Hidayate Zarrin

Hidayate Zarrin

ہدایاتِ زرّیں

مبلغین کے لئے زرّیں ہدایات
Author: Hazrat Mirza Bashir-ud-Din Mahmud Ahmad

Language: UR

UR

Book Content

Page 1

ہدایات زریں از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفتہ اسی الثانی نظارت نشر و اشاعت قادیان

Page 2

ہدایات زریں | مبلغین کے لئے زریں ہدایات از سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفة المسیح الثانی

Page 3

2 ہدایات زریں نام کتاب زریں ہدایات اشاعت ہذا تعداد مطبع سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفه مسی الثانی نومبر 2021 1000 فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر و اشاعت قادیان 143516 ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا

Page 4

3 ہدایات زرین عرض ناشر کتاب ہدایت زریں سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تصنیف ہے.نظارت نشر و اشاعت قادیان سید نا حضرت خلیفہ المسح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی منظوری سے اسے شائع کرنے کی سعادت حاصل کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اسے ہر لحاظ سے مبارک کرے اور اس کی تیاری کے سلسلہ میں کام کرنے والے جملہ معاونین کو جزائے خیر عطا فرمائے.ناظر نشر واشاعت قادیان

Page 5

4 ہدایات زریں بِسْمِ اللهِ الرَّحمٰنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَ نُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ مبلغین کو ہدایات ۲۶ / جنوری ۱۹۲۱ ء بعد نماز عصر بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے ایک کمرہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے مبلغین جماعت احمدیہ مبلغین کی کلاس کے طلباء، مدرسہ احمدیہ کی ساتویں جماعت کے طلباء اور افسران صیغہ جات کے سامنے حسب ذیل تقریر فرمائی.تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:) تبلیغ کے طریقوں پر غور کرنا ہم چونکہ ایک ایسے مذہب سے تعلق رکھتے ہیں جس نے اور ذمہ داریوں کے علاوہ اس ذمہ داری کا اُٹھانا بھی ضروری قرار دیا ہوا ہے کہ ساری دُنیا کو ہدایت پہنچائی جائے اور ہر مذہب ، ہر ملت، ہر فرقہ اور ہر جماعت کے لوگوں کو ہدایت کی جائے.اس لئے ہمارے لئے تبلیغ کی ضروریات پر غور کرنا اور اس کے لئے سامان بہم پہنچانا نہایت ضروری معاملہ ہے اور خصوصیت کے ساتھ اس معاملہ پر غور کرنا نہایت ضروری ہے کہ تبلیغ کن ذرائع سے کرنا زیادہ مفید اور نتیجہ خیز ہوسکتا ہے اور کن طریقوں کو کام میں لانے سے اعلیٰ نتائج نکل سکتے ہیں.میں دیکھتا ہوں کہ تیس سال سے زیادہ عرصہ ہمارے سلسلہ کو تبلیغ شروع کئے ہوئے ہوا

Page 6

5 ہدایات زریں ہے مگر اس وقت تک وہ نتائج پیدا نہیں ہوئے جن کے پیدا ہونے کی امیدان صداقتوں کی وجہ سے کی جاسکتی ہے جو ہمارے پاس ہیں.مفید اور اعلیٰ نتائج دو ہی طرح پیدا ہوا کرتے ہیں یا تو طاقت ور ہاتھ ہوں ، مضبوط بازو ہوں یا اعلیٰ درجہ کے اور مضبوط ہتھیار ہوں اور اعلیٰ درجہ کا نتیجہ اسی طرح نکل سکتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں حاصل ہوں ورنہ اگر طاقتور ہاتھ ہوں لیکن ہتھیار نا کارہ اور کمزور ہوں تو بھی اچھا نتیجہ نہیں نکل سکتا اور اگر ہتھیار اعلیٰ درجہ کے ہوں لیکن ہاتھوں میں طاقت نہ ہو تو بھی بہتر نتیجہ نہیں رونما ہوسکتا.مثلاً اگر ایک کمزور شخص ہو وہ اعلیٰ درجہ کی تلوار لے کر دشمن کے مقابلہ میں کھڑا ہو جائے تو مار ہی کھائے گا.یا طاقتور انسان ہو مگر خراب اور ناقص بندوق لے کر کھڑا ہو جائے تو بھی شکست ہی کھائے گا پس مفید اور اچھا نتیجہ اس صورت میں نکل سکتا ہے کہ یہ دونوں باتیں حاصل ہوں.ہاتھوں میں طاقت اور قوت بھی ہو اور کام کی مشق ہو اور ہتھیار بھی اعلیٰ درجہ کے ہوں.متوقع نتائج کیوں نہیں نکل رہے؟ اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ جس نتیجہ کے نکلنے کی ہمیں امید ہوسکتی ہے وہ اگر نہیں نکلتا تو ان دونوں چیزوں میں سے کون سی چیز ہے جس میں کمی ہے.آیا ہمارے پاس ہتھیا رایسے ناقص ہیں کہ ان سے کام نہیں لیا جا سکتا؟ یا ہتھیار تو اعلیٰ درجہ کے ہیں مگر ہم ایسے نہیں ہیں کہ ان سے کام لے سکیں.یا دونوں باتیں نہیں ہیں.ہتھیار بھی اعلیٰ درجہ کے نہیں ہیں اور ہم بھی اس قابل نہیں کہ کام کرسکیں.جب ہم غور کرتے ہیں تو اس امر میں تو کوئی شبہ نہیں رہتا کہ ہتھیار تو ہمارے پاس اعلیٰ درجہ کے ہیں کیونکہ دشمن بھی اقرار کرتے ہیں کہ جو دلائل ہمارے پاس ہیں وہ بہت مضبوط

Page 7

6 ہدایات زریں اور زبردست ہیں.خصوصاً حضرت مسیح موعود کے ذریعہ جو دلائل اور براہین ہمیں پہنچے ہیں ان کی قوت اور طاقت کا اعتراف دشمن بھی کرتے ہیں.اس بات کی موجودگی میں اور پھر اس بات کے ہوتے ہوئے کہ ہم شواہد اور دلائل کے ساتھ مانتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود خدا تعالیٰ کی طرف سے تھے، پھر اعلیٰ درجہ کے نتائج کا نہ نکلنا بتاتا ہے کہ ہم میں ہی نقص ہے ورنہ اگر ہم ان ہتھیاروں کو عمدگی کے ساتھ چلانے والے ہوں تو پھر کوئی وجہ نہیں که اعلیٰ درجہ کے نتائج نہ پیدا ہوں.پس یہی ظاہر ہوتا ہے کہ ہتھیار چلانے والے اچھے نہیں ہیں اور انہیں ہتھیار چلانے کا فن نہیں آتا.چونکہ نیا سال شروع ہو رہا ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا ہے کہ دوستوں کو جمع کر کے میں اس مضمون پر کچھ بیان کروں کہ کس طرح تبلیغ کے عمدہ نتائج نکل سکتے ہیں.مخاطبین اس مجلس میں میں نے ایک تو ان لوگوں کو بلایا ہے جو تبلیغ کا کام کرتے ہیں اور دوسرے ان کو بلایا ہے جو آئندہ مبلغ بننے والے ہیں تا کہ ابھی سے ان کے کانوں میں یہ باتیں پڑیں اور ان کے دلوں پر نقش ہوں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بچہ کے پیدا ہوتے ہی اس کے کان میں اذان کہنے کا ارشاد فرمایا ہے تا کہ پہلے دن ہی اس کے کان میں خدا کا نام پڑے.تو میں نے اس لئے کہ جو مبلغ بننے والے ہیں ان کے دلوں میں ابھی سے یہ باتیں بیٹھ جائیں ان کو بھی بلایا ہے یہ بھی اس وقت میرے مخاطب ہیں.پھر میرے نتظمین ہیں جنہوں نے مبلغین سے کام لینا ہے.کیونکہ جب تک انہیں ان باتوں مخاطب کا علم نہ ہو وہ کام نہیں لے سکتے.تو اس وقت میرے مخاطب تین گروہ ہیں اول وہ جو کام کر

Page 8

7 ہدایات زریں رہے ہیں.دوسرے وہ جو اس وقت تو کام نہیں کر رہے.لیکن دو تین سال کے بعد کام کرنے والے ہیں اور تیسرے وہ جنہوں نے کام لینا ہے.مخاطبین کی پہلی قسم پھر اس وقت میرے سامنے تین قسم کے لوگ ہیں ایک تو وہ جن کا حلقہ نظر بہت ہی محدود ہے جیسے طالب علم جو آئندہ کام کرنے والے ہیں ان کا حلقہ نظر بہت ہی محدود ہے.اور ان کی مثال ایسی ہے جیسی کہ کنویں کے مینڈک کی ایک مثل بیان کی جاتی ہے کہ کوئی کنویں کا مینڈک تھا وہ سمندر کے مینڈک سے ملا اور پوچھا بتاؤ سمندر کتنا بڑا ہے.سمندر کے مینڈک نے کہا بہت بڑا ہوتا ہے.اس نے کہا کیا کنویں جتنا.کہا نہیں بہت بڑا ہوتا ہے.اس پر کنویں کے مینڈک نے ایک چھلانگ لگائی اور کہا کیا اتنا بڑا ہوتا ہے.اس نے کہا نہیں.یہ کیا ہے وہ بہت بڑا ہوتا ہے.اس پر کنویں کے مینڈک نے دو تین اکٹھی چھلانگیں لگا کر پوچھا اتنا بڑا.اس نے کہا یہ کیا بے ہودہ اندازہ لگاتے ہو سمندر تو بہت بڑا ہوتا ہے کنویں کے مینڈک نے کہا تم بہت جھوٹے ہو اس سے بڑا کیا ہوسکتا ہے میں تم جیسے جھوٹے کے ساتھ بات نہیں کرنا چاہتا.تو طالب علموں کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے.ان کو اگر ایک بات بھی مل جاتی ہے اور استاد سے کوئی ایک دلیل بھی سن لیتے ہیں تو کہتے ہیں اسی دلیل کو لے کر کیوں لوگ نہیں نکل جاتے اور ساری دُنیا کو کیوں نہیں منوا لیتے.اس کی کیا تردید ہوسکتی ہے اور کون ہے جو اس کو توڑ سکتا ہے.حالانکہ مختلف طبائع مختلف دلائل کی محتاج ہوتی ہیں.اور مختلف لیاقتوں کے دشمنوں کے مقابلہ میں مختلف ذرائع کو اختیار کرنا پڑتا ہے.اگر ایک دلیل ایک قسم کے پانچ دس آدمیوں کے لئے مفید ہوتی ہے تو سینکڑوں

Page 9

8 ہدایات زریں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا.وہ بعض اور قسم کے دلائل کے محتاج ہوتے ہیں.پس مبلغ کے لئے ایک نہ ختم ہونے والے خزانہ کی ضرورت ہوتی ہے.تو بعض لوگوں کے خیالات بالکل محدود ہوتے ہیں.وہ ایک دلیل کو لے لیتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ یہ ایسی دلیل ہے کہ اس کا کوئی انکار نہیں کرسکتا اور یہ سب کے لئے کافی ہے.حالانکہ ایسا نہیں ہے پھر یا ایسے لوگوں کی مثال ان بچوں کی سی ہے جو گاؤں میں رہتے ہیں اور ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ بیریوں کے درختوں کے سرے سے بیر کھا چھوڑے یا جانوروں کے لئے چارہ لے آئے یا جانوروں کو باہر چرا لائے.انہوں نے نہ کبھی کوئی شہر دیکھا ہوتا ہے نہ ریل اور تار سے واقف ہوتے ہیں اور جب کوئی اس کے متعلق انہیں باتیں سناتا ہے تو وہ اس طرح سنتے ہیں جس طرح کہانیاں سنی جاتی ہیں.اس سے زیادہ دلچسپی ان کو نہیں ہوتی اور نہ کوئی اثر ان پر پڑتا ہے.ان بچوں میں سے بہت کم ایسے ہوتے ہیں جن کے قلب پر یہ اثر پڑتا ہے کہ جب ہم بڑے ہوں گے تو ان چیزوں کو دیکھیں گے ورنہ سب ان باتوں کو سن کر اسی طرح مطمئن ہو جاتے ہیں جس طرح قصوں اور کہانیوں کو سننے کے وقت ہوتے ہیں.کہانیاں سن کر انہیں کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ جن باتوں کا ان میں ذکر ہے ان کو ہم دیکھیں اور معلوم کریں.یہی حال طالب علموں کا ہوتا ہے.اور ایسے ہی لوگوں کا جن کے خیال وسیع نہیں ہوتے وہ سمجھتے ہیں کہ صرف ایک نکتہ سے وہ سب مباحثات میں فتح پالیں گے.وہ حیران ہوتے ہیں کہ دشمن کی فلاں دلیل کو توڑنا کون سی مشکل بات ہے.ہمارے استاد نے یا فلاں مولوی صاحب نے جو بات بتائی ہے اس سے فوراً اسے رد کیا جاسکتا ہے.اور دشمن کو اپنی بات منوانے کے لئے مجبور کیا جاسکتا ہے.وہ یہ سمجھتے ہی نہیں کہ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں کہ جو ایک غلط اور نا درست بات بھی ایسے طور پر پیش

Page 10

9 ہدایات زریں کر سکتے ہیں کہ عوام کو درست ہی معلوم ہو یا ایک ایک بات میں اعتراض کے کئی ایسے پہلو نکالے جاسکتے ہیں جن کی طرف پہلے ان کا خیال بھی نہیں گیا ہوتا.دوسری قسم دوسرا گروہ وہ ہے جس کی نظر تو محدود نہیں ہے وہ دنیا میں پھرے ہیں لوگوں سے ملے ہیں مخالفین کے اعتراضات سنے کا انہیں موقع ملا ہے مگر ان کی نظر کی وسعت عرض کے لحاظ سے ہے عمق کے لحاظ سے نہیں.میں نے عورتوں کو کئی دفعہ بڑی حیرت سے یہ کہتے سنا ہے کہ لوگ خدا کا انکار کس طرح کر سکتے ہیں بھلا خدا کی ہستی کا بھی انکار کیا جاسکتا ہے؟ مگر ان کو دنیا کاعلم نہیں ہوتا اور وہ نہیں جانتیں کہ دُنیا میں ایسے بھی لوگ ہیں جو حیرت سے پوچھتے ہیں کہ دنیا خدا کو مانتی کیوں ہے؟ بھلا اس کے ماننے کے لئے بھی کوئی دلیل ہو سکتی ہے.ان عورتوں نے مسلمانوں کے گھروں میں پیدا ہو کر یہ سمجھا کہ خدا کا انکار کوئی کرہی نہیں سکتا.لیکن اگر ان کی نظر وسیع ہوتی اور وہ دنیا کے لوگوں کی حالت سے آگاہ ہوتیں تو پھر وہ حیرت کے ساتھ یہ نہ کہتیں.تو ہمارے مبلغوں میں سے بعض ایسے ہیں جن کو عرض کے لحاظ سے تو وسعت حاصل ہے مگر ان کے اندر عمق نہیں ہے وہ یہ جانتے ہیں کہ لوگوں میں مذہبی مسائل میں کتنا اختلاف ہے.مگر یہ نہیں جانتے کہ کیوں ہے؟ کیوں پیدا ہوا ہے؟ اس کی وجوہات کیا ہیں؟ ان کی مثال ایسی ہی ہے جیسا کہ ایک شخص کنویں میں جھانک کر دیکھتا ہے کہ اس میں پانی ہے اور اتنی جگہ میں ہے مگر یہ نہیں جانتا کہ کتنی گہری زمین سے جا کر پانی نکلا ہے اور کس طرح نکلا ہے.تو یہ لوگ دنیا کے اعتراضات سے واقف ہیں، دنیا کے خیالات سننے کا

Page 11

10 ہدایات زریں انہیں موقع ملا ہے، وہ جانتے ہیں کہ دنیا میں دہریت پیدا ہو رہی ہے.انہیں علم ہے کہ ایسے لوگ ہیں جو مذاہب کے پیروؤں کو حقیر جانتے ہیں اور مذاہب پر ہنسی اُڑاتے ہیں.مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں کیوں لوگوں میں ایسے خیالات پیدا ہور ہے ہیں؟ کیوں وہ مذاہب کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ تیسری قسم تیسرا گروہ وہ ہے جس کو یہ تینوں باتیں حاصل ہیں.اس کی نظر بھی وسیع ہے وہ لوگوں کے خیالات کے عرض سے بھی واقف ہے اور ان کے عمق کا بھی علم رکھتا ہے یعنی ان خیالات کے پیدا ہونے کے جو اسباب ہیں ان سے واقف ہے اور جانتا ہے کہ ظاہری تغیر کے پس پردہ کیا طاقتیں کام کر رہی ہیں.تینوں قسم کے لوگوں کو مخاطب کرنے کی غرض اس وقت جو باتیں میں کہوں گا وہ ان تینوں گروہوں کو مد نظر رکھ کر ہوں گی اور گو بعض کے لئے ان کا سمجھنا مشکل ہوگا.لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے ایک گروہ یعنی طلباء کو سنانے کی یہی غرض ہے کہ اس کے کان میں اس قسم کی باتیں پڑتی رہیں اور اس کے دل میں نقش ہوتی رہیں.دوسرے دو طبقوں کے لوگ جو اپنی واقفیت اور تجربہ کی وجہ سے ان باتوں کو سمجھ سکتے ہیں ان کو سنانے کی یہ غرض ہے کہ اگر انہیں معلوم نہ ہوں تو اب واقف ہوجائیں اور اگر معلوم ہوں تو ان پر اور غور وفکر کریں اور ان سے اچھی طرح فائدہ اُٹھائیں.

Page 12

11 ہدایات زریں مبلغ کے معنی اور اس کا کام اس تمہید کے بعد میں اس امر کے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ مبلغ کسے کہتے ہیں اور اس کا کیا کام ہے؟ مبلغ کے معنی ہیں پہنچادینے والا مگر جب ہم یہ لفظ بولتے ہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ خواہ وہ کچھ پہنچا دے اس کو مبلغ کہا جائے گا.بلکہ اسلامی اصطلاح میں اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ ایسا شخص جو دوسروں کو اسلام کی تعلیم پہنچائے.آج کل کے مبلغ تو ظلی مبلغ ہیں.بعض لوگ تو نبوت ظلی پر ہی بحث کر رہے ہیں مگر سچی بات یہ ہے کہ ہمارا سبھی کچھ ظل ہی ظلت ہے.ایمان بھی ظلتی ہے تبلیغ بھی خالی ہے.کیونکہ پہلے اور اصلی مبلغ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.ان کی وساطت اور ذریعہ سے ہی دوسرے لوگ مبلغ بن سکتے ہیں.اسی طرح اگر کوئی حقیقی اور اصلی مؤمن ہے تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.ہم سب ظلی مؤمن ہیں کیونکہ ہم نے مؤمن بننے کے لئے جو کچھ لیا ہے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی لیا ہے.تو حقیقی مبلغ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں.اب ہم دیکھتے ہیں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے کس بات کا حکم دیا ہے.خدا تعالیٰ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتا ہے بَلِّغْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبّك (المائدہ.68) جو کچھ تجھ پر تیرے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے اسے لوگوں تک پہنچا دے.اس کو مد نظر رکھ کر اسلامی مبلغ کے یہ معنی ہوئے کہ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دے اور اگر اس میں کوتاہی کرے تو مبلغ نہیں کہلا سکتا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے.بلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَ - پہنچا دے جو اُتارا گیا ہے تجھ پر تیرے رب کی طرف ے.وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَلَتَهُ اور اگر تو نے یہ کام نہ کیا تو تب خدا کا پیغام

Page 13

12 ہدایات زریں نہ پہنچایا.اس کے اگر یہ معنی کئے جائیں کہ تو نے خدا کا کلام اگر نہ پہنچایا تو کلام نہ پہنچایا تو کلام بے معنی ہو جاتا ہے مثلاً کوئی کہے کہ اگر تو نے روٹی نہیں کھائی تو نہیں کھائی.یا پانی نہیں پیا تو نہیں پیا.تو یہ لغو بات ہوگی.کیونکہ جب روٹی نہیں کھائی تو ظاہر ہے کہ نہیں کھائی.پھر یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ تو نے نہیں کھائی یا پانی نہیں پیا تو ظاہر ہے کہ نہیں پیا.پھر یہ کہنے کا کیا مطلب ہے کہ تو نے نہیں پیا.اس لئے وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رسلته (المائدة :۶۸) کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اگر تو نے خدا کا کلام نہیں پہنچایا تو کلام نہیں پہنچایا.بلکہ یہ ہیں کہ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ میں جو وسعت رکھی گئی ہے اس میں سے اگر کوئی بات نہیں پہنچائی اس کا کوئی حصہ رہ گیا ہے تو تجھے جو کچھ پہنچانا چاہئے تھا اسے تو نے گویا بالکل ہی نہیں پہنچایا.کیونکہ وہ کلام بتمام و کمال پہنچانا ضروری تھا.پس مبلغ کا کام یہ ہے کہ جو کچھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا وہ سارے کا سارا دنیا میں پہنچا دے اور جو حصہ جس کے متعلق ہے اسے پہنچائے.یہ نہیں کہ کسی اور کا حصہ اور ہی کو دے آئے یا بعض کو ان کا حصہ پہنچا دے اور بعض کو نہ پہنچائے.اگر وہ اس طرح کرے گا تو اپنے فرض سے سبک دوش نہ ہوگا.بلکہ اس کا فرض ہے کہ جس جس کا حصہ ہے اس تک پہنچا دے مثلاً گھروں میں حصے بٹتے ہیں.لوگ نائنوں کو حصہ دیتے ہیں کہ فلاں فلاں گھروں میں دے آؤ.اب اگر نائن کو دس حصے پہنچانے کے لئے دیئے جائیں اور وہ ان میں سے آٹھ تو پہنچا دے مگر دونہ پہنچائے تو وہ یہ نہیں کہ سکتی ، آٹھ جو پہنچا آئی ہوں اگر دو نہیں پہنچائے تو کیا ہوا ؟ پس جس طرح اس کا آٹھ حصے پہنچا دینا دو کے نہ پہنچانے کے قصور سے اسے بری الذمہ نہیں کر سکتا.اسی طرح مبلغ اگر ہر ایک کو اسکا حصہ نہیں پہنچا تا بلکہ بعض کو پہنچا دیتا ہے تو وہ بری الذمہ نہیں ٹھہر سکتا.اس لئے مبلغ کا فرض ہے

Page 14

13 ہدایات زریں کہ اسے جس قدر اور جس کے لئے جو کچھ دیا گیا ہے اسے پہنچا دے.یہ بھی نہیں کہ سارے کا سارا ایک ہی کو پہنچا دے.مثلاً اگر ایک شخص کے گھر کے پاس جو آدمی رہتا ہو وہ اسے عیسائیوں ، دہریوں، آریوں وغیرہ کے رد کے دلائل پہنچا دے لیکن جن عیسائیوں ، دہریوں یا آریوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہوا نہیں یونہی چھوڑ دے.تو اس کی نسبت یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے پہنچا دیا کیونکہ اس کا فرض ہے کہ دہریوں کے رد کے دلائل دہریوں کو بتائے اور عیسائیوں کے رد کے دلائل عیسائیوں کو بتائے اور آریوں کے رد کے دلائل آریوں کو پہنچائے.تو جس طرح کوئی شخص اگر وہ ساری چیزیں نہ پہنچائے جو اسے پہنچانے کے لئے دی جائیں.اور یا ان سب کو نہ پہنچائے جن کے لئے دی جائیں، بری الذمہ نہیں ہو سکتا.اسی طرح مبلغ ساری باتیں نہ پہنچائے اور جس جس کے لئے ہیں اس کو نہ پہنچائے تو وہ مبلغ ہی نہیں ہو سکتا.مثلاً کوئی اس طرح کرے کہ عیسائیوں میں جائے اور جا کر ان کی تو تعریف کرے اور ان میں یہودیوں کے خلاف دلائل دینے شروع کر دے یا ہندوؤں میں جائے اور ان کی تو تعریف کرے لیکن عیسائیوں کے خلاف تقریر شروع کر دے یا غیر احمدیوں میں جائے اور ان کے بگڑے ہوئے عقائد کے متعلق تو کچھ نہ کہے مگر مجوسیوں کے خلاف دلائل دینے شروع کر دے تو اس سے کوئی فائدہ نہ ہوگا اور نہ وہ اپنے فرض سے سبک دوش سمجھا جائے گا.اسی بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے پیغامی ہم سے الگ ہوئے ہیں.ان کے لیکچراروں کا طریق تھا کہ غیر احمد یوں میں گئے تو عیسائیوں کے نقص بیان کرنے شروع دیئے.ہندوؤں میں گئے تو کسی دوسرے مذہب کی برائیاں بیان کرنے لگ گئے اور ساتھ ساتھ ان لوگوں کی جوان کے سامنے ہوتے تعریف کرتے جاتے.گویاوہ کسی کی ٹوپی کسی کو دیتے اور کسی کی جوتی کسی کو پہنچادیتے.اس کا جو کچھ نتیجہ ہوا وہ ظاہری ہے.

Page 15

14 ہدایات زریں جب تک جس قوم میں جو کمزوریاں اور نقائص ہوں وہ اسے بتائے نہ جائیں اس وقت تک کوئی مبلغ نہیں کہلا سکتا.کیونکہ بلغ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ کے ماتحت ضروری ہے کہ یہودیوں میں جو نقص ہوں وہ ان کو بتائے جائیں.عیسائیوں میں جو نقص ہوں وہ ان کو سنائے جائیں.غیر احمدیوں میں جو نقص ہوں ان سے انہیں آگاہ کیا جائے اور اپنی جماعت میں جو کمزوریاں ہوں وہ اپنے لوگوں کو بتائی جائیں.ہاں جو مبلغ بنانے اور تیار کرنے والے ہوں ان کا کام ہے کہ ایک ایک شخص کو یہ سب باتیں بتا ئیں.لیکن جو شخص تبلیغ کرتا ہے اس کا فرض ہے کہ وہ جس قوم میں جائے اس کی کمزوریاں اور نقائص اس تک پہنچائے.اگر اس کے سامنے کسی دوسری قوم کی کمزوریوں کا ذکر کرے گا تو یہ بلغ - مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ کے ماتحت نہ ہوگا.پس قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگوں کو ساری صداقتیں پہنچا دینی اور جو جس کا مستحق ہے اس کے پاس وہی پہنچانا مبلغ کا کام ہے.اگر کوئی شخص کسی کو پوری پوری صداقت نہیں پہنچا تا تو وہ مبلغ نہیں ہوسکتا اور اگر کسی کے کام آنے والی صداقت کسی اور کو پہنچادیتا ہے تو بھی مبلغ نہیں ہوسکتا.کیونکہ یہ پہنچا نا نہیں ہوتا بلکہ پھینکنا ہوتا ہے.مثلاً اگر چٹھی رساں کسی کا خط کسی کو دے آئے تو یہ نہیں کہیں گے کہ وہ خط پہنچا آیا بلکہ یہی کہیں گے کہ پھینک آیا ہے.غرض مبلغ لفظ نے بتادیا کہ جس کے کام آنے والی صداقت ہو اسی کو پہنچانا ضروری ہے اور مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ نے بتا دیا کہ ساری کی ساری پہنچانی چاہئے نہ کہ اس کا کچھ حصہ پہنچا دیا جائے.اس چھوٹے سے فقرے میں مبلغ کا سارا کام بتادیا گیا ہے.

Page 16

15 ہدایات زریں تبلیغ کی تقسیم تی آگے پہنچانا دوطرح کا ہوتا ہے.ایک اُصول کا پہنچانا دوسرے فروع کا پہنچانا.غیر مذاہب کے لوگوں کے لئے تو اصول کی تعلیم پہنچانا ضروری ہے اور جو ماننے والے ہوں ان کے لئے تفصیل کی ضرورت ہوتی ہے کہ فلاں بات کس طرح کرنی چاہئے اور فلاں کس طرح.اس لحاظ سے تبلیغ کی موٹی تقسیم یہ ہوئی کہ ایک تو ان لوگوں کو تبلیغ کرنا جو اسلام کو نہیں مانتے.ان کو اصولی باتیں بتانی چاہئیں اور دوسرے ان کو تبلیغ کرنا جومسلمان تو کہلاتے ہیں مگر اسلام کی باتوں کو جانتے نہیں یا جانتے ہیں تو ان پر عمل نہیں کرتے.ان کو اصول کے علاوہ فروع سے بھی آگاہ کرنا.غرض دو طرح کی تبلیغ ہوتی ہے.ایک ظاہر کے متعلق اور ایک باطن کے متعلق.وہ لوگ جو ابھی اسلام میں داخل ہی نہیں ہوئے ان کے تو قفل لگے ہوئے ہیں.جب تک پہلے وہ نہ کھلیں ان کے باطن میں کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی اس لئے ان کی بیرونی اصلاح کی ضرورت ہے.انہیں اصولی باتیں سمجھائی جائیں.مگر جو اپنی جماعت کے لوگ ہیں ان کے تو قفل کھلے ہوئے ہیں انکی اندرونی اصلاح کی جاسکتی ہے.ان میں روحانیت ،تقویٰ، طہارت اور پاکیزگی پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.مبلغ کے کام کی اہمیت یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مبلغ کا فرض بہت بڑا ہوتا ہے.لوگ کسی ایک بات کو بھی آسانی سے نہیں مانتے.لیکن مبلغ کا کام یہ ہوتا ہے کہ ہزاروں باتوں کو منوائے.پھر ایک

Page 17

16 ہدایات زریں آدمی سے منوانا بہت مشکل ہوتا ہے چہ جائیکہ ساری دنیا کو منوایا جائے.انتظام کے طور پر اور کام چلانے کے لئے خواہ مبلغوں کے لئے علاقے تقسیم کر دیئے جائیں مگر اصل بات یہی ہے کہ جو ضلع گورداسپور میں تبلیغ کرتا ہے وہ اسی ضلع کا مبلغ نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کا مبلغ ہے.اسی طرح ضلع لاہور میں جو تبلیغ کرتا ہے وہ لاہور کا مبلغ نہیں ہے بلکہ ساری دنیا کا مبلغ ہے کیونکہ مبلغ کے لئے کوئی خاص علاقہ مقرر نہیں کیا گیا بلکہ قرآن کریم میں یہی بتایا گیا ہے کہ مبلغ کا علاقہ سب دنیا ہے.غرض مبلغوں کا کام بہت بڑا ہے اور اتنا بڑا ہے کہ حکومتیں بھی اس کام کو نہیں کر سکتیں.حکومتیں زور سے یہ باتیں منواتی ہیں کہ چوری نہ کرو قتل نہ کرو، ڈاکہ نہ ڈالومگر ان باتوں کولوگوں کے دلوں سے نہیں نکال سکتیں.حکومتیں یہ تو کر سکتی ہیں کہ مجرم کو پھانسی پر چڑھا کر ماردیں لیکن یہ نہیں کر سکتیں کہ جرم کا میلان دل سے نکال دیں.مگر مبلغ کا کام دل سے غلط باتوں کا نکالنا اور انکی جگہ صحیح باتوں کو داخل کرنا ہوتا ہے.پس مبلغ کا کام ایسا مشکل ہے کہ حکومتیں بھی اس کے کرنے سے عاجز ہیں اور باوجود ہتھیاروں ،قید خانوں، فوجوں، مجسٹریٹوں اور دوسرے ساز وسامان کے عاجز ہیں.مبلغ کے مددگار جب مبلغ کا کام اس قدر وسیع اور اس قدر مشکل ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ اس کام کو کیونکر کر سکتا ہے؟ اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ وہ خدا جس نے یہ کام بندوں کے ذمہ لگایا ہے اس نے ان کو بے مدد گار نہیں چھوڑا.اگر مبلغ بے ساتھی و مددگار کے ہوتا تو اتنے بڑے کام کے مقابلہ میں کچھ بھی نہ کر سکتا.مگر خدا تعالیٰ نے مبلغ کو دو مددگار دیئے ہیں

Page 18

17 ہدایات زریں جن کی امداد سے وہ تبلیغ کر سکتا اور کامیاب ہوسکتا ہے.اس کے راستہ میں روکیں آتی ہیں مشکلات پیدا ہوتی ہے مگر ان دو مدد گاروں سے کام لے کر وہ سب روکوں کو دور کر سکتا ہے.وہ مددگار کون سے ہیں؟ ان میں سے ایک کا نام تو عقل ہے اور دوسرے کا نام شعور.جب مبلغ ان دو مددگاروں کی مدد حاصل کرتا ہے تو پھر اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.آگے چل کر میں تشریح کروں گا کہ عقل سے میری کیا مراد ہے اور شعور سے کیا ؟ اس جگہ اتنا ہی بتا تا ہوں کہ یہ مبلغ کے مددگار ہیں.جب کوئی تبلیغ کے لئے جائے تو ان کو بلالے اور جب ان کی مدد سے حاصل ہو جائے گی تو وہ وہ کام بہت خوبی کے ساتھ کر لے گا جو حکومتیں بھی نہیں کر سکتیں.عقل کی مدد سے مراد ہر ایک انسان میں خدا نے عقل بھی پیدا کی ہے اور شعور بھی عقل سے میری مرادوہ مادہ اور انسان کے اندر کی وہ طاقت ہے جس کے ذریعہ انسان دلائل کے ساتھ معلوم کرتا ہے کہ فلاں بات درست ہے یا غلط.بے شک بعض دفعہ انسان ضدی بن جاتا ہے اور ایک بات کو صحیح اور درست جانتا ہوا اس کا انکار کر دیتا ہے.لیکن یہ حالت بہت گندا اور بہت دیر کی گمراہی کے بعد پیدا ہوتی ہے ورنہ کثیر حصہ لوگوں کا ایسا ہی ہے کہ عقل کے فیصلہ کا مقابلہ نہیں کر سکتا.جب اس کے سامنے ایسی باتیں پیش کی جائیں جو عقلی طور پر صحیح ثابت ہوں تو وہ ان کا انکار نہیں کر سکتا.جس کا مطلب یہ ہے کہ جن باتوں کو عقلی لحاظ سے ایک مبلغ معقول اور مدلیل سمجھتا ہے ان کو دوسرے لوگ بھی معقول سمجھتے ہیں بشرطیکہ اندھے کی بصارت کی طرح ان کی عقل بالکل مردہ نہ ہوگئی ہو اور وہ اس کو بالکل مار نہ چکے ہوں.مگر جس طرح اندھے

Page 19

18 ہدایات زریں بہت کم ہیں اسی طرح عقل کے اندھے بھی کم ہی ہوتے ہیں اور عموما لوگ عقل کو مارتے نہیں کیونکہ انہیں اس سے دنیاوی کام بھی کرنے ہوتے ہیں.پس لوگ عقل سے ضرور کام لیتے ہیں.اور جب ان کے سامنے ایسی باتیں پیش کی جائیں جو عقلی طور پر معقول ہوں تو وہ عقل سے کام لے کر ان کو تسلیم کر لیتے ہیں اور چونکہ خدا تعالیٰ نے عقل کے بہت سے دروازے رکھے ہیں اس لئے کسی نہ کسی دروازہ سے حق اندر داخل ہو ہی جاتا ہے.اس لئے ہر ایک مبلغ کو چاہئے کہ اس سے ضرور کام لے.یعنی لوگوں کے سامنے ایسے دلائل پیش کرے جن کو عقل تسلیم کرتی ہے.اس ذریعہ سے وہ بہت جلدی دوسروں سے اپنی باتیں منوالے گا اور وہ کام کر لے گا جو حکومتیں بھی نہیں کر سکتیں.ابھی دیکھ لو کچھ لوگوں نے غلط طور پر عام لوگوں کے دلوں میں یہ خیال بٹھا دیا ہے کہ گورنمنٹ سے اہل ہند کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا بلکہ نقصان پہنچ رہا ہے.گورنمنٹ کے پاس طاقت ہے سامان ہے مگر وہ روک نہیں سکتی کہ یہ خیال لوگوں کے دلوں میں نہ بیٹھے.وجہ یہ کہ اس خیال کو بٹھانے والے تو عقلی دلائل سے کام لے رہے ہیں لیکن گورنمنٹ ان سے کام نہیں لے رہی اس لئے اس کا کچھ اثر نہیں ہورہا.تو عقلی دلائل سے کام لینے پر بہت اعلیٰ درجہ کے نتائج نکل سکتے ہیں.شعور کی مدد سے مراد اس سے بڑھ کر شعور ہے مگر جہاں عقل کی نسبت زیادہ نتیجہ خیز ہے وہاں خطر ناک بھی ایسا ہے کہ جس طرح بعض اوقات ڈائنامیٹ چلانے والے کو بھی ساتھ ہی اُڑا کر لے جاتا ہے، اسی طرح یہ بھی کام لینے والے کو اڑا کر لے جاتا ہے.لوگوں نے شعور کی مختلف تعریفیں کی ہیں مگر میری اس سے مراد اس حس سے ہے جو فکر اور عقل کے علاوہ انسان کے

Page 20

19 ہدایات زریں اندر رکھی گئی ہے اور جس کا تعلق دلائل عقلیہ کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ انسان کی اندرونی حتوں کے ساتھ ہوتا ہے اور جسے ہم جذبات کہہ سکتے ہیں جیسے محبت ہے، غضب ہے، شہوت ہے، خواہش بقا ہے.بہت دفعہ عقلی دلائل سے کسی مسئلہ کو ثابت کرنے سے اس قدر اس کی طرف میلان یا اس سے نفرت پیدا نہیں ہوتی.مگر ان جذبات کو اُبھار دینے سے انسان فور أبات کو قبول کر لیتا ہے اور ان احساسات کو ابھار کر بڑے بڑے کام لئے جاسکتے ہیں اور لئے جاتے ہیں اور اس کے ذریعہ ایک گھڑی میں کچھ کا کچھ ہو جاتا ہے.چنانچہ دیکھا ہو گا کہ کہیں بحث ہو رہی ہے جب مولوی دیکھے کہ میں ہارنے لگا ہوں تو وہ کہہ دے گا مسلمانو ! تمہیں شرم نہیں آتی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتک ہو رہی ہے تم خاموش بیٹھے سن رہے ہو.یہ سن کر سب کو جوش آجائے گا اور وہ شور ڈال دیں گے.چاہے ہتک ہو رہی ہو یا نہ ہو رہی ہو.جذبات جس وقت اُبھر جاویں تو غلط اور صحیح کی بھی تمیز نہیں رہتی اور ایک روچل پڑتی ہے جس میں لوگ بہنے لگ جاتے ہیں.غلط طور پر اس سے کام لینا جائز نہیں.لیکن جب عقل اس کی تائید کرتی ہو اور حق اور صداقت کے لئے حق اور صداقت کے ساتھ کام لیا جائے تو اس کا استعمال جائز ہے بلکہ بسا اوقات ضروری ہے.چنانچہ قرآن کریم میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس طریق سے بہت کام لیا گیا ہے اور پھر حضرت مسیح موعود نے بھی اس سے خوب ہی کام لیا ہے.آپ وفات مسیح کے متعلق دلائل لکھتے لکھتے یہ بھی لکھ جاتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو زمین میں دفن ہوں اور حضرت عیسی آسمان پر بیٹھے ہوں.ایک مسلمان کی غیرت اس بات کو کس طرح گوارا کرسکتی ہے.یہ وفات مسیح کی عقلی دلیل نہیں لیکن ایک روحانی دلیل ہے اور اس سے جذبات بھی ابھر آتے ہیں.اور اس کا

Page 21

20 ہدایات زریں جس قدر دلوں پر اثر ہوتا ہے ہزار ہا دلیلوں کا نہیں ہوگا.کیونکہ اس کے ذریعہ سے وہ میلان طبعی جو نسلاً بعد نسل اسلام سے تعلق رکھنے کے سبب سے ایک مسلمان کے دل میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت ہے وہ خود بخود جوش میں آ جاتا ہے اور کسی بات کو سامنے نہیں آنے دیتا.حضرت صاحب کی تمام کتابوں میں یہی بات ملتی ہے.اگر عقلی دلائل اور شعور سے کام لینے کے دونوں پہلوؤں کو مد نظر رکھ کر دیکھیں تو دونوں پائے جاتے ہیں.اور اگر صرف عقلی دلائل کو مدنظر رکھیں تو ساری کتاب میں عقلی دلائل ہی نظر آتے ہیں.اور اگر جذبات کے پہلو کو مد نظر رکھ کر دیکھیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ ساری باتیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ جذبات کو تحریک کی گئی ہے.ہر ایک شخص کی کتاب میں یہ بات نہیں پائی جا سکتی.اور یہ حضرت صاحب کے قادر الکلام ہونے کا ثبوت ہے.آپ نے عقلی دلائل اور جذبات کو ایسے عجیب رنگ میں ملایا ہے کہ ایسا کرنا ہر ایک کا کام نہیں ہے.لیکن گو ہر ایک اس طرح نہیں کر سکتا مگر یہ کر سکتا ہے کہ ان سے الگ الگ طور پر کام لے عقلی دلائل سے الگ کام لے اور جذبات سے الگ.حضرت صاحب نے ہر موقع پر جذبات کو ابھارا ہے اور کبھی محبت کبھی غضب کبھی غیرت کبھی بقائے نسل کے کبھی حیا کے جذبات میں حرکت پیدا کی ہے.چنانچہ آپ نے عیسائیوں کو مخاطب کر کے لکھا ہے کہ کیا تم لوگ مسیح کی نسبت صلیب پر مرنے کا عقیدہ رکھ کر اسے ملعون قرار دیتے ہو اس پر غور کرو اور سوچو.اس طرح ان کے دلوں میں حضرت مسیح کی محبت کے جذبات کو پیدا کر دیا گیا اور اس جائز محبت کے جذبات کے ذریعہ اس ناجائز محبت کے جذبات کو کہ انہوں نے مسیح کو خدا سمجھ رکھا ہے کاٹ دیا گیا.

Page 22

21 ہدایات زریں دونوں مددگاروں سے اکٹھا کام لینا چاہئے غرض خدا تعالیٰ نے مبلغ کو یہ مددگار اور ہتھیار دیئے ہیں.(۱) دلائل عقلی پیش کرنا.(۲) جذبات کو صیح اور درست باتوں کے متعلق ابھارنا.ان میں سے اگر کسی ایک کو چھوڑ دیا جائے اور اس سے کام نہ لیا جائے تو کامیابی نہیں ہوسکتی.اگر صرف جذبات کو ابھار نا شروع کر دیا جائے اور دلائل دینے چھوڑ دیئے جائیں تو بہت نقصان ہوگا.کیونکہ جب لوگ عقلی دلائل کو چھوڑ دیں گے تو پھر ایسی حالت ہو جائے گی کہ وہ ہمارے کام کے بھی نہ رہیں گے اور اگر خالی دلائل سے کام لیا جائے تو ہمارے مبلغ صرف فلاسفر بن جائیں گے دین سے ان کا تعلق نہ رہے گا اور اس طرح بھی نقصان ہوگا.ان باتوں کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے پس اعلیٰ نتائج پیدا کرنے کے لئے ان دونوں ذریعوں سے کام لینا ضروری ہے مگر یہ بھی اسی وقت کام دے سکتے ہیں جبکہ انسان خود نمونہ کے طور پر بن جائے.تم دلائل عقلی پیش کرو.مگر تمہاری اپنی حالت ایسی نہ ہو کہ دیکھنے والے سمجھیں کہ عقلاً تم جس بات پر قائم ہو اس سے تم کو فائدہ نہیں ہے تو ان پر کبھی ان دلائل کا خاص اثر نہ ہوگا.کیونکہ اگر تم پران دلائل نے کوئی اثر نہیں کیا تو خوب یاد رکھو کہ تمہاری کوئی دلیل دوسروں پر بھی کوئی اثر نہ کرے گی.تم جو دلائل دو پہلے اپنے آپ کو ان کا نمونہ بناؤ.اپنے اوپر ان کا اثر دکھاؤ اور پھر دوسروں سے ان دلائل کے تسلیم کرنے کی توقع رکھو.اسی طرح جذبات کا حال ہے.

Page 23

22 ہدایات زریں جذبات کو اُبھارنے والی وہی تقریر اثر کرے گی کہ جس وقت انسان تقریر کر رہا ہو اس کے اپنے دل میں بھی ایسے ہی جذبات پیدا ہور ہے ہوں کیونکہ دوسروں کے جذبات اس وقت تک نہیں ابھر سکتے جب تک ظاہری الفاظ کے ساتھ اندرونی جذبات بھی نہ ہوں.اس کے لئے اپنے دل میں بھی ان جذبات کا پیدا کرنا ضروری ہے.ورنہ ایسی تقریر کا کوئی اثر نہ ہوگا.اسی طرح عقلی دلائل اس وقت تک اثر نہ کریں گے جب تک ان کے ماتحت انسان خود اپنے اندر تبدیلی نہ پیدا کریگا.اگر انسان خود تو ان دلائل کے ماتحت تبدیلی پیدا نہ کرے اور دوسروں کو کہے تو وہ ہر گز اس کی باتوں کی طرف توجہ نہ کریں گے.اور اس کی مثال ایسی ہی ہوگی جیسا کہ کہتے ہیں کہ کسی لومڑ کی دُم کٹ گئی تھی.اس نے اپنی شرمندگی مٹانے کے لئے تجویز کی کہ سب کی ڈمیں کٹانی چاہئیں اس نے دوسرے لومڑوں کو بتایا کہ دم کی وجہ سے ہی ہم قابو آتے ہیں اس کو کٹا دینا چاہئے تا کہ ہم پکڑے نہ جائیں یہ سنکر سب کٹانے کے لئے تیار ہو گئے کہ ایک بوڑھے لومڑ نے کہا ذرا تم خود تو دکھاؤ کہ تمہاری دم ہے یا نہیں.اگر ہے تو ہم سب کٹانے کے لئے چلیں اور اگر تمہاری پہلے ہی کٹی ہوئی ہے تو معلوم ہوا کہ تم ہماری بھی کٹوانی چاہتے ہو باقی یونہی باتیں ہی ہیں.تو عقلی دلائل کا اس وقت تک اثر نہیں ہوتا جب تک کہ خود دلیل دینے والے میں اس دلیل کا ثبوت نہ پایا جاتا ہو.ایسی صورت میں لوگ یہی کہیں گے کہ بیشک دلیل تو معقول ہے مگر یہ بتاؤ اس کا نتیجہ کیا نکلا اور تم نے اس سے کیا فائدہ اُٹھایا؟ اگر نتیجہ کچھ نہیں اور کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا تو پھر کیوں ہم سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تمہارے مذہب کو قبول کریں اور خواہ مخواہ نقصان اُٹھائیں.اسی طرح جذبات کو اُبھارتے وقت اگر صرف الفاظ استعمال کئے جاویں اور ان کے

Page 24

23 ہدایات زریں ساتھ روح نہ ہو تو وہ الفاظ بھی اثر نہیں کرتے.یہی وجہ ہوتی ہے کہ بہت لوگ جو بڑے زور وشور سے تقریریں کر نیوالے ہوتے ہیں ان کا کچھ اثر نہیں ہوتا.مگر جن مقرروں کے اپنے جذبات ابھرے ہوئے ہیں خواہ کسی سچی وجہ سے یا جھوٹی وجہ سے ہی ان کے الفاظ اثر کرتے ہیں.مثلاً اگر کوئی سمجھے کہ مجھے دکھ پہنچا ہوا ہے حالانکہ دراصل ایسا نہ ہو تو بھی اس کا اثر اس کی آواز میں پایا جائے گا اور پھر سنے والوں پر ہوگا.اس کے بالمقابل اگر کسی کو فی الواقعہ کو ئی تکلیف پہنچی ہو لیکن اس کا قلب اسے محسوس نہ کرتا ہو تو کوئی اس کی باتوں سے متاثر نہ ہوگا.پس دوسروں کے جذبات ابھارنے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جب انسان بول رہا ہو تو اس کے اپنے جذبات بھی اُبھرے ہوئے ہوں مثلاً جب کوئی مبلغ مسلمانوں میں تقریر کر رہا ہو اور کہہ رہا ہو کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کسی کو فضیلت نہ دینی چاہئے.ان کی عزت، ان کا رتبہ، ان کا درجہ سب انبیاء سے اعلیٰ ہے تو اس کے ساتھ ہی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اس کے دل میں بھی موجزن ہونی چاہئے اور اس کے دل سے بھی جذبات کی لہر اٹھنی چاہئے تب دوسروں پر اثر ہوگا.مسمریزم کیا ہے؟ یہی کہ جذبات کو ابھار نا اور شعور کا دل سے کام لینا.اس کی بڑی شرط یہی ہے کہ جس شخص کو سلانا ہو اس کے سامنے کھڑے ہو کر انسان یہ یقین کرے اور اس حالت کو اپنی آنکھوں کے سامنے لائے کہ وہ سو گیا ہے جب یہ کیفیت کسی انسان میں پیدا ہو جاتی ہے تو دوسرا آدمی فوراً سو جاتا ہے.اسی طرح اپنے قلب میں جو کیفیت بھی پیدا کر لی جائے اس کا اثر دوسروں پر ضرور ہو جاتا ہے.غرض تبلیغ کرنے والوں کے لئے یہ دونوں باتیں نہایت ضروری ہیں کہ وہ عقلی دلائل

Page 25

24 ہدایات زریں کا ظاہری نمونہ بھی ہوں اور پھر جذبات بھی ان میں موجود ہوں.یوں تو ہر وقت ہی ہوں مگر تقریر کرتے وقت خاص طور پر ابھرے ہوئے ہوں.یہ جو باتیں میں نے بتائی ہیں یہ تو اصولی ہیں.اب میں کچھ فروعی باتیں بتاتا ہوں جو ہر ایک مبلغ کو یا درکھنی چاہئے.پہلی ہدایت سب سے پہلے یہ ضروری بات ہے کہ مبلغ بے غرض ہوا اور سننے والوں کو معلوم ہو کہ اس کی ہم سے کوئی ذاتی غرض نہیں ہے.ورنہ اگر مبلغ کی کوئی ذاتی غرض ان لوگوں سے ہوگی تو وہ خواہ نماز پر ہی تقریر کر رہا ہو گا سننے والوں کو یہی آواز آرہی ہوگی کہ مجھے فلاں چیز دے دو.فلاں دے دو.مسلمانوں کے واعظوں میں یہ بہت ہی بُری عادت پیدا ہوگئی ہے کہ وہ اپنے وعظ کے بعد کوئی غرض پیش کر کے امداد مانگنا شروع کر دیتے ہیں.اس سے سننے والوں کے ذہن میں یہ بات داخل ہو گئی ہے کہ وعظ کرنے والے کو کچھ نہ کچھ دینا چاہئے اور اسے ایک فرض سمجھا جاتا ہے.یہ ایسی بری رسم پھیلی ہوئی ہے کہ جب کوئی واعظ وعظ کر رہا ہو تو سننے والے حساب ہی کر رہے ہوتے ہیں کہ ہمارے پاس کیا ہے اور ہم اس میں سے کس قدر مولوی صاحب کو دے سکتے ہیں اور کتنا گھر کے خرچ کے لئے رکھ سکتے ہیں.اس رسم کی وجہ یہی ہے کہ عام طور پر مولوی وعظ کے بعد مانگتے ہیں کہ مجھے فلاں ضرورت ہے اسے پورا کر دیا پرم جائے.اس کا بہت برا اثر ہو رہا ہے.کیونکہ واعظ کی باتوں کو توجہ اور غور سے نہیں سنا جاتا.پس واعظ کو بالکل مستغنی المزاج اور بے غرض ہونا چاہئے.اگر کسی وقت شامت

Page 26

25 ہدایات زریں اعمال سے کوئی طمع یا لالچ پیدا بھی ہو تو وعظ کرنا بالکل چھوڑ دینا چاہئے اور تو بہ واستغفار کرنا چاہئے اور جب وہ حالت دُور ہو جائے پھر بے غرض ہو کر کھڑا ہونا چاہئے.اور وعظ کے ساتھ اپنے اندر اور باہر سے لوگوں پر ثابت کر دینا چاہئے کہ وہ ان سے کوئی ذاتی فائدہ اور نفع کی امید نہیں رکھتا اور نہ ان سے اپنی ذات کے لئے کچھ چاہتا ہے.جب کوئی مبلغ اپنے آپ کو ایسا ثابت کر دیگا تو اس کے وعظ کا اثر ہوگا ورنہ وعظ بالکل بے اثر جائے گا.اسی طرح دوسرے وقت میں بھی سوال کرنے سے واعظ کو بالکل بچنا چاہئے.سوال کرنا تو یوں بھی منع ہے اور کسی مؤمن کے لئے پسندیدہ بات نہیں ہے لیکن اگر واعظ سوال کرے گا تو یہ سمجھا جائے گا کہ وعظ اسی وجہ سے ہی کرتا ہے.پس یہ نہایت ہی نا پسندیدہ بات ہے اور واعظوں کو خاص طور پر اس سے بچنا چاہئے ورنہ ان کے وعظ کا اثر زائل ہو جائے گا یا کم ہو جائے گا.دوسری ہدایت دوسری بات واعظ کے لئے یاد رکھنے کے قابل یہ ہے کہ دلیر ہو.جب تک واعظ دلیر نہ ہو اس کی باتوں کا دوسروں پر اثر نہیں پڑتا اور اس کا دائرہ اثر بہت محدودرہ جاتا ہے کیونکہ وہ انہی لوگوں میں جانے کی جرات کرتا ہے جہاں اس کی باتوں پر واہ واہ ہوتی ہے.لیکن اگر دلیر ہوتا تو ان میں بھی جاتا جو گالیاں دیتے، دھکے دیتے اور بُرا بھلا کہتے ہیں اور اس طرح اس کا حلقہ بہت وسیع ہوتا.ہماری جماعت کے مبلغ سوال کرنے سے تو بچے ہوئے ہیں اور ان میں سے بہت میں غناء کی حالت بھی پائی جاتی ہے.مگر یہ کمزوری ان میں بھی ہے کہ جہاں اپنی جماعت کے لوگ ہوتے ہیں وہاں تو جاتے ہیں اور وعظ

Page 27

26 ہدایات زریں کرتے ہیں لیکن جہاں کوئی نہیں ہوتا وہاں نہیں جاتے اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کے دل میں مخفی طور پر واہ واہ سننے کی عادت جاگزیں ہوتی ہے.وہ دورے کرتے ہیں اور بیس ہیں دفعہ جاتے ہیں مگر انہی مقامات پر جہاں پہلے جاچکے ہیں اور جہاں احمدی ہوتے ہیں اور جس جگہ کوئی احمدی نہ ہو وہاں اس خیال سے کہ ممکن ہے کہ کوئی گالیاں دے یا مارے نہیں جاتے.حالانکہ سب سے زیادہ ضرورت انہی مقامات پر جانے کی ہوتی ہے جہاں کوئی احمدی نہ ہو.کیونکہ جہاں بیج ڈال دیا گیا ہے وہاں وہ خود بڑھے گا.اور جہاں ابھی بیج ہی نہیں پڑا وہاں ڈالنا چاہیئے اور خدا تعالیٰ کی بھی یہی سنت معلوم ہوتی ہے کہ کسی ایک جگہ ساری کی ساری جماعت نہیں ہوتی بلکہ متفرق طور پر ہوتی ہے.اسی قادیان میں دیکھ لو یہاں کے سارے باشندوں نے حضرت مسیح موعود کو نہیں مان لیا.بلکہ اشد ترین مخالف یہاں ہی ہیں مگر بٹالہ کے کچھ لوگوں نے آپ کو مان لیا پھر وہاں بھی سب نے نہیں مانا بلکہ اکثر مخالف یہاں ہی ہیں پھر لاہور میں کچھ لوگوں نے مان لیا.اسی طرح کچھ نے کلکتہ میں مانا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے بیج کی طرح صداقت کو بویا ہوا ہے.اور اس طرح خدا تعالیٰ صداقت کے مقام اور چھاؤنیاں بناتا جاتا ہے تاکہ ان کے ذریعہ اردگرد اثر پڑے.پس یہ خیال بالکل نادرست ہے کہ فلاں جگہ کے سب لوگوں کو احمدی بنالیں تو پھر آگے جائیں.اگر ایسا ہونا ضروری ہوتا تو قادیان کے لوگ جب تک سب کے سب نہ مان لیتے ہم آگے نہ جاتے.لیکن ایسا نہیں ہوا اور نہ ہونا چاہئے تھا.کیونکہ بعض ایسی طبائع ہوتی ہیں کہ دس ہیں دن میں مان جاتی ہیں بعض اس سے زیادہ عرصہ میں بعض دو تین سال میں اور بعض دس پندرہ سال میں اور ہر جگہ ایسی طبائع کے لوگ ہوتے ہیں.اب اگر ان

Page 28

27 ہدایات زریں لوگوں کی وجہ سے جنہوں نے لمبے عرصہ کے بعد ماننا ہے دوسری جگہ نہ جائیں گے تو وہاں کے ایسے لوگوں کو جو جلدی ماننے والے ہیں اپنے ہاتھ سے کھو دیں گے اور ان کو اپنے ساتھ نہ مل سکیں گے.مگر ہمارے مبلغوں نے ابھی تک اس بات کو سمجھا نہیں اور اسی کے نہ سمجھنے کی وجہ سے ہزاروں اور لاکھوں آدمی ایسے ہیں جو صداقت کو قبول کرنے سے ابھی تک محروم ہیں.اگر سب جگہ ہماری جماعت کے مبلغ جاتے تو بہت سے لوگ مان لیتے.چونکہ ہر جگہ ایسی طبیعتیں موجود ہیں جو جلد صداقت کو قبول کرنے والی ہوتی ہیں اس لئے ہر جگہ تبلیغ کرنی چاہئے.یہاں ایک دوست نے بتایا کہ ایک شخص ان کو ریل میں ملا.معمولی گفتگو ہوئی اور اس نے مان لیا اور پھر وہ یہاں آیا.صرف تین روپے اس کی تنخواہ ہے اور روٹی کپڑا اسے ملتا ہے.مگر اس میں بڑا اخلاص ہے اور اخبار خریدتا ہے.تو صرف ایک دن کی ملاقات کی وجہ سے وہ احمدی ہو گیا.ہمیں دائرہ اثر وسیع کرنے کی ضرورت ہے مگر مبلغین کی کمزوری کی وجہ سے نہیں ہوتا مبلغ کو دلیر ہونا چاہئے اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ مبلغ کی دلیری اور جرات کا بھی دوسروں پر اثر پڑتا ہے اور لوگ اس کی جرأت کو دیکھ کر ہی مان لیتے ہیں.کئی ہندو اور مسلمان اسی لئے عیسائی ہو گئے کہ انہوں نے پادریوں کی اشاعت میسحیت میں دلیری اور جرأت کو دیکھا اور اس سے متاثر ہو گئے تو مبلغ کو دلیر ہونا چاہئے اور کسی سے ڈرنا نہیں چاہئے اور ایسے علاقوں میں جانا چاہئے جہاں تا حال تبلیغ نہ ہوئی ہو.دلیری اور جرات ایسی چیز ہے کہ تمام دنیا میں اکرام کی نظر سے دیکھی جاتی ہے اور مبلغ کے لئے سب سے زیادہ دلیر ہونا ضروری ہے کیونکہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ بن کر جاتا

Page 29

28 ہدایات زریں ہے.اگر مبلغ ہی دلیر نہ ہوگا تو دوسروں میں جو اسے اپنے لئے نمونہ سمجھتے ہیں دلیری کہاں سے آئے گی.ہمارے مبلغوں میں اس بات کی کمی ہے اور وہ بہت سے علاقے اسی دلیری کے نہ ہونے کی وجہ سے فتح نہیں کر سکتے ورنہ بعض علاقے اسی ہیں کہ اگر کوئی جرات کر کے چلا جائے تو صرف دیا سلائی لگانے کی ضرورت ہوگی آگے خود بخو دشعلے نکلنے شروع ہو جائیں گے.مثلاً افغانستان اور خاص کر سرحدی علاقے ان میں اگر کوئی مبلغ زندگی کی پرواہ نہ کر کے چلا جائے تو بہت جلد سارے کے سارے علاقہ کے لوگ احمدی ہو سکتے ہیں.کیونکہ ان کی حالت عربوں کی طرح کی ہے وہ جب احمدی ہوں گے تو اکٹھے کے اکٹھے ہی ہونگے.عام طور پر متمدن ممالک میں قوانین کے ذریعہ بہت کام چلایا جاتا ہے مثلاً اگر یہاں کسی کو کوئی دشمن قتل نہیں کرتا تو اس لئے نہیں کہ زید یا بکر کے دوست اور اس کے ہم قوم اس کا مقابلہ کریں گے بلکہ اس لئے قتل نہیں کرتا کہ قانون اسے پھانسی دے گا.اس لئے ایسے ممالک میں جو متمدن ہوں قانون کے ڈر کی وجہ سے لوگ ظلم سے رُکتے ہیں.لیکن جہاں تمدن نہ ہو وہاں ذاتی تعلقات بہت زوروں پر ہوتے ہیں.کیونکہ ہر ایک شخص اپنا بچاؤ اسی میں سمجھتا ہے کہ وہ اپنی قوم کے آدمیوں کی جنبہ داری کرے تا وہ بھی بوقت ضرورت اس کی جنبہ داری کریں اور اس طرح ان ممالک میں کوئی شخص اکیلا نہیں ہوتا.جو حال یہاں گھرانوں کا ہوتا ہے وہ ان ممالک میں قوموں کا ہوتا ہے اور اگر ان ممالک میں پندرہ ہیں آدمی جان ہتھیلی پر رکھ کر چلے جائیں اور کچھ لوگوں کو بھی احمدی بنا لیں تو اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ارد گرد کی قو میں ان پر ظلم کریں گی اور قومی جنبہ داری کے خیال سے ان کے ہم قوم بھی احمدیت قبول کر لیں گے اور اس طرح تھوڑے ہی عرصہ میں تیس چالیس لاکھ آدمی سلسلہ میں داخل ہوسکتا ہے.

Page 30

29 ہدایات زریں افریقہ کے لوگ اسی طرح عیسائی ہوئے.پہلے پہل ان میں ایک عورت گئی جو علاج وغیرہ کرتی تھی.اس وجہ سے وحشی لوگ اسے کچھ نہ کہتے لیکن ایک دن انہیں غصہ آ گیا اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر کے کھا گئے.اس عورت کا ایک نوکر تھا جسے اس نے عیسائی کیا ہوا تھا اس نے تین سو میل کے فاصلہ پر جا کر جہاں انگریز موجود تھے بتایا کہ وہ عورت ماری گئی ہے وہاں سے ولایت تار دی گئی.اور لکھا ہے کہ جب ولایت میں اس عورت کے مرنے کی تار شائع ہوئی تو جس مشن سے وہ عورت تعلق رکھتی تھی اس میں صبح سے لے کر شام تک بہت سی عورتوں نے درخواستیں دیں کہ ہم کو وہاں بھیج دیا جائے چنانچہ بہت سے مبلغ اپنے خرچوں پر وہاں گئے اور سارے یوگنڈا کے لوگ عیسائی ہو گئے.وہ عورت سات سال تک اکیلی وہاں کام کرتی رہی اور جب وہ ماری گئی تو اس کی دلیری اور جرات کی وجہ سے سب میں جرات پیدا ہوگئی اور انہوں نے کسی خطرے کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہاں جانے کی درخواستیں دے دیں.پس مبلغ کی جرات بہت بڑا کام کرتی ہے اور اس کی وجہ سے دوسروں میں بھی جرات پیدا ہو جاتی ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے خوشی سے سنایا کہ پیغامیوں کے مبلغوں کو ایک جگہ مار پڑی ہے.وہ تو خوش ہو کر سنا رہا تھا مگر میں اس وقت افسوس کر رہا تھا کہ وہاں ہمارے مبلغ کیوں نہ تھے جنہیں مار پڑتی اور دلیری اور جرات دکھانے کا انہیں موقع ملتا.گو افسوس ہے کہ پیغامی مبلغوں نے بزدلی دکھائی اس موقع کو ضائع کر دیا مگر ان کا مار کھانا خود کوئی ہتک کی بات نہ تھی بلکہ اگر وہ دلیری سے کام لیتے تو یہ ایک قابل قدر کارنامہ ہوتا.ہمارے واعظ حکیم خلیل احمد صاحب کو جب مدراس میں تکلیف پہنچی اور ان پر سخت خطرناک حملہ کیا گیا اور ان کے قتل کرنے کی کوشش کی گئی تو مجھے بہت خوشی ہوئی اور میں نے

Page 31

30 ہدایات زریں اس خبر کو اخبار میں شائع کرایا جس پر ایک دوست نے سخت افسوس کا خط لکھا کہ اخبار والوں کو منع کیا جائے کہ ایسی خبر نہ شائع کیا کریں.حالانکہ وہ خبر میں نے خود کہہ کر شائع کرائی تھی.اور منجملہ اور حکمتوں کے ایک یہ غرض تھی کہ اس خبر کے شائع ہونے سے جماعت میں غیرت پیدا ہو اور ان میں سے اور لوگ اپنے آپ کو تبلیغ کے لئے پیش کریں.یہاں یہ بھی یادرکھنا چاہئیے کہ میرا یہ منشاء نہیں کہ خود بخود اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالو بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی جگہ کی تبلیغ اس لئے مت ترک کرو کہ وہاں کوئی خطرہ ہے.اور نہ میرا یہ منشاء ہے کہ لوگ بے شک تکلیف دیں اس تکلیف کا مقابلہ نہ کرو.بے شک قانوناً جہاں ضرورت محسوس ہو اس کا مقابلہ کرومگر تکالیف اور خطرات تمہیں اپنے کام سے نہ روکیں اور تمہارا حلقہ کا ر محدود نہ کر دیں.میں نے اخلاق کے مسئلہ کا مطالعہ کیا ہے اور دیکھا ہے کہ ستر فیصدی گناہ جرات اور دلیری کے نہ ہونے کے سبب سے پیدا ہوتے ہیں.اگر جرأت ہو تو اس قدر گناہ نہ ہوں.پس دلیری اپنے اندر پیدا کرو تا کہ ایک تو خود ان گناہوں سے بچو جو جرات نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں اور دوسرے تمہاری کوششوں کے اعلیٰ نتائج پیدا ہوں.ہاں اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھو کہ اپنی طرف سے ہر قسم کے فساد یا جھگڑے کے دور کرنے کی کوشش کرو اور موعظہ حسنہ سے کام لو.اس پر بھی اگر کوئی تمہیں دُکھ دیتا ہے، مارتا ہے، گالیاں نکالتا ہے یا بُرا بھلا کہتا ہے تو اس کو برداشت کرو اور ایسے لوگوں کا ایک ذرہ بھر خوف بھی دل میں نہ لاؤ.تیسری ہدایت تیسری بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں لوگوں کی ہمدردی اور ان کے

Page 32

31 ہدایات زریں متعلق قلق ہو.جس جگہ گئے وہاں ایسے افعال کئے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ یہ ہمارا ہمدرد ہے.اگر لوگوں پر یہ بات ثابت ہو جائے تو پھر مذہبی مخالفت سرد ہو جائے کیونکہ مذہبی جذبات ہی ساری دُنیا کام نہیں کر رہے.اگر یہی ہوتے تو ساری دنیا مسلمان ہوتی.پس مبلغ کے لئے نہایت ضروری ہے کہ وہ جہاں جائے وہاں کے لوگوں پر ثابت کر دے کہ وہ ان کا ہمدرد اور خیر خواہ ہے.جب لوگ اسے اپنا خیر خواہ سمجھیں گے تو اس کی باتوں کو بھی سنیں گے اور ان پر اثر بھی ہوگا.چوتھی ہدایت چوتھی بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ دنیاوی علوم سے جاہل نہ ہو.اس سے بہت برا اثر پڑتا ہے.مثلاً ایک شخص پوچھتا ہے کہ جاوا کہاں ہے؟ گواس کا دین اور مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر کوئی نہ جانتا ہو تو اس کے مذہب میں کوئی نقص نہیں آ جائے گا.مگر جب ایک مبلغ سے یہ پوچھا جائے گا اور وہ اس کے متعلق کچھ نہیں بتا سکے گا تو لوگ اسے حقیر سمجھیں گے کہ اتنا بھی نہیں جانتا کہ جاوا کہاں ہے جہاں تین کروڑ کے قریب مسلمان بستے ہیں.تو مبلغ کو جنرل نالج حاصل ہونا چاہئے تا کہ کوئی اسے جاہل نہ سمجھے.ہاں یہ ضروری نہیں کہ ہر ایک علم کا عالم ی ہو لیکن کچھ نہ کچھ اقلیت ضرور ہونی چاہئے.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل ایک واقعہ سنایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ آپ ایک بیمار کو دیکھنے کے لئے گئے.وہاں ایک طبیب صاحب بھی بیٹھے تھے.آپ نے اہل خانہ سے پوچھا کہ تھرما میٹر لگا کر بیمار کو دیکھا ہے یا نہیں.طبیب صاحب نے آ کر کہا اگر آپ نے

Page 33

32 ہدایات زریں انگریزی دوائیاں استعمال کرنی ہیں تو میں جاتا ہوں.مولوی صاحب نے فرمایا کہ تھرما میٹر کوئی دوائی نہیں بلکہ ایک آلہ ہے جس سے بخار کا درجہ معلوم کیا جاتا ہے کہ کس قدر ہے.اس نے کہا آلہ ہو یا کچھ اور ہر ایک انگریزی چیز گرم ہوتی ہے اور بیمار کو پہلے ہی بہت زیادہ گرمی ہے.تو اس قسم کے لوگ بھی ہوتے ہیں جنہیں عام باتوں کا کچھ علم نہیں ہوتا اور مجلسوں میں سخت حقیر سمجھے جاتے ہیں.مبلغ کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ وہ علم مجلس سے واقف ہو اور کسی بات کے متعلق ایسی لاعلمی کا اظہار نہ کرے جو بیوقوفی کی حد تک پہنچی ہوئی ہو.حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک بادشاہ تھا جو کسی پیر کا بڑا معتقد تھا اور اپنے وزیر کو کہتا رہتا تھا کہ میرے پیر سے ملو.وزیر چونکہ اس کی حقیقت جانتا تھا اس لئے ٹلاتا رہتا.آخر ایک دن جب بادشاہ پیر کے پاس گیا تو وزیر کو بھی ساتھ لیتا گیا پیر صاحب نے بادشاہ سے مخاطب ہو کر کہا.بادشاہ سلامت ! دین کی خدمت بڑی اچھی چیز ہے سکندر بادشاہ نے دینِ اسلام کی خدمت کی اور وہ اب تک مشہور چلا آتا ہے.یہ سن کر وزیر نے کہا دیکھئے حضور! پیر صاحب کو ولایت کے ساتھ تاریخ دانی کا بھی بہت بڑا ملکہ ہے اس پر بادشاہ کو اس سے نفرت ہو گئی.حضرت صاحب یہ قصہ سنا کر فرمایا کرتے تھے کہ علم مجلس بھی نہایت ضروری ہے.جب تک انسان اس سے واقف نہ ہو دوسروں کی نظروں میں حقیر ہو جاتا ہے.اسی طرح آداب مجلس کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے مثلاً ایک مجلس مشورہ کی ہو رہی ہو اور کوئی بڑا عالم ہو.مگر اس مجلس میں جا کر سب کے سامنے لیٹ جائے تو کوئی اس کے علم کی پرواہ نہیں کرے گا اور اس کی نسبت لوگوں پر بہت برا اثر پڑے گا.پس یہ نہایت ضروری علم ہے اور مبلغ کا اس کو جاننا بہت ضروری ہے.ہر ایک مبلغ کو چاہئے کہ وہ جغرافیہ ، تاریخ ، حساب ، طب، آداب گفتگو، آداب مجلس و غیرہ علوم کی اتنی اتنی واقفیت ضرور رکھتا ہو

Page 34

33 ہدایات زریں جتنی شرفاء میں شامل ہونے کے لئے ضروری ہے اور یہ کوئی مشکل کام نہیں تھوڑی سی محنت سے یہ بات حاصل ہوسکتی ہے.اس کے لئے ہر علم کی ابتدائی کتابیں پڑھ لینی چاہئیں.پھر واقعات حاضرہ سے واقفیت ہونی چاہئے.مثلاً کوئی پوچھے کہ مسٹر گاندھی کون ہے اور مبلغ صاحب کہیں کہ میں تو نہیں جانتا.تو سب لوگ ہنس پڑیں گے اور اسے حقیر سمجھیں گے.اس لئے ایسے واقعات سے جو عام لوگوں سے تعلق رکھتے ہوں اور روزمرہ ہور ہے ہوں ان سے واقفیت حاصل کرنا بھی ضروری ہے.پانچویں ہدایت پانچویں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ غلیظ نہ ہو.ظاہری غلاظت کے متعلق بھی خاص خیال رکھا گیا ہے چنانچہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مسجد میں کوئی تھوکتا ہے تو یہ ایک غلطی ہے.اس کا کفارہ یہ ہے کہ تھوک کو دفن کرے.(مسنداحمد بن حنبل جلد ۳ صفحه ۱۷۳) حضرت صاحب کی طبیعت میں کتنی بردباری تھی.مگر آپ نے اس وجہ سے باہر لوگوں کے ساتھ کھانا کھانا چھوڑ دیا کہ ایک شخص نے کئی چیزیں ساگ، فرنی ، زردہ شور با وغیرہ ملا کر کھایا.فرماتے تھے کہ اس سے مجھے اتنی نفرت ہوئی کہ قے آنے لگی.اس کے بعد آپ نے باہر کھانا کھانا چھوڑ دیا.اور اس طرح لوگ اس فیض سے محروم ہو گئے جو آپ کے ساتھ کھانا کھانے کے وقت انہیں حاصل ہوتا تھا.پھر حضرت صاحب فرماتے اور میری طبیعت میں بھی یہ بات ہے کہ اگر استرے سے سر کو منڈوا کر کوئی سامنے آئے تو بہت برا لگتا ہے.اور مجھے تو اسے دیکھ کر سر درد شروع ہو

Page 35

34 ہدایات زریں جاتی ہے.تو ظاہری صفائی اور ظاہری حالت کے عمدہ ہونے کی بھی بہت ضرورت ہے تا کہ لوگوں کو نفرت نہ پیدا ہو اور وہ بات کرنا تو الگ رہا دیکھنا بھی نہ چاہیں.مگر ظاہری صفائی سے میرا یہ مطلب نہیں ہے کہ کالر اور نکٹائی وغیرہ لگانی چاہئے اور بال ایک خاص طرز کے بنائے جائیں.ان میں سے بعض باتوں کو تو ہم لغو کہیں گے اور بعض کو ناجائز.مگر جو ضروری صفائی ہے یعنی کوئی غلاظت نہ لگی ہو یا کوئی بو دار چیز نہ لگی ہو اس کا ضرور خیال رکھنا چاہئے.ہاں یہ بھی نہ کرے کہ ہر وقت کپڑوں اور جسم کی صفائی میں لگا ر ہے کیونکہ اگر ایسا کرے گا تو پھر کام خراب ہو جائے گا.چھٹی ہدایت چھٹی بات مبلغ کے لئے یہ ہے جس میں بہت کو تاہی ہوتی ہے کہ جو مبلغ دورے پر جاتے ہیں وہ خرچ بہت کرتے ہیں.میرے نزدیک مبلغ کے لئے صرف یہی جائز ہے کہ وہ کرایہ لے کھانے کی قیمت لے یا رہائش کے لئے اسے کچھ خرچ کرنا پڑے تو وہ لے.گویا میرے نزدیک قوت لا یموٹ یا ایسے اخراجات جو لازمی طور پر کرنے پڑیں ان سے زیادہ لینا ان کے لئے جائز نہیں ہے.مثلاً مٹھائی وغیرہ یا اور کوئی مزہ کے لئے چیزیں خریدی جائیں تو ان کا خرچ اپنی گرہ سے دینا چاہئے.ہماری حالت اور ہمارے کام کی حالت کی وجہ سے جائز نہیں ہے کہ اس قسم کے اخراجات فنڈ پر ڈالے جائیں.میں نے مولوی صاحب کے زمانہ میں دوستوں کے ساتھ دو دفعہ سفر کیا ہے مگر میرے نزدیک دوستوں کی جو زائد چیزیں تھیں ان کا خرچ اپنے پاس سے دیا اور خود اپنا خرچ تو میں لیا ہی نہ کرتا تھا یہی وجہ تھی کہ کئی آدمیوں کے بنارس تک کے خرچ پر صرف ستر

Page 36

35 ہدایات زریں روپے خرچ آئے تھے.پس جہاں تک ہو سکے مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ بہت کم خرچ کرے کیونکہ یہ نمونہ ہوتا ہے دوسروں کے لئے اگر یہی اسراف کرے گا تو لوگ معترض ہوں گے.اگر ایک تنخواہ دار نخواہ میں سے خرچ کرتا ہے تو اس کا مال ہے وہ کر سکتا ہے لیکن اگر اس طرح کا خرچ ہو جس طرح مبلغوں کا ہوتا ہے اور ایک پیسہ بھی اسراف میں لگائے تو لوگ کہتے ہیں کہ اللے تللے خرچ کرتے ہیں.اپنی جیب سے تھوڑا ہی نکلنا ہے کہ پرواہ کریں.اور جب لوگوں کو اس طرح کے اعتراض کا موقع دیا جائے گا تو وہ چندہ میں سستی کریں گے.ساتویں ہدایت ساتویں بات یہ ہے کہ مبلغ میں خود ستائی نہ ہو.بہت لوگوں کی تباہی کی یہی وجہ ہوئی ہے.خواجہ صاحب اپنے لیکچروں کی تعریف خود لکھتے اور دوسروں کی طرف سے شائع کرانے کی کوشش کیا کرتے تھے.ایک دفعہ مولوی صدرالدین صاحب خواجہ صاحب کے ایک لیکچر کی رپورٹ حضرت خلیفہ اول کو سنارہے تھے کہ مولوی صاحب نے اس کے ہاتھ سے وہ کاغذ لے لیا اس کی پشت پر لکھا ہوا تھا کہ جہاں جہاں میں نے اس قسم کے الفاظ لکھے ہیں کہ میں نے یہ کہا یا میری نسبت یہ کہا گیا وہاں خواجہ صاحب لکھ کر شائع کرادیا جائے.حضرت مولوی صاحب نے وہ خط پڑھ کر مجھے دے دیا اور میں نے اس کی پشت پر یہ ہدایت لکھی ہوئی دیکھی.اس کا جو نتیجہ نکلاوہ ظاہر ہے.پس مبلغ کو بھی اس بات پرزور نہ دینا چاہئے کہ فلاں جگہ میں نے یہ بات کہی اور اس کی اس طرح تعریف کی گئی یا اس کا ایسا نتیجہ نکلا کہ مخالف دم بخود ہو گیا.بعض لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ سنائیں.ہم نے یہ بات کہی اور اس کا ایسا اثر ہوا کہ لوگ عش عش کرنے لگے.اس سے ان کی غرض یہ

Page 37

36 ہدایات زریں ہوتی ہے کہ لوگ تعریف کریں.اس میں شک نہیں کہ اپنے کام کا نتیجہ اور کامیابی سنانا بھی ضروری ہوتا ہے جس طرح حضرت صاحب سنایا کرتے تھے.مگر یہ انتہائی مقام کی باتیں ہیں ابتدائی حالت کی نہیں.پس مبلغوں کو چاہئے کہ اپنے لیکچروں اور مباحثوں کی خود تعریفیں نہ سنایا کریں اور صرف اتنی ہی بات بتا ئیں جتنی ان سے پوچھی جائے اور وہی بات بتائیں جو انہوں نے کہی.آگے اس کے اثرات نہ بیان کیا کریں.یہ بتانا ان کا کام نہیں بلکہ اس مجلس کا کام ہے جس میں وہ اثرات ہوئے وہ خود بتاتے پھریں.کسی مبلغ کا یہ کہنا کہ میں نے فلاں مخالف کو یوں پکڑا کہ وہ ہکا بکا رہ گیا اور اس کا رنگ فق ہو گیا ، جائز نہیں.یہ تم نہ کہو بلکہ وہ لوگ کہیں گے جنہوں نے ایسا ہوتے دیکھا.تمہارے منہ سے ایک بھی ایسا لفظ نہ نکلے جس سے تمہاری خوبی ظاہر ہوتی ہو.تم صرف واقعات بیان کر دو اور آگے اثرات کے متعلق کچھ نہ کہو.یہ بات نوجوان اور مبتدی مبلغوں کے لئے نہایت ضروری ہے اور جو استاد ہو جائیں انہیں دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے بیان کرنا بعض دفعہ ضروری ہوتا ہے.آٹھویں ہدایت آٹھویں بات یہ ہے کہ عبادات کے پابند بنو.اس کے بغیر نہ تم دنیا کو فتح کر سکتے ہو اور نہ اپنے نفس کو.فرض عبادات تو ہر ایک مبلغ ادا کرتا ہی ہے لیکن ان کے لئے تہجد پڑھنا بھی ضروری ہے.صحابہ کے وقت تہجد نہ پڑھنا عیب سمجھا جاتا تھا.مگر اب تہجد پڑھنے والے کو ولی کہا جاتا ہے.حالانکہ روحانیت میں ترقی کرنے کے لئے تہجد اور نوافل پڑھنے ضروری ہیں.دوسرے لوگوں کے لئے بھی ضروری ہیں.مگر مبلغ کے لئے تو بہت ہی

Page 38

37 ہدایات زریں ضروری ہیں.پس اگر زیادہ نہیں تو کم ہی پڑھ لے.آٹھ کی بجائے دوہی پڑھ لے اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو یہاں تک کرلے کہ نماز سے پہلے پانچ منٹ لیٹے لیٹے استغفار پڑھ لے اور آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھاتا جائے.اس کے علاوہ ذکر الہی اور دوسری عبادتوں کا بھی شغل رکھنا چاہئے کیونکہ ان کے بغیر روح کو جلاء نہیں ہوتا.فرائض تو ایسے ہیں کہ اگر کوئی ان کو ادا نہ کرے تو مبلغ رہتا ہی نہیں اور فرائض تو ادا کئے ہی جاتے ہیں.کیونکہ اگر مسجد میں نہ آئے تو وہ سمجھتا ہے کہ لوگ کہیں گے اچھا مبلغ ہے! لیکن قرب الہی حاصل کرنے کے لئے اور روحانیت میں ترقی کرنے کے لئے نوافل پڑھنے ضروری ہیں اور دیگر از کار کی بھی بہت ضرورت ہے.نویس ہدایت نویں چیز مبلغ کے لئے دعا ہے.دعا خدا کے فضل کی جاذب ہے.جو شخص عبادت تو کرتا ہے مگر دُعا کی طرف توجہ نہیں کرتا اس میں بھی کبر ہے اور وہ خدا تعالیٰ کی مدد اور اس کے انعام کی ضرورت نہیں سمجھتا.حالانکہ موسی جیسا نبی بھی خدا تعالیٰ سے کہتا ہے.رَبّ الي لِمَا نَزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ (القصص: ۲۵) کہ جو کچھ تیری طرف سے مجھ پر بھلائی نازل ہوئیں اس کا محتاج ہوں.پس جب حضرت موسی نبی ہو کر خدا تعالیٰ کے محتاج ہیں تو معمولی مؤمن کیوں محتاج نہ ہوگا ؟ ہر ایک مبلغ کو دُعا سے ضرور کام لینا چاہئے اور اس کو کسی حالت میں بھی نہ چھوڑ نا چاہئے.دسویں ہدایت دسویں چیز مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں انتظامی قابلیت ہو.اگر اس میں یہ

Page 39

38 ہدایات زریں قابلیت نہ ہوگی تو اس کا دائرہ عمل بہت محدود ہوگا اور اس کی کوششوں کا دائرہ اس کی زندگی پر ہی ختم ہو جائے گا.اس لئے اسے اس بات کی بھی فکر ہونی چاہئے کہ جس کام کو اس نے شروع کیا ہے وہ اس کے ساتھ ہی ختم نہ ہو جائے بلکہ اس کے بعد بھی جاری رہے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے قائمقام بنائے.دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبلغ تھے مگر آپ مبلغ گر بھی تھے.ہمارے مبلغوں کی اس طرف قطعاً توجہ نہیں ہے.وہ یہ کوشش نہیں کرتے کہ جہاں جائیں وہ اپنے قائمقام بنا ئیں اور کام کرنے والے پیدا کریں.تاکہ انتظام اور ترتیب کے ساتھ کام جاری رہے.یہ اس طرح ہوسکتا ہے کہ مبلغ جن لوگوں کو دوسروں کی نسبت زیادہ لائق دیکھیں اور جو شوق رکھیں ان کو مختلف مسائل کے دلائل سکھائیں اور ہر بار ان میں اضافہ کرتے رہیں.اور دیکھتے رہیں کہ انہوں نے پہلے دلائل کو یاد کر لیا ہے یا نہیں.اور پھر انہیں یہ بھی کہیں کہ ہمارے بعد تم تبلیغ کرنا اور اس کے متعلق ہمیں اطلاع دیتے رہنا.میں نے تالیف و اشاعت کے دفتر کو اس کے متعلق تاکید کی تھی کہ ہر جگہ تبلیغ کرنے والے مقرر کئے جائیں اور اس نے نیم مردہ سی تحریک بھی کی جو اسی حالت میں رہی.کئی جگہ تبلیغی سیکرٹری مقرر ہی نہیں ہوئے اور کسی جگہ مقرر ہوئے تو انہوں نے کچھ کیا نہیں.دراصل ان کو پہلے خود زندہ ہونا چاہئے اور زندگی کی علامات ظاہر کرنی چاہئیں تا کہ دوسروں کو زندہ کر سکیں لیکن جبکہ وہ خود مردہ حالت میں پڑے ہیں تو ان سے کسی کام کی کیا اُمید ہوسکتی ہے.غرض جہاں مبلغ جائیں وہاں دوسروں کو تبلیغ کرنا سکھا ئیں اور بتائیں کہ اس طرح بحث کرنی چاہئے.بحث کرنا اور بات ہوتی ہے اور لیکچر دینا اور.اس لئے بحث اور ا دوسرے مذاہب کے متعلق گفتگو کرنے کے گر سکھانے چاہئیں تا کہ ایسے لوگ پیدا ہو

Page 40

39 ہدایات زریں جائیں جو ان کے بعد کام کرتے رہیں.(بعد از نماز مغرب) میں نے پہلے دس باتیں بیان کی تھیں.اب گیارہویں بات بتا تا ہوں.گیارہویں ہدایت گیارہویں بات جس کا یاد رکھنا مبلغ کے لئے ضروری ہے وہ نازک امر ہے.بہت لوگ اس کی طرف توجہ نہیں رکھتے اس لئے بعض دفعہ زک پہنچ جاتی ہے.میں نے اس سے خاص طور پر فائدہ اُٹھایا ہے اور یہ ان باتوں میں سے ہے جو بہت سہل الحصول ہیں.مگر تعجب ہے کہ بہت لوگ اس سے فائدہ نہیں اُٹھاتے.اور وہ یہ ہے کہ دشمن کو کبھی حقیر نہ سمجھو اور اس کے ساتھ ہی کبھی یہ خیال اپنے دل میں نہ آنے دو کہ تم اس کے مقابلہ میں کمزور ہو.مجھے مباحثات کم پیش آئے اس لئے میں اس معاملہ میں کم تجربہ رکھتا ہوں مگر میں نے دیکھا ہے کہ بعض دفعہ نہایت کم علم اور معمولی سے آدمی نے ایسا اعتراض کیا ہے کہ جو بہت وزنی ہوتا ہے اور کئی دفعہ میں نے بچوں کے منہ سے بڑے بڑے اہم اعتراض سنے ہیں.اس لئے یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ ہمارا مد مقابل کم علم اور جاہل انسان ہے اور اس کی ہمیں کیا پرواہ ہے.بلکہ یہی مدنظر رکھنا چاہئے کہ یہ بہت بڑا دشمن ہے.اور اگر بچہ سامنے ہو اور اس کا رُعب نہ پڑ سکے تو یہ خیال کر لینا چاہئے کہ ممکن ہے میرا امتحان ہونے لگا ہے.پس ایک طرف تو خواہ بچہ ہی مقابلہ پر ہو اس کو حقیر نہ سمجھو بلکہ بہت قوی جانو.اور دوسری طرف اس کے ساتھ ہی تمہارے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ہم حق پر ہیں ہمیں کسی

Page 41

40 ہدایات زرین کا کیا ڈر ہوسکتا ہے.گویا نہ تو مد مقابل کو حقیر سمجھنا چاہئے اور نہ مایوس ہونا چاہئے کیونکہ جب خدا تعالیٰ پر اعتماد ہو تو اس کی طرف سے ضرور مدد آتی ہے اور خدا ہی کی مدد ہوتی ہے جس کے ذریعہ انسان دشمن کے مقابلہ میں کامیاب ہوسکتا ہے.ورنہ کون ہے جوسب دُنیا کے علم پڑھ سکتا ہے؟ پھر کون ہے جو سب اعتراضات نکال سکتا ہے اور پھر کون ہے جو ان کے جوابات سوچ سکتا ہے؟ ہر انسان کا دماغ الگ الگ باتیں نکالتا ہے.اس لئے خدا پر ہی اعتما درکھنا چاہئے.کہ وہ ہی ہماری مدد کرے گا اور ہم کامیاب ہوں گے اور ادھر دشمن کو حقیر نہ سمجھا جائے.جب یہ دو باتیں ایک وقت میں انسان اپنے اندر پیدا کر لے تو کبھی زک نہیں اُٹھا سکتا.مگر دیکھا گیا ہے کہ اکثر لوگ جب ایک دو دفعہ کامیاب ہو جاتے ہیں اور اچھا بولنے لگتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کون ہے جو ہمارا مقابلہ کر سکتا ہے.ایسا نہیں ہونا چاہئے.دشمن کو کبھی حقیر نہ سمجھنا چاہئے بلکہ بہت بڑا سمجھنا چاہئے.ہاں ساتھ ہی یہ بھی اعتقاد ہونا چاہئے کہ اگر دشمن قوی ہے تو میرا مددگار بھی بہت قوی ہے.اس لئے دشمن میرے مقابلہ میں کچھ نہیں کر سکے گا.جب یہ دو باتیں انسان میں پیدا ہو جا ئیں تو اول تو خدا اس کے دشمن کی زبان پر کوئی اعتراض ہی جاری نہیں کرے گا اور اگر کر یگا تو اس کا جواب بھی سمجھا دے گا.ایک دفعہ یہاں ایک انگریز پادری آیا.والٹراس کا نام تھا.احمدیت کے متعلق ایک کتاب بھی اس نے لکھی ہے اب مر گیا ہے.اس نے مجھ سے پوچھا کہ قرآن انجیل اور توریت کی تصدیق کرتا ہے مگر ان میں آپس میں اختلاف پایا جاتا ہے.اگر چہ میں قرآن کی تصدیق کرنے کے اور معنے کیا کرتا ہوں اور میرے نزدیک جب ایسے موقع پر لام صلہ آئے تو اس کا اور ہی مطلب ہوتا ہے.مگر اس وقت میرے دل میں یہی ڈالا گیا کہ کہو ہاں تصدیق کرتا ہے.اور بتایا گیا کہ وہ کوئی اختلاف

Page 42

41 ہدایات زریں پیش ہی نہیں کر سکے گا اسنے کہا کہ ان میں تو اختلاف ہے پھر تصدیق کے کیا معنے ؟ میں نے کہا کوئی اختلاف پیش تو کرو.اس پر وہ خوب قہقہہ مار کر ہنسا اور کہا ایک اختلاف؟ اختلاف تو بیسیوں ہیں.میں نے کہا ایک ہی پیش کرو.یہ باتیں میرے منہ سے خدا ہی کہلوا رہا تھا.ورنہ اختلاف تو فی الواقع موجود ہیں.گو اس قسم کے اختلاف نہیں ہیں جس قسم کے اس کی مراد تھی.وہ پادری تھا اور انجیل کا ماہر.اگر کوئی اختلاف پیش کر دیتا تو بات لمبی جا پڑتی.مگر چونکہ میرے دل میں ڈالا گیا تھا وہ کوئی اختلاف پیش نہیں کر سکے گا اس لئے میں نے زور دے کر کہا کہ کوئی اختلاف تو پیش کرو.اس نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا، قرآن کریم میں لکھا ہے کہ مسیح پرندہ پیدا کیا کرتا تھا انجیل میں اس طرح نہیں لکھا.میں نے کہا ، پادری صاحب آپ تو سمجھدار آدمی ہیں اور تاریخ نویسی کا ارادہ رکھتے ہیں.آپ بتائیں کیا اگر ایک مؤرخ کچھ واقعات کو اپنی کتاب میں درج کر دے اور دوسرا ان کو درج نہ کرے تو یہ کہا جائے گا کہ ان کتابوں کا آپس میں اختلاف ہے.سن کر اس کے ساتھ جو دو انگریز تھے ان کی بے اختیار ہنسی نکل گئی اور انہوں نے کہافی الواقع یہ تو کوئی اختلاف نہیں اس پر وہ بالکل خاموش ہو گیا.پس جب انسان خدا تعالیٰ پر بھروسہ کر لیتا ہے تو خدا خود اس کی مدد کرتا ہے اور اسے دشمن پر خواہ اس کا دشمن کتنا ہی قوی ہو کامیاب کر دیتا ہے.بارہویں ہدایت بارہویں بات جس کا میں نے بار ہا تجربہ کیا ہے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے اسے استعمال کیا ہو اور اس کا فائدہ نہ دیکھا ہو، یہ ہے کہ جب انسان تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہو

Page 43

42 ہدایات زرین تو ذہن میں جتنے علوم اور جتنی باتیں ہوں ان کو نکال دے اور یہ دُعا کر کے کھڑا ہو کہ اے خدا! جو کچھ تیری طرف سے مجھے سمجھایا جائے گا میں وہی بیان کروں گا.جب انسان اس طرح کرے تو اس کے دل سے ایسا علوم کا چشمہ پھوٹتا ہے جو بہتا ہی چلا جاتا ہے اور کبھی بند نہیں ہوتا.اس کی زبان پر ایسی باتیں جاری ہوتی ہیں کہ وہ خود نہیں جانتا.اس گر کا میں نے بڑا تجربہ کیا ہے کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ میں پانچ پانچ منٹ تقریر کرتا چلا گیا ہوں مگر مجھے پتہ نہیں لگا کہ کیا کہہ رہا ہوں.خود بخو دزبان پر الفاظ جاری ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس کے بعد جا کر معلوم ہوتا ہے کہ کس امر پر تقریر کر رہا ہوں.پچھلے ہی دنوں ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب کے خطبہ نکاح کے وقت ایسا ہی ہوا.جب میں کھڑا ہو اتو پتہ نہیں تھا کہ کیا کہنے لگا ہوں مگر کچھ منٹ بول چکا تو پھر بات سمجھ آئی کہ اس مضمون کو بیان کر رہا ہوں.یہ بات بہت اعلیٰ درجہ کی ہے اور ہر ایک شخص کو حاصل نہیں ہوسکتی.لیکن چونکہ یہاں ہر طبقہ کے آدمی ہیں اور دوسرے بھی جب اعلیٰ درجہ پر پہنچیں گے تو اس کو سمجھ لیں گے.اس لئے میں اسے بیان کرتا ہوں.جب انسان تقریر کرنے کے لئے کھڑا ہو تو بالکل خالی الذہن ہو کر کھڑا ہو اور اسی بات پر اسے بھروسہ ہو کہ جو کچھ خدا بتائے گا وہی بیان کروں گا.یہ تو گل کا ایک ایسا مقام ہے کہ انسان جو کچھ جانتا ہے اسے بھی بھول جاتا ہے.ان لوگوں کو بھول جاتا ہے جو اس کے سامنے ہوتے ہیں.حتی کہ اپنا نام تک بھول جاتا ہے.اور جو کچھ اس کی زبان پر جاری ہوتا ہے وہ نہیں جانتا کہ میں کیوں کہہ رہا ہوں اور اس کا کیا مطلب ہے؟ مثلاً وہ یہ کہتا ہے کہ خدا کی عبادت کرو ان الفاظ کو تو سمجھتا ہے اور ان کا مطلب بھی جانتا ہے مگر یہ اسے پتہ نہیں ہوتا کہ میں نے یہ کیوں کہا ہے اور کس مضمون کے بیان

Page 44

43 ہدایات زریں کرنے کے لئے میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے ہیں.جب وہ ایسی حالت میں ہوتا ہے تو پھر یکدم اس پر کشف ہوتا ہے کہ یہ بات ہے جس کو تو بیان کرنے لگا ہے.مگر یہ بات پیدا ہوتی ہے اپنے آپ کو گرا دینے سے.جب کوئی انسان اپنے آپ کو بالکل گرادیتا ہے تو پھر خدا تعالیٰ اسے اُٹھاتا ہے لیکن اگر کوئی یہ سمجھے کہ میرے پاس علم ہے میں خوب لیکچر دے سکتا ہوں مجھے سب باتیں معلوم ہیں ان کے ذریعہ میں اپنا لیکچر بیان کروں گا تو اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی مدد نہیں ملتی.کہا جا سکتا ہے کہ اگر لیکچر کیلئے کھڑے ہوتے وقت بالکل خالی الذہن ہو کر کھڑا ہونا چاہئے تو پھر لیکچر کے لئے نوٹ کیوں لکھے جاتے ہیں.اس کے متعلق یا درکھنا چاہئے کہ جس طرح لیکچر کے وقت میں نے بتایا ہے کہ بالکل خالی الذہن ہونا چاہئے اسی طرح جن لیکچروں کے لئے جوابوں کی کثرت یا مضمون کی طوالت یا اس کی مختلف شاخوں کے سبب سے نوٹ لکھنے ضروری ہوں ان کے نوٹ لکھتے وقت یہی کیفیت دماغ میں پیدا کرنی چاہئے اور پھر نوٹ لکھنے چاہئیں.میں ایسا ہی کرتا ہوں اور اس وقت جو کچھ خدا تعالیٰ لکھاتا جاتا ہے وہ لکھتا جاتا ہوں.پھر ان میں اور باتیں بڑھالوں تو اور بات ہے.اسی سالانہ جلسہ پر لیکچر کے وقت ایک اعتراض ہوا تھا کہ فرشتوں کا چشمہ تو خدا ہے جیسا کہ بتایا گیا ہے اور وہ اس چشمہ سے لے کر آگے پہنچاتے ہیں.مگر شیطان کا چشمہ کیا ہے اس اعتراض پر دس پندرہ منٹ کی تقریر میرے ذہن میں آئی تھی اور میں وہ بیان ہی کرنے لگا تھا کہ یک لخت خدا تعالیٰ نے یہ فقرہ میرے دل میں ڈال دیا کہ شیطان تو چھینتا ہے نہ کہ لوگوں کو کچھ دیتا ہے اور چھینے والے کو کسی ذخیرہ کی ضرورت نہیں ہوتی.یہ ایسا مختصر اور واضح جواب تھا کہ جسے ہر ایک شخص آسانی کے ساتھ سمجھ سکتا تھا لیکن جو تقریر کرنے کا میں

Page 45

44 ہدایات زریں نے ارادہ کیا تھا وہ ایک تو لمبی تھی اور دوسرے ممکن تھا کہ علمی لحاظ سے وہ ایسی مشکل ہو جاتی کہ ہمارے دیہاتی بھائی اسے نہ سمجھ سکتے.تو خدا تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ دل میں ڈالا جاتا ہے وہ بہت جامع اور نہایت زود فہم ہوتا ہے اور اس کا اثر جس قدر سننے والوں پر ہوتا ہے اتنا کسی لمبی سے لمبی تقریر کا بھی نہیں ہوتا.پس تم یہ حالت پیدا کرو کہ جب تقریر کرنے کے لئے کھڑے ہو تو بالکل خالی الذہن ہو اور خدا تعالیٰ پر تمہارا سارا مدار ہو.اگر چہ یہ حالت پیدا کر لینا ہر ایک کا کام نہیں ہے اور بہت مشکل بات ہے.لیکن ہوتے ہوتے جب اس کی قابلیت پیدا ہو جائے تو بہت فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے.تیر ہوئیں ہدایت تیرہویں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی پارٹی میں اپنے آپ کو داخل نہ سمجھے.بلکہ سب کے ساتھ اس کا ایک جیسا ہی تعلق ہو.یہ بات صحابہ میں بھی ہوتی تھی کہ کسی سے محبت اور کسی مناسبت کی وجہ سے زیادہ تعلق ہوتا تھا اور وہ دوسروں کی نسبت آپس میں زیادہ تعلق رکھتے تھے.اور ہم میں بھی اس طرح ہے اور ہونی چاہئے لیکن جو بات بری ہے اور جس سے مبلغ کو بالا رہنا چاہئے یہ ہے کہ وہ کسی فریق میں اپنے آپ کو شامل کر لے.ہر ایک مبلغ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کاظل ہے اور ظل وہی ہو سکتا ہے جس میں وہ باتیں پائی جائیں جو اصل میں تھیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ نکلے تو دیکھا کہ دو پارٹیاں آپس میں تیراندازی کا مقابلہ کر رہی ہیں.آپ ان کا حوصلہ بڑھانے کے لئے ایک کے ساتھ ہو کر تیر مارنے لگے اس پر دوسری پارٹی نے اپنی کمانیں رکھ دیں اور کہا ہم آپ کا مقابلہ نہیں کریں گے.اس پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا لو.میں

Page 46

45 ہدایات زریں دخل نہیں دیتا چونکہ آپ سب کے ساتھ ایک ہی تعلق رکھتے تھے اس لئے آپ کو مد مقابل بنانے کے لئے صحابہ تیار نہ ہوئے.اور اس بات کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تسلیم کر کے دخل دینا چھوڑ دیا.یہ چونکہ جنگی لحاظ سے ایک مقابلہ تھا اس لئے آپ الگ ہو گئے ورنہ ایسی باتیں جو تفریح کے طور پر ہوتی ہیں ان میں آپ شامل ہوتے تھے.چنانچہ ایسا ہوا ہے کہ گھوڑ دوڑ میں آپ نے بھی اپنا گھوڑا دوڑایا.اس قسم کی باتوں میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں تھا.غرض مبلغ کو بھی ایسی باتوں میں کسی فریق کے ساتھ نہیں ہونا چاہئے جو مقابلہ کے طور پر ہوں اور بالکل الگ تھلگ رہ کر اس بات کا ثبوت دینا چاہئے کہ اس کے نزدیک دونوں فریق ایک جیسے ہی ہیں.چودہویں ہدایت چودہویں بات یہ ضروری ہے کہ کسی کو یہ خیال نہیں کرنا چاہئے کہ میر اعلم کامل ہو گیا ہے.بہت لوگ سمجھ لیتے ہیں کہ ہمارا علم مکمل ہو گیا ہے اور ہمیں اور کچھ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے.مگر اس سے زیادہ جہالت کی اور کوئی بات نہیں ہے.کیونکہ علم کبھی مکمل نہیں ہوسکتا.میں تو علم کی مثال ایک رستہ کی سمجھا کرتا ہوں جس کے آگے دور ستے ہوجائیں پھر اس کے آگے دو ہو جائیں اور پھر اس کے آگے دو.اسی طرح آگے شاخیں ہی شاخیں نکلتی جائیں اور اس طرح کئی ہزار رستے بن جائیں.یہی حال علم کا ہوتا ہے.علم کی بیشمار شاخیں ہیں اور اس قدر شاخیں ہیں جن کی انتہاء ہی نہیں.پس علم کا خاتمہ شاخوں کی طرف نہیں ہوتا بلکہ اس کا خاتمہ جڑ کی طرف ہے کہ وہ ایک ہے اور وہ ابتداء ہے جو جہالت کے بخارى كتاب الجهاد و السير باب التحريض على الرمی و قول الله تعالى...الخ

Page 47

46 ہدایات زریں بالکل قریب ہے.بلکہ جہالت سے بالکل ملی ہوئی ہے ورنہ آگے جوں جوں بڑھتے جائیں اس کی شاخیں نکلتی آتی ہیں اور وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتیں.اگر کسی نے ایک شاخ کو ختم کر لیا تو اس کے لئے دوسری موجود ہے.غرض علم کی کوئی حد نہیں ہوتی اور وہ کبھی ختم نہیں ہو سکتا اور روحانی علوم کی تو قطعا کوئی حد ہے ہی نہیں.ڈاکٹری کے متعلق ہی کس قدر علوم دن بدن نکل رہے ہیں اور روز بروز ان میں اضافہ ہو رہا ہے.پس کوئی علم ختم نہیں ہوسکتا.اور جہاں کسی کو یہ خیال پیدا ہو کہ علم ختم ہو گیا ہے وہاں سمجھ لینا چاہئے کہ وہ علم کے درخت سے اتر کر جہالت کی طرف آ گیا ہے.پس کبھی یہ مت خیال کرو کہ ہمارا علم کامل ہو گیا.کیونکہ ایک تو یہ جھوٹ ہے کوئی علم ختم نہیں ہوسکتا.دوسرے اس سے انسان متکبر ہو جاتا ہے اور اس کے دل پر زنگ لگنا شروع ہو جاتا ہے.لیکن اگر انسان ہر وقت اپنے آپ کو طالب علم سمجھے اور اپنے علم کو بڑھاتا رہے تو اس کے دل پر زنگ نہیں لگتا.کیونکہ جس طرح چلتی تلوار کو زنگ نہیں لگتا لیکن اگر اسے یوں ہی رکھ دیا جائے اور اس سے کام نہ لیا جائے تو زنگ لگ جاتا ہے.پس ہر وقت اپنا علم بڑھاتے رہنا چاہئے اور یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ علم کبھی ختم نہیں ہوتا.پندرہویں ہدایت پندرہویں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ بلغ میں کہا گیا ہے کہ پہنچا دے.اور جس کو کچھ پہنچایا جاتا ہے وہ بھی کوئی وجود ہونا چاہئے جو معین اور مقرر ہو.ورنہ اگر کسی معین وجود کو نہ پہنچانا ہو تو یہ کہا جاتا کہ پھینک دو یا بانٹ دو.مگر اللہ تعالیٰ نے پہنچا نا فرمایا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ معین وجود ہیں جن کو ان کا حصہ پہنچانا ہے.پھر قرآن کریم فرماتا ہے.كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ (ال عمران:۱۱۱)

Page 48

47 ہدایات زریں اس میں عموم کے لحاظ سے سب انسان آگئے ان کو پیغام الہی پہنچاناہمارا کام ہے.پس کسی قوم اور کسی فرقہ کو حقیر اور ذلیل نہ سمجھا جائے.مبلغ کا کام پہنچانا ہے اور جس کو پہنچانے کے لئے کہا جائے اسے پہچانا اس کا فرض ہے.اسے یہ حق نہیں کہ جسے ذلیل سمجھے اسے نہ پہنچائے اور جسے معزز سمجھے اسے پہنچائے.مگر ہمارے مبلغوں میں یہ نقص ہے کہ وہ ادنیٰ اقوام چوہڑوں چماروں میں تبلیغ کرنے کی کوشش نہیں کرتے.وہ بھی خدا کی مخلوق ہے اسے بھی ہدایت کی ضرورت ہے ان کو بھی تبلیغ کرنی چاہئے اور سیدھے رستہ کی طرف لانا چاہئے.عیسائیوں نے ان سے بڑا فائدہ اُٹھایا ہے اور اس سے زیادہ ہندوستان میں ایسی اقوام کے لوگوں کو عیسائی بنالیا ہے.جتنی ہماری جماعت کی تعداد ہے اور اب ان لوگوں کو کونسل کی ممبری کی ایک سیٹ بھی مل گئی ہے ہمارے مبلغ اس طرف خیال نہیں کرتے.حالانکہ ان لوگوں کو سمجھانا بہت آسان ہے.ان کو ان کی حالت کے مطابق بتایا جائے کہ دیکھو تمہاری کیسی گری ہوئی حالت ہے.اس کو درست کرو اور اپنے آپ کو دوسرے انسانوں میں ملنے جلنے کے قابل بناؤ.اس قسم کی باتوں کا ان پر بہت اثر ہوگا.اور جب انہیں اپنی ذلیل حالت کا احساس ہو جائے گا اور اس سے نکلنے کا طریق انہیں بتایا جائے گا تو وہ ضرور نکلنے کی کوشش کریں گے.ان کو کسی مذہب کے قبول کرنے میں سوائے قومیت کی روک کے اور کوئی روک نہیں ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے اپنی قوم کو چھوڑ دیا تو یہ اچھی بات نہ ہوگی.ہمارے ہاں جو چو ہڑیاں آتی ہیں تبلیغ کرنے پر کہتی ہیں ، ہم مسلمان ہی ہیں مگر ہم اپنی قوم کو کیونکر چھوڑ دیں.یہ روک اس طرح دور ہو سکتی ہے کہ دس پندرہ میں گھر اکٹھے کے اکٹھے مسلمان ہو جائیں اور ان کی قوم کی قوم بنی رہے جیسا کہ یہ لوگ جب عیسائی ہوتے ہیں تو اکٹھے ہی ہو جاتے ہیں.پس ان میں تبلیغ کرنے کی

Page 49

48 ہدایات زریں ضرورت ہے اور سخت ضرورت ہے.اگر ہم ساری دنیا کے لوگوں کو مسلمان بنالیں مگر ان کو چھوڑ دیں تو قیامت کے دن خدا تعالیٰ کو یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ چوہڑے چمار تھے اس لئے ہم نے ان کو مسلمان نہیں بنایا.خدا تعالیٰ نے ان کو بھی آنکھ، کان، ناک، دماغ ، ہاتھ پاؤں اسی طرح دیئے ہیں جس طرح اور وں کو دیئے ہیں.فرق صرف اتنا ہے کہ انہوں نے ان چیزوں کا غلط استعمال کر کے انہیں خراب کر لیا ہے اگر ان کی اصلاح کر لی جائے.تو وہ بھی ویسے ہی انسان بن سکتے ہیں جیسا کہ دوسرے.چنانچہ مسیحیوں میں بعض چوہڑوں نے تعلیم پا کر بہت ترقی کر لی ہے.ان کے باپ یادا دا عیسائی ہو گئے اور اب وہ علم پڑھ کے معزز عہدوں پر کام کر رہے ہیں اور معزز سمجھے جاتے ہیں.پس اگر ان لوگوں کی اصلاح کر لی جائے تو یہ بھی اوروں کی طرح ہی مفید ثابت ہو سکتے ہیں.ہمارے مبلغوں کو اس طرف بھی خیال کرنا چاہئے اور ان لوگوں میں بھی تبلیغ کرنی چاہئے.سولہویں ہدایت سولہویں بات مبلغ کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ لوگوں سے ملنا جلنا جانتا ہو.بہت لوگ اس بات کو معمولی سمجھتے ہیں اور اس سے کام نہیں لیتے.لوگوں کے ساتھ ملنے جلنے سے بڑا فائدہ ہوتا ہے اور اس طرح بہت اعلیٰ نتائج نکلتے ہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابتداء میں لوگوں کے خیموں میں جاتے اور تبلیغ کرتے تھے وہ لوگ جو اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھتے ہیں، وہ عام لیکچروں میں نہیں آتے ان کے گھر جا کر ان سے ملنا چاہئے.اس طرح ملنے سے ایک تو وہ لوگ باتیں سُن لیتے ہیں.دوسرے ایک اور بھی فائدہ اُٹھایا جا سکتا ہے.اور وہ یہ کہ اگر کبھی کسی قسم کی مدد کی ضرورت ہوگی تو اگر یہ لوگ ظاہری مدد نہیں دیں

Page 50

49 ہدایات زریں گے تو خفیہ ضرور دیں گے.کیونکہ ملنے اور واقفیت پیدا کر لینے سے ایک ذاتی تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اور وہ لوگ جن میں شرافت ہوتی ہے اس کا ضرور لحاظ رکھتے ہیں.ہمارے مسٹر محمد امین سابق ساگر چند صاحب میں ملنے کی عادت ہے.وہ لارڈوں تک سے ملتے رہے ہیں اور اب تک خط و کتابت کرتے رہتے ہیں.تو ملنے جلنے اور واقفیت پیدا کر لینے سے انسان بہت سی باتیں سنا سکتا ہے جو کسی دوسرے ذریعہ سے نہیں سنا سکتا.اس لئے ہمارے مبلغوں کو اس بات کی بھی عادت ڈالنی چاہئے اور اس سے فائدہ اُٹھانا چاہئے.ستر ہوئیں ہدایت سترہویں بات یہ ہے کہ مبلغ میں ایثار کا مادہ ہو.جب تک یہ نہ ہولوگوں پر اثر نہیں پڑتا.جب ایثار کی عادت ہو تو لوگ خود بخود کھنچے چلے آتے ہیں.کئی لوگ کہتے ہیں ہم ایثار کس طرح کریں.کونسا موقع ہمارے لئے ایثار کا ہوتا ہے مگر اس کے بہت موقعے اور محل ملتے رہتے ہیں.مثال کے طور پر ہی دیکھ لو کہ ریل پر سوار ہونے والوں کو قریباً ہر اسٹیشن پر وہ لوگ سوار ہونے سے روکتے ہیں جو پہلے بیٹھے ہوتے ہیں.سوار ہونے والا ان کی منتیں کرتا ہے خوشامد میں کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں کھڑا ہی رہوں گا لیکن اسے روکا جاتا ہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو دیکھا گیا ہے کہ پھر جو سوار ہونے کے لئے آتا ہے اسے سب سے آگے بڑھ کر وہی روکتا ہے اور کہتا ہے یہاں جگہ نہیں ہے ہمارا دم پہلے ہی گھٹ رہا ہے اسی طرح ہر جگہ ہوتا رہتا ہے.ایسے موقع پر مبلغ ان کا افسر بن کر بیٹھ جائے اور نرمی و محبت سے کہے آنے دیجئے کوئی حرج نہیں بیچارہ رہ گیا تو نہ معلوم اس کا کتنا نقصان ہو.اور اگر کہیں جگہ نہ ہو تو کہہ دے میں کھڑا ہو جاتا ہوں، یہاں بیٹھ جائے گا.جب وہ اس بات کے لئے تیار ہو جائے گا اور اس قدر ایثار کرے گا تو اس کا لوگوں پر اثر کتنا ہوگا

Page 51

50 ہدایات زریں کہ سب ایثار کے لئے تیار ہو جائیں گے اور تھوڑی تھوڑی جگہ نکال کر آنے والے کو بٹھا دیں گے.اس طرح اسے اپنی جگہ بھی نہیں چھوڑنی پڑے گی اور بات بھی پوری ہو جائے گی.اس قسم کی باتوں سے مبلغ لوگوں کو ممنون احسان بنا سکتے ہیں.ایک مبلغ جن لوگوں کو گاڑی کے اندر لائے گا وہ تو اس کے شکر گزار ہوں گے ہی ، دوسرے بھی اس کے اخلاق سے متاثر ہوں گے اور اس کی عزت کرنے لگیں گے.اور اس طرح انہیں تبلیغ کرنے کا موقع نکل آئے گا.لیکن اگر اس موقع پر اسی قسم کی بداخلاقی دکھائی جائے جس طرح کی اور لوگ دکھاتے ہیں تو پھر کوئی بات سننے کے لئے تیار نہ ہو گا.اور نہ تمہیں خود جرات ہو سکے گی کہ ایسے موقع پر کسی کو تبلیغ کر سکو.ایک سفر میں ایک شخص گاڑی کے اس کمرہ میں داخل ہوا جس میں ہمارے آدمی بیٹھے تھے.اس کے پاس بہت سا اسباب تھا جب وہ اسباب رکھنے لگا تو بعض نے اسے کہا یہ سیکنڈ کلاس ہے.اس سے اتر جائیے اور کوئی اور جگہ تلاش کیجئے لیکن وہ خاموشی سے ان کی باتیں سنتا رہا.اور جب اسباب رکھ چکا تو سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ نکال کر ان کو دکھلا دیا اس پر وہ سخت نادم ہو کر بیٹھ گئے.مجھے سخت افسوس تھا کہ ان لوگوں نے اس قسم کی بداخلاقی کیوں دکھائی.جب میں نے اس کا جواب سنا تو میرے دل کو بہت خوشی ہوئی.جس سے اس طرح پیش آئے تھے وہ لوگ تبلیغ کر سکتے تھے اور وہ ان کی باتوں سے متأثر ہوسکتا تھا؟ ہر گز نہیں.تو ایثار کے موقع پر ایثار کر کے لوگوں میں اپنا اثر پیدا کرنا چاہئے تاکہ تبلیغ کے لئے راستہ نکل سکے.اس قسم کی اور بیسیوں باتیں ہیں جن میں انسان ایثار سے کام لے سکتا ہے.اٹھارہویں ہدایت اٹھارہویں بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دلائل دو قسم کے ہوتے ہیں ایک عقلی اور دوسرے ذوقی.عقل تو چونکہ کم و بیش ہر ایک میں ہوتی ہے اس لئے عقلی

Page 52

51 ہدایات زریں دلائل کو ہر شخص سمجھ سکتا ہے.لیکن ذوقی دلیل ہوتی تو سچی اور پکی ہے مگر چونکہ ایسی ہوتی ہے کہ مناسبت ذاتی کے بغیر اس کو سمجھنا ناممکن ہوتا ہے.اس لئے اس کا مخالف کے سامنے پیش کرنا مناسب نہیں ہوتا.کیونکہ اگر اس میں بھی ذوق سلیم ہوتا اور اس کا دل اس قابل ہوتا ہے کہ اس بات کو سمجھ سکے تو وہ احمدی کیوں نہ ہو گیا اور کیوں الگ رہتا.اس کا تم سے الگ رہنا بتاتا ہے کہ اس میں وہ ذوق سلیم نہیں ہے جو تمہارے اندر ہے.اور ابھی اس کا دل اس قابل نہیں ہوا کہ ایسا ذوق اس کے اندر پیدا ہو سکے.اس لئے پہلے اس کے اندر یہ ذوق پیدا کرو اور پھر اس قسم کی دلیلیں اسے سناؤ.ورنہ اس کا اُلٹا اثر پڑے گا.کئی مبلغ ہیں جو مخالفین کے سامنے اپنی ذوقی باتیں سنانے لگ جاتے ہیں اور اس سے بجائے فائدہ کے نقصان ہوتا ہے کیونکہ مخالف اس کا ثبوت مانگتا ہے تو وہ دیا نہیں جا سکتا اور اس طرح زک اُٹھانی پڑتی ہے.پس مخالفین کے سامنے ایسے دلائل پیش کرنے چاہئیں جو عقلی ہوں اور جن کی صحت ثابت کی جاسکے.انیسویں ہدایت انیسویں بات یہ ہے کہ مبلغ کوئی موقع تبلیغ کا جانے نہیں دے.اسے ایک دھت لگی ہو کہ جہاں جائے جس مجلس میں جائے ،جس مجمع میں جائے تبلیغ کا پہلو نکال ہی لے.جن لوگوں کو باتیں کرنے کی عادت ہوتی ہے وہ ہر ایک مجلس میں بات کرنے کا موقع نکال لیتے ہیں.مجھے باتیں نکالنے کی مشق نہیں ہے اس لئے بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ گھنٹہ گھنٹہ رہنے پر بھی کوئی بات نہیں کی جاسکتی.حضرت مسیح موعود عام طور پر باتیں کر لیتے تھے مگر پھر

Page 53

52 ہدایات زریں بھی بعض دفعہ چپ بیٹھے رہتے تھے.ایسے موقع کے لئے بعض لوگوں نے مثلاً میاں معراج الدین صاحب اور خلیفہ رجب الدین صاحب نے یہ عمدہ طریق نکالا تھا کہ کوئی سوال پیش کر دیتے تھے کہ حضور مخالفین یہ اعتراض کرتے ہیں اس پر تقریر شروع ہو جاتی.تو بعض لوگوں کو باتیں کرنے کی خوب عادت ہوتی ہے.اور بعض تو ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں چپ کرانا پڑتا ہے.مبلغوں کے لئے باتیں کرنے کا ڈھب سیکھنا نہایت ضروری ہے.میر صاحب ہمارے نانا جان کو خدا کے فضل سے یہ بات خوب آتی ہے.میں نے ان کے ساتھ سفر میں رہ کر دیکھا کہ خواہ کوئی کسی قسم کی بھی باتیں کر رہا ہو، وہ اس سے تبلیغ کا پہلو نکال ہی لیتے ہیں.بیسویں ہدایت بیسویں بات یہ ہے کہ مبلغ بیہودہ بحثوں میں نہ پڑے بلکہ اپنے کام سے کام رکھے.مثلاً ریل میں سوار ہو تو یہ نہیں کہ ترک موالات پر بحث شروع کر دے.میں نے اس کے متعلق کتاب لکھی ہے مگر اس لئے لکھی ہے کہ میرے لئے جماعت کی سیاسی حالت کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے اور سیاسی طور پر اپنی جماعت کی حفاظت کرنا بھی میرا فرض ہے.اگر میں صرف مبلغ ہوتا تو بھی اس کے متعلق کچھ نہ لکھتا کیونکہ مبلغ کو ایسی باتوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں ہے.اسے ہر وقت اپنے کام کا ہی فکر رکھنا چاہئے.اور اگر کہیں ایسی باتیں ہو رہی ہوں جو اس کے دائرہ عمل میں داخل نہیں ہیں تو وہ واعظانہ رنگ اختیار کرے اور کہے کہ اتفاق و اتحاد ہی اچھا ہوتا ہے اور وہی طریق عمل اختیار کرنا چاہئے جس میں کوئی فساد نہ ہو کوئی فتنہ نہ پیدا ہو اور کسی پر ظلم نہ ہو.اس کے سوا کیا ہو یا کیا نہ ہو اس میں

Page 54

53 ہدایات زریں پڑنے کی اسے ضرورت نہیں ہے بلکہ یہی کہے کہ ہر ایک وہ بات جو فساد، فتنہ اور ظلم وستم سے خالی ہو اور حق و انصاف پر مبنی ہو اسے ہم ماننے کے لئے تیار ہیں اور اس میں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے.اور اس میں کیا شک ہے کہ جو بات حق وصداقت پر مبنی ہوا سے ہم ہر وقت ماننے کے لئے تیار ہیں.اکیسویں ہدایت اکیسویں بات یہ ہے کہ مبلغ کو اس بات کی بھی نگرانی کرنی چاہئے کہ ہماری جماعت کے لوگوں کے اخلاق کیسے ہیں.مبلغ کو اپنے اخلاق درست رکھنے بھی نہایت ضروری ہیں.مگر اس کے اخلاق کا اثر مخالفین پر اتنا نہیں ہوتا جتنا ان لوگوں کے اخلاق پر ہوتا ہے جو ہر وقت ان کے پاس رہتے ہیں.مبلغ تو ایک آدھ دن کے لئے کسی جگہ جائے گا اور مخالفین اس کے اخلاق کا اندازہ بھی نہ لگا سکیں گے.ان پر تو وہاں کے احمدیوں کے اخلاق کا ہی اثر ہو گا.لیکن اگر ان احمدیوں کے اخلاق اچھے نہیں جو ان میں رہتے ہیں تو خواہ انہیں کوئی دلیل سناؤ ان کے سامنے وہاں کے لوگوں کے ہی اخلاق ہوں گے اور ان کے مقابلہ میں دلیل کا کچھ بھی اثر ان پر نہ ہوگا.پس مبلغ کا یہ اولین فرض ہے کہ جہاں جائے وہاں کے لوگوں کے متعلق دیکھے کہ ان کے روحانی اور ظاہری اخلاق کیسے ہیں.ان کے اخلاق اور عبادات کو خاص طور پر دیکھے اور ان کی نگرانی کرتار ہے.جب بھی جائے مقابلہ کرے کہ پہلے کی نسبت انہوں نے ترقی کی ہے یا نہیں.یہ نہایت ضروری اور اہم بات ہے اور ایسی اہم بات ہے کہ اگر اخلاق درست نہ ہوں تو ساری دلیلیں باطل ہو جاتی ہیں.اور اگر اخلاق درست ہوں تو ایک آدمی بھی بیسیوں کو احمدی بنا سکتا ہے.کیونکہ دس تقریریں اتنا اثر نہیں کرتیں جتنا اثر ایک دن کے اعلیٰ اخلاق کا نمونہ کرتا ہے.کیونکہ یہ مشاہدہ ہوتا ہے اور

Page 55

54 ہدایات زرین مشاہدہ کا اثر دلائل سے بہت زیادہ ہوتا ہے.دیکھو اگر ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ کا اثر بذریعہ کشف دل پر ڈال دیا جائے تو اس کا اتنا اثر ہوگا کہ سارے قرآن کے الفاظ پڑھنے سے اتنا نہ ہوگا کیونکہ وہ مشاہدہ ہو جائے گا.یہی وجہ ہے کہ صوفیاء نے کہا ہے ایک آیت پر عمل کرنا بہتر ہے بہ نسبت سارا قرآن پڑھنے کے.اس کا غلط مطلب سمجھا گیا کہ ایک ہی آیت کو لے لینا چاہئے اور باقی قرآن کو چھوڑ دینا چاہئے.حالانکہ اس سے مراد وہ اثر ہے جو کسی آیت کے متعلق کشفی طور پر انسان پر ہو.تو اخلاق کا نمونہ دکھانا بڑی تاثیر رکھتا ہے.اسی کے متعلق قرآن میں آیا ہے رَبُّمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ ( الحجر : ۳) کفار مسلمانوں کے اخلاق کو دیکھ کر خواہش کرتے کہ کاش ہم بھی ایسے ہو جائیں.یہ اخلاق ہی کا اثر ہو سکتا ہے کہ کا فربھی مؤمن کی طرح بننے کی خواہش کرتا ہے.اور جب کوئی سچے دل سے خواہش کرے تو اس کو خدا ان لوگوں میں داخل بھی کر دیتا ہے جن کے اخلاق اسے پسند آتے ہیں.بائیسویں ہدایت بائیسویں بات مبلغ کے کامیاب ہونے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اس میں ایک حیات اور حرکت ہو.یعنی اس میں چستی ، چالا کی اور ہوشیاری پائی جائے.حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ تم جہاں جاؤ آگ لگا دو تا کہ لوگ جاگیں اور تمہاری باتیں سنیں.پس چاہئے کہ مبلغ کے اپنے جسم میں ایک ایسا جوش اور ولولہ پیدا ہو جائے کہ جو زلزلہ کی طرح اس کے جسم کو ہلا دے اور وہ دوسروں میں زلزلہ پیدا کر دے مبلغ جس گاؤں یا شہر میں جائے وہ سو نہ سکے بلکہ بیدار ہو جائے.مگر اب تو ایسا ہوتا

Page 56

55 ہدایات زریں ہے کہ کبھی مبلغ ایک ایک مہینہ کسی جگہ رہ کر آجاتا ہے اور وہاں کے لوگوں کو اتنا بھی معلوم نہیں ہوتا کہ یہاں کوئی آیا تھا.ان ہدایات پر عمل کرو یہ بائیکس موٹی موٹی باتیں ہیں مگر اس لئے نہیں کہ ان کو سنو اور کان سے نکال دو بلکہ اس لئے ہیں کہ ان پر عمل کرو.ہماری ترقی اسی لئے رکی ہوئی ہے کہ صحیح ذرائع سے کام نہیں لیا جارہا.اخلاص اور چیز ہے لیکن کام کو صیح ذرائع اور طریق سے کرنا اور چیز.دیکھو اگر کوئی شخص بڑے اخلاص کے ساتھ مسجد کے پیچھے مرزا نظام الدین صاحب کے مکان کی طرف بیٹھ رہے اور کہے کہ میں اخلاص کے ذریعہ مسجد میں داخل ہو جاؤں گا تو داخل نہیں ہو سکے گا.لیکن اگر کسی میں اخلاص نہ بھی ہو وہ اور وہ مسجد میں آنے کا راستہ جانتا ہو تو آ جائے گا.ہاں جب یہ دونوں باتیں مل جائیں یعنی اخلاص بھی ہو اور صحیح طریق پر عمل بھی ہو تب بہت بڑی کامیابی حاصل ہوسکتی ہے.پس یہ ہدایتیں جو میں نے بتائی ہیں ان پر عمل کرو تا کہ تبلیغ صحیح طریق کے ماتحت ہو.یہ ہدایتیں دفتر تالیف میں محفوظ رہیں گی اور ان کے مطابق دیکھا جائے گا کہ کس کس مبلغ نے ان پر کتنا کتنا عمل کیا ہے.یہ ٹھیک بات ہے اور میں نے بارہا اس پر زور دیا ہے کہ مبلغ کا کام کسی سے منوانا نہیں بلکہ پہنچانا ہے.مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگ مانتے ہی نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہنچاتے ہی تھے.منواتے نہ تھے مگر لوگ مانتے تھے.اسی طرح حضرت مسیح موعود پہنچاتے ہی تھے.منواتے نہیں تھے.مگر لوگ مانتے تھے.کیوں؟ اس لئے کہ صحیح ذرائع

Page 57

56 ہدایات زریں کے ماتحت پہنچانے کا لازمی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ مان لیتے ہیں.پس ہمارے مبلغ بھی صحیح ذرائع پر عمل کریں گے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ لوگ نہ مانیں.اگر ہم ان باتوں کو جو میں نے بیان کی ہیں اپنی جماعت کے ہر ایک آدمی میں پیدا کر دیں تو ہر سال ہماری جماعت پہلے کی نسبت دگنی ہو جائے.کیونکہ کم از کم ایک شخص ایک کو تو احمدی بنالے اور اگر اس طرح ہونے لگ جائے تو تم دیکھ سکتے ہو کہ ہماری جماعت کس قدر ترقی کر سکتی ہے.بیس پچیس سال کے اندر اندر دنیا فتح ہوسکتی ہے.اس وقت اگر ہم اپنی جماعت کو بطور تنزل ایک لاکھ ہی قرار دیں تو اگلے سال دو ۲ لاکھ ہو جائے اور اس سے اگلے سال چار لاکھ، پھر آٹھ لاکھ، پھر سولہ لاکھ اس طرح سمجھ لو کہ کس قدر جلدی ترقی ہو سکتی ہے.مگر یہ خیالی اندازہ ہے.اگر اس کو چھوڑ بھی دیا جائے اور حقیقی طور پر اندازہ لگایا جائے تو دس پندرہ سال کے اندر اندر ہماری جماعت اس قدر بڑھ سکتی ہے کہ سیاسی طور پر بھی ہمیں کوئی خطرہ نہیں رہ جاتا.مگر افسوس ہے کہ صحیح ذرائع اور اصول تبلیغ سے کام نہیں لیا جاتا اگر ان سے کام لیا جائے اور ان شرائط کو مد نظر رکھا جائے جو میں نے بیان کی ہیں تو قلیل عرصہ میں ہی اتنی ترقی ہوسکتی ہے کہ ہماری جماعت پہلے کی نسبت میں گنے ہو جائے.اور جب جماعت بڑھ جاتی ہے تو وہ خود تبلیغ کا ذریعہ بن جاتی ہے.اگر اس وقت ہماری جماعت ہیں لاکھ ہو جائے تو ہزاروں ایسے لوگ جو چھپے ہوئے ہیں وہ ظاہر ہو کر ہمارے ساتھ مل جائیں گے.پس ایک انتظام اور جوش کے ساتھ کام کرنا چاہئے.اور اس سال ایسے جوش سے کام کر و کم از کم ہندوستان میں زلزلہ آیا ہوا معلوم ہو.اور اگر تم اس طرح کرو گے تو پھر دیکھو گے کہ کس قدر ترقی ہوتی ہے.

Page 57