Language: UR
جماعت احمدیہ کے خلاف مخالفین نے ہر حربہ چلایا اور اپنی ناکامی کو خود تجربہ کیا۔ ان معاندین کا ایک گھناؤنا الزام اور گہری سازش جماعت احمدیہ پر نبی اللہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کرنے کی تہمت ہے۔ اس مذموم حرکت سے یہ معاندین معصوم احمدیوں کو بیک وقت دو محاذوں پر کمزور کرتے ہیں، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی توہین کا جھوٹا الزام سن کر جہاں عامۃ المسلین اپنی جہالت اور نادانی سے گمراہ ہوتے ہیں وہاں عیسائی فرقے بھی طیش میں آجاتے ہیں اور اصل صورت حال سے ناواقف ہی رہ جاتے ہیں۔ اسلام انٹرنیشنل پبلی کیشنز کے شائع کردہ زیرنظر مختصر کتابچہ میں جہاں مذکورہ بالا موضوع پر جماعتی لٹریچر سے قیمتی حوالے جمع کئے گئے ہیں وہاں ان الزام تراشی کرنے والوں کا بھی اندرونہ دکھایا گیا ہے کہ ان لوگوں کے اپنے لٹریچر میں اس نبی معصوم علیہ السلام کے بارہ میں کیا کیا زہر افشانیاں اور توہین آمیزی کی گئی ہے۔
حضرت عیسی علیہ السلام کی تو ہین کے الزام کا جواب تیار کرده ہادی علی چوہدری
© 1991 ISLAM INTERNATIONAL PUBLICATIONS LTD.ISBN 1 85372 421 1 Published by: Islam International Publications Ltd.Islamabad, Sheephatch Lane, Tilford, Surrey GU10 2AQ, U.K.Printed by: Raqeem Press, Islamabad, U.K.Electronic version by www.alislam.org
بسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيم ہمارا عقیدہ ہم ناظرین پر ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ حضرت مسیح علیہ السلام پر نہایت نیک عقیدہ ہے اور ہم دل سے یقین رکھتے ہیں کہ وہ خدا تعالے کے نیچے نبی اور اس کے پیارے تھے اور ہمارا اس بات پر ایمان ہے گروہ جیسا کہ قرآن شریف ہمیں خبر دیتا ہے اپنی نجات کے لئے ہمارے سید و مولی محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر دل وجان سے ایمان لائے تھے اور حضرت موسی علیہ السلام کی شریعیت کے صد با خادموں میں سے ایک مخلص خادم وہ بھی تھے.پس ہم ان کی حیثیت کے موافق ہر طرح ان کا ادب ملحوظ رکھتے ہیں؟ د نور القرآن - روحانی خزائن جلده مش۳ )
L % آج سے تقریبا ڈیڑھ دو سو سا قبل برصغیر پاک و ہندمیں مختلف مذہبی تحریکات میں بیداری کی امنگیں جواں ہونے لگیں تو ان میں اپنے اپنے مذہب کی برتری ثابت کرنے کے لئے باقاعدہ اور منظم جدو جہد شروع ہوئی.ننشالہ میں انگلستان سے ایک عیسائی مناد ولیم کیری صاحب بنگال میں وارد ہوئے تا کہ بر صغیر پاک و ہند میں خدا کی بادشاہت قائم کریں.بعد ازاں جلد ہی اس خطہ ارض پر پادریوں کی مسلسل آمد و رفت کا سلسلہ جاری ہوگیا اور آمد ورفت کی رفتار تیز تر ہوتی چلی گئی.اور تقریب انصف صدی تک عیسائیت مضبوط قدموں کے ساتھ وہاں قائم ہوگئی حتی کہ شاید میں پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر چارلس ایچی سن نے اپنی تقریر میں یہ بیان دیا کہ نے جس رفتار سے ہندوستان کی معمولی آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس سے چار پانچ گنا زیادہ تیز رفتاری سے عیسائیت اس ملک میں پھیل رہی ہے اور اس وقت ہندوستانی عیسائیوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے؟ ردی مشتر مصنفہ آمر کلارک ، مطبوعہ لنڈن ص ۲۳۲) ۱۸۹۶ء میں امریکہ سے مشہور عیسائی متاد ڈاکٹر جان ہنری بیرونہ کو ہندوستان بلوایا گیا.انہوں نے برصغیر کا طوفانی دورہ کر کے جگہ جگہ لیکچر دیئے اور ان لیکچروں میں عیسائی سلطنہ کیسے دید یہ اور حکومت اور ان میں عیسائیت کے غلبہ و استیلاء کا نہایت پرشکوہ الفاظ میں نقشہ کھینچنے کے بعد انہوں نے خاص طور پر اسلامی ممالک میں عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا بڑ سے.
فاتحانہ انداز میں ذکر کیا اور کہا :- اب میں اسلامی ملکوں میں عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا ذکر کرتا ہوں اس ترقی کے نتیجہ میں صلیب کی چمکا راگر ایک طرف لبنان پر حلوہ فگن ہے تو دوسری طرف فارس کے پہاڑوں کی چوٹیاں اور باسفورس کا پانی اس کے نور سے جگمگ جگمگ کر رہا ہے.یہ صورتحال اس آنے والے انقلاب کا پیش خیمہ ہے جب قاہرہ ، دمشق اور تہران خداوند یسوع مسیح کے خدام سے آبا د نظر آئیں گے ، حتی کہ صلیب کی چکار صحرائے عرب کے سکوت کو چیرتی ہوئی خداوند یسوع مسیح کے شاگردوں کے ذریعہ مکہ اور خاص کھیہ کے حرم میں داخل ہوگی اور بالآخر وہاں صداقت کی منادی کی جائے گی کہ ابدی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ حقیقی اور واحد خدا کو اور میسوع مسیح کو جانیں جس کو تو نے بھیجا ہے؟ د بیروزی کیچرز مت) بر صغیر پاک و ہند عملاً ایک ایسے اکھاڑے کی شکل اختیار کر گیا تھاکہ جس میں مذاہب عالم کی گشتی کھیلی جارہی تھی.خصوصاً ہندومت، عیسائیت اور اسلام بڑے وسیع پیمانہ پر اور انتہائی گرمجوشی کے ساتھ برسر پیکار تھے.مذکورہ بالا مذاہب کے علماء جہاں ایک دوسرے کو عقائد کے لحاظ سے مات دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے تھے وہاں اس پیکار کی ایک ناپسندیدہ صورت یہ بھی اختیار کر لی گئی کہ وہ بانیان مذاہب کی ذات پر گند اچھا سلنے میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کرتے اور اس پہلو سے دوسر سے کی جس قدر زیادہ دل آزاری ہوتی اتنی ہی اپنے مذہب کی برتری گردانی جاتی.علاقہ پر تسلط انگریزی حکومت کا تھا اور واضح طور پر عیسائیت کی حکمرانی تھی اسلئے یہ ماحول، یہ فضا اور یہ وقت اگر عیسائیوں کے لئے ہر پہلو سے سازگار تھا تو مسلمانوں کیلئے سر سے
زیادہ ناساند گار.کیونکہ مسلمانوں کے لئے ان کی مقدس شریعت قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق ہر نبی اور ہر قوم کے ہادی کی عزت و تکریم کرنا ایمان کا لازمی جزو تھا اور ان کے مقدس ومعصوم ہونے پر ہر مسلمان کامل یقین رکھتا تھا لہذاوہ کی نبی اور ہدی کی تین تحقیر تو کجا، ان کی درد بھر تخفیف بھی گناہ کبیرہ تصور کرتے تھے.جبکہ اس کے برعکس عیسائی اپنی مقدس کتاب کے مطابق حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد کسی اور نبی پر ایمان لانا ضروری نہ سمجھتے تھے.لہذا پاوریوں کو مذہب اسلام پر زہر افشانیوں اور دنیا کی سب سے معصوم و مقدس ہستی، سرور کائنات، فرد عالم اس دایانبیاء و خاتم المرسلین حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات پر ہرزہ سرائیوں کے لئے کھلی چھٹی تھی.چنانچہ اس سلسلہ میں ادب و احترام کا پاس تو کجا، وہ انسانیت کی حدود کو بڑی بے رحمی سے پھلانگ رہے تھے.ایسی کتب جن میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ظلم کی حد تک یاوہ گوئی کی گئی تھی کروڑوں کی تعداد میں برصغیر میں شائع کی گئیں.ان کتابوں میں جو د لاندار زبان استعمال کی گئی اس کا اندازہ اسی لگایا جاسکتا ہے کہ پادری عماد الدین نے جب کتاب "صدایتہ السلمین شایع کی تو وہ اس قدر دل آزار کلمات سے عمل تھی کہ اس پر اسے خود عیسائیوں نے ملامت کی.چنانچہ پادری کر یوں کے زیر اہتمام شائع ہونے والا اخبار شمس الاخبار لکھنؤ اپنی ۱۵ راکتو بر شہرہ کی اشاعت میں رقمطراز ہے کہ :- پادری عماد الدین کی تصنیفات کی مانند نفرتی نہیں کہ جس میں گالیاں لکھی ہوئی ہیں اور اگر شاہ کی مانند پھر ندر ہوا تو اس شخص کی بدزبانیوں اور بے ہودگیوں سے ہوگا ہے ه: - اسکی علاوه کتاب وافع البستان مصنفه بادی را نگین سایشیخ الرجال مصنف ماسٹر رام چندر عیسائی.سیرت ایسی احمد مصنفہ پادری تھا کہ اس اندر نہ بائیبل معتقد ڈپٹی عبدالله اتم -
حکومت وقت کی طرف سے تحفظ کے خمار اور مذہبی آزادی کے ناجائز تصور نے پادریوں کی قلموں کو حد در طعن آمیز اور زبانوں کو بہت دراز کر دیا تھا.اس صورتحال کا کچھ اندازہ حال ہی میں مسلمانوں کے جذبات کی اس انگیخت سے لگایا جا سکتا ہے.جو ننگ انسانیت سلمان رشدی کے زہر آشام ناول نے پیدا کی ہے.یہ وہ حالات تھے اور یہ وہ ماحول تھا کہ ہر سلمان جہاں خون دل پی کر رہ جاتا تھا وہاں ایسے احساس شکست خوردگی مزید مایوسیوں اور محرومیوں کی طرف دھکیل رہا تھا کیونکہ اعتقادی مجبوری اور معاشرتی بے بسی اس کو پابہ زنجیر کئے ہوئے تھی.اگر وہ وہی زبان حضرت عیسی علیہ السّلام کے لئے اختیار کرتا جو پادری حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے کرتے تھے تو یہ اقدام اپنے ہی عقائد اور اعتقاد کا خون کرنے کے مترادف تھا.اس صورتحال میں مسلمان علماء نے پادریوں کی ہرزہ سرائیوں کا ترکی بہ ترکی جواب دینے اور مسلمان عامتہ الناس کو مایوسیوں کی تاریکیوں سے نکال کے لئے ایک حکمت عملی اختیار کی.و یہ تھی کہ نہوں نے دیکھا کہ قرآن کریم میں بیان شده عظیم المرتبت نبی اللہ مسیح عیسی ابن مریم علیہ السلام کے مقابل پہ اناجیل جس بیسوع کی تصویر پیش کرتی ہیں وہ در اصل حقیقی عیسی ابن مریم نہیں اور وہ شخص نہیں جو بنی اسرائیل کی طرف رسول بن کر آیا تھا اور خدا کا مقدس نبی تھا.اسلئے انہوں نے عیسائیوں کی اس مسلم شخصیت کو جو انا جیل میں یسوع کے نام سے موسوم ہے، اپنے اعتراضات کا ہدف بنایا اور اناجیل میں بیان شدہ واقعات اور احوال کو اس طرح پیش کیا کہ بقیه حاشیه...کتاب محمد کی تواریخ کا اجمال مصنفہ پادری ولیم ۶۰ ریویو با این احمدیہ مصنفه با دری ٹھاکر داس یاد سوانح عمری محمد صاحب مصنفہ اور رنگ داشنگٹن در اختیار نور افشان امریکن میشن پریس اور میانه - و تفتیش الاسلام مصنف پادری را برس..بی این پی اوران و غیره پادریوں کی گنده دستی کی جامع دستاویزیں ہیں.
اس فرضی شخصیت کی تخفیف ہو اور سیمیوں کو اس آئینہ میں اپنا چہرہ نظر آجائے اوراپنی حیثیت کا علم ہو جائے.اور اس طرح وہ نبی پاک سلطان الصادقین خیرالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے دین کے بارہ میں زبان طعن دراز کرنے سے باز رہیں.لیکن یہ ایک مجبوری تھی کہ جس کو اختیار کئے بغیر کوئی چارہ نہ تھا.ایک سو سال قبل کے اس پس منظر میں اور ان حالات میں دفاعی طور پر الزامی جواب دینے والوں کو مورد الزام ٹھہرانا کہ وہ نعوذ بالد نبی اللہ حضرت عیسی علیہ السلام کی شان میں گستاخی کرنے والے تھے کسی حامی دین اسلام اور عاشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا کام نہیں.یہ تو سراسر انصاف کا دامن چھوڑنے کے مترادف ہے یا محض فتنہ پردازی اور شر انگیزی ہے.ان علما ء نے حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات بابرکات کو ہدف اعتراض نہیں بنایا بلکہ اس ذات کو انا جیل کے آئینہ میں پیش کیا ہے جو عیسائیوں کے نزدیک مسلمہ شخصیت ہے اور جس کا نام میسوع ہے جس کا قرآن کریم میں بیان شده نبی اللہ عیسی علی السلام سے دور کا بھی تعلق معلوم نہیں ہوتا.مثال کے طور پر چند علماء کے حوالے پیش ہیں.علمائے اہل سنت کے مقتدا مولوی رحمت اللہ مہاجر کی اپنی کتاب ازالته الاوهام (1) میں لکھتے ہیں :.(ا) "اکثر معجزات عیسویه را معجزات ندانند زیرا که مثل آنها ساحران هم میسازند و یہود آنجناب را چوں نبی نمے دانند و همچو معجزات ساحر میگویند ۱۳۹۰ که اکثر معجزات عیسویہ کو معجزات قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ایسے کام تو جادو گر بھی کر لیتے ہیں.اسی وجہ سے یہود آپ کو نبی تسلیم نہیں کرتے اور اُن کے معجزات کو ساحروں کے معجز سے قرار دیتے ہیں.( ii ) " جناب مسیح اقرار میفرمایند که یحیی نه نان میخور ایندند نه شراب سے آشامیدند و آنجناب شراب ہم مے نوشیدند و یحیی در بیابان سے
ماندند و همراه جناب سیح بسیار زنان همراه می گشتندند و مال خود را می خورانیدند و زنان فاحشہ پائها انجناب را بوسیدند و آنجناب مرتا و مریم را دوست میداشتند و خود شراب برائے نوشیدند دیگر کسان عطا ے فرمودند من جناب سیج خود اقرار فرماتے ہیں کہ یحی بیابان میں قیام پذیر تھے.نہ عورتوں سے میں رکھتے تھے اور نہ شراب پیتے تھے لیکن مسیح خود شراب پیتے تھے.اور آپ کے ہمراہ کئی عورتیں چلتی پھرتی تھیں اور آپ اُن کی کمائی سے کھاتے تھے اور بدکار عورتیں آپ کے پاؤں کو بوسے دیتی تھیں اور مرتا اور مریم آپ کی دوست تھیں.آپ خود بھی شراب پیتے تھے اور دوسروں کو بھی دیتے تھے.(iii) " و نیز وقتیکہ یہودا فرزند سعادت مندرشان از زوجه پسر خود زنا کرد و حامله گشت و فارض را که از آباء واجداد و سلیمان و عیسی علیهما السلام بود (ص) کہ یہ دانے اپنے بیٹے کی بیوی سے زنا کیا.جس سے وہ حاملہ ہو گئی اور فارض پیدا ہوا جو کہ حضرت سلیمان اور حضرت عیسی کے آباء و اجداد میں سے ہے.یہ کتاب ایسی باتوں سے بھری ہوئی ہے اور عیسائیوں کو الزامی جواب دینے کی غرض سے مرتب کی گئی.اس کتاب کے حاشیہ پر اہلسنت والجماعت کے جید عالم مولوی آل حسن صاحب نے کتاب استفسار لکھی جس میں وہ نہ تمطرانہ ہیں :.( i " اور ڈرسے گریبان میں سر ڈال کر دیکھو کہ معاذ اللہ حضرت عیسی کے نسب نامہ مادری میں دو جگہ تم آپ ہی زنا ثابت کرتے ہو" ( یعنی تا بار اور اور یا.) (ص)
۹ (ii) دوسرے یہ کہ حضرت عیسی اپنے مخالفوں کو گتا کہتے تھے.اگرہم بھی ان کے مخالفوں کو کتا کہیں تو دینی تہذیب اخلاق سے بعید نہیں بکہ میں تقلید عیسوی ہے.(مش) (ii) علی بن مریم که آخر درماندہ ہوکر دنیا سے انہوں نے وفات پائی ؟ " نوان " اور سب عقلاء جانتے ہیں کہ بہت سے اقسام سحر کے مشابہ ہیں میجرت سے خصوصاً معجزات موسویہ اور عیسویہ سے ۳۳۰ (۷) یسوع نے کہا.میرے لئے کہیں سر رکھنے کی جگہ نہیں.دیکھو یہ شاعرانہ مبالغہ ہے.اور صریح دنیا کی تنگی سے شکایت کرنا کہ اقبح ترین ہے.۳۲۰ وان ران (پادری صاحبان کا اصل دین و ایمان اگر یہ ٹھیرا ہے کہ خدا مریم کے رحم میں جنین بن کر خون حیض کا کٹی پھیلنے تک کھاتا رہا اور علقہ سے مصنفہ بنا مضغہ سے گوشت اور اس میں ہڈیاں بنیں اور اس کی مخرج معلوم سے نکلا اور لگتا مومتا رہا.یہاں تک کہ جوان ہو کر اپنے بندے یحیی کا مرید ہوا.اور آخر کار ملعون ہو کر تین دن دوزخ میں رہا " (اشت ۳۵۰) (vii) "انجیل اول کے باب یاز دہم کے درس نوزد ہم میں لکھا ہے کہ بڑے کھاؤ اور بڑے شرابی تھے : ص۲۵۳ (ا) جس طرح اشتیاہ اور عیسی علیہما السلام کی بعضی بلکہ اکثر پیش گوئیاں ہیں جو صرف بطور معتے اور خواب کے ہیں جس پر چاہو منطبق کر لو یا باعتبار ظاہری معنوں کے محض جھوٹ ہیں.یا مانند کلام یوحنا کے محض مجذوبوں کی سی بڑیں.ویسی پیشگوئیاں البتہ قرآن میں نہیں ہیں.۳۶۰ (ix) پس معلوم ہوا کہ حضرت عیسی کا سب بیان معاذ اللہ جھوٹ ہے.اور
۱۰ کرامتیں اگر بالفرض ہوئی بھی ہوں تو ایسی ہی ہوں گی جیسی مسیح دقبال کی ہونے والی م۳۶ (x) " تیسری انجیل کے آٹھویں باب کے دوسرے اور تیسرے درس سے ظاہر ہے کہ بہتیری رنڈیاں اپنے مال سے حضرت عیسی کی خدمت کرتی تھیں پس اگر کوئی یہودی از راہ خباثت اور بد باطنی کے کہے کہ حضرت عیسی خوشرو نوجوان تھے.انڈیاں اُن کے ساتھ صرف حرامکاری کے لئے رہتی تھیں اسلئے حضرت عیسٰی نے بیاہ نہ کیا اور ظاہر یہ کرتے تھے کہ مجھے عورت سے رغبت نہیں کیا جواب ہوگا ؟ اور پہلی انجیل کے باب یا نہ دہم کے درس نوزدہم میں حضرت عیسی نے مخالفوں کا خیال اپنے حق میں قبول کر کے کہا کہ میں تو بڑا کھاؤ اور شرابی ہوں پس دونوں باتوں کے ملانے سے اور شراب کی ہستیوں کے لحاظ سے جو کوئی کچھ بدگمانی نہ کرے سو تھوڑا ہے.اور دشمن کی نظر میں کیسی تن آسانی اور بے ریاضتی حضرت عیسی کی بو بھی جاتی ہے.منٹ ۲۹۱۰۲ اور بریلوی مسلک کے بانی عظیم البرکت امام اہلسنت مجدد ماته محاضره موید مقت طاہرہ اعلی حضرت مولنا مولوی شاہ احمد رضاخان صاحب قبلہ قادری اپنی کتاب" العطايا الفبوية في الفتاوى الرضویہ جلد اول میں تحریر فرماتے ہیں :- ہاں ہاں عیسائیوں کا خدا مخلوق کے مارے سے دم گنوا کر باپ کے پاس گیا اس نے اکلوتے کی یہ عزت کی کہ اس کی مظلومی و بے گناہی کی یہ داد دی کہ اُسے دوزخ میں جھونک دیا.اوروں کے بدلے اسے تین دن جہنم میں بھونا.ایسے کو جو روٹی اور گوشت کھاتا ہے اور سفر سے آکر اپنے پاؤں دھلواکر درخت کے نیچے آرام کرتا ہے.درخت اونچا اور وہ نیچا ہے
....ایسے کو جس کا بیٹا اُسے جلال بخشتا ہے آریوں کے الیشور کی تو ماں اسکی جان کی حفاظت کرتی تھی.بعیسائیوں کے خدا کا بیٹا اُسے عزت بخشتا ہے کیوں نہ ہو سپوت ایسے ہی ہوتے ہیں.پھر اُسے بے خطا جہنم میں جھونکنا کیسی حسن کسی نا انصافی ہے.ایسے کو جو یقینا و ناباز ہے پچھتاتا بھی ہے.تھک جاتا بھی ہے ایسے کو جس کی دو جوریں ہیں.دونوں پکی زنا کار حد بھر کی فاحشہ.ایسے کو جب کسی لئے زنا کی کمائی فاحشہ کی خرچی کہاں مقدس پاک کمائی ہے.د العطايا النبوية في الفتاوى الرضوية - جلد اكتاب الظهارة باب التيم نت ناشر شیخ غلام علی اینڈ سنز تاجران کتب شیری بازار لا ہوا (۳) امرتسر سے اہلحدیث مسلک کے نامورعالم مولانا ابوالو انشاء اللہ امرتسری صاحب کا اخبار اہلحدیث اپنی ۳۱ مارچ ۱۹۳ بروز جمعہ کی اشاعت میں یہ لکھتا ہے :- (ن) " صاف معلوم ہوتا ہے کہ مسیح خود اپنے اقرار کے مطابق کوئی نیک انسان نہ تھے.شاید کوئی کہے کہ کہ نفسی سے سیج نے ایسا کہا تو اس کا جواب یہ ہے کہ عیسائیوں کے اعتقاد کے مطابق مسیح کی انسانیت سب انسانوں کی انسانیت سے برتر ہے اور اس میں گناہ اور خطا کاری کا کوئی شائبہ نہیں.تو پھر جب وہاں کسی طرح کا نقص اور گناہ نہیں تو پھر سیح کا اپنے آپ کو نیک کا مصداق نہ قرار دینا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کیونکہ کرفسی سے وہی قول صحیح ہو سکتا ہے جس کی صحت کسی طرح سے ہو سکے.مثلاً اور لوگ کیسے ہی نیک ہوں مگر چونکہ ان کی انسانیت میں نقص ہے تو بنا بریں وہ اپنے کو ناقص کہہ سکتا ہے مگر حضرت مسیح کی انسانیت ہر برائی سے منزہ ہے
اس لئے وہاں نکوٹی کی تھی کسی طرح صحیح نہیں ہو سکتی.پس جب کسر نفسی کا عذر باطل ہوا تو نکوٹی کی نفی کرنے سے مسیح کا اور انسانوں کی طرح غیر معصوم ہوتا بد اہستہ ثابت ہوا.اسی طرح انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے اجنبی عورتوں سے اپنے سر پر عطر ڈلوایا دیکھومتی ہے مرقس ہے ، یوحنا ) یوحنا میں تو یہ بھی لکھا ہے کہ آدھ سیر خالص عطر استعمال اس عورت سے آپ نے کرایا.اس نے کچھ سر پر ڈالا (مرقص کچھ پاؤں پر ملا.(یوحنا) لوقا میں تو یہ بھی سکھا ہے کہ ایک عورت نے جو اس شہر کی بد چلن اور فاحشہ عورت تھی مسیح کا پاؤں دھویا پھر اپنے بالوں سے پونچھا پھر انہیں چوما اور ان پر عطری د لوقا ہے - یہ واقعہ صرف لوقا میں ہے.ظاہر ہے کہ اجنبی عورت بلکہ فاحشہ اور بدمین عورت سے سر کو اور پاؤں کو عوانا اور وہ بھی اس کی بالوں سے ملا جانا کس قدر احتیاط کے خلاف کام ہے اس قسم کے کام شریعیت الہیہ کے صریح خلاف ہیں.امثال میں کیا خوب لکھا ہے کہ ہے گا نہ عورت تنگ گڑھا ہے اور فاحشہ گہری خندق ہے وہ را ہرن کی طرح گھات میں لگی ہے اور بنی آدم میں بدکاروں کا شمار بڑھاتی ہے" ( امثال باب ۲۳ - فقره ۲۸) (ii) اسی طرح انجیل کے مطالعہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معجزہ سے شراب سازی کا کام سے کہ اپنا جلال ظاہر کرتے تھے.(دیکھو انہیں یوحنا ہے.یہ
۱۳ واقعہ صرف یو حنا میں ہے دیکھو شراب جیسے ام الخبائث چیز کا بنانا اور شادی کی دعوت کے لئے اس شراب کو پیش کرنا اور خود شرابی اہل مجلس کی دعوت میں معہ والدہ کے شریک ہونا اسی یوحنا میں موجود ہے.حالانکہ شراب عہد عتیق کی کتابوں میں قطعی حرام قرار پا چکی تھی حضرت یسعیاہ شراب پینے والوں کی بابت فرماتے ہیں:.اُن پر افسوس جوئے پینے میں زور آور اور شراب پلانے میں پہلوان ہیں.(دیکھو یسعیاہ باب ۵ فقره ۲۲) حضرت ہوسیع فرماتے ہیں :- بدکاری اور کے اور نئی کے سے بصیرت جاتی رہتی ہے.ہوشیع ہے؟ واقی ایل نبی بھی شراب کو تنیس اور ناپاک کرنے والی بتاتے ہیں.ردانی ایل باب اول فقره ۸ - باوجود اس کے کہ اکثر عہد عتیق کی کتابوں میں اس کی ممانعت اور مذمت مذکور تھی لیکن مسیح نے شرائع انبیاء سابقہ کی کچھ پرواہ نہ کی اور بقول یو منا شراب بنائی اور شرابی مجلس میں معہ والدہ کے شریک ہوئے.حالانکہ خود ہی فڑاتے ہیں.یہ نہ سمجھو کہ میں تو رات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کر نے آیا ہوں؟ دستی ہے ؟ ان حالات میں مسیح کی شراب سازی خلاف شریعیت فعل ہے.(iii) انجیل کے مطالعہ سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح نے کذب کو روا رکھا ہے چنانچہ حضرت مسیح کا قول سردار کی لڑکی کی بابت اس طرح منقول ہے:
۱۴۴ " تم کیوں غل مچاتے اور روتے ہولڈ کی مر نہیں گئی بلکہ سوتی ہے؟ رمتی ، مرقس ، لوقا ہے اسکی بعد مسیح نے کہا اے لڑکی اُٹھے.وہ لڑکی اٹھ کر چلنے پھرنے لگی.اس موقعہ پر عیسائی کہتے ہیں کہ وہ لڑکی مرگئی تھی.حضرت مسیح کے مجوزہ سے زندہ ہوئی.چنانچہ لوقا سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے.لوقا کے الفاظ یہ ہیں:." اس کی روح پھر آئی اور وہ اسی دم اُٹھی.داس بیان میں لوقا منفرد ہے.روح پھر آنا دلالت کرتا ہے کہ اس کی روح نکل چکی تھی دوبارہ زندہ ہوئی.لہذا ضرور تسلیم کرنا پڑے گا کہ مسیح نے اس جگہ نار است بات کہی اور خلاف واقعہ شہادت دی.حالانکہ سیح نے خلاف واقعہ بات کرنے سے خود ہی شاگردوں کو منع کیا ہے.(مرقس با خون نہ کر، زنا نہ کر، چوری تہ کر جھوٹی گواہی نہ دے.امثال لا میں ہے کہ جھوٹا گواہ بے سزا نہ چھوٹے گا اور جھوٹ بولنے والا رہائی نہ پائے گایا راسی طرح یوحنا میں ہے:.لوگوں نے مسیح سے کہا کہ تم عیدمیں جاؤ میں بھی اس عیدمیں نہیں جاتا.لیکن جب اس کے بھائی سعید میں چلے گئے اس وقت وہ بھی گیا.یوحنا ہے ) دیکھو حضرت مسیح نے عید میں جانے سے انکار کیا اور پھر چھپ کے گئے.اور متی کے حوالہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح نے جھوٹ بولنے اور کتمان حق کرنے کی اجازت بھی دی ہے.چنانچہ مستی میں ہے :- تب اس وقت اسی حکم دیا کسی کونہ بتانا کہ یسوع مسیح ہے، ہستی ہے
۱۵ میمضمون لوقا اور مرقس میں بھی ہے.ظاہر ہے کہ جب امر حق کے پوشیدہ کرنے کا حکم فرمایا تو صراحتہ ثابت ہوا کہ اگر کہیں بتانے ہی کی ضرورت پڑسے تو خلاف حق ناراست بات کہہ دو.ان واقعات سے مسیح کی تعلیم متعلقہ صدق و کذب ظاہر وباہر ہے.(مشامش) راس اخبار کی اشاعت کے اغراض و مقاصد میں یہ لکھا ہے کہ ” دین اسلام اور سنت نبوی علیہ السلام کی اشاعت کرنا ".الغرض ان تحریروں سے قارئین یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان میں اس عیسی کو پیش کیا گیا ہے جو انا جیل میں مذکور ہے.حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام، احادیث نبویہ کے مطابق چونکہ یحیت کی اصلاح کے لئے بھی مامور تھے.اس لئے آپ نے اس جہاد میں نہ صرف بھر اوپر اور کامیاب حجتہ لیا.بلکہ مسلمانوں کے فتح نصیب جرنیل کا کردار ادا کیا شے : برصغیر پاک و ہند کے ایک ممتاز ادیب اور شہور مند ہی قومی رہنما مولانا ابوالکلام آزاد نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس جہاد کا ان حقیقت افروز الفاظ میں ذکر کیا کہ :.وہ وقت ہرگز نوح قلب سے نیا منیا نہیں ہو سکتا جب کہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور سلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے اسباب وسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پورے سسک رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے نہ کر سکتے تھے.ایک طرف حملوں کی امتداد کی یہ حالت تھی کہ ساری مسیحی دنیا اسلام کی شمع عرفانی کو سیر راہ منزل مزاحمت سمجھ کے مٹا دینا چاہتی تھی اور
14 اور آپ نے تمام مذاہب کے علماء کو لیا عصہ یہ تلقین کی کہ مذہبی مناظرات نہیں بجائے اس کے کہ دوسرے مذاہب پر نا جائز گندا اچھالا جائے، یہ انداز اختیار کیا جانا چاہیئے کہ صرف اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کی جائیں.تانیا آپ نے یہ اصول پیش کیا کہ اگر دوسرے مذہب کے عقائد کا رو مقصود ہو تو اس مذہب کے مسلمات کے اندر رہ کر دلائل پیش کئے جائیں.بقیہ حاشیہ - عقل و دولت کی زبر دست طاقتیں اس حملہ آور کی پشت گری کے لئے ٹوٹی پڑتی تھیں اور دوسری طرف ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ توپوں کے مقابل پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مدافعت کا قطعی وجود ہی نہ تھا....کہ مسلمانوں کی طرف سے وہ مدافعت شروع ہوئی جس کا ایک حصہ مرزا صاحب کو حاصل ہوا.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پر خچے اڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اسکی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطرناک اور حق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا دھواں علم ہو کر اڑنے لگا.غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گرانبار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کہ اسلام کی طرف سے فرض مدافعت ادا کیا اور ایسا لٹریچر یاد گار چھوڑا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے قائم رہے گا.د اخبار وکیل امرتسر مئی ۱۹۰۰ ۶ - جواله بدتر قادیان ۱۸ جون منه)
ثالثا.اسی طرح بانیان مذاہب کی تحقیر و تخفیف کے طریق کو چھوڑ کر ان کی صفات اور ان کے محامد بیان کئے جائیں.صلح و آشتی سے معمور اس طریق کو قبولیت ہوئی لیکن سیاہ باطن اور دریدہ دہن پادریوں نے اپنی دریدہ دہنی کے مظاہرے جاری رکھے.شہداء میں ایک عیسائی احمد شاہ نے کتاب امہات المومنین" کے نام سے شائع کی جس میں ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کی شان میں سخت توہین آمیز زبان استعمال کی گئی جس کی زیر نگینی اس قدر شدید تھی کہ ہر سلمان تلملا اٹھا اور سخت مشتعل ہوا.اس کے ردعمل کے طور پر انہوں نے گورنمنٹ سے اس کتاب کی ضبطگی کے مطالبے کئے.حضرت مرزا صاحب نے مسلمانوں کو یہ مجھایا کہ کتاب تو عوام الناس تک پہنچ چکی ہے اور وہ اپنا یک اثر بھی دکھاچکی ہے.اب اگر یہ کتاب ضبط بھی کی گئی تو جس بنیاد پر اس کی ضبطگی کا مطالبہ حکومت وقت سے کیا گیا ہے.اسی بنیاد پر لانگا اس کا جواب بھی اشاعت سے قبل ضبط ہو جائے گا.اس لئے اب اسکی ضبطگی کے مطالبہ کا کوئی فائدہ نہیں.پس اشتعال کی بجائے ایسی لغو تحریروں کا علمی رنگ میں موثر رد پیش کر کے ان کے بداثر کو زائل کرنا چاہیئے.آپ نے فرمایا :- ہماری رائے ہمیشہ سے یہی ہے کہ نرمی اور تہذیب اور معقولی اور حکیمانہ طرز سے حملہ کرنے والوں کا رد لکھنا چاہیئے.اور اس خیال سے دل کو خالی کر دینا چاہیئے کہ گورنمنٹ عالیہ سے کسی فرقہ کی گوشمالی گرا دیں.مذہب کے حامیوں کو اخلاقی حالت دکھلانے کی بہت ضرورت ہے.اس طرح پر مذہب بدنام ہوتا ہے کہ بات بات میں ہم اشتعال ظاہر کرین البلاغ روحانی خزائن جلد ۱۳ م) است یا - اس کے ساتھ ہی آپ نے حکومت وقت کو پیغام دیا کہ :.گورنمنٹ عالیہ فتنہ انگیز تحریروں کے روکنے کے لئے دو تجویزوں میں سے ایک تجویز اختیار کرے کہ یا تو ہر ایک فریق کو ہدایت ہو جائے کہ کسی اعتراض کے وقت
بغیر اسکی کہ فریق مخالف ی معتبر کتابوں کا حوالہ سے ہرگز اعتراض کے لئے قلم نہ اُٹھاوے.اور یا یہ کہ قطعا ایک فریق دوسرے فریق کے مذہب پر عمل نہ کر سے بلکہ اپنے اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کیا کریں.البلاغ - روحانی خزائن جلد ۱۳ مه) آپ نے تحریر و تقریر کے ذریعہ عیسائیت کا قرآن کریم ، احادیث نبویہ، بائیبل، اناجیل، تاریخ ، طب ، منطق اور معقولی دلائل سے رو پیش کیا اور اپنے ان دلائل پر قوانین قدرت کو بھی گواہ ٹھہرایا اور ان پرا مین کو خدا تعالیٰ نے تائیدی نشانوں کے ذریعہ غلبہ عطا گیا.آپ کے اس جہاد کے ہتھیاروں میں ایک وسیع ، دقیق، گہرا اور حقیقت افروز مطالعہ بھی تھاجس کے مقابل پر عیسائیوں کی ہر کوشش ناکام نا مراد رہی.آپ نے علمی دلائل کے ساتھ ساتھ الزامی طریہ جواب بھی اختیار کیا لیکن اس دفاعی عمل میں آپ کی تحریر دی میں ایک سچائی، حکمت اور معقولیت کا عنصر نمایاں ہے.نیز یہ کہ آپ نے جو بیان کیا عیسائیوں کے اپنے مسلمات سے ہی بیان کیا.پادریوں کو جب احساس شکست ہوا تو انہوں نے آپ پر یہ الزام لگا کر آپ کو اس منظر سے ہٹانے کی کوشش کی کہ آپ نے دنعوذ باللہ حضرت عیسی علیہ السلام کی توہین کی ہے اور آپ کی شان میں گستاخی کی ہے.آپ نے جواباً فرمایا :- آپ کا یہ فرمانا کہ گویا حضرت مسیح کے حق میں میں نے گالی کا لفظ استعمال کر کے ایک گونہ بے ادبی کی ہے.یہ آپ کی غلط فہمی ہے.ہمیں حضرت مسیح کو ایک سچا نبی اور برگزیدہ اور خدا تعالٰی کا ایک پسیارا بندہ سمجھتا ہوں وہ تو ایک الزامی جواب آپ ہی کے مشرب کے موافق تھا اور آپ ہی پر وہ الزام عاید ہوتا ہے نه که مجد پرید جنگ مقدس روحانی خزائن جلده منشا ) نیز بستر مایا : جب ہمارا دل بہت کھایا جاتا ہے اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر
14 طرح طرح کے نا جائزہ حملے کئے جاتے ہیں تو صرف متنبہ کرنے کی خاطر انہیں کی مسلمہ کتابوں سے الزامی جواب دیئے جاتے ہیں......ان لوگوں کو چاہیے کہ ہماری کوئی بات ایسی نکالیں جو حضرت عیسی کے متعلق ہم نے بطور الزامی جواب کے لکھی ہو اور وہ انجیل میں موجود نہ ہو.آخریہ تو ہم سے نہیں ہوسکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین سن کر چپ رہیں " ملفوظات جلد ۹ ۲۸۰۰۴۷۹) اس پر عیسائیوں نے بعض مصلحت خویش مولویوں کے ذریعہ اسی اعتراض کو مزید شدت سے دہرایا جس کا جواب حضرت مرزا صاحب نے ایک اشتہار مورخہ ۲۰ ؍ دسمبر شہداء کو شائع کیا جس میں یہ وضاحت فرمائی : ہم نے اپنی کلام میں ہر جگہ عیسائیوں کا فرضی مسوع مراد لیا ہے اور خدا تعالے کا ایک عاجز بنده عیسی ابن مریم جونبی تھا جس کا ذکر قرآن میں ہے وہ ہمارے درشت مخاطبات میں ہرگز مراد نہیں اور یہ طریق ہم نے برابر چالیس برس تک پادری صاحبوں کی گالیاں سن کر اختیار کیا ہے بعض نادان موادی جن کو اندھے اور نابینا کہنا چاہیئے.عیسائیوں کو معذور رکھتے ہیں کہ وہ بے چارے کچھ بھی منہ سے نہیں بولتے اور آنحضرت اللہ علیہ وسلم کی کچھ بے ادبی نہیں کرتے لیکن یاد رہے کہ درحقیقت پادری صاحبان تحقیر اور توہین اور گالیاں دینے میں اول نمبر یہ ہیں.ہمارے پاس ایسے پادریوں کی کتابوں کا ایک ذخیرہ ہے جنہوں نے اپنی عبارت کو صدہا گالیوں سے بھر دیا ہے جس مولوی کی خواہش ہو وہ آکر دیکھ لیو سے اور یاد رہے کہ آئندہ جو پادری صاحب گالی دینے کے طریق کو چھوڑ کر ادب سے کلام کریں گے ہم بھی ان کے ساتھ ادب سے پیش آئیں گے اب تو وہ اپنے یسوع پر آپ محملہ کر رہے ہیں.کہ کسی طرح سب وشتم سے باز ہی نہیں آتے
ہم سنتے سنتے تھک گئے.دنور القرآن - روحانی خزائن جلد ۹ ۱۳۷۲ ۲۷۵) یہی نادان مولوی ، حضرت مرزا صاح سے بغض کی وجہ سے آپ کی بعض تحریرات کو پیش کر کے عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا حضرت مرزا صاحب نے حضرت عیسے علیہ السلام کی توہین کی ہے.اور ان کے مقام بند کالحاظ نہیں رکھا.مثال کے طور پر ایک یہ تحریر پیش کرتے ہیں کہ : " مسیح کی راست بازی اپنے زمانہ میں دوسرے راستبازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں ہوتی.بلکہ محبی بی کو اس پر ایک فضیلت ہے کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا.اور کبھی نہیں سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سربر عطر ملا تھا.یا ہاتھوں اور اپنے سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوا تھا.یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس کی خدمت کرتی تھی.اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں بیٹی کا نام حصور رکھا مگر مسیح کا یہ نام نہ رکھا.کیونکہ ایسے قصے اس نام رکھنے سے مانع تھے.اور پھر یہ کہحضرت عیسی علیہ السلام نے بیٹی کے ہاتھ پر جس کو عیسائی کو جنا کہتے ہیں، جو پیچھے ایلیاء بنایا گیا.اپنے گناہوں سے توبہ کی تھی اور ان کے خاص مریدوں میں داخل ہوئے تھے.اور یہ بات حضرت یحیی کی فضیلت کو بیدا بہت ثابت کرتی ہے.کیونکہ متقابل اس کے یہ ثابت نہیں کیا گیا کہ بیٹی نے بھی کسی کے ہاتھ پر توبہ کی تھی یہ د واقع البیان و صد حاشیه - روحانی خزائن جلد نمبر ۱۸ ص ۲۳) ان مولویوں کی منافقت تو اسی بات سے قطعی طور پر واضح ہو جاتی ہے کہ جب عیسائی میاد سراسر فلم کی راہ سے انتہائی شدت کے ساتھ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفے صل اللہ علیہ وسلم کی شان
۲۱ میں گستاخی کرتے ہیں تو ان کے دل میں ذرہ بھر بھی غیرت ایمانی کروٹ نہیں لیتی.اور یہ اپنی خوابیدہ آنکھیں تک نہیں کھولتے مگر جب ان تحریروں کا جن میں ہمارے آقا و مقتدا حضرت محمدمصطفی صل اللہ علیہ وسلم کی حد درجہ تو ہین کی گئی ، عیسائیوں کے مسلمات میں سے ہی الزامی جواب دیا جائے تو یہ لوگ آسمان سر یہ اُٹھا لیتے ہیں.حضرت مرزا صاحب کی محترہ بالا تحریر کو ملاحظہ فرمائیں اس میں اناجیل کے خیس بیان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے.کیا اس میں وہ عیسی مذکور نہیں جو انا جیل کا میسوع ہے.قرآن کریم میں جس نبی اللہ علی علیہ السلام کا ذکر ہے اس کے ساتھ تو ایسے کسی قصہ کا ذکر نہیں.اس لئے اگر یہاں یسوع کی بجائے عیسی یا سیح لکھا بھی گیا تو یہ قصہ خود ہی ثابت کرتا ہے کہ یہاں لانہ گا انا جیل کا یسوع ہی مراد ہے نہ کہ حضرت عیسی علیہ اسلام جن کا ذکر قرآن کریم میں ہی اللہ اور نبی اسرائیل کے رسول کے طور پر آیا ہے اور جو سب الزاموں سے پاک ہو کہ بڑی کامیابی اور کامرانی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوا.جس کی پیدائش بھی سلامتی کے زیر سایہ ہوئی اور جس کی وفات بھی سلامتی کی آغوش میں ہوئی.قبل اس کے کہ ہم قرآن کریم میں مذکو نبی اللہ حضرت علی علیہ السلام کے متعلق حضرت مرزا صاب کے جذبات محبت اور عقیدہ بیان کریں.یہ بتانا ضروری سمجھتے ہیں کہ عیسائیوں کو الزامی جواب دیتے ہوئے آپ نے مذکورہ بالا تحریر میں حضرت یحی اور اناجیل میں مذکور سیح کے حالات کا موازہ نہ کرتے ہوئے حضرت یحی کے لئے قرآن میں استعمال کردہ لفظ " حصورا کی جو تشریح بیان فرمائی ہے وہ تفسیر ابن جریر ، تفسیر جامع البیان، تفسیر کمالین تفسیر ترجمان القرآن کے عین مطابق ہے.جن میں حصور" کا مطلب یہ لکھا ہے.الذي لا يقرب النساء اور الّذی لا یأتی النساء کہ جو عورتوں کے قریب نہ جاتا ہو.انا جیل میں حضرت بجلی کے متعلق ایک بھی ایسا واقعہ نہیں تھا کہ جس میں آپ کے عورتوں سے اختلاط کا پتہ چلے جبکہ انہیں اناجیل میں مسیح کے عورتوں سے ملنے جلنے کے متعدد واقعات درج ہیں.جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں معترض مولویوں کے مقتدا مولوی رحمت اللہ صابها جرمکی
۲۲ نے اپنی کتاب انسانة الاوهام کے صفحہ ۳۰۰ پر لکھا ہے :." جناب مسیح اقرار می فرمایند که بی نه نان میخوراندند نه شراب سے آشنا میدند و آنجناب شراب هم می نوشیدند و یحیی در بیابان می ماندند و همراه جناب مسیح بسیار زنان همراه می گشتندند و مال خود را می خورانیدند و زنان فاحشه پانها انجناب را بوسیدند و آنجناب مرتا و مریم را دوست میداشتند و خود شراب برائے نوشیدند دیگر کسان عطا می فرمودند؟ کہ جناب مسیح خود اقرار فرماتے ہیں کر بھی نہ عورتوں سے میل رکھتے تھے اور نہ شراب پیتے تھے لیکن آپ خود شراب پیتے تھے.اور آپ کے ہمراہ کئی عورتیں چلتی پھرتی تھیں.اور آپ اُن کی کمائی سے کھاتے تھے اور ایک بدکار عورت نے آپ کے پاؤں کو بوسہ دیا اور مرتا اور مریم آپ کی دوست تھیں.آپ خود بھی شراب پیتے تھے اور دوسروں کو بھی دیتے تھے.اب دیکھئے مولوی کہا جیتی صاحب نے یہاں مسیح ہی کا ذکر کیا ہے یسوع کا نہیں ، لیکن نیه واقعات خود گواہی دیتے ہیں کہ یہ سیح انا جیل کا یسوع تھا نہ کہ قرآن کریم کے حضرت علی علیہ السلام.یہی نوعیت حضرت مرزا صاحب کی تحریروں میں لفظ عیسی مسیح کے استعمال کی ہے.پھر یہ بھی دیکھیں کہ جو غرض حضرت مرزا صاحب کی تحریر کی ہے وہی مولوی مہاجرنگی صحاب کی اس تحریر کی ہے اور دونوں کا مال بھی ایک ہی ہے.پھر ایسی تحریروں پر اعتراض کرنا ان کاسہ لیس مولویوں کا حضرت مرزا صاحب پر نہیں بلکہ اپنے مقتدا و راہنما مولوی رحمت الله مهاجرتی پر حملہ ہے یا پھر گذشته بزرگ مفترین پر.پس حضرت مرزا صاحب کے بغض اور عناد کی وجہ سے یہ ان مولویوں کی مجبوری تھی یا مصلحت خوشیشی که سرور دو عالم حضرت محمد صلے صلی اللہ علیہ وسلم کے ان پر تو دار گوارا کر لئے مگر اس فرضی که محمدمصط دامن •
۲۳ يسوع علی مسیح کے دامن کا داغدار ہوتا ان سے برداشت نہیں ہوتا ، ہاں اُس شخص کا جسکا قرآن کریم میں ذکر ہی کوئی نہیں.ادہر حضرت مرزا صاحب اپنی جھوری کا ذکر ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ :.اس بات کو ناظرین یاد رکھیں کہ عیسائی مذہب کے ذکر میں ہمیں اُسی طرز سے کلام کرنا ضروری تھا جیسا کہ وہ ہمارے مقابل پر کرتے ہیں.عیسائی لوگ در حقیقت ہمارے اس عیسیٰ علیہ السلام کو نہیں مانتے جو اپنے تئیں صرف بنده اور نبی کہتے تھے اور پہلے نبیوں کو راستباز جانتے تھے اور آنے والے نبی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر سچے دل سے ایمان رکھتے تھے اور آنحضرت کے بارے یں پیش گوئی کی تھی بلکہ ایک شخص میسوع نام کو مانتے ہیں جس کا قرآن میں ذکر نہیں اور کہتے ہیں کہ اس شخص نے خدائی کا دعویٰ کیا اور پہلے نبیوں کو بیمار وغیرہ ناموں سے یاد کرتا تھا.یہ بھی کہتے ہیں کہ شخص ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سخت مکذب تھا.اور اُس نے یہ بھی پیش گوئی کی تھی کہ میرے بعد سب جھوٹے ہی آئیں گے بسو آپ لوگ خوب جانتے ہیں کہ قرآن شریف نے ایسے شخص پر ایمان لانے کے لئے ہیں تعلیم نہیں دی.بلکہ ایسے لوگوں کے حق میں صاف فرما دیا ہے کہ اگر کوئی انسان ہوکر خدائی کا دعوی کرے تو ہم اس کو جہنم میں ڈالیں گے.اسی سبب سے ہم نے عیسائیوں کے یسوع کے ذکر کرنے کے وقت اُس ادب کا لحاظ نہیں رکھا جو بچے آدمی کی نسبت رکھنا چاہیئے.ایسا آدمی اگر نا بینا نہ ہوتا تو یہ نہ کہتا کہ میر سے بعد سب چھوٹے ہی آئیں گے.اور اگر نیک اور ایماندار ہوتا تو خدائی کا دعوی نہ کرتا.پڑھنے والوں کو چاہیے کہ ہمارے بعض سخت الفاظ کا مصداق حضرت عیسٰی علیہ السلام کو نہ مجھے لیں بلکہ وہ کلمات اس یسوع کی نسبت لکھے گئے ہیں جس کا قرآن و حدیث میں نام ونشان نہیں.مجموعه اشتهارات جلد ۲ ،۲۹۵۰، ص ۹
۲۴ پس یہ تو وہ شخصیت تھی جس کا نام میسوع تھا اور اناجیل میں اس کا تفصیلی ذکر ہے.لیکن قرآن کریم جس نبی اللہ صلی علیہ اسلام کا ذکر فرماتا ہے آپ نے اُن کی بندشان اور عظیم مرتبہ کا ذکر کثرت سے بیان فرمایا ہے اور اسی عظیم الشان ذات کا خود کو تیل اور برونہ اور اپنا بھائی قرار دیا ہے.اور اس عظیم الشان نبی کی موت تکریم کا جگہ جگہ ذکر فرمایا.ان میں سے چند عبارت میں پیش کر کے ہم اس بیان کو ختم کر تے ہیں.حضرت مرزا صاحب فرماتے ہیں :- و مسیح خدا کے نہایت پیار سے اور نیک بندوں میں سے ہے.اور ان میں سے ہے جو خدا کے برگزیدہ لوگ ہیں.اور ان میں سے ہے جن کو خدا اپنے ہاتھ سے صاف کرتا.اور اپنے نور کے سایہ کے نیچے رکھتا ہے.لیکن جیسا کہ گمان کیا گیا ہے خدا نہیں ہے.ہاں خدا سے واصل ہے اور ان کا ملوں میں سے ہے جو تھوڑے ہیں.ر تحفہ قیصریه - روحانی خزائن جلد ۱۲ ص ۲۳) ہم لوگ پادری صاحبوں کے مقابل پر کیا سختی کر سکتے ہیں کیونکہ جس طرح ان کا فرض ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی بزرگی اور حرات مانیں ایسا ہی ہمارا بھی فرض ہے ہم لوگ صرف خدائی کا منصب خداتعالی کے لئے خاص رکھ کہ باقی امور میں حضرت علی علیہ السلام کو ایک صادق اور راستباز اور ہر ایک ایسی عورت کا استحق سمجھتے ہیں جو نیچے نبی کو دینی چاہیئے یہ ١٥٣ (کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ م) میں مسیح ابن مریم کی بہت عزت کرتا ہوں.کیونکہ میں روحانیت کی رو سے اسلام میں خاتم الخلفاء ہو جیسا کہ مسیح ابن مریم اسرائیلی سلسلہ کے لئے خاتم الخلفاء تھا.موٹی کے سلسلہ میں ابن مریم سیخ موجود تھا.اور محمدی سلسلہ میں میں مسیح مود ہوں.
۲۵ سوئیں اس کی عزت کرتا ہوں جس کا ہم نام ہوں.اور مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں مسیح ابن مریم کی عزت نہیں کرتا.بلکہ مسیح تو مسیح میں تو اُس کے چاروں بھائیوں کی بھی عزت کرتا ہوں.کیونکہ پانچوں ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں.نہ صرف اسی قدر بلکہ میں توحضرت مسیح کی دونوں حقیقی ہمشیروں کو بھی مقدسہ سمجھتا ہوں" دکشتی نوح - روحانی خزائن جلد ۹ ۱ ص۱۸) حضرت علی علیہ السلام خدا تعالیٰ کے ایک بزرگ نبی ہیں اور بلاشبہ عیسی مسیح خدا کا پیارا ، خُدا کا برگزیدہ اور دنیا کا نور اور ہدایت کا آفتاب اور جناب الہی کا مقرب اور اس کے تخت کے نزدیک مقام رکھتا ہے اور کروڑہا انسان جو اس سے پیچی محبت رکھتے ہیں اور اس کی وصیتوں پر چلتے ہیں اور اس کی ہدایت کے کاربند ہیں وہ جہنم سے نجات پائیں گے " ر ضمیمہ رسالہ گورنمنٹ انگریزی اور جہاد صہ.روحانی خزائن جلد نمبر ۲۱) یں اس کو اپنا ایک بھائی سمجھتا ہوں اور میں نے اسے بارہا دیکھا ہے ایک بار میں نے اور مسیح نے ایک ہی پیالہ میں گائے کا گوشت کھایا تھا.اس لئے میں اور وہ ایک ہی جو ہر کے دو ٹکڑے ہیں" ملفوظات جلد ۳ صفحه ۳۳۰) اس عاجز پر ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ خاکسار اپنی غربت اور انکسار اور توکل اور ایثار اور آیات اور انوار کے رو سے مسیح کی پہلی زندگی کا نمونہ ہے.اور اس عاجہ کی فطرت اور مسیح کی فطرت با ہم نہایت ہی مشابہ واقع ہوئی ہے گویا ایک ہی جوہر کے دو ٹکڑے یا ایک ہی درخت کے دو پھل ہیں اور بعدی اتحاد ہے کہ نظر کشی میں نہایت
۲۶ } ہی بار یک امتیانہ ہے.اور نیز ظاہری طور پر بھی ایک مشابہت ہے اور وہ یوں کہ مسیح ایک کامل اور عظیم الشان نبی یعنی موسیٰ کا تابع اور خادم دین تھا.اور اسکی انجیل توریت کی فرع ہے.اور یہ عاجز بھی اس مبیل الشان نبی کے احتقر خادمین میں سے ہے کہ جو سید الرسل اور سب رسولوں کا سرتاج ہے.اگر وہ حامد ہیں تو وہ احمد ہے.اگر وہ محمود ہیں تو وہ محمد ہے صلی اللہ علیہ وسلم " د را بین احمد یه مدت ۲ ماه حاشیه در حاشیه با روحانی خزائن جلد میں نے بار ہا عیسی علیہ السلام کو خواب میں دیکھا اور کشفی حالت میں ملاقات ہوئی.اور ایک ہی خوان میں میرے ساتھ اس نے کھایا.اور ایک دفعہ میں نے اس کو دیکھا اور اس فتنہ کے بارہ میں پوچھا جس میں اس کی قوم مبتلا ہوگئی ہے.پس اس پر دہشت غالب ہو گئی اور خدا تعالیٰ کی عظمت کا اسی ذکر کیا اور اس کی تسبیح اور تقدیس میں لگ گیا اور زمین کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ میں تو صرف خاکی ہوں اور اُن تہمتوں سے بری ہوں جو مجھ پر لگائی جاتی ہیں.پس میں نے اس کو ایک متواضع اور کسر نفسی کرنے والا آدمی پایا.دنور الحق اول من روحانی خزائن جلد ۸) و آخر دعوانا ان الحمد لله رب العلمين كل أمن بالله ومليكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ ، لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ احد من رسلة وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِير.)