Language: UR
مکرم حافظ مسرور احمد صاحب اپنے نہایت لگن سے کلام اللہ قرآن کریم کو حفظ کرنے کی فضیلت، اسلامی معاشروں میں مردوں اور خواتین کے قرآن کریم کے متن کو زبانی یاد کرنے کی اہمیت اور اس نہایت مقدس کام کی برکات پر اس کتاب میں قابل قدر مواد جمع کردیا ہے۔ اس زندہ اور زندگی بخش کلام کو حفظ کرنے فضائل قرآن کریم سے، احادیث مبارکہ سے درج کرکے حفاظ کے اکرام اور بلند مقام پر روشنی ڈالی ہے۔ اس کتاب میں تلاوت قرآن کریم کے فضائل، حفظ کرنے کی عمر، قوت حافظہ کو بڑھانے کے لئے بعض دعائیں اور نسخے، حفظ قرآن کی تاریخ، اور حفظ قرآن پر ہونے والے اعتراضات اور ان کے جوابات کے حوالہ سے مفید مواد کو مرتب کیا گیا ہے۔ نیز اس کتاب میں علاوہ دیگر مفید مواد کےحفظ قرآن کے حوالہ سے جماعتی تاریخ کو بھی محفوظ کیا گیا ہے۔
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر : 10) حفظ قرآن کی فضیلت، اهمیت اور بركات
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات ii نام کتاب : حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات طبع اول : دسمبر 2010 { جملہ حقوق بحق مصنف محفوظ ہیں }
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات iii انتساب زندہ اور زندگی بخش کلام قرآن کے نام.قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے بے اس کے معرفت کا چمن نا تمام ہے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات iv واجْعَلْ فِي مِنْ لَّدُنكَ سُلْطَانًا نَّصِيرًا نا فَتَحْنَا لَكَ فتحامين نَحْمَدُهُ وَنُصَلّى عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمَ وَ عَلَى عَبْدِهِ الْمَسِيحِ المَوْعُود خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ هو الناصر امام جماعت احمدیہ مندان 24.08.10 پیارے مکرم السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاته آپ کا خط ملا جس میں آپ نے اپنی کتاب " حفظ قرآن کی فضیلت و اہمیت مکمل کرنے کا ذکر کیا ہے.اللہ آپ کی مساعی جمیلہ میں برکت دے اور اپنے فضلوں سے نوازے.اللہ آپ کو علم و عرفان میں مزید ترقی دے اور بہترین رنگ میں مقبول خدمت دین کی توفیق دے.آمین والسلام خاکسار خليفة المسيح الخامس
صفحه 1 4 7 13 14 18 20 22 32 42 فهرست عناوین عناوين سبب تالیف پیش لفظ حرف آغاز حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات اظہار تشکر باب اول: حفظ قرآن کی فضیات و اہمیت قرآن کریم ہی کلام الہی ہے قرآن کریم کے حفاظ باب دوم : فضائل حفظ قرآن کریم از روئے قرآن باب سوم : فضائل حفظ قرآن کریم از روئے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حفاظ کا اکرام اور ان کا بلند مقام
65 77 81 84 89 101 108 110 115 123 vi قرآن کریم کے حقوق حفاظ کے لیے اہم اور فکر انگیز نصائح حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات حفظ کے لیے آنحضرت ﷺ کی سکھائی ہوئی دعا قرآن کریم حفظ کرنے کی عمر تلاوت قرآن کریم کے فضائل باب چهارم تجوید کے ساتھ حفظ کرنے کی فضیات باب پنجم : قرآن کریم کے آداب و آداب تلاوت تلاوت قرآن کریم کے محاسن و عیوب سجدہ تلاوت استفہامیہ آیات کے جواب میں پڑھی جانے والی دعائیں رمضان المبارک اور قرآن کریم
vii حفظ قرآن کے لیے ضروری ہدایات اور نصائح 125 130 137 140 141 145 158 162 171 173 حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات باب ششم : حفظ قرآن کے طریق اور حفاظ کے لیے ضروری نصائح حفظ کیا گیا قرآن کریم ( منزل) یا درکھنے کے لیے نصائح قوت حافظہ کے لیے بعض نسخہ جات معلومات قرآن برائے حفاظ باب ہشتم تاریخ حفاظت قرآن بذریعہ حفظ قرآن حفظ قرآن کی فضیلت (غیروں کی نظر میں ) حفظ قرآن پر اعتراض کا جواب مختصر تعارف کتب احادیث مذکورہ باب هشتم جماعت احمدیہ اور حفظ قرآن کریم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسیہ 178
193 198 201 206 211 viii حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات باب نهم : حفظ قرآن کے لیے اداروں کا قیام جماعت احمدیہ میں سن رسیدگی میں حفظ قرآن کی بعض مثالیں تعلیم القرآن ،حفاظ کا اہم فریضہ قرآن کریم کا دور مکمل کرنے پر دعائیں ایک عظیم دعا
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 1 اک سحر ہے اعجاز صحیفہ ید میں ہے ہی ساک کے مجھے جس گھر میں یا سینہ میں برکت کے لئے ہے سبب تالیف ہے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم سیکھنے والے اور سکھانے والے کو سب سے بہتر وجود قرار دیا ہے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت کے بہترین لوگ حاملین قرآن یعنی قرآن کریم حفظ کرنے والے اور رات کو عبادت کرنے والے ہیں.ایک موقع پر فرمایا: لوگوں میں سب سے غنی حاملین قرآن یعنی قرآن کریم حفظ کرنے والے ہیں جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو محفوظ کر دیا.ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقیناوہ شخص ایک ویران گھر کی مانند ہے جس کے سینے میں قرآن کریم کا کوئی حصہ محفوظ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: جمال و حسن قرآں نور جان ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا شبہ سب سے بڑے معلم قرآن ہیں.قرآنِ پاک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مطہر پر نازل ہوا.اس پاک الہی صحیفہ کو آپ اور آپ کے متبعین نے بڑی محبت سے پڑھا، بڑی محنت سے اس کو یاد کیا اور اس کے ایک ایک لفظ پر عمل پیرا ہونے کی مبارک سعی فرمائی.آغاز اسلام سے ہی صحابہ کرام، تابعین اور پھر نتبع تابعین قرآن کریم حفظ کرنے کی
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 2 سعادت پاتے رہے.اپنے اسلاف کی ان اعلیٰ پاکیزہ اور دینی اقدار کی حفاظت کی خاطر بعد کے مسلمان بھی قرآن کریم کو حفظ کرنے میں کوشاں رہے یہاں تک کہ بعض خاندانوں میں یہ سلسلہ نسل در نسل چلا.دین اسلام میں حفظ قرآن کریم کی بڑی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک مومن مردوزن کے لیے ضروری قرار دیا ہے کہ وہ قرآن کریم کا کوئی نہ کوئی حصہ زبانی یاد کرے کیونکہ روزانہ پانچ نمازوں اور نوافل میں تلاوت کرنے کے لئے سورۂ فاتحہ کے ساتھ ساتھ قرآن کریم میں سے دیگر آیات کی تلاوت بھی ضروری ہوتی ہے.نماز تہجد کے لیے عام معمول سے کچھ زیادہ قرآن کریم حفظ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.قرآن کریم مکمل حفظ کرنے والوں کو بھی اسے یادرکھنے کے لیے مسلسل پڑھنا اور دُہرانا ضروری ہوتا ہے جس کا ایک بہترین طریق یہ ہے کہ نمازوں میں مختلف سورتیں یا آیات بدل بدل کر پڑھی جائیں.دور حاضر کی مادہ پرستی اور نفسانفسی میں جبکہ انسانیت پر گمراہی اور لادینیت کی یلغار ہو چکی ہے، ضرورت ہے کہ اس الہی کلام سے فیض حاصل کیا جائے ، زیادہ سے زیادہ اس کی تلاوت کی جائے اور اپنی عملی زندگیاں اس کے مطابق بنانے کے لیے اس کے مطالب اور تعلیمات پر غور کیا جائے اور اپنے لیے ایک روشن لائحہ عمل ترتیب دیا جائے تا کہ زندگی آسان، پر امن اور آراستہ ہو جائے.اس کتاب کو تالیف کرنے کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اس کے ذریعہ احباب جماعت میں حفظ قرآن کریم کا شوق اور جذبہ اُجاگر کیا جائے تاکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیاری جماعت کا ہر فرد قرآن کریم کی محبت میں سرشار ہو کر قرآن کریم کا کوئی نہ کوئی حصہ حفظ کر کے اس کی برکات سے فیض یاب ہو اور یاد کیے ہوئے حصوں کو دہراتا بھی رہے.فی زمانہ ہر ایک احمدی کی یہ ذمہ داری ہے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 3 کہ قرآن کریم کی لفظی حفاظت کے لیے بھی کمر بستہ رہے.اس کتاب کے ذریعہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کی طرف توجہ دلانا بھی مقصود ہے.کیا ہی اچھا ہواگر ہر احمدی گھرانے میں سے کم از کم ایک فردضرور حافظ قرآن ہو، یا کم از کم ہر خاندان میں ایک حافظ ضرور ہو.ہمارا ہر گھر تعلیم قرآن سے آراستہ اور ہر دل نور فرقاں سے منور ہو جائے.آمین دوسرا بڑا سبب تالیف کا یہ ہے کہ کتابی شکل میں اس موضوع پر کچھ نہ کچھ مواد احباب جماعت کے پاس موجود ہوتا کہ قرآن کریم، احادیث نبوی اور فرمودات حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفا کے ارشادات کی روشنی میں اس مضمون کی اہمیت،فضیات اور برکات سب پر واضح وما توفيقى الا بالله گر قبول افتدز ہے عز وشرف امید ہے یہ کتاب عام طبقہ اور طبقہ خاص (حفاظ) کے لیے بہت مفید اور بابرکت ثابت ہو گی.اللہ تعالیٰ اس مساعی میں برکت ڈالے اور یہ کتاب نافع الناس ثابت ہو.آمین
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 4 پیش لفظ انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کے رنگ میں رنگین ہونا اور صفات الہیہ کا مظہر بننا ہے.اس مقصد کی تکمیل اور انسان کی رشد و ہدایت کے لیے اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام کا سلسلہ جاری فرما کر تقاضائے زمانہ اور لوازمہء بشریت کے تابع شرائع نازل فرما ئیں اور جب استعدادات انسانی اور قوائے بشری ارتقاء کے لحاظ سے اپنے کمال کو پہنچے تو اللہ تعالیٰ نے انسانوں میں سے ایک اتم اور اکمل اور اعلیٰ اور ارفع فردسید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا اور آپ کو کامل اور روشن اور پُر از حقائق و معارف شریعت عطا فرمائی اور یہ الہی رموز و حقائق اور ربانی اسرار و دقائق پر مشتمل کتاب قرآن مجید ہے.اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ حرف بحرف کلامِ الہی ہے.اس کلام الہی کی تأثیرات کا پہلا اور کامل جلوہ سید نا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات میں ہوا اور كَانَ خُلُقُهُ الْقُرآن“ کے مصداق سرا پا قرآن کا روپ دھار گئے.ہو اگر تمثیل ممکن اس کلام پاک کی لا جرم اس کا محمد مصطفے کردار ہے امت محمد یہ اس لحاظ سے بہت ہی خوش قسمت ہے کہ اُس کو وہ شریعت ملی جو مکمل ضابطہء حیات ہے.اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی لفظی اور معنوی حفاظت کا وعدہ بھی فرمایا: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر :10) ترجمہ: بے شک ہم نے ہی اس ذکر ( یعنی قرآن ) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.چنانچہ نزول قرآن کریم سے لے کر آج تک ہر صدی میں لاکھوں افراد کے مقدس سینے اس کی لفظی حفاظت پر مامور رہے اور قرآن جس کے معنی ہی پڑھی جانے والی کتاب ہے دنیا بھر کے کم و بیش ہر حصہ اور لیل و نہار کی ہر ساعت اس کے زندگی بخش کلمات اور اس کی روح پرور آیات کی سحر انگیز تلاوت سے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 5 معطر اور مخمور ہے.نیز اس کی معنوی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے اُمتِ محمدیہ میں مجددین کرام کا سلسلہ جاری فرمایا جو قرآن کریم میں بیان فرمودہ حقائق و معارف الہیہ اور دقائق و اسرار ربانیہ اور رموز و نکات رحمانیہ تقاضائے عصریہ کے مطابق منکشف فرماتے رہے.عصر حاضر میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام نے اپنے آقا حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں قرآن کریم سے ایسا سچا عشق اور لازوال پیار کیا کہ فدائیت میں ان کا دل فرط محبت سے جھوم اٹھا.دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے آپ علیہ السلام نے حقائق و معارف قرآنیہ اور دقائق وغوامض فرقانیہ کے روحانی خزائن عطا فرمائے اور فرمایا: تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کر وایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو، کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا الْخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرانِ که تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.“ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 ، صفحه (27) حدیث مبارکہ ہے کہ قرآن کریم کے ہر حرف پڑھنے پر دس گنا ثواب ہے.اور الم سے ایک حرف مراد نہیں بلکہ الف ایک حرف ہے، میم ایک حرف ہے، اور لام ایک حرف ہے.یہ کتنی پر مغز اور برکتیں بخشنے والی کتاب ہے.اس کی روزانہ تلاوت اور اس پر غور وفکر کر کے برکتوں کے سمیٹنے کی تڑپ ہر دل میں ہونی چاہیے تا کشت ایمان سرسبز و شاداب رہے.اور اس کو ہر دم تازہ رکھنے کے لیے غلافوں کی بجائے سینوں میں سجانے اور حفظ کرنے کا جذبہ ہر روح کو دامن گیر ہونا چاہیے تا حفاظت قرآن کے وعدہ الہی کے علمبردار ہونے کی سعادت حاصل کریں.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: سوخدا تعالیٰ نے بموجب اس وعدہ کے چار قسم کی حفاظت اپنے کلام کی کی.اوّل :
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 6 حافظوں کے ذریعے سے اس کے الفاظ اور ترتیب کو محفوظ رکھا اور ہر ایک صدی میں لاکھوں ایسے انسان پیدا کیے جو اس پاک کلام کو اپنے سینوں میں حفظ رکھتے ہیں.دوسرے ایسے آئمہ اور اکابر کے ذریعہ سے جن کو ہر ایک صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے جنہوں نے قرآن شریف کے اجمالی مقامات کی احادیث نبویہ کی مدد سے تفسیر کر کے خدا کی پاک کلام اور پاک تعلیم کو ہر ایک زمانہ میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا.تیسرے متکلمین کے ذریعہ سے جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عقل کے ساتھ تطبیق دے کر خدا کی پاک کلام کو کو نہ اندیش فلسفیوں کے استخفاف سے بچایا ہے.چوتھے روحانی انعام پانے والوں کے ذریعہ سے جنہوں نے خدا کی پاک کلام کو ہر ایک زمانہ میں معجزات اور معارف کے منکروں کے حملہ سے بچایا ہے.“ ايام الصلح - روحانی خزائن جلد 14 صفحه (288) ماشاء اللہ مکرم قاری مسرور احمد صاحب نے حفاظت قرآن کریم کے اس پہلے ذریعہ حفظ قرآن کی اہمیت،فضیلت اور برکات پر اس کتاب میں اچھا مواد تر تیب دیا ہے.اللہ تعالیٰ ان کی یہ کوشش قبول فرمائے اور ہم سب کو اور ہماری نسلوں کو قرآن کریم پڑھنے ، اس کو حفظ کرنے ، اس کے معانی اور معارف سمجھنے کی سعادت نصیب فرمائے تانسل در نسل ہمارے قلوب انوار قرآنیہ سے منور ہوتے رہیں.آمین
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 7 حرفِ آغاز نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے پاک وہ جس ایک شاعر کہتا ہے اور کیا ہی خوب کہتا ہے: اجلی نکالا انوار کا دریا نکلا نہ ہو ممتاز کیوں اسلام دنیا بھر کے دینوں میں وہاں مذہب کتابوں میں یہاں قرآن سینوں میں قرآن کریم رُشد و ہدایت کا ایسا سر چشمہ ہے جس نے ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں گمراہ انسانوں کو حق کا سیدھا راستہ دکھایا.تاریخ عالم گواہ ہے کہ جس دور میں یہ الہی کتاب نازل ہوئی اُس وقت لوگ جاہلا نہ بلکہ حیوانوں سے بھی بدتر زندگی بسر کر رہے تھے.دینی حالت تو مفقود تھی ہی عام اخلاق سے بھی عاری یہ لوگ دنیاوی طور پر بھی نہایت پسماندہ اور بہیمانہ طرز زندگی کا سفلی نمونہ تھے.حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ اور قرآن کریم کی برکات اور تعلیمات نے ان لوگوں کو مہذب اور متمدن انسان بنادیا یہاں تک کہ جاہل کہلانے والے یہی عرب، دُنیا کے ہر علم کے بانی مبانی اور استاد مانے گئے.نہ صرف اچھے اور مہذب انسان بلکہ باخدا اور پھر خدا نما انسان بن گئے.یہ نتیجہ تھا كَانَ خُلُقُهُ الْقُرآن کی قوت قدسیہ کا صلی اللہ علیہ وسلم.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی تأثیر کا پوچھیں تو اُس وقت کو یاد کریں جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اپنی مسحور کن آواز میں اپنے گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کرتے تو مشرک اور غیر مسلم خواتین اور بچے آپ کی مسحور کن آواز میں یہ پاک اور پُر تاثیر کلام سننے کے لیے جمع ہو جاتے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آیات قرآنی کی تلاوت کرتے اور زار زار روتے ہوئے حیرت سے تکتے اور متاثر ہوئے بغیر نہ رہتے.یہاں تک کہ سردارانِ قریش کو یہ فکر دامن گیر ہوگئی کہ کہیں یہ لوگ قرآن کریم کی آیات سن سن کر اس نئے دین میں شامل ہی نہ ہو جائیں.اگر اس کے لفظی و معنوی اعجاز کی بات کریں
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 8 تو حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے والا واقعہ پڑھ لیں کہ کس طرح اس پاک کلام کی ظاہری شان اور باطنی شوکت نے ان کو اسلام کا گرویدہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق بنا دیا.کبار صحابہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے مکہ کی گلیوں سے گزرتے اور کفار مکہ کے ظلم وستم کا شکار ہوتے ، ان کے چہروں پر تھپڑ مارے جاتے ، ان کے چہروں کو چمڑے کے جوتوں سے لہولہان کر دیا جاتا ، وہ بے ہوش ہو جاتے اور جب ہوش میں آتے تو ان کے لبوں پر کراہوں کی جگہ یہ ہوتا کہ قرآن کریم کی محبت میں مارکھانے کا مزا اٹھانے کے لیے ایک بار پھر ہم مکہ کی گلیوں میں جانا چاہتے ہیں.اسی پارس سے مس ہوئے تو عثمان رضی اللہ عنہ فنی بن گئے اور علی رضی اللہ عنہ حیدر کرار اور شیر خدا بن کر اُبھرے، قرآن کریم سے عشق کی بدولت حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اور حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما مفسرین قرآن بن کر اسلام کے فلک پر چمکے.قرآن کریم کا سب سے بڑا اعجاز اور عظمت کا سب سے بڑا نشان یہ ٹھہرا کہ رحمان خدا نے اس کو لفظاً لفظاً نازل فرمایا اور درسا در سا اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھایا اور سمجھایا اور اس کی حفاظت کا وعدہ کرتے ہوئے فرمایا: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر : 10) ترجمہ: ہم ہی اسے نازل کرنے والے ہیں اور ہم ہی اس کی ہر قسم کی حفاظت کرنے والے ہیں.پس قرآن کریم دنیا کی وہ واحد کتاب ہے کہ اگر اس کے تمام کتابی نسخے یک لخت دنیا سے مٹا دیے جائیں تب بھی اس کتاب کو اسی صورت میں ضبط تحریر میں لایا جا سکتا ہے جس طرح یہ نازل ہوئی ہے کیونکہ یہ دنیا کی واحد کتاب ہے جس کے حفاظ اس دنیا میں کثرت کے ساتھ موجود ہیں اور اسلام کے ہر ایک فرقہ میں ، ہر زمانہ اور ہر صدی میں قرآن کریم کے حفاظ کی ایک بڑی تعداد موجود رہی ہے جو پوری صحت وصفائی کے ساتھ قرآن کریم کے نقطہ نقطہ اور شعنہ شعشہ کی حافظ وضامن رہی.الحمدللہ یہ کام ایک قادر و توانا ہستی کے علاوہ کسی کے لیے ممکن نہیں تھا اور نہ ہے.پس یہ قادر و غالب ہستی اللہ تعالیٰ ہے.ثم الحمد للہ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات فرماتے ہیں: 9 بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام انصاف سے دیکھنا چاہیے کہ مسلمان جس پاک اور کامل کتاب پر ایمان لائے ہیں کس قدر اس مقدس کتاب کو انہوں نے اپنے ضبط میں کر لیا ہے عموماً تمام مسلمان ایک حصہ کثیر قرآن شریف کا حفظ رکھتے ہیں جس کو پنچ وقت مساجد میں نماز کی حالت میں پڑھتے ہیں.ابھی بچہ پانچ یا چھ برس کا ہوا جو قرآن شریف اس کے آگے رکھا گیا.لاکھوں آدمی ایسے پاؤ گے جن کو سارا قرآن شریف اوّل سے آخر تک حفظ ہے اگر ایک حرف بھی کسی جگہ سے پوچھو تو اگلی پچھلی عبارتیں سب پڑھ کر سنا دیں اور مردوں پر کیا موقوف ہے ، ہزاروں عورتیں سارا قرآن شریف حفظ رکھتی ہیں.کسی شہر میں جا کر مساجد و مدارس اسلامیہ میں دیکھو صد ہالڑکوں اور لڑکیوں کو پاؤ گے کہ قرآن شریف آگے رکھے ہیں اور با ترجمہ پڑھ رہے ہیں یا حفظ کر رہے ہیں.“ (شحنه حق، روحانی خزائن جلد دوم صفحه 332,331) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: مسلمانوں میں حفظ قرآن کی شروع سے اتنی کثرت پائی جاتی ہے کہ ہر زمانہ میں ایک لاکھ سے دولاکھ تک حافظ دنیا میں موجود رہا ہے.بلکہ اس سے بھی زیادہ حافظ دنیا میں پائے جاتے ہیں....عام طور پر یورپین مصنف اپنی نا واقعی کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ جبکہ دنیا میں بائیبل کا کوئی حافظ نہیں ملتا تو قرآن شریف کا کوئی حافظ کہاں ہوسکتا ہے حالانکہ قرآن کریم کا یہ معجزہ ہے...،، (دیباچه تفسیر القرآن صفحه (276 مزید فرماتے ہیں: ”دوسری چیز جس کی طرف دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ قرآن کریم حفظ کرنا ہے، یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے.“ (تقریر فرموده 21 جون 1946ء - مشعل راه جلد اوّل صفحه (469) |
10 حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات لفظ قرآن میں پیش گوئی: لفظ قرآن کا معنی ہے بار بار اور کثرت سے پڑھی جانے والی کتاب.یہ بھی ظاہر ہے کہ جو کتاب بار بار پڑھی جائے اس کے پڑھے جانے والے بھی تعداد میں کثرت سے ہوں گے.پس لفظ قرآن میں آئندہ زمانہ میں کثرت تلاوت کی پیش گوئی کے ساتھ ساتھ اس کے ماننے والوں کے لیے ہدایت اور پیغام بھی ہے کہ وہ اس کو بہ کثرت اور بار بار پڑھیں اور اپنی عملی زندگیوں کا حصہ بنائیں.پس به حیثیت اُمت بلا تفریق فرقہ تمام مسلمان بالعموم اور حفاظ قرآن کریم بالخصوص کثرت کے ساتھ اس کی تلاوت کر کے اس ہدایت پر عمل پیرا ہو رہے ہیں.چونکہ اس وقت دنیا کے ہر خطہ میں مسلمان پائے جاتے ہیں اور ہر جگہ حفاظ موجود ہیں اس لیے ہم بلا مبالغہ دعولی کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم پر سورج غروب نہیں ہوتا اور یہ بھی کہ دنیا میں یہی واحد الہامی کتاب ہے جو اپنی الہامی زبان میں نزول کے وقت سے لے کر اب تک لفظ بہ لفظ محفوظ ہے اور بہ کثرت پڑھی جاتی ہے اور مسلمانوں کے ہر طبقہ اور ہر ایک فرقہ میں اس کے جزوی یا مکمل طور پر قاری و حافظ اور تلاوت کرنے والے موجود ہیں.عربی میں کہاوت ہے کہ الْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ کسی کی خوبی یا فضیات کا پتہ اس طرح چلتا ہے کہ اس کے مخالف یا اس کو نہ ماننے والے اس کے بارہ میں کیا رائے رکھتے ہیں.چنانچہ جب ہم اس نقطہ نگاہ سے دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے علما اور ماہرین علوم قرآن کریم کے بارہ میں بہت ہی اچھی رائے رکھتے ہیں.رقم طراز ہیں: حفظ قرآن کریم کے غیر معمولی تواتر کے بارہ میں ممتاز مستشرق Kenneth Cragg "....this phenomenon of Qur'anic recital means that the text has traversed the centuries in an unbroken living sequence of devotion.It cannot, therefore, be handled as an antiquarian thing, nor as a historical document out of a distant past.The fact of hifz
11 حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات (Qur'anic memorization)has made the Qur'an a present possession through all the lapse of muslim time and given it a human currency in every generation, never allowing its relegation to a bare authority for reference alone." ترجمہ: تلاوت قرآن کریم کا اعجاز یہ ہے کہ متن قرآن کریم صدیوں کا سفر طے کرتے ہوئے انتہائی محبت اور خلوص اور وقف کی روح کے ساتھ ایک تواتر سے ہم تک پہنچا ہے.لہذا اس کے ساتھ نہ تو کسی قدیم چیز جیسا سلوک روا رکھنا درست ہے اور نہ ہی اسے محض تاریخی دستاویز سمجھنا درست ہے در حقیقت حفظ کی خوبی نے اس کتاب کو مسلم تاریخ کے مختلف ادوار میں زندہ و جاوید رکھا ہے اور بنی نوع کے ہاتھ میں نسلاً بعد نسل ایک معتبر چیز تھمادی اور کبھی بھی محض غیر ا ہم کتابی صورت میں نہیں چھوڑا.(Kenneth Cragg.The Mind of the Quran.London: George Allen & Unwin.1973,p.26) ولیم گرا ہم لکھتے ہیں: The Qura'an is perhaps the only book, religious or secular, that has been memorized completely by millions of people.ترجمہ: مذہبی اور غیر مذہبی کتب میں سے قرآن کریم شاید واحد کتاب ہے جو لاکھوں لاکھ لوگوں کے ذریعے مکمل طور پر حفظ کی جاتی رہی.(William Graham.Beyond the Written Word.UK Cambridge University Press.1993, page.80 ) مشہور مستشرق سرولیم میور لکھتے ہیں : ہر ایک مسلمان قرآن کریم کا کچھ نہ کچھ حصہ حفظ کرتا تھا اور مسلمانوں کی قدیم سلطنت میں جو شخص جس مقدار تک قرآن پڑھ سکتا تھا، اسی اندازے کے مطابق اس
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 12 کی قدر و منزلت ہوتی تھی اور عرب کی رسم تکریم سے اس کی خاص تائید ہوتی.ان کی قوت حافظہ انتہائی معیار کی تھی اور اس کو وہ لوگ قرآن کے لیے یہ کمال سرگرمی کام میں لاتے.ان کا حافظہ ایسا مضبوط اور ان کی محبت ایسی قوی تھی کہ حسب روایات قدیم اکثر اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پیغمبر کی دیات ہی میں بڑی صحت کے ساتھ تمام وحی کو اپنے حافظے سے پڑھ سکتے تھے.“ (ترجمه از لائف آف محمد، مطبوعہ لندن، ایڈیشن 1877ء- صفحه 552،551 ) پس قرآن کریم کو حفظ کرنا نہ صرف باعث اعزاز ہے بلکہ موجب شرف و افتخار بھی ہے.دراصل ہر مسلمان کی فلاح اور آخرت کے انعامات حاصل کرنے کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ جو آج ہمارے درمیان موجود ہے یہی خدا کا کلام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے تمام خالفا تعلیم قرآن کی طرف توجہ دلاتے رہے ہیں.چاہیے کہ ہم خود بھی اور ہماری نسلیں بھی قرآن کریم کا فیض پائیں.اس کے احکام پر عمل پیرا ہو کر آخرت کے بے شمار انعامات پائیں اور اُخروی عذاب سے نجات کے سامان کریں.مبارک ہیں وہ لوگ جو اس عظیم کلام کو نہ صرف پڑھتے ہیں بلکہ اس کو زبانی یا دکر کے اپنے سینوں میں خدا کا نورا تارتے ہیں.اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ اور خصوصاً جماعت احمدیہ کو بہ کثرت ایسے افراد دے، جن کے دل قرآنی انوار کا مجمع ہوں اور وہ علوم قرآن کے حامل ، اس کی تعلیمات پر عامل اور بنی نوع انسان کو قرآن کریم سے محبت کرنا سکھا دیں.آمین خاکسار محمد مقصود احمد منیب مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 13 اظهار تشكر سب سے پہلے خاکسار خدائے ذوامن کا شکر گزار ہے جس نے اپنے فضل واحسان سے مجھے اس اہم اور بابرکت کتاب کو لکھنے کی توفیق اور سعادت عطا فرمائی.الحمد للہ علی ذالک خاکسار اس کتاب کی اشاعت کے موقع پر اپنے والدین اور اساتذہ کرام کی خصوصی شفقت، راہنمائی ، اور ان کی دعاؤں پر ان کا احسان مند ہے.خاکسار اس بابرکت کتاب کی تیاری میں خاص طور پر برادرم مکرم محمد مقصود احمد منیب صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کا خصوصی شکریہ ادا کرتا ہے.انہوں نے جس طرح محنت اور توجہ کے ساتھ نظر ثانی کرتے ہوئے مفید اور بہتر تبدیلیاں اور اصلاحات کیں، احادیث اور انگریزی حوالہ جات کا ترجمہ درست کیا اور حرف آغاز تحریر کیا.خاکسار ان کے تعاون پر ان کا بہت ممنونِ احسان رہے گا.اسی طرح برادرم مکرم عطاء اللہ مجیب صاحب مربی سلسلہ احمدیہ کا بھی خصوصی شکریہ ادا کرتا ہوں ، جنہوں نے حوالہ جات کی تحقیق اور فراہمی کا کام کر کے نمایاں تعاون کیا.خاکسار استاذی المکرم مرزا محمد الدین ناز صاحب ایڈیشنل ناظر تعلیم القرآن، استاذی المکرم شبیر احمد ثاقب صاحب پروفیسر جامعہ احمدیہ، مکرم انور اقبال ثاقب صاحب مربی سلسله، مکرم مبارک احمد نجیب صاحب مربی سلسلہ مکرم مبشر احمد خالد صاحب مربی سلسلہ اور اپنے نصف جمیل یعنی اپنی اہلیہ مکرمہ عطیہ قرة العین صاحبہ کے تعاون کا بھی بہت شکر گزار ہے.ساتھ ہی مکرم حافظ عبدالحمید صاحب سابق استاذ مدرسۃ الحفظ ربوہ کے خصوصی تعاون اور راہنمائی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے جنہوں نے مجھے اس اہم موضوع پر لکھنے کی ترغیب دلائی.اس کے علاوہ جن احباب نے خاکسار کے ساتھ کسی بھی رنگ میں تعاون کیا.خاکساران سب کا نہ دل سے ممنون ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء از مؤلف
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 14 باب اول حفظ قرآن کی فضیلت واہمیت قرآن کتاب رحماں سکھلائے راہِ عرفاں جو اس کے پڑھنے والے اُن پر خدا کے فیضاں قرآن کریم کو تمام دیگر الہامی کتب کے مقابل پر بہت سی امتیازی خصوصیات حاصل ہیں.قرآن کریم وہ زندہ جاوید کلام ہے جس کی حفاظت کا وعدہ خود خدائے لم یزل نے کیا ہے.قرآن کریم کی یہ بہت بڑی فضیلت اور امتیازی خصوصیت ہے کہ امت مسلمہ میں آج تک لکھوکھ ہا لوگوں نے اسے حفظ کرنے کی سعادت پائی اور آج بھی ہزاروں افراد کے سینوں میں محفوظ ہے جبکہ دیگر مذاہب کی کتب مثلاً تو رات اور انجیل وغیرہ کو حفظ کرنے والا دنیا میں کوئی موجود نہیں.ان کی تو الہامی حیثیت بھی صحیح طرح سے قائم نہیں رہی.قرآن کریم واحد الہامی کتاب ہے جو ہر قسم کی اندرونی و بیرونی تحریف سے محفوظ چلی آرہی ہے.اس کی آیات، الفاظ ، نقاط حتی کہ شعشہ تک بھی تبدیل نہیں ہوا، نہ ہوسکتا ہے.حامل وحی قرآن حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم سیکھنے اور سکھانے والے کو بہترین وجود قرار دیا ہے.چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا: خَيْرُ كُمْ مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَهُ (بخاری - کتاب فضائل القرآن باب خيركم من تعلم القرآن کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو خود بھی قرآن کریم سیکھتا ہے اور دوسروں کو بھی سکھاتا ہے.اور ایسے شخص کے بارہ میں جس کو قرآن کریم کا چھوٹا سا حصہ بھی زبانی یاد نہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ الَّذِي لَيْسَ فِي جَوْفِهِ شَيْءٌ مِنَ الْقُرْآنِ كَالْبَيْتِ الْخَرِبِ (ترمذی - کتاب فضائل القرآن باب فيمن قرء حرفاً من القرآن)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 15 کہ یقیناوہ شخص ایک ویران گھر کی مانند ہے جس کے سینے میں قرآن کریم کا کوئی حصہ محفوظ نہیں.چنا نچہ ابتدا سے صحابہ کرام ، تابعین اور پھر تبع تابعین اور عام مسلمان کثرت سے قرآن کریم حفظ کرتے رہے یہاں تک کہ بعض خاندانوں میں یہ سلسلہ نسل در نسل چلتا رہا.ہر مسلم مرد و زن کو چونکہ روزانہ پانچ وقت نمازوں میں تلاوت کرنے کے لیے سورہ فاتحہ کے علاوہ بھی قرآن کریم کے کچھ حصے زبانی یاد کرنے ضروری ہیں اس لیے حفظ قرآن کریم کی بڑی اہمیت بیان کی گئی ہے.خصوصاً نماز تہجد کیلئے عام نمازوں کی نسبت زیادہ مقدار میں قرآن حفظ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس کی ترغیب دلاتے ہوئے فرمایا ہے کہ: قُمِ اللَّيْلَ إِلَّا قَلِيْلاً ه نِصْفَهُ أَوِ انْقُصُ مِنْهُ قَلِيلاً o أَوْ زِدْ عَلَيْهِ وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً (المزمل : آیت 3 تا 5 ) ترجمہ: رات کو قیام کیا کر مگر تھوڑا.اس کا نصف یا اس میں سے کچھ تھوڑا سا کم کر دے.یا اس پر ( کچھ زیادہ کر دے اور قرآن کو خوب نکھار کر پڑھا کر.(ترجمه از حضرت خلیفة المسیح الرابع ) پس جو شخص نصف رات یا رات کا تیسرا پہر نماز تہجد پڑھے گا اُسے تلاوت کے لیے قرآن مجید میں سے ایک بڑا حصہ حفظ ہونا چاہیے.احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات نماز تہجد میں سورۃ البقرہ اور سورۃ آل عمران جیسی دو تین سورتیں تلاوت کیا کرتے تھے.پس اپنی عبادت کو معیاری بنانے اور سنوار کر ادا کرنے کے لیے ہر مؤمن کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کریم کا ایک بڑا حصہ زبانی یاد کرے.چنانچہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس طرف بار بار توجہ دلائی اور حفظ قرآن کی بڑی فضیلت بیان فرمائی ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار یہ تھا کہ نزول قرآن کے ساتھ ساتھ حفظ کرتے جاتے اور پھر اس کو دہراتے رہتے.نیز اپنے صحابہ کو بھی یاد کرواتے اور پھر ان سے سنا بھی کرتے تھے تا کہ ان کا
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 16 حفظ بھی پکا ہو جائے.چنانچہ قرآن کریم کے سب سے پہلے حافظ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں اور بلاشبہ سب سے پہلے اور سب سے بڑے معلم قرآن اور حامل قرآن بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.تاریخ سے ثابت ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق ، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ عنہم نے بھی قرآن کریم حفظ کیا.دیگر صحابہ اور صحابیات میں سے بہت سے قرآن کریم کے حافظ اور قاری تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم پڑھانے والے استادوں کی ایک جماعت مقررفرمائی تھی جو سارا قرآن کریم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حفظ کر کے آگے لوگوں کو سکھاتے تھے.ان میں مندرجہ ذیل چار چوٹی کے استاد تھے جن کا کام یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن سیکھ کر لوگوں کو قرآن پڑھائیں.پھران کے ماتحت اور بہت سے صحابہ ایسے تھے جو لوگوں کو قرآن شریف پڑھاتے تھے.ان چار اساتذہ (صحابہ) کے نام یہ ہیں.حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت سالم مولی ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ان چار کے سوا مسلمانوں میں اور بھی بعض بڑے بڑے استاذ القرآء تھے.مثلاً : حضرت زید بن ثابت جن کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم آخری زمانہ میں وحی لکھوایا کرتے تھے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے ایسے صحابہ عطا کیسے تھے جو ہر ثواب کے لیے جان توڑ کوشش کیا کرتے تھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تحریک پر کثرت سے صحابہ نے قرآن حفظ کرنا شروع کر دیا تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ہی حفاظ کی تعداد اتنی بڑھ چکی تھی کہ وہ ہزاروں کی تعداد تک پہنچ چکے تھے جیسا کہ واقعہ بئر معونہ سے پتہ چلتا ہے کہ سن 4 ہجری میں نجد قبیلہ کی درخواست پر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر (70) صحابہ کو دین اسلام سکھانے کے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 17 لیے بھیجا جو سب کے سب قرآن کریم کے حافظ تھے.یہ 70 صحابہ کوئی معمولی آدمی نہیں تھے بلکہ نہایت مقدس لوگ قرآن کریم کے قراء اور ماہر تھے جن کو دھوکہ دہی سے راستے میں ہی بئر معونہ کے مقام پر شہید کر دیا گیا.حفظ قرآن کی برکت اور حفاظ کے مقام کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے معابعد جب مسیلمہ کذاب نے بغاوت کر کے ایک لاکھ سپاہیوں کے ساتھ مدینہ پر حملہ کر دیا اور ان کے مقابلے کے لیے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو تیرہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ بھیجا تو اس وقت بعض نئے مسلمانوں کو ضمنی طور پر شکست ہونے لگی یعنی یہ تو نہیں تھا کہ لشکر اسلامی بھاگ گیا ہولیکن اس کو کئی مقام چھوڑنے پڑے تھے، اس پر صحابہ میں سے جو لوگ قرآن کریم کے حافظ تھے انہوں نے کہا کہ آپ اس سارے لشکر سے مسیلمہ کا مقابلہ نہ کریں صرف ہم لوگ جو قرآن کریم کے جاننے والے ہیں ہمیں ایک الگ لشکر کی صورت میں ترتیب دے کر اس کے مقابلے کے لیے آگے کریں کیونکہ ہم اسلام کی قیمت جانتے ہیں اور اس کے بچانے کے لیے اپنی جانیں دینے کی قدر ہمیں معلوم ہے.ان کی اس بات کو حضرت خالد بن ولید نے مان لیا اور قرآن شریف کے حفاظ صحابہ کو الگ کر دیا اور وہ تین ہزار کی تعداد میں نکلے.ان تین ہزار آدمیوں نے اس شدت سے مسیلمہ کے لشکر پر حملہ کیا کہ اس کا لشکر تباہ ہو گیا.اس وقت ان صحابہ نے شعار جنگ کے الفاظ یہ مقرر کیے تھے کہ : ”اے سورۃ بقرہ کے حافظو! یہ شعارانہوں نے اس لیے مقرر کیے کہ سورہ بقرہ قرآن کریم کی سورتوں میں سب سے لمبی ہے.اس لڑائی میں پانچ سو قاری صحابی شہید ہوئے.ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بکثرت قرآن کریم حفظ کیا جا تا تھا اور ہزاروں آدمی قرآن شریف کو شروع سے لے کر آخر تک یادرکھتے تھے.“ 66 (دیباچه تفسیر القرآن صفحه 271 تا 274)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 18 قرآن کریم ہی کلام الہی ہے: خدائے رحمان نے اپنے محبوب نبی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کو قرآن کریم کے حفظ کے ساتھ مخصوص فرمایا، سابقہ امتیں اپنی مذہبی کتب کو صرف درسا پڑھ سکتی تھیں اور وہ کتب بھی صرف ایک ایک نسخے پر مشتمل ہوتی تھیں باوجود اس کے کہ وہ چند صفحوں پر مشتمل ہوتی تھیں پھر بھی اپنے وقت کے نبی کے علاوہ ان کا کوئی حافظ نہیں ہوتا تھا.زندگی کے اہم قواعد وضوابط پر مشتمل پہلی کتاب یعنی تو رات کو بھی سال میں صرف ایک دن یعنی عید فسح کے موقع پر مجمع عام میں سند یا جاتا تھا، یہاں تک کہ تورات کا قلمی نسخہ کم ہو گیا.پھر جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عزیر علیہ السلام کو مبعوث فرمایا تو چونکہ تو رات ان کو حفظ تھی اس لیے انہوں نے اس گم شدہ تو رات کو جو دنیا سے ناپید ہو چکی تھی اپنے حافظے کی مدد سے سنایا اور محفوظ کروایا.یہ اتنا بڑا کارنامہ تھا جس پر یہودی حیرت زدہ ہو گئے اور یہ دعوی کر دیا کہ حضرت عزیر علیہ السلام (نعوذ باللہ ) اللہ کے بیٹے ہیں کیونکہ وہ تو یہی سمجھتے تھے کہ تو رات کا حافظے کی مدد سے من وعن سنا دینا کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے.قرآن کریم تو رات کی نسبت ضخامت میں بھی بڑی کتاب ہے نیز دیگر کتب وصحف سابقہ کے تمام مضامین اور جدید احکام الہیہ پر بھی مشتمل ہے.اس لحاظ سے سابقہ کتابوں کے حجم سے بھی زیادہ ہے.قرآن عظیم کا یہ اعجاز ہے کہ امت محمدیہ کا چھوٹا سا بچہ بھی قرآن پاک کا حافظ بن جاتا ہے اور پورا قرآن یاد سے سنا دیتا ہے.علامہ حسن بصری فرماتے ہیں : أُعْطِيَتُ هَذِهِ الْأُمَّةُ الْحِفْظُ وَكَانَ مَنْ قَبْلَهَا لَا يَقْرَءُ وُنَ كِتَابَهُمْ إِلَّا نَظَرًا فَإِذَا أَطْبَقُوهُ لَمْ يَحْفَظُوا مَا فِيهِ إِلَّا النَّبِيُّونَ.(تفسیر قرطبی- سورة العنكبوت، آیت 49- جلد 17 صفحه 87.88) حفظ ( کتاب) صرف اس امت محمدیہ ہی کو عطا ہوا ہے اور امم سابقہ اپنی کتاب کو صرف ناظرہ ہی پڑھا کرتی تھیں اور جب کتاب کو بند کر دیا کرتیں تو سوائے انبیا کے اور کسی کو بھی اس کتاب کے مضامین مستحضر نہ ہوتے تھے.اور یہ بھی کہا گیا :
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 19 وَلَمْ يَكُنْ هَذَا لِبَنِي إِسْرَائِيلَ، وَلَمْ يَكُوْنُوْا يَقْرَءُ وْنَ التَّوْرَاةَ إِلَّا نَظرًا، غَيْرُ مُوْسَى وَهَارُوْنَ وَيُوْشَعُ ابْنُ نُوْنِ وَعُزَيْرٍ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِم (تفسیر قرطبی جلد 17 صفحه 87.88- سورة القمر آيت (22) حفظ توریت کی خصوصیت، بنی اسرائیل کو حاصل نہ تھی بلکہ موسیٰ ، ہارون، یوشع بن نون اور عزیر علیہم السلام کے سوا سب لوگ تو ریت کو ناظرہ ہی پڑھا کرتے تھے.بانی جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن شریف کی حفاظت کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ توریت یا کسی اور کتاب کے لیے نہیں.....حضرت خلیلہ اسیح الثانی نور اللامر اللہ فرماتے ہیں: (الحكم 17 نومبر 1905ء) آج اگر بائبل کے سارے نسخے جلا دیے جائیں تو بائبل کے پیرو اس کا بیسواں حصہ بھی دوبارہ جمع نہیں کر سکتے لیکن قرآن مجید کو یہ فخر حاصل ہے کہ اگر سارے نسخے قرآن مجید کے دنیا سے مفقود کر دیے جائیں تب بھی دو تین دن کے اندر مکمل قرآن مجید موجود ہوسکتا ہے اور بڑے شہر تو الگ رہے.ہم قادیان جیسی چھوٹی بستی میں اسے فوراً حرف بہ حرف لکھوا سکتے ہیں.“ (تفسیر کبیر، جلد چهارم صفحه 18 زیر تفسير سورة الحجر: 10) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر : 10) ترجمہ: یقیناً ہم نے اس ذکر ( یعنی قرآن کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو جو مرتبہ عطا فرمایا ہے وہ کسی بھی دوسری کتاب کو عطا نہیں فرمایا.یوں تو تو رات اور انجیل کو بھی اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے لیکن چونکہ ان میں تحریف ہو چکی ہے اس لیے نہ تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی لفظی حفاظت کا ذمہ لیا ہے اور نہ ہی معنوی حفاظت کا.جبکہ قرآن کریم واحد ایسی کتاب
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 20 ہے جس کی قیامت تک کی لفظی و معنوی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالیٰ نے لیا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ وسلم نے فرمایا : عَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ فَاتَّخِذُوْهُ إِمَامًا وَقَائِدًا، فَإِنَّهُ كَلَامُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ الَّذِي هُوَ مِنْهُ وَإِلَيْهِ يَعُوْدُ، فَامِنُوْا بِمُتَشَابِهِهِ وَاعْتَبِرُوْا بِأَمْثَالِهِ.(کنز العمال، كتاب الأذكار من قسم الأقوال، الباب السابع الفصل الأول في فضائل تلاوة القرآن) ترجمہ: تم قرآن کو لازم پکڑو اور اس کو امام اور قائد بنالو کیونکہ یہ رب العالمین کا کلام ہے جو اس سے نکالا ہے اور اس کی طرف لوٹ جائے گا.پس اس کے متشابہ پر ایمان لاؤ اور اس کی مثالوں سے عبرت وسبق حاصل کرو.قرآن کریم کے حفاظ: دیگر کتب کے مقابلہ پر قرآن کریم کی یہ بہت بڑی فضیلت ہے کہ ہر زمانے میں لاکھوں افراد نے اسے حفظ کرنے کی توفیق پائی اور پارہے ہیں.یہ ایک بڑی خصوصیت ہے کہ کسی بھی زیر، زبر یا نقطہ اور شعشہ کے فرق کے بغیر من و عن پورا قرآن کریم حفاظ کے سینوں میں محفوظ ہے.اللہ جل شانہ نے حفاظ کے اس سلسلہ کو قیامت تک قائم رکھنے کا وعدہ فرمایا.پس وہ جو اصدق الصادقین ہے، اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا سچا خدا ہے اس نے آج تک اپنے وعدہ کو پورا فرمایا ہے اور آئندہ بھی فرما تا چلا جائے گا.نور کی یہ شعل ایک سینے سے دوسرے اور دوسرے سے تیسرے سینہ میں روشن ہوتی چلی جائے گی حتیٰ کہ قیامت برپا ہو جائے.یہی خدائے لم یزل کا وعدہ ہے جو پورا ہو کر رہنے والا ہے.اللہ تعالیٰ نے حفاظت قرآن کے مندرجہ ذیل دو بڑے ذریعے متعارف کروائے ہیں: 1: مصاحف 2 قلوب حفاظ پہلا ذریعہ یعنی مصاحف اور اوراق تو اسی دنیا تک ہیں کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کے مطابق قرب قیامت کو قرآن کریم کے حروف اوراق سے اٹھا لیے جائیں گے لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے موجود ہے کہ قیامت کے بعد جنت میں بھی قرآن کریم قلوب حفاظ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 21 میں زندہ ومحفوظ رہے گا.پس حفاظ کرام کے لیے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ حفاظت قرآن کا سب سے بڑا ذریعہ اُن کے دل ہیں جن میں قرآن کریم بعد از قیامت بھی زندہ و جاوید رہے گا.چونکہ حافظ در حقیقت اللہ تعالیٰ کا صفاتی نام ہے اس لیے اصل حافظ تو اُسی کی ذات ہے لیکن حفاظ کرام ایسی ہستیاں ہیں جو اس اعلیٰ اور حافظ ہستی کی طرف سے حفاظت قرآن کریم کے اس سلسلہ کی مضبوط اور اہم کڑیاں ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: قرآن کریم کی خدمت اور اس کی حفاظت ظاہری کا کام حفاظ اور قرا کے سپرد ہے.وہ قرآن کریم کے خادم ہیں اور اس کی حفاظت کا کام سر انجام دے رہے ہیں.جس طرح مہر کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کوئی چیز باہر سے اندر داخل نہ ہو اور کوئی چیز اندر سے باہر خارج نہ ہو.اسی طرح اس آیت میں یہ بتایا تھا کہ قرآن کریم کی خدمت پر ایسے انسان مقرر کیے جائیں گے جو مشک کی طرح خوشبودار ہوں گے.یعنی وہ اعلیٰ درجہ کے نیک، اپنی ذمہ داری کو سمجھنے والے اور قرآن کریم کی حفاظت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ چودہ سو سال گزر چکے ہیں مگر کوئی زمانہ ایسا نہیں ہوا جس میں حفاظ کی ایک بڑی بھاری جماعت دنیا میں موجود نہ ہو اور قرآن کی خدمت نہ کر رہی ہو.(تفسير كبير، جلد هشتم صفحه (320)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 22 باب دوم فضائل حفظ قرآن پہلی آ : بیت: از روئے قرآن اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (الحجر :10) ترجمہ.بے شک ہم نے ہی اس ذکر (یعنی قرآن کریم ) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں.اس آیت کریمہ نے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں کر دی ہے کہ قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لی ہے جس کا ایک ذریعہ یہ ہے کہ لاکھوں، کروڑوں افراد کے سینوں میں قرآن کریم کو محفوظ کر دیا.قرآن کریم کی حفاظت کی ذمہ داری لینے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس سے قبل اُتاری جانے والی تمام کتب اور صحائف جو ایک خاص قوم اور مخصوص زمانہ سے متعلق تھے ان میں انسانی ہاتھوں اور ذہنوں نے اپنی اپنی اختراعات شامل کر دی تھیں اور اس تحریف و تبدل کے بعد اب ان کی وہ شکل نہ رہی تھی جس میں وہ نازل کیے گئے تھے جبکہ قرآن کریم واحد پہلی اور آخری ایسی کتاب ہے جو قیامت تک کے لیے نصاب اور لائحہ عمل کے طور پر بلا تفریق رنگ و نسل اور زمانہ سارے عالم کے لیے ہے.پس اس کی حفاظت کے لیے ایسے ہی اہتمام کی ضرورت تھی کہ یہ انسانی دست برد سے محفوظ رہے اور تا قیامت اس کا شعفہ تک تبدیل نہ کیا جاسکے.ظاہر ہے کہ ایسی حفاظت قادر مطلق ہی کر سکتا ہے کوئی انسان نہیں.چنانچہ اس قادر مطلق نے اس طریق پر حفاظت کا بندوبست کر دیا کہ مسلمانوں کو محیر العقول حافظے عنایت فرمائے تا کہ قرآن کریم ہر زمانہ میں عشاق مسلمانوں کے سینوں کی امانت بنتا رہا اور تا قیامت بنارہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 23 اس آیت کریمہ میں یہ دعوی اور چیلنج بھی موجود ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم نے یہ کتاب نازل کر دی ہے اور اس وقت لکھی ہوئی صورت میں تمہارے ہاتھوں میں موجود بھی ہے لیکن تم باوجود لاکھ کوشش کے اس میں لفظی تحریف کو نہ ثابت کر سکتے ہو اور نہ ہی اس میں کوئی تحریف کر سکتے ہو.آج جبکہ قرآن کریم کو نازل ہوئے چودہ سو سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے اپنے تو اپنے غیر بلکہ دشمن بھی اس بات کا اقرار کرنے پر مجبور ہیں کہ قرآن کریم آج بھی اس شکل میں موجود ہے جس شکل میں حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی اُمت کے حوالے کیا تھا.ایسا کرنا صرف اور صرف اس لیے ممکن ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود سے ہی اس کے حفظ کے سلسلہ کا بابرکت آغاز فرما دیا تھا اور ایسے بے شمار افراد اِس اُمت میں پیدا فرما دیئے جو اس کی لفظی حفاظت کی الہی ذمہ داری ادا کرنے کے قابل تھے اور تا قیامت اس کا وعدہ بھی فرما دیا اور یہ سلسلہ چلتا چلا جارہا ہے.الحمد للہ علی ذلک اس آیت کریمہ میں الحافظون“ کا لفظ مطلق لایا گیا ہے جس سے قواعد عربی کی رُو سے حفاظت کا فرد کامل یعنی ظاہری و باطنی حفاظت مراد لیا جانا ضروری ہے.پس کامل حفاظت یہی ہے جس میں حفاظت کے لفظی اور معنوی دونوں پہلو شامل ہوں.چنانچہ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ ہی وہ قادر مطلق ہستی ہے جو قرآن کریم کے الفاظ کی بھی محافظ ہے اور اس کے معانی ومحاسن کی بھی نگران ہے.پس اسی کے تتبع میں امت محمدیہ میں تاقیامت قرآن کریم حفظ کرنے والے وجود پیدا ہوتے رہے ہیں اور پیدا ہوتے رہیں گے جن کے سینوں میں قرآن کریم کے الفاظ بلا تحریف و تبدل زندہ اور قائم رہیں گے اور ان کے ذریعہ اللہ تعالی قرآن کریم کے ایک ایک حرف لفظ اور معانی ومحاسن کی حفاظت فرما تارہے گا.پس اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی بابرکت وجودوں کو پیدا کرتے رہنے کا امت سے وعدہ فرمایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن کریم میں یہ وعدہ تھا کہ خدا تعالی فتنوں اور خطرات کے وقت میں دین اسلام کی حفاظت کرے گا جیسا کہ وہ فرماتا ہے: اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُون سو خدا تعالیٰ نے بموجب اس وعدہ کے چار قسم کی حفاظت اپنے کلام کی کی.اوّل :
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 24 حافظوں کے ذریعے سے اس کے الفاظ اور ترتیب کو محفوظ رکھا اور ہر ایک صدی میں لاکھوں ایسے انسان پیدا کیے جو اس پاک کلام کو اپنے سینوں میں حفظ رکھتے ہیں.دوسرے ایسے آئمہ اور اکابر کے ذریعہ سے جن کو ہر ایک صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے جنہوں نے قرآن شریف کے اجمالی مقامات کی احادیث نبویہ کی مدد سے تفسیر کر کے خدا کی پاک کلام اور پاک تعلیم کو ہر ایک زمانہ میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا.تیسرے متکلمین کے ذریعہ سے جنہوں نے قرآنی تعلیمات کو عقل کے ساتھ تطبیق دے کر خدا کی پاک کلام کو کو نہ اندیش فلسفیوں کے استخفاف سے بچایا ہے.چوتھے روحانی انعام پانے والوں کے ذریعہ سے جنہوں نے خدا کی پاک کلام کو ہر ایک زمانہ میں معجزات اور معارف کے منکروں کے حملہ سے بچایا ہے.“ پھر آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ايام الصلح - روحانی خزائن جلد 14، صفحه 288) قرآن شریف کی حفاظت کا جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے وہ توریت یا کسی اور کتاب کے لیے نہیں..." (الحكم 17 نومبر 1905ء) حضرت خلیفہ المسیح الثاني نور اللہ مرقدہ اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: خلیة یہ ایک نہایت ہی زبر دست آیت ہے اور ایسی عجیب ہے کہ اکیلی ہی قرآن مجید کی صداقت کا بین ثبوت ہے.اس میں کتنی تاکیدیں کی گئی ہیں.پہلے ان لایا گیا ہے.پھر ”نا“ کی تاکید نحن سے کی گئی ہے اور پھر آگے چل کر ایک اور ” ان “اور ”لام لایا گیا ہے.گویا تا کید پر تاکید کی گئی ہے.کفار نے انک لـمـجـنـون کے جملہ میں دوہری تاکید سے کام لے کر تمسخر کیا تھا.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ تاکید کے چار ذرائع استعمال کرتا ہے اور فرماتا ہے: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ( الحجر (10) سنو! ہم نے ہاں یقیناً ہم نے ہی اس شرف وعزت والے کلام کو آنحضرت
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 25 صلی اللہ علیہ وسلم پر اُتارا ہے اور ہم اپنی ذات کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یقیناً ہم اس کی خود حفاظت کریں گے.اللہ اللہ کتنا زور ہے اور کس قد رحتمی وعدہ ہے.دوسری آیت: (تفسیر کبیر، جلد چهارم صفحه 14 15 زير تفسير الحجرآيت (10) وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْآنَ لِلذِّكْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّكِرُ.(القمر 18) ترجمہ: اور ہم نے قرآن کو یاد کرنے کے لئے آسان کر دیا ہے پس کوئی ہے یاد کرنے والا ؟ پس اللہ تعالی ہر اس شخص کا سیدہ کھول دیتا اور یاد کرنے کے لیے آسانی پیدا کر دیتا ہے جو قرآن کریم حفظ کرنا چاہتا ہے اور اس کے لیے کوشش کرتا ہے.حضرت خلیفہ مسیح الثانی نور اللہ مرقدة فرماتے ہیں: چونکہ قرآن کریم حفظ کیا جانا تھا اس لیے ضروری تھا کہ یا تو اشعار میں ہوتا یا اشعار سے ملتا جلتا ہوتا.قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے ایسے انداز میں رکھا کہ جس قدر جلدی یہ حفظ ہو سکتا ہے اور کوئی کتاب نہیں ہو سکتی.اس کی وجہ تو ازن الفاظ ہی ہے اور پڑھتے وقت ایک قسم کی ربودگی انسان پر طاری ہو جاتی ہے.“ (انوار العلوم، جلد 11، صفحه (132) | اس موضوع کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت خلیفہ اسی الثنی نور اللہ مرقدہ مزید فرماتے ہیں: عام طور پر یورپین مصنف اپنی نا واقفی کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ جبکہ دنیا میں بائبل کا کوئی حافظ نہیں ملتا تو قرآن شریف کا کوئی حافظ کہاں ہوسکتا ہے حالانکہ قرآن کریم کا یہ معجزہ ہے کہ وہ ایسی سریلی زبان میں نازل ہوا ہے کہ اس کا حفظ کرنا نہایت ہی آسان ہے.میرا بڑا لڑکا ناصر احمد ( حضرت خلیفۃ اسیح الثالث.ناقل ) جو آکسفورڈ کا بی اے آنرز اور ایم اے ہے.میں نے اسے دنیاوی تعلیم سے پہلے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 26 قرآن کریم کے حفظ پر لگایا اور وہ سارے قرآن کا حافظ ہے.“ مزید فرماتے ہیں: (دیباچه تفسیر القرآن، صفحه (277) اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اپنے خاص تصرف سے ایسے الفاظ اور ایسی ترکیب سے نازل فرمایا ہے کہ وہ سہولت سے حفظ ہو جاتا ہے.“ تیسری آیت: (تفسير كبير، جلد چهارم صفحه : 18) | بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ (العنكبوت: 50) ترجمہ: بلکہ یہ وہ کھلی کھلی آیات ہیں جو اُن کے سینوں میں ( درج) ہیں جن کو علم دیا گیا ہے.(ترجمه از قرآن کریم بیان فرموده حضرت خليفة المسيح الرابع رحمه الله تعالى) اس آیت میں حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے دیگر ایسے افراد مراد ہیں جو قرآن کریم کی تلاوت کرتے اور اسے حفظ کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: قرآن کریم بحیثیت ذکر ہونے کے قیامت تک محفوظ رہے گا اور اس کے حقیقی ذاکر ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے.اور اس پر ایک اور آیت بھی بین قرینہ ہے اور وہ یہ ہے.بَلْ هُوَ آيَاتٌ بَيِّنَاتٌ فِي صُدُورِ الَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ یعنی قرآن کریم آیات بینات ہیں جو اہل علم کے سینوں میں ہیں.پس ظاہر ہے کہ اس آیت کے یعنی معنی ہیں کہ مومنوں کو قرآن کریم کا علم اور نیز اس پر عمل عطا کیا گیا ہے اور جب کہ قرآن کریم کی جگہ مومنوں کے سینے ٹھہرے تو یہ آیت اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ بجز اس کے اور کیا معنی رکھتی ہے کہ قرآن سینوں سے مونہیں کیا جائے گا.“ (شهادت القرآن - روحانی خزائن جلد 6، صفحه 350 |
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 27 چوتھی آیت: إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ O فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعُ قُرْآنَهُ 0 (القيامة :19،18) ترجمہ: یقیناً اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے.پس جب ہم اسے پڑھ چکیں تو تو اس کی قرآت کی پیروی کر.(ترجمه بیان فرموده حضرت خلیفة المسيح الرابع رحمه الله تعالى اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ) قَالَ كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَالِجُ مِنَ التَّنْزِيلِ شِدَّةً ، وَكَانَ مِمَّا يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ...فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ) (بخاری کتاب بدء الوحي الى رسول الله ﷺ ترجمہ:.حضرت ابن عباس سے روایت ہے وہ اللہ تعالیٰ کے اس قول ( لَا تُحَرِّكُ بِہ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِہ) کے متعلق کہتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نزول وحی کے وقت شدید تکلیف محسوس کیا کرتے تھے.اور یادرکھنے کے لیے اپنے ہونٹوں کو تیزی سے حرکت دیتے تھے.اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ تو اس کو جلدی جلدی یاد کر لینے کی غرض سے اپنے ہونٹوں کو تیزی سے حرکت نہ دے.یقیناً اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے.نزول قرآن کریم کے وقت کوئی بھی الہامی کتاب اپنی اصلی صورت میں قائم نہ رہی تھی بلکہ وہ تصرفات اور تحریفات کا شکار ہو چکی تھیں.ایسی صورت میں قرآن کریم کا نازل کیا جانا اور یہ دعوی کرنا کہ اس کی حفاظت کی جائے گی ایک معجزہ ہی ہے.پس قرآن کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جو بعینہ اسی طرح محفوظ ہے جس طرح نازل ہوئی تھی.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 28 آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی نبوت کے ساتھ ہی قرآن کا نزول شروع ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک برابر 23 سال یہ سلسلہ جاری رہا.نزول وحی کی ابتدا چند آیات سے ہوئی اور پھر آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ نے اس کی مقدار بڑھا دی حتی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کے آخری حصہ میں قرآنی وحی زیادہ مقدار میں اور پے درپے نازل ہونے لگی.اس میں ایک حکمت تو یہ تھی کہ نئی تعلیم ہونے کی وجہ سے ابتدا میں اس کو یاد کرنا، مجھنا اور اس پر عمل کرنا کچھ مشکل تھا پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کے لیے جیسے جیسے اس کا سمجھنا آسان ہوتا گیا، ویسے ویسے اس کے نزول کی مقدار اور رفتار میں اللہ تعالیٰ نے اضافہ فرما دیا.دوسری بڑی حکمت قرآن کی حفاظت بھی تھی.شروع میں صحابہ کی تعداد کم تھی ، پھر جیسے جیسے ایمان لانے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے قرآنی وحی کی مقدار اور رفتار بھی بڑھتی گئی.گویا اللہ تعالیٰ نے تحریری اور تقریری (یعنی زبانی ) دونوں طرح سے قرآن کریم کی حفاظت کا زبردست انتظام فرمایا اور یہ وعدہ سچ کر دکھایا: یقیناً اس کا جمع کرنا اور اس کی تلاوت ہماری ذمہ داری ہے.پس نزول قرآن کریم کے ساتھ ہی اس کو ضبط تحریر میں لانے کا کام جاری کرنا اور اس کے حفاظ کا سلسلہ شروع کرنا اس بین حفاظت کا ایک ایسا ثبوت اور اعجاز ہے جو کسی اور کتاب کے ساتھ نہیں دکھائی دیتا.پانچویں آیت: وَقُرْآناً فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ وَنَزَّلْنَاهُ تَنزِيلاً (بنی اسرائیل: 107) ترجمہ: اور قرآن وہ ہے کہ اسے ہم نے ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہے تا کہ تو اسے لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اور ہم نے اسے بڑی قوت اور تدریج کے ساتھ اتارا ہے.(ترجمه بیان فرموده حضرت خليفة المسيح الرابع رحمه الله تعالى یہ بات ثابت شدہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن کریم وقفہ وقفہ سے اور تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوا.عام طور پر ایک وقت میں چند آیات ہی نازل ہوا کرتی تھیں.آپ آسانی سے انہیں خود بھی
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 29 یاد کر لیتے اور دوسروں کو بھی پڑھا دیتے اور یاد کروا کر سن لیا کرتے تھے.قرآن کریم کا اس انداز میں نزول بھی حفاظت قرآن کریم کے حوالے سے ایک زبر دست حکمت اپنے اندر رکھتا ہے.بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک وقت میں قرآن کریم کی چار پانچ آیات ہی نازل ہوا کرتی تھیں.چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ: حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کا قرآن کریم پڑھنے کا طریق یہ تھا کہ آپ پانچ آیات صبح اور پانچ آیات شام کے وقت پڑھتے اور فرمایا کرتے کہ حضرت جبریل علیہ السلام نے قرآن کو پانچ پانچ آیات کر کے اُتارا ہے.بیہقی نے کتاب شعب الایمان میں بطریق ابوخلدہ حضرت عمرؓ سے روایت کی ہے کہ قرآن پانچ پانچ آیات کر کے لکھو کیونکہ حضرت جبریل اسے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر پانچ پانچ آیتوں کی مقدار میں نازل کیا کرتے تھے.“ (الاتقان، حصه اول صفحه 107) پس آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پانچ آیات حفظ کر لینا اور دوسروں کو پڑھا دینا یالکھوا دینا اور یاد کروا کے سن لینا مشکل نہ تھا.چھٹی آیت: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْلَا نُزِّلَ عَلَيْهِ الْقُرْآنُ جُمْلَةً وَاحِدَةً كَذَالِكَ لِنُثَبِّتَ بِهِ فُؤَادَكَ وَرَتَّلْنَاهُ تَرْتِيلاً (الفرقان: 33 ) ترجمہ: اور وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا، وہ کہیں گے کہ اس پر قرآن ایک دفعہ کیوں نہ اُتارا گیا.اسی طرح ( اُتارا جانا تھا) تا کہ ہم اس کے ذریعہ تیرے دل کو ثبات عطا کریں اور (اسی طرح) ہم نے اسے بہت مستحکم اور سلیس بنایا ہے.ترجمه بیان فرموده حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمه الله تعالى) اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے کفار اور معاندینِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک اعتراض کا
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 30 زبر دست جواب عطا فرمایا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کے دلوں میں قرآنی تعلیم راسخ کرنے کے لیے اس کو بتدریج اتارا ہے کیونکہ اگر یک دفعہ اتارا جا تا تو اس کی ایک ایک تعلیم پر عمل کرنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہو جاتا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ مشکل میں پڑ جاتے.پس ایمان لانے والوں اور قرآن کریم پر عمل کرنے والوں کی آسانی اور ثبات قلب کے لیے اللہ تعالیٰ نے نزول قرآن کا تدریجی طریقہ اختیار فرمایا اور یہی طریق اعلیٰ ، افضل اور آسان تھا.پس اللہ تعالیٰ نے جو بھی طریق اختیار فرمایا اس میں بہت ساری حکمتیں پوشیدہ تھیں.بتدریج قرآن کریم کے نزول سے یہ بھی آسانی ہو گئی کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق مضبوط سے مضبوط تر اور زندہ سے زندہ تر ہوتا چلا گیا اور اسی مناسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ پختہ اور مضبوط تر ہوتا چلا گیا کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والے روزانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی صداقت کا عملی نمونہ ملاحظہ کرتے اور یوں ان کے ایمان ترقی کرتے چلے جاتے تھے.قرآن کریم ایک ضابطہ حیات کے طور پر نازل کیا گیا اور اس ضابطہ حیات کو لفظ بہ لفظ محفوظ کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اس کے نزول کی مقدار اور رفتار اتنی ہی ہو جو بآسانی ضبط تحریر میں بھی لائی جا سکے اور جسے زیادہ تعداد میں لوگ دیکھ اور پڑھ کر تصدیق کر سکیں کہ یہی وہ الفاظ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائے ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائے ، سکھائے اور یادکر وائے ہیں.پس یہی وہ با برکت طریق تھا جو اللہ تعالیٰ نے خود تجویز فرمایا تا کہ جو کتاب ساری دُنیا کی ہدایت کے لئے نازل کی جارہی ہے، اس کا آسانی کے ساتھ محفوظ رکھنا ممکن ہو سکے، سو اللہ تعالیٰ نے خود یہ طریق اختیار فرمایا.اگر قرآن کریم یک بارگی نازل ہوتا تو پھر اس کا حفظ کرنا اور اس کو لکھنا نہ صرف مشکل ہو جاتا بلکہ سب حفاظ کے حفظ کی غلطیاں نکالنا اور لکھنے والوں کی تحریروں کو دیکھنا ایک انسان کے لیے ناممکن نہیں تو
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 31 مشکل ضرور ہو جاتا جبکہ اس بابرکت طریق سے ایک ہی وقت میں بغیر بوجھ محسوس کیے آسانی کے ساتھ سینکڑوں حفاظ ساتھ کے ساتھ ہی تیار ہوتے چلے گئے اور قیامت تک ہوتے چلے جائیں گے.انشاء اللہ اک کرم کر پھیر دیے لوگوں کو فرقان کی طرف کہ سنوریچ بر تمثیل تا نیکی کریں سوچ و بچار
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 32 فضائل حفظ قرآن از روئے احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کوقرآن کریم سے جو عشق تھا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک سے ظاہر وباہر ہے.حتی کہ امہات المؤمنین اور صحابہ اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود باجود قرآن کریم کی عملی تفسیر و تصویر ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کی تحریری صورت قرآن کریم ہی ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایک بار ایک صحابی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے بارے میں پوچھا تو اس کے جواب میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا : كَانَ خُلُقُهُ الْقُرآن کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق فاضلہ کے بارے میں مجھ سے کیا پوچھتے ہو، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو مجسم قرآن تھے.گویا جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں اور اس پر غور کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کیسی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کیسے تھے.حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث میں حفظ قرآن کریم کے بے شمار فضائل بیان فرمائے ہیں.حافظ قرآن کو اس کی پیدائش سے بہت پہلے فرشتوں کی مبارک باد: حدیث قدسی ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَرَأَ طه ويسَ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ بِأَلْفِ عَامٍ فَلَمَّا سَمِعَتِ الْمَلَائِكَةُ الْقُرْآنَ قَالَتْ طُوْبِي لِأُمَّةٍ يُنْزِلُ هَذَا عَلَيْهَا وَطُوْبَي لأَجْوَافٍ تَحْمِلُ هَذَا وَطُوبَى لِألْسِنَةِ تَتَكَلَّمُ بِهَذَا.(سنن الدارمی کتاب فضائل القرآن باب في فضل سورة طه ويس) ترجمہ:.اللہ عزوجل نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنے سے ایک ہزار سال قبل
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 33 سورۃ طہ اور یس پڑھی تو فرشتے سن کر کہنے لگے اس امت کے لیے مبارک ہو جس پر یہ سورتیں نازل ہوں گی اور مبارک ہو ان سینوں کے لیے جواس کلام کو یاد کریں گے اور مبارک ہو ان زبانوں کے لیے جو اس کی تلاوت کیا کریں گی.ایک اور جگہ حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ نے اس حدیث کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے جس میں حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش سے دو ہزار سال قبل کا ذکر ہے.روایت کچھ یوں ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَرَأَ طه وَيسَ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ آدَمَ بِأَلْفَيْ عَامٍ فَلَمَّا سَمِعَتِ الْمَلَائِكَةُ الْقُرْآنَ قَالَت طُوْبِي لِأُمَّةٍ يَنْزِلُ هَذَا عَلَيْهِمْ طُوْبِي لِأَلْسُنٍ تَتَكَلَّمُ بِهَذَا وَطُوبَى لأَجْوَافٍ تَحْمِلُ هَذَا (التوحيد لابن خزيمة، ذكر البيان من كتاب ربنا، جزء 1 صفحه 17 ، روایت 236 | جس نے قرآن کا کچھ حصہ بھی حفظ نہ کیا وہ ویران گھر کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُمت پر بوجھ نہیں ڈالا، نہ یہ حکم دیا کہ ساری اُمت قرآن کریم حفظ کرے لیکن ایسے ہی چھوڑ بھی نہیں دیا بلکہ ترغیب دلائی ہے کہ ہر امتی اس برکت سے فائدہ ضرور اٹھائے اور اس کو قرآن کریم کا کچھ نہ کچھ حصہ ضرور یاد ہو.چنانچہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ الرَّجُلَ الَّذِي لَيْسَ فِي جَوْفِهِ شَيْءٌ مِنَ الْقُرْآنِ كَالْبَيْتِ الْخَرِبِ.(سنن الدارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فضل من قرأ القرآن ترجمہ: یقیناً وہ شخص جس نے قرآن کریم کا کوئی حصہ بھی حفظ نہیں کیا وہ ویران گھر کی طرح ہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 34 حافظ قرآن کا بلند درجہ : حافظ قرآن کو یہ بشارت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عطا فرمائی ہے کہ دنیوی زندگی کے بعد ورلی زندگی میں بھی قرآن کریم کی تلاوت حافظ قرآن اور کثرت سے تلاوت قرآن کریم کرنے والے کو فائدہ دے گی.چنانچہ جس قدر وہ تلاوت کرے گا اسی قدر اس کا مقام بلند ہوتا چلا جائے گا: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ اقْرَأْ وَارْتَقِ وَرَتِّلْ كَمَا كُنْتَ تُرَتِّلُ فِي الدُّنْيَا فَإِنَّ مَنْزِلَكَ عِندَ آخِرِ آيَةٍ تَقْرَؤُهَا (سنن ابی داؤد، کتاب الوتر، باب استحباب الترتيل في القراءة) ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حافظ قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن کریم پڑھتا جا اور درجات میں ترقی کرتا جا اور عمدگی سے پڑھ جیسے دنیا میں عمدگی سے پڑھتا تھا.تیری منزل وہ ہے جہاں تو آخری آیت پڑھے گا (جس آیت پر تو قراءت کو ختم کرے گا).سنن ابن ماجہ میں الفاظ کے کچھ فرق کے ساتھ یہ روایت حضرت ابوسعید خدری سے یوں ہے: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَالُ لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ إِذَا دَخَلَ الْجَنَّةَ اقْرَأْ وَاصْعَدْ فَيَقْرَأُ وَيَصْعَدُ بِكُلِّ آيَةٍ دَرَجَةً حَتَّى يَقْرَأَ آخِرَ شَيْءٍ مَعَهُ (سنن ابن ماجه.كتاب الادب باب ثواب (القرآن) ترجمہ: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حافظ قرآن جنت میں داخل ہو گا تو اس سے کہا جائے گا کہ تم قرآن کریم کی تلاوت کرتے جاؤ اور بلندی درجات حاصل کرتے جاؤ.پس وہ قرآن کریم کی تلاوت کرتا جائے گا اور درجات میں بلندی کی منازل طے کرتا جائے گا حتی کہ آخری آیت کی تلاوت تک جو اسے یاد ہوگی وہ بلندی درجات حاصل کرتا چلا جائے گا.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 35 ایک روایت سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح حافظ قرآن اور کثرت سے تلاوت کلام پاک کرنے والوں کی شفاعت قرآن کریم فرمائے گا اور قرآن کریم کی شفاعت پر صاحب قرآن اور کثرت سے تلاوت قرآن کریم کرنے والے کے ساتھ حسن سلوک فرمایا جائے گا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَجِيءُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُولُ يَا رَبِّ حَلِهِ فَيُلْبَسُ تَاجَ الْكَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ زِدْهُ فَيُلْبَسُ حُلَّةَ الْكَرَامَةِ ثُمَّ يَقُولُ يَا رَبِّ ارْضَ عَنْهُ فَيَرْضَى عَنْهُ فَيُقَالُ لَهُ اقْرَأْ وَارُقَ وَتُزَادُ بِكُلّ آيَةٍ حَسَنَةٌ.(ترمذی، کتاب فضائل القرآن باب فيمن قرأ حرفا من القرآن ماله من الأجر ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت والے دن قرآن کریم لایا جائے گا اور وہ کہے گا کہ اے میرے رب! حافظ قرآن کو حُلّہ پہنا دے، تو حافظ قرآن کو عزت کا تاج پہنایا جائے گا.قرآن کریم کہے گا: اے اللہ ! اسے مزید کچھ عطا فرما.جس پر اسے اور بھی لباس فاخرہ پہنایا جائے گا.پھر قرآن کریم کہے گا: اے میرے رب ! اس سے راضی ہو جا.تو اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہو جائے گا اور پھر صاحب قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن کریم پڑھتا جا اور درجات میں بڑھتا جا اور اس کی ہر ایک آیت کے بدلہ ایک نیکی زیادہ کی جائے گی.حفاظ اشراف امت ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفاظ کرام کو فضیات کے اعتبار سے اپنی امت کے اشراف کا خطاب عطا فرمایا ہے یعنی امت میں سب سے زیادہ قابل تکریم وعزت احباب یہی ہیں جو قرآن کریم حفظ کرتے ہیں.چنانچہ حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 36 أَشْرَافُ أُمَّتِي حَمَلَةُ الْقُرْآنِ وَ أَصْحَابُ اللَّيْلِ (شعب الایمان، التاسع عشر باب فی تعظیم القرآن، فصل في تنوير موضع القرآن ترجمہ:.میری اُمت کے معزز ترین لوگ حاملین قرآن اور رات کو عبادت کرنے والے ہیں.حاملین قرآن سے مراد وہ لوگ ہیں جو قرآن کریم کو یاد کرتے ، راتوں کو قیام کرتے ، قیام میں تلاوت قرآن کریم کرتے اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوتے ہیں.ایسے حاملین قرآن یعنی حفاظ کو أشراف اُمت کا اعزاز دیا گیا ہے یعنی اُمت میں سب سے زیادہ عزت ومرتبہ رکھنے والے لوگ.حفاظ جنت کے سردار ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفاظ کو جنت کے سردار قرار دیا ہے.چنانچہ روایت ہے: عَنْ حُسَيْنِ بْنِ عَلِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَمَلَةُ الْقُرْآنِ عُرَفَاءُ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.(المعجم الكبير للطبراني، باب الحاء، الحسين بن على) ترجمہ: حضرت حسین ابن علی رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت والے دن حفاظ قرآن اہلِ جنت کے سردار ہوں گے.سب سے زیادہ فنی حفاظ کرام ہیں : حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حفاظ کرام کولوگوں میں سب سے زیادہ فنی اور مالدار قرار دیا.ہے.یعنی قرآن کریم حفظ کر کے جو دولت انہوں نے کمائی ہے، کسی اور کے پاس یہ دولت نہیں.چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَغْنَى النَّاسِ حَمَلَةَ الْقُرْآنِ مَنْ جَعَلَهُ اللَّهُ فِي جَوفِهِ (کنز العمال، جلد اول، صفحه 257 ، كتاب الاذكار من قسم الاقوال، باب السابع في تلاوة القرآن وفضائله ، حدیث نمبر (2258 ترجمہ: لوگوں میں سب سے غنی حاملین قرآن یعنی قرآن کریم حفظ کرنے والے ہیں،
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 37 جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے اسی یعنی قرآن کریم کو محفوظ کر دیا.حافظ قرآن کا بلند مرتبہ، مقرب فرشتوں کے ساتھ : قرآن کریم کو اللہ تعالیٰ نے سب سے مقرب فرشتہ کے ذریعہ نازل فرمایا اور حفاظت کا ایک ذریعہ فرشتوں کا وجود بھی ہے اس لیے حافظ قرآن کی حفاظت اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کے ذریعہ سے بھی فرماتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا بھی اظہار ہے اور حفاظت کا بھی کہ حافظ قرآن کو اپنے مقرب فرشتوں کی پہرہ داری میں رکھنے کا عندیہ عطا فرمایا.اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَهُوَ حَافِظٌ لَهُ مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ ، وَمَثَلُ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَهُوَ يَتَعَاهَدُهُ وَهُوَ عَلَيْهِ شَدِيدٌ فَلَهُ أَجْرَانِ.(بخاری، کتاب التفسير تفسير سورة عبس ترجمہ : حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ حافظ قرآن جو قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتا ہے، ایسے لکھنے والوں کے ساتھ ہوگا جو بہت معزز اور بڑے نیک ہیں اور وہ شخص جو قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتا ہے اور بار بار دہرا کر یاد بھی کرتا ہے، حالانکہ ایسا کرنا اس کے لیے مشکل ( دشوار ) ہو تو ایسے شخص کے لیے دوہرا ثواب مقدر ہے.ماہر حافظ قرآن کا بلند مقام ، اٹک اٹک کر پڑھنے کا بھی ثواب : قرآن کریم واحد ایسی کتاب ہے کہ اس کو نہ سمجھنے والا بھی ثواب سے محروم نہیں رہ سکتا.حتی کہ اس کے حروف پر انگلی پھیر نے والا بھی ثواب میں سے حصہ پائے گا.چنانچہ ایسے مسلمان جو روانی اور سلاست کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں ان کو تو جو ثواب ملتا ہے وہ تو ہے ہی لیکن ایسے احباب جو روانی اور
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 38 سلاست سے قرآن کریم کی تلاوت نہیں کر سکتے ان کے لیے بھی اجر ہے.گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ترغیب دلائی اور ایسے شخص کا حوصلہ بڑھایا ہے جو اٹک اٹک کر قرآن کریم کی تلاوت کرتا اور مشقت اٹھاتا ہے.عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَاهِرُ بِالْقُرْآن مَعَ السَّفَرَةِ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ وَالَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَيَتَتَعْتَعُ فِيهِ وَهُوَ عَلَيْهِ شَاقٌ لَهُ أَجْرَانِ.(مسلم، کتاب صلاة المسافرين، فضائل القرآن باب فضل الماهر بالقرآن ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تلاوت قرآن میں مہارت رکھنے والا رتبہ کے لحاظ سے ان معزز حاملین قرآن کے ساتھ ہے جو لکھنے والے اور دور دور سفر کرنے والے اعلیٰ درجہ کے نیکو کار ہیں.اور جو شخص اٹک اٹک کر قرآن کریم کی تلاوت کرتا اور تلاوت کرتے ہوئے مشقت اٹھاتا ہے تو ایسے شخص کے لیے دو گنا ثواب ہے.قرآن کریم کے حفاظ کے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے.اصطلاح میں قرآن کریم کے ماہر سے مراد ایسا شخص ہوتا ہے جسے قرآن کریم بہت زیادہ یاد ہو، کثرت کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت بھی کرتا ہو اور اس پر تدبر بھی کرتا ہو.پھر اس پر عمل بھی کرتا ہو.اس حدیث میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دراصل ان بلند مرتبہ حاملین قرآن کریم یعنی حفاظ کرام کی طرف اشارہ فرمایا ہے جن کا ذکر سورۃ عبس کی آیت نمبر 14 تا17 میں کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فِي صُحُفِ مُكَرَّمَةٍ مَّرْفُوعَةٍ مُطَهَّرَةِ بِأَيْدِي سَفَرَةٍ كِرَامٍ بَرَرَةٍ ترجمہ: معزز صحیفوں میں ہے جو بلند کیے ہوئے، بہت پاک رکھے گئے ہیں.لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں (جو ) بہت معزز ( اور ) بڑے نیک ہیں.“ (ترجمه بیان فرموده حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمه الله تعالى )
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 39 حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل نور الله مرقدة ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ان چاروں آیتوں میں قرآن شریف کے کاتبوں، قاریوں، حافظوں کی عظمت ،خود قرآن شریف کی عظمت اور اسلام کے لیے آئندہ زمانہ میں شان و شوکت کی پیش گوئی بڑی شدومد سے بیان ہوئی ہے.گو ان سے مراد ملا لگتہ اللہ بھی ہیں.“ فرماتے ہیں: ہیں: حقائق الفرقان، جلد چهارم، صفحه 328) حضرت خلیفہ اسیح الثاني نور الله مرقدہ ان آیات کی تفسیر میں غیر صغیر (سورۃ عبس ) میں یعنی صحابہ قرآن مجید کو لے کر دور دور پھیل جائیں گے (اور ) قرآن مجید کی برکت سے صحابہ بڑی بڑی عزتیں پائیں گے اور نیکیوں میں ترقی کریں گے." پھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ ان آیات کی تفسیر میں تفسیر کبیر میں فرماتے قرآن ایسے صحیفوں میں ہے جو مکرمہ ہیں، مرفوعہ ہیں اور مطہرہ ہیں.یہاں ایک لطیف قرآنی ترتیب کا منظر پیش کیا گیا ہے کہ ایک طرف تو قرآن کی یہ تین صفات بیان کی گئی ہیں: 1.مكرمة 2.مرفوعة 3.مطهرة.اور دوسری طرف وہ لوگ جنہوں حاملین قرآن (حفاظ ) بنا تھا اُن کی بھی تین صفات بیان کی گئی ہیں: 1.سفرة 2.کرام 3.بررة قرآن ایسے ہی ہاتھوں میں ترقی کرے گا جو سفرۃ ہوں گے.کرام ہوں گے اور بررة کے اوصاف اپنے اندر رکھتے ہوں گے خواہ وہ ظاہر طور پر بڑوں میں سے ہوں یا چھوٹوں میں سے، امیروں میں سے ہوں یا غریبوں میں سے.“ ( تفسیر کبیر جلد هشتم صفحه 170 سورة عبس زير آيت في صحف مكرمة )
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات حافظ قرآن اسلام کا علم بلند کرنے والا : 40 قرآن کریم چونکہ ایک ضابطہ حیات ہے اور اسلام کی بنیاد اس پر اور اس کی تعلیمات پر ہے اس لیے گویا یہ اسلام کا ایک جھنڈا ہے اور حافظ قرآن کی حیثیت اس شخص کی ہے جس نے یہ جھنڈا اٹھایا ہوا ہے.جھنڈا کسی بھی قوم کے تشخص کی علامت ہوتا ہے اور قرآن کریم بھی چونکہ اسلام کا جھنڈا ہے جو حافظ قرآن کریم کے سینہ میں ہوتا ہے اور حافظ قرآن کریم اسلام کا وقار بلند کرتا ہے اس لیے اسلام کا جھنڈا اٹھانے والے کی عزت و تکریم قائم کرنا نہایت درجہ ضروری امر ہے.چنانچہ حضرت ابوامامہ باہلی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حَامِلُ الْقُرْآنِ حَامِلُ رَأيَةِ الْإِسْلَامِ مَنْ أَكْرَمَهُ فَقَدْ أَكْرَمَ اللَّهَ وَمَنْ أَهَانَهُ فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ (فردوس الأخبار الديلمي - جلد 2 - صفحه 214 ـ زیر لفظ ”ح“) ترجمہ: حاملِ قرآن اسلام کا علم بردار ہے.پس جس نے اس کی عزت کی ، بے شک اس نے اللہ تعالیٰ کی عزت کی اور جس نے اس کی اہانت کی کوشش کی تو اُس پر عزت اور جلال والے اللہ کی لعنت ہے.حاملین قرآن کے پانچ فضائل : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفاظ کرام کو کئی ایک خوش خبریاں عطا فرمائی ہیں، جن میں سے ایک خوشخبری یہ بھی ہے کہ ان کو دیگر امتیوں کی نسبت پانچ فضائل عطا کئے جائیں گے.چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : الْقُرْآنُ أَفْضَلُ مِنْ كُلَّ شَيْءٍ فَمَنْ وَقَرَ الْقُرْآنَ فَقَدْ وَقَرَ اللَّهَ وَمَنِ اسْتَخَفَّ بِالْقُرْآنِ اسْتَخَفَّ بِحَقَّ اللَّهِ تَعَالَى حَمَلَةُ الْقُرْآنِ هُمُ الْمَحْفُوفُونَ بِرَحْمَةِ اللَّهِ الْمُعَظَّمُوْنَ كَلَامَ اللَّهِ الْمُلَبِسُوْنَ نُوْرَ اللَّهِ فَمَنْ وَّالَهُمْ فَقَدْ وَالَى اللَّهَ وَمَنْ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات عَادَاهُمْ فَقَدِ اسْتَخَفَّ بِحَقِّ اللَّهِ تَعَالَى.41 (تفسير القرطبي، جزء اول، صفحه 26) ترجمہ:.قرآن کریم ہر ایک چیز سے افضل ہے.پس جس نے قرآن کریم کی عزت کی اس نے گویا اللہ تعالیٰ کی عزت کی اور جس نے قرآن کریم کی بے قدری کی اس نے گو یا اللہ تعالیٰ کے حق میں کمی کی.:1 :2 :3 :4 :5 حاملین قرآن اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سائے میں ہیں، کلام اللہ کی عظمت قائم کرنے والے ہیں، اللہ تعالیٰ کے نور میں ملبوس ہیں، ان سے دوستی رکھنے والے اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں، ان سے دشمنی رکھنے والے بے شک وہ ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کے حق کی ناقدری کی.“ حفاظ خدا کے ولی ، ان کا دشمن خدا کا دشمن ،ان کا دوست خدا کا دوست: اللہ تعالیٰ حافظ قرآن سے محبت رکھتا ہے اور حافظ قرآن سے محض اس وجہ سے کہ وہ حافظ قرآن ہے محبت رکھنے والے سے بھی محبت رکھتا ہے اور جو بھی قرآن کریم کے حافظ سے دشمنی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو اپنا دشمن قرار دیتا ہے.چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حَمَلَةُ الْقُرْآنِ أَوْلِيَاءُ اللَّهِ فَمَنْ عَادَاهُمْ فَقَدْ عَادَى اللَّهَ وَمَنْ وَّالَاهُمْ فَقَدْ وَالَى الله.(کنز العمال، كتاب الأذكار من قسم الأقوال الباب السابع في تلاوة القرآن الفصل الأول ترجمہ:.حفاظ قرآن اللہ تعالیٰ کے اولیا ( دوست ) ہیں.پس جس نے ان سے دشمنی رکھی اس نے اللہ تعالیٰ سے دشمنی کی اور جس نے ان سے دوستی کی اس نے اللہ تعالیٰ سے دوستی کی.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 42 حفاظ کا اکرام اور ان کا بلند مقام: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفاظ کرام کی عزت اور توقیر قائم کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی اور ان کو ایسے انبیا قرار دیا ہے جن پر شریعت نازل نہیں ہوئی لیکن انہوں نے اس کا بوجھ اٹھا یا ضرور ہے.چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: أَكْرِمُوْا حَمَلَةَ الْقُرْآنِ فَمَنْ أَكْرَمَهُمْ فَقَدْ أَكْرَمَ اللَّهَ أَلَا فَلَا تَنْقِصُوْا حَمَلَةَ الْقُرْآنِ حُقُوْقَهُمْ فَإِنَّهُمْ مِنَ اللَّهِ بِمَكَانِ كَادَ حَمَلَةُ الْقُرْآنِ أَنْ يَكُوْنُوا أَنْبِيَاءَ إِلَّا أَنَّهُ لَا يُوْحَى إِلَيْهِمْ (کنز العمال - جلد اول - صفحه 523 - حدیث (2343 ترجمہ:.حاملین قرآن یعنی حفاظ کی عزت کرو کیونکہ جس نے ان کی عزت کی اس نے اللہ تعالیٰ کی عزت کی.خبردار! حفاظ قرآن کے حقوق میں کمی نہ کرو کیونکہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے نزدیک انبیا کے مقام اور مرتبہ پر فائز ہیں، فرق صرف یہ ہے کہ ان کی طرف وحی نہیں کی جاتی.حافظ قرآن حامل علوم نبوت : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں حافظ قرآن کا بلند مرتبہ بیان فرمایا ، اس کے فضائل بیان فرمائے اور اس کی عزت قائم کرنے کا حکم دیا ہے وہاں حافظ قرآن کو بھی نصائح فرمائی ہیں کہ وہ بھی پھر مخلوق خدا کے ساتھ انبیاء جیسا برتاؤ کرے اور نخوت اور تکبر کو بکلی چھوڑ کر ہر ایک بد عادت سے دست کش ہو جائے اور مخلوق خدا کے ساتھ نرمی ، علم اور محبت سے پیش آئے جو انبیا علیہم السلام کا خاصہ ہے.عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَقَدِ اسْتَدْرَجَ النُّبُوَّةَ بَيْنَ جَنْبَيْهِ إِلَّا أَنَّهُ لَا يُوْحَى إِلَيْهِ لَا يَنْبَغِي لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ أَنْ يَحُدَّ مَعَ مَنْ يَحُدُّ وَ لَا يَجْهَلُ مَعَ مَنْ يَّجْهَلُ وَ فِي جَوْفِهِ كَلَامُ اللهِ.(شعب الإيمان، التاسع عشر باب فی تعظيم القرآن، فصل في التكثر بالقرآن والفرح به)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 43 ترجمہ:.حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے قرآن کریم پڑھا اس نے گویا نبوت کے درجات کو اپنے دل اور سینے میں بھر لیا اگر چہ اس کی طرف وحی نہیں کی جاتی.پس صاحب قرآن کے لیے مناسب نہیں کہ وہ غصہ کرنے والے کے ساتھ غصہ کرے اور نہ ہی یہ مناسب ہے کہ وہ جہالت سے پیش آنے والے کے ساتھ جہالت سے پیش آئے جب کہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا کلام موجود ہے.حفاظ انبیاء اور صحابہ کے جانشین: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفاظ کا وہ مقام و مرتبہ بیان فرمایا ہے کہ ہر ایک کو نصیب نہیں ہو سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنا سابقہ انبیا اور اپنے صحابہ کا جانشین قرار دیا ہے اور امت کو بتایا ہے کہ ان کی اسی طرح عزت کرو جس طرح میری اور میرے صحابہ اور سابقہ انبیا کی عزت اور تو قیر کرتے ہو.چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَلَا أَدُلُّكُمْ عَلَى الْخُلَفَاءِ مِنِى وَمِنْ أَصْحَابِي وَمِنَ الْأَنْبِيَاءِ قَبْلِي؟ وَهُمْ حَمَلَهُ الْقُرْآنِ وَالْأَحَادِيْثِ عَنِّى وَعَنْهُمْ فِي اللَّهِ وَلِلَّهِ.(کنز العمال، جلد 10 صفحه 151، كتاب العلم من قسم الاقوال، باب الاول في الترغيب فيه الفصل الاول في فضائل تلاوة القرآن ترجمہ:.کیا میں تمہیں اپنے اور مجھ سے پہلے انبیاء کے خلفا اور اپنے صحابہ کے بارے میں نہ بتاؤں؟ یہ وہ لوگ ہیں جو محض اللہ تعالیٰ کی محبت میں سرشار ہو کر محض اللہ قرآن کریم کو حفظ کرتے ہیں نیز میری، میرے صحابہ اور سابقہ انبیاء علیہم السلام کی احادیث کے حافظ ہیں.روز قیامت حفاظ سایہ ذوالجلال میں ہوں گے: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر ایک مسلم کو اپنی اولاد میں تین خصائل پیدا کرنے کی تلقین فرمائی.حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 44 أَذِبُوا أَوْلَادَكُمْ عَلَى ثَلَاثِ خِصَالٍ حُبِّ نَبِيِّكُمْ وَحُبِّ أَهْلِ بَيْتِهِ وَقِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فَإِنَّ حَمَلَةَ الْقُرْآنِ فِي ظِلِ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَوْمَ لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلَّهُ مَعَ أَنْبِيَائِهِ وَأَصْفِيَائِهِ (الجامع الصغير للسيوطي ، جلد 1، صفحه 12 ) ترجمہ: اپنی اولاد میں تین صفات پیدا کرو: 1: اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، 2 : اہل بیت کا ادب اور احترام :3 قرآن کریم کی تلاوت کرنے کی محبت کیونکہ قیامت والے دن کہ جس دن اللہ تعالیٰ کے سایہ کے علاوہ کوئی سایہ باقی نہ رہے گا تو قرآن کریم کے حفاظ اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام اور اصفیاء کے ساتھ ہوں گے.حضرت امام غزالی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی تصنیف احیاء العلوم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ : حاملین قرآن یعنی قرآن کریم کی تعلیمات پر عمل کرنے والے حفاظ قیامت والے دن انبیاء کرام علیہم السلام اور برگزیدہ لوگوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سایہ کے نیچے ہوں گے اور اس دن کی تمام تکالیف اور پریشانیوں سے محفوظ ہوں گے.“ حافظ کی شفاعت سے دس جہنمی اہل خانہ کی نجات : حافظ قرآن کو حفظ کا خود ہی فائدہ نہیں ہو گا بلکہ اس کے عزیز واقارب کو بھی اس کے حفظ کا فائدہ ہوگا.حفظ کی برکت سے اللہ تعالیٰ قریبی دس رشتہ داروں کی بخشش بھی مقدر کر دے گا.چنانچہ روایت ہے: عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْهَرَهُ فَأَحَلَّ حَلَالَهُ وَحَرَّمَ حَرَامَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ بِهِ الْجَنَّةَ وَشَفَعَهُ فِي عَشْرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ.(ترمذی ، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء في فضل قارئ القرآن ترجمہ:.حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 45 نے فرمایا: جس نے قرآن کریم کی تلاوت کی اور اس کو حفظ کر لیا، پھر اس پر عمل کرتے ہوئے اس (قرآن کریم ) میں بیان شدہ حلال کو حلال اور حرام کو حرام سمجھا تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے گا اور اس کو ( روز قیامت ) اس کے گھر کے ایسے دس افراد کے لئے شفاعت کا حق دیا جائے گا جن کے بارے میں جہنم میں ڈالے جانے کا فیصلہ ہو چکا ہوگا.قاری شفاعت کرنے والا اور والدین کے عذاب میں کمی کا باعث : شفاعت کا یہ مضمون قریبی رشتہ داروں کے حلقہ سے نکل کر ہمسایوں تک جا پہنچتا ہے جب ہم یہ حدیث پڑھتے ہیں جس میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَرَأَ مِائَتَى يَةٍ فِى كُلَّ يَوْمٍ نَظَرًا شَفَّعَ فِي سَبْعِ قَبُوْرٍ حَوْلَ قَبْرِهِ وَخَفَّفَ اللهُ الْعَذَابَ عَنْ وَالِدَيْهِ وَإِنْ كَانَا مُشْرِكِيْنَ.(كنز العمال، جلد اول، صفحه 538، حديث (2408 | ترجمہ: جو شخص روزانہ قرآن کریم کی دو سو آیات دیکھ کر تلاوت کرے گا اس کی قبر کے اردگرد کی سات قبر والوں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی اور اللہ تعالیٰ اس کے والدین کے سر سے بھی عذاب ہلکا کر دے گا اگر چہ وہ مشرک ہی کیوں نہ ہوں.قرآن کریم حفظ کرنے والا عذاب الہی سے محفوظ رہے گا: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اُمت کو قرآن کریم حفظ کرنے کی ترغیب دلائی اور یہ پابندی نہیں لگائی کہ لازماً سارا قرآن کریم ہی حفظ کرو بلکہ اختیار دیا کہ ہر کوئی اپنی اپنی استطاعت اور استعداد کے مطابق حفظ کرے خواہ تھوڑا ہی کیوں نہ ہو کیونکہ قرآن کریم کو زبانی یاد کرنا اللہ تعالیٰ کے عذاب سے بچائے گا.ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اقْرَأُوْا الْقُرْآنَ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُعَذِّبُ اللَّهُ قَلْبًا وَعَى الْقُرْآنَ (سنن الدارمی، کتاب فضائل القرآن ، باب فضل من قرأ القرآن |
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 46 ترجمہ: قرآن کریم پڑھو.یقینا اللہ تعالیٰ ایسے شخص کے ) دل کو عذاب نہیں دے گا جس نے قرآن کریم زبانی یاد کیا.اسی مضمون کی ایک اور روایت ہے: عَنْ أَبِي أُمَامَةَ يَقُولُ إِقْرَأَوْا الْقُرْآنَ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ هَذِهِ الْمَصَاحِفُ الْمُعَلَّقَةُ فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يُعَذِّبْ قَلْبًا وَعَى الْقُرْآنَ.(مصنف ابن ابي شيبة ، كتاب فضائل القرآن، باب في الوصية بالقرآن وقراءته) ترجمہ: حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: قرآن مجید کے یہ نسخے جو تمہارے گھروں میں پڑے ہوئے ہیں تمہیں حفظ کرنے سے غفلت میں نہ ڈال دیں.یاد رکھو یقیناً اللہ تعالیٰ ایسے دل کو عذاب نہیں دے گا جس میں قرآن کریم محفوظ ہو.حافظ کی غیر حافظ پر فضیلت: قرآن کریم تمام صحائف آسمانی میں سے سب سے افضل ہے.یہ جس پر نازل ہوا وہ تمام انبیاء سے افضل نبی ہے.پس لازم ہے کہ جو بھی اس کی تلاوت کرتا ہو، اس پر عمل کرتا ہو اور اس کو یا درکھتا ہو وہ بھی عام انسانوں سے افضل ہو.چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہا بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حافظ قرآن کی دوسرے لوگوں پر فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا: فَضْلُ حَمَلَة الْقُرْآنِ عَلَى الَّذِي لَمْ يَحْمِلْهُ كَفَضْلِ الْخَالِقِ عَلَى الْمَخْلُوْقِ (فردوس الأخبار الديلمي - جلد 3 - صفحه 148 ، حدیث نمبر (4232 | ترجمہ:.حامل قرآن کی فضیلت اس شخص پر جو حامل قرآن نہیں ایسی ہے جیسے خالق کی فضیات مخلوق پر ہے.یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حافظ قرآن کی بجائے حامل قرآن کا لفظ استعمال فرمایا ہے.اس سے نہ صرف حافظ قرآن مراد ہے بلکہ ایسا شخص مراد ہے جو حافظ قرآن ہونے کے ساتھ ساتھ اس
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 47 کے معانی پر تدبر کرتا ہو اور اس کی تعلیمات کو جانتا ہو اور ان پر کما حقہ عمل بھی کرتا ہو.قرآن کریم کے اوامر اور نواہی پر بھی عمل کرتا ہو اور اس کی زندگی میں قرآن کریم ایک نصاب کی طرح شامل ہو.اس طرح نہ ہو کہ صرف اس کو طوطے کی طرح رہنا اور پڑھتا رہے بلکہ ایک عالم باعمل ہو جائے.ایسا شخص حقیقت میں حامل قرآن ہوتا ہے.کثرت سے تلاوت کرنے والا اور حافظ قرآن مستجاب الدعوات ہوتا ہے: جب کوئی شخص قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرے اور قرآن کریم کا حافظ بھی ہو اور اس کے علوم سے بہرہ ور ہو ، وہ اس پر دن رات تدبر بھی کرتا ہو اور اس کی تعلیمات پر عمل بھی کرتا ہو تو لا محالہ اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظریں اس پڑتی ہیں اور اس کو اللہ تعالیٰ اپنا قرب بھی عطا فرماتا ہے.پس ایسے شخص کی دعائیں زیادہ قبول ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اس کو مقبول دعاؤں کی توفیق بھی عطا فرماتا ہے.اس مضمون کی ایک روایت ہے: عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ خَيْرُكُمْ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَ أَقْرَأَهُ إِنَّ لِحَامِلِ الْقُرْآنِ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ يَدْعُوْا بِهَا فَيُسْتَجَابُ لَهُ.(شعب الإيمان التاسع عشر، باب في تعظيم القرآن، فصل في تعليم القرآن، جزء 2 صفحه 405) | ترجمہ : حضرت ابوامامہ باہلی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن کریم خود بھی پڑھتا ہے اور دوسروں کو بھی پڑھاتا ہے کیونکہ حامل قرآن جو دعائیں کرتا ہے وہ یقیناً قبول کی جاتی ہیں.حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ لِقَارِءِى الْقُرْآنِ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ فَإِنْ شَاءَ صَاحِبُهَا عَجَلَهَا فِي الدُّنْيَا وَإِنْ شَاءَ أَخَّرَهَا إِلَى الْآخِرَةِ (کنز العمال، كتاب الاذكار من قسم الاقوال، باب السابع فى لاوة القرآن وفضائله الفصل الاول في فضائله ، حدیث نمبر 2281) | ترجمه قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے ( حامل قرآن) کی ایک دعا ضرور قبول
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 48 ہوتی ہے.پس دعا مانگنے والے پر منحصر ہے کہ چاہے تو وہ دنیا میں ہی مانگ لے، اور چاہے تو اس کو آخرت تک مؤخر کر دے.حفاظ کو دیکھ کر اللہ کا غضب رضا میں بدل جاتا ہے.حافظ قرآن پر اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظریں پڑتی ہیں اور اللہ تعالی کا غضب بھی محبت بن کر بہنے لگتا ہے.چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى لَيَغْضِبُ فَتَسْلِمُ الْمَلَائِكَةُ لِغَضْبِهِ فَإِذَا نَظَرَ إِلَى حَمَلَةِ الْقُرْآنِ تَمْلأُ رَضًا (فردوس الأخبار الديلمي - عن ابن عمر ترجمہ: بے شک اللہ تعالیٰ جب غضب ناک ہوتا ہے تو فرشتے اس حالت میں بھی فرماں برداری کرتے ہیں لیکن حاملین قرآن کریم یعنی حفاظ کرام کو دیکھتے ہی اللہ تعالیٰ کا غضب جاتا رہتا ہے اور غضب کی جگہ اس کی رضالے لیتی ہے.حافظ قرآن قابل رشک ہے: مختلف انسانوں کو اللہ تعالیٰ نے مختلف طاقتیں، قو تیں اور خوبیاں عطا کی ہوتی ہیں جن کو دیکھ کر دوسرے لوگ ان سے حسد کرنے لگتے ہیں.حسد کرنے والوں میں کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جو ان خوبیوں کو اپناتے ہیں اور کچھ لوگ خواہ مخواہ ان خوبیوں کے مالک افراد کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو جاتے ہیں.اسلام میں حسد کو جائز قرار نہیں دیا گیا بلکہ ایسی آگ سے اس کو تشبیہ دی گئی ہے جو نیکیوں اور خوبیوں کو ایسے کھا جاتی ہے جیسے آگ خشک لکڑیوں کو جلا کر بھسم کر دیتی ہے.چنانچہ کسی بھی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان سے اس کی خوبیوں کی وجہ سے حسد کرے ہاں بعض خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جن کو دیکھ کر انسان کو چاہئے کہ وہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کرے.یہاں پر حسد سے مراد رشک ہوتا ہے جب پرح انسان دوسرے کی خوبیاں دیکھ کر سوچتا ہے کہ یہ خوبیاں اس کے اندر بھی پیدا ہونی چاہئیں اور یہ رشک
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 49 حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف دو بندوں سے جائز قرار دیا ہے.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ وَرَجُلٌ آتَاهُ اللهُ مَالًا فَهُوَ يُنْفِقُهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ (بخاری.کتاب التوحيد ـ باب قول النبي صلى الله عليه وسلم رجل آتاه الله القرآن فهو يقوم به) ترجمہ: دو شخص قابل رشک ہیں ایک وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی نعمت عطا فرمائی ہو اور وہ رات اور دن کی مختلف گھڑیوں میں اس کی تلاوت کرتا ہے اور دوسرا وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے مالی فراخی عطا فرمائی ہو اور وہ اس سے رات دن (اللہ کی راہ میں ) خرچ کرتا ہے.لَا حَسَدَ إِلَّا عَلَى اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْكِتَابَ وَقَامَ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَرَجُلٌ أَعْطَاهُ اللَّهُ مَالًا فَهُوَ يَتَصَدَّقُ بِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ (بخاری - کتاب فضائل القرآن باب اغتباط صاحب القرآن ترجمہ: دو شخص قابل رشک ہیں ایک وہ جس کو اللہ نے قرآن کریم کی نعمت عطا فرمائی ہو اور وہ رات کے اوقات میں اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے (اس کی تلاوت کرتا ہے ) اور دوسرا وہ جس کو اللہ نے مالی فراخی عطا فرمائی ہو اور وہ اس میں سے رات دن صدقہ وخیرات کرتا ہے.قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے کے والدین کی تاج پوشی: جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کی تربیت کی ذمہ داری اس کے والدین پر ہوتی ہے.والدین اپنے بچے کواعلیٰ اخلاق سکھاتے اور نیکی کی ترغیب دیتے ہیں.نماز اور قرآن کریم کی تلاوت ایسے دو وصف ہیں جو ایک مسلمان کا طرہ امتیاز ہیں انہی کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ زندہ اور مضبوط تعلق پیدا ہوتا ہے.پس وہ والدین جو اپنے بچوں کو ان نیکیوں کی طرف راغب کرتے ہیں اور بچوں میں نیک عادات پیدا کرتے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 50 ہیں، ان کو کلام الہی حفظ کرواتے ہیں، ان کے والدین کو بھی اجر دیا جاتا ہے.بچے جب جب قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں والدین اور استاذ کو بھی اس کا ثواب ملتا ہے کیونکہ انہوں نے اس بچے کو سکھانے کا اہتمام کیا ہوتا ہے.چنانچہ اس بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَعَمِلَ بِمَا فِيهِ أُلْبِسَ وَالِدَاهُ تَاجًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ضَوْؤُهُ أَحْسَنُ مِنْ ضَوْءِ الشَّمْسِ فِي بُيُوتِ الدُّنْيَا لَوْ كَانَتْ فِيكُمْ فَمَا ظَنُّكُمْ بِالَّذِي عَمِلَ بِهَذَا.(سنن أبی داود، کتاب الوتر، باب في ثواب قراءة القرآن) ترجمہ: جس نے قرآن کریم پڑھا اور اس پر عمل کیا قیامت والے دن اس کے والدین کو ایسا تاج پہنایا جائے گا جس کی روشنی اس سورج سے بھی زیادہ ہوگی جو دنیاوی گھروں کو روشن کرتا ہے.اور اگر تمہارے پاس یہ سورج ہو اور اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے جو اس یعنی قرآن کریم پر عمل کرتا ہو.قرآن کریم کی تلاوت میں مشغول رہنے والے پر عطاء انہی: عشق قرآن میں ڈوبے ہوئے حافظ قرآن کا خیال اللہ تعالیٰ خود رکھتا ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ اللہ تعالیٰ اس کی ضروریات کا خود متکفل ہو جاتا ہے اور اس کو بن مانگے دیتا چلا جاتا ہے کیونکہ وہ تو اللہ کی خاطر اس کے کلام کو پڑھنے پڑھانے ، پھیلانے اور لوگوں کو سمجھانے میں مصروف ہوتا ہے.پس اللہ تعالیٰ اس کی جملہ ضروریات کا خیال رکھتا ہے.چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ ایک حدیث قدسی بیان کرتے ہیں: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ وَذِكْرِي عَنْ مَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِيَ السَّائِلِينَ.(سنن الترمذى - كتاب فضائل القرآن - باب (25) ترجمہ : حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ صاحب عزت و جلال اللہ تعالیٰ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 51 فرماتا ہے کہ جس شخص کو قرآن کریم اور میرے ذکر نے مجھ سے مانگنے سے روک دیا میں اس کو مانگنے والوں سے بہت زیادہ عطا کرتا ہوں.حفظ قرآن سب سے بڑا انعام ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دین و دنیا کے انعامات اور نعماء میں سے سب سے بڑا انعام اور نعمت قرآن کریم کو قرار دیا ہے.جس کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کا علم دیا ہو اور وہ آگے اس کو پھیلا تا ہو اور خود بھی اس کی تلاوت کرتا اور اس پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا ہو تو یہ نعمت اس کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے.اس سے بڑھ کر دنیا میں کوئی نعمت نہیں ہے بلکہ دنیا کی ہر ایک نعمت قرآن کریم کے سامنے بیچ ہے.چنانچہ اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَرَأَى أَنَّ أَحَدًا أُعْطِيَ أَفْضَلَ مِمَّا أُعْطَى فَقَدْ عَظَمَ مَا صَغَرَ اللَّهُ وَصَغَرَ مَا عَظَمَ اللَّهُ (کنز العمال جلد 1 - صفحه 525، كتاب الاذكار من قسم الاقوال ، باب السابع في تلاوة القرآن وفضائله الفصل الاول في فضائل تلاوة القرآن | ترجمہ: جس نے قرآن کریم پڑھا پھر کسی اور کے متعلق یہ خیال کیا کہ اُس کو مجھ سے افضل نعمت بخشی گئی ہے تو اس نے اُس نعمت کو بڑا سمجھا جس کو اللہ تعالیٰ نے چھوٹا قرار دیا ہے اور اس نعمت یعنی قرآن کریم کو چھوٹا سمجھا جس کو اللہ نے عظمت عطا فرمائی ہے.حفظ قرآن کریم کی قدرومنزلت : حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں حفظ قرآن کریم کی اتنی قدر تھی کہ ایک غریب صحابی جس کے پاس حق مہر مقرر کرنے کے لیے کچھ بھی موجود نہ تھا ، نہ رقم ، نہ جائداد اور نہ ہی کوئی اور ساز وسامان تھا.ان کو قرآن کریم کی چند سورتیں یاد تھیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور مہر وہی چند سورتیں قبول فرما کر ان کا نکاح پڑھ دیا.اس واقعہ کی تفصیل صحیح بخاری میں کچھ یوں بیان کی گئی ہے:
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 52 نحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں ایک شخص نے ایک عورت سے شادی کی درخواست کی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ مہر میں دینے کے لئے تیرے پاس کچھ ہے؟ چاہے لوہے کی ایک انگوٹھی ہی کیوں نہ ہو.وہ اپنے گھر گیا تا کہ دیکھ سکے کہ اس کے پاس کچھ ہے بھی یا نہیں.واپس آ کر اس نے عرض کیا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے.صرف ایک تہ بند ہے جو میں نے اس وقت پہن رکھا ہے.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے.کچھ دیر انتظار کے بعد وہ شخص مایوس ہو کر واپس جانے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے جاتے ہوئے دیکھ کر واپس بلا یا اور فرمایا: مَاذَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ؟ قَالَ مَعِي سُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا وَسُورَةُ كَذَا عَدَّهَا قَالَ أَتَقْرَؤُهُنَّ عَنْ ظَهْرٍ قَلْبِكَ؟ قَالَ نَعَمُ قَالَ اذْهَبُ فَقَدْ مَلَّكْتُكَهَا بِمَا مَعَكَ مِنَ الْقُرْآنِ.(بخاری، کتاب فضائل القرآن باب القراءة عن ظهر القلب) ترجمہ: کیا تمہیں قرآن کریم کا کچھ حصہ زبانی یاد ہے؟ اس شخص نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورتیں مجھے زبانی یاد ہیں اور چند سورتوں کے نام گنوائے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تم یہ سورتیں زبانی تلاوت کر سکتے ہو؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا.میں اس قرآن کے عوض جو تمہیں یاد ہے اس عورت کو تمہارے نکاح میں دیتا ہوں.“ حافظ قرآن قوم کا امام: دنیا میں اس کو قابل عزت و احترام سمجھا اور گنا جاتا ہے جو عمر میں بڑا ہو، یا جس کے پاس پیسہ اور جائیدادزیادہ ہو یا جس کے پاس طاقت اور جتھہ بڑا ہو، لیکن اسلام کے بتائے اصول وضوابط میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی اصول متعارف کروایا ہے کہ جس کو قرآن کریم زیادہ یاد ہو اور قرآن کا علم سب سے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 53 زیادہ ہو، وہی اس اہل ہے کہ امیر اور امام بن سکے.چنانچہ حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: يَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُهُمْ لِكِتَابِ اللَّهِ.(صحيح مسلم، کتاب المساجد ، باب من أحق بالإمامة) ترجمہ: جماعت کی امامت ایسا شخص کرائے جس کے پاس قرآن کریم کا سب سے زیادہ علم ہو.اس ضمن میں ایک واقعہ ملتا ہے جس سے قرآن کریم ظاہری طور پر زیادہ یاد کرنے والے کی فضیلت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ ایک چھوٹے بچے کو قرآن کریم زیادہ حفظ ہونے کی وجہ سے امام بنادیا گیا.حضرت عمر بن سلمہؓ فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ کے راستے میں رہتے تھے جو لوگ وہاں سے آتے وہ بتاتے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے اور یہ آیات نازل ہوئی ہیں.چنانچہ میں وہ آیات یاد کر لیتا اور مسلمان ہونے سے پہلے ہی مجھے بہت سارا قرآن یاد ہو گیا.جب مکہ فتح ہوا تو ہم سب مسلمان ہو گئے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں احکام دین سکھائے ،نماز سکھائی، جماعت کا طریقہ سمجھایا اور فرمایا تم میں سے جسے زیادہ قرآن یاد ہو، وہ امامت کے لیے افضل ہے.چنانچہ میری قوم نے تلاش شروع کی تو مجھ سے زیادہ حافظ قرآن کوئی نہ نکلا اور مجھے ہی امام بنایا گیا.میں نماز پڑھاتا اور منبر پر کھڑا ہو کر خطبہ دیتا.(بخاری، کتاب المغازی، باب 55، روایت نمبر 4302) حفظ نامکمل رہنے پر فرشتہ قبر میں حفظ مکمل کروائے گا: بعض ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ بچپن میں جن کے والدین ان کو قرآن کریم حفظ نہیں کروا سکتے لیکن بڑے ہو کر وہ اپنی مدد آپ کے تحت قرآن کریم حفظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں قرآن کریم کے ایسے عشاق کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت بڑی خوش خبری عطا فرمائی کہ ان کو مایوس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 54 اللہ تعالیٰ ان کی اس مبارک سعی کا بہت بڑا قدر دان ہے.چنانچہ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ ثُمَّ مَاتَ قَبْلَ أَنْ يَسْتَظْهِرَهُ أَتَاهُ مَلَكٌ فَعَلَّمَهُ فِي قَبْرِهِ وَيَلْقَى اللَّهَ تَعَالَى وَقَدِ اسْتَظْهَرَهُ (کنز العمال - جلد 1 - صفحه 547، كتاب الاذكار من قسم الاقوال، باب السابع في تلاوة القرآن وفضائله الفصل الاول في فضائل تلاوة القرآن | ترجمہ: جس نے قرآن کریم پڑھا اور حفظ کرنے سے پہلے اس کی وفات ہوگئی تو اس کی قبر میں اس کے پاس ایک فرشتہ آئے گا اور قبر میں ہی اس کو قرآن کریم حفظ کرا دے گا.حتی کہ وہ شخص اللہ تعالیٰ سے اس حالت میں ملاقات کرے گا کہ قرآن کریم اس کو مکمل طور پر حفظ ہو چکا ہوگا.پچاس آیات پڑھنے والا حفاظ قرآن میں شامل قرآن کریم کی محبت اور عشق دلوں میں ڈالنے کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو مختلف طریق پر ترغیب دلائی ہے.چنانچہ ایک روایت میں آتا ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے ایک رات میں قرآن کریم کی پچاس آیات تلاوت کیں اس کا شمار قرآن کریم کے حفاظ میں ہوگا.روز قیامت مؤمنین حافظ بن جائیں گے: (سنن الدارمی کتاب فضائل القرآن | قرآن کریم سے محبت کرنے والے ایسے مؤمنین جنہیں اپنی زندگی میں کسی وجہ سے قرآن کریم حفظ کرنے کی توفیق نہیں مل سکے گی لیکن ان کے دل اس بات پر غم زدہ بھی ہوں گے کہ کاش ان کو بھی
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 55 قرآن کریم حفظ کرنے کی توفیق مل جاتی ، ایسے لوگوں کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بہت بڑی خوش خبری عطا فرمائی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يَقْرَأُ اللَّهُ الْقُرْآنَ فَكَأَنَّهُمْ لَمْ يَسْمَعُوْهُ فَيَحْفَظُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَيَنْسَاهُ الْمُنَافِقُوْنَ (کنز العمال جلد 1 - صفحه 555، کتاب الاذكار من قسم الاقوال، باب السابع في تلاوة القرآن وفضائله الفصل الاول في فضائل تلاوة القرآن ترجمہ: قیامت والے دن جب اللہ تعالیٰ قرآن کریم پڑھ کر سنائے گا تو امت محمدیہ کو یوں محسوس ہو گا جیسے انہوں نے اس سے پہلے کبھی قرآن کریم سنا ہی نہیں تھا.پس اس وقت مومنین قرآن کریم کو حفظ کر لیں گے جبکہ منافق اسے بھول جائیں گے.زبانی قرآن پڑھنے کا ایک ہزار درجہ کے برابر ثواب : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفاظ کو بھی احتیاط برتنے اور اپنے حافظہ پر ضرورت سے زیادہ انحصار نہ کرنے کی نصیحت ایسے پیارے طریق پر فرمائی ہے کہ جس سے غیر حفاظ بھی تلاوت قرآن کریم کر کے زیادہ ثواب حاصل کر سکتے ہیں.ہو سکتا ہے کہ کسی نے قرآن کریم کا کوئی حصہ ٹھیک سے حفظ نہ کیا ہو یا اسے غلط یاد ہو گیا ہو ، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی کہ مصحف کو دیکھ دیکھ کر پڑھنے کا ثواب زبانی پڑھنے سے زیادہ ہے.اس میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ دیکھ کر پڑھنے سے حفاظ اپنی غلطیوں کی تصحیح بھی کر سکتے ہیں.عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَوْسِ الثَّقَفِيِّ عَنْ جَدِهِ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ فِي غَيْرِ الْمَصْحَفِ أَلْفُ دَرَجَةٍ وَ قِرَاءَتُهُ فِى الْمَصْحَفِ تَضْعُفُ عَلَى ذَالِكَ الْفَى دَرَجَةٍ.(شعب الإيمان، التاسع عشر ، باب فی تعظيم القرآن، فصل في قراءة القرآن من المصحف، جزء2 صفحه 407) |
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 56 ترجمہ : حضرت عثمان بن عبداللہ بن اوس ثقفی رضی اللہ عنہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کریم کی زبانی تلاوت انسان کے ایک ہزار درجات بلند کرتی ہے جبکہ مصحف سے دیکھ کر تلاوت کرنے سے تلاوت کرنے والے کے دو ہزار درجات بلند ہو جاتے ہیں.حفاظ کی عزت وتعظیم کرو عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللَّهِ إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللَّهِ إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ وَحَامِلِ الْقُرْآنِ غَيْرِ الْغَالِي فِيهِ وَالْجَافِى عَنْهُ (سنن ابی داود، کتاب الأدب، باب في تنزيل الناس منازلهم) ترجمہ: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال میں سے ہے کہ ایک مسلمان بوڑھے کی اور ایسے حفاظ قرآن کی عزت کرنا، جو نہ قرآن میں غلو کر نے والا ہو اور نہ اس سے دوری اختیار کرنے والا ہو.حافظ قرآن کی دعوت کرنے کا ثواب: تالیف قلب کا مضمون ایسا گہرا اور قابل تقلید اور قابل عمل ہے کہ اس سے بہت سے مسائل کا حل بھی ہوتا ہے اور ایک دوسرے کے محبت بڑھتی ہے ایک دوسرے کے لیے نیک جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عمومی تعلیم یہ دی کہ ایک دوسرے کو تحفے دیا کرو، اس سے محبت بڑھتی ہے اور پھر یہ بھی کہ ہمسائے ایک دوسرے کا اس قدر خیال رکھیں کہ کچھ پکایا ہو تو ایک دوسرے کے گھروں میں بھجوایا کریں.یہ بھی فرمایا کہ ایک دوسرے کی دعوت کیا کرو اس سے بھی محبت بڑھتی ہے.حفاظ کرام کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خاص طور پر ہدایت دی کہ ان کی تالیف قلب کے لیے ان کے ساتھ ایسا تعلق رکھو کہ ان کی دعوت کرو، اس کا تمہیں ثواب ملے گا.چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 57 مَنْ دَعَا صَاحِبَ الْقُرْآنِ إِلَى طَعَامِهِ وَسَقَاهُ مِنْ شَرَابِهِ لِفَضْلِ الْقُرْآنِ أَعْطَاهُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ بِكُلِّ حَرْفٍ فِي جَوْفِهِ عَشْرَ حَسَنَاتٍ وَمَحَى عَنْهُ عَشْرِ سَيِّئَاتٍ وَرَفَعَ لَهُ عَشْرَ دَرَجَاتٍ فَإِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ يَقُوْلُ اللَّهُ إِيَايَ كَرَمْتَ وَكَفَى بِهِ مَثِيْبًا (فردوس الاخبار الدیلمی، جلد 4، صفحه 199، 200 ، حدیث نمبر (6134) ترجمہ:.جس نے فضیلت قرآن کی وجہ سے حافظ قرآن کی دعوت کی ، اور اس کی خاطر تواضح کی، تو اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ دعوت کرنے والے کو حافظ کے دل میں موجود ہر حرف کے بدلہ میں دس نیکیاں عطا فرمائے گا، دس گناہ معاف کر دے گا اور دس درجات بلند کر دے گا اور جب قیامت کا دن آئے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ چونکہ تو نے میری وجہ سے اس کی عزت کی ، اس لیے اس اکرام کا بدلہ دینے کے لیے میں ہی کافی ہوں.قاری اور حافظ کے مشوہ کی اہمیت: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے تربیت یافتہ صحابہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ سے حصہ پا کر اپنے اخلاق کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے مطابق ڈھال چکے تھے اور جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ تھی انہوں نے بھی وہی طرز اپنائی تھی.چنانچہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلافت کی مسند پر متمکن ہوئے تو انہوں نے اپنی مجلس مشاورت میں ان لوگوں کو جگہ دی جو حفاظ قرآن اور قاری تھے.اس ضمن میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: كَانَ الْقُرَّاءُ أَصْحَابَ مَجْلِسِ عُمَرَ وَمُشَاوَرَتِهِ كُهُولًا كَانُوا أَوْ شُبَّانًا.(بخاری، کتاب الاعتصام، باب الاقتداء بسنن رسول الله ﷺ ترجمہ :.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی محفل اور مشاورت میں قرآن کریم کے قاری شامل ہوتے تھے خواہ وہ ادھیڑ عمر کے ہوتے تھے یا بالکل نو جوان.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات حفاظ سے خدا اور بندوں کی محبت : 58 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ : ”جو لوگ قرآن کو عزت دیں گے وہ آسمان پر عزت پائیں گے.دراصل یہ تعلیم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی ہے.چنانچہ حضرت حسین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: يَا حَامِلَ الْقُرْآنِ إِنَّ أَهْلَ السَّمَوَاتِ يَذْكُرُوْنَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّوَجَلَّ فَتُحَيِّبُوْا إِلَى اللَّهِ بِتَوْقِيْرِ كِتَابِهِ لِيَزْدِدْ لَكُمْ حُبًّا وَيُحْبِبْكُمْ إِلَى عِبَادِهِ.(فردوس الاخبار الدیلمی، جلد 5 صفحه 393، حدیث نمبر 8263) ترجمہ: اے حاملِ قرآن کریم ! کتاب اللہ کی عزت قائم کرنے کی وجہ سے آسمانوں پر بسنے والے، اللہ عزوجل کے حضور تمہارا ذکر کرتے ہیں تا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے لوگوں کے دلوں میں محبت کا اضافہ کر دے اور اپنے عبادت گزار بندوں کا محبوب بنا دے.خدا تعالیٰ کا حفاظ پر فخر : حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: يُؤْتَى بِحَمَلَةِ الْقُرْآنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَيَقُوْلُ اللَّهُ عَزَّوَجَلَّ اَنْتُمْ وِعَاءُ كَلَامِيْ أَخَذْتُمْ بِمَا لا أَخَذَبِهِ الْأَنْبِيَاء إِلَّا بِاالْوَحْي.(فردوس الاخبار الدیلمی، جلد 5، صفحه 460، حدیث نمبر 8476) ترجمہ: قیامت والے دن حفاظ قرآن سے مخاطب ہو کر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم میرے کلام کے حفاظ ہو.پس تم نے وہ کچھ اخذ کیا ہے جو میرے انبیاء علیہم السلام نے لیا فرق صرف یہ ہے کہ تم پر وحی نہیں کی گئی.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 59 قرآن کریم سیکھنے اور پھر آگے سکھانے والے کے لیے خوش خبری: جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفاظ کو خوش خبریاں عطا فرمائی ہیں وہاں قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے والوں اور آگے سکھانے والوں کے لیے بھی خوش خبری دی ہے کہ ان کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی راہنمائی میں خود جنت میں لے کر جائیں گے.چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سرور کونین صلی اللہ علیہ سلم کا یہ ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں: أَلا مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ وَعَمِلَ بِمَا فِيْهِ فَأَنَا لَهُ سَائِقٌ إِلَى الْجَنَّةِ وَدَلِيْلٌ إِلَى الْجَنَّةِ.(کنز العمال جلد 1 صفحه 531، كتاب الاذكار من قسم الاقوال، باب السابع في تلاوة القرآن وفضائله، الفصل الاول في فضائل تلاوة القرآن ترجمہ: ایسے شخص کے لیے خوش خبری ہو کہ جس نے خود قرآن کریم سیکھا اور پھر دوسروں کو سکھایا اور جو کچھ قرآن کریم میں ہے اس پر عمل کیا.میں اس کو خود جنت میں لے کر جاؤں گا اور جنت کی طرف لے جانے والا راہبر بنوں گا.حافظ قرآن کے والد کا عظیم درجہ بخشش کا ذریعہ : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان والدین کے لیے بھی خوش خبریاں عطا فرمائی ہیں جنہوں نے اپنی اولا د کو قرآن کریم کی تعلیم دلانے ، اور اس کو حفظ کروانے کی سعادت پائی.چنانچہ روایت ہے: " جس شخص نے اپنے بیٹے کو قرآن کریم ناظرہ کی تعلیم دلائی ، اس کے سب اگلے اور پچھلے گناہ معاف ہو گئے اور جس شخص نے قرآن کریم حفظ کروایا اس کو قیامت کے دن چودھویں رات کے چاند جیسی صورت پر اٹھایا جائے گا اور اس کے بیٹے سے کہا جائے گا کہ قرآن پڑھنا شروع کرو.جب وہ پڑھے گا تو ہر آیت کے بدلے اللہ عز وجل اس کے باپ کا ایک درجہ بلند فرماتا رہے گا حتی کہ حافظ اس حصہ قرآن کے آخر تک پہنچ جائے جو اس کو یا دتھا.“ (المعجم الاوسط الطبراني، جزء 2 ، صفحه (264)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 60 قرآن کریم کے حفاظ اور علی الصبح تلاوت کرنے والوں کا حسین نظارہ: فجر کے وقت اور نماز فجر کی ادائیگی کے بعد علی اصبح تلاوت قرآن کریم کا ایک اپنا لطف ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم با قاعدگی کے ساتھ تلاوت قرآن کریم کیا کرتے تھے.یہ نظارہ مدینہ میں نماز فجر سے پہلے اور بعد میں نظر آتا تھا.ایک تابعی ابوالزناؤ ایک ایسا ہی واقعہ بیان کرتے ہیں: كُنْتُ أَخْرِجُ مِنَ السَّحْرِ إِلَى مَسْجِدِ النَّبِيِّ ﷺ فَلَا أَمُرُّ بِبَيْتٍ إِلَّا فِيْهِ قَارِيِّ وَكُنَّا نَحْنُ فِتْيَانٌ نُرِيْدُ أَنْ نَخْرُجَ لِحَاجَةٍ فَنَقُوْلُ مَوْعِدُكُمْ قِيَامُ الْقُرَّاءِ.(مختصر قيام الليل لمحمد بن نصر المروزي، باب الاستغفار بالأسحار والصلاة فيها ترجمہ : میں سحری کے وقت گھر سے مسجد نبوی جانے کے لیے نکالتا تو جس گھر کے سامنے سے بھی میرا گزر ہوتا اسی میں سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے کی آواز آرہی ہوتی تھی تو ہم نو جوان جب رفع حاجت کے لیے اکٹھے نکلتے تھے تو یہ طے کر لیا کرتے تھے کہ علی الصبح جب قاری حضرات قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں اس وقت ہم فلاں جگہ اکٹھے ہوں گے.حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.: ”جب رات ہوتی ہے تو میں اپنے اشعری صحابہ کی آوازوں کو ان کی قرآت سے پہچان لیتا ہوں اور رات کو ان کی تلاوت قرآن کی آوازوں کے ذریعہ ان کے مکانات کی شناخت کر لیتا ہوں خواہ میں نے دن کے وقت ان کے مکانات نہ بھی دیکھے ہوں.جبکہ انہوں نے دن کے وقت آ کر اپنے پڑاؤ کے لیے مکانات تیار کیے ہوتے“.(بخاری، کتاب المغازی، باب غزوة خيبر علم صحابہ کرام کا قرآن کریم سے تعلق اور عشق کا اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ وہ وقت
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 61 کی تعیین کے لیے قرآن کریم کی آیات کی مثال دیتے.ایک آدمی کے پوچھنے پر کہ رمضان میں سحری اور نماز فجر کے درمیان کتنا وقت ہوتا ہے؟ کا جواب یوں دیتے کہ اس دوران اتنا وقت ہوتا ہے جتنی دیر کوئی شخص پچاس آیات کی تلاوت کرتا ہے.“ ایک ماہر حافظ قرآن کی کثرت تلاوت کا ذکر خیر : (بخاری ، کتاب مواقيت الصلواة، باب وقت الفجر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم کثرت کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتے تھے اور ان کو مصحف کا ایسا تجربہ ہو چکا تھا کہ جب بھی قرآن کریم کی کسی آیت کا حوالہ کوئی پوچھتا تھا تو وہ فور بتا دیا کرتے تھے.ایسے ہی ایک ماہر قاری ابو سہل بن زیاد کی بابت آتا ہے: حَدَّثَنِي الْأَزْهَرِى قَالَ قَالَ لِي أَبُو عَبْدِ اللَّهِ بْنُ بِشْرِ الْقَطَانِ مَا رَأَيْتُ رَجُلًا أَحْسَنَ انْتِزَاعًا لَمَّا أَرَادَ مِنْ آى الْقُرْآنِ مِنْ أَبِي سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ فَقُلْتُ لِابْنِ بِشْرِ مَا السَّبَبُ فِي ذَلِكَ فَقَالَ كَانَ جَارُنَا وَكَانَ يَدِيْمُ صَلَاةَ اللَّيْلِ وَتِلَاوَةِ الْقُرْآن فَلِكَثُرَةِ دَرْسِهِ صَارَ كَأَنَّ الْقُرْآنُ نَصَبٍ عَيْنَيْهِ يَنْتِزِعُ مِنْهُ مَا شَاءَ مِنْ غَيْرِ تَعْبِ.تاريخ بغداد ، حرف الميم من اباء الأحمدين، ذكر من اسمه احمد واسم أبيه محمد ) ازھری نے کہا مجھے ابو عبد اللہ بن بشر قطان نے بتایا کہ میں نے ابو سہل بن زیاد سے اچھا قرآن کی آیات (موقع پر ) ڈھونڈ نکالنے والا نہیں دیکھا.ازھری کہتے ہیں کہ میں نے ابن بشر سے کہا اس کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ وہ ہمارے پڑوس میں رہتے تھے.وہ قیام الیل اور تلاوت قرآن کریم کی بہت پابندی کرتے تھے، اسی وجہ سے انہیں قرآن کریم ایسا از بر تھا کہ جیسے وہ ان کی آنکھوں کے سامنے کھلا ہوا رکھا ہے.جب قرآن کریم میں سے کوئی آیت نکالنی ہوتی تو اس بارے میں ہم نے ان سے زیادہ اچھا ملکہ کسی کا نہیں دیکھا کہ وہ فوری طور پر وہ آیت نکال کر سامنے رکھ دیتے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 62 سرداری کا معیار حفظ قرآن ہے تہجد گزار حافظ قرآن کا سینہ کستوری سے بھری ہوئی تھیلی کی طرح ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ایک کام میں ایسے شخص کو ترجیح دیا کرتے تھے جس کو قرآن کریم زیادہ حفظ ہوتا تھا.چنانچہ ایک بار کہیں لشکر بھیجنا مقصود تھا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا امیر ایک ایسے صحابی کو مقرر کیا جسے قرآن کریم سب.زیادہ یاد تھا.چنانچہ روایت ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ بَعَثَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْثًا وَهُمْ ذُو عَدَدٍ فَاسْتَقْرَأَهُمُ فَاسْتَقْرَأَ كُلَّ رَجُلٍ مِنْهُمْ مَا مَعَهُ مِنَ الْقُرْآنِ فَأَتَى عَلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ مِنْ أَحْدَثِهِمُ سِنَّا فَقَالَ مَا مَعَكَ يَا فُلاَنُ قَالَ مَعِي كَذَا وَكَذَا وَسُورَةُ الْبَقَرَةِ قَالَ أَمَعَكَ سُورَةُ الْبَقَرَةِ؟ فَقَالَ نَعَمْ.قَالَ فَاذْهَبْ فَأَنْتَ أَمِيرُهُمْ.فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَشْرَافِهِمْ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا مَنَعَنِي أَنْ أَتَعَلَّمَ سُورَةَ الْبَقَرَةِ إِلَّا خَشْيَةَ أَلَّا أَقُومَ بِهَا.فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ فَاقْرَءُوهُ وَأَقْرِئُوهُ فَإِنَّ مَثَلَ الْقُرْآنِ لِمَنْ تَعَلَّمَهُ فَقَرَأَهُ وَقَامَ بِهِ كَمَثَلِ جِرَابٍ مَحْشُةٍ مِسْكًا يَفُوحُ بِرِيحِهِ كُلُّ مَكَانٍ وَمَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَهُ فَيَرْقُدُ وَهُوَ فِي جَوْفِهِ كَمَثَلِ جِرَابٍ وُكِءَ عَلَى مِسْكِ.(جامع الترمذی ، ابواب فضائل القرآن باب ماجاء في فضل سورة البقرة و آية الكرسى) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ایک لشکر روانہ فرمایا اور وہ کافی بڑی تعداد میں تھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر آدمی سے جتنا اسے قرآن یاد تھا سنا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے ایک شخص کے پاس آئے جو اُن میں کم عمر تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 63 فرمایا کہ تمہیں کتنا قرآن یاد ہے؟ اس نے عرض کیا کہ فلاں فلاں سورت، نیز سورۃ البقرۃ.فرمایا: اچھا تمہیں سورہ بقرہ بھی حفظ ہے؟ صحابی نے عرض کیا : جی ہاں.فرمایا تو جاؤ تم ان کے امیر ہو.لشکر کے بڑے لوگوں میں سے ایک نے عرض کیا.اے اللہ کے رسول ! واللہ ! میں نے محض اس ڈر سے سورۃ البقرۃ یاد نہیں کی کہ شاید میں نماز تہجد میں اس کی تلاوت نہ کر سکوں.فرمایا: قرآن سیکھو، پڑھو اور پڑھاؤ کیونکہ جس نے قرآن سیکھ کر پڑھا نیز اس کے ساتھ رات کو قیام کیا ، اس کی مثال کستوری سے بھری ہوئی تھیلی کی طرح ہے جس کی خوشبو ہر جگہ پھیل رہی ہو اور جو قرآن کریم سیکھ کر اس حالت میں سویا رہا کہ قرآن اس کے سینے میں ہے اس کی مثال کستوری کی اس تھیلی کی طرح ہے جس کا منہ ڈوری سے بندھا ہوا ہو.حضرت خلیفہ مسیح الثانی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں: حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جوسورۃ البقرۃ کے یاد کر نے پر ایک نو جوان کو شکر کا امیر بنا دیا.اس میں کئی حکمتیں تھیں.آپ نے اس طرح دوسرے لوگوں کے دلوں میں زیادہ سے زیادہ قرآن یاد کرنے اور یادرکھنے کی خواہش پیدا کر دی.“ (تفسير كبير، جلد اول، صفحه 51) وفات کے بعد حافظ قرآن کی پہلے تدفین کر کے ان کی عزت قائم کی گئی: حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حافظ قرآن اور قرآن کریم کا زیادہ علم رکھنے والے کو دوسرے اصحاب پر فضیلت دیتے تھے.چنانچہ روایات میں آتا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم امامت اور قیادت کی سپر د کے وقت یہ خاص خیال رکھتے تھے کہ قرآن کریم کا علم کس کے پاس زیادہ ہے؟ اسی طرح جب جنگ اُحد میں شہدا کی تدفین کا مرحلہ آیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 64 ،، پہلے ان صحابہ کو دفن کر و جو قرآن کریم کے حافظ اور قرآن کا زیادہ علم رکھتے ہیں.“ (بخاری، کتاب فضائل القرآن ، باب خيركم من تعلم القرآن و علمه گو یا وفات کے بعد بھی حافظ قرآن کی عزت قائم رکھی گئی ہے.قرآن کریم کی حافظ کے لیے سفارش،خدا کی رضا اور خوشنودی کا موجب: قرآن کریم حافظ قرآن کی شفاعت کرے گا اور حافظ قرآن کے حق میں قرآن کریم کی شفاعت قبول کی جائے گی اور حافظ قرآن کو اس کے اجر سے نوازا جائے گا.عَنْ مُجَاهِدٍ أَنَّهُ قَالَ الْقُرْآنُ يَشْفَعُ لِصَاحِبِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَقُوْلُ يَا رَبِّ جَعَلْتَنِي فِي جَوْفِهِ فَأَسْهَرْتُ لَيْلَهُ وَمَنَعْتُهُ عَنْ كَثِيرٍ مِنْ شَهْوَاتِهِ وَلِكُلِّ عَامِلٍ مَنْ عَمِلَهُ عُمَالَةٌ فَيُقَالُ لَهُ ابْسُطْ يَدَكَ قَالَ فَتَمْلًا مِنْ رَضْوَانِ فَلَا يَسْخُطُ عَلَيْهِ بَعْدَهُ ثُمَّ يُقَال لَهُ اقْرَأْ وَارْقِهُ قَالَ فَيُرْفَعُ لَهُ بِكُلّ آيَةٍ دَرَجَةٍ وَيَزْدَادُ بِكُلِّ آيَةٍ حَسَنَةٍ (مصنف ابن أبي شيبة، كتاب فضائل القرآن باب من قال يشفع القرآن لصاحبه يوم القيامة) ترجمہ: حضرت مجاہد بیان کرتے ہیں کہ قیامت والے دن قرآن کریم اپنے حافظ کی شفاعت کرتے ہوئے کہے گا: اے میرے ربّ! تو نے مجھے اس کے سینے میں محفوظ کیا اور میں نے اس کو رات رات بھر جگایا اور اس کو بہت سی دنیوی لذتوں سے روکے رکھا.ہر عامل کو اس کے عمل کا بدلہ ملتا ہے لہذا اس کو بھی اس کے عمل کا بدلہ عطا فرما.اس پر حافظ قرآن سے کہا جائے گا کہ اپنا ہاتھ پھیلا ؤ، وہ پھیلائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رضا اور خوشنودی سے بھر دے گا اور پھر اس پر کبھی بھی ناراض نہ ہوگا.اس کے بعد حافظ قرآن سے کہا جائے گا کہ قرآن کریم کی تلاوت کرتے جاؤ اور بلندی کی طرف چڑھتے جاؤ.پس ہر آیت کے بدلے میں اس کو ایک درجہ کی بلندی نیز ہر آیت کے بدلے میں اس کی ایک نیکی بڑھا دی جائے گی.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 65 قرآن کریم کے حقوق قرآن کریم اللہ تعالیٰ کا پیارا اور محبوب کلام ہے.اللہ تعالیٰ کو اپنے کلام کے ساتھ خاص محبت ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ محبوب اور خاص کلام اپنے سب سے پیارے فرشتے حضرت جبرئیل علیہ السلام کے ذریعہ اپنے محبوب اور خاص بندے حضرت اقدس محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا.جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ادب اور محبت ہر ایک امتی پر واجب قرار دیا اسی طرح قرآن کریم کا ادب اور احترام ہر ایک مسلمان کا فرض قرار دیا.جہاں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حافظ قرآن کے بہت سے فضائل اور اس کی اہمیت اور انعامات بیان فرمائے ہیں اسی طرح کچھ ایسے فرائض ہیں جو حافظ قرآن پر عائد ہوتے ہیں.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظ کو کی گئی بعض نصائح ذیل میں درج ہیں.حفاظ کے لیے اہم اور فکر انگیز نصائح: قرآن کریم کے حافظ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور قرآن کریم کی خاطر اپنے بعض جائز حقوق کو بھی ترک کرنا پڑے تو کرے اور قرآن کریم کی اہمیت کے پیش نظر سب پر اس کلام کو فوقیت دے اور ہر ایک رشتہ سے اس کو اہم جانے.فضول اور لغو مجالس کا حصہ نہ بنے اور بلا وجہ دنیا داروں کے لیے قہقہے نہ لگائے اور اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری زیادہ کرے اور سنجیدگی اختیار کرے اور باوقار زندگی گزارے.محض رضائے باری تعالیٰ کے لیے سنوار سنوار کر قرآن کریم کی تلاوت کرے نہ کہ ریا کاری کے لیے اور نہ اس لیے کہ لوگ اس کی آواز کی تعریف کریں.اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی نصیحت فرمائی کہ حافظ قرآن کو چاہئے کہ راتوں کو طویل قیام کرے اور نوافل پڑھے اور قرآن کریم کی تلاوت کثرت کے ساتھ کرے اور قرآن کریم کے حکم کے مطابق کہ فَلْيَضْحَكُوا قَلِيلًا وَلْيَبْكُوا كَثِيرًا (التوبة (82) کہ ان کو چاہئے کہ کم ہنسا کریں اور رویا زیادہ کریں.چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفاظ کو یوں نصیحت فرمائی: يَا حَامِلَ الْقُرْآنِ تَزَيَّنْ بِالْقُرْآنِ يُزَيِّنُكَ اللَّهُ وَلَا تَزَيَّنْ بِهِ لِلنَّاسِ فَيُشِيْنَكَ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 66 اللهُ وَيَنْبَغِي لِحَامِلِ الْقُرْآنِ أَنْ يَكُوْنَ أَطْوَلَ النَّاسِ لَيْلًا إِذَا كَانَ النَّاسُ نَامُوْا وَأَنْ يَكُوْنَ أَطْوَلَ النَّاسِ حُزْنًا إِذَا النَّاسُ فَرِحُوْا (کنز العمال جلد 1 - صفحه 622، كتاب الاذكار من قسم الاقوال، باب السابع في تلاوة القرآن وفضائله، الفصل الثالث في ترجمہ: اے حافظ قرآن ! خوب سنوار کر قرآن کریم کی تلاوت کر، اللہ تعالیٰ تجھے حسن عطا فرمائے گا.اور اسے انسانوں سے داد پانے کے لیے خوبصورتی سے ادا مت کر ور نہ اللہ تعالیٰ تجھے عیب دار کر دے گا.حافظ قرآن کو چاہیے کہ رات کے وقت جب دوسرے لوگ سورہے ہوں تو وہ ان سب سے زیادہ رات کو طویل قیام کرے اور جب دوسرے لوگ خوشیاں منا رہے ہوں تو خون کی حالت میں سب سے زیادہ طویل تلاوت کرے.آداب التلاوة) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر حفاظ کو نصائح کرتے ہوئے فرمایا: يَا حَامِلَ الْقُرْآنِ اعْجَلُ عَيْنَيْكَ بِالْبُكَاءِ إِذَا ضَحِكَ الْبَطَّالُونَ قُمِ اللَّيْلَ إِذَا نَامَ النَّائِمُونَ وَصُمُ إِذَا أَكَلَ الأكِلُونَ اُعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَكَ وَلَا تَحْقِدُ بِحِقْدٍ وَلَا تَجْهَلُ فِيمَنْ يَجْهَلُ (فردوس الاخبار الدیلمی، جلد 5 ، صفحه 393، حدیث نمبر (8262) ترجمہ: اے حافظ قرآن! تو (خشیت سے ) اپنی آنکھوں سے آنسو بہا جب غافل لوگ ہنس رہے ہوں ، تو راتوں کو عبادت کے لیے) قیام کر جب سونے والےسو رہے ہوں ، تو روزہ رکھ جب لوگ کھانے پینے میں مصروف ہوں، تو ایسے ہر شخص سے عفو و درگزر سے کام لے جو تجھ پر ظلم کرے، اور تو کینہ و بغض نہ رکھ اور جو جہالت سے پیش آئے تو تو اس کے ساتھ جہالت کا طریق اختیار نہ کر.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 67 حقوق قرآن کی جامع حدیث: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو صرف اپنے گھروں اور الماریوں کی زینت بنا کر رکھنے سے منع فرمایا اور اس کی تلاوت اور اس عمل کرنے کا حکم دیا ہے.چنانچہ حضرت عبیدہ ملیکی سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: يَا أَهْلَ الْقُرْآن لَا تُوَسِدُوْا الْقُرْآنَ وَاتْلُوْهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَ افْشُوْهُ وَتَغَنَّوْهُ وَ تُدَبِّرُوْا مَا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ وَلَا تَعْجِلُوْا تِلَاوَتَهُ فَإِنَّ لَهُ ثَوَابًا (شعب الإيمان التاسع عشر باب في تعظيم القرآن، فصل في إدمان تلاوة القرآن ، جزء 2،صفحه 350) ترجمہ: اے قرآن کریم پر ایمان رکھنے والو! قرآن کریم کو اپنا تکیہ بنا کر نہ رکھو، بلکہ دن اور رات کی مختلف گھڑیوں میں اس طرح اس کی تلاوت کیا کرو، جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے.اور اس کو پھیلاؤ ، اور اس کو سنوار کر پڑھا کرو، اور جو کچھ اس میں ہے اس پر تدبر کیا کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ اور اس تلاوت کا اجر جلدی نہ مانگو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا عظیم ثواب اور معاوضہ مقدر ہے.نماز میں قرآن کریم کی تلاوت افضل اور یا درکھنے کا بہترین ذریعہ ہے: آنحضرت ﷺ نے قرآن کریم کی دہرائی اور اس کو یا درکھنے کا بہترین طریق بیان فرمایا ہے کہ اس کی کثرت کے ساتھ تلاوت کی جائے اور نماز میں اس کی زیادہ سے زیادہ سے زیادہ تلاوت کی جائے تا کہ اس طریق پر ثواب کے حصول کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کا جو حصہ زبانی یاد کیا ہوا ہو، وہ یاد بھی رہے: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ فِي الصَّلَاةِ أَفْضَلُ مِنْ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ فِي غَيْرِ الصَّلَاةِ وَ قِرَاءَةُ الْقُرْآنِ فِي غَيْرِ الصَّلَاةِ أَفْضَلُ مِنَ التَّكْبِيرِ وَالتَّسْبِيحِ وَ التَّسْبِيْحُ أَفْضَلُ مِنَ الصَّدَقَةِ وَ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 68 الصَّدَقَةُ أَفْضَلُ مِنَ الصَّوْمِ وَ الصَّوْمُ جُنَّةٌ مِنَ النَّارِ (شعب الإيمان التاسع عشر باب في تعظيم القرآن، فصل في استحباب القراءة في الصلاة) ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز میں قرآن کریم کی تلاوت بغیر نماز کی تلاوت سے افضل ہے اور نماز کے علاوہ قرآن کریم پڑھنا تسبیح و تکبیر کرنے سے افضل ہے اور تسبیح صدقہ سے افضل ہے اور صدقہ روزہ سے افضل ہے اور روزہ آگ سے بچانے والی ڈھال ہے.نماز میں قرآن کریم کی تلاوت اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم : آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نفل نمازوں میں لمبا قیام فرماتے اور قرآن کریم کی تلاوت زیادہ فرمایا کرتے تھے.چنانچہ ایک روایت ملتی ہے کہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز تہجد میں قرآن کریم کی بالترتیب تلاوت فرمائی جو مجموعی طور پر قرآن کریم کے پانچویں حصے کے برابر ہے.(سنن ابی داؤد، کتاب الصلواة ، باب ما يقول الرجل في ركوعه) اسی طرح بخاری میں ذکر ملتا ہے کہ نماز میں لمبے قیام کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک متورم ہو جایا کرتے تھے.(بخاری ـ كتاب الصلواة ـ باب قيام النبى الله ان ترم قدماه حفاظ کا باقاعدگی سے قرآن پڑھنا اور دُہرانا ضروری ہے: کوئی بھی سبق یادر کھنے کے لیے اس کی بار بار دہرائی اور اس کا امتحان ضروری ہوتا ہے تا کہ وہ سبق ذہن سے اتر نہ جائے، اچھی اور پکی طرح یاد ہو جائے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حفاظ کو یہ نصیحت فرمائی کہ وہ روزانہ بلا ناغہ قرآن کریم کی دہرائی کرتے رہیں تا کہ یاد کیا ہوا قرآن کریم انہیں بھول نہ جائے.اس بارے میں روایت ہے: عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ إِنَّمَا مَثَلُ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 69 صَاحِبِ الْقُرْآنِ كَمَثَلِ صَاحِبِ الْإِبِلِ الْمُعَقَّلَةِ إِنْ عَاهَدَ عَلَيْهَا أَمْسَكَهَا وَإِنْ أَطْلَقَهَا ذَهَبَتْ (بخاری، کتاب فضائل القرآن باب استذكار القرآن وتعاهده) ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن کریم یاد کرنے والے کی مثال اس اونٹ والے کی طرح ہے جو باندھے ہوئے ہوں.اگر وہ اس کو باندھے رکھے گا تو روکے رکھے گا اور اگر اس نے ان کو چھوڑ دیا تو وہ بھاگ جائے گا.ایک اور روایت میں آنحضرت ﷺ نے اسی قسم کی ایک مثال دیتے ہوئے فرمایا: تَعَاهَدُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ أَشَدُّ تَفَصِياً مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ مِنَ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِهَا ( مسند احمد بن حنبل، مسند عبد الله بن مسعود، جزء اول صفحه 423 ) ترجمہ: قرآن کریم کو بار بار دہراؤ کیونکہ یہ بندوں کے سینوں سے اس سے بھی جلدی نکل جاتا ہے جیسے جانور اپنی رہی ہے.حافظ کے خلاف قرآن کا استغاثہ: جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حافظ قرآن کے لیے خوش خبریاں عطا فرمائی ہیں کہ تلاوت کرنے والے کے حق میں قرآن کریم کھڑا ہو گا اور اس کی شفاعت کرے گا اور اس کی آیات کی تلاوت کے حساب سے اس کے درجات بلند کئے جائیں گے وہاں یہ بھی نصیحت فرمائی ہے کہ اگر اس نے یاد کر کے دُہرائی نہ کی اور بار بار اس کی تلاوت نہ کرتا رہا اور کہیں خدانخواستہ قرآن کریم بھول گیا تو پھر قرآن کریم ہی اس کے خلاف کھڑا ہوگا اور اس کی وجہ سے اس کو سزا ملے گی.چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّقَ مَصْحَفَهُ لَمْ يَتَعَاهَدُ وَلَمْ يَنْظُرُ فِيْهِ جَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مُتَعَدِّقًا بِهِ يَقُولُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ إِنْ عَبْدَكَ هَذَا اتَّخَذَنِي مَهْجُورًا فَاقْضِ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات بَيْنِي وَبَيْنَهُ.70 (جامع الأحكام القرآن للقرطبي، جزء 13، صفحه 28،27) ترجمہ: جس نے بھی قرآن کریم سیکھا اور معلّق صحیفہ کی طرح چھوڑ دیا یعنی نہ تو اس کی تلاوت کی طرف توجہ کی اور نہ اس کو دُہرایا تو قیامت کے دن قرآن کریم اس کے ساتھ چمٹ کر اللہ تعالیٰ سے فریاد کرے گا : اے تمام جہانوں کے رب ! بے شک تیرے اس بندے نے مجھے مہجور کی طرح چھوڑ دیا تھا.پس تو میرے اور اس کے مابین فیصلہ کردے.یہ حدیث ہر مسلمان کو عموماً اور حافظ قرآن کو خصوصاً دعوت فکر دے رہی ہے کہ کہیں وہ قرآن کریم کو بھول تو نہیں رہا؟ اس کی تعلیمات پر عمل کرنا چھوڑ تو نہیں رہا؟ کیا روزانہ تلاوت کر کے اس کی دہرائی کر رہا ہے؟ اور اگر حافظ قرآن ہے تو کیا روزانہ قرآن کریم کی مقررہ منزل کی دہرائی کر رہا ہے جتنی ایک حافظ قرآن کو کرنی چاہیے؟ ذرا سوچیے اگر حامل قرآن عامل قرآن نہ ہو یعنی نه قرآن کریم کی باقاعدہ تلاوت کرتا ہو اور نہ ہی اس پر عمل کرتا ہو بلکہ سارا سال قرآن کو چھو کر بھی نہ دیکھے اور اگر سال میں صرف ایک مرتبہ رمضان المبارک کا مہینہ آنے پر رسمی طور پر یا کسی مجبوری سے قرآن پڑھ لے تو ایسے حافظ قرآن کو بہت فکر کرنی چاہیے.قرآن کریم حفظ کے بعد بھلا دینا گناہ کبیرہ ہے: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کو یاد کر کے بھلا دینے کو گناہ کبیرہ قرار دیا ہے.اس لیے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کر کے اس کی دہرائی کرتے رہنا چاہئے اور اس کو یا در رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے تا کہ انسان اس گناہ کبیرہ سے بچ سکے.اس بارہ میں ایک روایت ہے: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ اللهُ عُرِضَتْ عَلَيَّ أُجُورُ أُمَّتِي حَتَّى الْقَذَاةِ يُخْرِجُهَا الرَّجُلُ مِنَ الْمَسْجِدِ وَ عُرِضَتْ عَلَيَّ ذُنُوبُ أُمَّتِي فَلَمْ أَرَ ذَنْبًا أَعْظَمَ مِنْ سُورَةٍ مِنَ الْقُرْآنِ أَوْ آيَةٍ أُوتِيهَا رَجُلٌ ثُمَّ نَسِيَهَا (ترمذی، کتاب فضائل القرآن باب (19) |
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 71 ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے سامنے میری امت کے اعمال پیش کئے گئے یہاں تک کہ ایک تنکا جو کوئی آدمی مسجد سے باہر پھینکتا ہے.پھر میرے سامنے میری امت کے گناہ بھی پیش کئے گئے.پس میں نے ان تمام گناہوں میں اس سے بڑا گناہ نہیں دیکھا کہ جو قرآن کریم کی کوئی سورت یا آیت یاد کر کے بھلا دینے پر کسی انسان کو ہوتا ہے.حافظ قرآن رات دن قرآن کے ساتھ قیام کرے تو یا در ہے گا قرآن کریم کو یا درکھنے کا جو طریق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے وہ یہی ہے کہ کثرت کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کی جائے اور اس کے معانی پر توجہ دی جائے اور اس کی تعلیمات پر کماحقہ عمل کرنے کی کوشش کی جائے.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : إِذَا قَامَ صَاحِبُ الْقُرْآنِ فَقَرَأَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ ذَكَرَهُ وَإِذَا لَمْ يَقُمُ بِهِ نَسِيَهُ.(صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب الأمر بتعهد القرآن) ترجمہ: صاحب قرآن جب تک قرآن کریم کے ساتھ رات دن قیام کرتا رہے گا تو قرآن کریم اس کو یاد رہے گا لیکن اگر قرآن کریم کے ساتھ قیام نہ کرے تو قرآن کریم کو بھول جائے گا.قرآن کریم کے سامنے عامل اور غیر عامل قرآن کی پیشی : قرآن کریم کے حافظ اور اس پر عمل کرنے والے خوش قسمت اور نہ عمل کرنے والے بد قسمت قیامت والے دن قرآن کریم کے حوالے کیے جائیں گے اور قرآن کریم ان پر حجت قائم کرے گا اور ایک کو دوزخ میں اور دوسرے کو جنت میں داخل کرے گا.اس کی تفصیل بتاتے ہوئے حضرت عمرو بن شعیب بیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 72 يُمَثَلُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ رَجُلًا فَيُؤْتَى بِالرَّجُلِ قَدْ حَمَلَهُ فَخَالَفَ أَمْرَهُ فَيُتَمَثَّلُ خَصْمَا لَّهُ فَيَقُولُ يَا رَبِّ حَمَلْتُهُ إِيَّايَ، فَشَرُّ حَامِلٍ تَعَدَّى حَدُودِي وَضِيْعَ فَرَائِضِي وَرَكِبَ مَعْصِيَتِي وَتَرَكَ طَاعَتِي فَمَا يَزَالُ يَقْذِفُ عَلَيْهِ بِالْحِجَجِ حَتَّى يُقَالُ فَشَأْنُكَ بِهِ فَيَأْخُذُ بِيَدِهِ فَمَا يُرَسِلُهُ حَتَّى يَكُبَّهُ عَلَى مَنْخَرِهِ فِي النَّارِ وَيُؤْتَى بِرَجُلٍ صَالِحٍ قَدْ كَانَ حَمَلَهُ وَحَفِظَ أَمْرَهُ فَيُتَمَثَّلُ خَصْمًا لَّهُ دُوْنَهُ فَيَقُولُ يَا رَبِّ حَمَلْتُهُ إِيَّايَ فَخَيْرُ حَامِلٍ حَفِظَ حَدُوْدِي وَعَمِلَ بِفَرَائِضِي وَاجْتَنَبَ مَعْصِيَتِي وَاتَّبَعَ طَاعَتِي فَمَا يَزَالُ يَقْذِفُ لَهُ بِالْحِجَجِ حَتَّى يُقَالُ شَأْنُكَ بِهِ فَيَأْخُذُ بِيَدِهِ فَمَا يُرَسِلُهُ حَتَّى يَلْبِسَهُ حُلَّةَ الْإِسْتَبْرَقِ وَيَعْقِدُ عَلَيْهِ تَاجَ الْمَلِكِ وَيَسْقِيْهِ كَأْسَ الْخَمْرِ (مصنف ابن ابي شيبة كتاب فضائل القرآن باب من قال يشفع القرآن لصاحبه يوم القيامة، جزء6 صفحه (129) | ترجمہ: قیامت کے دن قرآن کریم کو ایک آدمی کی شکل دی جائے گی پھر اس شخص ( حافظ قرآن ) کو لایا جائے گا جس نے اس کو یاد کیا اور قرآن کریم میں مندرج فرائض کو ضائع کیا ہوگا ، اس کی حدود پھلانگی ہوں گی ، اطاعت کی بجائے مخالفت کی ہوگی اور ہمیشہ اس سے متضاد اعمال پر کمر بستہ رہا ہو گا تو اس کے بارہ میں قرآن کریم کہے گا: اے میرے رب ! تو نے میری آیات کو ایسے برے حافظ کے سپرد کیا جس نے میری حدود پھلانگیں ، میرے فرائض کو ضائع کیا ، میری اطاعت ترک کر دی اور معصیت پر کمر بستہ رہا.اس طرح قرآن کریم اس شخص کے خلاف حجت قائم کرے گا.حتی کہ قرآن کریم کو ایسے شخص پر اختیار دیا جائے گا اور وہ اس کو پکڑلے گا اور نہیں چھوڑے گا یہاں تک کہ اس کو منہ کے بل دوزخ میں پھینک دے.ایک دوسرے حافظ قرآن کو لایا جائے گا جس نے قرآن کریم کی حدود کی حفاظت کی ہوگی ، اس کے فرائض پر عمل کیا ہوگا، اس کی اطاعت کی ہوگی اور اس کی معصیت سے بچتارہا ہوگا تو قرآن کریم اس
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 73 کے متعلق الگ انداز سے پیش آئے گا اور کہے گا: اے میرے رب! تو نے میری آیات کو اچھے حامل قرآن کے سپرد کیا.اس نے میری حدود کی حفاظت کی ، میرے فرائض پر عمل کیا، میری اطاعت اور پیروی کی اور میری نافرمانی سے بچتا رہا.پس قرآن کریم اس کے حق میں حجت قائم کرے گا حتی کہ قرآن کریم کو اس شخص کے متعلق بھی اختیار دیا جائے گا جس پر وہ اسے پکڑلے گا اور نہیں چھوڑے گا یہاں تک کہ اس کو استبرق کی پوشاک پہنائے گا، اس کے سر پر شاہی تاج رکھے گا، اور اسے (جنت کی ) شراب پلائے گا.“ حافظ قرآن کو چاہیے کہ عمدہ اخلاق اور اچھا رویہ رکھے: قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے کے لیے ضروری ہے کہ ادب اور علم کا طریق اپنائے کیونکہ الطَّرِيقَةُ كُلُّهَا اَدَب.کہ ادب ہی بہترین اخلاق کی جڑھ ہے.پس جس کے پاس قرآن کریم کا علم ہے اور وہ اس کی تلاوت بھی کرتا ہے اور حتی المقدور اس پر عمل بھی کرتا ہے اس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی ہے کہ وہ غصہ نہ کرے اور علم اور بردباری کو اپنا شعار بنائے رکھے.گالی گلوچ بخش گوئی اور جاہلوں کے ساتھ جاہلانہ پن سے نہ پیش آئے.چنانچہ روایت ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَقَدِ اسْتَدْرَجَ النُّبُوَّةَ بَيْنَ جَنْبَيْهِ غَيْرَ أَنَّهُ لَا يُوْحَى إِلَيْهِ لَا يَنْبَغِي لِصَاحِبِ الْقُرْآنِ أَنْ يَجَدَّ مَعَ جَةٍ وَلَا يَجْهَلُ مَعَ جَهْلٍ وَفِي جَوْفِهِ كَلَامُ اللَّهِ تَعَالَى (مستدرك على الصحيحين كتاب فضائل القرآن، أخبار في فضائل القرآن جملة، جزء اول، صفحه 738) | ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے قرآن کریم پڑھا تو اس نے گویا نبوت کو اپنے دونوں پہلوؤں کے درمیان رکھ لیا، فرق صرف یہ ہے کہ قرآن کریم اس
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 74 پر وحی کے ذریعہ نازل نہیں کیا گیا.پس حامل قرآن کے لیے ہرگز مناسب نہیں کہ اس کے سینے میں اللہ تعالیٰ کا کلام ہو اور وہ کسی بات پر غصہ کرے یا پھر جاہلوں کے ساتھ جہالت سے پیش آئے.نام و نمود، دکھاوے اور شہرت کے طالب حافظ اور قاری کے لیے انذار : قرآن کریم کی تلاوت ، معانی سیکھنے اور حفظ کرنے کا اس وقت تک کوئی فائدہ نہیں سکتا جب تک اس کے احکام یعنی اوامر و نواہی پر عمل نہ کیا جائے.ایسا قاری اور حافظ تو محض نمود نمائش کے لیے تلاوت کرتا ہے تا کہ لوگ اس کی تعریف کریں اور کہیں کہ اس کی آواز بہت اچھی ہے اور اس کی قراءت بہر حال عمدہ ہے.پس تلاوت قرآن کریم کرنے والا ایسا مسلمان جو محض تلاوت کرتا ہے لیکن قرآنی تعلیمات پر عمل نہیں کرتا اس کی کچھ بھی حیثیت نہیں رہتی.وہ اللہ تعالیٰ کے حضور قابل احترام اور قابل عزت نہیں رہتا: عَن عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ.يَأْتِي قَوْمٌ يَقْرَؤُونَ الْقُرْآنَ ، يَقُولُونَ: مَنْ أَقْرَأُ مِنَّا ؟ مَنْ أَعْلَمُ مِنَّا ؟ ثُمَّ الْتَفَتَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم ، فَقَالَ: هَلْ فِي أُولَئِكَ مِنْ خَيْرٍ، قَالُوا: لَا ، قَالَ: أُولَئِكَ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ ، أُولَئِكَ وَقُودُ النَّارِ.(مسند البزار، مسند العباس بن عبد المطلب، جزء2 صفحه 218) ترجمہ: حضرت عباس بن عبدالمطلب روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ وہ زمانہ آنے والا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو ڈینگیں ماریں گے کہ ہم سے بڑا قاری کون ہے؟ ہم سے بڑا عالم کون ہے؟ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے دریافت فرمایا کہ کیا تمہیں ایسے لوگوں میں کوئی بھلائی والی بات دکھائی دیتی ہے؟ صحابہ نے عرض کیا.ہرگز نہیں ! اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ لوگ تم میں سے اور اسی امت میں سے ہی ہوں گے لیکن وہ دوزخ کی آگ کا ایندھن ہوں گے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 75 قرآن کریم بھلا دینے والے حافظ کے لیے انذار: ا عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَادَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى الله عليه وسلم مَا مِن امْرِءٍ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ يَنْسَاهُ إِلَّا لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَجْذَمَ.(سنن ابی داؤد، کتاب الوتر، باب التشديد فيمن حفظ القرآن ثم نسيه) ترجمہ: حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو آدمی قرآن کریم پڑھ کر بھلا دیتا ہے تو وہ قیامت کے دن الله عز وجل کے حضور اس حالت میں حاضر ہوگا کہ اس کی صورت بگڑی ہوئی ہوگی.بغیر عمل کے حافظ قرآن کسی عزت کے لائق نہیں : قرآن کریم حفظ کرنے والا اللہ تعالیٰ کے حضور تب ہی قابل عزت ہوگا جب اس کے احکام یعنی اوامر و نواہی پر عمل کر رہا ہوگا.قرآن کریم پر عمل کے بغیر حافظ قرآن خدا کے نزدیک کسی عزت کے لائق نہیں.چنانچہ حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: عَنِ الْحَسَنِ يَقُوْلُ إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ قَدْ قَرَأَهُ صِبْيَانٌ وَعَبِيْدٌ لَا عِلْمَ لَهُمْ بِتَأْوِيْلِهِ وَلَمْ يَأْتُوا الْأمْرَ مِنْ قِبَلِ أَوَّلِهِ وَقَالَ كِتَابٌ أَنْزَلْنَاهُ إِلَيْكَ مُبَارَكٌ لِيَدَّبَّرُوْا آيَاتِهِ.وَمَا تَدَبُّرُ آيَاتِهِ إِلَّا اتِّبَاعِهِ بِعِلْمِهِ وَاللَّهُ مَا هُوَ بِحِفْظِ حَرُوْفِهِ وَإِضَاعَةِ حَدُوْدِهِ حَتَّى أَنَّ أَحَدَهُمْ لَيَقُوْلُ وَاللَّهِ لَقَدْ قَرَأْتُ الْقُرْآنَ كُلَّهُ وَمَا أَسْقِطْ مِنْهُ حَرْفًا وَاحِدًا وَقَدْ أَسْقَطَهُ كُلَّهُ مَا تَرَى لَهُ فِي الْقُرْآنِ مِنْ خُلُقٍ وَّلَا عَمَلٍ وَحَتَّى أَنَّ أَحَدَهُمْ لَيَقُوْلُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأَقْرَأُ السُّوْرَةَ فِي نَفْسٍ وَاحِدٍ وَاللَّهُ مَا هَؤُلَاءِ بِالْقُرَاءِ وَلَا الْعُلَمَاءِ وَلَا الْحُكَمَاءِ وَلَا الْوَرَعَةِ.(مصنف عبد الرزاق، كتاب الصيام، باب سلسلة الشياطين وفضل رمضان، جزء4 صفحه 175) | ترجمہ: حضرت حسن رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس قرآن کو بچے اور غلام سب ہی پڑھتے ہیں، لیکن وہ اس کی تاویل ( مطالب اور مفہوم ) سے بے خبر ہوتے ہیں اور نہ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 76 وہ اس کے مطالب کے مطابق امور سر انجام دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ” ہم نے تیری طرف یہ مبارک کتاب اتاری ہے تا کہ وہ اس کی آیات پر تدبر کریں.آیات پر تدبر کرنے سے مراد یہ ہے کہ اس کا علم حاصل کرنے کے بعد اس کی پیروی کی جائے ( یعنی اس پر عمل کیا جائے).تدبر سے مراد یہ نہیں کہ محض اس کے حروف کو حفظ کر لیا جائے اور احکام کو ترک کر دیا جائے.بعض لوگ کہہ دیتے ہیں کہ خدا کی قسم میں نے ایک ہی دفعہ سارا قرآن پڑھ لیا ایک حرف بھی نہیں چھوڑا، حالانکہ اس نے سارا قرآن چھوڑ دیا کیونکہ قرآن کریم میں بیان کیے گئے اخلاق اور اعمال کا ذرہ بھر اثر اس میں نظر نہیں آیا.اور ان میں بعض ایسے بھی ہیں جو کہہ دیتے ہیں کہ میں ایک ہی سانس میں فلاں سورت پڑھ لیتا ہوں.خدا کی قسم، یہ قرار نہیں اور نہ ہی علماء اور حکماء ہیں ، اور نہ ہی خدا کا خوف کرنے والے ہیں.حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں: يَدْخُلُ فَسَقَةُ حَمَلَةِ الْقُرْآنِ النَّارَ قَبْلَ عَبْدَةِ الْأَوْثَانِ بِأَلْقَى عَامٍ.(اللآلئ المصنوعة في الأحاديث الموضوعة للسيوطي، جزء اول صفحه 205) ترجمه فاسق حفاظ قرآن (یعنی قرآن کریم پر عمل نہ کرنے والے ) بت پرستوں سے دو ہزار سال قبل جہنم میں داخل ہوں گے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 77 قرآن کریم کو یا درکھنے کا طریق اور آنحضرت ﷺ کی سکھائی ہوئی دعا: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّهُ قَالَ بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَقَالَ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي تَفَلَّتَ هَذَا الْقُرْآنُ مِنْ صَدْرِى فَمَا أَجِدُنِي أَقْدِرُ عَلَيْهِ.فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَا أَبَا الْحَسَنِ أَفَلاَ أُعَلِّمُكَ كَلِمَاتٍ يَنْفَعُكَ اللَّهِ بِهِنَّ وَيَنْفَعُ بِهِنَّ مَنْ عَلَّمْتَهُ وَيُثَبِّتُ مَا تَعَلَّمْتَ فِي صَدْرِكَ قَالَ أَجَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَّمَنِي قَالَ : إِذَا كَانَ لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ فَإِنِ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَقُومَ فِي ثُلُثِ اللَّيْلِ الْآخِرِ فَإِنَّهَا سَاعَةٌ مَشْهُودَةٌ وَالدُّعَاءُ فِيهَا مُسْتَجَابٌ وَقَدْ قَالَ أَخِي يَعْقُوبُ لِبَنِيهِ (سَوْفَ أَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي يَقُولُ حَتَّى تَأْتِيَ لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعُ فَقُمْ فِي وَسَطِهَا فَإِنْ لَمْ تَسْتَطِعْ فَقُمْ فِي أَوَّلِهَا فَصَلِّ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ تَقْرَأُ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَسُورَةِ يَسَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَ (حم) الدُّخَانَ وَفِي الرَّكْعَةِ الثَّالِثَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَ الَمَ تَنزِيلُ السَّجْدَةَ وَفِي الرَّكْعَةِ الرَّابِعَةِ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ وَتَبَارَكَ الْمُفَصَّلَ فَإِذَا فَرَغْتَ مِنَ التَّشَهُدِ فَاحْمَدِ اللَّهَ وَأَحْسِنِ الثَّنَاءِ عَلَى اللَّهِ وَصَلِّ عَلَيَّ وَأَحْسِنُ وَعَلَى سَائِرِ النَّبِيِّينَ وَاسْتَغْفِرُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلِإِخْوَانِكَ الَّذِينَ سَبَقُوكَ بِالْإِيمَانِ ثُمَّ قُلْ فِي آخِرِ ذَالِكَ.* اللَّهُمَّ ارْحَمُنِي بِتَرُكِ الْمَعَاصِي أَبَدًا مَا أَبْقَيْتَنِي وَارْحَمْنِي أَنْ أَتَكَلَّفَ مَا لا يَعْنِينِي وَارْزُقْنِي حُسُنَ النَّظَرِ فِيمَا يُرْضِيكَ عَنِّى اللَّهُمَّ بَدِيعَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ وَالْعِزَّةِ الَّتِي لَا تُرَامُ أَسْأَلُكَ يَا اللَّهُ يَا رَحْمَنُ بِجَلالِكَ وَنُورٍ وَجُهِكَ أَنْ تُلْزِمَ قَلْبِي حِفْظُ كِتَابِكَ كَمَا عَلَّمْتَنِي وَارْزُقْنِي أَنْ أَتْلُوهُ عَلَى النَّحْوِ الَّذِي يُرْضِيكَ عَنِّى اللَّهُمَّ بَدِيعَ السَّمَوَاتِ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 78 وَالْأَرْضِ ذَا الْجَلاَلِ وَالإِكْرَامِ وَالْعِزَّةِ الَّتِي لَا تُرَامُ أَسْأَلُكَ يَا اللَّهُ يَا رَحْمَنُ بجَلالِكَ وَنُور وَجُهِكَ أَنْ تُنَوِّرَ بِكِتَابِكَ بَصَرِي وَأَنْ تُطْلِقَ بِهِ لِسَانِي وَأَنْ تُفَرِّجَ بِهِ عَنْ قَلْبِي وَأَنْ تَشْرَحَ بِهِ صَدْرِي وَأَنْ تَغْسِلَ بِهِ بَدَنِي لَّانَّهُ لَا يُعِينُنِي عَلَى الْحَقِّ غَيْرُكَ وَلَا يُؤْتِيهِ إِلَّا أَنْتَ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ ،، الْعَلِيِّ الْعَظِيم يَا أَبَا الْحَسَنِ تَفْعَلُ ذَلِكَ ثَلَاثَ جُمَعِ أَوْ خَمْسَ أَوْ سَبْعَ تُجَابُ بِإِذْنِ اللَّهِ وَالَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ مَا أَخْطَأَ مُؤْمِنًا قَطَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبَّاسٍ فَوَاللَّهِ مَا لَبِثَ عَلِيٌّ إِلَّا خَمْسًا أَوْ سَبْعًا حَتَّى جَاءَ عَلِيٌّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مِثْلِ ذَلِكَ الْمَجْلِسِ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي كُنْتُ فِيمَا خَلَاَ لا أخُذُ إِلَّا أَرْبَعَ آيَاتٍ أَوْ نَحْوَهُنَّ وَإِذَا قَرَأْتُهُنَّ عَلَى نَفْسِي تَفَلَّتْنَ وَأَنَا أَتَعَلَّمُ الْيَوْمَ أَرْبَعِينَ آيَةً أَوْ نَحْوَهَا وَإِذَا قَرَأْتُهَا عَلَى نَفْسِى فَكَأَنَّمَا كِتَابُ اللَّهِ بَيْنَ عَيُنَيَّ وَلَقَدْ كُنْتُ أَسْمَعُ الْحَدِيثَ فَإِذَا رَدَّدْتُهُ تَفَلَّتَ وَأَنَا الْيَوْمَ أَسْمَعُ الأحَادِيثَ فَإِذَا تَحَدَّثُتُ بِهَا لَمْ أَخْرِمُ مِنْهَا حَرْفًا فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ مُؤْمِنٌ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ يَا أَبَا الْحَسَنِ.(ترمذی، ابواب الدعوات، باب في دعاء الحفظ) ترجمہ : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک بار کسی مجلس میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں قرآن کریم یاد کرتا ہوں لیکن پھر ذہن سے نکل جاتا ہے.حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اے ابوالحسن! کیا میں تمہیں وہ کلمات سکھاؤں جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ تمہیں نفع پہنچائے گا اور تم جسے سکھاؤ گے وہ بھی ان سے نفع پائے گا.اوران ( كلمات ) سے تمہارا حفظ قرآن پختہ ہو جائے؟ انہوں نے کہا ہاں یا رسول اللہ.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 79 تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے سکھایا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جمعہ کی رات کے آخری حصہ میں نفل یعنی نماز تہجد پڑھو کیونکہ یہ وہ گھڑی ہے جس میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور اس میں دعا قبول ہوتی ہے.اور یاد رہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے بھی جمعہ کی رات میں قبولیت دعا کے لئے اس خاص لمحہ کے انتظار میں ہی اپنے بیٹوں سے کہا تھا : سَوفَ اَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَبِّي (يوسف:99) میں تمہارے لئے اپنے رب سے ضرور بخشش طلب کروں گا.اور اگر رات کے آخری حصہ میں اٹھنا مشکل ہو تو رات کے درمیانی یا پہلے حصہ میں ہی چار رکعت نفل ادا کرو.پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ یسین پڑھو.دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعدسورة حم الدخان، تیسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ الم السجدۃ اور چوتھی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد سورۃ الملک پڑھو.جب تشہد سے فارغ ہو جاؤ تو اللہ کی حمد کرو اور اس کی بہترین ثنا کرو اور مجھ پر درود پڑھو اور خوب اچھی طرح درود پڑھو اور تمام نبیوں پر درود پڑھو.اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے بخشش کی دعا کرو.اور اپنے ان بھائیوں کے لیے بخشش کی دعا کرو جو ایمان میں سبقت لے گئے.پھر آخر پر یہ دعا کرو.” اے اللہ ! جب تک تو مجھے زندہ رکھے ہمیشہ گناہ سے نجات کے لئے مجھ پر خاص رحمت فرما.فضول باتوں سے مجھ سے بالا رادہ سرزد ہونے کے بارہ میں مجھ پر رحم فرما اور مجھے ایسا حسن نظر عطا فرما جس سے تو مجھ سے راضی ہو جائے.اے اللہ ! جو ارض و سما کو پہلی بار خوبصورتی سے پیدا کرنے والا ہے.اے جلال واکرام والے! اور ایسی بلند عزت والے جس کا قصد نہیں کیا جاسکتا.اے اللہ : اے رحمن خدا : میں تیرے جلال اور تیرے چہرے کے نور کا واسطہ دے کر تجھ سے دعا کرتا ہوں کہ تو میرے دل میں اپنی پاک کتاب (قرآن) کو جس طرح تو نے مجھے سکھایا ہے، اب اس کے حفظ کو خوب پختہ کر دے اور مجھے توفیق دے کہ میں اس کو اس طرح پڑھوں کہ تو راضی ہو جائے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 80 اے اللہ ! آسمانوں اور زمین کو بغیر نمونہ کے پیدا کرنے والے جلال واکرام اور ایسی عزت والے جس کا قصد نہیں کیا جاسکتا.میں تجھ سے اے اللہ ! اے رحمن! تیرے جلال اور تیرے چہرے کے نور کا واسطہ دے کر عرض کرتا ہوں کہ تو میری آنکھوں کو اپنی مقدس کتاب کے نور سے منور کر اور اسے میری زبان پر رواں کر دے اور میرے دل کو اس کے لیے وسعت دے اور اس کے ذریعہ میرا سینہ کو کھول دے اور اس کے ساتھ میرے بدن کو دھو دے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ تیرے سوا سچائی میں میری کوئی بھی مدد نہیں کر سکتا اور نہ تیرے سوا کوئی نعمت عطا کر سکتا ہے.اللہ کے سوا کسی کو کوئی طاقت حاصل نہیں اور نہ ہی کوئی قوت رکھتا ہے.اللہ ہی بلندشان والا اور عظمت والا ہے.“ ( پھر فرمایا ) اے ابوالحسن! کم از کم تین جمعہ سے لے کر سات جمعہ تک اسی طرح کرو.تمہاری دعا مقبول ہوگی اور اس ذات کی قسم جس نے مجھے بھیجا ہے، صحیح مومن کی دعارد نہیں کی جاتی.حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پانچ یا سات جمعہ کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ اس طرح کی ایک مجلس میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا.میرا حال تو یہ تھا کہ روزانہ چار آیتیں بھی یاد کرتا تو بھول جاتی تھیں اب یہ صورت ہے کہ ایک دن میں چالیس چالیس آیتیں بھی یاد کر لیتا ہوں اور جب دُہراتا ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن آنکھوں کے سامنے ہے.اس سے قبل احادیث کے متعلق بھی میرا یہی حال تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سننے کے بعد جب دُہراتا تو بھول چکی ہوتی تھیں.لیکن اب صرف ایک مرتبہ سن کر کسی لفظ کی کمی بیشی کے بغیر پوری حدیث سنا سکتا ہوں.یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.رب کعبہ کی قسم ! ابوالحسن (علی) پکا مومن ہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 81 قرآن کریم حفظ کرنے کی عمر قرآن کریم کم عمری میں حفظ کرنا زیادہ مفید ہے: مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فِي شَبِيْبَتِهِ اخْتَلَطَ بِلَحْمِهِ وَدَمِهِ.وَمَنْ تَعَلَّمَ فِي كِبْرِهِ فَهُوَ يَنْفَلِتُ مِنْهُ وَلَا يَتْرُكُهُ فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ.(میزان الاعتدال، ذكر عمر بن طلحة بن علقمة بن وقاص، جزء 3 صفحه (209) | ترجمہ: جو شخص کم عمری میں قرآن کریم سیکھتا ( حفظ کرتا ) ہے تو وہ ( جزو بدن بن کر) گویا اس کے گوشت پوست اور خون میں رچ بس جاتا ہے اور جو بڑی عمر میں سیکھتا ہے اسے قرآن کریم جلدی بھول جاتا ہے.ہاں اگر وہ اسے ( قرآن کریم کو پڑھنا) ترک نہ کرے ( مسلسل دہرائی کرتا رہے ) تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے.قَالَ عَلْقَمَةُ: مَا حَفِظْتُ وَأَنَا شَابٌ فَكَأَنِي أَنْظُرُ إِلَيْهِ فِي قِرْطَاسٍ أَوْ وَرَقَةٍ (المعرفة والتاريخ، ما جاء في علقمة بن قيس النخعي، المجلد الثاني، صفحه 320) | ترجمہ: حضرت علقمہ رحمتہ اللہ علیہ کہتے ہیں کہ میں نے نو جوانی میں جو کچھ یاد کر لیا تھا ، وہ اس طرح محفوظ ہے گویا میں اسے کتاب کے اوراق میں دیکھ رہا ہوں.عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّمَا نَاشِءٌ نَشَأَ فِي طَلَبِ الْعِلْمِ وَالْعِبَادَةِ حَتَّى يَكْبُرُ وَهُوَ عَلَى ذَالِكَ كُتِبَ لَهُ أَجْرُ سَبْعِيْنَ صِدِّيقًا (جامع بيان العلم وفضله لابن عبد البر، باب فضل التعلم في الصغر والحض عليه، جزء اول، صفحه (397) ترجمہ: حضرت ابوامامہ باہلی سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جولڑ کا طلب علم اور عبادت میں نشو ونما پاتا ہے یہاں تک کہ بڑا ہو جاتا ہے اور اپنی اسی حالت پر استوار رہتا ہے تو اسے ستر صدیقوں کا ثواب ملتا ہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 82 بچپن میں کیا گیا حفظ پختہ رہتا ہے، بڑی عمر کا نہیں : عَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ الله الله : حِفْظُ الْغُلَامِ الْصَغِيْرِ كَالنَّقْشِ فِي الْحَجَرِ ، وَحِفْظُ الرَّجُلِ بَعْدَ مَا يَكْبُرُ كَالْكِتَابِ عَلَى الْمَاءِ.(الجامع لأخلاق الراوى و آداب السامع للخطيب البغدادى من كان يخص بالتحديث الشبان ويؤثرهم على المشايخ وذوى الأسنان، جزء2 صفحه 264) ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چھوٹے بچے کا لڑکپن میں ) حفظ کرنا ایسا ہے جیسے پتھر پر لکیر کھینچ دی جائے جبکہ بڑی عمر میں حفظ کرنا ایسا ہے جیسے پانی پر کچھ لکھ دیا جائے.( یعنی پانی پر لکھا ہوا تو قائم نہیں رہ سکتا جبکہ پتھر پر پھنچی ہوئی لکیر کبھی مٹی نہیں ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہے کہ دینی علوم کی تحصیل کے لیے طفولیت کا زمانہ بہت ہی مناسب اور موزوں ہے.جب داڑھی نکل آئی تب ضَرَبَ يَضْرِبُ یاد کرنے بیٹھے تو کیا خاک ہوگا.طفولیت کا حافظہ تیز ہوتا ہے.انسانی عمر کے کسی دوسرے حصہ میں ایسا حافظہ کبھی بھی نہیں ہوتا.“ کم عمری میں حفظ کرنے کی مثالیں: (ملفوظات جلد اول صفحه (44) قَالَ ابْنُ عَبَّاسِ تُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا ابْنُ عَشْرِ سِنِينَ وَقَدْ قَرَأْتُ الْمُحْكَمَ (بخاری، کتاب فضائل القرآن باب تعليم الصبيان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا، اس وقت میری دس سال کی عمر تھی اور میں محکم ( مفصل ) سورتیں حفظ کر چکا تھا.حضرت عمر و بن سلمہ سے روایت ہے : عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ قَالَ...كُنَّا بِمَاء مَمَرَّ النَّاسِ وَكَانَ يَمُرُّ بِنَا الرُّكْبَانُ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 83 فَنَسْأَلُهُمْ مَا لِلنَّاسِ مَا لِلنَّاسِ مَا هَذَا الرَّجُلُ فَيَقُولُونَ يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ أَوْحَى إِلَيْهِ أَوْ أَوْحَى اللَّهُ بِكَذَا فَكُنْتُ أَحْفَظُ ذَلِكَ الْكَلَامَ وَكَأَنَّمَا يُقَرُّ فِي صَدْرِى وَكَانَتْ الْعَرَبُ تَلَوَّمُ بِإِسْلَامِهِمُ الْفَتْحَ فَيَقُولُونَ اتْرُكُوهُ وَقَوْمَهُ فَإِنَّهُ إِنْ ظَهَرَ عَلَيْهِمُ فَهُوَ نَبِيٌّ صَادِق فَلَمَّا كَانَتْ وَقْعَةُ أَهْلِ الْفَتْحِ بَادَرَ كُلُّ قَوْمٍ بِإِسْلَامِهِمْ وَبَدَرَ أَبِى قَوْمِي بِإِسْلَامِهِمُ فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ جِئْتُكُمُ وَاللَّهِ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا فَقَالَ صَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينٍ كَذَا وَصَلُّوا صَلَاةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا فَإِذَا حَضَرَتْ الصَّلَاةُ فَلْيُؤَذِّنُ أَحَدُكُمْ وَلْيَؤُمَكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا فَنَظَرُوا فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّي لِمَا كُنْتُ أَتَلَقَّى مِنْ الرُّكْبَانِ فَقَدَّمُونِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَأَنَا ابْنُ سِتَّ أَوْ سَبْعِ سِنِينَ (بخاری، کتاب المغازی، باب 55 روایت نمبر 4302) | حضرت عمر و بن سلمہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ کے راستے میں رہتے تھے.جو لوگ وہاں سے آتے ، ہم پوچھتے کہ لوگوں کا کیا حال ہے.لوگوں کا کیا حال ہے.اس شخص آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم) کا کیا بنا؟ اس پر وہ کہتے کہ ان کا دعویٰ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں بھیجا ہے اور اللہ نے ان پر وحی ( قرآن ) نازل کی ہے اور یہ آیات نازل ہوئی ہیں.چنانچہ میں وہ آیات یاد کر لیتا اور مجھے بہت سارا قرآن یاد ہو گیا.اور عرب اپنے ( دین ) اسلام کو فتح کے ساتھ باندھتے اور کہتے کہ اسے اور اس کی قوم کو ان کے حال پر چھوڑ دو، اگر یہ دین غالب آ گیا تو یہ سچا نبی ہے.جب مکہ فتح ہوا ، سب لوگ جلدی مسلمان ہو گئے اور میرے والد اپنی قوم کے ساتھ جلد مسلمان ہو گئے.جب وہ یعنی میرے والد آئے انہوں نے کہا واللہ ! میں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: فلاں نماز فلاں وقت اور فلاں نماز فلاں وقت میں پڑھو.جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے کوئی اذان دے اور جسے زیادہ قرآن یاد ہو وہ امامت کرائے.انہوں نے جائزہ لیا تو مجھ سے زیادہ کسی کو قرآن یاد نہ تھا کیونکہ میں قافلوں سے قرآن سیکھ لیتا تھا.انہوں نے مجھے اپنا امام بنالیا.میں (اس وقت صرف ) چھ یا سات سال کا تھا.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 84 تلاوت قرآن کریم کے فضائل ا الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ يَتْلُونَهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ أُولَئِكَ يُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَن يَكْفُرُ بِهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ (البقرة : 122) ترجمہ: وہ لوگ جن کو ہم نے کتاب دی وہ اس کی تلاوت ایسے کرتے ہیں جیسا کہ اس کی تلاوت کا حق ہے.یہی وہ لوگ ہیں جو ( در حقیقت ) اس پر ایمان لاتے ہیں.اور جو کوئی بھی اس کا انکار کرے پس وہی ہیں جو گھاٹا پانے والے ہیں.لفظ ” قرآن کا مطلب ہے بار بار اور کثرت سے پڑھنا.پس قرآن کریم بار بار اور کثرت سے پڑھی جانے والی کتاب ہے.قرآن کریم کے لفظ میں یہ پیغام اور نصیحت کی گئی ہے کہ اس کتاب کو بار بار اور کثرت کے ساتھ پڑھو نیز یہ پیش گوئی بھی اس لفظ میں موجود ہے کہ یہی وہ کتاب ہے جس کو سب کتب سے زیادہ اور بار بار پڑھا جائے گا.چونکہ اس وقت دنیا کے ہر خطہ میں مسلمان کثرت سے پائے جاتے ہیں اس لیے ہم بلا مبالغہ کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جس پر سورج غروب نہیں ہوتا.دنیا میں صرف یہی ایک الہامی کتاب ہے جو اپنی الہامی زبان میں نزول کے وقت سے لے کر اب تک لفظ بہ لفظ محفوظ ہے اور کثرت سے پڑھی جاتی ہے اور مسلمانوں کے ہر طبقہ میں اس کے جزوی یا مکمل طور پر قاری و حافظ اور تلاوت کرنے والے موجود ہیں.قرآن کریم کی کثرت سے تلاوت کرنا بھی اس کلام کی بڑی فضیلت اور امتیازی خاصیت کا ثبوت ہے کیونکہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے.یہ قرآن کریم کی حفاظت کا بھی ایک ذریعہ ہے.حفاظت کے ضمن میں کثرت تلاوت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے.کثرت سے تلاوت کرنے والا قرآن کریم کے متن سے اس قدر مانوس ہو جاتا ہے کہ جب اس کے سامنے تلاوت کی جائے تو غلطی کی صورت میں فوراً درستی کروا سکتا ہے گو زبانی اسے قرآن کریم مکمل نہ بھی یاد ہو.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 85 حفاظ کرام چونکہ قرآن کریم یاد کرنے کے لیے کثرت سے تلاوت کرتے ہیں، اس لیے اس کے فضائل و برکات سے بہ درجہ اولیٰ حصہ پاتے ہیں.ذیل میں چند احادیث درج کی جاتی ہیں جن میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کی اہمیت ، آداب اور فضائل کا ذکر فرمایا ہے.حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أعْبُدُ النَّاسِ أَكْثَرُهُمْ تِلَاوَةٌ لِلْقُرْآنِ.(کنز العمال، جلد اول، صفحه 257 ، كتاب الاذكار من قسم الاقوال، باب السابع في تلاوة القرآن وفضائله حدیث نمبر 2257 ) ترجمہ: لوگوں میں سے سب سے زیادہ عبادت گزار ہی کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے ہیں.عَبْدِ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنْ كِتَابِ اللهِ فَلَهُ بِهِ حَسَنَةٌ وَالْحَسَنَةُ بِعَشْرٍ أَمْثَالِهَا لَا أَقُولُ الم حَرْفٌ وَلَكِنْ أَلِفٌ حَرْفٌ وَلَامٌ حَرْفٌ وَمِيمٌ حَرْفٌ (ترمذی، کتاب فضائل القرآن بَاب مَا جَاءَ فِيمَنْ قَرَأَ حَرْفًا مِنَ الْقُرْآنِ مَالَهُ مِنْ الأحْي - ترجمہ : حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قرآن کریم کا ایک حرف بھی پڑھا اس کو ایک نیکی کا اجر ملے گا اور اس ایک نیکی کا بدلہ دس نیکیاں ہیں.میں نہیں سمجھتا کہ السم ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف ہے ، لام ایک الگ حرف ہے، اور میم ایک الگ حرف ہے.“ حضرت عبیدہ ملیکی سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ لَا تُوَسَدُوا الْقُرْآنَ وَاتْلُوْهُ حَقَّ تِلَاوَتِهِ آنَاءَ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَ افْشُوْهُ وَ تَغَنَّوْهُ وَ تُدَبِّرُوْا مَا فِيْهِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ وَلَا تَعْجِلُوْا تِلَاوَتَهُ فَإِنَّ لَهُ ثَوَابًا.(شعب الإيمان، التاسع عشر باب في تعظيم القرآن فصل في إدمان تلاوة القرآن جزء 2،صفحه 350)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 86 ترجمہ: اے قرآن کریم پر ایمان رکھنے والو! قرآن کریم کو اپنا تکیہ بنا کر نہ رکھو، بلکہ دن اور رات کی مختلف گھڑیوں میں اس طرح اس کی تلاوت کیا کرو، جیسا کہ تلاوت کرنے کا حق ہے.اور اس کو پھیلاؤ، اور اس کو سنوار کر پڑھا کرو، اور جو کچھ اس میں ہے اس پر تدبر کیا کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ اور اس تلاوت کا اجر جلدی نہ مانگو کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کا عظیم ثواب اور معاوضہ مقدر ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٌ عَلَمَهُ اللهُ الْقُرْآنَ فَهُوَ يَتْلُوهُ آنَاءَ اللَّيْلِ وَآنَاءَ النَّهَارِ فَسَمِعَهُ جَارٌ لَهُ فَقَالَ لَيْتَنِي أُوتِيتُ مِثْلَ مَا أُوتِيَ فُلَانٌ فَعَمِلْتُ مِثْلَ مَا يَعْمَلُ (بخاری، کتاب فضائل القرآن باب اغتباط صاحب القرآن، حدیث نمبر 5026) | آنحضور ﷺ نے تلاوت کرنے والے کو رشک بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے فرمایا: دو آدمیوں پر رشک کرنا چاہئے ایک وہ جسے خدا تعالیٰ قرآن سکھائے اور وہ دن اور رات کے اوقات میں اس کی تلاوت کرتا ہو یہاں تک کہ اس کا ہمسایہ بھی متاثر ہو کر کہے کہ اے کاش: مجھے بھی اس طرح قرآن پڑھنا آتا اور میں بھی ایسا ہی کرتا.عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ اقْرَءُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ يَأْتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ شَفِيعًا لَاصْحَابِهِ اقْرَءُ وُا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَ سُورَةَ آلِ عِمْرَانَ فَإِنَّهُمَا تَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَاكَ تُحَاجَانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا اقرءوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةً وَتَرُكَهَا حَسْرَةٌ وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ.(مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب فضل قراءة القرآن و سورة البقرة) ترجمہ: حضرت ابوامامہ باہلی روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: قرآن پڑھا کرو یہ قیامت کے روز اپنے پڑھنے والوں کی شفاعت کرے گا.ذهر اوین یعنی سورۃ بقرۃ اور سورۃ آل عمران پڑھا کرو.یہ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات نے فرمایا: 87 قیامت کے روز اس طرح آئیں گی گویاد و بدلیاں ہوں یا ایسے کہ گویا صف آرا پرندوں کے غول در غول ہوں جو اپنے پڑھنے والوں پر سایہ مگن ہوں گے.سورۃ بقرہ پڑھا کرو کیونکہ اس کو پڑھتے رہنا برکت کا موجب ہے اور اس کا ترک کر دینا حسرت کا موجب ہوگا.جھوٹے ، شعبدہ باز اس پر غالب نہیں آسکتے.حضرت معاذ بن انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ قَرَأَ أَلْفَ آيَةٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى كُتِبَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَعَ النَّبِيِّينَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَئِكَ رَفِيقاً إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى.(مسند احمد بن حنبل، مسند ،مكيين، حديث معاذ بن أنس الجهني، جزء3 صفحه 437) | ترجمہ: جس نے خالصہ اللہ کی رضا کے لئے ایک ہزار آیات تلاوت کیں وہ قیامت کے دن انبیاء، صدیقین ،شہداء اور صالحین میں لکھا جائے گا اور یہ کیا ہی اچھی رفاقت ہوگی.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الْبَيْتُ الَّذِي يُقْرَأُ فِيْهِ الْقُرْآنُ يُتَرَاءَى لِأَهْلِ السَّمَاءِ كَمَا تَتَرَاءَى النُّجُوْمَ لِأَهْلِ الْأَرْضِ.(شعب الايمان، التاسع عشر باب فی تعظیم القرآن، فصل في إدمان تلاوة القرآن | ترجمہ: وہ گھر جس میں قرآن کریم پڑھا جاتا ہے آسمان والوں کو ایسا دکھائی دیتا ہے جیسا کہ زمین والوں کو ستارے دکھائی دیتے ہیں.لله عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَقْرَأُ الْمُسَبْحَاتِ قَبْلَ أَنْ يَرُقُدَ وَيَقُولُ إِنَّ فِيهِنَّ آيَةً خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ آيَةٍ.(سنن ابی داؤد، کتاب الأدب، باب ما يقال عند النوم)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 88 ترجمہ: حضرت عرباض بن ساریہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے قبل سور المسبحات “ (سورۃ بنی اسرائیل ،سورۃ الحدید سورة الحشر ،سورۃ الصف سورۃ الجمعہ،سورۃ التغابن اور سورۃ الاعلیٰ ) کی تلاوت فرمایا کرتے تھے.آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم فرماتے تھے کہ ان میں ایک ایسی آیت ہے جو (اپنے مضامین کے اعتبار سے ) ہزار آیات سے بڑھ کر ہے.عَنْ جَابِرٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم لَا يَنَامُ حَتَّى يَقْرَأَ (الَمَ تَنْزِيلُ السَّجْدَةَ وتَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ.(مسند احمد بن حنبل، مسند جابر بن عبد الله ، جزء3 صفحه 340) حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ سجدہ اور سورۃ ملک کی تلاوت کرنے سے پہلے نہ سوتے تھے.تلاوت قرآن کریم کے بارے میں کثرت سے ایسی روایات ملتی ہیں کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نہ صرف یہ کہ خود کثرت سے تلاوت کیا کرتے تھے بلکہ صحابہ کرام سے بھی سنتے رہتے تھے.قرآں کتاب رحماں سکھلائے راہِ عرفاں جو اس کے پڑھنے والے اُن پر خدا کے فیضاں
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 89 باب چهارم تجوید کے ساتھ حفظ کرنے کی فضیلت حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تَعَلَّمُوا اللَّحْنَ كَمَا تَتَعَلَّمُوْنَ حِفْظُهُ.(کنز العمال جلد 1 - صفحه 611، کتاب الاذكار من قسم الاقرال، باب السابع في تلاوة القرآن وفضائله، الفصل الثالث في آداب التلاوة) ترجمہ: قرآن کریم کو پڑھنے کا فن بھی سیکھو جس طرح اس کو حفظ کرتے ہو.قَالَ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: لَبَعْضُ إِعْرَابِ الْقُرْآنِ أَحَبُّ إِلَيْنَا مِنْ حِفْظِ حَرُوفِهِ.(الجامع لأحكام القرآن للقرطبي، باب ما جاء فى إعراب القرآن وتعليمه ، جزء 1، صفحه 23) ترجمہ: حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کے ایک حصہ کو اعراب کے ساتھ پڑھنا ہمیں اس کے حروف حفظ کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے.عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا قَرَأَ فَلَحَنَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ الله : ارْشُدُوْا أَخَاكُمْ.(مستدرك حاكم كتاب التفسير تفسير سورة حم السجدة ترجمہ: حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو قرآن کریم پڑھتے سنا.جب اس نے اعراب کی غلطی کی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنے بھائی کی راہنمائی کرو.قال عبد الله ابن مسعود: جَوّدُوا الْقُرْآنَ وَزَيِّنُوهُ بِأَحْسَنِ الْأَصْوَاتِ، وَأَعْرِبُوهُ فَإِنَّهُ عَرَبِي، وَاللَّهُ يُحِبُّ أَنْ يُعْرَبَ بِهِ.(الجامع لأحكام القرآن للقرطبي، المدخل، باب ما جاء في إعراب القرآن وتعليمه والحث عليه وثواب من قرأ القرآن معربا جزء 1 صفحه 23
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 90 ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ قرآن کریم کی عمدگی سے تلاوت کرو اور اچھی آوازوں سے مزین کرو.اس کو ( صحیح ) اعراب کے ساتھ ( زیر ز بر کا خیال رکھ کر ) پڑھو کیونکہ قرآن کریم عربی زبان ہے اور اللہ تعالی پسند کرتا ہے کہ قرآن کریم کو عربی لہجہ میں پڑھا جائے.قرآن کریم کی تلاوت عربی لب ولہجہ اور انداز میں کرو اقْرَءُوا الْقُرْآنَ بِلُحُونِ الْعَرَبِ وَأَصْوَاتِهَا.(شعب الإيمان، التاسع والعشر في تعظيم القرآن، فصل في ترك التعمق في القرآن) ترجمہ: تم قرآن کریم کو عربوں کے لب ولہجہ اور ان کی آواز میں پڑھو.قرآن کریم کو خوش الحانی اور ترنم کے ساتھ پڑھو حضرت براء بن عازب سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : زَيْنُوا الْقُرْآنَ بِأَصْوَاتِكُمْ.(بخاری، کتاب التوحيد، باب قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَاهِرُ بِالْقُرْآنِ مَعَ الْكِرَامِ الْبَرَرَةِ) ترجمہ: تم اپنی خوبصورت آوازوں سے قرآن کریم کو مزین کر کے پڑھو.قراءت قرآن کا حسن : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِكُلِّ شَيْءٍ حِلْيَةٌ وَحِلْيَةُ الْقُرْآنِ حُسْنُ الصَّوْتِ.(معجم الاوسط باب من اسمه محمد جزء 7- صفحه 341.حدیث نمبر 7531) ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر ایک چیز کا ایک زیور ہوتا ہے اور قرآن کریم کا زیور خوبصورت لحن (خوش آوازی) ہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 91 عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلَّم لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمُ يَتَغَنَّ بِالْقُرْآنِ (بخاری، کتاب التوحيد، باب قول الله تعالى وأسروا قولكم او اجهروا به روایت نمبر 7527) | ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص خوش الحانی سے قرآن کریم پڑھنے کی کوشش نہیں کرتا اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن قرآت سے قرآن پڑھنا روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم خود ٹھہر ٹھہر کر خوبصورت انداز میں تلاوت کیا کرتے تھے.حَدَّثَنَا قَتَادَةُ قَالَ سَأَلْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكِ عَنْ قِرَاءَةِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم فَقَالَ كَانَ يَمُدُّ مَدًّا.(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب مد القرآءة، روايت نمبر 5045) | ترجمہ: حضرت قتادہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس بن مالک سے پوچھا کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی تلاوت کس طرح کیا کرتے تھے؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپ ﷺ مد کولمبا کر کے ( ٹھہر ٹھہر کر ) تلاوت کیا کرتے تھے.عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يُقَطِّعُ قِرَاءتَهُ يَقُولُ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ) ثُمَّ يَقِفُ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ) ثُمَّ يَقِفُ وَكَانَ يَقْرَؤُهَا (مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ).(ترمذی، ابواب القراءات، باب في فاتحة الكتاب) ترجمہ : حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی تلاوت ٹھہر ٹھہر کر کیا کرتے تھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم الحمد لله
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 92 رب العالمین پڑھ کر کچھ دیر کے لیے توقف فرماتے پھر الرحمن الرحیم پڑھتے اور اگلی آیت پڑھنے کے لیے کچھ توقف فرماتے.پھر مالک یوم الدین پڑھتے.عَنْ يَعْلَى بْنِ مَمْلَكِ أَنَّهُ سَأَلَ أُمَّ سَلَمَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ الا الله عَنْ قِرَاءَةِ النَّ صلى الله عليه وسلم فَإِذَا هِيَ تَنْعَتُ قِرَاءَةً مُفَسَّرَةً حَرْفًا حَرُفًا (ترمذی، ابواب فضائل القرآن باب ما جاء كيف قراءة النبي ) ترجمہ: حضرت یعلی بن مملک بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی تلاوت کا کیا طریق تھا ؟ تو انہوں نے کہ بتایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت ” قراءت مفسرہ ہوتی تھی یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت کیا کرتے تھے تو سننے والے کو ایک ایک حرف کی الگ الگ سمجھ آ رہی ہوتی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: قرآن شریف کو خوش الحانی سے پڑھنا چاہیے بلکہ اس قدر تاکید ہے کہ جو شخص قرآن شریف کو خوش الحانی سے نہیں پڑھتا وہ ہم میں سے نہیں ہے.“ (ملفوظات جلد چهارم صفحه 524) آ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش الحانی سے قرآن سنا تھا اور آپ اس پر روئے بھی تھے.جب یہ آیت سنی.وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا (النساء: 42) آپ روئے اور فرمایا ، بس کر میں آگے نہیں سن سکتا.آپ کو اپنے گواہ گزارنے پر خیال گزرا ہو گا.ہمیں خواہش رہتی ہے کہ کوئی خوش الحان حافظ ہو تو قرآن سنیں.“ (ملفوظات، جلد.سوم صفحه (162) قرآن شریف میں تدبر و تفکر وغور سے پڑھنا چاہیے.حدیث میں آیا ہے رُبَّ قَارِ يَلْعَنُهُ القُرآن یعنی بہت ایسے قرآن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے.جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 93 بھیجتا ہے.تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گزر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبر وغور سے پڑھنا چاہیے اور اس پر عمل کیا جاوے.“ علم تجوید و قراءت کی تعریف (ملفوظات، جلد پنجم صفحه : 157) | اصطلاح میں تمام عربی حروف کو ان کے مخارج، صحت تلفظ اور کامل صفات کے ساتھ ادا کرنا.نیز دورانِ تلاوت رموز اوقاف کا خیال رکھنا اور تصنع یا تکلف سے بچنا علم تجوید کہلاتا ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: كَانَ رَسُولُ اللهِ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ بِالْقَطْعِ وَيَمُدُّ مَدًا.( بخاری - کتاب فضائل القرآن ـ باب مد القراءة) کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شہر ٹھہر کر اور ہر ایک لفظ کو الگ الگ ادا کر کے اور مد کولمبا کر کے پڑھتے تھے.گویا تمدید یعنی ہر ایک لفظ کو اس طرح ادا کرنا کہ ہر ایک کو اس کی سمجھ آرہی ہو تجوید کہلاتا ہے.اسی تجوید کو عرف عام میں قراءت کہا جاتا ہے اور ترتیل سے بھی یہی مراد ہے.جیسا کہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً (المزمل: 5) کہ قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر عمدگی سے پڑھو.حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جب ترتیل کا مطلب دریافت کیا گیا تو آپ نے اس سے مراد تجوید ہی لیا اور فرمایا: هُوَ تَجْوِيدُ الْحُرُوفِ وَ مَعْرِفَةُ الْوُقُوفِ “ " الإتقان في علوم القرآن للسيوطى، النوع الثامن والعشرون في معرفة الوقف والابتداء، جزء 1 صفحه 221) | یعنی حروف کو عمدگی سے ادا کرنا، صحت تلفظ کا خیال رکھنا اور اس بات کا علم رکھنا کہ کہاں کہاں ٹھہرنا ہے؟ ترتیل کہلاتا ہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 94 علم تجوید کی غرض و غایت: علم تجوید کی غرض و غایت یہی ہے کہ قرآن کریم کو صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھا جائے اور حروف کی ادا ئیگی ٹھیک طور پر کی جائے تا کہ تلاوت کا حق ادا کیا جا سکے اور اس کا اجر و ثواب پورے طور پر تلاوت کرنے والے کو عطا ہو.علم تجوید و قراءت کی تاریخی حیثیت: قرآن کریم کی صحیح تلفظ کے ساتھ تلاوت آغاز اسلام سے ہی لازمی قرار دی گئی اور اشاعت اسلام کے مختلف ادوار میں خلفاء راشدین نے بھی اس سلسلہ میں متعدد اقدامات کئے.سیدنا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں قواعد تجوید مرتب کرنے کی ضرورت اس وقت پیش آئی جب عجمی لوگ کثرت سے حلقہ بگوش اسلام ہو رہے تھے.اہل عرب کی مادری زبان چونکہ عربی تھی اس لیے ان کو تو کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن عجمیوں اور عربوں کے باہمی اختلاط سے خدشہ پیدا ہوا کہ اب لوگ قرآن کریم کی غلط تلاوت نہ شروع کر دیں.چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تمام مسلمانوں کے لئے قرآن کریم کی تعلیم لازمی قرار دے دی اور اس سلسلہ میں ابو اسود دوئلی سے فرمایا کہ وہ قواعدِ نَحو تحریر کریں.قواعد نحو تحریر کرنے کا بنیادی مقصد یہی تھا کہ نجمی لوگوں کو قرآن کریم کی قراءت میں غلطیوں سے بچایا جائے.علم تجوید کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ لوگ صحیح اور معروف طریق پر صحت تلفظ کا خیال رکھتے ہوئے قرآن کریم کی تلاوت کریں.حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اجماع سے قرآن کریم کے سات نسخے تیار کروائے اور ان میں تمام قراء توں کو جمع کر دیا.ان نسخوں کا نام مصاحف عثمانی مشہور ہوا.آپ نے ان مصاحف کو اسلامی مملکت کے معروف شہروں میں بھجوایا اور تاکید فرمائی کہ آئندہ انہی مصاحف کے مطابق قرآن کریم کی اشاعت اور تلاوت ہو.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 95 علم تجوید کی ضرورت : علم تجوید کا سیکھنا عربوں کے علاوہ باقی لوگوں کے لئے خصوصاً بہت اہم ہے کیونکہ وہ عربی زبان سے عدم واقفیت کی بنا پر عربی حروف میں فرق اور تمیز نہیں کر سکتے اور عربی زبان کی فصاحت و بلاغت کا تو یہ حال ہے کہ بعض اوقات آواز کے معمولی اتار چڑھاؤ سے عبارت کا مفہوم بدل جاتا ہے اور حروف کی آواز بدلنے سے اس کے معنی غلط ہو جاتے ہیں.مثلاً لَا تُؤَاخِذْنَا کے معنی ہیں ”ہمارا مؤاخذہ نہ فرما اس میں ” لا “ کو بے احتیاطی سے پڑھتے ہوئے اگر ” ل “ پڑھا جائے یعنی لمبا نہ کیا جائے تو معنی بنیں گے کہ " ضرور ہمارا مؤخذہ کرنا نعوذ باللہ.اسی طرح إِنَّكَ لَمِنَ المُرسَلِينَ کا مطلب ہے : ” یقیناً تو خدا کے رسولوں میں سے ہے اگر ” لَمِنَ“ کی بجائے ” لَا مِنَ “ پڑھ دیا جائے تو اس کے معنی یہ ہو جائیں گے کہ معاذ اللہ تو خدا کے رسولوں میں سے نہیں ہے.دو دو ،، الحمد لله تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں.” الحمد “ کو ”الھمد “ پڑھنا جس کے معنی ہوں گے: ایسی بے جان چیز جس کی کوئی تعریف نہ ہو.تو ایک حرف ”ح“ کی غلط ادا ئیگی سے معنی بدل جاتے ہیں.اسی طرح عربی لفظ ” وَثَقَ“ اگرث کے ساتھ ہو تو بھروسہ کرنا اور اگر وسق“ سین کے ساتھ ہو تو یہ ایک معروف پیمانے کا نام بن جاتا ہے.اس طرح عربی زبان کے بے شمار الفاظ ایسے ہیں جن کی آواز بدلنے سے معنی بدل جاتے ہیں.اگر قرآن کریم کے الفاظ ادا کرتے ہوئے احتیاط سے پڑھا جائے تو معمولی توجہ سے ان غلطیوں سے بچا جاسکتا ہے.ضروری نہیں کہ استاد ہی میسر ہو.خود بھی ذرا توجہ کر کے غلطی درست کی جاسکتی ہے.بہر حال اس طرح کی غلطیوں سے بچنے کے لئے تجوید وقراءت کے علم کی ضرورت پڑتی ہے.قرآن کریم عربی میں پڑھتے ہوئے حروف کے مخارج اور صفات کا خاص خیال رکھنا چاہئے لیکن جو لوگ ٹھیٹھ پنجابی ہیں اور عربی کی شدھ بدھ نہیں رکھتے اور عمر رسیدہ بھی ہو چکے ہیں وہ اگر اپنی طرز تلاوت کو با وجود کوشش کے تبدیل نہیں کر پاتے تو اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر ان کے ظاہری الفاظ پر نہیں ہوتی بلکہ ان کی نیک نیتی اور اخلاص پر ہوتی ہے اس لیے ان کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے.ان کے بارہ میں کسی بھی قسم کا فتوی دینے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ ممکن ہے کہ تجوید اور صحت تلفظ کا خیال رکھ کر تلاوت کرنے والے کی
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 96 تلاوت قبول نہ کی جائے اور عشق قرآن میں ڈوبے ہوئے ایسے شخص کی تلاوت قبول کر لی جائے جس کو تجوید اور صحت تلفظ کا علم ہی نہ ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے علم تجوید و قراءت کی اہمیت: تجوید وقراءت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ” اَدَاءُ الْحُرُوفِ مِنْ مَخَارِجِهَا“ یعنی حروف کو ان کے مخارج سے نکال کر ادا کرنا.اس کی اہمیت کے بارے میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اقْرَءُ واالْقُرْآنَ بِلُحُوْنِ الْعَرَبِ وَأَصْوَاتِهَا کہ تم عربوں کے لب ولہجہ اور ان کی آواز میں تلاوت قرآن کریم کی کوشش کرو.یہ فرمان بلاتفریق اہل عرب و عجم سب کے لئے ہے حالانکہ عربوں کی مادری زبان عربی ہے ، ان کے لئے تو فن تجوید کی کوئی مشکل نہیں.البتہ اس فن کو حاصل کرنے کی عجمیوں یعنی غیر عرب لوگوں کو بہت ضرورت ہے.اہل عرب قدرتی طور پر اپنی زبان کے ماہر ہوتے ہیں لیکن آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کو جوسب کے سب عرب تھے قراءت کی تعلیم دی، اساتذہ تیار کئے پھر انہوں نے آگے دوسروں کو قراءت سکھائی.یہ بات قابل غور ہے کہ اگر عربوں کے لئے قراءت سیکھنا ضروری تھا تو ہمیں اس علم کو سیکھنے کی کتنی زیادہ ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: قرآن تمہارا محتاج نہیں پر تم محتاج ہو کہ قرآن کو پڑھو، سمجھو اور سیکھو جب کہ دنیا کے معمولی کاموں کے واسطے تم استاد پکڑتے ہو تو قرآن شریف کے واسطے استاد کی ضرورت کیوں نہیں؟“ (ملفوظات جلد پنجم صفحه 245) ایک اور جگہ پر فرمایا: ”ہم ہرگز یہ فتویٰ نہیں دیتے کہ قرآن کریم کا صرف ترجمہ پڑھا
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 97 جائے اس سے قرآن کا اعجاز باطل ہوتا ہے...بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ جو دعائیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مانگی ہیں وہ بھی عربی میں پڑھی جاویں.“ (ملفوظات جلد.سوم - صفحه 265) سورۃ فاتحہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں: ظاہری صورت پر نظر ڈال کر دیکھو کیسی رنگینی عبارت اور خوش بیانی اور جودت الفاظ اور کلام میں کمال سلاست اور نرمی اور روانی اور آب و تاب اور لطافت وغیرہ لوازم حسنِ کلام اپنا کامل جلوہ دکھا رہے ہیں.“ (تفسیر حضرت مسیح موعود علیه السلام ، جلد اول، صفحه 8،سورة فاتحه) قراءت کا مجہول طریق: عربی کے علاوہ دیگر زبانوں خصوصاً ہمارے ملک میں پنجابی اور اردو لہجہ میں بھی قرآن کریم پڑھ لیا جاتا ہے اس کو مجہول طریق کہا جاتا ہے.قرآن کریم کو معروف عربی طریق یعنی عربی لب ولہجہ میں صحیح تلفظ کے ساتھ پڑھنے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر تجوید کے قواعد کا علم نہ ہو تو شوق اور لگن سے یہ قواعد معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.تجوید اور قراءت سیکھنا زیادہ مشکل نہیں ہے.قرآن کریم کے الفاظ ادا کرتے ہوئے احتیاط سے پڑھیں تو معمولی توجہ سے ہی ان غلطیوں سے بچا جا سکتا ہے.اس سلسلہ میں قرآن کریم کی تلاوت اچھے حفاظ اور قراء حضرات کی آواز میں سننا بھی بہت مفید ہے.آجکل تلاوت قرآن کریم کی DVDs،CDs اور کیسٹس عام ہیں اور انٹرنیٹ پر بھی معروف حفاظ اور قراء کی تلاوت قرآن کریم سنی جا سکتی ہے.فن تجوید وقراءت ایک سائنس : اُمت مسلمہ نے صرف تلاوت کی کثرت کی حد تک ہی لبیک نہیں کہا بلکہ اطاعت کا ایک بے مثل نمونہ اس طرح بھی قائم کیا کہ تلاوت قرآن کریم کو با قاعدہ ایک سائنس کی شکل دی.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں ، قرآن کریم کی تلاوت کے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 98 ضمن بھی اُمتِ مسلمہ نے بہت سے نئے علوم کی بنیاد ڈالی.کسی اور زبان میں دیکھ کر پڑھنے کے بارہ میں ایسی تحقیق اور تفصیل سے اصول وضع نہیں کیے گئے جیسا کہ قرآن کریم کی خدمت کی خاطر امت مسلمہ میں عربی زبان میں وضع کیے گئے.مسلمانوں میں کس کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کی جاتی ہے اور تلاوت کرنے کے آداب اور علوم کو کس درجہ اہمیت حاصل ہے، اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ ترتیل اور تجوید کا فن جو کہ تلاوت قرآن کے آداب و قواعد اور انداز کے بارہ میں با قاعدہ ایک سائنس کی شکل اختیار کر چکا ہے اور دنیا بھر کے مسلمانوں میں بہت مقبول اور اس کا سیکھنا باعث عزت و تکریم سمجھا جاتا ہے.آج ساری دنیا میں بڑی مساجد میں نماز تراویح میں ان قراء حضرات کا اہتمام کیا جاتا ہے جوفن تجوید کے اصول سے واقف ہوں اور تلاوت کے آداب جانتے ہوں.ساری دنیا میں حسن قراءت کے مقابلہ جات اور محافل کا انعقاد ہوتا ہے.ہمارے اجلاسات اور تقریبات کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہی ہوتا ہے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے ہی قرآن کریم دنیا کی تمام کتب میں سب سے زیادہ زبانی اور دیکھ کر پڑھی جانے والی کتاب ہے.آج تک دنیا کی کسی کتاب کے بارے میں ایسے قوانین اور سائنس کی بنیاد بھی نہیں ڈالی گئی جیسا کہ قرآن کریم کے صرف پڑھنے اور تلاوت کرنے کے لئے صدیوں سے رائج ہیں.وانا له لحافظون کے مصداق قرآن کریم کی تلاوت کا حق ادا کرنے میں بھی حفاظت کا ایک پہلو موجود ہے جس کے لیے فن تجوید و قراءت ایجاد کیا گیا تا کہ مختلف اقوام کے اختلاط سے قرآن کریم کا تلفظ متاثر نہ ہو.گو اسلام نے موسیقی کو حرام قرار دیا لیکن عمدہ، خوب صورت اور خوش الحانی کے ساتھ قرآن کریم پڑھنے کے ذریعہ ذوق نغمہ کی تسکین بھی کی اور روح کی غذا کا سامان بھی بہم پہنچایا.حفظ قرآن کریم، تجوید قرآن اور حسن قراءت سے کلام اللہ کی بلندی اور دوسری آسمانی کتب اور صحائف بالمقابل قرآن پاک کی امتیازی خصوصیت ظاہر اور نمایاں ہوتی ہے.گو کہ قرآن کریم کو تدبر اور غور فکر سے سمجھ سمجھ کر پڑھنا چاہئے لیکن حفاظت قرآن کریم کے لیے بغیر معنی سمجھے صرف الفاظ یاد کرنے والے حفاظ کی اہمیت بھی اپنی جگہ مسلم ہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 99 حفظ وقراءت کے ساتھ قرآن کے علم و فہم کی ضرورت: حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: سَيَأْتِي عَلَى أُمَّتِي زَمَانٌ تَكْثِرُ فِيْهِ الْقُرَّاءُ وَ تَقِلُّ الْفُقَهَاءُ وَيُقْبَضُ الْعِلْمُ وَيَكْثُرُ الْهَرَجُ قَالُوا : وَ مَا الْهَرَجُ يَا رَسُوْلِ اللهِ ؟ قَالَ الْقَتْلُ بَيْنَكُمْ ثُمَّ يَأْتِي بَعْدَ ذَالِكَ زَمَانٌ يَقْرَأُ الْقُرْآنَ رِجَالٌ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيْهِمْ ثُمَّ يَأْتِي مِنْ بَعْدِ ذَالِكَ زَمَانٌ يُجَادِلُ الْمُنَافِقُ الْكَافِرُ الْمُشْرِكْ بِاللَّهِ الْمُؤْمِنَ بِمِثْلِ مَا يَقُوْلُ (مستدرك حاكم كتاب الفتن والملاحم، باب التناكح في الطرق من علامات القيامة) ترجمہ: عنقریب میری اُمت پر ایک زمانہ آئے گا جس میں قاریوں کی کثرت ہوگی اور فقہا کی قلت ہوگی اور علم اٹھا لیا جائے گا اور ہرج یعنی قتل وغارت بڑھ جائے گی.پھر اس کے بعد ایک زمانہ آئے گا جس میں میری اُمت کے لوگ قرآن کریم تو پڑھیں گے لیکن قرآن کریم ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا.پھر اس کے بعد ایک زمانہ آئے گا جس میں خدا تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والا مؤمن سے (عقائد و اعمال اور تو حید کے باب میں ) جھگڑا کرے گا.قرآن کو گانے ، نوحہ اور یہود و نصاری کے انداز میں پڑھنے کی ممانعت: عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ الْيَمَانِ، عَنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ اِقْرَءُ وا الْقُرْآنَ بِلُحُونِ الْعَرَبِ وَأَصْوَاتِهَا، وَإِيَّاكُمْ وَلُحُونَ أَهْلِ الْفِسْقِ وَأَهْلِ الْكِتَابَيْنِ، فَإِنَّهُ سَيَجِيءُ مِنْ بَعْدِى قَوْمٌ يُرَجِّعُونَ بِالْقُرْآنِ تَرْجِيعَ الْغِنَاءِ وَالرَّهَبَانِيَّةِ وَالنَّوْحِ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ، مَفْتُونَةٌ قُلُوبُهُمْ وَقُلُوبُ مَنْ يُعْجِبُهُمْ شانهم (شعب الايمان للبيهقي، التاسع عشر، باب فی تعظيم القرآن، فصل في ترك التعمق في القرآن، جزء8 صفحه 208) | ترجمہ: حضرت حذیفہ بن الیمان سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 100 نے فرمایا کہ تم قرآن کریم کو عربوں کے لب ولہجہ اور ان کی آواز میں پڑھو.اور اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) کے اور اہل فستق ( نافرمانوں) کے لہجوں اور آوازوں میں پڑھنے سے پر ہیز کرو.میرے بعد بے شک ایک ایسی قوم آئے گی جو قرآن کو راگ، نوحہ اور رہبانیت کے لہجوں میں پڑھے گی.ان کا حال یہ ہوگا کہ قرآن ان کے حلقوں سے نہیں اُترے گا.پڑھنے والوں کے دل، اور ان لوگوں کے دل جن کو ان کے پڑھنے کا طریقہ اچھا لگے گا فتنے میں پڑے ہوں گے.اس روایت سے معلوم ہوا کہ قرآن کو موسیقی اور گانے کے طرز پر پڑھنا جائز نہیں اور نہ ہی یہود و نصاریٰ اور رونے پیٹنے والوں اور گانے والوں کے انداز میں پڑھنا درست ہے.خَيْرُكُمْ مِّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَمَهُ (الميث) بہتر وہ ہے جو قرآن سیکھتا ہے اور دوسروں کو سکھاتا ہے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 101 تلاوت قرآن کریم کے آداب حفاظ قرآن کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں، اس دوران تلاوت قرآن کریم کے ظاہری و باطنی آداب کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے.بعض اوقات حافظ عدم تو جہی سے اس کے آداب کا خیال نہیں رکھ رہے ہوتے.قرآن کریم با قاعدہ تلاوت کے آداب سکھاتا ہے.مثالا کہ تلاوت کرنے سے قبل ظاہری اور باطنی پاکیزگی ضروری ہے.اس سلسلہ میں ارشادِر بانی ہے: لا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ (الواقعة: 80) ترجمہ: کوئی اس (قرآن) کو نہ چھوئے، سوائے پاک (صاف) کیے ہوئے لوگوں کے.تلاوت سے قبل شیطانی وساوس سے بچنے کی دعا: فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّحِيمِ (النحل: 99) ترجمہ: پس جب تو قرآن پڑھے تو دھتکارے ہوئے شیطان سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کر.حضرت مسیح موعود علیہ السلام استعاذہ کی حکمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اعلم يا طالب العرفان انه من احل نفسه محل تلاوة الفاتحة والفرقان فعليه ان يستعيذ من الشيطن كما جاء فى القرآن فان الشيطن قد يد خل حمى الحضرة كالسارقين.ويدخل الحرم العاصم للمعصومين.فاراد الله ان ينجى عباده من صول الخناس عند قرائة الفاتحة و كلام رب الناس.ويد فعه بحربة منه ويضع الفاس فى الراس و يخلص الغافلين من النعاس.فعلم كلمته منه لطرد الشيطان المدخور الى يوم النشور.(اعجاز ،المسيح، روحانی خزائن جلد 18، صفحه 81-82 |
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 102 ترجمہ: اے طالب معرفت ! جان لے کہ جب کوئی شخص سورۃ فاتحہ اور قرآن کریم کی تلاوت کرنے لگے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم پڑھے جیسا کہ قرآن کریم میں حکم ہے.کیونکہ کبھی شیطان خدا تعالیٰ کی رکھ میں چوروں کی طرح داخل ہو جاتا ہے اور اس حرم کے اندر آ جاتا ہے جو معصومین کی محافظ ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ارادہ فرمایا کہ وہ سورۃ فاتحہ اور قرآن مجید کی تلاوت کے وقت اپنے بندوں کو شیطان کے حملہ سے بچائے ، اسے اپنے حربہ سے پسپا کرے، اس کے سر پر تنبر رکھے اور غافلوں کو غفلت سے نجات دے.پس اس نے شیطان کو دھتکارنے کے لئے جو قیامت تک راندہ درگاہ ہے اپنے ہاں سے بندوں کو ایک بات سکھائی.تلاوت قرآن کریم کے وقت خاموشی : قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہوئے یہ ادب بھی سکھایا گیا ہے کہ جب تلاوت کی جارہی ہو تو خاموشی سے سنا کرو.ارشاد خداوندی ہے: وَإِذَا قُرِءَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (الاعراف:205) ترجمہ: اور جب قرآن پڑھا جائے تو اسے غور سے سنو اور خاموش رہو تا کہ تم پر رحم کیا جائے.قرآن کریم کی ان تعلیمات کے مطابق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو غور سے تلاوت سننے کی بھی بہت تاکید فرماتے تھے.ایک روایت میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: إِنَّ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ لَهُ أَجْرٌ وَإِنَّ الَّذِي يَسْتَمِعُ لَهُ أَجْرَانِ.(سنن الدارمی، کتاب فضائل القرآن باب فضل من استمع الى القرآن جو قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے اس کے لیے ایک اجر ہے اور جو غور سے سنتا ہے اس کے لیے دوہرا اجر ہے.“
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 103 قرآن کریم کے ظاہری آداب کا لحاظ رکھا جائے قرآن کریم ہاتھ میں پکڑ کر دنیاوی گفتگو یا ادھر ادھر کی باتوں سے پر ہیز کرنا چاہیے.نیز قرآن کریم زیادہ وقت پڑھتے پڑھتے بعض لوگ ( حفاظ بھی) اس امر کا خیال نہیں رکھتے کہ بعض دفعہ قرآن کریم نیچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں، بعض دفعہ صحیح طرح سے قرآن کریم نہیں پکڑتے ، اور بعض قرآن کریم کا پیچھا کر دیتے ہیں، قرآن کریم کے ظاہری آداب کو بھی ملحوظ رکھنا چاہیے.کن اوقات میں تلاوت کرنا مقبول ہے؟ آداب تلاوت کے ضمن میں یہاں تک راہنمائی فرمائی کہ ایسے مبارک اوقات بھی بتا دیے کہ دن اور رات کی کن گھڑیوں میں تلاوت قرآن کریم اللہ تعالیٰ کے حضور زیادہ پسندیدہ ہے.ان میں سے ایک وقت فجر کا ہے جب کہ انسانی ذہن مکمل طور پر سکون ، تازہ دم اور ہشاش بشاش ہوتا ہے.چنانچہ فرمایا: أَقِمِ الصَّلاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا (بنی اسرائیل : 79) ترجمہ: سورج کے ڈھلنے سے شروع ہو کر رات کے چھا جانے تک نماز کو قائم کر اور ( بوقت ) فجر کی تلاوت کو اہمیت دے.یقیناً فجر کے وقت قرآن پڑھنا مقبول ہے.دن رات میں قرآن کریم کی کتنی مقدار تلاوت کی جائے: حیحین سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کے بارے میں معلوم ہوا کہ وہ ہر رات قرآن کریم کا ایک دور مکمل کرتے ہیں تو ان سے فرمایا کہ ایک مہینہ میں ایک بار قرآن کریم کا دور مکمل کیا کرو.انہوں نے عرض کیا حضور ! میں اس سے زیادہ کی طاقت رکھتا ہوں.فرمایا اچھا تو پھر ہر میں دن میں ایک دور مکمل کر لیا کرو، انہوں نے پھر عرض کیا کہ حضور ! مجھ میں اس سے بھی زیادہ ہمت ہے.اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا: تو پھر دس دن میں ایک دور مکمل کر لیا کرو.انہوں نے پھر عرض کیا حضور! میں اپنے اندر اس سے بھی زیادہ ہمت پاتا ہوں.فرمایا تو پھر
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 104 سات دن میں قرآن کریم کا ایک دور مکمل کر لیا کرو اور اس سے نہ بڑھو کیونکہ تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق ہے, تمہارے مہمان کا بھی تم پر حق ہے اور خود تمہارے جسم کا بھی تم پر حق ہے.روایت کے الفاظ یہ ہیں: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رضى الله عنهما قَالَ كُنْتُ أَقْرَأُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ قَالَ فَإِمَّا ذُكِرْتُ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلَّم إِمَّا أَرْسَلَ إِلَيَّ فَأَتَيْتُهُ فَقَالَ لِي أَلَمُ أَخْبَرُ أَنَّكَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ كُلَّ لَيْلَةٍ قُلْتُ بَلَى يَا نَبِيَّ اللَّهِ وَلَمْ أُرِدْ بِذَالِكَ إِلَّا الْخَيْرَ....قَالَ وَاقْرَ الْقُرْآنَ فِي كُلِّ شَهْرٍ.قَالَ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَالِكَ قَالَ فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ عِشْرِينَ.قَالَ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَالِكَ قَالَ فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ عَشْرٍ قَالَ قُلْتُ يَا نَبِيَّ اللَّهِ إِنِّي أُطِيقُ أَفْضَلَ مِنْ ذَالِكَ.قَالَ فَاقْرَأْهُ فِي كُلِّ سَبْعِ وَلَا تَزِدْ عَلَى ذَالِكَ.فَإِنَّ لِزَوْجِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِزَوْرِكَ عَلَيْكَ حَقًّا وَلِجَسَدِكَ عَلَيْكَ حَقًّا (مسلم، کتاب الصيام، باب النهي عن صوم الدهر ایک روایت میں ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کتنی دیر میں قرآن کریم کا ایک دور مکمل کرتے ہو؟ انہوں نے عرض کیا کہ ایک رات میں.اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اقْرَرِ الْقُرْآنَ فِي شَهْرٍ قُلْتُ إِنِّي أَجِدُ قُوَّةً حَتَّى قَالَ فَاقْرَأْهُ فِي سَبْعِ وَلَا تَزِدْ عَلَى ذَالِكَ.(بخاری، کتاب فضائل القرآن باب في كم يقرأ القرآن ترجمہ: ایک مہینہ میں قرآن کریم کا دور مکمل کیا کرو.(حضرت عبد اللہ کہتے ہیں کہ ) میں نے عرض کیا کہ مجھے اس سے زیادہ کی توفیق ہے.آپ نے فرمایا کہ پھر ایک ہفتہ میں مکمل کر لیا کرو اس سے زیادہ جلدی نہ کرو.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 105 تلاوت میں جلدی منع ہے: قرآن مجید کی تلاوت اطمینان، سکون اور وقار سے کرنی چاہئے.قرآن کریم کلام الہی ہے اور اس کی تلاوت دل جمعی ، محبت اور ادب کے سارے تقاضے ملحوظ رکھ کر کرنا ہی مناسب ہے.جلد جلد اور غیر معمولی تیز رفتار سے تلاوت کرنا آداب تلاوت کے خلاف ہے.اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں ان الفاظ میں ہدایت فرمائی ہے: وَلَا تَعْجَلُ بِالْقُرْآنِ.(طه: 17) کہ تو قرآن کے پڑھنے میں جلدی نہ کیا کر.نیز فرمایا: لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ (القيمة: 17) کہ تو قرآن کو جلدی جلدی پڑھنے کے لیے اپنی زبان کو حرکت نہ دے.حضرت خلیفہ اسیح الاول نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: اس کے معنے یہ ہیں کہ پڑھنے والا جب قرآن پڑھے تو جلدی نہ کرے.“ حقائق الفرقان جلد چهارم ، صفحه : 272) پس قرآن مجید کے تقدس کو مد نظر رکھتے ہوئے سکون سے ٹھہر ٹھہر کر اور آہستہ آہستہ تلاوت کرنی چاہئے تا کہ اس کا مفہوم بھی سمجھ میں آسکے اور اللہ تعالیٰ کی باتیں دل میں اترتی جائیں اور انسان خود کو ان پر عمل کے قابل بنا سکے.بعض لوگ تیز رفتاری اور زیادہ پڑھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں لیکن یہ درست نہیں.چنانچہ حدیث میں ایسے افراد کا ذکر کر کے ناپسندیدگی کا اظہار کیا گیا ہے.صحیح مسلم میں آتا ہے کہ ایک شخص حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: إِنِّي لَأَقْرَأُ الْمُفَصَّلَ فِي رَكْعَةٍ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ هَذَا كَهَذَ الشَّعْرِ إِنَّ أَقْوَامًايَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ وَلَكِنْ إِذَا وَقَعَ فِي الْقَلْبِ فَرَسَخَ فِيهِ نَفَعَ.(مسلم، کتاب صلاة المسافرين، باب ترتيل القراءة) ترجمہ: میں سب مفصل سورتیں یعنی سورۃ الحجرات سے آخر قرآن تک ایک ہی رکعت میں پڑھ جاتا ہوں.یہ سن کر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم تو قرآن مجید کو اس طرح جلدی جلدی پڑھتے ہو جس طرح ہذیان کی صورت میں اشعار
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 106 پڑھے جاتے ہیں.یاد رکھو! کچھ لوگ قرآن کو اس طرح پڑھتے ہیں کہ وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترتا.قرآن تو اس انسان کو فائدہ دیتا ہے جب وہ اس کے دل میں اُتر کر راسخ ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بھی یہ بات پیش ہوئی کہ ایک رکعت میں بعض لوگ قرآن ختم کرنا کمالات میں تصور کرتے ہیں اور ایسے حافظوں اور قاریوں کو اس امر کا بڑا فخر ہوتا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: ” یہ گناہ ہے اور ان لوگوں کی لاف زنی ہے جیسے دنیا کے پیشہ والے اپنے پیشہ پر فخر کرتے ہیں ویسے ہی یہ بھی کرتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریق کو اختیار نہ کیا حالانکہ اگر آپ چاہتے تو کر سکتے تھے مگر آپ نے چھوٹی چھوٹی سورتوں پر اکتفا کیا.“ (ملفوظات، جلد سوم صفحه 333) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن مجید جلد جلد پڑھنے کو نا پسند فرمایا ہے آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طریق کو اختیار نہ کیا.احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر تلاوت فرمایا کرتے تھے.حضرت یعلی بن مملک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم کی تلاوت کا کیا طریق تھا؟ تو انہوں نے کہ بتایا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قراءت قراءت مفسرہ ہوتی تھی یعنی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تلاوت کیا کرتے تھے تو سننے والے کو ایک ایک حرف کی الگ الگ سمجھ آ رہی ہوتی تھی.(ترمذی، ابواب فضائل القرآن باب ما جاء كيف قراءة النبيل الله) حضرت خلیفہ امسح الخامس اید اللہ بنصرہ العز یز س سلسلہ میں فرماتے ہیں : ”جو تلاوت کی ہے اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے تبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کوفرمایا تھا کہ میں نے ضمنا پہلے بھی ذکر کیا تھا لیکن
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 107 تفصیلی حدیث یہ ہے آپ نے فرمایا قرآن کریم کی تلاوت ایک ماہ میں مکمل کیا کرو.(بخاری، کتاب فضائل القرآن) تا کہ آہستہ آہستہ جب پڑھو گے ،غور کرو گے سمجھو گے تو گہرائی میں جا کر اس کے مختلف معانی تم پر ظاہر ہوں گے لیکن انہوں نے کہا کہ میرے پاس وقت بھی ہے اور اس بات کی استعداد بھی رکھتا ہوں کہ زیادہ پڑھ سکوں تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے پھر ایک ہفتہ میں ایک دور مکمل کر لیا کرو.اس سے زیادہ نہیں.تو آپ صحابہ کو سمجھانا چاہتے تھے کہ صرف تلاوت کر لینا، پڑھ لینا کافی نہیں.انسان جلدی جلدی پڑھنا شروع کرے تو دس گیارہ گھنٹے میں پورا قرآن پڑھ سکتا ہے لیکن اس میں سمجھ خاک بھی نہیں آئے گی.ย بعض تراویح پڑھنے والے حفاظ اتنا تیز پڑھتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا الفاظ پڑھ رہے ہیں.جماعت میں تو میرے خیال میں اتنا تیز پڑھنے والا شاید کوئی نہ ہولیکن غیر از جماعت کی مساجد میں تو 18 ، 20 منٹ میں یا زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں ایک پارہ بھی پڑھ لیتے ہیں اور دس گیارہ رکعت نفل بھی پڑھ لیتے ہیں.تو اتنی جلدی کیا خاک سمجھ آتی ہوگی.تلاوت کرنے کی بھی ہر ایک کی اپنی استعداد ہوتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے.کوئی واضح الفاظ کے ساتھ زیادہ جلدی بھی پڑھ سکتا ہے.کچھ زیادہ آرام سے پڑھتے ہیں.لیکن ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ تلاوت سمجھ کر کرو.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ورتل القرآن ترتيلا (المزمل: 4) کہ قرآن کو خوب نکھار کر پڑھا کرو.اب جس نے 18 ،20 منٹ میں یا آدھے گھنٹے میں نماز پڑھانی ہے اور قرآن کریم کا ایک پارہ بھی ختم کرنا ہے، اس نے کیا سمجھنا ہے اور کیا نکھارنا ہے.“ الفضل انٹر نیشنل 11 تا 17 نومبر 2005ء) |
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 108 تلاوت قرآن کریم کے محاسن و عیوب محاسن قرآن قرآن کریم کو مجہول طرز کی بجائے معروف عربی طریق سے پڑھیں.:مثال: بُ ، ب ، اَلْحَمْدُ لِلَّهِ خوش الحانی ، ترنم اور سوز سے تلاوت کریں.تمام حروف کو صاف صاف ادا کریں ( ہر حرف سمجھ آ رہا ہو).تمام حروف کو ان کے مخارج سے ادا کرنے کی کوشش کریں.حروف کو ان کی صفات کے مطابق ادا کریں.بعض صفات درج ذیل ہیں: رخوت، اطباق، قلقله، اذلاق، غنه، استعلا وغیره قلقله : حرف قلقلہ ساکن ہو تو حرف کو ہلکے انداز سے اور حرف قلقلہ مشدد ہو تو مضبوطی سے ہلا کر پڑھیں.مثال: اَحَدُ.تَبّ رموز اوقاف یعنی وقف کی نشانیوں کی پہچان کریں.حروف مقطعات کو صحیح اور معروف طریق سے پڑھیں.تلاوت قرآن کریم کی روزانہ اونچی آواز اور با قاعدگی سے ( ترتیل اور حدر کے انداز میں ) مشق ( پریکٹس ) کریں.دعاختم القرآن اور قرآنی دعائیں بھی پڑھنے کی عادت بنائیں.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 109 تلاوت کے عیوب : تمطيط : حرکات کو غیر ضروری لمبا نہ کریں.مثلاً : لَمِنَ الْمُرْسَلِين.اس میں ” لَمِنَ“ کو ” لا مِنَ“ نہ پڑھا جائے.تطنین : یعنی بلا وجہ ناک میں نہ پڑھیں ، تمام حروف صاف ادا کریں.مثال: إِنَّا الرَّحْمَانُ.یہاں نا اور مَا پڑھتے ہوئے آواز صاف رہے،غنہ نہ ہو.همهمه: مخفف کو مشدد یا مشدد کو مخفف نہ پڑھیں.مثال : فَصَلِّ لِرَبِّكَ، اَلرَّحْمَانُ الرَّحِيمِ، سَبَّحَ عنعنہ ہمزہ میں مین کی آواز یائین میں ہمزہ کی آواز نہ ملائیں.مثال: الْمُؤْمِنُ ، نَعْبُدُ ترعید : گرجدار آواز میں پڑھنا، جھٹکے کے ساتھ پڑھنا درست نہیں قرآنی الفاظ کو درست اور صاف طریق سے پڑھنے کی کوشش کریں.حروف کو بھینچ کر یا ملا کر نہ پڑیں.مثال: اَعُوذُ بِااللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ، شَانِئَكَ هُوَ الْابْتَرُ دوران تلاوت سر کو زور زور سے حرکت نہ دیں نہ ہی چہرے پر بناوٹ ، تکلف اور تکالیف کے آثار پیدا کیے جائیں.دوران تلاوت دنیاوی گفتگو سے پر ہیز کیا جائے.پاؤں یا جسم کے غیر موزوں اعضا کو ہاتھ نہ لگائے جائیں.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 110 سجدہ تلاوت حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تلاوت قرآن کے وقت یہ طریق تھا کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور سجدہ کا ذکر ہوتا ہے وہاں تلاوت روک کر سجدہ کرتے.حفاظ قرآن کو کثرت سے تلاوت قرآن کا موقع ملتا ہے، دورانِ تلاوت جہاں اللہ کی اطاعت اور سجدہ کا ذکر ہو وہاں تلاوت روک کر سجدہ کرنا چاہئے.جو حفاظ سجدہ تلاوت نہیں کرتے ان کو یہاں توجہ سے سجدہ بجالا نا چاہیے.اگر سجدہ والی آیت بار بار پڑھ کر یا د کر رہے ہیں تو پہلی بار جب پڑھیں تو سجدہ کر لیں.قرآن میں ایسے پندرہ مقام ہیں جہاں سجدہ کرنا چاہئے.بعض نے چودہ کہا ہے، وہ سورۃ ص کے سجدہ کو ضروری نہیں سمجھتے اور اس کو مستحب کہتے ہیں.ہمارے مروجہ قرآن میں پندرہ مقام کی ہی نشان دہی کی گئی ہے.فقہا میں سے احناف سجدہ تلاوت کو واجب قرار دیتے ہیں.ان کے نزدیک آیت سجدہ پر قاری کے لئے سجدہ کرنا لازمی ہے.دیگر آئمہ اسے سنت قرار دیتے ہیں.قرآن کریم میں اس سلسلہ میں واضح ارشاد موجود ہے.فرمایا : * إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِايَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّداً (السجده: 16) ترجمہ: ہماری آیات پر ایمان لانے والے وہ لوگ ہیں کہ جب انہیں یہ آیات یاد دلائی جاتی ہیں تو وہ سجدہ میں گر جاتے ہیں.إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمُ يَاتُ الرَّحْمَانِ خَرُّوا سُجَّداً وَبُكِياً (مريم: 59) ترجمہ: جب ان ( بندگان الہی ) پر خدائے رحمن کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ روتے ہوئے سجدہ میں گر جاتے ہیں.فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا (النجم: 63) ترجمہ: پس تم اللہ کے حضور سجدہ کرو اور اس کی عبادت کرو.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 111 سجدات تلاوت کی دعائیں : قرآن کریم میں جس جگہ سجدات آئے ہیں قاری اور سننے والے کو اسی وقت سجدہ کرنا چاہئے.قرآن کریم میں جہاں سجدہ آتا ہے اگر اس کے سیاق و سباق کو دیکھ کر اور سمجھ کر سجدہ کیا جائے کہ کس بنا پر سجدہ کیا گیا ہے تو اس میں ایک روحانی سرور نصیب ہوتا ہے اور انسان سچے خلوص اور محبت سے اپنے آقا کے سامنے سر بہ سجود ہو کر اپنی اطاعت و فرمانبرداری کا اظہار کرتا ہے.سجدہ تلاوت کی مختلف دعا ئیں کتب احادیث اور صلحا کی تحریروں سے ملتی ہیں.اگر وہ یاد نہ ہوں تو سجدہ نماز والی تسبیح ہی پڑھ لی جائے اور اپنی زبان میں بھی دعائیں کی جائیں.بعض دعائیں جو ملتی ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں: حمد سَجَدَ لَكَ رُوحِي وَ جَنَانِي ترجمہ: میری روح اور میرادل تیری فرمانبرداری میں لگ گیا.حمل سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهُ وَ شَقَّ سَمْعَهُ وَ بَصَرَهُ بِحَوْلِهِ وَ قُوَّتِهِ.(ترمذى باب الدعوات ما جاء يقول في سجود القرآن) ترجمہ : میرا چہرہ اس ہستی کے سامنے جھک گیا جس نے اس کو پیدا کیا اور اپنی قوت اور طاقت سے قوت شنوائی اور بینائی بھی عطا کی.اللَّهُمَّ سَجَدَ لَكَ سَوَادِي وَخَيَالِي وَ آمَنَ بِكَ فُؤَادِي.(مستدرك حاكم ، كتاب الدعاء والتكبير والتهليل والتسبيح، جزء اول ،صفحه 716) ترجمہ : اے میرے اللہ ! میرا سارا وجود اور ساری طاقتیں تیری اطاعت اور فرمانبرداری میں جھک گئیں اور میرا دل تجھ پر ایمان لے آیا.تفصیل آیات سجدہ تلاوت : ذیل میں وہ آیات درج کی جاتی ہیں جن کی تلاوت کے موقع پر سجدہ کیا جاتا ہے: 1.إِنَّ الَّذِينَ عِندَرَبِّكَ لَا يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيُسَبِّحُونَهُ وَلَهُ يَسْجُدُونَ (الاعراف: 207)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 112 ترجمہ: جولوگ تیرے رب کے قریب ہیں، وہ اپنے آپ کو اس کی عبادت سے بالا نہیں سمجھتے.وہ اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اُسی کے حضور سجدے کرتے ہیں.2.وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَنْ فِى السَّمواتِ وَالْاَرْضِ طَوْعاوَ كَرْهًا وَ ظِلَالُهُمْ بِالْغُدُوِّ (الرعد: 16) وَالْأَصَالِ.ترجمہ: آسمانوں اور زمین میں جو بھی ہیں وہ سب اور ان کے اظلال صبح و شام اللہ ہی کو سجدہ کرتے ہیں خواہ خوش ہو کر کریں خواہ مجبوری ہے.3.وَلِلَّهِ يَسْجُدُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مِنْ دَآبَّةٍ وَّالْمَلَئِكَةُ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ ) يَخَافُونَ رَبَّهُمْ مِّنْ فَوْقِهِمْ وَيَفْعَلُونَ مَايُؤْمَرُونَ.(النحل: 50-51) ترجمہ: جو بھی آسمانوں میں اور زمین میں جاندار ہیں اور فرشتے بھی اللہ کو سجدہ کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے.وہ اپنے بالا مقام رب سے ڈرتے رہتے ہیں اور وہی کچھ کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے.4.وَيَقُوْلُوْنَ سُبُحْنَ رَبِّنَا إِنْ كَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُو لا o وَيَخِرُّونَ لِلَاذْقَانَ يَبْكُونَ وَيَزِيدُهُمْ خُشُوعَاه (بنی اسرائیل: 108-110) ترجمہ: اور وہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے اور ہمارے رب کا کا وعدہ ضرور پورا ہو گا.وہ روتے ہوئے ٹھوڑیوں کے بل گر جاتے ہیں اور یہ انہیں خشیت اور عاجزی میں مزید بڑھا دیتا ہے.5.أَوْلَئِكَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمُ مِّنَ النَّبِيِّنَ مِنْ ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِنْ ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمُ ايتُ الرَّحْمَنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا (مريم: 59) ترجمہ: یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے انعام کیا اور یہ آدم کی اولاد میں سے نبی تھے اور
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 113 ان میں سے تھے جن کو ہم نے نوح کے ساتھ (کشتی میں ) سوار کیا تھا اور ابراہیم اور اسرائیل کی اولاد میں سے تھے اور ان لوگوں میں سے تھے جن کو ہم نے ہدایت دی اور اپنے لئے چن لیا.جب ان پر خدائے رحمن کی آیات پڑھی جاتیں تو وہ سجدے کرتے ہوئے اور روتے ہوئے (زمین پر) گر جاتے تھے.6 اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللَّهَ يَسْجُدُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ وَالنُّجُومُ وَالْجِبَالُ وَالشَّجَرُ وَالدَّوَابُّ وَكَثِيرٌ مِّنَ النَّاسِ ، وَكَثِيرٌ حَقَّ عَلَيْهِ الْعَذَابُ ، وَمَنْ يُهِنِ اللَّهُ فَمَا لَهُ مِنْ مُّكْرِمٍ إِنَّ اللَّهَ يَفْعَلُ مَايَشَاءه ترجمہ: کیا تو نے دیکھا نہیں کہ جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے، اللہ تعالیٰ ہی کو سجدے کرتا ہے اور سورج اور چاند بھی اور ستارے بھی اور پہاڑ بھی اور درخت بھی اور چلنے پھرنے والے جاندار بھی اور بہت سے انسان بھی.اور بہت سے ایسے ہیں جن پر عذاب لازم ہو چکا ہے اور جس کو اللہ ذلیل کر دے اسے کوئی عزت دینے والا نہیں.یقیناً اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے.7.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ارْكَعُوا وَاسْجُدُوا وَاعْبُدُوا رَبَّكُمْ وَافْعَلُوا الْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.(الحج: 78) ترجمہ: اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو، رکوع کرو اور سجدہ کرو اور اپنے رب کی عبادت کرو اور اچھے کام کرو تا کہ تم کامیاب ہو جاؤ.8.وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ اسْجُدُوا لِلرَّحْمَنِ قَالُوا وَمَا الرَّحْمَنُ أَنَسْجُدُ لِمَا تَأْمُرُنَا وَزَادَهُمُ نُفُوراً (الفرقان:61) ترجمہ: اور جب انہیں کہا جاتا ہے کہ رحمان خدا کے حضور سجدہ کرو، تو وہ کہتے ہیں کہ رحمان کون ہے؟ کیا ہم اسے سجدہ کریں جس کا تو ہمیں حکم دیتا ہے اور یہ بات انہیں نفرت میں اور بڑھا دیتی ہے.(الحج: 19)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 114 9.ألا يَسْجُدُوا لِلَّهِ الَّذِي يُخْرِجُ الْخَبْءَ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَيَعْلَمُ مَا تُخْفُونَ وَمَا تُعْلِنُونَ اللهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ o (النمل: 27) ترجمہ: (شیطان نے ان کو انگیخت کیا ) کہ وہ اللہ کوسجدہ نہ کریں جو آسمانوں اور زمین کے پوشیدہ چیزوں کو نکالتا ہے اور وہ خوب جانتا ہے جو تم چھپاتے ہو اور جو تم ظاہر کرتے ہو.اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ عرش عظیم کا مالک ہے.10.إِنَّمَا يُؤْمِنُ بِآيَاتِنَا الَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِهَا خَرُّوا سُجَّدًا وَسَبَّحُوا بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَهُمْ لَا يَسْتَكْبِرُونَ (السجدة : 16) ترجمہ: ہماری آیات پر وہی لوگ ایمان لاتے ہیں کہ جب ان کے ذریعہ انہیں نصیحت کی جاتی ہے تو وہ سجدہ کرتے ہوئے گر جاتے ہیں اور اپنے رب کی حمد اور تسبیح کرتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے.11.وَظَنَّ دَاوُدُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعاً وَأَنَابَ.(ص:25) ترجمہ: اور داؤد نے سمجھ لیا کہ ہم نے اس کی آزمائش کی تھی.پس اس نے اپنے رب سے استغفار کیا اور اطاعت کرتے ہوئے (زمین پر ) گر گیا اور (خدا کی طرف) رجوع کرلیا.12.فَإِنِ اسْتَكْبَرُوا فَالَّذِيْنَ عِندَ رَبِّكَ يُسَبِّحُونَ لَهُ بِاللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَهُمْ لَا يَسْتَمُونَ.(حم السجده: 39 ) ترجمہ: پھر اگر یہ لوگ تکبر کریں تو یا درکھو کہ وہ لوگ جو تیرے رب کے مقرب ہیں وہ رات کو بھی اور دن کو بھی اس کی تسبیح کرتے رہتے ہیں اور وہ تھکتے نہیں.13.أَفَمِنْ هَذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ ، وَتَضْحَكُونَ وَلَا تَبْكُونَ o وَأَنتُمْ سَامِدُونَ o فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوان (النجم: 60 تا 63) ترجمہ : کیا تم اس بات پر تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں تم تو غافل لوگ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 115 ہو.(اٹھو ) اور اللہ کے حضور سجدہ کرو اور اس کی عبادت میں لگ جاؤ..14 فَمَا لَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ o وَإِذَا قُرِءَ عَلَيْهِمُ الْقُرْآنُ لَا يَسْجُدُونَ 0 (الانشقاق : 21-22) | ترجمہ: پس ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ایمان نہیں لاتے اور جب ان کے سامنے قرآن پڑھا جائے تو سجدہ نہیں کرتے..15 كَلَّا لَا تُطِعْهُ وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبُ.(العلق: 20) ترجمہ: خبردار! اس (مخالف) کی اطاعت ہر گز نہ کرو.اور (اپنے رب کے حضور ) سجدہ کرو اور اس کا قرب حاصل کرو.استفہامیہ آیات کے جواب میں پڑھی جانے والی دعائیں: قرآن کریم میں بعض جگہ دعائیہ اور استفہامیہ آیات ایسی ہیں جو سوالیہ رنگ رکھتی ہیں.احادیث میں ان کے جواب میں بعض دعائیں پڑھنے کا ارشاد ہے.سورۃ فاتحہ کے آخر میں اور ایسے ہی دوسری دعائیہ آیات پڑھتے ہوئے یا سنتے ہوئے ”آمین“ (اے اللہ تو ہماری دعا قبول فرما) کہا جائے.سورۃ بقرہ کی آخری آیت کے جواب میں جو ربنا کے ساتھ دعائیں کی گئی ہیں، ان کے ساتھ ساتھ آمین کہہ کر قبولیت کی درخواست کی جائے.جب یہ الفاظ پڑھے یا سنے جائیں وَاعْفُ عَنَّـا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا.( یعنی ہم سے درگز فرما.ہمیں بخش دے.ہم پر رحم فرما) تو اس کے جواب میں کہے.آمین.اور ساتھ یہ دعا بھی پڑھی جائے.رَبِّ اغْفِرْ لِي اَللَّهُمَّ رَبَّنَا لَكَ الْحَمْدُ - اے اللہ ! یہ دعا قبول فرما.میرے رب میرے گزشتہ گناہ بخش دے اور آئندہ مجھے ہر قسم کے گناہوں سے بچا اور محفوظ رکھ.اے ہمارے رب تیرے لئے ہی سب تعریفیں ہیں.سورۃ آل عمران میں فرمایا:
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 116 شَهِدَ اللَّهُ أَنَّهُ لَا إِلهُ إِلَّا هُوَ وَ الْمَلَائِكَةُ وَأُولُوا الْعِلْمِ قَائِمًا بِالْقِسْطِ.(آل عمران: 19) ترجمہ: اللہ گواہی دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے بھی اور علم والے بھی انصاف پر قائم ہوتے ہوئے یہی گواہی دیتے ہیں.اس کے جواب میں اقرار کیا جائے وَ اَنَا اَشْهَدُ بِہ.کہ میں بھی گواہ ہوں اے میرے رب! تیرے سوا کوئی معبود نہیں.سورۃ بنی اسرائیل آیت 122 میں فرمایا: وَكَبِّرُهُ تَكْبِيرًا کہ تو اس (خدا) کی اچھی طرح بڑائی بیان کر.اسکے جواب میں اللہ اکبر کہا جائے کہ اللہ سب سے بڑا ہے.قرآن کریم کی سورۃ احزاب آیت نمبر 57 میں فرمایا : إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْلِيمًا.کہ یقیناً اللہ تعالیٰ اس نبی پر رحمت نازل فرماتا ہے اور فرشتے بھی اس کے لئے دعائیں کرتے ہیں.اے مومنو! تم بھی اس نبی پر درود بھیجتے رہو اور دعائیں کرتے رہو اور اس کے لئے سلامتی مانگتے رہو.اس آیت کے سننے یا پڑھنے پر اس کے جواب میں نماز والی درود پڑھی جائے یا کم از کم دلی محبت اور چاہت کے ساتھ اس طرح دعا کی جائے: السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَ رَحْمَةُ اللهِ وَبَرَكَاتُهُ.اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ.(آمین) کہ اسے نبی تجھ پر اللہتعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ہوں.اے اللہ مصلی اللہ علیہ وسلم ر رحمتیں اور برکتیں نازل فرما.(آمین) سورۃ یسین آیت نمبر 79 اور 80 میں فرمایا:
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات مَنْ يُحْيِ الْعِظَامَ وَهِيَ رَمِيمٌ.117 ترجمہ: جب ہڈیاں گل سڑ جائیں گی تو ان کو کون زندہ کرے گا؟ اس کے جواب میں کہا جائے: يُحْيِهَا الَّذِي أَنْشَاهَا أَوَّلَ مَرَّةً وَّ هُوَ بِكُلِّ خَلْقٍ عَلِيم.ترجمہ: ایسی ہڈیوں کو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اور وہ ہر فتم کی خلق کا خوب علم رکھنے والا ہے.آیت نمبر 82 میں اَوَلَيْسَ الَّذِى خَلَقَ السَّمواتِ وَ الْأَرْضَ بِقَدِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ.ترجمہ: کیا وہ (خدا) جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اس بات پر قادر نہیں کہ ان کی طرح کی اور مخلوق پیدا کر دے؟ جواب: بَلَى وَ هُوَ الْخَلْقُ الْعَلِيمُ.ایسا خیال ( کہ وہ پیدا نہیں کر سکتا ) درست نہیں بلکہ وہی پیدا کرنے والا اور بہت جاننے والا ہے.سورۃ واقعہ کے رکوع نمبر 2 اور 3 میں فرمایا: فَسَبِّحُ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ تو اپنے رب عظیم کے نام کی تسبیح کر.اس کے جواب میں سُبحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ کہا جائے کہ پاک ہے میرا رب بڑی عظمت والا.اس بارے میں روایت ہے: عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ قَالَ لَمَّا نَزَلَتْ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ) قَالَ رَسُولُ الله صلى الله عليهِ وسَلَّم اجْعَلُوهَا فِي رُكُوعِكُمْ (ابوداود، كتاب الصلاة، باب ما يقول الرجل في ركوعه وسجوده) ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر روایت کرتے ہیں کہ جب سورۃ الواقعہ کی آیت ” فسبح باسم ربک العظیم نازل ہوئی کہ اپنے عظیم رب کے نام کے ساتھ تسبیح کر، تو حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے رکوع میں رکھو.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 118 یعنی رکوع میں سبحان ربی العظیم پڑھا کرو.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ پاک ہے میرا رب میرارب جو عظمت والا ہے.پس اس آیت کی تلاوت پر جوا ب سبحان ربی العظیم پڑھنا تعامل سے ثابت ہے.ما سورۃ واقعہ پارہ 27 کی مندرجہ ذیل آیات کے جواب میں بَلْ أَنْتَ يَارَبِّ پڑھیں.ترجمہ: بلکہ تو ہی اے میرے رب یہ کام کرتا ہے.آیت نمبر 60 - وَ انْتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ ترجمہ کیا تم اس (نطفہ ) کو پیدا کرتے ہو یا ہم اسے پیدا کرتے ہیں؟ (بَلْ اَنتَ يَارَبِّ.بیشک تو ہی اے میرے رب اس کو پیدا کرنے والا ہے).آیت نمبر 65 - وَ انْتُمْ تَزْرَعُونَهُ أَمْ نَحْنُ الزَّرِعُونَ.ترجمہ: کیا تم اس (درخت) کے بیج کوا گاتے ہو یا ہم اس کو اگاتے ہیں.(بَلْ أَنتَ يَا رَبِّ.اے میرے رب بیشک تو ہی اس کو ا گا تا ایک حقیر پیج کو بڑا درخت بنا دیتا ہے ).آیت نمبر 71 - وَ انْتُمْ اَنْزَلْتُمُوهُ مِنَ الْمُزْنِ أَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُونَ.ترجمہ: کیا تم نے اس (پانی) کو بادل سے اتارا ہے یا ہم اسے اتارتے ہیں؟ (بَلْ أَنْتَ يَارَبِّ.اے میرے رب بیشک تو نے ہی اس کو اتارا ہے ).آیت نمبر 73 - وَ أَنْتُمْ أَنْشَأْتُمُ شَجَرَتَهَا أَمْ نَحْنُ الْمُنْشِئُونَ.ترجمہ: کیا تم نے اس (آگ) کے درخت کو پیدا کیا ہے یا ہم اس کو پیدا کرتے ہیں.(بَلْ أَنْتَ يَارَبِّ.اے میرے رب بیشک تو نے ہی اس کو پیدا کیا ہے ).جواباً پڑھی جانے والی دعائیں: عَنْ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِكُلِّ شَيْءٍ عَرُوسٌ، وَعَرُوسُ الْقُرْآنِ الرَّحْمَنُ.(شعب الايمان للبيهقي، التاسع عشر، باب فی تعظیم القرآن، فصل في تخصيص سور منها بالذكر، جزء4 صفحه 116) | ترجمہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 119 علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: کہ ہر شے کے لئے ایک زینت ہوتی ہے اور قرآن کریم کی زینت سورۃ الرحمن ہے.سورة الرحمن کو عروس القرآن یعنی قرآن کی دلہن کہا گیا ہے.اس سورۃ میں آیت فباي الاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَان کا موقع اور محل کے عین مطابق بار بار آنا حسن کلام اور حسن صوت میں ایک عجیب اور مستور کن اثر پیدا کر دیتا ہے اور پھر قدم قدم پر خدائی انعامات اور الہی احسانات کا شکر ادا کرنے کی طرف مؤثر رنگ میں توجہ دلاتا ہے.لہذا حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں بطور شکر یہ کلمات پڑھنے کی تلقین فرمائی ہے.چنانچہ روایت ہے: عَنْ جَابِرٍ قَالَ خَرَجَ رَسُولُ اللهِ صلَّى الله عليه وسلم عَلَى أَصْحَابِهِ فَقَرَأَ عَلَيْهِمْ سُورَةَ الرَّحْمَنِ مِنْ أَوَّلِهَا إِلَى آخِرِهَا فَسَكَتُوا فَقَالَ لَقَدْ قَرَأْتُهَا عَلَى الْجِنِّ لَيْلَةَ الْجِنِّ فَكَانُوا أَحْسَنَ مَرْدُودًا مِنْكُمْ كُنْتُ كُلَّمَا أَتَيْتُ عَلَى قَوْلِهِ فَبِأَيِّ الآءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ) قَالُوا لَا بِشَيْءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الْحَمْدُ.(ترمذی، کتاب تفسیر القرآن سورة الرحمن ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے پاس تشریف لائے ، اور ان کے سامنے سورۃ الرحمان کی شروع سے آخر تک تلاوت کی.صحابہ خاموش رہے.اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے یہ سورت جنوں کے سامنے پڑھی تھی ، انہوں نے تم سے بہتر رد عمل ظاہر کیا.جب بھی میں یہ آیت پڑھتا.فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِ کہ تم اپنے رب کی کون کون سی نعمتوں کا انکار کرو گے تو وہ کہتے : لا بِشَیءٍ مِنْ نِعَمِكَ رَبَّنَا نُكَذِّبُ فَلَكَ الْحَمدُ یعنی اے ہمارے رب ہم تیری نعمتوں میں سے کی چیز کو بھی نہیں جھٹلاتے اور تمام تعریفیں تیرے لیے ہیں.سورة الملک پارہ نمبر 29 کے آخر میں آتا ہے.فَمَنْ يَّأْتِيْكُمْ بِمَاءٍ مَّعِينٍ کہ اگر تمہارا
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 120 پانی زمین کی گہرائی میں غائب ہو جائے تو کون ہے جو تمہارے لئے چشموں کا پانی لائے گا؟ اس کے جواب میں کہا جائے.اللَّهُ يَأْتِينَا بِهِ وَ هُوَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ترجمہ: اللہ ہی اس کو ہمارے پاس لائے گا اور وہ سب جہانوں کا پالنے والا ہے.سورۃ شمس آیت نمبر 9 میں فرمایا: فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوهَا ترجمه: کہ اس (الله) نے نفس پر اس کی بدکاری ( کی راہوں کو بھی ) اور اس کے تقویٰ ( کی راستوں ) کو بھی اچھی طرح کھول دیا ہے.اس کے جواب میں پڑھا جائے.اَللَّهُمَّ آتِ نَفْسِى تَقُونِهَا وَ زَكِّهَا أَنْتَ خَيْرُ مَنْ زَكَّهَا أَنْتَ وَلِيُّهَا وَ مَوْلها.ترجمہ: اے اللہ میرے نفس کو تقوی عطا فرما اور اسے پاک کر دے تو ہی بہتر پاک کرنے والا ہے تو ہی اس کا ساتھی اور مالک ہے.لله عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللهِ صلَّى الله عليه وسلم مَنْ قَرَأَ مِنْكُمْ وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ) فَانْتَهَى إِلَى آخِرِهَا (أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَحْكَمِ الْحَاكِمِينَ) فَلْيَقُلْ بَلَى وَأَنَا عَلَى ذَالِكَ مِنَ الشَّاهِدِينَ وَمَنْ قَرَأَ (لَا أُقْسِمُ بِيَوْمِ الْقِيَامَةِ) فَانْتَهَى إِلَى أَلَيْسَ ذَالِكَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِيَ الْمَوْتَى فَلْيَقُلْ بَلَى وَمَنْ قَرَأَ (وَالْمُرْسَلَاتِ) فَبَلَغَ ) فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ) فَلْيَقُلُ آمَنَّا بِاللَّهِ (ابو داود، كتاب الصلاة، باب مقدار الركوع والسجود) ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم سے کوئی سورۃ التین آخر تک پڑھے تو آیت الـــس الـلـــه باحکم الحاکمین “ یعنی کیا اللہ سب حاکموں سے بڑا حا کم نہیں کے بعد کہے: بلى وأَنَا عَلَى ذَالِكَ مِنَ الشَّاهِدِين - بے شک اللہ ہی سب حاکموں سے بڑا حاکم ہے اور میں اس پر گواہ ہوں.سورۃ القیامۃ کی آخری آیت: الیس ذالک بقدرِ عـلـى ان يحيى الموتی.کیا خدا اس بات پر قادر نہیں مردوں کو پھر زندہ کر دے؟ پڑھی جائے تو بلی کہنا چاہئے کہ ہاں یقینا اللہ اس پر قادر ہے.سورۃ المرسلت کی
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 121 آخری آیت فبای حدیث بعده یومنون پس اس (قرآن) کے بعد وہ کس کلام پر ایمان لائیں گے تک پہنچے تو اس کے بعد کہے: امنا بالله یعنی ہم اللہ پر ایمان لائے.ا عَنْ ابْنِ عَبَّاسِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا قَرَأَ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى قَالَ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى.(ابو داود، كتاب الصلاة، باب الدعاء في الصلاة) ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (سورۃ الاعلیٰ کی تلاوت کرتے ہوئے ) جب سبح اسم ربک الاعلی“ کہ اپنے رب بزرگ و بالا رب کی پاکیزگی بیان کرو“ پڑھتے تو جواب میں کہتے : سبحان ربی الاعلی یعنی پاک ہے میرا رب جو بہت بلندشان والا ہے ا سورۃ الغاشیہ کے آخر میں آیت ثم ان علينا حسابھم.یعنی پھر ان سے حساب لینا بھی یقیناً ہمارا ہی کام ہے.پڑھی جائے تو یہ دعا کی جائے.اللهم حاسبني حساباً يسيرا.یعنی اے میرے اللہ ! مجھ سے بہت آسان حساب لینا.لله عَنْ عَائِشَةَ رضى اللهُ عنها قَالَتْ مَا صَلَّى النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلّم صَلَاةً بَعْدَ أَنْ نَزَلَتْ عَلَيْهِ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ) إِلَّا يَقُولُ فِيهَا سُبْحَانَكَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِكَ اللَّهُمَّ اغْفِرُ لِي (بخاری، کتاب التفسير سورة اذا جاء نصر الله روایت نمبر 4967) | ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سورۃ النصر نازل ہونے کے بعد حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی نماز پڑھتے تو اس سورۃ میں آیت فسبح بحمد ربک واستغفره ط انه كان توابان پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے بخشش مانگو.یقینا وہ بہت توبہ قبول کرنے والا ہے، کے جواب میں یہ دعا پڑھتے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 122 سبحانك ربنا وبحمدک اللهم اغفر لی یعنی اے ہمارے رب ! پاک ہے تو اپنی حمد کے ساتھ ، اے اللہ مجھے بخش دے.قرآن کریم پڑھتے ہوئے جس آیت میں جنت کا ذکر ہو تو دعا کریں.اللَّهُمَّ اَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ کہ اے اللہ ہم کو اپنی رحمت میں داخل فرما.اس میں نیکی کرنے اور اس پر قائم رہنے کی دعا ہے ، جو جنت میں لے جانے کا موجب ہے.جہاں عذاب کا ذکر ہو تو وہاں دعا کریں.اَللَّهُمَّ لَا تُعَذِّبُنَا.اے اللہ ہمیں عذاب نہ دینا.گویا بدیوں اور بے عملیوں سے جو عذاب وسزا کا موجب ہوتی ہیں بچنے کی دعا ہے.بعض احباب جہاں اور جب ربنا کا لفظ سنتے ہیں تو وہ سمجھ لیتے ہیں کہ یہاں کوئی دعا ہوگی وہ آمین کہہ دیتے ہیں حالانکہ بعض اوقات وہ موقع آمین کہنے کا نہیں ہوتا.قرآن کریم میں مختلف مقامات پر استغفار کرنے کا حکم ہے.مثلاً سورۃ البقرہ آیت 200 سورة النساء آیت 107.سورۃ ھود آیت 53 وغیرہ.اس کے جواب میں کہا جائے.اَسْتَغْفِرُ اللهَ کہ میں اللہ کی بخشش چاہتا ہوں.قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک نام چار دفعہ آیا ہے.ان مواقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر دلی محبت سے درود یعنی «صلی اللہ علیہ وسلم“ پڑھا جائے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 123 رمضان المبارک اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيِّنَاتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ (البقرة : 186) ترجمه: رمضان کا مہینہ وہ (مبارک مہینہ) ہے جس میں قرآن کریم انسانوں کے لیے عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسے کھلے نشانات کے طور پر جن میں ہدایت کی تفصیل اور حق و باطل میں فرق کر دینے والے امور ہیں.ماہِ رمضان کا قرآن کریم سے گہرا تعلق ہے اور حفاظ کا رمضان اور قرآن سے ایک خاص تعلق ہے.یہ با برکت مہینہ حفاظ کے لیے خصوصاً بہت ہی اہمیت کا حامل ہے.حفاظ کے لیے یہ ایک قسم کا ریفریشر کورس ہے.اس سے فائدہ اٹھا کر حفاظ اپنا حفظ صحیح اور پختہ رکھ سکتے ہیں.اس میں حفاظ کرام کے حفظ کو قائم اور پختہ رکھنے کے لیے حیرت انگیز انتظام فرما دیا گیا ہے.حدیث شریف سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر رمضان میں قرآن کریم کا ایک دور حضرت جبرائیل کے ساتھ مکمل فرماتے.(بخاری ، کتاب فضائل القرآن، باب كان جبريل يعرض القرآن على النبي ) سال میں ایک مرتبہ رمضان المبارک میں قرآن کریم کا کم از کم ایک دور کرنے کی عادت بہت مبارک ہے جو حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع میں آپ کے زمانہ سے چلی آرہی ہے، اس کے علاوہ نفل نماز میں بھی قرآن کریم کا ایک دور ہے.یہ مبارک عادت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں نماز تراویح کی شکل میں با قاعدہ جاری ہے.صدیوں سے اس پر عمل ہو رہا ہے کہ ماہ رمضان میں دنیا کی بڑی مسجد میں حفاظ کرام امامت کرتے ہیں اور قرآن کریم سناتے ہیں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں:
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 124 ”ہر رمضان میں ساری دنیا کی ہر بڑی مسجد میں سارا قرآن کریم حافظ لوگ حفظ سے بلند آواز کے ساتھ ختم کرتے ہیں.ایک حافظ امامت کراتا ہے اور دوسرا حافظ اس کے پیچھے کھڑا ہوتا ہے تا کہ اگر کسی جگہ بھول جائے تو اس کو یاد کرائے.اس طرح (اس ایک ماہ میں ہی ساری دنیا میں لاکھوں جگہ پر قرآن کریم صرف حافظہ سے دہرایا جاتا ہے.(دیباچه تفسير القرآن ، صفحه : 277) یہ بات بھی قابل غور ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں قرآن کریم کا ایک دور تو حضرت جبرائیل کے ساتھ کرتے.اس کے علاوہ بھی کئی مرتبہ قرآن کریم پڑھتے اور اس کے دور مکمل فرماتے تھے.پس رمضان کے بابرکت ایام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر حافظ قرآن کو قرآن کریم کا رمضان میں کم از کم ایک دور ضرور کرنا چاہیے.اور خاص توجہ کے ساتھ قرآن کریم کو نماز تراویح میں سنانا چاہیے اور ایک دور تراویح میں ضرور عمل کرنا چاہیے.اس کے لیے اچھی اور بھر پور تیاری ہونی چاہئے بیچ معنوں میں اس سے ہی اس کا حفظ صیح اور پختہ رہے گا.حضرت خلیفۃ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: "رمضان ایک خاص اہمیت رکھنے والا مہینہ ہے.جس شخص کے دل میں اسلام اور ایمان کی قدر ہوتی ہے، وہ اس مہینہ کے آتے ہی اپنے دل میں ایک خاص حرکت اور اپنے جسم میں ایک خاص قسم کی کپکپاہٹ محسوس کیے بغیر نہیں رہ سکتا.کتنی ہی صدیاں ہمارے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان گزر جائیں...لیکن جس وقت رمضان کا مہینہ آتا ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان صدیوں اور سالوں کو اس مہینہ نے لپیٹ لپاٹ کر چھوٹا سا کر کے رکھ دیا ہے.اور ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچ گئے ہیں.بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی قریب نہیں چونکہ قرآن خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اس لیے یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس فاصلے کو رمضان نے سمیٹ سماٹ کر ہمیں خدا تعالیٰ کے قریب پہنچادیا ہے.“ ،، (تفسير كبير جلد دوم صفحه (343
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 125 حفظ قرآن کے لیے ضروری ہدایات اور نصائح حضرت عمر فاروق کا ایک اہم مکتوب بنام حفاظ وقرا: عَنْ كَنَانَةَ الْعَدَوِيِّ قَالَ كَتَبَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ إِلَى أُمَرَاءِ الْأَجْنَادِ أَنِ ارْفَعُوْا إِلَيَّ كُلَّ مَنْ حَمَلَ الْقُرْآنَ، حَتَّى أُلْحِقَهُمْ فِي الشَّرْفِ مِنَ الْعَطَاءِ وَأُرْسِلَهُمْ فِي الْآفَاقِ، يُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ، فَكَتَبَ إِلَيْهِ الْاشْعَرِيُّ إِنَّهُ بَلَغَ مِنْ قِبَلِي مِمَّنْ حَمَلَ الْقُرْآنَ ثَلَثُمِائَة وَبِضْعِ رِجَالٍ، فَكَتَبَ عُمَرُ إِلَيْهِمْ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ عُمَرَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَيْسٍ وَمَنْ مَّعَهُ مِنْ حَمَلَةِ الْقُرْآنِ، سَلَامٌ عَلَيْكُمْ، أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ كَائِنْ لَكُمْ أَجْرًا وَكَائِنٌ لَكُمْ شَرَفًا وَذُخْرًا، فَاتَّبِعُوْهُ وَلَا يَتَّبِعَنَكُمْ، فَإِنَّهُ مَنِ اتَّبَعَهُ الْقُرْآنُ زَجَّ فِي قُفَاهُ حَتَّى يُقْذِفَهُ فِي النَّارِ، وَمَنْ تَبِعَ الْقُرْآنَ وَرَدَ بِهِ الْقُرْآنُ جَنَّاتَ الْفِرْدَوْسِ، فَلَيَكُوْنَنَّ لَكُمْ شَافِعًا إِن اسْتَطَعْتُمْ، وَلَا يَكُوْنَنَّ بِكُمْ مَاحِلًا فَإِنَّهُ مَنْ شَفَعَ لَهُ الْقُرْآنُ دَخَلَ الْجَنَّةَ، وَمَنْ مَحُلَ بِهِ الْقُرْآنُ دَخَلَ النَّارَ وَاعْلَمُوْا أَنَّ هَذَا الْقُرْآنَ يَنَابِيْعُ الْهُدَى، وَزُهْرَةَ الْعِلْمِ، وَهُوَ أَحْدَثُ الْكِتبِ عَهْدًا بِالرَّحْمَنِ بِهِ يَفْتَحَ اللَّهُ أَعْيُنًا عُمْيًا، وَآذَانًا صُمّـا وَقُلُوْبًا غُلْفًا وَاعْلَمُوْا أَنَّ الْعَبْدَ إِذَا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَتَسَوَّكَ وَتَوَضَّأَ ثُمَّ كَبَّرَ وَقَرَأَ وَضَعَ الْمَلَكُ فَاهُ عَلَى فِيْهِ وَيَقُوْلُ : أُتْلُ أُتْلُ فَقْد طِبْتَ وَطَابَ لَكَ، وَإِنْ تَوَضَّأَ وَلَمْ يَسْتَكْ حَفِظَ عَلَيْهِ وَلَمْ يَعُدْ ذَلِكَ، أَلَا وَإِنَّ قِرَاءَةَ الْقُرْآنِ مَعَ الصَّلَاةِ كِنْزٌ مَكْنُونٌ وَخَيْرٌ مَوْضُوْعٌ، فَاسْتَكْثِرُوْا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ فَإِنَّ الصَّلَاةَ نُوْرٌ وَالزَّكَاةَ بُرْهَانٌ وَالصَّبْرَ ضِيَاءٌ ، وَالصَّومَ جُنَّةٌ، وَالْقُرْآنَ حُجَّةٌ لَكُمْ أَوْ عَلَيْكُمْ، فَأَكْرِمُوْا الْقُرْآنَ وَلَا تُهِيْنُوْهُ، فَإِنَّ اللَّهَ مُكْرِمٌ مَنْ أَكْرَمَهُ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 126 وَمُهِينٌ مَنْ أَهَانَهُ، وَاعْلَمُوْا أَنَّهُ مَنْ تَلاهُ وَحَفِظَهُ وَعَمِلَ بِهِ وَاتَّبَعَ مَا فِيْهِ كَانَتْ لَهُ عِنْدَ اللهِ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ إِنْ شَاءَ عَجَّلَهَا لَهُ فِي دُنْيَاهُ، وَإِلَّا كَانَتْ لَهُ ذُخْرًا فِي الْآخِرَةِ، وَاعْلَمُوْا أَنَّ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ وَأَبْقَى لِلَّذِيْنَ آمَنُوْا وَعَلَى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ (كنز العمال، كتاب الأذكار من قسم الأفعال، باب فی القرآن، فصل فی فضائل القرآن، جزء 2 صفحه (282) ترجمہ:.ابو کنانہ عدوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لشکر (فوجوں) کے سپہ سالاروں کو خط لکھا کہ جتنے لوگوں نے قرآن کریم حفظ کر لیا ہے ان کے نام لکھ کر مجھے بھجوا دو تا کہ ان کے لیے خصوصی وظائف جاری کیے جائیں اور لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دینے کے لیے ان کو مختلف علاقوں میں بھجوایا جاسکے.حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے جواب میں لکھا کہ میرے پاس تین سو سے زائد حافظ قرآن موجود ہیں.اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں درج ذیل مکتوب روانہ فرمایا: بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ کے بندے عمر (رضی اللہ عنہ) کی طرف سے عبداللہ بن قیس اور ان کے حافظ قرآن ساتھیوں کے لیے: السلام علیکم ! اما بعد ! اللہ کرے کہ قرآن کریم کو حفظ کرنا آپ سب کے لیے باعث برکت ،ثواب، عزت و شرف اور بزرگی کا موجب ہو.آپ سب کا فرض ہے کہ قرآن کریم کی پیروی کریں نہ کہ قرآن کریم کو اپنا متبع بنانے کی کوشش کریں کیونکہ جس شخص نے قرآن کریم کو اپنا متبع بنانے کی کوشش کی تو قرآن کریم اس کو اوندھا کر کے منہ کے بل گرا دے گا حتی کہ اس شخص کو جہنم میں پھینک دے گا.اس کے برعکس جس شخص نے قرآن کی پیروی کی تو قرآن کریم اس کو جنت الفردوس کے باغات میں پہنچا دے گا.ہو سکے تو
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 127 ایسے بن جاؤ کہ قرآن کریم تمہاری شفاعت کرے نہ کہ تمہارے خلاف شکایت.پس یا درکھو کہ قرآن کریم جس کی شفاعت کرے گا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس کے خلاف شکایت کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا.تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن کریم ہدایت کا سر چشمہ اور علم کی زینت اور زیور کی حیثیت رکھتا ہے.یہ زمانہ خدائے رحمان کی طرف سے قرآن کریم کے لیے مختص ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم کے ذریعہ اندھوں کو بینائی عطا فرماتا ، سماعت سے محروم کانوں کو سننے کے قابل بناتا اور دلوں سے پردے اٹھا دیتا ہے.اچھی طرح جان لو کہ جب کوئی بندہ رات کو اٹھتا ہے، مسواک اور وضو کر کے اللہ کے حضور کھڑا ہو کر اللہ اکبر کہتا اور قرآن کریم کی تلاوت کرتا ہے تو فرشتہ اس کے منہ پر اپنا منہ رکھ کر کہتا ہے کہ تلاوت کرو، تلاوت کرو تو اچھا ہے اور اس میں تیرے لیے خیر و برکت ہے اور اگر مسواک نہیں کرتا اور صرف وضو کرتا ہے تو فرشتہ اس کے منہ پر منہ نہیں رکھتا لیکن اس کی حفاظت کرتا ہے.اچھی طرح جان لو کہ نماز میں قرآن کریم کی تلاوت کرنا ایک مخفی خزانہ ہے اور پس انداز کی ہوئی ایک خیر اور بھلائی ہے سو جہاں تک ممکن ہو بھلائی اور خیر اپنے لیے جمع کر لو.یاد رکھو کہ نماز ایک نور ہے اور زکوۃ دلیل ہے اور صبر ضیا ہے اور روزہ ڈھال ہے اور قرآن کریم تمہارے حق میں یا تمہارے خلاف حجت ہے سوتم قرآن کی تعظیم کرو اور اس کی اہانت نہ کرو اس لیے کہ جو اس کو عزت دے گا اللہ تعالیٰ اس کو عزت دے گا اور جو اس کی اہانت کرے گا اللہ اس کی اہانت کرے گا.خوب یا درکھو جس نے قرآن کریم کی تلاوت کی ، اسے حفظ کیا اور اس پر عمل کیا اور جو کچھ اس میں ہے اس کی اتباع کی تو اللہ تعالیٰ اس کی دعا قبول فرمائے گا.اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو اس کو دنیا میں ہی نواز دے ورنہ آخرت میں تو اس کے لیے خیر کا ذخیرہ ہے ہی.یادرکھو! جو کچھ اللہ کے پاس ہے بہتر ہے اور ایمان لانے اور تو کل کرنے والوں کے لیے دائمی برکات کا حامل ہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 128 اساتذہ کا ادب و احترام کامیابی کی پہلی سیڑھی: اردو میں کہاوت ہے کہ "با ادب با نصیب، بے ادب بے نصیب یعنی جو شخص دوسروں کی عزت کرتا اور احترام قائم کرتا ہے اس کے نصیب میں بھلائی اور خیر بھر دی جاتی ہے اور دوسروں کا ادب اور احترام نہیں کرتا وہ لازماً ذلت ورسوائی کا منہ دیکھتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اساتذہ کی عزت قائم فرمائی ہے کیونکہ اساتذہ گھر سے باہر بچے کی تربیت کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور اس کو علم و عمل کے مختلف طریق اور ڈھنگ سکھاتے ہیں.چنانچہ اس بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد درج ذیل ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَتَعَلَّمُوْا لِلْعِلْمِ السَّكِيْنَةَ وَالْوَقَارَ وَتَوَاضِعُوْا لِمَنْ تَعَلَّمُوْنَ مِنْهُ.(المعجم الأوسط للطبراني، محمد بن حنيفة الواسطي، جزء6 صفحه 200) | ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم پر لازم ہے کہ علم سیکھو اور بردباری اور وقار بھی سیکھو اور جس سے تم علم سیکھتے ہو اس کے لیے تواضع اور عجز اختیار کرو.طلبا کو اساتذہ کی طرف سے نصائح: حضرت ابو عبد الرحمن عبد اللہ حبیب سلمی کے شاگردوں میں سے جب کوئی قرآن کریم کا دور مکمل کر لیتا تو وہ اس کو اپنے سامنے بٹھاتے اور اس کے سر پر دست شفقت رکھ کر یوں نصیحت فرماتے: ”میرے پیارے! اللہ سے ڈرتے رہنا، تقویٰ اختیار کرنا، جو تم نے سیکھا اگر اس پر عمل کرتے رہے تو میرے نظریہ اور اعتقاد کے مطابق تمہارے سے بہتر کوئی شخص نہیں ہے.“ علامہ سیوطی نے التحبير في علوم التفسیر میں طلبا کو یوں نصیحت کی : ہر حافظ قرآن کو چاہیے کہ اپنی نیت خالص رکھے، اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو، تعلیم و تعلم سے دنیا ( مال اور ریاست وغیرہ) مقصود نہ ہو، آداب قرآن کے مطابق اپنے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 129 اخلاق استوار کرے، اس کی حدود اوامر اور نواہی کی پابندی کرے.نظافت اختیار کرے، خوشبو لگائے ، طہارت سے رہے، بلا وضو قرآن کریم کو ہاتھ نہ لگائے.دل و دماغ ، نظر اور کانوں کو قرآن کریم کی طرف متوجہ رکھے.روزانہ تلاوت کا التزام کرے اور کثرت سے پڑھے.باوضو ہوکر تلاوت کرے اگر چہ بے وضو بھی تلاوت جائز اور باعث ثواب ہے.خشوع و خضوع ، حضور قلب اور سکینت کے ساتھ بیٹھے، لیٹ کر تلاوت کرنا جائز ہے مگر ادب کے خلاف ہے.تلاوت شروع کرتے وقت سب سے پہلے تعوذ (اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ) پڑھے اور قرآن میں خوب غور وفکر کرے.ترتیل و تجوید اور خوف وخشیت کے ساتھ پڑھے اور روئے اگر رونا نہیں آتا تو رونے والی شکل بنائے.جب کسی رحمت والی آیت سے گزرے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کو طلب کرے.جب عذاب والی آیت پڑھے تو خدا سے پناہ مانگے اور خدا کی تقدیس بیان کرے.قرآن کو اس کی اپنی ترتیب کے موافق پڑھے اگر چہ اس کے علاوہ بھی جائز ہے.قرآن کو دیکھ کر پڑھنا افضل ہے کیونکہ اس پر نظر کرنا بھی عبادت ہے.بلند آواز سے پڑھنا افضل ہے، اگر ریا کا خوف ہو تو آہستہ پڑھے.خوبصورت آواز کے ساتھ پڑھنا مسنون ہے.جب چھینک، جمائی یا ابکائی آئے یا ریح نکلے تو تلاوت کو منقطع کر دے.سجدہ والی آیات پر سجدہ کرے.جب کوئی آیت بھول جائے تو یوں نہ کہے کہ میں آیت بھول گیا بلکہ یوں کہے کہ بھلا دیا گیا.“ التحبير في علوم التفسير للسيوطى
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 130 حفظ قرآن کے طریق اور حفاظ کے لیے ضروری نصائح قرآن کریم یا د کر نے کا طریق: قرآن کریم کی جن آیات کو یاد کرنا ہو ان کو پہلے دو تین بار اوپر سے دیکھ کر زیر زبر کے مطابق ٹھیک طرح سے پڑھیں پھر ایک آیت یاد کریں.جب ایک آیت جب یاد ہو جائے تو اگلی آیت ، پھر اگلی آیت.ہر نئی آیت یاد کر کے دُہراتے وقت اُس سے پہلی آیت بھی ساتھ دہرائیں.مثلاً تیسری آیت یاد کریں تو پہلی ، دوسری اور تیسری آیت اکٹھی دہرائیں پھر چوتھی آیت یاد کریں، پھر پہلی سے چوتھی آیت تک دہرائیں اور اس کے بعد اگلی آیت یاد کریں.حتی کہ ایک نشست میں جتنا حصہ یاد کرنا ہو اسی طریق پر یاد کر کے دہراتے چلے جائیں تا کہ اگلی آیت یاد ہو جائے تو پچھلی بھول نہ جائے.اس طریق کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آیات کی ترتیب بھی ذہن میں پختہ ہوتی جاتی ہے اور کہیں مغالطہ بھی نہیں لگتا.حفظ پختہ رکھنے کے لیے یاد کی گئی آیات کو روزانہ دہراتے رہیں ورنہ بھول جائے گا.روزانہ تھوڑا تھوڑا حفظ کرنا چاہئے اس کے دو فوائد ہوتے ہیں ایک تو دُہرائی میں آسانی ہو جاتی ہے دوسرے دہرائی کر کے پختہ کرنے میں دقت نہیں ہوتی جبکہ ایک نشست میں زیادہ مقدار میں یاد کرنے سے بھول جانے کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے.جب کوئی شخص حفظ کرنا چاہے تو پوری دل جمعی اور توجہ کے ساتھ کرے اور دھیان مکمل طور پر قرآن کریم کی طرف ہو.قرآن مجید کو زبانی یاد کرنا مشکل کام نہیں البتہ اس کو یاد رکھنا مشکل ہوتا ہے.یاد رکھنے کے لیے مستقل مزاجی لگن، توجہ، محنت شاقہ ، شوق اور جذبہ کی ضرورت ہے.قرآن کریم کو یاد رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ بار بار اور کثرت سے اس کی تلاوت کی جائے اور زبانی دہرائی کی جائے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 131 قرآن کریم یا در رکھنے کا بہترین طریق نمازوں اور نوافل میں تلاوت کی کثرت : حافظ قرآن کے لیے قرآن کریم کو یا درکھنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ نمازوں میں دھراتا رہے بلکہ با قاعدگی سے روزانہ ترتیب کے ساتھ کسی پارہ سے نمازوں میں تلاوت کرے.اس کو دستورالعمل بنالیا جائے تو اس سے بہت فائدہ ہوگا اور اس پر اگر مداومت کی جائے گی تو انشاء اللہ قرآن کریم یادر ہے گا اور نماز میں تلاوت کا الگ ثواب بھی حاصل ہوگا.نوافل میں کثرت سے تلاوت ہمیشہ ہمارے اکابر کا معمول رہا ہے اس لیے اس پر عمل کرنا زیادہ مفید ہے.حفظ قرآن کریم کو قائم رکھنے کا طریق یہ ہے کہ ایک تو روزانہ پانچ وقت نمازوں میں قرآن کریم کا کچھ حصہ تلاوت کرنے کو لازم پکڑا جائے اور دوسرے نماز تہجد میں قرآن کریم کی زیادہ مقدار میں تلاوت کی جائے.تلاوت کرتے ہوئے ایک ہی حصہ بار بار تلاوت نہ کیا جائے بلکہ قرآن کریم کے مختلف حصے تلاوت کیے جائیں تاکہ سارا قرآن کریم دہرائی کے عمل سے گزر سکے یعنی مختلف سورتیں یا آیات بدل بدل کر پڑھی جائیں یا ترتیب کے ساتھ ہر رکعت میں پڑھا جائے تو قرآن کریم کو یا درکھنے کا یہ طریق بہت مفید اور با برکت ثابت ہوتا ہے.حفظ کے لیے فجر کا وقت سب سے زیادہ مفید اور مقبول ہے: قرآن کریم حفظ کرنے کے لیے صبح سحری کا وقت سب سے زیادہ مفید ہے.یہ تنہائی اور مکمل خاموشی کا وقت ہوتا ہے.حافظ قرآن کو چاہیے کہ روزانہ فجر کے وقت قرآن کریم کو یاد کرے اور منزل دہرائے.سحری کے وقت ذہن فارغ اور طبیعت میں یکسوئی ہوتی ہے.پس جو حفظ کرنا چاہے تو ایسے وقت حفظ کرے جب اس کا دل اور ذہن کسی اور چیز کی طرف مشغول نہ ہو.اللہ تعالیٰ نے صبح کے وقت خاص طور پر تلاوت کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: وَ قُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا (بنی اسرائیل، آیت 79) ترجمہ: اور فجر یعنی صبح کے وقت قرآن کریم کو پڑھنا لازم سمجھ اور صبح کے وقت قرآن کریم پڑھنا ایک مقبول عمل ہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 132 صبح کے وقت پڑھنا اس لئے بھی بابرکت ہوتا ہے کہ ایک سچا قاری سارا دن قرآن کی ہدایات کے مطابق گزارتا ہے اور اس کو گزارنا بھی چاہئے.گویا دست با کار دل با باز“ کا سامان ہوتا ہے.اگر اس نیت سے تلاوت کی جائے تو معاشرہ جنت نظیر بن جائے.ہر شخص حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کر کے اس دنیا کو خوبصورت بنا دے.حافظ روزانہ رات سونے سے پہلے قرآن کا کچھ حصہ التزاماً پڑھے : حفظ قرآن کو قائم رکھنے کے لیے ہر حافظ کو چاہیے کہ روزانہ رات کو سونے سے پہلے قرآن کریم کا کچھ حصہ التزاماً پڑھے.یہ وقت بھی یاد کرنے کا بہترین وقت ہے.جب سبق کچھ یاد ہو جائے تو سو جائیں.باتوں یا دوسرے کاموں میں مشغول نہ ہوں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: مَنْ قَرَأَ عَشْرَ آيَاتٍ مِنَ الْبَقَرَةِ عِنْدَ مَنَامِهِ لَمْ يَنْسَ الْقُرْآنَ أَرْبَعُ آيَاتٍ مِنْ أَوَّلِهَا وَآيَةُ الْكُرْسِيِّ وَآيَتَانِ بَعْدَهَا وَثَلاثٌ مِنْ آخِرِهَا قَالَ إِسْحَاقُ لَمْ يَنْسَ مَا قَدْ حَفِظَ.(سنن الدارمی، کتاب فضائل القرآن، باب فضل أول سورة البقرة وآية الكرسى) ترجمہ: جو شخص رات سونے سے پہلے سورۃ البقرۃ کی دس آیات تلاوت کرے گا اُسے قرآن کریم کبھی نہ بھولے گا.چار آیات شروع والی المفلحون تک، ایک آیة الکرسی، دو اس کے بعد والی ، اور ( سورۃ البقرۃ کی ) تین آخری آیات ( آخری رکوع ).عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ أَنَّهُ حَدَّثَهُ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ يَقْرَأُ الْمُسَبِّحَاتِ قَبْلَ أَنْ يَرْقُدَ وَيَقُولُ إِنَّ فِيهِنَّ آيَةً خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ آيَةٍ.ترجمہ: حضرت عرباض بن ساریہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سونے سے قبل سور المسجات“ یعنی سورۃ بنی اسرائیل، سورۃ حدید ، سورۃ حشر، سورۃ صف، سورۃ جمعہ سورۃ تغابن اور سورۃ اعلیٰ کی تلاوت فرمایا کرتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ ان میں ایک ایسی آیت ہے جو ہزار آیات سے بڑھ کر ہے.(ابو داود، كتاب الأدب، باب ما يقال عند النوم)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 133 عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم كَانَ لَا يَنَامُ حَتَّى يَقُرَأَ (الم تَنْزِيلُ) وَ تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ) (ترمذی، کتاب فضائل القرآن باب فضل سورة الملك) ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم ہے سورۃ سجدہ اور سورۃ ملک کی تلاوت کرنے سے پہلے نہ سوتے تھے.حفظ کرانے کا طریق ( تعلیمی ملحوظات ): حفظ شروع کرنے سے قبل ضروری ہے کہ مبتدی کو ناظرہ عربی تلفظ کے ساتھ آتا ہو اور اس نے ناظرہ قرآن کے کم از کم تین دور مکمل کیے ہوں اور روانی کے ساتھ صحیح تلفظ سے ناظرہ پڑھ سکتا ہو.اگر ناظرہ ٹھیک نہ ہو تو حفظ کے دوران اس خامی کو دور کرنا طالب علم کو دُہری مشقت میں مبتلا کر دے گا.اگر ناظرہ میں یہ کمی دور ہوگی تو بہت جلد حفظ ہو جائے گا، اس طرح نہ صرف حافظ ہو جائے گا بلکہ نصف قاری بھی ہو جائے گا.اگر حفظ کرنے سے پہلے عربی تلفظ اور قرآت کی باقاعدہ مشقیں کروا کر ناظرہ پڑھا دیا جائے تو دورانِ حفظ قرآت میں بھی پختگی آئے گی ، اور ساتھ ساتھ حفظ میں بھی آسانی پیدا ہوتی جائے گی.ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اس طرح حفظ کرنے کی مدت میں بھی ایک تہائی وقت کی کمی ہو جائے گی.کوشش کی جائے کہ جس صحیفہ سے دیکھ کر قرآن کریم حفظ کیا جائے اسی نقشہ اور چھپائی والے قرآن کریم سے دہرائی کی جائے کیونکہ جب صفحات پر بار بار نظر پڑتی ہے تو صفحات بھی ذہن نشین اور نقش ہو جاتے ہیں.ایک ہی قرآن کریم سے یاد کرنا اور اسی پر دہرائی کرنا مفید رہتا ہے.بلکہ حفظ کر لینے کے بعد ہمیشہ اس قرآن سے پڑھنا فائدہ مند ہوتا ہے.یہ بات بھی تجربہ شدہ ہے کہ جماعت احمدیہ کی طرف سے شائع کردہ قاعدہ میسرنا القرآن کے رسم الخط والے 17 سطور ( لائنوں ) والے قرآن کریم کے صحیفہ سے یاد کرنا آسان ہے.یہ استاد اور شاگرد دونوں کے لئے سہولت اور راحت کا باعث ہے.بعض والدین اپنے بچوں کو حفظ کرانا چاہتے ہیں لیکن بچے کو اس کا شوق نہیں ہوتا، اس طرح
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 134 بچہ حفظ تو کر لیتا ہے مگر عدم دلچسی کی وجہ سے یاد نہیں رکھ پاتا اور دہرائی نہ ہونے کی وجہ سے بھولنا شروع ہو جاتا ہے اس سے بجائے فائدہ اور ثواب کے گناہ ہوتا ہے.والدین کو چاہیے کہ اگر بچہ کوحافظ قرآن بنانا ہے تو بچپن ہی سے بچے کے دل میں قرآن کریم کی محبت ڈالیں اور حفظ کے بعد اس بات کی فکر کریں کہ وہ حفظ کر کے اس کو یاد بھی رکھے اور بعد میں مسلسل دہرائی کرتا رہے.احادیث میں حافظ کو حامل قرآن یعنی قرآن کریم کا بوجھ اٹھانے والا کہا گیا ہے.پس حافظ قرآن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے ظاہری الفاظ کی حفاظت کرے، اس کو یادر کھے اور اس کی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر اس کی تعلیمات کی بھی حفاظت کرے.طالب علم کی طرف سے موانع : بعض اوقات طالب علم کی طرف سے ہی موانع پیش آتے ہیں جن میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں: طالب علم کا حافظہ کمزور ہے اور ایک دومرتبہ کہنے سے الفاظ تو زبان پر چڑھ جاتے ہیں اور وقتی طور پر یاد بھی ہو جاتا ہے لیکن بعد میں یاد نہیں رہتا.طالب علم کا ذہن کمزور ہے اور ایک آیت ہیں پچیس مرتبہ دہرانے سے یاد ہوتی ہے لیکن جلد ہی بھول بھی جاتی ہے.کام میں سنجیدگی نہیں ہوتی.کام کی بجائے شرارتوں کی طرف زیادہ توجہ رہتی ہے.ذہانت کی وجہ سے یا دتو جلد ہو جاتا ہے اور یا در بتا بھی ہے مگر شرارتوں کی وجہ سے ذہن اس طرف متوجہ نہیں رہتا.گھر میں دوسرے بہن بھائی کھیل کود، تفریح، ٹی وی یا کمپیوٹر وغیرہ میں مصروف ہوتے ہیں تو اس طالب علم کی بھی توجہ خراب ہوتی ہے جو حفظ قرآن کریم کی راہ کی ایک بڑی رکاوٹ ہے.طالب علم کسی دماغی یا جسمانی کمزوری اور بیماری کا شکار ہوتب بھی اس کی کارکردگی بہتر نہیں ہوسکتی.مسلسل بے تو جہی کا شکار رہنے کی وجہ سے دل بھی اچاٹ ہو جاتا ہے.پوری توجہ اور سنجیدگی اور ذاتی شوق نہیں ہے.ان امور کے بارے میں طالب علم کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات حفظ شروع کرانے کا طریق کار : 135 استاد کو چاہئے کہ طالب علم کی صلاحیت کے مطابق اتنا سبق دے جتنا اس پر بوجھ نہ بنے اور وہ آسانی کے ساتھ یاد کر کے سنا سکے.طالب علم کو روزانہ سبق بھی دیا جائے اور پچھلے کم از کم سات دنوں کے اسباق بھی روزانہ سنے جائیں تاکہ ساتھ کے ساتھ دہرائی ہوتی رہے.ایک سپارہ سبقا ختم ہونے پر پورا پارہ بغیر غلطی کے بطور ”سیقی پارہ سنا جائے.جب طالب علم سبق یاد کر کے سنائے تو معمولی غلطی کو بھی نظر انداز نہ کیا جائے اور اس وقت تک طالب علم کو یاد کر وایا جائے جب تک مکمل تسلی نہ ہو جائے کہ اس کو حفظ پختہ ہو چکا ہے.اگر ذراسی بھی غلطی ہوگی تو طالب علم کے ذہن میں ہمیشہ کے لیے وہ غلطی پختہ ہو جائے گی.غلطی دو قسم کی ہوتی ہیں : 2.بھول جانے کی غلطی 1 - تلفظ کی غلطی غلطیوں سے بچنے کا آسان طریق یہ ہے کہ جہاں بھی تلفظ کی غلطی ہو یا بھولنے کی ، اس جگہ پر پنسل سے نشان لگا دیا جائے اور جب تک غلطی ٹھیک نہ ہو جائے اس کی اصلاح جاری رکھی جائے.سبق پر روزانہ تاریخ ڈالنے سے طالب علم کی ذہنی صلاحیتوں کا جائزہ لینے میں بہت مددملتی ہے.روزانہ کا سبق ، سات دنوں کے اسباق ،سبقی پارہ اور منزل با قاعدگی سے سنی جائے.جب تک تسلی نہ ہو کہ ہفتہ بھر کے اسباق اور منزل پختہ ہو چکی ہے تب تک نیا سبق نہ دیا جائے بلکہ پہلا ہی پختہ کرنے کی کوشش کی جائے.استاد کوشش کرے کہ ایک دن کا بھی ناغہ نہ ہو.طالب علم کے لیے استاد کا نمونہ اعلیٰ اور عمدہ ہونا چاہئے.اگر استاد خود اچھا قاری و حافظ ہوگا تو طالب علم پر بہت اچھا اثر پڑے گا.استاد کی بھر پور کوشش ہونی چاہئے کہ طالب علم حروف کی ادائیگی اچھے طریق پر استاد کی طرح کرے.استاد کو چاہئے کہ صدر کے انداز میں روزانہ خود سبق پڑھائے.مخارج الحروف اور حروف کی صفات مثلاً اخفاء، اظهار ، ادغام، غنه، مد، قصر ،تفخیم اور ترقیق کا خیال رکھ کر طالب علم کو خود دو تین مرتبہ کہلوائے.بڑی مد اور حروف مدہ کا خاص خیال رکھا جائے.اسی
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 136 طرح اوقاف کا خاص خیال رکھا جائے.آیت کی نشانی اور طہم کی علامت پر ضرور وقف کرے.اگر درمیان میں وقف کرنا پڑے تو اعادہ جملہ سے ہو.ایک ضروری بات ہے کہ طالب علم یاد کرتے وقت جلدی جلدی نہ پڑھے بلکہ ہر حرف کی ادا ئیگی اس طرح عمدگی سے کرے کہ ہر حرف سمجھ آ رہا ہو.اگر تیز تیز پڑھے گا تو یہی عادت پختہ ہو جائے گی.اس بارے میں اس کتاب میں دی گئی احادیث کو یا درکھیں.طالب علم کو اس بات کی تاکید کی جائے کہ اونچی آواز سے قرآن کریم پڑھے اور اونچی آواز سے ہی قرآن کریم پڑھ کر یاد کرے، اس طرح زیادہ اچھی طرح یاد ہو گا.طالب علم کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس کے اندر مسابقت کی روح اور جذ بہ اجاگر کیا جائے تو یہ اس کی کامیابی میں بہت مؤثر ہوگا.طالب علم کو بدنی سزا نہ دی جائے بلکہ مناسب تنبیہ کی جائے سختی کی بجائے شفقت اور پیار سے سمجھایا جائے.حفظ کی ابتدا آخری یعنی تیسویں پارہ سے کرنے میں طالب علم کے لیے آسانی ہوتی ہے.بہتر ہے کہ آخری چند سپارے پہلے حفظ کرائے جائیں.آخری پاروں میں چونکہ سورتیں اور آیات چھوٹی ہیں اس لیے یاد کرنے میں سہولت رہتی ہے.دوسرا فائدہ اس کا یہ ہوتا ہے کہ وہ آخری سپارے جو پہلے حفظ کیسے ہوں وہ زیادہ پختہ یا درہتے ہیں اور دیر پا ہوتے ہیں.پہلے دس پاروں تک حفظ کیا ہوا قرآن کریم یعنی منزلیں نصف پارہ سے زیادہ نہ سنی جائیں اور دس پارے حفظ کر لینے کے بعد منزل ایک پارہ سے کم نہیں ہونی چاہئے.دوران حفظ چھٹیاں بہت نقصان دہ ہوتی ہیں.اول تو حافظ قرآن کو چھٹیوں کا تصور بھی نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر منزل دہرانے سے چھٹی ہو جائے تو قرآن کریم بھولنا شروع ہو جائے گا.اگر کسی وجہ سے چھٹیاں کرنا بھی پڑیں تو جیسے ہی طالب علم چھٹیوں کے بعد واپس آئے تو آگے یاد کروانے سے پہلے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 137 اس سے سابقہ سات اسباق سنے جائیں اور اگر چھٹیاں یا غیر حاضریاں زیادہ ہوں تو پہلے منزلوں کا دوراس سے سنا جائے اس کے بعد آگے سبق شروع کر وایا جائے.ہی تکمیل حفظ کے بعد دہرائی کے طور پر منزل سنی جائے اور اس کے بعد قرآن کریم کے کم از کم تین دور مکمل کرنا ضروری ہیں.اس کا طریق کار یہ ہے کہ دہرائی کا پہلا دور ایک ایک سپارہ کر کے ، دوسرا دور دو(2) دو (2) سپارہ کر کے اور تیسرا دور تین تین سپارے سن کر مکمل کیا جائے.اس طرح حفظ کیا ہوا قرآن کریم انشاء اللہ یا در ہے گا اور بھولنے کا اندیشہ کم سے کم رہ جائے گا.اس کے بعد روزانہ کم از کم ایک پارہ کی دہرائی کو زندگی بھر کا معمول بنا لینا چاہئے.حفظ کیا گیا قرآن کریم ( منزل) یا در کھنے کے لیے ضروری نصائح: احادیث میں حافظ کو حامل قرآن یعنی قرآن کریم کا بوجھ اٹھانے والا کہا گیا ہے.پس حافظ قرآن کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے ظاہری الفاظ کی حفاظت کرے، اس کو یادر کھے اور اس کی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر اس کی تعلیمات کی بھی حفاظت کرے.بعض لوگ اپنے بچوں کو حفظ تو کرا دیتے ہیں اور اس کو فخر کا ذریعہ بھی بنا لیتے ہیں مگر اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ یہ بچہ اس دولت کی قدر و حفاظت بھی کر سکے گا یا نہیں؟ مثلاً حفظ کرنے کے بعد دنیاوی تعلیم یا دیگر سرگرمیوں کی ایسی مصروفیت ہو جاتی ہے کہ حافظ دہرائی چھوڑ دیتا ہے یا سرسری تھوڑا سا پڑھ لیتا ہے.اس طرح ساری محنت پر پانی پھر جاتا ہے.پس والدین کی ذمہ داری ہے کہ جس حد تک ممکن ہو بچہ کو قرآن کریم کی اہمیت کے اعتبار سے یاد بھی کرواتے رہیں اور دہرائی بھی کرواتے رہیں تا کہ کسی بھی کام میں مصروف ہونے کے باوجود بچہ کے ذہن و دل میں قرآن کریم کی محبت اور اہمیت اجا گر رہے اور وہ دہرائی کو ایک مقدس فریضہ سمجھ کر اس سے کبھی بھی غفلت نہ برتے.یہ بھی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے جو حافظ دہرائی نہیں کرتے ، قرآن کریم آہستہ آہستہ ان کے ذہن سے تو ہو جاتا ہے اور ایک وقت ایسا آتا ہے کہ بہت سا حصہ بالکل بھول جاتا ہے.اس حصہ کو دوبارہ یاد کرنے کے لیے سخت ترین محنت اور مشقت کرنا پڑتی ہے.اس لیے طلبا اور والدین خصوصاً یہ بات مدنظر
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 138 رکھیں کہ قرآن کریم حفظ کرنا ہے تو بعد میں اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے ساری زندگی تیار رہیں.اس طرح کہ حفظ کر کے اس کو یاد بھی رکھیں اور بعد میں منزل کی مسلسل دہراتے رہیں.اس سلسلہ میں والدین پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ بچے کو حفظ کروانے کے بعد اس بات کی فکر کریں کہ وہ حفظ کو یاد بھی رکھے اور بعد میں مسلسل دہرائی کرتا رہے.یہ بڑی بھاری ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا فرض ادا کریں تبھی تو وہ ان انعامات اور برکات کے وارث بنیں گے جن کی خوشخبری احادیث میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے.حافظ قرآن کو روزانہ دو پارے منزل دہرانے کی کوشش کرنی چاہیے یا کم از کم ایک پارہ منزل یاد کرنے کا معمول زندگی بھر رکھنا چاہئے.ہر ماہ قرآن کریم کا ایک دور کم از کم ضرور مکمل کرنا چاہئے.ماہ رمضان میں نماز تراویح میں مکمل قرآن سنانے کا دور کرنا چاہئے.اس کے لیے اچھی اور بھر پور تیاری ہونی چاہئے جس سے حفظ بہت پختہ رہے گا.دو حافظ قرآن ساتھی مل کر ایک دوسرے کو منزل سنائیں اور اس طرح قرآن کریم کا دور کریں تو زیادہ مفید رہتا ہے.روزانه با قاعدگی سے تلاوت صدر کے طریق پر منزل کی دہرائی کی جائے.دہرائی کے لیے ایک وقت مخصوص کر لیا جائے تو مناسب رہتا ہے.حفاظ کرام کو ترتیل کے ساتھ روزانہ تلاوت یعنی حسن قراءت کی مشق بھی کرنی چاہئے.ا حفظ کرنے اور قائم رکھنے کے لیے دعا ایک بنیادی کلید کی حیثیت رکھتی ہے.اپنی کامیابی کے لیے باقاعدہ دعائیں کریں.دعاختم القرآن "اللهم ارحمنى با القرآن....بہت جامع اور عظیم دعا ہے.اس کو التزاماً روزانہ پڑھیں.قرآنی دعائیں بھی کثرت سے پڑھیں.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 139 حفظ کرنے کے بعد دہرائی ضروری ہے: حفظ کو محفوظ رکھنے کا بہترین طریق یہ ہے کہ بار بار دہرایا جائے.ایک حافظ قرآن کو یاد کرنے اور یادر رکھنے کے لیے بہت دہرانا پڑتا ہے.پس حفظ کو محفوظ رکھنے کا طریق یہی ہے کہ حفظ کرنے کے بعد اس کی مسلسل دہرائی کی جائے تا کہ حفظ قائم رہے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: تَعَاهَدُوا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ أَشَدُّ تَفَصَّياً مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ مِنَ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِهَا ( مسند احمد بن حنبل، مسند عبد الله بن مسعود، جزء اول صفحه 423 ) | ترجمہ: قرآن کریم کو بار بار دہراؤ کیونکہ یہ بندوں کے سینوں سے اس سے بھی جلدی نکل جاتا ہے جیسے جانور اپنی رہی ہے.حفظ کی دہرائی کے حوالے سے واقعات: محدث امام ابو اسحاق شیرازی المتوفی 476ھ اپنے سبق کو سو دفعہ دہراتے تھے.امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ہم سے حضرت حسن بن ابوبکر نیشا پوری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: آدمی اس وقت کسی چیز کا حافظ نہیں کہلا سکتا جب تک اس کو کم سے کم پچاس مرتبہ زبانی دُہرانہ لے.امام ابن الجوزی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک فقیہ نے اپنے گھر میں کئی دفعہ سبق کو دہرایا تو اس کے گھر میں موجود بڑھیا نے کہا: خدا کی قسم ! یہ سبق مجھے یاد ہو گیا تو انہوں نے فرمایا کہ مجھے سناؤ تو اس نے سنا دیا.پھر کئی دن گزر گئے تو بڑھیا سے کہا کہ وہ سبق مجھے دوبارہ سناؤ تو اس نے کہا کہ مجھے یاد نہیں ہے.فرمایا: میں نے اسی لئے بار بار یاد کیا تھا تا کہ میں تیری طرح بھول نہ جاؤں.“ ( فضائل حفظ قرآن، مؤلفه امداد الله انور، دارالمعارف ملتان،صفحه 282)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات قوتِ حافظہ کے لیے بعض نسخہ جات : 140 در حقیقت قوت حافظہ ایک عطیہ ء خداوندی ہے.اللہ تعالیٰ جس کو عطا فرمانا چاہتا ہے فرما دیتا ہے البتہ بعض اوقات مشق و مزاولت اور محنت و تکرار سے حافظہ کھل جاتا ہے.بعض چیزیں ایسی ہیں جن.ذہن اور حافظہ تقویت پاتا ہے.حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میٹھا انار کھایا کرو کیونکہ یہ معدہ کو درست کرتا ہے.ایک شخص نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سامنے نسیان یعنی بھول جانے کی بیماری کی شکایت کی تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کندر کو استعمال کرو کیونکہ یہ دل کو مضبوط کرتا ہے اور نسیان کو دور کرتا ہے.امام زہری فرماتے ہیں کہ شہد کھایا کرو یہ حافظہ کے لئے عمدہ چیز ہے.نیز آپ نے فرمایا جس آدمی کو احادیث یاد کر نے کا شوق ہو تو چاہئے کہ کشمش کھائے.حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں: ایک تولہ کندر اور ایک تولہ شکر لے کر دونوں کو اچھی طرح پیسو پھر ان کو نہار منہ کھاؤ.یہ نسیان کے لیے اچھا علاج ہے.علامہ جعابی فرماتے ہیں کہ میں حافظے میں بے کا رتھا.حکما نے کہا دودھ کی چھاچھ کے ساتھ روٹی کھایا کرو.چنانچہ میں نے چالیس دن صبح اور شام یہ کھایا اس کے علاوہ کچھ نہیں کھایا جس سے میرا ذہن صاف ہو گیا اور میرا حافظہ اتنا اچھا ہو گیا کہ میں ایک دن میں تین سو حدیثیں یاد کر لیتا تھا.“ (فضائل حفظ قرآن مؤلفه امدادالله ،انور دار المعارف ،ملتان ، صفحه 289 290 ) | ذہن اور حافظہ کی تقویت کے لیے بادام اور سونف بھی بہت مفید ہے.فِي الْقُرْآنِ كُلَّ الشَّقَاء ( عادات ) قرآن میں ہر قسم کی (روحانی نے سائی) مواد موجود ہے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 141 معلومات قرآن برائے حفاظ قرآن کریم کی احزاب یا منزلوں میں تقسیم : قرآن کریم سات احزاب ( منزلوں) میں منقسم ہے.یہ قسیم تلاوت قرآن کا دور ایک ہفتہ میں مکمل کرنے کی غرض سے ہے.اس بات کے قطعی ثبوت اور شواہد موجود ہیں کہ منزلوں کی یہ تقسیم صحابہ کرام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ میں ہی مروج تھی.جس سے ترتیب سور کا ایک اہم ثبوت ملتا ہے.علاوہ ازیں اس روایت کے مطابق اجزاء یعنی پاروں کی تقسیم بھی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ہی منسوب ہے.ایک روایت کے مطابق آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ قرآن کریم ایک ہفتہ میں ایک دور مکمل کیا کرو.(بخاری ، کتاب فضائل القرآن باب في كم يقرا القرآن) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان ارشادات کی تعمیل میں صحابہ نے آپ ﷺ کے دور مبارک میں ہی قرآن کریم کو سات برابر حصوں میں تقسیم کیا ہوا تھا.چنانچہ روایت ہے: عن حذيفة الثقفي قال فسالنا أَصْحَابَ رَسُولِ الله صلى الله عليه وسلم كَيْفَ يُحَرِّبُونَ الْقُرْآنَ قَالُوا ثَلاثٌ وَخَمْسٌ وَسَبْعٌ وَتِسْعٌ وَإِحْدَى عَشْرَةَ وَثَلاتَ عَشْرَةَ وَحِزْبُ الْمُفَصَّلِ وَحْدَهُ.(سنن ابی داؤد، کتاب الصلوة ، باب تحزيب القرآن ) ترجمہ: حضرت حذیفہ الثقفی سے روایت ہے کہ ہم نے صحابہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم کے احزاب کے بارہ میں سوال کیا تو انہوں نے بتایا کہ ہم نے تین (سورتوں ) اور پانچ (سورتوں ) اور سات (سورتوں ) اور نو (سورتوں )اور گیارہ (سورتوں ) اور تیرہ (سورتوں ) اور پھر سورۃ ق سے آخر قرآن تک سورتوں کے حزب بنائے ہوئے ہیں.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 142 غزوہ تبوک کے بعد 9ھ میں جب بنو ثقیف کا وفد طائف سے تحقیق کے لیے مدینہ آیا تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم روزانہ رات کے وقت اُن سے گفتگو کے لیے تشریف لے جایا کرتے تھے.ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم خلاف معمول دیر سے تشریف لائے.دیر کی وجہ پوچھنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میری تلاوت قرآن کی کچھ منزل باقی رہ گئی تھی.میں نے مناسب نہ سمجھا کہ اسے مکمل کیے بغیر آجاؤں.پس منازل قرآن کی تقسیم آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ہو چکی تھی.صحابہ کرام ان سے واقف تھے اور روزانہ ایک منزل کی تلاوت مکمل کرنا بہتر سمجھا جاتا تھا.اس حدیث کے راوی بن حذیفہ جو بنو ثقیف کے وفد میں شامل تھے بیان کرتے ہیں کہ اس موقع پر میں نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے دریافت کیا کہ آپ لوگوں نے منازل قرآن کس طرح مقرر کی ہیں.صحابہ نے جو جواب دیا اس کے مطابق منزلوں کا تعین درج ذیل ہے: پہلی منزل.سورۃ الفاتحہ تا سورۃ النساء ( پہلی چارسورتیں ) دوسری منزل.سورۃ المائدہ تاسورۃ التوبہ (اگلی پانچ سورتیں) تیسری منزل.سورۃ یونس تا سورۃ النحل (انگلی سات سورتیں) چوتھی منزل.سورۃ بنی اسرائیل تا سورۃ الفرقان (اگلی نوسورتیں) پانچویں منزل.سورۃ الشعراء تا سورہ یسین (انگلی گیارہ سورتیں) چھٹی منزل.سورۃ الصافات تا سورۃ الحجرات (اگلی تیرہ سورتیں) ساتویں منزل.سورۃ ق تا سورۃ الناس (انگلی پینسٹھ سورتیں) (البرهان في علوم القرآن جلد اول، صفحه 247 تا 250)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 143 مضمون کے اعتبار سے بیان فرمودہ نمایاں آیات: قرآن کریم کے مختلف مقامات پر آٹھ آیات میں بعض نمایاں مضامین کو اس طرح بیان کیا گیا ہے.ان اعظم آية في القرآن الله لا اله الا هو الحي القيوم ترجمہ: قرآن میں سب سے عظیم الشان آیت ” آیۃ الکرسی ہے.القربي (البقرة) واعدل آية في القرآن ان الله يامر بالعدل والاحسان وايتاء ذى (النحل ) ترجمہ: قرآن میں سب سے زیادہ عدل و انصاف سکھانے والی آیت ان الله يـــامــر بالعدل والاحسان وایتای ذی القربی ہے.واخوف آية في القرآن، فمن يعمل مثقال ذرة خيرايره.ومن يعمل مثقال ذرة شرايره (الزلزال ) ترجمہ: قرآن میں سب سے زیادہ خوف والی آیت فمن يعمل مثقال ذرة خير ايره.ومن يعمل مثقال ذرة شرایرہ ہے.ا وارجى آية في القرآن، قل يلعبادي الذين اسرفوا على انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله (الزمر) ترجمہ قرآن میں سب سے زیادہ امید اور نجات دلانے والی آیت ”قل یعبادی الذين اسرفوا على انفسهم لا تقنطوا من رحمة الله واحزن آية في القرآن، من يعمل سوءا يجزبه ہے.(النساء) ترجمہ: قرآن میں سب سے زیادہ حزن و غم پیدا کرنے والی آیت ” من يعمل سوءا یجزبہ “ ہے.واشد اية في القرآن على اهل النار” فذو قوافلن نزيدكم الاعذابا“ (النباء)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 144 ترجمہ قرآن میں دوزخیوں کے لیے سب سے زیادہ سخت آیت ”فذو قوافلن نزیدکم الاعذابا‘ ہے.وعن على كرم الله وجهه: احب آية الى في القرآن ،انّ الله لا يغفران یشرک به ویغفر مادون ذالك لمن يشاء (النساء) ترجمہ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت ہے کہ مجھے قرآن میں پسندیدہ ترین آیت ان الله لا يغفران یشرک به ویغفر مادون ذالک“ ہے.وافضل آية في القرآن، وما اصابكم من مصيبة فبما كسبت ايديكم ويعفوا عن كثير (الشورى ) ترجمہ: قرآن میں افضل آیت ومـا اصــابـكـم مـن مصيبة فبما كسبت ايديكم ويعفوا عن کثیر “ ہے.(الاتقان اردو جلد دوم نوع 74 مفردات ،قرآن، صفحه 495 تا 501 ) دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات ہفت بذریعہ حفظ قرآن : 145 تاریخ حفاظت قرآن حفاظت قرآن کے باب میں ایک بے نظیر اور اہم طریقہ حفظ قرآن کریم ہے جو امت مسلمہ میں پہلی آیت کے نزول سے لے کر آج تک رائج ہے.یہ طریقہ بظاہر تو انسانی ذرائع میں سے ایک معلوم ہوتا ہے مگر ادنی سے تدبر سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ حفظ قرآن بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے امت محمدیہ کو حفاظت قرآن کے باب میں ایک بے نظیر الہی عطا ہے.اگر یہ انسانی طاقت میں ہوتا تو دوسرے مذاہب اپنی اپنی کتب کو محفوظ رکھنے کے لئے ضرور اس طریقہ کو استعمال کرتے مگر صرف قرآن کریم کو یہ خصوصیت حاصل ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کتاب کی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ نے اپنی جناب سے یہ خاص انتظام فرمایا تھا.اگر ایسا انسانی طاقت میں ہوتا تو لازما اور بھی مثالیں ملتیں.پس قرآن کریم کی کامل حفاظت کے لئے حفظ قرآن کا بے مثل وسیلہ خالصہ البہی عطا ہے.ابتدا سے ہی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم وحی تحریر کروانے کے بعد سنتے اور پھر تسلی کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو حفظ کراتے اور پھر اس کی اشاعت ہوتی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند صحابہ کی ڈیوٹی لگائی ہوئی تھی جن کا کام تھا کہ وہ پہلے خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے قرآن کریم حفظ کر لیں اور پھر دیگر صحابہ کو حفظ کروائیں.روایات میں حضرت عبداللہ بن مسعوددؓ، حضرت سالم مولی ابی حذیفہ ، حضرت ابی بن کعب اور حضرت معاذ بن جبل " جیسے کبار صحابہ کے نام ملتے ہیں.(بخاری ،کتاب فضائل القرآن، باب جمع القرآن) یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ بہت سے جاں نثار صحابہ فوری طور پر قرآن کریم کی تازہ بہ تازہ نازل ہونے والی وحی کو فور احفظ کر لیا کرتے تھے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی حفظ قرآن کی فضیلت پر بہت زور دیتے تھے.اس میں کوئی شک نہیں کہ خدا تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوصحابہ کی ایسی جماعت عطا فرمائی تھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اشارہ پر عمل کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتی تھی اور جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتی تھی.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 146 آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تحریک اور خواہش کی تکمیل کے لیے صحابہ نے حیرت انگیز نمونہ دکھایا.قرآن کریم بکثرت حفظ کیا جانے لگا.صحابہ نے اس وارفتگی اور اس شان سے اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں حفاظ صحابہ کی اتنی کثیر تعداد تیار ہوگئی کہ بلا مبالغہ ہزاروں تک ان کی تعداد جا پہنچی.کیا بچے کیا جوان اور کیا بوڑھے، کیا عورتیں اور کیا مرد، سب حفظ قرآن کے میدان میں بڑھ چڑھ کر عشق و محبت اور اخلاص و وفا کے بے نظیر جذبات کے ساتھ معرکے سر کرنے لگے.حفاظ صحابہ کی کثرت کا اندازہ اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ ایک دفعہ غزوہ اُحد کے بعد قبیلہ رعل ، ذکوان، عصیۃ اور بنولحیان کے کچھ لوگ آئے اور انہوں نے ایسا نمونہ دکھایا کہ سمجھا گیا کہ یہ لوگ مسلمان ہو چکے ہیں.چنانچہ انہوں نے اپنی قوم کی تعلیم و تربیت کے لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے مدد کی درخواست کی.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخواست کو قبول کرتے ہوئے انصار مدینہ میں سے 70 حفاظ وقراء کا ایک بڑا گر وہ ان کے ساتھ روانہ کر دیا تا کہ مذکورہ قبائل کے لوگ کو اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائیں.یہ حفاظ مدینہ میں قراء کے نام سے مشہور تھے.ان لوگوں نے راستہ میں دھوکہ دے کران حفاظ کو شہید کر دیا.(بخاری، کتاب الجهاد و السير، باب العون بالمدد) صرف انصار مدینہ میں سے ستر (70) حفاظ کا بھجوایا جانا بتاتا ہے کہ اس وقت مسلمانوں میں حفاظ کی ایک کثیر تعداد موجود تھی اور تعلیم القرآن کے سلسلہ میں اساتذہ کی ایک بڑی تعداد مختلف قبائل میں جا کر نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کے لیے جایا کرتے تھے.چنانچہ بعض اور بھی واقعات ملتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف قبائل میں دس دس پندرہ پندرہ قراء صحابہ کے وفود تعلیم القرآن کے لیے بھیجا کرتے تھے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حفاظ کی کثرت کا یہ حال تھا کہ صرف ایک جنگ یعنی جنگ یمامہ میں شہدا میں صرف حفاظ کی تعداد سات سو (700) اور بعض کے نزدیک اس سے بھی زیادہ تھی.چنانچہ بخاری کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن میں درج اس واقعہ کے بارہ میں بخاری کی ایک معروف شرح عمدۃ القاری میں لکھا ہے:
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 147 ربیع الاول 11 ہجری میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دار فانی سے رحلت فرمائی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات سے قبل تمام قرآن لکھوا دیا تھا مگر وہ مختلف چیزوں پر لکھا ہوا مختلف اصحاب کے پاس بکھرا ہوا تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا انتخاب بطور خلیفہ اوّل ہوا اور ابتدا میں ہی آپ کو پے در پے مشکلات و مصائب کا سامنا کرنا پڑا.ان میں سے ایک زبر دست فتنہ جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کی شورش و بغاوت کا تھا.اس سلسلہ میں سب سے بڑا معرکہ مسیلمہ کذاب سے یمامہ کے مقام پر ہوا.اس معرکہ میں دونوں لشکروں کا بھاری نقصان ہوا.شہید ہونے والے مسلمانوں میں سات سوقراء وحفاظ تھے اور بعض کے نزدیک ان کی تعداد اس سے بھی زائد تھی." (عمدة القارى جلد 20 فضائل القرآن باب جمع القرآن صفحه 16) عربوں کا حافظہ عربوں کا حافظہ بھی بہت اچھا ہوتا تھا اس لیے ان کو قرآن کریم حفظ کرنے میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی تھی.اس سلسلہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ”سیرۃ خاتم النبین میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ایک حقیقت یہ ہے کہ عربوں کا حافظہ ایک مثالی حافظہ تھا.وہ لوگ اپنے نسب نامے یادر کھتے اور ہزاروں ہزار شعر یا درکھتے.تحریر کا رواج عام نہ ہونے کی وجہ سے حافظہ کی طاقت کس قدر غیر معمولی طور پر بڑھ چکی تھی.اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجیے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد لا تكتبو اعنى سوى القرآن (مسنداحمد مبل الباقی من المکثرین مندابی سعید الخدری) کی تعمیل میں آپ کے اقوال اور احادیث زیادہ تر حافظہ کی بنیاد پر یاد رکھی جاتی تھیں اور ان کے حفظ کا با قاعدہ انتظام نہیں تھا.صحابہ عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوبے ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال اور
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 148 احادیث مختلف مواقع پر گھروں میں، مجالس میں سفر وغیرہ پر ایک دوسرے کو سُنتے سناتے اور اس طرح سینہ بہ سینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات ایک نسل سے دوسری نسل کو منتقل ہوتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے سوڈیڑھ سوسال بعد تحقیق کر کے تحریری صورت میں جمع کر لئے گئے.جبکہ قرآن کریم نہ صرف ساتھ ساتھ تحریر میں محفوظ کیا جاتا رہا بلکہ اس کے حفظ کا با قاعدہ اہتمام کیا جاتا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے سو ڈیڑھ سوسال کے بعد جب احادیث اکٹھی کی گئیں تو اس خط کے بارہ میں روایات پر تحقیق کر کے راویوں کے سینوں میں محفوظ اس خط کے الفاظ کتب حدیث میں درج کر لیے گئے.قریباً ایک سوسال قبل حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا لکھوایا ہوا اصل خط دریافت ہو چکا ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ دونوں خط یعنی دریافت شدہ اور کتب حدیث میں بزبان رواۃ محفوظ خط حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے کے عین مطابق ہیں.“ ایک خط کا سینہ بہ سینہ آگے منتقل ہونے والی روایات میں ذکر ہونا اور پھر سو، دوسو سال کے بعد ان روایات کا تحریری شکل میں آنا اور خط کی اصل تحریر کا دریافت ہونا اور دونوں کے الفاظ تک میں مطابقت کا پایا جانا، یہ ثابت کرتا ہے کہ عربوں کا حافظہ کتنا مثالی اور غیر معمولی تھا اور یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ قوم کس درجہ امانت دار تھی کہ جس نے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ لفاظ جو وحی الہی بھی نہیں تھے اس حفاظت کے ساتھ یادر کھے.تو سوچیے کہ اس قوم میں وحی الہی کی حفاظت کا درجہ کیا ہوگا ؟ یقینا اپنی جان سے بھی زیادہ.عربوں کے غیر معمولی حافظہ کا تمام محققین نے بڑے واضح انداز میں ذکر کیا ہے.عربوں کا نسب نامے یا درکھنا، ایک ایک شخص کو ہزاروں ہزار شعر یاد ہونا، شعر و سخن کی مجالس میں شعر سنانا سننا اور یاد رکھنا اعلیٰ حافظہ کے اعتبار سے بہت معروف پہلو ہیں.پس اس شان کا حافظہ رکھنے والے اس درجہ امانت دار لوگ عام نسب ناموں اور شعر و شاعری سے کہیں زیادہ محبت اور فدائیت کے ساتھ قرآن کریم حفظ کر
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 149 رہے تھے.عشق قرآن میں ڈوبے ہوئے یہ لوگ اسی محبت و عشق قرآن کو بنیاد بناتے ہوئے اس کے ایک ایک لفظ کو اپنی نجات کا سامان اور الہی امانت سمجھتے ہوئے اپنے جزو بدن بناتے تھے اور اس کو آگے منتقل کرنا اپنی اولین ذمہ داری گردانتے تھے.حفظ کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کا تحریری صورت میں من وعن ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ دانسته یا غیر دانستہ طور پر کوئی غلطی یا تحریف اس میں راہ نہیں پاسکی.جو قوم کبھی کبھی اور کہیں کہیں بکھری ہوئی روایات کے بارے میں اس قدر محتاط تھی کہ بلا تصدیق نہ بنتی نہ مانتی تھی تو کیسے ممکن ہے کہ بار بار پڑھی جانے والی وحی الہی یعنی قرآن کریم کی تحریر میں کوئی غلطی راہ پا جاتی اور وہ اس کو برداشت کر لیتے یا خود اس کا موجب بن جاتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام ایک دوسرے کے حفظ کی نگرانی بھی کرتے تھے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر آج تک ایک ایسے تواتر کے ساتھ حفاظ آئندہ نسل کو قرآن کریم حفظ کراتے چلے آئے ہیں جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوتا ہے اور پھر قرآن کریم کی تحریر سے اپنے حفظ کو مستند بناتے چلے آئے ہیں.چنانچہ اس تواتر کے باقاعدہ اہتمام کا ذکر یوں ملتا ہے: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رضى الله عنه قَالَ قَالَ لِي النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم اقْرَأْ عَلَيَّ الْقُرْآنَ قُلْتُ اقْرَأْ عَلَيْكَ وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ قَالَ إِنِّي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي (بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب من احب ان يسمع القرآن من غيره) ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا کہ مجھے قرآن کریم سناؤ.میں نے ( حیران ہوکر ) عرض کیا کہ میں آپ کو قرآن سناؤں! حالانکہ قرآن کریم آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا ہے.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوسروں سے قرآن کریم سننا مجھے اچھا لگتا ہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 150 قرآن کریم سے پہلے کوئی بھی الہامی کتاب اپنی اصلی صورت میں قائم نہ رہی تھی بلکہ ان میں بہت تصرف اور تحریفات ہو چکی تھیں لیکن قرآن کریم وہ واحد الہامی کتاب ہے جو بعینہ اسی طرح محفوظ ہے جس طرح وہ نازل ہوئی.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت کے ساتھ ہی قرآن کا نزول شروع ہوا اور برابر 23 سال وفات تک یہ سلسلہ جاری رہا.شروع میں وحی تھوڑی تھوڑی کر کے نازل ہوئی پھر آہستہ آہستہ بڑھتی گئی اور آخری عمر میں پے در پے نازل ہونے لگی.اس میں بھی حکمت تھی کیونکہ نئے نئے مسائل کے بارے میں وحی الہی نازل ہو رہی تھی.ایسے مسائل جن کا سمجھنا مشکل تھا ان کا حل وحی الہی میں بتایا جا رہا تھا اس لیے قرآن کریم آہستہ آہستہ اور تھوڑا تھوڑا نازل کیا جا رہا تھا تا کہ لوگ اچھی طرح سمجھ کر اس پر عمل کر سکیں.دوسرے قرآن کریم کی حفاظت بھی پیش نظر تھی.شروع میں صحابہ کم تھے جیسے جیسے صحابہ کی تعداد بڑھتی گئی ویسے ویسے قرآنی وحی کی رفتار بھی بڑھتی گئی.تا کہ آسانی کے ساتھ اس کو حرف بہ حرف یاد رکھا جاسکے.قرآن کریم کی تحریری اور زبانی دونوں طرح سے زبر دست حفاظت کی جاتی رہی اور خدا کا وعدہ بڑی شان سے پورا ہوا کہ اس یعنی قرآن کریم کا جمع کرنا اور اس کی حفاظت کرنا ہمارے ذمہ ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نزول قرآن کریم کے آغاز ہی میں قرآن کریم کی حفاظت کی فکر دامن گیر ہوگئی تھی اسی لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جلدی جلدی اسے یاد کرنے اور یادرکھنے کی کوشش کرتے تھے جس پر خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ گھبراؤ نہیں اس کی حفاظت کی ذمہ داری ہم نے اپنے اوپر رکھی ہے.جس عظیم الشان اور قطعی طریق پر قرآن کریم کی حفاظت کی گئی وہ اپنی مثال آپ ہے.تحریری حفاظت : آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم پر جب وحی نازل ہوئی ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ کے ساتھ اسے بعض کاتبین وحی صحابہ کو کھوا دیتے اور پھر سن لیتے کہ آیا انہوں نے وہی کچھ لکھا ہے جو لکھوایا گیا ہے یا کوئی غلطی کی ہے.چالیس صحابہ کے اسمائے مبارک ہمارے سامنے آتے ہیں جنہیں مختلف اوقات میں کاتب وحی ہونے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 151 کی سعادت حاصل ہوئی.چونکہ اس زمانہ میں کاغذ پر لکھنے کا رواج عام نہ تھا نہ ہی کا غذ عام دسترس میں تھا، اس لیے مختلف چیزوں مثلاً لکڑی، چمڑا، پتھر، کھجور کی چھال، ہڈیوں وغیرہ پر بھی قرآن کریم کا مسودہ لکھا گیا.یوں سارا قرآن کریم تحریری شکل میں محفوظ ہو گیا.تقریری یعنی حفظ کے ذریعہ حفاظت: عربوں کو خدا تعالیٰ نے غیر معمولی حافظہ عطا فر مایا تھا، اس کا مقصد بھی دراصل حفاظت قرآن ہی ย دکھائی دیتا ہے.چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم ساتھ کے ساتھ قرآنی وحی صحابہ کرام کو سناتے اور وہ اسے ذوق شوق کے ساتھ یاد کر لیتے.صحابہ تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اشاروں پر اپنی جانیں نچھاور کر دیتے تھے، آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرف ترغیب دلانے پر انہوں نے قرآنی وحی کے حفظ کرنے میں وہ نمونہ دکھایا جو اپنی مثال آپ ہے.صحابہ نمازوں میں لمبی لمبی تلاوت کرتے.بعض تو ایک رات میں قرآن کریم کا ایک دور مکمل کر لیتے تھے.مثلاً حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ.چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں روکا.صرف کبار صحابہ ہی نہیں بلکہ عام مسلمان بھی دلی شوق سے قرآن کریم یا د کرتے.پس قرآن کریم کی حفاظت نہایت شاندار طریق پر ہوئی اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی حفاظ کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی تھی.قرآن کریم ایک جلد میں : حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن مجید کا جو حصہ نازل ہوتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے بڑے اہتمام کے ساتھ لکھواتے جاتے تھے.اس طرح نزول قرآن کے ساتھ ہی مصحف تیار ہوتا جارہا تھا.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اسے اپنے گھروں میں رکھتے اور پڑھتے رہتے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خیال ہوا کہ صحابہ مصحف سے تلاوت ناظرہ کرنے لگ گئے ہیں مبادا ان کی توجہ قرآن کریم حفظ کرنے میں کم ہو جائے.چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو متنبہ فرمایا اور انہیں قرآن کریم حفظ کرنے کی طرف توجہ دلائی.حضرت ابوامامہ سے مروی ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 152 اقْرَأَوْا الْقُرْآنَ وَلَا يَغُرَّنَّكُمْ هَذِهِ الْمَصَاحِفُ الْمُعَلَّقَةُ فَإِنَّ اللَّهَ لَمْ يُعَذِّبْ قَلْبًا وَعَى الْقُرْآنَ.(مصنف ابن ابي شيبة ، كتاب فضائل القرآن باب فى الوصية بالقرآن وقراءته) ترجمہ: قرآن کریم پڑھو.تمہارے گھروں میں قرآن کریم کے لکھے ہوئے نسخے تمہیں حفظ کرنے سے غافل نہ کر دیں.یاد رکھو! یقیناً اللہ تعالی اس دل کو کبھی عذاب نہیں دے گا جس میں قرآن کریم محفوظ ہوگا.اس حدیث سے قرآن شریف کے حفظ مکتوبی اور حفظ صدری دونوں کا پتہ چلتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی بہت سے لوگوں نے پورا قرآن حفظ کر لیا تھا اور کئی ثقہ لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں پوری احتیاط اور ترتیب سے مکمل صورت میں لکھ بھی لیا تھا جسے دیکھ کر وہ تلاوت کیا کرتے تھے.تاہم ابھی ایک جلد میں جمع نہیں ہوا تھا بلکہ چمڑے کے باریک ٹکڑوں، پتھر کی سلوں، شانے کی چوڑی ہڈی اور کھجور کی چھپٹی شاخوں پر لکھا ہوا لوگوں کے گھروں میں محفوظ تھا.کاغذ اس وقت قریباً نایاب تھا.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جبکہ قرآن مجید کا نزول مکمل ہو چکا تھا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ اول نے اسے کمال احتیاط سے اکٹھا لکھوا کر ایک مصحف کی صورت میں محفوظ کر دیا.اس با برکت کام کی طرف ان کی توجہ اس طرح ہوئی کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد جب مسیلمہ کذاب نے بغاوت کر دی اور ایک لاکھ سپاہیوں کے ساتھ مدینہ پر حملہ کے لئے نکلا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کے مقابلہ کے لئے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی قیادت میں تیرہ ہزار سپاہیوں کا لشکر روانہ کیا.ان میں تین ہزار صحابہ حافظ قرآن تھے اور انہی حفاظ نے انجام کار مسیلمہ کو شکست دی.اس لڑائی میں پانچ سو حفاظ شہید ہوئے.ایک وقت میں حافظ قرآن صحابہ کا اتنی تعداد میں شہادت پا جانا معمولی بات نہ تھی.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 153 حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ لڑائیاں تو آئندہ بہت ہوں گی.اگر اس طرح حفاظ شہید ہوتے گئے تو قرآن مجید کی حفاظت مشکل ہو جائے گی اس لئے بہتر یہ ہے کہ آپ قرآن کریم کو ایک جلد میں جمع کروالیں تا کہ وہ پوری طرح محفوظ ہو جائے.حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو پہلے تو تامل تھا لیکن آخر کا ر مان گئے.چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ نے اس اہم کام کے لئے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو مقرر کر کے فرمایا کہ قرآن کریم تحریری نسخوں سے نقل کر کے جمع کیا جائے اور ہر تحریر کے لئے کم سے کم دو حافظ قرآن صحابہ کی شہادت لازماً اکٹھی کی جائے.چنانچہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے بڑی تحقیق اور احتیاط سے اس کام کو سرانجام دیا.روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کام کے محرک حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت زید رضی اللہ عنہ کا بہت ساتھ دیا.اعلان عام کر دیا گیا کہ جس کے پاس مکمل یا قرآن کریم کا کچھ حصہ لکھا ہوا موجود ہو وہ ان کے پاس لے آئے.یہ دونوں بزرگ حافظ قرآن مجید کو خوب جاننے والے تھے.ان کے کچھ معاون بھی مقرر تھے.جب کوئی شخص تحریر پیش کرتا تو یہ اپنے علم کے مطابق اس کا جائزہ لیتے ، دوسری تحریروں سے مقابلہ کرتے ، حفاظ کی ان کے بارہ میں شہادت لیتے اور تحقیق کے سب پہلو مکمل کرنے کے بعد اسے مصحف میں شامل کرتے.اس طرح زبر دست چھان بین اور غیر معمولی احتیاط کے ساتھ آیات قرانی کو جمع کر کے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی ترتیب کے مطابق ایک صحیفہ تیار کیا گیا اور قرآن مجید ایک جلد میں جمع ہو گیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ' صحابہ کے حفظ قرآن کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم حفظ قرآن کی فضیلت پر بڑا زور دیتے تھے.یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جو شخص قرآن کریم کو حفظ کرلے گا قیامت کے دن قرآن کریم اس کو دوزخ میں جانے سے بچائے گا اور اس میں کوئی بھی شبہ نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے وہ صحابی دیئے تھے جو ہر ثواب کے لئے جان توڑ کوشش کرتے تھے اس لئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا تو
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 154 کثرت کے ساتھ صحابہ نے قرآن کو یاد کرنا شروع کیا حتی کہ ایسے ایسے لوگ بھی قرآن شریف کو حفظ کرنے کی کوشش کرتے تھے جن کی زبانیں صاف نہیں تھیں اور جن کے علم بہت کمزور تھے.چنانچہ امام احمد حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے کہا: إِنِّي أَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَلَا أَجِدُ قَلْبِي يَعْقِلُ عَلَيْهِ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں قرآن کریم تو پڑھتا ہوں مگر میرا دل اس کو سمجھتا نہیں.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف علمی طبقہ ہی قرآن شریف کو یاد کرنے کی کوشش نہیں کرتا تھا بلکہ عوام الناس بھی قرآن کو حفظ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے.“ ایک اور جگہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی مور طلا مرادہ فرماتے ہیں: دیباچه تفسیر القرآن صفحه 270 271) ”اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ ایک اتفاق ہے کہ قرآن شریف آج تک محفوظ ہے؟ اسلامی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ اتفاق نہیں بلکہ اس کیظاہری حفاظت الکتاب اور قرآن مبین کے دو ذریعوں سے ہوتی ہے جن کا ذکر اس سورت کے شروع ہی میں کیا گیا ہے.شروع نزول ہی سے اس کی آیات لکھی جانے لگیں اور اس کی حفاظت ہوتی گئی اور پھر اللہ تعالیٰ نے اسے ایسے عشاق عطا کئے جو اس کے ایک ایک لفظ کو حفظ کرتے اور رات دن خود پڑھتے اور دوسروں کو سناتے ہیں.اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے کسی نہ کسی حصے کا نمازوں میں پڑھنا فرض مقرر کر دیا اور شرط لگا دی کہ کتاب میں سے دیکھ کر نہیں بلکہ یاد سے پڑھا جائے.اگر کوئی کہے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بات سوجھ گئی تھی تو ہم کہتے ہیں کہ یہی بات زرتشت موسیٰ اور وید والوں کو کیوں نہ سوجھی.....یہ بھی یادر ہے کہ ایسے آدمیوں کا مہیا کرنا جو ا سے حفظ کرتے اور نمازوں میں پڑھتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت میں نہ تھا.ان کا مہیا
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 155 کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار سے باہر تھا اسی لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: انـــا نحن نزلنا الذكر وانا له لحفظون کہ ایسے لوگ ہم پیدا کرتے رہیں گے جو اسے حفظ کریں گے.آج اس اعلان پر تیرہ سوسال ہو چکے ہیں اور قرآن مجید کے کروڑوں حافظ گزرچکے ہیں اور آج بھی بے شمار حافظ ملتے ہیں جنہیں اچھی طرح سے قرآن کریم یاد ہے.(تفسیر کبیر، جلد چهارم، صفحه 17، 18، زیر تفسير سورة الحجرآيت (10) آغاز وحی سے ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر نگرانی قرآن کریم تحریری طور پر محفوظ کیا جانے لگا.یوں ابتدا سے ہی اس کا ایک مخصوص متن تھا جو ایک تو اتر کے ساتھ ہم تک پہنچا.ہر دور میں اس امر کی عقلی نقلی اور اجتماعی گواہی موجود رہی ہے کہ جو متن قرآن کریم کا آج ہمارے پاس موجود ہے وہ بعینہ وہی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا.پس جو وحی نازل ہوتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے اسی وقت لکھوا لیتے تھے.پھر ہر طرح تسلی کرنے کے بعد چنیدہ صحابہ کو حفظ کروا دیتے جو حفظ کے سلسلہ کو آگے بڑھاتے ہوئے دیگر صحابہ کو حفظ کراتے.علاوہ ازیں جب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم لکھوا کر صحابہ کو حفظ کرا دیتے تو پھر مختلف صحابہ اُس نئی وحی کی نقول اپنے لئے بھی تیار کر لیتے.یہ حفظ اور تحریرات گا ہے گا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر کے مستند بنالی جاتیں.اس درجہ احتیاط اور اخلاص کے ساتھ بہت کثرت سے ہر تازہ وحی کو حفظ اور تحریری صورت میں محفوظ کیا جاتا کہ اس میں کسی قسم کی تحریف کا راہ پا جانا ممکن نہیں رہتا تھا.پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم وقتاً فوقتاً صحابہ کے پاس محفوظ قرآن کو چیک کرتے رہتے.اس کے ساتھ ساتھ تعلیم القرآن کا باقاعدہ ایک انتظام کے ساتھ سلسلہ جاری تھا جس کے نگران اعلیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تھے.اس میں شبہ نہیں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے ایسے عشاق جانثار صحابہ عطا کیے تھے جو رضائے الہی کو رضائے رسول سے وابستہ سمجھتے اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو دُنیا جہان
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 156 کی فلاح اور کامیابی اور نجات کا سامان سمجھتے تھے اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمودات اور ارشادات پر لبیک کہتے ہوئے پر کثرت کے ساتھ صحابہ نے قرآن کریم حفظ کرنا شروع کر دیا.جنگ یمامہ میں مہاجرین کا جھنڈا حضرت سالم مولی ابی حذیفہ کے ہاتھ میں تھا.کچھ لوگوں نے کہا ہمیں آپ کے بارے میں اندیشہ ہے کہ میدان جنگ سے آپ پیچھے نہ ہٹ جائیں.اس پر حضرت سالم نے فرمایا: بِئْسَ حَامِلُ الْقُرْآنِ أَنَا.یعنی اگر ایسا ہوا تو پھر میں بہت برا حافظ قرآن ہوں گا.(الاصابة في تمييز الصحابة، ذكر من اسمه (سالم) ابتدائی مؤمنین کا قرآن کریم سے عشق و محبت کا یہ حال تھا کہ ان میں سے ایسے لوگ بھی حفظ کرنے لگے جن کی علمی حالت ایسی نہ تھی کہ قرآنی مضامین کی گہرائی میں جا کر ان کو سمجھ پاتے.بچے بھی شوق اور محبت سے حفظ کرتے ، آج بھی بچوں کو شوق اور محبت سے قرآن کریم حفظ کروایا جاتا ہے حالانکہ وہ اس کے ترجمہ اور مفہوم سے بے خبر ہوتے ہیں.باوجود معنے نہ جاننے کے مسلمانوں کا قرآن کریم کو یاد کرتے چلے جانا بھی یقیناً حفاظت قرآن کے الہی وعدہ کے پورا ہونے کی دلیل ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ پر عمل کر کے صحابہ بھی قرآن کریم کی درس و تدریس اور اس کی تعلیمات کی اشاعت کے لیے کوشاں رہتے.حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ حضرت ابونصرۃ رضی اللہ عنہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: احْفِظُوْا عَنَّا كَمَا حَفِظْنَا نَحْنُ عَنْ رَّسُوْلِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.(سنن الدارمي، المقدمة، باب من لم ير كتابة الحديث) یعنی ہمارے زیر نگرانی اسی طرح قرآن شریف حفظ کر لو جس طرح ہم نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نگرانی میں حفظ کیا تھا.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 157 اس روایت سے اس حقیقت پر بھی روشنی پڑی کہ قرآن کریم ایک تو اتر کے ساتھ حفظ کے ذریعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر آج تک حفاظ کے سینوں میں محفوظ چلا آ رہا ہے اور حفظ قرآن کی مبارک عادت امت محمدیہ میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور سے لے کر بغیر کسی وقفہ کے اب تک جاری ہے.ساری دُنیا میں مسلمانوں کی بستیوں میں حافظ قرآن موجود ہیں اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ سے لے کر بلا شبہ اور بلا مبالغہ ہر دور میں ہزاروں ہزار حفاظ موجود رہے ہیں.حفظ قرآن کے بارہ میں امتِ مسلمہ کی ایک غیر معمولی عادت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت خلیفہ المسیح الثانی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: ایک ترکیب مسلمانوں نے حفاظت کی یہ اختیار کی ہوئی ہے اور اس پر صدیوں سے عمل ہوتا چلا آیا ہے کہ جو پیدائشی نابینا ہوتے ہیں انہیں قرآن کریم حفظ کروا دیتے ہیں اور خیال کیا جاتا ہے کہ نابینا کوئی دنیاوی کام تو کر نہیں سکتا، کم سے کم وہ قرآن کی خدمت ہی کرے گا.یہ رواج اتنا غالب ہے کہ لاکھوں مسلمان نابینوں کو بغیر پوچھے اور بغیر دریافت کیے ایک ہندوستانی ملتے ہی حافظ صاحب کے نام سے یاد کرے گا یعنی وہ جس نے سارا قرآن یاد کیا ہوا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ نابینوں میں سے اتنے حافظ قرآن ہوتے ہیں کہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کوئی نا بینا ہو تو قرآن کا حافظ نہ ہو.“ (دیباچه تفسیر القرآن ، صفحه 277)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 158 حفظ قرآن کی فضیلت ( غیروں کی نظر میں) الْفَضْلُ مَا شَهِدَتْ بِهِ الْأَعْدَاءُ عرب میں کہاوت ہے کہ کسی بھی چیز تحریر یا انسان کی خوبی یا فضیات کا صحیح اندازہ تب ہوتا ہے جب مخالف یا دشمن بھی اس کی فضیات کی گواہی دے.چنانچہ ذیل میں چند غیر مسلم شخصیات کے تاثرات درج ہیں جن سے بھی اس کا ثبوت ملتا ہے کہ غیر مسلم مستشرقین بھی اس فضیلت کو مانتے ہیں.Dr.Maurice Bucaille مذہبی لحاظ سے عیسائی ، ایک فرانسیسی سرجن، مذہب اور سائنس کی دنیا کی ایک نامور شخصیت ہے.حضرت موسیٰ" کے زمانے میں غرق ہونے والے فرعون ’Meneptah “ پر آپ کو تحقیق کے لیے چنا گیا.آپ اپنی مشہور کتاب "The Bible, the Qur'an and Science" میں لکھتے ہیں: It (Quranic Revelation) spanned a period of some twenty years and, as soon as it was transmitted to Muhammad by Archangel Gabriel, believers learned it by heart.It was also written down during Muhammad's life.(The bible The Qura'n and Science, Translation from French by Alastair D.Pannel and The Ahthor, Under Heading Conclusions Pg 250-251) ترجمہ: قرآنی وحی کا دورانیہ تقریباً بیس سال ہے.جبرائیل (علیہ السلام) جیسے ہی (حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس وحی لے کر آتے تو مؤمنین فورا حفظ کر لیتے تھے.قرآن کریم ( حضرت ) محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی حیات میں ہی تحریر کر لیا گیا تھا.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 159 قرآن کریم کے حفظ کے غیر معمولی تواتر کے بارہ میں ممتاز مستشرق Kenneth Cragg رقم طراز ہیں: " this phenomenon of Qur'anic recital means that the text has traversed the centuries in an unbroken living sequence of devotion.It cannot, therefore, be handled as an antiquarian thing, nor as a historical document out of a distant past.The fact of hifz (Qur'anic memorization) has made the Qur'an a present possession through all the lapse of muslim time and given it a human currency in every generation, never allowing its relegation to a bare authority for reference alone." | (Kenneth Cragg.The Mind of the Quran.London: George Allen & Unwin.1973,p.26) ترجمه: تلاوت قرآن کریم کا اعجاز یہ ہے کہ متن قرآن کریم صدیوں کا سفر طے کرتے ہوئے انتہائی محبت اور خلوص اور وقف کی روح کے ساتھ ایک تواتر سے ہم تک پہنچا ہے.لہذا اس کے ساتھ نہ تو کسی قدیم چیز جیسا سلوک روا رکھنا چاہیے اور نہ ہی اسے محض تاریخی دستاویز سمجھنا درست ہے درحقیقت حفظ کی خوبی نے اس کتاب کو مسلم تاریخ کے مختلف ادوار میں زندہ و جاوید رکھا ہے اور بنی نوع کے ہاتھ میں نسلاً بعد نسل ایک معتبر چیز تھادی اور کبھی بھی محض غیر اہم کتابی صورت میں نہیں چھوڑا.
160 حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات ولیم گرا ہم لکھتے ہیں: The Qura'an is perhaps the only book, religious or secular, that has been memorized completely by millions of people.(William Graham.Beyond the Written Word.UK: Cambridge University Press.1993, p.80) ترجمہ: مذہبی اور غیر مذہبی کتب میں سے قرآن کریم شاید واحد کتاب ہے جو لاکھوں لاکھ لوگوں کے ذریعے مکمل طور پر حفظ کی جاتی رہی.ہ مشہور مستشرق فلپ کے حتی لکھتے ہیں : دنیا میں نصرانیوں کی تعداد مسلمانوں سے قریباً دو گنا ہے لیکن اس کے باوجود وثوق سے کہا جاسکتا ہے کہ دنیا کی تمام کتابوں کے مقابلے میں صرف قرآن کریم ہی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ عبادتوں میں استعمال ہونے کے علاوہ یہ ایک ایسی کتاب بھی ہے جس کے ذریعہ ہر نو جوان مسلمان عربی سیکھتا ہے.“ تاریخ عرب از فلپ کے حتی، آصف جاوید برائے نا نگارشات باب (5 صفحه 35 مشہور مستشرق سرولیم میور لکھتے ہیں: ہر ایک مسلمان قرآن کریم کا کچھ نہ کچھ حصہ حفظ کرتا تھا اور مسلمانوں کی قدیم سلطنت میں جو شخص جس مقدار تک قرآن پڑھ سکتا تھا، اسی اندازے کے مطابق اس کی قدر و منزلت ہوتی تھی اور عرب کی رسم تکریم سے اس کی خاص تائید ہوتی.ان کی قوت حافظہ انتہائی معیار کی تھی اور اس کو وہ لوگ قرآن کے لیے بہ کمال سرگرمی کام میں لاتے.ان کا حافظہ ایسا مضبوط اور ان کی محبت ایسی قوی تھی کہ حسب روایات قدیم اکثر اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پیغمبر کی حیات ہی میں بڑی صحت کے ساتھ تمام
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات وحی کو اپنے حافظے سے پڑھ سکتے تھے.“ 161 (ترجمه از لائف آف محمد مطبوعه لندن،ایڈیشن 1877ء- صفحه 552،551 ) مشہور مستشرق اور رومن کیتھولک خاتون بن کیرم آرمسٹرانگ لکھتی ہیں : جب بھی کوئی آیت پیغمبر اسلام پر نازل ہوتی ، آپ اسے بلند آواز میں اپنے صحابہ کو سناتے جو اسے یاد کر لیتے اور جو لکھنا جانتے تھے، اسے لکھ لیتے.(محمد باب دوم، صفحہ 61 پبلشرز علی پلازہ 3 مزنگ روڈ لاہور ) دیگر بہت سے نامی گرامی مستشرق ایسے ہیں جو بعد تحقیق اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ قرآن کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی تحریری اور حفظ کی صورت میں محفوظ کیا جا چکا تھا اور آج بھی اسی شکل میں محفوظ ہے جیسا کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تھا.قرآن کریم واحد مذہبی کتاب ہے جو نزول کے ساتھ ساتھ صاحب وحی کے زیر نگرانی ایک سے زیادہ نسخوں میں تحریری شکل میں سنبھالی جا رہی تھی اور حفظ کی صورت میں محفوظ کی جا رہی تھی اس پر مستزاد یہ کہ آج تک اُسی تواتر کے ساتھ لکھی اور حفظ کی جارہی ہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 162 حفظ قرآن پر اعتراض کا جواب حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قرآن کریم کے حفظ کرنے پر بھی بعض کند ذہن لوگوں نے اعتراضات اٹھائے ہیں کہ قرآن کریم کو حفظ کرنا ایک فضول اور تضیع اوقات کا موجب فعل ہے.ان نام نہاد علماء میں سے ایک بزعم خود عالم ابن وراق صاحب ہیں ، وہ اعتراض کرتے ہوئے لکھتے ہیں: " Both Hugronje and Gullliaume point to the mindless way children are forced to learn either parts of or the entire Koran (some 6,200 odd verses) by heart at the expense of teaching children critical thought: "[The Children] accomplish this prodigious feat at the expense of their reasoning faculty, for often their minds are so stretched by the effort of memory that they are little good for serious thought." (Ibn Warraq: Why I am Not A Muslim,prometheus books,new york, 1995, under heading;The koran:pg105) ابن وراق کے اس اعتراض کا لب لباب یہ ہے کہ سارا قرآن فضول طریق پر بچوں کو زبانی یاد کروایا جاتا ہے.اس کوشش سے بچے کا ذہن متاثر ہوتا ہے اور وہ کسی قابل ذکر سنجیدہ کام کے قابل نہیں رہتا اور معاشرے میں مفید وجود بننے کی بجائے ناکارہ وجود بن کر رہ جاتا ہے.یہ اعتراض تعصب اور حسد کا نتیجہ ہے کیونکہ یہ ایک جانی مانی حقیقت ہے کہ انسانی قوی ورزش اور مشق سے مضبوط اور قوی ہوتے ہیں اور انہیں جتنا استعمال کیا جائے ان کی صلاحیت میں اتنا ہی اضافہ ہوتا ہے.عربوں کے حافظہ کو ہی دیکھ لیں اس غیر معمولی
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 163 حافظہ کی ایک بڑی وجہ یہ دکھائی دیتی ہے کہ اس زمانہ میں ان میں تحریر کا رواج نہ تھا جس کی وجہ سے عربوں کا زیادہ تر انحصار حافظہ پر ہی تھا اور حفظ کرنے کی ان کو بہت زیادہ مشق تھی.اس دور میں عربوں کو ہزاروں کی تعداد میں نسب نامے اور اشعار اور ادب پارے یاد ہوتے تھے.پس ابن دُراق برائے اعتراض ایک ایسی بات کر رہا ہے جو قوانین قدرت کے بھی خلاف ہے اور صدیوں کے جانے مانے حقائق کو بھی جھٹلا رہی ہے.وہ قوم جسے ہزاروں ہزار شعر یا د ہوتے ، جونسب ناموں کو از بر رکھتی ، جسے اپنی صدیوں کی تاریخ حفظ ہوتی اور کیا قرآن کریم جیسی با ربط ، منظم، اور آسانی سے یاد ہو جانے والی کتاب سے اس کی ذہنی صلاحیتوں پر برا اور منفی اثر پڑنا تھا؟ قوت حفظ کی زیادہ مشق سے ہی تو ان کا حافظہ غیر معمولی ہوا تھا اور قرآن کریم جیسے مرتب کلام کے حفظ سے تو بہت صحت مند مشق ہوتی ہے اور حافظہ کی صلاحیت بہت بڑھ جاتی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: تمام قوای انسانیہ کا قیام اور بقا محنت اور ورزش پر ہی موقوف ہے.اگر انسان ہمیشہ آنکھ بند ر کھے اور کبھی اس سے دیکھنے کا کام نہ لے( تو جیسا کہ تجارب طبیہ سے ثابت ہو گیا ہے ) تھوڑے ہی دنوں بعد اندھا ہو جائے گا اور اگر کان بند رکھے تو بہرہ ہو جائے گا اور اگر ہاتھ پاؤں حرکت سے بند رکھے تو آخر یہ نتیجہ ہو گا کہ ان میں نہ حس باقی رہے گی اور نہ حرکت.اسی طرح اگر قوت حافظہ سے کبھی کام نہ لے تو حافظہ میں فتور پڑے گا اور اگر قوت متشکرہ کو بے کار چھوڑ دے تو وہ بھی کالعدم ہو جائے گی.سو یہ اس کا فضل و کرم ہے کہ اس نے بندوں کو اس طریقہ پر چلانا چاہا جس پر ان کی قوت نظریہ کا کمال موقوف ہے.“ براهین احمدیه روحانی خزائن جلد اول صفحه : 507 تا (509) پس انسانی قومی کو تو اللہ تعالیٰ نے اس طرح تخلیق کیا ہے کہ جن قوی کو زیادہ استعمال
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 164 میں لایا جاتا ہے وہ طاقتور اور مفید ہوتے چلے جاتے ہیں اور جن قومی کو استعمال میں نہ لایا جائے وہ کمزور تر اور برکار ہوتے چلے جاتے ہیں.اسی لیے از منہ گزشتہ میں عمومی طور پر بنی نوع آج کے دور کے انسان سے زیادہ مضبوط اور صحت مند تھے.اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ وہ لوگ اپنے قویٰ کا استعمال زیادہ کرتے تھے اور اس دور کے انسان اپنے قومی کا استعمال کم سے کم کرتے ہیں اور مشینوں پر زیادہ انحصار کرتے ہیں.اسی طرح بنی نوع انسان عمومی طور پر، موجودہ دور کے ترقی یافتہ طبقے میں پلنے بڑھنے والے انسان سے زیادہ اچھے حافظہ کے مالک تھے.اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے ازمنہ گزشتہ سے حوالے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں، کسی ایسے بچے سے جو روایتی انداز میں حساب کتاب کا عادی ہو کوئی حسابی جمع تفریق کروا کر دیکھیں تو وہ اس بچے کی نسبت بہت جلد کرلے گا جو کیلکولیٹر اور کمپیوٹر وغیرہ کی مدد حاصل کرنے کا عادی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ ایک بچہ روایتی طور پر حسابی سوالات حل کرنے کے لیے ذہن سے کام لیتا ہے اور اس مشق سے اس کا ذہن حساب کتاب میں تیز ہو جاتا ہے لیکن ایک دوسرا بچہ جو کسی ایسے معاشرے کا فرد ہے جہاں کیلکو لیٹر اور کمپیوٹر کا رواج ہے تو وہ بجائے ذہن استعمال کرنے کے فوراً کسی حسابی آلے کی مدد سے سوال حل کرتا ہے کیلکولیٹر سے حل کرنے کی رفتار عام رفتار کی نسبت تیز ہوتی ہے مگر اس کا نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ ذہن کام کے اتنا قابل نہیں رہتا جتنا کہ اس بچے کا جو کیلکولیٹر یا کمپیوٹر کی بجائے اپنا ذہن استعمال کرتا ہے.اسی طرح عمومی طور پر مزدور پیشہ افراد ظاہری طور پر ان افراد سے زیادہ مضبوط اور صحت مند ہوتے ہیں جو دفتری کام کرتے ہیں.” Edward Gibbon حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بے پناہ دماغی اور ذہنی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں: "His (Muhammad's) memory was capacious and
165 حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات retentive, his wit easy and social, his imagination sublime, his judgment clear, rapid and decisive.He possessed the courage of both thought and action, and...the first idea which he entertained of his divine mission bears the stamp of an original and superior genius." (Edward Gibbon: The History of the Decline and Fall of the Roman Empire.John Murray, Albemarle St.London 1855, vol.6, p.335.) ترجمہ: آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا فلسفہ آسان اور عام فہم ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا تصور اعلیٰ و اکمل، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا فیصلہ بالکل صاف اور واضح، تیز اور درست ، آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) کو قول اور فعل کی جرات یکساں عطا کی گئی تھی اور اپنے الوہی مشن کے بارہ میں پہلا نظریہ جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم ) نے قائم کیا وہ ایک حقیقی اور بلند تر سوچ کی حامل ہستی کی طرف سے ہونے کا ثبوت اپنے اندر رکھتا تھا.پھر ابن وراق کے اس اعتراض کی دھجیاں بھی نہیں ملتیں جب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد خدا تعالیٰ نے جن خالفاء راشدین کے ذریعہ تمکین دین کی وہ سب بھی حافظ قرآن تھے.اگر حفاظت قرآن کے حوالہ سے ہی دیکھا جائے تو انہوں نے اپنے آقا و مطاع پر نازل ہونے والے کلام کی حفاظت کے لیے اپنے آقا کی پیروی میں ایسے ایسے غیر معمولی اقدامات کیے کہ ابن وراق جیسے کتنے مخالفین ہیں جو صدیوں کی کوشش کرنے کے بعد بھی قرآن کریم کی حفاظت کے میدان میں اپنے تمام تر بُرے ارادوں کے ساتھ نا کام ونامراد ہوتے چلے جارہے ہیں.انہی خلفا کے دور میں متبعین اسلام نے حیرت انگیز طور پر معلوم دنیا کا بڑا حصہ انتہائی کم وقت
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 166 میں معجزانہ طور پر فتح کر لیا تھا.اگر حفظ سے ذہن پر برا اثر پڑتا ہے تو پھر یہ حفاظ کس طرح دنیا سے آگے نکل گئے ؟ ان فاتحین نے صرف غلبہ ہی حاصل نہ کیا بلکہ مفتوح علاقوں میں تہذیب و تمدن کی بنیاد ڈالی اور علوم وفنون کو ترقی دی.صرف یہ لوگ ہی حافظ قرآن نہ تھے بلکہ اسلامی افواج کی کثیر تعداد بھی حفاظ پر ہی مشتمل ہوتی تھی.چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جب جھوٹے مدعیان نبوت سے برسر پیکار ہونا پڑا تو جنگ یمامہ میں لشکر اسلام کے شہدا میں صرف حفاظ کی تعداد سات سو تک جا پہنچی تھی.(عمدۃ القاری جزء 20 کتاب فضائل القرآن باب جمع القرآن صفحہ 16) یہ فتح نصیب قوم بقول ابن وراق کے ان لوگوں پر مشتمل ہوتی تھی جن کی ذہنی صلاحیتیں حفظ قرآن کے نتیجہ میں کند ہو چکی تھیں.لا حول ولا قوة الا باالله ! حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں اسلام کی بے مثال کامیابیاں دیکھ کر دنیا آج بھی انگشت بدنداں ہے.نافع بن عبد الحارث حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عصفان میں ملے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں اہل مکہ کا والی مقرر کیا ہوا تھا، انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سلام کیا.آپ نے ان سے دریافت کیا کہ تم نے وادی مکہ میں اپنا قائم مقام کس کو مقرر کیا ہے؟ نافع نے عرض کیا کہ میں نے ابن ابی کو اپنا قائم مقام مقرر کیا ہے.حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت فرمایا: ابن ابزای کون ہے؟ نافع نے عرض کیا.اے امیر المؤمنین ! وہ حافظ قرآن اور علم الفرائض کا ماہر ہے.اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تمہارا فیصلہ ٹھیک ہے.(الداری ، کتاب فضائل القرآن، باب ان الله يرفع بهذا القرآن اقواماً...) یہی تو وہ درست فیصلے تھے جن کی وجہ سے غیر معمولی فتوحات نصیب ہوئیں.“ الذكر المحفوظ، مصنفه احسان الله دانش، صفحه 352 353)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 167 صحابہ کرام کو کلام الہی سے بہت محبت تھی.وہ اپنا حفظ اور اپنی تحریر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کر کے اسے مستند بنایا کرتے تھے.پس جن کا دن رات کا کام تلاوت و تعلیم قرآن ہو وہ کس طرح بھول سکتا ہے.ابتدائی مؤمنین میں سے ایسے لوگ بھی حفظ کرنے لگے جن کی علمی حالت ایسی نہ تھی کہ قرآنی مضامین کی گہرائی میں جا کر ان کو سمجھ پاتے.باوجود معنے نہ جاننے کے مسلمانوں کا قرآن کریم کو یاد کرتے چلے جانا الہی کلام سے محبت کی دلیل ہے.چنانچہ ایک روایت ہے: عن عبدالله بن عمرو قال جاء رجل الى رسول الله الله فقال يَا رَسُوْلَ اللهِ إِنِّي أَقْرَأُ الْقُرْآنَ فَلَا أَجِدُ قَلْبِي يَعْقِلُ عَلَيْهِ.(مسند أحمد بن حنبل، مسند عبد الله بن عمرو، جزء2، صفحه 172) ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا کہ میں قرآن کریم تو پڑھتا ہوں مگر مجھے اس کی سمجھ نہیں آ رہی ہوتی.حضرت خلیفتہ اسی الثانی مصلح موعود نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے قرآن کریم کے پیرو قرآن کریم کو بے معنی ہی پڑھتے رہتے ہیں اس کے معنے سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتے.لیکن اگر غور کیا جائے تو یہ بھی اس آیت انا نحن نزلنا الذكر و انا له لحفظون (الحجر: 10) میں مذکورہ وعدہ کی تصدیق ہے.مسلمانوں کے دل میں اللہ تعالیٰ نے کس طرح قرآن کریم کی محبت ڈال دی ہے کہ معنی آئیں یا نہ آئیں وہ اسے پڑھتے چلے جاتے ہیں.یقیناً ہر مسلمان کا فرض ہے کہ قرآن کریم کو با معنی پڑھے اور اس طرف سے تغافل بڑی تباہی کا موجب ہوا ہے.“ (تفسیر کبیر، جلد چهارم صفحه 18 ، زیر تفسير سورة الحجرآيت (10) | آپ مزید فرماتے ہیں: ایک واقعہ کو کس طرح جھٹلایا جا سکتا ہے؟ جب واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم آپ کو یاد
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 168 رہا اور شب و روز نمازوں میں سنا دیا جاتا رہا تو اس کا انکار کس طرح کیا جا سکتا ہے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر تو قرآن اترا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپر دساری دنیا کی اصلاح کا کام کیا گیا تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے کیوں نہ یادر کھتے ؟...اور لاکھوں انسان موجود ہیں جنہیں سارا قرآن یاد ہے.جب اتنے لوگ اسے یاد کر سکتے ہیں تو کیا وہی نہیں کر سکتا تھا جس پر قرآن نازل ہوتا تھا؟ اللہ تعالیٰ نے اسے ایسے عشاق عطا کیے جو اس کے ایک ایک لفظ کو حفظ کرتے اور رات دن خود پڑھتے اور دوسروں کو سناتے تھے.اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے کسی نہ کسی حصے کا نمازوں میں پڑھنا فرض مقرر کر دیا اور شرط لگادی کہ کتاب میں سے دیکھ کر نہیں بلکہ یاد سے پڑھا جائے.اگر کوئی کہے کہ یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک بات سوج گئی تھی تو ہم کہتے ہیں کہ یہی بات زرتشت ، موسیٰ اور وید والوں کو کیوں نہ سوجھی.معلوم ہوتا ہے کہ اس کا سوجھانے والا کوئی اور ہے...یہ بھی یادر ہے کہ ایسے آدمیوں کا میسر آنا جو ا سے حفظ کرتے اور نمازوں میں پڑھتے تھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی طاقت میں نہ تھا.ان کا مہیا کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار سے باہر تھا.اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: انا نحن نزلنا الذکر وانا له لحافظون که ایسے لوگ ہم پیدا کرتے رہیں گے جو اسے حفظ کریں گے.آج اس اعلان پر تیرہ سو سال ہو چکے ہیں اور قرآن مجید کے کروڑوں حافظ گزر چکے ہیں اور آج بھی بے شمار حافظ ملتے ہیں جنہیں اچھی طرح سے قرآن کریم یاد ہے.بعض یورپین ناواقفیت کی وجہ سے کہہ دیا کرتے ہیں کہ اتنا بڑا قرآن کس کو یا در ہتا ہوگا ؟ مگر قادیان ہی میں کئی حافظ مل سکتے ہیں جنہیں اچھی طرح سے قرآن یاد ہے.چنانچہ میرے بڑے لڑکے ناصر احمد سلمہ اللہ تعالیٰ نے بھی گیارہ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیا تھا.“ (تفسیر کبیر، جلد چهارم، صفحه 17، 18، زیر تفسير سورة الحجرآيت (10)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 169 پھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ فرماتے ہیں: ”قادیان میں دو ڈاکٹر حافظ ہیں.اسی طرح اور بہت سے گریجوایٹ اور دوسرے لوگ حافظ ہیں.جن ڈاکٹروں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سے ایک نے صرف چار پانچ مہینے میں قرآن شریف حفظ کیا تھا.چوہدری سر ظفر اللہ صاحب حج فیڈرل کوٹ آف انڈیا ( حال وزیر خارجہ پاکستان ) کے والد صاحب نے اپنی آخری عمر میں جبکہ وہ تقریباً ساٹھ سال کے تھے چند مہینوں میں سارا قرآن حفظ کر لیا تھا.حافظ غلام محمد صاحب سابق مربی (-) ماریشس نے تین مہینہ میں قرآن شریف حفظ کیا تھا.نواب جمال الدین خاں صاحب جو ایک سابق والیہ ریاست بھوپال کے خاوند تھے ، ان کے ایک نواسے مجھے حج میں ملے تھے جنہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ انہوں نے ایک مہینہ میں سارا قرآن شریف حفظ کیا تھا....میرے جدا مجد مرزا گل محمد صاحب جو عالمگیر ثانی کے وقت میں تھے باوجود اس کے کہ کوئی بہت بڑے رئیس نہیں تھے، ان کی ریاست صرف اڑھائی مربع میل کے علاقہ پر حاوی تھی ان کے دربار میں پانچ سو حافظ موجود رہتا تھا.ہندوستان جیسے ملک میں جو عربی زبان سے بہت ہی نا واقف ہے بعض حصے ایسے پائے جاتے ہیں جن میں صدیوں سے اکثر لوگ حافظ چلے آتے ہیں.(دیباچه تفسير القرآن، صفحه 277 ) اس زمانہ میں بعض لوگ قرآن کریم کے حفظ کو فضول کام سمجھتے ہیں، اس کے الفاظ رٹنے کو حماقت بتلایا جاتا ہے، اس کے الفاظ یاد کرنے کو دماغ سوزی اور تضیع اوقات کہا جاتا ہے.اکثر مسلمان اپنی اولاد کو تعلیم قرآن کی بجائے دنیاوی تعلیم اعلیٰ سے اعلیٰ دلانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، عام تاثر یہ ہے کہ دنیاوی تعلیم سے اولاد کی زندگی سنور جاتی ہے، ترقی کی راہیں کھلتی ہیں، معاشرہ میں عزت کا مقام ملتا ہے.حالانکہ یہ سب باتیں خوف خدا، فکر آخرت اور اسلامی معاشرہ روح اسلام سے دور لے جاتی ہیں.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 170 کلام الہی اور اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے ہی ایک مسلمان کی حقیقی زندگی بنتی ہے.سب سے پہلے مسلمان کو چاہیے کہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے حسب استطاعت قرآن کریم سیکھے.قرآن کریم کو حفظ کرنا باعث اعزاز بھی ہے اور ذہن اور حافظہ کو بڑھانے کا باعث بھی.دراصل ہر مؤمن کی فلاح اور آخرت کے انعامات حاصل کرنے کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ جو آج ہمارے درمیان موجود ہے خدا کا کلام ہی ہے، اس لیے خود بھی اور اپنی نسلوں کو بھی تعلیم القرآن کی طرف رغبت دلانی چاہیے.چاہیے کہ ہم قرآن کریم کو با قاعدگی سے پڑھیں ، اس کے احکام پر عمل پیرا ہوں اور آخرت کے بے شمار انعامات پائیں اور اخروی عذاب سے نجات کے سامان کریں.رآن جواہرات کی تھیلی ہے اور مجھ میں اس سے بے خبر ہیں (الفرات الاول)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 171 مختصر تعارف کتب احادیث مذکورہ صحاح ستہ کے علاوہ مذکورہ کتب احادیث جن کے حوالہ جات اس کتاب میں درج کیے گئے، ان کا کچھ تعارف یوں ہے.☆ ⭑☆ ☆ ☆ ☆ مسند احمد بن حنبل.(ابو عبد اللہ احمد بن حنبل الشیبانی.متوفی 241ھ) سنن الدارمی.(عبد اللہ بن عبد الرحمان ابومحمد الدارمی.متوفی 255ھ) کنز العمال.(علاؤالدین علی بن حسام الدین التقی الھندی متوفی 975ھ) شعب الایمان للبيهقى - (ابوبکر احمد الحسین البیھقی.متوفی 458ھ) - الجامع الصغير للسيوطي ( جلال الدین عبد الرحمان بن ابی بکر السیوطی.متوفی 911ھ) التوحيد لابن خزیمہ - ابو بکر محمد بن اسحاق بن خزیمہ.متوفی 311ھ) الآلى المصنوعة في الاحاديث.( جلال الدین عبد الرحمان بن ابی بکر السیوطی.متوفی 911ھ) مصنف ابن ابی شیبة - ابو بکر عبداللہ بن محمد بن ابی شیبة - متوفی 235ھ) مصنف عبدالرزاق.(ابوبکر عبدالرزاق بن ہمام الصنعانی متوفی 211ھ ) مسند البزار - ابو بکر احمد بن عمرو بن عبد الخالق البزار متوفی 292ھ) حمد معجم الاوسط.(ابوالقاسم سلیمان بن احمد الطبرانی.متوفی 360ھ) احیاء علوم الدین للغزالی.(ابو حامد محمد بن محمد الغزالی.متوفی 505ھ) ☆ ☆ حيح میزان الاعتدال.شمس الدین ابوعبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذھی.متوفی 748ھ ) المعرفة والتاريخ (ابو یوسف یعقوب بن سفیان الفسوی.متوفی 347ھ)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 172 حمد جامع بیان العلم وفضله لا بن عبدالبر.( ابو عمر یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبدالبر.متوفی 463ھ ) الجامع لأخلاق الراوی و آداب السامع للخطيب البغدادی.( ابوبکر احمد بن علی بن ثاقب الخطيب البغدادی.متوفی 463ھ ) فردوس الأخبارالدیلمی.الحافظ شیر و یه بن شهر دار بن شیر و یہ الدیلمی.متوفی 509ھ) مند الفردوس - ( ابو منصور شهر دار بن الحافظ شیر و سید بن شهر دار.....متوفی 558ھ) حلية الاولياء - (ابو نعیم احمد بن عبداللہ الأصبھانی.متوفی 430ھ )
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات ب ہشتم 173 جماعت احمدیہ اور حفظ قرآن جمال و حسن قرآں نورِ جانِ ہر مسلماں ہے قمر ہے چاند اوروں کا ہمارا چاند قرآں ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے مطابق آخری زمانہ میں امت کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کو سیح موعود و مہدی معہود بنا کر مبعوث فرمایا جنہوں نے آکر قرآن کریم کی تعلیم کو ایک بار پھر زندہ کر دیا.آپ علیہ السلام نے اپنی ساری زندگی خدمت قرآن کریم میں گزاری.بچپن سے ہی آپ علیہ السلام کو قرآن کریم سے محبت تھی.آپ علیہ السلام سیالکوٹ میں یہ سلسلہ ملازمت قیام کے دوران اکثر اوقات میں اپنے کمرے کا دروازہ بند کر کے عبادت کرتے اور قرآن کریم کی تلاوت فرماتے اور اس پر تدبر کرتے رہتے.آپ علیہ السلام نے قرآنی آیات لکھ کر دیواروں پر لٹکا رکھی تھیں تا کہ آتے جاتے ان پر نظر پڑتی رہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت کثرت سے تلاوت فرمایا کرتے تھے.خان بہادر مکرم مرزا سلطان احمد صاحب کی روایت ہے کہ آپ علیہ السلام کے پاس ایک قرآن تھا جس پر نشان کرتے رہتے تھے.وہ کہتے ہیں کہ میں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید آپ نے دس ہزار مرتبہ اس ( قرآن ) کو پڑھا ہو.“ (حیات احمد مرتبه حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب، جلداول، صفحه (128) حضرت مسیح موعود جب اپنے والد بزرگوار کے حکم کی تعمیل میں بسلسلہ ملازمت سیالکوٹ کچہری میں قیام فرما تھے.وہاں شمس العلماء جناب مولانا سید میر حسن مرحوم ( جو ڈاکٹر علامہ اقبال کے استاد تھے ) حضور کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ آپ کچہری سے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے.بیٹھ کر ، کھڑے ہو کر ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار زار رویا کرتے تھے.ایسی خشوع و خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی.“ (حیات طیبہ مرتبہ شیخ عبد القادر صاحب، صفحہ 33)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 174 عاشق قرآن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودات : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قرآن کریم کے ساتھ بے پناہ عشق تھا.ہر وقت اس کے مطالعہ میں مواور مستغرق رہتے تھے.اس خشوع و خضوع سے تلاوت کرتے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی.جہاں ایک طرف آپ نے قرآن کریم کے بحر ذخار میں سے موتی نکال کر دنیا کو دیے ، وہاں فلسفی اور ہیئت دانوں کے قرآن کریم پر بھی اعتراضات کا بھی کافی وشافی جواب دیا.پھر اپنی جماعت کو تلقین کرتے ہوئے فرمایا: " تمہارے لئے ایک ضروری تعلیم یہ ہے کہ قرآن شریف مہجور کی طرح نہ چھوڑ دو کہ تمہاری اس میں زندگی ہے.جولوگ قرآن کو عزت دیں گے آسمان پر عزت پائیں گے.جولوگ ہر ایک حدیث اور ہر ایک قول پر قرآن کو مقدم رکھیں گے اُن کو آسمان پر مقدم رکھا جائے گا.نوع انسان کے لئے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن.“ (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19، صفحه 13) سب کتابیں چھوڑ دو اور رات دن کتاب اللہ ہی کو پڑھو.“ ”ہماری جماعت کو چاہیے کہ قرآن کریم کے شغل اور تدبر میں جان ودل سے مصروف ہو جائیں“.اس وقت قرآن کریم کا حربہ ہاتھ میں لو ، تمہاری فتح ہے.اس نور کے آگے کوئی ظلمت ٹھہر نہ سکے گی.“ (ملفوظات،جلداول صفحہ 386) تم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کر وایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو، کیونکہ جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا الْخَيْرُ كُلَّهُ فِي الْقُرْآن که تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں.“ (کشتی نوح ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 27) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دلی تمنا تھی کہ آپ علیہ السلام کی قائم کردہ جماعت قرآن کریم سے وابستہ ہو جائے اور یہ بھی آپ علیہ السلام کی دلی خواہش تھی کہ کوئی ایسا انتظام ہو جس کے ماتحت لوگ قرآن کریم حفظ کریں.چنانچہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 175 موقع پر مدرسہ تعلیم الاسلام میں ایک حافظ قرآن مقرر کیا جائے جو قرآن مجید حفظ کرائے.آپ نے فرمایا میرا بھی دل چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ جو چاہے گا کرے گا“ (تاریخ احمدیت ، جلد سوم صفحه (168) ایک حافظ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے درخواست کی کہ میں کوشش کرتا ہوں کہ قرآن کی میری منزل ٹھہر جائے مگر نا کامیاب ہی رہتا ہوں.دعا فرمائیے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ قرآن خود یہ خاصیت رکھتا ہے کہ اس نقص کو رفع کر دے.محبت سے پڑھتے رہو.ہم بھی دعا کریں گے.“ (ملفوظات، جلد دوم، صفحه (544) | حضرت مسیح موعود علیہ السلام قرآن کریم کے بچے عاشق تھے یہاں تک کہ قرآن آپ کی روح کی غذا بن گیا تھا.ایک دفعہ آپ سیر کے لئے تشریف لے گئے ، آپ کے ساتھ حافظ محبوب الرحمان صاحب بھی تھے.آپ نے حافظ صاحب کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ یہ قرآن شریف اچھا پڑھتے ہیں اور میں نے اسی واسطے ان کو یہاں رکھ لیا ہے کہ ہر روز ان سے قرآن شریف سنا کریں گے.مجھے بہت شوق ہے کہ کوئی شخص عمدہ صحیح ، خوش الحانی سے قرآن شریف پڑھنے والا ہو تو اس سے سنا کروں.پھر حافظ صاحب موصوف کو مخاطب کر کے حضرت نے فرمایا کہ آج آپ سیر میں کچھ سنائیں.چنانچہ تھوڑی دور جا کر آپ نہایت سادگی کے ساتھ ایک کھیت کے کنارے زمین پر بیٹھ گئے اور تمام خدام بھی زمین پر بیٹھ گئے اور حافظ صاحب نے نہایت خوش الحانی سے سورۃ الدہر پڑھی.(ملفوظات، جلد 5 صفحہ 197) ایک دفعہ آپ علیہ السلام کے سر میں بہت درد ہو رہا تھا تو آپ علیہ السلام نے انہی حافظ صاحب موصوف سے قرآن سنانے کو کہا.چنانچہ جب انہوں نے قرآن پڑھنا شروع کیا تو آپ علیہ السلام کو سر درد سے آرام آ گیا.آپ علیہ السلام کے دل کا نقشہ تو یہ تھا کہ دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ میرا یہی ہے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 176 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خوش الحانی سے قرآن سنا تھا اور آپ اس پر روئے بھی تھے جب یہ آیت سنی وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا “ (النساء:42) آپ صلی اللہ علیہ وسلم روئے اور فرمایا بس کر میں آگے نہیں سن سکتا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گواہ گزرنے پر خیال گزرا ہوگا.ہمیں خواہش رہتی ہے کہ کوئی خوش الحان حافظ ہو تو قرآن سنیں.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام عربی کلام میں فرماتے ہیں: (ملفوظات جلد سوم صفحه 162,161) كِتَابٌ كَرِيمٌ حَازَ كُلُّ فَضِيلَةٍ وَيُسْقِى كُرُوسَ مَعَارِفَ وَيُوَفَّرُ ترجمہ: قرآن کریم ایسی بزرگ کتاب ہے جو تمام فضیلتوں کی جامع ہے ، یہ معارف کے جام پلائے جاتی ہے اور بس نہیں کرتی.طَرِيٌّ طَلَاوَتُهُ وَ لَمْ تَعْفُ نُقْطَةٌ بمَاصَانَهُ اللَّهُ الْقَدِيرُ الْمُوَقِّرُ ترجمہ: اس کی تازگی سدا بہار ہے اور اس کا ایک نقطہ بھی کم نہیں ہوا کیوں کہ خدائے قدیر عظیم نے اس کی حفاظت کی ہے.إِذَا مَا تَلا مِنْ آيَةٍ طَالِبُ الْهُدَى يرى نُورَهُ يَجْرِى كَعَيْنِ وَيُمْطِرُ ترجمہ : جب کوئی طالب ہدایت اس کی کوئی آیت تلاوت کرتا ہے.تو اس کا نور کسی چشمہ کی طرح بہنے اور بارش کی طرح برسنے لگتا ہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 177 حضرت مسیح موعود علیہ السلام اردو کلام میں فرماتے ہیں: قرآن کتاب رحماں سکھلائے راه عرفاں جو اس کے پڑھنے والے اُن پر خدا کے فیضاں أن تہ خدا کی رحمت جو اس پر لائے ایماں یہ روز کر مبارک سبـــحـــــــان مــــن يــــــرانـــــــی ہے چشمہ ہدایت جس کو ہو عنایت ہیں خدا کی باتیں ان سے ملے ولایت نور دل کو بخشے دل میں کرے سرایت یہ روز کر مبارک سبـــحـــــــان مـــــن يــــــرانـــــــی قرآن کو یاد رکھنا پاک پاک اعتقاد رکھنا معاد رکھنا پاس اپنے زاد رکھنا اکسیر ہے ہے پیارے صدق سداد رکھنا و یه روز کر مبارک سبــــحــــــان مــــن يـــــرانـــــی فکر ہے شکر رب عز و جل خارج از بیان جس کے کلام سے ہمیں اس کا ملا نشاں وہ روشنی جو پاتے ہیں ہم اس کتاب میں گی نہیں بھی وہ ہزار آفتاب میں ہو قرآں خدا نما ہے خدا کا کلام ہے بے اس کے معرفت کا چمن ناتمام ہے نور فرقاں ہے جو سب نوروں سے پاک وہ جس اجلی نکلا انوار کا دریا نکلا
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 178 حضرت مسیح موعود علیہ السلام فارسی کلام میں فرماتے ہیں: از نور پاک قرآن صبح صفا دمیده بر غنچہ ہائے دل ہا باد صبا وزیده ترجمہ: قرآن کے پاک نور سے روشن صبح نمودار ہوگئی اور دلوں کے غنچوں پر بادِ صبا چلنے لگی.صد بار رقص با کنم از خر می اگر بینم که حسن دلکش فرقاں نہاں نماند ترجمہ: میں خوشی کے مارے سینکڑوں بار رقص کروں اگر یہ دیکھ لوں کہ قرآن کا دلکش جمال پوشیدہ نہیں رہا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسیہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے رفقا اور عزیزوں کے دلوں میں بھی عشق قرآن کریم کی کو جگادی.جس طرح آپ کو قرآن کریم سے عشق تھا، اس عشق کی بو قلمونی آپ نے ان میں بھی کر دی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قوت قدسیہ کے طفیل احباب جماعت میں قرآن کا عشق اور شوق بڑھتا ہی گیا.اہل قادیان کا قرآن کریم سے محبت اور عشق کا جو حال تھا ، اس کے بارے میں ایک غیر احمدی صحافی محمد اسلم صاحب جو ایک دفعہ امرتسر سے قادیان آئے.واپس جا کر انہوں نے اپنے تاثرات کچھ یوں بیان کیے: قرآن مجید کے متعلق جس قدر صادقانہ محبت اس جماعت میں میں نے دیکھی، کہیں نہیں دیکھی.صبح کی نماز منہ اندھیرے چھوٹی (-) بیت مبارک میں پڑھنے کے بعد جو میں نے گشت کیا تو تمام احمد یوں کو میں نے بلا تمیز بوڑھے اور بچے اور نو جوان کے لیمپ کے آگے قرآن مجید پڑھتے دیکھا، دونوں احمدی (-) بیوت میں دو بڑے گروہوں اور سکول کے بورڈنگ میں سینکڑوں لڑکوں کی قرآن خوانی کا موثر نظارہ مجھے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 179 عمر بھر یا در ہے گا، حتی کہ احمدی جماعت کے تاجروں کا صبح سویرے اپنی اپنی دکانوں اور احمدی مسافر مقیم مسافر خانے کی قرآن خوانی بھی ایک نہایت پاکیزه سین (منظر ) پیدا کر رہی تھی، گویا صبح کو مجھے یہ معلوم ہوتا تھا کہ قدوسیوں کے گروہ در گروہ آسمان سے اتر کر قرآن مجید کی تلاوت کر کے بنی نوع انسان پر قرآن مجید کی عظمت کا 66 سکہ بٹھانے آئے ہیں.غرض احمدی قادیان میں مجھے قرآن ہی قرآن نظر آیا.“ (البدر، 13 مارچ 1913ء صفحه 7،6 ) | حضرت مسیح موعود" کے 313 رفقائے خاص میں جو حافظ قرآن تھے ان کے اسماء درج ہیں: حضرت حافظ حکیم مولوی نورالدین صاحب نور الله مرقدة (خلیفة اسح الاول) آف بھیرہ ، حضرت حافظ مولوی فضل دین صاحب آف کھاریاں، حضرت حافظ حکیم مولوی فضل دین صاحب آف بھیرہ، حضرت حافظ حاجی مولوی احمد اللہ خاں صاحب قادیانی ، حضرت حافظ نور محمد صاحب فیض اللہ چک ضلع گورداسپور ، جناب حافظ فضل احمد صاحب آف لاہور، حضرت حافظ مولوی محمد یعقوب خان صاحب آف ڈیرہ دون، حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب آف لاہور ( آپ کے خاندان کے سب لڑکے اور لڑکیاں حافظ قرآن تھے )، حضرت حافظ محمد بخش صاحب آف کوٹ قاضی ، حضرت حافظ نوراحمد صاحب آف لدھیانہ، حضرت حافظ مولوی احمد دین صاحب آف چک سکندر ضلع گجرات ، حضرت حافظ محمدسعید صاحب آف بھیرہ ، حضرت حافظ مولوی محمد صاحب آف بھیرہ (خلیفہ مسیح الاول کے بھتیجے ، حضرت حافظ مولوی فضل دین صاحب آف خوشاب، حضرت حافظ شیخ الہ دین صاحب بی اے آف جھاوریاں، حضرت حافظ غلام محی الدین صاحب آف بھیرہ.(مأخوذ از 313- اصحاب صدق وصفاء مؤلفه نصرالله خان ناصر، عاصم جمالی ) حضرت مسیح موعود کے بعض رفقاء کے عشق قرآن کریم کے چند ایمان افروز واقعات درج ہیں.حضرت حافظ روشن علی صاحب رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قرآن کریم کے حوالے سے رفقا میں ایک منفرد مقام تھا.آپ میں یہ ملکہ بھی پایا جاتا تھا کہ کسی بھی مضمون کے متعلق قرآن کریم سے فوراً متعلقہ آیت نکال دیا کرتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ آپ کے اسی کمال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ” حافظ صاحب میں یہ بڑا کمال تھا کہ انہیں جب بھی کوئی مضمون بتا دیا جاتا وہ اس
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 180 مضمون کی آیتیں فوراً قرآن کریم سے نکال دیا کرتے تھے...ان کی وفات کے بعد مجھے ایسا اب تک کوئی آدمی نہیں ملا.(افضل، 26 جولائی 1944ء) حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب رقت سے قرآن مجید پڑھتے.مومنین کے ذکر پر عجز سے دعا کرتے کہ ان جیسے اعمال کی توفیق ملے اور کفار و منافقین کے ذکر پر عجز سے دعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ ان میں سے نہ بنائے.سجدہ میں آدھ آدھ گھنٹہ دعا کرتے.قرآن مجید کے احکام پر حضرت مسیح موعود کے قرآن مجید سے نشان لگائے ہوئے تھے کہ جنہیں تلاوت کے وقت بالخصوص مدنظر رکھنا چاہئے.بعض دفعہ کوئی آیت لکھ کر اپنے رہنے کی جگہ پر لٹکا دیتے تا وہ ہمیشہ پیش نظر رہے.رمضان المبارک میں ایک بار قرآن مجید ضرور ختم کرتے.اور آخری مرض میں حفظ کرنا بھی شروع کیا تھا اور کچھ حصہ حفظ بھی کر لیا تھا.“ (رفقائے احمد، جلد اول، صفحه 98 | حضرت سیٹھ شیخ حسن صاحب (آف حیدر آباد دکن) کے بارہ میں روایت ہے : ”انہوں نے خواب دیکھا کہ آنحضرت ﷺ نے قرآن کریم کی طرف اشارہ کرتے اس کو پڑھنے کی تلقین کی.نیز بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو مسجد احمد یہ یاد گیر کے چبوترے پر بلند آواز سے قرآن مجید کی صلى الله تلاوت فرماتے دیکھا.میں ادب سے کھڑا تلاوت سنتا گیا.آنحضور ﷺ کی تلاوت کے بعد میں نے جھک الله کر السلام علیکم کہا.آنحضور ﷺ نے وعلیکم السلام فرمایا اور ایک درخت کی طرف اشارہ کیا.دیکھا کہ ہزاروں قرآن مجید جز دانوں میں پڑے درخت پر جا بجا لٹک رہے ہیں.میر محمد سعید صاحب نے تعبیر میں فرمایا کہ آپ کو قرآن مجید کی بار بار تلاوت اور اس کی اشاعت کی ہدایت ہوئی ہے.چنانچہ سیٹھ صاحب نے خود قرآن مجید پڑھا، یاد گیر میں مدرسہ احمدیہ کے ساتھ ایک مدرسہ حفاظ قرآن جاری کیا.قرآن مجید حفظ کرنے والے بچوں کے لیے انعام واکرام اور لباس وطعام کا آپ کی طرف سے انتظام تھا.دوسرے لوگوں کی ترغیب کے لیے آپ سارا قرآن ختم کرنے والے کو ایک سوروپے، نصف ختم کرنے والے کو ساڑھے پچاس روپے اور چوتھائی ختم کرنے والے کو سوا پچیس روپے انعام دیتے تھے.آپ نے ہزاروں روپے کے قرآن مجید بھی مفت تقسیم کیے.“ ( رفقائے احمد ، جلد اول، صفحہ 219 220) حضرت حافظ سید مختار احمد شاہجہانپوری صاحب کا واقعہ بھی قابل ذکر ہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 181 ان کے والد صاحب محترم ماہ رمضان المبارک میں تراویح پڑھانے کے لیے خوش الحان حافظ کا ہر سال انتظام فرمایا کرتے تھے.ایک سال ایسا ہوا کہ رمضان المبارک شروع ہونے میں ایک یا دو دن باقی تھے ، آپ کی مجلس میں کسی مرید نے دریافت کیا کہ امسال تراویح کے لیے کس حافظ صاحب کا انتظام کیا ہے؟ فرمایا ہم نے کوئی انتظام نہیں کیا کیونکہ ہماری خواہش ہے کہ اس سال قرآن کریم ہمیں ( حافظ ) مختار صاحب سنائیں گے.حافظ صاحب فرماتے ہیں کہ وہ یہ سنتے ہی کھڑے ہو گئے اور عرض کیا.اچھا ابا حضور : اس سال ہم ہی قرآن سنائیں گے.ہم گھر آگئے اور والدہ محترمہ سے عرض کیا کہ میں کچھ دن اوپر چوبارے میں قیام کروں گا.رمضان میں مجھے اکیلا چھوڑ دیا جائے.میرا کھانا فلاں جگہ رکھ دیا جایا کرے اور افطاری اور سحری کے وقت یہی معمول رہے ، میں خالی برتن اس جگہ رکھ دیا کروں گا.مجھے صرف 29 پارے حفظ کرنے تھے کیونکہ تیسواں پارہ مجھے یاد تھا.اس طرح ہم نے صرف ایک ماہ میں قرآن کریم حفظ کر لیا اور خدا کے فضل سے آج تک حافظ ہیں.“ ( حیات حضرت مختار، مصنفہ ابوالعارف سلیم شاہجہانپوری ، صفحہ 213 214) حضرت قطب الدین صاحب کے بارہ میں حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب کی روایت ہے.احمدیت نے ایسی تبدیلی پیدا کی کہ وہ ہر وقت قرآن مجید پڑھتے رہتے تھے اور اس طرح قرآن مجید کے حافظ ہو گئے.ایک بات جو آپ میں خاص تھی وہ یہ کہ آپ جب صبح بل جو تنے کے لئے جایا کرتے تو اپنے ساتھ قرآن بھی لے جاتے تھے آپ کے دوسرے ساتھی آرام کے لئے حقہ وغیرہ لے لیتے لیکن آپ وہیں وضو کرنے کے بعد قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہتے.الفضل، 19 مارچ 2001ء صفحه 9) حضرت مولوی محمد ابراہیم صاحب بقا پوری کے عشق قرآن کا ایک واقعہ یوں ہے.حضرت خلیفہ اصیح الاول نور اللہ مرقدہ نے رمضان شریف میں سارے قرآن مجید کا درس دینا تھا.ادھر بھائیوں کی طرف سے یہ اطلاع ملی کہ والد مرحوم کی جائیداد کے انتقال کے لئے فلاں روز پہنچنا ضروری ہے.آپ نے سوچا کہ اس طرح تین دن صرف ہو کر تین سیپارے کے درس سے محروم ہو جائیں گے.اُن کو اطلاع دی کہ میں قادیان درس قرآن میں شمولیت کے لئے جا رہا ہوں خواہ میرے نام انتقال ہو یا نہ ہو.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 182 تحصیلدار بندوبست کی آنکھیں اس خط کو دیکھ کر پُر آب ہو گئیں اور اس نے کہا کہ ایمان تو ایسے لوگوں کا ہے.میں مسل دبار کھتا ہوں.مولوی صاحب کے آنے پر مہتم بندوبست کے پیش کروں گا.رفقائے احمد جلد 10 ، صفحه 239) حضرت خلیفتہ امسیح الاول نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں.شیخ ابن عربی لکھتے ہیں کہ ایک صوفی تھے ، وہ حافظ تھے اور قرآن شریف کو دیکھ کر بڑے غور سے پڑھتے.ہر حرف پر انگلی رکھتے جاتے اور اتنی اونچی آواز سے پڑھتے کہ دوسرا آدمی سن سکے.ایک شخص نے ان سے پوچھا کہ آپ کو تو قرآن شریف خوب آتا ہے پھر آپ کیوں اس اہتمام سے پڑھتے ہیں.فرمایا کہ میرا جی چاہتا ہے کہ میری زبان، کان، آنکھ ، ہاتھ سب خدا کی کتاب کی خدمت کر یں.““ حقائق الفرقان جلد چهارم صفحه 305) حضرت حافظہ زینب بی بی صاحبہ کے بارہ میں روایت ہے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے دریافت فرمایا کہ آپ میں کتنی عورتیں حافظ قرآن ہیں؟ اس بات نے آپ پر گہرا اثر کیا.باوجود یکہ آپ کے چھوٹے چھوٹے تین بچے تھے، زمیندار گھرانہ تھا، آپ نے واپس آکر قرآن کریم حفظ کرنا شروع کر دیا اور پورا قرآن کریم حفظ کر لیا.(الفضل،5 جولائی 1999 صفحہ 6) حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے خلافت اولیٰ کے وقت 1912ء کے ماہِ رمضان میں اہل قادیان کے قرآن کریم سے عشق اور محبت کا نقشہ یوں کھینچا: قادیان کا رمضان قرآن شریف کے پڑھنے اور سننے کے لحاظ سے ایک خصوصیت رکھتا ہے.تہجد کے وقت بیت مبارک کی چھت پر اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوتا ہے.صوفی تصور حسین صاحب خوش الحانی سے قرآن شریف تراویح میں سناتے ہیں....حضرت خلیفہ اسیح (الاول) جلد اپنے مکان کے صحن میں درس دینے والے ہوتے ہیں.اس واسطے ہر طرف سے متعلمین درس بڑے اور چھوٹے ، بچے اور بوڑھے پیارا قرآن بغلوں میں دبائے حضرت کے مکان کی طرف دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں.حضرت کے انتظار میں کوئی اپنی روزانہ منزل پڑھ رہا ہے، کوئی کل کے پڑھے ہوئے کو دہرا رہا ہے.کیا مبارک فجر ہے مؤمنوں کی.تھوڑی دیر میں حضرت کی
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 183 آمد اور قرآن خوانی سے ساری مجلس بقعہ نور نظر آنے لگتی ہے.نصف پارہ کے قریب پڑھا جاتا ہے.اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے تفسیر کی جاتی ہے.سائلین کے سوالات کے جواب دیے جاتے ہیں.تقوی و عمل کی تاکید بار بار کی جاتی ہے.پھر ظہر کے بعد سب لوگ بیت اقصٰی میں جمع ہوتے ہیں.وہاں حضرت خلیفہ اسیح بھی تشریف لے جاتے ہیں اور صبح کی طرح وہاں پھر درس ہوتا ہے.بعد عشاء بیت اقصٰی میں حافظ جمال الدین صاحب تراویح میں قرآن شریف سناتے ہیں اور حضرت کے مکان پر حافظ ابواللیث محمد اسماعیل صاحب سناتے ہیں.غرض اس طرح قرآن شریف کے پڑھنے پڑھانے اور سننے کا ایسا شغل ان ایام میں دن رات رہتا ہے کہ گویا اس مہینہ میں قرآن شریف کا ایک خاص نزول ہوتا ہے.(تاریخ احمدیت ، جلد.سوم صفحه (603) حضرت خلیفہ المسیح الاول نور اللہ مرقدہ اور حفظ قرآن کی تحریک: حضرت خلیفتہ المسیح الاول حکیم مولوی نورالدین صاحب نور الله مـــرقــده جنہوں نے اپنے دور خلافت میں جماعت احمدیہ کو تمام تر خطرات سے نکالتے ہوئے ترقی کی راہ پر گامزن رکھا، لشکر احمدیت کے یہ فتح نصیب شہسوار اور امام حافظ قرآن بھی تھے.حضرت خلیفہ اسیح الاول 1881ء میں ایک راجہ کے ساتھ ایک شہزادی کی شادی پر تشریف لے گئے.آپ ہاتھی پر سوار تھے، ایک اسپرنگ کی وجہ سے آپ زخمی ہو گے.زنم خدا خدا کر کے ٹھیک ہوا تو ایک گھوڑی پر روانہ ہوئے.لیکن چار میل بعد آگے جانے کی طاقت نہ رہی تو کسی دوست نے پالکی کا انتظام کیا.آپ اس میں لیٹ گئے اور شکریہ میں قرآن مجید یاد کرنا شروع کر دیا.ایک مہینے کا سفر تھا.جب آپ جموں پہنچے تو چودہ پارے حفظ کر چکے تھے باقی بعد میں یاد کئے.اس طرح آپ کو بھی اپنے بزرگوں کی طرح قرآن شریف زبانی یاد کرنے کی سعادت ملی.“ (سوانح حضرت خليفة المسيح الاول مصنفه رضیه درد ،صفحه 18 )
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 184 آپ ایک سچے عاشق قرآن تھے.آپ فرماتے ہیں.مجھے قرآن سے بڑھ کر کوئی چیز پیاری نہیں لگتی.ہزاروں کتابیں پڑھی ہیں ان سب میں مجھے خدا ہی کی کتاب پسند آئی.میرا تو اعتقاد ہے کہ اس کتاب کا ایک رکوع انسان کو بادشاہ سے بڑھ کر خوش قسمت بنا دیتا ہے.اسی طرح فرمایا: میں نے قرآن کریم بہت پڑھا ہے.اب تو یہ میری غذا ہے.اگر آٹھ پہر میں خود نہ پڑھوں اور نہ پڑھاؤں اور میرا بیٹا سامنے آ کر نہ پڑھے تو مجھے سکون نہیں ملتا.سونے سے پہلے وہ آدھ پارہ مجھے سنا دیتا ہے غرض میں قرآن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا.وہ میری غذا ہے.ایک دفعہ آپ قرآن شریف کے درس کے لئے بیت اقصی کی طرف تشریف لے جا رہے تھے.آپ کو راستے میں اطلاع ملی کہ صوفی غلام محمد صاحب بی.اے نے قرآن مجید حفظ کر لیا ہے.آپ وہیں دوکان کی چٹائی پر سجدہ شکر میں گر گئے.“ (سوانح حضرت خليفة المسيح الاول مصنفه رضیه درد ، صفحه (34) ایک بار حضرت خلیفہ مسیح الاول نور اللہ مرقدہ نے اپنے بعض خدا کو یہ کام پر فرمایا کہ وہ قرآن مجید کے اسماء افعال اور حروف کی الگ الگ فہرستیں تیار کریں.اس کا ایک مقصد خدام میں قرآن مجید کی خدمت اور اس پر غور و فکر کی عادت پیدا کرنا تھا.مولوی ارجمند خان صاحب کا بیان ہے کہ اس تحریک کے سلسلہ میں میرے حصہ میں اٹھارہواں پارہ آیا جو میں نے پیش کر دیا.ایک بار آپ نے 12 دوستوں کو تحریک فرمائی کہ اڑھائی اڑھائی پارے یاد کر لیں.اس طرح سب مل کر حافظ قرآن بن جائیں.(تشی الا زبان، مارچ 1912،جلد 7 صفحہ:101) آپ نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: ” مجھے قرآن مجید سے بہت محبت ہے اور بہت محبت ہے.قرآن مجید میری غذا ہے.میں سخت کمزور ہوتا ہوں قرآن مجید پڑھتے پڑھتے مجھ میں طاقت آجاتی ہے.(تاریخ احمدیت، جلد 3، صفحه 558)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 185 نیز فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ جو مجھے بہشت میں اور حشر میں نعمتیں دے تو میں سب سے پہلے قرآن شریف مانگوں گا تا حشر کے میدان میں بھی اور بہشت میں بھی قرآن شریف پڑھوں، پڑھاؤں اور سناؤں“.تذكرة المهدى ، جلد اول، صفحه 246) حضرت خلیفة استج الثانی تور انور اللہ مرقدہ اور حفظ قرآن کی تحریکات ہوئے فرمایا: حضرت خلیفہ اسیح الثاني نور الله مرقدہ نے 7 دسمبر 1917ء کو حفظ قرآن کریم کی تحریک کرتے ”جو لوگ اپنے بچوں کو وقف کرنا چاہیں وہ پہلے قرآن کریم حفظ کرائیں کیونکہ مربی کے لیے حافظ قرآن ہونا نہایت مفید ہے.بعض لوگ خیال کرتے ہیں اگر بچوں کو قرآن حفظ کرانا چاہیں تو تعلیم میں حرج ہوتا ہے لیکن جب بچوں کو دین کے لیے وقف کرنا ہے تو کیوں نہ دین کے لیے جو مفیدترین چیز ہے وہ سکھالی جائے.جب قرآن کریم حفظ ہو جائے گا تو اور تعلیم بھی ہو سکے گی.میرا تو ابھی ایک بچہ پڑھنے کے قابل ہوا ہے اور میں نے تو اس کو قرآن شریف حفظ کرانا شروع کر دیا ہے.ایسے بچوں کا تو ،، جب انتظام ہوگا تو اور جو بڑی عمر کے ہیں وہ آہستہ آہستہ قرآن حفظ کرلیں گے.“ الفضل 22 دسمبر 1917ء.خطبات محمود جلد 5 صفحه: 612) | حضرت خلیفہ المسح الثاني نور اللہ مرقدہ مزید فرماتے ہیں: ” دوسری چیز جس کی طرف میں دوستوں کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ قرآن کریم حفظ کرنا ہے.یہ نہایت اعلیٰ درجہ کی نیکی ہے مگر افسوس ہے اس طرف بہت کم توجہ دی جارہی ہے.حفاظ دن بہ دن کم ہوتے جارہے ہیں.قرآن کریم حفظ کرنے کی عادت ڈالنے کے لیے میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ کچھ ایسے نوجوان اپنے آپ کو پیش کریں جو ایک حصہ قرآن کریم کا حفظ کریں اور اس طرح مجموعی طور پر کئی قرآن کریم کے حافظ بن جائیں.جو دوست اس تحریک میں حصہ لینا چاہتے ہوں وہ اپنے نام لکھوادیں.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 186 (اس پر 286 احباب نے اپنے نام پیش کیے.ناقل ) قرآن کریم کے 286 رکوع ترتیب وار ان میں تقسیم کر دیے جائیں، اس طرح ہفتہ میں نصف قرآن کریم یاد ہو جائے گا.اگر اس تحریک کو زیادہ بڑھایا جائے تو ممکن ہے کہ ایک ہفتہ میں پورا قرآن کریم حفظ ہو جایا کرے.اگر اس طرف توجہ تھوڑی سی بھی کی جائے تو چند سالوں میں سینکڑوں حافظ ہو جائیں گے.“ (تقریر فرموده 21 جون 1946ء مشعل راه ، جلد اوّل، صفحه (469) | اپریل مئی 1922ء میں حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے جماعت میں حفظ قرآن کی تحریک فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ کم از کم تھیں آدمی قرآن کریم کا ایک ایک پارہ حفظ کریں جس پر کئی افراد نے لبیک کہا.(بحوالہ الفضل 4 مئی 1922ء صفحہ:1) 24 اپریل 1944ء کو دعوئی مصلح موعود کے بعد حضور نے پھر حفاظ پیدا کرنے کی تحریک فرمائی.(بحوالہ الفضل 26 جولائی 1944 ء صفحہ 3) حضرت مصلح موعود نسور اللہ مرقدہ نے 29 اپریل 1946ء کو تحریک فرمائی کہ قرآن کریم کا چرچا اور اس کی برکات کو عام کرنے کے لیے ہماری جماعت میں بہ کثرت حفاظ ہونے چاہئیں.چنانچہ فرمایا: صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ چار پانچ حفاظ مقرر کرے جن کا کام یہ ہو کہ وہ بیوت میں نمازیں بھی پڑھایا کریں اور لوگوں کو قرآن کریم بھی پڑھائیں اسی طرح جو قرآن کریم کا ترجمہ نہیں جانتے ان کو تر جمہ پڑھا دیں اگر صبح و شام وہ محلوں میں قرآن پڑھاتے رہیں تو قرآن کریم کی تعلیم بھی عام ہو جائے گی اور یہاں مجلس میں بھی جب کوئی ضرورت پیش آئے گی ان سے کام لیا جا سکے گا.بہر حال قرآن کریم کا چر چا عام کرنے کے لیے ہمیں حفاظ کی سخت ضرورت ہے.انجمن کو چاہئے کہ وہ انہیں اتنا کافی گزارہ دے کہ جس سے وہ شریفانہ طور پر گزارہ کر سکیں.پہلے دو چار آدمی رکھ لیے جائیں پھر رفتہ رفتہ اس تعداد کو بڑھایا جائے.“ الفضل ، 26 اگست 1960، صفحه : 4)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 187 چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کی توجہ اور ہدایات کے تابع جماعت احمدیہ میں حفظ قرآن کی سکیم کو خاص اہمیت حاصل ہے.آپ کے دور خلافت میں 1920 ء سے قبل حافظ کلاس کا آغاز ہوا.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب ( خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ ) نے بھی اسی کلاس سے قرآن کریم حفظ کیا تھا.آپ کے ساتھ بارہ طلباء اس حفظ کلاس میں حفظ کر رہے تھے.(بحواله قادیان گائیڈ، مؤلفه محمد یا مین صاحب تاجر کتب قادیان) حضرت خلیق اسی اثنی نور اللہ مرقدہ فرماتے ہیں: عام طور پر یورپین مصنف اپنی نا واقفی کی وجہ سے یہ خیال کر لیتے ہیں کہ جبکہ دنیا میں بائبل کا کوئی حافظ نہیں ملتا تو قرآن شریف کا کوئی حافظ کہاں ہوسکتا ہے حالانکہ قرآن کریم کا یہ مزہ ہے کہ وہ ایسی سریلی زبان میں نازل ہوا ہے کہ اس کا حفظ کرنا نہایت ہی آسان ہے.میرا بڑا لڑ کا ناصر احمد (حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ ) جو آکسفورڈ کا بی اے آنرز اور ایم اے ہے.میں نے اسے دنیاوی تعلیم سے پہلے قرآن کریم کے حفظ پر لگایا اور وہ سارے قرآن کا حافظ ہے.“ (دیباچه تفسیر القرآن، صفحه (277) مزید فرماتے ہیں: ” قرآن کریم کی خدمت اور اس کی حفاظت ظاہری کا کام حفاظ اور قراء کے سپرد ہے.وہ قرآن کریم کے خادم ہیں اور اس کی حفاظت کا کام سرانجام دے رہے ہیں.جس طرح مہر کی غرض یہ ہوتی ہے کہ کوئی چیز باہر سے اندر داخل نہ ہو اور کوئی چیز اندر سے باہر خارج نہ ہو.اسی طرح اس آیت میں یہ بتایا تھا کہ قرآن کریم کی خدمت پر ایسے انسان مقرر کیے جائیں گے جو مشک کی طرح خوشبو دار ہوں گے.یعنی وہ اعلیٰ درجہ کے نیک ، اپنی ذمہ داری کو سمجھنے والے اور قرآن کریم کی حفاظت کا حق ادا کرنے والے ہوں گے.چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ چودہ سو سال گزر چکے ہیں مگر کوئی زمانہ ایسا نہیں ہوا جس میں حفاظ کی ایک بڑی بھاری جماعت دنیا میں موجود نہ ہو اور قرآن کی خدمت نہ کر رہی ہو.(تفسير كبير، جلد هشتم صفحه 320 |
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 188 حضرت خلیفة امسیح الثاني نور الله مرقدة فیصلہ کن الفاظ میں قرآن کریم کی حفاظت کے الہی وعدہ کے ثبوت میں بڑے جلالی انداز میں فرماتے ہیں: آج اگر بائبل کے سارے نسخے جلا دیے جائیں تو بائبل کے پیرو اس کا بیسواں حصہ بھی دوبارہ جمع نہیں کر سکتے لیکن قرآن مجید کو یہ فخر حاصل ہے کہ اگر سارے نسخے قرآن مجید کے دنیا سے مفقود کر دیے جائیں تب بھی دو تین دن کے اندر مکمل قرآن مجید موجود ہو سکتا ہے اور بڑے شہر تو الگ رہے ہم قادیان جیسی چھوٹی بستی میں اسے فورا حرف بہ حرف لکھوا سکتے ہیں.“ (تفسیر کبیر جلد چهارم صفحه 18 ، زیر تفسير سورة الحجرآيت (10) | حضرت خلیفہ امیج الثالث رسالہ فعال اور حفظ قرآن کی تحریک: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تیسرے خلیفہ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ جنہوں نے مسند خلافت پر جلوہ افروز ہوتے ہی سب سے زیادہ توجہ قرآن کریم کی تعلیم کو فروغ دینے کی طرف دی.قرآن کریم کی برکات اور اہمیت پر آپ نے متعدد معرکۃ الآرا خطبات دیے.تمام احمدی جماعتوں کو قرآن کریم سکھانے کے لئے مرکز میں ”ایڈیشنل نظارت تعلیم القرآن و وقف عارضی“ کے نام سے ایک الگ نظارت قائم فرمائی تا کہ منظم رنگ میں پوری جماعت کو قرآنِ کریم کی تعلیم دی جا سکے.اپنے دور خلافت میں علم قرآن بلند کرنے والے یہ امام بھی حافظ قرآن تھے.آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے جہاں قرآن کریم پڑھنے، پڑھانے اور اس پر غور و تدبر کرنے کی تلقین فرمائی ، وہاں تعلیم القرآن کے لیے وقف عارضی کی تحریک بھی جاری فرمائی اور قرآن کریم کو حفظ کرنے کے سلسلہ میں بھی خدام کو ارشاد فرمایا کہ وہ قرآن مجید کا ایک ایک پارہ حفظ کریں.جب ایک پارہ حفظ ہو جائے تو دوسرا پارہ حفظ کیا جائے اس سکیم سے حضور کا مقصد قرآن کریم کے زیادہ سے زیادہ حفاظ تیار کرنا تھا.چنانچہ خدام الاحمدیہ نے کما حقہ عمل کرنے کی کوشش کی اور مجلس خدام الاحمدیہ نے ایک ایک پارہ حفظ کرنے کی سکیم تیار کی.بعد میں اس کا جائزہ بھی لیا جاتا رہا اور جن خدام نے ایک ایک پارہ حفظ کر لیا تھا ان کے اسما
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 189 حضور انور رحمہ اللہ کی خدمت میں بغرض دعا بھجوائے گئے.(بحواله الفضل ، خلافت جوبلی نمبر 3 دسمبر 2008، صفحه 142 | حضرت خلیفہ امسح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے 12 دسمبر 1969ء کو کراچی میں خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے فرمایا: ”میرے دل میں یہ خواہش شدت سے پیدا کی گئی ہے کہ قرآن کریم کی سورۃ البقرۃ کی ابتدائی سترہ آیتیں جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.ہر احمدی کو یاد ہونی چاہئیں اور ان کے معانی بھی آنے چاہئیں اور جس حد تک ممکن ہو ان کی تفسیر بھی آنی چاہئے.اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ستر، اسی صفحات کا ایک رسالہ اور حضرت خلیفہ امسیح الاوّل نور اللہ مرقدہ اور حضرت مصلح موعود نستور اللہ مرقدہ کی تفاسیر کے متعلقہ اقتباسات پر مشتمل ہوگا ، شائع بھی کر دیں گے.مجھے آپ کی سعادت مندی اور جذبہ اخلاص اور اس رحمت کو دیکھ کر جو ہر آن اللہ تعالیٰ آپ پر نازل کر رہا ہے، امید ہے کہ آپ میری روح کی گہرائی سے پیدا ہونے والے اس مطالبہ پر لبیک کہتے ہوئے ان آیات کو زبانی یاد کریں گے.مرد بھی یاد کریں گے، عورتیں بھی یاد کریں گی.چھوٹے بڑے سب ان سترہ آیات کو ازبر کر لیں گے.پھر تین مہینے کے ایک وسیع منصوبہ پر عمل درآمد کرتے ہوئے ہم ہر ایک کے سامنے ان آیات کی تفسیر بھی لے کر آئیں گے.“ خطبات ناصر جلد 2 ، صفحه: (851) حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ان آیات کی تفسیر بھی بیان فرمائی اور جماعت کے کثیر احباب نے اس تحریک پر لبیک کہا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک موقع پر فرمایا: جماعت کو بہ حیثیت جماعت قرآن کریم سکھا دینا چاہئے.ان کے رگ وریشہ میں قرآن کریم سرایت کر جانا چاہئے بلکہ ان کی شریانوں میں بھی خون قرآن کریم کے نور کا بہنا چاہئے....احمدی کی رگوں میں جو قرآن کریم کا نور بہنا چاہئے ، وہ گردش
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 190 میں ہو تب ہی ہم اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کر سکتے ہیں، تب ہی ہم ساری دنیا میں اسلام کو غالب کرنے کی اس ذمہ داری کو نباہ سکتے ہیں.قرآن کریم تو ایسی عظیم اور اتنی حسین کتاب ہے کہ اس نے ہمارے مطلب کی کوئی چیز باقی نہیں چھوڑی.ہر چیز کو بیان کر دیا ہے.“ (رپورٹ مجلس مشاورت 1970ء صفحه 115) حضرت خلیفہ اصبح الرابع رحم اللہ تعالی و حفظ قرآن کی تحریک: حضرت خلیفۃ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے 4 جولائی 1997ء کو کینیڈا میں ایک جامع خطبہ.......ارشاد فرمایا جس میں آپ نے جماعت کو تعلیم قرآن کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا: ہر گھر والے کا فرض ہے کہ وہ قرآن کی طرف توجہ دے.قرآن کے معانی کی طرف توجہ دے.ایک بھی گھر کا فرد ایسا نہ ہو جو روزانہ قرآن پڑھنے کی عادت نہ رکھتا ہو میں چاہتا ہوں کہ اس صدی سے پہلے پہلے ہر گھر نمازیوں سے بھر جائے.اور ہر گھر میں روزانہ تلاوت قرآن کریم ہو.کوئی بچہ نہ ہو جسے تلاوت کی عادت نہ ہو....وہ گھر جس کے بسنے والے خدا کے گھر نہیں بساتے قرآن کریم سے ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ ایسے گھروں کو ویران کر دیا کرتا ہے..ہماری نسلوں کو اگر سنبھالنا ہے تو قرآن کریم نے سنبھالنا ہے.“ الفضل انٹرنیشنل 12 اگست 1997 حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک تحریک یہ فرمائی کہ قرآن مجید کی چھوٹی سورتیں اور بعض آیات حفظ کی جائیں.حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ کو قرآن مجید کے مختلف مضامین پر مبنی آیات کے حفظ کا بہت خیال تھا اور خود بھی خلافت سے قبل بھی اور بعد میں بے انتہا مصروفیات کے باوجود بھی اس کا تعہد فرماتے رہے اور نمازوں میں بدل بدل کر مختلف حصوں کی تلاوت فرماتے.ان منتخب حصوں کو حفظ کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 191 بچوں کو خصوصیت سے اور بڑوں بھی وہ آیات یاد کر لینی چاہئیں.جن کو میں نمازوں میں تلاوت کرتا ہوں اور اکثر میں فجر ، مغرب اور عشاء کی نمازوں میں بدل بدل کر تلاوت کرتا ہوں.یہ آنتیں جو میں نے چینی ہیں کسی مقصد کے لئے چنی ہیں.“ الفضل انٹرنیشنل 7 جون (1996 حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ کی منتخب کردہ وہ آیات کتابی شکل میں آیات الکتاب" کے نام سے شائع ہو چکی ہیں اور خدام الاحمدیہ کے لائحہ عمل میں بھی شعبہ تعلیم کے تحت درج کر دی گئی ہیں.حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے MTA کے ذریعہ ساری دنیا میں قرآنی تعلیم اور اس کے نور کو پھیلایا اور ہمارے گھروں میں نور کی شمعیں روشن کیں.آپ کی ذات اللہ ، اللہ کے رسول اور اللہ کے کلام کی محبت سے سرشار تھی.قرآن کریم کی تفسیر ہو یا ترجمہ، تلاوت قرآن میں با قاعدگی ہو یا صحت تلفظ سے پڑھنا ، اشاعت قرآن کا میدان ہو یا دنیا کی مختلف زبانوں میں تراجم، غرض اس عاشق قرآن نے خدمت قرآن کا کوئی پہلو تشنہ نہ چھوڑا، اور اپنے نمونے سے جماعت کو راہنما اصول مہیا فرمائے.ا حضرت خلیفتہ امسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی اور حفظ قرآن کریم حضرت خلیفہ امسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز قرآن کریم پڑھنے کی برکت کے بارے میں ایک حدیث بیان فرماتے ہیں: روایت میں آتا ہے کہ جس نے ایک رات میں پچاس آیات قرآن تلاوت کیں وہ حفاظ قرآن میں شمار ہوگا.(سنن دارمی، کتاب فضائل القرآن) حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ 24 ستمبر 2004 میں فرماتے ہیں: ہر احمدی کو اس بات کی فکر کرنی چاہیے کہ وہ خود بھی اور اس کے بیوی بچے بھی قرآن کریم پڑھنے اور اس کی تلاوت کرنے کی طرف توجہ دیں.پس بچوں کو بھی قرآن کریم پڑھنے کی عادت ڈالیں اور خود بھی پڑھیں.ہر گھر سے تلاوت کی آواز آنی چاہیے.“ الفضل ، خلافت جوبلی نمبر 3 دسمبر 2008 ، صفحه (145)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 192 تلاوت قرآن کریم کے آداب کے بارے میں نصیحت کرتے ہوئے حضرت خلفیہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ”جو تلاوت کریں اس کا سمجھنا بھی ضروری ہے تبھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو فرمایا تھا کہ میں نے ضمنا پہلے بھی ذکر کیا تھا لیکن تفصیلی حدیث یہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن کریم کی تلاوت ایک ماہ میں مکمل کیا کرو.( بخاری کتاب فضائل القرآن ) تا کہ آہستہ آہستہ جب پڑھو گے ،غور کرو گے سمجھو گے تو گہرائی میں جا کر اس کے مختلف معانی تم پر ظاہر ہوں گے لیکن انہوں نے کہا کہ میرے پاس وقت بھی ہے اور اس بات کی استعداد بھی رکھتا ہوں کہ زیادہ پڑھ سکوں تو آپ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے پھر ایک ہفتہ میں ایک دور مکمل کر لیا کرو اس سے زیادہ نہیں.تو آپ صحابہ رضی اللہ عنہم کو سمجھانا چاہتے تھے کہ صرف تلاوت کر لینا، پڑھ لینا کافی نہیں.انسان جلدی جلدی پڑھنا شروع کرے تو دس گیارہ گھنٹے میں پورا قرآن پڑھ سکتا ہے لیکن اس میں سمجھ خاک بھی نہیں آئے گی.بعض تراویح پڑھنے والے حفاظ اتنا تیز پڑھتے ہیں کہ سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیا الفاظ پڑھ رہے ہیں.جماعت میں تو میرے خیال میں اتنا تیز پڑھنے والا شاید کوئی نہ ہو لیکن غیر از جماعت کی مساجد میں تو 18-20 منٹ میں یا زیادہ سے زیادہ آدھے گھنٹے میں ایک پارہ بھی پڑھ لیتے ہیں اور دس گیارہ رکعت نفل بھی پڑھ لیتے ہیں.تو اتنی جلدی کیا خاک سمجھ آتی ہوگی.تلاوت کرنے کی بھی ہر ایک کی اپنی استعداد ہوتی ہے اور اندازہ ہوتا ہے.کوئی واضح الفاظ کے ساتھ زیادہ جلدی بھی پڑھ سکتا ہے.کچھ زیادہ آرام سے پڑھتے ہیں لیکن ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ تلاوت سمجھ کر کرو.قرآن کریم میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ورتل القرآن ترتيلا (المزمل : 4 ) کہ قرآن کو خوب نکھار کر پڑھا کرو.اب جس نے 20-18 منٹ میں یا آدھے گھنٹے میں نماز پڑھانی ہے اور قرآن کریم کا ایک پارہ بھی ختم کرنا ہے اس نے کیا سمجھنا ہے اور کیا نکھارنا ہے.“ الفضل انٹر نیشنل 11 تا 17 نومبر 2005ء) |
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 193 حفظ قرآن کے لیے اداروں کا قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دلی خواہش تھی کہ کوئی ایسا انتظام ہو جس کے ماتحت لوگ قرآن کریم حفظ کریں.چنانچہ حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب نے عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ اس موقع پر مدرسہ تعلیم الاسلام میں ایک حافظ قرآن مقرر کیا جائے جو قرآن مجید حفظ کرائے.آپ علیہ السلام نے فرمایا: ”میرا بھی دل چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ جو چاہے گا کرے گا.تاریخ احمدیت ، جلد سوم صفحه (168) حضرت خلیفہ اسی الثانی نور اللہ مرقدہ نے تحریک فرمائی تھی کہ قرآن کریم کا چرچا اور اس کی برکات کو عام کرنے کے لئے جماعت میں بہ کثرت حفاظ ہونے چاہئیں."تاریخی ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں 1920ء سے قبل حافظ کلاس کا آغاز ہو چکا تھا.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ ) نے بھی اس کلاس سے قرآن کریم حفظ کیا تھا.آپ کے ساتھ بارہ طلبا اس حفظ کلاس میں حفظ کر رہے تھے.قیام پاکستان کے بعد یہ کلاس احمد نگر ، پھر بیت المبارک ربوہ اور جون 1969 ء سے جامعہ احمدیہ کے کوارٹرز اور کچھ دیر بیت حسن اقبال جامعہ احمدیہ میں جاری رہی.1976ء میں با قاعدہ مدرسۃ الحفظ قائم کیا گیا.2000ء میں مدرستہ الحفظ کو موجودہ نئی عمارت ( نصرت جہاں اکیڈ می گرلز سیکشن سے متصل راولپنڈی گیسٹ ہاؤس) میں منتقل کیا گیا.2 دسمبر 2000ء کو برطانیہ میں مدرسہ حفظ قرآن عمل میں آیا جس میں ٹیلی فون اور جزوقتی کلاسوں کے ذریعہ بچوں کو قرآن کریم حفظ کروایا جاتا ہے.اس کا نام "الحافظون“ رکھا گیا ہے." " (بحواله روزنامه الفضل 3 دسمبر 2008ء صفحه 139) اس کے علاوہ قادیان (بھارت)، غانا، نائیجیریا اور کینیڈا میں جامعہ احمدیہ کے ساتھ مدرسۃ الحفظ قائم ہیں.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 194 عائشہ دینیات اکیڈمی کے تحت مدرسة الحفظ ( بچیوں کے لیے ): احمدی بچیوں کیلئے 17 مارچ 1993 کو ربوہ میں عائشہ دینیات اکیڈمی قائم کی گئی جس کے تحت مدرسة الحفظ جاری ہے.اب تک یہاں سے سینکڑوں بچیاں قرآن کریم حفظ کر چکی ہیں.مدرسة الحفظ ربوہ کا مختصر تعارف (بحواله روزنامه الفضل 3 دسمبر 2008ء صفحه 139) سیدنا حضرت مسیح موعود کی دلی تمنا کی تکمیل کے لیے حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کی تحریک کے نتیجہ میں خلافت ثانیہ کے آغاز میں 1920ء سے قبل حافظ کل اس کی ابتداء ہو چکی تھی.چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث ) نے اسی کلاس سے 17 اپریل 1922ء کو تیرہ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کیا.آپ کے ساتھ بارہ طلباء اس حافظ کلاس میں شامل تھے.اس وقت مکرم حافظ سلطان حامد صاحب ملتانی حافظ کلاس کے استاد تھے.(بحوالہ قادیان گائیدہ صفحہ 91) ( جماعت احمدیہ میں مدرستہ الحفظ کا آغاز انتہائی بابرکت تھا جس کی پہلی کلاس میں وہ طالب علم بھی تھا جسے خدا تعالیٰ نے مسند خلافت پر متمکن فرمایا ) 1932ء میں مکرم حافظ سلطان حامد صاحب ملتانی کی وفات کے بعد مکرم حافظ کرم الہی صاحب آف گولیکی ضلع گجرات اس کلاس کے معلم مقرر ہوئے.بعد ازاں 1935 ء سے حافظ کلاس مدرسہ احمدیہ کے زیر انتظام مکرم حافظ شفیق احمد صاحب کی نگرانی میں جاری رہی اور قیام پاکستان کے بعد احمد نگر اور بعد ازاں بیت مبارک ربوہ میں منتقل ہوگئی.1969ء میں حافظ صاحب موصوف کی وفات کے بعد کچھ عرصہ مکرم حافظ محمد یوسف صاحب اس کلاس کو پڑھاتے رہے.جون 1969ء میں یہ سعادت مکرم حافظ قاری محمد عاشق صاحب کے حصہ میں آئی.محترم قاری صاحب کی سرکردگی میں اس درس گاہ نے ایک باقاعدہ ایک مدرسہ کی شکل اختیار کر لی.یہ مدرسہ پہلے جامعہ احمدیہ کے کواٹرز کے ایک کمرے میں قائم رہا پھر جب طلباء کی تعداد بڑھنا شروع ہوئی
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 195 تو یہ کلاس بیت حسن اقبال ( جامعہ احمدیہ میں منتقل ہوگئی.بعد ازاں حافظ کلاس کو طبیہ کالج کی عمارت واقع دار النصر غربی میں منتقل کر دیا گیا.مؤرخہ 4 فروری 1976ء کو کرم پرنسپل صاحب جامعہ احمدیہ نے حافظ کلاس کا نام تبدیل کر کے مدرستہ الحفظ رکھا.مکرم قاری محمد عاشق صاحب ہی مدرستہ الحفظ کے نگران اور انچارج رہے.طلباء کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی تعداد بھی بڑھتی رہی.بعض اساتذہ کچھ عرصہ کے لئے پڑھاتے رہے.مدرستہ الحفظ میں اب تک مختلف اوقات میں خدمات بجالانے والے اساتذہ کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں: مکرم حافظ قاری محمد عاشق صاحب، مکرم حافظ امان اللہ صاحب، مکرم قاری عاشق حسین صاحب، مکرم حافظ اللہ یار صاحب، مکرم حافظ عبدالحمید صاحب، مکرم حافظ محمد ابراہیم صاحب، مکرم حافظ عطاءالحق صاحب، مکرم حافظ محمد یوسف صاحب، مکرم حافظ منور احسان صاحب، مکرم حافظ محمد اقبال وڑائچ صاحب، مکرم حافظ احمد انور قریشی صاحب، اور خاکسار حافظ قاری مسرور احمد مدرستہ الحفظ کی نئی عمارت کی تعمیر کے لئے پرانی عمارت کو گرانے کا فیصلہ کیا گیا تو مدرستہ الحفظ کو جون 2000 ء تک تقریبا ایک سال جلسہ سالانہ کے لئے بنائی گئی پیرکس (دار النصر غربی) میں منتقل کر دیا گیا.جون 2000ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی منظوری سے مدرستہ الحفظ کا مکمل انتظام نظارت تعلیم صدر انجمن احمد یہ ربوہ کے سپرد کیا گیا.نئے انتظام کے تحت مدرسہ کو نصرت جہاں اکیڈمی کے ساتھ واقع عمارت راولپنڈی گیسٹ ہاؤس میں منتقل کیا گیا، جہاں پر یہ ایک مستقل علیحدہ ادارے کی صورت میں قائم ہوا.مدرستہ الحفظ کے موجودہ پر سپیل مکرم حافظ مبارک احمد ثانی صاحب ہیں.اساتذہ کرام کی فہرست درج ذیل ہے: مکرم حافظ عبدالکریم صاحب (وائس پرنسپل)، مکرم حافظ قاری محمد عاشق صاحب،
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 196 مکرم حافظ پرویز اقبال صاحب، مکرم حافظ ملک منور احسان صاحب ، مکرم حافظ عبد العلیم صاحب ، مکرم حافظ جواد احمد صاحب، مکرم حافظ ناصر احمد صاحب اور مکرم حافظ محمد شعیب صاحب بطور اساتذہ خدمات بجالا رہے ہیں.دیگر عملہ ان کے علاوہ ہے.مدرستہ الحفظ میں تدریسی لحاظ سے طلباء کو چھ احزاب میں تقسیم کیا گیا ہے جن کے نام درج ذیل ہیں.1.احمد حزب.2.نور حزب.-3 محمود حزب.4.ناصر حزب.5.طاہر حزب.6.دوہرائی کلاس.مدرستہ الحفظ میں اس وقت 140 طلباء کی گنجائش ہے.بیرون ربوہ سے آنے والے طلباء کے لیے ہوٹل میں 53 طلباء کی گنجائش موجود ہے.ہوٹل کے طلبا کے لئے نماز فجر کے بعد آدھا گھنٹہ اور نماز عشا کے بعد دو گھنٹے سٹڈی ٹائم ہوتا ہے.تدریسی اوقات کار چھ گھنٹے ہوتے ہیں جس میں طلبا اپنے سبق، گزشتہ سات دنوں کے اسباق اور منزل (حفظ کئے ہوئے پاروں کی بالترتیب دوہرائی) سناتے ہیں.تمام طلبا کا ہفتہ وار اور ماہانہ جائزہ لیا جاتا ہے.مدرسة الحفظ کے طلبا کے لئے علمی ، ذہنی اور روحانی تعلیم کے ساتھ جسمانی تربیت بھی دی جاتی ہے اور با قاعدہ کھیل کا وقت مقرر ہے.طلبا کے مطالعہ کے لئے مدرسہ میں ایک لائبریری قائم کی گئی ہے جس میں سیرت تعلیم و تربیت، اخلاقیات اور معلومات پر مشتمل کتب و رسائل رکھے گے ہیں.سمعی و بصری کے تحت تلاوت قرآن کی سی ڈیز (CDs) اور آڈیو کیسٹ رکھی گئی ہیں.مدرستہ الحفظ میں قرآن کریم حفظ کرنے کے لیے تین سال اور دہرائی کے لئے مزید چھ ماہ کا کورس مقرر ہے.پہلے سال آٹھ ، دوسرے سال دس اور تیسرے سال بارہ پارے حفظ کرنے ہوتے ہیں.حفظ مکمل کرنے کے بعد دومرتبہ دوہرائی کروائی جاتی ہے.دومرتبہ دوہرائی کے بعد حافظ قرآن طلبا کا امتحان پہلے ادارے میں لیا جاتا ہے.اور بعد میں Examiner External امتحان لیتے ہیں.آجکل محترم حافظ مظفر احمد صاحب یہ فریضہ سرانجام دے رہے ہیں.امتحان پاس کرنے والے طلبا کو مدرسہ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 197 کی سالانہ تقریب استاد کے موقع پر تکمیل حفظہ کی سند دی جاتی ہے.طلبا میں تدریسی شوق اور مقابلے کی روح پیدا کرنے کے لئے معیار سے زیادہ حفظ کرنے والوں کو ہر ماہ انعامی وظائف دیے جاتے ہیں جس کی تفصیل درج ذیل ہے.معیار کے مطابق 100 روپے، معیار سے زائد حفظ کرنے پر 200 سے 500 روپے تک انعامی وظائف دیے جاتے ہیں.سال 2007ء سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے از راہ شفقت مدرستہ الحفظ کے طلباء کو ہر سال "رحمة للعالمین ایوارڈ دیے جانے کی منظوری عنایت فرمائی تھی.یہ ایوارڈ اول ، دوم اور سوم آنے والے ان طلباء کو نقد رقم کی صورت میں دیا جاتا ہے جنہوں نے دورانِ سال کم عرصہ میں حفظ کیا ہو اور اس کے علاوہ دہرائی ، ابتدائی اور فائنل ٹیسٹ میں مجموعی طور پر سب سے زیادہ نمبر حاصل کیسے ہوں.اول انعام کے لیے مبلغ 25 ہزار روپے، دوم کے لیے مبلغ 15 ہزار روپے، جبکہ سوم کے لیے مبلغ 10 ہزار روپے کی رقم مقرر کی گئی ہے.حفاظ کرام کا ریکارڈ: خدا تعالیٰ کے فضل سے مارچ 1957 ء سے جون 2000 ء تک 187، جبکہ جولائی 2000ء سے 2009ء تک 264 طلباء نے قرآن کریم حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی.اس طرح کل 451 طلباء مدرسۃ الحفظ سے قرآن کریم مکمل حفظ کرنے کی سعادت حاصل کر چکے ہیں.(اس سے پہلے کے حفاظ کا معین ریکارڈ معلوم نہیں ہوسکا.ناقل ) ان حفاظ میں پاکستان اور بیرون پاکستان کے طلبا بھی شامل ہیں.بیرون ملک سے آنے والے طلباء میں نائیجیریا، غانا، کینیڈا، پنی، یوگنڈا، ماریشس اور سیرالیون سے طلبا حفظ قرآن کی سعادت پاچکے ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ادارہ کو ترقیات سے نوازے.اس مدرسہ سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا کوعلوم قرآن کا حامل اور اس کی تعلیمات پر عامل بنائے.آمین ماخوذ از روزنامه الفضل 9 دسمبر 2002 صفحه 4،3 / الفضل 13 دسمبر 2007 صفحہ 56،55 / الفضل 2 دسمبر 2010 صفحہ 2)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 198 جماعتی پروگراموں میں حفظ قرآن کریم کے مقابلہ جات: جماعت احمدیہ میں قرآن کریم کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جماعتیں مقامی طور پر بھی اور مرکزی سطح پر بھی اور ذیلی تنظیمیں مقامی سطح پر بھی اور مرکزی سطح پر بھی جتنے مقابلہ جات کرواتی ہیں ان میں تلاوت و حسن قراءت، حفظ قرآن کریم اور دینی معلومات کی سب سے زیادہ اہمیت ہے.نیز ہر ایک پروگرام اور تقریب کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے کیا جاتا ہے.مرکز سلسلہ میں نظارت تعلیم القرآن کے تحت بھی ہونے والی تعلیم القرآن ٹیچر زٹر میٹنگ کلاسز اور فضل عم تعلیم القرآن کلاسز کے نصاب میں شرکا کو قرآن کریم کے مختلف حصے حفظ کرنے کے لیے دیئے جاتے ہیں پھر ان کا امتحان لیا جاتا ہے.جماعت احمدیہ میں سن رسیدگی میں حفظ قرآن کی بعض مثالیں: جماعت احمدیہ میں بہت سے ایسے افراد کی مثالیں بھی ہیں جنہوں نے کسی مدرسہ یا ادارہ سے تو قرآن کریم حفظ نہیں کیا مگر ذاتی شوق سے اور کلام الہی سے محبت کی وجہ سے قرآن کریم خود حفظ کر لیا.ان میں اکثر افراد نے بڑی عمر میں قرآن کریم یاد کیا.چند احباب کا ذکر خیر پیش ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ دیبا چ تفسیر القرآن صفحہ 277 میں فرماتے ہیں: دیباچت چه قادیان میں دو ڈاکٹر حافظ ہیں.اسی طرح اور بہت سے گریجوایٹ اور دوسرے لوگ حافظ ہیں.جن ڈاکٹروں کا میں نے ذکر کیا ہے ان میں سے ایک نے صرف چار پانچ مہینے میں قرآن شریف حفظ کیا تھا.چوہدری سر ظفر اللہ صاحب حج فیڈرل کوٹ آف انڈیا ( حال وزیر خارجہ پاکستان ) کے والد صاحب نے اپنی آخری عمر میں جبکہ وہ تقریباً ساٹھ سال کے تھے چند مہینوں میں سارا قرآن حفظ کر لیا تھا.حافظ غلام محمد صاحب سابق مربی ماریشس نے تین مہینہ میں قرآن شریف حفظ کیا تھا.نواب جمال الدین خاں صاحب جو ایک سابق والیہ ریاست بھوپال کے خاوند تھے، ان کے ایک
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 199 نواسے مجھے حج میں ملے تھے جنہوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ انہوں نے ایک مہینہ میں سارا قرآن شریف حفظ کیا تھا.“ حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب کے حفظ قرآن کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یہ معمولی امر نہیں، اس پیرانہ سالی میں جبکہ دماغ زیادہ محنت برداشت نہیں کرتا، انہوں نے خدا تعالیٰ کی رضا کے لیے قرآن مجید کو حفظ کیا اور یہ ایک روح صداقت تھی جوان کے اندر کام کرتی تھی.کسی نے ان سے پوچھا تو کہا کہ قانون کی اتنی بڑی کتابیں حفظ کرلیں اور اب تک بہت بڑا حصہ نظائر کا یاد ہے، خدا تعالیٰ کی کتاب کو حفظ نہ کرنا بہت بڑی غلطی ہے.پھر قرآن کریم کو حفظ ہی نہیں کیا اس کی تلاوت با قاعدہ کرتے رہتے تھے اور اس طرح پر ان کی زندگی کا ہر لحظہ خدا تعالیٰ ہی کے لیے ہی ہو گیا تھا.“ رفقائے احمد جلد 11 - صفحه 162،161) حضرت مولانا شیر علی صاحب حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی اے کے حوالہ سے فرماتے ہیں: حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور الله مرقدہ نے تفسیر قرآن کریم انگریزی کی Introduction میں تحریر فرمایا ہے کہ قرآن شریف کی طر ز عبارت ایسی ہے کہ اس کو آسانی سے یاد کیا جا سکتا ہے اور اپنی جماعت کے تین افراد کی مثالیں تحریر فرمائی ہیں جنہوں نے بڑی عمر میں بہت تھوڑے سے عرصہ میں قرآن شریف کو یاد کیا.ان سے ایک مثال چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے والد صاحب مرحوم کی ہے.دوسری صوفی غلام حمد صاحب کی اور تیسری ڈاکٹر بدرالدین صاحب کی ہے.گزشتہ مشاورت کے موقع پر میں نے صوفی صاحب کو مبارک باد دی تھی کہ آپ کا ذکر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ نے ترجمۃ القرآن انگریزی کی Introduction میں فرمایا ہے.صوفی صاحب مرحوم یہ سن کر بہت خوش ہوئے اور بعد میں فرمایا : ” مجھے خود حضرت
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات (200 مسیح موعود علیہ السلام نے قرآن شریف یاد کرنے کی تحریک فرمائی تھی.“ الفضل 3 دسمبر 1947ء) ذیل میں بعض ان احباب کے نام درج ہیں جنہوں نے ذاتی شوق سے خود قرآن کریم یاد کرنے کی سعادت پائی.حضرت چوہدری نصر اللہ خان صاحب ( سابق ناظر اعلی قادیان ، والد محترم مکرم چوہدری سر ظفر اللہ خان صاحب سابق وزیر خارجہ پاکستان ) حضرت صوفی غلام محمد صاحب بی اے (سابق ناظر اعلی ثانی ، وناظر مال خرچ) عملا مکرم ڈاکٹر بدرالدین صاحب ( پسر حضرت خان مولوی فرزند علی صاحب مرحوم ( ناظر مال) مکرم شیخ محبوب عالم خالد صاحب کے بڑے بھائی) مکرم حافظ غلام محمد صاحب (سابق مربی ماریشس) مکرم ڈاکٹر مسعود احمد صاحب سرگودھا (پسر مکرم بھائی محمود احمد صاحب ڈنگوی) مکرم حافظ عبدالسلام صاحب (سابق وکیل المال ثانی تحریک جدید ) عمل مکرم ماسٹر سعد اللہ صاحب ربوہ (واقف زندگی تعلیم الاسلام ہائی سکول میں استادر ہے ) مکرم مولانا مبشر احمد کاہلوں صاحب (مفتی سلسلہ احمد یہ وایڈیشنل ناظر دعوت الی اللہ ) مکرم چوہدری مبارک مصلح الدین صاحب ( وکیل التعلیم تحریک جد یدر بوده) مکرم مرزا محمود احمد صاحب (مربی سلسلہ احمدیہ ) اس کے علاوہ بعض اور بھی احباب ہیں جنہوں نے قرآن کریم یا د کر نے کی توفیق پائی ہے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات باب نہم تعلیم القرآن ،حفاظ کا اہم فریضہ 201 تعلیم القرآن قرآن کریم کی درس و تدریس، تعلیم، ترجمہ اور تفسیر کا لکھنا اور پڑھنا ، سنا اور سنایا جانا لامحالہ اس کتاب کی محبت کو امتیوں کے دلوں میں زندہ رکھنے کا باعث ہے.امت محمدیہ کے کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھنے والے قرآن کریم کا احترام اپنی جان، مال اور اہل وعیال سے بھی بڑھ کر کرتے ہیں.یہ جذبہ بھی حفاظت قرآن کریم کے حوالہ سے بہت اہمیت کا حامل ہے.پس جس کتاب کے لفظ تو محفوظ ہوں لیکن معانی کی حفاظت کا انتظام نہ ہو وہ بھی مکمل طور پر محفوظ کتاب نہیں کہلا سکتی لیکن جس کتاب کی تعلیم ہر دور میں کسی قوم کے چھوٹے بڑے افراد میں عام ہو ممکن ہی نہیں کہ وہ کتاب کسی بھی زمانہ میں ضائع ہو جائے.یہ امر بہت واضح ہے کہ جو تعلیم دلوں میں راسخ ہو جائے اور روز مرہ زندگی کا حصہ بن جائے اُسے نہ تو تبدیل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے مٹایا جا سکتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے جہاں قرآن کریم کی حفاظت کا ذمہ لیا وہاں اس کی تعلیم اور اس کے معانی کی تفہیم کا ذمہ بھی اپنے سر ہی لیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ ان کی اُمت کو یہ باور کروا دیا کہ قرآن کریم ایک کتاب ہی نہیں بلکہ یہ ایک نصاب اور دستور العمل اور لائحہ عمل ہے اور اس کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے کی کوشش کرو.پس یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اپنی جان سے بڑھ کر اس کتاب سے محبت کی ہے.مکرم مولا نانسیم سیفی صاحب قرآن کریم کی محبت میں سرشار ہو کر ایک جگہ لکھتے ہیں: ترے عشق سے ملے ہیں مجھے جذب و مستی دل ترا لفظ لفظ شاید مرا جام جام ٹھہرا حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن کریم کا علم حاصل کرنے کی بہت تاکید فرمائی ہے اور نہ صرف علم حاصل کرنے کی تلقین فرماتے بلکہ صحابہ کو قرآن کریم سکھانے اور اس کی تعلیم کی اشاعت کی طرف بہت توجہ دلائی ہے.سب سے پہلے معلم قرآن آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہیں اور معلمین قرآن کے لیے اسوہ حسنہ بھی.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا جذبہ اطاعت بھی قابل دید ہے کہ وہ کس شوق اور ولولہ سے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 202 اپنے آقاصلی اللہ علیہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس خواہش کی تکمیل اور حفاظت قرآن کے باب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے علم کے ہر ایک میدان میں آگے آئے.سب سے پہلے قرآن کریم کی اندرونی گواہی موجود ہے کہ حضرت رسول کریم.سے پہلے معلم قرآن ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولاً مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (الجمعة: 3) ترجمہ: وہی (خدا) ہے جس نے اُمی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو اُن پر اس ( کلام کی ) آیات کی تلاوت کرتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور اس کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور اس کی حکمت سکھاتا ہے.چنانچہ کثرت سے ایسی روایات ملتی ہیں جن سے علم ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کس ذمہ داری ،شوق اور تڑپ کے ساتھ صحابہ کوقرآن کریم کی تعلیمات اور حکمتوں پر آگاہ کرتے اور تعلیم و تدریس کا فریضہ سرانجام دیا کیا کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم قرآن کے سلسلہ میں چند روایات درج ذیل ہیں: عن عثمان رضی الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: خَيْرُ كُم مَّنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَ عَلَّمَهُ (بخاری کتاب فضائل القرآن باب خيركم من تعلم القرآن و علمه ترجمہ : حضرت عثمان روایت کرتے ہیں کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو خود قرآن سیکھتا ہے اور دوسروں کو اس کی تعلیم دیتا ہے.حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم يُعَلِّمُنَا الْقُرْآنَ رض (مسند احمد بن حنبل، جلد2، مسند عبد الله بن عمر ، صفحه 157) یعنی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں قرآن کریم سکھایا کرتے تھے.
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 203 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: وَاللَّهِ لَقَدْ أَخَذْتُ مِنْ فِي رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلَّم بِضْعًا وَسَبْعِينَ صلى الله سُورَةً.(بخاری، کتاب فضائل القرآن، باب القراء من اصحاب النبي ترجمہ: خدا کی قسم میں نے حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے ستر (70) سے زائد سورتیں سیکھیں.جہاں آنحضرت ﷺ نے حفاظ کو خوش خبریاں عطا فرمائی ہیں وہاں قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنے والوں اور آگے سکھانے والوں کے لیے بھی خوش خبری دی ہے کہ ان کو آنحضرت ﷺ اپنی راہنمائی میں خود جنت میں لے کر جائیں گے.چنانچہ حضرت انس مسرور کونین ﷺ کا یہ ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں: أَلَا مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ وَعَمِلَ بِمَا فِيْهِ فَأَنَا لَهُ سَائِقٌ إِلَى الْجَنَّةِ وَدَلِيْلٌ إِلَى الْجَنَّةِ.(کنز العمال جلد 1 - صفحه 531 كتاب الاذكار من قسم الاقوال، باب السابع في تلاوة القرآن وفضائله الفصل الاول في فضائل تلاوة القرآن | ترجمہ: ایسے شخص کے لیے خوش خبری ہو کہ جس نے خود قرآن کریم سیکھا اور پھر دوسروں کو سکھایا اور جو کچھ قرآن کریم میں ہے اس پر عمل کیا.میں اس کو خود جنت میں لے کر جاؤں گا اور جنت کی طرف لے جانے والا راہبر بنوں گا.قرآن کریم کی عظمت اور برکت کے پیش نظر خدا تعالیٰ نے قرآن کی خدمت کرنے والوں، اسے سیکھنے والوں اور سکھانے والوں کو خوشخبری دی کہ چونکہ ان کا سارا وقت خدمت قرآن میں گزر جاتا ہے.اس لیے میں انہیں ان لوگوں سے بھی زیادہ عطا کروں گا جو دعا گو ہیں اور سوال کر کے مجھ سے مانگتے ہیں.چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ایک حدیث قدسی بیان کرتے ہیں: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ الرَّبُّ عَزَّ وَجَلَّ مَنْ شَغَلَهُ الْقُرْآنُ وَذِكْرِي عَنْ مَسْأَلَتِي أَعْطَيْتُهُ أَفْضَلَ مَا أُعْطِيَ السَّائِلِينَ.(سنن الترمذى - كتاب فضائل القرآن )
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 204 ترجمہ: حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ صاحب عزت و جلال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس شخص کو قرآن کریم نے اور میرے ذکر نے مصروف رکھا اور اس نے سوال نہ کیا تو میں اسے ان لوگوں سے زیادہ عطا کروں گا جن کو سوال کرنے پر میں دیتا ہوں.قرآن کریم کے درس و تدریس میں مشغول رہنے والوں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ ولہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف لائے تو دیکھا کہ بعض صحابہ عبادات اور دعاؤں میں مصروف ہیں اور بعض قرآن کریم کی تعلیم و تدریس میں مشغول ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے تو معلم بنا کے بھیجا گیا ہے اور پھر آپ قرآن کریم کی تعلیم میں مشغول گروہ میں رونق افروز ہو گئے.(مقدمه سنن ابن ماجه، باب فضل العلماء والحث على طلب العلم صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کو قرآن کریم کی تعلیم دینے کے لیے حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ان چار صحابہ رضوان اللہ علیہم سے قرآن کریم سیکھو.چنانچہ روایات میں ذکر ملتا ہے: خُذُوا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَسَالِمٍ وَمُعَاذٍ وَأُبَيٍّ بُنِ كَعْبٍ.(بخاری، کتاب فضائل القرآن باب القراء من اصحاب النبي علي فرمایا کہ ان چار صحابہ سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کیا کرو: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، حضرت سالم مولیٰ ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ، حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اور حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مختلف قبائل میں دس دس پندرہ پندرہ قراصحابہ کے وفود تعلیم القرآن کے لیے بھیجا کرتے تھے.مہاجرین اور انصار دونوں میں حفاظ کی کثیر تعداد موجود تھی جو آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرتے اور پھر وفود کی صورت میں عرب کے مختلف علاقوں میں جا کر کچھ دن قیام کرتے اور مسلمانوں کو قرآن کریم کی تعلیم دیتے تھے.اس سے یہ ثابت
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 205 ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر نگرانی مدینہ منورہ کے مرکزی نظام کے تحت براہ راست سارے مسلم عرب کی تعلیم القرآن کی ضروریات پوری کی جار ہیں تھیں.صحاح ستہ نیز حدیث اور تاریخ کی دیگر کتب میں تعلیم القرآن اور تفسیر القرآن کے حوالے سے با قاعدہ الگ ابواب ہیں جن میں تعلیم القرآن کے موضوع پر آنحضور ﷺ کی بابرکت مساعی کا ذکر ، قرآن کریم سے محبت ، اس کی تعلیم حاصل کرنے کا شوق اور رغبت پیدا کرنے کے لیے آپ کی نصائح درج ہیں.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثار صحابہ کے اُسوہ پر چلتے ہوئے اسلام کے ابتدائی دور سے لے کر اب تک امت محمدیہ کا نمونہ تو دنیا کے سامنے ہے ہی کہ کس طرح بچے کو چھوٹی عمر سے قرآن کریم کی تعلیم دی جاتی ہے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جاری کردہ سنت کے عین مطابق آج تک تواتر کے ساتھ تعلیم القرآن اور حفظ کا سلسلہ جاری ہے.تعلیم القرآن اور حفظ قرآن کے مدر سے شہر شہر اور گاؤں گاؤں میں قائم ہیں.دیہات ، قصبات اور شہروں میں چھوٹے چھوٹے مدرسوں کے علاوہ سکولوں کالجوں اور بڑی اسلامی اور غیر اسلامی یونیورسٹیوں اور جامعات میں بھی قرآن کریم کی تعلیم کا سلسلہ جاری ہے.قرآن کریم کے حفاظ پر فرض ہے کہ وہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے اسوہ پر چلتے ہوئے قرآن کریم کی تعلیم و تدریس کا فریضہ سرانجام دیں.ہر حافظ قرآن استاد ہے اور اس کو تعلیم قرآن کی ذمہ داری لیے ہمیشہ کوشاں رہنا چاہیے.تران ات کہیں گے ماں جان پائیں گے (کشتی نوح)
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 206 قرآن کریم کا دور مکمل کرنے پر دعائیں قرآن کریم کا دور مکمل کرنے پر خاص طور پر دعائیں کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس نور اور ہدایت کے چشمہ سے انسان نے جو کچھ حاصل کیا ہے، جو کچھ پڑھا اور سیکھا ہے اُسے بھول نہ جائے ، اُسے یادر ہے اور ہمیشہ اس کے لیے مشعل راہ رہے اور وہ اس پر عمل کرنے کی توفیق پاسکے تاکہ خدا کے فضلوں کو حاصل کرے اور فیض پاوے.یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کا دور مکمل کر لینے کے بعد انفرادی طور پر بھی دعا کی جاتی ہے اور اجتماعی طور پر بھی.قرآن شریف کا اوّل و آخر دعاؤں پر مشتمل ہے.شروع میں بھی دعاؤں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اور اختتام پر بھی.پس قرآن کریم سے فیض حاصل کرنے کے لئے دعاؤں کی بہت ضرورت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یا درکھو کہ یہ جو خدا تعالیٰ نے قرآن مجید کی ابتدا دعا سے ہی کی ہے اور پھر اس کو ختم بھی دعا سے ہی کیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ انسان ایسا کمزور ہے کہ خدا کے فضل کے بغیر پاک ہو ہی نہیں سکتا اور جب تک خدا تعالیٰ سے مدد اور نصرت نہ ملے یہ نیکی میں ترقی کر ہی نہیں سکتا.ایک حدیث میں آیا ہے کہ سب مردے ہیں مگر جس کو خدا زندہ کرے اور سب گمراہ ہیں مگر جس کو خدا ہدایت دے اور سب اندھے ہیں مگر جس کو خدا بینا کرے.غرض یہ سچی بات ہے کہ جب تک خدا کا فیض حاصل نہیں ہوتا تب تک دنیا کی محبت کا طوق گلے کا ہار رہتا ہے اور وہی اس سے خلاصی پاتے ہیں جن پر خدا اپنا فضل کرتا ہے.مگر یاد رکھنا چاہئے کہ خدا کا فیض بھی دعا ہی سے شروع ہوتا ہے....دعا میں ایک مقناطیسی اثر ہوتا ہے وہ فیض اور فضل کو اپنی طرف کھینچتی ہے.“ (ملفوظات، جلد پنجم، صفحه 399 400 |
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 207 قرآن کریم کا دور مکمل کرنے پر ایک عظیم جامع دعا: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قرآن کریم مکمل ہونے پر یہ دعا پڑھا کرتے تھے : اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي بِالْقُرْآنِ وَاجْعَلْهُ لِي إِمَامًا وَّنُوراً وَ هُدًى وَرَحْمَةً اللَّهُمَّ ذَكَرُنِي مِنْهُ مَانَسِيتُ وَعَلِمُنِي مِنْهُ مَاجَهِلْتُ وَارْزُقْنِي تِلَاوَتَهُ آنَاءَ اللَّيلِ وَ أَطْرَافَ النَّهَارِ وَاجْعَلْهُ لِي حُجَّةً يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ.(احیاء علوم الدين للغزالی، جزء اول صفحه 278) ترجمہ: اے میرے اللہ ! مجھ پر قرآن کریم کی برکت سے رحم فرما اور قرآن کریم کو میرے لیے امام اور نور اور ہدایت اور رحمت بنادے.اے میرے اللہ ! اس (قرآن) میں سے جو میں بھول جاؤں وہ مجھے یاد دلا دے اور جس کا مجھے علم نہیں وہ مجھے سکھا دے اور رات اور دن کے اوقات میں اس کی تلاوت میرے نصیب کر.اور اے رب العالمین ! قرآن کریم کو میرے فائدے کے لیے حجت بنادے.قرآن کریم کا دور مکمل کرنے کا وقت قبولیت دعا کا وقت : نے فرمایا: حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ خَتَمَ الْقُرْآنَ فَلَهُ دَعْوَةٌ مُسْتَجَابَةٌ.) المعجم الكبير للطبراني، باب العين، ذكر عرباض بن سارية) ترجمہ: جس نے قرآن کریم ختم کیا اس کی دعا قبول کی جاتی ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " :مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَحَمِدَ الرَّبَّ، وَصَلَّى عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 208 فَقَدْ طَلَبَ الْخَيْرَ مَكَانَهُ " (شعب الايمان للبيهقي، التاسع عشر من شعب الایمان باب فی تعظیم القرآن، فصل في استحباب التكبير عند الختم جزء 3 صفحه 432) | ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے قرآن کریم کا دور مکمل کیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف پڑھا اور اپنے رب سے بخشش مانگی تو اس نے دراصل بدلہ میں خیر اور بھلائی طلب کی.ا كَانَ أَنَسٍ إِذَا خَتَمَ الْقُرْآنَ جَمَعَ وَلَدَهُ وَأَهْلَ بَيْتِهِ فَدَعَا لَهُمْ (مسند الصحابة في الكتب التسعة، مسند أنس بن مالك جزء 20 صفحه 495) | ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ جب قرآن کریم کا دور مکمل کرتے تو اپنے بچوں اور اہل خانہ کو جمع کرتے اور ان کے لیے دعا کرتے.قرآن کریم کا دور مکمل کر کے دوبارہ شروع سے کچھ حصہ پڑھنا مسنون ہے: قرآن کریم خدا کا پیارا کلام ہے، جو اس سے پیار کرتا ہے اس کا دل نہیں کرتا وہ اس کو ختم کر کے رکھ چھوڑے.آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ قرآن کریم کا دور مکمل کر لینے کے بعد دوبارہ سے شروع کر کے پہلے پارے کا کچھ حصہ ساتھ ملا کر پڑھتے تھے.چنانچہ روایت ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ قَالَ رَجُلٌ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيُّ الْعَمَلِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ قَالَ الْحَالُ المُرْتَحِلُ قَالَ وَمَا الْحَالُ الْمُرْتَحِلُ قَالَ الَّذِي يَضْرِبُ مِنْ أَوَّلِ الْقُرْآنِ إِلَى آخِرِهِ كُلَّمَا حَلَّ ارْتَحَلَ (ترمذی، کتاب القراءت) ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : کون سا عمل اللہ کو پیارا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 209 فرمایا.اللہ تعالیٰ کے نزدیک نیک کاموں میں زیادہ پسندیدہ کام الحال المرتحل ہے یعنی جو شروع قرآن سے آخر تک تلاوت کرتا ہے (اور ) جب بھی دور مکمل کرتا ہے پھر سے(دوبارہ) شروع کر دیتا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن پاک کا دور مکمل کرنے کے بعد دوبارہ پہلے پارے سے شروع کرنا چاہیے تا کہ یہ تسلسل قائم رہے اور یہ دور چلتا ر ہے.کہا جاتا ہے کہ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُون تک تلاوت کرنا مسنون (سنت) ہے.لہذا اسی طریقہ پر قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہئے.الْخَيْرُكُتُه فِي الْقُرْآنِ 66 تمام قسم کی بھلائیاں قرآن میں ہیں “
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات 210 قرآن کریم عزت و شرف کا موجب ہے: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر چیز کے لیے کوئی نہ کوئی شرف و فخر ہوا کرتا ہے جس پر وہ نازاں ہوتا ہے.(یادر ہے کہ ) میری امت کے لیے باعث رونق اور موجب شرف و افتخار قرآن کریم ہے.حلية الاولياء جلد2 صفحه (175) اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جماعت احمدیہ کو ایسے بکثرت افراد دے جو اس عظیم کلام کو نہ صرف پڑھیں بلکہ اس کو زبانی یاد کر کے اپنے سینوں میں محفوظ کرتے جائیں.اس بابرکت کتاب سے فیض پاتے جائیں.دنیا میں اس کی عزت کریں اور آخرت میں اس کی عزت کا اجر پائیں.وہ افراد ایسے ہوں جن کے دل قرآنی انوار سے منور ہوں، وہ علوم قرآن کے حامل، اس کی تعلیمات پر عامل اور بنی نوع انسان کو قرآن سے محبت کرنا سکھا دیں.آمین ثم آمين
حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات (211 ایک عظیم دعا اللَّهُمَّ ارْحَمْنِي بِالْقُرْآنِ وَاجْعَلْهُ لِي إِمَاماً وَّنُوراً وَّ هُدًى وَّ رَحْمَةٌ.اللَّهُمَّ ذَكَّرُنِي مِنْهُ مَانَسِيتُ وَعَلِمُنِي مِنْهُ مَاجَهِلْتُ وَارْزُقْنِي تِلَاوَتَهُ آنَاءَ اللَّيلِ وَ أَطْرَافَ النَّهَارِ وَاجْعَلْهُ لِي حُجَّةً يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ ترجمه : اے میرے اللہ ! مجھ پر قرآن کریم کی برکت سے رحم فرما اور قرآن کریم کو میرے لیے امام اور نور اور ہدایت اور رحمت بنادے.اے میرے اللہ ! اس ( قرآن ) میں سے جو میں بھول جاؤں وہ مجھے یاد دلا دے اور جس کا مجھے علم نہیں وہ مجھے سکھا دے اور رات اور دن کے اوقات میں اس کی تلاوت میرے نصیب کر.اور اے رب العالمین ! قرآن کریم کو میرے فائدے کے لیے حجت بنادے.آمين
212 พ حفظ قرآن کی فضیلت، اہمیت اور برکات
قرآن کتاب رحماں سکھلائے راہ عرفاں جو اس کے پڑھنے والے اُن پر خدا کے فیضاں اُن پر خدا کی رحمت جو اس پہ لائے ایماں یه روز کر مبارک سبحان من یرانی ہے چشمہ ہدایت جس کو ہو یہ عنایت یہ ہیں خدا کی باتیں ان سے ملے ولایت یہ نور دل کو بخشے دل میں کرے سرایت به روز کر مبارک سبحان من یرانی قرآں کو یاد رکھنا پاک اعتقاد رکھنا فکر معاد رکھنا پاس اپنے زاد رکھنا اکسیر ہے پیارے صدق و سداد رکھنا یہ روز کر مبارک سبـــحـــان مــن یــرانــی کلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام )