Hijrat

Hijrat

ہجرت سے وصال تک

سیرت حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ
Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ النبی

بچوں بچیوں کے لئے حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی سیرت وسوانح پر آسان زبان میں مختصر کتب کی تیاری کے سلسلہ یہ کتاب مکرمہ امت الباری ناصرصاحبہ کی مرتب کردہ ہے جس میں آنحضور ﷺ کی مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت سے لیکر وصال تک کے حالات سوالاً جواباً پیش کئے گئے ہیں۔ یوں حضرت صاجزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ کی محققانہ کتاب سیرت خاتم النبیین ﷺ اور دیگر کتب سیرت سے استفادہ کرکے اس کتاب میں مدنی دور کے  واقعات اس طرح درج کئے گئے ہیں کہ بچہ سوال کرتا ہے اور ماں اس کو جواب میں معلومات مہیا کرتی ہے۔ یہ دلچسپ انداز قارئین کی توجہ اور تجسس کو قائم رکھنے کے لئے ہے۔


Book Content

Page 1

3 سیرت یا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ سلم ہجرت سے وصال تک

Page 2

Page 3

سیرت پاک حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہجہ وصال تک مرتبه امہ الباری ناصر یکی از مطبوعات

Page 4

Page 5

بسم الله الرحمن الرحيم پیش لفظ لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی پر اللہ تعالیٰ کے احسانوں میں سے ایک بڑا احسان یہ بھی ہے کہ جشن تشکر کے موقع پر اُس نے احمدی ماؤں اور بچوں کی دینی تربیت کے لئے کم از کم ایک صد کتا بیں شائع کرنے کا جو منصوبہ بنایا تھا اب اس سلسلے کی بفضل الہی ساٹھویں (4) کتاب شائع ہو رہی ہے.اس کتاب کا نام حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت سے وصال تک ہے.یہ بچوں کے لئے سیرت پاک پر شائع ہونے والی مختصر کتابوں میں سے تیسری ہے.جو حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ولادت سے نبوت تک اور حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نبوت سے ہجرت تک کے تسلسل میں لکھی گئی ہے.ان تینوں کتابوں میں پیار سے آقا کی خدائی تائید و نصرت سے بھر پور کامیاب زندگی کے حالات کو بچوں کی دلچسپی اور حبس بر قرار رکھنے کے لئے سوال وجواب کی صورت میں لکھا گیا ہے.ہم جانتے ہیں کہ سیرت نبوئی کا بیان کروڑوں کتابوں

Page 6

میں بھی مکمل نہیں ہو سکتا.یہ مختصر بیان مزید جاننے کا شوق اور ولولہ ضرور پیدا کرے گا تا کہ ہم بھی اُس ہستی کا اسوہ اپنائیں جس کی اتباع اور محبت خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا ذریعہ ہے.ارشاد خداوندی ہے.إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله د ال عمران : ۳۲) تم اللہ سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کر د ر اس صورت میں) وہ (بھی) تم سے محبت کرے گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت میں روحانی مقام و مرتبہ حاصل کرنے والوں میں بلند ترین مرتبہ امام الزماں مہدی معہود اور سیح موعود حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کو حاصل ہوا.فرماتے ہیں اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے.میں چیز کیا ہوں میں فیصلہ یہی ہے میں بڑوں اور بچوں کی خدمت میں درخواست کرتی ہوں کہ ان تینوں کتب سے ضرور استفادہ کر یں.اس طرح اللہ تعالیٰ کی خوشنودی اور رضا کے حصول کے اہل بن کر دنیا و آخرت کو سنواریں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.دعا کی غرض سے یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ اس سلسلہ کی پہلی دو کتب محترمہ بشری داؤد صاحبہ مرحومہ سیکرٹری اصلاح دارت دو ضلع کراچی نے

Page 7

لکھی تھیں.مرحومہ کے مشن کو آگے بڑھانے کے جذبے سے عزیزہ امتہ الباری ناسر سیکر ٹی شعبہ اشاعت لجنہ ضلع کراچی نے تیسری کتاب تحریر کرنے کی توفیق پائی.اس طرح ایک تسلسل سے یہ سیٹ مکمل ہوا.کتاب پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ عزیزہ نے اس کی تیاری کے لئے وسعت سے مطالعہ کیا ہے تاہم بنیادی مآخذ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد الله تعالی آپ سے راضی ہو) کی معرکۃ الآرا تصنیف " سیرۃ خاتم النبیین “ ہے اس طرح بچوں کو تحقیق شدہ مواد آسان الفاظ میں پڑھنے کے لئے میسر آگیا ہے.فجراها اللہ تعالیٰ احسن الجزاء - شعبہ اشاعت کے سب معاونین و معاونات کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.جن کی مخلصانہ محنتوں سے مشکل مراحل سے گزرتے ہوئے کتاب آپ کے ہاتھوں تک پہنچتی ہے.اللہ تعالیٰ خود ان کی جزا بن جائے.آمین الله هم آمین

Page 8

Page 9

بچہ.مدینہ مکہ سے کس قدر دور ہے.ماں.مدینہ مکہ سے شمال کی طرف ایک سو بارہ میل کے فاصلے پر - پہلے زمانے میں تجارت اس طرح ہوتی تھی کہ لوگ اپنا اپنا سامان لے کہ قافلے کی صورت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جاتے تھے جن کو مکہ سے شام جانا ہوتا تھا وہ مدینے میں رک کر آرام کر لیتے.مدینہ عین راستے میں نہیں ہے.بحر احمر کے مشرقی ساحل سے پچاس میل مشرق کی طرف ہٹ کر ہے.مگر لیے صحرائی سفروں میں مدینہ میں ٹھہرنے سے آرام مل جاتا اس طرح مدینہ بھی ایک تجارتی مرکز بن گیا.مکہ سے شام اور شام سے مکہ سفر کرنے والے قافلے کچھ دن مدینہ میں ٹھہرتے تو شہر میں رونق ہو جاتی ملنے جلنے کے مواقع ملتے کئی قبیلوں اور شہروں کے لوگ ایک دوسرے کے واقف بن جاتے.بچہ.مدینہ کا موسم بھی مکہ کی طرح تھا.گرمیوں میں شدید گرمی سردیوں میں

Page 10

شدید سردی ؟ ماں.جی ہاں ! سکتے جیسا ہی موسم تھا مگر مدینہ چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں میں گھرا ہوا ہے.جس کی وجہ سے بارش نسبتا زیادہ ہوتی ہے.دوسرے اس کی زمین سکتے کی طرح پتھر ہی نہیں بلکہ ہموار ہے اس لئے کھیتی باڑی کے لئے اچھی ہے.جس زمانے کی ہم بات کر رہے ہیں.مدینہ کے لوگ زیادہ تم زراعت پیشہ تھے.یہ تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ پہلے مدینہ کا نام یثرب تھا.آپ مدینہ آئے تو مدینہ الرسول کہلانے لگا یعینی رسول کا شہر.پھر زیادہ دفعہ بولنے سے چھوٹا نام مدینہ مشہور ہو گیا.مدینے میں جو تو میں آباد تھیں.وہ آپس میں مل جل کر نہیں رہتی تھیں بلکہ اپنے اپنے بڑے بڑے قلعے بنائے ہوئے تھے.ہر قبیلے کا الگ قلعہ تھا.ہر قبیلے کا ایک سردار ہوتا تھا سردار کو نہیں کہتے تھے ایسے نظام کو قبائلی نظام کہتے ہیں.بچہ.مدینہ کے کچھ مشہور قبیلوں کے نام بتائیے.ماں.ابتدائی طور پر اس علاقے میں یہودیوں کے بڑے بڑے قبیلے بنو قینقاع بنو نظیر اور بنو قریضیہ آباد تھے پھر یمین کے علاقے سے دو قبیلے اوس اور خزرج یہاں آکر آباد ہو گئے.جن دنوں میں مکہ میں پیارے آقا نے نبوت کا دعویٰ کیا.مدینہ میں ان قبیلوں میں زبر دست جنگ ہو رہی تھی جس کا نام جنگ بعاث ہے.اس جنگ میں اتنے آدمی مارے گئے کہ لوگ تنگ آگئے اس حالت کو دیکھ کر خزرج قبیلہ کے ایک

Page 11

ہوشیار شخص عبداللہ بن ابی سلول نے لوگوں سے کہا کہ مجھے سردار مان لو میں صلح کرا کے یہ جنگ اور قتل وغارت ختم کر دوں گا.ابھی وہ باقاعدہ طور پر سردار نہیں مانا گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے سرداروں کے سردار دو جہانوں کی سرکار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سرداری قائم فرما دی.جو سردار بننے کا خواب دیکھ رہا تھا دل ہی دل میں سخت شمنی، حد اور کینہ پالنے لگا.بچہ.سردار جو نہیں بن سکا تو جلن کے مارے دشمن ہو گیا.ہم نے مدینہ کے متعلق باتیں کر لیں اب آپ کے مدینہ پہنچنے پر لوگوں کی خوشی کا حال بھی سنائیے.مال.اُس کا حال کیسے سناؤں اتنی خوشی تھی ، اتنی خوشی تھی کہ مدینے والوں نے اتنی خوشی پہلے کبھی دیکھی ہی نہ تھی بڑے چاؤ سے اپنے اپنے ہتھیار سجا کر شان سے گلی محلوں میں گھوم رہے تھے ہر طرف سے نعرہ تکبیر الله اکبر کی آوازیں آرہی تھیں.اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی کا پیار اُن کو بے چین کر رہا تھا کون سی مبارک گھڑی آپ کا دیدار نصیب ہو گا.ایک دن ایک یہودی کو جو اونچی جگہ کھڑا تھا دُور سے کچھ مسافر نظر آئے زور سے پکارا.اہل عرب جس کا تم انتظار کر رہے ہو وہ یہ آتا ہے.لوگوں کی خوشی کی انتہا نہ رہی.مدینہ میں محبوب ترین ہستی تشریف لا رہی تھی.پہلے آپ مدینہ شہر سے دو اڑھائی میل دور دائیں طرف ہٹ کے ایک مقام قبا میں ٹھہر گئے.

Page 12

بچہ.آپ نے قبا کو کیوں منتخب کیا.ماں.شاید اس لئے کہ کچھ مہاجرین جو آپ سے پہلے مکہ سے ہجرت کہ کے آئے تھے اُس وقت تک قبا کے رئیس کلثوم بن الہدم کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے.آپؐ ان سے ملنا چاہتے تھے.آپ بھی کلثوم بین الہدم کے مکان پر مظہر ہے.یہاں ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہوا یہ تو آپ کو علم ہے کہ مدینہ والوں نے ابھی پیارے آقا کو دیکھا نہیں ہوا تھا منے کے شوق میں لوگ گروہ در گردہ قبا آنے لگے مجلس میں سب احباب بیٹھے تھے.حضرت ابو بکر رض عمر میں تو آنحضور سے زیادہ نہیں تھے مگر دیکھنے میں بڑے لگتے تھے لوگ ان کو ہی رسول اللہ سمجھے.دھوپ تیز ہوئی تو حضرت ابو بکر رض نے اپنی چادر سے آپ پر سایہ کیا تب لوگوں کو پتہ لگا کہ انہیں کیا غلط فہمی ہوئی.بچہ.آپ کو کسی اونچی کرسی یا سٹیج پر نہیں بٹھایا تھا.ماں نہیں بچے آپ کے مزاج میں بے حد سادگی تھی اپنے لئے کوئی الگ اونچی جگہ پسند نہ فرماتے تھے سب میں گھل مل کر رہتے.قبا میں آپ کی آمد کی تاریخ ۲۰ ستمبر ہ پیر کا دن تھا یہ ربیع الاول کا مہینہ اور نبوت کا چودھواں سال تھا ، ہجرت کے بعد سالوں کا حساب ہجرت کے واقعے سے رکھا جانے لگا.یعنی سن ہجری کا آغاز ہوا جو اسلامی کیلنڈر کہلاتا ہے.اس لئے ہم قبا میں آپ کی آمد کی تاریخ اس طرح بنائیں گے ۸ ربیع الاول کا مجری.

Page 13

۱۳ بچہ.نمازیں بھی کلثوم بن الہام کے مکان پر پڑھی جاتی تھیں.ماں.اچھا یاد دلایا.اب میں آپ کو قبا میں پہلی مسجد کی تعمیر کے متعلق بتاتی ہوں.آپ نے قبا میں پہلا کام یہ کیا کہ اپنے مبارک ہاتھوں سے ایک مسجد کی بنیاد رکھی، یعنی ۲۱ ستمبر کو ہی ، اس کا نام مسجد قبا ہے اور اس میں صحابہ نے مزدوروں کی طرح کام کیا.آپ کو اس مسجد سے بہت محبت تھی ایک بڑی خوشی کی بات یہ ہوئی کہ قبا میں ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ حضرت علی رضہ جن کو ہجرت کے وقت آپ اپنے بستر میں سلا آئے تھے سب کی امانتیں دے دلا کر خیریت سے قبا پہنچ گئے جس سے آپ بہت خوش ہوئے.دس دن قبا میں قیام فرمایا پھر جمعہ کے دن سب صحابہؓ کے ساتھ مدینہ روانہ ہوئے.راستے میں بنو سالم بن عوف کے محلہ میں ٹھہر کہ نماز جمعہ ادا کی یہ مسلمانوں کا پہلا جمعہ تھا جو ۲۴ ستمبر مطابق 1ربیع الاول ساتہ کو پڑھا گیا.بچہ.مدینے میں آپ کا قیام کہاں ہوا.مان.یہی سوال اُس وقت سب لوگ ایک دوسرے سے کر رہے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا تو آپ نے اپنے دادا عبدالمطلب کی والدہ سلمی کے خاندان کی رہائش گاہ میں ٹھہرنے کا ارادہ ظاہر فرمایا.یہ قافلہ مدینہ کی طرف بڑھ رہا تھا اور وہاں ہزاروں عیدوں سے بڑھ کر خوشی اور جشن کا سماں تھا.لوگ پہاڑی پر چڑھ کر دیکھ رہے تھے کہ کب مبارک قافلہ کی آمد آمد ہو.بچیاں دف بجا بجا کر گیت گا

Page 14

رہی تھیں.طلع البدر علينا من ثنيات الوداع وَجَبَ الشكر علينا ما دعا الله داع آج ہم پر کوہ وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں کے چاند نے طلوع کیا ہے اس لئے ہم پر ہمیشہ کے لئے شکر واجب ہو گیا ہے.بنو نجار کے محلے میں پہنچ کہ آپ نے اپنی اونٹنی کی باگیں ڈھیلی چھوڑ دیں.اونٹنی آہستہ آہستہ چلتی ہوئی حضرت ابو ایوب انصاری کے مکان کے پاس بیٹھ گئی.آپ نے اس کو اللہ تعالیٰ کی منشا سمجھا اس لئے وہیں قیام فرمایا.بلکہ جب تک مسجد نبوی اور اس کے ساتھ حجرے تعمیر نہیں ہوئے.آپ نے وہیں قیام فرمایا.یہ عرصہ کم وبیش سات مہینے بنتا ہے بچھ.بہت دلچسپ حالات ہیں.مان.ایک مزے کی بات اور تناؤں ایک خاتون جن کا نام ام سلیم تھا.اپنے دس سال کے بچے انس بن مالک کو لے کر آپؐ کی خدمت نہیں حاضر ہوئیں اور اپنا بچہ آپؐ کی خدمت کے لئے پیش کر دیا.اس بچے نے اپنی ساری عمر آپ کی خدمت میں گزار دی.بہت دعائیں لیں آپ ان کا نام حدیث کی کتابوں میں بہت دفعہ پڑھیں گے.بچہ.مدینہ میں بھی مسجد تعمیر فرمائی.ماں.جی بیچے جیس طرح قبا میں سب سے پہلے مسجد تعمیر کی تھی اسی طرح مدینہ میں بھی پہلا کام اللہ کے گھر کی تعمیری متھا حضرت ابوایوب انصاری

Page 15

۱۵ کے گھر کے سامنے زمین کا ایک خالی ٹکڑا تھا وہ زمین دو تیم بچوں پہل اور سہیل کی تھی.آپ نے وہ زمین قیمت دے کہ خرید لی اور اپنے مبارک ہاتھوں سے مسجد کی بنیاد رکھی.سب نے مل کر مزدوروں اور معماروں کی طرح کام کیا مسجد کی چھت پر کھجور کے تنے اور پتے ڈالے گئے.اس چھت میں سے بارش کے دنوں میں پانی ٹپکتا تھا جس سے مسجد کا کچا فرش کیچڑ کیچڑ ہو جانا.چھت کے سہارے کے لئے کھجور کے تنے بطور سنتون استعمال ہوئے.انہیں میں سے ایک تنے سے ٹیک لگا کر آپ خطبہ ارشاد فرماتے مسجد کے ساتھ ایک چھت دار چبوترہ بھی تعمیر کیا گیا جسے صفہ کہتے.اس چھونرے پر وہ احباب رہتے تھے جو دین کا علم سیکھتے تھے.ان کو اصحاب الصفہ کہتے تھے.(خلاصہ صحیح بخاری جلدا مث ۵۵) بچہ.پیارے آقا کا مکان بھی بنا ہو گا.مان.پیارے آقا کا مکان تقریباً ۱۰ × ٹافٹ کا کمرہ تھا جس کا دروازہ مسجد میں گھلتا تھا.آپ نماز کے لئے اسی دروازے سے مسجد میں تشریف لاتے اس حجرے کے ساتھ ساتھ بعد میں دوسری بیگمات کے حجرے کچی اینٹوں اور کھجور کی ٹہنیوں اور چھال سے بنے ان میں لکڑی کے دروازے نہیں لگے تھے بلکہ ٹاٹ یا کمبل کا پردہ ڈال دیا جاتا.صرف حضرت عالی کے حجرے کا دروازہ لکڑی کا تھا.بچہ.اتنی سادہ رہائش کا تو اب سوچا بھی نہیں جا سکتا.

Page 16

14 ارض ماں.جی بچے وہ زمانہ سادگی کا زمانہ تھا گھروں میں چراغ نہیں جلتے تھے جب تک سورج کی روشنی رہتی دن رہتا جب سورج ڈھلتا رات ہو جاتی.وقت دیکھنے کے لئے گھڑیاں نہیں ہوتی تھیں.نماز دھوپ چھاؤں کے اندازے سے ہوتی.نمازہ یا کسی اور کام کے لئے بلانا ہوتا توحضرت بلال بلند آواز سے کہتے ، الصلوہ جامعہ لوگ اکٹھے ہو جاتے.خدا تعالیٰ کا کہنا کیا ہوا کہ ایک صحابی حضرت عبداللہ بن زید انصاری اور حضرت عمر فاروق رض کو خواب میں اذان کے الفاظ سُنائے گئے دونوں حضرات نے آگرہ آپ کو اپنا اپنا خواب سنایا.آپ نے فرمایا کہ انہیں الفاظ میں اذان دی جایا کرہ سے کیونکہ آپ کو بھی وحی میں اذان کے وہی الفاظ سکھائے گئے تھے.انہیں دنوں ظہر، عصر اور عشاء میں دورکعتوں کی جگہ چار رکھتیں فرض ہوئیں.آپ مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی پر بہت تاکید فرمایا کرتے تھے.بچہ.کیا مدینے میں لوگوں نے جلدی جلدی اسلام قبول کیا تھا.ماں.مدینے کے لوگ تو جیسے منتظر بیٹھے تھے وہاں یہ بھی ہوا کہ مختلف نہ ہوں کے ماننے والے بھی اسلام میں داخل ہوئے پہلے یہودی جس نے اسلام قبول کیا حصین تھے جن کا نام آپ نے عبداللہ نہ رکھا وہ پڑھے لکھے آدمی تھے.پہلے فارس یعنی علاقہ ایران کے رہنے والے مسلمان حضرت سلمان فارسی تھے بے حد نیک دل انسان تھے آپ کو اُن سے بہت محبت تھی ایک دقعہ تو فرمایا کہ سلمان ہمارے گھر کے آدمی ہیں.

Page 17

16 قرآن پاک کی سورہ جمعہ میں ایک آیت ہے جس کا مطلب ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ایک جماعت صحابہ کی مانند ہو گی.صحابہ نے پوچھا وہ بعد میں آنے والی جماعت کون لوگ ہوں گے تو آپ نے حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا ان کی قوم میں سے ایک یا ایک سے زیادہ لوگ ایمان قائم کرنے والے ہوں گے.آپ اس بات کو اچھی طرح یا درکھئے.بخاری شریف کی اس حدیث میں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں فارسی نسل سے ایک مہدی کے تشریف لانے کی خوشخبری ہے.بچھ.میں انشاء اللہ ضرور یاد رکھوں گا.میرے ذہن میں ایک سوال آرہا ہے کہ مکہ سے آنے والے مہاجر خالی ہاتھ آئے تھے پھر اُن کے رہنے سہنے کی کیا صورت بنی ؟ ماں.مکہ سے آنے والے مہاجر واقعی نہ صرف اپنے گھر بار چھوڑ کر آئے تھے بلکہ اپنے عزیز رشتہ دار دوست اور مکہ جیسی محبوب سبتی کو چھوڑ کر آئے تھے ایسے وقت میں مدینہ والوں نے ہر طرح ان کی مدد کی.مدد کرنے والے کو ناصر کہتے ہیں اس کی جمع انصار ہے اس طرح مکہ والے مہاجر اور مدینے والے انصار کہلائے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی حکمت سے کام لیا.حضرت انس بن مالک کے گھر سب کو جمع کیا اور ایک ایک انصاری اور مہاجر کو بھائی بھائی بنا دیا.اس طرح دینی محبت کی فضا پیدا ہو گئی.انصار بھائیوں نے بڑے جوش و خروش سے مہاجرین

Page 18

IA کی مدد کی جس سے وہ اپنا سارا غم بھول گئے اور ایسے لگنے لگا کہ اپنے ہی گھر میں بیٹھے ہیں.بچہ.یہ بات مخالفین کو تو بالکل پسند نہیں آئی ہوگی.ماں.مخالف تو مخالف ہوتے ہیں وہ تو مسلمانوں کی ترقی دیکھ ہی نہیں سکتے تھے مگر آپ اللہ پاک کی ہدایات سے ایسے معاشرے کی بنیاد رکھ رہے تھے جو اسلامی معاشرہ تھا ایک طرح اسلامی حکومت قائم ہو رہی تھی.اصلاحی اور انتظامی کاموں کے لئے امن کی ضرورت تھی.مدینے میں یہودی قبائل بھی بستے تھے آپ نے یہودی قبائل کو مشرک قبائل کو مسلمان مہاجرین و انصار کو جمع کیا اور امن قائم رکھنے کے لئے ایک معاہدہ کیا.اس معاہدے کے دس نکات تھے.اس معاہدے کے بعد سب امن سے رہنے کے پابند ہو گئے اور آپ کے فیصلوں پر عمل کرنے کے وعدے کے ساتھ آپ کی سرداری کو بھی مان لیا.بیچہ.مکہ کے کفار تک بھی یہ خبریں پہنچ رہی ہوں گی بہت جلتے ہوں گے.ماں.اور جلن میں نئی نئی تدبیریں بھی سوچتے تھے.انہوں نے ایسا کیا کہ مدینہ میں جن لوگوں سے مدد کی توقع تھی انہیں خطوط لکھے کہ مسلمانوں کی حمایت چھوڑ دو ورنہ ہم سب جمع ہو کر تم سے جنگ کریں گے مسلمان اُن کے خطرناک ارادوں سے واقف تھے اس لئے دن رات ہتھیار لگائے رکھتے کہ کہیں دشمن اچانک حملہ نہ کر دے مسلمانوں کی حفاظت کا سب سے زیادہ فکر ہمارے آقا کو رہتا.اکثر راتیں جاگتے گذر ہیں.

Page 19

ایک رات کیا ہوا کہ کچھ شور ساسنائی دیا مسلمان اپنے اپنے گھروں سے نکل آئے کیا دیکھتے ہیں کہ پیارے آقا شور کی طرف سے گھوڑے پر سوار تشریف لارہے ہیں.فرمایا میں دیکھ آیا ہوں.فکر کی کوئی بات نہیں.فکر کی کوئی بات نہیں.“ بچہ.پیارے آقا کتنے بہادر تھے.ماں.بہادر بھی تھے اور خود کو ذمہ دار بھی سمجھتے تھے یہ نہیں کہ کسی کو خطرے کی طرف روانہ کیا ہو بلکہ خود خطرے کے سامنے چلے گئے.رات دن ہشیار رہنے سے مسلمان امن چین کی نیند کو ترسیں گئے تھے.ایک رات تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " کاش کوئی نیک صحابی پہرہ دیتا تو میں ذرا سولیتا.“ بچہ.واقعی رات کو مہتھیار لگانے سے نیند کیسے آتی ہوگی.ماں.چلیں اب میں آپ کو ایک خوشی کی بات بتاؤں.حضرت ابو بکر رفہ کی بیٹی اسماء اور زبیر بن العوام کے ہاں بیٹا پیدا ہوا یہ مہاجرین کا مدینہ میں پیدا ہونے والا پہلا بچہ تھا سب کو بے حد خوشی ہوئی.بچے کو لے کہ آپ کے پاس آئے آپ نے ایک کھجور اپنے منہ میں ڈال کر نرم کی اور ننھے بچے کے منہ میں گڑھتی کے طور پر اس کا لعاب ڈالا بچے کا نام عبد اللہ رکھا.بڑہے ہو کہ اس بابرکت بچے نے دین کے علم میں بہت ترقی کی.بچہ.شکر ہے مسلمانوں کو کوئی خوشی نصیب ہوئی.

Page 20

ماں.مسلمانوں کو اللہ پاک کے صحیح دین کو پہچانے کی خوشی تو ہر وقت رہتی تھی جب کوئی مشرک کلمہ شہادت پڑھ کہ مسلمان ہوتا عید کا سماں ہوتا.مگر اللہ تعالی کی جماعتوں کے ساتھ مخالفت تو لگی رہتی ہے.بچہ کوئی ایک مخالفت ! اپنے وطن تک سے تو نکلنا پڑا.آپ کی جان لینے کی کوششیں کیں.مسلمان بدلہ کیوں نہیں لیتے تھے.جبکہ عربوں میں جنگوں کا بڑا رواج تھا.ماں.مسلمان ہر کام اللہ کے حکم سے کر تے تھے اور اللہ تعالیٰ نے انہیں صبر اور تحمل کا حکم دیا تھا.آپ نے ایک دفعہ ایسے ہی سوال کے جواب میں فرمایا.مجھے ابھی تک عفو کا حکم ہے اس لئے میں تمہیں لڑنے کی اجازت نہیں دے سکتا.(نسائی کتاب الجہاد) مسلمان تعداد میں کم تھے.ہتھیار ان کے پاس نہیں تھے.دنیا کو اچھے سنتے پر لگانا ان کا کام تھا جو صلح اور امن سے ہو سکتا ہے.مگر جب ظلم وستم حد سے بڑھ گئے تو اللہ تعالٰی نے تلوار سے جہاد کرنے کی اجازت عطا فرما دی.یہ حکم ۱۲ صفر مطابق ۱۵- اگست ۳۳ کو نازل ہوا.سورہ حج میں ایک آیت ہے جس کا ترجمہ ہے.جن کے خلاف کفار نے تلوار اٹھائی انہیں لڑنے کی اجازت دی جاتی ہے کیونکہ وہ مظلوم ہیں اور ضرور اللہ تعالیٰ اُن کی نصرت پر قادر ہے.سورہ حج کی اس آیت کے علاوہ بھی جہاد کی اجازت میں آیات نازل ہوئیں.تو آپ نے مسلمانوں کو سمجھایا.اے مسلمانو ! تمہیں چاہیے کہ دشمن کے مقابلہ کی خواہش نہ کیا

Page 21

۲۱ کرو اور خدا سے امن و عافیت کے خواہاں رہو اور اگر تمہاری خواہش کے بغیر حالات کی مجبوری سے کسی دشمن کے ساتھ تمہارا مقابلہ ہو جائے.تو پھر ثابت قدمی دکھاؤ.“ (بخاری ومسلم وابو داؤد ) بچہ.اُس زمانے میں جنگ کا طریق کیا تھا.ماں.دونوں فوجیں آمنے سامنے کھڑی ہو جاتیں.پہلے دونوں کا ایک ایک نمائندہ آگے بڑھتا اور تلوار سے لڑائی کرتا پھر عام حملہ کا جاتا.لڑنے کے لئے تلوار، نیزہ اور تیر کمان استعمال ہوتے.جنگ پیدل ہوتی اور گھوڑے پر سوار ہو کہ بھی لڑی جاتی.ایک سادہ سی مشین کا بھی رواج تھا جسے منجنیق کہتے تھے اس میں پتھر رکھ کر دشمن پر برسائے جاتے آپ کے زمانے میں بھی یہ مشین استعمال ہوئی.بچہ.غریب مسلمانوں کے پاس جنگ کا سامان کہاں سے آتا تھا.مان.جب مقابلے کی نوبت آتی صحابہ خود اپنے لئے سامان خریدتے.اگر کسی کے پاس زیادہ گنجائش ہوتی تو وہ سامان خرید کہ آپ کی خدمت میں پیش کر دیتے ہو آپ ضرورت مند کو عطا فرماتے مسلمان اپنا جھنڈا بھی بناتے تھے.ایک جھنڈا سفید تھا جو کسی لکڑی وغیرہ پر لپٹا ہوتا اس کو بواء کہتے.دوسرا جھنڈا کالا تھا جو ایک طرف سے لکڑی وغیرہ سے بندھا رہتا اور لہراتا رہتا اسے رایہ کہتے تھے.بچہ.اجازت ملنے کے بعد خوب جنگی تیاریاں شروع ہوگئی ہوں گی.

Page 22

۲۲ ماں.جنگی تیاریاں نہیں بلکہ امن کی کوششیں شروع ہوئیں تا کہ جنگ کی نوبت ہی نہ آئے اپنے ارد گرد کے قبائل سے صلح کے معاہدے کئے دعوت الی اللہ دی کہ اسی میں خیر ہے.پھر کچھ گروہوں کو قریبی علاقوں میں بھجوایا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ مسلمان بھی طاقت رکھتے ہیں اور خواہ مخواہ اُلجھنے کی کوشش ہی نہ کریں.اس معرض سے پہلا سفر آپ نے ساتھ مہاجرین کے ساتھ وران کا کیا.یہ مدینہ سے قریباً استی میل کے فاصلے پر ہے.وڈان کے قریب ہی ابوا واقع ہے.آپ نے ابوا کا نام اس سے پہلے سُنا ہے ؟ بچہ.اچھی طرح یاد ہے ابوا وہ جگہ ہے جہاں آپ کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ فوت ہوئی تھیں.ماں.شاباش.بالکل ٹھیک آپ اپنی والدہ کے مزار پر بھی تشریف لے گئے تھے.ودان میں خمرہ خاندان آباد تھے.آپ نے اُن سے امن کا معاہدہ کیا اس کو غزوہ ودان یا غزوہ ابوا کہتے ہیں.بچہ.غزوہ کسے کہتے ہیں.مان.ہر وہ سفر جس میں آپ جنگ کی حالت میں شریک ہوئے غزوہ کہلاتا ہے.ایسے سفر جن میں آپ کے حکم سے صرف صحابہ جنگ کی حالت میں نکلے ہوں سر پہ یا لبعث کہلاتے ہیں.دونوں صورتوں میں تلوار سے مقابلہ ضروری نہیں.اُن دنوں مکہ کے کفار کے ارادوں سے باخبر

Page 23

۲۳ رہنے کے لئے آپ کئی چھوٹی بڑی پارٹیاں اردگر دروانہ فرمایا کرتے تھے ان سے یہ بھی فائدہ ہوا کہ مکہ اور مضافات سے اسلام قبول کر کے مدینہ کے ارادے سے نکلنے والے الحاد کا لوگ اپنے مسلمان بھائیوں کی حفاظت میں مدینہ پہنچ جاتے.آپ کی ذات سے دشمنی اور آپ کے دین اسلام کے پھیلنے سے غصے میں کھو لائے ہوئے دشمنوں کی نت نئی کوششوں کا جواب دینے کے لئے چوکس رہنے کی وجہ سے مسلمان چین سے نہ بیٹھ سکتے.ایک دفعہ آپ مدینہ سے کافی فاصلے پر ایک جگہ لواط تشریف لے گئے پھر ساحل سمندر کے قریب ایک جگہ عشیرہ تشریف لے گئے لمبا سفر کرنا پڑا وہاں بنو خمرہ کی طرح بنو مدلج سے امن کا معاہدہ ہوا.اتنی چوکسی کے باوجود مکہ کے ایک دیکھیں کہ نہ بن جابر فہری نے قریش کے ایک دستے کے ساتھ مدینے سے تین میل دور مسلمانوں کی چراگاہ سے اونٹ وغیرہ چہرا لئے آپ کو علم ہوا تو بذات خود ایک دستہ لے کہ فوراً اس کا پیچھا کیا وہ بچ کر نکل گیا.آپ صفوان تک تشریف لے گئے اس سفر کو غزوہ بدر الاولیٰ بھی کہتے ہیں.یہ نومبر دسمبر ۲۳ مطابق جمادی الثانی س کا واقعہ ہے.بچہ.یہ تو چھاپہ مار جنگ ہو گئی.ماں.آپ نے بھی بڑی حکمت عملی سے کام لیا اور مکہ والوں کے ارادوں سے باخبر رہنے کے لئے قریش کے مختلف قبائل سے آٹھ بہادروں کی ایک پارٹی بنائی ان کا سردار حضرت عبد اللہ بن جحش کو مقرر فرمایا.

Page 24

انہیں یہ نہیں بتایا کہ کس کام سے بھیجا جارہا ہے ایک بند لفافہ دے کہ فرمایا کہ جب مدینہ سے دو دن کا سفر کر لو تو اسے کھونا اور جو اس میں ہدایات لکھی ہیں اُن پر عمل کرنا.دو دن سفر کے بعد خط کھولا تو اُس میں لکھا تھا کہ " تم مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں جاؤ اور وہاں جا کہ قریش کے حالات کا علم لو اور پھر سہیں اطلاع دو؛ اس پارٹی کی کفار مکہ سے جھڑپ ہوگئی.کفار کا ایک آدمی عمر و بن حضرمی مارا گیا اور دو قید ہوئے مگر میں غصہ مزید شدید ہو گیا اور انہوں نے اندر ہی اندر بڑی فیصلہ کن لڑائی کی تیاری شروع کردی بچہ.پیارے آقا کو دعو الی اللہ کا بھی کام تھا اور اپنے دفاع کا بھی کس قدر محنت کرتے ہوں گے.ماں.محنت تو بہت کرتے تھے.اللہ تعالیٰ کی مدد شامل تھی اُسی نے یہ کام کرائے.اسلام کے نئے نئے احکام قرآن پاک کے ذریعے سے اُترتے وہ بھی مسلمانوں کو سکھاتے اور عمل کراتے.مثلاً اُن دنوں ایک اہم واقعہ ہوا.مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے یہ یہودیوں کا قبلہ تھا.سولہ سترہ مہینے تک یہی طریق رہا مگر تھے شعبان کے مہینے میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۷ ۱ نازل ہوئی جس میں یہ یکم دیا گیا کہ خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر کیا جاتا ہے.اسی سال رمضان ر فروری مارچ میں پہلی دفعہ رمضان کے روزے فرض ہوئے.اس سے

Page 25

۲۵ پہلے نفلی روزے رکھے جاتے تھے.فرض روزے اسی سال رکھے گئے.بچہ.روزوں کے بعد عید بھی ہوئی.ماں.آپ کو عید کا بڑا شوق ہے فورا عید کا پوچھ لیا.جی ہاں عید ہوئی ٹیم شوال کو پہلی عید الفطر ہوئی (۲۷ مارچ ۲۳) مگر عید سے پہلے کیا ہوا یہ ایک لمبی کہانی ہے.تفصیل سُنیں گے تو عید کی کیفیت کا اندازہ ہوگا.مسلمان بڑے جوش و جذبے سے روزے رکھ رہے تھے مسجد نبوی میں نمازیوں کا ہجوم رہتا.آپ قرآن پاک کی تلاوت فرماتے نمازوں کی امامت فرماتے نئی نازل ہونے والی آیات سناتے.نماز روزے کے آداب سکھاتے بسحری و افطاری میں رونقیں ہوتیں.نوافل اور تہجد کی ادائیگی میں سب بڑے بچے ذوق و شوق سے حصہ لیتے.ایسے میں آپ کو اطلاع ملی کہ قریش مکہ کا ایک تجارتی قافلہ جس کا سردار ابو سفیان ہے شام سے مکہ جاتے ہوئے مدینے کے پاس سے گزرے گا.مدینے کی حفاظت کے خیال سے آپ نے دو اصحاب کو ان کے ارادے معلوم کرنے کے لئے بھیجا.ابوسفیان کو خبر ہو گئی اُسے تو اچھا موقع ہاتھ آیا فورا ضمضم نامی ایک شخص کو مکہ بھیج دیا تاکہ وہ مکہ میں اعلان کرے کہ قافلے کو حفاظت سے نکالنے کے لئے مکہ سے ایک لشکر کی ضرورت ہے.قریش مکہ نے بڑے زور و شور سے تیاری کی.بڑے بڑے بہادروں کو جمع کیا اور ایک ہزار کی تعداد میں فوج بڑے ساز و سامان کے ساتھ مکہ سے یہ دعا کر کے روانہ ہوئی کہ اسے خدا ہم دونوں فریقوں میں سے

Page 26

جو فریق حق پر قائم ہے اور تیری نظروں میں زیادہ شریف اور افضل ہے تو اس کی مدد فرما اور دوسرے کو ذلیل و رسواکر» (تاریخ الخمیس جلد ا حت الم) ابھی یہ راستے ہی میں تھے کہ ابوسفیان نے آکمہ اطلاع دی کہ قافلہ خیریت سے گزر کے آگیا ہے مگر ابو جہل نے اصرار کیا کہ ہم بدر تک ضرور جائیں گے اور تین دن جشن منائیں گے.بچہ.آپ کو علم نہیں ہوا کو ؟ ماں.مخبروں نے اطلاع دی تھی اس آپ نے سب مہاجرین و انصار کو جمع کر کے مشورہ کیا.بارہواں روزہ تھا جب آپ تین سو تیرہ (۳۱۳) صحابیہ کے ساتھ مدینے سے نکلے.ایک بچہ عمیر بھی ضد کر کے شامل ہو گیا.اس فوج کے پاس کل ستر اونٹ اور دو گھوڑے تھے مسلمان ان پر باری باری سواری کرتے حتی کہ آپ کے پاس بھی الگ سواری نہ تھی اپنی باری پر گھوڑے پر بیٹھتے.جنگ کا دوسرا سامان بھی برائے نام تھا اپنی حفاظت کے لئے جو لوہے کا لباس یعنی زرہ پہنی جاتی ہے اس ساری فوج کے پاس صرف سات زرہیں تھیں.بیچہ.سامان اس لئے بھی کم لیا ہو گا کہ وہ تو صرف ایک قافلے کی روک تھام کے لئے نکلے تھے.ماں.اُن دنوں تھا ہی یہی کچھ.ہجرت کا دوسرا سال تھا خالی ہاتھ مدینے گئے تھے ابھی کاروبار جمے نہیں تھے سامان آتا کہاں سے ؟ آپ کا طریق

Page 27

۲۷ تھا کہ شہر چھوڑتے تو اپنے بعد کسی کو امیر مقرر فرماتے چنانچہ مدینے میں عبدالله بن أم كلثوم اور حضرت ابولیا یہ بن منذر کو اور قباء میں حضرت عاصم بن عدی کو امیر مقرر فرمایا.حضرت عثمان بن عفان ساتھ نہ جا سکے تھے کیونکہ ان کی بیگم حضرت رقیہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں بہت بیمار تھیں.آپ اپنی فوج کے ساتھ مقام بدر سے تھوڑے فاصلے پر تھے کہ خبر رسانوں نے قریش کے ایک بہت بڑے شکر کی آمد کی اطلاع دی.آپ نے صحابہ کرام کو مشورے کے لئے دوبارہ جمع کیا.مہاجرین میں سے حضرت مقداد نے بڑے جوش سے کہا " یا رسول اللہ ہم موسی کے احباب کی طرح نہیں کہ آپ کو یہ جواب دیں کہ تو اور تیرا خدا جا کہ لڑو ہم نہیں بیٹھے ہیں بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ آپ جہاں بھی چاہتے ہیں چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور ہم آپ کے دائیں اور بائیں اور آگے اور پیچھے لڑیں گے.آپ نے یہ تقریریشنی تو آپ کا چہرہ خوشی سے تمتما نے (بخاری کتاب المغازی) لگا.بچہ.انصار میں سے کسی نے کوئی مشورہ دیا ؟ ماں.جی بچے انصار کی طرف سے حضرت سعد بن معاذ نے بڑے جذبے سے کہا یا رسول اللہ ! خدا کی قسم جب ہم آپ کو سچا سمجھ کہ آپ پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے اپنا ہاتھ آپ کے ہاتھ میں دے دیا ہے تو پھر آپ جہاں چاہیں چلیں ہم آپ کے ساتھ ہیں اور اُس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ ہمیں سمندر ہیں کو دھجانے

Page 28

PA کو کہیں گے تو ہم کو دجائیں گے اور ہم میں سے ایک فرد بھی پیچھے نہیں رہے گا اور آپ ہم کو انشاء اللہ لڑائی میں صابہ پائیں گے اور ہم سے دہ بات دیکھیں گے جو آپ کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرے گی." (ابن هشام ، ابن سعد) آپ بے حد خوش ہوئے اور فرمایا اللہ کا نام لے کہ آگے بڑھوا اور خوش ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ کفار کے ان دو گروہوں (یعنی شکر اور قافلہ) میں سے کسی ایک پر وہ ہم کو ضرور غلبہ دے گا اور خدا کی قسم میں گویا اس وقت وہ جگہیں دیکھ رہا ہوں جہاں دشمن کے آدمی قتل ہو ہو کہ گھریں گے.16.بچہ.صحابہ کرام کو کیسے پتہ چلا تھا کہ ان کا سامنا ایک شکر سے ہو گا.ماں.صحابہ کرام نے دیکھا کہ مکہ کے کچھ لوگ چشمہ سے پانی بھر رہے ہیں اُن میں سے ایک حبشی غلام کو پکڑ کر پوچھ گچھ کی تو اس نے سب کچھ تبا دیا.آپ اتنے ذہین تھے کہ تعداد کا اندازہ کرنے کے لئے پوچھا کہ شکر کے لئے روزانہ کتنے اونٹ ذبح ہوتے ہیں اُس نے بتایا دس اونٹ ذبح ہوتے ہیں.آپ نے صحابہ کرام کی طرف دیکھ کر فرمایا دشمن کی تعداد ایک ہزار معلوم ہوتی ہے.بچہ.کیا واقعی دشمن کی تعداد ایک ہزار تھی.ماں.جی ہاں ایک ہزار ہی مخفی اور وہ بھی مکہ کے بڑے بڑے خاندانوں کے بہادر جوان جن کے پاس سواری کے لئے سات سو اونٹ اور ایک سو

Page 29

۲۹ گھوڑے تھے.کافی تعداد میں نیزے تلواریں اور تیر کمان تھے اکثر نے زرہیں پہن رکھی تھیں.جب آپ کو علم ہوا کہ مکہ کے تقریباً سارے ہی بہا درست کر میں موجود ہیں تو بجائے گھبرانے کے آپ نے فرمایا : لومکہ نے تمہارے سامنے اپنے جگر گوشے نکال کر رکھ دیئے ہیں.قریش مکہ نے بدر کے مقام پر پہنچے کہ اپنے لئے اچھی جگہ ، جہاں پانی کے چشمے اور چراگاہیں تھیں منتخب کر لی مسلمان دیر سے پہنچے تھے اس لئے ڈھلوان کی طرف ریت کے ٹیلے پر پڑاؤ کرنا پڑا جہاں پانی اور گھاس موجود نہ تھی.اب اللہ تعالیٰ کی مدد دیکھو کہ رات بارش ہو گئی مسلمانوں نے حوض بنا کہ پانی جمع کہ لیا جبکہ کفار کی طرف کیچڑ ہو گیا جس سے پھسلن ہو گئی اور اُن کا پانی بھی گدلا ہو گیا.اسی بارش سے ریت قدرے بیٹھ گئی جس سے مسلمانوں کے پاؤں زمین میں دھنسنے سے بچ گئے.بچہ.سبحان اللہ ماں.رمضان کی سترہ تاریخ ہوگئی ( ۱۴ مارچ ۲۳ در صبح کھلے آسمان کے نیچے مسلمانوں نے فجر کی نماز پڑھی اور بہت دُعائیں کیں پھر آپ نے جہاد کے موضوع پر تقریر کی پھر جنگی ترتیب سے صفوں کو درست فرمایا.ہاں ایک بڑے مزے کا واقعہ ہوا.ایک صحابی جن کا نام سواد تفاصف سے کچھ آگے نکلے ہوئے تھے آپ تیر کے اشارے سے صفیں درست کردار ہے تھے.اتفاق سے تیر کی کڑی اُن کے سینے پر لگی سواد نے آپ

Page 30

۳۰ سے کہا " یا رسول اللہ آپ کو خدا تعالے نے حق وانصاف کے ساتھ بھیجا ہے مگر آپ نے مجھے ناحق تیر مارا ہے خدا کی قسم میں تو بدلہ لوں گا." آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سُن کہ اپنے سینے سے کپڑا ہٹا دیا اور فرمایا " اچھا سواد تم بھی تیر مار لو.“ بچہ.کیا مواد کو آپ سے پیار نہیں تھا بدلے کا کیوں سوچا.ماں.صحابہ تو آپ سے بے حد پیار کرتے تھے.آپ میں تو سہی سواد نے کیسے بدلہ لیا.آگے بڑھے اور آپ کے سینہ مبارک کو چوم کر کہا کہ دشمن سے مقابلہ ہے پتہ نہیں جینا ہے یا مرتا ہے میں نے سوچا شہادت سے پہلے آپ کے جسم مبارک کو اپنے جسم سے چھو جاؤں.دیکھا کتنا عشق تھا صحابہ کرام کو اپنے محبوب آقا سے ! آپ ابھی صفیں درست فرما رہے تھے کہ قریش کے لشکر کی پیش قدمی کی اطلاع ملی.قرآن پاک میں ان کا ذکر ہے.اسے مسلمانو ! تم ان کفار کی طرح مت بنو جو اپنے گھروں سے تکبر اور نمائش کا اظہار کرتے ہوئے نکلے تھے اور ان کی غرض یہ تھی کہ اللہ کے دین کے رستے میں جبری طور پر روکیں پیدا کریں مگر اللہ نے ان کی کارروائیوں کا محاصرہ کر کے انہیں خاب د خاسر کر دیا.(انفال : 4) اللہ پاک کی قدرت مسلمانوں کی مدد گار تھی مسلمانوں کو قریش اُن کی اصل تعداد سے کم نظر آرہے تھے جس کے نتیجے میں اُن کے حوصلے بلند ہوئے.جبکہ قریش کو مسلمانوں کی فوج دوگنی نظر آرہی تھی جس سے وہ مرعوب

Page 31

۳۱ ہو رہے تھے.انہوں نے اصل تعداد کھوجنے کے لئے ایک شخص عمیر کو بھیجا.اس نے مسلمانوں کی فوج کے گرد چکر کاٹا مسلمانوں کا جوش و جذبہ دیکھا اور جا کہ رپورٹ دی کہ مسلمان فوج میں سواریوں پر مونیں اور ہلاکتیں سوار ہیں اُس کی حالت دیکھ کر اور بیان سن کہ قریش کے حوصلے اتنے کم ہوئے کہ بعض نے واپس جانے کے مشورے دیئے مگر ابو جہل نے ڈٹے رہنے کا فیصلہ کیا.بچہ.ایسا لگتا ہے کہ اللہ پاک اُن کو گھیر کر لایا ہی سزا دلوانے کے لئے تھا اور وہ بھی ان کمزور مسلمانوں کے ہاتھوں جن کو مکہ سے نکالا تھا.ماں.آپ ٹھیک سمجھے ہیں اصل طاقت در تو خدا تعالیٰ کی ذات ہے مسلمان کون تھے ؟ وہی جو پہلے مشرک تھے بتوں کو پوجتے تھے.پیارے آقا کی آواز سن کر مشرک چھوڑ کہ ایک خدا اور ایک رسول کے ماننے والے نیک لوگ بن گئے اللہ تعالیٰ کا فضل اُن کے ساتھ تھا.کامیابی کے وعدے اُن کے ساتھ تھے مسلمانوں کو خدا تعالیٰ پر بھروسہ تھا اور کافروں کو سامان جنگ پر، خاندانی برتری پر اور تعداد کی کثرت پر غرور و ناز تھا.اب دیکھو کس طرح اللہ پاک نے ساتھ دیا اُس زمانے کے دستور کے مطابق عام حملے سے پہلے دونوں فوجوں کے مانے ہوئے بہادر سامنے آکر لڑتے تھے کافروں کی طرف سے عقبہ اپنے بھائی شیعہ اور بیٹے ولید کے ساتھ آگے بڑھا.آپ نے حضرت حمزہ ، حضرت علی اور حضرت عبیدہ کو آگے بڑھایا.کفار کے تینوں بہادر مارے گئے اب عام

Page 32

۳۲ حملہ ہوا تھا آپ اور حضرت ابو بکر سائبان میں جاکر دعا کرنے لگے دعا میں گڑ گڑا نے اور آہ وزاری کا عجیب عالم تھا آپ اللہ تعالیٰ سے فریاد کر رہے تھے." اسے میرے خدا اپنے وعدوں کو پورا کر.اے میرے مالک ! اگر مسلمانوں کی یہ جماعت آج اس میدان میں ہلاک ہوگئی تو دنیا میں تجھ کو پوجنے والا کوئی نہ رہے گا.“ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم توحید کے قیام کے لیے فکر مند تھے اور ادھر ابو جہل دعا کر رہا تھا." اسے خدا ! وہ فریق جس نے رشتوں کو توڑ رکھا ہے اور دین میں ایک بدعت پیدا کی ہے تو آج اسے اس میدان میں تباہ و برباد کر (ابن ہشام) اُسے ہمارے رب اگر محمد کا لایا ہوا دین سچا ہے تو آسمان سے ہم پر پتھروں کی بارش برسا یا کسی اور درد ناک عذاب سے نہیں تباہ و ، " برباد کر (بخاری و تفسیر سوره انفال) بچہ.اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے کی یہ دُعا تو پوری نہ ہوئی.البتہ ابوجہل نے جو یہ دعا کی ہمیں تباہ و برباد کر وہ پوری ہو گئی.ماں.جی ہاں ! اس بدبخت کی دعا پوری ہوئی.کیسے پوری ہوئی.اس کے لئے حضرت عبدالرحمن بن عوف کی ایک روایت بیان کرتی ہوں." جب عام جنگ شروع ہوئی تو میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی.مگر کیا دیکھتا ہوں کہ انصار کے دو نوجوان لڑکے میرے پہلو بہ پہلو کھڑے ہیں.انہیں دیکھ کر میرا دل کچھ بیٹھ سا گیا.کیونکہ ایسی جنگوں

Page 33

میں دائیں بائیں کے ساتھیوں پر لڑائی کا بہت انحصار ہوتا ہے اور وہی شخص اچھی طرح لڑسکتا ہے جس کے پہلو محفوظ ہوں میں اس خیال میں ہی تھا کہ ان لڑکوں میں سے ایک نے مجھ سے آہستہ سے پوچھا گویا کہ وہ دوسرے سے اپنی یہ بات مخفی رکھنا چاہتا ہے کہ چھا وہ ابو جہل کہاں ہے جو مکہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ دیا کرتا تھا.میں نے خدا سے عہد کیا ہوا ہے کہ میں اُسے قتل کروں گا یا قتل کرنے کی کوشش میں مارا جاؤں گا.میں نے ابھی اس کا جواب نہ دیا تھا کہ دوسری طرف سے دوسرے نے بھی اسی طرح آہستہ سے یہی سوال کیا.میں ان کی یہ جرات دیکھ کر حیران سا رہ گیا کیونکہ ابو جہل گویا سردار شکر تھا اور اُس کے چاروں طرف تجربہ کار سپاہی جمع تھے.میں نے اشارہ کر کے کہا کہ وہ ابو جہل ہے ، میرا اشارہ کر نا تھا کہ وہ دونوں بچے باز کی طرح جھوٹے اور دشمن کی صفیں کاٹتے ہوئے آنِ واحد میں وہاں پہنچ گئے اور اس تیزی سے وار کیا کہ ابو جہل اور اس کے ساتھی دیکھتے رہ گئے اور ابو جیل خاک پہ تھا.(سنجاری کتاب المغازی) ان دونوں بہادر بچوں کے نام معاذ اور معوذ تھے.ابو جہل کے بیٹے عکرمہ نے معاذ پر پیچھے سے تلوار کا وار کیا اُن کا بازو کٹ گیا مگر ساتھ لٹکا ہوا بازو لڑنے میں دشواری پیدا کر رہا تھا.معاذ نے اُسے زور سے کھینچ کمہ الگ کر کے پھر سے لڑنا شروع کر دیا (طبری) بچہ کتنے بہادر لڑکے تھے.کاش میں بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر البسا بہا در ہو جاؤں.

Page 34

۳۴ ماں.آمین.اللھم آمین.آگے یہ ہوا کہ بظاہر تو نہتے مسلمانوں اور متکبر کافروں کی جنگ جاری تھی مگر اصل جنگ سائبان کے نیچے دعاؤں سے لڑی جارہی تھی.آپؐ سجدے سے اُٹھے سورہ قمر کی ایک آیت آپ کی زبان پرتھی.سَيُهْزَمُ الْجَمْعُ وَيُوَتُونَ الدبر المرام کفار کات کو ضرور پسپا ہو گا اور پیٹھ دکھائے گا.آپ نے ریت اور کنکہ کی ایک سٹھی اُٹھائی اور کفار کی طرف پھینک دی (سورہ انفال) اور جوش کے ساتھ فرمایا شاھت الوُجُوه دشمنوں کے منہ بگڑ جائیں گئے.اس کے ساتھ ہی ریت و کنکر کی تیز آندھی آئی جس کا رخ کفار کی طرف تھا.ایسی مینگڈر مچی کہ تھوڑی دیر میں میدان صاف تھا مسلمانوں نے ستر کا فریکڑ کہ قیدی بنالئے اور ستر روسائے قریش جنگ میں مارے گئے تھے.قرآن پاک کا وعدہ وَيَقْطَعَ دَابِرَ الْكَافِرین کفار کی جڑ کاٹ دی جائے گی پورا ہو گیا.بچہ.میرا دل کہ رہا ہے زور سے نعرہ تکبیر اللہ اکبر کہوں.ماں.آپ اور بھی جوش سے نعرہ ماریں گے جب سنیں گے کہ مرتے مرتے ابو جیل نے پوچھا کہ میدان کس کے ہا تھ رہا تو اُسے جواب ملا.خدا اور اس کے رسول کے ہاتھ یہ آخری جملہ متھا جو اُس نے مرنے سے پہلے سُنا.آپ تین دن تک میدان بدر میں رہے.اپنے شہداء کو دفن کیا زخمیوں کی مرہم پٹی کی.

Page 35

۳۵ بچہ.اُس بچے عمیر کا کیا ہوا جو رو کر ضد کر کے شامل ہوا تھا.ماں.کل چودہ شہید ہونے والے مسلمانوں میں عمیر بھی شامل تھا.اسلام کا کم سن شہید - پدر سے مدینہ روانہ ہوتے وقت آپ نے حضرت زید بن حامہ شہ کو آگے آگے بھیجا تا کہ اہل مدینہ کو خوشخبری سنائیں.مدینہ میں حضرت زید کے پہنچنے سے پہلے حضرت رقیہ بنت رسول اللہ وفات پا چکی تھیں.فتح کی خبر نے غم زدہ دلوں کو کچھ ڈھارس دی.بچہ.آپ غمگین بھی ہوں گے خوش بھی ہوں گے.ماں.آپ تو ہر حال میں اللہ پاک کی رضا میں راضی رہتے تھے.اب میں آپ کو مسلمانوں کے قیدیوں سے سلوک کے بارے میں بتاتی ہوں.عرب میں اسلام سے پہلے جنگی قیدیوں کو قتل کر دیتے یا غلام بنا لیتے تھے مگر اسلام کی حسین تعلیم کے مطابق قیدیوں سے بہت اچھا سلوک کیا گیا جو قیدی اسلام قبول کر لیتے آزاد کر دیئے جاتے جو فدیہ ادا کرتے آزاد کر دیئے جاتے.جو غریب تھے انہیں بطور احسان آزاد کر دیا جاتا.جو لکھنا پڑھنا جانتے تھے ان کا فدیہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھانا مقرر ہوا.قیدیوں سے سلوک میں دو واقعات سینیئے.عباس آپ کے حقیقی چچا تھے مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ عام قیدیوں کی طرح بندھے ہوئے تھے اُن کے کر اپنے کی آواز سے آپ کو نیند نہیں آ رہی تھی.انصار کو معلوم ہوا تو عباس کے بندھن ڈھیلے کر دیئے.جب آپ کو اس بات کا علم ہوا تو عدل وانصاف

Page 36

قائم کرنے والے آقا نے اپنی تکلیف کا خیال نہ کیا اور فرمایا " بندھن ڈھیلے کرنے ہیں تو سب کے ڈھیلے کرو.چنانچہ سب کے بندھن ڈھیلے کر دیئے گئے.دوسرا واقعہ آپ کے داماد ابو العاص کا ہے وہ بھی جنگی قیدی تھے اُن کی آزادی کے لئے فدیہ میں حضرت زینب بنت رسول اللہ نے جو چیزیں بھیجیں اُن میں ایک ہار تھا جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی بیٹی کو جہیز میں دیا تھا.ہار دیکھ کہ آپ کو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ و گئیں اور آنکھوں میں آنسو آگئے آپ نے صحابہ سے فرمایا : اگر عنها بادا تم پسند کرو تو تین ان کا مال سے واپس کر دو یہ صحابہ کرام نے دورامال واپس کر دیا.بچہ.پھر ابو العاص تو آزاد نہ ہو سکے ہوں گے.ماں.ابو العاص کے لئے دوسرا اندیہ مقرر کیا گیا اور وہ یہ تھا کہ مکہ جاکر نیت رسول اللہ کو مدینہ بھیجوا دیں.وعدے کے مطابق انہوں نے حضرت زینب کو مدینہ بھیجوانے کا انتظام کیا مگر راستے ہی میں قریش مکہ انہیں واپس بھجوانے پر جھگڑا کرنے لگے حتی کہ ایک بدبخت نے زور سے نیزے کا دار کیا جس سے وہ زخمی ہو گئیں.اس زخم کے نتیجہ میں ہونے والی کمزوری سے وہ کچھ عرصے بعد وفات پاگئیں پھر ابو العاص بھی مسلمان ہو کہ مدینہ میں آگئے.بچہ.آپ کو کتنا صدمہ ہوا ہو گا.

Page 37

۳۷ ماں.اللہ پاک نے آپ کی خوشی کا سامان بھی کیا.آپ کو یاد ہے نبوت کے دسویں سال شوال کے مہینے میں حضرت عائشہ صدیقہ رض بنت حضرت ابو بکر صدیق رض سے آپ کا نکاح ہوا تھا.رخصتانہ نہیں ہوا تھا کیونکہ آپ کی عمر کم تھی.اب ہجرت کے دوسرے سال جبکہ آپ نے کی عمر بارہ سال ہو گئی تھی سیرت خاتم النبیین ص۲۴۵) مارچ اپریل میں شوال میں آپ کا رخصت نہ ہوا.کم عمری کی وجہ سے اپنی گھڑیاں بھی ساتھ لائیں.آپ کی محبت اور تربیت میں رہ کر غیر معمولی ذہانت کا ثبوت دیا یادداشت بہت تیز تھی.آپؐ سے جو احادیث روایت ہوئی ہیں اُن کی تعداد دو ہزار دو سو دس تک پہنچی ہے.آپ نے طویل عمر پائی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد قریباً اڑتالیس سال زندہ رہیں.۶۸ سال عمر پائی.آپؐ نے فرمایا تھا.آدھا دین عائشہ.سیکھو یا آپ عورتوں اور مردوں کو تعلیم دیتیں.بہت عبادت کرنے والی اور دوسروں کی خدمت کرنے والی خاتون تھیں.اللہ یاک عورتوں کو اُن کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.سے سب بچہ - اللهم آمين ماں.اب میں آپ کو ایک اور خوشی کی بات بتاؤں گی اسی سال ذوالج کے مہینے میں آپ کی لاڈلی بیٹی ، حضرت خدیجہ الکیرلی ضم کی نشانی ، حضرت فاطمتہ الزہرا کا رخصتانہ ہوا حضرت علی ہو نے زرہ بیچ کر شادی کے ه طبقات جلده ص ۵۳

Page 38

۳۸ اخراجات اور مہر کی رقم ادا کی اور جہیز میں اس شاہزادی کو ایک چادر ایک چھڑے کا گریلا جس کے اندر کھجور کے خشک پتے بھرے ہوئے تھے اور ایک مشکیزہ دیار نسائی بحوالہ تلخيص الصحاح كتاب النكاح ) جب رخصتی ہو گئی تو آپ اپنی بیٹی کے گھر تشریف لے گئے اور دعا کی: اے میرے اللہ تو ان دونوں کے باہمی تعلقات میں برکت دے اور ان کے ان تعلقات میں برکت دے جو دوسروں کے ساتھ قائم ہوں اور ان کی نسل میں برکت دے.(اصابہ ( اللہ پاک نے آپ کی دُعا.سنی.اور حضرت فاطمہ کی نسل سے آپ کی نسل قائم ہوئی.مسلمانوں میں جو سید کہلاتے ہیں انہیں کی نسل سے ہیں..بچہ.آپ کو حضرت فاطمہ سے بہت محبت تھی پھر شادی انتنی سادگی سے کیوں ہوئی.ماں.محبت کا تو یہ عالم تھا کہ جب حضرت فاطر یہ آپ کے پاس آتیں تو آپ بیٹی کے پیارے اور عزت کی خاطر کھڑے ہو جاتے.ان کا ہاتھ پکڑ کر چومتے اور اپنے پاس بٹھاتے جب آپ سفر پر جاتے تو سب سے آخر میں اُن سے ملنے تاکہ جدائی کا وقت کم سے کم ہو.اب رہی سادگی سے رخصت کرنے کی بات تو بچے جو حضرت فاطریہ کے والد تھے وہ اس دنیا میں تشریف ہی اس لئے لائے تھے کہ دنیا کی محبت کم کر کے اللہ تعالیٰ کی محبت دلوں میں قائم فرمائیں.دنیا دی ساز و سامان کی، آپ کے نزدیک اہمیت نہ تھی نہ وہ یہ چاہتے تھے کہ حضرت فاطمہ کے دل

Page 39

۳۹ میں اُن کی اہمیت ہو.آپ نے انکی ایسی تربیت فرمائی تھی کہ بڑائی چھڑائی کا تصور بھی نہیں تھا بلکہ ایک دقعہ ایک چور عورت کے ہاتھ کاٹنے کی سترا پر جب اُس کی سفارش آئی تو آپ نے فرمایا یہ اگر میری بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں ہاتھ کاٹنے میں اس کی رعایت نہ کرتا.“ نہ.“ بیچہ.اب مجھے خیال آرہا ہے کہ مکہ والے اپنے سرداروں کے مارے جانے کے بعد کم ہمت ہو کہ بیٹھ گئے ہوں گے.ماں.نہیں بچے ابھی ابو سفیان باقی تھا.اُس نے نجد کے وسطی علاقے کے دو قبیلوں بنو سلیم اور بنو غطفان کو ان بھیڑ کا یا کہ وہ بڑا لشکر جمع کر کے مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے نکلے.ابھی جنگ بدر سے واپس آئے چند دن ہی ہوئے تھے پھر بھی آپ فوراً صحابہ کرام کو ساتھ لے کمہ بٹا لمبا اور تکلیف دہ سفر کر کے نجد کے ایک مقام قرقرۃ الکدر پہنچے تو معلوم ہوا وہ ڈر کے مارے پہاڑوں میں چھپ کر بیٹھ گئے ہیں.اس کو غزوہ قرقرة الکد رکہتے ہیں.(شوال سره مطابق مارچ اپریل ۲۷) بچہ.ابو سفیان کو یہ سمجھ نہ آئی کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے ساتھ ہے وہ ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا.ماں.یہی تو اس کی بدقسمتی تھی اب دیکھو وہ پھر دو ستوسلح افراد لے کر مکہ سے نکلا.اپنے شکر کو کچھ فاصلے پر چھوڑ کر بزدلوں کی طرح رات کی تاریکی ہیں مسلمانوں سے معاہدہ کرنے والے یہودی قبائل سے ملاقات کی.ان سے شہر کے کچھ کمزور حصوں کے متعلق معلومات لیں اور وہاں سے گھس کر

Page 40

دو مسلمانوں کو قتل کر دیا.کھجور کے درختوں کو آگ لگا دی کچھ جھونپڑیاں جلا دیں مگر جب علم ہوا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کی ایک جماعت کے ساتھ پیچھا کرنے نکلے ہیں تو ایسا بھاگے ہیں کہ سامان بھی راستے میں پھینکتے گئے.ان کے پھینکے ہوئے سامان میں زیادہ تر ستو تھے جسے عربی میں سویق کہتے ہیں.اس لئے یہ غزوہ سویق کہلایا جو ذوالج سے میں پیش آیا.بچہ.ذوالج میں تو بڑی عید ہوتی ہے مسلمانوں نے عید کیسے منائی ؟ ماں.آپ کو عید خوب یا درمتی ہے.اس سال یعنی.اذوا الجھ میں مسلمانوں نے پہلی عید الاضحیہ منائی.عید کی نماز پڑھی.حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد میں جانور ذبح کئے.آپ نے عید کے سارے مسائل سکھائے.اس کے بعد ایک اور غزوہ ہوا.بچہ.یہ بھی آ کا واقعہ ہے ؟ ماں.اندازے سے سہ کے آخر کا واقعہ ہے.آپ کو بتایا تھا کہ مدینے کے یہودی قبائل بنو قینقاع، بنو نضیرا اور بنو قریظہ سے امن کا معاہدہ ہوا تھا مگر ان میں سے بنو قینقاع نے میدان بدر میں فتح اور اسلام کے پھیلتے ہوئے اثر سے حسد میں آکر اندر اندر فتنے پھیلانے شروع کر دیئے حتی کہ یہاں تک گستاخی کی کہ کہنے لگے بدر میں قریش کو ہرا کر خود کو کیا سمجھنے لگے ہیں.ہم سے لڑیں تو پتہ چلے کتنے بہادر ہیں.آپ نے اپنے

Page 41

۴۱ طریق کے مطابق انہیں سمجھانے کی کوشش کی مگر جب اندازہ ہو گیا کہ اُن پر تو جنگ کا بھوت سوار ہے تو صحابہ کرام کی ایک جماعت لے کر گئے وہ قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے.پندرہ دن کے بعد شکست تسلیم کرلی.اُن اُن کا قصور اتنا بڑا تھا کہ آپ نے انہیں اپنے بیوی بچوں اور جانوروں کے ساتھ مدینے سے نکل جانے کا حکم دیا.یہ سترا تو آپ نے دی اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ سزا ملی کہ اُن میں کوئی ایسی بیماری پھوٹ پڑی جس سے سارا قبیلہ ہی ختم ہو گیا (زرقانی جلد ا ص ۲۵) اس سال کے آخر میں آپ نے مسلمانوں کے لئے ایک قبرستان جنت البقیع کے نام سے تجویز فرمایا جس میں سب سے پہلے دفن ہونے والے حضرت عثمان بن مظعون تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن سے اتنا پیار تھا کہ کبھی کبھی جنت البقیع جاکر ان کے لئے دعا کیا کرتے تھے (اسد الغابہ) تا بینا تھے آپ نے ایک دفعہ اپنے بعد انہیں مدینے میں امیر بھی مقرر فرمایا تھا.ماں.بالکل ٹھیک.بنو قینقاع کی طرح دوسرے قبائل بھی اسلام اور بائی اسلام کے خلاف منصوبوں میں مصروف رہتے چنانچہ بنو غطفان کے بعض قبائل جون جولائی میں نجد کے مقام ذی امر میں مدینہ پر حملہ کی بہت سے جمع ہوئے.آپ کو علم ہوا تو ساڑھے چار سو صحابہ کرام کی فوج لے کہ محرم کے آخر یا صفر کے شروع میں مدینے سے ذی امر تشریف لے گئے مگر شرپسند پہاڑیوں میں چھپ گئے اس طرح خطرہ ٹل گیا.

Page 42

۴۴ بچہ.ایسا لگتا ہے باقی قبیلے کچھ ڈر گئے ہوں گے.ماں.ڈرتے تو ضرور تھے مگر حسد اور مکہ والوں کے اُکسانے پہ ہر وقت فساد پر تیار رہتے.ان کا ذکرہ تو رہے گا ہی پہلے میں آپ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت اُم کلثوم کی شادی کے متعلق بتا دوں جو ربیع الاول س میں ہوئی.آپ کو یاد ہو گا ہجرت کے بعد حضرت رقیہ نسبت رسول الله فوت ہو گئی تھیں جو حضرت عثمان کی بیوی تھیں.آپؐ نے حضرت عثمان سے اپنی دوسری بیٹی ام کلثوم کی شادی کر دی.اس لئے حضرت عثمان کو ذوالنورین العینی دو نوروں والا) بھی کہتے ہیں.حضرت ام کلثوم کے کوئی بچہ نہیں ہوا جبکہ ان کی بہن حضرت رقیہ سے ایک بیٹا پیدا ہوا تھا جو چھ سال زندہ رہا.بچھ ، مقابلوں اور جنگوں کے حالات سن کر بھی اچھا لگتا ہے مگر جب مسلمانوں کے عام رہن سہن اور پیارے آقا کی صبح وشام کی باتیں بتاتی ہیں تو بڑا لطف آتا ہے.ماں.اُن دنوں صبح و شام نہیں تھے صحرائے عرب کی شدید گرمی میں بھی چین نہیں لے سکتے تھے کبھی کہیں سے فوجی اجتماع اور تیاریوں کی خبر آجاتی کبھی کہیں سے اندرونی بیرونی خطرے، خفیہ سازشیں اور شرارتیں ہر وقت چوکس و بیدار رہنے کا تقاضا کر نہیں.جمادی الاخر میں بھی قریش مکہ کے ایک قافلے کے سجدی راستوں سے گذرنے کا خطرہ تھا جن کی روک تھام کے لئے حضرت زید بن حارثہ کو بھیجا دونوں کا قردہ کے مقام پر سامنا ہوا.

Page 43

۴۳ انہوں نے ایسی حکمت عملی سے کام لیا کہ وہ بھاری ساز و سامان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے مزے کی بات یہ کہ اُن میں ابو سفیان اور صفوان بن امیہ جیسے بہادری کے دعوے کرنے والے رئیس بھی تھے.اب سنو عام رہن سہن کا واقعہ ، حضرت عمر رض کی ایک بیٹی تھیں حفصہ ابھی نہیں سال کی تحقیں کہ اُن کے شوہر کا انتقال ہو گیا.کچھ عرصے کے بعد حضرت عمر رض نے سوچا کہ حفظہ کی دوسری شادی کر دینی چاہئیے.حضرت عثمان کے پاس گئے اور کہا کہ میری بیٹی بیوہ ہو گئی ہے آپ پسند کریں تو اُس سے شادی کر لیں مگر حضرت عثمان خاموش رہے.پھر ہیں بات حضرت عمر رض نے حضرت ابو بکر رض سے کہی حضرت ابو بکر رض بھی خاموش رہے.حضرت عمریضہ کو بڑا ملال ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور سارا ما حجر اسنا دیا.آپ نے فرمایا عمرا کچھ فکر نہ کر خدا کو منظور ہوا تو حفصہ کو عثمان سے بہتر شوہر اور عثمان کو حفصہ سے بہتر بیوی ملے د زرقانی حالات حفصه) گی.اب آپ سوچیں کہ عثمان و ابو بکر رض سے بہتر کون تھا.بچہ.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ماں.جی ہاں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی حضرت حفصہ رضو سے ہوئی اور حضرت عثمان نے کو حضرت ام کلثوم جیسی بیوی مل گئیں.آپ سے حضرت حفصہ کی شادی شعبان کہ ہجری میں ہوئی اتر جنوری فروری لے صحیح بخاری جلد ۲ ص ۲۹

Page 44

۴۴ (۳) حضرت حفصہ کی عمر اس وقت اکیس سال تھی.وہ لکھنا پڑھنا جانتی تھیں وہ تریسٹھ سال کی عمر میں شکہ ہجری میں فوت ہوئیں.اب آپ کو ایک خوشی کی خبر سناتی ہوں.۵ار رمضان سہ کو حضرت فاطمر اور حضرت علی کو اللہ پاک نے چاند سا بیٹا دیا بچے کی شکل بالکل اپنے نانا سے ملتی تھی.نانا جان نے بچے کا نام حسن رکھا یہ لاڈلا بچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں کھیلتا رہتا آپ نماز میں ہوتے تو حسن بنی آپ سے لپٹ جاتے.رکوع میں ہوتے تو آپ کی ٹانگوں میں سے راستہ بنا کر نکل جاتے کئی دفعہ آپؐ فرماتے "خدایا مجھے ان بچوں سے محبت ہے تو بھی ان سے محبت کر اور ان سے محبت کرنے والوں سے محبت کر اچھا اب آپ ایک بات خوب سوچ کہ بتائیں کہ جنگ بدر میں مسلمانوں کی فتح میں کس کس بات نے مدد کی.بچہ.سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ نے احسان کیا ، آپ کی دعائیں سنیں.دوسرے آپ کی چوکسی اور بیداری نے ، آپ پارٹیاں بھیجا کرتے تھے جس سے آپ ہر وقت حالات سے باخبر رہتے اور صحیح وقت پر کارروائی کرتے.ماں.بالکل ٹھیک آپ نے بہت اچھا نتیجہ نکالا.اب جو بات میں آپ کو بتاؤں گی اس سے بھی آپ کی جنگی حکمت عملی اور محتاط طبیعت کا اندازہ ہوگا.مکہ اور مدینہ میں تین دن کے تیز رفتار سفر کا فاصلہ تھا.مدینے میں بیٹھے بیٹھے وہاں کے حالات کا اندازہ نہیں ہو سکتا تھا.آپ نے اپنے چچا حضرت عباس کو مسلمان ہو جانے کے بعد مکہ ہی میں ٹھہرنے کی تاکید کہ

Page 45

۴۵ رکھی تھی تاکہ وہ حالات پر نظر رکھیں حضرت عباس کو علم ہوا کہ قریش مکہ نے تجارتی قافلوں سے کہا یا ہوا سرمایہ جو پچاس ہزار دینار کے مطابق تھا نکالا ہے اور اس سے زور شور سے جنگ کی تیاریاں شروع کر دی ہیں تو حضرت عباس نے قبیلہ بنو غفار کے ایک تیز رفتار سوار کو بڑے انعام کا وعدہ دے کہ ایک خط آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچانے کے لیے بھیجا جب یہ قاصد مدینہ پہنچا.آپ قباء میں تشریف فرما تھے وہیں یہ خط ملا.کھول کر دیکھا تو علم ہوا کہ قریش مکہ بہت بڑاش کر لے کہ مدینہ پر حملہ کرنے والے ہیں.بچہ.مدینے میں بھی جنگ کی تیاریاں شروع ہو گئیں ؟ ماں.جی ہاں ! سب سے پہلے تو مدینے میں مسلمانوں کی مردم شماری کرائی گئی جس سے پتہ چلا کہ کل مسلمانوں کی تعداد پندرہ سو ہے جبکہ کفار کے لشکر میں تین ہزار بہادر جوان شامل تھے جن کا تعلق صرف مکہ سے نہیں تھا بلکہ ارد گرد کے قبائل سے بھی فوجی جمع کئے.ان تین ہزارہیں سات سو زرہ پوش تھے ، دو سو گھوڑے اور تین ہزار اونٹ تھے.وہ اپنی بعض خواتین کو بھی ساتھ لائے تھے جو جنگ پر اُکسانے کے لئے گانے بجانے کا سامان ساتھ لائی تھیں.یہ شکر دس گیارہ دن سفر کر کے مدینے کے پاس تین میل کے فاصلے پر اُحد پہاڑی کے پاس ٹھہر گیا اور ایک سر سبز چراگاہ عریض کو تباہ کر دیا.عریض پر حملے نے اُن کے خونی ارادوں کو بالکل ظاہر کہ دیا.آپ نے جمعہ کے دن صبح ہی صبح مسلمانوں کو جمع کر کے مشورہ چاہا اور اپنا

Page 46

ایک خواب بھی سنایا.بچہ.مجھے بھی آپ کا خواب سنائیے.ماں.آپ نے فرمایا.آج رات میں نے خواب میں ایک گائے دیکھی ہے اور نیز میں نے دیکھا کہ میری تلوار کا سر ٹوٹ گیا ہے.اور پھر میں نے دیکھا کہ وہ گائے ذبح کی جارہی ہے.اور میں نے دیکھا کہ میں نے اپنا ہاتھ ایک محفوظ اور مضبوط زرہ کے اندر ڈالا ہے.میں نے دیکھا ہے کہ ایک مینڈھا ہے جس کی پیٹھ پر میں سوار ہوں.اس کی تعبیر آپ نے یوں بیان فرمائی ہے کہ گائے کے ذبح ہونے سے تو میں یہ سمجھتا ہوں کہ میرے صحابہ میں سے بعض کا شہید ہونا مراد ہے اور میری تلوار کے کنارے کے ٹوٹنے سے میرے عزیزوں میں سے کسی کی شہادت کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے یا خود مجھے اس مہم میں کوئی تکلیف پہنچے گی اور زرہ کے اندر ہاتھ ڈالنے سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس حملے کے مقابلہ کے لئے ہما را مدینہ کے اندر ٹھہرنا زیادہ مناسب ہے اور مینڈھے سے آپ نے شکر کفار کا سردار یعنی علم بردار مراد لیا جوانت و اللہ مسلمانوں کے ہاتھوں مارا جائے گا.( تهرقانی و ابن سعد) بچہ.اس خواب سے تو یہی لگتا ہے کہ مدینے میں ٹھہر کہ مقابلہ کیا ہوگا.ماں ، خواب کی تعبیر یہی تھی اور بڑے بڑے صحابہ نے بھی یہی مشورہ دیا تھا مگر وہ صحابہ جو جنگ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے اور وہ نوجوان جو جذبہ جہاد سے بے تاب ہو رہے تھے بے حد اصرار کرنے لگے کہ مدینہ

Page 47

سے باہر نکل کر کھلے میدان میں مقابلہ کیا جائے.اتنا جوش و جذبہ دیکھ کر آپ نے ان کی بات مان لی اور جمعہ کی نماز کے بعد مسلمانوں میں عام تحریک کی کہ ثواب حاصل کرنے کے لئے اس غزوہ میں شریک ہوں پھر آپ اپنے گھر تشریف لے گئے جہاں حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی مدد سے آپ نے عمامہ باندھا اور لباس پہنا اور پھر دوسری زرہ اور خود پہنی اور مہتھیار لگائے ہوئے باہر تشریف لائے لیکن اس دوران بعض بزرگوں نے سمجھایا کہ ہمیں رسول اللہ کی رائے کے بعد اپنی رائے پر اصرار نہیں کرنا چاہیئے تھا.اس کا اظہار ندامت کے ساتھ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بھی کیا گیا.آپ نے فرمایا " خدا کے نبی کی شان سے بعید ہے کہ وہ ہتھیار لگا کر پھر اُسے اتار دے قبل اس کے کہ خدا کوئی فیصلہ کرے.“ بخاری کتاب الاعتصام بالکتاب باب امرهم شوری) بچہ.اُس وقت اُن کا کوئی جھنڈا بھی تھا.مال.آپ نے تین جھنڈے تیار کہ دائے.قبیلہ اوس کا جھنڈا حضرت سید بین الحضیر کے سپرد کیا گیا.قبیلہ خزرج کا جھنڈا حضرت جاب بن منذر کے....ہاتھ میں دیا گیا.مہاجرین کا جھنڈا حضرت علی کو دیا گیا.آپؐ کا یہ دستور تھا کہ آپ لازماً اپنے بعد مدینے میں امیر مقرر فرما کہ جاتے اس دفعہ حضرت عبد الله بن ام کلثوم کو امیر مقر فرمایا اور نماز عصر کے بعد مدینہ سے باہر تشریف لائے.احمد کا پہاڑ مدینہ سے شمال کی طرف

Page 48

۴۸ قریباً تین میل کے فاصلے پر ہے.اس کے نصف میں پہنچ کر شیخین کے مقام پر آپ نے قیام فرمایا وہاں لشکر اسلامی کا معائنہ فرمایا کم عمر بچوں کو واپس بھیج دیا.بچہ.اس دفعہ کسی بچے نے ضد نہیں کی ؟ ماں.اس دفعہ ایک بچے رافع ، جو تیر اندازی کا بہت ماہر تھا ، کے والد نے سفارش کی کہ انہیں ساتھ لے جائیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آنکھ اُٹھا کر دیکھا تو رافع خوب پستی سے تن کر کھڑے ہو گئے ان کو ساتھ چلنے کی اجازت مل گئی.اس پر ایک اور بچے سمرہ بن جندب نے اپنے ابو سے کہا کہ رافع کو اجازت مل گئی تو مجھے کیوں نہیں مل سکتی.میں تو رافع کو کشتی میں ہرا سکتا ہوں.اُس کے ابو نے ساری بات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی تو آپ نے فرمایا اچھا رافع اور سمرہ کی کشتی کی اؤ تاکہ معلوم ہو کہ کون زیادہ مضبوط ہے.مقابلہ ہوا تو سمرو نے رافع کو اٹھا کے پینے دیا.اس پر سمرہ کو بھی ساتھ چلنے کی اجازت مل گئی (ابن ہشام وطبری) مسلمانوں نے رات وہیں بسر کی آپ نے محمد بن سلمہ کو پچاس صحابیہ کے ساتھ لشکر اسلامی کے ارد گر دہرہ دینے کی ڈیوٹی دی (ابن سعد) دوسرے دن سحری کے وقت شکرنے کوچ کیا.راستے میں فجر کی نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ کے حضور خوب دعائیں کیں صبح ہوتے ہی یہ شکر احد کے دامن میں پہنچ گیا.اس موقع پہ عبد اللہ بن اُبی بن سلول نے

Page 49

3 ۴۹ غداری کی وہ شروع سے ہی منافق تھا.منہ سے کہتا تھا میں مسلمان ہوں مگر دل میں مسلمانوں سے نفرت تھی.ایسے وقت میں جبکہ جنگ ہونے والی تھی سپاہیوں کی بے حد ضرورت تھی وہ اپنے تین سو سا تھیوں کے ساتھ واپس چلا گیا.اب مسلمانوں کی تعداد صرف سات سو رہ گئی.ایک سو زرہ پوش اور صرف دو گھوڑے تھے.بچہ.اور کفار کا لشکر تین ہزار فوجیوں پرمشتمل تھا جن میں سات سو زرہ پوش سپاہی دو سو گھوڑے، تین ہزار اونٹ اور بے شمار سامانِ جنگ تھا.یہ تو کوئی مقابلہ ہی نہ ہوا.ماں.مسلمانوں کے ساتھ اللہ پاک کی مدد تھی.اس وقت ہم یہ بھی تو اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان کو اللہ پاک اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیسا پیار تھا.اور وہ کتنے صابر اور توکل کرنے والے تھے.دین کی خاطر اپنی جان کی بالکل پرواہ نہ تھی.یہ اُن کے ایمان کو ناپنے کا پیمانہ بھی ہے.منافق واپس چلے گئے تو بعض اصحاب گھبرائے مگر زیادہ تر پکے ارادے کے ساتھ بظاہر موت کے منہ میں جانے کے لئے تیار تھے جہاں اللہ اور اُس کا رسول نے جائے وہیں زندگی ہے وہیں موت ہے.اب میں آپ کو جنگی پوزیشن کے متعلق بتاؤں گی.بعد کے حالات کو سمجھنے کے لئے یہ پوزیشن ذہن میں رکھنا ضروری ہے.اُحد کی پہاڑی مدینہ سے تین میل شمال کو تھی آپ نے فوج کو اس طرح کھڑا کیا کہ فوج کی پشت اُحد کی طرف اور منہ مدینہ کی طرف تھا.اس طرح آپ اس خطرے سے

Page 50

محفوظ رہنا چاہتے تھے کہ پیچھے سے کوئی حملہ کرے.اُس پہاڑی میں ایک درہ سا تھا.اُس طرف سے خطرہ ہو سکتا تھا.آپؐ نے حضرت عبداللہ بن جبیر کی سرداری میں پچاس تیرانداز صحابی درے کی حفاظت کے لئے مقرر فرمائے اور انہیں تاکید کی ” دیکھو یہ درہ کسی صورت میں خالی نہ رہے حتی کہ اگر تم دیکھ لو کہ ہمیں فتح ہو گئی ہے اور دشمن شکست کھا کے بھاگ گیا ہے تو پھر بھی تم اس جگہ کو نہ چھوڑنا اور اگر تم دیکھو کہ پرندے ہمارا گوشت نوچ رہے ہیں تو پھر بھی تم یہاں سے نہ ہٹنا حتی کہ تمہیں یہاں سے ہٹ آنے کا حکم ہو.“ بخاری کتاب الجهاد باب ما يكره من التنازع ) اس حکم کے ساتھ آپ کو پشت کی طرف سے اطمینان ہو گیا.قریش کے شکر نے اس طرح صف بندی کی کہ ابوسفیان سپہ سالار تھا.فوج کے دائیں حصے کا سردار خالد بن ولید، بائیں طرف عکرمہ بن ابوجہل تھا.تیراندازوں کا سالار عبد اللہ بن ربیعہ تھا اور عورتیں مجھے دف بجا بجا کہ شعر گا گا کہ مردوں کو جوش دلا رہی تھیں.بچہ.یہ مقابلہ بھی پہلے ایک ایک بہادر سے شروع ہوا.ماں.جی ہاں قریش مکہ کی طرف سے ابو عامر بڑے تکبر سے آگے بڑھا مسلمانوں نے ایسے پتھر پہ سائے کہ وہ اور اس کے ساتھی بدحواس ہو کر بھاگ کھڑے ہوئے.اُن کی بنہ ولی کو دیکھ کر کفار کے لشکر میں سے طلحہ دندناتا ہوا آگے آیا.حضرت علیؓ نے دو چار ہا تھ تلوار کے ایسے مارے کہ کاٹ

Page 51

۵۱ کر رکھ دیا.پھر طلحہ کا بھائی عثمان للکارتا ہوا آیا.حضرت حمزہ مقابلے پر نکلے اور جاتے ہی اسے مار گرایا.اپنے سالاروں کی درگت دیکھ کر کفارے عام دھاوا بول دیا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تلوار ہاتھ میں لے کرہ فرمایا " کوئی ہے جو اس کا حق ادا کرے.حضرت ابو بکررض ، حضرت عمر رض ، حضرت زبیر اور حضرت علی کے علاوہ بھی بہت سے اصحاب نے ہاتھ آگے بڑھائے مگر آپ نے اپنی تلوار ابو دجانہ انصاری کو عطا فرمائی حضرت زبیر کے دل میں حسرت آئی اور سوچا میں دیکھوں گا ابو دجانہ اس تلوار کا حق کیسے ادا کرتے ہیں.جنگ میں ابو دجانہ کے ساتھ ساتھ رہے اور دیکھا کہ ابودجانہ جدھر جاتے ہیں گویا موت بکھیرتے جاتے ہیں لبوں پر حمد کے ترانے ہیں.ایک دفعہ کافروں کے لشکر میں آگے سے گھس کر تلوار کے جوہر دکھاتے ہوئے پیچھے پہنچ گئے جتنی کہ اُن کے سامنے ہند زوجہ ابوسفیان آگئی.ابودجانہ رض نے تلوار اٹھائی مگر پھر نیچے کر لی حضرت زبیر نے پوچھا کہ آپ نے تلوار نیچے کیوں کر لی.آپ نے بتایا کہ میرا دل اس بات پر تیار نہیں ہوا کہ رسول اللہ کی تلوار ایک عورت پر چلاؤں ، تب حضرت زہیر کو سمجھ آئی کہ رسول اللہ کی تلوار کا جو حق ابو دجانہ نے ادا کیا ہے شاید میں نہ کر سکتا.بچہ.کتنا عجیب واقعہ ہے.تلوار ہا تھ میں ہو دشمن سامنے ہو مارنے کی طاقت بھی ہو پھر بھی خود کو روک لینا بڑی بات ہے.ماں.جب انسان کے دل میں خدا کا پیار اور خدا کا خوف ہو اور وہ ہر حرکت

Page 52

۵۲ خدا کی خوشنودی کے لئے کرنے کا عہد کرے تو خدا تعالیٰ یہ ہمت عطا فرماتا ہے.یہی طاقت تو کمزور مسلمانوں کو اپنے سے چار گنا دشمن کے سامنے لے آئی تھی.آپ کو یہ سُن کر اللہ تعالیٰ کی خاص مدد پر زیادہ یقین آئے گا کہ قریش کے قومی جھنڈے کو فخر سے اُٹھانے والے کو آدمی ایک کے بعد ایک قتل ہوتے گئے.آخر طلحہ کے ایک بہادر حبشی غلام صواب نے جھنڈا ہاتھ میں لیا مگر ایک مسلمان نے ایک ہی وار میں اس کے ہاتھ کاٹ دیئے جس سے جھنڈا زمین پر آ گیا.صواب نے جھنڈے کو اپنی چھاتی سے لگا کہ بلند کرنے کی کوشش کی مگر پھر ایک مسلمان نے زور کا وار کیا جس سے صواب وہیں ڈھیر ہو گیا اُس کے بعد قریش میں سے کسی کو جھنڈا اٹھانے کی ہمت ہی نہ ہوئی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ نعرہ تکبیر لگا کر زور سے حملہ کر یں مسلمانوں نے اس زور کا حملہ کیا کہ دشمن کی رہی سہی طاقت کو روندتے ہوئے وہ شکر کے دوسرے پار عورتوں تک پہنچ گئے.مکہ کے لشکر میں بھگدڑ مچ گئی.ذرا سی دیر میں سب بھاگ گئے.میدان خالی ہوا مسلمان مال غنیمت جمع کرنے لگے.بیچھ.اور وہ مسلمان جو درہ پر پہرہ دے رہے تھے.اُن کا کیا ہوا ؟ ماں.جب انہوں نے دیکھا کہ دشمن بھاگ گیا ہے فتح ہو گئی ہے مسلمان مالِ رض غنیمت جمع کر رہے ہیں.تو حضرت عبد اللہ بن جبیر کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم نے حکم پر عمل کر لیا اب اطمینان ہوگیا ہے ہمیں اجازت دیں کہ ہم بھی لشکر کے ساتھ شامل ہو جائیں حضرت عبداللہ بن جبیر نے آپ کا حکم

Page 53

۵۳ یاد دلایا مگر وہ نیچے اُتر آئے ہیں پانچ سات مسلمان اُن کے ساتھ رہ گئے.خالد بن ولید بڑا ہشیار سپاہی تھا.اس کو اندازہ ہو گیا کہ درہ خالی ہے اپنے چند ساتھیوں کو جمع کیا.اس کے ساتھ عکرمہ بن ابو جہل بھی بچے کھچے سپاہی نے کہ آگیا.عبد اللہ بن جبیر اور اُن کے ساتھیوں کو شہید کر دیا اور مال غنیمت جمع کرنے میں مصروف فتح کے خیال سے مسرور مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کر دیا.یہ جملہ اتنا اچانک تھا کہ مسلمان جلدی سے سنبھل نہ سکے پھر کفار نے یہ مشہور کر دیا کہ کفار نے سامنے سے بھی حملہ کر دیا ہے ایک عورت نے گرا ہوا جھنڈا اٹھا لیا جھنڈے کو دیکھ کر کفار پھر اکٹھے ہونے گے.ہر طرف سے گھیراؤ کی صورت نے گھبراہٹ پیدا کر دی.بعض مسلمان آپس میں ہی لڑنے لگے.ایک بے درد کا فر نے آپ کے چچا حضرت حمزہ کو بھی شہید کر دیا مسلمان عورتوں نے بڑی بہادری سے اپنے زخمیوں کو پانی پلایا.کاش درے والے اپنی جگہ نہ چھوڑتے مسلمانوں کو اتنا بڑا نقصان نہ اُٹھا نا پڑتا.فتح شکست میں بدل گئی ماں.یہ بات تو بالکل درست ہے کہ جو فرض سونپا جائے اُسے جان کی بازی لگا کر بھی پورا کرنا چاہئیے.دوسرے فتح شکست میں نہیں بدلی البتہ اس فتح کی بہت قیمت ادا کرنی پڑی.بہت سے صحابہ شہید اور زخمی ہوئے، فرش کے ایک سپاہی عبد اللہ بن قمیہ نے مسلمانوں کے علم بردار حضرت مصعیت بن عمیر پر حملہ کیا جس سے آپ کا دایاں ہا تھ کٹ گیا.حضرت مصعب نے

Page 54

۵۴ فوراً جھنڈا بائیں ہاتھ سے تھام لیا اور جب اُس نے بایاں ہاتھ بھی کاٹ دیا تو دونوں کٹے ہوئے ہاتھوں کو جوڑ کہ جھنڈا تھامنے کی کوشش کی اور جھنڈا سینے سے چھٹا لیا.ابن قمیہ نے پھر وار کر کے حضرت مصعب کو شہید کر دیا.جھنڈا تو کسی دوسرے مسلمان نے تھام لیا.مگر ابن قمیہ نے حضرت مصعب کے گرتے ہی شور مچا دیا کہ میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم) کو مار لیا ہے، مسلمان بہت بد دل ہوئے.تھوڑے سے تو بھاگ کہ مدینہ پہنچ گئے اور وہاں جا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی خیالی شہادت اور مسلمانوں کی شکست کی خبر سنائی ، مدینے کے لوگ اس خبر کے ساتھ جلد جلد دوڑتے ہوئے اُحد کے میدان جنگ میں پہنچے.کچھ مسلمان شکست کی تکلیف میں ایک طرف افسردہ ہو کہ بیٹھ گئے.ایک بڑا گہر وہ آپ کے ارد گرد جمع تھا اور بہادری سے دفاع کر رہا تھا.ان کے مقابل پر چاروں طرف لاتعداد کفار تھے جو پتھروں اور تیروں کی بارش کر رہے تھے ایسے مشکل وقت میں اگر چہ مسلمان آپ کی حفاظت کے لئے آپ کے گرد جمع ہو گئے.تاہم ایک شدید حملے میں ایک پتھر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک پر لگا جس سے آپ کا دانت مبارک ٹوٹ گیا اور ہونٹ زخمی ہو گیا (ابن ہشام) دوسرا پتھر آپ کی پیشانی مبارک پر لگا اور تیسرا آپ کے رخسار پر لگا جس سے آپ کے مغفر (ہیلمٹ کی طرح کا سر یہ پہننے کا خود) کی دو کڑیاں آپ کے رخسار مبارک میں چھے گئیں.اور آپ بہت زخمی ہو گئے.

Page 55

۵۵ بچہ.میری جان آپ پر قربان ہو صحابہ کا اس وقت کیا حال ہوا ہوگا.جب اپنے آقا کو زخمی دیکھا ہو گا.ماں.اگر میں آپ کو سب صحابہ کی قربانیاں تیاؤں تو آپ کو رشک آئے گا جن صحابہؓ نے آپ کو گھیرے میں لے رکھا تھا.پوری کوشش کر رہے تھے کہ ہر آنے والا پتھر اُن کو لگ جائے اور حضور محفوظ رہیں.ہر تیرا ان کو چیر جائے پر محبوب آتا بچ جائیں مسلمانوں نے جان پر کھیل کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی اور دشمنوں پر تیر بھی چلائے.حضرت ابوطلحہ من انصاری نے اتنے تیر بہ سائے کہ تین کمانیں ٹوٹ گئیں.اسی طرح حضرت سعد بن وقاص بھی آپ کی طرف آنے والے دار خود پر لے رہے تھے اور تیر بھی چلارہے تھے حضرت ابو دجانہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے جسم کو چھپانے کے لئے ایسے کھڑے رہے کہ ان کا جسم تیروں سے چھلنی ہو گیا مگر وہ اس لئے حرکت نہ کر تے تھے کہ کہیں کوئی تیر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ لگ جائے.کفار کا ریلہ اتنا شدید ہوتا کہ مٹھی بھر مسلمان بکھر جاتے.ایک دفعہ تو آپ کے ساتھ صرف دو آدمی رہ گئے حضرت زیادین سکن کی پارٹی نے پروانوں کی طرح اپنی جانیں آپ کی حفاظت میں نثار کر دیں.آپؐ نے فرمایا " زیاد کو اٹھا کہ میرے پاس لاؤ" لوگ زیاد کو اٹھا کر لائے وہ زخموں سے اس قدر چور تھے کہ اپنا سر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر رکھا اور جان دے دی.ابن قمیہ بڑی تیزی سے آگے بڑھا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر یا زور دار دار

Page 56

۵۶ کیا حضرت طلو نے نگے ہاتھ پر دار سہا اس کی تلوار حضرت ملوں کے ہاتھ کو کاٹتی ہوئی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو پر لگی.آپ چکرا کر گر گئے تو ابن قیمیتہ پھر زور سے چلایا " میں نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو مار لیا ہے.آپ کو تو حضرت علی اور حضرت طلحہ نے اوپر اُٹھا لیا اور مسلمانوں کو اطمینان گیا مگر کفار یہ مجھے کہ کام ختم ہو گیا.لڑائی کی طرف سے توجہ ہٹائی اور اس طرح یہ جنگ ختم ہوئی.آپ اپنے صحابہ کو لے کر اُحد پہاڑ پر چڑھ کہ ایک محفوظ درے میں پہنچ گئے.حضرت علی نے آپ کے زخم دھوئے.حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے بڑی مشکل سے اپنے دانتوں سے کھینچ کہ آپ کے رخسار مبارک سے مغفر کی کڑیاں نکالیں.اس کوشش میں ان کے دو دانت اکھڑ گئے.کتنے بڑے لوگ تھے اپنے نبی کو خون سے رنگ دیا مان.وہ تو بڑے تھے ہی مگر یہ دیکھیں کہ آپ کتنے اچھے تھے اس عالم میں بھی اگن کے لئے دعا کر رہے تھے.اسے میرے اللہ ! تو میری قوم کو معاف کمہ دے کیونکہ ان سے یہ قصور جہالت اور لاعلمی میں ہوا ہے.ا مسلم حالات أحد) حضرت فاطمتہ الزہر آ مد ینے سے اُحد پہنچیں اور اپنے ابا جان کو زخمی حالت میں دیکھ کہ فورا زخموں کو دھونا شروع کیا.خون بند ہی نہیں ہو رہا تھا.حضرت فاطمہ نفر نے ایک چٹائی جلا کہ اس کی راکھ آپ کے زخم پہ رکھ کر پٹی باندھی تو خون بند ہوا.( بخاری کتاب المغازی حالات أحد)

Page 57

۵۷ کفار بہت دیر تک مقتولین اور زخمیوں میں آپ کو تلاش کرتے رہے جب مایوس ہو گئے تو ابو سفیان اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ درے کے پاس آیا اور اونچی آواز میں پوچھا یہ مسلمانو ! کیا تم میں محمد صلی اللہ علیہ وستم ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے چپ رہنے کا ارشاد فرمایا.پھر ابوسفیان نے ابو بکر رض اور عمر رض کا پوچھا.آپؐ نے پھر اشارے سے چپ رہنے کا ارشاد فرمایا.کوئی جواب نہ پا کہ ابوسفیان نے نعرہ مارا.اُعْلُ هُبل ، یعنی اے سہیل تیری بلندی ہو.(سیل اُن کے بڑے ثبت کا نام تھا) اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں ثبت کا نام سن کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بے چین ہو گئے اور فرمایا ان کو جواب کیوں نہیں دیتے اللہ اعلى واحل یعنی بلندی اور بزرگی صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے.ابوسفیان نے کہا لَنَا الْعُوَى وَلا عُرى لكم ہمارے ساتھ عربی ہے اور تمہارے ساتھ کوئی مریمی نہیں (ایک اور ثبت کا نام ہے) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہو.الله مَوْلَنا وَلا مَولیٰ لکم.اللہ ہمارا مدد گار ہے اور تمہارے ساتھ کوئی مدد گار نہیں.جنگ اُحد ۲۳ ر ما مه چ ۲۵ مطابق شوال کو ہوئی.بچہ.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اُحد میں کب تک تشریف فرما نہ ہے.مدینہ والے تو بہت انتظار کر رہے ہوں گے.مال.وہاں ایسی ایسی خبریں گئی تھیں کہ صحیح حالات جاننے کے لئے شکر کی واپسی

Page 58

۵۸ کا بے چینی سے انتظار تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وتم در ے سے اُترے اپنے شہدا کو دفن کر دایا.۷۰ مسلمان شہید ہوئے تھے (بخاری حالات اُحد ) جبکہ کفار کی تئیس لاکش میں تھیں (ابن سعد) اس موقع پر آپ نے بہت سی اسلامی تعلیمات سکھائیں.شہداء کو دفن کرنے اور نماز جنازہ پڑھنے کا طریق سکھایا.پھر عرلوں کی ایک گندی رسم تھی کہ انتظام کے جوش میں مردوں کے ناک کان کاٹ لیتے تھے اس کو مثلہ کہتے تھے آپ نے فرمایا کہ مثلہ اسلام میں منع ہے.مرنے والوں پہ بین کرنا اور اونچی آواز میں بول بول کر رونا بھی منع فرمایا.آپ ہر رنگ میں ایک نیا اسلامی معاشرہ قائم فرمارہے تھے جس میں محبت، بھائی چارہ ، پیار، ایثار، قربانی ، احترام، عزت نفس کا دور دورہ تھا.نفرت، دشمنی ، انتقام کی آگ سے بچنے کی تعلیم تھی.شام کے وقت آپ نے واپسی کا سفر شروع کیا.ایک انصاری عورت بڑی گھبراہٹ میں مدینے سے اُحد کی طرف آرہی تھیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خیریت ہر ایک سے پوچھنتی تھیں کسی نے اُسے باپ کی بیٹے کی اور پھر بھائی کی شہادت کی خبر دی مگر وہ بے تاب ہو کہ آپ کا پوچھتی رہی.جب اُسے بنایا گیا کہ رسول اللہ خیریت سے تشریف لارہے ہیں تو اُس کے منہ سے بے ساختہ نکلا ، " اگر آپ زندہ ہیں تو سب مصیبتیں ہیچ ہیں “ (ترمذی وابن ماجه ) (طبری ۱۳۳۵) بچہ.کیسی محبت کر نے والی عورت تھی اور کتنا صبر تھا.ماں.صبر کے ایسے ایسے واقعات ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ انسان اتنا بھی صبر کہ

Page 59

۵۹ سکتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کی خاطر جان دینے کا ایسا شوق کہ حیرت ہوتی ہے.ایک واقعہ سنو انحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نوجوان کو والد کی شہادت پر مغموم کھڑے دیکھا تو فرمایا.تمہیں ایک خوشی کی خبر سناؤں.جب تمہارے والد شہید ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے اُن سے سامنے آکر بات کی اور فرمایا جو مانگنا چاہتے ہو مانگو.تمہارے باپ نے عرض کیا " اے میرے اللہ تیری کسی نعمت کی کمی نہیں ہے لیکن خواہش ہے کہ پھر دُنیا میں جاؤں اور تیرے دین کے راستے میں پھر جان دوں." خدا تعالیٰ نے فرمایا " ہم تمہاری اس خواہش کو بھی ضرور پورا کر دیتے لیکن ہم یہ عہد کر چکے ہیں کہ انهُمْ لَا يَرْجِعُونَ کوئی مردہ زندہ ہو کہ اس دنیا میں نہیں جاسکتا.جابر کے والد نے کہا " تو پھر میرے بھائیوں کو میری حالت کی اطلاع دے دی جاوے تاکہ ان کا جہاد کا شوق ترقی کرے.“ اس پر یہ آیت اتری کہ جو لوگ خدا کے رستے میں شہید ہوتے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھا کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے پاس خوشی کی زندگی گزار رہے ہیں.“ (تنه مندی و ابن ماجه بحوالہ زرقانی ) بچہ.کفار مکہ تو خود کو فاتح سمجھ رہے ہوں گے.ماں.فاتح تو سمجھ رہے تھے لیکن آپس میں زبر دست بحث بھی ہو رہی تھی کوئی کہہ رہا تھا حملے کا کیا فائدہ ہوا جب مسلمان کمز در نظر آرہے تھے تو مدینہ

Page 60

پر حملہ کیوں نہ کیا.کوئی کہہ رہا تھا تم نے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو قتل کیا نہ ان کا مال لوٹا اور سب کیا دھرا چھوڑ کر واپس آگئے.ان طعنوں اور جوش دلانے والی باتوں سے قریش پھر جمع ہوئے اور مدینہ کا رخ کیا.آپ بھی غافل نہیں تھے مسلمان ساری رات پہرہ دیتے رہے اور فجر سے پہلے مخبر نے اطلاع دی کہ کفار مکہ نے مدینے کا رُخ کیا ہے.چنانچہ آپ کسی حکمت کے تحت ، صرف مجاہدین احمد کو ساتھ لے کر آٹھ میل کا سفر کر کے حمراء الات پہنچے.بچہ.وہ تو تھکے ہوئے اور زخمی تھے.ماں.زخمی بھی تھے اور تھکے ہوئے بھی لیکن آپ نے اُن کے حوصلے بلند کرنے کے لئے انہیں کو ساتھ چلنے کے لیے ارشاد فرمایا اور وہ بڑے جوش و خروش سے نکلے شام گہری ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ مختلف جگہوں پر آگ روشن کر دی جائے.صحابہ نے تقریباً پانچ سو جگہ آگ روشن کم دی.ایک مشرک جس نے یہ نظارہ دیکھا جا کہ کفار مکہ کو بتایا کہ مسلمانوں کا بہت بڑا لشکر دیکھ کہ آیا ہوں اور اُن میں بے حد جوش ہے.ان باتوں کا ابوسفیان اور اس کے لشکر پر ایسا رعب پڑا کہ وہ واپس چلے گئے.آپ نے فرمایا." یہ خدا کا رعب ہے جو اُس نے کفار کے دلوں پر مسلط کر دیا ہے کر نہ زرقانی) بچہ اللہ پاک نے جنگ اُحد کے متعلق کچھ فرمایا ہے ؟ ماں.جی بچے.سورۃ آل عمران رکوع ۱۳ تا ۱۸ میں اس جنگ کے حالات پر

Page 61

예 روشنی ڈالی گئی ہے اور مسلمانوں کو آئندہ کے لئے ہدایتیں دی گئیں.اسی زمانے میں سورہ نساء کا وہ حصہ نازل ہوا جس میں فوت ہونے والے کی جائیداد کی تقسیم کا طریق بنایا گیا.اسلام سے پہلے جائیداد سے خواتین کو حقہ نہیں ملتا تھا.اسلام نے عورتوں کو اُن کا حق دلوایا.اُس زمانے کی ایک اور بُری بات کثرت سے شراب پینا تھی.سنہ ہجری کے آخر یا سنہ ہجری کے شروع میں خدائی وحی کے مطابق شراب حرام قرار دے دی گئی ہے آپ کو پتہ ہے شراب سے نشہ ہوتا ہے اور نشہ چھوڑنا بے حد شکل ہوتا ہے.یکدم چھوڑنا تو بہت ہی مشکل ہوتا ہے مگر مسلمان آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں اس قدر کہنا ماننے والے ہو گئے تھے کہ جب آپ نے مدینے کی گلیوں میں اعلان کر وایا کہ آج سے شراب حرام ہو گئی تو لوگوں نے شراب کے مشکے بہا دیئے.مدینے کی گلیوں میں شراب ہی شراب بہتی نظر آرہی تھی کسی نے یہ پتہ کرنے کی بھی کوشش نہیں کی کہ اعلان کرنے والا سچ کہہ رہا ہے یا جھوٹ بس شراب سے ہاتھ کھینچ لیا.بچہ کہنا ماننے کی عجیب مثال ہے.ہاں.در اصل صحابہ کرام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ اُن کے ہر فرمان پر دل و جان سے صل کرتے تھے تا کہ اللہ پاک کی خوشنودی حاصل ہو.جنگِ اُحد کے بعد مختلف قبائل نے جو پہلے لے (زرقانی حالات غزوہ احد)

Page 62

سے مسلمانوں سے خار کھانے بیٹھے تھے سراٹھانا شروع کیا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیدار مغربی اور ہوشیاری نے معاملات کو سنبھائے رکھا.جون جولائی آئندہ ماہ محرم سنہ ہجری میں قبائل عضل اور قارة کے چند لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ ہمارے قبائل میں بہت لوگ اسلام کی طرف مائل ہیں.آپ چند آدمی ہمارے ساتھ روانہ فرمائیں.آپ نے عاصم بن ثابت کی امارت میں دس صحابیوں کی پارٹی روانہ فرما دی.یہ دراصل بنو لجبان کی چال تھی.بہانے سے مسلمانوں کو بلایا تھا.رجیع کے مقام پر دوسو تیر اندازوں نے اس پارٹی کو گھیر لیا.صحابہ نے ہار ماننے کی بجائے ٹیلے پر چڑھے کہ جب تک دم میں دم تھا مقابلہ کیا.سات صحابہ شہید ہوئے تین کو قیدی بنا لیا گیا ان کے نام حبیب بن عدی ، زید این دشتہ اور عبد الله بن طارق تھے.ان قیدیوں کے ساتھ کیا سلوک کیا.ماں.خبیب بن عدی کو حارث بن عامر کے لڑکوں نے خرید لیا اور قید میں رکھا ہوا تھا.بخاری کتاب الجہاد و کتاب المغازی میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ حارث کی لٹرکی کا بیان ہے کہ میں نے ایک دفعہ خبیب کے ہاتھ میں انگور کا ایک خوشہ دیکھا جس سے وہ انگور توڑ توڑ کر کھا رہے تھے جبکہ انگوروں کا موسم نہیں تھا اور حبیب زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے یہ خدائی رزق تھا جو خبیب کے پاس آتا تھا.

Page 63

۶۳ ایک دن روسائے قریش خبیث کو کھلے میدان میں لے گئے تاکہ اُن کے قتل کا جشن منایا جائے.خبیث نے شہادت سے پہلے دو رکعت نفل ادا کئے اور پھر کچھ اشعار پڑھے جن کا مطلب ہے میں اسلام کی راہ میں اور مسلمان ہونے کی حالت میں قتل کیا جا رہا ہوں تو مجھے یہ پرواہ نہیں ہے کہ میں کسی پہلو پر گھروں.یہ سب کچھ خدا کے لئے ہے اور اگر میرا خدا چاہے گا تو میرے جسم کے پارہ پارہ ٹکڑوں پر برکات نازل فرمائے گا.اُن کے الفاظ ختم ہوتے ہی عقبہ بن حارث نے تلوار کا وار کیا اور حبیب اللہ کے حضور حاضر ہو گئے.بچہ.اور زیدین دشنہ ؟.ماں.ان کا واقعہ بھی بڑا سبق آموز ہے.جب ان کے قتل کا جشن منانے کے لئے روسائے قریش اکٹھے ہوئے تو ابو سفیان نے کہا.سچ کہو کیا تمہارا دل یہ نہیں چاہتا کہ اس وقت تمہاری جگہ ہمارے ہاتھوں میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم) ہوتا جسے ہم قتل کرتے اور تم بچ جاتے اور اپنے اہل وعیال کے ساتھ خوشی کے دن گزارتے ؟ زید کی آنکھوں میں خون اتنہ آیا اور وہ غصے سے بولے.ابوسفیان تم یہ کیا کہتے ہو خدا کی قسم میں تو یہ بھی نہیں پسند کرتا کہ میرے بچنے کے عوض میں رسول اللہ کے پاؤں میں ایک کانٹا تک چھے.ابو سفیان نے کہا.واللہ میں نے کسی شخص کو کسی شخص کے ساتھ ایسی محبت کرتے نہیں دیکھا جیسی کہ اصحاب محمد کو محمد سے ہے (ابن ہشام و ابن سعد).

Page 64

۶۴ تیسرے صحابی کو وہیں قید کے وقت قتل کر کے ڈال گئے تھے.بچہ.امی یہ کیسے بہادر لوگ تھے میں بھی اللہ پاک اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی محبت کروں گا.ماں.اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اُس نے آپ کے دل میں محبت کا جذبہ ڈال دیا.اللہ اپنے سے پیار کرنے والوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا.یہ زندگی تو عارضی ہے.مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ہمیشہ کی زندگی دے گا اور ہمیشہ کا اجر مجھی.یہ لوگ اس حقیقت کو سمجھ گئے تھے اس لئے اللہ کے رستے میں جان دنیا ان کے لیے آسان بلکہ خوشی کا باعث ہو گیا تھا.اب اللہ پاک کی اپنے پیاروں کی مدد کا ایک دلچسپ واقعہ سینیئے.قریش مکہ نے خاص طور پر کچھ لوگوں کو رجیع کی طرف روانہ کیا تا کہ وہ عاصم بن ثابت کے جسم کا کوئی حقیہ لے آئیں میں سے تسلی ہو اور جذبہ انتقام تسکین پائے.ناپاک لوگ وہاں پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ عاصم کے جسم پر زنبوروں اور شہد کی نرمکھیوں کے جھنڈ کے جھنڈ سایہ کئے ہوئے ہیں جن کی موجودگی میں وہ اپنے ہدارا دوں میں کامیاب نہ ہو سکے.اس کے بعد جلد ہی طوفانی بارش ہوئی جو عاصم کی لاش کو بہا کہ نامعلوم جگہ پر لے گئی.بچہ.اللہ تعالیٰ نے کہا اچھا کیا ورنہ ایک شہید کے جسم کو مشرک ہاتھ لگاتے.ماں.اللہ تعالیٰ کے سب کام پیارے ہوتے ہیں.اسی قسم کا ایک واقعہ اور بھی ہوا.عرب کے درمیان میں ایک شہر سجد ہے یہاں کے لوگ اسلام کے بہت خلاف تھے.اور یہ شہر ایک طرح مخالف قبائل کا گڑھ بن گیا

Page 65

40 تھا.یہاں کا ایک رئیس سردار ابو براء عامری آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ نجد کے لوگ اسلام کی طرف مائل ہیں اگر آپ کچھ علم روانہ فرما دیں تو سجدمیں کثرت سے اسلام پھیلنے کی توقع رض ہے.آپ نے صفر سنہ ہجری میں منذر بن عمرو انصاری کی امارت میں ستر افراد جو زیادہ تر انصاری اور قرآن کا علم جاننے والے عباد گزار اجاب تھے روانہ کئے.جب یہ لوگ اس جگہ پہنچے جو ایک کنوئیں کی وجہ سے بئر معونہ کہلاتی تھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچی کے طور پر حرام بن ملحان نے بنو عامر کو تبلیغ شروع کی تو انہیں پیچھے سے نیزہ مار کر شہید کر دیا گیا.شہادت کے وقت اُن کی زبان پر یہ الفاظ تھے.اللہ اکبر کعبہ کے رب کی قسم میں تو اپنی مراد پا گیا.“ (بخاری کتاب الجہاد) پھر سب قبائل نے حملہ کر کے ستر کے ستر مسلمانوں کو شہید کر دیا صرف د وافراد عمرو بن امیہ خمری اور کعب بن زید باقی بچے.پیچہ.آپ کو تو بہت دکھ ہوا ہو گا.ماں.آپ کو دونوں واقعات کی اطلاع تقریباً ایک ساتھ ملی (زرقانی) آپ کو واقعی بہت صدمہ ہوا جحتی کہ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ ایسا صدمہ نہ اس سے پہلے آپ کو کبھی ہوا تھا اور نہ کبھی بعد میں ہوار بخاری کتاب الجہاد) ہم کسی ایسے باپ کے صدمے کا اندازہ کر سکتے ہیں جس کو استی بیٹیوں کی وفات کی ایک ساتھ خبر ملے اور بیٹے بھی ایسے جو نیکی میں بے مثال اور قرآن پاک کے حافظ ہوں.

Page 66

بچہ.پھر آپ نے سنجد کے قبائل سے جنگ کی ؟ f ماں.نہیں آپ نے کوئی جنگی کارروائی نہیں کی البتہ اس خبر کے بعد برابر تنیس دن تک آپ نے ہر روز صبح کی نماز کے قیام میں نہایت عاجزی سے ان قبائل کا نام لے لے کہ دعا کی کہ اسے میرے آقا تو ہماری حالت پر رحم فرما اور دشمنان اسلام کے ہاتھ کو روک جو تیرے دین کو مٹانے کے لئے اس بے رحمی اور سنگ دلی کے ساتھ بے گناہ مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں.(سنجاری ابواب سیر معونہ روایت ابو طلحہ عن انس ) صرف مسجد کے قبائل ہی نہیں مدینے کے یہودی قبائل بھی باوجود معاہدے کے شرارتیں کرتے رہتے اور مسلمانوں کو تنگ کرنے کے منصوبے بناتے.بچہ.آپ نے بتایا تھا کہ بنو قینقاع کو مدینے سے نکال دیا تھا.ماں.ان کے بعد بنو نضیر کے خلاف فوج کشی کرنی پڑی.ان بد بختوں نے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی پر بھی حملہ کیا.آپ ایک مکان کے سائے میں دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے.ان لوگوں نے پروگرام بنایا کہ اُوپر سے ایک بڑا پتھر لڑھکا دیا جائے جیسے کہ اتفاق سے گرا ہے.ایک شخص بھاری پتھر لے کر اوپر چڑھ بھی گیا لیکن آپ کے دوست آپ کے والی اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے سے یہود کا منصوبہ بنا دیا.آپؐ وہاں سے تیزی سے اُٹھے اور مدینے آگئے.یہودیوں نے ایک اور کوشش کی اور وہ بہت خطر ناک تھی.اس دفعہ یہ منصوبہ بنایا کہ مذہبی مناظرے کی دعوت دی جائے.جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئیں تو

Page 67

46 یہودی علماء آپ پر حملہ کر دیں.اس دفعہ اس منصوبے کی اطلاع ایک عورت نے اپنے بھائی کو دی جس سے سارا منصوبہ گھل گیا اور آپ محفوظ رہے را این مرد و به بحوالہ زرقانی حالات بنو نصیر) اتنی سرکشی کی وجہ سے اُن کو سزا دینا ضروری ہو گیا.آپ فوج لے کہ آئے تو بنو نضیر قلعہ بند ہو کر بیٹھ گئے.پندرہ دن کی قلعہ بندی کے بعد آخر بنو نضیر نے ہار مان لی اور درخواست کی کہ ہمیں مدینے سے نکل جانے کی اجازت دی جائے.آپ نے تو کبھی بھی قتل و غارت نہیں چاہتی تھی اجازت مرحمت فرمائی اور وہ اپنے سارے ساز و سامان کے ساتھ بڑی دھوم دھام سے برات کی طرح گاتے بجاتے مدینے سے نکل گئے (طبری) قرآن پاک میں سورہ حشر میں اسی واقعے کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے.اللہ تعالیٰ بڑا پیارا ہے.اپنے پیاروں کی خود حفاظت فرماتا ہے.جب آپ پتھر والا واقعہ بیان کر رہی تھیں تو میں بے حد خوفزدہ تھا اور پھر خنجروں سے حملے سے بھی ڈرا.ماں.جس سے پیار ہوتا ہے اُس کی سلامتی کی فکر تو ہوتی ہے مگر اب ہمیں اللہ تعالیٰ کی رحمت پہ اتنا بھروسہ ہونا چاہیے کہ کبھی مایوس نہ ہوں سی کے واقعات میں آپ کی ایک شادی کا ذکر کروں گی.آپؐ کے ایک پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن جحش جنگِ اُحد میں شہید ہو گئے تھے.اُن کی بیوہ حضرت زینب بنت خزیمہ سے آپ نے نکاح کیا مگر چند ماہ بعد ہی آپ وفات پاگئیں.آپ بہت نیک اور پارسا بی بی تھیں.صدقہ و خیرات

Page 68

اور غریبوں سے ہمدردی کی وجہ سے مسکینوں کی ماں کے نام سے مشہور تھیں.اسی سال شعبان کے مہینے میں حضرت فاطمہ کے ہاں دوسرا بچہ پیدا ہوا.اس بچے کا نام آپ نے حسین رکھا.آپ دونوں بھائیوں حس مین اور حسین سے بے حد محبت کرتے ان کو دو پھول کہتے تھے.ابو سفیان نے یوم بدر کا بدلہ لینے کے لئے اگلے سال مقابلے کا چیلنج دیا تھا اس لئے آپ ذی قعد سنہ ہجری میں ڈیڑھ ہزار فوج لے کر بدر کے مقام پر تشریف لے گئے.اُدھر ابو سفیان مکہ سے دو ہزار فوج کے ساتھ روانہ ہوا.مگر اللہ پاک نے اُس کے دل پر الیا رعب ڈالا ہوا تھا کہ آدھے رستے سے واپس چلا گیا.بچہ.اس واقعے کا تاریخی نام کیا ہے.ماں.یہ غزوہ بدر الموعد کہلاتا ہے.اب آپ کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رشتہ داروں سے شفقت کا ایک واقعہ سناتی ہوں.حضرت ابو سلم بن عبد الاسد ایک مخلص صحابی تھے اور آپ کے دودھ شریک بھائی تھے.وہ قوت ہو گئے تو ان کے بچے اور عمر رسیدہ بوبی اُم سلمہ بے سہارا ہو گئے.حضرت ام سلمہ بے حد قابل ، پڑھی لکھی ، ذہین اور مخلص عورت تھیں مسلمان خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے بہت مناسب تمھیں.آپ نے شوال سنہ ہجری میں اُن سے نکاح کر لیا اور اُن کے بچوں کی کفالت فرمائی.حضرت ام سلیمہ نے لمبا عرصہ خدمت دین میں گذارا ۴ ۸ سال عمر پائی خواتین میں حضرت عائشہ کے بعد احادیث بیان کرنے میں دوسرا

Page 69

۶۹ نام اُن کا آتا ہے.بچہ.ہمارے آقا کو علم کی بے حد قدر تھی.ماں.جی ہاں آپ کے ایک صحابی حضرت زید بن ثابت تھے انہوں نے جنگ بدر کے قیدیوں سے عربی لکھنا پڑھنا سیکھا تھا اور آپ کی خط و کتابت کا کام کرتے تھے.عبرانی لکھنے اور سمجھنے کی بھی ضرورت تھی کیونکہ یہ یہودیوں کی زبان تھی خط و کتابت اور معاہدے وغیرہ لکھنے پڑتے تھے.آپ نے ارشاد فرمایا کہ عبرانی لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیں.اللہ پاک کا معجزہ دیکھئے کہ آپ کی خواہش پوری کرنے کے لئے حضرت زید بن ثابت نے صرف پندرہ دن میں عبرانی سیکھ لی.حضرت زیڈین ثابت کو یہ سعادت بھی ملی کہ آپ کے ارشاد کے مطابق سارا قرآن پاک تحریر کیا.ان کے علاوہ حضرت ابو بکر، حضرت عمرض ، حضرت عثمان ، حضرت علی زبیر بن العوام ، شرجیل بن حسنہ، عبدالله بن سعد بن ابی سرح ، أتي بن کعب ، عبداللہ بن رواحہ نے بھی قرآن پاک لکھنے کی سعادت حاصل کی.قرآن پاک آپ نے خود اللہ پاک کی بتائی ہوئی ترتیب سے لکھوایا.دیگر روایات کے مطابق قریباً چالیس صحابہ قرآن کریم لکھتے ہیں نمایاں تھے.سند کے آخر میں حضرت علی رض کی والدہ فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہو گیا.آپ کو بہت دُکھ ہوا کیونکہ اس مہربان خاتون نے آپ کو بہت محبت اور شفقت دی تھی آپ نے اپنی قمیض اتار کر انہیں پہنائی اور خود ان کی قبر میں اُترے اور سب انتظام خود کئے اور دعا کی :-

Page 70

6.خدا تعالیٰ تمہیں میری طرف سے میری ایک بہت اچھی ماں بننے کی بہترین جزا دے تم حقیقتاً ایک نہایت اچھی ماں تھیں.(تاریخ الخمیس جلد ا ص ۵۲) بیچہ.آپ بزرگوں کی کس قدر عزت کرتے تھے حقیقی ماں نہیں تھیں پھر بھی اتنی محبت سے دُعائیں دیں.ماں.آپ نے ہمیشہ ماں کے ادب کی بہت تاکید فرمائی اور خود عمل کر کے دکھایا.اب ہم سنہ ہجری میں داخل ہوتے ہیں.شام کی سرحد کے قریب مدینہ سے پندرہ سولہ دن کے سفر کے فاصلے پر ایک مقام دومتہ الجندل تھا.وہاں کے لوگ لوٹ مار ڈاکہ زنی اور ظلم کرنے والے تھے.اُن کی طرف سے ہر وقت حملے کا خطرہ رہتا تھا آپ ربیع الاول کے مہینے میں (مطابق جولائی اگست ) ایک ہزار صحابہ کرام کو ساتھ لے کر دومتہ الجندل تشریف لے گئے.وہ شرپسند لوگ آپ کی آمد کی اطلاع پا کر ادھر اُدھر بھاگ گئے مگر ایک بہت بڑا فائدہ ہوا.اسلام کا پیغام شام تک پھیل گیا.کیونکہ آپ اور آپ کے صحابہ کرام ہر وقت تبلیغ اسلام کرتے تھے اس غزوہ کو غزوہ دومتہ الجندل کہتے ہیں اب ایک واقعہ سنئے.مدینہ میں جمادی الثانی ، 4 نومبر کو چاند کو گر مین لگا.یہودی سمجھے کہ کسی نے جادو کر دیا ہے.دستور کے مطابق اپنے برتن وغیرہ بجانے لگے کہ جادد ٹوٹ جائے، مگر پیارے آقا نے اپنے پیارے صحابہ کرام کو سمجھایا کہ گر بن بھی اللہ تعالی کی حکمت سے ہوتا ہے

Page 71

61 اور اس دوران نمانہ پڑھنی چاہیے.وہ نمازہ جو گرہن کے وقت پڑھی جائے اُسے صلوہ خوف کہتے ہیں.بچہ.خسوف چاند گرہن کو کہتے ہیں ؟ ماں.جی بچے.آپؐ نے سمجھایا کہ دنیا کی زندگی میں جو نور اور روشنی انسان کو پہنچتی ہے کسی بھی ذریعے سے پہنچے دراصل خدا تعالیٰ کی روشنی ہوتی ہے.کسی وجہ سے روک پڑے تو خدا تعالیٰ سے اور قریب ہو جانا چاہیے.آپ تو خدا تعالیٰ کے اس قدر قریب تھے کہ اس کی رضا کی خاطر اپنے دشمنوں سے بھی حسن سلوک فرماتے.چنانچہ اُن دنوں مکہ میں قحط پڑا تو آپ نے انسانی ہمدردی سے مکہ کے فربار کے لئے کچھ چاندی بھیجوائی بشہ ہجری میں آپ کی شادی حضرت زینب بنت حجش سے ہوئی.حضرت زینب آپ کی پھوپھی کی بیٹی تھیں پہلے ان کی شادی آپ کے آزاد کردہ غلام اور منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہ سے ہوئی جو نیچھ نہ سکی.زید کے يا ހނ طلاق دینے کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپؐ نے حضرت زینب - شادی کی (سورہ احزاب) اس شادی سے اللہ پاک نے عربوں کی ایک غلط رسم کو ختم کیا وہ یہ تھی کہ اگر کسی کے متعلق یہ کہ دیا جاتا کہ یہ میرا بیٹا ہے یعنی منہ بولا بیٹا، مبنی بنا لیا جاتا تو اس کو حقیقی بیٹا تصور کیا جاتا.اسلام نے اُسے غلط قرار دیا.یہ رسم ایک زمانے سے چلی آرہی تھی.اُسے ختم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو ارشاد فرمایا کہ منہ بولے بیٹے کی مطلقہ سے شادی کر لیں تاکہ آئندہ کے لئے یہ رسم ہمیشہ کے لئے

Page 72

ختم ہو جائے.بچہ.شادی بیاہ کی کون سی رسمیں اسلام نے جائنہ قرار دیں.ماں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی شادیوں اور آپ کی بیٹی کی شادی کا ہم پڑھ چکے ہیں انتہائی سادگی سے نکاح ہوتا جس میں حسب توفیق مہر مقرر ہوتا.جہیز بھی حسب توفیق دیا جاتا.دلہن کو سجا کہ رخصت کیا جاتا.پھر ولیمہ کی دعوت بھی ہوتی.یہ بھی بڑی سادہ سی ہوتی سب بیویوں کے ولیمہ کی نسبت حضرت زینب کا ولیمہ بڑے پیمانے پر کیا ( بخاری کتاب النکاح باب الولیمیتہ الحق) اس موقع پر خواتین کے پردے کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں جس سے آپ کی بیویوں پر پردے کی پابندی لگائی گئی اور اس طرح آپ کے گھر غیر لوگوں کا آزادانہ داخلہ رک گیا.اس کے بعد اور بھی آیات نازل ہوئیں جن سے مکمل پردے کے متعلق ہر بات وضاحت سے بیان فرمائی گئی.پردے کی بات نکل آئی اب میں آپ کو حضرت زینب کے متعلق نیا دوں.ان کی بہت سی خوبیوں میں سب سے نمایاں ان کا صدقہ و خیرات تھا بہت نیک.سچ بولنے والی رشتہ داروں سے پیار محبت سے پیش آنے والی تھیں.حضرت عائشہ ان کی خوبیوں کا رشک سے ذکر کر نہیں.حضرت عائشہ فہمی سے روایت ہے کہ ایک دفعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کو مخاطب کر کے فرمایا.تم میں سے جو سب سے زیادہ لیے ہاتھوں والی ہے وہ میری وفات کے بعد سب سے پہلے

Page 73

،۳ فوت ہو کہ میرے پاس پہنچے گی.“ 1.انجاری و سلم بحواله اصابه حالات زینب بنت جحش ) بچہ.کس کے ہاتھ سب سے لمبے تھے.انہوں نے نا پے تو ہوں گے.ماں.ناپے تو تھے مگر آپ کا یہ مطلب ہی نہیں تھا.ہاتھ ملے ہونے کا مطلب تھا سب سے زیادہ صدقہ خیرات کرنے والی.اب آپ بتائیے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سب سے پہلے فوت ہو کہ کون پہنچا ہو گا.بچہ حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ تعالیٰ عنہا ماں.بالکل ٹھیک.آپ ماشاء اللہ خوب سمجھتے ہیں.اب بات ہو گی.کفار مکہ کی نئی مخالفتوں کی.آپ یہ تو جانتے ہیں کہ وہ عرب کے مختلف قبائل کو اکساتے رہتے تھے.اب انہوں نے اُن قبائل کو بھی اسلام دشمنی پر اُبھارنا شروع کیا جن کے مسلمانوں سے اچھے تعلقات تھے.چنانچہ بنو خزاعہ کی ایک شاخ بنو مصطلق نے زور شور سے مدینے پر حملے کی تیاری شروع کر دی.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم تو بیداری اور جو کسی سے حالات پر نظر رکھتے تھے جب آپ کو اس تیاری کا علم ہوا تو مسلمانوں کی ایک فوج لے کر روانہ ہوئے.مکہ اور مدینہ کے درمیان ساحل سمندر کے پاس ایک مقام مریسیع پر پڑاؤ ڈالا.فوج کی صف بندی فرمائی.جنگ سے بچنے کے لئے آخری کوشش یہ کی کہ حضرت عمر رض سے فرمایا کہ آپ اعلان کریں کہ اسلام دشمنی سے بانہ آجائیں تو مسلمان واپس لوٹ جائیں گے مگر وہ باز نہ آئے بلکہ تیر اندازی شروع کر دی مسلمانوں نے

Page 74

بھی جواب دیا اور پھر یکدم دھاوا بول دیا.کفار کے پاؤں اکھڑ گئے سب کے سب ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہو گئے.دس کا فر قتل ہوئے اور ایک مسلمان شہید ہوئے.آپ نے کچھ دن مرسیع میں قیام فرمایا اور پھر واپس مدینہ تشریف لے آئے..آپ نے یہ تو بتایا ہی نہیں کہ اس دفعہ مدینہ میں اپنے بعد کسے امیر مقرر فرمایا.ماں.تاریخ کی کتاب ابن ہشام میں لکھا ہے کہ ابو ذر غفاری کو اور دوسری کتاب ابن سعد میں لکھا ہے کہ زید بن حارثہ کو امیر مقر فرمایا.یہ واقعہ دمبر جنوری ۲ شوال سنہ ہجری میں پیش آیا.جنگ کے بعد ایک واقعہ پیش آیا جو چھوٹی سی بات سے شروع ہوا اور عین ممکن تھا مسلمان آپس میں ہی ایک دوسرے کو مارنے لگتے مگہ آپ کی معاملہ فہمی سے خطرہ ٹل گیا.یہ خاص طور پر اس لئے سنا رہی ہوں کہ آپ کو علم ہو کہ آپس کے جھگڑوں سے منافق اور دشمن کس طرح فائدہ اُٹھاتے ہیں.ہوا یوں کہ مربیع میں ہی ایک چشمے سے پانی بھرتے وقت دو جاہل اور عامی مسلمانوں میں کچھ جھگڑا ہوا.ایک نے آواز لگائی اسے انصار بھائیو آکر میری مدد کرو.دوسرے نے پکارا اسے مہاجرین میری مدد کو آؤ.دیکھتے ہی دیکھتے تلواریں نکل آئیں قریب تھا کہ قتل وغارت ہو جاتا کہ سمجھدار انصار و مہاجرین نے آپس میں صلح کرا دی.آپ کو جھگڑے کا علم ہو تو آپ نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور بات ختم ہوگئی.مگر منافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی بن سلول کو علم ہوا

Page 75

تو اُس نے موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے لوگوں کو خوب بھڑ کا یا کہ تم نے مسلمانوں کو پناہ دی اور اب دیکھو یہ کتنے مضبوط ہو گئے ہیں.ان کی مدد سے ہاتھ روک لو تو یہ خود ہی چھوڑ چھاڑ کر واپس چلے جائیں گے بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ دیکھو واپس جا کہ مدینہ کا معزز ترین شخص (خود) مدینہ کے العوذ باللہ) ذلیل ترین کو مدینے سے نکال دے گا.“ اهنجاری و ته ندی سوره منافقون و این بهتام و ابن سعد) بچہ - افوہ کتنی گندی بات - ماں.آپ کی طرح دہاں بیٹھے ایک بچے زید بن ارقم کو بھی یہ بات بری لگی اور اُس نے یہ سارا واقعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہلا بھیجا سلمان سخت طیش میں آئے مگر آپ نے کسی قسم کی سزا نہ دی حتی کہ خود اس منافق کا مسلمان بیٹا عبد اللہ آپ کے پاس آیا اور کہا" یا رسول اللہ میں نے سُنا ہے کہ آپ میرے باپ کی گستاخی اور فتنہ انگیزی کی وجہ سے اس کے قتل کا حکم دنیا چاہتے ہیں اگر آپ کا یہی فیصلہ ہے تو آپ مجھے حکم فرمائیں میں ابھی اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپ کے قدموں میں لا ڈالنا ہوں، آپ نے تسلی دی اور فرمایا.ہمارا ہر گز یہ ارادہ نہیں ہے بلکہ ہم بہر حال تمہارے والد کے ساتھ نرمی اور احسان کا معاملہ کریں گے.اللہ اللہ اپنے دشمنوں کا اتنا خیال ! اسی لئے تو بیٹا اپنے باپ سے زیادہ آپ سے محبت کرتا تھا.ماں.صرف باپ سے ہی نہیں دنیا کی ہر چیز سے زیادہ صحابہ آپ سے پیار

Page 76

24 کرتے تھے.آپ کی نرمی کے با وجود اتنا غم و غصہ تھا کہ جب لشکر اسلامی مدینہ میں داخل ہونے لگا تو عبداللہ اپنے والد کا راستہ روک کر کھڑے ہو گئے اور اصرار کیا کہ وہ تسلیم کرے کہ رسول اللہ معزز ترین ہیں اور وہ ذلیل ترین ہے.اور اس نے اقرار کیا.ہم نے ابھی ذکر کیا تھا تو مصطلق کے ساتھ جنگ کا جس میں مسلمانوں کو فتح ہوئی تھی اس قبیلے کے کچھ لوگ جنگی قیدی بنالئے گئے تھے جن میں سے ایک قبیلے کے سردار حارث بن ابی ضرار کی بیٹی بہترہ بھی تھی.اُن کا شوہر جنگ میں مارا گیا تھا.آپ نے اس خیال سے کہ اس قبیلے میں اسلام پھیلانے میں آسانی ہوگی تبرہ سے شادی کا فیصلہ کیا ان کا نام بدل کہ جویریہ رکھا.جب صحابہ کرام کو علم ہوا کہ آپ نے اس قبیلے کے ساتھ رشتہ قائم فرمایا ہے تو سینکڑوں جنگی قیدی آزاد کر دیئے.اس رشتے اور احسان کے نتیجے میں حضرت جویریہ کے والد سمیت اکثر قبیلے والوں نے اسلام قبول کرلیا.بچہ.مخالفین میں کچھ تو کمی ہوئی.ماں.مخالفین میں کمی ہوئی مخالفت میں نہیں.بلکہ بہت زیادتی ہو گئی در اصل اسلام کی مسلسل ترقی اور کفار کی مسلسل شکست نے اُن کو آخری اور زیر دست تدبیر کرنے پر اُکسایا.یہودی ذہن بڑے سازشی ہوتے ہیں.قبیلہ بنو نضیر والے مدینے سے چلے تو گئے مگر زخم کھائے ہوئے تھے.ان کی تجویز پر مکہ کے قریش ، سنجد کے قبائل غطفان وسلیم بیوردی

Page 77

66 قبیلہ بنو سعد اور گردو نواح کے چھوٹے چھوٹے قبائل سب ساتھ مل گئے (ابن ہشام وابن سعد) ان کی تعداد کا اندازہ دس ہزار سے چو ہیں ہزار تک تھا.عرب میں اتنی بڑی فوج کبھی اکٹھی نہیں ہوئی تھی.اس فوج کے ہر حصے کا الگ کمانڈر تھا مگر ساری فوج کا سپہ سالار ابو سفیان بن حرب تھا.یہ لشکر شوال سنہ ہجری مطابق فروری مارچ ۲۶ہ مدینہ کی طرف بڑھنا شروع ہوا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لشکر کی اطلاع پا کر صحابہ کو مشورے کے لئے بلایا حضرت سلمان فارسی کا مشورہ کہ مدینہ کا شہر تین طرف سے قدرتی طور پر محفوظ ہے چوتھی طرف خندق کھود دی جائے حضور نے منظور فرمایا.پیچہ.عربوں میں اس سے پہلے خندق کھود نے کا رواج تھا.ماں.نہیں بیٹا.حضرت سلمان فارسی کا تعلق ایران سے تھا وہ اس طریق سے واقف تھے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مشورے سے خندق کھودنے کا فیصلہ فرمایا قریباً پندرہ پندرہ فٹ کے فاصلے پر نشان لگوائے اور دس دس صحابہہؓ کو ایک ایک حصہ کھودنے پر مقرر فرما با سخت سردی کے دن تھے.مالی تنگی بھی تھی پھر بھی صحابہ نے بڑے شوق سے مزدوروں کی طرح کام شروع کیا.کچھ آدمی کھدائی کرتے کچھ کھری ہوئی مٹی اور پتھر ٹوکریوں میں بھر بھر کر باہر پھینکتے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی کام میں شرکت فرماتے اور ان میں حوصلہ قائم رکھنے کے لئے دعائیہ شعر پڑھتے صحابیہ بھی آواز میں آواز ملاتے.ایک صحابی کی روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ

Page 78

6A علیہ وسلم کو ایسے وقت میں یہ اشعار پڑھتے ہوئے سنا کہ آپ کا جسم مبارک مٹی اٹھانے کی وجہ سے گر در غبار سے بالکل ڈھکا ہوا تھا.استخاری کتاب المغازی حالات غزوہ احزاب) بچہ.آپ وہ شعر سنا سکتی ہیں جو آنا پڑھتے تھے.ماں.شعریہ ہے : اللَّهُمَّ إِنَّ الْعَيْشِ عَيْشِ الْأَخِرَهُ فَاغْفِر لِلْانصَارِ وَالْمُهاجره اے ہمارے مولی اصل زندگی تو آخرت کی زندگی ہے پس تو اپنے فضل سے الیسا سامان کر کہ انصار و مہاجرین کو آخرت کی زندگی میں تیری بخشش اور عطا نصیب ہو.بچہ.صحابہ اس کے جواب میں کون سے اشعار پڑھتے تھے.ماں.ایک یوں ہے.نَحْنُ الَّذِي بَايَعُوا مُحمدا عَلَى الْجِهَادِ مَا بَقِيْنَا أَبَدًا ہم وہ ہیں کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر عہد کیا ہے کہ ہم ہمیشہ جب تک ہماری جان میں جان ہے خدا کے رستے میں جہاد کرتے رہیں گے.بچہ.ایسا لگتا ہے جیسے وقار عمل ہو رہا ہو.ماں.بالکل ہم نے وقار عمل انہیں سے تو سیکھا ہے.به صحابه کرام جو سارا سارا دن مٹی کھودنے میں لگاتے تھے وہ احباب عام دنوں

Page 79

69 میں روز کے روز محنت مزدوری کر کے روزی کمانے تھے.اب خندق کی کھدائی میں لگے تو کھانے کو کہاں سے لاتے ہوا یہ کہ سب فاقوں سے ڈھال ہو گئے.اسی کمزور حالت میں سخت جسمانی محنت کرتے.کھدائی میں ایک سخت ضدی پتھر نکلا جو ٹوٹنے میں نہ آتا تھا.صحابہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی آپ تشریف لائیے آپ کے پیٹ پر بھی بھوک سے پتھر بندھا تھا.آپ نے کدال اُٹھا کر پتھر پہ مارا تو ایک شعلہ نکلا.تھوڑا سا پتھر ٹوٹا آپ نے زور سے اللہ اکبر کہا.دوسری دفعہ پھر کدال چلائی تو پھر شعلہ نکلا تھوڑا سا اور پھر ٹوٹا آپ نے پھر زور سے اللہ اکبر کہا.تیسری دفعہ کدال چلانے پر پھر شعلہ نکلا آپ نے اللہ اکبر کہا پتھر بالکل ٹوٹ گیا.صحابہ نے ہر دفعہ ضرب سے پتھر ٹوٹنے پر اللہ اکبر کہنے کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا.پہلی دفعہ مجھے مملکتِ شام کی چابیاں دی گئیں اور خدا کی قسم شام کے سرخ محلات مجھے دکھائے گئے دوسری دفعہ فارس کی چابیاں دی گئیں اور مدائن کے سفید محلات مجھے دکھائے گئے.تیسری دفعہ یمین کی چابیاں دی گئیں اور صنعاء کے دروازے دکھائے گئے.بچہ.اللہ تعالیٰ کتنا پیارا ہے.فاقوں کی تکلیف میں فتوحات کی خوشخبریاں دے کم حوصلہ دیا.ماں.جی بچے.پیارے اللہ کو خوش کرنے کے لئے تو یہ سب ہر طرح کی قربانی کر رہے تھے بھوک میں محنت کا کام بڑا مشکل ہوتا ہے ایک صحابی جابر بن عبد اللہ نے آپ کی طرف دیکھا آپ کے چہرے پر بھوک سے

Page 80

کمزوری کے آثار دیکھ کہ بہت تکلیف ہوئی.ذرا سی دیر کے لئے گھر جانے کی اجازت لی.گھر آکر اپنی بیوی سے پوچھا یہ تمہارے پاس کچھ کھانے کو ہے ، گھر میں جو کا آٹا اور ایک بکری تھی.بیوی سے کہا تم کھانا تیار کرو میں رسول اللہ کو لے کہ آتا ہوں.بیوی نے کہا کھانا تھوڑا سا ہے.رسول اللہ کے ساتھ زیادہ لوگ آگئے توشرمندگی ہوگی.صحائی کہتے ہیں میں نے آہستہ سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے کی دعوت دی آپ نے بلند آواز سے کہا "اے انصار و مہاجرین کی جماعت چلو جابر نے ہماری دعوت کی ہے.آپؐ اپنے ساتھ قریباً ایک ہزار اصحاب، جو کئی دن کے بھوکے تھے لے کہ جائزہ کے گھر کی طرف روانہ ہوئے.آپ نے جائیہ سے فرمایا جا کہ اپنی بیوی سے کہو جب تک میں نہ آؤں مہنڈیا کو چولھے سے نہ انارے نہ روٹیاں پکانی شروع کرے.آپ نے تشریف لاکر کھانے پر دُعا کی.کھانا تقسیم ہونا شروع ہوا.اللہ تعالیٰ کی قدرت دیکھو سب نے سیر ہو کر کھا لیا اور ابھی سالن بھی باقی تھا اور آٹا بھی.بچه - سبحان الله - مگر امی جان بُرا نہ مانے گا میری سمجھ میں نہیں آیا یہ کیسے ہو گیا.ماں.بہت اچھا کیا بچے آپ نے پوچھ لیا.میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کروں گی.ایسی باتیں جو عام اور جانے بوجھے قانونِ قدرت سے قدرے مختلف ہوں.انسانی علم اور انسانی قدرت سے بلند ہوں انہیں خدائے قادر کی

Page 81

Al قدرت نمائی یا معجزہ کہتے ہیں یہ معجزے خدا تعالیٰ کی ذات وصفات کے خلاف نہیں ہوتے تاہم ان میں کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جو قور اسمجھ نہیں آتیں بلکہ اپنے اپنے ایمان کے درجے کے مطابق سمجھی جاتی ہیں.جو بچے ہوتے ہیں اور سچ کو پہچانتے ہیں وہ ان معجزات سے خدا تعالیٰ کی ہستی کو جان کمر سیدھا، سچا رستہ پالیتے ہیں معجزے اللہ پاک بندوں کی فرمائش پر نہیں دکھاتا.بلکہ اپنے پیار بھرے سلوک سے اپنے بندوں کو خوش کرنے کے لئے انعام دیتا ہے حضرت جابر بن عبداللہ کے تھوڑے کھانے میں برکت سے اللہ پاک نے دن رات خندق کھودنے والے فاقہ کشوں کو کھانے کے ساتھ اپنی مہستی کے پیار کا حلوہ بھی دکھایا جبیں سے اُن کے حوصلے اور بڑھے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے ہمیں پیار کرتا ہے.بچہ.اب میں سمجھ گیا.اب بتائیے یہ خندق کھودنے کی محنت کتنے دن کرنی پڑی.ماں.مختلف روایات ہیں موسیٰ بن عقبہ کہتے ہیں ہیں دن لگے ازرقانی جلد ۲ صنا) ابن سعد میں چھ دن رات لکھا ہے.پیارے آقا نے مدینہ کی حفاظت کا بڑا اعلیٰ انتظام کیا تھا.انہیں کمزور حصوں کا بھی احساس تھا.خندق ہر جگہ سے برا یہ چوڑی نہیں تھی کئی جگہوں سے قدرے تنگ تھی ہوشیار گھوڑا سوار خندق پار کر سکتا تھا.آپ نے وہاں پہرے دار بٹھا دیئے.پھر خندق مدینے کے چاروں طرف تو تھی نہیں جس طرف صرف مکانات اور اونچی نیچی چٹانیں تھیں.خندق نہیں بن سکتی تھی.وہاں بھی پہرے دار بٹھائے اور دن رات حفاظت کی تاکید فرمائی

Page 82

At آپ کے پاس صرف تین ہزار مجاہد تھے جس دن خندق مکمل ہوئی.اسی دن ابوسفیان کفار کا لشکر لے کہ ایک سیلاب کی طرح مدینے کی طرف بڑھا.راہ میں خندق حائل ہوئی تو حیران پریشان ہو گیا.خندق اس کے لئے نئی چیز تھی.اب اُن بدبختوں نے یہ ترکیب سوچی کے مدینے کا محاصرہ کہ لیا جائے اور مدینہ میں موجود یہود قبائل کو بغاوت پر اکسا کر ساتھ ملا لیا جائے.اس طرح خندق کے باوجود اندر جانے کے راستے کھل جائیں گے چنانچہ وہ بنو قریضہ کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گیا.مسلمانوں کے لئے یہ بڑا خطرناک ثابت ہوا.نیو قرافیہ کے سینکڑوں مسلح جوان کسی بھی وقت پیچھے سے حملہ کر سکتے تھے یہ صورت حال دیکھ کر بعض منافق طبع لوگ کہنے لگے معلوم ہوتا ہے خدا اور اُس کے رسول کے مسلمانوں کی " فتح و کامرانی کے متعلق دعوے یونہی جھوٹے تھے" (احزاب (۱۳) بعض نے کہا یارسول الله شہر میں ہمارے مکانات بالکل غیر محفوظ ہیں.آپ اجازت دیں تو ہم اپنے گھروں میں ٹھہر کہ اُن کی حفاظت کریں.اللہ پاک نے آپ کو بتایا " یہ غلط ہے کہ ان لوگوں کو اپنے گھروں کے غیرمحفوظ ہونے کا خیال ہے بلکہ بات یہ ہے کہ وہ میدانِ جنگ سے بھاگنے کی راہ ڈھونڈ رہے ہیں (احزاب ( ۱۴ ) مگر جو سچے مومن تھے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا " حب مومنوں نے کفار کے اس لاوت کرہ کو دیکھا تو انہوں نے کہا کہ یہ تو سب کچھ خدا اور اس کے رسول کے وعدوں کے مطابق ہے.خدا اور رسول ضرور سچے ہیں.پس اس حملے سے بھی ان

Page 83

٨٣ کے ایمان و فرمانبرداری میں اضافہ ہوا.“ (احزاب :۲۳) بچہ.کفار نے خندق عبور کرنے کی کوشش تو بار بار کی ہوگی.ماں.بہت کوشش کی اور کئی بار کی مسلمان بیچارے بھاگم بھاگ ایک جگہ جمع ہوتے تو دوسری جگہ حملہ کر دیتے مسلمان اُدھر بھاگتے جس سے اُن کی طاقت بکھر جاتی.دونوں طرف سے مسلسل تیروں کی بارش ہوتی.کفار کی ایک پارٹی عکہ مدین ابو جہل کی کمان میں تیروں سے مسلمانوں کو پیچھے رکھتے ہوئے تیز رفتاری سے خندق عبور کرنے میں کامیاب ہو گئے.حضرت علی رض نے اپنے دستے کے ساتھ چکر کاٹ کر پیچھے سے راستہ بند کر دیا کچھ چارہ نہ پا کر عمر بن عبید ود جو اکیلا ہی ہزار سپارمیوں پر بھاری سمجھا جاتا تھا سامنے آیا اور انفرادی لڑائی کے لئے للکارا اُس نے اپنے گھوڑے کو مار ڈالا تا کہ جیم کہ لڑ سکے حضرت علی ضم فوراً اس کے مقابلے کے لئے آگے بڑھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو اپنی تلوار عنایت فرمائی اور دعا بھی کی.حضرت علی نے پہلے اُسے اسلام لانے کی دعوت دی مگر وہ لڑائی پر بضد تھا شدت سے حملہ کیا تو حضرت علی قدرے زخمی ہو گئے مگر جوابی حملے میں اُسے مار گرایا مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.محاصرہ طویل ہو گیا.مسلمان کئی کئی دن سے پیٹوں پر پتھر باندھے پھرتے تھے دو جہانوں کے سردار نے جن کے لئے یہ کل کائنات پیدا کی گئی تھی اپنے پیٹ پر سے کپڑا ہٹا کر دکھایا تو دو پتھر باندھے ہوئے تھے (ترمندی ابواب الن ہو) حضرت ام ساری روایت کرتی ہیں.میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم

Page 84

کے ساتھ بہت سے مفردات میں رہی ہوں لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے جس قدر سخت غزوہ خندق تھا ایسا کوئی اور نہیں گزرا اس غزوہ میں آپ کو بے انتہا تکلیف اور پریشانی برداشت کرنی پڑی اور صحابہ کی کی جماعت کو بھی سخت مصائب کا سامنا ہوا اور یہ دن بھی سخت سری اور مالی تنگی کے دن تھے ( تاریخ خمیس جلدا ص ۵۳) مسلمان عورتوں نے اس جنگ میں حصہ نہیں لیا تھا ؟ مان.اچھا یاد دلایا.اب مسلمان عورتوں کی بہادری کی بات بھی سن لو.خطرے کے پیش نظر انحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں اور بچوں کو ایک قلعہ نما جگہ میں جمع کروا دیا تھا.پہرے پر حضرت حسان بن ثابت تھے.ہوا یہ کہ یہودیوں نے اس حصے کی کمزوری کا اندازہ لگانے کے لئے ایک جاسوس بھیجا حضرت صفية بن عبد المطلب جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی تھیں سمجھ گئیں کہ یہ جاسوس ہے اس کا زندہ واپس جانا خطرے سے خالی نہیں.حضرت صفیہؓ نے حسان بن ثابت سے کہا کہ اسے قتل کر دینا چاہیئے.اُن کی ہمت نہ پڑی تو خود یہودی کا مقابلہ کیا اور اُسے مارگرایا لاین مشام ) اور اُنہیں کے کہنے پر یہودی جاسوس کا سرکاٹ کر قلعہ کے اُس پاپر گرا دیا گیا جہاں مہوری جمع تھے.یہودی اپنے ایک ساتھی کا انجام دیکھ کر وہاں سے ہٹ گئے.بچہ.جنگ بدر اور جنگ احد کی طرح اس جنگ میں بھی آپ نے بہت دعائیں کی ہوں گی.ماں.جی بچے.دعا ہی بڑا سہارا تھا.آپ نے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم خدا سے

Page 85

۸۵ یہ دعا کیا کرو کہ وہ تمہاری کمزوریوں پر پردہ ڈالے اور تمہارے دلوں کو مضبوط کرے اور تمہاری گھبراہٹ کو دُور فرمائے (مسند احمد بحوالہ زرقانی) اور آپ نے یہ دعا کی اسے دنیا میں اپنے احکام کو جاری کرنے والے خدا اور حساب لینے میں دیر نہ کرنے والے.تو اپنے فضل سے کفار کے ان احزاب کو پسپا فرما.اے میرے قادر تو ضرور ایسا ہی کری.اور کفار کے مقابلہ پر ہماری مدد فرما اور ان کی طاقت پر زلزلہ وارد کر اسے تکلیف میں مبتلا لوگوں کی آہ و پکار سکتے والے ! اسے مضطر لوگوں کی دعاؤں کو قبول کرنے والے تو ہمارے غم اور فکہ اور بے چینی کو دور فرما کیونکہ جو مجھ پر اور میرے اصحاب پر اس وقت مصیبت دارد ہے وہ تیرے سامنے ہے (زرقانی) بچہ.اللہ پاک نے ان دعاؤں کوشن کر ہمیشہ کی طرح اپنے فضل نازل کئے ہوں گے.ناں.بالکل ٹھیک بیچے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ایسا سامان ہوا کہ اُن کے شکر میں پھوٹ پر گئی.ایک دوسرے سے بدظن ہو گئے.آپس میں اختصات پیدا ہو گئے.ایک یہ بھی الہی سامان پیدا ہوا کہ رات کو سخت آندھی چلی این مشام وزرقانی) کفار کے خیمے اکھڑ گئے.ہنڈیاں اُلٹ کر چولہوں میں گر گئیں.ریست کنکر کی بارش نے لوگوں کے کانوں ، آنکھوں اور تھنوں کو بھر دیا.آگیں سمجھ گئیں.کفار اتنے بددل ہوئے کہ ابو سفیان نے اپنے آدمیوں کو واپسی کا حکم دے دیا.ان کو جانے کی اتنی جلدی تھی کہ صبح ہونے تک میدان خالی ہو چکا تھا.یہ محاصرہ کم وبیش بیس دن جاری رہا.

Page 86

14 بچہ.سبحان اللہ.اللہ پاک نے کیسی دُعاسنی مسلمانوں کو پھر فتح حاصل ہوئی.ماں.یہ غزوہ خندق جو غزوہ احزاب بھی کہلاتا ہے مسلمانوں کے لئے بہت بڑی آزمائش تھی جس میں خاص اللہ تعالیٰ کی مدد سے فتح حاصل ہوئی اور کھرے کھوٹے پہچانے گئے.آپ کو یاد ہو گا کہ بنو قریہ نے بد عہدی کی تھی اللہ پاک نے اُن کو سزا دینے کا فیصلہ فرمایا اور آپ کو ارشاد فرمایا کہ فوراً بنو قریضہ کی طرف روانہ ہو جائیں.آپ نے صحابہ کو تیار ہونے کا حکم دیا اور حضرت علی نے کی قیادت میں ایک پارٹی حالات کا جائزہ لینے کے لئے آگے بھیجوا دی.یہود حد درجہ بد تمیزی اور سرکشی پر اُتر آئے آپ نے فیصلہ فرمایا کہ اُن کی آبادی کا محاصرہ کر لیا جائے.بیس دن تک محاصرہ کی سختی برداشت کرنے کے بعد بنو قریضہ نے فیصلہ کیا کہ قبیلہ کے رئیس سعد بن معاذ جو فیصلہ کر ہیں اُسے تسلیم کر لیا جائے گا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اُن کے فیصلے کے مطابق عمل کرنے کا وعدہ فرمایا.بچہ.سعد نے کیا فیصلہ سنایا.ماں.سعد کا فیصلہ دراصل خدائی تقدیر تھا.فیصلہ یہ تھا کہ قبلے کے جنگجو لوگ قتل کر دیئے جائیں اور ان کی عورتیں اور بچے قید کر لئے جائیں.اور ان کے اموال مسلمانوں میں تقسیم کر دیئے جائیں.اس فیصلے کو سن کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.تمہارا یہ فیصلہ ایک خدائی تقدیمہ ہے.د بخاری کتاب المغازی حالات غزوه قرنطه) 16.

Page 87

AL یہ غزده بنو قریظہ ذی قعده شنه مجری مطابق مارچ اپریل ۲ عمل میں آیا.اور اس کے ساتھ ہی مدینہ میں غیر مسلموں کا زور ٹوٹ گیا اور مدینہ میں عملا مسلمان حکومت قائم ہوگئی.حضرت سعد بن معاذ بنو قریظہ کے رئیس تھے.اسلام قبول کرنے کے بعد اسلام اور بانی اسلام کے عشق میں اتنا آگے بڑھے کہ ان کا مقام انصار میں کم و بیش وہی تھا جو مہاجرین میں حضرت ابو بکرہ کا تھا.غزوہ خندق میں ان کی کلائی پر زخم آگیا تھا جو ٹھیک ہونے میں نہ آنا دہ انصرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنے عزیز تھے کہ تیمار داری کے خیال سے اپنے قریب مسجد کے صحن میں نتیجے میں رکھا.مگر زخم ٹھیک نہ ہوا.اسی تکلیف سے آپ وفات پاگئے جس کا آپ کو اور مسلمانوں کو بہت صدمہ ہوا.آپ نے نخود نماز جنازہ پڑھائی.دنیا نے کے لئے خود ساتھ تشریف لے گئے اور قبر کی تیاری تک وہیں ٹھہرے رہے اور آخر وہاں سے دعا کرنے کے بعد تشریف لائے ازرقانی جلد ۲ صدا (۱۴) آپ سے ایک قول بھی منسوب ہے.آپ نے فرمایا " سعد کی موت پر خدائے رحمان کا عرش جھومنے لگ گیا.(سنجاری ابواب مناقب انصار) یعنی عالم آخرت میں خدا کی رحمت نے خوشی کے ساتھ سعد کی روح کا استقبال کیا ہے.بچہ.انصار بعد میں آئے مگر آگے بڑھ گئے.ماں.آگے بڑھنا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہوتا ہے.اب میں آپ کو ایک انتہائی مخالف شخص کے قبول اسلام کا واقعہ سناتی ہوں بنجد کے علاقے کی مخالفت

Page 88

^^ کا کئی دفعہ ذکرہ آچکا ہے وہاں ایک قبیلہ قرطا کی طرف سے خطرناک خبریں ملیں.بہت مجری محرم کی بات ہے آپ نے ایک دستہ بھیجا جو ڈیڑھ سو میل کی مسافت طے کر کے سنجد پہنچا وہاں زیادہ مقابلے کی صورت پیش نہ آئی.دشمن بھاگ گئے.مالِ غنیمت اور ایک قیدی ہاتھ لگا.مدینہ پہنچ کہ جب یہ قیدی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے پہچان لیا یہ قیدی علاقہ یمامہ کا ایک یا انٹر میں اسلام کا شدید مخالف آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے ارا دے کرنے والا تمامہ بن اثال تھا.آپؐ نے فرمایا کہ شمامہ کو صحن مسجد میں ایک سنون سے باندھ دیا جائے اور نیک سلوک کیا جائے.آپؐ نے اپنے گھر سے ثمامہ کے لئے کھانا بھیجوایا.بچہ.ایسے شدید دشمن کے لئے بھی ہمارے آقا کے دل میں اتنی رحمت متھی کہ گھر سے کھانا بھیجوایا مگر صحن مسجد میں باندھنے کی حکمت سمجھ نہیں سکا.ماں.حکمت یہ تھی کہ وہ مسلمانوں کی طرز عبادت اور مجالس کا خود جائزہ ہے.ہو سکتا ہے اس کا دل اسلام کی طرف مائل ہو جائے.چنانچہ ہوا یہ کہ تین دن تک آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لا کہ شمامہ کا حال پوچھتے رہے.تیسرے دن آپؐ نے فرمایا " شمامہ کو کھول دو ، شمامہ آزادی ملتے ہی مسجد سے باہر چلا گیا اور تھوڑی دیر میں نہا دھو کر آیا اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر کے مسلمان ہو گیا.اور ایک بہت پیارا جملہ کہا : یا رسول اللہ ! ایک وقت تھا کہ مجھے تمام دنیا میں آپ کی ذات سے

Page 89

اور آپ کے دین سے اور آپ کے شہر سے سب سے زیادہ دشمنی تھی.لیکن اب مجھے آپ کی ذات اور آپ کا دین اور آپ کا شہر سب سے زیادہ محبوب ہیں.(بخاری کتاب المغازی باب و قدینی حنیفہ) پھر ٹامہ عمرے کے لئے خانہ کعبہ چلے گئے اور بڑے جوش و خروش سے تبلیغ شروع کی.آپ کی تبلیغ سے یمامہ میں کثرت سے اسلام پھیلا.یہودیوں کے مدینے سے نکل جانے کی وجہ سے اب وہ مدینے سے کچھ فاصلے پر رہ کر چھیڑ چھاڑ کرنے کے نئے نئے طریق اختیار کرتے.جب بھی آپ کو ان کی مخالفانہ سرگرمیوں کی اطلاع ملنی آپ مدینہ سے مسلمانوں کا دستہ روانہ فرماتے اس طرح مسلمانوں کی کئی مرتبہ سفر کرنے پڑے.ربیع الاول سنہ ہجری میں قبیلہ بنی اسد کی شرارت کی اطلاع پاکر ایک مہاجر صحابی عکاشہ بن محصن کو روانہ کیا گیا ان کی آمد کی اطلاع پاکر قبیلہ کے لوگ ادھر اُدھر بھاگ گئے اس کو غزوہ عکاشہ بن محصن کہتے ہیں.ربیع الآخر میں مدینہ سے چوبیس میل کے فاصلے پر ذوالقصہ کی طرف محمد بن مسلمہ اور ابو عبیدہ بن الجراح کو روانہ کیا گیا.اس کو سر د محمد بن مسلمہ کہتے ہیں.اسی مہینے قبیلہ بنی سکیم کی طرف حضرت زید بن حارثہ کو بھیجا گیا اس کو سریہ زید بن حارثہ کہتے ہیں.اگلے مہینے یعنی جمادی الاولی میں پھر حضرت زید بن حارثہ کو مدینہ سے چار دن کی مفت پر عیص کے مقام پر بھیجا گیا.ان سب واقعات میں دشمن ادھر اُدھر بھاگ جاتے اور مسلمان فتح یاب ہوتے عیص سے جو قیدی پکڑے گئے

Page 90

اُن میں ایک قیدی ابو العاص بن الربیع بھی تھے.پیچہ.ان کی کیا خصوصیت تھی.ماں.ان کی خصوصیت یہ تھی کہ یہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے حقیقی بھانجے تھے.ابو العاص نے اسلام قبول کر لیا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ان سے بہت خوش تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ اُس نے میری بیٹی سے بہت اچھا سلوک کیا ہے.(سنجاری ابواب مناقب) جمادی الاول میں (مطابق ستمبر ہم آپ دو سو صحابیہ کی جمعیت ساتھ لے کر بنو لحیان کی گوشمالی کے لئے تشریف لے گئے.یہ وہی بنو لیبان تھے جنہوں نے رجیع کے مقام پر مسلمانوں کو بیدردی سے شہید کر دیا تھا.آپ کی آمد کی خبر پا کر بولجان پہاڑیوں میں چھپ گئے.کوئی معرکہ پیش نہ آیا.آپ نے مسلمانوں کی شہادت کے مقام پیٹرک کر اُن کے لئے بڑی رقت سے دعا مانگی.کچھ دوسرے قبائل مثلاً بنو ثعلبہ جو طرف میں رہتے تھے بنو جذام جو حیمی میں رہتے تھے بنو فزارہ جو دادی القریٰ میں رہتے تھے کی طرف حضرت زید بن حارثہ کو دستے دے کر روانہ کیا اکثر ایسا ہوا کہ دشمن چھپ جاتے کبھی مقابلہ بھی ہوتا اور اللہ پاک کی مدد سے فتح ہوتی.بچہ.یہودی ساری عمر مصیبت ہی بنے رہے.ماں.دراصل اسلام کی مقبولیت اور پکے در پے شکستوں نے انہیں پاگل کہ دیا تھا.بعض علاقے خاص طور پر مخالفت کا گڑھ بن جاتے اور پھر

Page 91

۹۱ مختلف علاقوں کے مخالف مل بیٹھے اور ترکیبیں سوچتے کہ کس طرح اسلام کی طاقت کو کم کیا جاسکتا ہے.ان علاقوں میں ایسے قبائل بھی تھے جو دل سے مسلمان ہو چکے تھے مگر مخالفت کے خوف سے اعلانیہ اظہار نہ کر سکتے تھے.ان کی مدد اور مذہبی آزادی کے قیام کے لئے شعبان سنہ ہجری ( مطابق دسمبر عہ) ایک فوجی دستہ حضرت عبدالرحمن بن عوف کی قیادت میں دومة الجندل کی طرف روانہ کیا گیا.بچہ.اتنی مصروف زندگی میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کی تربیت کسی طرح فرماتے تھے.ماں.آپ کا اُٹھنا بیٹھنا ، سونا جاگنا ، عبادت اور مجالس زندگی کا ہر لہ عملی تربیت کا نمونہ تھا آپ ہر بات میں حکیمانہ رہنمائی فرماتے.مثال کے طور پر اسی سریے پر روانگی کی تیاری ہو رہی تھی آپ کی خدمت میں حضرت ابو بکر را حضرت عمرہ حضرت عثمان ، حضرت علی منہ اور حضرت عبد الرحمن بن عوف حاضر تھے ایک انصاری حاضر ہوا اور پوچھا یارسول اللہ ! مومنوں میں سے سب سے افضل کون ہے.آپ نے فرمایا." وہ جو اخلاق میں سب سے افضل ہے." اُس نے کہا " اور با رسول اللہ سب سے زیادہ منتفی کون ہے." آپ نے فرمایا." وہ جو موت کو یاد رکھتا ہے اور اُس کے لئے وقت سے پہلے تیاری کرتا ہے." آپ دیکھئے ان مختصر جملوں میں آپ نے کتنی باتیں سکھا دیں پھر ان نصائح

Page 92

۹۲ کو غور سے سنئے جو آپ نے حضرت عبد الرحمن یہ بن عوف کو روانہ کرتے وقت کہیں." اے ابن عوف اس جھنڈے کو لے لو اور پھر تم سب خدا کے رہتے ہیں جہاد کے لئے نکل جاؤ اور کفار کے ساتھ لڑو مگر دیکھنا کوئی پڑیانتی نہ کرنا اور نہ کوئی عہد شکنی کرنا اور نہ دشمن کے مردوں کے جسموں کو بگاڑنا اور نہ بچوں کو قتل کرتا.یہ خدا کا حکم ہے اور اس کے نبی کی سنت» (ابن هشام جلد ۳ ص ۸۹۷۸) حضرت عبدالرحمن بن عوف کے ساتھ سات سو مجاہد تھے.دومتہ الجندل کے رئیس اصبح بن عمر کلبی اور اُن کی قوم کے بہت سے لوگ اسلام میں شامل ہو گئے.بچہ.اسلام کے پھیلنے اور یہودیوں کے مدینے سے نکل جانے سے سارا مدینہ اسلامی شهر بن گیا.ماں.بالکل.اس اسلامی شہر میں تاجدار مدینہ پر نازہ وحی نازل ہوتی.آپ قرآن پاک کی آیات سناتے اور اُن کے مطالب سمجھاتے.اللہ پاک سے محبت کرنے والے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر بات کو غور سے سنتے اور ایک دوسرے سے پہلے عمل کرنے کی کوشش کرتے.مگر جہاں تک خطرات کا تعلق تھا وہ تو کم نہ ہوئے.یہودیوں نے مدینہ سے نکل کر اپنی سرگرمیوں اور سازشوں کا مرکز خیبر نامی مقام بنا لیا تھا.ایک دفعہ تو شعبان ت ہجری میں حضرت علی قبیلہ بنو سعد اور اہل خیبر کو سزا دینے کے لئے گئے مگر وہ خبر ما کہ بھاگ کھڑے ہوئے.دو یہودی سردار بے حد

Page 93

۹۳ خطر ناک تھے حبیبی بن اخطب تو بنو قریظہ کے ساتھ جھڑپ میں مارا گیا تھا لیکن سلام بن الى المحقیق جو ابو رافع کے نام سے مشہور تھا بے حد خطرناک سازشی ذہن کا مالک تھا.سنجد کے قبائل کا دورہ کر کے آخری معرکے لئے بہت بڑی فوج جمع کرنے لگا.بچہ.پھر بڑی جنگ ہوئی ہوگی اور بہت سے لوگ مارے گئے ہوں گے.ماں.یہی سوچ کے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے منعد و صحابہ نے کی تجویز پر فیصلہ فرمایا کہ بہتر ہے فتنے کے بانی کو ہی ختم کر وا دیا جائے چنانچہ عبد اللہ بن عتیک نے کمال بہادری سے ابو رافع کو ختم کر دیا.اس طرح ایک بڑا خطرہ مل گیا.یہ شخص پیارے آقا کے لئے بڑی گندی زبان استعمال کرتا تھا.بچہ.اللہ پاک نے مزا بھی تو اچھی طرح دی.ماں.اللہ پاک اپنے پیارے کی عزت کا خود محافظ ہے.اس سال رمضان میں مسلمانوں نے ایک نئی نماز پہلی دفعہ پڑھی.ہوا یہ کہ بہت عرصے سے بارش نہ ہونے کی وجہ سے قحط کی صورت پیدا ہو گئی.صحابہ نے آپ سے دُعا کی درخواست کی اس پر آپ صحابیہ کے ساتھ عید گاہ تشریف لے گئے اور بارش کے لئے دعا کی بارش کے لئے دعا کو دعائے استنفاء اور نمازہ کو نماز استسقاء کہتے ہیں.اللہ پاک نے آپ کی دُعاسنی اور خوب بارش ہوئی.اب اُدھر یہودیوں کی سنو ابو رافع توختم ہوا مگر ایک وایسا ہی خطرناک سازشی اسیرین رزام سردار بنا اور ناپاک منصوبوں کی تکمیل کے لئے کوششیں شروع کردیں.آپ نہیں چاہتے تھے کہ جنگ ہو آپ نے عبد اللہ بن رواحہ کی سرکر دگی

Page 94

۹۴ میں تھیں افراد پشتمل ایک پارٹی روانہ کی تاکہ وہ اسیر کو دشمنی سے باز رہنے اور امن کا معاہدہ طے کرنے کے لئے مدینہ ہلائیں.اسیر نے باہم مشورہ کیا اور مسلمانوں کے ساتھ مدینہ کے لئے اپنے تیس ساتھیوں کے ساتھ روانہ ہوا راستے میں اُس کی نیت خراب ہو گئی.بچہ ہو سکتا ہے پہلے سے ہی اُس نے کوئی منصوبہ بنایا ہو.ماں.جی ہاں یہ بھی ہو سکتا ہے.بہر حال انہوں نے تلواریں نکال لیں اگر چہ مسلمان تیار نہیں تھے تاہم جب تلواریں چلیں تو سارے یہودی مارے گئے.آپ نے یہ حالات سُن کر فرمایا.وش کر کرو کہ خدا نے تمہیں اس ظالم پارٹی سے سنجات دی » (ابن سعد) یہ شوال سنہ ہجری کا واقعہ ہے.اسی مہینے ابو سفیان کا مکہ سے بھیجا ہوا کرائے کا ایک قاتل پکڑا گیا ہو آپ پر حملہ کرنے ہی والا تھا.آپ نے اس کو دیکھ کر اندازہ لگا لیا تھا کہ نیت ٹھیک نہیں ہے.بعد میں یہ شخص مسلمان ہو گیا (ابن سعد جلد ۲ ص ۶) بچہ.اب سامنے آکر حملہ کرنے کی بجائے قریش مکہ نے سازشیں شروع کر دیں.ماں.دو تھے ہی بد بخت اسی مہینے یعنی شوال ہی میں قبائل شکل اور نرینہ کے آٹھ آدمی مدینے آئے اور جھوٹ جھوٹ مسلمان ہو کہ مدینہ میں گھل مل کر رہنے لگے پھر بیماری کا بہانہ کر کے مدینے کے باہر کھلی جگہ میں جہاں مویشی رکھے جاتے تھے منتقل ہو گئے اور ایک دن موقع پر مویشیوں کے رکھوالے مسلمانوں کو بے حد بیدردی سے تکلیفیں دے دے کر ذبح کر دیا اور مویشی چرا کر بھاگ

Page 95

۹۵ نکلے مسلمانوں کو علم ہوا تو چھا گیا اور پکڑ کر انہیں بھی مار ڈالا مسلمان بہت صلح پسند ہوتے ہیں.ہمارا دین ہمیں یہی تعلیم دیتا ہے.مگر جب حالات نہیں تلوار اُٹھانے پر مجبور کر دیں تو وہ بڑی بہادری سے لڑتے ہیں.اب جو واقعہ آپ کو سنانے جارہی ہوں.اس سے آپ کو اندازہ ہو گا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ و تم صلح کرنا کس قدر پسند فرماتے تھے.مکہ والوں نے آپ سے کیا نہیں کیا مگر مکہ آپ کا وطن تھا.آپ کو مکہ سے پیار تھا صرف اس لئے نہیں کہ مکہ میں آپ پیدا ہوئے تھے بلکہ اس لئے بھی کہ اللہ پاک نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مکہ کی طرف توجہ لگائے رکھیں.آپ اور مہاجرین کو مکہ تو یا دہی رہنا تھا ہم ھ کی بات کر رہے ہیں ابھی ذو قعدہ کا مہینہ شروع نہیں ہوا تھا کہ آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ صحابہ کرام کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کم رہے ہیں (سورۃ الفتح : ۲۸) اسلامی احکامات کے نازل ہونے سے پہلے بھی طواف عمرہ اور حج کا رواج تھا مگر اسلامی طریق بعد میں سکھایا گیا.آپ نے اپنے صحابہ کو تحریک فرمائی کہ پر امن طریق پر صرف عمرے کی ادائیگی کے لئے بغیر سنتھیار لگائے مکہ چلتے ہیں.چودہ سو صحابہ کرام تیار ہو گئے.آپ ان کے ساتھ ذو قعدہ شہ کے شروع میں پیر کے دن صبح کے وقت مدینہ سے روانہ ہوئے.ام المومنین حضرت ام سلمی بھی ہمراہ تھیں.بچہ.مدینے کا امیر کے مقرر فرمایا.ماں.آپ نے خوب یاد رکھا کہ آپ اپنی غیر حاضری میں مدینے میں امیر مقرر فرمایا کرتے تھے نمبیلہ بن عبد اللہ کو امیر اور عبد اللہ بن ام کلثوم کو امام الصلوۃ مقرر

Page 96

94 فرمایا.( ابن سعد، ابن ہشام) مدینہ سے چھ میل کے سفر کے بعد ذو الحلیفہ کے مقام پر حج کا مخصوص لباس احرام باندھ لیا.احتیاطا ایک خبر یاں شیر بن سفیان کو مکہ والوں کے ارادوں کی خبر لینے کے لئے بھجوایا جس نے آکر اطلاع دی کہ مکہ والے سخت غصے میں ہیں اور آپ کو روکنے کا پکا ارادہ ہے (بخاری کتاب المغازی) بلکہ ایک دستہ جس میں خالد بن ولید اور عکرمہ بن ابو جہل شامل ہیں مسلمانوں کے قریب پہنچ چکا ہے.آپ نے مکہ کا اصل راستہ چھوڑا سمندر کی طرف سے نسبتاً مشکل مگر محفوظ راستے سے سفر جاری رکھا.جب مکہ سے کومیل کے فاصلے پر حدیبیہ کے مقام پر پہنچے تو آپ کی اونٹنی " القصوا پاؤں پھیلا کو زمین پر بیٹھ گئی.اُسے خدائی اشارہ سمجھ کہ آپ نے وہیں ڈیرے ڈال دیئے.وہاں ایک چشمہ تھا جو سب کے پانی استعمال کرنے سے خشک ہو گیا.صحابہ کرام آپ کی خدمت میں گئے اور اپنی تکلیف کا ذکر کیا.آپ نے ایک تیر دیا اور فرمایا کہ خشک ہونے والے چشمے کی تہ میں گاڑ دیا جائے.آپ خود چشمے کے کنارے پر تشریف لائے تھوڑا سا پانی لے کر اپنے منہ میں ڈالا اور پھر دُعا کرتے ہوئے اپنے منہ سے چشمے میں انڈیل دیا اور صحابہ کرام سے فرمایا کہ تھوڑی دیم انتظار کرو.ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ چشمہ کے اندر اتنا پانی بھر آیا کہ سب نے اپنی ضرورت کے مطابق استعمال کیا اور پانی کی مشکل جاتی رہی.دبخاری کتاب المغازی باب غزوه الحمد لله عن بر ابن عازب )

Page 97

96 رات کو اللہ کے فضل سے بارش بھی ہو گئی اور سارا میدان ترینیز ہو گیا..یہ بھی معجزہ تھا آپ نے بتایا تھا کہ بندوں سے پیار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایسے معجزے دکھاتا ہے جن سے بندوں کا اللہ تعالیٰ سے پیار بڑھتا ہے.ماں.ہمارے پیارے آقا کی زندگی تو ہر لمحہ معجزے ہی معجزے تھے یہ وہ پیار بھرے واقعات ہیں جن میں دوسرے اصحاب کو بھی شریک کیا گیا.بات ہو رہی تھی چشمے کے قریب پڑاؤ کی.وہاں ایک شخص بدیل بن ورقا کا گذر ہوا تو آپ نے اُسے بتایا کہ ہم میرا من طواف کے لئے آئے ہیں اور کیا ہی اچھا ہو اگر مکہ والے جنگ کا رستہ چھوڑ کر امن کا طریق اختیار کریں.بدیل کو یہ باتیں پسند آئیں جاکہ مکہ والوں کو بنائیں مگر وہ تو کچھ ماننے کو تیار ہی نہ تھے.آخر ایک شخص عروہ بن مسعود مکہ والوں کی طرف سے بات کرنے کے لئے آیا اور آپ کے امن کے منصوبے سے متاثر ہوا مگر زیادہ متاثرہ اُس کو صحابہ کرام کی آپ سے محبت نے کیا.اُس کا بیان ہے.اگر پانی پیتے ہوئے آپ کے منہ سے کوئی قطرہ گرتا تو صحابہ کرام اسے شوق سے اپنے ہاتھوں پر مل لیتے اور جب آپ کسی چیز کا ارشاد فرماتے تو لوگ آپ کی آواز پر اس طرح لپکتے کہ گویا ایک مقابلہ ہو جاتا تھا اور جب آپ وضو کرتے تو صحابہ کرام اس شوق سے آپ کو دھو کر وانے کے لئے آگے بڑھتے کہ گویا اس خدمت کے لئے ایک دوسرے سے لڑ پڑیں گے اور جب آپ گفتگو فرماتے تو صحابہ بالکل خاموش ہو کر بیٹھے جاتے اور محبت اور رعب کی وجہ سے اُن کی نظریں

Page 98

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف اٹھ نہیں سکتی تھیں انجاری کتاب الشروط) بچہ.امی میں سوچ رہا ہوں کہ عروہ بہت بہادر شخص ہو گا ورنہ شدید دشمنوں کے سامنے پیارے آقا کی تعریف کرنے کی جرات نہ کرتا.ماں.عروہ ہی نہیں پھر ایک شخص حلیس بن علقمہ آیا اور اس نے بھی جا کر قریش مکہ کو اچھی رپورٹ دی مگر وہ تو جوش میں بھڑکے ہوئے تھے حتی کہ آپ کی طرف سے ہمدردی اور دانائی سے سمجھانے کے لئے ایک صحابی خراش شین امیہ کو بھیجا گیا تو ان کی اونٹنی زخمی کر دی وہ تو ان کو بھی مار دیتے کچھ بڑے بوڑھوں نے سمجھا کہ باز رکھا.قریش نے ایک اور چال چلی.یہ تو ہو ہی رہا تھا کہ ادھر اُدھر سے نمائندے آجا رہے تھے کفار نے ایک پارٹی اسی آڑ میں بھیجی کے اب تو سارے دشمن مکہ کے پاس آئے ہوئے ہیں کسی طرح حملہ کر کے مسلمانوں کو نقصان پہنچاؤ اور ہو سکے تو آنحضور کو قتل کر دو.(طبری و ابن هشام) مگر یہ سب گرفتار کر لئے گئے اور اس طرح اللہ پاک نے خاص فضل سے حفاظت کا سامان فرمایا بچہ.پھر تو وہ سلسلہ بھی جاری نہ رہا ہو گا جو امن کے ساتھ عمرہ ادا کرنے کے لئے سمجھانے کا ہو رہا تھا.ماں.اُس کے لئے ایک اور کوشش ہوئی.اس دفعہ حضرت عثمان کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے ایک تحریر دے کر بھیجا جس میں آپ نے اپنے آنے کی غرض بیان کی اور فریش کو یقین دلایا کہ ہماری نیت صرف ایک عبادت بجا لانا ہے ہم یہ اسن صورت میں عمرے کے بعد

Page 99

۹۹ واپس چلے جائیں گے.آپ نے حضرت عثمانؓ سے فرمایا کہ کمزور مسلمانوں سے ملنے کی کوشش بھی کریں اور ان کی ہمت بڑھائیں اور کہیں کہ صبر کر ہیں خدا عنقریب کامیابی کے دروازے کھولنے والا ہے (زرقانی جلد ۲ ص) حضرت عثمان نے بڑی اچھی طرح سب باتیں مکہ والوں کے سامنے پیش کیں مگر وہ کسی صورت راضی نہ ہوئے بلکہ وہ شرارت تا حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں کو مکہ میں روک لیا.وہ واپس نہ گئے تو مسلمانوں میں یہ افواہ پھیل گئی کہ حضرت عثمان نے قتل کر دیئے گئے ہیں.بچہ.آپ کو بڑی تکلیف ہوئی ہو گی.حضرت عثمانؓ آپ کے دوست اور ہاں داماد بھی تھے.جی بچے بہت تکلیف ہوئی آپ نے اعلان کروایا کہ سب مسلمان جمع ہو جائیں.جب مسلمان ایک کیکر کے پیڑ کے نیچے جمع ہو گئے تو آپ نے فرمایا اگر یہ اطلاع درست ہے تو خدا کی قسم ہم اس جگہ سے اس وقت تک نہیں ملیں گے جب تک کہ عثمانی کا بدلہ نہ لے لیں.آؤ اور میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہ عہد کہو کہ تم میں سے کوئی شخص بیٹھے نہیں دکھائے گا اور اپنی جان پر کھیل جائے گا مگر کسی حال میں اپنی جگہ نہیں چھوڑے گا.اس پر صحابہ نے اتنی تیزی سے آگے بڑھ بڑھ کر بیعت کی کہ ایک دوسرے پر گرنے پڑتے تھے مسلمانوں کا یہ جوش و جذبہ اللہ پاک کو بہت پسند آیا.قرآن کریم میں ارشاد ہے.ترجمہ ور اللہ تعالیٰ مسلمانوں سے خوش ہو گیا جبکہ اسے رسول ! وہ ایک درخت کے

Page 100

نیچے تیری بیعت کہ رہے تھے.کیوں کہ اس بیعت سے اُن کے دلوں کا مخفی اخلاص خدا کے ظاہری علم میں آگیا.سوخدا نے بھی ان پر سکینت نازل فرمائی اور انہیں ایک قریب کی فتح کا انعام عطا کیا.(سورۂ فتح : ۱۹) بچہ.مسلمان کتنے خوش ہوئے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوا.ماں.جی بچے اس بیعت کا نام ہی بیعت رضوان ، ہے یعنی وہ بیعت جس میں مسلمانوں نے خدا تعالیٰ کی خوشنودی کا انعام حاصل کیا.جب مکہ میں اس بیعت کی اطلاع ملی تو وہ خوف زدہ ہو گئے اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور اُن کے ساتھیوں کو رہا کر دیا.اس کے ساتھ ہی یہ کوشش کرنے لگے کہ صلح ہو جائے تو اچھا ہے.چنانچہ اس غرض سے سہیل بن عمرو معاہدہ کے لئے آپ کے پاس پہنچا.آپ نے حضرت علی ضمہ کو معاہدے کی شرائط لکھنے کے لئے بلایا حضرت علی ام آپ کی طرف سے خط و کتابت کیا کرتے تھے.آپ نے حضرت علیؓ سے فرما یا لکھو بسم اللہ الرحمن الرحیم سہیل بن عمرد بولا ہم تو رحمن کو نہیں مانتے.جیسے پہلے لکھا جاتا تھا ویسے ہی لکھا جائے.چنانچہ آپؐ نے اُس کی بات مان لی اور باسْمِكَ اللهُم الفاظ لکھوائے.پھر آپ نے لکھوایا " یہ وہ معاہدہ ہے ہو محمد رسول الله نے کیا ہے بہیل نے پھر اعتراض کیا.ہم تو آپ کو رسول اللہ نہیں مانتے.آپ نے پھر اُس کی بات مان کہ حضرت علیؓ سے فرمایا.رسول اللہ کی جگہ ابن عبد اللہ لکھ دو.حضرت علی نظم کو گوارا نہ ہوا کہ اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کے لفظ کاٹتے.آپ نے حضرت علی سے پوچھا کہ یہ الفاظ کہاں لکھے

Page 101

ہوئے ہیں پھر اپنے ہاتھ سے رسول اللہ کے لفظ کاٹ دئے.اور معاہدے میں محمد ابن عبداللہ لکھا گیا.آپ نے نہ غصہ کیا نہ اپنی بات کو اوپر رکھنے کے لئے دوسرے کی بات ماننے سے انکار کیا بلکہ مخالف کی ایسی باتیں مان کر جن میں کوئی ہرج نہیں تھا سبق دیا کہ امن کے معاہدوں میں ایک دوسرے کا خیال رکھنا بہتر ہے.بچہ.معاہدہ کن شرائط پر ہوا.ماں.معاہدے کی شرائط کچھ یوں تھیں.۱.آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) اور آپ کے ساتھی اس سال واپس چلے جائیں.-۲- آئندہ سال وہ مکہ میں اگہ رسم عمرہ ادا کر سکتے ہیں مگر سوائے نیام میں بند تلوار کے کوئی ہتھیار ساتھ نہ ہو اور مکہ میں تین دن سے زیادہ نہ ٹھہریں ۳.اگر کوئی مرد یکہ والوں میں سے مدینہ جائے تو خواہ وہ مسلمان ہی ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اُسے مدینہ میں پناہ نہ دیں اور واپس لوٹا دیں..قبائل عرب میں سے جو قبیلہ چاہے مسلمانوں کا حلیف بن جائے اور جو چاہے اہل مکہ کا.۵.یہ معاہدہ فی الحال دس سال کے لئے ہوگا اور اس عرصہ میں قریش اور مسلمانوں کے درمیان جنگ بند رہے گی.(849 (سیرت خاتم النبيين مثلا، (۶) اس کو صلح حدیبیہ کہتے ہیں یہ مارچ شاہ مطابق ذی قعدہ شاہ کو ہوا.بچہ.کیا صلح کی ان شرائط پر سب مسلمان خوش تھے.

Page 102

١٠٢ ماں.سب مسلمان خوش نہیں تھے اُس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ مسلمانوں نے دب کر صلح کی ہے اور دوسرے کفار کی باتیں زیادہ مانی گئی تھیں.خانہ کعبہ کے طواف کا مسلمانوں کو بڑا شوق تھا روک پڑ جانے سے بڑا صدمہ ہوا.ایک اور واقعہ ایسا ہوا تھا کہ مسلمانوں میں افسردگی پھیل گئی ہوا یہ کہ ابھی معاہدہ لکھا ہی جا رہا تھا کہ سہیل بن عمرو کے بیٹے ابو جندل جو مسلمان ہو چکے تھے.اور اسلام لانے کی وجہ سے سخت اذیتیں برداشت کر رہے تھے.قید سے چھوٹ کہ بیٹریوں اور ہتھکڑیوں میں جکڑے ہوئے کسی طرح گرتے پڑتے وہاں پہنچے اور درد ناک آواز میں پکارا مسلما نو میری مدد کرو مجھے اسلام کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا ہے مسلمان اُن کی حالت دیکھ کر تڑپ اُٹھے.کل عالم کے لئے رحمت و شفقت آقا نے اُن کی تکلیف محسوس کی اور اُن کی مدد کرنی چاہی.مگر سہیل نے ضد کی کہ معاہدہ کے مطابق ابو جندل کو آپ ساتھ نہیں لے جا سکتے.آپ کچھ دیر خاموش رہے پھر ابو جندل سے فرمایا : اے ابو جندل صبر سے کام لو اور خدا کی طرف نظر رکھو.خدا تمہارے لئے اور تمہارے ساتھ کے دوسرے کمر در مسلمانوں کے لئے ضرور خود کوئی رستہ کھول دے گا لیکن ہم اس وقت مجبور ہیں کیونکہ اہل مکہ کے ساتھ معاہدہ کی بات ہو چکی ہے اور ہم اس معاہدہ کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے.( ابن ہشام حالات صلح حدیبیه ) بچہ.پھر ابو جندل کو واپس بھیج دیا گیا ؟ مسلمان اُن کی کوئی مدد نہ کر سکے ؟

Page 103

١٠٣ مال.مدد تو طاقت قدرت والا خدا کہتا ہے.آپؐ نے فرمایا تھا کہ خدا تمہارے لئے اور تمہارے ساتھ کے دوسرے کمزور مسلمانوں کے لئے ضرور خود کوئی راستہ کھول دے گا.اب میں آپ کو بتاتی ہوں کہ خدا تعالیٰ نے کیا راستہ کھوں اور کس طرح اُس شرط کو جو بظاہر مسلمانوں کی کمزوری نظر آرہی تھی.مسلمانوں کی مضبوطی کا باعث بنا دیا.ابھی آپ کو مدینے واپس تشریف لائے زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا کہ ایک مسلمان ابو بصیر مکہ والوں کی قید سے بھاگ کر مدینے پہنچے.قریش مکہ کے دو آدمی بھی پیچھا کر تے ہوئے آئے اور قیدی کا مطالبہ کیا.آپ نے معاہدے کی پاسداری فرمائی اور ابو بصیر کو واپس جانے کا ارشاد فرمایا اور اسی انداز میں نسلی دی جیسے ابو جندل کو دی تھی.ابو بصیر نے اتنے دکھ اُٹھائے تھے کہ وہ واپس مکہ جانے کو اپنی موت سمجھتے تھے.سکہ کے دو آدمی اُن کی نگرانی کے لئے مقرر تھے اُن میں سے ایک کو موقع پاکر قتل کر دیا اور بھاگ کر واپس مدینے پہنچے مگر جب دیکھا کہ آپ کسی طرح اُنہیں مدینے میں نہیں رہنے دیں گے تو وہاں سے نکل کہ مکہ جانے کی بجائے بحیرہ احمر کے ساحل کی طرف ایک مقام سیف البحر میں رہنے لگے.جب مکہ کے مظلوم مسلمانوں کو اس پناہ گاہ کا علم ہوا تو وہ بھی وہاں پہنچنا شروع ہو گئے حتی کہ ان کی تعداد اچھی خاصی ہو گئی اور وہ مکہ والوں کے آنے جانے والے قافلوں پر حملے کرنے لگے اُن کے حملے کا انداز اتنا پرجوش ہوتا کہ قریش مکہ زیادہ عرصہ یہ داشت نہ کر سکے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر سو که خود در خواست

Page 104

۱۰۴ کی کہ معاہدے کی دوسری شرط ختم کر کے اُن مہاجرین کو اپنے پاس مدینہ بلالیں.آپ کی طرف سے جب اس امر کی اطلاع اور مدینہ آجانے کی اجازت کا خط پہنچا تو بیمار ابو بصیر آخری سانسیں لے رہے تھے البتہ ابو جندل اپنے ساتھیوں سمیت اپنے آقا کے قدموں میں پہنچ گئے.بچہ.پیارے آقا کی بات پوری ہوئی کہ اللہ تعالی خود سامان کر دے گا.ماں.جی ہاں.پیارے بچے آپ کو ابو جندل کی فکر ہو گئی تھی اس لئے پہلے میں نے یہ ساری بات بتادی جبکہ صلح حدیبیہ کے بعد کا ایک واقعہ ابھی باقی تھا.مسلمان بیت اللہ کے طواف کے ساتھ قربانی کرنے کے لئے جانور بھی لائے ہوئے تھے.جب طواف نہ ہو سکا تو آپ نے 乡 ارشاد فرمایا کہ اب یہیں اپنی قربانیاں کر کے سروں کے بال منڈوا کے واپسی کی تیاری کرد مگر صحابیہ جو معاہد سے کی شرائط کی وجہ سے غم سے نڈھال تھے بیٹھے ہی رہے.آپ خاموشی سے اُٹھے اور اپنے خیمے میں تشریف لے گئے.ام المومنین حضرت امر ساریہ نے جو بڑی سمجھدار خاتون تھیں، آپ کو مشورہ دیا کہ اس وقت مسلمان غم سے نڈھال ہیں وگرنہ وہ نا فرمان نہیں ہیں.آپ اپنا جانور قربان کر دیجئے اور اپنے بال منڈوائیے.پھر دیکھئے مسلمان کس طرح آپ کے ساتھ عمل کر یں گے.آپ کو اس ذہین خاتون کا مشورہ پسند آیا.چنانچہ آپ نے اُسی طرح کیا.مسلمان یہ دیکھ کر دیوانہ وار اُٹھے اپنے جانور ذبح کئے اور بال منڈوائے.( صحیح بخاری جلدا (ص ۳)

Page 105

۱۰۵ بچہ.کتنا اچھا لگا ہوگا پیارے آقا کو.صدر یعیہ میں مسلمان کتنا عرصہ ٹھہرے.ماں.تقریباً ہمیں دن قیام رہا.وہاں سے واپسی کے سفر میں سورہ فتح نازل ہوئی جس کی شروع کی آیات کا ترجمہ ہے.اے رسول! ہم نے تجھے ایک عظیم الشان فتح عطا کی ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اللہ تیرے متعلق کئے گئے وہ گناہ بھی جو پہلے کئے گئے ڈھانک دے گا اور جو آپ تک ہوئے نہیں لیکن آئندہ ہونے کا امکان ہے) اُن کو بھی ڈھانک دے گا اور تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے گا اور تجھے سیدھا راستہ دکھائے گا اور اللہ تیری شاندار مدد کرے گا." (سورۃ فتح : ۱تا ۴) صحابہ کرام نے سورہ فتح کی آیات سنیں تو حیران ہوئے کہ ہم تو بظا ہر گز در شرائط پر معاہدہ کر کے آئے ہیں یہ فتح کی خوشخبری کیسی ؟ آپ نے سمجھایا کہ اُحد اور احزاب میں خون بہانے والی جنگیں کرنے والے صلح اور امن وامان پر آمادہ ہو گئے.یہ بات صحابہ کرام کی سمجھ میں آگئی اور ان کو اطمینان ہو گیا کہ آپ کا ہر فیصلہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہترین ہوتا ہے.کتنے لمبے عرصے کی مصیبتوں کے بعد امن کا معاہدہ ہوا.اب مسلمان بھی چین سے بیٹھے ہوں گے.ماں.پہلے تو ہر وقت حالت جنگ رہتی تھی اب خطرات میں کافی حد تک کمی آگئی تو آپ نے مختلف ملکوں کے بادشاہوں اور رئیسوں کو اسلام کی دعوت دینے کے لئے خطوط بھیجوائے.قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف آپ کو بلکہ ہرمسلمان کو یہ حکم دیا ہے کہ لوگوں کو اسلام کی نیکی

Page 106

1.4 کی طرف بلاؤ اور بدی سے روکو، آپ نے اپنے صحابہ سے اس بارے میں مشورہ کیا تو انہوں نے اس دعوت کو پسند کیا اور اور تجویز دی کہ چونکہ حکمران لوگ صرف مہر لگے ہوئے خط کی طرف توجہ دیتے ہیں اس لئے آپ بھی مہر بنوالیں.بچہ.اُس زمانے میں مہریں کیسے بنتی تھی.ماں.انگوٹھی پر اپنا تمام کھدوا لیا جاتا تھا.آپ نے بھی چاندی کی انکو بھی پر اپنا نام کھدوایا محمد رسول اللہ اس میں اللہ پاک کے نام کی بڑائی قائم رکھنے کے لئے ترتیب اس طرح دکھی انہوں اپنا نام سب سے آخر میں رکھا.محمد سنجاری کتاب العلم) بچہ.کیا یہ انگوٹھی محفوظ ہے.ماں.یہ انگوٹھی آپ کی وفات تک آپ کے ہاتھ میں رہی پھر حضرت ابو بکریم اُن کے بعد حضرت عمروہ کے ہاتھ میں رہی.اُن کے بعد حضرت عثمان و نے اُسے پہنا مگہ ایک دن وہ اُن کے ہاتھ سے کنوئیں میں گر گئی پھر بہت تلاش کے باوجود نہ ملی.مصر کے بادشاہ مقوقس کے نام کا خط محفوظ ہے اُس کی تقلیس چنتی رہتی ہیں اُس میں اس انگوٹھی کا نقش نمایاں ہے.عربی میں مہر اور انگوٹھی دونوں کے لئے لفظ قائم استعمال ہوتا ہے.بچہ.خطوط میں آپ نے کیا لکھا تھا.ماں.میں آپ کو ایک خط کی پوری عبارت سنا دیتی ہوں.تھوڑی بہت تبدیلی سے اسی مضمون کے خطوط بھیجے گئے.یہ خطوط محرم سے ہجری مطابق اپریل

Page 107

1.6 نا جون شاہ کو بھجوائے گئے.(تفسیر کبیر جلد دوم ص) میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بے مانگے رحم کرنے والا اور اعمال کا بہترین بدلہ دینے والا ہے.یہ خط خدا کے رسول محمدؐ کی طرف سے فارس کے رئیس کسری کے نام ہے سلامتی ہو اس شخص پر جو ہدایت کو قبول کرتا ہے.اور خدا اور اس کے رسول پر ایمان لاتا ہے اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں اور نہ ہی اس کا کوئی شریک ہے اور وہ اس بات کی بھی گواہی دیتا ہے کہ محمد خدا کا بندہ اور اس کا رسول ہے.اس رئیس فارسی ! میں آپ کو خدا کی دعوت کی طرف بلانا ہوں.کیونکہ میں سب انسانوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں تا کہ میں ہر زندہ انسان کو ہوشیار کر دوں اور نا انکار کرنے والوں پہ خدا کا فیصلہ واجب ہو جائے.اسے رئیس فارسی ! آپ اسلام قبول کریں کیونکہ اب آپ کے لئے صرف اسی میں سلامتی کا رستہ ہے اگر آپ رو گردانی کریں گے تو یاد رکھیں کہ اس صورت میں آپ کے اپنے گناہ کے علاوہ آپ کی مجوس رعایا کا گناہ بھی آپ کی گردن پر ہو گا.“ آپ نے ایسے مضامین پر شمل خطوط اس تفصیل سے بھیجے.روما کے بادشاہ ہر قل کے نام خط وحید بن خلیفہ انگلی کے ہاتھ بھجوایا.ایران کے بادشاہ کسری خسرود کے نام خط عبداللہ بن حذافہ سہمی کے ہاتھ بھجوایا.

Page 108

مصر کے بادشاہ مقوقس کے نام خط حاطب بن ابی بلتعہ کے ہاتھ بھجوایا.بشہ کے بادشاہ احمد نجاشی کے نام خط عمر بن امیہ ضمری کے ہاتھ بھجوایا.غسان الشام کے بادشاہ حارث بن ابی شمیر کے نام خط شجاع بن وہب کے ہاتھ بھجوایا.یمامہ کے رؤساء کے لئے خط سلیط بن عمرو فرشی کے ہاتھ بھجوایا بچہ.اُن میں سے کوئی اسلام لایا ؟ ماں.سنجاشی شاہ حبش نے جوابا لکھا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ خدا کے پیغمبر نہیں (طبری) اُس نے حضرت جعفر طیار کے ہاتھ پر بیعت کی اپنے بیٹے کو مدینہ بھیجا مگر اس کا جہاز راستے میں ڈوب گیا.ہجرت حبشہ کرنے والوں میں حضرت ام حبیبہ بنت ابو سفیان بھی تھیں.آنحضو صلی الله علی دلم نے حبشہ میں ان کے قیام کے دوران نکاح کا پیغام بھیجا وہیں نکاح ہوا یہ جمادی الاخر شہ ہجری کا واقعہ ہے.شاہ مصر مقوقس نے بھی آپ کی تائید کی اور خدمت کے لئے دو معزز لڑکیاں، کچھ کپڑا اور سواری کے لئے پھر بھیجا.دونوں خواتین اسلام لے آئیں.اُن میں سے ایک حضرت ماریہ قبطیہ سے آپ نے شادی کر لی ان سے اللہ پاک نے آپ کو ایک بیٹا حضرت ابراہیم عطا کئے جو کم عمری میں فوت ہو گئے.قیصر روم نے بھی دل سے تائید کی مگر درباریوں کے خوف سے اظہار کی جرات نہ کی.

Page 109

١٠٩ کسری نے آپ کا خط پھاڑ دیا جس پر آپ نے بد دعا دی کہ وہ بھی ٹکڑے ٹکڑے کر دیئے جائیں.خسرو پرویز شاہ ایران نے گورنہ یمین کو حکم دیا کہ ہمیں معلوم ہوا ہے عرب میں ایک شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اُسے گرفتار کر کے ہمارے پاس لاؤ.گورنر مین نے اس حکم کی تعمیل میں دو سفیر آپ کی گرفتاری کے لئے بھیجے.انہوں نے آکر اس بات پر زور دیا کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں در نہ بادشاہ غصے میں عرب پر حملہ کر دے گا.آپ نے انہیں دوسرے دن آنے کے لئے کہا.جب وہ دوسرے دن آئے تو آپ نے فرمایا.میرے خدا نے مجھے بتایا ہے کہ اُس نے آج رات تمہارے خداوند کو قتل کر دیا ہے.میری طرف سے اپنے گورنر کو یہی پیغام دو ! گورنر اس پیغام پر سخت حیران ہوا اور کہا کہ چند دن انتظار کرتے ہیں اگر یہ خبر درست ہوئی تو یہ سچے نبی ہیں ورنہ کسری سارے عرب کو تباہ کمہ دے گا.چند دن بعد بندرگاہ یہ ایک جہاز پہنچا جس کے ذریعے خسرو کے شیرویہ کا خط تھا کہ میں نے اپنے باپ کے ظلموں سے تنگ آکر اُسے قتل کر دیا ہے اور وہ حکم منسوخ کرتا ہوں جو میرے باپ نے عرب کے نبوت کا دعوی کرنے والے کی گرفتاری کا دیا تھا.(طبری جلد ۳ ص ۱۸) اس طرح گستاخی کرنے والے شاہ ایران کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سترا ملی.

Page 110

١١٠ بچہ.اب آپ شہ کے واقعات شروع کر رہی ہیں.بان ماں.جی بیٹیالہ ہجری کی ایک اہم بات بتا کہ آگے جاتے ہیں.دو شدید دشمنان دین خالد بن ولید اور عمرو بن العاص نے اسلام قبول کر لیا.دونوں نڈر، بہادر اور جنگی طریقوں کے ماہر تھے.اسلام قبول کر کے اپنی صلاحیتیں اسلام کے لئے وقف کر دیں حضرت خالد بن ولید نے ایران اور حضرت عمر بن العاص نے مصر فتح کیا.مکہ والوں کی طرف سے خطرہ کچھ کم ہوا تو آپ کی توجہ اسلام کے دشمنوں کے دوسرے بڑے مرکز کی طرف ہوئی یہ جگہ خیبر تھی خیبر کا لفظی مطلب قلعہ ہے خیر مدینے سے تقریباً ۲۰۰ میل کے فاصلے پر ہے.مدینے سے نکالے جانے والے قبائل خیبر میں آباد ہو گئے تھے.اس طرح یہ علاقہ مخالفین کا گڑھ بن گیا تھا.مدینے کے منافقین ان کو مسلمانوں کی خبریں پہنچاتے رہتے.چنانچہ عبد اللہ بن ابی نے کہلا بھیجا کہ مسلمان خیبر پہ حملہ کرنا چاہتے ہیں.جس سے اُن میں غصہ پھیل گیا.اور شرارتوں میں اضافہ ہو گیا.محرم شتر میں یہ درد ناک واقعہ ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جانوروں کی چراگاہ ذی قرو پر قبیلہ غطفان کے چند آدمیوں نے حملہ کر دیا.بہیں اُونٹ پکڑ کر لے گئے حضرت ابوذر کے بیٹے کو جو اُس کے رکھوالے تھے قتل کر دیا اور اُن کی بیوی کو گرفتار کر کے لے گئے حضرت سلمہ بن اکوع نے جوابی حملہ کر کے جانور چھڑالئے ( بخاری ومسلم ) اس واقعے کے صرف تین دن بعد خیبر کا واقعہ ہوا.آپ نے جوابی کارروائی

Page 111

کی مسلمان فوج میں ۶۰۰ اسپاہی تھے جن میں ۲۰۰ کے پاس سواریاں تھیں.آپ کی بیگم حضرت ام سی بھی ساتھ تھیں.آپ محرم کے میں مدینے سے روانہ ہوئے.بچہ.مدینہ میں امیر کن کو مقرر فرمایا.ماں.مدینہ کے امیر حضرت سباع بن عرفط غفاری کو مقرر فرمایا.فوج کی روانگی کے وقت تین اصحاب کو جھنڈا عطا فرمایا.راستے ہیں حضرت عامر بن اکوع نے اپنے شعر سنائے جن سے بہادری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے فوج میں چند خواتین بھی تھیں.آپ نے اپنی فوج کا پڑاؤ رجیع مقام پر کیا جو غطفان اور خیبر کے درمیان ہے.اس حکمت عملی سے غطفان والے خیبر والوں کی مدد کو نہ پہنچ سکے نماز عصر مقام صہبا میں ادا کی.نہیں کھانا بھی کھایا جو پانی میں گھلے ہوئے سنتوں پر مشتمل تھا.رات کے وقت خیر پہنچے مگر آپ رات کو حملہ نہیں کیا کرتے تھے صبح ہوئی تو جنگ شروع ہوئی سب سے زیادہ مزاحمت قلعہ قموص پر ہوئی جہاں مرحب ایک بہادر سپہ سالار لر رہا تھا.بہت سے معزز صحابہ بہادری سے بڑے مگر کامیابی نہ ہوئی ایک دن شام کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا.کل میں اس شخص کو حکم دوں گا جس کے ہاتھ پر خدا فتح دے گا اور جو خدا اور خدا کے رسول کو چاہتا ہے اور خدا اور خدا کا رسول بھی اس کو چاہتے ہیں (صحیح بخاری)

Page 112

۱۱۲ بچہ.سب کا حال ایسا ہوا ہو گا جیسے صبح نتیجہ آنا ہو کہ کون فرسٹ آتا ہے.ماں.بالکل یہی حال تھا سب دُعائیں کر رہے تھے کہ کس کو یہ سعادت ملتی ہے.صبح ہوئی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو بلایا حضرت علی ضو کی طرف کسی کا دھیان ہی نہیں گیا تھا.کیونکہ ان کی آنکھیں دکھنے آئی ہوئی تھیں وہ جنگ پر نہیں جا سکتے تھے مگر آپ نے اپنا لعاب دہن حضرت علی کی آنکھوں پر لگا کر دعا کی اور جھنڈا تھما دیا.اور ارشاد فرما بابا نرمی کے ساتھ اسلام کا پیغام دینا.اگر ایک شخص بھی تمہاری ہدایت سے اسلام سے آئے تو سرخ اونٹوں سے بہتر ہے.(صحیح بخاری) مرحب اور حضرت علی کی لڑائی میں مرحب مارا گیا.بہیں دن کے محاصرے کے بعد قلعہ قموص فتح ہوا.حضرت علی فاتح خیبر کہلائے.۹۳ یہود جن میں زیادہ تر اُن کے سردار شامل تھے مارے گئے.۵ مسلمان شہید ہوئے.لڑائی کے بعد قیدیوں میں یہود قبائل کے سردار کی عالی مرتبہ بیوہ صفیہ بھی تھیں جن کا باپ بھی قتل ہو چکا تھا.آپ نے ان کی خاندانی عزت کی وجہ سے انہیں آزاد کر دیا پھر اختیار دیا کہ اپنے گھر چلی جائیں یا آپ کے نکاح میں آنا قبول کریں رمسند احمد بن جبل جلد ۳ صد ۱۳ مصر ) حضرت صفیہ نے ایک دفعہ ایک خواب دیکھا تھا کہ ایک چاند ان کی گود میں آگیا ہے.اُن کے شوہر کنانہ نے کہا کہ تو حجاز کے بادشاہ محمد کے پاس جانا چاہتی ہے اس کے ساتھ ہی زور کا تھپڑ مارا جیسی کا نشان

Page 113

اُن کے چہر سے یہ رہا.بچہ.نکاح مدینہ آکر ہوا تھا.ماں.نہیں آپ ابھی خبیر ہی میں خیموں میں مقیم تھے.یہاں ایک الیسا واقعہ ہوا جس سے آپ کے تحمل کا پتہ چلتا ہے.ایک یہودی خاتون نے جو مرحب کی بھا بھی تھی.آپ اور چند صحابہ کی کھانے کی دعوت کی.آپ نے قبول فرمالی.اس بدبخت خاتون نے کھانے میں زہر ملا دیا.آپ نے تو خدا تعالیٰ سے علم پاکہ ایک لقمہ کے بعد ہاتھ روک لیا لیکن حضرت بشیر بن برار نے پیٹ بھر کر کھایا تھا وہ بعد میں فوت ہو گئے.انحضور صلی اللہ علیہ دستم نے اپنی خاطر اس خاتون کو کوئی منترا نہ دی حالانکہ اُس نے اعتراف جرم کر لیا تھا.بچہ.ہمارے پیارے آقا کو اللہ پاک نے بہت بڑا دل دیا تھا.ماں.ہمیں بھی پیارے آقا کی طرح غصہ اور انتظام سے بچنا چاہئے اور معاف کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے.اب دیکھئے نا مکہ جانے کی آپ اور صحای من کی کتنی خواہش تھی مگر جب قریش مکہ نے روکا تو نہیں گئے تاکہ جھگڑا نہ ہو.بچہ.انہوں نے یہ بھی تو کہا تھا اگلے سال آپ آسکتے ہیں.ماں.جی ہاں اگلے سال یعنی ذی قعدہ شہ فروری سہ میں غزوہ خیبر کے بعد واقعہ حدیبیہ میں شریک صحابیہ اور اُن کے علاوہ بھی تقریباً دو ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ تشریف لے گئے.بیت اللہ کے قریب پہنچ کر فرمایا کندھوں کو کھول دو احرام کا کپڑا بغل کے نیچے سے نکال کر گردن کے.

Page 114

۱۱۴ گرد لپیٹ لو اور مستعدی سے دوڑتے ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کرو تا کہ مشرکین پر مسلمانوں کی قوت، شوکت اور جفا کشی کا اثر پڑے، آپ نے صرف تین دن مکہ میں قیام فرمایا اسی عرصے میں حضرت میمونہ سے آپ کا نکاح ہوا.اب میں آپ کو ایک اور جنگ کے بارے میں بتاتی ہوں.بچہ.قریش مکہ سے معاہدہ ہو گیا.یہودیوں کو شکست ہو گئی.اب کس سے جنگ باقی ہے.مال.جہاں اسلام کا پیغام پہنچتا تھا وہاں مخالفت بھی ہوتی تھی.اسلام کے پیغام کے دائرے کے ساتھ مخالفت کا دائرہ بھی پھیلتا گیا اور دُور دُور کے علاقوں میں شرارتیں ہونے لگیں.پھر آپ نے جو تبلیغی خطوط لکھے تھے اُن کا رد عمل بھی ہوا.ایک خط عرب اور شام کے علاقوں کے حاکم شرعیل بن عمرو کو لکھا تھا جو قیصر روم کے ماتحت تھا.یہ خط حضرت حارث بن عمیر لے کر گئے تھے.شرجیل نے اُن کو قتل کرا دیا تھا.آپ نے قصاص کے لئے یعنی خون کا بدلہ لینے کے لئے ایک فوج تیار کی جس میں تین ہزار مجاہد تھے.اس فوج کا سپہ سالار حضرت زید بن حارثہ کو مقر فرمایا اور ارشاد فرمایا کہ اگر وہ شہید ہو جائیں تو حضرت جعفر طیار کمان سنبھال لیں اور اگر وہ بھی شہید ہو جائیں تو حضرت عبداللہ بن رواحہ فوج کی قیادت کریں.آپ نے ہمیشہ کی طرح یہ ہدایت بھی دی کہ پہلے اسلام کا پیغام دینا.اگر پیغام قبول کر لیں توجنگ نہ کرتا.جب فوج روانہ ہوئی تو آپ کافی دور تک

Page 115

110 فوج کے ساتھ ساتھ تشریف لے گئے اُدھر شرجیل نے خبر پا کر ایک لاکھ سپاہیوں کی فوج تیار کرلی.اُن کی مدد کے لئے روم کا بادشاہ ہر قل بھی فوج لے کر آگیا.اتنی ٹیری زبر دست طاقتور فوج کے سامنے تین ہزار جانشار مسلمان بے جگری سے لڑے.تینوں سپہ سالار ایک کے بعد ایک شہید ہوئے.اُن کے بعد کمان حضرت خالد بن ولید نے سنبھالی اور فتح یا شہادت » حاصل کرنے کے لئے پُر جوش تقریر کی مسلمانوں نے زیر دست جد ہے سے مقابلہ کیا.مگر اتنی بڑی فوج سے بچے کہ آجانا ہی بڑی حکمت عملی اور کامیابی تھی چنانچہ یہ لوگ واپس آگئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید ہونے والوں سے بہت محبت تھی آپ کو دلی دکھ ہوا جب حضرت زید بن حارثہ کی صاحبزادی آپ سے لپٹ کر رونے لگیں تو آپ بھی رو پڑے حتی کہ شدت غم سے آپ کی سسکی نکل گئی اس پر حضرت سعد بن عبادہ نے عرض کیا یا رسول اللہ یہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا " یہ ایک جیب کا اپنے محبوب کے لئے اظہار محبت ہے ؟ (طبقات الکبری این سعد جلد ۳ ۴۶) یہ جنگ جمادی الاول شده مطابق جنوری ۶ء میں ہوئی.اب میں آپ کو فتح مکہ کا حال سناتی ہوں.بچہ.حدیبیہ والا معاہدہ کیا ہوا ؟ ہاں.یہ ٹھیک ہے کہ صلح حدیبیہ کی وجہ سے جنگ نہیں ہو سکتی تھی مگر اللہ تعالیٰ اب اپنے محبوب بنی کو واپس مکہ میں لانے اور خانہ کعبہ کو تینوں سے پاک صاف

Page 116

114 کرنے کا فیصلہ فرما چکا تھا ہوا یوں کہ قبیلہ بنو بکر جو قریش مکہ کا حامی تھا اور قبیلہ خزاعہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا آپس میں لڑ پڑے.قریش نے پہلے وعدہ خلافی کی اور بنو بکر کی مدد کی اس پر نینو خزاعہ نے مسلمانوں کو مدد کے لئے پکارا.آپؐ نے قریش کے پاس قاصد بھیجا کہ معاہد کی خلاف ورزی ہوئی ہے.اس پر انہوں نے معاہدہ توڑنے کا اعلان کر دیا.بچہ.ابھی تو معاہدے کو دو ہی سال ہوئے تھے.ماں.معاہدہ قائم رہ بھی نہیں سکتا تھا قریش بار بار بد عہدی اور چالا کی کرتے تھے.اب علی الاعلان معاہدہ توڑنے سے کوئی روک باقی نہ رہی تو آپ نے خاموشی سے مکہ فتح کرنے کے لئے لشکر تیار کر نا شروع کیا.آپ کا منصوبہ تھا کہ راز داری سے کام ہو.آپ نے دُعا بھی کی کہ اے اللہ مخبروں اور خبروں کو اہل مکہ سے روک دے تاکہ ان کو ہمارے پہنچنے کی بالکل خبر نہ ہو." (ابن ہشام (۲۶) آپ نے اپنے پروگرام سے گھر والوں کو بھی آگاہ نہیں کیا تھا جب حضرت عائشہ آپ کا سامان تیار کر رہی تھیں تو ان کے ابا جان حضرت ابو بکر رض نے پوچھا " بیٹی رسول اللہ کہاں تشریف لے جا رہے ہیں یا تو اُن کو جواب ملا یہ تو آپ نے نہیں بتایا.اللہ پاک ہمیشہ آپ کے ارادوں کو پورا کرنے کے سامان فرمانا تھا.مزے کا واقعہ سنو.ایک صحابی حضرت حاطی کے رشتہ دار مکہ میں تھے.انہوں نے سوچا نکہ تو فتح ہو ہی جاتا ہے چلو ذرا قریش مکہ یہ احسان کر دیں کہ اطلاع پہنچا دیں تاکہ وہ اس کار خیر کا لحاظ رکھ کے اُن کے رشتہ داروں سے اچھا سلوک کریں.ایک خط

Page 117

116 لکھا اور ایک عورت کو دیا کہ کسی طرح چھپ چھپا کہ چوری چوری نکل جائے اور مکہ والوں کو پہنچا دے.اس اسکیم میں صرف دو ہی افراد شامل تھے مگر اللہ پاک تو ہر چیز دیکھنا ہے اُس پاک ذات نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ دستم کو سب کچھ بتا دیا.آپ نے حضرت علی اور حضرت زبیر بن العوام کو فرمایا جا کہ اُس عورت سے خط نکلوا لاؤ.بڑی مشکل سے خط ملا.اُس عورت نے بالوں میں رکھ کر جوڑا بنا لیا ہوا تھا.بچہ.اتنے بڑے جرم پر حاطب کو کیا سزا ملی.ماں.سارے جہانوں کے لئے رحمت و شفقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و ستم نے انہیں معاف کر دیا اس لئے کہ وہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے جنگ بدر میں شریک ہونے والوں سے معافی کا وعدہ کیا تھا.اچھا تو اب شکر کی روانگی کی طرف آتے ہیں.- ارمضان المبارک شه ( دسمبر ۶۶۲۹) دس ہزار مسلمانوں کے ساتھ آپ مدینے کے لئے روانہ ہوئے.حضرت عیسی نے بہت پہلے پیش گوئی کی تھی کہ " وہ دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا.(استثنایاب ۲۳ آیت (۲) یعنی جب سب سے بڑا نئی تشریف لائے گا تو اس کے ساتھ دس ہزار پاک مستفی لوگ ہوں گے.یہ پیش گوئی پوری ہوئی.بچہ.مدینہ کا امیر کن کو مقرر فرمایا.ماں.مدینہ کا امیر ابو ہم کلثوم بن حصین کو مقر فرمایا.رازداری کا یہ عالم تھا کہ آپ کے چچا حضرت عباس کو بھی علم نہیں تھا کہ حضور تشریف لارہے ہیں.

Page 118

انہوں نے اسلام قبول کیا اور اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مدینہ کی طرف چل پڑے.راستے ہیں آپ سے ملاقات ہوئی.آپ نے ان کو بھی ساتھ لے لیا اور اہل خاندان کو مدینے بھجوا دیا جب یہ لشکر مکہ کے قریب مرالظہران پہنچا تو آپ نے پڑاؤ کا ارشاد فرمایا.صحابہ کو بہت سی لکڑیوں میں تقسیم کیا.اور فرمایا کہ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر آگ روشن کر دیں.قریش کو لشکر کی آمد کی خبر ملی تو چند افراد کو حالات کا جائزہ لینے کے لئے بھیجا وہ تو حیران پریشان ہو گئے.اتنا بڑا مشکہ کہاں سے آگیا.آپ کے چا حضرت عباس کو ابوسفیان ملا.یہ اسلام کا سب سے بڑا دشمن تھا.حضرت عباس اسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے.آپ نے اس سے نرمی کا برتاؤ کیا.اتنی شفقت دیکھ کر ابوسفیان اسلام سے آیا.آپ نے فرمایا سردار قریش کو پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکہ لشکر اسلام کا نظارہ کراؤ.ابو سفیان بے حد مرعوب ہو گئے اور واپس مکہ جا کر کہا کہ ہمارے لئے اتنے بڑے مسلح لشکر کا مقابلہ ممکن نہیں ہو گا.انہوں نے مزاحمت نہ کی.اس طرح یہ لشکر اسلام بغیر مقابلے کے بغیر خون بہائے مکہ کی مقدس وادی میں داخل ہوا.آپ خانہ کعبہ میں تشریف لائے.سواری پر سات دفعہ طواف کیا پھر حدود حرم میں رکھے ہوئے تین سو ساٹھ توں میں سے ایک ایک کو چھڑی سے ٹھو کر دیتے اور قرآنی آیت پڑھتے.جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًاه

Page 119

119 حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کی چیز تھی.کعبہ کے اندر سے بھی ثبت ہٹوائے اُس کی دیواروں پر جو تصویریں بنی تھیں مٹوا دیں پھر آپ حضرت بلال اور حضرت طلحہؓ کے ساتھ کعبہ کے اندر داخل ہوئے نفل ادا کئے پھر حرم کے صحن میں کھڑے ہو کہ فرمایا." ایک خدا کے سوا اور کوئی خدا نہیں ہے.اس کا کوئی شریک نہیں ہے.اُس نے اپنا وعدہ سچا گیا.اس نے اپنے بندے کی مدد کی اور اُس ایک نے تمام جتھوں کو توڑ دیا." پھر آپ نے زمانہ جاہلیت کی بدرسموں کو ختم کرنے کا اعلان فرمایا اور فرمایا کہ سب انسان برابر ہیں.خدا تعالیٰ کے نزدیک بہتر وہ ہے جو زیادہ منتقی یعنی خدا سے ڈرنے والا اور خدا سے محبت کرنے والا ہو گا.بچہ.مکہ کے مخالفین سخت خوفزدہ ہوں گے کہ اب زندگی بھر کی گستاخیوں کی سراطے گی.ماں.جی بچے وہ خوفزدہ تھے مگر یہ بھی جانتے تھے کہ آپ بے حد رحم کرنے والے ہیں.قریش مکہ کے مظالم تو ہمیں یاد ہیں اب دیکھیں آپ کا پیارا اخلاق کیا تھا آپ کے فرمایا.لَا تَتْرُيْبَ عَلَيْكُمْ اليَوم جاؤ تم سے کوئی باز پرس نہیں ہوگئی تم سب آزاد ہو.اس عام معافی سے اہل مکہ کے دل پر اتنا اثر ہوا کہ گروپ کے گروپ آ کمرہ اسلام قبول کرنے لگے.آپ صفائی ایک بلند جگہ پر تشریف فرما تھے

Page 120

۱۲۰ پہلے مردوں نے بیعت کی پھر چند عورتوں نے بھی بیعت کی.قریش کے اہم لوگوں میں ابو قحافہ، ابوسفیان ، حکیم بن حزام ، صفوان بن امیہ اور عکرمہ بن ابو جہل ایمان لے آئے.مکہ کے کئی لوگ فتح مکہ کے بعد بھی کفر پہ قائم رہے.اُن کے نصیب میں ہدایت نہیں تھی.بچہ.عکرمہ ابو جہل کا بیٹا تھا ؟ ان کا مسلمان ہوتا تو بہت بڑی بات ہے.ماں.جی بچے حضرت عکر یہ سردار کفار کے بیٹے تھے اللہ پاک نے دنیا کو دکھانا تھا کہ سچائی کی فتح ہوتی ہے کبھی وہ دشمن دین کو جان سے ختم کر دیتا ہے اور کبھی دشمن دین کی اولاد کو لا کر اپنے رسول کے قدموں میں ڈال دیتا ہے ہوا یوں کہ جب مکہ فتح ہوا تو شکریہ کو بے حد صدمہ ہوا.مسلمانوں کی فتح دیکھنا مشکل تھا یمین کی طرف بھاگ گیا.اُس کی بیوی ام حکیم نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کہ شکریہ کے لئے معافی حاصل کر لی اور ساحل سے سفر کے لئے تیار کشتی میں سوار عکرمہ کو اُتار لیا.عکرمہ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کہ پوچھا حضور کیا آپ نے مجھے معاف کر دیا ہے ؟ آپ نے فرمایا " ہاں" عکرمہ نے کہا جو شخص میرے جیسے دشمن کو معاف کر سکتا ہے دیکھی جھوٹا نہیں ہوسکتا اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو گئے.اور ایسے پیکے جانثار مسلمان کہ پھر اسی بہادری سے اسلام کی طرف سے لڑا کرتے تھے.بچہ.کیا فتح مکہ کے بعد بھی کوئی لڑائیاں ہوئیں.ماں.عرب جنگجو قسم کے لوگ تھے.انتقام لینا اور اپنی بڑائی کا رعب ڈالنا ان

Page 121

۱۲۱ کی عادتوں میں شامل تھا.مکہ میں فتح ہوئی تو مکہ اور طائف کے درمیان وادی حنین کے قبیلہ ثقیف اور ہوازن کے لوگوں نے یہ سوچ کر کہ اگر مسلمانوں کا دید یہ بڑھتا رہا تو بڑے فکر کی بات ہے اُن کا زور توڑنا چاہیے.فوج جمع کرنی شروع کر دی.آپ کو علم ہوا تو مسلمانوں کی بارہ ہزار فوج لے کر جنین کی طرف کا رخ کیا مسلمان سمجھ رہے تھے اب ہم پر کون غالب آ سکتا ہے اللہ پاک نے یہ سبق دنیا تھا کہ فتح اللہ تعالی کی مدد سے ہوتی ہے تعداد میں زیادہ ہونے سے نہیں.لڑائی شروع ہوئی تو مخالفین کی زبر دست نیزہ بازی سے مسلمان بکھر گئے.آپ نے مسلمان فوج کو پھر سے جمع کیا اور اللہ تعالیٰ سے بہت دُعا کی.ایک ہی بہتے میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوگئی.ستر کفار مارے گئے بہت سا مال غنیمت ہاتھ لگا.دشمن شکست کھا کہ قریبی علاقوں طائف ، اوطاس اور نخلہ کی طرف بھاگ گئے ان کا زور توڑنا ضروری تھا چنانچہ مسلمان دستوں نے ان کا پیچھا کر کے شکست دی اور یہ علاقے بھی فتح ہو گئے.آپ اپنی فوج کو ہدایات فرماتے تھے کہ عورتوں بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کیا جائے.مالِ غنیمت کی تقسیم اس طرح ہوتی کہ پانچواں حصہ بیت المال کے لئے نکالا جانا باقی مال سپاہیوں میں تقسیم کر دیا جاتا.مال غنیمت کی تقسیم مقام جعرانہ میں ہوئی.وہیں قبائل ہوازن کی طرف سے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے.بچہ.یہ نام پہلے بھی سُنا ہے.ماں.جی ہاں آپ کی دایہ حلیمہ قبیلہ ہوازن سے تعلق رکھتی تھیں.اُن لوگوں نے

Page 122

۱۲۲ آکر اسی واسطے سے معافی مانگی.آپ نے اپنے اور بنو عبدالمطلب کے حقے کے قیدیوں کو معافی دے دی اس پر سب مہاجرین و انصار نے اپنے قیدیوں کو بھی آزاد کر دیا.قیدیوں کی تعداد چھ ہزار تھی.بچہ.آپ کو اپنی رضاعی والدہ کا کتنا لحاظ تھا.سبحان اللہ ماں.اللہ پاک نے آپ کو معاف کرنے والا دل دیا تھا.ان قیدیوں میں آپ کی رضاعی بہن شما بھی تھیں.اُس نے بتایا کہ میں آپ کی رضاعی بہن شیما ہوں.مگر اتنا زمانہ گذرنے کی وجہ سے آپ انہیں پہچان نہ پائے بشمار نے بتایا کہ آپ نے مجھے کندھے پر کاٹا تھا اس کا نشان ابھی تک ہے آپ کو یاد آگیا آپ نے بڑی عزت سے بٹھایا اور اپنی طرف سے بہت سا روپیہ ، ایک لونڈی اور ایک غلام تحفے میں دے کہ رخصت کیا.اسیرة النبی شبلی نعمانی صاله ، طبقات ابن سعد واصابه و طبری جلد) بچہ.آپ نے بتایا کہ شیما کو اپنی طرف سے تھے دیئے اور جو اتنا مال غنیمت تقسیم ہو رہا تھا اُس میں سے نہیں دیا.ماں.مال غنیمت تو اُن کو ملتا تھا جن کا حق ہوتا تھا.شیما سے تو آپ اپنی ذات کی طرف سے حسن سلوک کرنا چاہتے تھے.مال غنیمت کی تقسیم میں آپ نے اتنی ایمان داری کا سبق دیا کہ کوئی ایک سوئی بھی بغیر اجازت اور بغیر حق کے نہیں لے سکتا تھا.ہاں آپ نئے مسلمان ہونے والوں سے محبت کے اظہار میں مال غنیمت میں سے عطا فرماتے تھے.مقام جعرانہ میں مال کی تقسیم کے بعد کچھ انصاری نوجوانوں نے باتیں کہیں

Page 123

کہ اپنے رشتہ دار قریشی سرداروں کو زیادہ مال عطا فرمایا ہے.آپ کو علیم ہوا تو انصار کو ایک احاطہ میں جمع کروایا ایک مختصر سی تقریر فرمائی.جس میں انصار یہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ذکر فرمایا ہے کہ پہلے کس حال میں تھے پھر اللہ پاک نے ہدایت سے نوازا مال و دولت عطا فرمایا.اتحاد کی طاقت عطا فرمائی.رسول اللہ کی تائید تصدیق اور حمایت کی توفیق دی پھر فرمایا.اسے انصار کیا تم دنیا کی حقیر شے کے لئے رنجیدہ اور غمگین ہو.میں نے اُن لوگوں کو مال دیا ہے جن کو اسلام کی طرف راغب کرنا چاہتا تھا اور تمہیں اسلام کے سپرد کیا ہے.اسے انصار کیا تم اس بات پر راضی نہیں کوئی اُونٹ لے جائے کوئی بکری لے جائے اور تم رسول اللہ کو ساتھ لے جاؤ" پھر آپ نے انصار کو محبت بھری دعائیں دیں وہ ندامت اور محبت میں اس طرح رو ر ہے تھے کہ داڑھیاں گیلی ہوگئیں اور وہ کہہ رہے تھے.ہم رسولِ خدا کی تقسیم پر دل و جان سے راضی ہیں ؟ بیچہ.پیارے آقا نے کس طرح اُن کو خوش کر دیا.سبحان اللہ.ماں - شہ میں ایک اور جنگ ہوئی ، جنگ موتہ کا بدلہ لینے کے لئے عرب کے عیسائیوں نے چالیس ہزار کا لشکر تیار کیا جس کی اطلاع پاکر آپ نے بھی مسلمانوں کو تیاری کا حکم دیا سخت گرمی کا موسم تھا ابھی غلہ اور پھل تیار نہ ہوئے تھے.مالی تنگی بھی تھی شکر کی تیاری پر بڑا خرچ ہوتا ہے

Page 124

۱۲۴ آپ نے جاتی اور مالی دونوں طرح کی قربانی کی اپیل کی جس پر صحابہ نے اپنی توفیق کے مطابق حصہ لیا سب سے زیادہ مالی قربانی حضرت عثمان غنی نے کی سو اونٹ ، پچاس گھوڑے اور ایک ہزار سونے کے دینار دیئے آپ نے خوشی کا اظہار فرمایا اور دعا دی.یہ اسے اللہ میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا.“ اسی موقع کا وہ مشہور واقعہ ہے کہ حضرت عمر رضہ اپنے مال کا نصف لے آئے اور آپ کے قدموں میں پیش کر دیا.اور سمجھے کہ اب ابو بکر رض کیسے آگے بڑھ سکیں گے.بچہ.حضرت ابو بکر رضہ تو اپنا سارا مال سے آئے تھے.ماں.جی ہاں اللہ پاک نے اُن کو بڑا دل دیا تھا.آپؐ نے فرمایا : ابو کہ اپنے گھر والوں کے لئے بھی کچھ چھوڑا ہے.حضرت ابو بکر رضہ نے فرمایا " اُن کے لئے اللہ اور اللہ کا رسول کافی ہے" اس طرح تیس ہزار کا لشکر تیار ہوا.آپ اپنے شکر کے ساتھ چودہ دن سفر کر کے تبوک پہنچے وہاں میں دن ٹھہرے مگر دشمن سامنے ہی نہ آیا اور آپ واپس تشریف لے آئے بیچہ.آپ نے یہ بتایا ہی نہیں کہ اس عرصے کے لئے کس کو امیر مقرر فرمایا.ماں.اس موقع پر اپنی غیر حاضری میں آپ نے حضرت علی رض کو امیر مقرر فرمایا.منافق لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ آپ کے نزدیک حضرت علی نہ کی کوئی قدر نہیں اس لئے پیچھے چھوڑ گئے ہیں.حضرت علی کو علم ہوا تو بھاگے بھاگے رسول اللہ کے پاس گئے اور سارا ماجرا بیان کیا.آپ نے

Page 125

۱۲۵ فرمایا یہ علی یہ لوگ جھوٹے ہیں میں نے تمہیں گھر بابہ کی حفاظت کے لئے چھوڑا ہے.انت منی بمنزلة هارون من موسى تم مجھے ایسے ہی ہو جیسے موسی کے لئے ہارون مگر فرق یہ ہے کہ تم نبی نہیں ہو " حضرت علی خوش خوش واپس آگئے.تبوک کے قیام کے دوران ایک ملک ریلہ کا بادشاہ یمینہ بن رو بہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور جزیہ دینا قبول کر لیا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے صلح کرلی اور ایک تحریر بھی ضمانت کے طور پر لکھ کر دی.بینی کندہ کے بادشاہ اکیدر کی طرف حضرت خالد بن ولید کو بھیجا.اُسے شکست ہوئی اکیدر کا بھائی حسان مارا گیا اس کا سرپوش پیر اتنا قیمتی کپڑا اور سونا لگا ہوا تھا کہ جب وہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھیجا گیا تو صحابہ حیران ہو کر دیکھنے لگے آپ نے فرمایا.قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے جنت میں سعد بن معاذ ف کے رومال اس سے بہتر ہیں.(ابن ہشام (۳۳) آپ نے اکیدر سے بھی جزیہ لینا قبول کر کے صلح کرلی.بچہ.اس طرح کافی علاقے کے لوگ مسلمان ہو گئے یا مسلمانوں کے ماتحت ہو گئے.ماں.بات دراصل یہ ہے کہ اردگرد کے لوگ قریش مکہ سے اُن کے رعب اور کعبہ کے مالک ہونے کی وجہ سے خوفزدہ رہتے تھے.اب فتح مکہ کے بعد ان کا اثر اور رعب جاتا رہا.رسول للہصلی اللہ علیہ وسلم کے دینِ

Page 126

174 اسلام کی مقبولیت بڑھتی گئی.بہت بڑے با اثر قبیلے بنو قیف کے لوگ جولات بت کے ماننے والے تھے مسلمان ہو گئے آپ کے حکم سے ابو سفیان بن حرب اور مغیرہ بن شعبہ نے لات کا ثبت خانہ گرا دیا اس طرح ایک وسیع علاقے میں اللہ کی پرستش ہونے لگی بشہ کا آغاز تھا لوگ گروہوں میں آتے اور اسلام لاتے اور کبھی فوجوں کی فوجیں آتیں اور اسلام قبول کرتیں.اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہو رہا تھا.إِذا جاء نصر الله وَالْفَتح اللہ تعالیٰ کی مدد اور فتوحات حاصل ہو رہی تھیں.بنی تمیم بہت بڑی شان و شوکت والا قبیلہ تھا وہ بھی آکر مسلمان ہوئے بنی بکر نے ایک شخص تمام بن ثعلبہ کو رسول کریم کی خدمت میں بھیجا اُس نے آپ سے چند سوالات پوچھے اور سچائی کو پہچان لیا کلمہ پڑھ کے اسلام قبول کیا واپس جا کہ اپنی قوم کو بتایا کہ لات اور معزی جھوٹے ہیں.اللہ ایک ہے اور محمد اس کے رسول ہیں.اُسی روز شام سے پہلے پہلے اس کی تمام قوم مسلمان ہو گئی کوئی مرد یا عورت باقی نہیں رہا.این شام ۳۶۶) 61 بچہ.اب تو شدید مخالفت کرنے والے بھی ماننے لگے تھے.ماں.جی ہاں ! اُن شدید مخالفت کرنے والوں میں ایک سخاوت میں مشہور حاتم طائی کا بیٹا عدی بن حاتم تھا.آپ سے شدید نفرت کرتا تھا حتی کہ ایک دفعہ جب آپ کے لشکر کی آمد کائناتو اپنا ساز و سامان لے کر شام کی طرف روانہ ہو گیا بعد میں بنی کے مفتوح ہوئے جنگی قیدیوں میں عدی

Page 127

۱۲۷ کی بہین سفانہ بھی تھیں.یہ بڑی سمجھدار خاتون تھیں.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آزادی کی درخواست کی.آپ نے کپڑے کھانا اور سواری کے لئے اونٹ دے کر قابل اعتبار لوگوں کے ساتھ شام روانہ کیا شام جاکر اس نے اپنے بھائی سے آپ کے حسن سلوک کی تعریف کی اور اصرار کیا کہ وہ آپ سے جا کر ملے عدی مدینے آئے اپنی آنکھوں سے آپ کے وصاف کر یا نہ دیکھے اور اسلام لے آئے.بچہ.آپ کی باتیں ہی اتنی پیاری ہوتی ہیں.ماں.آپؐ نے اپنے صحابیوں کی تربیت بھی ایسی کی تھی کہ انسانوں سے حسن سلوک کریں.جب ارد گرد کے علاقوں میں مسلمان گورنر بھیجے تو اُن کو ایسی پیاری نصیحتیں فرماتے جن سے انسانوں کی خدمت ہو مثلاً حضرت معاذ بن جبل کو بین بھیجا تو نصیحت فرمائی.لوگوں کے ساتھ نرمی کہ ناسختی نہ کرنا خوشی کی خبریں دینا.نفرت نہ دلانا تم ایسے اہل کتاب کے پاس جا رہے ہو جو تم سے پوچھیں گے جنت کی کنجی کیا ہے تم جواب دینا جنت کی کنجی صرف لا إله إلا الله وحده لا شريك له کی گواہی ہے.“ ابن هشام مه ۳۷) حضرت خالد بن ولید کو بنو حرت کی طرف نجران روانہ کیا اور یہ ہدایت فرمائی کہ لڑنے سے پہلے انہیں تین بار اسلام کی دعوت دنیا اگر قبول کم میں تو بہتر، دوسری صورت میں جنگ کرنی پڑے گی.حضرت خالد نے

Page 128

آپ کے ارشاد کے مطابق دعوت اسلام دی وہ ایمان لے آئے.حضرت خالہ انہیں قرآن پاک پڑھانے اور دین کی تعلیم دینے لگے.اسی طرح آپ خیر اور بھلائی کے پیغام بھجواتے جن کو امراء مقرر فرماتے ان پر نظر بھی رکھتے تاکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر صیح طریق سے عمل ہو.بچہ.یہ کس کسن ہجری کے واقعات ہیں.ماں.یہ شاہ کے واقعات ہیں.اب میں آپ کو حج کے بارے میں بتاتی ہوں.یہ آپ کی زندگی کا پہلا اور آخری حج تھا.اس کو حجۃ الوداع، جتہ الاسلام اور حجتہ البلاغ بھی کہتے ہیں.ذی قعد کا مہینہ شروع ہوا تو حج کی تیاریاں شروع ہو گئیں.بچپسیویں ذی قعد کو حج کے لئے مدینہ سے روانہ ہوئے.بچہ.مدینہ میں امیر کس کو مقرر فرمایا.مال.دو نام لئے جاتے ہیں.ابو دجانہ ساعدی اور سباع بن عرفطه غفاری اس حج میں آپ کے ساتھ ایک لاکھ چوبیس ہزار مسلمان تھے.آپ کی ازواج مطہرات بھی ساتھ تھیں.اس حج کی بڑی شان تھی.ایک مقدس انسان جس کی مکہ کی دادیوں سے یہ آواز اُٹھی تھی کہ اللہ ایک ہے اُس کا کوئی شریک نہیں اور محمدؐ اس کا رسول ہے.آج شدید مخالفتوں کے با وجود ایک اللہ کے پرستاروں کے ساتھ حج ادا کر رہا تھا.آپ کے دل کی کیا کیفیت ہوگی جبکہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کی وفات کے قریب ہونے کے اشارے بھی مل چکے تھے.آپ کو یاد ہو گا جب

Page 129

۱۲۹ شہ ہجری میں حضرت ابو بکر نہ کی قیادت میں حج ہوا تو آپ کو وحی ہوئی تھی.إِذَا جَاءَ نَصُرُ الله وَالْفَتح جب اللہ کی مدد اور کامل غلبہ نظر آجائے گا اور تو ر اس بات کے آثار دیکھ لے گا کہ اللہ کے دین میں لوگ فوج در فوج داخل ہوں گے پس اُس وقت تو اپنے رب کی تعریف کے ساتھ ساتھ) اس کی پاکیزگی (بھی) بیان کرتے میں مشغول ہو جائیو اور اس سے (اپنی قومی تربیت کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کی دعا کیجیو وہ یقینا اپنے بندے کی طرف رحمت کے ساتھ لوٹ لوٹ کر آنے والا ہے.اس سورۃ سے یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ جس بڑے مقصد کے لئے آپ کو اللہ پاک نے دنیا میں بھیجا تھا وہ مکمل ہو چکا ہے پھر آپ کو یہ بھی وحی ہوئی الیوم اکملت لكم دينكم.....( مائدہ (۴) آج میں نے دین تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے.آپ نے اس موقع پر جو خطبہ ارشاد فرمایا اُس میں گویا گل دنیا کو مخاطب فرما کر نصیحیتیں فرمائیں.آپ اپنی ارمنی نمرہ پر سوار تھے.آپ نے فرمایا.اے لوگو ! میری باتوں کو غور سے سنو، کیونکہ میں نہیں جانتا کہ اس سال کے بعد پھر بھی اس موقع پر تم سے مل سکوں گا یا نہیں.اے لوگو! یا درکھو جیسا یہ دن اور یہ مہینہ حرمت والا ہے.اسی طرح تمہاری جان و مال ایک دوسرے پر حرام ہیں.دیکھو امانتیں اُن کے مالکوں کے سپرد کرنی چاہئیں.یہ باتیں جو میں تمہیں کہہ رہا

Page 130

ہوں تم میں سے ہر ایک شخص کا جو یہاں موجود ہے فرض ہے کہ وہ ان کو ان لوگوں تک پہنچائے جو یہاں موجود نہیں.یاد رکھو تم سے تمہارے اعمال کے متعلق پوچھا جائے گا.آج سود کی رقم ترک کی جاتی ہے اور وہ تمام خون جو جاہلیت میں ہو چکے ان کا قصاص معاف کیا جاتا ہے.اے لوگو ! آج شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا کہ پھر کبھی اس کی پرستش اس زمین میں کی جائے.اے لوگو ! عورتوں کا تم پر حق ہے جیسا کہ تمہارا عورتوں پر حق ہے اور وہ تمہارے ہاتھوں میں خدا تعالیٰ کی امانت ہیں.پس تم ان سے نیک سلوک کرو اور دیکھو غلاموں کا بھی خیال رکھو.جو خود کھاتے ہوان کو بھی کھلاؤ جو خود پہنتے ہو ان کو بھی پہناؤ.اسے لوگو !تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک تھا ستو کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں.نہ سرخ کو سیاہ پر اور نہ سیاہ کو سرخ پر کوئی فضیلت ہے تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو متقی ہے.تم سب آدم کی اولاد ہو اور سب مٹی سے بنے ہو.“ پھر آپؐ نے فرمایا." اللہ پاک کو گواہ رکھ کہ تناؤ کہ کیا میں نے اللہ تعالیٰ کا پیغام پوری دنیا کو پہنچا دیا ہے.

Page 131

سب نے یک زبان ہو کہ کہا کہ ہم شہادت دیتے ہیں کہ آپ نے خدا کا پیغام پہنچا دیا." پھر آپ نے آسمان کی طرف انگلی اُٹھائی اور تین بار دہرایا." اسے خدا گواہ رہنا میں نے تیرا پیغام پہنچا دیا ہے.بچہ.پھر آپ کتنا عرصہ مکہ ٹھہرے.ماں.ذی الحج کے مہینے میں واپس تشریف لے آئے مسلسل محنت اور تھکان سے محرم کے مہینے میں آپ کو بخار آگیا مگر کام جاری تھا اور ملاقاتیں بھی، شخع از یمین سے ایک وفد آپ سے ملنے کے لئے آیا یہ آخری دفد تھا جس نے آپ سے ملاقات کی.شام اور فلسطین کی سرحدوں سے گڑ بڑ کی اطلاعیں مل رہی تھیں.طبیعت ذرا سنبھلی تو ۲۶ صفر کو ایک تشکر حضرت اسامہ بن زید کی سالاری میں اُن علاقوں کی طرف روانہ کیا.طبیعت خراب ہی تھی آپ جنت البقیع کے قبرستان تشریف لے گئے اور وہاں دفن ہونے والے مسلمانوں کے لئے دعا کی پھر آپ مقام احد پر تشریف لے گئے اور شہدائے اُحد کے لئے دعا کی.واپس تشریف لائے تو طبیعت ملنے پر وہیں ٹھہر گئے ، زیادہ خراب ہو گئی.حضرت اسامہ ابھی زیادہ دور نہیں گئے تھے اطلاع بچہ.ہمارے پیارے آقا بیماری میں کون سی بیگم کے گھر میں تھے.ماں.پہلے تو باری باری سب کے گھر تشریف لے جاتے تھے مگرجب بیماری شدید ہو گئی تو سب بیگمات سے اجازت لے کر حضرت عائشہ صدیقہ کے تجرے

Page 132

١٣٢ میں تشریف لے آئے.جب آپ حضرت عائشہ کے حجرے میں تشریف لائے تو کمزوری کی وجہ سے اپنی ٹانگوں پر پورا بوجھ نہ ڈال سکتے تھے دو صحابیہ کا سہارا لیا ہوا تھا.(بخاری ومسلم، ابوداؤد) حضرت فاطمتہ اللہ ہرا کو اپنے پیارے ابا جان کی تکلیف سے بہت تکلیف تھی.آپ بھی اُن کو چھوڑ کر جانے کا غم محسوس فرمارہے تھے.اُس وقت باپ نے بیٹی سے ایسی باتیں کیں جن سے دونوں کو حوصلہ ہوا اور بیٹی آنے والے خدائی کے دنوں کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو جائے حضرت فاطمہ رض فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے آہستہ سے ارشاد فرمایا " جبریل ہمیشہ ایک مرتبہ مجھ سے قرآن شریف کا دور کیا کر تے تھے لیکن اس سال دو مرتبہ کیا اور میں جانتا ہوں کہ یہ اس لئے ہوا ہے کہ میری وفات قریب ہی ہونے والی ہے.(بخاری.فضائل القرآن) ایک دفعہ آپ نے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمتہ الزہرا کو بلایا اور آہستہ سے اُن کو کچھ کہا.حضرت فاطمہ رونے لگ گئیں پھر دوبارہ اپنے قریب بلا کہ آہستہ سے کچھ فرمایا تو وہ ہنسنے لگیں.بعد میں حضرت فاطمریض سے پوچھا گیا کہ ایسی کیا بات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھی کہ پہلے اپنے روئیں اور پھر آپ نہیں.آپ نے بتایا کہ پہلی دفعہ یہ فرمایا تھا کہ میں اس بیماری سے وفات پا جاؤں گا تو میں رونے لگی پھر آپ نے فرمایا میرے بعد اہل بیت میں سے سب سے پہلے تم مجھ سے آملو گی اس بات سے میں خوش ہو گئی.

Page 133

١٣٣ حضرت فاطرئہ اپنے پیارے باپ کی تکلیف سے بہت دکھ محسوس کہ رہی تھیں.ایک دفعہ جب آپ بخار کی تیزی سے بے ہوش ہو گئے تو خاطر کے منہ سے نکلا.اُف میرے باپ کی تکلیف » آپ نے فرمایا تیرے باپ کو اس کے بعد تکلیف نہ ہوگی (بخاری شریف) سات آٹھ دن تک بیماری کی حالت میں ہی نماز کی امامت فرماتے رہے مگر جب کمزوری زیادہ ہو گئی تو اُٹھنا مشکل ہو گیا، ایک دن مغرب کے وقت آپ نے حضرت ابو بکرہ کو نماز پڑھانے کے لئے ارشاد فرمایا.حضرت ابو بکر رض اور صحابیہ اس نماز میں بہت روئے عشاء کے وقت بھی آپ کی طبیعت بہت زیادہ خراب تھی.صبح کی نماز کا وقت ہوا تو آپ سے اُٹھا نہ گیا مجرے کا پردہ اُٹھا کر دیکھا.حضرت ابو بکر یہ امامت فرما رہے تھے آپ کو اطمینان ہوا کہ نمازی مسلمان چھوڑ کر جا رہے ہیں.آپ نے سر پر کپڑا باندھا ہوا تھا اسی طرح باہر تشریف لائے.حضرت ابو بکر رض کو محسوس ہوا جیسے آپ تشریف لائے ہیں تو پیچھے ہٹنے لگے.آپ نے حضرت ابو بکررہ کی پشت پر ہاتھ رکھ کر وہیں رہنے کا ارشاد فرمایا خود حضرت ابو بکر کے پہلو میں بیٹھ گئے اور بیٹھ کر صبح کی نماز ادا فرمائی.نماز کے بعد تھوڑی دیر مسلمانوں سے باتیں کیں اور حجرے میں تشریف لے گئے.سب نے سمجھا کہ اب آپ بہتر ہو رہے ہیں اپنے اپنے کام سے نکل گئے حضرت عائشہ فرماتی ہیں جب رسول اللہ مسجد سے واپس تشریف لائے.تو لیٹ گئے ، آپ کا سر حضرت عائشہ کے سینے پر تھا اور حضرت عائشہ نے آپ کو

Page 134

۱۳۴ سہارا دیا ہوا تھا تا کہ آپ کو سانس لینے میں دشواری نہ ہو.آپ نے حضرت عائشہ کے بھائی عبد الرحمن کے ہاتھ میں مسواک دیکھی تو اشارے سے طلب فرمائی منہ دانت اچھی طرح صاف فرمائے ، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ آپؐ آہستہ آہستہ کوئی دعا پڑھ رہے تھے تو میں نے سنا آپ فرمارہے تھے إلى الرفيق الاعلى الى الرفيق الاعلیٰ حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اکثر سول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتی تھی کہ آپ فرمایا کرتے تھے اللہ تعالیٰ ہر بنی کو ان کے انتقال سے پہلے دنیا میں رہتے یا جنت میں تشریف لے جانے کے بارے میں اختیار دیتا ہے جب آپ کے منہ سے یہ جملہ سنا تو سمجھ گئی کہ آپ نے اپنے حقیقی آقا کے حضور حاضر ہونے کو دنیا میں رہنے پر ترجیح دی ہے.آپ اللهم في الرفيق الأعلیٰ کہتے ہوئے دوپہر کے قریب دوشنبہ کے روز ۱۲ ربیع الاول سانحہ مطابق ۲۶ مئی سنہا اپنے رفیق اعلیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.انا للہ وانا اليه راجعون اللهم صل على محمد وعلى ال محمد و بارك و سلم إنك حميد مجيد صحابہ کرام کو آپ کی وفات سے سخت صدمہ پہنچا.حتی کہ حضرت عمرض تو مانتے ہی نہیں تھے کہ رسول اللہ فوت ہو گئے ہیں.حضرت ابو بکر رض حضرت عائشہ کے حجرے میں آئے اور انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ پر سے چادر ہٹا کر پیشانی مبارک کو بوسہ دیا اور کہا انت

Page 135

۱۳۵ طيب حياً وميتاً لن يجمع الله عليكَ الْمَوْتتينِ إِلَّا مَوْتَكَ الأولی تو زندہ اور فوت شدہ دونوں حالتوں میں پاک ہے.خدا تعالیٰ آپ پر سر گنے دو موتیں جمع نہیں کرے گا مگر پہلی موت.....پھر آپ نے اصحاب کرام کو مسجدنبوی میں جمع کیا اور جن اتفاق سے اُس دن تمام صحابہ جو زندہ تھے مدینہ میں موجود تھے پس سب کو جمع کر کے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے منبر پر چڑھ کر یہ آیت پڑھی وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولُ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ انَا مِن مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ (ال عمران : ۳۵) یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف نبی نہیں اور پہلے اس سے سب نبی فوت ہو چکے ہیں پس کیا اگر آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم فوت ہو جائیں یا قتل کئے جائیں تو تم لوگ دین کو چھوڑ دو گے براین احمد به حقیر بنجم حاشیه مر۳۴۵، ۳۷۶) كنتَ السَّوادَ بِناظِرِى فَحَمِي عَلَيْكَ النَّاظِرُ من شَاءَ لَعْدَكَ فَلِمتُ فَعَلَيْكَ كُنتُ أحاذِرُ تو میری آنکھ کی پہلی تھا.تیری موت سے میری آنکھ اندھی ہو گئی اب تیرے بعد کوئی بھی مرتا ر ہے مجھے اس کی پرواہ نہیں.کیونکہ میں تو تیری ہی موت سے ڈر رہا تھا.بچہ.امی میرا دل بہت کر رہا ہے کہ میں آنکھیں بند کر وں تو آپ کو دیکھ سکوں

Page 136

کہ آپ کیسے تھے.ماں.میں بتاتی ہوں.آپ کا قد درمیانہ تھا جو نہ بہت لمبا شمار ہوتا تھا نہ چھوٹا آپ کا رنگ بہت خوبصورت تھا نہ تو بالکل سفید جیسے سرد ممالک کے لوگوں کا ہوتا ہے اور نہ گندمی.آپ کے بال نہ تو گھنگھرالیے تھے اور نہ بالکل سید ھے بلکہ کسی قدر خم دار تھے.آپ کے بالوں کا رنگ گہرا کالا نہیں تھا بلکہ کچھ سرخی مائل تھا.بڑھاپے میں کچھ بال کن بیٹوں کے پاس سفید ہو گئے تھے.بال آپ لیے رکھتے تھے جو کانوں کی کوتک آتے تھے آپ ہمیشہ بالوں میں کنگھی کر تے آخری عمر میں مانگ بھی نکالتے تھے.سر میں تیل یا خوشبو لگانا بھی آپ کی عادت میں داخل تھا.آپ کا جسم بہت نازک اور ملائم تھا.آپ کے جسم سے خوشبو آتی.آپ کا سینہ چوڑا تھا اور دونوں کندھوں کے درمیان بہت فاصلہ تھا.آپ کے ہاتھ پاؤں موٹے تھے اور ہتھیلیاں بہت چوڑی تھیں.آپ سوتی کپڑے خاص طور پر دھاری دار کپڑے پسند فرماتے.آپ آہستہ آہستہ بات کرنے تبسم فرماتے تو دانت موتیوں کی طرح چمکدار نظر آتے.بچہ.اگر میں آپ کے متعلق بہت کچھ جاننا چاہوں تو کیا پڑھوں.ماں.حضرت عائشہ صدیقہ نے فرمایا تھا کہ آپ کا اخلاق گویا قرآن کی تفسیر تھا.سب سے پہلے تو قرآن پاک اور اُس کی تفاسیر میں آپ کو تفصیل ملے گی پھر صحیح احادیث کی کتب میں سیرت مبارکہ کے واقعات

Page 137

۱۳۷ محفوظ ہیں.حضرت مسیح موعود نے خدائی ہدایت کے تحت نئے انداز میں سیرت کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے.اُن کی کتب سے اقتباسات جمع کر کے علیحدہ بھی شائع ہو گئے ہیں.پھر حضرت مصلح موعود کی کتب دیبا چه تفسیر القرآن ، رحمۃ للعالمین ، سیرت خیر الرسل، اسوه حسنه اور دنیا کا محسن ہیں.سیرت حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم " حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد کی تصنیف ہے.دراصل اسی کتاب پہ زیادہ تر انحصار کر کے آپ کے لئے یہ کتابیں مرتب کی گئی ہیں محترم مولانا غلام باری سیف صاحب کی کتاب "محمد" ہے.تاریخوں کے لئے میں نے محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کی عہد نبوی کا قمری شمسی کیلنڈر سے استفادہ کیا ہے.ان کے علاوہ ابن ہشام، سید سلیمان ندوی اور علامہ شبلی کی مرتب کردہ کتب بھی عمدہ ہیں.بچہ.اللہ پاک نہیں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے راستے اپنی محبت حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ہم سے وہ کام کر والے جو آپ کی خوشنودی کا باعث ہوں ہمیں اور ہماری نسلوں کو آپ کے باہرکت دامن سے وابستہ رکھے.آمين اللهم آمین یا رب العالمين - ہم حضرت اقدس عاشق رسول مرزا غلام احمد قادیانی بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے برکتوں بھر سے انداز میں درود و سلام بھیجنے کی سعادت حاصل

Page 138

۱۳۸ کرتے ہیں.آپ نے ساری برکتیں اپنے آقا و مطاع سید الانبیاء - افضل الرسل خير المرسلين قائم النبيين محمدمصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت میں پائیں.اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ.اللهُمَّ بَارِك عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مجيد.ترجمہ.اسے اللہ محمد رسول اللہ پر اور محمد رسول اللہ کی آل پر درود بھیج جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم یہ اور حضرت ابراہیم کی آل پر درود بھیجا ہے.تو بہت ہی تعریف اور بزرگی والا ہے.اسے اللہ محمد رسول اللہ پر اور محمد رسول اللہ کی آل پر برکات نازل فرما.جیسا کہ تو نے حضرت ابراہیم پر اور حضرت ابراہیم کی آل پر برکات نازل کیں.تو بہت ہی تعریف والا اور بزرگی والا ہے.(مکتوبات احمد یہ جلد اول) اللهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِك وَسَلّمْ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اے اللہ آنحضرت پر اور آنحضرت کی آل پر درود اور برکات اور سلام بھیج.تو بہت ہی تعریف والا اور بزرگی والا ہے.

Page 139

اللهُمَّ صَلِّ عَلى نَبِتِكَ وَجِيبِكَ سَيْدِ الْأَنْبِيَاء وَأَفْضَلِ الرُّسُلِ وَخَيْرِ الْمُرْسَلِينَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ مُحَمَّدٍ وَ أَصْحَابِهِ وَبَارِكْ وَسَلَّمْ ر براہین احمدیہ - روحانی خزائن صفحہ ۲۴۶ ۲۴۷) ترجمہ : اے اللہ اپنے نبی اور اپنے محبوب اپنے تمام انبیاء کے سردار اور تمام رسولوں میں سے افضل اور تمام پیغمبروں کے برگزیدہ اور تمام انبیاء کے خاتم حضرت محمد رسول اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی آل پر اور آپ کے صحابہ پر درود اور برکات اور سلام بھیج.اللهُم صَلِّ عَلى سَيِّدِنَا وَمَوْلُسَنَا مُحَمَّدٍ وَالِهِ وَأَصْحَابِهِ أَجْمَعِينَ اسرمه چشیم آریہ - روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۵۰) ترجمہ: اسے اللہ ہمارے سردار اور آقا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی تمام آل اور اصحاب پر درود بیچ.رَبِّ....صَل وَسَلّمْ وَبَارِكْ عَلَى نَبِيِّكَ وَحَيْكَ مُحَمَّدِ خَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَخَيْرِ الْمُرْسَلِينَ وَالِهِ الطَّيِّبِينَ الطَّاهِرينَ وَأَصْحَابِهِ عَمَائِدِ الْمِلَّةِ و الدِّينِ وَعَلَى جَمِيعِ عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ (سر الخلافه صفحه ۲)

Page 140

۱۴۰ اے میرے رب اپنے بیٹی اور اپنے محبوب خاتم النبین خیرالمرسلین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کی آل طیبین طا.بین پر اور آپ کے صحابہ کرام پر جو ملت اور دین - صحابہ پر بہ ملت اور دین کے ستون ہوئے ہیں.اور اپنے تمام نیک بندوں پر درود اور سلام اور برکات بھیج.رَبّ.....صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ خَيْرِ الْمُرْسَلِينَ وَ إِمَامٍ المُتَّقِينَ - وَهَبْ لَه مَرَاتِبٌ مَا وَهَبْتَ لِغَيْرِهِ مِنَ النَّبِيِّينَ - رَبِّ أَعْطِهِ مَا أَرَدْتَ أَنْ تَعْطِيَنِي مِنَ النَّعْمَاءِ ثُمَّ اغْفِرُنِي بِوَجْهِكَ وَأَنْتَ اَرْحَمُ الرَّحَمَاءِ ر اعجاز اسیح - روحانی خزائن جلد ۱ صفحه ۲۰۰) ترجمہ (اے میرے رب) تمام رسولوں میں سے برگزیدہ اور تمام منیوں کے پیشوا حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج.اور آپ کو وہ مراتب بخش.جو تو نے کسی اور نبی کو نہیں بخشے اے میرے رب جو نعمتیں تو نے مجھے دینے کا ارادہ کیا ہے وہ بھی آپ کو ہی دے.اور پھر مجھے اپنے وجہ کہ یم کے طفیل بخش دے.اور تو تمام رحم کرنے والوں سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے.اللهُمَّ صَلِّ وَسَلّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ وَالِهِ بِعَدَدِ هَمِّهِ وَعَمِهِ وَحُزْنِهِ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ وَانْزِلْ عَلَيْهِ انْوَارَ رَحْمَتِكَ إِلَى الْأَبَدِ د بركات الدعا.روحانی خزائن جلد 4 صفحہ )

Page 141

۱۴۱ اے اللہ آپ پر اور آپ کی آل پر اس قدر درود اور سلام اور برکات بھیج جس قدر آپ نے اس امت کی خاطر ہم د غم اٹھایا.اور ابدالاباد تک آپ پر اپنی رحمت کے انوار نازل فرما.

Page 142

مقام بدر کا میدان جنگ جبل أحد

Page 142