Language: UR
N T I ☐☐ جلداول مرتبه
سیرت و سوانح نافله موعود حضرت مرزا نا صر احمد رحمہ اللہ خليفة المسيح الثالث
3 3 ۵۱ 으로 ۴۸ ۵۱ ۵۳ ۵۶ ۵۷ ۵۹ ۲۶ } ۲۹ ۳۵ 19 ۹ عرض حال فهرست مضامین صفحه عمومی تعارف باب اول حضرت خلیفہ المسح الثالث" کے بارہ میں بشارات حوالہ جات باب اول باب دوم ولادت با سعادت حضرت اماں جان کی آغوش محبت میں پرورش بنیادی تعلیم ، حفظ قرآن ، مولوی فاضل بچپن کے مشاغل مچین کی تربیت بچپن میں محبت الہی کے جلوے بچپن میں خدمات دین و ملت ریز بروفنڈ تحریک جدید کے لئے جد و جہد توسیع جلسہ گاہ کا کارنامه ہوائے سکاوٹ موومنٹ کی قیادت نماز کی ادائیگی کے لئے چبوترے کی تعمیر ابتدائی زندگی میں آپ کے خیالات و افکار خدمت دین کی توپ
صفحه ۶۰ ۶۲ ۶۶ ง J LA وے ง 11.۱۲۰ ۱۲۱ ۱۲۸ ۱۲۹ ۱۳۳ ۱۳۵ 2 لاہور میں طالب علمی کا زمانہ تنظیم عشرہ کاملہ دورانِ سفر صبر و تحمل کا ایک واقعہ آپ کے ایک ساتھی کے تاثرات جوانی میں خداداد رعب اور تقویٰ و طہارت شجاعت اور قوت فیصلہ کا ایک واقعہ محله دارالا نوار قادیان میں بیت النصرت کی تعمیر شادی اور اولاد خلاصہ خطبہ نکاح مجسم شرم و حیا اعلی تعلیم کے لئے انگلستان روانگی پر حضرت مصلح موعود کی تحریری نصائح وقف زندگی حوالہ جات باب دوم باب سوم تدریسی خدمات جامعہ احمدیہ میں تقرر تدریس کا حکیمانہ طریق طلباء پر محنت کا عالم اور ان کی جسمانی نشوو نما کا خیال طلباء سے شفقت واحسان کا سلوک نظم و ضبط اور حلم کا حسین امتزاج کالج کمیٹی میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی شمولیت
صفحہ ۱۴۰ ☑ ۱۴۱ ۱۴۲ هم ۱۴ ۱۴۵ ۱۴۶ ۱۴ ۱۴۸ ۱۵۰ ۱۵۱ ۱۵۲ ۱۵۳ ۱۵۴ ۱۵۵ ۱۶۲ ۱۶۴ ۱۶۵ ۱۶۶ 3 بطور پرنسپل کالج میں تقرر طلباء سے بلا امتیاز مذہب و ملت مشفقانہ سلوک ممبر پنجاب یونیورسٹی اکیڈیمک کو نسل ایک ابتدائی پروفیسر کا تاثر ابتدائی ایام کا بے تکلف ماحول طلباء کی استعدادوں کی نشوو نما کے لئے پرنسپل صاحب کے اقدامات نائب صدر مجلس مذ ہب و سائنس تربیت کا ایک منفرد طریق.تعطیلات میں طلباء کو خطوط طلباء کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہجرت پاکستان اور بے سر و سامانی کے عالم میں کالج کالا ہور میں قیام ٹی.آئی.کالج لاہور.ڈی.اے.وی کالج کی بوسیدہ عمارت میں شاندار نتائج رسالہ المنار کا اجراء کالج میں کھیلوں کا اجراء کالج کی دیگر متفرق سر گرمیاں پنجاب بیڈ منٹن ایسوسی ایشن کی صدارت لاہور کے تعلیمی اداروں میں آپ کی مقبولیت طالب علموں کا اکرام طلباء کی غیر نصابی سرگرمیوں میں جماعتی و قار کا ملحوظ رکھنا آپ کے دور میں کالج اور اس کے طلباء کی شہرت خدا تعالیٰ کی غیرت کا ایک واقعہ
صفى ۱۶۹ 121 ۱۷۲ ۱۸۰ ۱۸۵ HAY ۱۸۷ ١٩٣ ۱۹۷ ١٩٩ ۲۰۰ ۲۰۵ ۲۱۰ ۲۱۱ ۲۱۱ ۲۱۴ ۳۱۴ 4 ۱۹۵۳ء میں قید وبند کے مصائب اور آپ کے ثبات قدم کا اعلیٰ نمونہ قید و بند کی حقیقت تلاشی کے دوران ایک معجزہ اور مسکراتے ہوئے گر فتاری پیش کرنا گرفتاری کی قبل از وقت اطلاع اور قید کے دوران ایک معجزہ قید کے دوران آپ کا مثالی کردار گرفتاری اور قید کے دوران صبر و استقلال کا اعلیٰ نمونہ قید و بند کے دوران آپ سے ملنے والوں کے تاثرات کالج کی لاہور سے ربوہ منتقلی کے پس منظر میں ایک ایمان افروز واقعہ ریدہ میں کالج کی مستقل عمارت کا منصوبہ اور صاحبزادہ کی گراں قدر خدمات منصوبہ کے لئے فنڈز کی فراہمی اور تکمیل کے لئے صاحبزادہ صاحب کی غیر معمولی محنت اور نصرت الہی کے نظارے لاہور سے کالج کی ربوہ منتقلی اور کالج کی کار کردگی میں آپ کا غیر معمولی کردار آکسفورڈ جیسا ماحول کالج کے نظام تعلیم و تربیت کا نقشہ صاحبزادہ صاحب کی زبانی سپورٹس میں غیر معمولی دلچسپی اور آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ کا اجراء بیر ونی لیکچروں کا انتظام تعلیم الا سلام کالج کی روایات آپ کی جاری کردہ روایات کی تقلید پاکیزہ مزاح اور طبیعت کی شگفتگی صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب کی پیدائش پر دو چھٹیاں کالج کے زمانہ میں وقف زندگی کا احساس
صفحه ۲۱۵ ۳۱۶ ۲۱۷ ۲۱۹ ۲۲۲ ۲۲۵ ۲۲۷ ۲۲۸ ٢٣١٠ ۲۳۳ ۲۳۵ ۲۳۹ ۲۴۵ ۲۴۸ ۲۵۱ 5 علم و حکمت پر مکمل اعتماد آپ کا زہد و تقویٰ سٹاف پر تعلیم کے بارہ میں صاحبزادہ صاحب کا تصور اللہ کی غیبی مدد کا آپ کے ساتھ ہونا جامعہ احمدیہ اور کالج میں الوداعی خطاب سویا بین پر ریسرچ ذہین طلباء کی قدر دانی سٹاف پر شفقت کے کچھ مزید واقعات ساتھی اساتذہ کے دلوں میں آپ کا غیر معمولی عزت و احترام علمی ترقی کا غیر معمولی جذبہ طلباء پر شفقت و محبت کے کچھ مزید واقعات ایک ماہر تعلیم کا خراج عقیدت بعض نامور شخصیات کے تاثرات خوب صورت، پروقار اور بار عب شخصیت کسی سے مرعوب نہ ہونا باب چهارم حوالہ جات باب سوم جماعت کے مرکزی اداروں اور ذیلی تنظیموں میں آپ کی قابل قدر خدمات مجلس خدام الاحمدیہ کی صدارت جلسہ دہلی ۱۹۴۴ء
صفحہ ۲۵۴ ۲۵۵ ۲۵۶ ۲۶۰ ۲۷۰ ۲۷۳ ۲۷۵ ۲۸۱ ۲۸۵ ۲۸۶ ۲۸۸ ۲۸۹ ۲۸۹ ۴۹۲ ۲۹۳ ۲۹۳ ۲۹۵ ۲۹۹ ۳۰۰ 6 خدام الاحمدیہ کی ولولہ انگیز قیادت تبلیغی دوروں میں شمولیت الیکشن کے دوران ہنگامی ڈیوٹی باؤنڈری کمیشن کے لئے معلومات کی فراہمی حفاظت مرکز کالج میگزین یا حفاظت کے لئے میگازین حفاظت مرکز کے سلسلہ میں آپ کا تقرر پاکستان میں خدام الاحمدیہ کی سرگرمیوں کا احیاء فرقان بٹالین کے لئے خدمات اطاعت خلافت کا ایک نا قابل فراموش واقعہ ایثار کا نمونہ حضرت مصلح موعودؓ کی صدارت میں صاحبزادہ صاحب کی نائب صدارت ربوہ کا پہلا جلسہ سالانہ اور دفتر خدام الاحمدیہ کی تعمیر ماہنامہ خالد کا اجراء ابتدائی ایام میں خدام الاحمدیہ کی کار کردگی پر ایک رپورٹ خدام الاحمدیہ کے زمانہ کے چند واقعات آپ کی بے لوث خدمت دیکھ کر ایک شخص کا احمدی ہونا نکتہ چینی کا حسین بد لہ و لکش شخصیت صدارت مجلس خدام الاحمدیہ سے سبکدوشی مجلس انصار اللہ کی صدارت
صفحہ ۳۰۲ ۳۰۴ ۳۰۵ ۳۰۷ ۳۰۹ ۳۱۱ ٣١٣ ۳۱۵ ۳۲۰ ۳۲۱ ۳۲۲ ۳۲۷ انصار اللہ کی تنظیم نو تعمیر دفتر انصار الله سالانہ اجتماعات ماہنامہ انصار اللہ کا اجراء اشاعت لٹریچر اور تعلیم و تربیت کے لئے امتحانوں کا سلسلہ علم انعامی تعلیم القرآن سندھ کے غیر مسلموں میں تبلیغ کا منصوبہ مضمون بعنوان زبان کے چند اقتباسات بطور صدر انصار اللہ آپ کی سیرت کے چند واقعات مساویانہ سلوک - پیکر عجز و انکسار صد را انجمن احمدیہ کے لئے بطور صدر خدمات اخراجات پر کنٹرول خدمت قرآن و اشاعت دین قواعد و ضوابط کی تدوین و اشاعت عفو و درگذر کا ایک واقعہ حب الوطنی کا ایک واقعہ کارکنان سلسلہ کے لئے دردمندی ناظر خدمت درویشان قادیان ڈائریکٹر تحریک جدید اور ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ممبر تعمیر کمیٹی ریوہ
افسر جلسه سالانه بیدار مغزی کا ایک واقعہ جلسہ سالانہ پر تقاریر ممبر نگران بورڈ حوالہ جات باب چهارم 8 باب پنجم ۳۳۶ ٣٣٩ ۳۴۱ حضرت مصلح موعود کی بیماری میں آپ کی ذمہ داریوں میں غیر معمولی اضافہ ۳۴۷ خلافت ثانیہ کا آخری جمعہ اور حضرت مصلح موعود کا آپ کو جمعہ پڑھانے کا ارشاد حضرت مصلح موعودؓ کا وصال اور آپ کی کیفیت ۳۵۰ ۳۵۱ حوالہ جات باب پنجم انتخاب خلافت عهد خلافت بند کمرہ میں دعا باب ششم خلیفہ اصسیح الثالث منتخب ہونے کا اعلان ایک تاریخی خطاب ایک تاریخی عہد اور حضرت مصلح موعودؓ کی نماز جنازہ حاشیه و حوالہ جات باب ششم خلافت ثالثہ کے مبارک دور کا آغاز باب ہفتم ۳۵۲ ۳۵۴ ۳۵۵ ۳۵۸ ۳۵۸ ۳۵۹ ۳۶۲ ۳۶۴
9 قبولیت دعا کا نشان اور غلبہ اسلام کے لئے ایک حیرت انگیز پیشگوئی کا اعلان آپ کے ہاتھ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک الہام کا ظہور حضرت خلیفۃ اصبح الثالث کا لائحہ عمل خاکہ سوانح حیات پہلا سال (۱۹۶۵ء ) دوسر ا سال (۱۹۶۶ء) تیسر اسال (۱۹۶۷ء) چوتھا سال (۱۹۶۸ء) پانچواں سال (۱۹۶۹ء) چھٹا سال (۱۹۷۰ء) ساتواں سال (۱۹۷۱ء ) آٹھواں سال (۱۹۷۲ء ) نواں سال (۱۹۷۳ء) دسواں سال (۱۹۷۴ء ) گیارھواں سال (۱۹۷۵ء ) بارھواں سال (۱۹۷۶ء ) تیر ھواں سال (۱۹۷۷ء) چودھواں سال (۱۹۷۸ء) پندرھواں سال (۱۹۷۹ء ) سولواں سال (۱۹۸۰ء ) سترھواں سال (۱۹۸۱ء) صفحہ ۳۷۴ ۳۸۰ ۳۸۱ ۳۸۲ ۳۸۵ ۳۸۶ ۳۸۷ ٣٩١ ۳۹۵ ۴۹۷ ۴۰۱ ۴۰۴ ۴۰۵ ۴۰۸ ۴۱۱
صفح ۴۱۵ ۴۴۴ ۴۲۶ ۴۲۷ ۴۲۹ م ام م هام سهم کلام ۴۴۵ مم ۴۴۸ ۴۵۱ ۴۵۲ ۴۵۷ ۴۵۷ ۴۵۹ 10 خطبہ جمعہ اور سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی وفات کا اعلان سیده منصورہ بیگم صاحبہ کے اوصاف حمیدہ کا ذکر وفات سیده منصورہ بیگم صاحبہ کے موقع پر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا احباب جماعت کے نام خصوصی پیغام اٹھار ہواں سال (۱۹۸۲ء ) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی آخری بیماری اور وصال ڈاکٹروں کی آخری رپورٹ تجهیز و تکفین حاشیہ و حوالہ جات باب ہفتم باب ہشتم تعلیم و اشاعت قرآن عظیم کے بارے میں ایک عظیم الشان کشف تعلیم القرآن خلیفہ وقت وقف عارضی اور تعلیم القرآن مجلس موصیان کا قیام پندرھویں صدی ہجری کا استقبال اور قرآن عظیم جماعت احمدیہ کی پہلی صدی کے اختتام تک کے لئے دس سالہ تحریک تعلیم القرآن تعلیم القرآن کے بارے میں عظیم الشان جد و جہد نظارت اصلاح وارشاد تعلیم القرآن کا قیام سورہ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات یاد کرنے کی تحریک تحریک حفظ قرآن.مطالعہ احادیث و کتب مسیح موعود علیہ السلام
11 صفحہ خدمت قرآن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انعامی چیلنجوں کا اعادہ اشاعت قرآن اشاعت قرآن کا جامع اور عالمگیر منصوبہ معاندین کی طرف سے رکاوٹیں اور ناپاک انتہام افریقہ اور براعظم یورپ میں پریس کے منصوبوں کا القاء اور سفر یورپ یورپ میں قرآنِ عظیم کی وسیع تر اشاعت کے لئے پریس کے قیام کا منصوبہ امریکہ اور افریقہ میں پریس کا منصوبہ ریڈیو سٹیشن کا منصوبہ تراجم قرآن کریم کے منصوبے قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت دنیا بھر میں اشاعت قرآن کی کامیاب مساعی کی جھلکیاں نائیجیریا کے سب سے بڑے ہوٹل کیلئے احمد یہ مشن کی طرف سے قرآن کریم کے ۲۰۰ نسخوں کا تحفہ اشاعتِ قرآنِ مجید کے ضمن میں جماعت احمدیہ کراچی کا قابل تقلید نمونہ غانا میں اشاعت قرآن نائیجیریا کے ایک اور ہوٹل میں قرآن کریم کا تحفہ کیپ سیر ا ( سیرالیون) ہوٹل میں اشاعت قرآن مجید کے سلسلے میں اہم تقریب جزائر فجی کے اہم ہوٹلوں کے لئے قرآن کریم کا تحفہ جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء کی رپورٹ انسانی آبادی کے آخری کنارہ تک قرآن کریم کی اشاعت سم سوم ۴۷۸ ۴۸۲ ۴۸۵ ۴۸۷ ۴۸۸ ۴۹۰ ۴۹۱ ۴۹۶ ۴۹۷ ۴۹۷ ۴۹۸ ۴۹۸ ٤٩٩ ۴۹۹ ۴۹۹ ۵۰۰
صفح ۵۰۲ ۵۰۴ ۵۰۵ ۵۱۱ ۵۱۲ ۵۱۴ ۵۱۶ ۵۱۷ ۵۱۸ ۵۱۹ ۵۱۹ ۵۲۰ ۵۲۱ ۵۲۱ ۵۲۱ ۵۲۵ ۵۲۵ ۵۲۶ 12 امریکہ میں اشاعت قرآن دنیا کی ممتاز شخصیتوں کو قرآن کریم کے تحائف بارگاہ ایزدی سے سند خوشنودی حاشیه و حوالہ جات باب ہشتم باب نهم حضرت خلیفہ المسح الثالث" کے عظیم الشان تو سیعی منصوبے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی پہلی بابرکت تحریک ” فضل عمر فاؤنڈیشن“ حضرت خلیفۃ اصبح الثالث کا پیغام اور اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت المسح تحریک کے پہلے دور کا اختتام اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا اظہار تشکر فضل عمر فاؤنڈیشن کے اغراض و مقاصد کا تعین دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن اور اس کے ثمرات سوانح فضل عمر حضرت مصلح موعود کی نقار سر وخطبات خلافت لائبریری انعامی مقالہ جات سرائے فضل عمر ٹرانسلیشن یو تھ لٹریری کمیٹی متفرق مصارف نصرت جہاں لیپ فارورڈ پروگرام اور مغربی افریقہ میں تعلیمی و طبی اداروں کے قیام کا وسیع منصوبہ
صفحه ۵۲۸ ۵۳۳ ۵۳۶ ۵۳۸ ۵۴۰ ۵۴۵ ۵۴۶ ۵۴۷ ۵۴۸ ۵۵۱ ۵۵۳ ۵۵۵ ۵۵۶ ۵۶۹ ۵۷۰ ۵۷۱ ۵۷۲ ۵۷۷ ۵۷۹ 13 نصرت جہاں سکیم کا اعلان نصرت جہاں سکیم کا نام اور غیر معمولی تائید و نصرت نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے تجارت افریقی قوم کیلئے محبت کا پیغام اور سکولوں اور ہسپتالوں کا اجراء نصرت جہاں منصوبہ کے تحت کھلنے والے سکول اور ہسپتال نصرت جہاں سکیم اور معاندین کا ردعمل نصرت جہاں منصوبہ کی غیر معمولی مقبولیت احمدی ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں شفاء سکولوں کے اثرات مغربی افریقہ کے عمائدین کی آراء نصرت جہاں سیکیم کے غیر معمولی اثرات مغربی افریقہ میں حضرت خلیفہ اصبح الاول کے رڈیا کا پورا ہونا رویا صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ صد سالہ احمد یہ جوہلی منصوبہ کا اعلان صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبے کا روحانی پروگرام صد سالہ احمد ہم جو ہی فنڈ حضرت خلیفۃ اصسیح الثالث کا پیغام سٹینڈنگ کمیٹی کا قیام بیت الاظهار (دفتر صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ ) جوہی منصوبے کو ناکام کرنے کی عالمی سازش تعلیمی منصوبے کا اعلان اور خلیفۃ المسیح الثالث کی تمنا
۵۸۱ ۵۸۳ ۵۸۵ ۵۸۸ ۵۸۹ ۵۹۲ ۵۹۵ ۵۹۹ ۲۰۵ ۶۱۰ ۶۱۲ पाढ ۶۲۳ ۶۲۶ ۶۲۸ ۶۲۹ ۶۳۱ 14 تعلیمی منصوبے کے مختلف مراحل اور ان کے اغراض و مقاصد بین الا قوامی سطح پر منصوبے کے ممکنہ اثرات تعلیمی منصوبے کی کامیابی کے لئے خلیفہ المسیح کی عظیم جدوجہد تمغہ جات صد سالہ احمد یہ جوہلی کی غیر معمولی اہمیت جوبلی منصوبہ کے شیریں ثمرات حضرت خلیفہ اصبح الثالث کی تینوں عظیم الشان تحریکات کا مجموعی مقصد حاشیہ وحوالہ جات باب نم باب و ہم حضرت خلیفہ السیح الثالث" کی متفرق تحریکات تحریک و قف زندگی مالی تحریکات غلبہ اسلام کی مہم کو کامیاب بنانے کے لئے روحانی پروگرام لا إله إلا الله كاورد انسانی صلاحیتوں کی نشوو نما کی تحریک کھیلیوں کے کلب اور صحت جسمانی سائیکل سفر اور سروے ذیلی تنظیموں کے دائرہ کار کا تعین گھوڑے پالنے کی تحریک خيل للرحمن گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ چستی اور جفاکشی کا سبق
صفحہ ۶۳۲ ۶۳۳ ۶۳۵ ۶۳۹ ۶۴۳ ۶۴۵ ۶۴ ۶۶۳ ۶۶۹ ۶۷۵ 15 حضور کا گھوڑوں سے پیار اور توکل کا ایک واقعہ سویابین کا استعمال احمدی طلباء ، احمدی آرکیٹلیٹس، احمدی انجینئیر زاور احمدی ڈاکٹروں کی تنظیموں کا قیام اسلامی آداب اور اخلاق کی ترویج واشاعت اسلامی پرده بد رسوم کے خلاف جہاد أَطْعِمُوا الْجَائِعَ افغان مہاجرین کے لئے طبی سہولت جنگی قیدیوں کیلئے صدریاں اور رضائیاں.سیلاب زدگان کی امداد عجز وانکساری پیدا کرنے کی تحریک محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کی ایک عظیم الشان تحریک یورپ اور امریکہ میں اشاعت اسلام کی مہم کو تیز تر کرنے کے منصوبے استحکام پاکستان کے لئے دعاؤں اور صدقات کی تحریک اتحاد بین المسلمین کی تحریک قلمی دوستی کی تحریک ا پر عمل کرنے کی تاکید منصوبوں پر حوالہ جات باب دہم
حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفه لمسیح الثالث رحمه الله
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ عرض حال یہ اللہ تعالی کا خاص فضل اور احسان ہے کہ سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی سیرت و سوانح قلمبند کرنے کا کام اس عاجز کے سپرد ہوا.اس عاجز نے اضطراری حالت میں سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایده اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں صورت حال عرض کی اور دعا کی درخواست کی.اس کے جواب میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب گرامی مرقومہ ۱۵ ستمبر ۱۹۸۷ء میں تحریر فرمایا.پیارے عزیزم محمود مجیب اصغر صاحب السلام علیکم ورحمة الله و بركاته " آپ کو مرکز سے جو ہدایت ملی ہے وہ میرے کہنے پر ملی ہے اس لئے آپ دعا کرتے ہوئے اس ذمہ داری کو احسن رنگ میں ادا کرنے کی کوشش کریں جو آپ کے مزاج کے مطابق ہو.اللہ تعالیٰ آپ کی.سعی میں برکت ڈالے.والسلام مرزا طاہر احمد (خليفة المسيح الرابع) مرکز کی ہدایت کے مطابق اس عاجز نے سارا کام سیرت کمیٹی کی نگرانی میں کیا ہے جس کے ممبران محترم چوہدری محمد علی صاحب اور محترم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ہیں.درمیان میں مسودہ علماء کے ایک بورڈ نے ملاحظہ فرمایا جو وکیل التصنيف صاحب محترم سید میر محمود احمد ناصر صاحب کی زیر نگرانی تشکیل دیا گیا تھا.مسودہ سیرت کمیٹی کی آخری نظر ثانی کے بعد طباعت کے لئے پیش ہے.الحمد للہ.
2 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.کوئی اکیلا انسان کسی کام دین یا دنیا کو انجام دے سکتا ہے؟ ہرگز نہیں.کوئی کام دینی ہو یا دنیوی بغیر معاونت باہمی کے چل ہی نہیں سکتا....جس قدر جلیل القدر کام ہیں اور جن کی علت غائی کوئی فائدہ عظیمہ جمہوری ہے وہ تو بجز جمهوری اعانت کے کسی طور پر انجام پذیر ہی نہیں ہو سکتے اور صرف ایک ہی شخص ان کا متحمل ہر گز نہیں ہو سکتا اور نہ کبھی ہوا." ( تبلیغ رسالت مجموعه اشتهارات جلد اول صفحہ ۳۶) حقیقت تو یہ ہے کہ اس کتاب کی تصنیف کے کام میں اس عاجز کے بہت سارے محسنوں کی راہنمائی اور معاونت کا دخل ہے.سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ بیگم صاحبہ ثانی حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحب کی پرانی ڈائریوں کے صفحات مرحمت فرمائے اور کئی نایاب تصاویر عطا فرمائیں.محترم سید میر مسعود احمد صاحب وکیل صد سالہ احمد یہ جوبلی اور ان کے نائب محترم شیخ مبارک احمد صاحب نے حضور کے بعض غیر مطبوعہ خطبات اور الفضل کے فائل مہیا فرمائے.خلافت لائبریری ربوہ سے بھی خاکسار نے بہت استفادہ کیا اس سلسلہ میں محترم حبیب الرحمان صاحب زیروی خصوصی شکریے کے مستحق ہیں.کئی احباب و خواتین نے واقعات لکھ کر دیئے.ان کا فردا فردا ذکر کرنا ممکن نہیں ہے.انشاء اللہ کتاب میں متعلقہ واقعہ کے ساتھ ان کا ذکر آ جائے گا.اللہ تعالیٰ ان سب محسنوں کو جزائے خیر دے اور اپنے فضلوں رحمتوں اور برکتوں سے نوازے.آمین اس سلسلے میں اس عاجز کا خط و کتابت کے ذریعے سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ رابطہ رہا اور حضور کی رہنمائی حاصل ہوتی رہی اور یہ حضور کی ہی روحانی توجہات اور دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ کتاب تکمیل اور اشاعت کے مراحل طے کرنے میں کامیاب ہوئی.اللہ تعالیٰ حضور کا بابرکت سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے اور حضور کی صحت اور عمر میں برکت دے.آمین.اس موقع پر خاکسار اپنی والدہ محترمہ عزیزہ بیگم صاحبہ اور والد محترم فضل
الرحمان صاحب بسمل کے لئے بھی دعا کی درخواست کرنا چاہتا ہے جن کی رہنمائی اور دعائیں اس عاجز کے شامل حال رہیں اور جو اس کتاب کی اشاعت سے پہلے ہی اس دار فانی سے گزر گئے.(اللہ تعالیٰ ان کے درجات اپنے قرب میں بڑھاتا رہے آمین) اس کتاب کی تصنیف کے سلسلہ میں ایک تصرف الہی کا ذکر کرنا ازدیاد ایمان کا موجب ہو گا.تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ۱۹۷۹ء اور ۱۹۸۱ء کے دوران خاکسار کا قیام اسلام آباد میں تھا اس دوران حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " کئی بار اسلام آباد تشریف لائے.حضور کا قیام بیت الفضل سکیٹر 8.F میں ہوتا تھا جہاں ہم اکثر حاضر خدمت رہتے تھے اور حضور کی زیارت ، ملاقات اور گفتگو سے فیض یاب ہوتے رہتے تھے.ایک روز حضور کسی موضوع پر گفتگو فرما رہے تھے جس کا آخری فقرہ کچھ یوں تھا کہ انسان کی سوائح تو اس کی وفات کے بعد ہی لکھی جاتی ہے.اس وقت حضور کا چہرہ مبارک خاکسار کی طرف تھا اور خاکسار کو یوں محسوس ہوا کہ جیسے اپنی سوانح مبارک کے بارہ میں خاکسار کو ارشاد فرما رہے ہوں.چنانچہ ناگہانی طور پر حضور کے وصال کے چند سال بعد حضور" کی سوانح پر کتاب لکھنے کا کام خاکسار کے سپرد ہوا.اس پر مستزاد یہ کہ جن دنوں خاکسار کو یہ کام تفویض ہوا انہی دنوں سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ کو اس بارہ میں ایک خواب آیا جس کا ذکر انہوں نے خاکسار کی اہلیہ سے کیا جو خاکسار نے ان سے لکھوا لی.وہ تحریر فرماتی ہیں کہ." آپ نے خواب جس کا ذکر آپ کی اہلیہ سے ہوا تھا، لکھنے کے لئے کہا ہے.خواب میں نہیں قصر خلافت میں ایک نو تعمیر شدہ وسیع عمارت حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو دکھائی جا رہی ہے.میں بھی دیکھ رہی ہوں.Dining Hall بہت وسیع تھا.اس کے بعد ڈرائنگ روم دیکھا وہ بھی بہت وسیع و عریض تھا.ایک خاص قسم کی محفوظ الماری اس میں تھی.عمارت پر شکوہ لیکن سادہ تھی اور میں نے دل میں خیال کیا کہ چونکہ ہماری جماعت کا انداز سادہ ہی ہے اس لئے عمارت کی سجاوٹ میں بھی سادگی اختیار کی گئی ہے.عمارت دکھائے جانے کے
دوران مجھے محسوس ہوا کہ آپ یہ عمارت دکھا رہے ہیں اور اس کی تعمیر وغیرہ کے متعلق بتا رہے ہیں.چونکہ میں آپ کو پہچانتی نہیں اس لئے خواب میں نام ہی ذہن میں آیا.بعدہ حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے کچھ تحریر فرما کر قلم مجھے دیا جو کہ میں نے قریب کھڑے ہوئے شخص (غالبا آپ کو تھما دیا کہ یہ میرا نہیں ان کا ہے.اس خواب کے چند روز بعد آپ کا پہلا خط حضور کی سیرت لکھنے کے متعلق جس میں ذکر تھا مجھے ملا تو معاً میرا ذہن اس خواب کی طرف گیا.ہو سکتا ہے اس سے تعلق ہو.اللہ بہتر جانتا ہے." آخر میں احباب کرام سے درخواست ہے کہ وہ کتاب کے بارہ میں اپنی آراء سے مطلع فرمائیں جہاں کہیں کوئی خوبی پائیں اسے اللہ تعالٰی کے فضل کی طرف منسوب کریں اور جہاں خامی دیکھیں اسے عاجز کی نالائقی اور کو تاہی سمجھ کر درگزر فرمائیں اور دعا کریں کہ مولیٰ کریم اس سعی میں برکت ڈالے اور اس حقیر کاوش کو سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہدیہ کے طور پر قبول فرمائے حضور کے درجات اپنے قرب میں بڑھاتا رہے حضور کی اولاد اور خاندان اور عالمگیر جماعت احمدیہ کو اپنے فضلوں رحمتوں اور برکتوں سے نوازے.اور ہم سب کو ہمیشہ خلافت احمدیہ کے قدموں- میں رکھ کر سرفراز فرماتا رہے اللھم آمین.
5 باب اول حضرت خلیفة المسیح الثالث کے بارہ میں بشارات
7 عمومی تعارف ” میں نے اپنی عمر میں سینکڑوں مرتبہ قرآن کریم کا نہایت تدبر سے مطالعہ کیا ہے اس میں ایک آیت بھی ایسی نہیں جو کہ دنیاوی معاملات میں ایک مسلم اور غیر مسلم میں تفریق کی تعلیم دیتی ہو.شریعت اسلامی : بنی نوع انسان کے لئے خالصتاً باعث رحمت ہے.حضرت محمد ملی ہم نے اور آپ کے صحابہ کرام نے لوگوں کے دلوں کو محبت، پیار اور ہمدردی سے جیتا تھا.اگر ہم بھی لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنا ہو گا.قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے سب سے محبت اور نفرت کسی سے نہیں.Love For All Hatred For None یہی طریقہ ہے دلوں کو جیتنے کا.اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ ee له نہیں ل یہ پیار بھرا پیغام ایک پیارے وجود کی یاد دلاتا ہے جو بانی سلسلہ علیہ السلام کا پوتا اور حضرت مصلح موعود معنی اللہ کا فرزند اکبر تھا.میری مراد حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ سے ہے.آپ کی پیدائش الہی بشارتوں کے مطابق ہوئی آپ نے اپنی مقدس دادی سیدہ نصرت جہاں بیگم کی آغوش محبت میں بچپن گزارا اور تربیت پائی.آپ نے اپنے مقدس والد حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی بنی ایشن کی کامل اطاعت اور تربیت میں جوانی بسر کی.آپ حضرت عثمان بھی اللہ کی طرح مجسم شرم و حیا تھے.آپ حضرت اقدس
8 مسیح موعود علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ راشد منتخب ہوئے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو سترہ سال تک منصب خلافت احمدیہ کی گراں بار اور جلیل القدر ذمہ داریاں نبھانے کی سعادت نصیب فرمائی.آپ نے اعلاء کلمہ اللہ کے کئی توسیعی منصوبے جاری فرمائے.آپ کے سارے منصوبوں کا محور اور مرکز خدمت قرآن اور اشاعت قرآن تھا.آپ محبت کا سفیر بن کر ملک ملک اور قوم قوم کو محبت اور پیار کا سبق دیتے رہے.آپ کو اپنی جماعت سے بہت ہی پیار تھا جس کا اظہار بعض اوقات ان الفاظ میں بھی کیا کرتے تھے کہ جماعت اور خلیفہ وقت ایک ہی وجود کے دو نام ہیں ۲۴ آپ کے پیار کا دامن اپنوں سے لے کر غیروں اور دشمنوں تک پھیلا ہوا تھا.آپ معاندین کے دکھوں کے جواب میں مسکرا دیا کرتے تھے اور اپنی جماعت کو نصیحت کے رنگ میں فرماتے تھے "دنیا تیوریاں چڑھا کے اور سرخ آنکھیں کر کے تمہاری طرف دیکھ رہی ہے تم مسکراتے چہروں سے دنیا کو دیکھو" س.Jee ہمیشہ یاد رکھو کہ ایک احمدی کسی سے دشمنی نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے کیونکہ اس کے خدا نے اسے پیار کرنے کے لئے اور خدمت کرنے کے لئے پیدا کیا ہے " ہی آپ نے ان قوموں کو بھی پیار دیا اور ان کی بھلائی اور آسودگی کے سامان پیدا کئے جو ہمیشہ پیار سے محروم چلی آ رہی تھیں اور نظر انداز کی گئی تھیں.آپ مجسم دعا تھے.آپ کی زندگی میں لگاتار کئی راتیں ایسی بھی آئیں جب آپ ایک لمحہ کے لئے بھی نہ سو سکے اور ساری ساری رات دعائیں کرتے رہے.آپ نے کسی کے خلاف بد دعا کرنے سے منع کیا ہوا تھا.آپ فرماتے تھے ہم کسی کے لئے بددعا نہیں کرتے یہ خدا کا ک ہے کسی کو سزا دے یا کسی کو چھوڑ دے.وہ مالک ہے؟ آپ نے اپنوں بیگانوں کے دکھوں کو اپنا دکھ بنایا.دکھوں پر دکھ اٹھائے لیکن زبان پر کبھی شکوہ نہ آیا.آپ کا دل خدا کی حمد سے بھرا رہتا تھا اور چہرے سے خدا کا نور ٹپکتا تھا.آپ بہت نورانی چہرے والے اور ہمیشہ مسکرانے والے تھے.آپ کی محبت بھری یاد دلوں سے کبھی جدا نہیں ہو سکتی.جیسا کہ آگے بیان کیا جائے گا آپ آیت اللہ تھے
اور اللہ تعالیٰ کے نشانوں میں سے ایک نشان.آپ کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور صحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبل از وقت بشارات دی گئیں جو آپ کی ذات میں پوری ہو ئیں اور بعد میں بھی پوری ہوتی رہیں گی.انشاء اللہ.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " کے بارہ میں بشارات سلسلہ عالیہ احمدیہ میں پیشگوئی مصلح موعود کو خاص اہمیت حاصل ہے اس کے مصداق حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی ال ہیں اسی طرح حضرت خلیفة المسیح الثالث نافلہ موعود کی پیشگوئی کے مصداق تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو موعود بیٹے اور پوتے کی یہ خبر ان حالات میں دی گئی جب کہ حضور علیہ السلام کے خلاف تکفیر کا بازار گرم تھا اور معاندین ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے حضور نے فرمایا.”خدا جیسے پہلے تھا وہ اب بھی ہے اور اس کی قدرتیں جیسے تھیں وہ اب بھی ہیں اور اس کو نشان دکھانے پر جیسا کہ پہلے اقتدار تھا وہ اب بھی ہے پھر تم کیوں صرف قصوں پر راضی ہوتے ہو..چنانچہ نافله موعود کے بارہ میں جو بشارات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دی گئیں وہ یہ ہیں.تَرى نَسْلاً بَعِيدًا - إِنَّانُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ مَظْهَرِ الْحَقِّ وَ الْعُلَى كَاَنَّ اللَّهَ نَزَلَ مِنَ السَّمَاءِ - إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةٍ لَكَ اور تو اپنی ایک دور کی نسل کو دیکھ لے گا ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں جس کے ساتھ حق کا ظہور ہو گا گویا آسمان سے خدا اترے گا.ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں.جو تیرا پوتا ہو گا.".ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا:.چند روز ہوئے یہ الہام ہوا تھا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةٍ لَكَ ممکن ہے کہ اس کی یہ تعبیر ہو کہ محمود کے ہاں لڑکا ہو کیونکہ نافلہ پوتے
10 کو بھی کہتے ہیں یا بشارت کسی اور وقت تک موقوف ہو." پیشگوئی مصلح موعود کے الہامی الفاظ میں ہے.” وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا." حضرت مسیح موعود نے اس کے آگے بریکٹ میں تحریر فرمایا :." اس کے معنے سمجھ میں نہیں آئے " اسی طرح حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں:." الله بیالیسواں نشان یہ ہے کہ خدا نے نافلہ کے طور پر پانچویں لڑکے کا وعدہ کیا تھا جیسا کہ اسی کتاب مواہب الرحمان کے صفحہ ۱۳۹ میں یہ پیشگوئی لکھی تھی.وَبَشَّرَنِي بِخَامِسَ فِي حِيْنِ مِنَ الْأَحْيَانِ یعنی پانچواں لڑکا ہے جو چار کے علاوہ بطور نافلہ پیدا ہونے والا تھا اس کی خدا نے مجھے بشارت دی کہ وہ کسی وقت ضرور پیدا ہو گا اور اس کے بارے میں ایک اور الہام بھی شائع ہوا کہ جو اخبار البدر اور احکم میں مدت ہوئی شائع ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے.إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ نَافِلَةٍ لَكَ نَافِلَةٍ مِنْ عِنْدِى یعنی ہم ایک لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں کہ جو نافلہ ہو گا یعنی لڑکے کا لڑکا.یہ نافلہ ہماری طرف سے ہے."ل حضرت مسیح موعود کی مبشر اولاد میں سب سے چھوٹے صاحبزادے مرزا مبارک احمد صاحب بچپن میں ہی آٹھ سال کی عمر میں ۱۶ ستمبر۷ ۱۹۰ء کو جب فوت ہوئے تو اللہ تعالٰی نے اسی روز حضور کو الہانا خبر دى إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ - الم پھر اکتوبر۱۹۰۷ء کو الہاما خبر دی:.إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ يَنْزِلُ مَنْزِلَ الْمُبَارَكِ - ساقیا آمدن عید مبارک بادت ۱۲ ترجمہ ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں.وہ مبارک احمد کی شبیہ ہو گا.اے ساقی! عید کا آنا تجھے مبارک : ہو.
11.۷۶ نومبر۷ ۱۹۰ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا:.سَاهَبُ لَكَ غُلَامًا زَكِيَّا - رَبِّ هَبْ لِى ذُرِّيَةٌ طَيِّبَةً - إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اِسْمُهُ يَحْيَى ترجمہ: میں ایک پاک اور پاکیزہ لڑکے کی خوش خبری دیتا ہوں.اے میرے خدا پاک اولاد مجھے بخش دے.میں تجھے ایک لڑکے کی خوش خبری دیتا ہوں جس کا نام یحیی ہے (معلوم ہوتا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ زندہ رہنے والا).۱۳ خالد احمدیت حضرت مولانا جلال الدین شمس رضی اللہ فرماتے ہیں.وو اليام الہی میں مبشر بہ پوتے کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة و السلام کا پانچواں بیٹا قرار دیا گیا ہے اور پوتے کے لئے بیٹے کا لفظ عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے جیسا کہ آنحضرت میم نے غزوہ حنین کے a دن فرمایا أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا بُنُ عَبْدِ الْمُطَلِبُ یعنی میں نبی ہوں اور یہ جھوٹ نہیں اور میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں.پس پوتے کے لئے بیٹے کا لفظ بکثرت ہر زبان میں استعمال ہوتا ہے.اور یہ عجیب بات ہے کہ حضرت ام المومنین ہونا نے اپنے تمام پوتوں میں سے صرف حضرت مرزا ناصر احمد خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ له تعالی کو ہی اپنے بیٹوں کی طرح پالا اور ان کی تربیت فرمائی.۱۴ آپ کے بارے میں حضرت مصلح موعود میں اللہ کو بھی بشارات دی گئیں.چنانچہ آپ کی پیدائش سے دو ماہ قبل ۲۶ ستمبر ۱۹۰۹ء کو حضرت مصلح موعود نے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا :- " مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمربستہ ہو گا."" یہاں پر حضرت خلیفۃ المسیح اول بھی للہ کا ایک واقعہ بھی قابل ذکر ہے.
12 رض صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی عمر ابھی ایک سال سے کچھ زیادہ ہوئی ہو گی کہ آپ سخت بیمار ہو گئے.حضرت خلیفہ اول کا زمانہ تھا اور حضرت خلیفہ اول اس وقت بیمار تھے.آپ کے بزرگ والد سید نا محمود المصلح الموعود اپنے امام اور آقا خلیفۃ المسیح الاول کی تیمارداری کے لئے حضور کے پاس تشریف فرما تھے.اس دوران کئی بار گھر سے پیغام آیا کہ میاں ناصر احمد تشویشناک طور پر بیمار ہیں اور حضرت مصلح موعود کو گھر بلوایا جا رہا تھا مگر حضرت سید نا محمود حضرت خلیفہ اول کی بیماری کے باعث احتراما" سن کر خاموش ہو گئے اور حضور کو چھوڑ کر گھر جانا مناسب نہ سمجھا.اس پر حضرت خلیفہ اول نے سید نا میاں محمود احمد المصلح الموعود" کو مخاطب کر کے فرمایا :.رم له ”میاں ! تم گئے نہیں.تم جانتے ہو یہ کس کی بیماری کی اطلاع دے کر گیا ہے وہ تمہارا بیٹا ہی نہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پوتا بھی ہے.حضرت مصلح موعود رضی اللہ آپ کے بارہ میں ۱۹۵۵ء کے ایک رؤیا کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.میں واپسی کے وقت غالبا زیورک میں تھا کہ میں نے خواب دیکھی کہ میں ایک رستہ پر گزر رہا ہوں کہ مجھے اپنے سامنے ایک ریوالونگ لائٹ (Revolving Light) یعنی چکر کھانے والی روشنی نظر آئی جیسے ہوائی جہازوں کو راستہ دکھانے کے لئے منارہ پر تیز لمپ لگائے ہوئے ہوتے ہیں جو گھومتے رہتے ہیں.میں نے خواب میں خیال کیا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا نور ہے.پھر میرے سامنے ایک دروازہ ظاہر ہوا جس میں پھاٹک نہیں لگا ہوا.بغیر پھاٹک کے کھلا ہے.میرے دل میں خیال گزرا کہ جو شخص اس دروازہ میں کھڑا ہو جائے اور اللہ تعالیٰ کا نور گھومتا ہوا اس کے اوپر پڑے تو خدا تعالیٰ کا نور اس کے جسم کے ذرہ ذرہ میں سرایت کر جاتا ہے.تب میں نے دیکھا کہ میرا لڑکا ناصر احمد اس دروازہ کی دہلیز پر کھڑا ہو گیا اور وہ چکر کھانے والا نور گھومتا ہوا اس دروازہ کی طرف مڑا اور اس میں سے تیز روشنی گزر کر ناصر احمد کے جسم میں
13 گھس گئی.عالی حضرت مصلح موعود کا ایک اور رویا ۱۴ اور ۵ جون ۱۹۵۴ء کی درمیانی شب کا ہے حضور فرماتے ہیں:.” میں نے دیکھا کہ میرے سامنے کوئی شخص بیٹھا ہے اور میں نے کوئی فقرہ کہا ہے جس میں جماعت احمدیہ پر کچھ تنقید ہے.میں نے محسوس کیا کہ اس دوسرے شخص نے اس تنقید کرنے کو ناپسند کیا ہے اور یہ سمجھا ہے کہ اس تنقید کو سن کر دشمن اور دوست دلیر ہو جائیں گے اور جماعت کا درجہ گرائیں گے.اس کے بعد میرے دو لڑکوں نے بھی اسی قسم کا کوئی فقرہ کہا ہے اور ان دو لڑکوں میں سے ایک مرزا ناصر احمد معلوم ہوتے ہیں.میرے لڑکوں کا فقرہ سن کے اس شخص کے چہرہ پر ایسے آثار ظاہر ہوئے کہ گویا وہ کہتا ہے دیکھئے جو میں سمجھتا تھا ویسا ہی ہوا.اس پر میں نے کہا کہ تم ان لڑکوں کی بات نہیں سمجھے.انہوں نے تو وہ کہا ہے جو میں کہلوانا چاہتا تھا.ان کے فقرے سے یہ مراد ہے کہ جماعت احمدیہ کے تقویٰ اور اخلاق کا مقام اونچا کرنا چاہتے اور ہم اب اس کے لئے کوشش کریں گے پھر میں نے کہا کہ اگر اسی طرح جماعت کے دوسرے مخلصین میں بھی احساس پیدا ہو جائے جو میری غرض تھی تو تھوڑے ہی عرصہ میں جماعت نہایت بلند روحانی معیار پر پہنچ جائے گی اور اس طرف توجہ دلانا میرا مقصود تھا پھر آنکھ کھل گئی.۱۸۲ حضرت مصلح موعود کو ایک سے زیادہ بیٹوں کے بارہ میں بشارت دی گئی چنانچہ مارچ ۱۹۱۹ء کے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر آپ نے ایک رؤیا کا ذکر یوں فرمایا." میں نے دیکھا کہ میں بیت الدعا میں بیٹھا تشہد کی حالت میں دعا کر رہا ہوں کہ الہی میرا انجام ایسا ہو جیسا کہ حضرت ابراہیم کا ہوا.پھر جوش میں آکر کھڑا ہو گیا ہوں اور یہی دعا کر رہا ہوں کہ دروازہ کھلا ہے اور میر محمد اسماعیل صاحب اس میں کھڑے روشنی کر رہے ہیں.اسماعیل
14 کے معنے ہیں خدا نے سن لی اور ابراہیمی انجام سے مراد حضرت ابراہیم کا انجام ہے کہ ان کے فوت ہونے پر خدا تعالیٰ نے حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل دو قائمقام کھڑے کر دیئے.یہ ایک طرح کی بشارت ہے جس سے آپ لوگوں کو خوش ہو جانا چاہئے.19 ولو اس سلسلہ میں جماعت کے بعض بزرگوں اور افراد خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض روایات اور بشارات کا ذکر بھی کیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود کی صاحبزادی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم نے مولانا جلال الدین شمس کے استفسار پر ایک مراسلے میں لکھا :.یہ درست ہے کہ حضرت اماں جان ناصر احمد کو بچپن میں اکثر یحی کہا کرتیں اور فرماتی تھیں کہ یہ میرا مبارک ہے.بیٹی ہے جو مجھے بدلہ " رو مبارک کے ملا ہے.مبارک احمد کی وفات کے بعد کے الہامات بھی شاہد ہیں کہ ایک بار میرے سامنے بھی مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت اماں جان سے بڑے زور سے اور بڑے یقین دلانے والے الفاظ میں فرمایا تھا کہ تم کو مبارک کا بدلہ جلد ملے گا.بیٹے کی صورت میں یا نافلہ (پوتے) کی صورت میں.مجھے مبارک کی وفات کے تین روز بعد ہی خواب آیا کہ مبارک احمد تیز تیز قدموں سے آ رہا ہے اور دونوں ہاتھوں پر ایک بچہ اٹھائے ہوئے ہے.اس نے آکر میری گود میں وہ بچہ ڈال دیا اور وہ لڑکا ہے.اور کہا کہ ”لو آپا یہ میرا بدلہ ہے" (یہ فقرہ بالکل وہی ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا تھا.میں نے جب یہ خواب صبح حضرت اقدس کو سنایا تو آپ بہت خوش ہوئے.مجھے یاد ہے کہ آپ کا چہرہ مبارک مسرت سے چمک رہا تھا اور فرمایا تھا کہ ”بہت مبارک خواب ہے" آپ کی بشارتوں اور آپ کے کہنے کی وجہ تھی کہ ناصر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ کو اماں جان نے اپنا بیٹا بنا لیا تھا.اماں جان کے ہی ہاتھوں میں ان کی پرورش ہوئی.
15 شادی بیاہ بھی انہوں نے کیا اور کو بھی بھی بنا کر دی (النصرة ).تمام پاس رہنے والے جو زندہ ہوں گے اب بھی شاہد ہوں گے کہ حضرت اماں جاں ناصر کو مبارک سمجھ کر اپنا بیٹا ظاہر کرتی تھیں اور کہا کرتی تھیں.روز R ” یہ تو میرا مبارک ہے" عائشہ والدہ نذیر احمد جس کو حضرت اماں جان نے پرورش کیا اور آخر تک ان کی خدمت میں رہیں یہی ذکر اکثر کیا کرتی ہیں کہ اماں جان تو ناصر کو اپنا مبارک ہی کہا کرتی تھیں کہ یہ تو میرا مبارک مجھے ملا ہے....کئی سال ہوئے میں بیمار ہوئی تو میں نے ایک کاپی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض باتیں جو جو یاد تھیں لکھی تھیں ان میں یہ روایت اور اپنا خواب میں نے لکھا تھا وہ کاپی میرے پاس رکھی ہوئی ہے والسلام مبارکه ۲۰ محترم پروفیسر صوفی بشارت الرحمان صاحب اس بارہ میں ایک واقعہ بیان کرتے ہو ہوئے لکھتے ہیں.۱۹۴۷ء میں اغلبا مارچ اپریل کے مہینے میں ہم لوگوں نے فضل عمر وسٹل تعلیم الاسلام کالج قادیان میں صحابہ کرام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک محفل منعقد کی...حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی اللہ ، اس محفل کے صدر گرامی تھے انہوں نے ایک مختصر سا خطاب فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا:.میں ناصر احمد کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا فرزند ہی سمجھتا ہوں اگرچہ ان کی پیدائش حضور علیہ السلام کے بعد ہوئی ہے.اس کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو ایک لڑکے کی پیدائش کی خبر دی تھی جس کے متعلق فرمایا تھا يَنْزِلُ مَنْزِلَ الْمُبَارَكِ کہ وہ مبارک کا
16 رم قائمقام ہو گا.سو مبارک کے قائمقام میاں ناصر احمد ہیں کیونکہ ان کی شکل و صورت و حلیہ مبارک احمد مرحوم سے ملتا ہے اس لحاظ سے میاں اصر احمد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فرزند ہی ہیں اور ان کو صحابہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں ہونے کی حیثیت Mee سے شامل ہونا چاہئے." ال ۱۹۶۵ء کے جلسہ سالانہ پر عورتوں سے خطاب کرتے ہوئے حضرت نواب مبارکہ : بیگم نے خلافت ثالثہ کے قیام کے بارے میں فرمایا :.آپ سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی سے محبت کرنے والوں کے لئے یہ قیام خلافت دوہرا احسان الہی ہے.ایک تو خلافت کا احسن طریق سے قیام.پھر یہ کہ وہ شخص آپ کو دیا جو آپ کے محبوب خلیفہ کا لخت جگر ہے.گویا اسی کا وجود دوسری صورت میں آپ کو دوبارہ بخش دیا گیا.یہ بالکل درست ہے کہ جو بھی خلیفہ منتخب ہو تا سب کے سر اسی طرح جھکتے.ہم سب کے دل اسی طرح شرح صدر سے اس کو قبول کرتے.مگر یہ کیسا احسان مزید چاہنے والوں کے لئے کہ اس کی نشانی آپ کا موعود ہوتا جس کی خاص بشارت آپ کو حق تعالٰی نے دی تھی آپ کو کھڑا کر دیا کہ لو یہ تمہارے پیارے کا پیارا.اسی مبارک وجود کا حصہ اسی کا لخت دل، تمہارے دلوں کی تسکین، تمہاری راہنمائی اور احمدیت کی خدمت کے لئے تم کو دیا جاتا ہے.ee حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ کی ایک تصویر جو سٹیج پر لی گئی تھی اور جسے انلارج کروا کر سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو پیش کی گئی.اس تصویر کو دیکھ کر ان کی زبان پر مندرجہ ذیل تین اشعار جاری ہوئے.خدا کا فضل ہے اس کی عطا ہے محمد کے وسیلے ނ ملا
مبارک" تھا ہوا مقبول نوید احمد 17 المومنین کا العالمیں کا تنویر محمود موعود موعود این موعود ابن حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی خلافت کے آغاز میں ہی مولانا جلال الدین شمس صاحب ناظر اصلاح و ارشاد و سابق امام مسجد لندن نے آپ کے بارہ میں ۸۰ خواہیں منتخب کر کے کتابی شکل میں بشارات ربانیہ" کے نام سے شائع کیں.ان میں سے صرف دو خوا میں یہاں بیان کی جاتی ہیں:.(1) جی ایم نذیر احمد صاحب آف بنگلور صدر کراچی نمبر ۳ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر اور اسی پاک ذات کی قسم کھا کر مندرجہ ذیل خواب تحریر کر رہا ہوں جو آج سے قریباً چار سال پہلے کی ہے.دیکھتا ہوں کہ میرے سامنے ایک سفید گتہ جو مندرجہ ذیل شکل کا تھا پیش کیا گیا جس پر یہ تحریر درج تھی جس کے الفاظ مجھے اب تک اچھی طرح یاد ہیں :.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اور مرزا ناصر احمد صاحب ان کا مقام بہت بلند ہے." ۲۳ عبد الغفار صاحب فوٹو سپیڈ کمپنی سابق امیر ضلع حیدر آباد.خاکسار نے دیکھا کہ ایک فرشتہ شکل بزرگ جن کا لباس نهایت سفید ہے.جس میں سے نور کی شعاعیں نکل رہی ہیں فرش پر جلوہ افروز ہیں.شکل حکیم عبد الصمد صاحب دہلوی صحابی حضرت مسیح موعود سے بہت کچھ ملتی جلتی ہے لیکن حکیم صاحب بذات خود نہیں تھے.وہ سورۃ جمعہ کی تفسیر بیان فرما رہے ہیں اور اس میں خلافت احمدیہ کے ہونے والے واقعات کا ذکر فرما رہے ہیں.اس کے بعد یہ ترقی ہو گی یہ ترقی ہو
18 گی پھر آپ نے آگے چل کر بڑے جلالی رنگ میں فرمایا نَافِلَةٌ لَكَ عَسَى أَنْ يَبْعَثَكَ رَبُّكَ مُقَامًا مَحْمُودًا پھر فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک پوتا ہو گا جو اس خدائی سلسلہ کو مقام محمود تک پہنچائے گا.اس کے بعد آپ کے چہرہ کا فوکس میرے سامنے لایا گیا کہ یہ ہوتا ہے میں نے فورا عرض کیا کہ یہ تو میاں ناصر احمد صاحب ہیں اور زبان سے الْحَمْدُ لِلَّهِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِیمِ نکلا اور آنکھ کھل گئی.".م الله ضلع سیرت خلیفہ المسیح الثالث کی تصنیف کے سلسلہ میں بعض اور دوستوں نے روایات لکھ کر دیں.اس سلسلہ میں چوہدری محمد انور حسین امیر جماعت احمدیہ شیخو پورہ بیان کرتے ہیں.ایک بڑے ہی بزرگ دوست نے ایک دفعہ کہا کہ میں نے آسمان پر ”میاں ناصر احمد صاحب" لکھا دیکھا ہے.بعد میں آپ خلیفہ منتخب ہو گئے." خود حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے اپنی خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ پر ۲۱ دسمبر ۱۹۶۵ء کو پیشگوئی مصلح موعود کے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے وجود میں پورے ہونے کا ذکر کرتے ہوئے اپنا ذکر ان الفاظ میں فرمایا :." پھر خدا نے فرمایا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا.ایک ہی پیشگوئی بعض دفعہ کئی واقعات پر مشتمل ہوتی ہے.کئی لحاظ سے یہ پیشگوئی پوری ہو چکی ہے لیکن اس کے ایک معنے یہ بھی تھے کہ جن چار لڑکوں کی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بشارت دی تھی ان میں سے چوتھا لڑکا حضرت مصلح موعود الله کے صلب سے پیدا ہو گا اور وہ بمنزلہ مبارک احمد کے ہو گا جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے بھی تحریر فرمایا ہے.سو اس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ پیشگوئی پوری ہو گئی ہے."
19 حاشیہ جات باب اول ا.یہ عجیب اتفاق ہے کہ ان بشارات کا ذکر پہلی مذہبی کتب میں بھی ملتا ہے یہود کی احادیث کی مشہور کتاب طالمود میں لکھا ہے."It is said that He (the messiah) Shall die and his kingdom descend to his son and grand son" (in proof of this opinion isaih Xlii is quoted) یعنی یہ بھی روایت ہے کہ مسیح کے وفات پانے کے بعد اس کی (آسمانی) بادشاہت اس کے فرزند اور پھر اس کے پوتے کو ملے گی ل خطاب جلسه سالانه برطانیه -۵ اکتوبر ۱۹۸۰ء بحواله دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۵۲۴٬۵۲۳ ک خطبه جمعه فرموده ۵ فروری ۱۹۸۲ء خطاب جلسہ سالانہ ریوه ۱۹۷۳ء ی خطاب جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۷۵ء ه خطاب جلسه سالانه برطانیه ۱۹۸۰ء ۶ کشتی نوح ص ۶۲ طبع اول ے تذکرہ چوتھا ایڈیشن ص ۶۵۱ بحوالہ حقیقته الوحی ص ۲۱۹٬۲۱۸ تذکرہ چوتھا ایڈیشن ص ۶۰۷ بحوالہ بدر ۱۵ اپریل ۱۹۰۶ ء و الحکم ۱۰.اپریل ۱۹۰۶ء سبز اشتهار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء ل حقیقة الوحی ص ۲۱۹٬۲۱۸ طبع اول الله ( تذکرہ چوتھا ایڈیشن ص ۷۲۰ بحوالہ بدر ۱۹ ستمبر ۱۹۰۷ء الحکم ۱۷ ستمبر ۱۹۰۷ء) ا تذکرہ چوتھا ایڈیشن ص ۷۳۵ بحوالہ بدر ۳۱.اکتوبر ۱۹۰۷ء الحکم ۳۱.اکتوبر ۱۹۰۷ء ۱۳ تذکرہ چوتھا ایڈیشن ص ۷۴۰ ۷۴۴ بحوالہ بدر و الحکم ۱۰ نومبر۷ ۱۹۰ ء ۱۴ بشارات ربانیہ ص ۱۶ مولفہ مولانا جلال الدین شمس سابق امام مسجد لندن ۵ل الفضل ۸.اپریل ۱۹۱۵ء ال الفضل ۱۱ ستمبر ۱۹۳۴ء ص ۷ بشارات ربانیہ ص ۲۳ مولفہ مولانا جلال الدین شمس سابق امام مسجد لنڈن ۱۸ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر ص ۲.اپریل مئی ۱۹۸۳ء بحواله الفضل ۱۴ جون ۱۹۵۴ء ول حضرت خلیفہ المسیح الثالث ص ۷۱ ۷۴ از مکرم مولوی دوست محمد شاہد بحوالہ " عرفانی الہی " ص ۱۷
20 رم لیکچر حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعود جلسہ سالانہ مارچ ۱۹۱۹ء ۲۰ بشارات ربانیہ ص ۱۸ مولفه مولانا جلال الدین شمس ناظر اصلاح و ارشاد و سابق امام مسجد لندن اس الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۶۵ء ۲۲ تاریخ لجنہ اماء اللہ حصہ سوم ص ۳۳۵ بحواله الفضل ۲۵ دسمبر ۱۹۶۵ء ۲۳، بشارات ربانیہ ص ۵۹ بحواله الفضل ۸ اکتوبر ۱۹۵۵ء بشارات ربانیہ ص ۵۱ ۲۵ خطاب جلسہ سالانہ ریوه ۲۱ و سمبر ۱۹۶۵ء
21 باب دوم ابتدائی حالات ولادت باسعادت، بچپن، تعلیم و تربیت شادی اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان روانگی اور وقف زندگی
23 ولادت باسعادت حضرت مرزا ناصر احمد (خلیفۃ المسیح الثالث) کی پیدائش الہی نوشتوں کے مطابق ۱۵ اور ۱۶ نومبر ۱۹۰۹ء کی درمیانی شب کو قادیان ضلع گورداسپور (پنجاب) ہندوستان میں ہوئی اس موقع پر قادیان سے شائع ہونے والے اخبار ”الحکم“ نے ۱۸ نومبر ۱۹۰۹ء میں یہ خبر دی :- ساقیا آمدن عید مبارك بادت اللہ تعالٰی نے اپنے فضل و کرم سے صاحبزادہ والا تبار مرزا محمود احمد کے مشکوئے معلی میں ۱۵ نومبر کی رات کو جس کی صبح ۱۶ نومبر ہے، بیٹا عطا فرمایا ہے.اللہ تعالی اس مولود مسعود کو اپنے مقدس جد امجد کے کمالات و اخلاق کا پورے طور پر وارث بنائے اور بفضلہ ذیل الہامات کا مصداق ہو.۱۶ ستمبر ۱۹۰۷ء بوقت شام إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِيمٍ.ہم تجھے ایک حلیم لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں.۳۱ اکتوبر ۱۹۰۷ء إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِيم - يَنْزِلُ مَنْزِلَ الْمُبَارَكِ ۹ اکتوبر ۱۹۰۷ء سَاهَبُ لَكَ غَلَامًا ذَكِبًا - رَبِّ هَبْ لِي ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَى - مظہر الحق والعلا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی اور حضرت سیدہ ام ناصر محمودہ بیگم نور اللہ مرقدھا کے آپ فرزند اکبر تھے آپ کا وجود اپنے آباؤ اجداد اور والدین کی دعاؤں کا ثمرہ تھا.چونکہ آپ کی دادی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم نے آپ کو بچپن ہی سے اپنی آغوش محبت میں لے کر اپنا بیٹا بنا لیا تھا اس لئے آپ ہمیشہ انہیں ہی اپنی ماں سمجھتے تھے.
24 آپ کی حقیقی والدہ جو خواتین مبارکہ میں ام ناصر" کے نام سے معروف ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مخلص صحابی حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین کی بڑی صاحبزادی تھیں.ام ناصر" کا اصل نام رشیدہ بیگم تھا حضرت مصلح موعود کے ساتھ شادی کے بعد حضرت اماں جان نے ان کا نام تبدیل کر کے محمودہ بیگم رکھ دیا لیکن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی ولادت کے بعد وہ ام ناصر کے نام سے معروف ہوئیں.رض حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین لاہور کے رہنے والے تھے اور رڑکی میں ملازم تھے.اس لئے حضرت مصلح موعود " کا نکاح رڑکی میں ہوا.حضرت مصلح موعود ۲.اکتوبر ۱۹۰۲ء کو حضرت مولوی نورالدین الله اور بعض اور صحابہ کے ہمراہ قادیان رڑ کی پہنچے.حضرت مولوی نورالدین نے صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کا نکاح حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین کی صاحبزادی رشیدہ بیگم کے ساتھ ایک ہزار روپے مہر پر پڑھا.حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین کے بھائی مخالف تھے اس لئے وہ اس نکاح میں شامل نہ ہوئے.۵ اکتوبر ۱۹۰۲ء کو یہ قافلہ واپس قادیان پہنچا.تقریب رخصتانہ اکتوبر ۱۹۰۳ء کے دوسرے ہفتے میں آگرہ میں عمل میں آئی جہاں تبدیل ہو کر حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین میڈیکل کالج میں پروفیسر تھے.وضيح حضرت سیدہ ام ناصر ال کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سب سے بڑی بہو ہونے کا شرف حاصل ہے حضرت مصلح موعود کی زیادہ تر اولاد ان ہی میں سے ہوئی.حضرت سیدہ ام ناصر بہت سی خوبیوں کی حامل تھیں نہایت درجہ خدا رسیدہ غریب پرور اور ہمدرد خلائق خاتون مبارکہ تھیں.نیکیوں اور قربانیوں میں ان کا مقام بہت بلند تھا.الفضل " اخبار جاری کرنے کے لئے انہوں نے اپنے مقدس خاوند کو دو قیمتی زیور پیش کر دئیے اور اسی سرمایہ سے یہ اخبار جاری ہوا.حضرت ام ناصر اور حضرت مصلح موعود کی رفاقت کا زمانہ پچپن چھپن سالوں تک پھیلا ہوا ہے.ان کا انتقال -۳۱ جولائی ۱۹۵۸ء کو مری میں ہوا اور ربوہ میں تدفین عمل میں آئی.ان کا مزار حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم کے پہلو میں احاطہ خاص رم
25 بہشتی مقبرہ ربوہ میں ہے.حضرت مرزا ناصر احمد کے والد حضرت مصلح موعود مرزا محمود احمد ۱۲ جنوری ۱۸۸۹ء کو الہی پیشگوئیوں کے مطابق پیدا ہوئے.۲۵ سال کی عمر میں سید نا حضرت حکیم مولوی نورالدین خلیفہ المسیح اول کی وفات کے اگلے روز ۱۴ مارچ ۱۹۱۴ء کو خلافت ثانیہ کے مسند پر متمکن ہوئے اور ایک انقلابی اور نہایت ہی کامیاب نصف صدی پر پھیلا ہوا دور خلافت مکمل کر کے ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کو فوت ہوئے.لرحيم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی پیدائش کے وقت حضرت اماں جان کے والد حضرت میر ناصر نواب صاحب گوجرانوالہ کی جماعتوں کے دورہ پر تھے اور کسی چندہ کی وصولی کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح اول کے ارشاد پر گئے ہوئے تھے انہیں وہاں پر حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کے گھر ایک بیٹا ( حضرت مرزا ناصر احمد ) پیدا ہونے کی خبر ملی جس کا ذکر انہوں نے اپنے سفر نامہ کے منظوم کلام میں ان الفاظ میں کیا.گوجر انوالہ میں وہاں سے چلا پہنچا اک دم میں وہاں بفضل خدا مژده مجھ کو اس جگہ یک مالا گھر محمود کے ہوا خدا نے مژدہ یہ سن کے جان میں جان آئی مہربانی بیٹا فرمائی نکل آئے پر جو تھے مستور اب میں پرنانا ہو گیا مشہور میرے پودوں میں پھل لگائے خدا مجھ کو دادا بھی اب بتائے خدا شکر مالک کا میں بجا لایا وہاں سے لاہور میں چلا آیا میں نے لاہور سے لیا کچھ مال جس نے بخشا وہ مال ہو وہ نہال وہاں سے میں قادیان میں آ پہنچا اور کیا میں نے دل سے شکر خدا خوش ہو گیا وہ میرا نور 2 میری محنت خدا نے کی منظور نور کیسا کہ نور دین ย ہے وہ مجھ سے با دیانت ہے اور امین ہے وہ شان اس کی خدا کرے دو چند ہوں دعا کا میں اس سے خواہش مندب
26 حضرت اماں جان کی آغوش محبت میں پرورش.الله الہی وعدوں کے مطابق چونکہ آپ نے بھی بڑے ہو کر حمایت دین اسلام کی جدوجہد میں جماعت احمدیہ کی قیادت کرنی تھی اور اپنے جد امجد کے ان انوار کو جن کی ان کے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی تھی دنیا میں پھیلانا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت بچپن ہی سے آپ کو آپ کی دادی حضرت ام المومنین سیدہ حضرت نصرت جہاں بیگم المعروف حضرت اماں جان نے اپنی گود میں لے لیا.وہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کی روشنی میں اپنے چوتھے بیٹے مبارک احمد کا نعم البدل اور اپنا (پانچواں) بیٹا خیال فرماتی تھیں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم وہ مقدس خاتون تھیں جن کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اللہ تعالیٰ کی عظیم بشارتوں کے ماتحت شادی کی ہے جن کے ذریعے اس مبارک نسل کا سلسلہ چلا جس کی پیشگوئی آنحضر م م ل ل ا ل لیلی نے ان الفاظ میں فرمائی تھی.يَنْزِلُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ إِلَى الْأَرْضِ فَيَتَزَوَّجُ وَيُوْلَدُ لَهُ - ٣ لضير چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کا اپنی مقدس دادی کی گود میں پرورش پانا کوئی اتفاقی بات نہ تھی بلکہ اللہ تعالی کی خاص تقدیروں میں سے ایک تقدیر تھی.اکثر لوگ جو پہلی مرتبہ آپ کو اپنی دادی کے گھر میں دیکھتے تو ان کا خیال یہی ہوتا کہ صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے حقیقی بیٹے ہیں.چنانچہ حضرت سیده مریم صدیقہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ وہ بچپن میں اپنے والد حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب جو حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم کے حقیقی بھائی تھے) کے ساتھ قادیان آئیں اور حضرت اماں جان کے پاس ٹھہریں اس وقت پہلی بار صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو حضرت اماں جان کے گھر دیکھ کر انہوں نے یہی سمجھا کہ آپ حضرت اماں جان کے بیٹے ہیں.سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ یہ واقعہ یوں بیان کرتی ہیں."میرا بچپن حضرت ابا جان (ڈاکٹر میر محمد اسماعیل) کی ملازمت کی وجہ
27 سے قادیان سے باہر ہی گزرا لیکن چھٹی لے کر کبھی جلسہ سالانہ پر کبھی اور دنوں میں سال میں ایک مرتبہ ابا جان ضرور قادیان آیا کرتے تھے اور حضرت اماں جان کے پاس قیام ہوتا تھا.ایک دفعہ لمبے عرصے کے لئے قادیان میں اس مکان میں رہے جس میں بعد میں حضرت سیدہ ام طاہر احمد رہا کرتی تھیں.اس وقت پہلی بار حضرت مرزا ناصر احمد کو حضرت اماں جان کے گھر دیکھا اور یہی سمجھا کہ حضرت اماں جان کے بیٹے ہیں.ذرا بڑی ہوئی تو معلوم ہوا کہ بیٹے نہیں ہوتے ہیں لیکن اماں جان کی آغوش محبت میں پلے ہیں اور آپ کے پاس ہی رہتے ہیں." ہی دراصل حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو بہت بچپن سے ہی آپ کی دادی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم نے اپنے پاس رکھ لیا تھا.چنانچہ اس بارہ میں آپ کی بهن صاحبزادی سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ : ">...میرے بھائی ہمارے گھر سے حضرت اماں جان نور اللہ مرقدھا کے گھر برائے پرورش و تربیت منتقل ہو گئے.کبھی بچپن میں زیادہ بیمار ہوتے تو امی جان مرحومہ کے پاس بھیج دیئے جاتے ورنہ حضرت اماں جان کی زیر تربیت اور ان کی نگرانی میں رہے." آپ کی دادی حضرت اماں جان " کو آپ سے بہت محبت تھی اور شروع سے ہی وہ آپ کا بہت خیال رکھتی تھیں.چنانچہ آپ کی بہن رقمطراز ہیں.حضرت اماں جان ' حضرت بھائی جان سے بہت محبت کرتی تھیں اور بہت خیال رکھتی تھیں.کھانے کے اوقات کا ان کے آرام کا اور ساتھ ہی تربیت کے پہلو نظر انداز نہ کرتیں." آپ کے ساتھ جتنی گہری محبت آپ کی دادی حضرت اماں جان کو تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے بچا زاد بھائی صاحبزادہ مرزا مظفر احمد (ایم ایم احمد ) جو آپ کے ہم عصر تھے بیان کرتے ہیں.بھائی جان جب بھی گھر سے باہر جاتے تھے حضرت اماں جان سے
28 اجازت لے کر جاتے تھے اور جن الفاظ سے حضرت اماں جان اجازت دیتی تھیں وہ میرے کانوں میں اب بھی گونج رہے ہیں.حضرت اماں جان ہمیشہ یہ دعائیہ الفاظ کہہ کر اجازت دیتی تھیں.جاؤ اللہ حافظ و ناصر.ہو.بڑی محبت اور بڑی گہرائی سے حضرت اماں جان یہ دعائیہ فقرہ کہتی تھیں.۵.حضرت اماں جان آپ کے کھانے کا خاص خیال کرتی تھیں اور اپنے پاس بٹھا کر کھانا کھلاتی تھیں.مرزا مظفر احمد صاحب جنہیں انہی دنوں میں خود بھی کچھ عرصہ آپ کے ساتھ حضرت اماں جان کے پاس رہنے کا اتفاق ہوا بیان کرتے ہیں:.دن کا کھانا حضرت اماں جان کے ساتھ کئی مرتبہ باورچی خانے میں چولے کے پاس بیٹھ کر کھاتے تھے اور کئی مرتبہ حضرت اماں جان خود اپنے ہاتھ سے روٹی پکا کر دیتی تھیں.رات کا کھانا سردی کے موسم میں حضرت اماں جان کے بڑے دالان میں کھایا جاتا تھا جو ہم سب کے سونے کا کمرہ بھی تھا اور جس میں سے بیت الدعا کو راستہ بھی جاتا تھا.کھانا فرش پر چنا جاتا تھا یا پھر اس کے لئے ایک چوکی پچھتی تھی جس پر چنا جاتا تھا اور اس کے چاروں طرف کھانے والے بیٹھتے تھے گرمیوں کے موسم میں رات کا کھانا صحن کے بالائی حصہ میں ایک تخت پوش کے اوپر کھایا جاتا تھا..حضرت اماں جان نے جس محبت اور چاہت سے آپ کی پروش کی اس کا آپ کی طبیعت پر اتنا گہرا اثر تھا کہ آپ ساری عمر انہیں ہی اپنی ماں سمجھتے رہے اور اکثر بچپن کے تعلق میں انہی کا ذکر فرماتے اور عملی زندگی میں قدم رکھنے کے بعد بھی روزانہ یا جب بھی کام سے فارغ ہوتے ان کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک حضرت اماں جان زندہ رہیں.چنانچہ جب آپ کی شادی سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ سے ہوئی اور آپ قادیان میں اپنی عملی زندگی کا آغاز فرما چکے تھے.اس زمانہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ فرماتی ہیں.
229 29 میں شادی کے بعد حضرت اماں جان کے ساتھ رہی حضرت مرزا ناصر احمد کو قادیان میں اپنی کو ٹھی ”النصرت" میں رہتے تھے لیکن قریباً روزانہ ہی اماں جان کے ہاں آیا کرتے تھے.جمعہ والے دن تو صبح ہی سے آ جاتے تھے اور ہم سب مل کر کھانا کھاتے.اماں جان خاص طور پر کہتیں.آج میاں ناصر اور منصورہ سارے دن کے لئے آ رہے ہیں فلاں فلاں کھانا تیار کر لو فلاں چیز ناصر احمد کو بہت پسند ہے." سکه پاکستان ہجرت کے بعد جب آپ ربوہ منتقل ہوئے تو وہاں بھی آپ کا یہی دستور رہا.بعض اوقات عصر اور مغرب کے درمیان آپ کار پر حضرت اماں جان کو سیر کروانے احمد نگر کے قریب اپنے باغ میں لے جاتے.احمد نگر کے ایک نو احمدی دوست ملک اللہ یار صاحب نے خاکسار سے بیان کیا کہ جب ربوہ آباد ہوا اور جامعہ احمدیہ ابھی احمد نگر میں تھا جب کہ وہ ابھی بچپن کی عمر میں تھے اور احمدی بھی نہیں ہوئے تھے.وہ کہتے ہیں.جب بھی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب لاہور سے ربوہ تشریف لاتے تو حضرت اماں جان کو عصر اور مغرب کے دوران آپ اکثر حضرت مصلح موعود کے باغ میں سیر کے لئے جاتے.ملک صاحب کا بیان ہے کہ وہ اور کئی دوسرے بچے وہاں اکٹھے ہو جایا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ دیکھو احمدیوں کی ماں آئی ہوئی ہے.بنیادی تعلیم - حفظ قرآن اور مولوی فاضل صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا.آپ نے پہلے قرآن کریم ناظرہ پڑھا اور ۲۴ فروری ۱۹۱۷ء کو آپ کے ختم قرآن پر آمین کی تقریب منعقد ہوئی.9 ناظرہ پڑھنے کے بعد آپ نے قرآن کریم حفظ کرنا شروع کیا اور ۱۷ مارچ ۱۹۲۲ء کو بارہ تیرہ برس کی عمر میں آپ نے حفظ قرآن کریم مکمل کر لیا.آپ نے ناظرہ قرآن کریم محترم قاری یاسین صاحب سے پڑھا.آپ قرآن کریم
30 پڑھنے کے لئے ان کے گھر تشریف لے جایا کرتے تھے البتہ حفظ قرآن کے لئے آپ کے لئے محترم حافظ سلطان حامد صاحب ملتانی کا انتظام کیا گیا.آپ کے قرآن کریم حفظ کرنے کی تکمیل کے موقع پر اہالیان قادیان کی طرف سے حضرت حافظ روشن علی صاحب نے آپ کے والد بزرگوار حضرت مصلح موعود کی خدمت میں مبارک پیش کی.آپ کی حفظ قرآن کریم کی تاریخ حافظ قرآن ۱۳۴۰ھ نکلی.۲۹ جون ۱۹۳۱ء کو آپ کے والد حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی نے اپنے بچوں اور بچیوں کے قرآن کریم ختم کرنے کے سلسلے میں ایک تقریب منعقد کی اور اس موقع پر اپنی ایک نظم سنائی جس کے چند اشعار درج ذیل ہے.میرا ناصر مرا فرزند اکبر ملا ہے جس کو حق سے تاج و افسر مبارک جو کہ بیٹا دوسرا ہے خدا نے اپنی رحمت سے دیا ہے منور جو کہ موٹی کی عطا ہے بشارت سے خدا کی جو ملا ہے سیارے ختم قرآن کر چکے ہیں ولوں کو نور حق سے بھر چکے ہیں الی تیز ہوں ان کی نگاہیں نظر آئیں بھی تقویٰ کی راہیں یہ قصر احمدی کے پاسباں ہوں یہ ہر میداں کے یارب پہلواں ہوں یہ پھر ایمان لائیں یہ پھر واپس ترا قرآن لائیں ثریا (کلام محمود) جن دنوں صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب قرآن کریم حفظ کر رہے تھے اور آپ کی عمر تقریباً ۱۲ سال تھی آپ کے والد حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی نے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر ۲۷ دسمبر ۱۹۲۱ء کو آپ سے تلاوت کروائی ۱۰ حفظ قرآن کریم کے سلسلہ میں آپ اپنی ڈائری ۴ میں ۱۹۲۷ء میں ایک دعا لکھتے ہیں."اللَّهُمَّ ارْحَمْنِى بِتَرْكِ الْمَعَاصِي اَبَدًا مَا اَبْقَيْتَنِي وَارْحَمْنِي أَنْ أَتَكَلَّفَ مَا لَا يَعْنِينِي وَارْزُقْنِى حُسْنَ النَّظْرِ فِيْمَا يُرْضِيْكَ عَنِّى اللَّهُمَّ بَدِيعَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلاَلِ وَالْإِكْرَامِ وَالعِزَّةِ الَّتِي لا تُرَامُ اسْتَلُكَ يَا اللَّهُ يَا رَحْمنُ
31 بِحَلَالِكَ وَنُوْرِ وَجْهِكَ اَنْ تَلْزِمَ قَلْبِي حِفْظُ كِتَابِكَ كَمَا عَلَّمْتَنِيْ - وَارْزُقْنِي أَنْ اَتْلُو عَلَى النَّحْوِ الَّذِى يُرْضِيكَ عَنّى - اللَّهُمَّ بَدِيعَ السَّمُوتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلَالِ وَالْإِكْرَامِ وَالْعِزَّةِ الَّتِى لَا تُرَامُ اسْتَلُكَ يَا اللَّهُ يَا رَحْمَنُ بِحَلَالِكَ وَ نُورِ وَجْهِكَ أن تُنَورَ بِكَتَابِكَ بَصَرِى وَ أَنْ تُطْلِقَ بِهِ لِسَانِي وَ أَنْ تَفْرِجَ بِهِ عَنْ قَلْبِي وَ أَنْ تَشْرَحَ بِهِ صَدْرِي وَ اَنْ تَغْسِلَ بِهِ بَدَنِي فَإِنَّهُ لَا يُعِيْنُنِي عَلَى الْحَقِّ غَيْرُكَ وَلَا يُؤْتِيهِ إِلَّا أَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ یہ دعا آنحضرت میں ہم نے علی بن ابی طالب کو قرآن یاد کرنے اور نہ بھولنے کے لئے سکھائی تھی.(باب دعاء حفظ القرآن و از یاد الحافظة) ۱۹۲۲ء کے رمضان المبارک میں آپ نے قادیان میں نماز تراویح پڑھائی اور قرآن کریم کا دور مکمل کیا چنانچہ امریکہ سے شائع ہونے والا رسالہ ”دی مسلم سن رائز“ اپنی جولائی ۱۹۲۲ء کی اشاعت میں لکھتا ہے NASIR AHMAD, (ABOUT 12 YEARS OLD), THE ELDEST SON OF OUR PRESENT LEADER, IS NOW A HAFIZ.HE RECITED THE WHOLE QURAN DURING THE LAST FASTING MONTH TO THE CONGREGATION IN THE MOSQUE, RECITING PART A EVERY EVENING.OF PHOTO ABOVE THE THE PROMISING LAD WAS TAKEN WHEN HE WAS SAYING IN PRAYERS HIS THE MOSQUE MAY ALLAH BLESS NASIR AND ALL HIS RELATIVES.آپ کی دوسری تعلیم کا آغاز بھی حفظ قرآن کریم کے دوران ہی شروع ہو گیا تھا لیکن جتنی دیر تک آپ قرآن کریم حفظ کرتے رہے دوسری تعلیم کی طرف زیادہ توجہ نہ
32 رض دی گئی.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں.ایک دن حضرت اماں جان کے پاس محمد احمد.منصور اور ناصر احمد تینوں بیٹھے تھے.میں بھی تھی.بچوں نے بات کی.شاید حساب یا انگریزی ناصر احمد کو نہیں آتا ہمیں زیادہ آتا ہے.اتنے میں حضرت بھائی صاحب (حضرت مصلح موعود ( تشریف لائے.حضرت اماں جان نے فرمایا کہ میاں! قرآن شریف تو ضرور حفظ کرواؤ مگر دوسری پڑھائی کا بھی انتظام ساتھ ساتھ ہو جائے کہیں ناصر دوسرے بچوں سے پیچھے نہ ، جائے مجھے یہ فکر ہے.ره اس پر جس طرح آپ مسکرائے تھے اور جو جواب آپ نے حضرت اماں جان کو دیا تھا وہ آج تک میرے کانوں میں گونجتا ہے.فرمایا.اماں جان! آپ اس کا بالکل فکر نہ کریں.ایک دن یہ سب سے آگے ہو گا انشاء اللہ تعالیٰ ال قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد آپ پہلے پرائیویٹ طور پر حضرت مسیح موعود کے ایک رفیق حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب سے عربی اور اردو وغیرہ پڑھتے رہے اور اس کے بعد دینی علوم کی تحصیل کے لئے آپ کو مدرسہ احمدیہ داخل کروایا گیا.مدرسہ احمدیہ کی تعلیم مکمل کر کے آپ کو جامعہ احمدیہ میں داخل کروایا گیا جہاں سے آپ نے اعلیٰ نمبروں پر مولوی فاضل پاس کیا.مولوی فاضل کا امتحان پنجاب یونیورسٹی لیتی تھی.چنانچہ جولائی ۱۹۲۹ء میں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ”مولوی فاضل" کی ڈگری حاصل کی.مولوی فاضل کے امتحان میں آپ نے پنجاب بھر میں تیسری پوزیشن حاصل کی.اس وقت آپ کی عمر بیس سال کی تھی.۲.جامعہ احمدیہ میں آپ کو جن اساتذہ نے پڑھایا ان میں حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب فاضل اور حضرت میر محمد اسحاق صاحب خاص طور پر قابل ذکر ہیں.حضرت مسیح موعود کا بڑا ہوتا اور حضرت مصلح موعود " کا له
33 بڑا لڑکا ہونے کی وجہ سے یہ سب اساتذہ آپ کا بہت خیال رکھتے تھے اور بڑی محبت سے آپ کو پڑھاتے تھے.ย حضرت مصلح موعود کی یہی خواہش تھی کہ حضور کا سب سے بڑا بیٹا قرآنی علوم حاصل کرے اور اس کی بنیادوں میں قرآن کریم اور دینی علوم اچھی طرح راسخ ہو جائیں تاکہ آپ بڑے ہو کر خدمت دین کے کاموں میں لگ جائیں.چنانچہ آپ نے اول طور پر قرآن کریم ناظرہ پڑھا پھر اسے حفظ کیا اور مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کی.اس کے بعد آپ نے تمام مضامین لے کر میٹرک کا امتحان پاس کیا.میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے جہاں سے ۱۹۳۴ء میں آپ نے بی اے کی ڈگری حاصل کی.آپ کے ایک استاد اس زمانے کا واقعہ بیان کرتے ہیں جب آپ پرائیویٹ طالب علم کے طور پر میٹرک کی تیاری کر رہے تھے جس سے ابتداء سے ہی آپ کے بلند اخلاق اور تقویٰ کے مقام پر فائز ہونے پر روشنی پڑتی ہے مکرم میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی بیان کرتے ہیں:.میں جب دسمبر ۱۹۲۹ء کے آخر میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان میں اپنے کیرئیر CAREER کے آغاز میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) کے حکم سے انگریزی پڑھانے پر مامور ہوا.ان ایام میں (حضرت) ”میاں ناصر احمد صاحب" مولوی فاضل پاس کرنے اور قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد پرائیویٹ طور پر میٹرک کے امتحان کی تیاری کر رہے تھے اور اس غرض کے لئے سکول میں بھی تشریف لایا کرتے تھے اور خاکسار کی انگریزی کی کلاس میں شامل ہوا کرتے تھے.میں نے سکول میں جاتے ہی طلباء کی یہ کمزوری نوٹ کرلی کہ جب ان سے کوئی سوال کیا جاتا ہے تو سب کے سب بغیر پوچھے جواب دے دیتے ہیں.دو تین روز تک انہیں یہ سمجھانے کے بعد کہ
34 جب تک ایک سے سوال نہ کیا جائے کسی ایک یا سب کا از خود بول پڑنا خلاف اصول تعلیم ہے.میں نے انہیں متنبہ کیا کہ اگر کوئی طالب علم بغیر ہاتھ کھڑا کئے اور جواب کے لئے منتخب ہونے کے از خود سوال کا جواب دے دے گا تو اس کو سزا دی جائے گی اور ساتھ ہی میں نے ایک سوال بھی کر دیا حسب عادت پھر تقریباً سبھی بول پڑے اور میں نے سختی سے کہا کہ ہر وہ شخص جو بولا ہے کھڑا ہو جائے میرے الفاظ اور لہجہ کی سختی نے ساری کلاس کو خاموش کر دیا اور کسی ایک کو بھی یہ کہنے کی جرات نہ ہوئی کہ اس نے از خود سوال کا جواب دے دیا ہے.مکمل سکوت اور خاموشی کے عالم میں میری دائیں طرف بیٹھے ہوئے (حضرت) ”میاں ناصر احمد صاحب نے کھڑے ہو کر یہ الفاظ کہے کہ ” بولا تو میں بھی ہوں." ee کس قدر بلند اخلاق اور تقویٰ کا مقام حضرت میاں ناصر احمد صاحب" کو بچپن میں ہی حاصل تھا.اس کا اندازہ اس ایک واقعہ سے بھی بخوبی ہو سکتا ہے کہ جب انہیں معلوم تھا کہ استاد ناراض اور غصے کی کیفیت میں ہے اور بحیثیت طالب علم انہیں وہ سزا بھی ملے گی جس کا استاد اعلان کر رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کے ہم جماعتوں میں سے ان کے علاوہ کسی ایک کو بھی یہ کہنے کی جرات نہ ہوئی کہ انہوں نے استاد کی خواہش کی تعمیل نہیں کی.اس جہت سے دیکھا جائے تو حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو وہ بلند مقام اور اعلیٰ کردار حاصل تھا اور اللہ تعالیٰ ان کی تربیت اس طرح شروع سے ہی فرما رہا تھا کہ بڑے ہو کر ان پر امامت کا بوجھ پڑنے والا ہے حضور اس کے اٹھانے کے لئے تیار ہوتے رہیں."
35.بچپن کے مشاغل جن لوگوں نے آپ کو بچپن میں دیکھا ہے ان کے بیان کے مطابق آپ مدرسہ احمدیہ میں بڑی باقاعدگی سے جاتے تھے اور بڑی محنت کے ساتھ پڑھتے تھے.عام طالب علموں کی طرح پڑھائی کو سال کے آخر پر نہ چھوڑتے تھے.پڑھائی کے ساتھ ساتھ آپ کھیلوں میں بھی باقاعدہ حصہ لیتے تھے.فٹ بال.والی بال.کبڈی وغیرہ کھیلتے تھے.جسمانی نشوو نما کے لئے ڈمبل اور کھینچنے کے سپرنگ سے بھی ورزش کیا کرتے تھے.تیرا کی اور گھوڑ سواری بھی کرتے تھے.بچپن میں آپ کو نشانہ بازی کا بہت شوق تھا اور آپ شکار کے لئے بھی جایا کرتے تھے.آپ کی بہن حضرت سیده ناصرہ بیگم صاحبہ بچپن کے زمانے کے واقعات بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں.کبھی چھٹی کے دن وہ مجھے ساتھ لے کر بھینی کی طرف یا بادوں کے باغ کی طرف شکار کے لئے بھی لے جاتے.ہوائی بندوق اور غلیل سلام الله سے خود شکار کرتے اور مجھ سے نشانہ لگواتے.۱۴ آپ نے خود ایک مرتبہ فرمایا:.میں اپنے زمانہ میں ہاکی بھی کھیلتا رہا ہوں.اسی طرح بعض اور کھیل بھی جن کا مجھے موقع ملا کھیلتا رہا ہوں یعنی فٹ بال بھی ، ہاکی بھی، کرکٹ بھی، ٹینس بھی، سکائش ریکٹ بھی، میرو ڈبہ اور گلی ڈنڈا بھی اور کلائی پکڑنا (جسے پنجابی میں بینی پکڑنا کہتے ہیں) وہ بھی کھیلتا رہا ہوں اب نام لیتے وقت مجھے یاد آیا کہ بعض کھیل میں نے نہیں کھیلے کیونکہ ان کے کھیلنے کا مجھے موقع نہیں ملا لیکن بہت سے کھیل کھیلے ہیں.میں نے سیر بھی کی ہے اور بہت کی ہے.سیر بھی بہترین ورزش ہے.پھر سیر کی ایک شکل بہت اچھی اور صحت مند غذا کے حصول کے لئے شکار کھیلنا ہے چنانچہ میں شکار بھی کھیلتا رہا ہوں.پھر تیرا کی بھی کرتا رہا ہوں.قادیان کے پاس نہریں تھیں اور بعد میں تالاب بھی بن گیا تھا لیکن
36 نہریں بھی ہمارے قریب تھیں اس لئے کثرت سے ہم لوگ یعنی قادیان میں بسنے والے اس وقت کے نوجوان نہروں پر جایا کرتے تھے." ۱۵ آپ کے مشاغل اور آپ کی تعلیم جماعتی کاموں میں حائل نہیں ہوتے تھے بلکہ ان میں ایک توازن تھا اور بچپن سے بھرپور زندگی گزارنے کے عادی بن گئے تھے.شروع سے آپ کی طبیعت میں اللہ تعالیٰ کی حمد کے نتیجہ میں مزاح بہت تھا اور ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے اور مشکلات سے گھبراتے نہیں تھے.آپ کی طبیعت کے بارے میں آپ کی بہن سیدہ ناصرہ بیگم جو آپ سے دوسرے نمبر ہیں لکھتی ہیں.”بھائی جان کی طبیعت میں مزاح بہت تھا.آنحضرت میں کو گھوڑوں سے بہت پیار تھا چنانچہ بچپن سے ہی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی گھوڑ سواری میں دلچسپی لیتے تھے ایک دفعہ آپ گرے بھی تھے.اس واقعہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کرنل (ریٹائرڈ) مرزا داؤد احمد صاحب لکھتے ہیں." قادیان کی تعلیم کے اسی زمانے میں ایک یار قندی یا بو منگوایا گیا تھا.یہ جانور ذرا منہ زور تھا.وہ آپ کو لے بھاگا آپ روک نہ سکے اور اس پر سے گر گئے.کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی.ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے جو ڑا مگر ٹھیک سیٹ نہیں ہوا پھر حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے دوبارہ ٹھیک کیا.یہ اس زمانہ کی بات ہے جب کہ نور ہسپتال میں کچھ واجبی قسم کا سامان ہوتا تھا.ترکھان بلایا گیا اس نے بھٹیاں تیار کیں تو ہاتھ باندھا گیا.اس عرصہ کے دوران کوئی تکلیف کا اظہار نہ کیا.یہ کلائی ہمیشہ کے لئے کچھ ٹیڑھی ہو گئی تھی." کے لہ کھیلوں میں ہاکی آپ کثرت سے کھیلتے رہے البتہ ہاکی کی نسبت فٹ بال زیادہ اچھا کھیلتے تھے.بٹالہ میں رابرٹ ٹورنامنٹ ہوا تو آپ بھی اس میں شامل ہوئے.ان دنوں میں کھیل کی یونیفارم نیکر اور سفید قمیض پر سرخ SASH یا پٹکا ہوتا تھا جس میں آپ بہت خوبصورت نظر آتے تھے.
37 ایک مرتبہ جامعہ احمدیہ کے زمانہ میں آپ قادیان میں ہاکی کھیل رہے تھے کہ سکھوں کے شرارت کرنے کی کوئی خبر پہنچی.آپ بڑی دلیری سے ہاکی لے کر وہاں سینکڑوں سکھوں کا مقابلہ کرنے کے لئے پہنچ گئے.کرنل (ریٹائرڈ) صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے رقمطراز ہیں:." شاید ۱۹۲۹ء کا زمانہ تھا.حضرت مصلح موعود کشمیر گئے ہوئے تھے آپ جامعہ احمدیہ کھلنے کی وجہ سے پہلے واپس آچکے تھے.شاید ستمبر کا مہینہ تھا.حضرت ماسٹر چراغ محمد صاحب موضع کھارا سے دوڑتے ہوئے آئے کہ سکھوں نے ہماری فصلوں میں اونٹ چھوڑ دیئے ہیں اور شرارت سے بلوہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں.آپ اس وقت ہاکی کھیل تھے.بائیں تئیس نوجوان کھیل میں موجود تھے.آپ کھیل کو رہے چھوڑ کر ان جوانوں کو لے کر موضع کھارا کی طرف دوڑ پڑے.اس وقت موضع کھارا کی حد پر سینکڑوں سکھ تھے جو ہر قسم کے اسلحہ سے مسلح لڑائی کے لئے تیار تھے.آپ پہلی پارٹی کے ساتھ پہنچے جس کے پاس صرف ہاکیاں تھیں.بعد میں گو اپنے سینکڑوں لوگ وہاں پہنچ گئے مگر آپ سب سے پہلے پہنچنے والوں میں سے تھے.ایسے موقعوں پر ڈر اور خوف تو آپ کے کبھی قریب بھی نہیں پھٹکتے تھے.اِنَّ اَوْلِيَاءَ اللَّهِ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ » ۸ بچپن میں ایک مرتبہ آپ نے گت کا کھیلنا بھی سیکھا.چنانچہ مکرم ملک محمد عبد اللہ صاحب سابق لیکچرار دینیات تعلیم الاسلام کالج ربوہ بیان کرتے ہیں.صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کے ساتھ ہو) کی رفاقت مجھے بچپن سے میسر رہی.نو دس سال کی عمر میں اکثر حضرت سیده ام ناصر صاحبہ کے ہاں جایا کرتا تھا اور وہیں پر حضرت صاحبزادہ صاحب سے واقفیت ہوئی جو بعد میں دوستی اور رفاقت کا رنگ اختیار کر گئی.حضرت فضل عمر سے بھی وہاں اکثر مصافحہ کا شرف حاصل ہو تا.
38 ایک دفعہ قادیان کے ایک مقامی شخص قریشی شاہ محمد صاحب کو بلایا اور انہیں حضور نے ارشاد فرمایا کہ وہ صاحبزادہ صاحب کو گتیکا سکھائیں.کے حضور نے گٹکے بنوانے کے لئے انہیں کچھ رقم عطا کی اور آب ساتھیوں میں مکرم مرزا عبدالرحمان صاحب ابن مرزا مهتاب بیگ صاحب انچارج احمدیہ درزی خانہ اور یہ خاکسار (ملک محمد عبد الله ) تھے.قریشی صاحب گنگے کے بڑے ماہر اور پہلوان بھی تھے یہ شوق کوئی مہینہ بھر قائم رہا اور پھر ختم ہو گیا " ول بچپن میں بہادری کا ایک واقعہ صاحبزادی امتہ الشکور صاحبہ لکھتی ہیں :." حضور بچپن سے ہی بہت ہمت اور حوصلہ والے اور بڑے بہادر تھے.کسی کی جان بچانی ہو تو اپنی جان کی پرواہ بالکل نہ کرتے.ایک بار جب آپ بالکل چھوٹے تھے، آپ اور آپ کی چھوٹی بہن صاحبزادی ناصرہ بیگم موم بتی کے پاس کھیل رہے تھے کہ اچانک بہن کے بالوں کو آگ لگ گئی اور بھائی نے اپنی پروا نہ کرتے ہوئے اپنے ننھے منے ہاتھوں سے اس آ سے اس آگ کو بجھایا اور خدا کے فضل سے بہن جلنے سے بچ گئی.اس واقعہ سے آپ کی حاضر دماغی اور بلند ہمت اور جرات کا پتہ چلتا ہے." بچپن کی تربیت ابھی آپ کی عمر پانچ سال کی ہی تھی کہ آپ کے والد حضرت مصلح موعود خلافت ثانیہ کی مسند پر متمکن ہوئے.گویا خلافت ثانیہ کے آغاز کے ساتھ ہی آپ کی تربیت کا آغاز ہوا اور اس طرح اللہ تعالٰی نے آپ کو ایک شاندار ماحول عطا فرمایا جس میں ایک
39 کو ختم بچے کی بہترین تربیت ہو سکتی تھی کیونکہ انسان کا گھر ہی اس کی اصل تربیت گاہ ہوتی ہے.اس مقدس گھر میں جہاں آپ کی پیدائش ہوئی اور آپ کا بچپن گزرا اس پر ذرا غور کرنے سے انسان اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ واقعی تربیت کے لئے وہ بہترین ماحول تھا.ایک طرف مامور زمانہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تربیت یافتہ بیوی حضرت ام المومنین آپ کے لئے بمنزلہ ماں تھیں جنہوں نے آپ کو اپنا بیٹا بنا لیا دوسری طرف حضرت مسیح موعود اور ام المومنین " کا ہی لخت جگر اور خلیفہ وقت آپ کا والد تھا اور حضرت مسیح موعود اور ام المومنین کی بڑی بہو اور خلیفہ وقت کی بیوی آپ کی حقیقی ماں تھیں جن کا ایک ایک لمحہ خلیفہ وقت کا کام بنانے میں وقف تھا.حضرت مسیح موعود اور حضرت ام المومنین " کا بڑا پوتا ہونے کی وجہ سے خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے افراد جیسے آپ کے چا حضرت مرزا بشیر احمد الله اور حضرت مرزا شریف احمد اللہ آپ کی پھوپھیاں حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیده نواب امتہ الحفیظ بیگم بھی آپ سے بہت پیار کرتے تھے اور یہ سارے وجو د شعائر اللہ میں سے ہونے کی وجہ سے آپ کی تربیت میں ممدو معاون تھے.پھر حضرت ام المومنین کے بھائیوں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل ا الله اور حضرت میر محمد اسحاق ال کو آپ سے پیار تھا اور ان کا نیک نمونہ بھی آپ کے سامنے تھا.علاوہ ازیں حضرت مسیح موعود کے وہ صحابہ جن کا کوئی جسمانی رشتہ تو آپ کے ساتھ نہ تھا لیکن وہ اپنے مقام کے لحاظ سے بہت بلند تھے اور حضرت مصلح موعود کے دست و بازو سمجھے جاتے تھے ان کا پیار اور ان کی دعائیں بھی آپ کے ساتھ تھیں اور ان کا نیک نمونہ بھی آپ کے سامنے تھا.غرض وہ ایک ایسا حسین روحانی ماحول تھا جس میں آپ پروان چڑھے کہ اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے.لیکن یہ حقیقت ہے کہ حضرت اماں جان اور حضرت مصلح موعود کا آپ کی تربیت میں خاص ہاتھ تھا جیسا کہ آپ نے اپنے خطاب اول بعد از انتخاب خلافت ثالثہ کے موقع پر فرمایا:.رض آپ مجھے اپنا ہمدرد اور خیر خواہ پائیں گے کیونکہ سید نا حضرت خلیف"
40 المسیح الثانی نے ہماری اس طرح تربیت کی ہے.میں چھوٹا تھا اور اب اس عمر کو پہنچا ہوں ہم نے یہی محسوس کیا کہ حضور کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ میرے بچے دنیا کے لئے خیر کا منبع ہوں.کسی کو ان سے تکلیف نہ پہنچے.اسی خواہش کا حضور نے اپنے ایک شعر میں یوں اظہار فرمایا ہے.الہی خیر ہی دیکھیں نگاہیں پھر جو ماں ملی (یعنی حضرت ام المومنین ا جس نے میری تربیت کی ویسی ازواج مطہرات کے بعد ماں کسی کو نہیں ملی.وہ ایسی تربیت کرتی تھیں کہ دنیا کا کوئی ماہر نفسیات ایسی تربیت نہیں کر سکتا.اس حضرت اماں جان اے اور آپ کے بزرگ والدین نے کچھ اس انداز سے آپ کی تربیت فرمائی کہ آپ کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی استعدادیں روشن ہوتی چلی گئیں اور آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت، حضرت محمد رسول اللہ سلم کی محبت اور قرآن کریم سے عشق کے علاوہ بنی نوع انسان کے لئے زبردست محبت و ہمدردی کے جذبات پیدا ہو کر بڑھتے ہی چلے گئے اور بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ سے آپ کا تعلق پیدا ہو گیا اور اللہ تعالٰی کے پیار کے جلوے ظاہر ہونے لگے اور یہ سلسلہ دن بدن بڑھتا چلا گیا.ایشیار، عجز و انکساری، سادگی، حیا، خدمت دین کا جذبہ محنت وغیرہ کے اخلاق آپ نے بچپن میں حضرت اماں جان کی تربیت سے سیکھے.چنانچہ آپ کے اپنے بیان فرمودہ اس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح آپ سے آپ کی محسنہ دادی نمازوں کی پابندی کرواتی تھیں.آپ کی جسمانی نشوو نما کا بھی خیال رکھتی تھیں اور کس طرح بچپن سے آپ کی طبیعت میں حیا اور مروت ودیعت کی گئی تھی.آپ فرماتے ہیں.”میرے بچپن کا ایک واقعہ ہے.میں بہت چھوٹا تھا اس وقت.لیکن ابھی تک وہ واقعہ مجھے پیارا لگتا ہے.میں مسجد اقصیٰ میں عشاء کی
41 نماز کے لئے جایا کرتا تھا کیونکہ عشاء کی نماز مسجد مبارک میں بہت دیر سے ہوتی تھی اور میں مدرسہ احمدیہ میں نیا نیا داخل ہوا تھا.پڑھائی کی طرف توجہ دینے اور نیند پوری لینے کی خاطر حضرت ام المومنین.مجھے فرماتی تھیں.تم مسجد اقصیٰ میں جا کر نماز پڑھ آیا کرو.ورلی سیڑھیاں یعنی مسجد مبارک کی وہ سیڑھیاں جو اس دروازہ کے ساتھ ہیں جو دار مسیح کے اندر جانے والا دروازہ ہے وہاں سے میں اترتا.وہ گلی بڑی اندھیری تھی.اب تو شاید وہاں بجلی لگ گئی ہو گی.اس زمانہ میں بجلی نہیں تھی.ایک دن میں نیچے اترا نماز کے لئے تو عین اس وقت مدرسہ احمدیہ کے طلباء کی لائن نماز کے لئے جا رہی تھی اور اندھیرا تھا.خیر میں لائن میں شامل ہو گیا لیکن اس اندھیرے میں کچھ پتہ نہیں لگ رہا تھا.میرا پاؤں ایک طالب علم کے سلیپر پر لگا اور وہ سمجھا کہ کوئی لڑکا اس سے شرارت کر رہا ہے وہ پیچھے مڑا اور ایک چپیڑ مجھے لگا دی اس کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ کسے میں چپیڑ لگا رہا ہوں اور کیوں لگا رہا ہوں.مجھے خیال آیا کہ اگر میں اس کے سامنے ہو گیا تو اس کو بہر حال شرمندگی اٹھانی پڑے گی اس خیال سے میں ایک طرف کھڑا ہو گیا اور جب پندرہ ہیں بچے وہاں سے گزر گئے تب میں دوبارہ اس لائن میں داخل ہو گیا تاکہ اس کو شرمندگی نہ اٹھانی پڑے." غریبوں کے لئے ہمدردی کا جذبہ پیدا کرنے اور انسانی مساوات کا آپ کو سبق سکھانے کے لئے حضرت اماں جان نے جو طریقہ استعمال فرمایا اس کا ذکر کرتے ہوئے رم آپ نے فرمایا.د مجھے یاد ہے کہ ایک دو یتیم بچوں (بہن بھائی) کو حضرت ام المومنین نے پالا تھا.آپ نے انہیں اپنے ہاتھ سے نہلایا دھلایا اور ان کی جوئیں خود نکالیں.مجھے وہ کمرہ بھی یاد ہے جہاں دستر خوان بچھا ہوا تھا
42 اور جس پر حضرت اماں جان نے اپنے ساتھ ان بچوں کو کھانے کے لئے بٹھایا لیکن معلوم نہیں مجھے اس وقت کیا سوجھی کہ میں ان کے رض ساتھ نہ بیٹھا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس دن مجھے حضرت اماں جان نے کھانا نہیں دیا.شام کو میں نے خود مانگ کر کھانا کھایا.اس میں ایک سبق تھا کہ جس کو دنیا یتیم کہتی ہے.مسکین کہتی ہے.خدا تعالیٰ کے بندے مجھتے ہیں کہ ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کی حفاظت کریں اور ان کے نگران بنیں." مہمان نوازی اور ایثار کا جذبہ پیدا کرنے کے لئے حضرت ام المومنین ” مہمانوں کی خاطر آپ کو کئی مرتبہ جلسہ سالانہ کے دنوں میں زمین پر سلا دیتی تھیں اور پلنگ چار پائیاں وغیرہ مہمانوں کو دے دیتی تھیں چنانچہ آپ اپنے بچپن کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں." مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دار مسیح ( قادیان میں بہت بڑی حویلی تھی لیکن) جلسہ سالانہ کے دنوں میں حضرت ام المومنین.....جن کے پاس میں رہا اور جنہوں نے میری پرورش اور تربیت کی اکثر اوقات ضرورت کے وقت ہمیں زمین پر سلا دیتی تھیں اور اس میں ہمیں بہت خوشی ہوتی تھی ، ہمیں ایک مزہ آتا تھا.آپ اکثر خود ہی فرمایا کرتے تھے.صبح اٹھتے ہی سلام کرنے کی عادت اماں جان نے ڈالی تھی.سکول جانے لگا تو فرمایا کہ سکول سے سیدھے گھر آنا ہے.سکول سے آتے ہی سلام کرنا اور ہاتھ منہ دھلوانا آپ کا پہلا کام ہو تا.نماز کا وقت ہو تا تو وضو کروا کر نماز کے لئے بھیج دیتیں.کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ ضرور دھلواتیں.اونچی آواز میں بسم اللہ پڑھتیں.ساتھ میں بھی پڑھتا.شام کو عصر کے بعد کھیلنے کے لئے بھیج دیتیں لیکن یہ حکم تھا کہ مغرب کی اذان کے ساتھ گھر آ جاؤ.اور پھر مغرب کے بعد کہیں بھی جانے کی
43 اجازت نہ ہوتی.بڑے ہو کر کوئی ضروری جماعتی کام ہو تا تو نکل سکتا تھا ور نہ کسی اپنے کے گھر جانے کی بھی اجازت نہ تھی.۲۵۰ حضرت ام المومنین اس کا مبارک وجود آپ کے لئے ایک تربیتی درس گاہ کی حیثیت رکھتا تھا.بعض باتیں جو بچپن میں آپ نے اس مقدس وجود میں مشاہدہ کیں وہ غیر شعوری طور پر آپ کے ذہن میں راسخ ہو گئیں اور آپ کے عادات و اطوار کا جزو لا نیفک بن گئیں اور آپ کی شخصیت کو اجاگر کر گئیں.اپنے ہاتھ سے کام کرنا یعنی وقار عمل کرنا بھی آپ نے حضرت اماں جان سے سیکھا.چنانچہ ایک موقع پر مجلس خدام الاحمدیہ سے خطاب کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:.." وقار عمل کے پیچھے جو روح ہے وہ اسلام کے بنیادی مسائل میں سے ہے اور وہ یہ کہ کسی جائز کام کے کرنے سے ہمیں عار نہیں اور یہ روح کوئی معمولی چیز نہیں.یہ عادت ایسی ہے کہ دنیا اسے دیکھ کر حیران ہو جاتی ہے اور پھر اکثر امور میں انسان کسی دوسرے کا محتاج نہیں رہتا اور جہاں تک اور جس وقت اور جو کام وہ اپنے ہاتھ سے کر سکتا ہے وہ کبھی برداشت نہیں کرتا کہ کوئی اور شخص یہ کام اس کے لئے کرے.میں حضرت ام المومنین اس کی تربیت میں رہا ہوں اور چھٹ پین کے زمانہ سے ہی میں نے خاص طور پر یہ نوٹ کیا ہے کہ بیماری کے دنوں میں بھی جب آپ کو پیاس لگتی تو تین چار خادمائیں موجود ہونے کے باوجود اٹھ کر خود جاتیں اور پانی کا گلاس بھر میں اور پی لیتیں.بعض دفعہ یہ دیکھ کر ہمیں تکلیف بھی ہوتی کہ آپ کمزور ہیں، بیمار ہیں ، کیوں ایسا کرتی ہیں.لیکن وہ کہتی تھیں کہ طاقت رکھتے ہوئے کیوں میں کسی دوسرے سے کام کرواؤں.بچپن کا یہ سبق میری طبیعت میں غیر شعوری طور پر راسخ رہا.ایک دفعہ ایک غیر احمدی نے مجھے اس طرف توجہ دلائی.میں لاہور کالج کے دفتر میں ہو تا.پیاس لگتی وہاں گھڑا موجود ہو تا.میں اس میں سے گلاس
44 میں پانی ڈالتا اور پی لیتا.انہی دنوں کراچی سے ایک غیر احمدی افسر لاہور آیا وہ کسی زمانہ میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا سیکرٹری بھی رہ چکا تھا اور میرے ملنے کے لئے بھی آ گیا اور ملتے ہی کہنے لگا کہ آپ یہ نہ سمجھیں کہ میں آپ کو چوہدری صاحب کی وجہ سے ملنے کے لئے آیا ہوں.میں اس لئے آیا ہوں کہ مجھے پتہ چلا ہے کہ جب آپ کو پیاس لگتی ہے تو آپ چپڑاسی یا مددگار کارکن کو نہیں کہتے کہ پانی لا دو بلکہ خود ہی اٹھ کر پانی پی لیتے ہیں.تو عادت کی وجہ سے مجھے احساس ہی نہ ہوتا تھا کہ میں کیا کام کرتا ہوں اور کیا نہیں کرتا.مجھے تو عادت ہی پڑی ہوئی ہے.میری نظر میں یہ نہ کوئی بڑی بات ہے نہ کوئی عجیب چیز.لیکن غیر کی نظر میں ایک چھوٹی سی بات ایسی ہو گئی کہ اس نے یہ سمجھا کہ یہ لوگ ہمارے جیسے نہیں.اور واقعہ میں جو شخص احمدیت کے فیض سے مستفیض ہو چکا ہے وہ عام انسانوں کی طرح نہیں رہتا.اس کی ہر بات میں اور ہر ادا میں ایک خصوصیت ہوتی ہے." آپ کی تربیت میں حضرت اماں جان کا غیر معمولی ہاتھ تھا جس کا آپ کے عزیزوں نے مشاہدہ کیا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے ساتھ بچپن گزارنے کے واقعات بیان کرتے ہوئے آپ کے چچا زاد بھائی صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب مرحوم ۵۲ لکھتے ہیں." مسجد مبارک چونکہ ساتھ ہی تھی اس لئے نماز کے لئے جاتے ہوئے حضرت مصلح موعود حضرت اماں جان کے دالان میں سے گزر کے جاتے.جیسے ہی حضور کے پاؤں کی آواز آتی.حضرت اماں جان ہمیں فرمائیں بچو! اب نماز کے لئے جاؤ اور ہم جلدی جلدی وضو کر کے نماز کے لئے چلے جاتے.بھائی کے کھیلنے کا وقت مقرر تھا اور حضرت اماں جان کی ہدایت تھی کہ مغرب کی نماز مسجد مبارک میں پڑھنی ہے.اگر کسی وجہ سے دیر
45 ہوئی ہوتی تو بھائی بتا کے جاتے کہ انہیں دیر ہو جائے گی.بھائی کو شکار کا بہت شوق تھا اور چھٹی والے دن بھائی ساتھ والے گاؤں بھینی یا ننگل کی طرف نکل جاتے اور فاختہ اور دوسرے پرندے مار لاتے.بعد میں تو میرا نشانہ بھی اچھا ہو گیا مگر اس وقت میرا نشانہ بہت اچھا نہ تھا.بھائی کا نشانہ اتنا حیران کن حد تک اچھا تھا کہ میں نے دیکھا کہ ہوائی بندوق سے وہ اڑتی ہوئی بھڑ کو مار لیتے.جوں جوں عمر گزرتی گئی شکار کی نوعیت بھی بدلتی گئی.چڑیوں اور فاختاؤں سے ہم لوگ تیتر مرغابی پر آگئے اور پھر جب بھی شکار کو جاتا ہوتا تو اکٹھے ہو کر دریائے بیاس پر یا پھر پٹھانکوٹ کے پہاڑی علاقہ میں جاتے.تفریح کے لئے قادیان کے ساتھ والی نہر پر بھی جاتے جہاں بعض اوقات حضرت مصلح موعود کے علاوہ اور بہت سے بزرگ بھی جاتے اور سارا دن تفریح میں گزارتے.آپس میں مقابلے بھی ہوتے.حضرت اماں جان کو تو بھائی سے پیار تھا ہی مگر حضرت مصلح موعود کو بھی ان سے بہت پیار تھا.مجھے یاد نہیں کہ حضرت مصلح موعود نے بھائی کو سختی سے ڈانٹا ہو.یہ میں نے بچپن سے جوانی تک دیکھا.“ ۲۷ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد کے بعد صرف آپ کو یہ فخر حاصل ہے کہ آپ کی ساری تربیت حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم ان کے ہاتھوں سے ہوئی.حضرت اماں جان ان کی تربیت کے نتیجے میں آپ نے جو رنگ ڈھنگ اختیار کیا اس کا نقشہ آپ کے چچا زاد بھائی کرنل داؤ د احمد صاحب اس طرح کھینچتے ہیں." پہلا نظارہ جو میرے دماغ میں ہے وہ اس وقت کا ہے جب آپ حضرت اماں جان کی تربیت و کفالت میں تھے.دس گیارہ سال کا سن خوبصورت چہرہ ، سفید رنگ پاک صاف کپڑے پہنے ہوئے لمبا کوٹ عادات کے لحاظ سے نہ بہت شوخ و شنگ نہ بالکل لاگے نہ بے جا شرمیلے کہ کسی سے بات بھی نہ کرنی.بچپن کے باوجود ایک وقار تھا.کسی قسم کی INHIBITION نہیں تھی.طبیعت میں نفاست کوٹ
46 کوٹ کر بھری ہوئی تھی.امارت اور غربت کا اثر لینے والے نہ تھے.چھوٹے بڑے کے حقوق ادا کرنے والے اور ہر ایک کا مرتبہ پہچاننے والے تھے.حضرت اماں جان کی صحبت میں رہنے کی وجہ سے زبان بڑی منجھی ہوئی اور دھلی ہوئی تھی.باوجود پنجابی ماحول میں رہنے کے لہجہ دہلی والے شرفاء کا تھا.کھانا حضرت امان جان کے ساتھ کھاتے تھے.حضرت اماں جان کے ہاں نہایت اچھا کھانا پکتا تھا.آپ خوش خور نہیں تھے مگر خوش پسند ضرور تھے.طبیعت میں کسی قسم کا لالچ اور چھوٹا پن نہ تھا.استغناء کمال کا تھا ہر قسم کی حرص سے بالا تھے.۸۰ بچپن میں محبت الہی کے جلوے رم معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ساتھ بچپن سے اللہ تعالیٰ کا سلوک امتیازی تھا.جہاں اللہ تعالیٰ نے آپ کی مقدس دادی حضرت اماں جان ، آپ کے بزرگ والد مصلح موعود اور آپ کی والدہ حضرت ام ناصر نے آپ کو نہایت محبت اور لگن کے ساتھ آپ کی پرورش اور تربیت کرنے کی توفیق بخشی وہاں آپ کے بچپن سے ہی محبت الہی کے جلوے نظر آتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالٰی بھی براہ راست آپ سے پیار کرتا تھا.اور آپ کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات کو پورا کرتا تھا.آپ کے والد حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی اس قسم کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں جس سے پتہ لگتا ہے کہ کس طرح آپ کے منہ سے نکلی ہوئی بات اللہ تعالیٰ پوری فرماتا تھا.فرمایا :." مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ دریا پر گیا.بھائی عبدالرحیم صاحب جو میرے استاد رہے ہیں اور کچھ اور دوست میرے ساتھ کشتی میں سوار تھے.جب ہم کشتی میں بیٹھے دریا کی سیر کر رہے تھے تو میرے لڑکے ناصر
47 احمد نے اپنے بچپن کے لحاظ سے کہا کہ ابا جان اگر اس وقت ہمارے پاس مچھلی بھی ہوتی تو بڑا مزہ آتا.میں نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ پانیوں میں خواجہ خضر کی حکومت ہے.اگر خواجہ خضر کوئی مچھلی ہماری طرف پھینک دیں تو تمہاری یہ خواہش پوری ہو سکتی ہے.جب میں نے یہ فقرہ کہا تو بھائی عبدالرحیم صاحب جھنجھلا کر کہنے لگے کہ آپ کیسی باتیں کرتے ہیں.اس سے بچے کی عقل ماری جائے گی.میں نے کہا ہمارے خدا میں تو سب طاقتیں ہیں وہ چاہے تو ابھی مچھلی بھیجوا دے.میں نے یہ فقرہ ابھی ختم ہی کیا تھا کہ یکدم پانی کی ایک لہر اٹھی اور ایک بڑی سی مچھلی کود کر ہماری کشتی میں آگری.میں نے کہا.دیکھ لیجئے خدا تعالیٰ نے اپنی قدرت نمائی کر دی اور ہمارے دل میں جو خواہش پیدا ہوئی تھی وہ اس نے پوری کر دی.خواجہ خضر بے شک وفات پا چکے ہیں مگر ہمارا خدا جو ہمارا خالق اور مالک ہے اور سمیع الدعا ہے وہ تو زندہ ہے اور وہ ہمارے جذبات کو جانتا ہے اس نے اس خواہش کو دیکھا اور میری بات کو پورا کر دیا.۲۹ اس واقعہ سے جہاں حضرت مصلح موعود کے عظیم روحانی مقام کا پتہ لگتا ہے وہاں صاحبزادہ مرزا ناصر احمد سے اللہ تعالیٰ کی محبت کا ثبوت بھی ملتا ہے کہ کس طرح لمحہ بھر میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی ایک ہلکی سی خواہش کو بھی پورا کر دیا جو بے اختیار آپ کی معصوم زبان سے نکلی تھی.آپ کی عملی زندگی پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے منہ سے جس چیز کی بھی خواہش کا اظہار ہوا اللہ تعالٰی نے غیر معمولی طور پر اس کے پورا کرنے کے سامان پیدا فرما دیے.چنانچہ اپنی خلافت کے دوران جتنے بھی منصوبے آپ نے بنائے انہیں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر پورا فرمایا اور ہر اس لفظ کو پورا کر دکھایا جس کا آپ نے اعلان فرمایا.
48 بچپن میں خدمات دین و ملت بچپن کی عمر میں جس قسم کی خدمت کے مواقع آپ کو ملے آپ نے تربیت کے نقطہ نگاہ سے ان کا ذکر بھی کیا.اپنا ایک مشاہدہ بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا: ” میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے بچپن کے زمانہ میں جذبہ خدمت کے نہایت حسین نظارے دیکھتے ہیں.نظارے اتنے حسین ہیں کہ انہیں بار بار بیان کرنا چاہئے تاکہ ہماری جو چھوٹی پود ہے، نئی نسل ہے، ان کو بھی پتہ لگے کہ مہمان کی خدمت کیسے کی جاتی ہے.ایک دفعہ میں بہت چھوٹی عمر کا تھا.مدرسہ احمدیہ کی چوتھی جماعت میں داخل ہوا تھا یا شائد پانچویں جماعت میں ہوں گا یعنی یہ قرآن کریم حفظ کرنے کے معا بعد کی بات ہے.ہمارے چھوٹے ماموں جان (حضرت میر محمد اسحاق الله ) افسر جلسہ سالانہ ہوا کرتے تھے.آپ ہماری تربیت کی خاطر ہمیں اس عمر میں اپنے ساتھ لگا لیتے تھے.آپ ہر لحاظ سے ہمارا خیال بھی رکھتے تھے اور پورا وقت ہم سے کام بھی لیتے تھے.مجھے یاد ہے کہ رات کے گیارہ گیارہ بجے تک آپ ہم سے کام بھی لیتے تھے.چاہے وہ دفتر میں بٹھائے رکھنے کا ہو یا خطوط وغیرہ فائل کرنے کا.ہو.ان کے علاوہ دوسرے تمام کام جو اس عمر کے مطابق ہوں ہم.لیتے تھے.ایک دن آپ نے مجھے کہا (رات کے کوئی نو دس بجے کا وقت ہو گا) کہ مدرسہ احمدیہ میں دو صحن تھے ایک بڑا صحن تھا اس کے اردگرد رہائشی کمرے تھے چند ایک کلاس روم بھی تھے لیکن زیادہ تر رہائشی کمرے تھے ایک چھوٹا صحن تھا.جس کے اردگرد چھوٹے کمرے تھے اور وہاں کلاسیں ہوا کرتی تھیں.جلسہ کے دنوں میں ان کمروں میں بھی مہمان ٹھرا کرتے تھے حضرت میر صاحب نے کہا ان چھوٹے کمروں کا چکر
49 لگا کر آؤ اور دیکھو کہ کسی مہمان کو تکلیف تو نہیں.کسی کو کوئی ضرورت تو نہیں.اس دن حضرت میر صاحب نے معاونین میں چائے کروائی تھی.جلسہ کے دنوں میں ایک یا دو دفعہ رات کو دس بجے کے قریب چائے تقسیم کی جاتی تھی.اس چائے میں دودھ اور میٹھا سب کچھ ملا ہوا ہو تا تھا اور نیم کشمیری اور نیم پنجابی قسم کی چائے ہوتی تھی.میں وہاں جا کر کمروں میں پھر رہا تھا.دوستوں سے مل رہا تھا اور ان سے ان کے حالات دریافت کر رہا تھا.ایک کمرے کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا تھا میں نے دیکھا کہ ہمارا ایک رضاکار جو چھوٹی عمر کا تھا آب خورے میں چائے لے کر باہر سے آیا.کمرے میں ایک مہمان کو بخار چڑھ گیا تھا.اس نے یہ سمجھا کہ یہ رضاکار میرے لئے گرم چائے اور دوائی وغیرہ لے کر آیا ہے.مجھ سے چند سیکنڈ ہی قبل وہ دروازہ میں داخل ہوا تھا اس مہمان نے غلط فہمی میں (کیونکہ ہمارے احمدی مہمان بھی بڑی عزت والے ہوتے ہیں اس مہمان کو اس شام کو بخار چڑھ گیا تھا اور بڑا تیز بخار تھا اس کو غلط فہمی ہو گئی) اپنے ہاتھ آگے بڑھائے اور کہا تم میرے لئے گرم چائے لائے ہو.تم بڑے اچھے اور جیسے بچے ہو (اس قسم کا کوئی فقرہ اس نے کہا) اب یہ اس بچہ کے لئے انتہائی امتحان اور آزمائش کا وقت تھا.اگر اس بچے کے چہرے پر ایسے آثار پیدا ہو جاتے جن سے معلوم ہوتا کہ یہ اس کے لئے چائے نہیں لایا بلکہ اپنے لئے لایا ہے تو اس مہمان نے کبھی چائے نہیں لینی تھی.میں باہر کھڑا ہو گیا اور خیال کیا کہ اگر میں اندر آگیا تو نظارہ بدل جائے گا.میں نے چاہا کہ دیکھوں یہ کیا کرتا ہے.اس رضا کار نے نہایت بشاشت کے ساتھ اور اصل حقیقت کا ذرا بھر اظہار کئے بغیر اس کو کہا.ہاں تم بیمار ہو.ہو.میں تمہارے لئے چائے لے کر آیا ہوں اور اگر کوئی دوائی لینا چاہتے ہو تو لے آؤں.اب یہ خدمت ایسی تو نہیں کہ ہم کہیں کہ ہمالیہ کی چوٹی سر
50 کی.لیکن کتنا پیار اور حسن تھا اس بچے کے اس فعل میں.اس نے اپنے نفس پر اتنا ضبط رکھا.اس لئے اس کی یہ خواہش اور جذبہ تھا کہ میں نے مہمان کی خدمت کرنی ہے اگر یہ جذبہ نہ ہوتا تو اس کی ہلکی سی ہچکچاہٹ بھی اس مہمان کو شرمندہ کر دیتی اور اس نے کبھی چائے نہیں لینی تھی لیکن اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ اور کسی اظہار کے کہا.ہاں میں آپ کے لئے ہی لے کر آیا ہوں.یہ نظارہ اس قسم کا حسین تھا کہ اس وقت بھی جب کہ میں آپ کو یہ بات سنا رہا ہوں وہ کمرہ اس کا دروازہ تھوڑا سا کھلا ہوا اس لڑکے کی شکل ، وہ مہمان، وہ رخ جس طرف وہ بیٹھے ہوئے تھے میرے سامنے ہیں.اس نظارہ کو میرے ذہن نے محفوظ رکھا ہے اور میں جب بھی اس واقعہ کے متعلق سوچتا ہوں بڑا حظ اٹھاتا ہوں." ۳۰ آپ کو بچپن میں جو خدمت کے موقع ملے ان سے آپ نے بھر پور فائدہ اٹھایا اور عمر کے لحاظ سے جو بھی کام کر سکتے تھے وہ کئے اور کبھی یہ نہ سوچا کہ اب بس کریں اور گھر کو لوٹیں.چنانچہ آپ نے ایک مرتبہ زمانہ خلافت کے دوران فرمایا:." ہم نے بچپن کی عمر میں بھی یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہماری چند گھنٹے کی ڈیوٹیاں لگیں گی یعنی یہ کہا جائے گا کہ تم پانچ گھنٹے کام کرو اور باقی وقت تم آزاد ہو.ہم صبح سویرے جاتے تھے اور رات کو دس بجے گیارہ بجے گھر میں واپس آتے تھے.وہ فضا ہی ایسی تھی اور ساروں میں ہی خدمت کا یہ جذبہ تھا.کوئی بھی اس جذبہ سے خالی نہیں تھا.مجھے یاد ہے کہ بعض دفعہ ماموں جان حضرت میر محمد اسحاق صاحب بمعنی اللہ ) کہتے تھے کہ اب تم تھک گئے ہو گئے ، کھانے کا وقت ہو گیا ہے اب تم جاؤ.لیکن ہمارا گھر جانے کو دل نہیں چاہتا تھا.بس یہ ہو تا تھا کہ دفتر میں بیٹھے ہیں اور اپنی عمر کے لحاظ سے جو کام ملتا ہے وہ کر رہے ہیں.اس
51 ریز رو فنڈ تحریک کے لئے جدوجہد آپ کی جب اتنی عمر ہوئی جہاں سے خدام الاحمدیہ میں ایک خادم آغاز کرتا ہے تو آپ کو شروع ہی سے بعض غیر معمولی خدمات کی توفیق ملی.چنانچہ ۱۹۲۷ء میں حضرت المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی نے تبلیغ اسلام اور مسلمانوں کی اقتصادی و سماجی ترقی و بہبود کے لئے ۲۵ لاکھ روپے کا ایک ریز رو فنڈ جاری فرمایا.اس فنڈ کی وصولی کے سلسلہ میں آپ کو گرمیوں کی چھٹیوں میں دوسرے احمدی طلباء کے دوش بدوش خدمت کا موقع ملا.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت المصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی الم نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء منعقدہ قادیان کے موقعہ پر فرمایا.اس سال چھٹیوں کے ایام میں ہمارے سکولوں کے طلباء ڈیڑھ ہزار روپیہ کے قریب چندہ اکٹھا کر کے لائے.چندہ لانے والے طلباء میں میرا لڑکا ناصر احمد بھی تھا جو ایک سو چھتیں (۱۳۶) روپیہ لایا حالانکہ اسے کبھی اس سے پہلے دوسرے لوگوں سے چندہ لینے کا موقعہ نہیں ملا تھا.۳۲ توسیع جلسہ گاہ کا کارنامہ ریز رو فنڈ تحریک کے لئے جدوجہد کے علاوہ آپ کے اس زمانے کی خدمات میں سے جلسہ سالانہ ۱۹۲۷ء کے موقع پر راتوں رات توسیع جلسہ گاہ کے سلسلہ میں ایک واقعہ ملتا ہے جس کا مشورہ بھی آپ نے ہی دیا تھا.اس واقع کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے ایک مرتبہ فرمایا." ایک دفعہ جلسہ گاہ چھوٹی اور تنگ ہو گئی اور حضرت مصلح موعود شدید ناراض ہوئے تھے.لوگ جلسہ گاہ میں سما نہیں سکتے تھے.قادیان میں جلسہ گاہ کے چاروں طرف گیلریاں بنی ہوئی تھیں ان پر لوگ بیٹھتے تھے.اینٹوں کی سیڑھیاں سی بنا کر ان پر لکڑی کی شہتیریاں رکھی جاتی
52 تھیں.بہر حال اس سال جلسہ گاہ چھوٹی ہو گئی تھی اور حضرت مصلح موعود بہت ناراض ہوئے.تمام کارکن بڑے شرمندہ، پریشان اور تکلیف میں تھے.اس وقت مجھے خیال آیا کہ اگر ہم ہمت کریں تو اس جلسہ گاہ کو راتوں رات بڑھا سکتے ہیں.لیکن میری عمر بہت چھوٹی تھی اس لئے میں نے خیال کیا کہ میری اس رائے میں کوئی وزن نہیں ہو گا.ہمارے ماموں سید محمود اللہ شاہ صاحب بھی دفتر میں کام کرتے تھے.میں نے انہیں کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اگر ہم ہمت کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم راتوں رات جلسہ گاہ بڑھا دیں گے.آپ ماموں جان (حضرت میر محمد اسحاق صاحب افسر جلسہ سالانہ کے سامنے یہ تجویز پیش کریں.وہ کہنے لگے یہ خیال تمہیں آیا ہے اس لئے تم ہی یہ بات پیش کرو.مجھے یاد ہے کہ میری طبیعت میں یہ احساس تھا کہ چھوٹی عمر کی وجہ سے میری رائے کا وزن نہیں ہو گا لیکن یہ کام کرنا ضرور چاہئے.ماموں جان سید محمود اللہ شاہ صاحب کا خیال تھا کہ چونکہ یہ خیال مجھے نہیں آیا اس کو آیا ہے اس لئے اس کا کریڈٹ میں کیوں لوں؟.لیکن میں نے کہا میں نے یہ بات پیش نہیں کرنی ، آپ ہی کریں اور ضرور کریں.میں نے کچھ لاڈ اور پیار سے ان کو منا لیا.چنانچہ انہوں نے یہ تجویز پیش کی حضرت ماموں جان (حضرت میر محمد اسحاق صاحب نے دوستوں کو مشورہ کے لئے جمع کیا اور بالاخر یہ رائے پاس ہو گئی اور سارا دن کام کرنے کے بعد سینکڑوں رضاکاروں نے ساری رات کام کیا.ریتی چھلہ سے شہتیریاں اٹھا کر جلسہ گاہ میں لے گئے جو ہمارے کالج کی عمارت (جس میں پہلے ہائی سکول ہوتا تھا) کے پاس تھی.ایک طرف کی ساری سیڑھیاں جو اینٹوں کی بنی ہوئی تھیں توڑی گئیں اور دوسری سیڑھیاں بنائی گئیں.رضا کار مزدوروں کی طرح کام کرتے تھے.مجھے اچھی طرح
53 یاد ہے کہ جس وقت جلسہ گاہ بڑی بنائی جا چکی تھی.بس آخری شہتیری رکھی جا رہی تھی تو ہمارے کانوں میں صبح کی اذان کے پہلے " اللہ اکبر" کی آواز آئی وہ آواز اب بھی میرے کانوں میں گونج رہی ہے).صبح کی اذان کے وقت وہ کام ختم ہوا جب حضرت مصلح موعود تشریف لائے تو آپ جلسہ گاہ کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے.سارے لوگ جلسہ گاہ میں ee سما گئے اور جتنی ضرورت تھی اس کے مطابق جلسہ گاہ بڑھ گئی."س آپ کی بہن حضرت سیدہ ناصرہ بیگم اپنے ایک مضمون بعنوان ” میرے پیارے بھائی جان“ جو مصباح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نمبر ( دسمبر ۱۹۸۲ء جنوری ۱۹۸۳ء) میں شائع ہوا آپ کے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں." د بچپن سے ہی جماعتی کاموں میں دلچسپی لیتے اور ہر موقع پر جب بھی سلسلہ کے کسی کام کے لئے ضرورت ہوتی خدمت میں لگ جاتے.خدا تعالٰی نے ابتداء سے ہی دین کی خدمت کا شوق اور بے لاگ جذبہ دل میں پیدا کیا تھا.وہ سلسلہ اور اسلام کے جاں نثار ، بہادر ، جری سپاہی سهام تھے.۳۴ قائد بوائے سکاؤٹ موومنٹ ۱۹۲۷ء میں جب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد مولوی فاضل کے طالب علم تھے چوہدری عبد الواحد احمد صاحب 4 سکاؤٹ ماسٹر نے حضرت مصلح موعود کی اجازت سے قادیان میں بوائے سکاؤٹ موومنٹ BOY SCOUT MOVEMENT جاری کی جس میں مدرسہ احمدیہ کے تمام طلباء کی شرکت لازمی تھی.ماسٹر چوہدری عبدالواحد احمد صاحب نے آپ کو پوائے سکاؤٹ موومنٹ کا ٹروپ لیڈر TROOP LEADER تجویز کیا جس کی حضرت مصلح موعود نے منظوری دے دی.آپ کے ماتحت تین چار نائب ٹروپ لیڈر تھے.مدرسہ احمدیہ کے تمام طلباء کو تین چار حصوں میں تقسیم کر کے ہر ایک حصہ پر نائب روپ لیڈر مقرر کر دیا تھا اور
54 آپ ان سب کے نگران اعلیٰ مقرر ہوئے.اس موومنٹ کا مقصد نوجوانوں کی جسمانی و ذہنی استعدادوں کی نشوونما اور خدمت خلق کا جذبہ پیدا کرنا تھا آپ کو سکاؤٹ ماسٹر صاحب کی رہنمائی میں اس موومنٹ کو مستحکم کرنے اور ترقی کی راہوں پر گامزن کرنے کی توفیق ملی اور موومنٹ اتنی ترقی کر گئی کہ بعض یورپین افسر اس کی کارگردگی دیکھنے کے لئے بعض اوقات قادیان آتے تھے اور خراج تحسین ادا کرتے تھے.بعد میں یہ تنظیم تعلیم الاسلام ہائی سکول میں بھی جاری کر دی گئیں اور بالاخر خدام الاحمدیہ کی تنظیم کے معرض وجود میں آنے کے بعد یہ تنظیم ایک رنگ میں مجلس خدام الاحمدیہ میں ضم کر دی گئی.آپ کی قیادت میں احمدی سکاؤٹس مختلف اوقات میں قادیان سے پیدل اس کے مضافات سٹھیالی اور تلہ وغیرہ کی نہروں اور دریائے بیاس پر جا کر کئی کئی روز خیمہ زن ہوتے رہے اور تیراکی کے مقابلے اور اردگرد کے جنگلوں میں کئی قسم کے ذہنی اور ورزشی مقابلے اور دینی تربیتی پروگرام کرتے رہے.چونکہ آپ کی طبیعت میں بہت حیا تھی اس لئے سکاؤٹس یونیفارم کی نیکر آپ کے گھٹنوں سے ہمیشہ نیچے ہوتی تھی.۱۹۲۷ء کے جلسہ سالانہ میں راتوں رات جلسہ گاہ کی توسیع بھی دراصل سکاؤٹس موومنٹ کا ہی ایک عظیم کارنامہ تھا.توسیع جلسہ گاہ میں آپ کی قیادت میں جو کام ہوا اس کا ذکر گزر چکا ہے مولوی محمد صدیق امرتسری صاحب سابق مبلغ مغربی افریقہ جو خود بھی اس کار خیر میں شامل تھے اور احمدی سکاؤٹس موومنٹ کے رکن تھے بیان کرتے ہیں: " مجھے اب بھی یاد ہے اور وہ نظارہ میرے سامنے ہے جب کہ گیس یمپوں کی روشنی میں ہمارے ٹروپ (TROOP) لیڈر اور قائد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ بڑی تیزی اور تندھی سے اپنے جملہ ساتھی سکاؤٹس کے ساتھ شہتیریاں اٹھا اٹھا کر اپنی جگہ پر رکھ رہے تھے اور کبھی گارا اپنے کندھے پر اٹھا کر لاتے اور خالی کر کے
55 دوبارہ لانے کے لئے لے جاتے اور یوں یہ سلسلہ تمام رات جاری رہا یہاں تک کہ محض اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے صبح کی اذان تک جلسہ ۳۵ گاہ ہر طرف سے سیدنا حضرت مصلح موعود " کی خواہش کے مطابق وسیع کر کے سب شہتیریاں دوبارہ صحیح طور پر بنا دی گئیں.۵ اس موقع پر الفضل نے جو رپورٹ دی وہ بھی قابل ذکر ہے.رپورٹ کا اقتباس درج ذیل ہے." مہمانوں کی غیر معمولی کثرت اور اژر دحام اس سال جلسہ کی ایک خاص خصوصیت تھی.حاضرین کا ہجوم اس قدر تھا کہ تیار کردہ جلسہ گاہ ناکافی ثابت ہوئی اور خصوصاً حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی تقریر کے وقت اس قدر کثرت تھی کہ لوگ جگہ نہ ملنے کی وجہ سے جلسہ گاہ سے باہر کھڑے رہے.اس پر حضور نے اظہار افسوس فرماتے ہوئے ذمہ دار کارکنوں کی توجہ دلائی اور منتظمین نے اس قدر ہمت اور کوشش سے کام لیا کہ ۲۷.دسمبر کی کارروائی ختم ہوتے ہی راتوں رات جلسہ گاہ کو پہلے سے بہت وسیع کر دیا اور صبح جلسہ گاہ میں جانے والوں کو وہ بہت فراخ نظر آئی اور اس پر حضرت اقدس نے نہایت خوشنودی کا اظہار کرتے ہوئے دعا فرمائی.جلسہ گاہ کی تیاری میں ساری رات مدرسہ احمدیہ کے طلباء اور دیگر اصحاب مصروف رہے.طلبہ نے شہتیریاں اٹھا اٹھا کر لانے میں اور گارا بہم پہنچانے میں بڑی تندھی اور توجہ اور محنت سے کام کیا.ان کام کرنے والوں میں صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ ابن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی بنصرہ العزیز بھی تھے.اللہ تعالیٰ انہیں جزائے خیر دے اور ان کی عمر میں برکت دے.۳۶ حضرت خلیفہ المسیح الثانی اللہ نے اس موقعہ پر نمایاں کام کرنے والے طلباء کو ایک ٹورنامنٹ کے اختتام پر میڈل عطا فرمائے اس بارہ میں الفضل کی رپوٹ یہ ہے.
56 " " ۲۲ جنوری کو حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی ٹورنامنٹ کے اختتام پر بھی جلسہ تقسیم انعامات میں شامل ہوئے.اور اس جلسہ میں حضور نے مدرسہ احمدیہ کے سکاؤٹس کو اپنے ہاتھ سے میڈل لگائے جو ناظر صاحب ضیافت اور افسر جلسہ سالانہ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی طرف سے جلسہ سالانہ کے موقع پر راتوں رات جلسہ گاہ کو وسیع بنانے کی وجہ سے دئیے گئے تھے."س نماز کی ادائیگی کے لئے چبوترے کی تعمیر آپ کی خدمت کا ایک اور واقعہ آپ کے بچپن کے ساتھی ملک محمد عبد اللہ صاحب سابق لیکچرار تعلیم الاسلام کالج ربوہ یوں بیان کرتے ہیں.۱۹۲۸ء میں جب مدرسہ احمدیہ سے الگ جامعہ احمدیہ کا قیام عمل میں آیا تو حضرت مرزا ناصر احمد صاحب بھی جامعہ کے ابتدائی طلباء میں شامل تھے.جامعہ کی عمارت تعلیم الاسلام ہائی سکول اور بیت النور کے قریب ایک چھوٹی سی کوٹھی میں تھی جو جامعہ کی چار مختصر کلاسوں کے لئے کافی تھی.تھوڑے ہی عرصہ کے بعد حضرت صاحبزادہ صاحب کو خیال آیا کہ اگرچہ بیت النور بھی قریب ہی ہے مگر انفرادی طور پر نماز اوا کرنے کے لئے کوئی جگہ ہونی چاہئے.چنانچہ کوٹھی کے ایک جانب نماز کی ادائیگی کے لئے ایک 4 x ۴ فٹ چبوترہ بنانے کا پروگرام بنا.یہ کام طلباء نے خود ہی کیا جس میں صاحبزادہ صاحب نے بھی بھرپور حصہ لیا.شام تک یہ چبوترہ اینٹوں اور گارے سے مکمل ہو گیا اس کے اوپر کی سطح زیادہ ہموار نہیں تھی کیونکہ ہم لیول (LEVEL) کرنا تو جانتے نہ تھے اور نہ ہی ہمارے پاس کوئی اوزار تھے.بہرحال ہم نے وچا کہ اس نقص کو ہم سیمنٹ بچھا کر دور کر لیں گے اور پھر اوپر صف بچھ جائے گی جس سے ہماری مہارت بالکل او جھل ہو جائے گی.شام کو سب
57 رو جب میں گھر آیا تو ہمارے پڑوس میں سری گوبند پور کے ایک ماہر معمار ٹھیکیدار فیض احمد صاحب رہتے تھے جن سے میں نے اپنا ایک کمرہ بھی بنوایا تھا.ان سے ملاقات ہوئی.انہیں اس بات پر آمادہ کر لیا کہ وسرے دن نماز فجر کے بعد وہ میرے ساتھ جامعہ چلیں گے اور سیمنٹ کی اوپر کی تہ وہ بچھا دیں گے چنانچہ فجر کی نماز کے معا بعد ہم دونوں تھوڑا سا سیمنٹ لے کر جامعہ پہنچے اور مستری صاحب نے تھوڑے سے وقت میں چبوترہ پر بڑا عمدہ فرش بچھا دیا اور بھی جو تھوڑا بہت نقص تھا.ٹھیک کر دیا اس کے بعد جب آٹھ بجے جامعہ کھلنے پر طلباء آئے صاحبزادہ صاحب بھی تشریف لائے تو سب اس بات پر حیران کہ چبوترہ کا وہ سیمنٹ کا فرش نہایت عمدگی سے رات کو کون کر گیا.حضرت صاحبزادہ صاحب کچھ بسکٹ اور ٹافیاں لائے تھے کہ آج چبوترہ مکمل ہونے پر طلباء میں تقسیم کر دیں گے.وہ انہوں نے مجھے دیں کہ سب میں بانٹ دیں نیز آپ نے دو روپے بھی مجھے دیئے کہ یہ مستری صاحب کو دے دیں.“ ابتدائی زندگی میں آپ کے خیالات و افکار ابتدائی زندگی میں آپ کے جو خیالات و افکار تھے.ان کے نقوش آپ کی ڈائری کے صفحات میں صاف نظر آتے ہیں.۱۹۲۷ء میں جب آپ کی عمر تقریباً اٹھارہ سال کی تھی.آپ اپنی ڈائری پر زیر عنوان "پردہ" ان خیالات کا اظہار کرتے ہیں." پر دہ.ہاں وہ پردہ جس سے اسلام کی شان بلند ہوتی تھی اس سے آج اسلامی دنیا پھر رہی ہے.حالانکہ پہلے زمانہ میں باوجود اس پردہ کے عورتیں مردوں سے کم کام نہ کرتیں تھیں جیسے عائشہ تیموریہ کہتی ہیں.کو آج کے فلسفی کہتے ہیں کہ پردہ سے عورتوں کے حقوق مارے
58 جاتے ہیں مگر یہ ٹھیک نہیں.اسلامی پردہ سے ہرگز عورتوں کے حقوق تلف نہیں ہوتے گو رواجی پردہ میں یہ نقص ہے اور اگر یہ بات ٹھیک ہوتی تو مسلمان پہلے زمانہ میں اس حد تک ترقی نہ کر سکتے جبکہ ترقی کا راز ایک حد تک عورتوں پر موقوف ہے.(۱) اسلامی پردہ (۲) رواجی پردہ اور اس کے نقائص (۳) کیا اسلامی پردہ سے عورتیں قیدیوں کی طرح ہو جاتی ہیں؟ ہرگز نہیں.(۴) پرده ترک کر دینے کی رو ترکوں کے پردہ چھوڑ دینے پر اظہار افسوس، مسلمانوں کی ترقی کا راز صرف اور صرف اسلامی احکام کی پابندی پر ہے جن میں سے ایک پر وہ ہے.۱۹۲۷ء میں ہی آپ اپنے ایک تجربہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.تجربہ : سفر میں غذا کا خاص خیال رکھنا چاہئے نیز گاڑی وغیرہ میں حتی المقدور آرام کا انتظام ہونا چاہئے ورنہ تفریح کا سب اثر زائل ہو جاتا ہے اور بیمار ہونے کا خطرہ الگ.مرزا ناصر احمد آپ نے طالب علمی کے زمانہ میں ایک نظم لکھی جو آپ کی ڈائری میں ۱۴.مارچ ۱۹۲۸ء کی تاریخ میں درج ہے.دنیا کے کام بے شک کرتا رہوں گا میں بھی لیکن میں جان و دل سے اس یار کا رہوں گا برقی خیال دل میں سر میں رہے گا سودا ہوں گا اس یار کو میں بھولوں اتنا نہ محو چھکوں گا میں فلک پر جیسے بھولوں کو رہ لاوے ایسی میں ہو کوئی تارا شمع ہوں گا سورج کی روشنی بھی مدہم ہو جس کے آگے
59 ایسا ہی نور حاصل اس نور عالم کو کو میں میں معطر کر دوں گا اس مک ނ خوشبو سے جس کی ہر دم مدہوش میں رہوں گا اخلاق میں میں افضل احمد کی ره علم سے کروں گا و ہنر میں اعلیٰ چل کر بدر الدجی بنوں گا سارے علوم کا ہاں منبع ہے ذات جس کی سے میں علم لے کر دنیا کو آگے اس دوں گا مجھ میں تڑپ وہ ہو گی بجلی بھی جھینپ جائے دل عشق سے بھروں گا اور بے قرار ہوں گا پھر برق میں بنوں گا جل کر میں خاک ہوں گا اکسیر جو بنا دے اکسیر میں جو کچھ کہوں زبان ہو رحم اے 02 ہوں گا ناصر میں کر دکھاؤں خدایا تا تیرے فضل پاؤں خدمت دین کی تڑپ مرزا ناصر احمد بچپن میں خدمت دین کی جو لگن آپ کو تھی اس کا ذکر آپ نے اپنی ایک نظم میں بھی کیا جو آپ نے اپنے زمانہ طالب علمی کے دوران لکھی وہ نظم یوں ہے.اے عیسی کو چرخ پر نہ بٹھاتے تو خوب تھا احمد کو خاک میں نہ سلاتے تو خوب تھا زندہ خدا سے دل کو لگاتے تو خوب تھا.مردہ بتوں سے جان چھڑاتے تو خوب تھا قصے کہانیاں نہ سناتے تو خوب تھا زنده نشان کوئی دکھاتے تو خوب تھا اپنے تئیں جو آپ ہی مسلم کہا تو کیا مسلم بنا کے خود کو دکھاتے تو خوب تھا تبلیغ دین میں جو لگا دیتے زندگی بے فائدہ نہ وقت گنواتے تو خوب تھا
60 دنیا کی کھیل کود میں ناصر پڑے ہو کیوں یاد خدا میں دل کو لگاتے تو خوب تھا لاہور میں طالب علمی کا زمانہ حفظ قرآن اور دینی تعلیم کے حصول تک آپ قادیان میں رہے.اس کے بعد پرائیویٹ طالب علم کے طور پر مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا اور پھر پورے مضامین کے ساتھ میٹرک کیا.اس طرح ۱۹۳۰ء تک آپ کا قیام قادیان میں رہا.میٹرک پاس کرنے کے بعد آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور احمدیہ ہوسٹل میں رہائش رکھی جو پہلے ٹمپل روڈ کی ایک کو ٹھی میں تھا اور پھر بہاولپور روڈ پر منتقل ہو گیا.کالج میں آپ اچکن سفید شلوار قمیض اور رومی ٹوپی پہنتے.کبھی کبھی آپ کالج کا سرخ بلیزر بھی پہنتے جس پر سنہری مشعل کا نشان تھا.ایف اے میں آپ کے مضامین عربی، تاریخ ، انگلش اور فلاسفی تھے اور بی اے میں عربی، انگلش اور فلاسفی تھے.آپ کی طبیعت میں وقار شرم و حیا اور شرافت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.گورنمنٹ کالج لاہور میں بعض روساء کے لڑکے بھی پڑھتے تھے لیکن آپ کبھی ان کی امارت اور ٹھاٹھ سے مرعوب نہیں ہوئے.کالج میں آپ لیگ میچوں میں فٹ بال کھیلا کرتے تھے اور کالج کی فرسٹ الیون میں سے تھے.علاوہ ازیں آپ بعض تقریری مقابلہ جات میں بھی حصہ لیتے تھے.ہوسٹل میں آپ نہایت متانت اور وقار کے ساتھ رہتے تھے اور بہت مہمان نواز تھے.آپ کے والد محترم آپ کو مہمان نوازی کے لئے الگ رقم بھیجا کرتے تھے.آپ کے چچا زاد بھائی کرنل (ریٹائرڈ) مرزا داؤد احمد صاحب کا بیان ہے کہ : " عام خرچ کے علاوہ جو./۷۵ روپے ماہوار حضرت مصلح موعود - سے ملتا تھا.آپ کو./ ۱۵ روپے ماہوار مہمان نوازی الاؤنس ملا کرتا et تھا.۳۸ آپ بہت محنت اور سنجیدگی سے کالج کی پڑھائی کرتے تھے اور گراؤنڈ میں بھی کھیلنے
61 کے لئے باقاعدہ جاتے تھے.آپ کی شرافت سے آپ کے ساتھی اور پروفیسر سب متاثر - چنانچہ آپ کے عربی کے ایک پروفیسر مولوی کریم بخش صاحب جماعت کے ساتھ تعصب کے باوجود آپ کی شرافت کی تعریف کیا کرتے تھے.کرنل مزار داؤد احمد صاحب کا بیان ہے کہ مولوی کریم بخش صاحب باوجود اپنی مذہبی تنگ نظری کے ہمیشہ تعریف کیا کرتے تھے.کہا کرتے تھے ناصر احمد بڑا شریف انسان ہے.جن لوگوں نے آپ کو اس زمانے میں دیکھا.انہیں آپ کے اندر بہت خوبیاں نظر آئیں جیسے وقت کی قدر کرنا ضبط نفس ، غیبت اور حسد سے نفرت اور خدمت دین کا غیر معمولی جذ بہ وغیرہ جس کے لئے آپ نے ایک تنظیم بھی قائم فرمائی تھی.چنانچہ اس زمانہ کے آپ کے ایک احمدی دوست ڈاکٹر عبدالرشید تبسم صاحب پی ایچ ڈی کا بیان ہے کہ جب کالج میں ان کا آپ سے واسطہ پڑا تو بہت جلد آپ کی تین خوبیاں ان پر نمایاں ہو گئیں.وہ لکھتے ہیں :.ه " پہلی خوبی حضور کی یہ تھی کہ بڑے سے بڑے حادثے کا روشن پہلو تلاش کر لیتے.حادثہ بہر حال حادثہ ہوتا ہے لیکن منطقی طور پر اس کا کوئی روشن پہلو نظر آ جائے تو انسان کو مایوسی کی ظلمت میں بھی روشنی کی کرن نظر آ جاتی ہے چنانچہ جس دوست پر بھی کوئی مصیبت آجاتی وہ حضور کی گفتگو سن کر کچھ نہ کچھ اطمینان پالیتا.دوسری خوبی حضور کی یہ تھی کہ حضور کی طبیعت میں نہایت لطیف مزاح فراواں تھا.بے تکلف دوستوں میں حضور اکثر باتوں کو لطائف کا رنگ دے لیتے.کشادہ اور خندہ پیشانی، ہونٹوں پر مسکراہٹ آنکھوں میں غیر معمولی پرکشش چمک جادو کا اثر کرتی.جس کسی سے حضور مخاطب ہوتے وہ مسحور ہو جاتا.تیسری خوبی یہ تھی کہ حضور کسی کی غیبت کبھی نہ فرماتے.کسی دوست یا عزیز میں کوئی کمزوری دیکھ پاتے تو اسے ایک لطیفے کی شکل دے
62 کر اکثر دوسروں کے سامنے اس کا ذکر اس کمزوری کے حوالہ سے اس لطیف انداز سے کرتے کہ وہ دوست خود بھی ہنسے بغیر نہ رہ سکتا اور آئندہ کے لئے اپنی اصلاح بھی کر لیتا." تنظیم عشرہ کاملہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے دل میں زمانہ طالب علمی سے ہی تبلیغ کی بھی تڑپ تھی.اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا زرخیز ذہن عطا فرمایا ہوا تھا کہ آپ نئے نئے منصوبے بنا لیتے تھے اور اس پر بڑی حکمت سے عملدرآمد کرواتے تھے.چنانچہ گورنمنٹ کالج میں قیام کے دوران آپ نے عشرہ کاملہ " کے نام سے احمدی طلباء کی ایک تنظیم قائم کی جو حضرت مسیح موعود" کے منتخب اقتباس دو ورقہ فولڈر کی شکل میں شائع کر کے لاہور کے مختلف کالجوں میں تقسیم کرواتے تھے جس سے طالب علموں میں تبلیغ کا ایک دلچسپ طریق رائج ہوا اور طلباء میں بحث مباحثہ کا شوق پیدا ہوا.ا ا ہوا.ایسے ہی طلباء میں ملک عبدالرحمان صاحب خادم ) جنہیں حضرت مصلح موعود نے A "خالد" کا خطاب دیا) پیش پیش تھے.بڑے ہی احسن رنگ میں آپ نے تنظیم عشرہ کاملہ کا اجراء کیا اور اس سے وہ تبلیغی مقاصد حاصل کئے جن کی آپ کو شدید خواہش تھی عشرہ کاملہ کے پس منظر اور لائحہ عمل وغیرہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالرشید صاحب تبسم لکھتے ہیں:." ایک دن کلاس شروع ہونے سے پہلے حضور نے فرمایا کہ مناسب ہے ہم احمدی طلباء مل کر ایک تنظیم قائم کر لیں جس کا منشور اسلام اور احمدیت کی تبلیغ ہو لیکن اس تنظیم کے ممبروں کی تعداد زیادہ نہ ہو.میں سمجھ گیا کہ حضور در حقیقت اپنے اس پروگرام کا نہ صرف ڈھانچہ تیار کر ہیں بلکہ اس کی تفاصیل بھی ان کے ذہن میں ہیں.چنانچہ میں نے بے تکلفی سے گزارش کی کہ نہ صرف آپ اپنے ذہن میں تنظیم قائم کر چکے ہیں بلکہ غالبا ان طلباء کا انتخاب بھی اپنے ذہن میں فرما چکے ہیں جن
63 کو اس تنظیم میں شامل کرتا ہے.اگر میرا قیاس صحیح ہے تو بسم اللہ کیجئے چنانچہ حضور نے کچھ تفاصیل ارشاد فرمائیں.حضور کا قیام لاہور کی ایمپریس روڈ پر ایک کرائے کی عمارت میں واقع احمد یہ ہوسٹل میں تھا.ایک ہفتہ بعد حضور نے ہم چند احمدی طلباء کو احمد یہ ہوسٹل میں اکٹھا کیا اور اپنی سکیم رسمی طور پر ارشاد فرما دی.قرار پایا کہ اس تنظیم کا نام دو عشرہ کاملہ" ہو گا اور لاہور کے مختلف کالجوں کے دس طلباء حضور سمیت اس کے ممبر ہوں گے.چنانچہ اسی روز حضور کو متفقہ طور پر عشرہ کاملہ کا صدر منتخب کیا گیا.اپنے علاوہ حضور نے جن طالب علموں کو اس کا رکن نامزد کیا ان میں سے جو نام مجھے اب تک یاد ہیں وہ حسب ذیل ہیں.صاحبزادہ مرزا سعید احمد صاحب ابن حضرت مرزا عزیز احمد صاحب صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب (ایم ایم احمد ) چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ میاں محمد عمر صاحب کچھ عرصہ ہوا ڈی ایس پی کے عہدے سے ریٹائر ہو کر اب ساہیوال میں آباد ہیں) اور خاکسار عبدالرشید تبسم عشرہ کاملہ کا طریق کار حضور نے یہ تجویز فرمایا کہ نگارشات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں سے ہر مہینے حضور ایک اقتباس منتخب فرمائیں گے جو آرٹ پیپر پر شائع کر کے لاہور کے تمام کالجوں کے طلباء میں تقسیم کیا جایا کرے گا.چنانچہ عشرہ کاملہ کے ہر ممبر کے سپرد ایک یا دو کالج کر دیئے گئے.میرے ذمے لاہور کا لاء کالج ٹھہرا.ایک روزانہ اخبار کا ایڈیٹر ہونے کی وجہ سے میرا تعلق اخبار سے تھا اس لئے ہر مہینے حضور اپنا منتخب کردہ اقتباس میرے سپرد کر دیتے جس کی کتابت کروا کر میں پانچ ہزار پمفلٹ کی صورت میں چھپواتا اور حضور کی خدمت میں
64 پیش کر دیتا.عشرہ کاملہ کی ماہوار رکنیت کا چندہ بھی تھا.اس رقم سے حضور بل ادا فرما دیتے.عشرہ کاملہ نے جو پہلا پمفلٹ شائع کیا اس کا عنوان تھا ” ہستی باری تعالیٰ " وہ پمفلٹ زیادہ تر غیر مسلم طلباء میں تقسیم کیا گیا.دو ہی مہینے میں ان بمفٹوں کا پورے لاہور میں بڑا شہرہ ہو گیا جس پر کچھ غیر مسلم عناصر سخت برہم ہوئے.اپنی برہمی کا ہدف انہوں نے حضور کو بنا لیا.حضور کے خلاف سازشیں ہونے لگیں اور حضور پر حملے کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں.بعض دفعہ بڑا اشتعال پھیل جاتا.۴۰ ان دنوں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی " لاہور تشریف لائے اور خطبہ جمعہ میں طلباء کے کام پر خوشنودی کا اظہار فرمایا.دوران سفر صبر و تحمل کا ایک واقعہ گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانہ طالب علمی کا ہی ایک دلچسپ واقعہ آپ نے اپنی خلافت کے دوران بیان فرمایا:." میں جن دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھا کرتا تھا.ان دنوں کا مجھے اپنا ایک واقعہ یاد آگیا.کالج میں چھٹی تھی.میں قادیان جا رہا تھا.ایک تیز قسم کا مخالف بھی گاڑی کے اسی ڈبے میں بیٹھ گیا.لاہور سے امرتسر تک وہ میرے ساتھ سخت بد زبانی کرتا رہا اور میں مسکرا کر اسے جواب دیتا رہا.جس وقت وہ امرتسر میں اترا تو اس مسکراہٹ اور خوش خلقی کا اس پر یہ اثر تھا کہ وہ مجھے کہنے لگا اگر آپ جیسے مبلغ آپ کو دو سو مل جائیں تو آپ ہم لوگوں کو جیت لیں گے کیونکہ میں نے آپ کو غصہ دلانے کی پوری کوشش کی مگر آپ تھے کہ ہنتے چلے جا رہے تھے.اسی صرف اپنی محنت کا صلہ Mee گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانہ طالب علمی میں آپ کو ایک اور دلچسپ واقعہ
65 پیش آیا امتحان کے دنوں میں بعض لڑکوں کو اگلے روز ہونے والے امتحانی پرچے کا علم ہو گیا اور انہوں نے نصف شب آپ کو جگایا اور امتحانی پرچے کی نقل آپ کو دینا چاہی.آپ نے فرمایا ” میں صرف اس محنت کا صلہ لینے کا حق دار ہوں جو میں نے کی.جو نمبر مفت ملتے ہوں وہ میں کبھی نہیں لوں گا.تم نے اپنی سمجھ کے مطابق مجھے فائدہ پہنچانے کی کوشش کی اس کے لئے میری طرف سے شکریہ.مگر اب مجھے سونے دیجئے“ یہ سن کر پرچه بردار دوست شرمندہ ہو کر واپس چلے گئے.۴۲ آپ کے ایک ساتھی کے تاثرات آپ کے بچپن کے دوست اور کلاس فیلو مکرم محبوب عالم صاحب خالد گورنمنٹ کالج لاہور کے زمانے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ روزانہ کالج کے علاوہ چھ سات گھنٹے پڑھتے تھے اور چھٹی والے دن بارہ بارہ تیرہ تیرہ گھنٹے پڑھتے تھے.آپ وقت کو بالکل ضائع نہیں کرتے تھے.پڑھائی کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج کی فٹ بال ٹیم کے باقاعدہ ممبر تھے اور بڑے شوق اور جذبے کے ساتھ دینی اور تبلیغی سرگرمیوں میں بھی شامل ہوتے تھے.طبیعت میں سادگی اور حیا تھی.تکلف بالکل نہیں تھا.تصنع اور بناوٹ اور خوشامد بالکل نہ تھی.تبلیغ کا جوش تھا اور بے حد نڈر تھے..کئی دفعہ نصف شب تک پڑھنے کے بعد احمد یہ ہوسٹل میں ان کے کمرے میں چلے جاتے اور تھوڑی دیر بعد آکر پھر پڑھنا شروع کر دیتے.آپ کی قوت ارادی کا یہ عالم تھا کہ جتنی دیر کے لئے سوتے.اتنا وقت سو کر خود ہی اٹھ جاتے.بعض اوقات فرماتے دس منٹ سونا چاہتا ہوں.اور خواہ کتنے ہی تھکے ہوئے ہوتے.پورے دس منٹ بعد خود ہی اٹھ کھڑے ہوتے.حضرت مسیح موعود کے الہام " خذوا التوحید یا ابناء الفارس " کا کئی بار ذکر فرماتے.آپ کا کردار بہت بلند تھا.کالج کے دوران آپ قاضی محمد اسلم صاحب سے فلاسفی کا مضمون پڑھتے تھے.اور احمد شاہ پطرس بخاری سے انگلش پڑھتے تھے.حضرت اماں جان کا ارشاد تھا کہ مغرب کی نماز باجماعت پڑھا کریں.چنانچہ ایک میل مغرب کی
66 نماز باجماعت پڑھنے کے لئے تشریف لے جاتے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی " کا بے حد ادب احترام کرتے تھے.اور حضور کے منشا کو خوب سمجھتے تھے اور تعمیل ارشاد کے لئے دن رات ایک کر دیتے.حضور نے اس زمانے کی آپ کی اور باقی نوجوانوں کی تبلیغی سرگرمیوں کا سنا اور بنفس نفیس لاہور تشریف لائے اور شاباش دی.جوانی میں خدا داد رعب اور تقویٰ و طہارت پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب لکھتے ہیں.حضور کے طالب علمی کے زمانے میں بھی صورت حال اس سے مختلف نہ تھی.حضور کے ایک کلاس فیلو نے (جو بدقسمتی سے اب جماعت سے تعلق توڑ چکے ہیں اور کسی زمانے میں حضور ان کے ہاں ہم شکار کے سلسلے میں مہمان بھی ٹھرا کرتے تھے) عاجز کو بتایا کہ گورنمنٹ کالج میں پڑھا کرتے تھے اور جب حضور کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو احتراماً اپنے سروں کو ڈھانپ لیا کرتے تھے.اس سے ملتی جلتی ایک اور شہادت بھی حضور کے ایک اور کلاس فیلو کی طرف سے عاجز تک پہنچی ہے.جب قدرت ثانیہ کا تیسرا ظہور ہوا اور حضور نے خلعت خلافت زیب تن فرمائی تو انہی دنوں پروفیسر ڈاکٹر ناصر احمد خان پروازی کا فیصل آباد کی ایک محفل میں جانا ہوا جہاں حضور کے ایک کلاس فیلو بھی تشریف فرما تھے.غالباً نواب زادہ میاں حامد احمد خان کے اعزہ میں سے تھے اور غیر از جماعت تھے.ڈاکٹر پروازی صاحب سے ملے تو کہنے لگے بھئی مبارک ہو آپ کو نیا لیڈر بہت خوب ملا ہے ہم اکٹھے پڑھتے تھے اور ہم انہیں کہا کرتے تھے کہ آپ کے دادا جان کا تو ہمیں پتہ نہیں لیکن اگر آپ نبوت کا دعوی کر دیں تو ہم آپ کو مسیحا تسلیم کر لیں گے.عاجز عرض کرتا ہے کہ یہ محض ایک نوجوانوں والا مذاق نہیں تھا.حضور.
67 کے تقوی طہارت کا ایسا ہی اثر ملنے والوں پر ہوا کرتا تھا ۳ شجاعت اور قوت فیصلہ کا ایک واقعہ آپ کے کلاس فیلو ڈاکٹر عبدالرشید تبسم بیان کرتے ہیں کہ ” میری رہائش بھائی گیٹ سے باہر ایک پرائیویٹ عمارت میں تھی.میرے ساتھ والے کمرے میں معروف شاعر حفیظ ہوشیار پوری رہتے تھے.وہ مجھ سے ایک سال سینئر تھے اور میرے جگری دوست تھے.اس زمانے میں مولوی ظفر علی خان اپنے اخبار زمیندار میں احمدیوں کے خلاف بہت لکھا کرتے تھے.ایک چھٹی کے دن وہ اصرار کر کے مجھے اپنے ہمراہ زمیندار کے دفتر مولوی ظفر علی کے پاس لے گئے.مولوی صاحب کو پتہ نہیں تھا کہ میں احمدی ہوں.ہم نے مولوی صاحب سے گزارش کی کہ وہ اپنا تازہ کلام سنائیں.مولوی صاحب نے اپنی نظم سنانا شروع کی تو اس کا مطلع ہی احمدیوں کے لئے گالی تھا.حفیظ ہوشیار پوری نہ رہ سکے اور بول پڑے ”مولانا! یہ آپ کیا غضب کر رہے ہیں.صاحب احمدی ہیں." مولانا نے معذرت کی اور خاموش ہو گئے.گھری سوچ کے بعد بولے.تبسم صاحب! میرے ایک سوال کا صاف جواب دیجئے وہ سوال یہ ہے کہ (حضرت) مرزا غلام احمد صاحب بڑے تھے یا حضرت ابو بکر صدیق ؟ میں: مولانا! آپ کے خیال میں حضرت ابوبکر کا کیا مقام تھا اور حضرت مرزا صاحب کا کیا دعویٰ تھا ؟ مولانا: حضرت ابوبکر صدیق تھے اور (حضرت) مرزا صاحب نے کہا میں نبی ہوں.میں: مولانا صاحب آپ کا شکریہ آپ نے خود ہی سوال کیا اور خود ہی اپنے سوال کا جواب دے دیا.
68 میرے اس جواب پر مولوی ظفر علی خان پھڑک اٹھے اور حفیظ سے مخاطب ہو کر بولے ”حفیظ صاحب! کوئی احمدی شاعر نہیں ہو سکتا اور کوئی شاعر احمدی نہیں ہو سکتا.تبسم صاحب کو میرے پاس لاتے رہا کرو.یہ عظیم شاعر بن سکتے ہیں بشرطیکہ یہ احمدی نہ رہیں.ان کو احمدیت چھوڑنا پڑے گی" بات صرف اتنی ہوئی اور ہم اٹھ کر آ گئے.دوسرے دن مولوی صاحب نے زمیندار اخبار کا پورا ایک صفحہ میرے خلاف لکھ مارا اور ساتھ ہی دو دن بعد اسلامیہ کالج سے ملحق مسجد مبارک میں اس موضوع پر اپنا لیکچر رکھ دیا.مجھے اس کا پتہ نہیں تھا.لیکچر والے دن میرے تین چار غیر از جماعت دوست آئے اور کئی غلط بیانیاں کر کے مجھے اپنے ہمراہ اسلامیہ کالج لے گئے.وہاں پہنچ کر انہوں نے مجھے زبردستی اٹھایا اور مسجد مبارک کے اندر لے گئے.اس وقت مولوی ظفر علی خان مسجد کے صحن کے درمیان کھڑے میرے خلاف تقریر کر رہے تھے.میرے دوستوں نے مجھے عین مولوی صاحب کے پاس کھڑا کر دیا.مجھے دیکھ کر مولوی صاحب نے کہا.یہ ہے وہ منہ پھٹ اور دریدہ دہن آدمی.اب اسے یہاں سے زندہ نہیں جانے دینا چاہئے.مسلمانو! تمہاری غیرت کا تقاضا ہے کہ اس کی ہڈی پسلی ایک کر دو " اس پر سخت طیش اور اشتعال پھیل گیا.کئی لوگوں کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور وہ مجھ پر پل پڑنے کے لئے کھڑے ہو گئے.شدید افرا تفری پیدا ہو گئی.ابھی کوئی ہاتھ میرے جسم تک نہیں پہنچ پایا تھا کہ کچھ فاصلے سے ایک پر جلال آواز گونجی.دو میں عشرہ کاملہ کا صدر ہونے کی حیثیت سے عشرہ کاملہ کے رکن عبدالرشید تبسم کو حکم دیتا ہوں کہ وہ دس سکینڈ کے اندر مجھ تک پہنچ جائیں.دس سیکنڈ کے اندر "
69 آواز میں بڑی دلیری اور جلال تھا.سب نے بوکھلا کر آواز دینے والے کی طرف گرد نہیں گھمائیں.میں نے آواز پہچان لی تھی.جو لوگ مجھ پر حملہ کرنے کے لئے کھڑے ہو چکے تھے.میں بڑی تیزی سے ان کو دھکیلتا اور بیٹھے ہوئے حاضرین جلسہ پر سے پھلانگتا ہوا سچ مچ دس سکینڈ کے اندر آواز کے مرکز تک پہنچ گیا.مسجد کے عین کنارے صاحبزادہ حضرت مرزا ناصر احمد ہاکی بلند کئے کھڑے تھے.ساتھ پانچ چھ دوسرے احمدی طلباء ہاکیاں اٹھائے پوزیشن لئے اپنے لیڈر کے حکم کے منتظر کھڑے تھے.میں ان سے جا ملا تو پھر ایک اور آواز اسی دلیری اور اسی جلال سے بلند ہوئی."ہم فساد کرنے یا ہڈیاں توڑنے کے لئے نہیں آئے.ہم امن قائم رکھنے اور کسی مظلوم انسان کی ہڈیاں توڑنے کی کوشش کرنے والوں کو اس حرکت سے روکنے کے لئے آئے ہیں." صاحبزادہ حضرت مرزا ناصر احمد کی آواز نے اچانک ہیبت طاری کر دی.مولوی ظفر علی صاحب اور حاضرین سب کے سب دم بخود ہو کر اٹھی ہوئی ہاکیوں کی طرف تک رہے تھے کہ یہ مختصری فوج کہاں سے یکا یک نازل ہو گئی.اب حضرت صاحبزادہ صاحب نے حرکت کی اور ان کی قیادت میں میرے سمیت دوسرے دوست «عظیم سٹریٹ" سے ہوتے ہوئے سرکلر روڈ پر آگئے.وہاں سے چند قدم آگے جا کر کراؤن وٹل کے قریب خالی جگہ پر پہنچے تو حضور کھڑے ہو گئے.سب نے ہاکیاں نیچے کر لی تھیں.اب حضور مجھ سے مخاطب ہوئے اور پوچھا کہ میں کیسے اس فساد کی جگہ پہنچ گیا.میں نے ساری صورت حال بیان کر دی.معلوم نہوا اس دن حضور کشتی رانی کے لئے چند دوستوں سمیت دریائے راوی پر گئے ہوئے تھے جب وہ کشتی رانی سے فارغ ہو کر احمد یہ ہوٹل واپس جانے کے لئے دریائے راوی سے روانہ ہوئے تو ہو
70 کسی نے ذکر کیا کہ آج اس وقت مسجد مبارک میں مولوی ظفر علی خان کی تقریر ہے مولوی صاحب ہمیشہ احمدیوں کے خلاف تقریر کیا کرتے تھے.اس لئے حضور کو خیال آیا کہ واپس جاتے وقت راستے میں مولوی صاحب کی تقریر کا کچھ حصہ بھی سن لیں.چنانچہ وہ عین اس وقت مسجد مبارک کے کنارے پہنچے تو مولوی صاحب حاضرین کو مشتعل کر رہے تھے کہ وہ میری ہڈی پسلی ایک کر دیں.پمفلٹوں کی تقسیم کی وجہ سے چونکہ بعض عناصر حضور کے خلاف اشتعال پیدا کرتے تھے اس لئے حضور اکثر اپنے ہاتھ میں ہاکی رکھتے اور چند دوستوں کی معیت میں ہوسٹل سے کسی.دوسری جگہ جاتے تو ہر دوست کے ہاتھ میں ہاکی ہوا کرتی تھی."" گورنمنٹ کالج لاہور میں آپ طالب علم کے طور پر ۱۹۳۴ء تک رہے اور اس سال آپ نے بی اے کی ڈگری حاصل کر لی اور آپ واپس قادیان چلے گئے.اس وقت آپ کی عمر پچیس سال کی تھی.بی اے کر لینے کے بعد حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے حضرت المصلح الموعود " کو مشورہ دیا کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھیجوایا جائے حضرت امصلح موعود نے فرمایا کہ حضور کے مالی وسائل اتنے من ย رحم نہیں ہیں اس پر چوہدری صاحب نے اخراجات کی پیشکش کی لیکن حضور نے فرمایا بطور قرضہ حسنہ رقم لینا منظور کر سکیں گے اس طرح آپ کو اللہ تعالیٰ نے انگلستان میں اعلیٰ حاصل کرنے کے لئے بھیجوانے کا بندوبست فرما دیا.حضرت مصلح موعود اللہ نے آپ کی انگلستان روانگی سے قبل یہ مناسب سمجھا کہ پہلے آپ کا نکاح کر دیا جائے.محلہ دارالانوار قادیان میں بیت النصرت کی تعمیر حضرت اماں جان کو صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سے بہت گہری محبت تھی.چنانچہ آپ کی شادی سے قبل محلہ دارالانوار میں حضرت اماں جان نے ہی آپ کو
71 "النصرة" کو بھی بنوا کر دی.حضرت المصلح موعود نے بیت النصرت کا سنگ بنیاد ۲۳ فروری ۱۹۳۳ء کو رکھا.آپ کی شادی سے قبل یہ عمارت مکمل ہو گئی جس میں شادی کے بعد آپ نے رہائش اختیار فرمائی اور ہجرت پاکستان تک وہیں مقیم رہے.شادی اور اولاد انگلستان روانگی سے قبل آپ کے نکاح اور شادی کی مبارک تقریب عمل میں آئی آپ کا نکاح حضرت سیده منصوره بیگم صاحبہ بنت حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ و حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ان کے ساتھ ہوا.یہ رشتہ حضرت اماں جان سیدہ نصرت جہاں بیگم نے برسوں پہلے ہی سے تلاش کر لیا ہوا تھا.۲ جولائی ۱۹۳۴ء کو آپ کا نکاح ہوا 9 اور ۵.اگست ۱۹۳۴ء کو رخصتانہ عمل میں آیا.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ ۲۷ ستمبر ۱۹۱۱ء مطابق ۳ شوال ۱۳۲۹ھ بمقام ریاست مالیر کوٹلہ پیدا ہوئیں.آپ کی والدہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی تھیں جنہوں نے ان کی اسی طرح تربیت فرمائی جس طرح ان کی والدہ سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کی حضرت ام المومنین نصرت جہاں بیگم صاحبہ نے تربیت فرمائی تھی.آپ کے لئے حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کا انتخاب عین الہی منشاء کے مطابق تھا جیسا کہ آپ نے خود فرمایا.” ہماری شادی کے متعلق حضرت ام المومنین کو بہت سی بشارتیں ملی تھیں.اس کے نتیجہ میں یہ شادی ہوئی تھی.یہ رشتہ آپ نے کروایا تھا الی بشارت کے مطابق.اور جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ انتخاب اللہ تعالیٰ نے بعض اغراض کے مدنظر خود کیا اور ایک ایسی ساتھی میرے لئے عطا کی جو میری زندگی کے مختلف ادوار میں میرے بوجھ کو بانٹنے کی اہمیت بھی رکھتی تھی.50.آپ کا نکاح حضرت المصلح الموعود نے پڑھا اور رخصتانہ کے وقت ٹرین پر آپ کی
72 رض رضا بارات میں آپ کی دادی حضرت ام المومنین ، آپ کی والدہ حضرت سیدہ ام ناصر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب آپ کے ہمراہ ۴.اگست ۱۹۳۴ء کو حضرت نواب محمد علی صاحب کے آبائی گاؤں شیروانی کوٹ ریاست مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے.حضرت مصلح موعود نے مولوی سید سرور شاہ صاحب کو امیر قافلہ مقرر فرمایا اور خود دلہن کی طرف سے شامل ہونے کے لئے ۵.اگست کو بذریعہ کار مالیر کوٹلہ پہنچے.نہایت سادگی سے رخصتی ہوئی.۶.اگست کو بارات دلہن لے کر واپس قادیان پہنچی.اہالیان قادیان نے بہت گرم جوشی سے استقبال کیا، ریلوے اسٹیشن سے مسجد مبارک تک دونوں طرف رنگ دار جھنڈیاں نصب تھیں.کئی جگہ محراب بنے ہوئے تھے اور مختلف مقامات پر اس تقریب کے شایان شان اشعار اور دعائیہ کلمات کے قطعات آویزاں تھے.ہزاروں افراد نے حضرت مصلح موعود کے ساتھ جو کچھ دیر قبل واپس آئے تھے) استقبال کیا اور آپ کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے.آپ نے دھوپ والا چشمہ لگایا ہوا تھا اور مجسم شرم و حیا بنے ہوئے تھے.بارات ایک جلوس کی شکل میں دار المسیح تک پہنچی اور جب بارات احمدیہ چوک پر پہنچی تو حضرت المصلح الموعود نے مسجد مبارک میں کھڑے ہو کر دعا کروائی.۸.اگست ۱۹۳۴ء کو حضرت المصلح الموعود نے آپ کے لئے دعوت ولیمہ کا اہتمام فرمایا جس میں قادیان اور ارد گرد کے احباب جماعت اور معززین نے شرکت کی.یہ امر قابل ذکر ہے کہ حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی پیدائش سے بھی پہلے ان کی والدہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے خواب دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام انہیں فرما رہے ہیں کہ تمہارے ہاں بیٹی ہو گی اس کا رشتہ میرے پیارے بیٹے محمود کے بیٹے سے کرنا.مبارک رشتہ ہو گا.پاک نسلیں چلیں گی.چنانچہ سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں.جب منصورہ بیگم حمل میں تھی.خواب میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے فرمایا کہ تمہاری بیٹی ہو گی اس کی شادی محمود کے بیٹے سے
73 کرنا.خلاصہ خطبہ نکاح حضرت خلیفة المسیح الثانی نے ۲ جولائی ۱۹۳۴ء کو صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا نکاح صاحبزادی منصورہ بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے ساتھ اور صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحب کا نکاح اپنی صاحبزادی ناصرہ بیگم کے ساتھ پڑھتے ہوئے جو خطبہ نکاح ارشاد فرمایا اس کا خلاصہ درج ذیل ہے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں انسانی پیدائش کے متعلق فرمایا ہے.مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ یعنی میں نے جن و انس کو صرف ایک مقصد کے لئے پیدا کیا ہے جو یہ ہے کہ وہ میرے عبد بن جائیں.صفات الہیہ کو اپنے اندر داخل کر لیں اور میرے مظہر کامل ہو جائیں.......اس مقصد کے حصول کے لئے پہلا انسان جسے ذمہ دار قرار دیا گیا قرآن مجید نے اسے آدم کے نام سے موسوم کیا....وہ لوگ جن کی ہستیاں اور جن کے آرام و تعیش خدا تعالیٰ کے وجود کے ظاہر ہونے سے خطرے میں پڑتے ہیں انہوں نے آدم کا مقابلہ کیا لیکن وہ مخالف اپنی کوششوں میں ناکام رہے....آدم کا زمانہ گزرا تو نوح کا زمانہ آیا اس وقت بھی دنیا نے کوشش کی کہ وہ خدا تعالیٰ کے نور کو کسی طرح چھپا دے لیکن دنیا کامیاب نہ ہوئی.....پھر شیطان نے اپنا سر اٹھایا تب خدا تعالیٰ نے...محمد مصطفی میں اللہ کی ذات مبارکہ کو مبعوث فرمایا.آپ کو دشمنان دین کا مقابلہ جس سختی کے ساتھ کرنا پڑا اور جن تکالیف میں سے آپ کو گزرنا پڑا ان سے تمام مسلمان واقف ہیں....جس طرح آپ کی لائی ہوئی تعلیم سب تعلیموں سے اکمل تھی ویسے ہی آپ کے بعد ایک ایسا فتنہ ظاہر ہونے والا تھا جو دنیا کے تمام فتنوں سے بڑا تھا
74 اس فتنہ کے مقابلہ کے لئے مقدر تھا کہ رسول کریم میم کی روحانی اولاد اور آپ کے شاگردوں میں سے ایک شخص کو کھڑا کیا جائے.رسول کریم میں ملو یا لیلی نے سلمان فارسی کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا اور فرمایا تو كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ هَدَا لَاء اور بعض جگہ رِجَالُ مِنْ فَارَسَ کے الفاظ آتے ہیں.یعنی ایمان اگر ثریا سے بھی معلق ہو جائے گا تب بھی سلمان فارسی کی نسل میں اہل فارس میں سے کچھ لوگ ایسے کھڑے ہو جائیں گے جو ایمان کو دنیا میں قائم کر دیں گے خالی پیشگوئی ہی نہیں بلکہ رسول کریم ملی ایم کی ایک آرزو ہے ایک خواہش ہے ایک امید.......رسول کریم عالم کے زمانہ میں ایک فتنہ اٹھا.صحابہ نے اس وقت جو نمونہ دکھایا وہ تاریخ کی کتابوں میں آج تک لکھا ہے....رسول کریم میں یہ ایک جنگ میں جو فتح مکہ کے بعد ہوئی شامل ہوئے.وہ لوگ جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے تھے.اور ان کے علاوہ کچھ کا فر رسول کریم میل کے پاس آئے اور انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ہمیں بھی اس لشکر میں شامل ہونے کی اجازت دیجئے جس نے ہوازن کا مقابلہ کرنا تھا...انہوں نے زیادہ اصرار کیا تو آپ نے شامل ہونے کی اجازت دے دی.دس ہزار کا لشکر....جس نے مکہ فتح کیا تھا اور دو ہزار یہ لوگ...بارہ ہزار کا لشکر میدان جنگ وره کی طرف چل پڑا.جس وقت ہوازن کے قریب پہنچے تو وہاں ایک د تھا...اچھے ہوشیار تیز انداز سڑک کے دونوں طرف پڑے تھے....دو ہزار کمزور ایمان والے.....غرور اور تکبر کی حالت میں جوں ہی تیراندازوں کی زد میں پہنچے.ہوازن کے تجربہ کار تیز اندازوں نے ان پر بے تحاشا تیروں کی بارش کر دی.....اور وہ ڈر کر میدان جنگ سے بھاگ نکلے.دو ہزار گھوڑوں کا صفوں کو چیرتے ہوئے گزرنا تو معمولی امر نہ تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ باقی دس ہزار آدمیوں کے گھوڑے بھی بدک گئے
75 اور بے تحاشا بھاگنے لگ گئے یہاں تک که صرف باره آدمی رسول کریم الا اللہ کے پاس رہ گئے.اسلامی لشکر اس وقت کسی بزدلی کی وجہ سے میدان جنگ سے نہیں بھاگا بلکہ......دو ہزار گھوڑوں کے بھاگنے نے ان کے گھوڑوں کو مرعوب کر دیا...صحابی اپنے گھوڑوں کو......روکنے کے لئے ان کی باگیں....اتنے زور سے کھینچتے کہ ان کی گردنیں ٹیڑھی ہو جاتیں مگر جوں ہی باگ ڈھیلی ہوتی وہ پھر بھاگ پڑتے.....اتنے میں رسول کریم ملی لی لی لی لی نے ایڑ لگائی اور دشمن کی طرف بڑھنا شروع کیا اس وقت بعض صحابہ نے آپ کے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور کہا یا رسول اللہ یہ خطرے کا وقت ہے.اب مناسب نہیں کہ آپ آگے بڑھیں مگر رسول کریم ملی و یا اللہ نے فرمایا مجھے چھوڑ دو.نبی پیچھے نہیں ہٹا کرتا.پھر آپ نے بلند آواز سے کہا انَا النَّبِيُّ لَا كَذِبُ أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِلِبُ میں نبی ہوں.جھوٹا نہیں، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں) پھر آپ نے کہا.عباس! بلند آواز سے کہو! اے انصار! خدا کا رسول تمہیں بلاتا ہے جس وقت یہ آواز ان کے کانوں میں پہنچی.انہوں نے کسی چیز کی پرواہ نہ کی.اگر ان میں سے کسی کی سواری مرسکی تو سواری پر چڑھ کر ورنہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کی گردنیں اڑاتے ہوئے وہ چند منٹ میں ہی رسول کریم میل ل لا ل لیلی کی آواز پر جمع ہو گئے.اس آواز سے زیادہ شان کے ساتھ.....خدا کے رسول نے تیرہ سو سال پہلے کہا تھا کہ لو كَانَ الْإِيْمَانُ مُعَلَّقًا بِالثَّرَيَّا لَنَالَهُ رَجُلٌ مِنْ اَبْنَا فَارَ......میں آج......ان تمام افراد کو جو "رجل فارس" کی اولاد میں سے ہیں رسول کریم ملی یا اللہ کا یہ پیغام پہنچاتا ہوں.....خواہ میری اولاد ہو یا میرے بھائیوں کی.وہ اپنے دلوں میں غور کر کے اپنی فطرتوں سے دریافت کریں کہ اس آواز کے بعد ان پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں....آج
76 دجالی فتنہ جس رنگ میں دنیا پر غالب ہے اس کی تصویر کھینچنے کی مجھے ضرورت نہیں.کوئی چیز آج اسلام کی باقی نہیں....جب تک اسے مٹانے کے لئے ہمارے اندر دیوانگی نہ ہوگی.....اس وقت تک ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے.میں نے ہمیشہ یہ دعا کی ہے اور متواتر کی ہے کہ اگر میرے لئے وہ اولاد مقدر نہیں جو دین کی خدمت کرنے والی ہو تو مجھے اولاد کی ضرورت نہیں....ابراہیمی مقام جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا کیا گیا اور آپ کی اولاد سے جس مقام پر کھڑے رہنے کی امید کی گئی یہ ہے کہ وہ دنیا کمانے کے خیالات سے علیحدہ ہو کر صرف دین کے پھیلانے کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیں.....یہ خدا کا کام ہے اور اگر ہم اس کام کو نہیں کریں گے تو اور لوگ کھڑے کر دیئے جائیں گے لیکن وہ دن بد ترین دن ہو گا ت خیال کرو کہ تم دین کی خدمت کر کے کوئی قربانی کر رہے ہو.یہ خدا کا احسان ہے جو تم سے کام لے رہا ہے حقیقی زوجیت خدا تعالٰی کے تعلق میں ہی ہے.یہی وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ شادیوں کے ذکر میں نمازوں کا خصوصیت سے ذکر کرتا ہے.اگر ہم دنیا میں زوجیت کا تعلق قبول کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ خدا اور اس کے رسول کی محبت میں سرشار رہنا ہمیں گوارا نہ ہو اور حقیقی خوشی تو اس وقت تک ہمیں حاصل نہیں ہو سکتی جب تک اسلام دنیا میں قائم نہیں ہو جاتا اس وقت تک دنیا کی خوشیاں بھی ہمیں غم میں مبتلا کر دیں گی....اس خطبہ کے بعد اور اس ذمہ داری کی حقیقت واضح کرنے کے بعد که ساری ذمہ داریاں اسی میں آجاتی ہیں میں ان نکاحوں کا اعلان کرتا ہوں......ہوں اللہ تعالی نے حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو اس شادی سے جو اولاد عطا
77 فرمائی وہ یہ ہے.107 ا.صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب (پیدائش ۱/۱۷اپریل ۱۹۳۷ء) ۲.صاحبزادی امتہ الشکور صاحبہ (پیدائش ۳۶/ اپریل ۱۹۴۰ء) صاحبزادہ امته الحلیم صاحبہ (پیدائش ۲۹/ جنوری ۱۹۴۲ء) ۴.صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب (پیدائش ۴/ مارچ ۱۹۵۱ء) صاحبزادہ مرزا لقمان احمد صاحب (پیدائش ۹/ نومبر ۱۹۵۳ء) حضرت اماں جان کو آپ کی اولاد سے بھی شدید محبت تھی.چنانچہ آپ کے بھائی مرزا وسیم احمد صاحب امیر جماعت احمدیہ قادیان بیان کرتے ہیں:." تقسیم ملک سے قبل اس عاجز کو حضرت ام المومنین ان کو روزانہ بعد نماز فجر قرآن مجید پڑھ کر سنانے کی سعادت نصیب ہوئی.انہیں دنوں جب کہ میں آپ کو قرآن مجید پڑھ کر سنایا کرتا تھا.ایک مرتبہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بڑے صاحبزادے محترم انس احمد صاحب کو سیرو تفریح کے دوران سر پر شدید چوٹ لگی.محترم صاحبزادہ صاحب کی تیمارداری کے لئے ہم بھائیوں کی جو ہم عمر تھے یعنی صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب، صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب وغیرہ کی ڈیوٹی لگتی تھی.ڈاکٹری ہدایات کے ماتحت مریض بچے کے پاس ہر وقت کسی کا موجود رہنا ضروری تھا.ہماری ڈیوٹی دن رات میں بدلتی رہتی تھی.چنانچہ ایک دن قرآن مجید سنانے کے بعد حضرت ام المومنین نے فرمایا :- " تم میرے بیٹے کے بیٹے کی تیمارداری میں لگے ہو، میں تمہارے لئے دعا کرتی ہوں.حضرت ام المومنین کے دل میں حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے لئے بے پناہ محبت تھی اور آپ کو اپنا بیٹا بنایا ہوا تھا.یہی محبت آپ کی اولاد کی طرف بھی منتقل ہوئی جس کا اظہار حضرت ام المومنین ایا نے اس عاجز سے کیا.
78 جہاں تک میرا خیال ہے حضرت ام المومنین " شروع سے ہی آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پانچواں بیٹا خیال فرماتی تھیں.جس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب "مواهب الرحمن" میں فرمایا کہ "وَبَشَّرَنِي بِحَامِسٍ فِي حِيْنِ مِنَ الْأَحْيَانِ" (اور اللہ تعالیٰ نے کسی آئندہ وقت میں نافلہ کے طور پر مجھے ایک پانچویں بیٹے کی بشارت بھی دی ہے.چنانچہ آپ " محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو جو بعد میں خدا کی بشارت کے مطابق خلیفہ المسیح الثالث بنے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا موعود پانچواں بیٹا سمجھتی " تھیں.جس کے ذمہ مشیت ایزدی نے خدمت اسلام کا اہم فریضہ سپرد کر رکھا تھا.۴۸ مجسم شرم و حیا عین عالم شباب میں بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی شرم و حیا کی صفت سے نوازا لکھا:.ہوا تھا جیسا کہ اس واقعہ سے ظاہر ہے.محترم ڈاکٹر محمد حسین صاحب وٹرنری ڈاکٹر آف میسور سٹیٹ (انڈیا) نے محترمہ صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کو اپنے ایک خط محررہ مورخہ ۲۴ نومبر ۱۹۶۵ء میں آ "میرے آقا زاده! کوئی چونتیس پینتیس سال کی بات ہے کہ وٹرنری کالج کے تین طالب علموں کو جن میں سے ایک یہ خاکسار بھی تھا کہ حضور اقدس (حضرت خلیفتہ الثانی حضی اللہ ) سے شرف ملاقات کا ایک موقعہ حاصل ہوا.اثنائے گفتگو یکا یک قطع کلام کرتے ہوئے حضور اقدس نے فرمایا :- اسلام کی نشاۃ اولی کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان " میں شرم و حیا بے انتہا تھی.یہی حال میاں ناصر احمد کا ہے اور یہ بھی مجسم شرم و حیا ے"
79 ย یہ فرمانے کے بعد آپ نے اپنی سابقہ گفتگو سے تسلسل قائم کر لیا.۴۹۰۲ مکرم مولانا نسیم سیفی صاحب وکیل التصنیف تحریک جدید احمد یہ ربوہ بھی اپنے ایک " مضمون ” قرب کی باتیں " میں فرماتے ہیں." پہلی جھلک حضور کے چہرہ انور کی اس وقت دیکھی جب حضور حضرت بیگم صاحبہ کا رخصتانہ لے کر قادیان پہنچے، میں بھی ریلوے سٹیشن پر حضور کی جھلک دیکھنے کے لئے پہنچا ہوا تھا.حضور نے سیاہ چشمہ لگایا ہوا تھا اور دوست باتیں یہ کر رہے تھے کہ چونکہ حضور کی طبیعت شرمیلی ہے اس لئے سیاہ چشمہ لگایا ہوا ہے وہ نظارہ ہمیشہ نظروں کے سامنے رہا اور حضور کی حیادار طبیعت نے دل پر هم ایک گہرا اثر چھوڑا.اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان روانگی ستمبر ۱۹۳۴ء کو حضرت مصلح موعود بھی اللہ نے آپ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھجوایا آپ کی شادی کو ابھی ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ آپ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے رخت سفر باندھنا پڑا چنانچہ آپ نے فرمایا " ہمارا رخصتانہ ۵ اگست ۱۹۳۴ء کو ہوا تھا اور ۶.اگست کو میں انہیں (منصورہ کو بیاہ کر قادیان پہنچا تھا اور ٹھیک ایک ماہ بعد یعنی 4 ستمبر ۱۹۳۴ء کو میں اپنی تعلیم کے لئے انگلستان روانہ ہو گیا اھ اس موقعہ پر حضرت مصلح موعود میں اللہ نے آپ کو اپنے دست مبارک سے نہایت قیمتی نصائح تحریر فرما کر دیں.جو اخبار الفضل قادیان دارلامان مورخہ ۱۱.ستمبر ۱۹۳۴ء میں " ملفوظات حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالٰی.صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو ضروری ہدایات" کے عنوان سے شائع ہوئیں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہدایات من و عن یہاں شامل کر لی جائیں.
80 اعُوذُ بِالله مِن الشيطنِ الرَّحِيم بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نِحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر عزیزم ناصر احمد سَلَّمَكَ اللَّهُ وَ حَفِظَكَ اللَّهُ وَنَصَرَكَ اللَّهُ وَوَفَقَكَ اللَّهُ لِحِدُمَةِ.الدِّينِ وَإِعْلَاءِ كَلِمَةِ الْإِسْلَامِ السَّلَامُ عَلَيْهِمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ تمام علوم کا چشمہ اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ یہ وہ صداقت ہے.جسے میرے کانوں نے سنا.میری آنکھوں نے دیکھا.اور میرے باقی حواس نے اس کا مشاہدہ کیا.میں سنی سنائی بات پر ایمان نہیں لایا.بلکہ میں نے اللہ تعالیٰ کے عریاں جلوے دیکھے.اس کی قدرتوں کو اپنے نفس اور اپنے گرد کی اشیاء میں اچھی طرح مشاہدہ کیا.پس میں ایک زندہ گواہ ہوں.اللہ تعالیٰ کی قدرتوں کا ایک آئینہ ہوں.اس کے حسن بے عیب کا اور دنیا کی کوئی دلیل مجھے اس کے در سے پھرا نہیں سکتی.کوئی لالچ یا کوئی خوف مجھے اس سے دور نہیں کر سکتا.میں نے دیکھا اور مشاہدہ کیا.کہ اس کے دیئے ہوئے علم کے سوا کوئی علم نہیں اور اس کی دی ہوئی عقل کے سوا کوئی عقل نہیں.دنیا کے عاقل اس کے سامنے بے وقوف ہیں.اور دنیا کے عالم اس کے سامنے جاہل ہیں.جو اس سے دور ہوا حقیقی علم
حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خليفة أسبح الثالث رحمه الله
حفظ قرآن کریم کے بعد کی ایک تصویر يجيين معصوم.
نمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران کالج کی فٹ بال ٹیم میں پیچھے کھڑے کھلاڑیوں میں دائیں طرف پہلے نمبر پر )
گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کے دوران کالج کی فٹ بال ٹیم میں پیچھے کھڑے کھلاڑیوں میں دائیں طرف پہلے نمبر پر )
اعلیٰ تعلیم کے لئے بمبئی سے انگلستان روانگی انگلستان میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان، صاحبزادہ مرزا مظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا ظفر احمد اور صاحبزادہ مرزا سعید احمد کے ساتھ
انگلستان میں صاحبزادہ مرزا مظفر احمد کے ساتھ
قیام انگلستان کی ایک تصویر
آکسفورڈ میں انگریز دوست طلباء کے ساتھ آ کسفورڈ.انگلستان
دور طالب علمی (انگلستان)
انگلستان میں ایک دوست کے ہمراہ انگلستان میں ایک شکاری کے لباس میں
0 انگلستان میں زمانہ طالب علمی کی ایک تصویر جرمنی کے ایک ہسپتال میں ٹانسلو کے اپریشن کے بعد
انگلستان سے واپسی پر جماعت احمد یہ مصر کے ساتھ ایک گروپ فوٹو
جامعہ احمدیہ کے تین پر نسپل حضرت مولوی ابو العطا صاحب، حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب، حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب
جامعہ احمد یہ قادیان کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ
1953ء میں قید سے رہائی کے موقعہ پر کالج کے سٹاف کے ساتھ ایک یاد گار تصویر
81 | سے دور ہوا.پس جو یہ خیال کرے کہ وہ خدا تعالیٰ کے جاری کئے ہوئے چشمہ کے علاوہ کسی اور جگہ سے علم حاصل کر سکتا ہے وہ نہایت احمق اور جاہل ہے.علم سب کا سب قرآن میں ہے.اور یہ میرا ذاتی مشاہدہ ہے.میں نے دنیا کا کوئی علم نہیں سیکھا.میں مدرسہ میں ہمیشہ فیل ہوا.اور ناکام ہی میں نے مدرسہ چھوڑا.دوسری تعلیم سوائے قرآن کے کوئی حاصل نہیں کی.لیکن خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعہ سے مجھے دنیا کے سب علوم کے اصول سکھا دیئے ہیں.میں لوگوں کی خود ساختہ اصطلاحات بے شک نہیں جانتا.لیکن میں ان سب علوم کو جانتا ہوں.جو انسان کے دماغ کی روشنی دینے اور اعمال انسانی کی اصلاح اور اس کی ترقی کے لئے ضروری ہیں.آج تک کسی علم والے سے میں مرعوب نہیں ہوا.اور محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ اپنے مخاطب پر غالب رہا ہوں.اس نے میری عقل کو روشنی بخشی.اور میرے علم کو نور عطا کیا.اور ایک جاہل انسان کو عالم کہلانے والوں کا معلم بنایا.فَذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاءُ وَ هُوَ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ - انگلستان بھیجنے کی وجہ (1) اس تجربہ کے بعد میرا خیال یہ کرنا کہ تم انگلستان علم سیکھنے جاتے ہو.پرلے درجہ کی ناشکری اور انتہا درجہ کی احسان فراموشی ہوگا.سب علم قرآن کریم میں ہے.اس لئے سب سے پہلے میں نے تمہیں قرآن پڑھوایا.بلکہ حفظ کروایا.پس پیشتر اس کے کہ تم ہوش سنبھالتے کا سرچشمہ تمہیں دلایا گیا.اور عرفان کا دریا تمہارے اندر جاری کر دیا گیا.اب آگے اس سے فائدہ اٹھانا نہ اٹھانا تمہارا کام ہے.پس اگر تم یہ محسوس کرتے ہو.کہ جو کچھ تم باہر سیکھتے ہو.اس سے بڑھ کر تم کو قرآن کریم میں ملتا ہے.اور اگر تم یہ مشاہدہ کرتے ہو.کہ باقی سب علم
82 مردہ ہیں.اور صرف قرآن کریم کا علم زندہ ہے.اگر ان باتوں کو تم ایک ایمانی کیفیت کے طور پر نہیں محسوس کرتے ہو.بلکہ حق الیقین کی طرح اپنے وجود میں پاتے ہو.اور ہمیشہ اس کا تازہ بتازہ مشاہدہ تم کو حاصل ہوتا ہے.تو تم سمجھ لو.کہ تمہارا قدم ایمان کے مقام پر رکھ دیا گیا ہے اب صرف عرفان اور سلوک کی منازل کا طے کرنا باقی ہے.لیکن اگر ایسا نہیں.اگر یہ امر تمہارے مشاہدہ میں ابھی نہیں آیا اگر ایک ایمانی احساس سے زیادہ اس حقیقت کو جامہ نہیں ملا.تو سمجھ لو.کہ ابھی منزل مقصود کا نشان بھی تم کو نہیں ملا اور ابھی تم دیار محبوب کے قریب بھی نہیں پھٹکے.اس صورت میں ہوشیار ہو جاؤ.کہ شیطان تمہارے قریب ہے.اور ابلیس تم پر پنجہ مارنا ہی چاہتا ہے.شائد میں اپنے مقصد سے دور ہو رہا ہوں.میں تم کو یہ بتانا چاہتا تھا.کہ سب علم قرآن کریم میں ہی ہے.اور اس کی کنجی محبت الہی ہے.جو خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہے.اسے قرآن کریم کا علم دیا جاتا ہے اور جو اس کے قبضہ میں اپنے آپ کو دے دیتا ہے.وہ اس کی عرفان کے دودھ سے خود پرورش کرتا ہے.پس میں تم کو انگلستان کسی علم سیکھنے کے لئے نہیں بھجوا رہا.کہ جو کچھ علم کہلانے کا مستحق ہے.وہ قرآن کریم میں موجود ہے.اور جو قرآن کریم میں نہیں.وہ علم نہیں.جہالت ہے.میں مبالغہ سے کام نہیں لے رہا.میں کلام کو چست فقرات سے مزین نہیں کر رہا.بلکہ یہ ایک حقیقت ہے.یہ ایک مشاہدہ ہے اور اس کے لئے میں ہر قسم کی قسم اٹھانے کے لئے تیار ہوں میرے کلام میں نقص کا احتمال تو ہو سکتا ہے.لیکن مبالغہ کا نہیں.وَاللَّهُ عَلَى مَا أَقُولُ شَهِيدٌ میں تم کو انگلستان بھجوا رہا ہوں اس غرض سے جس غرض سے رسول کریم میں لایا اور اپنے صحابہ کو فتح مکہ سے پہلے مکہ بھجوایا کرتے تھے میں
83 اس لئے بھجوا رہا ہوں کہ تم مغرب کے نقطہ نگاہ کو سمجھو.تم اس زہر کی گہرائی کو معلوم کرو.جو انسان کے روحانی جسم کو ہلاک کر رہا ہے.تم ان ہتھیاروں سے واقف اور آگاہ ہو جاؤ.جن کو دجال اسلام کے خلاف استعمال کر رہا ہے.غرض تمہارا کام یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کے لئے اور دجالی فتنہ کی پامالی کے سامان جمع کرو.یہ مت خیال کرو کہ وہاں سے تم کچھ حاصل کر سکتے ہو.وہاں کی ہر چیز آسانی سے یہاں مل سکتی ہے.تم کو میں اس لئے وہاں بھیجوا رہا ہوں کہ تم وہاں کے لوگوں کو کچھ سکھاؤ.اگر تم کوئی اچھی بات ان میں دیکھو.تو وہ تم کو مرعوب نہ کرے.کیونکہ اگر وہ مسلمانوں میں موجود نہیں.تو اس کی یہ وجہ نہیں.کہ وہ اسلام میں موجود نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے.کہ مسلمانوں نے اسے بھلا دیا.رسول کریم صلی اللہ فرماتے ہیں.كَلِمَةُ الْحِكْمَةِ ضَالَّةُ الْمُؤْمِنِ اَخَذَهَا حَيْثُ وَجَدَ آپ کے اس قول میں (فداہ نفسی و روحی) اس طرف اشارہ ہے.کہ اسلام کے باہر کوئی اچھی شے نہیں.اگر کوئی ایسی شے نظر آئے تو یا تو ہمارا خیال غلط ہو گا.اور وہ شے اچھی نہیں.بلکہ بری ہو گی.یا پھر اگر وہ اچھی چیز ہو گی.تو وہ ضرور قرآن کریم سے ہی لی ہوئی ہو گی.اور مومن ہی کی کم گشتہ متاع ہوگی.جو کچھ رسول کریم میں لایا کہ ہم نے فرمایا ہے.میں اس کا ایک زندہ ثبوت ہوں.میں گواہ ہوں.اس راستبازوں کے بادشاہ کی بات کی صداقت کا.پس ایسا نہ ہو.کہ تم یورپ سے مرعوب ہو.خدا تعالیٰ نے جو ہمیں خزانہ دیا ہے.وہ یورپ کے پاس نہیں.اور جو ہمیں طاقت دی ہے.وہ اپنے حاصل نہیں.تم ایک اسلام کے سپاہی کی طرح ہو جاؤ.اور وہ سب کچھ اکٹھا کرو.جو اسلام کی خدمت کے لئے مفید ہو.اور کچھ کو لغو سمجھ کر چھوڑ دو.جو اسلام کے خلاف ہے.کیونکہ اس
84 وہ ہرگز کوئی قیمت نہیں رکھتا.تم اسے زہر سمجھ کر اس کی شدت کا مطالعہ کرو.لیکن اسے کھاؤ نہیں.کہ زہر کھانے والا انسان اپنے آپ کو خود ہلاک کرتا ہے.اور لوگوں کی ہنسی اور تمسخر کا مستحق ہوتا ہے.شیطانی حیلہ سے بچنے کا طریق (۲) تم ایک ایسے ملک کو جا رہے ہو.جہاں ایک طرف شیطان عقلی طور پر سب پر غالب آنا چاہتا ہے.تو دوسری طرف عملی طور پر وہ سب کو اپنے رنگ میں رنگین کرنا چاہتا ہے.اگر تم نے قرآن کریم کو ذرہ بھر بھی سمجھا ہے.تو ان دونوں فتنوں سے تم کو کوئی خطرہ نہیں.بلکہ تم ہر اک شیطانی حیلہ کو پانی کے بلبلہ سے بھی زیادہ ناپائدار خیال کرو گے.لیکن اگر تمہارے دل میں کمزوری ہو.تو یاد رکھو.اس کا علاج ہمارے آقا نے پہلے سے بتا رکھا ہے.روزانہ سورہ کہف کی دس ابتدائی اور دس آخری آیتیں پڑھ چھوڑو.اور ان کے مطالب پر غور کیا کرو.وہاں کی کوئی بری بات تم پر اثر نہیں کر سکے گی.اس طرح چاہئے.کہ روزانہ بلاناغہ رات کو سوتے ہوئے تین دفعہ آیت الکرسی اور آخری تینوں قل پڑھ کر اور تینوں دفعہ اپنے ہاتھوں پر پھونک کر اپنے سر اور دھڑ پر پھیر لیا کرو.اور اس کے بعد یہ دعا پڑھو.اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْلَمْتُ نَفْسِي إِلَيْكَ وَوَجَّهْتُ وَجْهِيَ إِلَيْكَ وَفَّوَضْتُ أَمْرِى إِلَيْكَ وَالْحَاتُ ظَهْرِى إِلَيْكَ رَغْبَةً وَرَهْبَةً إِلَيْكَ لَا مَلْحَاءَ وَلَا مَنْجَاءَ مِنْكَ إِلَّا إِلَيْكَ - امَنْتُ بِكِتَابِكَ الَّذِي أَنْزَلْتَ وَ نَبِيِّكَ الَّذِي أَرْسَلْتَ اگر تم سمجھ کر اس دعا کو پڑھو گے تو اس میں ایک نور پاؤ گے.روشن نور جو دل کو محبت الہی سے بھر دے گا.
85 تسجد پڑھنے کی تاکید (۳) وہ تاریکی کا ملک ہے.تاریکی روشنی کی دشمن ہے.مومن روشنی کا حیوان ہے.اور تاریکی میں زندہ نہیں رہ سکتا.اس لئے اپنے لئے نور پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کرو.اس نور کے پیدا کرنے کا ایک بہترین ذریعہ قرآن کریم کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق تجد ہے.بلاناغہ تہجد پڑھنے کی کوشش کرو.مگر وہاں کے حالات کے مطابق ایسے وقت میں تہجد پڑھو.کہ اس کے بعد صبح کی نماز پڑھ کر سو سکو.ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں.کہ انسان تہجد پڑھے.اور صبح کی نماز قضا کر دے.تلاوت قرآن کریم (۴) قرآن کریم میں نے تم کو حفظ کرا دیا.اس کا یاد رکھنا تمہارا کام ہے.اس کی روزانہ تلاوت کو نہ بھولنا.میں اس کی خوبیوں کے متعلق پہلے کہہ چکا ہوں.اس کے بھیجنے والے سے زیادہ اس کی کون تعریف کر سکتا ہے.جو کچھ اس نے بتایا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے.کہ وہ نور ہے.وہ بیان ہے.وہ فرقان ہے.وہ تفصیل لِكُلّ شَیئی ہے.وہ قول کریم ہے.وہ کتاب مکنون ہے.علم و عمل کے لئے وہی سب کچھ ہے.اور اس کے سوا جو کچھ ہے.لغو ہے، فضول ہے، بلکہ زہر ہے.ضرورت صرف اس امر کی ہے.کہ انسان آنکھیں کھول کر اس کو پڑھے.اور دل کی کھڑکیوں کو کھولے رکھے.(0) دعا کرتے رہو دعا عبادت کا مغز ہے.اور مومن کی جان ہے.اور جو دعا میں
86.غفلت کرتا ہے.متکبر ہے.اور اپنے آقا سے کبر کرتا ہے وہ اس قابل نہیں.کہ کوئی شریف آدمی اسے منہ لگائے.دعا اس کا نام نہیں.کہ انسان منہ سے کہہ دے.اور سمجھ لے.کہ دعا ہو گئی.دعا پگھل جانے کا نام ہے موت اختیار کرنے کا نام ہے.تذلل اور انکسار کا مجسم نمونہ بن جانے کا نام ہے.جو یونہی منہ سے بکتا جاتا ہے اور تذلل اور انکسار کی حالت اس کے اندر پیدا نہیں ہوتی.جس کا دل اور دماغ اور جس کے جسم کا ہر ذرہ دعا کے وقت محبت کی بجلیوں سے تھر تھرا نہیں رہا ہوتا.وہ دعا سے تمسخر کرتا ہے.وہ اپنا وقت ضائع کر کے خدا تعالیٰ کا غضب مول لیتا ہے.پس ایسی دعا مت کرو.جو تمہارے گلے سے نکل رہی ہو.اور تمہارے اندر اس کے مقابل پر کوئی کیفیت پیدا نہ ہو.وہ دعا نہیں الہی قہر کے بھڑ کانے کا ایک شیطانی آلہ ہے.جب تم دعا کرو.تو تمہارا ہر ذرہ خدا تعالیٰ کے جلال کا شاہد ہو.تمہارے دماغ کا ہر گوشہ اس کی قدرتوں کو منعکس کر رہا ہو.اور دل کی ہر کیفیت اس کی عنایتوں کا لطف اٹھا رہی ہو.تب اور صرف تب تم دعا کرتے ہو.یہ کیفیت بظا ہر مشکل معلوم ہوتی ہے.مگر جس کے ایمان کی بنیاد عشق الہی پر ہو.اس کے لئے اس سے زیادہ آسان اور کوئی شے نہیں.بلکہ اس کی طبیعت کا تو یہ کیفیت خاصہ بن جاتی ہے.اور وہ ہر وقت اس سے لطف اندوز ہو رہا ہوتا ہے.ایسے انسان کو یہ ضرورت نہیں ہوتی.کہ وہ ضرور الگ جا کر مُصَلَّی پر بیٹھ کر دعائیں کرے.وہ خلوت و جلوت میں دعا کر رہا ہوتا ہے.اور جب اس کی زبان پر اور اور کلام جاری ہوتے ہیں.اور اس کی آنکھ کے آگے اور اور نظارے پھر رہے ہوتے ہیں.اس کی روح اپنے مالک و خالق کے عقبہ رحمت پر گری ہوئی اپنے لئے اور دنیا کے لئے طلب گار رحمت ہو رہی ہوتی ہے.
87 (۶) عشق الهی پیدا کرو خدا تعالیٰ سے ہمارا تعلق دلیل اور فلسفے پر مبنی نہ ہونا چاہئے.دلیل کے معنی تو یہ ہیں.کہ وہ راستہ دکھاتی ہے جب تک ہم نے راستہ نہیں دیکھا.تب تک تو دلیل ہمارے کام آ سکتی ہے.لیکن جب ہم نے راستہ دیکھ لیا.پھر دلیل ہمارے کسی کام کی نہیں.پھر صرف عشق اور صرف عشق اور صرف عشق ہمارے کام آسکتا ہے.اور جب عشق پیدا ہو جائے.تو پھر اپنے محبوب سے جدا رہنا بالکل ناممکن ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرو.کہ اس سے زیادہ محبت کے قابل کوئی وجود نہیں.اگر خدا تعالیٰ کا تعلق دلیل اور ثبوت تک رہے گا.تو تم کو تمہاری زندگی سے کچھ فائدہ نہ ہوگا.فائدہ اسی وقت ہو گا.جبکہ عشق الہی دل میں پیدا ہو.اور سب جسم پر بھی اس کا اثر ہو.کسی شاعر کا قول ہے.جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر الہانا بھی نازل ہوا ہے.کہ عشق الہی دے منہ پر ولیاں ایہہ نشانی" پس اگر انسان " خدا تعالیٰ کا ولی بننا چاہے تو چاہئے کہ عشق الہی پیدا کرے.اور اس کے آثار اس کے جسم پر بھی ظاہر ہوں.ورنہ دل کے عشق کو کوئی کیا جان سکتا ہے.بہت لوگ اس دھو کہ میں مبتلا رہتے ہیں.کہ ان کے ظاہر پر تو کوئی اثر عشق الہی کا ہوتا نہیں.مگر وہ خیال کر لیتے ہیں کہ عشق الہی ان کے دل میں پیدا ہے.آگ بغیر دھوئیں کے نہیں ہو سکتی.دل کی کیفیت چھپی نہیں رہ سکتی.جس کے دل میں عشق الہی ہوتا ہے.اس کی ہر حرکت اور اس کے ہر قول سے عشق الہی کی خوشبو آ رہی ہوتی ہے.بکری کے گوشت کے کباب پکتے ہیں.تو اس کی بو ذ کی حس والوں کو میل میل پر سے آ جاتی ہے.پھر کس طرح ممکن ہے.کہ ایک انسان کا دل خدائے ذوالجلال کے عشق کی آگ پر پک رہا ہو اور اس کی
88 خوشبو دنیا کو مہکا نہ دے.پس اگر عشق کے آثار نہیں پیدا.تو عشق کے سمجھنے میں دھوکا لگا ہے.اور ایسے شخص کو اپنی اصلاح کی فکر کرنی چاہئے.جب عشق ہو گا.تو محبوب کے قرب کی بھی تمنا ہو گی یہ قرب کس طرح ملتا ہے.اس کی تفصیل اس جگہ بیان نہیں ہو سکتی.اس کے کئی رنگ ہیں.نشان سے معجزہ سے الہام سے وحی سے کشف سے، اور ہزاروں رنگ سے وہ بندہ کو حاصل ہوتا ہے.اور جو بندہ اس کے بغیر تشفی پا جاتا ہے.وہ عاشق نہیں.بوالهوس نہ بنو پس جب تک اللہ تعالیٰ بھی اپنی محبت کا اظہار نہ کرے تسلی نہ پاؤ اور اپنے دل کو اور جلائے جاؤ.ہاں ابو الہوس نہ بنو.کہ بعض لوگ اپنے آقا کو بھی فروخت کرنا چاہتے ہیں یعنی انہیں خدا تعالیٰ کے قرب کی اس لئے خواہش ہوتی ہے تا لوگوں میں ان کی عزت ہو تا وہ لوگوں سے کہیں کہ خدا تعالیٰ ان سے بولتا ہے.ان کے لئے نشان دکھاتا ہے اور وہ ولی اللہ ہیں.وہ اس خواہش کا نام خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کی تڑپ رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اس طرح دین پھیلا سکیں گے.لیکن وہ خواہ کچھ کہیں یہ حقیقت پوشیدہ نہیں ہو سکتی.کہ وہ اپنے آقا کو ادنیٰ خواہشات کے حصول کے لئے فروخت کرنا چاہتے ہیں.الحياذُ باللهِ پس ایسی خواہش کبھی دل میں پیدا نہ ہو.کوئی سچا عاشق یہ خیال نہیں کر سکتا.کہ اس کا محبوب اسے اس لئے ملے کہ وہ لوگوں کو دکھا سکے.عشق جب پیدا ہوتا ہے.تو باقی سب احساس دبا دیتا ہے.دنیا و ما فيها بھلا دیتا ہے.پس ان لوگوں والی غلطی کبھی نہ کرنا.اللہ تعالیٰ قدوس ہے انسان کی جب اس پر نظر پڑتی ہے.تو وہ باقی سب اشیاء کو
89 بھول جاتا ہے.کیونکہ اس پر نظر پڑتے ہی وہ خود بے عیب ہو جاتا ہے اور شرک سے بڑھ کر اور کون عیب ہو گا.پس اس قسم کے رذیل اور کمینے خیالات دل میں مت آنے دو.صرف خدا تعالیٰ کی جستجو ہو اور اس کے سوا سب کچھ فراموش ہو جائے.بدنامی کے مواقع سے بچو " (۷) یاد رکھو کہ تم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے ہو ایک دفعہ تم بچپن میں سخت بیمار تھے.اور جان کے لالے پڑ رہے تھے.انہی دنوں حضرت خلیفہ المسیح الاول " گھوڑے سے گر گئے.اور ان کی تکلیف نے ہمارے دل سے ہر خیال کو نکال دیا.میں ان کے پاس بیٹھا تھا.اور وہ تکلیف سے کراہ رہے تھے.تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد غنودگی ہو جاتی.میں پاس بیٹھا دعا کر رہا تھا.تمہاری حالت زیادہ خراب ہو گئی اور تمہاری والدہ نے سمجھا کہ تم مرنے ہی والے ہو.ان کی طرف سے ایک آدمی گھبرایا ہوا آیا میں نے پیغام سنا اور سن کر خاموش ہو گیا.کیونکہ حضرت خلیفہ اول کی محبت کے مقابلہ میں تمہاری محبت مجھے بالکل بے حقیقت نظر آتی تھی.تھوڑی دیر کے بعد پھر آدمی آیا پھر ย میں خاموش ہو رہا پھر تیسری دفعہ آدمی آیا اور اس وقت خلیفہ اول ہوش میں تھے.انہوں نے اس کی بات سن لی کہ ناصر احمد کی حالت خطرناک ہے جلد آئیں میں پھر بھی خاموش رہا اور نہ اٹھا.تھوڑی دیر کے بعد حضرت خلیفہ اول نے میری طرف منہ پھیرا اور کسی قدر ناراضگی کے لہجہ میں کہا میاں تم گئے نہیں اور پھر کہا کہ تم جانتے ہو کس کی بیماری کی اطلاع آدمی دے کر گیا ہے وہ تمہارا بیٹا ہی نہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ہوتا ہے.مجھے بادل ناخواستہ اٹھنا پڑا اور میں گھر پر آیا ڈاکٹر کو بلا کر دکھایا اور تم کو کچھ دنوں بعد خدا تعالیٰ نے رجم
90 شفا دے دی مگر یہ سبق مجھے آج تک یاد ہے.ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہئے کہ ہم کون ہیں.بلکہ یہ دیکھنا چاہئے کہ ہم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ایک نسبت ہے.اور ہماری کمزوریاں ان کے اچھے نام کو بد نام کرنے کا موجب ہو سکتی ہیں.پس میں امید کرتا ہوں کہ اپنے طریق عمل کو ہمیشہ اعتراض سے بالا رکھنے کی کوشش کرو گے.ہمیشہ یاد رہے کہ مواقع فتن سے ہی نہ بچو بلکہ بدنامی کے مواقع سے بھی بچو.عورتوں کے ساتھ الگ بیٹھنا، الگ سیر کو جانا وہاں کے حالات میں ایک معمولی اور طبعی بات سمجھا جاتا ہے.مگر تم لوگوں کو اس سے پر ہیز چاہئے وہاں عورتوں سے مصافحہ نہ کرنا ایک بہت بڑی پریشانی ہے مگر اس سے بڑھ کر یہ پریشانی ہے کہ ہم رسول کریم میں اللہ کے حکم کو توڑ دیں.(۸) غذا میں پر ہیز غذا میں پرہیز رہے.وہاں جھٹکے کا گوشت ہوتا ہے.جب تک کو شرمیٹ جو یہود کا ذبیحہ ہے.اور جائز ہے.میسر نہ ہو خود ذبح کر کے جانور دو اور اسے کھاؤ دوسرا گوشت کسی صورت میں مت چکھو.مچھلی، انڈا سبزی وغیرہ یہ چیزیں غذا کے طور پر اچھی ہیں.گوشت کی ضرورت ان کے بعد اول تو ہے نہیں.ورنہ ہفتہ میں دو تین بار مرغ ذبح کر کے پکوا لیا کرو.بہر حال یہ امر یاد رکھنے کے قابل ہے.کہ حلال غذا سے حلال خون پیدا ہوتا ہے.اگر غذا ئیں حرام ہوں گی.تو خون بھی خراب ہو گا.اور خیالات بھی گندے پیدا ہوں گے.اور دل پر زنگ لگ کر کہیں کے کہیں نکل جاؤ گے.خدا تعالیٰ نے جو سامان پیدا کئے ہیں.ان سے الگ ہو کر کامیابی ناممکن ہے.
91 پس ان سامانوں کو نظر انداز نہ کرو.رسول کریم میں یہ فرماتے ہیں لم كه اَلَا لِكُلِّ مَلِكٍ حِمَى وَ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ - کان کھول کر سن لو کہ ہر بادشاہ کی ایک رکھ ہوتی ہے کہ جو شخص اس رکھ میں داخل ہوتا ہے سزا پاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رکھ اس کے مقرر کئے ہوئے محارم ہیں.پھر فرمایا عظمند انسان وہ ہے.جو رکھ کے پاس بھی اپنے جانور نہ چرائے.کیونکہ غلطی سے بھی جانور اندر چلے گئے.تو یہ مصیبت میں مبتلا ہو جائے گا.پس کھانے کے معاملہ کو معمولی نہ سمجھو.جہاز پر بھی اور ولائت جا کر بھی یاد رکھو.انگریزی جہازوں پر پرند گلا گھونٹ کر مارے جاتے ہیں.دوسرا گوشت وہ اکثر بمبئی سے خریدتے ہیں.حلال کھانے والے کے لئے وہ پرند کے ذبیحہ کا بھی انتظام کر دیتے ہیں.اس کی کوشش جہاز کے افسروں سے کر لینا.ورنہ دوسرا گوشت اگر ذبیحہ کا ہو تو صرف وہ کھانا پرند کا گوشت نہ کھانا.خدمت دین کے لئے تیاری کے متعلق ضروری ہدایات میں شاذو نادر طور پر بعض فوائد کے لئے سینما کی غیر معیوب فلموں کو دیکھ لینا جائز سمجھتا ہوں لیکن ناچ کی محفلوں میں شامل ہونا بہت معیوب ہے.اور اس سے پر ہیز چاہئے.جوئے کی قسم کی سب کھیلوں سے پر ہیز چاہئے.سینما وغیرہ سے بھی حتی الوسع پر ہیز ہی چاہئے.لیکن سال میں ایک دو دفعہ دیکھنے کا موقع ہو اور فلم گندی نہ ہو تو حرج نہیں.مگر احتیاط کے سب پہلو مد نظر رہیں.تم نے زندگی وقف کی ہوئی ہے زندگی وقف کرنے کے یہ معنی ہیں کہ انسان دنیا کے عیش و عشرت اور آرام و آسائش کو ترک کر دے اور دین کی خدمت میں اپنی ہر طاقت صرف کر دے.یہ امر صرف ارادہ سے حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے لئے ہر روز کی تربیت اور
92 تیاری کی ضرورت ہے جس طرح سپاہی صرف بندوق پکڑ کر نہیں لڑ سکتا بلکہ اسے فنون جنگ کے سیکھنے اور ان کی مشق کرتے رہنے کی ضرورت ہے.اسی طرح دین کے سپاہی کو بھی ایک لمبی اور مستقل مشق کی ضرورت ہے.اس لئے اپنے ہر کام میں سادگی پیدا کرو.تمہارا اصل لباس غربت ہو.اس کے بغیر تم اپنا عہد پورا کرنے کے قابل نہ ہو گے.اور نَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا خدا تعالیٰ کی ناراضگی کو خرید لو گے.چاہئے کہ تمہارا لباس تمہارا کھانا پینا تمہاری رہائش سادہ ہو.اور انکسار طبیعت کا خاصہ ہو جائے.کیونکہ خدمت کرنے والا خدمت گار ہوتا ہے.اگر ایک انسان کی چال ڈھال اور اس کا قول و گفتگو خدمت گاری پر دلالت نہیں کرتا تو وہ خدمت کر ہی کس طرح سکتا ہے.خدمت کا میدان غرباء میں ہوتا ہے.ایسے آدمی کے تو غرباء پاس بھی نہیں آتے.اگر کوئی تمہارا خادم ہو تو اسے بھائی کی طرح سمجھو دل میں شرمندگی محسوس کرو کہ ایک بھائی سے خدمت لینے کی ضرورت محسوس ہوئی.ہر ایک ادنیٰ اور اعلیٰ سے محبت کرو اور پیار.اور اخلاق سے ملو.بڑوں کا ادب کرو اور چھوٹوں پر شفقت.اپنے کی بناء پر یا اگر نیکی کی توفیق ملے اس کی بناء پر لوگوں پر بڑائی نہ ظاہر کرو.کہ اس سے نیکی برباد ہو جاتی ہے اپنے آپ کو سب سے چھوٹا ، سمجھو کہ عزت وہی ہے.جو انکساری میں ملتی ہے.جسے خدا اونچا کرے.وہی اونچا ہے اپنے کسب سے کمائی ہوئی عزت عزت نہیں.لوٹا ہوا مال ہے جو عزت کی بجائے ذلت کا موجب ہے.ہر حالت میں دینی خدمت سے غافل نہ ہو.اپنے نفس پر خرچ کرنے کی بجائے دین پر اور غرباء پر خرچ کرنے کو ترجیح دو مجھے بچپن میں تین روپے ملا کرتے تھے.اس میں سے خرچ کر کے تشخیذ الاذھان چلایا کرتا تھا.بعض اور دوست بھی اس میں شامل تھے.وہ بھی میری طرح بے سامان تھے.پھر
93 بھی ہم نے رسالہ چلایا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھا چلایا.پس اپنے آرام پر دین کی مدد کو مقدم سمجھو.چندہ کو اپنے تمام حوائج پر مقدم سمجھو.اور اس کے علاوہ بھی نفس پر تنگی کر کے صدقہ و خیرات کا رکھا کرو.(9) تبلیغ کے متعلق ہدایت تبلیغ زبان سے بھی اور حسن اخلاق سے بھی مومن کا اہم فرض ہے.اس کو مت بھولو.اور کوشش کرو.کہ وہاں کی رہائش کا کوئی اچھا پھل وہاں چھوڑ کر آؤ.اچھے دوست (۱۰) اچھے دوست پیدا کرو.بجائے آوارہ اور خوش مذاق دوستوں کے پروفیسروں اور علمی مذاق والے لوگوں کی صحبت کو اپنے دل کی تسکین کا ذریعہ بناؤ.(11) مسجد کی آمد و رفت مسجد کی آمد و رفت کو جہاں تک ہو سکے بڑھاؤ اور اگر موقع ملے یورپ کے دیگر ممالک کی بھی سیر کرو.(۱۳) امام مسجد احمد یہ لندن کی اطاعت امام مسجد یورپ میں خلیفہ کا نمائندہ ہے.اس کی اطاعت اور اس سے تعاون ایمان کا ایک جزو ہے اس میں کو تاہی ہر گز نہ ہو.
94 (۱۳) مومن بزدل نہیں ہوتا مومن بزدل نہیں ہوتا.عزیزوں کی جدائی شاق ہوتی ہے.مگر تم مومن بنو اور ان کی جدائی تمہاری ہمت کو پست نہ کرے نہ کام میں روک ہو.صحیح بات قبول کرو اور غلط رد کر دو (۱۴) لوگ عام طور پر لفظ رہتے ہیں اور ناموں سے مرعوب ہوتے ہیں تم اصطلاحوں سے نہ ڈرو لفظ مت رٹو بلکہ مطلب کو سمجھنے کی کوشش کرو.اور جو صحیح بات ہو اسے قبول کرو جو غلط ہو اسے رد کر دو صرف اس لئے تسلیم نہ کرو کہ کورس میں لکھی ہے.یا کسی بڑے آدمی نے اس کی تصدیق کی ہے.(10) سب عزت احمدیت میں ہے اس وقت سب عزت احمدیت میں ہے.پس احمدیت کے چھوٹے سے چھوٹے کام کو دنیا کی ہر عزت سے مقدم سمجھو.اگر اس میں کو تاہی ہوئی تو تم اپنی عاقبت بگاڑ لو گے.(۱۶) زندگی کا پانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں، میری تحریروں اور اخبارات سلسلہ کے پڑھنے کی عادت ڈالو کہ ان میں زندگی کا پانی ہے.
95 سب نصیحتوں کا خلاصہ آخر میں سب نصیحتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ خدا کے بنو خدا کے.ہم فانی ہیں اور وہی زندہ اور حاصل کرنے کے قابل ہے اس کا چہرہ دنیا کو دکھانے کی کوشش کرو.اپنی زندگی کو اسی کے لئے کر دو ہر سانس اسی کے لئے ہو.وہی مقصود ہو ، وہی مطلوب ہو وہی محبوب ہو، جب تک اس کا نام دنیا میں روشن نہ ہو ، جب تک اس کی حکومت دنیا میں قائم نہ ہو، تم کو آرام نہ آئے تم چین سے نہ بیٹھو.یاد رکھو اس فرض کی ادائیگی میں ستی پر ایک خطرناک لعنت مقرر ہے.ایک عظیم الشان انسان کی لعنت جس کی لعنت معمولی نہیں.وہ لعنت یہ ہے.اے خدا ہرگز مکن شاداں دل تاریک را آنکه او را فکر دین احمد مختار نیست اور وہ لعنت کرنے والا شخص خدا کا پیارا ہمارا سردار مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ہے.خدا تم کو اور تمہارے سب بھائیوں اور عزیزوں کو اس لعنت سے بچائے.آمین اللهم آمین.ربی ربی ربی له سپردم بتو باشه خویش را تو دانی حساب کم بیش را رَبَّنَا إِنَّكَ مَنْ تَدْخُلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِيْنَ مِنْ أَنْصَارٍ - رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ - رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدَتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادِ - وَاخِرُ دَعْوَنَا اَنِ الْحَمْدُ لَكَ وَمِنْكَ يَارَبَّ الْعَالَمِينَ " مرزا محمود احمد ۳۴-۹-۵۲۶ قادیان کے ریلوے اسٹیشن پر حضرت المصلح الموعود اور ہزاروں احباب جماعت
96 رض پہنچے ہوئے تھے حضرت المصلح الموعود نے ایک لمبی اجتماعی دعا کے ساتھ بعد از شرف معانقہ رخصت فرمایا:.آپ کے الوداع کے لئے حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے ایک دعائیہ نظم لکھی جس کے چند اشعار یہ ہیں:.جاتے ہو میری جان، خدا حافظ و ناصر اللہ نگہبان خدا حافظ و ناصر ہر گام پہ ہمراہ رہے نصرت باری ہر لمحہ و ہر آن خدا حافظ و ناصر والی بنو امصار علوم دو جہاں کے اے یوسف کنعان! خدا حافظ و ناصر ہر علم سے حاصل کرو عرفان الهی بڑھتا رہے ایمان خدا حافظ و ناصر پہرہ ہو فرشتوں کا قریب آنے نہ پائے ڈرتا رہے شیطان خدا حافظ و ناصر ہر بحر کے غواص بنو لیک بایں شرط بھیگے نہیں دامان خدا حافظ و ناصر سر پاک ہو اغیار سے، دل پاک نظر پاک اے بندہ سبحان! خدا حافظ و ناصر حقیقی کی "امانت" سے خبردار اے حافظ قرآن" خدا حافظ و ناصر محبوب رض الفضل ۱۱/ ستمبر ۱۹۳۴ء ص ۲) آپ نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے Balliol کالج میں داخلہ لیا اور پولٹیکل سائنس P.P.E یعنی فلسفہ اور اکنامکس کے مضامین رکھے اور پہلی ٹرم میں عربی کا مضمون بھی پڑھا.یہ کورس ماڈرن گریڈ کہلاتا ہے جس میں آپ نے (B.A(Hos کیا.۴ جولائی ۱۹۳۶ء کو عارضی طور پر چھٹیوں میں واپس آئے.ان دنوں حضرت مصلح موعود دھرم سالہ مقیم تھے.حضرت مصلح موعود نے آپ کو اور سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کو اپنے پاس بلایا.قریباً ڈیڑھ دو ماہ آپ حضرت مصلح موعود کے پاس رہے اور چھٹیاں گزار کر ۱۷ ستمبر ۱۹۳۶ء کو انگلستان روانہ ہو گئے.واپسی پر آپ نے چند ماہ مصر میں عربی زبان بولنے کی مشق کے لئے قیام فرمایا اور ۹ نومبر ۱۹۳۸ء کو واپس قادیان پہنچے.آکسفورڈ یونیورسٹی کے دستور کے مطابق سات ٹرم یعنی تقریباً ساڑے تین سال بعد آپ کو گھر پر پرچے بھجوائے گئے جنہیں آپ نے حل کر کے بھیجوایا اور ۱۹۴۱ء میں آپ کو ایم اے آنرز کی ڈگری بھی آکسفورڈ یونیورسٹی کی رض
97 طرف سے مل گئی جس محنت اور دلچسپی سے آپ نے آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کی اس کے بارے میں صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں:.آکسفورڈ میں حضرت بھائی جان مختلف لائبریریوں اور کتب کی دکانوں پر جاتے تھے اور بڑی دلچسپی اور گہری جاذبیت سے مطالعہ جاری رکھتے تھے.۵۴۴ ee انگلستان روانگی کے وقت حضرت المصلح موعود نے جو نصائح آپ کو فرمائی تھیں ان پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے پورا پورا عمل کیا.آپ نے مغربی ماحول کا پوزی طرح جائزہ لیا اور درس و تدریس کے میدان میں جن خوبیوں کا آپ نے مشاہدہ کیا انہیں بعد میں جامعہ احمدیہ اور تعلیم الاسلام کالج میں تدریس کے زمانہ میں نافذ بھی کیا اور مشاہدہ کو وسیع کرنے کے لئے کئی سفر بھی کئے.۱۹۳۵ء میں آپ نے تبلیغ کی غرض سے ایک سہ ماہی رسالہ الاسلام" بھی جاری فرمایا اور خدمت دین کے کسی موقع کو جانے نہ دیا اور اپنے بہترین عملی نمونہ سے سیدنا حضرت محمد مصطفی مینی والی مہم کے اسوہ حسنہ میں رنگین ہو کر دین حق اسلام کی حسین دلکش تصویر اہل مغرب کو دکھائی انگلستان کی جماعت سے ایک مضبوط تعلق رکھا اور جماعت کے تمام افراد سے نہایت محبت اور شفقت کا سلوک فرمایا.آکسفورڈ یونیورسٹی کے جس کالج میں آپ داخل ہوئے اسے تعلیمی لحاظ سے ایک خاص مقام حاصل تھا.آپ فرماتے ہیں.میں جب آکسفورڈ میں پڑھتا تھا تو ہمارا بے لیل کالج (Balliol College) ایکٹو Active ہونے کے لحاظ سے ایک خاص مقام رکھتا تھا.میں نے دیکھا جس طرف بھی سیر کو جائیں اگر سو طلباء راستے میں ملے ہیں تو ان میں سے پچاس سے زیادہ بے لیل کالج (Balliol College) کے ہوتے ہیں.غرض وہ Active کالج تھا سویا ہوا نہیں تھا.۵۵۰ آپ کو کہا گیا تھا کہ کھانے پینے کی احتیاط کریں چنانچہ آپ نے اس کا خاص خیال
98 رکھا کہ حلال اور طیب غذا کھائیں.آپ نے خود ایک مرتبہ فرمایا.”جب میں آکسفورڈ گیا تو مجھے یہ خیال تھا کہ کہیں کالج والے مجھے غلط قسم کے کھانے نہ دیں.چنانچہ میں پہلے ہی دن باورچی خانہ میں گیا جو بہت بڑا تھا اور سب سے بڑے باورچی سے جا کر کہا کہ ایک تو میں گوشت نہیں کھاؤں گا کیونکہ وہاں ذبیحہ نہیں ملتا اور دوسرے تم جو مچھلی اور انڈا میرے لئے پکاؤ اس کو چربی میں نہ پکانا مکھن میں پکانا وہ باروچی مسکرایا اور کہنے لگا کہ غریب طالب علم یہاں پڑھنے کے لئے آتے ہیں وہ سور کی چربی کے اخراجات برداشت نہیں کر سکتے یعنی ان کی مالی حالت بھی ایسی نہیں ہوتی کہ ہم ان کے لئے سور کی چربی خرید کر کھانا پکائیں اور ان سے پیسے لے لیں.آپ نے اپنی تعلیم کے دوران نہ صرف یہ کہ بہترین طالب علم بن کر دکھایا بلکہ اسلام کی صحیح ترجمانی کی اور اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا منہ توڑ جواب دیا چنانچہ آپ اپنے ایک پروفیسر کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں." آکسفورڈ میں پہلی ٹرم میں لاطینی وغیرہ زبانوں کا امتحان بھی پاس کرنا پڑتا ہے اور چونکہ غیر ملکی طلباء لاطینی وغیرہ کا علم نہیں رکھتے اس لئے انہوں نے فارسی، عربی اور سنسکرت زبانوں میں سے کوئی ایک زبان لینے کی سہولت دی ہے.میں نے سہولت کی وجہ سے عربی زبان لی اور یہ صاحب (مار گو لیتھ ) وہاں عربی پڑھایا کرتے تھے.غالباً دوسرا یا تیسرا دن تھا کہ اسے اسلام پر حملہ کرنے کا پہلا موقع ملا اور اس نے اسلام پر اعتراض کیا.اللہ تعالیٰ کی توفیق سے میں نے یہ عہد کیا تھا کہ جب بھی وہ اسلام یا محمد رسول اللہ میں کیا کہ ہم پر اعتراض کرے گا میں اس کا جواب دوں گا چنانچہ جب اس نے اعتراض کیا تو میں کھڑا ہو گیا اور کہا آپ نے جو استدلال کیا ہے وہ قرآن کریم کی فلاں آیت یا فلاں حدیث کے خلاف ہے.ان لوگوں اور خاص طور پر آکسفورڈ کے استادوں کا یہ
99 طریق ہے کہ انہیں بحث کی عادت نہیں.اس لئے کہا تمہارا یہ خیال ہے اور میرا وہ خیال ہے اور بات ختم کر دی بہر حال جو تاثر وہ دینا چاہتا تھا وہ نہ دے سکا دوسرے تیسرے دن اس نے پھر اعتراض کیا تو میں نے پھر اس کا جواب دیا.مصر کے بعض طلباء نے مجھے کہا کہ تم اپنے آپ پر کیوں ظلم کر رہے ہو.یہی پڑھانے والا ہے اور یہی امتحان لینے والا ہے میں نے کہا یہ مجھے فیل نہیں کرے گا.".جیسا کہ آپ کو نصیحت کی گئی تھی آپ نے انگلستان میں قیام کے دوران یورپی اقوام کو بڑے غور سے زیر مطالعہ رکھا.اور ان کی خوبیوں اور اچھی روایات کو نوٹ کیا.آپ فرماتے ہیں: میں کئی سال آکسفورڈ میں پڑھتا رہا ہوں اور جو میں نے سمجھا تھا کہ میں کیوں وہاں بھیجا گیا.مجھے اجازت دی گئی اور حضرت مصلح موعود ن اللہ نے وہاں بھیجا اور خرچ ہوا مجھ پر.یہ اس لئے نہیں تھا کہ میں ان سے کچھ سیکھوں بلکہ اس لئے تھا کہ میں اس قابل ہو جاؤں کہ ان کو کچھ سیکھا سکوں اپنے وقت پر اور ان کو غور سے زیر مطالعہ رکھوں.میں نے ان کی زندگی ، ان کی عادتوں کا بڑے غور سے مطالعہ کیا ہے.کے میدان میں ایک چیز جو نمایاں طور پر میرے دماغ پر اثر انداز ہوئی وہ یہ تھی کہ اس کا اگر کوئی ایک شخص صرف ایک چھپی ہوئی صداقت قوم کے سامنے پیش کرتا ہے تو وہ اس کو سر پر اٹھا لیتے ہیں کیونکہ ساری قوم نے مل کے آگے بڑھنا ہے.اگر کسی سال کسی قوم کے دس ہزار آدمی (دس کروڑ میں سے ایک نئی چیز اپنی قوم کو دیتے ہیں تو اس قوم کے پاس دس ہزار نئے علوم کا خزانہ جمع ہو گیا.وہ اس حقیقت کو سمجھتے تھے.۵۸۴ اسی طرح آپ فرماتے ہیں."ایشین ممالک کی یہ بدقسمتی ہے کہ ہمارے ماحول میں ہماری
100 زندگیوں میں تضاد پیدا کیا جاتا ہے میں پرنسپل بھی رہا ہوں اور میں آکسفورڈ میں بھی پڑھتا رہا ہوں.میں نے وہاں جو حالات دیکھے میری خواہش تھی کہ حصول تعلیم کے متعلق اسی طرح کے خیالات یہاں بچوں کے لئے بھی پیدا کئے جائیں اب ہمارے یہاں کے حالات یہ ہیں کہ ہوسٹل میں ہمارا ایک بچہ رہتا ہے دھوبی اس کے کپڑے لے جاتے ہیں جب وہ کپڑے دھو کر واپس لاتا ہے تو قمیض کے بٹن غائب ہوتے یا جو جراب صحیح سلامت تھی وہ پھٹی ہوئی ہوتی ہے.بعض طبیعتیں ایسی ہیں کہ وہ دیکھتے ہیں کہ کپڑے آئے چنانچہ انہیں کچھ وقت دھوبی سے جھگڑا کرنے پر ضائع کرنا پڑتا ہے....آکسفورڈ میں مجھے کئی مہینے تک یہ پتہ نہیں لگا کہ کون کس وقت میرے کپڑے لے جاتا ہے اور کس وقت وہاں کپڑے واپس رکھ دیئے جاتے ہیں.پتہ ہی نہیں لگتا کیونکہ وہاں کمرے بند کرنے کا رواج نہیں ہے اور نہ ہمارے پاس چابیاں تھیں بلکہ بارہ بارہ ہفتے کی جو چھٹیاں ہیں ان میں بھی چیزیں اسی طرح چھوڑ کر کمرے کھلے چھوڑ کر چلے جاتے تھے.۵۹.ایک اور اچھی عادت کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :.” جب میں آکسفورد میں پڑھا کرتا تھا اس وقت کی میں بات بتا رہا ہوں.تھرڈ کلاس میں سوار ہو جائیں مزدروں سے بھری ہوئی گاڑی پر.ہر آدمی کے ہاتھ میں اخبار پکڑا ہوا ہے وہ اخبار پڑھ رہا ہے.ساڑھے تین سالہ طالب علمی کا زمانہ جو میں نے وہاں گزارا ہے اس میں کسی ایک آدمی کو دوسرے سے اخبار مانگ کر پڑھتے نہیں دیکھا.مانگتا ہی کوئی نہیں اپنا اخبار خریدتا ہے ہر شخص.پھر راہ میں یوں پھینک دیتا ہے وہ.ان کے اخبار پھینکنے کے قابل ہیں لیکن پڑھنے کے قابل بھی ہیں جو پڑھنا ہوتا ہے اس نے وہ پڑھ لیتا ہے پھر پھینک دیتا ہے.ایک شخص اخبار پڑھ کر اپنی سیٹ پر چھوڑ کے اسٹیشن پر اتر جاتا ہے.وہاں
101 ایک اور آدمی آ بیٹھتا ہے جس کے پاس اخبار نہیں جب گاڑی کھڑی ہوتی ہے وہ پلیٹ فارم پر جا کر اپنے لئے وہی اخبار خرید کے لاتا ہے وہ نہیں اٹھاتا جو اس کی سیٹ کے اوپر پڑا ہوا ہے.۲۰۴ وہاں کے طلباء جتنی محنت کرتے ہیں اسے آپ نے خاص طور پر نوٹ فرمایا اور ایک مرتبہ فرمایا:." آکسفورڈ میں اچھا طالب علم وہ سمجھا جاتا تھا جو کلاس ورک کے علاوہ بارہ گھنٹے سٹڈی کرتا تھا یعنی کلاس روم کے علاوہ بارہ گھنٹے سٹڈی کرنے والا اچھا طالب علم اور آٹھ گھنٹے سٹڈی کرنے والا درمیانہ طالب علم اور جو کلاس ورک کے علاوہ پانچ گھنٹے سٹڈی کرتا تھا اس کے متعلق وہ کہتے تھے کہ پتہ نہیں یہ یہاں کیوں آگیا ہے ؟ اسے پڑھائی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے مگر ہمارے ہاں اچھا طالب علم شاید اسے سمجھا جاتا ہے جو روزانہ پانچ گھنٹے اوسط بناتا ہے لیکن وہاں انہوں نے وقت مقرر کیا ہوتا ہے کہ آٹھ یا دس گھنٹے یا بارہ گھنٹے پڑھائی ضرور کرنی ہے.آپ کو جرمنی جانے کا بھی کئی بار موقع ملا اور اس قوم کی خوبیوں کا ذکر کرتے ہوئے 271ee آپ نے فرمایا:.” میں جب پڑھا کرتا تھا تو ایک دفعہ میں جرمنی میں سفر کر رہا تھا.اس زمانے میں ہٹلر کی حکومت تھی جو کہ بڑا سخت ڈکٹیٹر تھا.وہاں مجھے کسی سے یہ علم ہوا کہ اگر رات کو آٹھ بجے کے بعد کوئی گھر والا اونچی آواز سے ریڈیو چلائے تو اگر اس کا ہمسایہ شکایت کر دے کہ اس نے مجھے سونے نہیں دیا اور میرے آرام میں مخل ہوا ہے تو قانون فوراً حرکت میں آجاتا ہے اور اگلے دن صبح پولیس پہنچ جاتی ہے.دوسروں کا خیال رکھنا قانون اور معاشرہ کی ذمہ داری ہے.۶۲ اسی زمانہ میں آپ نے جرمنی میں ایک رویا دیکھی جس کا ذکر آپ نے اپنے زمانہ خلافت میں ۱۹۶۷ء میں سفر جرمنی کے دوران فرمایا.
102 حضور نے فرینکفورٹ میں جرمن قوم کے متعلق اپنا ایک پرانا مبشر خواب سنایا." کہ ایک جگہ ہے وہاں ہٹلر بھی موجود ہے اور وہ حضور سے کہتا ہے کہ آئیں میں آپ کو اپنا عجائب خانہ دکھاؤں چنانچہ وہ حضور کو ایک کمرہ میں لے گیا جہاں مختلف اشیاء پڑی ہیں.کمرہ کے وسط میں ایک پان کی شکل کا پتھر ہے جیسے دل ہوتا ہے اس پتھر پر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ لکھا ہوا ہے.حضور نے اس کی تعبیر یہ فرمائی کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمن قوم اگرچہ اوپر سے پتھر دل ہے یعنی دین سے بیگانہ نظر آتی ہے مگر اس کے دلوں میں اسلام قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہے.انگلستان سے واپسی پر مصر میں عربی زبان کی مشق کرنے اور عربوں میں تبلیغ کا جائزہ لینے کے لئے آپ نے مختصر قیام فرمایا.اس دوران آپ نے محسوس فرمایا کہ عربی زبان پر قرآن کریم کی زبان کا بڑا گہرا اثر ہے.گو وہ پہلے ہی بڑی اچھی اور بہترین زبان تھی لیکن قرآن کریم کی وحی کی عربی نے عربی زبان کو بے حد متاثر کیا ہے.اس سلسلہ میں آپ نے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا:.ایک دفعہ جب ہم مصر میں ٹھرے ہوئے تھے.گاڑی میں سفر کرتے ہوئے ایک نوجوان ہم سفر ہر بات میں قرآن کریم کی آیات کا وہ کوئی نہ کوئی ٹکڑا استعمال کرتا تھا چنانچہ میری طبیعت پر یہ اثر تھا کہ نوجوان قرآن سے بڑی محبت رکھتا ہے اس لئے اسے قرآن کریم از بر ہے.خیر ہم باتیں کرتے رہے کوئی گھنٹے دو گھنٹے بعد معلوم ہوا کہ و عیسائی ہے.میں نے اسے کہا کہ تم عیسائی ہو مگر قرآن کریم کی آیات کے فقرے کے فقرے استعمال کرتے ہو.وہ کہنے لگا میں عیسائی تو ہوں لیکن قرآن کریم کی عربی سے ہم بچ نہیں سکتے یہ ہمارے ذہنوں اور زبان پر بڑا اثر کرتی ہے.
103 مسجد انگلستان میں پاکیزہ زندگی کے شواہد آکسفورڈ میں حضور کے قیام کے دوران ایک نو مسلم انگریز بلال نقل ۱۰۲ حضور کی پاکیزہ زندگی کو قریب سے دیکھ چکا تھا.چنانچہ ۱۹۶۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی وفات پر ہزاروں میل دور بیٹھ کر اس نے کہا کہ حضور ہی تیسرے خلیفہ ہوں گے اس بارہ میں مکرم بشیر احمد صاحب رفیق سابق امام مسجد لندن انگلستان لکھتے ہیں:.۱۹۶۵ء میں جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا انتقال ہوا تو میں فضل لندن کا امام تھا.مرکز سلسلہ سے ہزاروں میل دور ہم سب احمدیان برطانیہ مرکز کی طرف سے کسی خبر کی طرف کان لگائے بیٹھے دعاؤں میں مصروف تھے اور اس بات کا شدت اور بے قراری سے انتظار ہو رہا تھا کہ مسند خلافت ثالثہ پر کون متمکن ہوتے ہیں.اس کیفیت میں جب جماعت کے بہت سارے احباب مشن ہاؤس لندن میں جمع تھے ہمارے انگریز مسلمان احمدی بھائی مسٹر بلال نثل مرحوم میرے پاس آئے اور کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ کون خلیفہ ہوں گے.میں حیران ہوا کہ ان کو قبل از وقت کیسے معلوم ہوا کہ کون مسند خلافت پر رونق افروز ہو گا.مسٹر نٹل نے ایک تصویر میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے شدت جذبات سے گلو گیر آواز میں کہا یہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کی تصویر ہے جو انہوں نے لندن مسجد کے باغ میں کھینچوائی تھی اور مجھے مرحمت فرمائی تھی.میں ان دنوں سے جب حضرت مرزا ناصر احمد صاحب آکسفورڈ کے طالب علم تھے ان کو جانتا ہوں ان کے بے حد قریب رہا ہوں اور تقویٰ اللہ حسن اخلاق اور عشق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی جو جھلک میں نے ان میں دیکھی وہ مجھے اس یقین محکم پر قائم کرتی ہے کہ اس منصب جلیلہ کے اس وقت وہی اہل ہیں اور جماعت یقیناً اس امانت کو ان کے ہی سپرد کرے گی.مسٹر بلال نٹل
104 مرحوم کی موجودگی ہی میں مرکز سے بذریعہ تار یہ اطلاع ملی کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلافت ثالثہ کے منصب جلیلہ پر فائز ہو گئے ہیں اور اس طرح ایک انگریز نو مسلم کی دور رس نگاہ نے جوانی ہی میں اس بے بہا گوہر کو شناخت کر لیا تھا جس سے اللہ تعالیٰ نے مستقبل میں عظیم کام لینے تھے اور حضور کی پارسائی ، خدا ترسی ، تقویٰ اللہ اور عشق محمد رسول اللہ علی الا اللہ پر ان کو گواہ ٹھہرانے کا شرف عطا فرمایا." ۶۵؎ اسی طرح آپ اپنے زمانہ طالب علمی میں اپنے خاندان کے دوسرے نوجوانوں صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب وغیرہ کے ہمراہ انگلستان کے علاقہ ڈیون شائر کی ایک انگریز خاتون کے فارم میں چھٹیاں گزار نے تشریف لے جایا کرتے تھے آپ کے زمانہ خلافت میں سابق امام مسجد لندن مکرم بشیر احمد رفیق صاحب کے استفسار پر اس معمر خاتون نے بتایا:."" وہ سامنے کمرہ ہے جس میں وہ ہمیشہ ٹھرا کرتے تھے اور صبح صبح جب میں ان کے کمرہ کے آگے سے گزرتی تو ایک عجیب بھنبھناہٹ کی مسحور کن آواز آیا کرتی جو کبھی کھڑے ہو کر میں چند منٹ سنا بھی کرتی.ایک دن میں نے ناصر سے پوچھا کہ تم صبح سویرے کیا پڑھتے رہتے ہو جس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا تو ناصر نے بتایا کہ وہ اپنی مقدس کتاب قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں.اسی خاتون نے یہ بھی فرمایا کہ ایک شام کھانے پر جب حضور رحمہ اللہ اور دوسرے صاحبزادگان موجود تھے یہ ذکر چل پڑا کہ مستقبل میں ان کے کیا ارادے ہیں.ہر ایک نے بتایا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں اور کس پیشے کو اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں.جب حضور رحمہ اللہ کی باری آئی تو آپ نے فرمایا کہ میں خدمت اسلام کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اپنی زندگی اس مقصد کے لئے وقف کرنے کا عزم کئے بیٹھا ہوں.مجھے اور کوئی خواہش نہیں اور نہ ہی مجھے دنیا کی طرف کوئی
105 رغبت ہے.انگریزوں کو اور خصوصا عیسائیوں کو دین سے تو چونکہ کوئی سروکار نہیں ہوتا اور دنیا داری کا غلبہ ہوتا ہے اس لئے یہ خاتون کہنے لگیں کہ اس وقت میرے منہ سے نکلا.What a waste of time لیکن اب جب میں دیکھتی ہوں کہ وہ جماعت کے سربراہ ہیں تو ندامت ہوتی ہے کہ کتنا غلط فقرہ منہ سے نکل گیا تھا.حقیقی اور بامراد زندگی تو انہیں ملی ہے.اس خاتون نے یہ بھی بتایا کہ حضور اپنی جوانی میں بہت با حیا اور شرمیلی طبیعت کے مالک تھے.بچوں سے بے حد محبت کرتے تھے چنانچہ جب آپ رخصتوں میں فارم پر تشریف لاتے تو اردگرد کے بچے آپ کے گرد جمع ہونے میں خوشی محسوس کرتے.آپ جیب میں چاکلیٹ وغیرہ رکھتے اور بچوں میں تقسیم کرنے میں خوشی اور انبساط محسوس کرتے.کھانے میں سختی سے یہ پابندی فرماتے کہ صرف ذبیحہ استعمال کریں اور چونکہ اسلامی ذبیحہ میسر نہ آ سکتا تھا اس لئے خود مرغی اپنے ہاتھ سے ذبح کرتے.وہی کھاتے.اس خاتون نے مجھے ایک تصویر بھی دکھائی جس میں حضور مرغی ذبح فرما رہے تھے.۶.صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحب آپ کے انگلستان کے زمانے کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں." ۱۹۳۳ء میں میں انگلستان چلا گیا.مجھ سے پہلے مرزا مظفر احمد صاحب جا چکے تھے اور غالبا مرزا سعید احمد صاحب مرحوم بھی.۱۹۳۴ء میں بھائی انگلستان آ گئے.ہم تینوں تو لندن میں تھے مگر بھائی Balliol College آکسفورڈ میں پڑھتے تھے.بھائی صاحب کا لندن آنا جانا رہتا تھا اور اگر کبھی وہ نہ آتے تو ہم آکسفورڈ چلے جاتے اور اچھی رونق رہتی.آکسفورڈ میں بھائی کے دوستوں کا حلقہ اچھے انگریز خاندانوں سے تھا جو آپ کی پوزیشن کو سمجھتے تھے اور اسی رنگ میں آپ
106 سے ملنا جلنا ہوتا.یہ تعلق بھائی کا دیر تک رہا.بھائی کے ہندوستانی دوستوں میں سے ایک سید اکبر مسعود صاحب غالبا سر سید احمد صاحب کے پوتے یا پڑپوتے تھے یہ بعد میں بمع اپنی بیگم کے ایک دو بار ربوہ بھی آئے اور اس پرانے تعلق کو نہ چھوڑا.آپ سے ان کا تعلق تو اس سے سمجھ آ سکتا ہے کہ ایک بار وہ رات کے وقت ربوہ کے قریب سے گزر رہے تھے تو انہوں نے اپنی بیگم کو کہا آج رات ناصر کے ہاں ہی رہ لیتے ہیں.چنانچہ انہوں نے بھائی کا دروازہ ۱۰ یا ۱۱ بجے رات کھٹکھٹایا.اس وقت بھائی کالج والے مکان میں رہتے تھے.سڑکیں وغیرہ تو ابھی کی بنی نہ تھیں.گردو و غبار میں سے جب اندر داخل ہوئے تو منظر اور ہی تھا ہر چیز سلیقے سے اپنی جگہ رکھی ہوئی تھی.کھانا بھی فوراً مل گیا.اکبر صاحب اور ان کی بیوی بہت حیران ہوئے اور بھائی اور میری خالہ رسیده منصورہ بیگم صاحبہ) کی مہمان نوازی کا اس قسم کا اثر ہوا کہ ہر جگہ بیان کرتے تھے.انگلستان اور یورپ میں بھائی نے مکمل طور پر حضرت مصلح موعود کی ہدایات پر عمل کیا اور کوئی ایسی بات نہ ہونے دی جس سے کسی کو انگشت نمائی کا موقعہ ملے ۶۷؎.وقف زندگی آپ اس وقت حصول تعلیم کے لئے یورپ میں تھے جب آپ نے اپنے عظیم والد اور خلیفہ وقت المصلح موعود ہی ان کو جرمنی سے خط لکھ کر ان کی خدمت میں اپنے اس ارادے کا اظہار کیا کہ آپ دین کے لئے زندگی وقف کرنا چاہتے ہیں.قطع نظر اس کے کہ آپ کو حضرت مصلح موعود نے پہلے ہی وقف کیا ہوا تھا.آپ نے اس سلسلہ میں جو خط لکھا وہ درج ذیل ہے.ย
107 سیدی ! السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته امید ہے کہ حضور ہر طرح سے خیریت سے ہوں گے.میرے حلق میں تکلیف بدستور ہے.دعا کی درخواست ہے.اللہ تعالیٰ رحم فرما دے.آمین.ایک طرف حضور کے خطبات منافقین کے متعلق نظر سے گزرے دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس پڑھنے کا اتفاق ہوا.کہیں آپ فرماتے ہیں کہ میری نظر ان غریبوں پر ہے جو نہ بی.اے بننا چاہتے ہوں اور نہ ایم.اے بلکہ نیک انسان اور خادم دین.دل پر بہت گہرا اثر ہوا.اور ان دنوں میں میرا دل جن خیالات جن جذبات کی آماجگاہ رہا ہے.نہ ممکن ہے نہ ہی ادب اجازت دیتا ہے.مختصر ا گزارش ہے کہ میرا خیال تھا کہ جماعت میں منافقین گنتی کے چند آدمیوں سے زیادہ نہ ہوں گے مگر حضور کے خطبہ سے ان کی تعداد زیادہ معلوم دیتی ہے.بہت سے کمزور لوگ بہت سے جاہل اور نا سمجھ اپنی بیوقوفی کی وجہ سے ان منافقین کے کے کہائے ایسے کام کر گزرتے ہیں جو منافقین کا شیوہ ہے اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ہدایت دے.خصوصاً ان ایام میں جبکہ جماعت خاص حالات میں سے گزر رہی ہے وہی چیزیں جو مخلصین کے دلوں کو شکریہ اور محبت کے جذبات سے بھر دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے دین کی خدمت کا شرف بخشا.آخر وہ مال اسی کا ہے جس کو دین کی راہ میں خرچ کر کے ہم ، ثواب حاصل کرتے ہیں.آخر یہ جان اس کی دی ہوئی ہے کہ جو اس کی راہ میں خرچ کی جائے تو اس کے قرب کا موجب ہوتی ہے.گھر سے تو کچھ نہ لائے.حقیقت تو یہی ہے کہ انسان سب کچھ دے کر بھی شکریہ ادا نہیں کر سکتا.کجا یہ کہ دین پر کسی قسم کا احسان رکھے.یہ تو محض اس کا فضل ہے کہ وہ بندہ نوازی سے ان چیزوں کو قبولیت کا فخر بخشتا ہے.مگر یہی چیزیں کمزوروں اور نا سمجھوں کے لئے بار ہو جاتی ہیں.اور ٹھوکر کا موجب.اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے.خیر جو کچھ بھی ہے.جماعت ان حالات میں گزر رہی ہے کہ جو حالات عظیم الشان قربانی کا مطالبہ کر رہے ہیں اگر اسے قربانی کہا جا سکتا ہے.بہت سے نوجوان ہیں جنہوں نے اس راز کو سمجھا اور آج دنیا کے کونوں میں احمدیت کی
108 آواز پہنچا رہے ہیں.بہتوں نے اس حقیقت کو پہچانا.اور آج مرکز میں وہ مشغول کار ہیں.مگر بہت سے میرے جیسے ایسے بھی ہیں جو یہ کہتے ہوئے کہ یاران تیز گام نے محمل کو جا لیا ہم محو نالہ جرس کارواں رہے غفلتوں اور کو تاہیوں پر بیٹھے آنسو بہا رہے ہیں اور کر کچھ نہیں سکتے.اس لئے میں حضور کی خدمت میں عرض کرتا ہوں کہ اگر حضور مناسب فرماویں تو بندہ ہمیشہ کی طرح اب بھی فوراً خدمت سلسلہ کے لئے حاضر ہے.بی.اے اور ایم اے بنے کا مجھے کبھی بھی شوق نہیں ہوا اور خدا تعالیٰ شاہد ہے.گو اس کا اظہار پہلے نہ ہو سکا اور گو بعض اور خیالات نے اس کی طرف مجبور کیا.گو وقف کنندہ ہوں مگر پھر دوبارہ اپنے کو حضور کے سامنے پیش کرتا ہوں.بندہ اسی وقت سے خدمت احمدیت کے لئے حاضر ہے.اور سلسلہ کی غلامی کو سب عزتوں سے معزز سمجھتا ہے اور سلسلہ کی خدمت سے علیحدہ رہتے ہوئے اپنی زندگی کو خالی اور فضول پاتا ہوں.وما توفیقی الا باللہ.فقط خاکسار مرزا ناصر احمد حضرت المصلح الموعود کو اس خط سے جو راحت اور خوشی پہنچی اس کا اظہار آپ نے ایک خط میں فرمایا جس کا ایک حصہ یہاں نقل کیا جاتا ہے.پیارے ناصر احمد السلام علیکم ورحمة الله و بركاته تمہارا ایک خط تو پہلی دفعہ ملا تھا اور دو اب.میں نے پہلے خط کا جواب بھی اب تک نہیں دیا کیونکہ اس وقت میرے جذبات بہت متاثر تھے اور میں فوراً جواب دینے کے قابل نہ تھا.اللہ تعالیٰ تمہارے ارادہ میں برکت ڈالے.میں خود اس بارہ میں باوجود شدید احساس کے کچھ کہنا پسند نہیں کرتا تھا اور اللہ تعالٰی سے دعا کرتا تھا کہ وہ خود ہی تم کو نیک ارادہ کی توفیق دے کیونکہ میرے نزدیک میری تحریک پر تمہارے ارادے کو بدلنا تمہارے ثواب کو ضائع کر دیتا.سو الحمد للہ کہ تمہارا دل اس طرف متوجہ ہوا.
109 مجھے سخت افسوس آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تعلق کی عظیم الشان نعمت کی ہمارے خاندان نے قدر نہیں کی.ہمارے نوجوانوں کے اعمال اور احساس اس مقام سے بالکل مختلف ہیں جو انہیں خدا تعالیٰ نے بخشا تھا.اگر دنیا کی ہر تکلیف کا شکار ہو کر بھی ہم اس مقام کے وقار کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے تو یہ احسان الہی کا بدلہ نہیں ہو سکتا تھا.جو خدا تعالیٰ کے لئے ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ خود اس کا کفیل ہو جاتا ہے.ہمارا خدا زندہ خدا ہے جو سچ مچ اس کے لئے موت قبول کر لیتا ہے بشرطیکہ وہ موت کچی ہو ، بشرطیکہ انسان اپنے نفس کو اس کے لئے بالکل مار دے، بشرطیکہ وہ وہ ماسوی اللہ سے باوجود دنیا میں بسنے کے آزاد ہو جائے اور خدا تعالیٰ کے معاملہ میں اور سلسلہ کے معاملہ میں اس کے کسی رشتہ دار کا خواہ اس سے کس قدر ہی محبت ہو.اور کسی دوست کا خواہ اس کا اس پر کس قدر ہی اثر ہو اور کسی اور غرض کا خواہ وہ کس قدر ہی پیاری ہو اس پر کوئی اثر نہ ہو.یہ راستہ ہے جو ہمارے خاندان کے لئے اللہ تعالیٰ نے تجویز کیا ہے.بغیر اپنے مٹا دینے کے اسلام آج کامیاب نہیں ہو اسلام کا سوال کھیل نہیں کہ یوں ہی طے ہو جائے وہ ایک ایسا مشکل کام ہے کہ اس سے پہلے اس قدر مشکل کام کبھی دنیا کو پیش نہیں آیا.اس کے لئے دیوانوں کی ضرورت ہے.اسی زندگی میں موت کو قبول کر لینے والوں کی ضرورت ہے اور سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ اس بارہ میں ہمارے خاندان پر نظر رکھتا ہے......یہ راستہ ہے جو سچا راستہ ہے اس کی نسبت خدا تعالیٰ کا الہام فرماتا ہے کہ اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے سکتا.یہ عالی مقام تمہارے لئے ہر فرد خاندان کے لئے اور ہر مخلص احمدی کے لئے ممکن الحصول ہے اگر دیکھنے والی آنکھیں ہوں اور اگر سننے والے کان ہوں اور اگر سوچنے والا ول ہو.وَالله المستعان وعليه التكلان - کالج کے متعلق جو تم نے دریافت کیا ہے میرا خیال ہے کہ جرمن زبان بہتر رہے گی کیونکہ فرانسیسی پڑھنے کے سامان ہندوستان میں کالج کے باہر بھی کافی ہیں.والسلام مرزا محمود احمد
110 حاشیہ جات باب دوم سفر نامه ناصر یعنی حضرت میر ناصر نواب صاحب قبلہ کا سفر نامہ جو آپ نے قادیان دارالامان میں ہسپتال ، مسجد اور دار الضعفاء کے چندوں کے لئے کیا.ناشر یعقوب علی (تراب) احمدی قادیان جنوری ۱۹۱۰ء ص ۳۳ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت نصرت جہاں سے نکاح کے بارے میں فرماتے ہیں:.چونکہ خدا تعالٰی کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیاد حمایت و اسلام کی ڈالے گا..اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اس سے وہ اولاد پیدا کرے جو ان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے.تریاق القلوب ص ۲۵ طبع اول) ترجمہ عیسی ابن مریم (مراد مسیح موعود) کا زمین پر نزول ہو گا.وہ شادی کریں گے اور پھر ان سے مبارک نسل چلے گی.ذاتی ڈائری حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کے متعلقہ صفحات جو حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ مد ر علها العالی نے بھجوائے.۵۲ صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب بار ایٹ لاء کراچی حضرت مرزا شریف احمد کے صاحبزادے تھے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث" سے تین چار سال چھوٹے تھے اور بچپن سے ان کا آپس میں دوستانہ تعلق رہا.چوہدری عبد الواحد سابق ایڈیٹر ہفت روزہ "اصلاح" سرینگر کشمیر ے.یہ نظم تادیب النساء قادیان جلد ۲ نمبر ۵۴۴ بابت ماہ نومبر دسمبر ۱۹۲۴ء ص ۳۷ پر شائع ہو چکی ہے ایڈیٹر شیخ یعقوب علی تراب احمدی عرفانی.ملک عبد الرحمان صاحب خادم نے بھی احمد یہ فیلو شپ آف یوتھ کے نام سے ایک مجلس قائم کی جو تبلیغی ٹریکٹ شائع کرتی تھی (محسن کی یادیں از مکرم محبوب احمد خالد صاحب بحوالہ سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء) 9.آپ کے علاوہ ساتھ ہی آپ کی ہمشیرہ حضرت سیدہ ناصرہ بیگم صاحبہ کا نکاح بھی ہمراہ صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحب ہوا.•.Mr.Bilal Nuttall مرحوم ۱۹۲۴ء میں احمدی ہوئے تھے اور انہیں یہ شرف بھی حاصل ہے کہ ۱۹۳۶ء میں جب مسجد فضل لندن کا افتتاح ہوا تو بطور پہلے انگریز مؤذن کے آپ نے مسجد میں اذان دی تھی.مرحوم بلال مثل کو حضرت مصلح موعود سے عشق تھا.اکثر رخصت کے ایام میں مشن ہاؤس آکر مقیم ہو جاتے تھے اور دنوں مشن ہاؤس کی صفائی اور تعاون میں لگے رہتے تھے.احمدی مبلغین ان دنوں ہائیڈ پارک کارنر میں تبلیغ کیا کرتے تھے.یہ بھی وہیں احمدیت کا نام سن کر اور پوری تحقیق کرنے کے بعد جماعت میں داخل ہوئے تھے.ย
111 حوالہ جات باب دوم له مشکوۃ باب نزول عیسیٰ علیہ السلام ماہنامہ مصباح ربوہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء و جنوری ۱۹۸۳ء ص ۳۴ ماہنامہ مصباح ربوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء د جنوری ۱۹۸۳ء ص اے سی ماہنامہ مصباح ربوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء و جنوری ۱۹۸۳ء ص ۷۲ ه ماهنامه خالد ربوه سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۴۶ ۶ ماہنامہ خالد ربوہ سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۴۶ ماہنامہ مصباح ربوہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء و جنوری ۱۹۸۳ء ص ۳۴ ۸ ماهنامه مصباح ربوہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء و جنوری ۱۹۸۳ء ص ۳۵ ۹.سود نیئر ۱۹۸۶ء و ۱۹۸۷ء مجلس خدام الاحمدیہ کراچی ص ۳۶." الفضل " ربوہ جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۷۶ ء بحوالہ الفضل ۶ جنوری ۱۹۲۱ء ص ۱۱ اله "الفضل ربوه ۱۵ جنوری ۱۹۶۹ء ص ۹ ال ماہنامہ "خالد" ربوہ سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۹۳ ۱۳ تشخیذ الاذہان ربوه ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۵۸ ۱۴ ماہنامہ مصباح ربوہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء د جنوری ۱۹۸۳ء ص ۷۳ ۱۵ تشیذ الاذہان ربوہ ناصر دین نمبر ا پریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۵٬۱۴ ۱۲ ماہنامہ مصباح ربوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء و جنوری ۱۹۸۳ء ص ۷۳ ے اس ماہنامہ "خالد" ربوہ سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۹۲ ماہنامہ "خالد" ربوہ سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۹۲ اللہ غیر مطبوعہ تحریر ۳۰ ماهنامه تشخیز الاذہان ربوه ناصردین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۴۷ اس "الفضل " ۱۷/ نومبر ۱۹۶۵ء ۲۲ه رساله تشخیز الاذہان ربوہ ناصردین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء بحواله الفضل ۸ جون ۱۹۶۸ء ۲۳ خطاب حضرت خلیفة المسیح الثالث بعد از انتخاب خلافت ۸ نومبر ۱۹۶۵ء بحوالہ الفضل ۱۷.نومبر ۱۹۶۵ء ۲۴ ماهنامه تشخیز الاذہان ربوہ ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء بحواله الفضل الدسمبر ۱۹۶۸ء ۲۵ ماہنامہ تشخیذ الاذہان ربوہ ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۴۵٬۴۴ بحوالہ الفضل 11 دسمبر ۱۹۷۸ء
112 ۲۶ خطاب خدام الاحمدیہ ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء مطبوعہ الفضل ۲ مارچ ۱۹۶۶ء ۲۷ روزنامه الفضل ربوہ حضرت خلیفة المسیح الثالث نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۵۵ ۲۸ ماہنامہ "خالد" ربوہ سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۹۰ وس تفسیر کبیر جلد ہفتم ایڈیشن دوم ص ۳۰ تفسير سورة الشعراء ۳۰ ماهنامه تشحیذ الاذہان ربوہ ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۱ تا ۱۳ بحواله الفضل ۱۴ فروری ۱۹۶۹ء ۳۱ ماہنامہ تشخیز الاذہان ربوہ ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۰ ۳۲ - تقریر دلپذیر ۱۹۲۷ء ص ۴۰ طبع اول بحوالہ سہ ماہی مشکوة قادیان خلیفہ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء جنوری فروری ۱۹۸۳ء ص ۴۲ ۳۳ ماہنامہ تشخیز الاذہان ربوہ ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء بحواله الفضل ۱۴ فروری ۱۹۶۹ء ۳۴ ماہنامہ "مصباح" ربوہ خلیفہ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء جنوری ۱۹۸۳ء ص ۷۲ ۳۵ ماہنامہ خالد ربوہ سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۹۸ الفضل قادیان ۳ جنوری ۱۹۲۸ء ۷س ماہنامہ خالد ربوہ سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۹۸ بحوالہ الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۲۸ء ۳۸؎ ماہنامہ خالد ربوہ سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۹۳ ۳۹ ماہنامہ خالد ربوہ سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۹۳ ۴۰ ماہنامہ خالد ربوہ سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۱۹ اس ماہنامہ تشخیذ الاذہان ربوہ ناصردین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۴۴۱۳ بحوالہ الفضل ۱۲ مئی ۱۹۷۱ء ۲ ماهنامه تشخیف الا ذبان ربوه ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۴٬۱۳ بحوالہ الفضل ۱۲ مئی ۱۹۷۱ء ۲۳، ماہنامہ خالد ربوہ سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۶۱ ۴۴ ماہنامہ خالد ربوہ سید نا ناصر نمبر ا پریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۲۰ تا ص ۲۲۲ الفضل ربوه ۲۲ دسمبر ۱۹۸۱ء ۴۶ ماہنامہ مصباح ربوہ فروری مارچ ۱۹۸۲ء ۷ هم الفضل قادیان ۲۶ اگست ۱۹۳۴ء بحوالہ خطبات نکاح حصہ دوم فرمودہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی ناشر احمد یہ کتابستان قادیان و سمبر ۱۹۳۹ء ۴۸ سہ ماہی مشکوۃ قادیان حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء جنوری ۱۹۸۳ء ص ۹ ۴۹ سه مای مشکوة قادیان حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء جنوری ۱۹۸۳ء ص ۳۲ بحوالہ الفرقان ربود فضل عمر نمبر جنوری ۱۹۶۶ء ۵۰ ماهنامه خالد ربوہ سید نا ناصر نمبر ا پریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۲۳
113 اه الفضل قادیان ۱۱ ستمبر ۱۹۳۴ء ۵۲ الفضل قادیان ۱۱ ستمبر ۱۹۳۴ء ص ۵ تا ۸ ۵۳ سہ ماہی مشکوۃ قادیان حضرت خلیفة المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء جنوری ۱۹۸۳ء بحواله الفضل 1 ستمبر ماہنامہ خالد ربوہ سید نا ناصر نمبر ا پریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۴۷ ده الفضل ربوہ ۷ مئی ۱۹۷۲ء هـ الفضل ربوہ ۲۹ جولائی ۱۹۷۹ء ه الفضل ربوہ ۱۸ اکتوبر ۱۹۶۹ء ۵۸- تقریر جلسه سالانہ ربوہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء وه الفضل ربوہ ۳.اگست ۱۹۷۶ء ٦٠ الفضل ربود ۲۴ فروری ۱۹۸۰ء ۶۱ - احمدی ڈاکٹروں سے خطاب ۳۰.اگست ۱۹۷۰ء ص ۲۲ ۶۲ الفضل ربوہ ۲۷ جولائی ۱۹۷۰ء الفضل ربوہ ۱۰ اگست ۱۹۷۵ء بحوالہ تاریخ احمدیت جلد ۱۳ ص ۱۵۵ ٦٤ الفضل ربوه ۱۶ جنوری ۱۹۷۲ء ۶۵ - اکبھی نہ بھولنے والی یادیں ) ماہنامہ خالد ربوہ سید نا ناصر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۶۹ ۲۶ ماهنامه خالد ربوہ سید نا نامہ نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۶۹ و ۱۷۰ الفضل ربوہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۵۵-۵۶
114
باب سوم 115 تدریسی خدمات استاد و پرنسپل جامعہ احمدیہ و بانی پر نسل تعلیم الاسلام کالج
116
117 تدریسی خدمات ، خلافت ثالثہ کے عظیم الشان منصب پر فائز ہونے سے قبل حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی جماعتی خدمات ستائیس سال کے لمبے عرصے پر پھیلی ہوئی ہیں جن کا آغاز ۱۹۳۸ء کے آخر سے ہوتا ہے جب آپ آکسفورڈ سے اپنی تعلیم مکمل کر کے وطن قادیان واپس تشریف لائے.اس سے تھوڑا ہی عرصہ بعد آپ کے عظیم والد حضرت خلیفة المسیح الثانی میں ان کی خلافت پر پچیس سال مکمل ہونے پر جماعت نے اللہ تعالیٰ کا شکرانہ ادا کرنے کے لئے سلور جوبلی منائی.اس طرح آپ کی عملی زندگی کا آغاز خلافت ثانیہ کی سلور جوبلی سے ہوا اور بیک وقت آپ کو مختلف نوع کی خدمات کی توفیق ملتی رہی جن میں بلحاظ کمیت و کیفیت اضافہ ہوتا رہا.حقیقت تو یہ ہے کہ حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی " کی خلافت کی سلور جوبلی سے لے کر وفات تک کے عرصہ میں جو چو تھائی صدی سے کچھ زائد عرصہ پر محیط ہے آپ سید نا حضرت مصلح موعود کا مضبوط بازو بن کر عظیم الشان خدمات دین و ملت کی توفیق پاتے رہے حتی کہ اللہ تعالیٰ کی مشیت خاص کے تحت آپ قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث کے طور پر ظاہر ہوئے اور ان تمام بشارتوں کے وارث بنے جو الہی نوشتوں میں حضرت مسیح موعود علیہ اسلام الصلوۃ و السلام کی خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں." اس عرصہ میں بنیادی طور پر تو آپ تعلیم و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے جہاں آپ سالها سال تک پہلے جامعہ احمدیہ قادیان اور پھر تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل کے طور پر غیر معمولی خدمات سرانجام دیتے رہے ۱۹۳۸ء سے ۱۹۴۴ء تک آپ جامعہ میں رہے اور ۱۹۴۴ء میں کالج کے اجراء پر آپ کی خدمات کو خلیفہ وقت نے کالج کی طرف منتقل کرنا پسند فرمایا.آگے کالج کے بھی تین ادوار میں سے آپ کو گزرنا پڑا.۱۹۴۴ء
118 سے ۱۹۴۷ء تک کالج قادیان میں رہا پھر بر صغیر کی تقسیم اور پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے از سر نو کالج کو لاہور میں بے سروسامانی اور نامساعد حالات میں شروع کرنا ނ پڑا.سات سال تک کالج لاہور میں رہا.دریں اثناء آپ کو خلیفہ وقت کی طرف ارشاد ہوا کہ کالج کی بلڈنگ ربوہ بنوا کر کالج کو ربوہ منتقل کیا جائے.اس کے لئے آپ کو نہایت کٹھن مراحل میں سے گزرنا پڑا اور آپ کی استعدادیں کھل کر سامنے آئیں.۱۹۵۴ء میں کالج ربوہ منتقل ہوا اور ۱۹۶۵ء تک آپ اس کے پرنسپل کے طور پر کار ہائے نمایاں سر انجام دیتے رہے.اس راہ میں آپ نے ہر ایک چیلنج کو قبول کیا اور اپنی تمام طاقتیں کالج کی ترقی اور طلباء کی فلاح و بہبود کے لئے خرچ کر دیں.جامعہ اور کالج جیسے تعلیمی اور تربیتی اداروں کو چلایا جب کہ جماعت کے ذرائع بالکل محدود تھے اور ۱۹۴۷ء میں تقسیم ملک کی وجہ سے اور ۱۹۵۳ء میں فسادات کی وجہ سے جو نازک صورت حال پیدا ہوئی.اس کا آپ نے نہایت جواں مردی، عزم و ہمت، نظم و ضبط، حکمت اور غیر معمولی محنت اور دعاؤں اور اللہ تعالیٰ پر کامل توکل کر کے مقابلہ کیا.کالج کا نام علم اور سپورٹس کے میدان کے علاوہ متفرق سرگرمیوں میں روشن کیا اور آپ کی خدا داد قابلیت کی وجہ سے کالج ملک کے چوٹی کے کالجوں کی صف میں آکھڑا ہوا.تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ آپ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی قیادت بھی کرتے رہے.یہ سلسلہ ۱۹۳۹ء سے ۱۹۵۴ء تک جاری رہا.مجلس خدام الاحمدیہ کی صدارت جب آپ کے حوالے کی گئی تو اس وقت اس کی حالت ایک نوزائیدہ بچے کی ی تھی لیکن آپ نے اس کی اس طرح پرورش کی جس طرح ماں باپ اپنے پیارے بچے کی نشو نما کر کے اسے پوری استعدادوں کے ساتھ عالم شباب تک پہنچاتے ہیں.مجلس خدام الاحمدیہ کے مخصوص کاموں کے علاوہ ہنگامی نوعیت کے کام بھی کرنے کا آپ کو خاطر خواہ موقع ملتا رہا اور الیکشن ، حفاظت مرکز باؤنڈری کمشن برائے پنجاب کے لئے دیہاتوں اور تحصیلوں اور ضلعوں کی بنیاد پر مسلمانوں کی تعداد کے اعداد و شمار اکٹھے کرنے اور جدوجہد آزادی کشمیر کے سلسلے میں فرقان بٹالین کے قیام کے لئے آپ کو اعلیٰ خدمات کی توفیق ملتی رہی.جلسہ سالانہ پر آپ کی تقاریر کا آغاز قادیان کے زمانہ
119 ہی رض سے ہی ہو گیا تھا جو ہر سال جاری رہا.۱۹۵۳ء کے مارشل لاء میں سنت یوسفی کے تحت آپ کو قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کرنا پڑیں.خدام الاحمدیہ میں پندرہ سال تک غیر معمولی خدمات بجالاتے رہے.حتی کہ حضرت مصلح موعود نے ۱۹۵۴ء میں آپ کو مجلس انصار اللہ کا صدر بنا دیا.۱۹۵۴ء کے بعد کا دور آپ کی ذمہ داریوں میں غیر معمولی اضافے کا دور ثابت ہوا کیونکہ ۱۹۵۵ء میں آپ صدر انجمن احمدیہ کے صدر ہوئے اور دس سال تک اس عہدہ پر فائز رہے.صدر انجمن احمدیہ میں آپ ناظر خدمت درویشاں بھی رہے.تحریک جدید انجمن احمدیہ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں آپ تھے.۱۹۵۹ء میں آپ افسر جلسہ سالانہ بن گئے اس طرح بیک وقت پر نسپل کالج ، صدر مجلس انصار الله ، صدر صدر انجمن احمدیہ ، ڈائریکٹر تحریک جدید انجمن احمدیہ اور افسر جلسہ سالانہ کے فرائض آپ کو سونپ دئے گئے اور حضرت مصلح موعود کی لمبی بیماری کے دوران ۱۹۶۱ء میں جو نگران بورڈ بنایا گیا اس کے بھی آپ ممبر تھے.اس کے علاوہ حضرت مصلح موعود کی براہ راست نگرانی میں آپ کے ذمہ ہنگامی نوعیت کے کام بھی آتے تھے جنہیں آپ نے نہایت خوش اسلوبی، ہمت.محنت اور دعاؤں سے پایہ تکمیل تک پہنچایا.بیک وقت جماعت کی بے شمار ذمہ داریوں کے دوران آپ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا بڑے ہی پیار کا سلوک رہا اور وہ آپ کی روح القدس سے مدد اور رہنمائی فرماتا رہا چنانچہ خلافت کے زمانہ میں آپ نے ایک مرتبہ بیان فرمایا کہ جب جماعت کے مختلف نوع کے کاموں میں پھنسے ہونے کے باعث آپ کالج میں اپنی کلاس کو پورا وقت نہ دے سکتے تھے تو بارہا ایسا ہوا کہ رویا میں یونیورسٹی کا امتحانی پرچہ آپ کو دکھا دیا جاتا اور آپ کلاس کو بتائے بغیر اس پرچہ کچھ لیکچر تیار کر کے کلاس کو دے کے سوالوں پر حمل دیتے اور کلاس اللہ تعالٰی کے فضل سے نمایاں نمبر لے کر اس مضمون میں کامیاب ہو جاتی.خلافت سے پہلے عملی طور پر آپ کو جماعت کے ہر شعبہ کے ساتھ وابستہ رہ کر اسے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور اس طرح اللہ تعالیٰ کی تقدیر خاص کے مطابق جب آپ
120 مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو جماعت کی مساعی ACTIVITIES میں سے کوئی ایسی شاخ نہ تھی جس کے بارے میں آپ کو معلومات حاصل نہ ہوں.خلافت سے قبل کے ربع صدی سے زائد عرصہ میں پھیلی ہوئی سیرت و سوانح کو احاطہ تحریر میں لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے تاہم دو ابواب میں نہایت اختصار کے ساتھ اس پر روشنی ڈالی جا رہی ہے.باب سوم میں آپ کی سوانح و سیرت کے ان پہلوؤں کو لیا جا رہا ہے جن کا تعلق آپ کے ساتھ پرنسپل جامعہ احمدیہ و تعلیم الاسلام کالج ہونے سے ہے.باب چہارم میں آپ کی سیرت و سوانح کا وہ حصہ شامل کیا جا رہا ہے جو آپ نے بطور صدر مجلس خدام الاحمدیہ ، صدر مجلس انصار الله ، صدر صدر انجمن احمدیہ ، ڈائریکٹر تحریک جدید انجمن احمدیہ، افسر جلسہ سالانہ اور ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین اور ممبر نگران بورڈ کے طور پر گزارا اور آپ نے خود یا دیکھنے والوں نے دیکھ کر بیان کیا.جامعہ احمدیہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ۹ نومبر ۱۹۳۸ء کو انگلستان سے وطن واپس تشریف لائے.ابھی آپ کو آئے ہوئے تقریباً دو ہفتے گزرے ہوں گے کہ حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی میں اللہ نے آپ کو ۲۷ نومبر ۱۹۳۸ء کو جامعہ احمدیہ قادیان میں بطور استاد مقرر فرما دیا.تقریباً نصف سال آپ نے جامعہ احمدیہ میں بطور استاد کام کیا.اس وقت جامعہ کے پرنسپل حضرت مولوی محمد سرور شاہ صاحب (صحابی حضرت موعود) تھے.ان کے ریٹائر ہونے پر جون ۱۹۳۹ ء میں آپ کو مصلح موعود نے جامعہ رحیم احمد یہ قادیان کا پرنسپل مقرر فرما دیا.آپ اپریل ۱۹۴۴ء تک اس عہدہ پر فائز رہے.آپ نے خود اس امر کا ذکر کرتے ہوئے ایک مرتبہ فرمایا.وو جب میں نے قرآن کریم حفظ کیا اور مولوی فاضل کیا تو میں نے انگریزی تعلیم شروع کر دی پھر گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم کی پھر آکسفورڈ چلا گیا.جب واپس آیا تو حضرت صاحب " (المصلح موعود) کو مسیح
121 خیال تھا کہ شاید میں عربی بھول گیا ہوں، دینی تعلیم بھول گیا ہوں گا، مجھے جامعہ احمدیہ میں استاد لگا دیا.میں نے از سر نو تیاری کی، پڑھا اور پڑھایا اور ۱۹۳۸ء کے آخر سے لے کر ۱۹۴۴ء تک جامعہ احمدیہ میں ایک استاد کی حیثیت سے پھر پرنسپل کی حیثیت سے میں نے کام کیا." اس دوران آپ کو حضرت مصلح موعود بھی اللہ نے چھ ماہ کے لئے ہائی سکول کا ہیڈ ماسٹر بھی بنا دیا تاکہ آپ کو انتظامی امور کا اچھی طرح تجربہ ہو جائے اور آپ کی قائدانہ صلاحیتیں اجاگر ہوں.اس دور کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے ایک نہایت دلچسپ حکمت عملی کا ذکر کیا کہ کس طرح آپ کے ذہن میں تعلیم و تربیت کے بارے میں نئی نئی سکیمیں آتی تھیں.چنانچہ آپ نے فرمایا.رم ایک دفعہ حضرت مصلح موعود نے قادیان میں مجھے چھ مہینے کے لئے سکول کا ہیڈ ماسٹر بنا دیا.میں نے بڑا غور کیا.اس میں حکمت کیا ہے.دو چار باتیں میرے ذہن میں آئیں.میں نے اپنی طرف سے ان کی اصلاح کرنے کی پوری کوشش کی.ان دنوں مجھے بتایا گیا تھا کہ ہائی سکول کے بعض طلباء عشاء کے بعد ادھر ادھر پھرتے اور گئیں ہانکتے رہتے ہیں اور اس طرح اپنا وقت ضائع کرتے ہیں.مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں ان کو عصر اور مغرب کے درمیان دوڑا دوڑا کر اتنا تھکا دوں کہ وہ عشاء کے بعد گھر سے باہر نکل ہی نہ سکیں.چنانچہ میں ان تمام لڑکوں کو جو فٹ بال اور ہاکی نہیں کھیلتے تھے.ان سب کو ہائی سکول کے میدان میں روزانہ اکٹھا کرتا تھا اور پھر ان کو خوب دوڑ لگواتا تھا اور ان کو اتنا تھکا دیتا تھا کہ پھر وہ عشاء کے بعد گھر سے باہر نہیں نکل سکتے تھے یہ ایک الجھن تھی جسے ہم نے اس طرح دور کر دیا." تدریس کا حکیمانہ طریق جامعہ میں تدریس کے دوران آپ نے بعض مشکل مضامین کو کچھ اس رنگ میں
122 پڑھانا شروع کیا کہ خود بخود ہی مضمون سمجھ میں آنے لگے چنانچہ اپنے بعض تجربات کا ذکر آپ نے خود بھی فرمایا ہے اور آپ کے اس زمانہ کے بعض شاگردوں نے بھی اس کا ذکر کیا ہے.چنانچہ آپ کے ایک شاگرد رشید مولوی غلام باری سیف بیان کرتے ہیں:.ان دنوں مدرسہ احمدیہ کی آخری دو کلاسوں چھٹی اور ساتویں جماعت میں احادیث کا نصاب ترندی تھا اور آخری کلاس کا امتحان نظارت تعلیم لیتی تھی.اس سال حدیث کا پرچہ حضور نے ڈالا تھا.ان دنوں آپ جامعہ کے استاد تھے.حضور کے پرچے کا اکثر حصہ روایت حدیث سے تعلق رکھتا تھا.بظاہر متضاد احادیث کا حل آپ نے دریافت فرمایا تھا.رٹ لینے والے طلباء کے لئے یہ مشکل تھا لیکن فہم حدیث اور احادیث پر غور کرنے والے ہمارے ہم جماعت آج بھی اس پرچے کو یاد کرتے ہیں.مدرسہ احمدیہ سے کامیاب ہو کر ۱۹۴۰ء ۴ ۱۹۴۱ میں جب جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا تو اس وقت جامعہ احمدیہ کے پرنسپل حضور" تھے.آپ ہمیں تفسیر پڑھاتے تھے.آپ کے پڑھانے کا طریق یہ تھا کہ آپ طالب علم میں اعتماد پیدا کرتے اسے حصول علم کا طریق سکھاتے.آپ اس کے حق میں نہ تھے کہ صرف پہلوں کی رائے رٹ لینے پر اکتفا کیا جائے.آپ طالب علم میں تحقیق اور اجتہاد کی قوت بیدار کرتے.جامعہ میں آپ نے سکھلایا کہ علم کے معنے دانشن یعنی فہم و دانش کے ہیں.آپ طالب علم سے فرماتے کل فلاں حصہ کی تفسیر تم نے کلاس میں بیان کرتی ہے.آپ خود اپنے طریقہ تعلیم کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.میں انگلستان سے واپس آیا تو حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی نے مجھے جامعہ احمدیہ میں بطور استاد کے لگا دیا اس وقت مجھے عربی تعلیم چھوڑے دس سال کا عرصہ گزر چکا تھا اس لئے میرے دماغ نے
123 کچھ عجیب سی کیفیت محسوس کی کیونکہ وہ علوم جو میرے دماغ میں اب تازہ نہیں رہے تھے وہی علوم پڑھانے پر مقرر کر دیا گیا اور میں نے دل میں کہا کہ اللہ خیر کرے اور مجھے توفیق دے کہ میں اپنی ذمہ داری کو صحیح طور پر نبھا سکوں تھوڑے ہی عرصہ کے بعد مجھے جامعہ احمدیہ کا پر نسپل بنا دیا گیا.اس وقت مجھے اللہ تعالیٰ کے پیار اور حسن کا عجیب تجربہ ہوا وہ یہ کہ مولوی فاضل میں ایک پر انا فلسفہ دنیا کے متعلق انسانی دماغ جس طرح سوچتا رہا، وہی فکر و تدبر (بالفاظ دیگر (فلسفہ) جن کتابوں میں درج کیا جاتا ہے وہی مولوی فاضل کے کورس میں شامل تھیں.اب دنیا بدل چکی.حقیقتیں نئے رنگ میں ہمارے سامنے آگئیں.اس لئے اس زمانہ کے انسانی دماغ کی سوچ ہمارے دماغ قبول کرنے کے لئے تیار نہیں لیکن ان کو بطور حقائق کے پڑھایا جاتا تھا.اس کا نتیجہ یہ تھا کہ اس پرچہ کو جامعہ میں مشکل ترین پرچہ سمجھا جاتا تھا اور اکثر طلباء اس پرچہ میں فیل ہو جاتے تھے.اپنے طالب علمی کے زمانہ میں بڑا پریشان ہوتا تھا اور کڑھتا تھا کہ ایک چیز جو مشکل نہیں اسے مشکل ترین بنا دیا گیا ہے.کیونکہ اگر آج آپ کسی بچے کو یہ کہیں کہ آسمان ٹھوس ہے اور اس میں ستارے اس طرح ٹکے ہوئے ہیں جس طرح ایک دلہن کے دوپٹے پر سونے کے ستارے لگے ہوتے ہیں تو اگرچہ کتابی علوم پر اس بچے کو اتنا عبور نہ ہو لیکن جس ماحول میں وہ پیدا ہوا اور اس نے پرورش پائی اس کی وجہ سے اس بچے کا دماغ بھی ان باتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہو گا.میں حیران ہو تا تھا کہ یہ ذرا سی مشکل ہے اور اس کے لئے تھوڑے سے زاویہ کو بدلنے کی ضرورت ہے مسئلہ حل ہو جاتا ہے لیکن استاد اس کی طرف توجہ نہیں کرتے.چنانچہ جب میں پرنسپل بنا تو یہ پڑھانے کا ذمہ میں نے خود لے لیا.ہمارے.
124 ایک بزرگ استاد تھے مولوی ارجمند خان صاحب.......انہوں نے بڑی محنت سے ان کلاسز سے نوٹ تیار کئے تھے جنہیں ہمارے محترم بزرگ سید سرور شاہ صاحب یہ علم پڑھایا کرتے تھے.خانصاحب کا خیال تھا کہ اگر کبھی موقع ملا تو وہ صحیح رنگ میں اس پرچہ کو پڑھایا کریں گے.جب انہیں یہ پتہ چلا کہ ایک نوجوان جو ان مضامین سے دس سال تک آؤٹ آف ٹچ (غیر متعلق) رہا ہے اب ہمارا پر نسپل لگا دیا گیا ہے اور پھر جو فلسفہ کا مشکل ترین پرچہ ہے اس نے خود اپنے ذمہ لے لیا ہے تو وہ کچھ گھبرائے....اور ایک دفعہ مجھے ملے تو کہنے لگے میاں صاحب آپ نے کیا ظلم کیا ہے.پرچہ آپ کیسے پڑھائیں گے.میں نے اس علم کے متعلق بڑی محنت سے نوٹ تیار کئے ہیں آپ یہ پرچہ مجھے دے دیں.میں نے کہا نہیں.میں نے نیت کر لی ہے کہ یہ پرچہ میں خود ہی پڑھاؤں گا باقی دیکھیں اب اللہ تعالی کیا کرتا ہے.چنانچہ جب فلسفہ کا مضمون میں نے پڑھانا شروع کیا تو مجھے طلباء کو صرف یہ سمجھانے کے لئے کہ یہ مضمون آسان ترین مضمون ہے دو تین لیکچر دینے پڑے اور بتایا کہ یہ فلسفہ کا مضمون نہیں بلکہ تاریخ فلسفہ کا مضمون ہے جو آپ لوگ یہاں پڑھتے ہیں اور آپ کو اس امر کے معلوم کرنے کی کوشش کی ضرورت نہیں کہ آسمان ٹھوس ہے یا نہیں بلکہ صرف اتنا سمجھنا ضروری ہے کہ انسانی دماغ پر ایک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ جس میں وہ ان باتوں کو صحیح تسلیم نہیں کرتا تھا لیکن بعد میں جب سائنس اور دیگر علوم نے ترقی کی اور ساتھ ہی انڈسٹری نے بھی ترقی کی اور وہ دوربین جن تک پہلے تخیل کی رسائی نہ تھی بننے لگیں اور انسان کو اس عالم کے متعلق نئے نئے انکشاف ہوئے تو اسے یقین ہو گیا کہ وہ پرانے خیالات ان نئے علوم میں فٹ ان (FIT IN) نہیں کرتے لیکن پہلے زمانہ میں لوگ اس طرح سوچا کرتے تھے پس اس رنگ میں میں نے
125 انہیں فلسفہ پڑھایا.منطق کے متعلق میں نے انہیں کہا کہ صرف اصطلاحیں ہیں اور کوئی چیز نہیں.اگر منطق واقعی اس طریق فکر کا نام ہے جس کے متعلق ہمارا دماغ کام کرتا ہے اور اصطلاحوں میں طریق بیان کا نام ہے تو ایک بچہ بھی اس طرح سوچتا ہے اگر ایک بچہ کے سامنے وہ چیزیں رکھی جائیں خواہ وہ گنتی نہ جانتا ہو اور وہ زبان سے چار نہ کہہ سکے لیکن اس کی سمجھ اور عقل میں یہی ہو گا کہ یہ چار چیزیں ہیں.یہ نہیں ہو سکتا کہ وہ انہیں چار کی بجائے آٹھ سمجھنے لگ جائے تو دن رات صبح شام ہمارا دماغ ان طریقوں پر کام کرتا ہے.صرف ہم نے کچھ اصطلاحیں بنائی ہیں اور اس کو منطق کا نام دے دیا ہے.اس میں کوئی مشکل نہیں ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ میری کلاس جب پہلی دفعہ یونیورسٹی میں گئی تو جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے سارے کے سارے طلباء پاس ہو گئے.اس وقت مجھے اپنے رب کی قدرتوں کا مزید یقین ہوا اور میں نے سمجھا کہ علوم کا سیکھنا اور سکھانا بہت حد تک اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے اور کمزور انسان ہونے کی حیثیت سے ہماری کوششوں میں جو کمی رہ جاتی ہے اس کمی کو ہم اپنی دعاؤں سے پورا کر سکتے ہیں یہ تجربہ ۱۹۴۱٬۱۹۴۰ سے اب تک مجھے رہا ہے....پس میرا اپنے سارے زمانہ میں یہ تجربہ رہا ہے کہ جب ہم اپنے رب کی طرف عاجزی اور انکساری کے ساتھ جھکتے ہیں تو وہ اپنے فضل اور رحم کی بارشیں ہم پر کرتا ہے.ہمارا خدا بخیل نہیں بلکہ بڑا دیا لو ہے اور اگر کبھی ہم کامیاب نہیں ہوتے تو اس کا سبب صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم بعض دفعہ لا پرواہی سے کام لیتے ہیں اور اس کی طرف جھکنے کی بجائے دوسرے دروازے کو کھٹکھٹانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ دروازے کھولے نہیں جاتے.تو اس زمانہ میں جب میں جامعہ میں تھا میں نے اپنا دل اور دماغ
126 اس ادارے کو دے دیا تھا اور بڑی محنت سے اس کی نشوونما کی طرف توجہ کی تھی اور اس زمانہ میں جب میں نے حساب لگایا تو مجھے اس بات سے بڑی خوشی ہوئی کہ پہلے یا دوسرے سال جتنے جامعہ احمدیہ کے واقفین زندگی تبلیغ اسلام کے میدان میں اترے اس سے پہلے پانچ یا سات سال کے طلباء کی مجموعی تعداد بھی اتنی تھی اور اس زمانہ کے بہت سے طالب علم ہیں جو اس وقت تبلیغی میدان میں کام کر رہے ہیں." کہ آپ کے طریق تدریس اور طلباء سے مشفقانہ سلوک کے بارہ میں آپ کے ایک شاگرد رشید محترم محمد وقیع الزمان خان صاحب لکھتے ہیں.یہ اگست یا ستمبر ۱۹۳۹ء کی بات ہے یعنی حضور کے مسند خلافت پر فائز ہونے سے چھبیس سال پہلے کی.آپ آکسفورڈ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہو کر آئے تھے اور بطور پرنسپل جامعہ احمدیہ تقرر ہوا تھا.میں جامعہ احمدیہ کا درجہ اولی )First Year) کا طالب علم تھا.حضور کا طریق تدریس یہ تھا کہ جو مضامین ہمیں پڑھاتے تھے ان کے مختلف پہلوؤں پر تحقیق کرنے کے لئے طلبہ کو ہی مختلف عنوانات دے دیتے تھے جن پر وہ کورس سے باہر کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد مقالات لکھ کر کلاس میں پڑھ کر سنایا کرتے تھے.مجھے بھی اسی قسم کا ایک مضمون ریسرچ کے لئے ملا ہوا تھا اس کے لئے مجھے ایک کتاب کی ضرورت پڑی جو کسی لائبریری میں نہ ملی جب میں نے حضور سے اس کا ذکر کیا تو فرمایا کہ یہ کتاب میری ذاتی لائبریری میں گھر پر موجود ہے لیکن چونکہ ضخیم کتاب ہے اور مجھے خود اس کی ضرورت گاہے گاہے پڑتی رہتی ہے اس لئے تم یہ کرو کہ ظہر کے بعد ایک دو گھنٹے کے لئے میرے گھر آجایا کرو اور وہیں بیٹھ کر پڑھ لیا کرو اور یادداشت کے لئے خلاصہ لکھ لیا کرو.میں نے اس خیال سے کہ ظہر کے بعد ہی حضور کے لئے تھوڑا سا آرام.
127 کا وقت ہوتا ہے اس وقت میرے روزانہ جانے سے حضور کے اور اہل خانہ کے آرام میں خلل واقع ہو گا معذرت کرنا چاہی تو اصرار کے ساتھ حکم دیا کہ نہیں تمہیں ضرور آنا ہو گا چنانچہ میں حاضر ہوا حضور نے خود اپنی لائبریری دکھائی جو ڈرائنگ روم میں تھی، وہ کتاب دکھائی ،گرمی کے دن تھے.شربت سے تواضع فرمائی اور میں اپنے کام میں لگ گیا اس کے بعد چار پانچ ہفتے متواتر اس سلسلے میں دولت کدہ پر حاضر ہوتا رہا.ہمیشہ ڈرائنگ روم کا دروازہ کھلا پایا.ہمیشہ حضور متبسم چہرے سے خوش آمدید فرماتے اور شربت کا گلاس بلاناغہ بھیجواتے.ایک دفعہ بھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میرے آنے سے آرام یا مصروفیت میں خلل پڑتا ہے اور یہ کریمانہ سلوک ایک غیر معروف فرسٹ ائیر کے طالب علم کے ساتھ تھا جس کے ساتھ حضور کا کوئی تعلق سوائے اس کے نہ تھا کہ وہ جامعہ احمدیہ کا طالب علم تھا اور حضور اس کے پرنسپل تھے." آپ کے طریق تدریس کے بارہ میں آپ کے ایک اور شاگرد رشید مولوی غلام باری سیف صاحب لکھتے ہیں." طالب علمی میں حج کی تفصیل تو پڑھتے لیکن سمجھ نہ آتی تھی...حضور (یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفة المسیح الثالث) جامعہ کے پرنسپل تھے آپ نے حضرت اقدس کے باغ میں عملی طور پر طلباء کو سمجھانے کے لئے اہتمام فرمایا.منی، مزدلفہ ، عرفات کے مقامات متعین کئے طلباء کو عملی طور پر سمجھانے کے لئے منی میں قربانی کے لئے ذاتی طور پر اپنی بڑی بیج مہیا فرمائی ، اسے ذبح کروایا اور پھر وہ طلباء کو بطخ دے دی کہ ہوسٹل میں پکوائی جائے.اس کا نتیجہ ہے کہ اب یہ تفصیل زبانی یاد ہے.
128 طلباء پر محنت کا عالم طلباء پر جس قدر آپ محنت فرماتے اس کا اندازہ آپ کے ایک اور شاگرد رشید مولوی رشید احمد چغتائی صاحب کے اس بیان سے ہوتا ہے وہ لکھتے ہیں:." حضور کا تعلق بحیثیت استاد اپنے شاگردوں سے دیگر اساتذہ سے ڑھ کر تھا چنانچہ آپ نہ صرف ہمیں جامعہ میں کلاس میں پڑھاتے بلکہ مزید برآں ہماری کلاس کو اپنی کو تھی "النصرة " واقعہ دارالانوار قادیان عصر کے بعد بلا کر پڑھایا کرتے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ چائے وغیرہ خورد و نوش کا بھی اہتمام کرتے.مجھے یاد ہے بعض دفعہ محترمی صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب اپنی بچپن کی معصومیت میں ہی پدرانہ آداب کو قابل تحسین صورت میں ملحوظ رکھتے ہوئے آپ کے پاس آ بیٹھتے جس سے ہمیں آپ کی عمدہ تربیت اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ودیعت شدہ عظیم صلاحیتوں کے آغاز کا مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آ جاتا.اللہ تعالیٰ آپ کی صحت و عمر میں برکت بخشے آمین." که طلباء کی جسمانی نشو و نما کا خیال تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ بچوں کی جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کے لئے آپ پکنک وغیرہ بھی کرواتے اور وہاں ان کی ذہنی استعدادوں کو بھی ابھارنے کے لئے تقریری مقابلے کرواتے چنانچہ آپ کے شاگرد رشید مولوی حکیم خورشید احمد صاحب لکھتے ہیں:." آپ کو اپنے شاگردوں کی صحت کی بہت فکر رہتی.ان کی صحت کے لئے جہاں اور تدابیر اختیار فرماتے وہاں اپنے شاگردوں کو پکنک کے لئے عموماً مثلہ نہر پر لے جاتے.ایک دفعہ نہر پر پکنک کا پروگرام بنایا.تمام اساتذہ اور طلبہ کو حکم دیا کہ سب مسلہ نہر پر پکنک کریں.نہر پر
129 غسل اور تیراکی کے مقابلوں کے علاوہ آپ نے ہمارے کھانے اور پھلوں کا انتظام اپنی خاص نگرانی میں فرمایا.جب کھانا کھانے سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ اب جامعہ احمدیہ کے طلباء کا تقریری مقابلہ ہو گا.ہر مقرر کو تین منٹ قبل مضمون کا عنوان بنایا جائے گا اور تقریر بھی صرف تین منٹ کی ہو گی.کچھ طلباء نے اپنے نام خود لکھوائے کچھ کے آپ نے اور اساتذہ کرام نے خود لکھوائے.آپ مجھے مخاطب کر کے فرمانے لگے.خورشید ! تم نے نام نہیں لکھوایا.میں نے عرض کی مجھے نے سخت نزلہ زکام ہے ، گلا بیٹھا ہوا ہے، میں کیا تقریر کروں گا؟ آپ فرمایا.نہیں.تم تقریر کرو گے.میں نے تمہارا نام لکھ دیا ہے.میں ادبا و احترانا خاموش رہا.دوسری تقریر شروع ہوئی تو حضور اقدس نے مجھے فرمایا کہ اس کے بعد تمہاری تقریر ہو گی عنوان ہے "آسمانی باد ہشاہت ".عنوان سنتے ہی کچھ پریشان ہوا کہ میں اس وسیع و عریض مضمون کو تین منٹوں میں کیسے سمیٹوں؟ ابھی اس ادھیڑ بن میں تھا کہ آپ نے مجھے آواز دی کہ اب تم تقریر کرو.میں تقریر کے لئے کھڑا تو ہو گیا لیکن تقریر کے ختم ہونے تک مجھے یہ احساس نہ تھا کہ میں کیا بیان کر رہا ہوں.بہر حال تقریر ختم ہوئی.نتیجہ نکلا تو میں اول رہا اور حضور اقدس اور جملہ اساتذہ بھری مجلس میں میری تعریف کر رہے تھے.میں نے حضور سے عرض کی یہ آپ کی نظر اور توجہ کی تاثیر سے ہوا ہے.آپ نے جو اصرار کیا تھا کہ میں تقریر کروں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی توجہ سے آپ کے روحانی علوم کا کچھ اثر اس عرصہ میں خاکسار پر بھی ہو گیا ورنہ من آنم کہ من دانم طلباء سے شفقت و احسان کا سلوک آپ کی یہ عادت تھی کہ اپنے شاگردوں کی کسی نہ کسی رنگ میں مدد فرماتے اور
130 ان کی ہر قسم کی ضروریات کا خیال رکھتے.کسی کو وظیفہ دلواتے.کسی کو بحالی صحت کے لئے اپنے ساتھ صحت افزاء مقامات پر لے جاتے اور کئی کئی ماہ اپنے پاس رکھتے.بعض اوقات ہوسٹل کے MESS میں شکار کا گوشت بھجواتے.طلباء کے لئے کتب کا بندوبست کرتے.غرضیکہ آپ کا سلوک ایک باپ کی طرح شفقت و محبت سے بھرا ہوا ہو تا تھا.اس قسم کے چند واقعات بطور نمونہ درج ذیل ہیں.آپ کے شاگرد مکرم حکیم خورشید احمد صاحب بیان کرتے ہیں:.” والد مرحوم کی وفات کے بعد مجھے تعلیم جاری رکھنے میں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا لیکن آپ کی شفقت اور سرپرستی کی وجہ سے تعلیمی عرصہ بے فکری سے گزر گیا.آپ نے از خود مجھے بتائے بغیر صدر انجمن احمدیہ سے میرے لئے آٹھ روپے ماہوار وظیفہ منظور کروایا اس سے مجھے بہت سہارا ہوا.ان دنوں آٹھ روپے ماہوار مجھ جیسے غریب اور بے سہارا طالب علم کے لئے بہت غنیمت تھے.9 آپ کے ایک اور شاگرد رشید مولوی غلام باری سیف بیان کرتے ہیں:.جب آپ جامعہ کے پرنسپل مقرر ہوئے سلسلہ کی مالی حالت کوئی خاص اچھی نہ تھی.جامعہ میں کوئی روزانہ اخبار نہ آتا تھا.آپ نے تحریک جدید کو لکھ کر ہم واقفین طلباء کے لئے اخبار لگوا دیا.اس وقت مبلغین کلاس میں صرف ہم چار واقفین ہی زیر تعلیم تھے.اس کا بل تحریک ادا کرتی تھی آپ نے اپنی کئی بیش قیمت کتب بھی جامعہ کی لائبریری کے لئے مرحمت فرما دیں.ان میں سے ابو الفرج کی کتاب الاغانی جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے یہ کتاب قادیان میں صرف آپ کی لائبریری میں تھی مگر آپ نے ایسی نایاب کتاب کو جامعہ کی لائبریری میں دے دیا.لہ مولوی غلام باری صاحب سیف لکھتے ہیں:."جامعہ کے ہوسٹل میں دوسرے ہوسٹلوں کی طرح ایک وقت دال
131 پکتی اور شام کے کھانے میں اکثر گوشت ملتا.میرا گاؤں قادیان سے سات میل کے فاصلے پر تھا.اکثر جمعرات کی شام کو گاؤں چلا جاتا اور جمعہ کی شام کو واپس آ جاتا.شام کو ہوسٹل میں کھانے کی میز پر بیٹھا تو بریز آج کوئی نئی چیز پکی ہوئی تھی پرندوں کا گوشت تھا جو حضور نے شکار کر کے طلباء جامعہ کے لئے بھجوائے تھے." ال آپ کے شاگرد حکیم خورشید احمد صاحب لکھتے ہیں:.وو ۱۹۴۳ء میں میں جب ثانیہ میں داخل ہوا.یہ سال مولوی فاضل کے امتحان کی تیاری کا سال تھا.میں نے امتحان میں اعلیٰ کامیابی کے حصول کے لئے سخت محنت کی چنانچہ سخت مالی مشکلات اور غذا کی کمی کی وجہ سے میری صحت کافی گر گئی.بدن کی ہڈیاں باہر نکل آئیں.بہرحال مئی ۱۹۴۳ء میں مولوی فاضل کا امتحان دے دیا.جامعہ احمدیہ سے ہمیں رخصت ہو گئی.نتیجہ نکلنے میں دو ماہ باقی تھے.مئی کے آخر میں ایک دن آپ نے مجھے اپنی کو ٹھی النصرت بلوایا.فرمانے لگے، خورشید میں دیکھتا ہوں تمہاری صحت بہت گر گئی ہے.ہم چند روز تک ڈلہوزی جا رہے ہیں تم بھی ہمارے ساتھ جاؤ گے تمہاری صحت ٹھیک ہو جائے گی.جاؤ تیاری کرو.ڈلہوزی میں ہم قریباً چار ماہ رہے.اس عرصہ میں آپ نے جامعہ احمدیہ کے تین اساتذہ مولانا ارجمند خان صاحب مرحوم - مولانا ابو العطاء صاحب مرحوم اور تیسرے مولانا ابولحسن صاحب قدسی اور دو طلباء مولوی غلام باری سیف اور مولوی عبد القدیر صاحب کو بھی سیر کے لئے بلایا.ان سب نے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے مہمان خانہ میں پندرہ روز سے ایک ماہ تک قیام کیا.جی بھر کر سیر کی اور حضور نے بھی ان کی خاطر و مدارت خاص توجہ سے کی.جب آپ نے یہ محسوس کیا کہ اب ڈلہوزی ان سب کے چہروں پر نمایاں نظر آنے لگی ہے تو انہیں جانے کی اجازت دی.ان سب کے قیام کے دوران میں نے حضور
132 رحمہ اللہ تعالیٰ کے چہرہ مبارک پر ایک خاص مسرت اور شگفتگی دیکھی.آپ اپنے مہمانوں کی خاطر داری صرف اپنے ملازموں پر نہ چھوڑتے بلکہ اکثر اوقات کئی دفعہ کھانے کا ڈونگہ یا پھلوں کی ڈش آپ خود اٹھا کر ہمارے پاس لے آتے اور فرماتے.یہ بھی کھائیں.پھر جب تینوں اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ مجلس ہوتی تو بہت شگفتہ مذاق اور گہری پھول دار چوٹیں ایک دوسرے پر کی جاتیں.ان سب کے چلے جانے کے بعد میں آپ کے ساتھ ہی رہا اور اس وقت واپس آیا جب آپ جمعہ بیگم صاحبہ و بچگان ڈلہوزی سے واپس تشریف لائے.ڈلہوزی میں قیام کے دوران میں نے اپنے ساتھ آپ کا اور بیگم صاحبہ کا سلوک بهت مشفقانہ دیکھا.میرے لئے وہی کھانا بھجوایا جاتا جو آپ خود کھاتے بلکہ حضرت بیگم صاحبہ کے حکم پر دونوں وقت دودھ کی ایک پیالی اور کچھ پھل بھیجوائے جاتے تاکہ اچھی غذا اور دودھ سے میری صحت اچھی ہو جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور حضور رحمہ اللہ تعالیٰ اور حضرت بیگم صاحبہ کی اپنے خادم پر خاص شفقت اور توجہ سے ڈلہوزی میں قیام کے دوران میری صحت کافی اچھی ہو گئی.۲ ہونہار طالب علموں کی کامیابی پر آپ اس قدر خوش ہوتے کہ اس کی عزت افزائی کے لئے اپنی جیب سے دعوت کرتے اور انتہائی خوشی کا اظہار فرماتے.ابھی خورشید احمد صاحب کا ڈلہوزی میں قیام کا واقعہ بیان ہوا ہے.انہی دنوں میں صاحب کا مولوی فاضل کا نتیجہ نکلا اور وہ پنجاب یونیورسٹی میں اول آئے.آپ نے انتہائی خوشی کا اظہار فرمایا اور دعوت کا انتظام کیا چنانچہ حکیم خورشید احمد صاحب لکھتے ہیں:.” میں مولوی فاضل کا امتحان دے کر ڈلہوزی آیا تھا.نتیجہ کا انتظار تھا.ایک روز میں اور مولوی غلام باری صاحب سیف سیر کرنے کے بعد سرکلر روڈ پر واپس آ رہے تھے کہ راستہ میں مکرم مولوی عبد القدیر
133 صاحب بھاگم بھاگ آتے ملے.ہمیں دیکھا تو زور سے مجھے مبارک دی اور کہا کہ آپ کو مبارک ہو مولوی فاضل کا نتیجہ نکل آیا ہے آپ پنجاب یونیورسٹی میں اول آئے ہیں.یہ سنتے ہی میں نے وہیں سجدہ شکر ادا کیا.کو بھی حضرت اقدس رحمہ اللہ تعالٰی کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ ہماری انتظار میں تھے.بہت مسرور تھے.مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے میاں خورشید...مبارک ہو.آپ پنجاب یونیورسٹی میں اول آئے ہیں.میرا پہلے ہی خیال تھا کہ آپ اس دفعہ یونیورسٹی میں TOP پوزیشن حاصل کریں گے.میرے ساتھیوں نے کہا کہ اب ان پر مٹھائی واجب ہو گئی ہے.اس پر حضور نے فرمایا کہ ان کی مٹھائی میں کھلاؤں گا.چنانچہ حضور اقدس نے ایک دو روز بعد میری اعلیٰ کامیابی کی خوشی میں اپنی کو ٹھی میں شاندار دعوت دی جس میں حضرت اقدس خلیفہ" المسیح الثانی ، حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب مرحوم اور جملہ احمدی عریض احباب جو اس وقت ڈلہوزی تشریف لائے ہوئے تھے بلائے." نظم ضبط اور علم کا حسین امتزاج له و ضبط اور ایک فیصلہ پر قائم رہنے اور حلم جس کا نرم گوشہ آپ کی فطرت میں شامل تھا اس کے پر حکمت اظہار کا ایک واقعہ محترم وقیع الزمان خان صاحب یوں بیان کرتے ہیں." ایک پروفیسر صاحب مجھے پسند نہ فرماتے تھے.ایک امتحان کے بعد انہوں نے میرا پرچہ لیا اور میرے لکھے ہوئے جوابات کو تضحیک کے انداز میں کلاس کے سامنے پڑھ پڑھ کر سنانا شروع کر دیا.میں شہری.ماحول سے گیا ہوا طالب علم تھا.مجھے ناگوار گزرا.قادیان کی درس گاہوں کے آداب سے پوری طرح واقف نہ تھا اس لئے احتجاجا کلاس سے اٹھ کر باہر آگیا اور پروفیسر صاحب کے روکنے کے باوجود نہ رکا.
134 پروفیسر صاحب نے پرنسپل (یعنی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب) کے پاس میری شکایت کی.حضور کو میرے جواب سے تسلی نہ ہوئی اور سزا سنائی کہ پانچ روپے جرمانہ یا پانچ چھڑیاں تمام کالج کے سامنے لگائی جائیں.حضور تو چند ماہ کے اندر ہی میرے وحشی قلب کو تسخیر کر چکے تھے.حضور کی موجودگی میں ایک عجیب سپردگی کا عالم طاری ہو جاتا تھا.میں نے دریافت کیا کہ ان میں سے پہلی سزا کون سی ہے جرمانہ یا چھڑیاں.جو بھی پہلی سزا ہو وہی مجھے منظور ہے.ذرا سوچ کر فرمایا.جرمانہ اصل سزا ہے اگر نہ دینا چاہو تو چھڑیاں کھانا ہوں گی.جرمانہ فلاں دن تک جمع کروا دو.اس زمانے میں ایک طالب علم کے لئے پانچ روپے خاصی بڑی رقم ہوتی تھی.ہمارے ہوسٹل کا سارے مہینے کا خوراک کا خرچ فی کس پانچ روپے کے قریب آتا تھا جرمانہ داخل کرنے کی تاریخ سے ایک دن قبل مسجد مبارک میں نماز عصر کے بعد مجھے ایک طرف بلایا اور پوچھا تم نے جرمانہ ادا کر دیا ہے ؟؟ میں نے عرض کیا.نہیں.ابھی تک گھر سے منی آرڈر نہیں پہنچا ہے.آنکھیں نیچی کر کے شیروانی کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور پانچ روپے کا نوٹ مجھے دیا کہ جاؤ کل جرمانہ ضرور داخل کر دو ورنہ سارے کالج کے سامنے چھڑیاں کھانا پڑیں گی اور ذرا رعایت نہ ہو گی.مت پوچھ کہ دل پر کیا گزری" جامعہ میں آپ اپریل ۱۹۴۴ء تک خدمات بجا لاتے رہے اور پھر حضرت مصلح موعود کے حکم سے حضرت مولانا ابو العطاء صاحب کو پرنسپل کا چارج دے کر مئی ۱۹۴۴ء میں آپ تعلیم الاسلام کالج قادیان کے بانی پر نسپل کے طور پر متعین ہوئے.چنانچہ آپ نے ایک مرتبہ فرمایا.۱۹۳۸ء کے آخر سے لے کر ۱۹۴۴ء تک جامعہ احمدیہ میں ایک استاد کی حیثیت سے پھر پرنسپل کی حیثیت سے میں نے کام کیا.پھر
135 ۱۹۴۴ء میں جب کالج بنا تو جامعہ احمدیہ سے نکال کے (میں واقف زندگی ہوں میں یہ واقعہ بتا رہوں.ہر قدم پر ہر حکم میں نے بشاشت سے قبول کیا.میں نے اپنی زندگی وقف کی تھی خدمت کے لئے اپنے آرام کے لئے نہیں کی تھی) کہا گیا کہ تم کالج کے پرنسپل لگ جاؤ.خیر میں بن گیا ee پرنسپل ۱۴ کالج کمیٹی میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی شمولیت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں کالج شروع کیا گیا لیکن انگریز حکومت کے یونیورسٹی ایکٹ کے تحت اسے بند کرنا پڑا تھا.رض حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اپنی خلافت کے ابتدائی ایام میں ہی اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جماعت کا اپنا کالج ہونا چاہئے چنانچہ ۱۹۱۴ء میں فرمایا :- ” اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہمارا اپنا کالج ہو.حضرت خلیفۃ المسیح اول کی بھی یہ خواہش تھی.کالج ہی کے دنوں میں کریکٹر بنتا ہے سکول لائف میں تو چال چلن کا ایک خاکہ کھینچا جاتا ہے.اس پر دوبارہ سیاہی کالج لائف ہی میں ہوتی ہے.پس ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کی زندگیوں کو مفید اور موثر بنانے کے لئے ایک کالج بنائیں.» ۱۵ رم حضور کی یہ خواہش عملی طور پر جماعت کی تیسویں مجلس مشاورت پر پوری ہوئی جب کہ ۱۹۴۳ء میں حضرت مصلح موعود نے اس کی باقاعدہ تحریک فرمائی اور اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے مندرجہ ذیل احباب پر مشتمل ایک کمیٹی بنا دی: قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے (صدر) حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے (آکسن) حضرت مولوی محمد دین صاحب بی اے
قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے 136 ملک غلام فرید صاحب ایم اے (سیکرٹری) کالج کے قیام کے لئے حکومت پنجاب نے مارچ ۱۹۴۴ء میں منظوری دے دی جس کی اطلاع مرکز کو بذریعہ تار ۲ جون ۱۹۴۴ء کو ہوئی.۱۹۴۴ء میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے دعویٰ مصلح موعود فرمایا تھا اور جماعت کے لئے ایک نئے دور کا آغاز ہوا تھا.چنانچہ کالج کے قیام کو بھی نئے دور کی نشانیوں میں سے ایک نشانی سمجھا گیا.۱۶ رض صاحبزادہ صاحب کا بطور پرنسپل کالج تقرر حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی بنی الشیر کے بے شمار کارناموں میں سے ایک الله کارنامہ قادیان میں کالج کا قیام ہے حضرت خلیفہ المسیح الثانی بنی الشیہ کی کالج کے ابتدائی انتظامات کے لئے مقرر کردہ کمیٹی نے جس کے صدر حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب تھے حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی بی الیہ کو صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو کالج کا پرنسپل بنانے کی تجویز پیش کی جسے حضور نے منظور فرمایا اور اس طرح..مئی ۱۹۴۴ء (مطابق ۷ ہجرت ۱۳۲۳ ہش کو صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کا بطور پرنسپل تعلیم الاسلام کالج قادیان تقرر ہوا.جماعت کے اکثر لوگ جانتے ہیں کہ حضرت قمر الانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب میں اللہ کس اعلیٰ پائے کے بزرگ اور خدا رسیدہ انسان تھے.ایسے بزرگ کی صدارت میں کالج کمیٹی کا آپ کو پرنسپل تجویز کرنا اور حضرت مصلح موعود بھی للہ کا منظوری دے دینا کوئی اتفاقی حادثہ نہ تھا بلکہ عین اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق تھا.ورنہ اس موقع پر آپ کی جو حالت تھی وہ پروفیسر محبوب عالم خالد صاحب کے اس بیان سے واضح ہوتی ہے وہ کہتے ہیں.۱۹۴۴ء کے ابتدائی ایام میں محترم صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب محترمہ بیگم صاحبہ کے علاج کے سلسلہ میں دہلی میں مقیم تھے.ایک بزرگ نے مجھ سے ذکر کیا کہ ان دنوں تعلیم الاسلام کالج کے انتظامات ہو رہے ہیں اور پرنسپل کے تقریر کا سوال ہے.انہیں لکھو کہ وہ اس
137 موقع پر یہاں تشریف لائیں.میں نے ناسمجھی میں آپ کی خدمت میں ایک عریضہ تحریر کر دیا.چند دن کے بعد جواب موصول ہوا جس کا مفہوم یہ تھا کہ خالد! تم بچپن سے میرے ساتھ رہے ہو.ابھی تک تمہیں یہ معلوم نہیں کہ ”میں نے کبھی کسی عہدہ کی خواہش نہیں کی.كله میں تو ادنیٰ خادم سلسلہ ہوں." ۱۷ آپ نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :." جب ۱۹۴۴ء میں تعلیم الاسلام کالج کی بنیاد پڑی اس وقت منصورہ بیگم بیمار تھیں حضرت صاحب نے ہم دونوں میاں بیوی کو بھیج دیا تھا دہلی علاج کے لئے.میری غیر حاضری میں مجھے پر نسپل مقرر کر دیا." اس کی مزید تفصیل بیان کرتے ہوئے ایک بار فرمایا :.JAR ۱۹۴۴ء میں جب میں اپنی بیگم کی بیماری کی وجہ سے ان کے علاج کے لئے دہلی گیا ہوا تھا اچانک ایک دن ڈاک میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب عبیداللہ کا خط مجھے ملا کہ یہاں قادیان میں ایک کالج کھولنے کا فیصلہ ہوا ہے اور حضرت صاحب نے تمہیں اس کا پرنسپل مقرر فرمایا ہے.میں بڑا پریشان ہوا کہ پہلے میں عربی بھول چکا تھا تو مجھے جامعہ میں لگا دیا گیا.اب جب میرا ذہن کلی طور پر اس چیز کی طرف متوجہ ہو چکا ہے تو مجھے وہاں سے ٹرانسفر کر کے ایک انگریزی ادارے کا پرنسپل بنا دیا گیا ہے.اس وقت ابھی صرف انٹر میڈیٹ کالج تھا خیر خدا تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ اس ذمہ داری کو بھی نبھانے کی توفیق دے اور ہماری کوششوں میں برکت ڈالے.ابتداء بالکل چھوٹے سے کام سے ہوئی.اس جماعت پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس میں جو ساتھی ملتے ہیں وہ بڑے پیار کرنے والے تعاون کرنے والے ہوتے ہیں.۱۹ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جتنے امتحانوں میں سے حضرت مصلح موعود نے آپ کو گزا را خواہ وہ متضاد سمتوں میں ہی ہوں آپ ان میں پورے اترے اور ان تمام چیلنجز
138 کو قبول کیا اور ایسے احسن رنگ میں ان تمام ذمہ داریوں کو نبھایا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.آکسفورڈ سے فراغت کے بعد آپ کو عربی اور دینی مضامین پڑھانے پڑھے اور اسی دوران چھ ماہ کے لئے سکول کے ہیڈ ماسٹر لگا دیئے گئے اور جب جامعہ میں آپ پانچ چھ سال پڑھا چکے تو یکدم وہاں سے ہٹا کر آپ کو کالج کا پرنسپل لگا دیا گیا اور جیسا کہ آگے کالج کے حالات میں بعض تفاصیل آئیں گی آپ نے کچھ اس رنگ میں کالج کو ابتداء سے چلایا اور اس رنگ میں طلباء کی تربیت کی کہ کوئی ماہر نفسیات بھی اتنی کامیابی سے تربیت نہیں کر سکتا اور کالج کو دیکھتے ہی دیکھتے چوٹی کے کالجوں میں لاکھڑا کیا اور ایسی روایات قائم کیں جن میں آکسفورڈ جیسی مغربی اور اسلام کے عروج کے وقت کی اسلامی درسگاہوں جیسی مشرقی روایات کا حسین امتزاج ہو.اصل میں آپ کو خلافت کی اطاعت کا جو عرفان حاصل تھا یہ اسی کا عملی اظہار تھا.طلباء سے بلا امتیاز مذہب و ملت مشفقانہ سلوک جس مقصد کے لئے کالج جاری کیا گیا تھا اس مقصد کو آپ نے ہمیشہ اپنے پیش نظر رکھا اور دن رات ایک کر کے اتنی محنت سے اس ادارے کو چلایا کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.بلا تمیز مذہب و ملت اس کالج میں طلباء داخل ہوتے تھے اور علم کے نور سے منور ہو کر وہ اس کالج سے فارغ ہوتے تھے.غریب امیر یا احمدی غیر احمدی کی تمیز نہ تھی، سب کے ساتھ یکساں سلوک تھا اور ایک ہی مقصد سامنے تھا کہ اس پسماندہ ملک کے تعلیمی معیار کو بلند کرنا ہے چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں:." ایک ہدایت جو مجھے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دی وہ یہ تھی کہ کالج ہم نے اس پسماندہ ملک کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے کے لئے جاری کیا ہے، تبلیغ کے لئے جاری نہیں کیا.اس کے لئے ہمارے دوسرے محکمے ہیں.اس واسطے اس کالج میں ہر عقیدہ کا لڑکا جو غریب اور ذہین ہے اس کو اگر تمہاری طاقت ہے اور جس حد تک تمہاری طاقت ہے تم نے پڑھانا ہے.یہ چیز میرے دماغ میں حضرت
139 مصلح موعود بھی اللہ نے اچھی طرح داخل کر دی تھی.اللہ جانتا ہے ولا فخر.ہماری جماعت کا مزاج ہے بے لوث خدمت کرنا اور ہر احمدی کا بھی یہی مزاج ہے.یونیورسٹی کا قاعدہ یہ ہے کہ ایک پرنسپل کل تعداد طلباء کی جو ہے اس کی دس فیصدی کو نصف فیس معاف کر سکتا ہے اور بس یعنی اگر چار سو لڑکا ہو تو صرف چالیس لڑکوں کو آدھی فیس معاف کر سکتا ہے اس سے زیادہ کی نہیں کر سکتا.مجھے جو حکم تھا وہ یہ تھا کہ ذہین بچے کو پڑھا سکتے ہو پڑھاؤ.سچی بات یہ ہے کہ کسی سے نہیں پوچھا میں نے کہ یونیورسٹی کا قاعدہ میں توڑنے لگا ہوں توڑ دوں یا نہ توڑوں.میں نے سوچا جب میرا امام حضرت مصلح موعود بنی اللہ یہ کہہ رہا ہے کہ جس حد تک پڑھا سکتے ہو پڑھاؤ تو میں پڑھاتا جاتا ہوں میں نے سو میں سے پچاس لڑکوں کی فیس معاف کر دی، چار سو میں سے چالیس کی نہیں.سو میں سے پچاس کی یعنی دس فیصدی کی بجائے پچاس فیصد کی معاف کر دی.جن میں سے آگے پچاس فیصد وہ طلبہ تھے جن کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں تھا.مجھے کہا گیا تھا کہ تعلیم کا ادارہ ہے، تبلیغ کا ادارہ نہیں ہے.جو غریب لڑکا ذہین بچہ آیا میرے پاس اس کو میں نے داخل کیا نہ صرف اس کی فیس معاف کی.اس کے کھانے کا انتظام کیا، بعض دفعہ اس کے کپڑوں کا انتظام کیا اس کے علاج کا انتظام کیا.....بیسیوں سینکڑے وہ بچے ہمارے جو غریب گھروں میں پیدا ہوئے لیکن خدا تعالیٰ نے ان کو ذہن عطا کیا تھا ان کا جماعت احمدیہ کے عقیدہ سے کوئی تعلق نہیں تھا ان کو ہم نے پڑھایا، ہر طرح سے خیال رکھا، ان سے باپ کی طرح پیار کیا ان کی تربیت کی.۲۰
140 ممبر یونیورسٹی اکیڈیمک کونسل آپ نے جس انداز سے کالج کے انتظام کو چلایا اس کے نتیجے میں بہت جلد تعلیم الاسلام کالج ملک کے اہم کالجوں کی صف میں آکھڑا ہوا.آپ کی ذاتی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ آپ یونیورسٹی اکیڈیمک کو نسل کے ممبر منتخب ہو گئے اور یہ انتخاب متفقہ طور پر آپ کے حق میں تھا.چنانچہ الفضل ۸ جنوری ۱۹۴۵ء میں جو رپورٹ شائع ہوئی وہ یہ ہے.” پنجاب یونیورسٹی کے تمام انٹر میڈیٹ کالجوں کے پرنسپل صاحبان نے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو متفقہ طور پر سال ۱۹۴۶٬۱۹۴۵ء کے لئے یونیورسٹی کی اکیڈیمک کونسل کا ممبر منتخب کر لیا اور پنجاب یونیورسٹی کی طرف سے آپ کو ۶ جنوری ۱۹۴۵ ء کو یہ اطلاع بھی مل گئی." حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کی دلکش شخصیت کا اعتراف یونیورسٹی کے پہلے ہی اجلاس میں ہو گیا تھا.چوہدری محمد علی صاحب سابق پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ ہیں:.رفتم " حضرت استاذی المکرم قاضی محمد اسلم صاحب مرحوم جن کو ارم حضور کے استاد ہونے کا شرف حاصل تھا اور اس پر ان کو بجا طور پر فخر بھی تھا اکثر اس واقعے کا ذکر فرمایا کرتے کہ جب حضور یونیورسٹی کے ایک اجلاس میں پہلی مرتبہ شامل ہوئے ابھی نوجوانی کا عالم تھا.یہ تقسیم ملک سے پہلے کی بات ہے.علامہ تاجور نجیب آبادی جو دیال سنگھ کالج کے پروفیسر تھے محترم قاضی صاحب کے پہلو میں بیٹھے ہوئے تھے وہ حضور کی جانب بار بار دیکھتے اور متوجہ ہوتے.حضور کمرے کے دوسری طرف تشریف فرما تھے آخر علامہ صاحب نہ رہ سکے اور کہنے لگے قاضی صاحب ! میں عرصے سے سوچ رہا ہوں کہ یہ کون صاحب ہیں؟ قاضی صاحب نے فرمایا کہ یہ ہمارے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد
141 صاحب کے فرزند اکبر ہیں اور بانی سلسلہ علیہ السلام کے پوتے اور آکسفورڈ کے گریجویٹ اور حافظ قرآن.اس پر علامہ صاحب بے اختیار ہو کر کہنے لگے اچھا میں بھی حیران تھا کہ یہ ہو کون سکتے ہیں؟ ماشاء اللہ ! ماشاء اللہ ! آخر کس کے بیٹے ہیں کس کے پوتے ہیں کیوں نہ ہو.کیوں نہ ہو.ایک ابتدائی پروفیسر کا تاثر آپ کی خدا رسیدہ شخصیت اور نورانی مسکراتا ہوا چہرہ اور خدا داد رعب اور وقار اور وجاہت کا ابتداء سے یہ عالم تھا کہ کوئی بھی آپ کو دیکھ کر غیر معمولی طور پر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا تھا چنانچہ تعلیم الاسلام کالج میں تقرری کے وقت پہلی مرتبہ مکرم و محترم پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب آپ سے اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں." میں حسب ہدایت حضرت قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صدر کالج کمیٹی مجوزہ تعلیم الاسلام کالج قادیان کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے عاجز کو کالج میں بطور لیکچرار فلسفہ تقرری کا ایک دو سطری ارشاد لکھ کر تھما دیا اور فرمایا کہ پرنسپل صاحب سے جا سے کر مل لوں.حضرت قمر الانبیاء کی دلنواز اور محبوب شخصیت ملاقات کا شرف عاجز کو پہلے سے حاصل ہو چکا تھا حسب ارشاد حضور کی خدمت میں حاضر ہوا یہ حاضری بھی نرالی حاضری تھی نہ دفتر کا تکلف نہ رہائش گاہ پر حاضری، مغرب کی نماز کا وقت تھا سیدھا مسجد مبارک کی چھت پر جا سلام کیا جہاں حضور تشریف فرما تھے شلوار اور بغیر کالر کے قمیض نما کرتہ زیب تن تھا سر پر ٹوپی، خشخشی ریش مبارک بالوں میں سنہرے رنگ کی جھلک ، موٹی غلافی معصوم آنکھیں ، کشادہ پیشانی ، مردانه حسن کا بہترین نمونہ ، وہی معصومیت اور سادگی اور بے تکلفی
142 اور وقار اور ذہانت اور اسی نور کا چہرے پر اجالا جو مستقبل میں ایک عالم کو منور کرنے والا تھا میری حضور سے یہ پہلی ملاقات تھی دور سے تو حضور کو خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر بھی دیکھا تھا قریب سے اب دیکھا.اللہ اللہ یہ دیکھنا کیا تھا ایک روحانی تجربہ تھا اور اس مسکراہٹ کو اب کون نہیں جانتا جو اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، مسکرائے اور کچھ اس محبت سے ملے جیسے مدتوں کے بچھڑے ہوئے ملتے ہیں فرمایا کہ تقرری ہو گئی ابھی کالج تو نہیں کھلا لیکن داخلے کے لئے طلباء آنے شروع ہو جائیں گے آپ کو ہوسٹل کا سپرنٹنڈنٹ بھی مقرر کیا گیا ہے گیسٹ ہاؤس میں شفٹ کر جائیں وہیں ہوٹل کا انتظام ہو گا.EE ابتدائی ایام کا بے تکلف ماحول کسی ادارے کو آغاز سے کامیابی کے ساتھ چلانا اور اس کی بنیادوں کو مستحکم کرنا ایک بہت مشکل مرحلہ ہوتا ہے مرکز سلسلہ احمدیہ میں کالج کا کامیابی سے چل پڑنا اور اس میں پچاس فیصد غیر احمدی طلباء کا داخلہ لینا کوئی معمولی بات نہیں ہے اس کے پیچھے جہاں حضرت مصلح موعود کی دعاؤں اور توجہات روحانی کا دخل ہے وہاں اس کے بانی پرنسپل کی انتھک محنت اور خلوص اور ان مخلصانہ کوششوں کا بھی تعلق ہے جو اس ادارے کے لئے آپ نے صرف کیں.یہاں اس امر کا ذکر کرنا بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اماں جان جنہوں نے آپ کی بچپن میں تربیت فرمائی تھی اور انہیں آپ سے اور آپ کو ان سے بے حد محبت تھی انہوں نے کالج کے بالکل ابتدائی دنوں میں ہوسٹل میں اپنے ذاتی بر تن دیگچے دیگچھیاں ، پراتیں ، پلیٹیں ، گلاس سکر وغیرہ دیئے جن میں کھانا پکنا شروع ہوا اور ہر برتن پر نصرت جہاں بیگم کے مبارک الفاظ کنداں تھے کافی عرصہ ان برتنوں میں کھانا پکتا رہا اور طلباء حضرت اماں جان کی بابرکت پلیٹوں میں کھاتے کالج کی ابتدا میں ہی آپ کے مشفقانہ سلوک کا ایک واقعہ چوہدری محمد علی صاحب کھاتے رہے.رض
143 یوں بیان کرتے ہیں:.ا بھی قادیان میں کالج شروع ہوئے دو چار ہی دن ہوئے تھے کہ رات کو شدید بارش ہوئی.صبح اٹھے تو گہرے بادل چھائے ہوئے تھے اور ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی.ہم نے گیسٹ ہاؤس سے حضور کی خدمت میں درخواست بھیجی کہ بارش ہو رہی ہے.ہوسٹل کالج سے فاصلے پر ہے.آج چھٹی کا اعلان کیا جائے.اس پر جو جواب آیا وہ کچھ اس طرح سے تھا."اچھا اگر کل بھی بارش ہوئی اور پرسوں بھی تو پھر ؟" اس پر ہم لوگ بہت شرمندہ ہوئے کہ ایسی نامعقول درخواست بھیجی ہی کیوں اور کالج جانے کی تیاری کرنے لگے.ابھی دو چار منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ حضور بنفس نفیس خود ہوسٹل میں تشریف لے آئے.ہماری اپنی یہ حالت تھی کہ اپنی احمقانہ درخواست پر نادم تھے.ہم نے معذرت کرنی چاہی تو فرمایا کہ چلو بڑے کمرے میں چل کر بیٹھو.کمرہ چارپائیوں سے پر تھا.ایک چارپائی پر حضور تشریف فرما ہوئے.جب ہم نے معافی مانگی تو فرمایا :.” اب اس جرم کی سزا یہ ہے کہ ایک آج چھٹی، دوسرے اپنی نظم سنائیں" میں نے اپنی دانست میں اس عیب کو چھپایا ہوا تھا.میرے پاس اس محبت اور شفقت کا کیا جواب تھا.نظم بھی ہوئی پھر کلائی پکڑنے کا دور بھی ہوا.خوشیاں بکھیر کر حضور واپس تشریف لے گئے تو ہم میں سے ہر اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ دولت مند اور قسمت کا دھنی سمجھ رہا تھا.محبت کی یہ دولت حضور نے ساری عمر بانٹی اور سب میں بانٹی.کالج کی ساری فضا اس محبت اور بے تکلفی میں بسی ہوئی تھی."
144 طلباء کی استعدادوں کی نشوو نما کے لئے پرنسپل صاحب کے اقدامات آپ کو شروع سے ہی کھیلوں اور کھلاڑیوں سے محبت رہی ہے چنانچہ آپ نے تعلیم الاسلام کالج میں کھیلیوں کو خاص طور پر متعارف کروایا اور آپ کا کھیلوں اور کھلاڑیوں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ نے کنوشتل کھیلوں کے علاوہ کالج میں ہوا بازی کی کلاسیں شروع کروائیں اور چوہدری محمد علی صاحب اور سید فضل احمد صاحب کو سکندر آباد (حیدر آباد دکن) تربیت حاصل کرنے کے لئے بھیجوایا اور کالج میں تعلیمی مقصد کے لئے دو جہاز بھی خریدے.ایک ابھی بند ڈبے میں ہی پڑا تھا کہ ہندوستان کی تقسیم ہو گئی جہاں آپ طلباء کے تعلیمی معیار کو بلند کرنے اور کالج کی کھیلوں کو اہمیت دیتے تھے وہاں آپ طلباء کی اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے بھی فکر مند رہتے تھے.چنانچہ پروفیسر صوفی بشارت الرحمان صاحب جن کو سالہا سال تک کالج میں آپ کے زیر سایہ کام کرنے کا موقع ملا لکھتے ہیں:.۱۹۴۶ء کا ذکر ہے کہ تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل کے دفتر میں ایک دن حضور نے خاکسار سے فرمایا کہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں تو ہر احمدی تہجد کا عادی ہو تا تھا مگر ہماری نئی نسل میں یہ مبارک عادت بہت کم نظر آتی ہے.فرمایا کہ میں نے....دفتر خدام الاحمدیہ مرکزیہ میں خدام کے تہجد کے وقت جمع ہونے کا انتظام کیا ہے.....آپ بھی ضرور اس میں شامل ہوا کریں اور فضل عمر ہوسٹل کے طلبا کی مدد سے ارد گرد کے اہل محلہ کے جگانے کا انتظام بھی کریں.۲۵ آپ کا طلباء اور استادوں کی تربیت کا جو پر حکمت طریق تھا اس کا ایک واقعہ پروفیسر صوفی بشارت الرحمان صاحب یوں بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۴۴ء میں کالج یونین کے افتتاح کے لئے آپ نے خطاب کے لئے حسن اور عشق" کا عنوان منتخب فرمایا اور اس
145 شاعرانہ عنوان کے تحت تعلیم اور تعلیم کے طریق کار کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا:." ہر طالب علم میں خدا تعالیٰ نے ایک مخفی حسن کسی نہ کسی کمال یا استعداد کے لحاظ سے ودیعت کیا ہوا ہوتا ہے.حقیقی استاد وہ ہے جو اس حسن پر عاشق ہو کر ایک والہانہ جستجو اور سرگرمی کے ساتھ اس مخفی حسن کو اجاگر کرے پھر اس کی نشو و نما کا سامان کرے.".صوفی بشارت الرحمان صاحب تحریر فرماتے ہیں." تعلیم الاسلام کالج میں طلبہ سے اس پہلے خطاب میں ایک طرف طلبہ کو ان کی قدرو قیمت سے روشناس کرا دیا گیا اور دوسری طرف اساتذہ کو اپنے فرائض یاد دلائے گئے تاکہ دونوں اطراف کے تعاون سے صحیح اور شاندار نتائج پیدا ہوں.اس نائب صدر مجلس مذہب و سائنس 2 حضرت مصلح موعود نے جماعت میں علمی مذہبی اور سائنسی تحقیق کی نشوونما کے لئے فروری ۱۹۴۵ء میں مجلس مذہب و سائنس " بنائی اور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو مجلس کا صدر اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو نائب صدر مقرر فرمایا :- اس مجلس کا مقصد علوم جدیدہ کی طرف سے اسلام پر اعتراضات کی اعلیٰ سطح پر تحقیق تھا.اس غرض کے لئے سب کمیٹی مذہب ، سب کمیٹی سائنس ، سب کمیٹی فلسفہ اور کمیٹی اقتصادیات، پولیٹکل سائنس اور سوشیالوجی وغیرہ بنائی گئیں جس میں آخر الذکر کمیٹی کے سیکرٹری حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مقرر ہوئے.مجلس نے علوم جدیدہ کی طرف سے اسلام پر اعتراضات کی مکمل فہرست تیار کی اور علوم جدیدہ کے لٹریچر کی مکمل فہرست بنائی." اشتراکیت اور مذہب" کے موضوع پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے ریسرچ کی.اس ریسرچ کو اجلاس میں پیش کیا گیا.جس کی صدارت کے فرائض
146 حضرت مولوی شیر علی صاحب نے سرانجام دیئے.علاوہ ازیں حضرت مصلح موعود نے تعلیم الاسلام ریسرچ سوسائٹی کی بنیاد رکھی اور اس کا صدر صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اور سرپرست حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو بنایا.اس سوسائٹی کا مقصد طلباء اور اساتذہ کے درمیان تحقیقاتی اور علمی مذاق پیدا کرنا اور مذہب پر سائنس اور دیگر علوم کے اعتراضات کا رد کرنا تھا یہ سوسائٹی مجلس مذہب و سائنس کے لئے نرسری کے طور پر کام کرتی تھی حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمات اس سلسلہ میں بھی جاری رہیں.تربیت کا ایک منفرد طریق.تعطیلات میں طلباء کو خطوط طلباء کی تربیت کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے جو مختلف طریقے استعمال فرمائے ان میں سے ایک خطوط کا سلسلہ تھا.آپ نے موسمی تعطیلات کے دوران مندرجہ ذیل مضمون کا خط تمام طلباء کو بطور سرکلر چھپوا کر بھیجوایا." بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلَّى عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ" دفتر تعلیم الاسلام کالج قادیان عزیزم السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاته آپ کا تعلیم الاسلام کالج میں داخلہ آپ کے لئے ہزا رہا برکات کا موجب ہے اور ہم پر ہزار قسم کی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے اس لئے میں نے مناسب خیال کیا کہ اب جب کہ آپ اپنے گھروں میں چھٹیاں گزار رہے ہیں بعض ضروری باتوں کے متعلق آپ کو یاد دہانی کرا دوں امید کہ آپ عزیز ان کی طرف خاص توجہ دے کر ثواب دارین حاصل کریں گے اور احیاء اسلام" کے لئے ایک مفید وجود بن کر آپ کے رب کی رضا آپ کو حاصل ہو گی ہے (۱) نماز باجماعت کے پابند رہیں.(۲) تبلیغ (حتی المقدور) ضرور کرتے
147 رہیں (۳) کالج کے لئے ایک سو روپیہ چندہ اکٹھا کر کے ضرور لائیں.(۴) کالج میں داخلہ کے لئے پراپیگنڈہ کرتے رہیں (۵) آپ کے ذمہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے لئے بھی پانچ سے دس روپیہ کا چندہ لگایا گیا تھا.یہ بالکل معمولی کام ہے.ذرا سی توجہ سے ہو سکتا ہے.خدا تعالی آپ کے ساتھ ہو اور آپ کو حقیقی احمدی بنائے." ۲۷ طلباء کے ساتھ خوشگوار تعلقات کالج کے زمانہ میں آپ کے طلباء کے ساتھ تعلقات کا یہ عالم تھا کہ جوں ہی ۱۹۴۴ء میں کالج قائم ہوا آپ نے کالج میں جماعتی اور خدام الاحمدیہ کی سرگرمیوں کو بھی جاری کیا اور ایک خاص روایت یہ قائم فرمائی کہ لائق اور ہونہار طلباء کو گھر پر بلا کر ان کی خاطر مدارت بھی کرتے اور ان کی پڑھائی میں مدد بھی کرتے.آکسفورڈ کی روایت کو آپ نے کالج میں جاری فرمایا ہوا تھا راجہ غالب احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ انہیں بھی گھر پر تین مرتبہ بلایا.فرمایا کرتے تھے کہ کسی وقت گھر بھی آجایا کرو.میری ذاتی لائبریری ہے اس سے استفادہ کیا کرو.جب بھی وہ گھر گئے ان کی چائے کافی وغیرہ سے خاطر مدارت فرمائی اور کتابیں دکھائیں اور کہا کہ اگر کوئی کتاب چاہئے تو لے لو.کلاس میں آپ نوٹس لکھواتے تھے نیز ہفتہ وار یا دو ہفتے بعد بعض اوقات امتحان بھی لے لیتے.اس طرح طلباء میں آپ نے اعلیٰ روایات قائم فرمائیں.۱۹۲۵ء کا واقعہ ہے.آپ کی بیگم صاحبہ بھی بیمار تھیں اور ایک بچہ بھی جس کی عمر اس وقت تقریباً تین سال ہو گی.راجہ غالب احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت بیگم صاحبہ اور بچے کی تیمارداری کی وجہ سے آپ دن رات مصروف رہتے تھے.آپ نے بچے کی تیمارداری کے لئے اپنے طلباء مکرم راجہ غالب احمد صاحب، محمود احمد صاحب پشاوری مرحوم اور عبدالشکور صاحب کی دو دو تین تین گھنٹے کی ڈیوٹی لگائی اور رات کو خود بھی جاگ کر پوچھتے رہے اور ڈیوٹی پر متعین طلباء کو چائے وغیرہ بھی دیتے رہے.
148 ہجرت پاکستان اور بے سروسامانی کے عالم میں کالج کا لاہور میں قیام ابھی تعلیم الاسلام کالج قادیان کے اجراء کو تین سال ہی ہوئے تھے کہ متحدہ ہندوستان کی تقسیم ہو گئی.حضرت مصلح موعود بنا الی ۳۱ اگست ۱۹۴۷ء کو قادیان سے ہجرت کر کے لاہور تشریف لے آئے.مرکز کی حفاظت اور احمدی آبادی کے انخلاء کے سلسلہ میں عظیم الشان خدمات سرانجام دینے کے بعد صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو خلیفہ وقت کی طرف سے پاکستان آ جانے کا ارشاد ہوا چنانچہ آپ ۱۶ نومبر ۱۹۴۷ء کو قادیان سے ہجرت کر کے لاہور تشریف لائے اور اپنے بزرگ والد اور خلیفہ وقت کے ساتھ رتن باغ میں قیام فرمایا.ابھی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب حفاظت مرکز اور احمدی آبادی کے انخلاء کے سلسلہ میں قادیان میں ہی تھے کہ حضرت مصلح موعود بنی اللہ نے کالج کو جلد از جلد پاکستان میں از سر نو قائم کرنے کا فیصلہ فرمایا چنانچہ کالج کے از سر نو قیام کے لئے تگ و دو شروع ہو گئی لیکن کالج کے فوری اجراء کے لئے کوئی مناسب جگہ ملنے میں جب دشواری پیش ہوئی تو معاملہ حضرت مصلح موعود بھی الیہ کی خدمت میں پیش کیا گیا حضور نے قائمقام پر نسپل چوہدری محمد علی صاحب کو فرمایا.آسمان کے نیچے پاکستان کی سر زمین میں جہاں کہیں بھی جگہ ملتی ہے لے لو اور کالج شروع کرو." ابھی تلاش جاری تھی کہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ وقت کے ارشاد پر ۱۶.نومبر ۱۹۴۷ء کو ہجرت کر کے لاہور تشریف لائے اور کینال پارک لاہور کی ایک نہایت بوسیدہ عمارت (جو ڈیری فارم یا اصطبل بن چکی تھی) کو محکمہ بحالیات سے حاصل کر کے نہایت بے سروسامانی کی حالت میں اس میں تعلیم الاسلام کالج کی کلاسیں شروع کر دیں.ابتدائی دنوں میں کوئی ڈیسک وغیرہ نہ تھے.طلباء نے صفوں پر بیٹھ کر کلاسیں شروع کیں.ابتداء میں تو راتیں بھی صفوں پر ہی لیٹ کر کٹتی تھیں لیکن آپ کی ہمت اور اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کے باعث آپ دوبارہ کالج کو چلانے میں کامیاب ہو "
149 گئے.آپ کے منجملہ اور کارناموں میں سے یہ ایک بہت بڑا کارنامہ ہے.قمر الانبیاء حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ان ایام میں کالج کی حالت ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں.سے " آج مجھے اتفاقاً اپنے تعلیم الاسلام کالج آف قادیان حال لاہور کو چند منٹ کے لئے دیکھنے کا موقع ملاب ہمارا ڈگری کالج جو موجودہ فسادات سے قبل قادیان کی ایک وسیع اور عالی شان عمارت میں اپنے بھاری ساز و سامان کے ساتھ قائم تھا وہ اب لاہور شہر سے کچھ فاصلے پر نہر کے کنارے ایک نہایت ہی چھوٹی اور حقیر سی عمارت میں چل رہا ہے.اس عمارت کا نچلا حصہ قریباً قریباً ایک اصطبل کا سا رنگ رکھتا ہے اور اوپر کی منزل چند چھوٹے چھوٹے کمروں پر جو نہایت سادہ طور پر بنے ہوئے ہیں پر مشتمل ہے.عمارت کی قلت اور کمروں کی کمی کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ ایک ہی عمارت سے کالج اور بورڈنگ کا کام لیا جا رہا ہے بلکہ حق یہ ہے کہ اس عمارت کا صرف ایک کمرہ کالج کے استعمال میں ہے اور باقی کمروں میں بورڈر رہائش رکھتے ہیں جن میں سے بعض چار پائیاں نہ ہونے کی وجہ سے فرش پر سوتے ہیں اور بڑی تنگی کے ساتھ گزارہ کر رہے ہیں لیکن بایں ہمہ میں نے سب بورڈروں کو ہشاش و بشاش پایا جو اپنے موجودہ طریق زندگی پر ہر طرح تسلی یافتہ 1 اور قانع تھے...مگر جس چیز نے میرے دل پر سب سے زیادہ اثر کیا وہ کالج کی کلاسوں کی حالت تھی......موجودہ عمارت کا صرف ایک کمرہ کالج کی ضروریات کے لئے فارغ کیا جا سکتا ہے اس لئے باقی کلاسیں برآمدوں میں یا کھلے میدان میں.ان سب کا یہ حال ہے کہ چونکہ کوئی ڈیسک اور کوئی میز کرسی نہیں اس لئے پڑھانے والے اور پڑھنے والے ہر دو چٹائیاں بچھا کر بیٹھتے ہیں.مجھے اس نظارہ کو دیکھ کر وہ زمانہ یاد آیا کہ جب
150 دینی اور دنیوی ہر دو قسم کے علوم کا منبع مسجدیں ہوا کرتی تھیں جہاں اسلام کے علماء اور حکماء فرش پر بیٹھ کر اپنے ارد گرد گھیرا ڈالے ہوئے طالب علموں کو درس دیا کرتے تھے اور اس قسم کے درسوں کے نتیجہ میں بعض ایسے شاندار عالم پیدا ہوئے کہ صدیاں گزر جانے کے باوجود آج کی دنیا بھی ان کے علوم سے روشنی حاصل کرنے میں فخر محسوس کرتی ہے.ٹی آئی کالج لاہور ڈی اے وی کالج کی بوسیدہ عمارت میں دسمبر ۱۹۴۷ء سے اپریل ۱۹۴۸ء تک کالج کینال پارک کے اصطبل نما احاطہ میں رہا اور اپریل ۱۹۴۸ء میں ڈی اے وی کالج لاہور کی بوسیدہ عمارت الاٹ ہوئی اور مئی میں کالج اس میں منتقل کر دیا گیا.صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کے اپنے الفاظ میں اس کالج کی خستہ حالت کا ذکر سنئے." ۱۹۴۷ء ۱۹۴۸ء کو ہم بے سروسامانی کا سال کہہ سکتے ہیں اور جن نوجوانوں نے اپنے کالج کے اس نازک ترین دور کو ہمت اور بشاشت سے گزارا وہ یقیناً قابل قدر ہیں خاصی تگ و دو کے نتیجہ میں کالج کی آباد کاری کے لئے ڈی اے وی کالج کے کھنڈرات پر ہمیں قبضہ ملا.ان عمارتوں کو غیر مسلم پناہ گزیں کلی طور پر تباہ و برباد کر چکے تھے.دروازوں کے تختے اور چوکھٹیں، روشندان، الماریاں وغیرہ ہر قسم کا فرنیچر غائب تھا.عمل گاہوں میں ٹوٹی شیشیوں کے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کے سوا کچھ موجود نہ تھا.پانی اور گیس کے نل ٹوٹے ہوئے پڑے تھے.تمہیں چالیس ہزار کتابوں پر مشتمل مشہور کتب خانے کی اب ایک جلد بھی باقی نہ تھی.یہ وہ کھنڈر تھے جن میں مئی ۱۹۴۸ء میں ہم آباد ہوئے اور ہماری فوری توجہ ان ضروری اور ناگزیر مرمتوں کی طرف منعطف ہوئی.چنانچہ شروع میں گیس پلانٹ کو درست کروایا گیا
151 رہیں اور شعبہ کیمیا کے لئے ضروری سامان خرید کر کیمیا کے عملی تجربے اپنے کالج میں ہی شروع کروا دیئے گئے.طبیعات کے لئے ہمیں ایم اے او کالج سے انتظام کرنا پڑا جن کے برادرانہ سلوک کے ہم ہمیشہ ممنون گے.چونکہ ابھی اصل ہوسٹل پر قبضہ نہ ملا تھا اس لئے کالج کے ہی ایک حصہ کی مرمت کروا کے عارضی طور پر یہ ہوسٹل بنا دیا گیا جس میں اندازاً پچاس پچپن طلبہ کی گنجائش تھی جو وقتی طور پر کافی سمجھی گئی گو عملاً طلبہ اس سے بہت زیادہ آگئے جس کے نتیجہ میں ایک ایک کمرہ میں آٹھ آٹھ طلبہ کو رہنا پڑا." شاندار نتائج حضرت مصلح موعود نے ۱۹۴۹ء میں فرمایا :.گزشتہ سال فسادات کی وجہ سے ہمارے کالج کے نتائج اچھے نہیں نکلے تھے گو اس سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے کالج کا نتیجہ غیر معمولی طور پر نہایت شاندار رہا.....اس سال ہمارے تعلیم الاسلام کالج کی ایک جماعت کا نتیجہ نوے فیصدی کے قریب رہا جو ایک حیرت انگیز امر ہے حالانکہ یونیورسٹی کی اوسط ۳۹ فیصدی ہے.یہی حال اور جماعتوں کا ہے.کوئی ایک جماعت بھی ایسی نہیں جس کا نتیجہ یونیورسٹی کی اوسط سے کم ہو بلکہ ہر جماعت کا نتیجہ یونیورسٹی کی اوسط سے بڑھ کر ہے.Flee جن حالات میں لاہور کالج کا آغاز ہوا.ان کے پیش نظر اتنے اچھے نتائج کوئی معمولی واقعہ نہ تھا.اس کے پیچھے خلیفہ وقت کی توجہات روحانیہ، پرنسپل صاحب کی اعلیٰ کار کردگی ، عزم و ہمت نیم شبانہ دعائیں اور آپ کے ساتھی پروفیسروں کے تعاون اور اعلیٰ درجہ کے اخلاص کی خاموش داستانیں محسوس ہوتی ہیں.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کے بارہ میں فرماتے ہیں:.
152 " پاکستان کے قیام کے بعد ربوہ منتقل ہونے تک قیام رتن باغ لاہور رہا.اور اس عرصہ میں تعلیم الاسلام کالج کے پرنسپل کے عہدہ پر فائز سب رہے.یہ دور بھی بڑی محنت کا دور تھا.لٹے ہوئے بے سروسامان.آئے اور اس خاک سے ایک کامیاب تعلیمی ادارہ کو اٹھایا جس نے تعلیمی درس گاہوں میں ایک امتیازی حیثیت حاصل کی.۳۲ رسالہ المنار کا اجراء حضرت صاحبزادہ صاحب کی سرپرستی میں اپریل ۱۹۵۰ء سے کالج کا علمی مجلہ "المنار" کے نام سے شروع کیا گیا.اس کے اجراء کے موقع پر آپ کا پیغام یہ تھا." زندگی مسلسل جستجو کا نام ہے.کلاس روم میں آپ پہلوں کی جستجو کے نتائج سنتے ہیں.انہیں سمجھنے اور یاد رکھنے کی کوشش کرتے ہیں.ان نتائج پر تنقیدی نگاہ ڈالنے کا آپ کو موقعہ میسر نہیں آتا.کلاس روم تخلیق کا میدان بھی نہیں مگر تنقید و تحقیق کے بغیر آپ کی زندگی بے معنی ہے."پدرم سلطان بود" آپ کو زیب نہیں دیتا.دنیا کو جس حالت پر آپ نے پایا اس سے بہتر حالت پر آپ نے اسے چھوڑنا ہے.کالج میگزین تنقید و تحقیق کا ایک وسیع میدان آپ کے سامنے کھولتا ہے.اب آپ کا فرض ہے کہ اس سے فائدہ اٹھائیں.دیدہ بینا سے دنیا کو دیکھیں.عقل سلیم سے اسے پر کھیں.ذہن رسا سے اس کی غیر معروف وادیوں میں داخل ہوں.اس کی چھپی ہوئی کانوں میں جائیں اور آنے والی نسلوں کے لئے در بے بہا تلاش کریں.اسلام کو آج روشن دماغ بہادروں کی ضرورت ہے.اگر آپ بہادر تو ہیں مگر آپ کے ذہنوں میں جلا نہیں تو آپ اسلام کے کسی کام کے نہیں.آزادانہ تنقید و تحقیق آپ کو بہادر بھی بنائے گی اور آپ کے اذہان کو منور بھی کرے گی اور یہی کالج میگزین کے اجراء کا موقعہ ہے خدا ہمیں اس میں کامیاب
153 کرے.۳۳ لاہور کالج میں کھیلوں کا اجراء لاہور کالج میں کھیلوں کے بارے میں آپ نے اپنا نقطہ نظر ۱۹۵۱۴٬۶۱۹۵۰ء کی سالانہ رپورٹ میں یوں بیان فرمایا.وو ایک نوزائیدہ مملکت اگر ترقی کی دوڑ میں ترقی یافتہ ممالک سے بازی لینا چاہتی ہے تو اس کے افراد پر سعی پیم اور مستقل جدوجہد کی بھاری ذمہ داری پڑتی ہے اور لگاتار محنت کرتے چلے جانا جذبہ ملی اور مضبوط و توانا جسموں کے بغیر ممکن نہیں.تمام بیدار ممالک اپنی قوم کی صحت کی طرف خاص توجہ دیتے ہیں اور عام اندازہ کے مطابق ان ممالک کا جتنا بھی روپیہ تعلیم پر خرچ ہوتا ہے اسی کے لگ بھگ رقم وہ ورزشوں وغیرہ پر خرچ کرتے ہیں.اگر ہم نے بھی دنیا میں ترقی کرنی ہے تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں.بوجہ غربت ہم ان کے لئے پوری خوراک مہیا نہیں کر سکتے لیکن غربت کے باوجود بھی صحیح ورزش انہیں کروا سکتے ہیں.یہ مہاجر ادارہ طلباء کے اس شعبہ زندگی کی طرف خاص توجہ دیتا رہا ہے.بہت سے غریب بچوں کو مفت دودھ دیا جا رہا ہے اور عام طور پر یہ کوشش رہی ہے کہ تمام طلباء ورزش کے ذریعہ سے اپنے جسموں کو مضبوط بنانے کی کوشش کرتے رہیں.۳۴ ام جس کسمپرسی کی حالت میں تعلیم الاسلام کالج از سر نو شروع کیا گیا.اس کا ذکر کیا جا چکا ہے کھیلوں کے لئے مانگی ہوئی گراؤنڈز میں کبڈی، بیڈ منٹن ، والی بال ، فٹ بال اور دریائے راوی پر روٹنگ شروع کی گئی اور اس طرح تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ کھیلوں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا جو طلباء کے لئے مساوی اہمیت کا درجہ رکھتی ہیں اور ذہنی نشو نما کی غذا ہے.
154 کالج کے ابتدائی دنوں میں ہی کالج کی ٹیمیں مختلف اعزاز حاصل کرتی رہیں اور روئنگ میں کالج کی ٹیم پنجاب روئنگ ایسوسی ایشن (PUNJAB ROWING ASSOCIATION) کے سالانہ مقابلہ میں اول آئی.کالج کی دیگر متفرق سرگرمیاں صاحبزادہ صاحب کی حسن کارکردگی کی بدولت کالج اپنے مخصوص نامساعد حالات کے باوجود تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ دیگر متفرق سرگرمیوں میں بھی دوسرے کالجوں سے کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر جلد ہی چلنے کے قابل ہو گیا.ہر شعبہ میں ترقی ہونے لگی.۱۹۴۹ء ۱۹۵۰۴ء میں طلباء کی تعداد ساٹھ سے پونے تین سو تک ہو گئی.لائبریری میں اضافہ ہوا، کالج یونین ، مجالس عربی، اقتصادیات، سائنس سوسائٹی ، فوٹو گرافک اور ریڈیو سوسائٹی قائم ہو کر سرگرم عمل رہیں.یونیورسٹی آفیسرز ٹریننگ کور میں کالج کے دستہ نے سالانہ کیمپ ۱۹۴۸ء کے موقع پر ضبط اور اطاعت کا بہترین نمونہ دکھا کر اعلیٰ افسروں حتی کہ کمانڈر انچیف پاکستان سے سے خراج تحسین وصول کیا.۱۹۴۹ء کے سالانہ کیمپ کے موقع پر یونیورسٹی آفیسرز ٹرینگ کور کے ہر افسر نے کالج کے دستہ کی اعلیٰ کارکردگی پر اظہار مسرت کیا اور یہ دستہ عسکری فنون میں تمام دستوں سے اول رہا.مختلف گارڈز آف آنر میں اس کالج کے لڑکوں کی تعداد سب سے زیادہ رہی.ان دنوں شہنشاہ ایران کو جو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اس میں اس کالج کے طلباء کی تعداد اسی (۸۰) فیصد تھی.طلباء کی دینی اور اخلاقی تربیت کی طرف بھی خصوصی توجہ دی جاتی رہی.تقاریب تیم اسناد کے موقعہ پر بھی کالج کے لئے اہم شخصیتوں کا اہتمام کیا جاتا رہا.۱۹۵۰ء کے جلسہ تقسیم اسناد کے لئے حضرت مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی " بنفس نفیس تشریف لائے.۱۹۵۱ء میں ڈاکٹر قاضی محمد بشیر احمد صاحب (برادر اکبر قاضی محمد اسلم صاحب ایم اے کنٹ).۱۹۵۲ء میں آنریبل جسٹس ڈاکٹر ایس اے رحمان وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی، ۱۹۵۴ء میں حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب سابق وزیر خارجہ
155 پاکستان مهمان خصوصی تھے.کالج ربوہ شفٹ ہونے کے بعد بھی مختلف اطراف میں کالج دن بدن ترقی کرتا رہا اور سابق وزیر تعلیم : رہا اور سابق وزیر تعلیم پنجاب جناب عبدالحمید دستی، سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج لاہور جناب قاضی محمد اسلم صاحب ، چیف جسٹس مغربی پاکستان جناب ایم آر کیانی ، صوبائی سیکرٹری تعلیم پروفیسر سراج الدین صاحب، پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور جناب پروفیسر حمید احمد خان اور مولانا اصلاح الدین احمد وغیرہ تشریف لا کر جلسہ تقسیم اسناد کی صدارت فرماتے رہے.پنجاب بیڈ مٹن ایسوسی ایشن کی صدارت حضور کی خداداد صلاحیتوں کے باعث حضور پہلے پنجاب بیڈ منٹن ایسوسی ایشن کے وائس پریذیڈنٹ اور ۱۹۵۰ء میں پریذیڈنٹ مقرر ہوئے.مشہور جرنلسٹ سلطان ایف حسین صاحب کا بیان ہے کہ وہ اس ایسوسی ایشن کے سیکرٹری تھے اور انہیں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے ساتھ بطور سیکرٹری پنجاب سیڈ مٹن ایسوسی ایشن کام کرنے کا موقع ملا.وہ کہتے ہیں کہ صاحبزادہ صاحب بہت خوش اخلاق پڑھے لکھے ، قابل آکسفورڈ کے گریجویٹ ہونے کے باوجود طبیعت میں بہت سادگی تھی.بڑی قدر کرنے والے اور عزت دینے والے وجود تھے لیکن ان کا نورانی چہرہ ان کی شخصیت کا سب روشن پہلو (Most Striking feature of his Personality) تھا صائب الرائے شخصیت مکرم چوہدری محمد علی صاحب لکھتے ہیں:.حضور سالها سال تک ایم اسے سیاسیات اور غالبا اقتصادیات میں بھی امتحانات کے استاد ممتحن ، ممبر اکیڈیمک کونسل ممبر یونیورسٹی سینٹ، رکن مجلس انتظامیہ یونیورسٹی سپورٹس رہے.حضور کی قوت فیصلہ معاملہ فہمی تو ضرب المثل تھی اور جب اللہ تعالیٰ نے حضور کو منصب خلافت پر فائز فرمایا تو چشم دنیا نے حضور کی شخصیت کے اس پہلو
156 کو کھل کر ملاحظہ کیا.سینٹ اور یونیورسٹی کے دیگر اجلاسوں میں حضور کو انتہائی عزت اور احترام کا مقام حاصل تھا.سینٹ یونیورسٹی کی پارلیمنٹ سمجھی جاتی تھی.ایک اجلاس میں جس میں حضور شامل نہ تھے کوئی نامناسب فیصلہ کیا گیا تھا.اس اجلاس کی کارروائی اگلے اجلاس میں برائے تصدیق پڑھی جا رہی تھی.یہ قاعدہ کلیہ ہے کہ کارروائی یعنی (Minutes) میں درج فیصلوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا لیکن جب اس مقام پر پہنچے جہاں اس فیصلے کا ذکر تھا تو حضور نے تعجب سے فرمایا کہ یہ فیصلہ آپ نے کس طرح کر دیا.اس پر مسٹریو.کرامت وائس چانسلر صاحب نے فرمایا.مرزا صاحب پھر کیا کرنا چاہئے.اس پر حضور نے فرمایا.میں تو کہوں گا اسے کالعدم کر دیں.اس پر وائس چانسلر صاحب نے کہا کہ ایسا ہی ہو گا.ایوان میں سے کسی ایک نے بھی اعتراض نہ کیا کہ حسب قواعد یہ نہیں ہو سکتا اور اپنی خاموشی سے اس نئے فیصلے پر مہر تصدیق ثبت کر دی.ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے چوہدری محمد علی صاحب لکھتے ہیں.ایک مرتبہ سینٹ ہی میں پنجاب یونیورسٹی کے نئے کیمپس کا معاملہ پیش تھا.کروڑوں کا بجٹ تھا.سارے ایوان کا ماحول اس تجویز کے حق میں معلوم ہوتا تھا کہ یونیورسٹی کو نئے کیمپس میں شہر کے باہر لے جایا جائے.حضور نے فرمایا.میں اس کے خلاف ہوں.اگر یونیورسٹی کی نئی عمارت بنانی ہے تو اندون ملک شہروں کے خرخشوں سے پاک آکسفورڈ کیمبرج اور علی گڑھ کے نمونے پر کسی مناسب جگہ پر بنائی جائے بصورت دیگر اتنی رقم اینٹوں اور سیمنٹ پر خرچ کرنے کی بجائے انسانوں پر خرچ کی جائے یعنی طلباء اور اساتذہ کو معقول وظائف دیئے جائیں اور ان کی ملک میں اور بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کا انتظام کیا جائے یہاں تک کہ کالج
157 اور یونیورسٹی ذہین اور اعلیٰ تعلیم یافتہ طلباء اور اساتذہ سے بھر جائے.لائبریریوں میں کتب اور معیاری رسائل کا انتظام کیا جائے اور لائبریریوں کو جدید تقاضوں کے مطابق آراستہ کیا جائے.حضور کی اس تقریر کے بعد سارے ایوان کی رائے کچھ اس طرح بدلی کہ وائس انسلر صاحب کو حضور سے عرض کرنی پڑی.انہوں نے وقفے کے دوران حضور کے سامنے لفظا ہاتھ باندھ کر ادب سے عرض کیا کہ میاں صاحب خدا کے لئے تجویز کی مخالفت نہ فرمائیں یہ صدر صاحب کا حکم ہے.فیصلہ ہو چکا ہے.صرف قانونی طور پر سینٹ کی منظوری لی جا رہی ہے.حضور نے فرمایا کہ میری رائے تو وہی ہے جو پہلے تھی.اب حکومت کے فیصلے کے خلاف میں نہیں بولوں گا.۳۵۰ لاہور کے علمی اداروں میں آپ کی مقبولیت اپنی مقناطیسی شخصیت، حسن سلوک اور دیگر اعلیٰ اخلاق اور کالج کی بہترین کارکردگی کے نتیجہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے بہت جلد لاہور کے باقی کالجوں میں غیر معمولی مقبولیت حاصل کر لی.پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب جنہیں کالج کی ابتداء سے آخر تک حضور کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا لکھتے ہیں.لاہور کے کالجوں کا عام طالب علم جانتا تھا کہ پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کس بلند مرتبہ اور کردار کے انسان ہیں.دوسرے کالجوں کے پر نسپلوں کی موجودگی میں شوخی کرنے والے حضور کے سامنے ادب سے گفتگو کیا کرتے تھے.حضور خود بھی تمام طلباء کو بلا تخصیص کالج اپنا عزیز طالب علم جانتے تھے اور ان کے جائز حقوق کی حفاظت کے لئے کوشاں رہتے تھے.یونیورسٹی گراؤنڈ (اولڈ کیمپس) میں سالانہ کھیل ہو رہے تھے.حضور ایک کھیل کے نگران اور منصف تھے.جس جگہ اس کھیل کے مقابلے
158 منعقد ہوئے تھے.وہیں گراؤنڈ میں بہت سے طلباء بیٹھے ہوئے تھے.حضور نے ایک اور کالج کے پرنسپل صاحب سے جنہوں نے مارشل کا بلا لگایا ہوا تھا اور جن کی ڈیوٹی میں یہ بات شامل تھی کہ طلباء اور تماشائیوں کو گراؤنڈ کے اندر نہ آنے دیں.فرمایا کہ مہربانی فرما کر ان طلباء کو یہاں سے جانے کے لئے کہیں تاکہ پروگرام کے مطابق میں کھیل شروع کرا سکوں.انہوں نے جواب دیا ”میاں صاحب آپ کیا کہہ رہے ہیں.آپ کو علم ہے کہ یہ کس کالج کے طلباء ہیں.میں نے انہیں کہہ کر اپنی بے عزتی کروانی ہے ؟" حضور نے فرمایا یہ بات ہے تو میں خود انہیں اٹھا دیتا ہوں اور یہ میری بے عزتی نہیں کریں گے اس پر حضور ان نوجوانوں کے پاس تشریف لے گئے اور ان کے درمیان جاکر بیٹھ گئے.پہلے ان سے چند باتیں کیں اور پھر فرمایا کہ جس جگہ بیٹھے ہوئے ہیں یہاں مقابلے منعقد ہونے ہیں.کیا یہ مناسب نہ ہو ہو گا کہ جگہ خالی کر دی جائے.اس پر وہ طلباء چھلانگیں لگاتے ہوئے جنگلے کے عقب میں چلے گئے اور جگہ خالی کر دی.آپ کی صاحبزادی امتہ الشکور بیگم صاحبہ لکھتی ہیں:.”جب تعلیم الاسلام کالج لاہور میں تھا.وہاں جب کالجوں کی کشتیوں کی دوڑ کے مقابلے شروع ہوئے تو ابا ہم بچوں کو بھی ساتھ لے گئے.اس دن کا نظارہ آج تک آنکھوں میں بسا ہوا ہے.جب ہم راوی کے کنارے پہنچے تو ساری فضا ان نعروں سے گونج اٹھی ”میاں صاحب زندہ باد تعلیم الاسلام کالج زندہ باد.یہ نعرے صرف اپنے لڑکے ہی نہیں لگا تھے.باقی کالجوں کے لڑکے بھی ان میں شامل تھے.اس وقت رہے بچپن میں ہی میرے پر یہ بات گہرا اثر چھوڑ گئی.سوائے چند دشمنی رکھنے والوں کے سب طالب علم خواہ وہ کسی کالج سے تعلق رکھتے ہوں ابا کی بے حد عزت اور پیار کرتے تھے.ابا ان سے اور وہ ابا سے بڑی بے Yee
159 تکلفی سے باتیں کیا کرتے.بڑی عاجزی سے بے تکلف وہیں گھاس پر لڑکوں کے ساتھ چوکڑی مار کر بیٹھ جاتے اور دوستانہ لہجے میں مسکراتے.ہوئے باتیں کرتے رہتے جس سے سب متاثر ہو جاتے.لڑائی جھگڑے منٹوں میں ختم کر دیتے.مجھے یقین ہے کہ آج بھی اس دور کے لڑکے ابا کو اس طرح یاد کرتے ہوں گے.۳۷ ریم آپ کی غیر معمولی مقبولیت کا یہ واقعہ چوہدری محمد علی صاحب بیان کرتے ہیں:.” ۱۹۵۳ء کے ہنگاموں میں حضور کی رہائش رتن باغ میں تھی.ان دنوں طلباء رضا کارانہ طور پر حضور کی کوٹھی پر پہرہ دیا کرتے تھے.ان میں غیر از جماعت طلباء بھی احمدی طلباء کی طرح یہ ڈیوٹی خوشی سے ادا کرتے بلکہ غیر از جماعت کارکنان میں سے بھی پہرہ دیا کرتے.ان میں سے امیر دین صاحب کا نام اب تک یاد ہے جو بابا شادی کارکن کالج کے چچا زاد بھائی تھے.ایک عجیب قسم کی محبت اور باہمی اعتماد کی فضا تھی.جب مصلح موعود پر ربوہ میں قاتلانہ حملہ ہوا تو خبر ملنے پر احمدی طلباء کے ساتھ ساتھ غیر احمدی طلباء پر بھی سخت کرب اور اندوہ کی حالت طاری ہوئی اور وہ بھی ہماری طرح روتے ہوئے رتن باغ پہنچے اور جب ۱۹۵۳ء کے ہنگاموں میں حضور جیل سے رہا ہوئے تو ہماری طرح غیر از جماعت طلباء بھی فرط مسرت سے بے تابانہ دوڑتے ہوئے رتن باغ پہنچ گئے تھے.پنجاب یونیورسٹی کے سینٹ ہال کا وہ واقعہ تو خاصا معروف ہے.اندر اجلاس ہو رہا تھا.باہر طلباء نعرے لگا رہے تھے.یونیورسٹی کے اکابرین اور میٹنگ کے دیگر ارکان بار بار باہر آکر طلباء کو تسلی دیتے اور خاموش رہنے کی تلقین کرتے.طلباء جواباً آوازے کستے اور واپس جانے کے لئے کہتے.انجام کار حضور خود باہر تشریف لائے.حضور نے طلباء کو اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ اگر آپ کو مجھ پر اعتماد ہے تو خاموشی سے انتظار کیجئے اور اگر اعتماد نہیں تو کم از کم میرے یہاں
160 بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں ، میں واپس اپنے کالج چلا جاتا ہوں.طلباء نے بیک زبان نعرہ لگایا کہ ہمیں آپ پر اعتماد ہے اور خاموش ہو گئے.چنانچہ حضور واپس میٹنگ میں تشریف لے گئے اور محبت اور انصاف دونوں کے تقاضے پورے کرنے والا فیصلہ فرمایا جسے فریقین نے خندہ پیشانی سے قبول کیا.۳۸ ایک اور واقعہ پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب یوں بیان کرتے ہیں:.”لاہور کے کالجوں کا عالم طالب جانتا تھا کہ پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کس بلند مرتبے اور کردار کے انسان ہیں.دوسرے کالجوں کے پر نسپلوں کی موجودگی میں شوخی کرنے والے حضور کے سامنے ادب سے گفتگو کیا کرتے تھے.حضور خود بھی تمام طلباء کو بلا تخصیص کالج اپنا عزیز طالب علم جانتے تھے اور ان کے جائز حقوق کی حفاظت کے لئے کوشاں رہتے تھے.اکثر فرمایا کرتے کہ ہمارا طالب علم طبعاً شریف ہوتا ہے خرابی اس کی ہینڈ لنگ Handling میں ہوتی ہے.الا ماشاء اللہ.ایک مرتبہ لاہور کے کالجوں نے سٹرائیک کی تو تعلیم الاسلام کالج کا گھیراؤ کر لیا کہ اسے بھی بند کیا جائے.حضور نے فرمایا کہ قطع نظر اس کے کہ سٹرائیک کو ناجائز فعل سمجھتے ہیں اگر آپ اپنے دل سے پوچھ کر دیانت داری سے بتائیں کہ اس طرح سٹرائیک کرنے سے کشمیر مل جائے گا تو میں وعدہ کرتا ہوں کہ تعلیم الاسلام کالج ایک دن تو کیا اگر بالکل بھی بند کرنا پڑے تو بند کر دوں گا اور چند منٹ اپنے دلاویز تبسم کے ساتھ ان سے گفتگو فرمائی.لڑکے قائل ہوئے اور پرنسپل تعلیم الاسلام کالج زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے چلے گئے."" اسی طرح ایک واقعہ پروفیسر صوفی بشارت الرحمان صاحب بیان کرتے ہیں:.لاہور کے کالج ہی کے زمانہ کا واقعہ ہے کہ دریائے راوی میں تعلیم الاسلام کالج اور غالبا اسلامیہ کالج لاہور کا مینگ بوٹ ریس
161 (Bumping boat race) کا فیصلہ کن مقابلہ تھا اور جیتنے والی ٹیم نے اس سال کی چمپین شپ حاصل کرنی تھی.دریا پر اسلامیہ کالج کے طلباء بھی نعرے بلند کر رہے تھے.ہمارے طلبہ بھی اپنی ٹیم کو حبذا کہنے کے لئے جمع تھے مگر فضا میں کدورت Tension تھی.پرنسپل صاحب اسلامیہ کالج نے مائک پر اعلان کیا کہ اگر اسلامیہ کالج کی ٹیم نے ٹی آئی کالج کی ٹیم کو عپ کر دیا تو وہ اپنی ٹیم کو سو روپے انعام دیں گے.اس پر پرنسپل صاحب تعلیم الاسلام کالج یعنی حضور رحمہ اللہ تعالی نے فورا مائک پر اعلان کروایا کہ اگر اسلامیہ کالج کی ٹیم نے تعلیم الاسلام کالج کی کشتی کو چپ کر دیا تو پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کی طرف سے بھی سو روپے اسلامیہ کالج کی ٹیم کو انعام دیا جائے گا.اس پر اسلامیہ کالج کی طرف سے پر زور نعرہ بلند ہوا کہ پرنسپل ٹی آئی کالج زندہ باد.جذبات کی کدورت Tension دور ہو گئی اور اخوت اور بھائی چارہ کے ماحول میں کشتی رانی کا فائنل مقابلہ ہوا.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے اس اعلان نے اپنے کالج کی ٹیم پر بھی عجیب نفسیاتی جادو کر دیا.ہماری ٹیم کو زبر دست احساس ہوا کہ ہمارے پرنسپل صاحب کو ہماری فتح پر کس قدر یقین ہے.اس احساس نے ان کے اندر بجلی جیسی قوت اور جوش پیدا کر دیا اور جب مقابلہ ہوا تو چمپین شپ ٹی آئی کالج کے حصہ میں آئی.دیکھئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی حسن تدبیر کو.ایک ہی تدبیر کے وار سے دو فوائد حاصل کر لئے.دونوں کی باہمی کدورت Tension کو بھی دور کر دیا.دوسری طرف اپنی ٹیم کے اراکین میں مجنونانہ جوش ۲۲ عمل پیدا کر دیا.آپ کی وجاہت اور رعب کا یہ عالم تھا کہ اہل پیغام بھی آپ کے احترام میں اٹھ کھڑے ہوتے تھے.چنانچہ مکرم پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب لاہور کے زمانے کا ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں.
162 کالج ڈی اے وی کالج کی عمارت میں منتقل ہو چکا تھا.سڑک کے پار بائیں ہاتھ اسلامیہ ہائی سکول نمبر ۲ کی عمارت تھی جس میں اہل پیغام نے اپنا سکول جاری کیا تھا.صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ان دنوں اس سکول میں پڑھا کرتے تھے.ایک مرتبہ سکول نے کسی تقریب پر حضور کو بھی دعوت دی.غالبا یوم والدین یا اس قسم کا کوئی سالانہ اجلاس تھا.حضور کالج سے نکل کر وہاں تشریف لے گئے.عاجز حضور کے ہمراہ تھا.صدر دروازے میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر ایک پنڈال تھا.حضور سکول میں داخل ہوئے تو تمام حاضرین جن کی تعداد کئی سو تھی احتراماً کھڑے ہو گئے اور حضور سے بڑھ کر طے اور مصافحہ سے مشرف ہوئے سوائے ایک صاحب کے جو بدستور اپنی کرسی پر بیٹھے رہے.میں نے عرض کی کہ یہ کون صاحب ہیں.مسکرا کر فرمایا آپ نہیں جانتے یہ جناب عبد الرحمان مصری ہیں.طالب علموں کا اکرام Slee آپ بانی اسلام حضرت محمد رسول اللہ صل وسلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اور طالب علموں میں عزت نفس پیدا کرنے کے لئے ان کا اکرام فرماتے تھے.چوہدری محمد علی صاحب بیان کرتے ہیں.دو.طلباء سے تعلق بے حد محبت اور تکریم کا ہوا کرتا.داخلے کے وقت جب انٹرویو فرماتے تو کھڑے ہو کر ہر طالب علم سے ملتے اور کھڑے ہو کر مصافحہ کے بعد اسے رخصت فرماتے.اس طرح حضور کو بار بار اٹھنا بیٹھنا پڑتا.ایک مرتبہ عاجز نے عرض کیا کہ اگر اس طرح نہ ہو تو کیا حرج ہے.فرمایا آخرِ مُوا أَوْلادَكُمْ.طالب علم سے داخلے کے وقت ایک بار ملنے کے بعد اس کا نام اور کوائف ذہن میں محفوظ ہو جاتے.اللہ تعالیٰ نے حافظہ ہی اس قسم کا عطاء فرمایا تھا.داخلوں کے
163 بعد دور سے کوئی طالب علم آ رہا ہو تا تو رک جاتے اور پوچھتے.بتاؤ کون آ رہا ہے.میں عرض کرتا کہ خاکسار کی نظر کمزور ہے تو فرماتے.اچھا قریب آجانے دو.پھر قریب آنے پر مجھے خفت سے بچانے کے لئے اس طالب علم کو اس کے نام سے بلاتے وہ اس قرب پر باغ باغ ہو جاتا.۲ صحت مند طالب علموں کے ساتھ آپ کلائی بھی پکڑتے تھے اور بعض دفعہ کالج میں داخلے کے وقت جو صحت مند طالب علم ہو تا اسے کلائی پکڑنے کا کہتے اور آپ کی پکڑی ہوئی کلائی کوئی چھڑا نہیں سکتا تھا.طلباء کے کھیلوں میں پورا وقت دے کر ان کی عزت افزائی فرماتے.چنانچہ چوہدری محمد علی صاحب لکھتے ہیں." طلباء کے اجتماعات میں خواہ وہ کھیل ہوں یا مباحثے ، پنک ہو یا کوئی اور تقریب ، دلی نشاط سے شامل ہوتے اور خط اٹھاتے.کشتی رانی کے میچوں میں تقریباً آدھ میل تک کشتی کے ساتھ ساتھ دوڑتے اور حوصلہ افزائی فرماتے.دوسرے کالجوں کے طلباء ہم سے کہا کرتے تھے کہ کاش ہمارے پرنسپل بھی کھیلوں میں اتنی دلچسپی لیں.ہوسٹل فنکشن میں حضور کی کار ولزلے پر مزاحیہ نظمیں پڑھی جاتیں.بہت لطف اندوز ہوتے.ایک مرتبہ عاجز نے ایسی نظموں اور لطیفوں پر پابندی لگا دی.حضور کو علم ہوا تو ارشاد فرمایا کہ اگر یہ پابندی نہ اٹھائی گئی تو ہم فنکشن میں شامل نہیں ہوں گے.چنانچہ پابندی اٹھائی گئی." ہی آپ کی صاحبزادی امتہ الحلیم صاحبہ بیگم صاحبزادہ مرزا مجیب احمد صاحب لکھتی ہیں.کالج کے زمانہ میں ہزاروں قسم کے لوگ آتے.بچوں کے داخلہ کے لئے.ان میں سے بعض اکثر ایسے ہوتے جو بالکل جاہل اور گنوار قسم کے ہوتے باوجود یکہ وہ ایک کھاتے پیتے گھرانے کے لوگ تھے لیکن بظاہر ہر تعلیم سے ناواقف نہ پہنے کا ہوش.نہ بات چیت کا طریق.لیکن ابا ان سے بہت پیار سے ملتے.انہیں عزت اور احترام دیتے.اپنے گھر بھی لاتے.ان کے لئے کھانا تیار کرواتے اور خود ان کے ساتھ
164 بیٹھ کر کھانا کھاتے اور پیار سے خوش دلی سے میزبانی کے فرائض ادا کرتے.۴۴۲ کالج کے طلباء کی غیر نصابی سرگرمیوں میں جماعتی وقار کا ملحوظ رکھنا آپ کے شاگرد محترم را نا محمد خان صاحب امیر ضلع بہاول نگر تحریر کرتے ہیں:.قادیان سے ہجرت کے بعد کالج جب لاہور منتقل ہوا تو حضور کی بڑی خواہش تھی کہ اپنے کالج کو لاہور میں جلد از جلد متعارف کروانے کے لئے کالجوں اور یونیورسٹی میں ہونے والی کھیلوں، مباحثوں اور دیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لیا جاوے لیکن ساتھ ہی یہ ہدایت تھی کہ ان سرگرمیوں میں حصہ لیتے وقت ایسی کوئی حرکت سرزد نہ ہو جس سے جماعتی وقار مجروح ہو یا اسلامی آداب اور تعلیم کی خلاف ورزی ہو.ایک دفعہ دیال سنگھ کالج میں منعقد ہونے والے بین الکلیاتی مباحثہ میں حصہ لینے کے لئے خاکسار کو بھجوایا گیا.خاکسار اپنے کالج کے دستور " کے مطابق شیروانی اور ٹوپی پہن کر گیا.مباحثہ کا عنوان تھا کہ عورتیں مردوں سے بہتر حکمران ثابت ہو سکتی ہیں" خاکسار نے اس قرارداد کے خلاف تقریر کرنی تھی.تقریریں ہوئیں.جیسا کہ ان دنوں کالجوں کے مباحثوں میں ہوتا تھا.مقرروں کو بڑا ہوٹ کیا گیا.خاکسار بفضلہ تعالیٰ مباحثہ میں دوم قرار دیا گیا.انعامات محترمہ.پرنسپل صاحبہ کنیئرڈ کالج نے تقسیم کرنے تھے.انعام لیتے وقت خاکسار نے موصوفہ سے ہاتھ ملانے کی بجائے ہاتھ بلند کر کے سلام کیا.اگلے روز جب کالج پہنچے تو ہماری یونین کے انچارج پروفیسر جو دیال سنگھ کالج سے آئے تھے اور انگریزی کے لیکچرار تھے نے بڑی خفگی کا اظہار کیا کہ ڈاکٹر صاحبہ سے میں نے ہاتھ کیوں نہیں ملایا ؟ اور دوسرے میں ٹوپی
165 پہن کر کیوں گیا؟ فرمانے لگے.تم جو ٹوپی پہن کر جاتے ہو خواہ مخواہ کارٹون بن جاتے ہو....پروفیسر صاحب چونکہ احمدی نہ تھے انہیں اس بارہ میں ہمارے کالج کی روایات کا علم نہ تھا..حضور کو جب اس بارہ میں علم ہوا تو حضور نے فرمایا کہ ہم نے عام رو کے ساتھ نہیں بہنا بلکہ اسلامی آداب اور شعار پر قائم رہ کر اپنے کالج کو متعارف کروانا ہے محض انعام وغیرہ حاصل کرنا کوئی مقصد نہیں.میرے انعام جیتنے اور اپنے کالج کی اسلامی روایات پر کاربند رہنے پر حضور نے بڑی حوصلہ افزائی فرمائی.۴۵۰ " آپ کے دور میں کالج اور اس کے طلباء کی شہرت آپ نے اپنے دور میں تعلیم الاسلام کالج میں جس قسم کے طالب علم پیدا کئے اس کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے جو چوہدری محمد علی صاحب نے یوں بیان فرمایا ہے." ۱۹۵۳ء کے فسادات کے بعد کی بات ہے.ابھی مارشل لاء ذرا نرم شکل میں نافذ تھا.وائی.ایم.سی.اے میں بوٹنگ ایسوسی ایشن کی انتظامیہ کا اجلاس ہوا.مکرم پروفیسر اشفاق علی خان صدر تھے.آرمی کی طرف سے خود جنرل محمد اعظم صاحب شامل ہوئے.عاجز بھی رکن تھا.زیر بحث معاملہ یہ تھا کہ ریلوے کی خواتین کی کشتی رانی کی ایک کلب کی طرف سے جو ایسوسی ایشن سے ملحق تھی یہ شکایت کی گئی تھی کہ کالجوں کے طلباء انہیں تنگ کرتے ہیں.سب سے زیادہ تعداد میں ہمارے ہی کالج کے طلباء وہاں جاتے تھے کیونکہ ہمارے پاس کھیل کا کوئی اور میدان نہیں تھا.جب کوائف سامنے آئے تو پتہ چلا کہ طلباء بہت بیہودگیاں کرتے ہیں.اس پر جنرل صاحب بہت خفا ہوئے اور کہا کہ اگر ایسی غنڈہ گردی جاری رہی تو آرمی اپنا الحاق واپس لے لے گی.اس پر ایک بہت سخت قسم کا ریزولیوشن پاس ہوا اور تمام کالجوں کے پرنسپلوں
166 کو تنبیہ کی گئی کہ اب اگر کوئی ایسا واقعہ ہوا تو وہ ذاتی طور پر ذمہ دار مجھے جائیں گے اور سخت کارروائی کی جائے گی.جب ریزولیوشن پاس ہو گیا تو خواتین کی کلب کی نمائندہ نے کھڑے ہو کر کہا کہ یہ ریزولیوشن درست نہیں.سب نے یہی سمجھا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ کافی نہیں لیکن انہوں نے کہا کہ اس میں ترمیم ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس ریزولیوشن میں سے پرنسپل تعلیم الاسلام کالج کا نام نکال دیا جائے کیونکہ ہمیں اس کالج کے طلباء سے کوئی شکایت نہیں.چنانچہ اس کے مطابق ترمیم کی گئی اور اس ترمیم کے متعلق بعض اراکین نے حضور کی تعریف میں بھی کلمات کہے کہ وہ خود دریا پر تشریف لے جاتے ہیں.۴۶۴ خدا تعالیٰ کی غیرت کا ایک واقعہ خلافت کے زمانہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے کالج کا ذکر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی غیرت کا ایک واقعہ بیان فرمایا جو درج ذیل ہے:." خدا تعالیٰ اس جماعت کے جو چھوٹے چھوٹے شعبے ہیں ان کے لئے بڑی غیرت دکھاتا ہے.ابھی میرے دوبارہ سفریورپ پر جانے سے پہلے اس خاندان کا ایک آدمی آیا جس کے بارہ میں میں بتایا کرتا ہوں کہ ان کا بڑا ہوشیار لڑکا تھا.TOP کے نمبر لئے میٹرک میں.ہمارا کالج لاہور میں تھا.اس کے والد کو میں ذاتی طور پر جانتا تھا.وہ لڑکا ہمارے کالج میں داخل ہو گیا.میں نے بڑے پیار سے اسے داخل کیا.وہ میرے دوست کا بچہ تھا جو سیالکوٹ کے ایک گاؤں کے رہنے والے اور زمیندار تھے.اس کے چند رشتہ دار غیر مبائع تھے انہوں نے لڑکے کے باپ کا دماغ خراب کیا.اس سے کہنے لگے اتنا ہوشیار بچہ Superior Services کے Competition میں یہ پاس ہونے والا نہیں.تم نے یہ کیا ظلم کیا اپنے بچے کو جا کر احمدیوں کے کالج میں
167 داخل کروا دیا.جس وقت یہ انٹرویو میں جائے گا.لوگوں کو یہ پتہ لگے گا یہ ٹی آئی کالج میں رہا ہے.اس کو لیں گے نہیں اور یہ دینوی طور پر ترقی نہیں کر سکے گا.چنانچہ وہ میرے پاس آگیا.میں خالی پرنسپل نہیں تھا اس کا دوست بھی تھا.میرے دل میں اس کے بچے کے لئے بڑا پیار تھا.میں نے اس کو پندرہ بیس منٹ تک سمجھایا کہ اپنی جان پر ظلم نہ کرو خدا تعالی بڑی غیرت رکھتا ہے جماعت احمدیہ اور اس کے اداروں کے لئے.تمہیں سزا مل جائے گی.خیر وہ سمجھ گیا اور چلا گیا.پھر انہوں نے بھڑ کایا پھر میرے پاس آگیا.پھر میں نے سمجھایا پھر چلا گیا.پھر تیسری دفعہ جب آیا تو میں نے سمجھا اس کے باپ کو ٹھوکر نہ لگ جائے.میں نے کہا ٹھیک ہے میں دستخط کر دیتا ہوں مگر تمہیں یہ بتا دیتا ہوں کہ یہ لڑکا جس کے متعلق تم یہ خواب دیکھ رہے ہو کہ وہ سپیرئر سروسز کے امتحان میں پاس ہو کر ڈی سی بنے گا.یہ ایف اے بھی نہیں پاس کر سکے گا.وکرڈ اس نے مائیگریشن فارم پر کیا ہوا تھا اتنے اچھے نمبر تھے کہ ٹی آئی کالج سے گورنمنٹ کالج اسے بڑی خوشی سے لے لیتا چنانچہ میں نے اس کے فارم پر دستخط کئے اور وہ اسے لے کر چلے گئے.پھر مجھے شرم کے مارے ملا بھی نہیں.کوئی چار پانچ سال کے بعد مجھے ایک خط آیا جو شروع یہاں سے ہوتا تھا کہ میں آپ کو اپنا تعارف کرا دوں میں وہ لڑکا ہوں جس کے مائیگریشن فارم پر آپ نے دستخط کئے تو مجھے اور میرے باپ سے کہا تھا کہ میں ایف اے بھی نہیں پاس کر سکوں گا.اور چار پانچ سال کا زمانہ و گیا ہے اور میں واقعی ایف اے پاس نہیں کرسکا پھر وہ تجارت میں لگ گیا.اب پھر مجھے ایک خط آیا جو اسی سفر میں ملا کہ میں اس کا بیٹا ہوں جس کو آپ نے یہ کہا تھا کہ تو ایف اے پاس نہیں کر سکے گا.پس خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کے ایک کالج اور اس کے ایک پرنسپل کے لئے اتنی غیرت دکھاتا ہے تو خلیفہ وقت کے لئے کتنی غیرت دکھائے گا.“ کے ہیں.
168 ۱۹۵۳ء میں قید و بند کے مصائب اور آپ کے ثبات قدم کا اعلیٰ نمونہ ۱۹۵۳ء کے ہنگاموں میں آپ کو اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو ظالمانہ طور پر قید کر لیا گیا.اس وقت آپ تعلیم الاسلام کالج لاہور میں پرنسپل تھے اور رتن باغ لاہور میں آپ کی رہائش تھی.یہ المناک حادثہ یکم اپریل کو پیش آیا جس سے دنیا بھر کے احمدی تڑپ کر رہ گئے.اس موقعہ پر حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے یہ دردناک اشعار کہے.چلاؤ کوئی جا کے مزار مسیح نصرت جہاں کی گود کے پالوں کو لے گئے تمہارے باغ میں داخل آقا ہوئے عدد گلزار احمدی کے نہالوں کو ے گئے روبه صفات دشمن بد ہیں و زور قیدی گئے بنا کے شیر مثالوں کو فکر لے جائے گرفت ہاتھ نہ آئی تو رحم سرشت لگا کے کے نیک خصالوں کو لے گئے فوجی عدالت سے آپ کو پانچ سال قید بامشقت اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو ایک سال قید بامشقت اور پانچ ہزار روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی لیکن خلیفہ وقت اور ساری جماعت کی مضطرب دعاؤں کی بدولت تقریباً دو ماہ کی قید و بند کے بعد ۲۸ مئی ۱۹۵۳ء کو دونوں اسیران راہ مولی کو رہا کر دیا گیا.صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب ابن حضرت مرزا شریف احمد صاحبه حضرت ابا جان اور بھائی کی رہائی پر حضرت اقدس کا الہام رہا گوسفندان عالی جناب پورا ہوا 23 ۴۸
169 قید و بند کی حقیقت اس قید وبند کی حقیقت معلوم کرنے کے لئے ایک اخبار کی یہ خبر پڑھنی ضروری ہے.پچھلے دنوں اخبارات میں ایک اطلاع شائع ہوئی تھی کہ احمدی جماعت کے لاہور کے ہیڈ کوارٹر کی مارشل لاء کے حکام نے تلاشی لی اور وہاں سے اسلحہ سازی کا کارخانہ اور تیار شدہ اسلحہ ملا.جس کے جرم میں احمدی جماعت کے پیشوا کے صاحبزادے اور بھائی کو مارشل لاء کے ماتحت پانچ اور ایک برس اور پانچ پانچ ہزار روپیہ جرمانہ کی سزائیں ہوئیں.اس سلسلہ میں لاہور کے ایک دوست نے اصل حالات بھیجے ہیں جو یہ ہیں."احمدی جماعت کے موجودہ پیشوا کے بڑے لڑکے مرزا ناصر احمد صاحب آکسفورڈ یونیورسٹی کے ایم اے ہیں اور آپ لاہور کے ٹی آئی کالج کے پرنسپل تھے اور آپ کی شادی موجودہ نواب مالیر کوٹلہ کے چچا کی صاحبزادی سے ہوئی اور جب شادی ہوئی تو آپ کے خسر نے آپ کو زیورات اور تحائف کے ساتھ ایک خنجر بھی دیا جس کا دستہ سنہری تھا اور جو مالیر کوٹلہ کے شاہی خاندان کی نادر اشیاء میں سے تھا.قانون کے مطابق ہندوستان کے ہر والئے ریاست اور اس کے خاندان کے لوگ اسلحہ ایکٹ سے مستثنیٰ ہیں مگر لاہور کے مارشل لاء کی ستم ظریفی ملاحظہ کیجئے کہ جب تلاشی ہوئی تو یہ خنجر (جس کی پوزیشن ایکٹ اسلحہ کے مطابق بھی آلو، ساگ یا گوشت کاٹنے والی ایک چھری سے زیادہ نہ ہونی چاہتے تھے) بیگم مرزا ناصر احمد کے زیورات میں پڑا تھا جس کو فوجی حکام نے حاصل کر کے مرزا ناصر احمدہ پر فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا اور آپ کو پانچ سال قید سخت اور پانچ ہزار روپیہ جرمانے کی سزا دی اور آکسفورڈ یونیورسٹی کا گریجویٹ اور لاکھوں احمدیوں کے امام کا بیٹا لاہور کے سنٹرل جیل میں بطور قیدی کے اب بان بٹ رہا ہے."
170 یہ کیفیت تو مرزا ناصر احمد اور آپ کے مقدمہ اور سزا کے متعلق ہے.اب دوسرا واقعہ سنئے.مرزا شریف احمد احمدی جماعت کے بانی اور مرزا غلام احمد کے صاحبزادے اور احمدی جماعت کے موجودہ پیشوا کے حقیقی بھائی ہیں.یہ بزرگ جن کی عمر باسٹھ برس کی ہے لاہور میں بندوق سازی کے ایک کارخانہ کے مالک ہیں اور یہ کارخانہ پاکستان گورنمنٹ سے لائسنس حاصل کر کے جاری کیا گیا.چنانچہ اس فرم کو ایک فوجی افسر نے نمونہ کے طور پر ایک کرچ دی کیونکہ پاکستان گورنمنٹ اس نمونہ کی کرچیں تیار کرانا چاہتی تھی اور اس کرچ کے متعلق جو خط و کتابت محکمہ فوج سے ہوئی وہ مرزا شریف احمد کے پاس موجود ہے جسے عدالت میں داخل کیا گیا مگر مرزا شریف احمد کو اس کرچ کے ناجائز رکھنے کے جرم میں ایک سال قید اور پانچ ہزار جرمانہ کی سزا دی گئی.مارشل لاء کی فوجی عدالت نے ایسے مقدمات میں پانچ پانچ ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا دینا تو خیر قابل در گزر ہے کیونکہ پاکستان اقتصادی بدحالی میں مبتلا ہے اور اس طریقہ سے روپیہ حاصل کر کے یہ ملک اپنے فوجی اخراجات کسی نہ کسی حد تک پورے کر سکتا ہے مگر سوال یہ ہے کہ اوپر کے دو مقدمات کو اگر کسی انصاف پسند عدالت یا غیر جانبدار ملک کے سامنے پیش کیا جائے تو پاکستان گورنمنٹ کی کیا پوزیشن ہو اور کیا دنیا کا کوئی معقولیت پسند شخص اس شرمناک دور استبداد کو برداشت کر سکتا ہے اور کیا اس کا مطلب یہ نہیں کہ مذہبی پاگل پن میں پاکستان کے عوام کے علاوہ وہاں کے حکام بھی مبتلا ہیں جو چھری رکھنے کے جرم میں اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کو پانچ پانچ برس قید سخت کی سزا دے رہے ہیں.اوپر کی سزاؤں کے متعلق ہم نے غور کیا ہے اور غور کرنے کے بعد ہماری رائے ہے کہ یہ سزائیں احمدی جماعت کی بنیادوں کو زیادہ مضبوط
171 کرنے کا باعث ہوں گی اور احمدیوں کو خدا کا شکر گزار ہونا چاہئے کہ ان بے گناہوں کو قربانی کا موقعہ نصیب ہوا اور ایسی قربانیاں یقیناً احمدیت میں ایک دوامی زندگی پیدا کرنے کا باعث ہو سکتی ہیں.سکتی ہیں.۴۹۰ مسکراتے ہوئے گرفتاری پیش کرنا آپ کی صاحبزادی امتہ الشکور بیان کرتی ہیں.جب ۱۹۵۳ء کے فساد ہوئے تو ایک دن صبح ہی صبح فوج رتن باغ لاہور (جہاں ہمارا قیام تھا) پہنچ گئی.فجر کی نماز کا وقت ہو رہا تھا.فرمانے لگے.ان سے کہو انتظار کریں.میں نماز پڑھ کر آیا.امی ان دنوں بیمار تھیں اور ہسپتال داخل تھیں.فوج کے آنے کی خبر بالکل پر سکون انداز میں اس طرح سنی جیسے پہلے ہی جانتے تھے.خیر فوج نے تلاشی وغیرہ لی صرف ایک چھوٹا سا پرانا تاریخی خنجر اسے ملا جو کہ امی کو جہیز میں ملا تھا اور حجتہ اللہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب مرحوم کے آباؤ اجداد کے وقت کا چلا آ رہا تھا.اس پر ابا کو لے گئے.بہت کڑا وقت تھا.ابا نے کہا.میں کپڑے بدل لوں تو چلتا ہوں.فوج والا کمرے کے دروازہ پر کھڑا رہا.میں حلمی.(میری بہن امتہ الحلیم) اور میرے بھائی انس اور چھوٹا بھائی فرید ہم ایک لائن میں کھڑے تھے.آنکھوں سے آنسو دل کی عجیب حالت.ہمارے پاس آئے سب کو ملے پھر میرے چہرے پر تھپکی دے کر بولے."مسکراؤ مسکراؤ " وہ پہلا سبق تھا جو مشکل وقت میں مسکرانے کا ابا نے دیا.آپ بھی مسکرا رہے تھے ہمیں بھی مسکرانے کا کہہ رہے تھے.۵۰ تلاشی کے دوران ایک معجزہ ۱۹۷۹ء ۱۹۸۰۴ء کے زمانے کی بات ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے
172 اسلام آباد میں مغرب و عشاء کی نمازوں کے بعد مجلس عرفان میں اپنی گرفتاری کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ اس وقت آپ لاہور میں تھے صاحبزادہ مرزا لقمان احمد پیدا ہونے والے تھے اور آپ اپنی بیگم سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کو ہسپتال داخل کروا کر آئے.تجد کی نماز پڑھ کر تکیے پر سر رکھا ہی تھا کہ الہاما بتایا گیا کہ گرفتاری ہونے والی ہے اور اس سے چند ہی لمحوں کے بعد ملٹری آگئی اور اس نے تلاشی لینا چاہی.آپ نے فرمایا کہ جب وہ آپ کی شیروانی کی جیبوں میں ہاتھ ڈالنے لگے جو الماری میں کھونٹی کے ساتھ لٹک رہی تھی تو اس کی ایک جیب میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب میں اللہ کا ایک خط تھا جس میں اگرچہ کوئی ایسی بات نہیں تھی جس سے کوئی خطرہ لاحق ہو تا لیکن آپ پسند نہیں کرتے تھے کہ وہ خط تلاشی لینے والا افسر پڑھے.جب تلاشی لینے والے افسر نے ایک جیب کی تلاشی لی اور اپنا ہاتھ دوسری جیب میں ڈالنا چاہا جس کے اندر خط تھا تو شیروانی جیسے گھوم گئی اور اس کا ہاتھ پھر پہلی جیب میں چلا گیا اور اس طرح دو تین مرتبہ ہوا اور اللہ تعالیٰ کی حکمت سے وہ خط ان کے ہاتھ نہ لگا.گرفتاری کی قبل از وقت اطلاع آپ کے صاحبزادے مرزا انس احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ جو فوجی افسر آپ کو پکڑنے آئے ان کو آپ نے فرمایا ” مجھے تو آپ کے آنے کا پتہ تھا میں تو انتظار کر رہا تھا آپ نے دیر کر دی." قید کے دوران ایک معجزہ آپ کے بڑے صاحبزادے مرزا انس احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ایک مرتبہ بیان فرمایا کہ قید کر کے جس کمرے میں پہلے پہلے آپ کو رکھا گیا وہ بہت تنگ تھا اور اس میں بالکل ہوا نہیں آتی تھی.آپ نے دل میں دعا کی کہ اے اللہ ! ہم تیری رضا پر راضی ہیں لیکن اگر اس وقت ذرا ہوا چل پڑے تو گرمی کی شدت کم ہو اور آپ کو کچھ نیند آجائے.
173 آپ فرماتے ہیں کہ دل میں یہ دعا کرنے کی دیر تھی کہ ہوا چلی اور اگرچہ کمرہ ہر طرف سے بند تھا لیکن اس کا اثر کمرے کے اندر بھی ہوا اور آپ کو نیند آگئی.اس واقعہ کا ذکر آپ نے خود بھی بعض مواقع پر کیا.چنانچہ مستورات سے خطاب کرتے ہوئے جلسہ سالانہ ۱۹۶۹ء پر فرمایا:.” میں نے کئی دفعہ بتایا ہے کہ جب ایک موقع پر ظالمانہ طور پر ہمیں بھی قید میں بھیج دیا گیا.گرمیوں کے دن تھے اور مجھے پہلی رات اس تنگ کو ٹھڑی میں رکھا گیا جس میں ہوا کا کوئی گزر نہیں تھا اور اس قسم کی کو ٹھڑیوں میں ان لوگوں کو رکھا جاتا ہے جنہیں اگلے دن پھانسی پر لٹکایا جانا ہو.زمین پر سوتا تھا.اوڑھنے کے لئے ایک بوسیدہ کمبل تھا اور سرہانے رکھنے کے لئے اپنی اچکن تھی.بڑی تکلیف تھی.میں نے اس وقت دعا کی کہ اے میرے رب! میں ظلم کر کے، چوری کر کے کسی کی کوئی چیز مار کر یا غصب کر کے یا کوئی اور گناہ کر کے اس کو ٹھڑی میں نہیں پہنچا.میں اس جگہ اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ جہاں تک میرا ہے میں سمجھتا ہوں کہ میں تیرے نام کو بلند کرنے والا تھا.میں اس جماعت میں شامل تھا جو تو نے اس لئے قائم کی ہے کہ نبی اکرم میں یہ کی تعلق محبت دلوں میں پیدا کی جائے.میرے رب! مجھے یہاں آنے سے کوئی تکلیف نہیں ، مجھے کوئی شکوہ نہیں، میں کوئی گلہ نہیں کرتا میں خوش ہوں کہ تو نے مجھے قربانی کا ایک موقع دیا ہے اور میری اس تکلیف کی میری اپنی نگاہ میں بھی کوئی حقیقت اور قدر نہیں ہے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ میں پی اس جگہ جہاں ہوا کا گزر نہیں سو نہیں سکوں گا.میں یہ دعا کر رہا تھا اور میری آنکھیں بند تھیں.میں بلا مبالغہ آپ کو بتاتا ہوں کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میرے نزدیک ایک ائیر کنڈیشنر لگا ہوا ہے اور اس نے ایک نہایت ٹھنڈی ہوا نکل کر پڑنی شروع ہوئی اور میں سو گیا.غرض ہر دکھ کے وقت ہر مصیبت کے وقت میں جب عظیم
174 منصوبے بنائے گئے ان اوقات میں اللہ تعالیٰ کا پیار آسمان سے آیا اور اس نے ہمیں اپنے احاطہ میں لے لیا اور ہمیں تکلیفوں اور دکھوں سے بچایا اور اسی لذت اور سرور کے سامان پیدا کئے کہ دنیا اس سے ناواقف ہی نہیں اس کی اہل بھی نہیں ہے.قید کے دوران آپ کا مثالی کردار اهه ۱۹۵۳ء کے مارشل لاء کے دوران لاہور سے جن احمدی مجاہدین کو گرفتار کیا گیا تھا ان میں مکرم محمد بشیر صاحب زیروی بھی تھے.وہ لکھتے ہیں:.”جب ہمیں میڈیکل ہوسٹل کے نیلا گنبد کے بڑے گیٹ پر کھلے کیمپ سے جیل بھیجنے کے لئے اکٹھا کیا گیا تو وہاں اس عاجز کی ملاقات میاں صاحب سے ہوئی...وہاں سے ہمیں ایک ٹرک پر بٹھا کر جیل کی طرف لے گئے.حضرت میاں ناصر احمد صاحب نے ٹرک میں بیٹھتے ہی بلند آواز میں قرآنی دعا لا إِلَهَ إِلا اَنْتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنْتُ مِنَ الظَّلِمِينَ کا ورد شروع کر دیا جس سے دلوں میں سکینت و اطمینان کی بہر دوڑنا شروع ہو گئی.حضرت میاں شریف احمد صاحب ہم سب میں بڑے تھے اور صحت کے لحاظ سے بھی کمزور مگر حوصلہ کے اعتبار سے از حد مضبوط و مستحکم کہ جب ہمارے چہروں کو پریشان یا ہمیں اضطراب سے دعائیں کرتے دیکھتے تو فورا ہماری دلی گھبراہٹ کو بھانپ جاتے اور حضرت میاں ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالٰی سے فرماتے.یہ بچے تو مجھے دل چھوڑتے معلوم ہوتے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کریں.چنانچہ حضرت میاں صاحب ہمیں اپنے مخصوص انداز میں ہر آنے والے وقت کے لئے تیار کرتے رہتے مجھے ان کی یہ ادا کبھی نہیں بھولے گی کہ جب ہم میں سے ایک نوجوان نے اپنے بیان میں کسی قدر جھوٹ ملایا تو حضرت میاں شریف احمد
175 صاحب بیتاب ہو گئے.اس کے بعد آپ بار بار فرماتے کہ اب یہ سزا سے نہیں بچ سکتا.اس نے اپنا ثواب بھی ضائع کر لیا " اور پھر ہم میں سے ایک ایک سے مل کر فرماتے.وو بیٹا ہم خدا کی خاطر یہاں آئے ہیں.یہ ہمارے ایمانوں کی آزمائش ہے.اگر ہم آزمائش میں پورے نہ اترے تو (ہم) جیسا بد نصیب کوئی نہ ہوگا اور اگر اس آزمائش میں کامیاب ہو گئے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث ہوں گے.اگر ہم نے جھوٹ بولا تو اس کی نصرت سے محروم ہو جائیں گے.خواہ کتنی بڑی سزا مل جائے مگر سچ کا دامن کسی صورت میں بھی نہیں چھوڑنا " حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت تو اسی لمحہ میں ہمارے ساتھ ہو گئی تھی جب مارشل لاء حکام کے ذہن میں خیال بھی گزرا ہو گا کہ اب گرفتاریوں میں توازن قائم رکھنے کے لئے جماعت احمدیہ کے افراد کو بھی پکڑا جائے بلکہ یہ جسارت بھی کہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی ہاتھ ڈالا جائے....جیل میں پہلی رات نہایت ہی کرب میں گزری.صبح ہوئی ، ہمیں ان کو ٹھڑیوں سے باہر نکالا گیا.ہم ضروری حاجات سے فارغ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور سر بسجود ہوئے اور باہر اپنے کمبل بچھا کر بیٹھ گئے حضرت میاں ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے میری اداسی دیکھ کر فرمایا.سورۃ ملک یاد ہے؟ فرمایا سناؤ چنانچہ اس عاجز نے سورۃ ملک سنائی.پھر فرمایا.کوئی خواب آئی ہے؟ میں نے عرض کیا کہ حضور آئی ہے.فرمایا.سناؤ.چنانچہ میں نے عرض کیا کہ " حضور میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے لئے ایک ریلوے لائن تیار ہوئی.ہے جس کے بائیں پہلو سے ایک چھوٹی سی لائن تیار ہوئی ہے جیسے کہ ٹرالی وغیرہ کے لئے ہوتی ہے.وہ صرف میرے لئے ہے اس کے آگے بھی مین لائن ہے اس کے ساتھ کچھ لوگ پچھلا ہوا مزید لوہا دائیں جانب
176 چمٹا رہے ہیں." سنتے ہی آپ نے فرمایا کہ آپ تو انٹیروگیشن INTERRO GATION میں ہی رہا ہو جائیں گے مگر اس سے آگے آپ خاموش ہو گئے....اتنے میں ناشتے کا وقت ہو گیا چنانچہ جیل سے ہمارا ناشتہ آگیا جو ابلے ہوئے چنوں کا تھا.میں نے ان چنوں کی طرف کچھ ترچھی کی نگاہوں سے دیکھا کہ اب ہمیں یہ کھانے ہوں گے.حضرت میاں صاحب فورا میرے چہرے کے تاثرات ہی سے میرے دل کی کیفیت اور میرا تردد بھانپ گئے اور فورا ان کو چادر پر ہاتھ سے بکھیرنے کے بعد انہیں خود مزے مزے لے لے کر کھانا شروع کر دیا.آپ کھاتے بھی جاتے تھے اور فرماتے بھی جاتے تھے ” بشیر صاحب دیکھئے یہ تو بے حد لذیذ ہیں." اللہ ! اللہ ! آپ نے ہمیں کس.کس طرح تکلیف کے ان دنوں کو حوصلہ اور بشاشت سے گزارنے کے آداب سکھائے.ان کا ہاتھ دستر خوان کی طرف بڑھ جانے کے بعد بھلا کس کی مجال تھی جو نہ کھاتا....غالبا اسی دن کی دوپہر سے حضرت اقدس کے گھر سے کھانا شروع ہو گیا جو اس قدر ہوتا تھا کہ ہم سب سیر ہو کر کھا لیتے تو پھر بھی بچ جاتا تھا.یہاں بھی ہماری دلجوئی مد نظر رہی.کھانا آتا تو آپ سارا کھانا میرے سپرد فرما دیتے اور فرماتے "ساقی صاحب اسے تقسیم کریں " اور خود میرے گھر سے آیا ہوا کھانا لے بیٹھتے کہ میں تو یہ کھاؤں گا.جو نہایت ہی سادہ ہوتا تھا....میرے اصرار کے باوجود میرا وہ سادہ سا کھانا حضور خود تناول فرماتے اور رتن باغ سے آیا ہوا کھانا ہم کھاتے.حضور پر نور اور حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب جب تک ہمارے پاس رہے ایک لمحہ کے لئے بھی ہمیں اداس اور غمگین نہیں ہونے دیا اور ہمیں واقعات سنا سنا کر ہمارے حوصلے بلند فرماتے رہے گویا جیل میں بھی ہر روز مجلس علم و
177 عرفان جمی رہی.ایک دن مجھے پریشان سا دیکھ کر نہایت ہی بے تکلفی سے فرمانے لگتے..." تمہیں پانچ سال قید ہو گی.....عرض کیا......” میرے حق میں اس پاکیزہ منہ سے تو کلمہ خیر ارشاد فرمائیں ” فرمانے لگے " میرا ہے THINK OF THE WORST جیل میں میں نے آپ کو ایک لمحہ کے لئے بھی پریشان نہیں پایا بلکہ یوں محسوس ہو تا تھا کہ جیل میں اس مرد بحران کی صحت روز بروز بہتر ہو رہی ہے.میں نے مطلب ایک دن عرض کیا کہ چونکہ میری گرفتاری اچانک اور غیر متون میری بھوک پیاس ختم ہو گئی لہذا ناشتہ بھی نہ کر پایا....فرمایا ”جب مجھے گرفتار کیا گیا تو میں نے پہلے نہایت ہی اطمینان سے غسل کیا پھر سیر ہو کر ناشتہ کیا کیونکہ ایسے وقتوں میں مجھے خوب بھوک لگتی ہے اس کے بعد کپڑے تبدیل کئے....ہر وقت خوش رہتے اور ہمیں خوش رکھنے کی کوشش فرماتے اور ہمارے ذہنوں میں یہ احساس پیدا کرتے رہتے کہ یہ آزمائش اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے.اس میں کامیابی کے بعد ہم پر اللہ تعالی کی طرف سے انعامات کی بے شمار بارشیں ہوں گی لہذا ہمیں استقلال کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ ان لمحات کو مسکراتے ہوئے گزارنا چاہئے..جمعہ کا دن تھا.اس دن میری انٹیروگیشن (INTERRO GATION) تھی اور حضرت میاں صاحبان کی ٹرایل (TRIAL) تھی.اس عاجز کی پردہ پوشی کے لئے اللہ تعالیٰ نے سامان فرمایا کہ اسی کار میں جس میں آپ کو سنٹرل جیل سے بورسٹل جیل میں لایا گیا اس عاجز کو بھی لایا گیا.راستے میں حضور ہدایات دیتے رہے کہ کسی سے بھی فضول باتیں نہیں کرنی بلکہ کوشش کریں کہ کسی سے کوئی بات ہی نہ ہو نیز استغفار پر زور دیں گویا اپنے سے زیادہ میری
178 فکر تھی...اس عاجز کو حضرت میاں صاحبان کی معیت میں بہتر (۷۲) گھنٹے سے زیادہ ہی رہنے کا موقع ملا اور میں نے آپ کو بہت قریب سے خوب خوب ہی دیکھا.ہر لمحہ اور ہر آن ان کی رفاقت ہمارے ایمانوں میں اضافہ کا باعث بنی رہی اور آج تک میرے دل و دماغ پر كَالنُّقْشِ فِي الْحَجَرِ...جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی دن خواب میں ظاہر فرما دیا تھا.عین اسی کے مطابق یہ عاجز تو انٹروگیشن (INTERRO GATION) ہی میں رہائی پا گیا اور حضرت میاں صاحبان چند ماہ بعد رہا ہو گئے ۵۲ گرفتاری اور قید کے دوران صبر و استقلال کا اعلیٰ نمونہ ९९ لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) بشارت احمد صاحب بیان کرتے ہیں:." میں یہاں اپنے ہم پیشہ دو افسروں کا ذکر کروں گا.نام مصلحتا نہیں لے رہا مگر واقعات بالکل درست ہیں اور عین ان کے بیان کے مطابق ہیں.ایک لیفٹیننٹ (جو اب بریگیڈئیر ہیں) نے بتایا کہ ۱۹۵۳ء میں ان کو رات کے وقت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو جو اس وقت لاہور میں پرنسپل تعلیم الاسلام کالج تھے رتن باغ کی عمارت سے گرفتار کرنے کے لئے وارنٹ دیئے گئے.یہ افسر جہاں وقت مقررہ پر رتن باغ گئے تو انہوں نے مکان کی دوسری منزل کے ایک کمرہ سے پردوں سے نکلتی ہوئی روشنی کو دیکھ کر تعجب کا اظہار کیا.گھنٹی بجائی.ایک خادم ۵ منٹ کے اندر نیچے اترا.جب حضرت مرزا صاحب کے متعلق معلوم کیا کہ کیا کر رہے ہیں تو جواب ملا کہ ”نماز پڑھ رہے ہیں یہ صاحب بہت حیران ہوئے.پھر سنبھلے.بہت جلد حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے جب حضور کو وارنٹ گرفتاری دکھائے تو حضور نے فرمایا اگر اجازت ہو تو میں اٹیچی کیس لے لوں.پھر گھر والوں کو خدا حافظ کہا اور ساتھ چل پڑے.
179 اسی افسر کو دو ایک روز کے بعد ایک بڑے عالم دین چیمہ کی گرفتاری کے وارنٹ ملے.وقت گرفتاری تقریباً پہلے والا.ان کے گھر پہنچے گھنٹی اور دروازہ کھٹکھٹاتے رہے مگر کافی دیر تک کوئی جواب نہ ملا.کافی وقت کے بعد ایک نوکر آنکھیں ملتا ہوا آیا.جب مولانا کے متعلق معلوم کیا تو جواب ملا سو رہے ہیں.کافی تگ و دو کے بعد مولانا سے ملاقات ہوئی جب وارنٹ گرفتاری دکھائے تو اسلامی اور عربی اصطلاحات میں لے چلے تو یہ لیفٹیننٹ دل ہی دل میں سوچتے رہے کہ ایک "کافر" تو تجد پڑھ رہا تھا اور توکل کا اعلیٰ نمونہ خاموشی سے پیش کرتا گیا دوسری طرف بزعم خود یہ عالم دین محمل ، توکل اور بردباری سے قطعا عاری.دوسرے واقعہ کا تعلق اس دور سے ہے جب اس گرفتاری سے متعلقہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے مقدمہ کا فیصلہ ہو چکا تھا اور آپ کو سزا سنائی گئی.یہ واقعہ سنانے والے ایک کیپٹن صاحب تھے جو اس بلوچ رجمنٹ سے ہی تعلق رکھتے تھے جس میں خاکسار بھی تعینات تھا.وہ ایک روز میرے گھر تشریف لائے.۱۹۲۶ء کی بات ہے.باتوں باتوں میں انہیں میرے احمدی ہونے کا علم ہوا.یہ کیپٹن صاحب پوچھنے لگے کہ آج کل آپ کے خلیفہ کون ہیں؟ جب میں نے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کا نام لیا تو یکدم سکتے میں آ گئے.کہنے لگے.میرا ایک ذاتی مشاہدہ ہے کہ آپ کی جماعت واقعی خدائی سایہ کے نیچے اور روحانی ہاتھوں میں ہے.پھر انہوں نے یہ واقعہ بتایا کہ ان کی ڈیوٹی ۱۹۵۳ء کے مارشل لاء میں تھی.ان کے فرائض میں ایک کام یہ تھا کہ جن لوگوں کے مقدمات کے فیصلے مکمل ہوتے تو کسی افسر کو مقرر کرتے کہ جیل میں جا کر اسے سزا سنا آئیں جن افسروں کو یہ کام دیا جاتا وہ اپنے عجیب و غریب مشاہدات بیان کرتے کہ ایک صاحب جن کو سزا سنائی گئی غیظ و غضب میں آگئے.ایک اور صاحب سکتے میں آ گئے بلکہ شدید مایوس ہو
180 گئے.بعض اپنی بے گناہی اور معصومیت کا واسطہ دینے لگتے وغیرہ وغیرہ.میرے پلٹن والے اس کیپٹن کے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اگر موقعہ ملا تو وہ بھی کسی کو سزا سنائیں اور دیکھیں کہ کس قسم کے تاثر کا اظہار ہوتا ہے.ایک روز بعد دوپہر ایک فائل ان کو ملی جس میں ایک قیدی کے خلاف فیصلہ درج تھا اور کوئی افسر فوری طور پر موجود نہیں تھا.انہوں نے اس موقعہ کو غنیمت جانا اور خود جیل پہنچ گئے فائل سے نام پڑھا.یہ نام گرامی حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کا تھا.یہ کیپٹن ان سے بالکل واقف نہ تھے.علیک سلیک کے بعد چارج شیٹ اور سزا انگریزی میں پڑھ کر سنائی.ان کیپٹن صاحب کے دماغ میں تھا کہ دیکھیں ان صاحب کا رد عمل دیگر لوگوں کی نسبت کیا ہو گا.جب یہ کیپٹن صاحب ساری کارروائی انگریزی میں سنا چکے تو حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے جانے کی اجازت چاہی.نہ تعجب نہ حیرانگی نہ گھبراہٹ نہ کوئی تاثر نہ فکر نہ غم، کیپٹن صاحب تو کسی عجیب و غریب رد عمل کے منتظر تھے.فورا بولے آپ شاید انگریزی نہ سمجھے ہوں میں اردو میں پڑھ کر سناتا ہوں اس پر اس کوہ وقار اور متوکل انسان نے فرمایا :.کیپٹن صاحب آپ کی مہربانی سے آکسفورڈ کا گریجوایٹ ہوں.تو الٹا کیپٹن صاحب پر کپکپی کا عالم طاری ہو گیا.سزا اور جرمانہ بہت شدید تھے گو جرم صرف ایک خاندانی زیبائشی خنجر کو گھر رکھنے کا تھا.۵۳۴ قید و بند کے دوران آپ کے ملنے والوں کے تاثرات آپ کے ایک ساتھی قیدی ملک عبد الرب صاحب لکھتے ہیں:." ۱۹۵۳ء میں جبکہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب....اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو قید کیا گیا.میں اس وقت مچھ جیل (بلوچستان)
181 میں تھا.ازاں بعد مجھے سنٹرل جیل لاہور میں منتقل کیا گیا.چند دنوں کے بعد مجھے راشن کا منشی بنا دیا گیا.میرے ہمراہ دو غیر احمدی تھے...انہوں نے ایک روز مجھے بتایا کہ حضرت صاحب (خلیفہ ثانی....کے بیٹے اور بھائی بھی یہاں قید ہیں.میں دوڑتا ہوا حضور کی کوٹھڑی کی طرف گیا....آپ کا کمرہ بہت چھوٹا سا تھا لیکن روزانہ ملاقات کے لئے جاتا...حضور اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے چہرے پر کرب ، گھبراہٹ یا بے چینی کا کسی قسم کا تاثر میں نے نہیں دیکھا.ہر وقت حضور کا چہرہ ہشاش بشاش رہتا تھا....کئی مرتبہ جب حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو دبانا چاہا.میاں صاحب حضور کی طرف اشارہ کر کے فرماتے کہ میری بجائے میاں صاحب کو دباؤ.اس وقت تو اس اشارہ کا مطلب پتہ نہ چلا مگر بارہ سال بعد جب کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی خدا داد بصیرت کا پتہ چلا....جیل کے دنوں کی رفاقت کی وجہ سے حضور نے قبل از خلافت اور بعد از خلافت جس شفقت اور محبت کا سلوک مجھ سے فرمایا ہے اس کی نظیر نہیں ملتی مجھے اتنا پیار میرے والدین نے بھی شاید نہ دیا ہو.“ ۵۴ محترم پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب نے ۱۹۵۳ء میں ایک شریف النفس سپرنٹنڈنٹ پولیس کے ذریعے جیل میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب سے سب سے پہلے ملاقات کی.وہ اپنی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ اندرونی آہنی دروزاہ کے کھلنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی پاؤں کی چاپ.میں مجسم انتظار تھا.اب سر تاپا آنکھیں بن گیا.اتنے میں کیا دیکھتا ہوں کہ دو دسکتے چہرے کمرے کے اندر داخل ہوئے ایک جیسا لباس ، ایک جیسا و قار ایک جیسا سکون و
182 اطمینان، ایک جیسی رعنائی و بے نیازی، ایسے اہل وقار، ایسے فخر دیار ایسے مولا کے یار ایسے حق پر نثار کسی بزرگ کی دعا کا ثمرہ ہی ہو سکتے تھے.یہ دونوں مہدی کے لخت جگر تھے.ایک بیٹا دوسرا نافلہ جو بیٹے کے عوض ملا تھا.حالات ایسے تھے کہ مصافحہ و معانقہ کے بعد میری طبیعت میں رقت پیدا ہوئی مگر ان دسکتے چہروں پر نظر پڑی تو ملال یا شکوہ یا زبوں حالی کا شائبہ تک نہ تھا بلکہ ایک گونہ اطمینان اور شکر و امتنان کا اظہار نمایاں تھا.......حضرت مرزا شریف احمد صاحب ( تیرا شریف اصغر) اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ( خدا تعالیٰ ہر دو کے مقامات بلند کرے) سے میری یہ پہلی ملاقات نہ تھی مگر یادگار ملاقات تھی.در ثمین سے جب بھی ”محمود کی آمین" کے اشعار پڑھے جاتے ہیں اور یہ بند آتا ہے کہ اہل وقار ہوویں فخر دیار ہو دیں مولا کے یار ہوویں حق پر نثار ہوویں تو مجھے اور چہروں کے علاوہ سنٹرل جیل لاہور کے ملاقات کے کمرہ میں دکھنے والے یہ دو چہرے ضرور یاد آ جاتے ہیں اور اہل وقار اور فخر دیار اور مولا کے یار لوگوں کا حق پر نثار ہونا بھی واضح ہو جاتا ہے.جیل میں ان اسیروں سے سب سے پہلے ملاقات کرنے والا غالبا میں ہی تھا.۵۵۰ محترم چوہدری محمد علی صاحب بیان کرتے ہیں:." جب حضور جیل میں تھے تو عاجز ملاقات کے لئے جیل میں حاضر ہوا.حضور اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب...ملاقات کے کمرے میں تشریف لائے تو سپرنٹنڈنٹ جیل احتراماً کھڑے ہو گئے.دونوں بزرگ کرسیوں پر تشریف فرما ہوئے تو یوں لگا جیسے دو حسین و جمیل خوشبو دار خوش رنگ پھول کسی ویرانے میں کھل اٹھے ہوں.ایسے
183 چہرے جیل کو نہ جانے کتنے سال بعد دیکھنا نصیب ہوئے تھے جو اپنی بے گناہی کے جرم میں پکڑے گئے ہوں.میں نے عرض کی کہ کوئی تکلیف تو نہیں.حضور نے فرمایا کہ ” ہمیں تو خوشی ہے.تکلیف کس بات کی" فرمایا ”جیل کے قیدی بہت پیار سے پیش آتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے کام بھی ہمیں نہیں کرنے دیتے" نیز فرمایا ” ایک معمر قیدی ہیں جو فسادات کے ضمن میں قیدی بن کر آئے تھے وہ تجد باقاعدگی سے پڑھتے اور بلند آواز سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں اور بد دعائیں دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ آپ نے نبی اکرم می کی بہتک کی ہے" حضور نے فرمایا کہ ”ہمیں تو ان کی گالیوں پر بھی غصے کی بجائے پیار آتا ہے کہ وہ گالیاں اس لئے دے رہے ہیں کہ انہیں ہمارے آقا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آقا حضرت محمد مصطفی میں تیر محبت اور عشق ہے" نیز فرمایا ”اور تو اور فسادات میں گرفتار ہونے والے بعض غیر احمدی لیڈروں کی ضروریات بھی ہماری وجہ سے پوری ہو رہی ہیں" یہ بھی اللہ تعالیٰ کی شان تھی کہ جب اندر کمرے میں ہر دو بزرگ عزت کے ساتھ کرسیوں پر تشریف فرما تھے عین اس وقت ایک بہت بڑے لیڈر جو فسادات میں ماخوذ ہوئے تھے چلچلاتی دھوپ میں اسی کمرے کی سلاخ دار کھڑکی کے باہر ملاقات کر رہے تھے ملاقاتی کمرے کے اندر کھڑا تھا اور وہ صاحب باہر.میں نے یہ ملاقات ایک آرمی افسر کے ذریعہ کی تھی جو غیر از جماعت تھے اور عاجز کے کلاس فیلو.میں کچھ پان لے گیا تھا کہ حضور کبھی کبھی پان سے شغف فرماتے تھے اس خیال سے کہ میں جس کے ہمراہ آیا ہوں اس کی وجہ سے کوئی چھوٹی موٹی چیز اس طرح اندر لے جانے کی ممانعت نہیں ہوتی میں نے پان حضور کی خدمت میں پیش کئے تو حضور نے فرمایا کہ ”یہ تو خلاف قانون بات ہے اور پان لینے سے انکار فرما دیا.۵۶ ه
184 چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر ضلع شیخوپورہ بیان کرتے ہیں:.یہ ہے تقدیر خاصان خدا کی ہر زمانے میں کہ خوش ہو کر خدا ان کو گرفتار بلا کر دے ۱۹۵۳ء کے زمانہ کی بات ہے.حضور رتن باغ لاہور میں قیام فرما تھے.تلاشیاں عام ہو رہی تھیں تاکہ چلے جانے والے غیر مسلمانوں کا رہا سہا مال اکٹھا کیا جائے.اسی تلاشی کے دوران حضرت اقدس کے قبضہ سے ایک زیبائشی خنجر برآمد ہوا جو حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی طرف سے آپ کو پیش کیا گیا تھا اور اس پر سونے کے نقش و نگار تھے حضور کا چالان ہوا اور آپ لاہور جیل بھیج دیئے گئے.سازش کا اصل ہدف حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ہی کی ذات مستودہ صفات تھی.جو اپنی غیر معمولی صلاحیتوں اور عظیم الشان خدمات سلسلہ کے باعث جماعت میں ایک نمایاں اور قد آور مقام حاصل کر چکے تھے.یہ خوف ان کو اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا کہ کہیں انتخاب کے وقت صلحائے جماعت کی نظر انتخاب ان پر نہ پڑ جائے.وہ بزعم خود قبل از وقت ہی اس امکانی خطرے کو راستے سے ہٹانا چاہتے تھے.خاکسار دوسرے تیسرے دن ملاقات کے لئے حاضر ہوتا تھا.وہاں ہمارے ایک عزیز جیل میں تھے اس لئے جیل میں ملاقات کی آسانی رہتی تھی.ایک دن اس عزیز نے بتایا کہ مرزا صاحب جیل میں ہیں اور وزیر چوہدری علی اکبر صاحب معائنہ کرنے آئیں گے تو ان کو سفارش کروں گا اور اس طرح مرزا صاحب کو رہائی مل جائے گی.جیل میں بہت سارے قیدی حضور سے پوچھتے رہتے تھے.جب وزیر موصوف چوہدری علی اکبر صاحب آئے تو حضور سے پوچھا کہ جن جن قیدیوں کی آپ سفارش کریں ان کو رہا کر دیا جائے حضور نے جن کے
185 نام بتائے سب کو رہا کر دیا گیا.ان واقعات سے آپ کے اخلاق کریمانہ کا اندازہ ہو سکتا ہے جو ابتلاء کے ایام میں آپ سے ظاہر ہوئے اور جس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی." کالج کی لاہور سے ربوہ منتقلی کے پس منظر میں ایک ایمان افروز واقعہ پروفیسر صوفی بشارت الرحمان صاحب لکھتے ہیں:.ہمارے کالج کے زمانہ لاہور کے آخری ایام کا واقعہ ہے کہ صوبہ کے گورنر صاحب نے اسلامیہ کالج لاہور کی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ سابق ڈی اے وی کالج کی عمارت ٹی آئی کالج سے واپس لے کر اسلامیہ کالج لاہور کو دے دی جائے گی کیونکہ اسلامیہ کالج کی ضرورت بہت ہی اہم ہے.ٹی آئی کالج کے لئے کسی اور جگہ کا انتظام کیا جائے گا.خاکسار نے جب یہ خبر سنی تو خاکسار پر سخت گھبراہٹ وارد ہوئی کہ اب کیا ہو گا؟ ہم کہاں جائیں.سائیکل لیا اور فورا جناب پرنسپل صاحب کو یہ خبر سنانے مغرب سے ذرا قبل رتن باغ پہنچا اور حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو اندر سے بلا کر نہایت ہی گھبراہٹ کے عالم میں بھرائی ہوئی آواز میں یہ اندوہناک خبر سنائی.اس پر حضرت میاں صاحب یعنی جناب پرنسپل (حضور رحمہ اللہ تعالیٰ) مسکرائے.فرمانے لگے.صوفی صاحب! کا پرنسپل میں ہوں یا آپ ہیں؟ اگر گھبرانے کی بات ہے تو گھبرانا تو مجھے چاہئے کیونکہ کالج کے انتظامات کا میں ذمہ دار ہوں نہ کہ آپ.آپ اس طرح کیوں گھبرا رہے ہیں.پھر فرمایا اچھا یہ تو بتائیں کہ آپ کو یقین ہے کہ ہمارے کالج کا لاہور میں ہی رہنا جماعت احمدیہ کے مفاد میں ہے شائد یہ امر ہمارے کالج کے ربوہ جانے کا سامان ہی ہو اور شاید اللہ تعالیٰ کے علم میں جماعت کا مفاد اسی میں ہو کہ ہمارا کالج اب ربوہ چلا
186 جائے.مت گھبرائیں.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جو ہمارے حق میں مفید ہو گا.خاکسار بالکل ٹھنڈا ہو گیا اور شرمندگی کے ه عالم میں رتن باغ سے لوٹا." ۵۷ ربوہ میں کالج کی مستقل عمارت کا منصوبہ اور صاحبزادہ صاحب کی گراں قدر خدمات مورخ احمدیت مولوی دوست محمد صاحب شاہد لکھتے ہیں." حضرت مصلح موعود " کا منشاء مبارک تھا کہ تعلیم الاسلام کالج کو دوسرے جماعتی اداروں کی طرح جلد سے جلد جماعت کے نئے مرکز ربوہ میں منتقل کیا جائے تاکہ اس کے نو نہال خالص دینی فضا میں تربیت پا سکیں.اگرچہ اس وقت کی اس نقل مکانی کی افادیت کالج کے بعض پروفیسر صاحبان کے سمجھ میں نہ آ سکی اور ان کا اصرار تھا کہ کالج کو لاہو ر ہی میں رہنے دیا جائے مگر حضرت خلیفتہ المسیح الثانی المصلح الموعود نے ارشاد فرمایا کہ قادیان سے ہجرت کے بعد تمام کاروبار اور ادارہ جات دوبارہ جاری کرنے کا حق سب سے پہلے ربوہ کا ہے.اگر احباب جماعت یا دیگر اصحاب کوئی کالج یا سکول چلانا چاہیں تو اس شہر کی جماعت کو خود کوشش کرنی چاہئے.۵۸ ابھی کالج لاہور میں تھا ادھر ربوہ میں کالج کی نئی بلڈنگ پر تعمیر کا کام شروع کر دیا گیا ۱۹۵۳ء کی بات ہے.جماعت کے خلاف AGITATION اور مارشل لاء کے نفاذ سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج ان دنوں جیل خانہ میں تھے کالج کی تعمیر کی نگرانی سید سرور حسین شاہ صاحب کے سپرد ہوئی.انہوں نے جیل خانہ میں پرنسپل صاحب سے ملاقات کر کے ہدایات حاصل کیں.کچھ دنوں کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کالج باعزت طور پر رہا ہوئے.
187 رقم آپ کی رہائی کے بعد ۲۶ جون ۱۹۵۳ء کو حضرت مصلح موعود نے اپنے دست مبارک سے کالج اور ہوسٹل کا سنگ بنیاد رکھا اور بنیاد میں دار لمسیح قادیان کی ایک اینٹ نصب فرمائی اور دعا کے بعد دس بکرے بطور صدقہ ذبح کئے گئے.ایک بکرا حضرت مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم و تربیت نے اور ایک بکرا حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنے دست مبارک سے ذبح کیا.۱۹۵۴ء کے شروع میں آپ کو مستقل طور پر ربوہ بلوایا گیا اور آپ نے تعمیر کالج کی براہ راست نگرانی شروع کر دی.محترم پروفیسر محبوب عالم خالد لکھتے ہیں :.ہیں:." ۱۹۵۴ء کے شروع میں جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بیمار ہوئے تو حضور نے آپ سے ارشاد فرمایا کہ تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں لے آؤ.ربوہ میں کالج کے لئے کوئی عمارت نہ تھی، وقت بہت کم تھا“ گرمی کے ایام تھے.ربوہ کی تمازت مشہور ہے مگر آپ نے ان سب باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے آقا کی آواز پر لبیک کہی.خود یہاں آ گئے اور بظاہر کالج کی تعمیر کے سامان پیدا نہ ہو سکنے کے باوجود اللہ تعالیٰ پر توکل کر کے کام شروع کر دیا.دھوپ میں کھڑے ہو کر آپ خود نگرانی کرتے اور اس طرح اس عمارت کے ایک حصہ کے بعد دوسرے حصہ کی تعمیر اپنی نگرانی میں کرواتے چلے گئے.مشکلات سے کبھی آپ گھبرائے نہیں." منصوبہ کے لئے فنڈز کی فراہمی اور تحمیل تعمیر کے لئے صاحبزادہ صاحب کی غیر معمولی محنت اور نصرت الہی کے نظارے چوہدری محمد علی صاحب سابق پرنسپل تعلیم الاسلام کالج ربوہ لکھتے ہیں.>> جب کالج ربوہ میں بن رہا تھا تو عاجز بھی ایک لمبے عرصے تک حضور کے ساتھ ڈیوٹی پر رہا.ان دنوں مالی لحاظ سے جماعت بہت کٹھن
188 حالات سے گزر رہی تھی.۱۹۵۳ء کے فسادات ابھی ختم ہی ہوئے تھے.ہوسٹل اور کالج کے لئے بہت محدود بجٹ منظور ہوا تھا جس کو ٹھی میں آج کل صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب تشریف رکھتے ہیں ہیں حضور کی رہائش تھی.نہ بجلی تھی نہ پانی.گرمیوں کے دن تھے صبح جاگیں تو جوتا پہننے سے پہلے سونٹے سے اسے ہلاتے تھے کہ کوئی بچھو نہ گھس آیا ہو.عاجز کو تو علم نہیں کہ حضور کس وقت سوتے تھے.علی الصبح تہجد کے وقت اٹھتے کو ٹھی کی بطخیں ایڑیوں پر چونچیں مار مار کر فجر کی نماز کے لئے بیدار کرتیں.فجر کی نماز کے بعد حضور نہایت شیریں آواز میں ایک ربودگی کے عالم میں تلاوت فرماتے.لال دین صاحب بھی ساتھ تھے وہ بھی نہایت اچھی آواز میں تلاوت کرتے.ایک سماں بندھ جاتا.ناشتہ حضور کالج کیمپس میں جاکر کرتے یعنی صرف چائے کی ایک آدھ پیالی، کھانا لنگر سے آتا.عاجز تو کچھ عرصے کے بعد برک گیا اور Hotel of Monde یعنی مہند کے تنور سے کھانا کھانا شروع کر دیا.حضور سارا دن چلچلاتی دھوپ میں مزدوروں کے درمیان کھڑے ہو کر کام کی نگرانی فرماتے.دور دور تک کوئی درخت نہ تھا جس کے سائے میں ستایا جا سکتا.وقفہ کے وقت نماز ظہر ہوتی اور کھانا پھر حسابات وغیرہ ملاحظہ فرماتے.رقم ختم ہو جاتی اور ٹھیکیدار اور مزدور مطالبہ کرتے تو عطایا کے لئے مختلف دوستوں کو بھیجتے...کبھی خود تشریف لے جاتے.عاجز کو بھی بھیجتے.عاجز اکثر ہمراہ ہو تا جہاں تک عاجز کا ہے کبھی ایسا موقع پیش نہیں آیا کہ عطیہ وقار اور تکریم کے ساتھ نہ ملا و....ان دنوں آندھیاں بہت آیا کرتی تھیں ایک دن شام کو آندھی آئی اور پہاڑی کنکر اڑنے لگے چہرے پر یوں لگتے تھے جیسے گولی لگتی ہے ایسے موقعوں پر چہرے کو چادر یا تولئے سے ڈھانپ لیا جاتا تھا.مغرب کی نماز پڑھ کر کالج سے روانہ ہوئے تو ایک گڑھے میں جا گرے جو
189 بائیالوجی لیبارٹری کے پاس زیر زمین پانی دریافت کرنے کے لئے کھودا گیا تھا.اللہ تعالیٰ کا فضل ہوا چوٹ نہیں آئی ،گڑھے کے اندر آندھی سے بہت بچاؤ ہو گیا حضور نے قدرے وہیں توقف فرمایا آندھی کی شدت کم ہوئی تو ہاتھ میں ہاتھ دے کر چلے اور بمشکل گھر پہنچے." چوہدری صاحب ہی کا بیان ہے." اللہ تعالیٰ کا یہ فضل تھا اور آپ کے ساتھ یہ سلوک تھا کہ ایک لاکھ کی منظوری کے ساتھ اس سے کئی گنا قیمت کی عمارت مہینوں میں تعمیر ہو گئی." پھر لکھتے ہیں:."اللہ تعالٰی کے فضلوں اور احسانوں کے بھی عجیب عجیب معجزے دیکھے.جب ہال کا لنثل (Lintel) پڑنے والا تھا اور کثیر مقدار میں سیمنٹ اور مصالحہ بھگو کر تیار کیا جا چکا تھا تو سیاہ بادل اٹھا اور گھر کر چھا گیا.آپ نے ہاتھ اٹھا کر بادل کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا جس کا مفہوم یہ تھا کہ یہ غریب جماعت کی خرچ کی ہوئی رقم ہے.اگر تو برساتو یہ رقم ضائع ہو جائے گی.جا یہاں سے چلا جا.دراصل آپ کی اللہ کے حضور یہ ایک رنگ میں فریاد تھی جو قبول ہوئی اور جس طرح ابر آیا تھا اسی طرح چلا گیا.۶۱ حضرت صاحبزادہ صاحب نے جس لگن اور محنت سے کالج کی تعمیر کروائی اور اس میں اپنے ہاتھوں سے پودے لگائے اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی صاحبزادی امتہ الحلیم صاحبہ تحریر کرتی ہیں:." جب حضرت صاحب (خلیفہ ثانی) نے ابا کو کہا کہ اب ربوہ آؤ اور کالج بنانا شروع کرو.تو ابا فوراً ربوہ تشریف لے آئے اور خود اپنی نگرانی میں کھڑے ہو کر کالج بنوانا شروع کیا، شدید گرمیوں کی لمبی دوپہروں میں خود کھڑے ہو کر بشاشت سے دعاؤں سے بہت پیار سے
190 ایک ایک اینٹ چنوائی اور ساتھ ساتھ سبزے کو مدنظر رکھتے ہوئے پودے اور درخت لگانے شروع کئے یہ انہیں دنوں کا واقعہ ہے، ایک شخص ادھر سے گزرا...مسافر تھا اسے معلوم ہوا کہ یہاں کالج بن رہا ہے، تو وہ کالج کی طرف روانہ ہوا.اس شخص کا بیان ہے ” میں جب کالج کی زیر تعمیر عمارت کے قریب آیا تو ایک شخص ملیشیا کی شلوار قمیض میں سر پر تولیہ رکھے ایک پودا لگا رہا تھا میں نے سوچا یہ یہاں کا مالی ہے.میں قریب آیا اور سوال کیا.میں یہاں کے پرنسپل صاحب سے مل سکتا ہوں ؟ وہ شخص کھڑا ہوا اور مسکرانے لگا اور مسکراتے ہوئے مجھ سے کہنے لگا کہ میں ہی یہاں کا پرنسپل ہوں، فرمائیے کیا کام ہے.میں حیران اور دنگ رہ گیا اور دل میں کہا کہ اگر یہاں کا پرنسپل اتنا عظیم ہے تو کالج بھی کتنا عظیم ہو گا اور ترقی کرے گا.بہت ترقی کرے گا.۶۲؎ فنڈز کی فراہمی اور تکمیل تعمیر میں نصرت الہی کا ذکر کرتے ہوئے بعض مواقع پر آپ نے خود فرمایا:." جب میں نے کالج کا نقشہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے حضور پیش کیا تو آپ مسکرائے اور فرمایا اتنا بڑا کالج بنانے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں ہیں تمہیں ایک لاکھ روپیہ کالج کے لئے اور پچاس ہزار ہوسٹل کے لئے دے سکتا ہوں.....پس انجنیئر سے مشورہ کر کے اس نقشہ پر سرخ پنسل سے نشان لگواؤ کہ ایک لاکھ سے بلڈنگ کا اتنا حصہ بن جائے گا.وہ میں نے تم سے بنا ہوا لینا ہے.میں نے اس وقت جرات سے کام لیتے ہوئے حضور کی خدمت میں عرض کیا.ٹھیک ہے.میں حضور سے پیسے مانگنے نہیں آیا نقشہ منظور کروانے آیا ہوں اس کے لئے حضور دعا فرما دیں.میں لکیریں لگوا کر لے آؤں گا لیکن مجھے اجازت دی جائے کہ جماعت سے عطایا وصول کر سکوں.حضور نے فرمایا.ٹھیک ہے عطایا وصول کرو لیکن لکیریں ڈلوا کر لاؤ....اللہ تعالیٰ ہر مرحلہ پر
191 آگے بڑھنے کی توفیق دیتا چلا گیا.آج تک مجھے (جو خرچ کرنے والا تھا) پتہ نہیں کہ یہ رقم کہاں سے آئی....یہ کالج کی عمارت ہوسٹل اور دوسری بلڈنگیں ہیں وہ سب ملا کر ایک لاکھ مربع فٹ سے اوپر ہیں اور میرا رف اندازہ ہے کہ ان پر چھ سات لاکھ کے درمیان خرچ آیا ہے.بعض دفعہ پڑھے لکھے غیر از جماعت دوست یقین نہیں کرتے کہ اتنی تھوڑی رقم میں یہ اتنی بڑی عمارت کھڑی ہو سکتی ہے....؟ رو جب میں کالج میں تھا تو اس وقت حضرت صاحب (حضرت مصلح موعود رضی اللہ ) نے مجھے بلڈنگ کے بعض حصوں کے لئے بعض افراد سے چندہ لینے کی بھی اجازت دی تھی.میں سب کو یہی سمجھاتا تھا کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں پیسہ بہت دیا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ہمیں ایک پیسہ بھی < کہ ضائع کرنے کے لئے نہیں دیا.اس واسطے ہماری یہ ذمہ داری ہے ایک پیسہ ایک دھیلہ بھی ضائع نہ ہو بلکہ جو پیسہ ملا ہے اس کا صحیح مصرف ہونا چاہئے.ایک دفعہ میں یہاں سے گاڑی میں جا رہا تھا تو اس میں کچھ پڑھے لکھے اچھے عہدیدار بیٹھے ہوئے تھے.میں سٹیشن سے سوار ہوا.جب گاڑی چلی تو وہ آپس میں باتیں کرنے لگے کہ یہ بڑے امیر لوگ ہیں.یہ دیکھو انہوں نے یہ بنا دیا.سکول آیا تو کہنے لگے کہ انہوں نے اتنا بڑا سکول بنا دیا بڑی امیر جماعت ہے.وہاں سے ہمارے دفاتر اور ہسپتال تو نظر نہیں آتے پھر کالج آیا تو کہنے لگے اتنا بڑا کالج بنا دیا بہت امیر لوگ ہیں.جس وقت ربوہ کی امارت پر تنقید ختم ہوئی تو میں نے انہیں کہا کہ میں یہاں رہتا ہوں اور احمدی ہوں.ہم واقعی بہت امیر ہیں لیکن ہماری دولت روپیہ نہیں ہے ، ہماری دولت وہ رحمتیں ہیں جو ہم خدا سے وصول کرتے ہیں اور وہ برکت ہے جو خدا ہمارے پیسے میں ڈالتا ہے.میں نے پرانے کالج کی بلڈنگ بنوائی تو وہ ستا زمانہ تھا.اس زمانے
192 میں قریباً پندرہ روپے فٹ کے حساب سے عام عمارت بنتی تھی اور کالج کی عمارت کی تو دیواریں اونچی تھیں اور چھتیں اور قسم کی تھیں اس پر زیادہ خرچ ہونا چاہئے لیکن میں خود دیکھ کر حیران ہو گیا کہ ہمارا سارا خرچ چھ سات روپے فٹ کے درمیان آیا.خدا نے اتنی برکت ڈال دی.۴.تعمیر کالج کے دوران آپ کی غیر معمولی مصروفیت کے بارہ میں آپ کے ایک ساتھی ملک محمد عبد اللہ صاحب لیکچرار دینیات تعلیم الاسلام کالج ربوہ بیان کرتے ہیں:.جن دنوں ربوہ میں آپ تعلیم الاسلام کالج کی شاندار عمارت بنوا رہے تھے.دن رات اپنے آپ کو اسی کام کے لئے وقف کر رکھا تھا اور اس قدر محنت اور لگن سے یہ کام کروا رہے تھے کہ اپنی صحت کا بھی چنداں خیال نہیں تھا.ایک دن آپ مغرب کے بعد سائیکل پر بڑی تیزی سے دار الضیافت تشریف لائے.ان دنوں یہ ادارہ بیت المبارک کے قریب ہو تا تھا اور حضرت حکیم فضل الرحمان صاحب اس کے ناظم تھے.کھانا ختم ہو چکا تھا.خاکسار حضرت حکیم صاحب کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ حضرت میاں صاحب نے حکیم صاحب سے فرمایا کہ آج رات کو بھی کالج کی تعمیر کا کام جاری ہے روشنی کا انتظام میں نے کر لیا ہے آپ مجھے جو بھی کھانا موجود ہے دے دیں.میں نے جلد واپس جانا ہے.حضرت حکیم صاحب نے فرمایا کہ میاں صاحب اس وقت تو صرف دال اور روٹی ہی موجود ہے.آپ تھوڑی دیر ٹھہر جائیں.میں تازہ کھانا تیار کروا دیتا ہوں مگر جو کھانا موجود تھا وہی کھا کر واپس کالج تشریف لے گئے."
193 لاہور سے کالج کی ربوہ منتقلی اور کالج کی کار کردگی میں آپ کا غیر معمولی کردار تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی بلڈنگ مکمل ہونے پر ۶ دسمبر ۱۹۵۴ء کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ نے اس کا افتتاح فرمایا اور اس طرح تعلیم الاسلام کالج اپنے پہلے دو مراحل میں سے گزر کر تیسرے اور آخری مرحلے میں داخل ہوا.۱۹۴۴ء میں کالج کا قیام عمل میں آیا تھا اور تین سال کالج قادیان میں رہا.۱۹۴۷ء سے ہجرت کی وجہ سے کالج عارضی طور پر لاہور منتقل کر لیا گیا اور وہاں کالج سات سال تک جاری رہا.اب تک کر کالج کے قیام پر دس سال کا عرصہ گزر چکا تھا.اس طرح دو مراحل میں سے ہو ۱۹۵۴ء میں کالج ربوہ میں منتقل ہو گیا.۶۵.جہاں پرنسپل حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی بے لوث محنت اور ہمت کے نتیجہ میں کالج کی کارکردگی اپنے معراج کو پہنچی جو مشاہدہ آپ نے آکسفورڈ میں کیا تھا اور جو لائحہ عمل آپ نے کالج کے آغاز پر حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پیش کیا تھا اور جو تجربہ آپ نے گزشتہ دس سالوں میں حاصل کیا تھا انہیں بروئے کار لا کر آپ نے کالج کو بہت بلندی تک پہنچا دیا.تعلیم الاسلام کالج قادیان کے آغاز پر اپنی ابتدائی رپورٹ میں جو کالج کے افتتاح کے موقع پر پڑھی گئی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے حضرت المصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی کو بڑے احترام سے مخاطب کرتے ہوئے کالج کے طریق کار کا ایک مختصر سا ڈھانچہ پیش فرمایا تھا.سید نا! السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاته کالج کمیٹی کی ہدایت کے ماتحت خاکسار تعلیم الاسلام کالج کے داخلہ کے متعلق ابتدائی رپورٹ اور کالج کے طریق کار کا ایک مختصر سا ڈھانچہ پیش کرتا ہے.(1) اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے....طلباء داخل کئے جاچکے ہیں....تربیت کے علاوہ تعلیم الاسلام کالج کو ان طلبہ کی تعلیم کی طرف
194 بھی خاص توجہ دینی ہو گی....انسانی کوششیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر بیچ ہیں.اس لئے ہم حضور سے اور بزرگان سلسلہ سے دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں صحیح طریق پر تعلیم و تربیت کی توفیق عطا فرمائے.(۲) تعلیم الاسلام کالج کے قیام کا بڑا مقصد احمدی طلبہ میں مذہبی روح کا پیدا کرنا اور اسلامی تعلیم کو پختگی کے ساتھ قائم کرنا ہے اور ہمارا ارادہ ہے کہ دینیات کے نصاب کے علاوہ جو مجلس تعلیم ہمارے لئے مقرر کرے گی طلبہ میں دینی اور مذہبی کتب کے مطالعہ کا شوق پیدا کریں اور اس کی عادت ڈالیں.(۳) دماغی نشوو نما کے لحاظ سے کالج میں داخل ہونے والے طلبہ ایک ایسے مقام پر کھڑے ہوتے ہیں جہاں انہیں انگلی پکڑ کے بھی چلایا نہیں جا سکتا کہ انہیں اپنے سہارے چلنا سیکھنا ہوتا ہے اور کلی طور پر بے نگرانی بھی نہیں چھوڑا جا سکتا کہ ہمیشہ کے لئے وہ اخلاقی ہلاکت کے گڑھے میں گر سکتے ہیں.اس ضمن میں ان کے لئے بہترین درمیانی راہ کا انتخاب جے صراط مستقیم کہا جا سکتا ہے اور نگرانی اور آزادی کے اس ملاپ کو پا لینا جو ان کی اخلاقی زندگی کو ہمیشہ کے لئے بنا دینے والا ہو نا ممکن تو نہیں مگر بہت مشکل ضرور ہے اور ہم حضور ہی سے دعا اور رہنمائی کی درخواست کرتے ہیں.(۴) فٹ بال، ہاکی کرکٹ انگریزوں کی قومی کھیلیں ہیں اور چونکہ آج کل انگریز ہم پر حاکم ہیں اس لئے ہندوستان میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ جب تک تعلیمی اداروں میں ان کھیلوں کو رائج نہ کیا جائے اس وقت تک ہمارے نوجوانوں کی ذہنی و جسمانی صحت کو قائم نہیں رکھا جا سکتا اس کے برعکس وہ تمام قومیں جو انگریز یا انگریزی خون سے تعلق رکھنے والی ہیں ان کھیلوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتیں اور ان کی
་ 195 زیادہ تر توجہ ATHLETICS کی طرف ہے اور اس وجہ سے ان قوموں کے طلبہ کی صحتوں پر کوئی برا اثر نظر نہیں آتا.ہمارا ارادہ بھی ATHLETICS کی طرف زیادہ توجہ دینے کا ہے.(۵) دنیا کی بہت سی درس گاہیں اساتذہ اور طلبہ کے لئے کسی خاص لباس کی تعین کر دیتی ہیں اور تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں میں بھی یہ رواج رہا ہے.اس سے یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ طلبہ کی اخلاقی نگرانی زیادہ آسانی سے کی جا سکتی ہے اور ڈسپلن کا قیام بہتر طریق پر ہوتا ہے اگر حضور اسے پسند فرمائیں تو ہمارے لئے بھی کوئی لباس مثلاً کسی خاص قسم کی اچکن اور شلوار مقرر فرمائیں.(۲) طلبہ میں تعلیمی دلچسپی بڑھانے کے لئے مختلف سوسائیٹیز کے قیام کا ارادہ ہے مثلاً (۱) عربک سوسائٹی (۲) پرشین سوسائٹی (۳) فلو سافیکل سوسائٹی (۴) ریلیجس ریسرچ سوسائٹی (۵) اکنامکس سوسائٹی اور (۲) بزم حسن بیاں.عام طور پر کالج یونین میں طلبہ کی قوت بیان کو بڑھانے کے لئے DEBATES کا طریقہ رائج ہے مگر یہ طریق ہمارے ہاں پسندیدہ نہیں اس لئے انشاء اللہ العزیز ہم کالج کی بزم حسن بیان میں DEBATES کے طریق کو ترک کر کے تقریر کے طریق کو رائج کریں گے اور امید ہے کہ ہمارے طلبہ تقریر کے میدان میں محض اس طریق کی وجہ سے دوسروں کے پیچھے نہ رہیں گے.سے نئے سے نئے تعلیمی طریقے اور سکیمیں جن میں سے جدید ترین مسٹر جان سارجنٹ کی رپورٹ ہے پبلک کے سامنے آتے رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ ہمارا رائج الوقت طریقہ تعلیم تسلی بخش نہیں...ہمارے لئے یہ تو ممکن نہیں کہ ہم پنجاب یونیورسٹی کی پالیسی کو چھوڑ کر کسی نئے طریقہ تعلیم کو اپنے کالج میں رائج کریں لیکن....یہ ممکن ہے کہ بعض
196 ایسے ذرائع اختیار کئے جائیں جو طلبہ کی ذہنی نشوونما میں زیادہ محمد ثابت ہوں.ہمارا رادہ ہے کہ ہم ان تمام ذرائع کو استعمال کر کے طلبہ کے فطری قومی کو صحیح نشوونما دینے کی کوشش کریں گے مگر اللہ تعالٰی کے فضل اور حضور کی دعاؤں اور رہنمائی کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے.۲۶.چنانچہ اس مجوزہ طریقہ کار کو عملی جامہ پہنانے کا پورا موقع پر نسپل حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو ربوہ میں میسر آیا جہاں آپ کی جدوجہد کے نتیجہ میں نہ صرف تدریسی و تعلیمی نظام میں وسعت پیدا ہوئی اور پوسٹ گریجویٹس کلاسیں بھی شروع کی گئیں بلکہ طلبہ میں اسلامی تعلیم کی پختگی پیدا کرنے کھیلیوں کو وسعت دینے ، نظم و ضبط پیدا کرنے انڈر گریجویٹ گاؤن اور ٹوپی بطور کالج یونیفارم رائج کرنے، مختلف سائنسی ، اور فنی سوسائٹیوں کے قیام نیز حضرت مصلح موعود کی اجازت سے کالج مباحثہ جات جیسی سرگرمیوں کو جاری کیا گیا حتی کہ ۱۹۵۸ء سے تعلیم الاسلام کالج میں آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ کا آغاز بھی ہوا جس سے کالج کی ملک گیر شہرت و مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا.علاوہ ازیں کالج میں آل پاکستان اردو کانفرنس کا انعقاد کروایا گیا اور کالج میں ایسی روایات قائم فرمائیں جن کو جاری رکھ کر کالج مسلسل ترقی کی منازل طے کرتا چلا گیا.غیر ملکی طلباء نے کالج میں داخلے لئے.طلبہ سے بلا تمیز مذہب و ملت محبت بھرا سلوک فرمایا.ذہین طلبہ اور کھلاڑیوں کے لئے سویابین اور دودھ وغیرہ کا انتظام کیا.کالج میں بے تکلفی پر محمول پاکیزہ ماحول پیدا کیا اور ہر اس سازش کو ناکام کیا جو کالج کے خلاف جاری ہوئی چنانچہ لاہور میں قیام کے دوران ایسے ہی ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے چوہدری محمد علی صاحب سابق پرنسپل تعلیم الاسلام کالج لکھتے ہیں.ایک طالب علم جو جماعت اسلامی کی انتظامیہ کا رکن تھا اور اس.لئے آیا تھا کہ غیر از جماعت طلباء کو جماعت کے خلاف منظم کرے کالج میں داخلے کے لئے آیا.آپ نے مسکراتے ہوئے فرمایا کہ آپ اس کام کے لئے آئے ہیں تو آپ یہ ضرور کام کریں.میں آپ کو داخل کر لیتا
197 ہوں اور فیس کی رعایت بھی دیتا ہوں لیکن آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ آپ یہ کام نہیں کر سکیں گے اور میرے کالج میں پڑھنے والے غیر از جماعت طلباء آپ کے دام میں نہیں آئیں گے.یہ طالب علم کافی عرصہ تک پوشیدہ اور اعلانیہ کوشش کرتا رہا لیکن بری طرح ناکام ہوا اور آپ کی شفقت اور محبت خود اس پر اثر کئے بغیر نہ رہ سکی.۶۷۲ آپ ۱۹۶۵ء تک اس کالج کے پرنسپل رہے اور اس طرح اکیس سال کا لمبا عرصہ آپ نے اس کی غیر معمولی خدمت میں خرچ کیا اور اپنے پیچھے ایسی یادیں چھوڑیں جو کے شاگردوں اور ساتھیوں اور آپ کے ہم عصر پروفیسروں اور دوسرے کبھی آپ لکھنے والوں کے دلوں سے محو نہیں ہو سکتیں.آپ کا کالج کے ساتھ جذباتی تعلق تھا جس کا اظہار آپ نے خلیفہ بننے کے بعد ایک بار یوں فرمایا.جہاں تک میرے جذبات کا سوال ہے.....میں نے اپنے دل کو اپنے دماغ کو اور اپنے جسم کو اس ادارہ کے لئے خدا کے حضور بطور وقف پیش کر دیا اور بڑی محبت اور پیار کے ساتھ اس کو چلانے کی کوشش کی اور ان طلبہ کو جو یہاں تعلیم پاتے تھے میں نے اپنے بچوں سے زیادہ عزیز سمجھا ہے.بے شک میں نے جہاں تک مناسب سمجھا سختی بھی کی لیکن اس وقت سختی کی جب میں نے اسے اصلاح کا واحد ذریعہ پایا اور بعد میں مجھے اس دکھ کی وجہ سے راتوں جاگنا پڑا کہ کیوں میرے ایک بچہ نے مجھے اس سختی کے لئے مجبور کر دیا حتیٰ کہ مجھے یہ قدم اٹھانا پڑا.کئی راتیں ہیں جو میں نے آپ کی خاطر جاگتے گزار دیں اور ہمیشہ ہی آپ کے لئے دعائیں کرتا رہا اور پھر میں نے اپنے رب کا پیار بھی محسوس کیا کہ وہ اپنے فضل سے میری اکثر دعائیں قبول کرتا رہا." آکسفورڈ جیسا ماحول کالج میں جو ماحول حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی کوششوں سے پیدا ہوا
198 وہ اتنا دلکش تھا کہ غیر بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.چنانچہ اس حقیقت کا اظہار جسٹس انور الحق صاحب حج ہائیکورٹ مغربی پاکستان لاہور نے ۱۹۶۳ء میں کانووکیشن کے موقع پر ان الفاظ میں کیا.آج آپ کے ادارہ میں آکر میری اپنی طالب علمی کا دور میری آنکھوں کے سامنے آگیا.آکسفورڈ جیسی فضا دیکھ کر میرے دل میں پرانی یادیں تازہ ہو گئی ہیں اور میں سوچ رہا ہوں کہ آپ لوگ خوش 249ee قسمت ہیں کہ آپ کو مثالی تعلیمی اور تربیتی ماحول میسر ہے جہاں دوسری جگہوں کی مضرت انگیز مصروفیات ناپید ہیں.اس طرح سابق سیکرٹری محکمہ تعلیم انور عادل صاحب سی ایس پی سیکرٹری صوبائی وزارت داخلہ نے کہا:." بلاشبہ آپ کا یہ تعلیمی ادارہ اس لحاظ سے بہت خوش قسمت ہے کہ اسے وہ ماحول میسر ہے جسے ہم صحیح معنوں میں تعلیمی ماحول کہتے ہیں.یہاں دھیان بٹانے اور توجہ ہٹانے والی بے مقصد قسم کی غیر علمی مصروفیات ناپید ہیں یہی وجہ ہے کہ اس خالص تعلیمی ماحول میں حصول تعلیم اور کردار سازی کے نقطہ نگاہ سے آپ کو یہاں ایک بھرپور زندگی بسر کرنے کا زریں موقع حاصل ہے اور آپ لوگ سیرت و کردار کے یکساں سانچوں میں ڈھلتے ہوئے نظر آتے ہیں.“ جناب عبدالحمید صاحب دستی وزیر تعلیم مغربی پاکستان نے کالج کے معائنہ کے دوران کے امارچ ۱۹۵۷ء کو فرمایا." تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی اسلامی روایات قابل تقلید و ستائش ہیں.پرنسپل میاں ناصر احمد صاحب کی مساعی ادارے کی ہر نوع میں تعمیر کے متعلق مبارکباد کی مستحق ہیں....ادارے کے معائنہ سے مجھے بہت اطمینان اور راحت نصیب ہوئی ہے." ایک
199 کالج کے نظام تعلیم و تربیت کا نقشہ صاحبزادہ صاحب کی زبانی فرمایا :- ނ " ہمارے طلبہ اور ہمارے اساتذہ تعلیم و تربیت کو ایک مقدس فرض تصور کرتے ہیں ہمارے پاس برے بھلے ہر قسم کے طلبہ آتے ہیں ایک باپ کی حیثیت سے سزائیں بھی دینی پڑتی ہیں اور ایک باپ ہی کی محبت کا سلوک کرنا پڑتا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ ان عزیزوں کے لئے صحت افزا ذہنی اخلاقی اور جسمانی فضا مہیا کرنا ان کی شخصیتوں کے جملہ پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہمارا فرض ہے.ہمارے نزدیک مسجد کے بعد مدرسے کا تقدس ہے اور ہماری اس درس گاہ میں اللہ تعالی کے فضل تعلیم و تربیت کے فرائض عبادت کے رنگ میں سر انجام دیئے جاتے ہیں.جہاں رنگ اور مذہب ، افلاس اور امارت اپنے اور بیگانے کی کوئی تفریق نہیں.جہاں طلباء مقدس قومی امانت ہیں، جہاں ماحول خالص اسلامی اور اخلاقی ہے نہ کہ سیاسی جہاں منشائے مقصود خدمت ہے نہ کہ جلب منفعت ، جہاں غریبی عیب نہیں اور امارت خوبی نہیں، الْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ.........ایسے عظیم اور مثالی ادارے کی کما حقہ حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے جس کے ذرے ذرے پر اس کے فدائی اساتذہ اور طلباء نے خون دل سے محنت اور اخلاص کی داستانیں لکھی ہیں.یہاں اساتذہ سستی شہرت کی خاطر اپنے فرائض کے تلخ پہلوؤں سے اغماض نہیں برتتے اور نہ ہی طلباء سٹرائیک کی قسم کے غیر اسلامی اور غیر اخلاقی ذرائع استعمال کرتے ہیں.یہاں نہ صرف ملک کے گوشے گوشے بلکہ غیر ممالک سے بھی ہر مذہب اور خیال کے طلباء اس.پر سکون، سادہ اور پاک ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہیں.۲." تعلیم الاسلام کالج ایک بین الاقوامی حیثیت کا حامل ہے کالج کے
200 طلبہ کا حلقہ انڈونیشیا ، برما، تبت، ہندوستان ، مغربی افریقہ ، مشرقی افریقہ سومالی لینڈ اور بحرین وغیرہ ممالک تک پھیلا ہوا ہے.ہمارے طلبہ میں سچائی، محنت، خدمت خلق، غیرت قومی خدمت دین امانت و دیانت اور دیگر اخلاق فاضلہ صرف موجود ہی نہیں بلکہ ان کا معیار بھی کافی بلند ہے."" سپورٹس میں غیر معمولی دلچسپی اور آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ کا اجراء پرنسپل کالج حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ہمہ جہت شخصیت رکھنے والے انسان تھے.وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ، ایک تربیت گاہ اور ایک ادارہ تھے آپ کو اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز طور پر ذہانت عطا فرمائی ہوئی تھی.آپ خود بھی ایک بہت اچھے سپورٹس مین تھے اور کھیلوں اور کھلاڑیوں سے بھی آپ کو والہانہ پیار تھا.چنانچہ جیسا کہ آپ نے کالج کے آغاز پر ۱۹۴۴ء میں اپنی ابتدائی رپورٹ میں کالج کے ریق کار کا ڈھانچہ پیش کرتے ہوئے کھیلوں اور ورزشوں and ATHLETICS GAMES کو بھی کالج میں رائج کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا اس کے مطابق شروع سے ہی آپ نے تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اس اہم پہلو کی طرف بھی توجہ دی.قادیان میں ہی ATHLETICS اور معروف گیموں کا آغاز ہو گیا تھا.لاہور کے سات سالوں میں انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں بھی دوسرے کالجوں کی گراؤنڈز میں کھیلیوں کا اجراء کیا اور سپورٹس کی بڑی بڑی ایسوسی ایشنیں آپ کی سربراہی کے لئے درخواستیں کرتی اور آپ کی رہنمائی حاصل کرتی رہیں چنانچہ پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب کا بیان ہے کہ " سپورٹس کی ایسوسی ایشنیں اعلیٰ سطح پر آپ کی خدمت میں پہنچتیں که صدارت قبول فرمائیں تاکہ امن کی فضا قائم ہو.آپ پنجاب بیڈ
201 منٹن ایسوسی ایشن کے کئی سال صدر رہے مغربی پاکستان کے بیڈ منٹن کے مقابلے کالج ہال میں ہوا کرتے.پھر آپ....باسکٹ بال کی سنٹرل زون کے صدر بنے.دیگر کھیلوں کو بھی آپ کی سرپرستی حاصل رہی.فٹ بال کرکٹ ، ٹینس، ٹیبل ٹینس تو آپ خود نہایت عمدہ کھیلتے تھے اور اساتذہ اور طلباء کے میچوں میں خصوصاً ہوسٹل ٹیبل ٹینس کے میچوں میں حصہ لیتے رہے.روئنگ اور باسکٹ بال کو آپ نے بام عروج تک پہنچا دیا.ہائیکنگ میں آپ بے حد دلچسپی لیتے رہے پنجاب ماؤنٹیرنگ کلب اور یونیورسٹی کی ماؤنٹیرنگ کلب جس کے صدر مرحوم ڈاکٹر بشیر وائس چانسلر تھے.پارٹیشن کے بعد دونوں کے دستور بنانے میں آپ کے خاص مشورے شامل تھے اور عملاً آپ ان کے فاؤنڈر ممبر ہیں لیکن دونوں کلبوں سے کوئی براہ راست رابطہ قائم نہ رہ سکا البتہ آپ ہائیکنگ اور ماؤنیٹرنگ اور یوتھ ہاسٹلنگ کی ہر آن حوصلہ افزائی فرماتے رہے.مرحوم چوہدری لطیف احمد جو پاکستان کے ممتاز ہا ئیکر تھے آپ کے بے حد معتقد تھے.۷۵ ربوہ میں کالج منتقل کرنے کے بعد حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے زیر انتظام کالج کی کچی گراؤنڈ میں ۱۹۵۶ء میں باسکٹ بال کا آغاز ہوا.پروفیسر نصیر احمد خان اس کے سرپرست مقرر ہوئے.آپ کی راہنمائی اور نصیر احمد خان صاحب کی کوشش سے جب ۱۹۵۸ میں باسکٹ بال کا کورٹ پختہ ہو گیا تو اس پر آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ کا آغاز کروایا گیا.پہلے آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ میں جو ٹیمیں شامل ہو ئیں وہ یہ ہیں.پولیس لاہور برادرز کلب لاہور وائی ایم سی اے لاہور، بمبئی سپورٹس کلب کراچی، نارتھ ویسٹرن ریلوے لاہور ، فرینڈز کلب سرگودھا لائل پور کلب ٹی آئی کلب، زراعتی کالج لائل پور گورنمنٹ کالج لائل پور اور تعلیم الاسلام کالج ربوہ.اس ٹورنامنٹ میں پاکستان بھر کے چھ اور پنجاب کے آٹھ منتخب اور مشہور کھلاڑیوں
202 نے حصہ لیا.انعامات حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب سابق وزیر خارجہ نے تقسیم فرمائے.باسکٹ بال کی گیم ربوہ میں فروغ پانا شروع ہو گئی اور اس طرح ہر سال ربوہ میں آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ ہونے لگے جن میں ہر سال ٹیموں کی شمولیت میں اضافہ ملک کے منتخب کھلاڑیوں کی شمولیت میں اضافہ ہوتا رہا.چوتھے ٹورنامنٹ پر ایک ساوینیر بھی شائع ہوا اور پاکستان کے مختلف اخبارات جیسے پاکستان ٹائمز ، سول اینڈ ملٹری گزٹ نوائے وقت ، امروز ، الفضل وغیرہ میں ٹورنامنٹ کی نمایاں خبریں شائع ہوئیں.۱۹۶۱ء میں کالج کے چار منتخب کھلاڑیوں نے پنجاب کی طرف سے قومی مقابلوں میں حصہ لیا اور وائی ایم سی اے کی مشہور بھارتی ٹیم نے کراچی ، لاہور اور راولپنڈی کے علاوہ ربوہ میں بھی میچ کھیلا.ان غیر معمولی کامیابیوں کے باعث پانچویں سالانہ ٹورنامنٹ پر امیچیور باسکٹ بال ایسوسی ایشن کی انتظامیہ کمیٹی کی درخواست پر آپ نے ایسوسی ایشن کے صدر کا عہدہ قبول فرما لیا حالانکہ اس سے قبل آپ کئی مرتبہ معذوری کا اظہار فرما چکے تھے.چنانچہ منصب خلافت پر فائز ہونے تک (نومبر ۱۹۶۵ء تک) آپ بلا مقابلہ ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوتے رہے.ساتویں ٹورنامنٹ پر جس کا انعقاد آپ کے زمانہ پرنسپل شپ کے آخری سال ۱۹۶۵ء میں ہوا ۳۶ ٹیموں نے شرکت کی.گورنر مغربی پاکستان ملک امیر محمد خان صاحب اور دیگر عمائدین جیسے خواجہ عبدالحمید ڈائریکٹر تعلیمات راولپنڈی ریجن ، ونگ کمانڈر ایچ اے صوفی سیکرٹری سپورٹس کنٹرول بورڈ مغربی پاکستان ، پروفیسر خواجہ محمد اسلم پرنسپل اسلامیہ کالج لاہور ، سید پناہ علی شاہ انسپکٹر آف سکولز لاہور ڈویژن ، خان محمد عادل خان ڈائریکٹر آف سپورٹس پشاور یونیورسٹی وغیرہ نے پیغامات بھجوائے.اس ٹورنامنٹ کی تصاویر مع پیغام و تصویر گورنر مغربی پاکستان دو مرتبہ ٹیلیویژن پر دکھائی گئیں اور ریڈیو پر مقامی اور قومی خبروں میں اعلان نشر کیا گیا.خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد آپ کی اجازت سے یہ ٹورنامنٹ ”ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ" کے نام سے جاری رہے.
203 ڈاکٹر پروفیسر نصیر احمد خان لکھتے ہیں:.”ربوہ میں تفریحی دلچسپی کے سامان اب بھی کم ہیں شروع میں بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے....کھیل کے میدان بہت کم میسر تھے اور سرسبز گھاس والے میدان تو ناپید تھے.باسکٹ بال کے کھیل میں اپنی ذاتی دلچسپی کے علاوہ کالج میں اس کے اجراء کا ایک بڑا جواز میں نے یہ بھی پیش کیا تھا کہ اس میں گھاس کے میدان کی ضرورت نہیں پڑتی.یہ عذر آپ نے معقول گردانا اور ۱۹۵۵ء ۱۹۵۶ء سے کچی گراؤنڈ میں کھیل کی ابتداء ہوئی جو آپ کی سرپرستی میں تیزی سے پروان چڑھا.آل پاکستان باسکٹ بال ٹورنامنٹ شروع کیا گیا جس میں پاکستان کی سبھی نامور ٹیمیں شوق سے شامل ہونے لگیں اور پھر یہ سلسلہ ایسا چلا اور پاکستانی کھلاڑیوں اور آپ کے درمیان محبت اور وفا کا ایک ایسا رشتہ قائم ہوا جو آپ کی زندگی کے آخری سانسوں تک استوار رہا.وفاداری کا بشرط استواری کا عمل ان کھلاڑیوں کی طرف سے بھی ہوا جن کا عقیدہ کے لحاظ سے آنحترم سے کوئی تعلق نہ تھا.اس کا نمایاں اظہار آپ کی زندگی میں منعقد ہونے والے آخری آل پاکستان ناصر باسکٹ بال ٹورنامنٹ کے موقع پر اس قرارداد غم سے ہوا جو جناب شیخ محمد امین آف لاہور نے ٹورنامنٹ کے اختتامی اجلاس میں حضور کی حرم محترمہ حضرت سیدہ منصورہ بیگم کی وفات حسرت آیات کے متعلق سبہ کھلاڑیوں کی ترجمانی کرتے ہوئے پیش کی.تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے ایک سابق طالب علم جو کھیلیوں سے بھی شغف رکھتے تھے یعنی قریشی سراج الحق صاحب کھیلیوں سے آپ کی دلچسپی کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں." کالج میں آپ طلباء کی جسمانی تربیت کی طرف خصوصی توجہ فرماتے تھے.کم و بیش تمام کھیل باقاعدہ کھیلے جاتے تھے لیکن حضور کی زیادہ توجہ پہلے کشتی رانی کی طرف تھی اور بعد میں آپ کا دست شفقت
204 ہے باسکٹ بال پر بھی خصوصاً رہا تاہم فٹ بال کبڈی، ہاکی، والی بال اور اتھلیٹکس بھی کالج میں باقاعدہ جاری رہے، ربوہ میں کالج کی ٹیم کا کوئی بھی بورڈ یا یونیورسٹی کا میچ ہو تا حضور کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کے لئے ضرور تشریف لاتے.میچ سے قبل اپنے آفس میں کھلاڑیوں سے ملاقات فرماتے انتہائی شفقت کے ساتھ نصائح فرماتے اور دعا کرواتے.کھیل کے میدان میں بھی کھیل سے قبل.وقفہ کے دوران اور بعض دفعہ اختتام پر کھلاڑیوں.سے ملتے اور حوصلہ افزائی فرماتے.فتح کی صورت سے میں حضور نہایت بشاشت کے ساتھ شاباش دیتے لیکن ہارنے کی صورت میں ہم نے کبھی حضور کو ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے نہ پایا.دو تین مرتبہ فٹ بال کے راولپنڈی زون کے فائنل ربوہ میں کھیلے گئے اور خدا کے فضل سے ہماری ٹیم فتح سے ہمکنار ہوئی.غالبا ۱۹۶۰ء کی بات ہے ہماری ٹیم جس کا میں بھی ممبر تھا زون کے فائنل میچ دو گول سے جیت گئی حضور از راه شفقت ہماری حوصلہ افزائی کے لئے گراؤنڈ میں تشریف لائے ہوئے تھے.میچ کے اختتام پر جب حضور خوشی خوشی کالج میں اپنی کوٹھی کی طرف جانے لگے تو ہم کھلاڑیوں) نے فتح کی خوشی میں حضور کو اپنے کندھوں پر اٹھا لیا.زندہ باد کے نعروں کے ساتھ ہمارا مطالبہ دو چھٹیوں کا تھا مگر حضور بھی شاید مذاق کے موڈ میں تھے آپ کا مکا انکار کے رنگ میں بھراتا رہا اور ہماری دو انگلیاں نعروں کے ساتھ دو چھٹیوں کے لئے بلند ہوتی رہیں جب قافلہ ہوسٹل تک پہنچا تو حضور کی ایک انگلی چھٹی کے لئے اٹھ گئی لیکن ہماری دو انگلیاں مسلسل اصرار کرتی رہیں لیکن آپ کبھی ایک انگلی کا اشارہ فرماتے اور کبھی مٹھی بند کر کے انکار کا مکا لہرا دیتے.ہمارا اصرار کو ٹھی کے گیٹ تک جاری رہا یہاں پہنچ کر حضور نے اپنی دو انگلیاں پر مسرت انداز میں لہرا کر دو چھٹیوں کا اعلان فرمایا اور ہم نے حضور کو اپنے کندھوں سے اتار دیا.
205 فٹ بال کے یونیورسٹی فائنل مقابلے لاہور میں ہوئے تو حضور کالج کے بہت سے اساتذہ کے ساتھ ہماری حوصلہ افزائی کے لئے وہاں تشریف لے گئے.کشتی رانی میں ہمارے کالج کو آپ کی شفقت توجہ تربیت اور دعا سے ایک خاص امتیاز حاصل تھا اور کالج کی ٹیم مسلسل کئی سال تک یونیورسٹی میں چمپین رہی ، کشتی رانی کے مقابلے لاہور میں دریائے راوی پر ہوا کرتے تھے فائنل مقابلہ کے وقت اکثر حضور دریا پر تشریف لے جاتے اور جب کشتیوں کی دوڑ شروع ہوتی تو حضور دریا کے کنارہ کے ساتھ دوڑ کر اپنے کھلاڑیوں کی ہاتھ ہاتھ ہلا ہلا کر حوصلہ افزائی فرماتے." بیرونی لیکچروں کا انتظام کالج میں آپ کے عہد کی ایک خاص بات یہ تھی کہ آپ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے متعلق معروف شخصیتوں کو کالج میں مدعو فرماتے تھے اور ان کے لیکچروں، مشاعروں وغیرہ سے نہ صرف کالج کے طلباء اور اساتذہ مستفیض ہوتے بلکہ ربوہ کے عوام بھی ایسی محفلوں سے لطف اندوز ہوتے اور انہیں بھی شمولیت کا موقع فراہم کیا جاتا تھا.چنانچہ اندرون پاکستان اور بیرون پاکستان سے کئی نامور شخصتیں ربوہ کالج آئیں اور انہوں نے جہاں طلباء اور اساتذہ کے تفنن طبع کا سامان کیا وہاں خود بھی کالج کے ڈسپلن اور اس کی غیر معمولی روایات سے آگاہ ہوئے اور متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.چنانچہ آپ کے ایک دیرینہ ساتھی پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب مرحوم نے آپ کی وفات پر ایک مضمون میں لکھا.جس میں آپ تحریر فرماتے ہیں."1 ربوہ میں تفریحی دلچسپی کے سامان اب بھی کم ہیں شروع میں بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر تھے.کالج کی نقل مکانی کے بعد مباحثوں تقریروں ، مقابلوں ، مشاعروں اور کھیلوں کے ہنگاموں کے علاوہ باہر سے اہل علم کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا.ان سب مشاغل میں حضرت
206 صاحبزادہ رحمہ اللہ کی ذاتی دلچسپی اور سر پرستی کا دخل تھا ۷۸ مورخ احمدیت مولوی دوست محمد صاحب شاہد لکھتے ہیں:.تعلیم الاسلام کالج کی علمی تقریبات میں نامور ملکی اور غیر ملکی شخصیتوں کی آمد کا جو سلسلہ قبل ازیں جاری ہو کا چکا تھا وہ ربوہ میں حیرت انگیز حد تک وسعت پکڑ گیا حتی کہ امریکہ، یورپ اور روس کے بعض ممتاز شہرہ آفاق اور بین الاقوامی شہرت کے حامل سائنس دان بھی اس علمی ادارہ کی شہرت سے متاثر ہو کر کچے آنے لگے چنانچہ اس ضمن میں بعض نامور اشخاص کی ایک مختصر فہرست دی جاتی ہے جو حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی براہ راست قیادت کے مبارک دور میں یہاں پہنچے اور جنہوں نے بذریعہ تقریر اپنے تجربات و معلومات سے اساتذہ اور طلبہ کو متمتع ہونے کا موقعہ دیا.ڈاکٹر ایس ایل شیئس لاہور اطالوی مستشرق پروفیسر اے بوسانی روی سائنس دان برونوف پروفیسر لینن گراڈ یونیورسٹی، ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف فزیالوجی اکیڈیمی آف سائنسز یو ایس ایس آر امریکی سائنس دان ای سی شیکمین پروفیسر امریکن امینا سوٹا یونیورسٹی امریکہ وساٹیفک ایڈوائزر راک فیلر فاؤنڈیشن میجر جنرل اکبر خان مسٹر تھیوڈور ڈاکٹر محمد عوده مدیر " الجمہوریہ " مصر مرغوب صدیقی صاحب صدر شعبہ جرنلزم پنجاب یونیورسٹی لاہور وو سردار دیوان سنگھ صاحب مفتون ایڈیٹر ” ریاست" دہلی ڈاکٹر ای ٹی بے روز نتھل کیمرج یونیورسٹی U.K سر ہیری میلول سابق پروفیسر برمنگھم یونیورسٹی U.K
207 انور عادل صاحب سیکرٹری تعلیم مغربی پاکستان ڈاکٹری ولیم کرک مشیر ثقافتی امور امریکی کو نسل پروفیسر سڈرف (روسی سائنس اکیڈمی کے ممبر بابائے پٹنک (FATHER OF SPUTNIC فلائٹ لیفٹیننٹ ایم.ڈبلیو.بناچ مولانا ابو الهاشم خان رکن اسلامی مشاورتی کونسل پاکستان چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب حج عالمی عدالت انصاف مولانا صلاح الدین احمد صاحب ایڈیٹر ”ادبی دنیا " ڈاکٹر وزیر آغا صاحب ایم اے پی ایچ ڈی ڈاکٹر عبادت بریلوی صاحب ایم اے پی ایچ ڈی اطالوی پروفیسر بار تلوی پروفیسر حمید احمد خان پر نسپل اسلامیہ کالج لاہور ڈاکٹر محمد صادق صاحب ایم اے پی ایچ ڈی ، وائس پرنسپل و صدر شعبہ انگریزی دیال سنگھ کالج لاہور سید امجد الطاف ایم اے سیکرٹری بورڈ آف ایڈیٹرز اردو انسائیکلوپیڈیا آف اسلام پنجاب یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر عبدالبصیر پال صدر شعبہ طبیعات پنجاب یونیورسٹی سید حماد رضاسی ایس پی کمشنر سرگودھا ڈویژن ڈاکٹر وحید قریشی صاحب ایم اے پی ایچ ڈی شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی مسٹر جسٹس سجاد احمد جان حج عدالت عالیہ مغربی پاکستان جسٹس انور الحق صاحب حج عدالت عالیہ مغربی پاکستان مسٹر منظور قادر صاحب سابق وزیر خارجہ پاکستان و چیف جسٹس عدالت عالیہ مغربی پاکستان ڈاکٹر ظفر احمد صاحب ہاشمی وائس چانسلر زرعی یونیورسٹی لائل!
208 سہیل بخاری ایم.اے.پی.ایچ.ڈی.پاکستان ائیر فورس سکول سرگودها پروفیسر سید وقار عظیم ریڈر شعبہ اردو پنجاب یونیورسٹی لاہور ڈاکٹر عبدالحق صاحب سابق پرنسپل ڈینٹل کالج لاہور ڈاکٹر جے ایم ھینڈ ڈاکٹر مشتاق احمد صاحب ایم ایس سی پی ایچ ڈی ڈاکٹر کریم قریشی ایم ایس سی پی ایچ ڈی یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل ٹیکنالوجی ڈاکٹر تھیوڈر بیلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر طاہر حسین صدر شعبہ طبیعات گورنمنٹ کالج لاہور ڈاکٹر ایس اے درانی ایم ایس سی ، پی ایچ ڈی ، ڈائریکٹر اٹامک انرجی کمیشن لاہور کیپٹن علی ناصر زیدی پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب امپریل کالج لندن و مشیر سائنسی امور صدر پاکستان ڈاکٹر الیاس ڈوباش ڈپٹی ڈائریکٹر صنعتی تحقیقاتی تجربہ گاہ ڈاکٹر ایس اے رحمان کمانڈر عبد اللطیف صاحب ڈائریکٹر اعلیٰ تعلیمات زرعی یونیورسٹی لائل پور پروفیسر کرامت حسین جعفری پرنسپل گورنمنٹ کالج لائل پور پروفیسر ڈاکٹر حمید الدین صاحب وائس پرنسپل و صدر شعبہ فلسفہ گورنمنٹ کالج لاہور علامہ علاؤ الدین صدیقی صدر شعبہ اسلامیات پنجاب یونیورسٹی شمس الدین صاحب ایم اے صدر شعبہ تاریخ اسلامیہ کالج لاہور پروفیسر شجاع الدین صاحب ایم اے صدر شعبہ تاریخ دیال سنگھ کالج لاہور پروفیسر ڈاکٹر عبدالحمید صاحب صدر شعبہ تاریخ گورنمنٹ کالج لاہور ڈاکٹر ایس ایم اختر پی ایچ ڈی صدر شعبہ اقتصادیات پنجاب یونیورسٹی پروفیسر محمد اعظم ورک زئی شعبہ اقتصادیات پنجاب یونیورسٹی
209 ڈاکٹر منیر چغتائی شعبہ سیاسیات پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر ہیل بک پروفیسر میونخ یونیورسٹی پروفیسر مائیکل ولیم ایم ایس سی میر حبیب علی صاحب اسٹنٹ ڈائریکٹر سپورٹس مشرقی بنگال ان مقررین کے علاوہ پاکستان کے ممتاز شعراء میں سے احسان دانش، طفیل ہوشیاپوری ، سید محمد جعفری ، مکین احسن کلیم ، حبیب اشعر، کلیم عثمانی ، نظر امروہی ، شرقی بن شائق مدیر نیا راستہ ، قتیل شفائی ، ثاقب زیروی، احمد ندیم قاسمی، عاطر ہاشمی، ظہیر کاشمیری، مضطر عارفی ، صوفی غلام مصطفیٰ تبسم ، شیر افضل جعفری، لطیف انور (مدیر مخابرات ریڈیو پاکستان لاہور) ہوش ترندی (ڈائریکٹر پریس برانچ مغربی پاکستان لاہور) ضمیر مدیر " اسلوب" مولانا عبدالمجید سالک مدیر "انقلاب" نازش رضوی، عبدالرشید تبسم ، گلزار ہاشمی وغیرہ نے کالج کی تقریبات میں شرکت کی اور اپنا کلام سنایا.۷۹ فاطمی پروفیسر ڈاکٹر سلطان محمود شاہد صاحب لکھتے ہیں:.اکتوبر ۱۹۵۴ء میں تعلیم الاسلام کالج لاہور سے ربوہ منتقل ہو گیا.اس وقت کالج ایک معمولی سے غیر معروف قصبہ میں جاری ہوا تھا مگر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بحیثیت پر نسپل اس کالج کو عملی و ادبی رنگ روپ دیا وہ صرف آپ ہی کی شخصیت کا مرہون منت تھا.پاکستان کی معروف علمی شخصیتوں کو ربوہ بلایا جن میں پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر، سیکرٹری تعلیم اور دیگر اہم علمی شخصیتیں شامل ہیں.ہر آنے والے کو حضور جماعت کا صحیح معنوں میں تعارف کرواتے.طلباء کی اس رنگ میں نگرانی اور تربیت فرمائی کہ ان میں اخلاقی و علمی برتری پیدا ہو گئی اور ایک دو سالوں میں ہی تعلیم الاسلام کالج کے طلباء یونیورسٹی اور بورڈ کے امتحانات میں نمایاں پوزیشنیں حاصل کرنے لگے بلکہ میڈیکل اور انجنیئر نگ کالجوں میں داخلہ کے وقت پہلی چند پوزیشنیں تو ضرور تعلیم الاسلام کالج کے طلباء کو
210 حاصل ہو تیں.اسی بناء پر پاکستان کے دور دور از علاقوں سے طالب علم تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں کھینچے چلے آئے بلکہ بیرون پاکستان شمالی، مشرقی اور مغربی افریقہ سے بھی طلباء اخلاقی و علمی تسکین کے لئے یہاں آئے.۸۰ تعلیم الاسلام کالج کی روایات خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد ۱۹۲۶ء کے جلسہ تقسیم اسناد میں حضرت خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی نے اپنے پیچھے چھوڑی ہوئی روایات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :.(1) " اس درس گاہ کے اساتذہ کی یہ روایت ہے کہ وہ اپنے طلباء کے ساتھ بچوں سے بھی زیادہ پیار کرتے ہیں.ان کی جائز ضروریات کا خیال رکھتے ہیں.دکھ سکھ میں ان کے شریک ہوتے ہیں.ہر وقت بے نفس خدمت میں لگے رہتے ہیں اور پوری توجہ اور پوری کوشش کے ساتھ بچوں کی رہبری اور رہنمائی میں مصروف رہتے ہیں.(۲) ہمارے عزیز بچوں میں یہ روایت پختگی کے ساتھ قائم ہو چکی ہے کہ وہ غلط سیاست میں حصہ نہیں لیتے اور سٹرائیک و دیگر ایسی ہی بد عادات سے وہ اتنے ہی دور ہیں جتنی کہ زمین آسمان سے.(۳) اس درس گاہ کا فکر و عمل مذہب و ملت کی تفریق و امتیاز سے بالا ہے.ہر طالب علم خواہ وہ کسی مذہب کسی فرقہ یا سیاسی جماعت سے ہی تعلق کیوں نہ رکھتا ہوں ہر قسم کی جائز سہولتیں حاصل کرتا ہے اور اس کالج کے اساتذہ ہر طالب علم کی جسمانی اور ذہنی نشوونما کی طرف پوری طرح متوجہ رہتے ہیں.(۴) یہاں امیر و غریب میں کوئی امتیاز نہیں رکھا جاتا.ایک غریب کی عزت و احترام کا ویسا ہی خیال رکھا جاتا ہے جیسا کہ کسی امیر طالب علم
211 کا.اساتذہ اس طالب علم کی قدر کرتے ہیں جو علمی شوق رکھتا ہو اور علم کی وسیع شاہراہ پر بشاشت اور محنت کے ساتھ آگے بڑھنے والا ہو.(۵) اور سب سے بڑھ کر ہمارے اساتذہ میں یہ احساس پختگی کے ساتھ قائم ہے کہ محض ظاہری دیکھ بھال اور تربیت کافی نہیں.ہمارے بچوں کا پہلا اور آخری حق ہم پر یہ ہے کہ ہم دعاؤں کے ساتھ ان کی مدد کرتے رہیں.میری دلی تمنا اور دعا ہے کہ یہ صحت مند روایات ہمیشہ اس ادارہ میں قائم رہیں کہ ان کے بغیر ہم ان بلندیوں تک نہیں پہنچ سکتے جن.بلندیوں تک پہنچنے کی خواہش ہمارے دلوں میں ہے." Ales حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی جاری کردہ روایات کی تقلید ڈاکٹر پروفیسر سلطان محمود شاہد لکھتے ہیں:.کالج کے طلبہ میں امیر و غریب کا تفاوت دور کرنے کے لئے حضور نے سب طلباء کے لئے چھوٹا سیاہ گاؤن بطور یونیفارم لازم قرار دے دیا جو کہ اہل علم کا امتیازی نشان سمجھا جاتا ہے ایک دفعہ پروفیسر مکرم حمید احمد خان صاحب جو اس وقت پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر تھے تعلیم الاسلام کالج میں جلسہ تقسیم اسناد (کانووکیشن) کے لئے تشریف لائے تو تمام طلباء کو سیاہ گاؤن پہنے دیکھ کر بہت متاثر ہوئے اور واپس پہنچ کر پنجاب یونیورسٹی کے پوسٹ گریجویٹ طلباء کے لئے سیاہ گاؤن १९ پہننا لازمی قرار دیا.۸۲ آپ کی شخصیت پاکیزہ مزاح اور طبیعت کی شگفتگی پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب بیان کرتے ہیں:." حضور کی طبیعت میں بے حد شگفتگی تھی...حالات خواہ کیسے ہی
212.کرب انگیز کیوں نہ ہوں صبر و تحمل اور وقار کا دامن چھوٹنے نہ پاتا.یقین اور ایمان اور سچائی کا سرور طاری رہتا.ہمیں اداس دیکھتے تو ملکے پھلکے معصوم سے فقروں سے ہمارا دل بہلاتے.عاجز چائے عادتا نہیں پیتا دودھ کا عادی ہے.اس پر فرماتے ”چوہدری صاحب اب تک دودھ پیتے ہیں " ایک مقامی بولی بولنے والا نوکر سوئینا اس کا نام تھا اسے پیار سے فرماتے ”سوئیں نا“ یعنی سونا مت.ایک مرتبہ ۱۹۷۴ء کے پر آشوب زمانے میں عاجز بار بار حضور کی خدمت میں حاضر ہوا تو مسکرا کر فرمانے لگے کہ ہمیں آرائیوں اپنے بہت تنگ کیا ہے.عاجز نے ادب سے عرض کی کہ حضور آرائیں غریبوں نے کیا تنگ کیا ہے یہ کارنامہ تو مغلوں نے سر انجام دیا ہے.فرمانے لگے وہ کیسے.عرض کیا جب مغل مسلمان نہیں ہوئے تھے تو یورپ اور ایشیا ان کے سامنے تھر تھر کانپتے تھے.مسلمان ہوئے تو شوکت اور ہیبت میں کمی نہ آئی.بادشاہتیں سنبھال لیں.وہ دور ختم ہوا تو اب آسمان کی بادشاہت کے وارث قرار پائے.آرائیں بچارے کس باغ کی مولی ہیں.حضور مسکرائے اور کچھ اس طرح پیار سے دیکھا کہ سارے غم بھول گئے.۸۳ ایک اور واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے چوہدری محمد علی صاحب فرماتے ہیں:." میں نے ایک مرتبہ لاہور جانے کی اجازت مانگی لیکن بیمار ہو گیا اور لاہور نہ گیا.عیادت کے لئے تشریف لائے اور فرمایا ”اد ہو! آج پتہ چلا کہ لاہور سے کیا مراد ہے؟؟...عاجز کے پاس ایک بہت بڑا پلنگ تھا جس پر خاکسار لیٹا تھا اسی کی طرف حضور نے اشارہ فرمایا تھا چنانچہ اس پلینگ کا نام ہی لاہور مشہور ہو گیا.۸۴ آپ کے پاس ایک پرانی کار تھی جس پر ہوٹل کی سالانہ تقاریب میں اکثر ہلکا پھلکا مزاح اور نظمیں ہوتی رہتی تھیں اس پر آپ غصے کی بجائے خوشی محسوس کرتے تھے.
۸۵ 213 چوہدری محمد علی صاحب اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:." ایک مرتبہ ایک نوجوان نے جو جماعت کے ایک نہایت مخلص اور معروف خاندان سے تعلق رکھتے تھے.آپ کی ولزلے کار پر ایک طنزیہ مضمون لکھا اور المنار کے انگریزی حصے میں چھپنے کے لئے دیا.وہ خود - ایک بہت بڑی نئی کار میں کالج آیا کرتے تھے اور ولزلے ایک چھوٹی سی پرانی کار تھی.محدود مجلس میں حدود کے اندر رہ کر ہلکا پھلکا مزاح ایک الگ بات ہے لیکن اس طرح عام اشاعت کے لئے مضمون کا المنار میں چھپنا ایک بالکل دوسری بات تھی.چنانچہ عاجز نے مضمون شائع کرنے سے انکار کر دیا.اس پر حضور کی طرف سے ارشاد ہوا کہ ” یہ مضمون ضرور چھپنا چاہئے." مختلف رسالوں میں اس کار پر اتنی نظمیں لکھی گئیں کہ ایک مرتبہ فرمایا.ساری نظمیں اکٹھی کرو تا کہ ”دیوان کار " چھپوایا جا سکے اور اگر میں اسے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں پیش کروں تو مجھے نئی کار مل جائے.سب ایک مرتبہ عاجز نے بھی ہوسٹل فنکشن کے موقع پر پنجابی میں ایک نظم اس کار پر لکھی لیکن نظم نہ سنائی.لیکن نظم نہ سنائی.فنکشن ختم ہوا تو ارشاد فرمایا کہ سر بیٹھے رہیں جب تک نظم نہ سنائی جائے گی فنکشن ختم نہیں ہوگا...عزیز اکرم میر نے یہ نظم پڑھ کر سنائی...ایک ادھورا بند کچھ اس طرح سے یاد ہے کا لیتے کلوٹے فی سونہ مینوں باپ دی جدوں سوہنا وچ ہووے توں وی سوہنی جاپدی جوڑ ہل جاوے جدوں کھنگدی جوڑ ساڑے سجناں دی کار اے کالے رنگ دی"
214 صاحبزادہ مرزا لقمان احمد کی پیدائش پر دو چھٹیاں محترم ڈاکٹر پروفیسر نصیر احمد خان صاحب فرماتے ہیں:.اواخر ۱۹۵۳ء کا ذکر ہے کہ میاں صاحب کالج تشریف لائے تو اساتذہ نے گھیر لیا.خبر خوشی کی یہ ملی تھی کہ اللہ نے تیسرا بیٹا عطا کیا ہے.میں نے پوچھا نام کیا رکھا ہے؟ فرمایا حضرت مصلح موعود کو بذریعہ تار پیدائش کی خبر دی تھی اس کے جواب میں تار موصول ہوا ہے کہ Congratulations on the birth of Mirza Luqman Ahmad لہذا مرزا لقمان احمد نام ٹھہرا.اس وقت سٹاف میں پروفیسر عباس بن عبد القادر مرحوم محمود احمد صاحب حیدر آبادی بھی دیگر اساتذہ کے جھرمٹ میں موجود تھے.دوستوں نے تقاضا کیا کہ چھٹی ہونی چاہئے.آپ نے کہا بہتر ایک چھٹی منظور.پروفیسر عباس بن عبد القادر بولے.حضور ایک نہیں دو.سب مسکرا دیتے اور اس طرح مرزا لقمان احمد کی پیدائش کی دو چھٹیاں منائی گئیں.کالج کا ماحول بے تکلفانہ بلکہ برادرانہ تھا مگر نظم و ضبط مثالی اور شہرت و نیک نامی ٹکسالی»۸۶ کالج کے زمانہ میں وقف زندگی کا احساس مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ لکھتے ہیں:.غالبا ۱۹۵۲ء یا ۱۹۵۳ء کا ذکر ہے آپ تعلیم الاسلام کالج لاہور کے پرنسپل تھے.میں لندن میں امام مسجد.ان کی طرف سے مجھے ایک خط ملا جس میں بعض اشیاء بھیجوانے کے لئے کہا تھا جن کی قیمت میرے ایک سال کے الاؤنس سے بھی زیادہ تھی میں نے خط لکھا کہ اگر میں ایک محض ہوا پر گزارہ کروں تو بھی تعمیل ارشاد نہیں کر سکتا.میرے سال
215 ایک ساتھی نے ایسا خط لکھنے سے منع کیا کہ صاحبزادہ صاحب کو اس طرح نہ لکھیں مگر مجھے مشورہ دینے والے بھی میری طرح تہی دست تھے.ہیم ور جا کے ملے جلے جذبات کے ساتھ میں نے رد عمل کا انتظار کیا نہ صرف جواب آیا بلکہ جواب حوصلہ افزا تھا.انہوں نے لکھا تھا کہ دفتری کلرک کی غلطی نے یہ تاثر پیدا کیا ہے کہ شائد میں نے بل ادا کرنا ہے حالانکہ ایسا نہیں، حقیقت صرف اتنی تھی کہ ایک ایسی فرم کو کالج کی طرف سے بعض اشیاء کی فراہمی کے لئے لکھا گیا ہے جس سے پہلے بھی سامان آتا ہے.کلرک کو یہ کہا گیا تھا کہ آپ کو لکھ دے کہ فرم کو کہہ کر جلدی بھجوا دیں، ادائیگی پہلے بھی قانون کے مطابق بنک کے ذریعہ ہوتی ہے اب بھی ہوگی.اس خط کی جان ایک فقرہ تھا جس کے اصل الفاظ تو تمہیں سال گزرنے کے بعد صحیح یاد نہیں مگر کچھ اس قسم کے تھے که " آپ کی صاف گوئی سے خوشی ہوئی ہے.میں بھی واقف زندگی ہوں آپ کی حالت قیاس کر سکتا ہوں " مجھے اس سے از حد اطمینان ہوا اور وقف کے کٹھن مراحل بھی بہت آسان ہو گئے.۰۸۷۲ علم و حکمت مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں:.ایک مرتبہ پشاور یونیورسٹی میں آپ تشریف لے گئے اپنے اور بیگانے سبھی آپ کے گرد جمع ہو گئے.شام کو ایک نشست ہوئی جس میں آپ پر سوال کیا گیا کہ آج کل کے ترقی یافتہ دور میں مذہب کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟ آپ کا جواب اگر چہ مختصر تھا لیکن نہایت مسکت اور اطمینان بخش.
216 آپ نے " ترقی یافتہ دور" کے الفاظ کو ہی بنیاد بنایا اور فرمایا کہ اس ترقی یافتہ دور کا ہی نتیجہ ہے کہ ہر کام اس کے Specialist (ماہر) کے سپرد کر دیا گیا ہے جس کام میں کوئی شخص Specialist (ماہر) ہو اس دائرہ میں اس کی رائے کو تسلیم کیا جاتا ہے چنانچہ آپ نے مذہب کے بارے میں صحیح رائے قائم کرنی ہے تو جو بھی اس کے Specialists (ماہرین) ہیں ان سے رابطہ قائم کرنے کی ضرورت ہے اور ان کی رائے کو ہی فوقیت حاصل ہو گی چنانچہ آپ نے بڑی جرات اور حکیمانہ انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کا ذکر فرمایا اور ان سے رابطہ قائم کرنے کی دعوت دی.۰۸۸۴ شاف پر مکمل اعتماد ڈاکٹر پروفیسر نصیر احمد خان صاحب بیان کرتے ہیں:." سٹوڈنٹس یونین سالها سال میرے سپرد رہی.ایک مرتبہ منتخب صدر اور معتمد دونوں طلباء ہی نہایت شریف اور ضرورت سے زیادہ نرم خو واقع ہوئے.مجھے نظم و ضبط کچھ ڈھیلا پڑتا دکھائی دیا یعنی ہمارے اس وقت کے معیار کے لحاظ سے.متعدد مرتبہ انہیں سمجھایا کہ ہر اجلاس سے قبل پیش بندی کرو.والٹیئر ز مقرر کرو وغیرہ وغیرہ مگر وہ دونوں اپنی نرم خوئی سے مجبور تھے.سوئے اتفاق سے ایک میٹنگ کے دوران دو طلباء میں کچھ تو تکار ہو گئی.اساتذہ بھی موجود تھے.بہت ناگوار گزرا بھری مجلس میں اعلان کر دیا کہ صدر اور معتمد دونوں کو موقوف کرتا ہوں.ہال میں سناٹا چھا گیا....حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ بحیثیت پر نسپل یہ حق رکھتے تھے کہ مجھے بلا کر پوچھتے کہ اتنا بڑا قدم اٹھانے سے پہلے مجھ سے کیوں نہیں پوچھا؟ لیکن آپ کا طریق یہ تھا کہ جس کے سپرد کوئی کام کرتے اس پر مکمل اعتماد کرتے“
217 معاملہ اگر اصولاً صحیح ہوتا تو پوری حمایت کرتے اور غلط یا جلد بازی کی بات کو بھی احسن رنگ میں ٹوکتے.چنانچہ اس واقعہ کے ڈیڑھ دو ماہ بعد مجھے سر را ہے اس قدر فرمایا کہ ایسی باتوں میں پرنسپل سے مشورہ کر لینا چاہئے ۸۹ آپ کا زہد و تقویٰ کالج کے زمانہ میں جب کہ آپ کا قیام تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں پرنسپل کی کو بھی میں تھا اور قریب ہی سپرنٹنڈنٹ ہوسٹل چوہدری محمد علی صاحب رہتے تھے.راجہ غالب احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ جب ۱۹۶۳ء ۱۹۶۴ء میں ائیر فورس چھوڑ کر سکینڈری بورڈ میں بطور ڈپٹی سیکرٹری پوسٹ ہوئے تو ربوہ تشریف لائے اور چوہدری محمد علی صاحب کے پاس ٹھہرے.انہوں نے پرنسپل صاحب کی کوٹھی پر متعین پٹھان چوکیدار یا ملازم سے آپ کے شب و روز کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ آپ کا کیا پوچھتے ہیں.آپ تو سارا دن کام کر کے سخت تھک جاتے ہیں رات گئے تک کام کرتے رہتے ہیں اور پھر ڈرائنگ روم میں تہجد ادا کرتے ہیں اور مناجات کرنے اور خدا تعالیٰ کے حضور گڑ گڑانے کی آوازیں باہر تک آتی ہیں.ذکر الہی کی آپ کو شروع سے ہی عادت تھی.اکثر اوقات آپ ایک طرف کاغذات پر دستخط فرما رہے ہوتے اور دوسری طرف دل میں خدا تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کر رہے ہوتے اور اس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ پر درود و سلام بھیج رہے ہوتے.چنانچہ ایک مرتبہ اس امر کا اظہار آپ نے خلافت کے دوران ایک جلسہ سالانہ پر بھی کیا تھا اور فرمایا تھا کہ آپ نے ایک بار پاس کھڑے ہوئے ہیڈ کلرک جنید ہاشمی صاحب کو بھی تحریک کی تھی کہ وہ کاغذات لے کر کھڑے ہیں اور دستخطوں کے دوران وہ بھی ذکر الہی کریں.آپ کی نماز تہجد پڑھنے کا واقعہ صاحبزادی امتہ الشکور صاحبہ بیان کرتی ہیں:.” میں اکثر سوچا کرتی کہ اکثر لوگ اپنے تہجد پڑھنے وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں.ابا نے کبھی نہیں کیا.نہ ہی میں نے کبھی پڑھتے دیکھا.اللہ تعالیٰ
218 نے میرا شبہ دور کرنا تھا اس لئے ایک بار میری آنکھ کھلی ، آدھی رات کے وقت بہت پیاس لگ رہی تھی، پانی پینے جانے کے لئے ابا کے کمرے سے گزرنا پڑا وہاں دیکھا کہ ابا نفل پڑھ رہے ہیں.پانی پی کر واپس آئی تو سلام پھیر چکے تھے ہلکی روشنی میں میں نے دیکھا کہ چہرے پر شرمندگی کے آثار تھے جیسے میں نے کوئی چوری پکڑ لی ہو." تعلیم کے بارہ میں صاحبزادہ صاحب کا تصور ۱۹۶۴ء کے کانووکیشن پر صاحبزادہ صاحب نے فارغ التحصیل طلباء کو فرمایا :.ال " آپ درس گاہ کی تعلیم سے فارغ ہو رہے ہیں مگر تعلیم سے فارغ نہیں ہو رہے.علم ایک بحر بے کنار ہے.اس لئے ایک انسان علم میں خواہ کس قدر ترقی کر جائے علم ختم نہیں ہوتا.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے قُلْ لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفِدَ كَلِمَتُ رَبِّي وَ لَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (الكيف : ١١٠) کہدے کہ اگر سمندر کو سیاہی بنا کر اس سے خدا تعالیٰ کی معرفت کی باتیں ، اس کے دیئے ہوئے علوم اور قدرت کے راز ضبط تحریر میں لانا چاہو تو وہ ایک سمندر کیا اس جیسا ایک اور سمندر بھی لے آؤ تو وہ بھی ختم ہو جائے گا مگر خدا کی باتیں اور اس کے دیئے ہوئے علوم ختم نہ ہوں گے.اس لئے اللہ تعالٰی نے حضرت رسول اکرم میں سے اور حضور کی اتباع میں ہر مسلمان کی زبان سے یہ کہلوایا کہ رَبِّ زِدْنِی علما ( طه : ۱۱۵) اے اللہ مجھے اپنی معرفت اور علم میں بڑھاتا جا.پس علم کبھی نہ ختم ہونے والی چیز ہے اس لئے آپ تادم حیات علم کی جستجو میں رہیں اور اس کے حصول کے لئے ہمیشہ کوشاں رہیں.اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کے
219 ساتھ ہو.29155 ۱۹۶۵ء کے کانووکیشن پر فرمایا:." حقیقی علم کا ابدی سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے....اگر آپ علم سے محبت رکھتے ہیں تو ضروری ہے کہ آپ کا تعلق علم کے حقیقی سر چشمہ سے ہمیشہ مضبوط رہے پس اپنی عقل اور علم پر تکیہ نہ کرو بلکہ ہمیشہ علام حقیقی کے آستانہ پر عاجزی اور انکساری کے ساتھ جھکے رہو تا اس تعلق کے طفیل تمہارے دلوں سے بھی ہمیشہ مصفی ، میٹھے اور لذیذ علم کے.چشمے پھوٹتے رہیں.....یہ بھی نہ بھولنا کہ انسان علم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ خود اس سے فائدہ اٹھائے اور دوسروں کی خدمت کرے....پس ہمیشہ عالم با عمل بننے کی کوشش کرو.خدا تعالیٰ تمہارے ساتھ ہو اور اپنے سایہ رحمت میں ہمیشہ رکھے." اللہ تعالٰی کی غیبی مدد کا آپ کے ساتھ ہونا جیسا کہ باب سوم کے آغاز میں لکھا گیا ہے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو کالج کی پرنسپل شپ کے علاوہ بیک وقت کئی اور ذمہ داریاں بھی خلیفہ وقت کی طرف سے سونپی گئی تھیں جنہیں آپ نہایت فرض شناسی اور ہمت کے ساتھ احسن رنگ میں ادا کر رہے تھے جیسا کہ حضرت مولوی محمد دین صاحب ناظر تعلیم صدر انجمن احمدیہ نے ۱۹۶۲ء ۱۹۶۳ء کی صیغہ جات کی سالانہ رپورٹ میں ایک مرتبہ ان الفاظ میں ذکر کیا." ٹی آئی کالج کے پرنسپل محترم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے آکسن ہیں.کالج کا تمام انتظام آپ کی نگرانی اور آپ کی ذاتی دلچسپی سے سر انجام پاتا ہے.کالج میں ایک کو نسل بھی ہے اہم معاملات اس کے مشورے سے فیصلے ہوتے ہیں.ٹی آئی کالج کی.
220 )) کار کردگی خدا تعالیٰ کے فضل سے مثالی ہے اور ہزاروں غیر احمدی لڑکے اس کالج سے تعلیم حاصل کر چکے ہیں.پرنسپل شپ کے علاوہ مرکز سلسلہ کے بے شمار اہم کام آپ کے ذمہ ہیں جو آپ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے نہایت عمدگی اور فراست سے سر انجام دیتے ہیں.کالج میں بی اے آنرز کلاسز بھی ہیں اور ایم اے عربی کی تعلیم بھی باقاعدہ ہو رہی ہے.آپ نے اپنی خلافت کے دوران ایک بار بیان فرمایا کہ ان دنوں اگرچہ آپ بطور پرنسپل تو اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا کر لیتے تھے لیکن غیر معمولی جماعتی مصروفیات اور حضرت مصلح موعود کے تفویض کردہ کاموں کی وجہ سے اپنی کلاس کو پورا وقت نہ دے سکتے تھے اور اس طرح پورا سلیس ختم نہیں ہو سکتا تھا.آپ نے فرمایا کہ دعا کے نتیجے میں اکثر اوقات ایسا ہوتا کہ آپ کو رویا میں اس سال کا یونیورسٹی کا پرچہ نظر آ جاتا اور آپ کلاس کو بتائے بغیر ان سوالات پر مشتمل جامع نوٹس تیار کر کے چند لیکچروں میں اس مضمون کے متعلقہ حصے پڑھا لیتے اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ آپ کے مضمون میں کلاس کا نتیجہ ہمیشہ باقی مضامین سے بہتر ہوتا.آپ کے شاگرد صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب اس امر کے چشم دید گواہ ہیں.اس ضمن میں وہ اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۵۸ء ۱۹۵۹۴ء کے سال غیر معمولی دینی مصروفیت کی وجہ سے آپ اپنی بی.اے کی کلاس کو سیاسیات کے مضمون کا پورا کورس ختم نہ کروا سکے اور اس دوران سالانہ امتحان شروع ہو گیا.سیاسیات کے پرچے سے تقریباً دو روز قبل آپ نے ان کو ایک کاغذ پر تین سوالات لکھ کر بھجوائے اور ان کے جوابات بھی ٹائپ کروا کر بھیجوائے اور فرمایا کہ یہ بھی پڑھ لینا اور باقی کلاس کے لڑکوں کو بھی بتا دینا.صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ان میں سے ایک سوال مارشل لاء کی حکومت میں اور آئینی حکومت میں صدر مملکت کے اختیارات کے بارے بھی تھا اور ۱۹۵۸ء کے مارشل لاء کی وجہ سے ہمارا یہ خیال تھا کہ یہ سوال تو امتحان میں بالکل نہیں آ سکتا بہر حال ہم نے یہ تینوں سوال تیار کر لئے اور جب سیاسیات کا یونیورسٹی کا پرچہ آیا تو اس میں یہ تینوں
221 سوالات موجود تھے.اس موقع پر آپ نے ان سوالات کا کوئی پس منظر بیان نہیں کیا.بعد میں خلافت کے دوران ایک جلسہ کے دوران خطاب فرماتے ہوئے اس امر کا اظہار فرمایا کہ وہ پرچہ آپ کو کشفی حالت میں دکھایا گیا تھا.جامعہ اور کالج میں الوداعی خطاب آپ انتخاب خلافت تک تدریس سے وابستہ رہے اور انتخاب خلافت کے علی الترتیب ۵ روز اور ۱۸ روز بعد جامعہ اور کالج میں خطاب فرمایا.۱۳ نومبر ۱۹۶۵ء کو جامعہ احمدیہ کے اساتذہ اور طلباء سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:."میرا جامعہ سے بڑا دیرینہ اور گہرا تعلق ہے جب میں نے ہوش سنبھالا یا شائد اس سے بھی پہلے حضور کے ارشادات ہدایات اور انصائح اور تربیت کے جو طریق تھے اس سے دل نے یہ تاثر لیا تھا کہ یہی (جامعہ) وہ جگہ ہے جہاں علم کو حاصل کرنا ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سے علم حاصل کرنے کے بعد اس کے استعمال کا طریق سیکھنا ہے." ۲۶ نومبر ۱۹۶۵ء کو تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے اساتذہ اور طلباء کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:." اس ادارہ کے لئے میرے دل میں وہی جذبات ہیں جو جامعہ احمدیہ کے زمانہ میں تھے میں نے اپنے دل دماغ اور جسم کو اس ادارے کے لئے خدا کے حضور بطور وقف پیش کر دیا اور بڑے ہی پیار کے ساتھ اس کو چلانے کی کوشش کی اور ان طلباء کو جو اس وقت میرے سامنے بیٹھے ہیں اپنے بچوں سے زیادہ عزیز سمجھا جہاں میں نے سختی کو مناسب اور اصلاح کا ذریعہ پایا وہاں سختی بھی کی اور اس کے بعد راتوں کو اس دکھ کی وجہ سے مجھے جاگنا بھی پڑا کیوں میرے ہاتھ سے میرے اس بچے کو سختی جھیلنی پڑی.کئی راتیں ہیں جو کہ اس وجہ سے میں نے جاگ کر گزاری ہیں.میں ہمیشہ ہی آپ سب کے لئے دعا کرتا رہا ہوں.۹۴
222 غرض ان اداروں سے آپ کو جتنی محبت تھی اس کا اظہار کئے بغیر آپ رہ نہ سکے تاریخ احمدیت میں آپ کی ان خدمات اور محبت کے جذبات کو ہمیشہ عزت اور احترام کے ساتھ یاد کیا جاتا رہے گا.انشاء اللہ سویا بین پر ریسرچ آپ نے جہاں طلباء کی فلاح و بہبود کے لئے کالج میں متعدد ایسے کام کئے اور ایسی پالیساں بنائیں جن سے غریب طلباء کو بھی تعلیم حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہوئے اور لائق طلباء کی حوصلہ افزائی ہوئی وہاں ہو نہار اور محنتی طلباء کو دماغ کی طاقت کے لئے سویا بین فراہم کی اور اس کے استعمال پر بہت زور دیا.ڈاکٹر سردار نذیر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی " فرمایا کرتے تھے کہ ناصر احمد سویابین پر ریسرچ کرتا رہتا ہے چنانچہ اس ریسرچ کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ نے کالج کے پرنسپل ہونے کے زمانہ میں تعلیم الاسلام کالج کے ذہین اور محنتی طلباء کو اور اسی طرح اچھے کھلاڑیوں کو کالج کی طرف سے سویابین فراہم کرنے کا انتظام فرمایا.سویا بین پر ہونے والی ریسرچ پر آپ کی ہمیشہ عمیق نظر رہی اور خلافت کے زمانے میں تعلیمی منصوبہ تشکیل دیتے وقت سویابین کے استعمال کو آپ نے ایک لحاظ سے اس منصوبہ کا ضروری حصہ بنا دیا آپ نے اپنی خلافت کے زمانہ میں ایک مرتبہ فرمایا:.ایک نئی ریسرچ یہ ہوئی ہے کہ دال کی قسم کی ایک چیز سویا بین ہے.....اس سویابین میں ۲۴ فیصد تیل (چکنائی) ہے.اس چکنائی میں بھاری مقدار میں ایک کیمیائی جزو پایا جاتا ہے اس کو کہتے ہیں لیسی تھین.یہ کیمیائی جزو انسان کے حافظہ کے لئے بڑا مفید ہے.دماغ پر اس کے اچھے اثرات کے متعلق ۱۹۷۸ء میں نئے تجربے ہوئے تھے...یہ نئی ریسرچ ہوئی ہے کہ سویا بین کھانے سے طالب علم چالیس فیصد اپنا وقت بچا لیتا ہے یعنی جس بات کے حفظ کرنے میں دس منٹ اس کو لگتے تھے
223 وہ اس نے چھ منٹ میں حفظ کر لی تو بڑا فائدہ ہو گیا جس کا مطلب یہ ہے کہ چھ گھنٹے اگر اس نے کام کیا ہے تو اس کا عام جو نتیجہ تھا وہ چھ کی بجائے دس نکلا.پہلے دس گھنٹے میں اگر اس نے چھ گھنٹے کی چیز حفظ کی تھی تو پھر چھ گھنٹے میں دس گھنٹے کی چیز حفظ کرنے لگ گیا یا جو دس گھنٹے میں حفظ کرتا تھا وہ چھ گھنٹے میں حفظ کرنے لگ گیا لیسی تھین" میں اور بہت ساری خاصیتیں ہیں.میں بھی اس کو استعمال کرتا ہوں.میرے پاس امریکہ کی بنی ہوئی کی بیول میں لیسی تھین ہے.یہ سویا لیسی تھین کیپسول.کہلاتے ہیں اول تو سارا سال کھانی چاہئے لیکن کم از کم چار مہینے امتحان سے پہلے وہ کھانا شروع کرے تو بہت ساری کمیاں دور کر سکتا ہے.ذہین طلباء کی قدر دانی تعلیم الاسلام کالج میں آپ نے جو روایات قائم کیں ان میں سے ایک روایت یہ بھی تھی کہ ذہین طلباء کی قدردانی کی جاتی تھی جن طلباء کو چند نمبروں کی کمی کی وجہ سے گورنمنٹ سے وظیفہ نہیں ملتا تھا ان کی فیس معاف کی جاتی تھی جیسا کہ آپ خود فرماتے ہیں:."شوری میں جو تجویز پیش کی گئی ہے کہ جماعت وظائف کا نصف نصہ پیشگی ادا کرے وہ اس صورت میں ہے کہ طالب علم ذہانت اور قابلیت کی وجہ سے وظیفہ حاصل نہ کرے.اگر قابلیت ہو تو ہم خود وظیفہ دیتے ہیں.تعلیم الاسلام کالج میں یہی طریق رائج ہے.چوٹی کے طالب علموں کو گورنمنٹ وظائف دیتی ہے لیکن جن طلباء کو چند نمبروں کی کمی کی وجہ سے وظیفہ نہیں ملتا.کالج کی طرف سے ان کی پوری فیس معاف کر دی جاتی ہے اور اگر گنجائش ہو تو وظیفہ بھی دیا جاتا ہے.اس کے علاوہ جو لائق اور غریب اور مستحق طالب علم ہوتے تھے انہیں وظیفہ کے علاوہ کتب بھی مفت دی جاتی تھیں اور غذا کی کمی کو دور کرنے کے لئے ان کو دودھ اور 294ec
224 سویابین بھی دی جاتی تھی.آپ کو علم الاغذیہ کے ساتھ خاص دلچسپی تھی اور آپ شروع سے ہی سویا بین وغیرہ پر تحقیق کرتے رہتے تھے.اسی لئے ذہانت کو ابھارنے کے لئے اور ذہنی کام کرنے والوں کے لئے آپ سویا بین اور بادام تجویز فرماتے تھے اور حقیقت تو یہ ہے کہ آپ کے کالج میں بعض طلباء لائق ہونے کی وجہ سے ، بعض غریب ہونے کی وجہ سے اور بعض کھلاڑی ہونے کی وجہ سے آپ سے مراعات لے رہے ہوتے تھے غرضیکہ کوئی نہ کوئی وجہ استحقاق پیدا کر لی جاتی تھی کہ طلباء کو تعلیم الاسلام کالج سے کچھ نہ کچھ زائد ضرور دیا جائے جو دوسروں کالجوں میں نہیں ملتا تھا.مکرم پروفیسر محمد اسلم صاحب صابر لکھتے ہیں."" سکینڈ ائیر کی بات ہے.ہوسٹل میں ہم جتنے سکالر شپ ہولڈ رز تھے اور ان کی تعداد کافی تھی.ایک دن سپرنٹنڈنٹ ہوسٹل مکرم پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب نے سب کو بلایا اور سات سات سیر بادام ہر ایک کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا کہ پرنسپل صاحب نے کالج کے تمام سکالر شپ ہولڈ رز کو عنایت فرمائے ہیں.مزید تفتیش سے معلوم ہوا کہ کشتی رانی کے کھلاڑیوں کو سویابین کا حلوہ ملتا ہے.اپنے ایک دوست کا ذکر کرتے ہوئے صابر صاحب لکھتے ہیں.”میرے ایک دوست اور کلاس فیلو اور روم میٹ سید ناصر احمد آف کھاریاں تھے.آج کل کینیڈا میں انجنیئر ہیں.ریاضی میں ہمیشہ سو فیصد نمبر لیتے.وہ سٹوڈنٹ یونین کے عہدیدار منتخب ہو گئے.یونین کا لباس ان دنوں سیاہ شیروانی تھا اور وہ سلوانے کی استطاعت نہ پاتے تھے.کسی کام سے وہ پرنسپل صاحب کے دفتر میں گئے.دیکھ کر فرمایا ناصر! تمہاری شیروانی کہاں ہے؟ عرض کیا.میاں صاحب! شیروانی میرے پاس نہیں ہے.فرمایا اچھا سو فیصد نمبر لینے والا طالب علم اور شیروانی نہیں.کرتا ہوں ٹھیک تمہیں.ناصر تو باہر چلا آیا.آپ نے چوہدری محمد علی صاحب کو بلایا اور حکم دیا کہ فوراً سید ناصر احمد کو عمدہ
225 سیاہ گرم شیروانی سلوا دیں.چنانچہ چند دن کے بعد سید ناصر بهترین گرم شیروانی میں ملبوس اکٹر اکڑ کر چلتا دکھائی دیتا اگرچہ اس میں انکسار بہت تھا اور اب تک ہے.۹۸۴ سٹاف پر شفقت کے کچھ مزید واقعات پروفیسر ڈاکٹر سلطان محمود شاہد تحریر فرماتے ہیں." سٹاف پر حضور کی شفقت کا یہ واقعہ بھی قابل ستائش ہے کہ ایک دفعہ کالج کے امتحانات کے رجسٹرار محترم پروفیسر محمد ابراہیم صاحب ناصر مرحوم نے حضور کی خدمت میں عرض کی کہ ایک پروفیسر صاحب اپنے پرچہ کا نتیجہ نہیں دے رہے جس کی وجہ سے طلباء کے داخلے بھیجوانے کا کام رکا ہوا ہے اور دن بھی تین چار باقی ہیں.حضور نے فرمایا کہ ابھی سٹاف میٹنگ بلائیں چنانچہ انہوں نے فوراً سٹاف میٹنگ بلائی اور جب پروفیسر صاحبان جمع ہو گئے تو حضور تشریف لائے اور فرمایا کہ تمام پروفیسر صاحبان آج ہی اپنے مضمون کے امتحان کے نتیجہ کی لسٹ محترم پروفیسر ابراہیم ناصر صاحب (مرحوم) کو دے کر جائیں اور اس میں ہرگز کو تاہی نہ ہو.یہ فرما کر حضور واپس چلے گئے چنانچہ وہ پروفیسر صاحب جنہوں نے ابھی لسٹ نہیں دی تھی فورا نتیجہ کی لسٹ تیار کرنے لگے اور اس وقت تک سٹاف روم سے نہیں ہلے جب تک کام مکمل نہ کر لیا.تو حضور کسی کا نام لئے بغیر اس رنگ میں سرزنش فرماتے کہ وہ سرزنش بھی نہ معلوم ہوتی اور کام بھی ہو جاتا.99.آپ کے انداز نصیحت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر سلطان محمود شاہد صاحب لکھتے ہیں." ایک دفعہ کالج میں ایک پروفیسر صاحب نے ایک غلط فہمی کی بنا پر میرے خلاف ایک طالب علم کو کچھ باتیں کہیں.میں نے سٹاف روم میں انہیں کچھ سخت سست کہا.اس پر انہوں نے حضرت اقدس (پرنسپل)
226 کے پاس میری شکایت کی.وہ صاحب ابھی پرنسپل صاحب کے کمرے میں ہی تھے کہ میں بھی وہاں کسی کام سے پہنچ گیا تو مجھے دیکھ کر حضور نے فرمایا ”شاہد صاحب یہ ایسے ہی آپ کی شکایت کر رہے ہیں.بھلا آپ ان کو سخت سست کیوں کہیں گے " میں کچھ شرمندہ سا ہوا حضور کا انداز نصیحت بھی نہایت پیار بھرا ہوا کرتا تھا.مجھے یاد نہیں کہ حضور نے پرنسپل ہونے کے دوران کسی استاد کو کوئی سخت کلمہ کہا ہو یا کسی کے خلاف کوئی DISCIPLINARY ACTION لینے کا موقع آیا ہو تو حضور نے مشفقانہ انداز میں سمجھا نہ دیا ہو " ساتھی اساتذہ کے دلوں میں آپ کا غیر معمولی عزت و احترام آپ کے ساتھی اساتذہ کے دل میں آپ کا جو غیر معمولی عزت و احترام تھا اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ آپ کے ایک دیرینہ فرشتہ خصلت ساتھی فزکس کے مایہ ناز پروفیسر میاں عطا الرحمان صاحب مرحوم جو آپ کی غیر موجودگی میں قائمقام پرنسپل کے طور پر کام کرتے تھے آپ کی کرسی پر نہ بیٹھتے تھے.پروفیسر میاں عطاء الرحمان صاحب مرحوم کا اصل وطن چونکہ بھیرہ تھا جس سے قدرت ثانیہ کے مظہر اول حضرت مولانا نورالدین بھی اللہ کا تعلق تھا اس لئے ان کا ذکر خاکسار کے والد مکرم میاں فضل الرحمان صاحب بسمل نے ایک کتابچہ بعنوان ” بھیرہ کی تاریخ احمدیت " میں یوں کیا ہے." حضرت مولوی نور الدین صاحب جو باوجود نماز میں پیش امام بننے کے حضرت مسیح موعود" کے مصلیٰ پر کھڑا ہونے کی جگہ سے ذرا ہٹ کر کھڑا ہوتے تھے ان کی تقلید میں جب میاں عطاالرحمان صاحب قائم مقام پرنسپل ہوتے تھے تو آپ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ پرنسپل کی کرسی پر تشریف نہ رکھتے تھے بلکہ دوسری کرسی پر بیٹھ کر دفتر سے متعلق کام کرتے تھے.اول
227 میاں عطا الرحمان صاحب کے علاوہ سبھی اساتذہ کے دل میں آپ کا بے حد احترام تھا.دنیا میں شاید ہی کوئی اور ایسا تعلیمی ادارہ ہو گا جس کے اساتذہ کے دل میں اپنے تعلیمی ادارہ کے سربراہ کے لئے اتنا احترام ہو.علمی ترقی کا غیر معمولی جذبه ڈاکٹر پروفیسر سلطان محمود شاہد صاحب لکھتے ہیں.د" اساتذہ کو اعلیٰ پایہ کی کتابیں لکھنے کو فرماتے بلکہ ایک دفعہ مجھے فرمایا کہ اگر میں ایف ایس سی کی کیمسٹری کی کتابیں اردو میں لکھ دوں تو وہ مجھے ایک ہزار روپے فی کتاب دیں گے اور جب انہوں نے یہ فرمایا تھا اس وقت ایک ہزار روپے کی رقم بہت بڑی رقم تھی.اساتذہ کی مزید علمی ترقی کی بہت حوصلہ افزائی فرماتے چنانچہ خاکسار جب لندن یونیورسٹی سے اوائل ۱۹۵۹ء میں کیمسٹری میں پی ایچ ڈی P.H.D کی ڈگری حاصل کر کے واپس لوٹا تو حضور نے کالج کے تمام اساتذہ کے ساتھ ربوہ ریلوے سٹیشن پر خاکسار کو شرف ملاقات بخشا جو میرے لئے ایک بہت بڑی سعادت تھی.میرے بعد پھر حضور نے محترم ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب کو فزکس میں ، محترم ڈاکٹر ظفر احمد دینیس صاحب کو اکنامکس میں ، محترم ڈاکٹر ظفر اللہ صاحب کو ریاضی میں انگلستان میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کی سہولتیں بہم پہنچائیں.اسی طرح محترم ڈاکٹر ناصر احمد پروازی صاحب کو پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کی پوری سہولت دی.حضور کا ارادہ تھا کہ ہر مضمون میں اپنے اساتذہ کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دلا کر تعلیم الاسلام کالج میں ہر مضمون میں ایم اے اور ایم ایس سی کی کلاسیں شروع کی جائیں تاکہ اس کالج کا درجہ ایک اچھی یونیورسٹی کے برابر کر دیا جائے چنانچہ اس پروگرام کے تحت ابھی عربی
228 اور فزکس میں ایم اے اور ایم ایس سی کی کلاسز شروع ہوئی تھیں کہ دیگر پرائیویٹ تعلیم اداروں کی طرح تعلیم الاسلام کالج بھی قومی تحویل میں لے لیا گیا اور بقیہ پروگرام تشنہ رہ گئے.۱۰۲ وہ مزید لکھتے ہیں:.et کھیلوں اور کالج کی سوسائٹیوں کے اخراجات کے بارے میں ہاتھ نہایت کھلا تھا یہاں تک کہ کالج یونین کے سالانہ مباحثات میں اول و دوم آنے والوں کو سونے اور چاندی کے میڈل دینے منظور فرمائے جو آج تک کسی کالج نے نہیں دیئے طلباء سے شفقت و محبت کے کچھ مزید واقعات چوہدری محمد علی صاحب تحریر فرماتے ہیں.طلباء کے ل ” مجھے یاد ہے کہ ہوسٹل میں تشریف لاتے اور آدھی رات تک بیمار سرہانے بیٹھ کر چمچے کے ساتھ اپنے دست مبارک سے خود دوائی پلایا کرتے اور تسلیاں دیا کرتے.اس لطف و عنایت کو دیکھ کر دوسرے طلباء کہا کرتے تھے کہ ہمارا بھی بیمار پڑنے کو جی چاہتا ہے.غریب طلباء کی بہت دلداری فرماتے اور امداد اس رنگ میں فرماتے کہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہوتی جو طلباء مزدوری کر کے پڑھتے ان کی خاص قدر فرماتے اور اس محبت سے ان کا ذکر فرماتے کہ ایسے طلباء کا سر فخر سے بلند ہو جاتا.ذہین طلباء کھلاڑیوں اور جسمانی طور پر کمزور طلباء کے لئے سویابین، دودھ اور ادویہ کا خاص اہتمام کیا جاتا...مرحوم مبشر احمد جو بے حد ہو نہار، نیک اور ذہین طالب علم تھا اور گھڑ کا رہنے والا تھا نہایت ظالمانہ طور پر سر بازار قتل کر دیا گیا.حضور ان دنوں کراچی میں تشریف فرما تھے جب مبشر کی وفات کی اطلاع حضور کی خدمت میں پہنچی رات گئے تقریباً بارہ ایک
229 بجے کا وقت ہو گا کہ حضور کا فون آیا کہ تفصیل بتائی جائے.مبشر تو کئی ہیں فرمایا مجھے نیند نہیں آرہی اور بے حد بے چینی ہے.کیا یہ وہی مبشر تو نہیں ہے جو ہر وقت مسکراتا رہتا ہے.افسوس کہ یہ وہی مبشر تھا جس کی وفات پر آپ اس طرح بے چین ہو گئے تھے " ۱۰۴ آپ کے ایک شاگرد سراج الحق صاحب قریشی لکھتے ہیں:." حضور کو اپنے شاگردوں سے انتہائی محبت تھی اور کالج کا ہر طالب اور ہر کھلاڑی حضور کی نہایت ہی عزت اور احترام کرتا تھا.بہت سے ایسے غریب طلباء ہوتے تھے جن میں کالج کے واجبات ادا کرنے کی سکت نہیں ہوتی تھی مگر جب وہ حضور کے پاس جاتے تو حضور اکثر و بیشتر ان کے واجبات ہی معاف فرما دیتے.کالج میں داخلہ کے وقت ہر طالب علم سے انٹرویو لیتے اور اس وقت حصول علم کے لئے خاص طور پر نصیحت فرماتے.۱۰۵ خاکسار مولف جب کالج میں داخل ہوا تو فسٹ ائیر کو خوش آمدید کہنے کے لئے تقریر فرمائی اور محنت ، دعا کی تلقین اور حسد سے بچنے کی نصیحت فرمائی.صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب لکھتے ہیں:.ایک دفعہ ایک لڑکے کو بدنی سزا دی.میں چھوٹا تھا مجھے وجہ تو یاد نہیں کہ کیوں مارا تھا لیکن اتنا یاد ہے کہ آپ نے اسے بدنی سزا دی.پھر اس کے جانے کے بعد اداس ہو گئے.تھوڑی دیر بعد مجھے ساتھ لیا اور ہوسٹل میں اس لڑکے کے کمرے میں چلے گئے.وہ کپڑا ڈالے لیٹا ہوا تھا.آپ کو دیکھ کر وہ ایک دم کھڑا ہو گیا.آپ نے اسے پیار سے گلے لگایا ، سمجھایا ، پھر اپنے ہمراہ ٹی آئی کالج کی تک شاپ پر لے گئے اسے دودھ پلوایا اور بڑی محبت کا اظہار فرماتے رہے.آپ کا یہ انداز اور سختی میں محبت و شفقت کا پہلو ایک جیتی جاگتی تصویر کی طرح میرے ذہن
230 میں محفوظ ہے.اردو کے مشہور شاعر احسان دانش اپنی کتاب میں قیام پاکستان کے شروع زمانے کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:." میں جب بھی کسی غریب لڑکے کی مرزا ناصر احمد کے پاس سفارش کرتا آپ اسے داخل کرتے اور اس کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرواتے.لہ میاں احمد سعید صاحب صدر حلقہ راج گڑھ لاہور بیان کرتے ہیں:.جلسہ سالانہ ۱۹۸۱ء کے موقع پر اپنی تقریر میں حضور نے ایک جگہ پر فرمایا تھا کہ جب میں پرنسپل تھا تو اپنے طالب علموں میں سے اگر کسی نے مجھے جھوٹی مدد کے لئے کہا تو میں نے اس کی کچی مدد کرنے کی کوشش کی.میں نے جو اس وقت جلسہ گاہ میں بیٹھا حضور کی تقریر سن رہا تھا بلند آواز سے کہا تھا کہ خدا کی قسم حضور آپ بالکل سچ کہتے ہیں.میں اس کی گواہی دیتا ہوں آپ ایسا ہی کرتے تھے.۱۰۸ tt چوہدری بشیر احمد صاحب ابن مکرم چوہدری محمد انور حسین صاحب آف شیخوپورہ ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتے ہیں.کالج کے زمانہ میں از راہ شفقت حضور نہایت توجہ فرماتے.ٹک شاپ سے میرا بل منگوا کر ملاحظہ فرماتے.کم و بیش تین صد روپے کا اس زمانہ میں بل ہو تا تھا.جب قدرے کم ہوتا تو حضور نے بلا کر پوچھنا کہ "بشیر! کیا بات ہے؟ کھاتے پیتے کیوں نہیں؟ کیا پیسے کم آتے ہیں؟ ایک دفعہ صبح ہی دفتر میں طلب فرما لیا.بہت ڈرا کہ پتہ نہیں کیا بات ہے.وہاں حضرت صاحب نے اور لڑکوں کو بھی بلا رکھا تھا.سب کو چیک کیا مجھے بھی چیک کیا اور مکا مار کر دیکھا پھر فرمایا کہ ٹھیک ہے عرض کیا کیا ٹھیک ہے؟ فرمانے لگے کہ کل سے تم روئنگ کے لئے جایا کرو گے.عرض کیا کہ میں تیرا کی نہیں جانتا فرمایا کہ ملاح کو بلاؤ اور پھر اسے
231 ہدایت فرمائی کہ یہ دو گھنٹے پہلے دریا پر جائے گا اور اسے تیرا کی سکھانی ہے 109 ایک ماہر تعلیم کا خراج عقیدت ۱۹۶۱ء کے جلسہ تقسیم اسناد کے موقعہ پر مہمان خصوصی صوبائی سیکرٹری تعلیم جناب پروفیسر سراج الدین صاحب نے اپنے صدارتی خطبہ میں فرمایا :.مین ، " خالصتاً ذاتی عزم و کوشش کے نتیجہ میں ربوہ میں تعلیم الاسلام کالج جیسی درسگاہ کو قائم کر دکھانا اور پھر اسے پروان چڑھا کر اس کے موجودہ معیار پر لانا ایک عظیم کارنامہ ہے.تعلیم الاسلام کالج کی یہ خوشی قسمتی ہے کہ اسے ایک ایسے پرنسپل کی رہنمائی حاصل ہے جو ایمان و خلوص و فدائیت اور بلند کرداری کے اعلیٰ اوصاف سے مالا مال ہے.آج ہم کو ایسے ہی باہمت بلند حوصلہ اور اہل انسانوں کی ضرورت ہے.ہر چند مجھے پہلی بار تعلیم الاسلام کالج کی حدود میں قدم رکھنے کا اتفاق ہوا ہے تاہم میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میرے دل میں اور ان تمام لوگوں کے دلوں میں جو اس صوبے میں تعلیم سے کسی نہ کسی طرح متعلق ہیں ان کی محبت کا ایک خاص مقام ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم الاسلام کالج دو نمایاں اور ممتاز شخصیتوں والد اور فرزند کی محنت اور محبت و شفقت کا ثمرہ ہے.میری مراد آپ کی جماعت کے واجب الاحترم امام جو اس کالج کے بانی ہیں اور ان کے لائق و فائق فرزند مرزا ناصر احمد سے ہے وہ اپنے مشہور و معروف خاندان کی قائم کردہ روایات کو وقف کی روح اور ایک ایسے جذبہ و شوق کے ساتھ چلا رہے ہیں جو دوسرے ممالک میں بھی شاذ ہی نظر آتا ہے.جب میں اس کالج پر نظر ڈالتا ہوں تو مجھے انگلستان اور امریکہ میں علم کی ترویج اور اس کے فروغ کے متعلق انسانوں کے وہ عظیم محسن یاد آئے بغیر
232 نہیں رہتے جنہوں نے خدا کی تقدیس اور بنی نوع انسان کی خدمت کی نیت سے آکسفورڈ کیمبرج اور ہاورڈ میں کالج قائم کئے.خالصتاً ذاتی عزم و ہمت کے بل بوتے پر ربوہ میں ایسی درسگاہ کا قائم کر دکھانا ایک عظیم کارنامہ ہے اور پھر اس کی آبیاری کرنا اور پروان چڑھا کر اسے حسن و خوبی اور مضبوطی و استحکام سے مالا مال کر دکھانا اور بھی زیادہ قابل ستائش ہے اور ایک ایسے پرائیویٹ ادارے کو دیکھ کر جو باہمی مخاصمت اور ایک دوسرے کے خلاف سازشوں سے پاک ہو اور جس کی تمام تر کوششیں اعلیٰ تر مقاصد کے حصول کے لئے وقف ہوں استعجاب اور رشک کے جذبات کا ابھرنا ایک قدرتی امر ہے.آپ کے امام جماعت کو علم اور اس کی ترویج سے جو محبت ہے آپ کے پرنسپل صاحب اور ممبران سٹاف ایسے ماہرین تعلیم بھی اس میں حصہ دار ہیں.اپنی مرزا ناصر احمد جنہیں اپنے شاگردوں میں شمار کرنا میرے لئے باعث عزت ہے برصغیر ہند و پاکستان کے نامور فاضل اور ماہر تعلیم ہیں.یہ کالج کی خوش قسمتی ہے کہ اسے ایک ایسے پرنسپل کی راہنمائی حاصل ہے جو زندگی میں آج کے دن تک بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ مقررہ نصب العین کے حصول میں کوشاں چلے آ رہے ہیں اور زمانے کے اتار چڑھاؤ ان کے لئے کبھی سد راہ ثابت نہیں ہو سکے.ان سے کم اہمیت اور کم عزم و حوصلہ کا انسان ہوتا تو زمانے کے اتار چڑھاؤ سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا.ہمیں ایسے ہی آدمیوں کی ضرورت ہے جو ایمان و یقین ، فدائیت اور بلند کرداری کے اوصاف سے متصف ہوں.مرزا ناصر احمد صاحب سے متعارف اور ان کی دوستی کے شرف سے مشرف ہونا عزم و ہمت کے از سر نو بحال ہونے کے علاوہ خود اپنے آپ کو اس مستقبل کے بارے میں جو زمانہ کے پریشان کن بادلوں کے پیچھے
233 پوشیدہ ہے ایک پختہ اور غیر متزلزل اتحاد سے بہرہ ور کرنے کے مترادف ہے." اله بعض نامور شخصیات کے تاثرات کالج, معاند احمدیت مولانا ظفر علی خان کے چھوٹے بھائی پروفیسر حمید احمد خان واکس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کے تعلیم الاسلام کالج کے بارے میں تاثرات درج ذیل ہیں.دوسری غیر سرکاری درس گاہوں کی طرح ہمارے قومی نظام تعلیم میں ایک خاص مقام رکھتا ہے.مجھے اس میں قطعاً کوئی شبہ نہیں کہ قومی جماعتوں اور انجمنوں کی قائم کی ہوئی درس گاہیں اپنی خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود ہماری اجتماعی زندگی میں ایک بنیادی ضرورت کو پورا کر رہی ہیں اور ان کے نہ ہونے سے ہماری زندگی میں ایک خلاء ہو گا.اللہ پاکستان کی ایک مشہور و معروف شخصیت مولانا صلاح الدین ایڈیٹر ”ادبی دنیا " نے کالج کانووکیشن پر فرمایا :.”آپ کی یہ خوش بختی ہے کہ آپ نے جس ادارے میں تعلیم و تربیت پائی ہے وہ دنیا میں دین کے امتزاج کا ایک نہایت متوازن تصور پیش کرتا ہے.نہ صرف پیش کرتا بلکہ اسے عمل مسلسل میں ملبوس بھی کرتا چلا جاتا ہے.خدا وہ دن جلد لائے جب ہم اس کالج کو ایک معیاری، مکمل اور منفرد کلیہ (یونیورسٹی) کی حیثیت وصورت میں دیکھ سکیں اور کوئی وجہ نہیں کہ جہاں کام کو کام بلکہ ایک مشن تصور کیا جاتا ہے، جہاں طلباء کو فقط پڑھایا نہیں جاتا بلکہ ان کے مزاجوں میں ایک کوہ شکن سنجیدگی اور کردار میں ایک شریفانہ صلاحیت پیدا کی جاتی ہے اور جہاں اساتذہ کی قربانیاں اور جانفشانیاں اپنے پیچھے کہکشان نور چھوڑتی چلی جاتی ہیں وہاں اہل خیر کی تمنائیں کیوں نہ فروغ پائیں گی اور اہل قلم
234 کے عزائم کیوں نہ پورے ہوں گے ، ۱۱۲ خوبصورت پر وقار اور با رعب شخصیت آپ کی شخصیت میں خاندانی وجاہت، غیر معمولی رعب اور جلال تھا.طبیعت میں سادگی درویشی اور مزاح تھا چہرے پر مسکراہٹ اور اللہ تعالیٰ کا نور نظر آتا تھا.آپ کی وجاہت اور خوبصورتی کا یہ عالم تھا کہ سادہ سے سادہ لباس بھی آپ کو سج جاتا تھا اور آپ کے وجیہ چہرے اور رعب دار وجود کو دیکھ کر کبھی کسی کا لباس کی طرف دھیان ہی نہ جاتا تھا.چوہدری محمد علی صاحب بیان کرتے ہیں:.حضور " عاجز نے ایک دفعہ المنار میں لکھا کہ اچکن مہنگا لباس ہے.نے چند آنے گز کی اچکن ربوہ سے سلوائی.کالج اس زمانے میں لاہور میں تھا.سبز رنگ اور سفید دھاریوں والا کھدر نما کپڑا تھا.جب زیب تن فرمائی تو سج گئی.اس اچکن کی کچھ خوبی نہ تھی اگر مجھ جیسا پہنتا تو اچکن بنوانے پر غریب کو آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جاتا.عاجز نے کئی مرتبہ دیکھا کہ اسی اچکن کو پیوند لگا ہوا ہے لیکن دیکھنے والے کا کپڑے کی طرف دھیان ہی نہیں جاتا تھا یوں لگتا تھا جیسے کوئی قیمتی کپڑا پہنا ہوا آپ بڑی بڑی تقریبوں میں شامل ہوتے حضور کے داخل ہوتے ہی ہو.حاضرین مجلس کی توجہ آپ کی طرف ہو جاتی ۳ال آپ کو جو رعب اور وقار اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہوا تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے ایک شاگرد مکرم قریشی سراج الحق صاحب بیان کرتے ہیں:." خدا تعالیٰ نے آپ کو جہاں تک خوش رنگ و خوبصورت شخصیت عطا کی تھی وہاں آپ کو ایک خاص رعب اور وقار بھی عطا کیا ہوا تھا.ایسا رعب اور وقار جو کسی ادارہ کے سربراہ تو کجا کسی سربراہ مملکت میں بھی دکھائی نہ دیتا ہو گا.آپ کا یہ خدا داد رعب ہی تھا کہ جب آپ
235 انتہائی وقار کے ساتھ کالج کے احاطہ یا عمارت میں قدم رنجہ فرماتے تو کوئی طالب علم کالج کے برآمدوں میں دکھائی نہ دیتا تھا.سب طالب علم انتہائی تیزی کے ساتھ بھاگ کر کمروں میں گھس جاتے اور کالج میں کسی قسم کے شور کا تصور ہی محال ہوتا.؟ اله آپ کے رعب کے بعض لطیفے بھی مشہور ہیں چنانچہ چوہدری محمد علی صاحب بیان کرتے ہیں:.رؤف خان صاحب حضور کے ایک ڈرائیور ہوا کرتے تھے.یوپی کے رہنے والے تھے بہت حاضر جواب، بات کرنی خوب آتی تھی.ایک مرتبہ حضور نگھوں کے شکار کے لئے تشریف لے گئے.یہ تعلیم الاسلام کالج ربوہ کے زمانے کی بات ہے.پارٹی پوزیشنیں سنبھال کر اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ گئی.ڈار پر کسی نے فائر کیا جس کی آواز ہوا کے رخ کے باعث حضور تک نہ پہنچ سکی جب ڈار حضور کے اوپر سے گزری تو بہت بلند ہو چکی تھی حضور نے بندوق اٹھائی نشانہ باندھا پھر رک گئے لیکن عین اسی وقت ایک زخمی شدہ مجھ حضور کے قریب آن گرا.اس پر حضور نے پوچھا کہ رؤف خان یہ کیسے گرا رؤف خان نے فوراً جواب دیا ”حضور رعب سے" یہ تھا تو لطیفہ لیکن سچی بات یہی ہے کہ رعب اللہ تعالیٰ نے حضور کو اسی قسم کا دیا ہوا تھا.۵الہ کسی سے مرعوب نہ ہونے والی شخصیت کالج کے پرنسپل ہونے کے زمانے میں ہی آپ کو اللہ تعالیٰ نے بے انتہا رعب اور جلال بخشا ہوا تھا اور آپ کبھی کسی سے مرعوب نہ ہوتے تھے.کالج کے زمانے کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے چوہدری محمد علی صاحب لکھتے ہیں:." مرعوب ہونا تو حضور جانتے ہی نہ تھے....۱۹۴۸٬۶۱۹۴۷ء کی بات ہے والٹن لاہور میں یونیورسٹی آفیسرز ٹریننگ کور کا پاکستان بننے کے
236 کالجوں بعد پہلا کیمپ تھا.دو بٹالین تھیں یعنی آٹھ کمپنیاں.تمام پنجاب کے سے اساتذہ اور طلباء شامل تھے.کیمپ کے حالات تسلی بخش نہیں تھے.اساتذہ اور طلباء کو فوجی رینگ ملے ہوئے تھے اور فوجی قانون کے تحت آتے تھے.ایڈ جوٹنٹ ایک فوجی افسر تھا جو ان کو بسا اوقات فحش گالیاں انگریزی زبان میں دیا کرتا تھا.اگر اراد تا نہیں تو عادتاً ضرور ایسا کرتا تھا.کیمپ میں کافی کھچاؤ ہر وقت رہتا تھا.کیمپ قریب الاختام تھا.ایڈجوٹنٹ جنرل جو ان دنوں جنرل رضا تھے معائنہ کرنے کے بعد تشریف لے جا چکے تھے.کمانڈر انچیف جو ان دنوں انگریز تھے آنے والے تھے.اگلے روز نمائشی لڑائی وغیرہ کے بعد تقسیم انعامات ہوئی تھی جو کمانڈر انچیف صاحب نے کرنی تھی.نہ جانے کیسی گالی اس افسر نے دی کہ طلباء بے قابو ہو گئے اور فیصلہ کر لیا کہ سٹرائیک کریں گے اور کمانڈر انچیف صاحب کی آمد اور تقسیم انعامات کے موقع پر اپنے اپنے خیموں میں بیٹھے رہیں گے.نہ صفائی کریں گے نہ وردیاں پہنیں گے.عاجز اپنی پلٹن کا کمانڈر تھا ہم نے حضور کی خدمت میں اس صورت حال کی اطلاع دینے کے لئے ایک خاص آدمی بھجوایا لیکن وہ پیغام رساں کیمپ سے باہر جاتے وقت گرفتار ہو گیا اور کوارٹر گارڈ میں بھیج دیا گیا.ہمیں اس کا کوئی علم نہ تھا اور ہم حضور کی طرف سے ارشاد کے منتظر رہے.جب رات ہو گئی تو ہم نے دیگر کالجوں کے اساتذہ سے رابطہ پیدا کیا خصوصاً راجہ ایس ڈی احمد صاحب (پرنسپل وٹرنری کالج اور انیمل (Animal) ہسبنڈری کے ڈائریکٹر رہے) برادرم رفیق عنایت صاحب جو بعد میں سی ایس پی کے سینئر افسر بھی رہے اور دیگر دوستوں سے ملے اور انہیں بتایا کہ سٹرائیک میں ہم شامل نہیں ہوں گے اور اگر سٹرائیک ختم نہ ہوئی تو ہماری پلیٹن بہر حال ڈیوٹی پر جائے گی کیونکہ سٹرائیک کو ہم ناجائز سمجھتے ہیں اور ان کی خدمت میں
237 دن اپیل کی کہ یہ پاکستان کا پہلا کیمپ ہے.انگریز کمانڈر انچیف کیا کہیں گے؟ بہرحال رات کے وقت بعض دوستوں کو ساتھ لے کر ایک خیمے میں گئے.طلباء گانے گا رہے تھے ، قوالیاں ہو رہی تھیں اور نعرے لگ رہے تھے.اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا ہماری اپیل پر لڑکے آمادہ ہو گئے اور پاکستان کے نام پر کچھ ایسی غیرت دکھائی کہ رات کا باقی وقت جاگ کر گزارا اور صفائی اور خیموں کی تزئین میں لگ گئے.اگلے کمانڈر انچیف صاحب نے پہلے نمائشی جنگ دیکھی.یہاں قابل ذکر بات یہ ہوئی کہ ہمارے بہت سے طلباء کشمیر کے محاذ پر رضا کارانہ طور پر فرقان بٹالین میں خدمات سر انجام دے چکے تھے ان کو کمانڈر انچیف صاحب نے پہچان لیا.ان کی دلچسپی بڑھی تو انہوں نے پوچھا کہ سارے کیمپ میں ایسے مجاہدین کتنے ہیں؟ پتہ چلا کہ سوائے تعلیم الاسلام کالج لاہور کے طلباء کے کسی نے کشمیر کے جہاد میں حصہ نہیں لیا تھا.بہر حال تقسیم انعامات کی تقریب شروع ہونے والی تھی.طلباء اور اساتذہ اپنی اپنی جگہ پر بیٹھ چکے تھے.مہمانوں کی آمد آمد تھی.وزراء جج صاحبان رائس چانسلر صاحب، جنرل آفیسر کمانڈنگ لاہور گیریزن اور ان کے سینئر فسر معززین شہر آچکے تھے اور کمانڈر انچیف کے استقبال کے لئے اکٹھے کھڑے تھے کہ پنڈال میں جہاں ہر دو بٹالین بیٹھی ہوئی تھیں اسی ر افسر نے پھر کوئی گالی دے دی.اس پر وہی پہلی سی TENSION پیدا ہوئی.عین اسی وقت عاجز نے حضور کی ولزلے کار کو آتے دیکھا تو بڑھ کر استقبال کیا اور وہیں روک کر سارے حالات اور موجودہ کیفیت عرض کی.حضور آگے تشریف لائے تو سب لوگ حضور سے ملے ان میں آفیسر مذکور بھی تھے.حضور نے انگریزی زبان میں ان سے پوچھا کہ کیا ہوا تھا اور یہ کہ شکر ہے کہ سٹرائیک ٹل گئی.اس پر وہ آفیسر بولے کہ مجھے ان....کی کیا پرواہ ہے؟ یہ فقرہ کافی بلند آواز سے انہوں نے
238 اس کہا اور پھر اسے دو ہرایا.تمام مہمان حضرات اور افسر یہ سن رہے تھے.پہلے تو حضور بھی خاموش رہے اس انتظار میں کہ کوئی نہ کوئی مناسب آدمی ان کو ٹوکے.جب تیسری مرتبہ بھی انہوں نے یہ فقرہ دہرایا تو حضور نے بڑے جلال سے بلند آواز سے فرمایا کہ آپ کو پرواہ نہیں لیکن ہمیں ان کی بڑی پرواہ ہے.یہ قوم کے بچے ہیں ہم ان کو قسم کے اخلاق سیکھنے کے لئے یہاں نہیں بھیجتے اور مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ ابھی اپنی تعلیم الاسلام کالج کی پلیٹن کو کہو کہ واپس چلیں اور آئندہ سے یونیورسٹی آفیسرز ٹریننگ کور سے اپنا الحاق ختم کر دیا جائے.حضور یہ فرما کر واپس کار کی طرف جانے لگے تو وہاں موجود لوگ جو پہلے منجمد ہو کر رہ گئے تھے حرکت میں آگئے اور کچھ نے حضور کا راستہ روک لیا اور کچھ افسروں نے اس افسر کو ڈانٹا اور اس نے بڑی لجاجت سے حضور سے معافی مانگی اور شرمندگی کا اظہار کیا.مجھے یاد ہے کہ جب حضور نے یہ کلمات کہے تو میرے ایک غیر از جماعت دوست نے (جنہیں کچھ ضرورت سے زیادہ گالیوں کا نشانہ بننا پڑا تھا اور جو بعد میں کمشنر سرگودھا بھی رہے) فرط جذبات میں خوشی سے بے قرار ہو کر میرا تھ دبایا اور اتنے زور سے دبایا کہ کئی دن تک میرا ہاتھ درد کرتا رہا.ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتے جا رہے تھے کہ میاں صاحب کو ایسے لوگوں کی کیا پرواہ ہے.میاں صاحب کو ایسے لوگوں کی کیا پرواہ ہے.میاں صاحب کو ایسے لوگوں کی کیا پرواہ ہے.محکمہ تعلیم کے ایک بہت بڑے افسر نے دوسرے مہمانوں سے کہا کہ میاں صاحب نے سب کی عزت رکھ لی.اس واقعہ کا عجیب تر حصہ یہ ہے کہ کیمپ کے خاتمے پر جب بھی کوئی ٹرک روانہ ہوتا تو اس میں بیٹھنے والے " مرزا ناصر احمد.زندہ باد" اور "پرنسپل ٹی آئی کالج.زندہ باد" کے نعرے ضرور لگاتے اور - ای انداز سے یہ کیمپ ختم ہوا."" الله
239 حاشیہ جات باب سوم ہوا.اپنے ایک خط مرقومہ دسمبر ۱۹۸۸ء کے ساتھ کرنل صاحب نے واقعات دوبارہ لکھ کر بھیجے جن میں ان افسروں کے نام بھی درج ہیں.چنانچہ رتن باغ سے گرفتار کرنے والے افسر جو ۱۹۵۳ء میں لیفٹیننٹ تھے اور بریگیڈئیر ریٹائر ہوئے.کا نام شکور خان تھا..یہ عالم دین جماعت اسلامی کے بانی مولانا ابو الاعلی مودودی تھے.۳.یہ کیپٹن جو میجر بن کر ریٹائر ہوا.کا نام ریاض الدین احمد تھا.لہ تقریر جلسہ سالانہ ربوہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء له الفضل ۴.اگست ۱۹۷۲ء س تشخيذ الاذهان ناصر دین نمبر اپریل مئی ص ۱۰۷ تا ۱۰۸ م الفضل ۱۵.دسمبر ۱۹۶۵ء ه ماهنامه خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۸۲٬۱۸۱ بحواله تشخیذ الاذهان ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۰۹٬۱۰۸ ول ی بحوالہ سید نا ناصر نمبر ا پریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۹۰ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۵۱ و خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۵۴۴۲۵۱ تشخيذ الاذهان ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۱۱ اله تشخیذ الاذهان ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۰۸ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۵۳ - ۲۵۴ ۱۳ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۵۴ ۱۴ تقریر جلسہ سالانہ ربوہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء ۱۵ تاریخ احمدیت جلد وہم ص ۱۷ بحوالہ منصب خلافت ص ۳۷ طبع اول ا الفضل ۷ جون ۱۹۴۴ء ص ۲ رپورٹ ملک غلام فرید صاحب عد تاریخ احمدیت جلد وہم ص ۲۳ ۱۸ خطاب جلسہ سالانہ ربوہ فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۷۸ء ۱۹ تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۱۶۵ ۲۰ خطاب جلسہ سالانہ ریوہ ۱۹۷۹ ءو اس تاریخ احمدیت جلد وہم ص ۶۳ بحواله الفضل ۸ جنوری ۱۹۴۵ء ۲۲ ماهنامه خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۶۴ ۲۳، خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۵۹ - ۶۰ ۲۴ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۶۲۴۶۱
240 ۲۵ ماهنامه خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۳۲ ۲۶ ایضاً ص ۲۳۱ ۲۷ تاریخ احمدیت جلد و هم ص ۸۲٬۸۱ ۲۸ تاریخ احمدیت جلد دہم ۸۶ ۲۹ تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۹۰ ۳۰ تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۹۳ بحوالہ الفضل ۵ اپریل ۱۹۵۰ء اس تاریخ احمدیت جلد و هم ص ۹۴ ۳۲ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۴۸ ۳۳ تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۹۸-۹۹ ۳۴ تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۱۵۵ بحوالہ المنار اپریل ۱۹۵۱ء ۳۵ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۶۴۶۳ ۳۶ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر ا پریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۷۰ س ماہنامہ تشخیذ الاذہان ناصر دین نمبرا اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۴۸ ۳۸ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۶۳٬۶۲ وسی ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۷۰ ماهنامه خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۳۳٬۲۳۲ اس ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۶۶ ۴۲ ماہنامہ خالد ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۷۳ ایضاً ص ۷۳ ۴۴ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۵۳ ۴۵ روزنامه الفضل ربوہ حضرت خلیفة المسیح الثالث نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۸۳ ۴۶ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص اے اخطبه جمعه فرموده ۲۵ اگست ۱۹۷۸ء بحوالہ روزنامہ الفضل حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر ص 9 ۲۸ روزنامه الفضل ربوہ حضرت خلیفة المسیح الثالث" نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۵۷ ۴۹ تاریخ احمدیت جلد شانز دہم حصہ اول بحوالہ اخبار ریاست دیلی مورخہ ۲۷ اپریل ۱۹۵۳ء ص ۵ کالم نمبرا ۵۰ ماهنامه مصباح حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء / جنوری ۱۹۸۳ء الله جلسہ سالانہ ربوہ ۲۷ دسمبر ۱۹۶۹ء خطاب مستورات بحوالہ تاریخ لجنہ اماء الله جلد سوم ص ۷۲۵٬۷۲۴ ۵۲ ماهنامه خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۵۱٬۲۴۵ ۵۳ الفضل ۵ اکتوبر ۱۹۸۳ء ص ۴ ۵۴ الفضل ۱۰ اکتوبر ۱۹۸۰ء
241 ۵۵ الفضل حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۵۹ هه ماهنامه خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۶۶۴۶۵ هه ماهنامه خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۳۴٬۲۳۳ ۵۸ تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۱۰۷ ٩ه ايضا " ص ۱۰۹ ۶۰ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۷۶ تاریخ احمدیت جلد دهم ص ۱۰۹ ۶۳؎ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر ا پریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۵۳ ۶۳ تاریخ احمدیت جلد وہم ص ۱۶۷ ۲۴ خطبه جمعه فرموده ۲۴ مارچ ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه ۶۵- خطبہ جمعہ فرموده ۲۴ مارچ ۱۹۷۸ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ ۶۶ تاریخ احمدیت جلد وہم ص ۲۹ تا ۳۲ بحوالہ الفضل ۷.جون ۱۹۴۴ء ۱۷ تاریخ احمدیت جلد دهم ص ۱۵۲٬۱۵۱ ۶۸ تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۱۶۷ بحواله الفضل ۱۵ دسمبر ۱۹۶۵ء ۲۹ ایضا " ص ۱۶۰ بحواله الفضل ۱۴ دسمبر ۱۹۶۲ء ايضا ص ۱۶۱ ایضا " ۸ و کمبر ۱۹۶۲ء الح ايضا" ص ۱۶۲ ايضا ۲ تاریخ احمدیت جلد وہم ص ۱۳۹ ۱۴۰ بحوالہ المنار مئی جون ۱۹۶۰ء جولائی تا اگست ستمبر ۱۹۶۴ء ۷۳ تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۱۳۹ ۱۴۰ بحوالہ المنار مئی جون ۱۹۶۰ء جولائی تا اگست ستمبر ۱۹۶۴ء تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۱۳۹ ۱۴۰ بحوالہ المنار مئی جون ۱۹۶۰ء جولائی تا اگست ستمبر ۱۹۶۴ء ۷۵ تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۱۵۵۱۵۴ الفضل حضرت خلیفة المسیح الثالث" نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۲۱ ۷۷ تشخیز الاذہان ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۶۳ ٤٨ الفضل خلیفة المسیح الثالث نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۶۱ ۷۹.بحوالہ تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۱۳۶ تا ۱۲۸ ٨٠ الفضل حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۶۳ ا جلسہ تقسیم اسناد کے موقعہ پر حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا پر معارف خطاب فرموده ۱۳ مارچ ۱۹۶۷ء بحواله الفضل ۲۷ مارچ ۱۹۶۶ء ۸۲؎ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۸۶ ۸۳ ۸۴ ۸۵ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۷۹ الفضل حضرت خلیفة المسیح الثالث نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۶۰
242 ۷ ۸ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر ا پریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۸۴ ۸۸ ماهنامه تشخیذ الاذهان ناصردین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۸۶٬۸۵ ٨٩ الفضل حضرت خلیفة المسیح الثالث نمبر ۱۲.مارچ ۱۹۸۳ء ص ۶۱ ۹۰، ماہنامہ تشحیذ الاذہان ناصر دین نمبر ا پریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۳۳ اور تاریخ احمدیت جلد وہم ص ۷ ۱۵ ۱۵۸ المنار جولائی تا ستمبر ۱۹۶۰ء روئیداد سالانہ کالج ص ۶۵ ۹۲ سالانہ رپورٹ صیغہ جات صدر انجمن احمدیہ پاکستان ۱۹۶۲ء ، ۱۹۶۳ء ص ۱۰۲ ۹۳ روزنامه الفضل ربوه ۲۴ نومبر ۱۹۶۵ء ۹۴ روزنامه الفضل ۲۸ نومبر ۱۹۶۵ء ۹۵ روزنامه الفضل.۲۷ جولائی ۱۹۸۰ء - رپورٹ مجلس مشاورت منعقده ۱۰٬۹۴۸ ۱ پریل ۱۹۶۰ء ص ۳۴ ۹۷ ماهنامه تشحیذ الاذهان " ناصردین" نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۲۱۴۱۲۰ ۹۸ ماهنامه تشخیذ الاذهان " ناصردین" نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۲۱ 99.ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۸۷ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۸۶ ۱۸۷ اوا بھیرہ کی تاریخ احمدیت مولفہ فضل الرحمان بسمل امیر جماعت احمدیہ بھیرہ دسمبر ۱۹۷۲ء ص ۱۱۷ ۱۰۲ ۱۰۳ روزنامه الفضل حضرت خلیفة المسیح الثالث نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۶۵ ۱۰۰ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۷۳ ۱۰۵ ماهنامه تشخیذ الاذهان " ناصر دین" نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۶۴ ۱۰ ماہنامہ خالد سید نا ناصر ا پریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۳۰ ۱۰ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۳۰ ۱۰۸ مکتوب بنام کمیٹی برائے سیرت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ۱۰۹ مکتوب بنام کمیٹی برائے سیرت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ہ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء بحوالہ المنار جلد ۱۲ شماره ۳٬۲ ص ۶٬۵ ۱۹۶۳ء الله تاریخ احمدیت جلد وہم ص ۱۶۰ ۱۶۱ بحواله المنار جلد ۱۴ شماره ۴۰۳ ۱۱۲ تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۱۶۱ بحوالہ المنار اکتوبر تا دسمبر ۱۹۶۳ء ص ۱۶ ۱۱۳ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۷۴ ماہنامہ تشخید الا زبان " ناصر دین" نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۶۲ ۵اللہ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۶۷ ال ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۶۷ تا ۶۹
باب چهارم 243 جماعت کے مرکزی اداروں اور ذیلی تنظیموں میں آپ کی قابل قدر خدمات
244
245 جماعت کے مرکزی اداروں اور ذیلی تنظیموں میں آپ کی قابل قدر خدمات جیسا کہ گزشتہ باب میں لکھا گیا ہے.آکسفورڈ سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد جب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب واپس قادیان تشریف لائے تو آپ چونکہ خدمت دین کے لئے خلیفہ وقت حضرت المصلح الموعود کی خدمت میں زندگی وقف کر چکے تھے اس لئے آکسفورڈ سے آتے ہی آپ کو سلسلہ عالیہ احمدیہ کے اہم کاموں میں خدمت پر لگا دیا گیا.خلافت ثالثہ کے عظیم منصب پر فائز ہونے سے پہلے ستائیس (۲۷) سال تک آپ بنیادی طور پر تعلیم کے شعبہ سے متعلق رہے لیکن ساتھ ساتھ آپ کو جماعت کی ذیلی تنظیموں کی مسلسل قیادت کرنے کے علاوہ جماعت کے مرکزی اداروں کے لئے بیش از بیش خدمات کی توفیق ملتی رہی اور آپ کی خدمات بیک وقت کئی شعبوں میں تقسیم ہوتی رہیں اور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں مسلسل اضافہ ہو تا رہا.بالخصوص حضرت المصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی میں بیٹی کی آخری لمبی بیماری کے دوران تو آپ پر ذمہ " داریوں کا بوجھ بڑھتا ہی گیا.خدمات کے ساتھ ساتھ آپ کو مختلف آزمائشوں میں سے بھی گزرنا پڑا.جماعت کے بعض اندرونی فتنے اٹھے جن کے ہدف آپ ہی تھے اور اس سے قبل بیرونی طور پر بھی آپ کو ۱۹۵۳ء کے فتنے کے دوران قید و بند تک کی آزمائشوں میں سے گزرنا پڑا.آپ کے بارہ میں حضرت مصلح موعود کے آخری ایام میں بعض حلقوں کی طرف سے اتنا زہر اگلا گیا اور آپ کی کردار کشی کے لئے اتنا بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا گیا کہ اگر کوئی اور ہوتا تو وہ اس پروپیگنڈا سے گھبرا کر صبر کا دامن چھوڑ رم
246 دیتا لیکن آپ ثابت قدم رہے اور اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل کر کے خدمت میں لگے رہے اور کبھی شکوہ نہ کیا.آپ کو خدا تعالیٰ نے جن آزمائشوں میں سے گزارا ان کو آپ نے پورا کر دکھایا حتی کہ حضرت مصلح موعود کی وفات پر اللہ تعالی نے اپنے اٹل قانون کے مطابق فیصلہ فرما دیا اور آپ کو امامت کے عظیم الشان منصب پر فائز کر کے ساری جماعت کی گردنیں آپ کے آگے جھکا دیں.ان سب خدمات کو یکجا طور پر بیان کرنا جو ایک دوسرے کے ساتھ منسلک اور تہ بہ تہ سلسلے وار باہم پیوست ہیں) آسان کام نہیں اس لئے ان کی طرف صرف اشارہ ہی کیا جا سکتا ہے.گذشتہ باب میں تعلیم کے متعلق آپ کی اہم خدمات ، جن کو آپ مسلسل ستائیں سال تک سرانجام دینے کی توفیق پاتے رہے، کا کسی حد تک ذکر گزر چکا ہے.جن لوگوں کو آپ کی شخصیت کو اس دوران دیکھنے کا موقع ملا ان کی روایات بیان کی گئی ہیں جو آپ کی پاکیزہ سیرت پر روشنی ڈالتی ہیں.موجودہ باب میں تعلیم کے علاوہ آپ کی خدمات کو یکجا طور پر اکٹھا کر کے بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور آپ کی صلاحیتیں جس انداز سے ان خدمات کے دوران جلوہ گر ہوئیں اور دیکھنے والوں نے جس طرح دیکھا اور بیان کرنے والوں نے جس طرح بیان کیا اس کا ذکر بھی مختصراً کیا جائے گا، حضور کی یہ خدمات ایک طرف تو جماعت کی ذیلی تنظیموں کی قیادت پر محیط ہیں اور دوسری طرف صدر انجمن احمدیہ کے مختلف شعبوں اور کچھ عرصے کے لئے صدر انجمن احمدیہ اور انجمن احمدیہ تحریک جدید اور انجمن احمدیہ وقف جدید کی بطور ممبر نگران بورڈ عمومی نگرانی پر حاوی ہیں انسان یہ سوچ کر حیرت میں پڑ جاتا ہے کہ کس طرح آپ ایک ایک وقت میں کئی کئی انسانوں کا کام کرتے رہے اور کس طرح اللہ تعالیٰ آپ کی توفیق میں غیر معمولی وسعت پیدا فرماتا رہا اور آپ کو خلیفہ وقت کا دست و بازو بن کر کامل اطاعت اور محبت کے ساتھ ایسی مقبول خدمات کی توفیق دیتا رہا.حضرت مصلح موعود جنہیں آپ سے بے حد محبت تھی اور قدرتی حجاب کے باوجود
247 جو باپ بیٹے کے درمیان ہوتا ہے جماعتی کام تفویض کرنے میں آپ کو اولیت دیتے تھے اور بڑی بے تکلفی سے باپ بیٹا تبادلہ خیال کرتے تھے جیسا کہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبه لکھتی ہیں." حضرت مصلح موعود کو حضرت مرزا ناصر احمد سے بہت گہری محبت تھی.جیسا کہ دستور ہے بڑے بیٹے سے ذرا تکلف ہوتا ہے میں نے کبھی بے تکلفی سے دونوں کو بات کرتے نہیں دیکھا لیکن جماعتی کام ہوتے تھے اس وقت سب سے پہلے ان کو ہی بلا کر کاموں کی ہدایت دینی کام سپرد کرنے، پورا اعتماد تھا ان پر.لیکن آخری بیماری میں اس محبت کا جو حضرت مصلح موعود کو اپنے سب سے بڑے بیٹے سے سے بڑے بیٹے سے تھی کھل کر اظہار ہوا.de خلافت سے محبت کرنے والوں کے لئے آپ کا نمونہ ہمیشہ مشعل راہ کا کام دیتا رہے گا اور آنے والی نسلیں آپ کے نمونے سے رہنمائی حاصل کرتی رہیں گی.اب نہایت اختصار کے ساتھ آپ کی ان خدمات کا خاکہ پیش کیا جاتا ہے جن کا تعلق ذیلی تنظیموں مجالس خدام الاحمدیہ و انصار اللہ اور صدر انجمن احمدیہ کے مختلف شعبوں ہے ہے.آپ ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۹ء تک دس سال مجالس خدام الاحمدیہ کی صدارت پر فائز رہے.۱۹۴۹ء میں حضرت مصلح موعود بھی اللہ نے بعض حالات کے پیش نظر مجلس خدام الاحمدیہ کی صدارت اپنے ہاتھ میں رکھی اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو نائب صدر اول مقرر فرمایا.اس عہدہ پر آپ نے قریباً پانچ سال خدمات سرانجام دیں.اس کے بعد ۱۹۵۴ء میں آپ مجلس انصار اللہ کی صدارت کے عہدہ پر فائز ہوئے اور مسلسل چودہ سال تک صدر مجلس انصار اللہ کی حیثیت سے جماعت کی قیادت فرمائی.صدر انجمن احمدیہ میں آپ کو ناظر خدمت درویشاں قادیان اور صدر کے طور پر خدمات کی توفیق ملی.دس سال تک آپ صدر انجمن احمدیہ کے صدر رہے اور حضرت خلیفہ اول اور حضرت خلیفہ ثانی کی طرح اپنی خلافت کے انتخاب کے وقت آپ
248 صدر انجمن احمدیہ کے صدر کے طور پر کام کر رہے تھے.صدر انجمن احمدیہ کے تحت ہی آپ افسر جلسہ سالانہ رہے اور ہجرت پاکستان کے فوراً بعد تعمیر کمیٹی ربوہ کے ممبر بھی رہے.ادارۃ المصنفین کے سات سال تک ڈائریکٹر رہے.اسی طرح انجمن احمدیہ تحریک جدید کے ڈائریکٹر بھی رہے.حضرت مصلح موعود کی بیماری کے دوران تینوں انجمنوں کی نگرانی والے بورڈ کے بھی نمبر رہے اور حضرت مصلح موعود کی نگرانی میں متفرق کام اس کے علاوہ تھے.مجلس خدام الاحمدیہ کی صدارت رم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے اعمال اور اقوال بچپن سے ہی احمدیت کے قالب میں ڈھل چکے تھے جوں ہی آپ نے جوانی میں قدم رکھا آپ نے ہمیشہ اپنے آپ کو قومی اور ملی خدمات کے لئے تیار رکھا.چنانچہ تحصیل علم کے بعد جب آ.قادیان واپس آئے تو جامعہ احمدیہ میں پڑھانے پر متعین ہو گئے اور مرکز سلسلہ کے متفرق کاموں میں خدمت کرنے لگے مثلاً جن علماء کی کمیٹی حضرت مصلح موعود نے ہجری شمسی کیلنڈر بنانے کے لئے بنائی اس میں بطور ممبر آپ کو بھی شامل فرمایا لیکن باقاعدہ نظام کے ماتحت دینی، قومی اور ملی خدمت کی توفیق آپ کو اس وقت ملی جب ۱۹۳۹ء میں حضرت مصلح موعود نے مجلس خدام الاحمدیہ کی صدارت کے لئے آپ کا نام منظور فرمایا اس طرح پندرہ سے چالیس سال تک نوجوانوں اور سات سے پندرہ سال تک کے احمدی بچوں کے جملہ امور کی نگرانی کا کام آپ کو سونپا گیا.اس سے صرف ایک سال قبل حضرت مصلح موعود نے نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کے لئے یہ ذیلی تنظیم ۳۱.جنوری ۱۹۳۸ء کو قائم فرمائی تھی اور ۴ فروری ۱۹۳۸ء کو اس کا نام مجلس خدام الاحمدیہ رکھا تھا.ابھی یہ مجلس اپنے ابتدائی مراحل ہی طے کر رہی تھی کہ اس کی صدارت آپ کو سونپ دی گئی آپ فرماتے ہیں:.دو جس وقت میں انگلستان سے تعلیم ختم کر کے واپس آیا تو مجلس
249 خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے میرے اس احتجاج کے باوجود جو احساس کم مائیگی سے نکلا تھا مجھے خدام الاحمدیہ کا صدر تجویز کر کے میرا نام صدارت کے لئے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں بھجوایا...اس وقت مجلس خدام الاحمدیہ نئی نئی قائم ہوئی تھی اس کا کوئی دستور بھی نہیں تھا.نیا نیا کام تھا.اس کو چلانے کا کوئی تجربہ بھی نہیں تھا....میں سمجھتا ہوں کہ اگرچہ میری طبیعت کا کوئی پہلو بھی اس وقت صدارت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھا لیکن جو کام میرے سپرد کیا گیا اس کے نتیجہ میں مجھے انتظامی لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی et بہت فائدہ حاصل ہوا." ہی حضرت مصلح موعود کی رہنمائی میں آپ نے مجلس خدام الاحمدیہ کے اکثر بنیادی کام کئے موجودہ دستور اساسی اور خدام الاحمدیہ کا لائحہ عمل زیادہ تر آپ ہی کی محنت کا ہے.نئی مجالس قائم کرنے اور ان میں مسابقت کی روح پیدا کرنے کے لئے آپ نے اکتوبر ۱۹۳۹ء میں ہی ملک میں مجالس کے دورے شروع کر دیئے.لوائے خدام الاحمدیہ کی حفاظت کے لئے عہد کا مسودہ تیار کیا.اجتماعات کا اہتمام فرمایا ، جلسہ سالانہ پر ڈیوٹیاں دینے کا باقاعدہ انتظام شروع کروا دیا.وقار عمل اور اس طرح کے کئی پروگرام آپ کے عہد میں شروع ہوئے.بعض دقتیں بھی پیش آئیں لیکن محنت اور تجربے سے مجلس کہاں سے کہاں پہنچ گئی.بعض ابتدائی دقتوں اور تجربات کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:." مجھے یاد ہے کہ شروع میں جب قادیان میں باہر کیمپ کی شکل میں خدام الاحمدیہ کا سالانہ اجتماع کیا تو اس وقت چونکہ نیا نیا کام تھا اور تجربہ نہیں تھا اس لئے یہ بھی پتہ نہیں تھا کہ مقام اجتماع کے گرد بانس کیسے لگاتے ہیں اور ان پر رسیاں کیسے باندھی جاتی ہیں.میں اس وقت جامعہ احمدیہ کا پرنسپل تھا.جامعہ کے میرے شاگرد اور میں خود بھی کئی دن خرچ کرتے اور چھوٹے رنبوں کے ساتھ گڑھے کھود کر ان کے اندر
250 ه.بانس لگاتے تھے.بے چارے خدام کے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے.پھر ایک دو سال کے تجربہ کے بعد یہ پتہ لگا کہ اتنی کوفت اور تکلیف اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے.بس ایک کلہ بنا لیا دو چار ضر ہیں لگائیں بانس کے لئے سوراخ بن گیا.اس کو نکالا اور آگے چلے گئے.اس طرح جس کام پر ہفتے لگے تھے وہ دو گھنٹوں میں مکمل ہو گیا.۵.ابتداء میں خدام الاحمدیہ کے پاس سامان نہیں ہو تا تھا.ہم محلے میں مختلف دوستوں سے کرالیں ، ٹوکریاں وغیرہ جمع کرتے اور ان پر نشان لگا لیتے اور وقار عمل کے بعد پھر انہیں واپس پہنچا دیتے تھے.اس لئے و قار عمل کے بعد کئی گھنٹے تک مجھے وہاں ٹھہرنا پڑتا تھا تا کہ کوئی چیز ضائع نہ ہو.اس سے عزت اور اعتماد قائم ہوتا ہے.اگر کوئی چیز ضائع ہو جاتی یا ٹوٹ جاتی تو ہم اس کی قیمت ادا کر دیتے تھے.پھر آہستہ آہستہ خدا تعالٰی نے یہ توفیق دی کہ کئی سو کر الیں اور کئی سو ٹوکریاں جو وقار عمل کے لئے ضروری تھیں خدام الاحمدیہ نے خود خرید لیں.۶.صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کی ایک لمبے عرصے تک قیادت کرتے رہے.آپ کی قیادت کے دو ادوار ہیں اول ۱۹۳۹ء سے ۱۹۴۹ء یعنی تمیں سال سے چالیس سال کی عمر تک آپ خدام الاحمدیہ کے صدر رہے اور اصولاً چالیس سال کی عمر تک پہنچ کر آپ کو مجلس انصار اللہ میں چلا جانا چاہئے تھا لیکن بعض مصالح کی بناء پر ۱۹۴۹ء کے اجتماع پر خلیفہ وقت حضرت مصلح موعود بھی اللہ نے خدام الاحمدیہ کی صدارت کی ذمہ داری کا بوجھ بھی خود اٹھا لیا اور پانچ سال تک آپ کو اپنے ساتھ نائب صدر اول خدام الاحمدیہ کے طور پر رکھا جس کے بعد ۱۹۵۴ء میں آپ کو مجلس انصار اللہ کا صدر بنا دیا.اس طرح ۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۴ء تک آپ کی خدام الاحمدیہ کی قیادت کا دوسرا دور ہے.مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر اور نائب صدر کی حیثیت سے آپ کو بے شمار خدمات کی توفیق ملی جج کی تفصیل بہت وسیع ہے اور پندرہ سالوں پر پھیلی ہوئی ہے ان تمام
251 خدمات کو احاطہ تحریر میں لانا تو نا ممکن ہے البتہ ان میں سے بعض ایسی خدمات ہیں جنہیں シ کبھی بھلایا نہیں جا سکتا.ان میں سے ۱۹۴۴ء کی دہلی میں حضرت مصلح موعود کے جلسہ پر حفاظت کی ڈیوٹی ، تبلیغی دورے ، الیکشن کے دوران ہنگامی ڈیوٹی ، پنجاب باؤنڈری کمیشن کے لئے فراہمی معلومات، تقسیم ہندوستان کے وقت حفاظت مرکز کی بھاری ذمہ داری ، ہجرت پاکستان کے بعد خدام الاحمدیہ کی سرگرمیوں کا از سر نو احیاء، تحریک آزادی کشمیر کی عظیم جدوجہد کے لئے فرقان فورس کی تشکیل اور عظیم الشان خدمات خاص طور پر قابل ذکر ہیں جنہیں نہایت اختصار کے ساتھ ذیل میں درج کیا جاتا ہے.جلسہ دہلی ۱۹۴۴ء تقسیم ملک سے پہلے ۱۹۴۴ء میں جب اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفتہ المسیح الثانی بیانیہ کو انکشاف فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی پیشگوئیوں میں جس فرزند دلبند گرامی ارجمند مصلح موعود کا ذکر ہے وہ آپ ہی ہیں تو آپ نے ملک کے بڑے بڑے شہروں میں اس پیشگوئی کے متعلق جلسے کئے.دہلی جو برصغیر کی مرکزی حکومت کا دارالسلطنت تھا.اس میں بھی پیشگوئی مصلح موعود کے سلسلہ میں ایک عظیم الشان تاریخی جلسہ ہوا اس جلسہ پر مخالفین نے حملہ کر دیا.اس موقع پر آپ بطور صدر مجلس خدام الاحمدیہ حفاظت کی ڈیوٹی پر متعین تھے.اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا :." حضرت مصلح موعود کا جو جلسہ مصلح موعود ۱۹۴۴ء میں دہلی میں ہوا تھا اس پر چالیس ہزار آدمیوں نے حملہ کیا تھا اور میں تھا اس وقت خدام الاحمدیہ کا صدر میں کچھ رضاکار لے کر حفاظت پر مامور تھا.میں نے ان کو ہدایت کی کہ کسی سے لڑنا نہیں.ہمیں اس کی اجازت نہیں ہے کہ کسی کو کچھ کہیں.لیکن ان کو اتنا قریب بھی نہ آنے دینا کہ اگر پتھر پھینکیں تو ہمارے پنڈال میں آکر گریں، اس سے ابتری پھیلے گی چنانچہ پہرے کھڑے ہو گئے اور ایک وقت میں حضرت مصلح موعود کو خیال آیا کہ بہت زیادہ جو ان باہر نہ چلے جائیں تو آپ نے کہا کہ سو سے
252 زیادہ خدام باہر کھڑے نہ ہوں.لاؤڈ سپیکر کام نہیں کر رہا تھا جس کی وجہ سے وہاں خرابی پیدا ہو گئی، تو خیر خدام دوڑے ہوئے میرے پاس آئے کہ حضرت صاحب کا حکم ہے.میں نے کہا ٹھیک ہے.ابھی دیکھتے ہیں.پہلے میں نے بھی نہیں دیکھا تھا.بس ساتھی لئے تھے اور کام شروع کر دیا تھا.جب گنتی کی تو ہم سب ستر تھے، سو بھی نہ تھے اور چالیس ہزار کا مجمع ہمارے سامنے تھا.خوف اگر کسی کے دل میں تھا (تو) ان کے دل میں تھا.ہمارے دل میں نہیں تھا خدا تعالیٰ کا ایک نشان میں بتا دیتا ہوں.میں نے دور سے دیکھا.ہم سے غفلت یہ ہوئی کہ عورتیں جلسہ میں شامل ہوئی تھیں اور قنات تھی Open Space میں ڈبل قنات لگائی ہوئی تھی ہماری جماعت نے.ایک تو عورتوں کے جلسہ گاہ کے ارد گرد تھی اور ایک پچاس چالیس قدم وہاں سے ہٹ کر دوسری قنات لگائی ہوئی تھی اچانک میری نظر پڑی تو میں نے دیکھا کہ وہاں ہمارا کوئی رضا کار نہیں اور ایک پہلوان تین چار من کا بڑا مضبوط دور سے دیکھا کہ وہ تیر کی طرح سیدھا عورتوں پر حملہ کرنے کے لئے دوڑا چلا جا رہا ہے.اس وقت وہاں کوئی پہنچ ہی نہیں سکتا تھا.ہم نے کہا دیکھیں یہاں ہوتا کیا ہے.خدام تو بکھرے ہوئے تھے.بڑی استغفار کی کہ غفلت ہو گئی.وہاں وہ قنات کے پاس گیا اور جھکا اور قنات کے بانس کو اکھاڑا اور ہمیں دور سے یہ نظر آیا کہ کسی نے اندر سے سوئی ماری ہے اس کے سر پر اور وہ واپس بھاگا.میں حیران تھا کہ وہاں رضاکار کوئی ہے نہیں اور وہاں کوئی عورت گئی سوئی مارنے کے لئے، آخر بات کیا ہوئی ہے بہت استغفار کیا کہ وہاں رضاکار ہونا چاہئے.جب جا کر دیکھا تو ہوا کہ اس نے جھٹکے کے ساتھ بانس کو زمیں سے باہر نکالا تھا وہ معلوم دیمک خوردہ تھا جھٹکے سے وہ اپنے نصف سے ٹوٹا اور اسی بانس کا اوپر کا نصف اس کے سر پر پڑا اور اس طرح وہ بھاگ گیا" ک
253 خدام الاحمدیہ کا صدر ہونے کی حیثیت سے چونکہ تمام احمدی نوجوانوں کے آپ قائد تھے اس لئے جماعت کے اہم کام میں حضرت مصلح موعود آپ کو نمائندگی کا موقع فرماتے چنانچہ ۲۰ فروری ۱۹۴۴ء کو حضرت مصلح موعود " جب ہوشیار پور میں اس کمرے میں تشریف لے گئے جہاں حضرت مسیح موعود نے چالیس روز دعائیں کر کے پیشگوئی مصلح موعود کا ۵۸ سال پہلے اعلان فرمایا تھا تو جن ۳۵ پینتیس احباب کو وہاں حضرت مصلح موعود کے ساتھ دعا کرنے کی توفیق ملی ان میں آپ بھی شامل تھے.خدام الاحمدیہ کی ولولہ انگیز قیادت محترم پروفیسر ڈاکٹر نصیر احمد خان صاحب بیان کرتے ہیں:.✓ " جن دنوں حضرت صاحبزاہ مرزا ناصر احمد ولایت سے تعلیم مکمل کر کے قادیان واپس آئے اس زمانہ میں میں تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پڑھتا تھا.یہی زمانہ خدام الاحمدیہ کے اجراء کا زمانہ ہے.زمام کار حضرت مصلح موعود نے انہی کے سپرد کی تھی.وہ اس کام پر خوب کمر بستہ ہوئے.حتی کہ قادیان میں ایک تہلکہ برپا ہو گیا جلسے جلوس نمازیں ، اجتماع عام ہوئے.ہر طرف خدام کا غلغلہ تھا.اجتماعی ورزش روزانہ کا معمول بنی، ورزش کرانے والوں میں صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ایسے پردہ نشینوں کے نام بھی آتے ہیں.خدام کے اجتماعوں کی بدولت قادیان ایک سریلی آواز سے متعارف ہوا.یہ آواز ثاقب زیروی کی تھی.اس ساری ہما ہمی اور زندگی کے اصل محرک تو حضرت مصلح موعود تھے مگر آپ کی تحریک کو عملی سانچے میں ڈھالنے کا سہرا دین کی حمایت پر کمربستہ نوجوان صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کے سر بندھا.خدام الاحمدیہ میں اب جو کچھ ہوتا ہے وہ انہی ابتدائی واقعات کا چرچہ اور ابتدائی نعروں کی گونج ہے." محترم عبد السلام صاحب سابق باڈی گارڈ حضرت اقدس بیان کرتے ہیں:.
254 آپ اس وقت تعلیم الاسلام کالج قادیان کے پرنسپل اور خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے صدر تھے.جلسہ سالانہ ۱۹۴۶ء کے آخری دن یعنی ۲۸.دسمبر کو جب حضرت المصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی میان تقریر کر رہے تھے تو بارش شروع ہو گئی.وہ اس وقت سٹیج پر تھے.وہاں سے اتر کر شامیانے سے باہر جہاں ہم خدام کھڑے تھے تشریف لے آئے اور سارا وقت بارش میں کھڑے رہے." چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر جماعت احمد یہ ضلع شیخوپورہ بیان کرتے ہیں:." مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضور نے ایک مرتبہ تپتی دوپہروں میں سارے پنجاب کا دورہ کیا.شیخوپورہ آئے تو ایک درخت کے نیچے ملے.میں نے حضور سے پوچھا کہ آپ یہاں کیسے.؟ بہر حال حضور مسلسل سفر اور گرمی کی شدت کے باوجود گزرتے ہوئے ہر نوجوان اور بچے کو خود سلام کرتے." تبلیغی دوروں میں شمولیت حضرت مصلح موعود نے اپنی اولاد اور جماعت کے افرد میں تبلیغ کا جو جذبہ پیدا فرمایا ہے.یہ اس کا نتیجہ تھا کہ آپ زمانہ طالب علمی میں بھی احسن رنگ میں تبلیغ کے فرائض ادا کرتے رہے جیسا کہ باب دوم میں ذکر ہو چکا ہے.جب آپ کی عملی زندگی کا آغاز ہوا تو آپ نے جماعتی پروگرام کے تحت سلسلہ کے جید علماء کے ساتھ تبلیغی دوروں میں حصہ لینا شروع کیا.چنانچہ فرمایا ” جب میں انگلستان سے واپس آیا تو عمر کے لحاظ سے میں چھوٹا تھا اور گو تبلیغ کا جوش تو تھا لیکن تجربہ کوئی نہ تھا.محترم چوہدری فتح محمد سیال صاحب نے مجھ سے کہا تم ہمارے ساتھ مقامی تبلیغ کے دوروں پر جب بھی فرصت ہو جایا کرو چنانچہ میں نے ان کے ساتھ تبلیغی دوروں پر جانا شروع کر دیا.اس سے ایک تجربہ تو مجھے یہ حاصل ہوا کہ ایک
255 عام دیہاتی مسلمان چاہے وہ کسی فرقہ سے تعلق رکھتا ہے اگر صحیح طریقہ پر اس کے Level (لیول) اور اس کے مقام پر آکر بات کی جائے تو وہ بہت جلد اسے سمجھ لیتا ہے."" الیکشن کے دوران ہنگامی ڈیوٹی ل خدام الاحمدیہ کا ایک اہم کام ہنگامی حالات سے نبرد آزما ہونا ہے چنانچہ ایک مرتبہ الیکشن کے دنوں میں آپ نے جو غیر معمولی خدمت کی توفیق پائی اس بارے میں صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں :."" اسمبلی کے الیکشن کے ایام تھے جس میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال جماعت کی طرف سے بطور نمائندہ کھڑے ہوئے تھے اور ان کا مقابلہ بٹالہ کے ایک بااثر گدی نشین خاندان کے سربراہ سے تھا.ان دنوں حضرت بھائی جان نے بڑی مستعدی اور بڑی جانفشانی سے دن رات ایک کر کے کام کیا اور یہ کیفیت کئی ہفتہ تک رہی.حضرت ابا جان (صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ) تمام کام کے انچارج تھے اور ہمارے گھر کے مردانہ حصہ میں ایک قسم کا آپریشن روم بنا ہوا تھا اور چوبیس گھنٹے گہما گہمی رہتی تھی.حضرت بھائی جان مشقت برداشت کرنے کے پوری طرح عادی تھے اور رات دن اس کام میں مصروف رہتے.نہ کھانے کا ہوش اور نہ آرام کی فکر، ایک ہی دھن تھی کہ سلسلہ کے کام کا کوئی پہلو نا مکمل نہ رہ جائے.اللہ تعالٰی نے کامیابی عطا کی اور جماعت باوجود سخت مخالفت کے سرخرو ہوئی." ال در اصل ان دنوں مجلس احرار کی مخالفت زوروں پر تھی اور قادیان کے ارد گرد کے علاقوں میں ان کے کثرت سے جلسے ہوتے تھے اور وہ کہتے تھے کہ ہم نے سارے علاقے کو ساتھ ملا کر قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دینی ہے.حضرت مصلح موعود نے اسمبلی میں الیکشن کے لئے چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو
256 اس لئے کھڑا کیا تاکہ یہ ثابت کیا جائے کہ احرار کی شدید مخالفت کے باوجود سارا علاقہ ہمارے ساتھ ہے.باؤنڈری کمیشن کے لئے فراہمی معلومات متحدہ ہندوستان پر انگریزوں نے نوے سال تک حکومت کی.برصغیر کے باشندوں کی سیاسی جدوجہد کے نتیجہ میں انگریز برصغیر کو آزاد کرنے پر رضامند ہو گئے.۱۸۸۵ء میں پہلے انڈین نیشنل کانگرس بنی جس میں ہندوؤں کی اکثریت تھی.اگرچہ کانگرس کا دعویٰ تھا کہ وہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں قوموں کی جماعت ہے لیکن مسلمانوں کو محسوس ہوا کہ کانگرس ان کے حقوق کی حفاظت نہیں کر سکتی چنانچہ مسلمانوں نے ۱۹۰۶ء میں اپنی الگ سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ قائم کی.آل انڈیا مسلم لیگ نے مطالبہ کیا کہ برصغیر میں جہاں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں ان کا الگ آزاد وطن ہونا چاہئے چنانچہ ۱۹۴۰ء میں لاہور کے مقام پر مسلم لیگ نے قرار داد پاکستان" منظور کی.اس قرارداد کے بعد قائد اعظم نے مسلمانوں کو متحد کر کے ایسی پر زور مہم چلائی کہ سات سال کے قلیل عرصہ میں ہی انگریزوں اور ہندوؤں کو مسلمانوں کا یہ مطالبہ ماننا پڑا.تحریک پاکستان میں جماعت احمدیہ نے حضرت المصلح الموعود کی رہنمائی میں بھر پور حصہ لیا.برطانوی وزیر اعظم اٹیلی نے ۲۰ فروری ۱۹۴۷ء کو اعلان کیا کہ اب تقسیم ملک کے بغیر چارہ نہیں.انگریز حکومت ہندوستان کے نظم و نسق کے اختیارات ہندوستان کو سپرد کرنے کا فیصلہ کر چکی ہے اس پر عملدرآمد کا طریق یہ ہو گا کہ حکومت کے اختیارات صوبائی حکومتوں یا کسی متوازی ادارے کے سپرد کر دیئے جائیں گے اور اس طور پر تقسیم کی کارروائی کی تکمیل کی جائے گی.برطانوی وزیر اعظم نے ۳ جون ۱۹۴۷ء کے بیان میں تقسیم ملک کے منصوبے کا اعلان کر دیا اس کی رو سے طے پایا کہ برصغیر کو دو الگ الگ مملکتوں (پاکستان اور بھارت) میں تقسیم کر دیا جائے گا اس کام کے لئے دو باؤنڈری کمیشن قائم کئے جائیں گے.حضرت مصلح موعود کی طرف سے پنجاب باؤنڈری کمیشن کے لئے مسلم اکثریتی
257 علاقوں کا ریکارڈ تیار کرنے کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو مقرر فرمایا گیا.مسلم لیگ کی طرف سے قائد اعظم نے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو حد بندی کمیشن میں وکالت کے لئے مقرر کیا.حکومت برطانیہ کی طرف سے باؤنڈری کمشنر کے چیئرمین کے طور پر سر سیرل ریڈ کلف کا تقرر ہوا.جس وقت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مسلم لیگ کی طرف سے باؤنڈری کمیشن کے لئے تحریری بیان تیار کر رہے تھے حضرت مصلح موعود بنفس نفیس چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو لاہور میں ملے اور کیس کی تیاری میں گراں قدر مدد فرمائی.بٹوارے کے اصولوں کے متعلق نهایت ضروری حوالے عطا فرمائے اور اپنے خرچ پر دفاع کے ایک ماہر پروفیسر کی خدمات انگلستان سے حاصل کیں ، انہیں لاہور منگوایا ، نقشے وغیرہ تیار کروائے.پنجاب میں مسلم اکثریتی علاقوں کی تفصیل اور نقشہ جات وغیرہ کے سلسلہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے خلیفہ وقت کی ہدایت پر نہایت محنت سے کام کیا.اگر چہ ریڈ کلف نے ہندوؤں سے خفیہ سازش کر کے مسلم اکثریت کی تحصیلیں گورداسپور ، بٹالہ فیروز پور اور زیرہ وغیرہ بھارت میں شامل کر دیں تاہم جو خدمات کمیشن کے لئے مواد فراہم کرنے کے سلسلہ میں حضرت مصلح موعود کی ہدایت پر حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے اس موقع پر سر انجام دیں وہ سنہری حروف سے لکھنے کے قابل ہیں.آپ نے کالج کے پروفیسروں اور طلبہ کو دن رات اس کام میں لگا دیا اور پروفیسروں کی زیر نگرانی طلبہ کی ٹیمیں بنا کر مسلم اکثریتی علاقوں کا تھانے اور تحصیل اور ضلع کی سطح پر ریکار ڈ اکٹھا کروایا اور پھر ان علاقوں کے نقشے تیار کروائے.رم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے باؤنڈری کمیشن کے لئے جس طرح یہ ریکارڈ تیار کروایا اور نقشہ جات بنوائے اس کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر صوفی بشارت الرحمان صاحب لکھتے ہیں:.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے کریکٹر کا ایک نمایاں وصف اطاعت امام میں فنا کا مقام تھا.۱۹۴۷ء کے پر آشوب زمانہ میں خلیفہ وقت کی طرف سے حفاظت مرکز کا کام آپ کے سپرد ہوا آپ نے نہایت بہادری اور
258 جواں مردی سے اپنی جان کو خطرات کے سامنے پیش کرتے ہوئے سر انجام دیا.باؤنڈری کمیشن کے سامنے مسلمان اکثریت والے ضلعوں اور تحصیلوں کے نقشے پیش کرنے کا کام تھا کہ اپنے کالج کے پروفیسروں کو طلبہ کو رات دن اسی کام میں لگا دیا.خاکسار کو یاد ہے کہ کالج کے طلبہ کی ٹیمیں لے کر خاکسار قادیان سے سول سیکرٹریٹ میں آیا کرتا تھا اور خواجہ عبدالرحیم صاحب جو شاید چیف سیکرٹری یا کمشنر تھے.ان کی مدد سے ہم سیکرٹریٹ کے ریکارڈ سے قصبات اور دیہات کی مسلم اور غیر مسلم یعنی ہندو اور سکھ آبادی کو نوٹ کیا کرتے تھے اور پھر اس کے مطابق تھانہ وائز ، تحصیل وائز اور ضلع وائز مسلم اکثریت رکھنے والے علاقوں کے نقشے تیار کیا کرتے تھے.ہماری تمام تر کوششیں اس بات پر مرکوز ہوا کرتی تھیں کہ قادیان کا علاقہ مسلم اکثریت میں ہونے کی بناء پر پاکستان میں شامل کیا جائے مگر تقدیر خداوندی ہی پوری ہوئی.۱۲ باؤنڈری کمیشن کے سلسلہ میں جن خدمات کی آپ کو توفیق ملی ان کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے اپنے زمانہ خلافت میں ایک بار فرمایا:.11 اله ۱۹۴۷ء میں جب پاؤنڈی کمیشن بیٹھا تو اس کمیشن کے سامنے اعداد و شمار پیش ہوئے.دجل کیا گیا.ہندوؤں نے یہ دجل کیا کہ انہوں نے باؤنڈری کمیشن کے سامنے یہ بات پیش کر دی کہ گو ضلع گورداسپور کی مجموعی آبادی میں مسلمان زیادہ ہیں لیکن ضلع کی بالغ آبادی میں اکثریت ہندوؤں کی ہے اور چونکہ ووٹ بالغ آبادی نے دینا ہے اس لئے یہ ضلع بھارت میں شامل ہونا چاہئے.ہم جب وہاں سے واپس آئے تو ہم سب پریشان تھے.اس وقت اللہ تعالٰی نے میرے ذہن میں یہ ڈالا کہ اگر ہمیں ۱۹۳۵ء کی سنسز رپورٹ (Census Report) مل جائے تو اس وقت تک سب سے آخر میں ۱۹۳۵ء میں ہی سنسز (Census)
259 ہوئی تھی اور ایک کیلکولیٹنگ مشین (Calculating Machine) مل جائے جو جلد جلد ضرب اور تقسیم کرتی ہے تو میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے راتوں رات ایک ایسا نقشہ تیار کر سکتا ہوں کہ اس سے ضلع گورداسپور کی بالغ آبادی صحیح تعداد سنسز (CENSUS) کے اصول کے مطابق معلوم ہو جائے گی.سنسز (Census) کے متعلق انہوں نے بعض اصول مقرر کئے ہوئے ہیں اور انہوں نے عمر کے لحاظ سے گروپ بنائے ہوئے ہیں اور ہر گروپ کی وفات کی فیصد انہوں نے مقرر کی ہوئی ہے.وہ تو ایک سال کی عمر سے شروع کرتے ہیں لیکن ہم نے ایسی عمر سے یہ کام شروع کرنا تھا کہ انہیں ۱۹۴۷ء میں بلوغت تک پہنچا دیں مثلاً انہوں نے یہ اصول بنایا ہوا ہے کہ تین سال کی عمر کے بچے چار سال کی عمر تک سو میں سے پچانوے رہ جائیں گے.پھر چار سال سے پانچ سال کی عمر کے ہونے تک سو میں سے اٹھانوے رہ جائیں گے.بہر حال انہوں نے بعض اسی قسم کے اصول وضع کئے ہوئے ہیں اور ہمیں ہر گروپ کو ضربیں اور تقسیمیں دے کر ہندوؤں اور مسلمانوں کی علیحدہ علیحدہ تعداد نکالنی تھی اور وہ تعداد معلوم کرنی تھی جو ۱۹۴۷ء میں بالغ ہو چکی تھی اور جو پہلے بالغ تھے ان کی تعداد تو پہلے ہی دی ہوتی تھی.میں نے حضرت فضل عمر بی اللہ کی خدمت میں عرض کیا تو حضور نے فوراً مناسب انتظام کر دیا.راتوں رات مجھے شاید پچاس ہزار یا ایک لاکھ ضربیں دینی پڑیں اور تقسیمیں کرنی پڑیں لیکن بہرحال ایک نقشہ تیار ہو گیا اور اس نقشہ کے مطابق ضلع گورداسپور کی مسلم بالغ آبادی کی فیصد مجموعی لحاظ سے کچھ زائد تھی کم نہیں تھی.اگلے دن صبح جب مکرم چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے یہ حساب پیش کیا تو ہندو گھبرائے کیونکہ وہ تو اپنے آپ کو حساب کا ماہر سمجھتے تھے اور انہیں خیال تھا کہ مسلمانوں کو حساب نہیں آتا.“۱۳
260 حفاظت مرکز ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا تھا.اس کے ساتھ ہی ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی کارروائی شروع ہو گئی اس موقع پر قادیان کی حفاظت اور قادیان کے ارد گرد دیہات میں گھرے ہوئے مسلمانوں کی امداد اور انخلاء کا کام آپ نے ۱۴.اگست سے ۱۵ نومبر ۱۹۴۷ء تک نہایت دلیری اور جانفشانی سے اپنی جان خطرے میں ڈال کر کیا حتی کہ حضرت مصلح موعود نے آپ کو پاکستان بلوا لیا.رض در اصل ۱۴ اگست ۱۹۴۷ء سے پہلے ہی حالات بگڑنے شروع ہو گئے تھے اور حضرت مصلح موعود ایڈوانس Base بنانے کے لئے لاہور تشریف لے گئے.روانگی سے قبل حضور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو قادیان کا امیر مقرر فرمایا.ان کے سالار حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ہوا کرتے تھے جب حضور نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو لاہور بلوا لیا پھر صاحبزادہ مرزا عزیز احمد امیر مقرر ہوئے تاہم مرکز کی حفاظت اور وہاں سے احمدیوں کے انخلاء کی ذمہ داری حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے سپرد ہی رہی.جسے آپ نے نہایت خوش اسلوبی سے سرانجام دیا.اس وقت جو خطرات تھے ان کی نشاندہی آپ کے بعض خطوط سے ہوتی ہے جو آپ نے اپنے اہل و عیال کو پاکستان بھجوائے جو حضرت مصلح موعود کے ساتھ پہلے ہی قادیان سے لاہور چلے گئے تھے.چنانچہ اپنے گھر ایک خط میں تحریر فرمایا:.السلام علیکم و رحمتہ اللہ " ظاہری حالات دگرگوں ہیں.حیلے سب جاتے رہے تو اب و رحمان خدا کے سہارے کے سوا کچھ باقی نہیں.چار پانچ ہزار عورتیں اور بچے قادیان میں پھنسے پڑے ہیں ان کے نکالنے کا انتظام کرنا ہے، بڑا ہی مشکل کام نظر آتا ہے.خدا ہی ہے جو اپنے فضل سے ان غریبوں کی نجات کی کوئی راہ نکالے.آمین.جہاں تک ہو سکتا ہے کام کرتے ہیں.لوگ تو دو آگوں میں ہوتے ہیں، ہم بہت سی آگوں میں ہیں مگر آگ
261 ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی غلام ہے" اس لئے گھبرانے کی وجہ نہیں.یہ زندگی دو روزہ ہے.کبھی خاوند بیوی سے بچھڑتا ہے، کبھی بیوی خاوند سے.جو اس دنیا میں رہ جائیں ان کا خدا تعالیٰ بھی حافظ و ناصر اور وکیل ہوتا ہے جو اپنے فرائض کو ادا کرتے ہوئے اپنے خدا سے ملتا ہے، خدا اس کے عزیزوں کو کبھی ضائع نہیں کر سکتا.باقی ابتلاء تو آتے ہی رہتے ہیں.ابتلاؤں میں ثابت قدم رہے کہ ابتلاء ہی اصطفا تک پہنچاتا ہے....سب کو سلام اور دعا.» ۱۴ اسی طرح ایک اور خط میں آپ نے لکھا.ہمیشہ تمہارا ناصر السلام علیکم و رحمتہ اللہ "خدا تعالیٰ ہمیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا.وقتی ابتلا ء ہیں.وقت گزر جائے گا مگر یہ حالات جماعت کی تاریخ میں تا قیامت یاد رہیں گے.میری طبیعت پر ذرہ بھر بوجھ نہیں ہے.لاہور کی فکر ضرور رہتی ہے.حضور کی کمزوری صحت ضرور دکھ میں رکھتی ہے.خدا کی امان میں تم سب اور ہمارے بزرگ.ظلم اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے.خدا کی مدد بھی قریب ہے.بالکل پریشان نہ ہوتا.» ۵ل تمہارا ناصر" چنانچہ آپ نے نہایت ہمت کے ساتھ قادیان اور اردگرد کے علاقہ کے مسلمانوں کو قادیان میں پناہ دی اور دشمن کے حملوں سے محفوظ رکھا.ان کے کھانے پینے اور دیگر ضروریات کا خیال رکھا.خطرات سے ان کو بچالیا اور ایک موقع پر اپنی بیوی اور جملہ قریبی رشتہ دار عورتوں کے نہایت قیمتی کپڑے پہننے کے لئے انہیں مہیا فرمائے اور انہیں حفاظت کے ساتھ پاکستان پہنچایا.چنانچہ آپ کے ہم عصر اور چچا زاد بھائی صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں.” دوسرا موقعہ تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے دوران تھا.ان دنوں میں اس کام کے انچارج حضرت بھائی جان تھے اور بڑی جانفشانی، بڑی
262 تمام دلیری اور بڑی ہمت سے کام کیا.جماعت کے افراد کو اور حقیقتاً علاقہ کے مسلمانوں کو بڑی حد تک دشمنوں کے پیم حملوں سے محفوظ رکھا اور جانی نقصان برائے نام ہوا.ایک وقت میں ستر ستر ہزار لوگوں کے کھانے اور رہائش کا انتظام کیا اور ان کو حفاظت سے پاکستان پہنچایا.ان دنوں کے اخبارات میں کئی مرتبہ جماعت کی اس قربانی اور دلیرانہ دفاع کا ذکر ہوا اور جماعت کو خراج تحسین پیش کیا گیا.یہ حضرت بھائی جان کی فیلڈ میں قیادت اور ہمت اور محنت کا ثمرہ تھا.۶.۱۹۴۷ء میں حفاظت مرکز کے لئے آپ نے جو عظیم الشان خدمات سرانجام دیں ان کی تفصیل بہت لمبی ہے صرف ایک واقعہ آپ کے اپنے الفاظ میں درج کیا جاتا ہے جو آپ کے بہترین کردار کی عکاسی کرتا ہے فرمایا:.” میری ان دنوں ذمہ داری تھی، حفاظت مرکز کا کام حضرت مصلح موعود من الالی نے میرے سپرد کیا ہوا تھا.اس کام کی انجام دہی کے دوران ایک دن مجھے اطلاع ملی کہ سکھ اور ہندو جتے آئے ہیں اور انہوں نے مسجد اقصیٰ قادیان کے مغرب میں واقعہ ایک محلہ کو گھیرے میں لے لیا ہے، جس میں زیادہ تر ایسے گھرانے آباد تھے جو احمدی نہیں تھے اور باوردی مسلح ہندو سکھ پولیس جتھوں کے ساتھ ہے اور ناکہ بندی ایسی کر رکھی ہے کہ ایک شخص بھی باہر نہیں جا سکتا اور گھیرا ڈالنے کے بعد اب اندر داخل ہو رہے ہیں.مجھے بڑی فکر پیدا ہوئی.اس لئے نہیں کہ وہ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں کیونکہ جماعت ے تو ان کا کوئی تعلق نہیں تھا بلکہ اس لئے تشویش پیدا ہوئی کہ وہ تمام لوگ ہمارے محبوب آقا حضرت محمد مصطفی میریم کی طرف خود کو منسوب کرنے والے تھے اور جو شخص خود کو آنحضرت میم کی طرف منسوب کرے اس سے ہزار اختلاف کے باوجود کوئی شخص جو خود کو حضرت مصطفی مولی کی طرف منسوب کرنے والا ہے ان کو بے سہارا نہیں
263 چھوڑ سکتا.یہ ایک احمدی کے دل میں اپنے محبوب آقا حضرت محمد مصطفی میں ولی کے لئے غیرت کا برملا اظہار ہے.غرض اس محلے تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا، ایک چھوٹی گلی تھی اس کے اوپر ہم نے گیلیاں رکھیں اور ایک پل بنایا اور اس کے ذریعہ ہم نے وہاں رضاکار بھجوائے.جب ہمارے رضا کار وہاں گئے تو پولیس نے دو آدمیوں کو شوٹ کر کے وہاں شہید کر دیا لیکن دو آدمیوں کی موت آٹھ سو یا ہزار افراد کی زندگیوں سے تو زیادہ قیمتی نہیں تھی اس لئے ہمارے اور رضا کار وہاں پہنچ گئے اور ان لوگوں سے کہا کہ چھوڑو ہر چیز اور اپنی جانوں کو بچاؤ چنانچہ عورتیں، بچے اور مرد گھروں سے نکلے اور ایک چھوٹے سے پل پر سے ہوتے ہوئے ہمارے علاقے میں آگئے یہ جو آٹھ سویا ہزار جانیں بچ گئیں ان میں تین چار سو مستورات تھیں.ان کے لئے ہم نے دار مسیح میں حضرت مرزا سلطان احمد صاحب کی حویلی کے اندر ایک اور حویلی تھی وہ خالی کروائی ، بڑی اچھی، صاف ستھری ، صحن اور بڑے بڑے کمرے تھے.غسل خانے اور پانی سب کچھ تھا.عورتوں کو وہاں ٹھہرایا گیا.باہر رضا کار مقرر کر دیئے.اب بارشیں شروع ہو گئیں تو بیچاری غریب عورتوں کو جو ایک ایک کپڑے میں اپنے گھروں سے نکلی تھیں جب بارش میں باہر کام کرنا پڑتا تو کپڑے گیلے ہوتے اور پھٹ گئے.ایک دن رضاکار میرے پاس آئے اور کہنے لگے ہم وہاں کام نہیں کر سکتے.میں بڑا حیران کہ ان کے دماغ کو کیا ہو گیا ہے، کام سے کیوں انکار کر رہے ہیں؟ میں نے ان سے پوچھا.کیا ہوا؟ کیا کسی نے تمہیں کچھ کہا ہے ؟ وہ کہنے لگے عورتوں کے تن پر صرف چیتھڑے رہ گئے ہیں کسی کام کے لئے وہ تھوڑا سا پردہ اٹھاتی ہیں تو ان کے جسم کے بعض حصے ڈھانچے نہیں ہوتے ، ہم وہاں کام نہیں کر سکتے.اب میں وہاں تین چار سو جوڑے کہاں سے لاتا.اگر بنواتے بھی تو اول تو درزی ہی
264 کوئی نہیں تھا اگر ہوتا بھی تو شاید دو مہینے لگ جاتے.دو مہینے ان کو کپڑوں کے بغیر تو نہیں رکھا جا سکتا تھا.میں نے سوچا کیا کروں.میرے اپنے گھر منصورہ بیگم کے جینز کے کپڑے تھے جو نواب محمد علی خان صاحب نے بڑے قیمتی قیمتی جوڑے شادی کے وقت دیئے تھے ڈیڑھ ڈیڑھ دو ہزار ہزار روپے جوڑے کی قیمت ہو گی.میں نے سوچا میں ذمہ دار ہوں اگر میں نے پہلے اپنے صندوق نہ کھلوائے تو میرے اوپر جائز اعتراض ہو گا.چنانچہ میں نے اپنے گھر کے زنانے کپڑوں کے سارے صندوق کھلوا کر کپڑے عورتوں کے لئے بھیج دیئے اور ایک جوڑا بھی اپنے پاس نہیں رکھا.مجھے پتہ تھا کہ ابھی اور مانگ ہوگی کیونکہ ابھی تو کچھ تھوڑی سی ضرورت پوری ہوئی ہے اور بہت سی عورتیں اسی طرح پھر رہی ہیں.پھر میں نے کہا اب میرا ضمیر صاف ہے.میں نے اپنی بہنوں کے صندوقوں کے تالے تڑوا دیئے.بھائیوں کی بیویوں حتی کہ اپنی ماؤں اور بچیوں سب کے صندوق کھول کر کپڑے ان عورتوں کو دے دیئے اور اس طرح ان کا تن ڈھانپا.اس لئے کہ انسان کا انسان سے خدا نے تعلق قائم کیا ہے اور جو غیرت ہمارے دلوں میں حضرت محمد مصطفی میں ملک کے لئے ہے اس غیرت اور جذبہ کے تحت ہم نے ہر چیز بھیج دی.یہاں تو کچھ نہیں لائے.ایک دفعہ میں نے حساب کیا.قادیان میں مارکیٹ ریٹ کے مطابق ساڑھے تین کروڑ کی جائیداد ہمارے اپنے خاندان والے چھوڑ آئے تھے.ماشاء اللہ بہت بڑا خاندان تھا مگر یہاں بھوکے تو نہیں مرے.ہندوؤں اور سکھوں کی اس یلغار نے ہمارے ہاتھ میں مٹی کے کشکول تو نہیں پکڑوائے اور نہ وہ پکڑوا سکتے تھے.خدا تعالیٰ نے آسمان سے فرشتوں کو بھیج کر ہماری ضرورتوں کو پورا کر دیا اس نے ہمارے دلوں کو دنیا کی حرص سے محفوظ رکھا ہے.یہ اس کی عنایت ہے لیکن یہ بھی اس کا فضل ہے کہ وہ دیتا ہے اور
265 ہمیں کہتا ہے کہ آگے تقسیم کرتے چلے جاؤ." کل ان واقعات کا ذکر ایک خاتون نے آپ کی وفات کے موقع پر کیا.مکرم ہدایت اللہ صاحب کارکن ضیاء الاسلام پریس ربوہ کی اہلیہ جو ان عورتوں میں شامل تھیں لکھتی ہیں:." یہ واقعہ ۱۹۴۷ء کا ہے کہ ہم کئی عورتیں حویلی مرزا سلطان احمد صاحب میں محصور تھیں.پردہ کا کوئی خیال نہیں تھا.بہت سی عورتیں دیہات کی تھیں.بعض بالکل بوسیدہ کپڑوں میں تھیں.میں نے دیکھا کہ حضرت صاحب آئے اور ایک چیز پر دو تین بڑے بڑے لوہے کے سیاہ رنگ کے ٹرنک رکھ دیئے اور قفل توڑ کر سب عورتوں میں نہایت قیمتی اور گوٹے والے کپڑے تقسیم کرنے لگ پڑے.میں بھی پاس ہی گھونگٹ نکالے بیٹھی ہوئی تھی.ایک عورت نے مجھ کو کہا تم بھی میاں صاحب سے کپڑے لے لو چنانچہ مجھ کو ایک ساڑھی اور ایک تکیہ کا غلاف جو سرخ رنگ تھا، حاشیہ زرد رنگ کا تھا اور بچے گوٹے کا کام کیا ہوا ملا.ساڑھی کو تو میں دوپٹہ بنا کر اپنے استعمال میں لے آئی تکیہ کا غلاف میں نے اپنی بیٹی کے جہیز کے لئے رکھ لیا کیونکہ اس پر گوٹے کے کام کے نہایت نفیس پھول بنے ہوئے تھے.۱۸ غرض تقسیم ہندوستان کے وقت مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر عموماً اور احمدیوں پر خصوصاً مشکل ترین حالات میں آپ نے جس طرح دن رات ایک کر کے مرکز قادیان اور اس کے ماحول کی حفاظت فرمائی اور ہزاروں مسلمان مہاجرین کے قیام و طعام کا انتظام فرمایا.انہیں ہندوؤں اور سکھوں کے حملوں سے بچایا اور نہایت خطرناک حالات میں عورتوں، بچوں اور ضعیف لوگوں کو بحفاظت پاکستان پہنچاپا وہ کار ہائے نمایاں سنہری حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں.صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب حفاظت مرکز کے لئے آپ کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے آپ کے اثر و رسوخ کے متعلق لکھتے ہیں.
266 " آپ دس سال سے زیادہ عرصہ تک خدام الاحمدیہ کے صدر بھی رہے.اس میں ہر وہ ٹریننگ تھی جو کہ ایک نوجوان احمدی کو ملنی چاہئے اور بھائی نے ہر وہ خدمت سر انجام دی جو کہ سلسلہ احمدیہ ان سے مانگتا تھا...عمر کے ساتھ بھائی کے دائرہ کار میں بھی وسعت ہو گئی.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے بہت سے ضروری کام ان کے سپرد کر دیئے اور حضور کی ہدایت کے مطابق ایک ایسی ٹیم بن گئی جو کہ ہر قسم کے ہنگامی حالات کا مقابلہ کر سکتی تھی.چنانچہ تقسیم ملک کے وقت حضرت مصلح موعود کی دور اندیشی اور بھائی کی ایسی تربیت جو کہ ہر قسم کے حالات کو سنبھال سکتی تھی، کام آئی.آخری وقت تک یہی خیال تھا کہ قادیان پاکستان کے حصہ میں آئے گا مگر جب ریڈ کلف ایوارڈ سنایا گیا تو قادیان ہندوستان میں شامل کیا گیا.یہ ایوارڈ احمدیوں کے لئے ایک بہت بڑی آزمائش تھی جس پر جماعت احمد یہ اللہ کے فضل سے پوری اتری اور بڑے سخت حالات اور فساد کی کیفیت کے باوجود احمدی بچوں اور عورتوں کو بچانے کے پروگرام میں لگ گئی.یہی جماعت احمدیہ کی زندگی کا نشان تھا.بھائی اس کام میں پیش پیش تھے.اس وقت میں قادیان میں تھا.حالات کے مد نظر حضرت مصلح موعود کا پاکستان جا کر انتظامات کرنا.اور جماعت کو سنبھالنا ضروری تھا.چنانچہ حضور لاہور آ گئے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب، بھائی اور خاندان حضرت اقدس....کے افراد اور باقی جماعت کا نوجوان طبقہ رہ گیا.حضور کی ہدایت یہ تھی کہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو پہلے پاکستان بھیجا جاوے.یہ کام اس وقت کے مشکل حالات میں بھی حضور کی خواہش کے مطابق سر انجام دیا گیا.مجھے اس وقت یہ کام دیا گیا تھا کہ کوئی نوجوان مرد بغیر نظام کی اجازت کے پاکستان نہ جاوے اور نہ ہی کوئی ضرورت سے زیادہ سامان لے کر جاوے.چنانچہ جب کسی کا ذاتی ٹرک بھی ہوتا تو اس کو زائد
267 سامان لے جانے کی اجازت نہ دی جاتی.آج اس بات کو ۳۵ سال ہو گئے ہیں اور میں اب بھی وہ حالت چشم تصور میں دیکھ رہا ہوں.وہ ایک قسم کا حشر تھا.ٹرک آتے اور جاتے اور قادیان خالی ہوتا جاتا اور بھائی مستعدی سے اپنے ساتھیوں کے ذریعہ کام کرتے رہتے.آخر وہ دن بھی آیا جب وہاں سے آخری قافلہ چلا.میں نے چونکہ درویش کی حیثیت سے پیچھے رہنا تھا اس لئے اس قافلہ کو الوداع کہنے کے لئے گیا.مجھے حضرت مصلح موعود نے ناظر اعلیٰ بھی بنا دیا تھا اور مجھے ان سبہ نوجوانوں سے تعارف ہو چکا تھا جنہوں نے بھائی کے ساتھ کام کیا تھا.جو چند ان میں سے پیچھے رہ گئے تھے مجھے ان کی قدر اس وقت محسوس ہوئی جب میں نے ان سے کام لیا.وہ سخت ہنگامی حالات تھے.سارا ملک ہمارے خلاف تھا.حکومت ہند بھی چاہتی تھی کہ ہم قادیان سے چلے جاویں مگر اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل کیا.بھائی کے جانے کے بعد بعض غیر مسلم بھی میرے پاس آئے اور بتایا کہ ان کے اوپر حضرت مصلح موعود یا بھائی کے بہت احسان ہیں اس لئے جو بھی خدمت ہو وہ سر انجام دیں گے.ول حفاظت مرکز کے سلسلہ میں آپ کا ساتھیوں کے ساتھ جو مشفقانہ سلوک تھا اس کا اندازہ ریٹائرڈ صوبیدار عبدالمنان صاحب سابق افسر حفاظت خاص کے اس واقعہ سے ہوتا ہے جو کہ درج ذیل ہے.” ہندوستان تقسیم ہو رہا تھا.قادیان سے تقریباً سات میل کے فاصلے پر مسلمانوں کا گاؤں سٹھیالی واقع تھا جو چاروں طرف سے سکھوں سے گھرا ہوا تھا.اس کی حفاظت کے لئے مجھے چند مجاہدین کے ہمراہ قادیان سے بھیجا گیا.گردو نواح کے دیہات کے مسلمان باشندے سکھوں کے مظالم سے تنگ آکر اس گاؤں میں جمع ہو گئے تھے.جب اس گاؤں پر سکھوں نے حملہ کیا تو راقم الحروف مقابلہ کرتا ہوا شدید زخمی ہوا اور
268 سکھوں کے پسپا ہونے کے بعد قادیان واپس آگیا.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو علم ہوا تو آپ اس وقت میرے پاس تشریف لائے اور میری حالت دیکھ کر فوراً صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کو بلوا کر میری مرہم پٹی کروائی.میرا جسم اکڑ چکا تھا یہاں تک کہ ہاتھ ہلانا دشوار تھا.مجھے شدید پیاس لگ رہی تھی.میں نے پانی مانگا تو حضرت میاں ناصر احمد صاحب نے اپنی صراحی سے گلاس بھرا اور پھر میرے پیچھے کھڑے ہو کر گلاس میرے منہ کو لگا کر پانی پلایا.اس وقت رات کے ڈیڑھ بجے کا وقت تھا.مجھے سخت نیند آ رہی تھی.میں سات میل پیدل چل کر آیا تھا اور سخت تھکا ہوا تھا.قریب ہی حضرت میاں صاحب کا بستر بچھا ہوا تھا حضرت میاں صاحب نے فرمایا.صوبیدار صاحب ! آپ اس بستر پر لیٹ جائیں.میں نے ہچکچاتے ہوئے سوال کیا؟ اور آپ؟ فرمانے لگے.میری فکر نہ کریں.آپ لیٹ جائیں اور مجھے لٹا دیا اور یوں اپنا آرام تیج کر ہر ممکن طور پر مجھے آرام پہنچایا.جتنے دن تک میرا علاج جاری رہا آپ بذات خود اور بنفس نفیس نگرانی فرماتے رہے.آپ کی ذات سے مجھے اتنا آرام و سکون ملا کہ آج تک میرے دل سے دعائیں نکلتی ہیں.میں آپ کا یہ حسن سلوک کبھی بھلا نہیں سکتا.۲۰ اس عرصہ کے دوران حضرت مصلح موعود کی قیمتی ہدایات اور خطوط آپ کو پہنچتے رہے جس پر آپ بدل و جان عمل کرتے رہے.ایک خط میں حضور نے لکھا.مجھے یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اپنے حوصلے کو بلند رکھو.اگر دین کی اشاعت کا خیال نہ ہوتا اور مجھ سے اشاعت اسلام کا کام وابستہ ہوتا تو میں تم لوگوں کو باہر بھجوا دیتا اور آپ تم لوگوں کی جگہ وہاں کام کرتا.کربلا کا واقعہ یاد رکھو.اور سب دوستوں کو یاد کراؤ.کس طرح رسول کریم میں اللہ کے سب خاندان نے بھوکے پیاسے رہ کر ثابت "
269 قدمی سے آخر دم تک لڑائی کی اور سب نے جان دے دی.تمہارا خطرہ ان کے برابر نہیں.آخر یہ سلسلہ خدا کا ہے اور وہ ضرور اپنی قدرت دکھلائے گا....اس وقت ساری دنیا کی نظریں تم پر ہیں.ہر دشمن حیرت سے تم لوگوں کے استقلال اور قربانی کو دیکھ رہا ہے اور تمہاری یہ قربانی سلسلہ کی عزت کو چار چاند لگا رہی ہے.یہ خدا تعالیٰ کا کم فضل نہیں کہ تم الله لوگوں کو یہ ثواب مل رہا ہے......اداره رابطه قرآن (دفاتر محاسبات دفاع پاکستان) نے "کاروان سخت جان " نام سے ایک کتاب شائع کی جس میں فسادات کا اثر قادیان پر " کے عنوان سے لکھا:.ضلع گورداسپور کی سب سے بڑی تحصیل بٹالہ ہے جس کی آبادی ضلع کی دوسری تمام تحصیلوں کے برابر ہے.یہاں کی مسلم آبادی کا تناسب ۵۵ فیصد تھا.اس تحصیل کے صدر مقام یعنی بٹالہ کو چھوڑ کر دوسرے نمبر پر قادیان ایک بڑا قصبہ ہے جہاں کی آبادی ۱۸ ہزار نفوس پر مشتمل تھی.یہ مقام علاوہ اپنی صنعتی اور تجارتی شہرت کے جماعت احمدیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے مشہور ہے.اس کے گردو نواح میں تمام تر سکھوں کی آبادی ہے.چنانچہ فسادات کے ایام میں ہیں میں میل دور کے مسلمان بھی قادیان شریف میں پناہ لینے کے لئے آگئے.یہ تعداد بڑھتے بڑھتے ۷۵ ہزار نفوس تک پہنچ گئی.چونکہ ان پناہ گ ہ گزینوں کو ظالم اور سفاک سکھوں نے بالکل مفلس اور قلاش کر دیا تھا لہذا قادیان کے باشندگان نے ان بیچاروں کی کفالت کا بیڑا اٹھایا.ظاہر ہے کہ اتنی بڑی جمعیت کے لئے خوراک اور رہائش کا بار اٹھانا کوئی معمولی کام نہیں ہے اور خصوصاً ایسے ایام میں جب کہ ضروریات زندگی کی اتنی گرانی ہو.چنانچہ یہ ناخواندہ مہمان قادیان کی کفالت میں اس وقت تک رہے جب تک حکومت نے عمداً ان کو ایسا کرنے سے روک نہ
270 دیا.یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ دو ماہ تک جاری رہا.قادیان سے واقف اصحاب اس کی صفائی اور نفاست تعمیر سے کماحقہ آگاہ ہوں گے لیکن پناہ گزینوں کی کثرت سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے میدان حشر ہے.غلیل، تیر کمان اور فاسفورس کے گولے چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر ضلع شیخوپورہ بیان کرتے ہیں:.پارٹیشن سے پہلے مجموعی طور پر حفاظت وغیرہ کا انتظام آپ کے سپرد تھا.آپ نے اس وقت تین چیزیں بنائیں اور بنانے اور تیار رکھنے کی تحریک فرمائی:.(۱) غلیل (۲) تیر کمان (۳) فاسفورس کے گولے یہ گولے چلاتے تھے تو پھٹ کر آگ لگا دیتے تھے." کالج میگزین یا حفاظت کے لئے میگازین حفاظت مرکز کے سلسلہ میں ۱۹۴۶ء کا ایک واقعہ محترم راجہ غالب احمد صاحب بیان رتے ہیں کہ وہ اس وقت تعلیم الاسلام کالج قادیان کے طالب علم تھے.انہوں نے ایک پروفیسر صاحب سے شکایت کی کہ کالج کا کوئی میگزین نہیں شائع ہوتا.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پرنسپل کالج کو جب پتہ چلا تو راجہ غالب احمد صاحب کو بلا کر پوچھا کہ میگزین یا میگازین اور مسکرا کر فرمانے لگے کہ وقت کے مطابق ہی ہونا چاہئے.اسی روز حفاظت مرکز کے سلسلہ میں کچھ سامان ایک بیٹی میں بند کر کے راجہ غالب احمد صاحب کے گھر ان کے کمرے میں چھوڑ آئے اور چابی ان کے والد صاحب کو دے آئے کہ راجہ غالب احمد صاحب کو دے دیں تا کہ وہ خود ہی کھولیں آپ تالہ نہ کھولیں.چنانچہ ان کے والد صاحب نے ایسا ہی کیا.اگلے روز کالج میں راجہ غالب احمد صاحب کو فرمایا.مل گیا تمہارا میگازین؟ اب اس کی حفاظت کرو.اس واقعہ سے جہاں آپ کی طبیعت میں مزاح کے پہلو کی نشاندہی ہوتی ہے وہاں یہ
271 بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو اپنے طلباء پر کتنا اعتماد تھا.حفاظت مرکز کے سلسلہ میں تقدیر الہی میں آپ کا مقرر ہونا حفاظت مرکز کے سلسلہ میں ہی ایک اور واقعہ راجہ غالب احمد صاحب کے والد راجہ علی محمد صاحب سابق ناظر بیت المال قادیان (جن کو حضرت مسیح موعود کے صحابی ہونے کا بھی شرف ہے) بیان کرتے ہیں کہ دو ماہ قبل انہوں نے رویا میں دیکھا کہ سکھوں نے قادیان کی احمدی آبادی پر حملہ کیا ہے اور میاں ناصر احمد صاحب پر اللہ تعالیٰ کا خاص نور اترا ہے اور وہ بگل بجاتے ہیں اور دشمن بھاگ جاتا ہے.وہ کہتے ہیں کہ نے ۱۹۴ء کے جب فسادات شروع ہوئے تو ایک روز وہ حضرت مسیح ہیں.موعود علیہ السلام کے خاندان کے ایک مکان میں تھے اور دوسرے میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب.سکھوں نے جب پہلا حملہ کیا تو آپ اطمینان سے اٹھے، چہرے پر نور تھا، وجد کی سی کیفیت تھی اور بگل بجایا.یہ پہلے طے شدہ تھا کہ حملہ کے وقت کارروائی شروع کرنے سے پہلے بگل بجایا جائے گا.آپ نے جوں ہی بگل بجایا اور کارروائی کا آغاز ہوا یوں لگ رہا تھا جیسے اسرافیل بگل میں پھونک رہا ہے.بگل کی آواز میں اتنا رعب اور ہیبت تھی کہ سکھ جنگل کی آواز پر بھاگ نکلے اور بالکل غائب ہو گئے.راجہ علی محمد صاحب کی آنکھوں کے سامنے اس وقت دو ماہ پر انا رویا آگیا اور انہوں نے وہی نور آپ کے چہرے پر دیکھا جو انہیں خواب میں دکھایا گیا تھا.آپ نے حفاظت مرکز کا مرحله نهایت زہد و تقویٰ اور عبادت میں گزارا.چنانچہ محترم عبد السلام صاحب سابق باڈی گارڈ حضرت اقدس بیان کرتے ہیں:.جس روز یعنی ۴.اکتوبر ۱۹۴۷ء کو سکھوں نے قادیان پر حملہ کیا اس دن ہم پہلے حضرت میاں شریف احمد صاحب معنی اللہ کی کو ٹھی دار الفضل میں تھے.وہاں سے ہمیں کیپٹن شیر ولی صاحب نے بورڈنگ تحریک جدید بلایا اور حکم دیا کہ جا کر دار الرحمت اور دارالعلوم کے تمام عورتیں اور بچے خالی ہاتھ بورڈنگ میں لے آؤ.وہ ہم لے آئے.اس
272 - دن باہر کے محلوں کی عورتیں، بچے بورڈنگ میں اکٹھے کر لئے اور اندر کے محلوں کی عورتیں اور بچے قصر خلافت میں اکٹھے کر لئے.ہمارا قصر خلافت سے رابطہ ٹوٹ گیا تھا.کرفیو لگا ہوا تھا، شام کے وقت پولیس اور فوج نے اعلان کیا کہ صبح تمام لوگ قافلہ میں جائیں گے.چونکہ ہم ایک نظام کے تحت تھے جب تک صدر صاحب خدام الاحمدیہ کا حکم نہ ملے ہم قادیان چھوڑنے کو تیار نہ تھے.آخر رات کے اندھیرے میں کیپٹن شیر ولی صاحب نے مجھے اور فضل الہی صاحب مرحوم کو جو بعد میں ۳۱۳ دریشوں میں قادیان رہ گئے، اڑھائی بجے کے قریب بھیجا کہ آپ قصر خلافت جا کر حضرت میاں ناصر احمد صاحب کو یہاں کے حالات بتائیں کہ یہاں فوج اور پولیس نے قافلہ میں جانے کے لئے کہا ہے.ہمارے لئے کیا حکم ہے؟ ہم دونوں گئے اور میاں ناصر احمد کو ملے جو مسجد مبارک کے ساتھ والے کمرہ میں تھے اور تہجد پڑھ کر ابھی مصلے پر ہی تھے.ہم نے حالات بتائے.انہوں نے ہمیں کہا کہ ابھی واپس جائیں اور شیر ولی صاحب کو کہیں کہ قافلہ کے ساتھ کوئی نہ جائے.یہ ان کی شرارت ہے." ان حالات میں خدام نے نہایت اطاعت کا نمونہ دکھایا.وہ آپ کے تمام حکموں کی تعمیل کرتے تھے.چنانچہ چوہدری محمد انور حسین صاحب امیر ضلع شیخوپورہ بیان کرتے ہیں.وو دلیری کے ساتھ اردگرد کا انتظام فرماتے اور دورے کرتے.ایک دفعہ مجھے فرمایا کہ جائیں اور چکر لگا کر آئیں.قریبی گاؤں راجپورہ جو نہر کے کنارے تھا گئے تو سارے گاؤں والے چھوڑ کر بھاگ گئے.میں نے انہیں بتایا کہ مجھے مرزا ناصر احمد صاحب نے بھیجا ہے تو لوگوں نے شکریہ ادا کیا.یہ حضور کی جرات دلیری تھی کہ خدام کو بھی اسی حالت میں رکھتے چنانچہ جس شخص کو بھی حکم دیتے وہ اپنی جان پر بھی
273 کھیل کر اسے پورا کرتا.میں نے یہ چکر جیپ پر لگایا تھا." غیر معمولی جرات.جس شجاعت اور مردانگی سے آپ نے تقسیم ملک کے وقت اپنے مفوضہ کام سر انجام دیئے اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب مسجد اقصیٰ کے اوپر گولیاں برس رہی تھیں.آپ مردانہ وار کھلی جگہ پر کھڑے ہوئے تھے.حتیٰ کہ ایک گولی آپ کو لگنے ہی لگی تھی کہ چوہدری ظہور احمد صاحب مرحوم سابق سیکرٹری صد سالہ جوبلی احمد نیہ منصوبہ نے آپ کو دھکا دے کر گرا دیا اور گولی آپ کو چھوئے بغیر اوپر سے گزر گئی.خلافت کے دوران آپ نے ایک مرتبہ فرمایا:.امریکہ سے مجھے ایک شخص نے خط لکھا جس میں اس قسم کی بات تھی کہ آپ کی جان پر اس طرح حملے ہوں گے اور یہ ہو گا اور وہ ہو گا.میری عادت یہی ہے کہ میں ایسے موقع پر کہا کرتا ہوں کہ جب تک خدا مجھے زندہ رکھتا ہے اس وقت تک کسی بات کا ڈر نہیں.میں تو ۱۹۴۷ء میں گولیوں کے اندر پھرتا رہا ہوں جیپ لے کر مسلمانوں کو بچانے کے لئے.پس زندگی اور موت تو خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے انسانوں کے ہاتھ میں نہیں ہے.پاکستان میں خدام الاحمدیہ کی سرگرمیوں کا احیاء تقسیم ہند سے قبل صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی صدارت میں خدام الاحمدیہ کا آخری اجتماع ۱۸-۱۹ - ۲۰.اکتوبر ۱۹۴۶ء کو منعقد ہوا تھا اس کے جلد ہی بعد آپ کو خلیفہ وقت نے تقسیم ملک کی وجہ سے ہنگامی نوعیت کے کاموں پر لگا دیا.قیام پاکستان کے بعد ذیلی تنظیموں میں سے سب سے پہلے مجلس خدام الاحمدیہ نے پاکستان میں اپنا دفتر قائم کیا.۱۶ نومبر ۱۹۴۷ء (مطابق ۱۶ نبوت (۱۳۲۶ ہش کو آپ قادیان سے لاہور تشریف لائے اور مجلس خدام الاحمدیہ کی تنظیم نو کے لئے خدام الاحمدیہ کے نام ایک پیغام جاری فرمایا جو
274 الفضل ۲۱ نومبر ۱۹۴۷ء (مطابق ۲۱ نبوت ۱۳۳۶ ہش ) میں شائع ہوا.آپ نے اپنے ولولہ انگیز پیغام میں فرمایا:.” قادیان عارضی طور پر ہمارے ہاتھوں سے جا چکا ہے.انا للہ وانا اليه راجعون.مومین کا بھروسہ چونکہ محض اللہ تعالیٰ پر ہوتا ہے اور جو کچھ ہو رہا ہے وہ چونکہ خدا تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق ہو رہا ہے.اس لئے ہمیں پختہ یقین ہے کہ یہ سب کچھ اور مصائب محض ہماری ترقیات کے لئے ہیں.اگر ہم اپنے آپ کو ان وعدوں کا اہل بنائیں اور یہی ہمارے لئے غور کا مقام ہے کہ کیا ہم ان وعدوں کے اہل نہیں ؟ کیا.ہم ان مصائب میں اپنے ایمان اور اخلاق پر پختگی سے قائم ہیں ؟ کیا ہم.نے یہ عہد کر لیا ہے کہ اب دنیا کے آرام سے ہم اسی وقت حصہ لیں گے جب روحانی اور جذباتی آرام ہمیں پھر سے حاصل ہو جائے گا.جب ہمارا قادیان پہلے کی مانند ہمارا ہو جائے گا؟ اگر ایسا ہے تو ہم نے سب کچھ کھو کر بھی کچھ نہیں کھویا.اگر ہم اپنے مولیٰ کی رضا پر راضی ہیں.اگر ہم اپنے اوقات مال جان اور آرام کو خدا تعالیٰ کے لئے قربان کرنے کو تیار ہوں تو وہ دن دور نہ ہوں گے جب ہم پھر سے "معاد" کی طرف فتح و کامرانی کے ساتھ واپس لوٹیں گے جیسا کہ خدا تعالیٰ کا ہم سے وعدہ ہے.اے خدا جلد ایسا ہی کر.(آمین).اس نازک دور پر خدام پر بہت ہی اہم ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.خدا تعالٰی ہمیں اس دور کی نزاکت کے سمجھنے اور اس کی ذمہ داریوں کے نباہنے کی توفیق عطا کرے.آمین ee پاکستان میں خدام الاحمدیہ کی سرگرمیوں کے احیاء کے سلسلہ میں آپ نے ہجرت کے فوراً بعد پاکستان کے دورے بھی کئے اور بعض جگہوں پر نئی مجالس قائم فرمائیں اور خدام میں عمومی بیداری پیدا فرمائی.
275 دسمبر ۱۹۴۷ء میں پاکستان کا پہلا جلسہ سالانہ لاہور میں منعقد ہوا تو اس موقع پر آپ کے ذریعے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر خدام کو ڈیوٹیاں دینے کا موقع ملا.اس کے جلد ہی بعد آپ کو خلیفہ وقت کی طرف سے کشمیر کے جہاد کے لئے احمدی رضا کاروں کی بھاری تعداد مہیا کرنے اور فرقان فورس کے قیام کا حکم ملا اور اس ہنگامی نوعیت کے کام کے لئے آپ کو تقریباً اکیلے ہی (SINGLE HANDED) رضا کاروں کو فرقان فورس میں شامل کرنے کے لئے عظیم جد وجہد کرنا پڑی.اگرچه فرقان فورس کا قیام کشمیر کے جہاد کے لئے ایک ہنگامی نوعیت کا کام تھا جس کے ساتھ خدام الاحمدیہ کا براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اس کا آغاز آپ کے ہی ذریعے ہوا اور یہ معاملہ پہلی بار مجلس خدام الاحمدیہ کی شوری میں پیش ہوا.اس طرح اس خدمت کو مجلس خدام الاحمدیہ کی ہنگامی نوعیت کی خدمات سے الگ بھی نہیں کیا جا سکتا.فرقان بٹالین کے لئے خدمات ۱۹۴۷ء میں کشمیر کے محاذ پر پاکستان اور ہندوستان میں جنگ جاری تھی بھارت کی طرف سے باقاعدہ فوج لڑ رہی تھی جبکہ پاکستان کی طرف سے اکثر و بیشتر رضاکار ہی مصروف جہاد تھے ان حالات میں.شروع میں جموں کے محاذ پر چالیس احمدی نوجوانوں کی ایک پلٹن صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کی کمان میں ضلع سیالکوٹ کے ایک سرحدی گاؤں "معراج کے " میں متعین ہو چکی تھی کہ حکومت پاکستان کی طرف سے جماعت کو ایک رضا کار بٹالین قائم کرنے کا مطالبہ ہوا.حضرت مصلح موعود میں للہ نے اس بٹالین کے قیام، رضاکاروں کی فراہمی.فوجی تربیت اور انہیں محاذ پر بھیجوانے کے متعلق ضروری انتظامات کرنے کے لئے ایک کمیٹی مقرر فرما دی اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو اس کا صدر نامزد فرمایا.کمیٹی کے اراکین یہ تھے.حضرت عصا حبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر ، مولوی عبدالرحیم صاحب درد سیکرٹری سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب ممبر مولوی عبد المغنی خان صاحب ممبر اس کمیٹی کے لئے جو دفتر قائم کیا گیا اس کا نام ”قیام امن“ رکھا گیا.
276 حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کی صدارت میں ۱۳.جون ۱۹۴۸ء کو مجالس خدام الاحمدیہ پاکستان کا شوری کا ایک اہم اجلاس رتن باغ لاہور میں ہوا جس میں مجالس قائم کرنے اور خدام الاحمدیہ کے قیام اور اس کی تنظیم نو کے بارہ میں مشوروں کے علاوہ جہاد کشمیر کے لئے احمدی رضا کاروں کی بھاری تعداد مہیا کرنے کا معاملہ خاص طور پر زیر غور آیا.صدر محترم نے اپنی افتتاحی تقریر میں اس شوری کے انعقاد کی غرض بیان فرمائی اور فرقان بٹالین کے قیام کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ ایک ہزار نوجوان ۲۱.جون ۱۹۴۸ء تک.ہم نے مہیا کرنا ہے.اس شوری میں شمولیت کے لئے ان جماعتوں سے جہاں ابھی تک مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں نہیں آیا تھا، مستعد نوجوان نمائندے بھی بلوائے گئے تھے.چنانچہ جو نمائندے تشریف لائے ہوئے تھے ان سے رضاکاروں کے وعدے لئے گئے اور کہا گیا کہ اپنے رضاکار ۲۱ جون ۱۹۴۸ء تک رتن باغ لاہور بھجوا دیں.اس موقع پر رضاکاروں کے جو وعدے ہوئے تھے وہ درج ذیل ہیں.صوبہ پنجاب صوبہ سرحد صوبہ سندھ صوبہ بلوچستان ضلع سیالکوٹ ۲۵۰ ضلع جہلم ۵۰ ضلع گوجر انوالہ ۲۰ ضلع لائل پور ۱۵۰ ضلع راولپنڈی ۱۰۰ ضلع شیخو پوره ضلع لاہور ضلع گجرات ۶۵ ۵۰ ضلع سرگودھا ۱۰۰ :میزان ۹۲۵ کل میزان - ۹۶۵
277 صوبہ سندھ ، بلوچستان اور اضلاع منٹگمری اور جھنگ کی جماعتوں کو خط لکھ دیئے گئے کہ وہ بھی اپنے نمائندے بھجوائیں.وو اس شوری میں فرقان بٹالین کے بارہ میں یہ بھی منظور ہوا کہ ہر مجلس اپنے خدام کا ساڑھے بارہ فیصد حصہ ہر سہ ماہی پر بھجوائے.یہ خدام کم از کم تین ماہ کی تربیت کے لئے آئیں گے.تمام مجالس پندرہ دن کے اندر اندر احزاب کی فہرستیں بھجوائیں.عرصہ تربیت میں زیر تربیت خدام وقار عمل سے متثنی ہوں گے." نے ۱۳ جون ۱۹۴۸ء کی شوریٰ میں رضاکار بھجوانے کے وعدوں پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ذاتی طور پر پورے ملک بالخصوص پنجاب کا دورہ کر کے گھر گھر جا کر رضاکار اکٹھے کرنے کا کام کیا.ان کے والدین اور بزرگ رشتہ داروں کو تحریکات فرمائیں اور سے بہت جلد فرقان بٹالین قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے.فرقان بٹالین جون ۱۹۴۸ء - جون ۱۹۵۰ء تک قائم رہی.فیلڈ میں کرنل سردار محمد حیات قیصرانی صاحب کے بعد کمانڈر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب تھے اور پیچھے ہیڈ کوارٹر پر آپ تھے.آپ عالم کباب" اور "فاتح الدین" کے نام سے اور صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کلید" کے نام سے پکارے جاتے تھے.بٹالین کا پہلا کیمپ سرائے عالمگیر کے قریب سوہن نامی گاؤں میں لگایا گیا.بٹالین کی ٹرینگ اور اسلحہ بندی کے لئے صرف ایک ماہ کا عرصہ دیا گیا.رضا کاروں کو ہتھیاروں کا استعمال ، میدان جنگ کی سوجھ بوجھ اور پڑولنگ وغیرہ کی تربیت دی گئی.فرقان بٹالین نے میدان جنگ میں بڑی ہمت، ڈسپلن اور بہادری کا ثبوت دیا.و ۲۷ فروری ۱۹۴۹ء کو حضرت مصلح موعود جن کا فوجی اصطلاح میں ”امین الملک" نام رکھا گیا تھا فرقان بٹالین کے مجاہدوں کا جائزہ لینے بنفس نفیس محاذ کشمیر پر تشریف لے گئے جس سے نوجوانوں میں نیا ولولہ پیدا ہو گیا اور ان کے حوصلے مزید بڑھ گئے.مورخ احمدیت مولانا دوست محمد صاحب شاہد تاریخ احمدیت جلد ششم میں لکھتے ہیں:.یہاں صرف ایک چھوٹا سا واقعہ بتایا جاتا ہے جس سے جوانوں کی
278 اس روح کا پتہ چلتا ہے جس کے ساتھ انہوں نے جنگ کشمیر لڑی.جنگی پوزیشن لینے کے دو دن کے بعد ہمارے سپاہیوں کو ہراساں کرنے کے لئے ایک شب طاقتور پڑول بھیجی گئی جس کے نتیجہ میں دونوں طرف سے گولیاں چلنی شروع ہو گئیں.ہندوستانیوں نے فرقان فورس کے مورچوں پر شدید گولہ باری شروع کر دی اور فرقان کے سپاہی سمجھے کہ شاید حملہ شروع ہو گیا ہے.ایک مختصری جھڑپ کے بعد ہندوستانی پسپا ہو گئے اور گولیاں چلنی بند ہو گئیں.اس کے بعد حسب معمولی جب پڑتال کی گئی تو معلوم ہوا کہ ہسپتال سے ایک بیمار غائب ہے.یہ بھی پتہ چلا کہ جب گولیاں چل رہی تھیں وہ چپکے سے اپنے بستر سے اٹھ کر اندھیرے میں پہاڑی پر چڑھ گیا اور اپنے دستہ میں شامل ہو گیا جہاں اس نے مشین گن کے سپاہی کے ساتھ ڈیوٹی ادا کی.اس مشقت کی وجہ سے اس کی طبیعت اور بھی خراب ہو گئی اور اگلے روز اسے جب کمان افسر کے سامنے جواب دہی کے لئے پیش کیا گیا تو اس نے اقبال جرم کر لیا لیکن ساتھ ہی یہ بیان بھی دیا کہ جب اس سیکشن پر حملہ ہوا تو وہ یہ برداشت نہ کر سکا کہ اس کے ساتھیوں پر حملہ ہو چکا ہو اور وہ بستر پر پڑا رہے.اسے گو اس حرکت پر تنبیہ تو کی گئی لیکن جس جذبہ کے ساتھ اس نے یہ کارنامہ انجام دیا تھا وہ ایک قابل تحسین اثر اپنے پیچھے چھوڑ گیا.؟ ۲۵ فرقان بٹالین میں اگرچہ بعض فوجی افسر جیسے کرنل سردار محمد حیات صاحب قیصرانی میجر وقیع الزمان صاحب (جو) بریگیڈئیر کی حیثیت سے ریٹائر ہوئے) میجر حمید احمد صاحب، میجر عبدالحمید صاحب وغیرہ کے علاوہ معراجکے میں کام کرنے والے مجاہدین اور وہ افسر جو رضا کارانہ طور پر جنگ کشمیر میں حصہ لے رہے تھے.شامل تھے لیکن وہ رضاکار جو بطور خاص فرقان بٹالین کے لئے جون ۱۹۴۸ء میں تیار کئے گئے اور جن کو تیار کرنے میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی کوششوں کا ذاتی دخل تھا ان کی
279 تعداد تقریباً تین ہزار تک پہنچ گئی تھی.ان میں خاندان مسیح موعود کے افراد، مبلغین، جامعہ احمدیہ تعلیم الاسلام ہائی سکول اور تعلیم الاسلام کالج کے طلباء اور اساتذہ.بعض ڈاکٹر زمیندار دکاندار سرکاری احمدی ملازم شامل تھے.تقریباً تو دس احمدی رضاکار شہید ہوئے.۱۵ چون ۱۹۵۰ء کو حکومت پاکستان کے فیصلہ کے پیش نظر فرقان بٹالین کو سبکدوش کر دیا گیا.۱۷ جون ۱۹۵۰ء کو سرائے عالمگیر کے قریب سبکدوشی کی خصوصی تقریب عمل میں آئی جس میں پاکستان کے کمانڈر انچیف کا پیغام پڑھ کر سنایا گیا.۲۰ جون ۱۹۵۰ء کو احمدی رضا کار ربوہ پہنچے جہاں ان کا استقبال کیا گیا.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (جن کو کرنل کا اعزازی رینک ملا تھا اور دوسرے مجاہدین کو پھولوں کے ہار پہنائے گئے.شام کو ایک خاص تقریب منعقد ہوئی جس میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے تقریر فرمائی.مجاہدین فرقان فورس کے کار ہائے نمایاں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے واقعات بیان فرمائے اور تقریر کا اختام ان الفاظ میں فرمایا : " ہم نے کشمیر میں اپنے شہید چھوڑے ہیں.جگہ جگہ ان کے خون کے دھبوں کے نشان چھوڑے ہیں.ہمارے لئے کشمیر کی سر زمین اب مقدس بن چکی ہے.ہمارا فرض ہے کہ جب تک ہم کشمیر کو پاکستان کا حصہ نہ بنا لیں اپنی کوششوں میں کسی قسم کی کوتاہی نہ آنے دیں.اگرچہ کامیاب جدوجہد کے بعد فرقان فورس کو سبکدوش کیا جا رہا ہے لیکن جس جہاد کا ہم نے خدا سے وعدہ کیا ہے اس میں سبکدوشی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کا منشاء یہی معلوم ہوتا ہے کہ قربانیوں کا دور چلتا چلا جائے اور اس نیت سے ہر قربانی سلسلہ کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کرنے کا موجب ثابت ہوتی رہے.اندریں حالات ہمارا فرض ہے کہ ہم ان قربانیوں کے لئے ہر وقت تیار رہیں تا وقت آنے پر ہم پیچھے رہنے والوں میں شمار نہ ہوں بلکہ اس طرح اپنی جانیں پیش کرتے چلے جائیں جس طرح ایک پروانہ دیوانہ وار است
280 آگے بڑھتا ہے اور شمع پر اپنی جان نچھاور کر دیتا ہے.شمع تو اس ہستی کو ختم کر دیتی ہے لیکن ہمارا محبوب تو خدا تعالیٰ ہے اس کے راستے میں اگر ہم اپنی جانیں قربان کریں گے تو پھر وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہم پر اپنے Mee انعامات کی بارش کرتا چلا جائے گا.“ اس سے قبل صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب (وکیل اعلیٰ) نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کی غیر موجودگی میں سلامی لی اور سیکرٹری فرقان فورس مولوی عبدالرحیم صاحب درد نے کمانڈر انچیف کا پیغام بھی پڑھ کر سنایا.فرقان بٹالین کے مجاہدین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے رسالہ " قائدا کے ایڈیٹر حکیم احمد الدین صاحب صدر جماعت المشائخ سیالکوٹ نے جنوری ۱۹۴۹ء کی اشاعت میں لکھا." اس وقت تمام مسلم جماعتوں میں سے احمدیوں کی قادیانی جماعت نمبر اول پر جا رہی ہے.وہ قدیم سے منظم ہے.نماز روزہ وغیرہ امور کی پابند ہے.یہاں کے علاوہ ممالک غیر میں بھی اس کے مبلغ احمدیت کی تبلیغ میں کامیاب ہیں.قیام پاکستان کے لئے مسلم لیگ کو کامیاب بنانے کے لئے اس کا ہاتھ بہت کام کرتا تھا.جہاد کشمیر میں مجاہدین آزاد کشمیر کے دوش بدوش جس قدر احمدی جماعت نے خلوص اور درد دل سے حصہ لیا ہے اور قربانیاں کی ہیں ہمارے خیال میں مسلمانوں کی کسی دوسری جماعت نے ابھی تک ایسی جرات اور پیش قدمی نہیں کی.ہم ان تمام امور میں احمدی بزرگوں کے مداح اور مشکور ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ملک و ملت اور مذہب کی خدمت کرنے کی مزید توفیق بخشے.۲۷ راجہ غالب احمد صاحب صدر جماعت احمدیہ گلبرگ لاہور جو خود بھی فرقان بٹالین میں شامل تھے، نے خاکسار کو بتایا کہ حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو فرقان بٹالین کے سلسلہ میں اکیلے جدوجہد کرنی پڑی.رضا کار اکٹھے کرنے کے لئے آپ نے پاکستان کا Re
281 دورہ کیا اور بالخصوص پنجاب میں گھر گھر تشریف لے جا کر نوجوان احمدیوں کے والدین کو تحریک فرمائی کہ وہ اپنے جگر گوشے اس جہاد کے لئے دیں یہ ایسا مسئلہ تھا کہ پلیٹی نہیں کر سکتے تھے.نہ ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ خطبہ میں اس کی تحریک فرما سکتے تھے اس لئے جس سرعت سے آپ نے اس تنظیم کو قائم فرمایا اور ماہ ڈیڑھ ماہ میں سرائے عالمگیر کے قریب پہلا کیمپ جاری کر دیا اس میں آپ کی انتہائی قابلیت اور اعلیٰ صلاحیتوں کا دخل ہے.نہایت شفقت اور حکمت کے ساتھ بٹالین کو ٹھوس بنیادوں پر قائم کر دیا اور تین مرتبہ اسے Reinforce کیا.فرقان بٹالین کا تصور اس کو عملی جامہ پہنانا اور اسے کامیابی سے چلانا اور کامل استغناء کا یہ عالم کہ کبھی خود بھی اس کا ذکر نہ کرنا نہ کسی کو اجازت دینا کہ آپ کی خاموش محنت اور عظیم کام کی تشہیر کرے.راجہ غالب احمد صاحب ہی بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۴۸ء میں جب پہلی بار بٹالین محاذ پر گئی اس وقت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ان کے ماموں خالد احمدیت ملک عبدالرحمان صاحب خادم کے پاس گئے اور انہیں تحریک کی کہ راجہ غالب احمد کو چھٹیاں ہیں انہیں فرقان بٹالین کے لئے بھیجیں.غرضیکہ گھر گھر جا کر نہایت تدبر اور حکمت سے رضا کار تیار کرنا آپ کا ہی کام تھا آپ کو اس وقت جو فوجی اشارات میں نام دیا گیا وہ عالم کباب " تھا اور اس نام میں بھی ایک خفیہ حکمت معلوم ہوتی ہے...حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی عظیم رہنمائی میں آپ کو جس احسن رنگ میں رضا کاروں کو مہیا کرنے ، سپلائی بہم پہنچانے اور جملہ امور میں فرقان بٹالین کی زبردست خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی اس کی نظیر بہت کم ملتی ہے.اطاعت خلافت کا ایک ناقابل فراموش واقعہ " محترم ثاقب زیروی صاحب مدیر ہفت روزہ ”لاہور " لکھتے ہیں.۱۹۴۸ء کی دوسری ششماہی کا واقعہ ہے.یہ عاجز ان دنوں حضرت المصلح موعود کے ساتھ پریس اتاشی کے طور پر منسلک تھا.حضرت مصلح موعود ان دنوں رتن باغ (لاہور) ہی میں فروکش تھے کہ ایک دن
282 حضرت صاحبزادہ صاحب نے نیچے آکر فرمایا "کل صبح صبح ہی تیار ہو کر آ جاؤ ہمیں سرائے عالمگیر اور پھر بربط جانے کا حکم ہوا ہے فرقانی رضاکاروں سے ملنے کے لئے.اور اگلے دن دوپہر سے بھی قبل ہی ہم.احمدی رضاکاروں کی بٹالین فرقان فورس کی ابتدائی تربیت گاہ (Base Camp) میں تھے.حضرت فاتح الدین نے کیمپ کے انچارج سے کچھ باتیں کیں ، ہدایات دیں اور کچھ مشورے عطا فرمائے اور پھر مجاہدین کے ساتھ کھانا کھانے کے بعد ہم اپنی ولزلی چھوڑ کر مارف (Marph) ہیڈ کوارٹر میں پہنچے.حضور وہاں بی ایم اور ڈی کیو سے ملے.دیر تک محاذ جنگ اور فرقانی رضا کاروں کی جان سپاریوں کی باتیں ہوتی رہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب کے ارشاد پر میں نے چند نظمین بھی سنائیں پھر چائے کے بعد ہمیں وہاں سے بھمبر پہنچا دیا گیا جہاں سے ہمیں رات گئے چاند کے طلوع ہونے کے بعد براستہ سوکھا تالاب قلعہ باغ سر کی طرف پیدل اپنا سفر شروع کرنا تھا کہ دن کے وقت یہ سفر اس لئے ممکن نہ تھا کہ ہر وقت فضا میں تارا سنگھ (بھارتی بمباروں کا کوڈ نام) منڈلاتے رہتے تھے.بھمبر سے سوکھا تالاب جاتے ہوئے راستہ میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا کہ جو گائیڈ ہمیں راہنمائی کے لئے دیا گیا تھا وہ چلتے چلتے ایک دم ایک جگہ بیٹھ کر اپنا دایاں ٹخنہ پکڑ کر کراہنے لگا حضور جو چند قدم پیچھے تھے کی فوراً بھاگ کر اس کے پاس پہنچے.معلوم ہوا کہ اسے بچھو نے ڈس لیا.حضور نے اس تا سی اور اس کے سامنے بیٹھ کر بسم اللہ اور ھو الشافی پڑھ کر اس کے ٹخنے کو سہلانے لگے.یہ عمل کوئی دو یا تین منٹ تک جاری رہا اس کے بعد اس شخص کے چہرے پر رونق ابھرنے لگی یہاں تک کہ وہ ہشاش بشاش اچھل کر کھڑا ہو گیا اور قافلہ پھر روانہ ہو پڑا.حضور آگے آگے تھے ہم دونوں پیچھے پیچھے تھے کہ اس نے مجھ سے
283 کہا.آپ کے صاحب تو ”بڑے کرنی والے ہیں یہ گفتگو خاص بلند آواز سے نہیں ہو رہی تھی مگر آپ نے سن لی اور فوراً مڑ کر ہمارے پاس آئے اور گائیڈ سے مخاطب ہو کر فرمایا.ہاں الامل را دیکھو اس میں کسی کرامت کا دخل نہیں ہے اگر چاہو تو میرے جیسے کرنی والے تم بھی بن سکتے ہو.بس اتنا کیا کرو کہ جب آموں کو بور آجائے تو موسم میں اس بور کو اچھی طرح اپنے ہاتھوں میں رگڑ رگڑ کر مل لیا کرو.اس بور کا کم از کم سال بھر اثر ضرور رہتا ہے پھر ہنس کر فرمایا ایسا کرنے کے بعد تم بھی میری طرح کرنی والے بن جاؤ گے.اس وضاحت و نصیحت کے بعد جب ہم نے اپنا سفر شروع کیا تو مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا.ثاقب ! یہ بھی شرک کی ایک قسم ہے.شرک ہمیشہ باریک در باریک راہوں سے انسانی جذبات و محسوسات پر وار کرتا ہے اسے اس کا موقع نہیں دینا چاہئے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ فوراً ہی بتا دوں کہ یہ تاثیر دراصل اللہ تعالیٰ نے اس بور میں برکھ دی ہے.بور رچے ہاتھ زخم پر پھیرنے سے گھر.پھڑ اور بچھو تک کا درد اور زہر خدا تعالی کے فضل - سے جلد دور ہو جاتا ہے.عطائی اور فریب کار اس کو معجزہ کے طور پر پیش کر کے ہی جہلا کو لوٹتے رہتے ہیں.اگلا سارا دن فرقانی مجاہدین اور رات ان خیالوں کے دیر موں میں گزری.رات کے گیارہ بجے تک تو باتیں ہوتی رہیں.مجھے سے میرا کلام سنتے رہے اور پھر ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ تڑ تڑ کی آوازوں سے کھل گئی.آپ فوراً یہ آوازیں سنتے ہی رائفل پکڑ کر سکائی لائن کی طرف بھاگ پڑے.معلوم ہوا کہ بربط کے جیالوں کی پیٹرول پارٹی کی ریچھ کے سپاہیوں کی پڑول پارٹی سے مٹھ بھیر ہو گئی تھی جس میں دشمن کے دو فوجی ڈھیر ہوئے.یہ مڈ بھیٹر اس رات تین دفعہ ہوئی گویا یہ
284 ساری رات آنکھوں میں ہی کٹ گئی اور حضرت صاحبزادہ صاحب نے سکائی لائن پر ادھر سے ادھر بھاگتے ہوئے صبح کر دی.واضح رہے کہ بربط " اس پہاڑی کا کوڈ نام تھا جس پر فرقان فورس تھی اور " ریچھ " مجاہدوں نے بھارت کی اس پہاڑی کا کوڈ نام رکھا ہوا تھا جو وادی کے دوسری طرف تھی.اگلے دن دو پھر سے کچھ پہلے ہی ہم لوٹ پڑے کیونکہ واپسی کا سفر ہمیں بھارتی بمباروں سے بچتے بچاتے طے کرنا تھا اور پھر بھمبر اور مارف ہیڈ کوارٹر سے ہوتے ہوئے نماز مغرب سے چند منٹ قبل اپنے Base Camp میں پہنچ گئے.وضو کیا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے نماز پڑھائی.جوں ہی سنن سے فارغ ہوئے.کیمپ کے انچارج نے حضرت صاحبزادہ صاحب کو ایک طرف لے جا کر حضرت مصلح موعود کا کوئی ضروری پیغام پہنچایا جسے سنتے ہی آپ نے وہیں سے مجھے آواز دی.ثاقب ! آؤ گاڑی میں بیٹھو، لاہور چلیں، مجھے چونکہ ارشاد خلافت اور اس کی اہمیت کا کچھ علم نہ تھا میں نے بڑی بے تکلفی سے عرض کیا حضرت میاں صاحب ! جسم تھکے ہوئے ہیں رات بھر جاگتے رہے ہیں.اس سے پہلی ساری رات پیدل سفر میں گزری ہے.کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ چند گھنٹے آرام کر لیں پھر چل پڑیں گے.ساری رات اپنی ہی تو ہے.آپ نے یہ سنتے ہی فرمایا حضور کا ارشاد ہے کہ جونہی واپس پہنچیں فورا لاہور کے لئے روانہ ہو پڑیں.بتاؤ اس فوری حکم کے بعد کسی قسم کے توقف کی کیا گنجائش ہے، اور ہم چند ہی منٹوں میں لاہور کے لئے روانہ ہو پڑے.ولزلی سڑک پر چڑھی تو فرمایا.اب ثاقب نظم سنانا شروع کر ے تاکہ میں اچھی طرح گاڑی چلا سکوں اور میں نے تعمیل ارشاد کی یہاں تک کہ میں اشعار پڑھتا پڑھتا سو گیا اور سیدی و محبوبی گاڑی چلاتے چلاتے سو گئے اور گاڑی سڑک سے اتر گئی مگر خدائے جلیل و دے
285 قدیر نے ابھی اس وجود باوجود سے تبلیغ و اشاعت اسلام کی صدہا میں سر کرانا تھیں.اچانک ایک جھٹکے سے میری آنکھ کھل گئی اور میں چینا میاں صاحب روکئے اور آپ نے فوراً بیدار ہو کر فرمایا شعر سناتے رہتے تو یوں نہ ہوتا..جب ہماری آنکھ کھلی.اس وقت ایک بہت بڑا درخت صرف چند گز کے فاصلے پر تھا اور ہماری کار سیدھی اس کی طرف جا رہی تھی.اللہ تعالٰی نے اپنے فضل سے ہمیں حادثے سے محفوظ رکھا اس پر میں نے پھر بہ لجاجت عرض کیا کہ مجھے تو چھوڑیں، آپ کا وجود از حد قیمتی ہے، پھر آپ کو گاڑی بھی چلانی ہے اس لئے بہتر ہو کہ ہم کچھ دیر گاڑی میں ہی آرام کر لیں تاکہ باقی سفر بخریت گزرے.اس دفعہ میری درخواست قبول کر لی گئی.فرمایا.لیکن ہم زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹے کے لئے رکیں گے ، میں اس قدر تھک گیا تھا اور میری آنکھیں نیند سے اس قدر بھری ہوئی تھیں کہ میں سر گر بیان میں جھکاتے ہی سو گیا لیکن نہیں کہہ سکتا کہ اس عرصہ میں آپ بھی سوئے یا نہیں کیونکہ ٹھیک انسٹھویں آپ نے مجھے جھنجھوڑ کر جگا دیا اور سبحن الذي سخر لنا هذا پڑھ کر پھر گاڑی سٹارٹ کر دی......حتی کہ ہم کوئی رات کے ساڑھے گیارہ بجے کے قریب لاہور کی مال روڈ پر تھے.۲۸۴ ایثار کا نمونہ محترم عبد السلام صاحب سابق باڈی گارڈ بیان کرتے ہیں.وو منٹ پر خاکسار بھمبر ریر (Rear) فورس میں انچارج تھا وہاں تک لڑکوں پر سفر کیا جاتا تھا وہاں سے پیدل باغ سر تک جاتے تھے جہاں فرقان بٹالین کا محاذ تھا.حضرت میاں ناصر احمد صاحب اور ان کے کچھ ساتھی ایک روز شام کو وہاں پہنچے اور کہا سلام صاحب کچھ گھوڑے مل سکتے ہیں ؟
286 میں نے کہا ہاں مل سکتے ہیں.کہنے لگے چار گھوڑوں کا انتظام کر دیں میں نے ایریا کمانڈر سے اجازت لے کر AT والوں سے چار گھوڑوں کا انتظام کر دیا.دن کے وقت دشمن کے ہوائی جہاز اور توپ خانہ فائر کرتا تھا اس لئے رات کے وقت سفر کیا جاتا تھا.چار گھوڑوں کے ساتھ چار سپاہی تھے حضرت میاں ناصر احمد صاحب نے ایک گھوڑا چوہدری نور الدین صاحب ذیلدار کو دیا، دوسرا مولوی عصمت اللہ صاحب کو تیسرا ڈاکٹر فضل الرحمان صاحب اور چوتھا مجھے یاد نہیں رہا کیونکہ وہ بھی عمر رسیدہ تھے اور خود میجر حمید احمد کلیم صاحب اور محمود احمد صاحب تینوں پیدل روانہ ہوتے ہی واپس آئے جاتے ہوئے میں نے کہا بھی کہ اور گھوڑوں کا انتظام ہو سکتا ہے مگر نہیں مانے.جب واپس آئے تو رات کو بارش شروع ہو گئی اس وقت ہمارے پاس ایک چھوٹا سا کمرہ تھا اس میں ہم سب نے رات بسر کی.صبح سویرے ایریا کمانڈر صاحب پاکستان آرمی ان کو ملنے کے لئے آئے.ہم نے زمین پر کمبل بچھا دیئے اور بیٹھ گئے.اسی وقت ایریا کمانڈر صاحب نے اپنے اردلی کو کہا کہ فوراً یہاں چار پائیاں لے آؤ تین چار آدمی چار پائیاں لے کر آگئے.ایریا کمانڈر نے مجھے کہا کہ آپ نے رات کو کیوں نہیں بتایا میں رات کو چار پائیاں بھیج دیتا.آپ چار پائی پر بیٹھ گئے اور اس سے باتیں کرنے رہے جب ایریا کمانڈر چلا گیا تو مجھے کہنے لگے سلام صاحب کمبل زمین پر بچھاؤ اور پھر.زمین پر لیٹے رہے دن وہاں گزارا.رات کو ٹرک پر بیٹھ کر سرائے عالمگیر پہنچے اس سفر میں پاؤں پر چھالے پڑ گئے.میں نے بھمبر ہسپتال سے ٹینکر آیوڈین لا کر دی وہ دن بھر چھالوں پر لگاتے رہے." مصلح موعود کی صدارت میں صاحبزادہ صاحب کی نائب صدارت ۳۰ ۱۳۱ کتوبر ۱۹۴۹ء کو خدام الاحمدیہ کا ربوہ میں پہلا سالانہ اجتماع منعقد ہوا.
287 اس موقع پر بعض مصالح کی بناء پر حضرت مصلح الموعود بھی اللہ نے خدام الاحمدیہ کی صدارت کی ذمہ داری خود سنبھال لی اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو نائب صدر اول بنا دیا اس طرح آپ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ خلیفہ وقت کی صدارت خدام الاحمدیہ میں براہ راست آپ کو نائب صدر کے طور پر کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور مقدس باپ اور اس بیٹے نے چھ سال تک بالترتیب صدر اور نائب صدر کے طور پر کام کیا اور اس ذیلی تنظیم میں ایسی روح ڈالی اور اس کو ایسی ٹھوس بنیادوں پر استوار کیا کہ خدمت کے لحاظ سے تمام ذیلی تنظیموں میں سے یہ اہم ترین تنظیم بن گئی.جہاں تک خدام الاحمدیہ کی تنظیم اور حفاظت مرکز کا کام ہے حضرت مصلح موعود نے حضرت صاحبزادہ صاحب کے کام کو سراہا لیکن اس میں دینی روح کو زیادہ پختہ بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود نے مناسب خیال فرمایا کہ کچھ عرصہ خود اس کی صدارت فرمائیں.چنانچہ اس بارے میں حضرت مصلح موعود نے جلسہ سالانہ ۱۹۴۹ء کے موقع پر فرمایا.احباب کو علم ہو گا کہ میں نے مجلس خدام الاحمدیہ کی صدارت خود سنبھال لی ہے.میں نے یہ قدم اس لئے اٹھایا ہے کہ نوجوانوں کو زیادہ تر دین کی طرف مائل کیا جائے.جہاں تک تنظیم اور حفاظت مرکز کا تعلق ہے خدام الاحمدیہ نے اچھا کام کیا ہے لیکن اس کے قیام کی غرض یعنی نوجوانوں میں صحیح دینی روح پیدا کی جائے پوری نہیں ہوئی.حقیقت یہ ہے روحانی جماعتوں کا اوڑھنا بچھونا سب روحانی ہوتا ہے.اس میں کوتاہی ہو جائے تو اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے اس وجہ سے قدارت میں نے خود سنبھال لی ہے تاکہ میں خود براہ راست ان کی ee نگرانی کر سکوں.۲۹ چنانچہ ۱۹۴۹ء سے ۱۹۵۴ء تک آپ حضرت مصلح موعود کی صدارت میں نائب صدر کے طور پر کام کرتے رہے حتی کہ آپ نے نے نومبر ۱۹۵۴ء کو انصار اللہ کے صدر ہو گئے.
288 ربوہ کا پہلا جلسہ سالانہ قیام پاکستان کے کے بعد جماعت احمدیہ کے مرکز جدید ربوہ میں پہلا جلسہ ۱۵ ۱۶ ۱۷ اپریل ۱۹۴۹ء کو منعقد ہوا یہ وہ وقت تھا جب کہ ربوہ محض کلر اٹھی زمین کا ایک بے آب و گیاہ قطعہ تھا اس میں ابھی نہ کوئی سڑک تھی.نہ کوئی عمارت.پینے کا پانی بھی بہت دور سے لانا پڑتا تھا.اس لئے بڑے وسیع انتظامات کی ضرورت تھی چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے تربیت یافتہ رضا کاروں کے لئے اپیل کی.مورخ احمدیت مولوی دوست محمد صاحب شاہد لکھتے ہیں:."چونکہ جلسہ کے انتظامات کو خوش اسلوبی سے چلانے کے لئے سینکڑوں رضاکاروں کی بشدت ضرورت تھی اس لئے صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ مرزا ناصر احمد صاحب نے بذریعہ الفضل اپیل کی کہ خصوصاً فرقان فورس کے تربیت یافتہ نوجوان جو نظام سلسلہ کے تحت کام کر چکے ہیں زیادہ سے زیادہ جلسہ میں شامل ہوں اور ۱۳.اپریل کو ربوہ پہنچ کر دفتر خدام الاحمدیہ میں اطلاع دیں تا کہ ان کی ڈیوٹی لگائی جا سکے سی دفتر خدام الاحمدیہ کی تعمیر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے خدام الاحمدیہ کے دور ثانی کا ایک کارنامہ ربوہ میں مجلس کے دفتر کی تعمیر ہے.مرکزی دفتر کی بنیاد حضرت مصلح موعود نے ۶ فروری ۱۹۵۲ء کو رکھی اور ۵ اپریل ۱۹۵۳ء کو دفتر اپنی عمارت میں منتقل ہو گیا.حضرت مصلح موعود " نے اس کا افتتاح فرمایا اور مجلس کے دفتر بنانے پر خوشنودی کا اظہار فرمایا.اس رض
289 ماہنامہ خالد کا اجراء اگرچه مجلس خدام الاحمدیہ کے قیام کو چودہ برس کا عرصہ گزر چکا تھا لیکن ابھی تک مجلس کا اپنا کوئی جریدہ نہ تھا چنانچہ آپ کے زمانے میں ہی مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے ترجمان ماہنامہ خالد" کا اجراء اکتوبر ۱۹۵۲ء کو ہوا.۳۲ ابتدائی ایام میں صاحبزادہ صاحب کی قیادت میں خدام الاحمدیہ کی کار کردگی پر ایک رپورٹ خدام الاحمدیہ کے قیام کے ابتدائی سالوں سے ہی جس روح کے ساتھ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ قادیان نے کام کرنا شروع کیا اس کی ایک جھلک خدام الاحمدیہ کی سالانہ رپورٹ بابت ماہ فروری ۱۹۴۱ء/ تبلیغ / ۱۳۲۰ بهش تا ماه فروری ۱۹۴۲ء / تبلیغ /۱۳۳۱ بهش میں نظر آتی ہے جو کہ درج ذیل ہے." خدائے قدوس اور حمید ہی کی سب تعریف ہے کہ اس نے محض اپنے فضل و احسان سے اپنے ناچیز خدام کو ”خدام الاحمدیہ " کی زندگی کے چوتھے سال میں خدمت دین و خدمت خلق کی توفیق عطا فرمائی.اللہ ہی کی عنایت سے ہمیں تو سو ستائیس (۹۲۷) مریضوں کی عیادت و خدمت اور پانچ سو چودہ (۵۱۴) معذوروں اور حاجت مندوں کی حاجتوں کے پورا کرنے ، انہیں (۱۹) جنازوں کے انتظام اور چودہ (۱۴) گمشدگان کی تلاش کی توفیق ملی.اللہ ہی کی مدد سے بائیں نئے مقامات پر مجالس کا قیام ہوا.اللہ ہی کے فضل سے متعدد ” بے راہ راہوں پر ۶۱۳۲۷ مکعب فٹ مٹی ڈال کر انہیں قابل استعمال بنایا گیا.اللہ ہی نے ہمارے ۱۶۲۲.افراد کو ایک نظام کے تحت کتب حضرت مسیح موعود الصلو
290 " ة و السلام و دیگر کتب سلسلہ کے پڑھنے اور امتحان دینے کی توفیق عطا کی.یہ خدا تعالیٰ ہی کا فضل و کرم ہے کہ جس نے خدمت خلق کی بنیادوں پر ہمارے اخلاق کی تعمیر کر کے قومی زندگی" کی روح کو ہم میں بیدار کیا.جس نے تبلیغ کے دروازوں کو ہم پر کھول کے اجتماعی دینی و دینوی ترقیات کی راہ کو ہمارے لئے سہل و فراخ کیا.جس نے ہمارے اطفال کی روحانی و جسمانی نشو و نما کے عمدہ ترین دور زندگی کو منظم تربیت میں لا کر ان کے مستقبل کو سنوارا اور روشن بنایا.جس نے ہماری معاشرتی فضاء کو آوارگی و بد اخلاقی سے پاک کیا.جس نے ہم پر ورزش اجتماعی کے دروازے کھولے اور ان مواقع سے بچایا جب نحیف و لاغر جسم روحانی ذمہ داریوں کو بار سمجھنے لگتا ہے.اور جب بھی ہمیں غیر معمولی جائز و ضروری اخراجات کرنے پڑے اس رزاق نے ہماری غیر معمولی مدد فرمائی اور ہمیں کسی انسان کا مقروض نہ کیا فالحمد لله على ذلك - فالحمد لله على ذلك فالحمد لله على ذلك - نبی کریم ملی اور آپ کے سب سے بڑے خادم ہمارے صحیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کے طفیل اللہ تعالی نے تو ہم پر بڑے بڑے انعام کئے مگر کیا ہم نے بھی اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی طرف توجہ کی ؟ انہیں دور کرنے کی کوشش کی؟ بے شک بہت سی مجالس نے ”خدام الاحمدیہ " کی اہمیت کو سمجھا اس کی خاطر قربانیاں کیں.اس کی ذمہ داریوں کو استقلال سے نباہا بے شک بہت سے خدام نے اپنے کو اسلام کا ستون یقین کیا، اسلامی تعلیم کے حامل بنے احمدیت کی فوج کا ایک سپاہی بنایا اور مسیح موعود علیہ السلام کے "روحانی حربہ" کا پورا پورا حق ادا کیا فجزاهم الله احسن الجزاء.مگر بہت سے خدام اور بہت سی مجالس ایسی بھی تو ہیں جو جاگنے سے پہلے سو گئیں اور جنہوں نے آب زندگی کے پیالہ کو ہاتھ میں تو پکڑا مگر اپنے
291 ہونٹوں کو لگانے کی انہیں توفیق نہ ملی.مگر یہ نازک دور ہے اور منٹوں کی کو تاہی صدیوں کی تباہی کا موجب بن سکتی ہے.خدا اپنے موعود قمری عذابوں کے ساتھ زمین پر اترا ہے.وہ ہر بدی اور بدی کے حامل انسان اور بدی سے وابستہ اشیاء کو بنیادوں سے اکھیڑ رہا ہے.بڑے بڑے شہر ویرانہ بنائے جا رہے ہیں اور قومیں تہہ و بالا کی جا رہی ہیں.جن مقامات کو انسان کل انسانیت کے لئے مقام فخر سمجھتا تھا آج وہ جہنم کا نمونہ بن رہے ہیں اور یہ سب کچھ مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات کے مطابق اور آپ کی صداقت پر بین گواہ ہے.پس آج صرف وہ پانی اس جہنم کی آگ کو بجھانے میں کامیاب ہو سکتا ہے جو پکار پکار کے کہہ رہا ہے.د میں وہ پانی ہوں جو اترا آسمان سے وقت پر" آج سونے کا دن نہیں، خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرنے کی رات ہے.آج آرام کی گھڑیاں نہیں ، پیم و منظم کوشش سے اپنے کو اپنوں کو عذاب الہی سے بچانے کا وقت ہے.اسی سلسلہ کی ایک کڑی مجلس خدام الاحمدیہ کا لائحہ عمل ہے، ایک نظام کے ماتحت اپنے معذور اور حاجت مند بھائیوں کی خدمت کرنا اپنے ان پڑھ بھائیوں کو اسلامی تعلیم سے واقف کرنا خدا کے دین کی راہ میں کسی کام کو ذلیل نہ سمجھنا خود دکھ اٹھا کر خدا تعالیٰ کی مخلوق کے سکھ کی فکر کرنا بھولے بھٹکے بھائیوں کو راہ ہدایت پر لانا احمدیت کی حقیقی فضا میں آئندہ نسلوں کی تربیت کرنا خدا تعالیٰ کے احکام کے بجا لانے میں ایک دوسرے کا معاون ہونا تعاونوا على البر والتقوی کا اپنے کو مصداق بنانا خدا کے مسیح کے لائے ہوئے نور سے دنیا کے اندھیرے کو دور کرنا یہ ہے ہمارا پروگرام ! اور یہ وہ پروگرام ہے جس کے بغیر دنیا کی نجات ممکن نہیں.اس طوفان ضلالت سے بچاؤ کی صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ
292 کہ ہم اس کشتی میں سوار ہوں جو اللہ کی نگرانی میں مسیح موعود علیہ السلام نے اس غرض کے لئے تیار کی ہے.پس تمام خدام و مجالس خدام سے آج میری عاجزانہ درخواست ہے بیدار ہو بیدار! اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو اپنے رتبہ کو پہچانو.تم خدا کے سپاہی ہو اگر تمہارے قدم ڈگمگائے تو دنیا خدا پر الزام دھرے گی اور کیا ہی بد بخت ہے وہ انسان جسے خدا تعالیٰ نے اس لئے پیدا کیا کہ وہ اس کی مخلوق کو اس کی راہ دکھائے مگر اپنی غفلت کی وجہ سے وہ مخلوق کو خالق سے پرے ہٹانے کا موجب بنا.ہمارا مقام مقام فخر ہی نہیں.مقام خوف بھی ہے، پس غفلت کو ترک کرد اور ایک ہو جاؤ اور خدا تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اور اس کے ہو کر اور اپنے دلوں سے سب دینوی گندوں کو نکالتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نورانی حربہ ہاتھ میں لئے شیطانی ظلمتوں پر حملہ آور ہو جاؤ.نیک نیت انسان کی کوشش کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع نہیں کرتا.اَللَّهُمَّ أمين - وَمَا تَوْفِيقُنَا إِلَّا بِاللَّهِ وَ هُوَ الْمُسْتَعَانُ خاکسار مرزا ناصر احمد صدر مجلس خدام الاحمدیہ خدام الاحمدیہ کے زمانہ کے چند واقعات مجلس خدام الاحمدیہ کی قیادت کے دوران حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو جن لوگوں نے قریب سے دیکھایا جن کو آپ کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا یا جنہوں نے آپ کی شخصیت کا مشاہدہ کیا ان میں سے بعض کے بیان کردہ مشاہدات کو یہاں درج کیا جاتا ہے جو آپ کی پاکیزہ سیرت پر روشنی ڈالتے ہیں.
293 آپ کی بے لوث خدمت دیکھ کر ایک شخص کا احمدی ہونا رحم راجہ غالب احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۴۳ ء یا ۱۹۴۴ء کے جلسہ سالانہ کی بات ہے کہ ان کے والد صاحب کے ایک غیر احمدی دوست راجہ محمد نواز صاحب ان کے والد صاحب کے ساتھ سٹیج پر تشریف فرما تھے اور حضرت مصلح موعود " تقریر فرما تھے.اس دوران ایک نہایت خوبرو نوجوان ایک میلے کچیلے دیہاتی بچے کو اٹھا کر سٹیج پر آیا تاکہ اس کی گمشدگی کا اعلان کروائے.حضرت مصلح موعود " کوئی اہم نقطہ بیان فرما رہے تھے اور انہیں علم نہ ہوا کہ صدر مجلس خدام الاحمدیہ کوئی گمشدہ بچہ لے کر حضور کے پہلو میں کھڑے ہیں.اس دوران راجہ محمد نواز صاحب نے دیکھا کہ بچے کا ناک بہہ رہا ہے.اس خوبرو اور معزز نوجوان نے جیب سے رومال نکالا اور بچے کا ناک صاف کیا اور خدمت کے جذبے کے ساتھ نہایت وقار کے ساتھ بچے کو اٹھا کر کھڑا رہا.اس نوجوان کے چہرے پر اطمینان اور بشاشت تھی اور تقریباً نصف گھنٹہ یہی کیفیت رہی حتی کہ بچہ رویا تو حضرت مصلح موعود نے اس طرف توجہ فرمائی اور بچے کا اعلان فرمایا.راجہ محمد نواز صاحب نے دریافت کیا کہ یہ خوب صورت اور خوب سیرت نوجوان جس نے میلا کچیلا بچہ اٹھایا ہوا تھا اور اپنے رومال سے اس کا ناک صاف کر رہا تھا کون تھا؟ جب انہیں بتایا گیا کہ یہ حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفہ المسیح الثانی کے فرزند اکبر ہیں تو وہ فوراً کہنے لگے کہ باقی مسئلے تو بعد میں طے ہوتے رہیں گے.اگر یہ نوجوان امام جماعت احمدیہ کا بیٹا ہے تو میری فوراً بیعت کروائیں.چنانچہ انہوں نے فوراً حضرت مصلح موعود ضیا اللہ کی بیعت کر لی.راجہ غالب احمد صاحب فرماتے ہیں کہ وہ اس واقعہ کے عینی شاہد ہیں.نکتہ چینی کا حسین بدلہ مکرم میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ربوه و مبلغ
294 امریکہ بیان کرتے ہیں.” ان ایام کی بات ہے جب حضور خدام الاحمدیہ کے صدر ہوا کرتے تھے.خدام الاحمدیہ مرکز یہ کا اجتماع تھا.سوال و جواب کا سیشن تھا.غیر شعوری طور پر میں نے ان چند خدام کا اثر لے لیا جو میرے ارد گرد میرے کان بھر رہے تھے.صدر کو بھلا سزا دینے کا کیا حق ہے نیز جب کہ حضرت خلفیہ المسیح الثانی (اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو) کا ارشاد ہے کہ خدام سارا کام خود اپنے ہاتھ سے کریں یہ بعض کام مثلاً سودا سلف منگوانا دوسروں سے کیوں کرواتے ہیں ؟ میرا بے باکی سے سوال کرنا تھا کہ سامعین پر ایک سناٹا سا چھا گیا اور میں نے نادانستگی سے ایک ایسی حرکت کر دی جس کا مجھے آج تک احساس ہے.حضرت میاں صاحب نے اس کے جواب میں ایک نہایت مدلل اور مفصل تقریر کی اور ان اشخاص کے شکوک کو کما حقہ رفع کیا جو متذکرہ ضمن میں پیدا ہو سکتے تھے.اجتماع ختم ہو گیا.مجھے اپنی غلطی پریشان کرتی رہی اور میں رات بھر پریشان رہا اور اس ندامت کو محسوس کرتا رہا جو مجھے ایک صالح ، نامور لیڈر پر ناجائز اعتراض کرنے کے بعد پیدا ہوئی.یہ تو میری ذہنی کیفیت تھی لیکن جس بزرگ ہستی کو میں نے اعتراضات کا نشانہ بنایا اس کے کردار کی بلندی اور تربیت کرنے کی باریک راہوں کے اس اقدام کو دیکھئے جو انہوں نے اس ناچیز اور نااہل خادم سے روا رکھا تھا.صبح ہوئی.خدام الاحمدیہ کا کلرک خدام الاحمدیہ کا رجسٹر لئے ہوئے میرے دستخط کروانے کے لئے میرے دروازے پر آیا اور مجھے وہ فہرست دکھلائی جس میں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب نے مجھے خدام الاحمدیہ کا و هستم ایثار و استقلال" مقرر فرمایا تھا....دنیا میں بہت ہی کم ایسی مثالیں ملیں گی.ایک صاحب اقتدار اور
295 بلند و ارفع مقام اور شخصیت رکھنے والا آمر بغیر سزا دیئے کسی اپنے نکتہ چین کو جس نے اس کی عزت اور پوزیشن پر بر ملا ہاتھ ڈالا ہو یکسر معاف ہی نہ کر دے بلکہ معترض کا اعزاز اور مرتبہ بھی بلند کر دے.یہ خاص شفقت حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب میں نمایاں طور پر پائی جاتی تھی." دلکش شخصیت مکرم ثاقب زیروی صاحب حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سے اپنی پہلی ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.”جب میں شعر کہنے کی سوجھ بوجھ رکھنے کے باوجود محض ایک کندہ ناتراش دیہاتی تھا (نہ اظهار و بیان نہ سلیقہ) اور نہ ہی آداب محفل کا کامل شعور...دوسرے یا تیسرے سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ کی بات ہے جس کا افتتاح حضرت مصلح موعود " نے مسجد اقصیٰ میں فرمایا تھا.معلوم ہوا کہ کل حضرت خلیفۃ المسیح مسجد اقصیٰ میں خطاب فرمائیں گے....میرے دل میں اس اجلاس کے لئے ایک تازہ نظم کہنے کی تحریک پیدا ہوئی اور میں اسٹیشن کی طرف نکل گیا....مغرب کے بعد واپس آیا نظم مولوی محمد سلیم صاحب کو سنائی جسے انہوں نے پسند کیا....میں نے خواہش کا اظہار کیا کہ آپ....اجلاس میں میری نظم پڑھوا دیں...انہوں نے کہا یہ میرے بس کا روگ نہیں.حضور کی تقریر سے پہلے عموماً صرف انہی اشخاص کو نظم پڑھنے کے لئے کہا جاتا ہے جن کے ناموں کی حضور اجازت دیں....بہر حال ہم اگلے روز اجلاس کے وقت سے کچھ پہلے ہی مسجد اقصیٰ میں پہنچ گئے اور شمالی کنوئیں کے پاس....حضرت مولانا راجیکی صاحب رحمہ اللہ کے پاس جا کر بیٹھ گئے.میں نے ان سے بھی اپنی دلی خواہش کا اظہار کیا...مسجد کی جنوبی جانب کھڑے ہوئے ایک اور
296 خوبرو جوان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا.”ان سے جاکر کہو وہ شاید کچھ مدد کر سکیں...میں یہ سنتے ہی اٹھا اور اس خوش پوش و خوبرو جو ان کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا.....کہا " فرمائیے.کچھ مجھ سے کہنا ہے؟" " عرض کیا جناب میں اس اجلاس میں نظم پڑھنا چاہتا ہوں" جواب ملا ” نہیں اس جلسے میں آپ نظم نہیں پڑھ سکتے " میں نے اپنے مخصوص دیہاتی لا ابالی پن سے کہا....”جناب....کیا قادیان کے جلسوں میں باہر والوں کا کوئی حق نہیں ہوتا؟ کیا آپ یہ پسند کریں گے کہ میں جلسہ میں جہاں بیٹھا ہوں وہیں کھڑا ہو کر نظم پڑھنا شروع کر دوں؟" مسکراتے ہوئے لیکن تحکمانہ انداز میں جواب ملا :."اگر آپ نے ایسا کیا تو ہم آپ کو اٹھا کر مسجد سے باہر پھینک دیں گے میں واپس جا بیٹھا...حضرت تایا جان...نے فرمایا "کیوں سوہنیا کچھ بنیا؟" عرض کیا ”نئیں تایا جی اوس نوجوان نہیں تاں ایس طراں ٹکے ورگا جواب دے دتا اے جس طراں اوہ حضرت صاحب دا پتر اے" فرمایا.سوہنیا اوہ حضرت صاحب دا پتر ای تاں اے بھٹی اوہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ہیں.....اٹھ کر معذرت خواہی کے لئے پھر پاس پہنچ گیا....پہلے مسکرائے پھر فرمایا ”آپ پھر آگئے.اب کیا ارادہ ہے؟ عرض کیا..." معذرت کرنے آیا ہوں ؟ فرمایا "اچھا معاف کیا پھر؟ اب عرض ہے کہ آپ میری نظم دیکھ لیں....میں محفل کو ہرگز بد مزہ نہ ہونے دوں گا فرمایا "کہاں ہے وہ نظم...؟" مطالعہ کے بعد فرمایا " نظم تو اچھی ہے، ممکن ہے آپ کی دوسری بات بھی ٹھیک ہو..."
297 و بعض لوگ اشعار ایسی بھونڈی لے میں اور ایسے غلط تلفظ کے ساتھ پڑھ دیتے ہیں کہ مقرر کی طبیعت منغض ہو جاتی ہے اور حضور تو اس معاملہ میں از حد حساس ہیں اچھا نظم تو میں پروگرام میں شامل کیے لیتا ہوں مگر ایک شرط ہے...وہ جو مسجد کی سیڑھیاں ہیں آپ جس وقت نظم پڑھیں میں ان کی دائیں برجی کے پاس کھڑا ہوں گا نظم پڑھتے وقت میری طرف بھی دیکھتے رہیں.اگر نظم کے دوران میں ہاتھ ہلا کر آپ کو رکنے کا اشارہ کروں تو آپ فوراً نظم پڑھنا بند کر دیں" کیا آپ کو یہ شرط بھی منظور ہے؟ عرض کیا به دل و جان منظور ہے....تلاوت....کے بعد حضور نے اس عاجز کا نام پکارا....نظم پڑھنی شروع کر دی......تو اس نے جاری کیا خمخانہ تحریک جدید سے بڑھ کر تجھے توفیق خدا دے ساقی پڑھتے وقت میں نے سیڑھیوں کی طرف دیکھا حضرت صاجزادہ مرزا ناصر احمد صاحب شمالی برجی کے پاس کھڑے تھے......تجھ کو مولا نے کیا عطر رضا میک گلشن عالم میں بسا ممسوح دے ساقی حضور نے فرمایا اس شعر کو دوبارہ پڑھیں.محفل میں سبحان اللہ اور جزاکم اللہ کی گونج قدرے بلند ہو گئی اور حضرت میاں صاحب برجی کے پاس سے ہٹ گئے....جلسہ ختم ہونے کے بعد شرکاء اجلاس نے جس ذوق و شوق سے اس عاجز کی بلائیں لیں اور مصافحے اور معانقے کئے وہ سر تا سر گواہی تھے اس بین حقیقت کے کہ.نگاه مرد مومن سے بدل جاتی ہے تقدیریں اس غیر متوقع اور غیر معمولی تحسین و آفرین میں اختتام جلسہ پر حضرت میاں صاحب کا شکریہ ادا کرنا بھی بھول گیا....گھر پہنچے کھانا کھایا.نماز عشاء پڑھی اور لیٹنے کی تیاری کر رہے تھے کہ دروازے پر دستک ہوئی....
298 باہر خدام آپ کو لینے آگئے ہیں" باہر گیا....کہا صاحبزادہ صاحب نے فرمایا ہے کہ ”آپ فوراً مسجد اقصیٰ میں پہنچ جائیں" عرض کیا اس وقت میرے سر میں قدرے درد ہے.میں صبح حضرت میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہو جاؤں گا" بولے حضرت میاں صاحب نے یہ بھی فرمایا تھا کہ et اگر شاعر کچھ نخرے وغیرہ کرے تو اسے اٹھا کر لے آئیں.اللہ اللہ چند ہی گھنٹوں میں زمین و آسمان کیسے تبدیل ہو گئے تھے.اجلاس سے قبل جسے مسجد کے صحن سے اٹھا کر باہر پھینک دینے کی نوید سنائی گئی تھی اب اپنے اس نیاز کیش کو اس اپنائیت ، بے ساختہ محبانہ تمکنت اور اعتماد آفریں اشتیاق سے یاد فرمایا گیا تھا.جس وقت ہم نے مسجد میں قدم رکھا.خدام کا تقریری مقابلہ کا اجلاس شروع تھا اور حضرت صاحبزادہ صاحب کرسی صدارت پر متمکن تھے....اعلان کیا...اس تقریر کے بعد ثاقب زیروی صاحب نظم پڑھیں گے.اور پھر جو دوسری تقریر کے بعد نظم پڑھوانے کا سلسلہ شروع ہوا تو رات گئے تک جاری رہا.....اسی سال سے جلسہ سالانہ پر کلام ثاقب ایک مستقل فیچر بن گیا.“س مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب باجوہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں.” غالبا ۱۹۴۴ء کا ذکر ہے میں نئی دہلی میں ملازم تھا اور خدام الاحمدیہ کی مجلس عاملہ کا ممبر.آپ کی بیگم سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ بیمار ہوئیں.آپ ان کو لے کر بغرض علاج وہلی تشریف لے گئے اور نئی دہلی میں انڈین لیجسلیٹو اسمبلی کے ممبران کے رہائشی کوارٹرز میں قیام فرما ہوئے.کبھی کبھی خدام الاحمدیہ کی مجلس عاملہ کو یاد فرما لیا کرتے.بچپن کے دھندلے نقوش ان ملاقاتوں میں کچھ روشن ہونے لگے.صاحبزادہ صاحب اپنی خاندانی وجاہت کے لحاظ سے ایک بلند مقام پر تھے، میں دیہاتی گنوار.مگر میں نے محسوس کیا کہ بظاہر اس معاشرتی بعد المشرقین
299 کے باوجود ہمارے درمیان فاصلہ کم تھا عام لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا اٹھنا بیٹھنا ان کو پسند تھا اور طبقاتی فرق بالکل ناپید." J Lee صدارت مجلس خدام الاحمدیہ سے سبکدوشی پندرہ سال کے طویل عرصہ تک مجلس خدام الاحمدیہ کی کامیاب قیادت کے بعد ۱۹۵۴ء میں خلیفہ وقت سیدنا حضرت مصلح موعود نے آپ کو خدام الاحمدیہ کی قیادت سے سبکدوش کر کے انصار اللہ کا صدر مقرر فرما دیا.اس موقعہ پر حضرت مصلح موعود نے فرمایا:.”سب سے پہلے تو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ۳۱ اکتوبر ۱۹۵۴ء کے بعد جو عمال شروع ہوتا ہے اس میں مرزا ناصر احمد صاحب مجلس خدام الاحمدیہ کے نائب صدر نہیں رہیں گے کیونکہ ان کی عمر زیادہ ہو چکی ہے اور وہ مجلس خدام الاحمدیہ کے ممبر نہیں رہے.میں نے انہیں دو سال کے لئے نائب صدر مقرر کیا تھا تاکہ ان کے تجربہ سے فائدہ اٹھایا جائے میں نے بتایا ہے کہ ناصر احمد اب انصار اللہ میں چلے گئے ہیں.ان کے متعلق میں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ آئندہ انصار اللہ کے ر ہوں گے.اگرچہ میرا یہ حکم ڈکٹیٹر شپ" کی طرز کا ہے لیکن اس ڈکٹیٹر شپ" کی وجہ وجہ سے ہی تمہارا کام اس حد تک پہنچا پس ناصر احمد کو میں انصار اللہ کا صدر مقرر کرتا ہوں.وہ صدر ہے.فوراً انصار اللہ کا اجلاس طلب کریں اور عہدیداروں کا انتخاب کر کے میرے سامنے پیش کریں...اور پھر میرا مشورہ لے کر انہیں از سر نو منظم کریں.پھر خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع کی طرح انصار اللہ کا بھی سالانہ اجتماع کیا کریں لیکن ان کا انتظام اور قسم کا ہو گا.اس اجتماع میں کھیلوں پر زیادہ زور دیا جاتا ہے ، کبڈی اور دوسرے کھیل ہوتے ہیں.انصار اللہ کے اجتماع میں درس القرآن کی طرف زیادہ توجہ دی جائے
300 اور زیادہ وقت تعلیم و تدریس پر صرف کیا جائے." مجلس انصار اللہ کی صدارت حضرت مصلح موعود بھی اللہ نے مجلس انصار اللہ کا قیام ۳۶ جولائی ۱۹۴۰ء کو فرمایا اور اس روز کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.وو میں...جماعت کو آئندہ تین گروپوں میں تقسیم کرتا ہوں اول اطفال الاحمدیہ ۸ سے ۱۵ سال تک دوم خدام الاحمدیہ ۱۵ سے ۴۰ سال تک سوم انصار الله ۴۰ سال سے اوپر ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ اپنی عمر کے مطابق ان میں سے کسی نہ کسی مجلس کا ممبر بنے خدام الاحمدیہ کا نظام ایک عرصہ سے قائم ہے.مجالس اطفال الاحمدیہ بھی قائم ہیں البتہ انصار اللہ کی مجلس اب قائم کی گئی ہے.Ace ایک اور موقعہ پر حضرت مصلح موعود نے فرمایا :.” میں نے چالیس سال سے کم عمر والوں کے لئے خدام الاحمدیہ اور زیادہ عمر والوں کے لئے مجلس انصار اللہ قائم کی ہے یا پھر عورتیں ہیں ان کے لئے لجنہ اماء اللہ قائم کی ہے....جو قومیں تبلیغ میں زیادہ کوشش کرتی ہیں ان کی تربیت کا پہلو کمزور ہو جاتا ہے.ان مجالس کا قیام میں نے تربیت کی غرض سے کیا ہے.؟؟؟ مزید فرمایا:.” میری غرض انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کی تنظیم سے یہ ہے کہ عمارت کی چاروں دیواروں کو مکمل کر دوں.ایک دیوار انصار اللہ کی ہے، دوسری دیوار خدام الاحمدیہ کی تیسری اطفال الاحمدیہ اور چوتھی لجنات اماء اللہ ہیں.اگر یہ چاروں دیواریں ایک دوسرے سے علیحدہ
301 علیحدہ ہو جائیں تو یہ لازمی بات ہے کہ کوئی عمارت کھڑی نہیں ہو سکے گی..مجلس انصار اللہ کے پہلے صدر حضرت مولوی شیر علی صاحب تھے.ہجرت پاکستان کے جلد ہی بعد نومبر ۱۹۴۷ء میں ان کا انتقال ہو گیا.ہجرت کی وجہ سے غیر یقینی حالات تھے اور ایک افرا تفری کا عالم تھا.جماعتوں کے شیرازے بکھرے ہوئے تھے اس لئے اگرچہ ان کی وفات سے چند ماہ بعد حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال (جو تقسیم کے وقت ہندوستان میں قید ہو گئے تھے اور تقسیم کے کئی ماہ بعد رہا ہو کر پاکستان پہنچے تھے) صدر بنائے گئے.۱۹۵۰ء میں حضرت مصلح موعود نے حضرت چوہدری فتح محمد سیال کی جگہ حضرت صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب کو صدر بنا دیا.یہ انصار اللہ کا عبوری دور تھا اور جوں ہی حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو خلیفہ وقت نے مجلس خدام الاحمدیہ کی کامیاب قیادت کے وسیع تجربہ کی وجہ سے کے نومبر ۱۹۵۴ء سے انصار اللہ کا صدر بنا دیا.آپ کے انصار اللہ کی تنظیم میں شامل ہونے اور تنظیم کا صدر مقرر ہونے پر آپ رم کے ایک بے تکلف خادم محمد احمد صاحب حیدر آبادی نے آپ سے کہا.”میاں صاحب ! اب آپ بھی بوڑھے ہو گئے ہیں" آپ نے جواباً فرمایا ”میں بوڑھا نہیں ہوا بلکہ انصار اللہ جوان ہو گئی ہے." اسم آپ نے اس دعوئی کو کس طرح صحیح ثابت کیا اس کا اندازہ آپ کی ان غیر معمولی خدمات سے ہوتا ہے جو آپ نے انصار اللہ کا صدر ہونے کی حیثیت سے سرانجام دیں.مرحوم جیسا کہ حضرت مصلح موعود نے اپنے خطاب فرموہ ۷ نومبر ۱۹۵۴ء میں آپ کو ہدایت دی تھی کہ آپ مجلس انصاراللہ کے عہدیداروں کا انتخاب کروائیں از سر نو تنظیم کریں اور خدام الاحمدیہ کے اجتماع کی طرح انصار اللہ کا اجتماع کروائیں اور کھیلوں کی بجائے زیادہ تر درس قرآن اور تعلیم و تدریس پر توجہ دیں.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایک اولوالعزم باپ کے اولوالعزم بیٹے تھے اور اطاعت خلافت کے ایک ایسے مقام پر کھڑے تھے جہاں خلیفہ وقت کے منہ سے نکلی
302 ย ہوئی ہر بات کو پورا کرنا آپ کی زندگی کا نصب العین ہو.چنانچہ اپنی سابقہ روایات کے عین مطابق آپ نے صدر مجلس انصار اللہ کی حیثیت سے مجلس کو کچھ اس طرح منظم کیا اور اس میں جان ڈالی اور خلیفہ وقت کے دیئے ہوئے لائحہ عمل کو حضور ہی کی رہنمائی میں کچھ اس انداز سے عملی جامہ پہنایا کہ انصار اللہ کی تنظیم کا قدم آگے ہی آگے بڑھنے لگا حتی کہ خلافت کے عظیم الشان منصب پر متمکن ہونے کے بعد بھی اس وقت تک اس کی صدارت فرمائی جب تک آپ نے یہ محسوس نہ کر لیا کہ اب انصار اللہ کی تنظیم اس مقام تک پہنچ گئی ہے جہاں تک پہنچانے کے لئے آپ کے مقدس امام نے آپ کو صدر بناتے وقت خواہش فرمائی تھی.انصار اللہ کی تنظیم نو صدر کی ذمہ داریاں تفویض کرتے وقت حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی" نے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو ہدایت دی تھی کہ آپ عہدیداروں کا انتخاب کروائیں اور مجلس کو از سرنو تنظیم کریں.اس مقصد کے حصول کے لئے آپ نے صدارت سنبھالتے ہی انتخاب کروایا اور مجلس کو از سر نو منظم کیا.جہاں مجلس قائم نہ تھیں وہاں مجالس قائم فرمائیں اور اپنی قائدانہ اور تنظیمی صلاحیتیں بروئے کار لا کر مجلس انصار اللہ کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا کر دیا.انصار اللہ کے مالی نظام میں بھی استحکام پیدا کیا اور تمام شعبوں میں مسابقت کی روح پیدا فرمائی.انصار اللہ کی ذیلی تنظیم میں وسعت پیدا کرنے کے لئے مجلس کا ضلع وار نظام جاری فرمایا.مجلس انصار اللہ کے دستور اساسی کی از سرنو تدوین فرمائی.ہوئی.مرکزی دفتر کو منظم کیا اور اس کی مستقل عمارت کی تعمیر بھی آپ کے ہی دور میں خلیفہ منتخب ہو جانے کے بعد بھی آپ انصار اللہ کی تنظیم نو کے بارہ میں مسلسل کوشش کرتے رہے حتی کہ ۱۹۷۳ء میں آپ نے انصار اللہ کی تشکیل نو فرمائی اور
303 انصار کو دو صفوں میں تقسیم کر دیا.صف دوم میں اکتالیس سے پچپن سال تک کے انصار اور صف اول میں چھپن سال سے اوپر کے انصار.تعمیر دفتر انصار الله رم مجلس انصار اللہ کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرنے کے لئے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے اپنی صدارت کے زمانے میں ایک اہم کام یہ کیا کہ حضرت مصلح موعود کی دیرینہ خواہش کے مطابق مجلس انصار اللہ کا دفتر ربوہ میں تعمیر کروایا.دفتر کا سنگ بنیاد یوم مصلح موعود کے موقع پر حضرت مصلح موعود کے مبارک ہاتھوں سے ۲۰ فروری ۱۹۵۶ء کو رکھا گیا.بلڈنگ کی تعمیر کے لئے عطایا جات اکٹھے کئے لیکن اس دوران گرانی بڑھ جانے اور اخراجات میں کچھ اضافہ ہو جانے کی وجہ سے آپ نے ”من انصاری الی اللہ" کے عنوان سے عطایا جات کی تحریک فرمائی اور سترہ ہزار روپے کی رقم جلد فراہم کرنے کا مطالبہ کیا.آپ نے فرمایا:." مجلس انصار اللہ کے دور جدید میں سید نا حضرت امیر المومنین نے میری درخواست پر یوم مصلح موعود کی مبارک تقریب پر دفاتر انصار الله کا سنگ بنیاد رکھا.اس وقت ہمارے پاس فنڈز موجود نہ تھے اور میں نے محض اللہ تعالی کی امداد پر بھروسہ رکھتے ہوئے حضور کی خدمت میں سنگ بنیاد رکھنے کی درخواست کی تھی جس کے بعد میں نے انصار اللہ کو پکارا میری آواز من انصاری الی اللہ کے جواب میں چاروں طرف سے نحن انصار الله کا جواب آیا اور مخلصین نے سو سو روپے کے عطیہ جات بھیجوا کر مرکز سلسلہ میں اپنے نشیمن کی تعمیر کے لئے سامان مہیا کر دیا اور چند مہینوں کے اندر اندر انصار اللہ کی شایان شان عمارت کھڑی ہو گئی...اب دفاتر اور ہال کی تکمیل باقی ہے ، کارکنان کے کوارٹرز بنتے ہیں، پانی کی فراہمی کے لئے چھوٹا ٹیوب ویل نصب کرنا ہے.ان تمام کاموں
304 پر سے اہزار روپیہ کا خرچ اندازہ ہے.میں مخلصین کو ایک دفعہ پھر پکارتا ہوں کہ وہ آگے بڑھیں اور اس رقم کو جلد پورا کر دیں.خاکسار مرزا ناصر احمد نائب صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ (نوٹ : مجلس انصاراللہ کے صدر اس زمانہ میں حضرت مصلح موعود خود تھے) چنانچہ آپ کی تحریک پر مخلصین جماعت نے مزید قربانیاں دیں اور اس طرح آپ کے عہد میں انصار اللہ کا دفتر تعمیر ہوا.سالانہ اجتماعات رض خلیفہ وقت حضرت مصلح موعود نے آپ کو انصار اللہ کی قیادت تفویض کرتے وقت اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ آپ خدام الاحمدیہ کے اجتماع کی طرز پر انصار الله کے بھی اجتماع شروع کروائیں.چنانچہ ابھی آپ کو انصار اللہ کا صدر بنے ہوئے ایک سال کا عرصہ ہوا تھا کہ آپ ۱۹۱۸ نومبر ۱۹۵۵ء کو مجلس انصار اللہ کا پہلا سالانہ اجتماع منعقد کروانے میں کامیاب ہو گئے اور اس میں حضرت مصلح موعود کی خواہش کے مطابق کھیلوں پر کم زور دیا گیا اور درس قرآن و حدیث اور کتب مسیح موعود کے علاوہ نمازوں، دعاؤں اور تربیتی پروگراموں کا خاص اہتمام کیا گیا.حضرت مصلح موعود نے اپنے ۲۰ نومبر ۱۹۵۵ء کے خطاب میں جو حضور نے خدام الاحمدیہ کے اجتماع پر فرمایا تھا انصار کے پروگرام کی تعریف فرمائی.۱۹۵۵ء کے بعد سے سالانہ اجتماع کا سلسلہ مستقل طور پر جاری ہو گیا جس میں مجالس کی زیادہ سے زیادہ نمائندگی اور خلیفہ وقت کے خطابات کا خاص طور پر اہتمام کیا جانے نگا.رض مرکزی اجتماعات کے علاوہ آپ نے علاقائی سطح پر بھی اجتماعات منعقد کروانے شروع کئے جن میں یا خود شرکت فرماتے یا معركة الاراء پیغامات بھجواتے.نمونتا آپ کا
305 ۱۹۶۱ء کے ایک پیغام کا حصہ جو آپ نے انصار اللہ خیر پور ڈویژن کے سالانہ اجتماع کے موقع پر بھیجا تھا، نقل کیا جاتا ہے.فرمایا:.دوستوں کو یہ امر مد نظر رکھنا چاہئے کہ مامورین کی بعثت کی اصل غرض تزکیہ نفس ہوتی ہے یعنی دلوں کی صفائی تا ان میں خدا بس جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اسی مقصد کے لئے تشریف لائے.حضور علیہ السلام نے فرمایا:." میں نہیں چاہتا کہ چند الفاظ طوطے کی طرح بیعت کے وقت رٹ لئے جائیں، اس سے کچھ فائدہ نہیں.تزکیہ نفس کا علم حاصل کرو کہ ضرورت اسی کی ہے." (ملفوظات جلد دوم ص۷۲-۷۳) خدام الاحمدیہ لجنہ اماء اللہ اور انصار اللہ کے قیام کی اصل غرض بھی یہی ہے تاہر مجلس مخصوص طور پر اپنے اراکین میں یہی تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کرے "۴۳ ماہنامہ انصار اللہ کا اجراء آپ کی خدمات میں سے ایک اہم خدمت مجلس انصار اللہ کے ترجمان ماہنامہ انصار اللہ کا اجراء ہے جو ۱۹۶۰ء میں ہوا.۱۹۵۹ء میں شوری میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مجلس کا ایک ماہوار رسالہ شائع کیا جائے جو مجلس کی کار کردگی اور دیگر تعلیمی و تربیتی مضامین شائع کیا کرے چنانچہ ۱۹۶۰ء میں اس پر عملدرآمد ہوا اور رسالہ کی اشاعت شروع ہو گئی.اس کے پہلے ایڈیٹر مکرم مسعود احمد صاحب دہلوی مقرر ہوئے.ابتداء سے ہی اس رسالے کا جو معیار قائم ہوا اس بارہ میں حضرت مرزا بشیر احمد نے ۱۹۶۲ء کے سالانہ اجتماع کے افتتاحی خطاب میں فرمایا.صاحب رو " میں اس جگہ رسالہ "انصار اللہ " کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.رسالہ خدا کے فضل سے بڑی قابلیت کے ساتھ لکھا جاتا اور ترتیب دیا جاتا ہے اور اس کے اکثر مضامین بہت دلچسپ اور دماغ میں جلا پیدا یه ر
306 کرنے اور روح کو روشنی عطا کرنے میں بڑا اثر رکھتے ہیں." اشاعت لٹریچر ย حضرت مصلح موعود نے مجلس انصار اللہ کے بنیادی اغراض و مقاصد میں سے تبلیغ کو اولیت دی ہے موجودہ شکل میں انصار اللہ کی مجلس کے قیام سے بہت پہلے ۱۹۳۱ء میں انصار اللہ کا قیام نظارت دعوۃ و تبلیغ کی تبلیغ میں معاونت کے لئے ہوا اور اسے نظارت دعوة و تبلیغ کا دست و بازو قرار دیا گیا.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے دور میں ۱۹۵۵ء میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر سہ ماہی پر تبلیغی پمفلٹ شائع کئے جائیں.جو تبلیغ کی غرض سے تقسیم کئے جائیں چنانچہ مجلس نے اس سلسلہ میں خاص طور پر کام کیا اور حضرت مسیح موعود کی بعض کتب کی بھی اشاعت کر کے تبلیغ کے نظام کو مستحکم کیا.تعلیم و تربیت کے لئے امتحانوں کا سلسلہ حضرت مصلح موعود کے ارشادات کو پوری طرح سمجھتے ہوئے آپ نے اراکین مجلس کی تعلیم و تربیت کے لئے سہ ماہی امتحانوں کا سلسلہ باقاعدگی سے شروع کیا اور دینی نصاب میں قرآن کا ایک پارہ مع ترجمہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دو کتب بھی بطور سلیبس مقرر فرمائیں.اور نئی نسل میں دینی امور سے شغف پیدا کرنے کے لئے ایک وظیفہ انعامی کا اجراء فرمایا.علم انعامی پ کے عہد میں ۱۹۵۶ء کی مجلس انصار اللہ کی شوریٰ میں فیصلہ ہوا کہ انصار اللہ کا اپنا جھنڈا ہو اور وہ جھنڈا سالانہ اجتماع کے موقعہ پر اس مجلس کو دیا جائے جو اپنے فرائض کی ادائیگی میں سال بھر میں اول رہی ہو.چنانچہ اس فیصلہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک سب کمیٹی کے ذریعے جھنڈے کا ڈیزائن اور سائز وغیرہ تجویز ہوا جس کے ممبر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد ، مولانا جلال الدین صاحب شمس، محمد شفیع صاحب
307 (گوجرانوالہ ، چوہدری شریف احمد صاحب باجوہ (لائل پور)، صاحبزادہ مرزا داؤد احمد صاحب اور مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری تھے.علم انعامی کا ڈیزائن بھی وہی رکھا گیا البتہ اسے آسانی سے شفٹ کرنے کے لئے اس کے پول کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا.۱۹۶۷ء سے علم انعامی اور سندات خوشنودی سالانہ جلسہ کے موقع پر حضرت خلیفہ المسیح کے ذریعے دیئے جانے کی روایات قائم ہوئی جس کا فیصلہ ۱۹۶۶ء کی شورٹی پر ہوا تھا.تعليم القرآن حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب حافظ قرآن تھے اور قرآن کریم سے گھری محبت رکھتے تھے.آپ کی یہ شدید خواہش تھی کہ جماعت کا کوئی فرد عورت یا مرد ایسا نہ ہو جسے قرآن شریف پڑھنا نہ آتا ہو.اس مقصد کے حصول کے لئے آپ کی نظر انتخاب اس وقت انصار اللہ پر پڑی جب آپ اگرچہ خلیفۃ المسیح الثالث کے منصب پر فائز ہو چکے تھے لیکن ابھی انصار اللہ کی صدارت بھی آپ کے ہی پاس تھی آپ نے تعلیم القرآن کا ایک منصوبہ جماعت کے سامنے پیش کیا اور اس کا آغاز اس جگہ سے فرمایا جہاں آپ نے ۴ فروری ۱۹۲۶ء کو یہ خطبہ ارشاد فرمایا.آپ نے فرمایا:." کراچی کی جماعت کے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام میں مجلس انصاراللہ کے سپرد کرتا ہوں....ضلع جھنگ میں جو جماعتیں ہیں ان کے بچوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھانے کا کام مجلس انصار اللہ کے سپرد کیا جاتا ہے.اس منصوبے کی تفاصیل متعلقہ محکمے تیار کریں اور ایک ہفتہ کے اندر اندر مجھے پہنچائیں." پ نے ۴ اپریل ۱۹۶۹ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :."انصار اللہ کو میں کہنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے طوعی اور رضا کارانہ چندوں میں سست ہو چکے ہیں.اللہ تعالیٰ آپ کو چست ہو ہو جانے کی
308 پر توفیق دے.لیکن مجھے اس کی اتنی فکر نہیں جتنی اس بات کی فکر ہے کہ آپ ان ذمہ داریوں کو ادا کریں جو تعلیم القرآن کے سلسلہ میں آپ عائد ہوتی ہیں.ایک ذمہ داری تو خود قرآن سیکھنے کی ہے اور ایک ذمہ داری ان لوگوں (مردوں اور عورتوں) کو قرآن کریم سکھانے کی آپ پر عائد ہوتی ہے جن کے آپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور محمد رسول الله و سلم کے ارشاد کے مطابق رائی بنائے گئے ہیں.آپ ان ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جلد تر ان کی طرف متوجہ ہوں.ہر رکن انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کی ذمہ داری اٹھائے کہ اس کے گھر میں اس کی بیوی اور بچے یا اور احمدی کہ جن کا خدا کی نگاہ میں وہ رائی ہے قرآن کریم پڑھتے ہیں اور قرآن کریم کا وہ حق ادا کرتے ہیں جو حق ادا ہونا چاہئے ، ۴۵ سندھ میں غیر مسلموں کے لئے تبلیغ کا منصوبہ مجالس ضلع حیدر آباد کے سالانہ اجتماع منعقدہ ۲۷ ۲۸ جولائی ۱۹۶۳ء میں آپ نے بطور صدر مجلس انصار اللہ مرکزیہ شرکت فرمائی اور دوسرے دن کے آخری خطاب میں سندھ کے غیر مسلموں میں تبلیغ کا ایک منصوبہ پیش کیا.مورخ تاریخ انصار اللہ لکھتا ہے:.” دوسرے دن کے آخری اجلاس میں صدر محترم نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے علاقہ سندھ میں آباد مسیحیوں اور ہندوؤں میں تبلیغ اسلام کا ایک جامع منصوبہ پیش کیا اور ان کو توجہ دلائی کہ وہ خود سے سوال کریں کہ وہ کیا ہیں؟" پھر آپ نے خود ہی اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ ہم احمدی ہونے کی حیثیت میں حی و قیوم ، قادر مطلق اور ناطق خدا پر یقین و ایمان رکھتے ہیں جو ہماری دعاؤں کو سنتا اور ان کا جواب دیتا ہے اور ہمیں اپنی تائید و نصرت سے نواز کر فائز المرام کرتا "
309 ہے.پھر ہم وہ ہیں جو آنحضرت میل کے فیوض و برکات کو قیامت تک جاری مانتے ہیں اور اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ حسب استطاعت آپ کی پیروی سے روحانی علو و ارتفاع حاصل کر سکتے اور کرتے چلے جا رہے ہیں اور ہم نے ایک خدا کی جماعت کی حیثیت سے ساری دنیا کو آنحضور میں ولیم کی غلامی میں داخل کرنا ہے اور اپنی ہی طرح کل دنیا کو روحانی افضال و انعامات اور فیوض و برکات سے متمتع کرنا اور اسے بھی قرب الہی کی راہ پر گامزن کر کے عرش الہی تک پہنچانا ہے." Yee چنانچہ آپ کی خلافت کے دوران انجمن احمد یہ وقف جدید نے یہ خدمت خاص طور پر سرانجام دی اور سندھ کے علاقوں کے ہندوؤں اور عیسائیوں میں تبلیغ کی.مضمون بعنوان "زبان" کے چند اقتباسات انصار اللہ کے زمانہ میں آپ کے مضمون ” زبان" سے چند اقتباسات یہ ہیں.” خدا تعالیٰ کے ذکر سے اپنے اوقات کو معمور رکھو اور اس کی حمد کے ترانے ہر وقت گاتے رہو.اس حمد و ثنا میں کسی کو اس کا شریک نہ بناؤ کہ ہر کام میں مشغول رہتے ہوئے ہر وقت اس کے ذکر سے زبان کے اعصاب اور دل کی تاروں کو حرکت دینا ہی سب سے بڑی نیکی ہے.حمد و ثنا کے ہلکے پھلکے بول میزان جزاء و سزا میں بڑے ہی وزنی ثابت ہوتے ہیں اور دلوں کے اطمینان کا باعث " " فضول باتوں سے پر ہیز کرو.اتنی ہی بات کرو جتنی کی ضرورت ہے.ایک بول سے مقصد حاصل ہوتا ہو تو دو بول نہ بولو.ارشاد نبوی ہے کہ بڑا مبارک ہے وہ جس نے قوت گویائی کی بہتات کو (ذکر الہی کے لئے) محفوظ رکھا مگر اپنے مال کی کثرت میں خدا کی راہ میں (بے دھڑک) خرچ کیا." قرآن پڑھو کہ تلاوت قرآن میں بڑی برکت ہے.قرآن جو اللہ
310 کے ذکر سے بھرا ہوا ہے ، قرآن جو ہمارے لئے ایک مکمل ہدایت ہے قرآن جو خدائے واحد ویگانہ کی رحمانیت کو حرکت میں لاتا ہے، قرآن جو زبان اور اعمال کی کجیوں کو دور کرتا ہے.قرآن جب ہمارے دل میں اترتا اور ہماری زبان پر جاری ہوتا ہے تو اس کی برکت سے ہماری زندگی کی سب الجھنیں سلجھ جاتی ہے.قرآن دلوں میں تقویٰ پیدا ہے اور انہیں مطہر بناتا ہے.قرآن خود کلید قرآن ہے.پس کرتا قرآن پڑھو قرآن پڑھو." پیارے نبی میل پر ہمیشہ درود بھیجتے رہو.خدا تعالیٰ اور اس کے فرشتے اس نبی اکرم ملی یا اللہ پر ہر آن اور ہر لحظہ درود اور سلام بھیج رہے ہیں.مظہر صفات الہیہ اور فرشتہ صفت بنو اور نبی پر ہمیشہ درود بھیجتے رہو تا اس کی برکت سے ہماری زبانوں سے حکمت و معرفت کی نہریں جاری ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:."جو اللہ تعالی کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود پڑھے تاکہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو." ا حکم ۲۸ فروری ۱۹۰۳ء) "استغفار کرتے رہو اپنے لئے اپنے اقارب اور اپنے بھائیوں کے لئے کثرت سے استغفار کرو کہ ہمارا خدا غفور و رحیم ہے اور استغفار روحانی ترقیات کی کلید ہے." ” دعائیں کرو بہت ہی دعائیں کرو اور سوز اور گریہ وزاری سے دعائیں کرو.تکبر کے ہر جذبہ کو دل سے نکال کے انکساری اور فروتنی کے ہر جذبہ سے دل کو معمور کر کے دعائیں کرتے ہوئے اپنے مولا کے سامنے جھک جاؤ کہ ہم کچھ بھی نہیں اور وہ سب کچھ ہے.دعا سے خدا ملتا ہے.دعا سے کامیاب زندگی حاصل ہوتی ہے.“ کے ہی
311 بطور صدر انصار اللہ آپ کی سیرت کے چند واقعات تنظیمی قابلیت مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب وکیل المال اول انجمن احمد یہ تحریک جدید لکھتے ہیں:." کسی ادارہ کا کامیاب سربراہ ہونا اولین طور پر اس سربراہ سے تنظیمی قابلیت کا تقاضا کرتا ہے جس میں یہ دو پہلو نمایاں ہوں.اول : کام لینے کی صلاحیت دوم : کارکنوں کی خفیہ صلاحیتوں کو بیدار کر کے انہیں فروغ دینے کی قابلیت چنانچہ ان دونوں پہلوؤں پر مشتمل تنظیمی قابلیت اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی ذات بابرکات میں دست قدرت نے خود ودیعت فرمائی تھی جو اپنے اندر واقعی مقناطیسی قوت رکھتی تھی...آپ کی صدارت میں مسجد احمد یہ پشاور میں اجتماع تھا.مقررین کی لسٹ میں خاکسار کا نام بھی تھا.اس وقت تک خاکسار کو تقریر کا کوئی ملکہ نہ تھا اور پھر حضرت صدر صاحب کی موجودگی میں کچھ کہنا تو اس قدر محال تھا کہ جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا.بہرحال فرض کی ادائیگی میں جو کچھ بھی ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کہہ سکا کہہ دیا.یہ خوف بدستور لاحق رہا کہ حضرت صدر صاحب نہ معلوم کیا تبصرہ فرمائیں گے لیکن آپ نے میری توقع کے بالکل بر عکس نهایت شفقت بھرے انداز اور متبسم چہرہ سے فرمایا کہ آج معلوم ہوا ہے کہ شبیر صاحب بھی تقریر کر سکتے ہیں.ان شفقت بھرے الفاظ سے جس قدر میری حوصلہ افزائی ہوئی وہ محتاج بیان نہیں......اسی طرح نظم خوانی کی صلاحیت جو بچپن میں تھی مرکز میں آکر
312 انصار کی عمر کو پہنچنے سے پہلے قریباً مفقود ہو چکی تھی.انصار کی عمر میں پہنچ کر جب اپنے محبوب صدر کا قرب حاصل ہوا تو آپ کو یاد تھا کہ بندہ بچپن میں نظم خوانی کیا کرتا تھا.بس آپ نے انصار اللہ کے سٹیج پر نظم خوانی کی ایسی مشق کرائی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خفیہ صلاحیت بیدار ہو گئی اور....جلسہ سالانہ کی سٹیج پر مسلسل ۱۶ سال سید نا حضرت اقدس کا منظوم کلام سنانے کی توفیق ملتی رہی.حضرت ممدوح کو کسی خفیہ صلاحیت کو بیدار کرنے کے لئے کسی لمبے چوڑے وعظ کی ضرورت نہ تھی.آپ کا ایک فقرہ اور بعض اوقات ایک اشارہ ہی ایک تن مردہ میں جان ڈالنے کے لئے کافی ہوتا تھا.ایک مرتبہ جبکہ بندہ دار النصر میں شہر سے دور رہتا تھا رات کے وقت حضرت ممدوح کی طرف سے ارشاد موصول ہوا کہ فلاں شخص بیرون ملک سے آئے ہیں ان سے مل کر مجھے ان کے حالات سے آگاہ کریں.خاکسار کو غالبا وقار عمل کی وجہ سے سخت تھکان تھی، ہلکا ہلکا بخار بھی محسوس ہو رہا تھا، سردیوں کی تاریک رات تھی.بندہ نے عرض کر دیا کہ انشاء اللہ صبح تعمیل ارشاد کر دی جائے گی.تھوڑی دیر کے بعد اس رقعہ پر حضرت ممدوح کے یہ جادو بھرے الفاظ پیغامبر لایا "آر بوڑھے تو نہیں ہیں".عاجز سمجھ گیا کہ معاملہ فوری نوعیت کا ہے.دل میں علالت کا خیال تک نہ رہا نہ یہ امر مانع ہوا کہ اکثر لوگ محو خواب ہو گئے ہیں.اسی وقت فورا لمباکوٹ پہنا اور شہر میں لنگر خانہ پہنچا اور مطلوبہ دوست کا پتہ کر کے حضرت ممدوح کی خدمت میں رپورٹ عرض کر دی.اس وقت حضرت ممدوح کی رہائش کالج کے بنگلہ میں تھی.رات کی تاریکی میں میرے حاضر خدمت ہونے پر آپ باہر تشریف لائے تو حسب معمول چاند سے چہرے پر مسکراہٹ کھل رہی تھی اور شفقت بھرے انداز میں
فرمایا:- 313 کیوں جی آپ بوڑھے تو نہیں" عرض کیا گیا بوڑھا تو نہیں قدرے علیل تھا مگر حضور کے پر تاثیر پیغام نے بفضل خدا علالت رفع کر دی اور بندہ تعمیل ارشاد کر کے حاضر خدمت ہوا.۴۸۴ مساویانہ سلوک چوہدری شبیر احمد صاحب تحریر کرتے ہیں کہ." آپ کی صدارت میں آپ کی باغ و بہار طبیعت کے باعث مشکل سے مشکل کام بھی اور خشک سے خشک فرائض بھی ہم سب بطیب خاطر ادا کیا کرتے تھے.دوران اجلاس آپ کی مسکراہٹ ، لطیف مزاج اور ہر ایک سے مساویانہ شفقت ہمیں انصار اللہ کی تنظیم کا اس قدر دلدادہ بنا دیتی تھی کہ اس میں حصہ لیتے ہوئے طبیعت ایک سرور محسوس کرتی تھی.اجلاس کے خوش گوار ماحول کے علاوہ وقتاً فوقتاً پکنک کا اہتمام سونے پر سہاگے کا کام دیتا تھا.ہر پکنک ایک خوش گوار یادوں کا مرقع بن جاتی تھی اور آئندہ کی پکنک کا انتظار رہتا تھا.پکنک میں ہم سب سے اتنا مساویانہ سلوک ہوتا کہ سب انصار آپ سے کھل کر بات کرتے ، مذاق بھی کر لیتے اور تفریح کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہتا.۴۹ پیکر عجز و انکسار چوہدری شبیر احمد صاحب ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ.” عاجز کو تقریباً ۱۹۶۰ء سے حضور پر نور کے ساتھ مجلس انصار اللہ کے دورہ جات میں گاہے گاہے رفاقت کا شرف حاصل رہا.حضور انور سب ہم سفر خدام سے برابری کا سلوک فرماتے.کسی کو احساس کمتری نہ ہونے دیتے.تقریر فرماتے تو سراسر عجز و انکسار کا اظہار ہوتا اور زیادہ
314 تر اسی کی تلقین فرماتے.صدر مجلس ہونے کے باوجود نمازوں کی امامت دوسروں سے کرواتے.نمائش سے کوسوں دور رہتے.شروع شروع میں اپنی گاڑی خود ڈرائیو فرماتے اور ہم خدام مزے سے بے فکروں کی طرح ہم سفر رہتے.وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوروں میں ڈرائیونگ کا کام دوسروں کے سپرد کیا جاتا رہا.مکرم محمد احمد صاحب حیدر آبادی حضور انور کے معتمد علیہ ڈرائیور تھے.نظم خوانی میں بھی مهارت تھی.وہ اچھے رفیق سفر ثابت ہوتے تھے.حضور انور چلتی گاڑی میں بھی ہم سے نظمیں سماعت فرماتے..ایک مرتبہ دوران سفر عاجز نے دیکھا کہ آپ کو جو بچہ بھی نظر آتا اس کو سلام کرتے خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو.ایک دن کسی خادم نے اس کی وجہ پوچھی تو حضور نے فرمایا کہ یہ نسل مستقبل میں احمدیت میں آنے والی ہے......ایک مرتبہ ساہیوال میں اجتماع انصار اللہ تھا جس میں حضور انور نے بحیثیت صدر مجلس انصارالله شرکت فرمائی.رات کے وقت سونے کے لئے چارپائیوں کا اہتمام ہوا تو اس میں حضور انور نے کسی امتیازی جگہ کو قبول نہ فرمایا حضور کی چارپائی کے ساتھ ناچیز کی چارپائی تھی.حضور تہجد کی ادائیگی فرماتے مگر کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے دیتے تھے.انتہائی تخلیہ میں یہ عبادت پسند فرماتے کیونکہ حضور زہد و القاء کے اظہار کو ناپسند فرماتے تھے.عجز و انکسار کا یہ عالم صرف اولیاء اللہ کے حصہ میں ہی آتا ہے جن کو اللہ تعالیٰ غیر معمولی روحانی رفعتوں سے نوازتا ہے اور ہمارے محبوب عالی مقام کا یہی عجز و انکسار تھا جو آپ کو روحانیت کی بلندیوں تک پہنچانے کا موجب ہوا یہاں تک کہ آپ مستقبل میں ” خلفیہ ذوالقرنین " قرار پائے."
315 صدر انجمن احمدیہ کے لئے خدمات صدر انجمن احمد یہ جماعت کا مرکزی اور سب سے بڑا انتظامی ادارہ ہے جسے بنیادی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے "بہشتی مقبرہ" کی آمد کی حفاظت اسے فروغ دینے توسیع اور اشاعت کی غرض سے ۱۹۰۵ء میں قائم فرمایا اور اسے قانونی وسعت دے کر دوسرے جماعتی اداروں کو بھی اس میں شامل فرما دیا اور ۱۹۰۶ء میں اس کے قواعد و ضوابط تجویز کروا کر سلسلہ کے جملہ انتظامی ادارے اس میں مدغم کر دیئے اور حضرت الحاج حکیم مولوی نور الدین صاحب کو اس کا پہلا صدر مقرر فرما دیا.اور جب ۲۷/ مئی ۱۹۰۸ء کو آپ خلیفتہ المسیح الاول کے منصب پر فائز ہوئے تو انجمن کے صدر حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب مقرر ہوئے اور جب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دوسرے خلیفہ منتخب ہوئے تو حضور نے صدر انجمن احمدیہ میں غیر معمولی توسیع فرمائی اور اس میں کئی نئے شعبہ جات کا اضافہ فرمایا.ย رض صدر انجمن احمدیہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے بطور ناظر خدمت درویشان قادیان افسر جلسہ سالانہ اور صدر کے عہدوں پر غیر معمولی خدمات سرانجام دیں ان کا مختصر تذکرہ درج ذیل ہے.صدر انجمن احمدیہ کی صدارت آپ کی غیر معمولی انتظامی استعدادوں اور دیگر مصالح کے پیش نظر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کو ۱۹۵۵ء میں خلیفہ وقت حضرت مصلح موعود من الله نے صدر انجمن احمدیہ کا صدر مقرر فرمایا جہاں آپ اپنی خلافت کے انتخاب تک بطور صدر خدمات بجا لاتے رہے ان خدمات کا احاطہ کرنا تو ممکن نہیں ہے صرف چند خدمات کو بیان کیا جاتا ہے.
316 اخراجات پر کنٹرول انتظامی لحاظ سے صدر انجمن احمدیہ کے صدر کے براہ راست ما تحت شعبہ آڈٹ بھی ہوتا ہے.صدر انجمن کے اخراجات کو کنٹرول کرنے کے لئے آپ نے بعض اہم قدم اٹھائے.ایسے ہی اقدام کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے ایک مرتبہ فرمایا.ایک وقت میں ، میں نے دیکھا اس وقت میں غالبا صدر صدر انجمن احمد یہ تھا کہ جن شعبوں میں پیسہ بچ جاتا ہے وہ سال کے آخر میں بلا ضرورت ہی اسے خرچ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ پیسے بچے ہوئے ہیں آؤ ان کو خرچ کر دیں اور جن شعبوں کا خرچ زیادہ ہو جاتا تھا وہ بہر حال مزید رقم مانگتے تھے اس واسطے ایک طریق یہ رائج کروایا کہ ہر تین مہینے کے بعد تین مہینے کی نسبت سے جو خرچ بچا ہوا ہے وہ اس شعبے سے نکال لو اور ایک ریزرو بنایا کہ اس میں داخل کر دو خصوصاً تنخواہوں وغیرہ میں بچت ہو جاتی ہے کہ کوئی آدمی چلا گیا یا کسی نے بغیر تنخواہ کے چھٹی لے لی یا کوئی آسامی خالی پڑی رہی وغیرہ.پہلے یہ مشکل بنتی تھی کہ بجٹ سے اتنا زیادہ خرچ ہو گیا.اور مشاورت میں رپورٹ ہوتی تھی کہ بجٹ مثلاً دس لاکھ کا بنایا تھا اور خرچ بارہ لاکھ ہو ہو گیا.....غرض اس وقت بڑی مشکل پڑتی تھی اور جس وقت سے یہ فیصلہ ہوا ہے کہ ان کا ریز رو بنا دو.اس سال کے بعد سے میرے خیال میں ایک دفعہ بھی ایسا نہیں ہوا کہ مشاورت کے بنائے ہوئے بجٹ سے مجموعی اه طور پر خرچ زیادہ ہوا ہو." خدمت قرآن اور اشاعت دین صدر صدر انجمن احمدیہ کے طور پر آپ کی خدمات میں سے مجلس مشاورت پر آپ کے قیمتی مشورے شامل ہیں جن میں سے خدمت قرآن اور اشاعت دین - سر
317 فہرست ہے.۱۹۶۵ء کی شوری پر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمدیہ نے فرمایا:.'سب سے پہلے تو میرے دل میں جذبات کا ایک ہیجان ہے.اس کا اظہار ایک فقرہ میں میں کر دوں تو بہتر ہے اور وہ یہ کہ ہمارے دوستوں نے بڑے ہی پیار اور بڑے ہی درد کے ساتھ مختلف اور کثرت کے ساتھ تجاویز ہمارے سامنے رکھی ہیں اور میرے پاس وہ الفاظ نہیں کہ جن سے میں احباب کا شکریہ ادا کروں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر رے.پہلی بات جو میں تجاویز کے متعلق کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قرآن کریم ہماری زندگی ہماری سوچ ہماری جان ہمارا سب کچھ ہے اور ہر احمدی خواہ وہ بچہ ہو ، جو ان ہو یا بوڑھا مرد ہو یا عورت.اس کو قرآن کریم سیکھنا چاہئے.ہمیں ان کو سکھانا چاہئے اور یہ احساس جماعت میں شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے کہ قرآن کریم با ترجمہ جو تفسیر صغیر کی شکل میں حضور نے جماعت کے ہاتھ میں دیا اور قرآن کریم با ترجمہ جو ہر احمدی بچے کے پاس ہونا چاہئے.وہ مختلف نوع کے ترجمے ہیں اپنے ترجمہ کے لحاظ سے بھی شاید اور اپنی چھپائی وغیرہ کے لحاظ سے بھی یہ دونوں صورتیں ہیں جنہیں جماعت کو پورا کرنا چاہئے....ہم انتہائی کوشش کر رہے ہیں کہ جلد سے جلد....تفسیر صغیر اپنے تفصیلی نوٹوں کے ساتھ دوستوں کے ہاتھ میں پہنچ جائے..قرآن کریم با ترجمہ بچوں کے لئے نہایت ضروری اور نہایت اہم کام ہے جس کے متعلق میں معذرت کے ساتھ اور معافی کے ساتھ یہ عرض کرتا ہوں کہ ہم سے بڑی کوتاہی ہوئی ہے بعض تراجم جو اس وقت موجود ہیں ان میں بڑی کثرت کے ساتھ غلطیاں پائی جاتی ہیں.ہم کوشش کریں گے کہ اس سال کوئی معیاری ترجمہ جو موٹا موٹا لکھا ہو
318 جسے چھوٹا بچہ بھی پڑھ سکے جماعت کے بچوں کے ہاتھ میں آسکے.آپ ہمارے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس کام کے سر انجام دینے کی ہمیں عطا فرمائے......ایک اور تجویز بڑی ہی اہم یہ پیش کی گئی ہے کہ مساجد کی طرف جماعت کو توجہ دینی چاہئے.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک اقتباس دوستوں کو سنانا چاہتا ہوں.....حضور نے فرمایا:.اس وقت ہماری جماعت کو مساجد کی بڑی ضرورت ہے.یہ خانہ خدا ہوتا ہے جس گاؤں یا شہر میں ہماری جماعت کی مسجد قائم ہو گی تو سمجھو کہ جماعت کی ترقی کی بنیاد پڑ گئی اور اگر کوئی ایسا گاؤں یا شہر ہو جہاں مسلمان کم ہوں یا نہ ہوں اور وہاں اسلام کی ترقی کرنی ہو تو وہاں ایک مسجد بنا دینی چاہئے پھر خود مسلمانوں کو کھینچ لائے گا لیکن شرط یہ ہے کہ قیام مسجد کی نیت میں اخلاص ہو.محض اللہ اسے کیا جائے نفسانی ce اغراض یا کسی شہرت کو ہرگز دخل نہ ہو تب خدا برکت دے گا.۵۲ پھر حضور فرماتے ہیں:.مجھے " یہ ضروری نہیں کہ مسجد مرصع اور پکی عمارت کی ہو" پر یہ تاثر ہے کہ ہر جگہ نہیں لیکن بعض جگہ یہ سمجھا جانے لگا ہے اور بعض دوستوں کو غلط فہمی ہوئی ہے کہ مسجد ان کی ضرورت ان کی استطاعت سے بھی زیادہ بڑی اور زیادہ شاندار ہونی چاہئے مسجد کی اینٹیں ہماری شان بلند نہیں کرتیں وہ تقومی ہماری شان بلند کرتا ہے جس تقویٰ کی بنیاد پر مسجد کی دیواریں اٹھائی جاتی ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ ارشاد بھی یاد رکھنے کے قابل ہے.” یہ ضروری نہیں کہ مسجد مرصع اور پکی عمارت کی ہو بلکہ صرف زمین روک لینی چاہئے اور وہاں مسجد کی حد بندی کر دینی چاہئے اور
319 بانس وغیرہ سے کوئی چھپر وغیرہ ڈال دو کہ بارش وغیرہ سے آرام ہو.خدا تعالیٰ تکلفات کو پسند نہیں کرتا ۵۳ پھر آپ فرماتے ہیں :.” غرضیکہ ہر جماعت کی اپنی مسجد ہونی چاہئے جس میں اپنی جماعت کا امام ہو اور وعظ وغیرہ کرے اور جماعت کو چاہئے کہ سب مل کر اس مسجد میں جمع ہو کر نماز باجماعت ادا کیا کریں.جماعت اور اتفاق میں بڑی برکت ہے پراگندگی سے پھوٹ پیدا ہوتی ہے اور یہ وقت ہے کہ اس وقت اتفاق اور اتحاد کو بہت ترقی دینی چاہئے اور ادنی ادنی باتوں کو نظر انداز کر دینا چاہئے."" تو مسجد کے متعلق جو تجویز ہے بڑی اہم ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر نمائندگان اپنے گھروں میں جا کر یہ کوشش کریں کہ جہاں مسجد نہیں وہاں فوری طور پر حضور کی اس ہدایت کے مطابق ایک مسجد تیار ہو جائے زمین گھیر لیں کوئی چھپر ڈالیں.آپ کے کاموں میں خدا تعالی برکت ڈالے گا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کے طفیل...اپنے بچوں کی اٹھان اس طرح کریں کہ وہ خود اپنی زندگیاں وقف کرنے کا عزم پیدا کریں.....شخص.ہماری جماعت کے ہر ایک فرد کو اپنے اندر صحابہ کا سا ایمان اور یقین پیدا کرنا چاہئے اور نیکی اور تقویٰ کی زندہ تصویر ہونا چاہئے پھر اس کے دل میں ہمدردی اور غم خواری ہو.اگر اس کو یہ یقین ہو کہ ہر وہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایمان نہیں لاتا وہ اللہ تعالیٰ کے قمر کے نیچے اپنی گردن رکھ رہا ہے.اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ خدائی قہر سے بچ جائے.اگر آپ یہ چاہتے ہوں کہ وہ خدا کے غضب کے نیچے نہ آئے تو آپ کا فرض ہے کہ آپ اس کو جہنم کی آگ سے بچانے کی کوشش کریں اور آپ کے دل کو اطمینان نہ ہو اور آپ اپنے گھروں
320 - میں آرام سے نہ بیٹھیں کیونکہ آپ کو نظر آ رہا ہے کہ یہ لوگ کدھر جا رہے ہیں اور ہماری محبت اور ہمارے دل میں جو ہمدردی اور خیر خواہی کا جذبہ ہے اس کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی مدد کو آئیں اور ان کو ڈوبنے سے بچائیں کیونکہ وہ ڈوب رہے ہیں اور ان کو جہنم کی آگ سے بچائیں کیونکہ ان کے اعمال ان کو جہنم کی طرف لے جانے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس سلسلہ میں ایک اور ہدایت بھی فرمائی ہے...آپ فرماتے ہیں کہ تبلیغ تو کرنی ہے لیکن یہ یاد رکھو " پھر میں یہ بھی کہتا ہوں کہ سختی نہ کرو اور نرمی سے پیش آؤ اور....اس سلسلہ سچائی کو اپنی پاک باطنی اور نیک چلنی سے ثابت کرو.یہ میری نصیحت ہے اس کو یاد رکھو اللہ تعالیٰ تمہیں استقامت بخشے" تو پاک باطنی اور نیک چلنی سب سے بڑا ذریعہ ہے تبلیغ کا.اب ہر ایک کو ہم میں سے نمونہ بننا چاہئے.اس کو ایسا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے کہ جب کوئی اس سے دس منٹ بھی بات کرے تو متاثر ہوئے بغیر نہ رہے.اگر اس کے عقائد میں تبدیلی نہیں آئی تو وہ یہ خیال نہ کرے کہ یہ غلط باتیں مجھے کہہ رہے ہیں پھر آپ سے اس کا تعلق ہو جائے گا.وہ ابتداء ہو گی اس کو راہ راست پر لانے کی، اور نتائج کے لئے ہر وقت دعا گو رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی ذمہ داریوں کے نبھانے کی توفیق دے.۵۵۰ قواعد و ضوابط کی تدوین و اشاعت ۱۹۶۵ء کی شوری پر آپ نے فرمایا تھا.قواعد صد ر انجمن احمدیہ کے متعلق نصیحت کرنا یا تنقید کرنا یہ ضروری بھی ہے، اور آسان بھی.اور یہ کام چونکہ ضروری ہے اس لئے یہ تنقید بڑی ضروری ہے، ہونی چاہئے لیکن مختلف اوقات میں غالبا.....۱۹۳۵ء یا ۱۹۳۶ء میں وہ قواعد چھپے تھے اس
321 وقت سے اس وقت تک سینکڑوں (اگر ہزاروں نہیں) نئی تبدیلیاں اور حضور کے نئے ارشادات آچکے ہیں ان سب کو جمع کرنا ہے....یہ ایک مسودہ کی شکل اختیار کر چکا ہے اس پر نظر ثانی کے بعد....مجھے امید ہے کہ آئندہ جلسہ سے پہلے پہلے انشاء اللہ اس کی طباعت اور اشاعت ہو جائے گی" ۵۶ اللہ تعالی کی مثیت کے تحت نومبر ۱۹۶۵ء میں آپ خلیفہ المسیح الثالث کے منصب پر فائز ہو گئے اور حسب وعدہ آپ نے صدر انجمن احمدیہ قادیان کے قواعد و ضوابط جو ۱۹۳۸ء میں طبع ہوئے تھے پر نظر ثانی کرنے اور اس کے بعد ۱۹۶۵ء تک ہونے والی ترمیمات اور مجلس مشاورت کے ان فیصلوں کو جو قواعد کا رنگ رکھتے تھے تلاش کر کے ان قواعد میں شامل کرنے کے لئے نو افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی اور ان کے ترتیب شدہ مسودہ کو بنفس نفیس خلافت کے ابتدائی دنوں (۱۹۶۶ء) میں ملاحظہ فرمایا اور بیشتر مقامات پر اپنے دست مبارک سے ترامیم فرمائیں اور اسے منظور فرما کر شائع کرنے کی اجازت دی.اس طرح صدر انجمن احمدیہ پاکستان کے قواعد و ضوابط جو جولائی ۱۹۲۶ء میں شائع ہوئے یہ آپ کی بہت اہم اور تاریخی خدمت ہے.عفو و درگزر کا ایک واقعہ محترم سید عبدالحی صاحب ناظر اشاعت لکھتے ہیں:." حضور بڑی بارعب شخصیت کے مالک تھے لیکن دل بہت نرم تھا اور اس نرمی پر آسانی سے کسی کو آگاہ نہیں ہونے دیتے تھے.میرے ایک بزرگ خواجہ عبدالعزیز ڈار آسنور مقبوضہ کشمیر کے ایک مخلص احمدی تھے.بڑھاپے سے پہلے طبیعت کے بہت تیز تھے.حضور جن دنوں صدر صدر انجمن احمد یہ تھے خواجہ صاحب کا ایک احمدی کے ساتھ لین دین کا معاملہ تھا جس کی شکایت انہوں نے حضور کو بھی کی تھی اسی سلسلہ میں آپ نے حضور کی خدمت میں چند خط ایسے بھی لکھے جن کا لہجہ رشت تھا.حضرت مصلح موعود کی وفات پر جب انتخاب خلافت کا ย
322 مرحلہ آیا تو خواجہ صاحب بڑے پریشان تھے.پریشانی کا ایک حصہ تو اس طرح دور ہو گیا کہ آپ کو الہاما بتایا گیا کہ حضور خلیفہ منتخب ہوں گے اور حکم ہوا اسمعوا واطیعوا اس لئے انشراح سے حضور کی بیعت تو کرلی لیکن حضور کے سامنے آنے سے ہچکچاتے تھے.دل میں احساس تھا کہ میں نے حال ہی میں حضور کے نام بڑے تیز خط لکھے ہیں حضور انہیں بھول تو نہیں سکتے ایک دن جرات کر کے ملاقات کے لئے نام لکھوایا تو حضور نے باوجود نام آخر پر ہونے کے خواجہ صاحب کو پہلے بلوایا، اٹھے، بغلگیر ہوئے اور بڑی شفقت سے حالات پوچھے اور خواجہ صاحب کا حال یہ تھا کہ آنکھوں سے آنسو رواں تھے ، بات کر نہیں پاتے تھے.حضور نے فرمایا خواجہ صاحب میں اللہ تعالیٰ سے آپ کے لئے دعا کروں گا بعد میں خواجہ صاحب حضور سے بہت بے تکلف ہو گئے تھے لیکن حضور نے کبھی ماضی کی طرف اشارہ بھی نہیں کیا." ۷ ه.حب الوطنی کا ایک واقعہ مکرم عباداللہ گیانی صاحب سابق مینجر روزنانہ الفضل تحریر کرتے ہیں.۱۹۶۵ء کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر ریڈیو پاکستان لاہور سے سکھوں کے لئے پروگرام نشر کرنے کا فیصلہ کیا گیا.اس کا نام پنجابی دربار ، تجویز ہوا.ریڈیو پاکستان لاہور ریجنل ڈائریکٹر مجھے پہلے سے جانتے تھے کیونکہ میں ان کے ساتھ ایک سال تک آزاد کشمیر ریڈیو میں کام کر چکا تھا.ان کا فون آیا کہ آپ لاہور آجائیں ایک پروگرام کے سلسلہ میں آپ کی ضرورت ہے.میں نے جواب دیا کہ اگر ایک آدھ دن کا کام ہے تو میں رخصت لے کر آ سکتا ہوں لیکن اگر زیادہ کام ہے تو پھر آپ مکرم ناظر صاحب اصلاح و ارشاد یا صدر صاحب صدر انجمن احمدید سے اجازت حاصل کریں.
323 انہوں نے فون پر نظارت اصلاح و ارشاد سے اجازت حاصل کی.چنانچہ دو تین گھنٹے بعد مکرم ناظر صاحب اصلاح و ارشاد نے مجھے طلب فرمایا اور صبح لاہور جانے کی ہدایت فرمائی.اگلے دن لاہور جانے کے لئے تیاری کر کے میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ ان دنوں صدر صدر انجمن احمد یہ تھے.میں نے عرض کیا کہ ریڈیو پروگرام کے سلسلہ میں لاہور جا رہا ہوں تو آپ نے مجھے ہدایت فرمائی."آپ قوم اور ملک کی خدمت کے لئے جا رہے ہیں، اللہ کا نام لے کر اس پروگرام کو شروع کر دیں.اللہ بہت برکتوں والا ہے وہ بہت برکت دے گا" خاکسار نے حضور کی ہدایت کے پیش نظر کام شروع کیا اور اللہ تعالیٰ نے خاکسار کی توقع سے کہیں بڑھ چڑھ کر برکت بخشی.i آج اس پروگرام کو آٹھ برس کا عرصہ ہو گیا ہے مگر سکھ دنیا اسے اب تک نہیں بھولی اور برابر یاد کرتی ہے.مشرقی پنجاب کا بچہ بچہ اس پروگرام کو سنتا رہا.سکھ اخباروں اور رسالوں نے بھی اس پروگرام کی بہت تعریف کی.۱۹۶۸ء میں ایک سکھ سردار تیجا سنگھ نے جالندھر کے ایک اخبار کے گرونانک نمبر میں لکھا.آج پاکستان ریڈیو کے پنجابی دربار نام کے پروگرام کا ممکن ہے کہ کوئی سیاسی مقصد ہو مگر اس پروگرام میں و گرو صاحبان اور گوربانی سے جس پیار اور اور محبت کا اظہار کیا جا رہا ہے اور جس ادب اور احترام سے گوربانی کا پاٹھ اور کیرتن کی صحیح اور واضح تشریح کی جاتی ہے اسے پوری توجہ سے سننے کے بعد ہر ایک سکھ کا دل گرو کے چرنوں سے محبت کرنے سے رک نہیں سکتا.اس سارے پروگرام کے پیچھے قادیانی صاحبان کا بہت محبت اور اخلاص کام کر رہا ہے.ه
324 کارکنان سلسلہ کے لئے دردمندی مکرم مسعود احمد صاحب دہلوی لکھتے ہیں.وو ۱۹۲۰ء کے موسم گرما کی بات ہے.میں ایک روز کالج والی کو ٹھی میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.اس روز گرمی بہت شدید تھی.گرمی اور لو کی شدت کی وجہ سے دوپہر تڑپتے گزری تھی.اجازت ملنے پر جو نہی میں حضور کے کمرہ میں داخل ہوا.آپ نے پہلی بات ہی یہ کی کہ آج گرمی بہت زیادہ ہے ہر چند کہ میں ساری دو پر بجلی کے پنکھے کے نیچے لیٹا رہا ہوں پھر بھی میں ایک منٹ کے لئے نہیں سو سکا.اپنی بے کلی اور بے آرامی دیکھ کر مجھے خیال آیا کہ بجلی کے پنکھے موجود ہونے کے باوجود میری یہ حالت ہے تو نہ معلوم اس گرمی میں ہمارے کارکنوں کی دو پر کیسے گزرتی ہو گی کیونکہ ان کے کوارٹروں میں تو بجلی کے پنکھے نہیں ہیں.اس خیال کے آتے ہی میں اپنی تکلیف بھول گیا اور کارکنوں کی تکلیف کے احساس نے مجھے ساری دوپہر بے چین رکھا.جب آپ کے آنے کی اطلاع ہوئی تو اس وقت بھی یہی احساس مجھ پر غالب تھا.اس پر میں نے عرض کیا کہ بجلی کا پنکھا تو بہت دور کی بات ہے اس کا تو کارکنوں کو کیا خیال آئے گا.گرمی کی شدت کا احساس دور کرنے کے لئے پہلی ضرورت تو پانی کی فراہمی ہے.کارکنان کے کواٹروں میں ہینڈ پمپ ( نلکے) ہی ندارد ہیں.اس گرمی میں انہیں باہر لگے ہوئے نلکوں سے پانی بھر بھر کر لانا پڑتا ہے.اس پر حضور نے بہت افسوس کا اظہار کیا اور فرمایا.آپ کوئی ایسی ترکیب بتائیں کہ انجمن بھی زیر بار نہ ہو اور کوارٹروں میں نلکے بھی لگ جائیں اور وہ ہوں بھی کارکنوں کی ملکیت.میں نے عرض کیا کہ جس طرح صدر انجمن سال بھر کی گندم
325 خریدنے کے لئے کارکنان کو پیشگی رقم دیتی ہے جس کی اقساط ماہ بماہ ان کے الاؤنسز میں سے وضع ہوتی ہیں اسی طرح کارکنان کو اپنے اپنے کوارٹر میں نلکا لگوانے کے لئے بھی پیشگی رقم دے دی جائے جو بالا قساط ان کے الاؤنس میں سے وضع ہوتی رہے.حضور نے فرمایا اس طرح تو کارکنان کو گندم کے علاوہ نلکے کی پیشگی بھی ادا کرنا پڑے گی.ان کا الاؤنس تو پیشگیوں کی کٹوتی کی نذر ہو جایا کرے گا باقی اخراجات کیسے پورے کریں گے.میں نے عرض کیا کہ گندم کی پیشگی تو دس ماہانہ اقساط میں ادا کرنی ہوتی ہے نلکے کے لئے جو پیشگی دی جائے اس کی قسط دس روپے ماہوار سے زیادہ نہ ہو.نلکا تین صد میں لگتا ہے اس طرح یہ رقم دس روپے ماہوار کی قسط کے حساب سے اڑھائی سال میں انجمن کو واپس ملے گی.حضور نے خاکسار کی اس تجویز سے اتفاق کیا اور مجھے ارشاد فرمایا کہ میں یہ تجویز ایک درخواست کی شکل میں لکھ کر آپ کے (یعنی صدر صدر انجمن احمدیہ کے دفتر میں دے دوں.حضور کے ارشاد کی تعمیل میں میں نے اگلے روز اپنی تحریری درخواست دفتر میں پہنچا دی.حضور نے میری یہ درخواست صدر انجمن احمدیہ کے اجلاس میں پیش کر کے یہ قاعدہ منظور کرا دیا کہ کارکنان نلکا کے لئے پیشگی رقم لے سکتے ہیں لیکن رقم لینے کے بعد انہیں اپنے کوارٹر میں لازمی طور پر نلکا لگوانا پڑے گا.دوسرے اس کی دس روپے ماہوار قسط بلاناغه خزانه صدر انجمن احمدیه میں انہیں خود جمع کرانا ہو گی.اس تجویز کے پاس ہونے کے بعد پانچ کارکنان کو تجربتا نلکا کے لئے پیشگی رقم دی گئی.خاکسار ان میں سے ایک تھا.اس طرح حضور کی درد مندی اور غیر معمولی شفقت کے نتیجہ میں میرے ہاں پانی کا نلکا لگ گیا اور میں اور میری طرح کے دوسرے کارکن گرمی کے موسم میں باہر سے پانی بھر کر لانے کی مشقت سے بیچ
326 گئے.اس کے بعد اس تجویز پر عمل پیرا ہوتے ہوئے خاکسار کے ہاں بجلی کا پنکھا بھی لگا.اس طرح گرمیوں کے موسم میں دو پہر نسبتا آرام سے بسر ہونے لگی ۵۹ ناظر خدمت درویشان قادیان حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ۱۹۶۴ء میں صدر انجمن احمدیہ میں ناظر خدمت درویشان قادیان مقرر ہوئے اور آپ اس عہدہ پر ۱۹۶۵ء تک خدمات بجالاتے رہے.ناظر خدمت درویشان کے طور پر آپ کا بنیادی فرض درویشان قادیان کی فلاح و بہبود نیز خلیفہ وقت اور قادیان اور ہندوستان کی جماعتوں کے درمیان رابطہ تھا.اس ذمہ داری کو آپ نے نہایت احسن رنگ میں نبھایا.نظارت خدمت درویشان کے رجسٹر پر حضرت قمر الانبیاء مرزا بشیر احمد صاحب کے آخری دستخط 9 جون ۱۹۶۳ء کے ہیں کیونکہ ستمبر ۱۹۶۳ء میں حضرت قمر الانبیاء بنی اللہ کا انتقال ہو گیا.البتہ حضرت قمر الانبیاء کی بیماری کے دوران ۱۸.اگست ۱۹۶۳ء کو حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کے دستخط ہیں اور اس کے بعد ریکارڈ کے مطابق حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے پہلے دستخط ۱۲.فروری ۱۹۶۴ء کے ہیں جو آپ نے بطور ناظر خدمت درویشان پہلی مرتبہ رجسٹر فیصلہ جات پر ثبت فرمائے اور آخری دستخط ۲۳.جولائی ۱۹۶۵ء کو فرمائے اور اس کے بعد ۱۵ فروری ۱۹۶۶ء سے حضرت میر داؤد احمد صاحب کے دستخط شروع ہوتے ہیں.اس سے ، معلوم ہوتا ہے کہ آپ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات کے بعد صدر انجمن احمدیہ کے علاوہ ناظر خدمت درویشان مقرر ہوئے اور خلافت کے منصب پر فائز ہونے تک آپ یہ خدمت بجا لاتے رہے.صدر
327 ڈائریکٹر تحریک جدید کرم بیرون ممالک میں تبلیغ اسلام کے لئے حضرت مصلح موعود نے ۱۹۳۴ء میں تحریک جدید کا آغاز فرمایا تھا.ہجرت پاکستان کے بعد انجمن احمدیہ تحریک جدید پاکستان کے ڈائریکٹرز میں سے ایک حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی تھے.پاکستان میں ادارہ کی رجسٹریشن سوسائٹی رجسٹریشن ایکٹ کے زیر دفعہ ۲۰ بابت ۱۸۷۰ء کے تحت کروائی گئی.تحریک جدید کے میمورنڈم اینڈ آرٹیکلز آف ایسوسی ایشن کا مسودہ محترم شیخ بشیر احمد صاحب نے تشکیل دیا اور رجسٹریشن ۱۹.فروری ۱۹۴۸ء کو ہوئی.ڈائریکٹرز جو اس موقع پر مقرر ہوئے ان کے نام درج ذیل ہیں:.ا.مولوی عبد الرحمان صاحب انور ۲.بہاؤ الحق صاحب.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ۴.مولوی عبد المغنی صاحب ۵ خان بهادر نواب چوہدری محمد دین صاحب ۶.شیخ بشیر احمد صاحب ے.مولانا جلال الدین صاحب مشمس چوہدری برکت علی صاحب ۹.خواجہ عبدالکریم صاحب بطور ڈائریکٹر آپ نے تحریک جدید کے ڈائریکٹرز کے اجلاس میں شرکت فرمائی اور اپنے قیمتی مشوروں سے اس ادارے کی بھی جہاں تک ممکن تھا راہنمائی فرمائی.ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین حضرت مصلح موعود بھی اللہ نے قرآن کریم ، احادیث نبوی اور فقہ و تاریخ وغیرہ کی
328 اشاعت کے لئے ۱۹۵۸ء میں ادارۃ المصنفین قائم فرمایا اور اس کے کام کی نگرانی کے لئے کچھ ڈائریکٹرز مقرر فرمائے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب بھی اس ادارہ کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے اور مسلسل سات سال اس ادارہ کی سرپرستی فرمائی.ادارہ کے منیجنگ ڈائریکٹر مکرم ابوالمنیر نور الحق صاحب بیان کرتے ہیں:." رم ۱۹۵۸ء میں حضرت مصلح موعود نے ادارۃ المصنفین کا قیام فرمایا تا قرآن مجید حدیث اور فقہ و تاریخ کے لٹریچر کی اشاعت کی جائے.حضور نے ادارہ کے سات ڈائریکٹر مقرر فرمائے ان سات میں سے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ایم اے (آکسن) پرنسپل تعلیم الاسلام کالج بھی ایک تھے.ان ڈائریکٹر ان کی ہر سال حضرت مصلح موعود تجدید فرماتے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف خلیفہ المسیح الثالث منتخب ہونے تک ادارہ کے ڈائریکٹر رہے.خاکسار منیجنگ ڈائریکٹر تھا.آپ نے میری ہر کام میں راہنمائی فرمائی.ادارہ کے جملہ اجلاسوں میں تشریف لاتے اور ادارہ کے کاموں میں پوری دلچسپی لیتے رہے.خلیفہ المسیح منتخب ہو جانے کے بعد بھی حضور نے ادارہ کی پوری سر پرستی فرمائی.حضور کی اس توجہ کا ہی نتیجہ تھا کہ ادارۃ المصنفین نے تھوڑے ہی عرصہ میں بہت نیا لٹریچر پیدا کیا.جب بھی کوئی نئی کتاب تیار ہو جاتی.جستہ جستہ مقامات ملاحظہ فرماتے.مشورہ دیتے اور دعا فرما کر کاتب کو مسودہ دینے کی اجازت مرحمت فرماتے ، کتاب کے طبع ہونے پر جلسہ سالانہ کے موقع پر احباب کو خریداری کی تحریک فرماتے.۶۰؎ قبل از انتخاب خلافت آپ کا ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین کے طور پر تفسیر صغیر کے ترجمہ پر نظر ثانی کا کام ہے جو ابھی جاری تھا کہ حضرت مصلح موعود کی وفات ہو گئی اور خلافت کی ذمہ داریاں آپ پر آن پڑیں اور پھر اس نظرثانی شدہ تفسیر کی اشاعت آپ ہی کے ارشاد پر ۱۹۶۶ء میں ہوئی.مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب نیجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین لکھتے ہیں:.
329 " تفسیر صغیر پہلی بار ۱۹۵۷ ء میں چھپی تھی.اس وقت جلدی کی وجہ سے کچھ اغلاط رہ گئی تھیں جن کے متعلق بعض احباب نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں لکھا تو حضور نے ۱۹۶۵ء کے آغاز میں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب مولانا جلال الدین صاحب شمس اور خاکسار راقم الحروف پر مشتمل ایک کمیٹی مقرر فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ تفسیر صغیر کو اچھی طرح دیکھ لیا جائے تاکہ آئندہ طباعت میں کوئی غلطی نہ رہ جائے.کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ مکرم مولانا شمس صاحب ساری تفسیر چیک کریں اور غلطیوں کی فہرست بنا کر مجھے دے دیں اور خاکسار صاحبزادہ صاحب موصوف کو شروع سے آخر تک لفظاً لفظاً تفسیر صغیر کا ترجمہ اور تفسیری نوٹ پڑھ کر سنائے.تعمیل ارشاد میں خاکسار نے حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف کو شروع سے لے کر سورۃ نور کے چودھویں رکوع تک لفظاً لفظاً ترجمہ اور تفسیری نوٹ سنائے جس کے لئے آپ کو بہت وقت دینا پڑا.کبھی رات نو بجے کے بعد اور کبھی دن کو ڈیڑھ بجے دوپہر کے بعد آپ دوسرے کاموں سے تھکے ہوئے آتے لیکن نهایت بشاشت کے ساتھ تفسیر صغیر کا ترجمہ سنتے.جب سورۃ نور کی آیت استخلاف کے اس ترجمہ پر پہنچے کہ اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا تو اس دن حضرت مصلح موعود کا وصال ย ہو گیا اور خدائی تقدیر کے مطابق حضرت صاحبزادہ صاحب موصوف خلیفہ المسیح منتخب ہو گئے.خلافت کی ذمہ داریاں جب آپ کے کندھوں پر پڑیں تو آپ کے لئے تفسیر صغیر کے کام کے لئے وقت نکالنا مشکل ہو گیا.اس پر حضور نے فرمایا کہ بقیہ کام خاکسار کو سر انجام دینا چاہئے اور جو امر قابل استفسار ہو وہ آپ سے پوچھ لیا جائے.چنانچہ حضور کے ارشاد کی تعمیل کی گئی اور یہ تسلی کر لینے کے بعد کہ اب کوئی غلطی نہیں رہ گئی
330 حضور نے تفسیر صغیر کو بلاکوں پر چھپوانے کی اجازت مرحمت فرمائی چنانچہ تفسیر صغیر بلاکوں کے ذریعہ اعلیٰ کاغذ پر چھپی جس کو حضور نے بہت پسند فرمایا اور خاکسار کو پانچ سو روپیہ نقد انعام عطا فرمایا.اسی طرح میرے ساتھ کام کرنے والے کارکنان کو بھی نقد انعامات دیئے علاوہ ازیں خاکسار کو ایک سرٹیفکیٹ بھی عطا فرمایا." ممبر تعمیر کمیٹی ربوہ ہجرت پاکستان کے بعد ربوہ کی نو آبادی اور تعمیر کے سلسلہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے حکم سے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد بھی ممبر تھے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے فرمان کی تعمیل میں صدر انجمن احمدیہ نے اپنا ایک ہنگامی اجلاس ۱۹ جون ۱۹۴۸ء کو منعقد کیا اور اس میں جو کمیٹی تجویز کی وہ یہ تھی.ا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب صدر ۲.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب پر نسپل تعلیم الاسلام کالج ممبر.حضرت نواب محمد الدین صاحب ممبر حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب ناظر اعلی ممبر ۵- مولوی عبدالرحمان صاحب انور وکیل الدیوان ممبر.صاحبزادہ مرزا عزیز احمد صاحب ناظر امور عامه ممبر ے.ڈاکٹر عبد الاحد صاحب ڈائریکٹر فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ ممبر -۸- سید محمود اللہ شاہ صاحب ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول ممبر چوہدری صلاح الدین صاحب ناظم جائیداد نمبر ۱۰.چوہدری عبد الباری صاحب ناظر بیت المال ممبر حضرت مصلح موعود رضی اللہ کی خلافت میں مرکز جدید ربوہ کا قیام اور نو آبادی ایک کارنامہ ہے اور خلیفہ وقت کا ہاتھ جس جس خوش نصیب انسان نے بٹایا ان میں
331 آپ کا نام بھی قیامت تک زندہ رہے گا.افسر جلسہ سالانہ بانی سلسلہ احمدیہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ۱۸۹۱ء میں جلسہ سالانہ کی بنیاد رکھی تھی جس میں ۷۵ احباب نے شرکت کی.جوں جوں سلسلہ احمدیہ ترقی کرتا گیا جلسہ سالانہ پر مہمانوں کی تعداد بھی سال بہ سال بڑھتی رہی یہ تعداد سینکڑوں سے ہزاروں اور ہزاروں سے لاکھوں میں تبدیل ہوتی گئی.جلسہ سالانہ پر شامل ہونے والے مہمانوں کے قیام و طعام کا انتظام شروع سے ہی مرکز کرتا چلا آیا ہے.اس خدمت کے لئے خلیفہ وقت جو منتظم اعلیٰ مقرر فرماتے ہیں اس کو افسر جلسہ سالانہ کہا جاتا ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب ۱۹۵۹ء میں افسر جلسہ سالانہ مقرر ہوئے اور نومبر ۱۹۶۵ء تک یہ عظیم خدمت بجا لاتے رہے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد جو جلسہ سالانہ آیا اس کے لئے آپ نے سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم کو اپنی جگہ افسر جلسہ سالانہ مقرر فرما دیا.اگر چہ جلسہ سالانہ کا انتظام ہر آنے والے سال میں بہتری کی طرف مائل رہتا ہے اور گزشتہ سالوں میں اگر انتظام میں کوئی کمی نظر آجائے تو اسے دور کر لیا جاتا رہا ہے تاہم حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کے دور میں یہ انتظام زیادہ مستحکم اور وسیع ہوتا رہا ہے اور صیغہ جات کا موجودہ ڈھانچہ بنانے میں آپ کا بھی معتدبہ حصہ ہے.موجودہ ڈھانچہ یوں ہے.افسر جلسہ سالانہ ناظم معائنہ ناظم حاضری و نگرانی ناظم آؤٹ ناظم سپلائی ناظم طبی امداد ناظم پخته سامان ناظم عمومی ناظم سوئی گیس (اس وقت لکڑی بطور ایندھن استعمال ہوتی تھی) ہوئی ناظم اشاعت ناظم محنت
332 ناظم معلومات ناظم خدمت خلق ناظم آب رسانی ناظم گوشت ناظم مکانات ناظم بازار ناظم پر الی ناظمین لنگر خانہ جات ناظم روشنی ناظمین مهمان نوازی...ناظم صفائی ناظمین قیام گاه..ناظم تعمیر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے افسر جلسہ سالانہ کے طور جو خصوصی کام کئے ان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ نے اشیاء خوردنی کی خریداری کا ایسا انتظام کیا کہ سال کے اس حصے میں خرید کی جائے جب اس کی قیمت کم ہو.اس طرح سلسلہ کے پیسے کے لئے جو درد آپ کے دل میں تھا اس کا بھی اندازہ ہوتا ہے.جیسا کہ آپ نے فرمایا:.ہے.” جب میں افسر جلسہ سالانہ تھا تو ہم نے اپنی ضروریات کی چیزوں کا با قاعده چارٹ بنا کر یہ ذہن میں رکھا ہوا تھا کہ فلاں چیز سال میں فلاں موسم میں سب سے سستی ہوتی ہے مثلاً آلو کی برداشت ۱۸.۲۰ دسمبر شروع ہوتی ہے اور سب سے ستا آلو ان دنوں میں ہوتا کارکنوں کو بعض دفعہ تکلیف بھی ہوتی تھی مگر میں آدمی بھیجتا تھا اور کہتا تھا کہ سب سے ستالینا ہے.جاؤ فی الحال ایک وقت کا لے کر آؤ.پھر جاؤ اور پھر دوسرے وقت کا لے کر آؤ.اس طرح ہم سامان اکٹھا کرتے تھے اور ہم نے پتہ نہیں کیوں بڑا لمبا عرصہ یعنی میں نے اپنا افسر جلسہ سالانہ کا قریباً سارا زمانہ خالص گھی استعمال کیا ہے.بناسپتی نہیں استعمال کیا اور خالص گھی سرگودھا کی منڈی میں جب سب سے ستا آتا ہے اس وقت ہم لے لیتے تھے اسی طرح جس وقت مئی میں گندم کی پیداوار آتی تھی تو اس وقت گندم خرید کر سٹور کر لیتے تھے.اس سے بڑا فرق
333 پڑ جاتا ہے جس وقت ایک جنس سال میں سب سے سستی ہے اس وقت اس کو خرید کر سٹور کرنا یہ ہماری ذمہ داری ہے.اس کی طرف توجہ کریں اور یہ برکت ہے.ہمیں خدا تعالیٰ نے یہ عقل اور فراست دی ہے کہ خدا کے مال کو ضائع نہیں ہونے دینا.۶۲.مہمانوں کے لئے ہنگامی طور پر بھی کھانے پینے کی چیزیں منگواتے ہوئے آپ کو سلسلہ کے پیسے کا خاص احساس ہو تا تھا چنانچہ مکرم فضل دین صاحب اپنا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ”ایک دفعہ میں تحریک جدید کے دفتروں میں رنگ کر رہا تھا کہ پیغام آیا کہ جلدی آکر بات سن جاؤ.چونکہ میرا کام زیادہ تھا اور ۲۲ دسمبر دن کے دو بجے کی بات ہے میں نے پیغام لانے والے کو جواب دیا کہ مجھے فرصت نہیں.وہ دوسری دفعہ آیا تو بھی یہی جواب دیا.جب تیسری بار آیا تو محمد یعقوب میرے چھوٹے بھائی نے کہا کہ بھائی جا کر پتہ کر کہ کیا کام ہے؟ جب میں ریلوے پھاٹک پر پہنچا تو کالج کی طرف سے کالی موٹر دوڑی آ رہی تھی.وہ آدمی بھی میرے ساتھ تھا جو پیغام لے کر آیا تھا.کار میں صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب سوار تھے فرمایا.شریف اس کا سائیکل تم لے کر انصار اللہ کے دفتر آ جاؤ.مجھے کار میں بٹھا لیا اس میں چوہدری ظہور احمد صاحب ناظر دیوان اور عبد اللطیف صاحب بھٹہ والے بھی تھے.جب انصار اللہ کے دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ جلسہ سالانہ کے آلو، ادرک، پیاز، لہسن، ہر چیز لانی ہے اور ساتھ ہی فرمایا کہ چیزیں مہنگی نہ ہوں اور اگر یہ چیزیں کل بارہ بجے تک نہ آئیں اور جلسہ سالانہ کے مہمانوں کو کھانا نہ ملا تو مہمان تجھے دعائیں نہیں دیں گے." اسی طرح کا ایک اور واقعہ فضل دین صاحب بیان کرتے ہیں کہ انہیں جلسہ سالانہ کے لئے پتھر کا کوئلہ منگوانے کے لئے بارش میں دور بھجوایا جہاں انہیں ٹرین پر اور بارش میں دور تک پر خطر رستے پر پیدل جانا پڑا اور اگلے روز نصف شب کو ان کے
334 واپس آنے پر رپورٹ طلب فرمائی.اپنے زمانہ خلافت کے دوران اپنے سابقہ تجربات کی بنا پر آپ نہایت قیمتی نصائح سے نوازتے رہے اور جلسہ سالانہ سے پہلے ہر سال ایک خطبہ جمعہ بطور خاص جلسہ سالانہ کے انتظامات اور ربوہ کی صفائی اور تزئین کے متعلق ارشاد فرماتے رہے اور بڑے اہتمام سے جلسہ سالانہ کے انتظامات کے آغاز پر جب رضا کار ہفتے دو ہفتے قبل ہی حاضر ہو جایا کرتے تھے آپ افتتاح فرماتے ، نصائح فرماتے اور دعا کرواتے اور ہر شعبہ کے ناظم سے مصافحہ فرماتے اور پھر افسر جلسہ سالانہ کے دفتر میں تشریف لے جاتے اور انتظامات کا معائنہ کرتے اور قیمتی ہدایات سے نوازتے.آپ جلسہ سالانہ کے امور کو اس لئے خاص اہمیت دیتے تھے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کے دسمبر ۱۸۹۲ء کے اشتہار میں فرمایا تھا." اس جلسہ کو معمولی انسانی جلتوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر ہے جس کی خالص تائید حق اور اعلاء کلمہ اسلام پر بنیاد ہے.اس سلسلہ کی بنیادی اینٹ خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے رکھی ہے اور اس کے لئے قومیں تیار کی ہیں جو عنقریب اس میں آملیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں."" یہ اللہ تعالی کی عجیب شان ہے کہ بیرون ممالک کے وفود کی جلسہ سالانہ ربوہ میں با قاعدہ شمولیت بھی آپ کے زمانہ خلافت میں شروع ہوئی.اس کے نتیجے میں انتظامات میں جو وسعت پیدا ہوئی اس کا ابتدائی انتظامات سے موازنہ کرتے ہوئے حضور نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا :." آج کی دنیا وہ دنیا نہیں رہی جس میں لجنہ کی تنظیم قائم ہوئی تھی.۱۹۲۲ء میں، مجھے اچھی طرح یاد نہیں ہے کیونکہ اس وقت میری عمر ۱۳ سال تھی اور اماں جان حضرت ام المومنین ان کے ساتھ ہی میں لگا رہتا تھا.ویسے تو بعض بچے آٹھ سال کی عمر میں بھی آزاد ہو جاتے لیکن میں آزاد نہیں ہوا تھا.اس میں بھی اللہ تعالیٰ کی کوئی ہیں
335 مختلف حکمت تھی.۱۹۲۴ء کا زمانہ جس میں میری والدہ محترمہ امتہ الحی صاحبہ کی وفات ہوئی ، گو دن کے آخری لمحات کے کچھ حصے میرے ذہن نے محفوظ رکھے ہوئے ہیں لیکن زیادہ علم نہیں ہے، اس وقت اور اس کے چند سال بعد جس وقت ہم مدرسہ احمدیہ میں پڑھا کرتے تھے (ہم سے مراد میرے دوست اور ساتھی ہیں) یعنی ۲۸.۱۹۲۷ء میں قادیان کا جو ماحول تھا اور اس کے جو حالات تھے جنہیں ایک بچہ ذہن نے یاد رکھا ہے وہ آج کے حالات سے کم از کم ایک ہزار گنا ہیں.پھر خلافت جو بلی آئی.وہ بھی دراصل جماعت کا ایک موڑ تھا کیونکہ ۱۹۳۹ء کے جلسہ سالانہ پر یک دم پندرہ ہزار افراد کی زیادتی ہو گئی.مجھے وہ جلسے بھی یاد ہیں جن میں سارے جلسہ کے مهمان جو کھانا کھانے والے تھے ان کی تعداد بارہ تیرہ ہزار ہوا کرتی تھی مگر اب خدا کے فضل سے کھانا کھانے والوں کی تعداد ستر ہزار تک اور مہمانوں کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی ہے.اب کچھ مہمان باہر بھی کھانا کھاتے ہیں لیکن اس زمانہ میں قریباً سارے مہمان لنگر کا کھانا کھایا کرتے تھے.پس اس وقت مہمانوں کی وہ صحیح تعداد سمجھی جائے گی جو کھانے کی پرچی کے لحاظ سے تھی اور مہمانوں کی صحیح تعداد آج وہ نہیں جو آج کھانے کی پرچی ہے.اس وقت بارہ تیرہ ہزار کی تعداد میں مہمان ہوتے تھے آج کل کا ہیں سالہ جوان کہے گا بھلا بارہ تیرہ ہزار کو کھانا کھلانا یہ بھی کوئی انتظام ہے؟ اور اس وقت خود میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور میرے ذہن نے یاد رکھا کہ بعض دفعہ رات کے گیارہ بج جاتے تھے اور ہم مہمانوں کو کھانا کھلانے کے قابل نہیں ہوتے تھے مگر انتظام آہستہ آہستہ ترقی کرتا ہے.انسان کو درجہ بدرجہ تجربہ حاصل ہوتا ہے.وہ ارتقائی ادوار میں سے گزر کر ہی انتظامیہ میں کسی واضح لائحہ عمل کو اختیار کر پاتا
336 ہے.چنانچہ آج سے کوئی آٹھ نو سال پہلے جس وقت کوئی پچاس ساٹھ ہزار مہمانوں کو ہم کھانا کھلاتے تھے اور میں افسر جلسہ سالانہ تھا تو لائل پور کی ایک جماعت نے ٹھیک آٹھ بجے حضرت مصلح موعود ی اللہ کی خدمت میں میری یہ شکایت لکھی کہ آٹھ بج گئے ہیں اور ہمیں ابھی تک کھانا نہیں ملا.میں بڑا خوش ہوا.میرے سامنے وہ پرانے واقعات آگئے کہ کجا وہ زمانہ کہ رات کے گیارہ بج جاتے تھے اور ہم کھانا کھلانے سے فارغ نہیں ہو سکتے تھے یا اب خدا کے فضل سے یہ زمانہ آگیا کہ اس سے پانچ چھ گنا زیادہ کھانا کھانے والوں کی تعداد ہے اور آٹھ بجے ہی مہمانوں کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ہماری کے اندر کوئی خرابی پیدا ہو گئی ہے جس کی وجہ سے ہمیں کھانا ا نہیں ملا.حالانکہ اس وقت رات کے گیارہ بج جاتے تھے اور مہمانوں کو یہ احساس پیدا نہیں ہو تا تھا کہ دیر ہو گئی ہے.بیدار مغزی کا ایک واقعہ ه جلسہ سالانہ کے موقع پر جس محنت اور بیدار مغزی سے آپ کام کرتے تھے محترم ملک محمد عبد اللہ صاحب اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک واقعہ یوں بیان کرتے ہیں:." آپ کی ایک نہایت عمدہ صفت یہ بھی تھی کہ آپ اپنے ارد گرد کے حالات سے اچھی طرح واقف رہتے تھے.ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے ایام تھے.آپ رات دن جلسہ کے انتظامات کی دیکھ بھال اور نگرانی میں مصروف رہتے تھے.مکرم قاضی عبدالرحمان صاحب سپرنٹنڈنٹ تعلیم الاسلام کالج اور خاکسار اکثر آپ کے ہمراہ ہوتے تھے.آپ کے پاس ان دنوں ایک سیاہ رنگ کی چھوٹی کار ہوتی تھی جسے عام طور پر آپ خود ہی ڈرائیو فرمایا کرتے تھے.اس کار میں آپ جلسہ سالانہ کے انتظامات کی نگرانی کر کے نصف شب کے قریب اپنی کو ٹھی میں واپس آ
337.رہے تھے کہ راستہ میں آپ نے دیکھا کہ جامعہ احمدیہ کی عمارت سے دو آدمی سیمنٹ کے تھیلے باہر لا رہے ہیں.آپ نے ہم سے فرمایا کہ تم نے دیکھا کہ یہ آدمی سیمنٹ کے تھیلے باہر نکال رہے ہیں.اس نصف شب کے وقت ہم نے کوئی توجہ ہی نہیں دی تھی آپ نے اپنی کو بھی آکر سب سے پہلے محترم میر داؤد احمد صاحب کو جو ناظم جلسہ سالانہ تھے فون کیا کہ جامعہ کی عمارت سے اس وقت سیمنٹ باہر لے جایا جا رہا ہے.آپ کے علم میں ہے؟ تو حضرت میر صاحب نے فرمایا کہ ہاں میں نے ہی منگوایا ہے.لنگر خانہ نمبر ۲ میں مرمت ہو رہی ہے وہاں اس کی ضرورت خاکسار عرض کرتا ہے کہ جلسہ سالانہ کے ایام بہت ہی بابرکت ہوتے ہیں، ساری ساری رات ان ایام میں خدمت خلق کا کام ہوتا ہے اور کوئی تھکان نہیں ہوتی.سبھی کارکن خدمت کے جذبہ سے سرشار ہوتے ہیں اور ایسا کیوں نہ ہو جب کہ اس کی نگرانی کرنے والے حضرت صاحبزادہ صاحب جیسے بابرکت وجود تھے جو دن رات نگرانی کے ہے.کام میں مصروف رہتے تھے.جلسہ سالانہ پر تقاریر et قادیان کے زمانہ سے ہی حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی جلسہ سالانہ پر تقاریر کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا چنانچہ جلسہ سالانہ ۱۹۴۴ ء پر آپ نے تمدن اسلام کا اثر اقوام یورپ پر اور احمدی نوجوانوں سے خطاب ۶۵؎ کے موضوعات پر تقاریر فرمائیں.۱۹۵۴ء کے جلسہ سالانہ پر آپ نے "اشتراکیت کے اقتصادی اصول کا اسلامی اقتصادی اصول سے موازنہ" کے موضوع پر معرکتہ الا را تقریر فرمائی آپ کی تقریر کے چند اقتباسات یہ ہیں:.
338 ہے." اشتراکیت صبح کاذب ہے جو صبح صادق کے آنے کی خوش خبری دیتی ہے جس کے سامنے صبح کاذب کا وجود نہیں ٹھہر سکتا..اسلامی اقتصادیات میں ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ ایک بین الاقوامی تمدن کی بنیاد رکھتی ہے.دنیا میں آج تک کوئی اقتصادی تحریک جاری نہیں ہوئی جسے صحیح معنوں میں بین الاقوامی کہا جا سکتا ؟ اسلام اس کے برعکس ایک مذہبی تحریک ہونے کے ملک ملک ، نسل نسل اور قوم قوم میں کوئی امتیاز نہیں کرتی.جس طرح وہ اپنے پہلے دور میں دنیا کے بہت سے ممالک میں پھیل گیا اور ایک شاندار بین الاقوامی برادری اس نے قائم کی، اپنے دور ثانی میں بھی وہ تمام دنیا پر چھا جائے گا..در اصل احمدیت کا آخری ٹکراؤ اشتراکی روس کے ساتھ مقدر ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا ہے کہ زار روس کا عصا میرے ہاتھ میں آگیا ہے.اشتراکی نظام میں یقیناً یہ خوبی ہے کہ وہ سرمایہ داری کی بھیانک تصویر کے خلاف ایک بھاری رد عمل ہے مگر پنڈولم کی حرکت کی طرح وہ دوسری انتہا کی طرف نکل گیا ہے اور شاید سرمایہ داری سے بھی خطرناک بننے والا ہے." آپ نے قبل از خلافت جو تقاریر فرمائیں ان میں سے بعض کی تفصیل درج ذیل રા ه جلسہ سالانہ لاہور ۱۹۴۸ء ” انشورنس اور بنکنگ کے متعلق اسلامی نظریہ " جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۵۰ء ”دنیا کی اقتصادی مشکلات کا حل اسلام کی رو سے " جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۵۱ء ”اسلامی پردہ اور اس پر اعتراضات کے جوابات" جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۵۴ء ”بین الاقوامی کشمکش کے متعلق حضرت مسیح موعود کی پیشگوئیاں" جلسہ سالانہ ربوه ۱۹۵۶ء ہستی باری تعالٰی"
339 جلسہ سالانہ ریوہ ۱۹۵۷ء ” اسلامی حکومت اور مذہبی رواداری جلسه سالانه ربوه ۱۹۵۸ء "مذہبی رواداری" ه جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۵۹ء " تعلق باللہ " جلسہ سالانہ ریوه ۱۹۶۰ء ”اسلام اور غیر مسلم رعایا " جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۶۲ء " اسلامی پر وہ " جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۶۳ء "ختم نبوت کا صحیح تصور" جلسه سالانه ربوه ۱۹۶۴ء ”اسلام کا اقتصادی نظام " ممبر نگران بورڈ مجلس مشاورت ۱۹۶۱ء کے موقع پر ایک تجویز یہ پیش ہوئی تھی کہ "جس طرح قادیان میں دفاتر صدر انجمن احمدیہ کے کاموں کا جائزہ لینے کے لئے ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر تھا اسی طرح اب بھی ایک تحقیقاتی کمیشن مقرر کیا جائے جو صدر انجمن احمدیہ، تحریک جدید اور وقف جديد کرے." کے L کام اور دفاتر کا معائنہ کرے اور شکایات پر غور اس تجویز کے متعلق سب کمیٹی نے یہ مشورہ پیش کیا کہ " "سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے ایک ایسا بورڈ مقرر ہو جو صدر انجمن احمد یہ اور تحریک جدید اور وقف جدید کے کاموں کی نگرانی کرے اور جماعتوں سے تجاویز حاصل کرے کہ ہر سہ ادارہ جات مذکوره کا کام بیش از پیش ترقی پذیر ہو.اس بورڈ کے سات ممبران ہوں یعنی صدر انجمن ، تحریک جدید اور وقف جدید کے صدر صاحبان اور تین ممبر جماعتہائے احمدیہ کی طرف سے نمائندہ ہوں اور حضور سے عرض کیا جائے کہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو اس کا صدر مقرر فرمایا جائے اور صدر صاحب
340 موصوف ہی جماعتوں سے تین نمائندے خود منتخب فرما لیں.اس بورڈ کا یہ بھی فرض ہو کہ وہ صدر انجمن احمدیہ اور مجلس تحریک جدید اور مجلس 246 وقف جدید میں رابطہ رکھے.۶۷۴؎ بعد از بحث شوری کے ممبران نے سفارش کی کہ نگران بورڈ کی تشکیل کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے منظوری حاصل کی جائے چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے نگران بورڈ کے قیام کو منظور فرمایا اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب صدر صدر انجمن احمد یہ ہونے کی حیثیت سے اس کے ممبر مقرر ہوئے آپ ۱۹۶۵ء تک نگران بورڈ کے ممبر رہے.چنانچہ ۱۹۶۳ء کی مشاورت پر صدر صاحب مجلس نے فرمایا:.نگران بورڈ جو مشاورت کے فیصلے کے نتیجہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری کے ساتھ دو سال ہوئے قائم ہوا تھا.اس کا کام صدر انجمن احمدیہ اور تحریک جدید اور وقف جدید کے مختلف صیغہ جات کا معائنہ اور نگرانی کرنا اور حسب ضرورت اصلاحی ہدایات جاری کرنا ہے.۶۸؎ خلیفہ وقت کی لمبی بیماری کے دوران نگران بورڈ کی ذمہ داری بہت نازک تھی.آپ نے اس ذمہ داری کو بھی نہایت احسن رنگ میں نبھایا.۱۹۶۴ء میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی وفات کے بعد حضرت مرزا عبد الحق صاحب نگران بورڈ کے صدر مقرر ہوئے.یہ بورڈ حضرت مصلح موعود کے وصال تک قائم رہا حتی کہ اللہ تعالی کی غالب تقدیر کے تحت آپ خلافت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہو گئے.
341 حاشیہ جات باب چهارم ک ماہنامہ مصباح حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء جنوری ۱۹۸۳ء ص ۳۵ که تاسی ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۴۱ ه ۶ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۴۱-۱۴۲ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۴۳٬۱۴۲ روزنامه الفضل ربوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۵۹ و ايضا وی ماهنامه خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۴۱ بحوالہ الفضل ۴ فروری ۱۹۷۰ء الله ايضاً ص ۱۴۷ ۱۲ ماهنامه خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۳۵ ۱۳ خطبه جمعه فرموده ۲۶ ستمبر ۱۹۶۹ ء بحوالہ اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول اور فلسفہ خطبات حضرت امیر المومنین حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفة المسیح الثالث " ص ۱۲۰ ۱۴ ماهنامه خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۹۹ ۱۵ ماهنامه خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۰۱ ال ایضاً ص ۷ ۱۴ ۱۴۸ عد تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۷۴ء جلسہ سالانہ کی دعائیں ص ۷ ۸ تا ۹۰ ۱۸ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۳۰۱۰۳۰۰ ول روزنامه الفضل ربوہ حضرت خلیفة المسیح الثالث نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۵۷٬۵۶ ۲۰، بحواله روزنامه الفضل ربوه ۱۸ اپریل ۱۹۸۴ء ص ۳ ا تاریخ احمدیت جلد یاز دہم ص ۲۹۷-۲۶۸ ۲۲ روزنامه الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۷۵ء " بحوالہ کاروان سخت جان" ص ۱۴۲ تا ۱۴۸ ناشر اداره رابطه قرآن دفاتر محاسبات دفاع پاکستان راولپنڈی مارچ ۱۹۵۱ء ۲۳ تقریر جلسہ سالانہ ربوہ ۲۷ دسمبر ۱۹۷۹ء ۲۴ تاریخ احمدیت جلد یازدهم ص ۴۰۶ ۲۵ تاریخ احمدیت جلد ششم ص ۶۷۰ اس تاریخ احمدیت جلد ششم ص ۶۷۵٬۶۷۴ بحوالہ الفضل ۲۳ جون ۱۹۵۰ء ۲۷ تاریخ احمدیت جلد ششم ص ۶۷۶٬۶۷۵ بحوالہ الفضل ۱۷ مئی ۱۹۴۹ء
342 ۲۸ روزنامه الفضل ربوہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۶۷۶۶ ۲۹ مشعل راه ص ۶۳۴ بحواله الفضل ۱۰ جنوری ۱۹۵۵ء ۳۰ تاریخ احمدیت جلد سیزدهم ص ۱۸۴ بحواله الفضل ۱۰.اپریل ۱۹۴۹ء اس تاریخ احمدیت جلد پانزدهم ص ۸۳ ۳۲ تاریخ احمدیت پانزدهم ص ۴۱۳ " س خدام الاحمدیہ رپورٹ سال چهارم مطبوعہ ص ۳ تا ۶-۴۲-۱۹۴۱ء ۳۴ خطاب سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ مورخہ کے نومبر ۱۹۵۴ء بحوالہ مشعل راہ ص ۷۹۶ ۳۵ ماهنامه تشخیز الاذهان "ناصر دین نمبر " اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۶۰٬۵۹ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۱۸ تا ۱۲۳ ۳۷ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۸۳ ۳۸ خطبه جمعه فرموده ۲۶ جولائی ۱۹۴۰ء بحوالہ تاریخ انصار الله ص ۳۹ وس تقریر فرموده ۲۷ دسمبر ۱۹۴۱ء مطبوعہ ۲۶ اکتوبر ۱۹۶۰ء ۲۰ روزنامه الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۴۵ء ام تاریخ انصار الله ص ۹۲ ۴۲ تاریخ انصار الله ص ۱۰۲ تا ۱۰۴ بحواله الفضل ۲۳ دسمبر ۱۹۵۸ء تاریخ انصار الله ص ۲۶۷ ی تاریخ انصار الله ص ۱۴۱ ۴۵ تاریخ انصار الله ص ۱۳۲ ۱۲۴ ۲۶ تاریخ انصار الله ص ۲۸۰٬۲۷۹ ۴۷.مضمون "زبان" حضرت خلیفة المسیح الثالث قبل از خلافت مطبوعہ ماہنامہ انصار اللہ نومبر دسمبر ۱۹۷۰ء بحواله روزنامه بالفضل ربوہ 9 جنوری ۱۹۷۶ء ۴۸ ۹ ماهنامه تشخیز الاذہان ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۸۳ ۲ ۸۵ ه مصباح دسمبر ۱۹۸۲ء ، جنوری ۱۹۸۳ء ص ۸۵٬۸۴ اله خطبه جمعه فرموده ۲۴ مارچ ۱۹۷۸ء - ۲ تا ۴ ۵ ملفوظات جلد ۷ ص ۱۱۹ ۵۵ ۵۶، رپورٹ مجلس مشاورت ۶۱۹۶۵ (۲۶ ۲۷ ۲۸ مارچ ص ۷ ۱۵ تا ۱۶۲) ۵۷، ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۵۶٬۱۵۵ ه روزنامه الفضل ربوہ حضرت خلیفة المسیح الثالث نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۸۱ وه، ماهنامه خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۰۹٬۱۰۸
343 ۶۰ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۲۸٬۱۲۷ ے ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۲۹٬۱۲۸ ۲۲ خطبه جمعه فرموده ۲۴ مارچ ۱۹۷۸ء ۶۳ تبلیغ رسالت ( مجموعه اشتهارات حضرت مسیح موعود) ص ۱۲۰ ۶۴؎ خطاب لجنہ اماء الله ۱۸ نومبر ۱۹۷۲ء بر موقع گولڈن جوبلی ۶۵ ۶۶ تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۵۳۳٬۲۱۱ ۲۷ رپورٹ مجلس مشاورت جماعت احمد یہ بمقام ربوه ۲۶٬۲۵٬۲۴ مارچ ۱۹۶۱ء ص ۳۶٬۳۵ ۲۸ رپورٹ مجلس مشاورت جماعت احمدیہ بمقام ربوہ منعقده ۱۹۷۳ء i
344
345 باب پنجم حضرت مصلح موعود کی بیماری آپ کی اور معمولی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ
346
347 حضرت مصلح موعود کی بیماری اور حضرت میاں ناصر احمد صاحب کی ذمہ داریوں میں غیر معمولی اضافہ ۵۵.۱۹۵۴ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ بیمار ہو گئے.حضور کی بیماری کی وجہ سے حضرت میاں ناصر احمد صاحب کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ گئیں اس دوران بعض منافقوں نے سر اٹھایا اور ۱۹۵۶ء میں ایک بہت بڑا فتنہ کھڑا کر دیا.ان کا ایک ہدف حضرت میاں صاحب کی ذات ستودہ صفات بھی تھی جو اپنی غیر معمولی صلاحیتوں اور عظیم الشان خدمات سلسلہ کے باعث جماعت میں ایک نمایاں اور قد آور مقام حاصل کر چکی تھی.منافقین کو یہ خوف اندر ہی اندر کھائے جا رہا تھا کہ کہیں حضرت مصلح موعود کی وفات کے بعد صلحائے جماعت کی نظر انتخاب آپ پر نہ پڑ جائے.وہ بزعم خود قبل از وقت ہی اس امکانی خطرے کو راستے سے ہٹانا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے باقاعدہ منصوبہ بنا کر آپ کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ شروع کر دیا.ایک طرف خلیفہ وقت اور شفیق باپ کی بیماری کا غم، اوپر سے بڑھتی ہوئی جماعتی ذمہ داریاں ادھر منافقین کی ریشہ دوانیاں شروع ہوئیں.آپ نے ان آزمائش کی گھڑیوں میں نہایت صبر و تحمل کا نمونہ پیش کیا.چنانچہ پروفیسر چوہدری محمد علی صاحب لکھتے ہیں.کالج اور یونیورسٹی کے پس منظر میں حضور کی مقبولیت اور محبوبیت کا اندازہ تو ہم سب کو تھا لیکن خدام الاحمدیہ کے اجتماعات کی شوری کے موقع پر اور کبھی کبھی دیگر مواقع پر یہ احساس بھی ہوتا تھا کہ ایک طبقہ ایسا ہے جن کو حضور سے خدا واسطے کا بیر ہے.حضور کی مظلومیت کا کچھ
348 علم خاکسار کو ہوا جب ایک نہایت غلیظ گالیوں سے بھرا ہوا خط کسی نے مجھے لکھا جسے میں برداشت نہ کر سکا اور وہ خط حضور کی خدمت میں پیش کر کے اجازت چاہی کہ مجھے ہوسٹل، باسکٹ بال اور دیگر فرائض سے فارغ فرمایا جائے.حضور مجھے رہائش گاہ پر لے گئے، ڈرائنگ روم کے ساتھ والی سٹڈی میں بٹھایا، اندر تشریف لے گئے اور ایک بستہ لا کر میرے سامنے رکھ دیا اور فرمایا کہ اسے پڑھو.میں نے پہلا خط ہی تھوڑا سا پڑھا تھا کہ تاب نہ لا سکا، خدا جانتا ہے کہ میرا دماغ چکرا گیا اور سوچا کہ یہ حسین و جمیل مسکراتا ہوا شگفتہ خوشبودار پھول اندر سے سے کتنا مظلوم ہے.حضور کے وقار اور صبر کی عظمت کی ہیبت دل پر طاری ہوئی.معافی مانگی تو فرمایا کہ اپنی ڈیوٹی پر دلیری سے جسے رہنا ہی اصل بہادری ہے.حالات کچھ ہی کیوں نہ ہوں.کتنا ہی کیچڑ اچھلے اپنے فرض منصبی پر دلیری سے قائم رہیں.پھر تو یہ معمول ہو گیا کہ ڈاک کھولتے تو کوئی نہ کوئی ایسا ہی خط تھما دیتے یہاں تک کہ عاجز فریاد کر اٹھا." ایک طرف حاسدوں کی طرف سے آپ کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا تھا اور دوسری طرف آپ کے اندر اتنی شرم و حیا اور شہرت سے نفرت پائی جاتی تھی اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ آپ نے کبھی پسند نہ کیا کہ خطوط ، پمفلٹ یا کسی اور ذریعہ سے ان لوگوں کو بے نقاب کر کے اپنی مظلومیت کو ظاہر کریں.آپ تو کل کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے اور آپ نے قرآن کریم کی آیت وَ أُفَوِّضُ أَمْرِى إِلَى اللَّهِ (المومن (۴۵) کے تحت اپنا معاملہ صرف اللہ تعالٰی کے سپرد کیا ہوا تھا تاکہ ہر ایک اعتراض جو آپ پر کیا جا رہا تھا اس کا وہ خود جواب دے کیونکہ آپ کا اپنے پیدا کرنے والے رب سے ایک مضبوط تعلق تھا جس سے دنیا نا آشنا تھی.آپ ۱۹۴۲ء سے الہام الہی سے سرفراز ہو چکے تھے اور یہ سلسلہ جاری و ساری تھا لیکن آپ نے اس کی معمولی سی تشہیر کو بھی پسند نہ کیا اور اگر کبھی کسی قریبی دوست کو اس سے آگاہ بھی کیا تو اس سے قسم لے لی کہ اس کا کسی سے ذکر نہیں کرنا.Jee
349 چنانچہ اس امر کا ذکر سب سے پہلے آپ کی وفات کے بعد آیا جیسا کہ جناب ثاقب زیروی صاحب مدیر ہفت روزہ لاہور نے اپنے مضمون "نقش اولین" میں آپ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا.”جس کی شیریں زبان سے سب سے پہلی دفعہ ”اپنے رب سے راز و نیاز کی گفتگو سننے کا ۱۹۴۲ء میں شرف حاصل ہوا.اس ہدایت" کے ساتھ کہ ”ثاقب اس کا ذکر کسی سے نہ کرنا اس کے بعد یہ سلسلہ جاری رہا، روح ان پاکیزه و پر انوار مکالمات سے اکثر سیراب ہوتی رہی لیکن اس "ہدایت اولین" کے باعث لبوں پر ہمیشہ مہر سکوت لگی رہی.که ان دنوں آپ کی جو کیفیت تھی اسے دیکھنے والوں نے دیکھا اور بیان کرنے والوں نے بیان کیا.اس سلسلہ میں مولوی ابوالمنیر نور الحق صاحب تحریر فرماتے ہیں." تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی عمارت کے مشرقی جانب آپ کی رہائش گاہ تھی.وہاں آپ کے پاس گل خان نامی ایک پٹھان چوکیدار تھے جو نهایت مخلص اور نیک آدمی تھے.۱۹۵۵ء سے انتخاب خلافت تک کے زمانہ میں اکثر میں آپ کے پاس بعض کاموں کے لئے آتا جاتا رہتا تھا.میں نے ایک دن گل خان صاحب سے یہ پوچھا کہ سناؤ! میاں صاحب کی زندگی کیسے گزرتی ہے.کہنے لگے رات گئے تک اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے بعد گھر آتے ہیں اور تھوڑی دیر آرام فرمانے کے بعد نماز شہد کے لئے اپنے ڈرائنگ روم میں آ جاتے ہیں اور بڑی آہ وزاری کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر گر جاتے ہیں وہ ایک لمبا وقت رو رو کر خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے ہیں.وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت میاں صاحب کے اس عمل میں کبھی ناغہ نہیں دیکھا."
350 خلافت ثانیہ کا آخری جمعہ اور حضرت مصلح موعود کا آپ کو جمعہ پڑھانے کا ارشاد ۵ نومبر ۱۹۶۵ء کا جمعہ حضرت مصلح موعود بنی ایشن کی خلافت کا آخری جمعہ ثابت ہوا.اس روز حضرت میاں ناصر احمد صاحب کو جمعہ پڑھانے کا ارشاد ملا.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ حرم حضرت مصلح موعود بیان کرتی ہیں:.2 " خلیفہ خدا بناتا ہے اور اللہ تعالیٰ انتخاب کے وقت مومنین کے دلوں کو اس طرف پھیر دیتا ہے.ہر خلافت کے وقت ایسا ہی ہوا.حضرت مصلح موعود کی بیماری کے آخری ایام تھے.....جمعہ کے دن موزن پوچھنے آیا کہ جمعہ کون پڑھائے ؟ عموماً آپ نے فرمانا، شمس صاحب یعنی مولانا جلال الدین صاحب شمس، کبھی شمس صاحب مرحوم ربوہ سے باہر گئے ہوتے تو فرماتے مولانا ابو العطاء صاحب یا قاضی محمد نذیر صاحب جمعہ پڑھا دیں.وفات سے دو تین دن پہلے جمعہ تھا موذن پوچھنے آیا تو آپ نے فرمایا:." ناصر احمد " مجھے اس وقت تعجب ہوا کہ اس سے پہلے مجھے یاد نہیں کبھی کہا ہو دوبارہ پوچھا تو پھر یہی کہا کہ " ناصر احمد" دفتر کا آدمی اطلاع دینے گیا تو حضرت مرزا ناصر احمد صاحب جمعہ پر جانے کے لئے تیار ہو رہے تھے.خیال بھی نہ تھا کہ جمعہ پڑھانا پڑے گا.حکم کی تعمیل کی.یہ بھی یقیناً خدا تعالٰی کی طرف سے ایک اشارہ تھا کہ آئندہ خلافت کی ذمہ داریاں ان پر پڑنے والی ہیں."
351 حضرت مصلح موعود کا وصال اور آپ کی کیفیت بالاخر وہ گھڑی آن پہنچی جن سے دل گھبرا رہے تھے ، اور ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی شب کو حضرت مصلح موعود ہی اللہ کا وصال ہو گیا.كُلُّ مَنْ عَلَيْهَا فَانٍ وَّ يَبْقَى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلَلِ وَالْإِكْرَامِ (الرحمن : ۲۸٬۲۷) اس موقع پر آپ کی جو کیفیت تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے آپ کی ایک بہن صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ بیان کرتی ہیں." مجھے وہ وقت کبھی نہیں بھولتا جب میرے ابا جان (حضرت مصلح موعود) کی وفات کے بعد میں ان کے کمرے سے باہر نکلی تو سامنے بھائی جان کھڑے تھے.آپ کے چہرے پر بھی شدید دکھ کے آثار تھے.آپ نے آگے بڑھ کر مجھے سینے سے لگالیا اور میرے سر پر پیار کر کے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ صدمہ بہت بڑا ہے مگر اس وقت ساری جماعت کے لئے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر قسم کے انتشار سے بچائے اور ایک ہاتھ پر اکٹھا کرے.میرے آنسو رک گئے اور میں جماعت کے لئے دعا میں لگ گئی اور یوں مجھے پہلا سبق اپنے ذاتی غم سے زیادہ جماعت کے ایک ہاتھ پر اکٹھے ہونے اور خلافت کی اہمیت کا دیا.....ابا جان کی وفات کے بعد جب تک خلافت کا انتخاب نہیں ہو گیا میں بے چینی کے ساتھ پھرتی کبھی ایک کمرے میں جاتی کبھی دوسرے میں چین نہیں آ رہا تھا.میرے ابا جان کو اوپر کے کمرے سے نیچے لے جایا جا چکا تھا.ابا جان کا ایک کمرہ جو دفتر تھا وہ بند پڑا تھا گھبرا کر اوپر گئی که شاید تنہائی ملے ، اتنے میں بھائی جان کو دیکھا کہ اس کمرے میں بیٹھے ہوئے ہیں، آنکھیں صدمہ سے سرخ مگر قرآن شریف کی تلاوت کر رہے ہیں.ه
352 ل ماہنامہ خالد سید نا ناہ حوالہ جات باب پنجم ناصر نمبر ا پریل مئی.۱۹۸۳ء ص ۸۲ ماہنامہ مصباح حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء جنوری ۱۹۸۳ء ص ۸۱ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۲۶ ۱۲۷ ہی ماہنامہ مصباح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء جنوری ۱۹۸۳ء ص ۳۶ ه ماهنامه مصباح حضرت خلیفة المسیح الثالث " نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء جنوری ۱۹۸۳ء ص ۳۶
مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ مرکز یہ حضرت مصلح موعود کے ساتھ
فرقان فورس کے مجاہدین کے ساتھ ایک گروپ فوٹو حضرت مرزا عزیز احمد کے ساتھ فرقان فورس کا معائنہ
سالانہ اجتماع کے موقع پر بحیثیت صدر مجلس انصار اللہ مر کز یہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا استقبال
اجتماع مجلس انصار اللہ کے موقع پر حضرت صاحبزاہ مرزا بشیر احمد صاحب کا خطاب اسی اجتماع میں حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ کا خطاب
پر نسپل تعلیم الاسلام کالج
حضرت مصلح موعود کے ساتھ کالج سٹاف کا گروپ فوٹو
ربوہ میں کالج کے افتتاح کے موقع پر کالج کے کانووکیشن میں حضرت مصلح موعود کا خطاب
بطور پرنسپل کالج کے دفتر میں پروفیسر نصیر احمد خان اور کالج کے اساتذہ اور طلباء کے ساتھ
کالج یونین کی ایک تقریب میں ڈاکٹر حمید احمد پر نسپل گورنمنٹ کالج لاہور اور صوفی تبسم کے ساتھ دوسرے کالجوں کے پروفیسر صاحبان کے ساتھ
کانووکیشن کے بعد ڈگری پانے والے طلباء کے ساتھ باسکٹ بال ٹیم کے کپتان کو ٹرافی دے رہے ہیں
کالج میں بعض غیر ملکی احمدی مہمانوں کے ساتھ کالج کے زمانہ میں جلسہ سالانہ پر تقریر فرماتے ہوئے
حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفة المسح الثالث رحم رحمه الله
انتخاب خلافت کے بعد پہلی بیعت پہلی بیعت کے بعد دعا
حضرت خدیۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تدفین کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے روضہ مبارک پر دعا
353 باب ششم انتخاب خلافت i
354 بٹھانا انتخاب خلافت ہوں ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کی شام کو وہ اپنے بعض بھائیوں کے ساتھ عشاء کی نماز کے لئے دعاؤں میں مشغول آیا اور جو نتیوں میں ہی بیٹھ گیا.ایک نوجوان اگر ذرا اپنی جگہ سے ہٹ جاتا تو اس کو بھی مسجد میں جگہ مل جاتی لیکن اس منچلے نے کہا کہ آج اس کو جوتیوں میں ہی ہے.اس جوتیوں میں بیٹھنے والے شخص کا نام مرزا ناصر احمد صاحب تھا عشاء کی نماز کے بعد حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کی صدارت میں انتخاب خلافت کی کارروائی شروع ہوئی.اور یہی جوتیوں میں بیٹھنے والا شخص خلیفہ المسیح الثالث کثرت رائے کے ساتھ منتخب ہو گیا.کب یہ کارروائی شروع ہوئی اور کب ختم اس کو کچھ ہوش نہ تھی وہ تو دعاؤں میں مشغول تھا.پھر چند لوگ آئے اور اس کو جوتیوں سے محراب میں لے گئے ، اور عرض کیا کہ ہم " سے بیعت لیں تب آپ نے سب سے پہلے یہ عہد دہرایا.
355 عهد خلافت " میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں خلافت احمدیہ پر ایمان لاتا ہوں اور میں ان لوگوں کو جو خلافت احمدیہ کے خلاف ہیں باطل پر سمجھتا ہوں اور میں خلافت احمدیہ کو قیامت تک جاری رکھنے کے لئے پوری کوشش کروں گا اور میں ہر غریب اور امیر احمدی کے حقوق کا خیال رکھوں گا اور قرآن شریف اور حدیث کے علوم کی ترویج کے لئے جماعت کے مردوں اور عورتوں میں ذاتی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی کوشاں رہوں گا." اس عہد کے دہرانے کے بعد حضور نے رقت بھرے الفاظ میں احباب سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :.د" یہ ایک عہد ہے جو صمیم قلب کے ساتھ اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر یہ یقین رکھتے ہوئے کہ وہ عالم الغیب ہے ، یہ یقین رکھتے ہوئے کہ لعنتی ہے وہ شخص جو فریب سے کام لیتا ہے، میں نے آپ لوگوں کے سامنے دہرایا ہے.میں حتی الوسع تبلیغ اسلام کے لئے کوشش کرتا رہوں گا اور آپ میں سے ہر ایک کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کا سلوک کروں گا چونکہ آپ نے مجھ پر ایک بھاری ذمہ داری ڈالی ہے اس لئے میں سے امید رکھتا ہوں کہ آپ بھی اپنی دعاؤں اور مشوروں سے میری مدد کرتے رہیں گے کہ خدا تعالیٰ میرے جیسے حقیر اور عاجز انسان سے وہ کام لے جو احمدیت کی تبلیغ اسلام کی اشاعت اور توحید الہی کے
356 قیام کے لئے ضروری ہے اور اپنی رحمت فرماتے ہوئے میرے دل پر آسمانی نور نازل فرمائے اور مجھے وہ کچھ سکھائے جو انسان خود نہیں سیکھ سکتا.میں بڑا ہی کم علم ہوں ، نا اہل ہوں، مجھ میں کوئی طاقت نہیں کوئی نہیں.جب میرا نام تجویز کیا گیا تو میں لرز اٹھا اور میں نے دل میں کہا کہ میری کیا حیثیت ہے؟ پھر ساتھ ہی مجھے یہ بھی خیال آیا کہ ہمارے رے امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے انہیں اپنی بہت سی نعمتوں اور برکتوں سے نوازا تھا فرمایا ہے.کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں جب ہمارے پیارے امام نے ان الفاظ میں اپنے خدا کو مخاطب فرمایا ہے اور اس کے حضور اپنے آپ کو کرم خاکی قرار دیا ہے تو میں اس اپنے آپ کو کرم خاکی کہنے والے سے کوئی بھی نسبت نہیں رکھتا لیکن ساتھ ہی مجھے خیال آیا کہ میں بے شک ناچیز ہوں اور ایک بے قیمت مٹی کی حیثیت رکھتا ہوں لیکن اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ مٹی کو بھی نور بخش سکتا ہے اور اس مٹی میں بھی وہ طاقتیں اور قوتیں بھر سکتا ہے جو کسی کے خیال میں بھی نہیں آسکتیں.وہ اس مٹی میں ایسی چمک دمک پیدا کر سکتا ہے جو سونے اور ہیروں میں نہ ہو.غرضیکہ میرے پاس ایسے الفاظ نہیں جن سے میں اپنی کمزوریوں کو بیان کر سکوں اس لئے آپ دعاؤں سے میری مدد کریں.جہاں تک ہو سکے گا میں آپ میں سے ہر ایک کی بھلائی کی کوشش کروں گا.اختلاف تو ہم بھائیوں میں بھی ہو سکتا ہے لیکن اختلاف کو انشقاق اور تفرقہ اور جماعت میں انتشار کا موجب نہیں بنانا چاہئے.سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی میں اللہ کو اللہ تعالیٰ نے بڑی کامیابی عطا
357 فرمائی اور جو کام خدا تعالیٰ نے ان کے سپرد کیا انہوں نے پوری طرح نبھایا.اب ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو ترقی دیں اور اس میں کمزوری نہ آنے دیں.لہ اس کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل الفاظ میں اراکین سے بیعت لی اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحَدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ اَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحَدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ میں آج ناصر کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوتا ہوں اور اپنے تمام پچھلے گناہوں سے توبہ کرتا ہوں اور آئندہ بھی ہر قسم کے گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا رہوں گا.شرک نہیں کروں گا بدظنی نہیں کروں گا، غیبت نہیں کروں گا، کسی کو بھی دکھ نہیں پہنچاؤں گا دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا، اسلام کے سب حکموں پر عمل کرنے کی کوشش کرتا رہوں گا، قرآن کریم ، احادیث نبویہ اور کتب مسیح موعود علیہ السلام کے پڑھنے پڑھانے ، سننے سنانے میں کوشاں رہوں گا جو نیک کام مجھے آپ بتائیں گے ان میں ہر طرح کا آپ کا فرمانبردار رہوں گا.آنحضرت ملال کو خاتم النبین یقین کروں گا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب دعاوی پر ایمان رکھوں گا.أَسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَاَتُوْبُ اِلَيْهِ - اَسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَآتُوبُ إِلَيْهِ - اَسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَآتُوبُ إِلَيْهِ - رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِى وَ اعْتَرَفْتُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي ذُنُوبِي فَإِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا انْتَ اے میرے رب میں نے اپنی جان پر ظلم کیا اور میں اپنے گناہوں کا اقرار کرتا ہوں تو میرے گناہ بخش کہ تیرے سوا کوئی بخشنے
358 والا نہیں.آمین یہ کارروائی ساڑھے دس بجے شب ختم ہوئی.مسجد مبارک کے باہر ہزاروں احمدی ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہوئے انتظار کر رہے تھے کہ انہیں بھی اسی وقت شرف بیعت حاصل کرنے کا موقع دیا جائے چنانچہ حضور نے اس کی اجازت مرحمت فرمائی اور اس کے بعد بیعت عام ہوئی.- بند کمرے میں دعا مسجد سے حضور قصر خلافت میں تشریف لے گئے اور بند کمرہ میں کم و بیش ڈیڑھ گھنٹہ تک دعاؤں میں مصروف رہے.جب حضور باہر تشریف لائے تو بہت سی عورتوں نے جو وہاں موجود تھیں بیعت لینے کی درخواست کی.چنانچہ سینکڑوں خواتین نے اس وقت بیعت کا شرف حاصل کیا.اعلان "خلیفۃ المسیح الثالث کا انتخاب" سیکرٹری مجلس مشاورت کی طرف سے خلافت ثالثہ کے انتخاب پر جو اعلان شائع ہوا اس کا مکمل متن درج ذیل ہے تمام احباب جماعت احمدیہ کی اطلاع کے لئے اعلان کیا جاتا ہے کہ آج مورخه ۸ نومبر ۱۹۶۵ء بعد نماز عشاء مسجد مبارک ربوہ میں سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الثانی میں اللہ کی مقرر کردہ مجلس انتخاب کا اجلاس بصدارت جناب مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلی صدر انجمن احمد یہ منعقد ہوا جس میں حسب قواعد ہر ممبر نے خلافت سے وابستگی کا حلف اٹھایا اور اس کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب سلمہ ربہ کو آئندہ کے لئے خلیفہ المسیح اور امیر المومنین منتخب کیا.اراکین مجلس انتخاب نے
359 اسی وقت آپ کی بیعت کی، جس کے بعد آپ نے خطاب فرمایا اور پھر تمام موجود احباب نے جن کی تعداد اندازاً پانچ ہزار تھی رات کے ساڑھے دس بجے آپ کی بیعت کی.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس انتخاب کو منظور فرما کر نہایت بابرکت فرمائے.اس طرح ہم ایک دفعہ پھر نازک دور میں سے گزر کر الوصیت کی پیشگوئی کے مطابق ایک ہاتھ پر جمع ہو گئے ہیں وَللَّهِ الْحَمْدِ (سیکرٹری مجلس مشاورت) ۲ اس اعلان کے ذریعہ تمام جماعت احمدیہ عالمگیر کو یہ خوش خبری سنائی گئی کہ خدا کے فضل سے جماعت پھر ایک ابتلاء کے بعد ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو گئی ہے.اور خدا نے خوف کی حالت کو امن کی حالت میں بدل دیا ہے.جناب الہی سے مومنوں کی جماعت کو پھر ایک امام عطا ہوا منافقوں کے سارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے.اور دشمنوں کی خواہشیں حسرت و یاس میں بدل گئیں.حضرت خلیفہ ثالث کا ایک تاریخی خطاب اگلے روز فجر کی نماز کے بعد ۹ نومبر ۱۹۶۵ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث” نے احباب جماعت کے سامنے ایک معرکتہ الارا خطاب فرمایا جو کہ درج ذیل ہے.فرمایا :- ” یہ وقت الہی جماعتوں کے لئے بڑا نازک وقت ہوتا ہے گویا ایک قسم کی قیامت بپا ہے.ایسے وقت میں جہاں اپنے گھبرائے ہوتے ہیں وہاں اغیار برائی کی امیدیں لئے جماعت کو تک رہے ہوتے ہیں اور خواہش رکھتے ہیں کہ شائد یہ وقت اس الہی جماعت کے انتشار یا اس میں کسی قسم کی کمزوری پیدا ہونے یا اس کے اتحاد اس کے اتفاق اور اس کی باہمی محبت میں رخنہ پڑنے کا ہو لیکن جو سلسلہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ سے قائم کیا جاتا ہے وہ ایسے نازک دوروں میں اپنی موت کا پیام نہیں
360 بلکہ اپنی زندگی کا پیام لے کر آتا ہے اور اللہ تعالی قیادت کا انتقال ایک کندھے سے دوسرے کندھے کی طرف اس لئے نہیں کرتا کہ اس کا ایک بندہ بوڑھا اور کمزور ہو گیا اور وہ اس کو طاقت ور جوان رکھنے پر قادر نہیں کیونکہ ہمارا پیارا مولیٰ ہر شے پر قادر ہے بلکہ اس لئے کہ وہ دنیا پر ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ہر نگاہ میری طرف ہی اٹھنی چاہئے، بندہ بڑا ہو یا چھوٹا آخر بندہ ہی ہوتا ہے.تمام فیوض کا منبع اور تمام برکات کا حقیقی سرچشمہ میری ہی ذات ہے.یہ توحید کا سبق دلوں میں بٹھانے کے لئے وہ اپنے ایک بندے کو اپنے پاس بلا لیتا ہے اور ایک دوسرے بندہ کو جو دنیا کی نگاہوں میں انتہائی طور پر کمزور اور ذلیل اور نااہل ہوتا ہے.کہتا ہے کہ اٹھ اور میرا کام سنبھال.اپنی کمزوریوں کی طرف نہ دیکھے اپنی کم علمی اور جہالت کو نظر انداز کر دے، ہاں میری طرف دیکھ کہ میں تمام طاقتوں کا مالک ہوں، میرے سے یہ امید رکھ ، اور مجھ پر ہی توکل کر کہ تمام علوم کے سوتے مجھ سے ہی پھوٹتے ہیں.میں وہ ہوں جس نے تیرے آقا کو ایک ہی رات میں چالیس ہزار کے قریب عربی مصادر سکھا دیے تھے اور میری طاقتوں میں کوئی کمی نہ آئی تھی.میں وہ ہوں جس نے نہایت نازک حالت میں سے اسلام کو اٹھایا تھا اور جب انسان نے اپنی تلوار سے اسے مٹانا چاہا تو میں اس وار اور اسلام کے درمیان حائل ہو گیا.اس وقت دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں موجود تھیں لیکن دنیا کی کوئی طاقت خواہ کتنی ہی بڑی تھی اسلام کو نہ مٹا سکی.ہمارا ہے کہ آج پھر میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں دنیا میں اسلام کو غالب کروں گا اور اسلام دنیا پر غالب ہو کر رہے گا اور ان کمزور ہاتھوں کے ذریعہ سے غالب ہو کر رہے گا.ہم اپنی کمزوریوں کو کیا دیکھیں.ہماری نظر تو اس ہاتھ پر ہے جو ہمیں اپنے کمزور ہاتھوں کے پیچھے جنبش کرتا نظر آتا ہے.ہم اپنی کم طاقتی کا خیال کیوں کریں کیونکہ ہمارا تو کل کہتا
361 تو اس ذات پر ہے کہ جس نے دنیا کی ہر چیز کو اپنے اندر سمیٹا ہوا ہے اور اس کا احاطہ کیا ہوا ہے.کل شام کو اس مجلس انتخاب نے خاکسار کو منتخب کیا ہے اور خدا شاہد ہے کہ آج صبح بھی میری حالت ایسی تھی جیسے اس شخص کی ہوتی ہے کہ جس کا کوئی عزیز فوت ہو جائے تو اس کو یقین نہیں آتا کہ اس کا وہ عزیز اس سے جدا ہو چکا ہے مجھے بھی یقین نہیں آتا میں سمجھتا ہوں کہ شائد میں خواب دیکھ رہا ہوں، یہ کیا ہوا....جس کو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے ڈھال بنایا تھا اس ڈھال کو اس نے ہم سے لے لیا اور اس نے مجھے آگے کر دیا.میں بہت ہی کمزور ہوں بلکہ کچھ بھی نہیں.شاید مٹی کے ایک ڈھیلے میں مدافعت کی قوت مجھ سے زیادہ ہو ، مجھ میں تو وہ بھی نہیں.لیکن جب سے ہمیں ہوش آئی ہے ہم یہی سنتے آئے ہیں کہ خلیفہ خدا بناتا ہے.اگر یہ سچ ہے اور یقیناً یہ سچ ہے تو پھر نہ مجھے گھبرانے کی ضرورت ہے اور نہ آپ میں سے کسی کو گھبرانے کی ضرورت ہے.جس نے یہ کام کرنا ہے وہ یہ کام ضرور کرے گا.اور یہ کام ہو کر رہے گا لیکن کچھ ذمہ داریاں مجھ پر عائد ہوتی ہیں اور کچھ ذمہ داریاں آپ پر ہیں.میں اللہ تعالیٰ کو حاضر و ناظر جان کر آپ لوگوں کو گواہ ٹھراتا ہوں اس بات پر کہ جہاں تک اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھ دی ہے، جہاں تک اس نے مجھے توفیق عطا کی ہے جہاں تک اس نے مجھے طاقت دی ہے ، آپ مجھے اپنا ہمد رد پائیں گے.میں ہر لمحہ اور ہر لحظہ دعاؤں کے ساتھ اور اگر کوئی اور وسیلہ بھی مجھے حاصل ہو تو اس وسیلہ کے ساتھ مددگار ہوں گا اور میں اپنے رب سے یہ امید رکھتا ہوں کہ وہ آپ کو بھی یہ توفیق دے گا کہ آپ صبح و شام اور رات اور دن اپنی دعاؤں سے اپنے اچھے مشوروں سے اپنی ہمدردیوں سے اور اپنی کوششوں سے میری اس کام میں مدد کریں گے خدا تعالیٰ کی توحید دنیا میں قائم ہو اور محمد رسول اللہ علی اسلام کا جھنڈا
362 تمام دنیا میں لہرانے لگے.آج دنیا آپ کو بھی کمزور سمجھتی ہے اور مجھے بھی بہت ہی کمزور سمجھتی ہے لیکن ایک دن آئے گا کہ لوگ حیران ہوں گے اور وہ دیکھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں کتنی بڑی طاقت تھی کہ بظاہر کمزور نظر آنے والا مال سے محروم ، وسائل سے محروم ، دنیا کی عزتوں سے محروم ہر طرف سے دھتکارا جانے والا ذلیل کیا جانے والا ، اور وہ سلسلہ جس کو دنیا نے اپنے پاؤں کے نیچے مسلنا چاہا، خدا تعالیٰ کے فضل نے اسے آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا ہے اور قرآن کریم جو کسی وقت صرف طاق کو سجاوٹ دے رہا تھا اس نے دلوں میں گھر کر لیا ہے اور پھر انسان کے دل سے علم کا بھی، نیکی اور تقویٰ کا بھی، اور دنیا کی ہمدردی اور غم خواری کا بھی ایک چشمہ بہہ نکلا ہے.اسی طرح جس طرح ایک موقع پر آنحضرت میم کی انگلیوں سے بوقت ضرورت پانی کا چشمہ بہہ نکلا تھا.دنیا انشاء اللہ یہ نظارے دیکھے گی، مگر ہم میں سے ہر ایک شخص کو چاہئے کہ وہ اپنی بساط کے مطابق اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرتا رہے." ایک تاریخی عہد اور حضرت مصلح موعود کی نماز جنازہ جب حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ ہزاروں سوگوار احباب جماعت کے جلوس کے ساتھ حضرت مصلح موعود کا تابوت لے کر بہشتی مقبرہ پہنچے تو نماز جنازہ پڑھانے سے قبل حضور قبلہ رخ ہو کر کھڑے ہوئے اور لاؤڈ سپیکر پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا :.” میں چاہتا ہوں کہ نماز جنازہ ادا کرنے سے قبل ہم سب مل کر اپنے رب رؤف کو گواہ بنا کر اس مقدس منہ کی خاطر جو چند گھڑیوں میں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہونے والا ہے اپنے اس عہد کی تجدید کریں اور وہ عہد یہ ہے کہ ہم دین اور دین کے مصالح کو دنیا اور اس کے
363 سب سامانوں اور اس کی ثروت اور وجاہت پر ہر حال میں مقدم رکھیں گے اور دنیا میں دین کی سربلندی کے لئے مقدور بھر کوشش کرتے رہیں گئے.اس موقع پر ایک اور عہد کی تجدید بھی کرتے ہیں.اگرچہ ہم.عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ بہشتی مقبرہ قادیان کے بہشتی مقبرہ کے ظل کی حیثیت سے ان تمام برکات کا حامل ہے جو اللہ تعالیٰ نے اس بہشتی مقبرہ کے ساتھ وابستہ کی ہیں لیکن حضرت ام المومنین ال اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وہ اولاد جو پنجتن کہلاتی ہیں اور ان میں سے جو وفات یافتہ یہاں مدفون ہیں اور خاندان کے دوسرے وفات یافتہ افراد بھی جن کا مدفن اس مقبرہ میں ہے ہم ان کے تابوتوں کو مقدر وقت آنے پر قادیان واپس لے جائیں گے اور ان تمام امانتوں کو جانوں سے بھی زیادہ عزیز رکھتے ہوئے اولین وقت میں ان جگہوں پر پہنچا دیں گے جن کی طرف وہ حقیقی طور پر اپنے آپ کو منسوب کرتے تھے اور جہاں انہیں پہنچانا ضروری ہے اور جس کا ہم نے عہد کیا ہوا ہے." ہی اس عہد کے بعد پچاس ہزار احباب جماعت کے ساتھ آپ نے حضرت مصلح موعود کی نماز جنازہ پڑھائی چھ تکبیرات کہیں.اور تدفین ۳ کے بعد لمبی پر سوز دعا کروائی.هم
364 حاشیہ جات باب ششم ا.جس روز آپ کا انتخاب بطور خلیفہ المسیح ہوا اللہ تعالیٰ نے دور دراز علاقوں میں اپنے بعض پیارے بندوں کو بذریعہ رویا اس کی خبر پہنچا دی چنانچہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب تحدیث نعمت میں لکھتے ہیں :." اکتوبر ۱۹۶۵ء میں مجھے بعض امور کی سرانجام دہی کے لئے امریکہ جانا ہوا وہاں سے فراغت پاکر میں سان فرانسکو سے نیوزی لینڈ کے سفر پر روانہ ہوا.ہوائی جہاز دوسری صبح قبل از فجر جزائر فیحی کے بین الا قوامی مطار ناندی پہنچا.میرا ارادہ چند دن جزائر فیجی میں ٹھہرنے کا تھا.ہم سان فرانسکو سے جمعرات کے دن روانہ ہوئے تھے دوسرے دن ناندی پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ہفتے کا دن ہے درمیان میں جمعہ کا دن غائب ہو گیا.مطار پر شیخ عبدالواحد صاحب مبشر سلسلہ احمدیہ اور ناندی کے چند احباب تشریف لائے ہوئے تھے.میں ان کے ہمراہ شہر چلا گیا اور آئندہ چھ دن یعنی ہفتہ ۵.نومبر سے جمعہ ۱۱ نومبر تک ان کے تجویز کردہ پروگرام کے مطابق ان کی خدمت میں حاضر و مشغول رہا.اس عرصہ میں مختلف مقامات پر حاضری کا موقعہ ہوا لیکن زیادہ وقت جزائر کے صدر مقام سووا (Suva) میں گزرا.....و نومبر کی شام کو پبلک جلسہ تھا.اس سے پھر ربوہ سے بذریعہ تار خبر ملی کہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی " کی بیماری تشویشناک صورت اختیار کر گئی ہے.یہ معلوم ہوتے ہی میں ہوائی کمپنی کے دفتر گیا اور وہاں سے دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ مجھے ربوہ پہنچنے کے لئے تین دن درکار ہوں گے.وہاں سے احمد یہ مشن ہاؤس گیا تاکہ شیخ عبد الواحد صاحب اور احباب کے ساتھ مشورہ کر کے اپنا پروگرام طے کروں.وہاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ حضور کے وصال کی اطلاع آ چکی ہے اِنَّا لِلَّهِ وَ اِنَّا اَلِيْهِ رَاجِعُون کو شیخ صاحب تو مارے غم و اندوہ کے حواس باختہ ہو رہے تھے.....وہ رات میرے لئے سخت کرب کی رات تھی.پچھلے پہر میں نے خواب میں دیکھا جس کی واضح تعبیر تھی کہ خلیفہ کا انتخاب ہو گیا ہے.منتخب ہونے والے خلیفہ کی عمر ۵۶ سال ہے اور ان کی طبیعت میں بہت رشد حیا اور علم ہے.صبح ہونے پر میں نے موجودہ احباب سے یہ ذکر کر کے اپنا اندازہ بیان کیا کہ صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ منتخب ہوئے ہیں.حضور کی عمر کے متعلق صرف میرا اندازہ تھا کہ ۵۶ سال ہے.بعد
365 میں معلوم ہوا کہ آپ کی ولادت ۱۹۰۹ء کی ہے یعنی آپ کی عمر انتخاب کے وقت رے ۵۶ سال تھی.۶.پورے مکرم محبوب عالم خالد صاحب بیان کرتے ہیں کہ انتخاب خلافت کے وقت آپ کا غم سے برا حال تھا.بعض ہم عصر صاحبزادگان مرزا مظفر احمد صاحب وغیرہ آپ کے ساتھ نمازوں کی ادائیگی کے بعد مسجد مبارک میں پہنچے اور پیچھے ستون کے عقب میں اندھیرے میں سر جھکا کر بیٹھ گئے اور دعاؤں میں مصروف ہو گئے.آپ فرماتے ہیں کہ مجھے کچھ معلوم نہیں کیا کارروائی ہوئی اور کیسے آپ کا نام پیش ہوا آپ سر جھکائے بیٹھے ہوئے تھے جب کہ آپ کے انتخاب خلافت کا اعلان ہوا اور آپ کو پکڑ کر محراب کی طرف لے گئے رجم ۳۲۴.حضرت مصلح موعود کی وفات پر آپ کے نام جو بے شمار تعزیتی پیغامات پہنچے ان میں صدر پاکستان فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کا تعزیتی پیغام جو بذریعہ تار پہنچا یہ تھا.Mirza Nasir Ahmad Sahib Rabwah I am grieved to learn of the sad demise of Mirza Bashiruddin Mahmood Ahmad! May his soul rest in peace and God grant you and his followers members of your family and courage to bear this loss!" Mohammad Ayub Khan له الفضل ۱۷ نومبر ۱۹۶۵ء حوالہ جات باب الفضل ۱۰ نومبر ۱۹۶۵ء مطابق ۱۰ نبوت ۱۳۴۴ هش ۱۶ رجب ۱۳۸۵ھ س خطاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث مطبوعه الفضل ۳ دسمبر ۱۹۶۵ء الفضل ۲۴ مئی ۱۹۷۲ء) ه الفضل ال.نومبر ۱۹۶۵ء تحدیث نعمت از سر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں ص ۷ ۶۸ تا ۶۸۸ بحوالہ الفضل ۱۲.نومبر ۱۹۶۵
366
367 باب ہفتم خلافت ثالثہ کے مبارک دور کا آغاز
368
بحیثیت خلیفة المسیح جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسہ ۱۹۶۵ء سے پہلا خطاب
جلسہ سالانہ ربوہ کے دو مناظر
خلافت کے ابتدائی دور میں عاملہ مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے ساتھ گروپ فوٹو
پاکستان کے بعض امرائے اضلاع کے ہمراہ
1966 ء میں لاہور کے احباب کے ساتھ جامعہ احمدیہ کے اساتذہ کے ساتھ
A وقف عارضی کے بارے میں یہاں مقامات حاصل کی وقف عارضی کے کارکنان کے ساتھ عملہ حفاظت کے ساتھ NG
جلسہ سالانہ ربوہ پر سیر الیون کے مرکزی وزیر اور صدر مسلم لیگ جناب الحاج مصطفی سنوسی کی شرکت سفر سے واپسی پر مولوی محمد دین صاحب صدر.صد را منجمن احمد یہ استقبال کر رہے ہیں
ایک انڈونیشین احمدی کو شرف معانقہ محمد عثمان چینی صاحب کی بطور مبلغ روانگی کے موقعہ پر
حضور کی صدارت میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان جلسہ سالانہ کے موقعہ پر فضل عمر فاؤنڈیشن کے قیام کا اعلان کر رہے ہیں
بورڈ آف ڈائر یکٹر ز فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ
دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن کا سنگ بنیاد دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن کا افتتاح
مسجدا قصی ربوه افتتاح خلافت لائبریری
جلسه سالانہ ربوہ کے موقع پر ترجمانی کے نظام کا اجراء (۱۹۸۰ء) سنگ بنیاد بیت الا ظہار (صد سالہ جوبلی ) ۱۹۸۲ء
معائنہ (زیر تعمیر ) جدید پریس ربوہ (موجوده دفتر الفضل) ، ۱۳ مارچ ۱۹۷۰ء مجلس نصرت جہاں کے ۱۳ ڈاکٹرز کیلئے الوداعی عصرانہ میں شمولیت
۱۹۷۴ میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں جماعت احمدیہ کا وفد مولوی دوست محمد صاحب شاہد، مولانا ابو العطاء صاحب، حضرت خلیفۃ المسیح، شیخ محمد احمد مظہر اور صاحبزاہ مرزا طاہر احمد
وفد کے ممبران سے گفتگو
قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے دوران سرکاری حفاظتی عملہ سے گفتگو
کسر صلیب کا نفر نس انگلستان (۱۹۷۸ء) میں حضور کا خطاب
لندن میں چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اور ڈاکٹر عبد السلام کے ساتھ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان کے ساتھ
صدر مجلس انصار اللہ مر کز یہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب سے گفتگو فرما رہے ہیں اجتماع مجلس انصار اللہ مر کزیہ کے مقام اجتماع کی طرف
اجتماع انصار اللہ مر کز یہ ربوہ کے موقع پر
مسجد اقصی ربوہ میں انصار اللہ ربوہ کا اجتماع
صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب کے ساتھ ایک یادگار تصویر صاحبزاہ مرزا لقمان احمد صاحب کی برات
حضرت سید ہ منصور بیگم صاحبہ کی نماز جنازہ تدفین کے موقع پر ا یک یاد گار تصویر
369 خلافت ثالثہ کے مبارک دور کا آغاز اگر چہ خلیفہ المسیح الثالث کا انتخاب بظاہر جماعت احمدیہ کے چند اکابرین (انتخاب کمیٹی) کے ذریعے وقوع پذیر ہوا لیکن اس کے پیچھے قدیم سنت کے مطابق اللہ تعالی کا مخفی ہاتھ کار فرما تھا جس کی وضاحت خود اللہ تعالٰی کے قائم کردہ خلیفہ نے ایک غیر ملکی دورے کے دوران ان الفاظ میں فرمائی.فرمایا :- مجھ سے کسی نے پوچھا کہ خلافت سے پہلے کبھی آپ نے سوچا کہ خلیفہ بن جائیں گے ؟ میں نے کہا (No sane person can aspire to this) کوئی عقل مند آدمی سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ یہ اتنی بڑی ذمہ داری ہے.کوئی سوچے گا کیسے ! کوئی احمق ہی ہو گا، پاگل ہی ہو گا جو یہ کہے گا کہ مجھے یہ ذمہ داری مل جائے." ہوا " خدا تعالیٰ کے دربار میں تو ہر وقت ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو اپنی اپنی سمجھ کے مطابق اور استعداد کے مطابق اس کو پہچاننے والے اس کے آگے جھکے ہوئے اس کی حمد کرنے والے اس کی تسبیح کرنے والے اور اس کے قرب کو حاصل کرنے کی تڑپ رکھنے والے ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا ہی خوب پیارا شعر فرمایا ہے.یہ سرا سر فضل و احساں ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگہ میں تری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار ہزاروں لاکھوں آدمی، خدا کے بندے، خدا کے دربار میں حاضر رہتے
370 ہیں.کوئی ایک آدمی یہ سمجھے کہ خدا مجبور ہو گیا میں اکیلا اس کے دربار میں تھا اور اس نے مثلا میں اپنی مثال لیتا ہوں، اگر میں یہ سمجھوں کہ میں اکیلا تھا اور خدا مجبور ہوا مجھے خلیفہ مقرر کرنے کے لئے یعنی مجھے پکڑ لے اور خلیفہ مقرر کر دے.تو میرے جیسا پاگل دنیا میں اور کوئی نہیں ہو سکتا.اس بھرے دربار میں خدا نے اپنی مرضی چلائی.ہم تو اس وقت یعنی انتخاب خلافت کے وقت آنکھیں نیچی کئے ہوئے اپنے غم اور اپنی فکروں میں بیٹھے ہوئے تھے." فرمایا :." یہ سمجھنا کہ جس آدمی کو خدا تعالیٰ کسی کام کے لئے چنے دنیا کا کوئی انسان یا منصوبہ خدا تعالیٰ کے اس انتخاب کو غلط کر سکتا ہے تو یہ غلط ہے کیونکہ دینے والا تو وہی خدا ہے......خدا کے در کے علاوہ آپ کون سی چیز کہاں سے لے کر آتے ہیں؟ قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے....( یہ یاد رکھیں خصوصا نئی نسل) کہ انتخاب ہوتا ہے لیکن خلیفہ اللہ تعالیٰ ہی بناتا ہے.حضرت خلیفہ اول بنیاشی کے زمانہ میں بعض لوگوں نے جو بعد میں الگ ہو گئے تھے ان میں سے کسی نے کہا کہ ہم نے خلیفہ منتخب کیا ہے.آپ نے فرمایا میں تمہارے انتخاب پر تھوکتا بھی نہیں ہوں، مجھے جس نے خلیفہ بنانا تھا اس نے بنا دیا." پھر فرمایا :.”میری خلافت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مجھے اللہ تعالیٰ نے الہاما فرمایا :- يَا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ اور یہ بتانے کے لئے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں....بالکل شروع خلافت کے زمانہ کی بات ہے.حضرت مصلح موعود کا جب وصال ہوا تو
371 میں ٹی آئی کالج میں پرنسپل تھا، کالج لاج میں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہا کرتا تھا.میں وہاں آیا.میری طبیعت پر بڑا بار تھا کہ میں آیا صدیقہ ام متین صاحبہ کو یا مہر آپا کو یا ہماری تیسری والدہ تھیں ان کو Disturb کروں اپنی رہائش کے لئے.لیکن میرے پرائیویٹ سیکرٹری کا دفتر وہاں تھا، وہیں سارے کام کرنے پڑتے تھے.چنانچہ دفتر کے اوپر دو تین کمرے تھے ان ہی میں ہم لٹکے رہے اس وقت تک جب تک کہ سہولت کے ساتھ سب کا دوسری جگہ انتظام نہیں ہو گیا.خلافت کے بڑے تھوڑے عرصہ کے بعد غالبا ۱۹۶۶ء میں نومبر کی بات ہے ظہر کی نماز پڑھانے کے بعد میں واپس آیا اور دفتر کے اوپر کمرے میں سنتوں کی نیت جب باندھی تو میرے سامنے خانہ کعبہ آ گیا یعنی کشفی حالت میں نہیں ، جس میں آنکھیں بند ہو جاتی ہیں بلکہ کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھا، یعنی نظارہ یہ دکھایا گیا کہ میرا رخ ایک Angle (زاویہ) بائیں طرف اور میں نے سیدھا کر لیا منہ خانہ کعبہ کی طرف اور نظارہ بند ہو گیا.میں نے سوچا کہ یہ تو نہیں خدا کا منشاء کہ میں ہر دفعہ آکر قبلہ ٹھیک کروایا کروں مطلب یہ ہے کہ میں تمہارا منہ جس مقصد کے لئے تمہیں کھڑا کیا ہے، اس سے ادھر ادھر نہیں ہونے دوں گا.لہ غرض خدا تعالیٰ نے خود آپ کو خلافت کے قیام پر فائز فرمایا اور آپ کے ذریعے ایک مبارک دور کا آغاز ہوا جیسا کہ الہی نوشتوں میں کہا گیا تھا.رض مبارک دور کا آغاز حضرت مصلح موعود نے ۲۴ اگست ۱۹۴۵ء کے خطبہ جمعہ میں جو حضور نے ڈلہوزی کے مقام پر ارشاد فرمایا تھا ۱۹۶۵ء میں ایک انقلاب انگیز دور شروع ہونے کی پیشگوئی کی تھی حضور نے فرمایا:." میں نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے دس سال میں جو باتیں اپنی
372 جماعت کی ترقی اور دنیا کے تغیرات کے متعلق بتائی تھیں ان کا نتیجہ دنیا کے سامنے آگیا ہے اور دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ وہ کس طرح لفظ بلفظ پوری ہوئی ہیں اور ان کی تفاصیل اسی طرح وقوع پذیر ہوئی ہیں جس طرح میں نے بیان کی تھیں.اب میرے دل میں یہ بات شیخ کی طرح گڑ گئی ہے کہ آئندہ اندازاً میں سالوں میں ہماری جماعت کی پیدائش ہو گی ۲ بچوں کی تکمیل تو چند ماہ میں ہو جاتی ہے اور نو ماہ کے عرصہ میں وہ پیدا ہو جاتے ہیں لیکن بچے کی پیدائش اور قوم کی پیدائش میں بہت بڑا فرق ہوتا ہے.ایک فرد کی پیدائش بے شک نو ماہ میں ہو جاتی ہے لیکن قوموں کی پیدائش کے لئے ایک لمبے عرصے کی ضرورت ہوتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ آئندہ میں سال کا عرصہ ہماری جماعت کے لئے نازک ترین زمانہ ہے.جیسے بچے کی پیدائش کا وقت نازک ترین وقت ہوتا ہے کیونکہ بسا اوقات وقت کے پورا ہونے کے باوجود پیدائش کے وقت کسی وجہ سے بچہ کا سانس رک جاتا ہے اور وہ مردہ وجود کے طور پر دنیا میں آتا ہے.پس جہاں تک ہماری قومی پیدائش کا تعلق ہے میں اس بات کو شیخ کے طور پر گڑا ہوا اپنے دل میں پاتا ہوں کہ یہ میں سال کا عرصہ ہماری جماعت کے لئے نازک ترین مرحلہ ہے.اب یہ ہماری قربانی اور ایثار ہی ہوں گے جن کے نتیجہ میں ہم قومی طور پر زندہ پیدا ہوں گے یا مردہ.اگر ہم نے قربانی کرنے سے دریغ نہ کیا اور ایثار سے کام لیا اور تقویٰ کی راہوں پر قدم مارا، محبت اور کوشش کو اپنا شعار بنایا تو خدا تعالیٰ ہمیں زندہ قوم کی صورت میں پیدا ہونے کی توفیق دے گا اور اگلے مراحل et ہمارے لئے آسان کر دے گا." سب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث میں اللہ نے اس عظیم الشان پیشگوئی کے پورا ہونے کی خبر ان الفاظ میں دی فرمایا :-
373 " میرے دل میں بڑی شدت سے یہ بات ڈالی گئی ہے کہ آئندہ ۲۳- ۲۵ سال احمدیت کے لئے بڑے ہی اہم ہیں.کل کا اخبار آپ نے دیکھا ہو گا حضرت مصلح موعود بھی اللہ نے ۱۹۴۵ء میں کہا تھا کہ اگلے ہیں سال احمدیت کی پیدائش کے ہیں اس واسطے چوکس اور بیدار ہو.بعض دفعہ غفلتوں کے نتیجہ میں پیدائش کے وقت بچہ وفات پا جاتا ہے.میں خوش ہوں اور آپ کو بھی یہ خوشخبری سناتا ہوں کہ وہ بچہ ۱۹۶۵ء میں بخیر و عافیت زندہ پیدا ہو گیا جیسا کہ آپ نے کہا تھا.میرے دل میں یہ ڈالا گیا ہے کہ وہ بچہ خیریت کے ساتھ ، پوری صحت کے ساتھ اور پوری توانائی کے ساتھ ۱۹۶۵ء میں پیدا ہو چکا ہے.اب ۱۹۶۵ء سے ایک دوسرا دور شروع ہو گیا اور یہ دور خوشیوں کے ساتھ ، بشاشت کے ساتھ ، قربانیاں دیتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جانے کا ہے.اگلے ۲۳ سال کے اندر اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اس دنیا میں ایک عظیم انقلاب پیدا ہونے والا ہے.یا دنیا ہلاک ہو جائے گی یا اپنے خدا کو پہچان لے گی.یہ تو اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے.میرا کام دنیا کو انذار کرنا ہے اور میں کرتا چلا آ رہا ہوں.آپ کا کام انذار کرنا اور میرے ساتھ مل کر دعائیں کرنا ہے تا یہ دنیا اپنے رب کو پہچان لے اور تباہی سے محفوظ ہو جائے."" اسی لئے خلافت ثالثہ کے آغاز پر ہی اللہ تعالی کے بڑے بڑے عظیم الشان نشان ظاہر ہونے لگے.
374 قبولیت دعا کا نشان اور غلبہ اسلام کے لئے ایک حیرت انگیز پیشگوئی کا اعلان حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی نے خلافت و امامت کے عظیم الشان منصب پر فائز ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ سے قبولیت دعا کا نشان مانگا اور اپنی خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ پر جماعت کے افراد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:." اے جان سے زیادہ عزیز بھائیو! میرا ذرہ ذرہ آپ پر قربان کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے جماعتی اتحاد اور جماعتی استحکام کا وہ اعلیٰ نمونہ دکھانے کی توفیق عطا کی کہ آسمان کے فرشتے آپ پر ناز کرتے ہیں.آسمانی ارواح کے سلام کا تحفہ قبول کرو.تاریخ کے اوراق آپ کے نام کو عزت کے ساتھ یاد کریں گے اور آنے والی نسلیں آپ پر فخر کریں گی کہ آپ نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس بندہ ضعیف اور ناکارہ کے ہاتھ پر متحد ہو کر یہ عہد کیا ہے کہ قیام توحید اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور اس کے جلال کے قیام اور غلبہ اسلام کے لئے جو تحریک اور جو جد و جهد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع کی تھی اور جسے حضرت مصلح موعود بھی ہی نے اپنے آرام کھو کر اپنی زندگی کے ہر سکھ کو قربان کر کے اکناف عالم تک پھیلایا ہے آپ اس جدوجہد کو تیز سے تیز تر کرتے چلے جائیں گے.میری دعائیں آپ کے ساتھ ہیں اور میں ہمیشہ آپ کی دعاؤں کا بھو کا ہوں.میں نے آپ کے تسکین قلب کے لئے ، آپ کے بار کو بلکا کرنے کے لئے آپ کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے اپنے رب رحیم سے قبولیت دعا کا نشان مانگا ہے اور مجھے پورا یقین اور بھروسہ ہے et اس پاک ذات پر کہ وہ میری اس التجا کو رد نہیں کرے گا."
فرمایا :.375 اب میں کچھ اپنے متعلق کہنا چاہتا ہوں.میں بغیر کسی جھجھک کے اور بغیر کسی تکلف کے اپنے خدا کے حضور یہ اقرار کرتا ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ میں قرآن شریف کے متبعین کے متعلق یہ بیان فرمایا ہے کہ وہ ہمیشہ تذلل، نیستی اور انکساری کو پسند کرتے ہیں اور اپنی اصل حقیقت تذلل ، مفلسی اور ناداری اور پر تقصیری کو سمجھتے ہیں.میں جب اپنے آپ پر غور کرتا ہوں تو اپنے آپ کو اس مقام سے بھی کہیں نیچے پاتا ہوں کیونکہ حضور نے جن لوگوں کا ذکر کیا ہے ان کے کچھ کمالات بھی بیان کئے ہیں لیکن میں اپنے اندر کوئی کمال نہیں پاتا اور حیران ہوں کہ میں کن الفاظ میں اینا ذکر کروں.میں تو اکثر سوچتا ہوں اور حیران ہوتا ہوں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام جیسا وجود اپنے خدا کو مخاطب کر کے یہ کہتا ہے کہ ے کرم خاکی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں تو میرے جیسا انسان کن الفاظ میں اپنے آپ کو اپنے خدا کے سامنے پیش کرے.لیکن میں اس تمام نیستی اور تذلل کے باوجود جو میں اپنے فس میں پاتا ہوں اور یہ سمجھنے کے باوجود کہ میں تو محض لاشئے ہوں پھر بھی یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے جس مقام پر مجھے کھڑا کیا ہے اس کی حفاظت کا اس نے خود ذمہ لے رکھا ہے.مجھے یقین ہے کہ جب تک وہ مجھے زندہ رکھنا چاہے گا اس قادر توانا کا قوی ہاتھ ہمیشہ میرے گا اور میرے ہاتھ سے وہ جماعت کو جس طرف بھی لے بجائے گا انشاء اللہ اس میں ضرور کامیابی ہو گی، اس لئے نہیں کہ میرے اندر کوئی خوبی ہے بلکہ اس لئے کہ اسی قادر و توانا کے ہاتھ میں سب طاقتیں ہیں اور اس کا وعدہ ہے کہ وہ مجھے کامیابی عطا فرمائے گا.....ساتھ است
376 اسلام احمدیت کے ذریعے ساری دنیا پر غالب آئے گا اور ہر وہ طاقت جو اس کی راہ میں حائل ہو گی ذلیل و ناکام کر دی جائے گی.دنیا کے تمام اموال بھی اگر ادیان باطلہ کی پشت پر ہوں اور وہ اسلام کی مخالفت پر آمادہ ہوں تو اس کا نتیجہ انشاء اللہ مٹی کی اس چنکی سے بھی زیادہ حقیر ہو گا جو آپ کے پاؤں کے نیچے ہے...ہماری حرکت جس جہت کی طرف بھی ہو گی وہاں پر اسلام کا جھنڈا گاڑا جائے گا اور وہ ہماری حقیر کوششوں میں غیر معمولی برکت پیدا کرے گا.میں تمام جماعت کو جو کہ یہاں موجود ہے اور پوری دنیا کو کامل یقین کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ آئندہ بچتیں تمہیں سال کے اندر دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہونے والا ہے.وہ دن قریب ہیں جب دنیا کے بہت سے ممالک کی اکثریت اسلام کو قبول کر چکی ہو گی اور دنیا کی سب طاقتیں اور ملک بھی اس آنے والے روحانی انقلاب کو روک نہیں سکتے.جب کہ وہی زبانیں جو آج رسول اللہ میم کو گالیاں دے رہی ہیں آپ پر درود بھیج رہی ہوں گے.یہ دن یقیناً آنے والے ہیں.پیش خبریاں ہم پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد کرتی ہیں جنہیں بہر حال ہمیں نے پورا کرتا ہے.ہمیں عظیم قربانیاں دینی ہوں گی.جب ہم اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیں گے تب خدا کے گا کہ میں اپنا کچھ کیوں بچا کر رکھوں، میں بھی اپنی سب برکتیں تمہیں دیتا ہوں اور جب ایسی حالت ہو جائے تو پھر خود سوچ لو کہ ہمارے لئے کیا کمی ه.جائے گی."
377 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام ” بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے" کا ظہور حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے مبارک دور خلافت کا آغاز نہایت شاندار طریقے سے ہوا اور خلافت کے بالکل ابتدائی زمانہ میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ۱۸۶۸ء کا ایک الہام ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے " پہلی مرتبہ پورا ہوا.ایک خطبہ جمعہ میں اس کی تفصیل بیان کرتے ہوئے حضور نے فرمایا :." اللہ تعالیٰ کی بہت سی بشارتیں ایک لمبا عرصہ گزرنے اور منکرین کو ٹھٹھا اور استہزاء کر لینے کا موقعہ دینے کے بعد پوری ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَ إِذْ يَقُولُ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ مَا وَ عَدَنَا اللَّهُ وَرَسُولَهُ إِلَّا غُرُورًا الاحزاب آیت (۱۳) (سورة یعنی جب منافق اور وہ لوگ جن کے دلوں میں بیماری ہوتی ہے کہنے لگ گئے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول نے ہم سے ایک جھوٹا وعدہ کیا تھا.جب دیر ہو جاتی ہے تو یہ وسوسہ شیطان ان کے دل میں ڈال دیتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو ۱۸۶۸ء میں الہام ہوا کہ ” بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے " اس پر جب ایک لمبا عرصہ گزر گیا اور اللہ تعالٰی نے اس کے پورے ہونے کے سامان پیدا نہ کئے تو دشمن نے ہر طرح سے اس کا مذاق اڑایا اور استہزاء کیا اور ٹھٹھا سے باتیں کیں.تب قریباً ایک سو سال
378 بعد اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ گیمبیا جو مغربی افریقہ کا ایک ملک ہے اسے آزاد کرایا اور پھر وہاں ایک احمدی مسٹر سنگھائے صاحب کو جو اپنی جماعت کے پریذیڈنٹ بھی تھے ، گورنر جنرل بنا دیا پھر انہوں نے مجھ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا کپڑا بطور تبرک طلب کیا اور لکھا کہ میں نے بڑی دعائیں کی ہیں اور بڑے خشوع اور تضرع کے ساتھ اپنے رب کے سامنے جھکا ہوں کہ وہ مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کپڑے سے برکت حاصل کرنے کی توفیق عطا کرے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کر دیئے کہ جن کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.پہلے مجھے گھبراہٹ تھی کہ ان کے مطالبہ کے بعد انہیں کپڑا ملنے میں غیر معمولی دیر ہو رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی مشیئت کچھ اور ہی تھی آخر وہ کپڑا ان کو یہاں سے روانہ کر دیا گیا اور وہ کپڑا ان کو جس دن صبح بذریعہ ڈاک ملا اسی رات کو بی.بی.سی سے اعلان ہوا کہ ان کو ایکٹنگ گورنر جنرل سے گورنر جنرل بنا دیا گیا ہے.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دل میں خدائے تعالیٰ اور اس کے رسول اور اس رسول کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے شدید محبت پیدا ہو گئی جس محبت کا اظہار انہوں نے پہلے ایک تار اور پھر ایک خط کے ذریعہ کیا.پھر اللہ تعالیٰ نے ان پر ایک اور دینوی فضل کیا.آج ہی ان کا تار ملا ہے جس میں انہوں نے اطلاع دی ے کہ مجھے حکومت برطانیہ نے نائٹ بڈ (Knight Hood) عطا کیا ہے ہے.میری طرف سے جماعت کو مبارکباد پہنچا دیں.جہاں اللہ تعالیٰ ان کے لئے جسمانی اور روحانی برکتوں کے سامان پیدا کر رہا ہے وہاں ان کے ماحول میں بھی ایک تبدیلی ہو رہی ہے چنانچہ پچھلے خط میں انہوں نے مجھے یہ اطلاع دی تھی کہ ہمارے ملک میں لوگ احمدیت کی صداقت اور حقانیت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں.
379 بیرونی ممالک میں جو نئے نئے احمدی ہو رہے ہیں ان کے لئے خدا تعالیٰ ایسے سامان پیدا کر رہا ہے کہ انہیں روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ دینوی ترقی بھی حاصل ہو جاتی ہے تاکہ ان کے دل ہر طرح کی نعمتوں کے حصول کی وجہ سے خدا تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہوں.اس وقت میں یہ مثال دے رہا تھا.کہ یہ الہام ۱۸۶۸ء میں ہوا تھا.پھر قریباً سو سال تک یہ الہام پورا نہیں ہوا.مومن کا دل تو یقین سے پر تھا اور وہ جانتا تھا کہ ہر ایک بشارت کے پورا ہونے کے لئے ایک وقت مقرر ہے.جب وہ وقت آئے گا تو وہ بشارت بھی ضرور پوری ہو گی، دنیا کی کوئی طاقت اسے ٹال نہیں سکتی، لیکن اس کے برعکس جو دل کے اندھے تھے انہیں ٹھٹھے اور ہنسی کا موقع ملتا رہا.نبی کریم میل اللہ کے زمانہ میں اور مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بڑا فرق ہے وہ یہ کہ آنحضرت ملی ی ل وی کے زمانہ میں اسلام کی بعض بڑی فتوحات حضور کی ذات سے تعلق رکھتی تھیں اور آپ کی زندگی میں مقدر تھیں لیکن ہماری فتوحات کا زمانہ ، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے ، تین سو سال تک ممتد ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری نسلوں نے یکے بعد دیگرے خدا تعالیٰ اس کے رسول اور اسلام کے لئے قربانیاں دینی ہیں اور ہر نسل نے اللہ تعالیٰ کی بعض بشارتوں کو پورا ہوتے دیکھنا ہے.بهرجال الہی جماعتوں کے دلوں میں شیطان وسوسے پیدا کرنے کی وشش تو کرتا ہے لیکن منافقوں کے سوا اوروں کے دلوں میں وسوسے برا کرنے کی اہلیت اور قابلیت نہیں رکھتا.اس کو مومنوں پر جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے کوئی غلبہ اور کوئی سلطان عطا نہیں کیا جاتا.نہیں جو بشارتیں ایسے سلسلوں کو دی جاتی ہیں جنہوں نے آخری اور عظیم فتح سے پہلے کئی منزلیں طے کرنا ہوتی ہیں وہ بشارتیں درجہ بدرجہ
380 اور منزل بمنزل پوری ہوتی رہتی ہیں اور مومنوں کے دلوں کی تقویت کا باعث بنتی رہتی ہیں.چنانچہ دیکھو کہ ہمارے زمانہ میں الہام ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے " کس شاندار طریق سے پورا ہوا کہ اس کے بعد ہمارے دلوں میں ذرہ بھر بھی شک نہیں رہ سکتا کہ وہ دیگر بشارتیں جو ہمیں دی گئیں ہیں وہ بھی اپنے اپنے وقت پر پوری ہو کر رہیں گی.ا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا لائحہ عمل ۱۹۶۵ء کے جلسہ سالانہ کے آخری روز حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اپنے لائحہ عمل کی بعض معین شقیں بیان کرتے ہوئے فرمایا :.حضرت فضل عمر نے دنیا کے مختلف ممالک میں تبلیغ اسلام کے جو مراکز قائم کئے تھے ان میں سے نو مراکز مختلف وجوہ کی بنا پر بند ہو گئے تھے.پہلا کام جو میں نے اور آپ نے کرنا ہے وہ یہ ہے کہ ان مراکز کو جتنی جلد اور جب بھی ممکن ہو پھر جاری کیا جائے.اس کے علاوہ بعض نئی جگہوں پر بھی فوری مشن قائم کرنے کی ضرورت ہے بعض ممالک میں مساجد تعمیر کرانے کی ضرورت ہے سب سے پہلی ضرورت مبلغین اور مبشرین کی ہے احمدی بچوں اور نوجوانوں کو اس کے لئے آگے آنا ہو گا اور والدین کو اپنے بچوں کو وقف کرنا ہو گا.فوری ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ایسے دوستوں کو آگے آنا چاہئے جو اپنے دنیوی کاموں سے ریٹائر ہو چکے ہیں یا ہونے والے ہیں.ایسے دوستوں کو مختصر عرصہ کے لئے تعلیمی نصاب کے بعد تبلیغ کے لئے باہر بھیجا جا سکتا ہے.لیکن ہمارے کاموں کی اصل بنیاد دعاؤں اور توکل پر ہے...پھر مالی قربانیوں کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے.ه بهر حال جو کام حضرت مصلح موعود بھی اللہ نے شروع کئے تھے انہیں کامیابی کے ساتھ
381 اختتام تک پہنچانا میرا فرض ہے اور میں آپ سے امید رکھتا ہوں کہ اس بارہ میں آپ میرے ساتھ تعاون کریں گے....پاکستان کی حفاظت کے لئے بھی دوست ضرور دعائیں کریں.کوئی مانے یا نہ مانے ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں جس قلعہ ہند میں نبی کریم ملی ﷺ کے پناہ گزیں ہونے کا ذکر ہے اس سے مراد پاکستان ہی ہے.اللہ تعالٰی ہمارے بچوں کے ذہنوں کو جلا بخشے اور سب احمدیوں کو یہ توفیق بخشے کہ ہر میدان میں ہمیشہ دوسروں سے آگے رہیں.کہ اسی لائحہ عمل کے مطابق آپ نے مقدور بھر خدمت کی توفیق پائی جس کی ایک جھلک آپ کی سوانح میں نظر آتی ہے جس کا خاکہ پیش کیا جاتا ہے.خاکہ سوانح حیات نافلہ موعود حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " کی خلافت کا آغاز اللہ تعالیٰ کے عظیم الشان نشانوں کے ظہور کے ساتھ ہوا، حضرت مصلح موعود کی لمبی بیماری کی وجہ سے جماعت کے بعض کمزور طبائع میں بعض غفلتیں اور کمزوریاں بھی پیدا ہو چکی تھیں اس جسے حضور نے اپنی مقناطیسی اور دلربا شخصیت اپنی بے پناہ محبت اور غیر معمولی پر حکمت تربیت کے ذریعے پر کیا.حضرت مصلح موعود کے تعلق باللہ کے نتیجہ میں جماعت اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھنے کی عادی ہو چکی تھی.حضرت مصلح موعود کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے وجود میں بھی اللہ تعالی جلوہ نما ہوا.اور خلافت ثالثہ کے آغاز کے ساتھ ہی عظیم الشان پیشگوئیاں اور غیر معمولی نشانوں کا سلسلہ شروع ہوا جو خلافت ثالثہ کے پورے دور میں پوری شان کے ساتھ جاری رہا اور حضرت مسیح موعود کے مشن کو جس مقام تک حضرت مصلح موعود نے پہنچایا تھا.حضرت خلیفہ ثالث نے اس میں بلندی وسعت اور تیزی پیدا فرمائی.
382 پہلا سال (۱۹۶۵ء) حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ۸ نومبر ۱۹۶۵ء میں رات دس بجے مسند خلافت پر متمکن ہوئے تھے.اس سال جلسہ سالانہ پر حضور نے حضرت فضل عمر خلیفۃ المسیح الثانی کے جاری کردہ کاموں کی تکمیل کے لئے فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک کا اعلان فرمایا اور ۲۵ لاکھ روپے کا مطالبہ فرمایا جس پر جماعت نے والہانہ طور پر لبیک کہا.اس منصوبہ کے تحت بعض بنیادی نوعیت کے کام سر انجام دیئے گئے جن کا حضور نے اپنے لائحہ عمل میں ذکر فرمایا تھا اس سال ساؤتھ آل (انگلستان) میں ایک مکان خریدا گیا جسے بطور مسجد استعمال کیا گیا.لندن مشن سے رسالہ ”دی مسلم ہیرالڈ " جاری کیا گیا." K دو سرا سال (۱۹۶۶ء) ۱۹۶۶ء کے شروع میں ہی حضور نے جماعت کی تربیت اور قرآن کریم کے سیکھنے سکھانے کے لئے تحریک تعلیم القرآن" کا اعلان فرمایا اور تحریک وقف عارضی" جاری فرمائی اور سال کے دوران تقریباً تین ماہ مسلسل قرآن کریم کی عظمت اور اس کی بے نظیر تعلیمات پر مشتمل خطبات جمعہ ارشاد فرمائے جو بعد ازاں انوار قرآنی" کے عنوان سے شائع ہوئے.اس سال اشاعت قرآن کے سلسلہ میں پہلا قدم یہ اٹھایا گیا کہ حضرت مصلح موعود کا با محاورہ اردو ترجمہ قرآن " تفسیر صغیر" شائع ہوا جو ایک عرصہ سے نایاب ہو چکا تھا.خدمت قرآن کے سلسلہ میں حضور نے حضرت مسیح موعود کے اس چیلنج کا اعادہ فرمایا جو حضرت مسیح موعود نے عیسائیوں کو توریت اور انجیل سے قرآن کریم کی پہلی چھوٹی سی سورۃ سورۃ فاتحہ" کے مقابلہ پر حقائق و معارف بیان کرنے کے سلسلہ میں دیا تھا.حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مقرر کردہ انعامی رقم پانچ سو روپے سے بڑھا کر پچاس ہزار روپے کر دی.اس سال سکنڈے نیوین ممالک میں سے " کوپن ہیگن " (ڈنمارک) میں جماعت "
383 احمدیہ کی پہلی مسجد کا حضور کی اجازت سے صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے ہاتھوں سنگ بنیاد رکھا گیا.ادھر ربوہ میں حضور نے مسجد اقصیٰ کا سنگ بنیاد رکھا.چندوں میں وسعت پیدا کرنے کے لئے حضور نے وقف جدید کا دفتر اطفال قائم فرمایا اور ایک دن سے لے کر پندرہ سال تک کی عمر کے بچوں کو بھی وقف جدید کا چندہ دینے کی تحریک فرمائی.اسی طرح تحریک جدید کے دفتر سوم کا اجراء فرمایا اور حضرت مصلح موعود کی طرف منسوب کرنے کے لئے اسے نومبر ۱۹۶۵ء سے شمار کرنے کا فیصلہ فرمایا.جماعت کی ذہنی اور روحانی ترقی کے لئے حضور نے تحقیقاتی مقالے پڑھنے کے لئے مجلس ارشاد قائم فرمائی اور انجمن موصیان و موصیات کا قیام فرمایا.حضور کی خلافت کا ایک خاص پہلو حضور کی فن تعمیر میں ذاتی دلچسپی تھی.چنانچہ اس کا آغاز حضور کی خلافت کے ساتھ ہی اس طرح بھی شروع ہوا کہ مسجد اقصیٰ ربوہ (پاکستان) مسجد کوپن ہیگن (ڈنمارک) کے علاوہ فضل عمر فاؤنڈیشن کی بلڈنگ اور صدر انجمن احمدیہ کے نئے بلاک کی بنیاد رکھی گئی.اسی سال جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاؤن سے جماعت کے سہ ماہی رسالہ "العصر" کا اجراء ہوا.معاشرے کی اصلاح کے لئے حضور نے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا اور پاکستان کے دونوں صوبوں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے درمیان خوشگوار فضا پیدا کرنے اور ملک کے استحکام کے لئے بین الصوبائی قلمی دوستی پیدا کرنے کی تحریک فرمائی.قرآن کریم سیکھنے سکھانے کے انتظام کے لئے حضور نے ایک نئی نظارت کا اضافہ فرمایا جس کا نام نظارت اصلاح و ارشاد (تعلیم القرآن) رکھا.نیز قرآن کریم کی اشاعت کے لئے ایک ادارہ طباعت و اشاعت قرآن کریم کے نام سے قائم فرمایا.ساؤتھ لندن میں اسی سال تعلیم الاسلام سنڈے سکول کا آغاز ہوا.اس سال تنزانیہ میں ایک مسجد کا اضافہ ہوا جس کا نام "مسجد احسان" رکھا گیا.اس سال حضور کو الہام ہوا ” اینا دیواں گا کہ توں رج جاویں گا" حضور نے اس کا اعلان کرتے ہوئے ۱۸
384 مارچ ۱۹۶۶ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.گزشتہ رات میں نے جماعت کی ترقی اور احباب جماعت کے لئے بھی دعا کی بہت توفیق پائی.صبح جب میری آنکھ کھلی تو میری زبان پر یہ فقرہ تھا کہ ”اینا دیواں گا کہ توں رج جاویں گا." تیسرا سال (۱۹۶۷ء) ۱۹۶۷ء میں حضور نے تعمیر بیت اللہ کے تئیس عظیم الشان مقاصد کے عنوان سے متعدد خطبات دیئے اور جماعت کی نہایت حکیمانہ طریقے سے تربیت فرمائی، اسی سال حضور نے یورپ کا پہلا دورہ فرمایا اور لندن، گلاسکو، کوپن ہیگن (ڈنمارک) اوسلو (ناروے) سٹاک ہالم (سویڈن) کے مشنوں کا معائنہ فرمایا اور کوپن ہیگن میں مسجد کا افتتاح فرمایا، حضور نے یورپ میں تبلیغ کی وسعت کا جائزہ لینے کے علاوہ وانڈز ورتھ ٹاؤن ہال لندن میں ”امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ" کے عنوان سے ایک معرکتہ الاراء خطاب فرمایا جس سے حضرت مسیح موعود کا ایک رویا پورا ہوا جس میں حضور نے دیکھا تھا کہ میں شہر لندن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں." (ازالہ اوہام ص ۵۱۵ طبع اول) نیز حضور نے حضرت مسیح موعود کے اس چیلنج کا پھر اعادہ فرمایا.جس میں توریت اور انجیل کا قرآن کریم کی صرف ایک سورۃ سورہ فاتحہ" کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے عیسائیوں کو دعوت دی گئی ہے نیز حضور نے عیسائیوں کو قبولیت دعا کا مقابلہ کرنے کا بھی چیلنج دیا اس چیلنج اور دعوت کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا اور اسے عیسائی پادریوں تک پہنچایا گیا.ہالینڈ میں ایک پریس کانفرنس میں جب حضور سے یہ سوال کیا گیا کہ جماعت اب تک وہاں کتنے مسلمان بنا چکی ہے تو حضور نے ایک نہایت مسکت جواب دیا اور فرمایا :.کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے ساری عمر جتنے عیسائی بنائے تھے اس سے زیادہ
385 تمہارے ملک میں ہم مسلمان بنا چکے ہیں.حضور سے سوئٹرز لینڈ میں ایک انٹرویو میں پوچھا گیا کہ حضور ان کے ملک میں اسلام کیسے پھیلائیں گے؟ حضور نے فرمایا کہ ہم پیار اور محبت سے تمہارے دل جیتیں گے.حضور کے انٹرویوز کا اتنا اثر ہوا کہ ٹیلی ویژن پر ان کی خوب پیلیٹی کی گئی اور اس طرح نہایت کامیاب دورہ کرنے کے بعد حضور واپس تشریف لائے.اس سفر کے دوران زیورک کے مقام پر حضور کو الہام ہوا." مُبَارِك وَ مُبَارَكٌ وَكُلُّ أَمْرٍ مُبَارَكٌ تُجْعَلُ فِيهِ - اس دورے سے واپسی پر حضور" نے "اتحاد بین المسلمین کی تحریک فرمائی اور مسلمان فرقوں کو سات سال تک اختلافات ختم کر کے مل کر تبلیغ اسلام کے کام میں سرتوڑ کوشش کرنے کی تحریک فرمائی.اور عرب ریلیف فنڈ میں جماعت کی طرف سے پندرہ ہزار روپے کا عطیہ دیا اس وقت کے صدر مملکت فیلڈ مارشل محمد ایوب خان نے وو حضور کو شکریے کا خط لکھا.r☆ اس سال کلکتہ (انڈیا) میں مسجد ڈائمنڈ ہاربر کا کلکتہ کے امیر جماعت کے ہاتھوں سنگ بنیاد رکھا گیا.چوتھا سال (۱۹۶۸ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ." دعا میں خدا تعالٰی نے بڑی قوتیں رکھی ہیں.خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ سے ہو گا.ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوائے اور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں.۰۸۰ اس لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث” نے اپنے لائحہ عمل میں فرمایا تھا.لیکن ہمارے کاموں کی اصل بنیاد دعاؤں اور تو کل پر ہے.چنانچہ ۱۹۶۸ء میں حضور نے تسبیح و تحمید درود شریف اور استغفار کی خاص تحریک رمائی اور سال بھر ان دعاؤں کا ورد کرنے کا ارشاد فرمایا اور ۲۵ سال سے اوپر افراد
386 جماعت کے لئے کم از کم دو سو (۲۰۰) مرتبہ ۱۵ سال سے ۲۵ سال تک کے لئے کم از کم سو (۱۰۰) مرتبہ ء سے ۱۵ سال کے لئے کم از کم ۳۳ مرتبہ اور بہت چھوٹے بچوں کے لئے جو ابھی بولنا شروع کرتے ہیں ۳ مرتبہ یہ دعائیں کرنے کا ارشاد فرمایا.اس سال کینیڈا میں باقاعدہ جماعت کا قیام ہوا گوٹن برگ (سویڈن) سے رسالہ ایکٹو اسلام " جاری ہوا.۱۹۶۸ء کا جلسہ سالانہ ربوہ اپنی مقررہ تاریخ پر دسمبر ۱۹۶۸ء میں ہوا اس جلسہ پر پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کا کھانا پکانے کے لئے ایندھن کے طور پر سوئی گیس استعمال کی گئی.اب تک حضور مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے صدر چلے آ رہے تھے حضور نے اکتوبر ۱۹۶۸ء میں اپنی جگہ صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو صدر مقرر فرمایا.چودہ سو سالہ جشن نزول قرآن" کے موقع پر حضور کی اجازت سے احمدیہ " دار المطالعہ کراچی میں قرآن کریم کے تراجم کی نمائش ہوئی.۱۹۲۸ء میں ہی ڈچ ترجمہ قرآن کریم کا دوسرا ایڈیشن پاکستان سے شائع ہوا.پانچواں سال (۱۹۶۹ء) ۱۹۲۸ء میں تسبیح و تحمید درود شریف اور استغفار کی جو تحریک حضور نے فرمائی تھی.اگلے سال ۱۹۶۹ء میں حضور نے ان دعاؤں کے ساتھ دو اور دعاؤں کا اضافہ فرمایا جن میں سے ایک دعا قرآن کریم کی اور دوسری حضرت مسیح موعود کی الہامی دعا ہے قرآنی دعا یہ ہے رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ (البقره: ۲۵۱) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی الہامی دعا یہ ہے رَبِّ كُلِّ شَيْءٍ حَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِي 1969ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر سورۃ فاتحہ اردو ترجمہ کے
387 ساتھ پہلی مرتبہ شائع ہوئی.سپرانٹو زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ پہلی مرتبہ جماعت نے ہالینڈ سے شائع کیا.انگریزی تفسیر القرآن پانچ جلدوں میں حضرت مصلح موعود کے دور خلافت میں ۱۹۶۳ء میں شائع ہوئی تھی.اس تفسیر کا خلاصہ ایک جلد میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کے دور میں ۱۹۶۹ء میں شائع ہوا.اس کے علاوہ 1979 ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات زبانی یاد کرنے کی تحریک فرمائی جس میں ایک حکمت یہ تھی کہ جماعت کے افراز کو مومن کافر اور منافق میں جو فرق ہے اس کا عرفان حاصل ہو جائے.اس سال یورپ میں سکنڈے نیوین ممالک کے مبلغ انچارج سید کمال یوسف صاحب نے آئس لینڈ کا دورہ کیا اور اس طرح آئس لینڈ کے ملک میں احمدیت کا پیغام پہنچا.مغربی افریقہ کے ملک لائبیریا کے علاقہ کیپ ماؤنٹ میں جماعت کا پہلا پرائمری سکول جاری ہوا.1949ء میں حضور نے اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول اور فلسفہ پر متعدد خطبات ارشاد فرمائے ، حضور نے اس دقیق مضمون کو بڑی شرح وبسط کے ساتھ بیان فرمایا.اور ثابت کیا کہ دنیا کا کوئی اور اقتصادی نظام نفع رسانی میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا اسلام نے تمام انسانوں کے حقوق کی مکمل حفاظت کی ہے.A اسی سال ہندوستان میں مسجد احمد یہ تیمو گہ کا افتتاح ہوا.مجلس انصار الله مرکز یہ ربوہ کے اجتماع پر حضور نے "خلافت اور مجددیت" پر ایک نهایت علمی خطاب فرمایا :- چھٹا سال (۱۹۷۰ء) ۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے خلافت لائبریری ربوہ کا سنگ بنیاد رکھا جو فضل عمر فاؤنڈیشن کے فنڈز سے تعمیر کی گئی.اسی طرح حضور نے جامعہ نصرت کے
388 سائنس بلاک کا سنگ بنیاد بھی رکھا، جس کے نتیجہ میں جامعہ نصرت برائے خواتین ربوہ ڈگری کالج میں سائنس کی کلاسیں جاری ہو ئیں.اس سال اللہ تعالیٰ کا ایک نشان یہ ظاہر ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور جماعت کے ممتاز فرد حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس کے صدر مقرر ہوئے.(۱۹۷۳ء میں آپ نے عالمی انصاف کی عدالت سے ریٹائرمنٹ لے کر اللہ تعالٰی کی راہ میں زندگی وقف کر دی) ۱۹۷۰ء میں حضور نے یورپ اور مغربی افریقہ کا دورہ فرمایا.یہ حضور کا دوسرا غیر ملکی اور مغربی افریقہ کا پہلا دورہ تھا.حضور نے سوئٹزر لینڈ کے شہر زیورک میں مسجد محمود " کا افتتاح فرمایا.اسی طرح حضور نے انگلستان کے علاوہ مغربی جرمنی اور سپین کا بھی دورہ فرمایا.جہاں حضور نے مسجد کے حصول کے لئے تڑپ کر دعا کی، حضور کو الہام ہوا وَ مَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا ( یعنی اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے وہ یعنی اللہ اس کے لئے کافی ہے.اللہ تعالیٰ یقیناً اپنے مقصد کو پورا کر کے چھوڑتا ہے اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر چھوڑا ہے) دراصل اس الہام میں حضور کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا کہ چین میں اپنی مسجد کے حصول کے لئے ابھی کچھ دیر لگے گی.حضور نے سپین کے سربراہ جنرل فرینکو کو خط بھی لکھا جس میں اسے طلیطلہ (Toledo) کے قریب ایک ویران مسجد عارضی طور پر نمازیں پڑھنے کے لئے دینے کے لئے کہا تاہم پادریوں کے شوہر کی وجہ سے وہ مسجد نہ مل سکی.حضور نے مغربی افریقہ کے دورے پر روانہ ہونے سے پہلے فرمایا:." اللہ کے نام سے اور اسی پر بھروسہ کرتے ہوئے انشاء اللہ کل صبح مغربی افریقہ کے دورہ پر روانہ ہوں گا.....ان اقوام کے پاس جاؤں گا جو صدیوں سے مظلوم رہی ہیں، جو صدیوں سے حضرت نبی اکرم میر کے ایک روحانی فرزند مهدی مسعود کے انتظار میں رہی ہیں اور جن میں استثنائی افراد کے علاوہ کسی کو بھی حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کی
389 " زیارت نصیب نہیں ہوئی.پھر ان کے دلوں میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ آپ کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ ان تک پہنچے...اور وہ خَلِيفَةً مِّنْ خلفاء کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں......صدیوں کے و انتظار کے بعد اللہ تعالٰی نے چاہا تو انہیں یہ موقع نصیب ہو گا..." چنانچہ مغربی افریقہ میں جماعت احمدیہ کے قیام کے بعد کسی خلیفہ المسیح کا یہ پہلا دورہ تھا حضور نے نائیجیریا ، غانا، آئیوری کوسٹ ، گیمبیا لائبیریا اور سیرالیون کا دورہ فرمایا اور صدیوں سے مظلوم اقوام کو اپنے وجود سے برکت بخشی.افریقن احمدیوں کے لئے یہ تاریخی دن تھے جب ان کے درمیان خلیفہ المسیح کا بابرکت وجود موجود تھا.حضور نے نائیجیریا کے اس وقت کے صدر جنرل یعقوبو گوان" اور لائبیریا کے صدر ب مین گیمبیا کے صدر داؤد اجوارا" سے ملاقات کی.اسی طرح غانا کے صدر اور " سیرالیون کے وزیر اعظم سے بھی ملاقات کی اور آنحضرت مﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان ملکوں کے سربراہوں کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام" کا پیغام پہنچایا.گیمبیا میں حضور کو یہ القاء ہوا کہ ان پس ماندہ ممالک پر ایک لاکھ پونڈ ان اقوام کی صحت اور تعلیم پر خرچ کیا جائے، چنانچہ حضور نے واپسی پر لندن میں نصرت جہاں آگے بڑھو " پروگرام کا اعلان فرمایا اور اس کے لئے نصرت جہاں ریزرو فنڈ قائم فرمایا.جماعت نے ۵۳ لاکھ روپے اس فنڈ میں دیئے ، جس سے مغربی افریقہ میں سکول اور کلینک کھول کر ان اقوام کی بے لوث خدمت اور خوش حالی کے سامان پیدا فرمائے اور جو صدیوں سے سے محروم چلے آ رہے تھے ان کو پیار دیا.ہسپتالوں کے ذریعے غریبوں کے لئے مفت علاج کی سہولتیں بہم پہنچائیں اور سکولوں کے ذریعے ان کے مسلمان بچوں کے لئے تعلیم کا انتظام ہوا.اس سے قبل مغربی افریقہ میں سارے سکول عیسائی مشنوں کے تھے.مسلمان بچے انہی کے سکولوں میں پڑھنے پر مجبور تھے ان ملکوں میں محض ان کا عیسائی نام رکھ کر انہیں چپکے سے عیسائی بنا لیا جاتا تھا حضور کے اس منصوبے کے تحت افریقہ میں غلبہ اسلام کی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مضبوط بنیادوں کی ضرورت تھی جو نصرت جہاں منصوبہ" کے ذریعے پوری ہوئی.حضور نے فرمایا کہ " پیار -
390 عیسائیت کے خلاف روحانی جنگ کا فیصلہ افریقہ کی سر زمین پر ہو گا.حضور نے اس سال نصرت جہاں سکیم کے لئے تمہیں (۳۰) ڈاکٹروں اور اسی (۸۰) اساتذہ کا مطالبہ فرمایا جس پر مخلصین جماعت نے والہانہ طور پر لبیک کہا.اس سال سے ہی میڈیکل سنٹر اور سکول بننے شروع ہو گئے.مغربی افریقہ میں دورہ کے دوران حضور” نے مسجد اجیو اوڈے (نائیجیریا) کی تعمیر شدہ تیسری مسجد کا افتتاح فرمایا جس کا سارا خرچ ایک احمدی خاتون الحاجہ فاطمہ نے برداشت کیا تھا.گھانا کے دارالحکومت اکرا میں ایک مسجد کا سنگ بنیاد رکھا، گھانا کے شہر ٹیچی مان میں نئی تعمیر شدہ ایک مسجد کا افتتاح فرمایا اور ایک اور مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.گیمبیا کے دارالحکومت باتھرسٹ کے مضافات میں حضور نے ایک نئی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.سیرالیون کے شہر فری ٹاؤن کے مضافات میں کسٹر نامی مقام پر ایک نئی مسجد کا افتتاح فرمایا اور جماعت کے ایک سابق مبلغ کے نام پر اس مسجد کا نام "مسجد نذیر علی" رکھا سیرالیون میں بو کے مقام پر حضور نے مرکزی احمدیہ مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.اس کے علاوہ اس سال تنزانیہ کے شہر مورد گورو میں وہاں کے مبلغ انچارج نے ایک نئی مسجد کا افتتاح کیا.ہندوستان میں چنته کنٹہ کے مقام پر "مسجد فضل عمر “ کا صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب کے ہاتھوں افتتاح ہوا.۱۹۷۰ء میں احمدیہ مشن ہاؤس کماسی (گھانا) کا افتتاح ہوا نیز احمدیہ مشن ٹیچی مان (گھانا) کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھا گیا.اس سال ورلڈ احمدیہ میڈیکل ایسویسی ایشن کا قیام عمل میں آیا جس کے پہلے صد صدر حضور کی منظوری سے کرنل ڈاکٹر عطاء اللہ صاحب مقرر ہوئے.۱۹۶۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر کی اشاعت کا سلسلہ شروع ہوا تھا.اس سال سورۃ بقرہ کی جن آیات کی تفسیر حضرت مسیح موعود کی کتب سے مل سکی اسے مرتب کروا کر شائع کیا گیا.
391 عالم اسلام سے حضور کی محبت اور ہمدردی اور خیر خواہی کے عملی اظہار کے طور پر حضور نے صدر انجمن احمدیہ کے ذریعے ترکی ریلیف فنڈ اور مشرقی پاکستان کے سیلاب زدگان کے لئے عطیہ جات بھیجوائے.ساتواں سال (۱۹۷۱ء) ۱۹۷۱ء کے شروع میں حضور کو گھوڑے سے گرنے کا حادثہ پیش آیا اور حضور کئی ماہ تک صاحب فراش رہے.۱۹۷۰ ء میں حضور نے نصرت جہاں سکیم " کا اعلان فرمایا تھا اس کے اگلے ایک دو سالوں میں مغربی افریقہ کے ممالک غانا گیمبیا سیرالیون نائیجیریا لائبیریا اور آئیوری کوسٹ میں سکول اور ہسپتال (ہلیتھ سنٹر) کھولے گئے.افریقہ کے محاذ پر عیسائیوں کو یہ محسوس ہوا کہ احمدیت کے ذریعے وہاں کے باشندے اسلام کی طرف جوق در جوق جا رہے ہیں جس پر ان کے پوپ کی طرف سے اسلام کو بطور دین پہلی مرتبہ ۱۹۶۲ء میں Recognise (تعلیم) کیا گیا جس کا پوپ نے باقاعدہ اعلان کیا اور مسلمان ریاستوں کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے اور ان کو برانگیختہ کیا کہ مغربی ممالک اور افریقن ممالک میں اسلام کی نمائندگی ایک ایسی جماعت کر رہی ہے جس کے خلاف آپ کے علماء کی طرف سے کفر کا فتویٰ لگ چکا ہے.پوپ کا مقصد یہ تھا.کہ جماعت احمدیہ کا افریقی ممالک سے اثر و رسوخ کم ہو جائے لیکن خدا تعالیٰ کی تقدیر کے آگے ان کے منصوبے ناکام رہے.اس سال ملکی حالات خراب ہو گئے اور بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک خونریز جنگ ہوئی.اس کے نتیجہ میں برصغیر میں ”بنگلہ دیش" کے نام سے ایک نئی مملکت قائم ہوئی.انہی حالات کی وجہ سے اس سال جلسہ سالانہ اپنی مقررہ تاریخوں پر نہ ہو سکا.حب الوطنی کے جذبہ کے تحت حضور کی اجازت سے جماعت کی مختلف تنظیموں نے دفاعی فنڈ میں عطیہ جات دیئے.حضور نے ملک کی خوشحالی اور استحکام کے لئے دعاؤں کی تحریک فرمائی.
392 ۱۹۷۱ء میں ماریشس کے شہر " تریوے" میں مسجد احمد یہ عمر" اور کشمیر میں مسجد احمدیہ مانلو کا سنگ بنیاد رکھا گیا، نیز انڈونیشیا کے دارالحکومت جکارتہ میں شاندار احمدیہ مسجد کا افتتاح عمل میں آیا.اس سال حیدر آباد (انڈیا) میں مشن ہاؤس (احمدیہ جوبلی ہال) کی از سر نو تعمیر ہوئی اور اس کا سنگ بنیاد صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے رکھا.اسی سال ہندوستان کے شہر مدراس سے ماہنامہ ”راہ امن اور ڈائمنڈ ہاربر ۲۴ پر گناس، کلکتہ سے ماہنامہ ”البشری اور کالیکٹ (کیرالہ) سے سہ ماہی رسالہ ”منارٹ" " جاری ہوئے.اس سال سواحیلی زبان میں قرآن مجید کے ترجمہ کا دوسرا ایڈیشن شائع ہوا اور اسی طرح تفسیر صغیر کا نیا ایڈیشن جلسہ سالانہ کے موقع پر شائع ہوا.اس کے علاوہ بھی اندرون پاکستان اور دنیا بھر میں سلسلہ کے کاموں میں وسعت پیدا ہوئی.آٹھواں سال (۱۹۷۲ء) ۱۹۷۲ء کے شروع میں عید الاضحیٰ کے موقع پر حضور نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ جہاں تک ممکن ہو ساری دنیا میں احمدی بڑی عید اس روز کریں جس روز مکہ مکرمہ میں یہ عید منائی جاتی ہے، اس سے حضور کے دل میں اتحاد بین المسلمین کی جو تڑپ تھی اس کا ایک بار پھر عملی اظہار ہوا کچھ عرصہ قبل حضور نے اس امر کی طرف توجہ دلائی تھی کہ انسان کی استعدادیں چار حصوں میں منقسم ہیں جسمانی، ذہنی ، اخلاقی اور روحانی ان استعدادوں کی نشونما کے لئے حضور نے کئی تحریکات فرمائیں.قرآن کریم میں "قوی اور امین" بننے کا حکم دیا گیا ہے.حضور نے جماعت کے افراد کو قوی اور امین بننے کی تحریک فرمائی اور مجلس صحہ کا قیام فرمایا اور اس کے آغاز کے طور پر ربوہ میں سیر کا پہلا مقابلہ منعقد کروایا.اسی سلسلہ میں حضور نے آنحضرت میم کی سنت کی پیروی میں گھوڑے پالنے کی سکیم بھی صحت
393 جاری فرمائی اور ربوہ میں گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ کا انعقاد شروع کروایا حضور نے پانچ سالوں میں چار ہزار گھوڑے ٹورنامنٹ میں شامل کرنے کی تحریک فرمائی.حضور کے دل میں شدید خواہش تھی کہ خدا تعالیٰ کی آخری اور کامل کتاب " قرآن کریم" کی اتنی کثرت سے اشاعت کی جائے اور اس قسم کے منصوبے بنائے جائیں کہ بنی نوع انسان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں خدا تعالی کی کتاب دے دی جائے.اس مقصد کے حصول کے لئے آغاز کے طور پر حضور نے پانچ سالہ پروگرام کے تحت دس لاکھ گھروں میں دس لاکھ قرآن کریم پہنچانے کا اعلان فرمایا نیز مرکز سلسلہ میں طباعت و اشاعت قرآن عظیم کے لئے ایک ادارہ بھی قائم فرمایا اس موقع پر لجنہ اماء اللہ کی طرف سے دو لاکھ روپے اشاعت قرآن کریم کے لئے حضور کی خدمت میں پیش کئے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں قرآن کریم کی مختلف سورتوں کی آیات کی جو تفسیر مختلف مقامات پر پھیلی ہوئی تھی اسے یکجا کروانے کا کام حضور جاری فرما چکے تھے اس سلسلہ میں اس سال تفسیر آل عمران اور سورۃ النساء شائع ہوئی.اس سال حضور نے مسجد اقصیٰ ربوہ....اور جامعہ نصرت ربوہ کے سائنس بلاک کا افتتاح فرمایا :- جیسا کہ احباب جانتے ہیں پہلے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر مہمان تعلیم الاسلام ہائی سکول تعلیم الاسلام کالج.نصرت گرلز ہائی سکول اور نصرت گرلز کالج اور جماعت کے دوسرے تعلیمی اداروں میں ٹھرا کرتے تھے.چونکہ اس سال حکومت پاکستان نے جماعت کے سارے تعلیمی ادارے قومی تحویل میں لے لئے اس لئے اس سال اور آئندہ کے لئے جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے قیام کا مسئلہ پیدا ہو گیا.اس مشکل سے نبٹنے کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے جلسہ کے مہمانوں کے قیام کے لئے بیرکس بنانے کی تحریک فرمائی حضور کی اس تحریک پر احباب جماعت نے انتہائی والہانہ رنگ میں لبیک کہا.اسی سال نجی میں "مسجد محمود " کا افتتاح ہوا اور اس طرح حضور کے عہد خلافت میں
394 دنیا کے ایک کنارے پر اللہ تعالٰی کے ایک گھر کا اضافہ ہوا.اسی طرح کینیا میں جبروک کے مقام پر "مسجد جبروک" اور "مسجد احمد یہ عمر" تریوے (ماریشس) اور مسجد اقصیٰ ربوہ " کا بھی افتتاح ہوا.نائیجیریا میں مجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا سالانہ اجتماع بھی اس سال ہوا اور مرکز میں لجنہ اماء اللہ نے اپنا پنجاه سالہ جشن منایا اور عورتوں اور بچیوں کی تربیت کے لئے منصوبے بنائے.اس سال چین کے سفیر چانگ تنگ ربوہ تشریف لائے اور انہوں نے حضور کے ساتھ ملاقات کی.حضور نے ان کو قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود کی بعض کتب بھی دیں.اس سے اگلے سال حضور نے وکیل التبشیر صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کو چین بھجوایا تاکہ وہاں وہ دین اسلام کی اشاعت کے لئے حالات کا جائزہ لیں.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کا یہ دورہ بہت کامیاب رہا.اس سال ملکہ برطانیہ الزبتھ ثانی کو دورہ ماریشس کے دوران جماعت کی طرف سے قرآن کریم کا تحفہ دیا گیا.پاکستان کے استحکام اور سلامتی کے لئے حضور نے جماعت کو صدقات اور دعاؤں کی تحریک فرمائی، مرکز سلسلہ اور پاکستان کی دیگر جماعتوں اور بعض غیر ملکی جماعتوں میں بھی پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لئے اجتماعی دعائیں کی گئیں اور صدقات دیئے گئے.حضور کی تحریک نصرت جہاں لیپ فارورڈ" کے تحت سکولوں اور ہسپتالوں کے اجراء کا کام اس سال بھی جاری رہا.اور اس سال تک سکولوں اور ہلیتھ کلینکس تعداد دو درجن سے تجاوز کر گئی اور یہ سلسلہ سال بہ سال ترقی کرتا رہا حتی کہ حضور کے عہد خلافت میں نصرت جہاں کے ماتحت بننے والے سکولوں کی تعداد اکیس (۲۱) اور ہیلتھ کلینکس کی تعداد اٹھارہ (۱۸) تک پہنچ گئی اور ۵۳ لاکھ کے سرمائے سے شروع کیا جانے والا کام اللہ تعالیٰ کے فضل سے کروڑوں تک پہنچ گیا.اس سال کشمیر میں مسجد کاٹھ پورہ کا سنگ بنیاد صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب
نے رکھا.395 قرآن کریم کی اشاعت کے سلسلہ میں حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۷۲ء پر بتایا.سواحیلی زبان میں ترجمہ قرآن کریم پانچ ہزار کی تعداد میں شائع وو ہوا یوگنڈی زبان میں پانچ پاروں کی طباعت ہوئی.سویڈش زبان میں قرآن کے اکیس پاروں کا ترجمہ تیار ہو چکا ہے." الـ الله مصائب کو بشاشت کے ساتھ برداشت کرنے کے لئے حضور نے آنحضرت میں ایم کی متابعت میں چہروں پر بشاشت پیدا کرنے کی تحریک فرمائی اور فرمایا.خورد مسکرانا سنت نبوی ہے اس واسطے میں نے پہلے بھی متعدد بار کہا ہے کہ مجھے بھی اور مجھ سے پہلوں کو بھی بڑے مصائب اور پریشانیوں میں سے گزرنا پڑتا رہا ہے مگر ہماری مسکراہٹ کوئی چھین نہیں سکا.۱۲ نواں سال (۱۹۷۳ء) اس سال حضور نے یورپ کا تیسرا دورہ فرمایا.اس دورے کا بنیادی مقصد یورپ میں تبلیغ اور قرآن کی اشاعت کے وسیع سے وسیع تر منصوبوں اور وہاں پر ایک اعلیٰ قسم کا پریس قائم کرنے کے امکانات کا جائزہ لینا تھا.حضور نے اس دورے کے دوران انگلستان، ہالینڈ، جرمنی، سوئٹرز لینڈ، اٹلی، سویڈن اور ڈنمارک کا دورہ فرمایا.لندن میں طباعت کے مختلف اداروں میں بھی تشریف لے گئے اور قرآن کریم کی اشاعت و طباعت وغیرہ کا جائزہ لیا تاکہ ایسے اقدامات اختیار کئے جائیں کہ جماعت اپنے محدود وسائل کے باوجود قرآن مجید کو دنیا کے گھر گھر میں پہنچا سکے.مخالفت کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے جماعت کو نصیحت فرمائی.دنیا تیوریاں چڑھا کے اور سرخ آنکھیں کر کے تمہاری طرف دیکھ رہی ہے.تم مسکراتے چہروں سے دنیا کو دیکھو." ۱۹۷۳ء میں حضور نے ربوہ میں جدید پریس کا سنگ بنیاد رکھا، ربوہ کو سرسبز و شاداب بنانے اور شجر کاری کا منصوبہ بنایا اور اس کے آغاز کے طور پر دس ہزار درخت
396 لگانے کی سکیم کا اعلان فرمایا.جسمانی قوی کی نشوونما کے لئے حضور نے مشاورت پر سائیکل سواری کی تحریک فرمائی اور اول آنے والے ضلع کے لئے انعام کا اعلان فرمایا.اسی طرح خدام کو غلیل رکھنے اور نشانہ غلیل میں مہارت حاصل کرنے کی تحریک فرمائی.اس سال ملک میں تباہ کن سیلاب آیا.ربوہ کے نواحی علاقوں اور ملک کے دوسرے مقامات پر مجلس خدام الاحمدیہ نے عظیم الشان خدمات سرانجام دیں.اس سال آزاد کشمیر کی اسمبلی نے جماعت کے خلاف قرار داد منظور کی جس پر حضور نے عالمانہ تبصرہ فرمایا اور اسی سال ایک خطبہ جمعہ میں آنحضرت علی کے مقام محمدیت کی عارفانہ تفسیر فرمائی.یہ خطبہ کتابی شکل میں ”مقام محمدیت کی تفسیر" کے عنوان سے شائع ہوا مجلس انصار اللہ کی تنظیم کو زیادہ فعال بنانے کے لئے حضور” نے عمر کے لحاظ سے 21 انصار اللہ کو صف اول اور دوم میں تقسیم فرمایا.بیرونی ممالک میں جماعت میں وسعت اور بیداری کے پیش نظر حضور نے جلسہ سالانہ پر غیر ملکی احمدی وفود کی باقاعدہ شرکت کی تحریک فرمائی.منصوب اس سال جلسہ سالانہ پر حضور نے صد سالہ احمد یہ جو بلی" کا عظیم الشان پیش فرمایا اور جماعت احمدیہ پر سو سال پورے ہونے پر ۱۹۸۹ء میں سوسالہ جشن منانے اور احمدیت کی اگلی صدی کا استقبال کرنے کے لئے (جسے حضور نے غلبہ اسلام کی صدی قرار دیا) حضور نے جماعت سے اڑھائی کروڑ روپے کا مطالبہ کیا اور سولہ سال کے لئے ایک تربیتی اور روحانی دعاؤں ، نوافل اور ماہانہ روزے کا پروگرام دیا اور حمد اور عزم کے عظیم ماٹو دیئے جس پر جماعت نے والہانہ لبیک کہہ کر اپنے وعدوں کو دو کروڑ روپے کی بجائے دس کروڑ روپے تک پہنچا دیا.حضور نے آغاز خلافت پر جس لائحہ عمل کا اعلان فرمایا تھا صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ ان مقاصد کو پورا کرنے اور ان مقاصد میں مزید وسعت پیدا کرنے کا سب سے بڑا منصوبہ تھا.یہ ایک ایسا جامع پروگرام تھا جو اس عالمی سازش کے اثر کو زائل کرنے کا بہترین ذریعہ بننے والا ہے جو وو
397 جماعت کے خلاف سراٹھا رہی تھی حضور نے فرمایا.وو یہ ایک نہایت بڑا منصوبہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس میں بہت برکت ڈالی ہے اور شروع میں ہی اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت رحمت کے ایسے آثار ظاہر ہوئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کی قربانی کو شرف قبولیت عطا فرمایا ہے اور فرشتے تاریں ہلا کر ہماری ضرورتیں پوری کر رہے ہیں.tt امله اس سال بھی اندرون پاکستان اور بیرون پاکستان مساجد اور مشن ہاؤسز میں وسعت پیدا ہوتی رہی.اشاعت قرآن کریم کے سلسلہ میں دنیا کے بڑے بڑے ہوٹلوں اور لائبریریوں میں قرآن کریم رکھوائے گئے.نیز دنیا کے سرکردہ افراد تک قرآن کریم پہنچائے گئے جن مختلف ممالک کے سربراہ سفرا وزراء یونیورسٹیوں کے چانسلر ، ڈاکٹر ، وکلاء اور میں دانشور شامل ہیں.دسواں سال (۱۹۷۴ء) ۱۹۷۴ء کا سال ایک عظیم ابتلاء لے کر آیا.اس وقت کی حکومت کی شہ پر پاکستان میں احمدیوں کے قتل و غارت اور لوٹ گھوٹ کا بازار گرم رہا.معاندین نے احمدیوں کی مساجد قرآن کریم کے نسخے اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور احمدیوں کے گھر نذر آتش کئے ، کاروبار تباہ ہوئے، فیکٹریوں کو آگ لگائی گئی، کئی احمدی شہید کر دیئے گئے ، غرضیکہ احمدیوں کو بڑی قربانیاں دینی پڑیں.حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کو پہلے تحقیقاتی ٹربیونل میں بیان دینے کے لئے لاہور طلب کیا گیا اور پھر جرح کے لئے پاکستان قومی اسمبلی میں اسلام آباد بلایا گیا.کئی روز کی جرح کے دوران حضور نے جماعت احمدیہ کے عقائد کی خوب ترجمانی فرمائی.جماعت کے لئے یہ بہت نازک وقت تھا.حضور جماعت کی دلداری فرماتے رہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور مسلسل کئی کئی راتیں جاگ کر مناجات کرتے رہے اور مخالفت
398 اور ر ظلم و و تشدد کے طوفان کے آگے ایک مضبوط چٹان کی طرح کھڑے ہو گئے اور اپنی دعاؤں اور اولوالعزمی سے اس کا رخ موڑ دیا.پاکستان کی قومی اسمبلی نے جماعت احمدیہ کو آئینی اغراض کی خاطر غیر مسلم قرار دیا.حضور کو اللہ تعالیٰ نے الہاما بتایا." وَسِعْ مَكَانِكَ إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِءِ يُنَ " کہ تم اپنے مکان وسیع کرو.میں ان استہزاء کرنے والوں کے لئے کافی ہوں چنانچہ حضور کے پاس جو بھی مصیبت زدہ احمدی ملاقات کے لئے آتا حضور کو مل کر وہ تمام دکھ بھول جاتا اور تعلق باللہ اور توکل اور اللہ تعالیٰ کی بتائی ہوئی بشارتوں کے نتیجہ میں حضور" کے چہرے پر جو بشاشت تھی وہ ملاقات کے بعد ان چہروں پر بھی منتقل ہو جاتی اور وہ ہنستے مسکراتے باہر جاتے اور جو قربانیاں اللہ تعالیٰ ان سے لے رہا تھا ان پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے.پاکستان قومی اسمبلی کے اس فیصلے کی کئی مسلمان حکومتوں نے توثیق کی اور عالمی سطح پر اس مسئلہ کو پہنچانے کی کوشش کی ، اس موقعہ پر آپ حضرت مصلح موعود کو دی جانے والی اس خدائی بشارت کے مصداق ہوئے جس میں کہا گیا تھا کہ میں تجھے ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گا.» ۱۵ ۱۹۷۴ء کے مصائب سے اس طرح بچ نکلنا حضرت مسیح موعود کی اس دعا کا ثمرہ لگتا ہے جس میں حضور نے انصار دین کے لئے اپنے مولیٰ کے حضور جیسا کہ عرض کرتے ہیں.کریما صر کرم کن بر کسے کو ناصر دیں است بلائے او بگرداں گر گئے آفت شود پیدا 24 اس طرح ۱۹۷۴ء سے جماعت احمدیہ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا.حضور کو وسیع مكانك کا جو الہام ہوا تھا اس کے پیش نظر حضور نے جماعت کے تربیتی اور تبلیغی اور
399 دیگر روحانی پروگراموں میں وسعت پیدا فرمائی اور حضور کی حسن تدبیر اور دعاؤں کے نتیجہ میں یہی ابتلاء احمدیت کی غیر معمولی وسعت کا پیش خیمہ بنا.اسی سال حضور نے غیر ملکی مہمانوں کے لئے ربوہ میں کئی گیسٹ ہاؤس تعمیر کروانے شروع کئے.چنانچہ فضل عمر فاؤنڈیشن، مجلس انصار اللہ مرکزیہ وغیرہ کے گیسٹ ہاؤسز کے سنگ بنیاد رکھے گئے.بیرونی ممالک میں مساجد اور مشن ہاؤسز میں وسعت پیدا ہونے لگی، قرآن کریم کے تراجم میں کے کام کی رفتار بھی تیز ہو لگی.جمہوریہ داھولی کے دارالحکومت پورٹورو میں پہلی احمد یہ مسجد کا افتتاح ہوا.جزائر فجی کے دارالحکومت سودا میں مسجد فضل عمر " اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا گیا.ہندوستان میں دھومی اور بنگس میں مساجد کے سنگ بنیاد رکھے گئے.اور ہندوستان میں صوبہ آندھرا پردیش میں مری پیڈا میں مسجد کا افتتاح ہوا.اسی طرح گھانا میں فومینا میں مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر سورۃ مائدہ تا سورۃ توبہ شائع ہوئی.اس سال یوگنڈا کی زبان میں ترجمہ و تفسیر قرآن کی اشاعت ہوئی حضور نے جلسہ سالانہ پر "حب الوطنی" کے موضوع پر افتتاحی خطاب اور اور ”ہمارے عقائد کے موضوع پر اختتامی خطاب فرمایا اور جماعت کے افراد میں ایمان و ایقان کی ایک نئی روح پھونک دی.۱۹۷۴ء کا سال جماعت کے لئے عظیم ابتلاؤں کا سال تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے بے شمار افضال اور نشان ظاہر ہوئے مالی لحاظ سے بھی جماعت کے چندوں میں اضافہ ہوا.پاکستان میں بھی ہزاروں گھرانے احمدی ہوئے چنانچہ حضور نے فرمایا:.ستمبر ۱۹۷۴ء کے بعد بعض علاقوں میں اللہ تعالیٰ نے ایسی رو چلائی کہ وہاں (یعنی پاکستان میں) ہزاروں گھرانے احمدی ہو چکے ہیں اور جو احمدی ہوئے ہیں وہ دن بدن ایمان و اخلاص میں پختہ ہوتے چلے جا رہے ہیں.اور چندوں کے اضافے کے بارے میں فرمایا :.
400 ” دنیا مان ہی نہیں سکتی کہ ۱۹۷۴ء کے سال کا چندہ اس پہلے امن کے سال کے مقابلہ میں سات لاکھ روپے زیادہ تھا." ۱۹۷۴ء میں جو دکھ معاندین کی طرف سے جماعت کو پہنچے وہ بلحاظ کمیت و کیفیت غیر معمولی تھے حضور نے جماعت کو اپنے پیغام میں ارشاد فرمایا:.” دوست دریافت کرتے ہیں کہ ان حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے میرا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم کے اس حکم پر عمل کرو کہ اِسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة استقامت، صبر، دعاؤں اور نمازوں کے ساتھ اپنے رب سے مدد مانگو.پس صبر کرو اور دعائیں کرو، صبر کرو اور دعائیں کرو“ صبر کرو اور دعائیں کرو.۱۸ معاندین کی ایذا رسانیوں کے رد عمل کے بارے میں حضور کا جو تصور تھا اس کا اظہار حضور نے ان الفاظ میں کیا.فرمایا :- " ہم تو یہ بھی پسند نہیں کرتے کہ وہ جو اپنی طرف سے ہمارا مخالف ہے...اس کے پاؤں میں ایک کانٹا بھی چھے.۱۹ ۱۹۷۴ء میں جماعت کی مخالفت اور معاندین کی ایذا رسانی کے وقت حضرت خلیفہ المسیح الثالث " جس کرب اور اضطراب کے ساتھ جماعت کے لئے راتیں جاگ کر اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے رہے وہ بالکل وہی کردار تھا جس کا ذکر حضور نے ۱۹۶۵ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ کے بارہ میں فرمایا تھا.حضور نے فرمایا." جب بھی مخالفین نے ہم پر حملہ کیا اور دنیا نے یہ سمجھا کہ اب جماعت کا بچنا مشکل ہے تو اس وقت دشمن کے چلائے ہوئے تیر اپنے سینے پر اس نے سے.ہم راتوں کو آرام کی نیند سوتے تھے کیونکہ ہمیں علم ہوتا تھا کہ ایک دل ہے جو ہمارے لئے تڑپ رہا ہے اور جو اپنے مولا کے حضور راتوں کو جاگ جاگ کر بڑی عاجزی سے یہ عرض کر رہا ہے کہ اے خدا! یہ تیرے مسیح کا لگایا ہوا پودا ہے، یہ بے شک کمزور
401 ہے لیکن اس کے ذریعے تیرے محمد صلی ) کا نام دنیا کے کونے کونے میں پہنچ رہا ہے.اگر آج یہ پودا برباد ہو گیا تو الہی تیرے محمد ( م ) کا نام دنیا میں کیسے بلند ہو گا؟ ۲۰ چنانچہ ۱۹۷۴ء کے دنوں کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.دنیوی لحاظ سے وہ تلخیاں جو دوستوں نے انفرادی طور پر محسوس کیں وہ ساری تلخیاں میرے سینے میں جمع ہوئی تھیں، ان دنوں مجھ پر ایسی راتیں بھی آئیں خدا کے فضل اور رحم سے ساری ساری رات ایک منٹ سوئے بغیر دوستوں کے لئے دعائیں کرتا رہا." اس ایک اور موقع پر فرمایا :.بعض دفعہ ایسے حالات بھی آئے ہیں وہ ہفتوں ساری رات آپ کے لئے دعائیں کر رہا ہوتا ہے جیسے ۱۹۷۴ء کے حالات میں دعائیں کرنا پڑیں.میرا خیال ہے کہ دو مہینے میں بالکل سو نہیں سکا تھا.کئی مہینے دعاؤں میں گزرے تھے." گیارھواں سال (۱۹۷۵ء) ۱۹۷۵ء میں حضور علاج کی غرض سے یورپ تشریف لے گئے اور انگلستان، مغربی جرمنی ، ڈنمارک، ناروے، ہالینڈ اور سوئٹرز، رلینڈ کا دورہ بھی فرمایا.انگلستان کے جلسہ سالانہ میں شرکت فرمائی اور سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں مسجد ناصر کا سنگ بنیاد رکھا.حضور نے لندن میں عید الفطر پڑھائی امام وقت کے لندن میں عید پڑھانے کا یہ پہلا موقع تھا.مغربی افریقہ میں اس سال سیرالیون میں نئی مسجد بنی اور مشرقی افریقہ میں مسجد احمدیہ کیفیا کی تعمیر شروع ہوئی.بھارت میں مسجد محمود آباد کیرنگ اڑیسہ انڈیا کی تعمیر مکمل ہوئی اور مسجد احمد یہ بھاگلپور (بہار) کا ایک حصہ مکمل ہوا.۱۹۷۵ء کے جلسہ سالانہ ربوہ پر حضور نے پوری قوم اور جماعت کے ذہین بچوں کی بیرون ملک اعلیٰ تعلیم کے لئے وظائف کا اعلان فرمایا.
402 جلسہ سالانہ پر ہی حضور نے قرآنی آداب و اخلاق اپنانے کے لئے جہاد کا علان کیا اور حفظ قرآن کی تحریک کرتے ہوئے احباب جماعت کو ایک ایک پارہ حفظ کرنے کے لئے کہا.حضور نے گھوڑوں کی پرورش اور نشوونما کے لئے خیل للرحمن کے نام سے ایک کمیٹی بنائی اور صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو اس کا صدر مقرر فرمایا.حضور نے جماعت کے تبلیغی پروگراموں میں وسعت کے پیش نظر گریجوایٹس کو زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی، اس سال گیمبیا کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا اسی طرح اس سال چین میں جماعت کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.اس سال کے شروع میں بھارت کے صوبہ تامل ناڈو میں میلہ پالم کے مقام پر نیا مشن ہاؤس قائم ہوا اور جماعت احمدیہ بنگلور کی طرف سے سہ ماہی رسالہ یک رشمی کا اجراء ہوا اس سال جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر حضور نے نہایت جذباتی انداز میں غیر ملکی وفود کو کھڑا کر کے اس بات کا اعلان کیا کہ یہ وجود مسیح موعود کے الہام ”میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا" کے پورا ہونے کا ثبوت ہیں.اس طرح ۱۹۷۴ء کے ابتلاء کے بعد سے وسعت کا جو الہی منصوبہ تھا اس کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے اور ایک دنیا نے اس کا مشاہدہ کیا ۱۹۷۵ء میں مغربی افریقہ میں گھانا میں و آ (WA) کے مقام پر مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور سیرالیون میں ایک نئی مسجد بنی.اسی طرح مشرقی افریقہ میں مسجد احمدیہ کینیا تعمیر ہوئی اور مسجد احمدیہ نادیٹا کا بھی سنگ بنیاد رکھا گیا.ہندوستان میں مسجد محمود کیرنگ (اڑیسہ) مکمل ہوئی، مدراس میں مسجد کا سنگ بنیاد امیر صاحب ہندوستان کے ہاتھوں رکھا گیا، بہار میں برہ پورہ میں مسجد کی توسیع کے لئے سنگ بنیاد رکھا گیا، ارکھ پٹنہ (اڑیسہ) میں مسجد کا افتتاح ہوا.بارھواں سال (۱۹۷۶ء) وَسِعْ مَكَانِكَ کے خدائی فرمان کی تعمیل میں حضور ۱۹۷۶ء میں یورپ، امریکہ اور کینیڈا کے دورے پر روانہ ہوئے اس دورے کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ حضور کا
403 یہ براعظم امریکہ کا پہلا دورہ تھا.حضرت مسیح موعود نے امریکہ میں تبلیغ دین کی مشکلات کے باعث فرمایا تھا کہ " میں اس بات کو صاف صاف بیان کرنے سے رہ نہیں سکتا کہ یہ ee میرا کام ہے دوسرے سے ہرگز ایسا نہیں ہو گا جیسا مجھ سے، یا جیسا اس سے جو میری شاخ ہے اور مجھ ہی میں داخل ہے؟ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں حضور کا وجود ہی ایسا تھا جو اس اہم خدمت کو حضرت مسیح موعود کی جانشینی میں شروع کر سکتا تھا.چنانچہ حضور نے امریکہ واشنگٹن ڈیٹن، نیوریاک اور نیو جرسی کا دورہ فرمایا اور ان کے جلسہ ہائے سالانہ پر خطابات فرمائے.حضور نے جماعت کو کمیونٹی سنٹر بنانے اور ان میں پھلدار پودے لگانے کی تحریک بھی فرمائی.حضور کینیڈا بھی تشریف لے گئے جہاں حضور کا والہانہ استقبال کیا گیا.اس دورہ کے دوران حضور نے یورپ میں مسجد ناصر" گوٹن برگ (سویڈن) کا افتتاح فرمایا اور ڈنمارک ، سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ اور انگلستان کی جماعتوں کا دورہ بھی فرمایا اور مغربی دنیا میں اسلام کی نشر و اشاعت کے دائرہ میں توسیع فرمائی.اسلام کی اشاعت کے نظام کو زیادہ موثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے امریکہ اور کینیڈا کے مبلغین کو نصائح فرمائیں اس سال کینیڈا سے احمد یہ گزٹ شائع ہونا شروع ہوا.معلمين اس سال وقف جدید کے کاموں میں تیزی پیدا کرنے کے لئے حضور نے وقف جدید کی تحریک فرمائی اور ان کے لئے تین ماہ کا شارٹ کورس مقرر فرمایا.جماعت جس دور میں داخل ہو چکی تھی اس کے مناسب حال حضور نے مشاورت میں فقہ احمدیہ کی تدوین کی قرار داد منظور فرمائی.ملکی حالات کے باعث اس سال انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے لئے ایک ایک روزہ اجتماعات ہوئے، جنہیں مسجد اقصیٰ میں منعقد کیا گیا.ربوہ میں وسعت مکانی کے سلسلہ میں حضور نے مسجد مبارک کی توسیع اور اپنی رہائش کے ساتھ گیسٹ ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا.
404 اس سال حضرت بانی سلسلہ کی بیان فرمودہ تفسیر سورۃ یونس تا کہف شائع ہوئی اور نائیجیریا سے یوروبا" زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہوا نیز نائیجیریا میں جماعت کی طرف سے تراجم قرآن کی نمائش کا انتظام کیا گیا.اس سال بعض لوگوں کی طرف سے پندرھویں صدی کے مجدد کے بارے میں سوال اٹھایا گیا.حضور نے حضرت مسیح موعود کی تعلیمات کی روشنی میں یہ واضح فرمایا کہ مسیح موعود کا زمانہ ایک ہزار سال تک ممتد ہے اور اس لئے حضرت مسیح موعود علیه السلام مجدد الف آخر ہیں اور خلیفہ المسیح ہی اب اپنے مطاع کی متابعت میں مجدد ہوتا ہے.مسجد بیرونی ممالک گیمبیا (مغربی افریقہ) میں گر پیلسی اور شمالی میں دو مساجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا.جنوبی امریکہ میں گی آنا کے مقام پر مسجد کا افتتاح ہوا، مغربی افریقہ میں بینن میں کا سنگ بنیاد رکھا گیا نیز پینگاڈی (مالا بار.انڈیا) میں مسجد کا افتتاح ہوا، انگلستان میں ہڈرزفیلڈ میں مسجد کا افتتاح بھی اسی سال ہوا، پونچھ کشمیر میں مسجد احمد یہ بڑھانوں کا بھی سنگ بنیاد اس سال رکھا گیا.نصرت جہاں کے تحت قائم ہونے والے سکولوں، کالجوں اور ہسپتالوں میں بھی مسلسل ترقی ہوتی رہی.تیرھواں سال (۱۹۷۷ء) حضور کی خلافت کے تیرھویں سال ۱۹۷۷ء میں حضور کی اجازت سے ملکہ انگلستان کی سلور جوبلی کے موقع پر جماعت کی طرف سے ملکہ کو "قرآن کریم" کا تحفہ پیش کیا گیا لندن میں جماعت کے زیر انتظام ہستی باری تعالٰی کے موضوع پر مختلف مذاہب کے نمائندوں کی مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی.ہڈرزفیلڈ (انگلستان) میں مسجد احمدیہ کا افتتاح ہوا تنزانیہ کے جنوبی صوبہ نیوالہ میں مشن ہاؤس کا قیام ہوا.امریکہ کی مجلس خدام الاحمدیہ کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا.کینیڈا میں احمدیہ مساجد کی
405 تعمیر کے لئے زمین خریدی گئی اور مشن ہاؤس کا قیام عمل میں آیا.سری نگر میں مسجد احمدیہ کا سنگ بنیاد رکھا گیا.حضور کے ارشاد پر محاسن قرآن پر دس قطعات کے سیٹ کی اشاعت کی گئی.اس سال ۲۳ مئی کو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ " کا انتقال ہوا، آپ حضرت موعود علیہ السلام کی بڑی صاحبزادی اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کی پھوپھی اور خوشدامن بھی تھیں.جماعت کے لئے آپ کا وجود شعائر اللہ کا درجہ رکھتا تھا، جس قسم کی زندگی آپ نے اور مسیح موعود علیہ السلام کی باقی اولاد نے گزاری جن میں حضرت خلیفہ ثالث” بھی بطور نافلہ موعود شامل ہیں.یہی وہ زندگی تھی جس کے بارہ میں حضرت مسیح موعود نے ایک مرتبہ فرمایا:." در حقیقت خوش اور مبارک زندگی وہی زندگی ہے جو الہی دین کی خدمت اور اشاعت میں بسر ہو.ورنہ اگر انسان ساری دنیا کا بھی مالک ہو جائے اور اس قدر وسعت معاش ہو کہ تمام سامان عیش کے جو دنیا میں ایک شہنشاہ کے لئے ممکن ہیں وہ سب عیش اسے حاصل ہوں پھر بھی وہ عیش نہیں بلکہ ایک قسم عذاب کی ہے جس کی تلخیاں کبھی ساتھ ساتھ اور کبھی بعد میں کھلتی ہیں." ۱۹۷۷ء میں انگریزی ترجمہ قرآن کریم مع عربی متن کلکتہ (انڈیا) سے شائع ہوا.چودھواں سال (۱۹۷۸ء) ۱۹۷۸ء میں جماعت احمدیہ نے مسیح علیہ السلام کی صلیب سے نجات کے موضوع پر لندن میں ایک بین الاقوامی کانفرنس کا اہتمام کیا.حضور" کا نفرنس میں شمولیت کے لئے لندن تشریف لے گئے.اس کانفرنس کا وہاں بڑا چرچا ہو رہا تھا اور چرچ کی طرف سے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا جا رہا تھا.انہوں نے دھمکیوں کے خطوط بھی لکھے ، لیکن حضور نے قرآنی ہدایت فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِي (البقرہ ۱۵۱) کے تحت دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر کانفرنس میں شمولیت اختیار فرمائی اور اس میں معرکتہ الا را خطاب فرمایا.
406 دنیا کے بعض اور نامور مفکرین (جو مختلف مکتبہ ہائے فکر سے تعلق رکھتے تھے) نے بھی اپنے تحقیقی مقالے پڑھے ، جس سے برطانوی چرچ میں ہلچل مچ گئی.برٹش کونسل آف ) چرچز کی طرف سے ایک پریس نوٹ کے ذریعے تبادلہ خیالات کی دعوت دی گئی جسے حضور نے نہ صرف قبول فرمایا.بلکہ اسی قسم کے تبادلہ خیالات کی رومن کیتھولک چرچ کو بھی دعوت دی اور لندن ، روم، مغربی افریقہ اور ایشیا کے دارالحکومتوں اور امریکہ میں بھی اس طرح کے اجلاس منعقد کرنے کی دعوت دی.اس کانفرنس کی اتنی پلیٹی ہوئی کہ کروڑوں افراد تک احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچا جن کی اندازاً تعداد ۱۵ کروڑ ہے.اس دورے کے دوران حضور نے ڈنمارک، مغربی جرمنی سویڈن ، ناروے اور انگلستان کے دورے فرمائے اور ان ممالک کے مبلغین کو عیسائی دنیا میں وسیع پیمانے پر احمدیت پھیلانے کے بارے میں ہدایات دیں.یورپ کے علاوہ مغربی افریقہ کے ممالک سے آئے ہوئے مبلغین کو بھی حضور نے و چکی ہدایات دیں.اس سال سری لنکا کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہوا.یورپ میں جو بیداری پیدا ہو تھی اس کے نتیجے میں اس سال مجلس انصار اللہ انگلستان کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا.اسی سال سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکزیہ کے موقع پر حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو کثرت رائے سے صدر منتخب کرنے کی سفارش کی گئی.حضور نے یہ سفارش منظور فرمالی.اس سال حضور نے اسلام مذہبی آزادی اور آزادی ضمیر کا ضامن ہے" کے موضوع پر خطبات بھی ارشاد فرمائے.اللہ کے فضل سے اسی سال گھانا، انڈونیشیا، مشرقی افریقہ اور نجی میں کل ۲۵ نئی مساجد تعمیر ہوئیں.مالا بار انڈیا میں مسجد احمدیہ کو سکون کا افتتاح عمل میں آیا ، احمد یہ مشن ہاؤس مدراس کا بھی اس سال افتتاح ہوا.
407 پندرہواں سال (۱۹۷۹ء) ۱۹۷۹ء کا سال اللہ تعالیٰ کے خاص نشانوں کا ظہور کا سال ثابت ہوا.ایران میں شہنشاہیت کے خاتمہ سے حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی تزلزل در ایوان کسری فتاد " ۲۵ کا ایک بار پھر ظہور ہوا.احمدیہ مشن ہاؤس کیلیگری (کینیڈا) کا افتتاح عمل میں آیا.چین میں قرطبہ کے قریب مسجد اور دار التبلیغ کے لئے جگہ خریدی گئی.جاپان میں دوسرا مشن یو کو ہاما میں قائم ہوا.اس سال گھانا سے دس ہزار ، ہانگ کانگ سے ایک ہزار اور امریکہ سے ہیں ہزار کی تعداد میں انگریزی ترجمہ قرآن شائع ہوا اور دس لاکھ کی اشاعت کا منصوبہ بنایا کیا.اس سال جماعت احمدیہ کے مایہ ناز فرزند ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو حضرت خلیفہ" المسیح الثالث کی دعا سے فزکس میں نوبل انعام ملا اور جماعت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی پوری ہوئی جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ :."میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو tt سے سب کا منہ بند کر دیں گے.حضور نے اس سال تعلیمی منصوبے کا اعلان فرمایا اور اسے صد سالہ احمدیہ جو بلی منصوبے کا ایک حصہ قرار دیا اور فرمایا کہ غلبہ اسلام کی آسمانی مہم سے اس کا گہرا تعلق ہے.حضور نے تعلیمی وظیفہ کمیٹی بھی تشکیل دی اور ڈاکٹر سلام صاحب کو اس کا صدر مقرر فرمایا.سری نگر (کشمیر) جہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر موجود ہے میں بھی اسی سال مسجد کی تعمیر مکمل ہوئی.ناروے میں مسجد کے لئے زمین خریدی گئی.اس سال نائیجیریا میں اوگن سٹیٹ" کے علاوہ اویو سٹیٹ" (آبادان) سے بھی وائس آف اسلام کے نام سے پروگرام نشر ہونا شروع ہوا گیمبیا سے ماہنامہ الاسلام"
408 کا اجراء ہوا.مغربی جرمنی میں انصار اللہ کا پہلا سالانہ اجتماع ہوا اور انڈونیشیا میں خدام الاحمدیہ کا پہلا اجتماع ہوا اس طرح دنیا کے اطراف و جوانب میں سلسلہ کے کاموں میں وسعت پیدا ہوتی چلی گئی اور ہر نیا دن احمدیت کی ترقی اور فتح و نصرت کا پیغام لے کر آیا.اس سال ہندوستان میں مشن ہاؤس مدراس کا افتتاح ہوا جو صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب نے فرمایا.اب تک جو وسعت پیدا ہو چکی تھی اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور ” نے ۱۹۷۹ء کے جلسہ سالانہ پر فرمایا :- " میں جماعت پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضلوں میں سے چند ایک کا منادی بن کر کھڑا ہوں.دنیا کے کونے کونے سے جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمتیں موسلادھار بارش کی طرح برس رہی ہیں ، ہمارے پاس وہ زبان نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا شکر ادا کر سکیں، زبان میں وہ الفاظ نہیں کہ اس کی عظمت، جلال، وحدانیت قدرت، محبت، رحمانیت اور رحیمیت کے جلووں کو اپنے احاطہ میں لاسکے.خدا کی باتیں خدا ہی سمجھ سکتا ہے.بد بخت ہے وہ جو کہ خدا سے بے وفائی کرتا ہے.۲۷ سولہواں سال (۱۹۸۰ء) ۱۹۸۰ء کا سال اللہ تعالیٰ کے غیر معمولی فضلوں اور نشانوں کا سال ثابت ہوا یہ سال چودھویں صدی اور پندرھویں صدی ہجری کا سنگم تھا.چودھویں صدی کے ختم ہونے سے پہلے وہ مبارک لمحہ آیا جب غیر معمولی حالات میں ساڑھے سات سو سال بعد حضرت خلیفہ المسیح الثالث اور حضور کی حرم سیدہ منصوره بیگم صاحبہ نے سپین میں پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.یہ ۹.اکتوبر ۱۹۸۰ء جمعرات کا مبارک دن تھا جو تاریخ میں قیامت تک یاد رکھا جائے گا.ایک وہ دن تھا جب
409 ۱۹۷۰ء میں حضور” نے سپین کا دورہ کیا اور پوری کوشش کے باوجود حکومت کی طرف سے ایک ویران مسجد نماز پڑھنے کے لئے چند سالوں کے لئے بھی نہ مل سکی، اور دس سالوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ انقلاب پیدا کیا کہ قرطبہ کے قریب پید رو آباد میں تیرہ کنال سے زائد زمین خرید کر حکومت کی طرف سے مسجد بنانے کی اجازت دے دی گئی جس کی اللہ تعالٰی نے حضور کو دس سال قبل الہام الہی کے ذریعے خبر دے دی تھی.اس سال حضور نے تین پراعظموں یورپ ، امریکہ.اور افریقہ کے تیرہ ممالک کا عطر دورہ کیا اور محبت کا سفیر بن کر زمین کی انتہائی آبادی تک پہنچ کر دعوت الی اللہ کا فریضہ ادا کیا اور اسی دورہ کے آخر میں مسجد بشارت سپین کا سنگ بنیاد رکھا اور اسلام کی نشاۃ اولی کی یاد تازہ کر دی جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے بارہ میں تحریر فرمایا تھا.کہ " وہ دعوت اسلام کے لئے ممالک شرقیہ اور غربیہ تک پہنچے اور ملت محمدیہ کی اشاعت کے لئے بلاد جنوبیہ اور شمالیہ کی طرف انہوں نے سفر کیا.زمین کی انتہائی آبادی تک زمین پر قدم مارتے ہوئے پہنچے." JA حضور کا ساتواں اور آخری غیر ملکی دورہ تھا جس میں حضور نے مغربی جرمنی سوئٹزر لینڈ، آسٹریا، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، ہالینڈ پین، نائیجیریا، غانا، کینیڈا ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور انگلستان میں پہنچ کر نہ صرف افراد جماعت میں بیداری پیدا کی بلکہ غلبہ اسلام کے کام میں غیر معمولی وسعت پیدا فرمائی اور غلبہ اسلام کے منصوبے بنائے.اس دورہ کے دوران حضور نے انگلستان میں پانچ نئے مشنوں کا افتتاح فرمایا جو ہڈرزفیلڈ مانچسٹر، بریڈ فورڈ ساؤتھ آل اور برمنگھم میں واقع ہیں.حضور نے ناروے میں اوسلو کے مقام پر ایک تین منزلہ شاندار عمارت کا جو مسجد اور مشن ہاؤس کے طور پر استعمال کرنے کے لئے خریدی گئی تھی افتتاح فرمایا.حضور نے نائیجیریا کے مختلف علاقوں میں بننے والی تین بڑی مسجدوں کا بھی افتتاح فرمایا.
410 مغربی افریقہ میں حضور نے تعلیمی اور طبی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور متعدد نئے تعلیمی اور طبی مراکز کھولنے کی منظوری دی.حضور نے ابراہیمی دعائیں پڑھ کر مسجد بشارت سپین کا سنگ بنیاد رکھا اور متعدد پریس کانفرنسوں سے خطاب فرمایا اور امریکہ اور کینیڈا میں بڑی وسیع زمینیں خرید کر عید گاہیں اور کمیونٹی سنٹر بنانے کی تحریک << فرمائی.حضور نے اس دورہ کے دوران اس عزم کا اظہار کیا کہ جن ممالک میں جماعت احمدیہ کے مشن نہیں ہیں ان میں رفتہ رفتہ مشن کھولے جائیں گے اور دنیا کی ہر زبان میں قرآن مجید کے تراجم شائع کئے جائیں گے.حضور نے فرمایا کہ ہم جلد یا بدیر اس میں کامیاب ہو جائیں گے.حضور نے مسجد سپین کے افتتاح کے موقع پر جو معرکتہ الا را خطاب فرمایا اس کے آخر میں فرمایا :." میرا پیغام صرف یہ ہے کہ Love For All Hatred For None یعنی سب کے ساتھ پیار کرو.نفرت کسی سے نہ کرو ۳۹ چنانچہ حضور نے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ محبت کے ذریعے دنیا کے دل فتح کریں اور نفرت کسی سے نہ کریں.خدمت قرآن کے سلسلہ میں حضور نے ہر احمدی گھرانے میں تفسیر صغیر اور حضرت مسیح موعود کی کتب سے اخذ کی ہوئی تفسیر قرآن رکھنے کو ضروری قرار دیا.تعلیمی منصوبہ بندی کے سلسلہ میں سویابین اور لیسی تھین استعمال کرنے کی تاکید فرمائی اور فرمایا کہ صد سالہ احمد یہ جوبلی تک جماعت ایک سو سائنس دان پیدا کرے.چودھوئیں اور پندرھویں صدی کے سنگم پر حضور نے مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع پر معرکتہ الا را تقریریں فرمائیں اور بتایا کہ پندرھویں صدی غلبہ اسلام کی صدی ہو گی.چودھویں صدی کے اختتام اور پندرھویں صدی کے استقبال کے لئے حضور نے جماعت کو لا إِلَهَ إِلَّا اللہ کا ورد کرنے کی تحریک فرمائی.
411 حضور" نے احمدی آرکیٹکٹس اور انجینئرز کی عالمی ایسوسی ایشن بنائی اور ان سے خطاب فرمایا.اور اسی طرح احمدی سٹوڈنٹس کی ایسوسی ایشن سے بھی خطاب فرمایا حضور نے تعلیمی منصوبہ بندی کے سلسلہ میں اول آنے والے طلباء و طالبات کے لئے طلائی و نقرئی تمغہ جات دینے کا اعلان فرمایا تھا چنانچہ حضور نے اس سال اول آنے والے طلباء و طالبات کو تمغہ جات دیئے.اس سلسلہ میں دو تقاریب منعقد ہو ئیں.اس سال کینیڈا میں کیلگری کے مقام پر ۴۰ ایکٹر زمین مشن کے لئے خریدی گئی.اوسلو (ناروے) میں مشن کا قیام بھی اسی سال عمل میں آیا جس کا ذکر گزر چکا ہے.اس سال جاپان سے سہ ماہی رسالہ وائس آف اسلام" کا اجراء ہوا.غرضیکہ دنیا کے اطراف و جوانب میں غیر معمولی وسعت پیدا ہوئی.سترہواں سال (۱۹۸۱ء) ۱۹۸۱ء میں حضور" نے قصر خلافت (دار السلام النصرت) کی دو منزلہ بلڈنگ اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی بلڈنگ کا سنگ بنیاد رکھا اور فن تعمیر سے جو آپ کو لگاؤ تھا اس کا عملی اظہار اس طرح کیا کہ تعمیر کی نگرانی کرنے والے انجینئروں اور تعمیرات میں ذاتی دلچسپی لی اور عہد عثمانی کی یاد تازہ کر دی.حضور نے امن عالم کے لئے دعاؤں اور صدقات کی تحریک فرمائی غانا میں حضور کی خواہش کے مطابق عید الاضحیٰ مکہ مکرمہ کی تاریخوں کے مطابق منائی گئی.غلبہ اسلام کے دن قریب لانے کے لئے حضور نے ذہنی اخلاقی جسمانی اور روحانی ترقی کا منصوبہ جاری فرمایا.جماعتی تنظیموں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے حضور نے مجلس توازن قائم فرمائی.ناگویا (جاپان) میں اس سال پہلا اور ٹوکیو (جاپان) میں دوسرا یوم دعوت الی اللہ منایا گیا انگلستان میں یوم دعوت الی اللہ پر ۳۰ ہزار پمفلٹ تقسیم کئے گئے.
412 مجلس انصار اللہ انڈونیشیا کا پہلا سالانہ اجتماع بھی اسی سال وقوع پذیر ہوا.ناروے کے خدام الاحمدیہ کا پہلا سالانہ اجتماع بھی اس سال منعقد ہوا.شگاگو کی ایک پبلک لائبریری میں قرآن کریم کے نسخے رکھوائے گئے.حضور نے جلسہ سالانہ کے موقع پر اس بات کا اعلان فرمایا کہ دوران سال غیر معمولی حالات میں جاپان میں مشن اور مسجد کے لئے ایک عالیشان عمارت خریدی گئی ہے.امریکہ اور کینیڈا میں غیر معمولی وسعت کے لئے بنیادیں مستحکم ہوئی ہیں اور افریقہ میں غیر معمولی ترقی نصیب ہوئی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ چین کی مسجد کی تعمیر مکمل ہو گئی ہے اور اس کے مینار قادیان کی مسجد اقصیٰ کے میناروں کی طرز پر بنوائے گئے ہیں.رم حضرت مصلح موعود کے دیباچہ تفسیر القرآن کا فرانسیسی ترجمہ شائع ہوا.حضور نے بتایا کہ اب فرانسیسی بولنے والے ممالک میں احمدیت کا نفوذ بڑھ رہا ہے.چنانچہ ٹوگو لینڈ ، چاڈ، نائیجر وغیرہ میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں.حضور نے اس امر کا اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے حضور ” کو یہ خبر دی ہے کہ حضور کے دور خلافت میں اشاعت قرآن پہلی دونوں خلافتوں سے زیادہ ہوئی ہے (اس طرح حضور متیل عثمان " ہوئے) حضور نے اشاعت قرآن کے عظیم منصوبے کا اعلان فرمایا اور اپنی تڑپ کا اظہار کیا که فرانسیسی، روسی اور چینی زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ مع تفسیری نوٹس شائع کیا جائے گا جس سے دنیا کی نوے فیصدی آبادی تک خدا تعالیٰ کی کتاب پہنچ جائے گی.حضور نے جماعت کو "حمد" اور "عزم" کے علاوہ دو اور ماٹو دیئے محبت و پیار" اور ”ہمدردی و خیر خواہی." فرمایا یہ ماٹو قیامت تک قائم رہیں گے." حضور نے اسلام کی چودہ صدیوں کی یاد میں چودہ کونوں والا ستارہ احمدیت" دیا جس کے وسط میں لا إِلَهَ إِلا الله اور کونوں پر " الله اكبر " لکھا ہوا تھا فرمایا.اس نتیجہ پر پہنچا کہ آج میں آپ کو ستارہ احمدیت دوں جو نشان ہو ان برگزیده "" احمدیوں کا جو پیدا ہوئے اور قیامت تک پیدا ہوتے رہیں گے.مس
413 مسجد سید نا محمود کبابیر حیفا جو مشرق اوسط میں فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے انہی سالوں میں تعمیر ہوئی.اس کے علاوہ پاکستان میں بھی حضور کے دور خلافت میں ڈیڑھ سو کے قریب مساجد اور مشن ہاؤسز وغیرہ تعمیر ہوئے.تھا.حضور نے اپنی خلافت کے آغاز پر حضرت مصلح موعود کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا وو سب سے ضروری کام تو قرآن کریم کے صحیح تراجم کا دنیا میں پھیلانا تھا.چنانچہ اس سلسلہ میں حضور نے جو کام شروع کروائے ان میں سے کچھ تو پورے ہو گئے اور کچھ پورے ہونے والے ہیں.فرمایا.انگریزی زبان میں ترجمہ....شائع ہو چکا ہے....جرمنی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے...ڈچ زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.ڈینش زبان میں قرآن کریم کے پہلے سات پاروں کا ترجمه...شائع ہو چکا ہے.یوگنڈی زبان میں قرآن کریم کے پہلے پانچ پاروں کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے مغربی افریقہ کی مینڈے زبان میں ہلے پارہ کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.اس کے علاوہ کئی تراجم کئے جا رہے ہیں.فرانسیسی زبان میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے نظر ثانی ہو رہی ہے ہسپانوی زبان میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے نظر ثانی ہو رہی ہے، روسی زبان میں ترجمه مکمل ہو چکا ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے.پرتگیزی زبان میں ترجمہ تیار ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے ، ڈینش زبان میں بقیہ تیس پاروں کا ترجمہ تیار ہے طباعت کا انتظام کیا جا رہا ہے.مشرقی افریقہ کی گگویو زبان میں ترجمہ تیار ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے گلمبا زبان میں ترجمہ تیار ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے.مغربی افریقہ کے لئے مینڈے زبانوں میں بقیہ انتیس پاروں میں سے ہیں کا ترجمہ ہو چکا ہے نو پاروں کا ترجمہ کروایا جا رہا ہے.
414 انڈونیشین زبان میں دس پاروں کا ترجمہ مکمل ہے بقیہ زیر تکمیل ہے اس چنانچہ حضور نے ان کاموں کو مسلسل جاری رکھا اور حضور کے دور کے آخر تک اردو کے علاوہ انگریزی، لوگنڈی، گورمکھی، ڈینش، سواحیلی، جرمن، ڈچ، یوروبا انڈونیشین، اسپرانٹو میں تراجم شائع ہوئے اور کئی اور زبانوں میں مختلف مراحل تک پہنچے.حضور نے صد سالہ جوبلی تک سو زبانوں میں تراجم کا منصوبہ بنایا جو خلافت رابع میں تکمیل کے مراحل طے کر رہا ہے.۱۹۸۱ء میں ایک نہایت افسوسناک واقعہ یہ پیش آیا کہ حضور کی رفیقہ حیات حضرت سیده منصوره بیگم صاحبہ ایک مختصر علالت کے بعد ۳ دسمبر کو بوقت ساڑھے آٹھ بجے رات وفات پا گئیں ، حضور نے اس موقع پر غیر معمولی صبر کا نمونہ دکھایا اور نعش کو گھر میں چھوڑ کر ۴ دسمبر کا جمعہ پڑھانے کے لئے مسجد اقصیٰ بنفس نفیس تشریف لائے اور ایک معرکتہ الا را خطبہ دیا جس میں آپ نے حضرت بیگم صاحبہ کے اوصاف حمیدہ کا ذکر فرمایا.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کو ۲۳ نومبر ۱۹۸۱ء کو گردے کا درد شروع ہوا اور ۲۷ نومبر ۱۹۸۱ء کو بیماری تشویشناک صورت اختیار کر گئی، علاج معالجہ جاری رہا اور ساری جماعت حضور کے ساتھ مجسم دعا بن گئی لیکن اللہ تعالٰی کی اٹل تقدیر نہ مل سکی اور حضرت بیگم صاحبہ کا ۳ دسمبر عشاء کے وقت وصال ہو گیا.۴ دسمبر کو عصر کے وقت ہزاروں عشاق خلافت کے ساتھ حضور نے بہشتی مقبرہ کے احاطہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور قطعہ خاص میں حضرت مصلح موعود کے بائیں طرف ایک قبر کی جگہ چھوڑ کر حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی تدفین عمل میں آئی.قبر تیار ہونے پر حضرت خلیفة المسیح الثالث " نے ایک لمبی اور پر سوز دعا کروائی.صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ جب ان کی والدہ حضرت سیده منصوره بیگم صاحبہ فوت ہوئیں تو حضور کی مبارک زبان سے ”اللہ اکبر" کے الفاظ نکلے.آپ کی اولاد رونے لگی، حضور نے انہیں رونے سے منع فرمایا اور کہا کہ
415 ہم تو حضرت مصلح موعود کی وفات پر بھی نہیں روئے غرضیکہ آپ نے خود بھی انتہائی ضبط سے کام لیا اور اپنی اولاد کو بھی صبر و رضا کا سبق دیا.مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہاں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا ۴ دسمبر ۱۹۸ء کا خطبہ جمعہ دیا جائے جو اس عظیم خاتون کے سوانح اور پاکیزہ سیرت اور غیر معمولی اور نمایاں خدمات کا ایک خاکہ پیش کرتا ہے اس کے ساتھ حضرت صاحب کا وہ تاریخی پیغام بھی شامل کیا جا رہا ہے جو حضور نے احباب جماعت کے نام لکھ کر الفضل میں شائع کروایا.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کو ۴۷ سال کے طویل عرصہ تک ہمارے محبوب آقا حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کی رفاقت کا شرف حاصل ہوا، خصوصاً حضور اقدس کے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد حضرت سیدہ بیگم صاحبہ نے عالمگیر جماعت احمدیہ کی تعلیم و تربیت اور خلیفہ وقت کے ساتھ رابطے کے سلسلہ میں اہم اور کلیدی کردار ادا کیا.خطبه جمعه خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ مورخہ ۴ / فتح ۱۳۶۰ نمش مطابق ۴/ دسمبر ۱۹۸۱ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا :.رَضِيْنَا بِاللَّهِ رَبًّا وَ بِمُحَمَّدٍ رَسُولاً ) ) بہت بڑے خزانے جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کئے ہیں ان میں سے ایک بہت ہی علیم خزانہ یہ ہے کہ جس وقت اللہ تعالیٰ کی ایسی قضا نازل ہو جو دنیوی حالات میں تکلیف وہ ہو.اس وقت ایک ہی نعرہ زبان پر آنا چاہئے اور وہ یہ ہے:.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا اَلِيْهِ رَاجِعُونَ جیسا کہ دوست جانتے ہیں کل شام قریباً ساڑھے آٹھ بجے منصورہ بیگم اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں.اِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ میرا ان کا ساتھ بڑا لمبا تھا.قریباً ۴۷ سال ہم میاں بیوی کی حیثیت سے اکٹھے رہے اور ۴۷ سال جہاں انہیں مجھے دیکھنے اور سمجھنے اور پرکھنے کا موقع ملا، مجھے بھی انہیں
416 دیکھنے سمجھنے اور پر لکھنے کا موقع ملا.ہمارا رخصتانه -۵ اگست ۱۹۳۴ء کو ہوا تھا اور ۶.اگست کو میں انہیں بیاہ کر قادیان پہنچا تھا اور ٹھیک ایک ماہ بعد یعنی ۶ ستمبر ۱۹۳۴ء کو میں اپنی تعلیم کے لئے انگلستان روانہ ہو گیا.یہ پہلی چیز تھی جس نے مجھے موقع دیا کہ میں ان کی طبیعت کو سمجھوں.ایک ذرہ بھر بھی انقباض نہیں پیدا ہوا کہ میں اپنی تعلیم کو مکمل کروں جس تعلیم نے آئندہ چل کر مجھ سے بہت سی خدمات بھی لینی تھیں.ہماری شادی کے متعلق حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہا) کو بہت سی بشارتیں ملی تھیں.اس کے نتیجہ میں یہ شادی ہوئی تھی.یہ رشتہ آپ نے کروایا تھا الہی بشارت کے مطابق اور جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ انتخاب اللہ تعالٰی نے بعض اغراض کے مد نظر خود کیا.اور ایک ایسی ساتھی میرے لئے عطا کی جو میری زندگی کے مختلف ادوار میں میرے بوجھ بانٹنے کی اہمیت بھی رکھتی تھی اور ارادہ اور عزم بھی رکھتی تھی.یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے جس پر جتنا بھی میں شکر کروں کم ہے.اور چونکہ میں اس وقت مختصراً بعض باتیں بیان کر کے یہ امید رکھوں گا کہ ہم سب میں بھی اور آپ بھی اس جانے والی روح کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کریں کہ وہ خطاؤں کو معاف کرے اور اپنی رحمتوں سے انہیں نوازے.رخصتانہ کے ایک مہینہ کے بعد ہنستے ہوئے چہرے کے ساتھ رخصت کر دینا اور پھر قریباً ساڑھے تین سال تک بیچ میں میں آیا بھی دو ایک ماہ کے لئے) ہماری جدائی رہی اور اس جدائی نے کوئی فرق نہیں ڈالا اور جس غرض کے لئے حضرت مصلح موعود نے میرے لئے آکسفورڈ کی تعلیم کو پسند کیا تھا، اس تعلیم میں اس معنی میں محمد اور معاون ہوئیں کہ مجھے ایک (دن) بھی وہاں ان کی طبیعت کو دیکھتے ہوئے یہ فکر پیدا نہیں ہوئی کہ میرے فراق کی وجہ سے وہ گھبرائیں گی.مجھے پتہ تھا کہ وہ گھبرانے والی روح نہیں ہیں Fi¶r A- پھر جب میں تعلیم ختم کر کے آیا تو چند سال ہمارے قادیان میں گزرے.۱۳۸ میں میں آیا ہوں اور ۱۹۴۷ء میں ہجرت ہو گئی.نو سال ہم قادیان میں رہے اور اس
417 کا عرصہ میں میں تو واقف زندگی تھا اسما اور کوشش کرتا تھا کہ عملاً بھی رہوں.اور وہ واقفہ زندگی بن گئیں عملاً، پہلے میرے سپرد جامعہ احمدیہ میں پڑھانا اور خدام الاحمدیہ کی کام تھا.اس قدر ساتھ دینے والی تھیں کہ ایک دن خدام الاحمدیہ کے کسی پروگرام کے مطابق مجھے عصر کے بعد اپنے گھر سے دور کسی محلے میں خدام کے کسی پروگرام میں شرکت کے لئے جانا تھا.میری بچی امتہ الشکور اس دن بڑی سخت بیمار ہو گئی اور اسے اسهال شروع ہوئے اور دیکھتے دیکھتے اس کا وزن آدھا ہو گیا یعنی جسم کا پانی نچڑ گیا اور میری طبیعت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ میں وہ پروگرام Cancel کر دوں اور بچی کے پاس گھروں.میں نے ہومیو پیتھک کی ایک دوا لے کے اس کے منہ میں ڈالی اور منصورہ بیگم سے کہا کہ شفاء دینا اور زندگی دینا تو اللہ تعالیٰ کا کام ہے.میں یہاں رہوں یا نہ رہوں کوئی فرق نہیں پڑتا.اس لئے السلام علیکم میں جا رہا ہوں.چہرے پر بالکل کوئی گھبراہٹ نہیں آئی.اس وقت بھی وہ چہرہ میری آنکھوں کے سامنے ہے.مسکراتے ہوئے مجھے رخصت کر دیا اور خدا تعالیٰ کی یہ شان ہم دونوں نے دیکھی کہ جب میں واپس آیا تو بچی صحت یاب ہو چکی تھی.اور کام پڑتے رہے.الیکشن آئے ، نہ دن کی ہوش نہ رات کی ہوش.قادیان سے ہجرت کا زمانہ آگیا، بڑا سخت زمانہ تھا.آپ میں سے جو لوگ اس دور میں سے نہیں گزرے وہ اندازہ نہیں کر سکتے.کس قدر روحانی اور ذہنی اور جسمانی اذیت میں سے گزرنا پڑا.روحانی اس لئے کہ ہمارا جو مرکز تھا جہاں (حضرت اقدس) مدفون تھے ہمیں نظر آ رہا تھا کہ وہ ہم سے چھٹ جائے گا پھر باقی قتل و غارت.ہر وہ شخص جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہوتا تھا، مظلوم تھا اسے قتل کیا جا رہا تھا، اس کو شہر بدر گاؤں بدر ملک بدر کرنے کا منصوبہ تھا.ان کے اموال لوٹے جا رہے تھے ، ان کی عزتیں خراب کی جا رہی تھیں، ان کی عزتوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے لوٹا جا رہا تھا.اس وقت سب بھول گئے تھے کہ کسی فرقہ کی طرف منسوب ہوتے ہیں.صرف ایک بات یاد تھی کہ وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں اور خدا کے لئے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ کی خاطر وہ اذیتیں دئے بھی جا رہے ہیں اور اذیتیں
418 برداشت بھی کر رہے ہیں.ان دنوں میں جب میں جیپ میں بیٹھ کے باہر نکلتا تھا اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے تو نہیں کہا جا سکتا تھا کہ واپسی کیسے ہو گی.کبھی خیال بھی نہیں کیا.زبان پہ بھی نہیں آیا اشارہ بھی نہیں کیا کہ ان حالات میں آپ باہر کیوں جاتے ہیں.بلکہ ہماری باہر کو تھی تھی اس کو بھی سنبھالتی تھیں، بچوں کو بھی سنبھالتی تھیں.میں چیدہ چیدہ باتیں اس وقت بتاؤں گا کیونکہ اس وقت وقت نہیں ہے.پھر کبھی موقع ملا تو انشاء اللہ بتاؤں گا.وہ کیا تھیں کیسی تھیں.پھر وقت آگیا.پارٹیشن ہو گئی.۲۵.اگست کو حضرت مصلح موعود نے حضرت اماں جان نور اللہ مرقدہا اور (حضرت اقدس.....) سے تعلق رکھنے والی دیگر مستورات اور بچوں کو بہت ساری مصلحتیں تھیں) پاکستان بھجوا دیا.آپ وہاں ٹھہر گئے اور فیصلہ یہ ہوا کہ حضرت مصلح موعود کے ساتھ حضرت آیا صدیقہ صاحبہ ٹھہریں گی.بس ایک خاندان میں سے منصورہ بیگم نے اصرار کیا کہ میں تو نہیں جاؤں گی.میں تو ٹھروں گی یہاں.مجھے اگر صحیح یاد ہے تو حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے نہیں مانی بات.پھر حضرت صاحب سے منوائی کہ نہیں، میں یہاں ٹھہروں گی.اس وقت کے لوگ یہ سمجھے کہ شاید اپنے میاں کو ان حالات میں چھوڑ کے یہ نہیں جانا چاہتی لیکن ۳۱.اگست کو جب حالات نے مجبور کیا اس بات پر حضرت مصلح موعود کو کہ وہ قادیان چھوڑ جائیں تو اپنے میاں کو چھوڑ کے خلیفہ وقت کے ساتھ پاکستان آگئیں.پھر ۱۹۵۳ء کے حالات آئے.ہم لاہور میں تھے.جو ربوہ میں تھے ان کو نہیں پتہ کیا حالات تھے وہ.جو لاہور میں تھے ان کو پتہ ہے کیونکہ یہ مقامی لوکل فتنہ و فساد تھا.کالج میں میری ڈیوٹی.ہر طرف گولیاں چل رہی ہیں.ایک دن درد صاحب آگئے.مجھے کہنے لگے.آپ نے نہیں جانا کالج.میں نے کہا کیوں نہیں جانا کہ گولیاں چل رہی ہیں.میں نے کہا آج ہی تو دن ہے جب میں نے ضرور جانا ہے.کیونکہ میرے اوپر ذمہ داری ہے ان احمدی اور غیر احمدی بچوں کی حفاظت کی جو میرے کالج میں آج آئیں گے.وہ وہاں آجائیں اور میں گھر بیٹھا رہوں یہ نہیں مجھ سے ہو گا.اتنا اصرار تھا ان کا کہ اگر وہ یہ سمجھتے کہ وہ مجھ سے جسمانی لحاظ سے زیادہ طاقتور ہیں تو انہوں نے مجھے
419 وہاں باندھ کے رکھ دینا تھا لیکن میں کالج چلا گیا اور منصورہ بیگم کے چہرہ پر کوئی ملال نہیں تھا، گھبراہٹ نہیں تھی.ان حالات میں سے گزرے بشاشت سے ہم دونوں.جماعت کی خدمت کا موقع ملا.بڑی دلیر عورت تھیں اس جگہ میں ذکر کروں کہ جب میں ۱۹۷۶ء میں پہلی دفعہ امریکہ گیا تو ہمیں ایک امریکن کا خط ملا کہ میں آپ کو یہ بتاتا ہوں ، انذار کرتا ہوں کہ آپ کی جان لینے کے لئے تین کوششیں کی جائیں گی.اگر وہ ناکام ہو ئیں تو پھر چوتھی کوشش کی جائے گی.آپ کو اغوا کرنے کے لئے.پہلے تو میں نے یہ خط جیب میں رکھ لیا کیونکہ مجھے تو پتہ ہی نہیں ڈر کہتے کسے ہیں.پھر مجھے خیال آیا کہ ہم ان کے ملک میں ہیں.جماعت کہے گی کہ ہمیں کیوں نہیں اعتماد میں لیا.میاں مظفر احمد صاحب کو بھی پہلے میں نے نہیں بتایا.پھر ان کو بتا کے وہ خط جماعت کے سپرد کر دیا.انہوں نے اپنا جو انتظام کرنا تھا وہ کیا.جماعت امریکہ نے (چونکہ کینیڈا جانا تھا) کینیڈین ایمبیسڈر سے بھی بات کی.لمبا قصہ ہے.جب میں ٹورنٹو میں اترا تو جماعت نے کہا کہ آپ کا سامان بعد میں آ جائے گا.قریب ہی ایک عمارت ہے وہاں احمدی دوست مرد و زن اکٹھے ہیں آپ چلیں ایک آدمی چھوڑ جائیں.وہ سامان لے آئے گا.ہم وہاں اس کا انتظار کریں گے.دو تین فرلانگ ہے وہ جگہ.ہم وہاں چلے گئے.مستورات علیحدہ تھیں ان سے سے منصورہ بیگم نے مصافحہ کیا.میں نے مردوں سے مصافحہ کیا.پھر ہم کھڑے ہو گئے.برآمدہ سے باہر بڑی اچھی فضا تھی.موسم اچھا تھا.منصورہ بیگم فارغ ہو کے میرے پیچھے کھڑی ہو گئیں.انہوں نے دیکھا ہر احمدی میری طرف متوجہ ہے.انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ کوئی شخص دبے پاؤں آہستہ آہستہ قدم قدم قریب آ رہا ہے.ان کو اللہ تعالی نے فراست بڑی دی تھی.دماغ نے کہا جس شخص نے خط لکھا تھا قتل کی دھمکی جس میں دی گئی تھی یہ وہ شخص ہے.نہ جان نہ پہچان.یہ میرا پہرہ دار بن کے کھڑی ہو گئیں میرے پیچھے اور جس وقت وہ اور قریب آیا تو خدام الاحمدیہ میں سے کسی کو کہا کہ یہ وہ شخص ہے (انہیں بھی
420 خط کی اطلاع تھی) اس کا خیال رکھو.خیر انہوں نے گھیرا کیا اس کا.اس سے پوچھا.اس نے اپنا نام بتایا کہ ہاں میں ہی ہوں وہ.انہوں نے اپنی حکومت کو اطلاع دی.پولیس نے اس کو پکڑ کے پوچھا کہ تم نے جو اطلاع دی ہے تین قتل اور ایک اغوا کی کوشش کی.اس کا مطلب ہے کہ جنہوں نے منصوبہ بنایا ہے تم بھی ان میں سے ایک ہو، ورنہ تمہیں پتہ کیسے لگ گیا.اس نے کہا نہیں نہیں.اپنی طرف سے بڑا ہو شیار بنتا تھا) بات یہ نہیں ہے.بات یہ ہے کہ مجھے علم نجوم میں بڑا شغف ہے اور ستاروں نے بتایا تھا کہ یہ واقعہ ہو گا.انہوں نے کہا ستاروں نے جو بتایا تھا یا نہیں بتایا تھا پر ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ کینیڈا میں جس جگہ حضرت صاحب ہوں اگر اس جگہ سے ۴۰ میل کے اندر اندر بھی تم نظر آگئے تو تمہاری بوٹیاں ستاروں کو نظر نہیں آئیں گی.اس واسطے چلے جاؤ یہاں سے.اور اس کو اپنی فراست سے پہچاننے والی اور اس طرح حفاظت کرنے والی.اس قسم کے احسان بھی ہیں ان کے مجھ پر.پھر ایک وقت آیا کہ نئی ذمہ داریاں پڑ گئیں.ان نئی ذمہ داریوں کے علاوہ بھی تو انسان کی ذمہ داریاں ہوتی ہیں.مثلاً کھانا کھانا.مثلا نبی کریم میں السلام نے فرمایا وَ لِنَفْسِكَ عَلِيْكَ حَقٌّ اپنے نفس کے حقوق ادا کرنے ہیں.تو اگر بیوی ساتھ نہ دے....تو اوقات بٹ جائیں دو حصوں میں.ایک حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی میں اور ایک اپنے نفس کے حقوق کی ادائیگی میں.بغیر بات کئے ساری ذمہ داریاں جو میرے نفس کی تھیں وہ آپ سنبھال لیں ، اس حد تک کہ بعض Vitamins وغیرہ ہم نے کچھ عرصہ سے شروع کی ہوئی تھیں خود نکال کے دیتی تھیں.کبھی میں خود نکالنے کی کوشش کروں تو ناراض ہو جاتی تھیں کہ یہ میرا کام ہے کیوں کیا آپ نے.مطلب یہ تھا کہ یہ دو منٹ بھی اس کام پر خرچ کیوں کئے جو دوسرے اہم جماعتی کام ہیں ان پر خرچ کریں.اور مجھے ہر قسم کی ذاتی فکروں سے آزاد کر کے سارے اوقات کو آپ احباب کی فکروں میں لگانے کے لئے موقعہ میسر کر دیا.اور اس وجہ سے میں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بیان کر رہا ہوں کہ ان کا یہ حق ہے کہ ہم ان کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل اور رحمتیں ان پر نازل ہوں....اللہ تعالیٰ جتنا زیادہ سے زیادہ پیار دے سکتا ہے، وہ ان کو دے..
421 پھر خلافت کی ذمہ داریوں میں ۱۹۷۴ء کے حالات آئے یعنی نہ مجھے ہوش تھی کہ دن کس وقت چڑھتا ہے اور کس وقت غروب ہوتا ہے اور رات کب آتی ہے اور کب جاتی ہے.نہ ان کو.لگی ہوئی تھیں میرے ساتھ جماعت کی خدمت کے لئے سارا دن یہ کام کرنے.پھر پڑھی لکھی کافی تھیں.منشی فاضل فارسی میں کیا ہوا تھا جو سب سے بڑا فارسی کا امتحان ہے.اردو کی ڈگری تھی پاس ، میٹرک کیا ہوا تھا.خدا داد فراست تھی.شغف تھا.میں سمجھتا ہوں تاثر ہے میرا کہ میری حفاظت کے لئے اپنا طریق بنا لیا تھا کہ جب تک میں نہ سو جاؤں رات کو آپ نہیں سوتی تھیں کتاب پڑھتی رہتی تھیں اور جب میں غسل خانے جا کے واپس آ کے اپنی طرف کی بتی بجھا کے لیٹ جاتا تھا پھر دو منٹ کے بعد بھی بجھا کے لیٹ جاتی تھیں.تو ۱۹۷۴ء میں عورتوں کو تسلی دلانی.ان کے غم میں شریک ہونا.اور بالکل بے نفس تھیں.پھر مجھے آج پتہ لگا کہ ۷ ۱ کی وصیت کی ہوئی تھی ممکن ہے ۱۹۳۴۴۳۵ء میں کسی وقت سامنے آئی ہو بات لیکن کبھی ذکر نہیں کیا اور چھپایا ہوا تھا.جب کہیں سے کوئی آمد ہوتی.مثلاً زمین کی آمد ہو گئی یا اور کچھ حصے میں نے ہی مہر میں دے دیئے تھے شوگر مل کے وہ تھوڑی سی آمد ہو گئی.پہلا کام کرتی تھیں کہ اپنی وصیت ادا کر ، دیں لیکن مجھے نہیں دیتی تھیں کیونکہ مجھے پتہ لگ جائے گا کہ ۷ کی ہے تو ایک اور شخص تھا جس کے سپرد یہ ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی.میں کہتا بھی بعض دفعہ کہ مجھے دیدیں دفتر میں جمع کروا دیتا ہوں مگر مجھے کہتیں کہ فلاں شخص میں آ رہا.میں نے اپنی وصیت | ادا کرنی ہے (میں کہتا کہ) مجھے دے دو میں دفتر کو دے کر ابھی بھیجوا دیتا ہوں (کہتیں) کہ نہیں.میں تو اسی کے ہاتھ بھیجواؤں گی.اور آج پتہ لگا کہ کیوں کہہ رہی تھیں.یہ نہیں ظاہر ہونے دینا چاہتی تھیں کہ ا کی وصیت ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ فضل کیا کہ جو بغیر جھگڑے کے پیچھے مال چھوڑا اس کی وصیت کا انتظام خود ہی اس طرح کیا ہوا تھا کہ رقم جمع تھی اس میں سے ۳۱ ہزار کے قریب رقم وصیت کی دے دی.جو تھوڑی سی زمین سندھ میں ہے ، میں نے تاکید کی ہے کہ ۳ مہینے کے اندر اندر اس کی قیمت ڈلوا کے بتائیں، جتنی بنے گی وہ بھی ادا ہو جائے گی انہی کے پیسوں سے ادا ہو جائے گی اور
422 کچھ ایسی زمین ہے جن پر مقدمے چل رہے ہیں یا مشترکہ ہے ، ابھی فیصلہ نہیں ہوا کہ کس کے حصہ میں کیا ملنا ہے لیکن وہ وصیت بھی کی، اللہ تعالیٰ نے سامان بھی پیدا کر دیا.کہ جو چیز بالکل واضح طور پر بغیر کسی جھگڑے کے تھی اس کی وصیت ۳۱ ہزار روپے بڑی تھوڑی ہے چیز یعنی خدا تعالیٰ کو دینے کے لئے ساری دنیا دے دیں تب بھی تھوڑی ہے لیکن بہرحال اس کا سامان بھی خدا تعالٰی نے کر دیا کہ مرنے والی پر کسی کا یہ احسان نہ ہو ، صدرانجمن احمدیہ کا یا کسی کا کہ ہم نے دو ہفتے کے بعد پیسے وصول کئے.مجھے کہا بھی کہ کل ہو جائے گا.میں نے کہا بالکل نہیں.وصیت کی فائل میرے پاس آنے سے پہلے یہ رقم ادا ہونی چاہئے.میں نے کاغذ سارے دے دیئے حساب کر کے وہ ساری رقم ادا ہو گئی.طبیعت میں نمائش اور دکھاوا بالکل نہیں تھا.میرے ساتھ سات دوروں پر رہی ہیں.میں صبح سوچ رہا تھا کہ پچھلے سال جب پین کی مسجد کی بنیاد رکھی گئی تو پیڈرو آباد کے قریباً سارے بچے اور عورتیں ان کی واقف ہوئیں.پاس بیٹھیں.کوئی آدھا گھنٹہ کوئی گھنٹہ.اب انشاء اللہ مسجد کا افتتاح جب ہو گا تو ان کو یاد کریں گی ، لیکن اس لئے نہیں انہوں نے ان کے ساتھ پیار اور حسن سلوک کیا کہ وہ یاد کریں.اس لئے کیا کہ اللہ انہیں بھولے نہ.میں عجیب انسان بنایا گیا ہوں مثلاً کھانے کے لحاظ سے تھوڑا سا کھاتا ہوں.آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کتنی تھوڑی میری غذا ہے، لیکن ہونی چاہئے میرے پسند کی.کیونکہ جتنا میں کھاتا ہوں اگر وہ بھی میں نہ کھا سکوں پھر میں کام نہیں کر سکتا تو دورے میں چھوٹی چھوٹی چیز کا خیال رکھنا، پانی کا.کسی قسم کا پانی ہے.چائے کی پیالی مجھے کبھی نہیں بنانے دی کہ میں آپ بناؤں گی.اور غیر ملکوں میں جس سے ملیں اس کے اوپر اپنا اثر چھوڑا.خدا تعالیٰ انسان کو جو صفات دیتا ہے وہ اسی لئے دیتا ہے کہ اس کے بندوں کی خدمت کی جائے اور وہ اثر قبول کریں.جب ۱۹۷۰ء میں پہلی دفعہ میں غانا گیا تو میں نے کہا مصافحے کریں گے تو وہاں جتنی عورتیں اتنے مرد.پتہ نہیں کتنی دیر لگ گئی.دو اڑھائی گھنٹے شائد اور ایک ہی وقت
423 میں ہم فارغ ہوئے.ہر عورت سے مصافحہ کیا اور بشاشت سے کیا، مسکراتے ہوئے کیا.کسی نے دعا کے لئے کہا تو اس سے کہا کہ ہاں میں دعا کے لئے کہوں گی.آپ بھی کروں گی.خدا تعالیٰ نے مجھ پر احسان کیا اور آپ کے خلیفہ وقت پر کہ ایسی ساتھی دی گئی جو اس کے کام میں ہاتھ بٹانے والی ہو اور اچھے نتائج پیدا کرنے والی ہو.خدا تعالٰی کا شکر کریں اور حمد پڑھیں اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کا ورد کریں اور اللہ اکبر کے نعرے لگائیں اور جس کو ذریعہ بنایا اس چیز کا اس کے لئے دعا کریں.اور ہمارے لئے ساری گھبراہٹیں دور کرنے اور غموں کو ہوا میں اڑانے کے لئے یہ ایک فقرہ کافی ہے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا اَلِيْهِ رَاجِعُوْنَ أُولئِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوَتْ مِنْ رَبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ (البقره - آیت ۱۵۸) تو خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ جس طرح میں چاہتا ہوں اس طرح تم اِنَّا لِلهِ اگر کہو گے تو خدا تعالیٰ کے درود صلوات ہوں گی تم پر اور اس کی رحمت نازل ہو گی.پس یہ موقعے غم کے نہیں خدا تعالیٰ کی رحمتوں کے حصول کے مواقع ہیں.ان کو اپنی غفلتوں کے نتیجہ ضائع نہیں کرنا چاہئے ، اللہ تعالی ہمیں سمجھ اور توفیق عطا کرے.چونکہ دن چھوٹے ہیں اس لئے یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آج عصر کی نماز کی اذان اپنے وقت پر ہو گی.وقت تو ہم نہیں بدل سکتے لیکن اذان کے آدھے گھنٹے کے بعد ہماری مسجد (مبارک) میں نماز ہوتی ہے، آج اذان کے دس منٹ کے بعد میں مسجد میں جاؤں گا تا کہ پندرہ منٹ ہمیں وہاں سے وقت کے مل جائیں.پھر جیسا کہ اعلان ہو چکا ہے ہے اس کے مطابق خدا تعالیٰ کی حمد کرتے ہوئے اور اِنَّا لِلَّهِ پڑھتے ہوئے آپ کو جہاں جمع ہونے کے لئے کہا گیا ہے وہاں جمع ہو جائیں.خدا تعالیٰ اپنے فضلوں کی بارش اسی طرح کرتا رہے گا جس طرح وہ کر رہا ہے.اگر ہم اسی طرح اس کے وفادار رہے جس طرح ہم بنے کی کوشش کرتے رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق دے.
424 اس موقعہ پر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا احباب جماعت کے نام خصوصی پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَانِ الرَّحِيمِ نَحْمُدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ جان سے پیارے بھائیو اور بہنو! (ھوالناصر) السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جان فدا کر آنکھیں اشکبار ہیں اور دل غمگین و محزون ، مگر ہم اپنے رب کی رضا پر اور اس کی تقدیر پر خوش ہیں کہ بلانے والا ہمیں جانے والے سے زیادہ پیارا ہے.اس کا ہر کام حکمت اور مصلحت پر مبنی ہوتا ہے.ہم سب اس کی امانتیں ہیں.منصورہ بیگم بھی اسی کی امانت تھیں سو اس نے واپس لے لی ، إِنَّ اللَّهِ وَ إِنَّا اَلِيْهِ رَاجِعُونَ.ہم اس پر توکل کرتے ہیں اور اس کی طرف سے آنے والے اس بھاری امتحان کو قبول کرتے ہیں.- اِنّى مَعَ اللَّهِ فِى كُلّ حَالٍ ہمارے دل کی آواز اور ہماری روح کی پکار ہے.منصورہ بیگم کی بیماری میں بھی اور وفات کے بعد بھی آپ سب نے جس پیار اور محبت اور ہمدردی کا مظاہرہ کیا ہے اس سے ایک بار پھر ہمارے محبوب اور ہمارے پیارے میم کے اس ارشاد کی سچائی ظاہر ہو جاتی ہے کہ مومن ایک ہی جسم کے اعضاء ہیں ، جب ایک عضو کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم اسے محسوس کرتا ہے.اس لئے یہ درد اور یہ غم مشترک اور یہ صدمہ سانجھا ہے.اور یہ سب ہمارے آقا و مولیٰ اور آپ کے عاشق صادق کی ہی برکت ہے.آپ کے اس پیار اور محبت اور اخلاص کی میرے دل میں بہت قدر ہے اور اس
425 کے لئے میں آپ سب کا ممنون ہوں.اس کے شکریہ میں میں آپ کے لئے دعا ہی کر سکتا ہوں.میرا رب آپ کے اس اخلاص کو قبول کرے.آپ پر اپنی رحمتیں اور برکتیں نازل کرے.ہر دکھ ہر پریشانی سے آپ کو بچائے.جس طرح وفات سے اگلے روز جمعہ کے خطبہ میں میں نے بتایا تھا.منصورہ بیگم کو خدا نے ان تمام خوبیوں سے نوازا تھا جو میری ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے میری شریک حیات میں ضروری تھیں.وہ میری ہر ضرورت کا خیال رکھتیں، ہمہ وقت مجھے آرام پہنچانے کی کوشش میں لگی رہتیں اور یہ دھیان رکھتیں کہ مجھے اپنے فرائض انجام دینے میں کسی قسم کی الجھن اور پریشانی نہ ہو.بڑی صائب الرائے تھیں.ہمیشہ مشورہ اور درست رائے دیتیں.جماعت کے کاموں میں میری معاون اور مددگار تھیں.سچ تو یہ ہے کہ ۴۷ سال کی اس رفاقت میں انہوں نے ہمیشہ میری ہی مانی ، کبھی اپنی نہیں منوائی.اپنی بات ہمیشہ چھوڑی اور اپنی مرضی میری مرضی پر قربان کی.آپ سب کے لئے ان کے دل میں محبت اور پیار کے گہرے جذبات تھے.وہ ہمیشہ آپ کی خیر خواہ رہیں اور آپ کی بھلائی کے لئے دعائیں کرتی رہیں.اس لحاظ سے آپ پر ان کا یہ حق ہے کہ آپ ان کے لئے دعا کریں کہ آخری اور دائمی زندگی کا مالک انہیں اپنی رحمت اور بخشش کی چادر میں ڈھانپ لے اور جس طرح ان کی یہ زندگی اس کے سایہ میں گزری ہے اس زندگی میں بھی وہ اس کی رحمت کے سایہ میں جگہ پائیں.اے ہمارے رحیم اور ودود خدا! تیری شفقت اور محبت اور پیار کی نظر ان پر رہے اور سکینت اور قرار انہیں عطا ہو.تیرا مقدس رسول میں لی جس کی وہ عاشق تھیں اور تیرا برگزیدہ جس کی وہ بیٹی اور بہو تھیں، انہیں اپنی محبت اور اپنے پیار کی آغوش میں جگہ دیں.اے میرے رب! میرے رحیم اور کریم خدا! میرے پیاروں کو اپنی پناہ میں رکھ.جس پیار اور محبت اور اپنائیت اور اخلاص کا اظہار انہوں نے میرے ساتھ کیا ہے اسی پیار اور محبت کا سلوک تو ان سے کر.شفقت اور رحمت کی نظر سے ان کو دیکھ.اے
426 میرے مہربان اور رحمان خدا تو ان کا ہو جا اور یہ تیرے ہو جائیں.میری آنکھیں ہمیشہ ان سے ٹھنڈی رہیں.میرا دل ہمیشہ ان سے راضی رہے اور میری روح ہمیشہ ان سے خوش رہے.اے میرے رب! مجھے ان کی تکلیف نہ دکھا.ہر خیران کو عطا کر اور ہر بھلائی کا ان کو وارث کر.یہ دنیا میں تیری بادشاہت اور دلوں میں تیری اور تیرے مقدس رسول ملی ہی کی محبت قائم کرنے والے ہوں.اے خدا تو ایسا ہی کر.والسلام مرزا ناصر احمد ۸-۱۲ ۱۳۶۰ / ١٩٨١ اٹھارہواں سال (۱۹۸۲ء) ۱۹۸۲ء تک جماعت کے کاموں میں جو وسعت پیدا ہو چکی تھی اس کے پیش نظر حضور نے سال کے شروع میں ہی تعلیم یافتہ نوجوانوں کو وقف زندگی کی تحریک فرمائی.پینش ، فرانسیسی اور اٹالین زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ شروع کروایا، صد سالہ جوبلی منصوبہ کے دفتر بیت الاظہار " کا ۲۳ مارچ ۱۹۸۲ء کو سنگ بنیاد رکھا.قصر خلافت اور پرائیویٹ سیکرٹری کی عمارات کی تعمیر پر ڈیوٹی دینے والے آرکیٹیکس اور انجینئرز کی بھی اسی روز دعوت فرمائی.۶۳ ویں مجلس مشاورت منعقد کروائی.خلافت لائبریری میں ٹیسکٹ بک سکیم کا اجراء فرمایا.بیرون ملک مشنز، تعلیمی اداروں اور طبی اداروں میں مسلسل وسعت پیدا ہوتی رہی.نصرت جہاں سکیم کے تحت نائیجیریا اور گیمبیا میں علی الترتیب ایک سکول اور ہسپتال کے نے حصے کا سنگ بنیاد رکھا گیا قادیان سے خدام الاحمدیہ کا ترجمان "مشکوة " جاری ہوا.زمبابوے میں سالسبری میں مشن ہاؤس کے لئے زمین خریدی گئی، ٹوگو میں پہلی مسجد احمدیہ کی تعمیر ہوئی.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی وفات سے عورتوں اور خلیفہ وقت کے درمیان
427 براہ راست رابطہ میں جو خلاء پیدا ہو گیا تھا اسے پر کرنے کے لئے آنحضرت میر کی سنت کے مطابق حضور نے 11 اپریل ۱۹۸۲ء کو سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ بنت خان عبدالمجید خان صاحب آف ویرووال کے ساتھ عقد ثانی فرمایا.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی آخری بیماری اور وصال سپین کی مسجد مکمل ہو چکی تھی اور اس کے افتتاح کے لئے ۱۰ ستمبر کا دن مقرر ہو چکا تھا.۲۳ مئی ۱۹۸۲ء کو سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث " ربوہ سے صبح آٹھ بجے چند ندید دنوں کے لئے اسلام آباد تشریف لے گئے تاکہ ویزے وغیرہ لگوائے جائیں.۲۶ مئی بروز بدھ عشاء کی نماز کے دوران حضور کی طبیعت اچانک ناساز ہو گئی.ید کمزوری محسوس ہوئی اور ساتھ ہی پسینہ سے بدن تر ہو گیا، بقیہ نماز حضور نے بیٹھ کر پڑھائی.اس کے فوراً بعد ڈاکٹری معائنہ کے نتیجہ میں معلوم ہوا کہ خلاف عادت خون کا دباؤ بڑھا ہوا ہے.خون میں شکر کی مقدار کم از کم ضرورت سے بھی زیادہ گر گئی.فوراً علاج کے بعد دو دنوں میں طبیعت تدریجا بہتر ہوتی گئی لیکن اس مئی قبل دو پھر اچانک دل کی رفتار بہت بڑھ گئی اور ساتھ ہی سانس کی تکلیف شروع ہو گئی.اس مرض کا فوراً علاج شروع کر دیا گیا.یکم جون کو پاکستان کے بہترین ماہر امراض قلب نے حضور کا تفصیلی طبی معائنہ کیا.ان کی رائے میں صورت حال تسلی بخش نہ پائی گئی.دل اور سانس کی تکلیف بدستور رہی.ماہرین نے فوری علاج تجویز کئے.۲ جون کی شام کو طبیعت قدرے بہتر ہو گئی.۳ جون کو انگلستان کے مشہور سینٹ تھامس ہسپتال لندن کے ہارٹ سپیشلسٹ ڈاکٹر سٹیون جینکنز (Steven Jankins) کو اسلام آباد (پاکستان) بلوایا گیا انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ ۳۱ مئی بروز پیر حضور کو دل کا شدید دورہ ہوا تھا جس کے نتیجہ میں دل کی کار کردگی کمزور پڑ گئی ہے اور سانس کی تکلیف ہو گئی ہے.چونکہ حضور کو پہلے ہی ذیا بیطس کی تکلیف بھی تھی اس لئے بیماری انتہائی تشویشناک صورت اختیار کر گئی.چنانچہ ڈاکٹر سٹیون جینکنز کے مشورہ کے مطابق علاج جاری رہا.پاکستان میں فضل عمر ہسپتال ربوہ کے ڈاکٹر ز لطیف احمد قریشی اور
428 صاحبزادہ مرزا مبشر احمد اور اسی طرح راولپنڈی کے جنرل محمود الحسن ، میجر مسعود الحسن نوری اور دیگر کئی ڈاکٹر خدمات کی توفیق پاتے رہے.دنیا بھر کی جماعتوں میں دعاؤں صدقات اور تجد باجماعت کی تحریکیں کی گئیں.ساری جماعت اپنے امام کی صحت کی بحالی کے لئے مجسم دعا بن گئی.۵ جون کو طبیعت نسبتاً بہتر ہو گئی.حضور ڈاکٹری مشورہ کے مطابق تھوڑی تھوڑی دیر کے لئے کھانے اور دیگر ضروریات کے لئے بستر سے باہر کرسی پر تشریف فرما رہے.امریکہ سے احمدی ماہر امراض قلب ڈاکٹر شاہد احمد بھی اسلام آباد پہنچ کر معالجین کے پینل میں شامل ہو گئے.۷ جون کو حضور کی طبیعت نسبتاً بہتر رہی ، کھانسی بھی کم رہی ، دل کی حالت بھی نسبتاً بہتر رہی، چند دن قبل بخار ہو گیا تھا وہ بھی اتر گیا تھا اور شکر کی مقدار خون میں تسلی بخش پائی گئی، حضور کچھ وقت بستر سے باہر کرسی پر رونق افروز رہے.۸ اور ۹ جون کی درمیانی رات نصف شب کے قریب حضور کی طبیعت یکدم زیادہ خراب ہو گئی اور ڈاکٹروں کی انتہائی کوشش کے باوجود ۸ اور ۹ جون ۱۹۸۲ء مطابق ۱۶۴۱۵ شعبان ۱۴۰۲ هجری منگل اور بدھ کی درمیانی شب پونے ایک بجے کے قریب بیت الفضل " اسلام آباد میں حضور انتقال فرما گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ اس وقت حضور کی عمر تقریباً تہتر (۷۳) سال تھی.حضور کے انتقال کے دلخراش سانحہ کی اطلاع فوری طور اندرون اور بیرون پاکستان بھجوا دی گئی.یہ اطلاع ملتے ہی جملہ احباب کرام پاکستان کے طول و عرض سے ربوہ پہنچنے شروع ہو گئے.حضور کے جسم اطہر کو صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب قائمقام ناظر اعلیٰ کی قیادت اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب اور حضور کے بچوں اور دیگر احباب کی معیت میں 9 جون کو اسلام آباد سے ربوہ لایا گیا.بیت الفضل اسلام آباد سے روانگی فجر کی نماز کے فوراً بعد عمل میں آئی.روانگی سے قبل حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی تحریک پر صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب نے اجتماعی دعا کروائی اور قافلہ اسلام آباد سے ربوہ روانہ ہوا.اس موقعہ پر دو بکروں کا صدقہ بھی دیا گیا.شدید گرمی کے موسم کے باوجود جوق در جوق لوگ ربوہ پہنچنے لگے.حضور کی نعش
429 مبارک کو حضور کے گھر کے ڈرائنگ روم میں رکھا گیا.برف کی سلیں کثرت سے کمرے کا درجہ حرارت کم کرنے کے لئے استعمال ہو ئیں.اپنے محبوب امام کے آخری دیدار کے لئے سسکیاں لیتے اور آنسو بہاتے مرد و زن اور بچے 19 جون کی شام اور ۱۰ جون قبل دو پہر تک قطاروں میں دعائیں کرتے ہوئے اور ذکر الہی اور درود سے زبانیں ترکئے ہوئے نعش کے پاس سے مسلسل ایک نظام کے تحت گزرتے رہے اور کم و بیش دو لاکھ مرد و زن نے حضور کا آخری دیدار کیا.یہ امر قابل ذکر ہے کہ بیماری کے دوران حضور نے انتہائی صبر و تحمل کا نمونہ پیش فرمایا.حضور کے چہرے پر مسکراہٹ قائم رہی کیونکہ حضور فرمایا کرتے تھے ”ہم احمدی مسلمان ہیں ہمارا یقین ہے کہ زندگی موت کے ساتھ ختم نہیں ہو گی.بس چلتے چلتے ایک لائن کو پھلانگا اور اگلی زندگی میں چلے گئے " ڈاکٹروں کی آخری رپورٹ و جون کے الفضل میں ڈاکٹروں کے پینل کی مندرجہ ذیل رپورٹ شائع ہوئی.بسم الله الرحمن الرحيم ” سید نا حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ المسیح الثالث کی دل کی حرکت ۸.۹ جون ۱۹۸۲ء کی درمیانی شب کو دوبارہ دل کا شدید دورہ پڑنے کی وجہ سے بارہ بج کر پانچ منٹ پر اچانک بند ہو گئی اور سانس رک گیا فوری طبی امداد کے نتیجہ میں سانس اور حرکت قلب عارضی طور پر جاری ہو گئے لیکن مسل جدوجور کے باوجود حضور بارہ بج کر ۴۵ منٹ پر وفات پاگئے اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ڈاکٹر لطیف احمد قریشی ( بوه) ڈاکٹر مبشر احمد (ربوہ) ڈاکٹر شاہد احمد (نیویارک) میجر ڈاکٹر مسعود الحسن نوری (راولپنڈی)
430 تجهیز و تکفین دستور کے مطابق تدفین سے قبل خلافت رابعہ کا انتخاب عمل میں آیا‘ ۱۰ جون ۱۹۸۲ء بروز جمعرات بعد نماز ظہر کثرت رائے سے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خلیفة المسیح الرابع منتخب ہوئے.سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کا جسد اطہر شام پانچ بج کر اٹھارہ منٹ پر خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے نوجوانوں نے اٹھا کر قصر خلافت کی عمارت سے باہر لا کر چارپائی پر رکھا.اس چارپائی پر ایک سفید چادر ڈالی ہوئی تھی اور دو لمبے بانس جوڑ کر چارپائی کے نیچے سے گزارے گئے تھے تاکہ کندھا دینے والوں کی زیادہ تعداد شامل ہو سکے.تابوت کے باہر آنے کے ساتھ ساتھ سیدنا حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بھی باہر تشریف لائے.جنازہ اٹھانے کے وقت سیدنا حضرت خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالٰی نے بھی کندھا دیا اور درود شریف اور لَا اِلهَ إلا الله کے ورد کے ساتھ جنازہ اٹھایا گیا.بج کر اٹھارہ منٹ پر قصر خلافت سے جنازہ روانہ ہوا.جنازے کے گرد خدام کی تین دائرہ نما دیواریں کھڑی کر دی گئی تھیں تاکہ جنازے کو کندھا دینے کی غرض.رش کے طور پر لوگ آگے بڑھنے کی کوشش نہ کریں.قصر خلافت کے احاطے سے لے کر بیرونی گیٹ سے باہر میر داؤد احمد صاحب مرحوم کے مکان تک پروگرام کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی اولاد اور خاندان مسیح موعود کے دیگر افراد نے کندھا دیا اس کے بعد ناظر صاحبان، وکلاء صاحبان اور دیگر خصوصی مہمانوں نے مزید نصف فرلانگ تک کندھا دیا ، اس کے بعد خاندان مسیح موعود اور دیگر احباب نے کندھا دیا.سیدنا حضرت خلیفہ المسیح الرابع آخر وقت تک جنازے کے پیچھے پیدل چلتے رہے.جنازہ قصر خلافت سے نکلنے کے بعد میر داؤد احمد صاحب مرحوم، مرزا انور احمد ”
431 صاحب اور مرزا منصور احمد صاحب کے گھروں کے آگے سے گزرتا ہوا خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھروں احاطہ کے جنوبی گیٹ سے بڑی سڑک پر آیا اور گولبازار کی سمت مڑ گیا اس کے بعد جنازہ مسجد مبارک کے سامنے والی دو رویہ سڑک میں سے دفاتر صدر انجمن احمدیہ سے متصل سڑک پر مڑگیا.وہاں سے سرگودھا فیصل آباد روڈ پر آیا.جہاں ساری ٹریفک روک دی گئی تھی.اس سڑک سے چند منٹ گزرنے کے بعد جنازہ بہشتی مقبرہ کے غربی گیٹ سے احاطہ بہشتی مقبرہ میں داخل ہوا جہاں پر قریباً ایک لاکھ احمدی پہلے سے قطاروں میں بڑی ترتیب کے ساتھ اپنے محبوب آقا خلیفة المسیح الثالث" کے سفر آخرت کے آخری مرحلہ میں شامل ہونے کی سعادت سے بہرہ ور ہونے کے منتظر تھے.جنازہ جن جن جگہوں سے گزرا اس کے دونوں اطراف برقع پوش خواتین کی بڑی وہ تعداد بھی موجود تھی، خواتین کو بہشتی مقبرہ کے اندر جانے کی اجازت نہ تھی.جنازہ پونے چھ بجے احاطہ بہشتی مقبرہ پہنچا نماز جنازہ کے بعد احباب کو کہا گیا کہ و اپنی اپنی جگہ پر کھڑے رہیں اور درود شریف اور لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ کا ورد کرتے رہیں.۱۰ جون ۱۹۸۲ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے پیشرو خلیفہ نافله موعود حضرت مرزا ناصر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کی بہشتی مقبرہ ربوہ میں نماز جنازہ پڑھائی.تقریباً ایک لاکھ احمدی نماز جنازہ میں شامل ہوئے.اس کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کے جسم اطہر کو بہشتی مقبرہ کے احاطہ واقع چار دیواری کے اندر حضرت مصلح موعود بھی اللہ اور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی قبروں کے درمیان سپرد خاک کیا گیا ہے.تدفین مکمل ہونے پر حضرت خلیفہ" ا الرابع کی اقتداء میں ایک لاکھ احمدیوں نے دعا کی.رات گئے تک حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے مزار پر دعا کرنے والوں کا سلسلہ جاری رہا.چھ بج کر تین منٹ پر تابوت چار دیواری کے اندر رکھا گیا اور اس کے بعد لحد میں اتارا گیا.تدفین مکمل ہونے اور قبر تیار ہونے کے بعد حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ
432 تعالیٰ نے قریباً ساڑھے سات بجے شام دعا کروائی جس میں چار دیواری کے اندر اور باہر کھڑے ہوئے تقریباً ایک لاکھ احباب نے شرکت کی، حضور دعا کروانے کے لئے اس قطار میں موجود قبروں کی شرقی سمت کھڑے ہو گئے اور فرمایا اس کا مقصد یہ ہے کہ دعا میں حضرت مصلح موعود حضرت اماں جان اور سیدہ منصورہ بیگم کو بھی شامل کیا جائے.روز ا ا جون ۱۹۸۲ء کو خطبہ جمعہ کے دوران حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ایدہ اللہ اگلے تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا." حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا جب عقد ثانی ہوا تو حضور نے مجھے فرمایا.میرے دل کی عجیب کیفیت ہے.میرے دل میں دو دھارے ایک ساتھ بہہ رہے ہیں ایک طرف تسکین اور سکینت کا دھارا ہے.دوسری طرف گہرے غم کا ایک دھارا ہے.یہ دونوں دھارے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس کا بیان کرنا مشکل ہے.یہ دونوں دھارے کامل صلح کے ساتھ ساتھ بہہ رہے ہیں.یہی کیفیت آج میری ہے ایک طرف غم کا دھارا ہے اور دوسری طرف سکینت کا عالم ہے.حضور نے بھرائی آواز میں فرمایا.میں تو خلافت کا ایک ادنی غلام تھا.آج اس سٹیج پر قدم رکھتے ہوئے مجھے خوف پیدا ہوا اور میں اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتا ہوا یہاں پہنچا ہوں...حضور کی یاد دل سے محو ہونے والی نہیں.ان کی زندہ جاوید شخصیت کے تذکرے ہوتے رہیں گے.حضور نے اپنی وفات سے ایک دو روز قبل آپا طاہرہ سے فرمایا، گزشتہ چار روز میں نے اپنے رب سے بہت باتیں کی ہیں میں نے اپنے رب سے عرض کیا اے اللہ ! اگر تو مجھے بلانے میں راضی ہے تو میں تیری رضا پر راضی ہوں، میرے دل میں کوئی تردد نہیں ہے لیکن اگر تیری رضا یہ اجازت دے کہ جو کام میں
433 نے شروع کئے ہیں ان کی تکمیل اپنی آنکھوں سے دیکھ سکوں تو یہ تیری عطا ہے..جس طرح حضرت خلیفہ ثالث اللہ کی رضا پر راضی تھے اسی طرح آج جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہے اور اسی میں برکت ہے.جب بھی کوئی وصال کا موقعہ آتا ہے تو مختلف ریزولیوشن پاس ہوتے ہیں جن میں لفاظی اور مبالغہ آرائی بھی ہوتی ہے لیکن جہاں تک جماعت احمدیہ کی روایات کا تعلق ہے، میں پورے یقین پر کھڑے ہو کر یہ کہتا ہوں کہ بعض اوقات اپنی بات کہنے کے لئے مناسب الفاظ ہی نہیں ملتے اور جماعت کو اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرنا بھی ممکن نہیں ہو تا....اس مرتبہ بھی جانے والے اور آنے والے کے بارے میں ریزولیوشنز (Resolutions) پاس ہوں گے.میں اس موقعہ پر ایک اور طرف توجہ دلا کر جماعتی ریزولیوشنز(Resolutions) میں تبدیلی کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.....جماعت کی شان اس سے زیادہ کا تقاضا کرتی ہے جو عام طور پر کیا جاتا ہے.ان ریزولیوشنز میں جانے والے کے بارے میں یہ کہنا چاہئے کہ ہم تیری نیک یادوں کو زندہ رکھیں گے اور یہ عہد کریں گے کہ اے جانے والے! اگر اس دنیا میں تیری روح تیرے نیک عزائم کی تکمیل سے تسکین نہیں پا سکی تو ہم ان کی تعمیل کر کے اس دنیا میں تسکین کا سامان مہیا کریں گے.آنے والے کے لئے جو ریزولیوشنز ہوں ان میں اس عہد کو تازہ کیا جائے کہ ہم اپنے دلوں سے معصیت اور گناہوں کے چراغ بجھا دیں گے اور تقویٰ کے چراغ روشن کریں گے اور اے آنے والے! ہم تجھ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم قیام شریعت کی کوششوں میں جو اللہ کے فضل
434 کے سوا کامیاب نہیں ہو سکتی، دعائیں کر کے تیری مدد کریں گے...۲س اس طرح حضور" کا سترہ اٹھارہ سالہ دور خلافت اپنی حسین یادیں چھوڑ کر ختم ہوا.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کے دور خلافت پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالنے سے محسوس ہوتا ہے کہ جو لائحہ عمل حضور نے اپنی خلافت کے آغاز پر جماعت کے سامنے رکھا تھا حضور کی تمام تر توجہ اس کی طرف رہی اور اس طرح حضور کا زمانہ خلافت حضرت مصلح موعود کے زمانہ خلافت میں جاری ہونے والے منصوبوں کی تکمیل و توسیع کا دور ثابت ہوا.رم خلافت ثالثہ میں ہر نیا دن احمدیت کی فتح اور کامرانی اور ترقی کا پیغام لایا.ہر ایک طرف وسعت پیدا ہوئی.جب حضور خلیفہ ہوئے تو اس وقت ۱۹۶۵ء کے جلسہ سالانہ پر لوگوں کی تعداد اسی ہزار تھی اور پھر دیکھنے والے نے دیکھا کہ حضور کی زندگی کے آخری جلسہ سالانہ پر ۱۹۸۱ء میں حاضری دو لاکھ تھی گویا اڑھائی سو فیصد اضافہ ہوا.حضرت مصلح موعود کے جنازے میں شمولیت اختیار کرنے والوں کی تعداد چالیس ہزار تھی اور حضرت خلیفہ ثالث کے جنازے میں شامل ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ تھی.۱۹۶۵ء کا صدر انجمن احمدیہ پاکستان کا بجٹ سوا چونتیس لاکھ روپے تھا اور ۱۹۸۲ء میں یہ بجٹ ڈیڑھ کروڑ روپے تک پہنچ گیا.اندرون پاکستان اور بیرون پاکستان تحریک کا ۱۹۶۵ء کا مجموعی بجٹ پونے چھتیس لاکھ روپے سے بڑھ کر ۱۹۸۲ء میں ساڑھے پانچ کروڑ تک پہنچ گیا.وقف جدید کا بجٹ سوا لاکھ روپے سے سوا دس لاکھ گیا.خصوصی مالی تحریکات اس کے علاوہ ہیں.خلافت ثالثہ میں قرآن کریم اس کے تراجم اور سلسلہ کی کتب کی غیر معمولی اشاعت ہوئی، احمدیہ مشنوں کی تعداد میں اضافہ ہوا، ممالک بیرون میں ۴۲۵ نئی مساجد تعمیر ہوئیں.غرض ہر پہلو سے حضور کے دور خلافت میں غیر معمولی وسعت پیدا ہوئی.جدید حضور نے خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے اگلے دن فرمایا تھا." کل شام کو اس مجلس انتخاب نے خاکسار کو منتخب کیا ہے اور خدا شاہد ہے کہ آج صبح بھی میری حالت ایسی تھی جیسے اس شخص کی ہوتی روپے ہو
435 ہے کہ جس کا کوئی عزیز فوت ہو جائے تو اس کو یقین نہیں آتا کہ اس کا وہ عزیز اس سے جدا ہو چکا ہے، مجھے بھی یقین نہیں آتا میں سمجھتا ہوں کہ شائد میں خواب دیکھ رہا ہوں یہ کیا ہوا.جس کو خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے ڈھال بنایا تھا اس ڈھال کو اس نے ہم سے لے لیا اور اس نے مجھے آگے کر دیا.میں بہت ہی کمزور ہوں بلکہ کچھ بھی نہیں....آج دنیا آپ کو بھی کمزور سمجھتی ہے اور مجھے بھی بہت ہی کمزور سمجھتی ہے لیکن ایک دن آئے گا کہ لوگ حیران ہوں گے اور وہ دیکھ لیں گے کہ خدا تعالیٰ کے قائم کردہ سلسلہ میں کتنی بڑی طاقت تھی دنیا انشاء اللہ یہ نظارے دیکھے گی...." اور حضور کے زمانہ خلافت میں تربیت اور تبلیغ میں جو غیر معمولی وسعت پیدا ہوئی اس کا ذکر کرتے ہوئے اپنی خلافت کے آخری جلسہ سالانہ پر تقریر کرتے ہوئے حضور نے ۲۷ دسمبر ۱۹۸۱ء کو فرمایا:.” میں تو حیران ہوں اور حیرت میں گم ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی عظمت میرے اس زمانہ میں اس بات سے ثابت ہوئی کہ میرے جیسے عاجز انسان کا اس نے ہاتھ پکڑا اور اعلان کیا کہ اس ذرہ ناچیز سے میں دنیا میں انقلاب بپا کر دوں گا اور کر دیا.۳۴
436 حاشیہ جات باب ہفتم ا.محترم عبد السلام صاحب سابق باڈی گارڈ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " بیان کرتے ہیں کہ خلیفہ بننے کے بعد ایک روز حضور کہنے لگے کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے پوچھتا تو میں نے کہنا تھا کہ یہ ذمہ داری میری P طاقت سے زیادہ ہے مگر اس نے بغیر پوچھے مجھے پر یہ ذمہ داریاں ڈال دی.۲.فرمایا بیعت کا وقت نہایت سنجیدگی کا وقت ہوتا ہے یہ تو نئی پیدائش کا وقت ہوتا ہے رپورٹ مجلس مشاورت ۱۳۲۰ هش ۱۹۴۱ء ص ۱۸) ۳.جیسا کہ حضرت مصلح موعود میں نیند کی وفات کے موقع پر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے فرمایا تھا " جماعت احمدیہ کے لئے یہ تیسرا زلزلہ ہے جو بوجہ کثرت جماعت اور قلت صحابہ کے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ دیکھا اور صحبت اٹھائی تھی، بہت بڑا ہے کیونکہ جب زمانہ گزرتا ہے الہی سلسلہ پھیل جاتا ہے تو بعض کمزوریاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں اور اس وقت تو ہر وقت کے ناصح خلیفہ کی لمبی علالت بھی بعض غفلتوں اور کمزوریوں کو کمزور طبائع میں پیدا کرنے کی وجہ بن گئی" روزنامه الفضل ربوه ۱۰ نومبر ۱۹۶۵ء) ۴.پہلے یہ الہام حضرت مسیح موعود کو ہوا تھا اور کئی سالوں کے بعد حضرت مسیح موعود کے تیرے خلیفہ کو ہوا.۵۷.حضرت مسیح موعود کا خلیفہ ہونے کے باعث حضور نے اپنے آقا کے اس رویا کو پورا کیا ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان کرتے ہوئے فرمایا." آج رات میں نے رسول کریم ملی ویال لول کو خواب میں دیکھا.آپ مجھ کو بارگاہ ایزدی میں لے گئے اور وہاں سے مجھے ایک چیز ملی جس کے متعلق ارشاد ہوا کہ یہ ( تذکره طبع سوئم ص ۸۱۸) سارے جہاں میں تقسیم کر دو.اے خدا سینکڑوں رحمتیں نازل کر اس شخص پر جو ناصر دین یعنی دین کی امداد کرنے والا ہے اور اگر وہ کبھی مشکل میں پھنس جائے تو تو اپنے فضل سے اس کی مشکل کو دور کرنا.کھلاے.یہ جگہ حضور نے خود چھ ماہ قبل منصورہ بیگم صاحبہ کی تدفین کے موقع پر رکھوائی تھی.حوالہ جات باب ہفتم ا خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ۲۵ اگست ۱۹۷۸ء بمقام لندن بحواله روزنامه الفضل ربود حضرت خلیفة المسیح الثالث نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۷ تا ۹ ۲ تاریخ احمدیت جلد دہم ص ۵۲۰
437 خطبه جمعه فرموده ۱۲ جون ۱۹۷۰ء مطبوعه الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۷۰ء ص 11 می خطاب جلسه سالانه فرموده ۱۹/ دسمبر ۱۹۶۵ء بحوالہ جلسہ سالانہ کی دعائیں ص۴۴۳ ه تاریخی خطاب جلسه سالانه ۲۱ دسمبر ۱۹۶۵ء ے خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۶ ستمبر ۱۹۶۶ء بمقام مسجد مبارک ربوه بحوالہ قرآنی انوار ص ۱۰۲ تا ۱۰۴ خطاب جلسه سالانه فرموده ۲۱ دسمبر ۱۹۶۵ء مطبوعه روزنامه الفضل ۲۴ فروری ۱۹۷۶ء ملفوظات جلد نہم ص ۲۷ خطاب جلسه سالانه ۲۱ دسمبر ۱۹۶۵ء ال الفضل 9 اپریل ۱۹۷۰ء اله الفضل 9 جنوری ۱۹۷۳ء ه خطبه جمعه ۲۲ دسمبر ۱۹۷۲ء ۱۳ خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء ۱۴ سہ ماہی مشکوة قادیان حضرت خلیفة المسیح الثالث نمبردسمبر ۱۹۸۲ء جنوری ۱۹۸۳ء ص ۲۷ ۱۵ الفضل ۱۸ / اپریل ۱۹۱۵ء ال محله سہ ماہی مشکوة قادیان حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء جنوری فروری ۱۹۸۳ء ص ۲۸ ۱۸ الفضل جون ۱۹۷۴ء ۱۹.خطبہ جمعہ فرمودہ کے نومبر ۱۹۷۵ء ۳۰ خطاب جلسہ سالانه ۱۹۶۵ء ال الفضل ۱۷.اپریل ۱۹۷۶ء ۲۲ الفضل ) ۲۱/مئی ۱۹۷۸ء ۲۳ ازالہ اوہام ص ۷۷۳ طبع اول ۲۴ آئینہ کمالات اسلام ص ۳۶٬۳۵ طبع اول ۲۵ یعنی شاہ ایران کے محل میں تزلزل پڑ گیا بحوالہ تذکرہ چوتھا ایڈیشن ص ۵۹۱ ۳۶ تجلیات الیه ص ۲۲٬۲۱ طبع اول ۲۷ خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۷۹ء ۲۸ نجم الہدی ص ۸ طبع اول اردو ترجمه از عربی عبارت ۲۹ دوره مغرب ص ۵۴۴ ۳۰ الفضل ۶ جنوری ۱۹۸۲ء ۳۱ خطاب جلسه سالانه ۲۱ و سمبر ۱۹۶۵ء مطبوعه الفضل ۴۲ فروری ۱۹۶۷ء ۳۲ الفضل ۱۳ جون ۱۹۸۲ء ۳۳ خطاب ۹ نومبر ۱۹۶۵ء بعد نماز فجر مطبوعه الفضل ۳ دسمبر ۱۹۶۵ ۳۴ بذریعہ کیسٹ فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۱ء
439 تعلیم و اشاعت قرآن عظیم
441 تعلیم و اشاعت قرآن عظیم کے بارے میں ایک عظیم الشان کشف حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کی سیرت و سوانح کا ایک نمایاں پہلو قرآن عظیم کی تعلیم خدمت اور اشاعت کے لئے مقدور بھر جد وجہد ہے.اس سلسلہ میں ه تعلیم القرآن خدمت قرآن اور اشاعت قرآن کے عناوین کے تحت حضرت صاحب کی مساعی جمیلہ کا مختصراً تذکرہ کیا جا رہا ہے.چونکہ تعلیم و اشاعت قرآن کا خلافت ثالثہ کے ساتھ ایک گہرا تعلق تھا اس لئے حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے قرآن کریم سیکھنے سکھانے کے منصوبے کا جب آغاز فرمایا تو ایک عظیم الشان کشف کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے حضور کو تعلیم قرآن کریم کے بارہ میں ایک زبر دست بشارت دی جس کا ذکر کرتے ہوئے خطبہ جمعہ ۵.اگست ۱۹۶۶ء میں حضور نے فرمایا :.پانچ ہفتے کی بات ہے...ایک دن جب میری آنکھ کھلی تو میں بہت دعاؤں میں مصروف تھا.اس وقت عالم بیداری میں میں نے دیکھا کہ جس طرح بجلی چمکتی ہے اور زمین کو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک روشن کر دیتی ہے اسی طرح ایک نور ظاہر ہوا اور اس نے زمین کے ایک کنارے سے لے کر دوسرے کنارے تک ڈھانپ لیا.پھر میں نے دیکھا کہ اس نور کا ایک حصہ جیسے جمع ہو رہا ہے پھر اس نے الفاظ کا
442 جامہ پہنا اور ایک پر شوکت آواز فضا میں گونجی جو اس نور سے ہی بنی ہوئی تھی اور وہ یہ تھی بُشْرَى لَكُمْ" یہ ایک بڑی بشارت تھی لیکن اس کا ظاہر کرنا ضروری نہ تھا.ہاں دل میں ایک خلش تھی اور خواہش تھی کہ جس نور کو میں نے زمین کو ڈھانپتے ہوئے دیکھا ہے جس نے ایک سرے سے دوسرے سرے تک زمین کو منور کر دیا ہے اس کی تعبیر بھی اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے مجھے سمجھائے.چنانچہ وہ ہمارا خدا جو بڑا ہی فضل کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اس نے خود اس کی تعبیر اس طرح سمجھائی کہ گزشتہ پیر کے دن میں ظہر کی نماز پڑھا رہا تھا اور تیسری رکعت کے قیام میں تھا تو مجھے ایسا معلوم ہوا کہ کسی غیبی طاقت نے مجھے اپنے تصرف میں لے لیا ہے اور اس وقت مجھے یہ تقسیم ہوئی کہ جو نور میں نے اس دن دیکھا تھا وہ قرآن کا نور ہے جو تعلیم القرآن اور عارضی وقف کی سکیم کے ماتحت دنیا میں پھیلایا جا رہا ہے.اللہ تعالیٰ اس مہم میں برکت ڈالے اور انوار قرآن اسی طرح زمین پر محیط ہو جائیں گے جس طرح اس نور کو میں نے زمین پر محیط ہوتے دیکھا ہے فَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَلَى ذَالِكَ - اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بھی متعدد بار خود قرآن کو اور قرآنی وحی کو نور کے لفظ سے یاد کیا ہے اور مجھے بتایا گیا کہ وہ نور جو تمہیں دکھایا گیا یہی نور ہے.پھر میں اس طرف بھی متوجہ ہوا کہ عارضی وقف کی تحریک جو قرآن کریم سیکھنے سکھانے کے متعلق جاری کی گئی ہے اس کا تعلق نظام وصیت کے ساتھ بہت گہرا ہے...اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تعلیم القرآن اور وقف عارضی کی تحریکوں کو موصی صاحبان کی تنظیم کے ساتھ ملحق کر دیا جائے اور یہ سارے کام ان کے سپرد کئے جائیں.نچہ حضور نے مجالس موصیان بھی بنیادی طور پر اسی غرض کے لئے قائم فرمائیں تا کہ تعلیم القرآن کے کام میں تیزی پیدا ہو.حضور نے مرکز میں فضل عمر تعلیم القرآن
443 کلاسیں بھی اسی مقصد کے لئے جاری فرمائیں اور صدر انجمن احمدیہ میں تعلیم القرآن کے لئے ایک الگ نظارت قائم فرمائی جو نظارت اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن کہلاتی ہے اور اس سلسلہ میں بے شمار اقدامات فرمائے اور اپنی ساری خلافت کے دوران تعلیم و اشاعت قرآن پر زور دیا اور جماعت کے ہر طبقے اور ہر ذیلی تنظیم اور ہر ایک عہدیدار کو مختلف پیرایہ میں اس اہم فریضہ کی طرف توجہ دلائی.
444 تعليم القرآن
445 خلیفہ وقت اور تعلیم القرآن حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کے نزدیک خلیفہ وقت کا سب سے بڑا اور اہم کام تعلیم القرآن ہی ہے.چنانچہ فرمایا :." ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم کو سیکھیں ، جانیں اور اس کی اتباع کریں اور اس کو ہر وقت اپنے سامنے رکھیں.اس لئے میں نے قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے کی طرف جماعت کو توجہ دلائی تھی.خلیفہ وقت کا سب سے بڑا اور اہم کام یہی ہوتا ہے کہ وہ قرآن کریم کی تعلیم کو رائج کرنے والا ہو اور نگرانی کرنے والا ہو کہ وہ جو سلسلہ حقہ کی طرف منسوب ہونے والے ہیں کیا وہ قرآن کریم کا جوا اپنی گردنوں پر رکھنے والے ہیں؟ اور اس سے منہ پھیرنے والے نہیں بلکہ اس کی پوری پوری اطاعت کرنے والے ہیں...میں پھر تمام جماعت کو ، تمام عہدیداروں ، خصوصاً امراء اضلاع کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ قرآن کریم کا سیکھنا جانا' اس کے علوم کو حاصل کرنا اور اس کی باریکیوں پر اطلاع پانا اور ان راہوں سے آگاہی حاصل کرنا جو قرب الہی کی خاطر قرآن کریم نے ہمارے لئے کھولی ہیں از بس ضروری ہے.اس کے بغیر ہم وہ کام ہرگز سر انجام نہیں دے سکتے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ کو قائم کیا ہے.پس میں آپ کو ایک دفعہ پھر آگاہ کرتا ہوں اور متنبہ کرتا ہوں کہ آپ اپنے اصل مقصد کی طرف متوجہ ہوں اور اپنی انتہائی کوشش کریں کہ جماعت کا ایک فرد بھی ایسا نہ رہے نہ بڑا نہ چھوٹا نہ مرد نہ عورت نه جوان نہ بچہ کہ جسے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا نہ آتا ہو.جس نے اپنے ظرف کے مطابق قرآن کریم کے معارف حاصل کرنے کی کوشش نہ کی ہو.اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی
446 اور پھر انہیں نبھانے کی توفیق دے اور مجھے بھی توفیق دے کہ جب تک آپ اس بنیادی مقصد کو حاصل نہیں کر لیتے، اس رنگ میں آپ کی نگرانی کرتا رہوں جس رنگ میں نگرانی کی ذمہ داری مجھ پر عائد کی گئی ہے وَمَا تَوْفِيفُنَا إِلَّا بِاللَّهِ " حضرت خلیفتہ المسیح الثالث" نے اس مقصد کے حصول کے لئے وقف عارضی اور تعلیم القرآن کی تحریکات جاری فرمائیں فرمایا :.میں نے سوچا کہ ہم ایک منصوبہ کے ماتحت جماعت کے بچوں اور اس کے نوجوانوں کو قرآن کریم ناظرہ پڑھائیں پھر اس کا ترجمہ اور اس کے معانی ان کو سکھا دیں." وقف عارضی اور تعلیم القرآن وقف عارضی کی تحریک کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:." میں جماعت میں تحریک کرتا ہوں کہ وہ دوست جن کو اللہ تعالیٰ توفیق دے سال میں دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک کا عرصہ دین کی خدمت کے لئے وقف کریں اور انہیں جماعت کے مختلف کاموں کے لئے جس جس جگہ بھیجوایا جائے وہاں اپنے خرچ پر جائیں اور ان کے لئے وقف شدہ عرصہ میں سے جس قدر عرصہ انہیں وہاں رکھا جائے اپنے خرچ پر رہیں اور جو کام ان کے سپرد کیا جائے اسے بجالانے کی پوری کوشش کریں " ✓ ee فرمایا :- " بڑے بڑے کام جو ان دوستوں کو کرنے پڑیں گے ان میں.ایک تو قرآن کریم ناظرہ پڑھنے اور قرآن کریم با ترجمہ پڑھنے کی جو مہم جماعت میں جاری کی گئی ہے اس کی انہیں نگرانی کرنا ہو گی اور اسے منظم کرنا ہو گا".ایک اور موقع پر فرمایا:.
447 f " وقف عارضی کی جو تحریک ہے اس کا بڑا مقصد بھی یہ تھا اور ہے که دوست رضا کارانہ طور پر اپنے خرچ پر مختلف جماعتوں میں جائیں وہاں قرآن کریم سیکھنے سکھانے کی کلاسز کو منظم کریں اور منظم طریق پر وہاں کی جماعت کی اس رنگ میں تربیت ہو جائے کہ وہ قرآن کریم کا جوا بشاشت سے اپنی گردن پر رکھیں اور دنیا کے لئے ایک نمونہ ہو جائیں.." وقف عارضی میں شامل ہو کر قرآن کریم سیکھنے سکھانے اور دوسرے تربیتی امور کے لئے حضور نے اس تحریک کو عورتوں میں بھی جاری کرتے ہوئے فرمایا :- یہ واقفین وفد کی شکل میں دو افراد پر مشتمل ہوتے ہیں.اس میں احمدی بہنیں بھی حصہ لیتی ہیں.ان کو باہر صرف اس صورت میں بھیجوایا جبکہ وہ خاوندوں کے ساتھ یا والد کے ساتھ یا اپنے بھائی کے جاتا ہے ساتھ باہر جا سکیں ورنہ ان سے اپنے ہی شہر یا قصبہ میں عورتوں کی تربیت وغیرہ کے کام لئے جاتے ہیں تاکہ بہنیں بہنوں سے خدا کی رضا کی خاطر حسن معاملہ اور پیار کے تعلقات قائم کریں."ک حضور نے فرمایا :.مجلس موصیان اور تعلیم القرآن " موصی صاحبان کا ایک بڑا گہرا اور دائمی تعلق قرآن کریم سیکھنے، قرآن کریم کے نور سے منور ہونے ، قرآن کریم کی برکات سے مستفیض ہونے اور قرآن کریم کے فضلوں کا وارث بننے سے ہے.اسی طرح قرآن کریم کے انوار کی اشاعت کی ذمہ داری بھی ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے...اس لئے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تعلیم القرآن اور وقف عارضی کی تحریکوں کو موصی صاحبان کی تنظیم کے ساتھ ملحق کر دیا جائے اور یہ سارے کام ان کے سپرد کئے جائیں.
448 فرمایا :- اس لئے آج میں موصی صاحبان کی تنظیم کا خدا کے نام اور اس کے فضل پر بھروسہ کرتے ہوئے اجراء کرتا ہوں.تمام ایسی جماعتوں میں جہاں موصی صاحبان پائے جاتے ہیں ان کی ایک مجلس قائم ہونی چاہئے.یہ مجلس باہمی مشورے کے ساتھ اپنے صدر کا انتخاب کرے.منتخب جماعتی نظام میں سیکرٹری وصایا ہو گا اور اس کے ذمہ علاوہ وصیتیں کرانے کے یہ کام بھی ہو گا کہ وہ گاہے گاہے مرکز کی ہدایت کے مطابق وصیت کرنے والوں کے اجلاس بلائے.اس اجلاس میں وہ ایک دوسرے کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کریں جو ایک موصی کی ذمہ داریاں ہیں یعنی اس شخص کی ذمہ داریاں جس کے متعلق اللہ تعالی کی بشارت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ خدا کے سارے فضلوں اور اس کی ساری رحمتوں اور اس کی ساری نعمتوں کا وہ وارث ہے " قرآن کریم کے انوار کی اشاعت کرنا ہر موصی کا بحیثیت فرد اور اب موصیوں کی مجلس کا بحیثیت مجلس پہلا اور آخری فرض ہے اور اس بات کی نگرانی کرنا کہ وقف عارضی سکیم کے ماتحت زیادہ سے زیادہ موصی اصحاب اور ان کی تحریک پر وہ لوگ حصہ لیں جنہوں نے ابھی تک وصیت نہیں کی.وقف عارضی، قرآن کریم سیکھنے سکھانے اور نظام وصیت کے بارے میں فرمایا عارضی وقف کی تحریک جو قرآن کریم سیکھنے سکھانے کے متعلق جاری کی گئی ہے اس کا تعلق نظام وصیت کے ساتھ بڑا گہرا ہے " "ل و" پندرھویں صدی ہجری کا استقبال اور قرآن ہجری تقویم کے لحاظ سے چودھویں صدی جب ختم ہونے کو آئی اور پندرھویں صدی کا آغاز ہونے لگا تو حضور نے جماعت کو آگاہ کیا کہ اگلی صدی غلبہ اسلام کی
449 صدی ہے جس میں عظیم الشان ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں.ان ذمہ داریوں کو نبھانے کے لئے اول طور پر قرآن کریم سے پیار کرنے اور اس کے گہرے مطالعہ اور علوم حاصل کرنے کی ضرورت ہے فرمایا:.اسلام ہمارا مذہب ہے جو سرا سر سلامتی اور سلامت روی کی ہم کو تعلیم دیتا ہے وہ ہمیں اس امر کی تلقین کرتا ہے کہ ہم دنیا میں منادی کریں کہ خدا کا پاک کلام قرآن کریم ہی وہ شریعت ہے جس پر چل کر دنیا میں حقیقی امن قائم ہو سکتا ہے.قرآن کریم باپ بیٹے ، میاں بیوی بھائی بھائی، قوم قوم اور ملک ملک میں پیار اور محبت اور اخوت و ہمدردی کی بنیادوں پر امن کے قیام کا ضامن ہے......ہجری سن کے لحاظ سے چودھویں صدی ختم ہونے میں صرف دو سال باقی ہیں اور ہم عنقریب پندرھویں صدی میں قدم رکھنے والے ہیں...حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متبعین ہونے کی حیثیت سے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی رہبری کے لئے آپ کا انتخاب کیا ہے اور اب روئے زمین پر بسنے والے بنی نوع انسان کو اسلام کی آغوش میں اور نبی کریم ملی کی غلامی میں لاکر انہیں اللہ تعالیٰ کا حقیقی عباد بنانے کا کام آپ کے سپرد کیا گیا ہے اور یہ کام ایک سال یا ایک صدی تک محدود نہیں بلکہ الف آخر کے اختتام تک نسلاً بعد نسل اسی طرح چلتے چلے جانا ہے اور یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ ساری دنیا کو اس کی آئندہ نسلوں کو اسلام کی طرف لائیں اور پھر انہیں اسلام پر قائم رکھیں ن عظیم ذمہ داریوں کو ادا کرنے کا طریق یہی ہے کہ آپ قرآن مجید کے ساتھ سب سے بڑھ کر پیار کریں، اس کے علوم میں دسترس حاصل کریں اور اس پر صدق دل سے عمل پیرا ہوں اس کے بغیر آپ ساری دنیا کو اسلام کی طرف لانے میں کامیاب نہیں ہو سکتے.اس میں شک نہیں کہ حسب بشارات آنے والی صدی اسلام اور احمدیت کے
450 غلبے کی صدی ہے اور یہ خدائی تقدیر ہے جو بہر حال پوری ہو کر رہے گی لیکن اگر آپ یہ سمجھ لیں کہ یہ غلبہ گھر بیٹھے ہو جائے گا تو یہ آپ کی غلطی ہو گی.غلبہ کی گھڑی کو لانے کے لئے آپ کو خون پسینہ ایک کرنا ہو گا.اپنے اموال، اپنے اوقات اور اپنے آراموں کی قربانی دینی ہو گی.دنیا اس وقت ایک تباہی کے کنارے پر کھڑی ہے اس کو بچانا آپ کی اور میری ذمہ داری ہے.ہمیں ہر فرد تک پہنچ کر اسلام کی صحیح تعلیم کو اس کے سامنے پیش کرنا ہو گا اور اسے بتانا ہو گا کہ ملکی اور بین الاقوامی مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کی کون سی راہ ہے.اس غرض کے لئے وسیع پیمانے پر ہر زبان میں لٹریچر تیار کرنے کی ضرورت ہے پھر اس امر کی ضرورت ہے کہ علمی رنگ میں ہم میں سے ہر ایک اس بات سے آگاہ ہو کہ دنیا کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل کیا ہیں اور اسلام ان کا کیا حل پیش کرتا ہے.اگر ہم خود ہی ان سے نا آشنا ہوں تو دنیا کو کیا سمجھائیں گے.اس لئے ہمیں قرآن کریم کے گہرے مطالعہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو توجہ سے اور بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے وہیں سے ہم روشنی حاصل کر سکتے ہیں.وہ زمانہ قریب آ رہا ہے جب يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًا کا نظارہ ہماری آنکھوں کے سامنے آ جائے گا.ان آنے والوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام ہمیں کرنا ہو گا لیکن اس سے قبل کہ وہ وقت آئے ہمیں اپنی تعلیم و تربیت کی فکر کرنی چاہئے اور پوری توجہ اور پورے ذوق و انہماک سے قرآنی علوم سیکھنے چاہئیں." ال
451 جماعت احمدیہ کی پہلی صدی کے اختتام تک کے لئے دس سالہ تحریک تعلیم القرآن جماعت احمدیہ کا قیام ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء سے شمار ہوتا ہے اور اس لحاظ سے جماعت احمدیہ کی پہلی صدی ۲۲ مارچ ۱۹۸۹ء کو ختم ہوتی ہے اور ۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء سے جماعت احمدیہ کی دوسری صدی شروع ہوتی ہے.حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نے جماعت احمدیہ کی دوسری صدی کا استقبال کرنے کے لئے ۲۸.اکتوبر ۱۹۷۹ء کو تعلیم القرآن کے لئے ایک دس سالہ تحریک فرمائی جس کے مطابق جماعت احمدیہ کی پہلی صدی کے اختتام تک جماعت کا ہر چھوٹا بڑا قرآن کریم سیکھنے سکھانے کی طرف خاص طور پر متوجہ ہو.حضور نے اس تحریک کے ذریعے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ آئندہ دس سال کے اندر اندر ہر بچہ قاعدہ میسرنا القرآن جانتا ہو.قرآن کریم ناظرہ جاننے والے ترجمہ سیکھیں اور جو قرآن کریم کا ترجمہ سیکھ چکے ہوں وہ قرآن کریم کی تفسیر سیکھیں باقی " چنانچہ تعلیم القرآن کے لئے دس سالہ تحریک کرتے ہوئے فرمایا:.ہماری جماعتی زندگی کے سو سال پورے ہونے میں قریباً دس سال ہیں اور میرے اس پروگرام کا تعلق انہیں دس سالوں سے ہے.....اس پروگرام کا پہلا حصہ علوم روحانی کا سیکھنا ہے.اس کے لئے ہر احمدی بچه خواہ وہ شہر میں رہنے والا ہو یا دیہات میں، خواہ وہ بڑی جماعتوں کا طفل ہو، خواہ وہ ایسے خاندان سے تعلق رکھنے والا ہو جہاں پر ایک ہی خاندان احمدی ہو اسے جتنا ممکن ہو سکے قاعدہ میسرنا القرآن پڑھا دیا جائے....عمر کے لحاظ سے ہر طفل ، ہر خادم ، ہر نیا احمدی، ہر پرانا غافل احمدی قرآن کریم کا ترجمہ سیکھنے کی طرف متوجہ ہو.....جو افراد قرآن کریم کا ترجمہ جانتے ہیں وہ قرآن کریم کے معانی کی تفسیر پڑھنے کی طرف متوجہ ہوں؟ له
452 حضرت خلیفہ المسیح الثالث کا یہ نظریہ تھا کہ احمدیت کی دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے اور اس میں ہر احمدی کو داعی الی اللہ بننا پڑے گا جس کے لئے قرآن کریم کے علوم سیکھنا ضروری ہیں جس کے بغیر اسلام کو ساری دنیا میں پھیلایا نہیں جا سکتا.چنانچہ تعلیم القرآن منصوبے کے آغاز پر ہی حضور کو جو نور کشفی حالت میں دکھایا گیا اس سے استدلال کرتے ہوئے ۵.اگست ۱۹۶۶ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے فرمایا:." پس جیسا کہ نور کے اس نظارے سے جسے میں نے ساری دنیا میں پھیلتے دیکھا معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کی کامیاب اشاعت اور اسلام کے غلبہ کے متعلق قرآن کریم اور نبی کریم میں اللہ کی وحی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں جو خوشخبریاں اور بشارتیں پائی جاتی ہیں ان کے پورا ہونے کا وقت آگیا اس لئے میں پھر اپنے دوستوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم پر واجب ہے کہ ہر احمدی مرد ہر احمدی عورت، ہر احمدی بوڑھا ، پہلے اپنے دل کو نور قرآن سے منور کرے.قرآن کریم سیکھے ، قرآن کریم پڑھے اور قرآن کریم کے معارف سے اپنا سینہ و دل بھر لے اور معمور کرلے، ایک نور مجسم بن جائے، قرآن کریم میں ایسا محو ہو جائے ، قرآن کریم میں ایسا گم ہو جائے قرآن کریم میں ایسا فنا ہو جائے کہ دیکھنے والوں کو اس کے وجود میں قرآن کریم کا ہی نور نظر آئے اور پھر ایک معلم اور استاد کی حیثیت سے تمام دنیا کے سینوں کو انوار قرآن سے منور کرنے میں ہمہ تن مشغول ہو جائے.۱۳ تعلیم القرآن کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی عظیم الشان جد وجهد تعلیم القرآن کے بارے میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نے مختلف تحریکات اور "
453 منصوبوں کے علاوہ مختلف پیرایہ میں ہر احمدی گھرانہ ، نظام جماعت امراء اضلاع ، موصیان انصار الله لجنہ اماء الله خدام الاحمدیہ ، غرضیکہ ہر ایک کو متوجہ فرمایا اور اس بارہ میں عظیم الشان جدوجہد فرمائی اور کئی اقدامات اٹھائے.چنانچہ قرآن کریم سکھانے کے سلسلہ میں حضور نے جو اقدامات اٹھائے ان میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :."ہمیں چاہئے کہ انفرادی اور اجتماعی طور پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی صفات سے برکات حاصل کرنے کی کوشش کرتے رہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ ہم اپنی کوشش اپنی جدوجہد اور مجاہدات کو کمال تک پہنچائیں اور جو منصوبہ قرآن کریم کو سیکھنے سکھانے کا جماعت میں جاری کیا گیا ہے اس سے غفلت نہ برتیں.اس موقع پر میں ان عزیزوں اور بھائیوں سے بھی اپیل کرنا چاہتا ہوں جن کا مختلف درسگاہوں سے طالب علم یا استاد کا ہے کہ اپنی چھٹیوں میں سے اگر آپ دو ہفتے تک قرآن کریم کو پڑھانے کے لئے وقف کریں تو یقیناً اللہ تعالی آپ پر اپنی برکات نازل تعلق.ee فرمائے گا.۱۴ اسی طرح فرمایا :- " بعض ایسے پیشے والے ہیں جن کو ان دنوں چھٹیاں ہوتی ہیں مثلاً بعض عدالتیں بند ہو جاتی ہیں وہاں جو احمدی وکیل وکالت کا کام کرتے ہیں وہ بھی اپنی زندگی کے چند ایام اشاعت علوم قرآنی کے لئے وقف کر هل سکتے ہیں » ۱۵ اس بارے میں ذکر ہو چکا ہے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نے تعلیم القرآن اور وقف عارضی کی تحریکوں کو موصی صاحبان کی تنظیم کے ساتھ ملحق فرما کر قرآن کریم سیکھنے سکھانے کی ذمہ داری ان کے سپرد فرما دی تھی حضور نے فرمایا:." تیسری ذمہ داری آج میں ہر اس موصی پر جو قرآن کریم جانتا ہے ڈالنا چاہتا ہوں کہ وہ ایسے دوستوں کو قرآن کریم پڑھائے جو قرآن کریم
454 پڑھے ہوئے نہیں اور یہ کام باقاعدہ ایک نظام کے ماتحت ہو اور اس کی اله اطلاع نظارت متعلقہ کو دی جائے.؟ حضور نے موصیان کا ابتدائی اور بنیادی کام ہی تعلیم القرآن قرار دیا اور فرمایا :.”جہاں تک موصیان کے لئے ابتدائی کام کرنے کا سوال تھا میں نے یہ کام ان کے ذمہ لگایا تھا کہ تمہارے گھر میں بڑا ہو یا چھوٹا مرد ہو یا عورت کوئی بھی ایسا نہ رہے جو قرآن کریم کے پڑھنے کی عمر کو پہنچا ہو لیکن قرآن کریم پڑھ نہ سکتا ہو یا ترجمہ جاننے کی عمر کو پہنچا ہو مگر ترجمہ نہ جانتا ہو یا عام روز مرہ زندگی سے تعلق رکھنے والی تفسیر قرآن کا اسے علم et نہ ہو کال موصیان کے کام کے بارے میں مزید فرمایا:." وہ اپنی جماعت کی نگرانی کریں (عمومی نگرانی امیر یا پریذیڈنٹ ساتھ تعاون کرتے ہوئے کریں.کہ نہ صرف ان کے گھر میں بلکہ ان کی جماعت میں بھی کوئی مرد اور کوئی عورت ایسی نہ رہے جو قرآن کریم نہ جانتی ہو.ہر ایک عورت قرآن کریم پڑھ سکتی ہو ترجمہ جانتی ہو.اسی طرح تمام مرد بھی قرآن کریم پڑھ سکتے ہوں ترجمہ بھی جانتے ہوں اور قرآن کریم کے نور سے حصہ لینے والے ہوں تاکہ قیام احمدیت کا مقصد پورا ہو امراء اضلاع کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :." میں تمام امراء اضلاع کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے ضلع کی ہر جماعت میں قرآن کریم پڑھانے کا باقاعدہ ایک نظام کے ماتحت انتظام کریں اور ہر دو ماہ کے بعد مجھے اس کی رپورٹ بھیجوایا کریں۱۹ ذیلی تنظیموں کو بھی حضور نے تعلیم القرآن کے لئے ذمہ دار ٹھہرایا چنانچہ انصار الله کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:." انصار اللہ کو آج میں یہ کہنا چاہتا ہوں......آپ ان ذمہ داریوں
455 کو ادا کریں جو تعلیم القرآن کے سلسلہ میں آپ پر عائد ہوتی ہیں قرآن کریم کی تعلیم کے سلسلہ میں آپ پر دو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.ایک ذمہ داری تو خود قرآن کریم سیکھنے کی ہے اور ایک ذمہ داری ان لوگوں (مردوں اور عورتوں) کو قرآن کریم سکھانے کی آپ پر عائد ہوتی ہے کہ جن کے آپ اللہ کی نگاہ میں اور محمد علی ایم کے ارشاد ! کے مطابق رائی بنائے گئے ہیں.آپ ان ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جلد قرآن کی طرف متوجہ ہوں.ہر رکن انصار اللہ کا یہ فرض ہے کہ اس کے گھر میں اس کی بیوی اور بچے یا اور ایسے احمدی کہ جن کا خدا کی نگاہ میں وہ رائی ہے، قرآن کریم پڑھتے ہیں اور قرآن کریم کے سیکھنے کا وہ حق ادا کرتے ہیں جو حق ادا ہونا چاہئے ۲۰ لجنة أماء اللہ کے بارے میں فرمایا:.لجنہ اماء اللہ کے سپرد جو کام ہیں.ان کا جو پروگرام ہے اس میں پہلا اور بنیادی کام یہ ہے کہ ہر عورت قرآن کریم اور اس کی کچی اور حقیقی تفسیر کا علم حاصل کرے اس وو اسی طرح لجنہ اماء اللہ کا یہ فرض ہے کہ وہ اس بات کی نگرانی کرے کہ ہر جگہ لجنہ اماء اللہ کی نمبرات اور ناصرات الاحمدیہ ان لوگوں کی نگرانی میں جن کے سپرد یہ کام کیا گیا ہے قرآن کریم پڑھ رہی ہیں یا نہیں" خدام الاحمدیہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:.خدام الاحمدیہ کو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آئندہ اشاعت اسلام کا بڑا بوجھ آپ کے کندھوں پر پڑنے والا ہے.کوئی ایک طفل یا کوئی ایک نوجوان بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جو احمدیت کے مقصد سے غافل رہے اور اس ذمہ داری کی ادائیگی سے غافل رہے جو ہمارے رب نے ہمارے کمزور کندھوں پر ڈالا ہے.
456 خدام الاحمدیہ کی تنظیم اپنے طور پر بحیثیت خدام الاحمدیہ اس بات کا جائزہ لے اور نگرانی کرے کہ کوئی خادم اور طفل ایسا نہ رہے جو قرآن کریم نہ جانتا ہو یا مزید علم حاصل کرنے کی کوشش نہ کر رہا ہو " ۳ حضور نے والدین کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :.فرمایا :.فرمایا :." ” جو ماں باپ اپنے بچوں کو جسمانی صحت اور روحانی تربیت کا خیال رکھتے ہوئے ان کے لئے ہر قسم کی قربانی دینے کو تیار ہو جاتے ہیں اللہ تعالٰی کے نزدیک وہ جنت کے مستحق ٹھرتے ہیں.اگر ایک کھجور اپنے بچہ کو اس رنگ میں اور اس ذہنیت کے ساتھ دینے کے نتیجہ میں جنت ملتی ہے تو جو ماں باپ اپنے بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کی کوشش کرتے ہیں تا وہ اسلام کے رنگ میں رنگے جائیں قرآن کریم کے احکام پر عمل کرنے والے بنیں اور دنیا کے سامنے بهترین نمونہ پیش کرنے والے بنیں وہ کس قدر بلند درجات کے مستحق ہیں ہیں.”جب تک آپ قرآن کریم کی عزت کو دنیا میں قائم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں بھی اور دنیا کی نگاہ میں بھی کبھی عزت حاصل نہیں کر سکتے؟ " حقیقی سکون اسے ہی ملتا ہے جو قرآن کریم کی روشنی میں اپنی زندگی گزارے.اور حقیقی فلاح وہی پاتا ہے جو قرآن کریم کے نور سے حصہ لیتا ہے اور قرآن کریم کی بتائی ہوئی صراط مستقیم پر ہمت کے ساتھ اور عزم کے ساتھ اور جوش کے ساتھ ، پیار کے ساتھ اور محبت کے ساتھ اور ایک تڑپ کے ساتھ گامزن رہتا ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن کریم پر عمل کرنے کی توفیق عطا کرے " "
457 فرمایا :- فرمایا :." میں تلاوت قرآن کریم اس لئے کہتا ہوں کہ آنحضرت میر کا یہ طریق تھا کہ اگر کسی جگہ کوئی ایسی بات آتی یا کوئی ایسا مضمون بیان ہو تا جس سے خدا تعالیٰ کی بزرگی اور اس کی بڑائی اور اس کی رفعت ثابت ہوتی تو آپ اللہ تعالیٰ کی حمد میں لگ جاتے اور اس کے قہر کا بیان ہوتا تو آپ استغفار میں لگ جاتے.دراصل قرآن کریم کی تلاوت کا یہی te طریق ہونا چاہئے " ۲۷ " قرآن کریم بڑی عظیم کتاب ہے احباب جماعت کو چاہئے کہ اپنے قرآنی علم میں ہر آن اضافہ کرتے چلے جائیں اور جتنا ممکن ہو علوم JA قرآنی سے استفادہ کرتے رہیں ۲۸ نظارت اصلاح وارشاد تعلیم القرآن کا قیام تعلیم القرآن کی اہمیت اور اس کے پروگراموں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اور ان کی نگرانی کے لئے ۱۹۷۶ء کے اوائل میں حضور نے نظارت اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن قائم فرمائی.سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات یاد کرنے کی تحریک ستمبر ۱۹۶۹ء میں حضور نے سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات حفظ کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:." میرے دل میں یہ خواہش شدت سے پیدا کی گئی ہے کہ قرآن کریم کی سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیتیں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی
458 ہے ہر احمدی کو یاد ہونی چاہئے اور ان کے معانی بھی آنے چاہئیں اور جس حد تک ممکن ہو ان کی تفسیر بھی آنی چاہئے اور پھر ہمیشہ دماغ میں وہ مستحفر بھی رہنی چاہئے.اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ستر اسی صفحات کا ایک رسالہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت خلیفہ اول اور حضرت مصلح موعود کی تفاسیر کے متعلقہ " رض اقتباسات پر مشتمل ہو گا شائع بھی کر دیں گے.مجھے آپ کی سعادت مندی اور جذبہ اخلاص اور اس رحمت کو دیکھ کر جو ہر آن اللہ تعالیٰ آپ پر نازل کر رہا ہے امید ہے کہ آپ میری روح کی گہرائی سے پیدا ہونے والے اس مطالبہ پر لبیک کہتے ہوئے ان آیات کو زبانی یاد کرنے کا اہتمام کریں گے.مرد بھی یاد کریں گے ، عورتیں بھی یاد کریں گی چھوٹے بڑے سب ان سترہ آیات کو ازبر کر لیں گے.پھر تین مہینے کے ایک وسیع منصوبہ پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہم ہر ایک کے سامنے ان آیات کی تفسیر بھی لے آئیں گے.ان آیات میں منافقین کی بنیادی کمزوریوں کو بیان فرمایا.ان سے بچنے کی تلقین فرمائی.اس لئے مضمون اس اعتبار سے بنیادی حیثیت کا حامل ہے کہ اس میں ان بیماریوں سے بچنے کی راہیں بتائی گئی ہیں.پس ہم میں سے ہر چھوٹے اور بڑے اور ہر عورت اور ہر مرد کو یہ آیات زبانی یاد ہونی چاہئیں تاکہ بوقت ضرورت ہم اس اعتماد پر پورے اتر سکیں جسے اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر ہم پر کیا ہے کہ جس طرح یہ لوگ مجھے دھوکا نہیں دے سکتے.اسی طرح تمہیں بھی دھوکا نہیں دے سکتے اللہ تعالٰی کی توفیق کے نتیجہ ہی میں سب کچھ ہوتا ہے."
459 تحریک حفظ قرآن حضور خود حافظ قرآن تھے اور حضور کے دل میں یہ شدید تڑپ تھی کہ جماعت کے نوجوان کثرت سے حافظ قرآن بنیں چنانچہ حضور نے جماعت کے نوجوانوں کو تحریک فرمائی کہ وہ قرآن کریم کا ایک ایک پارہ حفظ کریں اس طرح تھیں خدام مل کر پورا قرآن کریم حفظ کر لیں گے.مجلس خدام الاحمدیہ نے اس تحریک پر کسی حد تک کام کرنے کی توفیق پائی اور نہر مجلس میں جس خادم نے جو پارہ یاد کرنے کے لئے چنا تھا وہ درج کر کے فہرستیں حضور کی خدمت اقدس میں بھجوائی جاتی رہیں اور جس جس خادم نے کوئی پارہ یاد کرنے کی توفیق پائی اس کی اطلاع بھی حضور کو بھیجوائی جاتی رہی.غرض اس تحریک کے ذریعے قرآن کریم حفظ کرنے کی طرف توجہ دلانا مقصود تھا اس کے علاوہ حضور نے جماعت کو اپنے بچے جامعہ احمدیہ سے ملحق حافظ کلاس میں بھجوانے کی بھی بار بار تحریک فرمائی.چنانچہ جماعت کے ہر طبقہ میں یہ رجحان پیدا ہو گیا کہ انہوں نے اپنے ذہین ترین بچوں کو حافظ کلاس میں بھیجوانا شروع کیا.حافظ کلاس میں توسیع کی گئی.مستحق طلباء کے لئے وظائف کا انتظام کیا گیا.اب صورت حال یہ ہے کہ ہر سال حافظ کلاس میں داخلہ کے لئے اتنی کثرت سے امیدوار آتے ہیں کہ ان میں سے انٹرویو لے کر صرف ایک محدود تعداد کو ہی داخلہ دیا جاتا ہے.۲۹ مطالعہ احادیث و کتب مسیح موعود علیہ السلام حضور کی نگاہ میں احادیث نبویہ اور کتب مسیح موعود علیہ السلام چونکہ قرآن کریم کی تفسیر ہیں اس لئے قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے ان کا مطالعہ کرنا از حد ضروری قرار دیا.اس حقیقت کو ایک موقع پر یوں بیان فرمایا:." حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تفسیر کے متعلق جو یہ ایک نکتہ بیان کیا ہے کہ قرآن کریم خود اپنا مفسر ہے یعنی قرآن کریم کی بعض
460 آیات دوسری آیات کی تفسیر کرتی ہیں اور وہی تفسیر بہتر اور اچھی اور مفید اور سب سے زیادہ صحیح تعلیم کی جا سکتی ہے جو قرآن کریم نے خود بیان فرمائی ہو.....حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ بھی کہا یا لکھا وہ قرآن کریم کی ہی تفسیر ہے.یہ علیحدہ بات ہے کہ ہم میں سے بعض بعض چیزوں یا بعض مضامین کے متعلق کچھ پریشان ہوں کہ ہمیں پتہ نہیں چل رہا کہ یہ قرآن کریم کی کس آیت کی تفسیر ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جیسا کہ نبی کریم میں کی ہیلی نے جو کچھ ارشاد فرمایا وہ لاکھوں احادیث جو امت مسلمہ نے بڑی محنت اور جدوجہد سے محفوظ کیں) سب قرآن مجید کی تفسیر ہے ۳۰ اس سلسلہ میں حضور نے ۱۹۶۹ء میں اپنی نگرانی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر اور ارشادات کو قرآن کریم کی ترتیب کے مطابق یکجا کروانے اور تفسیر مسیح موعود شائع کروانے کا انتظام فرمایا چنانچہ حضور کے دور خلافت میں سورۃ فاتحہ سے سورۃ کہف تک کی تفسیر شائع ہوئی اور باقی سورتوں کی آیات کی تفسیر اکٹھی کرنے اس ؟؟ کا کام بھی جاری رہا.سلسلہ میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے اہم اقتباسات کا انگریزی ترجمہ Essence of Islam کے نام سے شائع کروایا نیز اسلامی اصول کی فلاسفی کا انگریزی ترجمہ ایک لاکھ کی تعداد میں شائع کروایا.خود اس ترجمہ کو لفظاً لفظاً پڑھا.اسی طرح کئی دوسری زبانوں میں بھی تراجم شائع کروائے.خطبہ جمعہ ۷ مارچ ۱۹۸۰ء مارٹن روڈ کراچی میں فرمایا :." قرآن کریم حقیقتہ ایک عظیم کتاب ہے قرآن کریم اگر قیامت تک کے لئے مسائل حل کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو قیامت تک خدا تعالیٰ کے ایسے نیک اور پاک اور مطہر بندے پیدا ہوتے رہنے چاہئیں جو معلم حقیقی یعنی اللہ تعالیٰ سے سیکھیں اور انسانوں کو قرآن کریم
461 کے اسرار اور بطون سے آگاہ کریں تاکہ جو نئی مصیبتیں انسان نے اپنے لئے پیدا کر لیں اور نئے مسائل اس کے سامنے آگئے ان کا کوئی حل ہو اور اس کی نجات کے لئے دروازے کھلیں.اس زمانہ کے لئے اور اس ہزار سال کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر قرآنی تفصیل میں بھی اور بیج کی حیثیت میں بھی موجود ہے.یعنی جو اس زمانہ کے مسائل ہیں ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے ہر وہ تفسیر کر دی جس کی ضرورت تھی.....اس زمانہ میں قرآن کریم کو سمجھنے اور جاننے کے لئے اور اس سے فائدہ اٹھانے کے لئے اپنی زندگی کی ظلمات کو اور زندگی کے اندھیروں کو قرآن کریم کے نور سے نور میں بدلنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کا پڑھنا ضروری ہے.آپ کی ساری کتب آپ کی سب تحریریں قرآن کریم کی تفسیر ہیں....حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم سے باہر، قرآن کریم سے زائد ایک لفظ بھی نہیں لکھا، نہ قرآن پر کچھ زیادتی کی، نہ قرآن کریم سے کوئی کمی کی تفسیر بیان کرتے چلے گئے.بعض ایسے بیان ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نہیں لکھا کہ میں کس آیت کی تفسیر کر رہا ہوں اور ایک بیان دے دیا کسی مسئلے کے متعلق.کسی وقت غور کرتے ہوئے وہ عبارت پڑھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو نہیں لکھی لیکن دماغ میں ایک آیت آجاتی ہے کہ آپ فلاں آیت کی تفسیر کر رہے ہیں.....ہمیں تو کتابیں پڑھنے کی عادت ہونی چاہئے خصوصا وہ کتب جو ہماری جان ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پڑھ کے اگر ہم نے محمد ملی یا اللہ کا نور حاصل نہیں کرنا تو زندہ رہ کے کیا کرنا ہے میں نے کہا کلب بناؤ.خدام اپنی بنائیں.انصار اپنی بنائیں ، لجنہ اپنی...ہر گھر میں
462 ایک نسخہ تفسیر صغیر کا ہو...تفسیر صغیر کی طرح کے جو نیچے نوٹ والا ہمارا انگریزی ترجمہ اور نوٹ ہیں وہ اپنے گھر میں رکھنا ہے.....دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کی جو پانچ جلدیں چھپ چکی ہیں وہ اس سال کے اندر اندر ہر گھر میں آ جائیں......ایک سال کے اندر اندر ہر گھر میں تفسیر صغیر کا ایک نسخہ اور پانچ جلدیں تفسیر کی ہو جانی چاہئیں"
463 خدمت قرآن
464 خدمت قرآن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی صداقت اور اس کی عظمت ثابت کرنے کے لئے دنیا بھر کے مذاہب کو للکارا اور چیلنج دیا کہ وہ اپنی الہامی کتاب کا قرآن کریم سے مقابلہ کریں.اس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بعض انعامی چیلنجوں کا اعلان فرمایا :- حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی نے بھی ساری دنیا میں قرآن کریم کی عظمت ثابت کرنے کے لئے اپنی خلافت کے بالکل آغاز میں اہل یورپ کو انتباہ فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عظیم الشان پیشگوئیوں کو بڑی جرات کے ساتھ اہل مغرب کے سامنے پیش کیا اور قرآن کریم کی تعلیمات کو اہل مغرب تک پہنچایا." ہم تمام مسلمان یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ مسیح ناصری علیہ السلام خدا کے برگزیدہ نبی تھے اور ان کی والدہ بھی نیکی میں ایک پاک نمونہ تھیں.قرآن کریم نے ان دونوں کا ذکر عزت سے کیا ہے.مریم علیہا السلام کو تو قرآن کریم نے پاکیزگی کی مثال کے طور پر پیش کیا ہے اور قرآن کریم میں آپ کا ذکر انجیل کی نسبت زیادہ عزت کے ساتھ کیا گیا ہے لیکن قرآن کریم ان دونوں کو معبود ماننے سے کلیسائی عقیدے کی سختی سے تردید فرماتا ہے.یہ بات اور عیسائی کلیسیا کا آنحضرت میم کی صداقت سے انکار دو ایسے امور ہیں جو اسلام اور عیسائیت کے بنیادی اور اصولی اختلاف ہیں." حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.” میں ہر دم اسی فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے ، میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے اور میری جان عجب تنگی میں ہے.اس سے بڑھ کر اور کون سا دلی درد کا مقام ہو گا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنا لیا گیا اور ایک مشت خاک کو رب
465 العالمین سمجھا گیا.میں کبھی کا اس غم میں فنا ہو جاتا اگر میرا موٹی اور میرا قادر توانا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے، غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنے خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے، مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.خدائے قادر فرماتا ہے کہ اگر میں چاہوں تو مریم اور اس کے بیٹے عینی اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کر دوں.سو اب دونوں مریں گے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہو گی اور نیا آسمان ہو گا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو بچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہوگا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت کے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی جربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کند ہو گا جب تک و جالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی کچی توحید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے.اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی تمام تدبیروں کو باطل کر دے گا، لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے اور پاک دلوں پر ایک نور اتارنے سے.تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی ؟ اس ان زبر دست پیشگوئیوں کے بعد تو دنیا کا نقشہ ہی بدل گیا.افریقہ کا وسیع براعظم عیسائیت کے جھنڈے تلے جمع ہونے کی بجائے اسلام کے خنک اور سرور بخش سایہ تلے
466 جمع ہو رہا ہے.ہندوستان میں یہ حالت ہے کہ احمدی نوجوانوں سے بات کرتے ہوئے بڑے بڑے پادری بھی گھبراتے ہیں اور اب سمجھتے ہیں کہ مکہ پر عیسائیت کا جھنڈا لہرانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوا اور نہ کبھی ہو گا.انشاء اللہ.غلبہ اسلام کے متعلق جو بشارتیں دی گئی تھیں ان کے پورا ہونے کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں مگر....ایک تیسری عالمگیر تباہی کی خبر بھی دی گئی ہے جس کے بعد اسلام پوری شان کے ساتھ دنیا پر غالب ہو گا.مگر یہ بشارت بھی دی گئی ہے کہ تو بہ اور اسلام کی بتائی ہوئی راہیں اختیار کرنے سے یہ تباہی ٹل بھی سکتی ہے.اب یہ آپ کے اختیار میں ہے کہ اپنے خدا کی معرفت حاصل کر کے اور اس کے ساتھ سچا تعلق پیدا کر کے خود کو اور اپنی نسلوں کو اس تباہی سے بچالیں یا اس سے دوری کی راہیں اختیار کر کے خود کو اور اپنی نسلوں کو ہلاکت میں ڈالیں.ڈرانے والے عظیم انسان نے خدا اور محمد میں اللہ کے نام پر (مندرجہ ذیل الفاظ.۳۲ میں) آپ کو ڈرایا ہے.اور اپنا فرض پورا کر دیا...س حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:.یاد رہے کہ خدا نے مجھے عام طور پر زلزلوں کی خبر دی ہے.پس یقینا سمجھو کہ جیسا کہ پیشگوئی کے مطابق امریکہ میں زلزلے آئے ایسا ہی یورپ میں بھی آئے اور نیز ایشیا کے مختلف مقامات میں آئیں گے اور بعض ان میں قیامت کا نمونہ ہوں گے اور اس قدر موت ہو گی کہ خون کی نہریں چلیں گی.اس موت سے چرند پرند بھی باہر نہیں ہوں گے اور زمین پر اس قدر سخت تباہی آئے گی کہ اس روز سے کہ انسان پیدا ہوا ایسی تباہی کبھی نہیں آئی ہو گی اور اکثر مقامات زیرو زبر ہو جائیں گے کہ گویا ان میں کبھی آبادی نہ تھی اور اس کے ساتھ اور بھی آفات زمین و آسمان میں ہولناک صورت میں پیدا ہوں گی یہاں تک کہ ہر ایک عقل مند کی نظر میں وہ باتیں غیر معمولی ہو جائیں گی اور ہیئت اور فلسفہ کی کتابوں کے کسی صفحہ پر ان کا پتہ نہیں ملے گا.تب انسانوں میں اضطراب پیدا ہو گا کہ یہ کیا ہونے والا ہے اور بہتیرے نجات پائیں گے
' 467 اور بہتیرے ہلاک ہو جائیں گے.وہ دن نزدیک ہیں بلکہ میں دیکھتا ہوں کہ دروازے پر ہیں کہ دنیا ایک قیامت کا نظارہ دیکھے گی اور نہ صرف زلزلے بلکہ اور بھی ڈرانے والی آفتیں ظاہر ہوں گی، کچھ آسمان سے اور کچھ زمین سے.یہ اس لئے کہ نوع انسان نے اپنے خدا کی پرستش چھوڑ دی ہے اور تمام دل اور تمام ہمت اور تمام خیالات سے دنیا پر ہی گر گئے ہیں.اگر میں نہ آیا ہوتا تو ان بلاؤں میں کچھ تاخیر ہو جاتی پر میرے آنے کے ساتھ خدا کے غضب کے وہ مخفی ارادے جو ایک بڑی مدت سے مخفی تھے ظاہر ہو گئے جیسا کہ خدا نے فرمایا وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولاً (بنی اسرائیل :۱۲) اور توبہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں ان پر رحم کیا جائے گا.کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو؟ ہرگز نہیں.انسانی کاموں کا اس دن خاتمہ ہو گا.یہ مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک ان سے محفوظ ہے.میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید ان سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے.اے یورپ! تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا ! تو بھی محفوظ نہیں اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد دیگا نہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکروہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھائے گا.جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ تم بچشم
468 خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے، تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.جو خدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جو اس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ" ۳۳ ۱۹۸۰ء میں کینیڈا کے دورہ کے دوران کیلگری کے مقام پر حضور نے 9 ستمبر کو ماہرین علوم کے ایک وفد کو جس میں کیلگری یونیورسٹی کے بعض پروفیسر دیگر دانشور اور سکالرز شامل تھے شرف ملاقات بخشا اور انہیں قرآنی تعلیم کے بعض ایسے پہلوؤں سے روشناس کیا جن کا براہ راست موجودہ زمانے سے تعلق ہے.اس وفد میں مندرجہ ذیل ماہرین شامل تھے.۱ کیلگری یونیورسٹی کے ڈین آف ہو مینیٹیز.ڈاکٹر پیٹر کریگی ۳۴ ۲ کیلگری یونیورسٹی کے مشرقی مذاہب کے پروفیسر ڈاکٹر میک کریڈی ۳۵ ۳.کیلگری یونیورسٹی کے اسلامک سٹڈیز کے پروفیسر مسٹر رین ۳۶ ۴.کیلگری یونیورسٹی میں شعبہ مکینیکل انجینئرنگ کے صدر ڈاکٹر منسا سنگھ مع مسن ڈاکٹر نمسا سنگھ (کینیڈین) ۵ کیلگری یونیورسٹی میں شعبہ کیمیکل انجینئر نگ کے صدر ڈاکٹر خالد عزیز ۶.چیف جیالوجسٹ ے.البرٹا ریسرچ سنٹر برو کس کے پلانٹ پتھالوجسٹ ڈاکٹر رون ہاورڈ ےس اس مجلس کے آخر میں ڈاکٹر پیٹر کریگی نے نہایت ادب کے ساتھ حضور کی خدمت میں عرض کیا کہ حقوق انسانی سے متعلق آپ نے قرآنی تعلیم کی بہت موثر انداز میں وضاحت فرمائی ہے.اس میں شک نہیں یہ تعلیم بہت عمدہ ہے اور اس سے دنیا کے بہت سے مسائل خاطر خواہ طریق پر حل ہو سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ مختلف ملکوں اور قوموں میں اسے عملی جامہ کیونکر اور کس طرح پہنایا جائے؟ حضور نے اس کے جواب میں فرمایا اس پر عمل تو اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ جب عمل کرنے کی نیت اور ارادہ ہو.ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینا از بس ضروری ہے کہ جس میں محبت و پیار کا دور دورہ ہو اور ایک دوسرے کی بے لوث خدمت کا جذبہ کار فرما ہو.اب رہا یہ سوال
469 کہ ایسا معاشرہ کیسے تشکیل پائے؟ سو ہم اسلامی تعلیم کو دنیا میں پھیلا کر ایسا معاشرہ پیدا کرنے کی مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ایک نہ ایک دن ہم اس میں ضرور کامیاب ہوں گے.یہ سکالرز اس بات پر بھی بہت مشوش تھے کہ موجودہ دنیا اپنے لا نخیل مسائل کی وجہ سے ایک ہولناک تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے.حضور نے انہیں مخاطب کر کے فرمایا کہ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بنی نوع انسان نے ایک دوسرے سے محبت کرنا چھوڑ دیا ہے.اس لئے میں جہاں بھی جاتا ہوں لوگوں سے یہی کہتا ہوں کہ ایک دوسرے سے محبت کرنا سیکھو.اس بات کو اپنی زندگی کا اصول بناؤ کہ نفرت کسی سے نہیں محبت سب کے لئے " اگر ایسا نہ ہو تو نوع انسانی جس عظیم خطرہ سے دوچار ہے وہ حقیقت میں تبدیل ہو کر رہے گا.اس پر ایک صاحب نے دریافت کیا کہ قرآن کی رو سے انسانوں اور قوموں کے مابین محبت کیسے پنپ سکتی ہے ؟ حضور نے فرمایا محبت حسن اور احسان کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.اسلام میں حسن اور احسان دونوں موجود ہیں.یہ امر بھی اس کے حسن اور احسان کا آئینہ دار ہے کہ اس نے ہر ایک کے حقوق کی حفاظت کا اہتمام کیا ہے.انسانوں ہی کے حقوق کی حفاظت کا نہیں بلکہ حیوانات اور نباتات کے حقوق کی حفاظت کا بھی.یہ محبت اسلام کو اپنانے اور اس پر عمل پیرا ہونے سے ہی پیدا ہو گی." اسی طرح کیلگری میں ایک خطاب کے دوران حضور نے فرمایا:.دو قرآن جب دنیوی زندگی کا ذکر کرتا ہے تو وہ دراصل ان ذمہ داریوں کا ذکر کرتا ہے جو خدا اور اپنے ہم جنس بنی نوع کے بارہ میں ہم پر عائد ہوتی ہیں.ان ہر دو قسم کی ذمہ داریوں کو ادا کئے بغیر ہم خدا میں ہو کر زندگی نہیں گزار سکتے.اسلام بحیثیت انسان مسلمان اور غیر مسلم میں کوئی فرق نہیں کرتا.وہ سب سے یکساں محبت کرنے کا درس دیتا ہے کیونکہ سب ایک جیسے ہی انسان ہیں اور ایک خدا کی مخلوق اور ایک ہی آدم کی اولاد ہیں.وہ ان سے بھی محبت کا درس دیتا ہے جو خود اس کے منکر اور مخالف ہیں کیونکہ
470 ہیں وہ بھی انسان ہی.ہمارے تعلقات کی بنیاد اس اصل پر ہونی چاہئے که محبت سب سے نفرت کسی سے نہیں قرآن کریم انسان انسان میں کامل مساوات کی تعلیم دیتا ہے.وہ کہتا ہے کہ بحیثیت انسان مرد مرد میں اسی طرح عورت، عورت میں اور علی ہذا مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں سب مساوی حیثیت کے مالک ہیں.قرآن کی رو سے انسانوں کے مابین اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ مساوات کو واضح کرتے ہوئے حضور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی استعدادیں عطا کی ہیں اور ان کی کامل نشوونما کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ بھی اس کرہ ارض پر مہیا کی ہیں.ان جملہ استعدادوں کی کامل نشود نما کے یکساں مواقع میسر آنا ہر انسان کا حق ہے.اگر ایک انسان کی بھی استعدادیں بغیر نشوونما کے رہتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا حق کسی اور انسان کے قبضہ و تصرف میں ہے.وہ حق جس کسی کے بھی قبضہ و تصرف میں ہے وہ اس سے لے کر اس کو دینا چاہئے جو اصل مستحق ہے.اس حق میں بھی اللہ تعالیٰ نے مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں کیا ہے.اسی طرح قرآن نے احکام دیتے وقت مردوں اور عورتوں میں کوئی فرق نہیں کیا ہے اسی لئے قرآن نے احکام دیتے وقت مردوں اور عورتوں کو یکساں مخاطب کیا ہے.البتہ بعض احکام ایسے ہیں جو صرف عورتوں سے متعلق ہیں جیسے بچوں کو دودھ پلانا وغیرہ ان میں عورتوں کو ہی مخاطب کیا جا سکتا ہے.ایسے چند احکام کے سوا باقی تمام احکام دیتے ہوئے مردوں اور عورتوں کو ایک ساتھ ہی قرآن نے مخاطب کیا ہے......حضور نے موجودہ زمانہ کی جسے متمدن اور ترقی یافتہ زمانہ کہا جاتا ہے مساوات انسان کی زبر دست خلاف ورزی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.
471 نتیجه آج دنیا میں بڑی اور چھوٹی قوموں کی تفریق نے بہت ناگوار صورت اختیار کر رکھی ہے...انسانی اقوام ہونے کی حیثیت میں ان کے حقوق میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے لیکن ایسا نہیں ہے.مثال کے طور پر اقوام متحدہ میں بڑی قوموں کے حقوق زیادہ ہیں اور چھوٹی قوموں کے کم.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں اصل طاقت بڑی قوموں کے ہاتھوں میں ہے اور چھوٹی قومیں بے بس ہیں حالانکہ انسانی مساوات کی سب کو یکساں درجہ ملنا چاہئے.اس نا انصافی اور عدم مساوات کا ہے کہ تیسری عالمگیر جنگ کا خطرہ نوع انسانی کے سر پر منڈلا رہا ہے.اس مکمل تباہی سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ پوری نوع انسانی متحد ہو کر اس خطرہ کو دور کرنے کی کوشش کرے اسے One God on Humanity یعنی ایک خدا اور ایک نوع انسانی) کے اصول پر متحدہ ہو جانا چاہئے....اگر تیسری عالمگیر جنگ کی شکل میں سروں پر منڈلانے والی مکمل تباہی سے بچنا چاہتے ہو تو ایک ہی خاندان کے افراد کی طرح باہم مل کر زندگی گزارو.سب کو یکساں درجہ دو اور سب کے یکساں حقوق تسلیم کرو...جب اپنی اپنی مذہبی کتابیں پڑھیں تو انہیں سمجھنے کی کوشش کریں.اس ضمن میں میں آپ صاحبان سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن ایک بہت عظیم کتاب ہے اگر اس کی تعلیم اور مدنی زندگی سے متعلق اس کے بیان کردہ اصولوں پر عمل کیا جائے تو عالمگیر جنگ کے خطرات میں گھری ہوئی یہ دنیا امن و آشتی کا گہوارہ بن سکتی ہے کیونکہ یہ عظیم کتاب سب کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے ۳۹ اسی طرح ۱۹۸۰ء میں جرمنی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.میں تمام اقوام پر یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ان کی نجات قرآن
472 کریم کی بے مثال و لازوال تعلیم پر عمل کرنے کے ساتھ وابستہ ہے.دنیا مانے یا نہ مانے میرا مشورہ اور میری نصیحت یہی ہے کہ بنی نوع انسان قرآن عظیم کے بیان کردہ اصولوں کو اپنائے اور ان پر عمل پیرا ہو کر اپنے آپ کو خدا کی زمان کے نیچے لائے جب تک وہ ایسا نہیں کریں گے تیسری عالمگیر جنگ کے خطرہ سے اپنے آپ کو بچانے میں ۴۰ کامیاب نہیں ہو سکیں گے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے انعامی چیلنجوں کا اعادہ حضور نے ۲۸.جنوری ۱۹۶۷ء کو جلسہ سالانہ پر خطاب فرمایا اس کے متعلقہ حصہ کی الفضل کی رپورٹ درج ذیل ہے.حضور نے حصول نصرت کے ذرائع بیان فرما کر پہلے واضح فرمایا کہ ان ذرائع کو اختیار فرما کر کس طرح آنحضرت میم اور حضور کے قدی صفات صحابہ اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان تائید و نصرت کے مورد بنے اور اسلام کو دنیا میں غلبہ نصیب ہوا.پھر آنحضرت میں کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو انہی ذرائع کے اختیار کرنے کے نتیجے میں ملنے والی غیر معمولی تائید و نصرت کا ذکر فرمایا اور حضور کے ذریعہ خدائی تائید و نصرت کے ماتحت رونما ہونے والے غلبہ اسلام کو واضح کرنے کے لئے مقابلے کی ان دعوتوں کا ذکر فرمایا جو حضور نے اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے دوسرے مذاہب کو دیں.حضور نے واضح فرمایا کہ یہ دعوتیں جنہیں دیگر مذاہب کے سر کردہ لوگوں نے اس وقت قبول نہ کر کے اسلام کی برتری اور غلبہ پر مہر تصدیق ثبت کی تھی آج بھی قائم ہیں اور ہمیشہ قائم رہیں گی.چنانچہ حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نیابت میں ان میں سے باری باری بعض دعوتوں کو دہرایا حضور.خلیفه
473 المسیح کی حیثیت سے ان میں سے ہر دعوت کو دہراتے تھے تو خدا کی تائید و نصرت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے رونما ہونے والے غلبہ اسلام کے ان زندہ و تابندہ ثبوتوں کے سلسلہ وار مشاہدہ پر اسلام و احمدیت کے ہزاروں ہزار فدائیوں پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی تھی اور وہ اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہو کر بے اختیار نعرہ ہائے تکبیر اسلام زندہ باد محمد رسول الله زنده باد مسیح موعود زنده باد حضرت امیر المومنین زندہ باد کے نعرے بلند کرنے لگتے تھے.اس ۱۹۶۷ء کے دورہ یورپ کے دوران حضور نے فرمایا :.፡ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ چیلنج آج بھی قائم ہے اور میں اس بات کا آج بھی اعادہ کرتا ہوں کہ رومن کیتھولک اور عیسائیوں کے دوسرے فرقوں کے سربراہ اس چیلنج کو قبول کریں اور اسلام اور عیسائیت کی سچائی کا فیصلہ کریں ۲ حضرت مسیح موعود کے چیلنج کے الفاظ یہ ہیں.سو توریت اور انجیل قرآن کا کیا مقابلہ کریں گی.اگر صرف قرآن شریف کی پہلی سورت کے ساتھ ہی مقابلہ کرنا چاہیں یعنی سورہ فاتحہ کے انجیل.ساتھ جو فقط سات آیتیں ہیں اور جس ترتیب انسب اور ترکیب اور نظام فطرتی سے اس سورۃ میں صد یا حقائق اور معارف دینیہ اور روحانی حکمتیں درج ہیں ان کو موسیٰ کی کتاب یا یسوع کے چند ورق سے نکالنا چاہیں تو گو ساری عمر کوشش کریں تب بھی یہ کوشش لا حاصل ہو گی.اور یہ بات لاف گزاف نہیں بلکہ واقعی اور حقیقی یہی بات ہے کہ توریت اور انجیل کو علوم حکمیہ میں سورۃ فاتحہ کے ساتھ بھی مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں.ہم کیا کریں اور کیوں کر فیصلہ ہو.پادری صاحبان ہماری کوئی بات بھی نہیں مانتے.بھلا اگر وہ اپنی تو ریت یا انجیل کو معارف اور حقائق کے بیان کرنے اور خواص کلام الوہیت
474 ظاہر کرنے میں کامل سمجھتے ہیں تو ہم بطور انعام پانسو روپیہ نقد ان کو دینے لئے طیار ہیں.اگر وہ اپنی کل ضخیم کتابوں سے جو ستر (۷۰) کے منتظر قریب ہوں گی.وہ حقائق اور معارف شریعت اور مرتب اور در حکمت و جواہر معرفت و خواص کلام الوہیت دکھلا سکیں جو سورۃ فاتحہ میں سے ہم پیش کریں.اور اگر یہ روپیہ تھوڑا ہو تو جس قدر ہمارے لئے ممکن ہو گا ہم ان کی درخواست پر بڑھا دیں گے.اور ہم صفائی فیصلہ کے لئے پہلے سورۃ فاتحہ کی ایک تفسیر طیار کر کے اور چھاپ کر پیش کریں گے اور اس میں وہ تمام حقائق و معارف و خواص کلام الوہیت به تفصیل بیان کریں گے جو سورۃ فاتحہ میں مندرج ہیں.اور پادری صاحبوں کا یہ فرض ہو گا کہ توریت اور انجیل اور اپنی تمام کتابوں میں سے سورۃ فاتحہ کے مقابل پر حقائیق اور معارف اور خواص کلام الوہیت جس سے مراد فوق العادۃ عجائبات ہیں جن کا بشری کلام میں پایا جانا ممکن نہیں پیش کر کے دکھلائیں.اور اگر وہ ایسا مقابلہ کریں اور تین منصف غیر قوموں میں سے کہہ دیں کہ وہ لطائف اور معارف اور خواص کلام الوہیت جو سورۃ فاتحہ میں ثابت ہوئے ہیں وہ ان کی پیش کردہ عبارتوں میں بھی ثابت ہیں تو ہم پانسو روپیہ جو پہلے سے ان کے لئے ان کی اطمینان کی جگہ پر جمع کرایا جائے گا دے دیں گے اس کے علاوہ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث " نے عیسائیوں کو قبولیت دعا کا چیلنج دیتے ہوئے فرمایا :- " صرف اور صرف اسلام کا ہی خدا زندہ خدا ہے اور صرف محمد رسول الله ل ل ل ا ل و ل اللہ تعالی کے زندہ رسول ہیں اور آنحضرت میم کے فرزند جلیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسلام کے زندہ خدا کے مظہر اور زندہ نشان ہیں اور ان کے جانشین کی حیثیت سے دعوت مقابلہ دیتا
475 ہوں کہ اگر کسی عیسائی کو بھی دعوی ہے کہ اس کا خدا زندہ خدا ہے تو وہ میرے ساتھ قبولیت دعا میں مقابلہ کرے اور اگر وہ جیت جائے تو ایک گراں قدر انعام حاصل کرے " ۲۴
476 اشاعت قرآن
477 اشاعت قرآن مرزا غلام اللہ صاحب انصار ساکن قادیان فرماتے ہیں.کہ میرے بھائی مرزا غلام الدین صاحب نے ذکر کیا کہ جن دنوں حضرت صاحب سیالکوٹ میں مقیم تھے.میں بھی آپ کے ساتھ تھا مجھے حضرت صاحب پڑھایا بھی کرتے تھے.آپ وہاں بھیم سین وکیل کو جو ہندو تھا قرآن شریف پڑھایا کرتے تھے اور اس نے تقریباً ۱۴ پارہ تک قرآن حضرت صاحب سے پڑھا تھا.ایک دن حضرت صاحب نے صبح اٹھ کر بھیم سین کو مخاطب کر کے یہ خواب سنایا کہ " آج رات میں نے رسول اکرم میر کو خواب میں دیکھا آپ مجھے کو بارگاہ ایزدی میں لے گئے اور وہاں سے مجھے ایک چیز ملی جس کے متعلق ارشاد ہوا کہ سارے جہان کو تقسیم کرد و ۵ جس طرح اسلام کی نشاۃ اولی میں اشاعت قرآن کی عظیم الشان مهم خلیفہ الرسول الثالث حضرت عثمان غنی کے عہد خلافت میں بطور خاص جاری ہوئی اسی طرح ایک بار " پھر اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں اشاعت قرآن کی مہم میں خلیفہ المسیح الثالث" کے عہد خلافت میں مزید وسعت اور شدت پیدا ہوئی اور یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس کشف کے عین مطابق تھا جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے متعلق جیسا کہ ذکر کیا جا چکا ہے حضور کو قرآن کریم کی وسیع اشاعت کی طرف خاص توجہ تھی.آپ نے ایک موقعہ پر فرمایا:.امت محمدیہ میں دراصل قرآن کریم کی اشاعت دو رنگ میں کی گئی.ایک اس کو تجارت کا مال بنا کر منڈی میں پھینکا گیا اور اس سے مادی فائدہ اٹھایا گیا لیکن خدا تعالیٰ نے مجھے تاجر نہیں بنایا لیکن مجھے خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نائب بنایا ہے.اس واسطے میں نے تجارت نہیں کرنی.میں کوئی تاجر نہیں میری یہ خواہش ہے کہ قرآن کریم ہر آدمی کے ہاتھ میں پہنچا دیا جائے اور یہ خواہش
478 تبھی پوری ہو سکتی ہے جب ہم دنیا کی تجارت نہ کریں بلکہ اللہ تعالیٰ سے تجارت کریں.Yee اشاعت قرآن کریم کے لئے پر نٹنگ پریس کا منصوبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے مرکز میں پریس لگانے کے ارادہ کا اظہار اپنے خطبہ جمعہ مورخہ 11.ستمبر ۱۹۷۰ء میں کیا.آپ فرماتے ہیں." اگر اپنا پریس ہو گا تو قرآن کریم سادہ یعنی قرآن کریم کا متن بھی ہم شائع کر لیا کریں گے.اس کی اشاعت کا بھی تو ہمیں بڑا شوق ہے اور جنون ہے.یہ بات کرتے ہوئے بھی میں اپنے آپ کو جذباتی محسوس کر رہا ہوں میرا تو دل چاہتا ہے کہ ہم دنیا کے ہر گھر میں قرآن کریم کا متن پہنچا دیں.اللہ تعالٰی آپ ہی اس میں برکت ڈالے گا تو پھر بہتوں کو یہ خیال پیدا ہو گا کہ ہم یہ زبان سیکھیں یا اس کا ترجمہ سیکھیں “ے ہی چنانچہ اشاعت قرآن عظیم کے کام کو تیز کرنے کے لئے حضور نے چار ایکڑ زمین پر ایک جدید بلڈنگ کا ۱۸.جنوری ۱۹۷۳ء کو سنگ بنیاد رکھا.آپ نے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں جو معرکتہ الارا خطاب فرمایا تھا اس میں فرمایا:.” اس منصوبہ میں جو بھی روکیں پیدا ہوئیں یا پیدا ہوں گی وہ عارضی ہوں گی.یہ اندھیروں کے بادل ایک دن ضرور چھٹ جائیں گے اور حضرت محمد رسول اللہ میں یا اللہ کا نور جو کہ نُورُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ سے حاصل کردہ نور ہے وہ ساری دنیا کو منور کر دے گا ۴۸ اشاعت قرآن کا جامع اور عالمگیر منصوبہ ربوہ میں جدید پریس کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر حضور نے اشاعت قرآن کے
479 ایک جامع اور عالمگیر منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:.بعثت مہدی معہود (علیہ السلام) کی ایک ہی غرض ہے اور وہ قرآن کریم کے خزائن کو بنی نوع انسان کے ہاتھوں تک پہنچانا ہے.اشاعت قرآن کے سلسلہ میں تین مرحلے آتے ہیں.ایک یہ کہ متن قرآن کریم کو ہر مسلمان کے ہاتھ میں پہنچا دیا جائے.یہی نہیں بلکہ متن قرآن عظیم کو دنیا کے ہر انسان کے ہاتھوں تک پہنچایا جائے....یہاں بھی بمشکل دس فی صد مسلمان ایسے ہوں گے جن کے پاس قرآن عظیم کا متن موجود ہو گا.اس لئے مہدی معہود علیہ السلام پر ایمان لانے والوں کی پہلی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ایسا انتظام کریں کہ ہر مسلمان کے پاس قرآن عظیم کا متن موجود ہو.اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ متن کے ساتھ طباعت ہو اور قرآن کریم کو تجارتی نقطہ نگاہ سے شائع نہ کیا جائے بلکہ ایک روحانی جذبہ کے ماتحت اس کی اشاعت ہو....دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ ہر قوم اور ہر ملک کی زبان میں کیا جائے تاکہ دنیا کے ہر خطہ کے لوگوں تک قرآن کریم کو اس کے معنی و مفہوم کے ساتھ پہنچایا جا سکے.دنیا میں اس وقت سینکڑوں زبانیں بولی جاتی ہیں.اکثر ایسی زبانیں ہیں جن کی طباعت ہوتی ہے.بعض ایسی زبانیں ہیں جن کی طباعت بھی نہیں ہوتی.مغربی افریقہ کے دورہ میں ہم نے خود مشاہدہ کیا کہ وہاں ایک زبان بولی تو جاتی ہے لیکن نہیں جاتی.اس لئے اس زبان میں کتب موجود نہیں.چونکہ ہم نے ہر زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ کرنا ہے اس لئے اس دقت کو دور کرنے کے لئے پہلے ہم ان کے حروف بنائیں گے پھر ان کو الفاظ کی شکل دیں گے اور پھر اس کی طباعت کریں گے یعنی قرآن کریم کا ترجمہ اس زبان میں بھی شائع کریں گے جو اس وقت بولی جاتی ہے مگر لکھی نہیں جاتی.اس کا ترجمہ سمجھنے لگ جائیں تو ہم ان کو قرآن عظیم کی تفسیر سے روشناس لکھی
480 کرائیں.تفاسیر کی طباعت ہو، ہر زبان میں ہو، ہر ملک کے لئے ہو، ہر قوم کے لئے ہو، ہر قبیلے کے لئے ہو.یہ بڑا عظیم کام ہے یہ بہت وسیع کام ہے، یہ بڑا مشکل کام ہے، یہ وہ کام ہے جس کے کرنے کے لئے مهدی علیہ السلام کو مبعوث کیا گیا ہے یہ کام اللہ تعالیٰ کے منشاء اور توفیق سے جماعت احمدیہ نے کرنا ہے اگر اللہ تعالیٰ نے احمدیوں کے دلوں میں قرآن کریم کی محبت کی گرمی کو قائم رکھا تو انشاء اللہ اگلے پچاس ساٹھ سال میں ہم اپنے کام کا ایک بڑا حصہ مکمل کر چکے ہوں گے ۴۹ اسی خطاب میں مزید فرمایا:." آج ایک اہم کام کی ابتدا کی جا رہی ہے اور وہ اپنے ایک جدید اور بہترین قسم کے چھاپہ خانے کی ابتداء ہے جس کی عمارت کا سنگ بنیاد اس وقت رکھا جائے گا.خدا تعالیٰ نے چاہا تو اس کے فضل اور اسی کی رحمت سے ایک دن ہماری انتہائی خوشی بھی پوری ہو جائے گی.تاہم مرکز احمدیت میں صرف ایک مطبع سے تو ہمارا کام نہیں چلے گا یہ تو ایک اصل اور جڑ ہے جو اس باغ میں لگائی جا رہی ہے جس کو چھاپہ خانوں کا باغ کہا جا سکتا ہے پھر پاکستان میں دوسری جگہوں پر بھی بڑے بڑے چھاپے خانے بن جائیں گے.پھر دنیا کے ہر ملک میں ایسے چھاپے خانے ہماری ملکیت اور ہماری نگرانی میں چلنے والے ہوں گے جہاں قرآن کریم اور اس کے ترجمہ اور تفسیر کی طباعت کا کام ہو رہا ہو گا تاکہ ساری دنیا کے ہاتھ میں قرآن عظیم اپنے متن کے اعتبار سے بھی، ترجمہ کے لحاظ سے بھی اور تفسیر کے لحاظ سے بھی پہنچ جائے.انسانی تدبیر کے راستے میں اس کی ہمت اور اس کے عزم کا امتحان لینے کے لئے بعض روکیں کھڑی کی جاتی ہیں ہمارا جو مطمح نظر ہے اور.........مقصود ہے وہ ہمیں ہمیشہ سامنے رکھنا چاہئے.ہم نے پاکستان کے ہر شہری
481 کے ہاتھ میں قرآن کریم کا متن ترجمہ اور تفسیر پہنچانا ہے.یہی کام کوئی معمولی کام نہیں ہے چہ جائیکہ ساری دنیا کے ہر انسان کے ہاتھ میں قرآن عظیم مترجم پہنچانا یہ تو اس سے بھی زیادہ عظیم الشان کام ہے لیکن وہ وقت آتا ہے اور خدا کے فضل سے وہ وقت ضرور آئے گا جب ایک ایک دن میں انشاء اللہ ہیں بیس لاکھ قرآن کریم کی کاپیاں شائع ہوں گی اور وہ بنی نوع انسان کی پیاس کو بجھانے اور روحانی سیرابی کا سامان پیدا کریں گی.پس آج ہم دعاؤں کے ساتھ اس کام کو شروع کر رہے ہیں اور دعاؤں کے ساتھ اس کو جاری رکھیں گے.اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت اس منصوبہ کو کامیابی کی انتہا تک پہنچائے گی کیونکہ وہ ہمارا رب ہمارا محبوب ہمارا آقا ہمارا رب کریم اور ہم سے بڑا پیار کرنے والا خدا ہے.وہ حضرت محمد رسول اللہ میں ایل ایل ای میل کے مشن کو کامیاب کرنے کا منصوبہ بنا چکا ہے اس کے راستے میں دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں بن سکتی...اس منصوبہ میں جو بھی روکیں پیدا ہوئیں یا پیدا ہوں گی وہ عارضی ہوں گی.یہ اندھیروں کے بادل ایک دن ضرور چھٹ جائیں گے اور حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ کا نور جو کہ نُورُ السَّمْوَاتِ وَالْأَرْضِ سے حاصل کردہ نور ہے وہ ساری دنیا کو منور کر دے گا ۵۰ معاندین کی طرف سے رکاوٹیں اور ناپاک اتہام جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے الہی سلسلوں کی طرف سے جب بھی خدمت قرآن اور اشاعت دین کا کوئی منصوبہ شروع کیا جاتا ہے مخالف طاقتیں اس میں رکاوٹیں ڈالتی اور الزام تراشیاں کر کے ان منصوبوں کو ناکام کرنے کی کوششیں کیا کرتی ہیں چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الثالث " نے جب اشاعت قرآن کا عظیم الشان منصوبہ جاری فرمایا اور ربوہ میں جدید پریس کا سنگ بنیاد رکھا تو ایک طرف حکومت نے معاندین کے دباؤ کے تحت
482 اس پریس کے کام کو روک دیا اور دوسری طرف جماعت پر یہ ناپاک اتمام لگایا گیا کہ نعوذ باللہ جماعت احمدیہ قرآن کریم کی تحریف و تبدل کی مرتکب ہوئی ہے.ملکی قوانین کا احترام کرتے ہوئے اور بعض دیگر رکاوٹوں کے پیدا ہونے کی وجہ سے جدید پریس ربوہ کا کام ابھی تک تکمیل پذیر نہیں ہو سکا چنانچہ جو دیگر ذرائع میسر تھے ان کو بروئے کار لا کر قرآن کریم کی طباعت اور اشاعت کا کام جاری رکھا گیا اور اس کی نگرانی کے لئے ادارہ طباعت و اشاعت قرآن عظیم قائم کیا گیا:.جہاں تک قرآن کریم کی تحریف و تبدل کے بے بنیاد اتمام کا تعلق ہے جماعت کی طرف سے بارہا اس کی تردید شائع ہو چکی ہے جس میں سے ایک اعلان بطور نمونہ درج ذیل ہے.وو ' جماعت احمدیہ کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے کہ یہ سرا سر جھوٹ اور ناپاک اتہام ہے کہ جماعت احمدیہ نے کوئی محرف مبدل قرآن کریم شائع کیا ہے بلکہ عام علماء کے مسلک کے برعکس جماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ قرآن کریم میں کوئی ایک آیت بھی منسوخ احمدیہ ہیں." اهم نہیں تو ہم قرآن کریم میں کس طرح تحریف کر سکتے اس کے بعد حکومت کی طرف سے قرآن عظیم کی ہر کاپی کی طباعت سے قبل سرٹیفیکٹ لے کر طباعت و اشاعت کا کام جاری رہا اور اس طرح معاندین کی طرف سے ہر قسم کے پراپیگنڈے کو ناکام بنا دیا گیا.فرمایا: افریقہ اور براعظم یورپ میں پریس کے منصوبوں کا القاء اور سفر یورپ میں ایک اور بات بھی احباب جماعت سے کہنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم نے اشاعت قرآن کا ایک منصوبہ بنایا تھا جس کی خدا تعالیٰ کے
483 فضل سے ابتداء بھی ہو چکی ہے.یہ منصوبہ دو حصوں پر مشتمل ہے ایک یہ کہ ہمارا اپنا چھا پہ خانہ ہو دوسرے یہ کہ با قاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ دنیا میں کثرت سے قرآن کریم کی اشاعت کی جائے...میں نے اس منصوبہ کے اعلان کے وقت بھی کہا تھا کہ ہمیں ایک نہیں سینکڑوں چھاپہ خانوں کی ضرورت پڑے گی تاہم ایک پریس کا کام شروع ہو گیا تو اللہ تعالٰی نے مجھے یہ بتایا کہ اس سے بھی ایک بڑا کام ہے تمہیں اس کی طرف توجہ دینی چاہئے.چنانچہ یہ تقسیم ہوئی کہ اس پریس کے علاوہ ہمارے دو اور پریس ہونے چاہئیں ایک افریقہ میں اور ایک برا یورپ میں انگلستان میں یا جہاں بھی حالات اجازت دیں...ربوہ میں ایک جدید پریس کے قیام کا منصوبہ پچھلے سال سے تعلق رکھتا ہے دوسرے مرحلے میں قرآن عظیم کی ہمہ گیر اشاعت کا کام کرنا ہے.اب تک اسی ہزار کے قریب قرآن کریم انگریزی ترجمہ اور سادہ چھپ چکے ہیں جن کا بڑا حصہ افریقہ بھجوایا گیا تھا.وہاں وسیع پیمانے پر ان کی اشاعت کی گئی ہے مثلاً غانا میں قریباً سارے اچھے ہوٹل جو حکومت غانا کے پاس ہیں اور ان کے کمروں کی مجموعی تعداد غالبا ۸۲۸ ہے پچھلے دنوں ایک خاص تقریب میں جس کی تصویریں یہاں بھی آئی ہیں ان سب کمروں میں رکھنے کے لئے ۸۲۸ قرآن عظیم کے نسخے ہوٹلوں کے انچارج کو پیش کئے گئے....اسی طرح سیرالیون اور نائیجیریا میں بھی بہت سے ہوٹلوں میں ہر ہوٹل کے کمروں کی تعداد کے مطابق انگریزی ترجمہ والا قرآن کریم رکھوا دیا گیا ہے.یہ تو ہماری اس مہم کے ایک حصے کی ایک چھوٹی سی شاخ ہے یعنی اگر ہم ساری دنیا کے تمام ہوٹلوں کے ہر کمرہ میں قرآن کریم مترجم مختلف ملکوں میں ان کی اپنی زبانوں میں رکھنا چاہیں تب بھی ہمارا یہ کام ۱۰۰۰ سے بھی کم ہو گا اس لئے کہ انسان کی مجموعی آبادی کے مقابلہ میں ہوٹلوں کے کمروں کی
484 تعداد شاید ہزار میں ایک بھی نہ ہو حالانکہ ہم نے تو دنیا کے ہر انسان کے ہاتھ میں قرآن کریم پہنچانا ہے اس لئے یہ خیال پیدا ہوا کہ ابھی سے ہمیں اس کا پورا جائزہ لے لینا چاہئے کہ یورپ میں کس جگہ باسانی ہم اپنا پریس کھول سکتے ہیں اور افریقہ میں کون سا ملک اس کام کے لئے زیادہ موزوں ہے.چنانچہ اس وقت تک جو اشاعت قرآن ہوئی ہے اس میں افریقہ کا زیادہ حصہ ہے یہ کام نصرت جہاں آگے بڑھو سکیم" کے ماتحت ہو رہا ہے لیکن جماعت احمدیہ کا کام تو بہت پھیلا ہوا ہے اس سارے کام کے ہزارویں حصہ تک نصرت جہاں سکیم کا کام منحصر ہے لیکن چونکہ "نصرت جہاں منصوبہ" کے ساتھ اس کی ابتداء ہوئی تھی اس لئے قرآن کریم کی زیادہ اشاعت بھی افریقہ میں ہوئی.....امریکہ اور انگلستان میں اور اس طرح یورپ کے دوسرے ممالک میں اشاعت قرآن کریم کا جو کام ہے وہ کچھ مختلف ہے اور حقیقی معنی میں ابھی اس کی ابتداء بھی نہیں ہوئی یعنی وہاں اشاعت کے کام میں بھی وہ وسعت پیدا نہیں ہوئی جو افریقہ میں پیدا ہو چکی ہے...اس وقت امریکہ کا معیار طباعت سب سے اونچا ہے.روس کا ہمیں پتہ نہیں البتہ چین کا معیار بھی بہت بلند ہے امریکہ سے کم نہیں، یورپ کا معیار لیکن طباعت میں بڑا اونچا ہے شاید اتنا اونچا تو نہ ہو گا جتنا امریکہ کا ہے اگر فرق بھی ہے تو انیس بیس کا ہے اس سے زیادہ نہیں.کم و بیش چار ہزار پونڈ کا کاغذ سویڈن سے خریدا گیا ہے اس پر قرآن کریم حمائل (درمیانہ سائز) کے چودہ پندرہ ہزار نسخے چھپ جائیں گے...یہ نسخے ہم امریکہ اور یو پ بھجوائیں گے اور وہاں ایک منصوبہ کے یوپ تحت قرآن کریم کی اشاعت کی جائے گی.میرا خیال ہے کہ وہاں بھی ہوٹلوں میں رکھوانے کا پروگرام بنایا جائے....ساری جماعت دعا کرے
485...اسلام کی عالمگیر اشاعت اور ترقی کے لئے اللہ تعالیٰ ہمارے دل میں جو ارادے اور خواہشات پیدا کرتا ہے وہ خود ہی اپنے فضل سے ان کے پورا کرنے کے سامان بھی پیدا کر دے تاکہ اسلام کو بہت ترقی بھی ہو اور اس کے عالمگیر غلبہ کی نئی سے نئی راہیں بھی کھلتی چلی جائیں جس سے ہمارے دل بھی خوشی اور راحت محسوس کریں اور ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک کے سامان بھی پیدا ہوں اور ہماری روح بھی اسلام کے عالمگیر غلبہ و کامیابی سے حقیقی لذت اور سرور حاصل کرے ۵۲ چنانچہ یورپ میں قرآن عظیم کی وسیع تر اشاعت کے لئے پریس کے قیام اور اس کا جائزہ لینے کے لئے حضور نے ۱۹۷۳ء میں سفر یورپ اختیار فرمایا روزنامہ الفضل نے اپنے ۱۵.جولائی ۱۹۷۳ء کی اشاعت میں مندرجہ ذیل سرخی کے ساتھ یہ خبر شائع کی.یورپ میں قرآن عظیم کی وسیع تر اشاعت کے لئے پریس کے قیام کا منصوبہ " " ریوه ۱۳ جولائی ۱۹۷۳ء بروز جمعتہ المبارک سیدنا حضرت خلیفة المسیح الثالث یورپ میں قرآن عظیم کی وسیع تر اشاعت کی خاطر ایک پریس کے قیام اور تبلیغ اسلام کے جماعتی منصوبوں کا بنفس نفیس جائزہ لے کر ان میں مزید وسعت پیدا کرنے کے بابرکت مقصد کی خاطر یورپ کے سفر پر روانہ ہو گئے » ۵۳ روانگی سے قبل حضور نے ۱۲.جولائی ۱۹۷۳ء کو فرمایا تھا." یہ سفر خالصتاً محض اس لئے اختیار کیا جا رہا ہے تاکہ یورپ میں اسلام کی تبلیغ اور قرآن کی اشاعت کے وسیع سے وسیع تر کرنے کے
486 منصوبوں کا اور وہاں پر ایک اعلیٰ قسم کا پریس قائم کرنے کے امکانات کا جائزہ لیا جا سکے اور اس غرض سے یورپ کے مختلف مشنوں اور وہاں کے احباب سے براہ راست مشورہ ہو سکے ۵۴ اس سفر کے دوران زیورک میں ایک پریس کانفرنس میں ایک سوال کے جواب میں حضور نے اشاعت قرآن کے عزم کا اعلان ان الفاظ میں فرمایا :.ہمارا مطمح نظر خدمت خلق ہے نہ کہ روپیہ کمانا.حضرت مہدی علیه السلام آنحضرت میں ایم ایل ایلام کے عظیم روحانی فرزند ہیں جو آپ کی پیشگوئیوں کے مطابق مبعوث ہوئے.اس زمانہ میں اور بھی مسلمان ہیں لیکن یہ ہماری جماعت ہے جو تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کا بیٹا اٹھائے ہوئے ہے.ہماری مساعی کے نتائج ہماری کوششوں کے مقابلہ میں بدرجہا زیادہ اور بلند ہیں.دراصل ہماری کامیابی کا منبع ہماری کوششیں نہیں ہیں بلکہ ان کا منبع اللہ تعالی کی ذات اور اس کا فضل ہے ۵۵ ۱۹۷۳ء کے دورہ یورپ سے واپس آکر دسمبر میں حضور نے صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:."سو زبانوں میں لٹریچر پیدا کرنا اور اس کی تقسیم کا انتظام کرنا یہ اس منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے اور اس لٹریچر کو تقسیم کرنے کا ایک دوسرا پہلو جو ہے وہ دو ورقہ اشتہارات ہیں.اس طریق سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑا فائدہ اٹھایا ہے اس لئے ضروری ہے کہ آفسیٹ Off Set کے دو چھوٹے پرلیں......افریقہ کے لئے اور ایک ان سے ذرا بڑا انگلستان ہمیں مفت دے رہا ہے....آہستہ آہستہ ہر ملک میں اس قسم کے چھوٹے اور بڑے عمدہ پریس لگائے جائیں گے...اس وقت دنیا کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ کبھی کچھ ہوتا ہے اور کبھی کچھ ہوتا ہے.کچھ پتہ نہیں لگ رہا کہ.....اونٹ
487 کس کروٹ بیٹھتا ہے اس وقت ہمیں صرف ایک جگہ اچھے پریس پر انحصار نہیں کرنا چاہئے اس لئے ہمیں پاکستان میں مرکزی اعلیٰ پیمانے کے پریس کے علاوہ دنیا کے کسی اور دو مقامات پر جو اس کام کے لئے مناسب ہوں وہاں دو اچھے پر لیس بھی لگا دینے چاہئیں ۵۶ امریکہ میں پریس کا منصوبہ حضور نے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲.اکتوبر ۱۹۷۶ء کو فرمایا :.st صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ....اس کی تیاری ہی کے سلسلہ میں دراصل میں امریکہ گیا تھا......اور میں نے ان سے کہا......جو ابتدائی کام کرنا ہے وہ یہ ہے کہ پندرہ صوبوں امریکہ میں ان کو سٹیٹس کہا جاتا ہے، میں سے ہر ایک میں کم از کم ۲۰ سے ۳۰ ایکٹر زمین کا رقبہ جماعت کی اجتماعی زندگی کے لئے یعنی Community Centres بنانے کے لئے خریدو.کسی طرح ان چودہ پندرہ سالوں میں کئی ملین ترجمے قرآن کریم کے شائع کئے جائیں گے.۴۰ - ۵۰ لاکھ قرآن کریم امریکہ کے مختلف گھروں میں پہنچائے جائیں گے....امریکہ کی جماعت کوشش کرے اپنا پریس لگوانے کی...کیونکہ اس وقت جو حقیقی معنے میں آزاد ممالک ہیں اور پورے طور پر آزاد ہیں ان میں سر فہرست امریکہ ہے" افریقہ میں پریس کا منصوبہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث " نے بیرون پاکستان براعظم یورپ اور افریقہ میں ایک ایک پریس لگانے کا منصوبہ بنایا تھا چنانچہ مغربی افریقہ کے ملک نائیجیریا میں کمپیوٹر سے کام کرنے والا پریس لے لیا گیا چنانچہ حضور نے اپنی زندگی کے آخری جلسہ سالانہ پر ۲۷.دسمبر ۱۹۸۱ء کو تقریر کرتے ہوئے فرمایا:.
488.......فرانسیسی بولنے والے علاقوں میں اب احمدیت کا نفوذ بڑھ رہا ہے.....حضرت مصلح موعود کے دیباچہ تفسیر القرآن کا فرانسیسی ترجمہ فرانسیسی زبان بولنے والے افریقین ممالک ٹوگولینڈ.چڈ.نائیجر (Niger) وغیرہ میں احمدیت کا پیغام پہنچ گیا ہے اور ایک ملک میں تو بغیر کوئی مبلغ بھیجے مشن بھی بن گیا ہے.کمپیوٹر سے کام کرنے والا ایک پریس نائیجیریا میں ہمارے پاس ہے " اس سے قبل حضور نے ۱۹۸۰ء میں غیر ملکی دورہ جات کے دوران نائیجیریا میں اوجو کو رو میں زیر تعمیر پریس کا معائنہ بھی فرمایا چنانچہ دورہ مغرب ۱۴۰۰ھ نظارت اشاعت و تصنیف میں نائیجیریا کے دورہ کے ذکر میں لکھا ہے کہ فرمایا:." حضور اوجو کورو (Ojo Koro) کے علاقہ میں اس جگہ تشریف لائے جہاں چھ ایکڑ زمین پر احمد یہ اچھ سیٹلمنٹ" کے نام سے ایک نئی بستی تعمیر کی جا رہی ہے اور پہلے مرحلہ کے طور پر اس وقت وہاں احمدیہ مشن ہاؤس" مرکزی دفاتر ، احمدیہ ہسپتال، احمدیہ پرلیس اور احمدیہ پولٹری فارم کی وسیع و عریض عمارتیں زیر تعمیر ہیں" و سٹیشن کا منصوبہ " یڈیو دهم دوسری خواہش جو بڑے زور سے میرے دل میں پیدا کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ ایک طاقتور ٹرانسمٹنگ اسٹیشن Transmitting Station دنیا کے کسی ملک میں جماعت احمدیہ کا اپنا ہو اس ٹرانسمٹنگ اسٹیشن کو بہر حال مختلف مدارج میں سے گزرنا پڑے گا لیکن جب وہ اپنے انتہا کو پہنچے تو اس وقت جتنا طاقتور روس کا شارٹ ویو اسٹیشن Short Wave Station جو ساری دنیا میں اشتراکیت اور کمیونزم کا پرچار کر رہا ہے اس سے زیادہ طاقتور اسٹیشن وہ
489 ہو جو خدا کے نام اور محمد میم کی شان کو دنیا میں پھیلانے والا ہو اور چوبیس گھنٹے اپنا یہ کام کر رہا ہو....اس وقت دنیا کے دلوں کا کیا حال.ہے اس کا علم نہ تو صحیح طور پر مجھے ہے اور نہ آپ کو ہے لیکن میرے دل میں جو خواہش اور تڑپ پیدا کی گئی ہے اس سے میں یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہوں کہ اللہ کے علم غیب میں دنیا کے دل کی یہ کیفیت ہے کہ اگر اللہ اور اس کے محمد میں ﷺ کا نام ان کے کانوں تک پہنچایا جائے تو وہ سنیں گے اور غور کریں گے ورنہ یہ خواہش میرے دل میں پیدا نہ کی جاتی ۵۸ حضور نے ۱۹۷۳ء میں یورپ کے دورہ کے دوران بھی ریڈیو اسٹیشن کے منصوبے کا ذکر کیا چنانچہ کویت ٹائمز نے ۲۷.اگست ۱۹۷۳ء کو مندرجہ ذیل خبر شائع کی.زیورک (سوئٹزر لینڈ) ۲۹.اگست حضرت امام جماعت احمدیہ نے یہ بشارت دی ہے کہ اسلام پر مبنی ایک نیا عالمگیر انقلاب ایک صدی کے اندر اندر اپنے کمال کو پہنچ جائے گا.ہو ایک کروڑ افراد پر مشتمل اسلامی فرقه الموسوم به "جماعت احمدیہ " کے امام حضرت مرزا ناصر احمد نے فرمایا یہ اسلامی انقلاب پہلے ہی شروع چکا ہے اس کا مقصد انسان کی ان ضرورتوں کو پورا کرنا ہے جس کا اس کی خداداد صلاحیتوں کے نشو وارتقا کے لئے پایہ تکمیل تک پہنچنا از بس ضروری ہے......آپ نے ہفتہ (۲۵.اگست) کی رات کو ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اخبار نویسوں کو بتایا کہ اس زمانہ میں سرمایہ دارانہ انقلاب نیز روس اور چین کے کمیونسٹ انقلابات کے بعد رونما ہونے والا یہ اسلامی انقلاب ترتیب کے لحاظ سے چوتھا عالمگیر انقلاب ہو گا.آپ نے فرمایا یہ اسلامی انقلاب جس کے برپا کرنے کا خدا تعالیٰ نے خود فیصلہ فرمایا ہے ایک آسمانی پیشگوئی کے بموجب سو سال کے اندر اندر اپنے کمال اور نقطہ عروج کو پہنچ جائے گا.
490 آپ آج کل یورپ کے احمد یہ مشنوں کا دورہ فرما رہے ہیں اور اسی سلسلہ میں دینیس ، میونخ، ہمبرگ کوپن ہیگن اور گوٹن برگ تشریف لے جانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں.آپ نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ جماعت احمدیہ ہی مسلمانوں کی واحد جماعت ہے جو عیسائی ملکوں میں تبلیغ اسلام کر رہی ہے.جماعت احمدیہ جس کی بنیاد ۱۸۸۹ء میں قادیان کے مقام پر رکھی گئی تھی کا عقیدہ یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر لٹکائے جانے کے بعد محض بے ہوش ہوئے تھے مرے نہ تھے بعد میں انہوں نے طبعی موت سے وفات پائی.جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیاں افریقہ میں پورے زور وشور سے جاری ہیں مزید برآں بہت سے یورپی ممالک میں بھی اس جماعت نے چھوٹے چھوٹے تبلیغی مشن قائم کر رکھے ہیں.حضرت مرزا ناصر احمد نے ۵۹ بتایا کہ جماعت احمدیہ اگلے موسم سرما میں مغربی افریقہ میں اپنا ریڈیو اسٹیشن قائم کرنے کا بھی ارادہ رکھتی ہے " " چوہدری عبدالغفور صاحب ایس ڈی او جام شورو (سندھ) کا بیان ہے کہ انہوں نے حضور کی خدمت میں ریڈیو اسٹیشن کا نام وائس آف قرآن" تجویز کر کے بھیجا تھا جسے حضور نے منظور فرمایا تھا.۶۰ ( یہ بات انہوں نے اس کتاب کے مؤلف کو بتائی تھی) تراجم قرآن کریم کے منصوبے " اپنی خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ پر ۲۱.دسمبر ۱۹۶۵ء کے خطاب کے دوران حضور نے فرمایا:." مجھے ابھی خیال آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو تدبیر کی کہ دنیا کے بہت سے ممالک صرف دو تین قوموں کے سیاسی اقتدار کے نیچے آگئے اس میں دنیا کے لئے ایک بڑا روحانی فائدہ مضمر تھا اور وہ فائدہ یہ تھا کہ جب اللہ تعالیٰ مسیح محمدی کو بھیجے تو اشاعت اسلام کا کام آسان ہو جائے ورنہ
491 مسیح محمدی" کے زمانہ میں اس وقت تک آپ کا پیغام تمام دنیا میں نہیں پہنچ سکتا تھا جب تک دنیا کی ساری زبانوں میں اس کا ترجمہ نہ کیا جاتا.ونکہ خدا تعالیٰ کی مشیت کے ماتحت دنیا کی اقوام میں سے کچھ قومیں چو انگریزوں کے اقتدار کے نیچے آگئیں کچھ فرانسیسیوں کے اقتدار کے نیچے آگئیں اور کچھ جرمنوں کے اقتدار کے نیچے آگئیں اس لئے ہم اسلام کا پیغام ان تین زبانوں کے ذریعہ اقوام عالم کی خاصی بڑی تعداد تک پہنچا سکتے ہیں اگر روسی اور چینی بھی شامل کر لئے جائیں تو میرا خیال ہے کہ ۹۰٬۸۰ فیصدی آبادی کو ہمارا پیغام پہنچ جاتا ہے ورنہ ہمارے لئے بہت زیادہ جدوجہد اور کوشش اور قربانیوں اور مال خرچ کرنے کی ضرورت - پیش آتی.اللہ تعالیٰ کے سارے ہی کام حکمت سے پر ہوتے ہیں.اپنی خلافت کے آخری جلسہ سالانہ پر دسمبر ۱۹۸۱ء میں بھی حضور نے اپنی اس خواہش کو دہراتے ہوئے فرمایا:." میرے دل میں بڑی تڑپ ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھے زندگی اور صحت دے اور میں دنیا کی تین اہم زبانوں فرانسیسی، روسی اور چینی زبانوں میں قرآن کریم کا ترجمہ کروا کے تفسیری نوٹس سمیت ان ممالک میں پہنچا دوں.اس سے انشاء اللہ تعالیٰ دنیا کی قریباً نوے فیصد آبادی ایسی ہوگی جس کے ہاتھ میں قرآن شریف پکڑا دیا جائے گا" حضور نے فرمایا:.اللہ نے مجھے عزم بھی دیا ہے ہمت بھی دے اور میرا عزم ہے کہ جلد سے جلد یہ کام ہو جائے.......قرآن کریم کے تراجم کی اشاعت حضرت مصلح موعود میں اللہ کے زمانہ خلافت میں تراجم قرآن کریم کے کام کا جائزہ پیش کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثالث " نے اپنی خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ پر ”
فرمایا :- 492 " لرحیم.سب سے ضروری کام تو قرآن کریم کے صحیح تراجم کا دنیا میں پھیلانا تھا چنانچہ اس سلسلہ میں حضور (المصلح الموعود.ناقل) نے جو کام شروع کروائے ان میں سے کچھ تو پورے ہو گئے اور کچھ پورے ہونے والے ہیں انگریزی زبان میں ترجمہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں شائع ہو چکا ہے اسی طرح انگریزی زبان میں تفسیر القرآن بھی شائع ہو چکی ہے.جرمنی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.نیز سورہ کہف کی تفسیر بھی شائع ہو چکی ہے.ڈچ زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.تفسیری ڈینش زبان میں قرآن کریم کے پہلے سات پاروں کا ترجمہ مع مختصر نوٹ شائع ہو چکا ہے.لوگنڈی زبان میں قرآن کریم کے پہلے پانچ پاروں کا ترجمہ مع تفسیری نوٹ شائع ہو چکا ہے.مغربی افریقہ کی مینڈے زبان میں پہلے پارہ کا ترجمہ شائع ہو چکا ہے.اس کے علاوہ کئی تراجم کئے جا رہے ہیں فرانسیسی زبان میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے نظر ثانی ہو رہی ہے.ہسپانوی زبان میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے نظر ثانی ہو رہی ہے.روسی زبان میں ترجمہ مکمل ہو چکا ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے.پرتگیزی زبان میں ترجمہ تیار ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے.ڈینش زبان میں بقیہ تیس پاروں کا ترجمہ مع تفسیری نوٹ تیار ہے طباعت کا انتظام کیا جا رہا ہے.مشرقی افریقہ کے لئے گلویو زبان میں ترجمہ تیار ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے.لمبا زبان میں ترجمہ تیار ہے نظر ثانی کروانی باقی ہے.مغربی افریقہ کے لئے مینڈے زبان میں بقیہ انتیس پاروں میں سے ہیں پاروں کا ترجمہ ہو چکا ہے نو پاروں کا ترجمہ کروایا جا رہا ہے.انڈونیشین زبان میں دس پاروں کا ترجمہ مع تفسیری نوٹ مکمل ہو چکا ہے بقیہ زیر
493 تعمیل ہے " ۶۳.رم حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" نے اس بات کا عزم کیا تھا کہ جو کام حضرت مصلح موعود خلیفة المسیح الثانی نے شروع کئے تھے انہیں کامیابی کے ساتھ اختتام تک پہنچانا ان کا فرض ہے چنانچہ ایک طرف حضور نے حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی کے عہد خلافت میں شائع ہونے والے تراجم قرآن کے نئے ایڈیشن طبع کروائے جو تراجم کئے جا رہے تھے یا ان پر نظر ثانی کی جا رہی تھی ان تراجم کی تکمیل کے کام کو نہ صرف جاری رکھا بلکہ کئی اور اہم زبانوں میں تراجم شروع کروائے جن میں سے بعض حضور” کے نہی عہد خلافت میں شائع ہوئے اور کئی تراجم پر کام ہو رہا تھا کہ حضور رحلت فرما گئے اس کے علاوہ حضور نے دنیا کی اہم ترین زبانوں میں تراجم کی ترجیحات مقرر فرمائیں.حضرت مصلح موعود کے دور میں کئی تراجم مکمل ہوئے تھے لیکن وہ غیر معیاری ہونے کی وجہ سے دوبارہ کروانے پڑے نیز بعض تراجم افریقن ممالک کی لوکل زبانوں میں کئے جا رہے تھے ان میں سے بھی بعض پر بوجوہ کام نہ ہو سکا اور اس سے زیادہ اہم زبانوں میں تراجم کا کام حضور نے جاری فرمایا:.رض اب ہم ذیل میں تراجم کے سلسلہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کی غیر معمولی مساعی کا اسی ترتیب سے جائزہ پیش کرتے ہیں جس ترتیب سے حضور نے اپنی خلافت کے آغاز پر پیش فرمایا تھا.حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں انگریزی زبان میں ترجمہ اور تفسیر القرآن شائع ہوئی تھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے اس کے نئے ایڈیشن شائع کروائے نیز تفسیر القرآن انگریزی کا ایک جلد میں خلاصہ جو تقریباً ڈیڑھ ہزار صفحات پر مشتمل ہے ۱۹۷۹ء میں شائع ہوا.جرمن زبان میں حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں ترجمہ شائع ہو چکا تھا اس کے رم نئے ایڈیشن وقتاً فوقتاً مختلف ممالک سے شائع ہوتے رہے.ڈچ زبان میں حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں ترجمہ شائع ہو چکا تھا اس کو کئی ممالک سے وقتاً فوقتاً شائع کیا جاتا رہا.
494 ڈینش زبان میں سات پاروں کا ترجمہ مع تفسیری نوٹ شائع ہو چکا تھا اور حضرت مصلح موعود کی وفات کے وقت بقیہ تیئس (۲۳) پاروں کا ترجمہ مع تفسیری نوٹس زیر طباعت تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے ڈینش زبان میں قرآن کریم کا مکمل ترجمہ شائع کروایا.ช حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں لوگنڈی زبان میں پہلے پانچ پاروں کا ترجمہ مع تفسیری نوٹس شائع ہوا تھا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے اس کے بقیہ پاروں کا ترجمہ مع تفسیری نوٹس مکمل کروایا اور ۱۹۷۴ء میں یوگنڈا سے اس کی اشاعت کروائی.مغربی افریقہ کی زبان مینڈے کے اکیس (۲۱) پاروں کا ترجمہ حضرت مصلح موعود کے زمانے میں مکمل ہوا تھا اور پہلے پارے کا شائع ہوا تھا غالبا مسودہ گم ہو جانے کی وجہ سے مکمل ترجمے کا مسودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث” کے دور میں مکمل ہوا لیکن بوجوہ شائع نہیں ہوا.مشرقی افریقہ کی زبان لکمبا میں ترجمہ حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں تیار تھا نظر ثانی باقی تھی.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " کے دور خلافت میں نظر ثانی مکمل نہ ہونے کی وجہ سے اور دوسری زبانوں کی ترجیحات کی وجہ سے اس کی اشاعت نہ ہو سکی.انڈونیشن زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ حضرت مصلح موعود کے زمانے میں شروع ہوا تھا اور دس پاروں کا ترجمہ مع تفسیری نوٹ مکمل تھا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے انڈونیشین زبان میں ترجمہ مکمل کروا کر اپنے دور خلافت میں اس کی اشاعت فرمائی.فرانسیسی زبان میں حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں ترجمہ مکمل ہو چکا تھا اور نظر ثانی باقی تھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے بوجوہ قرآن کریم کا فرانسیسی ترجمہ از سر نو مکمل کروایا.ہسپانوی زبان میں حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں ترجمہ مکمل ہو گیا تھا اور نظر ثانی باقی تھی لیکن حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کے عہد خلافت میں اس پر از سر نو کام شروع ہوا اور دو تہائی کام مکمل ہوا.رم روی زبان میں حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں ترجمہ مکمل ہو چکا تھا اور نظر ثانی
495 ק باقی تھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کے عہد خلافت میں اس پر از سر نو کام شروع ہوا.پرتگیزی زبان میں حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں ترجمہ مکمل ہو گیا تھا اور نظر ثانی باقی تھی لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " کے دور میں اس پر از سر نو کام شروع ہوا.سپرانٹو زبان میں ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کے دور میں ہوا اور 1999ء میں پہلی بار جماعت ہالینڈ سے طبع کروایا گیا.یو روبا زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کے دور میں مکمل ہوا اور ۱۹۷۶ء میں نائیجیریا سے شائع ہوا.سواحیلی زبان میں قرآن کریم کے ترجمہ کا دوسرا ایڈیشن ۱۹۷۱ء میں پاکستان سے اور جون ۱۹۸۱ء میں مشرقی اور وسطی افریقہ سے شائع ہوا.گورمکھی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کے دور میں مکمل ہوا.ہندی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کے زمانہ میں شروع ہوا.نجمین زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " کے زمانہ میں شروع ہوا اور ایک دو پاروں کی اشاعت بھی ہوئی.مشهد هی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کے زمانہ میں مکمل ہوا البتہ نظر ثانی خلافت رابعہ میں مکمل ہوئی.بنگالی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کے زمانہ میں مکمل ہوا البتہ نظر ثانی باقی تھی.اٹیلین زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کے زمانے میں شروع ہوا.چینی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کے زمانے میں شروع ہوا.
496 ہوا.یوگو سلاوین زبان میں ترجمہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کے زمانے میں شروع اس کے علاوہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کے دور میں تفسیر صغیر عکسی ۱۹۶۶ء میں دوبارہ شائع ہوئی جو کہ نایاب ہو چکی تھی.تفسیر صغیر کا ایک اور ایڈیشن 1921ء کے جلسہ سالانہ پر شائع ہوا.انگریزی ترجمہ قرآن ۱۹۷۷ء میں کلکتہ (بھارت سے) اور ۱۹۷۹ء میں غانا (مغربی افریقہ) سے شائع ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفسیر سورہ فاتحہ پہلی مرتبہ ۱۹۶۹ء میں شائع ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تفاسیر سورۃ البقره تا سورة الكهف مختلف جلدوں میں شائع ہوئیں.سورة الكهف سے آگے حضرت مسیح موعود کی تفسیر مرتب کرنے کا کام جاری رہا.سویڈش زبان میں قرآن کریم کے اکیس پاروں کا ترجمہ ۱۹۷۳ء میں مکمل ہو کر شائع ہوا.رم حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کے دور خلافت میں حضرت مصلح موعود کے دیباچہ تفسیر القرآن کا فرانسیسی ترجمہ شائع ہوا.افریقہ کی زبان ہاؤ سا (Hausa) میں ترجمہ قرآن کریم کا کام حضرت خلیفہ المسیح الثالث کے زمانہ میں شروع ہوا.۶۴؎ دنیا بھر میں اشاعت قرآن کی کامیاب مساعی کی جھلکیاں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کے دور خلافت میں قرآن کریم کی جو غیر معمولی اور کامیاب اشاعت ہوئی اس کے اعداد و شمار جمع کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ہوٹلوں ، لائبریریوں اور ممتاز شخصیات کو گاہے بگاہے قرآن کریم پیش کئے جانے کی کچھ مطبوعہ خبریں درج ذیل ہیں جن سے حضور کے دور خلافت میں دنیا بھر میں اشاعت قرآن کی کامیاب مساعی کا ایک طائرانہ جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ کتنے خلوص ، ذوق و شوق
497 اور جذبے کے ساتھ اشاعت قرآن کا مبارک کام دنیا کے اطراف و جوانب میں سر انجام پاتا رہا.ا.نائیجیریا کے سب سے بڑے ہوٹل کے لئے احمدیہ مشن کی طرف سے قرآن کریم کے دو سو نسخوں کا تحفہ نائیجیریا کے اخبارات ”ڈیلی ٹائمز اور ڈیلی ایکسپریس" کی اشاعت یکم دسمبر ۱۹۷۳ء کے مطابق نائیجیریا میں احمدیہ مشن کی پچاسویں سالگرہ کے موقع پر مبلغ انچارج مکرم مولانا محمد اجمل صاحب شاہد نے ملک کے سب سے بڑے ہوٹل فیڈرل پیلس ہوٹل کو انگریزی ترجمہ قرآن کریم مع متن کی دو صد (۲۰۰) کا پیاں تحفہ کے طور پر دیں.یاد رہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالٰی نے اپنے افریقہ کے تاریخی دورہ کے بعد اس خواہش کا اظہار فرمایا تھا کہ دنیا کے بڑے بڑے ہوٹلوں کے تمام کمروں میں قرآن کریم کا ایک ایک نسخہ ہونا چاہئے تاکہ ان ہوٹلوں میں ٹھرنے والے مہمان اگر چاہیں تو کلام پاک کو پڑھ سکیں چنانچہ نائیجیریا مشن کی طرف سے یہ پیشکش حضور ایدہ اللہ کی مبارک خواہش کو پورا کرنے کے سلسلہ میں ہے.(سیکرٹری مجلس نصرت جہاں ربوہ) ۶۵.۲ اشاعت قرآن مجید کے ضمن میں جماعت کراچی کا قابل تقلید نمونه جماعت احمدیہ کراچی نے اس وقت ادارہ طباعت و اشاعت قرآن عظیم سے تقریباً چالیس ہزار روپے کے قرآن مجید خرید کر کراچی میں اسے مختلف طریقوں سے پھیلانے کی کوشش کی ہے.تین صد قرآن مجید ہوٹلوں میں بھی رکھوائے ہیں....منیجنگ گور نر اداره طباعت و اشاعت قرآن عظیم
498 ۳.غانا میں اشاعت قرآن مکرم عطاء اللہ صاحب کلیم امیر جماعت ہائے احمد یہ غانا نے ۱۴.مئی ۱۹۷۳ء کو حکومت غانا کے ادارہ State Hotles Corporation کے ماتحت چلنے والے سات ہوٹلوں اور چار Catering Rest Houses کے آٹھ صد ستائیس (۸۲۷) کمروں کے لئے حمائل سائز کے قرآن مجید (مع ترجمہ انگریزی) کے ۸۲۷ نسخے کارپوریشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کرنل ایم بی تھامس کو ایمیبیسیڈر ہوٹل میں پیش کر دئیے.اس تقریب کی خبر تفصیل سے ریڈیو پر دو دفعہ نشر ہوئی اور مقامی اخبارات نے بھی تصاویر کے ساتھ اسے شائع کیا.الحمد للہ.اس تقریب پر پریس کے نمائندگان پبلک ریلیشنز آفیسر سٹیٹ ہوٹلز کارپوریشن اسٹنٹ آفیسر مینجر ایمبیسیڈر ہوٹل اور خود نیجنگ ڈائریکٹر کو بھی ایک نسخہ قرآن کریم کا پیش کیا گیا.اس موقعہ پر جنوب مغربی افریقہ میں آزادی کی تحریک S.W.A Peoples Organisation جس کا مرکز Namibia میں ہے کے دو نمائندگان نے قرآن مجید مع انگریزی ترجمہ دیکھ کر ایک ایک نسخہ خریدنے کی خواہش ظاہر کی.مکرم امیر صاحب نے وفد کے لیڈر Mr.Sam Nomoja کو جو تحریک کے پریذیڈنٹ بھی ہیں ایک نسخہ قرآن کریم پیش کر دیا جس پر وہ بہت خوش ہوئے.۶۷؎ (سیکرٹری مجلس نصرت جہاں ربوہ) ۳.نائیجیریا کے ایک اور ہوٹل میں قرآن کریم کا تحفہ احمدیہ احمد یہ مشن نائیجیریا سے اطلاع ملی ہے کہ حال ہی میں مبلغ انچارج و امیر صاحب احمدیہ مشن نائیجیر یا مکرم مولوی محمد اجمل صاحب شاہد نے قرآن کریم کے ساتھ نسخے نائیجیریا کی بی پی سٹیٹ کے دارالخلافہ جوس کے ہل سٹیشن ہوٹل میں رکھے جانے کے لئے ہوٹل کے جنرل مینجر کو دیئے
499 اخباری نمائندوں کے سامنے ایک بیان میں محترم امیر صاحب نے یہ بتایا کہ اب تک نائیجیریا کی چھ ریاستوں کے بڑے بڑے ہوٹلوں کے رہائشی کمروں میں رکھنے کے لئے مشن کی طرف سے قرآن کریم کے ایک ہزار سے تحفتہ" دیئے جاچکے ہیں اسی طرح ملک کے بڑے بڑے کتب خانوں اور تعلیمی اداروں میں بھی قرآن کریم کے نسخے دیئے گئے ہیں ۶۸.-۴ کیپ سیرا ( سیرالیون) ہوٹل میں اشاعت قرآن مجید کے سلسلے میں اہم تقریب اس تقریب میں کیپ سیرا (سیرالیون) ہوٹل کے اسٹنٹ مینجر سڑا رچ فیگل نے ۸۰ عدد قرآن مجید قبول کرتے ہوئے جماعت احمدیہ سیرالیون کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سیاح یہاں سیرو سیاحت کے بعد اکثر اپنی تنہائی اور خلوت کو تحقیق اور رسائل پڑھنے سے دور کرتے ہیں.ہمارے ہوٹل میں بائیبل موجود تھی اور اب قرآن شریف کی موجودگی نے ہمارے سیاحوں کے لئے روحانی پیاس بجھانے کا مکمل انتظام کر دیا ہے.وہ قرآن مجید سے پورا پورا فائدہ اٹھا لیں گے......۵.جزائر فجی کے اہم ہوٹلوں کے لئے قرآن کریم کا تحفہ ۲۵.اکتوبر ۱۹۷۳ء کو ایک مختصر تقریب میں سوا (Suva) کے ٹریڈ ونڈز ہوٹل میں رکھے جانے کے لئے قرآن کریم کے ایک سو سولہ (۱۱۶) نسخے ہوٹل کے مینجر صاحب کو پیش کئے گئے.۶.جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء کی رپورٹ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے فرمایا:.
500 امسال افریقہ کے ۵ ممالک کے ۳۱ ہوٹلوں میں ۲۸۶۷ قرآن مجید رکھوائے گئے ہمارا عزم یہ ہے کہ دنیا کے ہر ہوٹل کے کمرے میں قرآن مجید رکھوائیں ۶۹؎ ے.انسانی آبادی کے آخری کنارہ تک قرآن کریم کی اشاعت • حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی نے دورہ مغرب ۱۴۰۰ھ (۱۹۸۰ء) کے دوران فرمایا :- " خدا تعالیٰ کے فضل سے کیلگری میں ایک بہت ہی مخلص و فدائی اور مستعد جماعت قائم ہے...اس جماعت نے...قرآن مجید کی اشاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے اور نہ صرف اس حصہ کینیڈا کے آباد علاقے میں بلکہ انتہائی شمال کے غیر آباد برفانی علاقوں میں جہاں صرف اطلاعاتی چوکیوں کا عملہ رہتا ہے یا خال خال اسکیموز کی بستیاں ہیں قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کے نسخے تقسیم کر کے اور اطلاعاتی مرکزوں کی لائبریریوں میں انہیں رکھوا کر قطب شمالی کی سمت میں آخری انسانی بستی تک قرآنی پیغام کی اشاعت کا کارنامہ سرانجام دینے کی توفیق پائی ہے.دراصل کینیڈا کا ملک دو حصوں میں منقسم ہے ایک حصہ نارمل ٹیریٹری کہلاتا ہے اور دوسرے کو آرکٹک سرکل کہتے ہیں ان دونوں علاقوں کو ایک لائن تقسیم کرتی ہے جو آرکٹک لائن کہلاتی ہے.نارمل ٹیریٹری باقاعدہ آباد ہے اور انتظامی صوبوں میں منقسم ہے جب کہ آرکٹک سرکل کا علاقہ قطب شمالی کے قریب ہونے کی وجہ سے برف سے ڈھکا رہتا ہے اور غیر آباد ہے اس میں صرف کہیں کہیں وہاں کے قدیم باشندوں (جو اسکیموز کہلاتے ہیں) کی چھوٹی چھوٹی بستیاں ملتی ہیں.آرکٹک لائن سے اڑھائی سو میل شمال میں آرکٹک سرکل کے اندر مغرب سے مشرق تک ایک لائن قائم کی گئی ہے جو ڈیو لائن
501 (Dew Line) کہلاتی ہے یہ قطب شمالی سے ۱۴۰۰ میل جنوب میں ہے اس ڈیو لائن کے ساتھ ساتھ مشرق سے مغرب تک فاصلہ فاصلہ پر کچھ اطلاعاتی سٹیشن قائم کئے گئے ہیں جو آرکٹک علاقہ میں روس کی نقل و حرکت پر نظر رکھتے ہیں اور اطلاعات بھجواتے ہیں اس کرہ زمہریر کے برفانی ویرانے میں ان اطلاعاتی سیشنز کے عملہ کے واسطے بڑی بڑی لائبریریاں قائم کی گئی ہیں تاکہ وہ اپنا فارغ وقت مطالعہ کرنے میں گزار سکیں، اسی طرح بعض اطلاعاتی سٹیشنوں کے قریب اسکیموز کے بچوں کو تعلیم دینے کے لئے کینیڈین حکومت نے سکول کھولے ہوئے ہیں چنانچہ کیلگری کی جماعت احمدیہ مکرم حمید اللہ شاہ کے ذریعہ حکومت کے ساتھ خط و کتابت کر کے ان سٹیشنوں میں سے بیشتر سٹیشنوں کی لائبریریوں میں انگریزی ترجمہ قرآن مجید کے نسخے رکھوانے میں کامیاب ہو چکی ہے علاوہ ازیں اسکیمو بچوں کے سکولوں کی لائبریریوں میں بھی قرآن مجید کے نسخے کثیر تعداد میں رکھوا دیئے گئے ہیں.ڈیولائن سے بھی ۸۵۰ میل شمال میں ایک تحقیقاتی مرکز قائم ہے وہاں سے قطب شمالی صرف ۵۵۰ میل دور ہے یہ انسانوں کی انتہائی مختصر آبادی ہے اس کے بعد برف ہی برف ہے انسان کا نام و نشان نہیں اس آخری آبادی میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل.سے قرآن مجید با ترجمہ کے نسخے پہنچا دیئے گئے ہیں.اس طرح کینیڈا کے شمال میں انسانی آبادی کے آخری کنارہ تک پہلی بار قرآن مجید پہنچانے کا انتظام ہوا ہے.جو اسکیمو بچے سکولوں میں تعلیم حاصل کر کے جوان ہوں گے ان کے مطالعہ کے لئے قرآن مجید کے نسخے پہلے موجود ہوں گے اور ظہور اسلام کے بعد پہلی مرتبہ اسکیموز کے درمیان تبلیغ اسلام کی راہ ہموار ہو گی".
502.امریکہ میں اشاعت قرآن ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے صدران جماعت کے ایک خصوصی اجلاس میں جو حضور کے ۱۹۸۰ء کے دورہ کے دوران منعقد ہوا اشاعت قرآن کے بارے میں جو جائزہ لیا گیا اور حضور نے جو ارشادات فرمائے اس کی رپورٹ کرتے ہوئے نمائندہ الفضل لکھتا ہے." حضور نے قرآن مجید مع انگریزی ترجمہ کی اشاعت اور ایک خاص پروگرام کے ماتحت اس کی تقسیم پر زور دیا.حضور نے پہلے احمدیہ مشن امریکہ کو ہدایت دی تھی کہ وہ پہلے مرحلہ کے طور پر علم دوست امریکنوں کے ایک ہزار نام اور پتے مرتب کریں.اس کے بعد پورے ملک میں سے مزید چار ہزار ایسے امریکی باشندوں کی فہرست بنائیں جنہیں قرآن مجید مہیا کرنا ہو گا اور وہ اس سے استفادہ کرنے میں دلچسپی لیں گے.حضور نے محترم سید میر محمود احمد صاحب مبلغ انچارج احمدیہ مشن بن ضمن سے دریافت کیا کہ قرآن مجید کے چالیس ہزار نسخوں کی تقسیم کے میں اس ہدایت پر کس حد تک عمل ہوا اس کے جواب میں مبلغ انچارج صاحب نے عرض کیا کہ ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے علم دوست اہم افراد کے تین ہزار پتے رجسٹر میں درج کر کے محفوظ کئے جا چکے ہیں مزید پتے حاصل کرنے اور ان سے رابطہ پیدا کرنے کا کام جاری ہے اس سلسلہ میں صدر صاحبان نے قرآن مجید کے نسخے تقسیم کرنے سے متعلق مشورے پیش کئے جنہیں نوٹ کر لیا گیا ایک -۹ دنیا کی ممتاز شخصیتوں کو قرآن کریم کے تحائف عظیم شخصیتوں کو قرآن کریم کا تحفہ پیش کیا گیا ان میں صدر لائبیریا (افریقہ)
503 یر اعظم ماریشس وزیر خزانہ و وزیر اطلاعات ماریشس گورنر جنرل سیرالیون (افریقہ) وزیر اعظم سیرالیون گیمبیا کے سربراہ مملکت وزیر اعظم ہند اندرا گاندھی ملکہ ایلز بتھ ثانی (برطانیہ) پوپ اعظم (روم) چیف منسٹر پنجاب (انڈیا) چیف منسٹر میسور اسٹیٹ (انڈیا) آیوری کوسٹ (افریقہ) کے وزیر خارجہ سفیر سعودی عرب برائے بھارت جاپان میں مقیم آسٹریا کے سفیر تامل ناڈو (بھارت) کے گورنر پنجاب (بھارت) کے گورنر برطانیہ میں نانا کے سفیر برطانیہ میں مقیم مراکو کے سفیر تنزانیہ، الجیریا، ملیشیا آئیوری کوسٹ کے سفراء ، سعودی عرب میں مقیم بھارت کے سفیر اور چیف جسٹس پنجاب و ہریانہ ہائی کورٹ قابل ذکر ہیں.، ہز ایکسی لنسی چانگ تنگ سفیر چین مقیم پاکستان کی ربوہ آمد پر بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کی طرف سے قرآن کریم اور کتب حضرت مسیح موعود کا تحفہ دیا گیا.سفیر صاحب ۱۷.اپریل ۱۹۷۲ء کو بعد دو پر اسلام آباد سے بذریعہ کار ربوہ تشریف لائے اور اگلے روز واپس تشریف لے گئے.حضور نے انہیں قرآن کریم اور دیگر کتب تحفہ کے طور پر دیں.الفضل ۲۱.اپریل ۱۹۷۲ء لکھتا ہے کہ عوامی جمہوریہ چین کے سفیر ہزا یکسی نسی چانگ تنگ.
504.اپریل ۱۹۷۲ء ساڑھے تین بجے سہ پہر اسلام آباد سے ربوہ تشریف لائے......اگلے روز حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ سے الوداعی ملاقات فرمائی حضور نے آپ کو رخصت فرمانے سے قبل قرآن مجید مع انگریزی ترجمہ اور متعدد دیگر اسلامی کتب بطور تحفہ عطا فرمائیں جنہیں آپ نے بصد شوق شکریہ کے ساتھ قبول کیا ۷۳ بارگاہ ایزدی سے سند خوشنودی ۱۹۸۰ء کے دورہ مغرب کے دوران حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نے مسجد نور فرینکفورت (مغربی جرمنی) میں ۴.جولائی ۱۹۸۰ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:." ایک دن مجھے یہ بتایا گیا کہ تیرے دور خلافت میں پچھلی دو خلافتوں سے زیادہ اشاعت قرآن کا کام ہو گا 17 چنانچہ اب تک میرے زمانہ میں پچھلی دو خلافتوں کے زمانوں سے قرآن مجید کی دو گنا زیادہ اشاعت ہو چکی ہے.دنیا کی مختلف زبانوں میں تک قرآن مجید کے کئی لاکھ نسخے طبع کروا کر تقسیم کئے جا چکے ہیں
505 حاشیہ جات باب ہشتم ہوا.حضرت خلیفة المسیح الثالث" نے غالباً اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اا دسمبر ۱۹۷۶ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا تھا کہ ” اس وقت اصل چیز یہ ہے جو میرے دل کی تڑپ اور جو آپ کے دل کی آواز ہے کہ قرآن کریم کی کثرت سے اشاعت کی جائے اور میں امید کرتا ہوں کہ ہم اس میں کامیاب ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے الہاما" مجھے ایسا ہی بتایا ہے میں تفصیل نہیں بتا سکتا " حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کی سیرت کا ایک پہلو یہ ہے کہ حضرت عثمان " کی طرح حضور” میں شرم و حیا بہت تھا اور اگرچہ حضور کو زندگی بھر کئی الہامات ہوئے لیکن حضور نے بہت کم الہامات کا اپنے خطبات اور تقاریر میں ذکر فرمایا :.باب ہشتم کے حوالہ جات له خطبہ جمعہ فرموده -۵ اگست ۱۹۶۶ء مطبوعہ الفضل ۱۰ اگست ۱۹۶۶ء (انوار قرآنی ص ۶۳ تا ۶۷) ۲ خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۶۶ء مطبوعہ الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۶۶ء (انوار قرآنی ص ۱۸۱۷) خطبہ جمعہ ۴ فروری ۱۹۶۶ء مطبوعہ الفضل ۱۹.فروری ۱۹۶۶ء ۵۴ خطبه جمعه مطبوعہ الفضل ۲۳ مارچ ۱۹۶۶ء ا خطبہ جمعہ مطبوعہ الفضل ۱۲ مئی ۱۹۶۹ء عوا الفضل ۱۲..فروری ۱۹۷۷ء ۹۸ خطبہ جمعہ مطبوعہ الفضل ۱۰ اپریل ۱۹۶۹ء ول خطبہ جمعہ فرموده ۵ اگست ۱۹۶۶ء مطبوعہ الفضل ۱۰ اگست ۱۹۶۶ء الله پیغام سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بر موقعه جلسه سالانه قادیان دار الامان ۱۹۷۷ ء بحوالہ خلافت و مجددیت ص ۵۱ ۵۵۲ ال الفضل ۲۹.اکتوبر ۱۹۷۹ء سل الفضل ۱۰ اگست ۱۹۷۶ء ۱۴ خطبه جمعه ۲۴ جون ۱۹۷۶ء مطبوعہ الفضل ۷.اگست ۱۹۶۶ء (قرآنی انوار ص ۱۲) ۱۵ خطبه جمعه ۵- اگست ۱۹۶۶ء مطبوعه الفضل ۱۰ اگست ۱۹۶۶ء (قرآنی انوار ص ۶۷) ال خطبه جمعه مطبوعہ الفضل ۱۰ اپریل ۱۹۶۹ء ال خطبہ جمعہ مطبوعه الفضل ۴ فروری ۱۹۷۳ء ۱۸ خطبه جمعه مطبوعہ ۱۰.اگست ۱۹۶۶ء
506 ول خطبہ جمعہ مطبوعه الفضل ۱۳ اپریل ۱۹۶۶ء ( تعلیم القرآن اور وقف عارضی کی اہمیت ص ۱۰) ۲۰ خطبہ جمعہ الفضل ۱۰ اپریل ۱۹۶۹ء ( ایضا" ص ۱۱) ال خطاب لجنہ اماء الله مطبوعہ الفضل ۵ فروری ۱۹۶۹ء (ایضا" ص ۱۰) ۲۲ ۲۳ خطبه جمعه مطبوعہ الفضل ۱۰.اپریل ۱۹۶۹ء ۲۴ خطبہ نکاح مطبوعہ الفضل ۱۴ نومبر ۱۹۶۷ء ۲۵ خطبه جمعه ۱۰ جولائی ۱۹۷۶ مطبوعہ الفضل ۱۷.اگست ۱۹۶۶ء ( قرآنی انوار ص ۳۴۴۳۲) من الفضل 9 ستمبر ۱۹۶۸ء ( تعلیم القرآن اور وقف عارضی کی اہمیت ص ۹۸) ۲۷ خطبہ جمعہ مطبوعہ الفضل ۲۴ اکتوبر ۱۹۷۰ء ۳۸ الفضل ۲۰ جنوری ۱۹۸۲ء ٢٩ الفضل یکم اکتوبر ۱۹۶۹ء ص ۳ تا ۱۰ ۳۰ خطبہ جمعہ فرموده ۲۶ اگست ۱۹۶۶ء مطبوعہ الفضل ۲۱ ستمبر ۱۹۶۲ء اس تبلیغ رسالت جلد ششم ص ۸-۹ ۳۲ امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ ص ۱۴ ۳۳، حقیقة الوحی ص ۷٬۲۵۶ ۲۵ پہلا ایڈیشن طبع اول Dr Peter craigie dean of Humanities University of calgar ۳۵ Dr Me Cready Prof Rippin Dr Roh Howard س دوره مغرب ۱۴۰۰ ه ص ۴۶۴ تا ۴۶۶ ۳۹ دوره مغرب ۱۴۰۰ ص ۴۶۸ تا ۴۷۱ ۴۰ دوره مغرب ۱۴۰۰ ص ۴۶ اس خطاب جلسہ سالانہ ۲۸ جنوری ۱۹۶۷ء مطبوعہ الفضل ۳.فروری ۱۹۶۷ء ۴۲ الفضل ۲۲ اگست ۱۹۶۷ء) (ماہنامہ خالد سیدنا ناصر نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۱۷ ۳۳ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ص ۴۲۲۱۴ ۴۴ الفضل ۱۹ جولائی ۱۹۶۷ء ۳۵ تذکرہ ایڈیشن چهارم ص ۸۱۸ بحوالہ سیرة احمد مصنفہ مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری ص ۱۸۳٬۱۸۲ ی خطبہ جمعہ نے جولائی ۱۹۷۲ می خطبہ جمعہ فرموده ۱۱ ستمبر ۱۹۷۰ء
507 ۴۸ خطاب فرموده ۱۸ فروری ۱۹۷۳ء مطبوعه الفضل ۱۵ جون ۱۹۷۳ء ۵۰٬۴۹، ربوہ میں جدید پریس کی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کے موقع پر سیدنا حضرت خلفیہ المسیح الثالث " کا ایمان افروز خطاب فرموده ۱۸ فروری ۱۹۷۳ء بحوالہ الفضل ۱۵ جون ۱۹۷۳ء اهه الفضل ۳ اکتوبر ۱۹۷۳ء ( نا ظهر اصلاح و ارشاد) اه خطبہ جمعہ فرموده ۶ جولائی ۱۹۷۳ء مطبوعہ الفضل ۱۷ جولائی ۱۹۷۳ء ۵۲ ف الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۷۳ء ۰۵۴ الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۷۳ء ۵۵ الفضل ۲۷ ستمبر ۱۹۷۳ء ۶ هـ الفضل ۱۷ ستمبر ۱۹۷۳ء ۵۷ دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۳۸۹٬۳۷۱ ۵۸ خطبه جمعه ۹ صلح ۱۳۴۹ ہش ۹ جنوری ۱۹۷۰ء مطبوعہ الفضل 11 تبوک 11 ستمبر ۱۹۷۰ء ٩ه الفضل ٦ - اکتوبر ۱۹۷۳ء بحوالہ کویت ٹائمز بابت ۲۷.اگست ۱۹۷۳ء صفحہ اول ۶۰ خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء بر موقع اعلان منصوبہ سالہ احمدیہ جوبلی) ۶۱ خطاب جلسہ سالانہ ۲۱ دسمبر ۱۹۶۵ء ۲۲ خطاب جلسہ سالانہ ۲۷- دسمبر ۱۹۸۱ء ۲۳ خطاب حضرت خلیفة المسیح الثالث جلسه سالانه ۲۱- دسمبر ۱۹۶۵ء) ۶۴- خطاب حضرت خلیفة المسیح الثالث " جلسہ سالانہ دسمبر ۱۹۸۱ء ۶۵ الفضل ۴ فروری ۱۹۷۳ء الفضل ۴ جنوری ۱۹۷۳ء الفضل ۱۳ جون ۱۹۷۳ء ۶۸ - الفضل ۱۱ - اکتوبر ۱۹۷۳ء ۶۹ رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء ه یک دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ناشر نظارت اشاعت و تصنیف ص ۴۵۲ تا ۴۵۴ امه ایضا" ص ۵۰۴٬۵۰۳ ۷۲ مشکوۃ قادیان حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء جنوری فروری ۱۹۸۳ء ص ۷۱ ع الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۷۲ء دورہ مغرب ۱۴۰۰ ه ص ۲۶٬۲۵
509 باب تنم عظیم الشان توسیعی منصوبے
511 حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کے عظیم الشان توسیعی منصوبے خلافت کے منصب پر فائز ہونے کے بعد نافلہ موعود حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" نے اپنے دور کے پہلے جلسہ سالانہ پر ۱۹.دسمبر ۱۹۶۵ء احباب جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ آپ نے محض خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس بندہ ضعیف اور ناکارہ کے ہاتھ پر متحد ہو کر یہ عہد کیا ہے کہ قیام توحید اور اللہ تعالی کی عظمت اور اس کے جلال کے قیام اور غلبہ اسلام کے لئے جو تحریک اور جو جد و جهد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع کی تھی اور جسے حضرت مصلح موعود بھی اللہ نے اپنے آرام کھو کر اپنی زندگی کے ہر سکھ کو قربان کر کے اکناف عالم تک پھیلایا ہے آپ اس جدوجہد کو تیز سے تیز تر کرتے چلے جائیں گے "لہ اسی جلسہ سالانہ پر حضور نے اس عزم کا بھی اظہار فرمایا تھا کہ 11 جو کام حضرت مصلح موعود رضی اللہ نے شروع کئے تھے انہیں کامیابی کے ساتھ اختتام تک پہنچانا میرا فرض ہے؟ اسی طرح فرمایا کہ مالی قربانیوں کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے" چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشن کو جاری رکھنے ، اس میں سرعت اور وسعت پیدا کرنے ، اور حضرت مصلح موعود کے جاری کردہ کاموں کی رم
512 تحمیل کے لئے حضور نے اپنے دور خلافت میں کئی عظیم الشان تحریکات جاری فرمائیں جن میں سے تین اہم تحریکات یہ ہیں:.(1) فضل عمر فاؤنڈیشن (2) نصرت جہاں لیپ فارورڈ پروگرام (۳) صد سالہ احمدیہ جو بلی منصوب 33 حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " کی پہلی بابرکت تحریک فضل عمر فاؤنڈیشن تحریک کا پس منظر ۱۹۶۵ء کے تاریخی جلسہ سالانہ پر حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کے ارشاد کی تعمیل میں حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب حج عالمی عدالت نے 19دسمبر کو احباب کے سامنے حضرت مصلح موعود کے بے مثال کارناموں اور عظیم الشان ان گنت احسانوں کی یادگار کے طور پر ۲۵ لاکھ روپے کا ایک فنڈ قائم کرنے اور اس میں بڑھ چڑھ کر رقوم پیش کرنے کی تحریک کی " " فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک کا اعلان حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے اپنے اختتامی خطاب میں ۲۱ دسمبر ۱۹۶۵ء کو فرمایا:." کل مخدومی و محترمی چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے احباب رقم جماعت کی خدمت میں حضرت مصلح موعود کی یاد میں ایک فنڈ قائم کرنے کی تحریک کی تھی اب مشورہ کے بعد اس فنڈ کا نام ”فضل عمر فاؤنڈیشن تجویز ہوا ہے.اس فنڈ سے بعض ایسے کام لئے جائیں گے جن سے حضرت مصلح موعود کو خاص دلچسپی تھی اس میں شک نہیں کہ موجودہ شکل میں صدر
513 انجمن احمدیہ، تحریک جدید، وقف جدید، انصار الله خدام الاحمدیہ اطفال الاحمدیہ، لجنہ اماء اللہ اور ناصرات الاحمدیہ کی جو ذیلی تنظیمیں حضور نے جماعت میں قائم فرمائی ہوئی ہیں وہ سب حضور کی یادگار ہیں رض اور جب تک یہ قائم ہیں اور جب تک ان تنظیموں کے اچھے اور خوشکن نتائج نکلتے چلے جائیں گے.اس وقت تک حضرت فضل عمر کا نام اور کام بھی زندہ رہے گا اور دنیا عزت سے حضور " کو یاد کرتی رہے گی.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم حضور کی یاد میں صدقہ جاریہ کے طور پر نئی سکیمیں جاری نہ کریں.اس لئے میں دوستوں سے یہ اپیل کرتا ہوں کہ وہ اپنی تمام مالی قربانیوں پر قائم رہتے ہوئے اور ان میں کسی قسم کی کمی کئے بغیر بشاشت قلب کے ساتھ محض رضائے الہی کی خاطر اس فنڈ میں دل کھول کر حصہ لیں اور ساتھ ہی یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالی اس فنڈ کو بابرکت کرے اور اس کے اچھے نتائج کا ثواب حضرت فضل عمر بن اللہ کو بھی اور ہمیں بھی پہنچائے." حضور نے مزید فرمایا :- " ہمارا اندازہ ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ پچیس لاکھ روپے سے کہیں زیادہ رقم جمع ہو جائے گی.امید ہے کم از کم پندرہ لاکھ روپے بیرونی جماعتیں ہی فراہم کریں گی.اس سلسلے میں ایک کمیٹی بنا دی جائے گی جو اس کے قواعد و ضوابط مرتب کرے گی اور غور کرے گی کہ کن کن کاموں پر اور کس طرح سے اسے استعمال کیا جائے." پھر مجلس مشاورت ۱۹۶۶ء کے موقع پر ۲۷.مارچ کو فرمایا :.رض " فضل عمر فاؤنڈیشن تو دراصل اظہار ہے اس محبت کا جو ہمارے دلوں میں اللہ تعالٰی نے حضرت مصلح موعود کے لئے پیدا کی اور یہ محبت اس لئے پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کو جماعت پر بحیثیت جماعت اور لاکھوں افراد جماعت پر بحیثیت افراد بے شمار
514 احسانات کرنے کی توفیق عطا کی.تو خدا تعالیٰ کی حمد اور شکر کے طور پر اور اس محبت کے نتیجہ میں جو ہمارے دلوں میں اس پاک وجود کے لئے ہے ہم نے کلمہ اسلام کی اشاعت کے لئے اس فاؤنڈیشن کو جاری کیا ہے.اس میں بدعت اور معصیت کا شائبہ بھی نہیں پایا جاتا کیونکہ خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ ہماری نیتیں صاف ہیں؟ یکم جون ۱۹۶۶ء کے الفضل میں حضور کا یہ پیغام شائع ہوا.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا پیغام احباب کرام السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاته فضل عمر فاؤنڈیشن کی تحریک محبت و عقیدت کے اس چشمہ سے پھوٹی ہے جو احباب کے دل میں اپنے پیارے آقا المصلح الموعود علی الشیہ کے لئے موجزن رہی اور موجزن رہے گی.امید ہے کہ آپ سب اپنے عمل سے اس کا ثبوت دیں گے جیسا کہ بعض احباب نے اس کا عملاً ثبوت بہم پہنچا دیا ہے اور بڑھ چڑھ کر اس تحریک میں حصہ لیا ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو احسن جزاء عطا فرمائے اور زیادہ سے زیادہ قربانی پیش کرنے کی توفیق عطا کرے آمین 1A-0-11 جزاكم الله و باللہ التوفیق مرزا ناصر احمد خلیفہ المسیح الثالث اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت اس تحریک کے جاری کرنے کے چند ماہ بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت خلیفہ المسیح الثالث " کو بذریعہ الہام اطلاع دی.تینوں ایناں دیواں گا کہ تو رج جاویں گا اس کا ذکر حضور نے کئی مواقع پر فرمایا.ایک مرتبہ فرمایا:.
515 ” خدا تعالیٰ نے شروع خلافت میں مجھے بتایا تھا ” تینوں ایناں دیواں گا کہ تو رج جاویں گا".حضور کے علاوہ جماعت کے بعض دوستوں کو بھی بشارتیں ملیں.حضور نے اس کا ذکر کرتے ہوئے ایک اور موقع پر فرمایا :.ایک دوست کو خواب میں حضرت مصلح موعود نظر آئے....آپ نے اس دوست کو کہا کہ اس کو یعنی مجھے یہ پیغام پہنچا دو کہ فضل عمر فاؤنڈیشن سے منارہ ضرور بنایا جائے اور منارہ کی تعبیر ایسے شخص کی ہوتی ہے جو اسلام کی طرف دعوت دینے والا ہو اور اس کا مطلب یہ تھا که فضل عمر فاؤنڈیشن سے جید عالم ضرور پیدا کئے جائیں اس سے بے توجہی نہ برتی جائے.بہت سی اور خواہیں بھی دوستوں نے دیکھی ہیں.ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اس فنڈ کی رقم یعنی جو سرمایہ ہے اس کو خرچ نہیں کیا جائے گا بلکہ جن مقاصد کے پیش نظر فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام کیا گیا ہے ان کو پورا کرنے کے لئے جس قدر روپیہ کی ہمیں ضرورت پڑے گی وہ اس فنڈ کی آمد سے حاصل کیا جائے گا ل جس شوق اور جذبے سے حضرت خلیفہ المسیح الثالث " کی پہلی تحریک پر احباب جماعت نے حصہ لیا اس کی نظیر ملنی مشکل ہے.اس شوق اور جذبے کی ایک جھلک مندرجہ ذیل واقعہ میں نظر آتی ہے جو ایک مجلس عرفان میں حضور نے اپنی خلافت کے دوران ایک مرتبہ خود بیان فرمایا :- فضل عمر فاؤنڈیشن کا جب چندہ جمع ہو رہا تھا تو ایک دن ملاقاتیں ہو رہی تھیں.مجھے دفتر نے اطلاع دی کہ ایک بہت معمر مخلص احمدی آئے ہیں وہ سیڑھی نہیں چڑھ سکتے اور حقیقت یہ تھی کہ یہاں آنا بھی ایک لحاظ سے انہوں نے اپنی جان پر ظلم ہی کیا تھا.چنانچہ وہ کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے کھڑے بھی نہیں ہو سکتے تھے.میں نے کہا میں نیچے ان کے پاس چلا جاتا ہوں.خیر جب میں گیا.پتہ نہیں تھا کہ وہ کیوں آئے
516 ہیں.مجھے دیکھ کر انہوں نے بڑی مشکل سے کھڑے ہونے کے لئے زور لگایا تو میں نے کہا نہیں آپ بیٹھے رہیں.وہ بہت معمر تھے.انہوں نے بڑے پیار سے دھوتی کا ایک پلو کھولا اور اس میں سے دو سو اور کچھ رقم نکالی اور کہنے لگے یہ میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے لے کر آیا ہوں.پیار کا ایک مظاہرہ ہے.پس اس قسم کا اخلاص اور پیار اور اللہ تعالٰی کے لئے قربانی کا یہ جذبہ ہے کہ جتنی بھی توفیق ہے پیش کر دیتے ہیں.اس سے ثواب ملتا ہے رقم سے تو نہیں ملتا" ال تحریک کے پہلے دور کا اختتام اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کا اظہار تشکر اس تحریک کا ابتدائی زمانہ ادارہ کے انتظامی امور کی تکمیل کے ساتھ ساتھ وعدوں کے حصول میں اور پھر تین سال وصولی کی جدوجہد میں گزرے.عطایا کی ادائیگی کی معیاد ۱۹۶۹ء کے آخری حصہ میں ختم ہو گئی.گو تحریک کے لئے عطایا کی حد ۲۵ لاکھ روپیہ مقرر ہوئی تھی مگر مخلصین نے جس جذبہ فدائیت کے ساتھ حصہ لیا اس سے وصولی کی مقدار عملاً ۳۴ لاکھ کے لگ بھگ پہنچ گئی.دور اول کی کامیابی پر اظہار تشکر کرتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے فرمایا :.” دل فضل عمر فاؤنڈیشن کے درخت کو پروان چڑھتا دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی حمد سے لبریز ہے.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے فاؤنڈیشن کے درخت کو حوادث سے محفوظ رکھا اور اسے پھل دینے کے قابل بنایا.در اصل اب فاؤنڈیشن کے لئے عطا یا جمع کرنے کا دور ختم ہو رہا ہے اور اب دوسرا دور شروع ہو رہا ہے.یہ دوسرا دور درخت کی خاطر خواہ حفاظت کا دور ہے تاکہ یہ درخت خدا تعالیٰ کے فضل کے نتیجہ میں زیادہ
517 سے زیادہ پھل دیتا چلا جائے " (۲۵ مئی ۱۹۶۹ء بحوالہ سالانہ رپورٹ فضل عمر فاؤنڈیشن) اور اول وعدوں کے حصول اور عطایا جات کی وصولی کا دور تھا اور اس کے بعد فضل عمر فاؤنڈیشن " کا دوسرا دور شروع ہوا جو اس کے اغراض و مقاصد پورے کرنے کا دور تھا.فضل عمر فاؤنڈیشن کے اغراض و مقاصد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " کے فرمودات کی روشنی میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے مقاصد درج ذیل مدنظر تھے.ا.لرحیم حضرت مصلح موعود کے بے مثال کارناموں اور عظیم الشان ان گنت احسانوں کی یادگار میں ۲۵ لاکھ روپے کا ایک ریز رو فنڈ قائم کرنا.ہوتا..تھی.حضرت مصلح موعود کی یاد میں صدقہ جاریہ کے طور پر اس نئی سکیم کا جاری اس فاؤنڈیشن کے قیام سے کلمہ اسلام کی اشاعت میں سرعت پیدا کرنا..اس فاؤنڈیشن سے جید عالم پیدا کرنا.اس فنڈ سے بعض ایسے کام کرنا جن سے حضرت مصلح موعود” کی خاص دلچپسی اس فنڈ کی رقم یعنی جو سرمایہ ہے اس کو خرچ نہیں کرنا بلکہ اس فنڈ کو تجارت پر لگا کر اس کی آمد سے حاصل شدہ رقم سے جملہ کام سر انجام دینا.اغراض و مقاصد کا تعین و" اغراض و مقاصد کے تعین کے لئے جماعت کے ۱۵۶ چیدہ چیدہ احباب کو مرکز میں مدعو کیا گیا.۱۵.جنوری ۱۹۶۷ء کو حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے دعاؤں کے ساتھ مجلس مقاصد " کا افتتاح فرمایا اور ضروری ہدایات سے نوازا.مختلف طبقات و علاقہ
518 جات سے آنے والے نمائندگان نے تجاویز پیش کیں.بعض نے تحریری تجاویز بھجوائیں.ایک سو پچاس (۱۵۰) تجاویز کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسیم کیا گیا.(۱) علمی و تحقیقی کام (II) تبلیغی جد وجهد (III) تعلیمی جد وجهد (IV) اقتصادی بهبود (۷) متفرق ۱۹۶۷ء میں ہی حضور" کی منظوری سے مقاصد کے تعین کو عملی جامہ پہنایا گیا اور فاؤنڈیشن کو سنٹرل بورڈ آف ریونیو سے رجسٹر کروایا گیا.فلاحی ادارہ ہونے کی وجہ سے اسے ہر قسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا گیا.دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن سب سے پہلا کام فضل عمر فاؤنڈیشن کے دفتر کے قیام کا تھا.صدر انجمن احمدیہ کے احاطہ میں نوے سال کے لئے زمین پٹہ (Lease) پر لے کر دفتر کی عمارت تعمیر کی گئی، حضرت خلیفہ المسیح الثالث " نے اپنے دست مبارک سے ۶.اگست ۱۹۲۶ء کو دفتر کی بلڈنگ کا سنگ بنیاد رکھا اور ۱۵.جنوری ۱۹۶۷ء کو فاؤنڈیشن کے صدر چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے دفتر کا افتتاح فرمایا :.فضل عمر فاؤنڈیشن کے ثمرات حضرت خلیفہ المسیح الثالث " نے ۴.جولائی ۱۹۸۰ء کو مسجد نور فرینکفورٹ (مغربی جرمنی میں خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا :." سب سے پہلے میری طرف سے فضل عمر فاؤنڈیشن کا منصوبہ پیش ہو جماعت نے اپنی ہمت اور توفیق کے مطابق اس میں حصہ لیا.اس کے تحت بعض بنیادی نوعیت کے کام انجام دیئے گئے.یہ گویا ابتداء
519 تھی ان منصوبوں کی جو خدائی تدبیر کے ماتحت غلبہ اسلام کے تعلق میں جاری ہوئے تھے.چنانچہ جو بنیادی کام اس فنڈ کی آمد کے سرمایہ سے سر انجام دیئے گئے ان کا تعلق زیادہ تر ان کاموں سے ہے جن سے حضرت مصلح موعود کو خاص دلچسپی تھی اور وہ درج ذیل ہیں:.(i) سوانح فضل عمر جس مقدس وجود کی یاد میں ”فضل عمر فاؤنڈیشن " قائم کی گئی تھی اس کی سوانح پر کسی مستند کتاب کا ہونا ضروری تھا چنانچہ یہ کام فاؤنڈیشن نے اپنے ذمہ لیا اور ایک نگران بورڈ کے مشوروں سے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب (جو بعد میں خلافت رابعہ کے منصب جلیلہ سے سرفراز ہوئے) نے لکھنی شروع کی.اس کا پہلا ہوا حصہ خلافت ثالثہ میں شائع ہوا دوسرے حصے کا مسودہ خلافت ثالثہ میں مکمل ہوا لیکن اشاعت بعد میں ہوئی.(۲) حضرت مصلح موعود کی تقاریر و خطبات رض حضرت مصلح موعود نے اللہ تعالیٰ کی بشارت ” وہ علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا" کے مطابق اپنے باون سالہ دور خلافت میں بے شمار علمی جواہر پارے اپنی یادگار چھوڑے ، حضور کی بے شمار تقاریر و خطبات باون سال سے زائد کی اخباروں اور رسالوں میں بکھرے پڑے ہیں ان سب کو اکٹھا کر کے محفوظ رکھنے کا کام اس فاؤنڈیشن کے بنیادی کاموں میں سے ہے.اس سلسلہ میں خطبات محمود کے نام سے حضرت مصلح موعود کے خطبات اور تقاریر کی تدوین و اشاعت کا کام فاؤنڈیشن کر رہی ہے.اسی طرح حضرت مصلح موعود کی تصانیف انوار الاسلام" کے نام سے سیٹ کی شکل میں شائع کی جا رہی ہیں.ย
520 رم (۳) خلافت لائبریری حضرت مصلح موعود کے زمانہ میں جماعت کے پاس لائبریری کی کتب تو تھیں لیکن ایک وسیع بلڈنگ کی ضرورت محسوس کی جا رہی تھی.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث " کی اجازت سے ایک جدید لائبریری کی وسیع عمارت اس فاؤنڈیشن کے ذریعے تعمیر کی گئی جس پر پہلے سوا چار لاکھ روپے خرچ آیا پھر اس کی مزید توسیع کی گئی جس مزید آٹھ لاکھ روپے خرچ ہوئے.فاؤنڈیشن نے لائبریری آرکیٹکٹس سے با قاعدہ ڈیزائن کروا کر ایک شاندار عمارت کی شکل میں تعمیر کروائی اور اسے جدید فرنیچر اور جدید آلات سے مزین کیا گیا.اس عمارت کا سنگ بنیاد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کے دست مبارک سے ۱۸ جنوری ۱۹۷۰ء کو رکھا گیا اور اس کا افتتاح بھی حضور نے ہی فرمایا جو ۳.اکتوبر ۱۹۷۱ء کو عمل میں آیا.فاؤنڈیشن نے یہ لائبریری مع فرنیچر صدر انجمن احمدیہ کے سپرد کر دی.اس لائبریری کا پہلا نام " محمود لائبریری" رکھا گیا جسے بدل کر ” خلافت لائبریری" کر دیا گیا اس لائبریری کی گنجائش پچاس ہزار کتب ہے.حضرت مصلح موعود نے لائبریری کی اہمیت کے بارے میں فرمایا تھا." یہ اتنی اہم چیز ہے کہ ہمارے سارے کام اس سے وابستہ ہیں.6 تبلیغ اسلام مخالفوں کے اعتراضات کے جوابات ، تربیت، یہ سب کام لائبریری سے ہی تعلق رکھتے ہیں" اور پھر فرمایا:.لائبریری کے متعلق میرے نزدیک سلسلہ سے بہت بڑی غفلت ہوئی ہے لائبریری ایک ایسی چیز ہے کہ کوئی تبلیغی جماعت اس کے بغیر کام نہیں کر سکتی.غرض فضل عمر فاؤنڈیشن کے ذریعے مرکز سلسلہ میں ایک جدید لائبریری کا فراہم کرنا حضرت مصلح موعود کے ان اہم کاموں سے تھا، جن سے حضرت مصلح موعود کو خاص دلچسپی تھی اور جن کے پورا کرنے کا عزم نافلہ موعود خلیفہ المسیح الثالث" نے کیا تھا.۲
521 (۴) انعامی مقالہ جات ย اس کے لئے فاؤنڈیشن نے ہر سال علمی تحقیقی انعامی مقالہ جات لکھوانے کا سلسلہ شروع کیا جس کا مدعا علمی ذوق پیدا کرنا اور کتب تصنیف کرنے کی اس جامع سکیم پر عملدرآمد کرنا تھا جو حضرت المصلح موعود نے ۱۹۴۹ء میں احباب جماعت کے سامنے رکھی تھی.اول انعام حاصل کرنے والوں کو ایک ہزار روپے سے اڑھائی ہزار روپے تک کے انعامات دیئے جاتے رہے ہیں.خلافت ثالثہ کے اختتام تک ۲۷ مقالہ جات پر انعام دیئے گئے.انعامات کی کل رقم پچاس ہزار روپے کے لگ بھگ دی گئی.(۵) سرائے فضل عمر.خلافت ثالثہ میں جلسہ سالانہ پر غیر ملکی وفود میں ہر سال اضافہ ہوتا رہا ہے.غیر ملکی مہمانوں کی رہائش کے لئے مرکز سلسلہ میں کئی گیسٹ ہاؤس بنائے گئے جن میں سے ایک گیسٹ ہاؤس جو تحریک جدید کے احاطہ میں سوا گیارہ لاکھ روپے کی لاگت ۱۹۷۴ء میں تعمیر ہوا اور ” سرائے فضل عمر" کے نام سے موسوم ہے فضل عمر فاؤنڈیشن نے بنوا کر دیا.اس کا سنگ بنیاد حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نے ۳۰ جنوری ۱۹۷۴ء کو اپنے دست مبارک سے رکھا تھا.اس گیسٹ ہاؤس میں ائیر کنڈیشنرز اور پانی گرم کرنے کے لئے گیزرز بھی نصب کئے گئے ہیں اور یہ گیسٹ ہاؤس جدید قسم کی سہولتوں سے مزین ہے.(۶) ٹرانسلیشن ہوتھ غیر ملکی مہمانوں کو جلسہ سالانہ پر اصل تقریر کے ساتھ ساتھ ان کے تراجم سنانے کی دقت محسوس کی جا رہی تھی.غیر ملکی مہمانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے یہ خواہش فرمائی کہ ترجمانی کے لئے آلات نصب کر کے غیر ملکیوں کو سہولت دی جائے.اس پر بعض مخلص انجینئرز کی کوششوں سے ڈیزائن
522 تیار کر لیا گیا.اور ۱۹۸۰ء کے جلسہ سالانہ پر پہلی مرتبہ یہ آلات نصب کر کے دو زبانوں میں تراجم سنوانے کا بندوبست کیا گیا جن میں سال بہ سال اضافے کی گنجائش رکھی گئی.چنانچه جلسه ۱۹۸۰ء پر زنانہ اور مردانہ دونوں جلسہ گاہوں میں انگلش اور انڈونیشین تراجم سنوائے گئے اور یہ سلسلہ بعد میں بھی اضافے کے ساتھ جاری ہے.ترجمانی کے نظام کے لئے آلات کے ڈیزائن کا کام تو انجینئروں نے رضا کارانہ طور پر کیا.لیکن آلات کی قیمت کے لئے ایک لاکھ روپے کا ابتدائی سرمایہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے فراہم کیا.اس کام کے لئے ابتدائی ٹیم مندرجہ ذیل انجینئرز پر مشتمل تھی.مکرم منیر احمد صاحب فرخ بی ایس سی الیکٹریکل انجینئرنگ مکرم لال خان صاحب بی ایس سی سول انجینئرنگ مکرم ایوب احمد ظہیر صاحب بی ایس سی مکینیکل انجینئرنگ مکرم محمود مجیب اصغر صاحب بی ایس سی سول انجینئرنگ مکرم مبشر احمد گوندل صاحب بی ٹیک اس نظام کے پہلی دفعہ نصب ہونے پر الفضل ربوہ نے ۲۹ دسمبر ۱۹۸۰ء کی اشاعت میں پندرھویں صدی کے پہلے جلسہ سالانہ پر خدائی انعامات کا ایک اور مظہر.دو سو بائیس (۲۲۲) احباب و خواتین کو تقاریر کے تراجم سنائے گئے.انڈونیشی اور انگریزی زبان میں ساتھ کے ساتھ ترجمہ کیا گیا" کی شہ سرخی جما کر لکھا.ربوہ ۲۹ فتح / دسمبر.پندرھویں صدی ہجری کے پہلے جلسہ سالانہ کے وقع پر جماعت احمدیہ کی عالمگیر وسعت اور دنیا کے کونے کونے میں خدائی تائید و نصرت کے درخشندہ نشانوں کا ایک اظہار اس طرح سے ہوا ہے کہ جماعت کی تاریخ میں پہلی بار بیرون پاکستان سے آئے ہوئے معزز مہمانوں کے لئے دو زبانوں میں تقاریر کے ترجمے کا بندوبست نہایت کامیابی اور خیر و خوبی سے جاری ہوا ہے الحمد للہ ثم الحمد للہ اس جلسہ سالانہ پر کل ۲۲۲ - افراد و خواتین کے لئے انگریزی اور انڈونیشین زبان میں ترجمہ کا بندوبست کیا گیا ہے...اس مقصد کے لئے
523 مردانہ اور زنانہ جلسہ گاہ میں دو دو مترجم کیبن بنائے گئے ہیں جہاں پر ترجمہ کرنے والا بیٹھتا ہے اور ہیڈ فون کے ذریعے جو کہ اس کے کانوں پر لگے ہوتے ہیں اردو تقریر سن کر اس کا انگریزی یا انڈونیشین زبان میں ترجمہ کرتا ہے جو کہ سامعین کے کانوں تک ہیڈ فون کے ذریعے پہنچادی جاتی ہے مردانہ جلسہ گاہ میں مرد ترجمہ کرتے ہیں اور زنانہ جلسہ گاہ میں خواتین مترجم کے فرائض سر انجام دیتی ہیں تاہم جو تقریریں مردانہ جلسہ گاہ سے عورتوں کی جلسہ گاہ میں ریلے کی جاتی ہیں ان کا ترجمہ بھی مردانہ جلسہ گاہ سے ہی ریلے کیا جاتا ہے.اس سارے نظام کے منتظم اعلیٰ مکرم منیر احمد صاحب فرخ ہیں جن کے ساتھ ملک لال خان صاحب اور مکرم کیپٹن ایوب احمد ظہیر صاحب نے کام کیا ہے.کیبن بنانے اور لکڑی وغیرہ کا کام مکرم عبدالکریم صاحب لودھی نے سر انجام دیا ہے جب کہ نظام کی فنی درستگی میں اس وقت محمود مجیب اصغر صاحب.مبشر احمد صاحب گوندل اور منصور محمد شهر ما صاحب نائب کے طور پر کام کر رہے ہیں.اس نظام کو چلانے کے لئے مردانہ جلسہ گاہ میں ۱۸.افراد ڈیوٹی دے رہے ہیں.جبکہ زنانہ جلسہ گاہ میں یہ نظام چلانے والی خواتین کی تعداد ۱۶ ہے جن کی انچارج مکرمہ امتہ الجمیل صاحبہ ہیں جو کہ خود ترجمہ بھی کرتی ہیں.احمدی خواتین کی فنی سوجھ بوجھ اور ذہانت کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ زنانہ جلسہ گاہ میں یہ سارا انتظام مکرم منیر احمد صاحب فرخ کی زیر نگرانی خواتین نے مکمل طور پر نصب کیا ہے اور اب وہ اسے خود ہی نہایت کامیابی کے ساتھ چلا رہی ہیں.منصوبہ فضل عمر فاؤنڈیشن کی مالی معاونت اور محترم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی سرپرستی میں تکمیل کو پہنچا ہے.مکرم منیر احمد صاحب فرخ نے بتایا اس سارے کام پر ایک لاکھ سے
524 کم خرچ ہوا ہے جب کہ بجلی کی کمپنیوں سے جب یہ نظام نصب کرنے کو کہا گیا تھا تو انہوں نے پچاس لاکھ روپے کے لگ بھگ رقم مانگی تھی.اس لحاظ سے اس نظام کی تنصیب احمدی انجینئروں کا ایک شاندار کارنامہ ہے له ماہنامہ خالد نے اپنے شمارہ جنوری فروری ۱۹۸۱ء میں احمدی انجینئرز کا ایک شاندار کارنامہ - فضل عمر فاؤنڈیشن کی ایک اور خدمت" کے عنوان سے لکھا." ہمارے پیارے امام ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ۲۷.دسمبر.۱۹۸۰ء کو اپنے خطاب میں فضل عمر فاؤنڈیشن کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.انہوں نے اس سال جو نمایاں کام کیا ہے وہ یہ ہے کہ آپ کے ہاں جو بیرونی ممالک سے لوگ آئے ہوئے ہیں ان کے لئے دو زبانوں میں انگریزی اور انڈونیشین ترجمہ کا انتظام کیا ہے.یہ دو کھوکھے جو بنے ہوئے ہیں یہاں چاٹ نہیں سکتی.یہاں ترجمہ کرنے والے بیٹھے ہیں جو ساتھ ساتھ ترجمہ کرتے ہیں " هل حضور نے اس نظام کے بارے میں فرمایا:." ہماری تو کئی سال سے تجویز تھی لیکن باہر کی ایجنسیز اتنی رقم مانگتی تھیں کہ ہمیں جرات نہ ہوتی تھی.اور پھر احمدی انجینئروں کے ذریعے نظام کے ستا بن جانے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :." اللہ بھلا کرے احمدی انجینئرز کا انہوں نے کہا کہ ہم بہت سستا بنا سکتے ہیں.اتنا پیسہ ضائع نہ کریں.چنانچہ انہوں نے دو سو اٹھائیس افراد کو ترجمہ بنانے کے لئے) اسی ہزار روپے میں تیار کر دیئے ہیں.ان کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو جزاء دے آمین روزنامه الفضل ربوہ حضرت خلیفة المسیح الثالث" نمبر مورخہ ۱۲.مارچ ۱۹۸۳ء نے كله
525 فضل عمر فاؤنڈیشن کی خدمات کے ذکر میں لکھا.بیرونی ممالک سے جو وفود جلسہ سالانہ میں شریک ہوتے ہیں ان کے اراکین جلسہ سالانہ کے دوران ہونے والی تقاریر کو جو اردو میں وتی ہیں ، اردو زبان سے ناواقف ہونے کی وجہ سے سمجھ نہیں سکتے تھے.سیدنا حضرت حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ ان کے لئے انگریزی اور انڈونیشین زبانوں میں تقاریر کا ساتھ ہو کے ساتھ ترجمہ سنانے کا انتظام کیا جائے.فضل عمر فاؤنڈیشن نے حضور کی اس منشاء کو پورا کرنے کے لئے ضروری آلات ماہر انجینئروں ( محترم ملک لال خان صاحب اور محترم منیر احمد صاحب فرخ اسلام آباد کے ذریعے تیار کروائے اور ان مشینوں کو چلانے والی ٹیموں کا بھی انہی ماہرین کے ذریعے انتظام کرایا.چنانچہ جلسہ سالانہ ۱۹۸۰ء سے مذکورہ ہر دو زبانوں میں جلسہ گاہ مردانہ اور زنانہ ہر دو میں ترجمہ سنانے کا انتظام ہوتا ہے" (۷) لٹریری کمیٹی JA فضل عمر فاؤنڈیشن کے تحت ایک لٹریری کمیٹی قائم کی گئی جو جماعت کی علمی ترقی کے لئے تجاویز پیش کرتی ہے.اس کمیٹی کی ایک تجویز کے مطابق لندن کے انڈیا آفس کے مواد پر ریسرچ کروائی گئی.۱۹.(۸) متفرق مصارف اس فنڈ کے متفرق مصارف درج ذیل ہیں.اعلیٰ سائنسی تعلیم کے لئے وظائف کی فراہمی جلوس جامعہ احمدیہ کے لئے ۸۰ (اسی) ہزار روپے کی لاگت سے فوٹوسٹیٹ مشین فرانسیسی ترجمہ قرآن کے لئے معاونت بعض دیگر جماعتی ضروریات میں معاونت.
526 نصرت جہاں ایپ فارورڈ پروگرام مغربی افریقہ میں تعلیمی اور طبی اداروں کے قیام کا وسیع منصوبہ
527 مغربی افریقہ میں سکول اور ہسپتال کھولنے کے لئے نصرت جہاں لیپ فارورڈ پروگرام نصرت جہاں سکیم کا عظیم الشان القاء حضور ۴.اپریل ۱۹۷۰ء کو یورپ اور مغربی افریقہ کے دورہ پر تشریف لے گئے اور ۸ جون ۱۹۷۰ء کو واپس تشریف لے آئے.اس دوران حضور ۱۱.اپریل سے ۱۴ مئی تک مغربی افریقہ کے تاریخی دورہ پر رہے.دورے پر روانہ ہونے سے قبل حضور نے فرمایا:." اللہ کے نام سے اور اس پر بھروسہ کرتے ہوئے انشاء اللہ کل صبح مغربی افریقہ کے دورہ پر روانہ ہو رہا ہوں.....ان اقوام کے پاس جاؤں گا جو صدیوں سے مظلوم رہی ہیں.جو صدیوں سے حضرت نبی اکرم میل یا اللہ ملک کے ایک عظیم روحانی فرزند مهدی موعود کے انتظار میں رہی ہیں اور جن میں استثنائی افراد کے علاوہ کسی کو بھی حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کی زیارت نصیب نہیں ہوئی.پھر ان کے دلوں میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ آپ کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ ان تک پہنچے اور وہ خَلِيفَةٌ مِنْ خُلَفَائِہ کی زیارت سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کریں.....صدیوں کے انتظار کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاہا تو انہیں یہ موقع نصیب ہو گا....اسی کے سہارے اور اسی پر توکل کرتے ہوئے اس یقین کے ساتھ میں اس سفر پر جا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے سامان پیدا کرے گا کہ اسلام کے غلبہ کے دن جلد سے جلد آجائیں.اس دورہ کے دوران جبکہ حضور گیمبیا کے ملک میں مقیم تھے.حضور کو ان
528 اقوام کی خدمت اور محبت کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبردست تحریک ہوئی آپ فرماتے ہیں.و گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ تم کم از کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں میں خرچ کرو اور اس میں اللہ تعالیٰ بہت برکت ڈالے گا اس حضور ۱۴ مئی ۱۹۷۰ء کو لندن تشریف لے گئے اور ۱۵ مئی تا ۲۴ مئی لندن میں تشریف فرما رہے اور اس دوران آپ نے لندن میں نصرت جہاں ریزرو فنڈ " کا اعلان فرمایا.اس کے بعد حضور سپین تشریف لے گئے اور ایک ہفتہ وہاں تشریف فرما رہے.۸ جون کو حضور واپس پاکستان تشریف لائے.پاکستان واپسی پر حضور نے خطبہ جمعہ فرموده ۱۲ جولائی ۱۹۷۰ء میں فرمایا :.گزشتہ ۴.اپریل کو میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اسلام کا محبت اور پیار اخوت اور مساوات کا پیغام لے کر مغربی افریقہ کے ممالک کے دورہ پر روانہ ہوا تھا اور چند ہفتوں کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا منادی بن کر آپ میں واپس آیا ہوں ۲۲ حضور نے فرمایا :." خدا تعالیٰ نے بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا ہے کہ تو میرے دین کی عظمت کے لئے اس جماعت سے قربانیاں مانگ اور وہ تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے قربانیاں دے گی“ ۲۳ نصرت جہاں سکیم کا اعلان جیسا کہ لکھا جا چکا ہے.حضور کی مغربی افریقہ سے پاکستان واپسی لندن کے راستے سے ہوئی اور حضور نے تحریک کا اعلان پہلے لندن میں فرمایا اور پھر پاکستان پہنچ کر ۱۲ جولائی ۱۹۷۰ء کو ربوہ میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا اور نصرت جہاں سکیم کے پس منظر اور لندن میں تحریک کے اعلان اور اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید و نصرت کا ذکر کرتے ہوئے
فرمایا :.529 گیمبیا میں ایک دن اللہ تعالیٰ نے میرے اپنے پروگرام نہیں رہنے دیے بلکہ بڑی شدت سے میرے دل میں یہ ڈالا کہ یہ وقت ہے کہ تم کم سے کم ایک لاکھ پونڈ ان ملکوں میں خرچ کرو اور اس میں اللہ تعالٰی بہت برکت ڈالے گا اور بہت بڑے اور اچھے نتائج نکلیں گے.میرے آنے کے بعد مولویوں نے بڑی مخالفت شروع کر دی ہے اور میں بہت خوش ہوں کیونکہ اس آگ میں سے تو ہم نے بہر حال گزرنا ہے ہمارے لئے یہ پیشگوئی ہے کہ آگ تمہارے لئے ضرور جلائی جائے گی جو الہام ہے تاکہ آگ سے ہمیں مت ڈراؤ آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام بھی ہے" اس میں دو پیشگوئیاں ہیں ایک یہ کہ تمہیں راکھ کرنے کے لئے آگ جلائی جائے گی اور دوسری یہ کہ وہ آگ تمہیں راکھ نہیں کر سکے گی بلکہ فائدہ پہنچانے والی ہو گی.تمہاری خدمت کرنے والی ہو گی...پھر جب ہم سیرالیون میں آئے تو اور زیادہ جرات تھی کیونکہ اللہ تعالٰی نے کہہ دیا تھا کہ کرو خرچ.میں اچھے نتائج نکالوں گا چنانچہ وہاں پروگرام بنائے.پھر میں لندن آیا تو میں نے جماعت کے دوستوں سے کہا کہ مجھے اللہ تعالٰی کا یہ منشاء معلوم ہوا ہے کہ کہ ان چھ افریقی ممالک میں تم کم از کم ایک لاکھ پونڈ خرچ کرو....اس سلسلہ میں انگلستان کی جماعتوں میں سے.مجھے دو سو ایسے مخلص آدمی چاہئیں جو دو سو پونڈ فی کس کے حساب سے دیں اور باقی جو ہیں وہ ۳۶ پونڈ دیں.ان میں سے بارہ پونڈ....فوری طور پر دے دیں.میں نے انہیں کہا کہ قبل اس کے کہ میں ان انگلستان چھوڑ دوں اس مد میں دس ہزار پونڈ جمع ہونے چاہئیں اور اس وقت انگلستان سے روانگی میں بارہ دن باقی تھے.چنانچہ دوستوں کے درمیان
530 ہو tt صرف دو گھنٹے بیٹھا.ایک جمعہ کے بعد اور دوسرے اتوار کے روز جس میں اور نئے آدمی بھی آئے ہوئے تھے اور ان دو گھنٹوں میں ۲۸ ہزار پونڈ کے وعدے ہو گئے تھے اور ۱۳ اور ۴ ہزار پونڈ کے درمیان نقد جمع گئے تھے.میں نے پھر اپنے سامنے نیا اکاؤنٹ کھلوایا اور اس کا نام نصرت جہاں ریزرو فنڈ رکھا ہے میں نے جمعہ کے خطبہ میں انہیں کہا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ ہم یہ رقم خرچ کریں اور ہسپتالوں اور سکولوں کے لئے جتنے ڈاکٹر اور ٹیچر چاہئیں وہاں مہیا کریں...مجھے یہ خوف نہیں ہے کہ یہ رقم آئے گی یا نہیں یا آئے گی تو کیسے آئے گی.یہ مجھے یقین ہے کہ ضرور آئے گی.اور نہ یہ خوف ہے کہ کام کرنے کے لئے آدمی ملیں گے یا نہیں ملیں گے.یہ ضرور ملیں گے کیونکہ خدا تعالٰی نے کہا ہے کہ کام کرو.خدا کہتا ہے تو یہ اس کا کام ہے لیکن جس چیز کی مجھے فکر ہے اور آپ کو بھی فکر کرنی چاہئے وہ یہ ہے کہ محض خدا کے حضور قربانی دے دینا کسی کام نہیں آتا جب تک اللہ تعالیٰ اس قربانی کو قبول نہ کرلے...وہاں افریقہ میں بچوں نے ایک نظم پڑھی تھی پوری تو مجھے یاد نہیں عربی میں ہے اور بہت ہی اچھی ہے بچوں کے نرم نرم ہونٹوں سے بڑی پیاری لگتی تھی سے یا این آدم المال مالی والجنة جنتى و انتم عبادی یا عبادی اشتروا جنتی بمالی یعنی اے آدم کے بیٹو! مال بھی میرا ہے اور جنت بھی میری ہے اور تم بھی میرے بندے ہو.اے میرے بندو! میں تم پر یہ احسان کرتا ہوں کہ جو میری جنت ہے وہ میرے اس مال سے خرید لو جو میں نے تمہیں دیا ہے......فکر یہ ہونی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری سعی کو سعی مشکور بنا دے.یہ
531 نہ ہو کہ خدا نخواستہ کہیں ہماری کسی غلطی یا غفلت یا گناہ یا برائی یا کسی وقت کے تکبر کے نتیجہ میں وہ دھتکار دی جائے.امام رفیق صاحب نے مجھے کہا وقت تھوڑا ہے اور آپ نے اتنی بڑی رقم جماعت کے ذمہ لگا دی ہے جو فضل عمر کے ٹوٹل کے دگنی سے بھی زیادہ ہے اور جسے انہوں نے تین سال کی کوششوں کے بعد اکٹھا کیا ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بڑے دورے کئے.ہمارے شیخ مبارک احمد صاحب بھی مہینہ ڈیڑھ مہینہ وہاں رہ کر آئے اور دورے کئے تب جا کر تین سال میں ۲۱ ہزار پونڈ جمع ہوئے اور میں نے دو گھنٹے میں جو خطاب کیا تھا ان دو گھنٹوں کے اندر اسی وقت ۲۷ ۲۸ ہزار پونڈ کے وعدے اور نقد رقم جمع ہو گئی.یہ اللہ تعالی کی طرف سے تھا.میری طرف سے نہیں تھا لیکن اس کرسی اور مقام کی اللہ تعالیٰ غیرت رکھتا ہے جس مقام پر اس نے مجھے بٹھا دیا ہے.امام صاحب مجھے کہتے تھے کہ یہ رقم جمع نہیں ہوئی.آپ مجھے مهلت دیں میں دورے کروں گا اور یہ دس ہزار پونڈ کی رقم جمع کروں گا.میں یہ سن کر ہنس پڑا.میں نے انہیں کہا کہ میں ایک دن کی بھی مہلت نہیں دوں گا اور رقم جمع ہو جائے گی.خدا تعالیٰ مجھے کہے اور میں وہ بات آپ تک پہنچاؤں اور وہ کام نہ ہو.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا.جس دن میں وہاں سے چلا اس دن ان رقوم کو نکال کر جن کی اطلاع ہمیں مل چکی تھی کہ وہ مختلف شہروں سے چل پڑی ہے دس ہزار چار پچاس کے لگ بھگ نقد اس مد میں جمع ہو چکے تھے اور اگر ان رقوم کو بھی ملایا جائے جن کی اطلاع ہمیں مل چکی تھی تو پھر گیارہ ہزار بلکہ اس سے بھی زیادہ کی رقم عملاً جمع ہو چکی تھی اور میرا اندازہ ہے کہ ایک مہینے کے اندر اندر وہ پندرہ ہزار سے اوپر نکل جائیں گے.۲۴ ۹ جون ۱۹۷۰ء کو مجلس عرفان میں فرمایا :.سو
532 "پاکستان میں مجھے دو سو (۲۰۰) ایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو پانچ ہزار روپیہ فوری طور پر ادا کریں.فوری سے میری مراد چند مہینوں کے اندر ادا کرنا ہے....اور دو سو ایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو دو ہزار کا وعدہ کریں اور ایک ہزار فوری ادا کر دیں اور....باقی کی رقم تین سال پر پھیلا کر سہولت کے ساتھ ادا کریں.نیز ایک ہزار ایسے مخلصین کی ضرورت ہے جو پانچ صد فی کس ادا کریں.یہ تینوں گروہ صف اول صف دوم صف سوم کے ہوں گے ۲۵.اسی طرح حضور نے فرمایا:.وو " " حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ تمام اقوام عالم کو رسول کریم میں کے جھنڈے تلے ایک وحدت میں منسلک کرنے کے لئے اس وقت جو عظیم مہم جاری ہے اس کا ایک محاذ مغربی افریقہ ہے جہاں پر خلافت حقہ کے ذریعے آسمانی نشانات اور الہی تائید و نصرت کے بہت سے نشانات ظاہر ہو رہے ہیں.اس وقت غلبہ اسلام کی مہم جس اہم اور نازک دور سے گزر رہی ہے اس کا یہ تقاضا ہے کہ ہم مالی اور جانی میدان میں انتہائی قربانیاں پیش کریں تاکہ جو کامیابی ہمارے لئے مقدر ہے اور جس کے آثار ہمیں اب نظر آ رہے ہیں اسے ہم بہت جلد اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکیں، اس حضور نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ کل جماعت نصرت جہاں ریزرو فنڈ میں اتنی رقم دے دے جتنے سال حضرت مصلح موعود کی خلافت کے بنتے ہیں.حضور نے فرمایا:.افریقہ میں لڑی جانے والی جنگ کو جیتنے کے لئے ہم پر بہت بھاری ذمہ داری بھائد ہوتی ہے.اس سلسلہ میں بہت ساری باتیں پہلے بیان کر چکا ہوں مثلاً نصرت جہاں ریزرو فنڈ قائم کیا گیا ہے.ہمیں ڈاکٹروں کی
533 ضرورت ہے.ہمیں ٹیچروں کی ضرورت ہے.ہمیں بڑی دعائیں کرنی چاہئیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر تو کچھ نہیں ہو سکتا جب اللہ تعالیٰ فضل کرے اور اپنے پیار کا جلوہ دکھائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی ۲۷ نصرت جہاں سکیم کا نام اور غیر معمولی تائید و نصرت حضرت خلیفہ المسیح الثالث" کے دل میں مغربی افریقن ممالک کی خدمت کے لئے خرچ کرنے کا جو القاء گیمبیا کے مقام پر ہوا اور جو منصوبہ اللہ تعالیٰ نے حضور کو سمجھایا اس کا نام حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شریک حیات حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کے نام پر نصرت جہاں آگے بڑھو منصوبہ " رکھا حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم کے متعلق حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں.” میری یہ بیوی جو آئندہ خاندان کی ماں ہو گی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاول کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہانوں کی مدد کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی عادت ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی " پیشگوئی مخفی ہوتی ہے" غرض یہ وہ منصوبہ ہے جو سارے جہان میں اسلام کی نصرت کا باعث ثابت ہو گا.اس لئے حضور نے اس سکیم کے لئے حضرت نصرت جہاں بیگم کے لخت جگر اور اپنے مقدس والد اور پیشرو خلیفہ کی خلافت کی مدت کے برابر رقم کی خواہش فرمائی اور اللہ ย تعالٰی نے حضور کی خواہش کو پورا فرمایا.چنانچہ حضور نے فرمایا:.نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے وقت بہت سے دوستوں کا یہ خیال تھا که شاید میری یہ خواہش پوری نہ ہو سکے گی کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ کی خلافت کے جتنے سال ہیں اتنے لاکھ روپے جمع ہو جائیں مگر جماعت نے اس فنڈ میں بڑی قربانی دی چنانچہ میری خواہش تو ۵۱ لاکھ روپے کی
534 تھی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل سے پچھلے سالوں میں قریباً ۵۳ لاکھ روپے جمع ہو چکے ہیں فالحمد للہ علی ذالک ۲۹ " جس والہانہ انداز میں جماعت کے افراد نے حضور کی اس تحریک پر لبیک کہا اور جس طرح اللہ تعالی کی تائید و نصرت شامل حال ہوئی اس کی ایک جھلک اس واقعہ سے محسوس کی جاتی ہے جو حضور نے ہی ایک مرتبہ بیان فرمایا کہ فرمایا :- " میں نے اس ریز رو فنڈ کے وعدہ جات کے سلسلہ میں احباب کو ایک بار یاد دہانی کرائی تھی جس کے جواب میں ابھی چار پانچ دن ہوئے لندن سے ایک احمدی دوست کا خط آیا ہے جس میں لکھا ہے کہ میں نے کچھ رقم اپنی شادی کے لئے جمع کی ہوئی ہے.اب آپ کا خط مجھے ملا ہے اور میں نے یہ رقم نصرت جہان ریز رو فنڈ میں دے دی ہے اور اپنی شادی ملتوی کر دی ہے.پس اس قسم کی قربانیاں دینے والے لوگوں کے چندہ سے نصرت جہاں ریزرو فنڈ بنا ہے؟ ۰ نصرت جہاں کی سکیم ۱۹۷۰ء میں میں نے جاری کی تھی اور جلسہ سالانہ پر اس کا اعلان کیا تھا.اس وقت اپنے حالات کو دیکھ کر یہ خیال تھا کہ سات سال میں یا بہت ہی جلد کر سکے تو پانچ سال میں میں اپنا وعدہ پورا کر سکوں گا.میں نے دعائیں کیں.جماعت نے دعائیں کیں.اللہ تعالیٰ فضل کرنے والا ہے.وہ منصوبہ جس کے متعلق ہمارے اندازے تھے کہ وہ سات سال میں مکمل ہو گا خدا تعالیٰ کے فضل سے ڈیڑھ دو سال میں مکمل ہو گیا اور اس کا بڑا اثر ہوا.ایک امریکن مجھے نانا میں ملے وہ وہاں کے قبائلی Customs ان کی روایات اور رہن سہن کے طریقوں پر.PH.D کے لئے اپنا مقالہ لکھ رہے تھے.وہ ڈیڑھ سال کے بعد یہاں آئے وہ کہنے لگے کہ میں صرف یہ دیکھنے آیا ہوں کہ یہ جماعت کس چیز سے بنی ہوئی ہے.مجھ
535 سے تو بات نہیں کی.لیکن بعض دوستوں سے انہوں نے کہا کہ اگر امریکہ یہ وعدہ کرتا تو ڈیڑھ دو سال میں وہ اپنا یہ وعدہ پورا نہ کر سکتا لیکن جماعت احمدیہ نے اسے پورا کر دیا.بات یہ ہے کہ ہم اس مٹی سے بنے ہوئے ہیں جو دنیا کی نگاہ میں حقیر ہے لیکن خدا کے ہاتھ میں اس کا آلہ بن چکی ہے.خدا تعالیٰ فضل کرتا ہے اور کامیابیاں عطا کرتا ہے ورنہ ہم کیا اور ہماری بساط کیا اور ہمارے مال کیا اور ہماری عقلیں اور فراست کیا نتیجے اور تدابیر اور کوشش کا آپس میں کوئی مقابلہ نہیں ہے اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ حضور نے تو ایک لاکھ پونڈ کا مطالبہ کیا تھا اور فرشتوں نے مخلصین جماعت کو کچھ اس طرح تحریک کی کہ انہوں نے اڑھائی لاکھ پونڈ یعنی ۵۳ لاکھ روپے کی رقم حضور کے قدموں میں لا ڈالی اور اس سے جو عظیم ا الشان کام ہوئے ان کی اس سرمائے سے کوئی نسبت ہی نہیں.جس سرعت سے سکول اور ہسپتال اس سکیم کے تحت کھل گئے اس پر دنیا حیرت میں پڑ گئی حضور نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :." اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل خاص کے نتیجہ میں انگلستان کی جماعت ہائے احمدیہ کو ایک بہت بڑی سعادت بخشی اور وہ یہ کہ ۱۹۷۰ء میں جب میں مغربی افریقہ کے ممالک کا دورہ کرتا ہوا گیمبیا پہنچا وہاں اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں ڈالا کہ وقت آگیا ہے کہ افریقہ میں خدمت اور اصلاح و ارشاد کے کام میں تیزی پیدا کرنے کے لئے کم از کم ایک لاکھ پونڈ خرچ کرو چنانچہ سب سے پہلے اس کی تحریک میں نے افریقہ سے انگلستان پہنچ کر کی اور سب سے پہلے انگلستان کی جماعتوں کو اس ، تحریک پر لبیک کہنے کی سعادت علی....ان دنوں گھانا کے شہر ٹیچی مان میں جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ہماری بڑی جماعت ہے ایک امریکن ریسرچ کر رہا تھا.جب میں گیمبیا سے سیرالیون آیا تو اس وقت وہ
536 امریکن بھی غانا سے سیرالیون آیا ہوا تھا.ہماری جماعت کے جلسہ میں وہ بھی موجود تھا.پانچ سات سال کے اندر مغربی افریقہ کے ملکوں میں ہسپتال اور سکول کھولنے کی وعدے کا اسے بھی علم ہوا.۱۹۷۲ء میں سفر کرتا کراتا وہ پاکستان آیا.ربوہ آکر وہ مجھ سے ملا اور بعض اور دوستوں سے بھی اس کی ملاقات ہوئی، اس نے دوستوں سے دو سال کے اندر اندر ہسپتالوں اور سکولوں کے قیام پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ”اگر دنیا کی بڑی سے بڑی حکومت بھی یہ وعدہ کرتی تو اتنی جلدی اسے وہ بھی پورا نہ کر سکتی" حضور نے فرمایا یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جس نے ہمیں قلیل مدت میں وعدہ پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائی اگر خدا کا فضل شامل حال نہ ہو تا تو ہم اتنا بڑا وعدہ پورا کرنے میں کبھی کامیاب نہ ہو سکتے ۳۲ نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے ذریعے اللہ تعالی سے تجارت بعض لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" نصرت جہاں ریزرو فنڈ کو بھی فضل عمر فاؤنڈیشن کے ریزرو فنڈ کی طرح ریزرو میں رکھ کر اس کے منافع کو استعمال میں لائیں گے.لیکن حضور نے اس ساری رقم کو مغربی افریقہ کے ممالک میں ان پس ماندہ قوموں کی محبت اور خدمت میں سکول اور ہسپتال کھولنے پر صرف کرنے کا فیصلہ فرمایا.چنانچہ حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۷۵ء پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:." جلسہ سالانہ ۱۹۷۰ء کے موقع پر میں نے اس کی تحریک کی تھی.شروع میں کم رقم کی تحریک کی تھی لیکن بعد میں میں نے کہا کہ حضرت مصلح موعود میں ایشین کی خلافت کے جتنے سال ہیں اتنے لاکھ روپیہ جمع کر دے.اللہ تعالیٰ نے جماعت کو توفیق دی اور جماعت نے اس میں ۵۳ لاکھ ۵۳ ہزار روپے ادا کئے..دوست فضل عمر فاؤنڈیشن میں مختلف کمپنیوں کے حصص خرید کر اس
537 کے نفع سے دینی کام کرنا چاہتے تھے انہوں نے مجھے یہی مشورہ دیا.میں نے انہیں کہا کہ بات یہ ہے کہ جس سے میں تجارت کر رہا ہوں وہ تو آٹھ فیصد یا دس فیصد یا بارہ فیصد نفع نہیں دیتا.اور کمپنیوں میں تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ دو سال نفع دیں اور تیسرے سال گھاٹا ظاہر کریں لیکن جس سے میں تجارت کرنا چاہتا ہوں وہ تو بغیر حساب دینے والا ہے.پس میں تو اسی سے تجارت کروں گا.چنانچہ کئی آدمیوں کی طبیعتوں میں انقباض پیدا ہوا کہ ۵۳ لاکھ کا سرمایہ ہو اور میں کہوں کہ ضرورت کے مطابق خرچ کرتے چلے جاؤ.کئی دوستوں نے سوچا کہ یہ کیا ہو گا.بعض مجھ سے دبی زبان میں ذکر کر دیتے تھے کہ بعد میں کیا کریں گے اس طرح تو روپیہ ختم ہو جائے گا لیکن جس سے میں نے تجارت کی (اللہ اکبر) اس نے ہمارے اعتماد کو اس طرح پورا کیا کہ افریقہ میں ہسپتالوں کی خالص بچت ملا کر نصرت جہاں ریزرو فنڈ کی کل وصولی ایک کروڑ ستاسی لاکھ روپیہ ہوئی جب پادری وہاں گیا تو وہ ان کی دولتیں لوٹ کر واپس لے آیا لیکن جب محمد علی الا اللہ کے اونی غلام وہاں پہنچے تو وہ باہر سے بھی ان کے پاس روپیہ لے کر گئے اور جو کچھ انہوں نے وہاں کمایا وہ بھی انہی پر خرچ کر دیا.ایک دھیلا بھی وہاں سے باہر لے کر نہیں گئے " ۳۳.اسی طرح حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۸۱ء کے موقع پر نصرت جہاں ریزرو فنڈ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.احباب جماعت نے ۵۳ لاکھ روپے کی قربانی پیش کی تو دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اس رقم کو ریزرو میں رکھیں.اس سے جو منافع ملے اسے استعمال میں لائیں...میں نے پوچھا کتنا منافع مل سکے گا.بتانے والوں نے بتایا کہ ۱۲ سے ۱۴ فیصد منافع مل سکے گا.اس پر میں نے کہا کہ میں جس سے تجارت کر رہا ہوں اس نے مجھے کہا ہے کہ میں بے حساب دوں گا.....
538 اس کا کل ابتدائی سرمایہ ۵۳ لاکھ روپے تھا اور اس سال نصرت جہاں کا بجٹ تین کروڑ روپے سے زائد ہے.ہم نے کتنی قربانی دی اور اللہ تعالٰی نے اسے بڑھا کر کہاں کا کہاں پہنچا دیا.اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں سکیم کے تحت قائم ہونے والے ہسپتالوں کے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں شفا رکھ دی...کیا کوئی منڈی ایسی آپ کے علم میں ہے جہاں شفا بکتی ہو! میرے علم میں ہے.وہ اللہ کی منڈی ہے h جہاں سے سب کچھ مل جاتا ہے" ۳۴ غرض حضور نے نصرت جہاں ریزرو فنڈ سے خالصتاً اللہ تعالیٰ سے تجارت کرنے کا ارادہ کیا اور اللہ تعالٰی نے اس میں غیر معمولی برکت رکھ دی.افریقی اقوام کے لئے محبت کا پیغام اور جذبہ محبت و خدمت کے تخت سکولوں اور ہسپتالوں کا اجراء افریقی اقوام مدتوں سے محبت سے محروم اور احساس کمتری کا شکار رہی ہیں اور دنیا کی تمام قوموں میں سب سے زیادہ پسماندہ اور نفرت کا نشانہ بن چکی تھیں.انہیں ہر لحاظ سے نظر انداز کیا گیا حضرت مصلح موعود نے حضرت مسیح موعود کی تعلیم ++ " ارم میرا مقصود و مطلوب و تمنا خدمت خلق است" کے مطابق ان کی پسماندگی اور پستی دور کرنے کے لئے ان ممالک میں سکولوں اور دکھوں اور بیماریوں میں مبتلا بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے ہسپتالوں کا آغاز فرمایا تھا.حضرت خلیفہ المسیح الثالث " اپنے دورہ مغربی افریقہ کے دوران نہ صرف ان قوموں کے لئے محبت کا پیغام لے کر گئے بلکہ مغربی افریقہ میں سکولوں اور ہسپتالوں میں غیر معمولی اضافے اور وسعت پیدا کرنے کا وعدہ کر کے واپس تشریف لائے اور اس کے لئے نصرت جہاں سکیم کا اجراء فرمایا.حضور نے 1920ء کے دورہ کے دوران ان اقوام کو مخاطب کر کے ان کی ہی نسل کے ایک صحابی سیدنا حضرت بلال کے حوالے سے رض
539 اپنے جذبات کی یوں ترجمانی کی.فرمایا :- فتح مکہ کے روز حضرت نبی اکرم صلی کلیم نے ایک جھنڈا تیار کیا اور آپ نے جھنڈے کا نام بلال کا جھنڈا رکھا اور اس کو ایک مقام پر گاڑ دیا اور سرداران مکہ سے کہا کہ اگر تم امان چاہتے ہو تو اس شخص کے جھنڈے تلے جمع ہو جاؤ جس کو تم نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھا کرتے تھے اور جس پر تم بے انتہا ظلم کیا کرتے تھے.اس طرح پر اس مظلوم بلال " کا انتقام لیا ایک حسین انتقام جسے میں انگریزی میں Sweet Revenge کہہ دیا کرتا تھا.یہ میری اپنی اصطلاح ہے لیکن مجھے پسند ہے" مزید فرمایا :- وو.یہ درست ہے کہ آج سے چند صدیاں قبل مسیحیت تمہارے ملکوں میں نعرے لگاتے ہوئے داخل ہوئی تھی کہ ہم پیار کا Love کا پیغام لے کر آ رہے ہیں لیکن محبت کے اس پیغام کے جھنڈے ان توپوں پر گاڑے گئے تھے جو یورپ کی مختلف اقوام کی فوجوں کے پاس تھیں اور ان توپوں کے مونہوں سے گولے برسے، پھول نہیں برسے اور وہ محبت کا پیغام کامیاب نہیں ہوا نہ اسے ہونا چاہئے تھا نہ وہ ہو سکتا تھا کیونکہ اس سے بہتر اس سے زیادہ پیارا پیغام محمد رسول اللہ علیہ کے ذریعہ دنیا کی طرف نازل ہو چکا تھا.اب ہم تمہارے پاس محبت کا پیغام : لے کر آئے ہیں ۳۵ اس محبت کا عملی ثبوت حضور نے نصرت جہاں سیکیم کے اجراء سے دیا اور دورہ سے واپسی پر لندن میں سکیم کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:." مجھے یہ فکر نہیں کہ یہ رقم کہاں سے آئے گی کیونکہ جب اللہ تعالیٰ کا یہ منشاء ہے کہ خرچ کیا جائے تو انشاء اللہ ضرور دے گا.یہ رقم مجھے ملے گی.مجھے کوئی فکر نہیں.
540 مزید برآں مجھے کام کرنے کے لئے فوری طور پر تھیں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے اور اساتذہ اس کے علاوہ ہیں.یہ بھی مجھے فکر نہیں کہ رضا کار واقف ملیں گے یا نہیں ملیں گے.یہ تو اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ یہاں کام کیا جائے.جس چیز کی مجھے فکر ہے اور آپ کو بھی ہونی چاہئے وہ یہ ہے کہ محض خدا کے حضور مالی قربانی پیش کر دینا کوئی چیز نہیں جب تک وہ مقبول نہ ہو.اس واسطے آپ بھی دعا کریں اور میں بھی کروں گا کہ یہ سعی مشکور ہو.خدا تعالیٰ اس حقیر سی قربانی کو قبول فرمائے ہس نصرت جہاں منصوبہ کے تحت کھلنے والے سکول اور ہسپتال حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۸۰ء کے موقع پر فرمایا:." نصرت جہاں سیکیم کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم الشان کامیابی عطا کی ہے کہ ساری دنیا کے دماغ مل کر بھی اس کا تصور نہیں کر سکتے " س حضرت خلیفة المسیح الثالث" کے دور خلافت میں کھلنے والے سکولوں اور ہسپتالوں کی ہے فہرست درج ذیل ہے.سکولوں کی فہرست سیرالیون (SIERALEON) احمد یہ سیکنڈری سکول روکو پور (1) (Ahmadiyyya Secondary school Rokupr) نصرت جہاں سیکنڈری سکول ماسنگبی (2) (N.J.Secondary School Masingbi) ٹمیوڈو گرلز سیکنڈری سکول ٹمبوڈو (3) (Tumbodo Girls Secondary School Tumbodo)
541.(1).(Adan siman Ahmadiyya secondary School Fomena) غانا (GHANA) ادان سیمان احمدیہ سیکنڈری سکول فومینا تعلیم الاسلام احمد یہ سیکنڈری سکول سلاگا اکو مفی احمدیہ سیکنڈری سکول ایسار کیار تعلیم الاسلام سیکنڈری سکول گوموا پوٹسن (2) (T.I.Ahmadiyya Secondary School Salaga) (3) (Ekomfi Ahmadyyia secondary School Essarkyir) (4)(T.i.Ahmdiyya Secondary School Gomoa' Potsin) (5)-(N.J.Girls Academy WA) نصرت جہاں گرلز اکیڈیمی وا تعلیم الاسلام احمد یہ سیکنڈری سکول اسکورے (6) (T.I.Ahmadiyya Secondary School Asokore) لائبیریا (LIBERIA) نصرت جہاں احمدیہ ہائی سکول سانو.یہ N.J.Ahmadiyya High School Sanoyea گیمبیا (GAMBIA) نصرت جہاں احمد یہ ہائی سکول بھے (N.j.Ahmadiyya High School Basse).نائیجیریا (NIGERIA) احمدیہ ہائر سیکنڈری سکول منا (Ahmadiyya Higher Secondary School Minna
542 فضل عمر احمد یہ سیکنڈری سکول گوساؤ (F.O.Ahmadiyya Secondary School Gosau مذکورہ دونوں سکول قومیائے Nationlized جاچکے ہیں احمد یہ مسلم ہائی سکول اگیا ہے (Ahmadiyya Muslim High School Agbage) آئیوری کوسٹ (IVORY COAST) اس ملک میں ابھی تک سکول نہیں کھولا جا سکا البتہ کوشش جاری ہے ہسپتالوں کی فہرست سیرالیون (SIERALEON) احمد یہ نصرت جہاں کلینک رو کو پر احمدیہ نصرت جہاں کلینک بواجے بو احمد یہ نصرت جہاں کلینک ما سنگبی احمد یہ نصرت جہاں کلینک جو رو غانا (GHANA) (Ahmadiyya N.J.Clinic Rokupr) (Ahmadiyya N.J.Clinic Boaji-bo) (Ahmdiyya.N.J.Clinic Masingbi) (Ahmadiyya N.J.Clinic Joru) احمدیہ ہسپتال اسکورے احمدیہ ہسپتال کو کو فو (Ahmadiyya Hospital Asokore) (Ahmadiyya Clinic Kokufu)
543 احمدیہ ہسپتال ٹیچی مان احمدیہ ہسپتال سویڈ رو گیمبیا (GAMBIA) احمد یہ میڈیکل سنٹر سے (Ahmadiyya Hospital Techiman) (Ahmadiyya Hospital Swedru} نصرت جہاں ٹی بی اینڈ میڈیکل سنٹر بانجل احمد یہ ڈینٹل سرجری بانجل احمدیہ میڈیکل سنٹر جوارا احمد یہ میڈیکل سنٹر بریکاما (Ahmadiyya Madical Center Basse) (N.J.T.B.And Medical Center Banjul) (Ahmadiyya Dental sergery Banjul) (Ahmadiyya medical Center Jawara) (Ahmadiyya Medical Centre Brikama) نائیجیریا (NIGERIA) احمدیہ کلینک بو کو رو (Ahmadiyya Clinic Bukuru) (Ahmadiyya Hospital Ajebo-Ode) (Ahmadiyya Hospital Abadan) احمدیہ ہسپتال اجیبو اوڈے احمدیہ ہسپتال ابادان لائبیریا (LIBERIA) لائبیریا میں ایک ہسپتال کھل چکا ہے.
544 آئیوری کوسٹ (IVORY COAST) آبی جان کے مقام پر ایک ہسپتال کھل چکا ہے.نصرت جہاں سکیم اور معاندین کا رد عمل نصرت جہاں سکیم کے ذریعے افریقہ میں ہونے والے غیر معمولی انقلاب کو احمدیت کے معاندین نے حسد اور غیض و غضب کی نگاہ سے دیکھا اور افریقہ میں بھی اور پاکستان میں بھی اپنا مخالفانہ رد عمل ظاہر کیا.پاکستان میں جو ردعمل ہوا اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:.” ہماری اس سکیم کا اس وقت تک جو مخالفانہ رد عمل ہوا ہے وہ بہت دلچسپ ہے اور آپ سن کر خوش ہوں گے.اس وقت تک میری ایک Source سے یہ رپورٹ ہے....کہ جماعت اسلامی کی مجلس عاملہ نے یہ ریزولیوشن پاس کیا ہے کہ ویسٹ افریقہ میں احمدیت اتنی مضبوط ہو چکی ہے کہ وہاں ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے اس واسطے پاکستان میں ان کو کچل دو تاکہ وہاں کی سرگرمیوں پر اس کا اثر پڑے اور جماعت کمزور ہو جائے.بالفاظ دیگر جو ہمارا حملہ وہاں عیسائیت اور شرک کے خلاف ہے اسے کمزور کرنے کے لئے لوگ یہاں سکیم سوچ رہے ہیں.ویسے وہ تلوار اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کسی مخالف کو نہیں دی جو جماعت کی گردن کو کاٹ سکے البتہ افراد کو تو بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے ۳۸ افریقہ میں اس سکیم کا ناکام کرنے کے لئے بھی مخالفین نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن اللہ تعالٰی کی مدد اور نصرت ہمیشہ جماعت کے شامل حال رہی.مخالفین کا جہاں بھی بس چلا انہوں نے اس سکیم کو ناکام کرنا چاہا.بعض دفعہ
545 ہسپتال بند کروائے لیکن بالاخر ان کو ناکام ہونا پڑا اور حضرت خلیفہ المسیح الثالث " کی جاری کردہ سکیم کامیابی کی منزلیں طے کرتی چلی گئی.حضور نے مخالفتوں کا کئی بار ذکر کیا.ایک موقع پر فرمایا :." پھر نصرت جہاں ریزرو فنڈ کا منصوبہ ہے جس کے تحت کئی ہسپتال بن گئے ہیں، سکول کھل گئے ہیں.اس عرصہ میں کئی مخالفانہ روکیں پیدا ہوئیں.ہمارے صبر کی آزمائش ہوئی.پھر ہم پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا نزول ہوا.بعض متعصب افسروں کی وجہ سے.وہ ملک متعصب نہیں لیکن بیچ میں کوئی بیجیئم کا باشندہ یا بنگال کا متعصب ہندو آ جاتا ہے، ایک جگہ ہمارا ہسپتال نو مہینے تک بند پڑا رہا.لوگوں نے ہمارے ڈاکٹر کو مشورہ دیا کہ تم اس ملک سے چلے جاؤ.اس نے مجھے لکھا تو میں نے کہا آرام سے بیٹھے رہو کہ یہ مقابلہ ہمارے صبر اور ہمت کا اور ان کے تعصب کا ہے.ان کا تعصب کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور اس کی رحمت سے ہمارا صبر اور ہماری قوت برداشت ہی بالاخر کامیاب ہوئی.چنانچہ ہم نے نو مہینے تک ڈاکٹر اور اس کے سٹاف کو فارغ نہیں کیا.میں نے ہدایت کی تھی کہ سب کو تنخواہیں دیتے چلے جاؤ.ہمیں خدا تعالیٰ دیتا ہے تو تم بھی لوگوں کو دیتے چلے جاؤ.اگر متعصب لوگ یہ تماشا دیکھنا چاہتے ہیں تو یہ بھی دیکھ لیں کہ خدا تعالیٰ کی جماعت کا قدم پیچھے نہیں بنا کرتا.چنانچہ نو مہینے کے بعد اب وہاں کی حکومت نے ہسپتال کی اجازت دے دی ہے".(خطبه جمعه فرموده ۵ اپریل ۱۹۷۴ء) نصرت جہاں منصوبہ کی غیر معمولی مقبولیت نصرت جہاں منصوبہ کو جو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی اور جس طرح عیسائیت سے ہٹ کر احمدیت کے حق میں وہاں کے لوگوں کی رائے بدلی اس کا اندازہ بعض
546 عمائدین ، صدران مملکت، وزراء اور بڑی شخصیتوں کے اعتراف حقیقت سے کیا جا سکتا ہے جس کا اظہار انہوں نے مختلف مواقع پر کیا.عیسائیوں نے وہاں اپنی شکست تسلیم کی اور ایک دنیا نے اس کی شہادت دی.وہاں جو برکت اللہ تعالٰی نے نصرت جہاں کے ہسپتالوں اور سکولوں میں عطا فرمائی اس کا ذکر حضور نے کئی مواقع پر فرمایا کہ کس طرح بڑے بڑے امراء عالیشان سرکاری ہسپتال چھوڑ کر علاج معالجے کے لئے نصرت جہاں کے ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں.احمدی ڈاکٹروں کے ہاتھوں میں شفاء ایک موقع پر حضور نے فرمایا:.مغربی افریقہ میں "نصرت جہاں آگے بڑھو" کی جو سکیم ۱۹۷۰ء میں تیار کی گئی تھی....وہاں اللہ تعالیٰ نے ہمارے ہسپتالوں میں اتنی برکت ڈالی اور ہمارے ڈاکٹروں کے ہاتھ میں اس قدر شفا رکھی کہ وہاں کے امراء (یعنی بہت امیر لوگ جو Millionairs کہلاتے ہیں) ہمارے پاس آنے کے لئے مجبور ہوئے حالانکہ اچھی اچھی عمارتوں والے ہسپتال تھے جن میں غیر ممالک کے یورپین اور امریکن ڈاکٹر کام کر رہے تھے ان ہسپتالوں کو چھوڑ کر ہمارے پاکستانی احمدی ڈاکٹروں کے پاس آنے لگ گئے اور بڑی بڑی رقمیں فیس میں دیں ۳۹ ای طرح فرمایا :- " شروع میں ہمارے ڈاکٹر کے پاس ایک کچا مکان تھا.اب تو خیر اللہ تعالیٰ نے ۱۴ ہسپتالوں کی عمارتیں بنا دیں، باقی بن رہی ہیں.یہ سارے ہسپتال Full Fledged بن چکے ہیں لیکن جس وقت بالکل کچی پکی عمارتیں تھیں اس وقت بھی امیر وہاں آ جاتا تھا.حکومت کا وزیر وہاں آ جاتا تھا.حکومت کے سربراہ کی بیوی ایک دن اپنے رشتہ دار لے کر ہمارے HUT میں پہنچ گئی.کئی لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا؟ ان کو خدا
547 نے سمجھ بھی دی ہے.مثلاً ایک وزیر سے کسی نے پوچھا کہ تمہیں تو بہت سہولتیں ہیں.اس نے کہا ٹھیک ہے میں وزیر ہوں اور مجھے اپنی حکومت کے ہسپتال میں ہر قسم کی سہولت ہے عمارت اچھی، کمرے اچھے ، نزمیں اچھی ، کھانے کا انتظام اچھا میری دیکھ بھال اچھی، ڈاکٹر اچھے یورپ کے پڑھے ہوئے ، سارا کچھ ہے لیکن میں نے دیکھا ہے کہ شفاء وہاں نہیں ملتی ، شفا ان کے پاس آکر ملتی ہے اس لئے میں یہاں آ جاتا ہوں.وہاں جو شفا ملتی ہے وہ خدا تعالیٰ نے اسلام کے نام کو بلند کرنے کے لئے جو منصوبہ بنایا ہے اس کے ماتحت آتی ہے وہی سکولوں کے اثرات ' حضور نے سکولوں کے غیر معمولی اثرات کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرمایا:." مغربی افریقہ کے ممالک میں پہلے یہ حالت تھی کہ مسلمانوں کا کوئی ایک پرائمری سکول بھی نہ تھا.سارے سکول عیسائی مشنوں کے ہوتے مسلمان بچے بھی انہی کے سکولوں میں پڑھنے پر مجبور تھے.وہ براہ راست بائیبل کی تعلیم دیئے بغیر ان کا عیسائی نام رکھ کر انہیں چپکے سے عیسائی بنا لیتے تھے.جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے وہاں پرائمری مڈل ہائی سیکنڈری سکول کھولنے کی توفیق دی اس طرح وہاں مسلمان بچوں کی تعلیم کا انتظام ہوا.نصرت جہاں منصوبہ کے تحت سولہ نئے ہائر سیکنڈری سکول کھولنے کا وعدہ کیا تھا خدا تعالیٰ نے وہاں اس سے زیادہ تعداد میں سکول کھولنے کی توفیق عطا کر دی.غلبہ اسلام کی مہم کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے مضبوط بنیادوں کی ضرورت تھی سو اللہ تعالیٰ نے نصرت جہاں منصوبہ کے تحت یہ بنیادیں فراہم کر دیں اک
548 عمائدین کی آراء مغربی افریقہ کے عمائدین کی جماعت کے بارے میں جو رائے قائم ہو چکی ہیں ان کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے.صدر جمهوریه سیرالیون صدر جمہوریہ سیرالیون ڈاکٹر سٹیونس نے ۲.دسمبر ۱۹۷۱ء کو احمد یہ سیکنڈری سکول بو کے معائنہ کے وقت تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا.میں سب سے پہلے جماعت احمدیہ کا اس کام کے لئے جو یہ تعلیم کے میدان میں کر رہی ہے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں.اب اس جماعت نے تعلیم کے ساتھ ساتھ طبی میدان میں بھی ہماری مدد کرنی شروع کر دی ہے میں ان تمام گراں قدر خدمات کے لئے جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں" ریجنل کمشنر غانا غانا میں ۱۹۷۴ء میں احمدیہ ہسپتال اگونا کی نئی عمارت کا افتتاح کرنے سے قبل ریجنل کمشنر نے تقریر کرتے ہوئے کہا." میں گورنمنٹ کی طرف سے جماعت احمدیہ غانا کی دور اندیشی ، عزم و ہمت اور کامیابی پر جو اس ہسپتال کی تعمیر سے ظاہر ہے اس کا شکریہ ادا کرتا ہوں.حکومت غانا جماعت احمدیہ کے اس کردار پر نہایت خوش ہے جو یہ ملک میں تعلیمی اور طبی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ادا کر رہی ہے.جماعت احمدیہ کی غانا میں سرگرمیاں دہرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ملک بھر میں جا بجا پھیلے ہوئے سکول اور ہسپتال اس بات پر شاہد ناطق ہیں کہ یہ جماعت ہمارے اس ملک کی تعمیر نو میں کس قدر حصہ لے رہی ہے"
549 وزیر صحت گیمبیا گیمبیا کے وزیر صحت و تعلیم و سماجی بہبود آنریبل الحاج گار باجا مپانے احمد یہ مسجد دار اسلام روز بل ماریشس میں ایک استقبالیہ تقریب میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا :." ہم سب اور بالخصوص یہ عاجز حضرت امام جماعت احمدیہ کا از حد شکر گزار ہے جب ۱۹۷۰ء میں حضرت خلیفۃ المسیح احمد یہ مشن کے معائنہ کی غرض سے اس ملک ( گیمبیا) میں تشریف لائے تو خاکسار اس وقت بھی ، تعلیم اور سماجی بہبود کا وزیر تھا اس حیثیت سے خاکسار کو حضرت خلیفہ المسیح سے بارہا ملاقات کرنے کا موقع ملا اور ایک دعوت کے موقع پر آپ کے شریک طعام ہونے کا بھی شرف حاصل ہوا.میں اس امر کا اظہار کرنے میں فخر محسوس کرتا ہوں کہ حضرت خلیفۃ المسیح کی گیمبیا میں تشریف آوری ہمارے لئے بہت سود مند ثابت ہوئی.یہ آپ کی وہاں تشریف آوری کا ہی ایک ثمرہ ہے کہ ہم خدمت خلق کے میدان میں جماعت احمدیہ کی عظیم رفاہی سرگرمیوں سے متمتع ہو رہے ہیں.نہ صرف کور میں بلکہ سالکین ، گنجور ، سوما اور باتھرسٹ میں بھی احمدی ڈاکٹرز طبی خدمات بجا لانے میں مصروف ہیں.باتھرسٹ میں ان کا ہسپتال میری رہائش گاہ سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے.یہ سب وہ برکات ہیں جن کے ہم احمدی مسلمانوں کے جذبہ رواداری، عزم و استقلال اور ان کے قائدین کی نوازشات کی بدولت مورد ہوئے ہیں.جماعت احمدیہ کی ان طبی خدمات کے جن سے غرباء متوسط طبقہ کے لوگ اور امراء سب مستفید ہو رہے ہیں ہم شکر گزار ہیں.ہزاروں ہزار پونڈ کی رقوم جماعت احمدیہ کی طرف سے اس ملک میں خرچ کی جائیں گی.اگر دیکھا جائے تو یہی حقیقی اسلام ہے (جس کا عملی نمونہ آج جماعت احمدیہ پیش کر رہی ہے ) ۲.
550 کمشنر شمال مغربی سٹیسٹ نائیجیریا شمال مغربی سٹیٹ نائیجیریا کے کمشنر برائے تعلیم سٹیٹ الحاج ابراہیم نے فضل عمر احمدیہ سیکنڈری سکول بساؤ کے افتتاح کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے کہا." یہ پہلا موقع ہے کہ ایک مسلم تنظیم اس امر کے لئے آگے بڑھی " ہے کہ وہ ملک کی تعلیمی ترقی کے پروگرام میں حصہ لے ۴۳ عیسائیت کی شکست روزنامہ جنگ کراچی نے ۱۸ جولائی ۱۹۷۳ء کی اشاعت میں لکھا.افریقہ میں عیسائیت کی تبلیغ کرنے والے رومن کیتھولک اور دیگر مکتب خیال کے عیسائی ادارے افریقہ میں اسلام قبول کرنے کے نئے رجحانات سے سخت پریشان ہیں....اسلام کی تبلیغ و ترویج میں نئی زندگی پیدا ہو گئی ہے خصوصاً غنانا.نائیجیریا اور مشرقی ساحلی علاقوں میں اسلام کا اثر بڑھ رہا ہے.یہاں عیسائیوں کو احمدی فرقہ کے تبلیغی اداروں کا زبردست مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور احمدی فرقے کی تبلیغی کارروائیاں عیسائیت کے سخت مخالف ہیں ؟ ۴۴ اسی لئے حضور نے فرمایا :- افریقہ میں غلبہ اسلام کی صبح نمودار ہونے کے بعد اسلام کا سورج اپنی پوری تابانیوں کے ساتھ طلوع ہو چکا ہے.یہ سورج نصف النہار تک پہنچ کر اپنی پوری شان کے ساتھ چمکے گا اور دنیا کے گوشہ گوشہ کو منور کر دکھائے گا.ہمارے افریقی بھائی ہمارے پہلو بہ پہلو غلبہ اسلام کی شاہراہ پر اب آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے ۴۵
551 نصرت جہاں سکیم کے غیر معمولی اثرات ۱۹۸۰ء کے دورہ کے دوران نائیجیریا میں حضور نے فیڈرل ریڈیو کارپوریشن کے نمائندہ سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا :.انسانی زندگی میں مسلسل تبدیلی ہو رہی ہے.جو حالات ۱۹۷۰ء میں تھے وہ بہت حد تک بدل چکے ہیں اور دنیا ایک نیا رنگ اختیار کر رہی ہے.۱۹۷۰ء کے دورہ کی اپنی اہمیت تھی اور موجودہ دورہ کی اپنی اہمیت ہے.اس وقت میں نے یہاں کے حالات اور عوام کی ضروریات کا جائزہ لے کر بعض رفاہی کام شروع کرنے کا پروگرام بنایا تھا چنانچہ میں نے اس پروگرام کے مطابق یہاں کے عوام کی خدمت کی غرض سے بعض ہسپتال جاری کئے اور سیکنڈری سکول کھولے.اب میں یہاں ان ہسپتالوں اور سکولوں کی کار کردگی کا جائزہ لے کر یہ دیکھنے آیا ہوں کہ ہم ان ہسپتالوں اور سکولوں کے ذریعہ یہاں کے عوام کی خدمت کرنے میں کہاں تک کامیاب رہے ہیں.سو الحمد للہ ہمیں خدا تعالٰی کے فضل و کرم سے اس مقصد میں خاطر خواہ کامیابی نصیب ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہاں کے لوگوں کو تعلیم دینے اور غریبوں کو علاج معالجہ کی ہولتیں بہم پہنچانے کی توفیق بخشی.اس خدمت پر یہاں کے عوام اور حکومت سب خوش ہیں اور اس فضل پر ہم اللہ تعالی کے شکر گزار ہیں ۴۶ حضور نے ۱۹۸۰ء کے دورہ کے دوران نائیجیریا میں ایک اخباری نمائندے کے سوال کے جواب میں فرمایا:.".ہم تو حسب استطاعت زیادہ سے زیادہ سکول کھول کر بالخصوص مسلمانوں میں تعلیم کو زیادہ سے زیادہ فروغ دینا اور انہیں عیسائیت کے اثر سے بچانا چاہتے ہیں کیونکہ وہ تعلیم میں بہت پیچھے ہیں.
552 ویسے ہمارے سکولوں میں عیسائی بچے بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ہم انہیں بھی زیور علم سے آراستہ کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں" نصرت جہاں سکیم کے نتیجے میں جو تغییر غانا میں آیا اس کا اندازہ حضور کے والہانہ استقبال سے لگایا جا سکتا ہے جو قدم قدم پر حضور" کا کیا گیا.دس دس ہزار آدمی اچھل اچھل کر اور جھوم جھوم کر حضور سے محبت کا اظہار کرتے رہے اور جوابا حضور ان کی محبت کا جواب نہایت گہری محبت سے دیتے رہے.جب حضور ایک شہر سے دوسرے شہر کی طرف روانہ ہوتے تو ستر ستر میل کے طویل راستہ میں آنے والی بستیوں اور قصبوں کے باشندے جن میں احمدیوں کے علاوہ باقی مسلمان اور عیسائی بھی شامل ہوتے تھے سڑک کے دونوں طرف کھڑے ہو کر اور ہاتھ ہلا ہلا کر اور نعرے لگا لگا کر حضور کا والہانہ استقبال کرتے رہے اور خوش آمدید کہتے رہے.ہزاروں لوگ سفید رومال ہلا ہلا کر اور خوشی سے اچھل اچھل کر اور بعض تعظیماً دو ہرے ہو ہو کر اور کھلے ہوئے ہشاش بشاش چہروں کے ساتھ بلند بانگ نعرے لگا لگا کر بڑے ہی والہانہ انداز میں حضور کا استقبال کر رہے تھے.پچیس پچیس ہزار لوگوں نے ایک ایک وقت میں حضور کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں.صدر مملکت سے ملاقاتیں کیں.غانا میں ۱۹۸۰ء تک احمدیوں کی تعداد پانچ لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی اور وہاں ۳۵۶ جماعتیں قائم تھیں.حکومت اور عوام دونوں کی طرف سے احمدیت کے بارے میں نہایت اعلیٰ تاثر پایا گیا.حضور کے دورہ غانا کا رپورٹر لکھتا ہے کہ " سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حالیہ دوره غانا نہ صرف غانا میں جماعت کی ان جملہ تبلیغی، تعلیمی اور طبی خدمات میں وسعت پیدا کرنے کا موجب ہوا ہے بلکہ مغربی افریقہ کے دوسرے ممالک میں بھی ان خدمات کو زیادہ موثر اور نتیجہ خیز بنانے میں بہت مدد ملی ہے کیونکہ اس موقع پر نائیجیریا ، آئیوری کوسٹ ، سیرالیون لائبیریا اور گیمبیا کے مبلغین کرام نیز وہاں کے احمدیہ سیکنڈری سکولوں کے اساتذہ اور احمدیہ ہسپتالوں کے ڈاکٹر صاحبان بھی اکرا آئے ہوئے
553 تھے.حضور نے ان کے علیحدہ علیحدہ اجلاس بلا کر ان سب ممالک میں جماعت کی تبلیغی، تربیتی اور فلاحی سرگرمیوں کا جائزہ لیا.....بعض نے منصوبوں کے لئے اخراجات وغیرہ کی منظوری دی.جماعت کی ان گراں قدر مساعی اور بے لوث خدمات ہی کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل..حکومت اور عوام نے حضور کو خوش آمدید کہنے اور حضور کی راہ میں آنکھیں بچھانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.حضور جہاں بھی تشریف لے گئے لوگ اس کثرت سے حضور کی زیارت کے لئے کھینچے چلے آئے اور انہوں نے اس دلی اخلاص کے ساتھ حضور کا خیر مقدم کیا اور ایسے والہانہ انداز میں خوشی کے شادیانے بجائے کہ مسلسل چھ روز تک ملک کے مختلف حصوں میں جشن کا سا سماں بندھا رہا.حضور مساجد کا افتتاح کرنے نیز سکولوں اور ہسپتالوں کا معائنہ فرمانے جس حصہ ملک میں بھی تشریف لے گئے ہر طبقہ اور ہر مذہب و ملت کے لوگ اس کثرت سے حضور کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے کھینچے چلے آتے.....اور اپنی خوشی کے اظہار کے ایسے ایسے والہانہ انداز اختیار کئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا پھیر دے میری طرف اے ساریاں جنگ کی مہار" کی قبولیت کا ایک نہایت مہتم بالشان نظارہ آنکھوں کے سامنے آ گیا...ریڈیو اور ٹیلیویژن کے نیوز بلیٹینوں میں حضور کی مصروفیات کو تمام دوسری خبروں پر ترجیح دیتے ہوئے انہیں اولیت دی جاتی رہی...مغربی افریقہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الاول کے رویاء کا پورا ہونا حضرت خلیفہ المسیح الاول " کو اللہ تعالٰی نے آخری بیماری کے دوران بتایا تھا کہ مغربی افریقہ میں پانچ لاکھ عیسائی مسلمان ہو گا ۴ حضرت خلیفة المسیح الاول " کا یہ رویاء یا الهام بھی نصرت جہاں سکیم کے اجراء
554 کے بعد پورا ہوا.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نے مجلس انصار اللہ مرکزیہ ربوہ کے سالانہ اجتماع کے اختتامی خطاب کے دوران ۲۹.اکتوبر ۱۹۷۸ء کو فرمایا :." حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی سے پندرہ ہیں سال قبل انہوں نے یہ اعلان کیا کہ سارا ویسٹ افریقہ خداوند یسوع مسیح کی جھولی میں ہے اور اب یہ حال ہے کہ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے اور جماعت احمدیہ کی کوششوں میں خدا نے جو برکت ڈالی اس کی وجہ سے مغربی افریقہ میں پانچ لاکھ سے زیادہ عیسائی مسلمان ہو چکے ہیں ۴۹ qee
555 صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ احمدیت کی پہلی صدی پر اظہار تشکر اور احمدیت کی دوسری صدی (جو غلبہ اسلام کی صدی ہے) کا شایان شان استقبال
556 صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ احمدیت کی پہلی صدی کی تکمیل پر اظہار تشکر اور احمدیت کی دوسری صدی (جو غلبہ اسلام کی صدی ہے) کے شایان شان استقبال کی تیاری کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ایک جامع منصوبہ بنا کر اسے ۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ کے موقعہ پر جماعت کے سامنے پیش کیا.اور اس کے دوسرے حصے یعنی تعلیمی منصوبے کا اعلان حضور نے ۱۹۷۹ء میں اس وقت فرمایا جب تاریخ اسلام میں آٹھ سو سال کے وقفے کے بعد پہلے احمدی مسلمان سائنس دان عبد السلام نے فزکس میں دو امریکی سائنسدانوں کے ساتھ عالمی اعزاز "نوبل انعام " حاصل کیا.غلبہ اسلام کی آسمانی مهم صد ساله جوبلی - کے ساتھ تعلیمی منصوبے کو منسلک کرنے سے حضور کا منشاء یہ تھا کہ اور یہ کہ 1 "جب تک تعلیمی بنیاد مضبوط نہ ہو کوئی شخص علوم قرآنی سے سے بہرہ ر نہیں ہو سکتا ھے " ” جب انسان اپنے مسائل حل کرنے میں ناکام ہو جائے تو انسان کی مدد کے لئے خدا اور محمد میر کا قرآن ہی آئے گا اھ.” ہم اسلام کو اس وقت تک نہیں پھیلا سکتے جب تک یو رو پینوں کو تعلیم کے میدان میں شکست نہ دے دیں صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبے کا اعلان حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے جلسہ سالانہ ۱۹۷۳ء پر جماعت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :." حضرت مصلح موعود بھی اللہ کی یہ خواہش تھی کہ جماعت صد سالہ
557 جشن منائے یعنی وہ لوگ جن کو سوواں سال دیکھنا نصیب ہو وہ صد سالہ جشن منائیں اور میں بھی اپنی اسی خواہش کا اظہار کرتا ہوں کہ صد سالہ جشن منایا جائے.اس کے لئے میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے اور میں نے بڑی دعاؤں کے بعد اور بڑے غور کے بعد تاریخ احمدیت سے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اگلے چند سال جو صدی پورا ہونے سے قبل باقی زہ گئے ہیں وہ ہمارے لئے بڑی ہی اہمیت کے مالک ہیں.اس عرصہ میں ہماری طرف سے اس قدر کوشش اور اللہ کے حضور اس قدر دعائیں ہو جانی چاہئیں کہ اس کی رحمتیں ہماری تدابیر کو کامیاب کرنے والی بن جائیں اور پھر جب ہم یہ صدی ختم کریں اور صد سالہ جشن منائیں تو اس وقت دنیا کے حالات ایسے ہوں جیسا کہ ہماری خواہش ہے کہ ایک صدی گزرنے کے بعد ہونے چاہئیں اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا منشاء ہے کہ یہ جماعت اس کے حضور قربانیاں پیش کر کے غلبہ اسلام کے ایسے سامان پیدا کر دے.اس کے فضل اور اس کی دی ہوئی عقل اور فہم سے اور اسی کے سمجھائے ہوئے منصوبوں کے نتیجہ میں دنیا کے وہ لوگ بھی جنہیں اس وقت اسلام سے دلچسپی نہیں ہے وہ بھی یہ سمجھنے لگیں کہ اب اسلام کے آخری اور کامل غلبہ میں کوئی شک باقی نہیں رہ گیا.یہ سپریم ایفرٹ (Supreme Effort) یعنی انتہائی کوشش جو آج کا دن اور آج کا سال ہم سے مطالبہ کرتا ہے.اس آخری کوشش کے لئے ہمیں کچھ سوچنا ہے اور پھر سب نے مل کر بہت کچھ کرنا ہے.یہ خیال کر کے کہ سولہ سال کے بعد جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک سوسال پورے ہو جائیں گے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت پر اس معنی میں کہ آپ نے جو پہلی بیعت لی اور صالحین اور مطہرین کی ایک چھوٹی سی جماعت بنائی تھی اس پر ۲۳.مارچ ۱۹۸۹ء کو پورے سو سال گزر جائیں گے.میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ہمیں کوئی منصوبہ بنانا چاہئے
558 تاکہ ہم تیاری کریں اس صدی کے جشن کے منانے کی.لیکن چونکہ میں سمجھتا ہوں کہ ۱۹۸۹ء کا سال بڑا ہی اہم سال ہو گا اس لئے میری طبیعت کا میلان سو سالہ جشن منانے کی طرف اتنا نہیں (وہ بھی ہم نے ہے جتنا دوسری صدی کے استقبال کی تیاری کی طرف میرا میلان ۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو پہلی بیعت ہوئی تھی مٹانا ہے اور آج سے سولہ سال بعد ۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء کو سو سال گزر جائیں گے.یہ جو سولہ سال کا عرصہ ہے اس میں جیسا کہ میں نے بتایا دو اغراض کے پیش نظر ایک خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گانے کے لئے کہ اللہ تعالیٰ اپنی رحمتوں سے ہمیں پوری ایک صدی تک نواز تا چلا گیا، ہم نے صد سالہ جشن منانا ہے دوسرے ہم نے اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزی کے ساتھ سر جھکاتے ہوئے اپنے اس عزم کا اعلان کرنا ہے کہ اے ہمارے رب! ہم اپنی تمام کمزوریوں کے باوجود تجھ سے یہ عہد کرتے ہیں کہ جس طرح ہم نے تھوڑے ہوتے ہوئے پورے ایک سو سال تک تیری راہ میں قربانیاں دیں تاکہ تیرا دین غالب آئے اس کا ایک مرحلہ طے ہو گیا اب دوسرے مرحلہ کے لئے ہمیں قربانیاں دینے کی توفیق بخش.اسلام کی یہ آخری جنگ ہے اور ساری دنیا پر اسلام نے قیامت تک لئے غالب آتا ہے، اسے تاریخ کی ایک کتاب سمجھیں تو اس کا ایک باب اس صدی کے اختتام پر ہو گا اور پھر ایک دوسرا باب کھلے گا اور ہم نے اپنے اب کے حضور اس موقع پر اس عزم کا اظہار کرنا ہے کہ پہلی صدی میں ہم نے بنیادیں بنائیں ، کچھ عمارتیں بھی کھڑی کیں لیکن ابھی اسلام کی عمارت اتنی بلند نہیں ہوئی اور نہ اس میں اتنی وس پیدا ہوئی ہے کہ اس میں ساری دنیا سا سکے پس حمد اور عزم یہ دو لفظ ہیں جن کا انتہائی مظاہرہ انشاء اللہ تعالی ۱۹۸۹ء میں ہماری طرف سے کیا جائے گا وَ بِاللهِ التَّوْفِيقَ اور
559 اس حمد اور اس عزم کے عظیم مظاہرے کے لئے قرآن کریم کی عین ہدایت کے مطابق ہم نے تیاری کرنی ہے، اشاعت اسلام کے پروگرام بنانے ہیں، خدا کی راہ میں قربانیاں دینی ہیں ، نئی نئی سکیمیں سوچتی ہیں.چنانچہ اس ضمن میں میں اپنا وہ منصوبہ جس کا میں نے وعدہ کیا تھا اس وقت آپ کے سامنے رکھوں گا..یہ جو جشن منایا جائے گا یہ محض جلسہ سالانہ کے موقع پر نہیں منایا جائے گا بلکہ وہ سال جشن کا سال ہو گا.اس سال ہم ۲۳.مارچ سے جشن منانا شروع کریں گے اور ہمارے جذبات کا اظہار اور خدا کے حضور ہمارے عزم کا اظہار اور فضاؤں کو خدا کی حمد سے بھر دینے کا جو عمل ہے اس کی ابتداء ۲۴ مارچ ۱۹۸۹ء کو ہو گی گویا وہاں سے جشن شروع ہو گا اور پھر ۱۹۸۹ء کے جلسہ سالانہ پر یہ اپنے عروج پر پہنچے گا اور اس کی ابتداء مکانوں سے ہو گی....ہم اس کی ابتداء کریں گے گھروں سے، پھر محلوں سے ، پھر قصبوں اور شہروں سے، پھر ملکوں سے اور پھر مختلف براعظموں کے لحاظ سے.اور پھر ہم ساری دنیا کے احمدی اپنے نمائندوں کے ذریعہ یہاں جمع ہو کر خدائے قادر و توانا کی حمد کے ترانے گائیں گے.....دنیا کا ایک ملک بھی ایسا نہ رہے جہاں کے وفود ۱۹۸۹ء کے جلسہ سالانہ پر نہ آئے ہوں.اس کے لئے ہم نے بڑی تیاری کرنی ہے.اس سلسلہ میں میرے ذہن میں اس کا جو ڈھانچہ بنا ہے اس کی بہت سی تفاصیل زیر غور ہیں.اول اشاعت اسلام اور اصلاح وارشاد اور تعلیم و تربیت کے کام کو تیز سے تیز کرنے کے لئے ہماری کوشش اس منصوبہ کی شق نمبرا ہو گی چنانچہ مغربی افریقہ میں....کام کو تیز تر کرنے کے لئے تین مراکز کا انتخاب کیا جائے گا.مغربی افریقہ کو تین حصوں میں تقسیم کر دیں گے اور ہر حصہ کا ایک مرکز ہو گا، اس علاقے میں اسلام کی تبلیغ جائے گی.
560 اسی طرح مشرقی افریقہ میں بھی تین مراکز بنا کر اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے کام کو تیز سے تیز تر کرنے کی کوشش کی جائے گی.میں جب بھی مرکز کا لفظ بولتا ہوں تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ جہاں ایک مسجد اور مکمل مشن ہاؤس ہو....یورپ میں اٹلی میں ہمارا کوئی مشن نہیں.فرانس میں ہمارا کوئی مشن نہیں ہے.حالانکہ ان دونوں ملکوں کی بہت بڑی اہمیت ہے.اٹلی میں اس لئے کہ یہ کیتھولیسزم اس وقت بھی عیسائیت کے بہت (Catholicism) کا مرکز ہے.بڑے حصے کا مرکز اٹلی ہے.ان کا پوپ یعنی قائد اعلیٰ اٹلی میں رہتا ہے...پھر فرانس میں بھی ہمارا کوئی مرکز نہیں حالانکہ فرانسیسی زبان بھی بہت مشہور زبان ہے یہ اس وقت بھی جبکہ برٹش ایمپائر اپنے عروج پر تھی انگریزی کے بعد دوسرے نمبر پر آتی تھی.یہ بھی دنیا کے اکثر حصوں میں بولی جاتی تھی مثلاً مراکش.....مغربی افریقہ کے کئی ممالک......سپین میں ہمارا مبلغ تو ہے لیکن کرایہ کے مکان میں رہتا ہے وہاں بھی مرکزی مشن ہاؤس اور مسجد کی ضرورت ہے اور سپین کی اہمیت یہ ہے کہ شمالی امریکہ اور کینیڈا میں تو انگریزی بولنے والے لوگ غالب آئے لیکن جنوبی امریکہ کے اکثر ملکوں میں سپینش زبان بولنے والے غالب آئے......علاوہ ازیں تین ایسے ممالک ہیں.....ان کی ایک اور PAGICA وجہ سے بڑی اہمیت ہے وہ ہیں ناروے، سویڈن اور ڈنمارک.اس علاقے میں عیسائیت بہت دیر بعد پہنچی ہے تاہم جب اس علاقے میں عیسائیت پہنچی تو لوگوں نے عیسائیت کو قبول کر لیا اور بڑی جلدی قبول کر لیا.ہم امید رکھتے ہیں اور ہم دعائیں کرتے ہیں کہ اگر ہماری طرف سے صحیح طور پر اور صحیح طریقے پر اور وسیع پیمانے پر اسلام کو پیش کیا گیا تو یہاں کے عوام اسلام کو بھی اسی طرح جلد قبول کر لیں گے جس طرح انہوں نے ایک وقت میں عیسائیت کو قبول کر لیا تھا.ڈنمارک میں ہماری
561 ایک خوبصورت مسجد بھی ہے.....اور مشن ہاؤس بھی ہے.....ایک بہت بڑا ہال بھی ہے.....لیکن ناروے اور سویڈن میں نہ ہماری کوئی مسجد ہے اور نہ مشن ہاؤس........ان دو ملکوں میں بھی مشن ہاؤس کھلنے چاہئیں.انگلستان میں جماعت احمدیہ کے کام کو مضبوط کرنے کے لئے ہمیں وہاں تین سے پانچ تک نئے مبلغ بھجوانے ہوں گے اور کئی جگہ نئے مرکز بھی کھولنے پڑیں گے جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے اس کے دو حصے ہیں ایک وہ حصہ ہے جس میں انگریزی غالب ہے اور دوسرے حصہ میں پینش اور پرتگالی زبان غالب ہے.جہاں انگریزی غالب ہے وہ کینیڈا اور شمالی امریکہ ہے اسے امریکن لوگ دی سٹیٹس (The States) کہتے ہیں....امریکہ میں اشاعت اسلام کے کام کو بہتر کرنے کے لئے ایک تو کینیڈا میں مرکز کھولنے کی ضرورت ہے...اور امریکہ میں بھی تین سے پانچ تک نئے مبلغ اور ان کے لئے نئے مشن ہاؤسز کھولنے پڑیں گے.جنوبی امریکہ میں بھی تین مراکز اور مرکزی مساجد کا انتظام کرنا ہے.ویسے وہاں مساجد تو ہیں لیکن اشاعت اسلام کا کام نہیں ہو رہا.....دوم قرآن کریم کا ترجمہ نوع انسانی کے ہاتھ میں دینا اشد ضروری ہے.اس وقت تک چھ زبانوں میں قرآن کریم کے تراجم شائع ہو چکے ہیں.بعض زبانوں میں تراجم تو ہو چکے ہیں لیکن ان کی اشاعت میں کچھ دقت ہے ان میں ایک فرانسیسی زبان میں ترجمہ قرآن کریم ہے.......میرا خیال تھا کہ یہاں پریس جلدی لگ جائے گا تو اس کی طباعت سستی بھی ہو گی اور جلد بھی ہو جائے گی...میرا خیال ہے کہ روسی زبان میں بھی ترجمہ ہو چکا ہے لیکن وہ اب تک شائع نہیں کیا جا سکا...کوئی اچھا قابل اعتبار آدمی ملے جو ترجمہ پر
562 نظر ثانی کرے تب وہ چھپ سکتا ہے......پھر چینی زبان ہے اس میں قرآن کریم کا ترجمہ ضروری ہے اسی طرح اٹالین ، سپینش، افریقہ میں ہاؤ سا زبان میں ہمارا ترجمہ قرآن کریم مختصر نوٹوں کے ساتھ شائع ہونا چاہئے.اس کے علاوہ.....دو ایسی زبانیں جو مغربی افریقہ کے بڑے علاقوں میں بولی جانے والی ہوں ان میں بھی ترجمہ ہونا چاہئے.مشرقی افریقہ میں ہمیں یہ سہولت میسر آ گئی کہ سواحیلی زبان مختلف علاقوں کی سانجھی زبان تھی.....لیکن مغربی افریقہ کا یہ حال نہیں....بہر حال ہاؤ سا سمیت افریقہ کی تین زبانوں میں تراجم ہونے چاہئیں.اسی طرح یوگو سلاویہ کی زبان میں تفسیری نوٹوں کے ساتھ ترجمہ کی ضرورت ہے.اس کے علاوہ...آج کل کے حالات کے لحاظ سے یہ بہت ضروری ہو گیا ہے کہ ہم قرآن کریم کی عربی تفسیر شائع کریں.....خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ بشارت دی ہے کہ اہل مکہ فوج در فوج اللہ کی اس جماعت میں داخل ہوں گے.آج نہیں تو کل لوگوں نے احمدیت کی طرف ضرور آنا ہے.اسی طرح ہمیں فارسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر شائع کرنی چاہئے اور وہ اس لئے کہ جس طرح ایک بہت بڑے علاقے میں مادری زبان کے طور پر عربی بولی جاتی ہے اسی طرح ایک بہت بڑے علاقے میں فارسی بھی مادری زبان کے طور پر بولی جاتی ہے.دوسرے اس لئے بھی کہ ایران میں اکثریت شیعوں کی ہے اور چونکہ دوسروں کی نسبت شیعوں کا امام مہدی سے زیادہ تعلق ہے اور اسی لئے ان کی کتب میں امام مہدی کا نقشہ دوسرے فرقوں کی نسبت زیادہ صحیح کھینچا گیا ہے.ایک دو جگہ ان کو مسئلہ سمجھ نہیں آیا.اگر ہم دو تین الجھی ہوئی باتیں ان کو سمجھا دیں تو میں سمجھتا ہوں کہ شیعہ اصحاب ہم سے بہت
قریب ہیں...563 سوم.اس منصوبہ کا تیسرا حصہ یہ ہے کہ اسلام پانچ دس ممالک کے لئے تو نہیں آیا.نہ نبی اکرم میلی لی لی لیکر پندرہ ہیں قوموں کی طرف مبعوث ہوئے ہیں.اسلام تو رب العالمین کی طرف سے محمد مال السلام کو رحمتہ للعالمین بنا کر نوع انسانی کو مخاطب کرتا ہے کہ میں تمہاری بھلائی کے لئے آیا ہوں.....ہمیں اس صدی کے استقبال کے لئے اور اس عزم کے اظہار کے لئے....ایک سو زبانوں میں اسلام کا بنیادی لٹریچر شائع کرنا ہو گا....سو زبانوں میں لٹریچر پیدا کرنا اور اس کی تقسیم کا انتظام کرنا یہ اس منصوبے کا ایک اہم حصہ ہے اور اس لڑیچر کو تقسیم کرنے کا ایک دوسرا.پہلو جو ہے وہ دو ورقہ اشتہارات ہیں.اس طریق سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑا فائدہ اٹھایا ہے اس لئے ضروری ہے کہ آفسیٹ (Off Set) کے چھوٹے پریس.....افریقہ کے لئے اور ایک ان سے ذرا بڑا انگلستان ہمیں مفت دے رہا ہے...آہستہ آہستہ ہر ملک میں اس قسم کے چھوٹے اور بڑے عمدہ پریس لگائے جائیں گے...اس وقت دنیا کے حالات کچھ ایسے ہیں کہ کبھی کچھ ہوتا ہے اور کبھی ہوتا ہے کچھ پتہ نہیں لگ رہا کہ.....اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اس وقت ہمیں صرف ایک جگہ اچھے پریس پر انحصار نہیں کرنا چاہئے اس لئے ہمیں پاکستان میں اعلیٰ مرکزی پیمانے کے پریس کے علاوہ دنیا کے کسی اور دو مقامات پر جو اس کام کے لئے مناسب ہوں وہاں دو اچھے پرلیس بھی لگا دینے چاہئیں.چہارم.حضرت مسیح موعود مهدی معہود علیه السلام کا ایک بڑا کام یہ بتایا گیا تھا کہ آپ نوع انسانی کو امت واحدہ بنا دیں گے.ایک تو کسر صلیب ہے.دوسرے مسلمان را مسلمان باز کردند" کا کام تھا....اور تیرے ساری دنیا کو اور ساری نوع انسانی کو امت واحدہ بنا دینا آپ کا اصل
564 مقصد تھا.ساری ملتیں مٹ جائیں گی سوائے ملت اسلامیہ کے.قرآن کریم نے بتایا ہے کہ آنحضرت میم کے ذریعہ یہ کام ہو گا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے صرف یہ کہا.....کہ نبی اکرم میر نے دنیا میں جو کام کرنے ہیں ان کاموں کا عرصہ قیامت تک پھیلا ہوا ہے، کچھ پہلی صدی میں ہوئے کچھ دوسری صدی میں ہوئے اور کچھ پندرھویں میں ہوں گے.اگر قیامت تک کے کام پہلی صدی میں ہو جاتے تو باقی دنیا کیا کرتی.اللہ تعالیٰ نے ہر صدی کے لئے کچھ نہ کچھ کام رکھے ہوئے ہیں.اب یہ کام کہ نوع انسانی محمد رسول اللہ مال کے فیوض اور برکات سے ایک خاندان بن جائے ، یہ ذمہ داری پیشگوئیوں کے مطابق مسیح موعود علیہ السلام کے سپرد کی گئی ہے کیونکہ یہ ایک آخری کام ہے.پھر جب اسلام کا کامل طور پر غلبہ ہو جائے گا تو پھر.....بیرونی محاذ کی جنگ ختم ہو جائے گی....لیکن تربیت کا جو اندرونی محاذ ہے اس پر تو انسان جب تک زندہ ہے جنگ جاری رہے گی.رہے گی....دنیا کو امت واحدہ بنانے کے لئے تدابیر کرنی چاہئیں، دعا کرنی چاہئے.چنانچہ وہ تدابیر جو اس وقت تک میرے ذہن میں آچکی ہیں وہ یہ ہیں.اول دنیا میں ٹیلیفون کے علاوہ ایک طریق ٹیلیکس کا ہے.....ساری دنیا کے ممالک جہاں اس وقت تک جماعت احمدیہ مضبوط ہو چکی ہے، ان کا آپس میں ٹیلیکس کے ذریعہ باہمی تعلق قائم ہو جانا چاہئے...اس سلسلہ انگلستان.میں دوسری بات جو میرے دماغ میں آئی وہ بھی جماعت احمدیہ ا نے شروع کی ہے اور میں نے اس کا نام رکھ دیا ہے.World Bilal Radio Amateur Club آزاد ملکوں نے اجازت دے رکھی ہے کہ جو شخص چاہے اور دلچپسی رکھتا ہو وہ ایک خاص قسم کی ریڈیائی لہروں پر پیغام نشر کر سکتا ہے اور اس پر وہ ایک دوسرے سے ملاپ کرتے ہیں، دوستیاں کرتے ہیں ، آپس
565.میں باتیں کرتے ہیں.....جہاں اس قسم کی نشریات کی آزادی ہے وہاں تو کام شروع کر دینا چاہئے.تیسری بات جو بین الاقوامی سطح پر کی جائے گی وہ آپس میں قلمی دوستی ہے.بعض ملکوں سے ہمیں اس غرض کے لئے ہزاروں آدمی مل جائیں گے.....جو آپس میں خط و کتابت کریں گے...یہ کام ایک انتظام کے ماتحت ہونا چاہئے..امت واحدہ بنانے کے سلسلہ میں چوتھی بات یہ ہے کہ پہلے دنیا کے کسی مناسب مقام پر ایک بہت بڑا براڈ کاسٹنگ اسٹیشن قائم کرنا پڑے گا....میری خواہش یہ ہے کہ جس طرح روسی ریڈیو سٹیشن دنیا کا سب سے بڑا اور صاف سنائی دینے والا نشریاتی ادارہ ہے اس سے بھی زیادہ عمدہ ریڈیو اسٹیشن ہو.روس نمبر ایک نہیں.نمبر ایک محمد میں ہی ہیں اور آپ کے غلام ہیں.اس لئے دنیا میں انشاء اللہ عنقریب سب سے بڑا ریڈیو اسٹیشن اسلام کا ہو گا اور اس منصوبہ کے مطابق اس کے لگانے کی کوشش کی جائے گی.پانچویں یہ کہ مرکز سلسلہ میں جلسہ سالانہ پر اقوام عالم کے وفود کی شرکت کا جو نظام جاری ہوا ہے اس کو مضبوط کیا جائے گا....فضل عمر فاؤنڈیشن..ایک گیسٹ ہاؤس......میں کمروں پر مشتمل.......خدام الاحمدية انصار اللہ اور لجنہ اماء اللہ کی ذیلی تنظیمیں.....تین تین کمروں مشتمل ایک ایک گیسٹ ہاؤس بنوائیں.اس طرح موجودہ گیسٹ ہاؤس کو ملا کر تینتیس (۳۳) کمرے تو میسر آ جائیں گے پھر انشاء اللہ اور پر حصه ہتے رہیں گے.........امت واحدہ بنانے کے اس منصوبہ کا چھٹا.ہے کہ تصاویر کا تبادلہ کیا جائے الیم.ملک ملک بھیجوائی جائیں.اس موقع پر بھی اور شورٹی کے علاوہ دوسرے اجتماعات کی تصاویر بھی البم کی صورت میں باہر بھجوائی جائیں.تصاویر....Still بھی ہوں یعنی بورڈوں پر لگا دی جائیں اور Movies بھی ہوں
566 جو پروجیکٹر پر دکھائی جائیں اور آپ کو پتہ لگے کہ احمدیت کتنی ترقی کر رہی ہے......وفود کے قومی جھنڈے بھی لہرائے جائیں.......اتحاد کے قیام کے لئے دو ورقہ اشتہارات کی بھی اشد ضرورت ہے کیونکہ اندرون ملک بھی اتحاد ضروری ہے.ملک کے اندر دو ورقہ اشتہارات کی کثرت سے اشاعت اور اس کے لئے چھوٹے پریس قائم کرنا.اور اس منصوبہ کی جو آخری بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ امت محمدیہ فرقے فرقے میں بٹ گئی ہے....لیکن جہاں تک عقیدہ کا سوال ہے اور زبان سے اقرار کا تعلق ہے ہم سب خدائے واحد دیگانہ پر ایمان لانے والے ہیں.ہم محمد م کا کلمہ پڑھتے ہیں.ہم لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مَحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ کہنے والے ہیں.محمد رسول اللہ کو خاتم النبین مانتے ہیں.ہر فرقہ خاتم النبین کے معنے مختلف کر جائے گا لیکن کوئی شخص کھڑے ہو کر یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ محمد رسول اللہ عالم کو خاتم البنين نہیں مانتا.خاتم النبین کے عقیدہ میں ہم سب متحد ہیں.سارے فرقے قرآن کریم کی عظمت کا اقرار کم از کم زبان سے تو کرتے ہیں....یہ ہمارا مشترکہ عقیدہ ہے.ہم قرآن کریم کو ایک کامل اور مکمل کتاب مانتے ہیں.یہی ہمارے سب فرقوں کا عقیدہ ہے.تمام فرقے قرآن کریم کو قیامت تک کے لئے کامل ہدایت نامہ سمجھتے ہیں.پس اس سولہ سال کے عرصہ میں ہم اسلام کے تمام فرقوں کو بڑی شدت کے ساتھ ، نہایت عاجزی کے ساتھ بڑے پیار کے ساتھ بڑی ہمدردی کے ساتھ اور غم خواری کے ساتھ یہ پیغام دیتے ہیں اور دیتے گے کہ جن باتوں میں ہم متحد ہیں ان میں اتحاد عمل بھی کرو اور اسلام سے باہر کی دنیا میں توحید خالص کے پھیلانے اور محمد مسلم کی عظمت کو منوانے اور قرآن کریم کی شان کے اظہار کے لئے اکٹھے ہو کر کوشش کرو اور باہر جا کر آپس میں نہ لڑو تاکہ اسلام کو فائدہ پہنچے.پھر رہیں
567 اللہ تعالیٰ جن کے ذریعہ زیادہ کام لے گا یا جو دوسروں کو زیادہ قائل کر لیں گے یا جن سے ان کو زیادہ فیض پہنچے گا وہ نمایاں ہو کر سامنے آ جائیں گے.اس لئے نتیجہ خدا پر چھوڑ دو.پس اتحاد عمل کرو ان بنیادی اصولوں پر جن میں ہمارا عقیدہ ایک ہے.پس یہ پیغام ہے اس کا جو آج میں ساری دنیا کو دے رہا ہوں.منصوب.اشاعت اسلام کا یہ وہ جامع منصوبہ ہے جسے میں نے مختصرا بیان کر دیا ہے...اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک معقول رقم کی ضرورت ہے.اس کو ہم صد سالہ احمدیہ جوبلی فنڈ کا نام دیتے ہیں.سر دست اس کے لئے جتنی رقم کی اپیل کرنا چاہتا ہوں وہ صرف اڑھائی کروڑ روپیہ ہے ہمارے خدا نے ہمارے اندر ایک آگ لگا رکھی ہے کہ ہم نے اسلام کو مادی دنیا پر غالب کرنا ہے.خدا تعالیٰ کے منشاء کو پورا کرنے کی انسان کی طرف سے حقیر سی کوشش اس لئے کرنی پڑتی ہے کہ یہ خدا کا منشاء اور حکم ہے ورنہ کامیابی تو اس کے فضل سے حاصل ہوتی ہے.پس آج میں اس منصوبہ کی تکمیل کے لئے اڑھائی کروڑ روپے کی اپیل کرتا ہوں لیکن میں اپنے رب کریم پر کامل بھروسہ رکھتے ہوئے آج ہی یہ اعلان بھی کر دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ان سولہ سالوں میں ہمارے اس منصوبہ کے لئے پانچ کروڑ روپے کا انتظام کر دے گا انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے دین کی اشاعت کا کام کرو اور یہ خدا تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے کہا کہ میں تمہاری حقیر کوششوں کو قبول کر کے کام میں فرشتوں سے کرواؤں گا اور کریڈٹ تمہیں دے دوں گا.اس لئے مجھے یہ فکر نہیں ہے کہ اڑھائی یا پانچ کروڑ روپیہ.کہاں سے آئے گا یا آئے گا بھی یا نہیں.انشاء اللہ ضرور آئے گا اور اس کے لئے جس قدر انسانوں کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ ہمیں دے گا.
568 جو فکر ہمیں کرنی چاہئے 85 یہ ہے کہ خدا کرے ہماری ان حقیر قربانیوں کو قبول کر کے وہ عظیم نتائج جو اپنے فرشتوں کے ذریعے اپنے فضل سے پیدا کرے گا ان کے سارے کے سارے انعامات....آپ کی جھولیوں میں ڈال دے اور ہماری حقیر قربانیوں کو وہ قبول کرے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں بہت سی بشارتیں دے رکھی ہیں.ایک بشارت کا اقتباس پڑھ دیتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے" میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہے.اس سے بڑھ کر اور کون سا دلی درد کا مقام ہو گا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا اور ایک مشت خاک کو رب العالمین سمجھا گیا ہے.میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتا اگر میرا مولیٰ قادر و توانا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر توحید کی فتح ہے، غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنے خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.خدا قادر فرماتا ہے اگر میں چاہوں تو مریم اور اس کے بیٹے عیسی اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کروں سو اب اس نے چاہا ہے کہ ان دونوں کی جھوٹی معبودانہ زندگی کو موت کا مزہ چکھا دے.سو اب دونوں مریں گے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہو گی اور نیا آسمان ہو گا.اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو کچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہو گا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے
569 دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت رکھتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام ، اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی توحید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا، لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اتارنے سے.تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی" (تبلیغ رسالت جلد ششم ص۸) جس چیز کو خدا کا ایک ہی ہاتھ مٹا سکتا ہے.جو فتح خدا تعالیٰ کی ایک قادرانہ تجلی حاصل کر سکتی ہے اس کو ایک لمبے عرصہ میں پھیلا کر اور اس مجاہدہ میں آپ کو شریک کر کے اللہ تعالیٰ نے کتنا احسان کیا ہے جماعت احمدیہ پر.پس اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ جھکو اور اس سے دعائیں کرو.اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا تم پر اس قدر نزول ہو گا کہ تمہاری زندگیوں کے لمحات ختم ہو جائیں گے مگر خدا تعالیٰ کی رحمتوں کا شمار نہ ہو سکے گا ۵۳۹ صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبے کا روحانی پروگرام.حضرت خلیفہ المسیح الثالث " نے "صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبے" کے اغراض و مقاصد پورا ہونے کے لئے جماعت کو سولہ سالوں کے لئے ایک روحانی پروگرام دیا جس کا خلاصہ درج ذیل ہے.سورة فاتحہ سات بار روزانه
570 رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ گیاره مرتبه روزانه اللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ گیارہ بار روزانه اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَّاَتُوْبُ إِلَيْهِ تینتیس بار روزانه ه سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ تینتیس (۳۳) بار روزانه دو نفل بعد نماز ظهر یا بعد نماز عشاء روزانه ایک نفلی روزہ ہر ماہ صد سالہ احمدیہ جوبلی فنڈ صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبے کے لئے حضور نے اڑھائی کروڑ روپے کا مطالبہ کیا تھا لیکن اللہ تعالٰی نے جماعت کے مخلصین کو دس کروڑ روپے کے وعدے کرنے کی توفیق وعدہ جات کے سلسلہ میں حضور کا جو پہلا پیغام شائع ہوا ہے وہ یہ ہے:.
571 حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کا پیغام بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الْكَرِيمِ وَعَلَى عَبْدُهِ الْمَسِيحِ الْمَوْعُوْدِ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ - ھوالناصر برادران کرام! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعتہائے بیرون کی تربیت اور اشاعت اسلام کے کام کو تیز سے تیز کرنے اور غلبہ اسلام کے دن کو قریب سے قریب تر لانے کی ایک مہم کا آغاز کرتے ہوئے ایک بہت بڑے منصوبے کا اعلان کیا ضمن میں میں نے مخلصین جماعت سے آئندہ سولہ سال میں اس عظیم منصوبہ کی تکمیل کے لئے اڑھائی کروڑ روپیہ جمع کرنے کی اپیل کی تھی اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے یہ اعلان بھی کر دیا تھا کہ انشاء اللہ یہ رقم پانچ کروڑ تک پہنچ جائے گی.اس اعلان کے ذریعہ میں مخلصین جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ وہ اس فنڈ میں تھا.اس بڑھ چڑھ کر حصہ لیں.اس سلسلہ میں دوست تین باتیں یاد رکھیں.الف- صد سالہ جشن فنڈ" کے وعدہ بات مجھے مجلس مشاورت سے قبل بھجوا دیئے دو جائیں.وعدہ جات بھجواتے ہوئے صرف موجودہ آمد ہی کو مد نظر نہ رکھا جائے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اور اس کے بھروسے پر آئندہ سولہ سال کے عرصہ میں اللہ تعالیٰ آپ پر جو بے انتہا فضل اور رحمتیں نازل فرمائے گا اور آپ کی آمدنیوں میں آپ کی امید سے کہیں بڑھ کر برکتیں دے گا انہیں بھی مد نظر رکھ کر وعدہ بھجوایا جائے.ج.اس سلسلہ میں نقد رقوم اور چیک اس ہدایت کے ساتھ کہ یہ رقم ”صد سالہ جشن فنڈ کی مد میں داخل کی جائے) براہ راست افسر صاحب خزانه صد ر انجمن احمدیه کے نام بھجوائی جائیں!!
572 اللہ تعالی آپ کے اخلاص میں برکت دے اور آئندہ آپ کو پہلے سے کہیں بڑھ کر قربانیاں پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان قربانیوں کو محض اپنے فضل.ނ قبول فرمائے (آمین) 1.اصلح ۱۳۵۳ هش / جنوری ۱۹۷۴ مرزا ناصر احمد (خلیفة المسیح الثالث) یکم فروری ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے فرمایا:.” جہاں تک جماعت ہائے پاکستان کا تعلق ہے، بہت سی جماعتوں کی طرف سے ابھی تک وعدے موصول نہیں ہوئے تاہم وہ اس سلسلہ میں کام کر رہے ہیں.مشاورت سے پہلے پہلے وہ اپنے وعدے ضرور بھیجوا دیں گے.جہاں تک بیرون پاکستان کی احمدی جماعتوں کا تعلق ہے انگلستان سے قریباً سازے وعدے آگئے ہیں ، ڈنمارک سے سارے تو نہیں لیکن بہت سے وعدے آگئے ہیں.ان کے علاوہ جن ممالک میں احمدی دوست بستے ہیں......اور جن کی طرف سے......مجلس مشاورت تک وعدوں کا انتظار ہے وہ مندرجہ ذیل ملک ہیں.- ا امریکہ ۲.کینیڈا - مغربی جرمنی ۴.ہالینڈ ۵.سوئٹزر لینڈ ۶.سویڈن ۷ سپین - فرانس - یوگوسلاویہ ۱۰.سعودی عرب ۱۱.مصر ۱۲.ترکی ۱۳ ایران ۱۴- مسقط -۱۵.ابو ظمی ۱۶.عدن ۱۷.بحرین ۱۸.کویت ۱۹.قطر ۲۰.دوبئی ۲۱.انڈونیشیا ۲۲.ملائشیا ۲۳.آسٹریلیا ۲۴.جاپان ۲۵- جزائر فجی ۲۶.ماریشس ۲۷.سیا ۲۸.برما ۲۹- افغانستان ۳۰.مسلم بنگال ۳۱.بھارت ۳۲ تنزانیہ ۳۳.یوگنڈا ۳۴.کینیا ۳۵.نائیجیر یا ۳۶- غانا ۳۷ سیرالیون ۳۸.لائبیریا ۳۹ گیمبیا ۴۰- آئیوری کوسٹ ۴۱.لیبیا -۴۲- آسٹریا -۴۳ سینیگال ۴۴.ناروے ۴۵.آئرلینڈ ۴۶.گیانا ۴۷.ٹرینیڈاڈ ۴۸.سری لنکا ۴۹.شام ۵۰- زیمیا ۵۱.سوڈان
573 افریقہ کے بعض دوسرے ممالک ہیں جہاں ہمارے مشن تو نہیں لیکن جماعتیں قائم ہیں ان کے نام دفتر نے مجھے نہیں دیئے وہ بھی اس میں انشاء اللہ شامل ہو جائیں گے.....اس وقت تک اڑھائی کروڑ کی مالی تحریک کے.مقابلے میں تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد رقم کے وعدے وصول ہو چکے ہیں فالحمد للہ علی ذالک یہ بھی کچھ بعید نہیں کہ....پانچ کروڑ سے بھی........زائد اکٹھی ہو جائے " ۱۵.مارچ ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے بتایا کہ " صد سالہ جو بلی فنڈ کے وعدے چھ کروڑ سے اوپر نکل گئے فالحمد للہ علی ذالک مئی ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.” رو دوسری بات جو اس وقت میں کہنا چاہتا ہوں وہ بھی حمد باری سے تعلق رکھتی ہے، وہ بھی عزم مومنانہ سے تعلق رکھتی ہے ”صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ " جس کا اعلان جلسہ سالانہ پر ہوا تھا اور جس کے لئے صد سالہ احمد یہ جوبلی فنڈ قائم کیا گیا اس کے وعدے دس کروڑ ستر لاکھ سے اوپر نکل چکے ہیں.فالحمد للہ علی ذالک" " ۲۱ نومبر ۱۹۷۵ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:." اصل منصوبہ پیسے اکٹھے کرنے کا تو نہیں ہے نا.اصل منصوبہ تو یہ کہنا چاہئے کہ پیسے خرچ کرنے کا ہے اور جتنے پیسے میں نے سوچا تھا کہ ہمیں خرچ کرنے چاہئیں اللہ تعالیٰ کا منشاء تھا کہ اس سے زیادہ خرچ کرے.جتنے میں نے کہا تھا کہ وعدے کرو اس سے چار گنے زیادہ جماعت نے وعدے کر دیئے.میں نے کہا تھا کہ اڑھائی کروڑ.جماعت نے کہا دس کروڑ.میں نے کہا یہی ٹھیک ہے.میں سمجھ گیا کہ خدا تعالیٰ کا منشاء یہ ہے کہ دس کروڑ خرچ کرو.دس کروڑ کی ضرورت پڑے گی"
574 حضور کے توکل کا یہ عالم تھا کہ اس سے قبل ۸ مارچ ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے فرمایا:." مجھے یقین ہے کہ اگر ہم اس صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کی تکمیل کے دوران کسی ایسے مقام پر پہنچے کہ جہاں اشاعت اسلام ہم سے ہیں کروڑ روپے کی قربانی کا مطالبہ کرے تو اللہ تعالیٰ ہیں کروڑ کے بھی سامان پیدا کر دے گا انشاء اللہ العزیز".حضور نے ۱۵ جنوری ۱۹۷۵ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :.پہلا سال مالی میدان میں تیاری کرنے کا تھا دوسرا سال عملی میدان میں تیاری کا ہے" حضور نے آخری پیغام میں فروری ۱۹۸۲ء میں فرمایا:." میں عالمی جماعت احمدیہ کے تمام امراء اور صدر صاحبان اور جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے اس عظیم تحریک کو جو دین حضرت خاتم الانبیاء صلی نام کے غلبہ کے لئے جاری کی گئی ہے اور جس کے طیب و شیریں ثمرات آپ کے سامنے ہیں، مخلصین الله الله کامیاب بنانے میں اپنی مساعی کو تیز سے تیز کرتے چلے جائیں.اللَّهُمَّ انْصُرُ مَنْ نَصَرَ دِيْنَ مُحَمَّدٍ صَلَّ اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سٹینڈنگ کمیٹی صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کے بارہ میں تفصیلی پلاننگ اور انتظامی ڈھانچہ کے متعلق غور کرنے کے لئے مجلس مشاورت کے مشورہ سے ایک مستقل کمیٹی مقرر فرمائی جس کا تقرر اس طرح عمل میں آیا.علماء کرام میں سے ا.مکرم مولانا ابو العطاء صاحب جالندھری -۲ مکرم ملک سیف الرحمان صاحب
575 مکرم سید میر محمود احمد صاحب ناصر تم مکرم صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب بزرگان جماعت میں سے -۵ مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر.لائل پور (فیصل آباد) مکرم شیخ محمد حنیف صاحب.کوئٹہ مکرم چوہدری احمد مختار صاحب.کراچی مکرم را نا محمد خان صاحب.بہاولنگر مخلص ایثار پیشہ نوجوانوں سے ۹.مکرم عطا المجیب صاحب راشد - مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب ا.مکرم چوہدری خالد سیف اللہ صاحب ۱۲.مکرم میاں غلام احمد صاحب.لائل پور (فیصل آباد) حضور نے اس کمیٹی کا صدر مکرم شیخ محمد احمد صاحب مظہر اور سیکرٹری مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کو مقرر فرمایا :- کمیٹی کے بعض ممبران کے بیرون ملک تبادلے یا وفات سے ممبران میں ردو بدل ہو تا رہا مزید جن احباب کو اس کمیٹی کا ممبر ہونے کا شرف حاصل ہوا ان کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں.مکرم بر یگیڈ ئر وقیع الزمان صاحب مکرم صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب مکرم محمد شفیع اشرف صاحب مکرم ملک مبارک احمد صاحب مکرم شیخ مبارک احمد صاحب مکرم فضل الہی انوری صاحب فکر سید میر مسعود احمد صاحب
576 مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب مکرم کیپٹن شمیم احمد صاحب مکرم حضرت اللہ پاشا صاحب مکرم شیخ مظفر احمد ظفر صاحب بیت الاظهار (دفتر صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ) حضرت خلیفہ المسیح الثالث " نے ۲۳ مارچ ۱۹۸۲ء کو دفتر صد سالہ احمدیہ جو بلی منصوبہ کا سنگ بنیاد رکھا اور پرسوز لمبی دعا کروائی.صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبے کے اغراض و مقاصد کے شایان شان اس کے دفتر کا نام "بيت الاظهار" رکھا گیا جو لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّه سے ماخوذ ہے.گویا "بیت الاظهار " سورۃ توبہ کی آیت ۳۳ کے نشان کے طور پر ہے جس میں مسیح موعود کے ذریعے اظہار دین کا وعدہ کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:." یہ آیات قرآنی الہامی پیرایہ میں اس عاجز کے حق میں ہیں اور رسول.سے مراد مامور اور فرستادہ ہے جو دین اسلام کی تائید کے لئے ظاہر ہوا.اس پیشگوئی کا ماحصل یہ ہے کہ خدا نے جو اس مامور کو مبعوث فرمایا ہے یہ اس لئے فرمایا کہ تا اس کے ہاتھ سے دین اسلام کو تمام دینوں پر غلبہ بخشے اور ابتداء میں ضرور ہے کہ اس مامور اور اس کی جماعت پر ظلم ہو لیکن آخر میں فتح ہو گی اور یہ دین اس مامور کے ذریعہ سے تمام ادیان پر غالب آجائے گا اور دوسری تمام ملتیں بینہ کے ساتھ ہلاک ہو جائیں گی" ۵۴ ای طرح آيت هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَ...لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ کے بارے میں فرمایا : - وو اللہ تعالیٰ نے اس میں دو لفظ ھدی اور حق کے رکھے هدی تو یہ ہے کہ اندر روشنی پیدا کرے، معمہ نہ رہے.یہ گویا
577 اندرونی اصلاح کی طرف اشارہ کرتا ہے جو مہدی کا کام ہے اور حق کا لفظ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ خارجی طور پر باطل کو شکست دیوے.چنانچہ دوسری جگہ فرمایا جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ اور خود اس آیت میں بھی فرمایا لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينَ كُلِّه یعنی اس رسول کی آمد کا نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ حق کو غلبہ دے گا یہ غلبہ تلوار اور تفنگ سے نہیں ہو گا ۵۵ غرض "بيت الاظهار" کا لفظ حضرت مسیح موعود و مہدی موعود کی بعثت اور صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبے کی پوری ترجمانی کرتا ہے.ملحق ہے یه دفتر صدر انجمن احمد یہ پاکستان ربوہ کے احاطہ میں فضل عمر فاؤنڈیشن دفتر سے صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبے کو ناکام کرنے کی عالمی سازش اس سے قبل حضرت خلیفۃ المیسج الثالث" کی طرف سے "فضل عمر فاؤنڈیشن" اور نصرت جہاں سکیم کی تحریکات جاری ہونے پر بھی معاندین نے مخالفانہ رد عمل دکھایا تھا لیکن چونکہ ان تحریکات کا دائرہ عمل نسبتاً محدود تھا اس لئے مخالفت بھی محدود حد تک رہی لیکن صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبے کا اجراء چونکہ ساری دنیا میں اشاعت اسلام کے کام کو تیز کرنے سے تھا اس لئے اس کی مخالفت بھی عالمی سطح پر ہوئی.اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا:." اگلے پندرہ سولہ سال بڑے اہم ہیں، بڑے سخت ہیں، بڑی قربانیوں کے سال ہیں، خود کو سنبھالنے کے سال ہیں ، نئی نسلوں کی از سر نو تربیت کرنے کے سال ہیں.اب جماعت احمدیہ کی طرف سے غلبہ اسلام کی اس عظیم اور خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہونے والی جد وجہد کی مخالفت ایک نئی شکل میں اور ایک اور رنگ میں شروع ہوئی ہے اور وہ بین الاقوامی متحدہ کوشش کی شکل میں ہے...اب اس
578 بین الاقوامی منصوبہ کے خلاف جماعت نے اسلام کو کامیاب اور غالب اور فاتح کرنے کے لئے ایک بین الا قوامی جہاد کرنا ہے ایک بین الاقوامی متحدہ حملے کا منصوبہ بنایا گیا ہے تا اسلام دنیا پر غالب نہ آئے.اس بین الاقوامی منصوبہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی منشاء سے صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ بنایا گیا ہے جس کی رو سے مالی قربانیوں کا مطالبہ کیا گیا ہے.پس غیر مسلموں کی طرف سے یہ انتہائی مخالفت نشاندہی کرتی ہے اس بات کی کہ اسلام کے انتہائی غلبہ کے دن اللہ تعالٰی کے فضل سے نزدیک آگئے ہیں.....حضور نے ۲۲ فروری ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں اس یقین کا اظہار کیا کہ و ہمیں یقین ہے کہ ہماری یہ جدوجہد کامیاب ہو گی اور ساری دنیا اکٹھی: ہو کر بھی اللہ تعالیٰ کے اس منصوبے کو ناکام کرنے کی کوشش کرے تو خود ناکام ہو جائے گی.خدا تعالیٰ کا منصوبہ ناکام نہیں ہو گا.انشاء اللہ تعالیٰ ایسا ہی ہو گا.رَضِيْنَا بِاللَّهِ رَبًّا وَّ بِمُحَمَّدٍ رَسُولاً صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کے اعلان کے بعد مخالفین کا ایک رد عمل تو فوری طور پر ۱۹۷۴ء میں ہوا لیکن حضور نے تو پہلے ہی نشاندہی کر دی تھی کہ ۱۹۸۹ء تک کا عرصہ جماعت کے لئے بہت مشکل ہو گا جس میں قربانیاں دینی پڑیں گی.اپنی خلافت کے آخری جلسہ سالانہ ۱۹۸۱ء پر بھی حضور نے ان مشکلات کا ذکر فرمایا کہ ”اگلے نو سال جو ہیں ہماری زندگی کے وہ بڑے اہم ہیں، مشکل بھی ہیں ایک معنی میں لیکن اتنی رحمتوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں کہ اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا.اس واسطے ہر چیز بھول کر ایک زندگی گزارو اور وہ ہو دین اسلام کو غالب کرنے کی مہم جو ہے اسے کامیاب کرنا......ایک فرد نہیں سارا خاندان اور خاندانوں کا مجموعہ ہی جماعتیں اور قومیں بنا کرتی ہیں ایک ہو کر انتہائی کوشش کرے...ایک جہت ہماری
579 مقرر ہے خدا تعالیٰ کے عشق میں اور نبی کریم میں ﷺ کی محبت میں دیوانہ اور ایک مقصد سامنے ہے کہ ہم نے ساری دنیا کو محمد ی ﷺ کے جھنڈے تلے جمع کرتا ہے "۵۷ تعلیمی منصوبے کا اعلان اور خلیفۃ المسیح کی تمنا حضور نے جلسہ سالانہ ۱۹۷۹ء پر تعلیمی منصوبے کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:." حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے غلبہ اسلام کے متعلق جو پیش خبریاں دیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے آپ نے فرمایا :- ” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ...میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے “۵۸ یہ بڑا عظیم الہام ہے....میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہے کہ اگلے دس سال کے بعد آنے والے سو سال میں جس صدی کو میں غلبہ اسلام کی صدی کہتا ہوں ہمیں ایک ہزار سائنس دان اور محقق چاہئیں اور یہ جو اس سے پہلے دس سال ہیں اس میں ایک سو سائنسدان اور محقق چاہیں لیکن آج تک یہ ایک پیش گوئی تھی جس کا ایک بھی مظہر ہمارے سامنے نہیں تھا یعنی کچھ اس طرح وہ ابھرا ہو اور آسمانوں تک پہنچا ہو اپنی تحقیق میں کہ واقع میں اس کے متعلق یہ کہا جا سکے کہ علم اور معرفت میں اس نے کمال حاصل کیا اور اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیا.(اپنے حلقہ تحقیق میں) آئن سٹائن بہت بڑا سائنس دان گزرا ہے انہوں نے بھی کام کیا اور ناکام ہوئے اور ہوئے اور ڈاکٹر سلام صاحب نے کام کیا اس پر وہ کامیاب ہوئے اور ان کو نوبل پرائز ملا اور دنیا کے چوٹی کے سائنس دانوں میں
پہنچ گئے 580 فرمایا :.آج میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جماعت احمدیہ ہر ذہین مگر غریب بچے کو پرائمری سے سنبھالے گی.جماعت کا کوئی ذہین بچہ خواہ وہ افریقہ کے جنگلات میں پیدا ہو یا نیو یارک کے محلات میں ، وہ ماسکو میں پیدا ہو یا خانہ کعبہ کے علاقہ میں پیدا ہو، کوئی ذہین بچہ (جو ذہن خدا کی عطا ہے) ضائع نہیں ہونا چاہئے اور نوع انسانی کو اس بچے کو اس کے ذہن کو سنبھالنا چاہئے.یہ بنیادی حقیقت اور اصول ہے جو اسلام نے ہمیں بتایا اور جسے اسلام قائم کرنا چاہتا ہے......ایک لاکھ پچیس ہزار روپے سالانہ کا وظیفہ انشاء اللہ ہم دیں گے.اس کے لئے ایک کمیٹی مقرر کر دوں گا.....ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی یہ عزت افزائی جماعت کرتی ہے اس وقت کہ میں ان کو اس کمیٹی کا صدر بناتا ہوں جن کے ذریعے سوا لاکھ روپے کے وظائف ذہین بچوں کو تقسیم کئے جائیں گے.دو دعاؤں سے آپ میری مدد کریں ا.یہ کہ یہ سکیم جو ہے اس کا اجراء جماعت اور قوم کے لئے انتہائی مفید ثابت ہو اور.اس سے بھی اہم دعا یہ کریں اپنے رب سے کہ اے خدا مرزا ناصر احمد کی یہ خواہش ہے کہ اگلے سو سال میں ایک ہزار انتہائی غیر معمولی ذہین سائنسدان جماعت احمدیہ کو ملیں ، تو اس خواہش کو پورا کر اور اس خواہش کے لئے جو وہ دعائیں کریں ان کو بھی قبول کر اور جو ہم کریں انہیں بھی قبول کر........" " اس کے علاوہ اگلے دس سالوں میں چوٹی کے سو سائنس دان.اس میں ہر فیلڈ کا سائنس دان شامل ہو.آسمانوں کی سیر کرنے
581 والے دماغ ہمیں اللہ تعالیٰ عطا کرے ۵۹ اسی طرح فرمایا :." دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں ایسے دماغ دے جو کہ اپنے ڈیسک پر بیٹھ کر وہ علم اور نتائج حاصل کرلیں کہ پچاس سال بعد سو سال بعد یا ڈیڑھ سو سال کے بعد سائنس نے اپنے عملی تجربات کے مطابق جہاں تک پہنچنا ہے وہاں پر ایک احمدی سائنس دان کو پہلے ہی پہنچا دے.آمین ۶۰ تعلیمی منصوبے کے مختلف مراحل حضور نے تعلیمی منصوبے کے بارے میں فرمایا:.خدا تعالیٰ نے مجھ سے تعلیمی ترقی کا ایک منصوبہ جاری کرایا ہے.اس منصوبے کو جاری کرنے سے میرا مقصد یہ ہے اور میری تمام تر دلچسپی اس بات میں ہے کہ قرآن کریم کے علوم کی زیادہ سے زیادہ ترویج و اشاعت ہو جب تک تعلیمی بنیاد مضبوط نہ ہو کوئی شخص علوم قرآنی.علوم قرآنی سے بہرہ ور نہیں ہو سکتا.بدرجہ......فی الاصل یہ ایک نہایت ہی اہم منصوبہ ہے اور اس میں درجہ ترقی کے کئی مراحل آئیں گے chine ۱۹۸۰ء میں دورہ یورپ کے دوران حضور نے اس عزم کا اظہار فرمایا کہ گو تعلیمی منصوبے کا آغاز پاکستان میں کیا گیا ہے لیکن دو تین سالوں تک اس منصوبے کو ساری دنیا میں پھیلا دیا جائے گا.تعلیمی منصوبے کے اغراض و مقاصد حضور نے تعلیمی منصوبے کے جو اغراض و مقاصد بتائے ان میں سے بعض حضور کے ہی الفاظ میں یہ ہیں.
582 فرمایا:.و اس منصوبہ کو جاری کرنے سے میرا مقصد یہ ہے اور میری تمام تر دلچسپی اس بات میں ہے کہ قرآن کریم کے علوم کی زیادہ سے زیادہ ترویج و اشاعت ہو ۶۲؎ " اللہ تعالیٰ نے اپنی صفات کے جلووں کو جو کائنات ارضی و سماوی میں ہر آن ظاہر ہو رہے ہیں آیات قرار دے کر اور ان پر غور کرنے والوں کو اولوالالباب قرار دے کر دنیوی علوم کو روحانی علوم کی طرح ہی اہم قرار دیا ہے اور ان دونوں علوم کو ایک دوسرے کا ممد و معاون ٹھہرایا ہے.اس منصوبہ کی اہمیت یہ ہے کہ افراد جماعت کو دنیوی علوم سے درجہ بدرجہ آراستہ کر کے ان میں قرآنی علوم و معارف سے بہرہ ور ہونے کی اہلیت پیدا کی جائے " ۶۳ جتنی مادی علوم کی تحصیل تم کرو گے اتنا ہی زیادہ صفات الہیہ کے جلووں سے تمہیں آگاہی حاصل ہو گی.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی صفات اور کائنات پر ظاہر ہونے والے ان صفات کے جلووں کا علم حاصل کرو تاکہ تمہاری معرفت ترقی پذیر ہو اور تم اللہ تعالیٰ کے حقیقی عبد بنو.اسی لئے اللہ تعالٰی کا منشاء یہ ہے کہ تم دینی علوم بھی حاصل کرو اور ہر مادی علم بھی سیکھو " ۶۴؎ " ہم کو خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ ہم اس کے قریب ہوں اور اس کی ذات کا عرفان حاصل کریں.اللہ تعالیٰ ساری دنیا کا علم رکھتا ہے اور دنیا کے تمام علوم کیمسٹری ، حساب ، فزکس، جغرافیہ ، فلکیات وغیرہ وغیرہ اس کی صفات کے مظہر ہیں اور جتنا زیادہ آپ ان علوم کو حاصل کرتے جائیں گے اتنا زیادہ آپ خدا کی صفات کا علم حاصل کر سکیں گے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ آپ اس کی صفات کا علم حاصل کریں اور دنیا کی ہر سائنس پڑھیں » ۶۵.
583 " ہم اسلام کو اس وقت تک نہیں پھیلا سکتے جب تک یورپینوں کو تعلیم کے میدان میں شکست نہ دے دیں." ہمارا اللہ بڑا مہربان اور فیاض ہے اس نے جماعت احمدیہ کو ذہین بچے عطا فرمائے ہیں.خدا کی یہ عظیم برکت ضائع نہیں ہونی چاہئے یہ جماعت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سنبھالے اور ان کو اعلیٰ تعلیم دلائے......اگر آپ اس میں کامیاب ہو گئے تو آپ دیکھیں گے کہ آئندہ دس سالوں میں دنیا بھر کے علمی میدانوں میں جماعت احمدیہ کے افراد کی تعداد بڑھ جائے گی " ۲۷ " تحقیق کے میدان میں احمدیوں کو اللہ تعالیٰ کے افضال حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہئے اور تحقیق کی راہوں پر اس طرح چلیں کہ نوع انسان کے خادم بنیں a71ee حضور نے تعلیمی منصوبہ کے اغراض میں سے ایک یہ بتایا تاکہ آئندہ دس سال کے اندر اندر جماعت احمدیہ کو چوٹی کے سو سائنس دان مل جائیں ۶۹ بین الاقوامی سطح پر منصوبے کے ممکنہ اثرات فرمایا:.اللہ تعالیٰ اپنی وراء الوراء حکمتوں کے ماتحت قوموں اور افراد کو بے انداز افضال سے نوازتا ہے.اس کے یہ افضال مختلف شکلوں میں نازل ہوتے ہیں اور ان کی مختلف علامتیں ہوتی ہیں.کسی قوم کے محق میں اس کی سب سے بڑی عطا نوجوان نسل کے ذہن ہوتے ہیں.اگر دیکھا جائے تو مادی دولت کا انحصار بھی بنیادی طور پر ذہن پر ہوتا ہے اور روحانی رفعتوں کا تعلق بھی بڑی حد تک ذہن رسا سے ہی ہوتا ہے.اس تمہید کے بعد ایک بات تو میں احمدی بچوں سے کہنا چاہتا ہوں b
584 اور دوسرے اس تعلق میں جو ذمہ داری نظام جماعت پر عائد ہوتی ہے اس کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ جس بچہ کو اللہ تعالیٰ ذہن رسا عطا کرتا ہے اس کی ذہنی نشود ارتقاء کی ذمہ داری خود اس بچہ پر بھی عائد ہوتی ہے اور نظام جماعت پر بھی.بہت سے اچھے بچے ایسے ہوتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ ذہین پیدا کرتا ہے لیکن ہوتا یہ ہے کہ وہ غفلتوں، بد عادتوں یا بد صحبتوں کے نتیجہ میں اپنی ذہنی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے، اس طرح وہ ان ترقیات سے محروم وہ جاتے ہیں جو انہیں یقینا مل سکتی تھیں بلکہ وہ جماعت اور قوم کو بھی اس فائدہ سے محروم کر دیتے ہیں جو ان کی خداداد ذہنی صلاحیتوں کی صحیح نشو و نما کی صورت میں اسے پہنچ سکتا تھا.اس لئے ہر احمدی بچے کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنی ذہنی استعداد کی پوری مستعدی کے ساتھ نشو و نما کرتا رہے.اگر کوئی بچہ ایسا ہے جو اپنی ذہنی استعداد کی نشوونما نہیں کرتا تو وہ اپنے نفس کا بھی گناہ گار ہے اور جماعت کا بھی مجرم ہے......جن بچوں کو اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں ان کی بہر حال نشو و نما ہونی چاہئے اور ان کی نشوونما کی ذمہ داری خود بچوں پر بھی عائد ہوتی ہے اور جماعت پر بھی....اگر ہم بین الا قوامی سطح پر ستر پچھتر فیصد سے اوپر نمبر لینے والے دو تین سو بچے پیدا کرنے لگیں تو اس کا بہت اثر ہو سکتا ہے اور بین الاقوامی سطح پر اس کے بہت اچھے نتائج رونما ہو سکتے ہیں اس کے لئے ایک تو یہ ضروری.ہے کہ احمدی بچے اپنی ذمہ داری کو سمجھیں دوسرا ضروری امر یہ ہے کہ جماعتی سطح پر اس امر کی کوشش کی جائے کہ کوئی بچہ جسے اللہ تعالٰی نے ذہنی دولت عطا کی ہے جماعت اس دولت کو ضائع نہیں ہونے دے گی.
585 تعلیمی منصوبے کی کامیابی کے لئے خلیفہ المسیح کی عظیم جدوجہد حضور کی عظیم جدوجہد کے سلسلہ میں حضور کے چند اقتباسات یہ ہیں.ا.نتائج کی اطلاع :- و تعلیمی منصوبہ کے تحت میں نے تمام احمدی بچوں اور بچیوں کے لئے لازمی قرار دیا ہے کہ وہ اپنے اپنے امتحان کا نتیجہ نکلنے پر اپنے نتیجہ سے مجھے اطلاع دیں اے ۲.والدین کی نگرانی والدین کو مخاطب کر کے فرمایا:." تم اپنے بچوں کی تربیت کے ذمہ دار ہو.تمہیں اس امر کا خیال رکھنا چاہئے کہ ہر احمدی بچہ اور بچی حصول علم کے لئے سکول ضرور جائے.کوئی ایک بچہ بھی ایسا نہیں ہونا چاہئے جو سکول نہ جا رہا ہو اور دل لگا کر تعلیم نہ حاصل کر رہا ہو.یہ اس لئے ضروری ہے کہ تم اس سے بخوبی واقف ہو کہ جماعت احمد یہ جاہلوں کی جماعت نہیں ہے.یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے عالموں اور فاضلوں کی جماعت ہے اور نسلاً بعد نسل اس کی اس حیثیت کا برقرار رہنا ضروری ہے ۷۲ ” ہر ماں باپ یا بڑے بھائی کی ذمہ داری ہے کہ ان کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں "..۳.دعاؤں کی تاکید " ہمیں رَبِّ أَرِنِي حَقَائِقَ الْأَشْيَاءِ ( تذکرہ ص ۷۲۴ چوتھا ایڈیشن) کی دعا اسی لئے سکھائی گئی ہے کہ ہم پر ہر علمی میدان میں آگے بڑھنے کی
586 راہ بھی کھلے اور ساتھ ہی ہمیں اللہ تعالیٰ کا نور بھی ملے تاکہ ہم اپنی علمی ترقی سے بنی نوع انسان کو...سکھ پہنچائیں اور اس طرح ان کے خادم بنیں جس طرح صحابہ کرام رضوان اللہ علیهم اجمعین تھے " ہے " اللہ تعالیٰ نے قرآن میں فرمایا ہے کہ علم کے میدان میں آگے سے آگے بڑھنے کی کوشش کی جائے اور یہ یاد رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کے بغیر کوئی شخص علم حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا اور اس کے لئے دعا کے ساتھ خدا کے فضلوں کے دروازے کھٹکھٹاؤ اور یاد رکھو کہ اللہ نے وعدہ کیا ہے کہ جو یہ دروازہ کھٹکھٹائے گا اس کے لئے یہ دروازہ کھولا جائے گا ۷۵ ۴.دنیوی علوم کا خلاف قرآن نہ ہونا منصوب " تعلیمی صد سالہ احمدیہ جوبلی کے منصوبہ کا ایک حصہ ہے اور غلبہ اسلام کی آسمانی مہم سے اس کا گہرا تعلق ہے.ہر علم کی بنیاد قرآن میں موجود ہے.کوئی دنیوی علم ایسا نہیں جس کا اصولی اور بنیادی طور پر قرآن میں ذکر نہ ہو.اس لئے دنیوی علوم کی تحصیل قرآن کے خلاف نہیں بلکہ اس کے عین مطابق ہے؟ ۵.سویا بین کا استعمال " اس مقصد کے لئے احمدی بچوں کو غذا بھی اچھی ملنی چاہئے.اس کے لئے سویابین استعمال کریں جو کہ بچوں کے ذہنوں کے لئے بہت اچھی چیز ہے ".۶.ذہین بچوں کے تعلیمی اخراجات " خدا تعالی کی سب سے بڑی نعمت ایک ذہین بچہ ہے.ذہن رسا
587 سے بہتر کوئی چیز نہیں اور خدا تعالیٰ احمدیوں کو بڑی عقل دے رہا ہے.ایسے ذہن کے لئے اگر ملین (Million) (دس لاکھ روپیہ بھی دینا پڑے تو دیں ہم نے یہ کوشش کرنی ہے کہ ہر ذہین بچے کو سنبھالا جائے اور جینیئس (Genius) کو ہر قیمت پر سنبھالنا ہے ۷۸ ۷.احمدی بچوں کی حوصلہ افزائی احمدی بچوں کو بشارت دیتے ہوئے فرمایا:.ہم اس عظیم مقصد (یعنی غلبہ اسلام.ناقل) میں کامیاب نہیں ہو سکتے جب تک ہم دشمنان اسلام کو علمی میدان میں شکست نہ دیں.پس علمی میدان میں سبقت لے جانے کی کوشش کرو.علم اور معرفت میں ایسا کمال حاصل کرو کہ کوئی اس میدان میں تمہارا مقابلہ نہ کر سکے.خدائی منصوبہ کی رو سے تم نوع انسانی کے مستقبل کے استاد ہو.اپنی اس حیثیت کو ہمیشہ مد نظر رکھو اور جس حد تک خدا چاہتا ہے کہ ہم علم حاصل کریں تم اس حد تک علم حاصل کر کے اس کے منشاء کو پورا کرنے والے بنو ۷۹ بڑی عمر کے لوگوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب فرمایا :." بوڑھے اور عمر رسیدہ لوگ بھی علم حاصل کر سکتے ہیں اور انہیں حتی المقدور ضرور حاصل کرنا چاہئے ۸۰.بچوں کی کتب حضور نے بچوں میں علمی ذوق و شوق پیدا کرنے کے لئے بچوں کے لئے کہانیوں کے رنگ میں چھوٹی چھوٹی کتب لکھنے کی تحریک فرمائی اور حضور کے ارشاد کی روشنی میں
588 رقم رقم مجلس خدام الاحمدیہ نے کئی کتابچے لکھوا کر شائع کئے مثلا پیارے رسول کی پیاری باتیں، سوانح حضرت خلیفہ اول سوانح حضرت مصلح موعود ، پہلا احمدی مسلمان سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام ایک شہزادے کی کچی کہانی وغیرہ.۱۹۸۰ء کے دورہ مغرب کے دوران کینیڈا میں کیلگری یونیورسٹی کے صدر شعبہ مذاہب کے ساتھ تبادلہ خیالات کے دوران حضور سے پوچھا گیا." کینیڈا میں مقیم احمدیوں پر یہاں کے بے دین معاشرہ.....ماحول کے زیر اثر یہاں کے معاشرہ کا رنگ غالب نہ آ جائے...این خطرہ کے سدباب کے طور پر آپ کیا اقدامات کر رہے ہیں؟ اس کے جواب میں حضور نے انہیں بچوں کے لئے سلسلہ وار تربیتی کتب کی اشاعت کے منصوبہ...سے آگاہ فرمایا " ۱۰.تمغہ جات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" نے پوزیشن لینے والے احمدی بچوں اور بچیوں کے لئے تمغہ جات دینے کا جو سلسلہ شروع فرمایا تھا اس سلسلہ میں حضور کی زندگی میں تمغہ جات کی تقسیم کے لئے مندرجہ ذیل تقریبات ہوئیں.پہلی تقریب ۱۳ جون ۱۹۸۰ء دوسری تقریب اجتماع لجنہ اماء الله و خدام الاحمدیہ ۱۹۸۰ء تیسری تقریب جلسه سالانه ۱۹۸۰ء چھ طلباء کو تمغہ جات دیئے گئے چھ طلباء و طالبات کو تمغہ جات دیئے رو چوتھی تقریب ۴.اپریل ۱۹۸۱ء گئے طالبات کو تمغہ جات دیئے گئے چھ طلباء و طالبات کو تمغہ جات دیئے گئے پانچویں تقریب اجتماع لجنہ اماء الله و سات طلباء و طالبات کو تمغہ جات خدام الاحمدیہ ۱۹۸۱ء دیئے گئے چھٹی تقریب جلسہ سالانہ ۱۹۸۱ء پانچ طلباء و طالبات کو تمغہ جات دیئے گئے
589 فرمایا :- ” صد سالہ احمد یہ جوبلی کی غیر معمولی اہمیت..یہ ایک عظیم مہم ہے جو آسمانوں سے چلائی گئی ہے.یہ ایک ایسی تحریک ہے جس کا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا.نہ احمدیت کے باہر کوئی اس کا تصور کر سکتا ہے اور نہ احمدیت کے اندر خدا تعالیٰ کے حکم کے بغیر اس کا تصور کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم منصوبہ بنایا اور اس نے جماعت احمد یہ جیسی کمزور جماعت کو کھڑا کر کے کہا کہ میں تجھ سے یہ کام لوں گا غلبہ اسلام کا یہ منصوبہ اتنا بڑا منصوبہ ہے کہ نوع انسانی میں اتنا بڑا اور کوئی منصوبہ نہیں ہے، اس لحاظ سے کہ حضرت نبی اکرم منی کے ذریعہ نوع انسانی کے لئے جن برکات کا سامان پیدا کیا گیا تھا ان برکات کو ہر فرد بشر تک پہنچانا ہے اور کامیابی کے ساتھ ان کے دلوں کو جیتنا ہے یعنی یہ وہ منصوبہ ہے جس کی ابتداء محمد رسول اللہ صلی نام کے مبارک وجود سے ہوئی اور جس کی انتہاء بھی آپ کی قوت قدسیہ اور روحانی برکات کے ساتھ مہدی موعود کے ذریعہ مقدر ہے.پس یہ ایک بہت بڑا منصوبہ ہے جو دنیا میں تبلیغ اسلام اور اشاعت قرآن کے لئے جاری کیا گیا ہے.بظاہر یہ ناممکن ہے لیکن خدا نے آج آسمانوں پر یہی فیصلہ کیا ہے کہ اس کی تقدیر سے یہ بات بظاہر ناممکن ہونے کے باوجود بھی ممکن ہو جائے اور دنیا کے دل خدا اور اس کے رسول میک کے لئے بیت لئے جائیں گ...پہلی صدی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لئے ہے اور دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے اب یہ صدی اور آئندہ آنے والی صدیاں مهدی موعود کی صدیاں ہیں.کسی اور نے آکر نئے سرے سے اشاعت اسلام کے کام نہیں سنبھالئے.یہ مہدی ہی ہے جو اسلام کی اس نشاۃ " Ar
590 ثانیہ میں اسلام کے جرنیل کی حیثیت میں اور حضرت محمد مصطفیٰ کے ایک محبوب روحانی فرزند کی حیثیت میں دنیا کی طرف بھیجا گیا.جماعت احمدیہ کی پہلی صدی بھی اسلام کے جرنیل کی حیثیت سے مہدی محمود کی صدی ہے اور دوسری صدی بھی مہدی معہود کی صدی ہے جس میں اسلام غالب آئے گا اس کے بعد تیسری صدی میں تھوڑے بہت کام رہ جائیں گے اور وہ جیسا کہ انگریزی میں ایک فوجی محاورہ ہے Mopping Up Operation (یعنی جو چھوٹے موٹے کام رہ گئے.ہوں ان کو کرنا) جب تیسری صدی والے آئیں گے وہ خود ہی ان کاموں کو سنبھالیں گے لیکن ہم جن کا تعلق پہلی اور دوسری صدی کے ساتھ ہے کیونکہ میرے سامنے اس وقت بھی جو چھوٹی سی جماعت کا ایک حصہ بیٹھا ہوا ہے ان میں سے بہت سے وہ ہوں گے بلکہ میرا خیال ہے یہاں بیٹھنے والوں کی اکثریت وہ ہو گی جو اسی طرح دلیری اور شجاعت اور فرماں برداری اور ایثار کے جذبہ کے ساتھ پہلی صدی کو پھلانگتے ہوئے دو سری صدی میں داخل ہوں گے اور خدا تعالیٰ کے حضور اپنی قربانیاں پیش کرتے چلے جائیں گے اور وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے نظارے دیکھنے والے ہوں گے کہ اسلام کے غلبہ کے لئے دوسروں کے دلوں میں بھی کوئی شک اور شبہ نہیں رہا..........وه وہ صدی جس میں عملاً اسلام دنیا میں غالب آنا شروع ہو جائے گا وہ شروع ہونے والی ہے اس سے پہلی (یعنی موجودہ صدی میں اسلام کے عظیم محل اور حضرت محمد ی کے عظیم قلعے کی عمارت کو بنانے کے لئے جن مضبوط بنیادوں کی ضرورت تھی وہ تیار ہوتی رہیں.اب صدی ختم ہو رہی ہے قریباً سولہ سال باقی رہ گئے ہیں گویا پہلی صدی میں قربانیاں دینے کے لحاظ سے ایک آخری دھکا لگانا رہ گیا ہے اس کے لئے یہ سولہ سال سکیم بنائی گئی ہے تاکہ اسلام کے
591 غلبہ کے سامان جلد پیدا ہوں" "........۰۸۳ ہمارا سپہ سالار ہمارا سپریم کمانڈر، ہمارا ہادی ، ہمیں راہ ، راست دکھانے والا اپنی قوت قدسیہ کے نتیجہ میں اس پر قائم رکھنے والا محمد ہیں.باقی جس طرح سپریم کمانڈر کے ماتحت ایک زمانہ میں مختلف محاذوں پر مختلف جرنیل لڑ رہے ہوتے ہیں.نبی اکرم می گیر قیامت تک کے لئے روحانی فوجوں کے سالار اعظم بنا دیئے گئے یعنی آپ کو خاتم النبین کا لقب عطا ہوا ہے اور آپ کے ماتحت جن سالاروں نے پیدا ہونا تھا ان کی تعداد تین چار دس یا دس سو نہیں بلکہ ایک زمانہ ایسا بھی آیا کہ جب تنزل کے آثار تھے اس وقت بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ امت محمدیہ میں لاکھوں لاکھ مقربین الہی پیدا ہوئے اور مقرب الہی ہی روحانی فوج کا سالار.ار ہوتا ہے اور اس وقت مہدی معہود علیہ الصلوۃ والسلام مبعوث ہو گئے ، مسیح دنیا کی طرف آ گئے.اس عظیم جنگ کا معرکہ.جنگ تو شروع ہوئی محمد میں ﷺ کی بعثت کے ساتھ.کی بعثت کے ساتھ.لیکن اس جنگ کا آخری معرکہ جس کی شدت انسانی عقل اپنے تصور میں نہیں لا سکتی.....اس کا زمانہ آ گیا.......اس جنگ میں اس آخری معرکہ میں جو معرکہ مہدی معہود نے اسلام کی خاطر اور توحید کو قائم کرنے کے لئے اور نوع انسانی کے دل جیت کر محمد مصلی تعلیم کے جھنڈے تلے جمع کر دینے کے لئے لڑنا تھا اس معرکہ میں بھی یہ وقت جس میں ہم اس جلسہ سالانہ (۱۹۷۳ء ناقل) کے بعد داخل ہو گئے ہیں یہ بڑی اہمیت کا مالک ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو میں دیکھ رہا ہوں اور جو میرے کان آسمانی آواز سن رہے ہیں اور جو میری قوت شامہ خوشبو سونگھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی زندگی کی پہلی صدی کے یہ آخری پندرہ سال سب سے اہم ہیں......پہلی صدی پہلی صدی تیاری کی تھی چنانچہ ہم مثلاً پچاس
592 ملکوں میں چلے گئے.اب ان اگلے پندرہ سال میں ہم امید کرتے ہیں کہ دنیا کے ہر ملک میں ہم چلے جائیں گے............سب مردو زن عاجزانہ دعائیں کرتے رہیں کہ وہ اپنے وعدوں کے مطابق جوں جوں ہماری ذمہ داریاں بڑھاتا چلا جائے اور ہمارے بوجھوں کو اور بھی بو جھل کرتا چلا جائے اس کے مقابلہ میں اس کے مطابق ہماری طاقتوں میں اضافہ کرنے والا ہو ، ہماری بشاشتوں میں اضافہ کرنے والا ہو.صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کے شیریں ثمرات صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کی تکمیل تو ۲۳ مارچ ۱۹۸۹ء کو ہوئی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے شروع سے ہی اس منصوبہ میں غیر معمولی برکت ڈالی اور حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی زندگی میں ہی اس شجرہ طیبہ کے شیریں شمرات جماعت کو عطاء ہونے شروع ہوئے.ذیل میں ان میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے.سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں مسجد ناصر اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد ۲۷ تمبر ۱۹۷۵ء کو اور بعد تکمیل اس کا افتتاح ۲۰.اگست ۱۹۷۶ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے خود وہاں تشریف لے جا کر کیا.ناروے کے شہر اوسلو میں مسجد اور مشن ہاؤس کا افتتاح حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے یکم اگست ۱۹۸۰ء کو فرمایا:.سپین میں مسلمانوں کے زوال کے ۷۴۴ سال بعد جماعت احمدیہ کو سعادت ملی کہ ۹ اکتوبر ۱۹۸۰ء کو (چودھویں صدی کے اختتام سے پہلے) قرطبہ کے قریب حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.مسیح ناصری کی آخری آرام گاہ والے شہر سرینگر میں شاندار مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر ہوئی.کینیڈا کے شہر کیلگری میں ۴۰.ایکٹر زمین جس پر بہت بڑی عمارت بھی ہے
593.۱۲.مسجد اور مشن ہاؤس کے لئے خرید لی گئی.یہ اللہ تعالیٰ کا ایک نشان ہے.اٹلی اور جنوبی امریکہ میں مساجد اور مشن ہاؤسز کے لئے.خدام الاحمدیہ کی طرف سے خدام کے چندہ سے فنڈز کا مہیا کر کے پیش کیا جانا (نائب صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ صاحبزادہ مرزا فرید احمد صاحب کے چند ماہ کے بیرونی ممالک کے دورہ میں یہ رقم جمع ہو گئی.) جاپان کے شہر Nagoya میں ایک نہایت خوبصورت نو تعمیر شدہ مکان کی خرید برائے مسجد و احمد یہ سنٹر انگلستان میں جماعت کی وسعت کے پیش نظر پانچ مراکز اور ہالوں کی خرید.جس کے لئے وہاں کے مبلغ انچارج نے ۳۱.اکتوبر ۱۹۷۹ء کو چندہ کی تحریک کی اور چند ہی مہینوں میں فنڈز کا انتظام ہو گیا اور بریڈ فورڈ میں ۲۰.اپریل ۱۹۸۰ء.ساؤتھ آل میں ۳۱.مئی ۱۹۸۰ ء.مانچسٹر میں ۱۶.جون ۱۹۸۰ء.ہڈرز فیلڈ میں ۱۰.جولائی ۱۹۸۰ء اور برمنگھم میں ۳۱.اگست ۱۹۸۰ء کو عمارتیں خرید کر قبضہ لے لیا گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ۱۹۸۰ء کے دورہ میں ان کا افتتاح فرمایا:.انگلستان کے شہر لندن میں ایک عالمگیر کسر صلیب کانفرنس کا انعقاد جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" نے خود شمولیت فرمائی.بڑے وسیع پیمانہ پر اشاعت لٹریچر کا کام شروع ہو چکا ہے انگریزی اور فرنچ میں ترجمہ کر کے ہزاروں صفحات کا اسلامی لٹریچر شائع ہو چکا ہے.متعدد زبانوں میں اسلام سے متعلق تعارفی فولڈ رز شائع ہو کر مختلف ممالک میں آنے والے زائرین میں تقسیم ہو رہے ہیں.باہمی رابطہ کے لئے ایک درجن ممالک میں ٹیلیکس Telex کا انتظام ہو چکا ہے..جماعتی تقاریب کی بولتی فلمیں بنوا کر ان کا تبادلہ شروع ہو گیا ہے.بیرونی ممالک سے آنے والے وفود کی رہائش کے لئے سرائے فضل عمر
594 ۱۵.سرائے محبت ، سرائے خدمت (خدام الاحمدیہ) انصار اللہ گیٹ ہاؤس کی تعمیرات جن میں تمام ماڈرن سہولتیں موجود ہیں.ایک وسیع تعلیمی سکیم کا اجراء.جس کے ماتحت جماعت کا کوئی Genius نوجوان انشاء اللہ تعلیم سے محروم نہیں رہے گا.مسابقت کی روح پیدا کرنے کے لئے یونیورسٹیوں اور بورڈوں میں اول ، دوم، سوم آنے والوں کو سونے چاندی کے تمغات دیئے جاتے ہیں.۸۵ صد سالہ جوبلی منصوبے کے شیریں ثمرات کا ذکر کرتے ہوئے حضور نے اپنے آخری جلسہ سالانہ پر فرمایا :- " اب ہم پندرھویں صدی میں خدا تعالیٰ کے بڑے عظیم نشانوں کو لکھنے کے لئے داخل ہو چکے ہیں جو سال گزرا ہے اس صدی کا اس میں بھی بے انتہا نشان دکھائے ہیں اور بڑی عظمتوں کا نشان مثلاً ۷۴۵ سال بعد سپین کی مسجد مکمل ہو گئی الحمد لله...پھر ہم پھیلے مشرق کی طرف ابھی ادھر نہیں گئے تھے ، جاپان میں اللہ تعالیٰ نے ایک گھر کی خرید کا سامان پیدا کر دیا..........پھر بڑی وسعت پیدا ہو رہی ہے کینیڈا اور امریکہ میں، پھر بڑی.وسعت پیدا ہو رہی ہے افریقہ کے بہت سے حصوں میں.میں تو حیران ہوں ، حیرت میں گم ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی عظمت میرے اس زمانہ میں اس بات سے ثابت ہوئی کہ میرے جیسے عاجز انسان کا اس نے ہاتھ پکڑا اور اعلان کیا کہ اس ذرہ ناچیز سے میں دنیا میں انقلاب بپا کر دوں گا اور کر دیا ۸۶
595 حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کی تینوں عظیم الشان تحریکات کا مجموعی مقصد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاری کردہ روحانی دریا پر بند بنا کر ساری دنیا کو سیراب کرنا ہے حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے ۵.اپریل ۱۹۷۴ کے خطاب میں فرمایا :.”ہماری جماعت کے ایک تو عام چندے ہیں چندہ عام ہے، چندہ وصیت ہے، چندہ جلسہ سالانہ ہے...جن کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے روحانی لحاظ سے بلند سے بلند تر ہو رہی ہے لیکن بلندی کی طرف اس کی حرکت میں اتنی تیزی نہیں جتنی روحانی بند باندھنے کے ساتھ آنی چاہئے.پھر اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ میں نظام خلافت قائم فرمایا.خلیفہ وقت کی ایک ذمہ داری یہ ہے کہ وہ روحانی بند (Dam) بنائے چنانچہ حضرت مصلح موعود بنی اللہ نے علاوہ اور بہت سے اہم کاموں کے تحریک جدید کے نام سے ایک بہت بڑا روحانی بند تعمیر کیا...اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جماعت احمدیہ کو اتنی روحانی رفعتیں عطا ہوئیں کہ روئے زمین پر جماعت احمدیہ کی شکل بدل گئی.گو پہلے چند بڑے بڑے ملکوں میں جماعت قائم تھی لیکن اس میں وسعت نہیں تھی
596 پھر جب تحریک جدید کا روحانی بند تعمیر ہوا تو جس طرح نہریں نئے سے نئے بنجر علاقوں میں پانی لے جا کر ان کو آباد کرتی ہیں اسی طرح تحریک جدید کے اس بند کے ذریعہ احمدیت نے افریقہ میں دور دور تک اسلام کا روحانی پانی پہنچایا ، پھر یورپ میں پہنچایا، امریکہ میں پہنچایا اور جزائر میں پہنچایا، یہ ایک عظیم الشان روحانی بند تھا جس سے جماعت احمدیہ کو اسی طرح طاقت حاصل ہوئی جس طرح مادی پانی کے بند ہوتے ہیں اور ان کے ذریعہ بجلی کی طاقت بھی پیدا ہوتی ہے اور اس سے انسان دوسرے فائدے بھی اٹھاتے ہیں.پھر خلافت ثالثہ کے زمانہ میں فضل عمر فاؤنڈیشن کے نام سے ایک چھوٹا سے روحانی بند تعمیر کیا گیا اس سے بھی خدا کے فضل سے جماعت کو بہت ترقی مل رہی ہے.اس سے ذرا بڑا بند نصرت جہاں ریزرو فنڈ کے نام سے بنایا گیا.اس روحانی بند کے ذریعہ مغربی افریقہ میں ایک ہی سال کے اندر اندر سولہ ہسپتال قائم ہو گئے اور بہت سے نئے سکول اور کالج کھل گئے.اس مالی قربانی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے برکتیں عطا فرمائیں.لوگوں کو خدمت دین کا شوق پیدا ہوا.مجھے نائیجیریا سے ایک دوست کا خط آیا کہ سعودی عرب کے سفیر کہتے ہیں کہ احمدیوں کو حج پر نہیں جانا چاہئے مگر ہم ایک کے بعد دوسری مسجد بنا رہے ہیں اس وقت تک انہوں نے درجنوں نئی مسجدیں بنادی ہیں ان میں اسلام کی ایک نئی روح پیدا ہو گئی ہے وہاں کئی نئی جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور اس روحانی بند کی برکت ہے جسے نصرت جہاں منصوبہ اور ریز رو فنڈ کا نام دیا گیا تھا جماعت احمدیہ کی روحانی ترقی میں شدت پیدا کرنے کے لئے اور اس کی رفتار ترقی کو بڑھانے کے لئے اب ایک اور زبردست روحانی بند صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ ہے اس منصوبہ کے لئے فنڈ اکٹھا ہو رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت احمدیہ کو اس منصوبہ میں مالی
597 قربانی پیش کرنے کی بے مثال توفیق عطا فرمائی ہے.پچھلے جتنے بھی بند تھے ان سے روحانی نہریں نکلیں اور بنجر علاقے سیراب ہوئے اور جماعت احمدیہ نے انفرادی اور اجتماعی ہر دو رنگ میں روحانی ترقی کی اور اس کے نتیجہ میں اس نئے بند کی تعمیر ممکن ہوئی اور جماعت احمدیہ میں مالی قربانی کی ایک نئی روح پیدا ہو گئی ہے......دوستوں نے صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ میں اب تک قریباً دس کروڑ کے وعدے کر دیئے ہیں....اب کبھی تو یہ حال تھا کہ بڑی تنگ و دو کے بعد اور بڑی فکر کے بعد اور بڑی دعاؤں کے بعد جماعت نے نصرت جہاں ریزرو فنڈ میں ۵۳ لاکھ روپے کی مالی قربانی دی لیکن اب ایک نیا بند باندھنے کا منصوبہ خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھا تو جماعت بڑی بشاشت کے ساتھ ۵۳ لاکھ کے مقابلے میں قریباً دس کروڑ روپے کی مالی قربانی کے وعدے کر دئیے.میں علی وجہ البصیرت انسان ہوں اس لئے غلطی کر سکتا ہوں) اس یقین پر قائم ہوں کہ جب ہم دوسری صدی میں داخل ہوں گے تو جماعت احمدیہ کی زندگی کی یہ دوسری صدی غلبہ اسلام کی صدی ہو گی.اس دوسری صدی میں ہم غلبہ اسلام کے اتنے زبردست جلوے دیکھیں گے کہ ان کے مقابلے میں پہلی صدی ہمیں یوں نظر آئے گی کہ گویا ہم نے غلبہ اسلام کے لئے تیاری کرنے میں سو سال گزار دیئے.دوسری صدی میں ہم کہیں گے کہ پہلی کوششوں کے نتائج اب نکل رہے ہیں.جو باغ پہلی صدی میں لگایا گیا تھا اب ہم اس کا پھل کھا رہے ہیں گویا دوسری صدی میں اسلام غالب آ جائے گا.........اگر بند نہ باندھے جائیں تو پانی کی رفتار میں تیزی نہیں پیدا ہوتی....اگر روحانی بند نہ باندھے جائیں تب بھی جماعت ترقی تو کرے گی لیکن بہت آہستہ آہستہ کرے گی ہم نے ایک زبردست بند باندھا ہے صد سالہ
598.جوبلی منصوبہ کے نام سے یہ ایک عالمگیر منصوبہ ہے اس کو پورا پانی بہم پہنچانے کے لئے ہمارے روحانی دریا میں جسے حضرت محمد رسول اللہ می نے جاری فرمایا تھا اور جس کی غرض بنی نوع انسان کو روحانی طور پر سیراب کرنا تھا اس میں پہلے کی نسبت پانی بڑھ جانا چاہئے تاکہ اس بند کے پر ہو جانے سے غلبہ اسلام کے حق میں شاندار نتائج بر آمد ہوں"
599 ا الدین حاشیہ جات باب نہم.حضرت مصلح موعود ہی ان کی سوانح کا دوسرا حصہ بھی حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ نے لکھا جو خلافت رابعہ کے عہد مبارک میں شائع ہوا.۲ خلافت لائبریری کے سنگ بنیاد و افتتاح پر لکھا ہے ”حضرت فضل عمر خلیفہ اسیح الثانی مرزا بشیر محمود احمد نور اللہ مرقدہ کی تمام عمر اکناف عالم میں اسلام کی تبلیغ اور قرآن شریف کی اشاعت میں بسر ہوئی.حضور کی یہ خواہش تھی کہ مذکورہ مقاصد کے لئے ایک وسیع اور جامع لائبریری بھی قائم کی جائے چنانچہ فضل عمر فاؤنڈیشن نے لائبریری کے لئے یہ عمارت تعمیر کر کے صدر انجمن احمد یہ ربوہ کی تحویل میں دے دی ہے.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل بے نہایت سے اس لائبریری کو عالمگیر فیض رسانی کا موجب بنائے آمین.حمار ۳.ایک وقت آئے گا کہ فضل عمر فاؤنڈیشن سے اسی طرح عالمی سطح پر وظائف اور انعامات دیئے جائیں گے جس طرح سویڈن میں ” نوبل فاؤنڈیشن" سے دیئے جاتے ہیں.آخری بیماری میں ۸ فروری ۱۹۱۴ء کو حضرت خلیفہ المسیح اول " نے فرمایا:." خدا تعالی نے اس بیماری میں مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ پانچ لاکھ عیسائی افریقہ میں مسلمان ہوں گے " پھر فرمایا : ” مغربی افریقہ میں، تعلیم یافتہ ہوں گے " تاریخ احمدیت جلد ۴ ص ۶۴۴۵۳۶) یہ اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ جو بات وہ اپنے پیارے بندوں کے منہ سے نکلواتا ہے اسے پورا بھی کر دیتا ہے چنانچہ صد سالہ احمدیہ جوبلی فنڈ اور ۱۹۸۹ء تک خلیفہ وقت کی طرف سے اشاعت اسلام کے لئے جتنی بھی مالی تحریکات ہوئیں ان کی مجموعی مقدار ایک اندازے کے مطابق ۲۰ کروڑ ہی بنتی ہے و" خطبه جمعه فرموده ۸ مارچ ۱۹۷۴ء) حوالہ جات باب تنم له خطاب جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹ دسمبر ۱۹۶۵ء مطبوعه الفضل ربوہ ۳۰ دسمبر ۱۹۶۵ء تاس خطاب جلسه سالانه ریوه ۲۱ دسمبر ۱۹۶۵ء مطبوعه الفضل ربوه ۲۴ فروری ۱۹۶۶ء ۴ الفضل ۲۴ دسمبر ۶۱۹۶۵
600 هه تاریخ لجنہ اماء الله جلد سوم ص ۳۰۴ بحواله الفضل ۲۴ فروری ۱۹۶۶ء ۶ خطاب ۲۱ دسمبر ۱۹۶۵ء بر موقع جلسہ سالانہ ربوہ خطاب مجلس شوری ۲۷ مارچ ۱۹۶۶ء مطبوعہ الفضل سے مئی ۱۹۶۶ء خطبه جمعه فرموده ۱۸ مارچ ۱۹۶۶ء ۹.خطبہ جمعہ فرموده ۱۲ جون ۱۹۷۰ء مطبوعہ الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۷۰ء ۱۰ خطبه جمعه فرموده ۱۳ اکتوبر ۱۹۶۷ء الله مجلس عرفان ۹ جون ۱۹۷۰ ء مسجد مبارک ربوہ مطبوعه الفضل ۲۰ جون ۱۹۷۰ء ۱۲ دوره مغرب ۱۴۰۰ هجری ص ۲۳ ۱۳ تقریر حضرت مصلح موعود بحوالہ فضل عمر فاؤنڈیشن رپورٹ سال دوم ۲۸-۱۹۲۷ء.الفضل ۲۹ دسمبر ۱۹۸۰ء ۱۵ ماهنامه خالد جنوری فروری ۱۹۸۱ء ص ۱۱ ال ال ماہنامہ خالد جنوری و فروری ۱۹۸۱ء ص ۱۲ ۱۸ روزنامه الفضل ربوه حضرت خلیفہ اسیح الثالث " نمبر مورخہ ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ۱۹ ماہنامہ خالد حضرت خلیفہ ایج الثالث" نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۰۴ ۲۰ الفضل ۹ - اپریل ۱۹۷۰ء الفضل ۲۰ جون ۱۹۷۰ء الفضل ربوہ ۱۵ جولائی ۱۹۷۰ء الفضل ربوہ ۱۸ نومبر ۱۹۷۲ء ۲۴ خطبه جمعه فرموده ۱۲ جون ۱۹۷۰ء مطبوعہ الفضل ربوہ ۱۵ جولائی ۱۹۷۰ء ۲۵ الفضل ربوه ۲۰ جون ۱۹۷۰ء ٢٦ الفضل ربوہ ۱۱ ستمبر ۱۹۷۰ء صفحہ ۸ ۲۷ خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۷۰ء ۲۸ تریاق القلوب ص ۲۵ طبع اول ۲۹ خطبه جمعه فرموده ۵ اپریل ۱۹۷۴ء.3 الفضل حضرت خلیفہ اسیح الثالث" نمبر ۱۲.مارچ ۱۹۸۳ء ص ۲۹ اس الفضل ربوہ ۱۳ دسمبر ۱۹۷۵ء بحوالہ الفضل حضرت خلیفہ اسیح الثالث " نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ۳۲ خطاب جلسہ سالانہ انگلستان ۱۹۷۵ء مطبوعه الفضل ۱۷ ستمبر ۱۹۷۵ء ص ۲ ۳۳ تقریر جلسه سالانه ۲۷ دسمبر ۶۱۹۷۵ ۳۴ تقریر جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۸۱ء مطبوعہ الفضل 11 جنوری ۱۹۸۲ء ۳۵ الفضل ۱۵ جولائی ۱۹۷۰ء
601 اس الفضل ۱۵ اپریل ۱۹۷۲ء ۳۷، تقریر جلسه سالانه ۲۷ دسمبر ۱۹۸۰ء بحواله الفضل حضرت خلیفہ المسیح الثالث نمبر ص ۳۰ ۳۸ احمدی ڈاکٹروں سے خطاب ۳۰.اگست ۱۹۷۰ء ص ۲۱ ۳۹ خطبه جمعه فرموده ۲۲ اکتوبر ۱۹۷۶ء ۴۰ تقریر جلسہ سالانہ 11 دسمبر ۱۹۷۶ء ام دوره مغرب ۱۴۰۰ ه ص ۲۳ تا ۲۵ ۲۲ الفضل ۳ مئی ۱۹۷۲ء بحوالہ احمدی ڈاکٹروں سے بصیرت افروز خطاب ۳۰ اگست ۱۹۷۰ء الفضل ۲۷ دسمبر ۱۹۷۵ء ۴۴ جنگ کراچی ۱۸ جولائی ۱۹۷۲ء الفضل ۲۳ ستمبر ۱۹۷۲ء ۴۵ الفضل ۴ نومبر ۱۹۷۰ء ۲۶ دوره مغرب ۱۴۰۰ ھ ص ۳۵۸٬۳۵۷ ے ہی روزہ مغرب ۱۴۰۰ ص ۳۱۱ ۴۸ دوره مغرب ۱۴۰۰ ص ۴۳۵ تا ص ۴۳۷ و اختتامی خطاب مجلس انصار الله مرکزیہ ۲۹/ اکتوبر ۱۹۷۸ء ۵۰ه دوره مغرب ۱۴۰۰ ه ص ۸۴۷ اهـ الفضل ۲۹ اکتوبر ۱۹۷۹ء ۵۲ ماهنامه خالد نومبر دسمبر ۱۹۸۰ء ص ۵۶ ۵۳ ( تقریر جلسه سالانه ۱۹۷۳ء) م من سراج منیر ص ۳۶ ۳۷ روحانی خزائن جلد ۱۲ ص ۴۲ - ۴۳ ۵۵ الحکم ۱۰.اپریل ۱۹۰۲ء ۵۶ خطبه جمعه ۱۳ فروری ۱۹۷۴ء ه تقریر جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۸۱ء ه تجلیات الهیه روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۴۰۹ تذکرہ ص ۶۰۴ چوتھا ایڈیشن ۵۹ تا ۶۰ الفضل ربوه ۲۰ جنوری ۱۹۸۰ء ۶۱ ۶۲ دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۸۴۷ ۶۳ دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۲۷ ۶۴ دوره مغرب ۱۴۰۰ ھ ص ۳۹۷٬۳۹۶ ۶۵ ماهنامه خالد نومبر دسمبر ۱۹۸۰ء ص ۵۹ ۶۷۶۶؎ ماہنامہ خالد نومبر دسمبر ۱۹۸۰ء ص ۵۶ ۶۹٬۶۸؎ ماہنامہ خالد نومبر دسمبر ۱۹۸۰ء ص ۵۴
602 ه خطبه جمعه لندن فرموده ۲۹ اگست ۱۹۷۵ء مطبوعہ الفضل ۲۰ ستمبر ۱۹۷۵ء انه دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۸ دوره مغرب ۱۴۰۰ ھ ص ۳۹۶ ۷۳ ماہنامہ خالد نومبر دسمبر ۱۹۸۰ء ص ۵۶ کے دورہ مغرب ۱۴۰۰ ه ص ۲۹۵ ۷۵ خالد ماہنامہ نومبر دسمبر ۱۹۸۰ء ص ۵۴ دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۲۸ ے کے ماہنامہ خالد نومبر دسمبر ۱۹۸۰ء ص ۵۶ ۷۸ ماہنامہ خالد نومبر دسمبر ۱۹۸۰ء ص ۵۴ ۷۹ ۸۰ دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ۳۹۷ الله دوره مغرب ۱۴۰۰ ه ص ۴۶۳ ۸۳٬۸۲ خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۷۴ء ۸۴ خطاب بر موقع ۲۱ ویں تربیتی کلاس مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ ربوہ ۲ مئی ۱۹۷۴ء ۸۵ رپورٹ سیکرٹری صد سالہ جوبلی منصوبہ بحوالہ ماہنامہ خالد ربوہ جنوری ۱۹۸۲ء ص ۸۲٬۸۱ ۸۶ تقریر جلسه سالانه ۲۷ دسمبر ۱۹۸۱ء
603 باب دہم حضرت خلیفة المسیح الثالث کی متفرق تحریکات
605 حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کی متفرق تحریکات وعده سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکز یہ ربوہ کے موقع پر اکتوبر ۱۹۶۸ء میں حضرت خلیفہ.المسیح الثالث نے سورۃ النور کی آیات ۵۶٬۵۵ کی تلاوت فرما کر فرمایا :." اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں اللہ کی اطاعت اور رسول کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور بتایا ہے کہ رسول اکرم می امی کی صرف یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کھول کر الہی احکام اور شریعت کے ارشادات کو دنیا کے سامنے پیش کریں اور مومنوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان احکام کی بجا آوری میں اطاعت کاملہ کا نمونہ دکھلا دیں.اور اللہ تعالیٰ نے یہ دیا کہ اگر تم کامل اطاعت کا نمونہ دکھلاؤ گے تو ان راہوں کی طرف تمہیں ہدایت دی جائے گی جن پر چل کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کی جا سکتی ہے اور یہ بھی وعدہ دیا گیا کہ اگر کامل اطاعت کا نمونہ دکھاؤ گے تو اللہ تعالیٰ تمہاری بشری کمزوریوں کے پیش نظر خلافت حقہ کا نظام تم میں جاری کرے گا اور ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے جن کا تعلق پختہ اور کامل طور پر اپنے رب سے ہو گا.وہ اپنے اور تمہارے رب کے منشاء کے مطابق تمہاری رہنمائی کرتے رہیں گے اور تمہیں سہارا دیتے رہیں گے.تمہاری غفلتوں ، بستیوں اور کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے اور ان اعمال کی طرف رہنمائی کرتے رہیں گے جو حالات حاضرہ کا تقاضا ہوں.لہ چنانچہ خدا تعالٰی کے منشاء کے عین مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ ان اعمال کی طرف جماعت کی رہنمائی فرماتے رہے جو حالات حاضرہ کے متقاضی تھے اور
606 اس سلسلہ میں منصوبے پر منصوبہ اور تحریک پر تحریک جاری فرماتے رہے.اگر چه سترہ سالوں پر پھیلی ہوئی لا تعداد تحریکات اور منصوبوں کا پوری طرح احاطہ نہیں کیا جا سکتا تاہم زیادہ معروف منصوبے اور تحریکات یہ ہیں:.تحریک جدید کے دفتر سوم کا اعلان وقف جدید کے دفتر اطفال کا اجراء فضل عمر فاؤنڈیشن کے لئے ۲۵ لاکھ روپے کی تحریک وقف بعد از ریٹائرمنٹ کی تحریک نوجوان گریجویٹیس کے لئے تحریک وقف زندگی بد رسوم کے خلاف جہاد کی تحریک اطعموا الجائع یعنی مساکین کو کھانے کھلانے کی تحریک وقف عارضی کی تحریک مجالس موصیان کا قیام مجلس ارشاد کا قیام نصرت جہاں لیپ فارورڈ منصوبہ استحکام پاکستان کے لئے دعاؤں اور صدقات کی تحریک اتحاد بین المسلمین کی تحریک مکہ میں حج کی تاریخ کے مطابق دنیا بھر میں عید الضحی کی تقریب منانے کی خواہش کا اظہار گھوڑے پالنے کی تحریک سائیکل سواری اور سائیکل سروے کی تحریک نشانہ غلیل کی مہارت پیدا کرنے کی تحریک خدام اور لجنات کو اپنی اپنی کھیلوں کے کلب بنانے کی تحریک درخت لگانے اور شجر کاری کی تحریک ربوہ کو سرسبز و شاداب بنانے کی تحریک
607 آنحضرت مسلم کی سنت کی پیروی میں مسکراتے رہنے کی تحریک تسبیح و تحمید در دو شریف اور استغفار کی خاص تحریک صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبے کے لئے اڑھائی کروڑ روپے مہیا کرنے کی تحریک امن عالم کے لئے صدقات اور دعاؤں کی تحریک چودھویں صدی ہجری کو الوداع کہنے اور پندرھویں صدی ہجری کا استقبال کرنے کے لئے ADATA ALI NA اللہ کا ورد کرنے کی تحریک اور دو زائد ماٹو (motto) تعلیم القرآن کی تحریک اشاعت قرآن کی تحریک حفظ قرآن کی تحریک سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات حفظ کرنے کی تحریک غلبہ اسلام کی صدی کے لئے قرآن کریم سیکھنے سکھانے کے لئے دس سالہ تحریک ادائیگی حقوق طلباء طلباء ، ڈاکٹروں اور انجینئروں کو ایسوسی ایشنیں بنانے کی تحریک طلباء کو سویابین کھانے کی تحریک ہر گھر میں تفسیر صغیر رکھنے کی تحریک ہر گھر میں مرحلہ وار تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جلدیں رکھنے کی تحریک صد سالہ احمدیہ جوبلی تک سوسائنس دان اور اگلی صدی میں ایک ہزار سائنس دان اور محققین پیدا کرنے کی تحریک چودھویں صدی کی تعمیل پر ”ستارہ احمدیت" کا تحفہ صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبے کے اعلان کے موقع پر مزید دو ماٹو ز (DRL) استغفار کرنے کی تحریک
608 قلمی دوستی کی تحریک یورپ.امریکہ اور کینیڈا میں کمیونٹی سنٹر اور عید گاہیں بنانے کی تحریک فولڈرز شائع کرنے کی تحریک بچوں کے لئے خوبصورت اور دلچسپ کتب لکھنے کی تحریک انصار اللہ کی صف اول اور صف دوم بنانے کی تحریک اطفال و ناصرات کے لئے معیار کبیر و صغیر کی تحریک مہمان خانے بنانے کی تحریک (وَسِعْ مَكَانِكَ) جلسہ سالانہ کے موقع پر غیر ملکیوں کو تقاریر کے تراجم سنانے کی تحریک مختلف ممالک سے آنے والے مہمانوں کی طرف سے ان ممالک کے جھنڈے لہرانے کی تحریک پریس لگانے اور ریڈیو سٹیشن بنانے کی تحریک سو زبانوں میں لٹریچر تیار کرنے کی تحریک صد سالہ احمد یہ جوبلی تک سو ممالک میں جماعتیں قائم کرنے کی تحریک اولاد کا اکرام کرنے کی تحریک بیوی بچوں کے ساتھ حسن سلوک اور عزت سے مخاطب ہونے کی تحریک افریقی ممالک کے لئے ڈاکٹروں اور اساتذہ کو وقف کرنے کی تحریک حلف الفضول کی طرح مجالس بنانے کی تحریک عاجزی اور انکساری اختیار کرنے کی تحریک دشمن سے بدلہ نہ لینے اور بد دعا نہ کرنے کی تحریک افغان مہاجرین کے لئے دعا اور بیماروں کو طبی سہولتیں فراہم کرنے کی تحریک بنی نوع انسان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں قرآن کریم دینے کی تحریک دنیا کے اطراف و جوانب کو نور مصطفوی سے منور کرنے کی تحریک جلسہ سالانہ صد سالہ جوبلی کے لئے دیگوں کی تحریک وظائف کمیٹی کی تشکیل م
609 احمدی بچیوں کی بر وقت شادی کر دینے کی تحریک جلسہ سالانہ پر رضاکاروں کی فراہمی کی تحریک تمام مجالس کے اجتماعات میں نمائندگی کی تحریک مشاورت میں کم عمر نمائندوں کی شمولیت کی تحریک جماعتی تعمیرات کی نگرانی کے لئے احمدی انجینئروں کو تحریک کھانے پینے کے لئے اسلامی آداب اختیار کرنے کی تحریک صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کی کامیابی کے لئے ماہوار ایک نفلی روزہ رکھنے کی تحریک صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کی کامیابی کے لئے روزانہ کم از کم سات مرتبہ سورة فاتحہ غور و تدبر کے ساتھ پڑھنے کی تحریک.صد تحریک سالہ احمدیہ جوبلی کی کامیابی کے لئے روزانہ کم از کم دو نفل پڑھنے کی صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کی کامیابی کے لئے تسبیح و تحمید درود شریف استغفار اور قرآن مجید اور حدیث کی بعض دعائیں معین تعداد میں روزانہ پڑھنے کی تحریک حضرت مسیح موعود کی الہامی دعا (جو اسم اعظم کا درجہ رکھتی ہے) پڑھنے کی تحریک مجلس صحت کا قیام فضل عمر فاؤنڈیشن ، انجمنوں اور ذیلی تنظیموں کو غیر ملکی مہمانوں کے لئے گیسٹ ہاؤس بنانے کی تحریک جماعت کے افراد کو قوی اور امین بننے کی تحریک متلاشیان حق کو وفود کی شکل میں مرکز میں لانے کی تحریک قلمی دوستی کے ذریعے دعوت الی اللہ کی تحریک ذیلی تنظیموں کے ضلعی اور علاقائی اجتماعات منعقد کرنے کی تحریک
610 جنگی قیدیوں اور افغان مہاجرین کے لئے گرم کپڑے اور رضائیاں بنا کر مفت سپلائی کرنے کی سکیم اسلامی آداب و اخلاق کی ترویج و اشاعت تعلیم و خدمت و اشاعت قرآن ، فضل ممر فاؤنڈیشن ، نصرت جہاں لیپ فارورڈ منصوبہ اور صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ کا گذشتہ ابواب میں تفصیلی ذکر گزر چکا ہے اس باب میں صرف چند تحریکات اختصار کے ساتھ بیان کرنی مقصود ہیں.تحریک وقف زندگی حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نے یہ محسوس کیا کہ جامعہ احمدیہ سے تعلیم حاصل کرنے والے واقفین کی تعداد نعبتا کم ہے اس لئے تبلیغ کے میدان میں جو خلاء محسوس کیا جا رہا تھا اسے پورا کرنے کے لئے حضور نے خلافت کے ابتدائی ایام میں ”وقف بعد از ریٹائر منٹ" کی تحریک فرمائی اور پھر خلافت کے درمیانی ایام میں مخلص باہمت انگریزی دان احباب کو اور خلافت کے آخری ایام میں گریجوائیس کو زندگیاں وقف کرنے کی تحریک فرمائی.حضور نے ۲۵ جنوری ۱۹۷۴ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:." دنیا پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو اس وقت یہ صورت ہمارے سامنے آتی ہے کہ ایک طرف دہریت ، اشتراکیت کی شکل میں ساری دنیا پر چھانے کی کوشش کر رہی ہے دوسری طرف مذہب سرمایہ داری کا سہارا لیتے ہوئے اس یلغار کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے...اس وقت ان ترقی یافتہ ممالک میں جو اشتراکیت کے خلاف بر سر پیکار ہیں سرمایہ داری نظام تو معرض زوال میں ہے اور مذہب میدان سے بھاگتا نظر آتا ہے اس لئے میں نے جماعت کو پہلے بھی کہا کہ ان علاقوں میں ایک خلاء پیدا ہو رہا ہے.اب اس خلاء کو دو طاقتیں پر کرنے کی کوشش کر رہی ہیں ایک طاقت لامذہبیت اور دہریت کی ہے اور دوسری طاقت اسلام اور احمدیت کی ہے.ہمارا اصل مقابلہ ان لادینی طاقتوں سے ہے اور اس
611 مقابلہ میں ایک شدت پیدا ہو رہی ہے....جہاں تک مادی وسائل کا سوال ہے غیر مذاہب اور خدا کے اس دشمن کے مقابلہ میں ہماری کوئی طاقت ہی نہیں...اعلیٰ پیمانہ پر مبلغ بنانے والا ادارہ تو جامعہ احمدیہ ہے...اگر ہم صرف جامعہ احمدیہ پر انحصار کریں تو جس قدر انسانوں کی....ضرورت ہے اتنے تو یہ ادارہ ہمیں شاید اگلے سو سال میں بھی نہ دے سکے لیکن ہمیں آج ضرورت ہے اس ضرورت کو پورا کرنے کے لئے ہمیں ان بڑی عمر کے احمدیوں کی ضرورت ہے جو اگرچہ جامعہ احمدیہ یا اس قسم کے کسی اور ادارہ میں تو نہ پڑھے لیکن ان کی زندگی صحیح اور حقیقی اسلام کے مطالعہ میں خرچ ہوئی....ایسے لوگ اپنی زندگیوں کو وقف کریں زبان کے لحاظ سے انہیں انگریزی زبان اچھی طرح آنی چاہئے کیونکہ یہ ہر جگہ غیر ممالک میں کام دے جاتی ہے سینکڑوں ایسے انگریزی دان احمدی ہیں جنہوں نے اخلاص سے اپنی زندگیاں گزاری ہیں جنہیں اپنی گزشتہ زندگی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن کریم کی جو تفسیر ہمارے سامنے رکھی ہے اس کے مطالعہ کا شغف رہا ہے، جو علی وجہ البصیرت حقیقی اسلام کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتے ہیں، جنہوں نے اس مطالعہ کے دوران دوسرے مذاہب کے ساتھ مذہب اسلام کا موازنہ کیا ہے اور جن کو دعا کی عادت ہے جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت جوش مار رہی ہے اور جن کے سینوں میں حضرت نبی اکرم میں یا اللہ کے نام کو دنیا میں بلند کرنے کی ایک تڑپ پائی جاتی ہے.ایسے سینکڑوں ہزاروں احمدی جماعت احمدیہ میں موجود ہیں.آج میں ان کو آواز دے رہا ہوں کہ اسلام کی خاطر دنیا کے مختلف ممالک میں بھیجوانے کے لئے مجاہدین کی آج ضرورت ہے اور اس قسم کے لوگ ہی آج کے حالات میں اس ضرورت کو پورا کر سکتے ہیں اس لئے وہ آگے آئیں....
612...ہر قسم کے انگریزی دان افراد خواہ وہ ڈاکٹر ہوں، انجینئر ہوں، ٹیچر ہوں، پروفیسر ہوں وغیرہ وغیرہ اپنے آپ کو پیش کریں لیکن شرط یہ ہے کہ وہ لوگ اس گروہ سے تعلق رکھنے والے ہوں جن کی زندگیاں اسلامی تعلیم اور قرآن کریم کے مطالعہ میں گزری ہیں اور جو دوسروں سے تبادلہ خیال کرتے رہے ہیں.اس وقت اسلام کے ایک ادنیٰ خادم کی حیثیت سے میں جماعت کے ان احباب کو آواز دیتا ہوں کہ بڑھو ! زندگیوں کو وقف کرد!! اور اخلاص کے ساتھ سب کام چھوڑ کر باہر جاؤ اور تبلیغ اسلام کے فریضہ کی جو ذمہ داری ہے اسے اپنے کندھوں پر اٹھاؤ اور دنیا کو یہ بتاؤ اپنی دعاؤں کے ساتھ اور میری اور جماعت کی دعاؤں کے ساتھ کہ مذہب اسلام جو دنیاوی لحاظ سے علمی لحاظ سے ، اخلاقی لحاظ سے جو تعلیم دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہے اشتراکیت وغیرہ اس کے مقابلہ میں کسی میدان میں ٹھر نہیں سکتی آگے مالی تحریکات حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے جماعت کے مالی نظام کو مستحکم کرنے کے لئے اور سلسلہ کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ابتدائی زمانہ خلافت میں ہی فرمایا تھا کہ ”مالی قربانیوں کو بھی بڑھانے کی ضرورت ہے " جماعت کے موجودہ مالی نظام میں جہاں بھی وسعت کی گنجائش نظر آئی حضور نے اس کا جائزہ لے کر مناسب قدم اٹھایا اور صدر انجمن احمدیہ کے ضروری چندوں کے سلسلے میں نادہند افراد جماعت کو بجٹ میں شامل کرنے کی تحریک فرمائی.تحریک جدید انجمن احمدیہ کے چندہ کے لئے دفتر سوم کا اجراء فرمایا اور اسے کے حضرت مصلح موعود کے زمانہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے شمار کرنے کا ارشاد فرمایا :.تحریک جدید کی بنیاد حضرت مصلح موعود نے ۱۹۳۴ء میں رکھی تھی اور جن
613 مجاہدین نے ۱۹۳۴ء سے ۱۹۵۳ء تک کے عرصہ اس مالی جہاد میں شمولیت کی وہ دفتر اول میں شمار ہوتے ہیں حضرت مصلح موعود نے ۱۹۵۳ء میں تحریک جدید کے دفتر دوم کا اجراء فرمایا تھا.ย رض حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے ۲۳ اپریل ۱۹۶۶ء کو تحریک جدید کے دفتر سوم کا اجراء فرمایا اور اسے حضرت مصلح موعود کے زمانہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے یکم نومبر ۱۹۶۵ء سے واجب العمل ٹھہرایا.حضور نے دفتر سوم کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا :.تمام جماعتوں کو ایک باقاعدہ مہم کے ذریعہ نوجوانوں نئے احمدیوں اور نئے کمانے والوں کو دفتر سوم میں شمولیت کے لئے تیار کرنا ہے" س اسی طرح فرمایا :." تحریک جدید کے دفتر سوم کی طرف خصوصاً احمدی مستورات اور عموماً وہ تمام احمدی مرد اور بچے اور نوجوان جنہوں نے ابھی تک اس طرف توجہ نہیں کی وہ اس طرف متوجہ ہوں اور اپنی ذمہ داریوں کو نبھانے کی کوشش کریں گی غرض نهایت حکیمانہ طریق سے دفتر سوم کے ذریعے حضور نے ایک طرف دفتر اول اور دفتر دوم کے وفات یافتہ اور ریٹائرڈ مجاہدین کے چندوں کی کمی کو پورا فرمایا اور دوسری طرف نوجوانوں نئے احمدیوں، نئے کمانے والوں اور مستورات اور بچوں کو اس جہاد میں شامل فرمالیا.وقف جدید انجمن احمدیہ کے چندہ کے لئے حضور نے بچوں اور بچیوں کو شامل کرنے کا فیصلہ کیا اور ے.اکتوبر ۱۹۶۶ء کو وقف جدید کے دفتر اطفال کا اجراء فرمایا اور بچوں کو ایک ایک اٹھنی ماہوار ادا کر کے اس جہاد میں شامل ہونے کی تحریک فرمائی غریب بچوں کو اس سے بھی زیادہ سہولت دی اور فرمایا کہ ایک گھر کے سب بچے مل کر ایک اٹھنی ادا کر سکتے ہیں.حضور نے فرمایا:.میں آج احمدی بچوں (لڑکوں اور لڑکیوں) سے اپیل کرتا ہوں کہ اے خدا اور اس کے رسول کے بچو! اٹھو اور آگے بڑھو اور تمہارے بڑوں
614 کی غفلت کے نتیجہ میں وقف جدید کے کام میں جو رخنہ پڑ گیا ہے اسے پورا کر دو اور اس کمزوری کو دور کر دو جو اس تحریک کے کام میں واقع ہو گئی ہے کل سے میں اس مسئلہ پر سوچ رہا تھا میرا دل چاہا کہ جس طرح ہماری بہنیں بعض مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ جمع کرتی ہیں اور سارا ثواب مردوں سے چھین کر اپنی جھولیوں میں بھر لیتی ہیں وہ اپنے باپوں، اپنے بھائیوں کو اس بات سے محروم کر دیتی ہیں کہ اس مسجد کی تعمیر میں مالی قربانی کر کے ثواب حاصل کر سکیں.اسی طرح اگر خدا تعالیٰ احمدی بچوں کو توفیق دے تو جماعت احمدیہ کے بچے وقف جدید کا سارا بوجھ اٹھا لیں لیکن چونکہ سال کا بڑا حصہ گزر چکا ہے اور مجھے ابھی اطفال الاحمدیہ کے صحیح اعداد و شمار بھی معلوم نہیں اس لئے میں نے وچا کہ آج اطفال الاحمدیہ سے صرف ، صرف یہ اپیل کروں کہ اس تحریک میں جتنے روپے کی ضرورت تھی اس میں تمہارے بڑوں کی غفلت کے نتیجہ میں جو کمی رہ گئی ہے اس کا بار تم اٹھا لو اور پچاس ہزار روپیہ اس تحریک کے لئے جمع کرو.یہ صحیح ہے کہ بہت سے خاندان ایسے بھی ہیں جن کے بچوں کو مہینہ میں ایک دو آنے سے زیادہ رقم نہیں ملتی لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ ہماری جماعت میں ہزاروں خاندان ایسے بھی ہیں جن کے بچے کم و بیش آٹھ آنے ماہوار یا شائد اس سے بھی زیادہ رقم ضائع کر دیتے ہیں چھوٹا بچہ شوق سے پیسے لے لیتا ہے لیکن اسے معلوم نہیں ہو تا کہ ان کی قیمت کیا ہے وہ پیسے مانگتا ہے اور اس کی ماں یا اس کا باپ اس کے ہاتھ میں پیسہ آنہ دونی یا چونی دے دیتا ہے اور پھر وہ بچہ اسے کہیں پھینک کر ضائع کر دیتا ہے اگر مائیں ایسے چھوٹے بچوں کو وقتی خوشی کے سامان پہنچانے کے لئے پیسہ آنہ دونی یا چوٹی دے دیں اور پھر انہیں ثواب پہنچانے کی خاطر تھوڑی دیر کے بعد اس سے وہی پیسہ آنہ دونی یا چونی وصول کر کے وقف جدید میں
615 دیں اور اس طرح ان کے لئے ابدی خوشیوں کے حصول کے سامان پیدا کر دیں تو وہ بڑی ہی اچھی مائیں ہوں گی اپنی اولاد کے حق میں ، لیکن یہ تو چھوٹے بچے ہیں جو اپنی عمر کے لحاظ سے ابھی اطفال الاحمدیہ میں شامل نہیں ہوئے.وہ بچے جو اپنی عمر کے لحاظ سے اطفال الاحمدیہ یا ناصرات الاحمدیہ میں شامل ہو چکے ہیں یعنی ان کی عمریں سات سے پندرہ سال تک کی ہیں اگر وہ مہینہ میں ایک اٹھنی وقف جدید میں دیں.جماعت کے سینکڑوں ہزاروں خاندان ایسے ہیں جن پر ان بچوں کی قربانی کے نتیجہ میں کوئی ایسا بار نہیں پڑے گا کہ وہ بھوکے رہنے لگ جائیں.رہے وہ غریب خاندان جن کے دلوں میں نیکی کرنے اور ثواب کمانے کی خواہش پیدا ہو لیکن ان کی مالی حالت ایسی نہ ہو کہ ان کا ہر بچہ اس تحریک میں ایک اٹھنی ماہوار دے سکے تو ان لوگوں کی خواہش کے مد نظر میں ان کے لئے یہ سہولت پیش کر دیتا ہوں ایسے خاندان کے سارے بچے مل کر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دیں اس طرح اس خاندان کے سارے بھائی اور نہیں ثواب میں شریک ہو جائیں گی.یہ رعایت صرف ان خاندانوں کے لئے ہے جو مالی لحاظ سے کمزور ہیں لیکن باطنی اور ایمانی لحاظ سے ان کے دل روشن اور مضبوط ہیں اور ان کے بچوں کے دلوں میں یہ خواہش ہے کہ کاش ہماری مالی حالت ایسی ہوتی کہ ہم میں سے ہر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دے سکتا اور ہم ثواب سے محروم نہ رہتے.ان کی ایسی خواہش کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے یہ سهولت دی ہے کہ وہ سب بچے مل کر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک میں دیں.غرض ایک بچہ جب اٹھنی دے رہا ہو گا.جب بعض خاندانوں کے سب بچے باہم مل کر ایک اٹھنی ماہوار وقف جدید میں دے رہے ہوں گے تو یہ ایک لحاظ سے ان کی تربیت ہو گی اس طرح ہم ان کے ذہن میں یہ بات بھی راسخ کر رہے ہوں گے کہ جب خدا تعالیٰ کسی کو
616 فرمایا :.مال دیتا ہے تو وہ مال جو اس کی عطا ہے بشاشت سے اس کی طرف لوٹا دینا اور اس کے بدلہ میں ثواب اور اس کی رضا حاصل کرنا اس سے زیادہ اچھا سودا دنیا میں اور کوئی نہیں.پس اے احمدیت کے عزیز بچو! اٹھو اور اپنے ماں باپ کے پیچھے پڑ جاؤ اور ان سے کہو کہ ہمیں مفت میں ثواب مل رہا ہے آپ ہمیں اس سے کیوں محروم کر رہے ہیں.آپ ایک اٹھنی ماہوار ہمیں دیں کہ ہم اس فوج میں شامل ہو جائیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دلائل و براہین اور قربانی اور ایثار اور فدائیت اور صدق و صفا کے ذریعہ اسلام کو باقی تمام ادیان پر غالب کرے گی.تم اپنی زندگی میں ثواب لوٹتے رہے ہو اور ہم بچے اس سے محروم رہے ہیں.آج ثواب حاصل کرنے کا ایک دروازہ ہمارے لئے کھولا گیا ہے.ہمیں چند پیسے دو کہ ہم اس دروازہ میں سے داخل ہو کر ثواب کو حاصل کریں اور خدا تعالیٰ کی فوج کے ننھے منے سپاہی هو بن جائیں اللہ تعالی آپ سب کو اس کی توفیق عطا کرے آمین ".ہماری جماعت میں امیر بھی ہیں اور غریب بھی ہیں.میں یہ نہیں کہتا کہ ہر بچہ اٹھنی دے مگر یہ ضرور کہتا ہوں کہ ہر بچہ جتنا دے سکتا ہے ضرور دے.اگر وہ دھیلا دے سکتا ہے، اگر وہ پیسہ دے سکتا ہے، دونی دے سکتا ہے، اگر وہ چونی دے سکتا ہے تو اتنا اس کو ضرور دینا چاہئے ورنہ آج اس کے دل میں اسلام کی محبت کا وہ بیج نہیں بویا جائے گا جو بڑے ہو کر درخت بنتا اور شیریں پھل لاتا ہے.اسی طرح فرمایا :." وہ غریب خاندان جن کے دلوں میں نیکی کرنے اور ثواب کمانے کی خواہش پیدا ہو لیکن ان کی مالی حالت ایسی نہ ہو کہ ان کا ہر بچہ اس تحریک (وقف جدید) میں ایک اٹھنی ماہوار دے سکے تو ان لوگوں کی
617.خواہش کے مد نظر میں ان کے لئے یہ سہولت پیش کر دیتا ہوں کہ ایسے خاندان کے سارے بچے مل کر ایک اٹھنی ماہوار اس تحریک (وقف جدید) میں دیں.اس طرح اس خاندان کے سارے بھائی اور بہنیں ثواب میں شریک ہو جائیں کہ ذیلی تنظیموں کی طرف سے حضرت خلیفہ المسیح الثالث” کے زمانے میں حضور کی اجازت سے جو مالی تحریکات جاری ہوئیں ان میں سے انصار اللہ کے گیسٹ ہاؤس کے لئے مالی تحریک اور اس رقم سے گیسٹ ہاؤس کا تعمیر ہونا خدام الاحمدیہ کے گیسٹ ہاؤس کے لئے مالی تحریک اور اس رقم سے گیسٹ ہاؤس کا تعمیر ہونا خدام الاحمدیہ کی تعمیر ہال (دفتر دوم) کی تحریک اور محمود ہال کی چھت کی تبدیلی اور محمود ہال میں مختلف ضروری کاموں کا ہونا لجنہ اماء اللہ کی طرف سے بیرکس اور لجنہ ہال کے لئے تحریک اور ۱۹۷۱ء کے جنگی قیدیوں کے لئے گرم کپڑوں اور رضائیوں کی تیاری اور سپلائی لجنہ اماء اللہ کی طرف سے اشاعت قرآن کے لئے دس لاکھ روپے کی فراہمی خدام الاحمدیہ بیرون پاکستان کا جنوبی امریکہ اور اٹلی میں مساجد بنانے کے لئے روپیہ فراہم کرنا اس کے علاوہ حضور نے صد سالہ جوبلی جلسہ کے لئے دیگوں کی تحریک فرمائی اور نومبر ۱۹۸۱ء میں جمعہ کی نماز میں ایک سجدہ میں عطیہ جات دینے والوں کے لئے خاص دعا کرائی.غلبہ اسلام کی مہم کو کامیاب بنانے کے لئے روحانی پروگرام غلبہ اسلام کی عظیم الشان مہم کو سر کرنے کے لئے جہاں حضور نے جماعت کے لئے کئی توسیعی منصوبے بنائے اور مالی تحریکات جاری فرمائیں اور جماعت کی تربیت کے لئے
618 کئی سکیمیں جاری فرمائیں وہاں غلبہ اسلام کی مہم کو کامیاب بنانے اور اللہ تعالٰی کے زیادہ سے زیادہ فضل حاصل کرنے کے لئے بعض روحانی پروگرام بھی بنائے.چنانچہ ۱۵ مارچ ۱۹۶۸ء کو حضور نے تسبیح و تحمید درود شریف اور استغفار کی تحریک جاری کی اور فرمایا کہ احباب جماعت سال بھران خاص دعاؤں کا ورد کریں اور اس کے لئے کم از کم تعداد بھی مقرر فرما دی.۲۵ سال سے اوپر کے افراد جماعت کے لئے روزانہ کم از کم دو سو (۲۰۰) مرتبہ ان دعاؤں کا ورد کرنے کا ارشاد فرمایا.۱۵ سال سے ۲۵ سال تک کے افراد کے لئے ۱۰۰ سو کی تعداد مقرر فرمائی.۷ سال سے ۱۵ سال تک کے بچوں کے لئے ۳۳ مرتبہ دعائیں کرنے کا ارشاد فرمایا اور ان بچوں کے لئے جنہوں نے ابھی بولنا شروع کیا ہو تین مرتبہ روزانہ دعائیں کرنے کی تعداد مقرر فرمائی.۱۹۶۹ء میں حضور نے قرآن کریم کی دعا رَبَّنَا افْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْكَفِرِينَ O کا اضافہ فرمایا.اسی طرح حضرت مسیح موعود کی ایک الہامی دعا کا بھی اضافہ فرمایا جو کہ یہ ہے رَبِّ كُلِّ شَيْءٍ حَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا ۱۹۷۳ء میں حضور نے صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ " کا اعلان فرمایا اور اس منصوبہ کی کامیابی کے لئے جماعت احمدیہ کے قیام پر ایک صدی مکمل ہونے تک جماعت، کو ایک عظیم روحانی پروگرام دیا جو دراصل حضور کے سابقہ روحانی پروگراموں کی ایک جامع شکل تھی اس پروگرام کے مطابق ہر ماہ ایک نفلی روزہ رکھا جائے هر روز دو نفل نماز ظهر یا نماز عشاء کے بعد ادا کئے جائیں روزانہ کم از کم سات بار سورۃ فاتحہ غور و تدبر کے ساتھ پڑھی جائے.هر روز ۳۳٬۳۳ بار درج ذیل دعاؤں کا ورد کیا جائے اسْتَغْفِرُ اللهَ رَبّى مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَأَتُوبُ إِلَيْهِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ
619 الْعَظِيم اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ کم از کم گیارہ بار روزانہ یہ دعائیں پڑھی جائیں رَبَّنَا افْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَّ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ ) اللهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُورِهِمْ وَنَعُوذُبِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ اس کے علاوہ اپنی زبان میں بکثرت دعائیں کی جائیں.۱۸.ستمبر ۱۹۸۱ء کو امن عالم کے لئے حضور نے دعاؤں اور صدقات کی تحریک فرمائی.۲۰ نومبر ۱۹۸۰ء کو چودھویں صدی ہجری کا اختتام اور پندرھویں صدی ہجری کے استقبال کے لئے حضور نے لا اله الا اللہ کا ورد کرنے کی تحریک فرمائی.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نے تسبیح و تحمید اور درود شریف کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا :." میں چاہتا ہوں کہ تمام جماعت کثرت کے ساتھ تسبیح و تحمید اور درود شریف پڑھنے والی بن جائے.اس طرح ہو کہ ہمارے مرد ہوں یا عورتیں روزانہ کم از کم دو سو بار تسبیح و تحمید اور درود شریف پڑھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا ہے یعنی سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ اَللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ آلِ مُحَمَّدٍ اور ہمارے نوجوان پندرہ سال سے پچیس سال تک کی عمر کے تینتیس دفعہ یہ تسبیح اور درود شریف پڑھیں اور ہمارے بچے اور بچیاں جن کی عمر سات سال سے کم ہے جو ابھی پڑھنا نہیں جانتے ان کے والدین یا ان کے سر پرست (اگر والدین نہ ہوں) ایسا انتظام کریں کہ ہر وہ بچہ یا بچی جو کچھ بولنے لگ گئی ہے یا لفظ اٹھانے لگ گئی ہے ان سے تین دفعه کم از کم تسبیح و درود کہلوایا جائے" حضور نے عورتوں کو تحریک کرتے ہوئے فرمایا:." آپ کھانا پکا رہی ہوتی ہیں آپ دیچی میں چمچہ ہلا رہی ہوتی ہیں تا مسالہ بھون لیں تو آپ اپنے ہاتھ کی حرکت کے ساتھ
620 سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ پڑھ سکتی ہیں.آپ ہاتھ کی حرکت کے ساتھ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ پڑھ سکتی ہیں.اس طرح جو کھانا تیار ہو گا وہ کھانے والوں کے معدہ میں صرف مادی غذا ہی مہیا نہیں کرے گا بلکہ آپ کی دعاؤں کے نتیجہ میں انہیں روحانی غذا سے بھی حصہ ملے گا.حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" نے تسبیح و تحمید اور درود شریف پڑھنے کے علاوہ استغفار کرنے کی بھی تحریک فرمائی اور فرمایا:.” ہماری جماعت کے ذمہ تمام دنیا میں اسلام کے جھنڈے کو بلند کرنا ہے.اتنی بڑی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہماری تمام بشری کمزوریاں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی چادر کے نیچے دبی رہیں اور ان کا ظہور نہ ہو.اس غرض کے لئے ضروری ہے کہ جماعت کے تمام مرد اور خواتین جن کی عمر پچیس اور پندرہ سال کے درمیان ہے وہ دن میں ۳۳ بار جن کی عمر پندرہ سے سات سال کے درمیان ہے وہ دن میں گیارہ بار اور چھوٹے بچے جن کی عمر سات سے کم ہے وہ روزانہ کم از کم تین بار استغفار کیا کریں" ل ایک اور دعا کا اضافہ کرتے ہوئے فرمایا:.” میں نے جماعت کو کم از کم تعداد مقرر کئے بغیر یہ تحریک کی تھی کہ کثرت سے پڑھیں رَبِّ كُلِّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَ انْصُرْنَا وَارْحَمْنَا (یعنی اے میرے رب ! ہر ایک چیز تیری خدمت گار ہے.اے میرے رب! پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما.) میں آج ایک تو یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ چونکہ سال ختم ہونے ہے دوست دعا نہ چھوڑیں بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ دنیا میں جو حالات رونما ہو رہے ہیں ان کا تقاضا یہ ہے کہ ہم دعاؤں کو کم کرنے کی والا
621 بجائے اور بھی زیادہ کریں.میں آج ایک نئی دعا بھی ان دعاؤں میں شامل کرنا چاہتا ہوں.دوست اس دعا کو بھی کثرت کے ساتھ پڑھیں وہ یہ ہے رَبَّنَا افْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الكفرين ال (سورۃ بقره آیت ۲۵۱) (اے ہمارے رب! ہم پر قوت برداشت نازل کر اور میدان جنگ میں ہمارے قدم جمائے رکھ) اور (ان) کافروں کے خلاف ہماری مدد کر) لا اله الا اللہ کا ورد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کے دور خلافت میں چودھویں صدی ہجری اپنے اختتام کو پہنچی اور پندرھویں صدی ہجری کا آغاز ہوا.چودھویں صدی کو الوداع کہنے اور نئی صدی کا استقبال کرنے کے لئے حضور نے جماعت کو افضل الذكر لا إِلهَ إِلَّا الله کا کثرت کے ساتھ ورد کرنے کی تحریک فرمائی.حضور نے سالانہ اجتماع انصار اللہ مرکزیہ ۱۹۸۰ء کے موقع پر فرمایا:.و, چند دنوں تک چودھویں صدی ختم ہو رہی ہے.اس صدی کو خدائے واحد ویگانہ کی توحید کے ورد کے ساتھ الوداع کہیں لا الهَ اِلا اللہ کا ورد کثرت سے پڑھیں کہ کائنات کی فضا اس ترانہ کے ساتھ معمور ہو جائے.دن رات اٹھتے بیٹھتے بالکل خاموشی کے ساتھ اونچی آواز میں بھی نہیں (حضور نے دھیمی آواز میں لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ متعدد بار دہرا کر دکھایا اور پھر فرمایا) الله لا إله إلا الله لا إله إلا الله اٹھتے بیٹھے ، چلتے پھرتے پڑھتے - رہیں.اس ندا کے ساتھ اس صدی کو الوداع کہیں اور اسی ندا کے ساتھ ہم اگلی صدی کا استقبال کریں گے.انشاء اللہ تعالی ۲
622 " خدام الاحمدیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۸۰ء کے موقع پر حضور نے فرمایا:.حالیہ دورہ کے دوران مجھے دو مرتبہ کشف میں ایک نظارہ دکھایا گیا کہ کائنات کی ہر شے خدا کی تسبیح اور اس کی وحدانیت کا ورد کر رہی ہے.وہ واقعہ یوں ہے کہ میں سونے کی تیاری میں تھا.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ کا ورد کر رہا تھا.آنکھیں میری بند تھیں مگر کشفی آنکھوں نے یہ نظارہ دیکھا کہ میرے آگے سے سمندر کی طرح کائنات کی ہر چیز ہلکے انگوری رنگ کے مائع کی صورت میں بہتی ہوئی گزر رہی ہے اور اس میں چھوٹے چھوٹے سفید چمکدار حصے تھے جو لا إِلهَ إِلَّا الله کی صوتی لہریں تھیں.حضور نے اس کشف کی یہ تعبیر فرمائی کہ اب وقت آگیا ہے کہ خدا کی توحید بنی نوع انسان کے دلوں میں گاڑی جائے.حضور نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے بتایا کہ خدا کی عجیب شان ہے کہ اس قسم کا الہام آج سے ۹۸ سال قبل ۱۸۸۲ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا کہ وَ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّالِ مُحَمَّدٍ - الصَّلوةُ هُوَ الْمُرَبِّي إِنِّي رَافِعُكَ إِلَى - وَالْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةً مِنِّي - لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ - فَاكْتُبُ وَلْيُطْبَعْ وَلْيُرْسَلُ فِي الْأَرْضِ - حُدُوا التَّوْحِيدَ التَّوْحِيْدَ يَا أَبْنَاءَ الْفَارَس" حضور نے فرمایا کہ جب یہ الہام ہوا اس وقت اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سامان نہ تھے اور آج جبکہ ۹۸ سال گزر چکے ہیں اور اس کے سامان بھی پیدا ہو چکے ہیں.خدا تعالیٰ نے اس طرف پھر توجہ ولائی ہے" te
623 انسانی صلاحیتوں کی نشوونما کی تحریک اجتماع خدام الاحمدیہ مرکزیہ منعقدہ ۱۵.اکتو بر ا۱۹۷ء میں فرمایا :." اللہ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم میں پیدا کیا اور احسن تقویم کی پیدائش کے نتیجہ میں اصولی طور پر اسے چار قسم کی قوتیں اور استعدادیں دیں ایک جسمانی طاقت ہے.پھر ذہنی استعداد ہے.پھر اخلاقی قومی اور استعدادیں ہیں اور پھر روحانی قومی اور استعدادیں ہیں ؟ حضور نے ان استعدادوں کی نشوو نما کی تحریک فرمائی.حضور نے فرمایا.قرآن کریم پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصولی طور پر ہمیں چار قسم کی قوتیں اور صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں (۱) جسمانی (۲) ذہنی (۳) اخلاقی اور (۴) روحانی مزید فرمایا :.اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہر قسم کی قوت کی نشو و نما کو کمال تک پہنچانے کے لئے انتہائی کوشش کرنی ضروری ہے اور ان چار قسموں میں سے کسی قسم کی قوت اور صلاحیت کو نظر انداز کرنے کی اجازت نہیں کیونکہ وَلِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقٌّ کی رو سے انسان کی تمام طاقتوں اور قوتوں کی صحیح صحیح اور کامل نشو و نما ہونی چاہئے " ۵) جلسه سالانه ۱۹۷۴ء کے موقع پر فرمایا:.پس ان سب دعاؤں کے ساتھ ہم اپنے اس جلسہ سالانہ کا افتتاح کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ نوع انسان کی خوشحالی کے سامان پیدا کرے.اللہ تعالیٰ نوع انسان کے لئے روحانی ، اخلاقی ، ذہنی اور جسمانی طور پر حقیقی
624 elyes لذت اور سرور کے سامان پیدا کرے ۱۶۴ حضور نے خطبہ جمعہ 9 مئی ۱۹۶۹ء میں فرمایا:.میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑا حق نفس کا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو جو قوتیں اور استعدادیں دی ہیں وہ اپنے دوسرے وسائل اور عطایا اس طرح خرچ کرے کہ یہ قوتیں اور استعدادیں اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور فضل کے نتیجہ میں اپنے کمال تک پہنچ جائیں تاکہ انسانی " پیدائش کا مقصد پورا ہو " کاله کھیلوں کے کلب اور صحت جسمانی حضور نے ۱۹۸۱ء کے سالانہ اجتماع خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے موقع پر جسمانی صحت کو بہتر بنانے کے لئے کھیلوں کے کلب بنانے کی تحریک فرمائی اور پھر مستورات کو بھی اس طرف توجہ دلائی.حضور نے تمام جماعتوں کو ورزش کے لئے کلب بنانے کا ارشاد فرمایا اور عورتوں کو بھی تحصیل اور ضلع کی سطح پر کلب بنانے کی تحریک فرمائی.حضور نے فرمایا:."ورزش کوئی مشکل کام نہیں.احمدی عورتوں کے لئے اونچی دیواروں والے کسی ایسے احاطہ کا انتظام کیا جائے جہاں وہ اکٹھی ہو کر ورزش کیا کریں" حضور نے فرمایا :." ہر احمدی عورت اور بچی کو دنیا میں سب سے زیادہ صحت مند ہونا چاہئے.اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وہ پڑھائی کے میدان میں بھی آگے نکلیں گی......ہماری احمدی خواتین اور بچیوں کو صحت کے میدان میں سب سے زیادہ صحت مند ذہانت کے میدان میں سب سے زیادہ ذہین ہونا چاہتے اور اخلاق کے میدان میں نور اور حسن کا ایسا نمونہ دکھانا چاہئے
625 کہ جس.سے دوسری خواتین کے دل جیتے جا سکیں اور روحانی رفعتوں میں ایسی بلندی پر ہونا چاہئے کہ جو روحانیت کو نہیں مانتے وہ بھی قائل ہو جائیں...حضور نے لجنات کے علاوہ خدام کو بھی متوجہ کیا کہ وہ بھی ایک سال کے اندر اندر ہر تحصیل کی سطح پر کلب قائم کریں جس میں میرو ڈبہ.کبڈی وغیرہ کھیل کھیلے جائیں.....اس کے علاوہ سائیکل چلانا بڑی اچھی ورزش ہے.سویابین کی طرح یہ بھی دل کی بیماریوں کے لئے بڑی اچھی ہے اس کے علاوہ ڈنڈ پیلینا اور طاقت ور ہونے کی دیگر ورزشیں کرائی جا سکتی ہیں....ورزشی کھیلیں تنظیم کی عمدہ مثال ہیں.اس لئے عملی پروگرام یہ ہو گا کہ مہینے میں دو تحصیلوں کا مقابلہ ہو ، ہر سہ ماہی میں ضلع کا مقابلہ ہو ، ہر چھ ماہ میں ایک بار کمشنری کا اور سال میں ایک بار یہاں اجتماع ولد میں ملکی سطح کے مقابلے ہوں" اسی طرح حضور نے فرمایا:.ایک مومن کی زندگی کا اصل حسن تو روحانی اور اخلاقی کمالات کو حاصل کرنا ہے لیکن اس کے لئے جسمانی صحت و توانائی بھی ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے اہل ربوہ کے لئے سیر اور دیگر کھیلوں کا پروگرام بنانے اور پھر کامیابی کے ساتھ اس پر عمل کرنے کے لئے مجلس صحت قائم کی ہے "۲۰ حضور نے فرمایا:.اپنے بچوں کو صحت مند بنائیں.اس کے لئے دو باتیں ضروری ہیں.ایک یہ کہ انہیں اچھی غذا دیں.دوسرے یہ کہ ورزش کے ذریعہ اس غذا کو ہضم بھی کرائیں.دنیا میں ہماری جماعت سب سے زیادہ صحت مند ہونی چاہئے جیسا کہ آنحضرت ملی الم کے صحابہ دنیا میں
626 سب سے زیادہ صحت مند انسان تھے.جب محمد رسول اللہ مال کے وصال کے بعد صحابہ کو ایران سے جنگ کرنا پڑی تو حضرت ابو بکر ہیں انہوں نے سرحدوں پر حضرت خالد بن ولید کو ایرانیوں کے مقابلہ کے لئے بھیجا.ان کے پاس صرف ۱۸ ہزار سپاہی تھے جنہیں ایران کی ایک لاکھ اور کبھی اسی ہزار تازہ دم فوج کا مقابلہ کرنا تھا.حضرت خالد بن ولید کے زیر کمان قریباً پانچ لڑائیاں لڑی گئیں.حالت یہ تھی کہ ہر دو گھنٹہ کے بعد تازہ دم ایرانی فوج آگے آجاتی تھی.اس طرح ایرانی فوج دن بھر میں صرف دو گھنٹہ تلوار چلاتی تھی جبکہ مسلمان فوج کو مسلسل آٹھ گھنٹہ تلوار چلانی پڑتی تھی.اس سے ظاہر ہے کہ مسلمان سپاہی ایرانیوں سے چار گنا زیادہ صحت مند تھے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم کے نتیجہ میں ایسا ممکن کر دکھایا تھا.تمہیں بھی اسلام کے دشمنوں کے خلاف اخلاقی اور روحانی جنگیں جیتی ہیں.تم کو ان جنگوں کے لئے پوری طرح مسلح ہونا چاہئے اسی لئے میں کہتا ہوں قرآن پڑھو، اسلام پر عمل پیرا ہو اور علم حاصل کرو.تم اپنی کوشش ، مجاہدہ اور دعاؤں کے نتیجہ میں کامیاب ہو گے ؟ اللہ سائیکل سفر اور سروے بعض مصلحتوں کے تحت جن میں سے ایک ورزش اور جسمانی نشوونما سے متعلق ہے حضور نے شروع خلافت سے ہی خدام الاحمدیہ کے لئے سائیکل سفر اور سائیکل سروے کا منصوبہ بنایا اور خدام کو سائیکل سواری کی طرف توجہ دلائی.حضور نے خدام کو اپنے اپنے علاقوں میں مختلف دیہاتوں کی طرف سائیکل پر سفر کرنے اور وہاں سروے کرنے کا ارشاد فرمایا تاکہ وہاں کے ضروری اعداد و شمار کو اکٹھا کیا جائے اور ان اعداد و شمار کو بنیاد بنا کر وہاں دعوت الی اللہ اور خدمت خلق کے پروگرام بنائے جائیں حضور نے خدام کو سائیکلوں پر سفر کر کے سالانہ اجتماع پر شامل ہونے کی تحریک فرمائی.
627 جس پر بڑے جوش و خروش سے عمل کیا گیا.حضور نے اس تحریک کا اعلان ۱۹۷۳ء کے اجتماع پر کیا چنانچہ ہر سال سائیکلوں پر اجتماع پر آنے والے خدام کی تعداد بڑھتی گئی.خدام کے علاوہ انصار اللہ بھی سائیکلوں پر اجتماع میں شمولیت کے لئے آنے لگے اور ہر سال ان کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا رہا.کراچی اور کوئٹہ تک سے سائیکل سوار مرکز سلسلہ میں اجتماعات پر آتے رہے اور بعض اسی (۸۰) اسی (۸۰) سال کے بوڑھے اور بعض بارہ تیرہ سال کے اطفال نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی.حضور نے ارشاد فرمایا کہ یہ تعداد بڑھتے بڑھتے صد سالہ احمد یہ جوبلی تک ایک لاکھ سائیکل سواروں تک پہنچ جانی چاہئے.۲ ذیلی تنظیموں کے دائرہ کار کا تعین حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے ذیلی تنظیموں کے دائرہ کار کی تعین بھی فرما دی اور فرمایا :- ” جماعت کی ذیلی تنظیموں انصار اللہ خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کو بھی اپنے منصوبے اور پلین Plan ریوائز Revise کرنے چاہئیں.انہیں مزید غور کے بعد ان میں کچھ تبدیلیاں کر لینی چاہئیں کہ وہ ایسے کاموں کی طرف توجہ نہ دیں جو ان کے سپرد نہیں کئے گئے ہیں.کیونکہ فرائض کو چھوڑ کر نوافل کی طرف متوجہ ہونا کوئی نیکی نہیں اور نہ اس کے اچھے نتائج ہی نکلتے ہیں.پس جماعت کی ان ذیلی تنظیموں کو اپنے مفوضہ فرائض احسن طور پر بجا لانے کی کوشش کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ ان کے کاموں میں برکت دے کہ وہ جماعت کی مضبوطی کے لئے قائم کی گئی ہیں اور اگر یہ تنظیمیں اپنے فرائض کو پوری طرح ادا کریں تو یہ جماعت کے لئے بہت برکت کا موجب بن سکتی ہیں اور خدا تعالیٰ کی رحمتوں کو جذب کر سکتی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں ایسا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین"
628 گھوڑ نے پالنے کی تحریک پس منظر :.حضرت خلیفہ المسیح الثالث " کو بچوں، پھولوں اور گھوڑوں سے بہت پیار تھا.محترم چوہدری محمد علی صاحب بیان کرتے ہیں کہ عاجز سے ایک دفعہ فرمایا کہ ہمیں گھوڑے سے اس لئے محبت ہے کہ رسول مقبول می کو اس سے محبت تھی چنانچہ اس محبت اور اس خطرہ کے پیش نظر کہ آئندہ ایٹمی جنگ کے نتیجے میں تمام سامان رسل و رسائل معدوم ہو جائیں گے حضور نے جماعت کو گھوڑے پالنے کی تحریک فرمائی.حضور نے فرمایا:.فرمایا :- " مجھے تو فکر ہے کہ جنگ اور ایٹمی لڑائی کے نتیجہ میں سب اسباب رسل و رسائل معدوم ہو جائیں گے اس لئے ابھی سے پاکستانیوں کو گھوڑوں میں دلچسپی لینی چاہئے تاکہ بوقت ضرورت سواری کا سامان میسر ہو." میری سکیم یہ ہے کہ جماعتیں کم از کم دس ہزار گھوڑے پاک عرب (Pakarab) نسل کے رکھیں اس سکیم کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے چند سال لگیں گے لیکن PAKARAB گھوڑوں کی نسل کی افزائش کا آغاز ہو چکا ہے " ۲۵ حضور نے گھوڑوں کی پرورش اور نگہداشت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:.” میرا ارادہ ہے کہ ربوہ میں بھی اور باہر کی جماعتوں میں بھی ایسے کلب جاری کروں جہاں گھوڑوں کی نگہداشت اور سواری وغیرہ کی تربیت دی جایا کرے ۳۶
629 خيل للرحمان گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ حضور نے 9 دسمبر ۱۹۷۲ء کو مرکز سلسلہ ربوہ میں گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ کا آغاز فرمایا.اس کے لئے حضور نے خیل الرحمان کے نام سے ایک کمیٹی بنائی اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو اس کا صدر مقرر فرمایا.خیل الرحمان گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ کے تحت ہونے والے مقابلوں میں حضور ” بنفس نفیس تشریف لاتے رہے اور مفید ہدایات دینے کے علاوہ انعامات تقسیم فرماتے.حضور سب سے زیادہ گھوڑے لانے والے قائد ضلع کو اپنی طرف سے ایک ہزار روپے انعام دیا کرتے تھے.حضور نے اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ صد سالہ احمد یہ جوبلی کے جلسہ سالانہ تک جماعت کے افراد چالیس ہزار گھوڑے پالیں." ایک شخص نے یہ اعتراض کیا ہے کہ خلیفہ المسیح گھوڑوں کی طرف زیادہ توجہ دے رہے ہیں اور خود بھی گھوڑے پال رہے ہیں جبکہ گھوڑوں کی افزائش سے مذہب کا کوئی تعلق نہیں " حضور نے فرمایا :." معترض نے مذہب اسلام کو سمجھے بغیر اعتراض کر دیا ہے.حالانکہ آنحضرت مالی دیوی کی بہت سی احادیث صرف گھوڑوں کی افزائش ، ان کی عادات کے مطالعہ اور ان کی نگہداشت کے بارہ میں ہیں.میں نے ان احادیث کو اکٹھا کرنا شروع کیا ہے اور اس مجموعہ کا نام "کتاب الخيل " رکھا ہے اور یہ ایک ضخیم کتاب بنتی جا رہی ہے.آنحضرت میں یا اللہ نے فرمایا ہے کہ گھوڑے کی پیشانی میں تمہارے لئے قیامت تک برکت رکھی گئی ہے.کیا ایک بابرکت چیز کی نگہداشت مذہب کا حصہ نہیں ہے؟ پھر قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق آتا ہے کہ وہ بھی گھوڑوں سے پیار کرتے تھے اور اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کی تلاش کرتے تھے چنانچہ فرمایا:.
630 فرمایا :- إِذْ عُرِضَ عَلَيْهِ بِالْعَشِيِّ الصَّفِنَتُ الْجِيَادُ فَقَالَ إِنِّي أَحْبَبْتُ حُبَّ الْخَيْرِ عَنْ ذِكْرِ رَبِّي حَتَّى تَوَارَتْ بِالْحِجَابِ (ص: ۳۳٬۳۲) ترجمہ (اور یاد کر) جب اس کے سامنے شام کے وقت اعلیٰ درجہ کے گھوڑے پیش کئے گئے تو اس نے کہا میں دنیا کی اچھی چیزوں سے اس لئے محبت رکھتا ہوں کہ وہ مجھے میرے رب کی یاد دلاتی ہیں.یہاں تک کہ جب وہ گھوڑے اوٹ میں آگئے پھر آگے چل کر آتا ہے کہ رُدُّوهَا عَلَيَّ فَطَفِقَ مَسْحًا بِالسُّوقِ وَالْأَعْنَاقِ (ص: ۳۴) ترجمہ (اس نے کہا) ان کو میری طرف واپس لاؤ (جب وہ آئے) تو وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر تھپکنے لگا یہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مجھے ہر خوبصورت چیز اللہ کی یاد دلاتی ہے اور آپ نے ان گھوڑوں کو پیار کیا تو کیا یہ قابل اعتراض بات ہے کہ خدا کا نبی گھوڑوں کو پیار کرتا پھرے؟ ہرگز نہیں.فرمایا معترض خود اسلام سے واقف نہیں ہے اس لئے بلا سوچے سمجھے اس کے دل میں وساوس پیدا ہو گئے " ۲۷ ” میں نے کچھ کتب جو گھوڑوں کے متعلق ہیں انگلستان سے منگوائی ہیں ان سب نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ آنحضرت اللہ نے ہی عرب گھوڑوں کی افزائش پر منتظم رنگ میں پہلی دفعہ توجہ فرمائی.میں نے بھی آنحضرت میل و سلم کے ارشادات جو گھوڑوں کے متعلق ہیں جمع کرائے ہیں اور یہ ایک اچھی خاصی کتاب بن گئی ہے.یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ آنحضرت میں نے گھوڑوں کی پرورش کے متعلق اتنی بیش بہا معلومات ہم کو دی ہیں کہ کئی انگریزی کتب میں بھی اتنی تفصیل موجود نہیں ہے.ایک کتاب میں
631 لکھا ہے کہ ایک عرب گھوڑا ۹۰۰ میل تک بغیر پانی پئے چلتا چلا گیا.۲۸ گیا......چستی اور جفاکشی کا سبق حضرت خلیفہ المسیح الثالث " نے گھوڑوں کی افزائش سے یہ نتیجہ نکالا کہ عربی النسل گھوڑوں کی خوراک کم ہونے سے ان میں چستی اور جفاکشی باقی گھوڑوں کی نسبت زیادہ ہے اس لئے انسان کو بھی کم خوری کی عادت ڈالنی چاہئے تاکہ وہ صحت مند اور چاک و چوبند رہ سکے.حضور نے اس سلسلہ میں فرمایا :.فرمایا :- " آنحضرت میں یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ مومن کو کم کھانا چاہئے اور پر خوری سے بچنا چاہئے.اگر ہماری قوم حضور میل کے اس ارشاد پر عمل پیرا ہو جائے تو علاوہ اعلیٰ صحت کے ملک سے غذائی قلت بھی جاتی رہے گی اور عوام کو اکثر بیماریوں سے نجات بھی مل جائے گی.ہمارے احمدیوں کو پر خوری سے اجتناب کرنا چاہئے اور ملک میں ایسی تحریک شروع کرنی چاہئے کہ یہ بات عوام کے ذہن نشین کرائی جائے کہ زیادہ کھانے سے نقصان ہی ہوتا ہے اپنی صحت کا بھی اور قومی معیشت کا بھی ۲۹ et کم کھانے سے بدن میں چستی اور جفاکشی کی عادت پیدا ہوتی ہے چنانچہ دیکھا گیا ہے کہ عربی النسل گھوڑوں کی خوراک دوسرے گھوڑوں کی نسبت بہت ہی کم ہے لیکن ان میں چستی اور جفاکشی دوسرے گھوڑوں کی نسبت کہیں زیادہ ہے.
632 - حضور کا گھوڑوں سے پیار اور توکل کا ایک واقعہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث " نے جو گھوڑے پال رکھے تھے ان کے باقاعدہ نام رکھے ہوئے تھے.حضور کے سائیس اللہ داد صاحب ابن ولی داد صاحب نے بتایا کہ حضور ” جب بھی ربوہ سے باہر تشریف لے جاتے انہیں بلا کر گھوڑوں کی دیکھ بھال کی ہدایات دے کر جاتے.حضور کے گھوڑوں میں سے بعض کے نام یہ ہیں (1) ورد (II) نیم بخت (III) لینی ایک دفعہ نیم بخت گھوڑی کے کندھے میں درد ہو گیا.حضور اصطبل میں تشریف لائے اور اللہ داد سے پوچھا کہ ابھی ٹھیک نہیں ہوئی؟ اللہ داد نے عرض کیا کہ دو سال سے علاج ہو رہا ہے ٹھیک نہیں ہوئی.حضور نے فرمایا ادھر لاؤ اور چار پانچ.گھوڑی کے کاندھے پر ہاتھ پھیرا اور دعا کر کے پھونکا اور فرمایا ٹھیک ہو جائے گی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے گھوڑی صبح تک ٹھیک ہو گئی.حضور سے گھوڑوں کو اتنا پیار تھا کہ جب بھی حضور اصطبل میں داخل ہوتے جانور دروازے پر آکر کھڑے ہو جاتے.حضور انہیں پیار کرتے اپنے ہاتھ چارہ ڈالتے.حضور” کی وفات کے بعد صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب ابن حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " ایک مرتبہ اسی قسم کے لباس میں تشریف لائے جس لباس میں حضور اصطبل میں آتے تھے.سارے جانور حضور کی یاد میں میاں صاحب سے پیار کروانے آئے اور جس گھوڑے پر حضور سواری کرتے تھے وہ گھوڑا ساری رات نہ سویا اور مسلسل بولتا رہا.۱۹۷۱ء میں ایک مرتبہ گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور حضور گھوڑے سے گر گئے اور کافی عرصہ زیر علاج رہے.حضور کو سخت بستر پر سونا پڑا.ان ایام کا ذکر کرتے ہوئے حضور ایک واقعہ بیان کرتے ہیں جس سے حضور کے توکل علی اللہ اور اللہ تعالیٰ کی اعلیٰ قدرتوں پر یقین کا اندازہ ہوتا ہے.حضور فرماتے ہیں..
633 " خدا کی یہ شان ہے کہ جب ۱۹۷۱ء کے شروع میں میں گھوڑے سے گرا اور علاج کے کئی مرحلوں سے مجھے گزرنا پڑا تو اس سے میرے Stiff ہو گئے.ایک ڈاکٹر صاحب مجھے کہنے لگے.یہ تو اب ٹھیک ہو ہی نہیں سکتے.میں نے کہا.میں نے تمہیں خدا کب مانا ہے ؟ میں تو اللہ کو مانتا ہوں اور اسی پر بھروسہ رکھتا ہوں جو قادر مطلق ہے اس کے سامنے کوئی چیز ان ہونی نہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور یہ تکلیف دور ہو گئی.فالحمد للہ علی ذالک اس حضور نے فرمایا:- " سویابین کا استعمال اللہ تبارک و تعالی جسے سب قدرتیں اور طاقتیں حاصل ہیں احمدی خاندانوں کو بڑے ذہین بچے عطا کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ کے اس عظیم عطیہ کی ہمیں قدر کرنی چاہئے اور پوری کوشش کرنی چاہئے کہ یہ ضائع نہ ہونے پائے.ہر احمدی کا یہ فرض ہے کہ وہ اس امر کا اہتمام کرے کہ اس کے بچے حتی المقدور اعلیٰ ترین تعلیم حاصل کریں اور اس طرح کوئی ایک ذہن بھی ضائع نہ ہو......بچوں کی تعلیمی ترقی کا اہتمام کرنے کے ضمن میں ان کی صحت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے بعض خوراکیں بچوں کی جسمانی صحت اور ذہنی نشوونما کے لئے بہت مفید ہیں ان میں سے ایک سویا بین بھی ہے.دوسری مفید غذاؤں کے ساتھ ساتھ بچوں کو سویابین بھی ضرور دینی چاہئے لیکن یہ احتیاط ضروری ہے کہ سویابین اصلی اور اعلیٰ قسم کی ہو.سویابین کے متعلق جدید تحقیق یہ ہے کہ اس میں چوبیس فیصد تیل ہوتا ہے.اس تیل میں ایک کیمیکل ہے جسے لیسی تھین Lecithin کہتے ہیں.یہ کیمیکل بچوں کی عام صحت اور بالخصوص سکولوں میں پڑھنے
634 والے بچوں کے ذہن کے لئے بہت مفید ہے ۳۲ احمدی طلباء کی تنظیمیں ہو خلافت ثالثہ کے ابتدائی دور میں ہی ہر بڑے شہر میں احمدی طلباء کی تنظیم قائم ہو تھی مثلاً احمد یہ انٹر کالجیٹ ایسوی ایشن لاہور.لیکن بالخصوص ۱۹۷۹ء میں تعلیمی منصوبے کے اعلان پر حضور نے اس طرف خاص توجہ دی اور مرکزی سطح پر احمدی طلباء کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ میں امور طلباء" کا ایک شعبہ قائم کروایا.اسی طرح ناظر تعلیم صدر انجمن احمدیہ پاکستان کو احمدی طلباء کی ایسوسی ایشن کو منظم کرنے کا ارشاد فرمایا تا کہ احمدی طلباء علم کے میدان میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر آگے بڑھنے کی کوشش کریں.اس سلسلہ میں مرکز میں کالجوں اور سکولوں میں تعطیلات کے دوران کو چنگ کلاسز کا اہتمام ہونے لگا جو مسلسل جاری ہے.آرکٹیکیٹس اور انجینئرز کی تنظیم احمدی آرکیٹیکیٹس اور انجینئرز کے Talent کو یکجا کر کے جماعتی ضروریات کے لئے ان سے استفادہ کرنے کے لئے حضرت خلیفہ المسیح نے ان کی ایک ایسوسی ایشن بنائی جس کا نام ”انٹر نیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی آرکیٹکٹس اینڈ انجینئرز" رکھا گیا.حضور نے اس ایسوسی ایشن کا نگران صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کو مقرر فرمایا.اس کے پہلے چیئرمین قریشی افتخار علی صاحب ریٹائرڈ چیف انجینئر محکمہ آبپاشی پنجاب کو نامزد فرمایا :- حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" کے دور خلافت میں اس ایسوسی ایشن کے ذریعے کئی مفید کام ہوئے جن میں سے جلسہ سالانہ پر غیر ملکی مہمانوں کے لئے شعبہ ترجمانی کے Simultaneous Interpretation System ڈیزائن کر کے اور نصب کر کے اور چلا کر دینے کا کام سر فہرست ہے جس کی تفاصیل فضل عمر فاؤنڈیشن کے ذکر میں گزر چکی ہے.اس کے علاوہ قصر خلافت، دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے ڈیزائن اور تعمیر کی لئے
635 نگرانی کا تاریخی کام ہے.جلسہ سالانہ کے لئے سوئی گیس پر چلنے والی روٹی پکانے والی مشینوں کی کارگردگی بہتر بنانے کے سلسلہ میں بھی ایسوسی ایشن کو خدمت کی توفیق ملی.مرکز سلسلہ میں بننے والے گیسٹ ہاؤسز کی تعمیر کی نگرانی اور اسی طرح مرکز سلسلہ اور بیرونی ممالک میں جماعتی مراکز اور مساجد کی تعمیر کے سلسلہ میں بھی ایسوسی ایشن کو خدمت کی توفیق ملی.جو کہ اب بھی جاری ہے." ڈاکٹروں کی تنظیم ९९ حضور نے احمدی ڈاکٹروں کی تنظیم ”انٹر نیشنل ایسوسی ایشن آف احمدی ڈاکٹرز " کے نام سے ڈاکٹر صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی سرپرستی میں قائم فرمائی اس ایسوسی ایشن کو نصرت جہاں لیپ فارورڈ پروگرام کے لئے مغربی افریقہ میں ڈاکٹر بھجوانے کی سعادت نصیب ہوئی.مرکز سلسلہ میں فضل عمر ہسپتال میں اور بیرون ممالک بھی ڈاکٹروں کو بیش بہا خدمت خلق کے کاموں کی توفیق ملتی رہی جو تاحال جاری ہے.اسلامی آداب اور اخلاق کی ترویج و اشاعت حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نے اسلامی آداب و اخلاق کی ترویج و اشاعت کی تحریک کا آغاز خلافت کے ابتدائی دنوں سے ہی فرما دیا تھا.دائیں ہاتھ سے کھانے ، اپنے سامنے سے کھانے، وقت ضائع کرنے سے بچنے ، گالیوں اور لغویات سے بچنے، پردہ کرنے ، حلف الفضول کی طرز پر انجمنیں بنانے ، بشاشت پیدا کرنے ، بلالی روح پیدا کرنے وغیرہ کے بارے میں حضور کے بے شمار ارشادات اور فرمودات ہیں جو حضور مختلف مواقع پر بیان فرماتے رہے.ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا :." اللہ تعالیٰ نے فرمایا.یہ میرے خاتم الانبیاء ' یہ میرے محبوب محمد
636 مصطفى ( م ) ہیں.یہ ہر انسان کے لئے ایک نمونہ اور اسوہ ہیں یہ بتانے کے لئے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کی صفات کا رنگ اپنے اخلاق کے اوپر چڑھایا جا سکتا ہے.اس لئے آنحضرت ملی ہی کی پیروی کرو.آپ کے اسوہ حسنہ کو ہمیشہ سامنے رکھو.آپ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرو.کیونکہ آپ کے اسوہ حسنہ کو جانے بغیر اسے سمجھے بغیر اور اس کا مطالعہ کئے بغیر اسے کیسے اپنایا جا سکتا ہے.جب تک آپ آنحضرت می کے.اسوہ کو جانتے نہیں، آپ کے نمونے کو پہنچانتے نہیں، آپ کی طبیعت کے رنگ کو دیکھتے نہیں اور اس پاک اور ارفع وجود میں نے نوع انسان پر جو احسان عظیم کیا اور کرتا چلا گیا.اور قیامت تک کرتا چلا جائے گا.جب تک یہ حقیقت آپ کے سامنے نہ ہو اس وقت تک آپ اپنے اخلاق پر اور اپنی طاقتوں پر خدا تعالیٰ کی صفات کا رنگ نہیں چڑھا سکتے "س دورہ مغرب کے دوران حضور نے نائیجیریا میں فیڈرل ریڈیو کارپوریشن کے نمائندے مسٹر موسیٰ علی کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا :." اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کو جسمانی ، ذہنی ، اخلاقی اور روحانی استعدادیں عطا کی ہیں.عوام کی حقیقی فلاح اس امر کی متقاضی ہے کہ ان کی جملہ استعدادوں کی کامل نشوونما کا انتظام کیا جائے.ایک طرف ہم علاج معالجہ کی سہولتیں بہم پہنچا کر جسمانی استعداد کی نشوونما کے سلسلہ میں مقدور بھر کوشش کر رہے ہیں.تعلیم کے مواقع بہم پہنچا کر ہم ذہنی نشو نما و ارتقاء میں کوشاں ہیں.اسی طرح لوگوں کو اسلامی تعلیم پر عمل پیرا کر کے ہماری کوشش یہ ہے کہ لوگ اخلاقی اور روحانی لحاظ سے اس درجہ ترقی کریں کہ ان کا خدا تعالیٰ کے ساتھ زندہ تعلق قائم ہو جائے.۳۴ حضور نے نائیجیریا میں جماعت کے افراد کو مخاطب کر کے فرمایا:.
637 وو...تیسری نصیحت میں یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جب تم اسلام کو پھیلانے کے لئے مغرب کی متمدن دنیا میں جاؤ گے تو تم دیکھو گے کہ یہ مہذب کہلانے والی قومیں اخلاقی اعتبار سے بالکل دیوالیہ ہیں.پس ان قوموں کو اسلام کا گرویدہ بنانے کے لئے اپنے اندر اخلاقی اعتبار سے حسن پیدا کرو.اس کے لئے تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ اسلام تم پر کیا اخلاقی ذمہ داریاں عائد کرتا ہے.ان ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا کرتے ہوئے اپنے عمل و کردار کو اسلامی اخلاق کے سانچے میں ڈھالو.اسلامی اخلاق کا حسین نمونہ دنیا کے سامنے پیش کرو تاکہ دوسروں کو اسلام کی طرف کھینچ سکو ۳۵۰ اسلامی پرده اسلامی پردہ کی اہمیت حضور پر بچپن سے ہی واضح تھی.چنانچہ ۱۹۲۷ء میں جب کہ حضور کی عمر اٹھارہ سال کے لگ بھگ تھی اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں.پر دہ ہاں وہ پر وہ جس سے اسلام کی شان بلند ہوتی تھی اس سے آج اسلامی دنیا پھر رہی ہے حالانکہ پہلے زمانہ میں باوجود اس پردہ کے عورتیں مردوں سے کم کام نہ کرتی تھیں جیسے عائشہ تیموریہ کہتی ہیں.گو آج کے فلسفی کہتے ہیں کہ پردہ سے عورتوں کے حقوق مارے جاتے ہیں مگر یہ ٹھیک نہیں.اسلامی پردہ سے ہرگز عورتوں کے حقوق تلف نہیں ہوتے گو رواجی پردہ میں یہ نقص ہے اور اگر یہ بات ٹھیک ہوتی تو مسلمان پہلے زمانہ میں اس حد تک ترقی نہ کر سکتے جبکہ ترقی کا راز ایک حد تک عورتوں پر موقوف ہے “ حضور یورپ و امریکہ کے دوروں کے دوران وہاں بسنے والے احمدیوں کو بالخصوص پردہ کے بارے میں تلقین فرمایا کرتے تھے.ایک بار ۱۹۸۰ء میں نہایت جلال سے فرمایا :-
638 د بعض خواتین ایسی بھی ہیں جو یہاں کے ماحول میں پردہ کی کما حقہ پابندی کو ضروری نہیں سمجھتیں.میں ان سے کہتا ہوں کہ اگر وہ سمجھتی ہیں کہ اس ملک میں رہ کر وہ پردہ نہیں کر سکتیں تو پھر انہیں انہی نتائج سے دور چار ہونا پڑے گا جن سے یہاں کی عورتیں دو چار ہیں.اگر انہوں نے بے پردگی پر اصرار کیا تو پھر وہ وقت بھی آئے گا کہ انہیں یہاں کے طریق کے مطابق شادی سے پہلے بچے جننے پڑیں گے.انہیں نظر آنا چاہئے کہ یہاں کے تمدن کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں ایک آگ دہک رہی ہے.یہ لوگ پریشان ہیں کہ ہم کدھر جا رہے ہیں اور ہمارا کیا انجام ہونے والا ہے.یہ لوگ بے اطمینانی کا شکار ہیں.سکون اور اطمینان ان کے لئے مفقود ہو چکا ہے.ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کا بھی یہی حشر ہو گا......میں ایسی خواتین سے جو یہاں پردہ کو ضروری نہیں سمجھتیں پوچھتا ہوں کہ انہوں نے پردہ کو ترک کر کے اسلام کی کیا خدمت کی ؟ کچھ بھی نہیں! آج بعض کہتی ہیں کہ ہمیں یہاں پردہ نہ کرنے کی اجازت دی جائے.پھر کہیں گی ننگ دھڑنگ سمندر میں نہانے اور ریت پر لیٹنے کی اجازت دی جائے.پھر کہیں گی شادی سے پہلے بچے جننے کی اجازت دی جائے.میں کہوں گا پھر تمہیں دوزخ میں جانے کے لئے بھی تیار رہنا چاہئے.- کسی احمدی خاتون کو بے پردہ دیکھ کر سخت شرم آتی ہے.امریکہ کی احمدی خواتین کی مثال ہمارے سامنے ہے.وہ احمدی ہونے سے پہلے پردہ نہیں کرتی تھیں لیکن احمدی ہونے کے بعد انہوں نے پردہ شروع کیا.۱۹۷۶ ء میں جب میں ڈیٹن گیا تو وہاں کے ہوائی اڈہ پر استقبال کرنے والوں میں برقعہ پوش احمدی خواتین کی ایک لمبنی قطار دیکھی.وہ اگر امریکہ میں رہ کر پردہ کر سکتی ہیں تو پاکستان کی ایک احمدی خاتون
639 امریکہ میں آکر کیوں پردہ نہیں کر سکتی.حضور نے ایسی عورتوں کو پر زور الفاظ میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں قبل اس کے کہ خدا کا قہر نازل ہو.میں چاہوں گا کہ خدا کا قہران پر اس حال میں نازل نہ ہو کہ وہ جماعت کی ممبر ہوں.اس سے پہلے پہلے میں ان کا جماعت سے اخراج کر دوں گا.میں قرآن کریم کا نمائندہ ہوں، اس کی تعلیم پھیلانا چاہتا ہوں.میں مرنا پسند کروں گا لیکن قرآن کے خلاف عمل کو برداشت نہیں کروں گا.کسی مسلمان عورت کے کام میں پردہ نے کبھی خلل نہیں ڈالا.پردہ سے عورتوں کے کسی کام میں خلل نہیں پڑتا ہاں اگر وہ بیہودگیوں میں مبتلا ہوں تو پردہ سے ان کی بے ہودگیوں میں خلل ضرور پڑتا ہو گا.حماقت سے کوئی کام لینا چاہے تو اس کا کوئی علاج نہیں.فرمایا.خدا تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری نہ کرو.اگر ناشکری کرو گی تو تم دکھ اٹھاؤ گی اور تمہاری نسلیں تم پر لعنت بھیجیں گی کیونکہ ان کے گناہوں کی تم ذمہ دار ہو گی اور ان کے گناہوں میں تم شامل ہو گی.چند عارضی اور لاحاصل سہولتوں کی خاطر اپنی نسلوں سے لعنت لینے کی کوشش نہ کرو.خدا تعالیٰ ایسی عورتوں کو سمجھ عطا کرے اور انہیں اسلام پر کما حقہ عمل کرنے کی توفیق بخشے آمین " ۳۷ بد رسوم کے خلاف جہاد حضرت خلیفۃ المسیح الثالث" نے ۱۹۹۷ء میں بد رسوم اور بدعات وغیرہ کو جماعت اسے کلی طور پر ختم کرنے کے لئے بد رسومات کے خلاف جہاد کا اعلان کیا.حضور نے فرمایا:.دو میں ہر احمدی کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے اللہ تعالیٰ کے منشاء کے مطابق اور جماعت احمدیہ میں پاکیزگی کو قائم کرنے کے لئے جس
640 پاکیزگی کے قیام کے لئے محمد رسول اللہ میں لیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام دنیا کی طرف مبعوث ہوئے تھے ہر بدعت اور بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کر دیا ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ سب میرے ۳۸۰ ساتھ اس جہاد میں شریک ہوں گے؟ اسی طرح فرمایا :.اس وقت اصولی طور پر ہر گھر کے دروازہ پر کھڑا ہو کر اور ہر گھرانہ کو مخاطب کر کے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں" حضرت سیده منصوره بیگم صاحبه حرم اول حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " نے بھی اس سلسلہ میں کوشش فرمائی اور لجنہ اماء اللہ کراچی سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :." آج دنیا کی رنگینیاں جاذب نظر ہیں اور آپ کو کشمکش میں ڈال رہی ہیں.ایمان کے لئے یہ امتحان کا وقت ہے.دنیا کی تقلید کوئی عظمندی نہیں ہے.وہ آپ ہی کے بزرگ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے دنیا اور دنیا کی آسائشوں پر ٹھوکر مار کر اپنا آپ اپنے مسیح" کو سونپ دیا.وہ بھی رسوم اور برادریوں میں دنیا کے جال میں اور رشتہ داریوں کے بندھن میں اسی طرح بندھے ہوئے تھے لیکن انہوں نے ہر چیز کو اللہ کے لئے چھوڑ دیا " آپ نے فرمایا:.” میرے والد احمدیت میں داخل ہونے کے بعد رسومات سے بے حد متنفر ہو گئے تھے.خود میری شادی کے موقع پر کسی کو نہیں بلایا بلکہ بھائیوں میں سے بھی جو وہاں موجود تھے وہ شامل ہوئے اور مجھ کو ہدایت کی کہ اپنا جہیز کسی کو نہ دکھانا اور جب میں قادیان آئی تو میرے ماموں.جان حضرت مصلح موعود نے بھی یہی حکم دیا کہ کوئی جہیز نہ دیکھے مالیر کوٹلہ میں سینکڑوں رشتہ دار تھے ، برادری تھی مگر آپ نے کسی کو نہیں بلایا ، کوئی رسم نہیں کی کوئی دعوت نہیں دی.رسمیں کوئی چیز نہیں ہیں
641 بلکہ یہ تکلفات، یہ رسوم یہ سینما بینی یہ سب دنیا کی لعنتیں ہیں.ہم تو خدا کے ہو چکے اس لئے ہمیں ان سے کوئی علاقہ نہ ہونا چاہئے “ ہی حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نے اپنے نکاح ثانی کے موقع پر جو اا.اپریل ۱۹۸۲ء کو ہوا تھا خطبہ نکاح ارشاد کرتے ہوئے بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعادہ فرمایا اور سادگی کے ساتھ رخصتانے کے بارے میں فرمایا :- " جس نکاح کا میں اعلان کرنے لگا ہوں وہ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے ہمارے خاندان کی تاریخ میں یہ تیسرا نکاح ہو رہا ہے کہ جو خود اس رشتہ کا دولہا بننے والا ہے وہ آپ ہی خطبہ نکاح بھی پڑھنے والا ہے.حضرت مصلح موعود بھی اللہ نے اپنے دو نکاح خود پڑھے.محترمہ آپا سارہ بیگم صاحبہ اور محترمہ آپا بشری بیگم صاحبہ جو ”مہر آپا" کہلاتی ہیں ان کا.تو طاہرہ خان جو عبد المجید خان صاحب کی صاحبزادی ہیں ایک ہزار روپے مهر پر مرزا ناصر احمد جو اس وقت بول رہا ہے سے قرار پایا ہے.منصورہ بیگم کا مہر ایک ہزار روپے تھا....میری ہمشیرہ امتہ الباسط انہی دنوں میں مجھے کہنے لگیں کہ میری امی کو تو حضرت صاحب بس جاکر رخصت کروا لائے تھے اور اخبار میں چھپا ہوا ہے.میں نے وہ اخبار کا Quotation نکلوایا تو زیادہ روشنی ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب نے اس کے اوپر ڈالی کہ تانگے پر بیٹھ کے.(قادیان کی بات ہے) ۷ فروری ۱۹۲۱ء کو دو ہی گئے حضرت صاحب اور ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب اور یہ کچھ تاریخ نے پورا واضح نہیں کیا کہ حضرت اماں جان) ایک دو مستورات کے ساتھ ساتھ گئیں یا علیحدہ گئیں) بہر حال گئے وہاں ، باتیں کیں ، واپس آگئے اور حضرت اماں جان) انہیں رخصت کروا کے شام کے وقت گھر لے آئیں اور باسط نے یہ بھی بتایا کہ ایک جو ڑا بری کا گیا تھا.یہ اس لئے بتا رہا ہوں کہ جو آپ بدعتیں بیچ میں شامل کر رہے ہیں
642 خدا کے لئے ان کو چھوڑیں.......میں نے لڑکی والوں سے کہا میں تو ایک جوڑا بری میں دوں گا اور اسی طرح آؤں گا.نہ آپ ہمیں پانی کا پوچھیں نہ مجھے پسند آئیں گے بجلی.کے چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے بلب نہ جھنڈیاں.سادگی کے ساتھ میں آؤں گا، چند ہوں گے ساتھی میرے ساتھ اور وہاں بیٹھیں گے، باتیں کریں گے اور دعا کریں گے اور دلہن کو لے آئیں گے تو آپس میں مشورہ کر کے انہوں نے کہا ٹھیک.ہے.پھر وہ میری ایک اور ہمشیرہ ناصرہ بیگم یہی ایک جوڑا لینے لاہور گئی تھی تو وہ تین لے آئیں......میں نے ان کو کہا تین آگئے ہیں وہ بھیج دوں ؟ انہوں نے کہا نہیں ایک بھیجیں آپ.تو ہم اس رسم کی تجدید کر رہے ہیں رسم نہیں، حقیقت اور جو سادگی ہے اس کی تجدید کر رہے ہیں اور بالکل سادگی کے ساتھ ایک ہزار روپے......؟ Mee حضور نے اس موقع پر رسم و رواج کے پابند لوگوں کی بابت فرمایا :.” میرے پاس آتے ہیں.تو بڑی کوفت ہوتی ہے، جیز کے اوپر اختلاف ہو گیا، پھر خلع لینے کے لئے ، پھر یہ کہ اس نے ہمیں پیسے نہیں نہیں دیئے رشتہ داروں کے جوڑے بھی نہیں دیتے.یہ نہیں دیا، وہ دیا.تمہیں اس وقت سوائے خدا تعالیٰ کے پیار کے اور کچھ نہیں چاہئے.اس کے پیار کو حاصل کرنے کی کوشش کرو.اس دنیا میں بھی کامیاب ہو جاؤ گے ، اخروی زندگی میں بھی کامیاب ہو جاؤ گے Free أَطْعِمُوا الْجَائِعَ حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نے ۱۷ دسمبر ۱۹۶۵ء کے خطبہ جمعہ میں اس تحریک کا اعلان فرمایا حضور کے خطبہ جمعہ کا خلاصہ یہ ہے کہ
643 " خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کا ہمیں تاکیدی حکم ہے کہ مسکینوں ، قتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلایا جائے" حضور نے سورۃ الدھر کی آیات ۹ تا ۱۲ وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينا و يَتِيمَا وَاسِيرًا...کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا:._ اپنی ہے ” ہمارے نیک بندے....کھانا کھلاتے ہیں......مسکین کو ، یتیم کو اسیر کو.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جن لوگوں کو پوری غذا میسر نہیں اور ان کو ضرورت ہے ان کی مدد کی جائے جس کے بغیر وہ ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکتے بھوک کا مسئلہ ایک ایسا مسئلہ جس کی طرف جب قومیں توجہ نہیں دیتیں تو ان قوموں میں بڑے بڑے انقلاب برپا ہو جاتے ہیں جیسے کہ روس میں......میرا یہ احساس ہے کہ جماعت کی اس حکم کی طرف پوری توجہ نہیں ہے.کوئی احمدی رات کو بھوکا نہیں سونا چاہئے.سب سے سے پہلے یہ ذمہ داری افراد پر عائد ہوتی ہے.اس کے بعد جماعتی تنظیم اور حکومت کی باری آتی ہے.اگر ایک احمدی بھی ایسا ہے جس کی غذائی ضروریات پورا کرنے میں ہم غفلت برت رہے ہوں تو ہمیں بحیثیت جماعت خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا.....آپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ کون ہے وہ حاجت مند جسے ہم نے کھانا دینا ہے.اس کے لئے آپس میں تعلقات اور آپس میں پیار کے بڑھانے کی ضرورت ہے اور اپنی تنظیم کو اس طرح اخوت کی بنیادوں پر مضبوط کرنے کی ضرورت ہے کہ محلہ والوں کو معلوم ہو کہ آج فلاں گھرانہ کس وجہ سے کھانا نہیں پکا سکا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ایسے لوگوں کو اس دن کے شر سے محفوظ رکھوں گا اور نجات دوں گا، اپنی رحمت سے نوازوں گا اور اپنی مغفرت کی چادر سے ان کو ڈھانپ لوں گا.پس ہمارے خدا نے ایک حکم دیا ہے.ہمارے پیارے رسول محمد مانی نے تاکید فرمائی ہے کہ
644 محتاجوں کو کھانا کھلاؤ اور ہم نے اس تاکیدی ارشاد پر عمل کرنا ہے.آج میں ہر ایک کو جو ہماری کسی جماعت کا عہدیدار ہے متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ذمہ دار ہے اس بات کا کہ اس کے علاقہ میں کوئی احمدی بھوکا نہیں سوئے گا.دیکھو میں یہ کہہ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ آپ کو خدا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑے گا.اگر کسی وجہ سے آپ کا محلہ یا جماعت اس محتاج کی مدد کرنے کے قابل نہ ہو تو آپ کا فرض ہے کہ مجھے اطلاع دیں.میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے توفیق دے گا کہ میں ایسے ضرورت مندوں کی ضرورتیں پوری کر دوں.انشاء اللہ تعالیٰ..." ee روزنامہ امروز لاہور نے حضور کا حسب ذیل پریس انٹرویو شائع کیا.ربوه ۲۹ جنوری (۱۹۶۷ء) جماعت احمدیہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد نے کہا ہے کہ کسی قومی بحران کی صورت میں ایجی ٹیشن کا راستہ اختیار کرنا دانش مندی کے منافی ہے.مرزا ناصر احمد نے خوراک کے مسئلے پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بات کہی.انہوں نے کہا کہ نکتہ چینی بحران کو حل کرنے میں مدد دینے کی بجائے الجھاتی ہے.کسی بھی قومی بحران کی صورت میں تمام شہریوں کا فرض ہونا چاہئے کہ وہ ایک دوسرے کو مطعون کرنے اور ملزم ٹھہرانے کی بجائے بحران کو دور کرنے کی مثبت تدابیر اختیار کریں.انہوں نے کہا کہ اللہ تعالٰی کو چونکہ سرور کائنات می ایم کی حیات طیبہ کو مسلمانوں کے لئے مشعل راہ بنانا تھا اس لئے ان کی زندگی میں وہ تمام واقعات ملتے ہیں جو مسلمانوں کو بعد میں پیش آسکتے تھے.ان میں قحط کا واقعہ بھی موجود ہے.مکہ میں قحط پڑا تو رسول اکرم میں نے ایثار پر زور دیا جس کے نتیجے میں کفار کو کھانا میسر آنے لگا.نبی اکرم لم کے فرمودات کی روشنی میں مسلمان آج بھی رات کو یہ اطمینان
645 کر کے سوئیں کہ ہمارا ہمسایہ بھوکا تو نہیں سو رہا تو مسئلے کی شدت کم ہو سکتی ہے.انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی و ایم نے ایسے ہی موقعوں کے لئے فرمایا تھا کہ ایک کا کھانا دو کے لئے اور دو کا چار کے لئے اور چار کا آٹھ کے لئے کافی ہونا چاہئے.تو ان کا اشارہ متمول طبقے کی جانب تھا.مرزا صاحب نے حزب مخالف کے رویے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا اگر مقصد لوگوں کا پیٹ بھرنا ہے تو پھر حکومت سے تعاون ضروری ہے.انہوں نے کہا.مخالف عناصر تعاون کی بجائے نکتہ چینی کی راہ اختیار کر کے ثابت کر رہے ہیں کہ غذائی قلت کے مسئلے پر قابو پانا ان کا مقصد نہیں بلکہ اس کی آڑ میں اقتدار پر قبضہ کرنا ان کا مطلوب و مقصود ہے افغان مہاجرین کے لئے طبی سہولت روس کے افغانستان پر حملے کے نتیجے میں افغان مہاجرین کثرت سے اپنا ملک چھوڑ کر پاکستان میں پناہ گزین ہیں.حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نے ان مظلومین کی طبی سہولت کے لئے مہاجرین کے کیمپوں میں جماعت کی طرف سے ڈسپنسری کا انتظام کروایا اور انتہائی مخالفانہ حالات کے باوجود خدمت خلق کے جذبہ کے تحت افغان مہاجرین کی خدمت کی توفیق پائی.اللہ تعالی کی عجیب شان ہے کہ انتہائی مزاحمت اور رکاوٹوں کے باوجود افغان مهاجرین علاج کے لئے باقی سہولتوں کو چھوڑ کر اکثر احمدی ڈسپنسری کا ہی رخ کرتے رہے.اس اہم کام کی ذمہ داری حضور نے صوبہ سرحد کے ایک مخلص دوست رشید جان صاحب کے سپرد فرمائی جو اپنی رپورٹ وقفہ وقفہ کے بعد صاحبزادہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کو بھجواتے رہے اور حضرت صاحبزادہ صاحب حضرت خلیفة المسیح الثالث " کو مکمل حالات سے آگاہ فرماتے رہتے اور ہدایات لے کر محترم رشید جان صاحب کو پہنچاتے رہے.حضور نے ۱۹۸۱ء کے جلسہ سالانہ پر افغان مہاجرین کے لئے خصوصی دعاؤں کی بھی
646 تحریک فرمائی اور اعلان کرتے وقت اس جانب رخ فرمایا جہاں سٹیج پر غیر ملکی افراد کے احاطہ میں کرسیوں پر جناب رشید جان صاحب اور افغان مہاجرین کے ایک لیڈر تشریف فرما تھے.وو جنگی قیدیوں کے لئے صد ریاں اور رضائیاں ۱۹۷۱ء میں پاکستان و ہندوستان کی جنگ کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ اپنا سالانہ جلسہ جو دسمبر میں ہوا کرتا ہے منعقد نہ کر سکی لیکن احمدی خواتین دوران جنگ اور جنگ کے بعد ہر جگہ دفاعی اور رفاہی کاموں میں مصروف رہیں.پاکستان جس بحران میں سے گزرا انتہائی ضرورت تھی کہ پاکستان کا ہر شہری اور پاکستان کی ہر تنظیم ان مجاہدین کی خدمت دامے درمے، قلمے کرتی جو وطن کی حفاظت کر رہے تھے چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الثالث ایدہ اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماء اللہ ربوہ کو افواج پاکستان کے لئے روٹی کی صد ریاں تیار کرنے کا ارشاد فرمایا:.۳۱ جنوری (۱۹۷۲ء) کو صد ریاں بنانے کا کام شروع کیا گیا.اس کام کی نگران اعلیٰ صدر لجنہ اماء اللہ ربوہ محترمہ صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ تھیں جن کی سرکردگی میں ربوہ کے ہر محلہ کی ہر اس عورت نے جو کچھ نہ کچھ کام کر سکتی تھی اس خدمت میں حصہ لیا....۲۵ دن کے عرصہ میں چھ ہزار دو صد بیس (۶۲۲۰) صد ریاں تیار کر دی گئیں پھر بعد میں اور کپڑا ملنے پر مزید صدریاں تیار کی گئیں.جن کی کل تعداد ۱ ۸۷۵ بنتی ہے.سیلاب زدگان کی امداد مشرقی پاکستان کثرت کے ساتھ سیلابوں کی زد میں آتا رہا ہے.متعدد موقعوں پر حضور نے سیلاب زدگان کی امداد کے لئے معقول رقم جماعتی بیت المال سے بھجوائی اور
647 اسی طرح مغربی پاکستان میں سیلاب کے دوران احمدی خدام کے ذریعے متاثر افراد کی امداد فرمائی اور اس سلسلہ میں احمدی نوجوانوں کو خطرات میں پڑ کر متاثر افراد کی جان اور مال بچانے کے لئے عملی طور پر تیار کیا.حضور نے ایک مرتبہ جب که حضور بیرون ملک تشریف لے گئے تھے کوپن ہیگن سے جماعت کے نام پیغام بھیجتے ہوئے فرمایا :.پاکستان کی سلامتی اور سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے رہیں ۴۶ عجز و انکساری پیدا کرنے کی تحریک جب انسان کے دل میں اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ انتہائی عشق ہو تو اپنی ذات کا خیال اس کے دل سے محو ہو جایا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت اور جلال کے تصور سے اس کے اندر انتہائی عجز و انکسار اور تذلل کا احساس اور قربانی کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کیفیت کے ساتھ انسان کبھی ناکام نہیں ہوا کرتا.یہی کیفیت حضرت خلیفة المسیح الثالث " کی تھی.حضور عجز و انکساری کا مجسمہ تھے اور حضور کی یہ خواہش اور کوشش تھی کہ ساری جماعت عجز اور انکساری کے مقام کو اختیار کرے حضور نے اپنی عاجزی اور انکساری کا اظہار مسند خلافت پر متمکن ہونے پر اپنے پہلے تاریخی خطاب ہی میں کیا اور اپنی خلافت کے ابتدائی ایام ہی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہزاروں الہامات میں سے جس الہام کو اپنی زندگی کا ماٹو قرار دیا اور جس ماٹو کو جماعت کے نوجوانوں اور بچوں کو بھی اختیار کرنے کی تحریک فرمائی وہ یہ تھا:." تیری عاجزانہ راہیں اسے پسند آئیں" ( تذکرہ ص ۷۰۵ چوتھا ایڈیشن) اپنی خلافت کے ابتدائی زمانہ میں حضور نے ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء کے خطبہ جمعہ میں اس بات پر زور دیا کہ نجات محض اللہ تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے اور آنحضرت میر کی
648 اس بارے میں ایک لمبی حدیث بیان کرنے کے بعد فرمایا:.خلاصہ یہی ہے کہ جس طرح عجز کے ساتھ دنیا سے کلیہ منہ موڑ کر اور خالصتا اپنے رب کے حضور حاضر رہ کر آنحضرت میم نے زندگی گزاری ہے اور جس طرح آپ بنی نوع انسان کے لئے محض شفقت اور محض رحمت تھے اسی طرح کی زندگی اگر ہم بھی گزارنے کی کوشش کریں.یعنی ایک طرف ہم حقوق اللہ کو ادا کرنے کی کوشش کریں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کا بھی لحاظ رکھنے والے ہوں اور ان پر شفقت اور رحم کرنے والے ہوں، ان سے پیار کرنے والے ہوں، ان کے کام آنے والے ہوں اور اپنی دعاء اور تدبیر کے ساتھ ان کے دکھوں کو دور کرنے والے ہوں، تب اللہ تعالی محض اپنے فضل کے ساتھ ، محض اپنے فضل کے ساتھ ، محض اپنے فضل کے ساتھ ہمیں اٹھا کر اپنی گود میں بٹھا لے گا کیونکہ اس کے فضل کے بغیر ہماری ee نجات ممکن نہیں ۴۷۴ ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا:.اگر ہم نے اللہ تعالیٰ کے ان وعدوں کا وارث بننا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ ہمیں دیئے گئے ہیں، تو ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنے مقام عبودیت کو ہمیشہ پہچانتے رہیں اور عجز و فروتنی کے ساتھ اپنے کو لاشئے محض جانتے ہوئے اپنے خیالات اور خواہشات کو مٹا کر محض اللہ تعالیٰ کی رضاء کی خاطر خدمت کرتے چلے جائیں اور اپنے کو اتنا حقیر جانیں کہ کسی اور چیز کو ہم اتنا حقیر نہ سمجھتے ہوں.اگر ہم اپنے اس مقام کو پہچاننے لگیں تو پھر ہمارا خدا جو بڑا دیالو" ہے ہمیں اپنے فضل سے بہت کچھ دے گا انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور بھی ۸ حضور" ہر موقع پر جماعت کو عجز و انکساری اختیار کرنے کی تحریک فرماتے رہے.
649 جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۷۵ء کے افتتاحی خطاب میں حضور نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت اور غیر معمولی حالات میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تبلیغ کے دنیا کے کناروں تک پہنچنے کا ذکر کیا اور جماعت کو اس موقع پر بڑے ہی پیارے اور والہانہ انداز میں عجز و انکساری کا سبق دیا جو سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہے.حضور نے فرمایا :- " یہ ایک حقیقت ہے کہ ہو گا وہی جو خدا چاہے گا اور خدا نے جو چاہا اس کی اطلاع اس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آج سے چودہ سو سال پہلے دی.خدا نے یہ چاہا کہ دنیا مهدی علیہ السلام کے مقام عزت و احترام کو پہچانے اور اس نے محمد رسول اللہ علی الم کو کہا کہ دنیا کو کہو کہ مهدی کی عزت اور احترام کرے چنانچہ آپ نے ساری امت میں سے ایک کو یعنی مہدی کو منتخب کر کے اسے سلام پہنچایا....پھر یہ خدا کی شان اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں کے نظارے ہیں کہ وہ جسے گھر والے روٹی دینا بھول جاتے تھے (حالانکہ وہ ان کی دولت میں ان کا برابر کا شریک تھا) اور اسے اپنے ہی عزیزوں اور رشتہ داروں کی غفلت کے نتیجہ میں فاقہ کشی کرنی پڑتی تھی اسے اس کے خدا نے کہا کہ ” میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا" اور وہ اکیلا اور غیر معروف شخص اٹھا اور اس کی تبلیغ دنیا کے کناروں تک پہنچ گئی.اس موقع پر حضور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ان تمام غیر ملکی احباب کو جو وفود کی صورت میں جلسہ میں شامل ہوئے تھے کھڑے ہونے کا ارشاد فرمایا.حضور کے ارشاد کے مطابق تمام غیر ملکی احباب کھڑے ہو گئے.اس دوران جلسہ گاہ نعرہ ہائے تکبیر اور اسلامی عظمت کے دوسرے نعروں سے گونج اٹھی) یہ لوگ امریکہ سے آنے والے ہیں جو کہ مغرب کی طرف غالبا نو
650 دس ہزار میل کے فاصلہ پر ہے اور یہ مشرق کی طرف سے انڈونیشیا سے آنے والے ہیں.آسٹریلیا میں بھی آواز پہنچی اور وہاں احمدی ہوئے اور افریقہ کا براعظم جس کو دنیا نے اندھیرا اور ظلماتی براعظم کہا تھا اس افریقہ کے براعظم کے دل میں خدا تعالیٰ نے نور پیدا کر دیا اور یورپ جو بے راہ روی کا مرکز بن چکا تھا اس میں سے یہ پیارے وجود پیدا ہو رہے ہیں.کتابوں میں سے یہ الہام مٹایا جا سکتا ہے کہ سکتا میں تیری تبلیغ کو دنیا کے کناروں تک پہنچاؤں گا" کیونکہ وہ سیاہی سے لکھا ہوا ہے اور دیواروں پر سے بھی مٹایا جا ہے لیکن اس کرہ ارض کے چہرہ سے یہ نہیں مٹایا جا سکتا کیونکہ اس کے او پر اسے ان انسانوں نے تحریر کیا ہے.لیکن میں پھر اپنی حقیقت کی طرف آتا ہوں.ایک سیکنڈ کے لئے بھی تمہارے اندر کبر اور غرور پیدا نہ ہو.تمہارے سر عاجزی سے ہمیشہ خدا تعالیٰ کے آستانہ پر جھکے رہیں.تمہارے سر اس سے زیادہ جھکنے چاہئیں جتنا کہ اس جذبہ کے وقت محمد ملی کا سر جھک جایا کرتا تھا مگر اس سے زیادہ ممکن نہیں ہے کیونکہ حدیث میں آتا ہے.دیکھنے والوں نے دیکھا اور بیان کرنے والوں نے بیان کیا کہ ایک موقع پر جبکہ آپ م سوار تھے.خدا تعالیٰ کی نعمتوں اور رحمتوں کی یاد میں اور اس کی حمد کے گیت گاتے ہوئے آپ کا سر جھکنا شروع ہوا اور جھکتا چلا گیا یہاں تک کہ آپ کی پیشانی کاٹھی کے ساتھ لگ گئی.اب اس سے زیادہ آپ" کیسے جھک سکتے تھے لیکن خدا کے پیار میں اور خدا کی حمد میں اور خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے جہاں تک وہ سر جھک گیا تھا اگر اس سے زیادہ نیچے جھکنا تمہارے لئے ممکن نہیں تو اس حد تک جھکنا تو تمہارے لئے ممکن ہے اور بڑی ہی بے غیرت ہو گی وہ پیشانی جو اس کے بعد اپنا سر اٹھائے.پس جو عاجزی کا مقام تمہیں عطا ہوا ہے (اور یہ بڑا زبردست
651 مقام ہے) اسے مت بھولو.یہ درس سیکھنے کے لئے آپ دوستوں کو یہاں جمع کیا جاتا ہے جو پیار کرنے کا اور دکھوں کو دور کرنے کا مقام، جو بے نفس خدمت کا مقام آپ کو عطا ہوا ہے اسے ہمیشہ یاد رکھو.......اور خدا کرے کہ جس غرض کے لئے اس نے ایک احمدی کو پیدا کیا ہے وہ ہمیشہ اس کی آنکھوں کے سامنے رہے اور ہمیشہ اس کے جوارح سے وہ ظاہر ہوتی رہے اور اس کے عمل سے پھوٹ پھوٹ کر نکلتی رہے.اللهم آمین» ۹ی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " کی حرم اول حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی دسمبر ۱۹۸۱ء میں وفات ہوئی اور الہی منشاء کے مطابق حضور نے حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ کے ساتھ اپریل ۱۹۸۲ء میں عقد ثانی فرمایا.نکاح سے قبل حضور نے کچھ نکات لکھ کر انہیں بھجوائے جس میں انہیں عاجزی اور انکساری کا سبق دیا.چنانچہ سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ لکھتی ہیں.”شادی سے دو تین روز قبل مجھے کچھ پوائنٹس لکھ کر بھجوائے.فرمانے لگے.میں ابھی سے اس کی تربیت شروع کر دوں اور پہلا درس آپ نے مجھے یہی دیا کہ خدا تعالیٰ عاجزی کو پسند کرتا ہے چنانچہ مندرجہ ذیل تین فقرات آپ نے مجھ کو لکھ کر بھجوائے.ا خدا تعالیٰ عاجزانہ راہوں کو پسند کرتا ہے ۲.جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا.میں خاک تھا اسی نے ثریا بنا دیا ۵۰ حضور نے 9 مئی ۱۹۶۹ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:." حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے.....جو خلاصہ نکالا ہے وہ یہ ہے کہ اس اصلی اور بنیادی دعا کے لئے دو چیزوں کا تصور ضروری ہے.ایک اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال کا تصور دوسرا تصور یہ ہے کہ میں کچھ نہیں.یہ اپنی ذلت اور نیستی کا تصور ہے.دراصل
652 فرمایا :- فرمایا :.عبودیت کا مقام حاصل نہیں ہو سکتا جب تک انسان اس حقیقت پر نہ قائم ہو جائے کہ میں لاشئے محض ہوں اور لاشئے محض ہونے کے باوجود اس کو کام کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے غرض اپنی ذلت اور نیستی کے ساتھ ہی اس کو یہ یقین ہو کہ اللہ تعالی توفیق دے گا اور اللہ تعالی توفیق دیتا ہے.وہ تائید کرے گا اور اس کی تائید و نصرت حاصل ہوتی ہے.اور جب اس کی توفیق اور تائید و نصرت حاصل ہو جائے تو وہ وجود جو لا شئے محض ہے وہ اللہ تعالیٰ کی تائید سے ایسے کاموں کی توفیق پاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے ہیں اللہ چہروں پر مسکراہٹ پیدا کرنے کی تحریک " حضرت نبی اکرم صلی اللہ کے متعلق احادیث میں بیان ہوا ہے کہ آپ ہمیشہ مسکراتے رہتے تھے.آپ کو دیکھنے والا ہر شخص آپ کے چہرے پر ہمیشہ بشاشت کے آثار مشاہدہ کیا.کرتا تھا گویا مسکرانا سنت نبوی ہے.اس واسطے میں نے پہلے بھی متعدد بار کہا ہے کہ مجھے بھی اور مجھ سے پہلوں کو بھی بڑے مصائب اور پریشانیوں میں سے گزرنا پڑتا رہا ہے مگر ہماری مسکراہٹ کوئی چھین نہیں سکا....لوگ جانتے بوجھتے یا نا سمجھی کی وجہ سے اس جماعت کو دکھ پہنچاتے ہیں جس پر اسلام کو ساری دنیا میں غالب کرنے کی ذمہ داری ہے مگر یہ تمام دکھ اور تکلیفیں ہماری مسکراہٹوں کو ہم سے نہیں چھین سکے اس لئے کہ ہم تو حضرت محمد مصطفیٰ می کے غلام ہیں اور آپ کے اسوہ حسنہ میں اپنی زندگی اور زندگی کے حسن کو دیکھتے اور پاتے ہیں ۵۲ ” ہمارے مخالفین چاہیں جتنا زور لگالیں ہمارے دل میں ان کے لئے
653 کبھی نفرت پیدا نہیں ہو گی.ان کی مخالفت پر ہمیں کبھی غصہ نہیں آتا کیونکہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسِكَ أَلَّا يَكُونُو امُومِنِينَ (الشعراء :(۴) کی رو سے انسانیت کے محسن اعظم حضرت رسول اکرم میم کے اس اسوہ حسنہ کی پیروی میں ہماری زندگیوں میں بھی "بجع" کی حالت کار فرما ہونی چاہئے.ہماری تعلیم کا تقاضا یہی ہے.ہماری روایات بھی یہی ہیں.بعض ایسے حضرات جنہوں نے ساری عمر احمدیت کے خلاف ایڑی چوٹی کا زور لگایا مگر جب وہ زندگی کی آخری گھڑیوں میں متروک و مہجور اور علاج تک کے محتاج تھے ہم نے ان کی مقدور بھر مدد کی.یہ دور ہی کچھ ایسا ہے لیکن بیٹا باپ کو چھوڑ سکتا ہے یا باپ بیٹے کو چھوڑ سکتا ہے لیکن ایک احمدی کسی انسان کو مصیبت میں تنہا نہیں چھوڑ سکتا کیونکہ وہ دنیا میں محبت و اخوت اور ہمدردی و غمخواری کے لئے پیدا کیا گیا ہے.یہ اس کا فرض ہے جسے اس کو نبھانا چاہئے.انسانی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ محبت و پیار کا یہ پیغام نہ پہلے کبھی ناکام ہوا ہے اور نہ آئندہ انشاء اللہ ناکام ہو گا ۵۳ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث” نے جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا:.” دنیا تیوریاں چڑھا کے اور سرخ آنکھیں کر کے تمہاری طرف دیکھ رہی ہے.تم مسکراتے چہروں سے دنیا کو دیکھو " ۵۴ حضور نے فرمایا:." سارے غصے دل سے نکال ڈالو اور ساری تلخیاں بھول جاؤ.صرف اپنا مقصد سامنے رکھو کہ ہم نے محبت اور پیار سے دنیا کے دل جیتے ہیں " ۵۵ اسی طرح فرمایا :." ہمیشہ یاد رکھو ایک احمدی کسی سے دشمنی نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے کیونکہ اس کے خدا نے اسے پیار کرنے کے لئے اور خدمت کرنے
654 فرمایا :- کے لئے پیدا کیا ہے ۵۶ ه کسی سے دشمنی نہ کرو خواہ وہ ساری عمر تم سے دشمنی کرتا رہا ہو " ۵۷ قرآن کریم اور آنحضرت ملی و اسلام کے اسوہ حسنہ کا خلاصہ حضور نے ان حسین الفاظ میں بیان فرمایا :- Love For All Hatred For None یعنی ” محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں.اسی اصول پر حضور تا حیات کاربند رہے اور یہی تعلیم حضور نے جماعت کو دی اور یہی تعلیم قیامت تک جاری رہے گی.حضور نے فرمایا:.و میں نے اپنی عمر میں سینکڑوں مرتبہ قرآن کریم کا نہایت تدبر سے مطالعہ کیا ہے اس میں ایک آیت بھی ایسی نہیں جو دنیاوی معاملات میں ایک مسلم اور غیر مسلم میں تفریق کی تعلیم دیتی ہو.شریعت اسلامی بنی نوع انسان کے لئے خالصتا باعث رحمت ہے.حضرت محمد ملی ہم نے اور آپ کے صحابہ کرام نے لوگوں کے دلوں کو محبت، پیار اور ہمدردی سے جیتا تھا اگر ہم بھی لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنا ہو گا.قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے:.” سب سے محبت اور نفرت کسی سے نہیں" " رض Love For All Hatred For None یہی طریقہ ہے دلوں کو جیتنے کا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں ۵۸ حضرت خلیفة المسیح الثالث نے ایک اور موقعہ پر فرمایا:.>>...قرآن عظیم میں وہی الفاظ اس دینوی زندگی کی جنت کے متعلق بھی کئے گئے ہیں اور وہ یہ ہیں.وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ مُّسْفِرَّةٌ ضَاحِكَةٌ مُسْتَبْشِرَةٌ (عبس ۴۰۳۹) یعنی کچھ چہرے روحانی مسرتوں سے اس دن روشن ہوں گے، ہنستے
655 مسکراتے اور خوش و خرم ہوں گے..حضرت نبی اکرم علیل و یا لیلی نے فرمایا ہے کہ جس شخص کے دل میں ایمان کی بشاشت پیدا ہو جائے اس کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا اور اصل مسرت اور بشاشت تو دلوں میں پیدا ہوتی ہے اور چہروں سے ظاہر ہوتی ہے اس لئے جماعت احمدیہ کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ دنیا جس طرح چاہے ان کا امتحان لے لے وہ ان چہروں کی مسکراہٹیں ان سے نہیں چھین سکتی.یہ دنیا کی طاقت میں نہیں اس لئے کہ احمدیوں کے چہروں کی مسکراہٹیں اور بشاشت اور مسرت کے جذبات ان کے جسم کی نس نس اور روئیں روئیں میں سے نکل رہے ہوتے ہیں.ان کا منبع خدائے قادر مطلق اور قادر و توانا کی ذات ہے.اس کے مقابلہ میں جو ابتلاء اور امتحان ہیں ان کا منبع بھی الہی منشاء ہے....پس یہ قوم وہ قوم ہے جو ہنستے مسکراتے، عیدیں مناتے شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے سے آگے وه بڑھتے چلے جانے والی ہے..حضور کے اپنے دل کی جو کیفیت تھی اس کا اظہار حضور نے کئی مواقع پر کیا.ایک مرتبہ فرمایا:.ہیں.و" میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اسی (۸۰) سال سے ساری دنیا کی گالیاں اور ظلم جو ہمارے اوپر ہو رہے ہیں ہماری مسکراہٹ نہیں چھین سکے اور ہم سے قوت احسان نہیں چھین سکے.ہمارا بڑے سے بڑا دشمن اگر کسی کام کے لئے ہمارے پاس آتا ہے تو ہم مسکرا کر اس کا کام کر دیتے ہیں ؟ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " کی بڑی صاحبزادی محترمہ امتہ الشکور بیگم صاحبہ لکھتی " میں نے کبھی مشکل سے مشکل اور انتہائی پریشانی کے وقت بھی ابا کا پریشان چہرہ نہیں دیکھا.بہر حال میں مسکراتے رہنا ان کا شیوہ تھا.
656 حضور نے ایک مرتبہ ۱۹۷۴ء کے ابتلاء کے دوران احباب جماعت سے ملاقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :- انسانی نفس کا یہ خاصہ ہے کہ وہ بعض دفعہ مشکلات کے وقت گھبرا جاتا ہے اس لئے بعض چہروں پر کچھ گھبراہٹ اور پریشانی بھی نظر آتی تھی لیکن اللہ تعالٰی کی توفیق کے ساتھ دو تین سو یا چار پانچ سو احمدی احباب جن سے میں ان دنوں روزانہ اجتماعی ملاقات کیا کرتا تھا جب وہ میری مجلس سے اٹھتے تھے تو ان کے چہروں پر بشاشت کھیل رہی ہوتی تھی اور وہ چھلانگیں مارتے واپس جاتے تھے ۶۲؎ حضور کی یہ مسکرانے کی عادت ساری زندگی قائم رہی حتی کہ وفات کے وقت بھی یہی کیفیت تھی.حضور کی ایک بہن صاحبزادی محترمہ امتہ الباسط صاحبہ لکھتی ہیں." میرے بھائی جان ہمیں چھوڑ کر اپنے سب سے پیارے آقا کے حضور حاضر ہو گئے.....میں بھائی جان کی وفات کے تقریباً ایک ہفتے بعد امریکہ جانے کے لئے روانہ ہو گئی.تین دن لندن ٹھہری.واپسی پر ایمسٹرڈم میں جہاز بدلنا تھا.چار پانچ گھنٹے ایمسٹرڈم ٹھرنا تھا....ایمسٹرڈم پہنچی تو ائیر پورٹ پر ایک عورت ملی....یہ عورت مجھے کہنے لگی مجھے بتاؤ کہ جب وہ فوت ہوئے تھے تو مسکرا رہے تھے؟ میں نے کہا کہ ہاں وہ مسکرا رہے تھے.کہنے لگی جب لوگوں نے مجھے ان کی وفات کا بتایا تھا تو مجھے یقین تھا کہ وہ مسکراتے ہوئے ہی رخصت ہوں گے کیونکہ میں نے ان کو ہمیشہ مسکراتے ہی دیکھا ہے " ۱۳؎ اسی طرح حضور کے غیر ملکی دوروں کے دوران لندن کے اخبار ٹائمز نے حضور کی شخصیت کے بارے میں لکھا کہ نرم دل ، دھیما مزاج اور بہت اثر کرنے والی شخصیت، ان کی طبیعت میں بہت مزاح ہے وہ اپنی بھر پور اور جاندار مسکراہٹ کے ساتھ مردوں کے ساتھ مصافحہ کرتے ہیں لیکن عورتوں سے نہیں
657 " محبت سب کے لئے نفرت کسی سے بھی نہیں" کی عظیم الشان تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الثالث " محبت و شفقت کا مجسمہ تھے.مغربی جرمنی میں حضور نے ایک موقع پر اپنی زندگی کا مطمح نظر بیان کرتے ہوئے فرمایا:.” میں نے اپنی زندگی بنی نوع انسان کی فلاح کے لئے وقف کر رکھی ہے.میرے دل میں نوع انسان کی محبت اور ہمدردی کا ایک سمندر موجزن ہے.اس لئے میں انہیں راہ فلاح کی طرف جو بلاشبہ اسلام کی راہ ہے بلا رہا ہوں.یہاں بھی محبت کا پیغام لے کر آیا ہوں اور وہ یہی ہے کہ انسان انسان سے محبت کرے.محبت کے نتیجہ میں محبت پیدا ہوتی ہے.ہمیشہ محبت ہی غالب آتی ہے اور تعصب کے لئے سدا سے شکست مقدر ہے " ۶۵.حضور نے ۱۹۸۰ء میں چار براعظموں کا دورہ فرمایا اور محبت کا سفیر بن کر اپنی اس آفاقی تحریک کو دنیا کے کونے کونے میں بنفس نفیس پہنچایا.حضور کی زندگی کا مسرور لمحہ ۹.اکتوبر ۱۹۸۰ء کو آیا جب حضور نے سپین سے مسلمانوں کے اخراج کے سات سو پچاس سال بعد قرطبہ کے قریب پید رو آباد کے مقام پر پہلی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.اس موقع پر بھی حضور نے یہی پیغام دیا.فرمایا :.ترین مسجد ہمیں یہ سبق سکھاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں تمام انسان برابر ہیں خواہ وہ غریب ہوں یا امیر، پڑھے لکھے ہوں یا ان پڑھ اسلام ہمیں باہم محبت اور الفت سے رہنے کی تعلیم دیتا ہے ہمیں انکساری سکھاتا ہے اور بتاتا ہے کہ انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے وقت ہمیں مسلم اور غیر مسلم میں کسی قسم کی کوئی تمیز روا نہیں رکھنی چاہئے انسانیت کا یہی تقاضا ہے...میرا پیغام صرف یہ ہے کہ
658 Love For All Hatred For none یعنی سب کے ساتھ پیار کرو نفرت کسی سے نہ کرو ۶۶؎ ۱۹۸۰ء میں حضور نے پورے یورپ میں محبت کا پیغام دیا اور سوئٹزرلینڈ میں اس ارادے کا اظہار کیا کہ حضور محبت کا سفیر بن کر سارے یورپ میں محبت کا پیغام دینے نکلے ہیں فرمایا :.” میں یورپی ممالک کا یہ دورہ اس لئے کر رہا ہوں کہ یہاں کے لوگوں کو اسلام کی طرف سے امن کا پیغام دوں اور قیام امن کی حقیقی راہ انہیں بتاؤں چنانچہ میں جس ملک میں بھی جاتا ہوں لوگوں کو یہی یقین دلانے کی کوشش کرتا ہوں کہ انسانیت کی بقاء کی خاطر ایک دو سرے سے محبت کرنا سیکھو.اس لئے میں محبت کے ایک سفیر کی حیثیت سے یہ دورہ کر رہا ہوں " ۶۷؎ انگلستان میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :." میں ایک مذہبی آدمی ہوں میں سیاست میں دخل نہیں دینا چاہتا.میرا پیغام اسلام کا پیغام ہے.اسلام کہتا ہے انسان انسان میں کوئی فرق نہیں ہے.اسلام ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ بلا استثناء ہر انسان سے محبت کرو اور اس کے حقوق غصب نہ کرد...اس بنیادی اصل پر عمل پیرا ہو نفرت کسی سے نہیں محبت سب کے لئے " اور اسی لئے میں کہتا ہوں کسی اور کی طرف نہ دیکھو قرآن کی طرف آو ۶۸ حضور نے ہالینڈ میں ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ تیسری عالمگیر تباہی حضور کی اس تحریک کے ذریعے مل سکتی ہے فرمایا :." ” دنیا بڑی تیزی سے ایک تیسری عالمگیر تباہی کی طرف بڑھ رہی ہے اس تباہی کو محبت و پیار اور بے لوث خدمت کے ذریعہ انسانوں کے دل جیت کر اور خدائے واحد کے ساتھ ان کا تعلق قائم کر کے روکا جا سکتا
659 ہے.۹.سکنڈے نیوین ممالک کے دورہ کے دوران بھی حضور نے ان ممالک میں اپنی تحریک کا پرچار کیا.سویڈن میں گوٹن برگ کے مقام پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:." میرا مشن یہ ہے اور میں یہاں کے لوگوں کے دلوں میں یہ بات بٹھانا چاہتا ہوں کہ ان کے مسائل کا حل اس امر میں مضمر ہے کہ وہ نوع انسان سے محبت کرنا سیکھیں....میں یقین رکھتا ہوں کہ محبت اور پیار اور بے لوث خدمت کے ذریعہ ایک دن ہم اسلام تمہارے دل جیتنے میں کامیاب ہو جائیں گے جس دن ہم تمہیں یہ یقین دلا دیں گے کہ ہم جو کچھ تمہارے سامنے پیش کر رہے ہیں وہ اس سے جو پہلے تمہارے پاس ہے بہتر ہے تو تم اسلام کو قبول کئے بغیر اور اسلام کی آغوش میں آئے بغیر نہ رہو گے " et کے لئے ناروے میں اوسلو کے مقام پر مسجد نور کا افتتاح فرما کر پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا :.برا "میرا ایک مشن ہے جسے پورا کرنے کے لئے میں مختلف ملکوں میں کا دورہ کر رہا ہوں اور اس سلسلہ میں یہاں بھی آیا ہوں.یہ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت دنیا دو کیمپوں میں بٹی ہوئی ہے.ان دونوں بڑی طاقتوں نے سوچا تھا کہ اگر ہم انتہائی مہلک ہتھیاروں کے اپنے پاس انبار لگالیں گے تو اس سے دنیا میں قیام امن میں بہت مدد ملے گی.قیام امن کی اس انوکھی کوشش میں وہ ناکام ہو چکے ہیں.میں کہتا ہوں کہ امن اسلام کے لازوال اصولوں پر عمل پیرا ہوتے ہوئے انسانوں کو باہم ایک دوسرے سے محبت کرنے کی دینے سے قائم ہو گا اسی لئے میں محبت کا سفیر بن کر یہاں آیا ہوں ایک افریقہ میں جو قومیں ہمیشہ سے محبت سے محروم چلی آ رہی تھیں اور دنیا کی
660 نفرت کا نشانہ تھیں ان تک بھی حضور نے عملی طور پر اپنی تحریک کو جاری فرمایا.حضور نے ۱۹۸۰ء کے دورہ مغرب کے دوران فرمایا:.1920ء میں میں مغربی افریقہ کے دورہ پر گیا.میں نے محسوس کیا کہ وہاں کے لوگ محبت کے بھوکے ہیں.ماضی میں ان پر اتنا ظلم و تشدد کیا گیا ہے کہ اب جب کہ وہ آزاد ہوئے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ان سے محبت و پیار کا سلوک کرے.چنانچہ انہیں ایک نیا تجربہ ہوا.جب میں نے ان کے ساتھ محبت اور شفقت کا اظہار کیا تو وہ بہت ممنون ہوئے.نائیجیریا میں ایک صحافی کے سوال کا جواب کا دیتے ہوئے حضور نے فرمایا :.” بنی نوع انسان کی محبت ہمارے دلوں میں ہے اور یہ محبت ہی ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم انہیں راہ نجات دکھائیں اور جو خدمت بھی ہم سے بن پڑے اس کو بجالائیں " " براعظم امریکہ میں بھی حضور " محبت کے سفیر بن کر گئے حضور کی ان کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے ایک امریکی ریٹائرڈ جرنیل رولینڈ ڈیل مار (Gon.Roland delmar) نے استقبالیہ تقریب میں کہا " یہاں بہت سے لوگ نہیں جو آپ سے ملنے اور تبادلہ خیالات کرنے کے متمنی ہیں کیونکہ آپ جہاں بھی جاتے ہیں امن لے کر جاتے ہیں.آپ امن کی باتیں کرتے ہیں.امن ہی آپ کی گفتگو کا موضوع ہوتا ہے.امن کا پر چار ہی آپ کا مشن ہے اور باہمی تفرقوں ، مخاصمتوں اور نفرتوں کو ختم کرنا آپ کا مقصد ہے.آپ کو تو امریکہ میں زیادہ عرصہ ٹھہرنا اور قیام کرنا چاہئے تاکہ ملاقات کے متمنی آپ سے مل سکیں اور آپ کے بیش قیمت خیالات سے مستفیض ہو کینیڈا میں حضور نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اپنی تحریک کو ان الفاظ میں بیان سکیں کیا.فرمایا :.
661 P ”مذہب کا تعلق دل سے ہے اور دل کو جبر سے یا قوت کے بل پر بدلا نہیں جا سکتا ساری دنیا کے ایٹم بم مل کر بھی ایک دل کو نہیں بدل سکتے.دل ہمیشہ کسی عقیدہ کے باطنی حسن اور خوبی سے بدلتے ہیں یا محبت و پیار اور بے لوث خدمت سے.اسلام نہ پہلے تلوار سے پھیلا تھا اور نہ اب تلوار یا فوجی قوت سے پھلے گا.پہلے بھی اسلام کے حسن نے ولوں کو مسخر کیا تھا اور اب بھی اس کا اپنا حسن نوع انسانی کے دلوں کو مسخر کر کے ان پر فتح حاصل کرے گا اور ہر قوم اور ہر ملک کے لوگ خود بخود اس کی طرف کھینچے چلے آئیں گے آنحضرت لی لی لی اور آپ کے کے خلفاء کو جو جنگیں لڑنا پڑیں وہ سب دفاعی جنگیں تھیں، ان کا اسلام کی اشاعت سے کوئی تعلق نہ تھا.پہلے قریش مکہ نے ظلم و ستم کا بازار گرم کر کے اور پھر متعدد بار مدینہ پر حملہ آور ہو کر اسلام کو نیست و نابود کرنا چاہا اور پھر اس زمانہ کی دو بڑی طاقتوں قیصر و کسری نے اپنی زبردست جنگی قوت سے اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹانا چاہا لیکن نہ قریش مکہ اور نہ اس زمانہ کی دو بڑی طاقتیں اسلام کو کالعدم کرنے میں کامیاب ہو سکیں.اور اسلام اپنے باطنی حسن اور بے پناہ کشش کی وجہ سے دنیا میں پھیلتا چلا گیا.قریش مکہ اور قیصر و کسریٰ نے مسلمانوں پر جو جنگیں مسلط کیں وہ اس بات کو دنیا پر آشکار کرنے کا موجب بنیں کہ دلوں کو جبر کے ذریعہ یا طاقت کے بل پر بدلا نہیں جا سکتا.ہم پر امن تبلیغ و اشاعت کے ذریعہ اور محبت و پیار اور بے لوث خدمت کے ذریعہ اسلام کو دنیا میں پھیلانے میں کوشاں ہیں اور اس میں رفته رفته کامیابی ہو رہی ہے.ایک وقت آئے گا کہ تمام نوع انسانی اسلام کے حسن کی گرویدہ ہو کر اس کی طرف کھینچی چلی آئے گی اور دین واحد پر جمع ہو کر امت واحدہ کی شکل اختیار کرلے گی ۷۵
662 کیلگری کے مقام پر ایک خطاب کرتے ہوئے فرمایا :.”اگر تیسری جنگ کی شکل میں سروں پر منڈلانے والی مکمل تباہی سے بچنا چاہتے ہو تو ایک ہی خاندان کے افراد کی طرح باہم مل کر زندگی گزارو.سب کو یکسان درجہ دو اور سب کے یکساں حقوق تسلیم کرو.ابھی وقت ہے ہمیں آج کچھ کرنا چاہئے تاکہ مستقبل میں اپنی دانش مندی اور دور اندیشی کی وجہ سے ہم نہیں اور خوش ہوں نہ کہ اپنی حماقتوں پر آنسو بہائیں.خدا ہمیں اس کی توفیق دے".۱۹۸۰ء میں یورپ ، امریکہ اور افریقہ کے تاریخی دورہ سے واپس آکر جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر حضور نے جماعت کو اس سے قبل دیئے ہوئے دو مائوز (1) حمد (ii) عزم میں دو مزید ماٹوز کا اضافہ فرمایا جو (III) محبت و پیار اور (IV) ہمدردی و خیر خواہی ہیں جس طرح حضور کی تمام تحریکات ایک طرف انسان کی جسمانی.ذہنی.اخلاقی اور روحانی قومی کی نشو و نما کا سامان کرتی ہیں وہاں ان کا خلاصہ ، حمد ، عزم ، محبت و پیار اور ہمدردی و خیر خواہی سے بہتر الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا.حمد اور عزم کے مائوز کا ذکر ”صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبے" کے تحت بھی ہو چکا ہے جس کا اعلان حضور نے ۱۹۷۳ء کے جلسہ سالانہ پر کیا تھا.محبت و پیار" اور ” ہمدردی و خیر خواہی" کے ماٹوز حضور نے پندرھویں صدی ہجری کے پہلے جلسہ سالانہ پر جماعت کو دیئے تھے جو ۱۹۸۰ء میں منعقد ہوا تھا.حضور نے فرمایا:.تھا." چھلی صدی میں میں نے احباب جماعت کو حمد اور ”عزم“ کا ماٹو دیا پندرھویں صدی کے عظیم الشان مائوز....پہلا مائو ”محبت و پیار"....ہم نے محبت و پیار سے دنیا بھر کے دل خدا اور محمد ملی تعلیم کے لئے
663 جیتنے ہیں..سکتا ہمارا گلا مائو خیر خواہی اور خدمت ہے.....دنیا سے فساد تبھی مٹ ہے ؟ جب دنیا انانیت کو چھوڑ کر خدمت کے مقام پر کھڑی ہو گی.نبی اکرم میں والی ریلی کا ایک نام خیر مجسم ہے اور حضور امام کی امت بھلائی اور خیر خواہی کے لئے پیدا کی گئی ہے کسی کو دکھ نہیں دینا کسی سے برائی نہیں کرنی.کوشش کرنی ہے کہ دنیا جو گناہوں ، دکھوں ، بے چینی اور بے اطمینانی کی بھٹی میں جل رہی ہے یہ سب دور کر کے ماحول اور معیشت میں خوشی اور اطمینان پھیلا دیا جائے تاکہ دنیا سمجھے کہ محمد میل الایم واقعی دنیا کے حقیقی محسن اعظم ہیں....tt یورپ اور امریکہ میں اشاعت اسلام کی مہم کو تیز تر کرنے کے منصوبے فولڈرز حضور نے دورہ مغرب ۱۴۰۰ھ کے دوران - اگست ۱۹۸۰ء کو لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا:." انگلستان کی جماعت نے احمدیت کے تعارف پر مشتمل انگریزی میں ایک فولڈر بہت بڑی تعداد میں شائع کر کے اسے تقسیم کیا ہے.یہ ایک بہت مفید سلسلہ ہے.اسے زیادہ موثر اور نتیجہ خیز بنانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں ایک تجویز ڈالی ہے.انگلستان میں ہر سال کئی ملین ٹورسٹ آتا ہے اسی طرح دوسرے ملکوں میں ملینز ٹورسٹ (Millions Tourist) آتے ہیں.وہ مختلف ممالک سے آتے ہیں اور مختلف زبانیں بولنے والے ہوتے ہیں.تجویز یہ ہے کہ اس فولڈرز
664 کا ترجمہ دنیا کی ہر زبان میں کیا جائے گا اور وکالت تبشیر کا دفتر مناسب تعداد میں ہر زبان کے فولڈر ز ہر مشن کو بھجوائے گا اور ہر مشن اس ملک میں آنے والے سیاحوں کو خود ان کی زبان میں شائع شدہ فولڈ رز دے گا اور اس طرح ہر ملک میں مختلف زبانیں بولنے والوں تک اسلام کا پیغام پہنچانے کا راستہ کھل جائے گا.ابتدا میں ایک فولڈر شائع کیا جائے گا جس کا عنوان ہو گا 1- The Promised Mahdi and Messiah has come LZA 2_ What is Ahmadiyyat حضور نے اس تحریک کو امریکہ میں دہراتے ہوئے فرمایا :.اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ آپ لوگ ذاتی تعلق کی شکل میں عوام سے رابطہ پیدا کریں تاکہ اس وقت امریکی عوام اور آپ کے درمیان جو دیوار حائل ہے اور جو تبلیغ کے راستہ میں روک ثابت ہو رہی ہے وہ دور ہو......اس دیوار کو دور کرنے کے لئے..دنیا کی ہر معروف زبان میں فولڈ رز" شائع ہونے چاہئیں اور اس امر کا اہتمام ہونا چاہئے کہ جن تاریخی یا تفریحی مقامات کو دیکھنے دنیا کے تمام ملکوں سے لاکھوں کی تعداد میں سیاح آتے ہیں وہاں ہمارے آدمی دنیا کی مختلف زبانوں کے فولڈرز لے کر جائیں اور ہر ملک کے سیاحوں کو خود ان کی اپنی زبان کے فولڈ رز دیں.وہ انہیں شوق سے پڑھیں گے اور ان میں سے بہت سے لوگ مشن سے رابطہ قائم کریں گے ۷۹.حضور نے جماعت احمدیہ امریکہ کو ایسے فولڈرز پچاس ہزار کی تعداد میں شائع کرنے اور مذکورہ طریق کے مطابق تقسیم کرنے کی ہدایت فرمائی اس ضمن میں حضور نے ایک اور ہدایت یہ فرمائی کہ.ee " ہر عمر Age Group کے لئے علیحدہ لٹریچر ہونا چاہئے تاکہ ہر عمر
665 کے لوگ اپنی عقل و شعور اور سمجھ کے مطابق اس سے استفادہ کر سکیں پھر زمانہ کے طریق اور اسلوب کے مطابق لٹریچر تیار کرنا اور اسے شائع کرنا چاہئے کیونکہ ہر زمانہ کا طریق اور اسلوب اپنے سے پہلے زمانوں کے طریق اور اسلوب سے مختلف ہوتا ہے “۸۰ ۲.کیمونٹی سنٹرز اور عید گاہیں فرمایا :.اس وقت تک یورپ میں ہم اسلام کی جو تبلیغ کرتے رہے ہیں 05- اس میں ایک رکاوٹ ایسی ہے جو ابھی تک دور نہیں ہو سکی.رکاوٹ یہ ہے یہ ہے کہ ہمارے اور یورپین قوموں کے درمیان ایک Barrier (دیوار) حائل ہے جو دونوں کو ایک دوسرے کے قریب نہیں آنے دیتی.اس ”بیر بیئر " کو ہم نے ابھی تک نہیں توڑا ہے.تبلیغ میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمارے قریب آئیں اور وہ قریب نہیں آسکتے جب تک درمیان میں حائل Barrier نہ ٹوٹے.اس سفر میں اللہ تعالیٰ نے اس Barrier کو توڑنے کا منصوبہ القاء کیا ہے.اس منصوبہ کا تعلق اس اسلامی ادارہ سے ہے جسے ”عید گاہ" کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے اسلام میں "عید گاہ" شہر سے باہر کھلی جگہ بنائی جاتی ہے یہ اپنی ذات میں ایک بہت بڑا انسٹی ٹیوشن (Institution) یا ادارہ ہے جس سے تبلیغی اور تربیتی رنگ میں جماعتی طور پر فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے.دراصل مساجد کے مختلف دائرے ہیں.ایک محلہ کی مسجد ہوتی ہے اس کا دائرہ محلہ تک محدود ہوتا ہے.ایک جامع مسجد ہوتی ہے جس میں جمعہ کی نماز بھی ادا کی جاتی ہے اس کا دائرہ شہر ہوتا ہے.اسی طرح ایک عید گاہ ہوتی ہے اس کا دائرہ جمعہ کے دائرہ سے بھی بڑا ہوتا ہے اور اس
666 میں شہر کے علاوہ اردگرد کے علاقے کے لوگ بھی جمع ہوتے اور نماز عید ادا کرتے ہیں.میں نے سوچا ہر ملک میں شہر سے باہر فاصلہ پر جہاں زمین کی قیمت زیادہ نہ ہو ہیکٹر ڈیڑھ ہیکٹر زمین خرید لی جائے.مثال کے طور پر لندن سے تھیں میل باہر اتنی زمین خرید کر وہاں عیدہ گاہ کی طرز پر ایک تو غیر مسقف کھلی مسجد بنائی جائے جہاں نماز پڑھی جا سکے.اس سے ہٹ کر ایک طرف ایک کمرہ ہو جو سٹور کا کام دے.ایک حسب ضرورت بڑا شیڈ ہو جو دھوپ اور بارش میں پناہ Shelter کا کام دے باقی زمین میں جنگل اگانے کے علاوہ بچوں کے لئے پھل اور درخت لگا دیئے جائیں اور اس سے ملحقہ زمین میں بچوں کو لے جا کر ان کے تربیتی اجتماعات منعقد کئے جائیں نیز تفریح کی غرض سے وہاں پکنک وغیرہ منائی جائے اور دوسروں کے بچوں کو بھی مدعو کیا جائے کہ وہ ہمارے بچوں کے ساتھ مل کر اس جگہ پکنک منائیں اس طرح ہمارے بچوں اور دوسرے بچوں میں اور خود بڑوں میں میل ملاپ بڑھے گا اور دونوں کے درمیان جو Barrier ہے جس کی وجہ سے یہاں کے لوگ ہم سے دور دور رہتے ہیں اور ہمارے قریب نہیں آتے ٹوٹنا شروع ہو جائے گا.اس لئے ضروری ہے کہ ایسی جگہ کی تلاش کی جائے جو آبادیوں سے پرے دور ہٹ کر ہو اور سستی مل سکے اور رفتہ رفتہ اسے دینی اور جماعتی اغراض کے علاوہ پکنک سپاٹ Picnic Spot اور تبلیغی جگہ کے طور پر بھی ڈویلپ Delvelope کیا جا سکے.سو یہ درمیان میں حائل رکاوٹ یا بیرئیر" کو توڑنے کا منصوبہ ہو گا.اللہ تعالیٰ ہمیں منصوبہ کو عملی جامہ " پہنانے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۸۱ اسی سال امریکہ کے دورہ کے دوران حضور نے فرمایا:.” میں نے ۱۹۷۶ء میں آپ لوگوں کو ملک کے مختلف علاقوں میں
667 کمیونٹی سنٹرز قائم کرنے کی غرض سے زمینیں خریدنے کی ہدایت کی تھی لیکن آپ نے میری اس ہدایت پر عمل نہیں کیا.میں نے اس سکیم میں بعض تبدیلیاں کی ہیں ان میں سے ایک اہم اور بنیادی تبدیلی یہ ہے کہ آپ کمیونٹی سنٹرز کی بجائے مختلف علاقوں میں عید گاہیں بنانے کا پروگرام بنائیں اور اسے جلد از جلد عملی جامہ پہنانے کے لئے اقدامات کریں..عید گاہ جسے آبادی سے باہر کھلی فضا میں Open air Mosque کے طور پر بنایا جاتا ہے اسلام میں ایک مستقل ادارہ کی حیثیت رکھتی ہے.کہا تو اسے عید گاہ جاتا ہے یعنی وہ جگہ جہاں عیدین کی نمازیں پڑھی جاتی ہیں لیکن اس کھلے علاقہ کو جس میں عید گاہ بنائی جاتی ہے دیگر تربیتی مقاصد کے لئے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے مثلاً آپ چار پانچ ایکڑ زمین خرید کر اس میں عید گاہ کی طرز پر کھلی فضا میں غیر مسقف مسجد بنائیں ، سامان وغیرہ رکھنے کے لئے ایک سٹور اور بارش وغیرہ سے بچنے کے لئے ایک بڑا سا شیڈ بنا لیں باقی زمین میں پھلدار پودے اور درخت لگا دیں اور اس احاطہ کو اپنے تربیتی اجتماعوں اور پکنک وغیرہ کے لئے استعمال کریں.چھٹیوں کے دوران کئی احمدی گھرانے مل کر وہاں جائیں اور اپنے ساتھ بچوں کو بھی لے جائیں.بچے وہاں کھیلیں کو دیں اور پکے ہوئے پھل درختوں سے توڑ توڑ کر آزادی سے کھائیں اور ساتھ کے ساتھ ان کی تربیت بھی کریں.اس طرح بچوں کی تفریح بھی ہو جائے گی اور بہت خوشگوار ماحول میں تربیت کی سہولت بھی میسر آجائے گی.یہاں ہماری تبلیغ میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ یہاں کے لوگ ہمارے قریب نہیں آتے اور نہ ہم ان کے قریب ہوتے ہیں.ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار سی حائل ہے جب تک یہ دیوار نہیں ہے گی ہم انہیں اسلام کے قریب نہیں لا سکیں گے.عیدہ گاہ اس دیوار
668 کے ہٹانے میں بھی محمد ثابت ہو سکتی ہے وہ اس طرح کہ جب احمدی بچے اپنے بڑوں کی زیر نگرانی وہاں پکنک منانے جائیں تو یہاں کے اپنے ہم عمر دو سرے بچوں کو بھی پکنک منانے کی دعوت دیں اور انہیں اپنے ساتھ وہاں لے جائیں.پکنک کے خوشگوار ماحول میں باہمی ربط و ضبط بڑھے گا.وہاں لمبی چوڑی تربیتی تقریریں کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ باتوں باتوں میں بچوں کو اسلامی اخلاق اور اسلامی آداب سکھائے جائیں.مثلاً کھانا کھانے بیٹھیں تو انہیں بتایا جائے کہ اسلام میں کھانا اللہ کے نام سے شروع کرنا ضروری ہے پھر یہ بھی ضروری ہے کہ دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور ادھر ادھر ہاتھ نہ مارو بلکہ اپنے سامنے سے کھاؤ.پھر انہیں بتایا جائے کہ اسلام کا حکم یہ ہے کہ کسی کو گالی نہ دو، کسی سے نفرت نہ کرو وغیرہ وغیرہ.بار بار بچوں کو محبت اور پیار کے رنگ میں جب یہ چھوٹی چھوٹی باتیں سکھائی جائیں گی تو بچوں کی از خود تربیت ہوتی چلی جائے گی اور دوسرے بچے بھی ان باتوں کا اثر قبول کریں گے.آپ لوگ جب چار پانچ ایکڑ زمین خریدنے کے متعلق سوچتے ہیں تو آپ کے ذہن میں یہ آتا ہے کہ اس کے لئے دس ہزار ڈالر درکار گے حالانکہ میں نے رسالہ "آؤٹ ڈور" (Out Door) میں ایسی فالتو زمینوں کے اشتہار بھی پڑھے ہیں جو سات ڈالر فی ایکڑ کے حساب سے مل جاتی ہے.دراصل ہم دو ضرورتوں کے تحت زمینیں خریدتے ہیں.ایک فوری ضرورت کے ماتحت اور دوسرے ہیں تمیں سال بعد پیدا ہونے والی ضرورتوں کے پیش نظر آپ عید گاہ کے لئے دوسری قسم کی ستی زمینیں خریدنے کی کوشش کریں.میں ہر سٹیٹ میں ایسی زمینیں خریدنا چاہتا ہوں حتی کہ ایسی ٹیسٹ میں بھی جہاں فی الحال کوئی ایک احمدی بھی نہیں ہے.مستقبل میں وہاں بھی ہزاروں احمدی ہوں گے اور اس وقت آپ کو وہاں بھی زمینیں درکار ہوں گی.ہوں
669 اللہ تعالیٰ مستقبل میں جو کچھ کرنے والا ہے اس کا آپ لوگوں کو ابھی احساس نہیں ہے خدا تعالیٰ ہم پر بڑے فضل نازل کر رہا ہے ۸۲ ۱۹۸۱ء کے جلسہ سالانہ پر حضور نے اس تحریک پر زور دیتے ہوئے فرمایا:." دوسرے مجھے اللہ تعالیٰ نے تحفہ یہ دیا کہ عید گاہ کا تصور دیا.عید گاہ ہماری انسٹی ٹیوشن ہے.نبی کریم ملی امام مسجد نبوی میں عید ادا نہیں کرتے تھے بلکہ باہر نکلتے تھے.اس تحریک کا بڑا فائدہ ہوا.کینیڈا اور امریکہ نے اس طرف توجہ کی......ان کو میں نے کہا جہاں جس سٹیٹ میں ایک احمدی بھی نہیں کل وہاں لاکھوں ہوں گے....جو زمین آج آپ پانچ ہزار دس ہزار ڈالر کو لے سکتے ہیں اس وقت پانچ لاکھ ڈالر کو نہیں لے سکیں گے تو آنے والی نسلوں کے لئے زمینیں لو......امریکہ میں اور پھر کینیڈا میں تو اس سے بھی زیادہ خالی زمینیں پڑی ہوئی ہیں.اگر آدمی تلاش کرے محنت کرے توجہ دے تو بڑی ستی زمین مل جاتی ہے.جہاں کچی سڑکیں جاتی ہیں زمین لے لو.جہاں آج کچی سڑک ہے وہاں پانچ سال بعد پکی سڑک بن جائے گی.پختہ سڑک (سے) پانچ میل دس میل پندرہ میل ہیں میل میں میں چالیس میل دور بھی لے لو تو کوئی حرج نہیں.استحکام پاکستان کے لئے دعاؤں اور صدقات کی تحریک ۲۱ ستمبر ۱۹۰۳ء کا ذکر ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو اللہ تعالٰی نے الهاماً بتایا تھا کہ ”رسول الله من دول العالم پناہ گزین ہوئے قلعہ ہند میں" جس زمانے میں یہ الہام ہوا اس وقت پاکستان ابھی معرض وجود میں نہیں آیا تھا بلکہ متحدہ ہندوستان تھا.
670 اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تحت ۱۹۴۷ء میں متحدہ ہندوستان تقسیم ہو گیا اور پاکستان معرض وجود میں آگیا اور جماعت احمدیہ کو اپنا مرکز متحدہ ہندوستان سے پاکستان منتقل کرنا پڑا.حضرت خلیفة المسیح الثالث کا یہ نظریہ تھا کہ جس قلعہ میں محمد رسول اللہ علی کے پناہ گزیں ہونے کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں ذکر ہے ۸۴ اس سے مراد پاکستان ہی ہے چنانچہ حضور نے اپنی خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ پر فرمایا:.” پاکستان کی حفاظت کے لئے بھی دوست ضرور دعائیں کریں.کوئی مانے یا نہ مانے ہم تو یہی سمجھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام میں جس قلعہ ہند میں نبی کریم میں نیم کے پناہ گزین ہونے کا ذکر ہے اس سے مراد پاکستان ہے.سو دوست اپنی دعاؤں میں پاکستان کو خصوصیت کے ساتھ ضرور یاد رکھیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی حفاظت فرمائے اور ملائکہ کی افواج ہمیشہ ہر محاذ پر پاکستان کی مدد کریں ۰۸۵ حضور کے لائحہ عمل میں پاکستان کے استحکام کے لئے دعاؤں کی تحریک بطور خاص شامل حضور کے اتھ میں تھی ۱۹۷۱ء میں پاکستان اور بھارت کی جنگ سے قبل حضور نے جماعت کو اپنے خطبہ جمعه فرمودہ ۱۵ اکتوبر ۱۹۷۱ء میں پاکستان کی کامیابی کے لئے دعا کی اور فرمایا :.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہر قسم کی کامیابی عطا کرے اور دشمن ناکام و نامراد ہو " نیز فرمایا " احباب جماعت کو مالی قربانیوں اور دعاؤں کے ذریعہ اپنے ملک اور قوم کی خدمت کرنی چاہئے" ۳ دسمبر ۱۹۷۱ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:." ہر احمدی کا فرض ہے کہ وہ ملک کی سلامتی اور استحکام کے لئے اپنا سب کچھ وقف کر دے" ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے آئین میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا.اپنے ملک میں اتنا بڑا ظلم ہونے کے باوجود حضرت خلیفہ" ا
671 الثالث ” نے پاکستان کے لئے دعاؤں کی تحریک کو جاری رکھا اور فرمایا:.حضرت رسول اکرم علی نے فرمایا ہے حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ فرمایا:.پھر فرمایا:.اپنے وطن سے محبت کرنا جزو ایمان ہے.آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ماؤں کے پاؤں تلے جنت ہے.اس کا یہ بھی مطلب ہے کہ مادر وطن کے پاؤں تلے جنت ہے بعض لوگ یہ افواہیں پھیلاتے رہے ہیں کہ ہم اس جنت کو چھوڑ کر کہیں باہر جانے کا خیال رکھتے ہیں.ہم مادر وطن کے پاؤں کی جنت سے باہر کیسے جائیں گے جب کہ ہمارے محبوب آقا حضرت محمد مصطفی میں ہم نے ایک طرف یہ فرمایا ہے حُبُّ الْوَطَنِ مِنَ الْإِيْمَانِ اور دوسری طرف یہ کہ ماں کے پاؤں تلے جنت ہے.مادر وطن کے پاؤں تلے جنت ہے.اسی طرح انسان مادر وطن میں اپنے لئے جنت کا ماحول پیدا کرتا ہے ۸۶ " پاکستان ہمارا وطن ہے، اس میں بسنے والے احمدیوں کا یہ وطن ہے.اس وطن میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کا مرکز بنایا ہے....ہم نے اس ملک سے اس طرح خدمت لینی ہے کہ پاکستان جو ہمارا پیارا ملک ہے وہ دنیا کے معزز ترین ممالک میں شمار ہونے لگے...." ہم نے بہر حال دعائیں کرنی ہیں.یہ ذمہ داری کہ دعاؤں کے ساتھ ہم اپنے ملک کے استحکام اور اس کی خوش حالی کے سامان پیدا کریں بہت بڑی حد تک جماعت احمدیہ پر عائد ہوتی ہے ۸۸ اس سے قبل ۲۲ ستمبر ۱۹۷۲ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لئے دعاؤں اور صدقات کی تحریک فرمائی.حضور نے فرمایا :.ضروری بات میں اس وقت یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ہمارے ملک کے
672 موجودہ حالات ہر صاحب فراست کے دل میں تشویش پیدا کر رہے ہیں.اندرونی دشمن دشمنی کے کاموں میں لگے ہوئے ہیں اور بیرونی دنیا کا ایک بڑا حصہ ہمارا دوست نہیں ہے بلکہ وہ ہمارا دشمن ہے اور ان کی باتیں، ان کے منصوبے، ان کی خواہشات اور ان کے عمل ہمارے ملک کے خلاف ہیں.گو ساری دنیا تو ہمارے خلاف نہیں....لیکن دنیا کا ایک بڑا حصہ ہمارا دشمن ہے جو عجیب شاطرانہ چالوں اور دجالانہ منصوبوں سے ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا رہتا ہے.پس اندرونی دشمن بھی اس وقت اپنی شرارتوں میں تیز ہو رہے ہیں اور بیرونی دشمن تو بهر حال دشمن ہے اس واسطے قوم پر اس وقت ایک ابتلاء کا وقت ہے.دعاؤں اور صدقات سے ابتلاء دور ہو جایا کرتے ہیں.اس لئے آپ دعائیں کریں اور استحکام پاکستان کے لئے جس حد تک ممکن ہو صدقات بھی دیں لیکن اس سے بھی بڑھ کر یہ ضروری ہے کہ ہم یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کے باشندوں کو بھی دعا کرنے اور خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۸۹ حضور نے غیر ملکی دوروں کے دوران بھی جو پیغامات پاکستان بھیجے ان میں پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے لئے دعاؤں اور صدقات کی تحریک کی یاد دہانی کروائی چنانچہ ۱۹۷۳ء کے دورہ کے دوران کوپن ہیگن ڈنمارک سے اپنے پیغام میں فرمایا:.اسلام اور احمدیت کی سربلندی اور اس تربیتی دورے کے بحریت اختتام پذیر ہونے کے لئے درد دل سے دعائیں کریں نیز پاکستان کی سلامتی اور سیلاب زدگان کی امداد کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے رہیں." اتحاد بین المسلمین کی تحریک حضور نے خلافت کے بالکل شروع میں اتحاد بین المسلمین کی تحریک فرمائی جو
673 پاکستان کے اخبارات نے بھی مختلف شماروں میں شائع کی.اخبار تعمیر راولپنڈی نے لکھا.احمدیہ فرقہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد نے دنیا کے مسلمانوں اپیل کی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کی بہبود کے لئے متحد ہو کر کام کریں.آج ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مسلمان ایک انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں اب وقت ہے کہ متحد و کر اس چیلنج کا مقابلہ کیا جائے.احمد یہ فرقہ کے سربراہ نے تجویز کیا ہے کہ پاکستان کے مختلف فرقوں کا ایک مشترکہ اجلاس بلایا جانا چاہئے تاکہ مسلمانوں کی ترقی کے لئے کوئی مشترکہ پروگرام تیار کیا جا سکے ۹۱ اخبار جنگ کراچی نے لکھا:.ہو et احمدیہ فرقہ کے سربراہ مرزا ناصر احمد نے تجویز پیش کی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو سات سال کی مدت کے لئے یہ طے کر لینا چاہئے کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر دنیا میں اسلام کی تبلیغ کے لئے سر توڑ کوشش کریں گئے اور عبوری دور میں ایک دوسرے پر کسی قسم کی نکتہ چینی نہیں کریں گے ۹۲۰ وحدت اسلامی کے لئے حضور نے جماعت احمدیہ کو تحریک فرمائی کہ وہ مکہ کے روز ہونے والی عید الاضحیٰ کے مطابق ساری دنیا میں عید منائیں فرمایا :." آئندہ سے ساری دنیا میں تمام احمدی جماعتیں مکہ مکرمہ کے دن یہ عبید منایا کرے گی.ہمارے دل اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ ہم مکہ معظمہ میں عید الاضحیٰ کے موقع پر کی جانے والی قربانیوں سے پہلے قربانیاں دیں.خدا کرے کہ وحدت اسلامی کی مہم میں ہماری یہ کوشش بار آور ہو ، ۹۳ اتحاد بین المسلمین کے سلسلہ میں حضور نے اسلامی ممالک کے سربراہوں کے مجوزہ اجلاس کی کامیابی کے لئے دعا کی تحریک فرمائی جو ۱۹۷۴ء کے آغاز میں منعقد ہوئی تھی.
674 حضور نے ۲۱ دسمبر ۱۹۷۳ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:.ایک دوسرا اور بڑا اہم مسئلہ وہ اجتماع ہے جو جنوری میں ہمارے اپنے ملک پاکستان میں منعقد ہونے والا ہے (سنا ہے اب یہ فروری میں ہو گا) جس میں اسلامی ممالک کے سربراہ شامل ہوں گے اور وہ اپنی کانفرنس میں سر جوڑ کر سوچیں گے احباب جماعت اس کانفرنس کی کامیابی کے لئے بھی دعا کریں.گریہ وزاری اور تضرع سے بھی اور خاموشی سے بھی اپنے رب کریم کے حضور جھکیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اسلامی ملکوں کے سربراہوں کو صرف وہی فیصلے کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اسلامی تعلیم کی رو سے فساد کی جگہ اصلاح کی فضا اکرنے کا موجب ہوں.گویا فساد کے ہر پہلو سے ان کی سوچ ان کے فیصلے اور ان کے عمل محفوظ رہیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو " ۹۴.قلمی دوستی کی تحریک ۱۹۷۱ء کی پاکستان اور بھارت کی جنگ سے قبل جبکہ پاکستان کے دونوں صوبوں.مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے عوام کے بعض حلقوں میں کشیدگی پھیل چکی تھی حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نے طلباء اور طالبات کو قلمی دوستی کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا.حضور نے فرمایا :- احمدیہ " ہمارے تعلیم الاسلام کالج، تعلیم الاسلام ہائی سکول اور جامعہ کے لڑکوں اور اسی طرح نصرت گرلز ہائی سکول اور جامعہ نصرت کی لڑکیوں کو چاہئے کہ وہ مشرقی پاکستان میں فرینڈ بنائیں، لڑکے لڑکوں کو ین فرینڈ بنائیں اور لڑکیاں لڑکیوں کو پن فرینڈ بنائیں اور اس طرح مشرقی پاکستان کی یونیورسٹیوں اور سکولوں کے طلباء سے دوستانہ تعلق قائم کریں اور اگر وہ ایسا کریں تو یہ کئی لحاظ سے مفید ہو سکتا ہے"
675 ۱۹۷۳ء میں حضور نے جماعت احمدیہ کی وسعت کے پیش نظر عالمگیر دوستی کرنے کی تحریک فرمائی اور ۱۹.اکتوبر ۱۹۷۳ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا :." ایک اور بات جس کا میں اس وقت اعلان کرنا چاہتا ہوں وہ دوستی ہے.یہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں میں سے ایک ہے جو ملک ملک کے در میان قرب پیدا کرنے کے لئے ہیں قلمی دوستی ایک منصوبہ کے تحت کے عمل میں آنی چاہئے.(غرض دنیا کے مختلف ممالک میں رہنے والے احمدی قلم دوستی کی مجالس میں شامل ہونے کے لئے اپنے نام پیش کریں پھر ایک منصوبہ ماتحت ان کی آپس میں دوستیاں قائم کی جائیں گی.۹۵ اس سکیم کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مجلس انصار اللہ نے قیادت قلم دوستی کے نام سے ایک نئی قیادت قائم کی جس نے دنیا کے اطراف جوانب سے قلم دوستی کے متمنی احمدی احباب کے کوائف اکٹھے کرنے شروع کئے اس قیادت کا نام ” قیادت قلم دوستی" رکھا گیا.منصوبوں پر عمل کرنے کی تاکید حضور نے انصار اللہ مرکزیہ کے سالانہ اجتماع ۱۹۸۰ء کے موقعہ پر جماعت کو مخاطب کر کے اپنے منصوبوں کے بارے میں فرمایا :.اس واسطے آج عہد کرو کہ ہم دنیا کی لالچ میں خدا کی طرف پیٹھ کر کے اپنی زندگیاں نہیں گزاریں گے.ہم دنیا کی خاطر کسی اور کا دامن نہیں پکڑیں گے.محمد صلی اللہ کے دامن کو چھوڑ کے.ہم خدا تعالیٰ کی رحمت کی بھیک مانگتے ہوئے اپنی زندگی گزاریں گے.ہمارے ہاتھ میں ہمیشہ محمد ملی تا یک و نیم کا دامن مضبوطی سے پکڑا رہے گا اور انشاء اللہ دنیا کی کوئی طاقت اس دامن کو ہم سے چھڑا نہیں سکے گی جو مرضی کر لے دنیا.انشاء اللہ.اور آپ بھی عہد کریں اور بچے بچوں کو دین سکھائیں.200)
676 بہت سے منصوبے میں نے بنائے ہیں ان پر عمل کریں.قرآن کریم کا منصوبہ خدا تعالیٰ کی صفات کے جلوے اس مادی دنیا میں ہیں وہ بھی ، آیات اللہ ہیں قرآن کریم کی اصطلاح میں.علمی میدان میں آگے بڑھو آگے بڑھو آگے بڑھو، یہاں تک کہ دنیا اس بات کی بھی قائل ہو جائے (جس طرح سپین نے ان کو قائل کیا تھا ایک وقت میں) کہ ہر میدان میں احمدی مسلمان ہم سے آگے نکل گیا اور ہم مجبور ہو گئے ہیں اس سے سیکھنے ، اس سے بھیک مانگنے پر.اللہ تعالیٰ وہ وان جلد لائے آمین ۹۶.
677 حوالہ جات باب دہم ا ترجمہ :.اور محمد پر اور محمد کی آل پر درود بھیج.درود ہی تربیت کا ذریعہ ہے.میں تجھے رفعت دے کر اپنا خاص قرب بخشنے والا ہوں پس تو لکھ اور اسے چھپوایا جائے اور تمام دنیا میں بھیجا جائے.اے فارس کے بیٹو (بحوالہ تذکرہ ایڈیشن چهارم ص۵۲۵۱ حاشیه له خطاب بر موقع سالانہ اجتماع انصار الله مرکز یه ربوه ماه اکتوبر ۱۹۶۸ء بحوالہ خلافت و مجددیت ص ، مطبوعہ قادیان الفضل ربوه ۲۰ فروری ۱۹۷۳ء ) الفضل ربوہ ۲۷ اپریل ۱۹۶۶ء م الفضل ربوہ 9 جولائی ۱۹۶۶ء هم الفضل ربوہ ۱۲.اکتوبر ۱۹۶۶ء الفضل ربوہ 9 جولائی ۱۹۶۷ء خطبہ جمعہ فرمودہ ۷.اکتوبر ۱۹۶۶ء روزنامه الفضل ربوه ۲۲ مارچ ۱۹۶۸ء بحوالہ ماہنامہ مصباح ربوہ فروری مارچ ۱۹۸۲ء ص ۷ ۱۰ روزنامه الفضل ربوہ ۲ جولائی ۱۹۶۸ء ال روزنامه الفضل ربوه ۱۹ مارچ ۱۹۶۹ء ۱۲ روزنامه الفضل ربوه ۲۴ ، سمبر ۱۹۸۰ء جلسہ سالانہ نمبر ۱۳ ماہنامہ خالد ربوہ سالانہ نمبر نومبر دسمبر ۱۹۸۰ء ۱۴ اجتماع خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ ۱۵.اکتوبر ۱۹۷۱ء هله خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۷۲ء ۱۶ خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۷۴ء روزنامه الفضل رہو : 9 جولائی ۱۹۶۹ء ۱۸ ۱۹ ، سہ ماہی مشکوۃ قادیان حضرت خلیفة المسیح الثالث ” نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء جنوری فروری ۱۹۸۳ء ص ۲۰ ۲۱ بحوالہ البدر ۱۹.نومبر ۱۹۸۱ء ۲۰ آل ربوہ بیڈ منٹن ٹورنامنٹ کی افتتاحی تقریب میں خطاب ۸ مئی ۱۹۷۲ء مطبوعہ الفضل ۱۰ مئی ۱۹۷۲ء اس دوره مغرب ۱۴۰۰ ھ ص ۳۷۶٬۳۷۵ ۲۲ خطاب اجتماع خدام الاحمدیہ مرکزیہ ۱۹۷۳ء
678 ۲۳ تاریخ بجنہ اماء اللہ جلد سوم ص ۳۷۱ بحوالہ الفضل ۱۶ جنوری ۱۹۶۶ء ص ۵ کالم نمبرا ۲۴ ۲۵ روزنامه الفضل ربوہ ۸ مئی ۱۹۷۱ء روزنامہ الفضل ربوہ ۱۶ مئی ۱۹۷۱ء ۲۷ روزنامه الفضل ربوہ ۱۵ اپریل ۱۹۷۲ء ۲۸ روزنامه الفضل ربوه ۱۵ اپریل ۱۹۷۲ء و ۳ جولائی ۱۹۷۱ء ۲۹ ۳۰۰ روزنامه الفضل ربوه ۲۳ مئی ۱۹۷۱ء بر موقعہ ملاقات ۳۱ روزنامه ا الفضل.ربوه ۳ مارچ ۱۹۸۰ء ۳۲ دوره مغرب ۵۱۴۰۰ ص ۳۴۹ ۳۳ خطبه جمعه فرموده ۱۴ جون ۱۹۷۴ء مطبوعه الفضل ۲۱ جون ۴۱۹۷۴ ۳۴ دوره رہ مغرب ۳۵۹٬۳۵۸ ۱۴۰۰ ۳۵ دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۳۷۶ اس صفحات ڈائری حضرت خلیفہ المسیح الثالث" جو حضور کی حرم خانی سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ کے پاس محفوظ ہے.۳۷ دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۲۳۸، ص ۲۳۹ ۳۸ ۳۹ روزنامه الفضل ربوہ ۲ جولائی ۱۹۶۷ء ۴۰ تاریخ بجنہ اماء الله جلد سوئم ص ۵۴۲ بحوالہ سالانہ رپورٹ ۱۹۶۸ء ص ۹۱ ۱، ۴۲۰؎ خطبہ نکاح ثانی حضرت خلیفہ المسیح الثالث ۱۱.اپریل ۱۹۸۲ء بحواله الفضل حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نمبر ۱۲ مارچ ۱۹۸۳ء ص ۱۲۴۱۱ حاشیه ۴۳ تین اہم امور ص ۲۱ تا ۲۷ بحوالہ خطبہ جمعہ ۱۷ دسمبر ۱۹۶۵ء مطبوعه الفضل ۱۰ مارچ ۱۹۶۶ء ۴۴ امروز ۳۰ جنوری ۱۹۹۷ء بحوالہ الفضل ۱۷ جون ۱۹۷۴ء ۴۵ تاریخ لجنہ اماء الله جلد سوم ص ۷۰۸۴۷۰۷ ۴۶ روزنامه الفضل ربوہ ۱۶ ستمبر ۱۹۷۳ء ۲۷ خطبہ جمعہ ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ء مطبوعہ الفضل ربوه ۹ فروری ۱۹۲۶ء ۲۸ خطبه جمعه فرموده ۳۰ اپریل ۱۹۲۶ء مطبوعہ الفضل ربوه ۱۸ مئی ۱۹۶۶ء و۴ افتتاحی خطاب جلسه سالانه ربوہ ۲۶ و سمبر ۱۹۷۵ء مطبوعہ الفضل ربوه ۲۱ فروری ۱۹۷۹ء ۵۰ ماهنامه تشخید الاذهان " ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۲۳ اه روزنامه الفضل ربوہ 9 جولائی ۱۹۶۹ء ۵۲ خطبه جمعه فرموده ۲۲ دسمبر ۱۹۷۲ء مطبوعہ کے جنوری ۱۹۷۳ء ۵۳ مجلس عرفان ایبٹ آباد 9 جولائی ۱۹۷۰ء مطبوعہ الفضل ۱۶ جولائی ۱۹۷۰ء ۵۴ خطاب جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۷۳ء
679 ۵۵ خطاب جلسہ سالانہ ریوه ۱۹۸۰ ء ۶ هـ خطاب جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۷۵ء یه خطاب جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۷۰ء ۵۸ دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۵۲۴۰۵۲۳ ۵۹ خطبہ عید الفطر ۲۸ اکتوبر ۱۹۷۳ء مطبوعہ الفضل ۲۶ فروری ۱۹۷۴ء ۲۰ خطاب اجتماع خدام الاحمدیہ مرکزیہ ربوہ ۸ اکتوبر ۱۹۷۱ء ۶۱ مصباح حضرت خلیفہ المسیح الثالث " نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء جنوری ۱۹۸۳ء ص ۷۳ ۶۲ افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۷۴ء " نے ۶۳ ماہنامہ مصباح ربوہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث" نمبر دسمبر ۱۹۸۲ء ، جنوری ۱۹۸۳ء ص ۷۶ ۷۷ ۶۴ ماہنامہ تشخیز الاذہان ربوہ ناصر دین نمبر اپریل مئی ۱۹۸۳ء ص ۴۷ ۶۵ دوره مغرب ۱۴۰۰ ھ ص ۵۵ ۶۶؎ دورہ مغرب ۱۴۰۰ ص ۵۴۴ ۹۷ دوره مغرب ۱۴۰۰ ھ ص ۱۱۶ ص ۱۱۷ ۶۸۰ دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۲۸۶ ۲۸۷ ۶۹ دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۲۴۸ ی دوره مغرب ۱۴۰۰ ھ ص ۱۸۵ ا دورہ مغرب ۱۴۰۰ ھ ص ۲۱۱ ۷۲- دوره مغرب.۱۴۰۰ھ ص ۱۸۶ ۱۸۷ دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۳۲۸ ک دوره مغرب ۱۴۰۰ ھ ص ۵۱۰ ۷۵ه دوره مغرب ۱۴۰۰ ه ص ۴۶۰ ص ۴۶۱ دوره مغرب ۱۴۰۰ ه ص ۴۷۰ خطاب جلسہ سالانہ ربوہ ۱۹۸۰ء مطبوعه الفضل ۲۹ دسمبر ۱۹۸۰ء ک دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۲۶۹ ۷۹ ۸۰۰ه دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۵۰۵٬۵۰۴ اه دوره مغرب ۱۴۰۰ ص ۲۹۹ تا ص ۲۷۱ بحواله الفضل خطبه جمعه ۸- اگست ۱۹۸۰ء بمقام لندن ۸۲ دوره مغرب ۱۴۰۰ھ ص ۵۰۱ تا ۵۰۳ تقریر جلسہ سالانہ ۲۷ دسمبر ۱۹۸۱ء کاپی الهامات حضرت مسیح موعود ص ۱۷.الحکم ۱۷ ۲۴ دسمبر ۱۹۰۳.البدر یکم جنوری ۱۹۰۴ء تذکرہ ایڈیشن چهارم ص ۴۸۵
680 ۸۵ الفضل ۲۲ فروری ۱۹۶۶ء ص ۵ ۸۶ ۸۷ ۸۸، افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ۱۹۷۴ء ۸۹ الفضل تمیم اکتوبر ۱۹۷۲ء ۹۰ الفضل ۱۶ ستمبر ۱۹۷۳ء ا اخبار تعمیر راولپنڈی ۲۳.اپریل ۱۹۶۷ء ۹۲ اخبار جنگ کراچی ۲۳ اگست ۱۹۶۷ء ۹۳، خطبه جمعه فرموده ۲۷ جنوری ۱۹۷۲ء ۹۴ الفضل ۲ جنوری ۱۹۷۴ء ص ۳ ۹۵ الفضل یکم جنوری ۱۹۷۴ء ص۶ ۹۶ خطاب اجتماع انصار الله مرکز یہ ۱۹۸۰ء بحوالہ جلسہ سالانہ نمبر ۱۹۸۰ء ص ۱۱