Hazrat Muhammad Ka Bachpan

Hazrat Muhammad Ka Bachpan

حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم کا بچپن

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ النبی
بچوں کے لئے

اس مختصر کتاب میں بانی اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے بچپن کا حالات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس مختصر مگر آسان اور سادہ زبان میں لکھی گئی کتاب کا مطالعہ جہاں اردو پڑھنے کے قابل بچوں کے لئے مفید ہوگی وہاں والدین کو بھی اس طرح کے لٹریچر سے آگاہ ہونا ضروری ہے تا وہ بچپن سے ہی اپنے بچوں کے دلوں میں محبت رسولﷺ کا انمول جذبہ  پیدا کرسکیں اور ہمارا سارا معاشرہ اپنے آقا ومولاﷺ کی ذات و اخلاق سے متاثر ہوکر اپنی زندگیاں سنوارنے والے بن  جائے۔


Book Content

Page 1

1 صلى حضرت محمد مصطفیٰ کا بچپن

Page 2

2 نام کتاب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ کا بچپن شمارہ نمبر.62.دوم تعداد 1000.

Page 3

3 اللہ تعالیٰ کے فضل سے پیش لفظ وصد سالہ جشن تشکر کے سلسلہ میں جو مطبوعات پیش کرنے کی توفیق مل رہی ہے یہ اس سلسلے کی باسٹھ ویں (62) پیشکش ہے.الحمد للہ علی ذالک.بچوں کے لئے آسان الفاظ اور سادہ انداز میں سیرت نبوی سے آگاہی کے لئے چھوٹی چھوٹی کتابوں کی صورت میں ایک ایک موضوع کو پیش کرنے کا منصوبہ بنانا اور منصوبے پر کام کا آغاز عزیزہ بشری داؤ د مرحومہ کا خاص شوق تھا.اُس کی رحلت کے بعد اس بابرکت کام کو عزیزہ جو ہیں، آگے بڑھا رہی ہیں زیر نظر کتاب ”حضرت محمد مصطفی ماله کا بچین لکھنے کی سعادت ان ہی کو حاصل ہوئی ہے.مشہور مقولہ ہے بچہ بچہ ہی ہوتا ہے خواہ بڑا ہو کر وہ نبی بنے.ہم ایک ایسے پیارے کے بچپن کے حالات پڑھ رہے ہیں جس کو نہ صرف ردائے نبوت عطا ہوئی.بلکہ آپ سارے نبیوں کے سردار ہیں.اسوۂ حسنہ کے موضوع پر لاتعداد کتب موجود ہیں.مگر اس بات کی خوشی ہمارے حصے میں آئی ہے کہ بچے، بڑے ہماری کتابوں میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں.اس کتاب کے مطالعہ سے قارئین پر واضح ہو گا کہ آنحضرت ملالہ کی پیدائش سے اڑھائی ہزار سال پہلے بے آب و گیاہ وادی مکہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مانگی ہوئی دعا اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی قربانی کیسا

Page 4

رنگ لائی کہ آپ کی نسل سے ایک بچہ جو یتیمی کی حالت میں پیدا ہوا اللہ تعالیٰ کی دستگیری سے صفات الہیہ کا مظہر بن کر کل عالم کی ہدایت وروشنی کا باعث بنا.اور اس کی جائے پیدائش مربع خواص وعوام بنی.سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيْمِ اَللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدُ خاکسار احمدی والدین سے پُر زور گزارش کرتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو یہ کتابیں مطالعے کے لئے ضرور دیں تا کہ ان کے دلوں میں بچپن ہی سے حضرت محمد مصطفیٰ صل اللہ کی محبت کا جذ بہ جاگزیں ہو جائے اور وہ اپنے آقا کی ذات واخلاق سے متاثر ہو کر اپنی زندگیوں کو سنوارنے کی کوشش کریں.دعا کے معجزانہ اثرات کا مشاہدہ کریں اور خدا کے ہو کر جینے ، اس کی خاطر جانی و مالی قربانیوں کے ثمرات کا اندازہ ہو اور حصول رضائے الہی کے لئے کوشاں رہیں.وران کی معاونات ہم سب کی دعاؤں کی مستحق ہیں جن کی شب وروز کی محنت سے یہ روحانی مائدہ ہم تک پہنچ رہا ہے.اللہ تعالیٰ ان سب کو اجر عظیم سے نوازتار ہے اور اس مفید سلسلہ کو اپنے فضلوں سے جاری رکھنے کی تو فیق عطا فرمائے.آمین اللھم آمین

Page 5

10 حضرت محمد مصطفی ملالہ کا بچپن پیارے بچو! ہمیں خوشی ہے کہ آپ پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صل اللہ کے متعلق ہماری چھوٹی چھوٹی کتابیں شوق سے پڑھتے ہیں.کتاب مقدس ورثہ میں ہم نے آپ کو بتایا تھا کہ اللہ تعالیٰ اُس خاندان میں جس میں آپ نے پیدا ہونا تھا سب اچھی اچھی باتیں جمع کر رہا تھا.یہ سلسلہ آپ کی پیدائش سے صدیوں پہلے شروع ہو گیا تھا.کتاب ”چشمہ زمزم میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اپنی نسل کے لئے دعاؤں کے متعلق بتایا تھا.یہ دعائیں آپ کی پیدائش سے اڑھائی ہزار سال پہلے مانگی گئی تھیں.پھر کتاب اصحاب فیل میں آپ کی پیدائش سے پچپن دن پہلے کا واقعہ بیان کیا تھا.اس طرح آپ کو معلوم ہو گیا کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے ساری دنیا کی توجہ مکہ مکرمہ کی طرف لا رہا تھا اور کل دنیا کی آبادی میں سے خاندان قریش اور بنی ہاشم کی فضیلت بتا رہا تھا.پھر ہم نے کتاب ”پیاری مخلوق بھی پیش کی.جس میں یہ لکھا تھا کہ کل دنیا میں ساری مخلوق میں سے سب سے پیارے انسان ہمارے آقا ہیں.پھر ہم نے یہ بھی پڑھا ہے کہ آپ صرف انسانوں میں سے ہی بہترین انسان نہیں بلکہ سارے انبیاء میں بھی بہترین ہیں.یہ بات آپ کتاب انبیاء کا موعود میں پڑھ چکے ہیں.پھر امن کا گہوارہ مکہ مکرمہ کتاب میں آپ کی پیدائش کے زمانے کے واقعات آپ کے علم میں آئے اور اُس شہر کا تعارف ہوا جہاں

Page 6

آپ پیدا ہوئے.”انسانی جواہرات کا خزینہ پڑھ کر آپ کو علم ہوا کہ آپ کے خاندان میں نسلوں سے جو اچھی صفات پیدا ہورہی تھیں وہ آپ میں اعلیٰ ترین صورت میں جمع ہو گئیں.اب ہم آپ کو پیارے آقا کی پیدائش، رضاعت اور ابتدائی بچپن کے حالات سناتے ہیں.اچھے بچو! آپ کو یاد ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی نسل میں رسول عطا کئے جانے کے ساتھ خانہ کعبہ کی حفاظت کی دُعا بھی کی تھی.اللہ پاک نے یہ دعا قبول فرمائی.رسول بھی عطا فرمائے اور خانہ کعبہ کی حفاظت بھی کی وہ اس طرح کہ اڑھائی ہزار سال تک کسی نے خانہ کعبہ پر حملہ ہی نہیں کیا اور جب ابرہہ نے حملہ کیا تو عبدالمطلب نے اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر صاف کہہ دیا کہ خدا اپنے گھر کی خود حفاظت کرے گا.کیسا جواب دیا؟ وہ تو بہت عقلمند تھے.دراصل یہ سارا واقعہ اور یہ جواب سب کچھ اللہ کی خاص مدد دکھانے کا الہی انتظام تھا.پھر ننھے ننھے پرندے کنکر لے کر آئے اور ابرہہ کے لشکر پر گرائے جس سے فوج کتوں کی طرح مرنے لگی.یہ واقعہ ماہ محرم میں ہوا تھا.اُسی زمانے کی بات ہے عبدالمطلب نے ایک خواب دیکھا کہ ایک درخت ہے جس کی چوٹی آسمان تک ہے اس کی شاخیں مشرق اور مغرب میں دُور دُور تک پھیلی ہوئی ہیں.یہ درخت سورج سے کئی گنا زیادہ روشن ہے.قریش کا ایک گروہ اس کی شاخوں سے لٹکا ہوا ہے ایک دوسرا گر وہ اس کی شاخوں کو کاٹنے کے لئے آگے بڑھتا ہے.اس گروہ کو قریش کا ایک خوبصورت جوان جس کے جسم سے خوشبو نکل رہی ہے مار مار کر بھگاتا ہے.اس وقت کے علماء نے اس خواب کی تعبیر یہ بتائی کہ آپ کی اولاد میں وہ نبی پیدا ہو گا جس کی بشارت آسمانی صحیفوں میں موجود ہے.امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں کہ جب رسول اقدس مطالعہ کا ظہور ہوا تو جناب ابو طالب کہا کرتے

Page 7

Page 8

8 کے بعد دولہا تین دن تک سسرال میں رہتا تھا.اس رواج کے مطابق تین دن سسرال میں رہنے کے بعد حضرت عبداللہ حضرت آمنہ کے ساتھ مکہ کے ایک محلہ زقاق المولد میں منتقل ہو گئے.حضرت عبداللہ اپنے والد کے ساتھ تجارت کرتے تھے.اُن دنوں ایک تجارتی قافلہ شام کی طرف جا رہا تھا.آپ کے والد نے آپ کو اس قافلے کے ساتھ جانے کو کہا.آپ والد کے بہت فرماں بردار تھے.اس سفر پر روانہ ہو گئے.جاتے وقت حضرت آمنہ کو الوداع کہا.وہ گویا آخری سفر پر جانے کے لئے الوداع تھی.کیونکہ آپ شام کے سفر سے زندہ واپس نہ آئے.راستے میں بیمار ہو گئے.آپ کی ننھال یثرب (مدینہ ) میں تھی.وہاں ایک ماہ ٹھہرے.مگر صحت یاب نہ ہو سکے اس طرح نئی نویلی دلہن کو اکیلا چھوڑ کر مسافرت میں اپنے اللہ تعالیٰ کے پاس چلے گئے.آپ کی وفات حضرت عبدالمطلب اور مکہ والوں کے لئے بے حد صدمے کا باعث تھی.حضرت آمنہ بے حد صابر و شاکر خاتون تھیں.بڑے صبر اور حوصلے سے اس مشکل کو برداشت کیا.حضرت عبداللہ کوئی رئیس آدمی نہ تھے.فوت ہونے پر ان کا ترکہ چند جانور ، شعب ابی طالب میں ایک مکان، ایک دوکان کھجوروں اور چمڑے کا کچھ ذخیرہ ، دوغلام اور ایک لونڈی تھے.یہ لونڈی جن کا نام اُم ایمن تھا بڑی وفادار اور سمجھدار خاتون تھیں.حضرت آمنہ کا بہت خیال رکھتیں اور ہر وقت خدمت میں حاضر رہتیں.پیارے بچو! آپ حضرت عبداللہ کی وفات اور حضرت آمنہ کے اکیلا رہ جانے پر اداس ہورہے ہیں.ابھی جو باتیں آپ کو بتاؤں گی.ان سے ساری اُداسی دور ہو جائے گی.میں نے بتایا ہے نا کہ وہ بہت نیک دل اور صبر کرنے والی خاتون تھیں.ایسی ہستیوں کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے.ان کا غم اللہ تعالیٰ نے خود دُور کیا.وہ اس طرح کہ کئی دفعہ اُن کو خواب میں خوشخبری ملی.بہت بڑی خوشخبری.اتنی بڑی

Page 9

9 خوشخبری آپ کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملی اور وہ یہ کہ آپ کو خواب میں بتایا گیا کہ آپ کو سب سے اونچی شان والا بیٹا عطا کیا جائے گا.صرف خواب ہی نہیں کشف میں بھی آپ کو ایسے نظارے دکھائے جاتے.جس سے آپ کو اندازہ ہوتا کہ کوئی بڑی شان والا بیٹا آپ کو ملے گا.آپ نے یہ بھی دیکھا تھا کہ آپ کے اندر سے ایک نور نکلا ہے جو ہر طرف پھیل گیا ہے.اس کا ذکر پیارے آقا صل اللہ کے مبارک الفاظ میں بھی سنیئے.آپ فرماتے ہیں.میں اپنے باپ ( حضرت ) ابراہیم کی دُعا ہوں (حضرت) عیسی ابن مریم کی بشارت ہوں اور اپنی ماں کا وہ رویا ہوں جو انہوں نے دیکھا کہ اُن کے جسم سے ایک نور نکلا.جس میں انہیں شام کے محلات نظر آئے اور انبیاء کی ماؤں کو اسی طرح دکھایا جاتا ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 4 صفحہ 128 المكتب الاسلامی الطباعت والنشر ، بیروت) نورانی وجودوں کے دنیا میں آنے سے پہلے اُن کی ماؤں کو بشارت دینے سے مجھے یاد آیا کہ قرآن پاک میں ذکر ہے کہ حضرت سارہ کو بھی نبیوں کی ماں بننے کی خوشخبری ملی تھی (سورۃ ھود، سورۃ ذاریات) اور بیٹے کا نام بھی اللہ پاک نے اسمعیل رکھنے کا پیغام بھجوایا تھا ( پیدائش باب (16) اسی طرح حضرت مریم کو بھی بیٹے کی بشارت ملی اور نام بھی اللہ تعالیٰ نے خود رکھا عیسی بن مریم (آل عمران) حضرت آمنہ کو بھی فرشتوں نے بیٹے کی خوشخبری کے ساتھ نام بھی بتایا "محمد" اور حاسدوں اور شر سے بچنے کی دُعا بھی سکھائی.آپ اکثر سوتے جاگتے نورانی فرشتوں کو دیکھتیں.فرشتوں کے پروں کی آواز میں سنتیں.یہ سب انوکھی باتیں تھیں.واقعہ بھی تو انوکھا ہونے والا تھا.صرف حضرت آمنہ ہی نہیں کل کا ئنات ایک بہت بڑی شان والے وجود کی منتظر تھی.عیسائی اور یہودی علماء اپنی کتابوں میں دیئے گئے

Page 10

10 اشاروں اور نشانیوں کے مطابق سمجھ رہے تھے کہ سب سے بڑی شان والے نبی کی پیدائش کا وقت آگیا ہے.قیصر روم نے ستاروں کو دیکھ کر کہا.معلوم ہوتا ہے کہ عرب کا نبی پیدا ہونے والا ہے.عرب میں محمد نام رکھنے کا رواج نہ تھا.مگر جن کو علم تھا کہ آسمانی کتابوں کے مطابق موعود نبی کا نام محمد ہو گا.وہ اپنے بچوں کے نام محمد رکھنے لگے.یہودیوں نے تو نقل مکانی کر کے مکہ کے ارد گرد آباد ہونا شروع کر دیا.تا کہ موعود نبی آئے تو اس کا فیض حاصل کر سکیں.ورقہ بن نوفل قریش عرب تھے مگر بُت پرستی سے بیزار ہو کر عیسائی ہو گئے تھے.ان کا انجیل کا مطالعہ تھا.بلکہ انہوں نے انجیل کا عبرانی زبان میں ترجمہ کیا تھا.انہیں یقین ہو گیا کہ آل قریش میں موعود نبی پیدا ہونے کا وقت آگیا ہے.وہ عظیم نبی جس کے لئے سارا عرب منتظر تھا جس کا حضرت ابراہیم کی دعاؤں میں وعدہ تھا.وہ موعود نبی جس کے لئے سارے یہودی منتظر تھے کہ فاران کی چوٹیوں سے ایک نبی بر پا ہو گا.وہ وجہ تخلیق کائنات نبی جس کے لئے زمین و آسمان چشم براہ تھے.غرض یہ کہ نور الہی کے مظہر نور محمدی کے جلوہ فرمانے کا بابرکت وقت آ گیا تھا.12 ربیع الاول، عام الفیل، 20 را پریل 571ء سورج نکلنے سے کچھ پہلے حضرت آمنہ کی گود میں وہ چاند آ گیا.جس کی بشارتیں انہیں مل رہی تھیں.تب عرش معلی سے وہ نور کا تخت اُترا اک فوج فرشتوں کی ہمراہ سوار آئی اک ساعت نورانی خورشید سے روشن تر پہلو میں لئے جلوے بے حد و شمار آئی (کلام طاہر ) آپ کی ولادت مکہ کے محلہ سوق الیل، میں ہوئی.آپ کی دایہ کا نام شفا

Page 11

11 سے تھا جو مشہور ومحترم صحابی رسول حضرت عبدالرحمن بن عوف کی والدہ تھیں.سب.پہلے بچے کو گود میں لینے کی سعادت انہیں کو ملی.انتہائی حسین بچہ، گول چمکدار ساحسین چہرہ ، پیشانی اور ناک اونچی ، آنکھیں سیاہ اور روشن، پلکیں دراز تھیں.سر بڑا اور بال کالے تھے.اس وقت آپ کی والدہ کو کشف میں دکھایا گیا کہ آپ کے ہاتھ میں فتح، نصرت اور غلبہ کی چابیاں ہیں.آپ آسمان سے نور لائے تھے.خود بھی نور تھے.آپ کا نام محمد صل اللہ رکھا گیا.اللہ جل شانہ نے جب احسان کرنا چاہا تو محمد صل القدم لاقہ کو پیدا کیا آپ کا نام محمد صل اللہ تھا جس کے معنی ہیں نہایت ہی تعریف کیا گیا.“ ( ملفوظات جلد دوم) آپ کی خوبصورتی میں خدا تعالیٰ کی خوبصورتی کا عکس تھا آپ فرمایا کرتے ت اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللهُ نُورى - سب سے پہلے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا وہ میرانور تھا.زرقانی علی المواہب جلد نمبر 1 صفحہ 33) يَا مَنْ غَدَا فِي نُورِهِ وَ ضِيَائِهِ ا النَّيْرَيْنِ وَ نَوَّرَ الْمَلَوَانِ (در مشین) اے وہ ہستی جو اپنے نور اور روشنی میں مہر و ماہ کی طرح ہوگئی ہے اور رات اور دن منور ہو گئے ہیں.آپ کی پیدائش کے وقت حضرت عبدالمطلب خانہ کعبہ میں دعا کر رہے تھے.اُم ایمن نے آکر پوتے کی خوشخبری سنائی.خوشی خوشی گھر آئے.پوتے کو گود میں لیا.حضرت آمنہ کے خواب اور کشف کی وجہ سے نام محمد صل اللہ ہی پسند کیا.ننھے کو گود

Page 12

12 میں لئے ہوئے خانہ کعبہ آکر اللہ کا شکر ادا کیا اور اعلان کیا کہ عبداللہ مرحوم کے بچے کا نام محمد رکھا گیا ہے.پھر واپس بچہ ماں کے سپرد کر دیا.انہیں اس موقع پر اپنا بیٹا عبداللہ بہت یاد آیا.دنیا میں یوں بھی ہوتا ہے کہ اگر بیٹا فوت ہو گیا ہو تو دادا پوتے پر قبضہ کر لیتا ہے مگر آپ نیک دل انسان تھے.آپ کے والد کے فوت ہو جانے کے بعد آپ کو آپ کی والدہ کے قبضے میں رہنے دیا اور کہا کہ اس کے باپ کی جگہ مجھے ہی سمجھو.لیکن اس کی پرورش تم ہی کرو کوئی تکلیف ہو یا کوئی ضرورت ہو تو مجھے بتاؤ.یہ نہ سمجھنا کہ اس باپ فوت ہو گیا.“ ( تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 216) اس زمانے میں ایک رواج یہ تھا کہ اپنے نوزائیداہ بچوں کو صحراؤں میں آباد قبیلوں میں بھیج دیتے.تاکہ وہاں کھلی ہوا میں بچے کی صحت اچھی رہے، اچھی عربی زبان سیکھیں.گفتگو کا سلیقہ آجائے اور صحرائی بد و قبائل سے جفاکشی اور بہادری بھی سیکھ لیں.گاؤں والے بچے پالنے کا معاوضہ لیتے.اس طرح ان کی کمائی کا ذریعہ بن جاتا.آج کل ایسا رواج نہیں ہے.اس لئے آپ اس بات کو اچھی طرح نہ سمجھ سکیں گے.آپ نے یہ تو دیکھا ہے کہ جو مائیں ملازمت کرتی ہیں اپنے بچوں کے لئے (Baby Sitter) رکھتی ہیں.یا ایسے اداروں میں بچے چھوڑتی ہیں.جہاں ان کی اچھی طرح دیکھ بھال ہو.شہروں میں تو ہر روز لانے لے جانے کی سہولت ہوتی ہے.مگر گاؤں وغیرہ میں مشکل ہوتا ہے اور پھر اُس زمانے میں تو سفر کی مشکلات بھی تھیں.گاؤں سے بچے سال سال یا دو دو سال بعد واپس لائے جاتے تھے.جس سال صلى الله ہمارے پیارے آقا پیدا ہوئے صحرائی قبائل کی دس شریف عورتیں مکہ آئیں.ان عورتوں کو یہ تلاش ہوتی کہ امیر گھرانے کا بچہ مل جائے تو پالنے کا زیادہ معاوضہ ملے.آمنہ کا لال تو یتیم تھا.یتیم کو پالنے سے کیا ملتا ؟ جب خواتین کو پتہ لگتا کہ

Page 13

13 اس گھر میں بچہ تو ہے مگر یتیم ہے اُسے چھوڑ دیتیں.صرف ایک خاتون حلیمہ تھیں جن کو امیر گھرانے کا بچہ نہ ملا تو بجائے خالی ہاتھ واپس لوٹنے کے یتیم بچہ ہی لے جانا بہتر سمجھا.دائی حلیمہ حضرت آمنہ کے گھر آئیں.ننھا بچہ ابھی ایک ماہ کا تھا.ایک ماہ تک اپنی ماں کا دودھ پیا تھا.کچھ دن ابولہب کی آزاد کی ہوئی نوکر ثوبیہ کا دودھ بھی پیا تھا.دائی حلیمہ نے بچے کو گود میں لینے کی درخواست کی.حضرت آمنہ نے درخواست قبول کر لی.اُن کو بخوبی سمجھ تھی کہ اس بچے کو اتنے تذبذب کے بعد کیوں لیا گیا تھا.اس لئے دائی حلیمہ کی تسلی کیلئے انہیں بتایا کہ دیکھو بظاہر تمہیں یہ بچہ ایک بیوہ عورت کا یتیم بچہ نظر آ رہا ہے مگر یہ معمولی بچہ نہیں ہے.مجھے اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ یہ بڑی شان والا بچہ ہے پھر بچے کو رخصت کرتے وقت دعا کی.میں اپنے بچے کو خدائے ذوالجلال کی پناہ میں دیتی ہوں.اُس شر سے جو پہاڑوں میں پلتا ہے.یہاں تک کہ میں اسے اونٹ پر سوار دیکھوں اور دیکھ لوں کہ 66 غلاموں اور درماندہ لوگوں کے ساتھ نیک سلوک اور احسان کرنے والا ہے.“ (رحمۃ اللعالمین صل الله جلد دوم صفحه 103 مؤلف سید سلمان منصور پوری) دائی حلیمہ ایک غریب عورت تھیں.اس زمانے میں کافی عرصے سے بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے خوراک کی چیزوں کی کمی تھی.گھاس بھی نہیں اُگی تھی.وہ قبائل جن کا گزارا بھیڑ بکریاں پال کر ہوتا تھا بڑے پریشان تھے.بکریوں کا دودھ بھی خشک ہو گیا تھا.خوراک کم ہو تو ماں کا دودھ کم ہو جاتا ہے.چنانچہ دائی حلیمہ کا جو بیٹا الله عبد اللہ ان دنوں دودھ پیتا تھا وہ بھوکا رہتا تھا.جب واپسی کا سفر شروع ہوا تو دائی صہ حلیمہ نے اپنے بیٹے عبداللہ اور نے محمد صل للہ کو دودھ پلایا.دودھ اتنا زیادہ تھا کہ دونوں نے پیٹ بھر کر دودھ پیاوہ حیران رہ گئیں.پھر وہ اپنی مریل سی گدھی پر سوار ہوئیں تو وہ طاقتور جوان جانور کی طرح اترا اترا کر چلنے لگی اور سب سے آگے نکل گئی.گھر پہنچیں تو

Page 14

14 اس بچے کی برکت سے خوراک کا کوئی مسئلہ نہ رہا.بکر یاں خوب دودھ دینے لگیں.وہ خوب سمجھ گئیں کہ حضرت آمنہ نے ٹھیک ہی کہا تھا بچہ بہت برکت والا ہے.حلیمہ کی بیٹی شیما کو ننھے مہمان سے بہت پیار ہو گیا.ہر وقت گود میں لئے پھرتیں.ان خواتین سے سیکھ کر آپ نے ہوازن کے قبیلہ سعد کی زبان بولنا شروع کی.آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں تم سب سے فصیح تر نبی ہوں کیونکہ میں قریش خاندان سے ہوں اور میری زبان بنی سعد کی زبان ہے.“ (طبقات ابن سعد جلد 1 صفحہ 71) بچو! عربی زبان میں اس خاتون کو، جس کا دودھ پیا ہو، رضاعی والدہ کہتے ہیں، رضاعی ماں کے بچے رضاعی بہن بھائی کہلاتے ہیں.اس طرح وہ عرصہ جس میں رضاعی ماں کا دودھ پیا ہو عرصہ رضاعت کہلاتا ہے.دوسال کا عرصہ رضاعت گزرا تو حلیمہ آپ کو آپ کی والدہ کے حوالے کرنے مکہ آئیں.حوالے کرنے آ تو گئیں مگر دل بالکل نہیں چاہ رہا تھا کہ آپ کو خود سے جدا کریں آپ سے سب گھر والوں کو بہت محبت ہو گئی تھی.ماں کو ملانے کے بعد درخواست کی کہ کچھ عرصہ مزید اس با برکت حسین بچے کو اُن کے ساتھ رہنے دیا جائے ان دنوں مکہ میں کوئی وبا پھیلی ہوئی تھی اُن کو اچھا بہانہ ہاتھ لگا کہنے لگیں کہ مکہ کی آب و ہوا میں ان کے بیمار پڑنے کا اندیشہ ہے اگر آپ اجازت دیں تو ابھی کچھ عرصہ اور اپنے ساتھ بچے کو رکھ لوں.حضرت آمنہ کو بچے کی سلامتی کا اتنا خیال تھا کہ دل نہ چاہتے ہوئے بھی اجازت دے دی.حلیمہ اپنے گھر واپس گئیں تو بچے کو ساتھ دیکھ کر ان کے بچے خوشی سے کھل اُٹھے.حلیمہ کے چار بچے تھے عبداللہ انیسہ ، حذیفہ اور حذافہ.حذافہ کا دوسرا نام شیما تھا.آپ اپنے رضاعی بھائی بہنوں کے ساتھ کھلی فضا میں کھیلتے اور جب وہ بکریاں چرانے جاتے تو آپ بھی ساتھ جاتے.کبھی کبھی گھر سے دور بھی نکل جاتے.

Page 15

15 آپ بکریوں کی حفاظت بڑی ہوشیاری سے کرتے.آپ بہت بہادر بچے تھے.ایک دن کیا ہوا کہ آپ دوسرے بچوں کے ساتھ بکریاں چرا رہے تھے کہ اچانک گھوڑوں پر سوار ڈاکو آگئے آتے ہی بکریاں جمع کر کے ہانک کر لے جانے لگے آپ ایک ننھے معصوم بچے تھے مگر دلیروں کی طرح اُن کے راستے میں ڈٹ کر کھڑے ہو گئے اور کہا میں یہ بکریاں نہیں لے جانے دوں گا کیونکہ یہ گاؤں والوں کی ہیں.ہم انہیں چرانے لائے تھے.میں آپ کو مالکوں کا مال نہیں لے جانے دوں گا.“ ڈاکوؤں کو حیرت ہوئی کہ سب لوگ ہمارے خوف اور دہشت سے کانپنے لگتے ہیں یہ کیسا بچہ ہے جو ڈاکوؤں کے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہے.خاص طور پر ان کا سردار بہت جھلا یا.طیش میں آکر آگے بڑھا تو دیکھا کہ ایک معصوم بچہ بڑے اعتماد سے بازو پھیلائے راستہ رو کے کھڑا ہے.اس خوبصورت پُر عزم بچے پر نظر پڑتے ہی سردار کو اندازہ ہوا کہ یہ کوئی معمولی بچہ نہیں.پوچھا تمہارا نام کیا ہے؟ کس کے بیٹے ہو؟ عبدالمطلب کے سردار سمجھ گیا کہ قریش خاندان کا بچہ ہی ایسا بہادر ہوسکتا ہے.بکریاں چھوڑ دیں.محمد کو سلام کیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس چلا گیا.اب ایک اور واقعہ سنو ایک دن آپ روزانہ کی طرح اپنے رضاعی بھائی عبداللہ کے ساتھ اپنے گھر کے پچھواڑے بکریاں چرا رہے تھے.آپ دونوں ہی تھے کوئی اور نہیں تھا.آپ کی عمر انداز آچار سال تھی اچانک سفید کپڑے پہنے ہوئے دو اجنبی آدمی برف سے بھرا ہوا طشت لے کر آئے.حضرت محمد ملالہ کو زمین پر لٹایا اور

Page 16

16 سینہ کاٹ دیا عبداللہ یہ دیکھ کر بے حد ڈر گئے.بھاگم بھاگ گھر پہنچے اور اپنے امی ابا کو بتایا کہ محمد صل اللہ کو کسی نے قتل کر دیا ہے.حلیمہ اور حارث تیزی سے وہاں پہنچے دیکھا تو وہاں کوئی بھی نہیں تھا اور محمد صل اللہ کچھ خوفزدہ سے کھڑے تھے رنگ فق تھا.دونوں نے پیار سے سینے سے چمٹایا اور پیار بھرے لہجے میں پوچھا بیٹا کیا بات ہوئی ؟ محمد صل اللہ نے معصوم انداز میں ساری بات بتائی.دو آدمی آئے تھے سفید کپڑے پہنے ہوئے تھے.ان کے پاس سونے کا طشت تھا.اس میں برف تھی.وہ میرا سینہ کھول کر کچھ تلاش کر رہے تھے.پھر میرا دل نکال کر شگاف دیا اور اس میں سے ایک سیاہ ٹکڑا نکال کر پھینک دیا.پھر میرے سینے اور دل کو برف سے دھو دیا.یہاں تک کے خوب پاک کر دیا.“ (ابن ہشام صفحہ 112 مسلم جلد 1 باب 81 سراء) حلیمہ اور حارث نے ادھر اُدھر دیکھا کوئی آدمی تھا نہ خون ، نہ کوئی جسم کا حصہ باہر پھینکا ہوا نظر آیا.اللہ کا شکر ادا کیا کہ بچہ، پرائی امانت، بالکل سلامت ہے فوراً فیصلہ کر لیا کہ آپ کو والدہ کے پاس چھوڑ آئیں گی.خدا جانے کیا واقعہ ہوا تھاوہ ڈرگئیں کہ کہیں کچھ اور نہ ہو جائے.بہتر ہے ماں کے حوالے کر دیں.پیارے بچو! یہ واقعہ شق صدر کہلاتا ہے یعنی سینہ چاک ہونے والا واقعہ.یہ ایک طرح کا کشف تھا.کشف کا مطلب ہے جاگتے ہوئے خواب کا سا منظر نظر آ جانا.اس کشف میں آپ کا رضاعی بھائی بھی کچھ حد تک شریک تھا تا کہ گواہ بنے.اللہ تعالیٰ کا فرشتہ انسان کے روپ میں آیا اور آپ کے سینہ مبارک کو صاف کیا.پیارے محمد صل اللہ کے دل میں کوئی گندگی نہ تھی.آپ کا دل تو پاک تھا یہ سارا واقعہ خواب کی طرح تھا جس کا مطلب یہ تھا کہ دنیا کی محبت آپ کے دل سے نکال دی گئی.آپ کو

Page 17

17 دین کی سمجھ اور روحانی علوم دیئے گئے.دوسروں پر رعب دیا گیا کہ یہ کوئی معمولی بچہ نہیں بلکہ خاص بچہ ہے.یہ واقعہ ایک خاص نشان تھا مگر حلیمہ ڈرگئیں اور بچے کو واپس کرنے کے ارادے سے چلیں.حلیمہ مکہ پہنچیں تو مکہ کی گلیوں میں آپ ادھر اُدھر ہو گئے.بہت تلاش کیا گیا مگر آپ نہ ملے گھبرا کر عبدالمطلب کے پاس گئیں کہ میں محمد صل اللہ کو لے تو آئی تھی.مگر وہ گم ہو گئے ہیں.عبدالمطلب کعبہ کے پاس جا کر دعا کرنے لگے اتنے میں قریش کے ایک اور شخص ورقہ بن نوفل آپ کو لے کر عبد المطلب کے پاس آئے.آپ نے بچے کو بہت پیار کیا اور کندھے پر بٹھا کر کعبہ کا طواف کیا اور آپ کے لئے بہت دعا کی اور پھر حضرت آمنہ کے پاس بھیجا.(سیرت ابن ہشام جلد اوّل صفحہ 113) آپ اپنی امی کے ساتھ رہنے لگے.دونوں بے حد خوش تھے پیاری پیاری باتیں کرنے والا صحت مند حسین بچہ اور ترسی ہوئی ماں جس نے شوہر کی جدائی میں بڑا مشکل وقت گزارا تھا.مالی تنگی اس قدر برداشت کی تھی کہ کبھی سوکھا گوشت ہی کھا کر گزارا کیا تھا.مگر اس چھوٹے سے گھر میں بچے پیار کی دولت تھی.حضرت آمنہ ننھے شہزادے کو بہت پیار کرتیں مگر اُن کو اس چاند سے بیٹے کو پیار کرنے کا زیادہ موقع نہ ملا.ہوا یوں کہ حضرت آمنہ کے نہال یثرب (مدینہ ) میں رہتے تھے.آپ ان سے ملنے اور اپنے شوہر کی قبر پر دعا کرنے جایا کرتی تھیں.آپ نے پروگرام بنایا کہ اس دفعه محمد حتل اللہ کو بھی ساتھ لے جائیں.دونوں حضرت عبداللہ کی قبر کی زیارت ایک ساتھ کریں.آپ کی عمر اس وقت چھ سال تھی جب آپ اپنی والدہ اور اُم ایمن کے ساتھ مکہ سے سفر پر روانہ ہوئے.مدینہ میں بنو نجار آپ کے رشتہ دار تھے.آپ وہاں ایک ماہ ٹھہرے.اپنے ہم عمروں میں خوب کھیلے کو دے.یہیں پر آپ نے ایک تالاب میں تیر ناسیکھا.باپ کی قبر کی زیارت کی ، واپسی میں مدینہ اور مکہ کے درمیان

Page 18

18 سفر کے دوران رستے میں حضرت آمنہ شدید بیمار ہوگئیں.حالت خراب سے خراب تر ہونے لگی تو ان کو محسوس ہوا کہ اب بچ نہیں سکوں گی.اپنے پیارے بیٹے پر الوداعی نگاہیں ڈالیں اور باپ سے محروم بچے کی ماں نے بچے کو اللہ کے سپرد کیا.”اے میرے بیٹے تجھ پر اللہ اپنی برکتیں نازل فرمائے.مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ جو صاحب جلال اور صاحب اکرام ہے تجھے اپنے بندوں کی طرف مبعوث کرے گا.(مواہب المد ینہ صفحہ 32) خدا شاہد ہے کہ اس سیدۃ النساء نے اپنی یادگار ایسا ہی بچہ چھوڑا جوگل عالم کے لئے نور ہدایت ہے.حضرت آمنہ ابواء نامی جگہ پر وفات پاگئیں.ابواء میں ایک چھوٹی سی پہاڑی پر قدرے بلند جگہ پر آپ کی قبر ہے.آپ نے والدہ کے لئے دعا ( مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ 355) کی.اُم ایمن نے محمد متل اللہ کو لے کر واپس مکہ آئیں.باپ تو پہلے ہی نہیں تھا اب ماں سے بھی محروم ہو گئے.دراصل آپ اپنے پیدا کرنے والے کی پناہ میں تھے.کیا ہم نے تجھے یتیم پاکر پناہ نہیں دی“ (اضحی) اللہ پاک کی رحمانیت نے عبدالمطلب کو مقرر کر دیا کہ آپ کو پیار کی کمی نہ آنے دیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کے دادا عبدالمطلب کے دل میں آپ کی غیر معمولی طور پر محبت پیدا کر دی عام طور پر ایسے حالات میں انسان کی توجہ پوتوں کی بجائے اپنے دوسرے بیٹوں کی طرف ہوتی ہے مگر عبدالمطلب کی حالت یہ تھی کہ وہ اپنے بیٹوں کو تو ڈانٹ ڈپٹ لیتے مگر رسول کریم صلی للہ سے ہمیشہ محبت

Page 19

19 اور پیار رکھتے.حالانکہ اُن کے لڑکے جوان تھے اور وہ اُن کی خدمت بھی کرتے رہتے تھے.مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اُن کے دل میں رسول کریم صل اللہ کی ایسی محبت پیدا کر دی کہ آپ اگر تھوڑی دیر کے لئے بھی اُن کی نظروں سے اوجھل ہو جاتے تو وہ بے چین ہو جاتے تھے.آپ کو ہر وقت گود میں اُٹھائے رکھتے تھے.آپ کی محبت میں اشعار پڑھتے تھے اور اپنے بچوں کو ڈانٹتے رہتے تھے کہ اس کی قدر کیوں نہیں کرتے.“ ( تفسیر کبیر جلد نم صفحه 97) عبدالمطلب کے بیٹے بیان کرتے ہیں کہ جب آپ مجلس میں بیٹھے ہوتے تو آپ کا اتنا رعب ہوتا تھا کہ ہم سے وان سے جوان کی بھی طاقت نہیں ہوتی تھی کہ آپ کے سامنے آنکھ اُٹھائے.عرب میں بڑوں کا بہت ادب کیا جاتا تھا اور کرایا جاتا تھا.لیکن محمد صلاتہ بچپن کی وجہ سے بعض دفعہ دادا سے کھیلتے اُن کے کندھوں پر چڑھ جاتے آپ کے بیٹے سرخ سرخ آنکھوں سے رسول اللہ صل اللہ کو دیکھتے.مگر حضرت عبدالمطلب فرماتے خبر دار میرے اس بچے کو بری نگاہ سے نہ دیکھنا.“ ( تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 218) کوئی منع کرتا تو آپ کہتے میرے اس بیٹے کو منع نہ کیا کرو کیونکہ یہ ہو نہار ہے اور صاحب شان ہے.آپ کی کمر پر پیار سے ہاتھ پھیرتے.پیارے بچو! آپ سوچتے ہوں گے کہ پیارے آقا اسکول کب داخل ہوئے.آپ کو کس نے پڑھایا آپ نے کیا سیکھا ان سب سوالوں کا جواب یہ ہے کہ

Page 20

20 آپ کبھی کسی اسکول میں داخل نہیں ہوئے تھے.ایک تو اس وقت با قاعدہ اسکولوں کا رواج نہ تھا دوسرے اس پیارے وجود کی تعلیم و تربیت خدا تعالیٰ نے خود کی تھی.آپ جانتے ہیں کہ بچوں کا پہلا سہارا ماں باپ ہوتے ہیں.آپ کے والد فوت ہو گئے.اللہ تعالیٰ آپ کا سہارا تھا.آپ کی والدہ فوت ہوگئیں.اللہ تعالیٰ نے دکھایا کہ پالنے والا میں ہوں.پھر عبدالمطلب کے دل میں پیار ڈال دیا.اس طرح آپ کو محرومی کا احساس نہ ہونے دیا.بلکہ آپ زیادہ لاڈ پیار میں پہلے.دادا پوتے کا عجیب پیار تھا.خانہ کعبہ کا طواف کرتے تو آپ کو کندھے پر بٹھا لیتے.اس وقت تک کھانا شروع نہ کرتے جب تک نھا پوتا کھانے میں شریک نہ ہوتا.آپ کو یہ سر پرستی بھی زیادہ عرصہ میسر نہ آئی.عبدالمطلب بوڑھے ہو چکے تھے.آپ اُس وقت آٹھ ، یا نو سال کے تھے.عبدالمطلب نے وفات سے کچھ دیر پہلے اپنے بیٹے ابو طالب کو بلایا اور فرمایا میں تم پر دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ اعتبار کرتا ہوں.یہ میری امانت ہے.اسے اپنے بچوں کی طرح پالنا.دیکھنا اس کا دل میلا نہ ہو.“ ( تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 218) عبدالمطلب نے حضرت عبداللہ کے سگے بھائی ابوطالب کو یہ امانت سونپ کر 82 سال ( بعض روایات کے مطابق ایک سوسال ) کی عمر میں وفات پائی.ان کا الله جنازہ اٹھا تو ڈر یتیم محمد صل للہ ساتھ ساتھ تھے اور آپ کے آنسو بہتے جاتے تھے.یہ عام الفیل کے بعد آٹھواں سال تھا.ابوطالب نے اس روتے ہوئے غمگین و پریشان الله بچے حضرت محمد صلاہ کو اپنے سینے سے لگایا اور بڑے پیار سے کہا تم بھی میرے بچے ہو.میرے دوسرے بچوں کے ساتھ میرے

Page 21

21 پاس آرام سے رہو.ابوطالب کو اس پیارے بچے سے اس لئے بھی پیار تھا کہ وہ آپ کے سگے بھائی کی اولادتھا.عبدالمطلب کی کئی بیویاں تھیں جن میں سے فاطمہ بنت عمرو سے دو بیٹے اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں.ابوطالب بڑے بیٹے تھے اور عبداللہ چھوٹے تھے.ایک بیٹی کا نام اردوی تھا اور ایک اُمّ حکیم جو حضرت عبداللہ کے ساتھ جڑواں پیدا ہوئی تھیں.بھائی جوانی میں فوت ہو گیا تھا.پھر اس معصوم بچے کی والدہ اور دادا کے نہ رہنے سے بھی قدرتی طور پر محبت میں شدت آگئی.ابوطالب بعض دفعہ اپنے بچوں کے سامنے کہتے کہ یہ میرا بچہ ہے رات کو عموماً اپنے ساتھ سلاتے تھے یہی کوشش رہتی کہ حضرت محمد صل اللہ ہر وقت آپ کی آنکھوں کے آگے رہیں.کبھی کسی کام سے باہر جاتے تو آکر تسلی کرتے کہ آپ بھوکے تو نہیں رہے.آپ کی بچی بھی آپ پر سختی نہیں کرتی تھیں.دراصل آپ اتنی پیاری اداؤں کے مالک تھے کہ تختی کی ضرورت ہی پیش نہ آتی تھی.آپ کے چچا کے گھر میں جب کھانا تقسیم ہوتا تھا تو آپ کبھی بڑھ کر مانگا نہیں کرتے تھے باقی بچے لڑ جھگڑ کر مانگتے مگر رسول کریم صلی اللہ بچپن کی عمر میں بوجہ اپنی ذہانت اور سمجھ کے ( بعض بچے جو ذہین نہیں ہوتے وہ چچی سے بھی لڑ جھگڑ کر چیزیں مانگ لیتے ہیں جس طرح ماں سے مانگی جاتی ہیں مگر یہ محبت کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اُن کی عقل کی کمی کا نتیجہ ہوتا ہے ) یہ محسوس کرتے تھے کہ میں اس گھر سے بطور حق کچھ نہیں مانگ سکتا.مجھ پر تو میرے چا اور چی اس

Page 22

22 کا یہ احسان ہے کہ انہوں نے محبت اور پیار سے مجھے اپنے پاس رکھ لیا ہے.بعض دفعہ آپ کے چچا بھی موجود ہوتے اور چچا کو رسول کریم صل اللہ سے جو محبت تھی وہ ایسی تھی کہ باپ کی طرح ہی تھی.اسی وجہ سے بعض دفعہ ابوطالب جب گھر میں آتے اور وہ رسول کریم صل اللہ کو عام بچوں سے الگ ایک طرف کھڑے دیکھتے اور یہ بھی دیکھتے کہ باقی بچے شور کر رہے ہیں اور لڑ جھگڑ کر چیزیں لے رہے ہیں.مثلاً مٹھائی تقسیم ہو رہی ہے تو ایک کہتا میں مٹھائی کی ڈلی نہیں لوں گا دوسرا کہتا ہے اماں مجھے تو نے کچھ بھی نہیں دیا اسی طرح ہر بچہ اپنا حق جتا کر چیز کا مطالبہ کر رہا ہے اور رسول کریم صل اللہ ایک کونے میں خاموش بیٹھے ہوئے ہیں تو ابوطالب ان کو بازو سے پکڑ لیتے اور کہتے ”میرے بچے تو یہاں کیوں خاموش بیٹھا ہے.“ پھر وہ آپ کو لا کر اپنی بیوی کے پاس کھڑا کر دیتے اور کہتے تو بھی اپنی چچی سے چمٹ جا اور اس سے مانگ.مگر رسول کریم صلیاللہ نہ چمٹتے اور نہ کچھ مانگتے.“ ( تفسیر کبیر جلد ہفتم صفحہ 255-256) وہ کونے میں کھڑے رہتے اور یہ خیال کرتے کہ دنیا میں میرا حصہ ہے ہی نہیں میں اگر مانگوں تو کیوں مانگوں اور اگر مانگوں تو کس سے مانگوں.پیارے بچو! یہ سب کیفیات اس لئے آپ پر گزریں کہ آپ کو ایک خدا کی ہستی پر ایمان پیدا ہو کہ کس طرح مشکل حالات میں اس نے پرورش کر کے ربوبیت کی شان دیکھا کئے آپ کے قدموں میں ساری دنیا ڈال دی.مزے کی بات

Page 23

23 یہ ہے کہ درود شریف میں ہم جن دو بزرگ نبیوں کا نام ایک ساتھ لیتے ہیں.یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفی صل اللہ دونوں کے ساتھ یہ واقعہ ایک ہی طرح گزرا.دونوں کے والد بچپن میں فوت ہوئے.دونوں کو ان کے چچاؤں نے پالا اور دونوں کے چچا بت پرست تھے مگر اللہ پاک نے ان کی نگرانی میں پلنے والے بچوں کی خود تربیت کی خود ربوبیت کی اور سب سے بڑے خدائے واحد کے پرستار بنے.سبحان اللہ بچو! اللہ پاک کی حکمت سے آنحضرت ملالہ کے بچپن ہی سے ایسے واقعات ہوئے جن سے لوگوں کو احساس ہونے لگا کہ یہ بچہ معمولی بچہ نہیں ہے.ایک دفعہ مکہ میں ایک ایسا شخص آیا جو چہرے دیکھ کر قسمت کا حال بتانے کا ماہر تھا.سب لوگ شوق شوق سے اپنے بچوں کو لے کر گئے اور اس سے مستقبل کے حالات پوچھے ابو طالب بھی آپ کو لے کر گئے.اپنے بچوں کو لے کر نہیں گئے.صرف اپنے بھتیجے کو لے کر گئے.کیونکہ صاف ظاہر ہو چکا تھا کہ آپ میں کوئی غیر معمولی بات ہے.اس نجومی نے ایک نظر آپ کو دیکھا پھر کسی کام میں مصروف ہو گیا.کاموں سے فارغ ہوا اور باقی لوگ چلے گئے تو پوچھنے لگا ایک لڑکا آیا تھا وہ کہاں ہے مجھے جلدی دکھاؤ.وہ ہونہار ہے.معلوم ہوتا ہے اس کی شان ظاہر ہو گی.ابوطالب نے اس قدر دلچسپی دیکھی تو گھبرا گئے کہ کہیں وہ بچے کو زبردستی نہ چھین لے.دراصل وہ اس لئے اصرار کر رہا تھا کہ آپ کے چہرے پر وہ خاص نور دیکھ چکا تھا.آپ دس بارہ سال کے تھے تو عرب کے دوسرے بچوں کی طرح بکریاں چرانے کا کام بھی کیا.“ (پیغام صلح صفحہ 27) اس کی ایک وجہ مصیبت اور یتیمی تھی دوسرے عرب کے بچے اسکول تو جاتے

Page 24

24 نہیں تھے نہ اُن کی شامیں ٹی وی دیکھتے گزرتی تھیں وہ تیراندازی ، گھڑ سواری جیسی ورزشی کھیلیں کھیلتے اور اپنے ماں باپ کے کاموں میں ان کا ہاتھ بٹاتے.اسی طرح جنگلوں میں اپنی بکریاں چرانے بھی لے جاتے.آپ کے بچپن میں بکریاں چرانے کا ذکر بڑے پر لطف انداز میں ملتا ہے.ایک دفعہ ایک جنگل سے گزرتے ہوئے صحابہ ایک قسم کی جنگلی بیریوں سے بیر ( پیلو) تو ڑ کر کھانے لگے تو آپ نے فرمایا ” جو خوب سیاہ ہو جاتے ہیں زیادہ مزے کے ہوتے ہیں.یہ میرا اُس زمانے کا تجربہ ہے جب میں بچپن میں یہاں بکریاں چرایا کرتا تھا.“ (طبقات ابن سعد جلد اوّل صفحہ 80 ، بخاری شریف کتاب الاجاره) آپ نے معاوضہ لے کر بھی بکریاں چرائیں.“ ( بخاری کتاب الاجاره ) اس عمر میں آپ کی دوستی حضرت حکیم بن حزام سے تھی.“ ( تفسیر کبیر جلد ہشتم صفحہ 626) آپ بارہ سال کے تھے ابوطالب ایک تجارتی قافلے کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہونے کے لئے تیار ہو رہے تھے.آپ سے یہ جدائی برداشت نہ ہو رہی تھی.چچا سے لپٹ گئے اور رونے لگے.ابوطالب سمجھ گئے کہ محبت کی وجہ سے میرا جانا آپ کو اُداس کر رہا ہے.خود اُن کا دل بھی اُداس ہو رہا تھا.دراصل اللہ پاک ایسے سامان کر رہا تھا کہ اُس پیارے حضرت محمد صل اللہ کی شان سے زیادہ سے زیادہ لوگ واقف ہوں.آپ کے پیارے چہرے کو ایک دفعہ دیکھنے والے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکتے تھے.ابوطالب آپ کو اپنے ساتھ شام لے گئے.شام کے جنوب میں ایک گاؤں بھری تھا جب قریش کا قافلہ وہاں پہنچا تو وہاں ایک خانقاہ (صومعہ ) مذہبی عبادت گاہ تھی جس کا راہب ( عیسائی عالم دین) بحیرا نام کا عیسائی تھا.بحیرا کی نظر

Page 25

25 آپ پر پڑی تو اُس نے دیکھا کہ بادل کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا آپ پر سایہ کئے ہوئے ہے تا کہ آپ کو دھوپ سے بچائے.اُس نے کشفاً یہ نظارہ بھی دیکھا کہ آپ کو دیکھ کر درخت اور پتھر سجدہ میں گر گئے.اُس کو فوراً اندازہ ہو گیا کہ سات پشتوں سے سینہ در سینہ جو ایک موعود نبی کے متعلق پیشگوئی ہے کہ قریش میں سے ہوگا عین ممکن ہے کہ یہی بچہ ہواُس نے ایک ترکیب سوچی اور سب قافلے والوں کو دعوت پر بلایا تا کہ آپ کو اچھی طرح دیکھ سکے.وہ آنے والے مہمانوں کو غور سے دیکھتا رہا مگر وہ حسین بچہ اُس کو نظر نہ آیا.تو اُس نے پوچھا کہ کیا سب قافلے والے آگئے ہیں.اُس کو بتایا گیا کہ ایک بچہ سامان کی حفاظت کے لئے پیچھے رہ گیا ہے.بحیرا نے اصرار کر کے آپ کو بلوایا.اور آپ کو قریب بلا کر آپ سے باتیں کیں دونوں کندھوں کے درمیان اُبھرے ہوئے گوشت' مہر نبوت کو محسوس کیا جو آنے والے نبی کی ایک نشانی تھی جب یقین ہو گیا کہ آپ ہی وہ موعود نبی ہیں تو ابوطالب سے پوچھا کہ اس بچے سے آپ کا کیا رشتہ ہے؟ یہ میرا بیٹا ہے.ابو طالب نے جواب دیا.اس کا باپ تو زندہ نہیں.راہب نے کہا ٹھیک ہے یہ میرا بھتیجا ہے.راہب نے ابو طالب سے کہا آپ اس بچے کو لے کر فور اواپس چلے جائیں ایسانہ ہو یہودی ان نشانیوں سے اس کو پہچان لیں اور کوئی نقصان پہنچائیں.پیارے بچو! ہم ایک مقدس ہستی کے بچپن کے حالات پڑھ رہے ہیں اس میں آپ خاص بات محسوس کریں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح مکہ کے بُت پرست جاہل اور عیش پرست ماحول سے بچا کر اس پاک بچے کے اخلاق کی خود حفاظت فرما رہا تھا.ایک دفعہ آپ نے اپنے بچپن کا واقعہ سنایا کہ ”میں بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا اور

Page 26

26 بچے کھیل کے واسطے پتھر اٹھا رہے تھے جیسا کہ بچوں کا قاعدہ ہے انہوں نے اپنے تہبند کھول کر کندھوں پر رکھ لئے تھے تا کہ اُن پر پتھر ڈھوڈھو کر لائیں میں نے بھی چاہا کہ میں بھی اپنا تہبند اپنے کندھوں پر رکھ کر پتھر اٹھاؤں کہ غیب سے ایک طمانچہ میرے لگا جس سے مجھ کو نہایت صدمہ پہنچا اور غیب سے آواز آئی کہ اپنے تہبند کو مضبوط باندھ لوپس میں نے اُس کو مضبوط باندھ لیا اور گردن پر پتھر اٹھانے لگا.حالانکہ میرے سب ساتھی اسی طرح پتھر اُٹھا رہے تھے اور اُن سب میں فقط ایک میں ہی تہبند باندھے ہوئے تھا.“ (ابن ہشام صفحہ 119) ایک واقعہ اور سنو جس سے حیرت انگیز طور پر اللہ تعالیٰ کا اپنی قدرتوں سے آپ کو شرک سے بچانا ظاہر ہوتا ہے.عرب میں ایک سالانہ تقریب ہوا کرتی تھی.اُن کا ایک بُت تھا' بوانہ.اُسی کے نام سے یہ تقریب تھی بس بالکل عید سمجھ لو.نوعیت بھی مذہبی تھی اس لئے سب کا شریک ہونا ضروری تھا مگر آپ کے دل میں خدا تعالیٰ نے ڈال دیا کہ آپ اس میں شریک نہیں ہوں گے.بچی نے ، چچانے ، دوسرے چچاؤں نے، چھوٹے بڑے سب نے اصرار کیا مگر آپ اس تقریب پر جانے کے لئے رضا مند نہ ہوئے زیادہ اصرار سے تنگ آکر رونے والے ہو گئے اور اپنے چچا سے کہا مجھے ایسی جگہوں پر جانا بالکل پسند نہیں.مجھے خوف آتا ہے.نہ میں وہاں جاؤں گا اور نہ وہاں کا کھانا کھاؤں گا.ابوطالب کو بچے کی دلداری منظور تھی.کہہ دیا کہ کوئی بات نہیں تم اُم ایمن کے ساتھ گھر میں رہو میں سب کو سمجھالوں گا.تو اس طرح بچو! ایک مشرکانہ تقریب میں شرکت سے اللہ پاک نے آپ کو بچایا اور اصرار کرنے والے اس بات کے گواہ ٹھہرے کہ آپ بچپن سے اللہ کے سوا کسی کو اہمیت نہ دیتے تھے.ایک دفعہ ایک اور فضول تقریب سے اللہ پاک نے آپ کو بچایا.وہ اس

Page 27

27 طرح کہ عرب میں دستور تھا کہ سر شام کھلی جگہ پر جمع ہو جاتے.رات بھر قصے، کہانیاں ،شعر گوئی، ناچ ، گا نا چلتا رہتا.آپ کو پتا ہے کہ عرب میں گرمیوں میں دن کے وقت بے حد گرمی ہوتی ہے اور راتیں نسبتاً ٹھنڈی اور پرسکون ہوتی ہیں اس لئے عام طور پر اُن کی محفلیں راتوں کو جمتیں.ایک نکاح کی تقریب ہو رہی تھی آپ بھی اتفاقاً چلے گئے مگر جاتے ہی ایسا نیند کا غلبہ ہوا کہ ساری رات سوتے رہے.صبح آنکھ کھلی، کوئی فضول منظر نہ دیکھا.جو اللہ تعالیٰ کے پیارے بندے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرما تا کہ وہ فضول کاموں میں وقت ضائع کریں.صلى الله آپ کی عادتیں اتنی پیاری تھیں کہ ہر طرف تذکرہ ہونے لگا تھا کہ محمد اچھے بچے ہیں.آپ فرمانبردار ہیں، سچ بولتے ہیں، بزرگوں کا ادب کرتے ہیں، چھوٹوں سے لڑتے جھگڑتے نہیں ، جس چیز پر حق نہ ہو استعمال نہیں فرماتے ، کوئی اپنی چیز رکھوائے تو حفاظت سے رکھ کر ویسے ہی واپس کر دیتے ہیں.اس کے علاوہ آپ میں ایک ایسی خوبی تھی جو فوراً دوسروں کے دلوں میں گھر کر لیتی.آپ غریبوں کے بہت ہمدرد تھے اور ضرورت مندوں کی ضرورت پوری کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتے.مکہ میں ہرقسم کی برائیاں عام تھیں.مگر اللہ تعالیٰ آپ کو ہر طرح کی برائیوں سے بچا کر نیکیوں کی راہ پر ڈالتا رہا.اور لوگوں کے دل میں آپ کی قدر اور محبت میں اضافہ فرما تا رہا.بچو! آپ سوچیں کہ سر پر ماں باپ اور دادا کا سایہ نہ تھا صرف چچا تھے جو بہت بڑے خاندان کے سر پرست تھے ، مصروف رہتے تھے اور وہ تھے بھی بت پرست.تو اس معصوم حسین بچے کو کون سی طاقت سنبھال رہی تھی ، یقینا اللہ تعالی آپ خود فرماتے ہیں.میں نے ساری عمر میں صرف دو دفعہ اس قسم کی مجلس

Page 28

28 میں شرکت کا ارادہ کیا مگر دونوں دفعہ روک دیا گیا.(طبری) پیارے بچو! آپ نے دیکھا اللہ تعالیٰ کی کفالت اور تعلیم وتربیت نے کیسا ہیرا تر اشا.دنیا نے آپ سے بہتر انسان نہ کبھی دیکھا تھا، نہ کبھی دیکھے گی.آپ پر لاکھوں کروڑوں درود و سلام ہوں.وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نور سارا الله نام اُس کا ہے محمد صلا دلبر میرا یہی ہے یہ تو بہت کم عمری کی حسین باتیں تھیں آپ کچھ بڑے ہوئے تو آپ کی معاملہ نہی اور صلح پسندی جیسے اوصاف نے بھی سب کو بہت متاثر کیا.عرب قبیلے آپس میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑنے لگتے.کبھی کسی تقریب یا میلے میں میل جول کے وقت کسی بات پر اختلاف ہو جاتا.یہ اختلاف جھگڑے کی صورت اختیار کر لیتا اور یہ جھگڑے بعض دفعہ بہت لمبے چلتے اور لمبی جنگوں کی شکل اختیار کر لیتے.کوئی قبیلہ ہار مان کر یا جھک کر صلح کرنے پر آمادہ نہ ہوتا.ہر قیمت پر جنگ جاری رکھنے کو بہادری سمجھا جاتا.اُن کے ہاں ایک رسم جاری تھی.جب قبائل کی آپس میں کسی بات پر ٹھن جاتی تو وہ ایک بڑے پیالے میں خون بھر لیتے اور اپنی انگلیاں خون میں ڈیوڈ بو کر قسمیں کھاتے کہ لڑائی ہوئی تو جان دے دیں گے مگر پیچھے نہیں ہٹیں گے.اب ہم آپ کو ایک ایسی لڑائی کا حال سنائیں گے.جو ایک معمولی بات پر شروع ہو کر طویل ہوگئی.مکہ سے مشرق کی طرف کچھ فاصلے پر ایک میلہ عکاظ لگا کرتا تھا یہ میلہ کئی لحاظ سے بڑا مشہور تھا اور اس میں دُور دُور سے لوگ شرکت کرنے آتے تھے.کے ہلتے گلے میں جھگڑا شروع ہوا ایک طرف قبیلہ بنو کنانہ اور قبیلہ قریش کے لوگ ہو گئے.ان کا سردار زبیر بن عبد المطلب تھا.دوسری طرف قبیلہ قیس عیلان اور قبیلہ

Page 29

29 ہوازن ہو گئے.جن کا سردار حرب بن امیہ تھا.یہ جنگ بڑے جوش و خروش سے جاری رہی.لمبا عرصہ چلی.جب یہ جنگ ہو رہی تھی حضرت رسول کریم صل اللہ کی عمر مبارک قریباً پندرہ سال تھی.( چودہ پندرہ سال سیرت ابن ہشام صفحہ 119 ، ہیں سال سیرت خاتم النبین صفحہ 104) آپ اس جنگ میں شامل ہوئے مگر صرف اس قدر کہ اپنے چچاؤں کو تیر پکڑاتے تھے.آپ نے کسی پر ہاتھ نہیں اُٹھایا تھا.یہ لڑائی حرب فجار کے نام سے مشہور ہے.حرب فجار میں بہت لوگ زخمی ہوئے.ان گنت مارے گئے.مالی نقصان بھی بہت ہوا.آپ کے چچا زبیر بن عبدالمطلب کو خیال آیا کہ قدیم زمانے میں امن قائم کرنے کے لئے جو عہد حلف الفضول کے نام سے کیا جاتا تھا اُسے پھر سے تازہ کیا جائے چنانچہ چند دردمند لوگ ایک شخص عبداللہ بن جدعان کے مکان پر جمع ہوئے.ان میں ہمارے پیارے آقا بھی شامل تھے.سب نے ان الفاظ میں قسمیں کھائیں.وہ مظلوم کی مدد کریں گے اور اُن کے حق کو لے کر دیں گے.جب تک کہ سمندر میں ایک قطرہ پانی کا موجود ہے اور اگر وہ ایسا نہیں کر سکیں گے تو وہ خود اپنے پاس سے مظلوم کا حق ادا کریں گے.“ وو (دیباچہ تفسیر القرآن صفحه 110) کچھ عرصے کے بعد وہ نوجوان اس معاہدے کو بھول گئے لیکن رسول کریم ملالہ تو سچے آدمی تھے اور معاہدوں کا پاس رکھنے والے تھے.آپ کو یہ معاہدہ یا درہا جب آپ نے دعوی کیا تو ایک دن بعض مخالفوں نے شرارتا یہ چاہا کہ آپ کا امتحان لیا جائے.انہوں نے سوچا کہ آپ نے بھی غریبوں کی حمایت کیلئے

Page 30

30 قسم کھائی تھی.اب ہم دیکھتے ہیں کہ آپ غریبوں کی حمایت کرتے ہیں یا نہیں.روایات میں آتا ہے کہ ایک بدوی تھا جس سے ابو جہل نے کچھ سامان لیا تھا مگر اُس کی رقم اُسے نہ دی تھی.وہ بدوی مکہ میں آتا اور شور مچاتا کہ ہم باہر سے آتے ہیں.اپنا سودا یہاں فروخت کرتے ہیں مگر مکہ کے یہ لوگ جو بیت اللہ کے محافظ اور مذہبی آدمی سمجھے جاتے ہیں ہم پر اس رنگ میں ظلم کرتے ہیں اور جب لوگ اُس سے دریافت کرتے کہ کیا ہوا.تو وہ کہتا کہ ابو جہل نے میری اتنی رقم دینی ہے مگر وہ نہیں دیتا ایک تو وہ آدمی کم عقل سا تھا دوسرے یوں اُس کا نقصان بھی کافی ہوا تھا جب وہ اس طرح بار بار شور مچاتا تو ایک دن لوگوں نے مشورہ کیا کہ اسے محمد صل اللہ کے پاس بھیج دو اور اُسے کہا کہ وہ ابو جہل سے تقاضا کرنے کے لئے آپ کو ساتھ لے جائے اُن کی نیت نیک نہیں تھی اُن کا منشاء صرف یہ تھا کہ اگر محمد متلاللہ اُس کے ساتھ نہ گئے تو ہم کہیں گے کہ دیکھو آپ نے غریبوں کی مدد کے لئے قسم کھائی ہوئی تھی.مگر اُس کو پورا نہ کیا اور اگر گئے تو ابو جہل آپ کی بات نہیں مانے گا.آپؐ نعوذ باللہ ذلیل ہوں گے.بہر حال انہوں نے اُس بدوی کو رسول کریم صل اللہ کے پاس بھیجوا دیا جب رسول کریم ملالہ نے اُس کے حالات سنے تو آپ نے اُسی وقت اپنی چادر سنبھالی اور اُس بدوی کے ساتھ چل پڑے.ابو جہل کے دروازے پر پہنچ کر آپ نے دستک دی جب وہ باہر آیا تو آپ نے فرمایا اس بدوی کی رقم آپ نے دینی ہے اسے

Page 31

31 روپے کی سخت ضرورت ہے.میں آپ کے پاس اس لئے آیا ہوں کہ آپ اس کی رقم اسے دے دیں.اُس نے کہا اچھا میں ابھی لاتا ہوں، چنانچہ وہ اندر گیا اور روپیہ لا کر اُس نے بدوی کو دے دیا.جب اس کے دوستوں کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے اُسے طعنہ دیا کہ تم تو ہمیں کہتے تھے کہ اُن کا مال کھانا جائز ہے.مگر تمہاری اپنی یہ حالت ہے کہ روپیہ فور الا کر دے دیا تم نے یہ کیا کیا؟ ہم نے تو اُس کو ذلیل کرنے کے لئے یہ منصوبہ بنایا تھا.مگر اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اُلٹا ہم ذلیل ہو گئے.جس دوستوں نے اُسے یہ طعنہ دیا تو روایتوں میں آتا ہے.ابوجہل نے انہیں جواب دیا کہ خدا کی قسم جب محمد صلاقہ میرے پاس آئے تو میں نے دیکھا کہ آپ کے دائیں اور بائیں دومست اونٹ کھڑے ہیں اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ اگر میں نے انکار کیا تو یہ دو اونٹ مجھ پر حملہ کر دیں گے.اس لئے میں ڈرا اور میں نے روپیہ لا کر دے دیا.احادیث میں آتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صل اللہ سے پوچھا گیا کہ یارسول اللہ صل اللہ کیا جاہلیت کی کوئی ایسی بات ہے جسے آپ پسند فرماتے ہیں، آپ نے جواب دیا ہاں حلف الفضول ایک ایسی چیز تھی کہ آج میں اُسے اسلام میں بھی پسند کرتا ہوں پھر آپ نے فرمایا کودُ عِیتُ الآنَ لَا حَبْتُ “اگر اب بھی میں اُس کی طرف بلایا جاؤں تو میں اُس میں ضرور حصہ لوں.“ ( تفسیر کبیر جلد دہم صفحہ 144-145)

Page 32

32 پیارے بچو! سب انسانوں میں سے بہترین انسان کے بچپن اور نو جوانی کا حال آپ نے دیکھا.آپ کی اچھی عادتوں کا اثر بچپن میں ہی کتنا پاکیزہ اور حسین تھا.جو آپ کو دیکھتا آپ کے اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے آپ کی تعریف کرتا.آپ کے بچپن میں ہمارے لئے یہ سبق ہے کہ ہم ایسے بچے بنیں کہ ہمارا خدا یہ جان لے کہ ان بچوں نے اپنے پیارے آقا متلاقہ کے روشن روشن بچپن سے متاثر ہو کر اپنے بچپن کو سنوارا ہے.اللہ تعالیٰ کو آپ کی ان اداؤں پر پیار آئے اور وہ آپ کا مستقبل بھی اپنے صلی اللہ کے طفیل، آپ کے صدقے حب رسول صل اللہ بنادے آمین.محبوب اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيد اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيد

Page 32