Language: UR
مجلس خدام الاحمدیہ انگلستان نے 1986ء میں مصنف کی یہ کتاب شائع کی تھی جس میں خلافت احمدیہ کے ذریعہ عطا ہونے والے امن و ایمان اور یقین کے حصار کے موضوع پر مواد یکجا کیا گیا ہے، جیسا کہ نزول ملائکہ، تجدید دین، قبولیت دعا کا وسیلہ ہونے پر بات کی گئی ہے اورکتاب کے آخر پرایک باب ’’ناقابل تسخیر‘‘ کے عنوان سے بنایا گیا ہے جس میں ان ناکام تحریکات پر بات کی گئی ہے جن کے ذریعہ سے دشمنان حق کی طرف سے خلافت احمدیہ کے حصار کو کمزور کرنے اور کمزور دل و دماغ کے لوگوں کو متاثر کرنے اور ان کو ورغلانے کے لئے طرح طرح کے وسوسے پھیلائے جاتے رہے ہیں۔ کتاب کے مواد ایک بڑا حصہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات و فرمودات سے مزین ہے۔
حصارِ امن و ایمان ویقین خلافت ملت بیضا کے حق میں حصارا من وایمان ویقین ہے بادی علی جو مدرسی مبلغ سلسلہ احمدیہ انگلستان 10610 JANE STREET MAPLE, ON L6A 1S1 TEL:905/832-2669 FAX: 905/832-3220 1986
بسم الله الرحمن الرحيم وعد الله الذينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الفرحتِ ليَسْتَخلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وليد لَهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمَنَّا يَعْبُدُ وَنَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئًا وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْفُسِقُونَ اللہ نے تم میں سے ایمان لانے والوں اور مناسب حال عمل کرنے والوں سے منہ کیا ہے کہ وہ ان کو زمین می خلیفہ بنادیا اس طرح اسے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنا دیا تھا.اور جو دین اس نے ان کے لیے پسند کیا ہے وہ ان کے لیے اسے مضبوطی سے قائم کر دیگا اور ان کے خوف کی حالت کے بعد وہ ان کے لیے امن کی حالت تبدیل کرنے گا.وہ میری عبادت کریں گے اور کسی چیز کو میرا شریک ہیں نانی ہے اور جولوگ اسے جو بھی انکار کر کے ورنا زبانوں میں سے قرار دئے جائیں گے.سورة النور
۲۵ ۲۷ ۲۹ ۳۵ انڈیکس خلافت ابتدائے عقیدت سند ایمان و عمل صالح امن کی ضمانت استحکام اسلام و تمکنت دین یکچهتی واتحاد اطاعت - منبع سعادت حصار ایمان نزول و تائید ملائکه تجدید دین قبولیت دعا کا وسیلہ نصیحت امام اور ہمارا عہد ناقابل تسخیر
عرض حال کچھ عرصہ قبل اس عاجز نے "حصار امن و ایمان و یقین کا مسودہ حضرت امیرالمومنین خلیفہ امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ملاحظہ کے لئے خدمت اقدس میں پیش کیا تو پیارے آقا نے اس عاجز پر انتہائی شفقت فرماتے ہوئے خوشنودی کا اظہار فرمایا اور اس مبارک خواہش کا اظہار فرمایا کہ اگر اس کتاب کے آخر میں خلافت کو زائل کرنے کے لئے جو تحریکات مختلف صورتوں میں اٹھتی ہیں اُن کا بھی ذکر ہو تو بہتر ہے.منشائے مبارک جو یہ عاجز سمجھ سکا شاید یہ تھا کہ تا جماعت خلافت پراندرونی و بیرونی طور پر کئے جانے والے حملوں سے آگاہ رہے اور اس بابرکت خدائی نظام کو ہر دسو سے اور مخالفت سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرے.چنانچہ آقا کے منشاء کے مطابق خاکسار نے اس آخری باب " ناقابل تسخی کو حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الرابع ایدہ الہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی تحریر اور تقریر سے حتی الوسع مزین کرنے کی کوشش کی ہے.اس کتاب میں ملک تام کی عبارت حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی معرکتہ الآراء تصنیف " سوانح فضل عمر جلد علا کے ص۳۳ تا مث ۳۵ سے نقل ہے.A الحمد للہ کہ اس عاجز کو اس اہم اور بنیادی عنوان پر کچھ مواد جمع کرنے کی توفیق ملی ہے جس میں سیدی و مطاعی حضرت خلیفة امسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
کی خوشنودی شامل ہے الحمد لله ثم الحمد لله وما توفيقى الا بالله العظيم - اسے اللہ خلافت کی جوتیوں کے غلام کی ان اونی کوششوں کو قبول فرما اور اپنی جناب میں خلافت کے فدائیوں میں شمار کر.خا كسار ہادی علی مبلغ سلسله ۲۲
2 O خلافت خلافت ایسی حقیقت ہے جو اقوام عالم کو مساوات اور جمہوریت کی فلسفیانہ بحثوں سے نکال کر انتخاب کے میدان میں لاکھڑا کرتی ہے اور پھر تائید الہی اور نصرت خداوندی منتخب فرد کو اپنے حصار میں لے کر خلیفہ اللہ اور ہر صاحب ایمان کا محبوب ، آقا اور مطاع بنادیتی ہے.اور خلافت الہام اپنی ، نور یزدانی اور خدا داد بصیرت سے ایمان متبعین کو جلا بخشتی ہے، اُس آبشار کی طرح ہو بلندیوں سے اتر کر کشت ویراں کو زندگی کا پیام دیتی ہے.خلافت روشنی صبح ازل کی خروج آدم خاکی کی جھلکی مقام اس کا ہے مضمر اسجدوا میں حکومت یہ خدائے سفیدل کی
ابتدائے عقیدت خلافت حقہ کے بارہ میں مختلف زاویہ ہائے نگاہ سے متعدد مضامین لکھے گئے ، پڑھے گئے، دھرائے گئے اور شائع کیے گئے اور یہ سلسلہ جاری ہے اور بھاری رہے گا کیونکہ سلسلۂ خلافت بھی جاری اور دائمی ہے.حضرت المصلح الموعود، خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جماعت کے مبلغین کو یہ نصیحت فرمائی تھی کہ وہ خلافت کے مقام ، حقیقت ، اہمیت، عظمت اور برکات کو بار بار جماعت کے سامنے پیش کرتے رہا کریں.فرمایا : - و مبلغین اور واعظین کے ذریعہ بار بار جماعتوں کے کانوں میں یہ آوانہ پڑتی رہے کہ پانچ روپے لیا ، پانچ ہزار روپیہ کیا ، پانچ لاکھ روپیہ کیا ، پانچ ارب روپیہ کیا، اگر ساری دنیا کی جانیں بھی خلیفہ کے ایک حکم کے آگے قربان کر دی جاتی ہیں تو وہ بے حقیقت اور نا قابل ذکر چیز ہیں اگر یہ باتیں ہر مرد ہر عورت ، ہر بچے ، ہر بوڑھے کے ذہن نشین کی جائیں اور ان کے دلوں پر ان کا نقش کیا جائے تو وہ ٹھوکریں جو عدم علم کی وجہ سے لوگ کھاتے ہیں کیوں کھائیں......پس سب سے اہم ذمہ داری علماء پر عائد ہوتی ہے.....ہماری محبت کے علماء لوگوں کو تیار کر سکتے ہیں اور دوسرے لوگ بھی جن کو خداتعالے نے علم و هم بخشا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی خشیت اپنے دلوں میں رکھتے ہیں اور اہلی محبت کے حاصل کرنے کی خواہش اپنے قلوب میں پاتے ہیں لوگوں کو اس رنگ میں تیار کر سکتے ہیں اور ان کے اعمال کی اصلاح میں حصہ لے سکتے ہیں اور خدا تعالے کی نظر میں خلیفہ وقت کے نائب قرار پا سکتے
ہیں.یہ تعلیم العقائد والاعمال پر خطبات ما از حضرت الصلح الموعود مرتبه شیخ یعقوب علی عرفانی نام خلافت کے ساتھ فطرتی محبت اور فدائیت کا رشتہ تو تھا ہی مگر جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے مندرجہ بالا ارشاد پر نظر پڑی توفرض کی ادائیگی کے طور پر خلافت کی برکات کے بارہ میں حقیقتیں سینہ قرطاس پر بکھیرنے کے لیے نوک قلم کو جنبش دی.مگر مشکل یہ در پیش آئی کہ ابتداء کہاں سے کروں.اس ایمان سے جس کی بناء پر خدا تعالیٰ نے مومنین سے وعدہ خلافت کیا یا اعمال صالحہ کی ان بنیادوں سے جو خلافت کے قیام کی وجہ بنتے ہیں.مضمون کے دروازہ سے تائید الہی کے ان جلوؤں کے ذکر سے کھولوں جو ہر آن خلافت کے شامل حال رہتے ہیں یا ان ناکامیوں اور نامرادیوں سے جو اس کی مخالفت کے باعث تاریخ اسلام کے درخشاں باب کو بدنما کرگئیں.یہ اس محبت اور عقیدت سے شروع کروں جو اسکی روشنی میں جلا پا کر مقدس ہوجاتی ہے یا اس اطاعت اور فرمانبرداری سے جو خلافت سے وابستگی کی شرط اول ہے.ساری حقیقتیں عیاں ہیں اور ساری کرنیں روشن کون پھول چنوں گلشن سے ایک سے ایک سوا لگتا ہے.اسی کشمکش میں ذہن کے تار اس عظیم الشان حقیقت افروزہ واقعہ میں الجھ گئے جو خلافت اسلامیہ کے ظہور کے ساتھ ہی رونما ہوا.جس نے خلافت کی حقیقت، اہمیت اور برکتوں کو اتنی وضاحت بخشی کہ اس کی صداقت اور منجانب اللہ ہونے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ رہی.اس ایک واقعہ نے عظمت خلافت کو اتنا روشن کر دیا کہ شرک کی گھٹائیں اور دین میں کمزوری اور خوف کے تمام بادل چھٹ گئے.اس واقعہ سے یہ ثابت ہوگیا کہ نبی طرح مقام نبوت پر فائز شخص کو دنیا کی کوئی طاقت جنبش نہیں دے سکتی اسی طرح مسند خلافت پر متمکن وجود ناقابل تسخیر ہوتا ہے.جس طرح خدا تعالے کا نبی اس کی صفات کا مظہر کامل ہوتا ہے.اسی طرح خلیفہ وقت کے وجود میں بھی دنیا خدا تعالے کی صفات کے جلوے مشاہدہ
کر سکتی ہے.ہوا یوں کہ پیارے آقا ، سردار دو جہاں ، سید ولد آدم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری علامت کے وقت یہ خبر ملی کہ شام کا بادشاہ مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے لیے مدینہ پر شکر کشی کی تیاری کر رہا ہے.چنانچہ آپ نے ایک فوج کی تیاری کا ارشاد فرمایا اور اس کی سپہ سالار می حضرت اسامہ بن زید کے سپرد کی.ابھی یہ لشکر تیاری ہی کر رہا تھا کہ پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم خُدا کے حضور حاضر ہو گئے.پیارے آقا ومطاع کی وفات ہر مسلمان کے لیے قیامت بن گئی اپنے محبوب کی جدائی کے صدمہ سے روحیں گھائل اور جگر چھلنی تھے.چاروں سمت بے کسی اور کسمپرسی کی پر چھائیاں منڈلا رہی تھیں اور ادھر کئی نومسلم قبائل جنہیں ابھی تربیت کی آپنے مکمل طور نہ پہنچی تھی ، نفاق اور ارتداد کی راہ اختیار کر ر ہے تھے.دشمنان اسلام، اسلام کو صفحہ ہستی سے نابود کرنے کے لیے اپنی تلواروں کو آب دے رہے تھے.ان حالات میں اسلام کے بارہ میں دشمنوں کا تصور تھا کہ کا چراغ سحر ہے بجھا چاہتا ہے گو یا عناد، ارتداد اور مخالفت کے طوفان میں اسلام اس جزیرے کی طرح دکھائی دیتا انتھا تو بپھرے ہوئے سمندر میں بے بسی سے اس کی لہروں کو جذب کرتا ہے.اس خوف کی حالت میں خدا تعالیٰ نے اپنا وعدہ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِهِمْ آمَنَا پورا کیا اور حضرت ابو بکر کو خلیفۃ الرسول اور امیرالمومنین کی خلعت عطا کی.یہ خلیفۃ الرسول ، عزم کی چٹان اور استقلال کی آہنی دیوار بن کر اس کفر وارتداد کے طوفان کے مقابل کھڑا ہو گیا.بڑے بڑے جلیل القدر اور عظیم المرتبت جری صحابہ ، آپ کو حالات کی نزاکت کے پیش نظر یہ مشورہ دینے لگے کہ حضرت اسامہ والے شکر کی روانگی کو روک دیا جائے کیونکہ مدینہ دشمنوں کے ذریعہ میں ہے.اور مسلمان انتہائی کمزوری کی حالت میں ہیں کیونکہ فراق رسول کے صدمہ نے ان کی طاقتوں کو سلب کر لیا ہے ے.اور ہم ان کے خوف کو امن میں بدل دیں گے.
اور جنگی مہارت رکھنے والے تمام افراد اگر شام کی طرف چلے گئے تو دشمن فائدہ اٹھاکر مدینہ پرحملہ کرکےمسلمانوں کو شدید نقصان پہنچا سکتا ہے.اگر دنیا وی سوچ اور فہم سے غور کیا جاتا تو صحابہ کی یہ رائے ماننا عین ضروری تھا مگر خلیفہ وقت نے جس کی ہر سوچ تائید خداوندی پر ایمان کے سانچے میں ڈھلی ہوئی اور ہر فیصلہ کا انحصا خُدا داد بصیرت پر ہوتا ہے ، بڑے استقلال اور حلال سے پر الفاظ میں فرمایا.وَالَّذِي نَفْسُ أَبِي بَكْرِ بِيَدِهِ لَوْظَنَنْتُ اَنَّ السَّمَاعَ تُخْطِفُي لَا نُفَذَتُ بَعْثَ أسَامَةَ كَمَا أَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَ لَوْلَمْ يبقى في القُرى غَيْرِى لَا نُفَدُتُه - کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں ابو بکر کی جان ہے ، اگر مجھے یہ بھی خیال ہو کہ در ندرسے مجھے چیر پھاڑ دیں گے پھر بھی میں ضرور اُسامہ کے لشکر کو اسی طرح روانہ کروں گا جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی روانگی کا حکم دیا تھا اور اگر میر سے علاوہ اور کوئی بھی باقی نہ رہے تب بھی میں اسے اور وہ لشکر روانہ کر دیا گیا.ضرور روانہ کروں گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : - اَصْحَابِی النُّجُومِ بِاتِهِ اقْتَدَيْتُ وَ اهْتَدَيْتُ کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں.کسی ایک کی بھی پیروی کرو تو راہ ہدایت حاصل کر سکتے ہو کتنا عظیم مقام ہے صحابہ رضوان اللہ علیہم کا کہ ہدایت کے لیے بڑے سے بڑے بزرگ کو بھی انہیں کے در سے راہنمائی ملتی ہے.گویا چودہ صدیوں کے اولیاء اللہ اور مجتہدین خادم اور مطبع ہیں ایک صحابی کے اور ادھر در بار ابو بکریہ میں ایک لاکھ چونہیں ہزار صحابہ سر جھکائے کھڑے نظر آتے ہیں خلیفہ وقت کے سامنے.تمام صحابہ خادم اور مطبع ہیں خلیفہ وقت کے.وہ عظیم الشان وجود، نور بصیرت سے معمور صحابہ کرام جن کے ارادوں سے سنگلاخ چٹانیں بھی موم ہو گئیں.جن کی ایک نظر چلتے قافلوں کا رخ بدل دیتی تھی جن کا ایک فیصلہ حکومتوں کا رخ بدل دیتا تھا.بڑی بڑی سلطنتوں کے سامنے بھی جن کا سر فخر سے اٹھا ہوتا تھا.آج ان تمام کا سر خلیفہ وقت کے سامنے جھکا نظر آتا ہے سب کے ارادے ، سب کی آراء خلیفہ وقت کے فیصلہ اور عزم کے سامنے کسی حیثیت کی حامل نہیں.
و ہی صحابہ جن کا قول تمام امت مسلمہ کے لیے واجب العمل ہے.خلیفہ وقت کا قول ان سب صحابہ کے اقوال پر فائق اور اولی ہے وہی صحابہ ، اگر کسی ایکے نمونہ کو اپنا یا جائے تو ہدایت مل جاتی ہے.به تمام ہدایت حاصل کرنے والے ہیں خلیفہ وقت سے بہر حال اس واقعہ نے اُمت مسلم واضح کر دیا کہ - پر ا.خلیفہ وقت کا مقام کسی عظمت و شان کا حامل ہے.۲.وہ نبی کے بعد ہر مومن کا مطارع اور آقا ہوتا ہے.وہ شریعت کا پاسبان ہے (کیونکہ اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ حضرت اسامہ والے لشکر کی روانگی کو ملتوی یا منسوخ کر دیتے تو امت مسلمہ میں یہ وسوسہ پیدا ہو سکتا تھا کہ نبی کا حکم بھی ٹالا جاسکتا ہے.مطلب پرست لوگ بہ نتیجہ نکالتے کہ فرمان رسول پر اگر عمل نہ بھی کیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ حضرت ابو بکر نے اسامہین کا لشکر روک کر نبئی کے حکم پر عمل نہیں کیا چنانچہ کا رسول کو ٹالنے کی ایک وسیع راہ کھل جاتی اور شریعت اسلامی سخ ہونے سے بچ نہ سکتی.-۴- وقتی طور پر یہ فائدہ ہوا کہ دشمنوں نے یہ اندازہ کیا کہ اس کسمپرسی کی حالت میں اگر مسلمانوں کا اتنا بڑا لشکر شام بھیجا جارہا ہے تو یقینا مدینہ میں بھی ان کی بہت بڑی طاقت موجود ہے.ان کے دلوں پر رعب طاری ہوگیا اور مسلمانوں کی طاقت کی دھاکہ میڈ گئی اور اس مشکر کی روانگی دشمنان اسلام کے مدینہ پر حملہ کے عزائم میں روک بن گئی.
سند ایمان و اعمال صالحہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کے بارہ میں فرمایا : - وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَعَمِلُوا الصحتِ يَسْتَخْلفَهُمْ فِي الْأَرْضِ.کہ یہ وعدہ ان لوگوں سے ہے جو حقیقی مومن اور مناسب حال نیک عمل کرنے والے ہیں.یہ آیت واضح کرتی ہے کہ یہ وعدہ مشروط ہے ان لوگوں سے جو نظام خلافت پر ایمان رکھتے ہیں کہ یہ برحق ہے.یہ وعدہ ایمان اور اعمال صالحہ کا وہ خاص معیار چاہتا ہے جو خدا کے اس انعام کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو.لہذا کسی جماعت میں خلافت کا قیام اس جماعت کے ایمان اور اعمالِ صالحہ کے معیاری ہونے کی تصدیق کرتا ہے.اس مضمون پر قرآن کریم مزید روشنی ڈالنے کے لیے بیان فرماتا ہے يَهَبُ لِمَنْ يَشَالُوا مَا تَا وَيَهَبُ لِمَن يَشَاءُ الن کور - کہ خدا ہے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹوں سے نوازتا ہے خدا کی اس عطا اور موہبت کو جذب کرنے کے لیے خاص صلاحیت کی ضرورت ہے جس کے نتیجہ میں اولاد کا حصول ہوتا ہے اور جس میں یہ صلاحیت نہ ہو وہ اللہ تعالیٰ کی اس عنایت کو حاصل نہیں کر سکتا.اسی طرح فرمایا.انتُمْ تَزَرَعُوْنَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّارِعُونَ که بی جو لہلہاتی سرسبز و شاداب کھیتیاں تمہیں نظر آتی ہیں.یہ تم لگاتے ہو یا ہم ؟ یعنی اگر کسان بنجر در سیم زدہ زمین میں بیچ ڈالے گا تو فضل حاصل نہیں کر سکتا کیونکہ فصل اگانے کی صلاحیت اس زمین میں نہیں جو زرخیز زمین ہی ہوتی ہے اس لیے اس زمین میں فصل کا نہ ہونا اس بات کی تصدیق ہے کہ وہ ناقابل کاشت ہے.پس جس طرح ایک بنجر اور سیم زدہ قطعہ زمین فصل پیدا نہیں کر سکتا اسی طرح خدا کی یہ عمت اور وعدہ خلافت اس جماعت میں پورا نہیں ہو سکتا جو ایمان اور عمل صالح کے اس معیار پر قائم نہ ہو جو خلافت کے قیام
کے لیے شرط ہے.مگر جہاں خلافت راشدہ قائم ہو وہ یقیناً مومنین اور صالحین کی جماعت ہے.امت مسلمہ خلافت راشدہ سے محرومی کے بعد جب لمحہ بہ لحہ زوال واد بار کے زینے اتر نے لگی اور پھر ایک لیسے زمانہ کے بعد دردمند مسلمانوں نے خلافت کی کمی شدت سے محسوس کی اور اس کی فرقت کا احساس شرح کو تڑپانے لگا تب خلافت کے قیام اور احیاء نو کے لیے کئی تحریکات نے سراٹھایا.اور یہ سب تحریکاست ناکامی کا داغ لیے اور ابق تاریخ میں اوتھل ہوگئیں کیونکہ یہ کو کھہ بانجھ تھی اور زمین بنجر.اللہ تعالے کی تقدیر قیام خلافت کے لیے وہاں کام کرتی ہے جہاں ایمان اور اعمال صالحہ کی زرخیزی ہو اور جہاں یہ تقدیر کام کرتی ہے وہاں اُس جماعت کے ایمان اور اعمال صالحہ کی تصدیق بھی کرتی ہے.اور اس کا دوسرا رخ یہ ہے کہ :." جوان (خلفاء) کا منکر ہو اس کی پہچان یہ ہے کہ اعمال صالحہ میں کمی ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ دینی کاموں سے رہ جاتا ہے.“ الفضل ۱۷ ستمبر ۶۱۹۱۳ حضرت خلیفة المسیح الاوّل) اور جب امیر معاویہؓ نے حضرت علی سے آپ کی خلافت کی دلیل طلب کی تو آپ نے جواب دیا.انه بايعني ان الذين بايعوا أبا بكرٍ وَعُمَرَ وَعُثْمَانَ مَا بِايَعُوهُمْ عَلَيْهِ - کہ میری بیعت ان لوگوں نے کی ہے جنہوں نے ابو بکرا عریض اور عثمان کی بیعت کی تھی اور انہیں اصولوں پر کی ہے جن پر ان تینوں کی بیعت کی تھی.اور آگے فرمایا.فان اجْتَمَعُوا عَلَى رَجُلٍ وَسَمُّوا مَا مَّا كَانَ ذَلِكَ لله يضا.نہج البلاغہ مشہدی منشا ( من کتاب لہ انی معاویہ) ( پنج ایسالہا نہ جلد ۲ صت مطبوعہ مصر ) کہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر کسی ایک شخص کے ہاتھ پر جمع ہو جاتے ہیں اور اسے اپنا امام تسلیم کر لیتے ہیں تو خدا کی رضا اس شخص کے شامل حال ہو جاتی ہے.یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان، اعمالِ صالحہ اور اپنے تقومی و طہارت کے لحاظ سے اس معیار پر قائم ہیں کہ خدا کی مرضی ، خدا کی رضا اور خدا کا وعدہ ان لوگوں میں پورا ہوتا ہے.گویا حضرت علی نے اپنی بیعت کرنے والوں کے ایمان اور تقویٰ پر فخر کیا ہے اور اسے قیام خلافت کی دلیل بنا کر پیش کیا کہ خدا کا وعدہ مومنوں اور اعمال صالحہ کرنے والوں کے ساتھ ہے.پس وہ جماعت جس میں خلافت راشدہ قائم ہو اس بات کی کافی دلیل ہے کہ وہ جماعت مومنین اور
صالحین کی جماعت ہے.چنانچہ حضرت الصلح الموعود فرماتے ہیں :."پس اسے مومنوں کی جماعت ! اور اسے عمل صالح کرنے والو! میں تم سے کہتا ہوں کہ خلافت خدا تعالے کی ایک بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرو.جب تک تم لوگوں کی اکثریت ایمان اور عمل صالح پر قائم رہے گی خدا اس نعمت کو نازل کرتا چلا جائے گا.لیکن اگر تمہاری اکثریت ایمان اور عمل صالح سے محروم ہو گئی تو پھر یہ امر اس کی مرضی پر موقوف ہے کہ وہ چاہے تو اس انعام کو جاری رکھے اور چاہے تو بند کر دے.پس خلیفہ کے بگڑنے کا کوئی سوال نہیں بخلافت اس وقت چھینی جائے گی جب تم بگڑ جاؤ گے.پس اللہ تعالی کی اس نعمت کی ناشکری مت کر داور خدا تعالیٰ کے الہامات کو تحقیر کی نگاہ سے مت دیکھو بلکہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے فرمایا ہے کہ تم دعاؤں میں لگے رہو تا قدرت ثانیہ کا پے در پے تم میں ظہور ہوتا رہے.تم ان نا کاموں اور نامرادوں اور بے عملوں کی طرح مت بنو جنہوں نے خلافت کو رد کر دیا بلکہ تم ہر وقت ان دعاؤں میں مشغول رہو کہ خُدا قدرت ثانیہ کے مظاہر تم میں ہمیشہ کھڑے کرتا رہے تاکہ اس کا دین مضبوط بنیادوں پر قائم ہو جائے اور شیطان اس میں رخنہ انداز ی کرنے سے ہمیشہ بالیوس ہو جائے ہے (خلافت راشده)
۱۲ امن کی ضمانت خلافت حقہ اسلامیہ کی ایک برکت یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ سے جماعت مومنین میں پیدا ہونے والے خوف کو دور کر دیا جاتا ہے.انسانی زندگی خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی ، اس میں نشیب و فراز ، دکھ سکھ اور خوف اور امن کا دور دورہ رہتا ہی ہے.ایک قافلہ اگر راہ حیات میں قدم مارتا ہے تو اپنی منزل کے حصول میں کبھی پتھر بلی چٹانہیں اس کے قدموں کو اذیت سے ہمکنار کرتی ہیں تو کہیں سرسبز لہلہاتی کھیتیاں اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی ہیں.کبھی وہ تشنہ لبی کا شکار ہوتا ہے.تو کبھی ابلتے ہوئے چشمے اس کی پیاس کا مداوا کرتے ہیں، اور جس طرح وہ قافلہ کبھی سکون و قرار سے راہ سفر طے کرتا ہے اسی طرح را ہنرنوں کا خوف بھی اسے بے چین کرتا رہتا ہے.مذہبی زندگی بھی فطرت کی انہیں راہوں پر گامزن ہے.کبھی پے در پے ترقیات جماعت مومنین کی ہمتیں بلند کرتی ہیں تو کبھی منافقوں کا نفاق اور دشمنوں کی ریشہ دوانیاں اُن کے دلوں میں خوف پیدا کر دیتی ہیں.مگر خلافت ایسی نعمت ہے کہ اس کے ذریعہ سے ہر خوف کی حالت امن اور اطمینان میں تبدیل کر دی جاتی ہے.خلفائے راشدہ کے زمانہ میں امت مسلمہ پر خوف کے عجیب و غریب حالات پیدا ہوئے اور مومنوں کاہر خون خلافت سے وابستگی کے سبب دور ہوتا گیا.ان بیسیوں واقعات کے علاوہ تاریخ اسلام میں ایک حیرت انگیز واقعہ بھی رونا ہوا کہ جب حضرت عثمان کی شہادت کا کربناک واقعہ پیش آیا تو امت مسلمہ لرز گئی مگر خدا تعالیٰ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت عطا کی تو امت کی ڈھارس بندھی لیکن ابھی آپ مسند خلافت پر تمکن ہوئے ہی تھے اور منافقین کا فتنہ دیتا ہوا نظر آتا تھا کہ خوف کی ایک اور آندھی امیر معاویہ کی صورت میں ابھی.
ایک خوف دور ہوا تو دوسرے میں تلواروں کی جھنکار سنائی دینے لگی اور حضرت علی سے حضرت عثمانیہ کے قاتلوں کی سزا کا مطالبہ سنجیدگی کے ساتھ وحشت اختیار کرنے لگا تو خدا کی تقدیہ خلافت کے ذریعہ اس خوف کو دور کرنے کیلئے عجیب طور پر جاری ہوئی کہ امت مسلمہ کے لیے ایک اور خوف کی صورت پیدا کر دی گئی.وہ یہ کہ روم کے عیسائی بادشاہ نے مسلمانوں میں خوف و ہراس اور انتشار دیکھ کر اسلامی مملکت پر حملہ کے لیے تلواروں کو آب دینی شروع کردی.مگر وہی معاویہ جو حضرت علی کی مخالفت میں انتہا کو پہنچ رہے تھے ، ایک دم رخ بدل کر روم کے بادشاہ سے مخاطب ہونے اور کہلا بھیجا کہ یہ نہ سمجھنا کہ سلمانوں میں اختلاف ہے اور تم اپنی کچلیوں کو ان پر آنہ مانے لگو.یاد رکھو کہ اگر تم نے اسلامی مملکت پر حملہ کیا تو سب سے پہلا جرنیل جو حضرت علی کی طرف سے تمہارے مقابلہ کیلئے نکلے گا وہ میں ہوں گا.چنانچہ رومی بادشاہ امیر معاویہ کی اس تنبیہ سے خوفزدہ ہوا اور اپنے ارادوں سے بازہ آگیا اور اس طرح وہ شدید خوف امن میں بدل گیا.پس یہ خلافت کا عظیم مقام تھا کہ امیر معاویہ جیسا شخص بھی حضرت علی خلیفہ وقت پر قربان ہونے کے لیے تیار ہو گیا.اسی طرح اس موجود زمانہ میں ہم نے خلافت کے ذریعہ خوف کو ایسے حیرت انگیز طور پرامن میں بدلتے ہوئے دیکھا کہ عقل دنگ رہ گئی.تاریخ احمدیت اس کی شاہد ناطق ہے کہ جب بھی جماعت کو خوف وہراس میں مبتلا کرنے کی کوشش کی گئی خلافت کی برکتوں سے ہر طوفان صورت گرد بیٹھ گیا اور اسی ابتداء میں جماعت غیر معمولی ترقیات کے مدارج طے کرنے لگی.سے وہ اور ہونگے جو سیل دریا میں ڈوب مرنے کی ٹھان بیٹھے ہم ایسی موجوں کی کشمکش میں بڑھا کئے ہیں بڑھا کریں گے مخالفت کی آگ نے نہ صرف احمدیوں کے مکانوں، دوکانوں اور جائیدادوں کو جلایا بلکہ رشتہ ہائے ایمانی بھی بھسم کر دیتے.ہر انسانیت سوز حربہ اور ہر خوفناک سچال جماعت کو مٹانے کے لیے چلی گئی اور دوسری طرف یہ نظارہ بھی دیکھا گیا کہ وہ بیٹے جن کے باپ ان کی نظروں کے سامنے شہید کیے گئے تھے اور وہ باپ جن کے بیٹوں کو اُن کے رو برو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا تھا.جن کی متابع حبات بظاہر نا امیدی کے دھوؤں میں تبدیل
ہوتی نظر آتی تھی.وہ خلیفہ وقت سے ملے تو آنکھوں میں سکون واطمینان کے تاثرات ابھر نے لگے اور بشاشت سے ملے تو کے ابھرنے اور سے چہرہ کھل اٹھا.خوف کی پرچھائیاں قرار کے رنگوں میں بدل گئیں.زبان تشکر کے نفسے گانے لگی کہ سب کچھ لٹ گیا مگر متاع ایمان محفوظ رہی.کیونکہ یہی وہ سرمایہ ہستی ہے کہ ہر عزیز سے عزیز ترین چیز بھی اس پر قربان کی جاسکتی ہے.اور ادھر خدا کا سلوک یہ ہے کہ خلیفہ وقت کو یہ نوید دی جارہی ہے دَسِخ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنَاكَ المُسْتَهر بين.کہ تو اپنے گھر کو وسیع تر کر، خدا خود مخالفت کرنے والوں اور استہزاء کرنے والوں سے نیٹ سے گا.پھر اس الہام کے علو سے ظاہر ہونے لگے.ایک طرف دشمنوں کی راہیں یاس وحرمان اور بد نصیبی و نا کامی کے کانٹوں سے اٹ گئیں اور ادھر شجر احمدیت پر ہزاروں شگوفے نکل آئے.بغیر احمدی احباب قافلوں کی صورت میں مرکز احمدیت کی طرف رجوع کرنے لگے اور سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو نے لگے.مکانوں میں وسعت ہوئی مرکز سلسلہ میں سر بڑی سے بڑی جگہ چھوٹی ہونے لگی.زبر دست خطرات ، برکتوں اور فضلوں میں تبدیل ہو گئے.پس خلافت وہ قلعہ ہے جس کی فصیلیں خوف کی دسترس سے بلند تر ہیں.وہ خوف خواہ منافقت کا ہو یا عداوت کا.جنگ کا ہو یا سیاست کا.کسی گروہ کی طرف سے ہو یا بادشاہت کی طرف سے.ہر حال میں خلافت امن کا نشان ہے.بڑی سے بڑی حکومت بھی اس کو نقصان نہیں پہنچاسکتی بلکہ تاریخ شاہد ہے کہ توحکومت بھی خلافت حقہ سے ٹکرائی، پاش پاش ہوگئی جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اس طرح بیان فرمایا کہ : - یکی ایسے شخص کو جس کو خداتعالے خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر وہ خدا تعالے پر ایمان لاکر کھڑا ہو جائے گا تو..........اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکرلیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہوجائینگی کی ( خلافت حقہ اسلامیہ مثا) پس نظام خلافت کی اگر ایک طرف بنیا دیں ایمان کی مستحکم چٹان پر قائم ہیں تو دوسری طرف اس کی
فصیلیں عرش رب العالمین کو چھورہی ہیں.جہاں خدا تعالے کی تائید و نصرت اور حفظ و امان کے جلوسے سر وقت جلوہ فگن ہوتے ہیں.
استحکام اسلام وتمكنت دین حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں:.جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آجاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطر ناک وقت ہوتا ہے مگر خدا کسی خلیفہ کے ذریعہ اس کو مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا انہ سیر نو اس خلیفہ کے ذریعہ استحکام ہوتا ہے.(الحکم ۱۴ را پریل ۱۹ئ) آیت استخلاف میں اللہ تعالیٰ نے خلافت حقہ کی ایک برکت وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمْ بیان فرمائی ہے کہ نبوت کے بعد اسلام کی ترقی کا انحصار ، اس کے غلبہ کا دارو مدار اور اس کی ترقیات کا سرچشمہ خلافت ہوگی کوئی دوسرا نظام نہیں.اس کی تشریح اللہ تعالیٰ نے آیت کریمہ انتُمُ الأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ میں بیان فرمائی ہے کہ غلبہ اور برتری کا تصور ایمان کے ساتھ وابستہ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانیوالے ہر طاقت پر غالب آئے ، ہر بڑی سے بڑی سلطنت ان چند مومنوں کے سامنے سرنگوں ہوئی.ایران کے محلات ، شام کی فصیلیں اور خیبر کے قلعے اس کی گواہی کے لیے کافی ہیں.علم ، دلائل اور صداقت کے نشانات میں بھی ہر مذہب اسلام کے سامنے بے بس نظر آتا ہے.مگر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ غلبہ ختم ہوگیا؟ آپ کی وفات کے بعد وہ کون سا منصب تھا جس پر ایمان لانا لازمی قرار پایا ؟ اور وہ کونسا مقام عالی تھا جو ایمان کے قرار کا موجب بنا ہے.اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد غلبہ کا تصور موجود ہے اور ایمان اس غلبہ کا لازمہ ہے تو پھر نبوت کے بعد خلافت ہی وہ منصب عظیم ہے جس پر ایمان غلبہ و کامرانی سے ہمکنار کرتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ
نے وَيَيُمَيِّنَ لَهُمْ دَيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ میں تمکنت و استحکام دین اور غلبہ کو خلافت سے وابستہ کیا ہے.اس کا واضح نظارہ تاریخ اسلام کے اس خوفناک موڑ پر نظر آتا ہے کہ جب مسلمانوں کے دل اس ایمان سے خالی ہو گئے جس کی بناء پر خلافت کا قیام ہوتا ہے ، اور اس نعمت عظمی کو خیر باد کہ دیا گیا ، پھر جو صیبتیں مسلمانوں پر افتراق و انتشار اور تنزل ادبار کی صورت میں نازل ہوئیں ان کی داستانیں ابروئے قلم سے خون ڈھلکاتی ہیں کیونکہ امت مسلمہ پر طلوع ہونے والا ہر سورج مسلمانوں کی ذلت دہر بمت کا پیامبر تھا اور ہر ڈھلنے والا دن حسرت و یاس کی علامت.اسلام کی اس حالت زار میں خدا تعالیٰ نے ويمكن لهم دینھم کی صداقت کے ثبوت کے لیے خلافت کے ذریعہ استحکام اسلام اور تمکنت دین کا جلوہ ظاہر کیا اورمحمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی جان نشینی میں مسیح موعود اور مہدی معہود کو مبعوث فرمایا اور اسے مقام نبوت سے بھی نوازا اور یہ نوید دی' وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا کہ تیرے ماننے والوں کو خُد اتعالے منکروں پر قیامت تک غالب رکھے گا.چنانچہ آپ کے ذریعہ اسلام سے ہر اعتراض کو دور کیا گیا ، اسلام کی حقانیت اور دگر مذاہب کے بطلان کو روز روشن کی طرح واضح کر دیا گیا.پھر آپ کی وفات کے بعد خلافت عَلَى مِنْهَاج النبوة آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کیمطابق قائم ہوئی اور نظام خلافت کے ذریعہ اس الہام کی صداقت چہار دانگ عالم میں ظاہر ہوئی اور آج دنیا کے ہر خطہ میں دین مصطف اصلی اللہ علیہ وسلم کو برتری حاصل ہے.اسلام کے سامنے ہر مذہب کے پیش کردہ دلائل سیاب بر آب ثابت ہو چکے ہیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.دیکھو ہم ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کر رہے ہیں مر تم نے کبھی غورکیا کہ یہ تبلیغ کس طرح ہو رہی ہے ؟ ایک مرکز ہے جس کے ماتحت وہ تمام لوگ جن کے دلوں میں اسلام کا درد ہے اکٹھے ہو گئے ہیں اور اجتماعی طور پر اسلام کے غلبہ اور اس کے احیاء کے لیے کوشش کر رہے ہیں وہ بظا ہر چند افرا دنظر
۱۸ آتے ہیں مگر ان میں ایسی قوت پیدا ہو گئی ہے کہ وہ بڑے بڑے اہم کام سرانجام دے سکتے ؟ جس طرح آسمان سے پانی قطروں کی صورت میں گزرتا ہے پھر وہی قطر سے دھاریں بن جاتی ہیں اور وہی دھاریں ایک بہنے والے دریا کی شکل اختیار کر لیتی ہیں اس طرح ہمیں زیادہ قوت اور شوکت حاصل ہوتی چلی جارہی ہے.........اس کی وجہ محض یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں خلافت کی اہمیت عطا کی ہے یہ الفضل ۲۵ مارچ ۶۱۹۵۱ ) اور فرمایا :- دو تم خوب یاد رکھو کہ تمہاری ترقیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں اور جس دن تم نے اسکو نہ سمجھا اور اسے قائم نہ رکھا وہی دن تمہاری ہلاکت اور تباہی کا دن ہو گا لیکن اگر تم اس کی حقیقت کو سمجھے رہو گے اور اسے قائم رکھو گے تو پھر اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں بلاک کرنا چاہے گی تو نہیں کر سکے گی اور تمہارے مقابلہ میں بالکل ناکام و نامراد رہے گی...........تمہارے لیے ایسی حالت خلافت کیوجہ سے پیدا ہو سکتی ہے.جب تک تم اس کو پکڑے رکھو گے تو کبھی دنیا کی مخالفت م پراثر نہ کر سکیکی اسی طرح فرمایا : - (درس القرآن) " اسلام کبھی ترقی نہیں کر سکتا جب تک خلافت نہ ہو.ہمیشہ اسلام نے خلفاء کے ذریعہ ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا : درس القرآن ص مطبوعہ نومبر ۱۹۳۷ از حضرت المصلح الموعود پس خدا تعالے کا یہ وعدہ ہے کہ خلافت کی برکتوں سے ہی دین اسلام تمکنت ، شان و شوکت اور غلبہ حاصل کر سکتا ہے.اس کے علاوہ اور کوئی نظام یا طریقہ کار نہیں جو اسلام کے لیے ترقی کا موجب بن سکے.
۱۹ یکھیتی واستخفاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد توحید کے قیام اور مسمانوں کی چھتی اور اتحاد کے لیے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کوخدا نے خلیفہ بنایا تو آپ نے فرمایا: قَدِ استَخْلَفَ اللهُ عَلَيْكُمْ خَلَيْفَةً يَجْمَعَ بِهِ أَنفَتَكُمْ وَيُقِيْمَ بِهِ كَلِمَتَكُمْ.(دائرة المعارف) کہ اللہ تعالی نے تم پر اس بے خلیفہ مقرر کیا ہے تاکہ تمہاری آپس میں محبت و الفت اور شیرازہ بندی کو قائم رکھتے.آیت کریمہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقوا.کہ خدا کی رسی تم سب مضبوطی سے تھامے رکھو اور تفرقہ پیدا نہ کرو.میں خدا تعالیٰ اسی طرف اشارہ فرماتا ہے کہ ایک وہ وقت تھا کہ ذ كنتم اعداد فَالَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ.تم ایک دوسرے کے دشمن تجھے تو نبوت کے ذریعہ نہیں ایسی محبت دی کہ تم بھائی بھائی بن گئے.مگر اب نبوت کے جانے کے بعد پھر منتشر نہ ہو جا تا تم خدا کی رسی مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں اتحاد اور اتفاق کو اسی طرح قائم رکھو جس طرح نبی کے وقت میں تھا اور یہ اتحاد اور اتفاق اسی حالت میں قائم رہ سکتا ہے.کہ تم خدا کی رسی جو خلافت کی صورت میں تمہیں عطا کی گئی تے مضبوطی سے تھامے رکھو.نبوت کے بعد خلافت ہی ایسی نعمت ہے جس کی برکت سے تم آپس میں محبت والفت کا ناطہ برقرار رکھ سکتے ہو خواہ سرمایہ ہستی خرچ کر ڈالو.کرہ ارض کی ہر چیز کے دام لگا ہو مگر تم ایک دوسرے کے لیے صحن دل میں الفنت کے پھول نہیں لگا سکتے.آیت کریمہ تو انْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا تَفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ ر تو خواہ روئے زمین کی سر چیر خرچ کر ڈالے پھر بھی ان کے دلوں میں محبت پیدا نہیں کر سکتا) اسی طرف اشارہ
کر رہی ہے اور حضرت ابوبکر رضی اللہعنہ نے بھی یہی فرمایا کہ خدا تعالیٰ نے تم میں اس لیے خلافت قائم کی ہے کہ تم آپس میں رشتہ محبت والفت میں منسلک رہو.حضرت عثمان کے زمانہ میں جب خلافت پر نکتہ چینیاں شروع ہوئیں اور منافق آپ کے قتل کے ذکر پسے ہوئے تو آپ نے فرمایا : - اگر تم مجھے قتل کرو گے تو بخدا میر سے بعد تم میں اتحاد قائم نہیں ہوگا اور کبھی متحد اور مجتمع ہوکر نماز نہیں پڑھ سکو گے اور نہ میرے بعد تم کبھی متحد ہو کر دشمن سے جنگ کر سکو گے.(تاریخ الطبری) لیکن اس تنبیہ کے باوجود آخر کار حضرت عثمان خلیفہ رائد شہید کر دیئے گئے اور بردائے الفت و محبت تار تار ہوگئی ، نعمت اتفاق و اتحاد چھن گئی اور مساجد سے لیکر میدان جنگ تک صفیں جدا جدا ہو گئیں.اس کے بعد پھر حضرت علی کے زمانہ میں جب خلافت سے ایمان اٹھا تو ایک طرف آپ کے مُفرط محبتین کے کے مستقل گروہ پیدا ہوئے اور دوسری طرف خالی مبغضین اور پھر ان کے درمیان بغض و عناد کی خلج وسیع تر ہوتی گئی.چنانچہ پھر تو مصائب اسلام پر حضرت عائشہ اور طلحہ اور میرا کی شکر کشی ، جنگ جمل ، جنگ صفین ، جنگ بصرہ ، جنگ ذاب ، جنگ نگہ ، جنگ کربلا اور آخر کار حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کی صورت میں نازل ہوئے.ان کی نفرت انگیز داستانیں وراق تاریخ میں آج بھی خوننا بہ بار ہیں.جن کے مطالعہ سے مسلمان ادھر آنکھیں ، ادھر کف افسوس ملتا رہ جاتا ہے.اور ہر مسلمان اس کا گواہ ہے کہ یہ مصائب وامن خلافت تار تار کرنے کی وجہ سے مسلمانوں پر ٹوٹے کیونکہ خلافت ہی اتحاد و یکجہتی کے قیام کا واحد ذریعہ ہے.حضرت خلیفة المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی بصیرت افروز نصائح لوح قلب پر نقش کرنے کے قابل ہیں آپ نے خلافت کے بارہ میں فرمایا :- ی یہی تمہارے لیے بابرکت راہ ہے تم اس حبل اللہ کو اب مضبوط پکڑ لو یہ بھی خدا ہی کی رہتی ہے جس نے تمہارے متفرق اجزاء کو اکٹھا کر دیا ہے.پس اسے مضبوط پکڑے رکھو اور فرمایا : - د بدر یکم فروری ۶۱۹۱۲ )
ر تم شکر کرو کہ ایک شخص کے ذریعہ تمہاری جماعت کا شیرازہ قائم ہے.اتفاق بڑی نعمت ہے اور یہ مشکل سے حاصل ہوتا ہے.یہ خدا کا فضل ہے کہ تم کو ایسا شخص دید یا جو شیرازہ وحدت قائم رکھے ( بدر ۲۴ راگست ۶۱۹۱۱ ) جاتا ہے.“ اور فرمایا : - ہم کے گولے اور زلزلہ سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ تم میں وحدت نہ ہوئی (بدرام (اکتوبر ۱۹۰۹ء) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ البَيِّنَتُ - (ال عمران آیت: ۱۰۶) کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ بنو جو کھلے کھلے نشانات آپکنے کے بعد پراگندہ ہو گئے اورانہوں نے باہم اختلاف پیدا کر لیا.پس پہلی قومیں اختلاف اور انتشار کا شکار ہو کر زوال پذیر ہوئیں لیکن امت مسلمہ کے لیے خدا نے خلافت کا نظام قائم کرکے یکجہتی اور اتحاد کا سامان کیا ہے اس حقیقت کو ہر مسلمان آج بھی محسوس کرتا ہے اور اسی غرض کے لیے خلافت کے احیاء کے لیے جتنی تحریکیں اٹھیں حتی کہ سعودی عرب میں بھی نظام خلافت کے قیام کی سکیمیں تیار ہو ہمیں.چنانچہ فیصل آباد پاکستان سے شائع ہونے والے ہفت روزہ وفاق“ نے لکھا:.سعودی عرب کے بعض حلقے جو دوبارہ خلافت کے احیاء کی کوشش کر رہے ہیں وہ اپنے اقدام کے جواز میں کہ رہے ہیں کہ خلافت کا منصب ہی واحد منصب ہے جو دنیا ئے اسلام کو متحد کرانے کا باعث ہو سکتا ہے اور زمانہ ماضی میں اسی منصب نے ساری دنیا کے مسلمانوں کو اتحاد کے رشتے میں پرو دیا تھا.“ (وفاق ۲۱ اکتوبر ۱۹۹) مگر یہاں سوچنے والی بات یہ ہے کہ وہ خلافت جو اتحاد قائم کرتی ہے انسان کے ہاتھ سے قائم ہوتی ہے ہا نہیں بلکہ فرمایا : - تو انْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَا أَتَفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ اتَّفَ بَيْنَهُمْ (انفال: ۶۳) وہ اتحاد خدا کی قائم کردہ خلافت سے پیدا ہو سکتا ہے اور خلافت
کا قیام انسان کے بس کا روگ نہیں خدا کا کام ہے اور لِيَسْتَخْلِفَتَهُمْ اس پر سند ہے.یس روئے زمین پر جماعت احمدیہ ہی ایسی جماعت ہے جس میں خدا کی قائم کر دہ خلافت موجو د ہے اور جس کی برکت سے اتحاد و یکجہتی کی نعمت میسر ہے.فالحمد للہ علی ذلك
L اطاعت منبع سعاد اطاعت خود فراموشی کی منزل حقیقت میں اطاعت خود فروشی اطاعت کے بغیر دنیا کا کوئی نظام نہیں چل سکتا اور اطاعت ہر نظام کے لیے ریڑھ کی ہڈی ہے.مگر دنیوی نظام میں اطاعت منصب ددولت کے حصول کی خاطر ہوتی ہے جبکہ دین میں اطاعت اور عدم اطاعت کا اثر اخروی زندگی پر بھی پڑتا ہے.اسی اطاعت پر ایمان اور عدم ایمان کی عمارت کھڑی کیجاتی ہے.اطاعت کرنے والا مومن اور انکار کرنے والا فاسق کہلاتا ہے.اطاعت خلافت ایک نعمت ہے جو رضائے باری تعالے کی صورت میں مومن کو ملتی ہے اور اس پر تجزا وسزا اسی طرح مرتب ہوتی ہے جس طرح نبی پر ایمان یا اس کے انکار کی صورت میں انسان خدا تعالے کی رضا یا اس کے قہر کا مورد بنتا ہے.اطاعت کی اس عظیم الشان نعمت کا اظہار خدا تعالیٰ نے خلافت کے قیام کے ساتھ ہی کیا حضرت آدم علیہ السّلام کا واقعہ بیان فرماکر بتایا کہ انسان کی تمام تر سعادتیں جذبہ اطاعت میں مضمر ہیں اور تمام رشقاوتیں نافرمانی کی کوکھ سے جنم لیتی ہیں.سعادتوں کا یہ سرچشمہ نبوت کے بعد خلافت ہے جس سے پہلو تہی دامن فیق سے ہمکنار کرتی ہے.رمَن كَفَرَ بَعْدَ ذلِكَ فَأُولَيكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ) اور پھر انسان اپنی مومنانہ حیثیت کھو کر ابلیس کا روپ دھار لیتا ہے.گویا یہی اطاعت کی نعمت ہے جو خدا کی رحمتوں کا امیدوار بناتی ہے اور اسی منصب کی نافرمانی خدا کی رحمتوں سے دور اور مایوس کرتی ہے.اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بڑی کثرت کے ساتھ اطاعت امام پر زور دیا ہے کیونکہ ہر نظام کی عموماً اور جماعت مومنین کی خصوصاً ترقی کا انحصار اطاعت خلافت پر ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعودہؓ فرماتے ہیں :.
۲۴ ایمان نام ہے اس بات کا کہ خدا تعالٰی کے قائم کردہ نمائندہ کی زبان سے جو بھی آواز بلند ہو اس کی اطاعت اور فرمانبرداری کی جائے..........ہزار دفعہ کوئی شخص کہے کہ میں مسیح موعود پر ایمان لاتا ہوں.ہزار دفعہ کوئی کہے کہ میں احمدیت پر ایمان رکھتا ہوں خدا کے حضور اس کے ان دعووں کی کوئی قیمت نہیں ہو گی جب تک وہ اس شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دیتا جس کے ذریعہ خدا اس زمانہ میں اسلام قائم کرنا چاہتا ہے.جب تک جماعت کا ہر شخص اس کی اطاعت میں اپنی زندگی کا ہرلمحہ بہ نہیں کرتا اس وقت تک کسی قسم کی فضیلت اور بڑائی کا حقدار نہیں ہو سکتا ہے اسی طرح فرمایا :- الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۴۶ء مت) ا خلیفہ استاد ہے اور جماعت کا ہر فرد شاگرد.ہو لفظ بھی خلیفہ کے منہ سے نکلے وہ عمل کیے بغیر نہیں چھوڑنا کے الفضل ۲ مارچ ۱۹۴۶ء ص۳) پس ایک مومن کے لیے اطاعت خلافت فرض اولین ہے.چنانچہ حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ عنہ نصیحت فرماتے ہیں :." اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے جس کو حقدار سمجھا خلیفہ بنا دیا.جو اس کی مخالفت کرتا ہے وہ جھوٹا اور فاسق ہے فرشتے بن کر اطاعت و فرمانبرداری کرو.ابلیس نہ بنو ( بدرم جولائی ۱۹۱۳)
حصار ایمان خلافت کے ذریعہ ملنے والی تمام برکتوں کے ہمراہ یہ عظیم الشان برکت بھی جماعت مومنین کو عطا ہوتی ہے کہ مومن ہر قسم کی لغزش اور گمراہی سے بچ جاتے ہیں.خلافت ایک حصار ہے جوطاغوتی حملوں اور دشمنوں کے شیطانی ارادوں سے جماعت کو محفوظ و مصئون رکھتا ہے.خلافت خدا داد ہدایت سے جماعت کے لیے راہنمائی کے سامان کرتی ہے ایک امام کے ہاتھہ کے ساتھ اٹھنے والی اور ایک امام کے ہاتھ کے گرنے کے ساتھ بیٹھ جانے والی جماعت کس طرح راہ سداد سے بھٹک سکتی ہے گراہی کی تاریکی کسی طرح ان کے دلوں کو ڈھانپ سکتی ہے ؟ یہ اللهِ فَوْقَ الجَمَاعَةِ کی نوید بھی ایسی ہی جماعت کے لیے ہے.خلافت راشدہ اولیٰ کے زمانہ میں منافقوں نے جب خلافت پر نکتہ چینیاں شروع کیں اور خلافت کی قدر و منزلت کم کرنے کے لیے اوہام اور وساوس کا جال بچھا دیا تو ایک عظیم المرتبت صحابی حضرت حنظلہ الکاتب نے اس نعمت خداوندی کی ناشکری ہوتے دیکھی تو تعجب کے ساتھ فرمایا :.تجَبْتُ بِمَا يَخُوضُ النَّاسُ فِيهِ يرمُونَ الخِلَافَة اَنْ تَزُول وتور التْ دَزَالَ الخَيْرُ عَنْهُمْ وَلَا قُوا بَعْدَهَاذِ لا ذليلاً وَكَانُوا عَالِيَهُودِ أَوِ النَّصَارَى سَوَاءَ كُلُّهُمْ ضَلُّوا السَّبِيل ( تاریخ ابن اثیر )
کہ مجھے تعجب ہوا ہے ان لوگوں پر جو خلافت کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنارہے ہیں کہ یہ ختم ہو جائے.اور اگر یہ ختم ہوگئی تو ہر بھلائی ان سے جاتی رہے گی اور اس کے بعد وہ ذلالت کی گہرائیوں میں جاگریں اور پھر وہ یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح ہو جائیں گے اور حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں گروہ راہ ہدایت سے بھٹکے ہوئے ہیں.چنانچہ تاریخ اسلام گواہ ہے کہ حضرت حنظلہ الکاتب کی بصیرت افروز تغییہ سے روگردانی کرنے والوں نے جب خلافت کی قدر نہ کی تو گمراہی اور ذلت اور تنزل سے دو چار ہوئے.
9 نزول و تائید ملائکه منصب خلافت جامع جملہ برکات الہیہ ہے.جو خلافت سے وابستہ ہو جاتا ہے ملائکہ اللہ کی حفاظت میں آجاتا ہے.وہ سوتا ہے تو فرشتے اس کے لیے جاگتے ہیں.وہ دشمن سے بے خبر ہوتا ہے تو فرشتے اس کیطرف سے دفاع کر رہے ہوتے ہیں.حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے جب حضرت اسامیہ والے لشکر کو روانہ کر دیا تو مدینہ کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے فرشتے مقرر فرما دیتے جو اسلام کی حفاظت کے ذمہ دار ہو گئے گویا أن تُمدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلَاثَةِ الآبِ مِنَ المَلائِكَةِ مُنْزِلِينَ - (ال عمران : ۱۲۴) والا مضمون تھا.کہ تمہارا رب آسمان سے اترنے والے تین ہزار فرشتوں کے ذریعہ تمہاری مدد کرے گا لیا اس آیت میں گورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کی ایک جنگ میں نزول ملائکہ کا ذکر ہے لیکن خلیفہ راشد چونکہ رسول کی صفات کا مظہر ہوتا ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں :- دو رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے رہی ہو سکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہوں (شهادة القرآن مک) اس لیے تائید ملائکہ کے اعتبار سے خدا کا سلوک خلیفہ راشد سے ویسا ہی ہوتا ہے جیسا لہذا فرشتے خلافت کی وجہ سے مومنوں کے لیے حفاظت و ترقی کے سامان کرتے ہیں.چنانچہ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف منافق اٹھے تو حضرت عبد اللہ بن سلام نے انہیں تنبیہ کی کہ خلافت کا وجود تائید دعون ملائکہ کا سبب ہوتا ہے.
نر مایا :- اگر تم نے حضرت عثمان کو کسی قسم کا نقصان پہنچایا اور خلافت کے نظام کو پامال کرنے کی کوشش کی تو یا د رکھنا کہ مدینہ کی حفاظت کے لیے جو فرشتے مقرر ہیں وہ مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں گے اور وہ تلوار جو اسوقت نیام میں ہے اگر باہر آگئی تو پھر قیامت تک وہ نیام میں نہ جا سکے گی لے (تاریخ الخلفاء)
١٠ تجدید دین خلافت راشدہ کی ایک بڑی برکت دین اسلام کی تجدید ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دينها - إن اللهَ يَبْعَثُ بِهَذِهِ الْأُمَّةِ عَلَى رَأسِ كُلِّ مِائَةِ سَنَةٍ مَن يُجَدِّدُ لَهَا ( ابو داؤد بحوالہ مشکوة ص۳۰۶) کی یقین اللہ تعالی اس امت کے لیے ہر صدی کے سر پر دین کی تجدید کرنے والا بھیجتا رہے گا.اس حدیث کی رو سے اُمت مسلمہ پر کوئی ایسی صمدی نہیں آسکتی جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی تعلیم دنیا سے روپوش ہو جائے.آپ کی کامل اتباع اور جانشینی میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو رات کی راہنمائی کے ساتھ امت کو دین مصطفے صلی الہ علیہ وسلم پر چلانے والے ہوں گے اور بدعات و ہد رسومات کا قلع قمع کرنیوالے ہوں گے.تاریخ اسلام میں ایسے وجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کثرت سے پیدا ہوئے.اُمت مسلمہ کی چودہ صدیوں میں یہ سینکڑوں جانشین رسول جو اس حدیث کے مصداق ہیں.خلافت ، ولایت اور امامت کے لباس میں ملبوس نظر آتے ہیں.انہیں کہیں محمد دین کے مقام پر خلافت رسول کی خلعت عطا ہوئی اور کہیں اولیا ء اللہ ، ابدال اور اقطاب کے پاکیزہ مراتب سے نوازے گئے اور ان سب کا فرض اولین تجدید دین تھا.چنانچہ حدیث نبوی مَا كَانَتِ النبوة قَط إِلَّا تَبِعَتْهَا خِلَافَة کئی رنگوں میں پوری ہوتی رہی.تجدید دین کا فریضہ ادا کرنے والے ان پاک وجودوں میں خلیفہ وقت کا مقام سب سے بلند ہے.لیکن مسیح موعود جو احادیث میں مہدی اور نبی کے نام سے بھی موسوم کیا گیا وہ مجد اعظم ہے اس حدیث مجدد کے انتہائی بلند اور اعلیٰ مقام پر فائز ہے.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں
ساتواں ہزار ہدایت کاہے جس میں موجود ہیں.چونکہ یہ آخری ہزار ہے اس لیے ضرور تھا کہ امام آخر الزمان اس کے سر پر پیدا ہو اور اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسی مگر وہ جو اس کے لیے بطور قل کے ہو کیونکہ اس سہزار میں اب دنیا کی عمر کا خاتمہ ہے جس پر تمام نبیوں نے شہادت دی ہے اور یہ امام جو خداتعالے کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجتر و صدی بھی ہے اور مجدد (بیکر سیالکوٹ مت) الف آخر بھی.حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مسیح موعود کی اس نبوت کے بعد پھر خلافت علی منہاج النبوة ( معیار نبوت پر خلافت) کا قیام ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے خلافت کو دائمی اور قیامت تک قرار دیا ہے پس اب قیامت تک اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود کے ظل میں خلافت کے ذریعہ تجدید دین کے سامان پیدا کرے گا چنانچہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں.لفظ محدود قرآن کریم میں کہیں موجود نہیں ہے.در اص مجدد والی حدیث کی تفسیر آب استخلاف میں مضمر ہے.جس میں خلافت کے ساتھ تجدید دین کو وابستہ کر دیا گیا ہے " (الفضل نومبر ۶۱۹۷۷) اسی طرح حضرت خلیفہ البیع الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :- خلیفہ مجدد سے بڑا ہوتا ہے اور اس کا کام ہی احکام شریعت کو نافذ کرنا اور دین کو قائم کرنا ہوتا ہے پھر اس کی موجودگی میں مجدد کس طرح آسکتا ہے " (الفضل قادیان ۱۸ اپریل ۶۱۹۴۸ ) پس خلافت کے ہوتے ہوئے اس کے مقابل پر مجتہد کا تصور غلط اور فضول ہے اس لیے کہ جب بھی دین اسلام میں بڑی بدعات پیدا ہوئیں خلافت نے ہی انہیں ختم کیا.تمام بڑے بڑے بگاڑ خلافت کے ذریعہ ہی دور ہوئے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب شرک پھیلنے کا اندیشہ ہوا اور یہ گمان ہونے لگا کہ آنحضت صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہو سکتے اور وہ عارضی طور پر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہاں تک کہ دیا کہ جو یہ کہے گا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے ہیں، میں اسکاسرتن سے جدا کر دونگا اس صورتحال میں کسی کو جرات نہ تھی کہ حضرت عمرہ کی اس بات کو ر ذکر سکے.مگر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانشین بننے والے شخص حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اس دسو سے کو کمال جرات سے دور کیا اور قرآن کریم کی یہ آیت پڑھی
وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسل کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم صرف ایک رسول ہیں.آب سے قبل تمام رسول وفات پا چکے ہیں.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ اس منطق نتیجہ پر پہنچ گئے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے قبیل سب انبیاء وفات یافتہ ہیں اور محمد بھی ایک رسول ہیں لہذا آپ کے لیے بھی جان جبان آفرین کے سپرد کرنا مقدر ہے اور آپ اس تقدیر کے نیچے آچکے ہیں.اسی زمانہ میں ایک اور بدعت یہ شروع ہونے لگی اور صحابہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا کہ حالات کی نزاکت کے باعث وہ لشکر جونبی اکرم نے تیار کیا تھا اسے روک دیں یہ نہ ہو کہ دشمن بعد میں مدینہ پر حملہ کر کے اسلام کو نقصان پہنچائے.اس موقعہ پر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے بڑے جلال سے فرمایا کہ درندے ہماری لاشوں کو مدینہ ی گلیوںمیں بھی گھسٹتے پھریں توبھی میں شکر کی روانگی نہیں روک سکتاجی کو بھجوانے کا رسول للہ صل اللہ علی وسم نے ارشاد فرمایا ہو.پس اگریہ لشکر حضرت ابو بکر روک دیتے توبعد میں یہ جواز پیدا کیا جاتاکہ رسول الا صلی الہ علیہ وسلم کے احکام کو ٹالا جاسکتا ہے اور پھر یہ بدعت دین اسلام کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیتی.اسی طرح احکام شریعت کو ٹالنے کی ایک تحریک ابھی اور بعض قبائل نے زکوۃ دینے سے انکار کر دیا اور اس سے معذرت چاہی تو آپ نے بنیادی طور پر اس تحریک کو ختم کر کے رکھ دیا کیوں شریعت پر عمل کرنا ہر صاحب ایمان کے لیے ضروری ہے اور جو اسلام کا اقرار کرتا ہے ، اُسے ارکان اسلام کا پابند ہو نا ضروری ہے چنانچہ آپ نے بڑے عزم سے فرمایا.تو مَنعُونِي عِقَالاً بجاهَدْتُهُمْ عَلَيْهِ کہ اگر وہ زکواۃ میں ایک ہی تک دینے سے بھی انکار کریں تو میں اس کے حصول کے لیے ہر قسم کا مجاہدہ کروں گا اور لے کر رہوں گا.پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں منافقین کی طرف سے یہ مطالبہ کیا گیاکہ منتخب خلیفہ کو منصب خلافت سے اتارا جا سکتا ہے تو آپ نے نے اس گمراہ کن مطالبہ کو انتہائی استقلال سے رد کیا اور فرمایا.مَا كُنتُ لِاخْلِعَ سِرْ بِالاً سَرْ بَلَنِيْهِ اللَّهُ تَعَالَى - (تاریخ الطبری) کہ وہ ردائے خلافت جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پہنائی ہے وہ ہیں کس طرح اتار سکتا ہوں.جس طرح نبوت خدا کی موہت ہے اور کوئی شخص نبوت کو چھین نہیں سکتا.اسی طرح خدا کے قائم کردہ خلیفہ کو دنیا کی کوئی
طاقت مسند خلافت سے اتار نہیں سکتی.۳۲ اسی طرح اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں نعمت خلافت کی ناشکری کرنے والے جب پیدا ہوئے اور یہ سمجھنے لگے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے بعد خلافت کی کوئی خاص ضرورت نہیں لہذا آپ کے خلیفہ اول کو ردائے خلافت اتار دینی چاہتے تو حضرت حکیم نورالدین خلیفہ الی الاول نے بڑی تختی سے فرمایا.وو مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے تو خدا نے بنایا ہے.........خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کر سکتی.خد اتعالیٰ نے معزول کرنا ہوگا تو وہ مجھے موت دے گا تم اس معاملہ کو خدا کے حوالہ کر دو تم معزول کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ہے (الحكم (۲۱۴) پس جس قدر بڑے معاملات تھے بڑے منصب کے مجددین نے حل کیے اور بدعات و بد رسومات کے بڑے بڑے طوفانوں کا مقابلہ خلفائو نے کیا اور دین کی تجدید کی اور پھر رخ اسلام سے بدعات کی گرد جھاڑنے کے لیسے اولیاء اللہ کا ایک طویل سلسلہ چلا جس میں سے ہر ایک نے اپنی استعداد اور بساط کے مطابق تجدید دین کی.پھر آخری زمانہ میں جب امت مسلمہ ضلال مبین میں مبتلا ہوکر و لا يبقى مِنَ الْإِسْلَامِ إِلَّا اسْمُهُ وَلَا يبقى مِنَ الْقُرْآنِ إِلَّا رَسْمُهُ مَسَاجِدُهُمْ عَامِرَةٌ وَهِيَ خَرَابُ مِنَ الْهُدَى عُلَمَاء هُمْ شَر مَن تَحْتَ أدِيمِ السَّمَاءِ (مشكوة كتاب العلم ) کہ اسلام کا صرف نام باقی رہ جائے گا اور قرآن کے صرف نقوش رہ جائیں گے ، مسجدیں بظاہر آباد مگر ہدایت سے خالی ہوں گی.لوگوں کے علماء آسماں تلے ہر مخلوق سے بدتر ہوں گے " کے علاوہ حدیث رسول يُقبضُ الْعُلَمَاء حَتَّى إِذَا لَمْ يَبْقَ عَالِمُ اتَّخَذَ النَّاسُ رُوساً جُهَا لا فَافْتَوا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَاضَلُّوا - (مشكوة كتاب العلم) کہ اللہ تعالیٰ حقیقی علماء کو اٹھا لیگا پھر جب کوئی عالم نہ رہے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے.پھر جب ان سے دین کی باتیں پوچھی جائیں گی تو وہ بغیرعلم کے قومی دیں گے اور خودگراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے " کا نقشہ پیش کرنے لگی.روحانیت سے دل تہی اور سینہ نور اسلام سے خالی ہوگیا
م السلام دین اسلام روایات کا مجموعہ بن کر شرک وبدعات سے لبریز ہو گیا.مسلمان عارض اسلام کو غازہ انوار الہیہ سے عاری دیکھ کر خزاں رسیدہ پتوں کی طرح عیسائیت کی گود میں گرنے لگے.حیات مسیح جیسے مہلک عقیدہ نے اسلام کی بنیا دوں کو دیمک کی طرح چاٹ لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دین مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی پاسبانی کے لیے مجدد العظم مسیح موعود کا سر صلیب کو شان نبوت کیس تھ بھیجا.میں نے ایک دفعہ پھر زندہ نشانات اور پیغمبرانہ معجزات سے حسن اسلام کو تا بندہ کر دیا.جس نے اپنے فرائض کے طور پر صفت مسیحیت سے عیسائیت اور غیر مذاہب کو ہدایت کی طرف بلایا اور صفت مہدویت کے ناطے سے مسلمانوں کی اصلاح کی اور اس طرح تجدید دین کا بیڑا اٹھایا چنانچہ شیعہ عقائد کی مستند کتاب بحار الانوار میں مسیح موعود کے لیے لکھا ہے.يُظهرُ الإِسْلَام وَ يُجَدِّدُ الدِّين ( بحار الانوار جلد ۹) کہ وہ اسلام کو دوسرے ادیان پر غالب کر کے دکھائے گا اور دین متین کی تجدید کرے گا.اسی طرح امام جلال الدین سیوطی و مسیح موعود کے بارہ میں فرماتے ہیں.وَآخِرُ المئين فيها يَأتي عيسَى نَبِيُّ اللَّهِ ذُو الْآيَاتِ يُجَدِّدُ الدِّينَ لِهَذِهِ الأُمَّةِ بیج الکرامه از نواب صدیق حسن خان) کہ آخر میں عیسی نبی اللہ نشانات ومعجزات کے ساتھ آئیں گے اور اس امت میں تجدید دین کریں گے پھر آگے جاکر فرمایا : وَبَعْدَهُ لَمْ يَبْقَ مِنْ مُجَدِّدٍ کہ اس کے بعد کوئی مجد د نہیں ہو گا.یعنی وہی آخر می مجدد ہو گا اس اعتبار سے کہ امام مہدی ومسیح موفوڈ کے بعد خلافت راشدہ کی موجودگی میں تجدید دین کا وہ تصور نہیں رہے گا، جو امام مہدی کے ظہور سے قبل خلافت راشدہ کی عدم موجودگی میں تھا کیونکہ خلافت حقہ تجدید دین کی اعلیٰ قسم ہے.پس مسیح موعود کے بعد اس کی
۳۴ خلافت اور جانشینی میں اس کے نظل کے طور پر اصلاح امت اور تجدید دین کا کام کریں گے جیسا کہ امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السّلام فرماتے ہیں :.اس کے بعد کوئی امام نہیں اور نہ کوئی مسیح مگر وہ جو اس کے لیے بطور ظل کے ہو.بی امام جو خدا تعالے کی طرف سے مسیح موعود کہلاتا ہے وہ مجدد صدی بھی ہے اور مجد والف آخر بھی کیا یکچر سیالکوٹ مت) چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السّلام مجد وصدی بھی اور مجدد الف آخر بھی ہیں اور آپ کی خلافت کا سلسل قیمت تک ہے جیسا کہ ' رسالہ الوصیت ، گواہ ہے کہ " وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا یا اس لیے آئندہ خلافت حقہ جو حدیث مجدد کی اعلیٰ قسم ہے کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ تجدید دین کے سامان قیامت تک کرتا چلا جائے گا اور امت مسلہ پر کوئی صدی ، کوئی سال، کوئی وقت مجدد سے خالی نہ رہے گا اور خلافت اپنی جملہ برکتوں اور فضلوں کے ساتھ اسلام کی پاسبانی اور ترقی کی ضامن رہے گی.انشاء اللہ العزيز اللہ ہمیشہ ہی خلافت رہے قا ئم احمد کی جماعت میں یہ نعمت رہے قائم ہر دور میں یہ نور نبوت رہے قائم یہ فضل ترانا بقیامت رہے قائم جب تک کہ خلافت کا یہ فیضان رہے گا ہر دور میں ممتاز مسلمان رہے گا
۴۵ 11 قبولیت دعا کا وسیلہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے دعا کی اہمیت پر متعدد جگہ روشنی ڈالی ہے یہ بھی فرمایا.قُلْ مَا يَعْبَاءُ بِكُمْ رتي تولا دُعاء کم کہ اگر تم خدا کو نہیں پکا رو گے تو خدا کو بھی تمہاری پرواہ نہیں ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے فرمایا کہ :.ر جو شخص دعا کے ساتھ خدا تعالے کی طرف منہ نہیں کرتا وہ ہمیشہ اندھا رہتا ہے اور اندھا مرتا ہے.........جو شخص روح کی سچائی سے دعا کرتا ہے وہ ممکن نہیں کہ حقیقی طور پر نامراد رہ سکے یہاں وو ( ايام الصلح م) دوسری جگہ آپ دُعا کی تاثیرات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اگر مرد سے زندہ ہو سکتے ہیں تو دعاؤں سے.اگر اسیر رہائی پا سکتے ہیں تو دعاؤں سے اور اگر گندے پاک ہو سکتے ہیں تو دعاؤں سے ناکا (لیکچر سیالکوٹ) دعا اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ایک قوت جاذبہ کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا حصول نبوت اور پھر بعد میں خلافت سے وابستہ ہو کر ہی ہو سکتا ہے جس کی طرف آیت کریمہ و ابْتَغُوا النيه الوسيلة اشارہ کر رہی ہے.اور رسول کے بعد سب سے قومی وسید خلافت راشدہ ہے.جس نے خلافت کے دامن کو تھام لیا ، جو اس کے در کا غلام ہو گیا وہ قرب خداوندی سے نوازا گیا.خلافت ہی وہ وسیلہ ہے جو براہ راست انوار الہیہ اور تجلیات خداوندی کو منعکس کر کے قلوب مومنین تک پہنچاتا ہے.خلیفہ وقت ہی ہے جو ہر مومن کا درو اپنے دل میں محسوس کر کے دعا کے ذریعہ خدا تک پہنچاتا ہے اور پھر وہ دعائیں قبولیت کا شرف پاکر مومنوں کے لیے سکینت اور انہ دیا دایمان کا موجب ہوتی ہیں اور اُدعُونِي اَسْتَجِب رحم کا نشان سر مومن اپنی نظروں
E سے خلافت حفظہ میں ملاحظہ کرتا ہے.چنانچہ جب ۱۹۷۴ء میں جماعت احمدیہ کو مصائب کے طوفان سے گزارا گیا تو ہی دعائیں تھیں جو خلیفۂ وقت کے دل سے نکل کر جماعت کے لیے سکون و قرار کا موجب نہیں اور جماعت کا در وخلیفہ وقت اپنے دل میں محسوس کر کے اسے اپنا درد سمجھ کر خدا کے حضور تڑپتا تھا جیسا کہ حضرت خلیفتہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں.دنیوی لحاظ سے وہ تلخیاں جو دوستوں نے انفرادی طور پر سویس کہیں وہ ساری تلخیاں میرے سینے میں جمع ہوتی تھیں.ان دنوں مجھ پر ایسی راتیں بھی آئیں کہ میں خدا کے فضل اور رسم سے ساری ساری رات ایک منٹ سوئے بغیر دوستوں کے لیے دعا کرتا رہا ہوں کیا (جلاس سالانہ کی دعائیں ص۹) اسی طرح قبولیت دعا کی نعمت کو خلیفہ وقت سے وابستہ کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :.تمہارے لیے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا ہے اور تمہاری محبت رکھنے والا اور تمہار سے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا ، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا اور تمہارے لیے خُدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے..........تمہارا اسے فکر ہے ، درد ہے اور وہ تمہارے لیے اپنے مولیٰ کے حضور دعائیں کرنے والا ہے...........تمہارا اسے فکر ہے، درد ہے اور وہ تمہارے لیے اپنے مولیٰ کے حضور تڑپتا رہتا ہے ( برکات خلافت) پس یہ دوسر ارشتہ ہے دعا کا خلافت سے کہ اُدھر خلیفہ وقت کی دعائیں مومنوں کے لیے قبول کی جاتی ہیں اور ادھر مومنوں کی دعائیں خلیفہ وقت سے پختہ تعلق کی بناء پر پا یہ قبولیت کو پہنچتی ہیں.اسی حقیقت کو حضرت خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بڑی وضاحت کے ساتھ جماعت کے سامنے پیش فرمایا کہ :.میں بتانا چاہتا ہوں کہ میں نے پہلے بھی بھی دیکھا تھا اور آئندہ بھی یہی ہوگا کہ اگر کسی احمدی کو منصب خلافت کا احترام نہیں ہے ، اس سے سچا پیار نہیں ہے ، اس سے عشق اور وارفتگی کا تعلق نہیں ہے اور صرف اپنی ضرورت کے وقت وہ دعا کے لیے حاضر ہوتا ہے تو اس کی دعائیں قبول نہیں کی جائیں گی.یعنی خلیفہ وقت کی دعائیں اس کے لیے قبول نہیں کی جائیں گی.اُسی کے لیے قبول کی جائیں گی.
جو اخلاص کے ساتھ دعا کے لیے لکھتا ہے اور اس کا عمل ثابت کرتا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے عہد پر قائم ہے کہ جو نیک کام آپ مجھے فرمائیں گے ان میں میں آپ کی اطاعت کروں گا.ایسے مطیع بندوں کے لیسے تو بعض دفعہ ہم نے یہ نظارے دیکھے ، ایک دفعہ نہیں ، بسا اوقات یہ نظار سے دیکھے کہ وہاں پہنچی بھی نہیں دعا اور پھر قبول ہو گئی.ابھی کی جارہی تھی دعا تو اللہ تعالیٰ اس پر پیار کی نظر ڈال رہا تھا اور وہ دعا قبول ہو رہی تھی.بعض دفعہ دعا بنی بھی نہیں تو وہ دعا قبول ہو جاتی ہے.اس لیے یہ ایسا ایک بنیادی اصول ہے جس کو ہمیشہ ہر احمدی کو پیش نظر رکھنا چاہیئے.اگر محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پیچھے دل اور پیار سے بھیجتا ہے اور وفا کا تعلق رکھتا ہے اپنے محبوب آتا ہے.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم کی ساری دعائیں ہمیشہ کے لیے ایسے امتیوں کیلئے شنی جائیں گی اور اگر وہ خلافت سے ایسا تعلق رکھتا ہے اور پوری وفاداری کے ساتھ اپنے عہد کو نبھاتا ہے اور اطاعت کی کوشش کرتا ہے تو اس کے لیے بھی دعائیں سنی جائیں گی بلکہ ان کہی دعائیں بھی شنی جائیں گی اس کے دل کی کیفیت ہی دعا بن جایا کرے گی.پس اللہ تعالے جماعت کو حقیقت دعا کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے " (الفضل ۲۷ جولائی ۱۹۸۲) اس کا فلسفہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے یوں بیان فرمایا ہے کہ :.اللہ تعالیٰ جب کسی کو منصب خلافت پر سر فراز کرتا ہے تو اس کی دعاؤں کی قبولیت بڑھا دیتا ہے کیونکہ اگر اس کی دعائیں قبول نہ ہوں تو پھر اس کے اپنے انتخاب کی ہتک ہوتی ہے.“ منصب خلافت ص۳۲)
۱۲ نصیحت امام اور ہمارا عہد حضرت المصلح الموعود خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا :- وو اے دوستو ! میری آخری نصیحت یہ ہے کہ سب برکتیں خلافت میں ہیں.نبوت ایک بیج ہوتی ہے جس کے بعد خلافت اس کی تاثیر کو دنیا میں پھیلا دیتی ہے.تم خلافت حقہ کو مضبوطی سے پکڑو اور اس کی برکات سے دنیا کو متمتع کرو الفضل ۲۰ مئی ۱۹۵۹ء) نیز حضورڑ نے جماعت کو یہ باور کرایا کہ خلافت ہر فرد جماعت کی سر عزیز سے عزیز تر چیز سے بھی اعلیٰ اور اگر فع ہے جس کے لیے ہر قربانی کے لیے احمدی تیار ہو چنانچہ فرمایا : - و خلافت زندہ رہے اور اس کے گرد جان دینے کے لیے ہر مومن آمادہ کھڑا ہو یا تاریخ احمدیت جلد ۱۰ ص ۷۲۳ - ۲۲ را گست ۶۱۹۴۷ پس خلافت ضمانت ہے اسلام کی ترقی اور غلبہ کی.خلافت ضمانت ہے شریعت کے احکام کی اشاعت کی.خلافت ضمانت ہے ہر مومن کی ذاتی واجتماعی بقاء کی.خلافت ضمانت ہے جماعت میں الفت و اتحاد کی.لہذا ہم آج اپنی روح کے قیام کے ساتھ اسی طرح عزم وحمد کے ساتھ عہد کرتے ہیں میں طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے ۲۴ جنوری ۱۹۶ء کو جا سالانہ کے موقع پر جماعت کے تمام افراد کو کھڑا کر کے ان سے یہ عہد لیا تھا کہ : - "ہم نظام خلافت کی حفاظت اور اس کے استحکام کے لیے آخر دم تک جد و جہد کرتے رہیں گے
۳۹ اور اپنی اولاد در اولاد کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ رہنے اور اس کی برکات سے مستفیض ہونے کی تلقین کرتے رہیں گے تاکہ قیامت تک خلافت احمدیہ محفوظ چلی جائے اور قیامت تک سلسلہ احمدیہ کے ذریعہ اسلام کی اشاعت ہوتی رہے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا کے تمام جھنڈوں سے اونچا لہرانے لگے.والفضل ۱۱۶ فروری ۱۹۶) اور اس عہد کو سہرلمحہ اپنے دلوں میں تازہ رکھنے کا عہد کرتے ہیں.اسے اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا آمين اللهم آمين فریا
ناقابل تغیر
خلافت کا ناقابل تسخیر صار، اسلام کی عظمت ، امت کے اتحاد اور یکمیٹی کو آئینہ دار ہے اور اس کی برکات عظیم الشان ہیں ، اس لئے خلافت حقہ کو زائل کرنے کے لئے طاغوتی طاقتیں ایڑی چوٹی کا زور لگاتی ہیں.کبھی یہ مخالف تحریکات براہ راست دشمنوں کی طرف سے سراٹھاتی ہیں اور کبھی خلافت کی اتباع کا دعویٰ کرنے والے منافق طبع لوگ مومنوں کے دلوں میں وساوس پیدا کرنے کی کوششیں کرتے ہیں گر خلافت کا قیام چونکہ اللہ تعالے کی رضا او اسی ایک خاص تقدیر کے تحت عمل میں آتا ہے اس لئے خلافت کے مقابل پر ہر قسم کی تحریک ناکامی کا منہ دیکھتی ہے.وہ ذات جسے تاج خلافت عطا ہوتا ہے وہ تقویٰ کے اعلیٰ ترین مقام پر فائز، اللہ تعالیٰ کے حقوق اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی میں بے نظیر اور اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں اولوالعزم ہوتا ہے اس لئے وہ خدا تعالے کا پسندیدہ وجود ہوتا ہے.چنانچہ ہر حربہ، ابر مخالفانہ تحریک اور سر وسوسہ جو مقام خلافت کو زائل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے تار عنکبوت ثابت ہوتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد خلافت راشدہ کے قیام کی خبر دی اور اُس کی مدت بھی دافتح فرما دی اور بتادیا کہ اس کے بعد ملوکیت کا دور ہو گا.بہر حال خلافت کے قیام کے ساتھ ہی س کو نا اہل کرنے کی بھی کوششیں شروع ہو گئیں.کبھی گھٹیا قسم کے اعتراضات سے خلیفہ وقت کو تنہ کرنے کی کوشش کی گئی ور کبھی انتخابخیلفہ پر نکتہ چینیاں کی گئیں.کبھی اس پر آمریت کا الزام گایاگیا تو کبھی یہ کہا گیا کہ خلیفہ وقت اپنے قرابت داروں کو عہدے دیتا ہے.وغیرہ وغیرہ بہر حال جب تک تقدیر الہی میں خلافت کا قیام مقدر تھا.خلافت اپنی مضبوط بنیادوں پر قائم رہی اور اپنی جملہ پر کتوں سے اُمت مسلمہ کو مستفیض کرتی رہی.بعض خلفائے وقت کو مخالفوں نے گو شہید بھی کی مگر یہ شہادتیں جہاں اپنے خون جگر سے امت مسلمہ کی آبیاری کر گئیں وہاں انہوں نے منصب خلافت کے منجانب اللہ ہونے کا ثبوت مہیا کیا اور اس حقیقت کو بھی قائم کر دیا کہ خلیفہ راشد کو معزول نہیں کیا جا سکتا.پس سر مخالفت ہر سازش اور ہر حربہ ناکام ہو گیا.
۴۳ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان میں اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں پھر خلافت راشدہ کے قیام کی بڑی واضح پیش گوئی ملتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد خلافت راشدہ کا قیام ہوا تو تمام جماعت بالاتفاق حضرت حاجی الحرمین شریفین حکیم مولوی نورالدین رضیاللہعنہ کے ہاتھ پرجمع ہوئی اور آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کہ آپ کو خلیفہ ایسے اور اپنا آقا و مطاع تسلیم کیا.مخالفین احمدیت تو جماعت کی تباہی کے خواب دیکھ رہے تھے اس لئے طبعا خلافت کا قیام ان کے لئے سخت تکلیف دہ امر تھا.مگر کچھ دیر کے بعد بظاہر انبارع خلافت کا دعوی کرنے والے بعض منافق طبع لوگوں نے سراٹھایا ، انہوں نے خلافت راشدہ کی برکات ، فیوض اور اس کی اہمیت کو نظر انداز کیا اور خلیفہ وقت کی ذات اور اُس کے اختیارات کے بارہ میں بخشیں شروع کر دیں اور خلافت کو بے حیثیت ثابت کرنے بلکہ زائل کرنے کے لئے باقاعدہ پروگرام مرتب کئے اور آہستہ آہستند یہ ایک منظم فتنہ کی صورت میں منصہ شہود پر رونما ہوئے." حضرت خلیفتہ ایسیج الاول رضی اللہ عنہ کے دور میں جو انکارِ خلافت کا فتنہ اٹھا اس کے نقوش کے بغور مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ مذہبی دنیا میں رونما ہونے والا کوئی نیا اور الگ فتنہ نہیں تھا بلکہ الہی جماعتوں کی تنظیم کو کمزور کرنے اور مرکز بیت کو پراگندہ کرنے کے لئے ہمیشہ مذہبی دنیا میں سی شکل وصورت کے فتنے برپا ہوتے رہے ہیں اور آئندہ بھی تاقیامت برپا ہوتے رہیں گے.ذیل میں شفیق وار اس کا تجزیہ پیش کیا جاتا ہے :- امام وقت پر آمریت کا الزام حضرت خلیفہ ربیع الاول رضی اللہ عنہ پر ایک خطرناک اعتراض یہ کیا جاتا تھاکہ آپنے جماعت پر اپنا حکم ٹھونس کر آمرین بیٹھے ہیں در جماعت کے تمہوری نظام کو آمریت میں تبدیل کر رہے ہیں.اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن کریم کی شہادت کے مطابق گزشتہ انبیاء علیهم السلام
۴۴ پر بھی اسی قسم کے اعتراض کئے گئے بلکہ حضرت شعیب علیہ اسلام کی جمہوریت پسند قوم نے تو آپ کے انکار کی ایک بڑی دلیل یہ پیش کی کہ ہم اپنے معاملات میں تمہارے حکم کے تابع کیسے ہوسکتے ہیں.اسی طرح تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ مدینہ کے یہودی اور منافقین خود سید ولد آدم حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلتو پر بھی اعتراض کرتے اور اہل مدینہ کو اس بناء پر بددل کرنے کی کوشش کرتے تھے کہ نعوذ باللہ اسلام کا رسول آمر بننے کی کوشش کرتا ہے.پس یہ جمہوریت کی رٹ کوئی نئے زمانہ کی پیداوار نہیں، نہ ہی جدید روشنی اور ترقی یافتہ تہذیب و تمدن سے اس کا کوئی تعلق ہے.بلکہ جب سے خُدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اولی الامر دنیا میں آرہے ہیں جمہوریت کے نام پر ان کے خلاف بغاوت پر اکسانے کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں.اگرچہ دیوی آمر اور مذہبی رہنما کے اولی الامر ہونے کے مابین قطبین کا بعد ہے لیکن آمر کے لفظی اشتراک کے باعث بعض اوقات فتنہ پرداز عامتہ الناس کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں.آمر اور اولی الامرمیں متعدد دوسرے بنیادی اختلافات کے علاوہ جن پر انسان ادنی سے تدبیر سے اطلاع پا سکتا ہے.ایک فرق یہ ہوتا ہے کہ جب کہ آمر ایک مادر پدر آنداد اور جابر حکم ہوتا ہے جس کی حکومت بیرونی پابندیوں سے نا آشنا اور جبرو اکراہ پر مبنی ہوتی ہے.اولی الامر بیک وقت ایک پہلو سے آمرا ور ایک پہلو سے مامور ہوتا ہے اور براہ راست جموں پر نہیں بلکہ دلوں کی معرفت اجسام پر حکومت کرتا ہے وہ ایک مذہبی ضابطہ حیات اور دستور العمل کے اس حد تک تابع ہوتا ہے کہ سرمو بھی اس سے اخراف نہیں کر سکتا اور اتنے اخلاص اور فروتنی اور احترام کے ساتھ اس کے ایک ایک نقطے پر عمل پیرا ہوتا ہے کہ کوئی دنیوی جمہوریت کا پرستار اس کا عشر عشیر بھی اپنے جمہوری دستور کا احترام نہیں کرتا.آمر کا تو معاملہ ہی الگ ہے.ایک جمہوری حکمران بھی جب چاہے، اپنی چرب زبانی اور اثر ورسوخ سے کام لے کر بنیادی جمہوری دستور کی ہر اس شق کو تبدیل کروا سکتا ہے، جسے وہ ناپسند کرے لیکن ایک اُولی الامر مامور من اللہ کو اتنی بھی قدرت نہیں کہ قانون شریعت کا ایک شعشہ بھی اپنے مقام سے ٹال سکے.المختصر یہ کہ ایک مامور من اللہ پر دنیاوی معنوں میں امر ہونے کا الزام لگانا یا توجہالت کے -
نتیجہ میں ہوسکتا ہے یا اندھی دشمنی کے نتیجہ میں تیسری کوئی صورت ذہن میں نہیں آتی.ایک ما مومن اللہ کے خلیفہ پر یہ الزام عائد کرنا تو بدرجہ اولی غلط ہے کیونکہ وہ تو اپنے فیصلوں میں دوسری پابندیوں میں جکڑا ہوا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے خلفاء کا معاملہ تو اس اعتراض سے اور بھی دور تر ہو جاتا ہے کیونکہ یہ خلفاء تو ایک ایسے مامور من اللہ کے تابع فرمان ہیں جس کا پور پور سید المامورین حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ دستو کے ارشادات عالیہ کے بندھنوں میں عاشقانہ اور والہانہ جکڑا ہوا تھا.پہلے امام یاخلیفہ کی مخالفت کا الزام دوسرا اعتراض به منکرین خلافت اور منافقین حضرت خلیفہ ربیع الاول رضی اللہ عنہ کی ذات بابرکات پر کرتے رہے وہ یہ تھا کہ نعوذ باللہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے منشاء اور وصیت کو پس پشت ڈالتے ہوئے انجمن کی حکمرانی کی بجائے خلافت کو جماعت پر پھونس دیا ہے.یہ اعتراض بھی کوئی نیا نہیں کیونکہ قدیم سے منافقین کی یہ عادت چلی آئی ہے کہ ایک امام کی زندگی میں تو اس پر اعتراض کرتے یا اس کے فیصلوں کو بادل نخواستہ قبول کرتے ہیں اور کسی پہلو سے بھی اطاعت کرنے والوں کی صف اول میں ان کا شمار نہیں کیا جاسکتا لیکن جب وہ امام گزر جاتا ہے اور اس کے تابع فرمان مخلصین کی صف اول میں سے ایک نیا امام اس کا جانشین مقرر ہوتا ہے تو اس امام پر الزام لگانے لگتے ہیں کہ وہ گزشتہ امام کے فیصلوں کا احترام نہیں کرتا.تاریخ سے ثابت ہے کہ سید ولد آدم حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک خلفاء کو بھی بارہا اسی قسم کے طعنوں کے چر کے دیئے گئے اور اُن کے فیصلوں کو یہ کہ کر چیلنج کیاگیا کہ نعوذ بالہ یہ آخرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات یا تعامل کے خلاف ہے.سادگی اور لاعلمی میں بھی یہ سوال اٹھایا جا سکتا ہے اور بعض اوقات نہایت اخلاص اور صاف نیت کے ساتھ اس خیال سے بھی ایسی بات کر دی جاتی ہے کہ ممکن ہے خلیفہ وقت کے ذہن میں متعلقہ ارشاد نبوی یا گزیشتہ خلیفہ کا فیصلہ ستحتضر
السوم نہ ہو.اس طریق پر اگر بات کی جائے تو یہ تقویٰ کے خلاف نہیں.لیکن یہاں جس قبیل کے معترضین کا ذکر ہے وہ مومنین کی جماعت میں حضرت خلیفتہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کے خلاف یہ بدظنی پھیلانے کی کوشش کرتے تھے کہ نعوذ باللہ آپ عدا حضرت سیح موعود علیہ السّلام کے ارشادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے جماعت کو غلط راستے پر ڈال رہے ہیں.حالانکہ حضرت خلیفہ ایسے الاول رضی سے کوحضرت مسیح موعود علیہ السّلام سے جو فدائیت اور عشق اور اطاعت شعاری کی نسبت تھی اس کا عشر عشیر بھی ان معترضین کو نصیب نہ تھا.اس ضمن میں میاں محمد عبد اللہ صاحب حجام کی ایک روایت بڑی بصیرت افروز ہے.وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ وہ قادیان میں حضرت میاں شریف احمد صاحب کی کو بھی حجامت بنانے کی غرض سے گئے تو دوران انتظار صوبہ سرحد کے ایک معزز دوست غلام محمد خان صاحب بھی ملاقات کی غرض سے تشریف لے آئے لیکن کرسی کے اوپر بیٹھنے کی بجائے بڑے عاجزانہ رنگ میں زمین پر بیٹھے رہے.جب حضرت میاں شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ باہر تشریف لائے تو تیزی سے بڑھ کر اُن کو اٹھایا کہ اوپر تشریف رکھیں لیکن وہ زمین پر بیٹھنے پر مصر ہے.بالآخر حضرت میاں صاحبنے کے اصرار کے بعد گزارش کی کہ در اصل میرے دل پر ایک واقعہ کا بڑا گہرا اثر ہے.اس لئے میں اپنے لئے خاکساری کو ہی پسند کرتا ہوں.اور وہ واقعہ بی شنایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں جب کبھی ہم قادیان آتے تو ہمیشہ ایک بوڑھے آدمی کو بڑی عاجزی اور انکساری کے ساتھ جوتیوں میں بیٹھے ہوئے دیکھتے.جب حضور کا وصال ہوا تو ہم بھی جلد از جلد قادیان پہنچے تاکہ اپنے محبوب کا آخری دیدار کر سکیں.قادیان پہنچتے ہی ہمیں خیر لی کہ بہشتی مقبرہ کے ملحقہ باغ میں جماعت کے نئے امام خلیفہ ایسے بیعت نے رہے ہیں.چنانچہ ہم بھی دوڑتے ہوئے وہاں حاضر ہوئے لیکن ہمارے تعجب کی کوئی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ وہی جو تیوں میں بیٹھنے والا بوڑھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلے خلیفہ کی حیثیت سے بیعت لے رہا تھا.میاں عبداللہ صاحب بیان کرتے ہیں کہ یہ بتاتے ہوئے اُن پر سخت رقت طاری ہو گئی اور روتے ہوئے کہا کہ اس وقت ہم نے سوچا کہ اللہ کی شان ہے کہ مسیح موعود کی جوتیوں میں
بیٹھنے والایہ بوڑھا آج مسند خلافت پر رونق افروز ہے.ستم ظریفی دیکھئے کہ اسی انتہائی منکسر المزاج بزرگ پر بعد ازاں تکبر اور نخوت کے الزام لگائے گئے اور وہ لوگ جو خود اطاعت کے مفہوم ہی سے نابلد تھے اسی عاشق صادق اور اطاعت مجستم بزرگ پریہ افتراض بھی کرنے لگے کہ نعوذ باللہ آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام کے منشائے مبارک اور وصیت کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے جماعت کو غلط راستے پر ڈال رہے ہیں.یہ ستم ظریفی تو ہے لیکن تعجب کی بات نہیں کیونکہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ایسا ہی ہوتا رہے گا.اور خُدا کے برگزیدہ بندے ادنی اونی انسانوں کے ہاتھوں دُکھ اٹھاتے رہیں گے.قومی اموال میں غلہ تصرف کا الزام ایک اعتراض یہ اٹھایا گیا کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ عنہ کو نعوذ باللہ جماعتی اموال کا در دنہیں اور بھیرہ کے ایک ہم وطن شخص کی ناجائز رعایت کر کے اُسے جماعت کی جائیداد اونے پونے دیجارہی ہے.یہ اعتراض بھی پرانے منافقین کی روش کا اعادہ ہے.خلفائے راشدین کی تاریخ سے واقفیت رکھنے والے احباب پر خوب روشن ہوگا کہ کس طرح معترضین نے ایک کے بعد دوسرے خلیفہ پر مالی بے ضابطگیوں اور نا انصافیوں کے الزامات عائد کئے.خلفاء تو پھر خلفاء تھے دونوں جہان کے سردار حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی عالم اس بارہ میں زبان طعن دراز کرنے سے باز نہ آئے یعنی اس سردار دو عالم پر بھی قومی اموال کی ناجائز تقسیم کا الزام لگا یا گیا جو اس دنیب میں بھی عدل کی بلند ترین کرسی پر فائز فرمایاگیا اور قیامت کے دن بھی خدا کے بعد عدل و انصاف کی کرسیوں میں ہی کی گریسی سب سے اونچی ہوگی.خدا کا بی تو براہ راست خدا کا انتخاب ہوتا ہے لیکن نہی کے لکھاء کا انتخاب چونکہ اہلی تصرف کے تحت نبی کی تربیت یافتہ صالحین کی جماعت کرتی ہے اور انتخاب کے وقت معیارمحض تقوی اللہ ہوتا
اس لئے انبیاء کے خلفاء کو بھی خدا تعالے ہی کا انتخاب شمار کیا جاتا ہے.جماعت احمد (مبائعین) کا اسی مذہب پر اجماع ہے.پس جبس وجود کو خلافت کی عظیم ذمہ داری محض اس لئے سونپی جاتی ہے کہ وہ اپنے وقت کے انسانوں میں اللہ تعالے کا سب سے زیادہ تقویٰ اپنے دل میں رکھت ہے اس پر اس قسم کے لغو اعتراضات مضحکہ خیزی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے.دین کی راہ میں مالی قربانی کے میدان میں یہ معترضین حضرت خلیفتہ اسیح الاول رضی اللہ عنہ کی جوتیوں کی خاک کو بھی نہیں پہنچے تھے حضرت مسیح موعود علیہ السّلام آپنے کے بارہ میں فرماتے ہیں:.سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام اُن کے نورِ اخلاص کی طرح نور دین ہے میں اُن کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلائے کلمہ اسلام کے لئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں.اُن کے دل میں جو تائیدہ دین کے لئے جوش بھرا ہوا ہے، اس کے تصور سے قدرت الہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ! وہ اپنے تمام مال اور تمام دور نام اسباب مقدرت کے ساتھ جو اُن کو میسر ہیں ہر وقت اللہ رسول کی اطاعت کے لئے مستعد کھڑے ہیں.اور میں تجربہ سے نہ صرف معین ظن سے یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ انہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک سے بھی دریغ نہیں اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور مردم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے.انکے بعض خطوط کی چند سطریں بطور نمونه ناظرین کو دکھلاتا ہوں تا انہیں معلوم ہو کہ میرے پیارے بھائی مولوی حکیم نورالدین بھیروی معالج ریاست جموں نے محبت اور
۴۹ اخلاص کے مراتب میں کہاں تک ترقی کی ہے.اور وہ سطریں یہ ہیں : - مولنا مرشد نا امامنا - السلام عليكم ورحمة الله وبركاته.عالیجناب امیری دعا یہ ہے کہ ہر وقت حضور کی جناب میں حاضر رہوں.اور امام الزمان سے جس مطلب کے واسطے وہ مجدد کیا گیا، وہ مطالب حاصل کروں.اگر اجازت ہو تو میں نوکری سے تعفیٰ دے دوں اور دن رات محدرت عالی میں پڑا رہوں یا اگر کم ہو تواس تعلق کو چھوڑ کر دنیا میں پھروں اور لوگوں کو دین حق کی طرف بلاؤں اور اسی راہ میں جان دے دوں.میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے، میرا نہیں آپ کا ہے.حضرت پیرو مرشد یں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا یا لے اس بحث میں یاد رکھنے کے لائق نکتہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے مقدس بندوں پر اس قسم کے اعتراض کرنے والوں کو خواہ وہ پہلے گزرے ہوں یا بعد میں آئیں، آپ عموماً خود مالی قربانی کرنے والوں کی صف میں سب سے پیچھے کھڑا ہوا پائیں گے یا پھر محض تماش بینوں کی حیثیت رکھتے ہوں گے ایسے لوگوں کا مقصد نہ کبھی پہلے نیک ہوا نہ آئندہ ہو گا محض ریا کاری یا نفاق پھیلا نا یا کسی ذاتی نجش کا انتقام لینا ان کا مقصد ہوتا ہے.یہ اعتراض کہ حق حق دار کو نہیں پہنچا بلکہ کمتر شخص کو اختیار کرلیا گیا ہے حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ عنہ پر عائد کی جانے والا یہ اعتراض بھی ہزاروں سال پرانا م سے روحانی خزائن دفتح اسلام) جلد ۳ ص۳۵ ، مت ۳
وہ اعتراض ہے جو منکرین نبوت انبیائے وقت پر کرتے رہے اور منکرین خلافت خلفائے وقت پر.یہی اعتراض حضرت خلیفتہ ایسیح الاول رضی اللہ عنہ پر اور بعد میں آنے والے خلفاء پر بھی کیا گیا اور خدا جانے کب تک کیا جاتا رہے گا.دراصل شیطان مؤمنین کی جماعت پر مختلف اطراف سے مختلفہ بھیس بدل کر حملہ آور ہوتارہتا ہے.کہیں وہان میں انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے کبھی مذہبی قیادت کے خلاف عدم اعتماد پیدا کرنے کی کبھی وہ پیچھا کٹنی کا روپ دھار لیتا ہے اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتا ہے کہ امام وقت سے بڑھ کر کوئی اور تمہارا ہمدرد اور بہی خواہ موجود ہے.کبھی وہ ظاہری علم کی قباد اوڑھ کر آتا ہے اور یہ وسوسہ پھیلاتا ہے کہ تمہارے امام کا علم خام ہے جبکہ اس کی نسبت بہت بڑے بڑے عالم تم میں موجود ہیں.کبھی وہ ایک جنبتہ پوش عابد وزاہد بن کر ان کو ورغلاتا ہے کہ تمہارے امام سے کہیں بڑھ کر خدا کا پیارا تم میں موجود ہے.پس جو کچھ مانگنا ہے، اس کی معرفت مانگو.حضرت خلیفة المسیح الثانی مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کا جماعت احمدیہ پر ایک عظیم احسان ہے کہ اس قسم کے فتنہ پردازوں کے اطوار و عادات کو بار بار ایسی وضاحت کے ساتھ کھول کر جماعت کے سامنے رکھ دیا ہے کہ اب جب بھی حسین تھیں میں بھی فتنہ پر دار حملہ آور ہوتے ہیں، جماعت کی بھاری اکثریت کار و عمل اس مصرعہ کے مصداق ہوتا ہے 8 ہم سمجھے ہوئے ہیں اُسے جس بھیس میں جو آئے ہاں چند احمق یا روحانی بیمار اور منافق طبع لوگ ضرور ہر بارشیطان کے ہاتھ لگ جاتے ہیں اور قرآن کریم کا یہ پہلا سبق بھول جاتے ہیں کہ سب سے پہلا فریب جو ابلیس نے خود کھایا اور اپنے متبعین کو کھلایادہ انا خیر منہ کا فریب تھا.حق پرست اور حق شناس بندگان خدا کا امتیازی نشان انا خَيْرٌ مِنْهُ کا دعوی نہیں بلکہ انا احْفَرُ الظُّلُمَانِ “ کا اعلان ہوتا ہے.وہ خود عاجزانہ راہوں پر قدم مارتے ہیں اور دنیا کو بھی یہی تعلیم دیتے ہیں کہ سے بدتر بنو ہر ایک سے اپنے خیال میں شاید اسی سے دخل ہو دار الوصال میں
حضرت خلیفہ البیع الاول رضی اللہ عنہ کی عظمت بھی آپ کی انکساری اور عجزمیں مضمر تھی.مجزئی فضیلت کی کشیں انفاق کا چور دروازہ خلیفہ وقت سے بہتر ہونے کا گھمنڈ رکھنے والے یا اس پر کسی دوسرے کی فضیلت کا ڈھنڈورا بیٹھنے والے بعض اوقات پختہ ایمان والوں کے دلوں میں راہ پانے کے لئے "جزئی فضیلت کے چور دروازے سے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں.ان کی چکنی چپڑی باتیں کچھ اس نہج پر چلتی ہیں کہ لفظ وقت فلاں معاملہ میں تو بہت قابل ہے لیکن فلاں معاملہ کی اسے کوئی واقفیت نہیں.اس معاملہ میں فلاں شخص کا جواب نہیں وغیرہ وغیرہ.یہ فتنہ مختلف شکلیں اختیار کر لیتا ہے.کبھی تقریر وتحریر کی فضیلت کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے کبھی عبادت گزاری کی صورت میں، کبھی ظاہر ی سادگی اور درویشانہ زندگی کی قباء پہن کر اٹھتا ہے، کبھی علم قرآن کا چوغہ اوڑھ کر.کبھی دنیاوی علوم کی بریری کا تذکرہ بن جاتا ہے.کبھی سیاست اور تدبر اور معاملہ فہمی کا چرچا.غرضیکہ میں رخنہ سے موقع ملے، یہ مومنوں کی مرصوص صف بندی میں داخل ہو کہ انتشار پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے اور ایک قیادت کی طرف مرکوز جماعتی توجہ کو دویا تین یا زائد قیادتوں کی طرف پھیر کر وحدت ملی کے نقصان کا موجب بنتا ہے.روحانی قیادت کے خلاف فتنے کی یہ مختلف شکلیں از منہ گزشتہ میں بھی پائی جاتی تھیں اور خلافت راشدہ کو بھی اس نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی.حضرت خلیفة المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس نے یہ شکل اختیار کی کہ آپ کی بزرگی او علم قرآن کو تو تسلیم کیا جانے لگا لیکن ساتھ ہی میشونہ بھی چھوڑ دیا جاتا کہ در اصل خلیفہ اسی لائق ہوتا ہے کہ نمازیں پڑھائے ، درس و تدریس کا کام کرے ، بیعتیں لے اور دعائیں کرے.اس کا دیگر انتظامی امور وغیرہ سے کیا تعلق ہے یہ کام تو صاحب تجربہ ،جہاندیدہ اور علوم دنیوی سے آراستہ لوگوں کا ہے.لہذا جماعت کو ایک سسر کی بجائے دوسروں والی قیادت کی ضرورت ہے.ایک مر تو مرکزی ملا کے فرائض انجام دے اور ایک سر بصورت انجمن تمام دیگر امور میں جماعت کی
۵۲ قیادت کرے.حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ عنہ کے عہد میں اس فتنہ نے جو صورت اختیار کی ، چونکہ جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے ، اس لئے عین ممکن ہے کہ یہ کسی دوسری خلافت میں اس کے بالکل بر عکس شکل میں ظاہر ہو اور کسی خلیفہ کے بارہ میں یہ پراپیگنڈہ کیا جائے کہ دراصل خلیفہ تو انتظامی سربراہ ہوتا ہے اور اسی قابلیت کو ملحوظ رکھتے ہوئے جماعت نے فلاں شخص کا انتخاب کیا تھا.جہاں تک روحانیت اور تعلق باللہ کا سوال ہے، فلاں شخص کا کوئی مقابلہ نہیں.میں انتظامی امور میں بے شک خلیفہ کی اطاعت کرونگر ارادت مندی اور عقیدت اور دلی محبت فلاں بزرگ سے رکھو.گویا امین کے کام چلانے کے لئے تو خلیفہ ہو اور روحانی قیادت اور رہنمائی کے لئے ایک بت تراش لیا جائے.لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے حقیقت خلافت سے متعلق حضرت خلیفہ البیع الاول رضی اللہ عنہ کے پر معرفت جلالی خطبات اور حضرت خلیلی این اثانی رضی اللہ عنہ ی زندگی بھر کی بھر پور جدوجہد کے نتیجہ میں اللہ تعالے کے فضل سے جماعت احمدیہ کی ایسی تھوس اور گہری تربیت ہو چکی ہے کہ جماعت کی بہت بھاری اکثریت ان فتنہ پردازوں کے پیچھے ہوئے بد ارادوں کو فوراً بھانپ لیتی ہے اور اُن کے دلوں میں پکنے والے بغض و عناد احمد و خود پرستی کے زہریلے مواد سے پناہ مانگتی ہے.إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ - وَمَنْ يُضْلِلْهُ فَلَا هَادِيَ لَهُ خلیفہ وقت کی غلطیوں کی نشاندہی اور ان کے چرچے مذکورہ بالافتہ کی ایک شکل یہ بھی بنتی ہے کہ خلیفہ کے فیصلہ جات پر پہلے دبی زبان سے تنقید کی جاتی ہے پھر حسب حالات کمل کہ اُن کی مذمت کی مہم چلائی جاتی ہے.ایسے فتنے بعض اوقات عمومی شکل بھی اختیار کر جاتے ہیں اور تمام جماعت سے تعلق رکھنے والے مرکز می فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن اکثر اوقات یہ محدود دائرے سے تعلق رکھتے ہیں.بعض قضائی یا انتظامی فیصلے ایسے ہوتے ہیں کہ
۵۳ لازم خلیفہ مسیح کا فیصلہ ایک فریق کے حق میں اور ایک فریق کے خلاف ہو گا.اس صورت میں منافقہ کی ہمدردیاں حق اور ناحق کی تمیز کے بغیر بلا استثناء متاثرہ فریق سے ہوتی ہیں اور وہ انسانی ہمدردی اور اخلاق حسنہ کے پردہ میں متاثرہ دوستوں سے ایسی لگاوٹ کی باتیں کرتے ہیں جو رفتہ رفتہ خلیفہ وقت کے خلاف منافرت انگیزی پر منتج ہو جاتی ہیں.حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ عنہ نے جب منکرین خلافت کا بڑی سختی سے محاسبہ کیا تو فتنہ کی یہی شکل اس موقع پر بھی رونما ہوئی.اور اندر اندر ایک دوسرے کے ساتھ اس رنگ میں ہمدردیاں کی جانے لگیں گو یادہ تخت مظلوم اور حضرت خلیفہ مسیح الاول رضی اللہ کی تی رستم کا گشتہ ہیں.فتنوں کی تاریخ میں یہ شکل بھی بہت قدیمی ہے اور اسی طرح مردود ہے جس طرح دیگر اقسام - اپنی پسند کے آدمیوں کو مسلط کرنیکا الزام ایک الزام حضرت خلیفہ ربیع الاول پر یہ گیا کہ یہ ان پسندکے رویوں کو جو معترضین کی نظریں نابل تھے جماعت پر مسلط کر رہے ہیں.یہ اسی نوعیت کا الزام ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مبارک عہد میں ایک نہایت خطرناک وباء کی صورت میں بچھوٹا تھا دراصل ہر زندہ حقیقت کے ساتھ موت کی موس صورتیں ہمیشہ نبرد آزمارہی ہیں، اور رہیںگی اور ان وباؤں کے ساتھ مقابلہ میں جب بھی کوئی زندہ مثبت غالب آتی ہے تو اس نوعیت کے دوسرے فتنوں کے مقابلے کی پہلے سے بڑھ کر طاقت اس میں پیدا ہو جاتی ہے.اور اس ازلی ابدی حقیقت کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا کہ ہر زندہ حقیقت کو موت یا اس سے مشابہ قوتوں کے ساتھ نبرد آزما رہنا پڑتا ہے اور اس میں اس کے ارتقاء اور تحسین عمل کا راز مضمر ہے.قرآن کریم اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے :.تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيوة لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا
وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ.(الملک ۶۷-۲-۳) بابرکت ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں ہر قسم کی بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آنہ مائش میں ڈال کر معلوم کرے کہ تم میں سے کون بہترین عمل کرنے والا ہے.اور وہ غالب اور بہت بخشنے والا ہے.حضرت خلیفہ مسیح الاوّل رضی اللہ عنہ پر یہ الزام عائد کرنے والوں کے پیش نظر بالخصوص حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد صاحب کی ذات تھی جین پر حضرت خلیفہ ایسے غیر معمولی اعتماد فرماتے اور معترضین کی نظر میں نااہل ہونے کے باوجود نہایت اہم جماعتی ذمہ داریاں آپ کے سپرد فرماتے.یہاں تک بھی چہ میگوئیاں کی جاتیں کہ اپنے بعد میاں محمود کو خلیفہ بنانے کی کوشش ہورہی ہے.اپنی آخری بمیاری میں حضرت خلیفہ ایسیح الاول رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا اسی اعتراض کے پیش نظر تھا : کہ و وہ جو کہتا ہے کہ فلان شخص کو میں نے خلیفہ مقرر کر دیا ہے غلط ہے.مجھے کیا علم ہے کہ کون خلیفہ ہوگا اور کیا ہوگا.کون خلیفہ بنے گا یا مجھ سے بہتر خلیفہ ہو گا.میں نے کس کو خلیفہ میں بنایا.میں کسی خلیفہ نہیں بنانا میرا یہ کام نہیں خلیفے اللہ ہی بناتا ہے.میرے بعد بھی اللہ ہی بنائے گا.(51910 " (الحکم ۱۲۸ فروری ۱۹۱۳مه) بڑھا ہے اور یمانی کر رہی بات کتابی کا دام حضرت خلیفہ ایسح الاول رضی اللہ عنہ پر تنقید کا اک یہ بہانہ بھی بنایا جاتا تھاکہ چونکہ آپ بہت
۵۵ بوڑھے ہو چکے ہیں الہندا عمر کے طبعی تقاضے کے پیش نظر (نعوذ باشد) طبیعت میں مومن اور منہ بہت بڑھ گئے ہیں.اس ضمن میں بعض خطوط میں سے دو اقتباسات ملاحظہ فرمائیے :- خلیفہ صاحب کا تلون طبع بہت بڑھ گیا ہے اور عنقریب ایک نوٹس شائع کرنے والے ہیں.جس سے اندیشہ بہت بڑے ابتلا کا ہے.....اگر ذرا بھی تخالف خلیفہ صاحب کی رائے سے ہو تو برافروختہ ہو جاتے ہیں.....سب حالات عرض کئے گئے مگر ان کا جوش فرونہ ہوا اور ایک اشتہار جاری کرنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہیں پہلے حضرت مولوی صاحب کی طبیعت میں مند اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ دوسرے کی سُن ہی نہیں سکتے.وصیت کو پس پشت ڈال کر خدا کے فرستادہ کے کلام کی بے پرواہی کرتے ہوئے شخصی وجاہت اور حکومت ہی پیش نظر ہے بسلسلہ تباہ ہو تو ہو مگر اپنے منہ سے نکلی ہوئی بات نہ تلے.وہ سلسلہ جو کہ حضرت اقدس کے ذریعہ بنا تھا اورجو کہ بڑھے گا ، وہ چند ایک اشخاص کی ذاتی رائے کی وجہ سے اب ایسا گرنے کو ہے کہ پھر ایک وقت کے بعد ہی سنبھلے تو سنبھلے بیات لے خط ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب بنام سید حامد علی شاہ صاحب سیالکوٹی ه خط ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب بنام سید حامد علی شاہ صاحب سیالکوٹی
منافقین کا یہ پرانا وطیرہ ہے کہ بل فریب سے بات کرتے ہیں اور کسی بزرگ ہستی کی گستاخی کے لئے زبان بے قابو ہورہی ہو تو لفظی چالاکی سے کوئی نہ کوئی راہ نکال لیتے ہیں.چنانچہ خدا تعالے کی تقدیر کے خلاف زبان درازی مقصود ہو تو فلک کو برا بھلا کہ کہ دل کی بھڑاس نکال لی جاتی ہے.اسی وجہ سے آنحضور صل اللہ علیہ سلم نے افلاک باگردش ایام کو برا بھلا کہنے سے سختی سے منع فرمایا ہے کیونکه به در اصل تقدیر الہی کو برا کہنے کے مترادف ہے.پس منافقین بھی خلیفہ وقت کو کوسنے کی جرات نہ پاکر کبھی اس کے بڑھاپے کو برا بھلا کہتے اور کبھی اس کی بیماری کو آٹر بناکر مومنوں کی جماعت میں معزل خلیفہ کے جراثیم پھیلانے کی کوشش کرتے اور اس حقیقت کو فراموش کر دیتے کہ مومنوں کی سوسائٹی میں خلیفہ کا مقام اس سے بہت بڑھ کر ہے ، جو ایک خاندان کے ماحول میں ماں باپ کو حاصل ہوتا ہے یعنی ان ماں باپ کو جن کے بارہ میں قرآن کریم ی تعلیم دیتا ہے کہ اگر ان میں سے دونوں یا ایک بہت بوڑھے ہو جائیں تب بھی ردامنِ ادب ہاتھ سے نہ جانے دینا اور اُن کے سامنے اُف تک نہ کرنا ہے یہ تو اندرونی طور پر نفاق کے پردوں میں پنپ کر خلافت حقہ کو زائل کرنے کی سازشوں کا نمونہ تھا.دشمن بیرونی طور پر اور کھل کر بھی خلافت کو زائل کرنے کی ہر دور میں کوشش کرتا رہا ہے.پرانی تاریخ کو دھرانے کی یہاں گنجائش نہیں.البتہ موجودہ دور می خلافت حقہ کو ختم کرنے کے لئے جو کوشش کی گئی وہ اندرونی وساوس کی قسم کی کوئی سازش نہ تھی بلکہ اس حصار امن و ایمان ویقین کو توڑنے کے لئے ایک حکومت کو استعمال کیا گیا جس کے پیچھے کئی دشمن اسلام طاقتیں کار فرما تھیں.یہ ایک خوفناک سازش تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ خلافت کے وجود کو ختم کر کے پھر بزور طاقت جماعت احد یہ کوکچل دیا جائے اور یہ جماعت جو خلافت کے حصار میں غلبہ اسلام کے عظیم الشان کام کر رہی ہے اُن سے روک دیا جائے.چنانچہ حضرت امیر المومنین خلیفہ مسیح الرابع اس سازش کا تفصیلاً ذکر کر تے ہوئے فرماتے ہیں :.ان کے ارادے ایسے ہیں کہ ان کو سوچ کر بھی ایک انسان جس کا دنیا میں
کوئی سہارا نہ ہو، اس کی ساری زندگی خراب ہو سکتی ہے.اس کے تصویر سے بھی انسان کا وجود لرزنے لگتا ہے.لیکن میں جانتا ہوں کہ نہ مجھ پر ھے اثر ہے اور نہ آپ پر یہ اثر ہوگا.کیونکہ میں بھی جانتا ہوں کہ ہمارا خدا موجود ہے جو ہمارے ساتھ ہمیشہ رہا ہے اور ہمارے ساتھ ہمیشہ رہے گا.اور آپ بھی جانتے ہیں.اس لئے جب میں آپ سے بات کرتا ہوں تو ڈرانے کے لئے یہ بات نہیں کرتا.صرف بنانے کے لئے کہ آنکھیں کھول کر وقت گزاریں.اس دور میں یعنی شہداء کی جو شرارت ہے اس میں ایک مکمل کے کے تابع پاکستان میں جماعت احمدیہ کے مرکزہ کو ملیامیٹ کرنے کا ارادہ تھا اور جماعت احمدیہ کی ہر اس انسٹی ٹیوشن ، ہر اس تنظیم پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ تھا.جس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے.پچنا نچہ سب سے پہلے انہوں نے ایسے قانون بنائے جن کے نتیجہ میں خلیفہ وقت پاکستان میں رہتے ہوئے خلافت کا کوئی بھی فریضہ سرانجام نہیں دے سکتا...خلیفہ وقت اگر پاکستان میں اسلام علیکم بھی کہے تو حکومت کے پاس یہ ذریعہ موجود ہے اور وہ قانون موجود ہے جس کو بروئے کار لا کر وہ اسے پکڑ کر تین سال کے لئے جماعت سے الگ کر سکتے ہیں اور یہی نیست تھی اور ابھی بھی ہے.چنانچہ میرے آنے سے پہلے دو تین دن کے اندر جو واقعات ہوئے ہیں اُن کا اس وقت تو ہمیں پورا علم نہیں تھا کیونکہ خدا کی تقدیر نے خاص رنگ میں میرے باہر بھجوانے کا انتظام فرمایا.........یہ خلافت کے قلع قمع کی ایک نہایت بھیا تیک سازش تھی میں کی پہلی کڑی
۵۸ یہ سوچی گئی تھی کہ خلیفہ وقت کو اگر اپنے آپ کو کسی طرح بھی مسلمان ظاہر کرے تو فوری طور پر قید کر کے تین سال کے لئے جماعت سے الگ کر دیا جائے........آرڈر یہ تھے کہ اگر یہ خطبہ دے ( آرڈیننس کے دوسرے دن جمعہ تھا، تو خطبہ چونکہ ایک اسلامی کام ہے اور صرف اسی بہانے پر اسکو پکڑا جا سکتا ہے کہ تم خطبہ دے کر مسلمان بنے ہو.تشہد پڑھا ہے، اس کے نتیجہ میں پکڑا جاسکتا ہے.اگر خطبہ دے تو تب پکڑو اور اگر خطبہ نہ دے تو پھر کوئی بہانہ تلاش کرو.اور اگر ربوہ کی کسی ایک بھی مسجد میں اذان ہو جائے.یا کوئی اور بہانہ مل جائے تو تب بھی اس کو پکڑ لو.اور آخری آرڈر یہ تھا کہ اگر کوئی بہانہ نہ بھی ملے تو بہانہ تراشو اور پکڑو.مراد یہ تھی کہ خلیفہ وقت اگر ربوہ میں رہے تو ایک مردہ کی حیثیت سے وہاں رہے اور اپنے فرائض منصبی میں سے کوئی بھی نہ ادا کر سکے.اگر وہ ایسا کرنے پر تیار ہو یعنی ایک مردہ کی طرح زندہ رہنے پر تیار ہو تو ساری جماعت کا ایمان ختم ہو جائے گا.ساری جماعت یہ سوچے گی کہ خلیفہ وقت ہمیں تو قربانیوں کی طرف بلا رہا ہے ہمیں تو کہتا ہے کہ اسلام کا نام بلند کر اور خود ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتا.چنانچہ یہ جماعت کے ایمان پر حملہ تھا اور اگر خلیفہ وقت جماعت کا ایمان بچانے کے لئے بولے تو اس کو تین سال کے لئے جماعت سے الگ کر دو بچونکہ جماعت ایک نظام کی وجہ سے خلیفہ کا انتخاب کر ہی نہیں سکتی جب تک کہ پہلا خلیفہ مر نہ جانتے اُس وقت تک اس لحاظ سے تین سال کے لئے جماعت اپنی مرکزی قیادت سے محروم رہ جائے گی جس جماعت کو خلیفہ وقت کی عادت ہو جو نظام خلیفہ کے محور کے گرد گھومتا ہو اس کو کبھی بھی خلیفہ کی عدم موجودگی میں کوئی انجمن نہیں سنبھال سکتی..
خلافت کا کوئی بدل ہی نہیں ہے ناممکن ہے کہ خلافت کی کوئی متبادل پینے ایسی ہو جو خلافت کی جگہ لے لے اور دل اسی طرح تسکین پائیں.تو تین سال کا عرصہ جماعت سے خلافت کی علیحدگی اس حال میں کہ کوئی رابطہ نہ قائم رہ سکے.یہ اتنی خوفناک سازش تھی کہ اگر خدانخواستہ یہ عمل میں آ جاتی تب آپ کو اندازہ ہوتا کہ کتنا بڑا حملہ جماعت کی مرکز تبیت پر کیا گیا ہے.ساری دنیا کی جماعتیں بے قرار ہو جاتیں اور ان کی راہنمائی کرنے والا کوئی نہ رہتا کچھ مجھ نہ آتا کہ کیا کر رہے ہیں اور کیا کرنا ہے اور پھر جذبات سے بے قابو ہوکرہ غیر ذمہ دارا نہ حرکتی بھی ہوسکتی تھیں.جس طرح شد می نشتغل اور زخمی جذبات کو اللہ تعالیٰ نے مجھے سنبھالنے کی توفیق دی، خلیفہ وقت کی عدم موجودگی یا بے تعلقی کے نتیجہ میں تو ناممکن تھا کہ جماعت کو اس طرح کوئی سنبھال سکتا.بعض لوگ مجھے خط لکھتے ہیں تو آپ تصور نہیں کر سکتے کہ اُن کا حال کیا ہے وہ اس وقت تڑپ رہے ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ خدا کی قسم ! اگر آپ کے ہاتھے پر ہم نے عہد نہ کیا ہوتا کہ ہم صبر دکھائیں گے.خواہ ہمارے ٹکڑے ٹکڑے بھی کردیئے جاتے، ہمارے بیچتے ہمارے سامنے ذبح کر دیئے جاتے تب بھی ان ظالموں سے ہم ضرور بدلہ لیتے.یہ حالت ہو میں جماعت کے اخلاص کی اور محبت کی اور عشق کی، اُسے خلافت کے سوا سبنھال ہی کوئی نہیں سکتا.اس لئے یہ ایک نہایت خطرناک سازش تھی اور پھر اس کی اگلی کڑیاں تھیں ، جن لوگوں کو جھوٹ کی عادت ہو ا ظلم اور سفاکی کی عادت ہو ، افتراء پردازی کی عادت جو وہ کوئی بھی الزام لگا کر، کوئی بھی جھوٹ گھڑ کے پھیر خلیفہ کی زندگی پر بھی حملہ کر سکتے تھے اور اس صورت میں جماعت کا اٹھ کھڑے
ہونا اور اپنے ویسے قابوکودینا، جذبات سے قابو کو دینا اور دماغی کیفیت سے بھی نظم و ضبط کے کنٹرول تار دینا یک طبعی بات تھی.نامکن تھاکہ جماعت ایسی حالت میں کہ اُن کو پتہ ہے کہ خلیفہ وقت کلینہ ایک معصوم انسان ہے ان باتوں میں نہ ہماری جماعت کبھی پڑی ، نہ پڑ سکتی ہے.اس پر ایک بھوٹا الزام لگا کر ایک بدکردار انسان نے اُسے موت کے گھاٹ اتارا ہے ناممکن تھا کہ جماعت اس کو برداشت کر سکتی جبکہ برداشت کرنے کے لئے ہو ذریعہ خدا تعالیٰ نے بخشا ہے ، خلافت، اُس کی رہنمائی سے محروم ہو.اس صورت میں جماعت کا کوئی بھی رہی عمل ہو سکتا تھا جو اتنا بھیانک ہو سکتا تھا اور اتنے بھیانک نتائج تک پہنچ سکتا تھا کہ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے اور باوجود اس کے کہ ہمیں ان باتوں کا پہلے علم نہیں تھا جس رات یہ فیصلہ ہوا ہے اس رات خدا تعالیٰ نے مجھے اس بات کا اچانک علم دیا ہے اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک بڑے زور سے یہ تحریک ڈالی کہ میں قدر جلد ہو اس ملک سے تمہارا نکلنا نظام خلافت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے.تمہاری ذات کا کوئی سوال نہیں ہے.ایک رات پہلے میں یہ عہد کر چکا تھا کہ خدا کی قسم کہ میں احمدیت کی خاطر جان دونگا اور دنیا کی کوئی طاقت مجھے روک نہیں سکے گی اور اس رات خدا تعالیٰ نے مجھے ایسی اطلاعات دیں کہ جن کے نتیجہ میں اچانک میرے دل کی کایا پلٹ گئی.اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ جماعت کے خلاف کتنی خوفناک سازش ہے ، جسے ہر قیمت پر مجھے نا کام کرنا ہے اور وہ سازش یہ تھی کہ جب خلیفہ وقت کو قتل کیا جائے اور جماعت اس پر
اُبھرسے تو پھر نظام خلافت پر حملہ کیا جائے ، ربوہ کو فوج کے ذریعہ ملیا میٹ کیا جائے اور وہاں خلافت کا نیا انتخاب نہ ہونے دیا جائے اور وہ انسٹی ٹیوشن ہی ختم کر دی جائے اس کے بعد دنیا میں کیا باقی رہ جاتا.خُدا تعالیٰ کے اپنے کام ہوتے ہیں اور جن حالات میں اللہ تعالیٰ نے نکالا ہے یہ اس کے کاموں کا ہی ایک ثبوت ہے.یہ میں نہیں کہتا کہ یہ ہو سکتا تھا.ناممکن تھا کہ یہ ہوجا تا ورنہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر سے دنیا کا ایمان اٹھ جانا کہ خدا نے خود ایک نظام قائم کیا ہے.خود اس کے ذریعہ ساری دنیا میں اسلام کے غلبہ کے منصوبے بنا رہا ہے اور پھر اس جماعت کے دل پر ہاتھ ڈالنے کی دشمن کو توفیق عطا فرما دئے جس جماعت کو اپنے دین کے احیاء کی خاطر قائم کیا ہے.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا.اسی لئے خدا تعالی نے یہ انتظام فرمایا کہ ایک تدبیر کو نا کام کر کے دشمن کی ہر پیر نا کام کر دی.خدا تعالے کا اتنا بڑا احسان ہے کہ جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے.آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کتنے خوفناک نتائج سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بچالیا، کتنی بڑی سازش کو کلیتہ نا کام کر دیا.“ اند خطبه جمعه فرموده ۱۴ ۲۸ بمقام پیرس فرانس) دشمن کی یہ خوفناک سازش جو ایک حکومت کی تمام طاقت کو استعمال کر کے خلافت احمدیہ کو مثانے کے لئے تیار کی گئی تھی.خدا تعالے کی تقدیر کے ساتھ مکرا کر پاش پاش ہو گئی اور تاریخ ضیافت شاہد ہے کہ ہر مخالفت جو خلافت کو تباہ کرنے کے لئے اٹھی ، خود اپنی موت آپ مر گئی.اور جماعت کو ترقیات کے نئے سنگ میل مہیا کر گئی.احمرار جب مخالفت کے لئے اُٹھے تو خدا تعالیٰ نے جماعت کو تحریک جدید کے عظیم الشان انعام سے نوانہ جس کے ذریعہ احمدیت بیرونی دنیا میں بڑی تیزی سے پھیلی.اب پھر احرار نے سراٹھایا اور خلافت کو زائل کرنے کے لئے انتہائی اوچھے ہتھیاروں پر
۶۲ اتر سے توخد اتعالیٰ نے نہ صرف خلافت کی حفاظت کی بلکہ جماعت کو بے بہا برکتوں سے معمور یورپین مراکز کے تحفے عطا فرمائے.اس پس منظر میں حضرت خلیفتہ اسی اتابع بعد اللہ تعالے منصرہ العزیز نے خلافت کی عظمت اور اس کی راہ میں آئندہ پیش آنے والی بڑی بڑی مخالفتوں ، ان کے انجام اور ان کے نتیجہ میں جاتے احمدیہ پر خدا تعالیٰ کے افضال و انعامات کے نزول کی خبر دیتے ہوئے مجلس خدام الاحمدیہ کے پہلے یورپین اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے ناقابل تسخیر عزم اور پر شوکت آواز میں فرمایا.کہ " اس دفعہ بھی احترار ہی کا دور ہے.......بظاہر وہ احمدیت کی موت کے ترانے الاپ رہے ہیں لیکن میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ وہ اپنی موت کے گانے گا رہے ہیں.اس کے سوا اور کوئی آوازہ نہیں ہے جو ان کے مونہوں سے نکل رہی ہے.احمدیت کی صف پیٹنے والا کسی ماں نے کوئی بچہ نہیں جنا نہ پہلے متھانہ آج ہے نہ آئندہ بھی ہوگا.یہ وہم وگمان اگر کسی دماغ سے گزر رہا ہے تو ایک پاگل کی بڑ سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.چنانچہ تحریک جدید کے اس دور کی طرف میں واپس لے کے جاتا ہوں جب یہی مجلس احرار بڑے بڑے منعرے بلند کر رہی تھی کہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے.منارہ اسی کو اور ان کی مسجدوں کو منہدم کردیں گے.کوئی نام لیوا نہیں رہے گا مرزا غلام احمد قادیانی کا.اس وقت حضرت مصلح موعود نے خطبہ میں یہ اعلان کیا کہ میں احرار کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی ہوئی دیکھ رہا ہوں.اور چند ہفتے کے اندر اندر ایسی کا یا بیٹی کہ سارے پنجاب سے احرار کی صف پیٹتی ہوئی دکھائی دینے لگی اور احمدیت اس کے مقابل پر بڑی شان وشوکت کے ساتھ ابھری.اور دبی تحریک جدید
ہے جس کا سایہ آج ساری دنیا پر قائم ہو چکا ہے.پس بظاہر تو ایک نہایت ہی ادنی اعلام اور حقیر انسان جو خلافت کے منصب پر اللہ تعالے کی کسی حکمت کے نتیجہ پر فائز کیا جاتا ہے اس کا کلام ہوتا ہے.بظاہر تو اس کی زبان بات کرتی ہے لیکن ہمارا تجربہ یہ ہے کہ اس کی بات کے پیچھے خدا کی بات کار فرما ہوتی ہے اور جماعت احمدیہ کے لئے عظیم الشان خوشخبریاں رکھ دی جاتی ہیں.“ جس طرح اس احرار موومنٹ کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے جماعت پر بے انتہا فضلوں کی بارشیں برسادی نھیں ، میں یہ کامل یقین رکھتا ہوں کہ اس احرار موومنٹ کے نتیجہ میں بھی اتنی عظیم الشان رحمتیں اللہ تعالیٰ ه کی جماعت پر نازل ہوں گی جن کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.وہ جماعت آج کچھ اور ہے جس کو احرار نے مٹانے کی کوشش کی تھی، اس سے آج سینکڑوں گنا زیادہ طاقتور ہے جتنی اس وقت ۱۹۳۳۳۳ء میں تھی.آج جس جماعت کو مٹانے کی یہ کوشش کر رہے ہیں میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ کل یہی جماعت سینکڑوں گنا بڑھ کر ابھرے گی اور چھوٹے چھوٹے ممالک و ہم بھی نہیں کر سکیں گے کہ ہم اکیلے اس جماعت کے اوپر حملہ کرنے کا بھی خیال کر سکتے ہیں.اگلی نسلیں جو مخالفتیں دیکھیں گی وہ جبری بڑی حکومتوں کے اجتماع کی مخالفتیں ہوں گی........یہ چھوٹی چھوٹی چند حکومتیں مل کر جن کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے.جو دنیا سے مانگ کر پلتی ہیں اور ہر چیز میں مقامی رکھتی ہیں اور خدا نے جو تھوڑا بہت دیا ہے اس پر تکبر کا یہ علم ہوگیا ہے کہ خدا کی جماعتوں سے قرینے کی سوچ رہی ہیں پس یہ دور مٹنے والا دور ہے.
آئندہ بھی مخالفت ضرور ہو گی اس سے کوئی انکار نہیں ہے کیونکہ مرمت کی تقدیر میں یہ لکھا ہوا ہے کہ مشکل راستوں سے گزرے اور ترقیات کے بعد نئی ترقیات کی منازل میں داخل ہو.یہ مشکلات ہی ہیں جو جماعت کی زندگی کا سامان مہیا کر تی ہیں.اس مخالفت کے بعد جو وسیع پیمانے پر اگلی مخالفت مجھے نظر آ رہی ہے وہ ایک دو حکومتوں کا قصہ نہیں اس میں بڑی بڑی حکومتیں مل کر جماعت کو مٹانے کی سازشیں کریں گی اور جتنی بڑی سازشیں ہوں گی اتنی ہی بڑی ناکامی ان کے مقدر میں بھی لکھ دی جائے گی.مجھ سے پہلے خلفاء نے آئندہ آنے والے خلفاء کوحوصلہ دیاتھا اور کہا تھا کہ تم خدا پر توکل رکھنا اور کسی مخالفت کا خوف نہیں کھانا ہے لہ - حضرت خلیفہ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ ع نے فرمایا تھا کہ " جب بھی انتخاب خلافت کا وقت آئے اور منفرہ طریق کے مطابق جو بھی خلیفہ چنا جائے یں اس کو ابھی سے بشارت دیتا ہوں کہ اگر اس قانون کے ماتحت وہ چنا جائے گا تو اللہ تعالے اس کے ساتھ ہوگا اور جو بھی اسکے مقابل کھڑا ہوگا وہ بڑا ہو یا چھوٹا ہو ذلیل کیا جائیگا اورتباہ کیا جائیگا کیونکہ ایسا خلیفہ صرف اس لئے کھڑا ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کو پورا کرے کہ خلافت اسلامیہ ہمیشہ قائم رہے؛ (خلافت حقہ اسلامیہ مکا) پھر فرمایا.پس میں ایسے شخص کو جس کو خد اتعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے ابھی سے بشارت مرس دیتا ہوں کہ اگروہ خدا تعالی پر ایمان لاکر کھڑا ہوجائیگا تو اگردنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکر لیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی.“ (خلافت حقہ اسلامیہ)
میں آئندہ آنے والے خلفاء کو ایک قسم کا کرکہتا ہوں کہ تم بھی حوصلہ رکھتا اور میری طرح ہمت و صبر کے مظاہرے کرنا اور دنیا کی کسی طاقت سے خوف نہیں کھانا.وہ خدا جو ادنی مخالفتوں کو مٹانے والا خدا ہے وہ آئندہ آنے والی زیادہ قوی مخالفتوں کو بھی چکنا چور کر کے رکھ دے گا اور دنیا سے ان کے نشان مٹادے گا.جماعت احمدیہ نے بہر حال فتح کے بعد ایک اور فتح کی منزل میں داخل ہونا ہے.دُنیا کی کوئی طاقت اس تقدیر کو بہر حال بدل نہیں سکتی کہ ا خطاب حضرت خلیفة اسم الرابع يده على مصر والعزیز فرموده ۲۹ برموقعہ پیلا یورپین اجتماع مجلس خدام الاحمدیتر )
Published by MAJLIS KHUDDAMUL AHMADIYYA-UK The London Mosque, 16 Gressenhall Road, London SW185QL