کی وبا پھیلی ہو تو بھی کیمومیلا اس کے خلاف دفاع کو مضبوط کرتی ہے.اگر بچے کا مزاج غصے والا ہو تو کیمومیلا اور بھی اچھا کام کرے گی لیکن اس کے بغیر بھی یہ بعض موسمی کھانسیوں میں کافی مفید ہے.دانت نکالنے کے زمانہ میں جب شیر خوار بچہ بہت ضدی، چڑ چڑا اور بے چین ہو، اسہال آتے ہوں تشنج بھی ہو جائے تو اس کے لئے کیمومیلا بہت ضروری دوا ہے.اگر بچہ نیند میں روئے اور چیخے اور اسے ڈراؤنے خواب آئیں تو بھی کیمو میلا دینی چاہئے.کیمومیلا کو کان کے درد میں بہت اونچا مقام حاصل ہے.اس میں عموماً تین دوائیں روزمرہ کام آتی ہیں.اگر بچہ درد سے روئے لیکن اس کے رونے میں نرمی ہو اور بیچارگی پائی جائے تو پلسٹیلا (Pulsatilla) اور اگر رونے کے ساتھ انتہائی غصہ ہو تو کیمومیلا اور یہ دونوں علامتیں نمایاں نہ ہوں تو بسا اوقات ایلیم سیپا کام آتی ہے.اینٹی ڈوٹ : نکس وامیکا.کافیا مددگار دوائیں : بیلا ڈونا.میگ کا رب طاقت: 30 ، 1000 یا بعض دفعہ CM
274
چیلی ڈونیم 275 68 چیلی ڈونیم CHELIDONIUM چیلی ڈونیم جگر کی اکثر بیماریوں میں بہت مفید ہے.اس کے علاوہ کھانسی سے بھی اس کا گہرا تعلق ہے.اس کی کھانسی کی جڑ عموم ادائیں پھیپھڑے میں ہوتی ہے.گلے میں خراش کی وجہ سے بار بار کھانسی اٹھے اور کسی اور دوا سے افاقہ نہ ہو تو جیلی ڈونیم دینے سے غیر معمولی فائدہ ہوتا ہے.ایک مریض کئی سال سے ایسی کھانسی میں مبتلا تھا میں نے اسے چیلی ڈونیم کے ساتھ ریو میکس (Rumex) ملا کر دی تو اللہ کے فضل سے بہت جلد نمایاں فرق پڑ گیا.ریو میکس بھی پرانی کھانسیوں کے لئے اچھی دوا ہے.عمو مأخشک کھانسی میں مفید ثابت ہوتی ہے.چیلی ڈونیم کی کھانسی کی خاص علامت یہ ہے کہ ہر وقت گلے میں خراش اور جلن رہتی ہے جس سے مریض بے چین رہتا ہے اور اس کیفیت سے تنگ آ جاتا ہے.چیلی ڈونیم اس کیفیت میں انتہائی مفید اور مؤثر دوا ہے.کھانسی کی تیزی اور شدت کو ختم کر کے اس میں نمی پیدا کر دیتی ہے جس سے طبعاً مریض کا چڑ چڑا پن اور غصہ بھی ختم ہو جاتا ہے.کھانسی کی دوسری دواؤں سے آہستہ آہستہ مکمل شفا تو ضرور ہو جاتی ہے لیکن یوں ایک دم چین نہیں آتا.چیلی ڈونیم سے کھانسی نرم اور بے ضرر ہو جاتی ہے.اس کی کھانسی کی علامت یہ بھی ہے کہ ساتھ ہلکاہلکا چمٹا ہوا بلغم رہتا ہے جو نکلتا نہیں.اگر نکل بھی جائے تو گلا صاف نہیں ہوتا.فوراً دوبارہ خراش شروع ہو جاتی ہے.اس صورت میں اس کے ساتھ کا کس (Coccus) ملا کر دینی چاہئے.چیلی ڈونیم یرقان کی بڑی مؤثر دوا ہے، نمونیہ میں بھی بہت مفید ہے اور ایسی پلوری (Pleurisy) بھی جس میں پھیپھڑوں کی مچھلی سطح پر سوزش ہو جائے ، اس کے
چیلی ڈونیم دائرہ اثر میں ہے.276 چیلی ڈونیم کے مریض کے پیشاب کا رنگ زرد ہوتا ہے جس میں زہریلی سی تیزی پائی جاتی ہے.اگر قبض ہو تو اجابت سخت گولیوں کی شکل میں ہوتی ہے جیسے بکری کی مینگنیاں ہوں.اسہال شروع ہو جائیں تو ان کی رنگت بھوری مٹی کی طرح ہوتی ہے.قبض اور اسہال آپس میں ادلتے بدلتے رہتے ہیں.معدہ کا درد کمر تک پھیل جاتا ہے.کھانا کھانے سے وقتی طور پر معدہ کی تکلیفوں میں آرام محسوس ہوتا ہے.گرم خوراک اور گرم پانی مرغوب ہوتا ہے.خصوصاً گرم ودھ پینے کی خواہش ہوتی ہے.چیلی ڈونیم پتے کی پتھری میں بھی مفید ہے.اس کا درد پیچھے کمر کی طرف پھیل جاتا ہے جبکہ بر برس کے مریض کا درد چاروں طرف پھیلتا ہے.چیلی ڈونیم کی برائیونیا سے بھی مشابہت ہے.اس کی تکلیفیں بھی عموماً دائیں طرف ہوتی ہیں اور حرکت سے تکلیف بڑھتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ برائیونیا میں جس طرف تکلیف ہو مریض اسی کروٹ پر لیٹتا ہے.چیلی ڈونیم میں مریض اس کروٹ لیٹے تو تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے.چیلی ڈونیم کے مریض کو گرمی سے سر درد میں اضافہ ہوتا ہے.گرم ملکوں میں یہ دوا گرمی کی شدت سے پیدا ہونے والے سر درد میں مفید ثابت ہوسکتی ہے.چیلی ڈونیم میں سردرد کے ساتھ غنودگی اور چکر بھی آتے ہیں.سر بھاری اور سن ہونے کا احساس بھی ہوتا ہے.آگے کی طرف گرنے کا رجحان ہوتا ہے.سردرد دائیں طرف کان کے پیچھے کندھے تک پھیل جاتا ہے.دائیں کندھے اور سینہ کے دائیں طرف درد ہوتا ہے.کھانسی کے ساتھ بلغم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے نکلتے ہیں.ہتھیلیاں اور کلائیاں دکھتی ہیں.انگلیوں کے کنارے برف کی طرح ٹھنڈے ہو جاتے ہیں.آنکھوں کے سفید پردے کا رنگ زردی مائل ہو جاتا ہے.اوپر دیکھنے سے آنکھوں میں درد ہوتا ہے.آنسو نکلتے رہتے ہیں.اعصابی درد میں عموماً دائیں آنکھ کے اوپر اپنا مقام بناتی ہیں.مریض کے چہرے کا رنگ زرد ہوتا ہے.یہ زردی رخساروں اور ناک پر نمایاں ہوتی ہے.جلد خشک اور زردی مائل ہوتی ہے.زبان پر بھی زردی چھائی رہتی
چیلی ڈونیم 277 ہے اور زبان ڈھیلی ڈھالی ہو جاتی ہے.جگر کی خرابی کی وجہ سے قے آنے کا بھی رجحان ہوتا ہے.گردوں میں بھی جلن اور خراش ہوتی ہے اور پیشاب میں چھیچھڑے سے آنے لگتے ہیں.جسم کو ہاتھ لگانے سے دکھن کا احساس ہوتا ہے.کو لہے اور رانوں میں درد ہوتا ہے.پاؤں کی ایڑیوں میں نا قابل برداشت در داور دواؤں کے علاوہ چیلی ڈونیم کی بھی علامت ہے.مددگار دوائیں : لائیکو پوڈیم.برائیونیا دافع اثر دوائیں : کیمومیلا طاقت: 30 سے 1000 تک
278
چینو پوڈیم 279 69 چینوپوڈیم CHENOPODIUM (Jeros Oak) چینوپوڈیم یروشلم میں اگنے والے Oak سے بنائی جاتی ہے.یہ کافی وسیع الاثر دوا ہے.اس کا اعصاب اور اعصاب کے فالج سے تعلق ہے.جہاں تک قوتِ سماعت کے آلات کے فالج کا تعلق ہے اکثر معالجین کے نزدیک اس کا کوئی علاج نہیں ہے.اگر اعصاب واقعی مر چکے ہوں تو کہا جاتا ہے کہ وہ دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتے لیکن اب تحقیق سے دریافت ہوا ہے کہ مرے ہوئے اعصاب کی جگہ لینے کے لئے بعض دوسرے اعصاب کے سرے مردہ اعصاب کے ساتھ اپنی شاخیں بڑھانے لگتے ہیں.خصوصا آنکھوں کے اعصابی ریشوں کے متعلق جدید سائنسی تحقیق سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ یہ بظاہر مر بھی جائیں تو نئے پیدا ہونے لگتے ہیں اور بعض دفعہ ایک آنکھ ضائع ہو جائے تو اس آنکھ کے ریشوں کی طرف صحت مند آنکھ کے ریشے بڑھ کر ان سے رابطہ کر لیتے ہیں.اس پر مزید تجربے ہو رہے ہیں.اگر چہ مردہ اعصاب زندہ نہیں ہوتے مگر دوسرے اعصاب ان کی جگہ لے لیتے ہیں.اگر اعصاب کلیتا مرے نہ ہوں بلکہ نیم مردہ ہوں تو چینو پوڈیم ایسے نیم مردہ اعصاب کو دوبارہ زندگی بخشنے کی طاقت رکھتی ہے.چینو پوڈیم کے اکثر مریض بعض آوازوں کو بآسانی سن لیتے ہیں اور بعض کو بالکل نہیں سن سکتے.مثلاً مردوں کی آواز سنائی نہیں دیتی لیکن عورتوں اور بچوں کی آوازیں سن لیتے ہیں کیونکہ انہیں موٹی آواز میں کم سنائی دیتی ہیں جبکہ باریک آوازیں وہ سن سکتے ہیں.کئی ایسے مریض جو بہت کم سن سکتے تھے اس دوا سے شفایاب ہو گئے اور بہت نمایاں فرق پڑا.بعض دفعہ کان کی خرابی کی وجہ سے چکر آتے ہیں.شنوائی میں کمی آجاتی ہے.
چینوپوڈیم 280 اور کانوں میں شور کی آواز آتی ہے.ایسی صورت میں بھی چکروں کے علاوہ چینو پوڈیم قوتِ شنوائی کے حسی عضلات یا ریشوں کے امراض میں مفید ہے.اگر آواز اچانک بند ہو جائے تو یہ اس عارضہ میں بھی فائدہ دیتی ہے.چینو پوڈیم دائیں طرف کے آدھے جسم کے فالج کے لئے بھی مفید ہے.کندھے کے جوڑ کے درد کے لئے بھی مفید ہے.لائیکو پوڈیم دائیں کندھے کے جوڑ کے درد کی دوا ہے لیکن چینو پوڈیم میں دونوں طرف درد ہوتا ہے.چینوپوڈیم کے مریض میں بھی اوپیم کی طرح Apoplexy ہو جانے کا رجحان ملتا ہے جو اوپیم میں بہت زیادہ ہے لیکن چینو پوڈیم کی Apoplexy بھی اوپیم کے مشابہ ہوتی ہے ایسے مریض کا چہرہ اچانک سرخ ہو جاتا ہے.چینو پوڈیم کے مریض کو اچانک چکر آنے کا عارضہ بھی ہوتا ہے اور مستقل چکر آنے کا جو پیدائشی طور پر اس کی خلقت میں عارضہ پایا جاتا ہے، وہ بھی چینو پوڈیم کی امراض میں شامل ہے.اس مرض کو Menier's Disease کہتے ہیں.اس میں بار بارسخت چکروں کے دورے پڑتے ہیں جن کے ساتھ شدید قے بھی شروع ہو جاتی ہے.اگر کسی شخص پرستی طاری ہو جائے، بے حسی اور غشی کی حالت ہو، اعصاب میں نیم فالجی کیفیت پیدا ہو اور گلے کے غدود بڑھ جائیں تو یہ چیزیں بھی چینو پوڈیم کے دائرہ اثر میں آتی ہیں.چینو پوڈیم کے مریض کو کمر میں ریڑھ کی ہڈی کے قریب شدید درد ہوتا ہے جو شانوں کی ہڈیوں میں پھیل جاتا ہے اور سینہ میں بھی جاتا ہے.پیشاب بہت زیادہ آنے لگتا ہے جوز ردی مائل اور جھاگ دار ہوتا ہے اور اس کے ساتھ پیشاب کی نالی میں سنساہٹ ہوتی ہے.زردی مائل مادے کی ایک تہہ سی پیشاب کے برتن کی دیواروں پر جمنے لگتی ہے.یہی علامت چیلی ڈو نیم میں بھی پائی جاتی ہے.اگر انتڑیوں میں ملپ (Round Worm) پیدا ہونے لگ جائیں یا کدو دانوں (Hook Worm) کے آثار ملیں تو بعض ڈاکٹروں کے بیان کے مطابق ایسے مریض کو چینو پوڈیم کا تیل تھوڑا تھوڑا پلانے سے کچھ عرصہ کے اندر ان دونوں قسم کے کیڑوں سے
چینو پوڈیم 281 نجات مل جاتی ہے.مجھے اپنے کسی مریض پر اس کا تجربہ نہیں.طاقت چینوپوڈیم عموماً 3 طاقت میں استعمال کی جاتی ہے لیکن میں نے اسے 30 طاقت میں بہت مفید پایا ہے.Worms کے لئے چینو پوڈیم کا تیل دس دس قطرے ہر دو تین گھنٹے کے بعد پلایا جاتا ہے.
282
چینینم آرس 283 70 چینینم آرس CHININUM ARS (Arsenite of Quinine) چینیم آرس ان لوگوں کی دوا ہے جن کے خون کا نظام لمبی بیماریوں کی وجہ سے درہم پر ہم ہو چکا ہو، جگر کے افعال ست پڑ گئے ہوں اور ہڈیوں کے گودے میں نقص واقع ہو گیا ہو.خون کی کمی کی وجہ سے چیرو پر ورم اور بے روتی ہو، جھریاں پڑنے لگیں، چہرہ بہت بوڑھا دکھائی دے اور مریض بالکل کھو کھلا اور بے جان سا ہو.چینینم آرس ایسے مریضوں کے لئے مثالی دوا ہے لیکن اس کے باوجود چینینم آرس کے بنیادی مزاج کو سمجھے بغیر اس سے استفادہ نہیں کیا جاسکتا.چینینم آرس چائنا اور آرسینک کا مرکب ہے.یہ دواسکونا بارک (Cinchona Bark) سے حاصل کی جاتی ہے جس سے پرانے زمانے میں کو نین بنتی تھی جو ملیریا کی بہترین دوا کبھی جاتی تھی.بعد میں اور بہت سی دوائیں ایجاد ہوئیں لیکن کونین کا اپنا ہی مقام ہے.ملیریا کے ختم ہونے کے بعد جو بد اثرات جسم میں باقی رہ جاتے ہیں چھینینم آرس ان کو دور کرنے کی اچھی دوا ہے.عموماً جگر اور تلی بڑھ جاتے ہیں.جلد پر خشکی اور بے رونقی نظر آتی ہے، ساری جلد زرد پڑ جاتی ہے.سانس بہت چڑھتا ہے.بھوک ختم ہو جاتی ہے.ایسے مریضوں کو چینینم آرس فوری فائدہ نہیں پہنچاتی.ہاں لمبا عرصہ استعمال کرنے سے ان کی کایا پلٹ دیتی ہے.ٹھنڈی ہوا سے چھینینم آرس کی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.جسم میں ہر وقت سردی کا ملکا
چینینم آرس 284 ہلکا احساس رہتا ہے.مزمن اسہال پانی کی طرح پہلے اور متعفن ہوتے ہیں.جسم میں جگہ جگہ ور میں پائی جاتی ہیں.حرکت سے سخت نفرت ہوتی ہے اور مریض بے حس و حرکت پڑا رہنا پسند کرتا ہے.پینینم آرس میں عضلاتی دھڑکن بھی پائی جاتی ہے جو سارے جسم میں انگلیوں کے کناروں تک محسوس ہوتی ہے.نبض کمزور اور باریک دھاگے کی طرح بہت ہلکی چلتی ہے.پیشنم آرس میں لیکیس کی طرح سونے کے بعد تکلیفیں بڑھتی ہیں.جسم میں بے چینی رہتی ہے جو شام کو بڑھ جاتی ہے.بعض مریضوں کو یہ احساس رہتا ہے کہ وہ ایسے گناہ گار ہیں جو بخشے نہیں جائیں گے.چھینینم آرس میں مریض بالکل معمولی چیزوں پر اپنے آپ کو بہت گناہ گار سمجھنے لگتا ہے اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر وہم میں مبتلا ہوکر خوف اور تو ہمات کا شکار ہو جاتا ہے.ایسے مریض کو بعض دفعہ عجیب وغریب نظارے بھی نظر آنے لگتے ہیں.چینینم آرس کے مریض کو بخار ہو تو وہ گھبرا کر بستر سے باہر نکلتا ہے.ہر وقت بے چین رہتا ہے.آہستہ آہستہ زندگی سے مایوسی اور نفرت ہونے لگتی ہے،شور نا قابل برداشت ہو جاتا ہے اور یادداشت کمزور پڑ جاتی ہے.ایسے مریض جنہوں نے اپنی زندگی او باشی اور عیاشی میں گزاری ہوان میں چینینم آرس کی علامات کا پیدا ہونا زیادہ قرین قیاس ہے.چینینم آرس میں اعصابی کمزوری اور خون کی کمی سے سوتے ہوئے جھٹکا لگتا ہے.یہ علامت کئی دواؤں میں بار بار زیر بحث آ چکی ہے.چینینم آرس میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے کہ اس میں اعصابی کمزوری اور خون کی کمی کی وجہ سے جھٹکا لگتا ہے.کبھی درد کے احساس سے آنکھ کھل جاتی ہے اور در دبجلی کے کوندے کی طرح جسم میں پھیل جاتا ہے.چھینینم آرس میں جو تکلیف خون کا دباؤ کم ہونے سے ہوتی ہے وہی تکلیف آرنیکا، بیلا ڈونا وغیرہ میں خون کا دباؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے ہو جاتی ہے.بازو، ٹانگیں اور ہاتھ پاؤں سخت ٹھنڈے ہو جاتے ہیں لیکن پھر خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے.چینینم آرس کی یہ خاص علامت ہے.
چینینم آرس 285 پیشنم آرس میں دائیں پہلو میں زیادہ کمزوری ہوتی ہے مثلا گردن کا دایاں حصہ اور دایاں بازو متاثر ہوتے ہیں.کمزوری بڑھے تو تشنج ہونے لگتا ہے.رات کے وقت سر میں درد ہوتا ہے.نزلے سے بھی سر درد شروع ہو جاتا ہے.عموماً جب نزلہ دب جائے تو درد میں اضافہ ہو جاتا ہے.سر میں ہتھوڑے پڑنے کا احساس ہوتا ہے.یہ احساس عمومأ خون کی کمی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.یہ علامت نیٹرم میور میں بھی نمایاں ہوتی ہے کیونکہ یہ بھی خون کی کمی کی بہترین دوا ہے.اس میں خون میں پانی کی مقدار زیادہ ہو جاتی ہے.چینینم آرس میں خون کے سرخ ذرے کم ہونے کی وجہ سے خون کی کمی ہوتی ہے.اس لئے اس کی ور میں پھولی ہوئی اور کھوکھلی ہوتی ہیں.سر کے باہر بھی عضلات میں درد ہونے لگتا ہے ،سردی میں تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.پینینم آرس میں آنکھوں کی علامتیں بھی پائی جاتی ہیں.روشنی سے زود سمی اور گرم آنسو بہتے ہیں.نیٹرم میور میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے.جہاں تک آنکھوں کا تعلق ہے چینینم آریس میں زخم ایک آنکھ میں نہیں بلکہ دونوں آنکھوں میں پائے جاتے ہیں.السر اور ایگزیما کی تکلیفیں بیک وقت دونوں طرف ہونے کارجحان چینینم آرس کے علاوہ آرنیکا میں بھی ملتا ہے.آرنیکا میں اگر ایک آنکھ میں خارش ہوتو دوسری میں بھی ہوگی.بیک وقت دونوں طرف تکلیف ہوتی ہے.چینینم آرس میں بھی یہی علامت ہے لیکن آنکھوں کے سامنے تارے اور چنگارے بائیں آنکھ میں دائیں آنکھ کے مقابل پر زیادہ نظر آتے ہیں.بائیں آنکھ سے پانی بہتا ہے اور درد کا احساس، کانوں میں شور اور آوازیں سنائی دیتی ہیں.قوت سامعہ غیر معمولی طور پر تیز ہو جاتی ہے یا مریض بہرہ ہونے لگتا ہے.یہ متضاد علامات چھینینم آرس کا خاصہ ہے.ناک سے خون آمیز رطوبت اور بد بودار پیپ نکلتی ہے.ناک اندر سے گلنے لگتا ہے.ہونٹوں اور ناک کے کنارے چھلنے لگتے ہیں.چہرہ کا رنگ پیلا اور مٹیالا سا ہو جاتا ہے اور چہرہ خمیر کی طرح پھولا ہوا دکھائی دیتا ہے.نیز ایک عجیب قسم کی چمک چہرہ کے ایک حصہ پر نمایاں ہو جاتی ہے.جو خون کی کمی کی مزید نشاندہی کرتی ہے.منہ کی اندرونی جھلیوں
286 چینینم آرس سے خون بہنے کا احتمال ہوتا ہے.زبان پر لکیریں ظاہر ہوتی ہیں.کالا، بھورا، سفید اور زردرنگ زبان پر پایا جاتا ہے.مسوڑھے سوجے ہوئے، دانت مسوڑھوں کو چھوڑ نے لگتے ہیں ، منہ کا مزہ خراب ، اچھے سے اچھا کھانا بھی برا لگتا ہے، نہ ختم ہونے والی پیاس، رات کو دانتوں میں درد اور دانت کٹکٹانے کو دل چاہتا ہے جس کی وجہ سے نیند بے چین ہو جاتی ہے.گلا خشک اور بعض دفعہ گلے سے سخت بدبو آتی ہے.یہ بہت خطرناک علامت ہے کیونکہ یہ زخموں کے بگڑنے اور ناسور بنے کا رجحان ظاہر کرتی ہے.اگر ایسے مریض میں چھینینم آرس کی علامات نمایاں نہ ہوں تو بلا تاخیر آرسنک اونچی طاقت میں دے دینی چاہئے.چینینم آرس کی ایک علامت یہ ہے کہ اگر گلا نہ بھی خراب ہو تو پانی کا گھونٹ یا لقمہ نگلتے ہوئے درد ہوتا ہے.ہر وقت گلا کھنکار نے (صاف کرنے ) کی حاجت محسوس ہوتی رہتی ہے.چینینم آرس میں کبھی بھوک بالکل مٹ جاتی ہے اور طبیعت بدمزہ رہتی ہے لیکن بعض دفعہ شدید بھوک لگتی ہے جو ختم ہی نہیں ہوتی.کھانا کھاتے ہی پیٹ پھول جاتا ہے.جلن اور تیزابیت پیدا ہو جاتے ہیں، اور کھانے کے تھوڑی دیر بعد ہی پھر بھوک لگ جاتی ہے.مچھلی اور انڈا ہضم نہیں ہوتے لیکن ان کے خلاف الرجی نہیں ہوتی.اگر انڈے سے الرجی ہو جائے تو اس میں کلکیریا کارب اونچی طاقت میں ایک خوراک دینے سے ہی الرجی ٹھیک ہو سکتی ہے.کبھی نہیں بھی ہوتی مگر اکثر ہو جاتی ہے.چی نینم آرس کے مریض کو متلی ہو تو نیند نہیں آتی.متلی ختم ہوتے ہی نیند آ جاتی ہے مگر سونے کے کچھ دیر کے بعد ایک دم قے ہو جاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ متلی وقتی طور پر دب گئی تھی لیکن اصل وجہ موجود رہی.ملیریا کے بعد پیٹ میں جو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں وہ سب چھینینم آرس میں پائی جاتی ہیں.جگر اور تلی ابھرے ہوئے مگر باقی سارا پیٹ سکٹر کر کمر کے ساتھ لگ جاتا ہے.قبض میں سدے نکلتے ہیں.آرسنک کے مریضوں کو بھی بعض پھلوں سے اسہال لگ جاتے ہیں.
چینینم آرس 287 چینینم آرس میں بواسیر کے مسے بھی پائے جاتے ہیں جو پھولے ہوئے اور نیلگوں ہوتے ہیں.خارش بھی ہوتی ہے.پیشاب میں البیومن اور شوگر آتے ہیں.یہ دوامر دانہ اور زنانہ جنسی کمزوریوں میں بھی مفید ہے.عورتوں میں چھیلنے والا، لیکوریا تکلیف دہ اور خون کی آمیزش کے ساتھ ہوتا ہے.حیض مقدار میں بہت زیادہ، کھلے، بد بودار، سیاه یا زردی مائل ، لمبا عرصہ چلیں یا پھر بالکل بند ہو جائیں.اگر چھینینم آرس کی مزاجی علامتیں پائی جائیں تو حیض کی یہ تکلیفیں خدا کے فضل سے دور ہو سکتی ہیں.چینینم آرس میں سانس کی نالی میں شیخ اور چھیلنے کا احساس اور سانس کی گھٹن ہوتی ہے، گہرا سانس لینا مشکل ہوتا ہے کیونکہ سانس کی نالی میں اس سے خارش ہوتی.دموی کھانسی کی علامات بھی پائی جاتی ہیں.دل میں درد، تنگی اور گھٹن کا احساس تشنج ، سوجن، کمزوری اور دھڑ کن ، ہاتھ پاؤں ٹھنڈے، پنڈلیوں میں بیج جسم میں ہائی کی دردیں گھٹنوں اور ٹانگوں میں درد صرف رات کے آخری حصہ میں چین کی نیند آتی ہے.ہے.یہ امر پیش نظر رکھنا لازمی ہے کہ مریض انتہائی کمی خون کا شکار ہو تو یہ دوا او پر درج کردہ سب تکلیفوں میں مفید ہے.پر خون مریضوں میں یہ دوا کام نہیں کرتی.الا ماشاء اللہ طاقت : 30 سے 1000 تک
288
کولسٹر بینم 289 71 کولسٹر مینم CHOLESTERINUM یہ دوا صفراء سے بنائی جاتی ہے.جگر اور پتے کی بیماریوں میں بہت مفید ہے.پستہ کے درد کے لئے بہترین دوا ہے.میں نے اپنے تجربہ سے اسے جگر، پستہ ، تلی اور لبلبہ کی امراض میں بہت مفید پایا ہے.جگر کے کینسر میں بھی بہت فائدہ مند ہے.جسم میں چربی جمنے کے رجحان کو بھی دور کرتی ہے.اگر خون میں چکنائی زیادہ ہو جائے یعنی کولیسٹرول (Cholesterol) کا تناسب بڑھ جائے تو اس کو ٹھیک کرنے میں بھی کارآمد ثابت ہوتی ہے.امریکہ میں بعض مریضوں نے کولیسٹرول کم کرنے کے لئے جدید ترین طریقوں سے ایجاد کی گئی دوائیں استعمال کیں لیکن کچھ فائدہ نہ ہوا.جبکہ کولسٹرینم کے استعمال سے انہیں نمایاں فرق محسوس ہوا.کولسٹرینم پستہ اور لبلبہ کی سوزش اور پتھری کی روک تھام میں مفید ہے.اگر آغاز میں ہی دے دی جائے تو مریض کافی پیچیدگیوں سے محفوظ ہو جاتا ہے.اگر پتھریاں بن جائیں تو اس دوا کے اثر سے نرم ہو کر گھلنے لگتی ہیں اور دیکھتے دیکھتے غائب ہو جاتی ہیں.کولسٹر بینم میرقان کے لئے بھی اچھی دوا ہے.تلی بڑھ جائے تو اچھا اثر دکھاتی ہے.اس کے مریض میں بے چینی اور بیزاری نمایاں ہوتی ہے.مریض بے خوابی کا شکار بھی ہو جاتا ہے لیکن آرسینک والی کیفیت نہیں ہوتی اور نہ ہی کیمومیلا کی طرح چڑ چڑا پن ظاہر ہوتا ہے.سانس میں گھٹن کے لئے بھی مفید دوا ہے.مارفیا اس دوا کے اثر کو زائل کر دیتی ہے.طاقت : 30 تک
290
سیکوٹاوروسا 291 72 سیکوٹا وروسا CICUTA VIROSA (Water Hemlock) سیکوٹا ور وساتشنجات کی چوٹی کی دوا ہے.تشیخ اور تشیخی جھٹکے اس کی خاص علامت ہیں.اگر اعصابی بے چینی ہو، زود حسی ہو اور معمولی دباؤ سے بھی اعصاب جھنجھنا اٹھیں تو بعض مریضوں کو شیخ شروع ہو جاتا ہے جو جسم کے مرکز سے کناروں کی طرف حرکت کرتا ہے.سیکوٹا کی سی علامت دوسری دواؤں کے برعکس ہے کیونکہ شیعی کیفیت عموماہاتھ کی انگلیوں اور پاؤں کے تلووں سے شروع ہو کر اوپر جسم میں منتقل ہوتی ہے لیکن سیکوٹا میں اگر معدے سے شیخ شروع ہوتو وہ حرکت کر کے باقی اعضاء میں پھیل جاتا ہے.گردن میں اکثر اؤ اور شیخ شروع ہو تو وہ جسم کے نچلے حصوں میں منتقل ہو جاتا ہے.مرکز سے کناروں کی طرف حرکت اس دوا کی خاص علامت ہے.اس دوا میں تشیخ کا آغاز عموماً معدہ یا دل کے اردگر دسنسناہٹ سے ہوتا ہے.نازک اعصاب کو چوٹ لگ جائے یا کوئی کانٹا چبھ جائے تو اس کے نتیجہ میں بھی تکلیف عموم سے زیادہ محسوس ہوتی ہے.اگر اس سے تشیخ ہو جائے تو یہ دوا مفید ہے.آرنیکا اور لیڈم بھی بہت موثر دوائیں ہیں.ان کے علاوہ ہائی پیر یم سٹیفی سیگر یا اور روٹا بھی اعصاب کے زخمی ہونے اور اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تکلیفوں میں بہت مفید ہیں.سیکوٹاوروسا کی بعض علامات Catalepsy سے بھی ملتی ہیں.اس بیماری میں ذہن تشیخ کے نتیجہ میں عارضی طور پر سن ہو جاتا ہے.مریض بھول جاتا ہے کہ وہ کون ہے اور کہاں ہے؟ دماغ میں ایک لہر سی اٹھتی ہے جس کے نتیجہ میں مریض گرد و پیش سے کلیتا
سیکوٹا وروسا 292 بے تعلق ہو جاتا ہے.اس بیماری میں یہ دوا بہت اہم ہے.Catalepsy اور Apoplexy میں یہ فرق ہے کہ Apoplexy میں مریض دماغ میں خون جمنے کے نتیجہ میں بالکل بے حس و حرکت اور مفلوج سا ہو جاتا ہے.Catalepsy میں گو بظاہر غافل دکھائی دیتا ہے لیکن اس سے کوئی بات کی جائے تو اس کا درست جواب دیتا ہے.بعد ازاں اسے بالکل یاد نہیں رہتا کہ کیا ہوا تھا.حال کے واقعات کو ماضی سے ملا دیتا ہے.پرانے دوست کومل کر بہت حیران ہوتا ہے کہ شائد اس سے پہلے بھی کبھی مل چکا ہو.سیکوٹا ور وسا اس بیماری میں بہت مفید ہے جس میں سر اور گردن کے عضلات تشنج کی وجہ سے پیچھے کی طرف کھینچ جاتے ہیں.سیکوٹا ور وسا میں تشنج گردن کے پیچھے ہوتا ہے اور مریض پیچھے کی طرف کمان کی طرح اکٹر جاتا ہے.اس کے علاوہ دماغ کے درم (Meningitis).پیدا ہونے والی ایشٹھن کے لئے بھی بہت مفید دوا ہے.مرگی کے دورہ میں اگر مریض غش کھا کر پیچھے کی طرف گرے تو اس میں بھی یہی دوا کام آئے گی.گو یا مرگی سے ملتی جلتی بیماریوں میں اور چوٹ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تکلیفوں میں اس کی مخصوص علامتوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے.یاد رہے کہ اس کا شیخ مرکز سے باہر کی طرف حرکت کرتا ہے.سیکوٹا کی ذہنی علامات نیٹرم میور سے مشابہ ہیں.اگر بوڑھے آدمیوں میں آرٹیرسکلر وسس (Arteriosclerosis) کی وجہ سے شریا نہیں تنگ ہو جائیں اور دماغ میں خون کا دوران پوری طرح سے نہ ہو تو ایسے مریضوں کا معدہ خراب ہونے پر برین فیگ Brainfag) ( یعنی وقتی طور پر یادداشت کا غائب ہو جانا ) کے دورے پڑنے لگتے ہیں.اس میں نکس وامیکا مفید ہے.سیکوٹا وروسا کی بیماریاں اعصاب سے تعلق رکھتی ہیں.اگر معدے میں اعصابی شیخ ہو تو پھر یہ دوا ہو گی ورنہ نہیں.سیکوٹا دروسا کے مریض کی ایک ذہنی علامت یہ ہے کہ بعض اوقات زیادہ گیا گذرا مریض کھانے پینے کی چیزوں کے مزہ میں فرق نہیں کر سکتا.مزہ چکھنے کے غدود متاثر ہوتے ہیں ، زود حسی کی
سیکوٹا وروسا 293 بجائے بے حسی پائی جاتی ہے.کچی اور پکی ہوئی چیزوں میں فرق نہیں کرسکتا، دونوں شوق سے کھالے گا.بعض بچے کوئلہ مٹی، چونا اور کا غذ وغیرہ کھاتے ہیں.یہ کیلشیم کی کمی کی وجہ سے ہوتا ہے.اس کا دماغی بیماری سے کوئی تعلق نہیں ہے.سیکوٹا کا مریض بچوں والی حرکتیں کرتا ہے.بستر پر چھلانگیں لگائے گا، عجیب وغریب باتیں کرے گا، ناچے گا، گائے گا.وہ بچوں کی طرح چیختا ہے.بے وقوفانہ خیالات رکھتا ہے.اگر مرگی کا دورہ کسی اچانک خوف کے نتیجہ میں پڑے توا یکونائٹ ایک ہزار فوری فائدہ تو پہنچاسکتی ہے، مستقل فائدہ نہیں پہنچاتی.سیکوٹ اور وسا ایسے خوف سے پیدا ہونے والے شیخ یا مرگی کی مستقل دوا ہے.جب دورہ کی شدت ختم ہو تو ایسے مریضوں کا خوف غم میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اداسی چھا جاتی ہے.یہ ایک زائد علامت ہے جو سیکوٹ اور وسا کی طرف اشارہ کرتی ہے.یہ دوا پرانی چوٹوں سے پیدا شدہ تکالیف میں بھی مفید ہے.خصوصا سر پر چوٹ کے بداثرات بعض اوقات فالجی بیماریوں پر منتج ہو جاتے ہیں.عام طور پر اس میں نیٹرم سلف اور آرنیکا کام آتے ہیں.ان کے بعد او پیم اور پیہم کا نمبر آتا ہے.ہاں اگر چوٹ سے تشنج ہونے لگے یا مرگی کے دورے پڑنے لگیں تو سیکوٹا اور وسا خدا کے فضل سے مفید ثابت ہوگی.اگر چوٹ کے نتیجہ میں بھینگا پن پیدا ہو جائے تو اس کی بھی یہی دوا ہے.اس سے پہلے آرنیکا اور نیٹرم سلف بھی ضرور دینی چاہئیں.اگر خوف کے نتیجہ میں آنکھیں اوپر کو چڑھ جائیں، پتلیاں پھیل جائیں اور بھینگا پن پیدا ہو تو سیکوٹا وروسا سے بہتر اور کوئی دوا نہیں.اس کی جلدی علامات کا بھی اعصاب سے تعلق ہے.مثلاً حجامت بنوانے کے بعد پیدا ہونے والی خارش کا بھی یہ علاج ہے کیونکہ استر ا چلنے سے اعصاب میں تناؤ پیدا ہو جاتا ہے اور بالوں کی جڑیں زود حس ہو جاتی ہیں.اعصابی تکلیفیں عموماً جلد کی طرف منتقل ہو جائیں تو علاج مشکل ہو جاتا ہے.سیکوٹا کی واضح علامات موجود ہوں تو یہ دوا کام کرے گی.ہاتھوں اور چہرے پر مٹر کے دانوں کے برابر ابھار بن جاتے ہیں.ایگزیما میں خارش
سیکوٹا وروسا 294 نہیں ہوتی بلکہ دانوں پر لیموں کے رنگ کا سخت کھرنڈ بن جاتا ہے.مچھلی کا کانٹا گلے میں پھنس جائے تو سلیشیا فورا اثر کرتی ہے لیکن اگر بعد میں گلے میں تشنج اور بے چینی باقی رہیں تو سیکوٹا سے آرام آئے گا.سیکوٹا وروسا میں تمام اعضاء میں لرزہ سا طاری ہو جاتا ہے.بازوؤں اور ٹانگوں میں کمزوری کا احساس، اچانک جھٹکوں کے بعد شدید کمزوری، ٹانگیں لڑکھڑاتی ہیں اور جسم کا بوجھ برداشت نہیں کر سکتیں، چکر آتے ہیں، سوتے ہوئے سر پر پسینہ آتا ہے.سیکوٹا میں آنکھوں کی ایک علامت یہ ہے کہ پڑھتے ہوئے حروف نظر سے غائب ہو جاتے ہیں.چیزیں نزدیک آتی ہوئی اور دور ہٹتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں.قوت سامعہ بھی کمزور ہوجاتی ہے.نگلنے میں سخت دقت ہوتی ہے.گلا خشک، غذا کی نالی میں تشنج، سخت پیاس، جلن، ہچکی، ریاح، پیٹ میں اپھارہ بھی سیکورٹاوروسا کی علامات ہیں.صبح کے وقت اسہال اور پیشاب کی نہ ختم ہونے والی خواہش بھی موجود ہوتی ہے.سینہ میں تنگی اور گھٹن کا احساس، سانس لینے میں دقت ، آلات تنفس کے عضلات میں تشنج ، سینے میں گرمی کا احساس سبھی سیکوٹا میں پائے جاتے ہیں.خواتین میں حیض کے ایام میں رحم اور دمچی میں شدید کھینچنے والا درد ہوتا ہے.وضع حمل کے وقت اور بعد میں تشنجی دورے پڑتے ہیں.سیکورٹاوروسا میں چھونے سے ، ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے، چوٹوں سے اور تمباکو کے دھوئیں سے بیماریاں بڑھ جاتی ہیں اور گرمی سے آرام آتا ہے.دافع اثر دوائیں اوپیم اور آرنیکا : طاقت : 6 سے 200 پوٹینسی تک
سائنا 295 73 سائنا CINA سائنا بچوں کی دوا ہے اور پیٹ کے کیڑوں کے لئے مشہور ہے.اس کے مزاج کی خصوصیت بدمزاجی ہے.اس کے مریض بچے چھوٹی چھوٹی بات پر ناراض ہو جاتے ہیں، کوئی چیز انہیں خوش نہیں کر سکتی ، بہت حساس ہوتے ہیں.یہ زود حسی صرف مزاج کی ہی نہیں ہوتی بلکہ ان کی جلد بھی بہت زود حس ہو جاتی ہے.مریض نہ کسی کو اپنے قریب آنے دیتا ہے اور نہ ہی کسی کو چھونے دیتا ہے.اگر ذرا سا بھی ہاتھ لگ جائے تو سخت برا مناتا ہے.کوئی اجنبی آ جائے تو اس سے بھی بہت گھبراتا ہے.کیمومیلا کے مریض کی طرح یہ طرح طرح کی فرمائشیں کرتا ہے لیکن جب فرمائش پوری کر دی جائے تو اپنی مانگی ہوئی چیز پرے پھینک دیتا ہے.اگر کوئی اسے ٹکٹکی لگا کر دیکھے تو ناراض ہو جاتا ہے.جو مریض سائنا کا تقاضا کرتے ہیں وہ سوتے میں دانت پیستے ہیں.نیند میں جھٹکے لگتے ہیں، آنکھ بار بارکھلتی ہے.ڈر کر اور گھبرا کر اٹھ جاتے ہیں، کتوں، جنوں اور بھوتوں کی خوفناک خوا میں آتی ہیں.نیند میں چھینیں مارتے ہیں اور کانپ کر اٹھ جاتے ہیں.بچے گھٹنوں اور ہاتھوں کے بل سونا پسند کرتے ہیں.سائنا کے مریض کی آنکھوں میں شیشے کی طرح ہلکی سی چمک آ جاتی ہے.آنکھوں کے سامنے مختلف رنگ ناچتے ہیں جن میں زرد رنگ نمایاں ہوتا ہے.پتلیاں پھیل جاتی ہیں اور آنکھوں کے آگے اندھیرا بھی چھا جاتا ہے.ناک میں ہر وقت خارش ہوتی ہے اور مریض ناک کو رگڑتا رہتا ہے.کھجلی کبھی ختم نہیں ہوتی.نتھنوں کے کنارے سکڑ کر اندر کی طرف چلے جاتے ہیں.منہ کے اردگرد اور ہونٹوں کے پاس زردی مائل یا نیلے گول گول داغ بن جاتے ہیں.
سائنا 296 سائنا میں تشیخ بھی نمایاں ہوتا ہے.اعضاء میں اینٹھن ہوتی ہے اور جھٹکے لگتے ہیں.اس کے شیخ میں سیکوٹا کی طرح گردن پیچھے کی طرف اکڑتی ہے.ہاتھوں کی انگلیاں اندر کی طرف مڑ جاتی ہیں.جسم میں کپکپی اور لرزے کا احساس ہوتا ہے.اگر ایسے مریض کو کمر پہ پھیکی دیں تو اس کے سر میں درد ہونے لگتا ہے.سائنا کے مریض کی تکلیفیں کھانا کھانے سے بڑھ جاتی ہیں.مریض بہت بھوک محسوس کرتا ہے.بچہ کھٹا دودھ نکالتا ہے.اس کا مزاج کسی حد تک ایتھوزا (Aethusa) سے بھی ملتا ہے.گرمی کا اثر دماغ کے علاوہ معدے اور انتڑیوں پر بھی ہوتا ہے.لیکن ان علامات کا اظہار ایتھوزا سے قدرے مختلف ہوتا ہے.ایتھوزا میں بچہ دودھ پیتے ہی الٹ دیتا ہے اور قبض کا رجحان رکھتا ہے جبکہ سائنا میں اسہال لگ جاتے ہیں یا پیچیش ہو جاتی ہے جس میں سفیدی مائل آؤں آتی ہے.اگر انفیکشن بہت گہری ہو جائے تو سبز رنگ کے اسہال آتے ہیں.سائنا میں مریض کے لمس اور مزے کی حس بہت تیز ہو جاتی ہے یا بہت کم.توازن نہیں رہتا.بسا اوقات کوئی چیز کھاتے ہوئے کسی اور چیز کا مزہ آنے لگتا ہے.دودھ یا پانی پیتے ہوئے یا غذا نگلتے ہوئے گڑ گڑاہٹ کی آواز آتی ہے.کیو پرم اور آرسینک میں بھی یہ علامت ہے.کیو پرم پیٹ کے کیڑوں کے لئے بھی اچھی دوا ہے.سائنا کے اسہال سخت بد بودار ہوتے ہیں اور ایک دم زور سے نکلتے ہیں جو پوڈوفائیلم کی یاد دلاتے ہیں.سائنا کی ایک خاص علامت جو اسے دوسری دواؤں سے ممتاز کرتی ہے یہ ہے کہ بچہ پیٹ کے بل لیٹے تو اسہال رک جاتے ہیں یعنی الٹا لیٹ کر پیٹ دبانے سے افاقہ ہوتا ہے.اگر ملیریا کے حملہ کے بعد مرگی کے دورے پڑنے لگیں تو سائنا کو فراموش نہیں کرنا چاہئے.سائنا میں صبح کے وقت زور دار کھانسی ہوتی ہے اور کھانستے کھانستے تشیخی کیفیت ہو جاتی ہے، سینے میں درد ہوتا ہے، کالی کھانسی کے شدید دورے پڑتے ہیں.بعض عورتوں کو اگر حمل کے دوران غیر متوقع خوشی یا غم کی خبر پہنچے تو بعض تکلیفیں
سائنا 297 مثلاً سر در دیا پیٹ درد شروع ہو جاتی ہیں اور ایسی خبر کے بعد بھی عرصہ تک جاری رہتی ہے.ایسی تکلیفوں میں سائنا بہت مفید ہے.اس کی تکلیفیں کھانا کھانے کے بعد، رات کو اور موسم گرما میں بڑھ جاتی ہیں.دافع اثر دوائیں کیمفر.کیپسیکم : طاقت: 30 سے 200 تک
298
چائنا 299 74 سنکو نا آفیشی نیلس (چائنا) CINCHONA OFFICINALIS (China) چائنا سنکونا کے درخت سے تیار کی جاتی ہے.اسی درخت کے چھلکے سے کونین تیار کی جاتی ہے.ہومیو پیتھک کتب میں اس کا نام سنکونا ہے لیکن چائنا کے نام سے مشہور ہے.یہ بہت اچھی اور مفید دوا ہے.ملیریا بخار کے بعد ظاہر ہونے والے بداثرات میں بہت مفید ہے.ملیریا کا شائد ہی کوئی ایسا مریض ہو جس کا سنکونا سے علاج نہ ہوا ہو.اس کی علامتیں بخار پر غالب آ جاتی ہیں اور ملیریا کو دبا دیتی ہیں.ملیریا کے اکثر مریضوں میں یہ علامتیں دبی ہوئی حالت میں موجود رہتی ہیں ، ان کے لئے چائنا بہترین دوا ہے.اس پہلو سے ملیریا کے بداثرات اور اس کی دبی ہوئی علامتیں چائنا کے دائرہ اثر میں آتی ہیں.کبھی کبھی یہ ملیریا میں بھی مفید ثابت ہوتی ہے.اگر اس کی یہ خاص علامت نمایاں ہو که مریض سردی میں بھی شدید پیاس محسوس کرے حالانکہ عموماً سردی ہو تو پیاس بالکل غائب ہو جاتی ہے.بخار شدت سے چڑھ جائے تو پھر دوبارہ سخت پیاس لگتی ہے.یہ علامتیں موجود ہوں تو غالباً چائنا دوا ہوگی.جیسا کہ بار ہا تنبیہ گزری ہے کہ ملیریا میں کوئی دوا بھی چڑھتے ہوئے بخار میں نہیں دینی چاہئے.دوا دینے کا بہترین وقت وہ ہے جب بخار اتر رہا ہو یا ٹوٹ چکا ہو اور بخار کا اگلا حملہ شروع ہوا ہو.ملیریا کے جراثیم بخار کے دورہ کے بعد بھاگ کر جگر میں گھس جاتے ہیں.جب وہ خون سے جگر میں منتقل ہو رہے ہوں اس وقت جوابی حملہ کر کے
چاہتا 300 انہیں تمہیں نہیں کیا جاسکتا ہے.اگر کچھ زندہ بچ گئے تو پھر نکلیں گے لیکن پہلے سے کمزور ہوں گے.دوسرے تلہ پر بخار ختم ہونے لگے تو پھر جوابی حملہ کریں.اگر چہ بظاہر یہ فلسفیانہ کی بات ہے لیکن ہے یہ ایک ٹھوس حقیقت جس کا میں بار ہا تجربہ کر چکا ہوں اور بہت سے دیگر ہومیو پیتھک معالجین بھی اس کی گواہی دیں گے.ملیریا بخار کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی کمزوری اور دیگر علامات کو دور کرنے کے لئے بھی چائنا بہت مفید دوا ہے.اس کا مریض چھونے سے سخت زود حس ہو جاتا ہے، حرکت سخت تکلیف دیتی ہے اور ٹھنڈی ہوا نا قابل برداشت ہوتی ہے.تمام اعصاب زیادہ حساس ہو جاتے ہیں.دماغی اور جسمانی کمزوری چائنا کی خاص علامت ہے.مریض بے حد چڑ چڑا ، لا پرواہ، مایوس اور بدمزاج ہو جاتا ہے.خیالات میں یکسوئی نہیں رہتی.دوسروں سے بات چیت کرتے ہوئے سلسلہ کلام ٹوٹ جاتا ہے.سر میں شدید درد کو جو گردن تک پھیلتا ہے، دبانے سے اور گرم کمرے میں آرام ملتا ہے.پیشانی میں دھڑکن محسوس ہوتی ہے.مریض ہلکا دباؤ برداشت نہیں کر سکتا جبکہ بھر پور دباؤ سے آرام آتا ہے.لمس ، ہوا کے جھونکوں اور کسی چیز کی دھمک سے درد میں اضافہ ہو جاتا ہے.آنکھوں کے گرد نیلگوں سیاہی مائل حلقے پڑ جاتے ہیں.جگر کی خرابی کی وجہ سے آنکھیں زرد ہو جاتی ہیں اور دباؤ محسوس ہوتا ہے.نظر کمزور ہو جاتی ہے اور عارضی اندھا پن بھی پیدا ہو جاتا ہے.نظام ہضم ست پڑ جاتا ہے.پھل اور کھٹی چیزیں کھانے سے معدہ میں درد ہوتا ہے.کھانا ہضم نہیں ہوتا، پیٹ پھول جاتا ہے.اگر جگر اور تلی میں سوزش ہو اور سرقان کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں نیز پتہ میں درد ہو تو ان سب علامتوں میں اگر چائنا مزاجی دوا ہوگی تو مفید ہوگی.ایسی صورت میں یہ 30 طاقت میں کچھ عرصے تک مسلسل کھلانی چاہئے.چائنا کے مریض میں خون بہنے کا رجحان ہوتا ہے.گلے ، ناک اور رحم سے خون جاری ہو جاتا ہے.جس کے ساتھ شیخی علامات بھی پائی جاتی ہیں.حیض وقت سے بہت پہلے
چاہتا 301 شروع ہو جاتا ہے.لیکوریا میں بھی خون کی آمیزش ہوتی ہے.وضع حمل کے وقت سیلان خون کی وجہ سے درد رک جائے اور صبح ہو جائے تو چانکا ایک اہم دوا ہے بشرطیکہ مریضہ میں اس کی دیگر علامتیں بھی پائی جائیں.نفاس کا خون بھی لمبا عرصہ جاری رہتا ہے جس میں سخت بد بو ہوتی ہے.چائنا کے مریض کے بازوؤں اور ٹانگوں میں میوچ آنے کی طرح کا درد ہوتا ہے اور جھٹکے لگتے ہیں.عضلات میں مرگی کی طرح کا شیخ اور فالجی کمزوری بھی چائنا کی علامت ہے.خون کا دوران سر کی طرف ہوتا ہے، کانوں میں گھنٹیاں بجتی ہیں اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے.ہیجانی کیفیت میں مریض بے ہوش ہو جاتا ہے.جریان خون کے بعد کمزوری کی وجہ سے مریض بے چین رہتا ہے اور بے خوابی کا شکار ہو جاتا ہے.عورتوں میں سیلان خون اور بچوں کو دودھ پلانے کے نتیجہ میں خون کی کمی واقع ہو جاتی ہے.رات کے وقت بہت پسینہ آتا ہے.جلد پر ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے.ایک ہاتھ ٹھنڈا اور ایک گرم.ہاتھ پاؤں کانپتے ہیں، مسوڑھے سوج جاتے ہیں، دانت ہلنے ہیں اور چباتے ہوئے سخت درد محسوس ہوتا ہے گو یا دانت لمبے ہو گئے ہیں.منہ کا مزہ کڑوا اور خوراک بھی کڑوی یا ضرورت سے زیادہ نمکین لگتی ہے جس کی وجہ سے مریض خوراک سے نفرت کرتا ہے.دودھ پینے سے بھی معدہ خراب ہو جاتا ہے.مزمن اسہال رات کو بڑھ جاتے ہیں.اس کے برعکس پٹرولیم میں اسہال دن کے وقت شروع ہوتے ہیں اور رات سے پہلے ختم ہو جاتے ہیں.چائنا میں عموماً پیٹ کی ہوا میں بدبو نہیں ہوتی اور سارا پیٹ ہوا سے تن جاتا ہے.اس کی یہ علامت ہومیو پیتھک کتب میں نمایاں طور پر بیان کی جاتی ہے.مددگار دوائیں : فیرم فاس.کلکیر یا فاس دافع اثر دوائیں : آرنیکا.آرسنک - نکس وامیکا.اپی کاک طاقت عموماً 30 ورنہ 200 یا 1000
302
303 75 سسٹس کینا ڈینس CISTUS CANADENSIS (Rock Rose) سسٹس برفانی علاقوں میں اگنے والے پھولوں کے ایک پودے سے تیار کی جانے والی دوا ہے.یہ دوا بہت سردمزاج ہے.اس کی ہر بیماری میں ٹھنڈک کا احساس پایا جاتا ہے.سسٹس بہت گہرا اثر کرنے والی اینٹی سورک (Antipsoric) دوا ہے یعنی وہ دوا جس کا تعلق اصلاً جلدی بیماریوں سے ہے.ایسی بیماریاں خواہ غدودوں (Glands) پر حملہ کریں یا لعالی جھلیوں پر بنیادی طور پر وہ سورک ہی کہلاتی ہیں.سسٹس بھی ان دواؤں میں شامل ہے جو سورا (Psora) کو جڑ سے اکھیڑنے میں مدد دیتی ہیں.اس لحاظ سے یہ بہت اہم اور انتہائی خطرناک بیماریوں میں کارآمد ہے.لیوپس اور کینسر بھی اس کے دائرہ کار سے باہر نہیں رہتے.یہ کلکیر یاکے مقابلہ میں قدرے نرم مزاج رکھتی ہے لیکن بعض بیماریوں میں کلکیریا سے بہتر کام کرتی ہے اور غدودوں پر زیادہ اچھا اثر ڈالتی ہے.انتڑیوں کی بیماریوں میں بہت مفید ہے.اگر کسی کو اسہال لگ جائیں اور کسی دوا سے آرام نہ آئے ، غدودوں میں بھی سوزش ہو تو سسٹس کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.اسی طرح پرانے نزلے کے مریض جو سسٹس کی بعض دوسری علامات بھی رکھتے ہوں وہ کسی اور دوا سے ٹھیک نہیں ہوں گے.ایسے مریض عمو ماڈھیلے ڈھالے جسم والے اور زرد رو ہوتے ہیں ، بہت جلد سانس چڑھتا ہے اور اونچائی پر چڑھنے سے سانس پھولتا ہے.سٹس کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ روز ہ ر کھنے سے پہلے پیدا ہونے والے سردرد میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے.لائیکو پوڈیم، برائیونیا، نکس وامیکا اور جنسیم بھی لمبے فاقہ
304 کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے سر درد میں کام آ سکتے ہیں..سسٹس میں بسا اوقات جلد کے اوپر خارش کی علامتیں نہیں ملتیں بلکہ جلد کے اندر دب جاتی ہیں.اس لئے جلد میں بے چینی سی اور کچھ رینگنے اور چیونٹیاں چلنے کا احساس ہوتا ہے.اس سے مریض کے دل کو بھی سخت گھبراہٹ ہوتی ہے اور وہ بار بار دل پر ہاتھ مارتا رہتا ہے.زیادہ خارش کرنے کے نتیجہ میں یہ دبا ہوا مرض جلد پر ابھر آتا ہے اور چھالے بن جاتے ہیں جنہیں چھیلنے سے خون بہنے لگتا ہے.ایسے مریض کو سسٹس دینے سے آرام آجاتا ہے لیکن کچھ وقفہ سے دوبارہ دیتے رہنا چاہئے کیونکہ اس کی خارش لمبے علاج کا تقاضا کرتی ہے.اپنے اثرات کے لحاظ سے یہ اتنی گہری دوا ہے کہ اچھے مستند اور قابل ڈاکٹروں نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ چہرے کے دق (Lupus) میں جوقریب لا علاج مرض سمجھا جاتا ہے،اکیلی کافی ثابت ہوئی ہے.نچلے ہونٹ کے کینسر کے علاج میں بھی اسے بہت شہرت حاصل ہے یہ دوا بہت گہرا اثر رکھنے والی ہے.سسٹس میں دانتوں اور مسوڑھوں کی علامات سلفر سے بہت ملتی جلتی ہیں لیکن سلفر میں بہت جلن اور چھین پائی جاتی ہے اور دانت گل جاتے ہیں.سسٹس میں جبڑوں کے عضلات میں کمزوری واقع ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے دانت ڈھیلے ہونے لگتے ہیں لیکن ان میں جلن نہیں ہوتی.سسٹس کے نزلے میں بھی جلن نہیں بلکہ ناک کے اندر ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے جس سے نزلہ کا آغاز ہوتا ہے.اگر بر وقت سسٹس دے دی جائے تو نزلہ وہیں رک جائے گا اور آگے نہیں بڑھے گا.اگر نزلہ شروع ہو جائے ، ناک میں مواد جم جائے اور اس کے اکھڑنے کے بعد جلن پیدا ہوتی ہو تو سسٹس دیں.آرسنک میں مواد کی موجودگی میں بھی جلن رہتی ہے.سسٹس میں مادہ باہر نکالنے سے سکون آجاتا ہے.سانس، زبان، حلق اور گلے میں ٹھنڈ لگتی ہے، خشک اور ٹھنڈی ہوا سے درد ہونے لگتا ہے.گلاسوج کراس میں پیپ بن جاتی ہے اور گردن میں ورم کی وجہ سے سر ایک طرف کو مڑ جاتا ہے.مریض جسم کے مختلف حصوں میں سردی محسوس کرتا ہے.کھانا کھانے سے قبل اور بعد معدہ اور تمام پیٹ میں ٹھنڈک کا
305 احساس ہوتا ہے.پنیر کھانے کی بہت خواہش ہوتی ہے.پہلے اور زور دار دست لگ جاتے ہیں جو عموماً صبح کے وقت زیادہ آتے ہیں.مریض کا دل تیز مسالے دار چیزیں کھانے کو چاہتا ہے خصوصاً عورتوں کا.سسٹس میں ہاتھوں کی جلد سخت، خشک اور موٹی ہو جاتی ہے،سخت خارش ہوتی ہے اور مریض بے چینی کی وجہ سے سو نہیں سکتا.عورتوں کی چھاتیوں کے گلینڈز کی خرابی میں بھی یہ دوا مفید ہے لیکن اس کی کوئی امتیازی علامت نہیں ہے.شاید اس دوا کی دیگر علامتوں کی وجہ سے پہچان ہو سکے.چھاتیوں کے غدودوں کا بڑھ جانا جو بعض دفعہ کینسر بن جاتے ہیں.ان میں استعمال ہونے والی دواؤں میں سسٹس بھی ہے.خنازیر (ہجیر میں) یعنی گلے کے باہر گلٹیوں کی زنجیر سی بن جائے اور گلینڈ ز سوجے ہوئے ہوں تو یہ کسٹس کی خاص علامت ہے.اگر گلے کی اندرونی اور بیرونی علامات میں گلینڈز پر کوئی اثر ظاہر نہ ہو تو پھر سمٹس دوا نہیں ہے.کان کی کھجلی میں اگر خارش کرنے سے آرام نہ آئے ، چھیل چھیل کر زخم بن جائیں اور ان میں پیپ بننے لگے تو سسٹس کام آ سکتی ہے.کھانسی میں بھی ایسی ہی خارش اور بے چینی پائی جاتی ہے.بیماری کی جڑیں نیچے تک جاتی ہیں اس لئے اوپر کی کھجلی سے فائدہ نہیں ہوتا.جب تک کہ اندر کا مرض ابھر کر اور باہر نکل کر جلد پر ظاہر نہ ہو جائے.ایلو پیتھک سائنس کے مطابق جسم کے اندر جو بھی مرض ہو وہ الگ مرض ہوتا ہے اور جلد کو لگنے والے امراض الگ ہوتے ہیں.لیکن ہو میو پیتھک نظریہ کے مطابق یہ ایک ہی بنیادی کمزوری کے مختلف اظہار ہوتے ہیں جو اندرونی جھلیوں اور غدودوں پر اور بیرونی جلد پر الگ الگ بیماریوں کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں.ناخنوں کی تکلیفوں میں بھی سسٹس اہم دوا ہے.اگر بعض امراض گہری اتر جائیں تو وہ ناخنوں پر اثر دکھاتی ہیں.ناخنوں میں لکیریں بن جاتی ہیں ، ناخن موٹے اور بھدے ہو کر ٹیڑھے میڑھے ہونے لگتے ہیں اور ان کی شکل بدل جاتی ہے.بیماریوں سے ناخنوں کے اس تعلق میں سسٹس ایک نمایاں دوا ہے.بعض اور دوائیں بھی ناخنوں پر
سسٹس 306 اثر انداز ہوتی ہیں.سسٹس میں ناخنوں کی ہر قسم کی بد وضعی پائی جاتی ہے.اگر سسٹس کی دوسری علامات بھی نمایاں ہوں تو ناخنوں کی تکلیف کے لئے بھی یہ بہترین ثابت ہوگی.اس کی تکالیف چھونے سے، حرکت سے، رات کو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے سے اور دماغی محنت سے زیادہ ہو جاتی ہیں.کھانا کھانے سے اور بلغم نکالنے سے کم ہو جاتی ہیں.ملتی جلتی دوائیں : کونیم کار بو ویج کلکیر یا اور ارجنٹم نائیٹریکم.اینٹی ڈوٹ : رسٹاکس.سیپیا طاقت: عموماً 30 طاقت کام آتی ہے لیکن حسب ضرورت اونچی طاقت دی جاسکتی ہے.
307 76 کیٹس کلیمٹس اسر یکٹا CLEMATIS ERECTA (Virgin's Bower) کلیمٹس ایک بہت گہری دوا ہے اور اس کا ہر قسم کی جلدی امراض سے تعلق ہے.اگر کسی کو کلیمنٹس کا زہر دیا جائے تو اس میں طرح طرح کی جلدی امراض ظاہر ہو جاتی ہیں جن میں ہر قسم کے ایگزیے، خارش، چھالے اور دانے وغیرہ شامل ہیں.اپنے جلدی اثرات کے لحاظ سے کلیپمنٹس ریٹا کس سے مشابہت رکھتی ہے بلکہ اس سے زیادہ گہری دوا ہے.یہ کینسر کے روحمان اور خصوصاً جلد کے کینسر Epithelioma کے لئے مفید ہے فلیمٹس میں جلدی تکلیفیں ٹھنڈے ہے.پانی ٹھنڈے موسم اور ٹھنڈی ہوا سے بڑھتی ہیں سوائے منہ کی تکلیف کے.مسوڑھوں کے درد میں ٹھنڈے پانی کی کمور سے آرام آتا ہے اور گرمی پہنچانے سے تکلیف بڑھ جاتی ہے.کلیمٹس کے چھالوں میں عمو مازردی مائل پیپ پیدا ہو نے کا روحمان بابا جا تا ہے.واد سے مشابہ بیماریاں اور ایگزیما کی مختلف قسمیں بھی اس دوا کے دائرہ کار میں ہیں.جلد پر سرخ دانے بن جاتے ہیں جن میں شدید جلن ہوتی ہے.یہ دانے زیادہ تر سر، ہاتھوں اور چہرے پر ہوتے ہیں.ایگزیما کے علاوہ جلد میں کسی چیز کے رینگنے کا احساس بھی ہوتا ہے.عارضی طور پر کھجلانے سے آرام آتا ہے.کنپٹیوں میں درد اور سر میں پراگندگی کا احساس ہوتا ہے.کھلی ہوا میں اس تکلیف کو افاقہ ہوتا ہے.بہت سی مردانہ امراض میں فیمنٹس استعمال ہوتی ہے.خصوصاً دائیں نالی کی سوزش میں جس میں مادہ منویہ حرکت کرتا ہے.نیز اس طرف کے خصیے کی سوزش اور ورم میں یہ اونچے درجے کی دوا بتائی جاتی ہے.یہ محض دائیں طرف کام کرتی ہے.اس کے مریض
کمیٹی 308 کے پیشاب کی علامات یہ ہیں کہ پیشاب کی نالی میں سرسراہٹ جو پیشاب کے بعد کچھ عرصہ تک جاری رہتی ہے.بار بار تھوڑا تھوڑا پیشاب آتا ہے جس کے آخر پر جلن بھی ہوتی ہے.پیشاب رکاوٹ سے آتا ہے.بعض دفعہ صرف قطرہ قطرہ اور پیشاب کے بعد بھی قطرہ قطرہ پیشاب آنے کا رجحان ایک دو منٹ تک جاری رہتا ہے.دائیں طرف کے مثانے کے ورم میں بھی کارآمد ہے.سوزاک (Gonorrhoea) کے دب جانے کے نتیجہ میں جو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں.اس سے ملتی جلتی بیماریاں کلیٹس میں پائی جاتی ہیں.کلیٹس کے دانت کے درد رات کو اور تمباکو کی بو سے زیادہ ہو جاتے ہیں.خصوصاً بستر کی گرمی سے تکلیف بڑھتی ہے.کلیٹس میں آنکھوں میں سخت جلن اور حرارت محسوس ہوتی ہے جیسے آگ نکل رہی ہو.ہوا کا جھونکا بھی برداشت نہیں ہوتا، پانی بہتا ہے اور آنکھیں سوج جاتی ہیں خصوصاً با ئیں آنکھ.مریض کے لئے آنکھیں کھولنا دشوار ہوتا ہے.کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ کھانا کھانے کے بعد سارے جسم میں کمزوری کا احساس ہوتا ہے اور شریانوں میں تپکن اور دھڑکن پائی جاتی ہے.کھانا کھاتے ہی سیری کا احساس ہوتا ہے.سینہ سے لے کر پیٹ تک چھنے والا درد ہوتا ہے جو سانس لیتے ہوئے بڑھ جاتا ہے.کلیٹس کی ایک خاص بات یہ ہے کہ اس کی تکلیفوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ چاند کی تاریخ بڑھنے سے علامات بڑھتی اور چاند گھٹنے کے زمانے میں کم ہو جاتی ہیں.نہانے کے بعد بھی تکلیفوں میں اضافہ ہو جاتا ہے.کے متعلق یا درکھیں کہ جن مریضوں کو یہ دی جائے بسا اوقات ان کا منہ خشک ہو جاتا ہے اور پیاس بہت لگتی ہے.پانی پینے کے باوجود منہ کی خشکی دور ہونے میں نہیں آتی.اس حالت سے مریضوں کو پہلے ہی متنبہ کر دینا چاہئے.دافع اثر دوائیں : برائیو نیا.کیمفر طاقت : 30 سے 200 تک
309 77 کاکولس COCCULUS (Indian Cockle) کاکولس کاکولس چکروں کی مشہور دوا ہے.کانوں کے درمیانی حصہ میں موجود سیال مادہ کا توازن بگڑ جائے یا وہ اعصاب کمزور پڑ جائیں جو کان سے توازن کے احساس کو دماغ تک پہنچاتے ہیں تو یہ پیغام ذراسی تاخیر سے پہنچنے لگتا ہے.جس کے نتیجہ میں انسان کو چکر آنے لگتے ہیں اور وہ اپنے توازن کو برقرار نہیں رکھ سکتا.اگر مریض اپنا سر ادھر ادھر ہلائے تو دماغ حرکت کے اس پیغام کو ذرا دیر سے محسوس کرتا ہے.اعصابی نظام میں کمزوری پیدا ہونے کی وجہ سے جسم اور دماغ کی چستی ختم ہو جاتی ہے.مریض کو تھکاوٹ اور کمزوری محسوس ہوتی ہے.بعد میں یہ کمزوری فالج میں تبدیل ہو جاتی ہے.اس کیفیت میں عموماً وہ لوگ مبتلا ہوتے ہیں جنہوں نے لمبا عرصہ اپنے قریبی عزیزوں کی تیمارداری کی ہو، رات دن مسلسل جاگنا پڑا ہو اور فکر اور پریشانی دامنگیر رہی ہو.اس کے نتیجہ میں جو کمزوری پیدا ہوتی ہے اس کا بہترین علاج کا کولس ہے.عام طور پر دائیوں اور نرسوں کو ایسی کمزوری لاحق نہیں ہوتی کیونکہ وہ تیمار داری بطور پیشہ کرتی ہیں.مریض سے ان کا ذاتی قلبی تعلق نہیں ہوتا.ان کی جسمانی تھکاوٹ اعصابی دباؤ میں تبدیل نہیں ہوتی.اگر ذہنی دباؤ کی وجہ سے جسمانی تھکاوٹ ہو یا جسمانی تھکاوٹ کے ساتھ ذہنی دباؤ بھی ہو تو جسم میں بھی کمزوری پیدا ہونے لگتی ہے.نیند نہیں آتی.ہر وقت فکر اور پریشانی لاحق رہتی ہے جس کی وجہ سے سر درد ہو جاتا ہے.چکر متلی اور قے کا رجحان ہوتا ہے.حرکت سے تکلیف بڑھتی ہے.چلتے ہوئے جھٹکا لگ جائے تو حالت ابتر ہو جاتی ہے.ایسے مریض کی علامات میں سفر کے دوران اضافہ ہو جاتا
کاکولس 310 ہے.اچانک حرکت سے توازن بگڑ جائے تو کا کولس اول طور پر ذہن میں آنی چاہئے.کاکولس کے پرانے مریض کی جلد پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے.کوئی چیز پکڑتے ہوئے ہاتھ کا پیتے ہیں.اعضاء آپس میں ہم آہنگ نہیں ہو سکتے اور ان میں عدم توازن پایا جاتا ہے.ایسے مریض اچانک مر نہیں سکتے.انہیں آہستہ آہستہ مڑنا پڑتا ہے ورنہ شدید چکر آتے ہیں.کا کولس کی بعض علامتیں بیلا ڈونا سے ملتی ہیں.بیلا ڈونا میں بھی چکر آتے ہیں جو اچانک حرکت سے بڑھ جاتے ہیں لیکن بیلاڈونا میں خون کے دباؤ میں کمی بیشی کی وجہ سے چکر آتے ہیں.دونوں دواؤں میں معمولی سا شور اور جھٹکا بھی نا قابل برداشت ہوتا ہے.بے خوابی اور دیگر ذہنی تناؤ بھی دونوں میں مشترک ہے.تاہم یہ دونوں دوائیں ایک دوسرے سے مشابہ ہیں البتہ کا کولس میں بیلا ڈونا کے برعکس مریض کا چہرہ بالکل عام سے رنگ کا ہوتا ہے اور چہرے کی طرف خون کا غیر معمولی رجحان دکھائی نہیں دیتا.کا کولس میں عضلات کی سختی اور اکڑن پائی جاتی ہے.اعضاء کو سکیٹر نے یا پھیلانے سے شدید درد ہوتا ہے.کاکولس میں پیٹ درد کا دورہ شدید ہوتا ہے.معدہ میں اینٹھن اور مروڑ اٹھتے ہیں.درد سے بعض اوقات سانس لینے میں دقت ہوتی ہے.کئی عورتیں تکلیف کی شدت سے بے ہوش ہو جاتی ہیں.کھانے سے نفرت ہو جاتی ہے اور بھوک کا احساس ختم ہو جاتا ہے.کا کولس میں جہاں پیغامات کے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے میں آہستگی پائی جاتی ہے وہاں وقت کے تیزی سے گزرنے کا احساس بھی ہوتا ہے.ٹانگوں میں بہت خطرناک فالج کا حملہ ہوتا ہے جس سے دونوں ٹانگیں بے حس ہو جاتی ہیں.اس فالج کے پس منظر میں لمبی فکر ارت جنگا مشکلات اور پریشانیاں ہوتی ہیں.کا کوکس کا مریض ذہنی دباؤ اور اعصابی کمزوری کی وجہ سے ہر سوال کا جواب آہستگی سے دیتا ہے.تصورات کی دنیا میں غرق رہتا ہے.اسے شدید افسردگی کے دورے پڑتے
کاکولس 311 ہیں.دماغ بوجھل رہتا ہے.اس کے علاوہ بیلا ڈونا اور گلوٹائن کی طرح دھوپ میں کام کرنے سے پیدا ہونے والے سر درد میں بھی کا کولکس مفید ہے.کا کولس میں بینائی دھندلا جاتی ہے لیکن یہ کیفیت مستقل نہیں ہوتی.اعصابی کمزوری کی وجہ سے کچھ عرصہ کے لئے نظر دھندلا جاتی ہے.ذہنی تھکان بھی عارضی ہوتی ہے.آنکھوں میں درد کی وجہ سے خصوص رات کے وقت آنکھیں کھولنی مشکل ہوں، پپوٹے متورم ہوں اور پتلیاں سکڑ جائیں تو یہ بھی کا کولس کی علامت ہے.کا کوکس میں منہ کا ذائقہ دھات کی طرح ہو جاتا ہے جس میں ہلکی سی تیزابیت پائی جاتی ہے.معدہ میں کھٹاس ہمتلی اور قے کا رجحان پایا جاتا ہے.اس میں ملیریا کی سی علامتیں بھی ہیں مگر سارے جسم میں دردوں کی بجائے صرف ٹانگوں میں درد ہوتا ہے.اس علامت کے ساتھ چکر اور متلی کے ساتھ جو بخار شروع ہو اس میں کا کولس مفید دوا بتائی جاتی ہے.کاکولس کے مریض کے لئے کھانے کی بو نا قابل برداشت ہوتی ہے بلکہ اس سے متلی شروع ہو جاتی ہے.کو چیکم میں بھی یہ علامت ہے.اگر کسی غدود میں سوزش ہو تو اس کے لئے کرئیوز وٹ (Kreosotum) اور بعض اور دوائیں اہم ہیں لیکن کا کولکس میں یہ تکلیف فالجی کیفیت کی وجہ سے ہوتی ہے.اسی طرح انتڑیوں اور پیٹ کے عضلات کی فالجی کمزوری کی وجہ سے قبض ہو جاتی ہے اور فضلہ بہت مشکل سے خارج ہوتا ہے.حیض جلد یا بہت تاخیر سے آتے ہیں اور لمبا عرصہ چلنے والے ہوتے ہیں لیکن یہ علامتیں اور بھی بہت سی دواؤں میں پائی جاتی ہیں.کا کولس کی مزاجی علامتیں پیش نظر رکھنی چاہئیں.اگر وہ موجود ہوں تو پھر کا کولس ہی دوا ہے.عمومی کمزوری ، جزوی فالج ، حرکت سے تکلیف اور اعصاب کی پیغام رسانی میں آہستگی کا کولس کی خاص علامتیں ہیں.دوحیفوں کے درمیان سفید پانی کی طرح لیکوریا جاری ہونا اس کی خاص علامات میں داخل ہے جو بہت کمزور کرنے والا ہوتا ہے اتنا کہ عورت کے لئے بات کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے.دایاں اور بایاں ہاتھ باری باری ٹھنڈے اور گرم ہوتے رہتے ہیں اورسن بھی
کاکولس 312 ہو جاتے ہیں نیز ان پر ٹھنڈا پسینہ بھی باری باری آتا ہے.کا کولس میں مریض ہوا کے جھونکے برداشت نہیں کرسکتا.ٹھنڈی اور گرم دونوں ہواؤں سے زود حس ہو جاتا ہے.کھلی ہوا، دھوپ اور بستر کی گرمی میں تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں نیز رات کے وقت تکلیفوں میں اضافہ ہو جاتا ہے.روزمرہ استعمال کے لئے 30 طاقت کافی ہے لیکن نچلے دھڑ کے فالج کے لئے دوا ایک لاکھ میں دینی پڑتی ہے جسے لمبے عرصہ کے بعد دہرانا پڑتا ہے.کا کولس کے اس خاص فالج کے ازالہ کے لئے اگر کوئی دوا کام آ سکتی ہے تو کا کولس ہی ہے ورنہ ایسے مریض عمو ما زندگی بھر لا علاج رہتے ہیں.دافع اثر دوائیں : کافیا نکس وامیکا طاقت عمو مأطاقت 30 اور مخصوص فالج کے لئے ایک لاکھ طاقت ئے ایک لاکھ معات
کوکس 313 78 کو کس کی کٹائی COCCUS CACTI (Cochineal) کو کس کی کٹائی کو عموماً روز مرہ کی سطحی اور عارضی بیماریوں میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن یہ ایک بہت گہرا اثر کرنے والی دوا ہے اور جن دائروں میں یہ کام کرتی ہے ان میں مزمن بیماریوں کو دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.اس لئے اسے صرف عارضی دوا نہیں سمجھنا چاہئے.کو کس کے تمام اخراجات لیس دار لمبے بٹے ہوئے دھاگہ کی طرح ہوتے ہیں.اس کی پیپ کا دھاگہ سویٹر کی اون کی طرح ادھڑتا ہے.اخراجات بل کھاتی ہوئی رسی کی طرح بٹے ہوئے معلوم ہوتے ہیں.کالی کھانسی میں بھی یہ علامت کو کس کیکھائی کی نشاندہی کرتی ہے.اس پہلو سے یہ کالی بائی کروم سے مشابہ ہے.اس میں بھی اخراجات کا لیس دار اور دھاگے دار ہونا اور کالی کھانسی میں بہت مفید ہونا کوکس سے مشابہ ہے.کو کس کے مریض عموم سردیوں کے موسم میں بیمار رہتے ہیں.جب تک موسم گرما شروع نہ ہو جائے ان کی تکلیفوں کو آرام نہیں آتا اور نزلہ زکام پیچھا نہیں چھوڑتا.اگر ان کے اخراجات میں دھاگہ بنے کی علامت موجود ہو تو بے تکلف کو کس دیں جو بہت گہری، فوری اور دیر پا اثر کرنے والی دوا ہے.کھانسی اور نزلہ زکام گرم کمرے میں جانے سے بڑھ جاتا ہے اور ٹھنڈ سے اور ٹھنڈا پانی پینے سے آرام آتا ہے لیکن یہ تکلیفیں کچھ عرصہ کے بعد پھر عود کر آتی ہیں.ان تضادات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے.ورزش کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی گرمی نقصان دہ ہے.بیرونی سردی لگنے سے بیماریاں جڑ پکڑتی ہیں
کوکس 314 اور اندرونی گرمی کے نتیجہ میں علامتوں میں تیزی آجاتی ہے مگر بعض دفعہ بیرونی گرمی سے بھی بیماری میں اضافہ ہوتا ہے..کو کس میں اونچائی پر چڑھتے ہوئے سانس میں دقت اس لئے پیدا ہوتی ہے کہ سینہ میں بلغم بھری ہوتی ہے.دل کی کمزوری سے اس کا کوئی تعلق نہیں.اگر بلغمی قے آ جائے تو چھاتی ایک دم ہلکی ہو جائے گی اور اونچائی پر چڑھنے میں دقت پیش نہیں آئے گی.کو کس میں بلغم نکالنے کی کوشش سے کھانسی کا تعلق ہے جس کی وجہ سے گلے میں تشیخ ہو جاتا ہے.کوکس کی بنیادی پہچان جلد اور اندرونی جھلیوں کی زود حسی ہے جیسے چھوٹی موٹی کے پودے کے قریب جائیں تو وہ سکڑ جاتا ہے.یہ بھی بہت ہی چھوٹی موٹی دوا ہے.گلے میں زود حسی اس کی خاص علامت ہے.بعض اوقات نگلنے میں بھی دقت ہوتی ہے.کو کس کے مریض کے پیشاب کی علامتیں بہت اہمیت رکھتی ہیں.پیشاب کی سخت حاجت، اس میں پکی اینٹ کے ذروں کی طرح سرخ ذرے اور باریک پتھریاں اور یورک ایسڈ (Uric Acid) کی ملاوٹ ہوتی ہے جس کی وجہ سے گردے سے مثانے تک کاٹنے والے دردوں کی لہریں چلتی ہیں.کبھی اچانک پیشاب بند ہو جاتا ہے.عورتوں کی علامات میں ماہواری کا زیادہ گاڑھا ، سیاہی مائل اور لوتھڑے دار ہونا اس کی علامات میں شامل ہے جس کے ساتھ عموماً پیشاب رکنے کی بیماری بھی ہو جاتی ہے.ماہواری رک رک کر آتی ہے اور صرف رات کو جاری ہوتی ہے.بہنے والا نزلہ ختم ہونے کے بعد زرد رنگ کی چپکنے والی رطوبت ناک میں جم جاتی ہے.ناک صاف کرنے کے بعد سطح پر جلن کا احساس ہوتا ہے.اس میں بہت پیاس پائی جاتی ہے.ذہنی، پژمردگی ، خاموشی ، اداسی یا بہت باتیں کرنے کی علامات لیکیس سے ملتی ہیں.کوکس میں نزلہ کا اثر معدہ ،انتڑیوں یا اندرونی جھلیوں پر بھی ہوتا ہے.طاقت : عموماً 30
کافیا 315 79 کافیا کروڈا COFFEA CRUDA (Unroasted Coffee) کافی ایک مشروب ہے جسے دنیا کے اکثر ممالک میں شوق سے استعمال کیا جاتا ہے.خصوصاً مغربی دنیا میں اس کا بہت رواج ہے.کافی پینے سے نیند اڑ جاتی ہے، اعصاب میں زود سی پیدا ہو جاتی ہے، خیالات میں تیزی آ جاتی ہے اور دماغ چست ہو جاتا ہے.اس لئے باوجود سونے کی کوشش کے نیند نہیں آتی.ہومیو پیتھی میں کافی سے کافیا کروڈا دوائی بنائی گئی ہے.اگر بہت بولنے اور ذہنی ہیجان کی وجہ سے نیند نہ آئے تو کافیا کی ایک دو خورا کیسں ہی پر سکون نیند لے آتی ہیں.انسان اتنی جلدی سوتا ہے کہ نیند سے پہلے کی ہلکی سی مدہوشی بھی محسوس نہیں ہوتی.نکس وامیکا میں بھی یہی علامت ہے کہ یہ دوا اچانک نیند لاتی ہے.نکس وامیکا اور بیلا ڈونا کی ایک علامت کا فیا میں یہ بھی پائی جاتی ہے کہ شور سے طبیعت گھبراتی ہے اور آوازیں تکلیف دیتی ہیں لیکن کافیا اس لحاظ سے ان دونوں دواؤں سے الگ ہے کہ شور کی تکلیف اعضاء کے کناروں پر دردوں کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے نیز شور سے ٹانگ یا گھٹنے کا درد یکدم جاگ اٹھتا ہے.شور کا یہ اثر کہ سوئے ہوئے دردوں کو جگا دے کافیا کی خاص علامت ہے.کافیا کی علامات غم کی بجائے خوشی کے جذبات سے پیدا ہوتی ہے یعنی اچانک خوشی کی خبر ملنے سے جذبات میں جو ہیجان پیدا ہوتا ہے وہ کافیا کی علامت ہے.غم کے نتیجہ میں نیند اڑ جائے تو اس کے لئے بالکل اور نوعیت کی دوائیں ہیں.کافیا کا مریض شراب سے بہت زود حس ہوتا ہے.جن ملکوں میں بکثرت شراب پی
کافیا 316 جاتی ہے وہاں کا فیا مزاج کے مریض شراب کو ہاتھ لگانے سے بھی پر ہیز کرتے ہیں اور شرابی عموماً شراب کا اثر زائل کرنے کے لئے کافی پیتے ہیں.کافیا میں جلد کی زود حسی نا قابل بیان ہے.عجیب قسم کی سنسناہٹ اور درد کی کیفیت ہوتی ہے.اس زود حسی کے قریب تر دوا ز کم مٹیلیکم ہے ہے.کافیا کے مریض کو قدموں کی چاپ سے سخت گھبراہٹ ہوتی ہے.اس کی جلد پر اس گھبراہٹ سے خارش کے دانے بھی نمودار ہو جاتے ہیں.کافیا میں سرخ دانے بن جاتے ہیں جو اچانک ظاہر ہوتے ہیں اور اچانک ہی غائب ہوتے ہیں.وہ اعصابی دباؤ جس کی وجہ سے یہ دانے ظاہر ہوئے ہمستقل نہیں رہتا مگر معدے اور خون کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہونے والی جلدی علامتیں لمبا عرصہ چلتی ہیں.کا فیا آنا فانا اثر کرنے والی دوا ہے.غیر معمولی ہیجان اور ذہنی تھکاوٹ کی وجہ سے نیند اڑ جائے تو فوری اثر دکھاتی ہے.اسی طرح دوسری بیماریوں میں بھی بہت جلد فائدہ پہنچاتی ہے.کافیا کے بعض مریضوں کو ہسٹریا ہو جاتا ہے.جذبات کے غلبہ کے نتیجہ میں بے ہوشی طاری ہوتی ہے.جذبات کی تحریک سے دندل پڑ جانا ( بتیسی بند ہو جانا ) ، شدید سر درد، چہرے کے اعصابی درد اور اسہال جاری ہو جانا بھی کافیا کی علامتیں ہیں..کافیا کے مریض بہت ذہین ہوتے ہیں.بات سنتے ہی فوری ردعمل دکھاتے ہیں.احساس میں غیر معمولی تیزی آ جاتی ہے.قوت سامعہ میں بھی تیزی آجاتی ہے.دور کی آواز میں سنائی دینے لگتی ہیں جو عام لوگوں کو سنائی نہیں دیتیں.سونے کے لئے لیٹیں تو نیند کی بجائے دور سے کہتے بھونکنے کی آواز یا دوسرے جانوروں کی آوازیں آنے لگتی ہیں.آوازوں کی وجہ سے بھی بعض تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.ایک اور دلچسپ علامت یہ ہے کہ بیتے ہوئے زمانے کے خوشگوار واقعات ذہن میں جاگ اٹھتے ہیں.پرانے پڑھے ہوئے اشعار یاد آنے لگتے ہیں.دماغی قویٰ میں غیر معمولی قوت پیدا ہو جاتی ہے.شعور کا دائرہ سطحی نہیں رہتا بلکہ زیادہ وسیع اور گہرا ہو جاتا ہے.زودحسی لاشعور کی طرف حرکت کرتی ہے اور اسے متحرک کر دیتی ہے.دور کے واقعات یاد آنے لگتے ہیں.دور کی
کافیا 317 آوازیں سنائی دیتی ہیں.پرانے زمانوں کے مزے اور خوشبوئیں بھی یاد آ جاتی ہیں.کافیا کی یہ علامات مزے مزے کی علامتیں ہیں.کافیا کا مریض سردی سے بھی زود حس ہوتا ہے.منہ اور دانتوں کے درد میں برف کا پانی منہ میں رکھنے سے آرام ملتا ہے.دانتوں کا درد اعصابی تکلیف کی وجہ سے ہوتا ہے اس میں کوئی معین قانون نہیں چلتا.کافیا کے دانت درد کو ٹھنڈ آرام دیتی ہے.کافیا کے مریض کا چہرہ عموماً تمتمایا ہوا نہیں ہوتا لیکن بعض تکلیفوں میں سر کی طرف دوران خون بڑھ بھی جاتا ہے، چہرہ اور سرگرم ہو جاتے ہیں.لیکن مریض ہوش مند اور باشعور رہتا ہے.بیلا ڈونا کی طرح اس پر غنودگی طاری نہیں ہوتی.کا فیا کی ایک اور عجیب علامت یہ ہے کہ گدی کے پیچھے کسی چیز کے چھٹنے کا احساس ہوتا ہے.کافیا میں ان آوازوں کا مرکز گدی میں ہوتا ہے.کافیا کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے نکس وامیکا سب سے موثر دوا ہے.کافیا کی زنانہ علامتوں میں اعضاء کی غیر معمولی خارش پائی جاتی ہے.دل تیزی سے دھڑکتا ہے اور یہ دھڑکن بے قاعدہ بھی ہو جاتی ہے جو اچانک کسی خوشی یا غم کی خبر کے نتیجہ میں ہوتا ہے.ساتھ ہی اچانک خون کا دباؤ بہت بڑھ جاتا ہے اور پیشاب دب جاتا ہے.مدد گاردوا ایکونائٹ طاقت : 30 سے 200 تک
318
کالچیکم کا 319 80 COLCHICUM (Meadow Saffron) یہ دوا گھاس کے سبزہ زاروں میں اگنے والے خود روز عفران کے پھولوں سے تیار کی جاتی ہے.اس کے نمایاں اثرات میں شدید قسم کا گاؤٹ اور گاؤٹ کے دردوں کا جگہ بدلنا،کھانے کی بو سے سخت متلی اور انتڑیوں کا شدید سنج ملتے ہیں.اس کے مریض کو سخت بودار اسہال بھی لگ جاتے ہیں.تمام عوارض اخراجات کے رکنے سے بہت شدید ہو جاتے ہیں.ٹھنڈے نم دار موسم میں تکلیفیں بڑھتی ہیں.خصوصاً اگر گردوں پر اثر پڑے اور پیشاب کی مقدار کم ہو جائے.اسی طرح خارجی اثرات سے پسینہ بند ہونے کا بھی عوارض پر بہت برا اثر پڑتا ہے.نم دار سردی یا بالکل خشک گرمی میں تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.آنکھوں میں بھی گاؤٹ کے آثار ملتے ہیں اور دانتوں میں بھی، خصوصاً دانتوں میں گاؤٹ کے مادے اکٹھے ہو جانے کی وجہ سے دانتوں کے اردگر دمسوڑھوں میں سخت درد شروع ہو جاتا ہے.یہ تو اس کا عمومی تعارف ہے.اب بعض اعضاء کا نام لے کر ان سے تعلق رکھنے والی علامات بیان کی جاتی ہیں.چہرہ :.متورم اور جلد پر سنساہٹ پائی جاتی ہے.کلے بہت سرخ اور پسینے والے.مزاج کیمومیلا کی طرح سخت غصیلا.معدے کی تکلیفوں میں اکثر زبان جلتی ہے.دانتوں میں بھی درد ہوتا ہے.منہ خشک اور پیاس بہت لگتی ہے.کھانے کی بو سے خصوصا مچھلی پکنے کی ہو سے بعض دفعہ متلی اتنی شدید ہوتی ہے کہ مریض بے ہوش ہو جاتا ہے.یا تو معدے میں سخت گرمی محسوس ہوتی
کالچیکم ہے یا سخت سردی.320 پیٹ :.انتریوں کے تشیخ کی وجہ سے پیٹ ہوا سے ایسا تن جاتا ہے کہ کم ہی ایسا تناؤ دوسری دواؤں میں دکھائی دے گا.یہ انتڑیوں کا تشنج اور اس کے نتیجہ میں ہوا کا بڑھتا ہوا دباؤ عرف عام میں اچھا را کہلاتا ہے.اس قسم کا اچھا را مویشیوں میں بھی ملتا ہے (اگر وہ ایسا چارہ استعمال کریں جس میں ہائیڈ روسائیٹک ایسڈ (Hydrocyanic Acid) پیدا ہو چکا ہو ) اس قسم کے اپھارے میں خواہ وہ گائے ، بھینس ، بھیڑ بکری ، گھوڑا کو ہو، اس سے ملتا جلتا اپھارہ انسانوں میں بھی ملے تو کا لچیکم کی چند گولیاں جادو کا سا اثر دکھاتی ہیں.اس کا یہ اثر اتنا نمایاں اور یقینی ہے کہ کوئی ہو میو پیتھ اسے ہومیو پیتھک کے منکرین کو ہو میو پیتھی پر یقین دلانے کے لئے اس کا مشاہدہ کر اسکتا ہے.جانوروں کے جس اپھارہ کا ذکر کیا گیا ہے اس میں اکثر زمیندار جراح کو بلا لیتے ہیں جو پسلی میں نشتر گھونپ کر ایسے جانور کی ہوا با ہر نکالتا ہے لیکن اس صورت میں بسا اوقات ایسے جانور مرنے کے قریب ہو جاتے ہیں اور مرنے سے پہلے انہیں ذبح کر لیا جاتا ہے.اگر کا چیکم دوسو طاقت کی چند گولیاں میسر ہوں تو قیمتی جانوروں کا اس طرح ضیاع نہ ہو.دوسو طاقت میں اس کا یہ اثر ان سائنس دانوں کے لئے ناقابل فہم ہے جو جانتے ہیں کہ 200 ، 100 کا ہندسہ کس حسابی عدد کو ظاہر کرتا ہے.گویا ہو میو پیتھک دوا میں اصل کا چیکم کے مادے کا ایک ایٹم یا ایک ایٹم کا ارب واں حصہ بھی موجود نہیں رہے گا پھر بھی یہ دوا اتنا قطعیت کے ساتھ اپنا اثر دکھاتی ہے.کمر :- کمر میں پیٹھ کے نچلے حصے میں درد جو دونوں طرف کولہوں میں بھی محسوس ہوتا ہے.آرام کرنے اور دباؤ سے افاقہ ہوتا ہے.جلد : گلابی نشان جگہ جگہ پڑ جاتے ہیں اور چھپا کی کا رجحان ملتا ہے.پیٹ کی خرابی میں مذکورہ شیخی اپھارے کے علاوہ معمولی مقدار میں جیلی کی طرح کی رطوبت خارج ہوتی رہتی ہے جس کے ساتھ درد بھی ہوتا ہے.ایسے مریض کو عموماً خزاں کے موسم میں پیچش لگتی ہے جس کے ساتھ بڑی تعداد میں انتڑی کی جھلیوں کے ٹکڑے فضلے میں چھوٹے
کا لچیکم چھوٹے فیتوں کی شکل میں نکلتے ہیں.321 بڑی آنت کا فالج ہو جاتا ہے جو عموماً مستقل نہیں بلکہ عارضی حیثیت کا ہوتا ہے.نتیجتاً با وجود اس کے کہ اجابت کی حاجت محسوس ہوتی رہتی ہے فضلہ نکالنے کی طاقت نہیں ہوتی اور ایسا مریض زور لگانے کے باوجود نا کام رہتا ہے اور دوسرے ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں.ہاتھ پاؤں بازو اور ٹانگیں بائی یا گنٹھیا کے دردوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں جن سے جوڑوں میں سختی پیدا ہو جاتی ہے.بائی کی دردیں جگہ بدلتی رہتی ہیں اور عموماً رات کو بڑھتی ہیں.اس کے گاؤٹ یعنی گنٹھیا میں پاؤں کے انگوٹھے اور اس کے اردگرد کے عضلات متاثر ہوتے ہیں.جلد سرخ ، سخت متورم، چمکیلی اور انتہائی زود حس ہو جاتی ہے.اتنی زیادہ کہ کپڑے کا لمس تک نا قابل برداشت ہوتا ہے.ایسے مریض اپنے بوٹوں کے چمڑے کو انگوٹھے کے اردگرد سے کٹوا لیتے ہیں تا کہ اگر چل کر باہر جانا ہوتو درد برداشت کے دائرے میں رہے.پیشاب : جب بھی پیشاب گہرے رنگ کا اور خون کی آمیزش والا یا نسواری ، سیاہی مائل اور تھوڑا ہوگا تو بائی کے دردیں اور گنٹھیا کی تمام علامتیں زیادہ شدید ہو جائیں گی.دل :- اگر تیز دواؤں سے اسہال دبا دئیے جائیں تو دل پر گنٹھیا کا حملہ ہو جاتا ہے اور مجلس کی سخت نگلی بھی محسوس ہوتی ہے.طاقت : 200 30 لیکن بعض ہو میو پیتھ 3 طاقت میں بھی استعمال کرتے ہیں واقعات میں بھی ہیں
322
کولو سنتھ 323 81 کولوسنتھ COLOCYNTHIS کولوسنتھ روزمرہ کی اچانک پیدا ہونے والی بیماریوں مثلاً سخت پیٹ درد وغیرہ میں بہت مفید ہے.پیٹ کا درد اتنا شدید ہوتا ہے کہ مریض ایک لمحہ بھی چین سے نہیں بیٹھ سکتا ، درد کی شدت سے دہرا ہوتا ہے اور آگے جھکتا ہے.چونکہ دباؤ سے آرام آتا ہے اس لئے مریض ماؤف حصہ کو دباتا ہے اور آگے جھکنے سے سکون محسوس کرتا ہے.دباؤ اور گرمی سے کچھ آرام ملتا ہے.میگنیشیا اس (Magnesia Phos) کا بھی یہی مزاج ہے اس لئے میں کولوسنتھ کو میگنیشیا فاس سے ملا کر ہنگامی بیماریوں میں استعمال کرتا ہوں.اللہ کے فضل سے جلد آرام آجاتا ہے.کولو سنتھ چونکہ بنیادی طور پر اعصابی تکلیف کی دوا ہے اس لئے اگر بیرونی اعضاء میں درد ہو تو ساتھ ہی نزدیک کے اعصاب میں بھی بل پڑ جاتے ہیں اور شکنجہ سا محسوس ہوتا ہے.پیٹ کے درد میں انتڑیوں میں بل پڑتے ہیں.کولو سنتھ کا اعصاب کے چھوٹے خلیوں سے زیادہ تعلق ہوتا ہے.چنانچہ انتڑیوں، کمر اور بازو وغیرہ کے دردا کثر انہی اعضاء تک محدود رہتے ہیں، سارے جسم کے اعضاء پر حملہ نہیں کرتے.Sciatica عرق النساء) کے درد کمر.شروع ہو کر نیچے ٹانگوں میں اترتے ہیں.بازو کا درد پورے پہلو میں ہوتا ہے.کولوسنتھ میں درد دورے کی شکل میں آتا ہے.ہر دورہ پہلے دورہ سے زیادہ شدید ہوتا ہے.درد آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور بڑھتا ہی چلا جاتا ہے.کولوسنتھ دینے سے فوراً آرام آتا ہے.مردوں میں کاروبار میں ناکامی کی وجہ سے یا کوئی صدمہ پہنچنے سے بھی درد کا دورہ پڑ جاتا ہے.عورتوں کے بیضہ الرحم (Ovaries) میں درد کا احساس ورما چلنے
کولوسنتھ 324 سے مشابہ ہوتا ہے جسے بڑھئی سوراخ کرنے کے لئے چلاتے ہیں اور عورت اس درد سے دہری ہو جاتی ہے.Ovaries میں چھوٹے چھوٹے ٹیومرز بھی پائے جاتے ہیں.اجابت کے دوران جب پیشاب آتا ہے تو پیشاب کی ساری نالی میں جلن محسوس ہوتی ہے اور کبھی انڈے کی سفیدی کی طرح کا مادہ بھی خارج ہوتا ہے جس میں سے سخت بدبو آتی ہے اور پیشاب نکلتے ہوئے خارش ہوتی ہے.بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے کرسٹلز پیشاب کے ساتھ نکلتے ہیں جو کموڈ کی سطح کے ساتھ چمٹ جاتے ہیں.کبھی پیشاب کے ساتھ سارے پیٹ میں تشیخی درد شروع ہو جاتا ہے.کولوسنتھ کے مزاج اور جسمانی ساخت میں نزاکت پائی جاتی ہے.کولو سنتھ کا سر درد بھی بہت شدید ہوتا ہے اور آنکھ میں حرکت سے تکلیف بڑھتی ہے.چہرے کے اعصاب میں سخت درد ہو جسے دبانے اور ٹکور کرنے سے آرام آئے تو اس میں کولو سنتھ غیر معمولی فائدہ مند دوا ہے اور بہت جلد افاقہ ہوتا ہے.کولوسنتھ میں در دلبر در لہر اٹھتے ہیں.ہر اگلی لہر پہلی لہر سے زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے یہاں تک کہ مریض کی چیخیں نکل جاتی ہیں اور ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگتے ہیں.کولوسنتھ کی چند گولیاں منہ میں رکھتے ہی سکون محسوس ہوتا ہے.ہومیو پیتھی میں یہ خوبی ہے کہ یہ جلد آنے والی روز مرہ کی بیماری میں فورا آرام پہنچاتی ہے.درد جس سرعت سے آتی ہے.کولو سنتھ ہو میو پیتھک پوٹینسی میں دینے سے اسی سرعت سے غائب ہو جاتی ہے.یہ کولو سنتھ کے دردوں کے عمومی مزاج ہیں.ٹکور اور دباؤ سے آرام.ایسے درد جسم میں کہیں بھی واقع ہوں ہر جگہ بلا توقف کولو سنتھ استعمال کریں.جب یہ دوا اثر کرتی ہے تو فوری سکون کے نتیجہ میں مریض سو جاتا ہے.دافع اثر دوائیں : نکس وامیکا.نوبیکم طاقت : عموماً 30 لیکن بعض دفعہ ایک لاکھ بھی دینی پڑتی ہے.
کونیم 325 82 کو نیم میکولیٹم CONIUM MACULATUM (Poison Hemlock).کو نیم کا زہر ایک پودے سے حاصل کیا جاتا ہے جسے اردو میں شیکر ان اور لاطینی یا انگریزی میں Hemlock کہا جاتا ہے.یہ پودا دنیا کے اکثر علاقوں میں بکثرت پایا جاتا ہے.کو نیم کا لفظ یونانی لفظ Konas سے لیا گیا ہے.جس کا مطلب چکر دینا ہے.اس کے زہر سے شدید چکر آتے ہیں.دسویں صدی میں اسی زہر کو بطور دوا بھی استعمال کیا گیا خصوصاً غدودوں کی بیماریوں میں مرگی اور کالی کھانسی کے لئے اس سے استفادہ کیا گیا لیکن اس کے شدید اور گہرے زہریلے اثرات کی وجہ سے آہستہ آہستہ اس کا استعمال کم ہوتا گیا اور پھر بالکل متروک ہو گیا.روم اور یونان کی سلطنتوں میں اسے قانونی طور پر موت کی سزا دینے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا.یہی وہ زہر ہے جس کا پیالہ سقراط کو پیش کیا گیا تھا.یہ زہر جسم کو مکمل طور پر مفلوج کر دیتا ہے اور فالج پاؤں سے شروع ہو کر اوپر کی طرف جاتا ہے.موت سے پہلے شدید چکر آتے ہیں شیخ ہوتا ہے اور پھر غشی طاری ہو جاتی ہے.ہومیو پیتھک دوا کی صورت میں کو نیم ان سب علامتوں کے ازالے کے لئے استعمال ہوتی ہے.بعض اور ہومیو پیتھک ادویہ مثلاً بیلا ڈونا ، سیمیم اور کا کولس بھی چکروں کے لئے مشہور ہیں لیکن کو نیم کا ان دواؤں سے اس لحاظ سے فرق ہے کہ اس میں اکثر لیٹے ہوئے چکر آتے ہیں، بستر گھوم جاتا ہے اور آنکھ کے ذراسی حرکت کرنے سے بھی چکر زیادہ ہو جاتے ہیں.نوجوان بیوائیں یا ایسی جذباتی خواتین جن کی شادی نہ ہو سکے ان کے دبے ہوئے جذبات کے نتیجہ میں اگر دیگر تکالیف کے علاوہ چکروں کی مخصوص علامت بھی پائی جائے تو عموماً کو نیم ایسی مریضہ کی دوسری تکلیفوں کو بفضلہ تعالیٰ شفا بخشنے کی طاقت
کونیم رکھتی ہے.326 نظر کی کمزوری میں بھی کو نیم مفید ہے.کو نیم غدودوں کی سختی اور گانٹھوں کو تحلیل کرنے میں بھی بہت اہمیت رکھتی ہے.جب تک یہ علامتیں بڑھ کر کینسر میں تبدیل نہ ہو جائیں عموماً ان غدودوں میں درد محسوس نہیں ہوتا.معدے کے کینسر میں کو نیم گوغیر معمولی اہمیت کی دوا ہے مگر وہاں بھی یہی مشکل پڑتی ہے کہ جب تک کینسر نہ بن جائے ،معدہ میں پیدا ہونے والا کوئی درد کو نیم کی نشاندہی نہیں کرتا.اگر دیر ہو جائے تو کو نیم صرف وقتی آرام دیتی ہے.اس کے دینے سے زندگی نسبتاً آسان ہو جاتی ہے مگر اس وقت یہ کینسر کو جڑوں سے نہیں اکھیڑ سکتی.ہاں بعض دفعہ اتنا نمایاں فرق پڑتا ہے کہ لگتا ہے جیسے کینسر غائب ہو گیا ہو لیکن وہ غائب نہیں ہوتا بلکہ کچھ دیر کے لئے دب جاتا ہے.کہا جاتا ہے کہ تین سے چار سال تک آرام کے دوران پھر ظاہر ہو جاتا ہے اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے.اس لئے معدے کی علامتوں سے اس کی شناخت کی کوشش نہ کریں.ہاں کسی مریض میں کو نیم کی عمومی علامتیں پائی جائیں مثلاً کو نیم سے مشابہ چکر ، تو اسے بلا تاخیر شروع کر دینا چاہئے.اس کے نتیجہ میں کینسر کے حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا.کو نیم میں ٹھنڈ سے تکلیف بڑھتی ہے.جو غدود سوج جائے وہ وہیں اسی حالت میں رہ جاتا ہے، واپس اپنی پہلی حالت کی طرف نہیں لوٹتا.بعض دفعہ پیٹ میں ایسے درد کی لہریں دوڑتی ہیں جیسے چاقو سے کاٹا جارہا ہو.زخموں کے اردگرد چھالے بن جاتے ہیں.گردن کے دونوں طرف سوجے ہوئے غدودوں کا سلسلہ پہلوؤں پر نیچے تک اترتا جاتا ہے.ان میں ایسا مواد پیدا ہوتا ہے جو غدودوں کو سخت کر دیتا ہے اور بیماری بڑھتی رہتی ہے.اگر وہ ٹھیک بھی ہو جائے تو غدود پہلی حالت پر واپس نہیں آتے.بغلوں کے غدود بھی سوج جاتے ہیں اور ان میں زخم بننے کا رجحان ہوتا ہے.عورتوں کے سینے میں بھی چھوٹی چھوٹی گانٹھیں اور ابھار سے بنے لگتے ہیں.کو نیم میں ایک علامت برائیٹا کارب سے مشابہ بھی پائی جاتی ہے.برائیٹا کا رب میں جلد کے اندر چربی کی گلٹیاں بنتی ہیں جو بڑی ہو کر بہت بھری اور بدزیب دکھائی دیتی ہیں.اگر وہ برائیٹا کارب سے ٹھیک نہ ہوں تو ا
کونیم 327 دوسری دواؤں کی طرف توجہ کرنی چاہئے جن میں سے ایک کو نیم بھی ہے.کینسر کی گٹھلیاں جو جلد پر ظاہر ہوکر پھٹ جائیں ان کا بہترین مقامی علاج شہد کا لیپ کرنا ہے.شہد پر ہونے والی جدید تحقیق اس کی پر زور تائید کرتی ہے.قرآن کریم میں شہد میں پائی جانے والی جس غیر معمولی شفا کا ذکر ہے، شہد پر ہونے والی نئی تحقیق اس کے نئے نئے مشاہدات پیش کر رہی ہے.جسم پر لرزہ شیخی جھٹکے، کمزوری اور چکر کونیم کی عام تصویر پیش کرتے ہیں.مثانہ کمزور ہو جاتا ہے اور جگر بڑھ جاتا ہے اور غدود پھول جاتے ہیں اگر پیشاب خارج کرنے میں دقت ہو اور پوری طرح فراغت نہ ہو تو بعید نہیں کہ یہ بات پراسٹیٹ گلینڈ کی بیماری کی نشاندہی کرتی ہو.ایسی صورت میں کو نیم دینے میں کوئی تاخیر نہیں کرنی چاہئے کیونکہ اگر یہ مریض کو نیم کا ہوا تو کو نیم بر وقت شروع نہ کرانے کی صورت میں پراسٹیٹ گلینڈ میں کینسر بھی بن سکتا ہے.کسی مریض کو اگر پراسٹیٹ کینسر ہو جائے تو میرے تجربہ میں اس کی بہترین دواسلیشیا ایک لاکھ ہے.پندرہ دن کے وقفہ سے ایک ایک خوراک دی جائے تو چند خوراکوں ہی سے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس کینسر کا قلع قمع ہوسکتا ہے.مگر یہ دوا تبھی کارآمد ہوتی ہے اگر پلسٹیلا یا سلیشیا کی عمومی علامتیں مریض میں پائی جائیں.کو نیم کی دماغی علامتوں میں یادداشت کی کمزوری اور عمومی دماغی کمزوری جس سے مریض سوچ بچار نہیں کر سکتا پائی جاتی ہیں.یہی کمزوری بڑھ کر آرٹیر یوسکلر وسس (Arteriosclerosis) میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے.کو نیم کا مریض چڑ چڑا اور بدمزاج ہو جاتا ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں سے گھبرا جاتا ہے اور بے چینی اور اکتاہٹ کا اظہار کرتا ہے.کو نیم کے مریض کے لئے شراب اور الکحل وغیرہ نا قابل برداشت ہوتا ہے.نشہ آور چیزوں سے لرزہ ، دماغی اور جسمانی کمزوری پیدا ہوتی ہے.سر میں سخت درد ہوتا ہے.کو نیم کی بہت سی علامتیں کا کولس سے ملتی ہیں.دونوں میں چکر پائے جاتے ہیں لیکن دونوں کے چکروں میں یہ فرق ہے کہ کونیم میں لیٹے لیٹے چکر محسوس ہوتے ہیں اور سارا
کونیم 328 بستر گھوم جاتا ہے جبکہ کا کولس میں چکر عموماً اٹھنے یا چلنے پر آتے ہیں.کو نیم غم کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے اثرات سے بھی تعلق رکھتی ہے.اس دوا میں غم کا پہلا اثر ذہن پر یادداشت کی کمزوری کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے.جہاں کہیں بھی کو نیم کی تکلیفیں پائی جائیں گی وہاں جلد کے سونے کا احساس بھی ضرور پایا جائے گا.جلد زردی مائل ہو جاتی ہے.چھالے دار ابھار پیدا ہونے لگتے ہیں اور اخراجات میں سخت بدبو ہوتی ہے.سونے کے علاوہ محض آنکھیں بند کرنے پر ہی پسینہ آنے لگتا ہے.آنکھ کے پیوٹے کا فالج بھی کو نیم کا خاصہ ہے.آنکھوں میں سوزش ہو تو روشنی سے زود حسی ہو جاتی ہے اور طبیعت گھبراتی ہے لیکن کو نیم میں اگر آنکھ میں ورم اور سوزش کی کوئی علامت نہ پائی جائے پھر بھی روشنی سے طبیعت گھبراتی ہے اور آنکھوں سے پانی بہتا ہے.یہ کونیم کی خاص علامت ہے..کو نیم السر اور زخموں کے رجحان کے لئے مفید ہے یہاں تک کہ کور نیا آنکھ کی پتلی ) کے زخم میں بھی مکمل شفا بخشنے کی طاقت رکھتی ہے.کو نیم کا فالج آہستہ آہستہ بڑھتا ہے.اگر اسی وقت کو نیم دے دی جائے تو بیماری مزید نہیں بڑھتی اور جلد شفا ہو جاتی ہے.اگر فالج ہو جائے تو پھر ٹھیک ہونے میں وقت لگتا ہے.بعض دفعہ غذا کی نالی کے اعصابی چھلوں میں فالجی کمزوری واقع ہو جاتی ہے جس سے نگلنے میں دقت ہوتی ہے.اس میں دیگر دواؤں کی طرح کو نیم بھی مفید ہے.بسا اوقات عورتوں میں رحم نیچے گرنے کا احساس ہوتا ہے اور بوجھل پن نمایاں ہوتا ہے.خاوند کی وفات یا علیحدگی کے غم کے نتیجہ میں رحم میں فالجی علامات پیدا ہو جائیں جو آہستہ آہستہ بڑھیں، جلد کے سن ہونے کا احساس بھی ہو اور ہاتھ پاؤں کا سونا اور چکر بھی پائے جائیں تو کو نیم ضروری دوا ہے.اس کے نتیجہ میں رحم کے منہ پر سوزش ہو تو اس میں بھی کو نیم مؤثر ثابت ہوگی.اگر کو نیم دوانہ بھی ہو تو اس کے شروع کروانے سے، جبکہ دوسری دوائیں بھی دی جائیں ، نقصان کو ئی نہیں.کو نیم عورتوں اور مردوں کی جنسی امراض میں بھی مفید ہے.اگر حیض کے ابتدائی
کونیم 329 ایام میں خون کی مقدار کم ہو تو رحم میں شیخ ہو جاتا ہے.ایسی صورت میں کو نیم سب سے پہلے ذہن میں آنی چاہئے.کو نیم میں سینے اور سارے جسم میں گلٹیاں اور ابھار بننے کا رجحان ہوتا ہے.اور یہ چھوٹے چھوٹے ابھار آہستہ آہستہ بنتے رہتے ہیں اور بظاہر ان میں کینسر کا کوئی نشان نہیں ملتا.طاقت : عموماً 30 لیکن گہری بیماریوں میں جہاں بھی کینسر بنے کا خدشہ ہو ایک لاکھ طاقت سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے.
330
کرو فیلس 331 83 کروٹیلس ہری ڈس CROTALUS HORRIDUS (Rattle Snake) یہ دوا ایک بہت ہی زہر یلے اور خطرناک سانپ کے زہر سے تیار کی جاتی ہے جسے عرف عام میں Rattle Snake کہتے ہیں کیونکہ یہ اپنے جسم کو رگڑ تا رہتا ہے جس سے کھڑ کھڑاہٹ کی آواز پیدا ہوتی ہے.یہ سانپ دنیا کے اکثر و بیشتر ممالک میں پایا جاتا ہے خصوصاًریگستانی اور پھر یلے علاقوں میں جہاں نمک کی زیادتی ہوتی ہے.اسے نم دار گیلی جنہیں پسند ہیں، وہاں آرام سے سویا رہتا ہے.جب شکار اس پر قدم رکھے یا اس کا ایک حصہ اس کے پاؤں کے نیچے آ جائے تو اچانک حملہ کرتا ہے.اس کا زہر بہت جلد اثر دکھاتا ہے، مریض کی شکل سخت بھیانک اور خوفناک ہو جاتی ہے اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے مر جاتا ہے.علاج کا وقت ہی نہیں ملتا.سندھ کے پنجابی زمیندار کہتے ہیں کہ جب یہ کالے تو ساتھ ہی کہتا ہے کہ ”پرے ہو کے ڈگ“ یعنی اے میرے شکارمرکر مجھ پر ہی نہ آ پڑنا، پرے ہوکر گرنا.ہر قسم کے سانپوں کے زہر کے اثرات عموماً مزمن ہوتے ہیں اور یہ بہار کے موسم میں اپنا اثر دکھاتے ہیں، سانپ بھی اسی موسم میں جاگتا ہے.سردیوں کے موسم میں آرام کرنے کے بعد تازہ دم ہو کر اٹھتا ہے تو بہت زہریلا ہو چکا ہوتا ہے.اگر اس کا کاٹا ہوا مریض بچ جائے اور زہر پوری طرح اس میں سرایت نہ کر سکا ہو تو اسی موسم میں جس موسم میں اسے کاٹا گیا ہو اس کا زہر پھر جاگ اٹھتا ہے اور بار بار ہر سال اپنا اثر دکھاتا ہے.بہار کے موسم میں وہ پرانے زخم بھی ہرے ہو جاتے ہیں جہاں کبھی سانپ نے کا نا ہو اور وہ بیماریاں جو سانپوں کے زہر سے تعلق رکھتی ہیں سراٹھانے لگتی ہیں.بہار میں کئی
کروٹیلس 332 قسم کی الرجیاں پیدا ہو جاتی ہیں جس کے علاج کے لئے لیکیسس (Lachesis) جو سانپ کے زہر سے تیار کی جانے والی دوا ہے فائدہ مند ہوتی ہے.یہ دوا ہر ایک مریض میں یکساں طور پر کام نہیں کرتی بلکہ بعض اور دواؤں کی ضرورت بھی پیش آتی ہے.الیو مینا اور سباڈیلا کے علاوہ کر و ٹیلس بھی مفید ثابت ہوسکتی ہے لیکن لیکیس اس اثر میں بہت نمایاں ہے.کر وٹیلس کا اثر جگر پر بہت نمایاں ہوتا ہے.اگر یرقان کی علامتیں تیزی سے بڑھ رہی ہوں تو یہ دوا اللہ کے فضل سے بہت جلد اثر دکھاتی ہے.اس کی ایک علامت یہ ہے کہ مریض حد سے زیادہ نروس (Nervous) ہو جاتا ہے اور اس کا جسم کانپتا ہے.زبان بھی باہر نکالتے وقت کا پنپنے لگتی ہے.معمولی حرکت سے تھکاوٹ ہو جاتی ہے، فالجی کمزوریاں نمایاں ہو جاتی ہیں، خون کا رنگ سیاہ ہوتا ہے اور ہر اس جگہ سے نکلتا ہے جہاں بیرونی جلد اور اندرونی جھلیوں کے جوڑ آپس میں ملتے ہیں.امراض اچانک بڑھ جاتی ہیں.مثلاً فالج کا حملہ اچانک ہو جانا یا جسم کے کسی حصہ سے خون کا بہنے لگنا سانپ کے زہر کی یاد دلاتا ہے.خون سیاہی مائل اور مائع صورت میں ہوتا ہے، جمتا نہیں ہے حالانکہ جسم کے اندر خون کی رگوں میں خون پھٹ کر دہی کی پھٹکیوں کی طرح ہو جاتا ہے.پس جو خون باہر نکلتا ہے وہ میلا کچیلا خون ملا پانی ہوتا ہے.دوسری صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ بعض سانپوں کا زہر خون جماتا نہیں بلکہ پتلا کر دیتا ہے.یہ زہر خون سے زیادہ اعصاب اور نروس سسٹم (Nervous System) پر حملہ آور ہوتا ہے.کروٹیلس اس مریض میں مفید ہے جس کی ذہنی کیفیات عجیب وغریب ہو جاتی ہیں.ہذیان بکنے اور بڑ بڑانے کا رجحان ہوتا ہے ، مزاج میں تیزی پائی جاتی ہے.اگر اس سے کوئی بات شروع کریں تو وہ فوراً بات کاٹ دے گا، کسی کو بات نہیں کرنے دے گا اور سب باتیں خود سنائے گا.برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی موجودگی میں کوئی اور بات کرے.وہ اپنی طرف سے فرضی بات بنا لے گا لیکن دوسرے کی بات ضرور کاٹے گا.بہت زیادہ بولنے کی عادت لیکیس کے مریض میں بھی پائی جاتی ہے اور اس کی باتیں
کروٹیلس 333 بے ترتیب اور الجھی ہوئی ہوتی ہیں.کر ڈٹیلس کا مریض بھی بہت تیزی سے بولتا ہے اور کہانیاں بناتا چلا جاتا ہے لیکن ذہنی لحاظ سے زیادہ پر جوش نہیں ہوتا.اس میں سستی اور غنودگی نمایاں ہوتی ہے،موت کا خوف اور رونے کی طرف رجحان نیز ٹھنڈے پسینے آتے ہیں.سردرد اور چکر ا دلتے بدلتے رہتے ہیں.اگر آرام کرے تو سر میں درد ہونے لگتا ہے اور حرکت سے چکر آتے ہیں.سونے سے تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے.خصوصیت سے سر درد میں بہت شدت پیدا ہو جاتی ہے اور بعض اوقات سونے سے پہلے درد نہ بھی ہو تو بھی سونے کے کچھ دیر بعد درد کی وجہ سے مریض کی آنکھ کھل جاتی ہے.سراٹھانے سے تکلیف میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے، درد کی لہریں سر کے پچھلے حصہ سے آگے کی طرف آتی ہیں اور بہت کمزوری ہوتی ہے.جب بھی کسی خاص مرض کا حملہ ہو تو جسم پر موجود زخموں سے کالے رنگ کا بد بودارخون بہنے لگتا ہے.خاص طور پر بہار کے موسم میں یہ کیفیت پیدا ہوتو کر ٹیلس ہی دوا ہو گی.شوگر کی وجہ سے گردن اور کمر وغیرہ پر کاربنکل نکلتے ہیں.اگر وہ تیزی سے پھیل کر جڑوں والے پھوڑوں کی شکل اختیار کر لیں اور ارد گر دورم ہو جائے تو کر ڈٹیلس مفید ہے.ایسے کاربنکل میں آرسینک اور اینتھر اسینم (Anthracinum) بھی مؤثر ہیں.اگر عورتوں کو حمل کے دوران ٹائیفائیڈ ہو جائے جس کی وجہ سے حمل ضائع ہو جائے تو یہ دوا بعد میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں میں مفید ہوتی ہے.کروٹیلس میں بعض اوقات یا تو بہت زیادہ نیند آتی ہے یا پھر نیند بالکل اڑ جاتی ہے اور یہ دونوں کیفیات آپس میں ادلتی بدلتی رہتی ہیں.سخت غنودگی کی حالت میں اٹھا نہیں جاتا لیکن جب آنکھ کھل جائے تو پھر نیند نہیں آتی.اس دوا میں اور دیگر سانپوں کے زہروں میں ایک بات مشترک ہے کہ مریض مختلف قسم کے شکوک وشبہات میں مبتلا رہتا ہے، کسی پر بھروسہ نہیں کرتا اور یہ سجھتا ہے کہ کوئی اسے زہر دے دے گا.مریض کو الکحل اور شراب پینے کی شدید خواہش ہوتی ہے.عادی شرابیوں کی عادت چھڑوانے کے لئے سلیفورک ایسڈ بہترین دوا ہے.ایک قطرہ
کروفیلس 334 گلاس بھر پانی میں ڈال کر دن میں تین دفعہ پلانے سے نمایاں فرق پڑتا ہے.اگر مریض بہت موٹا ہو، چربی کی تہیں چڑھی ہوں، اسے تیز مصالحوں والی چیزوں کا جنون ہو اور شراب کی عادت بھی ہو تو ایسے مریضوں کی دوا کر ٹیلس ہے.کر پیلس کے مریض کی آنکھیں زرد ہوتی ہیں اور آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ جاتے ہیں.آنکھوں میں ایسے جلن دار درد ہوتے ہیں جیسے کسی نے چاقو سے زخمی کر دیا ہو.خون بہنے کا رجحان بھی ہوتا ہے.نظر دھندلا جاتی ہے.بعض دفعہ شدید کمزوری سے بینائی جاتی رہتی ہے.روشنی نا قابل برداشت ہوتی ہے.کانوں سے بھی خون بہتا ہے، دایاں کان بند ہو جاتا ہے، اعصابی کمزوری بہرے پن پر منتج ہو جاتی ہے.کان میں تکلیف کی وجہ سے چکر آتے ہیں، ہلکا ہلکا درد اور دھڑکن کا احساس، آوازوں اور شور سے زود حسی بڑھ جاتی ہے.کر ٹیلس میں ناک سے خون ملی ہوئی رطوبت کا اخراج ہوتا ہے.نکسیر بھی بہتی ہے، خون کا رنگ سیاہ اور دھاگے کی طرح بٹا ہوا ہوتا ہے.ہونٹ متورم اور بے حس ہو جاتے ہیں.چہرہ بھی زرد اور متورم ہو جاتا ہے.زبان اور گلے میں خشکی کی وجہ سے بولنا مشکل ہوتا ہے.ٹھوس چیز نگلتے ہوئے تکلیف ہوتی ہے.زبان سرخ، خشک اور سوجی ہوئی ہوتی ہے.ایسے مریض کی زبان کا کینسر بسا اوقات کر ڈٹیلس کا مطالبہ کرتا ہے.کر ٹیلس کا مریض معدہ کے گرد کسی قسم کا کپڑا برداشت نہیں کرسکتا.کوئی چیز اس کے معدے میں نہیں ٹکتی بلکہ شدید قے آجاتی ہے.صفراوی مادے نکلتے ہیں.خون کی قے بھی آتی ہے.معدہ میں خالی پن کا احساس ہوتا ہے.مریض کو یا تو قبض ہوگی یا دست شروع ہو جائیں گے.سیاہ، پتلی اور متعفن اجابت جس میں خون کی آمیزش بھی ہوتی ہے.سرخ یا زردی مائل پیشاب آتا ہے.گردے متورم ہوتے ہیں.جگر کے مقام پر درد ہوتا ہے.دل میں بھی کمزوری محسوس ہوتی ہے.دھڑکن تیز ہو جاتی ہے.نبض عموماً تیز ہوتی ہے یا بہت کمزور پڑ جاتی ہے.جوڑوں میں درد بھی کر ڈٹیلس کی علامت ہے.غدود متورم ہو جاتے ہیں، ہاتھ پاؤں
کروٹیلس 335 سوج جاتے ہیں، پاؤں کی انگلیوں میں اینٹھن اور درد ہوتا ہے.کھلی ہوا میں سر اور معدے کی تکلیفیں آرام پاتی ہیں جبکہ کھانسی بڑھ جاتی ہے.تمام جسم میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے.جلد بہت حساس ہو جاتی ہے اور اس میں زردی نمایاں ہوتی ہے اور پھوڑے نکلنے کا رجحان ہوتا ہے.چہرہ بے رنگ زردی مائل ہوتا ہے.ایک خاص علامت یہ ہے کہ اگر کسی لڑکی کو حیض کا خون جاری نہ ہو اور منہ دانوں سے بھر جائے تو کروٹیلس اس کی خاص دوا ہے.یہ حیض کو دوبارہ جاری کر کے چہرے کی طرف خون کے دباؤ کو کم کر دیتی ہے.کر ٹیلس صرف عارضی اثر رکھنے والی دوا نہیں ہے بلکہ مزمن بیماریوں کے اثرات میں بھی مفید ہے.اگر تمام اعصابی نظام بگڑنے کے نتیجہ میں جسم کمزور ہو جائے، ہاتھ پاؤں کانپنے لگیں، نسبتا بڑی عمر کے مریضوں کو رعشہ ہو جائے تو اس میں کر پیلس مفید ہے بلکہ لازم دوا بن جاتی ہے.کروٹیلس میں دائیں طرف سونے سے تکلیفیں بڑھتی ہیں.معدے اور پیٹ میں شدید ٹھنڈ کا احساس ہوتا ہے جیسے کسی نے برف رکھ دی ہو.یہ احساس انتڑیوں یا معدے میں کینسر کے آغاز کی علامت بھی ہو سکتا ہے.اگر وقت پر کروٹیلس دی جائے تو شفا ہوسکتی ہے.ایسی علامتوں پر نظر رکھی جائے تو مزید پیچیدگیاں پیدا نہیں ہوں گی.کرو پیلس پیٹ کی ہوا اور معدے کے السر میں بھی مفید ہے.اگر رحم میں کینسر ہو اور شدید خون بہہ رہا ہو تو کر ڈٹیکس سے مکمل شفا ممکن ہے.ایسی مریضہ کے چہرے پر زردی چھا جاتی ہے اور وہ یرقان کی مریضہ معلوم ہوتی ہے.یہ خاص علامت ہے جس سے کر ویلس کی پہچان ممکن ہے.دل کی کمزوری بھی کرو ٹیلس کی خاص علامت ہے.یہ بات سانپ کے تقریباً سب زہروں میں پائی جاتی ہے.خصوصاً حیض کے دنوں میں دل کا نپتا ہوا محسوس ہوتا ہے.ہاتھ بھی کانپتے ہیں اور سوج جاتے ہیں.ٹانگیں سن ہو جاتی ہیں اور بائیں جانب فالج ہونے کا احتمال ہوتا ہے.حیض دیر تک جاری رہتا ہے.شدید درد جو ٹانگوں تک پھیلتا ہے.معدہ میں بھی نقاہت کا احساس ہوتا ہے.بچے کی پیدائش کے بعد
کر و فیلس 336 بد بودار خون کا اخراج اور رحم باہر نکلتا ہوا محسوس ہوتا ہے.شدید کھچاؤ اور درد، مریضہ ٹانگوں کو بے چینی اور تکلیف کی وجہ سے مسلسل ہلاتی رہتی ہے.دافع اثر دوائیں: لیکیس کیمفر طاقت: 30 سے 200 تک
کروٹن 337 84 کروٹنی CROTON TIGLIUM (Croton Oil Seed) کروٹن یعنی جمال گوٹا بہت مشہور دست آور دوا ہے.اس کے مریض کو یکا یک دست شروع ہو جاتے ہیں.پیٹ میں درد اور مسلسل حاجت ہوتی ہے جس کے بعد شدید کمزوری پیدا ہو جاتی ہے.کروٹن کی جلدی علامات رسٹاکس سے ملتی جلتی ہیں.رطوبت سے بھرے ہوئے چھالے نکلتے ہیں، خارش کے ساتھ جلن ہوتی ہے.کروٹن اور رسٹاکس میں ایک فرق یہ ہے کہ رسٹاکس میں جب ایک جگہ سے ایگزیما ختم ہو جائے تو وہاں صحت مند جلد نکل آتی ہے.اگلی دفعہ ایگزیما ہونے والے دوبارہ وہاں چھالے نہیں بنتے.بعد ازاں کسی وقت ایگزیما کا نیا حملہ ہو تو سابقہ ماؤف جگہ پر بھی ہو سکتا ہے لیکن کروٹن میں اسی جگہ جہاں جلد صحت یاب ہو چکی ہو دوبارہ چھالے نکل آتے ہیں اور بہت ضدی اور چمٹ جانے والا ایگزیما بن جاتا ہے.رسٹاکس اور کروٹن میں انتڑیوں پر اثر مشترک ہے.پرانی پیچش اور اسہال میں کروٹن بہت مفید ہے.اس کے اسہال کی ایک خاص پہچان جو اسے رسٹاکس اور اسہال کی دوسری ادویہ سے ممتاز کرتی ہے یہ ہے کہ کروٹن کے اسہال اچانک بہت زور سے شروع ہوتے ہیں.مثلاً بچوں کو دودھ پیتے ہی زور کے اسہال آنے لگیں تو غالبا کرون ہی دوا ہوگی.کرون کی منتقلی اپنی کاک سے مشابہ ہوتی ہے.اپی کاک میں صرف متلی ہوتی ہے، قے نہیں آتی.کروٹن میں بھی متلی ہوتی ہے لیکن تے نہیں آتی بلکہ اس کی بجائے اسہال شروع ہو جاتے ہیں.کروٹن میں پیٹ میں ہوا بھی ہوتی ہے اور انتڑیوں سے گڑ گڑاہٹ کی آواز بھی آتی
کروٹن 338 ہے.یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اندر پانی بھرا ہوا ہو.معدہ میں بھوک اور خالی پن کا احساس ہوتا ہے.کروٹن میں جلد اور پیٹ کی علامتیں ایک دوسرے سے ادلتی بدلتی رہتی ہیں.اس میں آنکھوں کی بھی ہر قسم کی تکلیفیں پائی جاتی ہیں.آنکھوں کی سرخی اور زخم ، پپوٹوں پر دانے اور آبلے بن جائیں اور سوزش ہو تو کروٹن مفید دوا ہے.آنکھ کی یہ تکلیفیں دوسری دواؤں میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن اگر ان کے ساتھ انتڑیوں کی سوزش بھی نمایاں ہو تو کروٹن کے دوا ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے.کروٹن میں آنکھیں پیچھے کی طرف کھنچنے کی علامت بھی پائی جاتی ہے.Paris Quadrifolia میں یہی علامت نسبتاً وسیع بیماریوں کے دائرے سے تعلق رکھتی ہے یہاں تک کہ عورتوں کو سینے کی بیماریوں میں اندر دھاگے سے کھینچنے کا احساس ہوتا ہے اور شدید درد ہوتا ہے جس سے رات کو سونا دشوار ہو جاتا ہے.کروٹن اور Paris میں یہ فرق ہے کہ Paris میں اسہال کی علامت نہیں ہوتی لیکن کروٹن میں اسہال کی علامت عموماً پائی جاتی ہے اور ناف کے پیچھے کھچاؤ کا احساس ہوتا ہے جیسے رسی سے اندر کی طرف کھینچا جارہا ہو.یہ احساس پلم میں بھی پایا جاتا ہے.بچوں کے ایگزیما خصوصاً سر کے ایگزیما میں کروٹن کی سپیا سے بہت مشابہت ہے.مگر کروٹن کی دیگر واضح علامتیں اسے سپیہا سے جدا کرتی ہیں.بعض دوائیں ایسی ہیں جن کا آلات تناسل کے ایگزیموں سے تعلق ہوتا ہے.کروٹن ان میں سرفہرست شمار ہونی چاہئے.رسٹاکس، اینا گیلس اور گریفائٹس بھی اس مرض کے علاج میں شہرت رکھتی ہیں.کروٹن کے چھالے رسٹاکس سے چھوٹے ہوتے ہیں اور پانی بھی رسٹاکس کے مقابلہ میں کم بہتا ہے.کروٹن اور رسٹاکس ایک دوسرے کے اثر کو زائل (Antidote) کرتی ہیں.رسٹاکس میں اسہال کی علامتیں نہیں ملتیں.کروٹن یعنی جمال گوٹا کھانے کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے خطرناک اسہال کا تریاق پوڈوفائیم (Podophyllum) ہے.پوڈوفائیلم میں بھی پچکاری کی طرح زور دار اسہال
کروٹن 339 آتے ہیں.اسہال کے مقابل پر کروٹن کی خارش کا تریاق رسٹاکس ہے.ہتھیلیوں کی خارش میں اینا کیلیس (Anagallis) کو بہت شہرت حاصل ہے.رسٹاکس کی خارش اور ایگزیما عموماً ہاتھ کی پشت پر ہوتے ہیں.اپنا گیلس ہتھیلیوں کی دوا ہے.جلن کے اعتبار سے اینا گیلس میں جلن کم اور رسٹاکس میں بہت زیادہ ہوتی ہے.اینا گیلس کا ایگزیما ماؤف جگہ پر دوبارہ ابھر آنے کے اعتبار سے کروٹن کے مشابہ ہوتا ہے.کروٹن کی تکلیفیں گرمی کے موسم میں بڑھ جاتی ہیں.مریض بے سکون، پریشان اور غمگین رہتا ہے.پیشانی میں شدید دباؤ اور درد ہو جاتا ہے، سر بوجھل ہو جاتا ہے اور چکر آتے ہیں.کھانسی کے ساتھ دمہ کا دورہ بھی ہو جاتا ہے ، مریض کے تکیہ پر سر رکھتے ہی کھانسی شروع ہو جاتی ہے.مریض لیٹ نہیں سکتا اور گہرا سانس لینا ناممکن ہو جاتا ہے.اگر کان بہتے ہوں اور شدید خارش ہو تو کروٹن کو فراموش نہیں کرنا چاہئے.غذا کی نالی میں جلن بھی کروٹن کی خاص علامت ہے.معدے میں کمزوری کا احساس ہوتا ہے.کروٹن میں رات کے وقت جھاگ دار اور نارنجی رنگ کا پیشاب آتا ہے جو کھڑا رہے تو اس کی سطح پر چکنے ذرات آ جاتے ہیں.دن میں بھی پیشاب زردی مائل ہوتا ہے اور اس میں سفید ذرات پائے جاتے ہیں.کروٹن میں ذراسی چیز کھانے سے یا ماؤف جگہ پرلٹس سے نیز رات کے وقت تکلیفوں میں اضافہ ہو جاتا ہے.دافع اثر دوائیں اینٹی مونیم ٹارٹ ، رسٹاکس، پوڈوفائیلم طاقت: 30 سے 1000،200 تک
340
کیوپرم 341 85 کیو پرم میٹیلیکم CUPRUM METALLICUM تانبا سرخی مائل بھورے رنگ کی دھات ہے جس سے مختلف قسم کے اوزار، ہتھیار اور بجلی کی تاریں وغیرہ بنائی جاتی ہیں.یہ بہت نرم دھات ہے اس لئے اسے دوسری مختلف دھاتوں سے ملا کر بہت سی ملی جلی دھاتیں تیار کی جاتی ہیں جو اپنی صفات کے لحاظ سے تانبے سے مختلف اور صنعت میں نہایت کارآمد ثابت ہوئی ہیں.جو لوگ تانبے کا کام کرتے ہیں ان میں اس کے زہریلے اثرات آہستہ آہستہ ظاہر ہوتے ہیں.شدید پیٹ درد، ہیضہ، کھانسی اور شیخ اس کی نمایاں علامات ہیں.تانبے کے سفوف سے جو ہومیو پیتھی دوا تیار کی جاتی ہے اسے کیو پرم کہتے ہیں.کیو پرم میں تشنجاتی کیفیات بہت نمایاں ہوتی ہیں اور کیو پرم کا تصور ان کیفیات کے بغیر ممکن ہی نہیں.یہ شیخ اتنا تشدید اور نا قابل برداشت ہوتا ہے کہ مریض مرنے کی تمنا کرتا ہے.کیو پرم کی ہر بیماری میں شدید تصبح اور پالن پائے جاتے ہیں جو جسم کے تمام عضلات پر حاوی ہو جاتے ہیں.مرگی اور ہیضہ میں اگر شیخ اور نیلا ہٹ نمایاں ہوں تو اکثر کیو پرم دوا ثابت ہوگی.جب تشنج کا دورہ ہو تو ہاتھوں کی مٹھیاں نہایت شدت کے ساتھ بینچ جاتی ہیں.اسی طرح پاؤں کے نے بھی تشیع کی وجہ سے مڑنے لگتے ہیں.یہ اینٹھن ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں سے آگے بڑھ کر ٹانگوں اور بازوؤں میں پہنچتی ہے اور تمام جسم اکڑ جاتا ہے.بعض دفعہ دماغ کے خون کی شریانوں میں تشنجی علامات ظاہر ہو جاتی ہیں جن کے نتیجہ میں مریض بے سروپا باتیں کرتا ہے، حافظہ بالکل جواب دے جاتا ہے، ہذیان کے علاوہ بے ہوشی بھی ہوتی ہے ، عضلات میں جھٹکے لگتے ہیں اور شیخ ہوتا ہے، پٹھے پھڑکتے ہیں،
کیوپرم 342 مریض جس کروٹ لیٹتا ہے اس کے مخالف سمت جھٹکے لگنے لگتے ہیں.سیمی سی فیوجا میں جس کروٹ لیٹا جائے وہی پہلو پھڑکنے لگتا ہے.اگر بے ہوشی کے ساتھ سارا جسم تن جائے جیسا کہ مرگی کے دوروں میں ہوتا ہے تو یہ کیو پرم کی خاص علامت ہے لیکن اگر عمومی بے ہوشی ہو اور جسم کا صرف ایک حصہ پھڑک رہا ہو اور دوسرا بالکل ٹھیک ہو اور سارے جسم میں تناؤ کی کیفیت نہ ہو تو وہ کیو پرم کا مریض نہیں ہے.کیو پرم کالی کھانسی اور دمہ میں بھی بہت مفید ہے.میرے نزدیک کیوپرم کو کالی کھانسی اور دمہ کے انتہائی تشیخ میں ضرور استعمال کرنا چاہئے.گرمی کے موسم میں تکلیف ہو اور سانس کی نالی میں تشنج ظاہر ہو اور ٹھنڈی چیز یا برف کی ٹکور سے فائدہ ہو تو کیو پرم فوری طور پر فائدہ پہنچاتی ہے.سینہ کے اطراف میں اور نچلے حصہ میں تشنجی کیفیت بہت تکلیف دہ ہوتی ہے اور مریض سمجھتا ہے کہ وہ اس تکلیف سے مرہی جائے گا.سینہ سے لے کر پیٹھ تک چاقو کی طرح چیر نے والے درد کا احساس بھی ہوتا ہے.دراصل یہ علامت تشیخ سے پیدا ہوتی ہے اور اس میں کیو پرم جادو کی طرح اثر کرتی ہے.اس پہلو سے کیو پرم پستہ کے شدید درد اور شیخ میں بھی کام آتی ہے.اگر کوئی بوڑھا آدمی جو لمبے عرصہ سے تجرد کی زندگی گزار رہا ہو شادی کر لے تو اسے بعض دفعه شیخ شروع ہو جاتے ہیں جو میاں بیوی کے ملاپ کے بعد ا کثر پاؤں یا پنڈلیوں سے چل کر اوپر کمر تک پھیل جاتے ہیں.کیو پرم اس کی بہترین دوا ہے.اگر دوران حیض تشخی کیفیتیں پیدا ہو جائیں اور سب سے پہلے انگلیاں متاثر ہوں تو بھی کیو پرم ہی اصل دوا ہے.یہ تشنج انگلیوں سے شروع ہو کر تمام جسم میں پھیل جاتا ہے اور جسم اکڑ جاتا ہے.اگر بے ہوشی ہو جائے اور ہذیانی کیفیت ہو اور آنکھیں او پر چڑھ جائیں تو فوری طور پر کیو پرم استعمال کرنی چاہئے.مرگی کے دوروں سے قبل گدی سے سر درد شروع ہو کر آگے پیشانی میں آتا ہو اور مرگی میں شیخ بھی نمایاں علامت ہو، انگلیوں میں جھٹکے لگتے ہوں اور تکلیف سے مریض کی چیخیں نکل جاتی ہوں نیز دورے کے وقت پیشاب اور پاخانہ خطا ہو جاتا ہو تو کیوپرم اس کا بہترین علاج ہے.
کیوپرم 343 کیو پرم اعضاء کے سکڑنے اور کھلنے والے عضلات پر یکساں اثر ظاہر کرتی ہے.جب تی شیخ پیدا کرے تو درد ہوتا ہے اور جب عضلات کو ڈھیلا کر دے تو شعوری طور پر ان کو سنبھالا نہیں جاسکتا.کیو پرم کے مرگی کے مریض کو اکثر دورے کے بعد شدید سر درد ہوتا ہے.بعض دفعہ وضع حمل کے وقت مریضہ عارضی طور پر بینائی کھو بیٹھتی ہے.بعض دفعہ حصل کے دوران یا وضع حمل کے وقت خون کا دباؤ بڑھ جانے سے دماغ کی رگ پھٹ جاتی ہے جس کی وجہ سے بینائی مستقل ضائع ہو جاتی ہے لیکن کیو پرم میں عمو ما وقتی اندھا پن ملتا ہے کیونکہ اس کا تعلق خون کی رگ پھٹنے یا خون کا لوتھڑا جمنے سے نہیں ہوتا صرف عارضی تشیخ سے ہوتا ہے.اگر وضع حمل کے وقت عارضی اندھا پن پیدا ہو جائے اور کیو پرم کی دیگر علامتیں موجود ہوں تو کیوپرم سے بفضلہ تعالی ضرور فائدہ ہوگا اور کو ہم وضع حمل کے دوران بہت سہولت پیدا کر دے گی.کیو پرم کی بعض ذہنی علامات بہت نمایاں ہیں.اس کا مریض اپنے خیالات اور رجحانات میں تبدیلی پیدا نہیں کرتا، غمگین رہتا ہے، زبان سے ایسے الفاظ ادا کرتا ہے جن کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ نہیں ہوتا.سر میں خالی پن کا احساس ہوتا ہے، دماغ میں درد ہوتا ہے، سر پر سرخی مائل نیلا ہٹ اور سوزش پائی جاتی ہے.یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا سر پر گرم پانی ڈالا جا رہا ہو.بہت چکر آتے ہیں اور سر آگے کی طرف گرتا ہوا محسوس ہوتا ہے.پیشانی، کنپٹیوں اور گدی میں شدید درد ہوتا ہے جس میں دبانے سے اضافہ ہو جاتا ہے.مریض کے چہرہ پر نیلگوں پیلاہٹ آ جاتی ہے اور وہ کسی گہری فکر اور سوچ میں ڈوبا رہتا ہے.ہونٹوں پر نیلا ہٹ ہوتی ہے اور بے ہوشی طاری ہونے پر مریض کے جبڑے سختی سے بند ہو جاتے ہیں اور منہ سے جھاگ نکلتی ہے.ناک میں خون کے شدید دباؤ کا احساس ہوتا ہے، قوت شامہ جاتی رہتی ہے.منہ میں دھات کا مزہ محسوس ہوتا ہے اور بہت تھوک بہتا ہے.زبان مفلوج ہو جاتی ہے اور لکنت کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں.زبان سانپ کی زبان کی طرح باہرنکلتی اور سکڑتی ہے..
کیوپرم 344 کیو پرم کی ایک علامت یہ ہے کہ مریض کو ہچکی لگتی ہے جو معدہ کے شیخ سے پیدا ہوتی ہے.متلی اور قے کو ٹھنڈا پانی پینے سے آرام آتا ہے.مگر متلی اور قے کے دورے سردی لگنے سے ہی شروع ہوتے ہیں.شدید پیٹ درد اور تھوڑے تھوڑے اسہال ہوں جن کے ساتھ تشخی دورے بھی ہوں اور پیٹ تن جائے اور چھونے سے درد ہوتا ہو، اندر کی طرف کھچاؤ محسوس ہوتا ہو تو یہ کیو پرم کی علامتیں ہیں.روز مرہ ہیضے میں استعمال ہونے والی تین بہترین دواؤں میں سے ایک کیو پرم ہے.اس کی امتیازی علامتیں بالکل واضح اور آسانی سے شناخت ہونے والی ہیں.ہیضے میں تشیخ کا آغاز پیٹ سے ہوتا ہے جو بہت شدید ہوتا ہے اسہال کھل کر نہیں آتے بلکہ رک رک کر تھوڑے تھوڑے آتے ہیں.اگر چہ ہاتھ پاؤں بھی مڑتے ہیں مگر چڈلی کا تشنج پیٹ سے تشبیح کے بعد ہر دوسرے تشیع سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے.ان تشنجی علامات کے ساتھ کیو پرم کی عمومی نیلا ہٹ اس کے مریض کی شناخت کا مزید پختہ کر دیتی ہے.دوسری دو دوا ئیں کیمفر اور ور بیٹرم البم ہیں.نوجوان بچیوں کو حیض کے دوران کمر اور پیٹ میں تشنج ہوتا ہے لیکن اگر یہ شیخ پنڈلیوں میں منتقل ہو جائیں تو زیادہ تر کیو پرم ہی دوا ہوگی.اس میں ہلکی سی متلی اور اسہال بھی ہوتے ہیں.اگر حیض کے دوران مرگی کے دورے پڑنے لگیں تو یہ بھی کیو پرم کی علامت ہے.البتہ نئے چاند کے نکلنے سے اگر یہ تکلیف ہو تو اس میں سیلیشیا مفید ہے.مددگار دوائیں کلکیریا کارب دافع اثر دوائیں کیمفر.بیلاڈونا.ہپر سلف سٹیفی سیگر یا کونیم طاقت 30 سے 200 تک
345 86 ئیکلیمن یوروپیم CYCLAMEN EUROPAEUM سائیکلیمن ایک پودے کی جڑ سے تیار کی جانے والی دوا ہے جس کے بارے میں عجیب وغریب روایات مشہور ہیں.سائیکلیمن بہت سے تضادات پر مشتمل دوا ہے.اس کی علامات رکھنے والے مریض کا حرکت کرنے کو بالکل دل نہیں چاہتا.اگر چہ حرکت سے تکلیف میں کمی آجاتی ہے.مریض کھلی ہوا میں گھبراہٹ محسوس کرتا ہے ،لیکن بیماری کو افاقہ ہوتا ہے خصوصاً نزلہ زکام اور کھانسی کوکھلی ہوا سے آرام آتا ہے.مریض جسمانی کمزوری کی وجہ سے حرکت کرنے اور چلنے پھرنے سے گھبراتا ہے.شدید اسہال اور قے ، نظام ہضم بری طرح متاثر ، اس کے ساتھ لعاب دہن کا ذائقہ نمکین ہو جاتا ہے.سائیکلیمن میں عورتوں کا ماہانہ نظام متاثر ہوتا ہے اور بے قاعدگی پیدا ہو جاتی ہے.حیض بہت جلد جلد، مقدار میں زیادہ ، خون کالا اور منجمد ، حرکت سے خون میں کمی ، یہ سب سائیکلیمن کی علامات ہیں.حیض کی خرابی کی وجہ سے خون کی کمی ہو جائے اور یہ بیماری بڑھتی جائے تو اس میں سائیکلیمن بہت اہمیت رکھتی ہے.عورتوں کی طرح مردوں کے اعضاء میں بھی پیشاب کی مختلف خرابیاں اور جنسی کمزوری پائی جاتی ہے.سائیکلیمن کا مریض رات کو بہت بے چین ہوتا ہے.سائیکلیمن میں چلنے سے کمزوری بڑھتی ہے لیکن دردوں اور تکلیفوں میں کچھ کمی آ جاتی ہے.سائیکیمن میں مریض کی ذہنی کیفیات بھی ادلتی بدلتی رہتی ہیں.ایک دم خوشی کے احساسات کی وجہ سے ہیجانی کیفیت ہوگی یا پھر ایک دم تھک کر گر جائے گا.دماغ بالکل خالی
سایکلین 346 ہو جاتا ہے اور بولنے کو بھی دل نہیں چاہتا.تمام قسم کے کاموں سے نفرت ہو جاتی ہے.چڑ چڑا پن پیدا ہو جاتا ہے.سائیکلیمن کی مریضہ سمجھتی ہے کہ وہ دنیا میں اکیلی ہے اور ہر کوئی اس کے بارے میں بری باتیں کرتا ہے.اکثر نوجوان بچیوں میں یہ کیفیت ہوتی ہے.کئی بار ایسی بچیوں کو سلفر اور سٹرامونیم دی لیکن کوئی غیر معمولی فائدہ نہیں ہوا.ہو سکتا ہے سائیکلیمن دی جاتی تو فائدہ ہو جاتا.سائیکلیمن میں سردرد بہت شدید ہوتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سر پھٹ جائے گا.صبح کے وقت سر در دشروع ہوتا ہے.آنکھوں کے سامنے ستارے ناچتے ہیں.نظر دھندلا جاتی ہے.ایسا بھینگا پن جس میں آنکھ کا ڈیلا اندر کی طرف سکڑتا ہے اس میں سائیکلیمن بہت مفید دوا ہے.آنکھوں میں حدت اور گرمی کا احساس ہوتا ہے.ایک کی بجائے دو دو نظر آتے ہیں.نظر کی مختلف تکلیفیں بسا اوقات معدہ کی خرابی سے تعلق رکھتی ہے.آنکھ کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں ، آدھی نظر غائب ہو جاتی ہے.آنکھوں کے سامنے دھبے آتے ہیں جو مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں.سائیکلیمن میں دائیں کان کے اندر کھنچنے والا درد ہوتا ہے.کانوں میں گھن گرج کی آوازیں آتی ہیں.قوت شنوائی متاثر ہو جاتی ہے.ی کلیمن میں گلے میں جلن پخشکی اور کھر چین کا احساس ہوتا ہے.اس دوا میں عموماً پیاس نہیں ہوتی لیکن بخار کے دوران شام کے وقت مریض کی پیاس بہت بڑھ جاتی ہے.معدے کی تمام تکالیف پلسٹیلا سے ملتی جلتی ہیں.چربی والے کھانے سے نفرت ، گرمی ، جلن کا احساس اور کافی پینے کے بعد تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.کافی کا ایک خاص اثر سائیکلیمن کے مریض پر یہ پڑتا ہے کہ جتنی دفعہ کافی پیئے گا اتنی دفعہ اسہال آئیں گے.معدے کی تکلیفوں میں ہچکی کا آنا سائیکلیمن کی بھی خاص علامت ہے.سائیے سائیکلیمن منه کی مشکلی ، پیاس کی کمی یا پیشاب کی زیادتی میں تقسیم سے مشابہ ہے.عام طور پر پسینہ بھی کم.
سائیکلیمن 347 ہوتا ہے لیکن کمزوری ہو تو مریض پسینہ سے تر بتر ہو جاتا ہے.پیشاب مقدار میں بہت زیادہ، پانی کی طرح بالکل بے رنگ ، بار بار پیشاب کی حاجت ہوتی ہے.یکلیمن کی بلغم میں سفیدی ہوتی ہے.اس کا مطلب ہے کہ جراثیم کا حملہ بہت شدید نہیں ہے اور زیادہ اتیلن نہیں ہوئی.پیسکلیمن میں دم گھٹنے والی کھانسی بھی ہوتی ہے.ان حصوں میں جہاں ہڈیاں جلد کے بالکل نزدیک ہوں، درد ہوتا ہے.دائیں ہاتھ میں انگوٹھے اور تشہد کی انگلی میں تشنج ہونے لگتا ہے جو لکھتے ہوئے کچھ بڑھ جاتا ہے.پاؤں کی ایڑیوں میں پھوڑے کا سا درد ہوتا ہے.بعض اوقات یہ درد ہڈی کے بڑھ جانے کی وجہ سے بھی ہوتا ہے.اس کا زیادہ گہرا علاج کرنا پڑتا ہے، جس سے ہڈی مزید بڑھنا بند ہو جاتی ہے.لیکن جہاں ہڈیاں بہت بڑھ گئی ہوں وہاں اپریشن کروانا پڑتا ہے.جو دوائیں اس تکلیف کو کم کرنے میں ممد ہوتی ہیں ان میں آرنیکا، لیڈم، روٹا، کلکیر یا فلور اور رسٹاکس شامل ہیں اور کلکیر یا کا رب بھی مفید ہے.سائیکلیمن میں خارش کو کھجلانے سے سکون ملتا ہے.عورتوں میں حیض کا خون جاری ہونے پر خارش کو آرام آجاتا ہے.طاقت: 30 سے 200 تک
348
ڈیجی ٹیلس 349 87 ڈیجی ٹیلس DIGITALIS ڈیجی ٹیلس دل کے امراض میں بکثرت استعمال ہونے والی مشہور دوا ہے.ایلو پیتھی طریق علاج میں یہ دل کی تیز ، بے قابو دھڑکنوں کو قابو میں لانے کے لئے استعمال ہوتی ہے.یہ نبض اور دل کے غیر معمولی جوش اور دھڑکن کی تیزی کو ایک ضابطہ اعتدال میں لے آتی ہے لیکن یہ بہت لمبے عرصہ تک بڑھتی ہوئی مقدار میں استعمال کرنی پڑتی ہے اور اس کا بظاہر خوشکن اثر پھر بھی عارضی ثابت ہوتا ہے کیونکہ دن بدن اسے پہلے سے زیادہ مقدار میں دینا پڑتا ہے.بالآخر یہ مقدار اتنی بڑھ جاتی ہے کہ براہ راست زہر کا سا کام کرتی ہے.اس موقع پر تمام ایلو پیتھے اطباء مجبور ہو جاتے ہیں کہ اسے بند کر دیں اور جو نہی یہ بند کی جاتی ہے تو دل کی دھڑکن انتہائی تیز رفتار ہوکر بعض اوقات محض ایک تھر تھراہٹ میں بدل جاتی ہے جس کے بعد دل اچانک کام کرنا بند کر دیتا ہے.دراصل دل کی حرکت کو کم کرنے کا جو اثر اس کے استعمال سے عارضی طور پر دکھائی دیتا ہے.وہ ایک جبری اثر ہوتا ہے جو دل کے عضلات کی بیماری تو دور نہیں کر سکتا مگر ان کو ایک محد و حرکت کے دائرے میں جکڑ دیتا ہے.یہی وجہ ہے کہ بالآخر یہ عضلات کلیتا جواب دے جاتے ہیں.اس کے اثر سے مرض کے آخری ایام میں مریض کے پھیپھڑوں میں پانی بھرنا شروع ہو جاتا ہے کیونکہ دل کے والوز (Valves) خون آگے رگوں میں بھیجنے کی طاقت نہیں رکھتے اور خون پھیپھڑوں میں جمع ہو کر پھیپھڑوں کو خون اور پانی سے بھر دیتا ہے یہاں تک کہ سانس لینے کی جگہ بھی باقی نہیں رہتی.اس کا ہومیو پیتھی طریق استعمال مذکورہ نقصانات سے خالی ہوتا ہے.ہومیو پیتھک طریق استعمال میں یہ ایک بہت مفید اور طاقت بخش دوا ثابت ہوتی ہے.
ڈیجی ٹیلس 350 دل کا ہر وہ مرض جس میں جگر کی خرابی یقینی طور پر موجود ہو اور آغاز میں نبض ہلکی اور دبی ہوئی ہوا ایسے مرض کی ہر شکل میں ڈائیگی کیلس بہترین کام کرتی ہے.یہ جگر تھی اور پھیپھڑوں پر بھی بہت مثبت اثر ڈالتی ہے.محض اس خطرہ سے ڈیجی ٹیلس کو نظر انداز کرنا کہ ایلو پیتھی میں اس کا غلط استعمال ہوا ہے درست نہیں ہے.اسے دل کی بیماریوں میں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.تاہم بعض چوٹی کے ہومیو پیتھک ڈاکٹر مثلاً ڈاکٹر کینٹ جولمبا عرصہ ایلو پیتھک ڈاکٹر رہے ہیں یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ڈیجی ٹیلس کے غلط استعمال سے موت کے سامان زیادہ ہوئے ہیں اور زندگیاں کم بچائی گئی ہیں کیونکہ یہ صرف وقتی فائدہ دیتی ہے اور دل کے عضلات کی طاقت ختم کر دیتی ہے اور تمام اعصابی ریشوں کو نا کارہ کر دیتی ہے.لیکن یہ تبصرہ ہومیو پیتھک طریقہ استعمال پر ہرگز اطلاق نہیں پاتا کئی ہو میو پیتھ ڈاکٹر کینٹ کے اس تبصرے کونہ سمجھنے کی وجہ سے اس دوا کے استعمال سے خائف رہتے ہیں حالانکہ ان کا حملہ اس کے ایلو پیتھک طریق استعمال پر ہے نہ کہ ہومیو پیتھک طریق استعمال پر.ڈیجی ٹیلس میں ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ اس میں بخار نہیں ہوتے ،شاذ کے طور پر ہی کسی کو بخار ہو گا.نبض ست ہوتی ہے، جگر میں دکھن اور بڑے ہونے کا احساس ہوتا ہے.جگر کی خرابی دل کی خرابی پر منتج ہو تو پہلے اجابت ہلکے یا مٹیالے رنگ کی ہوتی ہے، یرقان کی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں.معدے میں خالی پن اور ڈوبنے کا احساس بھی ہوتا ہے.یہ خصوصی علامت صرف چند دواؤں میں ہے.سلفر میں بھی ایسی کمزوری محسوس ہوتی ہے،مگر سلفر کے مریض کو کھانا کھانے سے آرام آ جاتا ہے لیکن ڈیجی ٹیلس میں کھانے سے آرام نہیں آتا کیونکہ دراصل یہ معدہ کی تکلیف نہیں ہوتی بلکہ دل کے ڈوبنے کا احساس معدہ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے.یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بعض دفعہ دل کی تکلیف معدہ میں یا اس کے نیچے بائیں طرف انتڑیوں کے اوپر کے حصہ میں محسوس ہوتی ہے اور دل کے ماہرین بھی پتہ نہیں لگا سکتے کہ یہ دل کی تکلیف ہے یا معدے اور انتڑیوں کی.بعض دفعہ اس کے برعکس معدہ کی تکلیفیں دل میں محسوس ہوتی ہیں اور دل
ڈیجی ٹیلس کی دواؤں سے کچھ آرام نہیں آتا.351 اگر کھانا کھانے سے آرام نہ آئے بلکہ کھانے سے معدے پر بوجھ پڑ جائے اور دوران خون بڑھ جائے تو یہ دل کی تکلیف کی علامت ہے اور ڈیجی ٹیلس کی ایک پہچان ہے.ڈیجی ٹیلس میں مریض سوتے ہوئے بہت بے چینی محسوس کرتا ہے.بہت خوفناک خوا میں آتی ہیں.خوفناک نظارے، نیچے گرنے کا احساس اور بھاگنے کی خواہش پائی جاتی ہے اور بلندی سے گرنے کی خوا ہیں آتی ہیں.دراصل دل کے ڈوبنے کا احساس خواب میں جسم کے گرنے کے احساس میں تبدیل ہو جاتا ہے.سوتے ہوئے جھٹکے بھی لگتے ہیں.یہ اعصاب اور دل کی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے.آنکھ لگتے ہی زور دار جھٹکے سے آنکھ کھل جاتی ہے.یہ علامت گرائینڈ یلیا سے مشابہ ہے.ڈیجی ٹیلس میں چہرہ پر نیلا ہٹ آجاتی ہے.یہ خون کی گردش میں خرابی کی وجہ سے ہوتا ہے.ہاتھ پاؤں کی انگلیاں بھی نیلی ہو جاتی ہیں جبکہ گرائینڈ ملیا میں یہ علامتیں نہیں ملتیں ہاں کیو پرم میں یہ نیلا ہٹ کی علامتیں پائی جاتی ہیں مگر دل کی تکلیف کی وجہ سے نہیں بلکہ دوسرے عوارض کے باعث.ڈیجی ٹیلس میں بیماریوں کے آغاز میں نبض آہستہ ہوتی ہے لیکن بعد میں تیز ہو جاتی ہے.اگر بنیادی علامتیں ڈیجی ٹیکس سے مشابہ ہوں تو پھر نبض خواہ کتنی تیز بھی ہوڈیجی ٹیلس ہی کام آئے گی.نبض تیز ہونے کی وجہ سے اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.عموماً اس کی نبض میں بہت کمزوری پائی جاتی ہے.اگر نبض کی رفتار تیز بھی ہو پھر بھی کمزور ہوگی.آرسنک میں نبض پہلی مگر تیز ہوتی ہے اور اس میں تناؤ ملتا ہے.غم کے نتیجہ میں دل کا حملہ ہو تو اس میں بھی ڈیجی ٹیلس مفید ہے.دل پھڑ پھڑاتا ہے یا اچانک چلتے ہوئے بند ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے.بے انتہا بے چینی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے.دل کے رکنے کا احساس ڈیجی ٹیلس کی خاص علامت ہے.اگر دل کی تکلیف کی وجہ سے کھانسی (Cardiac Cough) ہو تو ڈیجی ٹیلس سے فائدہ ہوسکتا ہے.پھیپھڑوں
352 ڈیجی ٹیلس سے تعلق رکھنے والی کھانسی سے اس کا تعلق نہیں ہے.بسا اوقات بغیر کسی جھٹکے کے سانس بند ہونے کی تکلیف سے آنکھ کھلتی ہے.اس کا مطلب ہے کہ وہ نظام تنفس متاثر ہوا ہے جو خود کار طریقے سے سانس جاری رکھتا ہے.سونے پر سانس کی رفتار میں مسلسل کمی آنی شروع ہو جائے تو مجبوراً ایسے مریض کو کبھی کبھی جگاتے رہنا چاہئے ورنہ وہ سوتے سوتے ہی ختم ہوسکتا ہے.سوتے سوتے سانس کی رفتار تدریجا کم ہونے کی علامت معدہ کے مریضوں میں بھی پائی جاتی ہے.ڈایا فرام (Diaphragm) پر دباؤ کی وجہ سے سانس کم ہو جاتا ہے لیکن معدہ کے مریض اور دل کے مریض کی حالت میں یہ فرق ہے کہ دل کے مریض کی یہ حالت مستقل ہوتی ہے اور معدہ کے مریضوں میں کبھی کبھی معدہ خراب ہونے پر ایسا ہوتا ہے.سانس بند ہونے کی علامتیں لیکیسس ، فاسفورس اور کار بو ویج میں بھی پائی جاتی ہیں.ڈیجی ٹیلس کو عموماً دل کی تکلیفوں سے باندھ دیا گیا ہے اس لئے اکثر معالجین دیگر بیماریوں میں اس کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں جبکہ عمر کے ساتھ بڑھنے والی پراسٹیٹ گلینڈز (Prostat Glands) کی کمزوریوں میں اگر دیگر علامتیں مشابہ ہوں تو ڈیجی ٹیلس ایک بہت طاقت ور اور مؤثر دوا ثابت ہوتی ہے.ہر عمر میں پیدا ہونے والی پراسٹیٹ کی تکلیفوں میں عموماً سیبل سیر ولیٹا (Sabal Serrulata) اور چیما فیلا (Chimaphila) کے در دیگر ملا کر دینا بہت مفید ثابت ہوا ہے مگر مد رنگیر میں ان دونوں کے مرکب کا استعمال لمبے عرصہ تک کرنا چاہئے.اس کے علاوہ بیلا ڈونا ، آرسنک اور تھو جا اونچی طاقت میں ملا کر دینا بھی مفید ہے لیکن پراسٹیٹ کی جو بیماری دل کی بیماری کے ساتھ ساتھ شروع ہوئی ہو اس میں ڈیجی ٹیلس کو اولیت دینی چاہئے.اس سے پراسٹیٹ گلینڈ آہستہ آہستہ واپس سکڑ کر اپنی اصل حالت میں آجاتا ہے.بہت کم دواؤں میں یہ طاقت ہے کہ پھیلے ہوئے غدود کو سکیڑ کر واپس اپنی اصل حالت میں لے آئیں.اس لئے ڈیجی ٹیلس کو چھوٹی طاقت میں لمبے عرصہ تک استعمال کرنا چاہئے.تمہیں طاقت میں مناسب ہے.آہستہ آہستہ بڑھنے والی بیماریوں کو زیادہ اونچی طاقت سے فائدہ نہیں پہنچے گا ان میں
ڈیجی ٹیلس 353 عموماً یہ اصول اپنا لینا چاہئے کہ چھوٹی طاقت میں لمبے عرصہ تک دوائیں دیتے رہیں.اور پھر کچھ عرصہ کے بعد طاقت بڑھاتے رہیں.میں نے ڈیجی ٹیلس کو عموما تھیں طاقت میں ہی استعمال کرایا ہے.اس سے زیادہ بڑی پوٹینسی کے استعمال کی ضرورت پیش نہیں آئی.لیکن اگر کسی مرض میں کچھ فائدہ کے بعد افاقہ رک جائے تو پھر طاقت بڑھا کر دیکھنا چاہئے.ڈیجی ٹیلس میں بھوک کا فقدان اور پیاس کا بڑھ جانا پایا جاتا ہے.بعض دفعہ کا لحیم کی طرح کھانے کی خوشبو اشتہا پیدا کرنے کی بجائے بھوک کو بالکل ختم کر دیتی ہے.لیکن ڈیجی ٹیلس میں کا لچیکم کی طرح شدید قے آنے اور بے ہوش ہو جانے کا رجحان نہیں ملتا.پیاس بھڑک اٹھتی ہے اور بھوک آہستہ آہستہ بالکل مٹ جاتی ہے.جگر کی بیماریوں اور برقان میں یہ علامت عام ہے.اگر مزاجی علامتیں بھی پائی جاتی ہوں تو ڈیجی ٹیلس ان تمام علامتوں میں اکیلی ہی شافی ثابت ہو سکتی ہے.ڈیجی ٹیلس کی بے چینی آرسنک کی نسبت بھی زیادہ ہوتی ہے.آرسنک کی بے چینی لیٹنے کے بعد یا ایک حالت میں ٹھہرنے پر بڑھتی ہے جبکہ ڈیجی ٹیلس کی بے چینی ہر حال میں محسوس ہوتی ہے نہ لیٹنے سے کم ہوتی ہے نہ جسمانی حرکت سے.ایسے بے چین مریض کو ڈیجی ٹیلس ہی دینی چاہئے کیونکہ یہ دل کے عضلات کی تدریجی کمزوری سے تعلق رکھتی ہے.میرا خیال ہے کہ ایلو پیتھک طریق پر ڈیجی ٹیلس کے ضرورت سے زیادہ استعمال سے پیدا ہونے والی دل کی خرابیوں میں ڈیجی ٹیکس کی بہت اونچی طاقت مثلاً ایک لاکھ فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے لیکن کبھی خود میں نے اپنے کسی مریض پر اس کا تجربہ نہیں کیا.اس لئے اگر کوئی ہومیو پیتھ یہ تجربہ کرنا چاہے تو اسے صرف ایسے مریض پر یہ تجربہ کرنا چاہئے جس کے بچنے کا بظاہر کوئی امکان نہ ہو اور پہلے اس سے اجازت لے لینی چاہئے.ڈیجی ٹیلس میں خارش بھی ملتی ہے.کمر پر سرخ دانے نکلتے ہیں.اکڑوں بیٹھنے سے ، کھانے کے بعد اور موسیقی سے تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ کھلی ہوا میں اور خالی پیٹ رہنے سے مرض کی شدت میں کمی آجاتی ہے.کیمفر ڈیجی ٹیلس کی مصلح دوا
ڈیجی ٹیلس 354 ہے.چائنا سے اس کی موافقت نہیں ہے.لہذا انہیں ایک دوسرے کے بعد استعمال کرنے میں احتیاط کرنی چاہئے.مددگار دواؤں میں کریٹیکس بہت اہمیت رکھتی ہے.طاقت: 30
ڈائسکوریا 355 88 ڈانسکوریا ولوسا DIOSCOREA VILLOSA (Wild Yam) ڈائیا سکور یا جنگلی یام (Yam) سے بنائی جانے والی دوا ہے جو ایک پودے کی جڑ کو کہتے ہیں جو بہت موٹی ہوتی ہے.یہ پودا افریقہ میں بکثرت ملتا ہے.یہ ایک روز مرہ کام آنے والی بہت اہم دوا ہے.اس کا سب سے زیادہ اثر پتہ پر ہوتا ہے.پتہ کی پتھری سے پیدا ہونے والے شیخ کو دور کرنے کے لئے (اگر اس کی مخصوص علامتیں ملتی ہوں ) بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے.اس کی مخصوص علامت یہ ہے کہ شیخ خواہ پتے میں ہو یا پیٹ کے کسی اور حصے میں ہو اس میں ہمیشہ دباؤ سے نقصان پہنچتا ہے اور انگڑائی لے کر ماؤف جگہ پر دباؤ کم کرنے سے آرام ملتا ہے.پیچش میں قولنج کے درد بہت ہوتے ہیں.اس کے مریض کو آہستہ ٹہلنے سے آرام آتا ہے کیونکہ اس سے بھی ہوا کا دباؤ کم ہو جاتا ہے.کمر اور کندھوں کی طرف درد کی لہریں جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ، ڈائسکوریا میں درد کی لہریں ہمیشہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی ہیں.پے میں شیخ ہوتو درد کی لہر سینے سے ہوتی ہوئی کندھوں کی طرف بڑھتی ہے اور بازوؤں میں منتقل ہو کر ہاتھوں تک اتر آتی ہے.گردے کے تشیخ کا در دجگر کی طرف حرکت کرتا ہے.اسی طرح بواسیر کے مسوں کا دردبھی جگر ہی کی جانب جا تا ہوا محسوس ہوتا ہے.معدہ کے شیخ کا درد دل کی جانب لپکتا ہے ان تمام علامتوں میں ڈائیا سکور یا مفید ہے اور تمام مذکورہ عوارض میں شفا کا موجب بن جاتا ہے.پتے کے درد کے فوری علاج کے لئے ( جبکہ کسی ایک دوا کی واضح علامتیں نہ ملیں ) جو مرکب میں تجویز کرتا ہوں ڈائیا سکور یا اس کا لازمی جزو ہوتا ہے.
ڈائسکوریا 356 کیکٹس (Cactus) میں بھی درد کی لہروں کا ماؤف حصے سے دوسرے اعضاء کی طرف منتقل ہونا ایک یقینی علامت ہے.لیکن اس کی تشخیص جن علامتوں پر کی جاتی ہے وہ ڈائیا سکوریا سے بالکل مختلف ہیں مثلا اگر اس کے مریض کی دماغی جھلیوں میں یا بیرونی عضلات میں تشنج ہو تو اس سے جو درد کی لہریں نکلتی ہیں وہ پاؤں کے انگوٹھے تک نیچے اترتی ہیں.ڈائیا سکور یا بہت زیادہ چائے پینے سے پیدا ہونے والے بداثرات کا بھی تریاق ہے.ڈائیا سکوریا کے مریض کے پیٹ کی ہوا میں بہت بد بو ہوتی ہے.صبح کے وقت منہ کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے اور زبان پر سفید موٹی تہہ جم جاتی ہے.یہ پیٹ کے اعصابی دردوں کے لئے بھی بہت مفید دوا ہے.اس کا مریض چیزوں کے نام غلط یا درکھتا ہے اور وہی پکارتا ہے.دونوں کنپٹیوں میں ہلکا ہلکا در در ہتا ہے جو ہلکے دباؤ سے کم ہوتا ہے.ڈائیا سکوریا میں خونی بواسیر بھی ملتی ہے.مسے سرخ انگور کے گچھوں کی طرح ہوتے ہیں.اسہال بھی آتے ہیں جو صبح کے وقت شدت اختیار کر جاتے ہیں.جلن کا احساس ہوتا ہے.ڈائیا سکوریا کا مریض سارے سینے میں گھٹن اور تناؤ محسوس کرتا ہے.سانس لینے پر سینہ پوری طرح پھیلتا نہیں ہے اس لئے مریض چھوٹے چھوٹے سانس لیتا ہے.ہاتھوں کے ناخن جلد ٹوٹتے ہیں اور بہت خستہ ہو جاتے ہیں.اس کی تکلیفیں شام کے وقت نیز الٹا لیٹنے اور آگے جھکنے سے بڑھتی ہیں.سیدھا کھڑے ہونے ، آہستہ آہستہ ٹہلنے اور ہلکے دباؤ سے کم ہو جاتی ہیں.کیمومیلا اور کیمفر اس کے اثر کو زائل کرنے والی دوائیں ہیں.طاقت: 30 تک
و فتصیر مینم 357 89 د فتصیرینم DIPHTHERINUM فتھیرینم خناق (Diphtheria) کے زہر سے تیار کی جاتی ہے.ایسی سب دوائیں جو بیماریوں کے فاسد مادے سے تیار کی جائیں انہیں نوز وڈ (Nosode) کہا جاتا ہے.عموماً کسی نو زوڈ کو اس بیماری کے حملے میں نہیں دیتے جس کے فاسد مادے سے وہ تیار کی گئی ہو.ہاں اس سے ملتے جلتے امراض میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن خناق کے دوران ڈفتھیریم دینے سے نمایاں فائدہ ہوتا ہے.اس پہلو سے یہ دوا خناق میں بہت اہمیت رکھتی ہے.علاوہ ازیں خناق (دفتھیریا) کے حملے کی روک تھام کے لئے اس سے زیادہ مؤثر اور کوئی دوا ابھی تک دریافت نہیں ہوئی.حفظ ما تقدم کا روایتی ایلو پیتھک ٹیکہ اثر میں اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا.یہ بہت لمبے عرصہ تک اثر کرنے والی دوا ہے.اگر خناق کی وبا کے دوران 200 طاقت میں دو چار خوراکیں دے دیں تو خناق کا خطرہ نہ صرف فوری طور پرٹل جاتا ہے بلکہ ایک محتاط اندازے کے مطابق آٹھ سال تک اس کی تکرار کی ضرورت نہیں پڑتی جبکہ روایتی مدافعتی ٹیکے کے اثر کی مدت زیادہ سے زیادہ تین سال بتائی جاتی ہے.چند خوراکیں 200 طاقت میں دے کر چند ماہ کے وقفہ کے بعد ڈفتھیر بینم CM میں ایک خوراک دے دیں تو پوری زندگی کے لئے ڈفتھیریا سے بچاؤ ہوسکتا ہے.بعض بچوں پر اس دوا کا ایلو پیتھک ٹھیکوں سے موازنہ کیا گیا ہے جن بچوں کو ڈفتھیریا کا روایتی ٹیکہ لگوایا گیا تھا.اس کے باوجود ان میں سے کئی ڈفتھیریا کا شکار ہو گئے یا انہیں ٹیکے کے ردعمل کے طور پر بعض دوسری بیماریاں لاحق ہو گئیں مگر جن کو ڈفتھیریم دی گئی تھی ان میں سے ایک بچے کو بھی نہ ڈفتھیریا ہوا نہ دیگر ملتے جلتے عوارض.سے انفلوئنزا کی مدافعت میں بھی مفید پایا گیا ہے.کئی دفعہ تجربہ میں آیا ہے کہ
و فتھیریم 358 انفلوئنزا کی وبا کے دوران اگر انفلوئنزم اور ٹیسیلینم کے ساتھ دفتھیر بنم بھی ملا دیں تو روک تھام کی ایک بہت طاقتور دوا بن جاتی ہے.نگلنے کے عضلات کی کمزوری اور ان کے فالجی اثرات کے علاج میں بھی ڈفتھیریم اچھا اثر دکھاتی ہے.اگر انفلوئنزا کے بداثرات سے دل متاثر ہو تو اس صورت میں ڈفتھیریم دینے سے بہت فائدہ ہوگا.وفتھیریم ان تمام دوسری امراض میں بھی مفید ہے جن کی علامات وافتعمیر یا سے مشابہ ہوں.غدود پھول کے سخت ہو جائیں، زبان سرخ اور موٹی ہو، ہر قسم کے اخراجات میں شدید بد بو ہو، نگلنے میں دقت ہو.خوراک اور پانی ناک کے راستے باہر آئیں تو ان سب تکلیفوں کو رفع کرنے میں یہ مثبت اثر دکھاتی ہے.طاقت CMC 30
ڈروسرا 359 90 ڈروسرا روٹنڈ یفولیا DROSERA ROTUNDIFOLIA (Sundew) ڈروسرا ایک ایسا پودا ہے جو گوشت خور ہے اور کیڑے مکوڑے کھاتا ہے.اس کے پتوں کی سطح پر سرخی مائل بال ہوتے ہیں جن سے رطوبت خارج ہوتی ہے جو کیڑے مکوڑوں کو قابو کرنے اور انہیں ہضم کرنے میں محمد ثابت ہوتی ہے.یہ رطوبت سورج کی روشنی میں شبنم کے قطروں کی طرح چمکتی ہے.اس کے پتے زمین پر پھیلے ہوتے ہیں.جونہی کوئی کیڑا قریب آتا ہے یہ پتے فور بند ہو جاتے ہیں اور وہ کیڑا ان کی غذا بن جاتا ہے.سولہویں صدی میں ڈروسرا کو تپ دق کے علاج کے سلسلہ میں بہت شہرت ملی لیکن اس کے بارے میں یہ بھی کہا گیا کہ جن مریضوں نے اس کو استعمال کیا وہ ان مریضوں کی نسبت جلدمر گئے جنہوں نے اسے استعمال نہیں کیا.تپ دق کے علاوہ اسے دانت درد، پاگل پن اور وضع حمل کی تکلیفوں کو کم کرنے کے لئے بھی استعمال کیا گیا.ہو میو پیتھی طریقہ علاج میں اس پودے کے عرق سے دوا تیار کی جاتی ہے.جسے عموما کھانسی میں استعمال کیا جاتا ہے.چنانچہ اس دوا کو زیادہ تر کالی کھانسی سے ہی مخصوص کر دیا گیا ہے.حالانکہ اسے دراصل تشیع سے مخصوص کرنا چاہئے تھا کیونکہ تشیخی علامات میں اس کا دائرہ عمل زیادہ ہوتا ہے.صرف کھانسی میں ہی نہیں بلکہ بعض دوسری بیماریوں میں بھی ڈر وسر اتشنج دور کرنے کے کام آتا ہے.اسی طرح یہ مرگی میں بھی مفید ہے.صحیح کے نتیجہ میں بے ہوشی کے دورے کے بعد ڈا روسرا کا مریض بہت فکر مند اور بے چین رہتا ہے.اس پریشانی کو دور کرنے میں ڈروسرا ایک بلند پایہ دوا ہے خواہ یہ شیخ مرگی
ڈروسرا کا نہ بھی ہو.360 ڈ روسرا کو عورتوں کے حیض ختم ہونے کے زمانے میں پیدا ہونے والی علامتوں میں بھی استعمال کرنا چاہئے کیونکہ اس دور کی بیماریوں کی علامتیں ڈروسرا سے بہت ملتی ہیں.چہرہ کی تمتماہٹ، خون کے دوران کا کسی خاص عضو کی طرف ہو جانا اور بے چینی وغیرہ ڈروسرا میں پائی جاتی ہیں.ڈروسرا کا مریض اکیلا رہنے سے گھبراتا ہے اور شکی مزاج ہو جاتا ہے.اپنے قریبی دوستوں پر بھی اعتبار نہیں کرتا.سانپ کے زہر سے تیار کی جانے والی اکثر دواؤں میں بھی ایسی علامت پائی جاتی ہے.ڈروسرا کا مزاجی مریض تو ہمات کا شکار ہوتا ہے.بے چینی اور پست ہمتی کے علاوہ ہمیشہ زندگی کے تاریک پہلوؤں پر نظر رکھتا ہے.بے حد چڑ چڑا ہو جاتا ہے.سرخصوصاً پیشانی میں درد ہوتا ہے اور رخسار کی ہڈیوں کے رستے باہر کی طرف پھیلتا ہے.کھلی ہوا میں چلنے سے چکر آتے ہیں اور بائیں طرف گرنے کا اندیشہ ہوتا ہے.بائیں طرف آدھے چہرے پر شدید سردی کے ساتھ ڈنک دار دردوں کا احساس اور داہنے آدھے چہرے پر خشکی اور گرمی کا احساس بھی ڈروسرا کی امتیازی علامت ہے.اگر کھانے کے بعد حنجرے میں سرسراہٹ ہو اور کھانسی شروع ہو جائے تو ڈروسرا سے فائدہ ہوسکتا ہے.دیسی کیکر کے درخت پر جب پھلیاں آتی ہیں تو اس موسم میں کھانسی کی وبا بہت پھیلتی ہے.اس کھانسی میں ڈروسرا بہت مفید دوا ہے.ڈروسرا میں سانس کی نالی میں تنگی اور سکرن کا احساس ہوتا ہے.ایسی کھانسی جس میں گلے میں بے چینی کا مستقل احساس رہے اور کھانسنے سے بھی آرام نہ آئے ، اس میں ڈروسرا بہت کارآمد ہے.آدھی رات کے بعد شروع ہونے والی کھانسی اور وہ کھانسی جو بولنے سے بڑھ جائے ، اس میں بھی ڈروسرا مفید ہے.بچوں میں کالی کھانسی تکیے پر سر رکھتے ہی شروع ہو جاتی ہے اور پھر اس کا دورہ دو تین گھنٹے تک چلتا ہے.بچہ کھانس کھانس کر نڈھال ہو جاتا ہے لیکن سکون
ڈروسرا 361 کا ایک لمحہ نہیں ملتا.اگر مریض کو بخار ہوتو وہ جسم میں شدید سردی محسوس کرتا ہے اور کانپتا ہے، چہرہ گرم اور ہاتھ ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور پیاس بالکل غائب ہو جاتی ہے.ڈروسرا کی کھانسی لیٹنے سے، ہنسنے سے گانے سے اور بستر کی گرمی سے بڑھتی ہے.دافع اثر دوائیں کیمفر طاقت: 6 یا 30 سے 200 تک
362
ڈلکا مارا 363 91 ڈلکا مارا DULCAMARA (Bitter Sweet) ڈلکا مارا ایک ایسے پودے سے تیار کی جانے والی دوا ہے جو یورپ اور امریکہ میں بکثرت پایا جاتا ہے.اس درخت کی شاخیں بڑی بڑی اور پھیلی ہوئی ہوتی ہے اور اسے کاسنی رنگ کے پھول لگتے ہیں.اس کے تنے اور جڑ کو چبایا جائے تو پہلے مزہ کٹڑ وامحسوس ہوتا ہے پھر میٹھا.اسی وجہ سے اسے Bitter Sweet کہا جاتا ہے.تازہ پودے کے عرق سے جو دوا تیار کی جاتی ہے اسے ڈلکا مارا کہتے ہیں.ڈلکا مارا نزلاتی جھلیوں کی بہت اہم دوا ہے.اس میں یہ بات نمایاں طور پر پائی جاتی ہے کہ موسم میں کوئی بھی تبدیلی ہو، خواہ گرمی سردی میں بدلے یا سردی گرمی میں نمی خشکی میں تبدیل ہو یا خشکی نمی میں، یہ تبدیلی نزلاتی جھلیوں پر اثر انداز ہوتی ہے خصوصاً اگر یہ یکا یک واقع ہو تو عین ممکن ہے کہ ڈالا مارادوا ہو.موسم کی تبدیلی کے دنوں میں نزلہ زکام بہت کثرت سے پھیلتا ہے.اگر مریض کی دیگر علامتیں واضح نہ ہوں لیکن ہر موسم کی تبدیلی پر بیمار پڑ جائے تو اس کے لئے ڈلکا مارا مفید ہے.وہ کھلاڑی جو کھیل کے بعد، جبکہ ابھی جسم گرم ہو، کپڑے جلد اتار دیں تو انہیں نزلاتی تکلیفیں شروع ہو جاتی ہیں.اسی طرح سردی سے اچانک باہر گرمی میں نکل جانے سے بھی نزلہ ہو جاتا ہے.رات کے وقت اور آرام کرنے سے تکلیف بڑھتی ہے.گردے، انتڑیوں اور معدے پر بھی نزلاتی اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور بار بار پیشاب آتا ہے یا اسہال شروع ہو جاتے ہیں.اسہال کی یہ تکلیف انتڑیوں، معدے یا گردوں کی نزلاتی تکلیف سے ہوتی ہے.نم دار جگہوں پر رہنے سے اور نم دار موسم میں تکلیفیں
ڈلکا مارا بڑھ جاتی ہیں.364 گرمیوں کے موسم میں پہاڑوں پر جانے یا وہاں سے واپس آنے پر نزلاتی تکلیفیں ہو جائیں تو ان میں بھی ڈلکا مارا دوا ہے.بعض لوگوں کو سردی لگنے سے اسہال کی بجائے پیچش شروع ہو جاتی ہے.اس پیچش کی دوا بھی ڈلکا مارا ہے.ڈلکا مارا اونچی طاقت میں دی جائے تو وہ اس قسم کی کمزوریوں کا حفظ ما تقدم ہے اور اس دوا کی اونچی طاقت کے استعمال کے بعد ا کثر مریض موسم کی تبدیلیوں سے اس قدرمتاثر نہیں ہوتے.اگر پسینہ آیا ہو اور ٹھنڈی جگہ میں آنے سے دب جائے تو اس سے پیدا ہونے والی تکلیفوں میں بھی ڈلکا مارا مفید ہے.ڈ کامارا کا نزلہ ناک سے شروع ہوتا ہے لیکن آنکھوں میں اپنا مستقل قیام کر لیتا ہے، آنکھیں بوجھل ہو جاتی ہیں اور زرد رنگ کی گاڑھی رطوبت نکلتی ہے.یہ رطوبت پانی کی طرح پتلی بھی ہوتی ہے.آنکھوں کے پپوٹے متورم ہو جاتے ہیں.اگر ڈلکا مارا نہ دیا جائے تو نزلاتی تکلیفیں مزمن ہو جاتی ہیں.ڈلک مارا میں خشک زکام ہوتا ہے اور ناک مکمل طور پر بند ہو جاتا ہے.گاڑھی زرد رطوبت ناک میں جم جاتی ہے.ذراسی سردی بھی لگ جائے تو نزلہ عود کر آتا ہے اور ناک سے خون بھی نکلتا ہے.ڈلکا مارا اندرونی جھلیوں اور بیرونی جلد میں ناسور پیدا ہونے کا بھی علاج ہے.چہرے کی جلد پر ایگزیے کی قسم کے زخم بن جاتے ہیں جو تیزی سے پھیل جاتے ہیں اور زردرنگ کے کھرنڈ بنتے ہیں.چھوٹے چھوٹے چھالے کچھوں کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں جو بہت جلد پھیلتے ہیں.یہ علامت آرسنک میں بھی بہت نمایاں ہے لیکن دونوں کے مریض بالکل الگ مزاج رکھتے ہیں.آرسنک میں گینگرین پیدا کرنے کا رجحان ہے جبکہ ڈلکامارا میں زخم گینگرین میں تبدیل نہیں ہوتے.ڈلکا مارا وہاں زخم پیدا کرتی ہے جہاں جلد کی نہ ہڈی پر بہت پتلی ہو.آرسنک اور ڈلکا مارا میں زخموں کی نوعیت کے لحاظ سے ایک فرق یہ ہے کہ آرسنک میں طاعون کی قسم کی گلٹیاں بنتی ہیں.بغلوں کے غدود سوج جاتے ہیں اور ان میں پیپ بنتی ہے.ڈلکا مارا میں غدودوں میں پیپ نہیں بنتی صرف سختی
ڈلکا مارا پیدا ہو جاتی ہے.365 ڈلکا مارا میں سر پر کھرنڈ بن جاتے ہیں جن سے رطوبت بہتی ہے.یہ علامت میز بریم (Mezereum) میں بھی پائی جاتی ہے لیکن میزیریم میں ایگزیما کے اوپر جھلی سی بن جاتی ہے جس میں پیپ اور شدید بو پائی جاتی ہے.ڈلکا مارا میں یہ علامات زیادہ شدید نہیں ہوتیں.ڈلک مارا کے ایگزیما سے ملتی جلتی علامتیں رکھنے والی دوائیں سپیا، آرسینک، گریفائیٹس، پڑولیم، سلفر، کلکیریا کے نمکیات اور رسٹاکس ہیں.ان سب کو اپنی اپنی علامتوں کے لحاظ سے یاد رکھنا چاہئے.کروٹن، اینا کیلس اور اینا کارڈیم بھی بہت مفید دوائیں ہیں.اینا گیلس ، کروٹن اور رسٹاکس کا ایگزیما بدن کے نچلے حصہ پر اور رانوں کے ارد گر دہوتا ہے.اپنا کارڈیم میں ایگزیما سارے بدن پر پھیلتا ہے.ڈلکا مارا میں سردرد کی علامت سردی اور مرطوب موسم میں بڑھ جاتی ہے.آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا ہے.سر میں بھاری پن اور کنپٹیوں میں درد ہوتا ہے.کانوں میں درد اور بھنبھناہٹ کی آوازیں آتی ہیں جن سے قوت سامعہ متاثر ہوتی ہے.کانوں کے اردگرد کے غدودوں میں سوزش ہو جاتی ہے.گالوں میں شدید درد ہوتا ہے جو کان ، آنکھ اور جبڑوں تک پھیل جاتا ہے.زبان خشک اور کھردری ہو جاتی ہے.زبان کا فالج بھی نمایاں ہے.چہرے کی اعصابی دردسردی لگنے سے زیادہ ہو جاتی ہے.مریض کھانے سے نفرت کرتا ہے.ٹھنڈے پانی کی نہ بجھنے والی پیاس، جلن، متلی اور قے کا رجحان جس میں سفید لیس دار رطوبت نکلتی ہے.قے کے دوران سردی لگتی ہے.سردی کی وجہ سے مثانے میں سوزش اور بار بار پیشاب آتا ہے.مسلسل پیشاب کرنے کی حاجت رہتی ہے.قطرہ قطرہ پیشاب آتا رہتا ہے.بیماریوں کی علامت کروٹ پر لیٹنے سے کم ہوتی ہے اور کمر کے بل لیٹنے اور جھکنے سے بڑھتی ہیں.حرکت سے کمی ہوتی ہے.شام کے وقت اور رات کو بڑھ جاتی ہیں.موسم کی تبدیلی سے ، مرطوب موسم میں بھیگ جانے اور ٹھنڈی چیزیں استعمال کرنے سے بھی
ڈلکا مارا تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.مددگار دوائیں: برائیٹا کارب دافع اثر دوائیں کیمفر.کیوپرم 366 طاقت : 30 سے 200 تک
الیکٹریسی ٹاس 367 92 الیکٹریسی ٹاس ELECTRICITAS قدرتی یا مصنوعی طریق سے پیدا کردہ بجلی کی لہروں سے تیار کردہ ہومیو پیتھی دوا کا نام الیکٹریسی ناس ہے.اس دوا کا تعلق ایسے مریضوں سے ہے جو بادل کے گرجنے اور بجلی چمکنے سے متاثر ہوتے ہیں.طوفان کے آنے سے پیشتر با طوفان کی آمد پر مریض پر دمہ کا حملہ ہو جاتا ہے یا نزلاتی تکلیفیں شروع ہو جاتی ہیں.عمومی ڈیپریشن، بے چینی ، مایوسی ، نبض کی تیزی اور سر درد وغیرہ طوفان کے نتیجہ میں شروع ہو جا ئیں تو یہ دوا مفید بتائی جاتی ہے لیکن ایک بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ یہ دوا بھی بھی ایسے مریضوں کو نہیں دینی چاہئے جو طوفان آنے کے آثار اور اس کی آمد سے قبل ہی نزلہ، زکام کا شکار ہو چکے ہوں.وہ ڈاکٹر جنہوں نے اسے استعمال کیا ہے ایسی صورت میں وہ اسے خطر ناک بتاتے ہیں.اگر موسم کی تبدیلی سے جسم میں درد شروع ہو جائے ، تمام جسم کانپے، بہت کمزوری اور تھکن محسوس ہو، مریض بے خوابی کا شکار ہو جائے ، بخار ہواور بہت پسینہ آئے تو الیکٹریسی ٹاس مفید دوا بتائی جاتی ہے.کہتے ہیں کہ یہ دوا مرکزی کے بداثر کو بھی زائل کرتی ہے.میران نو ایجا د دواؤں میں سے ہے جن کو بعض ہو میو پیتھ بہت اہمیت دیتے ہیں مگر ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں کہ ان علامتوں میں جو دوسری ہومیو پیتھی دوائیں بیسیوں سال سے زیر تجربہ ہیں، ان کو زیادہ تر استعمال کر کے ان پر عبور بڑھانا چاہئے لیکن اگر کوئی نئے تجارب سے بھی فائدہ اٹھانا چاہے تو ان کے علم کی خاطر ا سے بھی درج کر دیا گیا ہے.اگر اچھے اور قابل اعتماد ڈاکٹر جو ہومیو پیتھک اور ایلو پیتھک دونوں کا تجربہ رکھتے ہوں، ایسی
368 الیکٹریسی ٹاس دواؤں پر کامیاب تجربوں کے بعد پورے وثوق کے ساتھ اپنے تجارب مرکزی ہومیو پیتھک بورڈ کو بھی بھجواتے رہا کریں تو ہو سکتا ہے کہ دوسروں کے فائدے کا موجب بنے.بہت سے عطائی نو آموز ڈاکٹر ایسی دواؤں کے متعلق بڑے بڑے بلند بانگ دعاوی کرتے رہتے ہیں اور مجھے بھی لکھتے رہتے ہیں مگر بسا اوقات یہ ان کی خوش فہمیاں ہوتی ہیں اور میں کبھی بھی پورے اعتماد کے خط یا ساتھ ان کی رپورٹوں کو قبول نہیں کرسکتا.طاقت : 30 یا 200 طاقت میں استعمال کیا جاتا ہے.
الیکٹری سٹی 369 93 الیکٹری سٹی ELECTRICITY یہ دوا بھی برقی شعاعوں سے تیار کی جاتی ہے مگر اس کی اور الیکٹریسی ٹاس کی تیاری کے طریق میں فرق ہے اس لئے اثر میں بھی فرق بتایا جاتا ہے.اسے دل کی دھڑکن تیز ہونے اور بازوؤں کے فالج میں مفید بتایا جاتا ہے.یہ عموماً ایسے مریضوں کو دی جاتی ہے جو پلسٹیلا کی طرح عمکین رہتے ہوں اور رونے اور آہیں بھرنے کا رجحان رکھتے ہوں.خوفزدہ ہوں اور اداس رہتے ہوں.طوفان کی آمد پر ڈر جاتے ہوں اور ان کی تکلیفوں میں اضافہ ہو جاتا ہو.پاگلوں کی طرح بے اختیار ہنسی جور کنے کا نام نہ لے وہ بھی اس کی ایک علامت بتائی جاتی ہے.اسی طرح رات کو نظر کا کمزور ہونا ہوتے ہوئے بستر میں پیشاب کا خطا ہونا اور دمے کا عارضہ مبینہ طور پر اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں.اس دوا کے تعلق میں الیکٹریسی ٹاس کا بھی بغور مطالعہ کر لیں.طاقت 200 30
370
یو پیوریم 371 94 یو پیوریم EUPATORIUM PERFOLIATUM (Thorough Wort) اسے عرف عام میں Bone Set یعنی ہڈی جوڑ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ ہڈیوں کی دکھن کی بہترین دوائیوں میں لمبے عرصہ سے استعمال ہو رہی ہے.امریکہ کی مشرقی ریاستوں میں اسے گھر کی بڑی بوڑھیاں عمومأنزلہ زکام وغیرہ میں گھر یلو چائے کے طور پر استعمال کرتی رہی ہیں.انفلوئنزا ہلیر یا اوروہ بخار جس میں جسم کی سب ہڈیوں میں سخت دکھن کا احساس ہو، ان میں یہ بہت مفید ہے.نیز ایک چھوٹا سا مچھر کی قسم کا کیڑا جسے کتری کہا جاتا ہے اور عموماً خشک پہاڑی علاقوں میں ملتا ہے.اس کے کاٹنے سے جو بخار ہوا سے ڈینگو فیور (Dango Fever) یا کمر توڑ بخار کہتے ہیں.اس بخار کے علاج میں کامیابی سے استعمال ہونے والی یہ نہایت اعلیٰ پایہ کی دوا ہے.اس کی خاص علامت یہ ہے کہ ہڈیوں اور کمر میں سخت درد ہوتا ہے جو نا قابل بیان اور نا قابل برداشت ہوتا ہے.یو پٹیوریم اس بخار کی تکلیف میں بہت کمی پیدا کر دیتا ہے مگر مکمل شفا نہیں دے سکتا کیونکہ یہ بخار ہر صورت میں اپنا سات دن کا چکر پورا کر کے رہتا ہے.اس کے بعد شفا ہونے کی صورت میں جسم کا اندرونی دفاع اس کے خلاف مکمل طور پر بیدار ہو چکا ہوتا ہے اور پھر اس مریض کو دوبارہ کبھی ڈینگو فیور نہیں ہوتا.یہ دوا انفلوئنزا کی بہترین دواؤں میں شمار کی جاتی ہے اور عام نزلہ زکام میں بھی مفید ہوتی ہے.خصوصا سردیوں کے موسم میں ہونے والا نزلہ جس کے ساتھ جسم کی دردیں بھی نمایاں ہوں اور نزلہ کے آغاز میں سردرد بھی ضرور ہو تو یو ٹیوریم ضرور استعمال کرنا چاہیئے
یو پیوریم 372 کیونکہ یہ مریض کو مزید پیچیدگیوں سے بچاتا ہے.یو پٹیوریم میں ہڈیوں کے درد کے ساتھ سردی کا احساس ضرور پایا جاتا ہے.یہ علامت ملیریا کی بھی نشاندہی کرتی ہے اس لئے یو پٹیوریم ملیریا کی بھی ایک مفید دوا ہے.اس کی سردی صبح چھ بجے سے لے کر نو بجے تک زیادہ محسوس ہوتی ہے.یو ٹیوریم کی علامتیں سورج چڑھنے کے ساتھ ہی شروع ہو جاتی ہیں جبکہ نیٹرم میور کی علامتیں اشراق کے وقت صبح نو بجے کے بعد بڑھتی ہیں.اگر وبائی صورت میں ملیر یا ظاہر ہواور یو پٹیوریم چند مریضوں کے لئے فائدہ مند ثابت ہو تو اس وبا کے اکثر مریضوں میں یو ٹیوریم ہی کام آئے گی.سب سے پہلے تو اس میں شدید پیاس ملتی ہے.سردیوں میں بھی ٹھنڈا پانی پینے کو دل چاہتا ہے جس سے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے لیکن پیاس بجھنے میں نہیں آتی.مریض اپنے آپ کو خوب لپیٹ کر رکھتا ہے.جب سردی ختم ہو اور بخار چڑھ جائے تو قے شروع ہو جاتی ہے اور کھلا پسینہ بھی آتا ہے لیکن اس پسینہ سے بخار نہیں اترتا.قے میں صفراء بہت آتا ہے.شروع میں جتنی زیادہ سردی لگتی ہے بخار چڑھنے کے بعد اتنی ہی گرمی اور حدت کا احساس ہوتا ہے.اگر درجہ حرارت 103 ہو تو مریض 106 درجہ حرارت محسوس کرتا ہے یعنی گرمی اور سردی دونوں کے احساس کی شدت یکساں ہوتی ہے.بخار جب پوری طرح چڑھ جائے تو پسینہ آنا بند ہو جاتا ہے.جب بخار ٹوٹے تو اس وقت پھر پسینہ آتا ہے جس کے ساتھ بخار ٹوٹنے کا عمل تیز ہو جاتا ہے لیکن سر میں شدید درد شروع ہو جاتا ہے جو عام تجربے سے برعکس علامت ہے کیونکہ ملیریا کے اکثر مریضوں کو جب پسینہ کے ساتھ بخارٹوٹے تو بخار کے دوران ہونے والے سردرد کو بھی آرام آیا کرتا ہے.یہ طرفہ تماشہ یو پیٹوریم میں ہی ملے گا کہ بخار ٹوٹ رہا ہو اور سر درد بڑھ رہا ہو.معالجین کو بار ہا ملیریا کے ذکر میں یہ تنبیہ کی جاچکی ہے اور اب پھر اسے دہرایا جاتا ہے کہ خصوصاً ملیریا میں چڑھتے بخار میں اس وقت تک دوا نہیں دینی چاہئے جب تک بخار ٹوٹنا نہ شروع ہو جائے.دوا دینے کا سب سے اچھا وقت تو وہ ہوتا ہے جب ملیریا بخار کے دو حملوں کے درمیان وقفہ پڑتا ہے.اس وقت اگر صحیح دوا دی گئی ہو تو یا تو بخار کا اگلا
یو پیٹوریم 373 دورہ شروع ہی نہیں ہوگا یا پہلے دورے سے کم شدید ہوگا.دو تین دن ایسا ہوتا رہے گا اور ہر آنے والا بخار پہلے سے کم ہوگا یہاں تک کہ مریض کو مکمل شفا ہو جائے.بائی کے دردوں (Rheumatism) میں بھی یو پٹیوریم کامیابی سے استعمال ہوتی ہے.یو پٹیوریم کے مریضوں کے جوڑوں پر گانٹھیں ابھر آتی ہیں اور سب اعصاب میں بھی درد ہوتا ہے.نقرس Gout) کا درد زیادہ تر پاؤں کے انگوٹھے میں ملتا ہے.بائی کے مریضوں کو اکثر سر در درہتا ہے.متلی ہوتی ہے اور صبح کے وقت چکر آتے ہیں جبکہ شام کو کم ہو جاتے ہیں.یو پٹیوریم کے مریض کی آنکھ کے ڈیلوں میں بھی درد ہوتا ہے.آنکھوں کے درد میں اور برائیو نیا، یو ٹیوریم کی مددگار دوائیں ہیں.اسہال آئیں تو بہت کھلے، سبزی مائل اور پانی کی طرح ہوتے ہیں، مروڑ بھی اٹھتے ہیں.بعض دفعہ تھوڑے تھوڑے اسہال آنے کے بعد یکدم بہت کھل کر آتے ہیں جس سے بہت کمزوری واقع ہو جاتی ہے اور اس کے معابعد کچھ قبض ہو جاتی ہے جو کئی دن تک مسلسل چلتی ہے.یو پیوریم میں کھانسی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے.سینے میں درد ہوتا ہے.سارے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.سردی سے زود حسی پائی جاتی ہے چونکہ یہ نزلہ کی دوا ہے اس لئے پھیپھڑوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے.یو پیوریم کے مریضوں کی طبیعت میں اداسی پائی جاتی ہے.یو پٹیوریم کے مریض کے جسم پر ورم بھی ہو جاتی ہے.اگر ایسے ورم انفلوئنز ایا ملیریا کے دوران پائے جائیں تو ذہن یو پٹیوریم کی طرف منتقل ہونا چاہئے.یو ٹیوریم کی امراض اکیس دن کے بعد دوبارہ اپنا زور دکھاتی ہیں.بات چیت میں مصروف رہنے سے یو ٹیوریم کے مریضوں کو افاقہ محسوس ہوتا ہے.یو پٹیوریم معدہ، جگر اور ہوا کی نالیوں کی اندرونی جھلیوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے.یہ عموماً مرطوب علاقوں میں پیدا ہونے والی بیماریوں میں مفید ہے مگر سخت خشک موسم میں بھی اس کا عارضہ ملتا ہے جیسے ڈینگو بخار.طاقت: 30 سے 200 تک
374
یو فریزیا 375 95 یوفریزیا EUPHRASIA (Eyebright) یوفر یز یا پودوں کی ایک جنس ہے جس میں سے ایک قسم کو عرف عام میں Eyebright کہا جاتا ہے.ہومیو پیتھی میں استعمال ہونے والا یوفریز یا اسی قسم سے تعلق رکھتا ہے جیسا کہ اس کے دوسرے نام Eyebright سے ظاہر ہوتا ہے.یہ نزلے کی ان قسموں میں کام آتا ہے جن کا حملہ خصوصاً آنکھ پر زیادہ ہو اور اس کے حملے سے آنکھیں غیر معمولی طور پر سرخ ہو جائیں.یوفر یز یا بہت لمبے اور گہرے اثرات کی حامل دوانہیں ہے بلکہ وقتی اور مختصر اثر کی دوا ہے اور اسے مزمن اثرات کی دواؤں میں شامل نہیں کیا جاتا.نزلہ کی وہ کیفیات جو وقتی طور پر جوش دکھا ئیں اور گزر جائیں ان میں یوفریز یا مفید ہوتی ہے بشرطیکہ نزلہ کا اثر آنکھوں پر زور دکھائے.ہر وہ نزلہ جو آغاز سے ہی آنکھوں پر حملہ کرے اور اس کا پانی آنکھوں میں جلن اور سرخی پیدا کر دے اس نزلہ میں یوفریز یا مفید ہے.دن بھر جب تک آنکھوں سے پانی بہتا رہتا ہے اور آنکھیں سرخ رہتی ہیں اس وقت تک کھانسی نہیں ہوتی.گلے میں کوئی جلن اور خارش بھی محسوس نہیں ہوتی لیکن جب مریض رات کو بستر پر لیٹتا ہے تو آنکھوں سے بہنے والا پانی گلے میں اندر گرنے لگتا ہے اور اس کی وجہ سے سانس کی نالی زخمی ہو جاتی ہے اور پھر کھانسی شروع ہو جاتی ہے.آغاز میں یہ کھانسی محض رات تک ہی محدود رہتی ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد جلن اور خراش کے نتیجہ میں گلے میں زخم بن جاتے ہیں اور کھانسی لمبی چل جاتی ہے اور دن کے وقت بھی ہوتی رہتی ہے.نزلہ کے ساتھ سر درد کا حملہ بھی ہوتا ہے.آنکھوں میں
یو فریزیا 376 دباؤ کا احساس ہوتا ہے جیسے کسی نے پٹی سے کس کر باندھ دیا ہو.آنکھ کے کورنیا کے پردے میں زخم اور پھنسیاں پیدا ہو جاتی ہیں.چونکہ آنکھ سے جلن پیدا کرنے والا تیزابی مادہ بہتا ہے اس کے نتیجہ میں جو بداثرات باقی رہ جاتے ہیں وہ کافی عرصہ تک آنکھوں کو متاثر رکھتے ہیں اور ان سے نظر دھندلا جاتی ہے.یوفریز یا کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ آنکھ سے تعلق رکھنے والے اعصاب پر فالج کا حملہ بھی ہو جاتا ہے.پس اگر چہ یہ ایک حاد (Acute) دوا ہے مگر اس سے پیدا ہونے والی یہ تکلیف مزمن (Chronic) بھی ہوسکتی ہے.اس کا فالج Third Nerve کو متاثر کرتا ہے.یو فریز یا کو جرمن خسرہ (German Measles) کے علاج میں ایک امتیازی مقام حاصل ہے.عام خسرہ میں تو اکثر پلسٹیلا استعمال ہوتی ہے لیکن جرمن میزنز میں یوفریز یا ایک لازمی دوا ہے.اس میں بیماری کا آغاز آنکھوں پر بیماری کے حملہ سے ہوتا ہے اور آنکھیں بہت سرخ ہو جاتی ہیں.یہ بیماری ویسے تو خطر ناک نہیں لیکن حاملہ عورتوں اور ہونے والے بچوں کے لئے بعض دفعہ انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ اگر پہلے تین مہینوں میں اس بیماری کا حملہ ہو جائے تو جنین کے اعضاء کی نشو و نما جہاں تک پہنچی ہو اسی مقام پر رک جاتی ہے اور بچہ بڑھتا نہیں ہے.اس بیماری کی وبا کے دنوں میں حاملہ عورتوں کو بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے کیونکہ یہ بہت خطرناک بیماری ہے.ابتدائی تین مہینوں میں اگر یہ بیماری ہو تو یا تو بچوں کی آنکھیں ہی نہیں بنتیں یا دل کے بعض حصے خام رہ جاتے ہیں.اسی طرح شنوائی پر بھی گہرا اثر پڑتا ہے اور بعض دفعہ بالکل اندھے اور بالکل بہرے بچے پیدا ہوتے ہیں.بسا اوقات ایسے بچے چند مہینے کے اندر ہی مرجاتے ہیں اور اسے رحمت شمار کرنا چاہئے ورنہ جو بچے بچ جائیں وہ ماں باپ کے لئے عمر بھر کا روگ بن جاتے ہیں.مزید احتیاط کا تقاضا ہے کہ اگر حاملہ عورت کو ابتدائی تین مہینوں میں خسرہ ہو جائے تو اسے ضرور اچھے کلینک میں داخل کروا کر یہ تسلی کر لینی چاہئے کہ کہیں یہ جرمن میزلز (German Measles) تو نہیں تھی جس کا اثر جنین پر پڑا ہو.ایسی
یو فریزیا 377 صورت میں ڈاکٹر مشورہ دیں گے کہ زچہ اور بچہ دونوں کا مفاد تقاضا کرتا ہے کہ ایسا حمل ضرور گرا دیا جائے.جاتی ہے.یوفریز یا میں روشنی سے زود حسی پائی جاتی ہے.خسرے میں بھی یہ اس کی خاص پہچان بن یوفریزیا کی تکلیفیں شام کے وقت اور گرمی سے اور روشنی سے بڑھ جاتی ہیں.دافع اثر دوائیں: کیمفر - پلسٹیلا.کاسٹیکم طاقت: 30
378
فیرم میٹ 379 96 فیرم میلیلیکم FERRUM METALLICUM (لوہا) ہو میو پیتھ معالجین نے یہ تجربہ کیا ہے کہ اگر کسی کو زیادہ مقدار میں فولاد (آئرن ) دیا جائے تو مریض کا رنگ پیلا یا سبزی مائل ہو جاتا ہے اور اس پر ایسی چکناہٹ نظر آتی ہے جیسے اس پر موم رگڑ دی گئی ہو.سارے جسم پر یہی کیفیت ہوتی ہے.خون بہنے کا رجحان ہوتا ہے جس میں پتلا اور پانی ملا ہوا کھاہوا ساخون بہتا ہے.خون کے لوتھڑے بھی بنتے ہیں.اس کے خون کے لوتھڑے سرخی مائل ہی ہوتے ہیں اگر چہ اکثر زہر جو خون جماتے ہیں ان کے لوتھڑے سیاہی مائل ہوتے ہیں.ان علامتوں کے علاج بالمثل کے لئے جو ہومیو پیتھک دوا بنائی جاتی ہے اسے فیرم میٹیلیکم کہتے ہیں جسے مختصر افیرم میٹ بھی کہہ دیا جاتا ہے.فیرم میٹ کی ایک علامت یہ ہے کہ جسم کے تمام اعضاء کمزوری کا شکار ہو جاتے ہیں.یہ کوئی ایسی کمزوری نہیں ہوتی جو دائمی ہو اور ہر وقت محسوس ہو بلکہ تھوڑے کام سے جلد تھکاوٹ ہو جاتی ہے.ایسڈ فاس میں ہر وقت جسم نڈھال رہتا ہے لیکن فیرم میٹ میں تھوڑے سے کام سے ایک دم طاقت ختم ہو جاتی ہے جیسے ٹارچ میں پرانا سیل ہوتو وہ ایک شعلہ دکھا کر یکدم بجھ جاتا ہے.مریض جب تک حرکت نہ کرے اسے اپنی کمزوری کا احساس نہیں ہوتا.خواہ مریض آہستہ ہی چلے، کچھ دیر چلتے رہنے سے کمزوری ضرور محسوس ہوتی ہے لیکن اگر مریض بغیر حرکت کے لیٹا یا بیٹھا ر ہے تو اس سے بھی اس کو تکلیف پہنچتی ہے کیونکہ مسلسل حرکت نہ کرنے سے جسم کی خوابیدہ درد میں جاگ اٹھتی ہیں.اگر مریض کچھ دیر تیز چلے تو دونوں تکلیفیں بیک وقت ظاہر ہوتی ہیں.
فیرم میٹ 380 کمزوری بھی نمایاں ہو جاتی ہے اور دردیں بھی محض حرکت سے ہی نہیں کچھ دیر مسلسل بولنے سے بھی کمزوری کا احساس ہونے لگتا ہے.باوجود اس کے کہ مریض میں خون کی نمایاں کمی پائی جاتی ہے مگر چہرے پر معمولی جذباتی ہیجان سے بھی خون کی چمک دکھائی دیتی ہے جس کو ہومیو پیتھ فالس پلیتھورا (Fale Plethora) یعنی خون کا جعلی عکس کہتے ہیں.مریض کے دونوں کلے تمتمانے لگتے ہیں اور عورتوں میں خصوصاً یہ تمتماہٹ اچانک شرما جانے سے پیدا ہونے والی تمتما ہٹ سے ملتی ہے.حیض بعض دفعہ بہت لمبے چلتے ہیں صرف ایک دو دن تھوڑا سار کے اور پھر جاری ہو گئے لیکن اس قسم کے حیض میں پورا خون نہیں نکلتا بلکہ پھیکا پھیکا زردی مائل خون جاری رہتا ہے اور بعض دفعہ رحم کی جھلی کے کچھ ٹکڑے بھی کٹ کٹ کر حیض کے ساتھ باہر نکلتے ہیں.لیکن عجیب بات یہ ہے کہ چہرے پر وہی پرخون ہونے کی جھوٹی علامتیں نظر آتی ہیں.ایسی عورتیں اندام نہانی کے حساس ہو جانے کی وجہ سے عموماً اسقاط حمل کی بیماری کا شکار ہوتی ہیں.اسی طرح اندام نہانی سے رحم کے اندرونی حصوں کا کچھ باہر نکل آنا بھی بعید نہیں.فیرم میٹ کی چائنا سے اس پہلو سے مشابہت ہے کہ یہ سرخ ذرات کو کم کرتی ہے.جو دوا بھی خون کے سرخ ذرات کو کم کرے اس کی چائنا سے مشابہت ضرور ہوگی.چہرہ بغیر خون کے دباؤ کے تمتما جاتا ہے اور چہرہ پر باری باری سرخی اور زردی آتی ہے.اسی طرح بخار چڑھتے ہوئے سردی کا احساس بھی نمایاں طور پر پایا جاتا ہے.معدے کی علامتوں میں بعض دفعہ جوع البقر کی طرح نہ مٹنے والی بھوک ملتی ہے اور بعض دفعہ بھوک کا کلیتًا فقدان.کھٹی چیزوں سے سخت نفرت.کھٹی چیزیں کھانے کی کوشش کریں تو اسہال لگ جائیں گے.کھانے کے تھوڑی دیر بعد بغیر کسی متلی کے غیر ہضم شدہ کھانے کا کچھ حصہ ابکائیوں کے ساتھ منہ کی طرف آتا رہتا ہے اور بعض دفعہ با قاعدہ متلی کے ساتھ قے بھی ہوتی ہے.ایسی تے بعض دفعہ کھانا کھاتے ہی آجاتی ہے اور بعض دفعہ آدھی رات کے بعد آتی ہے.پیٹ عموماً ہوا سے تن جاتا ہے.انڈا کھانا پسند بھی ہو
فیرم میٹ 381 تو ہرگز موافق نہیں آتا.رات کے وقت اکثر غیر ہضم شدہ غذا کی اجابت ہوتی ہے لیکن اگر دن کو ایسی اجابت ہو تو کھانے کے جلدی بعد ہو گی مگر ساتھ درد نہیں ہوتا.بعض دفعہ اجابت سخت بھی ہوتی ہے اور ایسی صورت میں کمر اور مقعد میں تشیخی درد پائے جاتے ہیں اور مقعد کے کچھ باہر نکل آنے کا رجحان بھی ملتا ہے.بعض مریضوں میں بے اختیار پیشاب خطا ہونے کا رجحان پایا جاتا ہے جو دن کے وقت زیادہ ہوتا ہے.پھیپھڑوں کی علامت میں چھاتی پر دباؤ اور سانس لینے میں مشکل محسوس ہوتی ہے.آواز بیٹھ جاتی ہے کھانسی خشک اور دورہ دار اور بعض دفعہ ساتھ سرخ خون کا اخراج.کندھوں میں وجع المفاصل کی دردیں اور کمر درد، اسی طرح کو لہے میں یا پنڈلی میں یا پاؤں کے تلووں میں درد ملتے ہیں.ان سب کو ہلکی حرکت سے کچھ آرام آتا ہے.مددگار دوائیں: چائنا.الیومن.ہمامیلس دافع اثر دوائیں: آرسنک.ہیپر سلف طاقت : 30 سے 200 تک
382
فیرم فاس 97 383 فیرم فاس FERRUM PHOSPORICUM (Phosphate of Iron) فاسفورس اور لوہے کے مرکب کو فیرم فاس کہتے ہیں.خون کے سرخ ذرات میں فیرم فاس ایک طبعی جزو کے طور پر شامل ہوتا ہے.اگر فیرم فاس کی کمی ہو تو عموماً کہا جاتا ہے کہ خون میں لوہے کی مقدار کم ہوگئی ہے.یہ سرخ خون کی کمی کے لئے بہترین دوا ہے.فیرم فاس کے مریض کو کھلی ہوا تکلیف دیتی ہے.اس لحاظ سے اس کا مزاج ٹھنڈا ہے مگر فاسفورس کے عنصر کی شمولیت کی وجہ سے اس کی کچھ علامتیں فاسفورس سے بھی ملتی ہیں.مریض کے ذہن میں کوئی معین خوف تو نہیں ہوتا مگر ویسے ہی دل بے چین اور بیزار رہتا ہے اور عمومی طور پر پریشانی ذہن پر قبضہ کئے رکھتی ہے.کمزوری بہت ہوتی ہے.ہومیو پیتھک پوٹینسی میں فیرم فاس خون کی کمی اور کمزوری کو دور کرنے کی بہترین دواؤں میں سے ہے.سردی لگنے سے نزلاتی تکلیفیں ہوں تو چہرہ تمتما اٹھتا ہے اور بخار کی طرح تمازت محسوس ہوتی ہے.عموماً گوشت اور دودھ نا پسند ہوتے ہیں اور ایسی چیزیں کھانے کو دل چاہتا ہے جن سے مصنوعی طور پر بھوک چمکے.ایسے مریض کو عموماً کھٹے ڈکار آتے ہیں.مقعد میں بواسیری مسے ملتے ہیں اور اجابت بعض دفعہ خون ملے ہوئے پانی والی ہوتی ہے.اگر پچپش ہو تو خون بہت نکلتا ہے.کھانسی ہو تو کھانسی کے ساتھ ( عموماً عورتوں میں ) پیشاب خطا ہونے کا عارضہ بھی ہو جاتا ہے.اسی طرح بے اختیاری طور پر قطرہ قطرہ پیشاب بھی نکلتا رہتا ہے.فاسفورس کے مرکبات ان مریضوں میں مفید ثابت ہوتے ہیں جن کا خون پتلا ہو اور
فیرم فاس 384 بہت جلد بہنے کا رجحان رکھتا ہو.ہیموفیلیا (Haemophilia) کے مریضوں میں بھی یہ تینوں مفید ہیں یعنی فاسفورس، ایسڈ فاس اور فیرم فاس.فاسفورس ہومیو پیتھک دوا کی شکل میں خون کو گاڑھا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن اگر یہ خون کو بہت گاڑھا کر دے تو مضر نتائج بھی ظاہر ہو سکتے ہیں اور دل کے حملہ کا خطرہ پیدا ہو جاتا ہے اس لئے فاسفورس کو لمبے عرصہ تک آنکھیں بند کر کے استعمال کرتے رہنا مناسب نہیں.فاسفورس، ایسڈ فاس اور فیرم فاس استعمال کرنے والوں کا دو تین ماہ کے بعد خون کا ٹیسٹ ہونا چاہئے.خون صرف اس حد تک گاڑھا ہونا چاہئے جو جریان خون کے رجحان کو ختم کر دے، اس کے بعد ان دواؤں کا استعمال روک دینا چاہئے.دوبارہ خون پتلا ہونے کا رجحان ہو تو پھر شروع کروادیں.فیرم فاس کے مریضوں کے عضلات بعض دفعہ بوجھ اٹھانے کی کوشش سے کھنچ جاتے ہیں اور ایسے مریضوں کو پھر تھوڑا سا بوجھ اٹھانے سے بھی ان عضلات میں ہمیشہ تکلیف ہوتی ہے.ملی فولیم میں بھی یہ رجحان پایا جاتا ہے.یہ دونوں دوائیں جریان خون کی بھی بہترین دوائیں ہیں.جن مریضوں میں خون کی کمی ہو ان میں جلد غصہ آنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے.ایسے مریضوں کا پسینہ پھوٹ پڑتا ہے اور سارا جسم کانپنے لگتا ہے اور ان کا سارا غصہ اپنی ذات پر ہی ٹوٹتا ہے.مریض بہت جلد جذباتی ہو جاتا ہے، کبھی خوش ہوتا ہے اور کبھی ہذیان بکتا ہے.یہ فیرم فاس کی علامت ہے جو فاسفورس اور آئرن کے ملنے سے پیدا ہوتی ہے.فیرم فاس کا مریض تنہار ہنا پسند کرتا ہے، دوسرے لوگوں کی موجودگی میں گھبراتا ہے.شور بھی اس کے لئے نا قابل برداشت ہوتا ہے.کبھی کبھی جوش میں آکر بہت بولتا ہے لیکن یہ اس کا دائمی مزاج نہیں ہے.فیرم فاس کے مریض عموماً کم بولنے والے اور تنہائی پسند ہوتے ہیں.سر درد میں ٹھنڈی ہوا سے فائدہ ہوتا ہے.سیڑھیاں چڑھنے سے سردرد شدت اختیار کر جاتا ہے اور بعض دفعہ نظر آنا بھی بند ہو جاتا ہے.دراصل یہ بھی خون کی کمی
فیرم فاس 385 انیمیا (Anaemia) کی نشانی ہے.خون کی کمی ہو تو ایک دم اٹھنے سے اور سیڑھیاں چڑھنے سے خون نیچے کی طرف آتا ہے اور سر کو پوری طرح خون نہیں پہنچتا.اگر سر میں درد ہو تو اس صورت میں اس میں اضافہ ہو جاتا ہے.آنکھوں کے اوپر ، گدی میں ، کنپٹیوں پر اور آدھے سر میں پھاڑنے والے درد ہوتے ہیں، نظر بھی عارضی طور پر ) غائب ہو جاتی ہے.پرخون دواؤں کی فہرست میں جلسیمیم میں بھی یہ علامت ملتی ہے کہ سر درد کے دورے کے ساتھ اچانک نظر غائب ہو جاتی ہے.خون کا دباؤ زیادہ ہو جائے تو بیلا ڈونا میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے مگر فیرم فاس میں خون کی کمی کی وجہ سے اور سر میں خون نہ پہنچنے کے نتیجہ میں وہی اثر ظاہر ہوتا ہے جو پر خون دواؤں میں خون کا دباؤ بڑھ جانے سے ہوتا ہے اور نظر غائب ہو جاتی ہے.فیرم فاس میں کان کی نالیوں کا نزلہ ہوتا ہے اور نزلاتی اخراجات میں خون کی آمیزش بھی ملتی ہے کیونکہ اس دوا میں جریان خون کا رجحان ہوتا ہے.بچوں میں عموماً نکسیر کا عارضہ ملتا ہے.فیرم فاس کے مریضوں کے منہ کی جھلیوں اور مسوڑوں سے اگر خون بہے تو اس کا رنگ سرخ ہوتا ہے اور یہی بات عملی فولیم میں بھی پائی جاتی ہے.گلے کے غدود پھول جاتے ہیں،خراش، خون بہنا، جلن، سوزش اور نگلنے میں دقت فیرم فاس کی علامتیں ہیں، یہ علامتیں بہت سی دواؤں میں نمایاں ہیں.محض ان کی وجہ سے فیرم فاس کو پہچاننا مشکل ہے.مریض پر عمومی نظر ڈال کر اندازہ ہو سکتا ہے کہ فیرم فاس کا مریض ہے یا نہیں.اس میں خون کی کمی کا نشان اس کی پہچان میں مدد دے سکتا ہے مگر پر خون لوگوں میں بھی فیرم فاس کئی عوارض میں کام آتی ہے.فیرم فاس حمل کے دوران عورتوں کو ٹانک کے طور پر استعمال کروانی چاہئے.اس غرض کے لئے فیرم فاس، کلکیر یا فاس اور کالی فاس کا مرکب بہت مفید ہے.شروع کے مہینوں میں دینے سے حمل ضائع ہونے کا رجحان رک جاتا ہے اور آخری دو تین مہینوں میں بچہ کی نشو ونما کے لئے بہت مفید ہے.اسے مسلسل استعمال نہیں کرنا چاہئے ، کچھ
فیرم فاس 386 عرصہ کھلانے کے بعد وقفہ ڈال کر دوبارہ شروع کرانا چاہئے.اس طریق سے کوئی نقصان نہیں ہوتا بلکہ فائدہ ہی پہنچتا ہے.فیرم فاس میں بھوک کبھی کم ہو جاتی ہے اور کبھی بے حد زیادہ جومٹتی ہی نہیں.یہ دونوں انتہا ئیں اس میں پائی جاتی ہیں.یا حد سے زیادہ بھوک یا بھوک کا فقدان.اس کے علاوہ وہ چیز میں جو نقصان پہنچاتی ہیں ان کی خواہش پیدا ہو جاتی ہے اور جو چیزیں موافق آتی ہیں.ان کی خواہش مٹ جاتی ہے.گوشت وغیرہ سے نفرت ہو جاتی ہے.ایسی صورت میں فیرم فاس دینے سے فائدہ ہوتا ہے.کھانے کے بعد متلی ہوتی ہے متلی اگر حمل کے زمانے میں ہو تو اس میں فیرم فاس مفید ہے لیکن حمل کی متلی عموما کافی ضدی اور سخت ہوتی ہے.محض فیرم فاس سے شاذ کے طور پر ہی فائدہ ہوتا ہے.متلی کی اور بہت سی دوائیں ہیں جو خصوصیت سے حمل سے تعلق رکھتی ہیں.ان سب پر عبور ہونا چاہئے.متلی میں اب تک جتنی دوائیں استعمال کی گئی ہیں ان میں ایک نئی دوا پہلی (Pipli) ہے جو میں نے خود بنوائی ہے.یہ نئی چیز ہے اور پیپل کے پتوں کی راکھ سے بنائی گئی ہے.یہ عمل کی ضدی متلی دور کرنے میں مفید ثابت ہوئی ہے.حمل کی متلی کے بارے میں میرا یہ نظریہ ہے کہ یہ بعض دفعہ الرجی سے پیدا ہوتی ہے.بعض عورتوں کو بچے سے الرجی ہوتی ہے جس کے نتیجہ میں متلی بہت سخت اور لمبا چلتی ہے.امریکہ میں بھی یہ تحقیق ہوئی ہے کہ جن عورتوں کا حمل گر جاتا ہے یا حمل ٹھہرتا ہی نہیں ان میں سے چالیس فیصد عورتیں ایسی ہیں جن میں اپنے بچے کے خلاف ایک قسم کی الرجی ہو جاتی ہے جس کے نتیجہ میں جسم کی دفاعی طاقتیں جنین (Embryo) پر حملہ کر دیتی ہیں.مزید تحقیق سے یہ حقیقت منکشف ہوئی کہ دراصل ہر عورت کو خود اپنے ہی حمل کے خلاف الرجی ہوتی ہے اور جسم کی دفاعی طاقتیں حرکت میں آکر رحم پر حملہ آور ہو جاتی ہیں.لیکن جنین کے اردگرد تین قسم کے خول بنے ہوئے ہیں یعنی پلیسٹا ، رحم کی اپنی دیوار اور اس دیوار کے باہر کی جھلی.ان کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ جسم کے اندر موجود دفاعی طاقت کے حملے کو روکنے کے لئے بذات خود ایک دفاعی طاقت رکھتے ہیں.اگر ایسا نہ ہوتا تو کسی بھی جنین کا قرار پکڑنا ناممکن ہو جاتا.غالبا یہی وجہ ہے )
فیرم فاس 387 کہ جنین کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ اسے ہم نے قرار مکین میں رکھا ہے.نیز فرمایا ہے کہ اسے ہم نے تین اندھیروں یعنی تین پردوں میں رکھا ہے.اگر کسی وجہ سے جنین کے گرد کی دفاعی طاقت اس پر حملہ آور طاقت سے کمزور ہو تو ایسا حمل لا زما گر جائے گا.بعض اداروں کے سائنس دانوں نے کچھ ایسے ذرائع دریافت کئے ہیں جن سے اندرونی اور بیرونی دفاعی توازن کو درست کیا جاسکتا ہے لیکن سر دست یہ علاج بہت مہنگا ہے.تاہم جن عورتوں کو یہ علاج کرانے کی توفیق ملی ہے ان میں سے بھاری اکثریت کے بچے ہو گئے ہیں.پہلی (Pipli) کو چونکہ میں نے حمل کی متلی میں کافی مفید پایا ہے اس لئے اسے ایک اور طرح بھی وسیع پیمانے پر استعمال کرا کے دیکھنا چاہئے.بعید نہیں کہ یہ الرجی کی وجہ سے حمل گرنے کے عارضہ کو بھی درست کر دے لیکن یہ تو اس کتاب کو پڑھنے والے ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہو میو پیتھ ڈاکٹر ہی تجربے کے بعد بتا سکتے ہیں.اس ضمن میں اس کو مختلف طاقتوں میں استعمال کر کے آزمانا چاہئے.نیز یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ اگر یہ دوا اثر کرتی ہے تو کون سے مزاج والوں پر اثر کرتی ہے اور کون سے مزاج والوں پر نہیں کرتی.ہومیو پیتھس سے میری درخواست ہے کہ جو بھی اس کا تجربہ کریں.وہ اس کے نتائج سے احمد یہ مسلم سنٹرل ہو میو بورڈ کو بھی حسب ذیل پتہ پر مطلع فرمائیں.16-Gressen Hall Road London S.W.18.5QL.U.K فیرم فاس کی علامات چھونے ، جھٹکا لگنے، حرکت کرنے سے شدت اختیار کرتی ہیں جبکہ ٹھنڈی ٹکور سے افاقہ ہوتا ہے.طاقت بائیوکیمک کی 3x تا 12x یا ہومیو پیتھک کی 30 اور اونچی طاقتیں
388 فلورک ایسڈ
فلورک ایسڈ 389 98 فلوریکم ایسڈ FLUORICUM ACIDUM (Hydrofluoric Acid) فلورک ایسڈ ایسی بیماریوں میں بہت مفید، وسیع الاثر اور گہرا اثر کرنے والی دوا ہے جو رفته رفته جزو بدن ہو چکی ہوں اور جسم کی گہرائی میں چلی جائیں اور زندگی کا حصہ بن جائیں،مگر یہ آہستہ آہستہ اثر کرتی ہے.آنا فانا اور فوری اثرات ظاہر نہیں کرتی.فلورک ایسڈ ایک پہلو سے سلفر سے مشابہ ہے اور ایک پہلو سے نیٹرم میور سے.بہت سے ایسے مریض ہیں جو سلفر اور نیٹرم میور وہ کے مریض سمجھے جاتے ہیں لیکن انہیں ان دونوں دواؤں سے فائدہ نہیں پہنچتا.دراصل فلورک ایسڈ کے مریض ہوتے ہیں.اس لحاظ سے یہ بہت دلچسپ دوا ہے.نیٹرم میور میں ناخنوں کی خرابیاں پائی جاتی ہیں.ناخن بدنما، اکھڑے اکھڑے اور بہت تیزی سے بڑھتے ہیں.کنارے پھٹ جاتے ہیں اور بچک کر بے جان ہو جاتے ہیں.اسی طرح بال بے رونق ، کمزور اور بے جان ہو جاتے ہیں اور ان کی نوکیں پھٹ کر دو نیم ہو جاتی ہیں.ان علامات سے عمو مانیٹرم میور کی طرف دھیان جاتا ہے جبکہ ہاتھ پاؤں میں گرمی ، جلن اور پسینہ کی علامات سے سلفر کا خیال آتا ہے.یہ سب علامات فلورک ایسڈ میں اکٹھی ملتی ہیں.یہ گہرا اثر کرنے والی دوا ہے اور اگر علامات کے باوجود اس دوا کو نظر انداز کر دیں تو بہت گہرا نقصان پہنچتا ہے.ایسے مریض جن کی بیماریاں بڑھتے بڑھتے ایسی حالت کو پہنچ جائیں جہاں دوسری دوائیں کام نہ کریں وہاں لازماً بہت گہری دوائیں تلاش کرنی پڑتی ہے.فلورک ایسڈ ان میں سے ایک ہے.وہ تمام گہری بیماریاں جونسل در نسل انسانی صحت پر اثر انداز ہوتی رہتی ہیں مثلاً سفلس ، سوزاک اور کوڑھ.اکثر ہومیو پیتھ معالجین نے ان تین بنیادی
فلورک ایسڈ 390 بیماریوں میں تمام مریضوں کو تقسیم کر دیا ہے.فلورک ایسڈ میں ان تینوں بنیادی بیماریوں کی علامات پائی جاتی ہیں.اسی طرح پھیپڑوں میں سلی مادے بھی نسل در نسل انسانی جسم میں منتقل ہوتے رہتے ہیں.اس کا بیماریوں کی چوتھی قسم سمجھ کر الگ علاج ہونا چاہئے.فلورک ایسڈ میں سردی اور گرمی کی علامتیں ادلتی بدلتی رہتی ہیں.رات کے وقت بستر میں تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.تپش محسوس ہوتی ہے، نتیجتاً مریض ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارتا ہے.سلفر میں گرمی کے احساس کے باوجود مریض پانی سے متنفر ہوتا ہے لیکن فلورک ایسڈ والے مریض کو ٹھنڈا پانی پسند ہوتا ہے.اس لحاظ سے یہ پلسٹیلا سے مشابہ ہے.پاؤں جلتے ہیں اور مریض بستر سے پاؤں باہر نکالتا ہے.ہاتھ پاؤں دونوں پسینے سے شرابور ہو جاتے ہیں.پسینہ میں جلن ہوتی ہے.انگلیوں کے درمیان پسینہ آنے کی وجہ سے انگلیاں گل جاتی ہیں.اس میں فلورک ایسڈ بہت مفید دوا ہے.فلورک ایسڈ کی ایک علامت اسے نیٹرم میور اور سلفر سے ممتاز کر دیتی ہے یعنی فلورک ایسڈ کے مریض چائے اور کافی سے بہت جلد اثر قبول کرتے ہیں اور یہ مشروب ان کے مزاج کے موافق ثابت نہیں ہوتے.ان سے نیند اڑ جاتی ہے یا دوسری تکلیفیں شروع ہو جاتی ہیں.نیٹرم میور اور سلفر میں یہ علامت نہیں ملتی.فلورک ایسڈ کے مریض کی جلد پر پھنسیاں بھی بن جاتی ہیں اور ٹھیک نہیں ہوتیں.بسا اوقات چہرے پر پھوڑا نکلتا ہے جو پکتا نہیں ہے اور لمبے عرصہ تک تکلیف دیتا ہے.عام حالات میں ایسے پھوڑوں میں سلیشیا مفید ثابت ہوتی ہے لیکن سلیشیا سب پھوڑوں پر اثر انداز نہیں ہوتی.ایسے پھوڑوں میں اگر سلیشیا کے بعد فلورک ایسڈ دی جائے تو وہ زیادہ زوداثر ثابت ہوتی ہے.جس طرح پلسٹیلا کے بعد سلیشیا کام کرتی ہے اسی طرح اگر سلیشیا کے بعد پلسٹیلا کی بجائے فلورک ایسڈ دی جائے تو مریض میں ایک فیصلہ کن صورت حال ظاہر ہو جاتی ہے یعنی یا تو مریض شفا پا جائے گایا ایسی واضح علامات ظاہر ہو جائیں گی جو کسی نئی دوا کے انتخاب میں مددگار ہوں گی.اگر سلیشیا کا غلط استعمال ہو جائے تو فلورک ایسڈ اس کے بداثرات کو زائل کر دیتا
فلورک ایسڈ 391 ہے اور اس کے مثبت اثرات پر اثر انداز نہیں ہوتا.فلورک ایسڈ میں بال بہت کمزور اور بے جان ہو جاتے ہیں اور کناروں سے پھٹ جاتے ہیں.نیٹرم میور میں تمام سر پر اثر پڑتا ہے لیکن فلورک ایسڈ میں سر پر کہیں کہیں بال کمزور ہوتے ہیں اور کہیں بالکل صحت مند نظر آتے ہیں یہ پہچان فلورک ایسڈ کو واضح طور پر دوسری ملتی جلتی دواؤں سے ممتاز کر دیتی ہے.اس لئے ایسی باتوں پر نظر رکھنی چاہئے کیونکہ بعض دفعہ ایسی علامات کی وجہ سے ایک ایسی دوا کی قطعی شناخت ہو جاتی ہے جودوسری ملتی جلتی علامتیں دیکھنے سے ممکن نہیں ہوتی.ہوشیاری سے تاک میں لگے رہنا چاہئے کہ کوئی ایسی علامت مل جائے جو کسی دوا کی قطعی نشان دہی کر دے پھر باقی تمام بیماریوں کو وہ خود ہی سنبھال لیتی ہے، لمبی چوڑی تفتیش کی ضرورت نہیں پڑتی.فلورک ایسڈ میں ایک علامت ایسی ہے جو غالباً کسی اور دوا میں نہیں ملتی یعنی اگر پیشاب کی حاجت محسوس ہو اور مریض پیشاب روک لے تو سر میں درد ہونے لگتا ہے.ایسے سردرد میں گرمی اور تپش بھی محسوس ہوتی ہے اور پیشاب کرنے پر سر در دکو آرام آجاتا ہے.فلورک ایسڈ ایسے لوگوں کے لئے بھی بہترین دوا ہے جو جنسی بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں اور اپنے آپ کو بالکل بے کار اور ناکارہ کر لیتے ہیں لیکن اس کے باوجود بد نظری سے باز نہیں آتے اور نظر بازی کو اپنا پیشہ بنالیتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے فلورک ایسڈ ، پکرک ایسڈ، لائیکو پوڈیم اور سپیا اپنے اپنے مزاج کے مریضوں میں بہترین ثابت ہوتی ہیں.اگر مریض پلسٹیلا کا ہو اور اس کا اثر رک جائے تو اس کے بعد سلیشیا یا فلورک ایسڈ کام آتے ہیں.فلورک ایسڈ نیلی رگوں کے جالے (Vericose Veins) دور کرنے اور اس کے زخموں کو ٹھیک کرنے کی بہترین دوا ہے.بسا اوقات ویری کوز و نیز دوسری دواؤں سے ٹھیک نہیں ہوتیں.عورتوں میں بار بار بچوں کی پیدائش سے جو بوجھ پڑتے ہیں اس سے ٹانگوں میں نیلی رگیں ابھر آتی ہیں اور جالے بن جاتے ہیں.کئی دفعہ ان سے خون
فلورک ایسڈ 392 بھی نکلتا ہے اور بہت تکلیف دہ صورت حال پیدا ہو جاتی ہے.اس تکلیف میں کوئی معین دوا کام نہیں کرتی کہ اسے دستور کی دوا سمجھ لیا جائے اور ہمیشہ وہی کام کرے مگر جو دوا بھی علامتوں کے مطابق درست ہو وہ فوری فائدہ دیتی ہے.اس بیماری کے لئے چوٹی کی دواؤں میں آرنیکا، ایسکولس، س سلفیورک ایسڈ اور نائیٹرک ایسڈ ہیں.اس فہرست میں فلورک ایسڈ بھی لکھ لیں.ویری کوز و نیز کے حوالے سے کوئی دوا یاد نہ آئے تو بہتر طریقہ علاج یہ ہے کہ مریض کے مزاج کی تشخیص کریں اس طرح بسا اوقات مزاجی دواہی ویری کوز و نیز میں بھی فائدہ پہنچا دیتی ہے.بعض لوگوں کے سر کی جلد سن ہو جاتی ہے.حس ختم ہو جاتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ سر کا پچھلا حصہ لکڑی سے بنا ہوا ہے.اس تکلیف میں فلورک ایسڈ بہترین دوا ہے.ہاتھ.پاؤں سن ہونے کا رجحان بھی فلورک ایسڈ میں ملتا ہے.اس میں عموماً جسم تلے دبا ہوا حصہ بن نہیں ہوتا بلکہ دوسرا حصہ سن ہو جاتا ہے.ریڑھ کی ہڈی میں بھی سن ہونے کا احساس ہو تو فلورک ایسڈ مفید ہے.اسے فوراً اور بروقت استعمال کرنا چاہئے کیونکہ سن ہونے کا احساس کسی وقت اچانک فالج میں تبدیل ہو سکتا ہے.چونکہ فلورک ایسڈ آہستہ آہستہ اثر کرتا ہے اس لئے ایسے مریضوں کو فلورک ایسڈ دے کر جلد یہ دوا تبدیل نہیں کرنی چاہئے.اگر مریض کی حالت مزید خراب ہونے سے رک جائے اور ٹھہر جائے اور کچھ کچھ فرق پڑنے لگے تو اس دوا کو جو آہستہ آہستہ اثر کرنے والی ہوا سے لمبے عرصہ تک اثر دکھانے کا موقع دینا چاہئے کیونکہ صبر سے دو تین مہینے تک استعمال کرنے سے بہت خوشگوار علامتیں ظاہر ہو جاتی ہیں.صرف یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس دوا کے استعمال کے دوران مریض کی حالت مزید بگڑے نہیں بلکہ بہتری کی طرف مائل رہے.شیر خوار بچوں کے سر کے ایگزیما میں بھی فورک ایسڈ بہت مفید ہے.بڑوں میں یہ علامت نمایاں ہوتی ہے کہ سر کے بالوں والے حصہ میں خارش نہیں ہوتی بلکہ جو حصے
فلورک ایسڈ 393 بالوں سے خالی ہو گئے ہوں وہاں بہت خارش محسوس ہوتی ہے.فلورک ایسڈ میں ایک ایسی عجیب علامت ملتی ہے جو عام طور پر دوسری دواؤں میں نہیں ملتی یعنی بعض بچوں کا سر بائیں طرف سے قدرے چھوٹا رہ جاتا ہے اور پوری طرح سے نشو و نما نہیں پاتا.بائیں آنکھ بھی نسبتادبی ہوئی اور چھوٹی ہوتی ہے.یہ فلورک ایسڈ کی نشانی ہے.چونکہ یہ ہڈی کی تعمیر میں بہت مفید دوا ہے اس لئے یہ اس قسم کی کمزوری میں کام کرتی ہے.اکثر مریضوں پر تجربہ سے اس دوا کی یہ خوبی معلوم ہوئی ہے.یہ ایسی چیز ہے جو طریقہ آزمائش (Proving) سے معلوم نہیں کی گئی.فلورک ایسڈ میں بہت ٹھنڈا پانی پینے کی خواہش کے ساتھ کھانا کھانے کی بھی خواہش ہوتی ہے.عام طور پر پیاس کی علامت کے ساتھ بھوک ختم ہو جایا کرتی ہے لیکن فلورک ایسڈ میں یہ دونوں علامتیں ساتھ ساتھ ملتی ہیں.گلے کے پرانے زخموں میں بھی فلورک ایسڈ مفید ہے.اس بارہ میں یہ سلیشیا اور مرکزی دونوں کے ساتھ موافقت رکھتی ہے جبکہ سلیشیا اور مرکری آپس میں ایک دوسرے کی مخالف دوائیں ہیں، ان کو اکٹھا استعمال نہیں کیا جا سکتا.درمیان میں ہسپر سلف کو شامل کرنا پڑتا ہے لیکن فلورک ایسڈ ان دونوں دواؤں کے ساتھ دے سکتے ہیں.مرکزی کے استعمال کے بعد سلیشیا صرف اس صورت میں اونچی طاقت میں دی جاسکتی ہے جب خود مرکری ہی کے غلط استعمال سے مضر اثرات ظاہر ہوئے ہوں.سلیشیا ان اثرات کو زائل کر دیتی ہے.سلفر میں صبح کے وقت اسہال کی علامت ملتی ہے.فلورک ایسڈ میں بھی صبح کے اسہال کی علامت ملتی ہے علاوہ ازیں ایسے اسہال جو مزمن ہو جائیں اور ٹھیک ہونے میں نہ آئیں اور مریض کو بہت کمزور کر دیں اس میں بھی فلورک ایسڈ بہت مفید ہے.جگر کی خرابی کے نتیجہ میں جسم پر پیدا ہونے والی سوزش میں بھی فلورک ایسڈ مفید دوا ہے.اس سوزش اور ورم کے ساتھ گرمی کا احساس بھی ہوتا ہے.اسہال میں صفرا بھی شامل ہوتا ہے اور پیٹ ہوا سے تن جاتا ہے.
394 فلورک ایسڈ میں گرمی سے ، گرم مشروبات سے اور صبح کے وقت تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.سردی میں آرام محسوس ہوتا ہے.مددگار دوا سليشيا طاقت 30 یا حسب ضرورت اونچی طاقتیں
395 99 GELSEMIUM (زرد چنبیلی) جلسیمیم زرد چنبیلی سے بنائی جاتی ہے.ہومیو پیتھی میں اس کا استعمال بہت کثرت سے ہوا ہے.یہ کسی حد تک ایکونائٹ اور بیلا ڈونا سے مشابہ ہے لیکن ان کی نسبت اس میں بیماری بڑھنے کی رفتار قدرے کم ہوتی ہے.سر کی طرف دوران خون اور درد، منہ کا خشک ہو جانا ایسی علامتیں ہیں جوا یکونائٹ، بیلاڈونا اور جلسیم میں مشترک ہیں لیکن ایکونائٹ میں تپش اور تمتماہٹ پائی جاتی ہے جبکہ جسیم میں پیش نہیں ہوتی.یہ مزاج کے لحاظ سے ٹھنڈی دوا ہے.اس میں منہ کی خشکی کے باوجود پیاس نہیں ہوتی.سردی لگتے ہی فوراً بیماری کے اثرات ظاہر نہیں ہوتے بلکہ دو تین دن کے بعد علامات ظاہر ہوتی ہیں.اگر بچے کوسردی لگنے سے کچھ عرصہ کے بعد بخار ہو تو جلسیمیم دینی چاہئے لیکن اگر سردی لگتے ہی برا حال ہو جائے تو ا یکونائٹ اور بیلا ڈونا ملا کر دینے سے بہت فائدہ ہوتا ہے.ڈاکٹر کینٹ کے مطابق اس کے مریض کو سردی لگ جانے کے کئی دن بعد نزلہ ہوتا ہے.چونکہ جلسیمیم ٹھنڈے مزاج کی دوا ہے اس لئے یہ خیال آتا ہے کہ سردیوں کے موسم میں اس کا اثر نمایاں ہوگا.اسی طرح ایکونائٹ میں چونکہ جوش اور گرمی پائی جاتی ہے اس لئے اس کو گرمیوں میں کام آنا چاہئے لیکن حقیقت اس سے بالکل برعکس ہے.ایکونائٹ سردی کے موسم کی دوا ہے اور جلسیمیم اکثر گرمیوں میں کام آتی ہے.گرمیوں کے موسم میں سردی لگ جائے تو اس میں جلسیمیم زیادہ مفید ہے لہذا یہ گرم اور خشک موسم کی دوا ہے.لیکن گرمیوں کے خشک موسم میں خونی پیچش ہو جائے تو ایکونائٹ چوٹی
396 کی دوا ہے جو خشک گرمی اور خشک سردی دونوں میں کام کرتی ہے.جلسیمیم کو عموماً سر در داور نزلاتی بیماریوں میں استعمال کیا جاتا ہے مگر اسہال وغیرہ میں استعمال نہیں ہوتی حالانکہ اگر جسم ٹھنڈا ہو اور سر میں بوجھ محسوس ہو، منہ خشک ہونے کے باوجود پیاس نہ ہو تو وہ اسہال جو لمبا عرصہ پیچھا نہ چھوڑیں، ان میں جلسیمیم بہترین کام کرتی ہے.اس لئے یہ اسہال کی بھی دوا ہے.جلسیم میں بیماری کا اثر آہستہ ہونے کے باوجود اسے مزمن بیماریوں میں شاذ کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے.نسبتا درمیانی عرصہ پر محدود بیماریوں میں استعمال ہوتی ہے.جلسیمیم میں چہرے اور سر کی طرف خون کا دباؤ ہوتا ہے.چہرہ گرم اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوتے ہیں یہ علامت آرنیکا میں بھی پائی جاتی ہے.بعض دفعہ پنڈلیاں بھی ٹھنڈی اور یخ بستہ ہو جاتی ہیں.یہ علامتیں گلو نائن سے بھی ملتی ہیں مگر جسیمیم اور گلونائن میں فرق یہ ہے کہ جلسیمیم میں ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوتے ہیں لیکن پسینہ بالکل نہیں آتا جبکہ گلونائن میں ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوتے ہیں اور پسینہ بھی آتا ہے.کمر کے عضلات میں کھچاؤ اور تناؤ کی وجہ سے کمر درد کندھوں تک پھیل جاتا ہے اور سر کے پیچھے تک بھی محسوس ہوتا ہے.گردن اکڑ جاتی ہے.جس کی وجہ سے گردن موڑنا مشکل ہو جاتا ہے.سر درد عموماً ایک طرف نمایاں ہوتا ہے.سوتے ہوئے گردن میں بل پڑ جائے تو جلسیمیم کے ساتھ بیلاڈونا ملا کر دینے سے فائدہ ہوتا ہے.اگر کمر کی تکلیف کے ساتھ گردن بھی متاثر ہو اور گردن توڑ بخار کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں تو اس صورت میں کمر ٹھنڈی نہیں ہوتی، ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوتے ہیں شیخ اور اکڑاؤ ہوتا ہے جس میں نیلا ہٹ نہیں ہوتی.ان علامات میں جلسیمیم کو نہیں بھولنا چاہئے.جلسیمیم میں سونے سے پہلے بے چینی سی ہوتی ہے اور مریض کو یہ خطرہ محسوس ہوتا ہے کہ اسے ٹھیک سے نیند نہیں آئے گی ، سر کچھ تکلیف محسوس کرتا ہے حالانکہ ابھی درد واضح نہیں ہوا ہوتا مگر سونے کے بعد وہ درد بڑھ جاتا ہے اور لیکیسس سے بظاہر مشابہت ہو جاتی ہے لیکن یہ جلسیمیم ہی کا مریض ہوتا ہے.نیند آرام سے نہیں آتی.انسان جب
397 صبح اٹھتا ہے تو درد بڑھا ہوا ہوتا ہے.یہ علامت گلونائن میں بھی ہے.فرق یہ ہے کہ جلسیمیم کا در دصرف سر تک محدود نہیں رہتا بلکہ کندھوں کے اعصاب میں نیچے کندھے کی ہڈی تک اتر آتا ہے اور زیادہ تر یہ درد بائیں طرف اٹھتا ہے.گلونائن کا تریاق (Antidote) جلسیمیم ہے.اگر جلسیمیم اور نیٹرم میور ملا کر دیں تو یہ بطور تریاق بہت جلد کام کرتا ہے.جلسیم عورتوں کے لئے بھی بہت کام کی دوا ہے.رحم کے منہ کی اینٹن میں بہت مفید ہے.وضع حمل کے وقت دردزہ کے کوندے نیچے سے اوپر کمر تک جاتے ہوں تو ایسے موقع پر بہت تیزی سے کام کرتی ہے اور اس کے استعمال سے کمر کے عضلات کا کھچاؤ ختم ہو جاتا ہے اور بچہ آسانی سے پیدا ہو جاتا ہے.حیض کے دنوں میں بھی کمر اور کولہوں میں درد ہو جاتا ہے.سردی بھی بہت لگتی ہے.انفیکشن کی وجہ سے مسلسل بخار رہتا ہے جو ٹوٹتا نہیں.اگر ملیریا کا بخار ہو اور روز چڑھتا اترتا ہواور عموماًدو پہر کے بعد اونچا ہونے کا رجحان ہو تو ایسی علامات میں جلسیمیم بہت مفید ثابت ہوتی ہے.جلسیمیم کی تکلیفیں شام کے وقت بڑھتی ہیں اور آرسنگ کی تکلیفیں دن اور رات بارہ بجے کے بعد نمایاں طور پر بڑھتی ہیں.تین بجے کے قریب کالی کا رب کی تکلیفوں کا وقت شروع ہوتا ہے.چار پانچ بجے سے چھ سات بجے تک جلسیمیم کی تکلیفوں میں شدت پیدا ہوتی ہے.جلسیم میں دل کی دھڑکن آہستہ اور کمزور ہوتی ہے.اس میں ایک یہ علامت ہے کہ مریض ہلکی رفتار سے چلتا رہے تو سمجھتا ہے کہ دل دھڑکتار ہے گا جب ٹھہر جائے تو محسوس ہوتا ہے کہ دل کی دھڑکن بند ہو جائے گی.گویا جسم کی حرکت دل کو طاقت دے رہی ہے اور اسے متحرک رکھ رہی ہے.دل میں ایک خلا کا احساس ہوتا ہے اور کمزوری بھی.لگتا ہے کہ حرکت سے دل ٹھیک ہو جائے گاور نہ بیٹھے بیٹھے دل بیٹھ ہی جائے گا.ہلکی حرکت کے ساتھ ساتھ دل کی طاقت بڑھتی جاتی ہے لیکن ایسے مریض کے لئے تیز حرکت نقصان دہ ہوتی ہے کیونکہ جلسیمیم کے مریض کے دل میں کمزوری ہو تو
جلسییم 398 اچانک حرکت سے وہ بے ہوش ہو سکتا ہے یا مر بھی سکتا ہے.جسم کی حرکت سے دل میں رفتہ رفتہ توانائی پیدا ہوتی ہے جب ہو جائے تو پھر نسبتاً تیز حرکت کی جاسکتی ہے.جلسیم میں معدہ میں کمزوری اور خالی پن کا احساس بھی ملتا ہے.جذباتی ہیجان سے پیدا ہونے والے اسہال میں بھی جلسیسیم مفید ہے.دل کی اعصابی بیماریوں کے ساتھ معدے پر بھی اثر پڑتا ہے.خوف، دباؤ یا بری خبر سے معدہ خراب ہو جاتا ہے.یہ علامت ارجنٹم نائیٹریکم میں بھی ملتی ہے.لیکن دونوں کی دوسری علامتیں ایک دوسرے سے مختلف ہیں.جلسیمیم کی نیٹرم میور سے بھی مشابہت ہے.نیٹرم میور کے سر درد میں سارے سر پر ہتھوڑے برسنے کا احساس ہوتا ہے جبکہ جلسیمیم کا سر درد عموما گدی سے تعلق رکھتا ہے.گدی کے حصے میں درد کی چوٹیں پڑنے کا احساس ہوتا ہے.بائیں طرف کا سر درد جو گدی میں آ کر ٹھہر جائے یا گردن میں جائے اس میں جلسیمیم بہت موثر ہے.اس کے علاوہ اونا سموڈیم (Onosmodium) بھی بہت مفید ہے.دونوں کو ملا کر میگرین یعنی در دشقیقہ میں استعمال کیا جا سکتا ہے.بعض دفعہ سردرد کا گرمی سے تعلق ہوتا ہے لیکن اس کا خیال نہیں آتا اس لئے علامات کا غور سے جائزہ لینا چاہئے.بیماری اور دوا کے مزاج سے واقفیت ضروری ہے.ہومیو پیتھک دوا صحیح ہو تو مریض کو یا بہت نیند آئے گی یا کھلا پیشاب آئے گا.جلسیمیم میں کھلے پیشاب کی علامت ملتی ہے جو پانی کی طرح بالکل صاف اور کھلا ہوتا ہے.اس کے ساتھ بیماری کی علامتوں میں کمی آئے تو یہ جلسیمیم کی علامت ہے.جلسیم میں بسا اوقات جذباتی ہیجان اور فکر سے جسمانی بیماریاں بھی لاحق ہو جاتی ہیں.جلسیم میں آنکھوں کی تکلیفیں بھی پائی جاتی ہیں.وقتی اندھا پن بھی ہو جاتا ہے.یہ علامت اور دواؤں میں بھی ملتی ہے.لیکن جلسیمیم میں بہت نمایاں ہے.اگر ایک طرف کی نظر متاثر ہو تو رسٹاکس کام آئے گی.بعض صورتوں میں لیکیس بھی مفید ثابت ہوتی ہے.جلسیم میں پوٹوں پر فالجی اثرات ظاہر ہوتے ہیں اور انہیں کھولنا مشکل ہوتا ہے.
399 ایسی تکلیف مزمن ہو جائے تو جلیسیم زیادہ فائدہ نہیں دیتی ، تازہ تکلیف میں زیادہ مفید ہے.نظر میں دھندلاہٹ، ایک پتلی پھیلی ہوئی اور ایک سکڑی ہوئی اور آنکھ کی سوزش جلسیمیم کی بھی علامت ہے.آنکھوں کے سامنے دھند اور جالا سا آ جاتا ہے.آنکھ کے اعصاب کی کمزوری میں مفید ہے.ہاتھ پاؤں میں نیم فالجی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.اعضاء میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور کھچاؤ محسوس ہوتا ہے.کمزوری کے باعث حرکت کرنے کو دل نہیں چاہتا.نزلاتی تکلیفوں میں جلسیمیم کی علامات نیٹرم میور سے ملتی ہیں لیکن نیٹرم میور میں پیاس نمایاں ہو جاتی ہے اور جلسیم میں پیاس بالکل غائب ہو جاتی ہے.جلسیسیم میں چھینکیں بہت آتی ہیں.ناک کی نوک بے حس ہو جاتی ہے.بعض دفعہ کانوں میں بھی سن ہونے کا احساس پایا جاتا ہے اور سن ہونے کا یہ احساس صرف جلد تک محدود ہوتا ہے.جلد گرم اور خشک ہوتی ہے اور خارش ہوتی ہے.جلسیمیم اس تکلیف میں فوری طور پر فائدہ دیتی ہے.چہرے اور سر کی جلد پر پھنسیاں نکلتی ہیں.اعصاب کے کناروں پر نکلنے والے چھالے انتہائی خطرناک اور تکلیف دہ ہوتے ہیں، انہیں شنگل (Shingle) کہتے ہیں.اس تکلیف میں بھی جلسیمیم مفید ہے.عموماً میں لیڈم، آرنیکا اور آرسنک ملا کر دیتا ہوں.نیٹرم میور بھی مفید ہے مگر میں بیک وقت کوئی سی بھی تین مناسب دواؤں کو ملا کر نسخہ بناتا ہوں جو بہت مفید ثابت ہوتا ہے.یعنی آرنیکا ، لیڈیم اور آرسنک میں سے کوئی ایک دوا کم کر کے اس کی بجائے حسب علامات نیٹرم میور یا جلسیمیم داخل کر دیتا ہوں.ان پانچ دواؤں کے دائرہ میں ہی اللہ کے فضل سے شنگل کی اکثر صورتیں قابو میں آجاتی ہیں.بعض دفعہ معدے کی خرابی کی وجہ سے مرگی کی طرح کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.معدے سے ایک شعلہ سا نکلتا ہے جو سر یا دل کی طرف جا تا ہوا محسوس ہوتا ہے.سر پر دباؤ کی وجہ سے مریض بعض دفعہ بے ہوش ہو جاتا ہے یا اسے چکر آتے ہیں اور جسم کا توازن برقرار نہیں رہتا.یہ علامت جلسیم میں پائی جاتی ہے.یہ علامتیں معدے کی
400 جلسییم تیزابیت سے پیدا ہوتی ہیں.اگر کسی کھلاڑی کے معدے میں تیزابیت ہو تو اس میں ایسی علامتیں پیدا ہونا زیادہ قرین قیاس ہے، ایسی صورت میں جلسیسیم سے فائدہ ہوتا ہے.لیکن یہ بیماری مرگی نہیں ہوتی.جلسیم میں مرطوب موسم اور جذباتی ہیجان سے بیماریاں بڑھ جاتی ہیں.کھل کر پیشاب آنے سے اور کھلی ہوا میں متواتر ہلکی حرکت سے آرام آتا ہے.دافع اثر دوائیں چائنا.کافیا.ڈیجی ٹیلیس طاقت : 30 سے 200 تک
گلونائن 401 100 گلونائن GLONOINE (Nitro Glycerine) گلونائن بھی ان دواؤں میں سے ہے جسے ڈروسرا کی طرح صرف چند بیماریوں تک محدود سمجھا گیا ہے حالانکہ اس سے بہت زیادہ استفادہ کیا جا سکتا ہے.گلونائن ٹرائن نائیٹرو گلیسرین (Trinitroglycerin) ہے جس میں ہائیڈ روجن اور آکسیجن کا عنصر بھی موجود ہوتا ہے.یہ بہت زور سے پھٹنے والا آتش گیر مادہ ہے.اس فارمولا کوسب سے پہلے نوبیل (Nobel) نامی سائنس دان نے ایجاد کیا تھا اور اس زمانے میں اس ایجاد نے ایک انقلاب بر پا کر دیا تھا.اگر چہ بعد میں پلاسٹک بم اور نیوکلیئر بم وغیرہ ایجاد ہوئے ہیں لیکن نائٹروگلیسرین کے فارمولا کوکلیتا ترک نہیں کیا گیا بلکہ اسے روزمرہ استعمال میں لایا جاتا ہے.نائٹرو گلیسرین طب میں بھی استعمال ہوتی ہے.اسے براہ راست یا کسی اور شکل میں انجائنا(Angina) کی تکلیف کو دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.گلونائن انسانی مزاج پر بھی اثر انداز ہوتی ہے.دھوپ سے طبیعت خراب ہو جاتی ہے.جیسے نائٹرو گلیسرین گرمی کو برداشت نہیں کرتی اسی طرح مریض بھی گرمی کو برداشت نہیں کر سکتا.اس کے نتیجہ میں درد سے سے پھٹنے لگتا ہے، جگہ جگہ چوٹیں پڑتی ہیں اور دھما کے ہوتے ہیں جیسے کوئی سر کو تھوڑوں سے کوٹ رہا ہو.گلونائن لو لگنے سے بچنے کے لئے چوٹی کی دوا ہے.خون کا دباؤ زیادہ ہونے پر بھی کام آتی ہے لیکن صرف اس صورت میں جب اس کی دیگر علامتیں مریض میں موجود ہوں.اکثر ہومیو پیتھک معالجین اسے لو لگنے میں اور بلڈ پریشر کے لئے استعمال کرتے ہیں.
گلونائن 402 میں نے لو لگنے سے بچنے کے لئے ایک نسخہ بنایا ہوا ہے.گلونائن، نیٹرم میور اور.آرسنک ملا کر 30 طاقت میں گھر سے نکلنے سے پہلے ایک خوراک استعمال کر لی جائے تو اللہ کے فضل سے سارا دن سر درد نہیں ہو گا.ورنہ اگر سر در دایک دفعہ شروع ہو جائے تو پھر علاج مشکل ہو جاتا ہے.گلوٹائن کی ایک علامت یہ ہے کہ نکلیہ پر سر رکھتے ہی سر پھٹنے لگتا ہے.دل پر بھی دباؤ محسوس ہوتا ہے، خون کا دورہ یکا یک سر یا دل کی طرف ہو جاتا ہے اور کوئی سیال چیز اندر سے گزرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے.سر کی طرف خون کا رجحان ہو تو اس کا ماخذ دل یا معدہ ہوتا ہے.بعض دفعہ معدے یا دل سے خون سر کی جانب دوڑتا ہوا محسوس ہوتا ہے.جلسییم کی بھی کچھ علامات گلوٹائن میں بھی پائی جاتی ہیں.جلیبیم میں مریض سونے سے قبل ایک مبہم سی تکلیف محسوس کرتا ہے جس کا مرکز سر میں ہوتا ہے حالانکہ ابھی درد واضح نہیں ہوا ہوتا.سونے کے بعد در دنمایاں طور پر ابھر آتا ہے جو صبح تک بہت شدت اختیار کر جاتا ہے.گلو نائن کی بھی یہی علامت ہے لیکن فرق یہ ہے کہ جلسیمیم کا در دمحض سر تک محدود نہیں رہتا بلکہ کندھے کے پٹھوں اور نیچے کمر تک اتر جاتا ہے.عموماً بائیں طرف درد ہوتا ہے جبکہ گلونائن میں پورا سر متاثر ہوتا ہے اور یہ درد صرف سر اور آنکھوں تک ہی محدور ہتا ہے.اس درد کا دیگر اعصاب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.گلونائن میں دھڑکن بہت نمایاں ہوتی ہے.سارا جسم دھڑ کنے لگتا ہے.انگلیوں کے پوروں سے لے کر پاؤں کے پنجوں تک یہ دھڑکن محسوس ہوتی ہے جو سخت بے چین کرتی ہے.تکیہ پر سر رکھتے ہی دھڑکن محسوس ہوتی ہے جس کی وجہ سے نیند نہیں آتی اور یہ دھڑکن سارے جسم میں پھیل جاتی ہے.گلونائن کی ایک ہی خوراک اس تکلیف کو ختم کر سکتی ہے اور مریض پر سکون نیند سو جاتا ہے.ہومیو پیتھی میں گلونائن طریقہ آزمائش یعنی پروونگ (Proving) کے لئے بہت زود اثر دوا ہے اس لئے اسے بار بار
گلونائن 403 نہیں دہرانا چاہئے.اگر کوئی صحت مند آدمی چھوٹی طاقت میں پانچ پانچ دس دس منٹ کے وقفہ سے گلو نائن استعمال کرے تو چند خوراکوں کے بعد ہی سخت درد سے اس کا سر پھٹنے لگتا ہے اور گلو نائن کی سب علامتیں نمایاں ہو جاتی ہیں.ہومیو پیتھی کے منکرین کو قائل کرنے کے لئے یہ بہترین طریقہ ہے.جلسیمیم سے گلو نائن کی ایک اور مشابہت یہ ہے کہ دونوں میں مریض کے ہاتھ پاؤں سخت ٹھنڈے ہوتے ہیں.فرق یہ ہے کہ جلسیسیم میں بالکل پسینہ نہیں آتا جبکہ گلونائن میں ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہونے کے باوجود پسینہ آتا ہے.گلونائن کے مریض کی زبان سرخی مائل ہوتی ہے اور منہ خشک لیکن پیاس زیادہ نہیں ہوتی.تیز بخار کے باوجود پیاس غائب ہو جاتی ہے.گرم موسم، دھوپ اور آگ کے سامنے تکلیفوں میں اضافہ ہو جاتا ہے اور دھوپ اور گرمی کا احساس صرف سر تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ سارا جسم متاثر ہوتا ہے.دھڑکن ، سانس میں گھٹن، متلی اور قے پائی جاتی ہیں.دبانے سے سر درد کو آرام محسوس ہوتا ہے.پڑھنے سے سردرد میں اضافہ ہوتا ہے.لفظ چھوٹے محسوس ہوتے ہیں.ہر چیز آدھی روشن اور آدھی تاریک نظر آتی ہے.گلونائن میں آنکھوں کے سامنے بجلی سی لہراتی ہے اور ستارے سے چمکتے ہیں.نیچے جھکنے سے آنکھوں کے سامنے سیاہ نشان آتے ہیں.آنکھوں میں درد اور دباؤ محسوس ہوتا ہے.آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں.آنکھوں میں خون کا اجتماع بڑھ جاتا ہے.گلونائن کے مریض کی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی ہوتی ہیں اور آنکھوں کی رنگت زردی مائل ہوتی ہے.روشنی سے زودسی ہوتی ہے.وقتی اندھا پن بھی پیدا ہوتا ہے.ایک خاص علامت یہ ہے کہ بخار میں مریض کا چہرہ سرخ نہیں ہوتا بلکہ زرد ہو جاتا ہے.بچوں کے گردن توڑ بخار میں جو خصوصا گرمیوں میں ہو گلونائن مفید ہے.اس میں گردن پیچھے کو مڑ جاتی ہے.چہرہ پر شدت کی گرمی اور چمک ہوتی ہے.آنکھیں کھینچ کر اوپر کو چڑھ جاتی ہیں.سر اور اوپر کا دھڑ سخت گرم اور نچلا دھڑ ٹھنڈا ہو جاتا ہے.بہت
گلونائن 404 پسینہ آتا ہے.ورم الدماغ (Meningitis) ہو جاتا ہے.اگر ملیریا کے جراثیم ریڑھ کی ہڈی میں چلے جائیں تو اس سے بھی ورم الدماغ ہو جاتا ہے.اگر اس بیماری کا گرمیوں سے تعلق ہوتو اس میں گلو نائن مفید دوا ہے.بسا اوقات راستہ چلتے ہوئے دوران خون سر کی طرف ہو جاتا ہے.چہرہ تمتمانے لگتا ہے.گلا گھٹنے کا احساس ہوتا ہے جیسے سارا خون منہ اور سر میں جمع ہو گیا ہو.شدید کمزوری کے احساس کے ساتھ جسم ٹھنڈا اور پسینہ سے تر بتر ہو جاتا ہے اور غشی طاری ہو جاتی ہے جسے انگریزی طبی اصطلاح میں Apoplexy کہا جاتا ہے.اس قسم کی غشی کے دورے دماغ میں خون کا لوتھڑا جمنے کی وجہ سے بھی ہو سکتے ہیں لیکن گلو نائن کے مریضوں میں تشیخ کے نتیجہ میں بھی یہ علامات عارضی طور پر ظاہر ہوتی ہیں.اگر ایسے مریض کا گلونائن سے بر وقت علاج نہ کیا جائے اور بار بار دورے پڑنے لگیں تو بسا اوقات مستقل نقصان پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے.گلونائن کا مریض بعض اوقات دیکھے بھالے راستوں کو بھول جاتا ہے اور اسے پتہ نہیں چلتا کہ وہ کہاں ہے اور کدھر جانا ہے.رستے اجنبی ہو جاتے ہیں.یہ علامات لیکیسس (Lachesis) میں بھی پائی جاتی ہے.گلونائن کوعموما خون کا دباؤ کم کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.او ہیم بھی اس حالت میں مفید دوا ہے بلکہ گلونائن کے مقابل پر بلڈ پریشر ٹھیک کرنے کے لئے زیادہ مفید ہے اور نسبتا گہرا اثر کرتی ہے.ڈاکٹر کینٹ کہتے ہیں کہ ایسی امراض کے علاج میں اور پیم کو گلو نائن پر ترجیح دینی چاہیئے کیونکہ گلونائن کے اکثر اثرات عارضی ہوتے ہیں اور اوپیم بہت لمبا اثر دکھانے والی دوا ہے.سردی لگنے کے نتیجہ میں یا خوف کی وجہ سے حیض بند ہو جائے اور دماغی علامات ظاہر ہو جائیں تو گلونائن مفید ہے.سیمی سی فیوجا اور برائیو نیا بھی مفید دوائیں ہیں.اگر پاگل پن کے اثرات نمایاں ہوں تو ایتھوزا بھی کام آ سکتی ہے.عموماً معدہ کی تکلیفیں سر میں منتقل ہو جائیں تو ایتھوزا (Aethusa) دوا ہوتی ہے.اسی طرح حیض رکنے کا اثر
گلونائن 405 ذہن پر ہونے کے ازالے کے لئے ایتھوزا کام آ سکتی ہے.گلونائن کے مریض کے کانوں میں دھڑکن کا احساس ہوتا ہے اور دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے.معدے اور انتڑیوں میں گڑ گڑاہٹ ہوتی ہے.لو لگنے کی وجہ سے شدید متلی اور قے ایک طبعی امر ہے.معدہ میں کمزوری کا احساس ہوتا ہے.نبض کمزور اور آہستہ ہو جاتی ہے لیکن اگر مریض چل پھر رہا ہو تو نبض میں تیزی آ جاتی ہے.دل کی دھڑکن بھی زیادہ ہو جاتی ہے.تمام جسم میں تپش اور جلن کا احساس ہوتا ہے.مریض اچانک غش کھا کر گر جاتا ہے.سانس گھٹتا ہے اور منہ سے جھاگ بھی نکلے لگتی ہے.مگر یہ مریض مستقلاً مرگی کا مریض نہیں ہوتا، یہ محض ایک عارضی مشابہت ہے.گلونائن میں خارش بھی پائی جاتی ہے.تمام اعضاء میں خصوصاً بازوؤں اور ٹانگوں میں کھنچنے والے درد ہوتے ہیں.بائیں ہاتھ کی انگلیوں میں درد گلو نائن کی بھی علامت ہے.صبح چھ بجے سے بارہ بجے تک تکلیفیں بڑھتی ہیں.گرمیوں کے موسم میں سر درد سورج کے ساتھ ساتھ بڑھتا گھٹتا ہے.ہلکے سے جھٹکے سے بھی درد میں اضافہ ہو جاتا ہے.دافع اثر دوا: ایکونائٹ طاقت : 30 سے 200 تک
406
گریفائٹس 407 101 گریفائٹس GRAPHITES (Black Lead) گریفائٹس کے بارے میں عموماً کتابوں میں لکھا ہوتا ہے کہ یہ بھاری بھر کم اور مضبوط سڈول بدن کی موٹی عورتوں کی دوا ہے.مجھے تو اس علامت سے کوئی خاص فائدہ حاصل نہیں ہوا.میں نے اس کی مختلف طاقتیں استعمال کر کے دیکھی ہیں مگر کسی موٹی عورت کو اس سے پتلا ہوتے نہیں دیکھا.ممکن ہے مجھے اس کے استعمال کا صحیح طریقہ معلوم نہ ہو.گریفائٹس کے تابع جن دوسری بیماریوں کا ذکر ملتا ہے ان میں یقینا یہ فائدہ مند ثابت ہوتی ہے.میں اسے ہمیشہ 200 یا اونچی طاقت میں استعمال کراتا رہا ہوں.کبھی 30 طاقت میں استعمال نہیں کی.جہاں تک موٹاپے کا تعلق ہے تو اس کے لئے میں نے حسب ذیل تین دواؤں کو زیادہ مفید پایا ہے.فائیٹولا کا، فائیٹو لا کا بیری اور فیوکس(Fucus).گریفائٹس کی علامات رکھنے والی عورتوں میں حیض عموماً کم ہوتا ہے اور صرف دو تین دن خون جاری رہتا ہے.خون کی مقدار بھی کم ہوتی ہے.اسی وجہ سے ایسی خواتین کا جسم فربہی کی طرف مائل ہو جاتا ہے.غالباً اسی وجہ سے گریفائٹس کا تعلق موٹاپے سے باندھا جاتا ہے.اگر ماہانہ نظام ٹھیک ہو جائے تو اس کے نتیجہ میں موٹاپا کم ہونے کی توقع کی جاسکتی ہے.گریفائٹس کے مریض میں اخراجات عموماً چپکنے والے ہوتے ہیں.اس کا ایگزیما بھی اسی علامت سے پہچانا جاتا ہے.یہ ایکزیما عموماً کانوں کے پیچھے، سر کے بعض حصوں میں، کہنیوں اور ہاتھوں کے جوڑوں پر ظاہر ہوتا ہے اور اس میں سے چپکنے والا مادہ ضرور نکلتا ہے اور پھر سخت ساکھرنڈ بن جاتا ہے.میزیریم (Mezereum) کے اخراجات بھی چپکنے والے ہوتے ہیں جو سر کے اوپر ایک خول سا بنا دیتے ہیں.بعض چھوٹے بچوں کو بہت شدید قسم کا ایگزیما
408 گریفائٹس ہوتا ہے اور وہ خارش کر کے جسم کو لہولہان کر لیتے ہیں اور بہت تکلیف دہ صورت حال ہو جاتی ہے.ان کے ایگزیما کی علامتیں گریفائٹس کے علاوہ سورائینم (Psorinum) سے بھی ملتی ہیں.ان کے اندر اکثر کسی گہری بیماری کا فاسد مادہ موجود ہوتا ہے.میں نے جب بھی ایسے بچوں کو جو علامات کے لحاظ سے سلیشیا طلب کرتے تھے ، سلیشیا دینی شروع کی تو بلا استثناء ان کے اندر سے پھوٹ کر مواد نکلا.سلیشیا کا یہ اثر مسلم ہے.سلیشیا سے فاسد مادے باہر نکل آئیں اورسلیشیا ہی کے اثر سے ٹھیک نہ ہوں تو لا ز ما کسی اور بالمثل مناسب دوا کی تلاش ضروری ہے.سلیشیا کے بعد عموماً سورائینم کام آتی ہے یا پھر گریفائٹس.سورائینم اکثر ایگزیما کو خشک کر دیتی ہے لیکن بعض دفعہ مرض کا کلیتا صفایا نہیں ہوتا اور خشک جلد پر خارش باقی رہ جاتی ہے تاہم ایک نسبتی تسکین ضروریل جاتی ہے اور بچہ رات کو کچھ عرصہ تک سکون سے سونے لگتا ہے لیکن کچھ عرصہ کے بعد ایگزیما کے اخراجات دوبارہ بہنے لگتے ہیں.ایسی صورت میں گریفائٹس کو بھی ایک مددگار دوا کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کچھ نہ کچھ اثر ضرور دکھاتی ہے.لہذا ایگزیما جیسی ضدی بیماریوں میں بہتر یہی ہے کہ بعض ملتی جلتی دواؤں کو ایک دوسرے کے مددگار کے طور پر استعمال کیا جائے.اگر بچوں میں خارش سے بے چینی بہت بڑھ جائے تو آرسنک 1000 بھی بہت مفید ہے اور خشک ایگزیما کے لئے خاص طور پر مؤثر ہے.آرسنک میں بے چینی کا عصر اتنا نمایاں ہے کہ اگر پوری علامتیں نہ بھی ہوں تو بھی یہ کچھ نہ کچھ کام کرتی ہے مگر اس صورت میں یہ عارضی فائدہ دیتی ہے.آرسنک کا صحیح استعمال و ہیں ہو گا جہاں مریض کی اکثر علامات کی تصویر اس دوا سے مشابہ ہو.یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے کہ جو دوا دواؤں کے مزاج کو پہچان کر دی جائے وہی اصل علاج ہے اور یہ خیال کر لینا کہ جو مرض ایک دوا سے ٹھیک ہو اسی دوا سے ویسا ہر مرض ٹھیک ہو گا، محض خوش فہمی ہے.یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ ہر مرض کا مؤثر علاج دریافت ہو چکا ہو یا کسی ڈاکٹر کو ہر مرض کے لئے مناسب دوا کا علم ہو.اس لئے جو مریض کسی ڈاکٹر سے ٹھیک نہ ہو اسے خواہ مخواہ اپنے ہاتھوں میں رکھ کر لمبی تکلیف نہیں دینی چاہئے اور یہ سمجھ لینا چاہئے کہ ہو سکتا ہے کہ کسی اور ڈاکٹر کے ہاتھ میں اس کا بہتر علاج
گریفائٹس 409 ہو.اس لئے اپنی شکست تسلیم کر لینی چاہئے تا کہ وہ کسی اور جگہ اپنا علاج کرا سکے.گریفائٹس اپنے مخصوص ایگزیما میں بہت مفید ہے.اگر مریض میں اس کی دیگر مزاجی علامتیں بھی پائی جائیں تو یہ اکیلی ہی کافی ہے ورنہ ملے جلے ایگزیموں میں جہاں انفیکشن وغیرہ بھی ہو وہاں گریفائٹس محض مددگار دوا کے طور پر استعمال ہوتی ہے.جلد میں کچا پن اور سرخی آ جائے جیسے سورائس کی ابتدائی علامتوں میں ہوتا ہے تو گریفائٹس دینی چاہئے.جلد کی یہ علامت سلیشیا میں بھی پائی جاتی ہے مگ گریفائٹس کی پہچان یہ ہے کہ جلد سے چپچپی رطوبت نکلتی ہے.گریفائٹس کینسر میں بھی مفید دوا ہے.کینسر کارجحان ہر کار بن میں پایا جاتا ہے.بعض زخم مندمل ہونے کے بعد دوبارہ تازہ ہوتے رہتے ہیں اور بالآخر کینسر میں تبدیل ہو جاتے ہیں.اگر ان کا آپریشن کیا جائے تو کچھ عرصہ آرام کے بعد کینسر دوبارہ پھوٹ پڑتا ہے.اس صورت میں گریفائٹس کو نہیں بھولنا چاہئے.200 یا 1000 کی طاقت میں دی جائے.جب تک اثر ظاہر نہ ہو، اسے دہراتے رہیں.گریفائٹس عضلاتی نظام پر بھی اثر انداز ہوتی ہے.ٹانگوں کے پچھلے حصے خصوص رانوں کے پیچھے اس کا اثر نمایاں ہوتا ہے جو مریض کھڑے ہونے یا بیٹھنے سے تکلیف محسوس کرتے ہیں وہ دوستم کے ہوتے ہیں.ایک وہ جن کو کمر کی تکلیف کی وجہ سے حرکت دشوار ہو جاتی ہے اور فالجی علامتیں ان کی حرکات میں مخل ہونے لگتی ہیں.گریفائٹس کا ایسے مریضوں سے تعلق نہیں ہے.دوسرے وہ مریض جن کے عضلات میں کھچاؤ اور تناؤ پیدا ہو جیسے وہ چھوٹے ہو گئے ہوں اور انہیں پوری طرح کھولنے اور دوبارہ سکیڑنے میں دقت محسوس ہو.ران کے پیچھے بھی تناؤ ہو.یہ گریفائٹس کا دائرہ کار ہے اور ایسے مریضوں میں خواہ دیگر علامات گریفائٹس کی نہ بھی ہوں، گریفائٹس کو آزمانا چاہئے.بعض اوقات جز وی علاج کی ضرورت بھی پیش آتی ہے.گریفائٹس میں سخت قبض پائی جاتی ہے اور فضلہ انتڑیوں کے نچلے حصہ میں بڑے بڑے سخت ٹکڑوں کی شکل میں تہ بہ تہ جمع ہوتا رہتا ہے.اگر انتڑیوں میں عمومی سوزش
گریفائٹس 410 بھی ہو تو بعض دفعہ ایسے مریض کو برائیو نیا سے صرف عارضی فائدہ ہوتا ہے.فرق یہ ہے کہ برائیونیا میں فضلہ شروع میں عموماً سخت ہوتا ہے لیکن پھر کچھ نرم ہوتا جاتا ہے جبکہ گریفائٹس میں فضلہ سخت اور بہت خشک ہوتا ہے اور آخر تک سخت ہی رہتا ہے.کئی کئی دن سخت قبض رہتی ہے.اگر اسہال شروع ہو جائیں تو بہت پہلے اور سیاہ رنگ کے ہوتے ہیں جن میں غیر منہضم غذ انکلتی ہے.ہر پیز (Herpes) یعنی وہ بیماری جس میں اعصاب کے ریشوں پر چھالے سے بن جاتے ہیں، جلد کچی کچی ہو جاتی ہے اور شدید جلن، بے چینی اور درد ہوتا ہے.اس کی دو قسمیں ہیں.ایک Herpes Zoster یعنی شنگل جو اعصابی کمزوری سے پیدا ہوتی ہے اور اعصابی ریشوں کے اوپر جلد پر وائرس سے متعفن چھالے بن جاتے ہیں جن کے پھٹنے سے اور چھالے بن جاتے ہیں.دوسری Genital Herpes یعنی جنسی بے راہ روی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی، بار بار ہونے والی ہر پیز جس کا اعضائے تناسل سے تعلق ہوتا ہے.یہ بہت تکلیف دہ بیماری ہے جو ایک دفعہ ہو جائے تو ساری عمر پیچھا نہیں چھوڑتی.گریفائٹس کو ایسی ہر چیز کے علاج میں بھی ایک مقام حاصل ہے.لیکن صرف گریفائٹس ہی کافی نہیں ہوتی بلکہ اور دوائیں بھی دینی پڑتی ہیں.میں نے جو ٹکسالی کا نسخہ بنایا ہوا ہے وہ ہر قسم کی ہر پیز میں مفید ہوتا ہے.اس میں آرنیکا، لیڈم اور آرسنک شامل ہیں.یہ نسخہ سانپ کے کاٹے کا بھی علاج ہے.جب سانپ کے ڈسنے کے بعد زخم میں درد شروع ہو جائے اور گرمی اور جلن کے احساس کے ساتھ اعصاب پر اثر ہونے لگے تو یہی نسخہ بہت مفید ہوتا ہے.ہر چیز میں بھی ان دواؤں سے بہت جلد شفا ہو جاتی ہے.Gential Herpes یا جنسی اعضاء سے تعلق رکھنے والی ہر پیز چونکہ بہت ضدی ہوتی ہے اور لمبے عرصہ تک اس کے واپس آنے کا خطرہ رہتا ہے اس لئے ایسی ہر چیز میں وقتاً فوقتاً ہفتہ دس دن کا ناغہ ڈال کر یہ علاج کم از کم چھ مہینے تک جاری رکھنا چاہئے.گریفائٹس کا مریض سور ائینم اور سلیشیا کے مریض کی طرح سرد مزاج ہوتا ہے.اگر
گریفائٹس 411 ہم مزاجی دوائیں جو ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہوں باری باری استعمال کروائیں تو یہ ایک دوسرے کے اثر کوکم نہیں کرتیں بلکہ ایک دوسرے کی مددگار بن جاتی ہیں.گریفائٹس کا مریض کھلی ہوا کو پسند نہیں کرتا لیکن کھڑکیاں کھلی رکھنا چاہتا ہے.جسم ٹھنڈا ہونے کے باوجود چہرے پر ٹھنڈی ہوا کے جھونکے برے محسوس نہیں ہوتے جبکہ اکثر بیماروں کے لئے ہوا کا جھونکا نا قابل برداشت ہوتا ہے.گریفائٹس کا مریض ٹھنڈک کو پسند نہیں کرتا.اسے گرمی فائدہ پہنچاتی ہے لیکن جسم کی اندرونی گرمی جو ورزش کرنے یا دوڑنے اور چلنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اس کی تکلیف کو بڑھا دیتی ہے.گریفائٹس میں فالج کی علامتیں بھی پائی جاتی ہیں.کاسٹیکم کی طرح اس کا فالج بعض اعضاء کو متاثر کرتا ہے خصوصا نچلے دھڑ پر فالج کا حملہ ہوتا ہے.بالخصوص ٹانگوں کے فالج میں گریفائٹس بعض اور دواؤں کی طرح بہت مؤثر ہے.یہ مرگی کے مرض میں بھی بہت مفید ہے.مرگی عموماً کسی گہری اندرونی بیماری کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اس لئے اس کا علاج بھی مزاج سے تش ہم آہنگ کسی گہری دوا سے ہی کرنا چاہئیے.گریفائٹس بھی ان دواؤں میں سے ایک ہے.گریفائٹس چونکہ خالص کار بن ہے اس لئے کار بوو پیج سے بھی اس کی مماثلت ہے.ہر کاربن میں مبیع کی علامت پائی جاتی ہے.کار بود تیج پنڈلی کے نہایت تکلیف دہ صبح کے لئے بہترین دوا ہے.اگر یہ شینج بڑھ کر مرگی کے دوروں میں تبدیل ہوجائیں تو گریفائٹس کام کرتی ہے لیکن اس کی دیگر مزاجی علامات کی موجودگی ضروری ہے کیونکہ مرگی میں دوا اس وقت کام کرتی ہے جب مریض کے مزاج سے مشابہ ہو.گریفائٹس میں یہ خوبی ہے کہ اگر یہ کام کرے تو بہت گہرے نتائج پیدا کرتی ہے.عین ممکن ہے کہ بیماری جڑ سے اکھڑ جائے یا اتنی معمولی باقی رہ جائے تو شاذ کے طور پر ہی کبھی دورہ پڑے.گریفائٹس پہنی پژمردگی کی بھی ایک اعلیٰ دوا ہے لیکن صرف اسی علامت سے مرض کی پہچان بہت مشکل ہے کیونکہ ذہنی پژمردگی اتنی عام چیز ہے کہ ہر کس و ناکس اس میں مبتلا ہوتا رہتا ہے.گریفائٹس کا مریض ہر وقت متفکر نظر آتا ہے.مملین اور مایوس ہوتا ہے.
گریفائٹس 412 ذہن پر غبار سا چھایا رہتا ہے.سوچنے سمھنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے.صبح اٹھنے پر چکر آتے ہیں اور ذہن سن سا محسوس ہوتا ہے.روشنی نا قابل برداشت ہوتی ہے.آنکھوں میں جلن ہوتی ہے اور سرخی کے ساتھ پانی آتا ہے.قوت شامہ بہت تیز ہو جاتی ہے.مریض پھولوں کی خوشبو برداشت نہیں کرسکتا.ناک میں درد ہوتا ہے.بے حد خشکی ہو جاتی ہے اور مواد جم کر چھلکوں کی صورت میں نکلتا ہے.چہرے پر مکڑی کے جالے کا احساس ہوتا ہے.دانے نکلتے ہیں جن میں خارش ہوتی ہے.منہ اور ٹھوڑی کے گردا یگزیما ہو جاتا ہے.منہ سے سڑی ہوئی بد بو آتی ہے اور زبان پر جلسن دار چھالے بن جاتے ہیں.گریفائٹس کا مریض عموماً گوشت سے نفرت کرتا ہے.میٹھی چیزوں سے متلی ہونے لگتی ہے.ہر کھانے کے بعد متلی اور قے کا رجحان ہوتا ہے.عورتوں کو حیض کے دوران صبح کے وقت متلی ہوتی ہے.معدہ پر دباؤ اور جلن کا احساس ہوتا ہے جس سے بھوک لگتی ہے.گریفائٹس میں گردن، کندھوں، کمر اور بازوؤں میں شدید درد ہوتا ہے.کمر میں درد کے ساتھ بہت کمزوری ہو جاتی ہے.بایاں ہاتھ سن ہو جاتا ہے اور بازو بھی متاثر ہوتا ہے.انگلیوں کے ناخن موٹے، کالے اور بھدے ہو جاتے ہیں.پاؤں کی انگلیوں میں سختی اور چبھن کا احساس ہوتا ہے اور ناخن موٹے اور ٹیڑھے ہو جاتے ہیں جن میں سخت درد ہوتا ہے.گریفائٹس کی تکلیفیں گرمی میں، رات کے وقت اور حیض کے دوران اور اس کے بعد بڑھ جاتی ہیں.اندھیرے میں اور کپڑے لپیٹنے سے تکالیف میں کمی کا احساس ہوتا ہے.مددگار دوائیں ارجنٹم نائٹریکم.کاسٹیکم.ہسپر سلف لائیکوپوڈیم.آرسنگ.ٹیوبر کیولائینم دافع اثر دوائیں نکس وامیکا.ایکونائٹ طاقت: 30 سے 1000 تک
گریشولا 413 102 گریتولا GRATIOLA گر یشولا اگر چہ بہت کم استعمال ہونے والی دوا ہے لیکن بعض بیماریوں میں یادرکھنے کے قابل ہے.اس میں اعصابی، ذہنی اور جسمانی کمزوری بہت نمایاں ہوتی ہے.اگر اعصاب میں نقاہت محسوس ہو اور مریض ذہنی اور جسمانی طور پر تھکا ہوا ہو تو وہ یہی کہے گا کہ بہت کمزوری ہے.اگر گرینولا کا ان دوسری بیماریوں سے بھی تعلق ہو جو اس کی خاص کمزوری کے ساتھ مریض کو لاحق ہوں تو یہ تمام تکالیف کو فی الفور دور کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.گریشولا کی ایک علامت یہ ہے کہ آنکھوں میں بے چینی اور چھن ہوتی ہے.آنکھوں کے سامنے دھند اور جالا سا آ جاتا ہے.اس میں نظر کی خرابی کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ اس میں سب رنگوں کا اندھا پن تو نہیں ہوتا صرف سبز رنگ سفید نظر آنے لگتا ہے اور آنکھوں میں ایسی بے چینی محسوس ہوتی ہے جیسے ریت پڑ گئی ہو.گریشولا ایسی چھن اور بے چینی کا اچھا علاج ہے.اگر عورتوں میں مانچے لیا (Melancholia) پایا جائے تو گھر بیٹولا کا اس سے بھی تعلق ہے.گریشولا میں یہ عجیب تضاد پایا جاتا ہے کہ عورتیں بیرونی طور پر اعصابی کمزوری محسوس کرتی ہیں لیکن اندرونی اعصاب جن کا رحم وغیرہ سے تعلق ہوتا ہے بہت زیادہ پر جوش ہو جاتے ہیں.اگر لڑکیوں میں ایسی کیفیت پیدا ہو جائے تو ان میں بے شرمی کا بہت زیادہ رجحان پیدا ہو جاتا ہے.ان کے اعصاب کو ٹھنڈا کرنے کے لئے اور جذبات کو ضبط میں لانے کے لئے دوائیں دینا پڑتی ہیں.بعض ایسی دوائیں ہیں جن کی علامات بہت وسیع ہیں اور ان کی پہچان بھی بہت نمایاں نہیں ہے لیکن اگر یہ علامت زیادہ علامتوں میں لپٹی
گریشولا 414 ہوئی نہ ہو بلکہ بہت نمایاں ہو تو گریشولا سے علاج شروع کرنا چاہئے.گریتولا کا مزاج گرمی اور سردی کے لحاظ سے پلسٹیلا سے ملتا ہے.نیز یہ بائیں طرف کی بیماریوں کی دوا ہے.اس لحاظ سے یہ کیس سے مشابہ ہے.اس میں جنسی اعضاء کا ہیجان اگر چہ ٹرینولا سے ملتا جلتا ہے مگر ٹرینٹولا کی تکلیفیں دائیں طرف زور دکھاتی ہیں اور گریشولا کی بائیں طرف.یہ تکلیفیں جامد ہوتی ہیں لیکیس کی طرح بائیں سے دائیں طرف حرکت نہیں کرتیں.گریٹوں بعض قسم کے نزلہ زکام میں بھی بہت کارآمد دوا ہے.اس کا نزلہ اگر معد و پر گرے تو ساتھ ہی تشیخ ہو جاتا ہے.اچانک بل پڑنے اور سکڑنے کا احساس ہوتا ہے.اس کے علاوہ یہ معدہ کی عام خرابی کی بھی دوا ہے.گرینشولا کے مریض کے معدہ کی خرابی میں اوپر کا ہونٹ سوج جاتا ہے.یہ علامت پلسٹیلا میں بھی پائی جاتی ہے.گریشولا بعض اوقات کا فیا کا اثر زائل کر دیتی ہے.اسی طرح کا فیا بھی اس کا اثر زائل کرتی ہے.ان دونوں دواؤں کی علامتیں ملتی ہیں.اگر چہ کافیا کی اعصابی کمزوری میں وہ جوش نہیں پایا جا تا جوگر پیشوا کا خاص نشان ہے لیکن اس کے باوجود یہ کہا جاتا ہے کہ گریتولا کا فیا سے مشابہ دوا ہے.ایک بات واضح ہے کہ اگر رات کے پہلے حصہ میں نیند نہ آئے اور کافیا کی دوسری علامتیں موجود نہ ہوں تو یہ گریشولا کی علامت ہے.گریشولا میں گلے کے درد میں نگلنے سے آرام محسوس ہوتا ہے.بعض ایسی دوائیں ہیں جن میں گلے کے درد میں نگلنے سے اضافہ ہو جاتا ہے لیکن گریشو لا میں نگلنے سے قدرے افاقہ ہوتا ہے.اس لئے ایسا مریض بار بار گھونٹ بھرتا ہے کہ درد میں کمی ہو.گریشولا میں چکر بھی آتے ہیں جن کا عموماً کھانے سے تعلق ہوتا ہے.کھانا کھاتے ہوئے چکر آتے ہیں اور کھانے کے بعد چکر زیادہ ہو جاتے ہیں.اس کے علاوہ آنکھیں بند کرنے سے، پڑھنے سے اور بیٹھ کر اٹھنے سے بھی چکر آتے ہیں.ان علامتوں سے یہ بھی ظاہر ہوتا
گریشولا 415 ہے کہ مریض میں خون کی کمی ہے یا اس کے خون کا دباؤ کم ہے.معدہ کی ایک عام بیماری متلی اور پیٹ میں ہوا کا اکٹھا ہو جاتا ہے.گریٹولا کی ایک خاص پہچان یہ ہے کہ کھانا کھانے کے ساتھ ہی متلی ختم ہو جاتی ہے.اگر متلی ہو تو عموماً اس میں کھانا کھانے کو دل نہیں چاہتا لیکن گریشولا میں یہ عجیب علامت ہے کہ متلی کا علاج ہی کھانا کھانا ہے.اگر معدہ میں تیزابیت ہو تو وقتی طور پر کھانا کھانے سے فائدہ ہوتا ہے مگر کچھ دیر کے بعد تکلیف بڑھ جاتی ہے.یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ جب معدہ میں تیزابیت ہو تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ضرور ہی ہائیڈروکلورک ایسڈ (Hydrochloric Acid) کی زیادتی ہوگئی ہو.بسا اوقات اس تیزاب کی کمی کی وجہ سے بھی کھانا ہضم نہیں ہوتا جو گل سڑ کر دوسرے غلط قسم کے تیز اب پیدا کرتا ہے.تیزاب کی زیادتی کی صورت میں تیزابیت عموماً اس وقت محسوس ہوتی ہے جب ڈکار یا ہلکی سی ابکائی کے ساتھ تیز اب ابھر کر اوپر پہنچتا ہے، گلے کے قریب پہنچ جائے تو وہاں کھٹاس محسوس ہوتی ہے جبکہ معدہ میں کھٹاس کا اور تیزابیت کا کوئی احساس نہیں ہوتا اور معدہ میں جلن کی بجائے دل میں جلن اور سکرن کا احساس ہوتا ہے جیسے بعض نالیاں بند ہوگئی ہوں.یہ عموماً تیزابیت کی علامت ہوتی ہے نہ کہ دل کی خرابی کی.گرینولا میں جلن کا احساس ہر جگہ محسوس ہوتا ہے.بعض دفعہ اندرونی جلن اور سوزش ایسی خواہشات کو ابھار دیتی ہیں جو غیر طبعی ہوتی ہیں.مریض خواہ مرد ہو یا عورت دونوں کا علاج گریشولا سے ممکن ہے.گریشولا کے مریض میں خصوصاً اجابت کے بعد دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے.یہ گریشولا کی خاص نشانی ہے.ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کو چاہئے کہ سب ملتی جلتی علامتیں رکھنے والی دواؤں کو دماغ میں اکٹھا محفوظ رکھنے کا گر سیکھیں تا کہ ضرورت کے وقت یاد آ جائیں.پھر ان سب کی علامات کا گہرائی میں جائزہ لے کر ایک دوسرے سے تفریق کرنی سیکھیں.اگر یہ نہیں کریں گے تو ذہن میں ہر وقت الجھن ہے گی کہ کہیں سی علامت پڑھی توقفی لیکن کچھ یاد نہیں آئے گا، پھر تک بازی سے کام لینا پڑے گا.اس
گریشولا 416 لئے دماغ میں تمام دواؤں کی لائبریری بنائیں.یہ ہومیو پیتھ معالجین کے لئے بہت ضروری ہے کہ ان کے دماغ میں ایک مکمل اور ترتیب وار لائبریری ہو.ایک علامت کا پتہ کر کے اس حصہ میں پہنچ جائیں، پھر اس کے ذیلی حصہ میں پہنچ جائیں جہاں علامتوں کے نمبر لگے ہوں.اس نظام کو ذہن نشین کرنا بہت اہم ہے.ایک ہومیو پیتھ کے لئے اپنی یادداشت کو مرتب کرنے میں ہی اس کی کامیابی کا راز ہے.ورنہ کسی کا علاج کرنا مصیبت بن جائے گا.دوسروں کے سر در دکو دور کرنے کی کوشش میں اپنے سر میں درد ہونے لگے گا.طاقت: 30 سے 200 تک
417 103 گائیکم GUAIACUM گائیکم بہت گہرا اثر کرنے والی اور بہت طاقتور دوا ہے لیکن ہو میو پیتھ بالعموم اسے بہت کم استعمال کرتے ہیں.کبھی کبھار بہت ماہر ڈاکٹروں نے اسے استعمال کیا ہے ورنہ عموماً یہ نظروں سے ہٹی رہتی ہے.یہ بائی کی دردوں اور گنٹھیا (Gout) میں کام آتی ہے.اگر موروثی سل کے مادوں کی علامت پائی جائے تو بھی گائیکم پر نظر رکھنی چاہئے.اس میں اسہال کا رجحان پایا جاتا ہے.Tendon یعنی وہ سفید ڈورے جو عضلات کو ہڈی سے ملاتے ہیں سکڑ جاتے ہیں اور ان میں تناؤ پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ٹانگیں اور باز و پوری طرح سے کھلتے نہیں اور در دمحسوس ہوتا ہے.کندھوں کے دونوں طرف کے اعصاب میں دکھن اور تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے.اس تکلیف میں گائیکم مفید ہے.گائیکم کی تکلیفیں گرمی سے بڑھتی ہیں اور ٹھنڈ سے آرام آتا ہے.اس لحاظ سے یہ لیڈم، پلسٹیلا ، لیک کنیا ئینم اور آیوڈم سے مشابہ ہے لیکن ان سب میں با ہم فرق کرنے والی علامتیں ہیں جن کی شناخت ہو جائے تو آسانی سے اصل دوا ذہن میں آجائے گی.گائیکم کے مریض وجع المفاصل کی وجہ سے عموماً جھک کر چلنے لگتے ہیں.ان کے گھٹنے جواب دے جاتے ہیں، ہاتھ پاؤں اکٹر جاتے ہیں اور بعض اوقات بالکل معذور ہو جاتے ہیں.ان علامتوں کے علاج میں گائیکم کے علاوہ کو چیکم بھی مفید دوا ہے جس کی اہم علامت یہ ہے کہ تکلیف پاؤں کے انگوٹھے سے شروع ہوتی ہے.گائیکم کی نمایاں علامت یہ ہے کہ ماؤف حصہ سخت زود حس ہوتا ہے اور کسی قسم کالمس برداشت نہیں ہوتا.گرمی پہنچانے سے تکلیف بڑھ جاتی ہے.جوڑوں پر وجع المفاصل کا اثر ہوتو ناسور او ر پھوڑے بھی بننے لگتے ہیں.گائیکم کا ہڈیوں سے بھی گہرا تعلق ہے.ہڈیاں نرم ہو کر
418 ٹیڑھی ہونے لگتی ہیں اور اسفنج کی طرح ہو جاتی ہیں.یہ تکلیف عموماً کلکیریا کارب کی یاد دلاتی ہے لیکن اگر وجع المفاصل کا بھی رجحان ہو تو گائیکم بہت مفید دوا ہے.گائیکم کی ایک اور علامت یہ ہے کہ مریض سخت تھکاوٹ محسوس کرتا ہے.ہلکی سی حرکت سے بھی جسمانی کمزوری کا احساس ہوتا ہے جو بڑھتے بڑھتے اعصاب پر اثر انداز ہونے لگتی ہے اور پھر اس کمزوری کا احساس بدنی کمزوری پر منتج ہوتا ہے اور جسم سوکھنے لگتا ہے.گانیکم سل کے ابتدائی مراحل میں بہت مؤثر دوا ہے.اگر خون میں سلی مادے موجود ہوں اور وجع المفاصل کے ساتھ پھوڑے پھنسیاں نکلنے کا رجحان بھی ہو اور جسم میں دردیں ہوں تو گائیکم بہت مفید دوا ہے.گائیکم اینٹی سورک (Antipsoric) دوا بھی ہے یعنی ایسی جلدی امراض میں جو سورائس (Psoriasis) اور کوڑھ وغیرہ سے تعلق رکھتی ہیں ان میں مفید ہے.سلفر اور سورائینم بھی چوٹی کی اینٹی سورک دوائیں ہیں.سلفر کا مزاج گرم ہوتا ہے جبکہ سورا ئینم کا مریض ٹھنڈا ہوتا ہے.لیکن محض سلفر اور سورائینم ”سورا کی بیماریوں کی ہر قسم کو ٹھیک نہیں کر سکتیں.جب یہ نزلاتی جھلیوں پر حملہ آور ہوں تو بہت سی اور دواؤں کی بھی ضرورت پڑتی ہے.اگر یہ ایگزیما کی شکل میں ظاہر ہوں تو اس کی قسموں کے مطابق تلاش کرنی پڑتی ہے.اگر سورا‘ کی وجہ سے کوئی مرض ظاہر ہو اور اس کی دوا بظاہر پہچان لی جائے لیکن تھوڑے سے فائدہ کے بعد شفایابی رک جائے تو اس صورت میں لازماً اونچی طاقت میں کوئی اینٹی سورک دوائیں دینی پڑیں گی.اگر براہ راست ان کی علامتیں موجود ہوں تو پھر یہ بھر پور فائدہ دیں گی مگر بسا اوقات ان کی براہ راست علامتیں نہیں ملتیں.ایسی صورت میں یہ سورا" کے عمومی تریاق کے طور پر کام آئیں گی اور مرض سے ملتی جلتی دوسری دواؤں کے اثر کو تازہ کر دیں گی.جلدی بیماریوں کی ایسی بہت سی قسمیں ہیں جو مزاجی دوا طلب کرتی ہیں.اگر وہ دوائیں جو غور و خوض کے بعد چنی جائیں فائدہ نہ دیں تو پھر اینٹی سورک دواؤں کی لازماً ضرورت پڑتی ہے.وہ بیماری کے مزاج کو نرم کر کے اثر قبول کرنے کے قابل بنا دیتی
گائیکم 419 ہیں.ایسی دواؤں میں سلفر اور سورائینم کے علاوہ مرک سال، ٹیوبرکولینم اور سیفلینیم بھی شامل ہیں.اسی طرح گائیکم بھی ایک اینٹی سورک دوا ہے.چہرے کے اعصابی دردوں سے بھی اس کا تعلق ہے.گائیکم میں چہرے کے ایک طرف اعصابی درد ہوتا ہے جیسے چٹکی بھری گئی ہو.یہ درد بہت تکلیف دہ ہوتا ہے.سپائی جیلیا چہرے کے بائیں طرف کے اعصابی دردوں میں اور سلیشیا اور میگ فاس دائیں طرف کے دردوں میں بہت مفید دوا ئیں ہیں.گائیکم میں آنکھیں متورم ہو جاتی ہیں.پتلیاں پھیلی ہوئی اور پوٹے سکڑے ہوئے معلوم ہوتے ہیں.آنکھ کے ارد گرد پھنسیاں نکلتی ہیں، کبھی کبھی کان میں بھی درد کے دورے پڑتے ہیں.یہ درد کسی انفیکشن اور وبائی مرض کے نتیجہ میں نہیں ہوتا.ظاہری طور پر کسی ورم اور سرخی کا نشان بھی نہیں ہوتا.جب یہ درد ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے تو سر میں بھی سوئی کی سی چھن محسوس ہوتی ہے.اگر کسی مریض کو شدید بہنے والا نزلہ ہو جس کے ساتھ ناک کی ہڈیوں میں درد ہو تو اسے گائیکم سے افاقہ ہوسکتا ہے.اس میں نزلہ کے ساتھ دانتوں کی ہڈیوں میں بھی درد ہوتا ہے.یو پیٹوریم پرف (Eupatorium perfol) ہڈیوں کے دردوں کے لئے نمایاں شہرت رکھتی ہے لیکن اس کا دائرہ عمل محدود ہے.عموماً انفلوئنز اوغیرہ کے بخار میں فائدہ دیتی ہے.ایک چھوٹا سا اڑنے والا کیڑا جسے عرف عام میں کتری“ کہتے ہیں خشک علاقوں میں پایا جاتا ہے.اس کے کانٹے سے بہت سخت جلن اور سوزش ہوتی ہے اور ہڈی توڑ بخار ہو جاتا ہے.یو پیٹوریم پرف اس بخار کے لئے بہت مفید ہے.گائیکم کے در دوقت کے بہت پابند ہیں.ہڈیوں کے درد خصوصا دانتوں کے نیچے ہڈی میں درد اکثر رات کو بڑھتا ہے.اگر 6 بجے شام کو شروع ہو اور صبح 4 بجے تک جاری رہے تو گائیکم کو نہ بھولیں.دیگر علامتیں بھی مل جائیں تو یہ بہت زود اثر دوا ہے.اگر وجع المفاصل اور گنٹھیا کی تکلیف ہو تو گلا خراب ہونے کا رجحان بھی ہوتا ہے.گلا خراب ہو تو سارے جسم میں اعصابی اور جوڑوں کے درد ہونے لگتے ہیں.دانتوں میں درد کی
گائیکم 420 وجہ سے بھی جسم میں شدید دردیں ہوتی ہیں.ڈاکٹر عموماً مشورہ دیتے ہیں کہ دانت یا ٹانسلز (Tonsils) نکلوا دیں لیکن تکلیف پھر بھی باقی رہتی ہے.اگر وقت پر گائیکم دے دی جائے تو اپریشن کی نوبت نہیں آتی.گائیکم میں پیشاب کی بار بار حاجت محسوس ہوتی ہے لیکن آتا نہیں ہے.بے سود کوشش سے بے چینی پیدا ہوتی ہے.پیشاب کرنے کے بعد سوئی کی سی تیز چھن محسوس ہوتی ہے.وجع المفاصل کی مریض عورتوں کو بیضہ الرحم میں مستقل سوزش ہو جاتی ہے.بندش حیض اور رحم کی بعض دوسری تکالیف لاحق ہو جاتی ہیں.بسا اوقات چھاتی میں کسی چیز کی سرسراہٹ محسوس ہوتی ہے اور جلد سکڑ جاتی ہے اور اس پر چھوٹے چھوٹے دانے نمودار ہو جاتے ہیں.گائیکم میں دل کی دھڑکن تیز ہونے کی علامت بھی پائی جاتی ہے.خشک کھانسی کے ساتھ بخار ہو جاتا ہے.بعض دفعہ چھاتی کے عضلات میں بائی کی دردیں ہوتی ہیں جن میں سردیوں میں اضافہ ہو جاتا ہے.دل میں بھی اکثر درد محسوس ہوتا ہے.اگر جسم میں جوڑوں کے دردہوں اور کسی تیز دوا سے وقتی طور پر انہیں آرام آ جائے تو فاسد مادے خون میں گھل کر دل کے والوز (Volves) کو کمزور کر دیتے ہیں اور دل میں ایسا درد ہوتا ہے جیسا وجع المفاصل کا ہوتا ہے.اسے دل کی ریجی در دیں کہتے ہیں.اگر فلو (Flue) کا فاسد مادہ دبا دیا جائے اور دل پر اثر ظاہر ہو تو اس کے لئے سپائی جیلیا اولین دوا ہے.گاؤٹ (Gout) کے مادے دبانے سے جو اثرات ظاہر ہوں ان میں بھی سپائی جیلیا ہی کام آتی ہے مگر گائیکم اس تکلیف اور دل کی ریحی دردوں میں زیادہ مفید ہے.یہ دردیں گردن کے پچھلے حصہ میں ہوں ، اعصاب جکڑے ہوئے محسوس ہوں اور گردن کو حرکت دینا بھی مشکل ہو تو گائیکم کو نہیں بھولنا چاہئے.یہ بازوؤں کے اوپر والے حصوں میں، رانوں میں اور انگلیوں کے جوڑوں میں بھی دردوں کے لئے مفید دوا ہے.گائیکم میں گردے کی تکلیفیں بھی ملتی ہیں.عموماً ایسے مریضوں کو بہت پسینہ آتا ہے
421 جو مفید ہوتا ہے کیونکہ جب تک پسینہ آتا رہے گردوں کی کوئی تکلیف اور علامت ظاہر نہیں ہوتی.اگر پسینہ بند ہو جائے تو اچانک گردے کی تکلیف کا احساس شروع ہو جائے گا.اگر ایسے مریض کو سردیوں کے موسم میں اچانک گردے کی تکلیف ہو اور اسے گرمی پہنچا کر پسینہ کے عمل کو بحال کر دیا جائے تو تکلیف کم ہو جائے گی.اس کا مطلب یہ ہے کہ پسینہ کے ذریعہ جلد سے جو زہر یلے مادے خارج ہوتے ہیں ویسے ہی مادے گردوں کے پیشاب میں بھی خارج ہوتے ہیں.گردوں اور جلد سے نکلنے والے مشترک مادے اس بیماری کے ذمہ دار ہیں.گائیکم ان مادوں اور نمکیات وغیرہ کا توازن بحال کر کے شفا دیتی ہے.گائیکم کی تکلیفیں حرکت سے، گرمی سے، دباؤ اور چھونے سے بڑھ جاتی ہیں.بیرونی دباؤ سے ان میں کمی ہوتی ہے.دافع اثر دوائیں نکس وامیکا.سپیا طاقت: 30 یا بعض دفعہ اونچی طاقتیں
422
ہیماٹو کسی لون 423 104 ہیماٹو کسی لون HAEMATOXYLON بنیادی طور پر یہ انجائنا کی دوا ہے.اس میں سکڑن اور تنگی کا ایک خاص احساس پایا جاتا ہے.یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے سینے پر پتھر کی سل رکھ دی ہو.جسم کے دوسرے حصوں میں بھی سکرن کا احساس پایا جاتا ہے.معدے میں ہوا، درد اور کھرچن کا احساس اٹھتا ہے جو گلے تک پہنچتا ہے اور دل کے مقام پر درد اور شیخ پیدا کرتا ہے.چھونے سے تکلیف بڑھ جاتی ہے.سر بھی بوجھل رہتا ہے.ہیما ٹوکسی لون کا اثر کمفر سے زائل ہو جاتا ہے.طاقت: 30
424
ہیڈی اوما 425 105 ہیڈی او ما HEDEOMA یہ دوا عورتوں اور مردوں دونوں کی تکلیفوں میں نمایاں اثر رکھتی ہے.اس دوا کے مریضوں کی بیماریاں اعصابی پریشانی سے بڑھ جاتی ہیں.سر میں صبح کے وقت بھاری پن یا ایسا درد جیسے کسی نے زخم لگا دیا ہو.کمزوری زیادہ جسے لیٹے رہنے سے آرام آتا ہے.معدہ میں سوزش اور زودحسی، ہر چیز کھانے یا پینے سے معدہ میں درد، زبان پر سفیدی متلی اور ہواؤں سے پیٹ پھولا ہوا اور دکھتا ہوا.پیشاب کی علامتوں میں یہ ایک غیر معمولی اثر دکھانے والی دوا ہے.جب پیشاب اچا نک دباؤ ڈالے تو ایک دومنٹ سے زیادہ اس کا روکنا محال ہو جاتا ہے.پیشاب کی نالی اور مثانے کی گردن میں جلن اور بے چینی ، بائیں گردے کے مقام پر درد کا عمومی احساس اور گردے کے مقام سے مثانہ میں در داتر تا ہوا محسوس ہوتا ہے.اس دوا کا پیشاب کے عوارض سے ایسا گہرا تعلق ہے کہ باقی علامتیں موجود نہ بھی ہوں تو پیشاب کی تکالیف دور کرنے میں یہ نمایاں اثر رکھتی ہے.وہ عورتیں جن کے رحم میں دردیں نیچے کی طرف اترتی ہوئی محسوس ہوں اور بیضہ دانی (Ovary) میں در داور گھٹن ہو اور وہاں سے تشیخی در دنیچے کی طرف اترتے محسوس ہوں تو یہ دوا ان عورتوں کی بہترین مددگار ثابت ہوتی ہے.لیکوریا جلن والا اور خارش پیدا کرنے والا ہوتا ہے.عورتوں کے رحم کے کینسر میں بھی اس دوا کو اور پولیکس اری ٹینس (Pulex Irritans) کو میں نے بہت مفید پایا ہے.رحم کی اندرونی جھلیوں کو صحت بخشنے میں یہ دونوں دوائیں بہت اچھا کام کرتی ہیں حالانکہ کتابوں میں ان کی اس نہایت اہم خوبی
ہیڈی اوما 426 کا کوئی ذکر موجود نہیں.مجھے یہ بات مریضوں پر تجربہ سے معلوم ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جو بھی اس کا تجربہ کرے گا یہ دوائیں اسے مایوس نہیں کریں گے.طاقت: نمبر 1 طاقت یا دوسری چھوٹی طاقتیں
بیکلا لاوا 427 106 ہیکل الاوا HEKLA LAVA Mount Hecla ایک پہاڑ ہے.اس پہاڑ سے نکلنے والے لاوے سے ایک دوا بنائی گئی ہے جو ہیکل الاوا کہلاتی ہے.میرے خیال میں صرف یہی ایک لاوا ہے جس سے دوا بنائی گئی ہے.کسی اور لاوے کے بارے میں مجھے علم نہیں کہ اس سے کوئی ہو میو پیتھی دوا بنائی گئی ہو.ان سب لاووں کا مادہ تو قریباً ایک جیسا ہی ہو گا لیکن ہر زمین میں موجود مادہ کا اثر ایک دوسرے سے کسی حد تک مختلف بھی ہو سکتا ہے اس لئے دوسرے پہاڑوں کے لاوے پر بھی تجربہ کرنا چاہئے.ہیں کل لاوا کا اثر خاص طور پر ہڈیوں پر ہوتا ہے، خصوصا چہرے اور جبڑے کی ہڈیوں پر.بعض دفعہ دانت خراب اور بوسیدہ ہونے کی وجہ سے بہت تکلیف دیتے ہیں اور کسی دوا سے ٹھیک نہیں ہوتے تو ہیکلا لاوا کام آتا ہے.ہیکلا لاوا کی زیادہ تر شہرت تو چہرے اور جبڑے کی ہڈیوں میں مفید ہونے کی وجہ سے ہے مگر یہ تمام جسم کی ہڈیوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے.بعض دفعہ جبڑا سوج کر بہت موٹا ہو جاتا ہے.سب علامتیں عموماً ہیکلا لاوا سے ملتی ہیں لیکن اس کے باوجود اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا.اس سلسلہ میں سب سے اہم اور مؤثر دوا سلفر ہے جو ایسی خطرناک علامتوں میں بھی کام کرتی ہے جن کے بارے عام معالجین کا یہ خیال ہوتا ہے کہ یہ نا قابل علاج ہو چکی ہیں.مثلاً جبڑے کی ہڈی کا کینسر ہے جو بہت بڑھ چکا ہو.اس کے نتیجہ میں شدید تکلیف ہوتی ہے، اس سے کان بھی متاثر ہوتا ہے.میں نے بارہا ایسے مریضوں کا سلفر کے ذریعہ کامیاب علاج کیا ہے.ایک مریضہ اس
بیکلا لاوا 428 بیماری سے شدید تکلیف میں تھی.ایک طرف کا چہرہ سخت سوجا ہوا تھا ، آنکھوں میں دباؤ تھا اور در داتنا شدید ہوتا تھا کہ چیچنیں نکل جاتیں تھیں.دیر تک ایک بہترین ہسپتال میں داخل رہیں مگر ڈاکٹروں کی کچھ پیش نہ گئی اور آخر انہیں لاعلاج قرار دے کر ہسپتال سے فارغ کر دیا گیا.میں نے انہیں سلفر CM کی ایک خوراک دی جس سے ان کا درد کم ہو گیا.دو ہفتے کے اندر ہی سوزش میں نمایاں طور پر کمی آ گئی.پھر میں نے انہیں سلیشیا CM کی ایک خوراک دی جس سے شفایابی کی رفتار جو رک گئی تھی بحال ہو گئی.اس کے کچھ عرصہ بعد سلفر CM دوبارہ دی تو بیماری کا نام ونشان تک باقی نہ رہا.اس بات کو کئی سال گزر چکے ہیں اور آج تک وہ بالکل ٹھیک ٹھاک اور صحت مند ہیں.ہیکلا لاوا کے تعلق میں میں یہ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ بظاہر علامتیں ہیکلا لاوا کی تھیں اور با وجود کچھ عرصہ مسلسل ہیکل ا لاوا کھلانے کے انہیں قطعاً کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہڈیوں کی دوسری بیماریوں میں ہیکل الا وا مفید ہو تو ہولیکن کینسر میں مفید نہیں ہے.ہیکلا لا وا یقیناً مفید دوا ہو گی لیکن ذاتی طور پر مجھے اس کی افادیت کا کوئی تجربہ نہیں.تاہم بعض ہو میو پیتھ اس کی بہت تعریف کرتے ہیں.ہی کلا لاوا کی خاص علامت یہ بتائی جاتی ہے کہ جبڑوں کی ہڈی میں درد ہوتا ہے.جبڑوں کے اردگر دسوزش نمایاں ہوتی ہے اور جبڑے کی ہڈی بڑھ جاتی ہے.ہڈیوں کی گہری بیماریوں میں میں نے سلفر کے علاوہ کلکیریا کارب کو بھی ہیکل الاوا ے بہت زیادہ مفید پایا ہے.میں نے اسے ہڈیوں کے کینسر کے ایسے مریضوں کو جن کا کینسر کلینیکل لیبارٹریز کے تجزیہ سے قطعی طور پر ثابت ہو چکا تھا.اونچی طاقت میں دے کر دیکھا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے چند مہینے کے علاج کے بعد بیماری بہت حد تک قابو میں آ گئی.ایسے مریضوں کا لمبا عرصہ احتیاط سے علاج کرنا پڑتا ہے اور صرف کلکیریا کارب پر ہی اکتفا نہیں کی جاتی بلکہ اگر مریض کی علامتوں پر گہری نظر رکھی جائے تو بعض دفعہ مرض کی علامتیں بعض دوسری امدادی دواؤں کی نشاندہی کرتی ہیں.پس مرکزی دوا تو کلکیریا کارب ہی رہے گی لیکن اور بہت سی دوائیں کلکیریا کارب کی مددگار ثابت ہو سکتی ہیں.کلکیریا کارب خاص طور پر کیلشیم کی کمی سے پیدا ہونے والی ہڈی کی تکلیفوں میں مفید
بیکلا لاوا 429 ہے.سلفر کا بھی اس سے تعلق ہے اور یہ سلفر کی مزمن دوا ہے.ٹانگوں کے نچلے حصہ کی ہڈیوں میں سلفر کی بجائے عموماً کلکیریا کارب زیادہ کام کرتی ہے.ہاتھوں کے ٹیومر پر بھی یہ اثر انداز ہوتی ہے.میں ہیکلا لاوا سے زیادہ استفادہ نہیں کر سکا.ہوسکتا ہے کہ مجھے اس کی علامتوں پر پورا عبور نہ ہو.اس لئے میں باقی ہو میو پیتھس کو ہیکلا لاوا سے کلیتا بد دل نہیں کرنا چاہتا.وہ ہیکلا لا وا پر مختلف ڈاکٹروں کی تحریریں پڑھ کر اگر اس کے مزاج کو اچھی طرح سمجھ لیں اور پھر مختلف طاقتوں میں اس کا مریضوں پر تجربہ کریں تو ہوسکتا ہے کہ میری ناکامی کے باوجود وہ کامیاب ہو جائیں.جن دنوں بچوں کے دودھ کے دانت نکل رہے ہوتے ہیں اس وقت دانتوں کے نکلنے میں آسانی پیدا کرنے کے لئے بعض ڈاکٹر ہی کلا لاوا کو بہت مفید بتاتے ہیں.اس کا بھی مجھے کوئی ذاتی تجربہ نہیں لیکن اس کی بجائے میں بائیو کیمک کا جو مرکب نسخہ استعمال کرتا ہوں وہ بلاشبہ غیر معمولی طور پر فائدہ مند ثابت ہوتا ہے اور وہ یہ ہے.کالی فاس+ فیرم فاس+سلیشیا+ کلکیر یا فاس+ کلکیر یا فلور.مزید براں یہ نسخہ ہڈیوں کے کینسر کی بعض قسموں میں اور ہڈی کی بیرونی جھلیوں کی تکالیف میں بھی اچھا اثر دکھاتا ہے.جہاں تک ہو میو پیتھک کتب کا تعلق ہے وہ ہیکلا لا واکو کان کے پیچھے ہڈی میں گانٹھوں، ہڈی کے غلاف کی سوزش ، ناک کی ہڈی کے زخم ، چہرے کے اعصابی درد جو دانت نکلوانے کے بعد یا دانت میں کیڑا لگنے کی وجہ سے پیدا ہوں اور گردن کے غدود بڑھ کر سکڑ جائیں تو ان سب میں مفید بتاتی ہیں.مرطوب موسم میں اس کی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.دافع اثر دوائیں : کیمفر.چائنا طاقت 30 اور اس سے اونچی طاقتیں
430
431 107 ہیلی بورس نائیگر HELLEBORUS NIGER (Snow Rose) ہیلی بورس ہیلی بورس نا ئیگر پھولوں کے ایک پودے سے تیار کی جانے والی دوا ہے جسے برفانی گلاب کہا جاتا ہے.اس پودے کی جڑوں کو پیس کر یہ دوا تیار کی جاتی ہے.ہیلی بورس کی سب سے نمایاں علامت دماغ کا معطل اور ماؤف ہو جانا ہے جس کی وجہ سے جسمانی افعال میں بے ترتیبی پیدا ہو جاتی ہے.دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کی جھلیوں میں سوزش ہونے کی وجہ سے اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے اور پاگل پن کی علامتیں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.ہیلی بورس ایسی دوا ہے جو خدا کے فضل سے ان سب علامتوں کو دور کر کے مریض کو ذہنی لحاظ سے بالکل تندرست کر دیتی ہے.ہیلی بورس میں اعضاء اور عضلات کے نظام پر کنٹرول نہیں رہتا اور وہ دماغ کے پیغام کو دیر سے قبول کرتے ہیں.دماغ حکم تو جاری کر دیتا ہے لیکن عضلات حکم کی تعمیل دیر سے کرتے ہیں کیونکہ بنیادی اعصابی نظام متاثر ہوتا ہے.ہیلی بورس کے مریض کو کچھ کہا جائے تو شروع میں وہ بالکل کوئی رد عمل نہیں دکھاتا.اسے بات سمجھانے کے لئے جھنجھوڑنا پڑتا ہے.اس کے خیالات مجتمع نہیں ہوتے اور اسے کوئی کام کرنے کے لئے حد درجہ توجہ دلانے کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا.اس میں خاص قسم کی غنودگی اور بے حسی پائی جاتی ہے اور یہ کیفیت بعض اوقات بے ہوشی تک پہنچ جاتی ہے.بعض اوقات ہیلی بورس کے مریض کو بزعم خود شیطان اور بدروحیں دکھائی دینے لگتی ہیں اور وہ اس خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ کوئی ایسا گناہ کر بیٹھا ہے جس کی بخش ہے.آرم لیکلیس اور سٹرامونیم میں بھی ایسی بھیا تک سوچیں پائی جاتی ہیں.
ہیلی بورس 432 میں پانی جمع ہونے لگے اور اس اندرونی دباؤ سے سر بڑا ہونے لگے تو اس بیماری میں جسے ہائیڈ رو فیلس (Hydrocephalus) کہتے ہیں کئی دوائیں کام آتی ہیں.سب سے مؤثر دوا سلیشیا ہے.ہیلی بورس بھی اس مرض میں مفید بتائی جاتی ہے.جب بچہ کا سر بڑا ہو جائے اور آنکھیں سکڑ جائیں تو بچہ اچانک دل ہلا دینے والی چینیں مارتا ہے.یہ علامت نمایاں طور پر ایپس (Apis) میں پائی جاتی ہے.ایپس میں چونکہ ڈنک والے درد جیسا احساس پایا جاتا ہے اس لئے سر کے اندر پانی کے دباؤ کی وجہ سے جو تکلیف ہوتی ہے اس میں بھی ڈنک لگنے کا سا درد ہوتو ایپس دینے سے بچوں کو افاقہ ہوتا ہے.لیکن ایپس کا اثر کچھ آہستہ ظاہر ہوتا ہے.اس کے برعکس سلیشیا جلد تر اثر دکھاتی ہے.ہائیڈرو ویفیلیس کے دوران دماغ کی بیرونی جھلی کی سوزش سے نکلنے والی رطوبت کو کم کرنے کے لئے ہیلی بورس بہت مؤثر ہے اور دماغ پر اس رطوبت کے نتیجہ میں پڑنے والے مسلسل دباؤ کو کم کر دیتی ہے.اگر یکمل شفانہ بھی دے تو کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچاتی ہے.مرگی کے ایسے دوروں میں جن میں مریض ہوش و حواس نہیں کھوتا اور آنکھیں کھلی رہتی ہیں ہیلی بورس بہت مفید دوا ہے.جب ایسی مرگی کا دورہ ختم ہو جائے تو مریض پر اچانک سخت تھکاوٹ اور غنودگی طاری ہو جاتی ہے.ہیلی بورس میں سر کا درد اندر سے باہر کی جانب حرکت کرتا ہے.پیشانی اور آنکھوں پر سخت دباؤ ہوتا ہے.آنکھیں اوپر چڑھ جاتی ہیں.درد کے اثر سے آنکھیں بھینگی ہو جاتی ہیں.روشنی سے بہت زود سی ہوتی ہے.سر میں بھاری پن اور اندر گہرائی میں گرمی کا احساس ہوتا ہے.مریض درد کی شدت سے کراہتا ہے.بھوک پیاس ہونے کے باوجود کچھ کھا پی نہیں سکتا.غذا کی نالی میں جلن ہوتی ہے.پیٹ میں ہوا اور گڑگڑاہٹ، معدہ کے مقام پر دباؤ اور چلتے ہوئے یا کھانستے ہوئے معدہ میں درد ہوتا ہے.ہیلی بورس میں عمومی کمزوری بہت نمایاں ہوتی ہے جو بعض اوقات فالج کا باعث بن جاتی ہے.
ہیلی بورس 433 خصوصاً بچوں میں اگر پیشاب گہرے رنگ کا آئے.حاجت بہت ہو مگر بچہ پیشاب نہ کر سکے اور مثانے پر دباؤ بڑھتا چلا جائے تو اس مرض میں پہیلی بورس بہت مفید ثابت ہوتی ہے.ایک طرف کے بازو اور ٹانگ کی مسلسل خود بخود ہونے والی حرکت میں بھی ہیلی بورس مشہور دوا ہے.انگوٹھا مڑ کر ہتھیلی میں جنس جاتا ہے.ایسے مریض کے ہاتھوں اور پاؤں کی انگلیوں کے درمیان چھالے بھی نکل آتے ہیں.یہ ساری علامتیں ہیلی بورس کا فوری تقاضا کرتی ہیں.ہائیڈ رولیفیلس سے اس دوا کے تعلق کا ذکر گزر چکا ہے.ایسے بچے کی سوتے میں چھینیں ایپس (Apis) کے بچے کی چیخوں سے ملتی ہیں مگر ایپس کے مریض میں جسم کے ایک طرف کے بازوؤں اور ٹانگوں کا لرزتے رہنا نہیں پایا جاتا.ہیلی بورس کے مریض کی جلد پر پھل پھلی اور میں بھی پائی جاتی ہیں اور نیلگوں داغ بھی ملتے ہیں.سر کے بالوں اور ناخنوں کا جھڑنا بھی اس کی علامات کے دائرہ میں ہے.دافع اثر دوائیں: کیمفر سنکونا (چائنا) طاقت 30 سے 1000 تک
434
ہیلو نفیس 435 108 ہیلو نیس HELONIAS ہیلو نیں ایک بہت اہم دوا ہے جو خصوصاً عورتوں کی بیماریوں سے تعلق رکھتی ہے.اس کا رحم کی گردن کے کینسر سے گہرا تعلق ہے.کاربو انیمیس بھی اس کینسر میں مفید ثابت ہوسکتی ہے بشرطیکہ دیگر اعضاء سے تعلق والی علامتیں بھی موجود ہوں جبکہ ہیلونفیس کا تعلق براہ راست رحم کے کینسر سے ہے اور یہ ضرور کچھ نہ کچھ کام دکھاتی ہے.رحم کی گردن میں سوزش اور سرخی ظاہر ہو اور اسی مرحلہ پر ہیلو فیس دے دی جائے تو بہت مؤثر ثابت ہوگی.اگر ہیلونیس سے مکمل شفانہ ہوتو اس کے بعد کار بو ایمیلس دینی چاہئے.امید ہے کہ انشاء اللہ ان دونوں دواؤں کے استعمال کے نتیجہ میں مکمل شفا ہو جائے گی.اگر کسی عورت کا حمل ساقط ہو جائے اور رحم بھی ڈھلک جائے نیز سامنے اور پیچھے سے دباؤ محسوس ہو، چلتے ہوئے تکلیف بڑھے یا رحم اپنی جگہ چھوڑ کر دائیں یا بائیں طرف چلا جائے تو ہیلو نفیس رحم کے اعصاب کو طاقت دے کر اسے واپس اپنی اصل حالت کی طرف لوٹا دیتی ہے.رحم کے دائیں یا بائیں منتقل ہونے کی علامت سے مجھے خیال آیا کہ وہ جنین جو پیٹ میں صحیح پوزیشن میں نہیں ہوتے بلکہ ٹیڑھی حالت میں رہتے ہیں ان کو مسیح پوزیشن میں لانے کے لئے بھی یہ دوا استعمال کرنی چاہئے.امید ہے کہ فائدہ ہوگا.اگر جنین الٹی حالت میں ہو تو پلسٹیلا 30 یا200 بہت مفید ثابت ہوتی ہے.وہ غریب ممالک جہاں فوری اپریشن کی سہولت مہیا نہ ہو وہاں ایسی حاملہ عورتیں بہت تکلیف اٹھاتی ہیں اور بعض اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں.ان ممالک میں ایسی حالت میں کام آنے والی دوائیں ایک ہو میو پیتھ کو ازبر ہونی چاہئیں.مثلاً پلسٹیلا کولوفائیلم ، ہیلوٹیں.نیز
ہیلو نفیس 436 وضع حمل کے وقت جلسیمیم ، کالی کا رب اور آرنیکا بہت مفید اور ضروری ہیں اور وضع حمل کے بعد کی پیچیدگیوں مثلاً پرسوتی بخار وغیرہ کے خلاف حفظ ما تقدم کا کام دیتی ہیں.اگر پر سوتی بخاریعنی وضع حمل کے دوران یا بعد تعفن پیدا ہونے سے بخار ہو بھی جائے تو سلفر اور پائیر وجینم دونوں کو 200 طاقت میں ملا کر حسب ضرورت بخار ٹوٹنے تک دن میں تین بار اور بخار ٹوٹنے کے بعد چند دن روزانہ ایک بار دیتے رہیں تو یہ بہترین علاج ہے.ہیلونیس ذیابیطیس میں بھی بہت مفید ہے.اگر عورتوں کو رحم کی تکلیفوں کے ساتھ ذیا بیطس بھی ہو تو یہ دونوں تکلیفوں کو دور کر سکتی ہے.کم سے کم ایک ماہ تک مسلسل استعمال کروانی چاہئے.اگر ذیا بیطس کم ہونے لگے تو یہ اکیلی دوا ہی کافی ہوگی ورنہ ذیا بیٹس کی دوسری دوائیں تلاش کریں.ہیلونیس کی ایک اور علامت یہ ہے کہ حیض جلدی جلدی ہوتا ہے یا پھر کئی کئی ماہ کے لئے بند ہو جاتا ہے.سخت افسردگی کے دورے پڑتے ہیں اور مریضہ بہت ست ہو جاتی ہے.شد ید لیکوریا آتا ہے جس کے ساتھ خارش بھی ہوتی ہے.ہیلونیس کا گردوں سے بھی تعلق ہے.گردوں میں خون کا اجتماع ہو جاتا ہے.دونوں طرف شدید جلن محسوس ہوتی ہے جو بیرونی جلد پر بھی محسوس کی جاسکتی ہے.مریض بیرونی طور پر درد کی لکیروں کا خاکہ اپنی انگلی سے کھینچ سکتا ہے.ایسے مریضوں کے پیشاب میں بعض دفعہ البو من بھی خارج ہوتی ہے.اگر حمل کے دوران یہ ہو تو ہیلو نفیس کو نہیں بھولنا چاہئے.ہیلو نیس کی مریضہ اپنی توجہ بیماری سے ہٹائے تو بہتر محسوس کرتی ہے.حرکت سے تکلیف بڑھتی ہے.طاقت : 30 سے 200 تک
سلف 437 109 هیپر سلفیورس کلکیریم HEPAR SULPHURIS CALCAREUM (Calcium Sulphide) ہیپر سلف کیلشیم سلفائیڈ کو کہتے ہیں.ڈاکٹر ہانیمن نے اسے ایک سمندری جانور آؤیسٹر (Oyster) کے خول سے تیار کیا تھا اور اس پر مختلف قسم کے تجربے کئے تھے.یہ دوا کلکیریا کارب اور سلفر کی مرکب ہے اور اس میں ان دونوں کی بعض خصوصیات پائی جاتی ہیں لیکن اپنی اکثر علامتوں میں یہ دونوں سے مختلف ہے.پہلے زمانہ میں کیلشیم سلفائیڈ کو خارش، وجع المفاصل ، گنٹھیا اور دق کی سوزش وغیرہ میں بیرونی طور پر استعمال کیا جاتا تھا.اس کے علاوہ یہ دمہ اور پھیپھڑوں کی سل میں بھی مفید سمجھی جاتی تھی.ہیپر سلف بکثرت روز مرہ کام آنے والی دوا ہے.سلیشیا کے ساتھ اس کا بہت گہرا تعلق ہے.جہاں سلیشیا اثر دکھانا چھوڑ دے وہاں بھی ہسپر سلف مفید ثابت ہوسکتی ہے.روزمرہ کی عام چھوت کی بیماریوں میں بھی ہسپر سلف بہت اچھا کام کرتی ہے.اگر کسی وجہ سے سلیشیا استعمال نہ کروائی جا سکے تو ہسپر سلف بغیر کسی خوف وخطر کے دی جا سکتی ہے.رسلف مرکزی اور سلیشیا کے درمیان اس لئے دی جاتی ہے کہ مرکزی کے بعد براہ راست سلیشیا دینا مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے کئی قسم کے نقصانات پہنچنے کا احتمال ہوتا ہے.مرکزی کے بعد سلیشیا دینے سے پہلے ہسپر سلف دینی ضروری ہے.اسی طرح اگر سلیشیا کے بعد مرکزی دینا ہو تو بھی ہسپر سلف درمیان میں دے کر سلیشیا اور مرکری کے تصادم کا ازالہ کیا جاسکتا ہے.ہیپر سلف روزمرہ کے گلے کی خرابیوں میں بہت مفید ہے.گلے میں بلغم چپک جائے اور اسے باہر نکالنا بہت مشکل ہو اور کھانسی کے باوجود بلغم کو اکھیڑ نا دشوار ہو تو ہپر سلف
سلف 438 بہت نمایاں کام کرتی ہے.ہپر سلف میں کھانسی عموما صبح کے وقت زیادہ ہوتی ہے اور سردی سے کھانسی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور کھانسی میں اکثر درد پایا جاتا ہے.اس کی ایک اور علامت گلے میں پھانس کا احساس ہونا ہے جیسے کوئی چیز پھنسی ہوئی ہو اور کوشش کے باوجود نکلتی نہ ہو.اگر واقعتا کوئی چیز پھنسی ہوئی ہو تو ہسپر سلف کی بجائے سلیشیا سے باہر نکلتی ہے.ایسی صورت میں سلیشیا لا جواب کام کرتی ہے.جسم کے اندر کوئی چیز کہیں پھنس گئی ہو تو سلیشیا اسے بہت جلد نکال باہر کرتی ہے.لیکن پھر سلف میں واقعتا کوئی چیز پھنسی ہوئی نہیں ہوتی محض پھانس اٹکنے کا احساس ہوتا ہے جو بہت بے چین کرتا ہے.ہسپر سلف کا مریض ضرورت سے زیادہ حساس ہوتا ہے.ماحول سے بہت متاثر ہوتا ہے اور ہر قسم کے درد کو نمایاں طور پر محسوس کرتا ہے.اس کے مزاج میں تندی اور غصہ پائے جاتے ہیں.مریض عام طور پر خواہ کتنا ہی رحم دل ہو بیماری کے دوران ایک دم جوش میں آ جاتا ہے حتی کہ اپنے قریبی دوست کو بھی قتل کر سکتا ہے.گو میرے علم میں آج تک کبھی کوئی اس قسم کا مریض نہیں آیا.پاگل مریضوں میں تو ایسا ہونا ممکن ہے لیکن کتابوں میں یہ عام مریضوں کی علامت بتائی جاتی ہے جو کچھ مبالغہ معلوم ہوتا ہے.غدودوں کا سخت ہونا اور سوج جانا بہت سی دواؤں میں پایا جاتا ہے.یہ ہمیپر سلف کی بھی علامت ہے.اگر سختی اور سوزش مستقل ٹھہر جائیں تو اس کا علاج حسب حالات مختلف دواؤں سے کیا جاتا ہے لیکن اگر ان کے اندر پیپ پیدا ہونے لگے تو اس صورت میں ہسپر سلف دینے میں تامل نہیں کرنا چاہئے.کلکیر یا سلف بھی بہت اچھی دوا ہے.بعض بچوں میں ناخن کھانے کی عادت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ناخنوں کے کناروں پر گوشت اکھڑ نے لگتا ہے اور بے چینی پیدا کرتا ہے.اگر ذرا بھی ہاتھ لگ جائے تو بہت تکلیف ہوتی ہے.بچہ اس گوشت کو چبانے لگتا ہے اور آہستہ آہستہ دانتوں سے نو چتا ہے پھر اس کی یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے.نیٹرم میور کے علاوہ اس بیماری میں
سلف 439 سلف بھی مفید ہے.بعض دفعہ ناخن میں پیپ پڑ جاتی ہے، پورا ناخن اکھڑ جاتا ہے پھر نیا آجاتا ہے.اس کی اولین دوا ہمیپر سلف ہے.اگر ناخن میں سیاہی اور خطرناک گہرا رنگ نمایاں ہو جائے اور ناخن کی شکل بگڑنے لگے تو اس میں سب سے پہلے سورائینم دینی چاہئے.اگر آرام نہ آئے تو دوسری دواؤں کے بارے میں سوچیں.اینٹی مونیم کروڈ میں بھی ناخنوں کی خرابی ایک نمایاں علامت ہے.سے پھٹ جائیں اور ان سے خون بہنے لگے تو ہمپر سلف مفید ہے.اگر ان میں لائنیں سی پڑ جائیں جو بد شکل اور گوبھی کے پھول کی طرح ہوں تو اس کے لئے نائیٹرک ایسڈ بہترین دوا ہے.ہپر سلف کے بچے نہلانے دھلانے کے باوجود صاف نظر نہیں آتے.ان کی جلد میلی میلی سی دکھائی دیتی ہے.ہسپر سلف کے استعمال سے جلد صاف ستھری ہو جاتی ہے اور چہرے پر نظر آنے والی میل ختم ہو جاتی ہے.نزلے میں ناک اور گلے کے اندر نظم سا چہ کا ر ہے اور اس وجہ سے چھینکیں آئیں تو ہیپر سلف ہی دینی چاہئے.سردی کی وجہ سے چھینکیں آنا بھی ہسپر سلف کی علامت ہے.اگر سرد موسم میں گرم کمرے میں آنے سے چھینکیں شروع ہو جائیں تو اس کی دوا پلسٹیلا ہے.اگر گرمی سے سرد ماحول میں داخل ہونے سے چھینکیں آنے لگیں تو سباڈیلا ،سلیشیا اور نٹیٹرم میور اور ہسپر سلف کا خیال آنا چاہئے.اگر سوتے ہوئے ہاتھ یا پاؤں لحاف سے باہر رہ جائیں اور باہر کے ماحول میں ٹھنڈ ہو اور چھینکوں کا سلسلہ شروع ہو جائے تو یہ ہسپر سلف کی خاص علامت ہے.ہیپر سلف کا مریض سرد ہوا کا ذرا سا جھونکا بھی برداشت نہیں کر سکتا.شور وغل بھی اس کے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہے.کان کی تکلیف میں اکثر کیمومیلا، پلسٹیلا، بیلا ڈونا اور ایلیم سیپا کام آتی ہیں.بیلاڈونا ہپر سلف بھی کان کے درد کی دوا ہو سکتی ہے.آنکھوں کی بیماریوں سے بھی ہسپر سلف کا تعلق ہے.لیکن اگر نزلہ کی وجہ سے آنکھ میں بہت سرخی ہو تو یوفریز یا زیادہ مفید ہے.آنکھوں میں روزمرہ پیدا ہونے والی تکلیفوں
سلف 440 مثلاً پانی بہنے اور آنکھیں چپک جانے میں ہسپر سلف بہت کام آتی ہے.روز مرہ کی کھانسی کے لئے بیلاڈونا ، آرسنک، ہیپر سلف اور اپی کاک مفید ہیں.اپی کاک اور ہیپر سلف میں یہ امتیاز یا د رکھیں کہ اپی کاک کی بلغم قدرے نرم ہوتی ہے اور بآسانی نکل جاتی ہے.اگر بلغم پھنسی ہوئی ہو اور چپکنے والی ہو تو ہمیپر سلف، کالی بائیکروم یا کوکس (Coccus) مفید ہوں گی.ہیپر سلف بہت گہری دوا ہے.اگر اچانک شدید بیماری کا حملہ ہو تو اونچی طاقت میں دینے سے فائدہ ہوتا ہے اور بار بار اونچی طاقت میں دینا بھی نقصان دہ نہیں.ایک ہزار طاقت میں بیماری کی شدت توڑنے کے لئے ایک دن میں دو بار بھی دی جاسکتی ہے لیکن جب مرض قابو میں آ جائے تو پھر وقفہ بڑھانا لازم ہے.دوا کی طاقت کے استعمال کے بارے میں اپنے تجربہ سبق سیکھیں.رفتہ رفتہ تجربہ سے پوٹینسی کے استعمال کا سلیقہ آ جاتا ہے.اگر بیماری طویل ہو جائے تو ایسی مزمن حالت میں یہ توقع نہیں رکھنی چاہئے کہ مریض اونچی طاقت سے آنا فانا ٹھیک ہوسکتا ہے.پرانے مرض میں سارے جسم کے نظام میں گہری تبدیلیوں کی ضرورت ہوتی ہے جو فوری طور پر پیدا نہیں ہوسکتیں.اگر جسم کا دفاعی نظام کمزور ہو چکا ہو اور مریض میں مقابلہ کی طاقت بہت کمزور ہو چکی ہوتو او چی طاقت میں دوا دینے سے شدید ردعمل کا خطرہ ہوتا ہے جو جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے.چونکہ ہپر سلف میں سلفر کا عنصر موجود ہوتا ہے اس لئے سلفر سے بھی اس کی مشابہت ہے.اگر مریض کے پھیپھڑوں میں تپ دق کے پرانے داغ ہوں.جراثیم چھوٹی چھوٹی گلٹیوں کی صورت میں پھیپھڑوں میں جگہ بنالیں تو سلفر ان کوختم کرنے میں مدد دیتی ہے.ایسی صورت میں سلیشیا دینے کی ضرورت نہیں ہے.سلفر ان جراثیم کو کمزور کر کے بلغم کے ذریعے باہر نکال دیتی ہے.لیکن ایک بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ تپ دق میں سلفر اونچی طاقت میں نہیں دینی چاہئے جب تک یہ تسلی نہ کر لی جائے کہ پھیپھڑوں میں شریانوں کے قریب جراثیم کی بڑی بڑی گلٹیاں موجود نہیں.تپ دق کے مریض جن کے پھیپھڑے
سلف 441 سلی گلٹیوں سے بھرے ہوئے ہوں، ان میں سلفر کی اونچی طاقت میں سلیشیا کا ساعمل دکھاتی ہے اور ان گلٹیوں کو پگھلا کر باہر نکالنے کی کوشش کرتی ہے جن کے ساتھ جڑی ہوئی خون کی شریانیں بھی پھٹ جاتی ہیں.ایسے مریضوں کا بہتر علاج یہ ہے کہ کچھ عرصہ درمیانی طاقت میں سلفر دے کر کلکیریا کارب پر ڈال دیں کیونکہ کلکیریا کارب کے اثر سے سلی مادے کے اردگر دانڈوں کی طرح خول سے بن جاتے ہیں جن کے اندر جراثیم مقید ہو جاتے ہیں.ہیپر سلف پھیپھڑوں، انتڑیوں یاکسی اور جگہ دق کے ظاہر ہونے والے اثرات میں بھی مفید دوا ہے.دق کی علامات چاہے جسم کے کسی حصہ پر ظاہر ہوں یا اندرونی نظام پر اثر کریں، ہیپر سلف دونوں جگہ کام کرے گی.ہیپر سلف میں کلکیر یا اور سلفر دونوں عناصر پائے جاتے ہیں لیکن سلفر کا اثر زیادہ غالب ہوتا ہے اور سلفر کو جو مشابہت سلیشیا سے ہے وہ اسے بھی ہے.ہیپر سلف جلد پر ظاہر ہونے والے ہرقسم کے زخموں کے لئے مفید ہے.زخموں سے پیپ اور خون بہتا ہو اور وہ متعفن ہو جائیں اور ان کے گرد دانے سے بن جائیں، نہ پکنے والے پھوڑے اور وہ زخم جو مشکل سے مندمل ہوں، سب ہپر سلف کے دائرے میں آتے ہیں.لیکن ہیپر سلف اور نائیٹرک ایسڈ دونوں اس لحاظ سے ہم مزاج ہیں کہ ان میں چھوٹے چھوٹے زخم علیحدہ علیحدہ بھی پائے جاتے ہیں اور کچھوں کی صورت میں بھی جو ایک طرف سے شروع ہو کر پھیلنے لگتے ہیں.یہ دونوں دوائیں انتڑیوں کے السر میں بھی مفید ہوسکتی ہیں.مرکزی بھی انتریوں کے اس قسم کے زخموں میں ان دونوں دواؤں سے مشابہ ہے.ہسپر سلف پرانے مسوں میں جو ٹھیک نہ ہوں مفید ہے.جلد پر خارش ہوتی ہے اور جسم پر دانے بن جاتے ہیں.جلد پر چھلکے اور کھرنڈ بنے لگتے ہیں جو ا کثر ایگزیموں میں ملتے ہیں.اگر یہ کھرنڈ کان کے پیچھے اور گلے کے ارد گرد ہوں اور ان سے گوند کی طرح کا چپکنے والا موادر سنے لگے تو گریفائٹس سے آرام آتا ہے.اس قسم کے کھرنڈ جو کسی دوا سے ٹھیک نہ ہوں ان میں ہپر سلف کو آزمانا نہ بھولیں.
سلف 442 دافع اثر دوائیں: بیلاڈونا.کیمومیلا.سلیشیا طاقت: 30 سے 1000 تک یا بعض دفعہ CM
ہورا برازیل 443 110 ہورا برازیل HURA BRAZILIENSIS یہ دوا کوڑھ یعنی جذام میں اس وقت کام آتی ہے جب یہ احساس ہو کہ جلد بہت موٹی ہوگئی ہے اور سکڑ گئی ہے.لہذا یہ لیوپس میں بھی مفید ہے.ہور میں جلد پر تناؤ آجاتا ہے اور وہ پہنچی ہوئی معلوم ہوتی ہے.ہورا اور ہائیڈروکوٹائل کے علاوہ میڈ ورا (Madura) بھی جذام اور لیوپس کی قسم کی بیماریوں میں کام آنے والی دوا ہے.ہورا میں انگلیوں کے نیچے پھانس ہونے کا احساس محض بیماری کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور نہ حقیقتا وہاں کچھ بھی نہیں ہوتا.اس میں ہڈی کے ابھاروں پر خارش ہوتی ہے.گردن اینٹھی ہوئی اور کمر میں درد کی علامت بھی ملتی ہے.اگر چہ ہومیو پیتھک معالجین اسے 6 کی طاقت میں استعمال کرتے ہیں لیکن میرا تجربہ ہے کہ جو دوا 6 کی طاقت میں کام کرے وہ 30 اور 200 میں بھی کام کرتی ہے بلکہ زیادہ اچھا اثر دکھاتی ہے.ہوسکتا ہے کہ معالجین نے اسے 6 طاقت میں ہی مفید پایا ہو کیونکہ بعض امراض ایسے ہیں جن میں دوا کی طاقتوں کا بھی تعلق ہوتا ہے اور وہی کام آتی ہیں.اس لئے تجربہ کرنا چاہئے اور یہ بات نوٹ کرنی چاہئے کہ کس بیماری میں کونسی طاقت کی دوا زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے.وو ہورا‘ کا اثر کیمفر اور اوپیم سے زائل ہو جاتا ہے.طاقت : 6 اور 30 سے 200 تک
444
ہائیڈرینجیا 445 111 ہائیڈرینجیا HYDRANGEA یہ دوا ایک درخت Seven Barks سے تیار کی جاتی ہے.اس کا تعلق گردوں کی بیماریوں سے ہے لیکن عموماً اسے زیادہ استعمال نہیں کیا جاتا.اس کی ایک علامت بہت نمایاں ہے وہ یہ کہ نمکیات کی زیادتی کی وجہ سے پیشاب میں تلچھٹ ہوتی ہے اور سفید رنگ کی تہہ نیچے جم جاتی ہے.اس علامت کے ساتھ گردوں کی اکثر تکلیفوں میں مثلاً پیشاب میں خون، چھوٹی چھوٹی پتھریاں یا ریت کے ذرے آنے لگیں جو مثانے کی نالی کو زخمی کر دیں اور شدید جلن ہو تو یہ دوا کام آتی ہے.پیشاب میں سرخی، جلن اور ریت کی مانند ذروں کی علامت لائیکو پوڈیم میں بھی پائی جاتی ہے.پراسٹیٹ گلینڈز کے بڑھنے میں بھی ہائیڈ رینی مفید دوا ہے.اگر کینسر نہ ہو بلکہ محض پراسٹیٹ گلینڈ بڑھا ہو اور پیشاب میں نمکیات جمنے کی علامت پائی جائے تو پھر یہ دوا استعمال کریں.طاقت: 30 تک
446
ہائیڈ راسٹس 447 112 ہائیڈ رائٹس HYDRASTIS (Golden Seal) ہائیڈ رائٹس نارنگی کے پودے کی جڑ سے تیار کی جانے والی دوا ہے.یہ جگر کی بیماریوں میں بہت اہمیت رکھتی ہے.اس کا جلد اور اندرونی جھلیوں سے بھی تعلق ہے.اس کی سطحی علامتوں میں جلد کے ناسور بہت نمایاں ہیں.اگر یہ بڑھ کر کینسر کی شکل اختیار کرلیں اور کوئی دوا اثر نہ کرے تو اس میں ہائیڈراسٹس کو فراموش نہ کریں کیونکہ اللہ کے فضل سے اس سے ایسے خطرناک اور بڑھنے والے ناسور بھی قابو آ جاتے ہیں.کینسر کے گہرے پھوڑوں اور آنکھ کے ناسوروں میں ہائیڈ رائٹس بہت اچھا کام کرتی ہے.ایسے ناسوروں کے مقامی علاج کے طور پر بہترین دوا خالص شہد ہے.روزانہ دو تین بار خالص شہد کی سلائی لگائی جائے تو پہلے کچھ عرصہ تک بہت پانی نکلتا رہتا ہے پھر نا سور مندمل ہونے لگتے ہیں.نئی تحقیق سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کینسر کے ایسے زخم جو کسی اور دوا کا اثر قبول نہیں کر رہے تھے شہد لگانے سے ٹھیک ہو گئے.ہائیڈ رائٹس چونکہ جگر کی بیماریوں سے گہرا تعلق رکھتی ہے اس لئے بھوک پر بھی اثر انداز ہوتی ہے.ایک عجیب سی علامت یہ ہے کہ معدہ میں بھوک کی گہری کھر چن اور نقاہت کا احساس ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی کھانے سے سخت نفرت ہو جاتی ہے حالانکہ متلی نہیں ہوتی.بعض اور دواؤں میں بھی یہ علامت ذرا مختلف صورت میں ملتی ہے.ہائیڈ رائٹس کے نزلے میں لیس دار اور زردی مائل گاڑھا مواد ناک میں مستقل موجود رہتا ہے جو سخت ہو جاتا ہے.بچے اسے نوچتے ہیں تو زخم بن جاتے ہیں اور
ہائیڈ رائٹس 448 خون بھی رسنے لگتا ہے.ناک کے ایسے زخموں کے لئے ہائیڈ رائٹس بہترین دوا ہے.ہائیڈ رائٹس کی تکلیفوں میں آرام کرنے سے فائدہ ہوتا ہے.بیماری بڑھنے سے چہرے پر یرقان کے اثرات ظاہر ہو جاتے ہیں.زردی چھا جاتی ہے.آنکھوں کے پپوٹے موٹے ہو جاتے ہیں اور ان پر زخم بن جاتے ہیں.کانوں میں بدبودار گاڑھا مواد بنتا ہے جس کے نتیجہ میں بہرہ پن شروع ہو جاتا ہے.اگر نزلہ کا مریض کمرے میں رہے تو ناک بہنا رک جاتا ہے.باہر کھلی ہوا میں جانے سے تکلیف بڑھ جاتی ہے.ہائیڈ رائٹس کے مریض کی کھانے سے نفرت جب بڑھ جائے تو اسے دودھ پر ہی گزارہ کرنا پڑتا ہے جسے وہ شوق سے پیتا اور آسانی سے ہضم کر سکتا ہے.اعصاب میں شیخ اور پینٹسن پائے جاتے ہیں.بواسیر جو لمبا عرصہ چلے اور مزمن ہو جائے اس میں بھی یہ مفید ہے.پیٹ میں بہت ہوا بنتی ہے.پیشاب بہت کم اور بد بوار ہوتا ہے.عورتوں کے لئے لیکوریا میں بھی بد بو اس کی علامت ہے.سانس کی نالی میں خراش ہوتی ہے اور کھانسی اٹھتی ہے.ہائیڈ رائٹس میں بھی فاسفورس کی طرح ذرا سا ہنسنے سے بری طرح کھانسی چھڑ جاتی ہے.ہائیڈ رائٹس کے مریض کے جسم میں اور ٹانگوں میں دردوں کے ساتھ آہستہ آہستہ بڑھتی ہوئی کمزوری کی علامات ملتی ہیں جنہیں ہلکی حرکت سے کچھ آرام ملتا ہے.اس پہلو سے یہ رسٹاکس سے ملتی ہے.اگر چہ اس میں آرام کرنے سے مریض کو عموماً افاقہ ہوتا ہے لیکن دردوں میں آہستہ آہستہ چلنے سے آرام آتا ہے.ایسے مریض کے پاؤں بھی سوج جاتے ہیں.جگر کی ورم اکثر چہرے اور پیٹ پر ظاہر ہوتی ہے اور پھر پاؤں پر اثر پڑتا ہے.ہائیڈر اسٹس عموماً بوڑھے ، نحیف اور جلد تھکنے والے لوگوں کی بیماریوں میں نمایاں اثر کرنے والی دوا ہے.اس کا مریض پژمردہ رہتا ہے.اسے اپنی جلد موت کا یقین سا ہو جاتا ہے بلکہ مرنے کی تمنا بھی رکھتا ہے.ست رو اور پست ہمت ہوتا ہے.ہے.پیشانی میں درد بھی ایک نمایاں علامت ہے جو اکثر قبض کی وجہ سے ہوتا ہے.کھوپڑی اور
ہائیڈراسٹس 449 گردن کے پٹھوں میں درد ہوتا ہے.پیشانی پر بالوں کے ساتھ ساتھ ایگزیما ایک لائن کی شکل میں ابھرتا ہے.مریض قبض کا شکار رہتا ہے.پیٹ کے نچلے حصہ میں درد ہوتا ہے جو رفع حاجت کے بعد زیادہ ہو جاتا ہے.معدہ میں دکھن کا احساس ہوتا ہے.نظام ہضم بہت کمزور پڑ جاتا ہے.منہ کا مزہ کڑوا اور زبان سفید ہو جاتی ہے.عورتوں کے سینے میں گلٹیاں بنے کا بھی رجحان ہوتا ہے جو لمبا عرصہ رہیں تو کینسر میں بھی تبدیل ہو سکتی ہیں.ایام حیض کے بعد سیلان الرحم شدت اختیار کر جاتا ہے جس کی وجہ سے رحم کی گردن پر زخم بن جاتے ہیں اور شدید خارش ہوتی ہے.ہائیڈ رائٹس چیچک میں بھی مفید دوا ہے.یہ علامات کو نرم کر دیتی ہے ، مرض کی مدت میں کمی کرتی ہے اور بعد میں پیدا ہونے والے بد اثرات کو بھی کم کرتی ہے.دافع اثر دوائیں: سلفر طاقت 30 سے 200 تک
450
ہائیڈ روکو ٹائل 451 113 ہائیڈروکو ٹائل HYDROCOTYLE ہائیڈ روکو ٹائل ایک ایسی دوا ہے جو کوڑھ کے لئے بہت مؤثر ہے اور بہت سی دوسری جلدی بیماریاں بھی اس سے ٹھیک ہو جاتی ہیں.کوڑھ ایک ایسا مرض ہے جو آہستہ آہستہ بڑھتا ہے.یہ فوری لگنے والا مرض نہیں ہے بلکہ خون میں اس کا مادہ آہستہ آہستہ نشو نما پاتا ہے اور کسی کوڑھی کے ساتھ بہت لمبے عرصہ تک مسلسل لمس کرتے رہنے کے نتیجہ میں یہ منتقل بھی ہوسکتا ہے.اگر جلد پر کوڑھ کے ابتدائی آثار ظاہر ہونے لگیں تو فوراً ہائیڈ روکو ٹائل دینی چاہئے ورنہ آخر کار جب کوڑھ میں جابجا زخم اور ناسور بن گئے ہوں تو پھر یہ کام نہیں آتی.میں نے کئی مریضوں میں ہائیڈروکونائل استعمال کی ہے.خدا کے فضل سے ہمیشہ ہی اسے بہت مفید پایا ہے.بعض دفعہ تو مکمل شفا ہو گئی اور بعض دفعہ بیماری بالکل معمولی رہ گئی.کوڑھ کے علاوہ لیوپس (Lupus) بھی ایک ایسی جلدی بیماری ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ لاعلاج ہے.یہ کئی قسم کی شکلوں میں ظاہر ہوتی ہے.آبلہ دار دانے ، زخم اور خارش کے علاوہ اس میں جلد کھنچ کر سکڑنے لگتی ہے اور بہت تکلیف ہوتی ہے.ہائیڈ روکو ٹائل اس مرض میں بھی بہت مفید ہے.عمومی خارش جو بغیر کسی جلدی ابھار، دانوں یا زخم کے ہواس کے لئے بھی ہائیڈ روکو ٹائل کو فائدہ مند پایا گیا ہے.اسی طرح ایک اور دوا ڈولی کوس (Dolichos) بھی خشک ضدی خارش میں بہت مفید ہے.جلد موٹی ہو جائے اور مچھلی کی جلد کی طرح کے چھلکے اترنے لگیں تو یہ سورائس (Psoriasis) کی علامت ہے.اسے کوڑھ نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ سورائس کا علاج ہونا
ہائیڈ روکو ٹائل 452 چاہئے جو بہت لمبی توجہ اور گہری دواؤں کے استعمال کا محتاج ہوتا ہے.لیوپس (Lupus) کی قسم کی ایک اور جلدی بیماری ہے جس میں سارے جسم پر مچھلی کی طرح چاتے بننے لگتے ہیں، اس میں سورا ئینم ایک ہزار یا آرسنک ایک ہزار طاقت میں دینی چاہئے.سورائینم اور آرسنک میں بنیادی فرق یہ ہے کہ سورائینم کے مریض کے اخراجات میں شدید بد بو پائی جاتی ہے اور یہ بد بو بہت نمایاں ہوتی ہے.اگر کسی معین بیماری کے بغیر ہی منہ، بغلوں یا پاؤں سے سخت بو آتی ہو تو رس گلا برا 6x طاقت میں بہت اچھا کام کرتی ہے.میں نے اسے ہومیو پیتھک 6 پوٹینسی میں بھی استعمال کرا کے دیکھا ہے اور بہت مفید پایا ہے.ہائیڈروکونائل سورائس میں بھی مفید ہے.اگر سورائس ہاتھوں کی ہتھیلیوں اور پاؤں کے تلوؤں پر نمایاں ہو تو اس میں بھی ہائیڈ رو کو ٹائل کو استعمال کرنا چاہئے.تلوؤں اور ہتھیلیوں میں سورائس کے بغیر بھی خارش ہو تو یہ دوا مفید ہے.ایک اور بہت خطرناک بیماری فم رحم کا کینسر ہے اس کا تفصیلی ذکر میلونیس اور کار بو اینیمیس کے ابواب میں موجود ہے.کینسر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کا کوئی علاج نہیں ہے.رحم نکالنے کے بعد بھی تکلیف باقی رہتی ہے.ہائیڈ روکو ٹائٹل اس کینسر میں درد میں کم کرنے کے لئے چوٹی کی دوا ہے لیکن اس وقت یہ مکمل شفا نہیں دیتی.بہر حال رحم میں زخم اور رحم کی گردن پر سرخی اور سوزش ہو تو اس مرحلہ پر ہائیڈ روکو ٹائل کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.طاقت: 30 سے 200 تک
ہائیڈ روسائٹینک ایسڈ 453 114 ہائیڈ روسائینک ایسڈ HYDROCYANIC ACID یہ بہت خطرناک تشنج پیدا کرنے والا تیزاب ہے جو خشک سالی کی وجہ سے کڑوے باداموں اور مویشیوں کے چارے میں پیدا ہو جاتا ہے.اسے ہلکا سا چکھنے سے بھی انتڑیوں میں شدید تشنج پیدا ہو جاتا ہے اور چکھتے وقت ذراسی بھی بے احتیاطی کی جائے تو سانس کی نالی کے تشیخ کی وجہ سے فوری موت واقع ہو سکتی ہے.کڑوے باداموں اور چارے میں اس زہر کا جو عنصر پایا جاتا ہے وہ بہت خفیف ہوتا ہے اس لئے کڑوے بادام کھانے والوں کو نہ تو لازماً انتریوں میں شیخ ہوگا اور نہ سانس کی نالیوں میں.لیکن شیخ کا کچھ احتمال بہر حال باقی رہتا ہے.چارے میں اس کی مقدار نسبتا زیادہ پائی جاتی ہے.اس لئے ایسا چارہ کھانے والے جانوروں کو لاز ما انتریوں کا شیخ ہو جاتا ہے اور بسا اوقات ان کا جانبر ہونا مشکل ہو جاتا ہے.پیٹ کے شیخ میں اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے کا چیکم بہترین دوا ہے جو 200 طاقت میں بہت اچھا کام کرتی ہے.اکثر طبیبوں نے ہائیڈروسائٹینک ایسڈ کو اپھارے اور پیٹ کے شیخ تک ہی محدود رکھا ہے حالانکہ یہ دمہ، مرگی اور کالی کھانسی کے تشیخ کے لئے بھی بہترین دوا ہے.اگر دمہ یا کالی کھانسی کی وجہ سے سانس بند ہو جائے اور مریض بے ہوش جائے تو فورا ہائیڈ روسائٹینک ایسڈ دینے سے مریض کئی قسم کے خطرات سے بچ جاتا ہے ورنہ شیخ کے نتیجہ میں دماغ کو آکسیجن نہ ملنے کی وجہ سے بعض اوقات وہ مستقل ذہنی مریض بن جاتا ہے یا بعض دفعہ شیخ کی سختی کی وجہ سے اس کی فوری موت واقع ہو جاتی ہے.ایسی صورت میں ہائیڈرو سائینک ایسڈ چوٹی کی کام آنے والی دوا ہے.اسے ہائیڈ رو نو بینم کے ساتھ ملا کر 200 طاقت میں دیا جائے تو بہترین ایلو پیتھک ان ہیلر (Inhaler) سے بھی بہتر
ہائیڈ روسائٹینک ایسڈ 454 کام کرتی ہے اور اس کے استعمال سے ان ہیلر (Inhaler) والے نقصانات بھی نہیں ہوتے.اگر کسی عورت کو ہسٹیریا کے دورے پڑتے ہوں اور مرگی بھی ہو جائے تو اس کے لئے بھی یہ بہت ہی مؤثر دوا ہے.اگر تشنج کی وجہ سے دماغ میں خون رک جائے تو چہرہ سرخ ہو جاتا ہے اور مریض بے ہوش ہو جاتا ہے یا اس کی یادداشت ختم ہو جاتی ہے جو آہستہ آہستہ واپس آتی ہے یا مستقل طور پر ضائع ہو جاتی ہے.اس بیماری کو کیسے لیپسی (Catalepsy) کہا جاتا ہے.اس میں ہائیڈ روسائیٹک ایسڈ مفید ثابت ہوتی ہے.بعض مریضوں کو کھانا کھاتے ہی پیٹ میں درد شروع ہو جاتا ہے اور بعض کو کھانا کھانے سے پہلے درد ہوتا ہے.ہائیڈ روسائینک ایسڈ کے دائرے میں وہ مریض آتے ہیں جن کو خالی پیٹ رہنے سے پیٹ میں تشیخی درد ہوتا ہے.معدے میں شدید کمزوری کا احساس ہوتا ہے جیسے معدہ ب رہا ہو.کھانا کھانے سے معدہ میں گڑ گڑاہٹ کی آواز آتی ہے.دل کی دھڑکن بہت تیز ہو جاتی ہے.نبض کمزور اور بے قاعدہ اور ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں.سخت تشیخ کی حالت میں جبڑے بھینچ جاتے ہیں.منہ سے جھاگ نکلتی ہے اور ہونٹ نیلے ہو جاتے ہیں.سینے میں گھٹن اور درد کا احساس ہوتا ہے.یہ تمام علامتیں بالخصوص ہائیڈ روسائٹینک ایسڈ کا تقاضا کرتی ہیں.دافع اثر دوائیں امونیم.کیمفر.اوپیم طاقت 30 سے 200 تک
ہائیڈ روفو بینم 455 115 ہائیڈ روفو بینم HYDROPHOBINUM یہ ہو میو پیتھی دوا کتے کے پاگل پن کے زمانے میں اس سے حاصل کئے گئے تھوک.بنائی جاتی ہے.یہ پیج کی بہت اہم دوا ہے خصوصا سانس کی نالی کے شیخ میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے.اس کے شیخ کا روشنی اور پانی کی زود حی سے تعلق ہوتا ہے.مریض کو تیز روشنی، چمک دار اشیاء یا پانی دکھائی دے تو اسے شیخ ہو جاتا ہے.ویسے تو اس تشنج اور خوف کا تعلق پانی دیکھنے سے ہے لیکن خوف کی وجہ سے مریض آنکھیں بند کر کے بھی پانی کا گھونٹ نہیں بھر سکتا.اس کا تھوک کو کس کی کٹائی اور کالی بائیکرم کی طرح لیس دار دھاگوں کی صورت میں نکلتا ہے.ہائیڈ روکو ٹائل میں تھوک کا لیس دار اور دھاگے دار ہونا ضروری نہیں ہوتا مگر ہوسکتا ہے.ہائیڈرو فو بینم کے مریض کو نگلنے میں دقت ہوتی ہے.بغیر کچھ کھائے پئے بھی نگلنے کی کوشش کرتا رہتا ہے.ایسے مریضوں کے منہ میں جھاگ بھی آجاتی ہے اور مریض مسلسل تھوکتا رہتا ہے.یہ دوا جنسی امراض میں بھی مفید ہے.عورتوں میں خصوصا رحم ڈھلکنے کے احساس کے ساتھ ہونے والے دردوں اور تکلیفوں میں کارآمد ثابت ہوتی ہے.بہتے ہوئے پانی کی آواز سے یا اس کے تصور سے ہی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.خفیف سی ہوا کے جھونکے سے بھی تکلیفیں بڑھتی ہیں.دافع اثر دوائیں: ہائیڈ روسائکینک ایسڈ طاقت: 30 سے 200 تک
456
ہائیو سمس 457 116 مائیو مس HYOSCYAMUS (Henbane) ہائیو مکس ایک ایسے پودے سے تیار کی جانے والی دوا ہے جو اپنی شکل وصورت میں بیلا ڈونا کے پودے سے ملتا جلتا ہے.بظاہر تو یہ بے ضرر سا پودا ہے لیکن اس کے بیج بہت زہر یلے ہوتے ہیں.اس پودے سے جو دوا تیار کی جاتی ہے وہ ہائیوس کہلاتی ہے.یہ اعصاب پر خصوصاً گہرا اثر کرنے والی دوا ہے.ہائیو مکس میں سارا اعصابی نظام درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ گو یا دماغ پر کسی غیر معمولی طاقت نے قبضہ کر لیا ہے.مریض ہذیان بکتا ہے اور پاگلوں والی حرکتیں کرتا ہے.اگر ٹائیفائیڈ کے مریض میں ہائیوں مس کی علامتیں پائی جائیں تو مریض سوتے میں بھی بولتا رہتا ہے.کپڑے اور بستر کی چادر چتا ہے جیسے چٹکیاں بھر رہا ہو.گندی شرمناک باتیں کرتا ہے جس کی وجہ سے جنسی اعضاء کی سوزش ہے.اچھا بھلا شریف انسان بھی جب بیمار ہو تو اس کی زبان بہت بخش ہو جاتی ہے.ایسی باتیں وہ ہوش میں کر ہی نہیں سکتا.اگر کوئی بچی بیمار ہو تو بعض ماں باپ شرم کی وجہ سے ڈاکٹرکو بھی نہیں بلاتے حالانکہ اس کا کوئی تعلق بھی بالا رادہ جنسی بے راہ روی سے نہیں ہوتا بلکہ یہ ہائی کس کی خاص علامت ہے جو جنسی اعضاء میں ایسی سوزش پیدا کرتا ہے جس سے دماغ متاثر ہوتا ہے اور مریض ایسی بے ہودہ باتیں کرنے لگتا ہے جو وہ صحت کی حالت میں سوچ بھی نہیں سکتا.یہ ہیجانی کیفیت بیماری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے اور یہی علامت سینتھرس (Cantharis) میں بھی کسی حد تک پائی جاتی ہے.اعضائے تناسل میں شدید سوزش کینتھرس کا بھی طرۂ امتیاز ہے.(ہائیوںمس اور کینتھرس کے موازنہ کے لئے
ہائیو سمس دیکھئے کیا تھرس) 458 ہائیو مس کے مریض میں سوتے ہوئے یا بے ہوشی کے دوران ہذیان بکنے کی علامت پائی جاتی ہے جو ہوش آنے پر باقی نہیں رہتی.ہائیو مس کے مریض کے سب عضلات پھڑکتے ہیں، اعصاب میں جیسے شعلہ سا لپکتا ہے اور شیعی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، ایسی چھن جیسے سوئی سے نانگا بھرا ہو.اعصاب میں تشیخ اور پیدا ہو جاتا ہے اور جھٹکے لگتے ہیں.بعض جگہ کے اعصاب پھڑکنے لگ جاتے ہیں، کمزوری بہت ہوتی ہے اور مریض کا سر کمزوری کی وجہ سے کھسک کر تکیے سے نیچے آ جاتا ہے.یہ علامت اکڑاؤ میوریٹک ایسڈ (Muriatic Acid) کے مریض میں بھی پائی جاتی ہے.ہائیو کس میں عورتوں میں وضع حمل کے وقت نہایت خطرناک قسم کا تشنج شروع ہو جاتا ہے.ہائیوکس میں ہر قسم کی دماغی بیماریاں پائی جاتی ہیں لیکن ان میں مارکٹائی کا رجحان کم ہوتا ہے.بیلا ڈونا کے پاگل پن میں یہ رجحان بہت زیادہ ملتا ہے.ہائی نس میں مریض زیادہ تر وہم کا شکار ہوتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ کوئی اس کے پاس کھڑا ہے.پس وہ اس خیالی وجود سے باتیں کرنے لگتا ہے یا اسے یہ وہم ہو جاتا ہے کہ کوئی اس کے پیچھے کھڑا ہے جسے وہ مڑ مڑ کر دیکھے گا.سخت شکی مزاج ہو جاتا ہے جو یکیس کی بھی علامت ہے.وہ سمجھتا ہے کہ اس کے قریبی عزیزوں نے دوا میں زہر ملا دیا ہے.ہا ئیو سکس میں بھی یہ علامات نمایاں ہے.اگر کوئی مریض اس خوف سے دوا استعمال نہ کرے کہ اس میں کچھ ملا نہ دیا گیا ہوتو اسے یہ دوا زیادہ پانی میں ایک آدھ قطرہ ملا کر دینی چاہئے.ہائیو مکس میں مریض نیم بے ہوشی کے عالم میں اپنے آپ سے بھی باتیں کرتا ہے پھر بہت چھینیں مارتا ہے اور بے ہوش ہو جاتا ہے.اپنے آپ سے باتیں کرنے کی عادت تو بعض اچھے بھلے لوگوں میں بھی ہوتی ہے مگر ہائی کس کے مریض میں اپنے آپ سے باتیں کرنے کا رجحان صرف بیماری کے دوران ملتا ہے.
ہائیو مس 459 جو تو ہمات دل میں جگہ بنا لیتے ہیں ان میں ایک یہ وہم بھی ہوتا ہے کہ میری بخشش کا زمانہ گزر گیا ہے، اب کبھی بخشا نہیں جاؤں گا.بعض دفعہ فرضی جرائم کا خیال بھی دماغ پر قبضہ کر لیتا ہے.مثلاً یہ کہ اس نے قتل یا کوئی اور بھیانک جرم کیا ہوا ہے جو درحقیقت اس نے کیا نہیں ہوتا.یہ صرف وہم ہوتا ہے.حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا.ہائیوںمس کی ایک علامت گلونائن اور کیس سے ملتی ہے کہ مریض راستہ چلتے ہوئے بھول جاتا ہے کہ میں کہاں ہوں.گھر پر ہو تو سمجھتا ہے کہ گھر پر نہیں ہوں.اگر باہر ہوتو سمجھ نہیں آئے گی کہ کہاں ہوں اجنبیت کا احساس پیدا ہوتا ہے.ہائیو مس کا مریض پانی سے ڈرنے لگتا ہے اور پانی بہنے کی آواز طبیعت میں ہیجان پیدا کر دیتی ہے.گلے میں تشیخ ہو جاتا ہے اور پانی اندر نہیں جا سکتا.ڈاکٹر کینٹ نے لکھا ہے کہ بیلاڈونا، بائیوٹکس، لینتھرس اور ہائیڈ روفوبینم اس مرض کی بہترین دوائیں ہیں.میرے تجربے میں ہے کہ سٹرامونیم اور ہائیڈ روسائیٹینک ایسڈ دونوں اس رجحان کا قلع قمع کرنے والی دوائیں ہیں.اگر پانی پیتے ہوئے گلے میں شیخ پیدا ہو جائے تو اس میں یہ بہت مفید ہیں.پانی کا خوف (Hydrophobia) ہلکائے کتے کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے.سٹرامونیم ملکائے کتنے کے کاٹے کا بہترین علاج ہے.پرانے زمانے میں بعض اطباء ایسے مریضوں کو سٹرامونیم کھلایا کرتے تھے جس کے اچھے نتائج نکلتے تھے.ہو میو پیتھی میں بھی یہ بہت مفید ثابت ہوتی ہے.بعض یسے مریض جن میں ہلکائے کتے کے کاٹے کی علامتیں ظاہر ہوں، ان کو سٹرامونیم اور ہائیڈ روفو بینم ملا کر دینی چاہئیں.اللہ کے فضل سے بہت اچھا اثر پڑتا ہے.اگر کسی جگہ ٹیکے میسر نہ ہوں تو خواہ یہ پتہ نہ بھی ہو کہ کاٹنے والا کتا پاگل تھا یا نہیں، فوراً یہ دونوں دوائیں ملا کر دیں.چند دن روزانہ، پھر کچھ مہینے ہفتہ میں دو تین دفعہ کھلاتے رہیں.پھر آہستہ آہستہ بند کر دیں تو اللہ کے فضل سے پاگل پن کے آثار ظاہر ہی نہیں ہوتے اور خطرہ مستقل ائل جاتا ہے.اگر اعصاب کی خرابی کی وجہ سے نظر کمزور ہو جائے تو اس میں بائیو کس اچھا عمل
ہائیو مس 460 دکھاتی ہے.اگر نظر دھندلا جائے اور ایک جگہ نہ ٹھہرے اور وقتا فوقتایہ خرابی ظاہر ہونے لگے تو ہا ئیومکس استعمال کرنی چاہئے.بعض دفعہ بخار کی حالت میں مریض کو دندل پڑ جاتے ہیں اور منہ خشک اور بد بودار ہوجاتا ہے.زبان سرخ یا بھوری ، خشک اور کٹی پھٹی ہوتی ہے.بعض دفعہ زبان پر سے کنٹرول اٹھ جاتا ہے یا کم ہو جاتا ہے.اس لئے مریض بولتے بولتے فالج زدہ کی طرح رک رک کر بولتا ہے، زبان بے حس بھی ہو جاتی ہے اور کھانا کھاتے ہوئے مریض کی زبان کٹ جاتی ہے.اگر معدے کی خرابی کی وجہ سے یہ علامات پیدا ہوں تو اس میں پلسٹیلا اور کار بود یج بھی مفید ہیں.ہائیو مکس میں معدہ ڈھیلا ہو کر پھیل جاتا ہے اور ٹائیفائیڈ کے اسہال کی طرح دانے دار اجابت ہوتی ہے.بعض دفعہ پانی کی طرح اسہال آتے ہیں جن میں خون کی آمیزش ہوتی ہے.ایک اور تکلیف دہ بیماری یہ ہے کہ مریض کا پیشاب، پاخانہ بغیر علم کے نکل جاتا ہے اور عضلات پر کنٹرول نہیں رہتا.اگر وضع حمل کے بعد عورتوں کا پیشاب رک جائے تو کاسٹیکم اولین دوا ہے.آرنیکا کے ساتھ ملا کر کر دیں تو بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے لیکن اگر اس سے فائدہ نہ ہو تو ہا ئیوٹکس بھی استعمال کرنی چاہئے کیونکہ بائیو کس پیشاب کی نالیوں کی انفیکشن اور سوزش میں مفید ہے.ہائیو مس کی ایک علامت یہ ہے کہ پیٹ میں شدید مروڑ اٹھتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ درد کی شدت سے پیٹ پھٹ جائے گا.الٹیاں بھی آتی ہیں نیکی لگ جاتی ہے.مریض چینیں مارتا ہے، اسے چکر آتے ہیں اور معدے میں جلن کا احساس بھی ہوتا ہے.ایام حیض سے قبل عورتوں میں ہسٹیریائی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.شیخ ہوتا ہے.دوران حیض بھی عضلات میں اینٹھن ہوتی ہے.پسینہ بہت آتا ہے.چھاتی میں جکڑے جانے کا اور گھٹن کا احساس ہوتا ہے اور مریض آگے کو جھکتا ہے اور تکلیف کی شدت سے دہرا
ہائیو سمس 461 ہوا جاتا ہے.رات کے وقت خشک کھانسی اٹھتی ہے جو لیٹنے سے بڑھ جاتی ہے لیکن اٹھ کر بیٹھنے سے افاقہ ہوتا ہے.ہائی کس کے مریض کو رات سوتے ہوئے مرگی کے دورے پڑ جاتے ہیں.مشیخی کیفیت ہوتی ہے.پاؤں کی انگلیوں میں بھی اینٹھن ہوتی ہے.بچہ سوتے ہوئے روتا اور کراہتا ہے.مریض رات کو بہت بے چین ہوتا ہے اور اسے نیند نہیں آتی.جسم کا ہر بٹھا پھڑکتا ہے.مریض کپڑ الینا پسند نہیں کرتا.ہائیو مس کے مریض کی تکلیفیں رات کو سوتے میں اور کھانا کھانے کے بعد اور لیٹنے سے بڑھ جاتی ہیں.مریض تنہائی سے ڈرتا ہے.البتہ جھکنے سے تکلیف کی شدت میں کمی ہو جاتی ہے.دافع اثر دوائیں: کیمفر.بیلا ڈونا طاقت: 30 سے 1000 تک
462
اگنیشیا 463 117 اگنیشیا IGNATIA اگنیشیا غم کا اثر دور کرنے کے لئے چوٹی کی دوا ہے.اگنیشیا کا مزاج رکھنے والی عورتیں بہت حساس ہوتی ہیں، اپنی عادات و خصائل میں نہایت شائستہ اور لطیف احساسات کی مالک ہوتی ہیں مگر نہایت چھوٹی موٹی اور نازک مزاج ، غم یا صدمہ کا بہت گہرا اثر قبول کرتی ہیں.یہ اثر دل کی طرف منتقل ہوتا ہے اور بسا اوقات مختلف بیماریوں اور جسمانی عوارض میں تبدیل ہو جاتا ہے.اگنیشیا کا مزاج رکھنے والی عورت کا غم کے اثر سے دل کی مریض یا دماغی مریض بن جانا بعید از قیاس نہیں ہے.اسے بعض اوقات ہسٹیریا کے دورے بھی پڑنے لگتے ہیں.ایسی صورت میں اگنیشیا کو یا درکھنا چاہئے.اگنیشیا کی ایک ظاہری پہچان یہ ہے کہ اس کا مریض کافی (Coffce) نہیں پی سکتا.چونکہ اعصاب بہت زود حس اور لطیف ہوتے ہیں، کافی اس حس کو بڑھا دیتی ہے اور سخت تکلیف دہ ثابت ہوتی ہے.اس لئے کافی کے ایک دو گھونٹ بھرنا بھی اس کے لئے مشکل ہو جاتا ہے.اس کا مریض بہت جذباتی ہو جائے تو کھل کر غصہ نکالنے کے بجائے تنہائی میں کڑھتا رہے گا یا بہت افسردگی محسوس کرے گا.سٹیفی سیگریا کے مریض میں بھی غصہ دبانے کا رجحان پایا جاتا ہے لیکن جب صورت حال حد سے بڑھ جائے تو پھر اس سے پیدا ہونے والی گھٹن جسمانی عوارض میں تبدیل ہو جاتی ہے.اگنیشیا میں بھی یہی کیفیت ہوتی ہے.اگر اس کی مریض عورت کسی مجلس میں جائے اور وہاں اسے کوئی طعنہ دیا جائے یا اس کا مذاق اڑایا جائے تو وہ اسے خاموشی سے برداشت تو کر لے گی اور کوئی جواب نہیں دے گی لیکن گھر واپس آ کر اسے شدید سر درد ہوگا اور اعصابی تناؤ اور بے چینی محسوس ہوگی.ایسی کیفیت میں اگنیشیا کی ایک ہی خوراک اسے سکینت بخشے گی اور
اگنیشیا 464 اسے جذبات دبانے کے بداثرات سے محفوظ رکھے گی.اگنیشیا میں بچوں یا عزیزوں کی وفات کا صدمہ بہت شدت سے محسوس ہوتا ہے اور دور رس گہرے بداثرات باقی رہ جاتے ہیں.ان سب میں اگنیشیا مفید ثابت ہوسکتی ہے لیکن میرا تجربہ ہے کہ غم اور صدمہ تازہ ہوں تو یہ بہت مفید ہے اور غم کے باقی رہنے والے بداثرات سے بھی بچاتی ہے.ہاں اگر جسمانی عوارض کو پیدا ہوئے دیر ہو جائے تو پھر یہ مفید نہیں رہتی.اگر غم کے بداثرات جسم کا حصہ بن چکے ہوں تو ان میں تین دوسری دوائیں یعنی ایمبر اگر یسا سلیشیا اور نیٹرم میور بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں.بعض اوقات مریضہ نروس (Nervous) ہو تو وہ کا نپتی ہے اور اعصاب جھرجھری سی محسوس کرتے ہیں.یہ کیفیت بڑھ کر تشنج میں تبدیل ہو جاتی ہے اور مریضہ بے ہوش ہو جاتی ہے جیسے ہسٹیریا کی مریضہ ہو.یہ بے ہوشی مرگی کی علامت نہیں ہے بلکہ ایسی عورتوں میں بے ہوشی کا دورہ پڑنا ان کی اعصابی کمزوری کی علامت ہوا کرتا ہے.اس بے ہوشی میں مرگی کی دوسری علامتیں موجود نہیں ہوتیں.غم یا خوف وغیرہ کے اثرات کی شدت کے وقت جو بے ہوشی ہوتی ہے وہ اعصابی کمزوری کی بے ہوشی ہے.گرم ممالک میں ہجوم اور جمگھٹے میں کئی عورتیں بے ہوش ہو جاتی ہیں.اگنیشیا میں غم کے نتیجہ میں ایسے اثرات ظاہر ہوتے ہیں جو مرگی کی علامتوں سے مشابہ ہوتے ہیں.اگنیشیا کی مریضہ میں مزاجی لحاظ سے یہ حیران کن بات پائی جاتی ہے کہ بعض دفعہ جب یہ توقع ہوتی ہے کہ اسے غصہ آ جائے گاوہ خوش ہوتی ہے اور خوشی کی بات پر اچانک ناراض ہو جاتی ہے.اسی طرح جسمانی عوارض میں بھی یہ تعجب انگیز بات دکھائی دیتی ہے کہ جوڑ سوج جانے سے سخت تناؤ ہو اور جلد پر سرخی اور تمازت ظاہر ہو جائیں تو اس کے باوجود مریضہ کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی.غرضیکہ جس مریضہ میں نفسیاتی عوارض یا جسمانی عوارض میں تضادات پائے جائیں ان کے لئے اگنیشیا ایک لازمی دوا ثابت ہوتی ہے.اگنیشیا کے مریض کے گلے میں تکلیف ہو تو نگلنے سے آرام آتا ہے.درد میں دباؤ سے آرام محسوس ہوتا ہے.جس کروٹ پر تکلیف ہو مریض اسی کروٹ پر لیٹے گا.
اگنیشیا 465 سر درد میں یوں لگتا ہے جیسے کسی نے میخ ٹھونک دی ہے جس طرف درد ہوا سے تکیہ میں زور سے دبانے سے کچھ آرام ملتا ہے.اگنیشیا میں قے بھی آتی ہے لیکن اس کا تعلق متلی سے نہیں ہوتا.کا کواس کی طرح اچانک تے بھی آجاتی ہے اور متلی بالکل محسوس نہیں ہوتا.اگلیڈیا میں یہ تعجب انگیز بات ہے کہ اگر متلی ہو تو سخت اور نا قابل ہضم چیزیں کھانے سے آرام آئے گا.نرم اور ہلکی غذا لینے سے تکلیف بڑھ جائے گی.اگر گلے میں خراش کی وجہ سے کھانسی آئے تو کھانسی تکلیف کو کم کرنے کی بجائے بڑھا دیتی ہے اور ایک دفعہ چھڑ جائے تو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی.اگر کھانسی کے عین درمیان اگنیشیا کی ایک خوراک دے دیں تو کھانسی فورا بند ہو جائے گی.یہاں اس کا اثر حیرت انگیز ہے.میرے تجربہ میں ہے کہ جب اگنیشیا فائدہ دے تو فوری اثر دکھاتی ہے.اگنیشیا کے مریض کو بعض دفعہ سانس کی نالی میں شیخ ہو جاتا ہے اور خرخراہٹ کی آواز آتی ہے.اس تشنج میں بھی اگنیشیا حیران کن اثر دکھاتی ہے.چند گولیاں منہ میں ڈالتے ہی فوری طور پر شیخ دور ہو جائے گا.پس اگنیشیا ہر معاملے میں تعجب کا پہلو رکھتی ہے.اثر میں بھی تعجب ہے اور بیماریوں کی عادات میں بھی تعجب پایا جاتا ہے.اگنیشیا کی مریضہ اکثر نا امید اور مایوس رہتی ہے.کسی سے ملنا جلنا پسند نہیں کرتی.یادداشت کمزور ہو جاتی ہے اور ہسٹیریا ہو جاتا ہے اور اس وہم کا شکار رہتی ہے کہ کچھ ہو جائے گا.عزیزوں کے مرنے کا خوف لاحق رہتا ہے.بعض دفعہ نظارے دیکھتی ہے.اگر ایسی مریضہ کو وقت پر اگنیشیا نہ دی جائے تو یہ کیفیت بڑھ کر پاگل پن میں بھی تبدیل ہو سکتی ہے.اگر ایک دفعہ مریضہ پاگل ہو جائے تو پھر اگنیشیا کام نہیں آئے گی.اس کی بجائے نیٹرم میور بہت بہتر کام کرتی ہے.اگنیشیا میں بعض اور دواؤں کی طرح مریضہ اس وہم میں بھی مبتلا ہو جاتی ہے کہ وہ سخت گناہ گار ہے اور اس کی بخشش کی کوئی صورت نہیں رہی.پلسٹیلا ، ہیلی بورس، آرم، ہائی کمس، لیکیس اور بعض دوسری دواؤں میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے.ور
اگنیشیا 466 اگنیشیا کے مریض کا جسم ٹھنڈا ہوتا ہے.اس کے باوجود ٹھنڈا پانی پینے کی خواہش رکھتا ہے.عام کھانے سے بے رغبتی ہو جاتی ہے.آرام سے سکون محسوس کرتا ہے.اگنیشیا میں نظر کی ہر قسم کی کمزوریاں پائی جاتی ہیں.آنکھوں کے سامنے دھبے دکھائی دیتے ہیں.ٹیڑھی میڑھی لکیریں آنکھوں کے سامنے جھلملاتی ہیں.نظر کمزور ہو جاتی ہے اور آنکھیں دکھتی ہیں.چہرے کا اعصابی درد بھی اگنیشیا کے دائرہ اثر میں ہے.عضلات پھڑ کتے ہیں، منہ کا ذائقہ ترش ہوتا ہے.غیر متوقع طور پر بے وقت پیاس لگتی ہے اور جب پیاس لگنی چاہئے اس وقت نہیں لگتی.اگنیشیا کے مریض سے کبھی بحث نہیں کرنی چاہئے کیونکہ وہ ثبت دلیل کے مقابل پر اوٹ پٹانگ بات کرے گا اور بحث کو بڑھاتا جائے گا.بہتر یہی ہے کہ اس سے کنارہ کشی کر لی جائے.اگنیشیا کے مریض کی نیند گہری نہیں ہوتی.سوتے ہی اعضاء میں جھٹکے لگتے ہیں یا غم اور فکر کے نتیجہ میں نیند اڑ جاتی ہے.بسا اوقات غم اور صدمہ کے نتیجہ میں ایسی مریضہ کا حیض بند ہو جاتا ہے یا نظام میں ستی پیدا ہو جاتی ہے.پیٹ اور معدہ میں شیخ اور درد ہوتا ہے.ہاتھ پاؤں میں جھٹکے لگتے ہیں.پاؤں اور ٹخنوں میں درد ہوتا ہے.اگنیشیا کی تکلیفیں صبح کے وقت اور کھلی ہوا میں بڑھ جاتی ہیں، کھانا کھاتے ہوئے ، آرام کرنے سے یا کروٹ بدلنے سے تکلیفوں میں کمی محسوس ہوتی ہے.مددگار دوائیں نیٹرم میور ،سلیشیا دافع اثر دوائیں: کیمومیلا، کاکس طاقت: 30 سے 200 تک
انسولین 467 118 انسولین INSULIN انسولین جسم میں شوگر کی مقدار کو اعتدال پر رکھنے والا قدرتی مادہ ہے جو لبلبہ (Pancreas) میں موجود ہوتا ہے.اس مادہ سے ہو میو پیتھی دوا بنائی گئی ہے.یہ دوا یا بیٹیس کے علاج میں بھی مفید پائی گئی ہے.اگر جسم کو انسولین پوری مقدار میں مل جائے تو اس سے شوگر کا توازن بحال ہو جاتا ہے.ہومیو پیتھک انسولین بھی ذیا بیطیس کی بعض مخصوص علامتیں رکھنے والے مریضوں میں مفید بتلائی گئی ہے اور اگر وہ اسے ٹھیک نہ کر سکے تو کم از کم ذیا بیطیس سے پیدا ہونے والے بداثرات کو مٹادیتی ہے.زخم ، چھالے، بیڈ سور، کار بنکل وغیرہ جو ذیا بیطس کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں ان میں اچھا اثر دکھاتی ہے.انتڑیوں کی مزمن تکلیفیں جن میں نرم اجابت کی طرف رجحان اور جگر کا بڑھا ہوا ہونا وغیرہ ، ان علامتوں میں بھی انسولین مفید ہوتی ہے.ایسا خارش والا ایگزیما جس میں جگر کی خرابی کی شکایت بھی موجود ہو اور کسی اور دوا سے آرام نہ آئے ، اس میں انسولین استعمال کرنی چاہئے.اسی طرح اگر مریض کو بار بار پیشاب آئے اور جلدی امراض پھوڑے پھنسیوں کا بھی رجحان ہو تو یہ دوا اکثر فائدہ دیتی ہے.اگر گردن کے غدودوں میں پیپ پڑنے کا رجحان ہو تو اس صورت میں تمہیں طاقت میں انسولین دی جاتی ہے.اگر خون میں شوگر موجود ہولیکن پیشاب میں نہ ہو تو انسولین مفید ہے.نقرس کی تکلیف میں بھی مفید بتائی گئی ہے.طاقت: 30
468
آیوڈم 469 119 آیوڈم IODUM آیوڈم بہت گرم مزاج دوا ہے.اس کا مریض بہت شدت سے گرمی محسوس کرتا ہے.اسے بے حد بھوک لگتی ہے لیکن بہت کھانے کے باوجود اس کا جسم دبلا پتلا رہتا ہے.بہت تیز طرار ہوتا ہے، نچلا نہیں بیٹھ سکتا، ادھر ادھر گھومتا رہتا ہے.جسم میں ہر جگہ غدود بڑھ جاتے ہیں اور بہت سخت ہو جاتے ہیں.یہ ختی کو نیم سے مشابہ ہوتی ہے.آیوڈین کا مریض سوکھے پن کے لحاظ سے ابراٹینم اور نیٹرم میور کی یاد دلاتا ہے لیکن یہ دونوں دوائیں ٹھنڈے مزاج کی ہیں..آیوڈم کے مریض کی بے چینی کا تعلق اعصابی گھبراہٹ سے ہوتا ہے.یہ گھبراہٹ آرسنک کی طرح کی نہیں ہوتی بلکہ اعصاب میں ضرورت سے زیادہ توانائی پائی جانے کی وجہ سے ہوتی ہے.چونکہ خوب کھاتا پیتا ہے اور چربی نہیں بنتی اس لئے جسم میں پیدا ہونے والی زائد توانائی اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتی.چنانچہ یہ مسلسل حرکت کرتا رہتا ہے اور بھاگ دوڑ کر اپنی طاقت خرچ کرتا ہے.اگر ایسے مریض کو زبر دستی بٹھانے کی کوشش کی جائے تو اس میں شدید غصے کے جذبات پیدا ہوتے ہیں.وہ مار دھاڑ اور قتل تک کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے.اگر ایسے مریض کا بچپن میں آیوڈین سے علاج نہ کیا جائے تو بڑا ہو کر نہایت خطر ناک مجرم بھی بن سکتا ہے اور بغیر کسی محرک کے قتل و غارت میں ملوث ہوسکتا ہے.گو نیٹرم میور اور ہپر سلف میں بھی تشد داور بلا وجہ قتل کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے لیکن ان کی دیگر علامتوں میں بہت فرق ہے.لیکس وامیکا میں بھی یہ خطرناک علامت پائی جاتی ہے کہ اس کی مریضہ کے دل میں بے اختیار یہ خواہش ابھرنے لگتی ہے کہ اپنے بچے کو آگ میں جھونک دے یا بے حد محبت ہونے کے باوجود خاوند کو موت کے
آیوڈم 470 گھاٹ اتار دے.پھر وہ اس ارادے سے سخت خوفزدہ بھی ہو جاتی ہے لیکن اسے رد نہیں کر سکتی اور یہ خیال سایہ کی طرح اس کے پیچھے لگا رہتا ہے.اگر مریضہ بہت خوفزدہ بھی ہو تو یہی علامتیں پاگل پن میں تبدیل ہو جاتی ہے.اگر مریض کی دیگر علامتیں آیوڈین کا تقاضا کرتی ہوں تو یہ دوا بہت مفید ثابت ہوگی.کالی آیوڈائیڈ میں بھی آیوڈین کی کچھ علامتیں پائی جاتی ہیں.اس کا مریض بہت چلتا ہے اور چلنے سے تھکتا نہیں.اگر کسی دن نہ چلے تو اعصاب میں تکلیف محسوس کرتا ہے.اس کے مزاج میں بھی گرمی پائی جاتی ہے.البتہ ایک فرق ہے کہ اس کے جسم میں گہرے زخم بن جاتے ہیں جو ناسور بننے کا رجحان رکھتے ہیں جبکہ آیوڈین میں غدودوں کے اندر کی سوزش اور ان کے سخت ہونے کی علامت پائی جاتی ہے.تپ دق کا رجحان بھی ملتا ہے.آیوڈین کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ سارے جسم کے غدود پھولنے لگتے ہیں اور سخت ہو جاتے ہیں لیکن عورتوں کی چھاتیوں کے غدود سکڑنے لگتے ہیں اور بالکل جھلی سی باقی رہ جاتی ہے.یہ اس کی ایک استثنائی علامت ہے ورنہ عموماً یہ ہوتا ہے کہ سارا جسم سوکھ رہا ہوتا ہے اور غدود بڑھ رہے ہوتے ہیں.اگر کسی کا جسم سوکھ رہا ہو اور اس کے ساتھ ساتھ غدود بڑھ رہے ہوں تو ایسے مریض کو آیوڈم کی ضرورت ہوتی ہے.اس میں غدود اور جسم بیک وقت موٹے نہیں ہوتے.عموماً پیٹ کے غدود بہت زیادہ پھول جاتے ہیں اور ان میں گانٹھیں نمودار ہو جاتی ہیں.بغلوں کے نیچے بھی غدود بڑے اور سخت ہو جاتے ہیں.چونکہ آیوڈم گرم مزاج کی دوا ہے اس لئے اس کی کھانسی بھی گرمی سے بڑھتی ہے چنا نچہ گرم کمرے میں جانے سے کھانسی کا دورہ پڑ جاتا ہے مگر آیوڈم کی پہچان کے لئے صرف یہی علامت کافی نہیں.باقی علامتیں بھی موجود ہونا ضروری ہیں.اس دوا میں جگر ، تلی اور گلے کی سوزش بھی ملتی ہے.عموماً ایسی سوزش اور غدودوں کی تکلیف کے نتیجہ میں مریض کو دست لگ جاتے ہیں.آیوڈم میں ہر جگہ دھڑکن پائی جاتی ہے.یہ علامت
آیوڈم 471 بیلاڈونا اور آیوڈم میں مشترک ہے.چونکہ آیوڈم گرم مزاج کی دوا ہے اس لئے اس کی ایپس (Apis) سے بھی مشابہت ہوتی ہے.یہ دونوں دوا ئیں گردوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں.ایپس کی طرح آیوڈم میں بھی آنکھ کے نیچے سوزش ہو جاتی ہے لیکن یہ سوزش صرف نچلے حصہ میں ہی محدود نہیں رہتی بلکہ اس سے آنکھوں کے چھپر بھی سوج جاتے ہیں.اگر پوری آنکھ میں سوزش ہو تو اس کے لئے فاسفورس بھی مفید ہے.اگر آنکھ کا صرف چھپر اور غلاف سوجے ہوں تو یہ کالی کارب کی علامت ہے.وہ مریض جو بی بیماریوں کے نتیجہ میں بالکل نڈھال ہو جائیں اور خون کی کمی کا شکار ہوں تو ان کی آنکھوں کے نیچے تھیلیاں سی لٹک جاتی ہیں اور وہ چھوٹی عمر میں ہی بوڑھے دکھائی دینے لگتے ہیں.ان کے لئے چینینم آرس (Chininum Ars) اور سار سپر یلا(Sarsaparilla) وغیرہ مفید ہوسکتی ہیں.علامات کو اچھی طرح سے پہچان کرد و تشخیص کرنی چاہئے.آیوڈم کے مریض کی ایک خاص پہچان یہ ہے کہ اسے بھوک بہت لگتی ہے.ہر بیماری میں بھوک بے چین رکھتی ہے اور بھوک کے دوران بیماری میں اضافہ ہو جاتا ہے.سورائینم میں بھی بھوک اور بیماری کا باہمی تعلق ہے لیکن سورا ئینم میں بھوک خصوص رات کے وقت چمکتی ہے اور اس کا مریض عموماً ٹھنڈا ہوتا ہے اس لئے ان دونوں دواؤں میں فرق کرنا مشکل نہیں ہے.آیوڈم کو گردوں کی بیماریوں میں بھی اہم مقام حاصل ہے.گردوں میں تکلیف کی وجہ سے ہاتھ پاؤں متورم ہو جاتے ہیں.اگر گردوں کی بیماری میں آیوڈم کو وقت پر دے دیا جائے تو مریض بہت سی نا قابل علاج اور تکلیف دہ بیماریوں سے بچ جاتا ہے.کالی آیوڈائیڈ (Kali Iod) بھی گردوں کے لئے مفید دوا ہے لیکن اس میں السر بننے کا رجحان ہوتا ہے جبکہ آیوڈم میں السر کا رجحان نہیں ہوتا.آیو ڈام میں اندرونی اعضاء خلا جگر، تلی بھی پھول کر سخت ہو جاتے ہیں اور سارا جسم سوکھ جاتا ہے اس کے باوجود بھوک بدستور موجود رہتی ہے لیکن آخر کار معدہ جواب دے جاتا ہے اور اسہال شروع ہو جاتے ہیں.وہ اسہال جن کاسل سے تعلق ہوتا ہے صبح
آیوڈم 472 کے وقت بڑھتے ہیں اور سلفر سے ٹھیک ہو جاتے ہیں.پھیپھڑوں کی سل بڑھ جائے تو قدرتی طور پر زہریلے مادوں کا اخراج اسہال کے ذریعے ہونے لگتا ہے.انہیں بند کر دیا جائے تو خطرناک نتائج نکلتے ہیں.اس لئے ان کا صحیح علاج ضروری ہے.ہومیو پیتھی طریقہ علاج میں سلفر کے ذریعہ علاج کرنے سے پھیپھڑوں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے اور اسہال بھی رک جاتے ہیں.ایسے مریضوں میں اگر صرف ان کے اسہال کا علاج کیا جائے تو نہایت خطرناک نتیجہ ظاہر ہوتا ہے اور پھیپھڑوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے.ایسی صورت میں اگر سلفر کام نہ دے تو آیوڈم بھی مفید دوا ہے لیکن علامتیں موجود ہوں تو مکمل شفا دینے کی صلاحیت رکھتی ہے.اس لئے یہ وقتی علاج نہیں ہے.اس کی بعض بیماریوں میں سلفر سے مشابہت پائی جاتی ہے جیسے منہ میں سفید چھالے اور زخم ہونا.ہر قسم کے چھالے اور زخم جو نزلاتی جھلیوں میں بنتے ہیں ان کا بھی آیوڈم سے بہترین علاج ہو سکتا ہے بشرطیکہ مریض مزاجی طور پر آیوڈم کا ہو.اس کا مریض گرم مزاج ہونے کے باوجود سردی لگ جانے سے نزلہ میں مبتلا ہو جاتا ہے اس کے لئے یہ ضروری شرط نہیں ہے کہ گرمی سے ہی نزلہ ہو.آیوڈم کے مریض کی نزلاتی جھلیاں جواب دے جاتی ہیں اس لئے معمولی بہانے سے بھی نزلہ ہوتا رہتا ہے.ناک میں مواد جم جاتا ہے جس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری پیش آتی ہے.ذراسی ٹھنڈ لگنے یا کھانے پینے میں بداحتیاطی سے نزلہ ہو جاتا ہے.نزلہ کی بعض دواؤں کا سردی اور گرمی سے تعلق ہے جو اپنی الگ علامتیں رکھتی ہیں اور آیوڈم سے ممتاز ہیں لیکن اگر ناک بند رہے اور ہر وقت نزلاتی کیفیت ہو.ناک سے خون نکلے اور اس کے ساتھ بھوک بھی بہت ہو تو ایسے مریض کے لئے خدا تعالیٰ کے فضل سے آیوڈم اس کی تمام بیماریوں میں شفا کا موجب بن جاتی ہے.آیوڈم رحم کی رسولیوں میں بھی اچھا اثر دکھاتی ہے.خصوصاً اگر اس کی دیگر علامتیں بھی موجود ہوں.اس میں لیکوریا گاڑھا اور تیز سوزش پیدا کرنے والا ہوتا.وجع المفاصل میں بھی مفید ہے.آیوڈم کے مریض کو ٹھنڈی ٹکور سے فائدہ ہوتا ہے.ہے.
آیوڈم 473 آیوڈم کی تکالیف خاموش رہنے محنت کرنے اور گرمی سے بڑھتی ہیں.کھانا کھانے سے اور کھانے کے بعد کچھ دیر تک آرام رہتا ہے.کھلی ہوا میں چہل قدمی سے افاقہ رہتا ہے.مددگار دوائیں لائیکوپوڈیم دافع اثر دوائیں: ہیپر سلف گریشولا.سلفر طاقت: 30 سے 200 تک
474
اپی کاک 475 120 اپی کاک IPECACUANHA (Ipecac-Root) اپی کاک ایک پودے کی جڑوں کو سکھا کر تیار کی جانے والی دوا ہے.ایلو پیتھی میں اسے قے لانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے جبکہ ہومیو پیتھی میں اپی کاک متلی اور قے دور کرنے کے لئے استعمال ہوتی ہے.مریض قے آنے کے بعد بھی متلی محسوس کرتا ہے.اپنی کاک ملیریا کی بہت اہم دوا ہے.ملیریا کا بھی متلی سے گہرا تعلق ہے اور اس کا معدے پر بھی حملہ ہوتا ہے.اس پہلو سے اپی کاک کا ملیریا سے طبعی تعلق ہے.اپی کاک کی ایک خاص پہچان یہ ہے کہ کمر میں سخت سردی محسوس ہوتی ہے اور سردی کی لہریں اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر جاتی ہیں.سردی کے علاوہ درد کی لہریں بھی یونہی اوپر سے نیچے یا نیچے سے اوپر کمر میں چلتی ہیں.اگر بچے کو ملیریا ہور ہا ہواور وہ یہ ساری باتیں بتا نہ سکے اور اپی کاک کی ضرورت ہو تو اس کی دو تین علامتیں نمایاں طور پر اپی کاک کی طرف اشارہ کریں گی.شدید سردی سے بدن کانپے گا اور دانت بجیں گے.اگر ایسے بچے میں اپی کاک کی دوسری علامتیں بھی ملیں تو ایسے ملیریا کے علاج کے لئے اسے اپنی کاک دینے میں دیر نہیں کرنی چاہیئے.معدے میں بھی کاٹنے والے در داٹھتے ہیں اور ان کی حرکت بائیں طرف سے دائیں طرف ہوتی ہے.یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے چاقو مار دیا ہو اور مریض حرکت نہیں کر سکتا بلکہ ساکت و جامد ہو جاتا ہے اور پھر ذرا سی دیر میں ہی درد ختم ہو جاتا ہے.وہ درد جو مستقل بیٹھ رہنے والے نہ ہوں بلکہ بجلی کے کوندوں کی طرح آئیں اور ایک دم مریض کو نڈھال کر کے چلے جائیں وہ اپی کاک سے تعلق رکھتے ہیں.
اپی کاک 476 اپی کاک کے ہر مرض میں متلی ضرور ہوتی ہے.کھانسی سے بھی متلی ہو جاتی ہے.اپی کاک جریان خون کی بہترین دوا ہے.اس میں یکدم بڑے زور سے خون نکلتا ہے.اپی کاک کے مریض میں جب بھی کہیں سے خون جاری ہو متلی بھی ضرور ہوتی ہے.مریض پیاس بالکل محسوس نہیں کرتا.بسا اوقات آرسنک کی طرح کمزوری اور بے چینی بھی پائی جاتی ہے لیکن اس کا مزاج دوسری باتوں میں آرسنک سے مختلف ہے.ہر تکلیف دورے کی شکل میں آتی ہے.کمزوری ہوگی تو کمزوری کا دورہ پڑے گا.سردی لگے گی تو دورے کی شکل میں آئے گی.خون بہنے کا بھی دورہ پڑے گا اور کچھ عرصہ کے بعد ختم ہو جائے گا.یہ دورے لمبے نہیں ہوتے.اس میں مستقل جاری رہنے والی اور آگے بڑھنے والی بیماریاں نہیں ہوتیں البتہ اس میں مرض کے تیزی سے بڑھنے کا امکان ہوتا ہے.جب بھی کوئی تکلیف شروع ہوتی ہے تو مرض تیزی سے بڑھتا ہے اور جلد ہی چھوڑ بھی دیتا ہے.اپی کاک کی اعصابی بیماریوں میں تشیخ پایا جاتا ہے.سیکوٹا اور ڈانسکور یا (Dioscorea) کی طرح اعصابی شیخ میں پیچھے کی طرف اکڑنے کا رجحان ملتا ہے.اپی کاک معدے کی بہت اچھی دواؤں میں سے ہے.اگر معدہ میں ہوا کا تناؤ محسوس ہو تو اپنی کاک مفید ہوتی ہے.ایسی پیچش جس میں پیٹ میں شدید بل پڑیں اور بار بار چانک حاجت محسوس ہو تو اس میں اپی کاک بہت کارآمد ہے.بچوں کی پیچش میں سبزی مائل آؤں آتی ہے.بعض دفعہ خون کی آمیزش بھی ہوتی ہے.متلی اور قے کا رجحان بھی ملتا ہے.ناف کے چاروں طرف ایسا درد جیسے کسی نے چٹکی بھر لی ہو.جسم اکڑ جاتا ہے.ان علامتوں میں اپی کاک مفید ہے.اپی کاک کا دمہ سے بھی گہرا تعلق ہے.اس کے دمہ کے مریض پر خون اور بھرے ہوئے چہرے والے ہوتے ہیں جبکہ اینٹی مونیم ٹارٹ کے دمہ کا مریض کمزور اور آخری لمحات پر پہنچا ہوا معلوم ہوتا ہے.لیکن یہ تقسیم لازمی نہیں ہے.اگر یہ انتظار کیا جائے کہ مریض اس آخری شکل تک پہنچے اور پھر اینٹی مونیم ٹارٹ استعمال کریں گے تو یہ درست
اپی کاک 477 نہیں.آغاز میں ہی جو علامتیں ظاہر ہو کر ان دونوں میں فرق کرتی ہیں انہیں پیش نظر رکھنا چاہئے.اپی کاک میں مرض جلد ہوگا اور تیزی سے بڑھے گا اور جلد ہی چہرے پر تمازت آ جائے گی لیکن اینٹی مونیم ٹارٹ میں اچھے بھلے کھیلتے ہوئے بچے کو سردی لگے تو آہستہ آہستہ کمزوری ہو گی اور دوسرے دن وہ مرض شروع ہو گا اور آہستہ آہستہ بڑھے گا اور پھر جب ایک دفعہ مرض قبضہ کرلے تو اپی کاک کے مقابل پر علامتیں بہت زیادہ سنگین ہوں گی اور مرض کے خلاف اندرونی دفاع بیدار نہیں ہو گا.اپی کاک میں مریض کا پورا جسم بیماری سے مقابلے کے لئے جد و جہد کرتا ہے لیکن اینٹی مونیم ٹارٹ کے مریض کا سینہ بلغم سے بھر جائے اور سانس لینے میں دقت ہو تو بھی بلغم کو باہر نکالنے کا رجحان نہیں ہوتا اور مریض بہت تیزی سے بیماری سے مغلوب ہو جاتا ہے.اگر شروع میں ہی اینٹی مونیم ٹارٹ کو پہچان لیں تو بلا تاخیر شروع کروا دینی چاہیئے.جب علامات بڑھ جائیں تو بہت خطرناک صورتحال ہو چکی ہوتی ہے.ان دونوں دواؤں میں ایک اور فرق یہ ہے کہ چونکہ متلی اپنی کاک کا خاصہ ہے اس لئے اگر متلی ہومگر قے نہ آئے تو اس صورت میں اپی کاک کے زیادہ امکانات ہیں.ہاں متلی کے بغیر یا معمولی متلی سے قے کا رجحان ہوتو یہ اینٹی مونیم ٹارٹ کی علامت ہے سوائے اس کے کہ سینہ بلغم سے بھرا ہوا ہو تو کمزوری کی وجہ سے اس کو باہر نکالنے کی طاقت ختم ہو جاتی ہے.رحم کی تکالیف میں بھی اپنی کاک مفید ہے.اگر بکثرت اور بہت زور سے سرخ رنگ کا خون بہے اور متلی بھی ہو تو اس میں اپی کاک اچھا اثر دکھاتی ہے.ایام حمل کی متلی میں بھی مفید ہے.وضع حمل کے بعد اگر پلیسنٹا (Placenta) کا کچھ مادہ رحم میں باقی رہ جائے اور مریض میں اپی کاک کی علامتیں ہوں تو اسے خارج کرنے میں یہ مددگار ہوگی.اس کے نتیجہ میں پر سوتی بخار ہوں تو اس کے لئے سلفر اور پائیر چینم کے ابواب کا مطالعہ کریں.اپی کاک کا نزلہ ناک میں جڑ پکڑ جاتا ہے.رات کے وقت ناک بند ہو جاتا ہے اور بہت چھینکیں آتی ہیں.نزلہ گلے اور چھاتی میں اترتا ہے جس سے سانس گھٹتا ہے اور درد
اپی کاک 478 بھی ہوتا ہے.دمہ کے آثار ظاہر ہو جاتے ہیں.جو نزلہ ناک سے شروع ہوکر گلے اور چھاتی میں اترے اور یوں محسوس ہو کہ دمہ ہو جائے گا تو اپی کاک دینے سے دمہ کا حملہ مل سکتا ہے.ٹکسالی کے نسخے عموماً نا واقف لوگوں کے لئے ہوتے ہیں لیکن ہر دفعہ علامات کے مطابق نسخہ سوچنا بھی مشکل کام ہوتا ہے.دمہ کا ہر حملہ گزر جانے کے بعد بیماری کا مزاج سمجھ کر مستقل علاج کریں.دمہ کے مریض کو کھانے پینے میں بہت احتیاط کرنی چاہئے.نزلہ اور گلا خراب ہونے سے بچنے کی ہرممکن کوشش کرنی چاہئے.گردوں میں الیکشن میں بھی شدید سردی لگتی ہے.اس لئے ابتدائی سردی کے وقت مریض کو ڈھانپ دیں اور گھونٹ گھونٹ گرم پانی پلائیں.بسا اوقات گردے کی انفیکشن سے پیدا ہونے والی علامات بالکل ملیریا کے آغاز کی علامتوں سے ملتی ہیں اس لئے علاج میں جلدی نہ کریں بلکہ وقتی سہارے کی دوائیں دیں اور جب خوب کھل کر ان دونوں میں امتیاز ظاہر ہو جائے تو پھر اصل بیماری کا علاج شروع کیا جائے.اپنی کاک کالی کھانسی میں بھی مفید ہے کیونکہ اس میں صبح کی علامت پائی جاتی ہے.اگر تشیع کے ساتھ سارا جسم اکڑ جائے، چہرہ سرخ ہو اور متلی بھی ہو تو ایسی صورت میں اپنی کاک غیر معمولی فائدہ پہنچاتی ہے.عموماً ایسی کیفیت میں بیلا ڈونا کا خیال آتا ہے لیکن پہلے اپی کاک دیں.انی کاک کا ٹیلس (Tetanus) کے تشیع سے بھی تعلق ہے.اپی کاک کی تکلیفیں گرم مرطوب موسم میں بڑھ جاتی ہیں.مددگار دوائیں کیو پرم.آرنیکا دافع اثر دوائیں چائنا ٹو بیکم.آرسنک طاقت: 30 سے 200 تک
آئرس ٹینکس 479 121 آئرس ٹینکس IRIS TENAX آئرس ٹینکس ایک پودے سے تیار کی جانے والی دوا ہے.1885ء میں ڈاکٹر جارج وگ نے اس دوا کی آزمائش کی اور اسے ایسے مریضوں پر استعمال کیا جنہیں آنتوں میں شدید درد اور سبز رنگ کی قے آنے کی شکایت تھی.آئرس ٹینکس ، آئرس در سیکولر (Iris Versicolor) سے ملتی جلتی دوا ہے لیکن دونوں میں فرق بھی ہے اور دونوں کی اپنی اپنی الگ خصوصیات بھی ہیں.آئرس ور سیکولر معدے کی کھٹاس اور تیزابیت کی بہترین دوا ہے جبکہ آئرس ٹینکس میں معدے کی کھٹاس تو پائی جاتی ہے لیکن اس تکلیف کے ساتھ گلے اور منہ میں بھی علامات ظاہر ہوتی ہیں.آئرس ٹینکس اپینڈے سائٹس (Appendicitis) کی بہترین دوا سمجھی جاتی ہے.لہذا اس کے فوائد کو محض اسی تکلیف تک محدود کر دیا گیا ہے حالانکہ یہ روز مرہ کی عام تکلیفوں میں بھی ایک کارآمد دوا ہے.آئرس ٹینکس میں منہ میں جلن کا احساس ہوتا ہے.زبان ، گلے اور منہ کی اندرونی جلد متاثر ہوتی ہے.گلا خشک ہو جاتا ہے اور ٹھنڈے پانی سے آرام نہیں آتا.جب یہ تکلیف بڑھتی ہے تو سر میں شدید درد ہونے لگتا ہے جو بسا اوقات دائیں طرف اپنا مقام بنا لیتا ہے مگر بائیں طرف بھی ہوتا ہے.اس کے ساتھ قے آتی ہے جس میں صفراوی مادہ نکلتا ہے.پیٹ میں شدید درد ہوتا ہے جس کے ساتھ کھچاؤ اور تناؤ کا احساس ہوتا ہے.شیخ بھی ہوتا ہے اور اسہال بھی شروع ہو جاتے ہیں.آئرس ٹینکس میں مریض اداس رہتا ہے.ہر بات کا صرف تاریک پہلو دیکھتا ہے.گھر سے دور ہو تو اعزہ واقارب کے لئے اداس ہو جاتا ہے اور واپس گھر آنے کی خواہش رکھتا ہے تا ہم اداسی کا یہ رجحان
آئرس ٹینکس 480 بعض دفعہ خوشی سے بھی بدل جاتا ہے لیکن پاگل پن کی علامتیں نہیں ہوتیں.موڈ بدل جاتا ہے.کبھی بشاشت محسوس کرتا ہے کبھی اداس ہو جاتا ہے.آدھی رات کو اداسی بڑھ جاتی ہے.کنپٹیوں میں درد ہوتا ہے.سر کی جلد میں جلن اور خارش ہوتی ہے.یہ عام خارش نہیں ہے بلکہ جلن کے ساتھ عارضی طور پر ہوتی ہے.یہ کوئی مستقل بیماری نہیں ہے.سر درد عموماً دائیں آنکھ پر اپنا مقام بناتا ہے.ہفتہ میں ایک دفعہ سردرد کا دورہ ہوتا ہے.کھٹی سبز رنگ کی قے آتی ہے.آنکھوں میں بھی خارش ہوتی ہے.چھن اور جلن کا احساس ہوتا ہے.بائیں طرف کے اوپر کے دانت میں درد ہوتا ہے.میرے خیال میں مذکورہ علامات کے ساتھ کسی بھی دانت میں درد ہو تو اسے استعمال کرنا چاہئے.آئرس ٹینکس میں اسہال بھی ہوتے ہیں.پیٹ کے نچلے حصہ میں درد اور شیخ ہوتا ہے.چونکہ اس دوا کا دائیں طرف سے نسبتاً زیادہ تعلق ہے اس لئے یہ انڈیکس کے لئے بھی بہترین دوا ہے.ڈاکٹروگ نے کہیں بھی اپنڈیکس کا ذکر نہیں کیا لیکن ان کے بعد اس دوا کی علامتوں کو پیش نظر رکھ کر بہت سے ایسے تجارب ہوئے جن سے اس دوا کو انڈیکس میں بہت مفید پایا گیا.میں نے آئرس ٹینکس کو آرنیکا اور برائیو نیا کے ساتھ 200 طاقت میں ملا کر اپنڈیکس کی تکلیفوں میں بارہا استعمال کیا ہے اور یہ بے حد مفید نسخہ ثابت ہوا ہے اور حیرت انگیز اثر دکھاتا ہے.اگر تشنجی علامات نمایاں ہوں تو برائیونیا کی بجائے بیلا ڈونا استعمال کرنی چاہئے.بسا اوقات اپینڈیکس کی وجہ سے بہت خطرناک صورت حال پیدا ہو جاتی ہے اور یہ تکلیف پیچیدگی اختیار کر لیتی ہے.یہ تینوں دوائیں مل کر اس صورت حال پر قابو پالیتی ہیں.مجھے اکثر اپنڈیکس کی تکلیف ہوا کرتی تھی.اس نسخہ سے میں ٹھیک ہو جاتا تھا.ایک دفعہ میں سفر میں تھا.آغاز سے ہی تکلیف کا احساس ہونے لگا.میں نے یہ تینوں دوائیں استعمال کیں.سفر میں ایک رات گزاری اور اگلے روز خود چار سو میل موٹر چلا کر کراچی پہنچا.درد قابو میں رہا.اگلے روز صبح مجھے ہسپتال لے جایا گیا.جب سرجن نے میرا معائنہ کیا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ اپنڈیکس جگہ جگہ سے
آئرس ٹینکس 481 پھٹ چکا تھا اور پیپ بہہ رہی تھی.ایسی خطرناک حالت تھی کہ بظاہر میرا زندہ رہنا اور پھر چار سو میل موٹر چلا کر ایسی حالت میں وہاں پہنچنا سر جن کے لئے ناقابل فہم تھا.اس کے بعد میرا اپریشن تو ہوا لیکن میں نے پنسلین کی بجائے اندر مال زخم کے لئے ہو میو پیتھک جراثیم کش دوائیں ہی استعمال کیں.ہومیواطباء اور مریضوں کو میرا مشورہ یہی ہے کہ ان تینوں دواؤں پر اتنا انحصار نہ کریں کہ باوجود اپریشن کی ضرورت کے اسے ٹالتے رہیں.اگر ایک دفعہ اپنڈیکس خراب ہو چکا ہو اور ہو میو پیتھک دواؤں سے اسے محض وقتی آرام ملتا ہوتو پھر اپریشن کروانا ہی بہتر ہے.اینڈ ٹیکس کا دورہ دن یا رات کے کسی بھی وقت ہوسکتا ہے.کتابوں میں عمومأرات کا وقت لکھا ہوا ہے لیکن میرا تجربہ ہے کہ وقت کی کوئی قید نہیں ہے.آئرس ٹینکس میں دردیں دائیں طرف سے شروع ہو کر سارے پیٹ میں پھیل جاتی ہیں.شدید قے کی طرف رجحان ہوتا ہے.آئرس ٹینکس میں صبح کے وقت جاگنے پر اور کھڑے ہونے پر معدہ ڈوبنے کا احساس ہوتا ہے، پیٹ میں شدید درد جو دائیں سے بائیں حرکت کرتا ہے.بسا اوقات رات کے وقت اسہال کی تکلیف ہوتی ہے اور آدھی رات کو شدید اسہال شروع ہو جاتے ہیں.اگر معدہ میں تیزابیت زیادہ ہو جائے تو بار بار پیشاب آنے لگتا ہے.کھلے پیشاب کے ساتھ جلن ہونے لگے اور بار بار حاجت ہو اور پیشاب کی رنگت نسواری ہو جائے تو یہ آئرس ٹینکس کی علامت ہے.آرسنک اور نیٹرم فاس بھی اس تکلیف میں مفید ہیں لیکن ان کی اپنی دیگر علامات کو پیش نظر رکھنا چاہئے.نیٹرم فاس میں پیشاب کے رنگ میں کچھ پیلا ہٹ ہوتی ہے.تیزابیت کے نتیجہ میں پیشاب کا پیلا ہو جانا اور دواؤں میں بھی ملتا ہے.تیزابیت کی وجہ سے بار بار پیشاب آئے تو بہت کمزوری ہو جاتی ہے.چلنا پھرنا دو بھر ہو جاتا ہے.ایسے مریضوں کو آئرس ٹینکس دینی چاہئے.آئرس ٹینکس کے مریض کو نیند نہیں آتی.صبح دردوں میں کمی کے باوجود کمزوری کی وجہ سے اٹھنا مشکل ہو جاتا ہے.طاقت: 30 سے 200 تک
482
آئرس و رسیکولر 483 122 آئرس ور سیکولر IRIS VERSICOLOR آئرس ور سیکولر معدے کی کھٹاس کے لئے بہترین دوا ہے.یہ انتڑیوں اور معدہ کی اندرونی جھلیوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے.اس میں درد شقیقہ کی تمام علامتیں پائی جاتی ہیں یعنی معدے کی کھٹاس متلی کا رجحان ، آدھے سر میں درد، جکڑن کا احساس وغیرہ وغیرہ.آئرس ور سیکولر میں کانوں کی علامتیں بھی بہت نمایاں ہوتی ہیں.کانوں میں شور اور بھنبھناہٹ کی آوازیں آتی ہیں اور رفتہ رفتہ بہرہ پن پیدا ہونے لگتا ہے.چونکہ یہ دوا کانوں پر اثر انداز ہوتی ہے اس لئے وہ چکر جو کان کی خرابی کی وجہ سے آتے ہیں ان میں بھی یہ مفید ثابت ہوتی ہے.عموماً ایسی کیفیت میں کا کولکس بہت اچھا اثر کرتی ہے لیکن اگر کام نہ کرے تو آئرس ور سیکولر کو بھی یاد رکھیں.یہ بھی کان کے پردہ کی خرابی اور اس میں موجود مائع کا توازن بگڑنے کی وجہ سے آنے والے چکروں کے لئے بہترین دوا ہے.معدہ کی خرابی کی وجہ سے جو چکر آتے ہیں ان میں نکس وامیکا اور برائیو نیا مفید ہے.ناشتے کے بعد چہرہ پر اعصابی درد، زبان اور منہ کے اندر جلنے کا احساس، لعاب دہن کوکس (Coccus) کی طرح ریشے دار اور تیزاب کی زیادتی کی وجہ سے اوپر سے لے کر نیچے تک تمام نظام ہضم میں جلن پائی جاتی ہے.پیٹ میں بہت ہوا بنتی ہے.جس کی وجہ سے درد کا دورہ جاتا ہے.کبھی قبض اور کبھی اسہال شروع ہو جاتے ہیں.ہر پیز (Herpes) میں بھی یہ مفید پڑ جاتا.دوا ہے بشرطیکہ معدے کی خرابی سے اس کا تعلق ہو.اس میں ہر قسم کی جلدی امراض بھی پائی جاتی ہیں لیکن محض جلدی امراض کی
آئرس و رسیکولر 484 علامتوں کے ذریعہ اس کی پہچان ممکن نہیں.اسے زیادہ تر معدے کی علامتوں سے پہچانا جاتا ہے.اس کی تکلیفیں رات کو آرام کرتے ہوئے بڑھ جاتی ہیں.حرکت سے کم ہوتی ہیں.نکس وامی کا اس کی مصلح دوا ہے.دافع اثر دوائیں نکس وامیکا طاقت 30 سے 200 تک
کالی بائیکروم 485 123 کالی بائیکروم KALI BICHROMICUM (Bichromate of Potash) کالی بائیکروم کا ہوا کی نالی اور ناک کی بلغمی جھلیوں سے گہرا تعلق ہے اس میں کالی کارب، کالی آیوڈائیڈ اور کالی سلف کے ساتھ یہ بات مشترک ہے کہ بیماری اور درد کا احساس جسم کے بعض حصوں میں محدود دائروں میں ملتا ہے.بعض دفعہ اتنی تھوڑی سی جگہ میں بیماری سمٹ جاتی ہے کہ وہ جگہ ایک انگوٹھے کے نیچے آ سکتی ہے.نزلہ بھی ناک کے اندر کسی معین جگہ درد کے احساس سے شروع ہوتا ہے اور اس کا آغاز عموماًبا ئیں طرف سے ہوتا ہے.اس دوا کی یہ دونوں علامتیں قطعی طور پر مجرب اور بہت نمایاں ہیں.مجھے بھی کسی زمانہ میں سردرد کسی خاص جگہ مثلاً کنپٹی کے ایک نقطہ پر زیادہ شدت سے محسوس ہوتا تھا اور انگوٹھے سے دبانے سے آرام آتا تھا.اسی طرح نزلہ بھی بائیں نتھنے میں ایک چھوٹے سے مقام پر درد کے احساس سے شروع ہوتا تھا.ان دونوں تکلیفوں کو کالی بائیکروم کے استعمال سے آرام آ گیا.کالی کا رب میں درد اور بیماری کے مقامات نسبتاً بڑے دائروں میں پائے جاتے ہیں.کالی بائیکروم میں دھڑکنیں بہت ہوتی ہیں.سر سے پاؤں تک ہر جگہ دھڑکنے کی علامت ملتی ہے.حکمیہ پر جس کروٹ سر رکھیں وہیں دھڑکن محسوس ہوتی ہے اور نیند نہیں آتی.یہ پوٹاشیم کے نمکیات کی خاص نشانی ہے کہ سارے جسم میں دھڑکنیں پائی جاتی ہیں مگر کالی بائیکروم کی یہ علامت بہت نمایاں ہے.ہڈیوں میں ایسے درد کا احساس ہونے لگتا ہے جیسے رگڑ لگ گئی ہو اور مارا پیٹا گیا ہو.یو پیوریم (Eupatorium) میں جسم کی ساری ہڈیاں اندر تک دکھتی ہیں مگر کالی بائیکروم
486 کالی بائیکروم میں ہڈیوں کی صرف سطح پر دکھن اور رگڑ کا احساس ہوتا ہے.کالی بائیکروم میں نزلاتی تکلیفیں جوڑوں کی اعصابی تکالیف سے اولتی بدلتی رہتی ہیں.مگر بائی کے ان دردوں کا بہت احتیاط سے علاج کرنا چاہئے.اگر کسی تیز دوا سے ٹھیک کر دی جائیں تو فائدہ کی بجائے نقصان ہو جاتا ہے اور زیادہ خطر ناک بیماری گھیر لیتی ہے.کالی بائیکر وم بھی بائی کی دردوں کی دوا ہے.یہ ان مریضوں پر استعمال کرنی چاہئے جن کے جسمانی درد ٹھیک ہوتے ہیں تو نزلاتی تکلیفیں شروع ہو جاتی ہیں.اور نزلے کو کسی وقتی اور فوری دوا سے آرام دیں جو مرض کی اصل دوا نہ ہو تو اس کے نتیجہ میں بائی کی دردمیں دوبارہ اٹھ کھڑی ہوں گی.جہاں بھی یہ ادل بدل پایا جائے وہاں کالی بائیکرو و یا درکھیں.کالی بائیکر وم خناق (Diphtheria - دفتھیر یا ) کی بھی اچھی دوا ہے مگر میوریٹک ایسڈ (Muriatic Acid) کا مقابلہ نہیں جو خناق کی اولین دوا ہے اور انتہائی کمزوری کو بھی دور کرتی ہے.عموماً پوٹاشیم کے سب نمکیات میں کمزوری کا بہت احساس پایا جاتا ہے.مثلاً کالی فاس اعصابی طاقت کے لئے استعمال کی جاتی ہے اور اسی طرح کالی کارب کے بالمثل استعمال سے بدن اور عضلات میں نئی جان پڑ جاتی ہے.ٹانگیں ہلکی ہو جاتی ہیں اور اٹھنے بیٹھنے میں آسانی ہو جاتی ہے.کالی بائیکروم بھی یہی مزاج رکھتی ہے.اگر مریض کالی بائیکروم کا ہو تو دوا کھاتے ہی جسم ہلکا پھلکا ہو جائے گا.پوٹاشیم کے تمام نمکیات عضلات اور اعصاب کے لئے مقوی(Tonic) کے طور پر مفید ہیں.ان سب نمکیات میں زخم بنے کا رجحان پایا جاتا ہے.معدہ میں تیزا بیت زیادہ ہو جائے تو زخم بننے لگتے ہیں.انتڑیوں میں یا کہیں اور زخم یا نا سور پائے جائیں تو یہ معلوم کرنا چاہئے کہ مریض کی علامات کسی پوٹاشیم کے نمک سے تو نہیں ملتیں.ایک مریض کے پاؤں پر بہت گہرا اور پرانا ناسور تھا.اسے میں نے کالی آیوڈائیڈ دی تو دیکھتے ہی دیکھتے وہ ناسور غائب ہو گیا.اس سے پہلے وہ بہترین فوجی ہسپتالوں میں داخل ہو کر علاج کروا چکا تھا.میں نے محض اس لئے یہ دوا تجویز کی تھی کہ اس کی باقی علامات پوٹاشیم سے ملتی تھیں.کالی بائیکروم معدے کی تکلیفوں میں بھی بہت مفید ہے.معدے میں ناسور اور
کالی بائیکروم 487 کینسر کی بیماریاں بیک وقت کسی ایک مریض میں شاذ ہی ہوسکتی ہیں یا وہ کینسر کا مریض ہوگا یا ناسوروں کا.کالی بائیکروم کا مریض معدے کے ناسوروں کا مریض ہوتا ہے.معدے کی تکلیفوں میں کالی بائیکروم کی علامتیں ملتی ہوں تو فوراً اسے شروع کروادینا چاہئے تا کہ بیماری سنگین صورت نہ اختیار کر سکے.کالی بائیکر وم کے زخم بہت گہرے اور ان کے کنارے ابھرے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہ کوئی ممتاز کرنے والی علامت نہیں، بعض اور دواؤں میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے.کالی بائیکروم میں ایک علامت کا سٹیکم سے ملتی ہے یعنی بعض اوقات چلتے پھرتے یا اٹھتے بیٹھتے گھٹنوں سے آوازیں نکلتی ہیں جو تکلیف نہ بھی دیں تو ذہنی الجھن ضرور پیدا کرتی ہیں.کاسٹیکم اس میں چوٹی کی دوا شمار کی جاتی ہے.کالی بائیکروم بھی اس کی ہم پلہ دوا ہے.مگر اس میں جلن کا احساس پایا جاتا ہے اور سردی بھی محسوس ہوتی ہے.سردی اور جلن پوٹاشیم کے نمکیات میں بیک وقت پائی جاتی ہیں.کالی بائیکروم میں بیلاڈونا سے مشابہ ایک خصوصیت پائی جاتی ہے وہ یہ کہ بیلاڈونا میں بیماری کی علامتیں تیزی سے پیدا ہوتی ہیں اور تیزی سے ختم ہو جاتی ہیں.کالی بائیکروم کی بیماریوں میں بھی تیزی سے علامتیں پیدا ہوتی ہیں اور تیزی سے ہی ختم ہو جاتی ہیں.تعفن کے بخار میں بھی کالی بائیکروم کافی مفید دوا ہے.جسم ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے مریض بستر میں لحاف اوڑھ کر لیٹنے سے آرام محسوس کرتا ہے.رات کے پچھلے پہر مرض میں شدت پیدا ہو جاتی ہے.جس وقت کوئی مرض بڑھے، اگلے روز بھی اسی وقت اس میں جوش پیدا ہو گا.کالی بائیکر وم مرگی کے مرض کو دور کرنے میں بھی شہرت رکھتی ہے.اگر مرگی کے مریض کے منہ سے دھاگے دار تھوک نکلے تو یہ کالی بائیکر وم کی علامت ہے.کالی بائیکروم کے سردرد میں گرم مشروب سے آرام آتا ہے.رات کو درد میں اضافہ ہوتا ہے جو آدھی رات کے کچھ دیر بعد بہت زیادہ شدت اختیار کر جاتا ہے.
کالی بائیکروم 488 آنکھ سے دھاگے دار مواد نکلے تو اس میں بھی کالی بائیکروم بہت اچھی دوا ہے کیونکہ یہ آنکھوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے.کالی بائیکروم میں اکثر درد بائیں طرف ہوتے ہیں لیکن دائیں طرف بھی ہو سکتے ہیں.زیادہ تر سردرد اور چہرے کا اعصابی درد بائیں طرف ہی رہتا ہے.سردرد کے ساتھ متلی بھی ہوتی ہے.چند دنوں کے وقفہ سے درد عود کر آتا ہے.یہ درد شقیقہ کے لئے بھی اچھی دوا ہے.کالی بائیکروم سر کے ایگزیما کے لئے بہت اچھی ہے.لیکن اگر ایگزیما میں سر کے زخموں سے زرد رنگ کا مواد خارج ہو اور چھلکے اتریں جن سے بہت بد بو آتی ہو تو یہ اولین طور پر میزیرم (Mezereum) کی علامات ہیں.کالی بائیکروم میں میز یرم کی ایک اور علامت بھی پائی جاتی ہے کہ اگر ناک کی علامات ٹھیک ہو جائیں تو ایگزیما ہو جاتا ہے، ایگزیما ٹھیک ہو تو نزلہ شروع ہو جاتا ہے.کالی بائیکروم میں ناک کے اندر گہرائی میں ایک خاص مقام ہوتا ہے جہاں سے نزلہ شروع ہوتا ہے.گلے اور ناک کے جوڑ کے پاس جراثیم کی کمین گاہ بن جاتی ہے اور پھر ناک اور گلے سے اچانک نا قابل برداشت بدبو کے بھبھکے اٹھتے ہیں.ان علامات میں کالی بائیکر وم اور میز برم مشترک ہیں لیکن میز یرم کا دائرہ اثر محدود ہے.وہ اسی حصہ میں رہتی ہے لیکن کالی بائیکروم تمام جسم پر اثر انداز ہوتی ہے.میز یرم کے ساتھ گرمی اور سردی کی علامات نہیں ہوتیں.کالی بائیکر وم آنکھوں کی تکلیف کے لئے بھی بہت مفید ہے.روشنی سے تکلیف کا بڑھنا،آنکھوں کے سامنے مختلف رنگوں کے دھبے ،نظر کا دھندلا جانا ، آنکھوں کے پردے کی تکلیفیں، کورنیا میں السر (Ulcer) ان سب کے لئے کالی بائیکر وم بہت مفید ہے.اس کے زخم میں دھڑکن کا احساس ہوتا ہے.آنکھ کے السر میں دھڑکن بہت تکلیف دیتی ہے اس لئے فوراً کالی بائیکروم دینی چاہئے.یہ بہت زوداثر اور کارآمد دوا ہے.آنکھ کے چھپر پر چھوٹے چھوٹے زخم بن جائیں یا جھلی پھول کر لٹک جائے.آنکھیں سرخ رہنے
کالی بائیکروم لگیں تب بھی یہ مؤثر ہے.489 کالی بائیکروم میں کان ، ناک، جبڑوں اور ہونٹ وغیرہ یعنی تمام چہرے کی مشتر کہ علامات کانوں سے بھی چپکنے والا مواد نکلتا ہے.کان میں بھی دھڑکن کا احساس ملتا ہے.اگر یہ مزمن ہو جائے تو کان کے پردے میں سوراخ ہو جاتے ہیں.قوت شامہ بھی کمزور پڑ جاتی ہے.ناک میں مواد جم جائے تو دردبھی ہوتا ہے اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے.نمی سے تکلیفیں بڑھتی ہیں.عام تیز کاٹنے والا مواد ناک سے بہتا ہے.اگر نزلہ مزمن ہو جائے تو ناک کے نتھنوں کے درمیان والی ہڈی میں سوراخ ہو جاتے ہیں.ایک عجیب علامت یہ بھی ہے کہ اگر اس ہڈی پر نزلہ کا مواد جم کر سخت ہو جائے تو اسے کھرچنے سے آنکھ کی بینائی پر اثر پڑتا ہے.پیشانی اور آنکھوں میں درد ہوتا ہے.ناک سے خون بہنے لگتا ہے.داڑھوں میں کھانسی کی وجہ سے درد ہوتا ہے.سردرد اور نزلاتی تکلیفوں میں جس طرف بھی درد ہو اس طرف کی نچلی داڑھوں میں درد کا ایسا احساس ہوگا گویا کہ درد کی اصل جڑ یہی ہے.یہ درد دراصل اعصابی ریشوں میں ہوتا ہے جو داڑھوں میں محسوس ہوتا ہے.ہونٹوں کے ناسور اور زخموں کے لئے بھی کالی بائیکروم مفید دوا ہے.سسٹس (Cistus) بھی ہونٹوں کے زخموں کے لئے مفید ہے خصوصاً نچلے ہونٹ کے السر میں فائدہ دیتی ہے.ڈلک مارا دونوں ہونٹوں کے السر میں مفید ہے اور جلد کی بیماریوں میں بھی مفید ہے خصوصاً وہ بیماریاں جو تیزی سے پھیلتی ہیں.Pyretic Glands کے لئے بھی مفید ہے.کالی بائیکروم میں ناک سے خون نکلتا ہے.ناک کی باریک جھلیوں میں گومڑ سے بن جاتے ہیں.چہرے کی جلد اور اندرونی جھلیوں کے دق میں بھی بہت مفید دوا ہے اور ان دونوں بیماریوں میں خدا کے فضل سے شافی ثابت ہوئی ہے.کالی بائیکروم میں زبان پر تہہ ہی جم جاتی ہے.اگلے حصہ پر سفیدی اور پچھلے حصہ پر
490 کالی بائیکروم زردی پائی جاتی ہے.زبان کہیں کہیں سے میلی ہوتی ہے اور اس بیماری کی ایک خاص چمک سی ہوتی ہے جو عام صحت مند زبان پر دکھائی نہیں دیتی.بعض دفعہ زبان کے اندر گلے کی نالی کے قریب چھوٹے چھوٹے ابھار بن جاتے ہیں جو سٹرابری (Strawberry) کی طرح کی شکل اور رنگت رکھتے ہیں اور ان کا کھردرا پن گلے کو محسوس ہوتا ہے.زبان کے السر میں بھی بہت مفید دوا ہے.دانتوں کی جڑوں اور گالوں کے اندرونی حصوں میں بھی السر بننے کا رجحان ہوتا ہے.گلے کی سوزش کے ساتھ زخم بن جاتے ہیں اور گلے کا درد ناک کی نالی اور نچلی جھلیوں میں بھی پھیل جاتا ہے.اس کا درد عموماً ایک جگہ تک ہی محدود ہوتا ہے مگر گلے کی دکھن کا احساس وسیع دائرہ میں پھیل جاتا ہے.کالی بائیکروم کی ورموں سے ملتی جلتی ورموں کی دیگر نمایاں دوائیں یہ ہیں.لیکیس، کالی آیوڈائیڈ، نائیٹرک ایسڈ ، فاسفورس اور سلفیورک ایسڈ.کالی بائیکر دوم میں السر بننے کا رجحان بہت زیادہ ہوتا ہے.گلے کے غدود پھول جائیں تو درد کے علاوہ اتنے متورم ہو جاتے ہیں کہ گلے کے باہر گردن پر بھی ورم نمایاں ہو جاتی ہے اور سرخی بھی پائی جاتی ہے.گلے میں بال کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے.ٹیر مینٹولا میں بھی ہر جگہ اس قسم کے احساسات پائے جاتے ہیں.ہیپر سلف میں کسی چیز کے چپکنے کا احساس پایا جاتا ہے.زبان کی جڑ کے قریب علامات سمٹ جاتی ہیں اور بہت شدید درد ہوتا ہے.وہاں ایسے زخم ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے.متلی اور قے کا رجحان:-قے میں غیر ہضم شدہ خوراک نکلتی ہے جس میں صفراء کے علاوہ خون کی آمیزش بھی ہوتی ہے.بلغم بھی نکلتی ہے جو لیس دار دھاگے کی طرح ہوتی ہے.ہے.شراب کے رسیا لوگوں کی متلی کے لئے یہ چوٹی کی دوا بیان کی جاتی کالی بائیکروم بڑی آنت کے زخموں یعنی Ulcerative Colitis میں بھی فائدہ مند ہوسکتی ہے.یہ بہت ضدی بیماری ہے.ابھی تک اس کا نمایاں طور پر مؤثر علاج دریافت نہیں ہو سکا.معدے کے نزلہ میں بھی کالی بائیکر وم مفید ہے.سردی لگنے سے معدہ میں کمزوری اور نقاہت کا احساس ہوتا ہے اور اخراجات میں بلغم پیدا ہونے لگتی ہے اور
کالی بائیکروم 491 طبیعت بدمزہ ہو جاتی ہے.کالی بائیکروم میں درد جگر سے کندھوں کی طرف حرکت کرتا ہے.یہ ایک خطرناک علامت ہے.جگر اور پتے کے کینسر میں یہ علامت ملتی ہے اور مریض کند ھے میں شدید درد کی شکایت کرتا ہے اس صورت حال میں کالی بائیکروم کو استعمال کرنا چاہئے.یہ بھی ان تکلیفوں میں کام آتی ہے جن کا پتے کی پتھری سے تعلق ہو.پتے کی پتھری اور جگر کا کینسرل کر کندھے میں درد پیدا کر دیتے ہیں.یہ عجیب قسم کا تکلیف دہ درد ہوتا ہے.جس کا کندھے کے عضلات سے براہ راست کوئی تعلق نہیں.کالی بائیکر وم پتے کی پتھری اور جگر کی تکلیفوں میں بلا تاخیر شروع کروانی چاہئے.اس کے اثر سے بسا اوقات پتے کی پتھریاں گھلنے لگتی ہیں اور آپریشن کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی.صفراء میں خرابی پیدا ہو جائے تو پتے میں پتھری بنتی ہے.اگر صفراء میں خشکی پیدا ہو جائے اور بہت چھوٹی چھوٹی گٹھلیاں بنے لگیں تو وہ پتے میں جا کر پتھریاں بنادیتی ہیں.اگر صفراء کے کیمیائی مادے متوازن ہو جائیں تو وہ ایسی بنی ہوئی پتھر یوں کو پھر سے تحلیل کر دیتے ہیں.میرے پاس پتے کی پتھریوں کے بہت مریض آتے ہیں.چونکہ میرے پاس اتنا وقت نہیں کہ ہر ایک کی علیحدہ علیحدہ تشخیص کر سکوں اس لئے کسی ایک دوا کی بجائے ایک مرکب نسخہ استعمال کرواتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثر مریضوں میں انتہائی کامیاب ثابت ہوا ہے.اس کا ایک جزو کالی بائیکروم بھی ہے.یہ نسخہ حسب ذیل ہے.کالی بائیکروم، لائیکوپوڈیم، کولیسٹرینم، نیٹرم سلف 30 طاقت میں ملا کر دیں.علاوہ ازیں تشیخ کو فوراً دور کرنے کے لئے میگ فاس، کولوسنتھ اور ڈانسکوریا کا مرکب 30 طاقت میں مددگار کے طور پر استعمال کرایا جاسکتا ہے.اس کے علاوہ جرمنی میں ایک دو ملتی ہے جو بعض جڑی بوٹیوں سے بنائی گئی ہے اس کا نام او سپاٹیل (Ospafell) ہے.یہ بھی پتے کی پتھری کو تحلیل کرنے میں بڑی شہرت رکھتی ہے.یہ دوا اگر ہومیو پیتھک نسخہ کے ساتھ مددگار کے طور پر استعمال کی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں اور اگر نہ بھی کی جائے تو مذکورہ نسخہ بہر حال کارآمد ثابت ہوتا ہے.
کالی بائیکروم 492 کالی بائیکروم میں اسہال اور اجابت کے وقت درد ہوتا ہے یا حرکت سے درد ہوتا ہے.اجابت کے وقت انتڑیوں میں ہونے والی حرکت سے جگر میں ٹانکہ بھرنے کی طرح کا چھنے والا درد ہوتا ہے.تلی میں بھی چھن کا احساس ہوتا ہے.پیٹ میں بہت ہوا پیدا ہوتی ہے اور فتح کی علامات ظاہر ہو جاتی ہیں.جسم میں ہلکے ہلکے درد کا احساس رہتا ہے،انتڑیوں میں دکھن ہوتی ہے.اسہال سے قبل معدے میں کمزوری اور ڈوبنے کا احساس پیدا ہوتا ہے.متلی کے ساتھ قے ہونے لگتی ہے پھر اسہال شروع ہو جاتے ہیں.کالی بائیکر وم میں اسی ترتیب سے یہ علامتیں پیدا ہوتی ہیں.سلفر کی طرح صبح کے وقت اسہال شروع ہوتے ہیں.ایسے اسہال میں جن کا رنگ مٹیالا ہو کالی بائیکروم بہت کام کرتی ہے.کالی بائیکروم کی بائی کی دردیں بعض دفعہ نزلے کی بجائے پیچش سے اولتی بدلتی ہیں اور پیچش لگنے پر مریض کا بدن ہلکا ہو جاتا ہے.حاجت سے پہلے اور رفع حاجت کے دوران درد ہوتا ہے اور فراغت کے بعد بھی بل پڑتا ہے کانچ بھی باہر نکل آتی ہے.بواسیر کے مسے بھی باہر نکل آتے ہیں اور بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں.کمر میں درد کے ساتھ پیشاب میں خون آتا ہو تو کالی بائیکروم کو بھی یاد رکھنا چاہئے.پیشاب میں دھاگے دار رطوبت بھی نکلتی ہے.پیشاب سے پہلے کمر کی دمچی میں درد ہوتا ہے.یہ کالی بائیکر وم کی خاص علامت ہے.کالی بائیکروم کی مریض عورتوں میں گرمیوں میں رحم کی تکالیف بڑھ جاتی ہیں.حیض میں تیزابیت اور جلن پائی جاتی ہے.وقت سے پہلے خون جاری ہو جاتا ہے.بچوں کو دودھ پلاتے ہوئے دودھ کے دھاگے بنے لگیں تو کالی بائیکر وم خاص طور پر یا در کھنے کے لائق دوا ہے.اگر دودھ میں دہی کی طرح پھٹکیاں بنے لگیں تو اس کے لئے فائٹولا کا (Phytolacca) بہترین دوا ہے جو حمل کی متلی میں بھی فائدہ مند ہے.اگر کسی کی آواز مستقل بیٹھ جائے تو اس کے لئے کالی بائیکر وم بہت اچھی دوا ہے.نرخرے میں خرخراہٹ کی آوازیں آئیں اور بلغم چمٹی رہے تو کالی بائیکروم سے فائدہ
کالی بائیکروم 493 ہوتا ہے.عمومادمہ میں ایسی آواز میں نکلتی ہیں.کیونکہ نالیاں سکڑ جاتی ہے اور شیخ بھی ہوتا ہے اس لئے خرخراہٹ ہوتی ہے.کالی کھانسی کے لئے بھی یہ مفید ہے.کالی بائیکروم کی نزلاتی تکلیفیں سردیوں کے نمدار موسم میں زیادہ ہو جاتی ہیں.گرمیوں میں برسات کے موسم میں اسہال لگ جاتے ہیں.بستر میں لیٹ کر آرام محسوس ہوتا ہے.کالی بائیکروم میں بلغم سبزی مائل ہوتی ہے.بلغم کے ساتھ خون کے لوتھڑے بھی آنے لگتے ہیں.پھیپھڑوں کی وق میں کالی بائیکر دوم اور کالی کا رب بہت مفید دوائیں ہیں.پوٹاشیم کے نمکیات کا پھیپھڑوں میں سوراخ واقع ہونے اور ان سے خون کے اخراج سے بہت گہرا تعلق ہے.کالی بائیکروم میں کالی کارب اور اپی کاک کی طرح پیٹھ میں سردی کا احساس ہوتا ہے.البتہ کالی کا رب میں سردی کا یہ احساس پیٹھ کے نچلے حصہ تک محدود رہتا ہے جبکہ کالی بائیکروم میں اپی کاک کی طرح گردن تک سردی کی لہریں جاتی ہیں.بائی کی دردیں حرکت سے بڑھ جاتی ہیں.اس لحاظ سے یہ برائیو نیا سے مشابہ ہے.صبح کے وقت درد میں شدت ہوتی ہے جو اٹھ کر چلنے پھرنے سے آہستہ آہستہ بکھرنے لگتی ہے.رات آرام کرنے سے فائدہ ہوتا ہے مگر صبح تک دردیں ایک مقام پر سمٹ جاتی ہیں جو اٹھ کر چلنے پھرنے سے منتشر ہو جاتی ہیں.کالی بائیکروم میں ہر قسم کی جلدی بیماریاں پائی جاتی ہیں.ایگزیما، چھالے اور پھنسیاں نکلتی ہیں.اگر جلد کی تکلیفوں کو مرہم وغیرہ لگا کر دبا دیا جائے تو وہ اندرونی جھلیوں میں منتقل ہو جاتی ہیں.اس لئے کالی بائیکروم کی علامتوں کے ساتھ بیرونی طور پر ادویہ کے استعمال سے پر ہیز کرنا چاہئے.دافع اثر دوائیں: آرسنک لیکیس پلسٹیلا طاقت 200030
494
کالی کارب 495 124 کالی کارب KALI CARBONICUM کالی کاربونیٹ پوٹیشیم اور کاربن کا ایک سفید رنگ کا مرکب ہے جو پہلے وقتوں میں لکڑی، پتوں اور سمندری پودوں کی راکھ سے نکالا جاتا تھا.پٹیشیم کلورائیڈ کے بعد یہ دوسرا اہم مرکب تھا جو تجارتی مقاصد کے لئے تیار کیا جاتا تھا.بعد ازاں یہ پودوں کی راکھ سے بنانے کی بجائے معدنی ذخائر سے نکالا جانے لگا.اس کا سب سے بڑا ماخذ جرمنی کی نمک کی کانیں تھیں.آج کل پوٹیشیم صنعتی پیمانے پر کئی طریقوں سے تیار کیا جاتا ہے.جلدی امراض ایگزیما اور خارش میں اسے ایک محلول کی صورت میں استعمال کیا گیا ہے.ہومیو پیتھی میں پوٹیشیم کاربونیٹ کے سفوف کی بہت ہلکے محلول کی صورت میں پوٹینسی بنا کر استعمال کی جاتی ہے.اس دوا کا گہرائی میں سمجھنا بہت مشکل ہے کیونکہ اس میں کئی تضادات پائے جاتے ہیں.گرمی اور سردی دونوں کے لئے مریض زود حس ہوتا ہے.اس کا مزاج بہت الجھا ہوا ہوتا ہے.اگر دوا کی تشخیص صحیح بھی ہو لیکن مریض کا مزاج اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو فائدہ کی بجائے نقصان ہوتا ہے.عموماً اگر دوا غلط ہو تو نقصان پہنچاتی ہے لیکن کالی کا رب وہ دوا ہے جو صیح بھی ہو تو نقصان کا باعث بن سکتی ہے.جیسے سلیشیا اگر صحیح بھی ہو لیکن زیادہ اونچی طاقت میں دے دی جائے تو شدید نقصان پہنچاتی ہے.Gout یعنی نقرس میں انگلیوں اور ہاتھوں کے جوڑوں میں گانٹھیں بن جاتی ہیں اور ہاتھوں کی شکل بگڑ جاتی ہے.انگلیاں ٹیڑھی ہونے لگتی ہیں.ایسی صورت میں کالی کا رب کو اونچی طاقت میں دینا، جبکہ وہ مریض کے مزاج کے عین مطابق بھی ہو، بہت خطرناک ہے اور مریض کو سخت تکلیف میں مبتلا کر کے جان سے مارنے کے مترادف ہے.اگر
496 کالی کارب کالی کارب صحیح دوا ہے تو جسم کو فوری شفا کا حکم دے دے گی لیکن مریض میں طاقت ہی نہیں ہوگی کہ وہ اس بیماری کا مقابلہ کر سکے.گاؤٹ یعنی نقرس کی علامات میں اگر صحیح تشخیص کے بعد کالی کا رب دوا تجویز ہو تو کچھ احتیاطوں کی ضرورت ہوتی ہے.کالی کا رب کے استعمال سے پہلے ہمیشہ کار بوویج دیں.کار بوویج مریض کو کالی کارب کے لئے تیار کر دیتی ہے اور اس کے بعد کالی کارب دینے سے سخت رد عمل نہیں ہوتا نیز کالی کا رب کو شروع میں 30 طاقت سے اونچا نہیں دینا چاہئے.جب مریض اس کا عادی ہو جائے تو پھر بیشک طاقت بڑھا دیں.جوڑوں کے درد کے علاوہ کمر کے پرانے درد سے بھی کالی کا رب کا گہرا تعلق ہے.خاص طور پر بچے کی پیدائش کے بعد ہونے والے کمر کی تکالیف کالی کا رب کے مزاج سے گہرا تعلق رکھتی ہیں.اگر وضع حمل کے بعد کمر درد ہونے والی شروع ہو تو بسا اوقات وہ مزمن ہو جاتا ہے اور جب تک کالی کا رب نہ دی جائے تو ٹھیک نہیں ہوتا.تپ دق میں بھی کالی کا رب مفید ہے.اگر پھیپھڑوں میں سوراخ ہو جائیں تو کالی کا رب ان سوراخوں کو بند کرنے کی بھی صلاحیت رکھتی ہے.یہ جریان خون کی بھی بہترین دوا ہے اور ہر قسم کے جریان خون میں مفید ہے.اگر انتڑیوں میں زخموں کے داغ ہوں تو بعض اوقات ان کی وجہ سے اجابت کے ساتھ خون آنے لگتا ہے.یہ علامت اینٹی مونیم کروڈ میں بھی پائی جاتی ہے لیکن فرق یہ ہے کہ اس میں کالی کا رب کی طرح نرم اجابت نہیں بلکہ سخت اجابت ہوتی ہے.بعض اوقات کالی کا رب میں بھی سخت قبض کی علامت پائی جاتی ہے جس کے ساتھ خون کی آمیزش بھی ہوتی ہے لیکن یہ عام دستور نہیں.کالی کا رب میں پیٹ میں شدید درد، بے چینی اور تشیخ کے علاوہ خون بھی آتا ہے.کالی کا رب میں کئی قسم کے درد ملتے ہیں.پیٹ میں شدید بے چینی اور تشیخ کے ساتھ خون کا اخراج پیچش کی اکثر دواؤں میں پایا جاتا ہے.لہذا ضروری ہے کہ ہر دوا کی خصوصی علامات سے اسے پہچانا جائے.کالی کا رب بعض اوقات نکس وامیکا کے غلط استعمال کا علاج بن جاتی ہے خصوصاً اگر نکس وامیکا کے زیادہ استعمال سے اسہال لگ
کالی کارب 497 جائیں یا سردرد شروع ہو جائے تو اسہال کے لئے کالی کارب اور سر درد کے لئے جلسیمیم بہترین دوائیں ہیں.اگر نکس وامیکا دیتے دیتے ایک دم اسہال شروع ہو جائیں تو کالی کارب کی ایک دو خوراکوں سے ہی خدا کے فضل سے مریض صحت یاب ہو جاتا ہے لیکن اسے زیادہ دیر استعمال نہ کریں اور نہ قبض ہو جائے گی.اگر ایک دو خوراکوں سے فائدہ ہو جائے تو اسے بند کر دیں.کالی کا رب میں چڑ چڑا پن بہت نمایاں ہوتا ہے جوا کثر اعصابی تکلیفوں میں ہوتا ہے.اکیلے پن کا خوف بھی اس کی ایک علامت ہے.مریض تو ہمات کا شکار ہو جاتا ہے لیکن ان تو ہمات کا مریض کی تنہائی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.تو ہمات اس کی زندگی کی ایک عادت بن جاتے ہیں.ہاں اکیلے پن سے گھبراہٹ ضرور ہوتی ہے.مریض گرمی اور سردی دونوں سے زود حس ہوتا ہے.مریض بہت زودرنج اور جلد طیش میں آنے والا ہوتا ہے.دانتوں کو گرم چیز لگنے سے بھی تکلیف ہوتی ہے اور ٹھنڈی چیز لگنے سے بھی.بعض دفعہ دانت سردی سے بہت زود حس ہو جاتے ہیں.اس کے مریضوں میں پائیوریا کی علامتیں بھی ملتی ہیں.دانتوں کے اردگرد گوشت میں سوزش ہو جاتی ہے اور مسوڑھے گلنے سڑنے لگتے ہیں.پیپ بھی نکلتی ہے.ایسے مریض سردی کو بہت زیادہ محسوس کرتے ہیں لیکن کالی کارب کے انہی مریضوں کو اگر ٹھنڈے برف جیسے پانی کی ٹکور کریں تو اعصاب بے حس ہو جاتے ہیں اور سکون محسوس کرتے ہیں.یہ فائدہ وقتی ہوتا ہے، گرم ہونے پر تکلیف پھر واپس آجائے گی.گرمی بھی تکلیف دہ ہوتی ہے.اس سے جلن کا احساس بڑھتا چلا جاتا ہے اور گرمی نا قابل برداشت ہو جاتی ہے.مرکسال میں بھی دانتوں کی تکلیف گرمی اور سردی دونوں سے بڑھتی ہے.دانتوں کا نظام جواب دے جائے اور تعفن پیدا ہو جائے ، مسوڑھے گل سڑ جائیں اور خون اور پیپ آنے لگے تو کالی کا رب سے اس کا علاج ممکن ہے بشرطیکہ کالی کارب کی دیگر علامتیں بھی مریض میں پائی جائیں اور نہ مرکسال بھی دوا ہو سکتی ہے.
498 کالی کارب کالی کا رب میں ایک ہی مقام پر جامد اور کھڑے درد بھی پائے جاتے ہیں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنے والے درد بھی.کمر کا درد عموماً ایک مقام پر ٹھہرارہتا ہے لیکن وضع حمل کے دوران اس میں حرکت پیدا ہو جاتی ہے.اگر رات کو لحاف اتر جائے اور سرد ہوا کے جھونکوں سے کمر میں درد ہونے لگے تو کالی کا رب بہت مفید ہے.میں نے اسے اپنے اوپر اور دوسروں پر بار ہا آزمایا ہے.ایک دفعہ سفر کے دوران رات کو تین چار بجے کے قریب میری آنکھ کھلی تو کمر میں شدید دردتھا حالانکہ اللہ کے فضل سے مجھے عموماً کمر درد نہیں ہوتا.میں نے کالی کارب 30 کی ایک خوراک کھائی جس سے فوری فائدہ ہوا اور دوبارہ یہ تکلیف نہیں ہوئی.گو کالی کا رب میں اکثر سردی سے تکلیف بڑھتی ہے مگر ماؤف مقام گرم محسوس ہوتے ہیں جن میں بیرونی سردی سے آرام نہیں ملتا.ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے بعض دفعہ اعصاب کے ریشوں میں آگ سی لگ جاتی ہے اور گرمی دانے نکل آتے ہیں.یہ اس دوا کا طرفہ تماشا ہے کہ ٹھنڈی ہوا سے تمازت کا احساس کم ہونے کی بجائے بڑھ جاتا ہے جسے گرمی سے آرام آتا ہے.نزلہ شروع ہو جائے تو عموما سر میں بھی درد ہونے لگتا ہے.سرا گر خالی خالی اور کھوکھلا سامحسوس ہو اور پھر درد ہو تو یہ کالی کا رب کی خاص علامت ہے.ضمنا یہ یا درکھیں کہ نزلہ جمنے کی وجہ سے اگر سائنس (Sinus) کا درد شروع ہو جائے تو نکس وامیکا کی ایک ہزار طاقت کی ایک ہی خوراک اکثر شافی ثابت ہوتی ہے.مثانے کے نزلہ میں اگر بار بار پیشاب کی حاجت ہو تو بعض صورتوں میں کالی کا رب کی بجائے کالی فاس سے فائدہ ہوتا ہے لیکن کالی فاس میں دن کے وقت تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد حاجت ہوتی ہے جبکہ کالی کا رب میں رات سونے کے بعد مریض بار بار پیشاب کے لئے اٹھتا ہے خصوصاً رات کو تین چار بجے تکلیف میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے.اگر رات کے وقت پیشاب کی غیر معمولی حاجت شروع ہو جائے جو ذیا بیطس کی وجہ سے نہ ہو تو کالی کارب کے علاوہ آرسنک بھی مفید ہوتی ہے بشرطیکہ اس کی دوسری علامتیں بھی ملتی
کالی کارب 499 ہوں.اس کی ایک علامت عورتوں میں مردوں سے زیادہ پائی جاتی ہے کہ وہ پیشاب پر بالکل کنٹرول نہیں کر سکتیں اور غسل خانہ تک پہنچنے کی بھی نوبت نہیں آتی.مردوں میں بھی مختلف عوارض یا محرکات کی وجہ سے یہ علامت ملتی ہے جس کا علاج بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ بیسیوں دواؤں میں سے بالمثل دوا کا تلاش کرنا آسان کام نہیں ہوتا.کالی کارب کے مریضوں کا گلا اکثر خراب رہتا ہے.گلے کے گلینڈ زسوج کر موٹے ہو جاتے ہیں.اگر کان کے پیچھے گلینڈ ز میں سوزش ہو جائے تو وہ اتنی خطرناک نہیں ہوتی.لیکن اگر گلے کے دونوں طرف کی رگیں پھول جائیں تو یہ اچھی علامت نہیں.ورم بعض اوقات مستقل ٹھہر جاتی ہے.غدود پھول کر سخت ہو جاتے ہیں اور کچھ مادے ان میں جم جاتے ہیں جو غدودوں کو سکڑنے نہیں دیتے.اگر دیگر علامتیں بھی ہوں تو کالی کا رب اس مرض کا مؤثر علاج ہے.کالی کارب کی بیماریوں میں جسم میں جگہ جگہ ورم اور سوزش پائے جاتے ہیں خصوصاً آنکھوں کے اوپر پھوٹوں کی ورم بہت نمایاں ہوتی ہے.کالی کا رب میں بعض اور دواؤں کی طرح یہ علامت بھی پائی جاتی ہے کہ انسان جس کروٹ پر لیٹے اسی کروٹ نبض کی دھڑکن محسوس ہونے لگتی ہے اور شدید گھبراہٹ ہوتی ہے، نیند نہیں آتی.اگر یہ دھڑکن بہت شدید ہو اور دوران خون سر کی طرف نمایاں ہو تو کالی کا رب سے فائدہ نہ ہونے کی صورت میں بیلا ڈونا اچھا کام دکھاتی ہے.چونکہ کالی کارب میں اکثر بائیں طرف دل کے مقام پر بوجھ اور درد محسوس ہوتا ہے اس لئے دل کی تکلیف کا شبہ ہوتا ہے.حالانکہ دل کی کیفیت میں دردا اکثر سینے کے عین درمیان میں ہوتا ہے جو کمر اور بازو میں پھیل جاتا ہے اور انگلیوں تک بھی پہنچ جاتا ہے.کالی کا رب کے درد میں گودل کی تکلیف کا شبہ ہوتا ہے لیکن دوسری علامتوں سے فرق نمایاں ہوتا ہے مثلاً دل کی تکلیف ہو تو تیز چلنے سے ضرور بڑھے گی.لیکن اگر چلنے سے یا کروٹ بدلنے سے نسبتا آرام محسوس ہو تو یہ دل کی تکلیف نہیں ہوتی.چونکہ ہومیو پیتھک ڈاکٹر کے پاس ٹیسٹ کے لئے مشینیں یا دوسرے ذرائع نہیں ہوتے اس لئے
500 کالی کارب اسے بہت باریک نظر سے علامتوں کو دیکھنا اور ان سے نتائج اخذ کرنا پڑتے ہیں.عام اعصابی تکلیفوں کے علاوہ کالی کا رب دل کی بیماری میں بھی مفید ہے خصوصا دل کی غیر معمولی دھڑکن میں.کالی کا رب میں بواسیر کے ٹیومر گول گول مسوں کی بجائے لمبی غدودوں کی شکل میں پائے جاتے ہیں جن میں شدید جلن ہوتی ہے.ٹھنڈے پانی سے وقتی طور پر آرام آتا ہے اور جلن کی شدت میں کمی آجاتی ہے.کالی کا رب کی پیٹ کی خرابیوں میں دردضرور ہوتا ہے مثلاً پیچش ہوگی تو درد کے ساتھ ہوگی البتہ اسہال عموماً بغیر درد کے ہوتے ہیں جو قبض سے ادلتے بدلتے رہتے ہیں.پیشاب کے بعد جلن کی شکایت ہو تو عمو مانیٹرم میور مفید دوا ہے لیکن اگر جلن پیشاب سے پہلے بھی ہو اور درمیان میں بھی اور بعد میں بھی ہو تو نیٹرم میور کام نہیں کرتی.یہ علامت کالی کارب کی ہے.خواتین کے لئے یہ بہت اچھی دوا ہے.خصوصاً بچے کی پیدائش کے بعد جب کئی قسم کی الجھنیں پیدا ہو جاتی ہیں تو ان میں سب سے پہلے کالی کا رب کا خیال آنا چاہئے کیونکہ یہ بالعموم ان الجھنوں کو دور کرنے کی بہترین دوا ہے.بلکہ رحم کی صفائی (DNC) کے بعد پیدا ہونے والی.علامات میں بھی اچھا اثر دکھاتی ہے.بڑھی ہوئی غدودوں خصوصا رحم کی بڑھی ہوئی غدودوں سے کالی کا رب کا بھی تعلق ہے.اگر دیگر علامتیں بھی ملتی ہوں تو حمل کی قے میں بھی استعمال ہوتی ہے.وضع حمل کے وقت اگر بچے کی پیدائش میں روک پیدا ہورہی ہو اور در دیں جس انداز میں اٹھنی چاہئیں ویسے انداز پر نہ اٹھ رہی ہوں، کمر کے نچلے حصہ میں درد ہو اور درد کی لہریں ایک مقام پر نمایاں طور پر اکٹھی ہو کر ا ئیں اور بائیں رانوں میں پھیل جائیں تو کالی کا رب دوا ہے.شدید کھانسی میں جس میں الٹی بھی آتی ہو بہت مفید ہے.خسرہ کے بعد کھانسی کا حملہ ہو تو بھی کالی کا رب مفید ثابت ہوتی ہے.
کالی کارب 501 کالی کارب اعصاب کی بہت گہری دوا ہے.اس کا ہڈیوں سے بھی گہرا تعلق ہے کیونکہ کار بن ہڈیوں پر بہت گہرا اثر دکھاتی ہے.کالی کارب کے مریض میں عمومی کمزوری پائی جاتی ہے.نبض مدہم ہوتی ہے.اس کے اعصابی دردوں میں سوئی کی طرح چھن اور جلن پائی جاتی ہے.اندرونی نالیوں میں آگ سی جلن کا احساس، رات دو بجے سے پانچ بجے تک بیماری کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے.بائیں کروٹ لیٹنے سے یا درد والی طرف لیٹنے سے تکلیف بڑھ جاتی ہے.گرم موسم میں تکلیفیں کم ہو جاتی ہیں.کالی کا رب کی ایک نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے دائروں میں جن کو ایک انگلی یا انگوٹھے سے چھپایا جا سکتا ہے ان میں بعض دفعہ شدید جلن کا احساس ہوتا ہے.مددگار دوائیں: کار بودیج نکس وامیکا دافع اثر دوائیں: کیمفر.کافیا طاقت: 30 سے 1000 تک
502
کالی میور 503 125 کالی میور KALIMURIATICUM (Chloride of Potassium) کالی میور نزلاتی بیماریوں میں بہت مفید دوا ہے.اس کی امتیازی علامت یہ ہے کہ اس کے مریض کی زبان پر سلیٹی رنگ کا مواد جم جاتا ہے اسی وجہ سے اسے خناق (Diphtheria) میں استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ ڈفتھیریا کے اکثر مواد جو زبان کو میلا کرتے ہیں وہ سلیٹی رنگ کے ہوتے ہیں.اس لئے بعض معالجین ٹکسالی کے نسخہ کے طور پر کالی میور کو ڈفتھیر یا کی دواؤں میں شامل کرتے ہیں.کالی میور میں بچوں کی شیر خوارگی کے زمانہ میں سر پر ہونے والے ایگزیما کی علامت بھی پائی جاتی ہے.سر کی خشکی میں بھی مفید ہے.کان بہنے کی پرانی تکلیف میں بھی اچھا اثر دکھاتی ہے.کان کے اردگرد کے غدود میں سوزش پائی جاتی ہے.کانوں میں شور اور آوازیں آتی ہیں.منہ میں سفید رنگ کے چھالے بنتے ہیں.نزلہ جس میں ناک بند رہتا ہے اور سفید رنگ کی رطوبت کثیر مقدار میں بنتی ہے.نیز گلے کی تکلیفوں اور ٹانسلز کے متورم ہونے میں بہت مفید ہے لیکن میں اسے اکیلا استعمال نہیں کراتا بلکہ سلیشیا، کلکیر یا فلوراور فیرم فاس کے ساتھ 6x میں ملا کر دیتا ہوں.اکثر گلے کی تکلیفوں میں اس نسخہ سے فوری طور پر فائدہ پہنچتا ہے.کالی میور میں پیٹ میں ہوا بھی ہوتی ہے.پیٹ کے کیڑے جو خارش پیدا کرتے ہیں.ان میں مفید ہے.اگر قبض ہو تو جگر بھی متاثر ہوتا ہے اور اجابت مٹیالے رنگ کی ہوتی ہے یا بالکل ہلکی اور پھیکی رنگت کی ہوتی ہے.ان علامات میں کالی میور کو فراموش نہیں
کالی میور 504 کرنا چاہئے.بواسیر کے مسے بھی بنتے ہیں جن سے خون بہتا ہے.کالی میور کی مریض عورتوں میں حیض دیر سے ہوتے ہیں یا بالکل نہیں ہوتے.اس تکلیف میں اگر کالی میور سے فائدہ نہ ہو تو نیٹرم میور دینی چاہئے.لیکوریا دودھیا ہوتا ہے جو بے ضرر ہوتا ہے ، جلن پیدا نہیں کرتا.ایام حمل کی قے میں بھی سفید مواد خارج ہوتا ہے.کالی میور میں آواز کا بیٹھنا بھی پایا جاتا ہے.دمہ کی علامتیں اور معدہ کی خرابی کی وجہ سے کھانسی اٹھتی ہے.بائی کے بخار اور رات کو بڑھنے والے دردوں میں مفید ہے.یہ درد بستر میں لیٹنے کے بعد بڑھتے ہیں اور بجلی کے کوندوں کی طرح جسم میں حرکت کرتے ہیں.کالی میور میں جلدی بیماریاں بھی ملتی ہیں.اس کے ایگزیما کی خاص پہچان یہ ہے کہ جلد سے موٹے آٹے کی طرح کا خشک مواد اترتا ہے.کالی میور کی تکلیفیں ثقیل اور مرغن غذائیں کھانے سے بڑھ جاتی ہیں اور حرکت سے بھی تکلیف بڑھتی ہے.طاقت: بائیوکیمک میں 3x تا12x ہو میو پوٹینسی میں 30 اور اونچی طاقتیں
کالی فاس 505 126 کالی فاسفور یکم KALI PHOSPHORICUM (Phosphate of Potassium) پوٹیشیم فاسفیٹ انسانی جسم کی رطوبتوں اور خلیوں میں پایا جانے والا ایک اہم جزو ہے.خصوصاً دماغ، اعصاب، عضلات اور خون میں محض اس کی موجودگی ہی ضروری نہیں بلکہ اس کا صحیح توازن قائم رہنا بھی انتہائی ضروری ہوتا ہے.انسانی زندگی کی نشوونما میں یہ ایک اہم اور لازمی کردار ادا کرتا ہے.اس کی کمی سے متعدد اعصابی اور ذہنی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں اور اس کی زیادتی بھی بعض دفعہ انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے.اس کا کیمیاوی نام پونیشیم فاسفیٹ ہے اور ہومیو پیتھی میں کالی فاس کے نام سے مشہور ہے.کالی فاس اعصاب کو تقویت دینے میں خاص شہرت رکھتی ہے.یہ اینٹی سورک (Anti-Psoric) دوا ہے یعنی ان امراض کی دوا ہے جو جلد پر اثر رکھتی ہوں اور جبر دبا دینے کے نتیجہ میں اندرونی جھلیوں یا اعصاب پر منفی اثر ڈالیں.کالی فاس کو ہومیوڈاکٹر اینٹی سورک ہی بتاتے ہیں لیکن اس کا مرکزی تعلق اعصاب سے ہے.اعصاب کو تقویت دینا گویا اس کے مزاج کا حصہ ہے اور اسی بنا پر یا بیٹی سورک کا کام بھی کرتی ہے.مثلا اعصابی کمزوری کی وجہ سے اگر کوئی بیماری دبی رہے اور جسم میں طاقت نہ ہو کہ اسے باہر نکال سکے تو کالی فاس اسے اچھال کر جلد بہ ظاہر کر دے گی.کالی فاس دماغ، اعصاب اور خون پر اثر کرتی ہے.اعصابی کمزوری اور ذہنی و جسمانی تھکاوٹ میں حیرت انگیز اثر دکھاتی ہے.فکر ، پریشانی ، کام کی زیادتی اور ہیجانی کیفیات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی تکلیفوں میں مفید ہے.کالی فاس کا مریض
کالی فاس 506 ست اور خوفزدہ رہتا ہے، لوگوں سے ملنے جلنے سے گھبراتا ہے، یادداشت بھی کمزور ہو جاتی ہے اور اپنے کام سے لا پرواہ ہو جاتا ہے.کالی فاس میں سرد اور مرطوب موسم میں آرام کرنے سے تکلیفوں میں اضافہ ہوتا ہے.یہ علامتیں رسٹاکس میں بھی پائی جاتی ہیں.رسٹاکس میں مریض تکلیف بڑھنے کی وجہ سے کروٹ بدلتا رہتا ہے لیکن کالی فاس میں بیماری کی علامات رات بھر جسم میں اکٹھی ہوتی رہتی ہیں اور صبح ٹھنے پر گویا انسان کے ساتھ ہی بیدار ہو جاتی ہیں اور صبح کا وقت بہت تکلیف میں گزرتا ہے پھر آہستہ آہستہ افاقہ ہونے لگتا ہے.کالی فاس کا یہ اہم نشان ہے کہ بیماریاں آہستہ آہستہ بڑھتی ہیں.رسٹاکس کا مریض جب چلتا ہے تو ابتدائی حرکت میں اس کی تکلیف بڑھ جاتی ہے.لیکن کچھ چلنے کے بعد آرام محسوس ہوتا ہے.کالی فاس کے مریض کو آہستہ حرکت سے آرام ملتا ہے.رسٹاکس کی طرح کالی فاس میں بھی ہاتھ پاؤں کا سن ہونا اور عضلات کا بے حس ہونا پایا جاتا ہے.اس کے تمام اخراجات بدبودار ہوتے ہیں.رسٹاکس کے مریض کے اخراجات میں ایسی بونہیں ہوتی البتہ رس گلابرا (Rhusglabra) کا بد بو سے گہرا تعلق ہے.بغل گند قسم کی بیماریوں میں کئی اینٹی سورک دوائیں ہیں جن سے علاج کیا جاتا ہے لیکن رس گلا برا 3 پوٹینسی یا 6x اور کالی فاس 6x سے ملا کر دی جائیں تو بہت فائدہ ہوتا ہے.کالی فاس کا بھی بد بو سے گہرا تعلق ہے.کالی فاس گینگرین کے لئے بھی بہت مفید دوا ہے.زخم گل سڑ کر ناسور بن جائیں اور گینگرین کی شکل اختیار کر لیں تو ایلو پیتھی میں عموماً ایسے اعضاء کو کاٹ دیا جاتا ہے اور احتیاطاً اس جگہ سے کاٹتے ہیں جو ماؤف جگہ سے اوپر کی طرف اور صحت مند ہو.میں نے بعض ایسے مریضوں پر کالی فاس اور سلیشیا کامیابی سے استعمال کی ہیں.اس کے بعد انہیں کسی آپریشن کی ضرورت نہیں رہی.اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم میں بیماریوں کے خلاف ایک دفاعی نظام پیدا کیا ہے.ان دفاعی خلیوں (Anti Bodies) کے بغیر شفا کا عمل ممکن نہیں ہے.اگر کسی بیماری کے
کالی فاس 507 غلبہ سے اعصاب اتنے کمزور ہو جائیں کہ رد عمل نہ دکھا سکیں تو خواہ کتنی ہی جراثیم کش ادویات استعمال کی جائیں وہ فائدہ نہیں پہنچا ئیں گی کیونکہ جسم رو مل چھوڑ چکا ہوتا ہے.گینگرین میں بھی جسم کا یہ طبعی رد عمل ختم ہو جاتا ہے لیکن کالی فاس اس کے رد عمل کو جگا دیتی ہے اور اعصاب کو مقابلہ کی طاقت بخشتی ہے.جس کے نتیجہ میں جسم گینگرین کا مقابلہ شروع کر دیتا ہے.اعصاب مضبوط ہو جائیں تو سلیشیا بھی خوب اثر دکھاتی ہے.غدودوں کی سوزش میں بھی کالی فاس بہت مفید ہے.بسا اوقات گردن کی دونوں اطراف میں غدود پھول جاتے ہیں، یہ تپ دق یا کینسر کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے.ایسے مریضوں کو براہ راست سلیشیا دیں تو بعض اوقات خطرناک نتائج نکلتے ہیں لیکن حسب حالات مریض کو سلیشیا دیتے وقت کئی دوسری دوائیں پہلے یا ساتھ ملا کر دینی پڑتی ہیں.انہی دواؤں میں سے ایک کالی فاس ہے جس سے سلیشیا کا رد عمل متوازن ہو جاتا ہے.میرے نزدیک یہ ترکیب اچھا اثر دکھانے والی ہے.یہ بھی ممکن ہے کہ سلیشیا دینے سے پہلے کالی فاس دے کر مریض کو صحیح ردعمل کے لئے تیار کر لیا جائے.ایسی صورت میں بہتر ہے کہ کالی فاس کی ایک ہزار طاقت کی خوراک دے کر چند دن انتظار کر لیا جائے.بعض اوقات اسی سے حیرت انگیز نتائج سامنے آتے ہیں اور ایک ہی خوراک غدودوں کو چھوٹا کرنے لگتی ہے.ایسی صورت میں سلیشیا دینے کی بھی ضرورت نہیں رہتی.آٹھ دس دن کے بعد ایک خوراک اور دی جاسکتی ہے.جب تک غدود چھوٹے ہوتے جارہے ہوں کسی اور چیز کی ضرورت نہیں.کالی فاس صرف پیرونی طور پر نظر آنے والے غدودوں میں ہی نہیں بلکہ اندرونی اعضاء اور رحم کے غدودوں پر بھی اثر انداز ہوتی ہے.اگر یہ شک ہو کہ یہ گومڑ کینسر کی شکل اختیار کر رہے ہیں تو کالی فاس کو لا ز ما یا درکھنا چاہئے کہ یہ کینسر کے زخموں کو مندمل کرنے میں بھی مددگار ہوتی ہے.کالی فاس کا ایگیر میکس (Agaricus) سے بھی کسی حد تک مزاج ملتا ہے.بعض اوقات چہرے کے پٹھے پھڑکنے لگتے ہیں جو کالی فاس، ایکگیر یکس یا اس سے ملتی جلتی دواؤں کا
کالی فاس تقاضا کرتے ہیں.508 کسی حادثے یا بری خبر کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے بداثرات کو دور کرنے کے لئے ایمبر اگر یسا (Ambra Grisea) کی طرح کالی فاس بھی مفید ہے.اگر صدمہ کی وجہ سے دماغ ماؤف ہو جائے تو یہ کالی فاس کی اہم علامت ہے.بری خبر سے معدے اور دل کو نقصان پہنچے تو کالی کا رب بہترین دوا ہے.نیٹرم میور بھی صدمہ کے اثرات سے پیدا ہونے والے پاگل پن میں مفید ہے.صدمہ اور بری خبر کے بداثرات سب پر ایک جیسے نہیں ہوتے.کالی فاس میں صدمہ اور اچانک پہنچنے والی متوحش خبر میں نمایاں طور پر اعصاب کو نقصان پہنچاتی ہیں اور مریض لمی افسردگی اور کمزوری کا شکار ہو جاتا ہے.جس مریض کا مزاج نیٹرم میور کا ہو اس پر صدمہ کا اثر پاگل پن کی صورت میں بھی ظاہر ہوتا ہے.اگر اعصابی تناؤ اور سخت تھکاوٹ ہو تو کالی فاس اس میں بہت مفید ہے.میرے والد مرحوم نے اعصابی کمزوری دور کرنے کے لئے ایک نسخہ بنایا ہوا تھاوہ یا درکھنا چاہئے.کالی فاس 6،کلکیر یا فاس 6x، میگ فاس x 6 ملا کر دن میں دو تین دفعہ استعمال کریں.یہ ہر قسم کی اعصابی کمزوری کو دور کرنے کا بہترین نسخہ ہے.کالی فاس میں خون کی نالیاں تنگ ہوئے بغیر بھی یادداشت متاثر ہوتی ہے.مگر یہ کمزوری وقتی ہوتی ہے، مستقل نہیں.اگر دماغ کسی خاص سوچ میں مصروف ہو اور اچانک کسی دوسری طرف منتقل ہو تو وہ نام یا لفظ فوری طور پر ذہن میں نہیں آتا جس کی اسے تلاش ہوتی ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ذہن فوراً اس طرف توجہ نہیں دے رہا کیونکہ وہ ایک اور سوچ میں غرق ہے اور اس سے وہ فوری طور پر کسی نئی سوچ کی طرف منتقل نہیں ہوسکتا.ایسا ذہنی دباؤ کی وجہ سے ہوتا ہے جو آرٹیر یوسکلر وسس (Arteriosclerosis) کی علامت نہیں ہے.اس عارضی بیماری میں کالی فاس کے علاوہ کلیڈیم (Caladium) بہت مفید دوا ہے.کالی فاس میں بعض دفعہ اچانک چکر آنے لگتے ہیں جو برائیونیا کی یاد دلاتے ہیں.
کالی فاس 509 اچانک اٹھنے سے سر جھکانے سے اور سر کے دائیں بائیں حرکت کرنے سے چکر آنے کی علامت برائیو نیا اور کالی فاس کے علاوہ کئی اور دواؤں میں بھی پائی جاتی ہے.نکس وامی کا بھی چکروں کا بہت اچھا علاج ہے.بعض دفعہ سر بوجھل سا محسوس ہوتا ہے اور توازن ٹھیک نہیں رہتا.چلتے وقت قدم لڑکھڑاتے ہیں.سر کو حرکت دینے سے چکروں کا احساس ہوتا ہے.اسی طرح جب پیٹ کی ہوا معدہ میں اچانک لرزہ پیدا کرتی ہے تو اس حرکت سے بھی توازن بگڑ جاتا ہے اور چکر آ جاتے ہیں.ایسی صورت میں نکس وامی کا بہت اچھا اور فوری اثر دکھاتی ہے.اگر چکر محض اعصابی تھکاوٹ کی وجہ سے آئیں تو کالی فاس اول طور پر یاد آنی چاہئے.اگر ہر بیماری حرکت سے بڑھتی ہواور سفر کی حالت میں چکر آئیں تو اس میں کا کولس اور برائیو نیا دونوں مفید ہوتی ہیں.کالی فاس کا مریض توازن قائم نہ رکھ سکے تو سامنے کی طرف گرنے کا رجحان رکھتا ہے.بعض مریض پچھاڑ کھا کر پیچھے کی طرف گرتے ہیں.ان میں یہی رجحان بعض دفعہ آگے کی طرف گرنے کے رجحان میں تبدیل ہو جاتا ہے.کالی فاس کا مریض عموماً ذہین ہوتا ہے اور اسے چکر کھا کر پیچھے گرنے کا خوف آگے کی طرف جھکنے پر مجبور کرتا ہے لہذا اس اندفاعی کوشش میں بعض اوقات وہ آگے کی طرف گر بھی جاتا ہے.کالی فاس کے علاوہ چہرے کے اعصابی دردوں میں عموماًفاسفورس،سلیشیا، سپائی جیلیا اور میگنیشی فاس مفید ہوتی ہیں.میگ فاس بھی اعصاب سے گہرا تعلق رکھنے والی دوا ہے.اگر اعصاب تشر میں بے چینی اور عضلات میں سنج پیدا ہو جائے تو کالی فاس سے زیادہ میگنیشیا فاس کی طرف دھیان جانا چاہئے.لیکن کالی فاس بھی تشیخ پیدا کرتی ہے اور ہومیو پیتھک یا بائیو کیمک صورت میں استعمال سے تشنج کو دور کرتی ہے.اس کا شیخ زیادہ تر دھڑ کے نچلے حصہ سے تعلق رکھتا ہے.عمو مارانوں، پنڈلیوں یا پاؤں میں تشیخی کیفیت پیدا ہوتی ہے.میک فاس کا تصبح جسم کے ہر حصہ سے تعلق رکھتا ہے اور بعض دفعہ انتڑیاں بھی اس سے متاثر ہوتی ہیں.جراثیم کے ذریعہ پھیلنے والی گردوں کی بیماریوں پر
کالی فاس 510 بھی کالی فاس اچھا اثر دکھاتی ہے.میگ فاس میں زود حسی کے علاوہ بعض اور بھی محرکات ہوتے ہیں جن کی وجہ سے شیخ ہوسکتا ہے.ٹائیفائیڈ کے نتیجہ میں منہ میں گہرے زخم ہو جاتے ہیں.زبان گندی اور بہت بد بودار ہو جاتی ہے.کالی فاس میں بھی یہ علامات پائی جاتی ہیں.جب دفاعی طاقتیں جواب دے جائیں تو جسم میں عفونت پھیل جاتی ہے اور زبان پر پھپھوندی لگ جاتی ہے.کالی فاس اس بیماری میں بہت اچھی دوا ہے.کالی فاس میں ایک اور علامت یہ پائی جاتی ہے کہ بھوک لگتی ہے لیکن کھانا کھانے کو دل نہیں چاہتا.عام طور پر یہ بہت حساس لوگوں کا مرض ہے.وہ نو جوان بچے اور بچیاں جو بہت دبلے پتلے ہوتے ہیں اور لوگ انہیں چھیڑتے ہیں.وہ بہت حساس ہو جاتے ہیں اور کھانے کے خلاف رد عمل دکھانے لگتے ہیں.جس چیز کی ضرورت ہو وہی استعمال نہیں کرتے.ایسے مریض جو زیادہ حساس ہونے کی وجہ سے بھوک نہ لگنے کی بیماری (Anorexia) میں مبتلا ہو جائیں ، ان میں کالی فاس سب سے اچھی دوا ہے.شروع میں 6x میں کالی فاس استعمال کرانی چاہئے.جب کچھ فائدہ ہو جائے تو ایک خوراک اونچی طاقت میں دینے سے حیرت انگیز اثر ظاہر ہوتا ہے.جگر یا معدے کی خرابی سے بھوک مٹ جائے تو نکس وامیکا بہترین دوا ہے.نکس وامیکا کی نیند کی علامت بھی کالی فاس سے ملتی ہے.کافی اور چائے وغیرہ پینے سے نیند اڑ جائے یا ذہن میں ہیجانی کیفیت پیدا ہو تو نکس وامیکا اس کا علاج ہے لیکن اگر اعصابی اکساہٹ کی وجہ سے نینداڑے تو کالی فاس کو اولیت دینی چاہئے.کالی فاس اور آرسنگ ایسی دوائیں ہیں جن کے مریض صاف ستھرے اور صفائی پسند ہوتے ہیں لیکن جب بیماری سخت حملہ کرے یا بخار ہو جائے تو مریض کے اخراجات میں سخت بد بو پیدا ہو جاتی ہے.چونکہ بد بودار اور بھی بہت سی دواؤں کے مزاج میں ہے.اس لئے ہر مریض میں محض اس علامت پر انحصار نہیں کرنا چاہئے.جو امراض چھوت اور جراثیم وغیرہ سے پیدا ہوتی ہیں ان کے مادے ہمیشہ بد بودار ہوتے ہیں.ایسے مریضوں کی شفا میں کالی فاس کو اونچا مقام حاصل ہے.6x میں فیرم فاس اور کالی فاس ملا کر دن میں
کالی فاس 511 پانچ چھ دفعہ دی جائے اور اونچی طاقت میں پائیر وجینم 200 اور ٹائیفائیڈ بینم 200 ملا کر دی جائے تو ٹائیفائیڈ کے ہر ایسے مریض کو جس کا قبض کی طرف رجحان ہو تو یہ نسخہ غیر معمولی فائدہ دیتا ہے.کالی فاس کے مریض کو ٹھنڈے اور کھٹے مشروبات پسند ہوتے ہیں.جگر اور انتڑیوں کی سوزش میں کالی فاس اچھی دوا ہے.مریض کے کسی بات پر چڑ جانے سے انتڑیوں میں جو تکلیفیں پیدا ہوتی ہیں انہیں کالی فاس ٹھیک کرتی ہے.بعض دفعہ اچانک پیچش ہو جاتی ہے اور پیٹ میں بل پڑنے لگتے ہیں.ایسی صورت میں کالی فاس کی ایک دو خوراکیں ہی بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے.یاد رکھیں کہ اگر نظام ہضم اعصابی ہیجان کی وجہ سے خراب ہو تو کالی فاس ہی فائدہ دے گی.اگر باقی مشابہ دوائیں ناکام ہو چکی ہوں تو اسے ضرور استعمال کرنا چاہئے.عام طور پر کالی فاس، میگنیشیا فاس اور کلکیر یا فاس کو ملا کر ٹانک کے طور پر دیا جاتا ہے لیکن اگر کوئی تکلیف کالی فاس کا واضح مطالبہ کرتی ہو تو دوسری دوائیں ملا کر دینے سے کالی فاس کا اثر کچھ کم ہو جاتا ہے.اس صورت میں ہمیشہ یہ اصول پیش نظر رکھیں کہ جب تشخیص ٹھیک ہو اکیلی دوا اللہ کے فضل سے خوب نشانے پر بیٹھتی ہے.ایک دو خورا کیس ہی مرض کے ازالہ کے لئے کافی ہوتی ہے.فائدہ نہ ہو تو پھر دوسری دوائیں تلاش کریں.بعض دواؤں کی علامتوں میں تکلیف دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں حرکت کرتی ہے.کالی فاس میں لیکیس کی طرح بائیں سے دائیں طرف حرکت کا رجحان ہوتا ہے.کالی فاس میں بیماری بائیں سے دائیں جانب منتقل نہیں ہوتی محض درد کے کوندے بائیں سے دائیں طرف لپکتے ہیں جبکہ لیکیسس میں خود بیماری کے بائیں سے دائیں منتقل ہونے کا رجحان ملتا ہے.کالی فاس میں اگر کسی خوف اور دہشت کی وجہ سے اسہال شروع ہوں تو وہ پانی کی طرح پتلے اور سخت بدبودار ہوتے ہیں اور کمزوری پیدا کر دیتے ہیں.کالی فاس کی پیچش میں اکثر خون کے بغیر آؤں ہوتی ہے لیکن کبھی کبھی جب مرض بہت بڑھ جائے تو
کالی فاس 512 خالص خون آنے لگتا ہے.اعصاب کے اضطراب کی وجہ سے سخت بے چین کرنے والی حرکت ہوتی ہے اور انتڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ رگڑتی ہیں تو سوزش کے نتیجہ میں ان سے جو لعاب نکلتا ہے وہ آؤں کہلاتا ہے.پھر خون جاری ہو جاتا ہے.مثانے کے نزلہ میں بھی کالی فاس اثر رکھتی ہے.بعض لوگوں کو بار بار پیشاب آنے کی بیماری ہوتی ہے جس کے حملے سردیوں میں زیادہ ہوتے ہیں.ایسے مریضوں کو عموماً مثانے میں ٹھنڈ لگنے سے مثانے کا نزلہ پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بار بار پیشاب آتا ہے لیکن اس میں جلن نہیں ہوتی بلکہ پیشاب پانی کی طرح صاف ہوتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ گہری سوزش کے نتیجہ میں نہیں ہے بلکہ نزلاتی تحریک ہے.جیسے ناک سے بھی پانی نکلتا ہے تو تکلیف نہیں دیتا لیکن پونچھ پونچھ کرسوزش پیدا ہو جاتی ہے.اگر کالی فاس کا مثانے کا نزلہ جلد ٹھیک نہ ہو تو اس میں بھی سوزش ٹھہر جاتی ہے اور بعض اوقات تعفن بھی پیدا ہو جاتا ہے.کبھی کالی فاس کا مریض کا سر درد اعصابی تھکاوٹ کی وجہ سے ہو بظاہر ٹھیک ہو جاتا ہے.مگر دراصل وہ اعصابی تناؤ گردوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور اس اعصابی دباؤ کی وجہ سے اسے بکثرت پیشاب آنے لگتا ہے.بعض دفعہ چار پانچ منٹ کے اندر ہی بار بارز ور سے پیشاب آتا ہے.بسا اوقات علمی کام کرنے والوں میں ایسے دورے ہوتے ہیں.سخت دماغی محنت اور اعصابی دباؤ کے نتیجہ میں کبھی دوران سر، کبھی سر درد اور کبھی بار بار پیشاب آنے کی حاجت پیدا ہوتی ہے.اعصابی تناؤ سے جو جنسی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں ان کا بھی کالی فاس علاج ہے.اسی طرح جن عورتوں میں حمل گرنے کارجحان پایا جائے ان کے علاج میں کالی فاس کو نہیں بھولنا چاہئے.عام طور پر حمل کے آغاز میں حمل ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو وائی برنم او پولس Vi.Burnum Opulus) در نیچر میں دی جاتی ہے.دوسرے تیسرے مہینہ میں سبائنا اور چوتھے پانچویں مہینہ میں کالی کا رب لیکن اگر اعصابی تناؤ سے حمل گرتا ہو تو کالی فاس اس میں چوٹی کی دوا ہے.
کالی فاس 513 حمل ضائع ہونے میں اگر اعصاب ذمہ دار ہوں تو اس کا گہرا تعلق کالی فاس سے ہے جن عورتوں میں یہ رجحان ہو تو ان کو بغیر حمل کے بھی کالی فاس1000 کھلاتے رہنا چاہئے.ہر مہینے ایک دوبار اسے دہرایا جا سکتا ہے.جریان خون کے آغاز میں کالی فاس کے ساتھ فیرم فاس ملانا بہت ضروری ہو جاتا ہے.دل کی تکلیف انجائنا میں بھی کالی فاس یا درکھنے کے قابل دوا ہے.انجائنا میں اسے میگ فاس سے ملا کر دیا جائے تو بہت مفید ثابت ہوتی ہے لیکن حسب ضرورت دوسری دوائیں بھی دینی پڑتی ہیں.کالی فاس کی پھنسیاں اور دانے چہرے اور دیگر اعضاء پر نہیں ہوتے بلکہ پیٹ یا کمر پر ظاہر ہوتے ہیں.اس کے لئے صرف کالی فاس استعمال کروائیں لیکن اگر افاقہ نہ ہو تو دوسری دوائیں استعمال کریں.اگر جلدی بیماریاں جسم کے اندر منتقل ہو جائیں تو بسا اوقات وہ اعصاب پر اثر انداز ہوتی ہیں اور اعصاب جواب دے جاتے ہیں.جسم ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور اس میں دفاع کی طاقت نہیں رہتی.کالی کا رب اور سورائیم کا شمار ایسی دواؤں میں ہے جو ایسے مریض کے جسم کو فو را گرم کر دیتی ہیں اور بیماری کو جلد پر اچھال دیتی ہیں.لیکن کالی فاس کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب جسم کے اندر سے شروع ہونے والا مرض مثلاً خسرہ اور کاکڑ ا لاکٹر اوغیرہ اعصابی کمزوری کی وجہ سے جلد پر ظاہر نہ ہو سکے.کالی فاس سورا ئینم وغیرہ سے بالکل مختلف دوا ہے.بعض ہومیو پیتھک معالجین نے کالی فاس اور دیگر تمام پوٹیشیم والے نمکیات کے بارے میں تنبیہ کی ہے کہ بخار کے دوران ہرگز استعمال نہ کئے جائیں لیکن یہ احتیاط صرف چڑھتے بخار میں لازم ہے.جب بخار اترنے لگے تو ہر دوا دی جاسکتی ہے اور بہت مفید ثابت ہوتی ہے.اگر یادداشت کمزور ہو اور اعصاب جواب دے جائیں اور آخر پاگل پن کی علامتیں ظاہر ہونے لگیں تو کالی فاس ایک لاکھ طاقت میں دیں.
کالی فاس 514 جسم میں خون کی مقدار بڑھانے اور بچوں کی عمومی صحت کی بحالی کے لئے کالی فاس، کلکیر یا فاس اور فیرم فاس 6x میں ملا کر دینا بہت مفید نسخہ ہے.اگر بچہ پیدائشی طور پر کمزور ہو تو اس کے ساتھ سلیڈیا بھی ملا دینی چاہئے.اگر بچہ وقت سے پہلے پیدا ہو گیا ہو تو اس کے بہت سے عضلات جو ماں کے پیٹ کے اندر نشو و نما پانے چاہئے تھے وہ بہت کمزور رہ جاتے ہیں.ان کو سلیشیا تقویت دیتی ہے.پیدائشی کمزوریاں دور کرنے کے لئے یہ نسخہ بہت اچھا ہے.عورتوں کے برسوتی بخار (Puerperal Infection) میں پائیر وجینم + سلفر کے علاوہ کالی فاس بھی اچھا کام کرتی ہے.طاقت: 6x سے لے کر 30-200-1000-10,000، 100.000 وغیرہ حسب ضرورت
کالی سلف 515 127 کالی سلفیوریکم KALI SULPHURICUM (Sulphate of Potash) کالی سلف بھی ایک بائیو کیمک دوا ہے جو پوٹیشیم اور سلفر کے عناصر سے مل کر بنتی ہے.سلف اور پوٹیشیم دونوں بہت اہم دوائیں ہیں اس لئے ان دونوں کا مرکب کالی سلف بھی بہت گہرا اثر کرنے والی دوا ہے.یہ جسم کے ہر حصہ پر اثر انداز ہوتی ہے.اس میں اتنی بیماریوں کے لئے شفا کا امکان ہے کہ انہیں ایک باب میں احاطہ تحریر میں لانا مشکل کام ہے.سب کو اپنے اپنے ذاتی تجربہ سے یہ معلوم کرنا چاہئے کہ کن کن بیماریوں میں علامتیں اس کا تقاضا کرتی ہیں.ابتدائی مطالعہ سے ہر پڑھنے والے کو یوں لگے گا کہ کالی سلف ہر بیماری کا تریاق ہے لیکن ہر بیماری کے لئے یہ بالمثل ثابت نہیں ہوگی.جتنی زیادہ بیماریاں اس کے ذکر میں ملتی ہیں اتنی ہی یہ تشخیص مشکل ہے کہ یہ کس مریض کے مرض میں کام آ سکتی ہے.اس دوا کا بار بار یعنی کم از کم دس پندرہ بار مطالعہ کیا جائے تو آہستہ آہستہ یہ سمجھ آتی ہے کہ جو عوارض اس میں ملتے ہیں، ضروری نہیں کہ ان کو یہ فائدہ بھی پہنچائے.عوارض کا ملنا کافی نہیں، کسی دوا کے بنیادی مزاج کا مریض سے ملنا ضروری ہے.اگر ایسا ہو تو یہ دوا خطرناک امراض کو بھی جڑ سے اکھیڑ سکتی ہے.مثلاً مرگی کے مرض سے متعلق ڈاکٹر کینٹ کا یہ دعویٰ ہے کہ یہ دوا اس موذی مرض کو جڑ سے اکھیڑ دیتی ہے لیکن ضروری نہیں کہ ایک ہی خوراک سے یہ نتیجہ ظاہر ہو.بعض اوقات وقفوں کے بعد دوا کو لمبے عرصہ تک دہرانا پڑتا ہے اور درمیان میں دوسرے علاج بھی کرنے پڑتے ہیں.کالی سلف کے متعلق مشکل یہ ہے کہ اس بات کی تفصیل معلوم نہیں کہ کس قسم کی مرگی میں یہ مفید ہے کیونکہ بھی طریقہ آزمائش (Proving)
کالی سلف 516 سے یہ معلوم نہیں کیا گیا.اس لئے بہت سے ہومیو پیتھک ڈاکٹر اس دوا کو کوئی خاص اہمیت نہیں دیتے.اگر پر دونگ ہو جاتی تو قاعدہ قانون کے مطابق یہ علم ہوسکتا تھا کہ کس قسم کی مرگی میں یہ ضرور کام آئے گی.پس موجودہ صورت حال میں تو یہی ہوسکتا ہے کہ اگر دوسری بالمثل دواؤں سے مرگی قابو میں نہ آئے تو اس دوا کی آزمائش بھی ضرور کی جائے.کالی سلف جلدی امراض کے علاوہ اندرونی جھلیوں کے علاج میں بھی مفید ہے.کالی سلف کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ لیوپس (Lupus) کے بعض مریض اس سے بکلی شفا پاگئے.کہتے ہیں اگر ملیریا بخار بگڑ جائے تو کالی سلف اگر مزاجی دوا ہوتو بہت مفید ثابت ہوتی ہے.نزلاتی تکلیفوں میں کالی سلف استعمال کی جائے خصوصاً مزمن نزلہ میں جبکہ نزلہ میں نزلاتی مواد سبز رنگ کا ہو چکا ہو.کالی سلف کو بائیونی کی پلسٹیلا کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی بہت سی علامتیں پلسٹیلا سے مشابہ ہیں.مثلاً گرمی سے تکلیفوں کا بڑھنا، ٹھنڈ اور کھلی ہوا سے فائدہ پہنچنا.یہ بات کالی سلف کی مزاجی پہچان میں بہت اہمیت رکھتی ہے.پلسٹیلا کی تفصیلی علامتیں اسے کالی سلف سے الگ دکھا دیتی ہیں لہذا جس مریض میں پلسٹیلا سے مشابہت پائی جائے لیکن اس میں اس کی عمومی علامتیں نہ ہوں تو یہی بات کالی سلف کی نشاندہی کے لئے کافی ہے.پھر عموماً ان سب بیماریوں میں یہ مفید ثابت ہو گی جن کا ذکر اس باب میں ملتا ہے.کالی سلف میں عضلات کے ڈھیلے ہو کر لٹکنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے.ایسے مریض جن کے جگر میں خرابی ہو اور دل کے عضلات پھیل کر بے جان ہونے لگیں، کالی سلف ان کے عضلات کے ڈھیلے پن میں کام آئے گی.لیکن یہ چھوٹی طاقت میں لمبے عرصہ تک کھلانی پڑتی ہے جس کے نتیجہ میں چند مہینوں کے اندر اندر اچھی تبدیلی واقع ہو جاتی ہے.مریض میں جان آنے لگتی ہے اور بہت حد تک جگر اور جسم کی چربی پگھل جاتی ہے.خواتین میں عموماً بچوں کی پیدائش کے بعد یہ الجھنیں پیدا ہوتی ہیں.جگر پر چربی چڑھنے لگتی
کالی سلف 517 ہے، جسم کے اعصاب پھیل جاتے ہیں، دل میں طاقت نہیں رہتی اور سانس جلد چڑھتا ہے.کالی سلف اگر بالمثل ہو تو بہت فائدہ ہوگا.ایسی مریضہ کی ٹانگیں بھاری ہو جاتی ہیں.کالی سلف میں لمس سے تکلیف اور مضبوط دباؤ سے آرام ملتا ہے.کالی سلف میں سردرد حرکت سے بڑھ جاتا ہے.کھلی ہوا میں آرام محسوس ہوتا ہے.یہ درد آنکھوں، پیشانی اور سر کی دونوں اطراف میں پھیل جاتا ہے.سر پر تنگی اور گھٹن کا احساس ہوتا ہے.آنکھوں کے پیوٹے آپس میں چپک جاتے ہیں، آنکھوں سے زردی مائل رطوبت نکلتی ہے، بہت خارش ہوتی ہے اور پانی نکلتا ہے.پیوٹوں پر دانے نکل آتے ہیں.آنکھ کا بصری پردہ (کورنیا) دھندلا جاتا ہے.کالی ملف اگر مزاجی دوا ہو تو آنکھ کی ان سب تکلیفوں کا ازالہ کرسکتی ہے.کان سے زرد رنگ کی بدبودار رطوبت نکلتی ہے.کان کے درمیانی حصہ میں خشکی پائی جاتی ہے.پہلے کان سے پانی کا اخراج ہوتا ہے پھر کچھ گاڑھا ہو کر وہ اخراج زردرنگ کا ہو جاتا ہے.جب بیماری مزمن شکل اختیار کرلے تو مزید متعفن ہو کر سبز رنگ کا ہو جاتا ہے اور کان کی جھلیوں سے خون بہنے لگتا ہے.یہ پیچیدگیاں آہستہ آہستہ بڑھتی ہیں اور کئی سالوں کے بعد کانوں کے پردے موٹے ہو جاتے ہیں، سخت بدبو آتی ہے اور بہرے پن کے آثار نمایاں ہو جاتے ہیں.اگر کالی سلف مزاجی دوا ہو تو شروع ہی میں دینے سے مذکورہ بالاکوئی پیچیدگی پیدا نہیں ہوگی.کالی سلف میں کانوں میں اور کانوں کے پیچھے خارش ہوتی ہے اور قسم قسم کا شور سنائی دیتا ہے.کالی سلف کے ایگزیما میں دانے اور چھالے نکل آتے ہیں ، جلن کا بہت احساس ہوتا ہے، جلد کا رنگ بدل کر مینڈک کی کھال کی طرح زردی مائل بے جان یا بے رنگ ہو جاتا ہے.عموماً جگر اور تلی کی خرابیوں کے نتیجہ میں ایسا ہوتا ہے.خون کی کمی اورسل کی بیماری بھی چہرہ پر بے رونقی اور زردی پیدا کر دیتی ہے.ایسی صورت میں چہرہ دیکھ کر بیماری کا اندازہ لگانا زیادہ مشکل نہیں ہوتا.چہرہ اور آنکھوں کی علامتوں سے امراض کی تشخیص نے ایک با قاعدہ فن کی صورت اختیار کر لی ہے اور جرمنی میں اس کے کئی پیشہ ور
کالی سلف 518 ماہرین ملتے ہیں.چھوت کے ہر قسم کے بخاروں میں بھی کالی سلف اگر مزا جی ہو تو بہت مؤثر دوا ہے.مثانے کا نزلہ مزمن ہو جاتا ہے.پیشاب کی بار بار حاجت ہوتی ہے.زیادہ تر رات کے وقت تکلیف بڑھ جاتی ہے.کالی سلف میں پریشان کن خواب بھی آتے ہیں.نیند پر سکون نہیں آتی.رات کو کھانے کے بعد گرم کمرہ میں ٹھہرنے سے چکر آتے ہیں.سر میں کھچاؤ ہوتا ہے، بال گرتے ہیں اور سر میں خشکی ہوتی ہے.ہونٹ کٹے پھٹے ہوتے ہیں.ڈاکٹر کینٹ کے نزدیک اگر ہونٹ پر مسہ بن جائے تو کالی سلف سے فائدہ ہوتا ہے.اپی تھیلیوما (Epithelioma) میں بھی کالی سلف مفید ہے.منہ میں چھالے بن جاتے ہیں.زبان پر لیس دار زر در طوبت ہوتی ہے.خشک کھانسی مگر کھڑ کھڑاہٹ کی آواز آتی ہے.زبان خشک ہوتی ہے.گلے کے غدود پھول جاتے ہیں اور نگلنے میں دقت ہوتی ہے.انڈے، ڈبل روٹی، گوشت، گرم کھانے اور پینے سے نفرت ہو جاتی ہے.کھانے پینے کے بعد معدے میں درد، جلن اور شیخ ، کھانسنے پر تے جس میں غیر ہضم شدہ غذا کے علاوہ بلغم ہوتی ہے.کھانے کے بعد پیٹ میں ہوا بھر جاتی ہے، تناؤ کا احساس بڑھ جاتا ہے اور ہوا باہر نہیں نکلتی.پھلپھلی اور میں جو جگر کی خرابی سے پیدا ہوتی ہیں مختلف اعضاء یا چہرے پر دکھائی دیتی ہیں.رات کو پیٹ میں درد اور دکھن کا احساس ہوتا ہے.سخت قبض اسہال سے ادلتی بدلتی رہتی ہے.بواسیر کے مسے بیرونی سطح کے علاوہ اندر بھی ہوتے ہیں جن میں خون بہنے کا رجحان ہوتا ہے.کالی سلف میں اجابت کے بعد پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں.مرک کار میں بھی یہ علامت ہے.اس میں اجابت کے دوران درد شروع ہوتا ہے جو بعد میں بھی جاری رہتا ہے.اسہال پتلے سیاہی مائل، چھیلنے والے اور بد بودار ہوتے ہیں.کالی سلف میں شدید خارش ہوتی ہے.گردوں کی اندرونی جھلیوں میں سوزش اور ہلکے یا شدید چبھن والے درد پائے جاتے ہیں.بعض دفعہ پیشاب میں البیومن بھی آتی ہے.پیشاب گہرے رنگ کا ، مقدار میں زیادہ اور جلن والا ہوتا ہے.کبھی یہ تھوڑا تھوڑا آتا ہے مگر آتا چلا جاتا
کالی سلف 519 ہے.یوں لگتا ہے کہ گردے مسلسل تھوڑا تھوڑا بد بودار متعفن پیشاب مزید بنائے چلے جارہے ہیں.کالی سلف مردانہ نا طاقتی اور کمزوری کے لئے بھی اچھی دوا ہے.ہر قسم کے سیلان الرحم ، سوزش اور جلن میں مفید ہے.رحم اپنی جگہ سے مل جاتا ہے، دوران حیض رحم میں درد ہوتا ہے اور نیچے دبانے والا بوجھ محسوس ہوتا ہے.ہوا کی نالی میں سبز، زرد اور کبھی سفید بلغم بنتا ہے.حجرہ میں خشکی اور چھیلنے کا احساس جو کھانے سے زیادہ ہو جاتا ہے.رات کے وقت بستر میں تکلیف بڑھ جاتی ہے.حجرہ میں سرسراہٹ ہوتی ہے.آواز کا بیٹھ جانا، بار بارز کام ہونا، بند کمرے میں دمہ کی تکلیف کا بڑھ جانا،سانس میں دقت جو کھانسنے سے یا لیٹنے اور چلنے سے اور شام کے وقت بڑھ جاتی ہے.کھلی ہوا میں تکلیف کم ہوتی ہے.نزلہ کے ساتھ کھانسی اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے.سردی سے سینہ میں کھڑ کھڑاہٹ گھٹن، جلن، درد اور بے چینی ہوتی ہے.صبح کے وقت بالغمی کھانسی بڑھ جاتی ہے اور رات کو خشک کھانسی زیادہ ہو جاتی ہے.موسم میں اچانک تبدیلی ہو اور سردی بڑھ جائے تو ایسی سردی سے بھی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں حالانکہ اس کی تکلیفیں عموماً پلسٹیلا کی طرح گرمی سے بڑھتی ہیں.گویا یہ دوا تضادات کا مجموعہ ہے.مزاج اور پیاس میں بھی یہی تضاد پایا جاتا ہے.یہی دوا بعض ایسے مریضوں کو بھی موافق آتی ہے جن کے مزاج پلسٹیلا کی طرح نرم اور غمگین ہوں اور بعض ایسے مریضوں کو بھی موافق آئے گی جن کے مزاج میں چڑ چڑا پن اور غصہ ہو.پھر اسی دوا میں پلسٹیلا کی طرح پیاس کا نہ ہونا بھی ملتا ہے اور کبھی سخت پیاس بھی ملتی ہے جو بجھنے کا نام نہ لے، منہ خشک ہی رہے اور معدہ میں گویا آگ سی لگی ہوئی ہو.انہی تضادات کے باعث میں نے شروع ہی میں متنبہ کیا تھا کہ اس دوا کا سمجھنا آسان کام نہیں.بائیو کیمی میں کالی سلف چھوٹی طاقتوں میں استعمال ہوتی ہے لیکن ہو میو پیتھی میں بڑی طاقت میں دینا زیادہ فائدہ مند ثابت ہوتا ہے.طاقت بائیو کیمک 6x یا ہومیو پیتھک کی حسب ضرورت اونچی طاقتیں
520
کر نیوزوٹ 521 128 کر ئیوز وشم KREOSOTUM کر ئیوزوٹ کا مزاج رکھنے والے مریضوں میں تین علامات نمایاں طور پر پائی جاتی ہیں.اول یہ کہ ان کے تمام اخراجات کاٹنے ، جلانے اور چیھنے والے ہوتے ہیں جن سے خراش پیدا ہوتی ہے.دوم، تمام جسم میں دھڑکن پائی جاتی ہے جو کیکٹس کی طرح شدید ہوتی ہے لیکن شیخ اور درد کا فقدان ہوتا ہے.تیسری خاص علامت سیلان خون ہے.ذرا سے دباؤ سے خون جاری ہو جاتا ہے.آنکھ میں ورم ہو تو معالج کے ہاتھ لگا کر دیکھنے سے بھی خون نکل آتا ہے.رحم میں ایسی کیفیت پیدا ہو تو ایسی عورتوں کو مسلسل خون آنے کی شکایت ہو جاتی ہے.حیض کے ایام گزرنے کے باوجود بھی خون جاری رہتا ہے.ذراسی سوئی چبھ جائے تو خون کی بوندیں ٹپکنے لگتی ہیں.بعض دفعہ آنسوؤں میں بھی خون کی آمیزش ہوتی ہے.چھوٹی چھوٹی وجوہات سے خون کا جاری ہونا اور جسم کے کسی بھی حصہ سے خون جاری ہونے کا رجحان کر ئیوزوٹ کی خاص علامت ہے.مسوڑھے بھی ڈھیلے پڑ کر دانتوں کو چھوڑنے لگتے ہیں.ہاتھ سے دانت صاف کرنے پر بھی خون نکل آتا ہے.عام طور پر سرخ خون بہتا ہے لیکن درمیان میں سیاہ خون کا سیلان بھی شروع ہو جاتا ہے.منہ کے کنارے چھل جاتے ہیں.خشک اور چھلے ہوئے ہونٹ اس کی خاص علامت ہیں.ناک کے کنارے بھی چھلے ہوئے اور زخمی ہوتے ہیں.عموماً بگڑے ہوئے نزلہ میں یہ علامت ملتی ہے لیکن کر نیوزوٹ میں یہ علامت مستقلاً پائی جاتی ہے.اکثر مخارج سے خون بہتا رہتا ہے.ناک ، آنکھ ، گردوں اور رحم سے خون بہنا اس دوا کا خاص مزاج ہے.کر ئوزوٹ میں مزاج کی تیزی اور جلد غصہ آ جانا کیمومیلا سے مشابہ دکھائی دیتا ہے.
کر نیوزوٹ 522 لیکن کیمومیلا کا مزاج ہی غصہ والا ہوتا ہے جبکہ کر ئوزوٹ میں یہ کیفیت عارضی ہوتی ہے.بیماری کی شدت سے مریض چڑ جاتا ہے جس کی وجہ سے طبیعت میں کیمومیلا کی علامات پیدا ہو جاتی ہیں.کیمومیلا کا مریض تندرست ہو یا بیمار، ہر حال میں غصے والا ہی رہے گا اور اس کے مزاج میں بدخلقی اس کی سرشت بن جاتی ہے.کر ئوزوٹ میں خون کے اخراج کی وجہ سے ماؤف حصہ چھل جاتا ہے اور جلن ہوتی ہے.اگر اس کے اخراجات سیاہی مائل ہوں تو ان میں بد بو بھی پائی جاتی ہے.کر ئیوز وٹ رات کو بچوں کے پیشاب نکل جانے کی بہترین دوا ہے.اس میں یکا یک پیشاب کی حاجت اتنی شدید ہوتی ہے کہ پیشاب کرنے کی جگہ تک بھی نہیں پہنچ پاتے.اگر اس دوا کو کچھ عرصہ استعمال کیا جائے تو رفتہ رفتہ پیشاب کی حاجت کی تیزی میں کمی آجاتی ہے اور پیشاب کو روکنے کی طاقت بڑھ جاتی ہے.معدے میں بھی تیزابیت، قے اور متلی کا رجحان ملتا ہے.قے کا مواد گلے میں جلن اور خراش پیدا کرتا ہے.منہ کا ذائقہ خصوصاً پانی پینے کے بعد کڑوا معلوم ہوتا ہے.معدے میں درد جسے کچھ کھانے سے آرام ہو مگر کھانے کے بعد قے ہو جاتی ہو.گرم غذا سے مریض بہتر محسوس کرتا ہے جبکہ ٹھنڈی غذا سے بیماریوں میں اضافہ ہو جاتا ہے.معدے میں کھچاؤ اور ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے.کینسر کے رجحان والے مریض میں بھی کر ئوزوٹ مفید ہے خصوصاً معدے کے کینسر کے آغاز میں کو نم کے ساتھ ملا کر دی جائے تو فائدہ پہنچاتی ہے.بیماری کی پوری علامتیں ظاہر ہونے سے پہلے ہی اگر کر ئوزوٹ کی علامتیں نظر آئیں تو فوراً شروع کروا دینی چاہئے ورنہ اگر یہ کینسر ایک دفعہ شروع ہو جائے تو اسے سنبھالنانا ممکن ہوتا ہے.مناسب علاج مریض کو صرف آرام تو پہنچا سکتا ہے مکمل شفا نہیں بخشا.زندگی کو سہولت سے اپنی آخری مقررہ اجل“ تک بڑھانے کی ایک کوشش ہوتی ہے.یہ محاورہ میں نے عمداً استعمال کیا ہے کیونکہ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ زندگی کے کچھ سال بڑھائے جاسکتے ہیں.سال تو نہیں بڑھ سکتے لیکن اللہ تعالیٰ کی مقرر کردہ انتہائی مدت سے زندگی کے جو سال کم ہو رہے ہیں ان کی کمی کو دور کیا جا سکتا ہے.بیماری اور شفا کا یہی فلسفہ ہے.گویا صحیح
کر نیوزوٹ 523 علاج سے مقررہ مدت تک عمر لمبی کی جاسکتی ہے.بیماری عمر کوکم کردیتی ہے اور صحت عمر کو مقررہ عمر تک لے جانے میں مدد کرتی ہے.کر ئیوزوٹ گرمیوں کے اسہال میں بھی کام آتی ہے کیونکہ سخت گرم موسم میں جو اسہال شروع ہو جائیں ان میں بسا اوقات کر ئیوزوٹ کی علامتیں پائی جاتی ہیں.اسی طرح یہ دوا یا بیٹس کے مریض کو بھی مکمل شفا بخشتے کی طاقت رکھتی ہے.بچوں کے دانت نکالنے کے زمانے میں اگر بوسیدہ اور کالے رنگ کے دانت نکلیں اور دانتوں کو نکلتے ہی کیڑا لگ جائے اور مسوڑھے سیاہی مائل ہوں تو کر نیوزوٹ اکسیر ثابت ہوتی ہے.کر ئوزوٹ میں زبان پر سفیدی مائل نہ جم جاتی ہے.ہونٹ سرخ جن میں خون بہنے کا رجحان ہوتا ہے.منہ کا ذائقہ کڑوا ہوتا ہے.کھلی ہوا، سردی کے موسم ٹھنڈے پانی اور نہانے سے اور لیٹنے سے تکلیفیں بڑھتی ہیں جبکہ گرمی سے عموماً تکلیف کم ہو جاتی ہے سوائے اس کے کہ سخت گرمی کے اثر سے اسہال شروع ہو جائیں.دافع اثر دوائیں نکس وامیکا طاقت 30 سے 1000 تک
524
لیک کینائینم 525 129 لیک کینا ئینم LACCANINUM لیک کینا ئینم کتیا کے دودھ سے تیار کی جانے والی دوا ہے.اسی وجہ سے اکثر لوگ اس سے کراہت محسوس کرتے ہیں اور ہاتھ لگانے سے بھی اجتناب کرتے ہیں حالانکہ بعض دوائیں مثلاً سورائیم اور تعلیم وغیرہ کتیا کے دودھ سے بھی زیادہ مکروہ اور خطرناک مواد سے تیار کی جاتی ہیں.کتیا کا دودھ اگر ہومیو پیتھک طاقت میں دیا جائے تو اصل سے بالکل برعکس ہو جاتا ہے اور ایک پاک صاف اور شفاف دوا بن جاتا ہے.اس لئے اس کے استعمال سے گھبرانا نہیں چاہئے.پہلے پہل ڈاکٹر رائزنگ (Dr.Reisig) اور ڈاکٹر بیئرڈس (Dr.Bayard's) نے اس دوا کی آزمائش کی اور کئی بیماریوں میں اسے بہت مفید پایا.ان دونوں کی وفات کے بعد ڈاکٹر ڈائر (Dr.Dyer) نے اس دوا کو از سر نو رواج دیا جس کے بعد ڈاکٹر کینٹ نے اسے بہت شہرت دی اور بہت وسیع پیمانہ پر اسے بعض بیماریوں کے علاج میں کامیابی سے استعمال کیا.اس دوا کی سب سے بڑی علامت اعصابی بے چینی اور اعصابی انتشار ہے.اعصاب اچھلنے لگتے ہیں.کتوں میں یہ علامت پائی جاتی ہے کہ یہ فرضی چیزوں پر اچھلتے ہیں اور فضا میں بھونکتے ہیں.اسی وجہ سے اکثر افسانہ نگاروں نے اپنی کہانیوں میں یہ لکھا ہے کہ کتوں کو جن بھوت اور روحیں نظر آتی ہیں.ان ڈاکٹروں کو اس پس منظر کا علم نہیں تھا لیکن جب کتیا کے دودھ کی ہو میو پیتھک پوٹینسی بنائی گئی تو پتہ چلا کہ اس میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ اگر انسان پر اس کی آزمائش کی جائے تو اسے فضا میں فرضی چیزیں دکھائی دینے لگتی ہیں اور وہ محسوس کرتا ہے کہ یہ چیزیں ابھر کر ایک وجود بن کر مجھے نقصان پہنچائیں گی.یہ بات کتے کے مزاج میں داخل ہے اور اس کے دودھ کے ذریعہ
لیک کینا ئینم 526 انسانی دماغ میں بیماریاں بن کر ابھرتی ہے.اگر بیماریاں پہلے سے موجود ہوں تو اس دودھ کی ہومیو پیتھک دوائی میں ان کو ٹھیک کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے.اس دوا میں اعصابی علامات بہت نمایاں ہوتی ہیں.غدودوں پر بھی یہ اثر انداز ہوتی ہے.بڑھے ہوئے غدودوں کو ٹھیک کر دیتی ہے.اگر غدودوں میں زخم ہو جائیں تو ان کی سطح بہت چمکدار ہو جاتی ہے.ایسی چمک پائی جاتی ہے جو نظر کو بری لگتی ہے.تناؤ بھی ہوتا ہے.لیک کینا ئینم ایسے زخموں کو ٹھیک کر دیتی ہے.لیک کینا ئینم میں جلد کی شدید زود حسی پائی جاتی ہے.عموماً عورتوں میں یہ زود حسی نمایاں ہوتی ہے اور وہ پانچوں انگلیاں پھیلا کر رکھتی ہیں.اگر اتفاقا ایک انگلی دوسرے سے لگ جائے تو چلا اٹھتی ہیں.کپڑے کا ہلکا سالمس بھی برداشت نہیں کر سکتیں.لیکیس میں بھی یہ زود سی پائی جاتی ہے اور بعض دفعہ یہ دونوں ایک دوسرے کی متبادل دوائیں بن جاتی ہیں.لیکیس اور لیک کینا ئینم میں ایک اور مشترک بات یہ ہے کہ دونوں کے مریضوں کے احساسات بہت تیز ہو جاتے ہیں اور وہ خیالی چیزوں سے بھی خوف کھانے لگتے ہیں.اس قسم کی علامات ملنے کے باوجود دونوں میں فرق بھی نمایاں ہیں.لیک کینا ئینم کا مریض اکیلا نہیں رہ سکتا جبکہ لیکیسس کا مریض تنہائی چاہتا ہے.لیکیس کی تکلیفیں نیند کے بعد بڑھتی ہیں اور بائیں طرف سے دائیں طرف حرکت کرتی ہیں.ذہنی اور نفسیاتی بیماریاں :.لیک کینائینم میں ایک اور بات نمایاں ہے کہ اس کا مریض چلتا ہے تو محسوس کرتا ہے کہ وہ فضا میں تیر رہا ہے.وہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے وہ جھوٹ ہے.وہ اپنے آپ کو جھوٹا سمجھتا ہے.لیک کینا ئینم کی ایک علامت جو کسی اور دوا میں نہیں ہے وہ یہ ہے کہ اس کا مریض سمجھتا ہے کہ اس کے منہ پر دوسرے کی ناک لگی ہوئی ہے یا یہ کہ اس کا جسم کسی اور کا جسم ہے اور اس کی بجائے کوئی اور بات کر رہا ہے.لیک کینا ئینم جوڑوں کے درد میں بھی مفید ہے.سارے بدن کے عضلات میں درد ہوتا ہے جو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہتا ہے.اچھل اچھل کر جگہیں بدلتا ہے
527 لیک کینا ئینم اور سردی سے آرام پاتا ہے.لیڈم اور پلسٹیلا میں بھی خصوصیت سے یہ علامت پائی جاتی ہے.پلسٹیلا کا عمومی مزاج گرم ہے لیکن لیڈم کا مزاج گرم نہیں ہے البتہ وجع المفاصل کو ٹھنڈی ٹکور سے آرام آتا ہے یہاں تک کہ بعض مریض پانی میں برف کی ٹکڑیاں ڈال کر اس میں اپنے پاؤں رکھتے ہیں.لیڈم میں جوڑوں کی دردیں اکثر نیچے سے شروع ہو کر اوپر کی طرف حرکت کرتی ہیں.لیک کینا ئینم میں روشنی اور شور سے زود سی پائی جاتی ہے.پڑھتے ہوئے آنکھوں کے سامنے ہلکی سی دھند آ جاتی ہے.آواز میں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں.قریب کی آواز میں بھی دور ہوتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں.یہ علامت کسی اور دو امیں نہیں پائی جاتی.لیک کینائینم ڈفتھیر یا یعنی خناق کی بہترین دواؤں میں سے ایک ہے.خصوصاً اگر گلے میں دردیں ایک طرف کے ٹانسلز سے دوسری طرف اور پھر دوسرے ٹانسلز سے پہلے ٹانسلز کی طرف بار بار کودتی رہیں.کسی زمانے میں خناق بہت عام بیماری تھی اور اس کا علاج بہت مشکل تھا لیکن اب اس کا مدافعتی ٹیکہ ایجاد ہو چکا ہے جس کی وجہ سے اس بیماری پر قابو پالیا گیا ہے.لیکن تیسری دنیا کے غریب ممالک میں ابھی بھی یہ بیماری موجود ہے.یہ بہت خطرناک بیماری ہے اس میں بیماری کا زہریلا مادہ سرمئی رنگ کے مواد کی صورت میں گلے میں جم جاتا ہے اور تہہ بہ تہہ موٹا ہوتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ سانس کی نالی کو بند کر دیتا ہے.سانس لینے میں سخت دقت ہوتی ہے اور کھانا پینا تو تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے.خناق کی بہترین ہومیو پیتھک دوا اسی بیماری کے مادے سے تیار کی گئی ہے جس کا نام دفتھیر بینم (Diphtherinum) ہے.دوسو طاقت سے شروع ہوکر آہستہ آہستہ طاقت بڑھانی چاہئے.اس کی تفصیل کے لئے ڈفتھیرینم کے باب کا مطالعہ کریں.اگر خناق کی علامت یہ ہو کہ ایک طرف سے تکلیف اچھل کر دوسری طرف جائے اور پھر واپس آ جائے تو ایسی صورت میں لیک کینا ئینم چوٹی کی دوا ہے.بسا اوقات خناق کے زہر سے گلے میں مستقل فالج کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے یعنی خناق ٹھیک بھی ہو جائے لیکن فالج رہ جائے تو لیک کینا ئینم بہت فائدہ مند ہے.اگر نزلہ، زکام کے بعد یا خناق کے امراض کے ٹھیک
528 لیک کینا ئینم ہونے کے بعد دل کی تکلیف ہو جائے تو سب سے پہلے سپائی جیل یا ذہن میں آنی چاہئے.اس سے تکلیف وہیں رک جاتی ہے اور آگے نہیں بڑھتی.بعض مریضوں کو کھانے کی نالی میں فالج ہو جاتا ہے اور وہ کوئی ٹھوس چیز نگل نہیں سکتے.بعض بچوں میں فالجی کیفیت تو نہیں ہوتی لیکن اس نظام میں کمزوری کی وجہ سے ٹھوس چیزیں نگلنے کی طاقت ہی نہیں رہتی.اس علامت میں لیک کینا ئینم بہت مفید ہے مگر اس کا تعلق صرف عضلات کے فالج سے ہے دوسری کمزور یوں سے نہیں.لیک کینا ئینم کا عورتوں کی بیماریوں سے بھی تعلق ہے.رحم اور بیضہ الرحم میں دونوں طرف درد ہوتا ہے.حیض کھل کر جاری ہونے سے مریض کی تمام نسوانی تکلیفیں دور ہو جاتی ہیں.اس لحاظ سے اس کا مزاج سمی سی فیو جا سے بالکل مختلف ہے.سمی سی فیو جا میں حیض کھل کر جاری ہو تو تکلیفیں بھی بڑھ جاتی ہیں لیکن لیک کینا ئینم میں رحم کی وہ تکلیفیں شامل ہیں جو سارا مہینہ جاری رہیں اور کھل کر حیض جاری ہونے پر بالکل ختم ہو جائیں.گلے کی خرابی حیض کے ساتھ شروع ہوتی ہے اور حیض ختم ہونے کے ساتھ ہی ختم ہو جاتی ہے.یہ لیک کینائینم کی امتیازی علامت ہے جو ذہن نشین رہنی چاہئے.دنیا کے کسی اور طبی نظام میں ایسی علامتوں پر غور نہیں کیا جاتا بلکہ ان کے نزدیک تو یہ فرضی اور بے معنی باتیں ہیں.ہومیو پیتھی میں اس قسم کی عجیب علامتیں ضرور کسی نہ کسی دوا کی طرف اشارہ کرتی ہیں اس لئے انہیں یا درکھنا ضروری ہے.مثلاً اگر حیض شروع ہونے سے پہلے گلا خراب ہوتا ہوتو یہ میگنیشیا کا رب کی بھی علامت ہے لیکن اس صورت میں حیض ختم ہونے کے ساتھ گلا ٹھیک نہیں ہو گا بلکہ اس کا الگ علاج کرنا پڑے گا.گلے کی خرابی کا حیض کی ابتدا اور اختتام سے تعلق ہونا لیک کینائینم کا خاصا ہے.کلکیر یا کارب میں بھی سمی سی فیوجا کی طرح حیض کے کھل کر جاری ہونے سے تکلیف بڑھتی ہے مگر کلکیریا کارب میں اس تکلیف کا گلے سے تعلق ہوتا ہے،اندرونی اعضاء سے نہیں.لیک کینائینم میں حیض کے خون کے ساتھ جمے ہوئے خون کے لوتھڑے آتے ہیں.
لیک کینا ئینم 529 بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ رحم کی جھلیوں کے ٹکڑے کٹ کٹ کر آ رہے ہیں.یہ علامت کرئیو زوٹ میں بھی پائی جاتی ہے.حیض کا خون وقت سے پہلے اور مقدار میں زیادہ ہوتا ہے.عورتوں کی چھاتیاں حیض آنے سے پہلے یا دودھ پلانے کے زمانے میں پک جاتی ہیں اور ان میں سوزش ہو جاتی ہے.اگر کسی وجہ سے عورت بچے کو دودھ نہ پلا سکے اور دودھ خشک کرنا مطلوب ہو تو پلسٹیلا اور لیک کینا ئینم بہت مفید دوائیں ہیں کیونکہ ان دونوں دواؤں کا مزاج اس پہلو سے باہم ملتا جلتا ہے.طاقت: 30 یا اس سے اونچی
530
لیک ڈیف 531 130 لیک ڈیفلوریٹم LAC DEFLORATUM لیک ڈیفلو ریٹم ایک ایسی دوا ہے جس کے بارہ میں کہا جاتا ہے کہ اسے چکنائی نکلے ہوئے دودھ (Skimmed milk) سے تیار کیا جاتا ہے.میں اس نظریہ سے کلیتا متفق نہیں ہوں کیونکہ دودھ سے جس حد تک بھی چکنائی نکالی لی جائے پھر بھی اس کے کچھ نہ کچھ ذرات دودھ میں موجود رہتے ہیں.چنانچہ یہ محض وہم ہے کہ یہ چکنائی کے بغیر دودھ سے تیار کی جانے والی دوا ہے.یہ تو ممکن ہے کہ چکنائی نکلنے کی وجہ سے دودھ پتلا ہو جائے مگر یہ درست نہیں کہ اس میں چکنائی کا کوئی حصہ بھی باقی نہ رہے.اگر ہو میو پیتھی نظریہ درست ہے تو ایسے دودھ میں چکنائی کا جز وضرور موجود رہے گا.اس لئے اگر عام دودھ سے بھی یہ دوا تیار کی جائے تو بعینہ وہ بھی وہی صفات رکھے گی جو چکنائی نکلے ہوئے دودھ سے بنائی گئی دوا رکھتی ہے.لیک ڈیف ان بچوں کے لئے بہت مفید ہے جنہیں دودھ سے الرجی ہوتی ہے.وہ دودھ ہضم نہیں کر سکتے اور انہیں اسہال وغیرہ شروع ہو جاتے ہیں.بعض اوقات لیک ڈیف کی CM میں ایک خوراک ہی بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے اور پھر دوبارہ کوئی تکلیف نہیں ہوتی لیکن کبھی بعض جزوی علامتیں باقی رہ جاتی ہیں یا کچھ عرصہ اثر دکھا کر پھر فائدہ رک جاتا ہے.لیک ڈیف بہت ٹھنڈے مزاج کی دوا ہے جبکہ لیک کینا ئینم کا مزاج بہت گرم ہوتا ہے.ایک ڈیف کا مریض بے حد ٹھنڈا ہوتا ہے.گرم کمرے میں گرم کپڑوں میں لپٹ کر بھی اس کی سردی دور نہیں ہوتی.سانس لینے سے جو ہلکی سی ہوا چہرے پر محسوس ہوتی ہے.اس سے بھی اسے سردی لگتی ہے.سردی کا یہ شدید احساس آرنیکا لیکیسس اور
لیک ڈیف 532 سورائیم وغیرہ کی سردی سے بہت مختلف ہے.اس میں سارا بدن ہی ٹھنڈا ہوتا ہے.مریض سردی سے اس حد تک زود حس ہو جاتا ہے کہ بند کمرے میں جہاں ہوا کا نام ونشان بھی نہ ہو وہ ٹھنڈی ہوا کو محسوس کرتا ہے اور اعصابی اور بائی کی دردوں میں مبتلا ہو جاتا ہے.ویسے تو عموماً سارے جسم میں ہی درد ہوتا ہے لیکن سر میں خاص طور پر زیادہ تکلیف محسوس ہوتی ہے.یہ درد تعفنی مادوں کی وجہ سے نہیں بلکہ بائی کا درد (Rhematic) ہوتا ہے.چہرے اور سر کے اعصابی ریشوں میں شدید درد ہوتا ہے.اگر مریض بہت ٹھنڈا ہو تو لیک ڈیف کو یا درکھنا چاہئے.لیک ڈیف کی تکلیفوں کو گرمی پہنچانے سے فائدہ ہوتا ہے لیکن مریض کسی صورت گرم ہونے میں نہیں آتا.ہمیشہ ٹھنڈا ہی رہتا ہے.آرام اور دباؤ سے درد میں افاقہ ہوتا ہے.جلد بہت زودحس ہو جاتی ہے.یہ زود حسی بعض اور دواؤں میں بھی پائی جاتی ہے.لیک کینا ئینم میں جلد کی زود حسی دردوں کے احساس سے تعلق رکھتی ہے لیکن لیک ڈیف میں محض سردی سے.ایک ڈیک ایک ایسی دوا ہے جسے عموما ذیا بیس میں نظر انداز کیا گیا ہے.حالانکہ اگر اس کی دوسری علامتوں کے ساتھ ذیا بیطس بھی ہو تو یہ خدا کے فضل سے اکیلی ہی مکمل شفا بخشنے کی طاقت رکھتی ہے.بعض دفعہ اونچی طاقت میں ایک ہی خوراک مریض کو ٹھیک کر دیتی ہے.میں نے بارہا ذیا بیطس کے مریضوں کو ٹھیک ہوتے دیکھا ہے.یہ کوئی ایسی بیماری نہیں ہے کہ ہر مریض کو مسلسل دواؤں کا محتاج رہنا پڑے.مناسب ہو میو پیتھک علاج سے مرض سرے سے غائب ہوسکتا ہے لیکن بہت سے مریضوں کا مسلسل علاج بھی کرنا پڑتا ہے.ذیابیطس کے مریضوں سے تعلق رکھنے والی بعض علامتیں مثلاً پیشاب کی کثافت، بار بار پیشاب کا آنا ، شدید پیاس لیک ڈیف میں بغیر ذیا بیطیس کے بھی پائی جاتی ہیں.ہومیو پیتھی دوائیں بیماریوں کے مخصوص گروہوں سے تعلق رکھتی ہیں.اگر بنیادی علامتوں کا علاج کیا جائے تو اس گروہ سے تعلق رکھنے والے دیگر امراض بھی دور ہو سکتے ہیں.
لیک ڈیف 533 وہ مریض جنہیں دودھ سے نفرت ہو یا ان کی تکلیفیں دودھ پینے سے بڑھ جائیں، متلی، قے ، سر درد، ڈکار، معدہ میں ہوا وغیرہ پیدا ہونے لگے تو اس قسم کی سب علامتوں میں لیک ڈیف کی ایک لاکھ میں ایک خوراک ہی کارگر ثابت ہوسکتی ہے.بعض دفعہ اسے کچھ عرصہ بعد دو ہرانا پڑتا ہے.اگر دو خوراکوں کے بعد بھی کوئی فرق نہ پڑے تو پھر اس دوا کے پیچھے نہیں پڑنا چاہئے.اگر اس نے فائدہ دینا ہو تو فور ادیتی ہے ورنہ بالکل اثر نہیں کرتی.پہلی خوراک سے افاقہ ہو لیکن علامتیں جلد واپس آجائیں تو ایک ہفتہ کے بعد دوسری خوراک دے دیں.لیک ڈیف کی سب علامتوں میں ملیریا کے پرانے اثرات بھی ملتے ہیں مثلا خون کی کمی ، سوجن ، ذیا بیطس کی علامتیں ، دل کی کمزوری وغیرہ وغیرہ.ان سب علامتوں کو الگ الگ یاد رکھنے کی بجائے صرف یہ بات ذہن میں رکھنی چاہئے کہ اس دوا کا مزاج سخت ٹھنڈا ہے.جلد سردی کی وجہ سے سخت زود حس ہو جاتی ہے اگر یہ علامتیں اکٹھی ہو جائیں اور پھر دل کی تکلیف ہو یا ملیر یا اور ذیا بیطیس کے آثار ظاہر ہوں تو ان میں اس بات کا بھاری امکان ہوتا ہے کہ یہ ان سب بیماریوں میں بھی مفید ثابت ہوگی.دل کی بیماریوں میں لیک ڈیف کے استعمال کا مجھے ذاتی تجربہ نہیں ہے اس لئے میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ایک ڈیف اونچی طاقت میں مفید رہے گی یا چھوٹی طاقت میں.تاہم چونکہ یہ دل کا معاملہ ہے اس لئے احتیاطاً چھوٹی طاقتوں سے علاج شروع کرنا چاہئے.اگر فائدہ ہو تو دہرائیں اور پھر آہستہ آہستہ دوا کی طاقت بھی بڑھاتے جائیں.دل کو نسبتاً آہستہ آہستہ آرام آتا ہے اس لئے چھوٹی طاقتیں ہی محفوظ ہیں.ایک ڈیف کے مریض کی یادداشت بھی کمزور ہو جاتی ہے اور وہ دماغی کام سے بوجھ محسوس کرتا ہے.یہ دو دل اور جگر کی چربی کی بیماری (Fatty Degeneration) میں بھی بہت مفید ہے.عموماً یہ بیماری شراب کے عادی لوگوں میں پائی جاتی ہے.لیکن زیادہ چر بی کھانے والوں کو بھی ہو جاتی ہے.جگر میں چربی کے جالے بننے لگتے ہیں جو عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتے جاتے ہیں.جگر کے جس حصہ میں بھی یہ بیماری ہو وہ حصہ عملاً
لیک ڈیف 534 ماؤف ہو جاتا ہے اور جو کیمیائی رطوبات وہاں بننی چاہئیں ان کی مقدار کم ہونے لگتی ہے.ایک ڈیف کا اس مرض میں مفید ہونا یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ چکنائی کے بداثرات کو دور کرتی ہے.لیک ڈیف کے مریض میں غم کا احساس بھی پایا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں موت کی خواہش بڑھ جاتی ہے اور مریض ایسا طریقہ ڈھونڈتا ہے جس میں سب سے زیادہ آسانی سے موت واقع ہو.ایسا مریض متشدد نہیں ہوتا.اس کی اداسی میں نرمی پائی جاتی ہے اور وہ موت میں بھی آسانی ڈھونڈتا ہے کہ مرتے ہوئے زیادہ تکلیف نہ ہو.مشہور شاعر غالب بھی لیک ڈیف کا مریض معلوم ہوتا ہے جب وہ کہتا ہے.ڈھونڈے ہے اس مغنی آتش نفس کو جی جس کی صدا ہو جلوہ برق فنا مجھے یعنی دل ایسے مغنی ( گانے والے) کو ڈھونڈ رہا ہے جس کی آواز میں ایسا سوز ہو جس سے فنا کی بجلی چمکے اور انسان آنا نا نا بغیر تکلیف کے احساس کے مرجائے.یہ تو مرنے کا بہت عمدہ طریقہ ہے لیکن افسوس! اسے کوئی ایسا مغنی ملا نہیں.لیک ڈیف کے مریض کو ہاتھ اونچا کرنے سے بھی چکر آتے ہیں.اس کے سر کے چکر کو نیم (Conium) سے مشابہ ہیں.کو نیم میں لیٹ کر ذراسی کروٹ بدلتے ہوئے یا آنکھ کی حرکت سے بھی چکر آتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے بستر گھوم گیا ہے.لیک ڈیف میں بھی یہی کیفیت ہوتی ہے جبکہ ایک کینا ئینم میں چلتے ہوئے چکر آتے ہیں مگر مریض کو محسوس ہوتا ہے کہ ساری کائنات بہت لطیف انداز سے گھوم رہی ہے اور وہ پریوں کے دیس میں چلا گیا ہے.اس علامت کا فلک سیر یعنی بھنگ سے بھی تعلق ہے جس میں مریض کو ہواؤں میں پھرنے اور تیرنے کا احساس ہوتا ہے.اس کی سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ وقت گزرنے کا احساس متاثر ہوتا ہے.کبھی لگتا ہے کہ ایک سیکنڈ میں سارا زمانہ گزر گیا ہے کبھی غم اور تکلیف کے دور میں وقت گزرتا ہی نہیں اور ہرلمحہ لمبا ہوتا جاتا ہے.لیک ڈیف میں یہ عجیب کیفیت ہوتی ہے کہ وقت مزے کے احساس کے
لیک ڈیف 535 ساتھ لمبا ہوتا جاتا ہے حالانکہ خوشی اور مزے کے دور میں لمحے سکڑ جایا کرتے ہیں اور وقت بہت تیزی سے گزرتا ہے.لیک ڈیف کے مریض کا دماغ ایک بات پر ٹھہرتا نہیں بلکہ ادھر ادھر بھٹکتا رہتا ہے.اسے کسی بات پر یقین نہیں رہتا.لیک ڈیف میں عورتوں کے سر درد سے تعلق میں ایک علامت بہت نمایاں ہے یعنی حیض سے پہلے اور بعد میں سر میں درد ہوتا ہے جو گدی، پیشانی اور کنپٹیوں تک پھیل جاتا ہے.اگر حیض سے پہلے اور بعد میں زردی مائل بد بودار لیکوریا کا اخراج ہو تو یہ بھی لیک ڈیف کی پختہ علامت ہے.یہ دونوں علامتیں مل جائیں تو علاج بہت سہل ہو جاتا ہے.لیک ڈیف حمل کی متلی میں بھی بہت مفید دوا ہے.ایسی مریضہ جس کا موٹاپے کی طرف میلان ہو اور جسم ٹھنڈا رہتا ہو.اسے ذیابیطس ہو جائے تو لیک ڈیف بھی اس کی ایک امکانی دوا ہوگی.اگر کوئی عورت ضرورت سے زیادہ موٹے بچے کو جنم دے جبکہ غذا و غیرہ نارمل ہو تو اس بات کا بھاری خطرہ موجود ہے کہ اسے ذیا بیطیس ہو جائے گی اور بچے میں بھی رجحان ہو گا.اگر اس کا مزاج ٹھنڈا ہے اور جسم ٹھنڈا رہتا ہے تو لیک ڈیف اسے مکمل شفا دے سکتی ہے اس لئے فوراً اس کے ذریعہ علاج شروع کرنا چاہئے.وہ عورتیں جو موٹی ہوں جسم ٹھنڈا ہو اور وہ دودھ ہضم نہ کر سکتی ہوں ان کے لئے یہ دوا نہایت مفید ہے.اگر کسی عورت کو دودھ سے نفرت نہ بھی ہو مگر اسے دوران حمل دودھ ہضم نہ ہوتا ہو تو اس کی حمل کی متلی کو بھی خدا کے فضل سے یہ دوا ٹھیک کر دیتی ہے.اس میں معدہ کی ان تمام بیماریوں کی علامتیں پائی جاتی ہیں جو دودھ ہضم نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں.دودھ ہضم نہ ہونے کے نتیجہ میں یا مرغن غذاؤں کے استعمال سے نظام ہضم میں خرابی ہو جائے تو عموماً پلسٹیلا استعمال کی جاتی ہے مگر پلسٹیلا کا مزاج بہت گرم اور لیک ڈیف کا بہت ٹھنڈا ہوتا ہے اور یہی علامت ان دونوں کو ممتاز کرتی ہے.ایک ڈایف میں روشنی سے شدید زود حسی پائی جاتی ہے.آنکھوں میں چھوٹے چھوٹے کنکر چھنے کا احساس ہوتا ہے.نظر دھندلا جاتی ہے.
لیک ڈیف 536 لیک ڈیف کا مریض سوتے ہوئے دانت آپس میں کٹکٹاتا ہے.اگر پیٹ میں کیڑے ہوں تو بچے سوتے ہوئے دانت رگڑتے ہیں یا جبڑوں میں سوجن ہو جائے تو اس کے نتیجہ میں بھی بچہ دانت کٹکٹاتا ہے.اسی طرح معدہ کی خرابی خواہ پیٹ میں کیڑے نہ بھی ہوں لیکن دودھ ہضم نہ ہو تو تب بھی بچہ دانت کٹکٹاتا ہے.یہ تینوں احتمالات ہیں جنہیں پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر پیٹ میں کیڑے ہوں تو بچے کی ناک کے اوپر سخت کھجلی ہوتی ہے اور کنارے زرد ہو جاتے ہیں.ہونٹوں کے کناروں پر بھی زردی پائی جاتی ہے.دوسری علامت یہ ہے کہ مریض سخت بھوک محسوس کرتا ہے.ان دونوں علامتوں میں سائنا (Cina) چوٹی کی دوا سمجھی جاتی ہے اور سباڈیلا (Sabadilla) بھی بہت مفید ہے.لیک ڈیف میں تیسری علامت متلی کی ہے جس کے ساتھ قے کا رجحان نہیں ہوتا اور قے شاذ کے طور پر ہوتی ہے.اس لحاظ سے یہ اپی کاک سے مشابہ ہے مگر اپی کاک میں قے کارجحان نسبتاً زیادہ ہے.لیک ڈیف کے مریض کی قبض بہت شدید ہوتی ہے.قبض کے نکتہ نگاہ سے یہ سلیشیا سے بھی زیادہ سخت علامتوں کی حامل ہے.بعض دفعہ زور لگانے سے رگیں پھٹ جاتی ہیں لیکن اجابت نہیں ہوتی.ایسے مریضوں کو بواسیر یا ہر نیا کی شکایت بھی ہو جاتی ہے.لیک ڈیف میں سردرد کے ساتھ کھلا پیشاب آتا ہے جو جلسیمیم کی بھی علامت ہے.جلسیمیم بھی ٹھنڈے مزاج کی دوا ہے لیکن ایک فرق یہ ہے کہ لیک ڈیف میں سخت پیاس ہوتی ہے جبکہ جلسیم میں پیاس مفقود ہوتی ہے.لیک ڈیف میں پیشاب مقدار میں زیادہ اور ہلکے پہلے رنگ کا ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ گاڑھا اور سیاہی مائل بھی ہوتا ہے جس کا مطلب ہے کہ البو من (Albumen) آ رہی ہے.اگر باقی علامتیں بھی لیک ڈیف کی ہوں تو یہ بہت مفید ثابت ہوگی.لیک ڈیف کی ایک عجیب علامت جو غالباً مردوں کی نسبت عورتوں میں زیادہ نمایاں ہوتی ہے یہ ہے کہ اگر بہت سردی کے موسم میں باہر نکلیں تو پیشاب پر کنٹرول نہیں رہتا
لیک ڈیف 537 اور بے اختیار از خود ہی نکلنے لگتا ہے.وہ عضلات جو پیشاب کو کنٹرول کرتے ہیں سردی کی وجہ سے بے حس ہو جاتے ہیں اور ان میں وقتی طور پر فالبی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.کاسٹیکم میں بھی یہ علامت ہے لیکن اس میں مستقل فالج کی وجہ سے یہ علامت پیدا ہوتی ہے.کالی کا رب میں بھی پیشاب پر سے کنٹرول اٹھ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ یہ تکلیف بہت بڑھ جاتی ہے.لیک ڈیف میں یہ کیفیت عارضی ہوتی ہے.جب سردی ختم ہو جائے تو مریض واپس اپنی اصل حالت پر لوٹ آتے ہیں.حیض کے دوران کمر میں درد ہو تو اس میں بھی لیک ڈیف کارآمد دوا ہے.اس کی مریضہ اگر حیض کے دوران سخت ٹھنڈے پانی میں ہاتھ ڈالے تو حیض فورا رک جائے گا اور کوئی دوسرا عارضہ لگ جائے گا.اس لئے ایسی مریضاؤں کو احتیاط کرنی چاہئے اور حیض کے دوران سرد پانی کے استعمال سے احتراز کرنا چاہئے.لیک ڈیف دل کی تکلیفوں میں بھی مفید ہے.دل کی کمزوری یا تنگی کی وجہ سے دمہ (Cardiac Asthma) ہو جاتا ہے.سانس لینے سے دل پر دباؤ بڑھ جاتا ہے.یہی علامت سپونجیا میں اپنی مخصوص شکل میں پائی جاتی ہے.(دیکھیئے سپونجیا ) لیک ڈیف کے مریضوں میں بعض دفعہ سارا ہاتھ نہیں بلکہ صرف انگلیاں ٹھنڈی ہوتی ہیں اور کسی طرح گرم ہونے میں نہیں آتیں.اس کی ایک استثنائی علامت یہ ہے کہ سر درد کو سخت سردی محسوس ہونے کے باوجود ٹھنڈک ہی سے آرام آتا ہے اور یہ علامت فاسفورس سے مشابہ ہے.فاسفورس کا مریض سردی کے شدید احساس کی وجہ سے جسم کو گرم کپڑوں میں لیٹے رکھتا ہے لیکن سرکو ٹھنڈا رکھنا چاہتا ہے اور سردی کے احساس کے بغیر کسی چیز سے اسے تسکین نہیں ملتی.اس علامت کے علاوہ فاسفورس کی دیگر علامات لیک ڈیف سے بہت مختلف ہیں.طاقت: CMC30
538
539 131 LACHESIS (سیاہ پھن دار سانپ ”سروکوکو کا زہر ) سروکوکو بہت ہی خطرناک سانپ ہے جو بہت بڑا اور لمبا ہوتا ہے.اس کی سرخی مائل جلد پر سیاہی مائل مٹیالے داغ ہوتے ہیں.اس سانپ کے زہر سے تیار کی جانے والی دوا کہلاتی ہے.اس سانپ کے زہر کی آزمائش (Proving) بہت وسیع پیمانہ پر کی گئی ہے.مختلف اقسام کے سانپوں کے زہروں میں بہت باریک فرق ہوتے ہیں.تاہم سانیوں کے زہروں کو عموماً دوحصوں میں تقسیم کیا گیا ہے.ایک وہ زہر ہیں جوخون پر حملہ آور ہوتے ہیں.دوسرے وہ زہر جو اعصاب پر حملہ کرتے ہیں.اعصاب پر حملہ آور ہونے والے زہر خون پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں مگر وہ اعصابی نظام کو خصوصاً متاثر کرتے ہیں اور اعصابی ریشوں کو مفلوج کر دیتے ہیں اور دل پر بھی براہ راست حملہ کرتے ہیں.اسی طرح خون پر اثر کرنے والے زہروں کا دل پر بھی اثر ہوتا ہے لیکن براہ راست نہیں.وہ عموماً خون کو منجمد کر کے دل پر حملہ کا سبب بنتے ہیں.سانپ کا زہر فی ذاتہ کوئی ایسا نہیں ہے جسے کھانے سے عام زہر کا اثر ظاہر ہو.سب جانوروں کے زہر بہت گاڑھی پروٹین کی شکل میں ہوتے ہیں جو منہ کے راستے جسم میں داخل ہو جائیں تو کوئی نقصان نہیں پہنچاتے.اسی لئے سانپ کے کاٹے کا علاج یہ بتایا جاتا ہے کہ فوری طور پر زخم پر منہ رکھ کر زہر کو چوس لیا جائے.اس کے چوسنے والے کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا بشر طیکہ منہ میں کوئی زخم نہ ہو اور زہر براہ راست خون پر اثر انداز نہ ہو سکے.انسانی جسم پروٹین کے براہ راست جسم میں داخل ہونے کے خلاف
540 ليكيس سخت رد عمل دکھاتا ہے اور وہ خود بھی ایک پروٹین ہے جسے مختلف گروپس (Groups) میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر گروپ کا الگ نام رکھا گیا ہے خون دیتے وقت ان گروپس کو پیش نظر رکھا جاتا ہے.یہ اس لئے کیا جاتا ہے کہ انسانی خون بھی اسی طرح کا زہر ہے جیسے سانپ کا زہر بلکہ انسانی خون تو سانپوں کے زہر سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتا ہے.اگر یہ زہر خون میں گروپ میچنگ کئے بغیر براہ راست داخل کر دیا جائے تو آ نافا نا موت واقع ہوسکتی ہے.سانیوں کے جسم میں موجود پروٹین ان کے منہ میں موجود غدودوں میں جمع ہوتی رہتی ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ گا ڑھی ہوتی چلی جاتی ہے.کاٹنے کا یہ سارا نظام کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ یہ خدا تعالیٰ نے با قاعدہ ترکیب دیا ہے.اس کے بغیر اس نظام کا از خود ارتقاء یا کسی اتفاق کے نتیجہ میں پیدا ہوجانا ممکن نہیں ہے.سانپ کی کچلیوں کے ساتھ دومڑے ہوئے دانت ہوتے ہیں جن میں سوراخ ہوتا ہے.ان دانتوں کا زہر کی تھلیوں سے ملاپ ہوتا ہے.جب سانپ کاٹنے کے لئے ضرب لگاتا ہے تو کوئی زہر نہیں نکلتا لیکن جب سانپ سر پیچھے کر کے دانت باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے تو زہر کی تھیلیاں دیتی ہیں اور ان کا زہر دانتوں میں واقع سوراخ کے رستے ٹیکے کی طرح بدن میں داخل ہو جاتا ہے.اس کے نتیجہ میں سخت رد عمل پیدا ہوتا ہے.ان سب زہروں میں لیکیس کو ہومیو پیتھک علاج کے لحاظ سے بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ ہو میو پیتھی طریقہ علاج میں جتنا لکیس کے زہر کا استعمال ہوا ہے اتنا کسی اور ز ہر کانہیں ہوا اور اس سے غیر معمولی فوائد حاصل کئے گئے ہیں.ڈاکٹر کینٹ کا خیال ہے کہ اس کا کسی خاص علاقے سے تعلق نہیں ہے بلکہ تمام دنیا میں ہر جگہ اس دوا کو مفید پایا گیا ہے.لیکیسس کے زہر میں جو شر اور تیزی پائی جاتی ہے وہ دنیا کے تمام بدکارانسانوں اور بگڑے ہوئے مزاجوں میں پائی جاتی ہیں یعنی شدید حسد، شرارت، فساد و غیرہ کا رجحان لیکیس میں بہت شدت سے موجود ہوتا ہے.اس لحاظ سے یہ عالمی زہر کہلاتا ہے.سانپوں کے زہر عموماً موسم بہار میں شدت اختیار کر جاتے ہیں.موسم سرما میں سانپ
541 اپنی کمین گاہوں میں پڑے سوئے رہتے ہیں.اس تمام عرصہ میں ان کا زہر گاڑھا ہو ہو کر بہت خطرناک ہو چکا ہوتا ہے.چنانچہ جب موسم سرما کے بعد موسم بہار میں یہ اپنی پناہ گاہوں اور بلوں سے باہر نکل آتے ہیں تو یہی وہ موسم ہے جس میں جب سانپ کاٹے تو اس کا زہر انتہائی خطرناک ثابت ہوتا ہے.سانپ کے زہر کی علامتوں میں وقت کی بہت پابندی پائی جاتی ہے.سانپ جس موسم میں بھی کاٹے اگلے سال عین انہی دنوں میں اس کے بداثرات دوبارہ ابھر آتے ہیں اور علامات واپس آ جاتی ہیں.بہار میں جن مریضوں کو سانپ کاٹتا ہے.اگر وہ زندہ رہ جائیں تو ہر بہار میں ان کو ویسی ہی علامتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس سے وہ سمجھتے ہیں کہ سوتے میں سانپ نے دوبارہ کاٹ لیا ہے.چونکہ وہ جگہ جہاں سانپ نے کاٹا ہو اس کا زخم بھی ابھر آتا ہے اس لئے اس وہم کو مزید تقویت ملتی ہے.دوسرے موسموں میں بھی سانپ کاٹے کی علامتیں کچھ نہ کچھ ابھرتی تو ہیں مگر اس شدت سے نہیں کہ انسان سمجھے کہ سانپ نے دوبارہ کاٹا ہے.بہار میں اگر اچا نک سخت چھینکیں آنے لگیں تو یہ بھی لیکلیس کی ایک علامت ہے اور بعض مریضوں پر میں نے خود آزما کر دیکھا ہے کہ سالہا سال کی بہار کی الرجی یعنی دن رات بکثرت چھینکیں آنالیکیس ایک ہزار کی ایک ہی خوراک سے دور ہوگئی اور پھر دوبارہ کبھی تکلیف نہیں ہوئی.غالبا سو میں سے دس مریض ضرور ایسے ہوں گے جن کو لیکیس ایک ہزار کی ایک ہی خوراک نے اتنا نمایاں فائدہ پہنچایا.لیکیسس سے ٹھیک ہونے کے بعد اگر دوبارہ الرجی ہو تو کچھ عرصہ کے بعد مثلاً پندرہ دن یا مہینے کے وقفہ سے لیکیسس کو ہرایا جا سکتا ہے.اگر لیکلیس ناکام ہو تو اس قسم کی الرجی میں نیٹرم میور اور سباڈیل بھی اچھا کام کرتی ہیں.اس لئے مریضوں کی تشخیص احتیاط سے ہونی چاہئے.ہر وہ مریض جو موسمی یا جغرافیائی لحاظ سے سردی سے گرمی کی طرف حرکت کر نے سے بیمار ہو جائے ، اس کی دوسری بیماریوں میں بھی لیکیس کو یا د رکھنا چاہئے.البتہ ڈ لکا مارا ایک ایسی دوا ہے جس کا ہر موسم میں چھینکیں آنے سے تعلق ہے.برائیو نیا بھی
542 سردی سے گرمی میں بدلتے ہوئے موسم میں بہت کارآمد ہے.لیکیس میں خاص علامت یہ پائی جاتی ہے کہ سونے کے بعد تکلیف ضرور بڑھتی ہے.سانپ کے اکثر کاٹے ہوئے مریضوں کا یہی حال ہوتا ہے مگر اس خاصیت میں سانپ کے سب زہروں میں لیکیس نمایاں ہے.اگر چہ یہ اکثر ایسے مریضوں میں کام آتی ہے جن کی تکلیف سونے سے بڑھتی ہو.لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ان کو سانپ ہی نے کاٹا ہے.مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ملتی جلتی علامت ہے جس میں لیکیسس کارآمد ہوسکتی ہے.اگر واقعتا لیکیسس سانپ نے ہی کا نا ہو اور مریض سو جائے تو وہ اٹھتا ہی نہیں کہ بعد ازاں کسی علاج کے قابل رہے.ہر طبیب کو یہ امر پیش نظر رکھنا چاہئے کہ اگر واقعتا کسی سانپ کے کاٹے ہوئے مریض کے علاج کے لئے اسے بلالیا جائے تو وہ ایسے مریض کو جگانے کی ہر ممکن کوشش کرے خواہ اسے زور زور سے تھپڑ مارنے پڑیں.اگر اس کی آنکھ کھل گئی اور کچھ دیر اس کو جگائے رکھا گیا تو پھر اس کے بچنے کا امکان پیدا ہو جائے گا.لیکیس کے مریض کا مرض سوتے میں رات بھر بڑھتا رہتا ہے اور بعض مریضوں کو پریشان کن خوابیں بھی آتی ہیں اور صبح اٹھنے تک بیماری میں بہت اضافہ ہو چکا ہوتا ہے.مریض سخت بے چین ہوتا ہے.صبح سر میں لیکن والا درد ہوتا ہے، دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے.اس کے علاوہ ہوتا مریض غم کا گہرا اثر محسوس کرتا ہے جو لیکیس کا خاص نشان ہے.جلسیم میں بھی مریض صبح سر درد کے ساتھ اٹھتا ہے لیکن اس کی رات بے چینی سے نہیں گزرتی اور نہ ہی اسے ڈرواؤ نے خواب آتے ہیں.اگر اٹھنے کے اوقات میں تبدیلی ہو یا چائے اور ناشتہ کا وقت بدل جائے تو جلیسیم کے مریض کو عموما سر میں درد شروع ہو جاتا ہے.اوقات کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے ایسے سردرد میں جلسییم دوا ہے نہ سکے لیکیس.لیکیسس کا مریض بہت ٹھنڈا ہوتا ہے خصوصاً اس کے پاؤں برف کی طرح ٹھنڈے ہوتے ہیں مگر گرم پانی سے تکلیف بڑھتی ہے خصوصاً سر کی علامتیں بہت بڑھ جاتی ہیں.خون کا دباؤ شدید محسوس ہوتا ہے اور لگتا ہے کہ سر پھٹ جائے گا.لیکیس میں بیلاڈونا
543 کی طرح خون کا دباؤ ایک طرف زیادہ ہو جاتا ہے.بیلاڈونا میں مختلف اعضاء میں خون کا دباؤ بڑھ سکتا ہے ضروری نہیں کہ سر کی طرف ہی دباؤ کار رجحان ہونگر لیکیس میں دوران خون زیادہ ہونے کا خاص مقام سر ہے.خون کا اجتماع تیزی سے سر کی طرف ہو جاتا ہے اور پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں.درد کے ساتھ باندھے جانے کا احساس ہوتا ہے جیسے کسی نے سر کے اوپر کپڑا کس دیا ہو.لیکیس کی علامتیں رکھنے والے بعض مریض گرم پانی سے نہانے کے دوران بے ہوش بھی ہو جاتے ہیں.لیکیس کی ایک اور نمایاں علامت یہ ہے کہ بدن پر جامنی یا سیاہی مائل داغ پڑ جاتے ہیں جو چہرے پر نمایاں دکھائی دیتے ہیں.وہ مریض جن پر دل کا حملہ ہوا ہو ان کے چہرے پر بھی ایسے ہی نشان پڑتے ہیں.ایسے مریض جن کے جسم پر یہ نشان پڑنے کا رجحان ہوان کو وقتاً فوقتاً لیکیس دیتے رہنا چاہئے.یہ خون میں Clot بنے اور نتیجتا دل کے حملے کی روک تھام کے لئے بہترین دوا ہے.اس مقصد کے لئے اسے آرنیکا سے ملا کر دیا جائے تو اور بھی زیادہ کارآمد ہوتی ہے.لیکیس متورم غدودوں میں بھی بہت مفید ثابت ہوئی ہے.اس کے زخموں سے آرسنگ اور سیکیل کی طرح سیاہ رنگ کا خون بہتا ہے جو گھاس پھوس کے ریشوں کی طرح جم جاتا ہے اور مقدار میں بھی بہت زیادہ ہوتا ہے.کرئیوز وٹ اور فاسفورس کی طرح لیکیس میں بھی بہت زیادہ سیاہ خون بہنے کا رجحان ملتا ہے.کرئیو زوٹ کی یہ خاص علامت ہے کہ معمولی دباؤ سے خون بہنے لگتا ہے.اچھے بھلے نظر آنے والے مسوڑھوں کو انگلی سے دبا دیں تو خون نکل آئے گا یا کہیں کوئی معمولی سی بھی تکلیف ہو تو ذرا سا دبانے سے بھی خون رسنے لگے گا.فاسفورس سیکیل کار میں ہمیشہ سرخ رنگ کا خون بہتا ہے اور یکدم شدت کے ساتھ جاری ہوتا ہے.(Secale Cor) اور لیکیس میں خون کی رنگت سیاہی مائل ہوتی ہے اور ان کے زخموں کی شکل بھی ایک جیسی ہوتی ہے.سیکیل کی طرح لیکیس کے زخموں میں بھی گینگرین بننے کا رجحان ہوتا ہے اور ان سے سیاہی مائل خون رستا ہے.زخموں کے اردگرد کے کنارے گل کر متورم ہو جاتے
544 ہیں.جلد سکڑ کر سیاہی مائل ہو جاتی ہے اور اس میں جھریاں پڑ جاتی ہیں لیکن لیکیس کی باقی علامتیں سیکیل سے بہت مختلف ہیں.اس میں مریض کا جسم ٹھنڈا، اور مریض سخت سردی محسوس کرتا ہے جبکہ سیکیل کا مریض سخت گرمی محسوس کرتا ہے لیکن ماؤف جگہوں کو ٹھنڈی چیز لگانے سے آرام آتا ہے.لیکیس میں ایک علامت رگوں کے گچھے کا نیلا ہوکر پھول جانا(Varicose Veins) ہے جن میں خون جم جاتا ہے اور ابھار اور گانٹھیں بن جاتی ہیں ان کے پھٹ جانے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے.یہ بہت ہی خطرناک اور تکلیف دہ بیماری ہے.عموماً بعض عورتوں میں حمل کے دوران یا بعد میں ٹانگوں اور پاؤں پر یہ بیماری حملہ کرتی ہے.بعض دفعہ یہ تکلیف اتنی شدید ہوتی ہے کہ چلنا پھرنا دوبھر ہو جاتا ہے.ان پھولی ہوئی رگوں کے علاج میں اکیلی لیکلیس ناکام رہتی ہے.ایسی صورت میں بہت سی ایسی علامات کا مشاہدہ کرنا چاہئے جو اس پہلو سے مریض کی تشخیص کریں کہ بحیثیت مریض وہ کس دوا کا تقاضا کرتا ہے اور اگر اس دوا میں رگیں پھولنے کی علامت بھی ہو تو اسے ہی اولیت دینی چاہئے لیکن اگر تشخیص نہ ہو سکے تو روز مرہ کی دوا کے طور پر آرنیکا او لیکلیس بار بار دینے سے کچھ نہ کچھ فرق پڑتا ہے لیکن سب سے اچھا روٹین کا علاج ایسکولس ہے.آنکھوں کی بواسیر جس میں آنکھیں سرخ اور شدید متورم ہو جاتی ہیں، اس میں بھی ایسکولس بہت مفید دوا ہے.عام بواسیر میں بھی بہت سے موہکے گچھوں کی صورت میں بن جاتے ہیں جو جامنی رنگ کے ہوتے ہیں اور ان میں شدید درد ہوتا ہے.ایسکولس کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ لگتا ہے زخم جلد ہی گل سڑ جائیں گے لیکن کسی طرح پکنے ہی میں نہیں آتے اور پیپ بن کر پھٹتے نہیں.پھٹے بغیر لمبے عرصہ تک زخموں کا اس بین بین حالت میں چلتے چلے جانا بہت تکلیف دہ مرض ہے.ایسکولس کو ایسے مریضوں کی شفایابی میں شہرت حاصل ہے لیکن یہ دوا بھی اکیلی مکمل فائدہ نہیں دیتی بلکہ آرنیکا لیکیسس اور اسی طرح کی دوسری مددگار دواؤں کی ضرورت پڑتی ہے.اس مرض کو آغا ز ہی میں پکڑنے
545 کے لئے ہمیشہ اپنے پاؤں کا معائنہ کرتے رہنا چاہئے.اگر پاؤں دھوتے ہوئے ٹخنوں کے دونوں طرف نیچے اور ایڑھی سے اوپر نیلے رنگ کے نشان ظاہر ہونے لگیں تو یہ اس بات کا نشان ہیں کہ خون کی نیلی رگوں میں خرابی پیدا ہورہی ہے اور وہاں خون جم سکتا ہے.اگر وہ رگیں پھول جائیں اور کچھے سے بنے لگیں تو یہ مرض ہاتھ سے نکل بھی سکتا ہے اور ایسے مریض کی وریدوں میں اچانک ایسا Clot بھی بن سکتا ہے جو دل کے حملے پر منتج ہو.اگر آغاز میں ہی پتہ چل جائے تو خدا کے فضل سے آرنیکا اور کیس حفظ ما تقدم کے طور پر بہت اچھا کام کرتی ہیں.شنگلز (Shingles) کی بیماری میں جیسا کہ بعض دوسرے ابواب میں بھی تفصیلی ذکر گزر چکا ہے آرنیکا، ایڈم پال لیکلیس اور نیٹرم میور مفید ثابت ہوتی ہیں.لیکیس میں ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں اور دل کمزور ہو جاتا ہے، سر میں تپکن ہوتی ہے اور رگیں پھڑکتی ہیں.اگر سر میں درد ہو تو بعض اوقات مریض تکیہ پر سر رکھ کر سو بھی نہیں سکتا.جس طرف بھی سر رکھے گا وہاں دھڑکن محسوس ہوگی کیونکہ خون کا رجحان سر کی طرف ہوتا ہے.لیکیس انسانی جذبات پر بھی اثر انداز ہونے والی دوا ہے.اگر اچانک غم کی کوئی خبر ملے یا مریض کسی وجہ سے جذباتی ہو جائے تو دل کی رفتار ہلکی ہو جاتی ہے، جسم پر پسینہ آ جاتا ہے، سرگرم اور پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں.اگر پاؤں ٹھنڈے ہوں اور لیکیسس کی معمول کی علامتیں بھی پائی جائیں تو اس کی ایک خوراک ہی جادو کا سا اثر دکھاتی ہے.سردی سے سخت کانپتا ہوا مریض جو تہ بہ ن لحاف میں لپٹا ہوا ہو اور اس کے پاؤں نا قابل برداشت حد تک ٹھنڈے ہوں ، دوا دینے کے چند منٹ بعد ہی یوں محسوس کرتا ہے کہ یکدم گرمی کی لہریں جسم میں اوپر سے نیچے کی طرف سرایت کر گئی ہیں.اس سے میرا اندازہ ہے کہ سر کی طرف رجحان خون ختم ہوکر تمام جسم میں یکساں ہو جاتا ہے اور پاؤں دیکھتے ہی دیکھتے گرم ہو جاتے ہیں.سورا کالم میں بھی یہ خوبی پائی جاتی ہے.لیکن فرق یہ ہے کہ سورائینم کے مریض کا سارا جسم ہمیشہ ٹھنڈا رہتا ہے.سورائینم کے مریض گرمیوں
546 میں بھی اپنے آپ کو ڈھانپ کر رکھتے ہیں.ان کی جلد سیاہی مائل ہو جاتی ہے،اخراجات میں بد بو پائی جاتی ہے لیکن لیکیس میں یہ علامتیں نہیں ہوتیں اس میں کسی بوجھ، اچانک پریشانی یا ویسے ہی کبھی کبھی مریض میں کمزوری سے اس کا بدن یک دم ٹھنڈا ہو جاتا ہے لیکن سرگرم ہی رہتا ہے.اس وقت لیکیسس کام آتی ہے.لیکیس میں بیماری کا حملہ عموماً بائیں طرف ہوتا ہے لیکن بیماری یہاں ٹھہرتی نہیں بلکہ کچھ عرصہ زور دکھا کر دائیں طرف منتقل ہو جاتی ہے.یہ بہت واضح علامت ہے.اگر اس کے ساتھ سونے سے تکلیف میں اضافہ بھی ہو جائے تو بلا جھجک لیکلیس استعمال کروانی چاہئے.عورتوں کے بیضہ الرحم (Ovaries) کی تکلیفوں میں بھی لیکیس بہت مفید دوا ہے.اگر بائیں طرف کے بیضہ الرحم میں تکلیف کا آغاز ہو اور دائیں طرف منتقل ہو جائے تو اس میں لیکیس بہت اچھی ثابت ہو گی.اگر دائیں بیضہ الرحم میں تکلیف ہو تو لائیکو پوڈیم اور ٹیرنٹولا بہت مفید ہے.لیکیس میں گلے کی تکلیف بائیں طرف سے شروع ہو کر دائیں طرف منتقل ہو جاتی ہے جبکہ لائیکو پوڈیم میں دائیں سے بائیں طرف بیماری حرکت کرتی ہے.پلسٹیلا میں درد کی لہریں ادھر سے ادھر حرکت کرتی ہیں جبکہ امراض کی دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں حرکت ایک کٹا ئیلیم میں بہت نمایاں ہے.بلیس میں سردرد بھی ہمیشہ بائیں طرف سے شروع ہوتا ہے اور گدی تک پھیل جاتا ہے کنپٹی پر بہت دباؤ ہوتا ہے اور جبڑا بھی متاثر ہوتا ہے.جلسیمیم بھی اس قسم کے سر درد کے حملوں میں بہت مفید ہے لیکن اس میں در دسر کے پیچھے کندھوں میں اترتا ہے اور پیٹھ کے عضلات تک پھیل جاتا ہے.صرف گدی کے ایک طرف ہی محدود نہیں رہتا.لیکیس میں ایک خاص علامت یہ ہے کہ اس کی تکلیفیں اوپر کے دھڑ سے نچلے دھڑ میں منتقل ہوں تو سمت تبدیل کر لیتی ہیں.مثلاً اگر بائیں طرف دل کے پاس درد ہو اور دباؤ محسوس ہو تو یہ تکلیف دائیں طرف کو لہے میں یا بن ران میں منتقل ہوسکتی ہے اور بعض دفعہ بیک وقت دونوں سمتوں کو ماؤف کر دیتی ہے.بسا اوقات سر سے لے کر پاؤں
547 تک بیماری بائیں طرف ہی رہتی ہے، خصوصاً فالج میں ایسے ہوتا ہے لیکن دردوں کے احساس اور عضلات کے تناؤ میں اوپر کے بائیں طرف کے دھڑ اور نیچے کے دائیں طرف کے دھڑ میں علامتوں کا موجود ہونا یکیس کا خاص نشان ہے.لیکیس کی منہ کی علامتوں میں زبان کا سوج کر موٹا ہونا اور ہونٹوں کا بے حس ہونا شامل ہے.اس صورت میں لفظوں کی ادائیگی مشکل ہو جاتی ہے.اگر اس قسم کی علامات کسی مریض میں ظاہر ہوں، سرگرم رہتا ہو اور جسم پر جامنی رنگ کے داغ بھی پڑ جاتے ہوں تو لیکیس ہی دوا ہے.دراصل زبان کا موٹا ہونا اور ہونٹوں کی بے حسی منہ اور گلے کے اندر فالجی علامتیں پیدا ہونے کا آغاز ہے.اگر اسے بروقت قابو نہ کیا جائے تو زبان اور گلے پر فالج گر سکتا ہے.اس لئے ایسے مریض کو فوری طور پر پیلیس دینی چاہئے.لیکیس کی ایک اور علامت جو نمایاں طور پر ذہن میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ گلے میں جکڑن کا احساس ہوتا ہے اور کالر برداشت نہیں ہوتا.یہ علامت گلو نائن میں بھی ملتی ہے.حتی کہ گلونائن کے مریض کے سر میں بھی جکڑن کا احساس ہوتا ہے اور ٹوپی تک برداشت نہیں ہوتی.اگر گلے میں پھندہ پڑنے کا احساس زیادہ سخت ہو تو غالبا یہ ہائیڈرو نیم کا تقاضا کرتا ہے لیکیسس میں گلے کے اندرتنگی اور جکڑن کا احساس ہوتا ہے لیکن مریض یہ فرق نہیں کر سکتا کہ تکلیف گلے کے اندر کی طرف ہے یا ہر کی طرف ہائیڈ ریو یتیم اور بائیوکس میں تھے کی نالی کے اعد تشیع ہوتا ہے لیکن نیکلیس میں گلے کے اندر کی نالی میں تشنج نہیں ہوتا بلکہ گلے کے گرد کوئی بھی چیز برداشت نہیں ہوتی.لیکیس کے مریض خطر ناک قسم کے شکوک وشبہات میں مبتلا ہو جاتے ہیں.شروع شروع میں وہ یہ سوچنے لگتے ہیں کہ سب لوگ ان کے خلاف باتیں کر رہے ہیں یا ان کے کھانے پینے میں کچھ ملا دیا گیا ہے.وہ اپنے قریبی عزیزوں پر بھی شک کرتے ہیں.بعد میں یہ علامتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں.ایسے مریضوں کو لیکیس دینا ضروری ہے.میرا تجربہ ہے کہ گو شروع شروع میں کچھ فائدہ ضرور ہوتا ہے لیکن بعد میں یہ اس مرض میں
548 مزید کام نہیں کرتی اور پھر دوسری دوائیں ڈھونڈنی پڑتی ہیں.نفسیاتی علاج کی خاطران شکوک و شبہات کو پیدا کرنے کی موجب وجوہات ڈھونڈنی پڑتی ہیں.اس مرض میں لیکیس سے مکمل فائدہ اسی وقت ہو گا جب لیکیس کی دوسری بنیادی علامتیں بھی اس مریض میں ملتی ہوں.لیکیس کے مریضوں کو یہ خطرہ رہتا ہے کہ ان کا مستقبل ہمیشہ کے لئے تاریک ہو گیا ہے یا ان سے کوئی ایسا گناہ سرزد ہو گیا ہے جو نا قابل معافی ہے یا ان کا وجود کسی اور بالا طاقت کے قبضہ میں آ گیا ہے اور وہ اس کے ہاتھوں میں آلہ کار بن چکے ہیں.ایسی ہی ایک مریض بچی میرے پاس لائی گئی جو چوری کی عادت میں مبتلا تھی ، پوچھنے پر کہتی تھی کہ اللہ کا حکم ہوتا ہے اس لئے کرتی ہوں.ایسے مریضوں کا علاج لیکیسس سے کرنا چاہئے.جو خدا کے حکم پر اسی کی نافرمانی کریں وہ سانپ کے حکم پر اس کی فرمانبرداری شروع کر دیتے ہیں.لیکلیس کی مریضا ئیں ایسے شکوک میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی آ رہا ہے.مذہبی رجحانات غیر معمولی شدت اختیار کر لیتے ہیں.یہ شدت لیکیسس سے تعلق رکھتی ہے مگر اس کی سب سے خطرناک علامت یہ ہے کہ ان کے دل میں بعض دفعہ یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کا حکم ہے کہ وہ کسی کو قتل کر دیں اور یہ یقین جاگزیں ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس کام پر مامور کر دیا ہے.ایسے مریض بعض دفعہ واقعتا قتل کر بھی دیتے ہیں یا قتل کرنے کی کوشش ضرور کرتے ہیں.اگر یہ مذہبی جنونی ہوں تو بے حد باتونی بھی ہو جاتے ہیں.ان کے ہر کام میں افراتفری اور بے صبری ظاہر ہوتی ہے.بات چیت بھی ٹھیک طرح سے نہیں کر سکتے.آدھی بات کر کے درمیان میں کوئی دوسری بات شروع کر دیتے ہیں.جملہ مکمل نہیں کر پاتے.خود چاہیں جتنا مرضی شور ڈالیں ان کے لئے بیرونی شور نا قابل برداشت ہوتا ہے اور ان کے اعصاب بھنا اٹھتے ہیں.ان میں خود کشی کا رجحان بھی پایا جاتا ہے لیکن یہ رجحان صرف ان کی سوچ تک محدود رہتا ہے ،عملی قدم اٹھانے سے ڈرتے ہیں.اونچی جگہ سے چھلانگ لگانے کو دل چاہتا ہے لیکن ساتھ ہی ایسی جگہوں سے خوفزدہ بھی ہوتے ہیں.مریض نیچے کھڑا ہو اور اونچی جگہ کے تصور سے
549 خوف آئے تو آرسنک یا ارجنٹم نائٹریکم مفید ثابت ہو سکتے ہیں.عام طور پر ایسے نفسیاتی اور دماغی امراض میں لیکیس بہت اچھا کام کرتی ہے.اسے کم از کم 200 کی طاقت میں دینا چاہئے.تاہم میرا تجربہ ہے کہ 1000 طاقت میں زیادہ بہتر نتائج ظاہر ہوتے ہیں.میں نے کئی بار لا کھ طاقت میں بھی استعمال کی ہے اور وہ واقعتا مفید ثابت ہوئی ہے.سردیوں کے موسم میں گلے کی خرابی لیکیس کی خاص علامت ہے.سورا ئینم میں بھی سردیوں کے موسم میں داخل ہوتے ہوتے بہت نزلہ ہو جاتا ہے.سورا ئینم گلے کے لئے بھی اچھی دوا ہے لیکن اس میں نزلہ خصوصیت سے نمایاں ہے اور ایک خاص نشان یہ ہے کہ جب بھی نزلہ بند ہو گا سر میں درد شروع ہو جاتا ہے.یعنی سر در داور نزلہ آپس میں ادلتے بدلتے رہتے ہیں لیکن لیکیس میں ایسا نہیں ہوتا.لیکیس کی ایک اور نمایاں علامت جلد کی زود حسی ہے.یہ زود حسی کبھی اتنی بڑھی جاتی ہے کہ مریض جسم پر ہلکا سا کپڑا بھی برداشت نہیں کر سکتا.کسی خاص حصہ پر تکلیف اور وہاں لمس کے احساس سے شدید بے چینی اور درد کا بڑھ جانا نیکلیس کی خاص علامت ہے.کالی کا رب میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے.مضبوط دباؤ آرام دیتا ہے لیکن ہلکی لمس تکلیف دہ ہوتی ہے.لمس سے تکلیف کا نمایاں احساس ایک کنائینم میں بھی بہت شدت سے پایا جاتا ہے.اگر انگلیوں میں معمولی سی بھی تکلیف ہو تو مریض انگلیاں کھول کر رکھتا ہے کیونکہ ذرا بھی انگلیاں بند ہوں تو تکلیف سے چینیں نکل جاتی ہیں.اگر بغل کے نیچے زودحسی ہو تو مریض ہر وقت بغل کھلی رکھے گا.لیکیسس کا یرقان سے بھی گہرا تعلق ہے.میں نے میرقان کے لئے ایک عمومی نسخہ بنایا ہوا ہے جس میں سلفر، برائیو نیا اور کارڈس میریانس (Cardus Merianus) شامل ہیں.یہ نسخہ خدا کے فضل سے یرقان کے مریضوں میں بہت کامیاب ہے.اگر فائدہ نہ ہو تو دوسری دوائیں ڈھونڈنی پڑتی ہیں.مثلاً چیلی ڈونیم ، لیکیس، بر برس اور لائیکوپوڈیم وغیرہ.یہ سب جگر کی تکلیفوں میں بہت مفید دوائیں ہیں.فاسفورس کا بھی جگر سے تعلق ہے اور عموماً جگر کے کینسر میں مفید ثابت ہوتی ہے لیکن اسے بہت احتیاط سے استعمال کرنا
550 چاہئے کیونکہ اونچی طاقت میں بار بار اور غیر ضروری طور پر دینے سے خطرناک نتائج پیدا ہو سکتے ہیں.بعض اوقات برقان مزمن شکل اختیار کر لیتا ہے.ایسی صورت میں لیلیس بہت کام آنے والی دوا ہے.لیلیس کی ایک علامت یہ ہے کہ یرقان ہو جائے تو اس کے ساتھ متلی بھی ہوتی ہے.چیلی ڈونیم میں بھی یرقان اور متلی کی علامات اکٹھی ملتی ہیں.اسی طرح اپی کاک بھی مفید ہے لیکن یہ یرقان کے لئے اتنی طاقتور دوا نہیں ہے.ہاں بعض صورتوں میں معمولی فائدہ دیتی ہے.اگر یرقان کے ساتھ لیکیس کی عمومی علامتیں بھی پائی جائیں اور متلی بھی ہو تو یہ بہت اچھا کام کرتی ہے اس کے ساتھ ساتھ پتہ کی پتھری میں بھی اگر لیکیسس کی دیگر علامات موجود ہوں تو فائدہ مند ثابت ہوگی.گلے میں ہلکی سی دکھن کا احساس ہو اور جب اسے ہاتھ سے دبایا جائے تو آنکھوں میں شدید درد شروع ہو جاتا ہے.اسی طرح کان میں کوئی آلہ ڈال کر معائنہ کیا جائے تو سخت کھانسی شروع ہو جاتی ہے.کان، گلے اور آنکھ کی نالیوں کا آپس میں تعلق ہوتا ہے.ان تینوں اعضاء میں کسی ایک جگہ تکلیف ظاہر ہو اور اسے چھیڑا جائے تو دوسری جگہ بھی اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے.یہ پلیس کی خاص علامت ہے.اس کے استعمال سے تینوں اعضاء کی تکلیفیں خدا کے فضل سے دور ہو جاتی ہیں.بعض اوقات آنکھوں کے وہ غدود جو آ نسو بناتے ہیں ان میں زخم بن جاتے ہیں جو بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں لیکلیس ان زخموں میں بھی بہت مفید ہے.یہاں لیکیسس کی خاص پہچان یہ ہے کہ چہرے پر ایگزیما، ابھار اور چھالے وغیرہ بننے لگتے ہیں.غالباً چہرے کی یہی تکلیفیں آنکھوں کی طرف منتقل ہو جاتی ہیں.صرف آنکھوں کے زخموں سے پلیس کی پہچان نہیں کی جاسکتی.اگر چہرے کی علامتیں نمایاں ہوں تو اس صورت میں آنکھ کے زخم کے لئے بہترین دوا ہے.مثلاً آنکھ کے مسچولا (Fistula) میں کالی بائیکروم کی طرح لیکیس بھی چوٹی کی دوا ہے.لیکیس میں نزلہ زکام کے دوران ناک سے خون بھی بہتا ہے.اس قسم کی بار یک علامتوں پر غور کرنے سے دواؤں میں با ہم تمیز کی جاسکتی ہے.سورا ئینم اور لیکیسس میں ایک قدر مشترک ہے کہ دونوں میں ناک سے شدید بد بو دار نزلے کا مواد خارج ہوتا
551 ہے.یہ نزلہ سر کے ایگزیما میں بھی تبدیل ہو جاتا ہے جس میں سر پر ایک سخت خول سا بن جاتا ہے جس کے اندر جراثیم پلتے ہیں.اگر یہ خول پھٹ جائے تو اس سے نہایت بد بودار مواد خارج ہوتا ہے اس ایگزیما کو مقامی طور پر علاج سے دبا دیا جائے تو ناک میں انتہائی خطرناک نزلہ شروع ہو جاتا ہے جو ٹھیک نہیں ہوتا.اس بیماری میں لیکیس اور سورا ئینم دونوں سے بہت بہتر دوا میزیریم (Mezereum) ہے.ایک دفعہ میرے پاس ایک بچہ لایا گیا جسے شدید ضدی قسم کا نزلہ تھا، کسی علاج سے آرام نہیں آتا تھا ، ناک سے شدید بو آتی تھی جو سارے کمرے میں پھیل جاتی تھی.خوش قسمتی سے میں نے ان دنوں میز یرم کے بارے میں نیا نیا پڑھا تھا.میں نے اسے میز پرم دی تو فوراً نزلہ ٹھیک ہو گیا.لیکن سر پر شدید ایگزیما ظاہر ہو گیا.چند دنوں میں اللہ کے فضل سے میز بریم سے ہی یہ ایگزیما بھی بالکل ٹھیک ہو گیا.لیکیس اور سورائینم دونوں اینٹی سورک (Anti Psoric) ہیں.جلد پر بعض دفعہ خون کے کچے کچے چھالے ابھر آتے ہیں.لیکیس ان خون کے چھالوں کی چوٹی کی دوا ہے.عام طور پر کیس میں آرنیکا کی طرح سیاہی مائل خون بہتا ہے لیکن چہرے پر سرخ رنگ کے خون کے چھالے بنتے ہیں جن کا لیکلیس سے ہی تعلق ہے.اس میں مسوڑھوں سے بھی خون بہتا ہے ، زبان بالکل خشک ہو کر چمڑے کی طرح ہو جاتی ہے، منہ بھی بالکل خشک ہوتا ہے لیکن پیاس نہیں ہوتی.منہ اور زبان کا خشک ہونا جلسیمیم کی بھی یاد دلاتا ہے لیکن لیکیسس اپنی دوسری علامتوں کی وجہ سے ممتاز ہو جاتی ہے.لیکیسس میں تھوک صابن کے جھاگ کی طرح ہو جاتا ہے ، مزے کے لحاظ سے نہیں بلکہ شکل سے یوں لگتا ہے جیسے صابن کی جھاگ ہو.بعض دفعہ گاڑھی ، سخت ، مضبوط دھا گے دار زردرنگ کی رطوبت خارج ہوتی ہے.کالی بائیکروم (Kali Bichrome) میں یہ علامت سب سے نمایاں ہے.لیکیٹس میں مائع چیز گلے میں پھنسنے کا رجحان بھی پایا جاتا ہے، خصوصاً گرم مشروب سے تکلیف ہوتی ہے.سانپ کے تقریباً سب زہروں کے نتیجہ میں شیخ پیدا ہوتا ہے اور
552 خوراک اور پانی گلے میں پھنستا ہے لیکیس میں گرم مشروب سے اس کیفیت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے جبکہ ٹھنڈے پانی سے قدرے افاقہ ہوتا ہے.یہ علامت لیکیسس کے عمومی مزاج سے برعکس ہے کیونکہ اس میں مریض کا جسم ٹھنڈا ہوتا ہے اور وہ گرمی کو پسند کرتا ہے لیکن گلے کے تشنج میں لیکیس کا مریض بیلا ڈونا کے مریض سے مشابہ ہو جاتا ہے.بیلا ڈونا میں گرمی سے تکلیف بڑھتی ہے اور سردی سے ان میں کمی آ جاتی ہے.ایپس کی تکلیفیں بھی گرمی سے بڑھتی ہے اور سردی سے آرام آتا ہے.سیلیس ، بیلا ڈونا اور ایپس میں یہ علامت مشترک ہے.لیکن لیکیس میں ٹھنڈے مشروب سے آرام آتا ہے اور اچھا بھی لگتا ہے مگر ساتھ ہی اس سے متلی شروع ہو جاتی ہے.یہ کیس کی واضح پہچان ہے..لیکیس سے ملتی جلتی خشک کھانسی کو بیلا ڈونا سے بھی آرام آ جاتا ہے.اگر لیکیس کے غلط استعمال سے کھانسی ہو جائے یا کسی کولیکلیس نامی سانپ کاٹ لے اور وہ بچ جائے اور اسے مسلسل خشک کھانسی ہو جائے تو اس میں بیلاڈونا بہت مفید ہے.اگر چہ بیلاڈونا مزمن دوا نہیں ہے بلکہ درمیانے درجہ کی دوا کہلاتی ہے.لیکن یہ لیکیسس کے بداثرات کو جو کھانسی میں تبدیل ہو جائیں، دور کر دیتی ہے.اسی طرح لیلیس بھی بیلا ڈونا کے بداثرات کو زائل کر سکتی ہے.لیکیس پیٹ کی ہوا کے لئے بھی مفید ہے.اس کے مریض کا پیٹ ہوا سے تن جاتا ہے.اگر یہ معلوم کر لیا جائے کہ مریض کا مزاج کس دوا کا مطالبہ کرتا ہے تو صحیح معنوں میں اس کی مرض پر قابو پایا جا سکتا ہے.سرد موسم میں مریض بہت ٹھنڈا ہو اور پیٹ میں ہوا بھی ہو جائے تو سورائینم مفید ہے.رکی ہوئی ہوائیں جاری ہو جاتی ہیں لیکن ان میں سخت بد بو ہوتی ہے.میں بھی ہوا خارج ہونے سے پیٹ کا تناؤ کم ہو جاتا ہے لیکن ہوا میں بد بو نہیں ہوتی.مددگار دوائیں لائیکوپوڈیم.ہسپر سلف.نائیٹرک ایسڈ دافع اثر دوائیں: آرسنگ.مرکزی طاقت 30 سے 1000 تک
لیکٹک ایسڈ 553 132 لیکٹک ایسڈ LACTICUM ACIDUM لیکٹک اینڈ ذیا بیس کی بہت عمدہ دوا ہے لیکن اس کا استعمال بہت کم ہوا ہے.اگر دوسری دواؤں کے علاوہ لیکٹک ایسڈ دوسو طاقت میں دی جائے تو وہ مریض جو دوسری دواؤں کا اثر قبول نہیں کرتے اس کی وجہ سے وہ دوائیں بھی کام کرنے لگتی ہیں.لیکٹک ایسڈ صبح کی متلی میں بہت مفید ہے خواہ یہ متلی حمل کی ہو یا ذیا بیطس کی وجہ سے.لیلک ایسڈ میں متلی کو کچھ کھا لینے سے آرام ملاتا ہے.کھانے کی نالی میں نیچے کی طرف تنگی کا احساس ہوتا ہے جیسے کوئی گولہ پھنسا ہو جسے مریض ہر وقت نگلنے کی کوشش کرتا ہے.ایسی عورتیں جنہیں خون کی کمی کی شکایت ہو اور ان کا چہرہ زردرہتا ہو ان کے لئے بھی یہ دوا مفید ہے.سینے کی تکلیفوں میں بھی اچھا اثر رکھتی ہے.اگر بغلوں کے غدود بڑھ جائیں تو اس بیماری میں بھی لیکٹک ایسڈ مفید ہو سکتی ہے.سلیشیا بھی بہت اچھا اثر دکھاتی ہے.اونچی طاقت میں سلیشیا دینے سے گٹھلی اندر ہی اندر گھل جاتی ہے لیکن اگر گٹھلی پکنے کے قریب ہو تو پھر اونچی طاقت کی بجائے چھوٹی طاقت میں سلیشیایا ہسپر سلف دینی چاہئے.لیکٹک ایسڈ کے بعض مریضوں کا سارا جسم کانپتا ہے.پیشاب کی بار بار حاجت ہوتی ہے اور پیشاب مقدار میں بہت زیادہ آتا ہے.جوڑوں، کندھوں، کلائیوں اور گھٹنوں میں درد ہوتا ہے.سخت کمزوری اور سردی کا احساس ہوتا ہے.زبان بالکل خشک، پیاس کی شدت اور بھوک کی زیادتی ہوتی ہے.رائیں بہت زیادہ بہتی ہیں.گلا بالکل خشک رہتا ہے اور پانی پینے سے بھی یہ خشکی ختم نہیں ہوتی.دافع اثر دوا برائیونیا طاقت: 30
554 لیکٹک ایسڈ
لاروسیر اسس 555 133 لاروسیراکس LAUROCERASUS (Cherry-Laurel) یہ دوا دل کی بیماریوں میں بہت کام آتی ہے.اچانک خوف اور دہشت کی وجہ سے یا گہرے غم کے نتیجہ میں جسم کانپنے لگ جائے تو لارو سیر اس فوری فائدہ دیتی ہے.اس کا مریض خواب میں ڈر کر یا کسی اجنبی کو اچانک سامنے دیکھ کر خوف سے کانپنے لگتا ہے.جب بھی کوئی ہیجانی کیفیت ہو تو خوف غالب آ جاتا ہے.جسم ٹھنڈا اور نیلا ہوجاتا ہے.بعض دفعہ ایسے شخص کو مرگی کے دورے بھی پڑنے لگتے ہیں.نظر دھندلا جاتی ہے.ظاہر ہے کہ ایسے مریض کا دل کمزور ہوگا اور دل کے مریضوں کے لئے واقعی یہ ایک مقوی دوا ہے.نسبتا بوڑھے مریضوں میں یہ دوا بہت مفید ہے.ایسے مریضوں کے دل کے نچلے حصہ کے عضلات کمزور پڑ جاتے ہیں اور دل کی کمزوری کے باعث پھیپھڑوں پر دباؤ پڑتا ہے اور پانی جمع ہونے لگتا ہے جس سے مریض کے لئے سانس لینا بھی مشکل ہو جاتا ہے.ڈاکٹر عمومادل کے ایسے مریضوں کو دمہ کی تیز دوا ئیں اور Inhaler دے دیتے ہیں یعنی وہ آلہ جس کے ساتھ منہ لگا کر سانس کھینچنے سے وقتی فائدہ ہوتا ہے کیونکہ اس میں شیخ کو زبردستی ختم کرنے کی دوا ئیں ہوتی ہیں جو پھیپھڑے کی نالیوں کو کھول دیتی ہیں.لیکن لمبے استعمال سے آخر یہ زہریلی دوائیں کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں اور شیخ کے وقت مریض جتنا چاہے اس آلہ کے ساتھ منہ لگا کر سانس کھینچے شیخ نہیں ہوتا اور مریض اسی حالت میں مرجاتا ہے.لارو سیراکس Inhaler سے بچانے میں اہم کردارادا کرتی ہے.سانس لینے میں دشواری ، دم گھٹنا، سینے کا تنگ ہونا، ایک دم گھٹن کا احساس جیسے دل کو کچھ ہو گیا ہے، ان سب کا یہ مؤثر علاج ہے.دل کے والوز (Valves) کو طاقت بخشتی ہے اور دل
لاروسیراکس 556 کے خون کے نیچے اترنے کی سرسراہٹ کے احساس کے لئے بھی یہ دوا بہت مفید ہے.دل کے عضلات کو تقویت دے کر وہ کمزوری جس کے نتیجہ میں خون واپس پھیپھڑوں میں چلا جاتا ہے اسے دور کر دیتی ہے.دل کی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہونے والی کھانسی جو بار بار اٹھے، اس میں بہت فائدہ دیتی ہے.سپونجیا بھی ایسے مریضوں کی اہم دوا ہے.اس میں مریض کے چہرے پر نیلا ہٹ آ جاتی ہے جس کا مطلب ہے کہ سانس کی کمی کی وجہ سے خون میں آکسیجن کی آمیزش کم ہوگئی ہے لیکن سب مریضوں کے چہرے پر نیلا ہٹ نہیں آتی بلکہ بعض چہرے زرد پڑ جاتے ہیں، ان کے لئے اس بیماری کی الگ دوائیں ہیں.نیلا ہٹ پیدا کرنے والی دل کی بیماری رفع کرنے کے لئے ہومیو دوالا روا سیر اس شہرت رکھتی ہے.لاروسیراکس میں سینے کی فالجی علامات پائی جاتی ہیں.بعض دفعہ ڈایافرام (Diaphragm) کام کرنا چھوڑ دیتا ہے، جس کے نتیجہ میں سانس باہر نکالنا مشکل ہوتا ہے جبکہ اندر کھینچنا اتنا مشکل نہیں ہوتا.یہ بیماری لارو سیر اس کی یاد دلاتی ہے کیونکہ اس کا اردگرد کے عضلات کے فالج سے کچھ ایسا ہی تعلق ہے کہ سانس اندر کھینچنا مشکل نہیں ہوتا، باہر نکالنا دوبھر ہوتا ہے.لا روسیر اس کے مریض کو سر دی بہت لگتی ہے، بیرونی ذریعہ سے گرمی پہنچانے سے بھی سردی کا احساس کم نہیں ہوتا.بعض اوقات معدے میں شدید درد اٹھتا ہے جس کی وجہ سے مریض بات بھی نہیں کر سکتا.چہرے کے عضلات میں تشنجی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ،سخت پیاس لگتی ہے اور منہ بالکل خشک ہو جاتا ہے.ہاتھوں اور پاؤں کے ناخنوں پر چھوٹے چھوٹے ابھار بن جاتے ہیں.کولہوں اور ایڑیوں میں موچ آنے کی طرح کا درد ہوتا ہے.انگلیاں بدشکل ہو جاتی ہیں اور ہاتھوں کی رگیں پھول جاتی ہیں.لا رو سپر اس میں غنودگی اور چکر پائے جاتے ہیں.بعض دفعہ غشی طاری ہو جاتی ہے.دماغی کمزوری کی وجہ سے یادداشت ختم ہو جاتی ہے.خیالات میں یکسوئی نہیں رہتی.سر میں شدید درد کے ساتھ پیشانی میں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے.شدید پیاس
لاروسیر اسس 557 لگتی ہے، بھوک ختم ہو جاتی ہے.معدے میں سکڑن اور شدید درد، اسہال سبزی مائل اور پانی کی طرح پتلے ہوتے ہیں جن کے ساتھ پیٹ میں مروڑ اٹھتا ہے.لاروسیر اس کی تکلیفیں بیٹھنے سے کم ہو جاتی ہے.لیٹنے سے کھانسی شروع ہو جاتی ، ہے.معدے سے کمر تک گولہ سا اترنے کا احساس ہوتا ہے.جھکنے سے اور حرکت سے بھی ہر تکلیف بڑھ جاتی ہے.طاقت: 30
558
559 134 لیڈم LEDUM (Marsh Tea) لیڈم ایک پودے سے تیار کی جانے والی دوا ہے جس میں ایک خاص قسم کی تیز بو پائی جاتی ہے.روایتی طب میں اس پودے کے عرق کو سر درد، دل کے دوروں اور بلغم کے اخراج کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے.ہومیو پیتھی میں اس سے تیار کی جانے والی دوا کیڑوں مکوڑوں کے ڈنک لگنے کی صورت میں یا جوڑوں کی تکلیفوں میں بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے.لیڈم کا زہرکئی پہلوؤں سے سانپ کے زہر سے مشابہ ہوتا ہے.لیکیس کی طرح اس کی بیماریاں بائیں طرف سے شروع ہونے کا زیادہ رجحان رکھتی ہیں.تکلیفیں اوپر کے دھڑ کی نسبت نچلے دھڑ میں زیادہ شدت سے اپنا اثر دکھاتی ہیں.تکلیف اکثر پاؤں یا ٹانگوں کے نچلے حصہ سے شروع ہوتی ہے اور نیچے سے اوپر کی طرف پھیلنا شروع ہو جاتی ہے.آرنیکا کی طرح لیڈم کا بھی چوٹوں سے گہرا تعلق ہے اور بعض اعضا کی چوٹوں میں اسے آرنیکا اور ہائی پیر کیم (Hypericum) وغیرہ سے ملا کر دیا جائے تو بہت مفید ثابت ہوتی ہے.وہ چوٹیں جو گہرا اثر چھوڑ جائیں یا ایسے زخم جو نوکدار چیز مثلاً کیل یا کانٹا وغیرہ چھنے سے پیدا ہوں، ان میں لیڈم بطور خاص مفید ہے.بعض دفعہ اس کے زخموں میں بظاہر مندمل ہو جانے کے بعد سالہا سال تک درد کی لہریں بجلی کے کوندوں کی طرح اٹھتی رہتی ہیں.ایسی صورت میں اگر صبح ہو جائے تو لیڈم اس کا بہترین علاج ثابت ہو سکتی ہے.گھوڑے کی لید متشنج پیدا کرنے میں مشہور ہے لیکن اگر گھوڑا خود کسی کیل وغیرہ
لیڈم 560 پر پاؤں رکھ دے اور اس کے سم میں گہرا زخم بن جائے جو ہڈی کے کنارے تک جا پہنچے تو اس کا شیخ اور ٹینس لیڈم 200 دینے سے آنا فانا ٹھیک ہوسکتا ہے.لیڈم میں تشنج روکنے کا رجحان عموماً ایسے شیخ میں ملتا ہے جو نو کیلی چیزیں چھنے کے نتیجہ میں پیدا ہو خواہ وہ سالوں بعد ہی کیوں نہ ہو.ہڈیوں کے گرد کوئی نوکدار چیز لگنے سے اگر ہڈیوں کا انیمل زخمی ہو جائے تو اس میں لیڈم بہت مفید ہے.اس تکلیف میں ہائی پیر کم ہڈی کے گرد لپٹی ہوئی نسوں کو نقصان پہنچنے کی صورت میں کام آتی ہے.اسی طرح اگر جراحی کے وقت نشتر سے اعصاب کٹ جائیں اور زخم بظاہر مندل بھی ہو جائے لیکن درد باقی رہے تو اس کے خلاف بھی ہائی پیر یکم مفید ہے جبکہ لیڈم نشتر کے زخموں کے لئے زیادہ فائدہ مند نہیں ہے.ایڑی میں موچ آ جائے تو آرنیکا اونچی طاقت میں دینا مفید ہوتا ہے.اعصابی رگوں میں بداثرات باقی رہ جائیں تو انہیں دور کرنے میں آرنیکا کام نہیں کرتی.ان میں روٹا اور بیلس زیادہ اچھا اثر دکھاتی ہیں.بار بارموچ آنے کی وجہ سے ٹخنہ متورم ہو جائے اور مسلسل اس میں تکلیف رہے تو ایکوی زیٹم (Equisetum) بہت مفید ہے.لیڈم بھی ٹخنے کی اس تکلیف میں بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے لیکن اس کی سوزش کا عموماً جوڑوں کے درد سے زیادہ تعلق ہے.ٹخنوں کی چوٹوں کے بداثرات کے لئے روٹا پیلس اورا یکوی زیم مفید دوائیں ہیں.بعض ادویات کا ذکر کتب میں نہیں ملتا لیکن تجربہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مفید ہیں.اسے Clinical Evidence کہا جاتا ہے یعنی بارہا تجربہ کے نتیجہ میں کسی دوا کی افادیت ثابت ہو.ہومیو پیتھی کے فروغ میں پر وونگ کے علاوہ Clinical Evidence نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے.ایک زمانے میں زیادہ تر (Proving) یعنی طریقہ آزمائش کے ذریعہ دواؤں کا حال معلوم کیا جاتا تھا.یہی بہترین طریق ہے لیکن اب اس طریقہ آزمائش کے لئے اپنے آپ کو پیش کرنے والے لوگ بہت کم ملتے ہیں جو خالی الذہن ہو کر اور ہر قسم کے تعصبات سے پاک ہو کر اپنے اوپر پر دونگ کروائیں اور حصول علم کی خاطر پیدا ہونے والی عارضی تکالیف بخوشی برداشت کریں.
561 سا اوقات ٹخنے کی چوٹ صرف ٹخنے تک ہی محدود نہیں رہتی بلکہ پنڈلی کے تشیخ میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے.چلنے یا زیادہ حرکت کرنے سے صبح شروع ہو جاتا ہے اور شدید بے چینی پیدا ہوتی ہے.بعض دفعہ یہ شیخ گھٹنوں یا کولہوں میں منتقل ہو جاتا ہے اور کسی علاج سے آرام نہیں آتا.اگر صحیح علاج کیا جائے تو تکلیف او پر سے نیچے کی طرف منتقل ہونے لگے گی اور جہاں پہلی چوٹ لگی تھی وہیں جا کر ٹھہر جائے گی.اگر وہیں اس کا بالمثل علاج کیا جائے تو پھر تکلیف کہیں اور منتقل نہیں ہو گی.لیڈم میں جو ورم پائے جاتے ہیں وہ اکثر پاؤں کے جوڑوں میں نقرسی مادہ کی وجہ سے ہوتے ہیں جس کا ایک خاص مزاج ہوتا ہے.اس کی پہچان بہت آسان ہے.اگر سردی سے یا ٹھنڈے پانی سے آرام آئے اور گرمی سے مرض بڑھے تو پاؤں کے جوڑوں کا ایسا درد لیڈم سے جلد ٹھیک ہو جاتا ہے.لیڈم سے متاثر ہونے والی ہر سوزش کو ٹھنڈی ٹکور سے آرام آتا ہے.وہ درد جو جسم کے کسی ایسے عضو کی خالی جگہ پر محسوس ہو جسے بیماری کی وجہ سے کاٹ دیا گیا ہو، بہت تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ وہاں سے عضو تو کٹ چکا ہوتا ہے اور کوئی چیز موجود نہیں ہوتی لیکن تکلیف بدستور محسوس ہوتی ہے.بسا اوقات ٹانگ تو کٹ جاتی ہے مگر اسی ٹانگ کے پاؤں کے انگوٹھے کی جگہ پر مریض ایسا درد محسوس کرتا ہے گویا واقعی وہاں کوئی انگوٹھا موجود ہو جو در دکر رہا ہو.ایسے درد میں آرنیکا اور لیڈم بہت کام آتی ہیں.اگر یہ پتہ چل جائے کہ وہ عضو کٹنے سے پہلے کیا بیماری تھی تو اسی بیماری کا علاج ہونا چاہئے کیونکہ اعصاب اور ذہنی ریشوں نے اس بیماری کو اپنی یادداشت میں محفوظ رکھا ہوا ہے اور یہ دراصل یادداشت کا درد ہے.جب اس بیماری کا علاج کریں گے تو سارے اعصاب کو پیغام مل جائے گا کہ ایسے درد کے خلاف انہیں کیا رد عمل دکھانا چاہئے.یہ یاد رکھیں کہ عموماً عضو کے کاٹنے کے بعد جو درد رہ جاتا ہے اس میں آرنیکا، لیڈم، ہائی پیر کیم ،سفائٹم وغیرہ مفید ہوسکتی ہیں مگر شرط یہی ہے کہ عضو کاٹنے سے پہلے والی بیماری ان دواؤں سے مماثلت رکھتی تھی.لیڈم میں جوڑوں کے درد کو ٹھنڈک پہنچانے سے آرام آتا ہے باوجود اس کے کہ
لیڈم 562 مریض ٹھنڈا ہوتا ہے اور بیرونی اور اندرونی طور پر سردی بہت محسوس کرتا ہے.ٹھنڈک کے احساس کے باوجو د سردی سے آرام اور گرمی سے تکلیف ایک عجوبہ ہے.لیڈم کی بیماریوں میں مریض کا چہرہ پیکیس کے مریض کی طرح سوجا ہوا اور متورم دکھائی دیتا ہے.دل کے مریضوں میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے.لیڈم کے مریض کے چہرے کی رنگت نیلگوں ہوتی ہے.پاؤس اور پنڈلیوں میں بھی تعلیپھلی سی ورم ہوتی ہے اور رنگت میں نیلا ہٹ کی طرف مائل ہوتا ہے.لیڈم کا مریض مضبوط، تنے ہوئے جسم کا مالک ہوتا ہے.ٹخنے کے علاوہ گھٹنوں کے جوڑوں میں بیٹھ رہنے والی تکلیفوں میں بھی لیڈم کام آسکتی ہے بشرطیکہ ایسے گھٹے کو ٹھنڈی ٹکور سے آرام آئے.اس میں پیشاب کی ایک علامت جسیمیم سے ملتی ہے.کھلا اور بے رنگ پیشاب ہوتا ہے.لیڈم کی مریض خواتین میں حیض بہت جلد ، بہت زیادہ اور گہرے سرخ رنگ کا ہوتا ہے.اگر یہ علامتیں موجود ہوں تو لیڈم رحم کی اکثر بیماریوں میں مفید ثابت ہوسکتی ہے.لیکن لیڈم کی اس علامت کو فراموش نہ کریں کہ ہر تکلیف کو ٹھنڈ پہنچانے سے آرام آتا ہے.لیڈم کی ایک علامت پلسٹیلا سے ملتی ہے لیکن دونوں میں فرق کرنا مشکل نہیں.پلسٹیلا میں اگر کسی عضو میں دیر تک در در ہے تو وہ عضو سکڑنے لگتا ہے اور کمزور ہو جاتا ہے.لیڈم میں بھی اگر ایک ٹانگ میں تکلیف ہو تو وہ ٹانگ دوسری ٹانگ کی نسبت سکڑ کر کچھ چھوٹی ہو جاتی ہے.دونوں میں امتیاز یہ ہے کہ پلسٹیلا کا مریض گرمی محسوس کرتا ہے اور سردی سے آرام جبکہ لیڈم کا مریض سردی محسوس کرتا ہے.پھر بھی سردی ہی سے اسے آرام آتا ہے.لیڈم آنکھوں کی تکلیفوں میں بھی مفید ہے.اگر آنکھ میں چوٹ لگ جائے اور خون اتر آئے اور نقرس اور موتیا کی تکلیفیں بیک وقت شروع ہو جائیں تو لیڈم سے نمایاں افاقہ ہوگا.لیڈم میں پیشانی اور گالوں پر سرخ رنگ کے چھوٹے چھوٹے دانے نکل آتے
563 ہیں جن کو چھونے سے درد ہوتا ہے، ناک اور منہ کے قریب کیل نکلتے ہیں.ناک میں جلن ہوتی ہے، کھانسی کے ساتھ دم گھٹتا ہے، بلغم کے ساتھ خون کی آمیزش ہوتی ہے، سانس کی نالی میں در داور اور تشیخی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اور سانس لینے میں دقت محسوس ہوتی ہے.لیڈم کے مریض کے جسم میں حرارت غریزی کم ہونے کی وجہ سے جسم ٹھنڈا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کا مریض بستر کی گرمی برداشت نہیں کر سکتا.ٹکور کرنے سے بھی درد میں اضافہ ہو جاتا ہے.مریض اپنے پاؤں ٹھنڈے پانی میں رکھنا پسند کرتا ہے.طاقت 30 سے 200 تک
564
للیم تگ 565 135 للیم نگر بینم LILIUM TIGRINUM (Tigor Lily) للیم جنگ عورتوں کی دوست دو اسمجھی جاتی ہے.یہ خصوصاً ان عورتوں کے لئے بہت مفید ہے جو ہسٹریائی مزاج رکھتی ہوں اور بہت پر جوش ہوں، رحم اور دل کی بیماریوں میں مبتلا رہتی ہوں ، طرح طرح کے وہم ، خوف اور خدشات انہیں گھیرے رکھتے ہوں، یہ خدشہ محسوس کریں کہ رحم اور دیگر اندرونی اعضاء گویا با ہر نکلنا چاہتے ہیں اور یوں لگتا ہو جیسے اعضاء نیچے گر رہے ہیں اس لئے مریضہ لاشعوری طور پر ہاتھ کے دباؤ سے انہیں اوپر کرنے کا رجحان رکھتی ہو.ایسی مریضاؤں میں حیض کا خون قبل از وقت جاری ہو جاتا ہے، مقدار میں کم لیکن نہایت بد بودار ہوتا ہے، سیاہ خون کے لوتھڑے بھی نکلتے ہیں، حرکت کرنے سے خون زیادہ جاری ہوتا ہے اور لیٹنے اور آرام کرنے سے رک جاتا ہے.للیم نگ کا مریض متشدد مذہبی خیالات کا مالک ہوتا ہے.اگر وہ اذیت پسند ہواور ہسٹریائی مزاج بھی رکھتا ہو تو یہ دوا اس کے لئے بہترین ہے.للیم نگ کی علامات رکھنے والا مریض جب ضد میں آ جائے اور ہسٹریائی مزاج غالب ہو تو غیر منطقی ہا نہیں کرتا ہے حالانکہ اپنی روز مرہ زندگی میں وہ بالکل معتدل ہوتا ہے لیکن بیماری کا اثر غالب ہو تو فضول بحثیں کرتا ہے.عام طور پر نو جوان بچے اور بچیاں کسی تکلیف کی وجہ سے ضد میں آجائیں تو جان بوجھ کر اور اس علم کے باوجود کہ ان کی بات غلط ہے، پھر بھی دلیل دیتے چلے جاتے ہیں.وزن کم کرنے کے شوقین للیم تگ کے مریض نہ بھی ہوں تو اکثر اس بیماری میں مبتلا ہو جاتے ہیں.ضرورت سے زیادہ ڈائیٹنگ (Dieting) کرنے کی وجہ سے ان میں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہونے لگتی ہے.
للیم تنگ 566 یہ کیفیت عموماً عارضی ہوتی ہے لیکن غیر محتاط ڈائیٹنگ کرنے کے جو مستقل اثرات اعصاب پر پڑ جاتے ہیں وہ ٹھیک نہیں ہوتے اور ساری عمر کے لئے مصیبت بن جاتے ہیں.اس لئے شدید ڈائیٹنگ سے پر ہیز لازم ہے.متناسب غذا اور مناسب ورزش اچھی صحت اور ہلکے جسم کا بہترین نسخہ ہیں ورنہ فاقوں سے وزن گرانے کی کوشش سے مریض للیم ٹنگ کے مریض کی طرح ضدی ہو جاتا ہے اور بے دلیل با تیں کرنے لگتا ہے.علیکم تنگ میں ہائیوس اور پتھر س کی طرح جنسی اعضاء میں ہیجان ملتا ہے لیکن ایک واضح فرق یہ ہے کہ علیم نگ میں ان دونوں دواؤں کے مزاج کے بر عکس زور دار نفسانی خواہش ایک مستقل بیماری بن جاتی ہے جس پر قابو پانامشکل ہوتا ہے.گرمی اور سردی کے احساس کے لحاظ سے اس کی علامت پلسٹیلا سے ملتی ہے.گرمی سردرد تکلیف دیتی ہے اور ہاتھ پاؤں بھی جلتے ہیں.عموماً ماتھے پر رہتا ہے، روشنی نا قابل برداشت ہوتی ہے اور نظر کمزور ہو جاتی ہے.وقتی اندھا پن بھی پیدا ہو جاتا ہے.بعض دفعہ کمرہ بہت اندھیرا لگتا ہے.آنکھوں کے سامنے سائے سے ناچنے لگتے ہیں.آنکھوں میں سوزش ہو جاتی ہے جو مزمن ہو جائے تو آنکھ ہمیشہ سوجی رہتی ہے.لعلیم ٹنگ میں ایک علامت مرک کار سے ملتی ہے مثلاً پیچش ایسی کہ فارغ ہونے کے بعد بھی بے چینی اور درد جاری رہیں.مرک کار میں جب تکلیف ہو تو یہ احساس رہتا ہے کہ فارغ ہونے کے باوجود کچھ اجابت باقی رہ گئی ہے.لیکن لیم نگ میں اجابت کے بعد بھی ہر وقت یہ احساس رہتا ہے کہ اسے حاجت کے لئے ٹائلٹ جانے کی ضرورت ہے.مرک کار کی طرح اس میں بھی پیشاب کرنے کے باوجود جلن محسوس ہوتی ہے.اگر کسی مریض کو یہ خیال ہو کہ میں پاگل ہو جاؤں گا یا مجھے کچھ ہو جائے گا ، دماغ میں یہ خیال ایک بار راہ پالے تو نکلتا نہیں.اگر وہ سمجھنے لگے کہ میں فلاں چیز ہوں تو یہ وہم بھی ہٹنے کا نام نہیں لیتا.یہ لینم نگ کی خاص علامت ہے.اس کے ساتھ گہری اداسی اور ڈپریشن (Depression) کے دورے بھی ہوتے ہیں.میں نے کئی ایسے
للیم تگ 567 مریضوں کا علاج کیا ہے جواکثر نو جوان تھے، خدا کے فضل سے سب ٹھیک ہو گئے.ایسے مریضوں کو صرف دوا ہی نہیں بلکہ پیار سے سمجھانے کی بھی ضرورت ہوتی ہے.عموماً نفسیاتی اور جسمانی بیماریوں کا آپس میں گہرا تعلق ہوتا ہے.ایک کو دوسرے سے جدا نہیں کیا جاسکتا.اس لئے اگر ہومیو پیتھک طریقہ علاج میں یہ علم ہو جائے کہ کیا نفسیاتی بیماری ہے تو اس کا جسمانی بیماری کے ساتھ پہلو بہ پہلو علاج دونوں تکلیفوں کے لئے مفید ہوتا ہے کیونکہ جہاں ذہن کو آرام آتا ہے جسم کو بھی خود بخود آرام محسوس ہوتا ہے.للیم ٹنگ کے بعض مریض محسوس کرتے ہیں کہ انہیں سمجھا ہی نہیں گیا.ایسے مریضوں سے پیچھا چھڑوانا بہت مشکل ہوتا ہے، سمجھانے کا اثر نہیں ہوتا.انہیں صرف دوا دینی چاہئے.اگر دوا میں اثر ہوگا تو خود ہی ٹھیک ہو جائیں گے.ورنہ ہمیشہ یہی دہراتے رہیں گے کہ ہمیں کوئی نہیں سمجھ سکا کہ ہم کہنا کیا چاہتے ہیں اور کرنا کیا چاہتے ہیں.للیم نگ میں دل کی تکلیف بھی پائی جاتی ہے.ایسے محسوس ہوتا ہے کہ دل اچانک مٹھی میں آ کر جکڑا گیا ہے جیسے شکنجہ پڑ گیا ہو.یہ علامت کیکٹس میں بھی بہت نمایاں ہوتی ہے.نبض بہت تیز اور بے قاعدہ ہوتی ہے.دل کے مقام پر ٹھنڈک اور بوجھ کا احساس رہتا ہے.ہجوم میں اور گرم کمرے میں دم گھٹتا ہے.للیم نگ میں معدہ میں ہوا بھی ہوتی ہے، بوجھل پن کا احساس مگر بھوک بہت لگتی ہے.مریض گوشت کھانے کی خواہش زیادہ محسوس کرتا ہے.شدید پیاس لگتی ہے.بار بار پیشاب آتا ہے جو مقدار میں کم ، گرم اور دودھیا رنگ کا ہوتا ہے.للیم جنگ کے مریض کی تکلیفیں گرم کمرے میں اور رسمی تسلی اور تشفی دینے سے بڑھ جاتی ہیں.تازہ ہوا میں بہتر محسوس کرتا ہے.دافع اثر دوائیں: بیلو نفیس طاقت 30 سے 200 تک
568
میگنیشیا 569 136 میگنیشیا کارب MAGNESIA CARBONICA (Carbonate of Magnesia) میگنیشیا کا رب کو ایلو پیتھک طریقہ علاج میں معدے کی تیزابیت کم کرنے اور اسہال کی تکلیف دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.اس دوا کے لمبے استعمال سے جو تکلیفیں یا بداثرات پیدا ہو جاتے ہیں انہیں دور کرنے کے لئے ہو میو پیتھی پوٹینسی میں میگنیشیا کا رب اونچی طاقت میں استعمال کی جاسکتی ہے.میگنیشیا کا رب میں بیماریاں اکیس دن کے بعد دوبارہ واپس آتی ہیں.علامتیں ٹھیک بھی ہو رہی ہوں تو وہ اکیس دن کے بعد دوبارہ کچھ نہ کچھ جوش دکھانے لگتی ہیں.مریض کو کھلی ہوا کی خواہش ہوتی ہے خواہ ٹھنڈی ہی ہو حالانکہ سردی اس کے لئے مضر ہوتی ہے.مریض اپنے آپ کو ہر وقت ڈھانپے رکھتا ہے.گرم مشروب سے پسینہ آتا ہے.دانت کے اعصابی ریشوں میں شدید درد ہوتا ہے.حمل کا دانت درد جو وضع حمل تک جاری رہتا ہے اس میں یہ بہت مفید دوا ہے.اس درد کا حیض سے بھی تعلق ہوتا ہے.حیض کے دوران دانت میں درد ہوتا ہے اور حیض ختم ہونے سے دانت کا درد ٹھیک ہو جاتا ہے.میگنیشیا کے تمام اعصابی دردوں کو ہلکا ہلکا چلنے سے آرام آتا ہے.ہلکی حرکت سے خصوصاً دانت کے درد میں افاقہ ہوتا ہے.میگنیشیا کا رب کی اعصابی تکلیفوں کا دورہ عموماً رات کو ہوتا ہے.لیکیس میں حرکت سے آرام نہیں آتا جبکہ میگنیشیا کا رب میں حرکت آرام دیتی ہے.میگنیشیا کا رب میں نیٹرم میور کی طرح ناخن اور بال خراب ہو جاتے ہیں اور دانت اور اس کے اردگرد کا حصہ بہت حساس ہو جاتا ہے.یہ علامت اینٹی مونیم کروڈ
میکنیشیا 570 میں بھی ہے.ایسی صورت میں اینٹی مونیم کروڈ اور میگنیشیا کا رب کے علاوہ چائنا بھی مفید ہے.ایسے مریض جن میں سل کی علامات ظاہر ہونے لگیں.چہرہ زرد ہو جائے.اگر دیگر علامتیں کسی معین دوا کی طرف اشارہ نہ کریں تو میگنیشیا کا رب استعمال کریں.میگنیشیا کا رب کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ فضلے کا رنگ مٹی کی طرح ہو جاتا ہے اور اس میں سخت بد بو ہوتی ہے.یہ جگر کی خرابی کی علامت ہے.بہت کھل کرا جابت ہوتی ہے جو ٹکڑوں کی صورت میں ہوتی ہے اور پانی پر تیرتی ہے.معدے اور انتڑیوں کے کینسر میں بھی اجابت پانی پر تیرتی رہتی ہے اور ڈوبتی نہیں کیونکہ اس میں گیس ملی ہوئی ہوتی ہے مگر ضروری نہیں کہ جس شخص کی اجابت ملکی ہو کر تیرے اسے ضرور کینسر ہی ہوگا.اس لئے خواہ مخواہ وہموں میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے.کینسر کی دوسری علامتیں ہوں تو علاج کی فکر کرنی چاہئے.میگنیشیا کا رب میں اجابت کا رنگ بعض دفعہ سبزی مائل ہو جاتا ہے.اس کی سب بیماریوں میں خشکی بھی پائی جاتی ہے اور معدے میں کھٹاس ہوتی ہے.کھانسی بھی خشک ہوتی ہے.گلے میں خراش ہوتی ہے.چہرے پر دق کے اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں.بعض دفعہ کھانسی کے خشک ہونے کے باوجود معمولی سی بلغم بھی نکلتی ہے.میگنیشیا کا رب میں کندھوں میں بھی درد ہوتا ہے.خصوصاً دائیں کندھے میں.سارے جسم میں تھکاوٹ کا احساس رہتا ہے.جلد بے رنگ، زرد اور مرجھائی ہوئی.سردی نا قابل برداشت ہوتی ہے.بستر کی گرمی میں بھی تکلیف بڑھ جاتی ہے.اسی طرح بدلتے ہوئے موسم میں اور کھلی ہوا میں سکون محسوس ہوتا ہے.مددگار دوا: کیمومیلا دافع اثر دوائیں: آرسنگ.مرکزی طاقت 30
میلنڈرمینم 571 137 میلنڈرینم MALANDRINUM میلینڈ رینم گھوڑوں کی ایک بیماری Horse Grease کے مادہ سے تیار کی جانے والی دوا ہے.حیوانات کی بیماریوں کے ایک ماہر نے یہ معلوم کیا کہ وہ علاقے جہاں گھوڑے اس بیماری میں مبتلا ہوں وہاں اگر گائیں وغیرہ گھاس پر بیٹھیں تو ان میں چیچک کی بیماری پھیلنے لگتی ہے.یہ ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ ہو میو پیتھی طریقہ علاج میں میلینڈ رینم چیچک کے توڑ میں بہت مؤثر ثابت ہوئی ہے.اسے چیچک سے بچاؤ کے لئے بطور Preventive بھی شہرت حاصل ہے.نیز چیچک کے ٹیکے کے بداثرات کو زائل کرنے میں بھی یہ مفید ثابت ہوئی ہے.بعض ڈاکٹروں نے تجربے کئے.چار بچے لئے گئے.ان میں سے تین کو میلینڈ رینم کی ایک ایک خوراک استعمال کروائی گئی.چوتھے بچے کو یہ دوائی نہیں دی گئی پھر ان سب کو چیچک کے حفاظتی ٹیکے لگوائے گئے.جس بچے کو یہ دوا نہیں دی گئی اس میں چیچک کے ٹیکہ کا سخت رد عمل ظاہر ہوا جبکہ باقی بچوں کو کچھ نہیں ہوا.ایک اور معالج نے یہ تجربہ کیا کہ ایک بچے کو ٹیکہ نہیں لگوایا گیا، صرف میلینڈ رینم دی گئی، اسے کچھ نہیں ہوا جبکہ دوسرے بچے کو حفاظتی ٹیکہ لگوانے کے باوجود چیچک ہو گئی.ایک اور ڈاکٹر نے لکھا ہے کہ جن دنوں چیچک کی وباء پھیلی ہوئی تھی اس نے میلینڈ رینم 30 طاقت میں بار بار استعمال کی اور ایسے علاقوں میں چیچک کے مریضوں کا علاج کرتا رہا جہاں یہ وبا عام تھی مگر اسے کچھ نہیں ہوا.اور جن لوگوں نے یہ دوا استعمال کی وہ بھی اس وبا سے محفوظ رہے.اگر میلنڈ رینم کو چیچک کے حملہ کے بعد استعمال کیا جائے تو مریض بہت جلد بغیر کسی گہرے نقصان کے صحت یاب ہو جاتا ہے.ڈاکٹر برنٹ (Dr.Burnett) نے مشورہ دیا
میلنڈرمینم 572 ہے کہ یہ بہت گہرا اثر کرنے والی دوا ہے اس لئے اسے بلاضرورت بار بار نہیں دہرانا چاہئے.حاد یعنی فوری نوعیت کی بیماریوں میں اسے دہرایا جاسکتا ہے لیکن حفاظتی مقاصد کے پیش نظر اسے لمبے وقفہ سے استعمال کرنا چاہئے.چیچک کے ٹیکے کے ردعمل کے طور پر جسم پر ایگزیما ظاہر ہو جائے تو اس میں بھی میلینڈ رینم مفید ہے مگر چیچک کے ٹیکے کے بداثرات دور کرنے کے لئے زیادہ مشہور دوا تھو جا ہے.میلینڈ رینم کا ہڈیوں پر بھی اثر ہوتا ہے.اگر ہڈیوں میں نقص پیدا ہو جائے اور وہ ٹیڑھی ہو جائیں اور ٹانگوں کی ہڈیاں اندر کی طرف مڑنے لگیں اور چلتے ہوئے گھٹنے کی ہڈیاں آپس میں ٹکرانے لگیں تو میلنڈرینم سے فائدہ ہوگا.کمزور ہڈیوں کے لئے کلکیریا کارب بہت مفید دوا ہے بلکہ اصل دواہی یہ ہے لیکن میلنڈ رینم بھی اچھا کام کرتی ہے.میلنڈرینم جلدی امراض میں بھی مفید ہے.ہر قسم کے ایگزیما، آبلوں اور چھالوں میں اچھا اثر دکھاتی ہے اس کے آبلے اور چھالے آہستہ آہستہ نکلتے ہیں، ایک کے بعد دوسرا اور پھر ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور چھالوں کی فصلیں اگنے لگتی ہیں.جانوروں کی بیماریوں میں بھی اس کا استعمال مفید ہے.ایک ڈاکٹر نے ایک ایسے کتے کو میلینڈ رینم دی جس کی گردن میں خطرناک چھالے نکلے ہوئے تھے وہ فوراً ٹھیک ہو گیا.میلینڈ رینم وجع المفاصل اور جوڑوں کی اندرونی کی جھلیوں کی سوزش میں بھی مفید ہے.عموماً یہ دوا جسم کے نچلے حصوں میں زیادہ اثر کرتی ہے.ٹانگوں پر گھٹنوں سے لے کر ٹخنوں تک اس کا اثر زیادہ ہوتا ہے.کمر میں دکھن اور چوٹ لگنے کی طرح کا درد ہو تو بھی میلنڈرینم مفید ہے.میلینڈ رینم عورتوں کے رحم کی تکالیف کے لئے بھی اچھی بتائی گئی ہے.اندرونی اعضاء میں خارش، سوزش اور سبزی مائل لیکوریا کے اخراج میں اچھا اثر دکھاتی ہے.مسوڑھوں سے خون آئے.ذرا سا دبانے سے بھی خون جاری ہو جائے تو میلینڈ رینم بھی دوا ہو سکتی ہے اور اس لحاظ سے اس کی علامتیں کر ئیوز وٹ
میلنڈرینم 573 (Kreosotum) سے ملتی ہیں.وہ بچے جو پڑھ کر سب کچھ بھول جائیں تو ان کے لئے بھی میلنڈرینم بہت مفید ہے.چھوٹی طاقت میں ہفتہ میں دو تین بار چند ماہ تک استعمال کرانی چاہئے.طاقت: 30 اور اونچی
574
ملیر یا آفیشی نیلس 575 138 ملیر یا آفیشی نیلس MALARIA OFFICINALIS یہ دوا ملیریا بخار اور اس کے بداثرات میں مفید ہے.سر درد، متلی ، جسم میں دردیں.معدے میں بے چینی اس کی خاص علامات ہیں.یہ صرف ملیریا میں ہی نہیں بلکہ اس سے ملتے جلتے بخاروں کے لئے بھی استعمال کی جاتی ہے.مریض کا جسم گرم ہولیکن وہ سردی اور کپکپاہٹ محسوس کرے اور اعضاء شکنی کی علامت پائی جائے تو ملیر یا آفیشی نیلس استعمال کرنی چاہئے.ملیر یا آفیشی نیلس جگر کے لئے بھی اچھی ہے.جگر کے مقام پر درد اور اینٹھن محسوس ہو.جگر، تلی اور گردے کام کرنا چھوڑ دیں.جسم میں خون کی کمی واقع ہو.سارا نظام صحت جواب دے جائے ، جلد اور چہرہ زرد ہو اور مریض بہت کمزوری اور سردی محسوس کرے تو اسے استعمال کرنا چاہئے.ضدی قسم کے ملیریا بخار جو کسی دوا سے ٹھیک نہ ہوں ان میں بھی یہ مفید ہے.اس کے استعمال سے چند دنوں میں ہی مریض کی صحت بہتر ہونے لگتی ہے یا مرض کی علامات واضح ہوکرسامنے آجاتی ہیں جن سے صحیح دوا کی تشخیص میں مددملتی ہے.اس دوا کا اثر برائیونیا نکس وامیکا، آرسنک اور رسٹاکس سے زائل ہوتا ہے.طاقت: 30
576
577 139 MANGANUM ACETICUM (Manganese Acetate) یہ دوا ایک دھات مینیم کے ایسی ٹیٹ (Acetate) سے بنائی گئی ہے.ڈاکٹر ہانیمن نے اس کی آزمائش کی تھی.یہ خون پر اثر انداز ہوتی ہے بہت گہری اور وسیع الاثر دوا ہے لیکن بوجوہ اس کا استعمال ہو میو پیتھی میں بہت کم ہوا ہے.اس کا سب سے زیادہ اثر گلے کی نالی پر ہوتا ہے جس کا بولنے سے تعلق ہے.سلی مادوں کے اجتماع سے آواز رفتہ رفتہ کم ہو جائے اور مسلسل کھانسی رہے تو مینگینم بہت مفید دوا ہے.یہ دیگر سلی اثرات کو بھی دور کر دیتی ہے میکنیم میں ظاہری علامات کی تصویر بہت بھیا نک بتائی گئی ہے.اس لئے اکثر ڈاکٹر اس وجہ سے بھی میلینم کے فوائد سے محروم رہ جاتے ہیں کہ جب تک یہ علامتیں اتنی شدت سے موجود نہ ہوں وہ اسے استعمال نہیں کرتے.میگیم میں چکنی اور زردجلد کے ساتھ بے حد کمزوری پائی جاتی ہے مگر عموم بیماری کے شروع میں ہی یہ سب علامات ظاہر نہیں ہوتیں.جب انتہائی علامات ظاہر ہو جا ئیں تو اس وقت علاج بہت مشکل ہو جاتا ہے.شروع میں ہی کوئی علامت مینلینم کا تقاضا کرے تو ضرور استعمال کروانی چاہئے.اگر نرخرے کا حصہ ماؤف ہورہا ہو اور سلی اثرات ظاہر ہوں تو مینلینم بلا تاخیر شروع کروا دینی چاہئے.اگر مریض میکینم کا ہو تو دوسری دواؤں سے یہ کھانسی کم تو ہوسکتی ہے لیکن وہ گہرا اثر نہیں کریں گی.مینگینم کا ہڈیوں کی جھلی سے بھی گہرا تعلق ہے.اسی طرح ہڈیوں میں پیدا ہونے والے ناسوروں میں بھی یہ مفید ہے.اس میں حیض کی خرابیاں بھی ملتی ہیں.قلت حیض جو وقت گزرنے کے بعد ایک آدھ دن کے لئے آتا ہے.خون کی رنگت پھیکی ، پانی کی طرح ہوتی ہے ایسی صورت میں
578 بجائے اس کے کہ حیض جاری کرنے والی دوا دی جائے مینگینم دینی چاہئے کیونکہ ایسے مریض میں خون کی شدید کمی ہوتی ہے اس لئے حیض کا خون جاری کرنے والی دوا سے رہا سہا خون بھی نکل جائے گا.میرا تجربہ ہے کہ علامات کے مطابق صحیح دوا دی جائے تو حیض کا خون جاری ہونے کی بجائے کچھ عرصہ کے لئے رک جاتا ہے لیکن کئی مہینے حیض بند رہنے کے بعد جب جسم میں خون کی کمی پوری ہو جائے اور طاقت آ جائے تو پھر حیض نارمل ہو جائے گا.اگر خون کی کمی نہ ہونے کے باوجود حیض بند ہو جائے تو بندش حیض کی دوسری دوائیں سوچنی چاہئیں.ایسے مریض جن کی پنڈلیوں میں اینٹھن ہوتی ہے.ٹانگوں کے پلوں میں بھی محسوس ہوتی ہے اور ٹانگیں بے حس ہو جاتی ہیں.ان کی پنڈلیوں کے سامنے کی ہڈی کی دکھن میں مینگینم بہت مفید دوا ہے.مینگینم میں جلدی علامتیں بھی ملتی ہیں.زخموں اور ناسور کے کنارے موٹے ہو جاتے ہیں.اکثر زخم لمبا عرصہ چلتے ہیں اور ٹھیک نہیں ہوتے.سورائسس (Psorisis) میں بھی اسے مفید بتایا گیا ہے.اگر سورائس یعنی چنبل دب چکا ہو تو مینلینم سے فائدے کی صورت میں پہلے بہت زور سے جلد پر ابھرے گا اور لمبا عرصہ وقفہ وقفہ سے استعمال کے نتیجہ میں کم ہونا شروع ہو جائے گا.لہذا میگینم دینے کے بعد سورائس یعنی چنبل ظاہر ہو تو گھبرانا نہیں چاہئے.ڈاکٹر کینٹ اس بات کے سخت خلاف تھے کہ سورائس کو دواؤں سے دبا دیا جائے کیونکہ اس کے نتیجہ میں انتڑیوں میں یا کسی اور عضو میں کینسر ہوسکتا ہے.ان کے اکثر بیانات درست ہوتے ہیں اس لئے بعید نہیں کہ یہ بھی درست ہو میںکیم میں سورائس کی علامات فاسفورس اور ڈ کا مارا سے ملتی ہیں.میگیم کے زہر سے خون کے ذرات اور خون کے خلیے متاثر ہو جاتے ہیں.نرخرہ (Larynx) یعنی سانس کے لوچ دار چھلوں پر مشتمل نالی جو گلے سے شروع ہو کر نیچے پھیپھڑوں کی جانب اترتی ہے اور گلے میں اس کے اندر آواز پیدا کرنے کا آلہ ہوتا ہے، مینگینم میں اس کے اندر ورم پیدا کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے جس کا ہر حملہ پہلے سے بڑھ
579 کر ہوتا ہے.یہاں تک کہ یہی بڑھتی ہوئی بیماری بالآخر پھیپھڑوں میں دبے ہوئے سل کے مادے کو ابھار دیتی ہے.مینلینم سے بر وقت ایسے مریض کا علاج بعد میں پیدا ہونے والی سنگین پیچیدگیوں سے بچالیتا ہے.مینگینم کے مریض کے زخم اور ناسور ٹھیک نہیں ہوتے اور مسلسل ہرے رہتے ہیں.یہ کیفیت جزوی کینسر کی ہے اگر اسے زبردستی ٹھیک کرنے کی کوشش کی جائے تو یہ پورے کینسر میں تبدیل ہو سکتی ہے.اس کے مریض کو معمولی سالمس بھی سخت تکلیف دیتا ہے.اگر چلنے سے ہڈیوں میں درد ہو اور آرنیکا، برائیونیاسے فائدہ نہ ہوتو میکنیم فائدہ دیتی ہے.یہان دواؤں کی نسبت زیادہ گہرا اثر رکھتی ہے.اسی طرح میکینم میں پٹیشیا سے ملتی جلتی در دیں ہوتی ہیں جو معدے کی خرابی اور ٹائیفائیڈ کے تعفن سے پیدا ہوتی ہیں.اگر پیٹیشیا کچھ فائدہ دے کر چھوڑ دے تو میکینم کو یادرکھنا چاہئے.مینٹیم میں گہری اداسی پائی جاتی ہے.جس کے ساتھ یہ احساس ہوتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے.عورتیں اکثر اس غم میں مبتلا رہتی ہیں.اپنے عزیزوں کے متعلق تو ہمات کا شکار رہتی ہیں.اگر دینی علامات بڑھ جائیں تو سوچنے سمجھنے کی طاقت ماؤف ہونے لگتی ہے.کسی بات کا شعور نہیں رہتا.بینائی کم ہو جاتی ہے.مینشینم ان علامات کو دور کرنے کے علاوہ مریض کی دوسری بیماریوں میں بھی اچھا اثر دکھائے گی.میگینم میں حرکت سے اور چلنے پھرنے سے تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں لیکن بیٹھنے سے بھی آرام نہیں آتا.ہاں اگر مریض لیٹ جائے تو سب تکلیفیں یوں ختم ہو جاتی ہیں گویا تھیں ہی نہیں.وہ عورتیں جو موٹاپے کا شکار ہوں.ہر وقت جسم میں دردیں ہوں اور وہ ہر وقت لیٹی رہیں ان کی دوا میگیم بھی ہوسکتی ہے بشرطیکہ اس کی دوسری اہم علامتیں موجود ہوں.بعض دفعہ بیٹھے بیٹھے گھبراہٹ کی وجہ سے حرکت کرنے اور چلنے پھرنے کو دل چاہتا ہے لیکن چلنے پھرنے سے دردوں کی تکلیف بڑھ جاتی ہے.اس علامت میں آرسنک اور رسٹاکس کا خیال آ سکتا ہے مگر ان دونوں کی علامتیں بالکل مختلف ہیں.سل کی علامتوں میں ارجنٹم مٹیلیکم، فاسفورس اور گریفائٹس کی علامتیں مینگینم سے
میر 580 مشابہت رکھتی ہیں.اگر سل کے مریض میں خون کی کمی کی وجہ سے سر میں درد ہو تو ایسے سردرد میں بھی میگینم مفید ہو سکتی ہے.اس میں دردیں سوئی کی چھن کی طرح ہوتی ہیں جیسے کسی نے ٹانکہ بھر دیا ہو.نیز سر کی جلد میں سرخ رنگ کے داغ بن جاتے ہیں اور ان جگہوں میں درد ہوتا ہے.آنکھ کے چھپر اور پردوں میں سوزش ہوتی ہے.روشنی سے زود حسی پائی جاتی ہے.قریب کی چیزیں دیکھنے سے آنکھوں میں درد ہوتا ہے.اس وجہ سے کتاب نزدیک رکھ کر پڑھنے یا سلائی کا کام کرنے سے آنکھیں دکھنے لگتی ہیں.یہ علامت روٹا (Ruta) سے ملتی جلتی ہے.میگینم میں کانوں سے بد بودار مواد نکلتا ہے.اس بیماری میں امونیم کا رب بھی بہت نمایاں مقام رکھتی ہے.مینگینم میں کانوں میں بھاری پن پیدا ہو جاتا ہے لیکن یہ کیفیت مستقل نہیں ہوتی.ناک صاف کرنے سے جب ہوا کا دباؤ پڑتا ہے تو وقتی طور پر شنوائی ٹھیک ہو جاتی ہے.کان کے بیرونی حصہ کو ہاتھ لگانے سے درد ہوتا ہے نزلہ، زکام اور گلے کی خرابی کان پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور کان میں درد ہوتا ہے.حتی کہ دانتوں کا درد بھی کانوں پر اثر انداز ہوتا ہے.پس وہ نزلاتی بیماریاں جن کے نتیجہ میں کان مسلسل بھاری رہنے لگیں اور قوت شنوائی متاثر ہو ان میں مینگینم کو نہیں بھولنا چاہئے.سرد اور بھیگے ہوئے موسم میں بغیر کسی انفیکشن کے بھی شنوائی متاثر ہوتی ہو اور مریض اونچا سننے لگے، اگر اس کے ساتھ کان میں خارش ہو اور دبانے سے گلے میں بھی شروع ہو جائے اور چھینکیں میں بھی آئیں تو مینگینم سے افاقہ ہوسکتا ہے.عموماً یہ علامتیں بھیگے ہوئے ٹھنڈے موسم میں بڑھتی ہیں.چہرہ بالکل پھیکا ، بے رونق اور زرد ہو جاتا ہے.ایسے چہرہ میں میٹینم بہت نمایاں حیثیت رکھتی ہے.بخار کے ساتھ پھوڑے نکلیں تو بھی مینگینم مفید ہے.معدے کی ہر قسم کی تکلیفوں میں کام آتی ہے.خصوصاً اگر بھوک مٹ جائے اور کھانے پینے کی خواہش بالکل ختم ہو جائے تو اسے بحال کر دیتی ہے.اس کے پیٹ درد میں آگے جھکنے سے آرام آتا
581 ہے.یہ کولو سنتھ (Colocynthis) کی بھی علامت ہے.اس کے مریض میں معدے کی کوئی نہ کوئی تکلیف ضرور رہتی ہے.قبض ہوگی یا اسہال لگ جائیں گے یا پیچش ہو جائے گی.معتدل حالت نہیں رہتی.عورتوں کو حیض کے ختم ہونے کے زمانے میں یا ویسے ہی خون کی کمی سے چہرہ پر تمتما ہٹ اور گرم ہوا کے جھونکے محسوس ہوتے ہیں.اس میں سلفر، گریفائٹس اور لیکیسس وغیرہ بھی کام کرتی ہیں لیکن میکنیم بھی اچھی دوا ہے.جگر میں چربی بڑھنے کے رجحان کو بھی مینگینم روکتی ہے.یرقان اور پتے کی پتھریوں میں بھی مفید ہے.ناف کے نیچے ہلکا سا کھچاؤ محسوس ہوتا ہے.اگر یہ شدید ہو تو یہ پلیم کی علامت ہوتی ہے.اگر گلا صاف کرنے کے لئے بار بار کھنکارنا پڑے تو میگیم مفید ہوسکتی ہے.سی علامت اور بھی بہت سی دواؤں میں ملتی ہے.مثلا ودھیا (Wythia)، ارجنٹم میٹ ، سلیشیا، فاسفورس وغیرہ.میگیم میں اس کی دیگر تکلیفوں کی طرح کھانسی بھی لیٹنے کے بعد ختم ہو جاتی ہے.بائیو کس میں اس سے بالکل بر عکس علامت ملتی ہے یعنی لیٹنے پر کھانسی شروع ہو جاتی ہے.وہ بچیاں جو بہت زودحس ہوں ان میں یہ علامت بہت نمایاں ہوتی ہے.ارجنٹم مٹیلیکم میں بھی لیٹنے سے کھانسی کو آرام آتا ہے.بولنے اور بننے سے بڑھنے والی کھانسی میں مینٹینم سے زیادہ فاسفورس مفید ہے.وہ مریض جو رفتہ رفتہ کمزور ہور ہے ہوں ان کی طاقت کو بحال کرنے کے لئے بھی میگیم کارآمد ہے.ٹھنڈے مرطوب موسم میں اور طوفان آنے سے پہلے مینکینم کی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.دافع اثر دوائیں کافیا.مرکزی طاقت: 30 سے 200 تک
582
میڈورا میکنم 583 140 میڈورائینم MEDORRHINUM (The Gonorrhoeal Virus) میڈ ورا ئینم سوزاک کے زہر سے تیار کی جاتی ہے.یہ دبی ہوئی موروثی سوزا کی بیماریوں میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے.موروثی سوزاک میں جو مقام میڈ ورا ئینم کا ہے وہی موروثی سلفس میں سیفیلینم (Syphilinum) کا بیان کیا جاتا ہے.اگر یہ دوائیاں استعمال نہ کی جائیں تو یہ بیماریاں زندگی کا مستقل حصہ بن جاتی ہیں اور پیچھا نہیں چھوڑتیں ، بار بار حملہ کرتی ہیں.بعض بہت قابل ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ سلفس (آ تشک ) اور سوزاک انسانی معاشرہ میں قدیم سے پائے جاتے ہیں اس لئے ان کے زہر موروثی بن چکے ہیں.ضروری نہیں ہے کہ کسی انسان کو خود یہ بیماریاں لاحق ہوئی ہوں، موروثی طور پر ان میں یہ علامتیں پائی جاسکتی ہیں.پہلے سفلس کا علاج بہت مشکل سمجھا جاتا تھا اور عموماً مرکری دے دی جاتی تھی مگر اب اگر مسلسل ایک مہینہ پینسلین (Penicillin) دی جائے تو کہا جاتا ہے کہ یہ بیماری جڑوں سے اکھڑ جاتی ہے.ہومیو پیتھک نظریہ یہ ہے کہ سفلس جڑوں سے کبھی نہیں اکھڑتی ، بلکہ مختلف بھیس بدل لیتی ہے اور جب اسے سازگار حالات میسر آئیں تو پھر اصلی صورت میں ظاہر ہو جاتی ہے.جدید ترین ایلو پیتھک ریسرچ سے بھی یہ ہومیو پیتھک نظر یہ درست ثابت ہوا ہے.ایڈز پر امریکہ میں ہونے والی ریسرچ کے دوران یہ بات سامنے آئی ہے کہ ایڈز کے بہت سے مریضوں کو اچانک سفلس بھی ہو گیا حالانکہ پہلے سفلس کا کوئی نشان موجود نہیں تھا.جب ان کے خاندانی حالات معلوم کئے گئے تو بعضوں کے متعلق یقینی طور پر علم ہوا کہ ان کے باپ دادا میں سے کسی کو سفلس کی بیماری ہوئی تھی
میڈ ورا ئینم 584 اور مرکری کے استعمال سے اسے دبا دیا گیا تھا مگر بظاہر یہ نا پید بیماری مختلف عوارض کے بھیس میں ہمیشہ جسم میں موجود رہی.یہی حال سوزاک کا بھی ہے.یہ بھی نسلاً بعد نسل جسم میں موجود رہتا ہے.اگر اسے جڑ سے نہ اکھیڑا جائے تو اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بیماریوں کے علاج بھی سطحی ثابت ہوتے ہیں.ان دواؤں میں جو دبے ہوئے سوزاک کا قلع قمع کر سکتی ہیں ایک میڈ ورائینم ہے جس کی بہت تعریف کی جاتی ہے اور بعض ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ہر علاج میڈ ورائینم سے شروع کرنا چاہئے.اگر سوزاک کی دبی ہوئی علامتیں موجود ہوئیں تو میڈ ورائینم کی بہت اونچی طاقتیں انہیں اچھال کر باہر لے آئیں گی.اس کے نتیجہ میں بیماری کی جو شکل بھی ظاہر ہوگی اس کا علاج دراصل دبے ہوئے سوزاک کا علاج ثابت ہو گا اور اس کے بداثرات ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گے.دمہ کا بھی میڈورائیم سے بہت تعلق ہے.بچوں کا سوکھا پن ، دمہ، دانگی نزلہ، داد اور خاص قسم کے مسے ، وہ عمومی بیماریاں ہیں جو سوزاک کے دب جانے سے جسم میں زہر یلے رجحانات کے طور پر چھپی رہتی ہیں اور حسب حالات کبھی کبھی ظاہر ہوتی رہتی ہیں.ہر قسم کے مسے جو تھو جا کے قابو میں نہیں آتے ان میں میڈ ورائینم دینا ضروری ہو جاتا ہے.بعض عورتوں کو شادی کے بعد بعض تکلیفیں آگھیرتی ہیں.مثلاً حیض کے ایام میں بے قاعدگی ، درد اور اعصابی کمزوری وغیرہ، انہیں بھی میڈ ورائینم کی ضرورت پڑ سکتی ہے.میڈ ورا ئینم کا مریض سخت ٹھنڈا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اسے بہت پسینہ آتا ہے اور اسی طرح بعض دفعہ اس کی ہتھیلیاں جلتی ہیں مگر اس کے باوجود ہاتھ باری باری ٹھنڈے بھی ہو جاتے ہیں.کبھی دایاں ،کبھی بایاں اور بعض دفعہ دونوں ہاتھ سخت ٹھنڈے ہو جاتے ہیں.وجع المفاصل اور بائی کی عمومی دردوں میں اگر علامتیں ملتی ہوں تو اسے بہت مفید بتایا جاتا ہے.اگر چہ اس کی بہت سی علامتیں عموماً سورج چڑھنے کے بعد سے سورج کے غروب ہونے تک رہتی ہیں لیکن بعض دوسری علامتیں رات کے وقت بہت بڑھ جاتی
میڈورا میکنم 585 ہیں.رات کو بڑھنے والی تکلیفوں میں بھوتوں یا مردہ لوگوں کا خوابوں میں آنا اور ساری رات ڈراؤنی خوابیں آتے رہنا اس کی نمایاں علامت ہے.اسی طرح پیشاب کی تکلیفیں بھی رات کو بہت بڑھ جاتی ہیں.مریض کو بار بار اٹھنا پڑتا ہے اور بعض دفعہ اس شدت سے پیشاب آتا ہے کہ کموڈ (Commode) تک پہنچنا بھی مشکل ہو جاتا ہے.ایسے مریضوں کے پراسٹیٹ گلینڈز یعنی غدہ قدامیہ میں بھی ہر قسم کے ورم اور سوزش کی علامتیں ملتی ہیں.تھو جا بھی میڈ وراٹینم سے ملتی جلتی دوا ہے اور اس میں بھی اکثر تکلیفیں آدھی رات کے بعد بڑھتی ہیں.وجع المفاصل میں اگر پہلے میڈورائینم دیا جائے تو اصل علامتیں کھل کر باہر آ جاتی ہیں اور علاج میں آسانی پیدا ہو جاتی ہے.میڈ ورائینم کی ایک علامت جسم میں سوئیاں چبھنا اور چھیا کی نکلنا ہے جس کا شور سے بھی ایک خاص تعلق ہے.اگر شور زیادہ ہو اور اعصاب پر دباؤ ہو تو چھپا کی نکل آتی ہے.میڈ ورائیٹنم میں پاؤں اور ٹانگوں کے ورم بھی ملتے ہیں.گھٹنے تک ٹانگیں بے حد ٹھنڈی ہو جاتی ہیں.بعض دفعہ ایسے مریضوں کے تلوے اتنے زود حس ہو جاتے ہیں کہ مریض تلوؤں کے بل چل ہی نہیں سکتا اور اسے گھٹنوں کے بل اپنے آپ کو گھسیٹنا پڑتا ہے یا پھر بہت احتیاط سے آہستہ آہستہ تلووں پر دباؤ ڈالتے ہوئے چلنا شروع کرتا ہے اور چلنے سے جو گرمی پیدا ہوتی ہے اس سے کچھ دیر کے لئے چلنا آسان ہو جاتا ہے مگر بعد میں تلوؤں کی تکلیف پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے.میڈ ورائینم کی علامات میں یہ بات بھی نمایاں ہے کہ وقت بہت آہستہ آہستہ گزرتا ہے.بچوں یا لڑکیوں وغیرہ کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کے پیچھے کوئی کھڑا ہے.ایک دم ڈر کے پیچھے دیکھتے ہیں جیسے کوئی پیچھے سے دبے پاؤں آ گیا ہو.یوں لگتا ہے جیسے کچھ چہرے انہیں جھانک رہے ہیں.اس احساس کو دور کرنے کے لئے میڈ ورائینم کے علاوہ فاسفورس بھی اچھی دوا ہے.فاسفورس میں بھی یہ احساس پایا جاتا ہے کہ کوئی شخص چیزوں کے پیچھے چھپا ہوا مریض کو جھانک رہا ہے.بیماریوں کے بعض زہروں کے اثر سے
میڈورا میکنم یہ احساس پیدا ہوتا ہے.586 میڈورائینم میں اندھیرے سے ڈرنے اور گرنے کا خوف نمایاں ہوتا ہے.سر کی جلد میں تناؤ ہوتا ہے جیسے پٹی بندھی ہوئی ہو.میڈورائینم جلدی امراض اور سر میں سخت سکری کی تکلیف میں بھی کامیاب علاج ہے.سکری کو انگریزی میں ڈینڈرف (Dandruff) کہتے ہیں.میڈورائینم کی بالوں کی علامات نیٹرم میور سے ملتی ہیں اور دونوں کا تعلق سوزا کی بیماریوں سے ہے.نیٹرم میور میں بال خشک اور بھر بھرے سے ہو جاتے ہیں اور بہت شدت سے سکری پائی جاتی ہے.بعض اوقات صرف میڈ ورائٹینیم دینے سے ہی ان بیماریوں کا شافی علاج ہو جاتا ہے.بعض لوگوں میں معمولی سے دینی تناؤ سے بھی آنکھوں کے سامنے چیزیں تھر کنے لگتی ہیں اور نظر دھندلا سی جاتی ہے اور ایک جگہ نہیں ٹھہرتی.کالے یا بھورے دھبے بھی نظر آنے لگتے ہیں اور بعض دفعہ دو دو چیزیں دکھائی دیتی ہیں.اگر یہ علامتیں مزمن ہو جائیں تو میڈ ورائینم بہت اچھی دوا ہے.اگر وہمی اور خیالی چیز میں نظر آنے لگیں، آنکھوں میں تناؤ ہو، اعصاب کھنچے ہوئے محسوس ہوں اور آنکھوں کی پلکیں جھڑ جائیں تو بھی میڈ ورائینم سے علاج ہوسکتا ہے.ایپس کی طرح میڈ ورائٹنم میں بھی آنکھوں کے نیچے سوجن ہوتی ہے.ایپس میں یہ حصہ سوج کر نیچے لٹک جاتا ہے.آنکھوں کے نیچے تھیلیاں سی بن جانا ایپس کا خاص نشان ہے جبکہ میڈ ورائینم میں عام سوجن پائی جاتی ہے.میڈ ورا ئینم مزمن نزلہ کے لئے بھی مفید ہے لیکن یہ بہت اونچی طاقت میں دی جائے تو کام کرتی ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ سوزا کی اثر اندر بہت گہرائی تک موجود ہے اور عام دوائیوں کی پہنچ سے باہر ہے.اگر مزمن نزلہ اس وجہ سے ہو تو میڈ ورا ئینم CM میں یا کم از کم دس ہزار طاقت میں دی جائے.ایسے پرانے بہنے والے نزلہ میں یہ اعلیٰ درجہ کی دوا ہے.اگر اعصابی تناؤ کی وجہ سے غیر معمولی بھوک لگے اور گھبراہٹ کی وجہ سے کچھ کھانے کو دل چاہے لیکن کھانا کھا کر مریض کو تسکین نہ ہو ، کچھ نہ کچھ اور کھانے کو دل چا ہے.اسی طرح ایسی پیاس محسوس ہو جو پانی پینے کے باوجود نہ بجھے تو ایسی کیفیت
میڈورائینم 587 میں بھی میڈ ورائینم مفید ہے.غیر معمولی بھوک کی علامت سور ائینم میں بھی ملتی ہے لیکن سورائینم کی بھوک رات کے وقت زیادہ بے قرار کرتی ہے.جگر کی خرابی کی وجہ سے پیٹ میں پانی بھر جائے تو میڈ ورائینم مفید ثابت ہوتی ہے.بن ران کے گلینڈز کی خرابی اور سوزش میں بھی مفید ثابت ہو سکتی ہے.اس کی قبض کی علامت یہ ہے کہ گول اور سخت اجابت ہوتی ہے اور پیشاب گہرے رنگ کا، کم مقدار میں اور سخت بدبودار ہوتا ہے اور بہت کم آتا ہے.امکان ہے کہ ایسے مریض جن کے جوڑوں میں درد کی وجہ سے چلنے پھرنے میں دقت ہو اور وہ لنگڑے سے ہو جائیں، ان میں بھی میڈ ورائینم مفید ثابت ہو.کثرت پیشاب جو شوگر کی وجہ سے نہیں بلکہ اعصابی تکلیف کی وجہ سے ہو، اس میں بھی یہ دوا بہت مفید ہے.گردے، مثانے اور پراسٹیٹ گلینڈز کی تکلیفوں سے اس کا گہرا تعلق ہے.اگر گردے کے درد کا شدید دورہ پڑے تو اس میں اولین نسخدا یکونائٹ اور بیلاڈونا ملا کر دینا ہے.اگر دونوں کو 1000 کی طاقت میں ملا کر دس دس منٹ کے وقفہ سے دو خوراکیں دیں تو اللہ کے فضل سے بہت سے مریضوں کو فوری آرام آجاتا ہے.اگر ایسے مریض کی تکلیف گرمی کی بجائے سردی سے بڑھتی ہو تو پھر میگ فاس 6x بار بار دینے سے یا کولوسنتھ ایک لاکھ کی طاقت میں صرف ایک خوراک دینے سے بعض دفعہ جادو کی طرح اثر ہوتا ہے.درد کے اس دورہ کے رفع ہونے کے بعد گردے کی پتھریوں کا مستقل علاج ہونا چاہئے.اگر گردے کا درد پتھریوں کی وجہ سے نہ ہو بلکہ سوزش کی وجہ سے ہو تو اس کی مستقل دوا تلاش کرنی چاہئے جو میڈ ورائینم بھی ہوسکتی ہے.میڈ ورا ئینم کا بہرے پن سے بھی تعلق ہے.بعض اوقات کان میں ایسی خرابی ہوتی ہے جس کا اعصاب سے تعلق ہوتا ہے اور بظاہر کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی.ایسا بہرہ پن جو مزمن ہو جائے اور بڑھتا چلا جائے اس میں میڈ ورا ئینم استعمال کر کے دیکھنا چاہئے.میڈ ورائینم بروقت دینے سے فائدہ ہوتا ہے.سلفر کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.میں نے بعض مریضوں کو جن میں کان کی ہڈی کی خرابی کی وجہ سے تیزی سے
میڈورا میکنم 588 بہرہ پن پیدا ہو رہا تھا سلفر CM استعمال کروائی.اس سے ہڈی کی بیماری ختم ہوگئی اور بہرہ پن جہاں تک پہنچا تھا وہیں رک گیا.میڈ ورائیٹنم میں کھانا چباتے وقت دانت بہت حساس ہو جاتے ہیں.اسی طرح منہ میں زخم جو کٹے پھٹے موٹے کناروں والے ہوں، بنے لگتے ہیں.ٹخنوں کی مزمن تکلیفوں میں بھی میڈ ورائینم کارآمد ثابت ہوتی ہے.بعض اوقات اندرونی اعضاء کی مردانہ اور زنانہ بیماریوں میں جو دبے ہوئے سوزاک کی آئینہ دار ہوں بالکل متضاد علامات واقع ہوتی ہیں.جذبات میں یا تو غیر معمولی ہیجان پیدا ہو جاتا ہے یا پھر جذبات بالکل ختم ہو جاتے ہیں بلکہ جنسی تصور سے ہی نفرت ہو جاتی ہے.مریض درمیانی حالت میں نہیں رہتا، یا ایک انتہا پر یا دوسری انتہا پر.دمہ سے بھی اس دوا کا گہرا تعلق ہے.دمہ کے لئے عموماً نیٹرم سلف بہت اہم دوا کبھی جاتی ہے.جن بچوں میں سوزاک کی علامتیں موروثی طور پر پائی جائیں ان کے دمہ میں اکثر نیٹرم سلف مفید ہے لیکن علامتوں کو واضح کرنے کے لئے میڈ ورائینم بھی دینی پڑتی ہے.بعض اوقات نیٹرم سلف اثر نہیں کرتی اور میڈ ورائینم بہتر کام کرتی ہے.کلکیر یا سلف بھی دمہ میں ایک بہت نمایاں اثر دکھانے والی دوا بتائی جاتی ہے.اگر بلغم بہت گہرا جم جائے اور نکالنے میں سخت دقت پیش آئے اور دوسری علامتی دوائیں کام نہ کریں تو میڈ ورا ئینم بھی شفا کا موجب ہوسکتی ہے.چھاتی کے نیچے گہری بلغم کے لئے کالی آئیوڈائیڈ اور آرسنک آئیوڈائیڈ بھی فائدہ مند ہیں.اگر بلغم اکھڑنے سے زخم ہو جائیں اور رسنے والے ناسور کی شکل اختیار کر لیں تو کالی آئیوڈائیڈ زیادہ مفہ ہے.اگر زخم بہت گہرا نہ ہو اور سطحی ہو تو آرسنک آئیوڈائیڈ اچھا کام کرتی ہے.جوڑوں کی تکلیف میں جس میں بجلی کے کوندوں کی طرح درد کی لہر میں اٹھیں اور چھاتی میں زیادہ شدت سے درد محسوس ہو، میڈ ورا ئینم مفید بتائی جاتی ہے.لیکیس کی طرح میڈ ورائینم میں بھی سینہ کے بائیں طرف جلن کا احساس ہوتا ہے.ریڑھ کی ہڈی کے منکے ایک طرف ہو جائیں اور اعصاب دب جائیں، ٹانگوں کی طرف اتر نے والی
میڈورا میکنم 589 دردیں ہوں یا شیاٹیکا (Sciatica) ہو جائے تو ان سب تکلیفوں میں گہری چھان بین سے علامتی دوا کی تلاش کرنی چاہئے.اگر اس طرح تشخیص نہ ہو سکے یا تشخیص کام نہ کرے تو پھر میڈ ورا ئینم کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.اونچی طاقت میں دے کر ہفتہ دس دن تک اس کا اثر دیکھنا چاہئے.ایک دفعہ ایک مریض کو میں نے اس کی علامات کے لحاظ سے دوا دینے کی کوشش کی.وہ کولو سنتھ کا مریض تھا.اسے بہت اچھا فائدہ ہو رہا تھا لیکن ایک مقام پر مزید فائدہ رک گیا تو میں نے کولوسنتھ اونچی طاقت میں دینے کی بجائے اسے میڈ ورائینم دے دی.اس کی پہلی علامتیں فوراً واپس آگئیں اور شدید درد ہونے لگا.اگر میں اونچی طاقت میں میڈ وراٹینم سے ہی علاج جاری رکھتا تو ہوسکتا ہے کہ اسی سے اس کی بیماری جڑ سے اکھڑ جاتی مگر اس مریض میں بھی صبر کی کمی تھی.اس لئے میڈ ورائیٹنم کے بعد پھر کولو سنتھ دینا زیادہ مناسب سمجھا اور اس دفعہ اس نے اثر بھی پہلے سے بہتر دکھایا.بعد کا مجھے علم نہیں کہ اس سے اسے مکمل شفا ہو گئی تھی یا نہیں.جب کمر کی تکلیف کا ٹانگوں پر اثر ہوتو ایسا بھاری پن پیدا ہو جاتا ہے کہ لگتا ہے کہ ٹانگیں لکڑی کی بنی ہوئی ہیں.یہ بھی میڈ ورائینم کی ایک پہچان ہے.بعض اوقات تشیخ سے بھی دوران خون بند ہو جاتا ہے اور اس دوا میں بھی تشیخ پایا جاتا ہے، خاص طور پر پنڈلیوں میں.اگر زیادہ دیر کھڑے رہنے سے شیخ ہو جائے تو میگ فاس بھی مفید ہے لیکن میڈ ورا ئینم میں شیخ تلووں میں بھی ہوتا ہے اور پاؤں مڑنے اور اندر کی طرف سکڑنے کا احساس ہوتا ہے.میڈورائینم کی کئی تکالیف سورج کی تمازت سے بڑھتی ہیں.مرطوب موسم میں اور سمندر کے کنارے آرام آتا ہے.لیکن بعض تکلیفیں رات کو بڑھتی ہیں جن کا اوپر تفصیلی ذکر آچکا ہے.طاقت: 30 سے CM تک
590
مرکزی 591 141 مرکزی کے مرکبات MERCURIUS مرکزی ( پارہ) بہت اہم اور گہرا اثر رکھنے والی دوا ہے جو جسم کے ہر حصہ اور خلیہ پر اثر انداز ہوتی ہے.اگر مرکزی کا زہر ایک دفعہ جسم میں داخل ہو جائے تو اس کے بداثرات سے نجات حاصل کرنا اگر ناممکن نہیں تو امر محال ضرور ہے.یہ بھی آرسنک کی طرح بہت گہرے اور دائمی اثرات کا حامل ہے لیکن آرسنک کا زہر اپنے بداثرات کو آئندہ نسل میں منتقل نہیں کرتا بلکہ تمام تر اثرات اسی ایک وجود میں سمیٹے رکھتا ہے جسے آرسنک دیا گیا ہو.وہ جب تک زندہ رہے گا آرسنک کے اثرات کے ساتھ زندہ رہے گا.جب مرجائے گا تو ان کے سمیت مٹی میں دفن ہو جائے گا اور اس کا ایک ذرہ بھی بداثر کے طور پر اگلی نسل میں منتقل نہیں ہو گا.مگر مرکزی ایسی خطرناک چیز ہے کہ اس کے بداثرات نسل در نسل جاری رہتے ہیں.آتشک کی بیماری کا بھی بعینہ یہی مزاج ہے اسی لئے مرکزی آتشک کی چوٹی کی دوا سمجھی جاتی ہے.آتشک کے لئے ایک اور دوا سیفیلینم (Syphilinum) بھی بہت مفید ہے جو سفلس ( آتشک) کے مادہ سے ہی تیار کی جانے والی دوا ہے.اگر یہ بہت اونچی طاقت میں دی جائے تو فائدہ مند ثابت ہوتی ہے.اگر براہ راست فائدہ نہ بھی پہنچائے تو دوسری دواؤں کو مؤثر کرنے میں مدد گار ثابت ہوتی ہے اور مرکزی جیسی دواؤں کے ذریعہ علاج کو آسان بنادیتی ہے.مرکری کی اس بنیادی صفت کو ذہن نشین کرلیں کہ یہ وہ زہر ہے جو عمر بھر ساتھ دیتا ہے اور اگلی نسل میں بھی چلتا ہے.اس سے زیادہ وفادار مگر خوفناک زہر کم دیکھا گیا ہے.تمام زہروں میں منفی اثرات کی گہرائی کے لحاظ سے یہ سب سے خطرناک ہے.اس کا اثر ہڈیوں اور اعصابی خلیوں پر بھی پڑتا ہے.خون،جلد، دل،
مرکزی 592 اندرونی جھلیوں اور اعصابی ریشوں کو متاثر کر کے ہڈیوں میں اتر جاتا ہے اور پھر دماغ پر بھی حملہ کرتا ہے.زمانہ قدیم میں ایلو پیتھک ڈاکٹر مرکزی سے براہ راست آتشک کا علاج کرتے تھے جس سے عارضی فائدہ اور دائمی نقصان پہنچتا تھا اور آ تشک دب کر نظام تولید کے ذریعہ آئندہ نسلوں میں منتقل ہونے لگتی تھی.علاوہ ازیں پرانے اطباء بھی مرکزی کو مختلف بیماریوں کے علاج میں بے دھڑک استعمال کرتے تھے.مرکزی کا بے جا اور زیادہ مقدار میں استعمال آتشک کی علامتیں پیدا کر دیتا ہے.مرکزی اعصاب کے خلیوں کو کھا جاتا ہے اور ناک کی ہڈیاں اور انگلیاں وغیرہ گلنے سڑنے لگتی ہیں.کوڑھ کی علامات بھی ظاہر ہو جاتی ہیں جبکہ اس کا ہومیو پیتھک استعمال شفا دینے کی طاقت رکھتا ہے.مرکزی کی عام حالات جو ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کے زیادہ زبان زدعام ہیں ان میں منہ سے رال کا بہنا، بہت پسینہ آنا، گلے کی خرابی اور خوفناک بد بو وغیرہ ہیں.مرکزی کا مریض ہمیشہ متعفن ہوتا ہے اس سے ایسی خطرناک اور تیز بو آتی ہے کہ اس کا بیان کرنا بہت مشکل کام ہے، صرف تجر بہ سے ہی معلوم کیا جاسکتا ہے.اگر مرکزی کا صحیح استعمال کیا جائے تو اس کی بیماریاں اندر سے اچھل کر باہر جلد پر نمودار ہو جاتی ہیں.بعض اوقات شدید خارش اور رسنے والے زخم اور ناسور پیدا ہو جاتے ہیں جن کی سطح سفیدی مائل ہوتی ہے.عموماً جلد پر سفید رنگ کے چٹاخ بن جاتے ہیں.ایک دفعہ میرے پاس ایک ایسا مریض آیا جس کی رانوں کے اردگرد نہایت گہرے اور تکلیف دہ سفید رنگ کے ناسور تھے.کسی دوا سے آرام نہ آ رہا تھا.میں نے اسے مرکزی استعمال کروائی.اللہ کے فضل سے ایک ماہ سے بھی کم عرصہ میں بالکل ٹھیک ہو گیا.مرکزی کی ایک علامت یہ ہے کہ جسم پر سفید رنگ کے چٹاخ پڑ جاتے ہیں جو پھلبہری کی طرح ہوتے ہیں لیکن پھلبہری نہیں ہوتے اور پھلبہری کی طرح بڑھتے اور پھیلتے نہیں ہیں.اگر مرکزی کی مزاجی علامتیں ملتی ہوں تو بعض دفعہ یہ پ پھلبہری کی بھی بہت مؤثر دوا ثابت ہوتی ہے.ایک مریض کا سارا جسم پھلبہری کے داغوں سے بھر گیا تھا.اس میں چونکہ مرکزی کی دوسری علامات موجود تھیں میں نے ایک ہزار کی طاقت میں مرکزی
مرکزی 593 استعمال کروائی.ایک ہفتہ میں اتنا نمایاں فرق پڑا کہ جب وہ مجھے ملنے آیا تو میں اسے پہچان بھی نہ سکا، سب داغ غائب ہو گئے اور دوبارہ کبھی اسے یہ مرض نہیں ہوا.جب مرکزی جلد پر اثر دکھاتی ہے تو اندرونی طور پر غدودوں پر کوئی بداثر ظاہر نہیں ہوتا لیکن جب غدودوں پر اثر کرتی ہے تو جلد پر ضرور کوئی بیماری ظاہر ہوتی ہے.جس کا مطلب ہے کہ غدودوں کو ٹھیک کر کے بیماری کو باہر دھکیلا گیا ہے.جماعت احمدیہ کے بانی جن کو جماعت احمد یہ تمثیلی طور پر پہلے مسیح کا ثانی یقین کرتی ہے، انہوں نے اپنے وقت میں ایک ایسا اہم انکشاف فرمایا جس سے ہومیو پیتھک طبیبوں کا ہومیو پیتھی پر ایمان بڑھ جانا چاہئے.آپ نے فرمایا کہ مجھے روحانی ذریعہ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ اگر غدودوں کی بیماریوں کو کسی دوا سے جلد کی طرف دھکیل دیا جائے تو غدودوں کو بعض انتہائی خطرناک بیماریوں سے نجات مل جاتی ہے.ان دواؤں کی مثال دیتے ہوئے آپ نے مرکزی اور سلفر کا ذکر کیا ہے اور ہو میو پیتھی میں بھی یہی دو دوائیں ہیں جو اس مقصد کے لئے بکثرت استعمال کی جاتی ہیں.آپ نے مزید لکھا کہ میرے دل میں بے حد جوش پایا جاتا ہے کہ میں اس راز کو کھول کھول کر سب دنیا کے سامنے بیان کروں کیونکہ اس میں بہت سے شفا کے راز مضمر ہیں.ہڈیوں کی دردیں جو مستقل بیماری کی شکل اختیار کر لیں ان میں مرکری مفید ہے لیکن اس کی پہچان یہ ہے کہ ان ہڈیوں میں جہاں جلد اور ہڈی کے درمیان گوشت کی زیادہ تہیں نہ ہوں وہاں در دیں نمایاں طور پر محسوس ہوتی ہیں یعنی جلد سے چھٹی ہوئی ہڈیوں میں درد کا احساس ہوتا ہے.غدودوں اور ہڈیوں میں اگر نا سور مزمن ہو جائیں تو مرکری کو فراموش نہیں کرنا چاہئے.مرکزی کی خاص علامت یہ ہے کہ جوڑوں میں درد کے ساتھ پیپ بنے کا رجحان بھی ہوتا ہے.چونکہ مرکزی کے مریض کا مزاج آتشک کے مریض کے مشابہ ہوتا ہے اس لئے ہڈیوں میں ناسور اور سوزش کے علاوہ پیپ بھی بنتی ہے.ڈاکٹر عموماً اس پیپ کو پچکاری کے ذریعہ باہر نکالتے ہیں.اگر مرکری کو چھوٹی طاقت میں شروع کر کے آہستہ آہستہ طاقت بڑھائی جائے تو بہت مفید نتائج ظاہر ہوں گے.ایک دم شروع میں اونچی طاقت
مرکزی 594 میں مرکزی دینا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے.مزمن بیماریوں میں دوا کی طاقت کو رفتہ رفتہ اونچا کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے لیکن علاج کا آغاز چھوٹی طاقت سے کرنا چاہئے.یہی محفوظ طریق علاج ہے.مرکزی کا ایک خاصہ یہ ہے کہ جوڑوں اور بائی کے دردوں میں ورم اور سوزش ضرور ملتے ہیں.بستر کی گرمی اور پسینہ آنے سے تکلیف بڑھ جاتی ہے.پسینہ بہت آتا ہے لیکن اس سے مریض بہتر محسوس نہیں کرتا.بار بار پسینہ آتا ہے لیکن بے چینی اسی طرح قائم رہتی ہے.اگر گلے کے غدود متورم ہوں اور بخار ہو جائے تو پسینہ آنے سے بخار ٹوٹنے کی بجائے مرض اور بھی گہرائی میں اتر جاتا ہے.مرکزی کی دو تین خوراکیں دینے سے دبا ہوا بخار پہلے ابھرتا ہے اور پھر ٹوٹنے لگتا ہے.بار بار کا پسینہ آنا بند ہو جاتا ہے اور ایک ہی دفعہ بہت کھل کر پسینہ آتا ہے.اس بخار میں جس کا ایک علاج مرکزی بھی ہے بچوں کی آنکھیں ایسی چمکیلی ہو جاتی ہیں جیسے وارنش کر دیا گیا ہو.ایسی ہی آنکھیں خسرہ اور کا کڑا الا کڑا وغیرہ میں بھی ملتی ہیں جب تک ان کے دانے یا چھالے کھل کر ابھر نہ آئیں آنکھوں کی یہ چمک باقی رہتی ہے.بچوں کے سانس میں سخت بو آنے لگتی ہے اور انہیں سرسام بھی ہو جاتا ہے اور مختلف نظارے نظر آتے ہیں.اگر مرکری کام نہ دے تو ہسپر سلف دینی چاہئے.اگر وہ بھی کام نہ آئے تو پھر سلیشیا خدا تعالیٰ کے فضل سے ضرور شفا کا موجب ہو جاتی ہے.ان تین دواؤں کے دائرے میں عموما مرض قابو میں آ جاتا ہے.میں اس قسم کی بیماریوں میں ایک بائیوکیمک نسخہ بھی استعمال کرتا ہوں.نیٹرم فاس، فیرم فاس، سلیشیا، کالی میور، کلکیر یا فاس اور اگر گلے پھولے ہوئے ہوں تو کلکیر یا فلور ملا کر اس مکسچر کی خوراک بار بار دینی چاہئے.یہ نسخہ اکثر بہت مفید ثابت ہوتا ہے.اگر مرض پھر بھی قابو میں نہ آئے اور مرکری کی علامات نمایاں ہوں تو پھر مرکزی ضرور دی جائے مگر ہمپر سلف کے بعد.اگر جلد پر زخم بنے لگیں جو ناسور کی شکل اختیار کر لیں اور ان کے کنارے ابھرے ہوئے ہوں اور خدشہ ہو کہ گینگرین نہ ہو جائے تو اس صورت میں مرکسال کی بجائے
مرکزی 595 مرک کا ر زیادہ بہتر دوا ہے.ان دونوں کی علامتوں میں نمایاں فرق یہ ہے کہ مرکسال نسبتا نرم لیکن مزمن دوا ہے.مرک کار کی بیماریوں میں شدت پائی جاتی ہے اور یہ مقابلتا زیادہ تیزی سے اثر کرتی ہے.حاد اور مزمن دونوں بیماریوں میں اس کا تیز اثر کرنا ایک امتیازی حیثیت رکھتا ہے.لمبی چلنے والی پچپش جس میں آؤں اور خون آرہا ہو ، مرکسال دیں.مگر مرک کاراس وقت فائدہ دیتی ہے جب پیچش کا فوری نوعیت کا حملہ ہو اور اجابت کے باوجود در دختم ہونے میں نہ آئے اور خون کا اخراج مسلسل ہونے لگے.مرکزی کا مزاج بدلتا رہتا ہے.بیماریوں کی شدت میں اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے.بلڈ پریشر کبھی زیادہ ہو جاتا ہے اور کبھی کم.ایسا بخار جواچانک زیادہ ہو جائے اور اچانک کم ہو جائے یعنی کسی ایک جگہ قرار نہ پکڑے تو اس کے لئے مرکسال بھی ایک امکانی دوا ہے جس کا جائزہ لینا چاہئے.مرکزی میں گینگرین کی علامت ہونٹوں ، گالوں اور مسوڑھوں پر ظاہر ہوتی ہے.جلد سیاہ ہو کر بھیانک شکل اختیار کر لیتی ہے.آتشک میں بھی انہی جگہوں پر بیماری کی علامتیں بھیا نک رنگ میں ظاہر ہوتی ہے.ناک بھی متاثر ہوتا ہے اور اس کی ہڈیاں اندر سے کھائی جاتی ہیں.منہ کے ناسور بھی مرکزی کی طرف اشارہ کرتے ہیں.جب مرکزی کی علامات بڑھ جاتی ہیں تو عمومی نقاہت سے ہاتھ کا پنپنے لگتے ہیں اور کچھ اٹھانے کی طاقت نہیں رہتی.چائے کی پیالی اٹھانی بھی مشکل ہو جاتی ہے.مرگی سے ملتی جلتی بچوں کی بیماریوں اور اعضاء کی بے اختیار حرکت میں جو بلا ارادہ شروع ہو جائے ، مرکزی ایک امکانی دوا ہے.مرکزی کے مریض کی طبیعت میں جلد بازی پائی جاتی ہے اور گفتگو میں تیزی آ جاتی ہے.صبر کا فقدان ہوتا ہے اور وہ ہر کام بہت جلد کرنا چاہتا ہے.اس کا غصہ بھی آسمان سے باتیں کرتا ہے.اگر پاگل پن کا رجحان ہو تو بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ایسے مریض کسی جذبے سے مغلوب ہو کر فوراً کوئی انتہائی قدم اٹھا لیتے ہیں یا خود کشی کر لیتے ہیں.بے حد پریشان اور بے چین رہتے ہیں.پاگل ہونے یا مرنے کے وہم میں مبتلا
مرکزی 596 ہو جاتے ہیں.حوصلہ کمزور ہو جاتا ہے.شکی مزاج ہوتے ہیں.زندگی سے تھک جاتے ہیں.ان سے کوئی بات پوچھی جائے تو بہت آہستگی سے اور ٹھہر کر جواب دیتے ہیں.یادداشت کمزور ہو جاتی ہے اور سر میں کمزوری محسوس ہوتی ہے.مرکزی کے سر درد کا تعلق دبے ہوئے اخراجات سے ہوتا ہے یہاں تک کہ اگر پاؤں کا پسینہ بھی بند ہو جائے یا نزلہ اچانک خشک ہو جائے تو سر درد شروع ہو جائے گا.حیض کا خون رک جائے تو سر میں درد ہونے لگتا ہے.کمر کے بل لیٹنے سے سر میں چکر آنے لگتے ہیں.سر کے گرد پٹی سی بندھے ہونے کا احساس ہوتا ہے.بائیں کنپٹی میں درد ہوتا ہے.کھوپڑی میں دباؤ اور گھٹن محسوس ہوتے ہیں.جلن اور خارش بھی پائے جاتے ہیں.مرکزی کی بیماریاں سردی اور گرمی دونوں موسموں میں بڑھ جاتی ہیں.ہوا کا جھونکا بھی نا قابل برداشت ہو جاتا ہے.اگر خسرہ وغیرہ کے بعد بچوں میں سر بڑھنے کی علامت نظر آئے تو مرکزی اس رجحان کو فورا ختم کر دیتی ہے.مرکزی کے مریض کی جلد کا رنگ مٹیالا ہو جاتا ہے.خارش اور ایگزیما کے اخراجات میں بو کی علامت نمایاں ہوتی ہے اور خون بہنے لگتا ہے.زخموں کے کنارے اٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور ان پر سفید جھلی سی آ جاتی ہے.رات کو جلد کی تکلیفیں زیادہ ہو جاتی ہے.بستر کی گرمی بیماریوں کو بڑھا دیتی ہے.آنکھوں میں سوزش ، جلن اور سرخی پائی جاتی ہیں.پانی بہتا ہے.آنکھوں کے سامنے سیاہ دھبے نظر آتے ہیں.آگ کی روشنی کی طرف دیکھنے سے آشوب چشم کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے.آنکھوں کے گرد اور کنپٹیوں میں درد ہوتا ہے.نظر دھندلا جاتی ہے.آنکھ کے پردہ ( کورنیا) پر سوزش ہو جاتی ہے.روشنی سے بہت زود حسی پائی جاتی ہے.گرمیوں کے موسم میں آنکھ دکھنے کی سب علامتیں مرکری میں ملتی ہیں.اگر کوئی خاص علامت کسی اور دوا کو واضح کرنے والی نہ ہو تو مرکسال کو آزمانا چاہئے.اگر سورج گرہن کے دوران سورج کو دیکھا جائے تو آنکھ کا پردہ ریٹینا (Retina) سخت متاثر ہوتا ہے جس کا علم فورا نہیں ہوتا.کئی سالوں میں آہستہ آہستہ اثرات ظاہر ہوتے ہیں..
مرکزی 597 جگہ جگہ کالے دھبے نظر آنے لگتے ہیں.کبھی دائیں آنکھ کی نظر ختم ہو جاتی ہے اور کبھی بائیں کی.مریض رفتہ رفتہ بالکل اندھا ہو جاتا ہے اور ایسے اندھے پن کا کوئی علاج معلوم نہیں.آج کل شعاعوں کے ذریعہ علاج کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اس سے عارضی فائدہ ہوتا ہے.اس سلسلہ میں مرک کار ایک لاکھ طاقت کی دو تین خوراکیں ایک ایک ماہ کے وقفہ سے اللہ کے فضل سے بہت فائدہ پہنچاتی ہیں.مرض جہاں تک پہنچ چکا ہو وہیں ٹھہر جاتا ہے.لیکن اکھڑے ہوئے ریٹینا کو دوبارہ جوڑ نا ممکن نہیں اس لئے لیزر (Laser) کے اپریشن کی لاز ما ضرورت پڑتی ہے.بعض ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ اگر ایسے مریضوں کو مر کسال چھوٹی طاقت میں دیا جائے تو ریٹینا کی بہت سی بیماریاں ٹھیک ہو جاتی ہیں.اس سلسلہ میں مزید تجربات کرنے چاہئیں.مجھے اس کا کوئی تجربہ نہیں.کانوں کی بیماریوں میں مرکزی کی خاص علامت پیپ کی بد بواور اس کا رنگ ہے جو سفید ہوتا ہے یا گہرے سبز رنگ کا گاڑھا مواد کان سے نکلتا ہے.اندرونی اور بیرونی کان میں ورم ہوتا ہے.اس سے کان کے پردہ میں شگاف ہو جائے تو قوت سامعہ متاثر ہوتی ہے.بعض اوقات عام نزلہ میں بھی مرکسال سے فوری فائدہ ہوتا ہے لیکن یہ دوانزلہ کا سطحی علاج کرتی ہے، مزمن دوا نہیں ہے اس لئے اس پر بنا نہیں کرنی چاہئے.اس کی بجائے عام نزلہ کے رجحان میں ، جس کو مرکزی سے آرام آئے ، مستقل طور پر کالی آئیوڈائیڈ دینی چاہئے.کالی آئیوڈائیڈ کا ان گہری وجوہات سے تعلق ہے جو نزلاتی بیماریاں پیدا کرتی ہیں لیکن نزلاتی بیماریوں میں صرف یہی ایک دوا کافی نہیں ہے اور بھی متعدد دوائیں کام آ سکتی ہیں.ڈاکٹر کینٹ نے مرکزی کے بارے میں متنبہ کیا ہے کہ اسے جلدی بیماریوں میں بار بار استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اگر ایسی بیماریوں میں اس کا زیادہ استعمال کیا جائے تو یہ باقی رہ جانے والے بد اثرات چھوڑ جاتی ہے.ممکن ہے کہ مرکری کا صرف ان مخصوص جلدی امراض سے تعلق ہو اور مریض کے سارے مزاج سے مطابقت نہ رکھتی ہو اس لئے
مرکزی 598 ملتی جلتی امراض تو ٹھیک ہو جائیں مگر جسم کے باقی عوارض کی علامتیں مہم ہو جائیں.دانتوں کی بیماریوں میں بھی مرکزی بہت مفید ہے.دانت بھر بھرے ہو کر مسوڑھوں سے الگ ہو جاتے ہیں اور ان کے درمیان بد بودار مادہ جمع ہونے لگتا ہے.لہذا پائیوریا میں مرکزی مفید ثابت ہوتی ہے.دانتوں کا سیاہ پڑ جانا اور جڑوں سے کھایا جانا کر ئوزوٹ کے علاوہ مرکسال کے دائرہ میں بھی ہے.اگر دانتوں کی جڑیں کالی ہو رہی ہوں تو سٹیفی سیگر یا، مرکسال سے بہتر کام کرتی ہے.وہ بچے جنہیں آ تشک کا مادہ وراثت میں ملا ہو ان کے دانت شروع میں ہی گل کر کالے ہو جاتے ہیں.زبان موٹی اور پھیلی ہوئی معلوم ہوتی ہے.اس کے اطراف میں دانتوں کے نشان بن جاتے ہیں.منہ میں گہرے ناسور بننے کا رجحان پایا جاتا ہے.چبانے اور چھونے سے مسوڑھوں میں درد ہوتا ہے.منہ سے انتہائی خطرناک بد بو آتی ہے.جو سارے کمرے میں محسوس کی جاسکتی ہے.مرکزی میں منہ کا مزہ دھات کی طرح کا ہو جاتا ہے.گلے میں سرخی اور سوزش پائے جاتے ہیں.ہر وقت نگلنے کی طلب رہتی ہے کیونکہ منہ میں بہت رطوبت بنتی رہتی ہے.موسم میں جو بھی تبدیلی واقع ہو، اس سے گلے میں سوزش اور جلن شروع ہو جائے ، گرم چیز پینے سے تکلیف بڑھ جائے، مائع چیزوں کے نگلنے میں دقت محسوس ہو اور ہر وقت گلے میں کچھ پھنسے ہونے کا احساس رہے جیسے ہیپر سلف میں پایا جاتا ہے تو یہ سب علامتیں مجموعی طور پر مرکری کا مطالبہ کرتی ہیں.مرکزی کے مریض کی بھوک یا تو بہت بڑھ جاتی ہے یا بالکل ختم ہو جاتی ہے.گوشت، کافی اور چکنائی سے نفرت ہو جاتی ہے.مسلسل بھوک کے ساتھ کمزوری کا احساس بھی بڑھتا جاتا ہے.دودھ اور میٹھی چیزوں سے معدے کی تیزابیت بڑھ جاتی ہے.ٹھنڈی چیزیں پینے کی بہت خواہش ہوتی ہے.معدہ میں جلن، سوزش اور چھونے سے درد نمایاں طور پر پائے جاتے ہیں.نیکی لگ جاتی ہے.ڈاکار بھی آتے ہیں.معدہ میں تناؤ پیدا ہو جاتا ہے.جگر کے مقام پر سوئیاں سی چیھتی ہیں.دائیں طرف لیٹنے سے تکلیف بڑھتی
مرکزی 599 ہے.پیچش اور پیٹ درد جس میں ڈنک مارنے کا احساس ہو، یہ سب علامتیں مرکری میں پائی جاتی ہیں.مرک کار میں مثانے پر بھی اثر پڑتا ہے.دکھن اور جلن کا احساس اور پیشاب مقدار میں بہت تھوڑا، پیشاب میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے اور جلن ہوتی ہے، ساتھ ہی پیچش بھی شروع ہو جاتی ہے.یہ علامتیں اکٹھی ہو جائیں تو مرک کار کو تقریبا یقینی دوا سمجھنا چاہئے.گرمیوں میں اچانک پیچش شروع ہو جائے ایکونائٹ اور اپی کاک کے علاوہ مرکزی بھی مفید ہے.مرکزی کی ایک علامت یہ ہے کہ معمولی سی محنت سے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو جاتی ہے.دل کے مقام پر کمزوری کا احساس ہوتا ہے.رات کے وقت تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے.تمام اعضاء کا پیتے ہیں خصوصا ہاتھ اور پاؤں.اعضاء میں جھٹکے بھی لگتے ہیں.غیر معمولی بھاری پن، تھکاوٹ اور کمزوری محسوس ہوتی ہے اور کھچاؤ محسوس ہوتا ہے جو رات کو بستر کی گرمی میں بڑھ جاتی ہے.عورتوں کی بیماریوں میں اگر بیفتہ الرحم یعنی (Ovary) میں ڈنک دار درد ہوں اور جلن کا احساس ہو، حیض کا خون مقدار میں بہت زیادہ، پیٹ میں در داور لیکوریا جو رات کو زیادہ ہو جائے، چھیلنے والا مواد خارج ہو، صبح کے وقت متلی کا رجحان ، پیشاب کرنے کے بعد خارش اور جلن جسے ٹھنڈے پانی سے دھونے سے آرام آتا ہو تو یہ عمومی علامتیں ہیں جن میں مرکسال مفید ثابت ہو سکتی ہے.اگر محض کمزوری کی وجہ سے ابتدائی مہینوں میں حمل ضائع ہو جائے تو بھی مرکسال اس کمزوری کو دور کر کے طاقت بحال کرتی ہے اور عورت اس قابل ہو جاتی ہے کہ جنین کا بوجھ اٹھا سکے.رحم اور چھاتی کے کینسر میں اگر چہ مرکری مکمل شفا بخشنے کی صلاحیت نہیں رکھتی مگر تکلیف کو کم کر دیتی ہے اور آرام پہنچاتی ہے.ہاں وہ گلٹیاں جو کینسر نہ ہوں مرکری سے شفا پا جاتی ہیں.مرکزی کی ایک قسم پر وٹو آئیوڈائیڈ (Proto iodide) سینے کے کینسر میں بہت مفید ثابت ہوئی ہے.ڈاکٹر کینٹ سینے کے کینسر کی وجہ سے پیدا ہونے والے درد میں پروٹو آئیوڈائیڈ 100 کی طاقت میں استعمال کرواتے تھے.جب بھی درد اٹھے اسے استعمال
مرکزی 600 کیا جا سکتا ہے.ان کے تجربہ میں آیا ہے کہ انڈے کے برابر رسولی اس دوا کے استعمال سے بالکل ختم ہو گئی.یہ دوا دائیں طرف کی تکلیف میں زیادہ اثر دکھاتی ہے جبکہ اس کی دوسری قسم Bin iodide بائیں طرف کی تکلیفوں میں مفید ہے.بعض لوگوں کی گردن سردی لگنے سے اکڑ جاتی ہے.اس میں مرکسال مفید ہے.اگر صبح اٹھ کر اکڑاؤ کا احساس ہو تو سب سے پہلے بیلا ڈونا دینا چاہئے.اگر یہ کام نہ کرے تو مرکسال کام آ سکتا ہے.بعض ایسی بیماریاں ہیں جن میں فالج کے ساتھ جھلکے بھی لگتے ہیں اور اعضاء مڑنے لگتے ہیں.ان میں بھی مرکسال امکانی دوا ہو سکتی ہے.اس کے ایگزیما اور زخموں میں جلن اور چھن کا احساس نمایاں ہوتا ہے اور ناقابل برداشت بو ہوتی ہے جس سے دل متلاتا ہے.یہ علامتیں کسی مریض میں اکٹھی ہو جائیں تو ہر ہو میو پیتھک دوا جس کا جزواعظم مرکزی ہو کارآمد ثابت ہو سکتی ہے.الا ماشاء اللہ.مرکزی کے مریض کی تکلیفیں رات کو بڑھ جاتی ہیں.سیفیلینم اور سلفر میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے مگر سلفر میں بستر میں لیٹنے سے تکلیفیں بڑھتی ہیں.یعنی بستر کی گرمی تکلیف کو بڑھا دیتی ہے جبکہ مرکزی کی تکلیفوں کا رات سے تعلق ہے.مریض بستر میں داخل ہو یا نہ ہو، رات مصیبت بن جاتی ہے.دافع اثر دوائیں: ہیپر سلف.آرم.میزیریم طاقت: 30 سے سی.ایم (CM) تک
ملی فولیم 601 142 ملی فولیم MILLEFOLIUM (Yerrow) ملی فولیم کا جریان خون سے خاص تعلق ہے اور بالعموم اس کا جریان خون سرخ ہوتا ہے مگر بورک (Dr.Boericke) نے بھی اسے صرف سرخ خون کے جریان تک محدود رکھا ہوا ہے اور وریدوں (Veins) سے اس کا کوئی تعلق نہیں جوڑا لیکن کینٹ (Dr.Kent) اس کے متعلق پہلے فقرہ میں ہی اس کو ویری کوز و نیز (Vericose Veins) میں چوٹی کی دوا بتاتا ہے.اس لئے وہ اس کے اخراج خون کو ہمیشہ سرخ نہیں بلکہ عموما سرخ بیان کرتا ہے.بہر حال اگر چہ سرخ خون ہی نکلتا ہے مگر جریان خون کی خواہ وہ کالا ہی ہو یہ اولین دوا ہے.اس سے بڑھ کر جریان خون کی علامات شاید ہی کسی اور دوائی میں پائی جاتی ہوں.اگر کینسر کے زخموں سے خون کا جریان زیادہ ہو تو اس کی روک تھام میں بھی یہ مفید ہوسکتی ہے.کینسر کے زخم پر خالص شہد کا لیپ بار بار لگانے سے بھی افاقہ ہونا ایک طے شدہ حقیقت ہے.علی فولیم میں ایک علامت یہ ہے کہ آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں اور سیا حساس نمایاں ہوتا ہے کہ آنکھوں میں بہت زیادہ خون اکٹھا ہو گیا ہے.سر درد شروع ہونے سے پہلے آنکھیں خون سے بھر جاتی ہیں.بعض دفعہ ذرا سا پڑھنے سے بھی یہ کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.ان سب عوارض کا علاج ملی فولیم ہے.خون کا دوران زیادہ ہونے کی وجہ سے آنکھیں سرخ ہوں اور نظر دھندلا جائے اور ساتھ ہی نکسیر پھوٹنے کا بہت رجحان ہو تو اس میں بھی یہ فائدہ مند ہے.اس بیماری میں عام طور پر ملی فولیم 30 کو فاسفورس 30 سے ملا کر دیا جائے تو یہ دونوں اکٹھی بہت
ملی فولیم مؤثر ثابت ہوتی ہیں.602 عورتوں میں حیض کا خون لمبا عرصہ جاری رہے ، رقم اور پیٹ میں تشریح ہو جائے اور بہت زیادہ مقدار میں خون بہہ رہا ہو تو یہ خاص ملی فولیم کا نشان ہے.یہ تینوں علامتیں اکٹھی ہو جائیں تو ملی فولیم خدا کے فضل سے فوری فائدہ دیتی ہے.الا ماشاء اللہ.اسی طرح اگر حمل ضائع ہونے کا خدشہ لاحق ہو جائے ، معمولی حرکت سے خون جاری ہو اور آرام کرنے سے رک جائے تو اس صورت میں بھی ملی فولیم مفید ہے.جس عورت کو حمل کے آغاز سے ہی سرخ خون کے جریان کی شکایت ہو جس سے اکثر بچہ ضائع ہو جا تا ہو تو اس کو چاہئے کہ متوقع حمل سے کچھ پہلے ملی فولیم کی ایک لاکھ طاقت میں ایک خوراک کھالے.بعض دفعہ ایک ہی خوراک اس بیماری سے ہمیشہ کے لئے نجات دے سکتی ہے.اسی طرح ایک لاکھ طاقت میں اس کا حیرت انگیز اثر ایک ایسے شخص پر استعمال سے ظاہر ہوا جو جھٹکا لگنے سے گھوڑا گاڑی سے باہر جاپڑا تھا اور اس کے بعد مسلسل ہفتوں تک خون تھوکتا رہا.ملی فولیم ایک لاکھ طاقت میں ایک ہی خوراک دینے سے خدا کے فضل سے اسے مکمل شفا ہو گئی.جن لوگوں میں جریان خون کا رجحان ہو اگر انہیں اپریشن سے پہلے علی فولیم کی ایک ہزار طاقت میں ایک خوراک دے دی جائے تو وہ اپریشن کے دوران پیدا ہونے والی جریان خون کی پیچیدگیوں سے محفوظ رہیں گے.ملی فولیم کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ یہ خون کو جمنے نہیں دیتی اور Clot نہیں بنتے.وہ ایلو پیتھک دوائیں جو خون کے جریان کو روکنے کے لئے استعمال ہوتی ہیں عموماً خون کو گاڑھا کر دیتی ہیں جبکہ ہو میو پیتھک دوائیں خون کو صحت مند رکھتے ہوئے بہنے سے روکتی ہیں.ملی فولیم اس لحاظ سے بہت اچھی دوا ہے اور جریان کو روکتی ہے مگر خون بے ضرورت گاڑھا نہیں کرتی.دل کی طرف خون کا دوران زیادہ ہو جائے تو اس میں بھی ملی فولیم اچھی ہے.عموماً ہیجانی کیفیت میں ایسا ہوتا ہے.عام طور پرا یکونائٹ فائدہ مند ہوگی لیکن ملی فولیم بھی اچھا اثر دکھاتی ہے.
ملی فولیم 603 ملی فولیم عموماً بوڑھے اور کمزور لوگوں نیز عورتوں اور بچوں کی بیماریوں میں مفید ہے.عموماً سر کی طرف خون کے دوران کا احساس ہوتا ہے،سر کے دائیں جانب دباؤ، پیوٹوں اور پیشانی کے عضلات میں اینٹھن ہوتی ہے، حرکت سے چکر آتے ہیں اور کان بند ہونے کا احساس ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی ان سے ٹھنڈی ہوا نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے.دوپہر کو سونے کے بعد سر بھاری ہو جاتا ہے.مریض کو ہر وقت یہ احساس رہتا ہے کہ وہ کچھ بھول گیا ہے.چہرے پر گرمی اور حدت محسوس ہوتی ہے.منہ بہت خشک رہتا ہے.مسوڑھوں میں زخم کی علامت بھی ملی فولیم میں پائی جاتی ہے.حلق میں بھی زخم بن جاتے ہیں اور بائیں جانب درد ہوتا ہے.معدہ میں جلن اور کھرچن کا احساس رہتا ہے.جگر کے مقام پر دردہ متعفن ریاح ، آنتوں سے جریان خون، شدید خونی پیچش اور خونی دست آتے ہیں.پیشاب میں بھی خون کی آمیزش ہوتی ہے.مثانے میں ورم اور بائیں گردے کے مقام پر درد کا احساس ہوتا ہے.عورتوں میں حیض رک جانے سے شیخ اور مرگی کے دورے پڑنے لگیں یا سخت محنت مشقت کرنے کی وجہ سے رحم سے خون جاری ہو جائے تو ملی فولیم اس کے لئے مفید دوا ہے.سرخ خون کی بواسیر میں بھی ملی فولیم کو استعمال کرنا چاہئے.پھیپھڑوں میں بلغم جم جائے اور دق کا مرض مزمن ہو جائے، کھانسی کے ساتھ خون آنے لگے اور سینہ میں تنگی محسوس ہو تو بھی ملی فولیم معاون دوا ہوسکتی ہے.ہرنیا (Hernia) جو طاقت سے بڑھ کر بوجھ اٹھانے سے پیدا ہو.پتھریوں کے اپریشن کے بعد خون روکنے کے لئے اور ایسے بہت اونچے بخار میں جس کی کوئی وجہ سمجھ نہ آئے ور مسلسل ہو جب دوسری دوائیں کام نہ کریں تو ملی فولیم اعجازی اثر دکھا سکتی ہے.اور اگر مرد کے بیوی سے تعلقات ہر لحاظ سے درست ہوں.جرثومے صحت مند ہوں مگر مادہ منویہ خارج نہ ہو تو بعض دفعہ اس وجہ سے بھی بچوں کی پیدائش رک جاتی ہے.اس غیر معمولی علامت میں ملی فولیم بہت اہمیت رکھتی ہے.
ملی فولیم 604 طاقت: 30 سے 200 تک بلکہ 1000 تک
مورگن کو 605 143 مورگن کو MORGON CO مورگن کو انتڑیوں میں پیدا ہونے والے گندے مادے سے تیار کی جانے والی ایک نئی دوا ہے.یہ انتڑیوں کی مزمن بیماریوں میں بہت مفید بتائی جاتی ہے.اگر انتڑیوں کی تکلیف کے ساتھ پاؤں اور ٹانگوں پر سوزش اور ورم ہو، جلد بھی متاثر ہو، ذرا سا رگڑ لگنے سے خراش پیدا ہو جائے اور زخم بن جائے تو اس دوا کے مداح ڈاکٹر اس تکلیف میں بھی اسے بہت زوداثر اور مفید بتاتے ہیں.طاقت: 30 یا اونچی طاقتیں حسب تجربہ استعمال کرنی چاہئیں.
606
607 144 میوریٹک ایسڈ میوریٹیکم ایسڈم MURIATICUM ACIDUM میور بیٹک ایسڈ یعنی ہائیڈروکلورک ایسڈ (HCI) ایک عام تیزاب ہے جو ہمارے جسم کے نظام ہضم سے گہرا تعلق رکھتا ہے.میور بیٹک ایسڈ کے بارے میں اکثر ہومیو پیتھک ڈاکٹر بہت خوفناک تصویر کھینچتے ہیں کہ ایسا مریض جس کے عضلات مکمل طور پر جواب دے چکے ہوں، سر بستر سے ڈھلک ڈھلک جائے اور موت میں صرف چند ساعتیں باقی رہ جائیں تو ایسا مریض میوریٹک ایسڈ کا مریض ہوتا ہے حالانکہ یہ معدہ میں روز مرہ پیدا ہونے والا ہائیڈروکلورک ایسڈ ہی ہے جس سے ہمیں ہر وقت واسطہ پڑتا ہے اور جسم میں اس کی مقدار میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے.جب معدہ میں تیزابیت بڑھے تو اس بات کا امکان ہے کہ میور ٹک ایسڈ بڑھ گیا ہو یا اس کے بالکل برعکس صورت حال بھی ہو سکتی ہے.معدہ میں ہائیڈروکلورک ایسڈ کم ہو جائے تو اس سے بھی تیزاب کی زیادتی کی علامات پیدا ہوسکتی ہیں کیونکہ اگر گلینڈز ہائیڈروکلورک ایسڈ بنانے کی رفتار کم کر دیں تو غذا معدہ میں ہی گلنے سڑنے لگتی ہے اور ایسے فاسد تیزاب بنے لگتے ہیں جن سے پیٹ میں ہوائیں بنتی ہیں.روزمرہ کی معمول کی تیزابیت کمزوری پیدا نہیں کرتی لیکن اگر اس کا توازن بگڑ جائے یعنی ضرورت سے کم یا زیادہ ہو جائے تو وہ تکلیفیں پیدا ہوتی ہیں جنہیں ہم تیزابیت کہتے ہیں.بہر حال علامتیں دیکھ کر فیصلہ کرنا پڑے گا.نظام ہضم کے بگڑتے ہی ہومیو پیتھک طاقت میں میور بٹک ایسڈ دینا چاہئے کیونکہ یہ مذکورہ عدم توازن کو درست کرتا ہے.جن مریضوں میں ہو میو پیتھک میوریٹک ایسڈ کی ضرورت پڑتی ہے ان کے اعصاب اور عضلات تیزابیت سے خواہ کتنا ہی متاثر ہو جائیں، ان کا دماغ بالکل صاف اور ٹھیک رہتا ہے.لیکن ایسڈ فاس جن مریضوں میں کارگر ثابت ہوتا ہے ان کی علامتیں
میوریٹک ایسڈ 608 میوریٹک ایسڈ کے برعکس ہوتی ہیں.میوریٹک ایسڈ میں جسم پہلے بگڑتا ہے.دماغ کی سب سے آخر پر باری آتی ہے جبکہ ایسڈ فاس کے مریضوں کی دماغی علامتیں پہلے بگڑتی ہیں اور چینی کمزوری کے نتیجہ میں جسمانی بیماریاں بعد میں پیدا ہوتی ہیں.مریض کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہو جاتی ہے، دماغی طاقت رفتہ رفتہ کم ہونے لگتی ہے اور یادداشت خراب ہو جاتی ہے.اس قسم کی علامتیں کچھ عرصہ کے بعد آہستہ آہستہ عضلاتی کمزوریوں میں تبدیل ہونے لگتی ہیں.ایسڈ فاس کا مریض عضلاتی مریض بننے میں بہت وقت لیتا ہے.اگر اس دوا سے اس کی دماغی علامات کا علاج جلد کیا جائے تو عضلات پر بداثر پڑے گا ہی نہیں.میوریٹک ایسڈ کے مریض کو سنبھالنا نسبتاً آسان ہے کیونکہ اگر دماغ موت کے قریب بھی صحیح رہے اور نفسیاتی کیفیات پر کوئی بداثر ظاہر نہ ہوا ہو تو ایک دو خوراکوں سے اسے آرام آجائے گا کیونکہ تیزابیت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا ضعف جتنا خطرناک ہوتا ہے اتنا ہی جلدی ٹھیک بھی ہو جاتا ہے اور لمبا گہرا اثر باقی نہیں چھوڑتا.یہی حال سلفیورک ایسڈ کا ہے.پس سب تیزابوں کے مزاج کو سمجھنا اور ان کا آپس میں موازنہ کرنا بہت ضروری ہے.میور سیٹک ایسڈ میں سردرد بہت شدید ہوتا ہے جس سے نظر بھی دھندلا جاتی ہے اور نظر پر زیادہ دباؤ ڈالا جائے تو درد میں اضافہ ہو جاتا ہے.چہرہ پر دانے نکلتے ہیں، ہونٹ خشک ہو کر پھٹ جاتے ہیں، زبان پیلی پیلی اور سوجی ہوئی اور بالکل خشک ہوتی ہے اور کئی دفعہ زبان اور منہ میں السر بھی ہو جاتے ہیں.مسوڑھے بھی سوجے ہوئے ہوتے ہیں اور ان سے خون بھی نکلتا ہے.دانت ہلنے لگتے ہیں.میوریٹک ایسڈ کے بعض مریض گوشت دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے لیکن اکثر مریض شوق سے گوشت کھاتے ہیں.بعض دفعہ شدید بھوک اور پیاس محسوس ہوتی ہے.بعض مریضوں میں چھونے سے زود حسی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ نا قابل برداشت ہو جاتی ہے حتی کہ مریض اپنے آپ کو چادر سے ڈھانپنا بھی پسند نہیں کرتا.اس کی تکلیفیں مرطوب موسم
میوریٹک ایسڈ 609 میں بڑھ جاتی ہیں.آدھی رات سے ذرا پہلے بیماری میں اضافہ ہو جاتا ہے.بائیں طرف لیٹنے سے آرام محسوس ہوتا ہے.سر درد پیچھے گدی سے شروع ہوتا ہے اور نظر دھندلا جاتی ہے.بعض دفعہ نظر آدھی رہ جاتی ہے.اوپر کا آدھایا نیچے کا آدھا حصہ نظر نہیں آتا یا دائیں کا نصف یا بائیں کا نصف نظر نہیں آتا.مؤخر الذکر بیماری میں میوریٹک ایسڈ بہت مفید ہے.اگر ایک طرف کی نظر میں تھر تھر اہٹ پیدا ہو جائے تو اس میں رسٹاکس کام آتی ہے اور کئی خطرناک بیماریوں سے بچالیتی ہے.میوریٹک ایسڈ کی ایک علامت یہ ہے کہ بچہ حاجت کے لئے جائے تو ساتھ آنت کا ایک حصہ باہر آجاتا ہے.منہ میں آبلے اور زخم بنتے ہیں اور زبان کٹ جاتی ہے.ایسی صورت میں گہرے علاج کی ضرورت پیش آتی ہے.جس سے صرف منہ ہی نہیں بلکہ اصل بخار اور اس کے تمام بداثرات کو دور کیا جا سکے.میور بیٹک ایسڈ میں بعض دفعہ زبان کا فالج بھی ہو جاتا ہے.گلا ٹھیک ہوتا ہے لیکن زبان کام نہیں کرتی.ایسے فالج میں میوریٹک ایسڈ بہت مفید ہے.اس میں زبان عمو م خشک رہتی ہے.میوریٹک ایسڈ میں باوجود اس کے کہ جلد حساس ہوتی ہے، اندرونی طور پر فالج کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں.اس قسم کے تضادات دوا کو پہچاننے میں مدددیتے ہیں.جسم بے جان محسوس ہوتا ہے مگر جلد کے اوپر ہلکے سے چھونے سے بھی جھر جھری آجاتی ہے.ایگیر یکس سٹیفی سیگر یا اور اوگزیلک ایسڈ میں بھی احساس کی تیزی پائی جاتی ہے.اس کے علاوہ پکرک ایسڈ بھی بہت حساس دوا ہے.اگر ان دواؤں میں دباؤ مضبوط ہوتو قابل برداشت ہوتا ہے لیکن ہلکا ہاتھ برداشت کرنا مریض کے لئے مشکل ہوتا ہے اور وہ ہاتھ جھٹک دیتا ہے.میوریٹک ایسڈ میں بازو اور ٹانگیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں اور ان میں بوجھل پن محسوس ہوتا ہے.اکثر اخراجات غیر اختیاری ہوتے ہیں نبض تیز اور کمزور ہوتی ہے.اینٹی ڈوٹ : برائیونیا طاقت: عموماً 30 تک
610
نیٹرم کارب 611 145 نیٹرم کار بونیکم NATRUM CARBONICUM (Carbonat of Sodium) نیٹرم کا رب سوڈیم اور کاربن کا مرکب ہے اور ان دونوں کی علامتیں اس میں پائی جاتی ہیں.نیٹرم کا رب کے مریض کو ہلکے شور سے بھی جسم پر کپکپی ہو جاتی ہے.یہاں تک کہ کاغذ کی سرسراہٹ سے بھی دل کی دھڑکن بے ترتیب ہو جاتی ہے.نیٹرم کا رب کا مریض ان خاص علامتوں سے پہچانا جاتا ہے.عجیب بات ہے کہ شور خواہ کتنا ہی بلند کیوں نہ ہواگر ایک ہی سطح پر جاری رہے تو اس سے کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر آوازوں کا زیر و بم اعصاب پر سخت برا اثر ڈالتا ہے.شور کی اونچ نیچ نا قابل برداشت ہوتی ہے.اچانک کوئی دھما کہ ہو یا شور پڑ جائے تو یہ نیٹرم کا رب کے مریض کے لئے بہت مضر ثابت ہوتا ہے.ایسے مریض کو اچانک ڈرایا جائے تو دل بند ہونے کا خدشہ ہوتا ہے.اس لئے اس بارہ میں محتاط رہنا چاہئے.نیٹرم کا رب کے مریض کی بیماریاں مزمن ہو جائیں تو وہ اپنے گھر والوں سے بھی اجنبیت محسوس کرنے لگتا ہے.اسے ہر ایک سے دوری کا احساس ہونے لگتا ہے.صحبت اور تعلق میں کمی آجاتی ہے.یہ کیفیت بڑھتے بڑھتے تمام بنی نوع انسان سے بیزاری اور بے تعلقی کے رنگ میں ظاہر ہونے لگتی ہے اور وہ کسی کو برداشت نہیں کرسکتا.خوف کی بجائے بیزاری نمایاں ہوتی ہے.نیٹرم کا رب کے مریض کے پیشاب میں گھوڑے کے پیشاب جیسی بو ہوتی ہے.یہ علامت بینزوئیک ایسڈ (Benzoic Acid) میں بھی پائی جاتی ہے.پیشاب کی بار بار حاجت ہوتی ہے.رات کے وقت خود بخود نکل جاتا ہے.پیشاب کرتے ہوئے جلن بھی
نیٹرم کارب 612 محسوس ہوتی ہے.نیٹرم کا رب کی جلدی بیماریوں میں انگلیوں کے کناروں یا پاؤں کے پنجوں کے کناروں اور انگلیوں کے جوڑوں پر خصوصیت کے ساتھ ابھار پیدا ہوتے ہیں.جسم کے دوسرے حصوں پر جگہ جگہ چٹاخ سے بن جاتے ہیں.خارش گول گول ٹکڑوں کی شکل میں نمودار ہوتی ہے.ہر پیز (Herpes) میں بھی یہ دوا مفید ہے.اگر چہ ہر چیز کی علامتوں سے اس دوا کو امتیازی طور پر پہچاننا آسان نہیں ہے.اگر مریض میں نیٹرم کا رب کی علامتیں موجود ہوں اور دوسری دواؤں سے ہر چیز کو فائدہ نہ ہو تو نیٹرم کا رب کو بھی استعمال کر کے دیکھنا چاہئے.سوڈیم اور کار بونیٹ دونوں اعصاب سے تعلق رکھتے ہیں اور اس پہلو سے ہر چیز جو بنیادی طور پر اعصابی تکلیف ہے اس کا مریض اس دوا سے فیض یاب ہوسکتا ہے.نیٹرم کا رب لو لگنے کے باقی رہنے والے بداثرات میں نمایاں کام کرتی ہے.لو لگنے کے بعد بعض دفعہ نزلہ گلے میں گرنے لگتا ہے اور مستقل بیماری بن کر چمٹ جاتا ہے.اس میں نیٹرم کا رب بہت مفید ہے.سر درد کے دورے اور گرمی سے زود حسی میں بھی یہ بہت اچھا اثر دکھاتی ہے.نیٹرم کا رب میں ناک کے سر پر کچے کچھے ناسور ظاہر ہونے لگتے ہیں.یہ اس کی خاص علامت ہے کہ ناک کی چونچ کسی نہ کسی جلدی بیماری میں مبتلا رہتی ہے.اگر ناک پر پھوڑے بن جائیں تو اس میں بھی مفید ہے لیکن ایک دفعہ ایک مریض کو نیٹرم کا رب سے فائدہ نہیں ہورہا تھا، جب میں نے اسے پروپلیس (Propolis) کی مرہم بنا کر دی جو شہد کی مکھی خود اپنے لئے جراثیم کش دوا کے طور پر بناتی ہے تو ایک ہفتہ سے بھی کم عرصہ میں اس کا زخم بالکل ٹھیک ہو گیا.شہد کینسر کے زخموں اور آنکھوں کے ناسور وغیرہ میں بھی غیر معمولی اثر دکھاتا ہے.پروپلس بہت طاقتور دوا ہے لیکن کیمیائی لحاظ سے بہت ہلکی ہے.ایک دفعہ فرانس میں یہ تحقیق ہوئی کہ دنیا میں جتنے بھی کیڑے مکوڑے ہیں وہ سب کچھ نہ کچھ جراثیم (Bacteria) اٹھائے پھرتے ہیں.چنانچہ یہ معلوم کیا جائے کہ ہر قسم کے کیڑے مکوڑے کا کس خاص بیکٹیریا سے تعلق ہے.جس سائنس دان نے شہد کی مکھی پر تحقیق کی وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ شہد کی
نیٹرم کارب 613 مکھی کے بدن پر کسی بیکٹیریا کا کوئی نشان نہیں ملتا اور وہ ہر قسم کے جراثیم سے کلیتا پاک ہے.یہ ایک حیرت انگیز دریافت تھی جس سے ایک نئی تحقیقی دور کا آغاز ہوا کہ کیا وجہ ہے کہ شہد کی مکھی ہر قسم کے جراثیم سے پاک ہوتی ہے.قرآن کریم کا یہ فرمانا کہ فِيْهِ شِفَاء لِّلنَّاسِ بڑی گہرائی رکھتا ہے.جب فرانس میں یہ تحقیق کی گئی تو پتہ چلا کہ شہد کی مکھی اتنی صفائی پسند ہے کہ شہد کے ہر یکھی چھتے کے کنارے پر یہ ایک کیمیکل لگاتی ہے جس کا نام پروپلس (Propolis) ہے.پروپلس کو سفیدے اور دوسرے درختوں سے رسنے والے موم سے تیار کرتی ہے اور اپنے چھتے کے کناروں پر ہر طرف مل دیتی ہے.جب بھی اندر جاتی ہے پہلے کنارے پر پاؤں رکھتی ہے.جب باہر آتی ہے پھر بھی اس پر پاؤں رکھ کر باہر نکلتی ہے جس سے اس کے پاؤں پر وہ مادہ لگ جاتا ہے جو ا سے جراثیم سے پاک رکھتا ہے.اسی وجہ سے شہد کے چھتے میں کوئی جراثیم داخل نہیں ہو سکتے.اس تحقیق کے بعد ڈنمارک میں ایک قابل زمیندار نے خصوصی فارم تیار کر کے شہد کی مکھی کی افزائش کی جہاں سے وہ بڑی مقدار میں پروپلس حاصل کرتا تھا.پروپلس کو گلیسرین یا وٹامن ای کریم میں ملا کر استعمال کیا جائے تو روز مرہ کے پھوڑے پھنسیوں میں بہت مفید دوا ہے.نیٹرم کا رب میں ناک کی بیرونی سطح پر ہی نہیں بلکہ ناک کے اندر بھی زخم بنے کا رجحان پایا جاتا ہے.سخت بدبودار نزلہ ہوتا ہے جو دائمی شکل اختیار کر لیتا ہے اور گلے میں ہر وقت خراش پیدا کرتا ہے.قوت شامہ بھی ختم ہو جاتی ہے.عام طور پر چہرہ زرد ہوتا ہے.آنکھوں کے گرد حلقے ، منہ میں زخم اور چھالے بن جاتے ہیں.خصوصاً دودھ پلانے والی عورتوں کے منہ کے چھالوں میں نیٹرم کا رب بہترین دوا ہے.جن عورتوں کو دائگی لیکوریا کی تکلیف ہوتی ہے ان کے بانجھ پن کے لئے بھی مفید ہے.یہ علامات تو اور بھی بہت سی دواؤں میں پائی جاتی ہیں لیکن نیٹرم کا رب کی خاص علامت یہ ہے کہ مریضہ کا مزاج ٹھنڈا ہو گا ، دائمی بانجھ پن کا شکار ہو گی اور مسلسل جاری رہنے والا لیکوریا ہو گا.اگر یہ سب علامتیں اکٹھی ہو جائیں تو خدا کے فضل سے یہ
نیٹرم کارب دوا بانجھ پن کو دور کرنے میں بہت موثر ہے.614 نیٹرم کا رب میں ٹخنوں کی مستقل کمزوری کا رجحان پایا جاتا ہے.ایسے لوگوں کے پاؤں اکثر رپٹ جاتے ہیں.ایسی مستقل کمزوری جو کسی کے مزاج میں داخل ہو اور کسی حادثے یا چوٹ کا نتیجہ نہ ہو، اس میں نیٹرم کا رب بہت مفید ہے.ویسے مخنوں میں موچ کے لئے سب سے مؤثر دوائیں روٹا (Ruta) یا بیلس (Bellis) ہیں.سخت موچ کے بداثرات کے لئے آرنیکا کی اونچی طاقت بیلاڈونا سے ملا کر دی جائے تو فوری طور پر فائدہ مند ہوتی ہے اور مرض کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا.لیکن اگر شروع میں یہ دوا نہ دی جائے تو باقی رہ جانے والے اثرات میں روٹا مفید ہے.بعض دفعہ بیلس یا رسٹاکس کی بھی ضرورت پڑتی ہے.نیٹرم کا رب ٹخنوں کی اندرونی کمزوری کی وجہ سے موچ آتے رہنے کے رجحان کو دور کرتی ہے.نیٹرم کا رب کا مریض زیادہ تر غمگین اور پریشان رہتا ہے.مسلسل غم کے خیالات میں ڈوبا رہتا ہے.حوصلہ پست ہو جاتا ہے.سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہو جاتی ہے.ذہن کمزوری محسوس کرتا ہے.موسم کی تبدیلی اور سردی نا قابل برداشت ہوتی ہے.بادلوں کی گھن گرج کے دوران بہت بے آرامی محسوس کرتا ہے.موسیقی سے تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.کچھ مخصوص لوگوں کو برداشت نہیں کر سکتا.کھانا کھانے کے بعد بد مزاجی اور چڑ چڑا پن بڑھ جاتا ہے.ذراسی بھی ذہنی تھکاوٹ سے سر میں درد ہوتا ہے جو سورج یا گیس کی روشنی میں بڑھ جاتا ہے اور چکر بھی آتے ہیں.جسمانی یا ذہنی محنت سے تکلیفیں بڑھتی ہیں اور بہت کمزوری محسوس ہوتی ہے.چلتے ہوئے لڑکھڑاتا ہے.عضلات میں اینٹھن محسوس ہوتی ہے.غدودوں میں ورم یا سختی پائی جاتی ہے.سرد ہوا کے جھونکے سے نفرت ہوتی ہے.بظا ہر یہ علامات لو لگنے کے نتیجہ میں نہیں پیدا ہونی چاہئیں لیکن بعض انسانوں پر لو لگنے کے بہی دائگی اثرات ظاہر ہوتے ہیں.یاد رہے کہ مزاج کے لحاظ سے نیٹرم کا رب ٹھنڈی دوا ہے.نیٹرم کا رب میں آنکھوں کے سامنے سیاہ رنگ کے دھبے آتے ہیں.آنکھ کھلنے پر
نیٹرم کارب 615 نظر دهند لی محسوس ہوتی ہے.آنکھوں میں سوئیاں چھتی ہیں اور جلن ہوتی ہے.کانوں میں تیز چھنے والا درد ہوتا ہے.منہ پر بھورے تل، پیلے دھبے اور کیل بن جاتے ہیں.اوپر کا ہونٹ سو جا ہوا محسوس ہوتا ہے.چہرے کا رنگ زرد ہوتا ہے، آنکھوں کے گرد نیلے حلقے پڑ جاتے ہیں اور پپوٹے متورم ہو جاتے ہیں.نیٹرم کا رب کے مریض کا معدہ بہت حساس ہوتا ہے اور چھونے سے متورم محسوس ہوتا ہے.ٹھنڈا پانی پینے سے تکلیف بڑھ جاتی ہے.صبح پانچ بجے بھوک محسوس ہوتی ہے.نظام ہضم بہت کمزور پڑ جاتا ہے.کھانا کھانے کے بعد اداسی کا دورہ پڑتا ہے.منہ کا ذائقہ کڑ وامحسوس ہوتا ہے.دودھ پینے سے اسہال شروع ہو جاتے ہیں اور یکا یک حاجت محسوس ہوتی ہے.نیٹرم کا رب کی کھانسی خشک ہوتی ہے جو گرم کمرے میں داخل ہونے سے بڑھ جاتی ہے اور سینے میں بائیں جانب سردی کے احساس کے ساتھ بھی کھانسی میں اضافہ ہو جاتا ہے.رات کو بائیں جانب لیٹنے سے اور سیڑھیاں چڑھنے سے دل کی دھڑکن میں اضافہ ہوتا ہے.مریض صبح بہت جلد اٹھ جاتا ہے اور صبح پانچ بجے ہی اس کی تکلیفیں زیادہ ہوتی ہیں.صبح کے وقت پسینہ بھی بہت آتا ہے.پاؤں کے تلووں میں جلن محسوس ہوتی ہے.دافع اثر دوائیں: کیمفر.آرسنک طاقت: 30 سے 200 تک البتہ بورک نے صرف 6 تک میں استعمال کا ذکر کیا ہے
616
نیٹرم میور 617 146 نیٹرم میوریٹیکم NATRUM MURIATICUM (Sodium Chloride) ہومیو پیتھک ادویہ میں نیٹرم میور ایک وسیع الاثر دوا ہے حالانکہ یہ روز مرہ عام کھانے والے نمک کی ہو میو پوٹینسی ہے.سوڈیم کلورائیڈ انسانی جسم میں وافر مقدار میں موجود رہتا ہے اور زندگی کے نظام کو فعال اور متوازن بنانے کے لئے اہم کردار ادا کرتا ہے.اس کی کمی سے کئی قسم کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ ہمارے منہ میں ہر وقت کئی قسم کے نمکیات موجودرہتے ہیں جن میں سوڈیم کلورائیڈ غالباً سب سے زیادہ ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی ہومیو پوٹینسی کی انتہائی خفیف مقدار بھی منہ میں ڈالی جائے تو فوری رد عمل ہوتا ہے اور منہ میں موجود نمک اس رد عمل کی راہ میں حائل نہیں ہوتا.جو بیماریاں زیادہ نمک کھانے سے پیدا ہوتی ہیں ان میں سے ایک خون کے دباؤ کا زیادہ ہونا بھی ہے اس لئے عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ بلڈ پریشر اور دل کی بیماریوں سے بچنے کے لئے زیادہ نمک کا استعمال نہیں کرنا چاہئے.انگلستان اور امریکہ میں دل کے ماہرین نے جونئی تحقیق کی ہے اور اس کی رو سے یہ تاثر درست نہیں کہ نمک کم کھانے والوں کو بلڈ پر یشر نہیں ہوتا اور زیادہ کھانے والوں کو ضرور بلڈ پریشر ہوتا ہے.خون کا دباؤ ایک الگ بیماری ہے جس کے موجبات الگ ہیں.البتہ اگر کسی کو خون کا دباؤ بڑھنے کی بیماری ہو تو ایسے مریض کے لئے زیادہ نمک کھانے سے پر ہیز ضروری ہے اور جس کو خون کا دباؤ زیادہ ہونے کی بیماری نہ ہو وہ جتنا مرضی نمک کھائے.زائد نمک از خود پیشاب اور پسینے کے ذریعہ خون سے باہر نکل جاتا ہے.جن لوگوں کے گردے خراب ہوں یا کسی بیماری
نیٹرم میور 618 کے باعث پسینہ آنا بند ہو جائے ان کو زیادہ نمک کھانے میں احتیاط کرنی چاہئے.اگر خون میں ضرورت سے زائد نمک موجود ہے تو یہ پانی جذب کر کے خون کا حجم بڑھا دیتا ہے.جس سے دباؤ کا بڑھناطبعی امر ہے.نمک انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے جس کا توازن بگڑنے سے بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جولوگ روزانہ ورزش کے عادی ہوتے ہیں اور انہیں کھل کر پسینہ آتا ہے اور پیشاب کے ذریعہ بھی نمک خارج ہوتا رہتا ہے انہیں زیادہ نمک کھانے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا.نیٹرم میور بہت گہری اور دیر پا اثرات کی حامل دوا ہے.انسانی بدن کا کوئی بھی ایسا جزو نہیں جس پر یہ اثر انداز نہ ہو.عام طور پر نیٹرم میور کی علامات رکھنے والے مریض کی جلد چمکدار ہوتی ہے.نمک کی زیادتی کی وجہ سے خون میں پانی کی مقدار بڑھ جاتی ہے جس کی وجہ سے جلد پر چکنا پن آ جاتا ہے جیسے تیل مل دیا گیا ہو.لیکن یا درکھیں کہ یہ ضروری نہیں کہ ہر مریض اپنی تمام علامات کو ظاہر کرے یا اس کے ہر عضو میں دوا کی ہر علامت ظاہر ہو.کسی دوا کے بالمثل ہونے کے لئے اس کی بنیادی اور امتیازی علامات مریض میں ملنی چاہئیں.ہر تفصیلی علامت کا ہونا ضروری نہیں ہے.نیٹرم میور کے مریض میں سخت تھکاوٹ اور نقاہت کے آثار پائے جاتے ہیں.یہ نقاہت خواہ جسمانی ہو یا اعصابی، نیٹرم میور کے مریضوں میں دکھائی دے گی.اس کی وجہ یہ ہے کہ مریض میں ہائیڈروکلورک ایسڈ کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے جس سے مریض کو اچانک کمزوری کے دورے پڑنے لگتے ہیں.نیٹرم میور کا ملیریا سے گہرا تعلق ہے.دلدلی علاقوں میں مچھر کی وجہ سے ملیریا پھیلتا ہے اور ملیریا سے خون میں بہت توڑ پھوڑ ہوتی ہے.سرخ ذرات کم ہو جاتے ہیں اور خون میں پانی زیادہ ہونے لگتا ہے.ان وجوہات کی وجہ سے نیٹرم میور کی ضرورت پڑتی ہے ورنہ نیٹرم میور کا نمدار دلدلی علاقوں سے کوئی خصوصی تعلق نہیں ہے.ملیریا کا اصل تعلق مچھر سے ہے.جہاں مچھر ہوں وہاں ملیر یا ضرور ہو گا.اور عموماً مچھر ایسی آب و ہوا
نیٹرم میور 619 میں پایا جاتا ہے جو دلدلی اور ساحلی ہو.ایسے علاقوں میں طبعا ملیریا کی وجہ سے نیٹرم میور کی ضرورت پڑتی ہے لیکن باوجود اس کے کہ یہ ملیریا کی بہترین دواؤں میں سے ہے اسے ہرگز ملیریا کے چڑھتے بخار میں نہیں دینا چاہئے کیونکہ یہ نہایت خطرناک نتائج ظاہر کرتا ہے اور بہت سخت رد عمل دکھاتا ہے.نیٹرم میور کو ملیریا میں استعمال کرنے کے مختلف طریقے بیان کئے گئے ہیں.ان میں ایک یہ ہے کہ پہلے بخار کا دورہ کم ہونے کا انتظار کرنا چاہئے یا مزید انتظار کر کے دو بخاروں کے درمیانی وقعہ میں نیٹرم میور اونچی طاقت میں دیا جائے.اگر یہ بخار پر اثر انداز ہو گا تو بخار کا وقت بدل جائے گا اور بخار جلدی یا دیر سے آئے گا.اگر محض وقت تبدیل ہو اور بخار کا عرصہ کم نہ ہو اور شدت میں کمی نہ آئے تو ثابت ہوگا کہ نیٹرم میور نے صحیح کام نہیں کیا.اس وقت فوری طور پر مزید انتظار کئے بغیر دوسری دوا تلاش کرنی چاہئے.اگر صحیح دوائی شناخت کرلیں گے تو اس کے دینے کے بعد یا تو بخار یک دفعہ غائب ہو جائے گا اور پھر آئے گا ہی نہیں یا اگر بخار وقت سے پہلے آئے اور اس کی مدت بھی تھوڑی ہو تو عموماً اگلا بخار یا تو آتا ہی نہیں یا پہلے سے بہت کم ہوتا ہے.اس صورت میں دوا کو بخار اترنے کے بعد پھر دہرانا چاہئے.نیٹرم میور کی دماغی علامات عجیب ہیں.شروع میں جب ذہنی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں تو مریض اپنے آپ کو مظلوم سمجھنے لگتا ہے اور ہر وقت اسی خیال میں کھو یار ہتا ہے لیکن اس کے باوجود کسی کی ہمدردی کو برداشت نہیں کرسکتا.علاوہ ازیں نیٹرم میور کا مریض فرضی محبت میں مبتلا ہو جاتا ہے.بعض بوڑھی عمر کی عورتیں بھی ایسی فرضی محبت میں مبتلا ہو جاتی ہیں.اگر محبت کا علاج دوا سے ممکن ہے تو ایسی عورتوں کا علاج نیٹرم میور سے ہوسکتا ہے.اگر کوئی بخار لمبا عرصہ پیچھا نہ چھوڑے اور اس کا دماغ پر اثر پڑے تو نیٹرم میور کو آزمانا چاہئے لیکن خاص طور پر غم سے دماغ پر پڑنے والے اثرات میں نیٹرم میور بہترین ثابت ہوئی ہے.غم کے ابتدائی مراحل میں فوری طور پر اثر کرنے والی دوائیں اگنیشیا (Ignatia) اور ایمبراگر لیا ہیں.اگنیشیا اپنے اثرات کے لحاظ سے نسبتا سب سے تیز
نیٹرم میور 620 مگر عارضی دوا ہے، بار بار دینی پڑتی ہے.اگر گہر اغم زندگی کا حصہ بن چکا ہوتو وہ اگنیشیا کے دائرہ اثر سے نکل جاتا ہے.ایمبر اگر لیسا (Ambra Grisea) ایسے مریض میں بہتر کام دکھاتی ہے.اس کے بعد نیٹرم میور کی باری آتی ہے جس کے بارے میں میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ اس سے پورے پاگل مریض بھی ٹھیک ہو جاتے ہیں.نیٹرم میور کے مریض تشدد پسند نہیں ہوتے بلکہ خاموشی سے بیٹھے رہتے ہیں یا دنیا سے کھوئے جاتے ہیں اور جسمانی لحاظ سے کمزور ہونے لگتے ہیں.انہیں غصہ بہت آتا ہے لیکن مار دھاڑ نہیں کرتے.دماغ کمزور ہونے لگتا ہے.مریض بات کرتے کرتے بھول جاتا ہے کہ میں کیا کہنے لگا تھا.خیالات کا سلسلہ منتشر ہو جاتا ہے.اگر کسی انسان کا بات کہتے کہتے اپنے خیالات سے تعلق ٹوٹ جائے تو یہ علامت نیٹرم میور کی بھی ہے.لیکن اگر کوئی بات سنتے سنتے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھے اور کچھ دیر سے سمجھے تو اس کے لئے پلمبم بہتر دوا ہے.نیٹرم میور کی ایک علامت یہ ہے کہ پڑھنے سے تھکاوٹ ہونے لگتی ہے.رونے کی طرف رجحان ہو جاتا ہے اور مریض پلسٹیلا کے مزمن مریض کی مانند ہو جاتا ہے.پلسٹیلا کا مریض بھی بار بار رونے پر مائل ہوتا ہے مگر ذہنی لحاظ سے بالکل ٹھیک ہوتا ہے نیٹرم میور کے مریض کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوتے ہیں اور کمزور ہوتا ہے.رونے کی کوئی بات ہو یا نہ ہو ویسے ہی رونے کی طرف میلان ہوتا ہے.اگر نیٹرم میور سے غم کے بداثرات ٹھیک نہ ہوں اور مرض زیادہ گہرا معلوم ہو تو پھر سلیشیا نیٹرم میور کی مزمن دوا بنتی ہے.سلیشیا پلسٹیلا کی بھی مزمن دوا ہے.نیٹرم میور کو بلا وجہ بار بار استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس کا زیادہ استعمال جسم میں خون کے توازن کو بگاڑ دیتا ہے.کبھی کبھی دینے میں کوئی حرج نہیں.ایک ہی دن میں بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں.نیٹرم میور کے مریض کو بہت پیاس لگتی ہے.اس کے سر درد میں سر پر جگہ جگہ ہتھوڑے سے پڑتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں.آنکھوں پر روشنی کا برا اثر پڑتا ہے.حرکت سے تکلیف بڑھتی ہے.اس لحاظ سے اس کی برائیونیا سے مشابہت ہے.نیٹرم میور کی قبض برائیو نیا سے بھی سخت ہوتی ہے.نیٹرم میورا میں (Apis) کا مزمن اور تریاق بھی ہے.
نیٹرم میور 621 گھٹنوں نیٹرم میور کا مریض اکثر کمر درد کا شکار رہتا ہے.بازوؤں ، ٹانگوں خصوصاً میں کمزوری کا احساس ہوتا ہے.ہاتھ کے ناخنوں کے ارد گرد کی جلد خشکی سے پھٹ جاتی ہے.ٹانگیں بے حس ہو جاتی ہیں.نیٹرم میور کا مریض ڈبل روٹی ، چکنائی اور روغنی غذا کو پسند نہیں کرتا.بھوک بہت لگتی ہے لیکن کھانے کے بعد تھکاوٹ اور کمزوری محسوس ہوتی ہے.سینہ میں جلن کا احساس،جگر کے مقام پر سختی اور سوئیاں چھتی ہیں.کھانا کھانے کے بعد بھاری پن اور تناؤ کا احساس شروع ہو جاتا ہے.معدے میں شدید کمزوری کے دورے پڑتے ہیں.نیٹرم میور کے مریض کے اعصاب تنے ہوئے ہوتے ہیں اور اسے ذرا سا بھی شور برداشت نہیں ہوتا.اچانک کوئی آواز آ جائے تو سر درد ہونے لگتا ہے.کاغذ کی سرسراہٹ بھی بری لگتی ہے.نیٹرم میور کا مریض بالکل ٹھنڈا ہوتا ہے.لیکن گرم کمرے میں تکلیفیں بڑھتی ہیں.کھلی ہوا پسند کرتا ہے.اس پہلو سے اس کا نصف مزاج پلسٹیلا سے ملتا ہے.ٹھنڈا ہونے کے باوجود باہر نکلنا پسند کرتا ہے.کھلی ہوا میں جسمانی تکلیفیں کم ہو جاتی ہیں لیکن ذہنی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.دوا کے مزاج کی اس قسم کی باریکیوں کو مد نظر رکھنا ضروری ہے.نیٹرم میور کے مریض کا مزاج جلد جلد بدلتا ہے.جب اسے پسینہ آتا ہے تو فوراً نزلہ شروع ہو جاتا ہے لیکن اس نزلہ کوکھلی ہوا میں افاقہ ہوتا ہے.نیٹرم میور کا اثر جلد پر بھی ظاہر ہوتا ہے.ایگزیما، خارش اور سوزش بالوں کے کناروں پر زیادہ ملتے ہیں.یہ نیٹرم میور کی خاص علامت ہے.خشک دانے بھی نکلتے ہیں اور بہنے والے زخم بھی ہوتے ہیں.جلد میں خارش اور سوئیاں چھتی ہیں.خارش کے دانوں سے رطوبت بہتی ہے.مختلف ٹکڑوں میں کھرنڈ بن کر اترنے لگتے ہیں.نیٹرم میور کی ایک علامت سارسا پر یلا (Sarsaparrila) سے ملتی ہے کہ چھوٹی عمر میں ہی بڑھاپے کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں.نیٹرم میور میں سر کا دردرات سونے کے بعد تیسرے پہر شروع ہوتا ہے یا پھر صبح نو بجے.
نیٹرم میور 622 اگر صبح کے وقت شدید سر درد ہو تو وہ جلسیمیم کی علامت ہے.نیٹرم میور میں عام طور پر گرمی لگنے کی وجہ سے اور ملیریا بخار کے دوران ہونے والی تکلیفیں نو بجے سے لے کر رات تک جاری رہتی ہیں.سر درد عموماً گدی میں ہوتا ہے اور ریڑھ کی ہڈی تک پھیل جاتا ہے.نیٹرم میور کا ریڑھ کی ہڈی کی بہت سی بیماریوں سے تعلق ہے خصوصاً ”چک“ پڑ جائے تو نیٹرم میور شروع میں بہت اچھا اثر دکھاتی ہے.نیٹرم میور کے مریض کی اکثر علامتیں نرم بستر میں بڑھ جاتی ہیں.ریڑھ کی ہڈی نسبتاً بہت حساس ہو جاتی ہے.اعصاب میں بے چینی محسوس ہوتی ہے اور درد ہوتا ہے.سخت جگہ پر لیٹنے سے آرام آتا ہے.نیٹرم میور میں پراسٹیٹ گلینڈ کی علامتیں بھی پائی جاتی ہیں.مریض پیشاب کے لئے جاتا ہے لیکن اس کو بہت انتظار کرنا پڑتا ہے کہ پیشاب جاری ہو.قطرہ قطرہ آتا ہے اور بعد میں بے چینی اور بے اطمینانی کا احساس رہتا ہے جیسے پیشاب پوری طرح خارج نہ ہوا ہو.بعض اوقات پیشاب کرنے کے آخر پر یا بعد میں درد بھی ہوتا ہے.چلتے وقت یا ہنستے وقت اور کھانستے ہوئے از خود پیشاب خارج ہو جاتا ہے.رات کو پیشاب خود بخود نکل جائے تو کالی فاس کے ساتھ ملا کر دینا مفید ہے.عموماً بچوں میں یہ تکلیفیں ہوتی ہے کہ وہ گہری نیند سو جائیں تو پیشاب آنے کا پتہ نہیں چلتا اور بستر گیلا کر دیتے ہیں.نیٹرم میور میں شدید قبض ہوتی ہے یا دست شروع ہو جاتے ہیں.نیٹرم میور میں بھوک کی زیادتی کے باوجود مریض دبلا پتلا اور لاغر ہوتا ہے.معدہ کی جلن کے ساتھ دل بھی دھڑکتا ہے.کھانا کھاتے ہوئے پسینہ آتا ہے.نمک کھانے کی بے حد خواہش ہوتی ہے.خالی پیٹ بہتر محسوس کرتا ہے.کھانے کے بعد جلن اور تیزابیت زیادہ اور منہ سے پانی آنے لگتا ہے.جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے نیٹرم میور ملیریا کی بہت اچھی دوا ہے.ہر قسم کا ملیریا.اس میں شامل ہے جو روز آئے یا لمبے وقفوں سے آنے والا ہو.سب سے زیادہ خطرناک ملیر یا وہ ہوتا ہے جو دو دن تک نہ ہو اور تیسرے دن آن پکڑے.یہ بہت مشکل سے پیچھا
نیٹرم میور 623 چھوڑتا ہے.اس میں نیٹرم میور بہت مفید ہے.بارہا تجربہ سے ثابت ہوا ہے کہ نیٹرم میور دینے پر بخار تیسرے دن کی بجائے دوسرے دن آنے لگتا ہے اور کم ہوتے ہوتے ہفتہ دس دن کے اندر بالکل ٹھیک ہو جاتا ہے.اگر نیٹرم میور کے مریضوں کی بیماریاں بہت الجھ گئی ہوں اور غلط علاج کے نتیجہ میں بہت لمبی ہوگئی ہوں تو ایسے مریضوں کی علامات صاف کرنے کے لئے سلفر 200 بہت اچھا کام کرتی ہے اور چونکہ یہ گہرا اثر رکھنے والی دوا ہے.اس لئے ان میں سے بعض بیماریوں کو شفا بھی دیتی ہے.نیٹرم میور بھی بگڑے ہوئے بخاروں میں مریض کی علامتوں کو خوب کھول کر اور نتھار کر سامنے لے آتا ہے.بخار بگڑ کر کئی شکلیں اختیار کر لیتے ہیں.ملیر یا بگڑ جائے تو علامات میں بہت پیچیدگیاں پیدا ہو جاتی ہیں.کہیں درد کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور کہیں کوئی دوسرا روپ دھار لیتا ہے.ایک قابل انگریز ڈاکٹر نے ملیریا کے بارے میں کہا ہے کہ یہ عمل کے سوا ہر دوسری بیماری کا بھیس بدل سکتا ہے اور سب علامتوں میں اتنا الجھاؤ پیدا کر دیتا ہے کہ ڈاکٹر بیماری کی تہ تک نہیں پہنچ سکتا.اس تعلق میں نیٹرم میور اور سپیا دونوں بہت اہم کردار ادا کرتی ہیں.ملیریا بخار کے عمومی رجحان کو دور کرنے کے لئے صحت کی حالت میں اونچی طاقت میں نیٹرم میور بعض دفعہ بہت کارآمد ثابت ہوتی ہے.اس طرح حفظ ما تقدم کے طور پر عموماً آرنیکا ایک ہزار یا اس سے اونچی طاقت میں اور آرسنک 1000 یا اونچی طاقت میں ساتھ ملا کر دینا اکثر مفیددیکھا گیا ہے.نیٹرم میور میں بعض اوقات ہیپر سلف کی طرح گلے میں کچھ پھنسے ہونے کا احساس رہتا ہے.مریض بار بار پھنسی ہوئی چیز نکالنے کی بے سود کوشش کرتا ہے.حلق میں کانٹے چھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں.اگر واقعتا گلے میں کوئی چیز پھنس جائے، مچھلی کا کانٹا ہو یا کوئی اور چیز توسلیفیا اسے باہر نکالنے کی خاصیت رکھتی ہے.نیٹرم میور میں بعض دفعہ گا بہت خشک ہو جاتا ہے اور زخم بنے لگتے ہیں.نیٹرم میور میں بھی پھیپھلی سی ور میں پائی جاتی ہیں جیسی شہد کی مکھی کے کاٹنے سے پیدا ہوتی ہیں.اس لئے شہد کی مکھی کاٹ لے تو نیٹرم میور بطور علاج بہت مؤثر دوا
نیٹرم میور 624 ہے.اگر آرسنک اور لیڈم کے ساتھ ملا کر استعمال کی جائے تو حیرت انگیز سرعت کے ساتھ فائدہ دیتی ہے.علاوہ ازیں شہد کی مکھی کے زہر کا اثر فوری طور پر دور کرنے کے لئے کار بالک ایسڈ بہت شہرت رکھتی ہے.نیٹرم میورا میپس (Apis) کا مزمن ہے.مزمن سے مراد ہے کہ کسی ایسی دوا کے اثرات جو نسبتاً عارضی فائدہ پہنچائیں اور ختم ہو جائیں.اگر کوئی اور دوا انہیں آگے بڑھانے میں مدد دے تو اسے پہلی دوا کا مزمن کہا جاتا ہے.ایپس کی ورم کو ایپس سے پوری طرح فائدہ نہ ہو تو وہ نیٹرم میور دینے سے ختم ہو جاتی ہے.اسی طرح بعض اور بیماریوں میں بھی ایپس کے بعد نیٹرم میور کارآمد ہوتی ہے اس لئے اسے ایپس کا مزمن کہا جاتا ہے.بچہ کی پیدائش کے بعد باقی رہ جانے والی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے بھی نیٹرم میور مفید ہے.اگر بچے کی پیدائش کے بعد عورت کی عمومی صحت خراب ہو جائے تو کالی کا رب کے علاوہ نیٹرم میور بھی مؤثر دوا ہے جو صحت کو بحال کرتی ہے.اگر بچے کی پیدائش کے بعد کمر درد کالی کا رب سے ٹھیک نہ ہو تو نیٹرم میور بہت مؤثر ثابت ہوگی.اگر ماں کے دودھ میں کوئی ایسی کمی پائی جائے کہ بچہ تین رنگ میں پرورش نہ پائے یا دودھ جلد سوکھ جائے تو نیٹرم میور استعمال کرنا چاہئے.نیٹرم میور اس اندرونی زہر کو دور کرتا ہے جو بچے کی پرورش کی راہ میں حائل ہو اور بچے کی ضرورت کے مطابق دودھ بھی بڑھاتا ہے.نیٹرم میور بچوں کے سوکھا پن کی بھی بہترین دوا ہے.یہ سوکھا پن جسم کے اوپر سے نیچے کی طرف اترتا ہے.یہ بیماری بعض دفعہ ماؤں کی کسی بیماری کا نتیجہ ہوتی ہے لہذا ماں کا علاج بھی ضروری ہے.عورتوں میں حیض کے ایام بے قاعدہ ہوں ، خون مقدار میں زیادہ جاری ہو، سوزش پیدا کرنے والا لیکوریا ہو جس سے خارش بھی ہوتی ہو، حیض سے قبل طبیعت میں افسردگی اور غمگینی پیدا ہو، نیچے کی طرف بوجھ اور درد محسوس ہوتا ہو جو صبح کے وقت زیادہ ہو.یہ سب اجتماعی علامات نیٹرم میور کے مریضوں میں ملتی ہیں.مسوڑھے متورم
نیٹرم میور 625 ہو جاتے ہیں اور خون بہتا ہے.دانت ہلتے ہیں اور سردی اور ٹھنڈی ہوا سے تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے.کھانے کے بعد اور رات کے وقت دانتوں میں درد ہوتا ہے جو کانوں تک پھیل جاتا ہے.زبان پر میلی سی جھاگ دار تہ جم جاتی ہے.سرسراہٹ کا احساس ہوتا ہے جیسے زبان پر بال چپکا ہوا ہو.سیڑھیاں چڑھنے سے اور بائیں کروٹ لیٹنے سے دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے.دل میں ٹھنڈک کا احساس ہوتا ہے.سینے میں جکڑن اور گھٹن محسوس ہوتی ہے.کالی کھانسی کے ساتھ آنکھوں سے پانی ہے، سر میں شدید درد ہو ، حرکت سے، گہرا سانس لینے سے اور بستر میں گرم ہونے سے کھانسی بڑھ جائے تو یہ نیٹرم میور کی علامات ہیں.ساحلی علاقوں میں اس کی تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.مددگار دوائیں: ایمپس.سپیا.اگنیشیا دافع اثر دوائیں: آرسنک.فاسفورس طاقت 30-6x سے سی ایم (CM) تک
626
نیٹرم فاس 627 147 نیٹرم فاسفور یکم NATRUM PHOSPHORICUM (Phosphate of Sodium).نیٹرم فاس ایک ایسا مرکب ہے جو خون ، عضلات، اعصاب، دماغ کے ریشوں نیز انسانی جسم میں موجود رطوبتوں میں پایا جاتا ہے.یہ شوگر کے توازن کو معتدل رکھتا ہے اور خون میں شکر کی زیادتی کے لئے بہت مفید ہے لیکن اس کی عمومی علامتوں میں اعصابی تناؤ اور اس کے بداثرات، ذہنی پراگندگی ، خوف اور غصہ ملتے ہیں.اس کے علاوہ نو جوانی میں ہونے والے اخلاقی تجاوزات اور جنسی بے راہ روی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی بیماریوں میں بھی نیٹرم فاس مؤثر دوا ہے.عموماً اسے 6x میں دیا جاتا ہے.اگر خاطر خواہ نتائج برآمد نہ ہوں تو 30 یا 200 کی طاقت یا بعض دفعہ اس سے بھی اونچی طاقت میں دینی پڑتی ہے.نیٹرم فاس کا خون کے سرخ ذرات سے گہرا تعلق ہے حالانکہ خون میں سرخ ذرات کی کمی میں فیرم میٹ یا فیرم فاس اصل دوائیں ہیں لیکن بعض دفعہ یہ اکیلی کافی نہیں ہوتیں، نیٹرم فاس کو ساتھ ملالیں تو یہ خون کی کمی کا بہت اچھا نسخہ ہے.خون کی کمی کے لئے آغاز میں کالی فاس، فیرم فاس اور فلکیر یا فاس دینی چاہئے.یہ حاملہ خواتین کی خون کی ضرورت کو پورا کرنے والی بہترین دوا ئیں ہیں لیکن انہیں مسلسل استعمال نہیں کرنا چاہئے.کچھ عرصہ استعمال کر کے وقفہ دیں پھر دوبارہ شروع کروادیں.اگر یہ فارمولا کام نہ کرے اور حاملہ یا غیر حاملہ مریضاؤں یا مریضوں کے خون کی اصلاح کرنی ہو تو ساتھ نیٹرم فاس بھی ملا لیں.یہ خون کی کمی اور ذیا بیطیس دونوں کے لئے بہت مفید ثابت ہوگی.
نیٹرم فاس 628 نیٹرم فاس کی ایک علامت یہ ہے کہ مریض کھلی ہوا کو پسند نہیں کرتا.اس کے مزاج میں سلفر کے مریض کی طرح نہانے سے نفرت پائی جاتی ہے اور مستقل نزلے کا رجحان ملتا ہے.بھوک نا قابل برداشت ہوتی ہے جسے زیادہ کھانے سے آرام آتا ہے.مریض چکنائی، مرغن غذا ئیں، سرکہ، پھل اور دودھ وغیرہ پسند نہیں کرتا.چکنائی سے نفرت کی علامت پلسٹیلا سے مشابہ ہے.جب لمبے عرصہ کی بیماریوں کے نتیجہ میں جسم کے لعاب خشک ہو گئے ہوں اور رطوبتوں میں کمی آگئی ہو تو انہیں بحال کرنے میں نیٹرم فاس بھی اچھا کام دکھاتی ہے مگر چائنا بہر حال نمایاں فوقیت رکھتی ہے.بعض اوقات جسم کا کوئی حصہ سن ہو جاتا ہے.ہاتھ ، انگلی یا کان کا ایک حصہ سو جائے تو اس میں نیٹرم فاس اچھی دوا ہے.اسی طرح جسم کے کسی خاص حصہ کی طرف خون کا دباؤ بڑھ جائے تو اس میں بھی نیٹرم فاس مفید ہے.رات کو جاگتے ہوئے اچانک جھٹکے لگنے لگیں اور خون کی شریانوں میں تیز چلتے ہوئے درد کا احساس ہوتو یہ بھی نیٹرم فاس کی علامات میں سے ایک ہے.مگر ان سب تکلیفوں میں نیٹرم فاس اسی وقت کام کرے گی جب یہ مزاجی دوا ہو.ورنہ یہ بیماریاں تو بہت سی دواؤں میں ملتی ہیں مگر ہر دوا بالمثل ثابت نہیں ہوتی.بعض دفعہ لیٹے لیٹے جسم پر اچانک زلزلہ سا آ جاتا ہے.اس کے جھٹکے زلزلہ کی طرح اچانک اور سخت ہوتے ہیں.عضلاتی ریشوں کی کمزوریوں میں اور اعصابی تناؤ خصوصا آنکھ کے اعصابی تناؤ میں نیٹرم فاس بہت مؤثر دوا ہے.اسی طرح یہ پٹھوں کے پھڑکنے کے لئے بھی اچھی ہے.چونکہ نیٹرم فاس کے مریض کے معدہ میں تیزابیت پائی جاتی ہے.اس لئے اس کے پسینہ اور بدن کی بو میں بھی کھٹاس پیدا ہو جاتی ہے حتی کہ دوسرے لوگوں کو بھی یہ کھٹی ہومحسوس ہوتی ہے.بعض دفعہ بری خبر سننے سے مریض گم سم ہو جاتا ہے.اس میں دوسری معروف دواؤں کے علاوہ نیٹرم فاس سے فوراً فائدہ ہوتا ہے اور آئندہ خطرات سے نجات مل جاتی ہے.
نیٹرم فاس 629 ہے ورنہ ایسا مریض پاگل بھی ہو سکتا ہے یا پھر اسے ہسٹیریا کے دورے پڑنے لگتے ہیں.سر میں خارش ہوتی ہے اور زرد رنگ کے دانے بن جاتے ہیں.ماتھے کے ایگزیما میں بھی مفید ہے.سر بھاری ہوا اور بال جھڑتے ہوں تو نیٹرم فاس اچھی دوا ہے.عموماً گنجے پن میں کوئی دوا کافی نہیں سمجھی جاتی لیکن کسی کمزوری کی وجہ سے بال جھڑنے لگیں تو اگر وہ کمزوری دور کر دی جائے تو گنجا پن خود بخود ٹھیک ہونے لگے گا.خصوصاً اگر ایلو پیشیا (Alopecia) ہو تو اس میں ہومیو پیتھی کا نسخه غیر معمولی کامیاب ہے اور حیرت انگیز طور پر کام کرتا ہے.اس بیماری میں سارے سر کے بال کچھوں کی صورت میں اترنے لگتے ہیں جو صیح دوا دینے سے دیکھتے ہی دیکھتے دوبارہ اگنے لگتے ہیں.نیٹرم فاس میں سر درد دماغی محنت سے بڑھتا ہے.آنکھوں ، گدی اور کنپٹیوں میں درد ہوتا ہے.سوئیاں سی چھتی ہیں اور جلن کا احساس بھی رہتا ہے.آنکھوں کے لئے بھی نیٹرم فاس بہت مفید دوا ہے.اگر پڑھتے ہوئے دائیں آنکھ میں پھڑکن ہو تو نیٹرم فاس خاص طور پر مفید ہے.اگر دیگر علامتیں ملیں تو بھینگے پن میں بھی شافی ثابت ہوتی ہے.دن میں تھکاوٹ کی وجہ سے آنکھوں کے سامنے تارے ناچنے لگیں تو اس میں رسٹاکس اولیت رکھتی ہے مگر نیٹرم مگر فاس بھی مفید ہوسکتی ہے.نیٹرم فاس میں آنکھوں سے پیلے رنگ کی رطوبت نکلتی ہیں اور آنکھیں زردی ہو جاتی ہیں.آنکھوں کے سامنے دھند آتی ہے.پوٹوں میں خارش اور جلن ہوتی ہے.دور کی نظر کمزور ہوتی ہے.کانوں میں ہر طرح کی آوازیں آتی ہیں.قوت شنوائی میں تیزی آجاتی ہے یا کمی واقع ہو جاتی ہے.کان میں درد ہوتا ہے.کانوں کے پیچھے سوئیاں سی چھتی ہیں.صرف ایک کان سرخ اور گرم ہو جاتا ہے اور اس میں خارش ہوتی ہے.نیٹرم فاس کا مریض عموماً نزلہ زکام کا شکار رہتا ہے.ناک میں گاڑھی رطوبت جم جاتی ہے.چھینکوں کا رجحان ہوتا ہے.قوت شامہ زیادہ تیز ہوتی ہے.بائیں طرف کے نتھنے میں سرسراہٹ ہوتی ہے جس کی وجہ سے چھینکیں آتی ہیں اور آنکھوں سے پانی بہنے لگتا ہے.گلے میں زرد رنگ کی بلغم گرتی ہو تو نیٹرم فاس دوا ہو سکتی ہے.نیٹرم فاس میں
نیٹرم فاس 630 مسوڑھوں سے خون بہتا ہے.زبان پر زرد رنگ کی تہ جم جاتی ہے.تالو میں بھی زردی پائی جاتی ہے.منہ اور زبان خشک ہوتے ہیں.دانت گل جاتے ہیں.بچے رات کو دانت پیتے ہیں.زیادہ میٹھا کھانے کی وجہ سے دانتوں میں سوراخ ہوں تو نیٹرم فاس بھی اس کی ایک دوا ہے.تیزاب کی زیادتی کی وجہ سے معدے میں السر ہوں اور پھوڑے کا سا درد اور سوئیاں چھنے کا احساس ہو تو نیٹرم فاس کام آ سکتی ہے.اسہال کا قبض سے بدلنا دواؤں میں بکثرت پایا جاتا ہے.اگر ایسے مریض کا مزاج نیٹرم فاس سے ملتا ہو تو نیٹرم فاس بھی اس تکلیف کا ازالہ کرسکتی ہے.پیٹ کے کیڑے بھی اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں.کئی بچے رات کو بستر میں پیشاب کر دیتے ہیں، اس میں نیٹرم فاس کو کالی فاس اور نیٹرم میور کے ساتھ ملا کر دینا زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے.اگر پسینہ بہت آئے تو پیشاب کی مقدار کم ہو جاتی ہے لیکن نیٹرم فاس میں یہ عجیب بات ہے کہ پسینہ بھی زیادہ اور پیشاب بھی زیادہ آتا ہے.شوگر کی زیادتی سے تعلق رکھنے والی زنانہ و مردانہ جنسی بیماریوں میں نیٹرم فاس مفید ثابت ہوسکتی ہے.اگر رحم اپنی جگہ سے مل جائے اور اس وجہ سے حمل نہ ٹھہرتا ہوتو نیٹرم فاس حمل میں حائل روک کو دور کرسکتی ہے بشرطیکہ رحم کو اپنے اصل مقام کی طرف واپس لے جائے.نیٹرم فاس اس کھوکھلی کھانسی میں بھی مفید ہے جو سینہ اور حجرہ میں سرسراہٹ کے ساتھ پیدا ہو.نیٹرم فاس کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ دل سے ایک بلبلہ سا اٹھتا ہے جو خون کی شریانوں میں جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے.سینہ میں تنگی اور جکڑن کا احساس ہوتا ہے.بے چینی ہوتی ہے اور سینہ کے اوپر والے حصہ میں بھراؤ کا احساس ہوتا ہے.بعض اوقات درد بھی ہوتا ہے.کھانے کے بعد اور گہرا سانس لینے سے نالیاں سکڑتی ہیں اور دل کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں.دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے، گھبراہٹ ہوتی ہے.شور وغل سے تکلیف بڑھ جاتی ہے.بائیں کروٹ لیٹنے سے بھی ان سب تکلیفوں میں اضافہ ہو جاتا ہے جو دل کی بیماری کا پیش خیمہ ہوتی ہیں.سیڑھیاں چڑھنے سے دل کی
نیٹرم فاس دھڑکن بڑھ جاتی ہے.631 حیض کے دوران پیٹھ اور کمر میں درد ہوتو نیٹرم فاس اچھی دوا سمجھی جاتی ہے لیکن میرا تجربہ ہے کہ اس کے ساتھ کالی فاس اور میگ فاس ملا کر دی جائے تو زیادہ اچھا اثر ہوتا ہے.پیٹھ میں کھچاؤ، درد اور پسینہ کی علامت نمایاں ہو تو نیٹرم فاس اچھی دوا ہے.دل کی بیماری میں اگر گردن کے دونوں طرف درد ہو تو اس میں نیٹرم فاس بھی دوا ہو سکتی ہے.حیض کے ایام میں خصوصاً دن کے وقت ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوتے ہیں.لکھتے ہوئے ہاتھ میں اینٹھن ہوتی ہے.ہاتھ پاؤں میں چیونٹیاں رینگنے کا احساس بھی نمایاں ہوتا ہے.اعضاء کا بھاری پن اور سن ہو جانا بھی نیٹرم فاس کی علامت ہے.جوڑوں میں درد ہوتا ہے.عضلات میں خصوصاً پنڈلیوں میں تشیخ اور کمزوری کا احساس جوڑوں میں کڑکڑانے کی آوازیں، جوڑوں کا درد بالعموم دائیں کندھے سے شروع ہوتا ہے اور بعض اوقات یہاں تک ہی محدود رہتا ہے.سارے جسم میں رگڑ لگنے سے پیدا ہونے والے درد کا سا احساس.چلتے چلتے اچانک کوئی ٹانگ جواب دے دیتی ہے لیکن یہ کیفیت وقتی ہوتی ہے.جلد پر خشک ، جلن والے دانے بن جاتے ہیں اور زردسنہری کھر نڈا بھر آتے ہیں.جسم پر سرخ یا زرد رنگ کے داغ نمایاں ہو جاتے ہیں.فیرم فاس میں بھی سرخ دانے نکلنے کا رجحان پایا جاتا ہے.نیٹرم فاس میں جلد زردی مائل ہو جاتی ہے.ماؤف حصہ میں اور جلد میں ورم ہوتی ہے.چیونٹیاں رینگنے کا احساس ہوتا ہے.مہا سے بھی نکلتے ہیں.نیٹرم فاس کے مریض کو گو زیادہ نیند آتی ہے مگر بہت گہری نیند نہیں آتی.پریشان کن خواب دیکھتا ہے.کرسی پر بیٹھے بیٹھے سو جاتا ہے.کھانے کے بعد نیند کا بہت غلبہ ہوتا ہے.طاقت 6x اور 30 سے 200 تک
632
نیٹرم سلف 633 148 نیٹرم سلفیوریکم NATRUM SULPHURICUM سوڈیم اور سلفر سے بنی ہوئی دوا نیٹرم سلف اہم اندرونی تبدیلیاں پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.اس کا جگر سے گہرا تعلق ہے.شوگر کے لئے بہت مفید دوا ہے.اگر نیٹرم سلف 200 طاقت میں ہفتے میں ایک دو بار اور کلکیر یا فاس، کالی فاس اور نیٹرم فاس 6x میں دن میں تین چار بار با قاعدگی سے دیں تو ذیا بیطیس کے علاج میں یہ ایک وسیع الاثر نسخہ ثابت ہوا ہے.بعض اوقات ان چاروں دواؤں کو 6x میں بھی دیا جاتا ہے اور اچھے نتائج ظاہر ہوتے ہیں.نیٹرم سلف کی علامتیں آدھی رات سے پہلے ظاہر ہوتی ہیں.بھیگے ہوئے موسم میں اس کی تکلیفیں بڑھتی ہیں.اس کے مریض ذہنی اور جسمانی لحاظ سے بہت حساس ہوتے ہیں.در دکو بہت شدت سے محسوس کرتے ہیں لیکن حرکت سے درد میں افاقہ ہوتا ہے.تمام جسم میں دکھن کا احساس رہتا ہے.اس کی نزلاتی تکلیفیں موسم بہار میں زیادہ نمایاں ہو جاتی ہیں.سر کی چوٹ لگنے پر اندرونی بداثرات سے بچانے کے لئے نیٹرم سلف نہایت اعلیٰ درجہ کی دوا ہے.سرکی پرانی چوٹ کے مریضوں کو بھی آرنیکا کے ساتھ نیٹرم سلف ملا کر دیا جائے تو بہت ہی مفید نسخہ ہے.وضع حمل کے وقت بعض اوقات بچے کے سر پر دباؤ پڑتا ہے.ایسے بچوں کو ماں کے دودھ کے ذریعہ فوری طور پر نیٹرم سلف استعمال کروانی چاہئے تا کہ کوئی منفی نتائج ظاہر نہ ہوں اور بچہ نیم پاگل ہونے سے بچ جائے.نیٹرم سلف دمہ کی بھی بہترین دوا ہے.خصوصاً ان مریضوں کے لئے جنہیں ہے.مرطوب موسم میں دمہ میں اضافہ ہو جاتا ہے.شروع میں نزلہ ہوتا ہے جو جلد بگڑ کر چھاتی کو
نیٹرم سلف 634 جکڑ لیتا ہے اور دمہ کی تکلیف شروع ہو جاتی ہے.بلغمی کھانسی کے ساتھ سانس لینے میں سخت دشواری پیش آتی ہے.سفید رنگ کی لیس دار بلغم نکلتی ہے.معمولی حرکت کرنے اور چلنے سے سانس پھولتا ہے.نیٹرم سلف میں مریضوں کے جسم پر مہاسے نکلنے کا رجحان عام ملتا ہے.تمام جسم پر مہاسے نکل آتے ہیں.سر کا ایگزیما بھی اس کی نمایاں علامت ہے.سرخ رنگ کے دانے بنتے ہیں.اگر آنکھوں کو روشنی سے زود حسی ہوتو نیٹرم سلف اس میں بھی مفید ہے.آنکھوں سے پانی بہتا ہے.اگر ایک آنکھ سے پانی بہے اور اسی طرف گدی میں درد ہوتو یہ کالے موتیا کی ابتدائی نشانی ہے.اس کے لئے کلکیر یا فاس اور جلسیمیم بہترین دوائیں ہیں.لیکن اگر دونوں آنکھوں سے پانی بہتا ہو اور نظر کمزور ہو تو نیٹرم سلف بہتر دوا ہے.اگر آنکھوں میں زردی پائی جائے اور انفیکشن اتنی زیادہ گہری ہو جائے کہ پیپ کا رنگ سبزی مائل ہو اور پلکیں آپس میں جڑنے لگیں تو بھی نیٹرم سلف موثر دوا ہوسکتی ہے.کانوں میں شور کی آوازیں آئیں اور دباؤ محسوس ہوتو یہ کارگر ثابت ہو گی بشرطیکہ نیٹرم سلف کا مزاجی مریض ہو.نیٹرم سلف میں دائیں طرف کی تکلیفیں بائیں کی نسبت زیادہ ہوتی ہیں.حیض کے ایام سے پہلے یا بعد میں نکسیر پھوٹنے کا رجحان ہو تو اس میں بھی نیٹرم سلف کو آزمانا چاہئے.وبائی انفلوئنزا میں بھی اسے استعمال کیا جاتا ہے.اگر مسوڑھے دانتوں کو چھوڑنے لگیں، گلے کی تکلیفیں جن میں گاڑھا چھٹنے والا بلغم نکلے نیز تیز چلتے ہوئے دم گھٹنے کا اور سانس پھولنے کا احساس ہو تو بھی نیٹرم سلف اچھی دوا ثابت ہو سکتی ہے.گلہڑ میں بھی مفید ہے.گلے کے غدودوں سے اس کا گہرا تعلق ہے.اگر غدود اندر کو بڑھے ہوئے اور متورم ہوں اور کھٹی اور سبز رنگ کی قے آتی ہو تو نیٹرم سلف بالمثل دوا ثابت ہوتی ہے.نیٹرم سلف با قاعدگی سے دی جائے تو پتے کی پتھریوں کو بھی گھلا دیتی ہے.اس مرض کی دوسری اہم دوالا ئیکو پوڈیم 200 ہے جس کے ساتھ چیلی ڈونیم 30 طاقت میں دن میں
نیٹرم سلف 635 تین بار دیں.اگر معدے میں ہوا بند ہو اور شدید بل پڑیں یا پیٹ کے غدود بڑے ہو کر گلٹیاں بن جائیں تو اس میں بھی نیٹرم سلف مفید ہے.گرمی کی وجہ سے اچانک اسہال شروع ہو جائیں جن کا رنگ سبزی مائل ہو، پرکاری کی طرح آئیں اور مقدار میں بہت زیادہ اور متعفن ہوں تو اور بہت سی دواؤں کے علاوہ نیٹرم سلف بھی دوا ہوسکتی ہے.یہ جگر کی بہترین دواؤں میں شمار کی جاتی ہے.اگر شوگر کے بغیر بھی پیشاب بار بار آئے اور رات کو جلد جلد اٹھنا پڑے تو نیٹرم سلف کو بھی آزمائیں.بعض اوقات ذہنی دبا دیا موسم کے بدلنے کی وجہ سے رات کو بار بار پیشاب آتا ہے.اس میں آرسنک اور دیگر اعصابی دوا ئیں زیادہ مفید ثابت ہوسکتی ہیں.ایک نسخہ کام نہ کرے تو حسب حالات دوسر انسخہ استعمال کر کے دیکھنا چاہئے.اگر پراسٹیٹ گلینڈ بڑھ جائے اور نیٹرم سلف کی دوسری علامتیں بھی موجود ہوں تو نیٹرم سلف اکیلی ہی کافی ہوتی ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ ساتھ نیٹرم فاس 30 یا200 طاقت میں دی جائے.سینہ میں کھڑ کھڑاہٹ ہو اور لیس دار بلغم نکلے نیز کھانسی آنے پر سینہ میں پھوڑے کی طرح درد ہو اور کھانسی مزمن ہو جائے تو یہ دوا کام آ سکتی ہے.مریض کو گہرا سانس لینے کی تمنا ہوتی ہے.سینے میں خصوصاً بائیں طرف درد ہوتا ہے.نیٹرم سلف مینجائنٹس یعنی گردن توڑ بخار یا دماغ کی سوزش میں بہت اونچا مقام رکھتی ہے.اگر کسی بچے کو مینجائش ہو جائے تو سب سے پہلے فیرم فاس ، سلیشیا ، کالی میور ، میگ فاس اور کالی فاس 6x میں دیں.ساتھ ہی نیٹرم سلف 200 طاقت میں دو تین بار دیں.یہ مینجا ئٹس کا بہت مؤثر نسخہ ثابت ہوا ہے.اگر فوری طور پر جھلیوں کے اس ورم کا علاج نہ کیا جائے تو بعض اوقات مستقل مرگی کے دورے پڑنے لگتے ہیں.خاص طور پر اگر اینٹی بائیوٹک دواؤں سے بخار دبا دیا جائے تو خطرہ ہوتا ہے کہ دماغ پر دائگی اثر رہ جائے گا.اس لئے مذکورہ بالا نسخہ اور نیٹرم سلف پر ہی اکتفا کرنا چاہئے.چند
نیٹرم سلف دن کے اندراندر مینجائنٹس سے مکمل شفا ہوسکتی ہے.636 مرطوب موسم میں اعضاء کے درد بڑھ جاتے ہیں.نیٹرم سلف سردیوں میں جوڑوں کے درد اور بخار میں اعضا شکنی کے لئے بھی مفید ہے.بازوؤں اور ہاتھوں پر مسوں کے لئے بھی نیٹرم سلف کام آ سکتی ہے.ہتھیلی کے ایگزیما اور انگلیوں کے درمیان نم دار ایگزیما میں نیٹرم سلف 6x غیر معمولی موثر ثابت ہوئی ہے.یہ مرض پرانا بھی ہو تو چھوٹی طاقت سے ہی دور ہوسکتا ہے.نیٹرم سلف میں سلفر کی طرح سر کی چوٹی پر گرمی اور حدت کا احساس ہوتا ہے.کھانے کے بعد پیشانی میں شدید درد ہوتا ہے.سر میں بھاری پن، گدی میں درد اور چکر اس کی نشاندہی کرتے ہیں.نیٹرم سلف کی ایک علامت یہ ہے کہ ناخنوں کی جڑوں میں سوزش ہو جاتی ہے ایڑیاں جلتی ہیں، گھٹنوں میں سختی اور اینٹھن کا احساس ہوتا ہے.کولہوں اور ہاتھ پاؤں کے جوڑوں کے دردوں میں مرطوب موسم میں اضافہ ہو جاتا ہے.نیٹرم سلف جسم اور خون کی رطوبتوں کا توازن بحال کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے.مددگار دوائیں : آرسنگ.تھو جا طاقت: 6x اور 30 سے سی.ایم (CM) تک تمام طاقتیں
نکس وامیکا 637 149 نکس وامیکا NUX VOMICA (Poison Nut) نکس وامیکا ایک ایسے پودے کے بیجوں سے تیار کی جانے والی دوا ہے جو ہمیشہ سرسبز رہتا ہے.اس کے پھولوں کی بو نا خوشگوار اور پھل نارنجی رنگ کا ہوتا ہے.اس کے بیج نرم نرم بالوں میں لیٹے ہوتے ہیں.ان بیجوں کو پیس کر دوا بنائی جاتی ہے.روایتی طب میں یہ بہت خطرناک بیماریوں مثلاً پلیگ (طاعون ) ، ہسٹیریا، وجع المفاصل اور پاگل کتے کے کاٹنے سے پیدا ہونے والی تکالیف دور کرنے کے لئے استعمال کی جاتی رہی ہے.چونکہ ان بیجوں میں بہت سے زہریلے مادے پائے جاتے ہیں اس لئے ان سے تیار کردہ ہومیو پیتھک دوا یعنی نکس وامیکا بہت وسیع پیمانے پر زہروں کے تریاق کے طور پر استعمال ہوتی ہے.ایسے مریض جو ہر قسم کی دوائیں بہت زیادہ مقدار میں استعمال کر چکے ہوں ، ان کو نکس وامی کا دینی چاہئے کیونکہ یہ اکثر دواؤں کی پیدا کردہ علامتوں کو دور کر کے مریض کی تختی صاف کر دیتی ہے.نکس وامیکا کا سلفر سے گہرا تعلق ہے.سلفر زندگی کو تقویت دے کر جو رد عمل پیدا کرتی ہے وہ اکثر جلدی بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور بہت تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے.نکس وامیکا ان جلدی علامتوں میں جھاڑو کا سا کام دیتی ہے لیکن عوارض کو واپس اندر کی طرف نہیں دھکیلتی.اس لحاظ سے یہ سلفر کی بہترین مددگار ثابت ہوتی ہے کیونکہ یہ اس کے اچھے اندرونی اثر کو زائل کئے بغیر جلدی تکلیفوں کو نرم کرتی ہے.سلفر سے اگر بواسیر کے مسوں کا علاج کیا جائے تو ساتھ نکس وامیکا ضرور دینی چاہئے.یہ ان مسوں میں نرمی پیدا کرنے کے لئے بہترین معاون ثابت ہوتی ہے.
نکس وامیکا 638 نکس وامیکا مختلف قسم کی الرجیوں میں بھی مفید ہے.بعض لوگوں کو چاول یا گوشت کھانے سے الرجی ہو جاتی ہے.معدہ کی تیزابیت میں اضافہ ہو جاتا ہے.نکس وامیکادینے سے اللہ کے فضل سے بہت جلد فائدہ ہوتا ہے.چاولوں کی الرجی دور کرنے کے سلسلہ میں نکس وامیکا کا کوئی ذکر کتابوں میں تو نہیں ملتا لیکن میں نے اس کی بعض علامتوں کی وجہ سے اسے ایسے مریضوں پر استعمال کیا ہے.الا ماشاء اللہ ، یہ چاولوں سے پیدا ہونے والی الرجی کو اکثر دور کر دیتی ہے.حالانکہ یہ خشک مزاج کی دوا ہے جبکہ چاول کی الرجی مرطوب دواؤں سے تعلق رکھتی ہے.نظام ہضم میں خرابی کی وجہ سے معدہ میں تیزا بیت پیدا ہونے لگے تو مریض کا مزاج چڑ چڑا ہو جاتا ہے اور وہ جلد غصے میں آجاتا ہے.ایسے مریض عموماً دبلے پتلے ہوتے ہیں.بعض صورتوں میں موٹے لوگ بھی معدہ کی تیزابیت کا شکار ہوتے ہیں.ان کے لئے کئی اور دوائیں مفید ہیں.نکس وامیکا ایسے دبلے پتلے نسبتا نو کیلے مریضوں کی دوا ہے جو غصیلے اور چڑچڑے ہوتے ہیں.ایسے مریضوں کی بعض خاص عادات ہوتی ہیں جو ان کی بیماریوں میں اضافہ کر دیتی ہیں مثلاً رات کو دیر تک جاگنا، لمبے عرصہ تک بیٹھ کر کام کرنا اور مناسب ورزش کا فقدان.مغربی تہذیب میں بہت زیادہ شراب کی عادت اور ہماری تہذیب میں مرغن غذاؤں اور چٹخورہ پن کی وجہ سے جب معدہ جواب دے جاتا ہے تو بہت تیزاب پیدا کرتا ہے.ایسے سب مریضوں میں نکس وامیکا اچھا اثر دکھاتی ہے.نظام ہضم کے علاوہ پنکس وامیکا کا اندرونی مرکزی اعضاء سے بہت گہراتعلق نہیں ہے لیکن بیرونی عضلات ، اندرونی جھلیوں اور جلد سے اس کا تعلق ہے.اگر بہت زیادہ بیٹھنے کی وجہ سے کمر کے عضلات میں درد ہو تو اکثر نکس وامیکا سے یہ مرض دور ہو جاتا ہے.نکس وامیکا کا کمر درد ایک ہی جگہ ٹھہرا رہتا ہے.اگر اس کی دیگر علامات ملتی ہوں اور معدے میں تیزابیت بھی ہو تو ایسے مریضوں کی اچانک پیدا ہونے والی کمزوری میں جس کے نتیجہ میں بعض دفعہ ہاتھ ہلانے کی طاقت بھی نہیں رہتی یہ فوری فائدہ دیتی ہے اور مریض میں فی الفور جان پڑنے لگتی ہے.30 طاقت میں چند منٹوں کے وقفہ سے دیں
نکس وامیکا تو اللہ کے فضل سے غیر معمولی شفا ہوگی.639 نکس وامیکا کا زہر انتڑیوں کی طبعی حرکت کوست کر دیتا ہے.صحت مند لوگوں میں خوراک کھانے کے بعد معدہ سے لے کر انتڑیوں کے آخری کنارے تک ایسی حرکت مسلسل ہوتی رہنی چاہئے جو نیم ہضم خوراک کو آگے لے جائے.خدا تعالیٰ نے اس کی رفتار معین فرما دی ہے.اگر صحت ٹھیک ہو تو چودہ گھنٹے میں اس کا دور مکمل ہونا چاہئے.اس کے بعد یہ فضلہ کچھ عرصہ بڑی آنت کے آخری حصہ میں موجود رہتا ہے جہاں بڑی آنت اس میں شامل زائد رطوبت کو چوستی رہتی ہے.اس طرح کل چوبیس گھنٹے میں ایک صحت مند انسان کو ایک بار اجابت ہوتی ہے.اس نظام کے آہستہ پڑ جانے کے نتیجہ میں قبض ہو جائے گی اور تیز ہو جانے کے نتیجہ میں اسهال شروع ہو جائیں گے اور کبھی اس نظام کے بگڑنے سے اسہال لگ جانے کی بجائے بندھی ہوئی اجابت بار بار ہوگی.نکس وامیکا خصوصاً اس بیماری کا مؤثر علاج ہے.معدہ کی خرابی سے بسا اوقات دمہ میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے.جن لوگوں کو دمہ ہو انہیں خاص طور پر ایسی چیزوں سے پر ہیز کرنا چاہئے جن سے نزلہ ہو جائے یا معدہ خراب ہو جائے.ان کے نتیجہ میں دمہ کے مریضوں کو ہمیشہ دمہ ہو جاتا ہے.بہت ٹھنڈی یا کھٹی چیز ہیں مثلاً اچار وغیرہ تو دمہ کے مریضوں کے لئے سخت مہلک ثابت ہوتی ہیں.تیزاب کی زیادتی کی وجہ سے پیدا ہونے والے دمہ میں نکس وامیکا بہت مفید ہے.نزلاتی دمہ کے لئے حفظ ما تقدم کے طور پر نزلہ کی روک تھام کی دوائیں با قاعدگی سے استعمال کرنی چاہئیں تا کہ نہ نزلہ ہو نہ دمہ کا خطرہ رہے جیسے اردو محاورہ ہے کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری.نکس وامیکا پنڈلیوں کے شیخ میں بھی مفید ہے.آغاز ہی میں دے دی جائے تو بہت جلد اثر دکھاتی ہے.اگر تشیخ میں بیلا ڈونا کی علامتیں پائی جائیں تو بھی نکس وامیکا ہی شافی ثابت ہو جاتی ہے.شیخ کے معاملہ میں نکس وامیکا میں کچھ تضاد بھی پایا جاتا ہے مثلاً کمر درد کو ٹھنڈ سے تکلیف مگر پیٹ درد کو گرمی سے تکلیف ہو گی.اس کی وجہ یہ ہے کہ نکس وامیکا میں متعدد کیمیائی عناصر شامل ہیں جو مختلف اوقات میں اپنے الگ الگ اثرات
نکس وامیکا 640 ظاہر کرتے ہیں.نکس وامیکا میں بیلا ڈونا اور کیو پرم کے اجزاء شامل ہونے کی وجہ سے بعض تکلیفوں میں گرمی نقصان پہنچاتی ہے.روز مرہ کے شیخ کے ازالے کے لئے نکس وامیکا بہترین عمومی دوا ثابت ہوئی ہے.یہ بے خوابی کی بھی مؤثر دوا ہے.مثلاً جولوگ نشہ کے عادی ہوں یا جنہیں نیند کی گولیاں کھانے کی عادت پڑ جائے ان کے لئے نکس وامیکا بہترین متبادل ہے.میں ڈرگ (Drug) کے عادی مریضوں کا علاج اکثر نکس وامیکا سے ہی شروع کرتا ہوں اور الا ماشاء اللہ سب کو فائدہ ہوتا ہے.ایک دفعہ ایک نوجوان کو جو نشہ کا عادی تھا، اس کے پریشان حال ماں باپ میرے پاس لائے.اس کی عادت کو نیند کی گولیوں کے ذریعہ چھڑوانے کی کوشش کی جارہی تھی لیکن بھاری مقدار میں گولیاں کھا کر بھی اسے بمشکل نیند آتی تھی.میں نے اسے نکس وامیکا 30 ، دن میں تین دفعہ استعمال کرنے کے لئے دی اور اس کی نیند کی گولیوں کی شیشی اپنے پاس رکھ لی تا کہ اگر رات کو نیند نہ آئے تو صبح آ کر واپس لے جائے.رات کو وہ لمبے عرصہ بعد پہلی دفعہ آرام سے سویا اور صبح آ کر اس نے مجھے بتایا کہ نیند کی گولیوں سے جو نیند آتی تھی وہ بے چین کرنے والی ہوتی تھی لیکن عکس وامیکا لے کر وہ چین اور آرام سے سوتا رہا ہے.اس کی نیند کی گولیاں ایک مدت تک میرے پاس بطور نشانی پڑی رہیں.غرضیکہ نکس وامیکا نشہ آور چیزوں کے منفی اثرات کو دور کرنے اور نیند کی گولیوں سے پیچھا چھڑوانے کے لئے اکثر مفید ثابت ہوتی ہے.اگر یہا کیلی کافی نہ ہو تو ساتھ کیمومیلا استعمال کروائیں.یہ دونوں دوائیں نیند لانے کے علاوہ بہت سی نشہ آور ڈرگز (Drugs) کے بداثرات کو ختم کر دیتی ہیں.اگر بہت سے کاموں کا بوجھ ہو، بہت بولنا پڑا ہو یا دماغ میں کسی وجہ سے ہیجان ہو اور نیند نہ آئے تو اس میں بھی نکس وامی کا بہترین دوا ہے.یہ کافی (Coffee) کے بداثرات کا بھی بہت اچھا تریاق ہے.کافی پینے سے جن مریضوں کی نیند اڑ جاتی ہے اللہ کے فضل سے نکس وامیکا کی ایک ہی خوراک سے انہیں بہت جلد نیند آ جاتی ہے اور جب آتی ہے تو اچانک آتی ہے اور نیند سے پہلے آنے والی غنودگی کا احساس نہیں ہوتا.
641 نکس وامیکا صبح کے وقت چکر بھی نکس وامیکا کے مریض کی علامت ہیں.اس کی بھی غالباً یہی وجہ ہے کہ رات کو پر سکون نیند نہیں آتی اور صبح اٹھنے پر سر میں تھکاوٹ کی وجہ سے چکر آنے لگتے ہیں.نکس وامیکا 30 طاقت میں دینے کی بجائے اگر 200 میں دی جائے تو بعض مریضوں کی نیند اڑ جاتی ہے.جو لوگ موٹی جس کے مالک ہوں ان کا حال الگ ہے.ان میں 30 طاقت فائدہ نہیں پہنچاتی بلکہ 200 طاقت مفید ثابت ہوتی ہے.پوٹینسیوں کا صحیح استعمال گہرے مشاہدے اور تجربے ہی سے آسکتا ہے.ناک کی دونوں اطراف میں نزلہ جم جائے تو سر میں شدید درد ہوتا ہے اور آگے جھکنے سے تکلیف بڑھ جاتی ہے اور بوجھ پڑتا ہے.ناک ہمیشہ بند رہتا ہے.اس کو سائینس (Sinus) کی تکلیف کہا جاتا ہے.اگر نکس وامیکا کی ایک ہزار کی خوراک رات کو دی جائے تو وہ غیر معمولی اثر دکھاتی ہے اور صبح تک چھینکیں وغیرہ آ کرناک کھل جاتا ہے اور ریشہ نرم ہو کر بہہ جاتا ہے.اس تکلیف کے لئے اور دوائیں بھی ہیں لیکن علاج کا آغاز نکس وامیکا سے ہی کرنا چاہئے.نکس وامیکا کی ایک علامت یہ ہے کہ اس میں خواتین کا ماہانہ نظام بے قاعدہ ہو جاتا ہے.جب ماہواری وقت سے پہلے شروع ہو جائے تو لمبا چلتی ہے اور اگر وقت کے بعد شروع ہو تو معمول سے کم مدت میں ختم ہو جاتی ہے.یہی علامت برائیونیا کی بھی ہے.برائیونیا میں حرکت سے تکلیف کا بڑھنا اسے نکس وامیکا سے ممتاز کرتا ہے کیونکہ نکس وامیکا کی حیض کی تکلیف حرکت سے نہیں بڑھتی.لکس وامیکا میں رحم نیچے گرنے کا احساس بھی پایا جاتا ہے.مثانے میں بے چینی ہوتی ہے اور بار بار پیشاب کی حاجت ہوتی ہے لیکن مقدار میں کم ہوتا ہے.قبض رہتی ہے جو اسہال سے اولتی بدلتی رہتی ہے.اس میں بواسیر کے مسوں میں بہت خارش ہوتی ہے.تھوڑی تھوڑی اجابت ہوتی ہے.انتڑیوں کی طبعی حرکت میں کمزوری واقع ہو جاتی ہے.معدہ بہت زیادہ کھٹاس بناتا ہے.لیکن پلسٹیلا کے برعکس نکس وامیکا کا مریض مرغن غذاؤں کو ہضم کر لیتا ہے.
نکس وامیکا 642 نکس وامیکا بھوک لگانے کی بھی بہت اچھی دوا ہے اور بھوک مندمل کرنے کی بھی.جن مریضوں کو بھوک کے دورے پڑتے ہوں انہیں نکس وامی کا استعمال کرنی چاہئے.اکثر ایسے مریضوں کو جن کو بھوک کے دوروں کے بعد دمہ شروع ہو جائے اگر انہیں ان دنوں نکس وامیکا شروع کر وا دیا جائے تو دمہ نہیں ہوتا.نکس وامیکا میں سردرد زیادہ تر آنکھوں کے اوپر سے شروع ہو جاتا ہے جو ڈیلوں کی حرکت سے بہت شدید ہو جاتا ہے اور نشتر کی طرح چبھن محسوس ہوتی ہے.دھوپ میں جانے سے یا روشنی میں آنکھیں کھولنے سے درد میں اضافہ ہو جاتا ہے.صبح کے وقت اور کھانے کے بعد تکلیف بڑھ جاتی ہے.بعض اوقات سر درد کے ساتھ نکسیر بھی شروع ہو جاتی ہے،سخت قبض ہوتی ہے.سردرد کا بواسیری مسوں سے بھی تعلق ہے.مریض شور بالکل برداشت نہیں کر سکتا اور چھونے کے احساس کو بھی پسند نہیں کرتا.منہ کا مزہ خراب ہو جاتا ہے، صبح کے وقت متلی ہوتی ہے لیکن الٹی نہیں آتی.کھانے کے بعد یا کھانے کے دوران معدہ میں بوجھ اور درد کا احساس ہوتا ہے.معدہ کی جگہ پر ذرا سا دباؤ بھی برداشت نہیں ہوتا.معدے کا نچلا حصہ پھولا ہوا اور پھر کی طرح بوجھل ہوتا ہے.دمہ کے آغاز میں بد ہضمی کے دورہ سے ایک دن پہلے کھانسی شروع ہو جاتی ہے اور سینے میں بلغم کھڑ کھڑانے کا احساس ہوتا ہے.خشک ہنگی پیدا کرنے والی کھانسی جس کے ساتھ کبھی خون کی آمیزش بھی ہوتی ہے اور کھانسنے پر سر اور کمر میں بھی رد ہوتا ہے.ریڑھ کی ہڈی میں جلن کا احساس جو صبح تین چار بجے بڑھ جاتا ہے، دو پہر کو آرام کرنے سے تکلیفوں میں کمی ہو جاتی ہے اور اگر پسینہ بھی آ جائے تو طبیعت بحال ہو جاتی ہے.نکس وامیکا میں منہ میں چھوٹے چھوٹے زخم بن جاتے ہیں.زبان کے کنارے زردی مائل یا سفید اور کٹے پھٹے، مسوڑھے بھی سوجے ہوئے اور سفید ہو جاتے ہیں جن سے خون بہتا ہے.حلق میں گھٹن اور چیچن جو کانوں تک جاتی ہوئی محسوس ہوتی ہے.نکس وامیکا کی ایک دلچسپ علامت یہ ہے کہ جو شخص بدطینت اور کینہ پرور ہو،
نکس وامیکا 643 ہر وقت دوسروں کی عیب جوئی کرتا رہے اور ان میں نقص تلاش کرتے رہنے کا عادی ہو تو نکس وامی کا اونچی طاقت میں دینے سے ایسے مریضوں کی ذہنی حالت درست ہونے لگتی ہے اور ان میں حسد کا مادہ کم ہو جاتا ہے.لیکن ہرگز ضروری نہیں کہ نکس وامیکا کے ہر مریض میں حسد کا رجحان پایا جائے.نکس وامیکا کا مریض رات کے پچھلے پہر اٹھ جاتا ہے اور دوبارو سونہیں سکتا.صبح کے وقت غنودگی محسوس کرتا ہے.اچانک بازوؤں اور ٹانگوں میں ضعف محسوس ہوتا ہے.کھانا کھانے کے بعد مرض میں زیادتی ہو جاتی ہے.دماغی محنت ثقیل اور مصالحہ دار اشیاء کے استعمال اور خشک سرد موسم سے تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے.شام کے وقت، آرام کرنے اور دبوانے سے اور مرطوب موسم میں طبیعت بہتر محسوس ہوتی ہے.مددگار دوائیں: سلفر.سپیا دافع اثر دوائیں: کافیا.اگنیشیا.کاکولس طاقت: 30 سے سی.ایم (CM) تک
644
اویم 645 150 او پیم OPIUM (Dried Latex of the Poppy) او پیم یعنی افیون کا پودا مشرقی ممالک خصوصاً تر کی ، ایران، افغانستان اور ہندو پاک میں کثرت سے پایا جاتا ہے.اس کے پھول مختلف رنگوں کے ہوتے ہیں جن کی پتیاں بہت نرم و نازک ہوتی ہیں.ہوا کے معمولی سے جھونکے اور ہلکی سی بارش سے بھی بکھر جاتی ہیں.اس پودے کے سبز ڈوڈے سے رس نکالا جاتا ہے جس میں دو طرح کے تیز اب اور مختلف عناصر پائے جاتے ہیں.مارفین اسی پودے کے چھلکے کے رس سے بنتی ہے.مارفین ، جو او پیم کا ہی نچوڑ ہے اسے ایلو پیتھی میں نیند لانے کے لئے بکثرت استعمال کیا جاتا ہے.اس کے علاوہ او پیم کو شدید دردوں کو فوری دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.اوپیم کے بارے میں ڈاکٹر ہانیمن نے کہا ہے کہ باقی سب دواؤں کی نسبت اس کے اثرات کو جانچنا زیادہ مشکل ہے کیونکہ اس کی علامات متضاد ہیں.مقدار کی کمی بیشی سے متضاد اثرات ظاہر ہوتے ہیں مثلاً متلی اور قے میں تھوڑی مقدار فائدہ پہنچاتی ہے جب کہ زیادہ مقدار سے متلی شروع ہو جاتی ہے.اوپیم کا مریض بے حس ہوتا ہے لیکن اس کے برعکس اس میں سخت زود حسی بھی پائی جاتی ہے.ایلو پیتھک طریقہ علاج میں بھی اوپیم کو ابتدائی اور ثانوی اثرات میں تقسیم کیا گیا ہے.اوپیم کی ابتدائی علامت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ یہ درد کے احساس کو مٹا دیتی ہے لیکن کچھ عرصہ بعد وہی مریض جس کے درد کے احساس کو مٹا دیا گیا تھا سخت زود حس ہو جاتا ہے اور بہت تکلیف محسوس کرتا ہے.او پیم میں آرنیکا کی کچھ علامتیں بھی پائی جاتی ہیں.مزاج میں خشکی اور خون گاڑھا ہو
او پیم 646 کر جمنے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے.ہومیو پیتھک اوپیم آرنیکا کی طرح خون جمنے کے رجحان کو روک دیتی ہے بلکہ خون کے لوتھڑوں کو پگھلا دیتی ہے.خصوصاً دماغ میں خون جمنے کی صورت میں اوپیم ایک لازمی دوا ثابت ہوتی ہے.اگر اچانک دماغ کی رگ پھٹ جائے اور بے ہوشی طاری ہو جائے تو فوراً بہت اونچی طاقت میں آرنیکا کے ساتھ اوپیم ملا کر دینے سے حیرت انگیز فائدہ پہنچتا ہے.آرنیکا اکیلی اتنی مفید نہیں ہے لیکن اگر اس کے ساتھ اوپیم ملا کر دی جائے تو سارے خون میں طراوت سی آ جاتی ہے ، چستی پیدا ہوتی ہے ، ٹھنڈا جسم گرم ہونے لگتا ہے اور منجمد خون خود بخود ہی پتلا ہو کر معمول کے مطابق گردش کرنے لگتا ہے.جیسا کہ ذکر گزرا ہے او پیم ایک نیند آور دوا ہے.اس کا مریض اکثر سویا رہتا ہے یا اس پر غنودگی کا غلبہ رہتا ہے لیکن اس کے برعکس بعض دفعہ اس کی نیند بالکل اڑ جاتی ہے.اس صورت میں اوپیم کی کافیا سے بہت مشابہت ہے کیونکہ کا فیا میں بے خوابی اور زود حسی پائی جاتی ہے اور او پیم کے مریض کی نیند اڑ جائے تو وہ بہت زود حس ہو کر بے آرامی محسوس کرتا ہے اور خیالات کی فراوانی اسے پریشان رکھتی ہے.پس اگر او پیم کی وجہ سے نیند اڑے تو کافیا مفید ہوتی ہے.اور اگر کافی پینے کی وجہ سے نیند اڑے تو نکس وامیکا کے علاوہ اوپیم بھی مفید ہے.جن مریضوں کو شدید قبض ہو جاتی ہے، انتڑیاں بالکل خشک ہو جاتی ہے اور اجابت محسوس ہی نہیں ہوتی ان کی دوا بھی اوپیم ہوسکتی ہے لیکن او پیم کی علامات والے مریضوں کو بعض دفعہ پیچش ہو جاتی ہے.اس صورت میں قبض قبض نہیں رہتی ، مروڑ اٹھتے ہیں اور اجابت بھی نرم ہوتی ہے.او پیم کا مثالی مریض بہت ڈرپوک ہوتا ہے.اندھیرے سے سخت ڈرتا ہے.ڈراؤنے خیالات آتے ہیں.سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری ہو کر اپنی بیماری اور تکلیف کو بھی نہیں سمجھ سکتا.غنودگی اور بے ہوشی کی سی حالت میں رہتا ہے.کسی چیز سے خوفزدہ ہونے کے بعد اسے سر میں چکر آنے لگتے ہیں.او پیم کی سلفر سے بھی مشابہت ہے.سلفر مریض کے طبعی احساسات کو جگا دیتی ہے.
647 اویم وہ دوا دوا ئیں جن کی تشخیص درست ہوتی ہے لیکن وہ کام نہیں کرتیں ،سلفر کی ایک دوخوراکوں کے بعد کام کرنے لگتی ہیں.اوپیم بھی مریضوں کے خوابیدہ دفاعی احساسات کو جگانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے.اس پہلو سے یہ سلفر سے مشابہ ہے.سلفر کا مثالی مریض بھی بہت سست ہوتا ہے اور فلسفیانہ مزاج رکھتا ہے.او پیم کے مریض کے نرخرے میں فالجی کمزوریاں پیدا ہو جاتی ہیں اور وہ عضلات جو خوراک کو غذا کی نالی میں دھکیلتے ہیں کمزور پڑ جاتے ہیں اور بعض اوقات کھانا ناک یا سانس کی نالی میں چلا جاتا ہے جو بہت خطرناک ہے.اگر یہ رجحان بڑھ جائے تو بعض دفعہ اس سے موت بھی واقع ہو سکتی ہے.اوپیم اس رجحان کو ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے.او پیم کی بے حسی ایسی ہے کہ مریض کو اپنے مرض کی شدت کا احساس نہیں ہوتا اور یہ بے حسی اسے اپنے اندر موجود خطرات سے پوری طرح متنبہ نہیں ہونے دیتی اور اس کا زبر دستی علاج کرنا پڑتا ہے.او پیم جسم میں خشکی پیدا کرتی ہے لیکن بخار میں اوپیم کے ہم مزاج مریض کو بہت پسینہ آتا ہے جس سے درجہ حرارت کم نہیں ہوتا.یہ اوپیم کی خاص علامت ہے.بار بار پسینہ آتا ہے جو گرم ہوتا ہے جیسے گرمیوں کی برسات کا پسینہ جو جسم کو ٹھنڈا نہیں کرتا بلکہ گرمی کے احساس کو اور بھی بڑھا دیتا ہے.یہی حال او پیم کا ہے.اوپیم کا مریض کھانے کا بہت شوقین ہوتا ہے.کھانا کھانے کے باوجو د بھوک اور کمزوری کا احساس باقی رہتا ہے.اس کے اکثر مریض زیادہ کھانے کے باوجود دبلے پتلے ہوتے ہیں.اوپیم کے مریضوں کو الٹیاں بھی بہت آتی ہیں.مارفین یا دیگر ٹیکوں کا اثر ختم ہونے پر عموماً شدید متلی شروع ہو جاتی ہے.ان مریضوں کو ہومیو پیتھک او پیم دینے سے افاقہ ہوتا ہے.حمل کے دوران ہونے والی متلی جو کسی دوا سے قابو میں نہ آئے، اس میں بھی اوپیم مفید ثابت ہو سکتی ہے.اوپیم کی متلی میں بھوک نہیں ملتی مگر کھانا کھاتے ہی الٹی آ جاتی ہے.نظام ہضم سست ہونے کی وجہ سے مریض کا کھانا معدے میں اکٹھا
او پیم 648 ہوتا رہتا ہے اور متلی اور قے کا رجحان بہت بڑھ جاتا ہے.آخر بھوک بالکل ختم ہو جاتی ہے، مریض کچھ نہیں کھا سکتا اور سخت کمزوری پیدا ہو جاتی ہے.اس خصوصی علامت میں کیمومیلا بھی اور پیم کے برابر کی دوا ہے اور اس میں اس قسم کی مسلسل متلی کو روکنے کی حیرت انگیز طاقت ہے.سمندر کے سفر کے دوران متلی ہو تو بعض اوقات او پیم یا کیمومیلا یا دونوں ملا کرفوری اثر دکھاتی ہیں.اوریم میں سر بازوؤں اور ہاتھوں میں تشبیح ہونے کا رجحان ہوتا ہے.ہاتھ کا بنیتے ہیں اور سن ہو جاتے ہیں.اعضاء میں تشیبی جھٹکے لگتے ہیں اور کا نچتے ہیں.آنکھوں کی پتلیاں پھیل جاتی ہیں جن پر روشنی اثر نہیں کرتی.اوپیم کے مریض میں سر درد سر کے پچھلے حصہ یعنی گدی سے شروع ہو کر گردن میں دونوں طرف پھیل جاتا ہے.سارا سرسن ہو جاتا ہے اور بہت بوجھل محسوس ہوتا ہے.ذراسی حرکت حتی کہ آنکھ جھپکنے کی حرکت بھی نا قابل برداشت ہوتی ہے.اس لئے مریض آنکھیں بند کر کے بے حس و حرکت پڑا رہتا ہے.عضلات کے نکھاؤ، ہاتھ پاؤں کے مڑنے اور ہر قسم کے تشنجات میں جبکہ دوسری تائیدی علامات بھی موجود ہوں اور پیم مفید ہے.گردن توڑ بخار یعنی Meningitis جس سے عموماً بچے متاثر ہوتے ہیں اور ان پر بیماری کا حملہ زیادہ شدت سے ہوتا ہے، اس میں بھی اوپیم بہت اہم کردار ادا کرتی ہے.اگر بر وقت استعمال کی جائے تو بچہ بہت سی تکلیفوں سے بچ جاتا ہے.اس مرض میں ظاہری علامات کو مد نظر رکھ کر دوا تلاش کرنا بہت مشکل ہے.طبیب کو پہلے ہی سے از بر ہونا چاہئے کہ کون کون سی دوائیں اس مرض میں فوری اور اچھا کام کرنے والی ہیں.اگر خوف کے نتیجہ میں عضلات میں اکڑاؤ پیدا ہو.ہاتھ پاؤں مڑنے لگیں اور ہسٹیریا یا مربی کے دورے شروع ہو جائیں تو اونچی طاقت میں اوپیم استعمال کرنا چاہئے.اگر خوف کے نتیجہ میں مرگی کے دورے مستقل صورت اختیار کر لیں تو بعض دفعہ او پیم کی اونچی طاقت میں ایک ہی خوراک مرض کا قلع قمع کر دیتی ہے.لیکن صرف اس صورت
او پیم 649 میں جب خوف کی وجہ سے مرگی کا حملہ ہوا ہو.اوپیم کے مرگی کے دورے عموماً نیند کی حالت میں ہوتے ہیں اور دورہ شیخ سے شروع ہوتا ہے.مریض کو کالی چیزیں ، شیطان، آگ اور قتل و غارت کے نظارے نظر آتے ہیں.دل میں خاص قسم کے خوف بیٹھ جاتے ہیں اور محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اسے اٹھا کر لے جا رہا ہے.خوف کے علاوہ اچانک غیر معمولی خوشی پہنچنے سے اگر دماغ پر اثر ہو جائے اور اس کے بداثرات باقی رہ جائیں تو اوپیم کے علاوہ کافیا بھی مفید دوا ہے.اوپیم کے مریض کو گئیں مارنے اور بلا وجہ جھوٹ بولنے کی عادت ہوتی ہے جسے وہ خود محسوس نہیں کرتا مگر بے مقصد کہیں مارنے اور جھوٹ بولتے چلے جانے کی لاشعوری عادت میں بتلا ہوتا ہے.اگر کسی کو Lead Poisoning یعنی سکہ کا زہر چڑھ جائے تو اسے بعض اوقات شدید مروڑ والا درد اٹھتا ہے.اوپیم کی ایک ہی خوراک فوراً فائدہ دیتی ہے.سکے کے زہر کی زیادہ گہری اور بی علامتیں جسم میں سرایت کر چکی ہوں تو ان میں یہ مفید نہیں بلکہ فوری نوعیت کے زہریلے اثرات میں کام آتی ہے.او پیم کا مریض ہر وقت اونگھتا رہتا ہے.کسی قسم کی ضرورت کا اظہار نہیں کرتا.نبض بھی ست ہوتی ہے.عموما سخت قبض ہوتی ہے.اگر خوف محسوس کرے تو سیاہ بد بودار اسہال شروع ہو جاتے ہیں.مثانہ میں بھی کمزوری ہو جاتی ہے.پیشاب رک جاتا ہے یا بہت کم آتا ہے.مریض کی قوت سامعہ غیر معمولی طور پر تیز ہو جاتی ہے اور اسے دور کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں.مریض بہت خراٹے لیتا ہے اور اس کا سانس رکتا ہے.سوتے ہوئے تکلیفوں میں اضافہ ہو جاتا ہے.ٹھنڈی چیزوں کے استعمال اور چلنے پھرنے سے بیماری میں کمی ہو جاتی ہے.عورتوں میں کسی خوف کے نتیجہ میں حیض کا خون بند ہو جاتا ہے.وضع حمل کے وقت دردیں رک جاتی ہیں، مریضہ پر غشی طاری ہو جاتی ہے اور جھٹکے لگتے ہیں.اچانک بے ہوشی اور غنودگی کا دورہ پڑتا ہے.بعض اوقات خوف کی وجہ سے حمل ضائع ہونے
او پیم 650 کا بھی اندیشہ ہوتا ہے.مریض کو سانس لینے میں دقت پیش آتی ہے.سینے میں جلن محسوس ہوتی ہے.کھانسی کے ساتھ چہرہ نیلا ہو جاتا ہے جس میں سرخ دھبے نظر آتے ہیں.اوپیم میں درد کے احساس کا فقدان پایا جاتا ہے.ماؤف عضو میں اعصاب کے کنارے مردہ ہو جاتے ہیں اور صحیح پیغام نہیں پہنچا سکتے اس لئے ایسے زخم مندمل نہیں ہوتے اور ان میں درد بھی محسوس نہیں ہوتا.اوپیم تکلیف کے احساس کو جگا دیتی ہے اور جسم کی دفاعی طاقت زخم مندمل کرنے کا عمل شروع کر دیتی ہے.دافع اثر دوائیں اپنی کاک نکس وامیکا طاقت: 30 سے سی.ایم(CM) تک
فاسفورس 651 151 فاسفورس PHOSPHOSRUS فاسفورس کا عصر قدرتی طور پر کئی شکلوں میں پایا جاتا ہے.سب سے زیادہ سفید فاسفورس ملتا ہے جو ٹھوس شکل میں ہوتا ہے.یہ اندھیرے میں چمکتا ہے اور بہت جلد آگ پکڑ لیتا ہے.اسے گرم کیا جائے تو سرخ رنگ کے سفوف میں تبدیل ہو جاتا ہے جس سے ماچس بنائی جاتی ہے.فاسفورس حیوانی اور نباتاتی زندگی کا ایک انتہائی اہم جزو ہے جسے روایتی طب میں بھی مختلف بیماریوں کے علاج میں استعمال کیا گیا ہے.اس کے سفوف سے ہومیو پیتھی دوا تیار کی جاتی ہے.فاسفورس بہت گہرا اثر رکھنے والی دوا ہے.اندرونی جھلیوں ،اعصابی رگوں ،غدودوں اور دماغ سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے.ہڈیوں اور ہڈیوں کے گودے پر بھی اثر انداز ہوتا ہے.سیلان خون کی بہترین دواؤں میں سے ہے لیکن اس کا تعلق سرخ نظام خون سے ہے، سیاہ سے نہیں.اس لئے صرف سرخ خون کی بیماریوں میں اس کی طرف خیال جانا چاہئے.فاسفورس تپ دق اور دماغ کے ٹیومر میں مفید ہے مگر اس کی پوٹینسی کے چناؤ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے.علاج ہمیشہ 30 طاقت سے شروع کرنا چاہئے اور اسے حسب ضرورت رفتہ رفتہ بڑھانا چاہئے.ہڈیوں کے کینسر میں اعلیٰ درجہ کی دوا ہے.اسی طرح دمہ میں بھی بہت مفید ہے.اگر عام دواؤں سے دمہ قابو میں نہ آئے اور فاسفورس کی علامتیں موجود ہوں تو خدا کے فضل سے اس کے استعمال سے نمایاں فرق پڑتا ہے.عام طور پر ہو میو پیتھی کی کتابوں میں فاسفورس کے مریض کی ظاہری علامات پر اتنا
فاسفورس 652 زور دیا گیا ہے کہ ہو میو پیتھک معالج انہیں غیر ضروری اہمیت دینے لگتا ہے حالانکہ اندرونی علامتیں موجود ہوں تو ظاہری جسمانی علامتیں ملیں یا نہ ملیں یہ کام دیتا ہے.فاسفورس کے مریض کے بارے میں عموماً یہ لکھا ہوتا ہے کہ دبلا پتلا ، لمبا انسان مخروطی انگلیاں اور فن کارانہ مزاج رکھتا ہے.بہت سفید رنگ اور سنہرے بال ہوں، آنکھوں میں بھی کچا پن پایا جائے ، نازک اور حساس ہو، وغیرہ وغیرہ.ایسے مریض کو ڈھونڈ نا تو بہت مشکل کام ہے اور دنیا کے بعض علاقوں میں تو ایسے انسان شاذ کے طور پر ہی مل سکتے ہیں اور وہ بھی ضروری نہیں ہے کہ فاسفورس کے ہی مریض ہوں.فاسفورس کے مریض کو اس کی جسمانی ساخت سے نہیں بلکہ اس کے مزاج سے پہچاننا چاہئے.اس کی زود سی پر نظر رکھیں.کئی بیماریوں کے ردعمل میں فاسفورس کو پہچانا جاسکتا ہے.مثلاً بعض عورتوں کی بیماریوں میں ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں.اعصاب میں مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رہتی.حرارت غریزی کم ہو جاتی ہے.یہ فاسفورس کی علامتیں ہیں.مریض کا رنگ خواہ کا لا ہو یا سفید ، اس سے فرق نہیں پڑے گا.ہڈیوں، چھاتی اور گردے کی بیماریوں میں اگر مریض کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوں تو چونکہ یہ علامتیں سلیشیا میں بھی پائی جاتی ہے اس لئے فاسفورس کو سلیشیا کے ساتھ ادل بدل کر دینے سے فائدہ پہنچتا ہے.فاسفورس میں ہمیشہ سرخ رنگ کا خون بہتا ہے جبکہ سلفر میں کالے رنگ کا خون بہنے کا رجحان ہوتا ہے.عورتوں کے ماہانہ ایام میں وقت سے پہلے سرخ چمکدار رنگ کا خون آنے لگے تو یہ فاسفورس کی خاص علامت ہے.فاسفورس کے اخراجات میں تیزابیت پائی جاتی ہے.لیکوریا بھی کاٹنے اور چھیلنے والا ہوتا ہے اور اسہال میں بھی اتنی تیزابیت ہوتی ہے کہ جلد پر چھالے پڑ جاتے ہیں.فاسفورس نیٹرم میور اور برائیونیا سے بھی مشابہت رکھتا ہے.برائیونیا میں ہونٹوں پر پیڑیاں جم جاتی ہیں اور کنارے خشک ہو کر پھٹ جاتے ہیں.فاسفورس میں بھی یہ علامتیں پائی جاتی ہیں.پلاٹینم کی بعض علامتیں بھی اس میں موجود ہوسکتی ہیں یعنی اپنے آپ کو دوسرے لوگوں سے الگ کر لینا اور بہت اونچا سمجھنا، یہ علامت بعض دفعہ
فاسفورس 653 - فاسفورس کے مریض میں بھی پائی جاتی ہے مگر شاذ کے طور پر.وہ اپنے مزاج کے صاف ستھرا ہونے کی وجہ سے بھی علیحدگی پسند ہو جاتا ہے لیکن اس میں تکبر نہیں پایا جاتا جبکہ پلاٹینم کے مریض میں تکبر بہت ہوتا ہے اور اسے یہ وہم ہوتا ہے کہ گویا وہ آسمان سے اترا ہوا ہے.ہر ایک کو نیچی نظر سے دیکھتا ہے جبکہ فاسفورس کا مریض بہت ہمدرد اور نرم مزاج رکھتا ہے.مزاج کی نفاست کی وجہ سے اس میں غیر معمولی زود حسی پیدا ہوتی ہے جو کئی بیماریوں کا موجب بھی بن جاتی ہے.بعض دفعہ جب اکیلا ہو تو اس پر موت کا خوف طاری ہو جاتا ہے.دماغ میں ہیجانی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.جسم میں کوئی چیز رینگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے.فاسفورس کی بہت بیماریوں میں گرمی سے فائدہ پہنچتا ہے لیکن معدہ اور سر میں سردی سے آرام آتا ہے چونکہ سر میں خون کا دباؤ بہت زیادہ ہوتا ہے اس لئے اگر مزید گرمی پہنچائیں تو تکلیف میں اضافہ ہو جائے گا.فاسفورس اور بیلا ڈونا کے سردرد میں یہ فرق ہے کہ بیلاڈونا کا مریض لیٹے تو اس کو آرام آتا ہے.فاسفورس کا مریض لیٹے تو اس کی تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے.اس لئے مریض اپنا سر اونچا کر کے لیٹتا ہے.اس کا مطلب ہے کہ لیٹنے سے خون کا دوران سر کی طرف اور بیٹھنے سے نیچے کی طرف ہوتا ہے.بیلاڈونا میں تشنج کی وجہ سے سر میں درد ہوتا ہے.فاسفورس کے سردرد میں تشیخ نہیں ہوتا.معدہ کی تکلیف میں ٹھنڈی چیز سے آرام آتا ہے اور گرم چیز سے قے ہو جاتی ہے.اگر بچے کو دودھ پلائیں تو پیٹ میں جا کر دودھ گرم ہونے پر اس کی قے ہو جاتی ہے یہ ایتھوزا سے ملتی جلتی علامت ہے.اعصابی ریشوں کے ساتھ فاسفورس کا بہت تعلق ہے.یہ آنکھ کے بصری نظام پر بھی اثر انداز ہوتا ہے.اسی لئے طرح طرح کے رنگ دکھائی دیتے ہیں.شمع کے گر دسبز رنگ کا ہالہ نظر آتا ہے.سرخ اور کالے دھبے بھی دکھائی دیتے ہیں.اگر کسی صدمے سے کوئی اچانک اندھا ہو جائے تو بھی فاسفورس کو پیش نظر رکھنا چاہئے.فاسفورس گنجے پن اور سکری یعنی بالوں میں خشکی کا بھی علاج ہے.ان بیماریوں میں
فاسفورس 654 عموماً ایسڈ فاس استعمال ہوتا ہے لیکن اگر اعصاب میں تیزی اور حدت ہو تو فاسفورس زیادہ مفید ہے.یہ بالوں کو گرنے سے روکتا ہے اور انہیں مضبوط بناتا ہے.پتلے اور سنہرے بال جو فاسفورس کی نشانی سمجھے جاتے ہیں وہ دراصل بالوں کی جڑوں کی کمزوری کی وجہ سے ایسے ہوتے ہیں.قدرتی صحت مند سنہرے بالوں کا فاسفورس سے کوئی تعلق نہیں.جلد کے وہ بار یک غدود جن کا بالوں سے تعلق ہے Follicles کہلاتے ہیں.ان کی کمزوری کی وجہ سے بالوں میں ملائمت اور ریشمی پن نظر آتا ہے جو بیماری کا نشان ہے اور فاسفورس کی نشاندہی کرتا ہے.جلدی کمزوریاں Pigmentation کی کمزوری سے پیدا ہوتی ہیں.البینو (Albino) یعنی بالکل بے رنگ برص کی طرح سفید نظر آنے والے بچے فاسفورس کی تصویر ہیں اس لئے ان بچوں کی بیماریوں میں یہ کام آسکتا ہے.فاسفورس کا اسی قسم کی جلد سے تعلق ہے جس میں کچا پن آ جاتا ہے اور بالوں میں کمزوری ظاہر ہوتی ہے خواہ مریض کا رنگ کیسا ہی ہو.نیٹرم میور میں بھی بعض ایسی علامتیں ملتی ہیں.بال کھو کھلے اور بے جان ہو جاتے ہیں اور کناروں سے پھٹ جاتے ہیں مگر جلد کی اور بے جان نہیں ہوتی.فاسفورس میں آنکھوں کے سامنے دھند کا سا احساس ہوتا ہے.موم بتی کی لو کے گرد سبز ہالہ فاسفورس کے علاوہ اوپیم میں بھی پایا جاتا ہے.اوپیم کا بھی او پٹک نرو (Optic Nerve) سے تعلق ہے اور یہ اس میں فالج پیدا کرتی ہے.فاسفورس بہت سے امراض چشم میں کام آتی ہے.آنکھ کے پیچھے جو پردہ ہے اور جسے ریٹینا (Retina) کہتے ہیں، اس میں راڈز اور کونز (Rods and Cones) ہوتے ہیں.کونز (Cones) جو مثلث شکل رکھتی ہیں رنگوں کو پھاڑنے کا کام دیتی ہیں اور مختلف رنگ دیکھنے کا شعور انہی سے پیدا ہوتا ہے اور راڈز (Rods) کالےاور سفید رنگ میں تمیز کرتے ہیں.اگر ریٹینا خراب ہو جائے یا ان اعصاب میں، جو پیغام لے کر جاتے ہیں، کمزوری پیدا ہو جائے تو وہ ہر رنگ کو ریکارڈ نہیں کرتے اور رنگوں میں فرق نہیں کر سکتے.آہستہ آہستہ بڑھنے والا اندھا پن جو بعد میں پورے اندھے پن میں تبدیل ہو جاتا
فاسفورس 655 ہے فاسفورس کی علامت ہے جو کا سٹیکم میں بھی پائی جاتی ہے.کاسٹیکم اور فاسفورس کی اور بھی بہت سی علامتیں ایک دوسرے سے ملتی ہیں.فاسفورس میں پیاس بہت محسوس ہوتی ہے.ٹھنڈے پانی سے آرام ملتا ہے لیکن پانی معدہ میں گرم ہونے پر قے ہو جاتی ہے.اپریشن کے بعد شدید متلی ہو جو قابو نہ آئے تو اس میں بھی فاسفورس کارآمد ہے.Pigmentation کی خرابی کی وجہ سے پیٹ، چھاتی اور گردن کے حصوں پر زرد رنگ کے نشان بن جاتے ہیں.یہ دراصل کلاہ گردہ کی کمزوری ہوتی ہے اور گردوں پر اس دوا کا غیر معمولی اثر ہوتا ہے.منہ کی اندرونی تکلیفوں میں بھی فاسفورس وسیع الاثر ہے.مسوڑھے جواب دے جائیں اوران سے ہلکے رنگ کا بد بودار خون بہنے لگے تو فاسفورس کام کرتی ہے.یہ خون روکنے کی اولین دوا ہے.اسی طرح اگر نفاس کا سرخ خون بھی ہلکا ہلکا دیر تک جاری رہے اور بد بو نمایاں ہو تو فاسفورس اکثر کام کرتی ہے.رقم میں الیکشن اور رسولیاں ہوں تو اس سے بھی خون جاری ہو جاتا ہے لیکن بعض دفعہ اس خون میں بدبو نہیں ہوتی.کم از کم آغاز میں یہ خون بغیر بد بو کے ہوتا ہے.اس میں بھی فاسفورس مفید ہے.گلا بیٹھنا بھی فاسفورس کی نشانی ہے.فاسفورس کے علاوہ کار بوویج، کاسٹیکم ، بوریکس اور کوکا بھی گلا بیٹھنے کے علاج میں بہت شہرت رکھتے ہیں.کار بوویج کے مریض کا گلا شام کو بیٹھتا ہے اور صبح کے وقت زیادہ خراب نہیں ہوتا.فاسفورس میں بھی یہی علامت پائی جاتی ہے.کاسٹیکم میں صبح کے وقت گلا خراب ہوتا ہے اور شام کوٹھیک ہو جاتا ہے.فاسفورس میں گلے کی زود حسی کی وجہ سے کھانسی اٹھتی ہے.بننے یا زور سے بات کرنے سے کھانسی شروع ہو جاتی ہے اور گلے میں سوزش بھی ہو جاتی ہے.بعض دفعہ گلے میں خارش ہونے کی وجہ سے کھانسی اٹھتی ہے کیونکہ بلغم خشک ہو کر چپک جاتا ہے اور بے چینی اور کھجلی پیدا کرتا ہے.اس تکلیف میں رسٹاکس اور ہیپر سلف حسب علامات مفید ثابت ہو سکتی ہیں.فاسفورس کی بے چینی محض اعصابی زودحسی سے تعلق رکھتی ہے.جو تقریباً اس کی ہر بیماری میں پائی جاتی ہے.غیروں کی موجودگی میں تکلیف بڑھتی ہے.
فاسفورس 656 اعصاب سکون چاہتے ہیں اور بوجھ برداشت نہیں کرتے.سخت زود حس ہو جاتے ہیں.کمزوری فاسفورس کی ایک عام علامت ہے.دیر بینہ بیماریوں میں یہ آہستہ آہستہ اثر دکھانے والی دوا ہے لیکن حاد بیماریوں میں یہ سریع الاثر ہے.اگر ہاتھوں، کلائی، کہنیوں یا پاؤں کے جوڑ اچانک جواب دے جائیں تو فاسفورس دوا ہو سکتی ہے.بعض دفعہ مریض کی نیند بے چین ہوتی ہے، لمبی گہری نیند نہیں آتی اور بلا وجہ آنکھ کھلتی رہتی ہے.یہ اعصابی تناؤ کی وجہ سے ہوتا ہے.اس میں فاسفورس بہت جلد فائدہ دیتی ہے.بادلوں کی گھن گرج سے تکلیفیں بڑھ جائیں تو اس کا بھی فاسفورس سے تعلق ہے.بعض دفعہ موسم تبدیل ہونے سے پہلے ہی بیماری کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں.انتہائی حساس سائنسی آلے بھی موسم کے جس تغیر و تبدل کو محسوس نہیں کر سکتے ، فاسفورس کے مریض محسوس کر لیتے ہیں.ان کا مرض موسم تبدیل ہونے سے پہلے ہی شروع ہو جاتا ہے.فاسفورس کی ایک علامت یہ ہے کہ سیڑھیاں چڑھنے سے تکلیف بڑھتی ہے.گو یہ علامت اپنی ذات میں کوئی ایسی چیز نہیں جو کسی خاص دوا کی نشاندہی کرے.تا ہم فاسفورس کی بھی یہ علامت ہے کہ سیڑھیاں چڑھنے میں اس کے مریض کو دقت پیش آتی ہے.نیٹرم میور اور نکس وامیکا کے علاوہ پوٹیشیم پر مینگینیٹ بھی فاسفورس کا تریاق ہے پوٹیشیم پر مینگینیٹ زود حسی کا علاج ہے اور اسے عموماً اعضاء کے سن ہو جانے کے رجحان کو دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.سخت نزلہ جسے فاسفورس کی ضرورت ہو، بروقت علاج نہ ہونے پر دائی ہو جاتا ہے.اندرونی جھلیاں جواب دے جاتی ہیں.اس وقت بھی اس کا علاج فاسفورس ہی ہے.گلے اور میوکس ممبرین (Mucous Membrane) یعنی اندرونی جھلیوں میں ہر جگہ پویشیم پر مینگینیٹ اور فاسفورس کے بداثرات مشترک ہیں لیکن اعصابی علامتوں میں مشترک نہیں اس لئے اسے ہر جگہ فاسفورس کے تریاق کے طور پر استعمال نہیں کر سکتے.
فاسفورس 657 فاسفورس Fatty Degeneration یعنی جگر اور دوسری جگہوں پر چربی کے جالے بن جانے کا عمدہ علاج ہے.گردوں اور جگر کا جواب دے جانا اور دل پر چربی کا انجماد فاسفورس کی خاص علامتیں ہیں.شراب نوشی کے بداثرات کو بھی دور کرتا ہے.فاسفورس اعصابی لحاظ سے بہت حساس دوا ہے.جگر کیمیاوی مادے یعنی کیمیکلز بنانے کی دنیا کی سب سے چھوٹی مگر سب سے زیادہ کیمیکلز بنانے والی خاموش فیکٹری ہے.پانچ ہزار کیمیکلز میں سے بہت سی تو جگر براہ راست بناتا ہے اور کچھ دوسرے غدودوں کو پیغام رساں خلیوں کی معرفت کیمیاوی احکامات جاری کر کے بنواتا ہے.کولیسٹرول (Cholesterol) بھی جگر ہی میں بنتا ہے.جگر عام چربی کو کولیسٹرول میں تبدیل کر دیتا ہے.جن لوگوں میں یہ خاندانی بیماری ہو کہ ان کا جگر کولیسٹرول کی ایک قسم LDL یعنی Low Density Lipped زیادہ بنائے ان کے خوراک پر کنٹرول کرنے کے باوجود جسم میں اس کو لیسٹرول کی زیادتی جاری رہے گی.یادرکھنا چاہئے کہ کولیسٹرول کی یہ قسم یعنی LDL ہی خون کی نالیاں تنگ کر کے دل میں خون کی فراہمی میں مخل ہو جاتی ہے اور دل کا دورہ پڑنے کی وجہ بنتی ہے.فاسفورس جگر کے اس حصہ پر براہ راست اثر انداز ہوتا ہے جہاں یہ نقص واقع ہو.جگر کے فعل کو درست کرتا ہے اور وہ کولیسٹرول کم بنانے لگتا ہے.ناک کے اندر جو پانی کی تھیلیاں بن کر سانس میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں ان کو گھلانے میں فاسفورس اچھا کردار ادا کرتا ہے.ان تھیلیوں کی وجہ سے سونے میں بہت تکلیف ہوتی ہے.بچے منہ کھول کر سانس لیتے ہیں.قوت شامہ متاثر ہوتی ہے.جریان خون بھی ہونے لگتا ہے.یہ رجحانات ہوں تو عورتوں کے رحم کی پھولی ہوئی غدودوں کو درست کرنے میں بھی فاسفورس اچھی دوا ہے.فاسفورس میں معدے اور سر کی تکلیفوں میں سردی سے افاقہ محسوس ہوتا ہے.شریانوں میں خون کا دباؤ زیادہ ہونے کی وجہ سے خون بہنا شروع ہو جائے تو فاسفورس خون کے بہاؤ کو روکنے میں ممد ثابت ہوتی ہے.ایک دفعہ ایک دوست کی نکسیر
فاسفورس 658 بے تحاشا پھوٹنے کے باعث طبیعت بے حد خراب تھی.مجھے آدھی رات کو بلایا گیا.میں وہاں گیا تو دیکھا کہ فرش خون سے بھرا ہوا ہے.یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہاں بکرا ذبح کر دیا گیا ہو.ان کے منہ سے بھی خون جاری تھا.میں نے خون والے منہ میں ہی فاسفورس اور ملی فولیم ملا کر ڈال دی.15 منٹ کے اندر اندر خون آنا بند ہو گیا اور وہ آرام سے سو گئے اور خدا کے فضل سے انہیں مکمل صحت ہو گئی.اگر زخموں سے معمول سے زیادہ سرخ رنگ کا خون جاری ہو جائے تو فاسفورس سے بہت جلد فائدہ ہوتا ہے.ٹھنڈک سے آرام آتا ہے اور ٹھنڈے پانی کی ٹکور سے خون بند ہو جاتا ہے.سر میں دورانِ خون بڑھنے سے درد ہو تو خطرہ ہوتا ہے کہ شریانیں پھٹ جائیں گی.ایسی حالت میں سر کو ٹھنڈا کرنے سے فائدہ ہوگا لیکن فاسفورس سے اس رجحان کا مستقل علاج ضروری ہے.مثانے اور غدہ قدامیہ ( پراسٹیٹ) کے کینسر میں فاسفورس غیر معمولی اہمیت کی دوا ہے.ہڈیوں کے کینسر میں بھی فاسفورس بار ہا شافی ثابت ہوئی ہے.ایک مریض کو جس کا ہر قسم کا ریڈی ایشن (Radiation) کا علاج ہو چکا تھا، جب اسے فاسفورس 30 دی گئی اور ہدایت کی گئی کہ ایک ماہ کے بعد اپنی کیفیت سے آگاہ کرے تو ایک ماہ کے بعد اس نے بتایا کہ اس کا وزن گرنا بند ہو گیا ہے اور بھوک پیاس محسوس ہونے لگی ہے.اس مریض کی ہڈیاں اتنی کمزور ہوگئی تھیں کہ چل نہیں سکتا تھا اور دباؤ بالکل برداشت نہیں کر سکتا تھا.بیساکھیاں استعمال کرتا تھا.تین ماہ کے اندر اندر بیساکھیاں چھوٹ گئیں اور کمزوری جاتی رہی.آٹھ دس سال بالکل ٹھیک رہا.اس کے بعد دماغ کا کینسر ہو گیا.اس سے بھی خدا کے فضل سے صحت یاب ہو گیا اور مزید پندرہ سال زندگی پائی.کینسر کی یہ عادت ہے کہ بار بار عود کر آتا ہے اس لئے اس کا مستقل علاج جاری رہنا چاہئے.فاسفورس کا استعمال بہت احتیاط سے کرنا چاہئے کیونکہ یہ بہت گہرا اثر کرنے والی دوا ہے.زیادہ اونچی طاقت میں استعمال سے گریز کرنا چاہئے.یہ جگر، ہڈیوں ، ہڈیوں کے گودے (Bone Marrow) اور غدودوں کے کینسر پر اثر انداز ہوتی ہے.گلے ، ہڈیوں اور مثانے وغیرہ کے کینسر میں اسے ہمیشہ یادرکھنا چاہئے.
فاسفورس 659 فاسفورس کی ایک علامت یہ ہے کہ گلے میں السر کی وجہ سے آواز بیٹھ جاتی ہے جو کینسر کی بھی علامت ہے.اس لئے اگر کسی کی آواز بیٹھ رہی ہو اور گلے میں السر ہو جائے تو پوری احتیاط سے جائزہ لے کر فوراً اس کا علاج شروع کر دینا چاہئے ورنہ اگر دیر ہو جائے تو گلے کا کینسر خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے اور پھر قابو میں نہیں آتا.بعض دفعہ عضلات ڈھیلے ہو کر لٹک جاتے ہیں، حفاظتی جھلیاں کمزور ہو جاتی ہیں مثلاً بچوں کی پیدائش کے بعد رحم ڈھیلا ہو کر لٹکنے لگتا ہے.اسی طرح ہر نیا وغیرہ کی تکلیفیں لاحق ہر ہوتی ہیں.فاسفورس اعضاء کو واپس اپنی جگہ لے جانے اور عضلات کو مضبوط کرنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے.فاسفورس میں ایک علامت رسٹاکس اور برائیونیا سے مشابہ ہے.ابتدائی حرکت تکلیف دیتی ہے اور پھر آرام محسوس ہوتا ہے.رسٹاکس میں لیٹنے سے تکلیف بڑھتی ہے لیکن حرکت کی ابتدا میں بھی تکلیف ہوتی ہے.کروٹ بدلتے ہوئے بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے پھر ذرا سا سکون ملتا ہے پھر تکلیف بڑھ جاتی ہے اور مریض بے چین دکھائی دیتا ہے.برائیونیا میں حرکت سے تکلیف کا بڑھنا بہت نمایاں ہے اسی لئے ہو میو پیتھی میں اگر برا ئیونیا 200 آرنیکا 200 کے ساتھ ملا کر دی جائے تو ہر قسم کی ورزش سے پیدا ہونے والی تھکاوٹ کا بہترین علاج ثابت ہوتی ہے.فاسفورس میں خصوصاً صبح کے وقت مریض جب اٹھ کر چلتا ہے تو اعضاء بھاری محسوس ہوتے ہیں.جوڑوں میں عمومی اکڑاؤ کے لئے بھی فاسفورس اچھی دوا ہے.میں نے اس + تکلیف کے لئے دو نسخے بنائے ہیں.اگر بائیں طرف تکلیف ہو تو آرنیکا + لیڈیم 200 طاقت میں بہت مؤثر ہے.یہ لمبے، گہرے وجع المفاصل کے مزمن مریض کو بار بار دی جاسکتی ہے یعنی 200 طاقت میں ہونے کے باوجود پہلے ہفتے دن میں تین دفعہ، دوسرے ہفتے دن میں دو دفعہ اور تیسرے ہفتے دن میں ایک دفعہ، چوتھے ہفتے تک جب اجتماعی اثر ظاہر ہو جاتا ہے تو مریض محسوس کرتا ہے کہ گویا یکدم فائدہ ہوا ہے اور اس عارضہ سے پوری طرح نجات مل جاتی ہے.دوسرا نسخہ اس وقت کام آتا ہے جب
فاسفورس 660 دردوں کا زور دائیں طرف ہو اور چوٹوں کا بھی اثر ہو اور حرکت اور مالش سے تکلیف بڑھتی ہو.ایسی صورت میں آرنیکا، برائیونیا اور کاسٹیکم 200 طاقت میں بہت اچھا اثر دکھاتی ہیں.گھٹنے کے درد اور کھلاڑیوں کی پرانی چوٹوں کے جاگ اٹھنے کے نتیجہ میں تکلیف بڑھے تو یہ نسخہ بہت کارگر ثابت ہوتا ہے.چہرہ کے اعصابی دردوں میں فاسفورس بہترین دوا ہے.علاوہ ازیں حسب ذیل دوا ئیں مختلف اجتماعی نسخوں کی شکل میں اچھا کام کرتی ہیں.سپائی جیلیا ، سلیشیا ، فاسفورس اور میگ فاس.فاسفورس کو سپائی جیلیا کے ساتھ ملا کر دیا جائے تو یہ چہرے کے بائیں طرف کے نور يلجيا (Neuralgia) کا اچھا نسخہ ثابت ہوتا ہے.اگر نوریلجیا دائیں طرف ہو تو اس میں سلیشیا ، میگ فاس کے ساتھ ملا کر دینا بہت مفید ثابت ہوتا ہے اور فاسفورس کو اس نسخہ میں بھی ملایا جاسکتا ہے.عورتیں یا مرد اعصاب کی زود حسی کی وجہ سے اولاد سے محروم ہوں تو کالی فاس اور فاسفورس مفید ثابت ہوتی ہیں.اعصاب کی زود حسی براہ راست با نجھ نہیں بناتی لیکن خلیوں میں بننے والے جرثوموں کی تکمیل نہیں ہو پاتی اور ان میں جان نہیں پڑتی.فاسفورس میں خالی پیٹ تکلیفیں بڑھتی ہیں.اس کے مسوں میں خون بہنے کا رجحان ہوتا ہے.ان میں سے کچھ تو کٹی پھٹی خوفناک شکل اختیار کر لیتے ہیں جو نائیٹرک ایسڈ کی بھی نشاندہی کرتے ہیں.مگر ان مسوں سے سرخ خون بہے تو یہ اکثر فاسفورس کی علامت ہوتی ہے.سب زخموں سے بہت خون بہتا ہے.زخم خشک ہو کر پھر ہرے ہو جاتے ہیں.جلد پر نیلگوں کالے داغ پڑ جاتے ہیں.یرقان بھی ہو جاتا ہے.شام کو سردی محسوس ہونے لگتی ہیں.بائیں طرف لیٹنے سے دل کی دھڑکن بھی بہت زیادہ ہو جاتی ہے.نبض تیز اور چھوٹی ہو جاتی ہے.دل میں گرمی محسوس ہوتی ہے.کھانے کے فوراًبعد دوبارہ بھوک محسوس ہوتی ہے.کھانے کے بعد منہ کا مزہ کھٹا ہو جاتا ہے.قے کا رجحان ہوتا ہے.پیٹ میں درد جسے ٹھنڈی چیزوں کے استعمال سے آرام آتا ہے.معدہ میں سوزش، چلنے اور پیٹ پر ہاتھ لگانے سے بڑھ جاتی ہے.
فاسفورس 661 دائیں طرف لیٹنے سے آرام آتا ہے.کمر میں درد اور جلن نیز دونوں کندھوں کے درمیانی حصہ میں گرمی کا احساس، ہاتھوں اور انگلیوں میں فالجی کیفیت اور چیونٹیاں رینگنے کا احساس، کہنیوں اور کندھوں کے جوڑوں میں جلن اور درد.فاسفورس میں قوت سامعہ بھی متاثر ہوتی ہے.آوازوں کی بازگشت سنائی دیتی ہے.چہرہ زرد، آنکھوں کے گرد نیلگوں حلقے ، جبڑے کی ہڈی میں درد اور سوزش اور منہ میں زخم جن میں خون بہنے کا رجحان ہو.عورتوں کو کپڑے دھونے کے بعد اعصابی درد شروع ہو جاتے ہیں.دانتوں میں بھی درد ہوتا ہے.مددگار دوائیں : آرسنگ ایلیم سیپا.لائیکوپوڈیم.سلیشیا.سپائی جیلیا.میگ فاس.دافع اثر دوائیں کافیاں نکس وامیکا طاقت: 30 سے 1000 تک اور شاذ کے طور پر ایک لاکھ
662
فائٹولا کا 663 152 فائٹولا کا PHYTOLACCA (Poke Root) فائٹولا کا ایک پودے کی جڑ سے تیار کی جانے والی دوا ہے جس کے پھل کو زیادہ مقدار میں کھا لیا جائے تو زہریلے اثرات پیدا ہوتے ہیں اور اس کی ابتدائی علامتیں قے ، دست اور سردرد کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں.فائٹولا کا بہت اہم دوا ہے.یہ اپنی بہت سی علامات کے لحاظ سے مرکزی سے ملتی ہے اسی وجہ سے اسے نباتاتی مرکزی یعنی پارہ کہا جاتا ہے.مرکزی کی تکلیفیں سردی اور نمی سے بڑھتی ہیں.رات کو تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے.فائٹو لا کا میں بھی کمر درد سردی اور نمی سے بڑھتا ہے اور جب مریض رات کو بستر میں گرم ہو تو درد میں اور بھی اضافہ ہو جاتا ہے.رات اس کے ہر مرض میں اضافہ کر دیتی ہے.مرکزی اور فائٹولا کا دونوں کا غدودوں کی بیماریوں سے گہرا تعلق ہے.فائٹولا کا مرکزی کے زہریلے اثرات کو دور کرتا ہے.انسانی جسم میں وہ حساس جگہیں جہاں ہڈی کے ساتھ جلد ملی ہوئی ہوتی ہے اور درمیان میں گوشت یا چربی کی موٹی یہ نہیں ہوتی وہاں چھلنے اور دکھن کا احساس فائٹولا کا اور مرکری دونوں میں پایا جاتا ہے.یوں کے دردوں میں بھی دونوں کا دائرہ اثر وسیع ہے.یوپی ٹوریم (Eupatorium) بھی الفلوئزا اور ہڈیوں میں شدید درد کے ساتھ چڑھنے والے بخاروں میں مفید ہے.لیکن ہڈیوں کی تکلیفوں میں مرکزی سب سے زیادہ نمایاں ہے.وہ بیماریاں جن میں ہڈیاں گلنے لگیں اور ناسور بن جائیں ان میں مرکزی سے بہت فائدہ
فائٹولا کا ہوتا ہے.664 فائٹولا کا اندرونی جھلیوں ، جلد اور گلے کے زخموں میں اور غدودوں میں جو سخت ہو جائیں اور پیپ بنے کا رجحان ہو، اچھا اثر دکھاتی ہے.بعض دفعہ فائٹولا کا کی مددگار کے طور پر ہسپر سلف یا سلیشیا بھی دینی پڑتی ہیں.اس میں ہپر سلف کی طرح گاڑھی چمٹنے والی بلغم بنتی ہے.فائٹولا کا آ تشک (Syphlis) کی اولین دوا ہے.آتشک کے پرانے زخموں اور خناق (Diphtheria) میں بھی مفید ہے.گنٹھیا اور بائی کے درد جو لمبے عرصہ سے موجود ہوں ، دائیں کندھے اور بازو میں اینٹھن ، بجلی کے کوندوں کی طرح لپکنے والا درد جو ایک مقام سے دوسرے مقام کی طرف حرکت کرے اور ٹخنوں اور پاؤں کے پنجوں میں درد ہوتو یہ فائٹولا کا کی علامت ہے.یہ ناک کے کینسر میں بھی مفید ہے.نزلہ اور کھانسی کے ساتھ آنکھوں میں سرخی اور گرم پانی ہے.روشنی سے زود حسی، آنکھوں میں ریت کی موجودگی کا احساس اور جلن، پوٹوں کے کنارے گرم، زبان چھلی ہوئی اور گلے میں گرم گولے کے پھنسے ہونے کا احساس اس کی علامات ہیں.فائٹولا کا کے مریض کو چکر بھی بہت آتے ہیں.بستر سے اٹھتے ہوئے کمزوری محسوس ہوتی ہے.سردرد پیشانی سے پیچھے کی طرف منتقل ہوتا ہے.آنکھوں اور کنپٹیوں پر بوجھ محسوس ہوتا ہے.بارش کے ساتھ سر درد میں اضافہ ہو جاتا ہے.اگر سر پر خارش ہو جس کے ساتھ ابھار اور کھرنڈ بن جائیں تو فائٹولا کا بھی اس کی ایک دوا ہوسکتی ہے.دودھ پلانے والی عورتوں کے لئے فائٹولا کا غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے.سینہ کے غدود بہت سخت اور زود حس ہو جائیں اور کینسر کا احتمال ہو تو فائٹو لا کا دینے میں تاخیر نہ کریں.فائٹولا کا کے علاوہ برائیو نیا، بیلاڈونا اور کو نیم بھی مفید ثابت ہوسکتی ہیں.بیلا ڈونا میں سختی کے ساتھ سرخی بھی ہوتی ہے اور برائیو نیا میں بغیر سرخی کے غدود سخت ہو جاتے ہیں.ذرا سی حرکت بھی نا قابل برداشت ہوتی ہے.برائیو نیا اور فائٹولا کا میں پتھر کی طرح
فائٹولا کا 665 سخت گلٹیاں بن جاتی ہیں.فائٹولا کا کی مریضہ کا دودھ کھٹا، زہر یلا اور پھٹا ہوا ہوتا ہے.اسے دودھ پلاتے ہوئے سخت تکلیف ہوتی ہے اور در دسارے جسم میں پھیلتا ہے.( کو نیم کا تفصیلی ذکر کو نیم کے باب میں دیکھیں.جن عورتوں میں دودھ کی کمی ہو یا دودھ بالکل ختم ہو جائے ان کے لئے بھی فائٹولا کا مفید ہے.حیض سے پہلے اور حیض کے دوران سینہ میں سوزش اور اکڑاؤ ہوتا ہے.سردی لگنے سے سینہ میں درد ہوتا ہے.ایسی عورتوں کا نزلہ سینہ کے غدودوں پر گرتا ہے اور وہاں تختی پیدا ہو کر سخت تکلیف ہوتی ہے.دودھ مکڑی کے جالے کی طرح دھاگے دار ہوتا ہے.اگر بچے کو دودھ پلاتے ہوئے ماں کو سج ہو جائے اور درد جسم کے تمام اعضاء میں پھیل جائے تو فائٹولا کا ہی دوا ہے.حیض جلد جلد ہو اور خون زیادہ آئے تو یہ بھی فائٹولا کا کی علامت ہے.عموماً ایسی عورتوں کے دائیں طرف بیضہ دانی میں درد ہوتا ہے.فائٹولا کا کے مریض کے معدہ میں چوٹ لگنے کا سا احساس ہوتا ہے.لیس دار رطوبت کی قے ہوتی ہے.متلی کے ساتھ در داور معدہ میں گرمی اور خونی بواسیر میں بھی یہ مفید ہے.فائٹولا کا بچوں کے دانت نکالنے کے زمانے کی تکلیفوں میں بڑی کارآمد ہے.دانت بہت زور سے بھینچے جاتے ہیں.زبان پر دانتوں کے نشان پڑ جاتے ہیں.فائٹولا کا کی تکلیفیں مرطوب اور سرد موسم میں، رات کے وقت اور حرکت کرنے سے بڑھ جاتی ہیں.خشک اور گرم موسم میں نیز آرام کرنے سے ان میں کمی ہو جاتی ہے.فائٹولا کا کی ایک قسم جو موٹاپے کے علاج میں بہت شہرت رکھتی ہے وہ فائٹولا کا بیری (Phytolacca berry) ہے.میں نے کئی مریضوں کو یہ استعمال کروائی ہے اور اس کے اچھے نتائج ظاہر ہوئے ہیں.اگر چہ یہ فیوکس (Fucus) کی طرح دل کے لئے زیادہ خطر ناک تو نہیں ہے لیکن بعض مریض جن کے دل کمزور ہوں اس دوا کے اثر سے دل کی کمزوری محسوس کرتے ہیں، ان کو فوری طور پر یہ بند کر وا دینی چاہئے.نیز جن مریضوں کا وزن کم کرنا مقصود ہوا نہیں دستور کے طور پر کریٹیکس مدر ٹیچر Crataegus) ) ضرور ساتھ استعمال کرانی چاہئے جو دل کو طاقت دیتی ہے.فیوکس موٹاپے کے خلاف
فائٹولا کا 666 زیادہ مؤثر ہے مگر اس میں بھی سخت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے.دل میں کمزوری کا احساس ہو تو اس کا استعمال فورا روک دینا چاہئے.ورنہ خطرہ ہوتا ہے کہ کسی وقت دل کا حملہ ہو جائے جو جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے.دافع اثر دوائیں : بیلاڈونا.میز بریم طاقت عموماً 30 سے 1000 تک حسب ضرورت ایک لاکھ طاقت بھی استعمال کی جاسکتی ہے.
پکرک ایسڈ 667 153 پکرک ایسڈ PICRICUM ACIDUM (Trinitrophenol) تیز ابی علامات رکھنے والے مریضوں کو عموماً سردی زیادہ محسوس ہوتی ہے اور گرمی سے سکون ملتا ہے.بعض مریضوں کو استثنائی طور پر گرمی زیادہ لگتی ہے اور ان کی بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے.انہیں ٹھنڈی سرد ہوا کا جھونکا بھلا محسوس ہوتا ہے.پکرک ایسڈ مؤخر الذکر مریضوں کی دوا ہے.ذہنی تھکاوٹ اور کمزوری دور کرنے کے لئے اسے نمایاں اہمیت حاصل ہے.ذہنی تھکاوٹ کے آثار بڑی عمر میں زیادہ تر اس وقت ظاہر ہوتے ہیں جب آرٹیر یوسکلر وسس (Arteriosclerosis) کا اثر شروع ہو یعنی مریض کی خون کی رگوں کے خول سخت ہو جائیں، لچک باقی نہ رہے اور خون کی شریانیں تنگ ہونے لگیں جس کی وجہ سے دماغ کو مناسب مقدار میں خون فراہم نہ ہو.اس کے برعکس عارضی طور پر ایسی ہی علامتیں برین فیگ (Brain Fag) میں بھی ملتی ہیں.برین فیگ اس وقت ہوتا ہے جب رگوں میں تشیخ کی وجہ سے خون کا دوران کم ہو جائے.برین فیگ کا تعلق عموماً معدہ کی خرابی سے ہوتا ہے.آرٹیر یوسکلر وسس کے مریض کا معدہ خراب ہو جائے تو برین فیگ اور بھی زیادہ ہونے لگتا ہے.برین فیگ یادداشت کی ایسی وقتی کمزوری کو کہتے ہیں جس میں مریض کی فوری یادداشت اچانک جواب دے جاتی ہے حتی کہ چند منٹ پہلے پانی پیا ہو یا کھانا کھایا ہو تو بھول جاتا ہے اور اپنے عزیزوں پر ناراض ہوتا ہے کہ پانی یا کھانا کیوں نہیں دیتے.کوئی کام کہے گا جو کر بھی دیں تو بار بار یاد دہانی کرائے گا کہ میرا وہ فلاں کام کر دو.کسی کا چہرہ دیکھ کر بھول جائے گا.تازہ یادداشت کا خراب ہو جانا اور بہت دور ماضی کی یادداشت کا زندہ رہنا
پکرک ایسڈ 668 برین فیگ کی خاص علامت ہے.پکرک ایسڈ میں برین فیگ کی علامت نمایاں ہوتی ہے.آرٹیریو سکر وس کے نتیجہ میں ذہنی کمزوری مزمن ہو جائے تو اس کا کوئی علاج نہیں ہے لیکن دوروں کی شدت میں کمی یا زیادتی ہوتی رہتی ہے.اگر برین فریگ کا تعلق آرٹیر ہو سکلر وسس کی بیماری سے نہ ہو بلکہ دوسری عارضی وجوہات مثلاً کسی زہر کے خون میں سرایت کر جانے کی وجہ سے ہو تو صحیح دوا سے اس کا فوری علاج ہو سکتا ہے.پکرک ایسڈ کا برین فیگ آرٹیر یوسکلر وسس سے بہت ملتا ہے.قریبی یادداشت مٹ جانے کے دورے بار بار ہوں تو یہ دوا بہت اچھی ہے.سردرد میں پکرک ایسڈ اس وقت کام آتا ہے جب لمبے غم وفکر اور زیادہ کام کے نتیجہ میں ذہن پر بہت دباؤ ہو جولمبا عرصہ چلے اور پھر سر درد کا دورہ ہو.بعض بہت محنتی اور امتحان سے خوفزدہ رہنے والے طلباء کو مستقل سردرد کی شکایت ہو جاتی ہے.ایسے درد میں پکرک ایسڈ کو بہت اہمیت حاصل ہے.وہ سر درد جو لمبی محنت اور دماغ سوزی کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ آ کر ٹھہر جائیں خواہ وہ شدید ہوں یا نہ ہوں، ان میں پکرک ایسڈ اچھا کام کرتی ہے.پکرک ایسڈ کے مریض کو نیند سے آرام آتا ہے.پکرک ایسڈ میں آنکھوں کے عضلات میں کمزوری واقع ہوتی ہے اور بوجھ محسوس ہوتا ہے.آنکھوں میں ریت اور خشکی کا احساس اور بھاری پن نمایاں ہوتے ہیں.پکرک ایسڈ میں روٹا کی طرح باریک کام کرنے سے آنکھوں میں تکلیف ہو جاتی ہے.بار یک تحریر پڑھنے اور زور لگانے سے آنکھوں میں درد ہوتا ہے.آنکھوں کے اردگرد کے عضلات میں کمزوری پیدا ہو جائے تو روز مرہ کے کام کاج میں رکاوٹ ہونے لگتی ہے.پکرک ایسڈ اس کمزوری کو دور کرنے میں اچھی دوا ہے اور اس کو روٹا کے ہم پلہ قرار دیا جاتا ہے.اونو سموڈیم (Onosmodium) میں بھی بار یک تحریر پڑھنے سے سردرد ہو جاتا ہے لیکن اس میں بیماری کی وجہ کچھ اور ہوتی ہے البتہ نتیجہ کے لحاظ سے دونوں دوائیں ملتی ہیں.اونوسموڈیم مردوں اور عورتوں کی جنسی کمزوریوں میں اچھی بیان کی جاتی ہے..
پکرک ایسڈ 669 خصوصاً نو جوانوں کی بعض کمزوریوں کو دور کرنے میں اسے مؤثر بیان کیا جاتا ہے.پکرک ایسڈ کے مریضوں میں یورک ایسڈ اور فاسفیٹ کی زیادتی اور سلفیٹ کی کمی ہوتی ہے.پیشاب کے ٹیسٹ سے اس دوا کی نشاندہی ہو جاتی ہے.بہت سی ایسی دوائیں ہیں جن میں نچلے دھڑ کی بیماریوں کا ذکر ملتا ہے اور بعض اوپر کے دھڑ پر اثر انداز ہوتی ہیں.ہومیو پیتھک پکرک ایسڈ نچلے دھڑ کے بوجھل پن کو دور کرتی ہے.ریڑھ کی ہڈی اور ٹانگوں میں جو کمزوری محسوس ہوتی ہے اس کے لئے کو نیم اور فاسفورس بھی مفید ہیں.غم کے بداثرات اور جذبات کے بہیجان کے نتیجہ میں سر درد کے علاوہ جو علامات بھی پیدا ہوتی ہیں ان میں پکرک ایسڈ بہت مفید ہے.اس کے علاوہ ایمبراگر یسا، اگنیشیا، نیٹرم میور، ایسڈ فاس اور سلیشیا بھی غم کے بداثرات کو دور کرنے میں نمایاں مقام رکھتی ہیں.ان کی پکرک ایسڈ سے پہچان مشکل نہیں ہے.پکرک ایسڈ کیل مہاسوں کے لئے بھی مفید ہے.جولوگ خون کی کمی کا شکار ہوں اور جسمانی اور ذہنی محنت سے تھک چکے ہوں ان کے لئے بھی بہت مفید ہے.پکرک ایسڈ میں سر درد کو لیٹنے اور سر کو کس کر باندھنے سے آرام آتا ہے لیکن حرکت سے، جھکنے سے اور دماغی محنت سے درد میں اضافہ ہو جاتا ہے.کھلی اور ٹھنڈی ہوا میں آرام محسوس ہوتا ہے لیکن مرطوب موسم میں درد بڑھ جاتا ہے.طاقت: 30 سے 200 تک
670
پائیپر ٹائیگر 671 154 پائیپر ٹائیگر PIPER NIGRUM (Black Pepper) (سیاہ مرچ) یہ کالی مرچ سے تیار کردہ دوا ہے.چھینکوں کی بیماری میں جہاں دیگر معروف دوائیں کام نہیں کرتیں میں نے اسے مفید پایا ہے.یہ خصوصاً ان لوگوں کو بہت فائدہ دیتی ہیں جو کالی مرچ سے زود حس ہوتے ہیں.انہیں کسی چیز پر کالی مرچ چھڑ کنے سے ہی چھینکوں کا دورہ شروع ہو جاتا ہے.اس کے علاوہ جو لوگ کالی مرچ سے خاص طور پر زود حس نہ ہوں ان کے لئے بھی مختلف وجوہات پر چھینکوں کے آنے کا رجحان روکنے میں یہ مفید ہے.پائیپر ٹائیگر کا مریض مزاجی لحاظ سے اداس اور نمکین رہتا ہے.کسی کام پر پوری توجہ نہیں رغمگین دے سکتا.اس کے خیالات میں یکسوئی نہیں رہتی.ذراسی آواز پر چونک اٹھتا ہے.آنکھ کے ڈیلوں میں جلن اور شدید درد جیسے پھٹ جائیں گے، اس کے ساتھ ناک میں خارش اور چھینکیں بھی آئیں تو پائیپر ٹائیگر استعمال کرنی چاہئے.اس کے مریض میں نکسیر پھوٹنے کا رجحان بھی ہوتا ہے.ہونٹ خشک رہتے ہیں.سر بوجھل اور کنپٹیوں پر دباؤ پڑتا ہے.گلے اور ٹانسلز (Tonsils) میں درد اور جلن کا احساس ہوتا ہے.پیاس لگتی ہے.پیٹ ہوا سے بھرا رہتا ہے.قولنج یعنی استریوں سے تشبیح کا دورہ بھی پڑ جاتا ہے.مثانے اور پیشاب کی نالی میں جلن ہوتی ہے.مثانہ پھولا ہوا اور بھرا ہوا محسوس ہوتا ہے.پیشاب مشکل سے خارج ہوتا ہے.بار بار حاجت محسوس ہوتی ہے لیکن پیشاب نہیں آتا.پائیپر ٹائیگر اس میں بہت مفید ہے.اس کی ہر تکلیف میں جلن اور دباؤ کا عمومی
پائیپر ٹائیگر احساس رہتا ہے.672 پائیپر ٹائیگر میں دل کی علامات بھی پائی جاتی ہیں.سینے میں درد اور درد سے کھانسی اٹھتی ہے.دل تیز دھڑکتا ہے.سانس لینے میں دقت ہوتی ہے.دل کے مقام پر درد کا احساس ہوتا ہے.بعض دفعہ نبض سست اور رک رک کر چلتی ہے.بعض دفعہ دودھ پلانے والی ماؤں میں بچے کی ضرورت سے بہت زیادہ دودھ پیدا ہونے لگتا ہے.ان کے لئے یہ بہت مفید دوا ہے.اس کا استعمال دودھ کو کم کر دے گا.طاقت 30 تک
673 155 پلاٹینم PLATNUM (Platina) پلاٹینم مغرور عورتوں کی بیماریوں میں بہت شہرت رکھتی ہے لیکن اس کا استعمال نسبتا کم ہوتا ہے کیونکہ اس مزاج کی عورتیں پرانے زمانے میں شاید زیادہ ہوتی تھیں.اب زمانہ بدل گیا ہے اس لئے اس قسم کی متکبر، سر چڑھی عورتیں جو اپنے آپ کو ہر ایک سے اونچا سمجھیں کم دکھائی دیتی ہی.امیر خاندان کی عورتیں جو بچپن سے ہی منہ میں سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئی ہوں ،خود کو ہر شے سے برتر سمجھتی ہوں.ایسی عورتیں پلاٹینم کی مزاجی تصویر ہوتی ہیں.پلاٹینم سونے سے بھی بہت زیادہ قیمتی دھات ہے.عجیب بات ہے کہ پلاٹینم کا زہر امارت کا فرضی نشہ چڑھا کر غریب عورتوں کو بھی نخوت اور تکبر کا پیکر بنادیتا ہے.پلاٹینم کا مریض خود کو بہت اعلیٰ وارفع سمجھتا ہے.چھوٹی سی بات سے بہت چڑ جاتا ہے اور دوسروں کو حقیر سمجھتا ہے.اپنی بہت اہمیت کی وجہ سے ہر وقت سمجھتا ہے کہ اس کی جان اور بدن کو خطرہ ہے.یہ ذہنی کیفیت جسمانی حالت میں بدل جاتی ہے.اسے ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ اسے کچھ ہو جائے گا.پلاٹینم میں دل کی دھڑکن تیز ہو جاتی ہے،اعضاء کانپنے لگتے ہیں،موت کا خوف بہت جلد گھیر لیتا ہے، مذہبی جنون بھی پایا جاتا ہے اور مریضہ سمجھے لگتی ہے کہ وہ کوئی اور ہی مخلوق ہے.یہ باتیں پاگل پن کی علامت ہیں اور مزید پاگل پن کی طرف لے جاتی ہیں.پلاٹینم میں جنسی رجحانات ہائیوس سے ملتے ہیں.تشیخ بھی پایا جاتا ہے اور یہ تشخجی کیفیت رفتہ رفتہ بڑھتی جاتی ہے اور عضلات کو متاثر کرتی ہے.جلدسن ہو جاتی ہے.
پلاٹینم 674 خون کا سیلان سیاہی مائل ہوتا ہے.ناک سے سیاہ خون لوتھڑوں کی صورت میں نکلتا ہے.ناک کی جڑ میں بھی تشیخ ہوتا ہے جو بہت تکلیف دہ ہوتا ہے.ماؤف جگہ شکنجہ میں جکڑی ہوئی محسوس ہوتی ہے.چہرے پر اعصابی درد ہوتا ہے اور ہڈیوں میں بے حسی کا احساس ہوتا ہے.اگر بیضہ الرحم میں سوزش ہو اور لمبا عرصہ چلنے والا بانجھ پن بھی پایا جاتا ہو، جنسی تحریک بہت جلد ہوتی ہو اور بظاہر اس کی کوئی وجہ معلوم نہ ہو سکے تو صرف اس علامت کے ساتھ پیدا ہونے والے بانجھ پن میں پا نیلم کو یاد رکھنا چاہئے.اگر بانجھ پن کا تعلق بہت زیادہ بہنے والے لیکوریا سے ہو تو پھر بوریکس دوا ہے.پلاٹینم میں رحم کی دیگر خرابیوں کی علامتیں بھی ملتی ہیں.رحم کی تختی، گانٹھیں بنے کا رجحان ، رحم کا نیچے کی طرف لٹک جانا اور رحم سے بے تحاشا خون بہنا بھی پلاٹینم کی علامات ہیں.خون کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے اور لوتھڑے بھی بنتے ہیں.حیض کا خون بہت جلد شروع ہو جاتا ہے.یہ علامت تو بہت عام ہے لیکن پلاٹینم کی مزاجی علامات ساتھ موجود ہوں تو یہ بہت جلد کام کرے گی.پلاٹینم میں معدے کی بیماریاں بھی ملتی ہیں.ہوا بکثرت بنتی ہے.متلی بھی ہوتی ہے.مریض بے قراری اور بے چینی محسوس کرتا ہے.اجابت رک رک کر اور کم آتی ہے اور بہت تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے.پلاٹینم میں شام کے وقت اور بیٹھنے سے یا کھڑے ہونے سے تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.حرکت کرنے اور چلنے پڑھنے سے کی محسوس ہوتی ہے.دافع اثر دوائیں: پلسٹیلا طاقت 30 یا مزاجی اصلاح کے لئے اونچی طاقتیں.
675 156 پلم میٹیلیکم PLUMBUM METALLICUM سکہ یا سیسہ (Lead) کو لاطینی زبان میں پلمبم کہا جاتا ہے.گھروں کی آرائش کے لئے استعمال ہونے والے رنگ و روغن (Paint) میں سکہ کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے اور اگر روغن خشک بھی ہو گیا ہو تو فضا میں سکہ کے ذرات معلق رہتے ہیں.جن لوگوں کو سکہ سے الرجی ہوتی ہے اگر وہ ایسے کمرے میں داخل ہوں تو ان پر فوڈ الرجی کا اثر ظاہر ہوگا اور پیٹ میں شدید درد کا دورہ پڑے گا جیسے پیٹ کو کسی نے شکنجہ میں جکڑ دیا ہو یا مٹھی میں مروڑ دیا ہو.اگر پینٹ سے الرجی نہ بھی ہو اور ویسے ہی شدید پیٹ درد میں یہی علامت پائی جائے تو پلیسم مفید ثابت ہوتی ہے.پلمبم کی ایک خاص علامت مسوڑھوں میں ملتی ہے.دانتوں کے نیچے مسوڑھوں پر ایک نیلی سی لکیر آجاتی ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ گہری ہو جاتی ہے.پلم اعصاب کے عارضی تشیع کی بہترین دوا ہے.اس کے علاوہ اگر ہاتھ پر فالج کا اثر ظاہر ہو، کلائی سکٹر کر لٹک جائے یا بہت زیادہ لکھنے کی وجہ سے کلائی بے کار ہو جائے، اگر ایسے مریض میں پلیمم کی بنیادی علامتیں موجود ہوں تو پلم حیرت انگیز سرعت سے اثر دکھاتا ہے.پلم کے مریض کی زندگی اکثرست رفتار ہوتی ہے.ذہن اور اعصاب پر ہلکا سا فالجی اثر دکھائی دیتا ہے.مریض سے کچھ ہو چھا جائے تو وہ کچھ دیر کے بعد جواب دے گا یا بات کو دہرائے گا.اگر مریض بعد از وقت ردعمل دکھائے تو وہاں پلمیم خصوصی دوا ہے.لیکن یہ فرق مد نظر رکھنا چاہئے کہ بعض اوقات کوئی شخص خیالات میں کھویا ہوا ہوتا ہے اور ہلکی سی آواز سن کر اس کا جواب نہیں دیتا، بعد میں ذہن میں نقش ہونے والا وہ پیغام
676 اسے جگاتا ہے تو پھر وہ پوچھتا ہے کہ کیا بات تھی؟ یہ بالکل الگ بات ہے.پلم کا مریض ہمیشہ ہر چیز میں یہی رد عمل دکھاتا ہے حتی کہ اسے درد کا احساس بھی کچھ دیر کے بعد ہوتا ہے.اس لئے ایسے مریض کے لئے خطرہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو زخمی نہ کرلے کیونکہ چھنے یا کاٹنے والی چیز اپنا کام کر جائے تو اسے ذرا دیر بعد ہی پتہ چلے گا کہ کیا حادثہ گزرا ہے.یہ پلیم کے ہر مریض میں نہیں ہوتا، صرف ان میں ہوتا ہے جو مزا جا سرتا پا پیہم کے مریض ہوں.پلمبم کا مریض بات سمجھتا تو ہے لیکن ذہن پر اس کا نقش جمانے میں اسے کچھ وقت لگتا ہے.جلد کے درد محسوس کرنے والے اعصاب دیر میں پیغام پہنچاتے ہیں.بعض اوقات احساس کا آہستہ آہستہ مدہم ہونا اعصاب کے مستقل سن ہونے میں تبدیل ہو جاتا ہے.جلد بے حس ہو جاتی ہے، پاؤں اور دیگر اعضاء وغیرہ میں آہستہ آہستہ جان اور احساس کی طاقت مٹتی چلی جاتی ہے.جب بیماری بہت بڑھ جائے تو مریض جسمانی طور پر کمزور ہوتے ہوتے آخر ہڈیوں کے گرد لپٹا ہوا جلد کا ایک تھیلا سا بن جاتا ہے.یمیم کی خاص علامت یہ ہے کہ جس عضو میں درد ہو وہ سوکھ جائے گا.یہ علامت بعض دوسرے فالجوں میں بھی ملتی ہے.فالجی بخار مثلاً ٹائیفائیڈ وغیرہ میں اگر کسی خاص عضو پر حملہ ہوا ہو تو وہ حصہ کمزور ہو جاتا ہے لیکن درد کی وجہ سے نہیں.ٹائیفائیڈ بعض دفعہ ٹانگوں یا بازوؤں کو مفلوج کر دیتا ہے لیکن ساتھ درد نہیں ہوتا جبکہ پلم کا فالج جس عضو میں ہو اس عضو میں درد بھی ہوتا ہے.جسم کے جس عضو میں بھی فالجی اثر شروع ہو وہ درد بھی ضرور کرتا ہے.ایسی صورت میں یم کوفوراً استعمال کرنا چاہئے.عرق النساء میں بھی یہ مفید ہے.اگر پلم کی دیگر علامات بھی پائی جائیں تو سب سے پہلے یہی دوا استعمال کروانی چاہئے.جہاں بھی فالج کے اثر کے تحت اعضاء لٹک جائیں، درد سے بھر جائیں اور ان میں کمزوری واقع ہو جائے تو پلمبم مؤثر ہوگا.پیانو بجانے والوں کو اکثر انگلیوں کے جوڑوں کا فالج ہو جاتا ہے اور انگلیاں بے کار ہو کر لٹک جاتی ہیں، ان کے لئے دو دوا ئیں بہت مشہور ہیں ایک لیمیم اور دوسری کیورارے (Curare).مؤخر الذکر ایک خطرناک زہر ہے جس کا فالج سے خاص طور پر
677 تعلق ہے.رسٹاکس بھی فالج کے بسرعت ظاہر ہونے والے اثرات میں بہت اچھی دوا ہے.اگر جلد استعمال کی جائے تو فوری فائدہ دیتی ہے.لیکن اگر دیر ہو جائے تو سلفر کے بغیر پورا فائدہ نہیں دیتی کیونکہ رسٹاکس نسبتاً کم گہری اور مزمن دوا ہے.ہاں سلفر کے ساتھ ادلنے بدلنے پر اس کی طاقت بڑھ جاتی ہے.پلمبم اس کے مقابلہ پر زیادہ گہری اور مزمن ہے.میں رسٹاکس کو سلفر کے ساتھ ادل بدل کر دیتا ہوں کیونکہ سلفر دفاعی رد عمل کو جگا دیتی ہے اور رسٹاکس فالجی اثرات کو دور کرتی ہے.اس نسخہ سے پولیو کے بہت پرانے مریضوں کو بھی اللہ کے فضل سے بہت نمایاں فائدہ ہوا.رسٹاکس کا فالج سے بہت گہرا تعلق ہے.ہومیوڈاکٹر عموماً پرانے فالجوں میں رسٹاکس کو استعمال نہیں کرتے حالانکہ یہ بہت کارآمد دوا ہے.شرط یہ ہے کہ سلفر سے ادل بدل کر دیں.فلم کے مریض کی قبض بہت سخت ہوتی ہے.اجابت گول شکل میں ہوتی ہے جس کا اخراج بہت مشکل سے ہوتا ہے.کئی دفعہ زخم بن جاتے ہیں اور فضلہ نکالنے کے لئے آلات استعمال کرنے پڑتے ہیں.اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انتڑیوں کے گرد بار یک عضلات کی جھلی ماؤف ہو جاتی ہے اور انتڑیوں میں فضلہ کو آگے دھکیلنے کی طاقت نہیں رہتی.یہ فالجی کیفیت آہستہ آہستہ بڑھتی ہے اور قبض گہری اور پرانی ہوتی جاتی ہے.ایسی قبض میں صبر کے ساتھ کچھ عرصہ تک پہم دیتے رہنا چاہئے.دس پندرہ دن کے اندر پورا اثر ظاہر ہوگا کیونکہ ایسی بیماریاں جو آہستہ آہستہ آتی ہیں ان کا علاج بھی نسبتا آ ہستگی سے ہوتا ہے.لیکن بعض اثرات فوری بھی ہوتے ہیں مثلاً پیٹ میں مروڑ اور شیخ ہو تو فوری اثر دکھائے گی.زہر کے وہ اثرات جو فوراً پیدا ہوں ہومیو پیتھک طریق پر اسی زہر کی ہو میو طاقت سے فوری طور پر دور ہو سکتے ہیں.پلمیم کے مریض کے مثانے میں بھی فالجی اثر کے تحت پیشاب دھکیلنے کی قوت کم ہو جاتی ہے اور پیشاب رک جاتا ہے اور مثانہ میں ہی اکٹھا ہوتا رہتا ہے پھر قطرہ قطرہ بہنے لگتا ہے.اس بیماری کا تعلق پر اسٹیٹ سے نہیں بلکہ مثانے کے فالج سے ہے.اس کی علامتیں مختلف ہیں.ضروری نہیں کہ ایک ہی وجہ سے پیشاب بند ہو.بچے کی پیدائش کے بعد پیشاب رکے تو
678 کا سٹیکھ (Causticum) اول دوا ہے.اپریشن کے بعد یہ کیفیت ہو تو سٹر نشیم کارب (Strontium Carb) دوا ہوگی.پلم بھی مفید ہو سکتی ہے.اگر اچانک صدمہ پہنچنے.گردوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو تو پلم ان میں دوبارہ حرکت پیدا کر دیتی ہے.ہلم کی ایک علامت یہ ہے کہ جو چیز کھائی جائے وہ معدہ میں جا کر کھٹاس میں تبدیل ہو جاتی ہے اور شدید الٹیاں آتی ہیں.معدہ میں موجود لعابوں اور رطوبتوں کے اثر سے کھا نا عموماً تین گھنٹے کے اندر اندر ہضم ہو کر انتڑیوں میں منتقل ہو جانا چاہئے.اگر معدہ اس عرصہ میں خوراک کو باہر نہ نکالے تو خوراک معدہ میں ہی گلنے سڑنے لگتی ہے.اس سے تیزابیت پیدا ہوتی ہے اور گندے بدبودار ڈکار آنے لگتے ہیں.انتڑیوں کی حرکت کا نظام ست پڑ جائے تو معدہ میں کھٹاس پیدا ہوتی ہے.اگر یہ سٹی قائمی اثرات کی وجہ سے ہو تو ٹالہم بہترین دوا ہے.ہلم میں سیاہی مائل الٹیاں آتی ہیں یا سبز رنگ کا مواد نکلتا ہے جس میں بعض دفعہ خون کی آمیزش بھی ہوتی ہے.جگر اور معدے کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے.معدہ میں بوجھ اور گھٹن کا احساس ہوتا ہے.ناف اندر کمر کی طرف کھینچتی ہے.Progressive Muscular Dystrophy یعنی آہستہ آہستہ بڑھنے والی عضلاتی کمزوری اور آہستہ آہستہ بڑھنے والے فالج میں پلمبم کو اچھی شہرت ہے.دو تین قسم کی دوائیں ایسی بیماریوں میں کام آ سکتی ہیں.اوپیم اور کالی فاس بھی مفید ہیں.کالی فاس کو آہستہ آہستہ اونچی طاقت میں بڑھا کر دینا چاہئے.Progressive Muscular Dystrophy میں دماغ کے مرکزی حصہ میں وہ خلیے مرنے لگتے ہیں جو عضلات اور ان کی حرکت کی صلاحیت کو کنٹرول کرتے ہیں.اس بیماری کا کوئی شافی علاج نہیں ہے.ایسے مریض آہستہ آہستہ کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں اور اکثر جوانی کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی وفات پا جاتے ہیں.اگر وہ زندہ بھی رہیں تو سخت کرب ناک زندگی گزارتے ہیں.چونکہ یہ بیماری موروثی طور پر خون میں شامل ہوتی ہے اس لئے بعض دفعہ سب بچے اس کا شکار ہو سکتے ہیں.اس کے علاج میں قطعی کامیابی کبھی
679 سننے میں نہیں آئی مگر ایسے مریضوں کو کسی حد تک نسبتی فائدہ ضرور پہنچتا ہے.اگر دل کی دھڑکن کبھی کبھی اچانک تیز ہو جائے اور تشخجی کیفیت بھی ہو تو اس کے لئے پلم اچھی دوا ہے.اگر دل اچانک مٹھی میں بند ہونے کا احساس ہو تو کیکٹس گرینڈی فلورا بہترین دوا ہے.پلمیم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دھوکہ دہی اور بے ایمانی کرنے والوں کے لئے شفا کا اثر رکھتی ہے.اگر یہ بات درست ہے تو یہ ساری دنیا میں کثرت سے استعمال ہونی چاہئے.گردوں کی لمبا عرصہ چلنے والی بیماریوں میں پہم فائدہ مند ہے اور اگر پیشاب میں البیومن اور شوگر آ رہی ہو تو اس کا بھی اچھا علاج ہے.گردوں کی اندرونی جھلیوں پر بھی اس دوائی کا اثر ہوتا ہے.یہ دونوں اثرات اگر چہ الگ الگ وجوہات سے تعلق رکھتے ہیں لیکن پیشاب میں اکٹھے ملتے ہیں.پاہیم کی علامتیں اوپیم سے بھی ملتی ہیں.ایو پلیسی (Apoplexy) میں اچانک خون کا رجحان سر کی طرف ہو کر رگ پھٹ جائے، چہرہ سرخ ہو اور آنکھ کی پتلیاں پھیل جائیں تو اکثر یہ علامات موت پر منتج ہوتی ہیں.اگر شروع میں ہی اونچی طاقت میں آرنیکا اور اوپیم دے دی جائیں تو بہت مفید ثابت ہوتی ہیں.پہلمم کے مزاجی مریضوں میں اسے بھی اونچی طاقت میں دینا ضروری ہوتا ہے.دونوں کا اثر ایک ساتھ ظاہر ہوتا ہے.ڈاکٹر کینٹ کا کہنا ہے کہ اوپیم سے علاج شروع کرنا چاہئے، ہم بعد میں دینی چاہئے.یہی بات درست ہے.اس بیماری کی اول مشابہت اوپیم سے ہی ہے.دو اور دوائیں بھی اپو پلیکسی میں بہت مفید سمجھی جاتی ہیں.اگر جگہ جگہ سے سرخ خون کا جریان ہوتو فاسفورس کام آئے گی.ایلیو مینا بھی اس بیماری کے علاج میں اچھی شہرت رکھتی ہے.شام کے وقت یا رات کو ٹانگوں میں دوروں کی شکل میں درد اٹھے جسے حرکت سے یا دبانے سے آرام آئے تو ہمیم ایک امکانی دوا ہے.بجلی کے کوندوں کی طرح درد کی
680 لہریں اٹھیں تو یہ بھی پلمبم کی ایک علامت ہے جو کاسٹیکم اور کولو فائیلم میں بھی پائی جاتی ہے.سردی گرمی کے لحاظ سے پیمیم کا عمومی مزاج سورا ئینم سے ملتا ہے یعنی بہت ٹھنڈا.مریض گرمیوں میں بھی اپنے آپ کو لپیٹ کر رکھتا ہے.آرنیکا کی طرح سرگرم رہتا ہے اور خون جمنے کا رجحان ہوتا ہے.پاؤں کی انگلیوں کے درمیان اکثر چھالے بن جاتے ہیں، ایسے چھالوں کے لئے پلمبم کے علاوہ سلفر بہت مفید ہے.اگر ہاتھوں یا پاؤں کی انگلیوں میں گینگرین ہو اور پاؤں پر گئے پڑ جائیں تو ان میں بھی پلمبم اگر مزاجی ہو تو اچھا کام دکھائے گی.زبان کے نیچے غدود کی سوزش میں بھی مفید ہے.جسم کو شدید جھٹکے لگنے اور دندل پڑنے کا رجحان ہو ، نرخرے اور غذا کی نالی میں فالجی اثرات نمایاں ہوں ، غلط نگلنے کا رجحان ہو اور پانی یا خوراک سانس کی نالی میں یا اوپر ناک میں چلے جائیں تو یہ علامتیں اور فالجی اثر والی دواؤں کی طرح پلیم میں بھی ملتی ہیں.پلم میں کبھی کبھی پیٹ کا شدید درد ہذیان بکنے کے رجحان میں تبدیل ہو جاتا ہے اور گلے سے درد کا گولہ دماغ کی طرف جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے.بال بالکل خشک ہو جاتے ہیں، آنکھ کی پتلی سکڑ جاتی ہے اور آنکھیں زرد ہو جاتی ہیں.بعض اوقات اچانک بے ہوشی طاری ہو جاتی ہے اور نظر ختم ہو جاتی ہے.چہرے کا رنگ زرد، گال مرجھائے ہوئے اور جلد چکنی اور چمکیلی سی ہو جاتی ہے اور گہرے بھورے داغ پڑ جاتے ہیں.آتا ہے.ہلم میں بیماریاں رات کو اور حرکت کرنے سے بڑھ جاتی ہیں اور دبانے سے آرام دافع اثر دوائیں: ایلیو مینا.پٹرولیم.پلاٹینم طاقت: 1000-200-30 سی ایم (CM)
سورا ئینم 681 157 سورائیم PSORINUM (Scabies Vesicle) پرانے سورائس (Psoriasis) کے نتیجہ میں جلد پر ابھرنے والے فاسد مادوں سے تیار کی جانے والی دوا کا نام سورائینم ہے.سورائینم بہت گہرا اور وسیع اثر رکھنے والی دوا ہے.بیماریوں میں اسے سلفر سے مشابہ مگر گرمی سردی کے احساس میں بالکل الٹ قرار دے سکتے ہیں.سلفر کا مزاج سخت گرم اور سور ائینم کا مزاج سخت ٹھنڈا ہوتا ہے.اگر کسی مریض کی تمام علامتیں سلفر کی ہوں لیکن مریض ٹھنڈا ہو تو سلفر کی بجائے سورائینم دوا ہو گی.سلفر اور سورائینم جلد اور غدودوں پر بہت گہرا اثر کرنے والی دوائیں ہیں.دونوں میں مریض کے اخراجات سخت متعفن ہوتے ہیں اور جسم گندہ اور میلا میلا سا رہتا ہے جیسے عرصہ سے غسل نہ کیا ہو.انتہائی سنگین نوعیت کی جلدی امراض جو سخت دواؤں کے استعمال سے دب کر انتڑیوں اور اندرونی جھلیوں پر اثر انداز ہوں ان میں سلفر اور سورا ئینم دونوں ہی اولین اہمیت کی حامل ہوتی ہیں.ان امراض کی علامتیں بہت حد تک مشترک ہیں.مگر سردی گرمی کا فرق بہت نمایاں ہے.سورا ئینم سردی گرمی کی علامت سے بے نیاز بعض ایسی خطرناک بیماریوں میں بھی کام آتی ہے جن کا سلفر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا مثلاً جانوروں کے سینگوں کی جڑ میں کینسر ہو جو بہت خطرناک ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں جانور چند دن میں دم تو ڑ دیتا ہے تو ایسے جانوروں کو بارہا سورائینم 1000 کی ایک ہی خوراک اللہ تعالیٰ کے فضل سے فوری شفا عطا کرتی ہے.حالانکہ اس بیماری کو لا علاج بتایا جاتا ہے.سورا ئینم کا مریض سخت ٹھنڈا ہوتا ہے اور لحاف لینا چاہتا ہے لیکن بستر میں ذرا گرم ہو
سورائینم 682 تو خارش شروع ہو جاتی ہے.سلفر سے اس جزوی مشابہت کے باوجود ان کے مزاج الگ الگ ہیں اور پہچان بہت نمایاں ہے.سورا ئینم کی ایک علامت ایسی ہے جو کسی اور دوا میں موجود نہیں اور سلفر کا تو اس سے دور کا بھی تعلق نہیں وہ یہ کہ بعض دفعہ نو جوان بچوں کے سر کے بال بکثرت سفید ہونے لگتے ہیں اور متعدد لیں سفید ہو جاتی ہیں تو اس میں سوراٹینم سے بہتر دوا میرے علم میں نہیں.سورا نینم ایک ہزار طاقت میں ہفتہ وار استعمال کرنے سے کچھ عرصہ کے بعد ہی جڑوں سے سیاہ بال نکلنے لگتے ہیں.بالوں کا اوپر کا حصہ جو سفید ہو چکا ہو وہ تو کال نہیں ہوتا لیکن نیچے سے اگنے والا بال کالا ہوتا ہے.زندگی کے عام دستور کے مطابق بڑی عمر میں جو بال سفید ہوتے ہیں معلوم نہیں ان پر سورا ئینم اثر انداز ہوتی ہے یا نہیں.شاذ صورتوں میں دیکھا گیا ہے کہ بڑھاپے کی عمر کو پہنچ کر ایک بار پھر کالے بال اگنے لگتے ہیں.میں نے خود ایسی خواتین دیکھی ہیں جن کے بال بڑی عمر میں پہنچ کر دوبارہ کالے ہو گئے.خدا تعالیٰ ہی اس نظام کو بہتر طور پر جانتا ہے.لیکن اگر کوئی ہومیو پیتھ ایسی تیر بہدف دوا معلوم کر لے جو ہر بوڑھے کے سفید بالوں کو کالا کر دے تو وہ دنیا کا امیر ترین آدمی بن سکتا ہے.آرنیکا اور سورائیم کو مختلف طاقتوں میں ملا کر دینے کا تجربہ کرنا ایک صلائے عام ہے.ہو سکتا ہے ٹھنڈے مزاج کے بوڑھوں میں یہ نسخہ کارگر ثابت ہو.سورا ئینم کی جلدی امراض گریفائٹس سے بھی مشابہ ہیں.دونوں کے ایگزیما میں زخموں پر کھرنڈ آ جاتے ہیں جن کی نچلی تہوں سے بد بودار پیپ نکلتی ہے اور زخم از سرنو تازہ ہو جاتے ہیں.سورائینم میں زخموں کی بد بو گریفائٹس اور دیگر دواؤں کے مقابل پر بہت نمایاں ہوتی ہے.یہ بو نا قابل برداشت ہوتی ہے، زخموں میں سخت خارش ہوتی ہے اور کھجلانے پر خون بہنے لگتا ہے.جلد میلی میلی اور خشک سی ہوتی ہے.تمام جسم پر کھرنڈ والے ابھار بن جاتے ہیں اور زخم جلد مندمل نہیں ہوتے.سور ایٹم میں آنکھوں کے چھپر متورم اور چسکے ہوئے ہوتے ہیں.پیوٹوں کے.کنارے سرخ ہو کر سوج جاتے ہیں.یہ علامت اور بھی بہت دواؤں میں پائی جاتی ہے.
سورا ئینم 683 اگر بیماری بہت بڑھ جائے اور آنکھ کی شکل بگڑنے لگے تو ایلیو مینا اور ایپلیوسن بالمثل دوائیں ثابت ہوسکتی ہیں.خصوصاً ایلیو مینا بہت گہرا اثر کرنے والی دوا ہے.اگر آنکھوں میں سوزش ہو اور گومڑ سے بن جائیں تو ایلیو مینا کی بجائے ایسکولس (Aesculus) بہتر ہے.آنکھوں کی بیماریاں ان ملتی جلتی دواؤں کے استعمال سے عموماً ٹھیک ہو جاتی ہیں.بعض دفعہ چھپر موٹے ہو کر اوپر کی طرف الٹ جاتے ہیں اور اندر کی سرخی با ہر نمایاں دکھائی دینے لگتی ہے.آنکھیں بہت بھیانک شکل اختیار کر لیتی ہیں اور پلکیں جھڑنے لگتی ہیں.ان میں بھی سورائیم ، ہسپر سلف اور ایلیو مینا کو اونچا مقام حاصل ہے.سورائیم میں ایسا کام جس میں ناک بند رہتا ہے، بار بار ہوتا ہے.ناک میں بندش کے باوجود جلن کے ساتھ پیکی زردی مائل سبز رنگ کی رطوبت بہتی ہے جس سے جلن کو قدرے سکون ملتا ہے.انفلوئنزا کے وائرس شکلیں بدل بدل کر حملہ آور ہوتے رہتے ہیں.ایسی صورت میں سورا ئینم بھی کچھ عرصہ فائدہ پہنچا کر اثر کرنا چھوڑ دیتی ہے کیونکہ بیماری کی علامتیں بدل جاتی ہیں.لہذا نزلاتی بیماریوں میں کسی ایک دوا پر انحصار ممکن نہیں.علامتیں بدلیں تو دوا بدلنی بھی ضروری ہوگی.سورا ئینم ٹھنڈے مزاج کے مریضوں کی دوا ہے.ٹھنڈ سے پیدا ہونے والی بیماریوں پر اپنا اثر بہت تیزی سے دکھاتی ہے.مزید برآں سورائینم دبی ہوئی امراض کو باہر نکالنے کی طاقت بھی رکھتی ہے.پس جن مریضوں کو سورا ئینم خود ٹھیک نہ کر سکے تو ان کی اصل علامتوں کو جو کسی اور دوا سے تعلق رکھتی ہوں ، ابھار کر معالج کی مدد کرتی ہے.اگر سورائینم کچھ فائدہ دے کر رک جائے تو گھبرانا نہیں چاہئے.اس سے یہ مراد نہیں کہ دوا کی تشخیص غلط ہے.سورائینم کی یہ عادت ہے کہ کچھ فائدہ پہنچا کر انتظار کرتی ہے.پھر کچھ وقفہ ڈال کر دوبارہ سورا ئینم دینے سے رکا ہوا فائدہ جاری ہو جاتا ہے.سورا میکنم میں مریض ہر وقت بھوکا رہتا ہے خصوصا رات کو بہت بھوک لگتی ہے اور یہ عجیب علامت ہے کہ رات کے پچھلے پہر محض بھوک سے آنکھ کھل جاتی ہے.کھانا کھانے سے مریض کی تکلیف میں کمی ہو جاتی ہے.سلفر کے مریض کو رات کو اور صبح کو
سورا ئینم 684 بھوک محسوس نہیں ہوتی لیکن دن چڑھنے کے بعد گیارہ بجے کے قریب معدہ میں شدید کھرچن کے ساتھ بھوک کا احساس ہوتا ہے.سورائینم میں سر درد نزلہ سے ادلت بدلتا رہتا ہے.اس کیفیت میں برائیو نیا اور رسٹاکس بھی مفید ہیں.سورائیم میں کھانسی بالکل خشک ہوتی ہے اور بلغم نہیں بنتی.عموماً ایسی کھانسی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے.آغاز میں ایکونائٹ، بیلا ڈونا اور آرسنک مفید ثابت ہوتی ہیں لیکن یہ مستقل شفا نہیں دیتیں.بعد میں پیدا ہونے والی علامتوں کے لئے اور دوائیں تلاش کرنی چاہئیں.مریض کی عمومی نگرانی کرنا اور وقتا فوقتا پیدا ہونے والی علامتوں کو پیش نظر رکھ کر دوائیں بدلنا ضروری ہے لیکن جو دوائیں مریض کے مزاج سے موافقت رکھتی ہیں وہ عموماً مستقل فائدہ پہنچاتی ہیں، ان میں تبدیلی کی ضرورت نہیں پڑتی.سورائیم میں منہ کے کناروں پر زخم بن جاتے ہیں، زبان اور مسوڑھے زخمی رہتے ہیں اور دانت ڈھیلے ہو کر ہلنے لگتے ہیں.بسا اوقات کسی گہرے انفیکشن کے نتیجہ میں مسوڑھے خراب ہو جانے کے باوجود درد، سوزش اور بخار کی علامتیں ظاہر نہیں ہوتیں.جراثیم اندر ہی اندر ان کو کھوکھلا کر دیتے ہیں.ایک دوا پیٹیشیا (Baptisia) میں بھی یہی علامت پائی جاتی ہے کہ گلا شدید خراب ہوتا ہے حتی کہ غدود گلنے سڑنے لگتے ہیں لیکن درد نہیں ہوتا.سورائینم کے مریض کو بعض دفعہ اچانک اجابت کی حاجت محسوس ہوتی ہے اور ذراسی تاخیر سے کپڑے گندے ہو جاتے ہیں.سورائینم میں قبض برائیو نیا اور گریفائٹس سے ملتی ہے.بعض دفعہ نرم اجابت ہونے کے باوجود اخراج میں دقت پیش آتی ہے کیونکہ انتڑیوں میں فضلہ کو آگے دھکیلنے کی طاقت کم ہو جاتی ہے.اجابت کے اخراج میں وقت کی علامت ایلیو مینا، چائنا اور نکس موسکیھا (Nux Moschata) میں بھی پائی جاتی ہے.سورائینم کے اسہال میں غیر ہضم شدہ غذا کے ثابت ٹکڑے بھی خارج ہوتے ہیں.پیشاب بھی بار بار آتا ہے جو ذیا بیطس کی نہیں بلکہ کمزوری کی علامتیں ہے.ا
سورا ئینم 685 پراسٹیٹ کی بعض تکلیفوں میں بھی سورا ئینم مؤثر ہے.کینسر میں بھی مفید ہے لیکن پراسٹیٹ کے کینسر میں سب سے مؤثر دوا سلیشیا CM ہے.گزشتہ چند سالوں میں کئی مریضوں پر اس کا تجربہ کیا گیا ہے جو بے حد کامیاب ثابت ہوا ہے.اگر سلیشیا CM کی ایک خوراک سے کچھ فائدہ ہو کر رک جائے تو وقفہ کے بعد دوبارہ دی جاسکتی ہے لیکن بلاوجہ دہرانی نہیں چاہئے.کینسر میں خواہ وہ کسی جگہ کا ہو بہت اونچی طاقت حسب ضرورت جلد بھی دہرائی جا سکتی ہے لیکن اگر پہلی خوراک کا فائدہ جاری ہو تو بے وجہ جلد نہیں دہرانی چاہئے.عموماً دل کے اعصاب کی کمزوری، شدید درد جسے لیٹنے سے آرام آئے اور دل کے اردگرد کی جھلی میں سوزش کے لئے مفید ہے.سورائیم کی ایک علامت یہ ہے کہ نبض کمزور ہوتی ہے اور بآسانی محسوس نہیں کی جاسکتی.سورا ئینم عورتوں کی تکلیفوں میں تبھی بہت مفید ہوگی جب ان میں سردی اور اخراجات کی بد بو کی علامتیں نمایاں طور پر پائی جائیں.سورا ئینم میں انسان کی جنسی خواہشات میں کمی واقع ہو جاتی ہے اور کوئی احساس باقی نہیں رہتا.گریفائٹس میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے.سورائینم بظاہر خشک اور سرد دوا ہے لیکن اس کے بخار میں جسم خوب پیتا ہے اور گرم پسینہ آتا ہے.بھاپ سی نکلتی ہے لیکن پسینہ آنے سے بخار کم نہیں ہوتا.ڈراؤنے خواب آتے ہیں.شدید پیاس لگتی ہے.نا قابل برداشت خارش کی وجہ سے نیند نہیں آتی.سورائینم کی تکلیفیں سردی اور موسم کی تبدیلی سے بڑھتی ہیں.سرد ہوا کا جھونکا نا قابل برداشت ہوتا ہے.کھانے سے تکلیف کم ہوتی ہے لیکن وقتی طور پر کھلی ہوا میں کھانسی اور خارش کی تکلیف کو آرام آتا ہے.مددگار دوائیں: سلفر.ایلیو مینا طاقت: 200 یا اونچی طاقتیں.بعض دفعہ اس کی پہلی خوراک اثر ظاہر کرنے میں نو دس دن لیتی ہے.اس لئے اس کا اثر دیکھنے کے لئے اتنا انتظار ضرور کرنا چاہئے.
686
' پرولیکس 687 158 پولیکس اری ٹینس PULEX IRRITANS پولیکس اری ٹینس یعنی پسو پیشاب کی علامتوں اور عورتوں کی رحمی خرابی میں ایک اہم دوا ہے.مزاج جلد برہم ہونے والا اور چڑ جانے والا.سردرد عموماً سامنے کے حصہ میں اس احساس کے ساتھ کہ آنکھیں بڑی بڑی ہیں.چہرہ جھری دار اور وقت سے پہلے بوڑھا لگنے والا.منہ کا مزا دھات کا سا، گلے میں بال پھنسا ہونے کا احساس، پیاس عموماً زیادہ خصوصاً سر درد کے دوران، نیز سانس میں بہت بد بو ہوتی ہے.معدہ کی خرابی کے ساتھ شدید متلی کا دورہ، الٹیاں اور اسہال جو سخت بد بودار ہوتے ہیں، پیٹ ہواؤں سے پھولا ہوا.پیشاب کی علامتیں بہت اہم ہیں.پیشاب کی حاجت بار بار محسوس ہوتی ہے لیکن جب آتا ہے تو تھوڑا تھوڑا آتا ہے.پیشاب کی حاجت اتنی تیز ہو جاتی ہے کہ اسے روکنا سخت مشکل ہو جاتا ہے.فوری حاجت روائی نہ ہو تو کپڑوں میں نکل جاتا ہے.مثانے پر دباؤ اور پیشاب کی نالی میں جلن بعض دفعہ پیشاب ایک دم بند بھی ہو جاتا ہے جس کے بعد سخت درد ہوتا ہے.پیشاب انتہائی متعفن ہوتا ہے.اگر عورتوں کو ماہواری سے پہلے مثانہ میں بے چینی اور زودحسی پیدا ہو جائے اور حیض تاخیر سے آئیں، منہ میں پانی بہت آئے اور اندام نہانی میں سخت جلن محسوس ہو تو ایسی عورت اس دوا کی مثالی تصویر بن جاتی ہے.لیکوریا زیادہ اور سخت بدبودار جو کپڑوں کو زردی مائل سبز داغ لگانے والا ہو ، ان داغوں کو اچھی طرح دھو کر دور کرنا بھی مشکل ہوتا ہے.کمر میں اگزیلک ایسڈ
پیولیکس 688 (Oxalic Acid) سے مشابہ درد ہوتا ہے.جلد سے بدبو آتی ہے، بیٹھنے اور لیٹنے سے آرام، چلنے پھرنے سے تکلیف میں اضافہ اور بائیں طرف تکلیف زیادہ.اس دوا میں ایک خوبی بہت نمایاں ہے کہ دوسری کوئی علامتیں موجود ہوں یا نہ ہوں تو بھی پیشاب کی اچانک سخت حاجت کو نرم کرنے میں غیر معمولی اثر رکھتی ہے.جن مریضوں کو پیشاب کی حاجت کی وجہ سے بار بار اٹھنا پڑتا ہے ان کے نیند کے وقفوں کو بہت بڑھا دیتی ہے اور پیشاب کی بد بو کو کم کرتی اور رنگت کو صاف کرتی ہے.عورتوں کے رحم اور جگر کے کینسر میں بھی بہت مفید ہے.رحم کی اندرونی جھلیوں کی اس حد تک اصلاح کر دیتی ہے کہ اگر ان کی مستقل سوزش اور بیضہ دانی کی خرابیوں کی وجہ سے حمل نہ ٹھہرتا ہو تو اس دوا کے چند مہینے استعمال سے جو مناسب وقفوں کے ساتھ ہونا چاہئے حمل ٹھہر نے کا امکان روشن ہو جاتا ہے.طاقت : 200 یا اونچی طاقت میں اچھا کام کرتی ہے.
پلسٹیلا 689 159 پلسٹیلا PULSATILLA (Wind Flower) پلسٹیلا ایک پودے کے سفوف سے تیار کی جانے والی دوا ہے.ایلو پیتھک طریق استعمال میں اس سفوف کو صرف آنکھ کی تکلیفوں میں استعمال کیا جاتا تھا.ہومیو پیتھک طریقہ علاج میں یہ بکثرت استعمال ہونے والی دواؤں میں شامل ہے.اس دوا میں ذہنی اور جسمانی علامات اولتی بدلتی رہتی ہیں.پلسٹیلا کا مریض نرم مزاج، رونے کی طرف مائل اور بزدل ہوتا ہے.یہ مزاج عورتوں میں زیادہ ملتا ہے اس لئے یہ عورتوں کی دوا کے طور پر مشہور ہے.پلسٹیلا کا مریض سب کے لئے دل میں نرمی رکھتا ہے.بات بات پر رو پڑے گا یا چھوٹی موٹی کی طرح گم سم ہو جائے گا.چھوٹی چھوٹی بات کو بہت شدت سے محسوس کرتا ہے.جب یہ دیکھے کہ اس کی انا کو کچلا گیا ہے تو بہت بے عزتی محسوس کرتا ہے اور چڑ جاتا ہے.بہت وہمی ہوتا ہے.عزت نفس کے معاملہ میں ضرورت سے زیادہ حساس ہو جاتا ہے.معمولی بات سے بھی اس کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے اور اسے ہر وقت یہ وہم رہتا ہے کہ کوئی میری بے عزتی کر رہا ہے لیکن وہ تشدد پسند نہیں ہوتا اور مار دھاڑ پر نہیں اتر آتا بلکہ بہت غمگین، مایوس اور بے حوصلہ ہو جاتا ہے.بہت روتا ہے.تو ہمات میں جلد مبتلا ہو جاتا ہے.ایسے مریضوں میں مذہبی جنون بھی پایا جاتا ہے.خصوصاً عورتیں اس جنون کا شکار ہوتی ہیں.چونکہ وہ اپنے غصہ کے جذبات کو دباتی رہتی ہیں اس لئے بالآخر ان کے یہ جذبات مذہبی پاگل پن میں تبدیل ہو جاتے ہیں.پاگل پن کا اظہار ان کی باتوں اور خیالات سے ہوتا ہے.مثلاً ان کے دماغ میں یہ خیال بیٹھ جائے گا کہ فلاں خوراک بنی نوع انسان کی ہلاکت کا موجب ہے اسی وجہ
پلسٹیلا 690 سے وہ تنزل پذیر ہیں.ایسا وہم پلسٹیلا کا خاصہ ہے.لائیکو پوڈیم کے بداثرات جن کی وجہ سے انسان بے حد شرمیلا ہو جائے حتی کہ اپنے سائے سے بھی ڈرے تو اسٹیلا ان کا تریاق ہے.بسا اوقات پلسٹیلا کی مریض عورتوں کو شادی سے نفرت ہو جاتی ہے.اگر شادی سے نفرت نمایاں طور پر پائی جائے اور کوئی دوسری نفسیاتی وجہ معلوم نہ ہوتو پلسٹیلا دینی چاہئے.پلسٹیلا کا معدے کی تکلیفوں سے بھی تعلق ہے.تیل، گھی اور چربی والی مرغن غذا ہضم نہیں ہوتی.ذراسی ملائی یا گھی کھانے سے معدہ جواب دے جاتا ہے.بعض دفعہ ایسے مریض چکنائی سے نفرت کرنے لگتے ہیں لیکن اگر نفرت نہ بھی ہو تو چکنائی والی غذا انہیں ہضم نہیں ہوتی.کار بود یج اور بعض اور دواؤں میں بھی یہ علامت ملتی ہے.پلسٹیلا میں پیاس نہیں ہوتی لیکن ٹھنڈا پانی پینے سے سکون ملتا ہے.ٹھنڈا کھانا کھانے کی خواہش ہوتی ہے.معدے کی تکلیفیں صبح کے وقت زیادہ ہو جاتی ہیں اور ذہنی تکلیفیں شام کو بڑھ جاتی ہیں.عموماً ڈیپریشن اور اداسی کے دورے بھی شام کو ہی پڑتے ہیں.ایسے مریضوں کے لئے یہ وقت بہت تکلیف دہ ہوتا ہے.ٹھنڈی ہوا میں اور ملکی حرکت کرنے سے مریض کو آرام ملتا ہے اور گرم کمرے میں جانے سے تکلیف بڑھ جاتی ہے.مریض کی اندرونی سردی کی کیفیت گرم کمرے میں جا کر اور بھی شدت اختیار کر لے گی.پلسٹیلا میں یہ عجیب تضاد پایا جاتا ہے کہ بظاہر جسم گرم ہوتا ہے لیکن مریض اندرونی طور پر سردی محسوس کرتا ہے اور گرم کمرے میں جانے کے باوجو دسردی کا احساس کم نہیں ہوتا بلکہ زیادہ ہو جاتا ہے.پلسٹیلا کا اثر سلفر سے زائل ہو جاتا ہے.ہاتھ پاؤں کی جلن کے سوا پلسٹیلا کی دوسری علامتیں سلفر سے نہیں ملتیں.اگر سلفر زیادہ مقدار میں استعمال کی گئی ہو تو پلسٹیلا دیں اور پلسٹیلا زیادہ دی ہوتو سلفر دینے سے اس کا اثر زائل ہو جائے گا.اگر سورائس ( چنبل) چھوٹے چھوٹے دائروں کی شکل میں ظاہر ہو اور دانے دبے ہوئے بھورے رنگ کے ہوں تو ایسی سورائس میں پلسٹیلا اچھا اثر رکھتی ہے.
پلسٹیلا 691 پلسٹیلا میں جسم کے کسی ایک حصہ میں رگیں پھول جاتی ہیں اور ان میں خون جم جاتا ہے.رگوں کا جالا بن جاتا ہے اور سوزش بھی نمایاں ہوتی ہے.عموما حمل کے دوران پنڈلیوں اور ٹانگوں پر یہ تکلیف حملہ کرتی ہے.(اس کی تفصیلی بحث ایسکولس وغیرہ میں کی جا چکی ہے.یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں.اس کے ساتھ السر اور زخم بننے کا رجحان بھی ہو تو پلسٹیلا بہت مفید ثابت ہوتی ہے.پلسٹیلا نزلاتی بیماریوں میں بھی مفید ہے.یہ دائمی نزلہ یا اندرونی جھلیوں کی بیماریوں کو ٹھیک کرتی ہے.ایسا نزلہ چھاتی میں اترتا ہے تو گاڑھی بلغم نکلتی ہے.صحیح دوا کھانے سے اللہ کے فضل سے جلد آرام آجاتا ہے.نزلاتی تکلیفیں چونکہ ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں اس لئے ان میں فرق کرنا بہت مشکل ہے.ناک بند ہو تو اکثر پلسٹیلا ذہن میں آتی ہے.تاہم اور بھی بہت سی دواؤں میں یہ علامت پائی جاتی ہے جس کی تفصیل مختلف ابواب میں مذکور ہے.ناک بند بھی ہوتا ہے پھر بھی کچھ نہ کچھ نزلہ جاری رہتا ہے.نکس وامیکا اور کوکس (Coccus) بھی اس میں مفید ہیں.مریض کے مزاج کو پیش نظر رکھ کر دوا تلاش کرنی چاہئے.جو بچیاں جوانی کی عمر کو پہنچ رہی ہوں ان کے لئے کلکیر یا فاس کی طرح پلسٹیلا بھی بہت اہم دوا ہے.پاؤں بھیگ کر ٹھنڈ لگنے سے اگر حیض بند ہو جائیں یا بہت دیر میں آئیں تو پلسٹیلا اچھا اثر رکھتی ہے.پلسٹیلا کی مریض عورتوں کو سارا مہینہ یہ احساس رہتا ہے کہ حیض آنے والے ہیں لیکن آتے نہیں.عورتوں کے حیض ختم ہونے کے زمانے میں پیدا ہونے والی تکلیفوں میں بھی پلسٹیلا بہترین دوابیان کی جاتی ہے.اسے کیلیس با بیلا ڈونا سے ملا کر دینے سے کافی مفید نتائج نکلتے ہیں.عموماً چہرے پر گرم ہوا کے جھونکے محسوس ہوتے ہیں اور چہرہ سرخ ہو جاتا ہے.خون کی کمی کی شکار عورتوں میں حیض کا وقت لمبا ہو جائے تو خون پتلا ہو جاتا ہے.چونکہ پلسٹیلا خون کی کمی کی بھی بہترین دوا ہے.اس لئے ایسی عورتوں کو پلسٹیلا دی جائے تو حیض بالکل رک جاتا ہے لیکن چند مہینوں میں خون کی کمی پوری ہونے کے بعد پھر خود بخود معتدل طریق پر جاری ہو جاتا ہے.پلسٹیلا خون کی کمی دور
پلسٹیلا 692 کئے بغیر حیض جاری نہیں کرے گی.اگر خون کی کمی نہ بھی ہو اور سیاہی مائل اور تھوڑا تھوڑا خون آئے تو اس کا فوری تدارک پلسٹیلا سے کیا جاتا ہے.پلسٹیلا میں کمر اور کندھوں میں درد ہوتا ہے.سخت چیز سے دبانے سے درد کی شدت میں کمی آتی ہے.اسی طرح سخت چیز پر سونے سے بھی آرام ملتا ہے.پلسٹیلا کا سر درد در دشقیقہ سے مشابہت رکھتا ہے.عموماً ایک طرف ہوتا ہے.کنپٹیوں میں اندر کی طرف جاتا ہے اور چہرہ کی ایک ہی طرف محسوس ہوتا ہے.اس دوا کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ جسم کی ایک طرف گرم اور ایک طرف ٹھنڈی ہوتی ہے.یہ گرمی سردی کا فرق ہاتھ لگانے سے بھی محسوس ہوتا ہے.چہرہ ایک طرف سے تمتمایا ہوا اور دوسری طرف سے ٹھنڈا اور زرد گویا خون نہیں رہا.یہ ایک ایسی نمایاں علامت ہے جس کے نتیجہ میں پلسٹیلا کی پہچان مشکل نہیں رہتی.اس لئے سردرد کی دوسری علامتوں کے علاوہ یہ علامت بھی رہنما ہو سکتی ہے.لیکن ضروری نہیں کہ ہر درد میں یہ علامت موجود ہو.اگر یہ علامت نہ بھی ہو پھر بھی دیگر بالمثل علامتیں ملنے سے پلسٹیلا کام آسکتی ہے.پلسٹیلا میں آنکھوں کی علامتیں بہت نمایاں ہیں.گوہانجنیاں بہت نکلتی ہیں.پلسٹیلا ان کا اچھا علاج ہے.آنکھوں سے گاڑھا مواد نکلتا ہے، پلکیں متورم اور چپکی ہوئی ، چھوٹے بچوں میں آشوب چشم ، آنکھوں کے پردے کی سوزش اور ناک اور گلے کی علامتیں نیٹرم میور سے ملتی ہیں.نیٹرم میور پلسٹیلا کی مزمن دوا ہے یعنی اگر مستقل طور پر پلسٹیلا کی علامتیں موجود ہوں لیکن اس دوا سے فائدہ نہ ہو تو نیٹرم میوردینی چاہئے.پلسٹیلا کانوں کی بھی بہترین دوا ہے.کانوں کی انفیکشن ہو یا کانوں سے بد بودار گاڑھا مواد نکلے اور اونچا سنائی دے تو یہ مفید ہے.نزلاتی اثرات کان میں منتقل ہوں تو پلسٹیلا کے مریض کی طبیعت میں نرمی اور درد کے ساتھ رونے کا رجحان غالب ہوتا ہے جس میں عجب بے چارگی اور بے بسی کا اظہار ہوتا ہے.لیکن اگر کان کے درد کے ساتھ غصہ پایا جائے تو پلسٹیلا کی بجائے کیمو میلا دینی چاہئے.پرانے نزلہ کے ساتھ ناک کی اندرونی نالی میں خشکی کا احساس ہوتا ہے.مواد جم کر
پلسٹیلا 693 سخت ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ہلکا ہلکا درد بھی رہتا ہے.ایسی تکلیف میں پلسٹیلا سے فائدہ ہوگا.اس میں نزلاتی اخراجات ابتدا میں سفید ہوتے ہیں لیکن جلد ہی زردی مائل اور بد بودار بھی ہو جاتے ہیں.قوت شامہ کم ہو جاتی ہے یا بالکل ختم ہو جاتی ہے.صبح کے وقت بلغمی کھانسی ہوتی ہے جو شام تک بالکل خشک کھانسی میں تبدیل ہو جاتی ہے.نزلے کا پرانار جمان ہو تو نکسیر بھی پھوٹتی ہے.تکمیر کا حیض سے بھی تعلق ہوتا ہے.اگر حیض رک جائے اور نکسیر آئے تو پلسٹیلا کی بجائے برائیو نیا دوا ہوگی.اگر حیض جاری رہتے ہوئے نکسیر آئے تو پلسٹیلا دوا ہے.پلسٹیلا میں شام کو الرجی کی شدت میں اضافہ ہو جاتا ہے لیکن نیٹرم میور میں اس سے بالکل برعکس صبح کے وقت خصوصا نو بجے زیادہ تکلیف ہوتی ہے.اگر سردی سے گرم کمرے میں آنے سے چھینکیں آئیں تو اس کی دوا پلسٹیلا ہے.اگر گرمی سے سردی میں جانے سے چھینکیں آئیں تو سباڈیلا ،سلیشیایا نیٹرم میور استعمال کرنی چاہئیں.پلسٹیلا کے مریض کی نیند اڑ جاتی ہے اور وہ سونے میں دقت محسوس کرتا ہے.اسے سانس کی تنگی اور تھکن کا احساس رہتا ہے.اگر صحیح علاج نہ ہوتو دمہ ہو جاتا ہے.اگر الرجی دمہ میں تبدیل ہو جائے تو پلسٹیلا بھی اسے ٹھیک کرنے میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہے.سلیشیا پر کی مزمن دوا ہے.اگر پلسٹیلا سے بخار نہ ٹوٹ رہا ہو اور طبیعت میں گرمی کا احساس ہو، اسی طرح انفیکشن کی تکلیفیں پلسٹیلا سے قابو نہ آئیں حالانکہ علامتیں پلسٹیلا سے ملتی ہوں تو سلیشیا دیں.یہ اکثر کام کرتی ہے.یہ میرا تجربہ ہے.پہلے میں سلیشیا نہیں دیتا تھا لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ مزمن ہونے کا یہ بھی تعلق ہو سکتا ہے کہ پلسٹیلا اپنی علامتوں کے باوجود کام نہ کرتی ہو اور نا کام ہو جائے وہاں سلیشیا کام شروع کر دے.واقعتا یہ بات درست ثابت ہوئی.پلسٹیلا کن پیروں (Mumps) کی بھی بہترین دوا ہے اور یہ بیماری کو دوسری جگہ منتقل نہیں ہونے دیتی.صحیح علاج نہ کیا جائے تو بیماری منتقل ہو کر آلات تناسل پر اثر انداز
پلسٹیلا 694 ہو جاتی ہے اور ایسے مریض ساری عمر کے لئے اولاد سے محروم ہو جاتے ہیں.ایسی صورت میں سب سے پہلے ابراٹینم دینی چاہئے.اس سے ٹھیک نہ ہو تو پھر پلسٹیلا دیں.ان دونوں دواؤں میں ایک مشابہت یہ ہے کہ ان کے جسم کے درد ادھر ادھر گھومتے ہیں.ابراٹینم (Abrotanum) کے درد ہر طرف گھومتے ہیں.پلسٹیلا کے درد ایک خاص سمت یعنی دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں حرکت کرتے ہیں.لیک کینا ئینم (Lac Canium) میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے اور اس کے درد بھی بہت تیزی سے حرکت کرتے ہیں.ابراٹینم میں بسا اوقات مرض کی نوعیت کسی دوسری مرض میں بدل جاتی ہے.اگر پھیپھڑوں کا کینسر ہڈیوں میں چلا جائے تو ایسی صورت میں انتقال مرض کی دواؤں کو پیش نظر رکھنا چاہئے اور ابراٹینم بھی استعمال کی جاسکتی ہے لیکن سب سے مؤثر دوا فاسفورس (Phosporus) ہے اور کینسر ہڈیوں ہی سے شروع ہوا ہو یا ہڈیوں میں منتقل ہوا ہو ، دونوں صورتوں میں فاسفورس بہترین دوا ثابت ہوگی.پلسٹیلا میں کھانا کھانے کے چند گھنٹے بعد معدے کی تکلیفیں شروع ہوتی ہیں.بے چینی ، کھٹے ڈکار، ہوا سے پیٹ کا بھر جانا وغیرہ وغیرہ نکس وامیکا میں بھوک کی حالت میں تکلیفیں بڑھتی ہیں اور کھانا کھانے کے بعد کچھ عرصہ تو آرام رہتا ہے مگر تقریباً ایک گھنٹہ کے اندر اندر تکلیف واپس آ جاتی ہے.پلسٹیلا کے مریض کا منہ خشک رہتا ہے لیکن اسے پیاس نہیں لگتی.صفراوی مادہ بہت کثرت سے بنتا ہے اور ابکائی کے ساتھ منہ میں آ جاتا ہے.چکنائی کھانے سے پیٹ میں تناؤ پیدا ہو جاتا ہے.سبزی مائل پانی کی طرح بہت پہلے اسہال آتے ہیں اور رات کے وقت زیادہ آتے ہیں.قبض کے باوجود نرم اجابت پلسٹیلا کا خاصا ہے کی ما صا ہے لیکن کھل کر نہیں ہوتی.بار بار حاجت ہونے کے باوجود فراغت کا احساس نہیں ہوتا.نکس وامیکا میں بھی یہی علامت ہے لیکن اس میں اجابت نرم ہونے کی بجائے سخت گٹھلیوں کی صورت میں ہوتی ہے.عورتوں میں قبض کی علامت بعض دفعہ گریفائٹس سے ملتی ہے.اس صورت میں اجابت نرم نہیں ہوگی بلکہ سخت اور بڑے جمے ہوئے فضلے کی صورت میں.پلسٹیلا کی
پلسٹیلا 695.طرح گریفائٹس بھی حیض کے خون کی کمی دور کرنے میں شہرت رکھتی ہے مگر گریفائٹس ٹھنڈے مزاج کی دوا ہے جبکہ پلسٹیلا گرم مزاج کی.قبض جب آخری حد تک پہنچ جائے اور پلسٹیلا سے فائدہ نہ ہو تو سلیشیا سے بسا اوقات فائدہ ہو جاتا ہے جس کی ناکامی کی صورت میں دور بیٹرم البم مفید ہوسکتی ہے.قبض کے مریض بواسیر کا شکار بھی ہو جاتے ہیں.مسے بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں.لیکن اگر سخت چیز پر سیدھا لیٹنے سے بواسیر کی تکلیف کو آرام آئے تو یہ امونیم کارب کی خاص علامت ہے.اسے پلسٹیلا کی علامت نہیں سمجھنا چاہئے.اگر مسوں میں بہت زیادہ جلن ہو تو پلسٹیلا کی نسبت آرسنک اور کالی کا رب زیادہ مفید ہیں.بواسیر کے مسلسل جاری رہنے والے درد میں پیونیا(Paeonia) کو بہت شہرت حاصل ہے لیکن جب مزاجی علامتیں پلسٹیلا کی ملیں تو پلسٹیلا ہی کام کرے گی.اگر پیشاب کی حاجت محسوس ہوا اور مقدار میں تھوڑا آئے.معمولی جلن ہو اور بے چینی کا احساس نمایاں ہو تو پلسٹیلا مفید ہو سکتی ہے.پلسٹیلا میں بعض دفعہ پیشاب کے ساتھ خون بھی آتا ہے.اس کی ایک علامت یہ ہے کہ کروٹ کے بل لیٹنے سے رات بھر پیشاب کی حاجت نہیں ہوتی.مریض کمر کے بل لیٹے تو بار بار اٹھنا پڑتا ہے.اگر بچوں کو سوتے میں پیشاب کی بیماری ہو تو ان کے ازار بند میں کمر کے پیچھے گانٹھ دینے سے ان کا کمر کے بل لیٹنا چونکہ مشکل ہو جاتا ہے اس لئے بعض دفعہ ایسی ترکیب سے ان کا بستر بھگونا بند ہو جاتا ہے.مگر یہ ترکیب زیادہ تر پلسٹیلا کے مریضوں میں کام آتی ہے.نیز نیٹرم میور اور کالی فاس 6x میں ملا کر دینا بھی بچوں کی اس بیماری میں بہت مفید ہے.اگر کھانسنے ، چھینکنے اور جنسی کے ساتھ پیشاب خطا ہو جائے تو پلسٹیلا اچھا کام کرتی ہے.اس کے علاوہ یہ بھی یا درکھنا چاہئے کہ بستر میں پیشاب کرنے والوں کا اگر سونے کے جلد بعد پیشاب خطا ہوتا ہوتو کاسٹیکم 200 یا سپیا 200 کو اولیت دینی چاہئے.اگر لمبا عرصہ تک بیٹھا رہنے سے پیشاب کی حاجت محسوس نہ ہولیکن کھڑے ہوتے ہی دباؤ پڑے اور چلنے سے پیشاب خطا ہو جائے تو یہ برائیو نیا کی خاص علامت ہے جو کا سٹیکم میں بھی ملتی ہے.اگر بیٹھے بیٹھے حاجت محسوس ہو لیکن چلنے سے آرام آ جائے تو یہ رسٹاکس کی
پلسٹیلا 696 علامت ہے.یہ سب دوائیں اپنے اپنے دائرہ کار میں علامتوں کے مطابق کام کرتی ہیں.پلسٹیلا کے مریض کو حرکت سے آرام آتا ہے.اس لحاظ سے یہ رسٹاکس سے جزوی طور پر مشابہ ہے.نمی کے لحاظ سے بھی ان دونوں میں مشابہت ہے.نم موسم میں بداحتیاطی کی وجہ سے پیدا ہونے والی نزلاتی تکلیفوں میں پلسٹیلا اور رسٹاکس دونوں کام آتی ہیں.بدلتے ہوئے موسم میں کام آنے والی اور دواؤں کے علاوہ ڈلکا مارا کو بھی شہرت حاصل ہے مگر یہ تب علامتی دوا ہوگی اگر بدلتا ہوا موسم نم بھی ہو.پلسٹیلا حمل گرنے کے رجحان کو روکنے کے لئے بھی مفید دوا ہے.بسا اوقات رحم میں جنین کی بجائے کوئی لوتھڑا سا بن جاتا ہے جو بے جان ہوتا ہے.پلسٹیلا اس لوتھڑے کو پکھلا دیتی ہے.اس میں حیض کے دوران شدید تشنجی درد ہوتا ہے.کبھی کبھی ایسے درد کے دورے پڑیں تو پلسٹیلا مفید ہے لیکن اگر یہ رجحان زیادہ ہو تو نیٹرم میور کو اولیت دیں جو پلسٹیلا کی مزمن ہے.اگر نو جوان بچیوں کو بلوغت کے آغاز میں ہی یہ تکلیف ہو تو کلکیر یا فاس بھی بہت کارآمد ہے.رحم کے گرنے کے رجحان میں بھی پلسٹیلا مفید ہے.اس میں اور بھی بہت سی دوائیں کام آتی ہیں جن میں علامتوں کے لحاظ سے فرق کرنا چاہئے.بعض عورتوں کی چھاتیوں میں حمل اور بچے کی پیدائش کے بغیر بھی دودھ اتر آتا ہے.پلسٹیلا اس کیفیت میں بہت مفید ہے.اس کے علاوہ مرکیورس اور سائیکلیمن بھی مفید ہیں.ایسی مائیں جن کو دودھ لم آتا ہو ان کو عموماً پلسٹیلا فائدہ دیتی ہے.اگر پیدائش کے بعد گندگی و غیرہ پوری طرح خارج نہ ہو تو پلسٹیلا اس کی صفائی میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے.رحم کی عام صفائی میں پلسٹیلا بہت مفید ہے لیکن اس کا استعمال پر سوتی بخار سے پہلے پہلے ہو تو کام آتی ہے.بخار ہو جائے تو سلیشیا یا سلفر اور پائیر و جینم کام دیں گی.اگر رحم میں بچے کی پوزیشن الٹی ہو تو پوزیشن درست کرنے میں پلسٹیلا 200 کو بہت شہرت حاصل ہے.پیدائش کے وقت اگر در دیں کمزور ہوں تو ان کو طاقت دینے کے لئے بھی پلسٹیلا مفید ہے.بعض ڈاکٹر روٹین میں نواں مہینہ شروع ہوتے ہی پلسٹیلا شروع کروا دیتے ہیں.اس کے اچھے اثرات دیکھے گئے ہیں لیکن دردیں شروع ہونے
پلسٹیلا 697 کے بعد وضع حمل میں سہولت پیدا کرنے کے لئے اس سے بہتر دوا میگنیشیا فاس اور کالی فاس کا مرکب (Combination) ہے.دونوں کی کچھ ٹکیاں پانی میں گھول کر گھونٹ گھونٹ پلائیں تو وضع حمل میں بہت سہولت ہوتی ہے.پلسٹیلا ریڑھ کی ہڈی کے مہروں کے ٹیڑھے پن میں ایک بہت کام آنے والی دوا ہے.یہ ریڑھ کی ہڈی کے عضلات کو طاقت دے کر انہیں سیدھا کر دیتی ہے اور دونوں طرف سے تناؤ کو برابر کر دیتی ہے.اگر بچوں کی ریڑھ کی ہڈی میں خم پڑ جائے تو قد نہیں بڑھتا اور وہ اونچا ہونے کی بجائے کبڑے ہونے لگتے ہیں.پلسٹیلا ایسے کبڑوں کے لئے مفید ہے.پلسٹیلا کے مریض کے کسی عضو میں درد ہوتو وہ عضو سکڑنے لگتا ہے اور کمزور ہو جاتا ہے.مثلاً ٹانگ میں دیر تک در در ہے تو ٹانگ چھوٹی ہو جاتی ہے.درد سے ماؤف ٹانگیں ہوں یاباز و، دونوں سوکھنے لگتے ہیں.اگر معدہ کی علامتیں پلسٹیلا کی ہوں اور ملیریا بھی حملہ کر دے تو پلسٹیلا مفید ہے.پلسٹیلا کے مریض کو اکثر پیاس نہیں لگتی لیکن ملیریا میں سردی لگنے سے پہلے غیر معمولی طور پر سخت پیاس لگتی ہے اور بخار چڑھنے کے بعد پیاس ختم ہو جاتی ہے.اگر یہ علامت نمایاں ہو تو پلسٹیلا ضرور دیں.پلسٹیلا میں چہرے کے دائیں طرف اعصابی درد ہوتا ہے.نیچے کا ہونٹ سوج کر موٹا ہو جاتا ہے.یہ تکلیف عموماً شام کو بڑھتی ہے.شام کو اور رات کے وقت خشک کھانسی بھی ہو تو پلسٹیلا ضرور دیں.پلسٹیلا کی تکلیفیں گرمی سے، چکنائی سے اور کھانا کھانے سے بڑھ جاتی ہیں.کھلی ہوا میں حرکت کرنے سے اور ٹھنڈی خوراک سے کم ہوتی ہیں.ہاتھ جلتے ہوں اور پاؤں ٹھنڈے ہوں یا پاؤں جلتے ہوں اور ہاتھ ٹھنڈے ہوں تو پلسٹیلا دوا ہوسکتی ہے.مددگار دوائیں کالی میور لائیکو پوڈیم.سلفیورک ایسڈ دافع اثر دوائیں کافیا.کیمومیلا ٹیکس وامیکا طاقت: 30 سے 1000 تک یا بعض صورتوں میں CM بھی دی جاسکتی ہے.
698
پائیر وجینم 699 160 پائیر و جینم PYROGENIUM (سڑے ہوئے گوشت سے تیار کردہ دوا) جیسا کہ عنوان میں ذکر ہے یہ دوا گوشت کی عفونت سے تیار کی جاتی ہے جو انتہائی زہریلا مادہ ہے.اس کو کھانے والے یا تو تیز بخار کے بعد نیم پاگل سے ہو کر مر جاتے ہیں یا دیر تک اس کے بداثرات سے تکلیف اٹھاتے رہتے ہیں.اس کا ذکر پہلے اس کثرت سے مختلف ابواب میں آچکا ہے کہ ممکن ہے قاری یہ سمجھے کہ یہ دوا پہلے گزر چکی ہے لیکن بحیثیت دوا اس کا ایک الگ باب کے تابع پہلے تفصیلی تذکرہ نہیں ہوا.اس لئے قدرے اختصار سے اس باب کے نیچے اب اس کی ضروری علامتیں بیان کی جارہی ہیں.اس کے تمام اخراجات میں شدید بد بو پائی جاتی ہے جن کے مہلک اثر سے اکثر تیز بخار چڑھ جاتا ہے.خصوصا پر سوتی کے بخار میں یا کسیر اعظم ثابت ہوئی ہے.یہ بخار بچہ کی پیدائش کے بعد رحم میں گندے مادے رہ جانے کی وجہ سے ہوتا ہے.اسے اگر سلفر کے ساتھ ملا کر دیا جائے تو اور بھی بہتر کام کرتی ہے.میں نے دونوں کو 200 طاقت میں ملا کر دینا بہت مؤثر پایا ہے.اگر انفلوئنزا کے دوران بے حد کمزوری محسوس ہوا اور مریض بہت بے چین ہو تو آرسنک کے علاوہ پائیر و جینم بھی مفید ہے.آرسنک کو پائیر وجینم سے ملا کر دیا جائے تو اس کمزوری کو دور کرنے میں اور بھی بہتر نتائج دکھاتی ہے.یہی نسخہ بد بودار اسہال اور پیچش میں بھی کام آتا ہے.نزلاتی بخاروں میں مریض کو بہت سردی لگے اور تعفن بھی پایا جائے ، بے چینی بھی ہو تو پائیر وجینم کو پیلینم اور نیٹرم میور کے ساتھ ملا کر دینے
پائیر و بینم 700 سے فائدہ ہوتا ہے.پائیر وجینم میں فاسفورس کی طرح ٹھنڈا پانی پینے کی شدید خواہش ہوتی ہے لیکن معدہ میں پانی گرم ہو کر تے آ جاتی ہے.اگر چہ پائیر وجینم کا مریض بہت سخت ٹھنڈا ہوتا ہے اور سردی کا احساس اس کی ہڈیوں تک سرایت کر جاتا ہے لیکن اسے شدید ٹھنڈا پانی پینے کی پیاس لگی رہتی ہے.ایسی صورت میں پائیر وجینم کو فاسفورس کے ساتھ ملا کر دیا جا سکتا ہے.اگر منہ سے بہت سخت بدبو آئے تو پائیر وجینم بھی مفید دوا ہو سکتی ہے.ایسے مریض اگر بہت سردی محسوس کریں تو پائیر وجینم اور سورائینم کو ملا کر دینا اکیلا اکیلا دینے سے بہتر ہے.میں نے ٹائیفائیڈ کے ہر قسم کے مریضوں کو پائیر وجینم اور ٹائیفائیڈ مینم 200 طاقت میں ملا کر دینا بے حد مفید پایا جاتا ہے.میرے والد ٹائیفائیڈ میں ہمیشہ اسے استعمال کرتے تھے اور غالباً وہی اس مرکب کے موجد ہیں.اس کے ساتھ کالی فاس اور فیرم فاس 6x میں ملا کر دن رات میں سات آٹھ بار دینی چاہئے.لیکن اگر ایسے مریض کو بد بودار اسہال بھی آتے ہوں تو پٹیشیا 30 طاقت کی اسی طرح تکرار بہت مفید پائی گئی ہے.پائیر وجینم ایسے ملیریا میں بھی اثر دکھاتی ہے جو عام دواؤں سے قابو نہیں آتا.مریض کو بہت سردی لگتی ہے، آرسنک کی طرح بے چینی ہوتی ہے اور اخراجات بہت بد بودار ہوتے ہیں.مویشیوں میں بھی اگر بچہ پیدا ہونے کے بعد آنول رہ جائے اور پرسوتی بخار ہو تو پائیر وجینم اور سلفر 200 کا نسخہ انسانوں کی طرح مویشیوں پر بھی برابر اثر انداز ہوتا ہے.گردوں کی سوزش (Nephritis) کے لئے بھی مفید ہے.اگر یہ علم ہو جائے کہ کسی زمانے میں مریض کو تعفنی بخار ہوا تھا اور اس کے بعد گردے جواب دے گئے تو پائیر وجینم بہت مفید ہے.پائیر وجینم کی ایک علامت یہ ہے کہ تیز بخار میں دل کی دھڑکن نسبتا آہستہ ہو جاتی ہے.اگر دل کی دھڑکن کا توازن بگڑ جائے تو یہ پائیر بینم کی خاص علامت ہوتی ہے.
پائیر وجینم 701 اگر پائیر وجینم کی مذکورہ بالا مزاجی علامتیں موجود ہوں تو یہ ہر قسم کی جلدی امراض میں بھی کام آ سکتی ہیں.چونکہ اس کا تعلق زیادہ تر وریدوں کے خون سے ہے اس لئے اس کے مزاج میں سخت قسم کی متعفن بواسیر بھی پائی جاتی ہے.سی ایسی ضدی تے میں بھی مفید ہے جس میں بدبو بہت زیادہ ہو.مزاجی علامتیں ہوں تو یہ پھیپھڑوں کی ہر قسم کی تکلیفوں مثلاً Broncho Pneumonia میں بھی مفید ہے.مددگار دوائیں برائیونیا، سلفر، آرسنگ اور ٹائیفائیڈ مینم وغیرہ جن کا ذکر اس باب میں گزر چکا ہے.طاقت: CM 30
702
ریڈیم بر مائینڈ 703 161 ریڈیم برومائیڈ RADIUM BROMIDE جن کلینکس (Clinics) میں برقی شعاعوں کے ذریعہ علاج کیا جاتا ہے وہاں اٹھارہ لاکھ ریڈیائی طاقت کا ریڈیم برومائیڈ استعمال کر کے اس کمرے کی فضا کے اثر کو محلول میں شامل کر کے یہ ہومیو پیتھک دوا بنائی گئی ہے.اگر چہ بظاہر یہ نا قابل یقین بات لگتی ہے لیکن یہ دوا حقیقتاً کام کرتی ہے کیونکہ ہو میو پیتھی کی لطافتیں حد تصور سے بہت آگے ہیں اور حقیقت میں یہ مادے سے تعلق رکھنے والا ایک غیر مادی طریقہ علاج ہے.ریڈیم برومائیڈ کو عام طور پر چہرے کے کیل مہاسے اور پھنسیوں کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.اگر رحم میں زندہ جنین کی بجائے ایک بے جان سالوتھڑا بنا شروع ہو جائے تو بعض اطباء اس کو نکالنے کے لئے بھی اسے مفید بیان کرتے ہیں.کینسر کی روک تھام اور علاج میں بھی یہ مفید ہے.وہ پھوڑے پھنسیاں جو لمبے عرصہ تک چلیں اور مزمن شکل اختیار کر جائیں ان کے علاج کے دوران ریڈیم برومائیڈ (ریڈیو برومیٹم ) کو نہ بھولیں.ایٹمی تابکاری کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے لئے بھی یہ دوا بہت کارگر ثابت ہوئی ہے.تابکاری کے اثر سے بچانے کے لئے اسے CM پوٹینسی میں کارسینوسین CM کے ساتھ ادل بدل کر مندرجہ ذیل طریق میں استعمال کیا جانا چاہئے.ایک ہفتہ ریڈیم برومائیڈ اور دوسرے ہفتہ کا رسینوسین CM دیں اور چند ماہ تک جاری رکھیں کیونکہ تابکاری کے اثرات آہستہ آہستہ ظاہر ہوتے ہیں اور آہستہ آہستہ ہی ان کے خلاف قوت مدافعت پیدا ہوگی.آتی ہے.کھلی ہوا، مسلسل حرکت، گرم پانی سے نہانے اور لیٹنے سے بیماریوں کی شدت میں کمی
ریڈیم بر مائیڈ 704 دافع اثر دوائیں: ریڈیم برومائیڈ اور کارسینوسین ایک دوسرے کے دافع اثر کے طور پر بھی استعمال کی جاسکتی ہیں.لیکن ان کے مہلک اثرات سے مریض کے اندر جو جو علامتیں ظاہر ہوں دراصل ان کا علاج ہونا چاہئے.کسی ایک دافع اثر دوا پر انحصار نہیں کرنا چاہئے.طاقت : 30 سے لے کر CM تک
رس گلا برا 705 162 رس گلا برا RHUS GLABRA رس گلا برا ایک پودے کے پتوں اور تنے کے عرق سے تیار کردہ دوا ہے.اس کی سب سے نمایاں علامت یہ ہے کہ یہ جسم سے خارج ہونے والی ہر قسم کی بدبو کو ختم کر دیتی ہے حتی کہ اجابت میں پائی جانے والی عام بو بھی اس کے استعمال سے مٹ جاتی ہے.میں نے کئی لوگوں پر اس کا تجربہ کیا ہے.بعض نوجوان جو اپنے جسم سے آنے والی بد بو سے خود بھی سخت بیزار تھے انہیں رس گلا برا سے نمایاں فائدہ ہوا اور بعض تو مکمل طور پر شفا پا گئے.یہ دوا آنتوں کے فعل کی اصلاح کرتی ہے.آنتوں میں پیدا ہونے والی سوزش اور زخموں کو ختم کرتی ہے.آنتوں کی صفائی ہو جاتی ہے اور بد بودار ہوا کا اخراج رک جاتا ہے.رس گلا برا کی ایک علامت ناک سے خون کا اخراج ہے.کثرت سے پسینہ آتا ہے جس سے بدبو آتی ہے اور کمزوری ہو جاتی ہے.مریض خواب میں اپنے آپ کو ہوا میں اڑتا ہوا دیکھتا ہے.رس گلا برا کو مرکری کا اثر زائل کرنے والی دوا سمجھا جاتا ہے.عموماً اسے مدر ٹیچر میں استعمال کیا جاتا ہے لیکن میں نے اسے بائیو کیمک 6x یا ہومیوطاقت 6 میں بہت مفید پایا ہے.
706
رسٹاکس 707 707 رس ٹاکسی کو ڈینڈران ( رسٹاکس ) RHUS TOXICODENDRON (Poison-ivy) یہ دوار ٹاکس کے مختصر نام سے زیادہ مشہور ہے.یہ بچھو بوٹی نام کے ایک جنگلی پودے کے پتوں سے تیار کی جاتی ہے.جس کے زہر سے نہایت خطرناک قسم کی خارش شروع ہو جاتی ہے.شدید بخار ہوتا ہے، بھوک ختم ہو جاتی ہے، متلی اور سخت سر درد، غدود سوج جاتے ہیں اور منہ اور زبان پر زخم بن جاتے ہیں.1798ء میں ایک فرانسیسی ڈاکٹر نے مشاہدہ کیا کہ ایک مریض کی شدید جلدی تکلیف اس زہر کے اثر سے دور ہو گئی.اس کے بعد اس ڈاکٹر نے اس بوٹی کو بہت سی اور جلدی امراض، فالج اور جوڑوں کے درد میں استعمال کیا اور اسے بہت مفید پایا.ہومیو پیتھی طریقہ علاج میں مرطوب موسم میں اس بوٹی کے تازہ پتوں کو پیس کر دوا تیار کی جاتی ہے.رسٹاکس ایک ایسی دوا ہے جس کے بغیر ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کا گزارا مشکل ہے.یہ بکثرت بیماریوں میں استعمال ہوتی ہے.رسٹاکس کی سب سے اہم علامت جلن اور سوزش ہے جس کے نتیجہ میں بڑے بڑے چھالے بنتے ہیں.جلدی بیماریوں میں سب سے بڑا چھالا رسٹاکس میں پایا جاتا ہے.اینا کارڈیم (Anacardium) اور میتھرس (Cantharis) میں بھی چھالے ہوتے ہیں لیکن نسبتا کم.رسٹاکس جل جانے والے مریضوں کو غیر معمولی فائدہ پہنچاتی ہے.انہیں اونچی طاقت میں فوراً رسٹاکس دینا بہت مفید ہوتا ہے.اس کے علاوہ رسٹاکس ہر قسم کے
رسٹاکس 708 فالجی اثرات میں اعلیٰ درجے کی دوا ہے.جو فالج زیادہ تر دائیں طرف کے اعضاء پر حملہ آور ہوں رسٹاکس اور سلفر باری باری دینے سے بالکل ٹھیک ہو جاتے ہیں.اگر زیادہ علامتیں نہ بھی ملتی ہوں پھر بھی کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور پہنچا دیتی ہیں.اگر سخت تھکاوٹ یا مسلسل بڑھتے ہوئے اعصابی دباؤ کی وجہ سے ایک آنکھ کی نظر اچانک ختم ہو رہی ہو اور دل پر بھی کمزوری کا اثر ہوتو رسٹاکس کی ایک دوخوراکیں فوراً فائدہ پہنچاتی ہیں.ایسی صورت میں عموماً دائیں آنکھ کے سامنے سائے سے تھر کتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں یا دائیں طرف کی آدھی نظر ختم ہو جاتی ہے.اعصابی دردوں میں جن میں آرام کرنے سے تکلیف بڑھے اور حرکت سے آرام آئے ، یہ بہت مفید ہے.چونکہ جلن کا احساس بہت ہوتا ہے اس لئے آرام نہیں کیا جاتا اور اضطرابی کیفیت طاری رہتی ہے اور کسی کروٹ بھی چین نہیں آتا.حرکت سے شروع میں تکلیف بڑھتی ہے لیکن رفتہ رفتہ آرام آنا شروع ہو جاتا ہے مگر کچھ عرصہ بعد دردیں واپس آ جاتی ہیں.نرم حرکت جو آہستہ آہستہ کی جائے، جسم کی دردوں میں کمی کا موجب بنتی ہے.سخت ورزش اس کا علاج نہیں بلکہ خطر ناک ہے.ہلکی ورزش اور ہلکی حرکت مفید ہے.اگر علامتیں ملتی ہوں تو رسٹاکس سر درد اور دوسری جسمانی دردوں کے لئے بھی بہت اچھی دوا ہے.رسٹاکس جب بھی بالمثل دوا ہو گی اس کے کھاتے ہی ضرور گہری نیند آ جائے گی اور گھبراہٹ اور بے چینی کا نام ونشان باقی نہیں رہے گا.میرے تجر بہ میں بارہا اس کا یہ اثر دیکھنے میں آیا ہے.بعض مریضوں نے تو شکایت کی کہ رات کا پتہ ہی نہیں چلا اور سورج چڑھنے کے بعد آنکھ کھلی حالانکہ قبل ازیں ان کی رات کروٹیں بدلتے گزرا کرتی تھی.رسٹاکس میں ایک اور علامت یہ بھی ہے کہ مثانے یا گردے میں ہلکی سوزش مزمن صورت اختیار کرلے تو مریض رات کو بار بار پیشاب کے لئے اٹھتا ہے.اس کی نیند خراب ہو جاتی ہے اور وہ بے چین رہتا ہے ، ضروری نہیں کہ ایسے مریض کو ذیا بیٹس
رسٹاکس 709 ہو.فاسفورس میں بھی یہ علامت ملتی ہے.بے وجہ آنکھ کھلتی ہے.بظاہر اچھا بھلا ہونے کے باوجود نیند کا احساس مٹ جاتا ہے.پیشاب کی کثرت کی وجہ سے نیند نہیں آتی.بعض دفعہ سوتے میں بھی پیشاب نکل جاتا ہے.بغیر ذیا بیطس کے رات کو آرام کے وقت پیشاب کی حاجت بہت زیادہ ہو اور کوئی دوسری معین وجہ معلوم نہ ہو تو جسمانی بے چینی کی صورت میں غالباً رسٹاکس مؤثر ثابت ہوگی.اگر جلدی بیماریاں تیز دواؤں سے دبا دی جائیں تو بالعموم جھلیوں پر انتڑیوں پر یا غدودوں پر حملہ آور ہو جاتی ہیں اور بعض دفعہ نہایت سنگین صورت اختیار کر لیتی ہیں.اگر لبلبہ (Pancreas) پر ان کا حملہ ہوتو ایسے مریض کوسخت قسم کی ذیا بیس ہو جاتی ہے.اونچی طاقت میں رسٹاکس کی ایک ہی خوراک اندرونی تکلیفوں کو فور ارفع کرتی ہے مگر اس صورت میں پرانے ایگزیما کو جلد پر ضرور اچھال دیتی ہے.میں نے ذیا بیطس کے ایک مریض کو بعض علامات کی مشابہت کی وجہ سے اونچی طاقت میں رسٹاکس دی.اچانک اس کا سارا جسم ایگزیما سے بھر گیا لیکن ذیا بیطیس سے مکمل شفا ہوگئی.تحقیق سے پتہ چلا کہ کسی زمانہ میں اسے سخت ایگزیما ہوا تھا جسے مختلف دواؤں سے دبا دیا گیا تھا.اس کے بعد ذیا بیطیس ہوگئی.پس رسٹاکس دینے سے ذیا بیطیس تو ٹھیک ہوگئی مگر ایگزیما لوٹ آیا.بعض مریض ذیا بیطس ٹھیک ہونے سے اتنا مطمئن نہیں ہوتے جتنا ایگزیما دیکھ کر گھبرا جاتے ہیں.حالانکہ اگر وہ صبر سے کام لیں تو بسا اوقات رسٹاکس ہی سے اس جلدی بیماری کا علاج بھی ہو جاتا ہے جو خود اس نے باہر نکال دی ہو اور وہی اس کا مکمل صفایا بھی کر دیتی ہے.مگر شروع میں ایگزیما ایک دفعہ ضرور بھڑکتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ کم ہونے لگتا ہے.رسٹاکس کے ایگزیما میں پانی بہت بہتا ہے.اسے رونے والا (Weeping) ایگزیما کہتے ہیں.میرے پاس ایک دفعہ ایک بہت غریب مریضہ آئی جس کے ہاتھوں پر بہنے والا سخت تکلیف دہ ایگزیما تھا.وہ روز مرہ کا کھانا پکانے سے بھی معذور تھی.خاوند اور بچے بھی اس وجہ سے سخت تکلیف میں مبتلا تھا.میں نے اسے ایک ہزار میں رسٹاکس دی تو حالت مزید بگڑ گئی لیکن چند دنوں میں پانی خشک ہونے لگا.اگلے ہفتہ دوبارہ رسٹاکس دینے
رسٹاکس 710 سے رد عمل ہوا لیکن پہلے سے کم ، تین چار ہفتوں میں اس کے ہاتھ بالکل صاف ہو گئے اور ایگزیما کا نام ونشان بھی باقی نہ رہا.پس جب یہ دوا کام کرتی ہے تو حیرت انگیز اثر دکھاتی ہے.میرے علم کے مطابق اس کا کوئی اور متبادل نہیں ہے.جہاں رسٹاکس کی خاص علامتیں نمایاں ہوں وہاں رسٹاکس ہی دینی پڑے گی.رسٹاکس کا مرطوب موسم سے گہرا تعلق ہے.برسات میں جبکہ گرمی بھی ہو اس کی تکالیف بہت بڑھ جاتی ہیں.ملیریا بخار کے لئے بھی رسٹاکس بہت اچھی دوا ہے.اگر علامتوں کے آغاز میں اسے برائیونیا کے ساتھ ادل بدل کر دیا جائے تو بہت مفید نسخہ بن جاتا ہے.لیکن اگر پہلے آرنیکا اونچی طاقت میں حفظ ما تقدم کے طور پر دے دی جائے تو ملیریا کے خلاف جسم میں دفاع پیدا ہو جائے گا.اس سلسلہ میں آرنیکا، آرسنک اور نیٹرم میور کا بھی مطالعہ کریں.رسٹاکس ملیریا کے علاوہ بعض دوسرے بخاروں میں بھی مفید ہے یعنی وہ بخار جو کبھی کم اور کبھی زیادہ ہو جاتے ہیں یا مسلسل جاری رہتے ہیں، ان میں بھی اچھا اثر دکھاتی ہے.ایسا بخار مریض کو نڈھال کر دیتا ہے.بے چینی، کپکپاہٹ اور زبان پر خشکی رہتی ہے اور مریض سردی محسوس کرتا ہے مگر یہ مرکزی علامت ضرور موجود ہوگی کہ اسے کسی کروٹ چین نہیں آتا اور اس کا سارا جسم دیکھتا ہے.رسٹاکس خلیوں کی سوزش(Cellulitis) میں بہت مفید ہے.یہ سوزش غدودوں اور جلد کی بیرونی سطح اور اندرونی جھلیوں سے تعلق رکھتی ہے.درد اور اینٹھن اس کی علامت ہیں.رحم کی اندرونی جھلیوں کی سوزش (Endometritis) میں بھی رسٹاکس دینی چاہئے.عین ممکن ہے کہ یہ اندر سے بیماری کو ٹھیک کرے اور جلد پر نکال دے.سلفر اور پائیر وچینم ملا کر 200 طاقت میں دیں تو یہ بیماری کافی حد تک قابو میں آ جائے گی.اگر ان دواؤں کو رسٹاکس کے ساتھ ادل بدل کر دیں تو خدا کے فضل سے بعض مریضوں کو مکمل شفا ہو جاتی ہے.وہ تمام جلدی امراض جن میں جلد پر پانی کے چھالوں کے علاوہ خون یا پیپ کے بڑے بڑے چھالے ہوں ان میں بھی رسٹاکس مفید ہے بشرطیکہ جلن بہت نمایاں ہو.
رسٹاکس 711 بچوں کے فالج (Infantile Paralysis) میں رسٹاکس بہت اچھا اثر دکھاتی ہے.بچے کو بخار ہوتا ہے اور اس کے بعد آہستہ آہستہ فالجی اثرات ظاہر ہونے لگتے ہیں.اگر کسی کو بہت بچپن میں فالج ہو چکا ہو یا ٹانگ کا کوئی حصہ کمزور ہونے لگے تو فوری طور پر رسٹاکس شروع کروانی چاہئے.اسے سلفر سے ادل بدل کر دیں تو بہتر اثر ہوتا ہے.سلفر از خود بھی فالجی امراض میں بہت مفید ہے اس لئے دونوں مل کر بہت مفید ثابت ہوتی ہیں.پولیو کے بعض بہت پرانے مریض اس نسخہ سے خدا کے فضل سے بالکل شفایاب ہو گئے.وقتی طور پر جسم کا کوئی حصہ سو جائے تو وہ اور بات ہے، کچھ عرصہ کے بعد یہ کیفیت خود ہی جاتی رہتی ہے.لیکن اگر فالجی کمزوری محسوس ہو تو پھر رسٹاکس فورا دینی چاہئے جو اکثر کام کرتی ہے.رفتہ رفتہ بڑھنے والے فالج جو زیادہ لمبا عرصہ تک رہنے والے اور گہرے ہوتے ہیں ان میں کاسٹیکم بھی ایک اہم دوا ہے.کاسٹیکم کوصرف فوری طور پر ظاہر ہونے والے فالج کی دوا نہیں سمجھنا چاہئے.کاسٹیکم کا فالج کچھ دن پہلے سردی لگنے کے نتیجہ میں اندر ہی اندر شروع ہو چکا ہوتا ہے.لیکن جب ظاہر ہوتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے اچانک ہوا ہے.جزوی فالج میں جس کا تعلق محض چند عضلات سے ہو کا سٹیکم لا جواب دوا ہے، خصوصاً چہرے کے دائیں طرف کے فالج میں تو اس کا کوئی بدل نہیں.سالہا سال کے بعد بھی اگر شروع کروائی جائے تو چند مہینے کے استعمال کے بعد اگر وہ پرانا فالج مکمل طور پر دور نہ بھی ہو تو اس میں بہت حد تک نرمی پیدا ہو جاتی ہے.اسے عرف عام میں لقوہ کہا جاتا ہے اور کاسٹیکم کو زیادہ تر لقوہ ہی کی دوا سمجھا جاتا ہے.رسٹاکس کا فالج عموماً دائیں طرف ہوتا ہے لیکن یہ محض دائیں طرف کی تکلیفوں کی دوا نہیں ہے.بائیں طرف بھی کام آتی ہے مگر بائیں طرف کی اس سے زیادہ مؤثر دوائیں لیکیسس اور لیڈم ہیں جو آرنیکا کے ساتھ مل کر خوب کام دکھاتی ہیں.اگر ان کے ساتھ کیڈمیم سلف (Cadmium Sulph)30 میں روزانہ تین بار دی جائے تو اور بھی مؤثر ثابت ہوتی ہیں.اگر اس نسخہ سے کوئی فائدہ نہ ہو تو اسے چھوڑ کر سلفر اور رسٹاکس ادل بدل کر دے کر دیکھیں.
رسٹاکس 712 رسٹاکس کے سردرد کی کئی علامات بخار میں ہونے والے سردرد سے مشابہ ہوتی ہیں.اگر کسی دوسری دوا کی علامتیں واضح ہوں تو وہی دوا دینی چاہئے.اگر کسی دوا کی علامتیں واضح نہ ہوں تو بسا اوقات رسٹاکس مفید ثابت ہو سکتی ہے.عموماً علامات میں سر بوجھل ہوتا ہے اور درد پیشانی سے شروع ہو کر سر کے پچھلی جانب گدی میں جاتا ہے.رسٹاکس میں چہرے اور سر کی طرف خون کا دوران ہوتا ہے.جلد دکھتی ہے اور سرخ اور متورم ہو جاتی ہے.شدید کھجلی ہوتی ہے.ایگزیما کے چھالوں پر کھرنڈ بن جاتے ہیں.بچوں کے ایگزیما میں خصوصاً سر کا ایگزیمارسٹاکس کے زیر اثر آتا ہے لیکن بعض اوقات اس کا رد عمل بہت سخت ہوتا ہے.اگر وہ چند دن کے اندر اندر ٹھیک ہو جائے تو پھر دوبارہ رسٹاکس دی جاتی ہے.اگر ایگزیما ٹھیک نہ ہو تو پھر دوسری دوا ڈھونڈ نی بہت مشکل ہے.جلد کی ایسی امراض میں جب یہ صورت پیدا ہو وہاں یا درکھنا چاہئے کہ وہ جلد کا کینسر بھی ہوسکتا ہے اور اس صورت میں کارسینوسن (Carsinocin) اور ریڈیم برو میٹم (Radium Bromitum) کو ہزار طاقت میں ہفتہ ہفتہ کے وقفہ سے ایک دو مہینے تک دے کر دیکھنا چاہئے.اسی طرح گریفائٹس اور سور ائینم کو بھی ادل بدل کر دیا جائے تو بعض سخت ضدی ایگزیموں میں بھی یہ مفید ثابت ہوا ہے.رسٹاکس آنکھوں کی انفیکشن میں بھی بہت مفید ہے جبکہ آنکھیں سرخ ہو جائیں اور پیپ پڑ جائے.خاص طور پر اگر مرطوب موسم میں آنکھوں کی تکلیفیں زیادہ ہوں تو یہ بہت کارآمد ہے.آنکھ کی حرکت یا آنکھ پر دباؤ پڑنے سے تکلیف بڑھتی ہے اور بہت گرم پانی نکلتا ہے.منہ میں زخم اور چھالے بن جائیں اور سرخ رنگ کی کچی کچھی سطح نظر آئے اور رسٹاکس بالمثل دوا ہو تو اس میں بھی اچھا کام کرے گی.منہ کی تکلیفوں میں اس کی خاص پہچان یہ ہے کہ منہ میں دھات کا سا مزہ آنے لگتا ہے جیسے بیٹری کے سیل کو زبان لگائی جائے تو مجیب سا احساس ہوتا ہے.زبان سرخ اور زخمی ہی ہو جاتی ہے.منہ اور
رسٹاکس 713 ٹھوڑی کے ارد گرد آبلے بن جاتے ہیں.حلق کے غدودسوج جاتے ہیں اور گلے میں سوزش ہوتی ہے.چھالے پڑ جاتے ہیں.خوراک نگلنی بہت مشکل ہوتی ہے.رسٹاکس خوراک کی نالی کی اس قسم کی انفیکشن (Oesphagus) میں بہت مفید ہے.ٹائیفائیڈ میں بھی رسٹاکس کارآمد ہے.اس میں بخار سر کو چڑھتا ہے، ہوا سے پیٹ میں گڑ گڑاہٹ پیدا ہوتی ہے اور بہت تناؤ ہو جاتا ہے.ڈکار نہ باہر آتا ہے نہ نیچے اترتا ہے.ہوا کے اخراج کے دونوں راستے تنگ ہو کر سکڑ جاتے ہیں.یہ بہت تکلیف دہ چیز ہے.رسٹاکس اس کے لئے اچھی دوا ہے.اس کے علاوہ کو چیک بھی مفید ہے.اگر ضرورت سے زیادہ بوجھ اٹھانے کی وجہ سے رحم میں نیچے گرنے کا رجحان پیدا ہوتو رسٹاکس بہترین دوا ہے.لیکن اس کا اثر صرف رحم تک محدود نہیں ، ہر عضلہ جسے زیادہ بوجھ اٹھانے سے نقصان پہنچا ہواس میں رسٹاکس اور ملی فولیم کو فراموش نہیں کرنا چاہئے.رسٹاکس کی ایک اور علامت یہ ہے کہ مریض کے گلے کی خرابی کی وجہ سے آواز بیٹھی ہوئی لگتی ہے.جب وہ بولنا شروع کرے تو ٹھیک ہو جاتی ہے اور جتنا بولے آواز صاف ہوتی چلی جاتی ہے.اگر ایسے مریض کئی کئی گھنٹے بھی لگا تار لیکچر دیں تو آواز ٹھیک رہے گی لیکن بعد میں اس کا رد عمل ظاہر ہوگا.رسٹاکس کی کھانسی بہت تکلیف دہ ہوتی ہے.نرخرے میں ہمہ وقت خارش ہوتی رہتی ہے.رسٹاکس سے جلد فرق پڑتا ہے.دل کے عضلات ڈھیلے پڑ جائیں ، دل پھیل کر بڑا ہو جائے اور اپنے فعل میں کمزور ہونے لگے تو رسٹاکس اس تکلیف میں بہت مؤثر ہے.اگر کھلاڑیوں کا دل پھیل جائے تو ان کے لئے رسٹاکس ہی بہترین دوا ہے.دل کی کمزوری یا بیماری کی وجہ سے بائیں بازو میں سن ہونے کا احساس اور بڑھتی ہوئی فالجی کیفیت پیدا ہو تو اس میں بھی رسٹاکس چوٹی کی دوا ہے.کچھ دن لیکیس اور آرنیکا دیں اور اگر فائدہ نہ ہو تو رسٹاکس کی کچھ خوراکیں دیں پھر دوبار لیکلیس اور آرنیکا شروع کر دیں.
رسٹاکس 714 کمر کی تکلیفوں کے لئے رسٹاکس بہت مفید ہے.ریڑھ کی ہڈی کے اردگرد کے عضلات میں اکثر خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں، ان میں رسٹاکس اچھا کام کرتی ہے.اگر مخنوں میں موچ آ جائے اور اس مرض کی دیگر متعلق دوائیں پورا کام نہ کریں تو رسٹاکس شفا کے عمل کو مکمل کر سکتی ہے.عورتوں کی ٹانگوں کی بے چینی خصوصاً سوتے میں ٹانگوں کو ہلاتے رہنا بعض دفعہ دبے ہوئے ایگزیما یا خارش کی وجہ سے بھی ہوتا ہے.اگر ایسا ہو تو رسٹاکس دینے کی صورت میں ٹانگوں کو آرام آئے گا تو جلد پر مرض ظاہر ہو جائے گا.چھپا کی (Urticaria) مختلف بخاروں سے تعلق رکھتی ہے.ملیریا میں رسٹاکس کے مریضوں میں اکثر چھپا کی لکھنے کا رجحان ہوتا ہے.شنگل یعنی ہر چیز (Herpes) میں بھی رسٹاکس اچھی دوا ہے.ایک ہر پیز تو جنسی بے راہروی کا نتیجہ ہوتی ہے، دوسری قسم وہ ہے جس میں اعصاب متاثر ہوتے ہیں.اس قسم کی ہر پیز میں رسٹاکس بھی دوا ہوسکتی ہے بشرطیکہ ماؤف جگہ سے بہت گرم پانی بہہ رہا ہو.مددگار دوائیں برائیونیا.کلکیر یا فلور.فائٹولا کا دافع اثر دوائیں : اپنا کارڈیم - کروٹن.گراونڈ لیا.میز مریم.گریفائٹس 30 سے 200 اور بہت اونچی طاقت طاقت:
ریومکس کرسپس 715 164 ریومکس کرسپس RUMEX CRISPUS (Yellow Dock) ریو مکس کرسپس کھانسی کے لئے بہت اچھی دوا ہے خصوصاً وہ کھانسی جو گلے میں خارش اور سرسراہٹ کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے.ناک ، گلا، سانس کی نالی اور چھاتی بلغمی مواد سے بھر جاتی ہے.یہ بلغم پیلی یا گاڑھی دونوں صورتوں میں خارج ہوتی ہے.ریو مکس کے بارے میں عموماً یہ تاثر ہے کہ اس میں ہمیشہ بلغمی کھانسی ہوتی ہے جس کے مزمن ہو جانے کا امکان ہوتا ہے لیکن اس کے بالکل بر عکس رو مکس میں خشک کھانسی بھی پائی جاتی ہے.اس لئے صرف پیغمی علامتوں پر ہی نظر نہیں رکھنی چاہئے بلکہ خشک، تنگ کرنے والی کھانسی جو مستقل شکل اختیار کر لے وہ بھی ریومکس کے دائرہ کار میں آتی ہے.ڈاکٹر کینٹ نے بھی لکھا ہے کہ ریومکس میں سخت قسم کی خشک کھانسی پائی جاتی ہے.سیکھانسی دوروں کی شکل میں بھی آتی ہے.سانس کی نالی اور حلق میں سرسراہٹ ہوتی ہے جو کھانسی پیدا کرتی ہے.ریو مکس کی کھانسی کے ساتھ سینے کی درمیانی ہڈی میں درد ہوتا ہے.لیٹنے کے چند منٹ بعد شدید کھانسی کا دورہ اٹھتا ہے.بعض دفعہ آواز بالکل بند ہو جاتی ہے.بعض مریضوں کا کھانسی کے دورہ کے ساتھ پیشاب بھی خطا ہو جاتا ہے.بعض اوقات سوزش یا انفیکشن بڑھ کر بلم پیدا کرنے کا موجب بن جاتی ہے.ایسا مریض بلغمی مزاج کہلاتا ہے لیکن بعض لوگوں کے جسم بلغم پیدا کرنے کے خلاف رد عمل دکھاتے ہیں.یونانی طب میں مریضوں کی پہچان کے لئے مختلف مزاج بیان کئے گئے ہیں.مثلاً صفراوی مزاج ، بلغمی مزاج ، دموی مزاج اور سوداوی مزاج.ریونکس اگر بلغمی مزاج والے مریض کی دوا ہو تو بہت زیادہ بلغم بنے گی لیکن اگر مریض کا کوئی اور مزاج ہو اور
ریومکس کرسپس 716 اس میں ریو کس کی علامتیں پائی جائیں تو وہاں یہ علامت ظاہر نہیں ہوگی.اس طریق پر دواؤں کی نشان دہی ہو سکتی ہے.انہیں کلاسیکل طب کے حوالے سے سمجھنا چاہئے ورنہ بعض تضادات دکھائی دیں گے.ریومکس معدہ کی تکلیفوں میں بھی مفید ہے.معدہ میں بہت ہوا بنتی ہے اور گڑ گڑاہٹ کی آواز آتی ہے.عموما نزلے کے بعد شدید دست شروع ہو جاتے ہیں ریو کس میں دست بغیر درد کے اور مقدار میں بہت زیادہ ہوتے ہیں جو پانی کی طرح پتلے اور سیاہی مائل ہوتے ہیں جو مریض کو صبح صبح بستر سے اچانک اٹھنے پر مجبور کر دیتے ہیں.کھانے کے بعد معدے میں بوجھ محسوس ہوتا ہے جو حلق تک جاتا ہے.کھانا کھانے کے بعد چھاتی کے بائیں طرف درد ہوتا ہے، مریض گوشت نہیں کھا سکتا.پیٹ میں درد ہوتا ہے جو حرکت سے یا بولنے سے بڑھ جاتا ہے.ریو کس کی ایک علامت یہ ہے کہ مریض کی زبان کناروں سے چھل جاتی ہے اور زبان پر زر درنگ کی تہہ جم جاتی ہے.جسم کے مختلف حصوں میں خارش بھی ہوتی ہے خصوصاً ٹانگوں میں چھوٹے چھوٹے دانے بن جاتے ہیں.ٹھنڈی ہوا لگنے سے اور کپڑے بدلتے ہوئے خارش بڑھ جاتی ہے.ریو کس کا مریض بے حدست ہوتا ہے اور بہت کمزوری محسوس کرتا ہے.مزاج میں عمومی کمزوری کے ساتھ چڑ چڑا پن پیدا ہو جاتا ہے.سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی آجاتی ہے.سر میں ہلکا ہلکا در درہتا ہے.درد پیشانی اور سر کی دائیں جانب ہوتا ہے.چھینکیں آنے سے درد میں اضافہ رہتا ہے.نیز اس کا مریض ٹھنڈی ہوا سے سخت زو حس ہوتا ہے.ہوا کے جھونکے سے کھانسی کا دورہ شروع ہو جاتا ہے.وہ عموماً اپنا سرمنہ ڈھانپ کر سوتا ہے.مریض کو بہت چھینکیں آتی ہیں جن کے ساتھ ناک بہتا ہے.شام کو اور رات کو تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے.ریومکس میں کھانسی عموماً گیارہ بجے شروع ہو جاتی ہے خواہ مریض جاگ رہا ہو یا سویا ہواہو.ریوکس کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ آواز بیٹھ جاتی ہے.گلے میں سخت بلغم کے جم جانے کی وجہ سے بولنا مشکل ہو جاتا ہے.
ریومکس کرسپس 717 ریوکس میں گلے میں کوئی گولہ سا پھنسا ہونے کا احساس ہوتا ہے جو نگلنے سے یا کھنکارنے سے کم نہیں ہوتا.ریو کس میں وجع المفاصل کی علامت بھی پائی جاتی ہے.اس کی امتیازی علامت یہ ہے کہ جوڑوں کی تکلیف سردی سے بڑھ جاتی ہے.ہر قسم کی سردی جوڑوں پر اثر انداز ہوتی ہے.یہ کلکیر یا فاس کی بھی خاص علامت ہے.ریومکس کی تکلیفیں حرکت سے بڑھ جاتی ہیں.یہ علامت برائیونیا سے ملتی ہے لیکن برائیو نیا میں مریض سرد ہوا سے ایسا زود حس نہیں ہوتا جیسا ر یو کس سے ہوتا ہے.طاقت : 30
718
روٹا 719 165 روٹا گر ویلنس RUTA GRAVEOLENS (Rue-Bitterwort) روٹا ایک ایسی بوٹی سے تیار کی جانے والی دوا ہے جس کا انگریزی نام Rue-Bitterwort ہے.یہ بوٹی بہت سی روایتی دواؤں میں استعمال ہوتی رہی ہے.اس کے بیجوں کو بھی مختلف قسم کے زہروں کا اثر زائل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے.اس بوٹی کو جڑوں سمیت پیس کر عرق نکالا جاتا ہے اور اس سے ہومیو پیتھی دوا بنائی جاتی ہے جو روٹا کے نام سے مشہور ہے.روٹا کا شمار ان دواؤں میں ہوتا ہے جو آرنیکا کی طرح چوٹوں میں استعمال ہوتی ہیں.رونا خاص طور پر ہڈی کی چوٹ میں مفید ہے.اگر کسی عضو پر ضرورت سے زائد بوجھ پڑے اور وزنی چیز کو اٹھانے یا کھینچنے کے بداثرات باقی رہ جائیں اور کھچاؤ پیدا ہو تو رسٹاکس اور ملی فولیم کی طرح روٹا بھی مفید ہے.اس لحاظ سے روٹا کی رسٹاکس سے بہت مشابہت ہے.سردی اور نمی سے تکلیفیں بڑھتی ہیں.کھلاڑیوں کو طاقت سے بڑھ کر بوجھ اٹھانے کی وجہ سے دل کی تکلیف ہو جائے تو شروع ہی میں روٹا کو ایکونائٹ کے ساتھ ملا کر دینے سے یہ غیر معمولی اثر دکھاتی ہے.بسا اوقات آنکھ کا باریک کام کرنے والوں کی بصارت پر بہت برا اثر پڑتا ہے.نظر دھندلا جاتی ہے.آنکھوں میں تھکاوٹ کا احساس ہوتا ہے خصوصاً بائیں آنکھ میں کمزوری اور دباؤ کے علاوہ درد بھی ہوتا ہے.نظر تھر تھرانے لگتی ہے.اس تکلیف کے ازالے میں روٹا بہت فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے.بسا اوقات شدید محنت اور ورزش کے نتیجہ میں کھلاڑیوں کے دل پھیل جاتے ہیں عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ دل پھیلنے کا کوئی علاج نہیں ہے لیکن ہو میو پیتھی ادویہ سے دل کے
روٹا 720 پھیلاؤ کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے ان کے استعمال سے آہستہ آہستہ اعصاب میں جان پڑ کر لچک پیدا ہو جاتی ہے اور وہ خود بخود اپنی اصل حالت کی طرف واپس لوٹنے لگتے ہیں.اس پہلو سے روٹا بھی رسٹاکس کی ہم پلہ دوا ہے.اعصابی ریشے زخمی ہو جائیں تو عام اعصابی طاقت کی دوائیں کام نہیں کرتیں.آرنیکا بھی اثر نہیں کرتی لیکن روٹا اور رسٹاکس حیرت انگیز اثر دکھاتی ہیں.اگر اپریشن کے دوران سرجن کی بداحتیاطی سے چاقو ہڈی کی سطح کو زخمی کر دے تو روٹا اس زخم کو تیزی سے مندمل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے.نشتر کے لگائے ہوئے زخموں میں جہاں اعصابی ریشے زخمی ہو جائیں ہائی پیریم (Hypericum) بھی بہت مفید ہے.کسی ہڈی پر ضرب آ جائے یا فریکچر ہو جائے تو روٹا دینے سے شفا کی رفتار بہت تیز ہو جاتی ہے.روٹ ہڈی اور اس کے اردگرد کے اعصاب کو تقویت دیتی ہے.روٹا کے ساتھ کلکیر یا فاس اور سمفا ٹیٹم (Symphytum) کو ملا لیا جائے تو بہت مفید نسخہ بنتا ہے.کلکیر یا فاس ہڈی کے اندرونی مادے کے لئے اور سمفائیٹم اور روٹا اعصابی رگ وریشہ کو طاقت دینے کے لئے مفید ہیں.اگر چوٹ تازہ ہو تو آرنیکا 30 بھی ملا لینی چاہئے.روٹا عموماً پر خون مریضوں کی دوا ہے.اس میں خون بہنے کا رجحان پایا جاتا ہے.مختلف بخاروں ، اعصابی دردوں اور معدے کی کمزوری میں مفید ہے.روٹا کا مریض بہت حساس ہوتا ہے.جلد غصہ میں آ جاتا ہے.چلنے سے کمزوری محسوس کرتا ہے.ٹانگیں بوجھ برداشت نہیں کر سکتیں.اعضاء میں تھکن اور درد خصوصاً کمر اور پیٹھ میں درد روٹا کی نمایاں علامات ہیں.چت لیٹنے سے درد کی شدت میں کمی آتی ہے.آرام سے عموماً تکلیف بڑھتی ہے اور حرکت سے کم ہو جاتی ہے.روٹا میں کانوں کی پچھلی ہڈی میں درد کا احساس اور کانوں میں بوجھ محسوس ہوتا ہے.چہرے کی ہڈی میں درد، مسوڑھے بھی دکھتے ہیں اور آسانی سے خون نکل آتا ہے.آدھی رات کو کھانسی اٹھتی ہے.سینے میں تنگی اور بوجھ کا احساس ہوتا ہے اور حجرے میں درد ہوتا ہے جیسے چوٹ لگی ہو.ٹخنوں کی موچ کے علاج میں روٹا کا ذکر دوسرے ابواب میں بھی گزر چکا ہے.اس
721 تکلیف کے ازالے میں اسے بہت شہرت حاصل ہے.پاؤں کی ہڈیوں میں درد جس کی وجہ سے قدم زمین پر رکھنا دشوار ہو اور یوں محسوس ہو جیسے زخم بن گئے ہوں.نیز کلائی میں موچ آنے اور انگلیوں کے کھچاؤ کو دور کرنے کے لئے بھی رونا مفید ہے.مددگار دوا کلکیریا کارب دافع اثر دوا: کیمفر طاقت 30 سے 200 تک
722
سباڈیلا 723 166 سباڈیلا SABADILLA (Cevadilla Seed) سباڈیلا مسلسل چھینکوں کے علاج میں بہت مشہور ہے.اس میں نزلہ نہ بھی ہو پھر بھی بکثرت چھینکیں آتی ہیں.بعض مریضوں کو گھاس سے الرجی ہوتی ہے اور چھینکوں کے سخت دورے شروع ہو جاتے ہیں.جب دورہ ختم ہو جائے تو عموماً ناک سے پانی نہیں بہتا.گویا یہ چھینکیں نزلہ کی وجہ سے نہیں بلکہ نتھنوں کے اندر سرسراہٹ کی وجہ سے آتی ہیں.بعض ڈاکٹر سباڈیلا کو بہت چھوٹی طاقت میں تجویز کرتے ہیں لیکن میں نے اسے 30 طاقت میں زیادہ مفید پایا ہے.سباڈیلا کا مریض بہت سردی محسوس کرتا ہے.معمولی سی سردی میں بھی کانپنے لگتا ہے اور ہر ٹھنڈی چیز سے اس کی تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے.سباڈیلا میں بہت سی علامتیں لیکلیس سے ملتی ہیں.تکلیف کی بائیں سے دائیں طرف حرکت اور مریض کا بہت ٹھنڈا ہونا ان دونوں کی مشترکہ علامتیں ہیں.لیکیس خود بھی چھینکوں کی الرجی میں جسے Hay Fever کہتے ہیں، چوٹی کی دوا ہے.اگر یہ الرجی موسم بہار میں ہو تو لیکیسس کو اولین حیثیت دینی چاہئے.سباڈیلا بھی دراصل موسم بہار ہی کی دوا ہے جب پھول کھل رہے ہوں.پھولوں کی خوشبو سے بعض لوگوں کو بہت چھینکیں آتی ہیں.ایسی فوری تکلیفوں میں سباڈیلا اچھا کام کرتی ہے لیکن اگر خزاں کے موسم میں الرجی ہو اور بہت چھینکیں آئیں تو ایلیم سیپا (Allium Cepa) بہتر ہے.سباڈیلا کی مزمن دوالیکیسس ہے اور ایلیم سیپا کی مزمن دوا ابلیو مینا ہے.یہ بات یاد رکھیں کہ جب بیماری کا فوری حملہ ہو تو عموماً اس دوا سے علاج کیا جاتا ہے جو فوری اثر والی دوا ہو.جب بیماری میں افاقہ ہو جائے تو پھر مستقل اثر والا دیر پا علاج ہونا چاہیئے.
سباڈیلا 724 جب سباڈیلا کی علامتیں ہوں تو سباڈیلا ہی دیں.جب مریض ٹھیک ہو جائے تو اس بات کا انتظار نہ کریں کہ بیماری مریض پر دوبارہ حملہ آور ہو.بیماری کے مستقل علاج کے لئے 1000 طاقت میں پندرہ دن کے وقفہ سے لیکیس دیں تو مکمل شفا ہوسکتی ہے.لیکن اگر سباڈیلا اور دیگر وقتی دوائیں فائدہ نہ دیں تو پھر بھی فوری ضرورت کے لئے لیکلیس استعمال کی جاسکتی ہے.بعض مریضوں میں یہ فوری اثر بھی دکھاتی ہے.اس لئے اسے مزمن دوا کے طور پر ہی نہیں ، حاد دوا کے طور پر بھی استعمال کروایا جاتا ہے.بعض دفعہ ایک خوراک دینے سے ہی چھینکیں بند ہو جاتی ہیں.چھینکوں کی بیماریاں مختلف شکلوں میں ڈھلتی رہتی ہیں.اس لئے ان کا علاج بہت توجہ سے ہونا چاہئے.مذکورہ بالا سب دوائیں عموماً مفید ثابت ہوتی ہیں اور مایوس نہیں کرتیں.خود سباڈیلا میں بھی بعض مزمن بیماریوں کو دور کرنے کی صلاحیت ملتی ہے.اگر نزلہ پرانا ہو جائے اور ناک کی نالیوں میں بیٹھ رہے تو ایسے نزلہ کے علاج کے لئے بعض دفعہ سباڈیلا دینی پڑے گی.سباڈیلا کی ایک عجیب علامت یہ ہے کہ اس کے بعض مریضوں کو یہ وہم ہونے لگتا ہے کہ ان کا کوئی عضو دوسرے اعضاء سے بڑا ہو گیا ہے.کئی دفعہ میرے پاس ایسے مریض آئے ہیں جو کہتے ہیں کہ ان کا چہرہ ایک طرف سے سوج کر بڑا ہو گیا ہے لیکن دیکھنے میں ایسا نہیں لگتا.یہ سباڈیلا کی خاص علامت ہے.اس علامت کی وجہ سے سباڈیلا دیں تو دوسری تکلیفیں بھی ساتھ ہی دور ہو جاتی ہیں.ایک عورت کا کیس مجھے یاد ہے جسے ہسپتال والوں نے لا علاج قرار دے دیا تھا اور اس کی یہ علامت سب سے نمایاں تھی کہ وہ کہتی تھی کہ میری ایک گال سوجی ہوئی ہے.اس کو سبا ڈیلا دی گئی تو اللہ کے فضل سے سب علامتیں ٹھیک ہو گئیں.اگر دماغ میں کوئی غیر معمولی خیال بیٹھ جائے تو اس سے دوا تلاش کرنے میں بہت مدد ملتی ہے.سباڈیلا کا مریض اس وہم میں بھی مبتلا ہو جاتا ہے کہ اس کی پسلیاں یا ٹانگیں ٹیڑھی ہو گئی ہیں یا بعض اعضاء سوکھ رہے ہیں اور یہ و ہم اتنا پختہ ہو جاتا ہے کہ اس کے دماغ سے نکلتا ہی نہیں.
سباڈیلا 725 تو ہمات کی مدد سے دواؤں کی پہچان آسان ہو جاتی ہے اور بعض پیچیدہ بیماریوں کی شناخت میں مددملتی ہے.بعض مریضوں کو عجیب و غریب وہم ہوتے ہیں.مثلاً تھو جا کے مریض کو یہ وہم ہوتا ہے کہ میں شیشے کا بنا ہوا ہوں اور جھنجھنا کر ٹوٹ جاؤں گا.ایک مریض بہت محتاط ہو کر چلتا تھا کہ کہیں ٹھوکر نہ لگ جائے اور ٹوٹ نہ جاؤں.اسے ایک ماہر نفسیات کے پاس لے جایا گیا.اس نے سوچا کہ اس کا ایک ہی علاج ہے کہ میں اسے زور سے تھپڑ ماروں، جب ٹوٹے گا نہیں تو خود بخود ٹھیک ہو جائے گا.اس نے اچانک زور سے تھپڑ مارا تو وہ مریض چھن چھن کر وہیں گر کر مر گیا.بظاہر تو یہ قصہ لگتا ہے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ سچ ہے کہ نہیں مگر بعض معتبر لوگوں نے بیان کیا ہے.اگر سچ ہے تو یہ تھو جا کا مثالی مریض ہے.Hay Fever میں ناک کے اندر کھجلی ہوتی ہے جو پیٹ کے کیڑوں کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہے.اگر پیٹ میں کیڑے ہوں تو ناک کے اوپر یا اندر کھلی ہونا ایک طبعی امر ہے جس کی وجہ سے چھینکوں کا عارضہ لگ سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ سباڈیلا پیٹ کے کیڑوں کا بھی بہت اچھا علاج ہے.اگر چہ بورک (Dr.Boericke) نے سباڈیلا باب میں تو اس کا ذکر نہیں کیا مگر ر بیپرٹری میں سباڈیلا کو کیڑوں کی اہم دوا ظاہر کیا ہے.سباڈیلا کی کھجلی عموماً تالو میں ہوتی ہے.ایک اور دوا Wyethia تالو میں کھجلی کی بجائے سخت درد پیدا کرتی ہے.اگر یہ درد جگہ بدلے یعنی تالو پر بظاہر ٹھیک ہو جائے لیکن گلے کے پچھلے حصہ پر شدید حملہ کرے اور اس کی وجہ سے درد کے علاوہ بار بار کھانسی اٹھے اور بے چینی ہو تو نکس وامی کا مفید ہے.سباڈیلا نزلاتی کیفیت میں آرسنک سے مشابہ ہے لیکن آرسنک میں جلن زیادہ ہوتی ہے.بعض ایسی دوائیں ہیں جن میں بیماری کے دوران بہت بھوک لگتی ہے.سباڈیلا میں بھی چھینکوں کے حملے کے دوران بھوک بہت بڑھ جاتی ہے.یہ دوا پیٹ کے کیٹروں کی دشمن ہے.اگر ناک کے باہر یا ہونٹوں کے اردگرد اور تالو میں مستقل کھجلی کی علامتیں پائی جائیں تو ایسے مریض کے پیٹ میں عموماً کیڑے ہوتے
سباڈیلا 726 ہیں.انتڑیوں کے عوارض کا جسم کے بیرونی حصوں کی طرف منتقل ہونا ایک طبعی امر ہے.معدے کی سوزش ہو تو منہ میں بھی سوزش ہوتی ہے اور بعض دفعہ چھالے سے بن جاتے ہیں.اگر پیٹ میں کیڑے ہوں اور ساتھ ہی دوسری نزلاتی علامتیں بھی ہوں تو یہ ایک ہی دوا دونوں کو ٹھیک کر سکتی ہے.پیٹ کے کیڑوں کے لئے ایک دوا سٹیم بھی ہے.اس کے اثر سے یوں لگتا ہے جیسے کیڑے پکھل گئے ہوں.سباڈیلا میں خشک کھانسی کے ساتھ پیٹ میں درد بھی ہوتا ہے اور سانس لینے میں دقت محسوس ہوتی ہے.اس وقت پیاس بالکل نہیں ہوتی اور پیٹ میں خالی پن کا احساس ہوتا ہے.میٹھی چیزیں کھانے کی خواہش ہوتی ہے.مریض گرم چیز کھانے سے بہتر محسوس کرتا ہے.ٹھنڈ اور ٹھنڈے مشروبات سے تکلیف میں اضافہ ہو جاتا ہے.سردی سے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں جبکہ سر اور چہرہ گرم رہتے ہیں.گرمی ، جلن اور جسم میں کچھ رینگنے کا احساس پایا جاتا ہے.جلد بالکل خشک ہو جاتی ہے اور خشکی کی وجہ سے جلد میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں.خصوصاً پاؤں کی انگلیوں کے نیچے جلد پھٹنے کا رجحان ملتا ہے.پاؤں کے ناخنوں میں مزمن سوزش بھی سباڈیلا کی ایک علامت ہے.گلے میں کچھ پھنسنے کا احساس ہوتا ہے جس کی وجہ سے مریض ہر وقت نگلنے کی کوشش کرتا رہتا ہے.گلے کی یہ تکلیف مزمن ہو جاتی ہے جو سرد ہوا سے بڑھ جاتی ہے.زبان پر جلن کا احساس ہوتا ہے.بچوں میں اسہال کا رجحان بھی ملتا ہے.پیٹ میں کاٹنے والے درد محسوس ہوتے ہیں جیسے کوئی چھری سے کاٹ رہا ہو.عورتوں کو حیض کا خون دیر سے جاری ہوتا ہے اور بیضہ الرحم (Ovary) میں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے چاقو چل رہے ہوں.اعضاء کے نیچے گرنے کا احساس دوسری اور بہت سی دواؤں کی طرح سباڈیلا میں بھی پایا جاتا ہے.مددگار دوا: سیا دافع اثر دوائیں پلسٹیلا.لائیکو پوڈیم کو نیم لیلیس طاقت 30
سبائنا 727 167 سپاستا SABINA (Savine) سبائنا عورتوں کی بیماریوں میں بکثرت استعمال ہونے والی دوا ہے اور حیض کے سوا اس کی تصویر عموماً پلسٹیلا سے ملتی ہے.گرمی سے اس کی تکلیفیں بڑھتی ہیں.پلسٹیلا میں حیض کا خون بہت کم اور رک رک کر آتا ہے جبکہ سبائنا میں اس کے برعکس بہت زیادہ خون بہتا ہے.خون ہنے کا رجحان صرف رحم تک ہی محدود نہیں رہتا بلکہ دوسرے مقامات مثلا ناک یا گردوں سے بھی خون بہنے لگتا ہے.اگر حیض کا خون بہت زیادہ ہو اور عمومی رنگ میں بھی خون بہنے کا رجحان ہو تو سبائنا بہت مؤثر ثابت ہوگی.سبائنا میں عموماً تیسرے ماہ میں حمل ضائع ہونے کا بہت احتمال ہوتا ہے.بعض اوقات عورتوں کے بیضہ الرحم میں چھوٹی چھوٹی گانٹھیں سی بن جاتی ہیں جن کی وجہ سے حمل نہیں ٹھہرتا.یہ سبائنا کی خاص علامت ہے.اس صورت میں اللہ کے فضل سے سبائنا سے مکمل شفا ہو جاتی ہے اور حمل بھی ٹھہر جاتا ہے.بواسیر کے وہ مسے جن سے بہت زیادہ خون بہتا ہو، ان میں بھی مفید ہے.اگر گردوں میں سوزش کی وجہ سے بہت درد اور بے چینی ہوا اور پیشاب میں خون آئے تو سبائنا اچھی دوا ہے.اس لحاظ سے یہ پریرا بر یوا (Pareira Brava) سے مشابہت رکھتی ہے.سبائنا میں گردوں کے چاروں طرف ٹھہری ہوئی سوزش سی رہتی ہے.دردیں لہر دار نہیں ہوتیں.پر میرا میں دردیں نیچے کی طرف اترتی ہیں اور پتھریاں بھی پائی جاتی ہیں جو مثانے میں پھنس جاتی ہیں.سبائنا میں مریض ہر وقت پیشاب کی حاجت محسوس کرتا ہے.فارغ ہوتے ہی دوبارہ حاجت محسوس ہوتی ہے حالانکہ پیشاب مقدار میں زیادہ
سبائنا 728 نہیں ہوتا.صرف بے چینی ہوتی ہے.یہ علامت کینتھرس میں بھی پائی جاتی ہے.مردوں اور عورتوں دونوں کے اخراجات سوزا کی بیماریوں (Gonorrhoeal) کی طرز کے ہوں تو سبائنا کی ضرورت محسوس ہو گی.سوزاک کی باقاعدہ تکلیف نہ بھی ہو اور مریض بظاہر بالکل ٹھیک ٹھاک ہو لیکن اگر اخراجات سوزاک کی علامات رکھتے ہوں تو ان میں سبائنا بہت مؤثر دوا ہے.سبائنا کی ایک علامت یہ ہے کہ حمل نہ بھی ہو تو رحم میں دردزہ کی طرح در داٹھتے ہیں جو بچہ کی پیدائش کے وقت سے تعلق رکھتے ہیں.رحم میں حرکت اور نیچے کی طرف دباؤ ہوتا ہے.اگر واقعی حمل ہو تو پھر ایسے در دحمل ضائع ہونے کا موجب بن جاتے ہیں.سبائنا کی ایک خاص علامت حیض کے ایام کا لمبا ہونا اور بہت زیادہ خون بہنا ہے.بعض دفعہ یہ دور اتنا لمبا ہو جاتا ہے کہ ایک حیض دوسرے حیض سے ملنے لگتا ہے.درمیانی وقفہ بہت کم رہ جاتا ہے.سرخ چمکدار خون بہتا ہے جس کی وجہ سے مریضہ عموماً خون کی کمی کا شکار ہو جاتی ہے اور اس کے خون کی رنگت بھی گلابی ہو جاتی ہے.رحم میں شدید درد کی لہریں اٹھتی ہیں.ان دردوں کا جنسی اعضاء کی خارش سے بھی تعلق ہوتا ہے.اگر جنسی اعضاء میں خارش ہو اور درد رحم کی طرف منتقل ہو تو سبائنا اس کا علاج ہے.یہ درد ایک مقام پر نہیں ٹھہرتے ، ان کی حرکت نیچے یا اوپر کی طرف مسلسل جاری رہتی ہے.اکثر تجربہ کار ڈاکٹروں نے لکھا ہے کہ سبائنا اسقاط کے رجحان کو روکنے کے لئے حفظ ما تقدم کے طور پر بہت اہم کردار ادا کرتی ہے.میرے نزدیک کولو فائیلم (Caulophyllum) بھی بہت مؤثر ہے.(دیکھئے باب کولو فائیلم ) حیض کے طویل ایام، رحم کی اندرونی تکالیف اور رسولیوں کے رجحان کو ختم کرنے کے لئے سبائنا کے ساتھ کلکیریا کارب اور میوریکس ملا کر دی جائیں تو یہ نسخہ بھی بہت مؤثر ہے.یہ اسقاط کے رجحان کو بھی ختم کرتا ہے.اگر حمل کے دوران رحم کی بیرونی جھلی پھٹ جائے اور جنین کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو بعض دفعہ فوری طور پر سبائنا دینے سے یہ خطرہ ٹل جاتا ہے.
سبائنا 729 اگر حیض کے بعد لیکوریا بہت بڑھ جائے جو چھیلنے والا اور سخت بد بودار ہو نیز جنسی خواہشات بہت بڑھ جائیں تو سبائنا استعمال کرنی چاہئے.سبائنا میں مسوں کی علامت بھی پائی جاتی ہے جن میں خون بہنے کا رجحان ہوتا ہے.یہ مسے کافی خطرناک بھی ہو سکتے ہیں اور ان کا زیادہ تعلق رانوں اور پیٹھ کے درمیان والے حصہ سے ہوتا ہے.سبائنا میں خون بہنے کا رجحان تو بہت ہے مگر ایک دم بہت شدت اور جوش سے نہیں ابلتا.ملی فولیم میں جہاں خون ہے، اچانک بہت زور سے نکلنے لگتا ہے جیسے مشک کا منہ کھول دیا گیا ہو.یہ خاص فرق یا درکھنا چاہئے.سبائنا گنٹھیا میں بھی مفید دوا ہے اور اس میں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ سبائنا کے خون بہنے کا رجحان صرف گنٹھیا کی موجودگی میں رک جاتا ہے.اگر گنٹھیا ٹھیک ہو جائے تو خون بہنے لگے گا اور اگر خون بہنار کے تو گنٹھیا کی تکلیف ہو جائے گی.گاؤٹ یعنی گنٹھیا کی تکلیف گرم کمرے میں زیادہ ہو جاتی ہے.جوڑ سوزش سے سرخ اور چمکدار ہو جاتے ہیں.سینے میں جلن ہوتی ہے اور منہ کا مزہ کڑوا ہو جاتا ہے.پیٹ میں درد ہوتا ہے.سر میں اچانک درد شروع ہو جاتا ہے جو آہستہ آہستہ ٹھیک ہوتا ہے.چہرہ اور سر پر خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے.چباتے ہوئے دانتوں میں درد ہوتا ہے.ہر وقت پیٹ بھرے ہونے کا احساس رہتا ہے.سبائنا میں صرف قبض بھی پائی جاتی ہے.مدد گار دوا تھوجا دافع اثر دوا: طاقت: 30 پلسٹیلا
730
سینگونیریا 731 168 سینگونیر یا SANGUINARIA (Blood Root) سینگونیر یا (Sanguinaria) انگریزی لفظ Sanguine سے ماخوذ ہے جس کے معنی ”خون کے رنگ کا اور خون آشام کے ہیں.یہ نام ہی اس دوا کے بھر پور مزاج کو ظاہر کرتا ہے.اس کے مریض کے منہ پر سرخی اور تمتما ہٹ پائی جاتی ہے.جلن اور سرخی اس دوا کا خاصہ ہے.سر در دگدی سے شروع ہوتا ہے اور عام طور پر دائیں کنپٹی یا دا ئیں آنکھ میں آ کر ٹھہر جاتا ہے.اگر درد بائیں آنکھ میں اپنا مقام بنا لے تو وہ سپائی جیلیا (Spigelia) کی علامت ہے.سینگونیر یا کی بیماری خون کی خرابیوں کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جبکہ سپائی جیلیا کی تکلیفیں اعصاب کی زود حسی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں.اسی وجہ سے ان کے مزاج میں بھی فرق ہے.سینگو نیریا میں درد کے ساتھ دھڑکن پائی جاتی ہے.جبکہ سپائی جیلیا میں بجلی کے کوندوں کی طرح لپکتے درد کی لہریں پائی جاتی ہیں.سینگونیر یا میں نیند مرض کو بڑھا دیتی ہے.یہ علامت لیکیس سے مشابہ ہے.سینگونیر یا میں سردرد کے ساتھ شدید منتقلی بھی ہوتی ہے اور تکلیف میں بہت اضافہ ہو جاتا ہے.الٹیاں آنے کے بعد آرام آتا ہے.مریض کی ہتھیلیاں اور پاؤں جلتے ہیں اور وہ پاؤں بستر سے باہر رکھتا ہے.پلسٹیلا میں یہ علامتیں صرف عورتوں کے لئے مخصوص ہیں لیکن سینگونیر یا میں مرد عورتیں سب برابر ہیں.یہ بہت لمبے اثر والی دوا نہیں ہے صرف وقتی فائدہ پہنچاتی ہے اور مزمن بیماریوں میں کام نہیں آتی سوائے چھاتی کی مزمن بیماریوں کے جیسے تپ دق.ان میں یہ گہرے دیر پا اثر رکھنے والی دوا ثابت ہوتی ہے.
سینگونیریا 732 سینگونیر یا میں سانس کی نالی اور نرخرے میں کھانسی کے ساتھ درد بہت نمایاں ہوتا ہے.بات کرتے ہی درد شروع ہو جاتا ہے.کھانسی کے ساتھ ہوا کا گولا سا گلے میں پھنس جاتا ہے.اسے نکالنے سے کچھ سکون ملتا ہے.سینگونیر باتپ دق اور چھاتی کی بہت گہری بیماریوں میں کام آتی ہے مگر یہ صرف مریض کو پر سکون کرتی ہے مکمل شفا نہیں دیتی.تپ دق میں سلفر، سلیشیا اور گریفائٹس گومکمل شفا بخشنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگرتپ دق کا علاج عموماً نسبتا نرم دواؤں سے کرنا چاہئے جن میں سینگونیر یا بھی ہے.اکثر تمیں طاقت میں استعمال ہوتی ہے اور زیادہ اونچی طاقت میں دینے کی ضرورت نہیں پڑتی.اگر کسی کو گلاب کے پھول کی خوشبو سے الرجی ہو تو سینگو نیر یا اس کا تریاق ثابت ہوتی ہے.سینگونیر یا میں بعض دفعہ سات سات دن کے سر درد کا دورہ پڑتا ہے.اگر سینگونیر یا میں دوسری علامتیں ملتی ہوں تو بائیں طرف کے درد میں بھی مفید ثابت ہو سکتی ہے.اگر کندھے کا جوڑ جم جائے اور گردن کا دایاں حصہ اور کمر کا پچھلا حصہ بھی متاثر ہو اور سب عضلات اکٹر جائیں تو سینگونیر یا بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے.سینگونیر یا بیرونی صدمہ کی وجہ سے پہنچنے والی چوٹ کے لئے مفید نہیں بلکہ یہ اندرونی تکلیفوں کی دوا ہے.سینگونیریا کے مریض کے چہرے پر مستقل سرخی آ جاتی ہے.کھانے پینے میں بداحتیاطی اور مرغن غذاؤں سے سر درد ہونے لگتا ہے.معدے میں جلن ہوتی ہے.سب اخراجات میں تیزابیت پائی جاتی ہے.ابکائیاں بھی آتی ہیں.تے میں اتنی تیزابیت ہوتی ہے کہ گلا چھل جاتا ہے.اگر معدے میں حد سے بڑھے ہوئے تیزابی مادے موجود ہوں تو سینگونیر یا بھی، بشرطیکہ دیگر علامتیں پائی جائیں بہت فائدہ مند ثابت ہوگی.مرض بڑھنے کے ساتھ بھوک بھی بڑھتی ہے مگر کچھ عرصے کے بعد جب معدہ جواب دے جائے اور قے شروع ہو جائے تو بھوک تو رہتی ہے مگر کھانے کو دل بالکل نہیں چاہتا.
سینگونیریا 733 معدے میں تیزابیت زیادہ ہونے کی وجہ سے دمہ ہو جائے تو نکس وامیکا کے علاوہ سینگونیر یا بھی مفید دوا ہے.معدے میں ہوا بہت بنتی ہے.اسہال اچانک شروع ہو جاتے ہیں جن میں بہت تیزی پائی جاتی ہے.کروٹن، ایلو اور پوڈوفائیلم میں بھی یہ علامت ہے.اگر نزلہ اچانک ختم ہو جائے اور اسہال شروع ہو جائیں تو سینگو نیر یاد وا ہوسکتی ہے.سینگونیر یا میں حیض کا خون اور لیکوریا نہایت بد بودار ہوتے ہیں.حیض سے پہلے متلی اور پیٹ میں درد جو رانوں تک پھیلتا ہے.عورتوں کے سن یاس کی تکالیف میں سینگونیر یا استعمال کی جاتی ہے.حلق میں سرسراہٹ کے ساتھ کھانسی اٹھتی ہے جو مریض کو نیند سے جگا دیتی ہے جسے اٹھ کر بیٹھنے سے آرام آتا ہے.اس کھانسی کا تعلق عموماً معدہ سے ہوتا ہے.سونے ، آرام کرنے اور پھل کھانے سے تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.حرکت سے اور بستر میں اٹھ کر بیٹھنے سے تکلیفیں کم ہو جاتی ہیں.مددگار دوا: اینٹی مونیم ٹارٹ طاقت : 30 اور اس سے زیادہ استعمال کی جاسکتی ہے.
734
سیکیل 735 169 سیکیل کو ر ٹیٹم SECALE CORNUTUM ارگٹ ) سیکیل یعنی ارگٹ ایک ایساز ہر ہے جسے زمانہ قدیم سے ہی وضع حمل میں سہولت پیدا کرنے والا خیال کیا جاتا ہے حالانکہ اس کا ذرا بھی زیادہ استعمال سخت خطرناک ثابت ہوتا ہے.اس کی وجہ سے عورتوں کی عمومی صحت کو بہت نقصان پہنچتا ہے اور وہ ساری عمر کے لئے ایسی اندرونی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتی ہیں جن کا کوئی معروف علاج نہیں.ارگٹ جسم کے ریشوں اور خون کی نالیوں میں سکڑن پیدا کرتا ہے.جس کی وجہ سے کئی قسم کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں جو ساری عمر پیچھا نہیں چھوڑ تھیں.ایسی عورتیں جنہیں ارگٹ کافی مقدار میں دیا گیا ہو ان میں ہر وقت کالے رنگ کا خون رستا رہتا ہے.جسم سخت لاغر اور کمزور ہو جاتا ہے.جلد سکڑ کر سیاہی مائل ہو جاتی ہے.اعضاء مفلوج ہونے لگتے ہیں.مریض کو گرمی سخت تکلیف دیتی ہے اور وہ ہر وقت کھلی اور ٹھنڈی ہوا میں رہنا پسند کرتا ہے.کپڑا اوڑھنا نہیں چاہتا.آرسنک کی طرح بہت بے چینی اور جلن محسوس ہوتی ہے لیکن ایک فرق نمایاں ہے سیکیل میں اندرونی طور پر گرمی محسوس ہوتی ہے لیکن باہر سے جسم ٹھنڈا رہتا ہے.بسا اوقات پاؤں سخت ٹھنڈے ہوتے ہیں لیکن گرمی کا احساس پھر بھی ہوتا ہے اور مریض بستر سے پاؤں باہر نکالتا ہے.ہاتھ پاؤں برف کی طرح ٹھنڈے ہوں گے لیکن مریض کہے گا کہ آگ لگی ہوئی ہے جبکہ آرسنک کا مریض اندرونی طور پر سخت جلن محسوس کرتا ہے لیکن اس کے بدن کا ٹھنڈا ہونا ضروری نہیں ہے.اسے گرمی سے فائدہ ہوتا ہے.وہ جسم ڈھانک کر رکھتا ہے اور سردی محسوس کرتا ہے خواہ جسم گرم ہی کیوں نہ ہو.ٹکور سے بھی اسے فائدہ ہوتا ہے یعنی جلن کو جلن سے
سیکیل 736 ہی آرام آتا ہے.سیکیل کے مریض کو گرمی کی بجائے ٹھنڈ سے فائدہ پہنچتا ہے.موسم میں سخت ٹھنڈا بھی ہو تو گرمی محسوس کرتا ہے.آرسنک سے سیکیل کا مقابلہ ہے اور بعض دفعہ ان دونوں میں امتیاز کرنا بہت مشکل ہوتا ہے.آپس میں بعض مشابہتوں کی وجہ سے یہ ایک دوسرے کے اثر کو زائل بھی کر دیتی ہیں.اگر ایک دوا کی علامتیں موجود ہوں لیکن فائدہ نہ ہو تو دوسری دینی چاہئے.یہ دونوں ایک دوسرے کے بعد کام آتی ہیں.اکثر مریض جن میں سیکیل کی پر وونگ (proving) کی گئی تو معلوم ہوا کہ اس کا زیادہ اثر ان مریضوں پر ہوتا ہے جو لاغر، کمزور اور بے حد دبلے پتلے ہوں.موٹے لوگ بہت کم سیکیل کے مریض ہوتے ہیں.اسی وجہ سے سیکیل کے مریضوں کا عموماً یہ نقشہ کھینچا جاتا ہے کہ دبلے پتلے، کمزور، جن کی جلد سکڑ کر ہڈیوں سے جڑی ہوئی ہو.جلد کمزور اور خشک ہو کر سکڑ جاتی ہے اور جھریاں پڑنے لگتی ہیں.جلد غیر صحت مند دکھائی دیتی ہے لیکن یہ لازمی نہیں ہے کہ سیکیل کا ہر مریض ایسا ہی ہو.موٹے لوگوں پر بھی اس کا اثر ہو سکتا ہے.سیکیل کی ایک زائد علامت یہ ہے کہ جلد پر جامنی سے رنگ کے داغ دھبے نمودار ہونے لگتے ہیں.اگر یہ دھبے سرخ رنگ کے بھی ہوں تو ان میں نیلا ہٹ پائی جاتی ہے.نیلا ہٹ کا پایا جانا سکیل کی خاص علامت ہے.جسم کے کسی بھی عضو میں اگر دورانِ خون کمزور پڑ جائے.مثلاً ٹانگوں اور پنڈلیوں میں یا ہاتھوں اور کلائیوں میں، جہاں جہاں جلد نیکی اور ہڈی کے قریب ہوگی وہاں اس قسم کے نشان اور دھبے ظاہر ہونے لگیں گے.یہ سکیل کی خاص علامت ہے.سیکیل کے زخموں میں ناسور بننے کا رجحان ہوتا ہے.زخم رفتہ رفتہ خراب ہو کر گینگرین میں تبدیل ہو جاتے ہیں.مثلاً اگر انگلی کٹ جائے تو زخم ٹھیک ہونے کی بجائے آہستہ آہستہ اوپر کی طرف بڑھنے لگتا ہے جس سے سخت بد بو آتی ہے اور جس عضو پر ہو اس کے سارے بقیہ حصے کو گلا دیتا ہے.اسی وجہ سے اسے جوڑ سے کاٹنا پڑتا ہے ورنہ بیماری جوڑ پار کر جاتی ہے اور بقیہ عضو بھی گینگرین کا شکار ہو جاتا ہے.ہومیو پیتھی میں خدا کے فضل سے گینگرین کا علاج موجود ہے.بارہا ایسے مریضوں کا میں نے خود کامیاب
737 علاج کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کوئی عضو کاٹنا نہیں پڑا.جبکہ ڈاکٹروں نے قطعی طور پر اسے گینگرین قرار دے دیا تھا اور سرجری پر مصر تھے.جب ایسا مریض صحت یاب ہونے لگتا ہے تو سب سے پہلے زخم کی رنگت بدلتی ہے اور سیاہی کی بجائے اس پر سرخی آنے لگتی ہے.کینگرین میں سیکیل اور آرسنک دونوں بہت مفید دوائیں ہیں.اگر آرنیکا بھی ساتھ ملا کر دی جائے تو اثر میں اضافہ ہو جاتا ہے.سیکیل میں ہر جگہ جلن کا احساس بہت نمایاں ہوتا ہے.نزلہ، گلے کی خرابی اور سانس کی تکلیف میں بھی جلن پائی جاتی ہے.سیکیل میں ہر سیلان خون میں خواہ وہ رحم سے جاری ہو یا ناک سے یا کسی اور زخم سے، سیاہی بہت نمایاں ہوتی ہے.سیکیل کے دائرہ میں آنے والی ہر بیماری کا وریدوں کے خون کے گندا ہونے سے تعلق ہے.ایسے مریض جوموت کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہوں اگر ان کا سارا نظام خون گندہ اور سیاہ ہو چکا ہو تو سیکیل کو اس حوالے سے یا درکھنا چاہئے.سیکیل عورتوں کے اندرونی امراض میں بھی بہت مفید ہے.رحم میں زخم بن جاتے ہیں اور مسلسل خون جاری رہتا ہے جو سیاہ رنگ کا ہوتا ہے.مہینہ میں چند دن کے لئے خون رکے تو سیاہی مائل گندے پانی کا اخراج ہوتا ہے جس میں نا قابل برداشت بو ہوتی ہے.سیاہ بد بودار خون کے لوتھڑے نکلتے ہیں جن میں تعفن پایا جاتا ہے.سیکیل ان عوارض میں کام آنے والی ایک بہت اہم دوا ہے خصوصاً اگر رحم میں گینگرین بننے کا خطرہ ہو.سیکیل کی علامتوں والی عورتوں میں اگر حمل ضائع ہونے کا بھی رجحان ہو تو سکیل اس رجحان کا قلع قمع کرنے کے لئے کافی ہے.ایک دوہ ماہ کے استعمال سے رحم کی کایا پلٹ جاتی ہے اور وہ مضبوط اور توانا ہو کر بچے کا بوجھ برداشت کرنے کے قابل ہو جاتا ہے.اگر وضع حمل کے وقت رحم بیچے کو باہر دھکیلنے کی کوشش کرے مگر غم رحم میں سخت اینٹھن کی وجہ سے بچہ پیدا نہ ہو سکے تو ایسی مریضہ کا سیکیل سے فوری علاج کرنا انتہائی ضروری ہے ورنہ اگر سر جن مہیا ہو تو فوری اپریشن کرنا پڑے گا یا پھر وہ مریضہ سخت اذیت
738 سے تڑپ تڑپ کر جان دے دے گی.وضع حمل کے بعد در داور تکلیف جاری رہے، نفاس کے خون میں زیادتی کی وجہ سے رحم میں درد ہو اور خون سیاہی مائل گندے رنگ کا ہو تو سیکیل باعث شفا بن جاتی ہے.حمل کے دوران چھاتیاں سکڑ جائیں اور دودھ نہ بنے اور ماں بچے کو دودھ نہ پلا سکے تو سیکیل دینے سے افاقہ ہوتا ہے.سیکیل کی ایک علامت یہ ہے کہ اس کے پیشاب میں بھی سیاہ رنگ نمایاں ہوتا ہے.یہ سیاہی Terebinthina سے مشابہ ہے.جس میں پیشاب کی سیاہی خاص طور پر پائی جاتی ہے اور اس سیاہی کی وجہ عموماً یہ ہوتی ہے کہ پیشاب میں پروٹین آنے لگتی ہے.گردوں کی جھلیوں پر اثر ہوتا ہے.اس کے لئے Terebinthina بہت مؤثر دوا سجھی جاتی ہے.سیکیل کے مریض میں پیشاب کا سیاہی مائل ہونا البیومن کی وجہ سے نہیں بلکہ گندے خون کے ذرات شامل ہونے کے باعث ہوتا ہے.سیکیل کے مریض کے نمونیہ میں بھی پھیپھڑوں میں گینگرین بننے کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے.اس لئے ایسے نمونیہ کا علاج سیکیل سے ہی ہونا چاہئے.سیکیل وقت پر دی جائے تو بہت طاقتور دوا ثابت ہوتی ہے اور فوری اثر دکھاتی ہے.ہر جگہ جہاں زخموں میں سوزش ہو، گلنے سڑنے اور گینگرین بنے کا رجحان پایا جائے خواہ یہ علامتیں معدہ میں ظاہر ہوں یا پھیپھڑوں میں یا پھر اندرونی جھلیوں میں سیکیل ان سب عوارض میں ایک لازمی دوا ثابت ہوتی ہے.سیکیل میں شیخ اور اینٹھن بھی پائے جاتے ہیں.خصوصاً کسی ایک عضو میں مثلاً تلووں، پنڈلیوں یا بازوؤں کے کسی حصہ میں تشیخ شروع ہو جاتا ہے.اگر سیکیل کی دوسری علامتیں بھی ملتی ہوں تو پھر یہ فوری فائدہ دیتی ہے.اعصابی دردوں میں بھی بہت مفید دوا ہے.یہ درد اعصاب کے ریشوں کے ساتھ ساتھ دوڑتے ہیں جیسے بجلی کوند گئی ہو اور بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں.سیکیل کے اعصابی دردوں کو کپڑا اوڑھنے سے آرام ملتا ہے.سیکیل میں پاگل پن کی علامت بھی ملتی ہے.مریض ہذیان بکتا ہے، متشدد ہوتا ہے،
سکیں 739 کمزوری کے باوجود پاگل پن کے جوش میں مارنے کے لئے دوڑتا ہے.ایسی حالت میں اسے سنبھالنا بہت مشکل ہوتا ہے.سیکیل میں اسہال سیاہی مائل اور متعفن ہوتے ہیں.مریض کو اکثر پتہ ہی نہیں چلتا اور بلا ارادہ ہی اسہال جاری ہو جاتے ہیں.مریض کا جسم سخت ٹھنڈا ہو جاتا ہے اور بے حد کمزوری محسوس ہوتی ہے مگر پھر بھی اسے گرمی لگتی ہے اور وہ کپڑا اوڑھنا پسند نہیں کرتا.ایشیائی ہیضہ (Asiatic Cholera) میں بھی سیکیل مفید ہے.اس میں کیمفر کی طرح جسم بالکل ٹھنڈا ہو جاتا ہے لیکن اندرونی طور پر مریض کو گرمی کا احساس نہیں ہوتا.سیکیل میں ٹانگوں اور بعض مقامی حصوں یا کسی ایک طرف کا فالج بھی پایا جاتا ہے لیکن اس کی کوئی معین سمت نہیں ہے.دائیں طرف بھی ہو سکتا ہے اور بائیں طرف بھی.مگر اس فالج کی تشخیص پر وقت ضائع کرنے کی بجائے سیکیل کی مزاجی علامات پر ہی انحصار کرنا چاہئے.سیکیل میں اس بات کو ضرور یاد رکھیں کہ جہاں بھی مرض نمودار ہوگا وہاں سن ہونے اور جلن کا احساس ضرور پایا جائے گا اور رات کے وقت تشیخ اور اینٹھن میں ہمیشہ اضافہ ہو گا.اس کا مریض کھلی ہوا میں آرام محسوس کرتا ہے، گرمی ،نمکور اور حیض کے ایام سے قبل تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں.ہیں.کیمفر اور او پیم سے سیکیل کا اثر زائل ہو جاتا ہے یعنی یہ دونوں دوا میں سیکیل کا تریاق مددگار دوائیں چائنا، آرسنک، ایکونائٹ، بیلاڈونا، پلسٹیلا دافع اثر دوائیں: کیمفر ، او پیم طاقت: 30
740
741 170 سینیشو اورس SENECIO AUREUS (Golden Ragwort) سیمینیشو عام طور پر نو جوان بچیوں کی اندرونی تکلیفوں کے لئے مفید ہے.اگر بلوغت کے آغاز میں سردی لگ جانے کی وجہ سے حیض کے ایام میں بے قاعدگی ہو جائے تو جب تک صحیح دوا سے علاج نہ کیا جائے ساری عمر یہ تکلیف رہتی ہے.اس تکلیف میں کلکیر یا فاس کے علاوہ سینیشو کو بھی شہرت حاصل ہے.عام طور پر بچیاں شرم کی وجہ سے اپنی تکلیفیں نہیں بتا تیں.بے احتیاطی سے ان دنوں میں نہا لیا جائے ، پاؤں بھیگے رہیں، نہا کر پوری احتیاط نہ کی جائے اور مرطوب موسم میں ننگے پاؤں پھرنے کی عادت ہو تو حیض پر جتنے بداثر پڑتے ہیں ان کا علاج سینیشو سے ممکن ہے.سیلان خون اس دوا کی خاص علامت ہے.جگہ جگہ سے خون بہتا ہے.جہاں بھی اندرونی جھلی اور جلد آپس میں ملتی ہیں ان کے جوڑوں سے خون بہنا سینیشو کی بھی علامت ہے.اس کی پیشاب کی علامتیں بھی بہت اہمیت رکھتی ہیں.اکثر مقدار میں کم اور تیز رنگ کا، بعض دفعہ خون ملا پیشاب آتا ہے جس میں پیپ بھی شامل ہوتی ہے.ہر وقت جلن اور پیشاب کی مسلسل حاجت اس کا طبعی نتیجہ ہے.آرتھرائیٹس (Arthritis) کے علاج میں بھی اس کو شہرت حاصل ہے.اس کے گردے کے درد کے دورہ میں پریرا اور بر برس (Berberis) مددگار ثابت ہوتی ہیں لیکن دیگر علامتیں موجود ہوں تو یہ اکیلی ہی کافی ہے.سر درد میں تیزی نہیں پائی جاتی مگر بدحواس سا کر دیتی ہے.بعض دفعہ بائیں آنکھ میں
742 تیز در داٹھتا ہے جو بائیں کنیٹی کی طرف بڑھتا ہے.چھینکیں آتی ہیں اور گلے میں جلن کا احساس ہوتا ہے.دانت بہت حساس ہو جاتے ہیں.چہرے کے بائیں طرف درد ہوتا ہے.منہ، تالو اور گلاخشک ہوتے ہیں اور نگلنے میں دقت محسوس ہوتی ہے.پیٹ کے درد میں اجابت کے بعد افاقہ محسوس ہوتا ہے.پانی کی طرح پتلے اسہال آتے ہیں جن میں سخت ٹکڑے بھی ملے ہوتے ہیں.پیشاب بہت کم مقدار میں آتا ہے.اس کا رنگ گہرا ہوتا ہے اور بعض اوقات اس میں خون کی آمیزش بھی ہوتی ہے اور پیپ بھی آتی ہے.جلن کا احساس اور بار بار حاجت محسوس ہوتی ہے.بچوں میں بھی مثانے کی بے چینی کی یہ علامت پائی جاتی ہے جس کے ساتھ سر اور پیٹ میں درد ہوتا ہے.نو جوان بچیوں میں بعض دفعہ حیض کا خون جاری ہونے سے پہلے گلے، سینے اور مثانے میں سوزش محسوس ہوتی ہے.حیض کے ایام ختم ہونے کے بعد یہ تکلیفیں خود بخو د دور ہو جاتی ہیں.اگر عورتوں میں کسی وجہ سے حیض رک جائے اور اس کی بجائے ناک سے خون جاری ہو جائے تو اس میں بھی سینیشو مفید ہو سکتی ہے.اگر رحم اپنی جگہ سے مل جائے، پیشاب درد کے ساتھ آئے یا بالکل بند ہو جائے، گردوں میں شدید سوزش ہو اور سردی لگ کر بخار چڑھے تو یہ ساری علامتیں سینیشو کا تقاضا کرتی ہیں.سینیشو میں تکلیفیں دو پہر اور رات کو بڑھ جاتی ہیں.کھلی ہوا میں نزلہ زکام ہو جاتا ہے.عورتوں کی تکلیفیں حیض جاری ہو جانے سے کم ہو جاتی ہیں.مریض کی توجہ کسی اور طرف پھیر دی جائے تو تکلیف کا احساس کم ہو جاتا ہے.طاقت 30 سے 200 تک
سینیگا 743 171 سینیگا SENEGA (Snake Wort) سینیگا ایک ایسی ایلو پیتھک دوا ہے جو گزشتہ سوسال سے بھی زائد عرصہ سے روایتی طب میں سینہ کی بیماریوں کے علاج میں استعمال ہوتی رہی ہے اور یہ اس نسخہ کا مستقل جزو بنی رہی ہے جو کھانسی، تپ دق اور چھاتی کی دوسری بیماریوں میں استعمال ہوتا تھا.اگر چہ یہ درست ہے کہ اس سے ابتدا میں فائدہ پہنچتا ہے لیکن اس کے لمبے استعمال سے نقصان بھی ہوتا ہے اور وہی بیماریاں جن کی یہ آغاز میں اصلاح کرتی ہے بعد میں انہی کو بڑھانے کا موجب بنتی ہے.ایسی سب بیماریوں میں اس کا ہومیو پیتھک استعمال بغیر کسی نقصان کے شافی ثابت ہوتا ہے.دل سے تعلق رکھنے والے دمہ (Cardiac Asthma) میں بھی سینیگا کو مفید بتایا جاتا ہے.اس کا پلورل (Pleural) نمونیہ سے بڑا گہرا تعلق ہے اور اس مرض کے ازالہ میں یہ بہت کامیابی سے استعمال کی گئی ہے.پھیپھڑے کے ارد گرد کی جھلی کو Pleura کہا جاتا ہے.اس کی سوزش کے ساتھ جو نمونیہ ہو اسے پلورل (Pleural) نمونیہ کہتے ہیں.اس بیماری کے ازالے میں اس کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ انسانوں میں اگر چہ اس کا یہ استعمال خطا بھی جاتا ہے اور تشخیص غلط بھی ہو سکتی ہے لیکن جانوروں کے پلورل نمونیہ میں یہ ہمیشہ تیر بہدف ثابت ہوتی ہے.جانوروں میں بیماری کی علامتیں صاف اور غیر مبدل ہوا کرتی ہیں.اس لئے جہاں ایک جانور کی تکلیف میں کوئی دوا کام کرے گی دوسرے جانور کی اسی تکلیف میں بھی ضرور کارگر ہوگی.
سینیگا 744 پھیپھڑوں کی بیماریوں میں بہت گاڑھا چمٹنے والا بلغم بہت کثرت سے پیدا ہوتا ہے.تپ دق بگڑ جائے تو یہ علامت اور بھی نمایاں ہو جاتی ہے.سینیگا سے اس بلغمی تکلیف کا ایک حد تک ازالہ ہو جاتا ہے لیکن یہ کمل شفا نہیں دے سکتی.سینیگا کے چھاتی کے درد، آرام کے دوران بڑھ جاتے ہیں مگر کھانسی حرکت سے بڑھتی ہے.خصوصاً دمہ کی تکلیف معمولی حرکت سے بھی بہت بڑھ جاتی ہے.مریض دمہ کے دوران اعضاء کو حرکت دینا بھی پسند نہیں کرتا.لیئر نگر (Layrings) کے تپ دق میں بھی اسے شہرت حاصل ہے.چپکنے والا بلغم بار بار کھانسنے سے بہت مشکل سے خارج ہوتا ہے.تپ دق کے آخری مراحل میں بھی اس کی تکلیف کم کرنے میں اسے کامیابی سے استعمال کیا گیا ہے.بعض یو پیتھس کے نزدیک مزاجی علامتیں موجود ہوں تو بائیں چہرے کے فالج کے لئے بھی یہ دوا اچھی ثابت ہوگی.سینیگا کا مزاجی مریض جھگڑالو ہوتا ہے.طاقت: 30 سے 200 تک
سپیا 745 172 سپییا SEPIA (Inky Juice of Cuttle Fish) سپی عموماً ایسی خواتین کی دوا سمجھی جاتی ہے جو د بلی پتلی ہوں اور ان کے کو لہے تنگ اور جسم کی ساخت میں قدرے سختی پائی جاتی ہو لیکن یہ لازم نہیں ہے کہ عورت کی یہی جسمانی تصویر ہو تو وہ سپیا کی مریضہ ہوگی.سپیا بنیادی طور پر جگر اور رحم کی خرابیوں سے تعلق رکھنے والی دوا ہے.جب ان بیماریوں کی علامات ظاہر ہونے لگیں تو خواہ مریضہ کے جسم کی ساخت مذکورہ بالا نہ بھی ہو،اسے پھر بھی سپیا دی جاسکتی ہے.دوا تجویز کرتے ہوئے جسمانی علامات پر زور دینے کی بجائے گہری اندرونی مزاجی علامتوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے.سپیا دراصل اپنے خاص مزاج سے پہچانی جاتی ہے جس میں یہ بات شامل ہے کہ عورتوں میں طبعی جنسی رجحان مٹ جاتا ہے اور پیار اور محبت کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں.یہاں تک کہ ایک پیار کرنے والی ماں اچانک مامتا کے جذبات سے عاری دکھائی دیتی ہے.اپنے خاوند سے قطعاً بے نیاز اور بے تعلق ہو جاتی ہے.رفتہ رفتہ اس کے تعلقات کے دائرے محدود ہونے لگتے ہیں اور اس میں خود کشی کا رجحان بھی پیدا ہو جاتا ہے اور عورت نیم پاگل سی ہو جاتی ہے.یہ کیفیات دراصل لمبے عرصہ تک اندر ہی اندر تکلیفیں برداشت کرتے رہنے سے پیدا ہوتی ہیں.اس عرصہ میں دیکھنے والوں کو کچھ معلوم نہیں ہوتا لیکن یہ دباؤ بڑھتا چلا جاتا ہے اور اچانک لاوے کی طرح پھوٹتا ہے اور وہ سپیا کی مریضہ بن جاتی ہے.خاوند اور بچوں کی طرف توجہ نہ کرنا اس بڑھتے ہوئے دباؤ کا طبعی نتیجہ ہے.گویا مریضہ اندر سے ٹوٹ پھوٹ چکی ہے یہاں تک کہ ہر چیز سے بیزار ہو جاتی ہے.سپیا کے مریض کا جگر سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے.رحم میں کوئی نقص پیدا ہو
سیپیا 746 جائے تو دوران حمل اور وضع حمل کے بعد کئی قسم کی بیماریاں ظاہر ہوتی ہیں جن کے ساتھ جگر کی خرابی بھی ضرور پائی جاتی ہے.ایسی صورت پاگل بھی ہو جاتی ہے اور ہر اس چیز سے جو اچھی لگنی چاہئے نفرت کرنے لگتی ہے.اس نفرت اور بے تعلقی کی وجہ سے وہ خوفزدہ بھی ہوتی ہے اور اس خوف کے نتیجہ میں بیماری مزید بڑھتی جاتی ہے.سپیا کی ایک اور بہت نمایاں علامت یہ بتائی جاتی ہے کہ مریضہ کے ناک پر کالے رنگ کی کاٹھی سی بن جاتی ہے جیسے پرندے کے دو پر ہوں.میں نے بھی دوسرے ہومیو پیتھک ڈاکٹروں کی طرح صرف اسی علامت کو مد نظر رکھ کر بہت سے مریضوں کو سپیا دی لیکن کوئی خاص فرق نہیں پڑا.یہ نشان اکثر جگر کی خرابی کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے.اگر سپیا کا مزاج ہو اور جگر خراب ہو تو پھر سپیا فائدہ دے گی ورنہ جگر کی کوئی دوسری دوا ڈھونڈنی پڑے گی.ایسی حساس عورت جس کے جذبات منجمد ہو گئے ہوں اور اس کے چہرے اور ناک پر داغ ہوں تو اس کے علاج میں سیپیا فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے.جگر کی خرابی بڑھتے بڑھتے یرقان پر منتج ہوتی ہے.بعض عورتوں کے چہرہ پر حمل کے دوران چھائیاں پڑ جاتی ہیں اور چہرہ بے رونق نظر آتا ہے.سپیا میں بغیر حمل کے بھی یہ علامتیں ظاہر ہوتی ہیں.بھورے رنگ کے مسے بھی نکلتے ہیں اور ان میں کالے کالے دھبے بننے لگتے ہیں.یہ علامت خاص طور پر سپیا سے تعلق رکھتی ہے.جسم پر سفید یا ہلکے بھورے رنگ کے گول گول دھبے پڑ جاتے ہیں جن کا جگر کی خرابی سے تعلق ہے.ہومیو پیتھی اصطلاح میں انہیں Liver Spots کہا جاتا ہے.اگر یہ بھورے یا پیلے رنگ کے ہوں تو فاسفورس اور سیپیا مفید ہیں اور سفیدی مائل ہوں تو مرکسال یا کلکیر یا وغیرہ مفید ہوں گی.سپیا میں قبض کا بھی رجحان ہے جو حمل کے دوران بڑھ جاتا ہے.فضلہ خارج کرنے کی طاقت کم ہو جاتی ہے.ایسی عورت وضع حمل کے وقت بھی دقت محسوس کرتی ہے کیونکہ عضلات کی بالا رادہ حرکت میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور پوری طاقت کے ساتھ بچہ کو باہر دھکیلنے کی صلاحیت نہیں رہتی.سپیا کی علامتیں ہوں تو اس کے دینے
سپیا 747 سے بچہ کی پیدائش سہولت سے ہو جاتی ہے.اگر یہ مدد نہ کرے تو کولو فا کلام یا لسیمیم بھی کام آ سکتی ہیں.سپیا میں پیٹ خالی ہونے کا احساس رہتا ہے اور بہت بھوک محسوس ہوتی ہے.سپیا میں بھوک اور کمزوری کھانے کے بعد بھی اسی طرح محسوس ہوتے رہتے ہیں.کھانے کے باوجود آرام نہیں ملتا.اگر ایسی عورت کا رحم نیچے گر جائے یا ریڑھ کی ہڈی کے عضلات ڈھیلے ہو جائیں تو سپیا فوراً اثر دکھاتی ہے.یہ حمل کی قے میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے.مزاجی علامتیں ملتی ہوں تو اس کا امتیازی نشان یہ ہے کہ کھانا کھانے کے بعد قے میں سفید دودھیا مادہ خارج ہوتا ہے.اس کے لیکیوریا میں بھی سفید مادہ نکلتا ہے.اس کی بیماریوں میں منہ کا مزہ اور قوت شامہ متاثر ہوتے ہیں.اگر مریض میں سپیا کی دوسری علامتیں بھی موجود ہوں تو سپیا ہر چیز (Herpes) میں بھی مفید ہوسکتی ہے.سپیا کے مزاجی مریض کو اس سردرد میں سپیا فوری فائدہ پہنچاتا ہے جس کے ساتھ کڑوی قے بھی آئے.مزاجی مماثلت ہو تو آنکھ کی ہر قسم کی تکلیفوں میں سپیا مفید ہے.مزاج سپیا کا ہو تو بہت سی جلدی امراض کا علاج بھی سپیا سے ہو سکتا ہے.جلدی علامات بہت سی دواؤں میں مشترک ہوتی ہیں.اگر مزاج ، ماحول اور پس منظر سپیا سے مشابہ ہو تو جلدی امراض میں فائدہ دے گی اور نہ نہیں.سلفر کی طرح سیپیا میں پیپ اور بد بودار مادہ خارج ہوتا ہے.ناک سے سبز رنگ کا مواد نکلتا ہے.اگر جلد اور اندرونی جھلیوں میں انحطاط ہو تو مذکورہ علامتوں کے ہوتے ہوئے مفید ثابت ہوگی.سپیا میں عموما قبض ہوتی ہے.اگر اسہال شروع ہو جائیں تو اس کے ساتھ سفید چپکنے والا مادہ بھی نکلتا ہے.سخت فضلہ اور پیچش میں بھی یہ سفید مادہ ہوتا ہے اور اس میں سخت بد بو ہوتی ہے.بواسیر کے مسے بھی بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں.پیشاب میں خون
سیپیا 748 بھی آتا ہے.بچے کی پیدائش کے بعد اگر پلیسنا( Placenta) یعنی بچہ دانی کی جھلی اندرہی رہ جائے تو بہت گہری تکلیفیں پیدا ہو جاتی ہیں.اگر اس میں پلسٹیلا کام نہ کرے تو سپیا دوا ہوسکتی ہے لیکن پلسٹیلا اور سپیا اس وقت تک مفید ہیں جب تک نظام خون کے اندر زہر داخل نہ ہو گیا ہو.جب خون میں زہر داخل ہو جائے تو سلفر اور پائر وچینم کا آزمودہ نسخہ بہترین ثابت ہوتا ہے.یہ دونوں 200 کی طاقت میں ملا کر فورادینی چاہئیں.دودھ پلانے کے زمانے میں سپیا کا مزاج رکھنے والی عورت کا حیض عموماً بند ہو جاتا ہے لیکن کلکیریا کارب کے مریض میں حیض کا خون بے محل جاری ہو جاتا ہے.سپیا کے مریض کے خون میں تیزابی مادے پائے جاتے ہیں جن سے اعصابی درد ہوتے ہیں.اگر درمیانے درجہ کی ورزش کی جائے تو سپیا کی تکلفیں بڑھ جاتی ہیں لیکن بہت زیادہ ورزش کرنے سے آرام محسوس ہوتا ہے.سپیا میں ہاتھ پاؤں سونے کی علامت بھی ملتی ہے.ملیریا بخار جس میں وقت کا تعین نہ ہو، اس میں سپیا ایک ترتیب پیدا کر دیتی ہے جس سے اصل دوا کی پہچان ممکن ہو جاتی ہے.اگر سپیا کا مریض ہو تو سیپیا خود ہی شفا کا موجب بن جاتی ہے.عضلاتی کمزوری کی وجہ سے نظر کمزور ہو جاتی ہے.آنکھوں کے سامنے سیاہ دھبے تھر کہتے ہیں.کمزوری اور رحم کی خرابیوں کے نتیجہ میں آنکھوں میں سوزش ہو جاتی ہے.پپوٹے بوجھل ہو کر نیچے لٹک جاتے ہیں.کانوں کے پیچھے اور گردن کے قریب ابھار بن جاتے ہیں.بعض مریضوں میں چہرے پر زرد داغ پڑ جاتے ہیں.زبان سفید اور منہ کا ذائقہ بہت نمکین ہوتا ہے.مریض ترش چیزیں پسند کرتا ہے.نقاہت اور کمزوری کا احساس بہت ہوتا ہے.کھانے کی بو سے متلی ہوتی ہے جو کروٹ کے بل لیٹنے سے زیادہ ہو جاتی ہے.مددگار دوا: نیٹرم میور نکس وامیکا.فاسفورس 30 اور اونچی طاقتیں اور طاقت سپیا کی ذہنی مریضاؤں کے لئے ان کا مزاج درست کرنے کیلئے ایک لاکھ طاقت میں دینی چاہئے.
سليشيا 749 173 سليشيا SILICEA (Silica - Pure Flint) سلیشیا یا سلیکا (Silica) زمین کی سطح پر پایا جانے والا ایک ایسا عنصر ہے جو ریت اور ا کئی قسم کے پتھروں میں پایا جاتا ہے اور تمام روئے زمین پر پھیلا پڑا ہے.اس عصر نے زندگی کے آغاز ہی میں عام مٹی کے ساتھ مل کر زندگی کی تعمیر میں حصہ لیا.اسی لئے یہ تمام زندہ اقسام کے خلیوں کی عنصری ترکیب میں داخل ہے.بعض مشہور ہومیو پیتھک اطباء کے تجربات سے سلیشیا کی بہت سی خصوصیات معلوم ہوئی ہیں.ہو میو پیتھی کے سوا اسے بطور دوا کسی اور طریقہ علاج میں استعمال نہیں کیا گیا.ایک طویل عرصہ کی محنت اور ہومیو پیتھک پروونگ (Proving) کے بعد اس کی علامات منظر عام پر آئی ہیں.سلیشیا ان دواؤں میں سے ہے جس کی پروونگ بہت آہستہ ہوتی ہے.یہ گہرے اثرات کی حامل ہے اور ایسی اندرونی تبدیلیاں پیدا کرتی ہے جو آہستہ آہستہ وقوع پذیر ہوتی ہیں.سلیشیا کی پر وونگ سے اس بات کا علم ہوا کہ یہ بہت گہرا اور لمبا اثر کرنے والی دوا ہے.جسم کے اندر کوئی بھی بیرونی مادہ داخل ہو جائے تو سلیشیا اسے برداشت نہیں کر سکتی اور اسے فوراً باہر نکال پھینکنے کے لئے جسم کو رد عمل دکھانے پر تیار کرتی ہے.اگر بیرونی مادہ بے جان ہو تو اس کے اردگرد پیپ بنا کر اسے باہر کی طرف دھکیلتی ہے.یہ پیپ موبل آئل کی طرح اس بیرونی چیز کے گرد لپٹ کر اس کی حرکت کو آسان کرتی ہے اور اس کو نکالنے کا جو رستہ بناتی ہے اس سے گوشت پوست اور جھلیوں وغیرہ کو زخمی نہیں ہونے دیتی.اگر بیرونی مادہ جراثیم یا وائرس یا پیٹ کے کیڑے وغیرہ ہوں تو ان کے خلاف ہر مناسب رد عمل کے لئے جسم کو مستعد کرتی ہے اور یہ دفاعی کارروائی تمام اینٹی بائیوٹک
سليشيا 750 (Anti-Biotic) دواؤں سے زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے.سلیشیا جراثیم اور کیڑوں کے خلاف ردعمل دکھا کر ان کو جسم کے اندر ہی مار کر ان کی پیپ بنادیتی ہے یا انہیں بغیر پیپ بنائے مختلف مخارج سے باہر نکال پھینکتی ہے.بعض بیماریوں میں جراثیم کے خلاف سلیشیا کا رد عمل کافی نہیں ہوتا یا بالکل ہی نہیں ہوتا مثلاً ٹائیفائیڈ کے مریض پر سلیشیا رتی برابر بھی اثر نہیں کرتی.اسی طرح فساد خون کی بعض قسموں میں سلفر اور پائیر و جینم سلیشیا کی نسبت زیادہ مؤثر ہیں.ہمیں لمبے تجربہ سے معلوم ہو چکا ہے کہ کن بیماریوں میں سلیشیا کام آ سکتی ہے اور کن بیماریوں میں کسی اور دوا کی ضرورت ہے.ایسی گہری بیماریاں جن میں جسم کے پیچیدہ نظام کے مخصوص رد عمل کی ضرورت ہے ان کے لئے لمبی محنت ، غور وفکر اور ہر مرض اور مریض کی نوعیت کو سمجھ کر دوا کی تلاش کرنی پڑتی ہے.کیونکہ خدا تعالیٰ نے جسم میں ایک ایسا نظام جاری کیا ہوا ہے جو لاکھوں بیماریوں کے خلاف الگ الگ دفاعی کارروائی کے لئے ترکیب اور ترتیب دیا گیا ہے.یہ ایک ایسی عظیم فیکٹری ہے جس کی گہرائی ، وسعت اور ہمہ گیر تخلیقی طاقتوں کا تصور بھی عام انسان تو کیا ماہر سائنسدان بھی پوری طرح نہیں کر سکتے.پس سلیشیا گو بہت ہمہ گیر ہے مگر اس وسیع وعریض نظام پر ہر گز حاوی نہیں.سلیشیا عموماً متعدی بیماریوں ، پھوڑے پھنسیوں میں بہترین کام کرتی ہے.اسی طرح بے جان چیزوں کے خلاف حیرت انگیز بلکہ ناقابل فہم رد عمل دکھاتی ہے مثلاً اگر جسم میں لوہے کا کیل داخل ہو جائے ، کوئی اور چیز غلطی سے نگل لی جائے ، گلے میں مچھلی کا کانٹا پھنس جائے یا بندوق کے چھرے جسم کے اندر رہ جائیں تو سلیشیا اس قسم کی چیزوں کو جسم سے باہر نکالنے میں عجیب کام دکھاتی ہے.اس کے دو طرح کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں.اگر چھوٹی طاقت میں دی جائے تو ماؤف جگہ پر آہستہ آہستہ خون کی فراہمی تیز کر کے تیزی سے جراثیم کو مار کر پیپ بنائے گی اور ان پھوڑے پھنسیوں کو جو عام طور پر ہفتہ دس دن میں پک کر پھٹنے کے لئے تیار ہوتے ہیں دو تین دنوں میں ہی پکا کر پھٹنے کے لئے تیار کر دے گی.اس سے تکلیف بھی نسبتاً کم ہوتی ہے اور پیپ بھی بہت زیادہ نہیں بنتی.
751 سليشيا زخم کا سوراخ بھی معمولی سا ہوتا ہے جو دیکھنے میں بدنما معلوم نہیں ہوتا.اسی طرح اگر سوئی جسم میں داخل ہو جائے یا کسی دھات یا کنکر کا ٹکڑا جسم کے اندر کہیں پھنسا ہو تو سلیشیا اسے باہر دھکیل دیتی ہے اور ایسے پر اسرار طریق پر باہر نکال دیتی ہے کہ یہ طریق ابھی تک انسانی سمجھ سے بالا ہے مگر مشاہدات قطعی ہیں.ایک دفعہ ایک قابل سرجن نے مجھے بتایا کہ کسی مریض کی انتڑیوں میں سوئی پھنسی ہوئی تھی اور اپریشن خطر ناک تھا.اسے انہوں نے سلیشیا کی شہرت سن کر سلیشیا دی.کچھ عرصہ کے بعد اندرونی اعضاء کو زخمی کئے بغیر وہ سوئی خود ہی جسم سے باہر نکل گئی اور سوئی کے جسم سے باہر نکلنے کا رستہ سیدھا جلد کے قریب ترین تھا.مختلف جھلیاں اور چربی کی تہیں وغیرہ بالکل حائل نہیں ہوئیں اور نہ ہی زخمی ہوئیں.یہ طریق جیسا کہ بیان کیا گیا ہے.انسانی فکر اور تصور کے احاطہ میں نہیں آسکتا مگر مشاہدہ اتنا قطعی اور بار بار ہونے والا ہے کہ کوئی معقول انسان اس کا انکار نہیں کر سکتا.ایک دفعہ ربوہ میں ایک بچے کے پاؤں میں شیشے کا ایک بڑا سا اور ٹیڑھا ٹکڑا پاؤں کی ہڈی تک پہنچ کر وہیں پھنس گیا.پاؤں اتنا سوج گیا تھا کہ ڈاکٹروں نے اپریشن کرنے سے انکار کر دیا.اسے مسلسل ایک مہینہ تک 6x میں سلیشیا کھلائی گئی.سلیشیا کے اثر سے سوجن رفع ہوگئی اور شیشے کا وہ ٹکڑا بڑے آرام سے باہر نکلنے لگا یہاں تک کہ اس کا ایک کنارہ جلد سے اوپر نکل آیا.تب اسے موچنے سے کھینچا گیا تو بغیر تکلیف کے باہر آ گیا.افریقہ کے بعض ممالک اور پاکستان میں سندھ کے علاقہ میں گندے پانی کی وجہ سے ایک کیڑر اجسم میں داخل ہو جاتا ہے جو بہت خطرناک ہوتا ہے اور اندر ہی اندر فیتے کی طرح لمبا ہوتا چلا جاتا ہے اور ایک سوت کی گٹھی کی طرح جسم میں ابھار بنا دیتا ہے جو بڑھتے بڑھتے ایک فٹ بال کے برابر بھی ہوسکتا ہے.اسے فیل پا یعنی ہاتھی کا پاؤں جیسی بیماری کہا جاتا ہے.وقف جدید کا ایک معلم ہومیوڈاکٹر نثار مورانی جو ہندوؤں سے مسلمانوں ہوا تھا، فیل پا کے علاج کے لئے سلیشیا کو کامیابی سے استعمال کرتا تھا.اس کے بیان کے مطابق سلیشیا 6x کیڑے کو اندر ہی اندر پگھلا دیتی تھی.اسے چیرا وغیرہ دے کر باہر نکالنے
سليشيا 752 کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی کیونکہ ایسے کیڑے کو سرجری کے ذریعہ باہر نکالنے کی کوشش کرنا انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے.اگر یہ پورا نکلنے کی بجائے کہیں سے ٹوٹ جائے جس کا غالب احتمال ہوتا ہے یا غلط چاقو لگنے سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے تو خون کے ذریعہ جہاں جہاں یہ ٹکڑے پھیلیں گے اس کا ہر ٹکڑا بہت تیزی سے بڑھنے لگتا ہے اور انتہائی مہلک ثابت ہوتا ہے.افریقہ میں اس کیڑے کے بعض ماہر معالجین اسے کانٹے پر لپیٹتے ہیں.یہ سینکڑوں فٹ تک لمبا ہوتا ہے.اگر درمیان میں ٹوٹ جائے تو ساری محنت اکارت جاتی ہے.سندھ ہو یا افریقہ، سلیشیا ہر جگہ یکساں کارروائی کرتی ہے اور اس کیڑے کو پگھلا کر زخم کا چھوٹا سا سوراخ بنا کر اس کا مواد باہر نکال دیتی ہے.بعض اوقات مچھلی کا ٹیڑھا کانٹا گلے میں پھنس جاتا ہے جو نکلتا ہی نہیں.ایک دفعہ مجھے بھی ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا.جب باوجود کوشش کے کا نشانہ نکل سکا تو میں نے سلیشیا x 6 کھالی.چند گھنٹوں کے بعد ہلکی سی کھانسی کے ساتھ کانٹا خود بخود باہر آ گیا.بعض بچوں پر بھی یہ تجربہ کر کے دیکھا ہے.الا ماشاءاللہ ،سلیشیا ہمیشہ کار آمد ثابت ہوتی ہے.اونچی طاقت میں سلیشیا دینے سے بڑے بڑے پھوڑوں کا مواد خود بخود خشک ہونے لگتا ہے اور وہ اندر ہی اندر سکڑ کر ختم ہو جاتے ہیں.پیپ بن کر بہتی نہیں ہے لیکن اس کے برعکس بعض صورتوں میں پیپ بھی بنتی ہے.سلیشیا کے اس دہرے اثر کو سمجھنا چاہئے.عموماً جسمانی نظام دفاع یہ فیصلہ کرتا ہے کہ وہ حسب موقع کیا ردعمل دکھائے.سلیشیا عموماً اونچی طاقت میں سل کے مادوں کو باہر نکلنے کا حکم دیتی ہے اور ان مادوں کے گرد پیپ بنانے کے عمل کو تیز کر دیتی ہے لیکن ان مادوں کو پگھلا نہیں سکتی.اگر وہ ایسی جگہ ڈیرا ڈالے ہوئے ہوں مثلاً پھیپھڑوں میں خون کی کسی شریان کے بالکل ساتھ ہوں تو سلیشیا کے پیپ بنانے کے عمل کے ساتھ وہ شریان بھی پھٹ جائے گی اور اس تیزی کے ساتھ خون بہے گا کہ اس مریض کی زندگی کو بھی بہالے جائے گا.6x اور 30 طاقت میں سلیشیا دی جائے تو پیشتر اس کے کہ شریا نہیں پھٹنے لگیں مریض کے رد عمل
سليشيا 753 سے ڈاکٹر کو بر وقت خطرہ بھانپ لینا چاہئے.چھوٹی طاقت نسبتا نرمی اور آہستگی سے کام کرتی ہے.اس لئے عموماً کسی شدید ردعمل کا خطرہ پیدا ہی نہیں ہوتا.ڈاکٹر کینٹ کا کہنا ہے کہ سلیشیا تپ دق کے مریضوں کے لئے بہت اونچی یا بہت چھوٹی طاقت میں یکساں خطرناک ہے اس لئے حتی المقدور دوسری مددگار دواؤں سے کام لینا چاہئے.اگر مجبوری ہو تو 30 طاقت میں دے کر دیکھا جائے یہ نہ بہت اونچی طاقت ہے نہ بہت نیچی.سلیشیا کا بعض دواؤں سے تضاد ہے اس لئے اسے ان کے ساتھ ملانا نہیں چاہئے.مثلاً پاره یعنی مرکزی کی ہر شکل سلیشیا سے متصادم ہے.ان دونوں کو ایک ساتھ استعمال نہیں کرنا چاہئے بلکہ ان دونوں کے درمیان ہیپر سلف دینی ضروری ہوتی ہے کیونکہ اس کی بہت سی علامتیں سلیشیا سے ملتی ہیں اور یہ مرکسال سے بھی موافقت رکھتی ہے.اس لئے ہسپر سلف ان دونوں دواؤں کے درمیان ایک پل سا بنا دیتی ہے.بعض دفعہ سلیشیا کا غیر متوقع اثر ظاہر ہوتا ہے.مثلاً اگر کسی کے دانت کی جڑوں میں انفیکشن موجود ہو جس کا اسے علم نہ ہو اور ایسا مریض کسی اور بیماری کے لئے سلیشیا استعمال کرے تو اچانک خراب دانت کے گرد جبڑے سوج جائیں گے اور دانت ہلنے لگے گا.ایسی صورت میں اگر وہ سلیشیا کے تریاق کے طور پر ہسپر سلف کھالے تو در دکو فورا آرام آ جائے گا اور اسے یہ علم بھی ہو چکا ہوگا کہ فلاں جگہ انفیکشن موجود ہے.پھر حسب ضرورت کوئی اور بالمثل دوا دی جاسکتی ہے جو تکلیف دہ رد عمل کے بغیر دانت کو ٹھیک کر دے.سلیشیا کی ایک عمومی علامت یہ ہے کہ مریض کو بہت سردی لگتی ہے اور اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوتے ہیں.یہ ایسی علامت ہے کہ جو بعض اوقات صحیح دوا تک پہنچنے کی راہ میں بھی حائل ہو جاتی ہے کیونکہ وہ مریض جنہیں تعفنی بخار ہوں ان کے ہاتھ پاؤں بعض دفعہ بہت گرم ہوتے ہیں اور کئی ڈاکٹر اس علامت کے پیش نظر انہیں سلیشیا کی بجائے پلسٹیلا دیتے رہتے ہیں جو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچاتی.سلیشیا کی پہچان یہ ہے کہ بخار چڑھنے سے پہلے سردی کی وجہ سے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو جاتے ہیں لیکن بخار چڑھنے کے بعد پلسٹیلا کی علامتیں ظاہر ہو جاتی ہیں.یاد رکھیں کہ سلیشیا پلسٹیلا کی مزمن (Chronic) دوا ہے.
سليشيا 754 کئی دفعہ مریض بخار میں جل رہے ہوتے ہیں اور ان کے ہاتھ پاؤں بھی گرم ہوتے ہیں لیکن انہیں پلسٹیلا کی بجائے سلیشیا کی ضرورت ہے اور سلیشیا ہی فائدہ دیتی ہے.عموماً ٹانسلز کی انفیکشن میں ایسا ہوتا ہے اور بعض بچے ایسے ڈاکٹروں کے ہاتھوں چند دن کے اندرمر جاتے ہیں کیونکہ دراصل وہ سلیشیا کا تقاضا کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں مسلسل پلسٹیلا ہی دی جاتی ہے یہاں تک کہ بیماری قابو سے نکل جاتی ہے.سلیشیا کے مریض کو یہ خوف رہتا ہے کہ میں جو کام کروں گا یا جو امتحان بھی دوں گا اس میں ناکام ہو جاؤں گا.خصوصاً سکول کے بچے اس ناکامی کے احساس میں مبتلا رہتے ہیں.مثلاً بعض لوگ دل میں بیٹھے ہوئے خوف کی وجہ سے ڈرائیونگ کے امتحان میں بار بارنا کام ہوتے ہیں حالانکہ انہیں اچھی بھلی ڈرائیونگ آتی ہے.ایسا خوف چونکہ بعض دوسری دواؤں میں بہت نمایاں طور پر بیان ہوا ہے اس لئے سلیشیا کا خیال ہی نہیں آتا.ایسے مریضوں کو اگر سلیشیا 6x کے ساتھ کالی فاس ملا کر دی جائے تو بعض دفعہ تعجب انگیز فائدہ پہنچتا ہے..مختلف قسم کے زخم اور السر مندمل نہ ہوں تو مستقل ناسور بن جاتے ہیں.اگر سلیشیا کی اور علامتیں ملتی ہوں تو یہ ان زخموں کو نیم خوابیدہ حالت سے نکال کر مستعد کر دیتی ہے اور انہیں ابھار کر پیپ بناتی ہے.جب وہ بہہ جائے تو زخم بالکل خشک ہو کر معمولی سانشان باقی رہ جاتا ہے.اگر عورتوں کے جسم میں غدود بڑھ جائیں تو ان کے خلاف بھی سلیشیا بہت مفید دوا ہے.جلد پر ظاہر ہونے والی عمومی تکلیفیں مثلاً زہر یلے دانوں، چھالوں اور پھوڑوں وغیرہ میں سلیشیا کا بہت اچھا اثر ہے.جن لڑکیوں اور لڑکوں کے چہرے پر آغاز جوانی میں کیل نکل آتے ہیں اور بہت بدنما دکھائی دیتے ہیں، انہیں 30 طاقت میں کالی بر و ٹیٹم کے ساتھ سلیشیا ملا کر دینے سے بسا اوقات نمایاں فائدہ ہوتا ہے اور بہت ضدی قسم کے کیل بھی پیچھا چھوڑ جاتے ہیں.لیکن ان دونوں کو کم از کم ایک ماہ تک استعمال کرنا چاہئے.بعد ازاں بھی وقفے وقفے کے ساتھ حسب ضرورت دہرانا چاہئے.
755 سليشيا جسم کے جس حصہ سے بھی پیپ والے ریشہ دار مواد خارج ہوں سلیشیا کو فراموش نہیں کرنا چاہئے.سلیشیا میں پاؤں میں پسینہ آنے کی علامت سلفر سے ملتی ہے.سلفر میں پاؤں گرم رہتے ہیں اور پسینہ آتا ہے اور جلن بھی ہوتی ہے.سلیشیا میں سردی کے احساس کے باوجود پاؤں میں پسینہ آتا ہے.سلیشیا میں سردرد گدی سے شروع ہوتا ہے.عموماً صبح کے وقت درد کا آغاز ہوتا ہے.اس لحاظ سے جلسیمیم سے اسے ممتاز کرنا مشکل ہوتا ہے.دونوں ٹھنڈے مزاج کی دوائیں ہیں.سلیشیا میں درد گدی سے آگے کی طرف منتقل ہوتا ہے.ماتھے اور آنکھوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے.اگر یہ علامت واضح ہو تو سلیشیا سے علاج شروع کرنا چاہئے.اس کا سر درد صبح شروع ہو کر رات تک جاری رہتا ہے.کبھی سلیشیا کے مریض کا نچلا دھڑ خشک ہوتا ہے اور اوپر کے دھڑ پر ٹھنڈا پسینہ آتا ہے.کلکیریا کارب سے فرق یہ ہے کہ کلکیریا کا رب میں اوپر کے سارے بدن پر نہیں بلکہ صرف سر پر بہت زیادہ پسینہ آتا ہے.رسٹاکس میں اوپر کے بدن پر پسینہ آتا ہے لیکن سر پر بالکل نہیں آتا.سلیشیا میں خاص وقت پر مرض شروع ہوتا ہے اور خاص وقت پر ہی ختم ہوتا ہے اور وقفہ وقفہ سے مرض عود کر آتا ہے.اس کا تعلق شروع چاند سے بھی ہے.چاند نکلتے ہی سلیشیا کی بیماریاں زور پکڑ لیتی ہیں.بعض بچوں کا دمہ بھی شروع چاند میں شدت اختیار کر لیتا ہے اور یہ سلیشیا کی خاص علامت ہے.مختلف قسم کے بخاروں، حیض کے ایام کی تکلیفوں اور مرگی کے دوروں کا بھی چاند کی تاریخوں سے تعلق ہوتا ہے.بیماری کے سات دن کا دور بھی سلیشیا میں ملتا ہے.گدی والے درد کے علاوہ سلیشیا کا سر درد زیادہ تر دائیں طرف حملہ آور ہوتا ہے.اس پہلو سے اس کی میگنیشیا فاس سے مشابہت ہے.اس کا تفصیلی ذکر میگنیشیا فاس میں گزر چکا ہے.سر کے تکلیف دہ ایگزیما میں بھی سلیشیا بہت کارآمد ہے.اس کے ساتھ سورا ئینم اور گریفائیٹس بھی مددگار کے طور پر دینی پڑتی ہیں جس سے تکلیف دہ
سليشيا 756 مزمن ایگزیموں میں بہت نمایاں فرق پڑتا ہے.یہ دوائیں ایک ہزار طاقت میں باری باری دہرانی چاہئیں.سورائس کے بعض پرانے مریضوں کو بھی سورا ئینم ، سلفر ، سلیشیا اور گریفائیٹس باری باری دینے پڑتے ہیں کیونکہ یہ مرض بہت گہرا ہے اور صرف ایک دو دواؤں 6 کے قابو میں نہیں آتا.بعض دفعہ بچوں کے چہرے پر خون کی غدود میں ابھر آتی ہیں ، کچی کچھی جلد اور خون کے چھالے سے بن جاتے ہیں.اگر وہ ٹھنڈے مریض ہوں تو اللہ کے فضل سے سلیشیا سے بہت فائدہ پہنچتا ہے.ورنہ فیرم مٹیلیکم (Ferrum Metallicum) اس مرض کی اولین دوا ہے اور تجربہ بتاتا ہے کہ یہ بعض پیدائشی خون کے ابھاروں میں بھی مفید ثابت ہوئی ہے.سیجیا گلینڈ ز کی زیادہ خطرناک اور گہری بیماریوں میں کام آتی ہے.سخت غدودوں کو چھوٹا اور نرم کرنے میں سلیشیا ایک اہم دوا ہے.کلکیر یا فلور، برائیٹا کا رب، فائیٹولا کا اور کاسٹیکم بھی مفید ہیں.لیکن اگر جبڑوں ، گردن اور بغلوں کے غدود تیزی سے سخت اور بہت بڑے ہونے شروع ہو جائیں اور مریض ٹھنڈا ہو تو سلیشیا استعمال کرنی چاہئے لیکن اگر اس کے با وجود افاقہ نہ ہو تو احتمال ہے کہ وہ کینسر ہو.اس صورت میں اکیلی سلیشیا فائدہ نہیں دے گی بلکہ سلفر CM دینی چاہئے.جب اس کے استعمال سے مریض ٹھنڈ محسوس کرنے لگے تو پھر سلیشیا CM ایک خوراک دینی پڑے گی.جب تک سردی گرمی کی علامتیں تبدیل نہ ہوں اس وقت تک ان کو ادل بدل کر دینا مناسب نہیں.سلیشیا آنکھوں کی بیماریوں میں بھی مفید ہے.کورنیا کے السر میں بھی جو علاج کے لحاظ سے ایک مشکل مرض ہے سلیشیا بالمثل ہو تو غیر معمولی فائدہ دیتی ہے.(دیگر مشابہ دواؤں سے موازنہ کے لئے دیکھئے کلکیر یا فلور) نزلاتی مادہ کی وجہ سے اگر کان میں شور ہو تو یہ علامت بہت سی دواؤں میں مشترک ہے.سلیشیا اسی وقت کام آئے گی جب یہ مزاجی دوا ہو.اگر دانتوں کے کنارے
سليشيا 757 بھرنے لگیں تو کلکیر یا فلور کی طرح سلیشیا بھی دوا ہو سکتی ہے.اکثر ہومیو پیتھک کتابوں میں گلے کی اچانک خرابی کے علاج کے سلسلہ میں سلیشیا کا ذکر نہیں ملتا بلکہ یہ گلے کی مستقل اور مزمن بیماریوں میں مفید بتلائی جاتی ہے.یہ بات درست نہیں ہے.گلے کے غدود میں تعفن کی وجہ سے بخار ہوتو صرف سلیشیا دینے سے ہی فوری آرام آ سکتا ہے.اس کے ساتھ کالی میور، فیرم فاس اور کلکیر یا فلور 6x دیں تو بخار اللہ کے فضل سے بہت جلد ٹوٹ جاتا ہے.بعض ایسے مریضوں کا اس علاج سے اگر پہلے دن ہی بخار نہ ٹوٹے تو دو تین دن کے اندر رفتہ رفتہ ختم ہو جاتا ہے.سلیشیا کے مریض کو سردی لگنے کے باوجود سخت ٹھنڈے پانی کی پیاس محسوس ہوتی ہے اور وہ برف کھانا چاہتا ہے یا مشروبات میں برف ڈال کر پیتا ہے.سلیشیا کے بارے میں ایک علامت اکثر کتب میں لکھی ہوئی ہے کہ اس کے مریض کو گوشت سے نفرت ہو جاتی ہے.اگر مریض پسند بھی کرے تو صرف ٹھنڈا گوشت پسند کرتا ہے.میرا وسیع تجربہ اس کے خلاف گواہی دیتا ہے.بکثرت سلیشیا سے فائدہ اٹھانے والے مریضوں میں گوشت سے نفرت کی عادت موجود نہیں ہوتی.مزمن اسہال کی بیماری میں بھی سلیشیا بہت مفید ہے.تپ دق کے اثرات کی وجہ سے بھی اسہال مزمن صورت اختیار کر لیتے ہیں یا پھر اگر خوراک گندی اور مضر صحت ہو جیسا کہ مہاجر کیمپوں وغیرہ میں ہو جاتی ہے تو اسہال کی بیماری مستقل ہو جاتی ہے یا پیچش مزمن شکل اختیار کر لیتی ہے.ایسی بیماریوں میں سلفر اور کروٹن کے علاوہ سلیشیا بھی دوا ہوسکتی ہے بشرطیکہ مریض کا جسم ٹھنڈا رہتا ہو.ایک عالمی جنگ میں اسہال کی بیماری بہت پھیلی تھی.ایک ہومیو پیتھک ڈاکٹر سلیشیا کا استعمال شروع کیا تو ہر جگہ اس سے فائدہ ہوا لیکن ایک اور موقع پر سلیشیا سے کوئی فائدہ نہیں ہوا.اس کی وجہ یہ تھی کہ خاص موسم اور خاص و با وغیرہ میں علامتیں بدل جاتی ہیں اور دوسری دواؤں کی ضرورت پڑتی ہے.سلیشیا کی بعض علامتیں کالی کا رب سے ملتی ہیں.دونوں ٹھنڈے مزاج کی دوائیں
سليشيا 758 ہیں.جنسی امراض میں بھی سلیشیا کی کالی کا رب سے بہت گہری مشابہت ہے.اگر سردی کی وجہ سے رات کو بستر میں پیشاب نکل جائے تو بھی سلیشیا مفید ہے.بعض عورتوں خصوصاً بچیوں کے حیض اچانک رک جائیں تو سلیشیا بشرطیکہ دیگر علامتیں موجود ہوں بہت مؤثر ثابت ہو گی حتی کہ اس کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مرگی کا بھی مؤثر علاج ہے.دمہ کے لئے بھی سلیشیا بہت مفید ہے.دمہ کے دوران بخار ہو جائے تو سلیشیا سے بہتر کوئی دوا نہیں.دمہ کے ایک حملہ کے بعد سلیشیا دیں تو یہ زیادہ گہرا اور لمبا اثر دکھاتی ہے اور دمہ کے مستقل حملہ کے رجحان کو ختم کر دیتی ہے.مرگی میں اگر سلیشیا دوا ہو تو مریض کے ٹھنڈے ہونے کے علاوہ اس کا اورا (Aura) بھی اس کی نشاندہی کرتا ہے جو پیٹ کے اندر درمیان سے شروع ہوتا ہے اور اس کا غبار دماغ کی طرف اٹھتا ہے.شروع چاند میں ہونے والے مرگی کے دورہ میں بھی سلیشیا کو نظر انداز نہ کریں.سلیشیا میں زبان پر گنٹھیا کی قسم کا درد اور سوجن ہوتی ہے یعنی زبان کا کوئی نہ کوئی حصہ دکھنے لگتا ہے.مسوڑھوں پر چھالے بن جاتے ہیں.معدہ میں خرابی کی وجہ سے بیچکی شروع ہو جائے تو سلیشیا سے آرام آتا ہے.نکس وامیکا اور اگنیشیا بھی بچی کے لئے بہت مفید دوائیں ہیں.سلیشیا میں متلی اور قے کا رجحان بھی ملتا ہے.اگر سلیشیا کی دیگر علامتیں پائی جائیں تو اس سے جگر کی خرابی کا بھی علاج ممکن ہے.ایسے مریض کو گرم کھانا پسند نہیں ہوتا بلکہ ٹھنڈا کھانا مرغوب ہوتا ہے.بعض دفعہ بچوں کو شدید قبض ہو جاتی ہے اور اجابت کے وقت بچہ بہت زور لگاتا ہے.ایسے بچوں کے لئے سلیشیا اور ور میرم البم بہت مفید دوائیں ہیں.(تفصیل کے لئے دیکھئے ور بیٹرم البم.) پیشاب کی بہت سی تکلیفوں میں بھی سلی یا مفید ہے.اگر پیپ اور خون آنے لگے،
سليشيا 759 نزلاتی حملے ہوں یعنی بار بار پیشاب آئے ، مختلف مادے پیشاب کے ذریعے خارج ہوں اور برتن کی تہ میں بیٹھ جائیں تو سلیشیا دینے سے فائدہ ہوگا.گردہ میں بننے والے کنکر خصوصاً آگزیلیٹس (Oxalates) جو کسی اور دوا سے ٹھیک نہیں ہوتے بسا اوقات کچھ عرصہ سلیشیا 6x کھلانے سے چھوٹے چھوٹے ریت کے ذرے بن کر نکل جاتے ہیں.ایسی پتھریاں ایکسرے میں بھی نظر نہیں آتیں اس لئے صرف گردے کی درد کے شدید دورے ان کی نشاندہی کرتے ہیں.پتھر یلے علاقوں میں جہاں پتھروں کے سنگریزے خوراک میں شامل ہوتے ہوں وہاں اس قسم کی آگزیلیٹس کی پتھریاں بکثرت ملتی ہیں.افغان مہاجرین کے کیمپوں میں آگزیلیٹس کی پتھریوں کے مریضوں پر میرے ہومیو پیتھک کے شاگرد ڈاکٹروں نے وسیع پیمانے پر اسے کامیابی سے استعمال کیا ہے.بعض عورتوں کے رحم میں پانی کے تھیلے سے بن جاتے ہیں جو رستے رہتے ہیں یا پھٹ جاتے ہیں اور ان سے لیس دار مواد بہنے لگتا ہے.یہ کافی تکلیف دہ اور بے چین کرنے والی بیماری ہے.بیضہ الرحم میں سوزش کے نتیجہ میں پیپ بھی بنتی ہے.رحم میں چھوٹی چھوٹی گلٹیاں بن جاتی ہیں.ان سب تکلیفوں کے ازالہ کے لئے اگر سلیشیا مزاجی دوا ہو تو بہت مؤثر ثابت ہوتی ہے.پاؤں میں گئے پڑ جانا، اندر کی طرف اگنے والے ناخن (In Growing Toe Nail) کی وجہ سے سوزش اور درد، رگڑ لگنے سے تکلیف بڑھ جائے، تنگ جوتا پہننے سے گٹے پڑ جائیں تو حسب علامات سلیشیا یا سلفر مفید ثابت ہوسکتی ہیں مگر بعض ہو میو پیتھس نے دعوی کیا ہے کہ انگوٹھے کے ناخنوں کی یہ بیماری سب سے زیادہ آسٹریلین نارتھ پول کے میگنٹ سے تیار کی ہوئی ہو میو پیتھک دوا کے دائرہ کار میں آتی ہے.مددگار دوائیں تھو جا.پلسٹیلا.فلورک ایسڈ طاقت 30 اور حسب ضرورت مگر بہت احتیاط کے ساتھ اونچی پوٹینسیاں
760
سپائی جیلیا 761 174 سپائی جیلیا SPIGELIA (Pink Root) سپائی جیلیا ایک پودے سے تیار کی جاتی ہے جسے Pink Root یعنی گلابی جڑ کہا جاتا ہے.یہ بائیں طرف کے اعصابی دردوں کے علاج میں بہت شہرت رکھتی ہے لیکن وجع المفاصل کے علاج میں بھی اسے اونچا مقام حاصل ہے.ایسے مریض جو جوڑوں کے درد میں مبتلا ہوں ان کے اعصاب بھی اس بیماری سے متاثر ہوکر بہت زود حس ہو جاتے ہیں.وہ اعصابی درد جن کی جڑ وجع المفاصل میں ہولیکن بظاہر اعصابی تکلیف معلوم ہوتی ہو ان میں سپائی جیلیا بہت مفید دوا ہے.دل کی بیماریوں سے بھی اس کا تعلق ہے.دل کے پردوں کی سوزش اور دل کی تیز دھڑکن میں بہت کام آتی ہے.چہرے کے بائیں طرف کے اعصابی دردوں میں بہت مؤثر ہے.اس کے بارے میں اکثر قابل ہومیو پیتھک معالجین کا کہنا ہے کہ گردن سے لے کر چہرے تک کے کوئی اعصابی درد سپائی جیلیا کے دائرہ کار سے باہر نہیں.بعض دفعه گردن اور کندھے کے جوڑوں میں درد مستقل صورت میں ٹھہر جاتا ہے.گرم ٹکور کرنے سے آرام آتا ہے.سپائی جیلیا کی تکلیفیں سردی سے بڑھتی ہیں لیکن درد میں جلن پائی جاتی ہے جیسے آگ سی لگی ہو اور درد کے کوندے شعلوں کی طرح لپکتے ہیں یا ایسے لگتا ہے کہ گرم تاروں سے ماؤف جگہ کو جکڑ دیا گیا ہے اور اعصاب کے کناروں پر بھی گرمی کا شدید احساس ہوتا ہے.ایسی کیفیت میں سپائی جیلیا کو نہیں بھولنا چاہئے حتی المقدور ایلو پیتھک ٹیکوں سے احتراز کرنا چاہئے جوان دردوں کے دبانے میں مفید تو ثابت ہوتے ہیں لیکن اگر ٹیکہ غلط لگ جائے تو دائمی نقصان کا موجب بن سکتا ہے.سپائی جیلیا کام کرے تو کسی ٹیکے کی ضرورت نہیں پڑتی اور اگر
سپائی جیلیا 762 سپائی جیلیا کام نہ کرے تو دوسری بالمثل ہومیو دواؤں کی تلاش کرنی چاہئے.آنکھوں کا درد جو اعصاب سے تعلق رکھتا ہو اور سردی لگنے سے شروع ہو اس میں درد کی لہریں آنکھ کے اعصاب میں دوڑتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں.سپائی جیلیا کے درد سارے جسم میں دوڑتے پھرتے ہیں.سپائی جیلیا دل کی بعض بیماریوں میں بھی بہت مفید ہے.پیری کارڈائیٹس (Pericarditis) اور اینڈ وکارڈائیٹس (Endo Carditis) دونوں میں سپائی جیلیا کام آتی ہے.ان کی تفصیل یہ ہے کہ پیری کارڈائیٹس دل کے اردگرد کی جھلیوں میں سوزش کو کہتے ہیں جس کی وجہ سے بخار اور سینے میں درد ہوتا ہے اور اینڈو کا رڈائیٹس دل کی جھلی اور والو کی سوزش کو کہتے ہیں جوعموماً بیکٹیریا کے انفیکشن کی وجہ سے ہوتی ہے.سانس لینے میں دقت ہوتی ہے.بخار ہو جاتا ہے اور دل کا فعل درست نہیں رہتا.سپائی جیلیا کی دماغی علامات میں کمزور یادداشت، ہر چیز سے بے رغبتی ، بے چینی اور پریشانی نمایاں ہوتے ہیں.اچانک اٹھ کر کھڑا ہونے پر چکر آتے ہیں غالبا بلڈ پریشر کم یا زیادہ ہو جاتا ہے یا بعض دفعہ کان کے مائع کا توازن برقرار نہیں رہتا.کان کی انفیکشن سے بھی ایسا ہوسکتا ہے.سخت درد کے باوجود غنودگی سی رہتی ہے.سر اونچا کر کے لیٹنے سے آرام محسوس ہوتا ہے.اگر مریض سامنے کی طرف جھکے تو تکلیف بڑھتی ہے.سپائی جیلیا میں درد دائیں اور بائیں دونوں طرف ہوتے ہیں لیکن عام طور پر سپائی جیلیا بائیں طرف کی دوا ہے اور سینگونیر یا دائیں طرف کی.سپائی جیلیا سے اثر پذیر ہونے والا جو درد گدی سے شروع ہوتا ہے وہ کبھی دائیں طرف اپنا مقام بناتا ہے اور کبھی بائیں طرف اور اس میں دھڑکن ہوتی ہے اور درد کی لہریں دوڑتی پھرتی ہیں.یہ درد ماتھے پر آ کر کبھی دائیں اور کبھی بائیں آنکھ میں ٹھہر جاتا ہے.درد کے ساتھ یہ احساس ہوتا ہے کہ سر پر کس کر کپڑا بندھا ہوا ہے.بعض دفعہ درد کی شدت سے مریض ٹھنڈا ہو جاتا ہے ، پسینے چھوٹ جاتے ہیں اور الٹیاں آنے لگتی ہیں.ایسے مریض کو فوراً گرم لحاف اوڑھا کر قہوہ وغیرہ پلانا چاہئے اور بلا تاخیر سپائی جیلیا شروع کرا دینی چاہئے.
سپائی جیل یا 763 درد کی غیر معمولی زود حسی ان سب دواؤں میں پائی جاتی ہے.پلسٹیلا، ہیپر سلف، کیمومیلا، آگزیلک ایسڈ ، ان کا اپنے ابواب میں مطالعہ کریں.سپائی جیلیا میں اعصاب کے اندر تکلیف محسوس ہوتی ہے جس کی وجہ سوزش اور چوٹ وغیرہ نہیں ہوتی.یہ درد اتنا شدید ہوتا ہے کہ درد کی لکیریں بیرونی جلد پر سرخی کی صورت میں دکھائی دینے لگتی ہیں.غالبا خون کا دوران زیادہ ہو جاتا ہے.یہ سپائی جیلیا کی خاص علامت ہے.سرخی کی لکیریں صرف ماؤف جگہ پر ہی ابھرتی ہیں.چھنے والے دردوں میں لمس نا قابل برداشت ہوتا ہے.سپائی جیلیا میں آنکھیں بہت بڑی محسوس ہوتی ہیں، نظر ایک جگہ نہیں ٹھہرتی اور بعض دفعہ ایک چیز اپنی اصل جگہ سے ہٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے.آنکھوں میں درد کے ساتھ سخت دباؤ محسوس ہوتا ہے.آنکھ کا ڈیلا ہلائیں تو درد بڑھ جاتا ہے.اس میں سرخی نہیں ہوتی.صاف ستھری آنکھ میں درد ہو تو اکثر اعصاب کا قصور ہوتا ہے.آنکھ ہلانے سے بھی سر چکرانے لگتا ہے.آنکھیں روشنی سے زود حس ہوتی ہیں.آنکھوں سے پانی بہتا ہے.چہرے کا اعصابی در درخساروں کی ہڈیوں، آنکھوں، آنتوں اور کنپٹیوں تک پھیل جاتا ہے.جھکنے سے تکلیف میں اضافہ ہوتا ہے.سپائی جیلیا انتریوں کے کیٹروں کے لئے بھی مفید ہے.دافع اثر دوائیں پلسٹیلا طاقت: 30 اور اونچی پریسی دی جاسکتی ہے.
764
سپونجیا ٹوسٹا 765 175 سپونجیاٹو سٹا SPONGIA TOSTA (Roasted Sponge) اسفنج سمندر میں پائی جانے والی زندگی کی ایک ایسی قسم ہے جسے آبی جانوروں میں شمار کیا جاتا ہے.عام طور پر یہ چٹانوں اور پتھروں سے چپکے رہتے ہیں اور حرکت نہیں کرتے.اگر ان کا کوئی حصہ ٹوٹ جائے یا کٹ کر الگ ہو جائے تو وہ کسی پتھریلی سطح پر چھٹ کر بہت تیزی سے بڑھنے لگتا ہے اور ایک نیا اسفنج وجود میں آ جاتا ہے.مرنے کے بعد ان کے جسم سطح سمندر پر تیرنے لگتے ہیں.کچھ لوگ انہیں اکٹھا کر کے فروخت کرتے ہیں اور یہی ان کا ذریعہ معاش ہے.اسفنج میں یہ خوبی ہے کہ اس کو دبایا جائے تو اس میں موجو دسب پانی نکل جاتا ہے اور پھر یہ خود بخود اپنے اصل حجم پر واپس آ جاتا ہے.اس کی یہ خاصیت ہمیشہ قائم رہتی ہے.سوسال بھی پڑا رہے تو اسی طرح رہے گا.اسے بہت سی گھر یلوضروریات میں استعمال کیا جاتا ہے.اس کے علاوہ اسے جلا کر کئی دواؤں میں بھی شامل کیا جاتا رہا ہے.ہو میو پیتھی طریق علاج میں اسے بھون کر جو دوا تیار کی جاتی ہے وہ بہت سی بیماریوں میں مفید ثابت ہوتی ہے.اس کا زیادہ تعلق دموی کھانسیوں اور دل کی تکالیف سے ہے.دل کمزور ور پھل پھیلا سا ہو جائے ، اس میں پوری جان نہ رہے اور اعصاب ڈھیلے پڑ جائیں تو اس کے نتیجہ میں کھانسی اٹھتی ہے اور دمہ بھی ہو جاتا ہے.اسے Cardiac Cough یعنی دل کی کمزوری سے تعلق رکھنے والی کھانسی کہتے ہیں.اس میں سپونجیا چوٹی کی دوا ہے.اس کھانسی کی ایک خاص پہچان یہ ہے کہ کھس کھس کی آوازیں آتی ہیں جیسے آرا چل رہا ہو.اگر یہ پہچان نہ بھی ہو تو دل کی کمزوری سے جو کھانسی پیدا
سپونجیا ٹوسٹا 766 ہواس میں سپونجیا ضرور اچھا اثر دکھاتی ہے.ایسی کھانسی میں جو سپونجیا کی محتاج ہو، اس میں دوسری دوا میں کام نہیں کریں گی اس میں سپونجیا ہی دینی پڑے گی.دل کی کمزوری سے تعلق رکھنے والے دمہ میں خوف بھی پایا جائے، سانس اکھڑے اکھڑے چلتے ہوں ، دل کے مقام پر کچا پن محسوس ہو اور دمہ کی دوسری دوائیں کام نہ کر رہی ہوں تو سپونجیا کو پیش نظر رکھنا چاہئے ایسے مشکل وقتوں میں یہ بڑی کارآمد ثابت ہوتی ہے.سپونجیا کوا یکونائٹ سے بھی مشابہت ہے.ایکونائٹ میں بہت خوف ہوتا ہے.سپونجیا میں بھی بہت خوف ملتا ہے.دل کے دموی مریض کا خوف بسا اوقات سپونجیا کی نشاندہی کرتا ہے.رات کو آنکھ کھلے تو سپونجیا کے مریض کو پتہ نہیں چلتا کہ وہ خود کہاں ہے.دروازہ اور کھڑ کی کہاں ہے.یہ کیفیت روزمرہ اپنے گھر میں رہتے ہوئے بھی ہو جاتی ہے جو مرض کی نشاندہی کرتی ہے اور یہ دماغی انتشار سپونجیا میں نمایاں ہوتا ہے.اس کے علاوہ بعض اور دواؤں میں بھی یہ علامت پائی جاتی ہے.جہاں تک گھبراہٹ اور جھٹکے سے آنکھ کھلنے کا تعلق ہے وہ گرائینڈ لیا اور آرسنک میں بھی بہت نمایاں ہے لیکن یہ احساس کہ نہ معلوم میں کہاں ہوں، سپونجیا کے علاوہ فاسفورس لیکیسس ، کار بوویچ ، گلونائن، لائیکو پوڈیم اور ایسکولس میں بھی پایا جاتا ہے.سپونجیا کا مریض رات کے کسی حصہ میں جب بھی اٹھے گا ذہنی انتشار کا شکار ہوگا.اگر دل آہستہ آہستہ کام کرنا چھوڑ نے لگے یا اپنے اصل سائز سے بڑا ہو جائے تو سپونجیا اس میں بھی مفید ہے.دل پھیل جائے تو عام طور پر اپنی اصل حالت میں واپس نہیں لوٹتا.جو ہومیو پیتھک دوائیں اس ضدی مرض میں مفید ثابت ہوتی ہیں ان میں سپونجیا بھی شامل ہے.اس بارہ میں رسٹاکس کا خصوصیت سے مطالعہ کریں.سپونجیا کے ساتھ دل کی عمومی طاقت کے لئے کریٹیکس ( Crataegus) بھی استعمال کرنی چاہئے.
سپونجیا ٹو سٹا 767 سپونجیا گرم مزاج دوا ہے.مریض کو گرمی زیادہ لگتی ہے.کھلی ہوا کو پسند کرتا ہے.گرم کمرے میں تکلیف بڑھتی ہے.چھونے اور دبانے سے علامات بڑھ جاتی ہیں.حرکت کرنے ، چلنے اور جھکنے سے بھی تکلیفوں میں اضافہ ہوتا ہے.سردی کے موسم میں تکلیفوں میں کمی ہوتی ہے لیکن ٹھنڈی ہوا سے کھانسی میں اضافہ ہو جاتا ہے.سپونجیا گلہڑ یعنی تھائی رائیڈ گلینڈ کے بڑھنے میں مفید دوا ہے.اس کی گلٹیاں پتھر کی طرح سخت نہیں ہوتیں بلکہ اسفنج کی طرح نرم نرم اور انگلی کے دباؤ سے دبنے والی ہوتی ہیں.سپونجیا میں رحم کے غدود بھی بڑھ جاتے ہیں.وہ بھی اسفنج کی طرح پھلپھلے ہوتے ہیں.جن بچوں کے غدود پھیل جائیں اور جسم لٹکا ہوا ڈھیلا ڈھالا ہوان کے لئے بھی سپونجیا مفید ثابت ہو سکتی ہے.بعض لوگوں کی ٹھوڑی دہری ہو جاتی ہے اور نرم نرم گوشت لٹکنے لگتا ہے.سپونجیا کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ اس کے لئے مفید ہے.سپونجیا کی ایک دلچسپ علامت یہ ہے کہ میٹھا کھانے سے گلا خراب ہو جاتا ہے.30 کی طاقت میں سپونجی فائدہ دیتی ہے.اس دوران میٹھی چیزوں سے پر ہیز کریں.چند دنوں کے بعد میٹھا کھا کر دیکھنا چاہئے کہ فرق پڑا ہے یا نہیں.اگر فرق نہ پڑے تو پھر 200 طاقت استعمال کرنی چاہئے.سپونجیا میں مریض رات کو بہت بے چین رہتا ہے، پرسکون نیند نہیں آتی، سوتے ہوئے جھٹکے لگتے ہیں، نیند میں تکلیفیں بڑھ جاتی ہیں اور دن کو بھی پرسکون نیند نہیں آتی.سپونجیادل افق سپونجیا دل کی جھلیوں کی سوزش اور دل میں الیکشن کے لئے بہت مفید ہے.سپونجیا کا مریض معمولی سی جسمانی محنت سے تھک جاتا ہے.سر کی طرف دوران خون ہوتا ہے اور سر درد شدید ہوتا ہے اور آنکھوں سے لیس دار رطوبت نکلتی ہے.خشک نزلہ جس میں ناک بند رہتا ہے، منہ میں آبلے بنتے ہیں، حلق میں چھن اور خشکی ، دکھن اور درد کا احساس ہوتا ہے اور گلے میں سرسراہٹ کے ساتھ کھانسی اٹھتی ہے.سپونجیا میں شدید بھوک اور پیاس کی علامت پائی جاتی ہے.منہ کا ذائقہ کڑوا رہتا
سپونجیا ٹو سٹا 768 ہے.عورتوں میں حیض کے خون کی مقدار کم ہوتی ہے اور حیض سے قبل کمر میں درد، شدید بھوک اور دل کی دھڑکن تیز ہوتی ہے.دوران حیض مریضہ رات کو دل گھٹنے کی وجہ سے اٹھ جاتی ہے.مسلسل کھانسی دمہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے.سپونجیا کے مریض کی علامتیں سیڑھیاں چڑھنے سے، کھلی ہوا میں اور آدھی رات سے قبل بڑھ جاتی ہیں.سر نیچا کر کے لیٹنے سے نیز سیٹرھیاں اترتے ہوئے کمی ہو جاتی ہے.طاقت: 30
769 176 STANNUM METALLICUM (Tin) سٹینم.سٹینم ایک دھات ہے جسے برتنوں پر قلعی کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.ہومیو پیتھی میں اس کا استعمال عموماً کم کیا جاتا ہے لیکن میں نے اسے بہت اہم اور مفید دوا پایا ہے.پھیپھڑوں کی تکلیفوں کو کم کرنے کے لئے خواہ وہ سل کے آخری مقام تک پہنچ چکی ہوں، عموماً مفید ہے..بلغمی مزاج کے لئے بہت اچھی دوا ہے.دن میں ہونے والے سردرد میں جو رات کو کم ہو جائیں مفید ثابت ہوتی ہے مگر اس کا سب سے اچھا استعمال پھیپھڑوں کی علامات کو نرم کرنے اور پیٹ کے کیڑوں کے لئے ہوتا ہے.سٹینم کے باب میں عموماً کیٹروں کا ذکر نہیں ملتا ریپرٹریز (Repertories) اس کا ضرور ذکر کرتی ہیں.تجر بہ بتاتا ہے کہ پیٹ کے کیٹروں میں ٹیم کولمبا عرصہ دیا جائے تو کچھ عرصہ کے بعد وہ بے جان ہو کر یا پھل پکھل کر جاتے ہیں.اس کو کم از کم چند ماہ ضرور استعمال کرنا چاہئے.سٹینم سکے کے Lead) (Poisoning تریاق کے طور پر بھی مفید ہے.سٹینم منہ کے چھالوں میں بھی کام آتی ہیں.جن علاقوں میں قلعی شدہ برتن استعمال ہوتے ہیں وہاں پائی جانے والی معدے اور انتڑیوں کی بیماری میں سٹیم کو فراموش نہیں کرنا چاہئے.مغربی ممالک میں چونکہ قلعی کئے ہوئے برتنوں کا رواج نہیں ہے اس لئے وہاں سٹینم کی بھی اتنی ضرورت پیش نہیں آتی.ہاں مغربی ملکوں میں کھانے اور مشروبات بکثرت لوہے کے ایسے ڈبوں میں سر بمہر کئے جاتے ہیں جن کے اندر ٹن یعنی سٹینم کی ایک تہ سے کھانوں اور مشروبات کو بیرونی ڈبے کے اثر سے محفوظ کیا جاتا ہے.اس لئے جہاں بھی یہ بکثرت استعمال کیا جائے وہاں
ٹینم سٹینم کی علامتیں پائی جاسکتی ہیں.770 سٹینم جلد پکھل جانے والی دھات ہے اور اس سے بنی ہوئی دوائیم بلغم کو بھی جلد پچھلا دیتی ہے.اگر پھیپھڑے بھاری ہو جائیں اور سوزش کی وجہ سے مفتی پیدا ہو جائے تو سٹینم بہت مفید ثابت ہوتی ہے.اس میں دردیں دن کو بڑھتی ہیں.سورج چڑھنے سے تکلیف کا آغاز ہوتا ہے جو آہستہ آہستہ بڑھتی چلی جاتی ہے اور دن ڈھلنے کے ساتھ ساتھ تکلیف میں کمی ہونے لگتی ہے جو غروب آفتاب کے وقت بالکل ختم ہو جاتی ہے.دھوپ سے سر درد میں اضافہ ہو تو نیٹرم میور اور سینگو نیر یا وغیرہ مفید ہیں.سٹیم بھی ان میں شامل ہے.سٹیم میں ایک خاص بات یہ ہے کہ اگر سردی لگے تو اعصاب پر حملہ ہو جاتا ہے اور منہ پر اعصابی درد میں شروع ہو جاتی ہیں.سٹیم میں ایک اور علامت یہ ہے کہ چھاتی میں کمزوری محسوس ہوتی ہے اور بولنے سے یوں لگتا ہے جیسے اندر سے چھاتی جواب دے گئی ہے.سٹینم میں چھاتی کمزور ہو جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے پھیپھڑوں میں جان نہیں رہی.سینے کی کمزوری کی وجہ سے آواز نہیں نکلتی اور بولنے کی طاقت میں کمی آجاتی ہے.کئی ایسے مریض ہیں جن کو یہ تکلیف مستقل ہو جاتی ہے.ایسے لوگوں کو اونچی طاقت میں سٹینیم دینی چاہئے.پندرہ بیس دن کے بعد اونچی طاقت کی ایک ایک خوراک چند ماہ تک استعمال کریں تو حیرت انگیز انقلابی تبدیلیاں پیدا ہونے لگتی ہیں.جہاں بھی سل کی علامتیں پائی جائیں ، وہاں تعلیم کافی مددگار دوا ثابت ہوتی ہے.سٹیم کی ایک اور علامت منتقلی بھی ہے.کھانا پکانے کی بو سے بھی کا ٹھیکم کی طرح متلی ہوتی ہے اور منہ کا مزہ کڑوا ہو جا تا ہے.معدہ خالی ہونے کا احساس رہتا ہے اور خالی پن کے احساس کے ساتھ شیخ بھی ہوتا ہے.کمزوری کا احساس غالب ہوتا ہے خصوصاً سینے میں زیادہ کمزوری محسوس ہوتی ہے.بات کرنا بھی مشکل لگتا ہے.خشک کھانسی اٹھتی ہے جو ہنسنے، بولنے اور گانے سے بڑھ جاتی ہے.سٹیم کا مریض ہمیشہ تھکا ہوا رہتا ہے اور
سٹینم 771 رفتہ رفتہ بڑھتی ہوئی کمزوری کا احساس ہوتا ہے.موسم کی تبدیلی کو بہت شدت سے محسوس کرتا ہے.دل میں شدید دھڑکن پائی جاتی ہے.معمولی محنت سے دل کی دھڑکن میں اضافہ ہو جاتا ہے.باز دور اور ٹانگیں کانپتے ہیں اور سخت بو جھل محسوس ہوتے ہیں.میچ بھی ہو جاتا ہے اور انگو ٹھے ہتھیلیوں کی طرف کھینچ جاتے ہیں جو پلمبم کی بھی نمایاں علامت ہے.سٹینیم کی ایک خاص علامت یہ ہے کہ سیڑھیاں اترتے ہوئے بھی کمزوری کا احساس ہوتا ہے جب کہ اکثر عوارض میں مریض کے لئے صرف سیڑھیاں چڑھنا دشوار ہوتا ہے.کلائی اور ہاتھوں کے عضلات میں سنج اور لکھتے ہوئے یا ٹائپ کرتے ہوئے انگلیوں میں جھٹکے لگنا اس کی خاص علامات ہیں.عورتوں میں حیض بہت جلد اور مقدار میں زیادہ آتے ہیں.رحم میں شدید خارش اور نیچے گرنے کا احساس بھی ہوتا ہے.زردی مائل یا سفید رطوبت نکلتی ہے جس کی وجہ سے کمزوری ہوتی ہے.سٹینیم میں بیماری کی علامات چھونے سے زیادہ ہو جاتی ہیں لیکن دبانے سے یا کسی سخت چیز پر سونے سے آرام آتا ہے.درد آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں اور اسی رفتار سے کم ہوتے ہیں مگر سر کا درد آہستہ آہستہ ختم نہیں ہوتا بلکہ ایک دم ختم ہو جاتا ہے.مددگار دوا پلسٹیلا طاقت 30 سے 200 تک
772
سٹیفی سیگریا 773 177 سٹیفی سیگریا STAPHYSAGRIA (Stavesacre) سٹیفی سیگر یا ایک پودے کے بیجوں سے تیار کی جانے والی دوا ہے.اس کا پودا انگور کی بیل کے مشابہ ہوتا ہے جس پر کاسنی اور نیلے رنگ کے پھول کھلتے ہیں.قدیم سے ہی اس کے پھل کو کئی بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا رہا ہے.معدہ کی صفائی کے لئے قے لانے کے علاوہ اسے بیرونی طور پر خارش اور جوئیں مارنے کے لئے اور مسوں کو دور کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا تھا.ہومیو پیتھی میں اس کے بیجوں سے جو دوا تیار کی جاتی ہے سٹیفی سیگریا کہلاتی ہے.سٹیفی سیگر یا ایک بہت ہی اہم دوا ہے کیونکہ اس کا اعصاب سے بہت گہرا تعلق ہے.اگر اس کے مریض کی شناخت ہو جائے تو بہت سے ایسے مرض جو قابو میں نہیں آتے ، وہ اس دوا سے قابو میں آسکتے ہیں.سٹیفی سیگر یا ایسے مریض کی دوا ہے جو بہت حساس اور شائستہ مزاج ہو.بعض حساس لوگ اپنے غصہ کا ایک دم اظہار کر دیتے ہیں اور مد مقابل پر برس پڑتے ہیں لیکن کچھ لوگ اسے برداشت کر جاتے ہیں.بعض زود حس اور نازک مزاج عورتیں غصہ کی حالت میں گنگ سی ہو جاتی ہیں، ایک لفظ تک نہیں بولتیں اور اپنی شرافت کی وجہ سے غصہ کو دبا دیتی ہیں مگر بعد میں اس کا بداثر ظاہر ہوتا ہے اور سر میں درد اور شدید بے چینی شروع ہو جاتی ہے.دو چار دن سخت افسردہ رہتی ہیں.ایسے مریضوں کی گھٹ گھٹ کر پیدا ہونے والی بعض جسمانی بیماریاں مستقل ہو جاتی ہیں.ان کو سر درد یا پیٹ درد کے دورے پڑنے لگتے ہیں اور ان سے ملتی جلتی بیماریاں انہیں آگھیرتی ہیں جو در اصل ان کی اعصابی تکلیف کا ہی مظہر ہوتی ہیں.ہر وہ بیماری جو مسلسل غصہ، تکلیف اور شرمندگی
سٹیفی سیگریا 774 برداشت کرنے کے نتیجہ میں ہو اس میں سٹیفی سیگر یا کو اول مرتبہ حاصل ہے.قریبی عزیزوں کی زیادتی کے خلاف غصہ دبانے کے نتیجہ میں عموماً سپیا کی مریضہ بنتی ہے.سٹیفی سیگریا کے مریض کے چھوٹے اور معمولی زخم کو اگر چھوا جائے تو شدید تشنجی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو اعصابی زود حسی کا طبعی نتیجہ ہوتی ہے.بواسیر کے مسوں میں بھی سخت تکلیف محسوس ہوتی ہے اور مریضہ چھوٹی چھوٹی جسمانی بیماریوں پر شدید تکلیف کا اظہار کرتی ہے.اس کے اعصاب میں اتنا تناؤ ہوتا ہے کہ وہ چھوٹی سی تکلیف کو بھی بہت شدت سے محسوس کرتی ہے.ملنے جلنے والے لوگ اس کے بارے میں کہنے لگتے ہیں کہ بہانہ کرتی ہے.یہ باتیں سن کر اس کی تکلیف اور بھی بڑھ جاتی ہے اور بعض دفعہ اسے بے ہوشی کے دورے پڑنے لگتے ہیں.ایسی مریضا ؤں کو سٹیفنی سیگر یا دینا ضروری ہے.اس کے تعلق میں جو بیماریاں سامنے آتی ہیں وہ خاموشی کے دورے، بے خوابی ، جسم میں تھکاوٹ، ذہنی کوفت سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں کمی ، بات بھول جانا اور مثانے میں بے چینی کی وجہ سے کثرت پیشاب وغیرہ وغیرہ ہیں.قوت سامعہ اور قوت شامہ متاثر ہوتی ہیں اور انگلیوں کے پورے بھی زود حس ہو جاتے ہیں.معمولی سی آواز بھی برداشت نہیں ہوتی.جلد پر بھی بیماریاں ظاہر ہوتی ہیں.سر پر ایگزیما ہو جاتا ہے جس میں کوئی پھوڑا پھنسی وغیرہ نہیں ہوتے لیکن شدید درد اور تکلیف کا احساس ہوتا ہے.جہاں بھی یہ علامات ہوں وہاں یہ دوا کام آتی ہے.بعض دفعہ اعصاب پر ابھار اور گومڑ بن جاتے ہیں جن میں شدید درد ہوتا ہے.سٹیفی سیگریا میں اعصاب کے غدود جنہیں اصطلاحاً Ganglia ( گین گلیا) کہتے ہیں زود حس ہوتے ہیں.ذرا بھی ہاتھ لگ جائے تو اچانک درد شروع ہو جائے گا.بغیر ہاتھ لگائے یا دباؤ کے بغیران میں درد نہیں ہوتا.محض اعصاب کے غیر معمولی حساس ہونے کی وجہ سے تکلیف ہوتی ہے.مردوں میں یہ دوا پراسٹیٹ کی تکلیفوں میں مفید ہے.پراسٹیٹ گلینڈ ز بڑھ جائیں
775 سٹیفی سیگریا تو پیشاب کی تکلیف شروع ہو جاتی ہے.بہت سے مریض عمومی دواؤں سے ٹھیک ہو جاتے ہیں لیکن بعض ایسے مریض ہوتے ہیں جن میں عام دوائیں کام نہیں کرتیں اس لئے مختلف وجوہات ڈھونڈنا پڑتی ہیں.اگر کسی کا مزاج سٹیفی سیگریا سے ملتا ہو اور پراسٹیٹ کا مریض ہو تو یہ دوا مفید ثابت ہو سکتی ہے.پراسٹیٹ کی تکلیف کا فوری علاج ضروری ہے ورنہ یہ تکلیف بڑھ کر مثانہ یا گردوں میں انفیکشن پیدا کر دیتی ہے اور کبھی کینسر بھی بن جاتا ہے.پراسٹیٹ کا کینسر بہت خطرناک ہوتا ہے اور اکثر مہلک ثابت ہوتا ہے.اس کینسر میں سلیشیا CM حیرت انگیز اثر دکھاتی ہے.سٹیفی سیگر یا کو دوسری دواؤں کے ساتھ ایک ترتیب کے ساتھ استعمال کرنا چاہئے یعنی پہلے کاسٹیکم ، پھر کولوسنتھ اور پھر سٹیفی سیگر یا.پیٹ اور انتڑیوں کے تعلق میں یہ دوا بہت کام کرتی ہے اور بہت سی تکلیفیں اور درد جو بار یک اعصابی ریشوں سے تعلق رکھتے ہیں دور ہو جاتے ہیں.سٹیفی سیگر یا کا سر درد عموماً پچھلے حصہ سے شروع ہوتا ہے اور سارے سر پر پھیل جاتا ہے.سر میں مہاسے بھی ہوتے ہیں.اگر یہ بہت مشک اور حساس ہوں تو سلیمی سیگر یا کی علامت ہے.سینی سیگریا میں مریض اندرونی طور پر کپکپاہٹ محسوس کرتا ہے اور بیرونی جسم نہیں لرزتا ہے.اندرونی لرزش کے لئے تلسیمیم بھی مفید ہے.سٹیفی سیگریا میں حیض کے ایام میں دانتوں میں درد ہوتا ہے.دانت سیاہ ہوکر بھر بھرے ہونے لگتے ہیں.سٹیفنی سیگر یا عورتوں اور مردوں کی جنسی بیماریوں میں بھی بہت مفید ہے.پنڈلیوں اور کمر میں درد صبح بستر سے اٹھنے سے پہلے بڑھ جاتا ہے مگر عمومارات کے وقت آرام کرنے سے تکلیف میں کمی آتی ہے.مددگار دوائیں: کاسٹیکم.کولوسنتھ دافع اثر دوائیں کیمفر طاقت: 30 سے 200 تک
776
سٹر نشیم کارب 777 178 سٹر نوشیم کاربونیکم STRONTIUM CARBONICUM سٹر نشیم کارب عمل جراحی کے بعد پیدا ہونے والی علامات میں بہت مفید ہے.سر جن کو چاہئے کہ آپریشن کے دوران اسے ہمیشہ اپنے پاس رکھے کیونکہ جولوگ آپریشن کے صدمہ سے اچانک مفلوج سے ہو جاتے ہیں اور موت کے قریب پہنچ جاتے ہیں ان کے لئے سٹر شیم کارب بہت اچھی ثابت ہوتی ہے.حادثات میں شدید زخمی ہو جانے سے بھی اگر جسم اچانک جواب دے جائے تو یہی دوا اکسیر ثابت ہوتی ہے.چوٹیں لگنے اور صدمہ پہنچنے پر آرنیکا ایک ہزار کی طاقت میں دستور کے طور پر دے دی جائے تو اچھی چیز ہے لیکن اگر حادثات کے صدمہ سے مریض ایک دم بے جان سا ہو جائے تو ایسی صورت میں تو سٹر نشیم کا رب کے علاوہ کار بوو یج فوری خطرہ سے نکالنے میں جادو اثر دوا ہے.سٹر نشیم کا رب اور کار بو ویج دونوں اس پہلو سے ایک دوسرے کی رقیب دوائیں ہیں.بعض ڈاکٹر یہ فرق کرتے ہیں کہ اپریشن کے بعد صدمہ پہنچے تو سر نشیم کا رب دیتے ہیں اور عام بیماریوں یا حادثات کے نتیجہ میں پہنچنے والے صدمہ میں کار بوو پیج.لیکن یہ کوئی فیصلہ شدہ امر نہیں ہے، ہاں روزمرہ کے دستور کے مطابق اپریشن کے بداثرات میں سٹر و نشیم کا رب کو اہمیت دینی چاہئے.عموماً اس سے بظا ہر مرتے ہوئے جسم میں نئی جان پڑ جاتی ہے.جسم گرم ہو جاتا ہے اور مریض آرام سے سو جاتا ہے.اگر فائدہ نہ ہو تو کار بو ویج ضرور دیں.مریض کی وہ آخری حالت جس میں جسم کا دفاعی نظام تقریباً بے کار ہو جاتا ہے اور رد عمل باقی نہیں رہتا اور مریض موت کے کنارے پہنچ جاتا ہے، کار بوویج کا تقاضا کرتی ہے جو مریض کو واپس زندگی کی طرف لوٹا دیتی ہے.جسم کا دفاعی نظام بیدار ہو جاتا ہے اور دوسری دواؤں کے اثر کو قبول کرنے
سٹر نشیم کارب 778 لگتا ہے.ہاں صدمہ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے مقامی عضلاتی فالج میں کاسٹیکم.سے مؤثر دوا ہے.سر کی گدی پر چوٹ لگی ہو یا ریڑھ کی ہڈی کوصدمہ پہنچا ہوتو آرنیکا 1000 کے ساتھ نیٹرم سلف 1000 ملا کر دینی چاہئے.ہر انسانی جسم میں بیماریوں کے خلاف دفاع کے سب سامان میسر ہیں.ان کو استعمال میں کیسے لانا ہے ، یہ اصل چیلنج ہے جس کا ہومیو پیتھک طریق کے ذریعہ مقابلہ ہوسکتا ہے.سٹر نوشیم کا رب آنکھوں کے لئے بھی اچھی دوا ہے.اگر آنکھوں میں درد اور سرخی پائی جائے اور پانی بہتا ہو اور آنکھ کھولنے اور پڑھنے سے تکلیف میں اضافہ ہو جائے اور جلن بھی ہو تو پھرسٹر فیم کا رب بھی مفید دوا ثابت ہوسکتی ہے.سٹر نشیم کارب کی ایک اور واضح علامت یہ ہے کہ اس کے مریض کو گوشت سے نفرت ہو جاتی ہے اور روٹی کھانے کی اشتہاء بڑھ جاتی ہے.ٹھنے میں موچ آنے کے نتیجہ میں جو تکلیفیں ہوتی ہیں ان کا تفصیلی ذکر آرنیکا، لیڈم، بیلس وغیرہ میں گزر چکا ہے.یہ تکلیفیں مزمن ہو جائیں اور دیگر دواؤں سے قابو میں نہ آئیں تو سٹر نشیم کا رب بھی دوا ہو سکتی ہے.سٹر نشیم کارب گردن کے پٹھوں کے درد میں بھی مفید ہے لیکن اس عارضہ کے لئے اسے عموماً 30 طاقت میں استعمال کرنا چاہئے.یہ دوا دائیں کندھے میں درد کے لئے بھی مفید بتائی گئی ہے.اگر وجع المفاصل کے ساتھ اسہال بھی ہوں ، پنڈلیوں اور پاؤں کے تلووں میں تیج ہو اور پاؤں برف کی طرح ٹھنڈے ہوں تو دیگر کئی دواؤں کی طرح سٹر نشیم کا رب بھی دوا ہوسکتی ہے.سٹر نشیم کا رب میں مریض کی بھوک ختم ہو جاتی ہے، وہ گوشت سے عموماً نفرت کرتا ، ہے.ویسے بھی عام کھانے میں مزہ نہیں رہتا.رات کے وقت اسہال کی تکلیف بڑھ جاتی ہے.سٹر نشیم کارب کی تکلیفیں موسم کی تبدیلی اور خاموش رہنے سے زیادہ ہو جاتی ہیں.مریض سردی بالکل برداشت نہیں کر سکتا.
سلفر 779 179 سلفر SULPHUR (Sublimated Sulphur) سلفر ان دواؤں میں سے ہے جن کے بغیر ایک ہومیو پیتھک معالج کا گزارا نہیں چل سکتا.یہ غیر معمولی طاقتور دوا ہے اور انسانی جسم پر حملہ آور جراثیم کے مقابلہ کی بنیادی صلاحیت رکھتی ہے اور سورک (Psoric) دواؤں میں بہت اونچا مقام رکھتی ہے.(سورا کی تفصیلی بحث کے لئے سورائینم اور مرکزی دیکھئے سورا کی بیماریوں کو غدودوں سے باہر نکالنے میں سورائینم اور مرکزی کی طرح سلفر بھی سر فہرست ہے.بنیادی بات یہ ہے کہ انسانی جسم میں جو قدرتی نظام دفاع موجود ہے اس میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ ہر قسم کی بیماری کا قلع قمع کر سکے اس لئے اسے ہی قدرتی دفاع کے لئے اکسانا اور ابھارنا چاہئے.ہومیو پیتھی میں سلفر اسی دفاعی نظام کو حرکت میں لا کر بہت طاقتور اینٹی بائیوٹک کے طور پر کام کرتی ہے.تعفن والی پرانی بیماریوں میں اکثر سلفر کی ضرورت پڑتی ہے.سلفر اور سلیشیا گرمی اور سردی کے احساس کے لحاظ سے مخالف مزاج رکھتی ہیں.اس کے باوجود اگر کسی مریض کو سلیشیا دی جا رہی ہو اور کبھی کبھی سلفر دی جائے تو یہ سلیشیا کے اثر کو تازہ کر دیتی ہے اور اس سے متصادم نہیں ہوتی.نہ صرف سلیشیا بلکہ دوسری دواؤں سے بھی سلفر کا.اکثر یہی تعلق ہے.بعض اوقات انسانی جسم کچھ عادات کو اپنا لیتا ہے جو رفتہ رفتہ اتنی پختہ ہو جاتی ہیں کہ انہیں چھوڑ نا مشکل ہی نہیں ناممکن بن جاتا ہے.سلفر میں یہ گہری خاصیت پائی جاتی ہے کہ مختلف قسم کی عادتوں اور نشوں کو توڑتی ہے.اسی طرح اگر کوئی دوا جسم پر اثر کرنا
سلفر 780 چھوڑ دے تو تھوڑی دیر کے لئے وہ دوا بند کر کے سلفر استعمال کروائیں تو پہلی دوا دوبارہ کام شروع کر دے گی.سلفر کے مثالی مریض کا مزاج لا ابالی ہوتا ہے اور اس کی عادات میں بے ترتیبی پائی جاتی ہے.وہ نہانے سے نفرت کرتا ہے.اس پہلو سے اس کا مزاج او پیم سے ملتا ہے.افیمی کو بھی نہانے سے نفرت ہوتی ہے.سلفر کا مثالی مریض سخت گندہ ہوتا ہے ، جسم سے بدبو آتی ہے اور بغلوں اور پاؤں میں بدبودار پسینہ آتا ہے.صفائی کو قطعاً کوئی اہمیت نہیں دیتا لیکن اس کی طبیعت میں ایک عجیب تضاد ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ خود بد بودار ہوتا ہے، اس کی بغلیں ، پاؤں اور سانس سب متعفن ہوتے ہیں لیکن وہ غیروں کی بو برداشت نہیں کرسکتا.اگر وہ اپنی ہی بو میں بسا ر ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن دوسروں کی بو سے سخت بری لگتی ہے.دراصل بنیادی طور پر یہ بات حیوانوں کی فطرت میں ودیعت ہے.جانوروں کو بھی اپنی بو بری نہیں لگتی.شیر کے بھٹ کے پاس سے گزریں تو خطرناک بو آتی ہے لیکن شیر کو اچھی لگتی ہے.اسے آدمی سے بو آتی ہے.اس لحاظ سے یہ بات تعجب انگیز ضرور ہے لیکن فطرت کے خلاف نہیں.شاذ کے طور پر سلفر کا مریض خود اپنی بو سے بھی بیزار ہو جاتا ہے اور اسے قے شروع ہو جاتی ہے.سلفر کے مریض جب تک چلتے پھرتے رہیں ٹھیک رہتے ہیں لیکن جو نہی بستر میں لیٹ کر گرم ہوں ان کی بہت سی بیماریاں عود کر آتی ہیں.یہ بات سلفر کے علاوہ مرکزی میں بھی پائی جاتی ہے اور ان دونوں کے بنیادی مزاج میں داخل ہے.گرمی اور سردی دونوں کے مضر ہونے کے لحاظ سے یہ دونوں دوائیں مشابہت رکھتی ہیں لیکن بعض ایسی علامات بھی ہیں جو ان دونوں میں تمیز کر دیتی ہیں.مثلاً سلفر کے مریض کا منہ عموماً معتدل یا خشک ہوتا ہے لیکن مرکزی کے مریض کا منہ لعاب سے بھرا رہتا ہے.سلفر کی بو انسان کے عام اخراجات کی بو جیسی ہوتی ہے خواہ کتنی سخت ہی کیوں نہ ہو.اس کے اخراجات جلد کو چھیلتے ہیں.عورتوں کے لیکوریا میں بھی جو مرکزی یا سلفر کی مریضا ئیں ہوں یہی علامت پائی جاتی ہے.
سلفر 781 سلفر میں تقریباً ہر قسم کی جلدی امراض ملتی ہیں مثلاً چھالے، خشک خارش ، تر خارش، جلد پر خشکی سے ایسے چھلکے بن بن کر اترنا جیسے مچھلی کی جلد پر ہوتے ہیں، خارش سے خون بہنے کا رجحان، مختلف قسم کے پھوڑے پھنسیاں غرضیکہ ہر قسم کی جلدی امراض جن میں جلن کی علامت نمایاں ہو اور دوسری علامتیں بھی ملیں تو ان میں سلفر اکثر فائدہ دے گی.جلدی امراض میں سلفر کی پوری علامتیں نہ بھی ہوں تو بھی بیماری کو نتھار کر اصل کو سامنے لے آتی ہے.سر کی چوٹی ، آنکھوں، چھاتی اور دونوں کندھوں کے درمیان جلن ہوتی ہے.بعض اوقات جسم سے آگ کے شعلے نکلتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں.بواسیر کے مسوں، چھالوں، معدہ اور گلے میں بھی جلن کا احساس ہوتا ہے.پیشاب بھی جلتا ہوا آتا ہے ، بعد میں دیر تک جلن محسوس ہوتی رہتی ہے.مریض کے پاؤں رات کو جلتے ہیں اور وہ انہیں بستر سے باہر نکال کر ٹھنڈا کرنا چاہتا ہے.اس پہلو سے یہ پلسٹیلا کے مشابہ ہے.سلفر کے بعض مریض بہت بھوک محسوس ہونے کے باوجود تھوڑ اسا کھانے کے بعد ہی کھانا چھوڑ دیتے ہیں.یہ علامت سب سے زیادہ لائیکو پوڈیم میں پائی جاتی ہے.سلفر کی امتیازی علامت یہ ہے کہ مریض کی صبح کی بھوک بالکل غائب مگر گیارہ بجے معدہ میں سخت کمزوری محسوس ہوتی ہے.کھر چن اور نیچے گرنے کا احساس ہوتا ہے.فوری کھانے کی طلب اتنی شدید ہوتی ہے کہ ذرا بھی انتظار دوبھر ہوتا ہے حتی کہ بھوک سے غشی کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے لیکن صبح اٹھنے کے بعد گیارہ بجے تک بھوک غائب رہتی ہے.سلفر کی علامات میں یہ بھی داخل ہے کہ جلد بہت حساس ہوتی ہے اور ذراسی رگڑ لگنے سے بھی زخم بن جاتے یا گٹے پڑ جاتے ہیں.سلفر چنبل کی بہترین دواؤں میں سے ہے.مگر محض اس پر انحصار نہیں کیا جاسکتا.سلفر کے مریضوں کا veinous System یعنی نیلے سیاہی مائل خون کی رگوں کا نظام عموماً خراب ہوتا ہے.بواسیر کا مرض اور تکلیف دہ مسوں کا ہونا سلفر کی ایک عام علامت ہے.بواسیر کے ایسے مریضوں کی علامتیں سلفر دینے سے ابتدا میں بڑھ جاتی ہیں
سلفر 782 اور بہت خارش ہونے لگتی ہے جس کا علاج نکس وامیکا ہے.بعض اوقات ٹانگوں میں نیلی وریدیں پھول کر جالا سا بنا دیتی ہوں جنہیں Varicose Veins کہتے ہیں.وریدوں میں خون گاڑھا ہو کر جمنے لگتا ہے.ہومیو پیتھی میں بہت سی ایسی دوائیں ہیں جن کے ذریعہ ان رگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے.سلفر انہی دواؤں میں سے ایک ہے.سلفر عورتوں کے سن یاس میں بھی کام آتی ہے یعنی اس عمر میں جس میں عورتوں کا حیض بند ہورہا ہو.اس دور میں عورتوں کے چہرے اور سر پر گرمی کی لہریں محسوس ہوتی ہیں.بعض دفعہ دل پر بھی خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے.اس کے لئے پلسٹیلا بھی استعمال کی جاتی ہے مگر مجھے اس میں اتنا فائدہ دکھائی نہیں دیا جتنی اس کی شہرت ہے.البتہ اکیلی پلسٹیلا کی بجائے بیلا ڈونا ساتھ ملا کر دینا زیادہ مفید ہوتا ہے.مگر سلفر کی علامتیں واضح ہوں تو سلفرا کیلی ہی کافی ہوتی ہے.لیکیس کی طرح سلفر کی بیماریاں سونے کے بعد بڑھتی ہیں اور مریض گھبرا کر اٹھ جاتا ہے.رات کے پچھلے پہر زیادہ گھبراہٹ ہوتی ہے.سونے کے بعد بڑھنے والی تکلیف جسمانی نہیں بلکہ ذہنی ہوتی ہے.بیماری کے اثر سے جو اعصاب پر پڑتا ہے،مریض گھبرا کر اٹھتا ہے اور سخت بے سکون ہو جاتا ہے.دن کو گیارہ بجے کے قریب یہ بے چینی معدہ میں ظاہر ہوتی ہے.رات کو تکلیف بڑھتی ہے مگر بستر کی گرمی سے.لیکیس کی طرح محض سونے سے تکلیف نہیں بڑھتی.بعض دفعہ بچے کی پیدائش کے بعد اس کے گرد لپٹی ہوئی جھلی (Placenta) کا کچھ حصہ رحم میں ہی رہ جاتا ہے اور پوری صفائی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے سخت تعفن والا ن والا بخار ہو جاتا ہے.اس میں سلفر اور پائیر و جینیم (Pyrogenium) ملا کر دینے سے بہتر کوئی نسخہ نہیں.اسی طرح نزلہ زکام کے ساتھ ہونے والا بخار جو عام روز مرہ کی دواؤں سے ٹھیک نہ ہو اس میں بھی سلفر 200 اور پائیرو نبینیم 200 ملا کر دینے سے افاقہ ہوتا ہے.
سلفر 783 گاؤٹ یعنی جوڑوں کی تکلیف میں بھی سلفر بہت مفید ہے.بعض دفعہ سلفر کھانے سے گاؤٹ کی دبی ہوئی تکلیف جس کی موجودگی کا پہلے علم نہیں ہوتا ، ظاہر ہو جاتی ہے اور مریض خوفزدہ ہو کر اس کا استعمال چھوڑ دیتا ہے حالانکہ اگر سلفر سے گاؤٹ کی تکلیف ظاہر ہوتو وہی کچھ عرصہ تک دینے سے اس کا مؤثر علاج بھی ثابت ہوتی ہے.اگر سلفر بند کر دیں تو یہ بیماری دب جائے گی اور پھر دوسری اندرونی بیماریوں کا پیش خیمہ ہوگی جو بآسانی قابو میں نہیں آسکتیں.تپ دق اور پھیپھڑوں کی امراض میں سلفر میں سلیشیا کی طرح بہت محتاط ہو کر استعمال کرنی چاہئے کیونکہ یہ بھی پھیپھڑوں کو بہت طاقتور رد عمل کا حکم دیتی ہے اور اگر لمبی بیماری سے پھیپھڑے کمزور ہو چکے ہوں تو وہ سخت رد عمل کے نتیجہ میں پھٹ بھی سکتے ہیں.سلفر تپ دق کے ان مادوں کو جو مختلف شکلوں میں خلیوں اور اندرونی پردوں میں لیٹے پڑے ہوتے ہیں باہر نکالتی ہے کیونکہ سلیشیا کی طرح اس کو بھی اجنبی چیزوں کی موجودگی نا پسند ہے.سل کے کیڑے اگر زیادہ مقدار میں ہوں تو ان کا اپنی کمین گاہوں سے باہر نکلنا فائدہ کی بجائے مہلک ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ سل کا مریض اپنی کمزوری کی وجہ سے ان کو مغلوب کرنے کی بجائے ان سے مغلوب ہو جاتا ہے.سلیشیا بھی ہر اجنبی چیز کو چاہے وہ ریت کا ذرہ ہو یا اندر چھپی ہوئی بندوق کی گولی ہو یا شیشے کا ٹکڑا ہوضرور جسم سے باہر نکالنے کی کوشش کرتی ہے.وہ جراثیم جو زندگی کو نقصان پہنچانے والے ہیں ان کے خلاف اتنا طاقتور رد عمل پیدا کرتی ہے کہ سل کے بعض مریض اس رد عمل کے نتیجہ میں مر بھی جاتے ہیں.یہ ہومیو پیتھک معالج کا کام ہے کہ کمزور مریض کو اتنی زیادہ طاقت ور دوانہ دے کہ جسم اس سے نپٹ ہی نہ سکے.مناسب یہی ہے کہ شروع میں دوا چھوٹی طاقت میں دی جائے.اگر فائدہ ہوتو رفتہ رفتہ طاقت بڑھائیں نیز مریض کو مددگار دوائیں مثلاً سٹیم بھی دیں جو آہستہ آہستہ مریض کی دفاعی طاقت کو بڑھاتی ہے.یہ نہ بھولیں کہ مزاج کے لحاظ سے سلفر گرم ہے اور سلیشیا ٹھنڈی.کلکیر یا کارب سل کے فاسد مادوں کو باہر نکالنے کی بجائے ان کے گردانڈوں کے چھلکے کی طرح کیلشیم
سلفر 784 کے خول چڑھا دیتی ہے جن کے اندر وہ قید ہو جاتے ہیں.یادرکھیں کہ کلکیریا کارب دینے کے معاً بعد سلف نہیں دینی چاہئے ورنہ کئی قسم کی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں.اگر کلکیریا کے بعد سلفر دینے سے پہلے ایک دفعہ لائیکو پوڈیم دے دیں تو اس کے بعد سلفر دی جاسکتی ہے.ہر پیز (Herpes) یا Shingals جو اعصابی ریشوں پر نکلنے والے چھالوں کی بیماری ہے ، اس میں سلفر بھی اچھا کام کرتی ہے.صبح کے اسہال کا رجحان پایا جائے تو اس میں بھی سلفر مفید ہے لیکن ڈاکٹر کینٹ نے متنبہ کیا ہے کہ سلفر سے صبح کے اسہال روکنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے.کیونکہ اگر اسہال رک گئے تو وہ پھیپھڑوں کی تکلیفوں کو بڑھا دیں گے جو خطرناک ثابت ہوسکتا ہے.اگر سل کے مریض کو اسہال لاحق ہوں تو پہلے نرم دواؤں سے آہستہ آہستہ اسہال کا علاج کرنا چاہئے اور پھر تپ دق کے مرض کو جڑ سے اکھیڑ نے کی طرف توجہ دینی چاہئے.خسرہ میں بھی سلفر بہت اچھا کام کرتی ہے.اگر جلن اور بے چینی بہت بڑھ جائے لیکن دانے باہر نہ نکلیں اور خدشہ ہو کہ بیماری اندرونی جھلیوں پر حملہ نہ کر دے تو سلفر کے علاوہ آرسنک بھی بہت کارآمد ہوتی ہے.سلفر میں آرسنک جیسی بے چینی نہیں ہوتی.ہاں جلن اور آگ کا احساس آرسنک سے مشابہ ہوتا ہے.ٹیکوں کے بداثرات دور کرنے میں بھی سلفر اچھی دوا ہے.اس کے علاوہ چند اور دوائیں بھی مفید ہیں.سلفر کے مریض کو فلسفی بننے کا بہت شوق ہوتا ہے اور کچھ مزاجاً فلسفی ہوتے بھی ہیں.اگر یہ شوق جنون کی حد تک بڑھ جائے تو اونچی طاقت میں سلفر کی ایک دو خوراکوں سے کافی فرق پڑ جاتا ہے.ان میں بعض اقتصادی فلسفی ہوتے ہیں جو ہر وقت سکیمیں بناتے رہتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں کرتے.یہ اقتصادی فلسفی عملاً کوئی کام کر بیٹھیں تو اکثر اپنا سارا سرمایہ ڈبو بیٹھتے ہیں.بہت ست مزاج ہوتے ہیں.کسی کام میں ان کا دل نہیں لگتا.اپنی سوچوں ہی میں مقید رہتے ہیں.ان کا علاج بھی سلفر کی اونچی طاقت ہے.
سلفر 785 سلفر کے مریض کو سر درد بہت ہوتا ہے جس کا دورہ ہفتہ میں ایک دفعہ تو ضرور پڑتا ہے.اسے گرمی پہنچانے سے آرام آتا ہے حالانکہ سلفر کی عمومی تکلیفیں گرمی سے بڑھتی ہیں، خاص طور پر بستر میں گرم ہونے سے اور کمرے کی گرمی سے لیکن سر در دکو گرم کمرے میں آرام ملتا ہے.اسی طرح گرم نکور سے بھی فائدہ پہنچتا ہے.آنکھوں کے سامنے چنگاریاں اور شعلے ناچتے ہیں.کبھی سر او پر اٹھانے سے تارے نظر آنے لگتے ہیں.مختلف قسم کے رنگوں کے دھبے بھی دکھائی دیتے ہیں.عام طور پر سر درد شروع ہونے سے پہلے ایسا ہوتا ہے.اگر شروع میں سلفر دے دی جائے تو سر درد ہو گا ہی نہیں.ہر قسم کے ایگزیما اور خارش میں بھی سلفر مفید ہے.پرانے نزلہ، زکام میں اور ناک سے آنے والی بد بو میں بھی یہ فائدہ مند ہے.یہ ایسی بد بو ہوتی ہے جسے مریض خود بھی محسوس کرتا ہے جبکہ اکثر اپنی بد بو کوخود محسوس نہیں کرتا.اگر دائیں طرف شدید قسم کا اعصابی درد ہو تو اس میں بھی سلفر کی ضرورت پیش آ سکتی ہے.اگر ہونٹ کٹے پھٹے ہوں اور ان میں زخم بنتے ہوں تو سلفر بھی بالکل دواؤں میں سے ایک ہے غدودوں میں سوزش پیدا ہو جو مستقل ہو جائے اور گلے میں سلسلہ وار دائیں بائیں گلٹیاں بنے لگیں تو سلفر بھی دوا ہوسکتی ہے.مسوڑھے خراب ہو جائیں اور دانت ڈھیلے ہوکر لٹکنےلگیں تو بھی اگر سلفر مزاجی دوا ہو تو اس کا ازالہ کر سکتی ہے مگر صرف ایک دانت میں تکلیف ہو تو سلفر کی بجائے کوئی اور دوا تلاش کریں.پیٹ کی ہواؤں میں بہت سی دوائیں اچھا اثر دکھاتی ہیں لیکن معین دوا کی تلاش بہت مشکل ہے.اگر کوئی اور دوا کام نہ کرے تو سلفرمفید ہوسکتی ہے خصوصاًبد بودار ہوا میں.سلفر ہیضہ کی ایک بہت اہم دوا ہے.اگر ہیضہ کی وبا پھیلی ہو تو حفظ ما تقدم کے طور پر کثرت سے سلفر استعمال کروانی چاہئے.چند روز 200 طاقت میں دن میں ایک دفعہ سلفر
سلفر 786 دینے سے ہیضہ سے بچاؤ ہو جاتا ہے.اگر اور دوائیں جو عموماً ہیضہ میں کام آتی ہیں میسر نہ ہوں تو سلفر ہی ایک حد تک اکیلی کافی ہوسکتی ہے.اس کا ہیضہ سے بہت گہرا تعلق ہے.سلفر پراسٹیٹ گلینڈز پر بھی گہرا اثر رکھتی ہے اور اسے تھو جا کے ساتھ ملا کر دینا زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے.اگر مریض کے ہاتھ پاؤں اور بغلوں میں بدبودار پسینہ نہیں آتا اور اس کے ہاتھ پاؤں اور سر کی چوٹی کی علامتیں مختلف ہیں تو محض پیشاب کی علامتوں کے مشابہ ہونے کے باعث سلفر کام نہیں کرے گی.سلفر مردانہ وزنانہ کمزوریوں میں مفید ہے.عورتوں کے بانجھ پن میں بھی سلفر کو اہم مقام حاصل ہے.سلفر کے مریض کی ذہنی علامات بہت نمایاں ہوتی ہیں.یادداشت کمزور ہوتی ہے اور سوچ بچار میں دشواری محسوس ہوتی ہے.سردرد جس میں جھکنے سے اضافہ ہو جاتا ہے اور دائگی سردرد جو عین وقفوں سے عود کر آتا ہے.خشکی سے بال بھی گرتے ہیں.یہ سب علامتیں سلفر کی یاد دلاتی ہیں.سلفر کے مریض کو سینہ پر دباؤ اور جلن کا احساس رہتا ہے.سانس رکتا ہے اور کھلی ہوا پسند کرتا ہے.آدھی رات کو دم گھٹتا ہے اور سینے پر بوجھ محسوس ہوتا ہے.سلفر کے مریض کی تکلیفیں آرام کرنے ، کھڑے ہونے ، بستر کی گرمی سے نہانے سے اور صبح کے وقت بڑھ جاتی ہیں.گرم موسم میں دائیں کروٹ لیٹنے سے آرام آتا ہے.وہ لوگ جو کوئلے کی کانوں میں کام کرتے ہیں یا کسی اور رنگ میں کو سلے سے تعلق رکھتے ہیں ان کے لئے بھی سلفر بہت ضروری دوا ہے کیونکہ یہ کوئلے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بہت سی بیماریوں میں مفید ہے.مددگار دوائیں ایلو سورائینم ایکونائٹ.آرنیکا سٹیم.پائیر وجینم تھوجا وغیرہ.طاقت: 30 اور اونچی پوٹینسیاں
سلفیورک ایسڈ 787 180 سلفیور ٹیم ایسیڈم SULPHURICUM ACIDUM (Sulphuric Acid) سلفیورک ایسڈ سلفر کا تیزاب اور انسانی زندگی پر اس کا گہرا اثر ہے.عام بد ہضمی کے نتیجہ میں معدہ کے اندر سلفیورک ایسڈ پیدا ہوتا ہے اور اس کے اثر سے جو ہوا بنتی ہے اس کی بد بو ہائیڈ روجن سلفائیڈ کی طرح ہوتی ہے.ہر تیز اب جو انسانی جسم میں موجود ہے بعض ایسی بنیادی خصوصیات کا حامل ہے جو مریضوں پر اثر دکھاتی ہیں.اگر جسم میں کسی بھی تیز اب کا عنصر زیادہ ہو جائے تو اچانک شدید ضعف کا حملہ ہوتا ہے اور جسم سے طاقت نکلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے.سلفیورک ایسڈ معدہ کی ایسی تیزابیت کی بہترین دوا ہے.اس دوا کے مطالعہ سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ عناصر کا توازن بدلنے سے علامتیں کتنی بدل جاتی ہیں.سلفر ایک ایسی دوا ہے جو سر کی چوٹی سے لے کر پاؤں کے تلووں تک جلن پیدا کرتی ہے.لیکن اس کے ساتھ ہائیڈ روجن کے ایٹم کا اضافہ کر دیں تو سلفیورک ایسڈ بن جائے گا جس کا مزاج سلفر کے عمومی مزاج سے مختلف ہے.اس کے مریض کو سردی سے بھی تکلیف ہوتی ہے اور گرمی سے بھی.سلفیورک ایسڈ کی ایک علامت یہ ہے کہ مریض کے سارے جسم پر کپکپی طاری ہو جاتی ہے لیکن اس کا سردی کے احساس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ اس کے بغیر ہی جسم میں تھر تھر ا ہٹ اور لرزہ طاری ہو جاتا ہے.سلفیورک ایسڈ میں کالے رنگ کا خون بہنے کا بھی رجحان ہوتا ہے.ناخن کی پوروں اور جہاں جلد اندرونی جھلیوں سے ملتی ہے ان جوڑوں سے کالا خون بہنے لگتا ہے جیسے سانپ کا زہر جسم میں سرایت کر نے سے ہوتا ہے.اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جلد کے اندر خون کا اخراج ہو جانے کی وجہ سے اس خون
سلفیورک ایسڈ 788 میں طبعا باہر کی طرف نکلنے کا رجحان ملتا ہے.بعض دفعہ جلد پر بلا وجہ سرخ خون کے دھبے پڑ جاتے ہیں.یہ دھبے سیاہی مائل بھی ہوتے ہیں جو کچے کچے اور بہت بدزیب نظر آتے ہیں.چہرے پر بعض بہت سی ایسی بیماریاں ظاہر ہوتی ہیں جن کی تشخیص معالجین کے لئے بہت مشکل کام ہے.سلفیورک ایسڈ کے مزاج میں اس قسم کا اندرونی جریان خون داخل ہے لیکن اس کے علاوہ اور ادویہ میں بھی یہ رجحان ملتا ہے.سلفیورک ایسڈ بہت سی جلدی امراض میں مفید ہے.اگر عمومی دواؤں کا مزاج معلوم ہوتو ضرور فائدہ پہنچتا ہے.سلفیورک ایسڈ کی بعض علامتیں سلفر سے بھی ملتی ہیں.سلفر میں صبح کے وقت بعض تکلیفیں نمایاں ہو جاتی ہیں مثلاً اسہال.سلفیورک ایسڈ معدہ کی تیزابیت کے لئے ایک اچھی دوا ہے.سلفیورک ایسڈ میں آرنیکا کی بعض علامتیں پائی جاتی ہیں.آرنیکا کی طرح جسم میں چوٹوں کا احساس، درد، کمزوری اور سردی سلفیورک ایسڈ میں بھی پائی جاتی ہیں.جلد پر خون دھبوں کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے.ان دھبوں کا رنگ سیاہی مائل یا نیلا ہوتا ہے لیکن ایک علامت آرنیکا میں نہیں ہے جو اس میں ہے کہ خون اندر سے ابل کر جلد کے نیچے خلیوں کو بھر دیتا ہے جس کی وجہ سمجھ میں نہیں آتی.جلد پر بھی خون کے چھالے سے بن جاتے ہیں اور پھیلنے لگتے ہیں جو اندرونی بیماری کا مظہر ہیں.اس مرض میں سلفیورک ایسڈ ایک بہت اہم دوا ہے.اگر سلفیورک ایسڈ کی عمومی علامتیں موجود ہوں تو ایک دوخوراکوں سے ہی آرام آجاتا ہے.سلفیورک ایسڈ کے مریض کے اعصاب جلد جواب دے جاتے ہیں اور خون کا نظام معمولی بے احتیاطی سے بھی بگڑ جاتا ہے.اس میں خون کی گہری خرابیاں پائی جاتی ہیں.جلد پر پھوڑے بھی بننے لگتے ہیں.کمزوری محسوس ہوتی ہے.رنگت خراب ہو جاتی ہے اور مریض بہت حساس ہو جاتا ہے.سلفیورک ایسڈ میں درد آہستہ آہستہ بڑھتے ہیں لیکن اچانک ختم ہو جاتے ہیں.ایسٹ سلف کی زیادتی سے جو بیماریاں خطرناک اور لمبا
سلفیورک ایسڈ 789 چلنے والی دکھائی دیتی ہیں وہ بسا اوقات عارضی اثرات رکھتی ہیں اور دائمی بداثرات چھوڑے بغیر ختم ہو جاتی ہیں.سلفیورک ایسڈ کے مریض کے اخراجات میں تیزابیت پائی جاتی ہے اور کاٹنے والے مادے نکلتے ہیں.اگر جسم میں تیز اب زیادہ ہو جائے تو بعض دفعہ کھانا کھاتے ہوئے سخت کمزوری کا احساس ہوتا ہے اور مریض پسینہ پسینہ ہو جاتا ہے.کھانے سے بھی تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے.جسم میں برقی کوندے ایک طرف سے دوسری طرف لپکتے ہیں.بعض مریض ان سے لطف محسوس کرتے ہیں.یہ سلفیورک ایسڈ کی خاص علامت ہے.اس میں سردرد اور دوسری درد میں آہستہ آہستہ بڑھتی ہیں اور ایک دم ختم ہو جاتی ہیں.شنوائی آہستہ آہستہ ختم ہونے لگتی ہے لیکن ایک دم واپس نہیں آتی.شنوائی کے معاملہ میں سلفیورک ایسڈ کا مزاج اپنے عام مزاج سے مختلف ہے.درد، پیپ اور بد بو وغیرہ کے ٹھیک ہونے کے بعد بہت آہستہ آہستہ لمبے عرصے میں شنوائی واپس آتی ہے.بعض اوقات ناک کی رطوبت کان کی طرف منتقل ہونے سے قوت شامہ میں کمی واقع ہو جاتی ہے.اگر دیگر علامتیں ملتی ہوں تو یہ تکلیف بھی سلفیورک ایسڈ کے دائرہ کار میں ہے.اس میں دانتوں کا درد آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور بہت شدید ہو جاتا ہے لیکن ایک دم ختم بھی ہو جاتا ہے اور لمبا گہرا بداثر پیچھے نہیں چھوڑتا.منہ اور گلے میں زخم بن جاتے ہیں.سلفیورک ایسڈ ایسے مریضوں کے لئے بہت مفید ہے اور ان بچوں کی بھی بہترین دوا ہے جو منہ کے زخموں کی وجہ سے دودھ نہیں پی سکتے.تیزابی اثرات کی وجہ سے معدہ جواب دے جاتا ہے.سلفیورک ایسڈ کے مریض کا سانس بہت بد بودار ہوتا ہے اس میں کھٹاس نمایاں ہوتی ہے.بعض لوگوں کو تیزابی چیزیں کھانے سے نبض ہو جاتی ہے لیکن سلفیورک ایسڈ کے مریض کو تیزابی چیزیں کھانے سے اسہال لگ جاتے ہیں.آؤیسٹر (Oyster) کھانے سے بھی جو ایک سمندری گھونگا ہے اور کچا اور کھٹا پھل کھانے سے بھی اسہال شروع ہو جاتے ہیں.ایسے مریضوں کے پیٹ درد کے دردوں میں یہی دوا مفید ثابت ہوتی ہے.اگر عورتوں کو حیض کے دوران ڈراؤنی خوابیں آنے لگیں تو اس مرض کی اور
سلفیورک ایسڈ 790 دواؤں کے علاوہ سلفیورک ایسڈ بھی زیر نظر رہنی چاہئے.(تفصیلی بحث کے لئے دیکھیں آرنیکا اور آرسنک) اگر حیض کی زیادتی کی وجہ سے کسی عورت کو حمل نہ ٹھہرے تو سلفیورک ایسڈ اس کی دوا ہوسکتی ہے بشرطیکہ عمومی مزاج ملتا ہو.دراصل بانجھ پن کی بے شمار وجوہات ہیں اور صحیح دوا کے انتخاب کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے.حسب ذیل چند دواؤں میں یہ مضمون نسبتا تفصیل سے بیان ہوا ہے.پلسٹیلا ،کولوفائیلم ، سبائنا، کلکیریا کارب ، اشوکا اور گوسپیم (Gossypium).سلفیورک ایسڈ میں کمر کی کمزوری کا احساس رہتا ہے اور مریض کا دل لیٹنے کو چاہتا ہے.کھڑا ہونا اور بیٹھنا مشکل ہوتا ہے.ہلکا چلنے سے آرام محسوس ہوتا ہے.صبح کے وقت پسینہ آتا ہے جو عمو ماسلی مادہ کی موجودگی کی وجہ سے ہوتا ہے.سلفیورک ایسڈ شراب کی پرانی عادت توڑنے کی بہترین دوا ہے اور یورپ میں ایسے بہت سے مریض ملتے ہیں جن کو شراب کا جنون ہو جاتا ہے اور بالآخر یہ ان کی ہلاکت کا موجب بن جاتی ہے.ایسے مریضوں کا بہترین علاج سلفیورک ایسڈ ہے جو بعض دفعہ جادو کا سا اثر دکھاتا ہے.ایک بڑے گلاس پانی میں خالص سلفیورک ایسڈ کا ایک قطرہ ملا دینا چاہئے.اس پانی کو دن بھر تین خوراکوں میں ختم کر دینا چاہئے.بعض مریضوں پر جن کو تمام دوسرے معالجین نے قطعاً لا علاج قرار دے دیا تھا یہ نسخہ استعمال کیا گیا تو ایک ہفتے کے اندراندران کی کایا پلٹ گئی اور شراب کو ہاتھ لگانے کو بھی دل نہیں کرتا تھا.دنیائے طب میں غالبا اس مرض کی اس سے بہتر کوئی دوا نہیں.مددگار دوا پلسٹیلا طاقت: مد نکچر (Q) کی صورت میں دی جاسکتی ہے.
ٹیر مینٹولا 791 181 ٹیریٹولا ہسپانیہ TARENTULA HISPANIA (Spanish Spider) ٹیرینولا سپین میں پایا جانے والا ایک بے حد زہر یلا مکڑا ہے جس کے کاٹے سے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے.اس مکڑے کے عرق سے یہ دوا تیار کی جاتی ہے جو پیشاب کی علامتوں میں لینتھرس (Cantharis) کی طرح اثر انداز ہوتی ہے.کینتھرس بھی ایک مکھی کے زہر سے تیار کی جانے والی دوا ہے.یہ زہر پیشاب کی نالیوں میں شدید جلن پیدا کرتا ہے.گردوں کی جھلیاں سوج جاتی ہیں.قطرہ قطرہ پیشاب بار بار جل کر آتا ہے جیسے پگھلا ہوا تا نا ہو.ٹیر مینٹولا میں سارے بدن میں اور خصوصیت سے نچلے اعضاء میں آگ لگنے کا احساس پایا جاتا ہے.اس کے ساتھ دل کی بے چینی اور کمزوری بھی لازم ہے.سینتھرس میں ضروری نہیں ہے کہ دل پر اثر ہو.اس کے علاوہ ٹیر مینولا میں بعض رنگوں سے نفرت اور کراہت پائی جاتی ہے.کالا، سرخ اور سبز رنگ نا قابل برداشت ہوتا ہے.اگر یہ کیفیت دائمی ہو جائے تو اونچی طاقت میں ٹیریٹولا دینے سے ٹھیک ہو جاتی ہے.وہ بیماری جو انسانی مزاج پر مستقلاً اثر انداز ہو چکی ہو اس میں دوا اونچی طاقت میں دینی چاہئے لیکن دوا ئیں عموماً30 طاقت میں شروع کرانا محفوظ طریقہ علاج ہے.ٹیر مینٹولا میں ایک علامت ہائیوسس (Hyoscyamus) سے مشابہ ہے.ہائیو مس میں بعض اوقات شرمیلی بچیاں بھی بے حیائی کی باتیں کرتی ہیں لیکن وہ بے ہوشی اور بے اختیاری کی حالت میں ایسا کرتی ہیں.ان کے کسی گندے ذہنی رجحان سے اس کا تعلق نہیں ہوتا.ٹیرینٹولا کے مریض میں ہوش کے دوران بھی بے حیائی کا رجحان پایا جاتا ہے.
ٹیر مینٹولا 792 اور وہ واقعتاً بے شرم اور بے حیا ہو جاتا ہے.وہ ہر جائز اور ناجائز ذریعہ سے اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کرنا چاہتا ہے.ایسے مریض کو ٹی مینولا اونچی طاقت میں دینا ضروری ہے.ٹیرینولا میں مریض کا گوشت پوست سکڑنے لگتا ہے اور وہ آہستہ آہستہ ہڈیوں کا پنجر بن جاتا ہے جیسے اسے گھن لگ گیا ہو.یہ ٹیر میٹولا کا مزاج ہے.اس علامت کا ہسپانوی مکڑے کے زہریلے اثر سے تعلق ہے.جب وہ کسی جانور کو کاٹتا ہے تو اس کے زہر کے اثر سے شکار کا گوشت گھلنے لگتا ہے جس کی وجہ سے وہ آسانی سے اسے چوس سکتا ہے.پس اس کے زہر میں گوشت گھلانے کی طبیعی صلاحیت پائی جاتی ہے.اس لئے اگر کسی مریض کا گوشت کھل رہا ہو اور کوئی اور علامت نہ بھی ہو تو اسے ٹیر مینٹولا استعمال کرانی چاہئے.میر مینولا میں سردی سے زود حسی پائی جاتی ہے.سونے سے پہلے ٹانگوں میں بے چینی نمایاں ہوتی ہے.یہ علامت ارجنٹم ، لائیکو پوڈیم اور آرسینک میں بھی برابر ملتی ہے.ٹیرینولا کے امراض اور در دمعین وقت پر ظاہر ہوتے ہیں مثلاً اگر پیر کو بیماری کا حملہ ہوا ہے تو اگلے پیر ہی کو پھر حملہ ہوگا.اس کی جو بیماری دو ہفتوں کے بعد عود کر آتی ہے.وہ ایک دفعہ پھر دو ہفتے ہی کے بعد دوبارہ ہوگی.وقت کی پابندی کرنے کا تعلق عموماً جانوروں کے زہروں سے ہوتا ہے.مثلاً اکثر سانپوں کا زہر ہمیشہ موسم بہار ہی میں اثر دکھاتا ہے جس کی وجہ سے سانپ کے بار بار کاٹنے کی بہت سی دیو مالائی کہانیاں بن گئیں ہیں.حالانکہ سانپ بار باراسی موسم میں نہیں کا نتا بلکہ اس کالے کے پرانے زخم دوبارہ ہرے ہو جاتے ہیں.اگر موسم بہار میں سانپ نے کاٹا ہو تو ہر موسم بہار میں مریض کو یہی احساس ہوتا ہے کہ اسے دوبارہ سانپ کاٹ گیا ہے.ایسے زخموں سے مستقل نجات کے لئے اور پرانے زخموں کے نشان دور کرنے کے لئے لیکیس سے بہتر کوئی دوا نہیں جو اونچی طاقت میں دینی چاہئے.ٹیرینٹولا میں عین وقت پر مرض کا دہرایا جانا سال یا مہینے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ دنوں
ٹیر مینٹولا اور ہفتوں سے تعلق رکھتا ہے.793 ملیریا میں بھی ، جبکہ دوسری دوائیں نا کام ہو چکی ہوں اور ملیر یا ہفتہ یا پندرہ دن کے وقفوں کا پابند ہو، اللہ کے فضل سے ٹیرینولا شفا بخشنے کی طاقت رکھتا ہے.ٹیر مینٹولا کا مریض بالعموم سخت پیاسا، بدمزاج ، عیار اور مکار ہوتا ہے.خوفناک سکیمیں بنا کر بہت عیاری کے ساتھ نقصان پہنچاتا ہے.ٹیر مینٹولا کی مریضہ پرلے درجے کی مکار ہوتی ہے اور اپنے مکر سے بہت نقصان پہنچا سکتی ہے.اکثر دھمکی آمیز الفاظ استعمال کرتی ہے.اسے اجنبی چہرے دکھائی دیتے ہیں.جانور ، جن، بھوت اور خوفناک شکلیں نظر آنے لگتی ہیں.ٹیرینٹولا بے چینی اور جلن کے لحاظ سے آرسنک سے مشابہ ہے اور ہاتھ پاؤں کے تلوے جلنا خصوصیت سے سلفر کی یاد دلاتا ہے.بعض رنگوں سے نفرت سپین کے لڑنے والے بیلوں سے ملتی ہے جو سرخ رنگ سے سخت نفرت کرتے ہیں اور سرخ چیز پر حملہ آور ہوتے ہیں.آرسنک ٹیر مینٹولا کے اثرات کو زائل کر دیتا ہے.ٹیریٹولا جب کسی بیماری میں نا کام ہو جائے تو آرسنک اس کی متبادل دوا کے طور پر کام کرتا ہے.ٹیرینولا کی تکلیفوں میں سردی مضر ہے مگر اس کی بعض علامتیں سلفر سے ملتی ہیں.ہتھیلیوں اور تلووں میں جلن کے لئے نیز ایسی عورتوں کے رحم کی جلن دور کرنے کے لئے جو ہسٹریا کارجحان رکھتی ہوں، ٹیر مینولا اچھی دوا ثابت ہوسکتی ہے.ٹیر مینٹولا کا مریض عموماً یہ خیال کرتا ہے کہ اس کی ہتک کی جارہی ہے جس کی وجہ سے وہ اندر ہی اندر کھولتا رہتا ہے اور سکیمیں بناتا ہے.اگر کوئی لومڑ کی طرح چالاک ہو اور ساتھ کچھ پاگل بھی ہو تو اسے پیر مینولا اونچی طاقت میں دینا چاہئے.پھر مینولا کا مریض بیمار نہ بھی ہو تو ہر بیماری کا ڈرامہ رچا سکتا ہے.اٹوائی کھٹوائی لے کر پڑرہے گا اور بہانے بنا کر اپنی طرف توجہ کھینچتا رہے گا.اس کی حقیقی بیماری یعنی اندرونی بے چینی آرسنک سے مختلف ہوتی ہے.ٹیرینٹولا کا مریض گھبراہٹ سے سر تکیے پر رگڑتا ہے.سر پر وحشت سوار
ٹیر مینٹولا 794 ہوتی ہے، آنکھیں نہیں کھلتیں اور روشنی سے زود سی کے ساتھ کنپٹیوں اور گدی میں بہت درد ہوتا ہے.ٹیر مینٹولا کی نیٹرم میور سے یہ مشابہت ہے کہ سر پر چھوٹے چھوٹے ہتھوڑے پڑنے کا احساس ہوتا ہے.آنکھ کی بیماریوں کا اثر دائیں طرف زیادہ ہوتا ہے.دائیں آنکھ میں دھند اور نظر کی کمزوری کے علاوہ دائیں آنکھ سے مواد نکلتا ہے.دائیں کان میں شدید درد ہوتا ہے.ناک کے دائیں نتھنے میں ایک نزلاتی مرکز بن جاتا ہے جہاں سے نزلہ کا آغاز ہوتا ہے.گلے میں بھی دائیں طرف تکلیف نمایاں ہوتی ہے.خوراک سے نفرت اور بے دلی، ٹھنڈے پانی کی پیاس اور متلی بھی خصوصیت سے ٹیر مینٹولا کی علامتیں ہیں.گلے کی خرابی کی وجہ سے باہر بھی سوزش نمایاں ہو جاتی ہے.ٹیر مینولا میں شدید اور مسلسل قبض رہتی ہے جس کی وجہ سے مریض سخت بے چینی محسوس کرتا ہے، کروٹیں بدلتا ہے اور تکیہ کے ساتھ سر رگڑتا ہے.بعض دفعہ انیا اور اسہال کی دواؤں سے بھی اسے افاقہ نہیں ہوتا.بسا اوقات غم اور فکر سے ذیا بیطیس ہو جاتی ہے.ایسی صورت میں اگر سارے جسم میں خصوصاً ٹانگوں اور بازوؤں میں دکھن کا احساس بھی ہوتو ٹیریٹولا دوا مفید ثابت ہوسکتی ہے.وقتی فائدہ ہی نہیں دیتی بلکہ اللہ کے فضل سے مکمل شفا بھی بخشی سکتی ہے.ٹیرینولا گردوں کے شیخ میں جو پتھریوں یا سوزش وغیرہ سے ہو، بہت مفید ہے.اگر گردے کے اردگرد کو لہے کے اوپر کمر کے پاس در دنمایاں ہو اور پیشاب میں جلن ہولیکن مقدار میں زیادہ ہو اور اچانک جکڑن کی علامت پائی جائے تو غالباً ٹیر مینولا ہی دوا ہوگی.اگر عورتوں میں جلن کے ساتھ شدید خارش رحم کے اندر تک جاتی ہوئی محسوس ہو تو اس تکلیف کو بھی ٹیر مینٹولا سے آرام آ سکتا ہے.رحم میں غدود کا بڑھ جانا ، رحم کا اپنی جگہ سے ہٹ جانا ، ڈھیلا ہو کر لٹک جانا اور نیچے گرنے کا احساس اور رحم کا دباؤ برداشت نہ کر سکنا یہ تمام علامتیں ٹیر مینٹولا میں پائی جاتی ہیں.
ٹیر مینٹولا 795 ٹیریٹولا کے تشنجات کا سانس کی نالی سے گہرا تعلق ہے.آواز بیٹھ جاتی ہے.گلے میں مسلسل چین کا احساس اور آواز کا بوجھل پن ٹیر مینولا کا مزاج ہیں.میر مینولا دل کی تکلیفوں اور دمہ میں اگر دیگر معراجی علامتیں پائی جائیں تو بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے.ٹیرینٹولا کے مریض کی پیٹھ پر اکثر پھوڑے نکلتے ہیں گردن کی پشت پر اور دائیں یا بائیں کندھے کے اوپر کار بکل نکل آتا ہے.کاربنکل اکثر ذیا بیطیس کی وجہ سے ہوتا ہے.اگر ٹیرینولا کی دیگر علامتیں پائی جائیں تو دونوں تکلیفوں کو شفا دے سکتا ہے.ٹیرینولا میں اعضاء میں سن ہونے کا احساس، کمزوری اور جلن کا پایا جانا اس کے عمومی مزاج کا خاصہ ہے.ہر وقت بے چینی رہتی ہے.اعضاء میں شدید درد ہوتا ہے.ٹانگوں کا درد خاص طور پر نمایاں ہوتا ہے.جلد میں دکھن کا احساس جو ہلکے دباؤ کو برداشت نہ کر سکے.بعض اوقات مریض کپڑے کا وزن بھی برداشت نہیں کر سکتا.کولہوں میں خصوصا رات کے وقت درد ہوتا ہے.ٹیرینٹولا میں تکلیفیں عموماً رات کو بڑھ جاتی ہیں.تمام جسم میں خارش اور جلن ہوتی ہے.چلنے سے رانوں میں درد ہوتا ہے اور یہ احساس کہ ان پر کس کر پٹی باندھی گئی ہو.ٹانگوں کا فالج بھی نمایاں ہے.حرکت کے ساتھ پیٹھ پر درد اور بے چینی جبکہ سر درد کو حرکت سے آرام آتا ہے.میر مینولا میں تیج بہت نمایاں ہوتے ہیں یہاں تک کہ اگر باقی علامتیں بھی پائی جائیں تو یہ دوا مرگی میں بھی شفا بخشنے کی طاقت رکھتی ہے.دافع اثر دوائیں: لیکیسس کیا تھری کینتھرس مددگار دوائیں: کیو پرم.میگ فاس.عموماً 30 طاقت میں طاقت 30 سے 200 تک
796
ٹیوبر کیولینم 797 182 ٹیوبر کیولینم TUBERCULIUNUM (A Nosode from Tubercular abscess) تپ دق کے مادے سے تیار کردہ اس دوا کا نام ٹیوبر کیولینم ہے.ڈاکٹر برنٹ نے اس دوا پر سب سے زیادہ کام کیا ہے اور ان کے تجربات کے حوالے سے دوسرے ہومیو پیتھک معالجین نے اس کے اثرات سے استفادہ کیا ہے.ڈاکٹر کینٹ نے بھی اس دوا کو بہت اہم قرار دیا ہے.اس کی بنیادی صفات کو یاد رکھنا چاہئے کیونکہ اس سے تپ دق سے براہ راست تعلق رکھنے والی بیماریوں ہی میں نہیں بلکہ دوسری بیماریوں میں بھی بہت مدد ملے گی.یہ ایک نوز وڈ (Nosode) ہے.نوزوڈ کسی بیماری کے گندے اور متعفن مادے سے تیار کی جانے والی دوا کو کہتے ہیں.اگر اصل زہر کو بہت زیادہ لطیف کر دیا جائے تو تیار کردہ دوا میں اصل غلاظت اور گندگی کا کوئی نام ونشان تک باقی نہیں رہتا، ہاں اس زہر کی یاد ایک لطیف طاقت بن کر موجود رہتی ہے جس سے اس بیماری یا اس سے ملتی جلتی بیماری کے علاج میں مدد لی جاتی ہے.نوز وڈ عام طور پر 200 طاقت سے کم استعمال نہیں کرنی چاہئے.زیادہ بہتر ہے کہ اسے اونچی طاقت میں استعمال کیا جائے.ایک ہزار طاقت میں استعمال بہت اچھا ہے.اس دوا کے بارے میں کینٹ کا دعوی ہے کہ اگر کسی شخص کو 200 ، ایک ہزار، دس ہزار، پچاس ہزار اور آخر میں ایک لاکھ طاقت کی 2 خوراکیں وقفوں سے دی جائیں تو ایسے شخص کو کبھی سل نہیں ہوگی چاہے وہ سل کے مریضوں کے درمیان اٹھے بیٹھے.وہ مریض جن میں سلی اثرات پائے جاتے ہوں خواہ مخفی ہوں.ان میں ٹیوبر کیولینم یا کسی اور نوز وڈ کی ضرورت پڑ سکتی ہے جس کے اثر سے دیگر بالمثل دوائیں پوری طرح کام کرنے لگیں
ٹیوبر کیولینم 798 گی.ٹیوبر کولینم جسم میں گہرا رد عمل پیدا کرتی ہے اور اس کے اثر سے دوسری دوائیں جو ٹیوبر کیولینم دینے سے پہلے صحیح تشخیص کے باوجود کام کرتی تھیں، کام کرنے لگتی ہیں.شیو بر کیولینم دینے کے بعد علاج شروع کیا جائے تو علاج زیادہ مؤثر ثابت ہوتا ہے.ٹیوبر کیولینم کو اینٹی سورک (Anti-Psoric) دوا کہا جاتا ہے.جلدی امراض سورک امراض کہلاتی ہیں.ملیریا اور وہ سب بخار جو بار بار پلٹ آئیں جسم میں موجود رہتے ہیں اور وقتی طور پر دب جاتے ہیں لیکن ایک دو دن کے بعد یا اس سے بھی زائد وقفہ سے واپس آ جاتے ہیں.ایسے بخاروں میں ٹیوبر کیولینم بہت مفید ہے.کئی ڈاکٹر ملیریا بخار کے دوران بھی ٹیوبر کیولینم استعمال کرتے ہیں اور اسے ملیر یا تو ڑ کہتے ہیں.اس میں ایک علامت یہ ہے کہ مریض جہاں بھی ہو وہاں سے کہیں اور جانا چاہتا ہے.آرنیکا اور تھو جا میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے.ایک اور بات یاد رکھنی چاہئے کہ سل اور آتشک (Syphilis) دونوں کے مریض بیماری بڑھنے پر پاگل بھی ہو جاتے ہیں مگر دونوں کے پاگل پن میں فرق ہوتا ہے.سل کے مریض عموماً سر میں شدید درد کے دوروں اور سینے کے اندرونی زخموں کی تاب نہ لا کر پاگل ہو جاتے ہیں.سفلس کے مریض کا سارا جسم زخموں اور ناسوروں سے بھر جاتا ہے جو ہڈیاں بھی گلا دیتے ہیں.ناک کی ہڈی گل کر بالکل بیٹھ جاتی ہے.یہ مرض براہ راست دماغ پر بھی حملہ آور ہوتا ہے اور مریض کو مکمل طور پر پاگل کر دیتا ہے.سل کے پاگل میں تشدد کا رجحان پایا جاتا ہے.بعض دفعہ خاموش بھی ہوتا ہے.بعض دفعہ نحیف وزار عورتیں جنہیں سل اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتی ہے پاگل ہو جائیں تو ان کے جسم میں بہت زیادہ طاقت آ جاتی ہے.دماغ میں جوش پیدا ہو جاتا ہے اور وہ تشدد پر اتر آتی ہیں حالانکہ عام حالات میں بالکل خاموش طبع ہوتی ہیں.اگر ٹیو بر کیولینم اونچی طاقت میں دی جائے تو یہ ایسے مریضوں کو پاگل پن سے بچاسکتی ہے.کلکیریا سے ٹیوبر کیولینم کا ایسا گہرا تعلق ہے کہ بعض ڈاکٹروں کے نزدیک یہ ایک دوسرے کے ساتھ ادل بدل کر بھی دی جاسکتی ہیں.
ٹیوبر کیولینم 799 ٹیوبر کیولینم میں عضلاتی نظام اتنا کمزور پڑ جاتا ہے کہ اعضاء لٹکے ہوئے محسوس ہوتے ہیں.اس کی یہ علامت بہت شدید ہوتی ہے.اگر بچہ میں سل کا مادہ ہوتو اجابت کے ساتھ ان کی آنت بھی باہر نکل آتی ہے.اس میں ٹیٹو بر کیولینم کو نہیں بھولنا چاہئے.مردانہ یا زنانہ اعضاء کے نیچے گرنے کے احساس کو دور کرنے کے لئے بھی یہ دوا بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہے.حیض بہت جلد ، بہت زیادہ اور بہت لمبا عرصہ ٹھہر نے والے ہوتے ہیں.دردبھی بہت پائے جاتے ہیں.ان علامات میں دوسری دواؤں کے ساتھ ساتھ ٹیوبر کیولینم بھی مفید ہے.اسے نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.خشک سخت اور مزمن کھانسی جو عام نزلہ زکام وغیرہ کے نتیجہ میں نہ ہو بلکہ آکر ٹھہر ہی جائے، ٹیوبر کیولینم کے مریضوں میں ملتی ہے.پلسٹیلا بھی ایسی کھانسی کو نرم کرنے میں کام آتی ہے.رنگ ورم (Ringworm) یعنی دوری یا داد میں چھوٹے چھوٹے دانوں کا ایک چکر سا بن جاتا ہے جو اگر بالوں میں ہو جائے تو بالوں کو جڑ سے اکھیر دیتا ہے.اسی کو ایلو پیشیا (Alopecia) کی بیماری کہتے ہیں جو بالوں کو کچھوں کی شکل میں گول گول دائروں کی صورت میں اتارتی رہتی ہے.اس بیماری میں ٹیوبر کیولینم یا ایسیلینم دونوں بہت مفید ہیں.ڈاکٹر برنٹ کا خیال ہے کہ اس کی بنیادی وجہ سلی مادہ ہی ہے اور اگر کسی کو یہ بیماری ہو تو اس کو لا ز ما بیسیلینم یا ٹیوبر کیولینم دینی چاہئے.پکرک ایسڈ بھی ایلو پیشیا اور داد کی بہت قوی دوا ہے.عضلات کو سوتے میں جھٹکے لگنا بھی ٹیوبر کیولینم کی ایک نمایاں علامت ہے لیکن اس بیماری میں اور بھی کئی دوائیں کام آتی ہیں.ٹیو بر کیولینم میں طوفان سے قبل ہی مریض میں بیماری کی علامات ظاہر ہونے لگتی ہیں.ٹیو بر کیولینم کو حاد بیماریوں سے زیادہ مزمن بیماریوں کے اثر کو توڑنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ورنہ وہ مزمن بیماریاں نسلاً بعد نسل منتقل ہوتی رہتی ہیں.لیکن حاد بیماریوں میں بھی یہ فوری اثر دکھانے والی دوا ہے.
ٹیوبر کیولینم 800 ایشیائی اور افریقن ممالک میں غربت کی وجہ سے ملیر یا عام ہے.چہرے زرد، پھیکے اور بے رنگ پڑ جاتے ہیں.پھیپھڑوں کی تکلیفیں ، کھانسی ، دمہ وغیرہ عام ہوتی ہیں.ٹیوبر کیولینم سے دمہ کی بیخ کنی کا موثر علاج کیا جا سکتا ہے کیونکہ سلی امراض بھی دمہ میں تبدیل ہو جاتی ہوں.بعض ریتلے علاقے جہاں کثرت کے ساتھ نمونیہ، سل اور ملیریا بخار پائے جاتے ہیں وہاں رات کو اچانک ٹھنڈ کی وجہ سے نمونیہ ہو جاتا ہے جو پھیپھڑوں کو کمزور کر دیتا ہے.پھیپھڑوں کی کمزوری کی وجہ سے سل ہونا کوئی عجوبہ نہیں.ایسے ملیریائی علاقوں مثلاً سندھ میں ٹیوبر کیولینم مفید ہی نہیں بلکہ ضروری دوا بن جاتی ہے.ملیر یا بخار میں عموماً سردرد ہوتا ہے جس کے ساتھ متلی بھی ہوتی ہے.تپ دق کی علامتیں رکھنے والا مریض جس میں ملیریا نے گہرے اثرات چھوڑے ہوں اس کے سر درد میں بھی یہ دوا کام آتی ہے.جسم میں دکھن اور بخار کی کیفیت اور ہر چیز سے بیزاری بھی ٹیوبر کیولینم کی علامت ہے.بچوں کے بڑھتے چلے جانے والے سر کی بیماری میں جسے ہائیڈرو و كیفیلس (Hydrocephalus) کہتے ہیں جب بظاہر بالمثل دوائیں کام نہ کریں تو ٹیوبر کیولینم اونچی طاقت میں وہ ردعمل پیدا کر دیتی ہے جو عام دواؤں کو دکھانا چاہئے تھا لیکن وہ نہیں دکھاتیں.ٹیو بر کیولینم میں پیٹ کی بہت سی علامتیں سلفر کے مشابہ پائی جاتی ہیں.صبح کے وقت دست کا زور، کبھی پیچیش کبھی اسہال اور کبھی بہت قبض.یہ سب انتریوں کی تکلیفیں ہیں.اگر وقت پر ٹیوبر کیولینم سے ان کا علاج نہ کیا جائے تو بعض دفعہ مریض علاج کے قابل ہی نہیں رہتا اور انتڑیوں کے ناسوروں سے مستقل خون رسنے لگتا ہے.اس بیماری کا علاج لمبے عرصہ تک ٹیوبر کیولینم دیتے رہنے سے ممکن ہوسکتا ہے.مددگار دوائیں کلکیریا کارب چانا.برائیو نیا.سلمہ ھو جا.ٹیوبر کیولینم کے بعد فسیلینم بھی اچھا کام کرتی ہے.طاقت: روز مرہ 30 سے 200 تک یا حسب ضرورت بہت اونچی طاقتیں
ور بیٹرم البم 801 183 ور میٹرم البم VERATRUM ALBUM (White Hellebore) ور میٹرم البم میں سر سے پاؤں تک سردی کا شدید احساس پایا جاتا ہے.یہ دوا ہیضے کی بہترین دواؤں میں شامل ہے.ڈاکٹر ہانیمن نے ہیضہ کی وبا پھیلنے سے پہلے ہی بغیر کسی ہیضہ کے مریض کو دیکھے ور میرم البم کو ہیضہ کی دوا تجویز کیا تھا.یہ دوا ہیضہ میں کیمفر اور کیو پرم کا مقابلہ کرتی ہے مگر اس کے اخراجات مقدار میں بہت زیادہ ہوتے ہیں جو زندگی کی تمام قوتوں کو بالکل نچوڑ کر رکھ دیتے ہیں.ور بیٹرم میں سردی کا احساس بہت نمایاں ہوتا ہے اور ٹھنڈے پسینے آتے ہیں اور مریض سر سے پاؤں تک ٹھنڈے پسینوں میں شرابور ہوتا ہے.کیمفر میں بھی بالکل یہی علامات نمایاں ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ کیمفر میں اجابت تھوڑی تھوڑی ہوتی ہے.اور میٹرم میں بے حد پانی والے کھلے اسہال آتے ہیں جو دیکھتے ہی دیکھتے جسم کا پانی نچوڑ لیتے ہیں اور مریض جلد ہی موت کا شکار ہو جاتا ہے.ور بیرم لبم ، کیمفر اور کیو پرم مینوں میں تشیخ کا ہونالازمی ہے.خصوصاً پنڈلیوں میں بہت شیخ ہوتا ہے جو ہیضہ کی خصوصی علامت ہے.ور میٹرم البم کی ایک متضاد علامت انتریوں کی خشکی بھی ہے.جس طرح یہ اسہال کی چوٹی کی دوا ہے اسی طرح یہ قبض کی بھی بہترین دوا ہے.اگر قبض دائمی ہو چکی ہو اور لمبے عرصہ تک کمزوری کا رجحان ہو اور ساتھ ٹھنڈا پسینہ بھی آئے تو وریٹرم البم اچھا علاج ثابت ہوتی ہے.اگر یہ علامتیں نہ بھی ہوں مگر قبض غیر معمولی طور پر شدید ہو تو تب بھی یہ دوا مفید ثابت ہوتی ہے.اس صورت میں اسے 30 طاقت میں روزانہ دو تین دفعہ دیتے
ور بیٹرم البم 802 رہنا چاہئے.یہ پیٹ کو آہستہ آہستہ نرم کرے گی اور انتڑیوں کی خشکی کو دور کر دے گی.تا ہم اس کے پوری طرح مؤثر ہونے سے پہلے قبض کے اس مریض کو یا تو انیا دینا پڑے گا یا گلیسرین کی ٹیوبز استعمال کرنی پڑیں گی کیونکہ فضلہ اتنا زیادہ سخت ہو چکا ہوتا ہے اور اتنی زیادہ مقدار میں اکٹھا ہو چکا ہوتا ہے کہ طبعی طریق پر اس کا اخراج ناممکن ہو جاتا ہے.وریٹرم البم کا مریض مسلسل سردی محسوس کرنے کی وجہ سے سخت چڑ چڑا اور مائل بہ اشتعال ہو جاتا ہے.اگر ایسے مریض کو ہر وقت گرم رکھا جائے تو اس کی طبیعت اعتدال پر آ جاتی ہے یعنی اشتعال اس کے مزاج کا کوئی مستقل حصہ نہیں ہوتا.ور میٹرم البم کے بعض مریضوں میں مذہبی جنون بھی ملتا ہے.ایسے مریض تیز تیز اور جلد جلد باتیں کرتے ہیں.کبھی باتونی ہونے کا دورہ پڑ جاتا ہے اور کبھی خاموشی کا.خاموشی کے دورے کے وقت مایوسی اتنی بڑھ جاتی ہے کہ خود کشی کا رجحان پیدا ہو جاتا ہے مگر ذہنی مریضوں کی ایسی علامتوں کا اور بھی بہت سی دواؤں میں ذکر موجود ہے.یہاں اس ذکر کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جب بھی ذہنی مریضوں کے علاج کا موقع آئے تو ور میرم بھی ایک امکانی دوا ہوسکتی ہے لیکن شاد کے طور پر استعمال ہوتی ہے..بعض بچیاں ہر حیض سے پہلے بغیر کسی وجہ کے بے حد اداس اور مایوس سی ہو جاتی ہیں.مسکرانا بھول جاتی ہیں.ان کو اگر ور میرم البم فائدہ دے تو مستقل شفا ہو جاتی ہے.ورنہ ایسی بچیوں کے مستقل ذہنی مریضہ بن جانے کا احتمال نظر انداز نہیں کیا جا سکتا.طبیب کو ایسی بچیوں کے علاج میں یہ علامت یاد رکھنی چاہئے کہ جن کو وریٹرم البم کی ضرورت ہو ان کو لازماً سردی محسوس ہوتی ہے.ور میٹرم البم میں بعض تضادات بھی پائے جاتے ہیں.سر میں سردی محسوس نہیں ہوتی جبکہ باقی جسم ٹھنڈا ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی نے سر میں برف کوٹ کر بھر دی ہو.گدی اور سر کی چوٹی پر یہ احساس بہت نمایاں ہوتا ہے جو سلفر
ور میٹرم البم 803 کے بالکل برعکس ہے.سلفر میں سر کی چوٹی پر جلن کا احساس ہوتا ہے.ور میٹرم البم کا مریض شدید سردی محسوس کرنے کے باوجود سخت ٹھنڈا پانی پیتا ہے.پھلوں سے پیٹ میں ہوا بھر جاتی ہے.متلی اور قے کے باوجود معدہ میں شدید کھر چن اور بھوک محسوس ہوتی ہے.طاقت: 30 سے 200 تک
804 زنم
زنکم 805 184 زنکم ZINCUM METALLICUM (Zinc) زنک اعصاب کی بیماریوں میں کام آنے والی ایک بہت اہم دوا ہے.ایسا مریض جس کا اعصابی نظام لمبی بیماریوں کی وجہ سے جواب دے چکا ہو اور اس کے اعصاب اتنے کمزور ہو جائیں کہ جسم میں موجود بیماریوں کو باہر اچھالنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں تو ان کے اس عارضے کی اصلاح کے لئے یہ دوا بہترین ثابت ہوتی ہے.اگر ایسی وبائی امراض پھیلی ہوں جن کے مریضوں کی شناخت کے لئے ان کی علامتوں کا جلد پر ظاہر ہونا ضروری ہوتا ہے مثلاً خسرہ اور چیچک وغیرہ تو زنکم کے مریض میں علامتیں ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے اس کی تشخیص نہیں ہو سکے گی کیونکہ اس کے مریض میں بیماری کا حملہ اندر تو ہو جائے گا مگر اس کی علامتیں ظاہر نہیں ہوں گی.ہومیو پیتھک زنک دینے سے اس کی بیماری کی علامات باہر آ جائیں گی.وہ فالجی امراض جو آ کر ٹھہر جائیں اور ٹھیک ہونے کا نام ہی نہ لیں ان میں اگر زنک دی جائے تو اعصاب میں ایک اضطراب پیدا ہو جاتا ہے، ایک جد و جہد شروع ہو جاتی ہے اور صاف پتہ چلتا ہے کہ جسم نے بیماری کے خلاف ردعمل دکھایا ہے.دبی ہوئی بیماریاں خواہ وہائی ہوں یا اعصابی، ان کی دبی ہوئی علامتوں کو زنک با ہر نکال دیتا ہے.یہ رد عمل زندگی کو بچانے کے لئے ضروری ہے لیکن تکلیف دہ بہت ہے اور بسا اوقات بہت سخت ہوتا ہے.اگر اعصابی کمزوری کی وجہ سے دبے ہوئے فالج کے خلاف ردعمل پیدا کرنا ہو اور اس مریض کی دوا ز تک ہو تو اسے اس رد عمل کے خلاف پوری طرح متنبہ کر دینا چاہئے.ڈاکٹر کینٹ نے تو یہ لطیفہ بنایا ہوا ہے کہ اگر زنک کے مریض کو فالج ہو جائے
زنکم 806 تو اس کے علاج کے لئے تیز رفتار گھوڑے پر جانا چاہئے اور دوا دیتے ہی گھوڑے پر بیٹھ کر وہاں سے روانہ ہو جانا چاہئے کیونکہ زنک کا اثر بہت جلد ظاہر ہوتا ہے اور اتنی خوفناک سرسراہٹ ہوتی ہے کہ عین ممکن ہے گھر والے ڈاکٹر کو مارنے کے لئے دوڑیں کہ مریض کو کیا زہر دے دیا ہے.اس سرسراہٹ کے بعد جب اعصاب میں جان پڑنے لگے گی اور فالج ٹھیک ہوگا تو پھر وہ شکریہ ادا کرنے کے لئے اس ڈاکٹر کو ڈھونڈیں گے.میں نے بھی بارہا ایسے مریضوں کو زنک دی ہے جس کے نتیجہ میں سرسراہٹ پیدا ہوئی لیکن اتنی خوفناک نہیں کہ تیز رفتار گھوڑے کی ضرورت پڑی ہو.میں اپنے مریضوں کو پہلے ہی متنبہ کر دیتا ہوں کہ اس دوا کا شدید رد عمل شفا کی ابتدائی علامت ہوگی.زنک کی ایک خاص پہچان یہ ہے کہ اس کا مریض اپنے پاؤں کو مسلسل حرکت دیتا رہتا ہے.عموماً عورتیں رات کے وقت اپنے پاؤں بستر سے باہر نکال کر آپس میں رگڑتی رہتی ہیں یا بعض مریض اپنی ٹانگوں کو مسلسل ہلاتے رہتے ہیں.اگر کسی میں یہ عادت پائی جائے تو وہ جب بھی بیمار ہوا سے زنک دے کر دیکھنا چاہئے.اگر زنک کے مزاجی مریض کی پہچان ہو جائے تو اس کی سب بیماریوں میں زنک مفید ثابت ہوگا.زنگ کے ساتھ نکس وامی کا کبھی نہ دیں کیونکہ یہ دونوں ایک دوسرے کی مخالف دوائیں ہیں.حالانکہ اعصابی تناؤ میں یہ دونوں قدرے مشابہ ہیں.جب دو دواؤں کے مزاج آپس میں ملتے ہوں تو وہ ایک دوسرے کے اثر کو زائل بھی کر سکتی ہیں اور بعض صورتوں میں ایک دوسرے سے متصادم ہو کر سخت رد عمل بھی دکھا سکتی ہیں.اگر کسی مریض کو زنک دینا ہو لیکن اس سے پہلے اسے نکس وامیکا دی جا چکی ہو تو زنک دینے سے پہلے کیمفر یا سلفر دے کر نکس وامیکا کے موجوداثر کو زائل کرنا ضروری ہے.اگر جلدی بیماری دب جائے یا بہت ست رفتاری سے جلد پر ظاہر ہو اور آہستہ آہستہ دانے نکلیں تو زنک کی ایک دو خوراکیں ان کے ظاہر ہونے کی رفتار کو تیز کر دیتی ہیں.نوجوان بچیوں کے حیض کا زمانہ بہت دیر سے اور آہستہ آہستہ شروع ہو تو یہ
زنم 807 علامت بھی زنک کی نشاندہی کرتی ہے.اگر زنک سے اس کا علاج نہ کیا جائے تو بعض دفعہ رحم اور اعصاب کی بہت سی بیماریاں یا کمزوریاں زندگی بھر کے لئے لگ جاتی ہیں.زنک کے زہر سے معدے کا نظام بہت سست پڑ جاتا ہے.کھانا بہت آہستہ ہضم ہوتا ہے.بھوک مٹ جاتی ہے، معدے میں تعفن پیدا ہوتا ہے، تیزابیت کی وجہ سے کھٹی قے شروع ہو جاتی ہے.قبض رہتی ہے.اس نظام کی ست روی مثانے میں فالجی کیفیت پیدا کرتی ہے.پیشاب اور اجابت دونوں میں اکٹھی علامتیں ظاہر ہوتی ہیں.اس کے برعکس مرکزی میں تیزی اور شدت پائی جاتی ہے.پیشاب میں جلن ہوتی ہے جو بعد میں بھی جاری رہتی ہے.پیچش میں بھی یہی ہوتا ہے کہ اجابت کے باوجود پیٹ میں بل پڑتے ہیں اور جلن رہتی ہے.زنک کا مریض کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کر سکتا.اسے بیٹھ کر کھل کر پیشاب آتا ہے.اس کے برعکس کاسٹیکم کا مریض صرف کھڑے ہو کر پیشاب کر سکتا ہے، بیٹھنے پر اس کا پیشاب بالکل بند ہو جاتا ہے یا رک رک کر آتا ہے اور بعض مریضوں کو پیشاب جاری کرنے کے لئے پیچھے کی طرف کھینچنا پڑتا ہے.زنگ کے ٹکسالی کے مریض کا چہرہ زردی مائل اور جھری دار ہوتا ہے.ایسا مریض ہمیشہ ٹھنڈا رہتا ہے.جب ذہن پر اثر ہونے لگے اور اس کی یادداشت جواب دینے لگے تو پہلی علامت یہ ظاہر ہوتی ہے کہ مریض سوال کو پہلے دہراتا ہے پھر جواب دیتا ہے.ذرا سے اچانک شور سے اس کا جسم لرز اٹھتا ہے.زنک کا مریض اگر مفلوج ہو جائے تو اس کے چہرے پر جو بڑھاپے کے آثار ظاہر ہوتے ہیں اگر چہ وہ اسے بھر پور بڑھاپے سے پہلے ہی بوڑھا دکھانے لگتے ہیں لیکن زنک کے مریض میں جوانی کے عالم میں یہ علامتیں ظاہر نہیں ہوا کرتیں.یہ سارسپر یلا اور ایگیریکس کا خاصا ہے کہ چھوٹی سی عمر میں ہی مریض بوڑھا دکھائی دے گا.سارسپر یلا میں تو بعض بچے بھی بوڑھے لگتے ہیں.زنگ کے بعض مریض ایپس (Apis) کی طرح سوتے میں چیچنیں مارتے ہیں کیونکہ ان کے دماغی اعصاب میں زنک کا مخصوص ارتعاش پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے.ایپس کی علامتیں تو بڑی آسانی سے پہچانی جاتی ہیں.اگر وہ علامتیں نہ ہوں تو بلاتر در زنک شروع
زنکم 808 کرا دینا چاہئے.یہاں بھی مریض یا گھر والوں کو متنبہ کرنا ضروری ہے کہ ہوسکتا ہے کہ شروع میں چیخوں کا رجحان بڑھ جائے جو رفتہ رفتہ کلیت ختم ہو جائے گا.زنک کے ردعمل کے طور پر بہت کھلا پسینہ آتا ہے، شدید متلی اور الٹی آنے لگتی ہے، دل ڈو بتا ہوا محسوس ہوتا ہے.زنک کی یہ سب علامتیں بیک وقت ظاہر نہیں ہوتیں بلکہ بعض دفعہ پہلے معدہ اور انتڑیوں پر ظاہر ہوتی ہیں یا پھر بازوؤں میں اور دل پر اثر ڈالتی ہیں.اگر رفتہ رفتہ انتڑیوں میں فالجی علامتیں ظاہر ہو رہی ہوں اور اجابت کے انداز بدلنے سے شک پڑے کہ انتڑیوں کی طبعی حرکت میں کمزوری آ رہی ہے تو بلا توقف زنگ دینا شروع کر دیں.اگر یہ شک درست ہوا تو ایسے تدریجی فالج سے کلیتا نجات مل سکتی ہے.بعض دفعہ ایسے مریض کو زنک کے رد عمل کے طور پر الٹیاں آنی شروع ہو جاتی ہیں.یہ ایک بہت خوشکن علامت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ واقعی یہ ایک تدریجی فالج تھا جس کے عمل کو زنک نے لوٹا دیا ہے.زنک کا رد عمل ایک وقتی تکلیف کا دور ہے جس سے لازماً گزرنا پڑتا ہے کیونکہ یہ صحت کی بحالی کے لئے ضروری ہے.مگر بعض غلط دواؤں یا غلط طاقتوں کے استعمال سے جو رد عمل ہوتے ہیں وہ نہایت خطرناک بھی ثابت ہو سکتے ہیں اور فائدے کی بجائے نقصان پہنچاتے ہیں.اگر کوئی ہو میو پیتھ ہر رد عمل کو اچھا ہی بتائے تو ضروری نہیں کہ وہ ٹھیک ہی کہتا ہو.خطرناک رد عمل غلط سمت میں آگے بڑھتا رہتا ہے اور خوشگوار تبدیلیوں کے آثار ظاہر نہیں کرتا.زنک ریڑھ کی ہڈی اور حرام مغز کی سوزش (Spinal Meningits) میں بھی مفید دوا ہے.اگر کچھ دوائیں مثلاً برائیونیا، بیلاڈونا، سیمیم وغیرہ اس تکلیف میں فائدہ پہنچائیں ہے.اور کچھ دیر کے بعد ساتھ چھوڑ دیں تو ان کے بعد زنک بہت اچھا اثر دکھاتی ٹیوبرکولر میننجا ئٹس (Tubercular Meningitis) کے علاج میں بھی زنک مفید ثابت ہوا ہے.مینجائٹس کی وبا کے دنوں میں اگر ہفتے میں ایک دو بار زنک 200 استعمال کیا جائے تو غالباً اس کی روک تھام کے لئے مفید ثابت ہوگا.آنکھوں کی متعدد تکالیف میں بھی زنک بہت کام آتا ہے.اگر آنکھوں کے چھپر
زنم 809 آہستہ آہستہ پھول کر بڑے ہو جائیں اور آنکھوں میں رفتہ رفتہ سرخی بڑھنے لگے اور مزمن ہو جائے، اس کے ساتھ اندرونی علامتیں بھی ظاہر ہونے لگیں اور نظر دھندلا جائے اور بصری اعصاب متاثر ہوں تو ان تکالیف میں زنک بہت کارآمد ثابت ہو گا.زنکم سلف سفید موتیا کی بہترین دواؤں میں سے ہے.میں نے ایک نوے سالہ بوڑھے مریض کو جس کی آنکھوں میں سفید موتیا کی علامتیں ظاہر ہو کر کافی آگے بڑھ چکی تھیں، ایک لاکھ طاقت میں زنکم سلف کی ایک خوراک دی.اس مریض کو ایک سرجن نے میرے پاس بھجوایا تھا کہ اس عمر میں ہم اس کا اپریشن نہیں کر سکتے.زنکم سلف کی ایک لاکھ طاقت کا یہ حیرت انگیز اثر میں نے دیکھا کہ اس کی آنکھیں چند مہینے کے اندر شیشے کی طرح شفاف ہو گئیں.بعد ازاں وہ کئی سال زندہ رہا لیکن اس کی وفات تک اسے یہ تکلیف نہ ہوئی.آنکھ میں پیدا ہونے والے وہ تمام مادے جو نظر کو دھندلا دیتے ہیں یا جم کر موتیا کی طرح شکل اختیار کر لیتے ہیں، ان سب میں زنک اچھی دوا ہے.لیکن اگر مرض نصف سے آگے بڑھ چکا ہو اورسختی کی طرف مائل ہو تو اس وقت زنک دینے کی بجائے آپریشن کروالینا ہی بہتر ہے کیونکہ اگر موتیا میں سختی شروع ہو چکی ہو تو زنک دینے سے وہیں رک جائے گا اور مریض نہ اپریشن کے قابل ہو سکے گا نہ اس کی بینائی ٹھیک ہوگی.لہذا ایسے مریض کو موتیا پکنے ہی دینا چاہئے تا کہ جلد آپریشن کے ذریعہ اسے اس جھنجٹ سے نجات ملے.زنک کے ساتھ کلکیر یا فلور 6x میں کھلانا بہت مفید رہتا ہے.اسی طرح آنکھ میں انے کے لئے Cineraria Maritima Sussex کا لوشن بہت فائدہ مند ہے.دن میں تین بار اس کا ایک ایک قطرہ ماؤف آنکھ میں پڑکا یا جائے تو افاقے کی رفتار اور بھی تیز ہو جاتی ہے.روز مرہ کے طور پر زنکم سلف 200 ہفتہ میں ایک دو بار استعمال کروانا چاہئے.اگر CM طاقت میں دیا جائے تو مہینے سے پہلے اسے نہیں دہرانا چاہئے.اور اگر دہرانا بھی ہوتو ایک دفعہ دے کر بند کر دیں.اگر آنکھ میں سفید سی جھلی پھیلنے لگے تو زنک کی دوسو طاقت بہت فائدہ دیتی ہے.
زنم 810 آنکھوں کے چھپر میں اگر ایسی بیماری ہو جائے کہ پلکوں کے بال مڑ کر آنکھ کے چھپر میں داخل ہونے شروع ہو جائیں تو وہ قدرتی طور پر بڑھتے ہوئے چھپروں کے اندر ہی گول چھلکوں کی شکل میں بڑے ہونے لگتے ہیں اور بہت تکلیف دیتے ہیں.عموماً اس کا علاج جراحی ہے لیکن ایک جراحی کے بعد پھر کوئی دوسرا بال مڑ کر اندر چلا جائے گا اور یہ سلسلہ ختم ہونے میں نہیں آئے گا.اس کا مستقل علاج زنکم سلف ہے اور میں نے اسے اکثر 200 طاقت میں بہت مفید پایا ہے.آنکھ میں ناخونا (Pterygium) کو بھی زنک 200 بہت جلد ٹھیک کر دیتا ہے اور کسی اپریشن کی ضرورت نہیں رہتی.سر کو جب چکر آئیں تو زنکم کا مریض ہمیشہ یہی خیال کرتا ہے کہ وہ بائیں طرف گرے گا.دائیں بائیں سر ہلانا اور سر کو تکیے میں دھنسانے کی کوشش کرنا یہ زنکم کی بھی ایک علامت ہے.سر اور ہاتھ خود بخو د ہلتے رہیں اور رعشہ سا ہو جائے تو اس میں بھی زکم اچھی دوا بتائی جاتی ہے.کالی بائیکروم کی طرح ناک کے اندر اوپر کی طرف جڑھ میں دباؤ اور دکھن کا احساس.دانت جلدی مسوڑھوں کو چھوڑنے لگتے ہیں.دانتوں کو بھینچنے سے مسوڑھوں کو کچھ آرام محسوس ہوتا ہے.جن بچوں کے اعصاب کمزور ہوں ان کے لئے دانت نکالنا مشکل ہو جاتا ہے اور خاص علامت یہ ہے کہ دونوں پاؤں بے چینی کی وجہ سے ہلتے رہیں گے یا آپس میں رگڑتے رہیں گے، اگلتے وقت گلے کے عضلات میں کچھ تھوڑی سی درد ہوتی ہے اور معدے میں میٹھی چیزوں سے جلن پیدا ہو جاتی ہے نیز متلی، ہچکی اور قے کا رجحان ہو جاتا ہے.زنکم کے مریض بہت جلدی جلدی کھاتے ہیں اور کھانا کھاتے وقت ان کی بے صبری نمایاں ہوتی ہے.پیٹ اکثر گیس سے تنا ہوا ہوتا ہے.کمر کے نچلے حصہ میں درد، جس میں دباؤ برداشت نہیں ہوتا.مردوں اور عورتوں کے جنسی اعضاء بھی متاثر ہوتے ہیں اور فوتوں (Testicles) میں اوپر کی طرف کھچاؤ ہوتا ہے.عورتوں میں بیماری کے طور پر شہوانی جذبات تیز ہو جاتے ہیں اور پستان متورم
زنکم 811 ہو جاتے ہیں.رات کے وقت حیض کا خون زیادہ بہتا ہے اور حیض کے دوران سب تکلیفوں میں اضافہ ہو جاتا ہے.ٹانگوں میں ویریکوز وینز (Vericose Veins) اور پاؤں میں چل بلیز (Chilblains) یعنی انتہائی سردی کے نتیجہ میں پاؤں کے پنجے کا سخت سرخ ہو کر متورم ہو جانا جس کے نتیجہ میں ایسا پنجہ جڑ بھی سکتا ہے.کوہ پیماؤں کو بعض دفعہ انتہائی سرد موسم میں برف پر مسلسل چلنے سے یہ تکلیف ہوتی ہے.
813 انڈیکس تشخیص امراض REPERTORY
814 انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY)
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 815 ریپرٹری کے سلسلہ میں ایک ضروری نوٹ اس ریپرٹری میں بعض دواؤں کا نمونے کے طور پر تفصیل سے ذکر ہے کہ ایک ہی مرض بہت سی دواؤں میں مل سکتی ہے یا ایک ہی دوا بہت سی بیماریوں میں کام آ سکتی ہے مگر اس میٹریا میڈیکا (Materia Medica) کی طرز ایسی ہے کہ صرف بڑی بڑی دواؤں یا امراض کے ابواب کی نشاندہی کی گئی ہے اور اگر کوئی ان میں سے ایک بھی غور سے پڑھ لے تو وہیں اس کی ضرورت پوری ہو جائے گی یا دوسری دواؤں کی طرف اسے وہاں سے رہنمائی مل جائے گی.اس ریپرٹری میں جو یہ نئی طرز اپنائی گئی ہے اس سے امید ہے کہ پڑھنے والوں کا بہت سا وقت بچے گا اور کتاب کے مطالعہ سے جو تکرار کا ایک عمومی سا تاثر ابھرتا ہے اس کی سمجھ آ جائے گی کہ کیوں یہ تکرار ضروری تھی.
816 انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY)
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 817 بسم الله الرحمن الرحيم بعض بیماریوں کا خصوصی ذکر خواہ روز مرہ لاحق ہونے والی عارضی بیماریاں ہوں یا لمبی مزمن اور بہت گہری بیماریاں ہوں.(1) نزلہ، زکام، بخار.(۲) کھانسی.(۳) ٹانسلز (Tonsils) یعنی گلے کے غدودوں کی ہر قسم کی خرابی (۴) چھوٹے بچوں کا علاج جو اپنی بیماریاں خود نہ بیان کرسکیں.(۵) اسہال ، پیچش، قبض اور انتڑیوں کے عارضی یا گہرے مزمن عوارض.(۶) معدہ کے عوارض.(۷) آنکھوں کی تکالیف.(۸) سلی امراض اور پھیپھڑوں کی تکلیفیں مثلاً دمہ، کینسر وغیرہ.(۹) جلدی امراض.(۱۰) دل کی بیماریاں.(۱۱) پتے کی تکالیف جس کے ساتھ ذیا بیطس کی پیچیدگی ہو.(۱۲) رحم کی روز مرہ خرابیاں، کینسر اور جریان خون.(۱۳) بانجھ پن اور اسقاط حمل حمل کے دوران عمومی عوارض اور تسہیل ولادت اور اصل کے کی دوائیں.(۱۴) شریانوں اور وریدوں کی خرابیاں.(۱۵) اعصابی ریشوں یعنی نروس سسٹم (Nervous System) کی تکالیف.(۱۶) مختلف تو ہمات اور عوارض کی نشاندہی کرنے والی خوا ہیں.نیند کا فقدان یا زیادہ نیند.
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) (۱۷) نشہ کی عادت.(۱۸) دماغی اور دینی عوارض.(۱۹) جنسی امراض.818 (۲۰) پراسٹیٹ گلینڈز (Prostate Glands) یعنی غدہ قدامیہ.(۲۱) جوڑوں کا درد اور گنٹھیا (۲۲) ہڈیوں کی تکالیف..(۲۳) حادثات اور چوٹوں کے فوری اور دیر پا اثرات کا علاج.(۲۴) ہر قسم کے فالج.(۲۵) جسمانی ساخت اور وضع قطع.(۲۶) وبائی بیماریاں.(۲۷) روز مرہ کام آنے والے بعض مجرب نسخے.
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 819 1.نزلہ، زکام، بخار.روزمرہ کے تجربہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اگر نزلہ زکام کا آغاز میں ہی مؤثر علاج کیا جائے تو خدا کے فضل سے نزلہ کے نتیجہ میں ہونے والی خطرناک پیچیدگیوں سے بچا جاسکتا ہے.جونہی ناک کے اندر سردی کا احساس ہو فوراً کیمفر (Camphor) بہت چھوٹی طاقت یا 30 طاقت میں دینی چاہئے یا پھرایکونائٹ (Aconite) جس طاقت میں بھی میسر ہو، دے دیں.ایک ہزار طاقت میں بھی خدا کے فضل سے بہت اچھا اثر دکھاتی ہے.اگر چہرہ تمتمایا ہوا ہو اور دھڑکن والا سر درد ہو تو ایکونائٹ (Aconite) کے ساتھ بیلاڈونا (Belladonna)1000 اور آرنیکا (Arinca)1000 بھی ملا لیا جائے تو یہ نسخہ بہت مفید ثابت ہوتا ہے.نصف گھنٹے کے وقفہ سے دو خوراکیں دینا کافی ہوتا ہے لیکن اگر بیماری کچھ آگے بڑھ چکی ہو تو بیسیلینم (Bacillinum ) + دفتھیر منم (Diphtherinum)+ انفلوئنیز بینم (Influenzinum) 200 اور اوسلوکوسینم (Oscillococcinum) 200 چاروں ملا کر دیں.تین دن روزانہ ایک یا حسب ضرورت دو خوراکیں دی جائیں تو نزلہ بگڑتا نہیں اور بخار یا دمہ وغیرہ میں تبدیل نہیں ہوتا.اگر پھر بھی مرض قابو میں نہ آئے تو علامات کا بار یک نظر سے مطالعہ کریں اور حسب موقع علاج کریں.اگر نزلہ کے ساتھ چھینکیں بہت ہوں تو مندرجہ بالا نسخہ کے بعد نیٹرم میور (Natrum Mur) 200 دیں.اگر اس کے باوجود بخار ہو جائے تو اسے حسب ذیل ادویہ سے قابو میں لانے کی کوشش کریں.کالی فاس (Kali Phos + فیرم فاس Ferrum Phos) + کالی میور Kali Mur) +سلیشیا (Silicea) + کلکیر یا فلور (6x (Calc.Flourملاکر استعمال کریں.بخار نہ اترے تو سلفر (Sulphur) + پائیر و جینیم (Pyrogenium)200 ملا کر چند دن روزانہ صبح شام دیں ورنہ علامات کے مطابق حسب ذیل نسخوں سے علاج کریں.زکام میں پانی سی پتلی رطوبت اور سردی کی علامت سیمیم (Gelsemium)،سلیشیا
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 820 (Silicea)، نیٹرم میور (Natrum Mur)، سورائینم (Psorinum) اور کالی کار (Kali Carb) میں مشترک ہے.کالی کا رب میں کمر کی دکھن پچھلے پہر تین چار بجے بڑھ جاتی ہے جبکہ نیٹرم میور میں صبح سے شام تک دن بھر رہتی ہے.اگر گرمی سے تکلیف بڑھے تو پلسٹیلا (Pulsatilla) اور ایپس (Apis) دونوں کام آ سکتی ہیں.دونوں میں پیاس کم اور رطوبت عموماً گاڑھی ، زرد رنگ کی ہوتی ہے لیکن پلسٹیلا کا مریض نرم مزاج ہو گا جبکہ ایپس کا مریض چڑ چڑا ہو گا اور عضلات میں ڈنک لگنے کی طرح کے تیز لہر دار درد ہوں گے اور پیشاب میں کمی اور گردوں میں سوزش ہوگی.کالی بائیکروم (Kali Bichrom) پرانے ضدی نزلہ میں مفید ہے.گاڑھی لیس دار زرد رطوبت نکلتی ہے جس کے ساتھ پیچھے ناک کی جڑھ میں درد ہوتا ہے.مادہ گاڑھا اور جڑا ہوا دھاگوں کی صورت اختیار کر لیتا ہے.موسم بہار میں Hay Fever اور الرجی کی وجہ سے چھینکوں کے دورے شروع ہوں تو سباڈیلا (Sabadilla) ضروری ہے لیکن اگر الرجی خزاں کے موسم میں ہو اور چھینکیں آئیں اور آنکھوں سے سادہ پانی ہے جو خراش نہ پیدا کرے نیز نزلہ کا اثر کانوں پر بھی ہو تو سباڈیلا کی بجائے ایلیم سیپا Allium Cepa) دوا ہوگی.اگر آنکھوں سے جلن پیدا کرنے والا پانی ہے جو سوتے میں گلے اور چھاتی پر گر کر خارش اور کھانسی کا موجب بنے تو یوفریز یا(Euphrasia) دوا ہوگی.موسم بہار کی الرجی کے مستقل علاج کے لئے لیکیسس (Lachesis) 1000 بہت اچھا کام کرتی ہے جسے سباڈیلا سے آرام آنے کے بعد بیماری کی بیخ کنی کے لئے لمبے وقفوں کے ساتھ چند ماہ استعمال کرنی چاہئے.جب بھی مرطوب موسم ہو یا جلد جلد موسمی تبدیلیاں واقع ہوں تو نزلاتی اور جلدی بیماریوں میں ڈلکا مارا (Dulcamara) بہترین دوا ثابت ہوتی ہے.اس کے زکام سے ناک بند ہو جاتا ہے،صرف ہلکا ہلکا پانی رستارہتا ہے.اگر کمزوری، بے چینی اور جلن بہت ہو لیکن گرمی سے آرام آئے تو آرسینک
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 821 (Arsenic) دوا ہوگی.اگر کھانے کی بو سے متلی ہوتو یہ کا لچیکم (Colchicum) کی نمایاں علامت ہے.ذیا بیطس کے مریضوں کی نزلاتی تکالیف میں دوسری ضروری دواؤں کے علاوہ نیٹرم سلف (Natrum Sulph) ، کالی سلف (Kali Sulph) اور نیٹرم فاس (Natrum Phos) ملا کر دن میں دو تین بار دینی چاہئیں اور اگر جسم اور ہڈیوں میں درد بہت ہو تو آرنیکا (Arnica) اور یو پیٹوریم (Eupatorium) ملا کر دینا بہت مفید ثابت ہوتا ہے.پرانا نزلہ جو دھاگوں کی صورت میں نکلے اس میں کالی بائیکروم (Kali Bichrom) کے علاوہ کو کس کی کٹائی (Coccus Cacti) کو ہسپر سلف (Hepar Sulph) کے ساتھ ملا کر دینا نزلہ کے پرانے مریضوں کے حق میں بہترین ثابت ہوتا ہے.اگر نزلہ سے گلا خراب ہو جائے تو اس کے لئے مندرجہ ذیل دواؤں کو یا درکھیں.برائیٹا کارب (Baryta Carb) + (Gelsemium) (اگر پیاس نہ ہو، منہ میں خشکی ہو اور سر بھاری ہو ) ☆ آرنیکا (Arnica)+ایکونائٹ (Aconite)+ کاسٹیکم Causticum) + بیلا ڈونا (Belladonna) ( ہر قسم کی گلے کی خرابی میں جس میں گلے کی طرف رجحان خون ہو، سوزش اور درد ہو ) 30 طاقت سے لے کر 1000 طاقت تک.بعض دفعہ 1000 طاقت میں نسخہ غیر معمولی سرعت سے کام کرتا ہے.آدھے گھنٹہ کے وقفہ سے دو خورا کیس کافی ہوتی ہیں.برائیٹا کارب (Baryta Carb ) + بیلاڈونا (Belladonna) + کاسٹیکم (Causticum) ( نزلاتی کیفیت اور گلے کی خرابی ) بعض دفعہ اس نسخہ میں کاسٹیکم (Castucum) کی بجائے کالی میور (Kali Mur) ملانا حسب علامات ضروری ہوتا ہے.اگر گلا شدید خراب ہونے کے ساتھ منہ سے پانی ہے اور سخت بدبو آتی ہو تو مرکزی
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 822 (Mercurius) کے مرکبات میں دوا تلاش کریں.ضروری نوٹ :.جن دواؤں کی بحث نزلہ، زکام اور بخار کے مذکورہ بالا باب کے تحت کی گئی ہے ان میں سے کسی دوا کا بھی تفصیلی ذکر پڑھ لیا جائے تو ان امراض کے سمجھنے میں آسانی پیدا ہو جائے گی.اليومينا آرم مٹیلیکم Alumina آرم ٹرائی فلم Arum Triphyllum Aurum Metallicum برومیم Bromium لکیریا کارب Calcarea Carbonica کار بونیم سلف Carboneum Sulph کار بودیج Carbo Vegetabilis کوکس گائیکم کپسیکم میڈ ورا ئینم Guaiacum Medorrhinum Coccus Capsicum نیٹرم کا رب Natrum Cabonicum نائٹرک ایسڈ ہائیڈ راسٹس فاسفورس سسٹس پلسٹیلا کالی بائیکروم Nitruc Acid Hydrastis نکس وامیکا مرکزی Phosphorus سورائینم Cistus سليشيا Pulsatilla Kali Bicrom تھوجا 2.کھانسی Nux Vomica Mercurius Psorinum Silicea Thuja کھانسی اگر اچانک ہو جائے ، منہ اور گلا خشک ہو اور مریض اس اچانک حملہ سے خوفزدہ ہو تو ایکونائیٹ (Aconite)1000 + آرسینک (Arsenic) 1000 اور بیلا ڈونا (Belladonna)1000 آدھ گھنٹہ کے وقفہ سے دوبار پھر لمبے وقفہ سے (جب بھی ضرورت پڑے) اور اگر ہر وقت بے چینی لگی رہے تو آرسینک کو آزمانا چاہئے.ایسا مریض جو آرسینک (Arsenic) کا تقاضا کرے لیکن خشک کھانسی اور چھینکیں گرمی سے
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 823 بڑھیں تو آرسینک آیوڈائیڈ (Arsenic Iodide) مفید ہوگی جو کمی خون کے مریض کے لئے بھی مفید ہے.خشک کھانسی کے ساتھ اگر نچلے جبڑے اور گلے کے غدود بڑھے ہوئے ہوں، لیٹنے سے چکر آئیں تو برومیم (Bromium) دیں.جب سردیاں گرمیوں میں تبدیل ہو رہی ہوں تو اکثر نزلاتی تکلیفوں میں برائیونیا (Bryonia) کام آتی ہے جو 200 طاقت میں اچھا کام کرتی ہے.اس موسم میں اگر کالی کھانسی یا عام شیخی کھانسی اور دمہ ہو جائے تو ڈ روسرا (Drosra) لازمی دوا ہوگی.نمدار موسم میں بھی ڈروسرا کی تکلیفیں بڑھتی ہیں.اگر بیلاڈونا (Belladonna) سے آرام نہ آئے تو کلکیریا کارب (Calcarea Carb) دیں اور یاد رکھیں کہ بیلا ڈونا کا مریض پر خون ہوتا ہے اور کلکیریا کا مریض عموماً کم خون والا.گرم مزاج مریض کی خشک کھانسی جو بلغمی کھانسی بن جائے اور گلے میں پیپ پڑنے کا رجحان ہو تو کلکیر یا سلف (Calcarea Sulph) دوا ہوگی.روٹھنے کی عادی لڑکیوں اور ہسٹیریائی مزاج عورتوں کی کھانسی میں اگنیشیا (Ignatia) بہترین ہے.ریو میکس (Rumex) کی کھانسی ضدی اور خشک ہوتی ہے.گلے میں سخت کھجلی ہوتی ہے، کھانسی لیٹنے سے بڑھتی ہے.اسے چیلی ڈونیم (Chelidonium) کے ساتھ ملا کر دینا بہترین نسخہ ہے.اگر یہ کام نہ کرے تو سلفر (Sulphur) 200 اور رسٹاکس (Rhustox) 200 باری باری دیں.سپونجیا (Spongia) کی خشک کھانسی دل کے عارضہ سے تعلق رکھتی ہے.چھاتی سے آرا چلنے کی سی آواز آتی ہے.وہ خشک کھانسی جو ہنسنے یا بولنے سے چھڑ جائے فاسفورس (Phosphorus) کا تقاضا کرتی ہے.یہ سل اور پھیپھڑوں کے کینسر کی بھی بہترین دوا ہے.شروع میں چند مہینے اسے
824 انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 30 طاقت سے زیادہ استعمال نہ کریں.نیز برائی اونیا (Bryonia)30 کے ساتھ ملا کر یا باری باری دن میں تین چار بار استعمال کرائیں.علاوہ ازیں روزانہ چائے کی پیچی کا چوتھا حصہ ہلدی، پانی یا دودھ کے ساتھ پلائیں ، پھیپھڑے کے کینسر کا بہترین علاج ہے.پرانی کھانسی میں کالی کا رب نمایاں کام کرتی ہے.کالی کا رب کے مریض کی آنکھوں کے پیوٹے عموماً متورم ہوتے ہیں اور اکثر کمر درد کی شکایت بھی ہوتی ہے جو صبح تین چار بجے ضرور بڑھ جاتی ہے.گلے کی سوزش میں ، جو کان کی طرف جائے نیز مریض کی ناف پر دکھن کا احساس ہو تو بم (Plumbum)200یا ایلیم سیپا (Allium Cepa) 30 مفید ہے.یہ نزلہ کی وجہ سے ہونے والی کان درد کا بھی فوری علاج ہے.یہ کام نہ کرے تو حسب علامات کیمومیلا (Chamomilla) یا پلسٹیلا (Pulsatilla) بہترین کام کرتی ہیں.ایسے بچوں کی خشک کھانسی میں ، جن کو پیٹ کے کیڑوں کی شکایت اور ناک کو انگلی.کھجلانے کی عادت ہو ، سائنا (Cina) دوا ہوگی.اگر اس کے ساتھ معدہ تیزابی ہو تو نکس وامیکا (Nux Vomica) کارآمد ہے.جسمانی رطوبات ضائع ہونے سے یا بار بار جریان خون سے کھو کھلے ہو جانے والوں کی چائنا(China) دوا ہے.کھانستے وقت متلی ہو مگر تے نہ ہو اور چھاتی میں بلغم کھڑکھڑائے تو اپی کاک (Ipecac) مفید ہے.خشک کھانسی میں جو حجرہ پر دباؤ ڈالے اور نیند کے دوران زیادہ ہو جائے لیکیسس (Lachesis) بہت موثر ہے.خشک کھانسی جو رات کو زیادہ ہو اور بچے سخت غصیلے اور ضدی ہوں ان کے ہر مرض کا علاج کیمومیلا (Chamomilla) ہے.Argentum Metallicum Alumina اليومينا
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 825 اینٹی مونیم ٹارٹ Antimonium Tart کار بوویچ Carbo Vegetabilis کاسٹیکم پیپر سلف اپی کاک Causticum ڈروسرا Hepar Sulphuris ہائیوسائیمس Ipecac کالی کارب (Kali Carbonicum Drosera Hyoscyamus کالی بائیکروم KaliBichromicum سورا ئینم سليشيا ٹینم نکس وامیکا برائیٹا کارب یو فریزیا اگنیشیا Psorinum Silicea Stannum Nux Vomica Baryta Carb Euphrasia کالی آئیوڈائیڈ سینگونیر یا سینیگا ٹیوبرکولینم لیکیس Kali Iodide Sanguinaria Senega Tuberculinum Conium Capsicum Lachesis Hydrastis Ignatia ہائیڈ راسٹس 3.ٹانسلز (Tonsils) یعنی گلے کے غدودوں کی ہر قسم کی خرابی بیماری شروع ہوتے ہی ایکونائٹ (Aconite) 1000 + بیلاڈونا (Belladonna)1000 اور آرنیکا (Arnica) 1000 کی چند خوراکیں فوری اثر دکھاتی ہیں.روزمرہ کی گلے کی خرابیوں میں سلیشیا (6x (Silicea + فیرم فاس (6x(Ferrum Phos کلکیر یا فلور (6x(Calcarea Fluor + کالی میور (6x Kali Mur ملا کر دیں.بخار کی صورت میں شروع میں نصف گھنٹہ کے وقفہ سے ان کو دہرانا پڑتا ہے.گلے کے غدودوں کا تفصیلی ذکر نزلہ، زکام، کھانسی اور نزلاتی بخاروں کی بحث کے دوران گزر چکا ہے، اسے ضرور پڑھ لیں نیز اگر بخار کے ساتھ سانس میں بد بو ہو، گلاسو جا ہوا ہو اور نگلنا مشکل ہو تو بپیٹیشیا (Baptisia) اکیلی دوا ہی کافی ہوگی.
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 826 گلے میں پیپ پڑنے کا رجحان ہو اور اندر کوا بھی سوجا ہوا ہو تو کالی بائی کروم (Kali Bichrom) ضروری ہے.غدودوں میں شدید سوجن کے ساتھ سختی پائی جائے اور جگہ جگہ پیپ کے دھبے نظر آئیں، نگلتے وقت درد کانوں تک چلا جائے ، حلق میں خشکی اور جلن بہت ہو تو فائیٹیو لا کا (Phytolacca) انتہائی ضروری ہے.گلے کی نئی اور پرانی تکلیفوں میں ہرایسے مریض کے لئے برائیٹا کارب (Bryta Carb) بہت مفید ہے جس کی غدودویں بیماری کے ہر حملہ کے بعد پہلے سے کچھ اور موٹی اور سخت ہو جاتی ہیں اور اپنے پہلے حجم کی طرف واپس نہیں لوٹتیں.گلے سے خوفناک بد بو آئے تو مرکزی (Mercurius) کے مرکبات کا مطالعہ کر کے دوا تلاش کریں.گلے کی خطرناک تکالیف میں ٹرینٹولا ہسپانیہ (Tarentula Hispania) کی جسمانی اور نفسیاتی علامات کا بغور مطالعہ ضروری ہے.شدید درد اور ایسے زخم جو کٹے پھٹے ہوں، منہ میں بے حد بد بودار لعاب ہو تو نائیٹرک ایسڈ (Nitric Acid) دوا ہوگی.نزلاتی بیماریوں میں برومیم (Bromium) کا ذکر گزر چکا ہے.ٹانسلز (Tonsils) کے لئے اسے دوبارہ احتیاط سے پڑھ لیں.سخت سوزش، گلے میں پھانس اٹکنے کا احساس، بخارا اور جسم سے سخت کھٹی بو ہسپر سلف (Hepar Sulph) کی علامات ہیں.سیفیلینم (Syphilinum)200 یا 1000 طاقت میں گلے کی ہر خرابی کے آغاز میں استعمال کرنی مفید ہے.نیز مندرجہ ذیل نسخے کام آ سکتے ہیں.فائٹولا کا (Phytolacca) + پیٹیشیا (Baptisia) + کالی میور Kali) Mur + کلکیر یا فلور (Calcarea Fluor) + سلیشیا (Silicea) ملا کر 30 طاقت میں روزانہ تین بار، اگر گلے میں درد زیادہ ہو تو سلیشیا (Silicea) کی بجائے ہسپر سلف
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) (Hepar Sulph) دیں.827 فائٹولا کا (Phytolacca) + پیٹیشیا (Baptisia) + بیپر سلف (Hepar Sulph) + کار بوو بیج (Carbove g) ملا کر 30 طاقت میں روزانہ تین بار.ایسے ٹانسلز جو ٹھیک ہونے میں نہ آئیں ان کو یہ نسخہ بھی دیں.انفلوئیز بینم (Influenzinum) + بیسیلینم (Becillinum) + دفتھیرینم (Diphtherinum) اور اوسلوکو سینم (Oscillo Coccinum) چاروں اکٹھی 200 طاقت میں ملا کر.تین دن تکلیف کی شدت کے دوران دن میں ایک بار یا زیادہ سے زیادہ حسب ضرورت دوبار استعمال کروائیں.تین دن سے زیادہ دینے کی ضرورت نہیں.Alumen Guaiacum کلکیریا کارب Calcarea Carbonica اليومن گائیکم لیک کینا ئینم Lac Caninum لائیکوپوڈیم برائیٹا کارب Baryta Carb Lachesis Lycopodium -4.چھوٹے بچوں کا علاج جو اپنی بیماریاں خود نہ بیان کرسکیں بچوں کو عموماً نزلاتی بیماریاں، گلے کی خرابیاں اور کان کی تکلیفیں لاحق ہوتی ہیں اور ان نزلاتی تکلیفوں کے نتیجہ میں روزانہ رات کو بخار کا حملہ ہوتا ہے جو یا تو مسلسل بڑھتا چلا جاتا ہے یا ایک دم دب جاتا ہے جس کے نتیجہ میں بچے کی موت بھی واقع ہوسکتی ہے.ایسی تمام بیماریوں کا ٹکسالی کا نسخہ یہ ہے.د ایکونائیٹ (Aconite) + آرنیکا (Arinica) + آرسینک (Arsenic) + بیلاڈونا (Belladonna) 200 روزانہ ایک یا دو بار استعمال کریں اور فیرم فاس Ferr Phos) + سلیشیا (Silicea) + کالی میور (Kali Mur) +
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 828 کلکیر یا فلور (Calc Flour) + کالی فاس (6x Kali Phos دن میں چار پانچ دفعہ دیتے رہیں.اگر فائدہ نہ ہو گلے اور کان کی تکلیفوں کے باب میں مناسب حال نسخہ تلاش کریں.اسی طرح اگر وبائی بیماریاں پھیلی ہوں تو وبائی بیماریوں کا مطالعہ بہت ضروری ہے.بچہ تو کچھ نہیں بتا سکتا مگر طبیب کے لئے ضروری ہے کہ گہری نظر سے اس کی علامتوں کا مطالعہ کر کے مناسب حال دوا کی فوری تلاش کرے.کیمومیلا Chamomilla اپی کاک نیٹرم میور Natrum Muriaticum نکس وامیکا کلکیر یا فاس Calcarea Phos اليومينا برائیونیا پوڈ وفائکم کا لوسنتھ Podophilum Colocynthis Bryonia ایلیم سیپا Ipecac Nux Vomica Alumina Allium Cepa Veratrum Album 5.اسہال ، پیچش، قبض اور انتڑیوں کے عارضی یا گہرے مزمن عوارض انتڑیوں کی بیماریوں میں ہر قسم کی پیچیدہ گہری بیماریاں شامل ہیں.بڑی آنت میں گہرے ناسور جن کی وجہ سے جریان خون بکثرت ہو، ہر قسم کی قبض، ہر قسم کی پیچش اور جگر اور انتڑیوں کا کینسر، ہر قسم کے عارضی یا مستقل اسہال.غرضیکہ شاید ہی کوئی بیماری ایسی ہو جو انتڑیوں کے عوارض میں نہ ملے.اس لئے ان کا تفصیلی مزید ذکر ر پرٹری میں کیا جا ناممکن نہیں اور طبیب کے لئے ریپرٹری کے ذریعہ مرض کی شناخت کرنا بھی تقریبا ناممکن ہے.تا ہم حسب ذیل دواؤں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کے ابواب میں معدے، جگر ، انتڑیوں وغیرہ کی بیماریوں پر گہری نظر ڈالیں تو طبیب کو محض چند دواؤں کے تفصیلی مطالعہ سے ان دوسرے ابواب کی نشاندہی بھی ہو جائے گی جن میں انہی بیماریوں کا مزید ذکر
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 829 موجود ہے.پس حسب ذیل ابواب کا چند گھنٹے لگا کر تفصیلی مطالعہ لازمی ہو گا.اگر ان کو بار بار پڑھا جائے اور وہ ازبر ہو جائیں تو پھر مریضوں کی بسہولت تشخیص کا ملکہ حاصل ہو جائے گا.ابراٹینم ایلومینا ایپیس آرنیکا برائیونیا کلکیر یا فلور کار بود یج چیلی ڈونیم کولوسنتھ کیوپرم فیرم فاس ہیپر سلف کالی میور مرکزی نائیٹرک ایسڈ آگزالک ایسڈ پلمبم ور میٹرم البم Abrotanum Alumina ایتھوزا اليومن Apis ایپوسائم Arnica Bryonia Calc Fluor Carbo Veg بیلاڈونا کلکیر پا کارب Aethusa Alumen Apocynum Belladonna Calc.Carb کار بو تیمیلیس Carbo Animalis کارسی نوسن Chelidonium کولیسٹرینم Colocynthis کروٹن Cuprum ڈائیا سکوریا Carcinosin Cholesterinum Croton Dioscorea Ferrum Phos Hepar Sulph Kali Mur گریفائٹس کالی کارب میگ فاس Mercurius ملی فولیم Nitric Acid Oxalic Acid Plumbum Veratrum Album Aloe نکس وامیکا فاسفورس سليشيا ایکونائٹ Graphites Kali Carb Meg Phos Millefolium Nux Vomica Phosphorus Silicea Aconitum ارجنٹم نائیٹریکم Argentum Nitricum
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 830 پیٹیشیا برائیٹا کارب چاہتا Baptisia سورائینم Baryta Carb China سینتھرس ڈاکا مارا Psorinum Cantharis Dulcamara نیٹرم میور Natrum Muriaticum نیٹرم سلف Natrum Sulphuricum ٹیوبرکولینم Tuberculinum سلفر تھوجا Thuja پوڈوفائکم فلورک ایسڈ Fluoricum Acidum او پیم آرسینک کا جلسییم Arsenicum Colchicum Gelsemium کیپسیکم سانتا کیمومیلا Sulphur Podophilum Opium Capsicum Cina Chamomilla سیانو تهس Ipecacuanha Ceanothus اپی کاک میگ کا رب Magnesia Carbonic آئرس ٹینکس 6.معدہ کے عوارض Iris Tenax معدہ کے عوارض خاص توجہ کے محتاج ہیں کیونکہ ہر قسم کی عارضی اور مستقل بیماریاں جو معدہ کے نظام کو ماؤف کریں وہ سارے جسم پر گہرے اثرات رکھتی ہیں.نمایاں دوائیں جو معدے کی ہر قسم کی تکلیفوں میں کام آنے والی ہیں حسب ذیل ہیں: بسنتھیم اليومينا کپسیکم کار بود یج Absinthium ایسکولس Aesculus Alumina آرسینک آئیوڈائیڈ Arsenic Iodide Capsicum کار بوداینیمیس Carbo Veg چیلی ڈونیم China سیمی سی فیوجا Carbo Animalis Chelidonium Cimicifuga
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 831 کا لچیکم Colchicum کولوسنتھ کونیم Conium کروٹیلس ڈائیو سکوریا Dioscorea ہائیڈ رائٹس Colocynthis Crotalus Hydrastis اپی کاک Ipecac آئرس درسی کلر کالی آئیوڈائیڈ Kali Iodatum کرئیوزوٹ مرکزی Mercury میوریٹک ایسڈ Iris Versicolor Kreosotum Muriatic Acid نیٹرم میور نکس وامیکا فائیٹولا کا Nux Vomica Phytolacca پلسٹیلا Nat Mur نیٹرم فاس فاسفورس Pulsatilla سینگونیریا Nat Phos Phosphorus Plumbum Sanguinaria امونیم کارب Ammonium Carb آرسینک البم Arsenicum Album Lachesis لائیکوپوڈیم رسٹاکس Rhus Toxicodendron سلفیورک ایسڈ Licopodium Sulphuric Acid.میکیمن اسا فوٹیڈا Asafotida گریشولا Cyclamen ارجنٹم نائیٹریکم Argentum Nitricum Bismuthum Gratiola لیک ڈیفلوریٹم Lac Defloratum ان دواؤں میں سے صرف چند ایک کا مطالعہ ہی کافی ثابت ہو گا باقی سب ضروری ادویہ کا انہی کے تحت ذکر مل جائے گا.معدہ اور انتڑیوں کے السر کے لئے کچے کیلے کا پاؤڈر بھی چوٹی کا علاج ہے.کچا کیلا لے کر اسے اچھی طرح خشک کر کے اس کا پاؤڈر بنالیں اور دن میں تین چار دفعہ اسے کھانا شروع کر دیں.جب تک کیلا پوری طرح خشک نہیں ہوتا، بالکل کچا کیلا بھی اس کے علاج کے طور پر کھایا جا سکتا ہے.علاوہ ازیں اس اثناء میں السر کے لئے مٹھی کا استعمال بھی مفید ہے.تھوڑی سی ملٹھی منہ میں رکھ کر اسے دانتوں سے چبالیں.
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 832 7.آنکھوں کی تکالیف آنکھوں میں سوزش ہو جائے تو ایکونائٹ (Aconite) اور بیلاڈونا (Belladonna) ملا کر کسی بھی طاقت میں فوراً دے دینی چاہئے.اگر فوری افاقہ نہ ہو تو ان ابواب کا مطالعہ کریں جن میں خصوصیت سے آنکھوں کی بیماریوں کا ذکر ملتا ہے.یہ ابواب حسب ذیل ہیں: ایسکولس ایلیومینا آرنیکا یو فریزیا Aesculus Alumina Arnica Euphrasia ایتھوزا ایمیس کونیم ہپر سلف Hepar Sulph ملی فولیم سورا ئینم Psorinum Aethusa Apis Conium Gelsemum Millefolium یہ سب بہت کام کی دوائیں ہیں.ان کے مطالعہ کے دوران معالج کو آنکھ کی اکثر بیماریوں کا ذکر مل جائے گا.ذیل میں نمونیا آنکھ کی بیماریوں اور ان کے علاج کا نسبتاً تفصیل - ذکر کیا جا رہا ہے.اگر آنکھوں کے وہ ریشے جن میں خون گردش کرتا ہے کمزور پڑ جائیں اور ذرا سا دباؤ بھی برداشت نہ ہو ، آنکھیں ہمیشہ سرخ رہیں تو بعض ڈاکٹر اس بیماری کو آنکھوں کی بواسیر کہتے ہیں ، اس میں ایسکولس (Aesculus) 30 بہت مفید ہے.ورنہ اس بیماری کے مزید بڑھ جانے سے آنکھ ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے.آنکھوں میں سوزش رہنے سے گومڑ بن جائیں تو اس میں بھی ایسکولس مؤثر دوا ہے.بعض دفعہ آنکھ کے چھپر موٹے ہو کر اوپر کی طرف الٹ جاتے ہیں اور اندر کی سرخی نمایاں ہو کر آنکھیں بہت بھیانک شکل اختیار کر لیتی ہیں، پلکیں جھڑنے لگتی ہیں.ایسی صورتوں میں سورائینم (Psorinum) ،
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 833 ہیپر سلف(Hepar Sulph)،ایلومینا(Alumina)، وغیرہ مفید دوائیں ہیں.ایتھوزا (Aethusa) میں زود حسی بہت پائی جاتی ہے.پپوٹوں کے کنارے سوج جاتے ہیں، تکلیف کی شدت سے آنکھوں کی پتلیاں ادھر ادھر حرکت کرتی ہیں، آنکھیں نیچے کی طرف کھینچ جاتی ہیں.ایپس (Apis) میں آنکھوں کے نیچے ورم آ کر ساری آنکھ سوج جاتی ہے، کچا کچا گوشت ابھرا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے.بیلا ڈونا اور یوفریز یا سرخی کی علامت اور شدت میں مشابہت رکھتی ہیں.یوفریز یا (Euphrasia) میں تیز کاٹنے والا پانی بہتا ہے.بیلا ڈونا آنکھ کے بلڈ پریشر میں بھی مفید ہے.جلسیمیم بھی آنکھ کا دباؤ کم کرنے کے لئے مفید دوا ہے.کالے موتیے میں کلکیر یا فاس 6x اور سیمیم ملا کر دینا مفید ہے.آنکھ کے کورنیا میں بعض اوقات سفید مواد آ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ بہنے لگتا ہے، اگر انفیکشن پرانی ہو تو مواد میں زردی آ جاتی ہے.اس میں کلکیریا کارب مفید ہے.آنکھوں کی تھکاوٹ اور دباؤ سے پیدا ہونے والی کمزوری میں کلکیریا کارب مفید ہے لیکن اونو سموڈیم (Onosmodium) آنکھوں کی تھکاوٹ میں زیادہ مؤثر ہے.آنکھوں کے پپوٹوں کی بیماری میں کار بونیم سلف (Carbonium Sulph) دوا ہے.آنکھیں دکھنے اور چپکنے لگیں یا پیپ کے دھاگے نکلیں یا آنکھوں کے اوپر گومڑ نکل آئیں جن میں جلن اور خارش بھی ہو مگر دوسری علامتی دواؤں سے فائدہ نہ ہو تو کار بو نیم سلف دیں.آنکھ کے چھپر کا ایگزیما، گرمی ، بھاری پن، دکھن کا احساس، پانی بہتا ہے، آنکھیں بوجھل، پیپ کے چھوٹے چھوٹے دانے، پیوٹوں کا سوجنا، روشنی سے زود حسی ، نظر کی کمزوری، رنگوں کی پہچان کا فقدان کار بونیم سلف کی خاص علامتیں ہیں.آنکھوں کے چھپر کا تدریجی فالج جو آہستہ آہستہ بڑھتا ہے.کاسٹیکم (Causticum) کا مطالبہ کرتا ہے.سبز رنگ کے دھبے کاسٹیکم کی خصوصی علامت ہیں.روشنی سے بہت زود حسی اور پانی کا بہنا ، اگر سر میں چکروں کا رجحان بھی ہو اور لیٹنے
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 834 سے چکر زیادہ آئیں تو یہ تینوں علامتیں مل کر کو نیم (Conium) کی نشاندہی کرتی ہیں.آنکھیں زرد، آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے ، آنکھوں میں جلن اور درد جیسے کسی نے چاقو گھونپ دیا ہو نظر کا دھندلا جانا، بینائی کی بڑھتی ہوئی کمزوری ،خون بہنے کارجحان ، روشنی نا قابل برداشت، یہ تمام علامتیں کروٹیلس (Crotalus) میں پائی جاتی ہیں.آنکھوں کی سرخی اور زخم ، پوٹوں پر دانوں یا آبلوں کا پایا جانا اور آنکھوں میں سوزش ہو تو کروٹن (Croton) مفید ہے.کروٹن کی مزید علامتیں یہ ہیں.آنکھوں کے سامنے بجلی سی لہراتی اور ستارے چمکتے ہوئے دکھائی دینا، نیچے جھکنے سے سیاہ دھبے نظر آنا ، درد، دباؤ، خون کا غیر معمولی اجتماع.جیسے ریت کے ذرات سوزش پیدا کر رہے ہوں اور روٹا (Ruta) کی طرح بار یک نظر کے کام کرنے سے بہت تکلیف.باریک کام سے اگر آنکھوں میں درد کی بجائے سر درد ہو تو اونو سموڈیم (Onosmodium) مفید دوا ہے.آنکھ کا چھپر اگر فالجی کمزوری کی وجہ سے گر جائے تو حسب ذیل چار دوائیں زیر مطالعہ آنی چاہئیں.ایگیریکس (Agaricus) ، پلمبم (Plumbum)، سینیگا(Senega) اور کاسٹیکم (Causticum) کورنیا کے اندر چھوٹے چھوٹے داغوں کا پایا جانا بھی سینیگا کی نمایاں علامت ہے.کورنیا کے السر میں سلیشیا (Silicea) بہت مفید ہے.اسی طرح کلکیر یا فلور بھی آنکھوں کی بیماریوں سے گہرا تعلق رکھتی ہے.اچانک سردی لگ جائے اور آنکھ میں درد ہو تو سپائی جیلیا (Spigelia) دوا ہے.سپائی جیلیا کے باب میں آنکھ کی بیماریوں کا مطالعہ مفید ثابت ہوگا.آنکھ کے اعصابی درد کے لئے لاک فل (Lac Felinum) بھی مفید دوا ہے جو بلی کے دودھ سے تیار کی جاتی ہے.آنکھوں میں درد ہو، سرخی پائی جائے، پانی بہتا ہو، آنکھ کھولنے اور بند کرنے سے تکلیف میں اضافہ ہو ، آنکھوں کی جلن نیز پڑھنے سے آنکھوں میں درد ہو تو سٹر وشیم کارب (Strontium Carb) دوا ہے.اگر آنکھ کی بیماریوں کا اثر دائیں طرف زیادہ ہو، دائیں آنکھ میں دھند ، نظر کی کمزوری
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 835 اور مواد نکلے تو ٹرینولا (Tarentula) مفید دوا ہے.آنکھوں کے سامنے سیاہ دھبے نظر آتے ہیں، آنکھ کھلنے پر نظر دھندلی محسوس ہوتی ہے، آنکھوں میں سوئیاں چھتی ہیں اور جلن ہوتی ہے تو اس کے لئے نیٹرم کا رب (Natrum Carb) دوا ہے.مندرجہ بالا دواؤں کے علاوہ ان ابواب کا مطالعہ بھی آنکھوں کے علاج کے لئے مفید ثابت ہوگا.برائیٹا کارب کر فیلس کالی کارب للیم نگ مرکزی فاسفورس Baryta Carb کلکیر یا فلور Crotalus ہائیڈراسٹس Kali Carb لیڈم Lilium Tig میڈ ورا ئینم Mercurius Calc Flour Hydrastis Ledum Medorrhinum میوریٹک ایسڈ Muriatic Acid Phosphorus زنم سلف Zincum Sulph ارجنٹم نائیٹریکم Argentum Nitricum آرم مٹیلیکم Aurum Metallicum کا کولس چینیم آرس کیوپرم گلونائن Ars Cocculus یا سلف Calcarea Sulphurica Cuprum Chininum سیکوٹ اور وسا سائیکلیمن Cicuta Virosa Cyclamen Glonoine گریفائٹس ملی فولیم نیٹرم فاس Millefolium نیٹرم کارب Natrum Phos نیٹرم سلف نائٹرک ایسڈ Nitric Acid رسٹاکس Rhus Tox لائیکوپوڈیم سلفر Sulphur سینیگا سینگونیریا Sanguinaria پلسٹیل Graphites Natrum Carb Natrum Sulph Lachesis Lycopodium Senega Pulsatilla بوریکس Borax زنگ میٹ Zincum Metallicum
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 836 سلی امراض اور پھیپھڑوں کی تکلیفیں مثلاً دمہ کینسر و غیره پھیپھڑوں کی تکلیفیں عموماً تین قسم کے عوارض میں ملتی ہیں.اوّل کینسر، دوم دمہ، سوم سلی امراض جن میں نمونیہ بھی شامل ہے.جب بھی پھیپھڑے کا کوئی مریض سامنے آئے سب سے پہلے اسے پھیپھڑے کے دفاع کے لئے بڑھتی ہوئی پوٹینسی میں بیسیلینم (Bacillinum) یا ٹیوبرکولینم (Tuberculinum) دینی چاہئے.اس کا طریق استعمال ان دواؤں کے ابواب میں بالوضاحت بیان کر دیا گیا ہے.اس علاج سے گہرے سلی اثرات مٹ جاتے ہیں اور آئندہ سل کا خطرہ نہیں رہتا.اس تفصیل کے لئے پیسیلینم اور ٹیو برکولینم کے ابواب کا گہری نظر سے مطالعہ کریں جن میں ہر قسم کے غدودوں کی بیماری کا ذکر بھی ملے گا.پھیپھڑوں سے کینسر کے قلع قمع کے لئے سب سے اچھا نسخہ فاسفورس اور برائیو نیا کا ادل بدل کر دینا اور اونچی طاقت یعنی CM میں کارسینوسن (Carcinosin) دینی چاہئے.ہفتہ دس دن کے وقفہ سے چند خوراکیں دے کر انتظار کریں اور دیکھیں کہ کیا اثر ظاہر ہوا ہے.دمہ سے متعلق امراض میں علاج نسبتاً زیادہ پیچیدہ ہوتا ہے کیونکہ ان امراض کا تعلق سوزا کی مادے سے ہے جو بعض اوقات کئی نسلوں تک جسم میں دبی ہوئی شکل میں موجود رہتا ہے اور ایسے مریضوں کو اگر چہ پیشاب کی کوئی تکلیف نہیں ہوتی مگر بار بار ہونے والا دمہ زندگی اجیرن کر دیتا ہے.ایسے مریضوں کے دمہ کی روک تھام کے لئے تھوجا Thuja) ایک لاکھ طاقت میں دینی چاہئے.اگر تھوجا ایک مہینہ تک ہفتہ وار ایک دفعہ دینے کے نتیجہ میں فائدہ نہ پہنچائے تو اس کا متبادل ٹیوبرکولینم استعمال کریں.دمہ کے مریض کے متعلق ہدایات حسب ذیل ہیں.سب سے پہلے نزلے کا یا گلے کی خرابی کا فوری علاج ضروری ہے کیونکہ دمہ اکثر انہی
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 837 دو تکلیفوں کے بگڑنے سے ہوتا ہے.فوراً صحیح علاج کیا جائے تو دمہ ہوتا ہی نہیں.اگر تیز ایلو پیتھک دواؤں کے ذریعہ ان کا علاج ہو تو بسا اوقات یہ بیماریاں دمہ میں تبدیل ہو جاتی ہیں اور ایسے مریض کو بار بارا اینٹی بائیوٹکس (Anti-Biotics) کی ضرورت پڑتی ہے اور بار بار دمہ کا حملہ ہوتا ہے.ہومیو پیتھک طریق پر نزلے کے علاج کے لئے فوراً انفلوئیز نیم + بیبینم + د فتصیر بینیم + وسیلو کو سینم.دو تین دن روزانہ ایک دفعہ دلائی جائیں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے حملہ جڑ سے اکھڑ جاتا ہے.گلے کی خرابی کے لئے چھوٹی طاقت یعنی 6x میں بالعموم حسب ذیل دوائیں فوری اثر دکھاتی ہیں جو گلے کی خرابی کے ساتھ ہونے والے بخار میں بھی بہت مفید ہیں.فیرم فاس + کالی میور + کلکیر یا فلور +سلیشیا + کالی فاس اکثر بچوں میں یہ نسخہ کار آمد ثابت ہوتا ہے مگر اس کے ساتھ کھٹی اور بہت ٹھنڈی چیزوں سے پر ہیز ضروری ہے خصوصاً کھٹے مشروبات اور کوکا کولا وغیرہ نقصان پہنچاتے ہیں.اگر پھیپھڑوں کی خرابی کی بیماری اس دوا کے قابو میں نہ آئے اور گلا بدستور متورم رہے تو اس دوا کی بجائے تمہیں طاقت میں چیلی ڈونیم (Chelidonium) + کوکس کیکٹائی (Coccus Cacti) + ہیپر رسلف (Hepar Sulph) استعمال کروائی جائے تو اچھا نتیجہ دکھاتی ہے.اگر دمہ کی تکلیف دل کی کمزوری سے تعلق رکھتی ہو تو اس میں سپونجیا (Spongia) اچھی دوا ثابت ہوتی ہے.دل کی تکلیف سے جو دمہ ہواگر اس میں سپونجیا مفید ہو تو اس کی علامت یہ ہے کہ مریض کے سانس چلنے سے ایسی آواز آتی ہے جیسے لکڑی پر آرا چل رہا ہو.دل کی کمزوری والے مریض کا علاج دل کی بیماریوں میں ڈھونڈنا چاہئے اور اس کے لئے دل کی بیماریوں کے باب کا مطالعہ کرنا چاہئے.پھیپھڑے کے کینسر میں برائیونیا (Bryonia) اور فاسفورس (Phosphorus) کا ذکر گزرچکا ہے.ایک دوا جو ہومیو پیتھک نہیں مگر ہو میو پیتھک علاج کو تقویت دیتی ہے وہ ہلدی ہے.بارہا کے تجربہ سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایک پیچی کا چوتھا حصہ ہلدی دودھ یا
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 838 پانی کے ساتھ دن میں چار دفعہ استعمال کرائی جائے تو پھیپھڑے کے کینسر کا بہترین علاج ثابت ہوتی ہے.جب پھیپھڑے اور انتڑیوں کی تکلیفیں جلدی امراض کے دبنے کے نتیجہ میں پیدا ہوں تو ان کے علاج کے لئے سلفر (Sulphur)، سورائینم (Psorinum) اور دیگر جلدی امراض کی دواؤں کی ضرورت بھی پڑتی ہے جن کی تفصیل کے لئے جلدی امراض کے باب کی طرف متوجہ ہوں.9.جلدی امراض جلدی امراض کا مضمون تمام اہم بیماریوں اور اہم دواؤں کے ذکر میں جگہ جگہ پھیلا پڑا ہے.اسے ایک جگہ ریپرٹری کی صورت میں اکٹھا کرنا ناممکن ہے.کسی بھی اہم دوا کا باب پڑھ لیں اس میں لازماً جلدی امراض کا ذکر ملے گا.مثلاً سورائینم (Psorinum)، سلفر (Sulphur)، بیسیلینم (Bacillinum)، ٹیوبرکولینم (Tuberculinum)، ویر پولینم (Variolinum) اور مرکزی کے مرکبات وغیرہ وغیرہ.وہاں جلدی امراض ایک دبی ہوئی بے چینی کے اظہار کے طور پر مذکور ہوں گی اور معالج کے لئے اس میں ہدایت کا عمدہ سامان ہے.اس ضمن میں وبائی امراض کے باب کا بھی مطالعہ کر لیں.ان میں جلد سے تعلق رکھنے والی تمام وبائی امراض کا ذکر ہے.پس یہ تجویز ہی نا قابل عمل ہے کہ جلدی امراض کا اکٹھا کر جو تمام امراض پر حاوی ہو ایک جگہ ریپرٹری میں کر دیا جائے.زیر بحث عنوان کے تحت جو اشارے دے دیئے گئے ہیں وہی تمام معالجین کی ہر قسم کی رہنمائی کے لئے کافی ہوں گے.ایپس Apis آرنیکا Arnica آرسینک البم Arsenicum Album آرسینک سلف Arsenicum Sulf Ana Cardium اینا گیلس اپنا کارڈیم Ana Galis
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 839 انتظر ا کو کلی Anthrakokali انتظر اسیم ایگیریکس کروٹن Agaricus Croton Tiglium Lachesis Hepar Sulph بر برس ڈالی کوس گریفائٹس سليشيا ہیپر سلف مرکزی رسٹاکس سپیا ہائیڈ روکو ٹائل Mercurius پٹرولیم Rhus Tox Sepia Hydrocotyle Anthracinum Berberis Dolichos Graphites Silicea Petrolium ریڈیم برومائیڈ Radium Bromide بووسٹا Bovista 10.دل کی بیماریاں دل کے روزمرہ کے حملہ کے خطرہ کے ازالہ کے لئے کریٹیکس مدرنیچر (Crataegus-Q) با قاعدگی سے استعمال کرنی چاہئے جو ساری عمر بھی دی جائے تو اس کا کوئی نقصان تجربہ خبر ہ میں نہیں آیا.ایکونائیٹ (Aconite)، بیلاڈونا (Belladonna)، آرنیکا (Arnica) (Lachesis)، سپونجیا (Spongia) ، سپائی جیلیا (Spigelia)، بر برس (Berberis) اور کارڈس مریانس (Carduus Marianus) کے ابواب میں دل کی اکثر بیماریوں کا ذکر موجود ہے.آرسینک آرم مٹیلیکم کالمیا لیکٹس ناجا Arsenicum ایڈرینالین Aurum Metallicum Kalmia Cactus ڈیجی ٹیلس کار بوویچ لاروسیراکس Naja کلیم تنگ Adrenalin Digitalis Carbo Veg Laurocerasus Lilum Tig
Millefolium Rhus Tox انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) فاسفورس سورا مینم 840 Phosphorus ملی فولیم Plumbum Psorinum رسٹاکس 11.پتے کی تکالیف جس کے ساتھ ذیا بیٹیس کی پیچید کی ہو پتے کے درد اور تشیع میں مریض سخت جلن اور درد محسوس کر رہا ہو تو بیلا ڈونا کی اونچی طاقت میں ایک دوخوراکیں دس پندرہ منٹ کے بعد دہرانے سے اللہ کے فضل سے آرام آجاتا ہے.بیلاڈونا کے عارضی استعمال کے بعد مستقل علاج جاری رکھنا چاہئے.سلفر اور لائیکو پوڈیم مستقل علاج کے طور پر وقتاً فوقتاً استعمال کرنی پڑتی ہیں.ان دونوں کا صفراء پر گہرا اثر پڑتا ہے.صفراء وہ زردی مائل مادہ ہے جو جگر میں بنتا ہے اور کھانا ہضم کرنے میں مدددیتا ہے.اکثر اسی کی خرابی سے پتے میں پتھریاں بننے کا رجحان پیدا ہوتا ہے.پتے کی پتھری میں چیلی ڈونیم (Chelidonium) بھی بہت مفید ہے، اس کا درد پیچھے کمر کی طرف پھیل جاتا ہے جبکہ بر برس (Berberis) کے مریض کا درد چاروں طرف پھیلتا ہے.چائنا(China) بھی پتے کے درد کے لئے مفید ہے.اسی طرح نیٹرم سلف (Nat Sulph) کا با قاعدہ استعمال بھی پتے کی پتھریوں کو گھلا دیتا ہے.اگر پتے کی تکلیف کے ساتھ پیشاب میں شوگر آئے اور پیشاب کی رنگت کسی سے ملتی جلتی ہو اور مقدار میں بہت زیادہ ہو تو ان علامات میں خصوصی دوا ارجنٹم میلیکم (Argentum Metallicum) ہے.کالی کا رب کے مریض میں بھی پتہ کی تکلیف اکثر ذیا بیطیس کی وجہ سے ہی ہوتی ہے.مثانہ بہت حساس ہو جاتا ہے اور ذرا سا بھی دباؤ برداشت نہیں کر سکتا.ایسا مریض جس میں ذہنی کمزوریوں کی علامتیں ظاہر ہو کر رفتہ رفتہ بڑھ رہی ہوں اور
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 841 ساتھ شوگر ( ذیا بیطس ) بھی ہو تو بعض اوقات ایسڈ فاس (Acid Phos) سے مکمل شفا ہو جاتی ہے.شوگر اگر لمبے غم اور فکر کے نتیجہ میں ہو اور اس کے ساتھ پتے میں سخت ڈنک لگنے کی سی درد میں ہوں نیز ٹانگوں اور بازؤوں میں بھی ہلکی سی دکھن کا احساس ہوتو ٹرمینولا (Tarentula) بہت مفید دوا ہے جو وقتی فائدہ ہی نہیں دیتی بلکہ اللہ کے فضل سے مکمل شفا دے دیتی ہے.اگر ذیا بیطیس کی وجہ سے کندھے کے پیچھے جڑوں والا پھوڑا (Carbuncle) نکل آئے تو اس خطر ناک بیماری میں بھی ٹرینٹولا دینا بہت مفید ثابت ہوتا ہے.12 - رحم کی روز مرہ خرابیاں.کینسر اور جریان خون رحم کی متفرق خرابیوں اور مختلف قسم کی کینسر کے علاج کے لئے مندرجہ ذیل ہو میو پیتھی ادویہ کا مطالعہ کرنا چاہئے.کتاب میں ان دواؤں کے ابواب کا قارئین بغور مطالعہ فرمائیں.اکٹیار لیسی موسا Actaea Racemosa اليومن Alumen ارجنٹم مٹیلیکم بیلاڈونا Argentum Met Belladonna آرسینک آئیوڈائیڈ Arsenic Iodatum برائیونیا کلکیر یا آرس کلکیر یا فلور Calc.Flour Calc.Ars کلکیریا کارب کلکیر یا فاس Bryonia Calc.Carb Calc.Phos کیمفر Camphor کار بود یج Carbo Veg کارسنوسن کولو فائیلام کاربودا فیمیلیس Carbo Animalis Caulophyllum کو کس کی کٹائی کونیم Conium Gelsemium فیرم فاس کالی کارب Carcinosin Coccus Cacti Ferrum Phos Kali Carb
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) کالی میور کالی سلف 842 کالی فاس Kali Mur Kali Sulph میوریکس نکس وامیکا Nux Vomica سورائینم Pulsatilla پائیر و بینیم پلسٹیلا سبائنا سیپیا سپونجیا سلفر Sabina Sepia سینیشو آرس سليشيا Spongia سٹینم Kali Phos Murex Psorinum Pyrogenium Senecio Aureus Silicea Stannum Sulphur ٹرینٹولا ہسپانیہ Tarentula Hisp جریانِ خون کے امراض میں حسب ذیل دواؤں کے ابواب کا مطالعہ ضروری ہے.امونیم کار Ammonium Carb اینٹی مونیم کروڈ Antimonium Crud آرنیکا برائیٹا کارب کالی کارب نیٹرم میور سبائنا سنیشیو آرس Arnica Baryta Carb Kali Carb آرسینک ہیما میلس کر نیوز وٹ Lachesis ملی فولیم Natrum Mur Sabina Senecio Aureus فاسفورس سیکل سلفر سلفیورک ایسڈ Sulphuric Acid ہائیوسائیمس Hyoscyamus ہائیڈ روکو ٹائل للیئم تنگ Lilium Tig یلاٹینا زنگ Zincum گریفائٹس Arsenic Hamamelis Kreosotum Millefolium Phosphorus Secale Car Sulphur Cantharis Hydrocotyle Platina Graphites
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 843 13.بانجھ پن اور اسقاط حمل حمل کے دوران عمومی عوارض اور تسہیل ولادت کی دوائیں بانجھ پن میں اگر چہ سپیا (Sepia) کو ایک مؤثر دوا سمجھا جاتا ہے اور عموماً جسم کی ساخت سے پہیا کی پہچان کی جاتی ہے لیکن یہ درست نہیں.جب تک سپیا کا مزاج کسی عورت میں نہ پایا جائے اس کی کسی بیماری کا علاج بھی سپیا سے ممکن نہیں.اگر محض جسمانی ساخت سپیا سے مشابہ ہو تو ایسی عورتوں کے بانجھ پن میں سیپیا کی نسبت کالی فاس (Kali Phos) زیادہ کارآمد ثابت ہوتی ہے.اعصابی تناؤ سے جو جنسی کمزوریاں پیدا ہوتی ہیں ان کا بھی کالی فاس علاج ہے.اسی طرح جن عورتوں میں حمل گرنے کا مستقل رجحان پایا جائے ان کے تعلق میں بھی کالی فاس کو نہیں بھولنا چاہئے.عام طور پر حمل کے آغاز میں حمل ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو وائی برنم او پولس (Viburnum Opulus-Q) مفید ثابت ہوتی ہے.اس مدر ٹنکچر کے دس پندرہ قطرے ایک گھونٹ پانی میں ملا کر پہلے اور دوسرے مہینہ میں با قاعدگی سے دینے چاہئیں.تیسرے مہینہ میں سبائنا (Sabina) اور چوتھے اور پانچویں مہینہ میں کالی کارب (Kali Carb) زیادہ مؤثر بیان کی جاتی ہیں لیکن کالی فاس ہر مہینہ میں دی جاسکتی ہے.پاؤں پھسلنے یا دیگر حادثات کے اثر سے حمل ضائع ہو جانے کا خطرہ ہو تو آرنیکا (Arnica) دینا ضروری ہے، ایسی صورت میں علامتیں ظاہر ہونے سے پہلے ہی 1000 طاقت میں آرنیکا دینا چاہئے.اگر آرنیکا کے ساتھ کالی فاس 1000 ملا دی جائے تو اور بھی بہتر ہے.اس کے علاوہ کولو فائیلم (Caulophyllum) بھی حفظ ماتقدم کے طور پر بہت مفید دوا ہے جو اکثر 200 طاقت میں بہت مفید ثابت ہوتی ہے.جریان خون شروع ہونے پر کالی فاس کے ساتھ فیرم فاس (Ferr Phos ) ملانا بہت ضروری ہے.نیز ملی فولیم (Millefolium) اور فاسفورس (Phosphorus) ملا کر دینے سے بعض دفعہ فوری فائدہ
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) ہوتا ہے.844 پیٹ میں بچے کی پوزیشن درست نہ ہو تو پلسٹیلا (Pulsatilla) بہت مفید دوا ہے لیکن اگر یہ کام نہ آئے تو کالی سلف (Kali Sulph) دے کر دیکھنا چاہئے جو پلسٹیلا کی مزمن ہے.کالی سلف ایسی عورتوں کے رحم کو طاقت دیتی ہے جن میں اسقاط کا مستقل رجحان ہو.ہر قسم کے سیلان الرحم ، سوزش اور جلن میں بھی کالی سلف مفید ہے.رحم اپنی جگہ سے مل جائے ، رحم میں درد ہو، نیچے دبانے والا بوجھ محسوس ہوتا ہو تو ان سب تکلیفوں میں یہ اچھا کام کرتی ہے بشرطیکہ کالی سلف کی دیگر ضروری علامتیں بھی پائی جائیں.کرئیوز وٹ (Kreosotum) کی خاص علامت ہر قسم کا سیلان خون ہے.ذرا سے دباؤ سے خون جاری ہو جاتا ہے.مثلاً آنکھ میں ورم ہو تو معالج کے ہاتھ لگا کر دیکھنے سے بھی خون نکل آتا ہے.رحم میں ایسی کیفیت پیدا ہو تو ایسی عورتوں کو مسلسل خون آنے کی شکایت رہتی ہے.حیض کے ایام گزر جانے کے باوجود بھی خون جاری رہتا ہے.لیڈم (Ledum) کی مریض خواتین میں حیض بہت جلد ، بہت زیادہ اور گہرے سرخ رنگ کا ہوتا ہے.اگر ان علامتوں کے ساتھ لیڈم کی دوسری رہنما علامتیں موجود ہوں تو یہ رحم کی اکثر بیماریوں میں مفید ثابت ہوتی ہے.للئیم تنگ (Lilium Tig) ایسی عورتوں کے لئے بہت مفید ہے جو ہسٹریائی مزاج رکھتی ہوں اور بہت پر جوش ہوں، رحم اور دل کی بیماریوں میں مبتلا رہتی ہوں، طرح طرح کے و ہم ، خوف اور خدشات انہیں گھیرے رکھتے ہوں، خدشہ محسوس کریں کہ رحم اور دیگر اندرونی اعضاء باہر نکل جائیں گے اور یوں لگتا ہو جیسے اعضاء نیچے گر رہے ہیں.اس لئے لاشعوری طور پر مریضہ ہاتھ کے دباؤ سے انہیں اوپر کرنے کا رجحان رکھتی ہے.ایسی مریضاؤں کے حیض کا خون قبل از وقت جاری ہو جاتا ہے، مقدار میں کم لیکن نہایت بد بودار ہوتا ہے، سیاہ خون کے لوتھڑے بھی نکلتے ہیں، حرکت کرنے سے خون زیادہ جاری ہوتا ہے اور لیٹنے اور آرام کرنے سے ختم ہو جاتا ہے.اگر بیضہ الرحم (Ovary) میں ڈنک دار در دیں ہوں اور جلن کا احساس ہو.حیض کا
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 845 خون مقدار میں بہت زیادہ ہو اور پیٹ میں درد ہو، لیکوریا جو رات کو زیادہ ہو جائے، چھیلنے والا مواد خارج ہو، صبح کے وقت متلی ، پیشاب کرنے کے بعد خارش اور جلن جسے ٹھنڈے پانی سے دھونے سے آرام آتا ہو تو یہ وہ عمومی علامتیں ہیں جن میں مرک سال (Mere Sol) مفید ثابت ہو سکتی ہے.اگر محض کمزوری کی وجہ سے شروع مہینوں میں حمل ضائع ہو جائے تو بھی مرک سال اس کمزوری کو دور کر کے طاقت کو بحال کرتی ہے اور عورت اس قابل ہو جاتی ہے کہ جنین کا بوجھ اٹھا سکے.بعض عورتوں کو شادی کے بعد بعض تکلیفیں آگھیرتی ہیں مثلاً حیض کے ایام میں بے قاعدگی، درد، اعصابی کمزوری وغیرہ ہو تو انہیں میڈ ورائینم (Medorrhinum) کی ضرورت پڑتی ہے.حیض کا خون لمبا عرصہ جاری رہے ، رحم اور پیٹ میں شیخ ہو جائے اور بہت زیادہ مقدار میں خون بہہ رہا ہو تو یہ خاص ملی فولیم (Millefolium) کا نشان ہے.یہ تینوں علامتیں اکٹھی ہو جائیں تو الا ماشاء اللہ لی فولیم خدا کے فضل سے فوری فائدہ دیتی ہے.اسی طرح اگر حمل ضائع ہونے کا خدشہ لاحق ہو جائے، معمولی حرکت سے خون جاری ہو اور آرام کرنے سے رک جائے تو اس صورت میں بھی ملی فولیم مفید ہے.ویریکوز و نیز (Varicose Veins) کی بیماری عموماً حمل کے دوران شروع ہوتی ہیں.اس عرصہ میں ملی فولیم دی جائے تو بیماری وہیں رک جاتی ہے اور آگے نہیں بڑھتی.عورتوں میں حیض رک جانے سے تشیخ اور مرگی کے دورے پڑنے لگیں یا سخت محنت مشقت کرنے کی وجہ سے رحم سے خون جاری ہو جائے تو بھی ملی فولیم (Millefolium) مفید ہے.بچے کی پیدائش کے بعد باقی رہ جانے والی کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے کالی کارب اگر مفید ہے.کالی کا رب کے علاوہ نیٹرم میور بھی مؤثر دوا ہے جو صحت کو بحال کرتی ہے.بچہ کی پیدائش کے بعد بخار ہو جائے تو سلفر (Sulphur)اور پائیر و نیم (Pyrogenium) ملا کر دیں.اگر رحم کے اندر پوری طرح صفائی نہ ہوئی ہو اور اندر
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 846 کچھ باقی رہ گیا ہو تو پلسٹیلا اس گند کو باہر نکالنے کے لئے مفید ہے.حیض کے ایام بے قاعدہ ہوں ، سوزش پیدا کرنے والا لیکوریا ہو جس سے خارش بھی ہوتی ہو، حیض سے قبل طبیعت میں افسردگی اور غمگینی پیدا ہو، نیچے کی طرف بوجھ اور در دمحسوس ہوتی ہو جو صبح کے وقت زیادہ ہو اور پیشاب کے بعد جلن ہوتی ہو تو یہ علامتیں نیٹرم میور کی طرف اشارہ کرتی ہیں.جن عورتوں کو دائمی لیکوریا کی تکلیف ہوتی ہے ان کے بانجھ پن کے لئے نیٹرم کارب (Nat.Carb) مفید ہے.نیٹرم کا رب کی خاص علامت یہ ہے کہ مریضہ کا مزاج ٹھنڈا ہوتا ہے، داگی بانجھ پن کا شکار ہوتی ہے اور مسلسل جاری رہنے والا لیکور یا لاحق ہوتا ہے.اگر یہ سب علامتیں کسی مریض میں اکٹھی ہو جائیں تو خدا کے فضل سے یہا کیلی دوا بانجھ پن کو دور کرنے میں بہت مؤثر ہے.بانجھ پن کے لئے پلسٹیلا (Pulsatilla ) ، اشوکا (Ashoka)، اور گو پیم (Gossypium-Q) بھی بہترین دوائیں ہیں.اس کے علاوہ موجودہ علامتوں کے مطابق بانجھ پن کا علاج کرنا چاہئے.اگر رحم اپنی جگہ سے مل جائے اور اس وجہ سے حمل نہ ٹھہر رہا ہو تو نیٹرم فاس (Nat Phos) سے بھی فائدہ ہو سکتا ہے.نیٹرم فاس کے مریض کے ہاتھ پاؤں سورا ئینم (Psorinum) کے مریض کی طرح بہت ٹھنڈے ہوتے ہیں (اگر چہ اس میں بعض علامتیں پلسٹیلا سے مشابہ ہوتی ہیں).حیض کے ایام میں خصوصاً دن کے وقت ہاتھ پاؤں ٹھنڈے رہتے ہیں.حمل کے دوران عمومی ہدایات اور تسہیل ولادت کی دوائیں فیرم فاس، کلکیر یا فاس اور کالی فاس اگر حمل کے تیسرے، چوتھے مہینے سے 6x طاقت میں چند ٹکیاں فی خوراک صبح شام دی جاتی رہیں تو ماں اور بچے دونوں کے لئے بہترین ٹانک ہے.مگر اس نسخہ کو ایک دو ہفتہ دے کر پھر ہفتہ دس دن کا ناغہ کرنا چاہئے.مسلسل دیتے چلے جانا درست نہیں.
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 847 وضع حمل کی دردیں شروع ہونے پر سہیل ولادت کے لئے کالی فاس(6x (Kali Phos اور میگنیشیا فاس(6x(Mag Phos کی پندرہ بیس ٹکیاں ایک پیالی گرم پانی میں ملا کر گھنٹہ دو گھنٹہ کے وقفہ سے دن میں آٹھ دس بار گھونٹ گھونٹ پلانی چاہئیں.شروع میں ہر آدھ گھنٹہ بعد تین خوراکیں اور پھر وقفہ لمبا کر دیں.ولا دت سے ہفتہ پہلے آرنیکا 1000 کی ایک خوراک اور ولادت کے فوراً بعد بھی ایک خوراک.پیدائش کے بعد اگر انفیکشن سے بخار ہو جائے جسے پر سوتی بخار کہا جاتا ہے تو بلا تاخیر سلفر (Sulphur)200 اور پائیر و جینیم (Pyrogenium)200 ملا کر شروع میں ایک دودن دو دفعہ روزانہ یا زیادہ سے زیادہ تین دفعہ دن میں دیں.جب بخار ٹوٹنا شروع ہو جائے تو کم کر کے تین دن ایک دفعہ روزانہ اور آرام آنے پر ہفتہ میں ایک دوبار چند ہفتہ تک دیتے رہیں.اس تعفنی بخار کی اس سے بہتر کوئی دوا میرے علم میں نہیں.بچے کی پیدائش کے بعد اگر دودھ بند ہو جائے تو برائیونیا 200 اور فائٹولا کا (Phytolacca) 200 ملا کر دیں.ایک دو بار روزانہ دینے سے حیرت انگیز فائدہ ہوتا ہے.ان دواؤں کو 30 طاقت میں دن میں تین چار بار بھی دیا جا سکتا ہے.بچے کی پیدائش کے بعد اگر سخت اداسی کا دورہ پڑے اور دل تاریکی میں ڈوبا ہوا محسوس ہو تو اگنیشیا (Ignatia) 200 کی چند خوراکیں فوری آرام پہنچاتی ہیں.اگر پورا فائدہ نہ ہو اگنیشیا کے بعد نیٹرم میور 200 کی ایک خوراک فائدہ مکمل کر دے گی.اگر باہر آنے جانے کا خوف دل میں بیٹھ جائے تو کلکیریا کارب (Calcarea Carb) 1000 کی ہفتہ وار ایک خوراک دو تین ہفتہ تک دی جائے.ولادت کے وقت درد ہلکے اٹھ رہے ہوں تو پلسٹیلا (Pulsatilla) 30 دن میں تین چار بار دینا بہت مفید ہوتا ہے.بچہ الٹا ہوتو پلسٹیلا 200 کی ایک دو خورا کیس مفید ہوتی ہیں.اگر لیٹا ہوا بچہ ہو تو آرنیکا (Arnica) اور کولو فائیلم (Caulophyllum) 200 میں ملا کر چند دن روزانہ ایک خوراک دیں.جب پلاسینٹا پریویا (Placenta Previa)
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 848 یعنی بچہ کی تھیلی کی نالی رحم کی گردن کے قریب جڑی ہوئی ہو تو اس انتہائی مہلک عارضہ میں بھی آرنیکا اور کولو فامیلم ملا کر 200 طاقت میں حیرت انگیز اثر دکھاتی ہیں.چند دن روزانہ ایک بار دی جائیں.حمل کے دوران کی مختلف تکلیفوں اور ولادت کے وقت کے مسائل کی بحث کالی کارب (Kali Carb)، کولو فائیلم (Caulophyllum)، کاسٹیکم (Causticum) اور جلسیمیم (Gelsemium) کے ابواب میں ملے گی.ان کا بغور مطالعہ بھی ضروری ہے.ایگنس کاسٹس Agnus Castus اکٹیار یسی موسا Actaea Racemosa آرم میور Aurum Muriaaticum بور میکس کالی برو میٹم سیکیل کار Kali Bromitum فاسفورس Scale Cor اپی کاک Borax Phosphorus Ipecacuanha سمفوری کارپس Simphori Corpos 14.شریانوں اور وریدوں کی خرابیاں شریانوں (Arteries) اور وریدوں (Veins) کی عارضی اور مستقل خرابیوں کا ذکر جن میں حادثاتی اور نفسیاتی عوامل بھی شامل ہیں، حسب ذیل دواؤں میں تفصیل سے ملتا ہے.جب بھی شریانوں یا وریدوں کے بیمار سامنے آئیں حسب ذیل ادویات کا مطالعہ کریں.ان میں زیر علاج مریض کی علامات کہیں نہ کہیں ضرور پائی جائیں گی.ایکونائٹ Aconitum ایلومینا امونیم کار Ammonium Carb آرنیکا Alumina Arnica آرسینک Arsenic بیلاڈونا Belladonna بنزوئیک ایسڈ Benzoicum Acid ينما کاربوا تیمیلس Carbo Animalis کار بود یج Carbo Veg چینینم آرس Chininum Ars
849 Cimicifuga کریٹیکس انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) سی می سی فیوجا کیوپرم ملی فولیم سورا ئینم سلفر Cuprum Millefolium Psorinum Sulphur او پیم Crataegus Lachesis Opium سٹر نوشیم کار Strontia Carb آرم مٹیلیکم Aurum Metalicum Flouricum Acid پلسٹیلا بیلس ہیما میلس Pulsatilla Bellis Perenis Haema Melis فلورک ایسڈ بعض دفعہ شریانوں کے پھٹنے کا رجحان دبی ہوئی جلدی بیماریوں کی وجہ سے بھی ہوتا ہے.مثلاً اگر رسٹاکس (Rhustox) کی ضرورت ہو تو ماؤف جگہ سے پانی بہنے کا رجحان نمایاں ہوتا ہے.اگر بیسیوں سال پہلے بھی ایسے مریض کی ظاہری علامات کو ٹھیک کر دیا گیا ہو تو اس کی ویریکوز وینز (Varicose Veins) کے لئے رسٹاکس 1000 طاقت میں حسب ضرورت ہفتہ میں ایک دو دفعہ دینا حیرت انگیز اثر دکھاتا ہے.اس کے ساتھ ویریکوز و بینز کا مروجہ علاج ایسکولس (Aesculus) 30 وغیرہ کے ذریعہ بھی کرنا چاہئے.فلورک ایسڈ.کلکیر یا فلور.فلورک ایسڈ.پلسٹیلا.15.اعصابی ریشوں یعنی نروس سسٹم کی تکالیف درج ذیل دواؤں کا مطالعہ ہر قسم کی اعصابی بیماریوں پر محیط رہے گا اور متعلقہ دیگر ادویہ بھی ان دواؤں کے تحت مذکور ہیں.ایگیریکس ارجنٹم میٹ کاکولس جلسییم Agaricus ایگنس کاسٹس Agnus Castus Argentum Met Cocculus کار بوو یج کروٹیلس Gelsemium ہائیوسائمس Carbo Veg Crotalus Hyoscyamus
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) اگنیشیا میگ فاس فاسفورس رسٹاکس سليشيا آرنیکا Ignatia Mag Phos Phosphorus Rhustox Silicea Arnica ارجنٹم نائٹریکم Argentum Nitricum کاسٹیکم پیم.مٹیلیک 850 کالی فاس نیٹرم میور پکرک ایسڈ روٹا سپائی جیلیا Kali Phos Nat Mur Picric Acid Ruta Spigelia اکٹیار یسی موسا Actaea Racemosa اليومينا ہائی پیر یکم Alumina Hyparicum Causticum Plumbum Metallicum -16 مختلف تو ہمات اور عوارض کی نشاندہی کرنے والی خوا ہیں نیند کا فقدان یا زیادہ نیند درج ذیل دواؤں کے ابواب میں خوابوں کا ذکر پڑھیں.ابسنتھیم ایگیریکس بیلاڈونا کلکیر یا کارب کار بوو یج ڈروسرا ہائیو مس میڈ ورا ئینم نیٹرم فاس Absinthium Agaricus Belladonna Calc.Carb Carbo Veg Drosera Hyoscyamus Medorrhinum Nat Phos اکٹیار کیسی موسا Actaea Racemosa آرنیکا کلکیر یا آرس Arnica Calc Ars کار بوا فیمیلیس Carbo Animalis کافیا پہیلی بورس کالی کارب نیٹرم میور نکس وامیکا Cofea Helleborus Kali Carb Natrum Mur Nux Vomica
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) فاسفورس سباڈیلا سلينيا سلفر ٹیریٹولا 851 Phosphorus پائیرو بینیم Sabadilla Silicea Sulphur Tarentula سبائنا سٹرامونیم Pyrogenium Sabina Stramonium سلفیورک ایسڈ Sulphuric Acid تھوجا Thuja اگر بے خوابی کی شکایت ہو تو درج ذیل دواؤں کے ابواب کا مطالعہ مفید رہے گا.بیلاڈونا کافیا کالی فاس اویم فاسفورس رسٹاکس Belladonna Cofea Kali Phos Opium Phosphorus Rhustox کا کولس کرو فیلس نکس وامیکا پیسی فلورا پکرک ایسڈ سليشيا اگنیشیا کیمومیلا Cocculus Crotalus Nux Vomica Pessiflora Q Picric Acid Silicea Ignatia Chamomilla آرسینک البم Arsenicum Album کاسٹیکم Causticum کینا بس انڈیکا Cannabis Indica اگر زیادہ نیند آتی ہو تو کالی بائی کروم (Kali Bichrom) بیر (Gelsemium)، نکس ماسکیٹا (Nux Moschata) اور فیرم فاس (Ferr Phos) کا استعمال فائدہ مند ہے.
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 852 17.نشہ کی عادت ہر قسم کی نشے کی عادات کا ذکر حسب ذیل ادویہ میں ملے گا.متعلقہ حصے کا بغور مطالعہ کریں.کلیڈیم کر ٹیلس فاسفورس پلاٹینم Caladium Crotalus Phosphorus Platina کینا بس انڈیکا Cannabis Indica نکس وامیکا Nux Vomica Plantago سلفیورک ایسڈ Sulphuric Acid 18.دماغی اور ذہنی عوارض Sulpur Tabacum دماغی اور ذہنی عوارض کا علاج بہت پیچیدہ ہوتا ہے کیونکہ اس کا تعلق ہر قسم کے صدمات اور گہرے نفسیاتی امراض سے ہوتا ہے.وہ بڑی دوائیں جو اس میں کام آ سکتی ہیں حسب ذیل ہیں اور انہی دواؤں کے ذکر میں بعض دیگر دوائیں بھی مل جائیں گی جن کا اس فہرست میں ذکر نہیں.ایکونائٹ ایتھوزا بیلاڈونا چینیم آرس گلونائن Aconitum Aethusa Belladonna Chininum Ars Glonoine ہائیڈرو فو بینم Hydrophobinum اگنیشیا Ignatia اکٹیار لیسی موسا ActaeaRacemosa آرنیکا کلکیر یا آرس سائیکلیمن ہیلی بورس ہائیوںمس کالی فاس Arnica Calc Ars Cyclamen Helleborus Hyoscyamus Kali Phos Lachesis سلیم نگریم Lilium Tigrinum
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) میڈ ورا ئینم نیٹرم میور نکس وامیکا فاسفورس 853 Medorrhinum Nat.Mur Nux Vomica Phosphorus مرکسال نائیٹرک ایسڈ او پیم سیپیا سليشيا Silicea سٹیفی سیگریا سٹرامونیم آرم Stramonium Aurum سلفر گریفائٹس آئیوڈم lodum لیک کینا ئینم نیٹرم کا رب Natrum Carbonicum پلاٹینا سورا ئینم Psorinum پلسٹیلا تھوجا Mercsol Nitric Acid Opium Sepia Staphysagria Sulphur Graphites Lac Caninum Platina Pulsatilla Thoja وریٹرم البم Veratrum Album 19.جنسی امراض جنسی امراض کا علاج دیگر امراض کے علاج سے زیادہ مشکل ہے کیونکہ اس میں تشخیص کا دائرہ بہت پھیلا ہوا ہے.سو سے زائد دوائیں ایسی ہیں جن میں جنسی امراض کا ذکر ملتا ہے اور پڑھنے والا ہر ذکر پر سمجھتا ہے کہ یہی دوا اس کے لئے یا اس کے مریض کے لئے مفید ثابت ہوگی.حالانکہ فی الحقیقت ایک یا دو دواؤں کے سوا کوئی دوا بھی جس کا ذکر ریپرٹری کی فہرستوں میں ملتا ہے، کسی مریض کو قطعی فائدہ نہیں پہنچا سکتی.ابراٹینم Abrotanum ایگنس کاسٹس Agnus Castus ایلیو مینا آرسینک البم برائیٹا کارب کلیڈیم Alumina Arsenic Album Baryta Carb Caladium اینا گیلس Anagallis آرسینک آئیوڈائیڈ Arsenicum Iod بوفو کلکیریا کارب Bufu Calc.Carb
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) کلکیر یا فلور لیمفر کینتھرس چینینم آریس کو کس کیکٹائی Calc.Flour Camphor Cantharis Chininum Ars Coccus Cacti Conium 854 کلکیر یا سلف Calc.Sulph کینا بس سیٹا ئیوا Cannabis Sativa کیپسیکم پٹس کافیا کروٹن Cyclaman فیرم فاس فلورک ایسڈ Flouric Acid جلسییم گریفائٹس ہیپر سلف کالی بائیکروم کالی فاس لائیکوپوڈیم مرکیورس نیٹرم سلف نیوفرلوٹیم اونو سموڈیم Graphitus گریشیولا Hepar Sulph ہائیڈ رائٹس ہائیڈراسٹس Kali Bichrom Kali Phos کالی کارب کالی سلف Lycopodium میڈ ورائٹینم Mercurius Natrum Sulph Nuphar Luteum Onosmodium فاسفورک ایسڈ Phosphoric Acid Platina Selenium Sepia نیٹرم فاس نائیٹرک ایسڈ نکس وامیکا اوری کینم فاسفورس پلسٹیلا سیلکس ٹائیگرا سليشيا سپونجیا سلفر Spongia سٹیفی سیگریا Sulphur ٹیر مینٹولا Capsicum Clematis Coffea Croton Ferr.Phos Gelsemium Gratiola Hydrastis Kali Carb Kali Sulph Medorrhinum Natrum Phos Nitric Acid Nux Vomica Origanum Phosphorus Pulsatilla Salix Nigra Silicea Staphysagria Tarentulla
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 855 تھوجا Thuja ٹریولس ٹیرسٹرس Tribulus Terrestris ٹرنیرا اگیر یکس Turnera Agaricus کلکیر یا فاس کار بو نیم سلف Carboneum Sulph کا کولس سبائنا یو ہم بینم Sabina Yohimbinum نیٹرم میور Zincum Calcarea Phos Cocculus Natrum Mur 20.پراسٹیٹ گلینڈ ز یعنی غدہ قدامیہ جب پراسٹیٹ گلینڈز (Prostate Glands) جسے اردو میں غدہ قدامیہ کہا جاتا ہے بڑھنا شروع ہو جائے تو اس کے نتیجہ میں پیشاب کی خرابی کی بعض قطعی علامتیں ملتی ہیں اور بسا اوقات اس کے علاوہ جنسی کمزوریاں بھی نمایاں ہو جاتی ہیں.مریض محسوس کرتا ہے کہ اس کا پیشاب کھل کر نہیں آرہا بلکہ کچھ دیر کے بعد اس حالت میں رک جاتا ہے کہ تشفی نہیں ہوتی اور محسوس ہوتا ہے کہ پیچھے اور پیشاب موجود ہے.فارغ ہونے کے تھوڑی دیر بعد پھر حاجت محسوس ہوتی ہے جس کا درمیانی عرصہ رفتہ رفتہ کم ہوتا چلا جاتا ہے.بعض مریض جن کی تکلیف زیادہ بڑھ جائے ان کو بعض دفعہ نصف نصف گھنٹے بعد یا اس سے بھی کم عرصہ میں پیشاب کے لئے جانا پڑتا ہے مگر پیشاب تھوڑا آتا ہے اور حاجت رفع نہیں ہوتی.پیشاب کے بار بار آنے کی حاجت ضروری نہیں کہ غدہ قدامیہ کے بڑھنے سے ہی ہولیکن اگر اس وجہ سے ہو تو غدہ قدامیہ کے علاج کے لئے حسب ذیل طریق اختیار کرنا چاہئے.دبے ہوئے سوزاک کا خطرہ ہو تو تھو جا (Thuja) سے علاج شروع کریں اور رفتہ رفتہ اس کی طاقت بڑھا کر ایک لاکھ تک پہنچا دیں.تھو جاغدہ قدامیہ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے اور پیشاب کی نالی کی جلن میں بھی نمایاں کام کرتی ہے اس لئے سب سے پہلے اسی کی
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 856 طرف دھیان جانا چاہئے.دیگر بیماریاں جو تھو جا کی یاد دلاتی ہیں ان میں سب سے نمایاں دمہ کی تکلیف ہے.اسی طرح جلد پر مسوں یا موہکوں کا پایا جانا بھی اس کا تقاضا کرتا ہے.غدہ قدامیہ کی تکلیف کے ساتھ اگر تھو جا کی دیگر علامتیں خصوصاً پیشاب کی نالی میں جلن کی علامت پائی جائے اور پیشاب کی بار بار حاجت ہو تو تھو جا کی خاص نشانی یہ ہے کہ پیشاب کی ایک دھار کی بجائے الگ الگ دو دھاریں نکلتی ہیں جو ذرا زور لگانے کے بعد پھر ایک بن جاتی ہیں.غدہ قدامیہ کی دوسری بڑی دوا سلیشیا (Silicea) ہے جو CM طاقت میں سب طاقتوں سے اچھا اثر دکھاتی ہے مگر شرط یہ ہے کہ مریض ٹھنڈا ہو اور ہاتھ پاؤں میں سردی زیادہ محسوس کرے.یہ دوا مثانے کے کینسر اور غدہ قدامیہ کے کینسر دونوں پر یکساں اثر کرتی ہے اگر ہفتہ دس دن کے وقفہ سے دو تین خوراکیں دی جائیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نمایاں فرق محسوس ہوگا.اس بیماری میں ایک نمایاں اثر رکھنے والی دوا کلیمٹس (Clematis) ہے.کلیمٹس جسم کے دائیں حصہ پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے اور اس کا حملہ زیادہ تر عضو کے دائیں حصے، دائیں فوطے اور دائیں طرف کی پیشاب کی نالی پر ہوتا ہے جو گردے سے مثانے تک جاتی ہے.مریض ہر وقت اس میں کچھ بے چینی محسوس کرتا ہے اور پیشاب کی حاجت اسے بار بار جگاتی ہے.عموماً نہ بجھنے والی پیاس پائی جاتی ہے جسے ٹھنڈے پانی سے کچھ سکون ملتا ہے.کلیمٹس ایسے مریض کو وقتی فائدہ تو دیتی ہے مگر ضروری نہیں کہ مکمل شفاء کا باعث بنے.کلیمٹس پیشاب کے وقفوں کو طویل کر دیتی ہے اور بار بار حاجت کی بجائے بعض دفعہ دو گھنٹے تک حاجت نہیں ہوتی لیکن جب ہوتی ہے تو مریض کو بہت تیزی سے بیت الخلا جانے پر مجبور کرتی ہے.اس کے استعمال کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ دوسری دواؤں کی تلاش کی جائے جو مرض کو جڑ سے اکھیڑ سکیں.بعض مریضوں میں یہ بھی مشاہدہ میں آیا ہے کہ کلیمٹس کے استعمال کے بعد کھلا پیشاب آنے لگ جاتا ہے لیکن اس کے باوجود بار بار کی حاجت باقی رہتی ہے.اس کا
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 857 مطلب یہ ہے کہ مریض کی بیماری کا براہ راست غدہ قدامیہ یعنی پراسٹیٹ گلینڈ کے بڑھنے سے تعلق نہیں تھا بلکہ گردوں یا مثانہ یا پیشاب کی نالی میں کوئی نقص تھا جس کا دور کرنا تنہا کلیمیٹس کے بس میں نہیں.پیشاب کی اس قسم کی بیماریوں میں بعض دیگر علامتیں بھی بہت توجہ کے لائق ہیں جو مختلف دواؤں کی نشاندہی کرتی ہیں مگر ضروری نہیں کہ ہر دوا مفید ثابت ہو.یہی وجہ ہے کہ اصل دوا کی تلاش بہت مشکل کام ہے.اس بیماری کی امتیازی علامتوں کا علم ضروری ہے ورنہ طبیب کے لئے ہر مرض کی دوا کی پہچان ناممکن ہوگی.پیشاب سخت بدبودار ہو اور اس میں کچھ نہ کچھ گاڑھا مواد خارج ہوتا ہو تو یہ علامت خصوصیت کے ساتھ پیشاب کی نالی، گردے، مثانے اور فوطوں یا رحم کے اندر عفونت کی نشاندہی کرتی ہے.اس لئے فوری طور پر عفونت کا علاج ہونا چاہئے اور جب تک مستقل عفونت کے نشان مٹ نہ جائیں علاج جاری رہنا چاہئے.اس مرض میں نمایاں اثر کرنے والی دوائیں تھوجا (Thuja)،سلفر (Sulphur)، پائیر و جینیم (Pyrogenium)،سورائینم (Psorinum)، فیرم فاس (Ferr Phos) ، سلیشیا ( Silicea)، آرسینک البم (Arsenicum Album)، کو نیم (Conium)، کینا بس انڈیکا (Cannabis Indica)، فاسفورس (Phosphorus)، مرک کار (Merc Car) ، سیل سر ولا ٹا (Sebal Serrulata)، سٹیفی سیگریا (Staphysagria) ، اور چمافلا (Chimaphila) ہیں.انہی دواؤں کے ذکر میں دیگر متعلقہ دوائیں مثلاً میڈ ورائینم (Medorrhinum) وغیرہ بھی مل جائیں گی.
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 858 21.جوڑوں کا درد اور گنٹھیا جوڑوں کا درد اور گنٹھیا جن دواؤں کے ابواب میں نمایاں طور پر نظر آئے گا وہ حسب ذیل ہیں.ابراٹینم ایپوسائینم برائیونیا کالی کارب ارجم مٹیلیکم بیلاڈونا Abrotanum Apocynum Bryonia Kali Carb Ledum Argentum Metallicum امیس آرنیکا یا کار پلسٹیلا Apis Arnica Calc.Carb Lachesis Pulsatilla اکٹیار یسی موسا Actaea Reaemosa Belladonna بنز وئیکم ایسڈم Benzoicum Acidum کالوفائیلم بر برس کالچیکم Caulophyllum یو پاٹوریم ایگنس کاسٹس Agnus Castus کاسٹیکم گائیکم میڈ ورا ئینم نیٹرم سلف رسٹاکس سلفر Guaiacum Medorrhinum Natrum Sulph Rhus Tox Sulpur لیکٹک ایسڈ مرکزی فائٹولا کا سبائنا Berberis Colchicum Eupatorium Causticum Lactic Acid Mercurius Phytolacca Sabina انہی دواؤں کے ابواب میں ان عوارض سے تعلق رکھنے والی دیگر دواؤں کا ذکر بھی موجود ہے.
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 859 22.ہڈیوں کی تکالیف ہڈیوں کی تکلیفوں میں سب سے خطرناک بیماریاں ہڈیوں کا کینسر اور ہڈیوں کی سل ہیں.اس کے علاوہ بہت سے خطرناک عوارض مثلاً ٹائیفائیڈ اور پولیو ہڈیوں پر گہرے اور دیر پا اثرات چھوڑ جاتے ہیں جن میں سے بعض کا علاج ناممکن نہیں تو بہت مشکل ضرور ہوتا ہے.علاوہ ازیں ہڈیوں کی ساخت کی پیدائشی خرابیاں مثلاً بونا پن یا ہڈیوں کا بھر بھرا ہونا بھی ایسی بیماریاں ہیں جو گہرے، درست اور صبر آزما علاج کا تقاضا کرتی ہیں.ان سب بیماریوں کا ذکر اور ان کے علاج کے طریق حسب ذیل دواؤں کے ابواب میں ملیں گے.برائیٹا کارب کلکیریا کارب میڈ ورائٹینم سليشيا یو پاٹوریم آرم سپیا Baryta Carb Calc.Carb Medorrhinum Silicea Eupatorium Arum Sepia ارجنٹم میٹیلیکم Argentum Metallicum سٹیفی سیگریا لیڈم برائیونیا کلکیر یا فلور فاسفورس مرکزی روٹا نائٹرک ایسڈ ایسا فوٹیڈا پلسٹیلا Staphysagria کلکیر یا فاس Ledum Bryonia Calc.Fluor Phosphorus Mercurius Ruta Nitric Acid Asafoetida Pulsatilla Calcarea Phos انہی ابواب کے مطالعہ سے دیگر ضروری ادویات کا علم ہو جائے گا اور یہ مطالعہ انشاء اللہ سیر حاصل ثابت ہوگا.
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 860 23.حادثات اور چوٹوں کے فوری اور دیر پا اثرات کا علاج اس ضمن میں حسب ذیل ادویہ کا مطالعہ انشاء اللہ سیر حاصل ثابت ہوگا:.ایکونائٹ بیلاڈونا کلکیر یا فلور Aconitum Belladonna Calc.Flour آرنیکا بیلس کلکیر یافاس کار بوو یج Carbo Veg ہائی پیریم میوریٹک ایسڈ Muriatic Acid او پیم روٹا Ruta سٹیفی سیگریا Arnica Bellis Calc Phos Hypericum Opium Staphysagria Symphytum سٹر نشیم کارب Stromtium Carb سمفا ٹیٹم 24.ہر قسم کے فالج ہر قسم کے فالج میں کام آنے والی بڑی بڑی ادویہ حسب ذیل ہیں :- ایکونائٹ بیلاڈونا جلسیمیم اونیم روٹا اليومينا کونیم سلفر پلسٹیلا Aconitum Belladonna Gelsemium آرنیکا کاسٹیکم Opium رسٹاکس Ruta سپائی جیلیا Alumina Conium Sulphur Pulsatilla کاکولس ٹیر مینٹولا زنک نیٹرم میور Arnica Causticum Lachesis Rhus Tox Spigelia Coccoulus Tarentula Zincum Natrum Mur
861 Nux Vomica انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) نکس وامیکا Plumbum ارجنٹم نائٹریکم Argentum Nitricum میوریٹک ایسڈ Muriaticum Acid فاسفورک ایسڈ Phosphorus Acid سیکیل کار Scale Cor ان چند دواؤں کے مطالعہ ہی سے فالج کی مختلف قسموں اور ان کے مناسب علاج کا علم ہو جائے گا.25.جسمانی ساخت اور وضع قطع ہومیو پیتھی کتب میں عموماً مریض کی جسمانی ساخت، وضع قطع اور رنگ روپ کا ذکر ملتا ہے لیکن جسمانی وضع قطع کے ذریعہ سے مرض کی اور دوا کی نشاندہی بہت مشکل امر ہے.تاہم چند بڑی بڑی دوائیں جو جسمانی وضع قطع اور ساخت سے متعلق ہیں، حسب ذیل ہیں:.برائیٹا کارب کلکیر یا فلور کولیسٹرینینم کالی کارب فائیٹو لا کا سپیا Baryta Carb کلکیریا کارب Calc Fluor چینینم آرس Cholestrinum گریفائٹس نیٹرم میور Kali Carb Phytolacca Sepia سليشيا 26.وبائی بیماریاں ہیضہ (Cholera):- Calc Carb Chininum Ars Graphites Natrum Mur Plumbum Silicea ہیضہ کی وبا کے دوران حفظ ما تقدم کے طور پر سلفر (Sulphur) بہترین کام کرتی ہے.پہلے چند روز 200 طاقت میں دن میں ایک دفعہ دینے سے پھر ہفتہ میں دوبارہ دیتے
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 862 چلے جانے سے ہیضہ سے بچاؤ ہو سکتا ہے.کیمفر (Camphor) کو ہیضہ کی علامتیں ظاہر ہوتے ہی چھوٹی طاقتوں میں دیا جائے تو ہیضہ ابتدائی حالت میں ہی ختم ہو جاتا ہے.ہیضہ شروع ہو چکا ہو تو خصوصاً کم ہیضہ جس میں بغیر زیادہ درد کے دست آئیں اور یکدم توانائی ختم ہو کر سارا جسم ٹھنڈا ہو جائے کیمفر سے بہتر کوئی دوا نہیں.اس کی علامتوں میں اسہال کی نسبت متلی اور قے کا رجحان پایا جاتا ہے.کیو پرم (Cuprum) بھی ہیضہ کی اہم دواؤں میں سے ہے.اگر ہیضہ کی حالت میں معدہ اور ہاتھ پاؤں میں شیخ نمایاں ہو اور ہاتھ پاؤں کا تشنج انگلیوں سے شروع ہو کر اوپر کی طرف حرکت کرے تو ایسے ہیضہ کے علاج میں کیو پرم بہترین ثابت ہوگی.لیکن جس ہیضہ کی کیو پرم دوا ہواس میں عموماً اسہال تھوڑی مقدار میں اور سخت مروڑ کے ساتھ بار بار آتے ہیں.اگر کھلے دست ہوں اور پنڈلیوں میں بل پڑ رہے ہوں تو ایسے ہیضہ میں دور بیٹرم البم (Veratrum Album) تیر بہدف ثابت ہوتی ہے.Aethosa آرسینک البم Aresenicum Album ایتھوزا کار بود یج Carbo Veg سیکیل کار پوڈو فاسکم Podophylum و بائی پیٹ درد :.Scale Cor جس کے ساتھ متلی اور قے کرنے کا رجحان ہو قطع نظر اس کے کہ وہ ہیضہ ہے یا کوئی اور مرض، اس میں حسب ذیل نسخہ 30 طاقت میں ملا کر استعمال کیا جائے.کروٹن (Croton)، اپی کاک (Ipecac)، کار بود بیج (Carbo Veg) اور پیٹیشیا (Baptisia)..متلی اور قے کو ٹھنڈا پانی پینے سے آرام آئے تو یہ علامت کیو پرم کی نشاندہی کرتی ہے.کیو پرم کا ایک اثر کن پیروں پر بھی پڑتا ہے.اسی طرح اگر ٹائیفائیڈ کسی ایک عضو پر فالج بن کر گرے تو اس میں بھی کیو پرم مفید بتایا جاتا ہے.
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 863 پلسٹیلا آرسینک البم Pulsatilla Aresenicum Album سلفر Sulphur اینٹی مونیم کروڈ Antimonium Crud ارجنٹم نائٹریکم Argentum Nitricum کا حکم آئرس کا لوسنتھ ملیریا (Malaria):- Iris Colocynthis نکس وامیکا ڈائسکو ریا Colchicum Nux Vomica Dioscorea ملیریا کے علاج کا تفصیلی ذکر حسب ذیل دواؤں کے ابواب میں موجود ہے.ان کے مطالعہ سے دوسری تعلق والی دوائیں اور علامتوں کی تفصیل ہر پڑھنے والے کو معلوم ہو سکتی ہے.ایکونائٹ آرسینک چائنا ٹیرینولا ہسپانیہ Aconitum Arsenic آرنیکا برائیونیا Arnica Bryonia China چینینم آرس Chininum Ars Tarentula رسٹاکس یو پاٹوریم Eupatorium ٹیوبر کیولینم اپی کاک پلسٹیلا نکس وامیکا سیڈرن مہارت ہو جائے گی.Ipecacuanha Pulsatilla Nux Vomica Sadrun نیٹرم میور نیٹرم سلف سورا ئینم Rus Tox Tuberculinum Gelsemium Natrum Mur Natrum Sulph.Psorinum ان دواؤں کا بغور مطالعہ کریں تو انشاء اللہ ملیریا کے مرض پر قابو پانے میں بہت حد تک
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 864 چکن یا کس اور خسرہ (Chicken Pox and Measles):.یہ وہ جلدی بیماریاں ہیں جو جب تک ظاہر نہ ہوں اس وقت تک بہت نقصان پہنچاتی ہیں.ان کو باہر نکالنے میں عموماً سلیشیا (Silicea) ، کالی فاس (Kali Phos) اور فیرم فاس (Ferr Phos) مددگار ثابت ہوتی ہیں.اسی طرح ایلیم سیپا (Allium Cepa) بھی خسرہ کی علامتوں میں مفید بتائی جاتی ہے.سلفر عمومی دوا ہے جو دونوں امراض کو باہر نکالنے میں فائدہ پہنچاتی ہے.اسی طرح آرسینک (Arsenic) اور سورائینم (Psorinum) وغیرہ بھی حسب حالات کام کرتی ہیں.انہی دواؤں کے ابواب میں دیگر دواؤں کا بھی ذکر مل جائے گا.Apis اینٹی موٹیم ٹارٹ Antimonium Tart امیس کلکیر یا فاس Calcarea Phos یو فریزیا کالی بائیکروم Kali Bichrom میلنڈرینم Euphrasinum Malandrinum مرک سال Mere Sol اینٹی مونیم کروڈ Antimonium Crud پلسٹیلا ویر یولینم Pulstailla Veriolinum سلفر Sulphur کالی کھانسی (Whooping Cough):- کالی کھانسی میں ڈروسر (Drosera)، ایلیم سی Allium Cepa) اور آرنیکا Arnica) عام استعمال کی دوائیں ہیں.انہیں دواؤں کے ذکر میں اس کی دوسری دوائیں اور علامات بھی ملاحظہ فرمائیں.کالی کارب ٹیریٹولا Kali Carb Tarentula Senega سینیگا ہائیڈ روسائٹینک ایسڈ Hydrocyanic Acid
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) Belladonna 865 کا کس کیکٹائی کیو پر مٹیلیکم Cuprum Metallicum اپی کاک بیلاڈونا کیوپرم انفلوئنز(Infuenza):.Coccus Cacti Ipecacuanha انفلوئنزا بخار میں سلفر (Sulphur) اور پائیرو بینیم (Pyrogenium) کو بہت مفید پایا گیا ہے.ان کے علاوہ انفلوئنز بینم (Influenzinum) پنیسیلینم (Bacillinum)، د فتیر نیم (Diptherinum)، اوسلو کوسینم (Oscillo Coccinum) ، کالی فاس (Kali Phos)، فیرم فاس (Ferr Phos) ، کالی میور (Kali Mur)، سلیشیا (Silicea) ، کلکیر یا فلور (Calc.Flour) کا بھی مطالعہ کریں.یو پاٹوریم برائی اونیا رسٹاکس Eupatorium Bryonia Rhus Tox ڈلکارا کار بود یج آرسینک البم Arsenicum Album نیٹرم سلف پیچش (Dysentery):- Gelsemium Dulcamara Carbo Veg Natrum Sulph پیچش کے لئے اپی کاک (Ipecac)، ایکونائٹ (Aconite)،کرچی (Kurchi)، ڈائیو سکوریا (Dioscorea)، کولوسنتھ (Colocynthis)، عموماً استعمال ہوتی ہیں.ان کے مطالعہ سے دیگر دواؤں کا علم بھی ہو جائے گا.Aloe Colchicum Sulphur کاربالک ایسڈ Carbolic Acid نکس وامیکا آرنیکا سلفر آرسینک البم Aresenic Album کینیتھرس Cantharis کپسیکم Nux Vomica Arnica Bufo Capsicum
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) کار بود یج میگ کارب مرک کار رسٹاکس طاعون (Plague):- 866 Carbo Veg رک سال فاسفورس Mag Carb Merc Car Rhus Tox Gelsemium Ricsal Phosphorus طاعون کے زمانہ میں مرکزی (Murcurius) اور سلفر (Sulphur) کے مرکبات استعمال کئے جائیں تو بیماری غدودوں کو چھوڑ کر باہر جلدی امراض کی صورت میں ظاہر ہو جاتی ہیں اور طاعون سے نجات مل جاتی ہے.آرسینک البم Aresenic Album بیلاڈونا Belladona کر ٹیلس ہری ڈس Crotalus Horridus ہائیڈ روسائیٹک ایسڈ Hydrocyanic Acid اگنیشیا نا جا پائیر و جینم Ignatia لیکیس Naja فاسفورس Pyrogenium رسٹاکس Lachesis Phosphorus Rhus Tox ٹیرنٹولا ہسپانیہ Tarentula Hispania ایڈز (Aids):.ایڈز کی بیماری میں اونچی طاقت میں سلیشی( Silicea)،سورائینم (Psorinum)، سیفیلینم (Syphilinum) اور پائیرو جینیم (Pyrogenium) بہت فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں.ورم الدماغ (Meningitis):.مینجائیٹس کے حملہ میں نیٹرم سلف (Natrum Sulph)، ،(Gelsemium) سلیشیا(Silicca) اور ایپس (Apis) کے علاوہ مندرجہ ذیل ادویات کا مطالعہ کرنا چاہئے.
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) ایکونائٹ برائی اونیا 867 Aconitum Bryonnia بیلاڈونا کلکیریا کارب Belladona Calcarea Carb کرو ٹیلس ہری ڈس Crotalus Horridus کیو پر مٹیلیکم Cuprum Metallicum سیکوٹا وروسا ہائیو سمس مرکزی اویم Cicuta Virosa Hyoscyamus Mercurius Opium گلونائن ہیلی بورس نکس وامیکا زنگ Glonoine Helleborus Nux Vomica Zincum 27.روز مرہ کام آنے والے بعض مجرب نسخے وہ بچے جو کمرہ امتحان میں جا کر سب کچھ بھول جاتے ہیں یا کنفیوز (Confuse) ہو جاتے ہیں.انہیں ایتھوزا (Aethusa) 200 استعمال کرنی چاہئے.جن طالب علموں کو امتحان کا خوف ہو تو انہیں ارجنٹم نائیٹریکم (Argentum Nitricum) اورا میتھوز(Aethusa) 200 ملا کر استعمال کرنی چاہئے.جن میں خود اعتمادی کی کمی ہو یا پبلک میں تقریر کرنے کا خوف ہوا نہیں لائیکو پوڈیم (Lycopodium) 200 استعمال کرنی چاہئے.اگر امتحان میں فیل ہونے کا خوف ہو تو کالی فاس (6x (Kali Phos اور سلیشیا (6x (Silicea ملا کر استعمال کریں.جو بچے بہت زیادہ توجہ چاہتے ہوں انہیں پلسٹیلا (Pulsatilla)30 + فاسفورس (Phosphorus)30 استعمال کروائیں.جو بچے سکول جانے سے خوفزدہ ہوں انہیں فاسفورس (Phosphorus) + ایکونائٹ (Aconite) + اوپیم (Opium) استعمال کرانی چاہئیں.جو بچے بار بار رونے کا بہانہ بناتے ہوں انہیں سٹیفی سیگریا (Staphysagria)
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) استعمال کرائیں.868 جو بچے بہت ضدی ہوں ان کے لئے کیمومیلا (Chemomilla) 1000 مجرب نسخہ ہے.جو بچے اکیلے رہنے سے ڈرتے ہوں انہیں فاسفورس (Phosphorus) 30 استعمال کرنی چاہئے.جو بچے رات کو ڈر کر اٹھ جائیں ان کو آرسینک (Arsenic) + اوپیم (Opium) + ایکوناٹ (Aconite)30 ملا کر دیں.اللہ کے فضل سے عمو مافائدہ دیتی ہیں.حادثہ کے نتیجہ میں اگر دماغ پر چوٹ آ جائے تو آرنیکا (Arnica) + نیٹرم سلف (Natrum Sulph)1000 دینے سے اکثر فائدہ ہوتا ہے.اگر دماغ کا کچھ حصہ ماؤف ہو جائے تو اوپیم (Opium) 1000 یا اس سے بھی اونچی طاقت کی ایک خوراک فوراً دیں.چوٹ کے بداثرات باقی رہ جائیں تو ہیلی بورس ٹائیگر (Helleborus Niger) استعمال کرائیں.بے ہوش کرنے والی دواؤں کے استعمال کے بعد جب مریض کو ہوش آنے پر متلی شروع ہو جائیں تو آرم میٹ (Arum Met) 200 فائدہ مند ہے.فاسفورس بھی زیر نظر رہے.خوف کے بداثرات کو دور کرنے کے لئے ایکونائٹ CM کی صرف ایک خوراک جسے اوپیم (CM(Opium کے ساتھ ملا کر دیا جائے تو اور بھی زیادہ مؤثر ثابت ہوتی ہے.ہرا پریشن سے پہلے اور بعد میں آرنیکا (Arnica) 1000 کی ایک ایک خوراک دینا بہت سی پیچیدگیوں سے بچالیتا ہے.اگر چربی زیادہ کھائی گئی ہو تو بعد میں پلسٹیلا (Pulsatilla) استعمال کریں.
انڈیکس تشخیص امراض (REPERTORY) 869 اگر کار بوہائیڈریٹس (Carbohydrates) کی زیادتی ہو گئی ہو تو کار بوویج Carbo Veg) استعمال کرنی چاہئے.چاول اور گوشت سے الرجی ہو تو نکس وامیکا(Nux Vomica) استعمال کریں.انڈے سے الرجی ہو تو کلکیریا کارب (Calc Carb) کا استعمال مفید ثابت ہوتا ہے.انڈے کے اسہال ہوں تو چینینم آرس (Chininum Ars) استعمال کریں.سگریٹ کی عادت چھڑوانے کے لئے سلفیورک ایسڈ(Sulphuric Acid) کا ایک قطرہ ایک گلاس پانی میں ڈال کر دن میں تین بار پئیں.اللہ کے فضل سے اچھا فائدہ دیتی ہے.غلط دوا کے ٹیکہ کا اثر دور کرنے کے لئے نکس وامیکا(Nux Vomica) 200 مفید ہے.اگر پنسلین سے اسہال لگ جائیں تو نائیٹرک ایسڈ(Nitric Acid) یا سلفر (Sulphur) اونچی طاقت میں ایک خوراک استعمال کرنا فائدہ کا موجب ہوتا ہے.حمد یادداشت کی کمزوری دور کرنے کے لئے کالی فاس (Kali Phos) 1000 کی ایک خوراک اور پھر پلمبم (Plumbum)200 کی چند خوراکیں استعمال کریں.جو کوئی ہر ایک کو شک کی نظر سے دیکھے اور ان دیکھے خطرات سے خوفزدہ ہو تو اسے یکیس (Lachesis) 1000 دیں.اگر کسی کام میں دل نہ لگے، موت کا خوف ہو، حادثہ کا ڈر ہو اور بے چینی بہت ہو تو آرسینک (Arsenic) 1000 کی چند خوراکیں دیں.