Language: UR
حضرت عثمان غنی ؓ آنحضور ﷺ کے تیسرے خلیفہ تھے۔ آپ نہایت نرم دل، باحیا اور نہایت مالدار ہونے کے ساتھ ساتھ خدمت خلق میں بہت آگے تھے۔ خلافت سے پہلے اور بعد کئی مواقع پر آپ نے مسلمانوں کی اہم اور نازک مواقع پر مالی معاونت فرمائی۔ رسول کریم ﷺ نے آپ کے حق میں جنت کی بشارت بھی فرمائی۔آپ ایک قابل تقلید نمونہ تھے اور آپ کی سیر ت وسوانح کا مطالعہ قارئین کو آپ کے نقش قدم پر چلنے کے طریقے سکھائے گا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ دیباچه حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جو عرب کے مالدار لوگوں میں سے ایک تھے اور جنہوں نے اسلام کی راہ میں بے دریغ اپنے اموال کو خرچ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی ان کے ساتھ بیاہی ہوئی تھیں، ان کے انتقال کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری بیٹی کی شادی بھی حضرت عثمان سے کر دی جس کی وجہ سے ذوالنورین یعنی دونوروں والا لقب ملا اور جب یہ بھی فوت ہو گئیں تو فرمایا کہ اگر میری اور بیٹی بھی ہوتی تو میں عثمان سے اس کو بیاہ دیتا.خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے محبوب تیسرے خلیفہ را شد، حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت و سوانح آپ کی خدمت میں پیش ہے.اللہ تعالیٰ ان کے اخلاق و احسان کے رنگ سے ہماری زندگیوں کو بھی رنگین فرما دے.آمین
پیش لفظ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت ﷺ کے تیسرے خلیفہ تھے.آپ نہایت نرم دل ، باحیا اور مالدار ہونے کے ساتھ ساتھ خدمت خلق میں بہت آگے تھے.خلافت سے پہلے اور بعد کئی مواقع پر آپ نے مسلمانوں کی مالی معاونت فرمائی.رسول کریم ﷺ نے آپ کے حق میں جنت کی بشارت بھی فرمائی.آپ ایک قابل تقلید نمونہ ہمارے لئے چھوڑ گئے.اللہ تعالیٰ ہمیں تمام خلفاء کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ہجرت مدینہ کے چھٹے سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں دیکھا کہ آپ اپنے صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں.چنانچہ ذی قعدہ 6 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ کو لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے.قریش کو علم ہوا تو انہوں نے مقابلہ کی تیاریاں شروع کر دیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے قریب پہنچ کر حدیبیہ کے مقام پر قیام فرمایا اور صحابہ سے مشورہ مانگا.صحابہ نے عرض کیا کہ حضرت عمرؓ کو سفیر بنا کر بھیجا جائے تا وہ قریش کو سمجھائیں کہ ہم صرف زیارت کعبہ اور عمرہ کے لیے آئے ہیں لڑنا ہمارا مقصد نہیں.حضرت عمرؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! کیا میں آپ کو ایسے شخص کا نہ بتاؤں جو اس کام کے لیے زیادہ موزوں ہے اور قریش کی نظر میں خاص عزت رکھتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں بتاؤ وہ شخص کون ہے؟ حضرت عمرؓ نے حضرت عثمان کا نام لیا.حضور نے حضرت عمرؓ کی تجویز کو منظور فرمایا.اس طرح حضرت عثمان وہ خوش قسمت شخص ٹھہرے جن کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا سفیر بنا کر مکہ مکرمہ بھیجا.لیکن جب ان کے آنے میں دیر ہوگئی اور یہ سمجھ لیا گیا کہ شاید انہیں قریش نے شہید کر دیا ہے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا بدلہ لینے کا فیصلہ فرمایا اور ایک درخت کے نیچے صحابہ سے بیعت لی اور آخر میں اپنے ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ پر رکھ کر حضرت عثمان کی طرف سے بیعت لی.یہ بیعت رضوان اور بیعت شجرہ کے نام سے مشہور ہے.لیکن تھوڑی دیر بعد ان کے واپس آجانے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور
3 2 صحابہ کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی.اس کے بعد قریش اور مسلمانوں کے درمیان صلح کا معاہدہ طے پایا کہ مسلمان اگلے سال آ کر کعبہ کا طواف کر لیں.یہ تھے حضرت عثمان بن عفان جو قریش کے قبیلہ بنو امیہ سے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں کے سفیر حضرت عثمان بن عفان کوئی معمولی انسان نہ تھے.سرخ و سفید خوبصورت چہرہ والا یہ نوجوان ایام جاہلیت میں بھی اچھے کردار کا مالک تھا.انہوں نے شروع میں ہی اسلام قبول کر کے اپنے آپ کو ان ابتدائی مسلمانوں کے گروہ میں شامل کر لیا تھا جن کی قرآن کریم نہایت قابل رشک الفاظ میں تعریف فرماتا ہے.انہوں نے خدا کی راہ میں بے دریغ مال خرچ کیا.وہ بہت با حیا اور شریف انسان تھے.ان کی خوبیوں کا شمار نہیں کیا جا سکتا.وہ بہت نرم دل رکھتے تھے.انہوں نے ہزاروں غلاموں کو آزاد کیا.مدینہ میں کوئی گلی ایسی نہ تھی جہاں ان کا خرید کردہ آزاد غلام چلتا پھرتا نظر نہ آئے.وہ کاتب وحی اور قرآن کریم کے ابتدائی حفاظ میں سے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیوں سے یکے بعد دیگرے آپ کی شادی ہوئی.انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر اس قدر خدمت اسلام کی توفیق ملتی رہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے متعلق فرمایا : وہ اب جو چاہے کرے خدا اس کو نہیں پوچھے گا.جس کا مطلب تھا کہ اب اس سے اللہ کی مرضی کے خلاف کوئی کام ہو ہی نہیں سکتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان دس خوش نصیب مہاجرین میں شامل فرمایا جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس شوریٰ کے رکن تھے اور جن پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص اعتماد تھا اور انہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت کی بشارت دی تھی ، اس لیے عشرہ مبشرہ کہلائے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے اور حضرت ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت عمر خلیفہ ہوئے.ان دونوں خلافتوں کے دوران حضرت عثمان ان کے مشیر اور امین و معتمد رہے حتی کہ حضرت عمر کی شہادت کے بعد اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلیفہ بنایا.اس وقت آپ کی عمر ستر سال تھی.بڑھاپے کے باوجود خلافت کی ذمہ داریاں پوری وفا کے ساتھ نبھاتے رہے.ان کے عہد خلافت میں اسلامی سرحدوں میں مزید وسعت پیدا ہوئی.اسلام کا پیغام معلوم دنیا تک پہنچ گیا.حضرت عثمان کو قرآن سے خاص عشق تھا.آپ نے سارے عالم اسلام میں قرآن کریم کی اشاعت کا سنہری کارنامہ سرانجام دیا.پہلا بحری بیڑا بھی عہد عثمانی میں ہی بنا.خدا کی راہ میں آپ آزمائے بھی گئے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے شہادت کے اعلیٰ مقام پر سرفراز فرمایا.شہادت سے ایک رات پہلے آپ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں فرمایا تھا کہ عثمان آج شام روزہ ہمارے ساتھ کھولنا.شہادت کے وقت آپ کی عمر بیاسی سال تھی.آپ سچے عاشق قرآن تھے.جب آپ کو شہید کیا گیا اس وقت آپ قرآن کریم کی تلاوت فرما رہے تھے.آپ نے ایک بھر پور خدمت دین سے معمور زندگی گزاری.خدا کی ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں حضرت عثمان پر جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جانشینی میں اپنے عہد کو خوب نبھایا اور مصائب اور مشکلات میں بھی صبر و رضا کا دامن نہ چھوڑا اور اپنا معاملہ خدا کے سپرد کر دیا.آؤ بچو! آپ کو حضرت عثمان کی کہانی سنائیں! ابتدائی حالات حضرت عثمان قریش کے قبیلہ بنو امیہ میں اصحاب الفیل کے واقعہ سے پانچ سال بعد سن 575 عیسوی میں مکہ میں پیدا ہوئے.آپ کے والد کا نام عفان اور والدہ صاحبہ کا نام اروی تھا.آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عمر میں پانچ سال اور حضرت ابو بکڑ سے اڑھائی سال چھوٹے تھے جب کہ حضرت عمرؓ سے آپ آٹھ سال اور حضرت علی سے 25 سال بڑے تھے.
5 4 آپ کے والد کپڑے کے تاجر تھے اور کافی امیر آدمی تھے.اس لیے آپ کی پرورش بڑے ناز و نعمت سے ہوئی.بچپن سے ہی آپ کی طبیعت نیکی کی طرف مائل تھی.شرم وحیا حد درجہ تھی.آپ کے والدین نے آپ کی اچھی تربیت کی اور لکھنا پڑھنا سکھایا.اس زمانہ میں سکول وغیرہ تو تھے نہیں اس لیے صرف وہی لوگ لکھنا پڑھنا سیکھ سکتے تھے جو بہت امیر اور با اثر خاندانوں میں سے ہوتے تھے.آپ کو بُرے کاموں سے نفرت تھی.آپ ہمیشہ بُرے کاموں سے بچتے تھے.بڑے ہو کر آپ نے اپنے خاندانی پیشہ تجارت کو اپنایا جس کے باعث آپ کو کئی دوسرے ملکوں میں بھی جانے کا موقع ملا.قبول اسلام آپ کی عمر اس وقت 34، 35 سال تھی جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خدا کے حکم سے دعوی نبوت فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم قریش کے قبیلہ بنو ہاشم میں سے تھے اور آپ بنو امیہ میں سے تھے.اپنے والد کی طرف سے پانچویں اور والدہ کی طرف سے چوتھی پشت میں آپ کا تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتا تھا.اگر چہ آپ کے بزرگوں یعنی حرب بن امیہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا حضرت عبدالمطلب کے درمیان قریش کی سرداری کا جھگڑا ہوا تھا اور بنو ہاشم اور بنوامیہ کے تعلقات زیادہ اچھے نہ رہے تھے تا ہم آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے بلند اخلاق کی وجہ سے بہت اچھا سمجھتے تھے.تجارت میں محنت اور دیانتداری کی وجہ سے ساری قوم نے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صادق اور امین کا خطاب دیا تھا.اس زمانے میں تجارت ہی سب سے زیادہ عزت والا پیشہ شمار ہوتا تھا.حضرت ابوبکر کا بھی یہی پیشہ تھا اور ان کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوستانہ تعلقات تھے اور حضرت ابو بکر کے ساتھ حضرت عثمان کے بھی دوستانہ تعلقات تھے.حضرت ابو بکر صدیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے میں سب پر سبقت لے گئے.ان دنوں حضرت عثمان تجارت کے سلسلہ میں شام گئے ہوئے تھے.واپس آئے تو حضرت ابوبکر نے حضرت عثمان بن عفان ، حضرت زبیر بن العوام، حضرت عبد الرحمن بن عوف ، حضرت سعد بن ابی وقاص اور حضرت طلحہ بن عبیداللہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی.یہ پانچوں حضرات اسلام قبول کرنے کے لیے تیار ہو گئے.چنانچہ حضرت ابوبکر ان کو لے کر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بہت خوش ہوئے.چنانچہ باری باری سب نے بیعت کی.ان میں حضرت عثمان سب سے پہلے بیعت کرنے والے بنے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے افراد یعنی حضرت خدیجہ، آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ ، چچا زاد بھائی حضرت علی ( جو حضور کے گھر میں بچوں کی طرح پرورش پا رہے تھے ) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق کے بعد جو مرد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لایا وہ حضرت عثمان بن عفان تھے.اس لئے ایک لحاظ سے اسلام لانے والوں میں آپ کا دوسرا نمبر اور دوسرے لحاظ سے پانچواں نمبر بنتا ہے.بہر حال حضرت عثمان اسلام میں داخل ہونے والے اس پیشر وگروہ میں شامل ہوئے جنہیں السَّابِقُونَ الاَوَّلُون یعنی سب سے پہلے ایمان لانے والے کہا جاتا ہے.جن کی قرآنِ کریم نہایت خوبصورت الفاظ میں تعریف فرماتا ہے.حضرت رقیہ سے نکاح تین سال تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبلیغ کے سلسلہ کو قدرے مخفی رکھا اور اپنے ملنے والوں یا آگے ان کے ملنے والوں تک تبلیغ کا دائرہ محدودرہا.دعویٰ نبوت کے چوتھے سال آغاز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے کھلم کھلا تبلیغ کرنے کا حکم دیا اور جلد ہی مکہ
7 6 کے گلی کوچوں میں اسلام کا چرچا ہونے لگا جس کے نتیجہ میں قریش مکہ نے مخالفت کی اور جولوگ مسلمان ہو چکے تھے ان کو واپس اپنے ماں باپ کے دین بت پرستی میں لانے کے لیے ظلم شروع کر دیا.غالباً حضرت عثمان کے والد عفان فوت ہو چکے تھے اور آپ کے چچا حکم بن ابی العاص ہی آپ کے لئے باپ کی طرح تھے.انہوں نے آپ کو خوب مارا پیٹا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے سے روکنے کے لیے آپ کے پاؤں میں بیٹریاں ڈال دیں.آپ نے صبر و تحمل سے کام لیا اور ان مصائب کی کچھ پرواہ نہ کی.چند دن بعد آپ کے چچانے غصہ میں آکر آپ کو گھر سے نکال دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان میں سے سب سے زیادہ مخالفت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چا ابو لہب نے کی اور وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن بن گیا.ابولہب کی بیوی ام جمیل بنت حرب بن امیہ بھی اس کے ساتھ شامل تھی.تھوڑا ہی عرصہ پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو صاحبزادیوں، حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثوم کے نکاح ابولہب کے دو بیٹوں سے ہوئے تھے اور رخصتی ہونا ابھی باقی تھی.ابو لہب اور اس کی بیوی نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں اپنے بیٹوں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادیوں کو طلاق دلوادی.حضرت عثمان بہت نیک با عزت، خوبصورت اور شریف نوجوان تھے اور اپنے خاندان سے الگ کر دئیے گئے تھے.اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی صاحبزادی رقیہ کا نکاح حضرت عثمان سے کر دیا.اسلام لانے سے پہلے بھی آپ نے دوشادیاں کیں.آپ کی پہلی بیوی کا نام ام عمر و بنت جندب اور دوسری بیوی کا نام فاطمہ بنت ولید تھا.پہلی بیوی سے آپ کے پانچ بچے اور دوسری میں سے تین بچے پیدا ہوئے.آپ کے بڑے بچے کا نام عمر و تھا.اس لئے آپ ابو عمرو کہلاتے تھے.یہ بیویاں اسلام کے دشمنوں کی اولاد میں سے تھیں.دوسری بیوی تو ولید بن مغیرہ کی بیٹی تھیں اور ولید بن مغیرہ مکہ کا بڑا سردار تھا اور ابو جہل کے قریبی رشتہ داروں میں سے تھا.معلوم ہوتا ہے کہ اسلام لانے کے نتیجہ میں حضرت عثمان کو اپنے بیوی بچوں سے الگ کر دیا گیا تھا اور آپ کو ان حالات میں مکہ میں بہت خطرہ تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی سے شادی کے نتیجہ میں ان کے لیے خطرات اور بڑھ گئے.ہجرت حبشہ مکہ میں دن بدن قریش کے سرداروں کے منصوبوں کی وجہ سے مسلمانوں کے لئے تکالیف کا سلسلہ بڑھ رہا تھا اور حضرت عثمان کو بھی سخت خطرہ تھا.ان حالات میں بعض مسلمان مردوں اور عورتوں کو حبشہ ہجرت کی اجازت مل گئی.حبشہ جسے ایسے سینیا اور ایتھوپیا بھی کہتے ہیں،عیسائی ملک تھا اور وہاں ایک رحمدل عادل بادشاہ حکومت کرتا تھا، جسے نجاشی کہتے تھے.نجاشی نے اپنے ملک میں مذہبی آزادی دے رکھی تھی.تجارت کی وجہ سے چونکہ حبشہ کے حالات پہلے سے معلوم تھے اس لیے جن لوگوں کے لیے مکہ میں زیادہ خطرات تھے انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حبشہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی.چنانچہ نبوت کے پانچویں سال رجب کے مہینہ میں گیارہ مرد اور چار عورتیں حبشہ ہجرت کر گئے.ان میں حضرت عثمان اور ان کی بیوی حضرت رقیہ بھی شامل تھیں.حضرت رقیہ کے بطن سے عبداللہ پیدا ہوئے.اس لیے حضرت عثمان کی کنیت ابو عمرو کی بجائے ابوعبداللہ ہوگئی.کہتے ہیں کہ حضرت عثمان کا یہ بیٹا حبشہ میں پیدا ہوا تھا.مکہ میں کچھ عرصہ بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چا حضرت حمزہ اور حضرت عمر بن خطاب
8 کے اسلام لانے سے کفار نے تکلیف دینے اور دکھ پہنچانے میں اضافہ کر دیا.چنانچہ نبوت کے چھٹے سال مجبوراً مزید 83 مرد اور 18 عورتیں ہجرت کر کے حبشہ چلے گئے.جب آپ حبشہ ہجرت کر کے تشریف لے گئے تو آپ ہی امیر قافلہ تھے.حبشہ میں اپنے مختصر قیام کے دوران آپ کو تبلیغ کی بھی توفیق ملتی رہی.اس طرح آپ بھی ان چند خوش نصیبوں میں سے تھے جنہیں اسلام کے آغاز میں ہی بیرونِ ملک تبلیغ کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.اسی دوران حبشہ میں یہ افواہ پھیلی کہ مکہ کے تمام لوگ مسلمان ہو گئے ہیں.چنانچہ یہ خوش خبری سن کر بعض لوگ واپس آگئے.ان میں حضرت عثمان ، ان کی اہلیہ حضرت رقیہ اور صاحبزادہ عبداللہ بھی شامل تھے.مکہ پہنچ کر معلوم ہوا کہ کفار نے جھوٹی افواہ پھیلا ئی تھی تاکہ مسلمان واپس آجائیں اور ان کا تختہ مشق بنیں.حبشہ سے واپس آکر حضرت عثمان نے مکہ میں رہائش اختیار کر لی اور اپنی خاندانی وجاہت اور قریش میں اپنے امتیازی مقام کے باعث قریش مکہ کے سرداروں نے آپ کو آپ کے حال پر چھوڑ دیا اور آپ تجارت اور تبلیغ اسلام میں لگ گئے.ہجرت مدینہ تک دینی خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعوی نبوت کے بعد تیرہ سال تک مکہ میں رہے اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ ہجرت فرمائی.ان تیرہ سالوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کو بڑی مشکلات میں سے گزرنا پڑا لیکن مشکلات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعوت الی اللہ کے کاموں میں وسعت پیدا کرتے رہے اور حضرت ابوبکر، حضرت عمرؓ، حضرت عثمان، حضرت علی اور اکثر ابتدائی صحابہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس اہم کام میں مدد کر تے رہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہ کر آپ کا ایمان دن بدن ترقی کر رہا تھا اور آپ دین کی خدمت میں لگ گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوتا تھا.چنانچہ قرآن مجید کا جتنا حصہ نازل ہوتا تھا اس کو حضرت عثمان سمیت صحابہ حفظ کر لیتے تھے.حضرت عثمان رضی اللہ عنہ چونکہ بہت ذہین اور پڑھے لکھے نوجوان تھے اور آپ کا حافظہ بہت عمدہ تھا اس لیے آپ قرآن کریم کو ساتھ ساتھ زبانی یاد کرتے رہے اور اس طرح آپ ابتدائی حافظوں میں شمار ہوتے ہیں.مکہ میں قیام کے دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کے اردگرد پھیلے ہوئے قبائل میں تشریف لے جاتے اور تجارتی منڈیوں میں یعنی عکاظ ، مجنہ اور ذوالمجاز کے مقامات پر پہنچ کر عرب کے مختلف قبائل کو جو وہاں مقررہ مہینوں میں آتے تھے تبلیغ اسلام فرماتے.حضرت عثمان بھی کئی مرتبہ اپنے آقا کے ساتھ ان تبلیغی سفروں پر تشریف لے جاتے.حج کے دنوں میں جو لوگ مکہ میں آتے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس جا کر خاص طور پر ان کو اسلام کی دعوت دیتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات آپ کو بھی ساتھ رکھتے.اس کے علاوہ حضرت عثمان کے چونکہ عرب میں کافی لوگوں سے تعلقات تھے اور آپ کا گھرانہ کافی مشہور تھا اس لیے آپ بھی تبلیغ کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے اور اپنے ملنے جلنے والوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جاتے.ان تبلیغی سفروں میں کفار مکہ خاص طور پر ابو جہل اور ابولہب وغیرہ پیچھا کرتے اور مختلف ذلیل حرکات کرتے اور لوگوں سے کہتے کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی مجنون ہیں ان کی باتوں میں نہ آنا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یہ فیصلہ کیا کہ جو وحی نازل ہوتی ہے وہ یاد کرنے
11 10 کے ساتھ ساتھ لکھ لی جائے تو آپ نے اس مقصد کے لیے چند خاص پڑھے لکھے صحابہ کو منتخب فرمایا.ان میں حضرت عثمان بھی تھے.چنانچہ حضرت عثمان کاتب وحی کے طور پر خدمت سر انجام دینے لگے اور آخری وقت تک اس خدمت کو جاری رکھا.اگر چہ مکہ میں سخت مخالفت تھی اور کفار مکہ لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے سے روکتے تھے لیکن پھر بھی بعض لوگ تحقیقات کے لیے باہر سے آتے تھے.حضرت عثمان کی مالی حالت چونکہ بہت اچھی تھی اور آپ کی بیوی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی تھیں اس لیے بعض خاص مہمانوں کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے گھر ٹھہراتے اور آپ ان کی مہمان نوازی کا خوب حق ادا فر ماتے.مالی قربانیوں میں حضرت عثمان “بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.قریش مکہ کے کئی غلام اسلام لانے میں سبقت لے گئے.ان کے ظالم آقا انہیں سخت جسمانی سزائیں دیتے تھے ایسے کئی غلاموں کو صحابہ ان کے مالکوں سے خرید کر آزاد کر دیتے تھے اور اس طرح وہ ان کے مزید ظلم وستم سے بیچ جاتے تھے.حضرت عثمان نے بھی کئی ایسے غلاموں کی قیمت ادا کرنے کی توفیق پائی.ہجرت مدینہ مکہ سے مدینہ ہجرت اسلام کی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے جہاں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زندگیوں کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے.مکہ میں مخالفت اس قدر بڑھ گئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے لیے اب مکہ میں رہنا ممکن نہ تھا.حج پر یثرب کے کچھ لوگوں نے نبوت کے گیارھویں سال میں اسلام قبول کیا.اگلے سال بارہ مردوں اور عورتوں نے مکہ والوں سے چھپ کر وادی عقبہ میں رات کے وقت بیعت کی.انہوں نے واپس جا کر خوب تبلیغ کی اور اگلے سال یعنی نبوت کے تیرھویں سال میں 72 مردوں اور دو عورتوں نے حج کے موقع پر اسی جگہ بیعت کی.بارھویں سال والی بیعت کو عقبہ اولیٰ اور نبوت کے تیرھویں سال ہونے والی بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے مشہور ہے.یثرب کے مسلمانوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور مکہ کے مسلمانوں کو اپنے پاس آنے کی پیش کش کی جسے اللہ تعالیٰ کے حکم سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قبول فرمالیا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ایک دو دو کر کے مکہ کے مسلمانوں کو بیٹرب ہجرت کرنے کی اجازت دے دی.حضرت عثمان بھی اپنی اہلیہ حضرت رقیہ کو ساتھ لے کر مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے.کفار مکہ کو علم ہوا کہ اکثر مسلمان بیٹرب ہجرت کر گئے ہیں تو انہوں نے تمام قبائل کے نمائندوں کو لے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کر لیا.اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہجرت کی اجازت مل گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی حضرت ابو بکر کو ساتھ لے کر ہجرت کر گئے.حضور کی آمد سے یثرب کا نام مدینہ النبی مشہور ہو گیا.یعنی نبی کا شہر اور بعد میں صرف مدینہ رہ گیا.جولوگ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ گئے تھے ان کو مہاجر کہا جاتا ہے اور مدینہ کے مسلمانوں کو جنھوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کیا تھا، اور آپ کی حفاظت کا وعدہ کیا تھا.انصار کا لفظی مطلب ”مدد کرنے والے“ ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انصار اور مہاجرین میں محبت و پیار کے رشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے انصار اور مہاجرین کو آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا.چنانچہ حضرت عثمان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انوش بن ثابت انصاری کا بھائی بنایا.حضرت عثمان معرب کے اس معاشرے میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اور بہت عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.اس لیے مدینہ کی سوسائٹی میں بھی آپ نے جلد اپنا
13 12 مقام بنالیا اور اپنے تجارتی کاروبار کو جاری رکھا.مدینہ میں بھی آپ کو بھر پور دینی خدمات کی توفیق ملی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہت مالی وسعت عطا فرمائی اور خدمت دین میں آپ نے بے دریغ خرچ کیا.کئی موقعوں پر مالی قربانی میں آپ سب صحابہ پر سبقت لے جاتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے نیک کاموں اور دینی خدمات سے بہت خوش ہوتے اور اپنی خوشنودی کا بعض اوقات اظہار فرما دیا کرتے تھے.حضرت ام کلثوم سے نکاح مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد حضرت عثمان کی بیوی حضرت رقیہ بیمار ہو گئیں.انہیں مدینہ کی آب و ہوا موافق نہیں آئی تھی.اس دوران قریش مکہ نے مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے ایک ہزار کا لشکر تیار کیا جو پوری طرح مسلح ہو کر مدینہ پر حملہ کرنے کے لیے مکہ سے روانہ ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تین سو تیرہ صحابہ کو ساتھ لے کر اس لشکر کو روکنے کے لیے مدینہ سے باہر نکلے.بدر کے مقام پر جنگ ہوئی.حضرت عثمان اپنی بیوی حضرت رقیہ کی بیماری کی وجہ سے اس جنگ میں شریک نہ ہو سکے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود انہیں مدینہ رک جانے کا ارشاد فرمایا تھا.اس جنگ میں مسلمانوں کو معجزانہ طور پر فتح نصیب ہوئی.ابوجہل اور بڑے بڑے سردارانِ قریش مارے گئے.مسلمانوں کے لیے یہ بڑی خوشی کا موقع تھا.جب حضرت زید بن حارثہ میدان جنگ سے فتح بدر کی خبر لے کر مدینہ پہنچے تو اسی روز حضرت رقیہ کا انتقال ہو چکا تھا.جس کا حضرت عثمان اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کو بہت دکھ ہوا.حضرت عثمان کی عجیب حالت تھی.ایک طرف آپ کو جنگ بدر میں شامل نہ ہونے کا دکھ اور دوسری طرف حضرت رقیہ کی وفات کا غم تھا.تا ہم آپ کے جذبہ جہاد کی قدر کرتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اصحاب بدر میں شامل فرمایا اور مال غنیمت سے حصہ بھی دیا.حضرت رقیہ کی وفات کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری صاحبزادی حضرت ام کلثوم کا نکاح آپ سے کر دیا.آنحضرت کی دو صاحبزادیوں کے ساتھ نکاح کے نتیجہ میں آپ ذوالنورین کے لقب سے مشہور ہو گئے جس کا مطلب ہے دونوروں والا.حضرت ام کلثوم سے حضرت عثمان کا نکاح ربیع الاول 3 ہجری میں ہوا اور تین ماہ بعد جمادی الآخر میں رخصتی عمل میں آئی.ان سے آپ کے ہاں کوئی اولا د نہیں ہوئی.4 ہجری میں حضرت امّم کلثوم کا بھی انتقال ہو گیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ان کی نماز جنازہ پڑھائی.حضرت عثمان کو بہت زیادہ صدمہ ہوا.اس موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اگر کوئی اور بیٹی ہوتی جس کی ابھی شادی نہ ہوئی ہوتی تو میں اس کو بھی عثمان کے عقد میں دے دیتا.اس کے بعد حضرت عثمان نے مختلف وقتوں میں چار مزید شادیاں کیں.آپ کی ان بیویوں کے نام یہ بیان کیے جاتے ہیں.فاختہ بنت غزوان ، بنت عیینہ، رملہ بنت شیبہ اور نائلہ بنت فراضہ.غلاموں کی آزادی عرب میں قدیم سے غلامی کا رواج تھا.بڑے بڑے لوگ غریب قوموں کے باشندوں کو خرید لیتے تھے اور پھر وہ غلام بن کر اپنے مالکوں کے رحم وکرم پر ہوتے تھے.بعض لوگ جنگوں میں دشمنوں کے قیدیوں کو غلام بنا لیتے تھے.اسلام نے اس کی ممانعت فرمائی اور
15 14 غلام آزاد کر نے کو ایک بہت بڑی نیکی قرار دیا.حضرت عثمان کافی مالدار آدمی تھے.آپ نے نہ صرف خود غلام آزاد کیسے بلکہ کئی مالکوں کو غلاموں کی قیمت ادا کر کے انہیں آزاد کیا.چنانچہ روایتوں میں آتا ہے کہ آپ نے ہزاروں غلاموں کو آزاد کیا اور مدینہ کی کوئی گلی ایسی نہ تھی جہاں آپ کا خرید کردہ آزاد غلام نظر نہ آئے.بعد میں اس نیک کام کو جاری رکھنے کے لیے آپ نے یہ معمول بنالیا کہ ہر جمعہ کے روز ایک غلام آزاد کیا کرتے تھے.مدینہ میں ایک امتیازی خدمت حضرت عثمان کو بعض غیر معمولی مالی خدمات کی سعادت ملی اور اس سعادت میں آپ منفر د نظر آتے ہیں.ہجرت مدینہ کے بعد مسلمانوں پر نہایت تنگی کا زمانہ تھا اور مہاجرین کی آبادکاری میں کئی مشکلات کا سامنا تھا.چنانچہ بنیادی ضرورتوں میں سے ایک پینے کا پانی تھا جس کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بڑی فکر رہتی تھی.دراصل مدینہ میں جہاں مسلمان آباد ہوئے میٹھے پانی کا صرف ایک ہی کنواں تھا جس کا مالک ایک یہودی تھا.وہ کنویں کا پانی فروخت کیا کرتا تھا.جن مسلمانوں کی حالت اچھی تھی وہ تو میٹھا پانی خرید لیتے تھے اور دوسرے کھاری پانی پر گزارہ کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن مسلمانوں میں تحریک فرمائی کہ یہودی سے میٹھے پانی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا جائے.کنویں کو عربی میں بھر کہتے ہیں.اس کنویں کا نام بستر رومہ تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص بئر رومہ کو خریدے وہ جنتی ہے.حضرت عثمان بہت رحمدل تھے.ان سے مسلمانوں کی تنگی دیکھی نہ جاتی تھی.چنانچہ آپ نے یہ کنواں خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کر دیا.اس طرح مہاجرین و انصار کی پینے کے پانی کی تکلیف دور ہوگئی اور آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کی.آپ نے اس کنویں کی قیمت ہیں ہزار یا بعض کے نزدیک پینتیس ہزار درہم ادا کی.صلح حدیبیہ میں بطور سفیر خدمات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ آجانے کے بعد کفار مکہ بار بارحملہ آور ہوتے رہے اور پانچ چھ سال تک کفار مکہ کی مسلمانوں کے ساتھ کئی جنگیں ہوئیں.سب سے پہلے جنگ بدر ہوئی جس میں حضرت رقیہ کی بیماری کی وجہ سے حضرت عثمان شامل نہ ہو سکے.جنگ احد میں حضرت عثمان شامل تھے.اس کے بعد مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ بھی جنگوں کا سلسلہ شروع ہو گیا.ہجرت کے پانچویں سال قریش مکہ نے عرب کے تمام قبائل کو ساتھ ملا کرفو جیں تیار کیں اور ابوسفیان کو سپہ سالار بنا کر مدینہ پر حملہ آور ہوئے.حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے گرد خندق کھدوا کر دفاع کیا.یہ مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش تھی.حضرت عثمان نے ان سب جنگوں میں حصہ لیا.اس کے بعد مدینہ کے ایک یہودی قبیلہ کے ساتھ جنگ ہوئی.اس میں بھی حضرت عثمان شامل تھے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان اور باقی صحابہ کو مدینہ آئے ہوئے چھ سال گذر چکے تھے اور مکہ والوں نے مسلمانوں کا حج بند کیا ہوا تھا.اس کا حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور تمام صحابہ کو بڑا رنج تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ ہر دم خانہ کعبہ کی طرف رہتی تھی بلکہ پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے اور مدینہ آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا تعالیٰ نے خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا.چنانچہ پانچوں وقت روزانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے مسلمان نماز پڑھتے تھے.لیکن حج ان کا بند کر دیا گیا تھا.ان حالات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ
17 16 وسلم نے ایک مبارک خواب دیکھا کہ آپ چودہ پندرہ سو صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں اور صحابہ کے سر کے بال پورے منڈے ہوئے ہیں یا چھوٹے چھوٹے کیسے ہوئے ہیں.آنحضرت نے خدائی حکم سمجھ کر چودہ پندرہ سو صحابہ کو ساتھ لیا اور طواف کے لیے کعبہ کی طرف روانہ ہوئے.قریش کو علم ہوا تو وہ جنگ کی تیاری کرنے لگے اور مکہ میں داخل ہونے کے تمام راستے بند کر کے کھڑے ہو گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کے قریب حدیبیہ کے مقام پر پہنچ کر قریش کے ساتھ بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا اور حضرت عثمان کو اسلام کا سفیر بنا کر قریش مکہ کے پاس بھیجا.جیسا کہ شروع میں لکھا جا چکا ہے کہ آپ کے بارے میں مشہور ہو گیا کہ شاید قریش نے آپ کو شہید کر دیا ہے.چونکہ آپ سارے مسلمانوں کے نمائندہ تھے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ اگر یہ خبر درست ہوئی تو ہم مکہ والوں سے جنگ کریں گے اور حضرت عثمان کا بدلہ لیں گے.یہ کوئی معمولی فیصلہ نہ تھا.اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ سے ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر بیعت لی اور آخر میں اپنا ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر خود ہی حضرت عثمان کی طرف سے بیعت لی.لیکن تھوڑی ہی دیر بعد حضرت عثمان تشریف لے آئے اور ان کی شہادت کی افواہ غلط ثابت ہوئی.دراصل آپ کے غیر مسلم رشتہ دار آپ سے ملنے لگ گئے تھے اس لیے آپ کو واپس آنے میں دیر ہوگئی.بہر حال آپ کے سمجھانے پر قریش حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کرنے کے لیے تیار ہو گئے تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش مکہ کے نمائندہ سہیل بن عمرو کے درمیان جنگ بندی کا با قاعدہ معاہدہ ہوا.جس کی کئی شرائط تھیں اور اگر بعد میں قریش اس معاہدہ کی خلاف ورزی نہ کرتے تو دس سال تک قریش اور مسلمانوں میں کوئی جنگ نہ ہوتی.بہر حال اس معاہدے کی رو سے یہ طے ہوا کہ اگلے سال مسلمان خانہ کعبہ کا طواف کر سکیں گے.اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صلح حدیبیہ کو فتح مبین یعنی کھلی کھلی فتح قرار دیا ہے.چونکہ امن قائم ہونے کے بعد اسلام کو غیر معمولی ترقی نصیب ہوئی اور اس دوران آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف حکمرانوں اور بادشاہوں کو تبلیغی خطوط روانہ فرمائے اور برسوں بعد صحابہ اپنے غیر مسلم رشتہ داروں اور تعلق داروں کے ساتھ مل بیٹھے اور افہام و تفہیم کے ذریعے اسلام کو کافی ترقی نصیب ہوئی.دوسال تک قریش اس معاہدہ پر قائم رہے اور اس دوران اتنے لوگ مسلمان ہوئے کہ جنگ کے دنوں میں مسلمان ہونے والوں سے آٹھ دس گنا زیادہ ہوں گے اور اسلام کا پیغام روم اور ایران کے بادشاہوں قیصر و کسری کے ایوانوں تک پہنچ گیا.چند ایک خاص صحابہ تھے جن سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بادشاہوں کے نام تبلیغی خطوط لکھوائے اور ان صحابہ میں حضرت عثمان بطور خاص شامل تھے.اسلام کے سفیر کے طور پر حضرت عثمان کا حدیبیہ میں خدمت سرانجام دینا آپ کی زندگی کا ایک نہایت اہم واقعہ ہے اور اپنے دُور رس نتائج کے پیش نظر ایک بہت بڑی خدمت ہے.معاہدے کے مطابق صلح حدیبیہ کے اگلے سال یعنی 7 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ مکہ روانہ ہوئے اور کعبہ کا طواف فرمایا.جسے عمرہ کہتے ہیں کیونکہ حج کے مخصوص دنوں کے علاوہ جب بھی حج کی طرح کعبہ کا طواف کیا جائے تو اسے عمرہ کہتے ہیں.اس سفر میں حضرت عثمان بھی شامل تھے اور اس طرح کئی سالوں کی بندش کے بعد طواف کعبہ اور مناسک کے دوران آنحضرت کے ساتھ حضرت عثمان کو بھی باقی صحابہ کی طرح اللہ تعالیٰ سے بہت دعائیں کرنے کی توفیق ملی.
19 18 垲 صلح حدیبیہ کے دو سال بعد اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ رنگ دکھایا کہ 8 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کے ہاتھوں مکہ معجزانہ طور پر فتح ہو گیا جس کا عام حالات میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا.اس کی وجہ یہ ہوئی کہ قریش مکہ نے صلح حدیبیہ کی شرائط کی خلاف ورزی کی اور مسلمانوں کے حلیف پر حملہ آور ہوئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ہزار صحابہ کے ساتھ مکہ پر چڑھائی کی اور مکہ والوں نے مقابلہ کیے بغیر ہتھیار ڈال دیئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دیگر صحابہ فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوئے.حضرت عثمان بھی ان میں شامل تھے.یہ غیر معمولی واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی دعاؤں اور قربانیوں کا نتیجہ تھا.اگر چہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے موقعہ پر عام معافی کا اعلان کر دیا تھا لیکن چند ایک کفار کے اتنے گھناؤنے جرائم تھے کہ ان کے قتل کا حکم تھا.ان میں عبداللہ بن سعد بن ابی سرح بھی تھے جو حضرت عثمان کے رضاعی بھائی تھے.حضرت عثمان بہت رحمدل تھے.ان کے دل میں تحریک پیدا ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کر کے اپنے رضاعی بھائی کو بچالیا جائے.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمة للعالمين تھے اور حضرت عثمان کی قدر کرتے تھے اس لیے حضرت عثمان کے درخواست کرنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو معاف فرما دیا.یہ ابتداء میں مسلمان تھے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب وحی تھے.بعد میں ان کو ٹھوکرلگی اور اسلام سے منحرف ہو گئے اور بعض سنگین جرائم کے مرتکب ہوئے.پیارے بچو! اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہ دعا سکھائی ہے.رَبَّنَا لَا تُزِعُ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْهَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ - یعنی.اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تو ہمیں ہدایت دے چکا ہو.اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر.یقینا تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے.ہم سب کو اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کثرت سے کرنی چاہیے.چنانچہ فتح مکہ پر معافی کے نتیجے میں تو بہ کر کے پھر مسلمان ہو گئے.حضرت عثمان جب خلیفہ ہوئے تو آپ نے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کو مصر کا گورنر مقرر کیا.فتح مکہ کے نتیجہ میں بڑے بڑے سرداران قریش بھی اسلام میں داخل ہوئے جو حضرت عثمان کے خاندان میں سے تھے.چنانچہ ابوسفیان نے اسی موقعہ پر اسلام قبول کیا.صلح حدیبیہ اور فتح مکہ کے دوران مکہ کے دو بہت بڑے سرداروں کے بیٹے اسلام میں داخل ہوئے جنھوں نے بعد میں قیصر و کسری کو شکست دی اور شام اور عراق اور مصر فتح کیا.ان میں خالد بن ولید سر فہرست ہیں.ان کے علاوہ عاص بن وائل کے بیٹے عمرو بن العاص بھی قابل ذکر ہیں جو حضرت عثمان کے چازاد بھائی تھے.فتح مکہ کے موقعہ پر ابو جہل جیسے سخت ترین دشمن کا بیٹا عکرمہ بھی اسلام میں داخل ہوا.گویا صلح حدیبیہ اور فتح مکہ نے ایک انقلاب پیدا کر دیا.مسجد نبوی کی توسیع ہجرت مدینہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کے ساتھ وقار عمل کر کے مسجد تعمیر فرمائی تھی جو مسجد نبوی کہلاتی ہے.اس مسجد کے ساتھ ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
21 20 امہات المومنین کے لیے رہائشی کمرے بنوائے تھے جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت نے رہائش اختیار کی.جوں جوں اسلام پھیل رہا تھا مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی اور مسجد نبوی نا کافی ہوگئی تھی.چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی توسیع کا منصوبہ بنایا اور صحابہ کو تحریک فرمائی کہ مسجد کے اردگرد کے مکانات خرید کر مسجد میں شامل کر لیے جائیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو جو مسجد نبوی کی توسیع کے لیے ارد گرد کے مکانات خریدنے کے لیے مالی قربانی کرے گا جنت کی بشارت دی.حضرت عثمان کو مالی وسعت حاصل تھی اور آپ کے اندر مالی قربانی کا جذبہ بہت بڑھا ہوا تھا.آپ نے فوراً 25-30 ہزار درہم کا انتظام کیا اور مسجد نبوی کے اردگرد کے مکانات اور زمین وغیرہ خرید کر مسجد نبوی میں شامل کر دئیے.آپ کی اس قربانی اور دینی خدمت کو قیامت تک آنے والی نسلیں یا درکھیں گی.بعد میں اپنی خلافت کے زمانہ میں آپ نے مسجد نبوی کے فرش اور چھت وغیرہ کو بھی پکا کر وایا.غزوہ تبوک فتح مکہ کے بعد سارے عرب میں اسلام پھیل گیا اور بعض یہودی قبائل کو پہلے ہی ان کی وعدہ خلافیوں اور سازشوں کی وجہ سے مدینہ سے نکالا جا چکا تھا.پھر خیبر میں بھی ان کو شکست ہوئی اور وہ قیصر روم کی حکومت میں چلے گئے.ان کی ریشہ دوانیوں اور کئی اور وجوہات کی بنا پر قیصر روم نے شام کی سرحد پر فوجیں جمع کر کے مسلمانوں پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوعلم ہوا تو آپ کو بہت تشویش ہوئی کیونکہ ایک تو مدینہ میں قحط پڑا ہوا تھا دوسرے چند ہزار مسلمان لاکھوں کی تعداد میں رومی فوجوں کا مقابلہ کس طرح کر سکتے تھے.تا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد کا اعلان فرمایا اور مالی قربانی کی تحریک فرمائی.اس موقع پر صحابہ نے انتہائی قربانی کا نمونہ پیش کیا اور جس کے پاس جو کچھ تھا اپنی ایمانی کیفیت کے مطابق لے آیا اور دیکھتے ہی دیکھتے تھیں ہزار کا لشکر تیار ہو گیا.اس سے قبل کسی بھی جنگ کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اتنا بڑا لشکر تیار نہیں ہوا تھا.اتنے بڑے لشکر کے لیے کھانے پینے کا سامان اور سواریوں اور جنگی ہتھیاروں کا انتظام کرنا کوئی معمولی کام نہ تھا.حضرت عثمان نے اس موقع پر ایک ہزار اونٹ جن میں سے سواناج سے لدے ہوئے تھے، سویا پچاس گھوڑے اور دس ہزار دینار نقد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کیسے اور فوج کے ایک تہائی کے لیے ہر قسم کی ضروریات پیش فرما ئیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عثمان کی اس غیر معمولی قربانی سے اس قدرخوش ہوئے کہ آپ نے فرمایا کہ اب عثمان جو چاہیں کریں خدا ان کو نہیں پوچھے گا.گویا آپ کی انتہائی درجہ کی نیکی پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اظہار خوشنودی تھا جس میں یہ اشارہ تھا کہ آپ سے سوائے نیکی کے اور کوئی فعل سرزد نہ ہو گا.حضرت عثمان خود بھی اس غزوہ میں شامل ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عرب کے سرحدی علاقوں میں گئے جو شام کے ساتھ تھے.جہاں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف سرحدی قبائل کے ساتھ معاہدے کیے اور چونکہ قیصر روم کی فوجوں والا خطرہ ٹل گیا تھا اس لیے واپس تشریف لے آئے اور کوئی جنگ وغیرہ نہ ہوئی.یہ وہی موقع تھا جب صحابہ نے ایک دوسرے سے بڑھ کر قربانی پیش کرنے کی کوشش کی.چنانچہ حضرت عمر اپنے گھر کا آدھا ساز و سامان لے کر آئے اس خیال سے کہ آج حضرت ابو بکڑ سے بڑھ جاؤں گا اور
23 22 جب حضرت ابو بکر آئے تو حضرت عمر اور دوسرے صحابہ یہ سن کر حیران رہ گئے کہ گھر کا سارا سامان لے کر آگئے ہیں اور گھر میں خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے سوا کچھ چھوڑ کر نہیں آئے.اس موقع پر بعض اور غریب صحابہ بھی تھے جو چند کھجور میں یا چند درہم لے کر آئے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قربانی کو بھی قبول فرمایا.کتابت وحی جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے حضرت عثمان کو جو خدمات اسلام کے لیے سرانجام دینے کی سعادت نصیب ہوئی ان میں سے ایک نمایاں خدمت قرآن کریم کی کتابت ہے.آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کاتب وحی کا کام کیا کرتے تھے.حضرت ابن عباس رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چا زاد بھائی تھے.وہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عثمان فرمایا کرتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر جب آیات اکٹھی نازل ہوتی تھیں تو آپ اپنے کاتبین وحی میں سے کسی کو بلا کر ارشاد فرماتے تھے کہ ان آیات کو فلاں سورت میں فلاں جگہ پر لکھو اور اگر ایک ہی آیت اترتی تھی تو پھر بھی اسی طرح کسی کا تب وحی کو بلا کر اور جگہ بتا کر اسے تحریر کرا دیتے تھے.کتابت وحی کا کام کئی اور صحابہ بھی کرتے تھے اور ابتداء میں قرآن کریم چمڑے کے ٹکڑوں ، پتھر کی سلوں اور کھجور کی چھال وغیرہ پر متفرق رنگ میں لکھا جاتا تھا.حضرت عثمان کو کتابت وحی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق آیات اور سورتوں کی ترتیب کا کام کرنے کی خدمت بھی نصیب ہوئی اور یہ سلسلہ سارے قرآن کریم کے نزول اور آخری ترتیب تک جاری رہا.عہد نبوی میں متفرق خدمات دعوی نبوت کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 13 سال مکہ اور دس سال مدینہ میں رہے اور 12 ربیع الاول 11 ہجری کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا.حضرت عثمان بھی چونکہ نہایت ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر آپ کو کم و بیش بائیس تئیس سال خدمات کی توفیق ملتی رہی.غزوہ بدر کے علاوہ حضرت عثمان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تمام غزوات میں شامل ہونے کی توفیق ملی سوائے ایک آدھ موقع کے جب خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو مدینہ چھوڑ گئے تھے اور آپ شریک نہ ہو سکے.10 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری حج کیا جو حجتہ الوداع کے نام سے مشہور ہے.اس موقع پر حضرت عثمان حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے.حج پر ہزاروں صحابہ کا اجتماع تھا جو تاریخ اسلام میں ایک خاص واقعہ ہے.غرض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ کو ہر تحریک اور ہر نیکی میں شامل ہونے کی توفیق ملی اور آپ کی ان عظیم الشان خدمات کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو بے شمار دینی اور دنیوی نعمتوں سے نوازا.تین خاص موقعوں پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو جنت کی بشارت دی.وہ مواقع یہ ہیں.1.بئر رومہ کی خریداری -2 مسجد نبوی کی توسیع 3.غزوہ تبوک کے لیے امداد.آپ کی مالی قربانیوں کے نتیجہ میں آپ کو غنی کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے.دعوت الی اللہ کے کاموں میں بھی حضرت عثمان کسی سے پیچھے نہ تھے.ابتدائے اسلام میں ہی آپ نے حبشہ ہجرت فرمائی اور وہاں اپنے مختصر قیام میں اسلام کا پیغام پہنچایا.
25 24 آپ بہت خوش اخلاق تھے اور آپ کی شرافت، شرم و حیا اور جود وسخا کی وجہ سے آپ کے قریش کے شرفاء کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے.آپ کو خدا تعالیٰ نے عقل وفراست سے نوازا تھا اس لیے دعوت الی اللہ کا کوئی موقع آپ ضائع نہیں کرتے تھے اور آپ کی مقبولیت اور نیک شہرت کی وجہ سے لوگ کھل کر آپ سے تبادلہ خیال کرتے اور کئی کئی دن آپ کے پاس رہ کر آپ کی مہمان نوازی سے بھی لطف اندوز ہوتے.حضرت ابوبکر کے دور میں خدمات حضرت ابو بکر کے دور خلافت میں ایک فتنہ نمودار ہوا جس میں قبائل عرب نے بغاوت کر دی.یہ فتنہ ختم ہوا تو عراق اور شام کے ساتھ جنگیں شروع ہو گئیں.حضرت ابوبکر نے یہ پسند فرمایا کہ حضرت عمرؓ، حضرت عثمان اور حضرت علیؓ جیسے جلیل القدر صحابہ کو میدان جنگ کی بجائے اپنے پاس مدینہ میں ہی رکھا جائے.حضرت عثمان بھی حضرت ابو بکر صدیق" کے خاص مشیروں اور معتمدین میں سے تھے اور آپ کا دست و بازو بن کر خدمات کی توفیق پاتے رہے.حضرت ابو بکر کے امور خلافت میں آپ نہایت قیمتی مشورے دیا کرتے تھے.بعض ضروری خطوط اور حالات لکھنا بھی آپ کے ذمہ تھا.حضرت ابوبکر کے زمانہ میں آپ کو مالی خدمات کی بھی توفیق ملتی رہی.چنانچہ ایک مرتبہ مدینہ میں سخت قحط پڑا.انہیں دنوں حضرت عثمان کے ایک ہزار غلہ کے اونٹ باہر سے آئے.مدینہ کے دوسرے تاجروں نے بہت سا روپیہ دے کر غلہ خریدنا چاہا لیکن آپ کے دل میں غریبوں کے لیے ہمدردی تھی وہ غالب رہی اور سارا غلہ مدینہ کے غرباء کے لیے وقف کر دیا.حضرت ابو بکر آپ کے اس فعل سے بہت خوش ہوئے.اپنی خلافت کے دوران حضرت ابوبکر جب حج کے لیے مکہ تشریف لے گئے تو آپ کو مدینہ میں اپنا نائب بنا کر چھوڑ گئے.حضرت ابو بکڑ نے وفات سے قبل حضرت عمرؓ کو خلیفہ نامزد کر نے کا ارادہ کیا اور اس کے لیے بعض بزرگ صحابہ سے مشورہ لیا.جب آپ سے پوچھا تو آپ نے حضرت ابوبکر کی خدمت میں عرض کیا کہ جہاں تک میں جانتا ہوں ان کا باطن ان کے ظاہر سے بھی اچھا ہے اور ہم میں سے کوئی شخص ان کے برابر نہیں.چنانچہ حضرت ابو بکر نے آپ کا مشورہ قبول فرمایا اور حضرت عمرؓ کو اپنے بعد خلیفہ نامزد فر مایا اور اس کے لیے باقاعدہ ایک عہد نامہ لکھوایا.حضرت ابو بکر کے ارشاد پر اس عہد نامہ کی تحریر حضرت عثمان نے تحریر فرمائی.حضرت عمرؓ کے دور میں خدمات حضرت ابو بکر کی وفات کے بعد حضرت عمرؓ خلیفہ ثانی بنے اور حضرت عمرؓ کی خلافت کا آغاز 22 جمادی الثانی 13 ہجری مطابق 22 اگست 634ء کو ہوا.حضرت عمر اگر چہ عمر میں حضرت عثمان سے چھوٹے تھے اور بعد میں ایمان لائے تھے لیکن آپ حضرت عمر کی اسی طرح اطاعت کرتے تھے جس طرح حضرت ابو بکر کی کرتے تھے.حضرت عمرؓ بھی آپ کی بہت قدر کیا کرتے تھے.اور آپ سے اہم معاملات میں مشورہ لیتے تھے.حضرت عمر کے عہد میں مسلمانوں کو غیر معمولی فتوحات نصیب ہوئیں.حضرت عمر نے بھی حضرت ابو بکر کی طرح ممتاز صحابہ کو مدینہ میں رکھنا پسند فرمایا اور انہیں میدان جنگ میں نہ بھیجا.حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے جب استحکام سلطنت کے لیے مختلف محکمے بنائے تو آپ کو صدقات کے حساب کتاب پر مامور فرمایا.آپ امین خلافت کہلاتے تھے.حضرت عمر فاروق کا زمانہ خلافت دس سال کے لگ بھگ تھا اور اس قلیل عرصہ میں
27 26 اسلام کو ہر لحاظ سے غیر معمولی ترقیات نصیب ہوئیں.اسلامی سلطنت مشرق میں افغانستان اور ہند کی سرحدوں تک اور مغرب میں مصر کی آخری حدود تک ، شمال میں شام سے آگے تک اور جنوب میں یمن سے آگے تک پہنچ چکی تھی.چنانچہ ملکی انتظام اور استحکام سلطنت کے لیے حضرت عمرؓ نے غیر معمولی اصلاحات فرما ئیں اور مذہبی آزادی اور امن قائم کیا.بنی نوع انسان کی فلاح و بہبود کے لیے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے.اس کے پیچھے یقیناً حضرت عثمان اور دوسرے جلیل القدر صحابہ کے قیمتی مشورے، محنت اور بے لوث خدمات بھی کارفرما رہیں جو حضرت عمر فاروق کے عہد کو سنہری عہد بنانے کا باعث بنے.حضرت عمر فاروق پر 23 ذی الحجہ 23 ہجری کو قاتلانہ حملہ ہوا.حضرت عمرؓ نے خلافت کے انتخاب کے لیے ایک کمیٹی مقرر کر دی.حضرت عمرؓ نے فرمایا ” عثمان بن عفان، علی بن ابی طالب عبد الرحمن بن عوف، سعد بن ابی وقاص، طلحہ بن عبید اللہ ، زبیر بن العوام اور عبداللہ بن عمر کے مشورے سے کسی ایک کو میری وفات سے تین دن کے اندراندر خلیفہ مقررکر لینا.“ یہ سب ان جلیل القدر صحابہ میں سے تھے جنہیں حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم پر سب سے پہلے ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی اور حضرت عمرؓ کے عہد تک انہوں نے اسلام کی بہترین خدمات سرانجام دی تھیں اور نظام خلافت کی پوری پوری اطاعت کر کے دکھائی تھی.حضرت عثمان کا دور خلافت حضرت عمر کی وفات 27 ذی الحجہ 23 ہجری کو ہوئی اور اس کے تین دن بعد حضرت عثمان کو کثرت رائے سے خلیفہ ثالث منتخب کیا گیا.حضرت عثمان اب 70 سال کے ہو چکے تھے.آپ نے 35 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا.23 سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر خدمات کی توفیق پائی اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق کی خلافتوں کے دوران جن کا عرصہ بارہ سال سے کچھ زیادہ بنتا ہے خدمات سرانجام دیں لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں خلیفہ بن کر بھی آپ نے مزید اتنے سال خدمت دین کی توفیق پانی تھی جتنے سال مجموعی طور پر حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی خلافتوں کا زمانہ بنتا ہے.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض پیشگوئیاں بھی آپ کے خلیفہ بننے کے بارہ میں موجود تھیں جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا: عثمان ! اللہ تعالیٰ تم کو ایک گر نہ پہنائے گا.اگر لوگ تم سے یہ مطالبہ کریں کہ اس گرنہ کو اتار دو تو تم ہر گز اس کو نہ اتارنا.اس پیشگوئی میں حضرت عثمان کی خلافت کی پوری تصویر کھینچ دی گئی تھی کہ آپ خلیفہ ہوں گے اور دورانِ خلافت کو ئی فتنہ نمودار ہو گا اور فتنہ کرنے والے آپ کو خلافت چھوڑنے پر مجبور کریں گے تا کہ خلافت راشدہ کسی طرح ختم ہو جائے اور مسلمانوں کی وحدت اور طاقت منتشر ہو جائے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نصیحت فرمائی کہ ایسی صورت میں اپنے منصب پر مضبوطی سے قائم رہنا ہے.چنانچہ حضرت عثمان کے دور خلافت میں جہاں اسلام کو مزید ترقیات نصیب ہوئیں اور سلطنت کو وسعت ملی وہاں فتنوں نے بھی سر اٹھایا اور بالآخر آپ بھی شہید ہو گئے.انتخاب خلافت جن جلیل القدر صحابہ کی خلافت ثالثہ کے انتخاب کے لیے کمیٹی بنائی گئی تھی انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور پھر حضرت عبدالرحمن بن عوف نے ان کی نمائندگی میں تین دن تک گلیوں اور بازاروں میں پوشیدہ طور پر بھی لوگوں کی رائے معلوم کرنے کی کوشش کی.اکثر لوگوں کے دلوں کو خدا تعالیٰ نے حضرت عثمان کی طرف جھکا دیا تھا.
29 28 حضرت عمر فاروق کی وصیت کے مطابق ان کی وفات کے تیسرے دن تمام مسلمان مسجد نبوی میں اکٹھے ہوئے.حضرت عبد الرحمن بن عوف نے حضرت عثمان کو محراب میں بلایا اور کہا کہ پہلے خدا کو حاضر ناظر جان کر عہد کریں کہ قرآن کریم اور سنت نبوی اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر فاروق کے طریق پر چلیں گے اور جب حضرت عثمان نے عہد کر لیا تو حضرت عثمان کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر پہلے حضرت عبدالرحمن بن عوف نے بیعت کی اور اس کے بعد تمام حاضرین نے حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کی.جس روز انتخاب ہوا وہ یکم محرم 24 ہجری مطابق 7 نومبر 644ء کا دن تھا.خلیفہ ثالث کا پہلا خطاب بیعت لینے کے بعد خلیفہ ثالث حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے اور ایک معرکۃ الآراء تقریر کی جس کا خلاصہ یہ ہے فرمایا: ”لوگو! خدا سے ڈرو اور مال و دولت کے فتنہ میں پڑنے سے اپنے آپ کو بچاؤ.امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا اور دنیا کے مال و متاع جیسا کہ خدا وند تعالیٰ نے فرمایا ہے لہو ولعب اور زینت کا سامان ہے اور آپس میں فخر وغرور کا باعث ہے.یاد رکھو! اموال و اولاد کی کثرت اس بارش کی مانند ہے جو خشک و بنجر زمینوں کو سرسبز و شاداب بنا دے اور کفار اس کے نتائج میں لہلہاتے ہوئے کھیتوں کو دیکھ کر خوش ہو جائیں اور فخر و غرور کرنے لگیں.پھر ایک تیز و تند ہوا آئے اور ان کھیتوں کو خشک کر کے زرد بنا دے اور پھر ان کا ریزہ ریزہ کر کے اڑا دے.آخرت میں خدا کا سخت عذاب بھی ہے اور بخشش درحمت بھی اور دنیا کی زندگی تو صرف غرور کی کنجی ہے.دنیا میں بہترین شخص وہ ہے جو خدا پر بھروسہ رکھے اور اس کی پناہ میں رہے اور اللہ اور اس کی کتاب کو مضبوط پکڑے رہے.لوگو! مجھے تمہاری راہنمائی کی اہم خدمت سپرد کی گئی ہے.اس کام میں میں صرف خدا ہی کی مدد چاہتا ہوں اور بھلائی کی توفیق خدا ہی کی طرف سے ملتی ہے.میں خدا سے ہی توفیق کا طالب ہوں.اسی پر میرا بھروسہ ہے اور اسی کی طرف میں رجوع کرتا ہوں.“ یہ کہہ کر آپ منبر سے نیچے اتر آئے اور تمام لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے.اس کے بعد حضرت عثمان نے مختلف صوبوں کے حاکموں اور فوج کے افسروں کے نام فرمان جاری کیسے کہ رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کا برتاؤ کرو اور جس طرح سابقہ خلفاء کے زمانے میں مذہبی اور سیاسی امور کو نیک نیتی اور تن دہی سے انجام دیتے آئے ہو اسی پر کام کرتے چلے جاؤ.نظام حکومت حضرت عمرؓ جو نظام حکومت چھوڑ گئے تھے اسی کو آپ نے جاری رکھا اور کوئی خاص تبدیلی نہ فرمائی.البتہ بعد میں ضرورت کے مطابق آپ نے بعض گورنر تبدیل فرمائے.چنانچہ حجاز کے صوبہ میں کوئی تبدیلی نہ فرمائی.کوفہ میں تبدیلی کے بارے میں حضرت عمر وصیت فرما گئے تھے.ان کی وصیت کے مطابق مغیرہ بن شعبہ کو ہٹا کر سعد بن ابی وقاص کو کوفہ کا گورنر مقرر کر دیا.بصرہ کے گورنر ابو موسیٰ اشعری تھے.کوفہ میں شورش اٹھی تو آپ نے ابو موسیٰ اشعری کو بصرہ سے تبدیل کر کے کوفہ بھیج دیا اور بصرہ میں عبداللہ بن عامر کو گورنر مقرر کر
31 30 دیا.شام کے گورنر حضرت عمرؓ کے عہد سے امیر معاویہ بن ابوسفیان تھے اور آخر تک وہی رہے.مصر کے گورنر عمرو بن العاص تھے.بعد میں عبداللہ بن سعد ابی سرح کو گورنر مصر بنا دیا گیا.افریقہ کی فتح آپ کے زمانہ میں ہوئی اور وہاں کا گورنر عبداللہ بن نافع کو بنادیا گیا.حضرت عثمان کی خلافت کے اہم واقعات وفتوحات اسلام کی ترقی کو دیکھ کر دشمن نے تلوار کے زور سے اسے روکنا چاہا.چنانچہ صلح حدیبیہ کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بادشاہوں کو جب تبلیغی خطوط لکھے تو اس وقت فارس اور روم کی دو عظیم الشان سلطنتیں دنیا پر حکومت کرتی تھیں.فارس کی سلطنت عراق، ایران اور براعظم ایشیا کے اکثر علاقے پر مشتمل تھی.روم کی حکومت پہلے تمام یورپ ، مصر اور ایشیائے کو چک تک پھیلی ہوئی تھی اور اس کا مرکز اٹلی کا شہر روم تھا.بعد میں اس حکومت کے دو ٹکڑے ہو گئے.مغربی روم کی حکومت کا مرکز تو اٹلی کا شہر روم ہی رہا لیکن مشرقی روم کا مرکز قسطنطنیہ ہو گیا.مشرقی روم کی حکومت شام، فلسطین، مصر، حبشہ اور ایشیائے کو چک پر مشتمل تھی.فارس کا حکمران اعلیٰ کسری فارس کہلاتا تھا اور روم کا حکمران اعلیٰ قیصر روم کہلاتا تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو تبلیغی خطوط روانہ فرمائے تھے.کسری فارس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خط جلا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گرفتاری کا حکم دے دیا اور جنگ کی تیاری کرنے لگا.ادھر شام کے غسانی بادشاہ کو جب دعوت اسلام بھیجی گئی تو اس نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد کو شہید کر دیا.چنانچہ 9 ہجری میں جنگ موتہ سے اس کے ساتھ جنگوں کا آغاز ہو گیا تھا.قیصر روم ہر قل نے کثیر فوجیں شام میں بھیج دیں اور اس طرح فارس اور روم کے ساتھ مسلمانوں کی جنگیں شروع ہوگئیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ خندق کے موقع پر ایک پتھر توڑتے ہوئے کشفی نظارہ دکھایا گیا تھا کہ مسلمانوں کے ہاتھوں یہ علاقے فتح ہوں گے.چنانچہ حضرت ابو بکڑ کے زمانہ میں حضرت خالد بن ولید اور ان کے ساتھیوں کے ذریعے جنوبی عراق اور شام کا کچھ حصہ فتح کرلیا گیا تھا اور شام میں دمشق کا محاصرہ جاری تھا کہ حضرت ابو بکر مدینہ میں وفات پاگئے اور حضرت عمرؓ خلیفہ ہوئے.حضرت عمرؓ کے زمانہ میں فارس کی طرف عراق، مدائن، ایران میں آذربائیجان، طبرستان، آرمینیا، کرمان، سیستان ، مکران اور خراسان تک کے علاقے فتح ہو گئے تھے اور روم میں شام، فلسطین، بیت المقدس اور مصر فتح ہو چکے تھے اور مفتوحہ علاقوں کو صوبوں میں تقسیم کر کے ایک عظیم الشان اسلامی سلطنت قائم ہو چکی تھی لیکن رومی اور ایرانی اپنی طاقت جمع کر کے اپنے علاقے واپس لینے کی کوشش کر رہے تھے اور جنگ و جدل کا سلسلہ ابھی جاری تھا کہ 23 ہجری میں حضرت عمرؓ کا وصال ہو گیا اور حضرت عثمان خلیفہ ہوئے.حضرت عثمان کے عہد میں بھی رومیوں اور ایرانیوں کے ساتھ کئی جنگیں ہوئیں.بعض علاقوں کو دوبارہ فتح کرنا پڑا اور کئی نئے علاقے فتح ہو کر اسلامی پرچم تلے جمع ہو گئے.حضرت عمرؓ نے عراق میں دریائے فرات کے کنارے کوفہ نام کا ایک شہر تعمیر کروایا تھا جس کے وسط میں ایک جامع مسجد تعمیر کروائی تھی.جس میں چالیس ہزار مسلمان نماز پڑھ سکتے تھے.اسی طرح عراق اور ایران کی سرحد پر بصرہ بھی حضرت عمر نے ہی تعمیر کروایا تھا اور ان دونوں اہم شہروں میں مسلمان آباد ہوئے تھے.اس زمانہ میں عراق کے تمام مقامات آرمینیا تک کوفہ کے ماتحت تھے اور ایران کے مقبوضات بصرہ کے ماتحت تھے.حضرت عثمان کے عہد خلافت میں ان دونوں صوبوں کی فوج نے بعض مواقع پر اکٹھے اور بعض پر اکیلے ایران کی آخری حدود تک علاقوں کو فتح کر لیا اور ایران کا آخری بادشاہ یزدگرد مارا گیا اور ایران کے ساسانی خاندان کا خاتمہ ہوا.
33 32 آذربائیجان، آرمینیا ، طبرستان، فارس، خراسان، طخارستان، بلخ ، خوارزم، کے مقامات فتح ہوئے اور فتوحات کا بل اور زابلستان سے آگے پہنچ گئیں.شام کا ملک پہلے چار صوبوں دمشق، اردن جمص اور قنسرین پر مشتمل تھا.بعد میں فلسطین کو بھی شام میں شامل کر لیا گیا.حضرت عمرؓ کے عہد میں امیر معاویہ اردن اور دمشق کے گورنر مقرر ہوئے پھر حضرت عثمان کے عہد میں سارے ملک شام کے گورنر بنا دیئے گئے.معاویہ کا مقابلہ زیادہ تر رومیوں سے رہتا تھا اور چونکہ دشمن بحری راستہ سے بھی حملہ کرتے تھے اس لئے حضرت عثمان کے عہد میں پہلی مرتبہ مسلمانوں نے بحری بیڑا بنایا.امیر معاویہؓ نے رومیوں سے بحری جنگیں کر کے شام کا ساحلی علاقہ اور قبرص وغیرہ فتح کر لیے اور قسطنطنیہ پر بھی لشکر کشی کی لیکن قسطنطنیہ فتح نہ ہو سکا.مصر میں عمرو بن العاص گورنر تھے.رومیوں نے ہر قل سے امداد طلب کر کے ایک ز بر دست بحری بیڑا روانہ کیا اور رومی فوجیں اسکندریہ میں اتر گئیں.عمرو بن العاص نے مقابلہ کر کے اسکندریہ کو فتح کرلیا.حضرت عثمان کے عہد کی فتوحات میں شمالی افریقہ کی فتح ایک شاندار فتح کی حیثیت رکھتی ہے.اسکندریہ کے معرکہ سے فارغ ہو کر عمرو بن العاص حضرت عثمان کی اجازت سے عبد اللہ بن سعد کے زیر کمان ایک لشکر تیار کر کے افریقہ کی جانب روانہ ہوئے.انہوں نے طرابلس فتح کیا.بعد میں عبداللہ بن سعد کو ہی حضرت عثمان نے مصر کا گورنر بھی مقرر کر دیا.عبداللہ بن سعد اور عبداللہ بن نافع نے مل کر طرابلس سے طنجہ تک کا علاقہ فتح کیا.وہاں قیصر کی طرف سے جر جبیر ( گریگوری ) بادشاہ تھا.یہاں لمبا عرصہ لڑائی ہوئی.مدینہ سے دور ہونے کی وجہ سے حضرت عثمان کو خبر میں کم ملتی تھیں.چنانچہ آپ نے عبداللہ بن زبیر کو شکر دے کر عبد الله بن سعد کی مدد کے لیے بھیجا.جرجیر ( گریگوری ) نے اعلان کیا کہ جو شخص مسلمانوں کے سردار کا سرکاٹ کر لائے گا ایک لاکھ دینا ر ا سے انعام دیا جائے گا.نیز وہ اپنی بیٹی فلپانا کا نکاح بھی اس سے کر دے گا.اسلامی لشکر نے عبداللہ بن سعد کو پیچھے رہنے کا مشورہ دیا.جب عبداللہ بن زبیر کمک لے کر پہنچے تو انہوں نے اعلان کیا جو شخص جر جیر گریگوری کو قتل کرے گا ایک لاکھ دینار اسے انعام دیا جائے گا اور اُس کی بیٹی فلپانا سے اس کا نکاح کر دیا جائے گا نیز اسے بعقو بہ کا والی مقرر کر دیا جائے گا.اس سے مسلمانوں کے حوصلے بڑھ گئے اور چند دنوں میں رومی پسپا ہو گئے.جرجیر ( گریگوری) عبداللہ بن زبیر کے ہاتھوں قتل ہوا.شمالی افریقہ کی فتح کے بعد حضرت عثمان نے افریقہ کا الگ صوبہ بنا دیا اور اس کا گورنر عبدالله بن نافع کو مقرر فرمایا.مصر کی حکومت عبد اللہ بن سعد کے پاس رہی.عبداللہ بن سعد کو حضرت عثمان نے مال غنیمت کا پانچواں حصہ بطور انعام دیا جس کا وہ پہلے وعدہ کر چکے تھے.اور عبد اللہ بن زبیر کو ایک لاکھ روپیہ دیا اور جرجیر ( گریگوری) کی بیٹی کی شادی عبداللہ بن زبیر سے کر دی گئی.30 ہجری کے قریب رومیوں نے مصر اور شام اور شمالی افریقہ کو واپس لینے کے لیے پوری تیاری کے ساتھ چھ سوکشتیوں کا ایک جنگی بیڑا تیار کیا اور سواحل شام سے لے کر اسکندریہ تک پھیلا دیا.مصر سے عبداللہ بن سعد اسکندریہ کی طرف بڑھے اور شام سے امیر معاویہؓ کو بحری بیڑا بھجوانے کا ارشاد ہوا.خشکی کی جنگ میں قیصر روم قسطنطین خود بھی شامل ہوا.بحری جنگ امیر معاویہؓ نے خود لڑی.مسلمانوں نے اپنی تمام کشتیوں کو آپس میں باندھ لیا اور رومیوں کو بھگا دیا.اس جنگ میں مسلمانوں کو بہت سی کشتیاں ملیں جن کو اسلامی بیڑے میں شامل کر لیا گیا اور اس طرح مسلمانوں کا بحری بیڑا بہت مضبوط ہو گیا.اس سے پہلے اسلامی فوجوں کو
35 34 بحری جنگوں کا موقع نہیں ملا تھا.حضرت عثمان کے عہد خلافت میں فتوحات کا سلسلہ 35 ہجری تک جاری رہا اور اسلامی سلطنت بہت وسیع ہوگئی.دعوت الی اللہ اور تعلیم و تربیت فتوحات کے نتیجہ میں اسلامی ریاست میں غیر معمولی وسعت پیدا ہوگئی تھی.حضرت عثمان نے پہلے خلفاء کی طرح دعوت الی اللہ کے کاموں میں اور اسلام میں داخل ہونے والے نئے لوگوں کی تعلیم و تربیت کے لیے کئی انتظامات کیے.ان کاموں میں نئی مساجد کی تعمیر اور درس و تدریس کا کام بطور خاص شامل ہے.جو منصوبے اشاعت دین حق اور مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کے لیے حضرت عمر نے جاری فرمائے تھے آپ نے ان کو آگے بڑھایا.مساجد کی تعمیر کے بعد ان میں ائمہ اور موذن مقرر فرمائے کیونکہ تعلیم و تربیت کا بہترین ذریعہ مسجد کو ہی سمجھا جاتا تھا جہاں باجماعت نمازوں کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کا سلسلہ جاری تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض صحابہ مفتوحہ علاقوں میں آباد ہو گئے.صوبوں کے اکثر حاکم صحابہ اور ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے اور قرآن وحدیث کے درس کا وہی اہتمام کرتے تھے.چنانچہ خادم رسول حضرت انس بصرہ میں آباد تھے.وہ قرآن اور حدیث کا درس دیا کرتے تھے جنہیں بڑی کثرت سے لوگ سنتے تھے اور تربیت حاصل کرتے تھے.حضرت عثمان نے سارے عالم اسلام میں جمعہ کی نماز کی ادائیگی کی طرف خاص توجہ دلائی اور نماز جمعہ سے پہلے دوسری اذان آپ کے زمانہ میں شروع ہوئی تا کہ لوگوں کو اس طرف متوجہ کیا جا سکے کہ خطبہ شروع ہو چکا ہے.حج کے موقع پر تمام صوبوں سے لوگ بڑی کثرت سے شامل ہوتے تھے.حضرت عثمان کا خطبہ سنتے تھے اور آپ سے شرف ملاقات حاصل کرتے تھے.مدینہ اور مسجد نبوی تعلیم و تربیت کے سب سے بڑے مراکز تھے جہاں دین سکھانے کا باقاعدہ انتظام تھا.غرض یہ کہ ہر صوبے میں دعوت الی اللہ اور تعلیم و تربیت کا کام جاری رہا.تمام مذاہب کو آزادی حاصل تھی اور انہیں اپنے طریقے کے مطابق عبادت کی بھی مکمل آزادی حاصل تھی.اشاعت قرآن قرآن کریم جب پورا نازل ہو چکا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کی وحی کے مطابق اس کی ترتیب فرمائی.حضرت ابوبکر خلیفہ ہوئے تو انہوں نے قرآن کریم کی وحی کو جو مختلف کا تہوں نے لکھی تھی اور مختلف رسم الحظ میں تھی اکٹھا کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ترتیب کے مطابق کر کے محفوظ کر دیا.پیارے بچو! عرب قبائل کے مختلف لہجے تھے جس میں ایک ہی لفظ کو مختلف طریق سے ادا کیا جاتا ہے.شروع میں قرآن شریف نازل ہوا تو ان مختلف لہجوں میں اسے پڑھنے کی اجازت تھی.حضرت عثمان کے زمانہ میں جب قرآن شریف کے نسخے ساری دنیا میں بھجوانے کی ضرورت محسوس ہوئی تو حضرت عثمان نے اختلافات کے اندیشہ سے یہ فیصلہ فرمایا کہ ان نسخوں کو ایک لیجے پر لکھا جائے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قریش کا لہجہ تھا.چنانچہ آپ نے ایسا ہی کیا اور ایسے نسخے تیار کروا کر عالم اسلام میں بھجوا دیئے.آپ کی یہ خدمت ہمیشہ یاد رکھی جائے گی.مسجد نبوی کا پختہ کروانا ابھی تک مسجد نبوی کا فرش کچا تھا اور چھت کھجور کی شاخوں اور لکڑی سے بنی ہوئی تھی.
37 36 بارش کے ایام میں چھت ٹپکتی تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں حضرت عثمان نے مسجد نبوی کے ملحقہ مکانوں کو خرید کر مسجد نبوی کی توسیع کرنے کی نمایاں خدمت کی تھی.اپنی خلافت کے دوران آپ نے اپنے پاس سے پیسہ خرچ کر کے مسجد کا فرش، دیوار میں اور چھت پختہ کروائی.تعمیرات کے منصوبے حضرت عثمان کے دور خلافت میں کئی نئی تعمیرات ہوئیں.وسیع تعمیرات کے منصوبے بنے اور رفاہ عامہ کے کام ہوئے.حضرت عثمان نے کئی پبلک عمارات بنوائیں.سڑکیں، پل، مسافر خانے اور سرائیں تعمیر ہوئیں.کوفہ کی سرائے کو وسیع کیا گیا.مدینہ اور نجد کی راہ میں نئی سرا ئیں بنوائی گئیں.راستوں پر میٹھے پانی کے کنویں کھدوائے گئے.مرکز اسلام مدینہ کو سیلاب سے بچانے کے لیے ایک بند بنوایا گیا.ایک برساتی نہر کھود کر اس کا رخ تبدیل کیا گیا.ہر صوبے کی بنیادی ضروریات کو مد نظر رکھ کر تعمیرات کے منصوبے بنائے گئے.غرضیکہ حضرت عثمان کے دور خلافت میں ہر طرح سے وسعت پیدا ہوئی.آپ ذاتی دلچسپی لے کران منصوبوں کو مکمل کروایا کرتے تھے.آپ کے عہد میں جو علاقے فتح ہوئے تھے ان میں فوجی چھاؤنیاں تعمیر کی گئیں.اسی طرح قومی چراگاہوں میں بھی اضافہ کیا گیا اور لوگوں کو پہلے کی نسبت زیادہ سہولتیں میسر آنے لگیں.فتنوں کا ظہور اور حضرت عثمان کی شہادت جہاں ملک پر ملک فتح ہوتے گئے اور فوج در فوج لوگ اسلام میں داخل ہوتے رہے وہاں حضرت عثمان کی خلافت کے نصف آخر میں فتنوں نے سر اٹھایا.بعض غیر تربیت یافتہ نومسلموں نے پرانے مسلمانوں کے ساتھ حسد اور رقابت شروع کر دی اور خلیفہ وقت کی طرف سے مقرر کیے ہوئے حکمرانوں پر تنقید کی.مال ودولت کے لالچ میں اور شریعت کی پابندیوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے وہ چاہنے لگے کہ یہ نظام درہم برہم ہو کر حکومت ان کے ہاتھوں میں آجائے.لیکن ان فتنوں کا اصل محرک ایک یہودی عبداللہ بن سبا تھا جو یمن کا رہنے والا اور نہایت بد باطن انسان تھا.اسلام کی بڑھتی ہوئی ترقی کو دیکھ کر عبداللہ بن سبا اس غرض سے مسلمان ہوا کہ کسی طرح مسلمانوں میں فتنہ ڈلوائے اور دوست بن کر دشمن کا کام کرے اور اتفاق کی آڑ میں اختلاف پیدا کرے اور نیکی کے پردے میں بدی کی تحریک کرے.یہ شخص حضرت عثمان کی خلافت کے پہلے نصف میں مسلمان ہوا اور تمام اسلامی ممالک کا دورہ اس غرض سے کیا کہ ہر جگہ کے حالات سے خود واقفیت پیدا کرے اور اپنے مطلب کے آدمیوں کا انتخاب کر کے مختلف ملکوں میں شرارت کے مراکز قائم کرے.اس وقت سیاست کے مرکز بصرہ کوفہ، دمشق اور فسطاط تھے.پہلے اس نے ان مقامات کا دورہ کیا اور حکومت کے سزا یافتہ لوگوں کو اپنا ہم خیال بنایا.تین سال اس نے اپنی کارروائی کو خفیہ رکھا اور پھر کھلم کھلا لوگوں میں غلط اور جھوٹی باتیں پھیلا کر خلافت کے بارہ میں بدظن کرنے کی کوشش کرتا رہا.اس نے یہ عقیدہ پیدا کیا کہ ہر نبی کا ایک وصی ہوتا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصی حضرت علی ہیں.مصر میں اس نے ایک خفیہ جماعت تیار کی اور اپنے نمائندے دوسرے صوبوں میں اپنے خیالات کی اشاعت کے لیے بھجوائے.حضرت عثمان کو جب اس خفیہ تحریک کا علم ہوا تو آپ نے بعض صحابہ کو مختلف صوبوں میں بھجوایا.آپ کے نمائندے صوبوں میں امن وامان کی خبر لائے تاہم
39 38 حضرت عثمان نے تمام گورنروں کو مدینہ بلوا کر مشورہ کیا اور فیصلہ فرمایا کہ نرمی سے ایسے لوگوں کو تمام گورنر اپنے اپنے ملک میں سمجھائیں اور خود بھی سختی کرنے سے اجتناب کیا.آپ نے فرمایا کہ مجھے ڈر ہے کہ یہ وہی فتنہ نہ ہو جس کی خبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دے چکے ہیں.امیر معاویہؓ نے آپ کو شام اپنے ساتھ لے جانے کی پیش کش کی لیکن آپ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر مدینہ کو چھوڑنا مناسب نہ سمجھا اور نہ ہی امیر معاویہ کو اجازت دی کہ وہ آپ کی حفاظت کے لیے مدینہ میں فوجیں بھیجیں.عبداللہ بن سبا اور اس کے ساتھیوں نے فیصلہ کیا کہ مختلف لوگوں کے وفودمدینہ بھیج کر حضرت عثمان پر الزام لگائے جائیں اور آپ کو خلافت سے علیحدہ ہونے کے لیے کہا جائے.چنانچہ 34 ہجری میں حج کے بعد اس کے کارندے مدینہ آئے.آپ پر اعتراض کر کے خلافت چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا.آپ نے ان کے بے بنیاد اعتراضات کے بڑے صبر وتحمل سے جواب دیئے.چنانچہ لا جواب ہو کر یہ لوگ مدینہ سے واپس جانے کے ارادہ سے نکل آئے.واپس جا کر انہوں نے مصر، کوفہ اور بصرہ میں اپنے ہم خیال لوگوں کو چٹھیاں لکھیں کہ عمرہ کے بہانہ سے نکل کر مدینہ میں جمع ہو جائیں اور حضرت عثمان کو شہید کر دیا جائے.چنانچہ ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ باغی ہزاروں کی تعداد میں مدینہ میں داخل ہوئے اور چند روز تک حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کئے رکھا.حضرت عثمان نے مدینہ کو خونریزی سے بچانے اور صحابہ کے وجودوں کو باقی رکھنے کے لیے تمام صحابہ حتی کہ اپنے گھر والوں اور مدینہ کے دوسرے مسلمانوں کو مسلح ہونے سے منع فرمایا.آپ کے منع کرنے کے باوجو دصحابہ کرام اور ان کے بچوں (جن میں حضرت علی کے بیٹے ، حضرت زبیر اور حضرت طلحہ کے بیٹے خاص طور پر قابل ذکر ہیں ) نے حضرت عثمان کے گھر کا پہرہ دینا شروع کر دیا.جب باغیوں نے گھر کے اندر داخل ہونا چاہا تو انہوں نے تھوڑی تعداد کے باوجود باغیوں سے مقابلہ کیا.یہ دیکھ کر باغیوں نے حضرت عثمان کے گھر کے دروازے کو آگ لگا دی اور ان میں سے بعض بد بخت ساتھ والے مکان سے دیوار پھلانگ کر گھر کے اندر داخل ہوئے اور حضرت عثمان کو شہید کر دیا.یہ 18 ذوالحجہ 35 ہجری مطابق 21 مئی 654 ء کا واقعہ ہے.کہتے ہیں جس وقت آپ کو شہید کیا گیا اس وقت آپ قرآن کریم کی تلاوت کر رہے تھے.آپ کی ایک بیوی نائلہ نے بچانا چاہا لیکن ان کی ہتھیلی کٹ گئی اور دشمن آپ کو شہید کرنے میں کامیاب ہو گئے.ان کا مقصد یہ تھا کہ خلافت اور مرکزیت دونوں ختم ہو جا ئیں.شہادت کے وقت آپ کی عمر 82 سال تھی.
41 40 تعلق باللہ حضرت عثمان کی سیرت کے چند پہلو حضرت عثمان نہایت متقی، پرہیز گار اور متوکل انسان تھے.آپ کی ساری عمر خدمت اسلام اور عبادات بجالانے میں گزری.بعض اوقات ساری ساری رات آپ سجدہ میں گرے رہتے تھے اور اللہ سے راز و نیاز کرتے رہتے تھے.معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو شہادت کی خبر پہلے ہی دے دی تھی.آپ کی خوش خلقی ، چہرے پر مسکراہٹ اور خوبصورتی بھی تعلق باللہ کے نتیجے میں تھی.نماز جمعہ کا آپ خاص اہتمام فرماتے تھے.روزے آخری عمر تک رکھتے رہے.حج با قاعدگی سے ادا کرتے اور زکوۃ ادا فرماتے تھے.محبت رسول آپ ان خاص صحابہ میں سے تھے جن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بطور خاص محبت تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی مرتبہ اپنی زندگی میں آپ سے راضی ہونے کا اظہار فرمایا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو بیٹیاں یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں اور آپ کو ذوالنورین کا خطاب ملا.آپ نے اپنی عملی زندگی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہر خواہش کو پورا کر کے دکھا دیا.چنانچہ مسجد نبوی کی وسعت، بستر رومہ کی خریداری اور غزوہ تبوک پر خاص قربانی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عشق و محبت کا ہی نتیجہ تھا.جب آپ کے گھر کا محاصرہ کیا گیا اور چند صحابہ اور ان کے بچوں نے آپ کی جان بچانا چاہی تو آپ نے سب کو غیر مسلح رہنے اور گھروں کو جانے کی ہدایت فرمائی کیونکہ آپ کو خواب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بشارت دے چکے تھے کہ آج شام روزہ ہمارے ہاں افطار کرنا اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے درمیان کسی چیز کو حائل نہ ہونے دیا.عشق قرآن حضرت عثمان قرآن کریم کے سچے عاشق تھے.تلاوت قرآن کریم میں کثیر وقت صرف کر دیتے تھے.آپ کی سب سے بڑی خدمت اشاعت قرآن ہے جو آپ نے اپنی خلافت کے دوران سرانجام دی.آپ قرآن کریم کے ابتدائی اور بہترین حفاظ میں سے تھے.لکھا ہے کہ صحابہ میں کتاب اللہ کا حافظ آپ سے بہتر کوئی نہیں تھا.جود وسخا خدمت دین اور خدا تعالیٰ کی مخلوق کے لیے آپ نے بہت مال خرچ کیا.کبھی کوئی سائل آپ کے دروازے سے خالی نہیں پھرا.ساری عمر خدا کے بندوں کے لیے بھی بے دریغ خرچ کیا.جب مدینہ میں قحط پڑا تو آپ نے اپنے خرچ پر ایک عام لنگر جاری فرمایا جہاں سے ہزاروں لوگ مہینوں تک سہولت سے کھانا حاصل کرتے رہے.آپ جب حج کو جاتے تو آٹھویں تاریخ کو منی میں حجاج کو اپنی طرف سے کھانا کھلایا کرتے تھے.صبر وتحمل ابتدا سے آپ میں بے حد صبر وتل، بردباری، طبیعت میں سادگی اور خوش اخلاقی تھی.
43 42 اسلام لانے کے بعد آپ نے صبر اور استقامت سے مصائب کو برداشت کیا اور خاص طور پر آپ کے عہد خلافت کے آخری سالوں میں جس فتنہ نے سر اٹھایا اس میں تو آپ نے صبر وتحمل کی حد کر دی.فتنہ کے انسداد کے لیے جب آپ کو بعض لوگوں نے سختی کرنے کا مشورہ دیا تو آپ نے فرمایا جن امور میں شریعت نے مجھے کسی پر سختی کرنے کی اجازت نہیں دی ان پر ہر گز سختی کو روانہیں رکھوں گا.خواہ اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے.“ آپ پر جھوٹ کے الزامات لگائے گئے.آپ کو نماز پڑھانے سے روک دیا گیا.آپ کا عصا جو دراصل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا اور ہر خلیفہ کے ہاتھ میں رہا تو ڑ دیا گیا.گھر کا محاصرہ کر لیا گیا.کھانے پینے کی چیزیں گھر آنے سے روک دی گئیں اور گھر کو آگ لگا کر نوبت آپ کو شہید کرنے تک پہنچ گئی.آپ نے نہ صرف خود انتہائی صبر و قتل سے کام لیا بلکہ صحابہ کو بھی قسم دے کر واپس بھجوا دیا کہ ان باغیوں کا مقابلہ صبر سے کیا جائے اور اپنا معاملہ پورے طور پر خدا کے سپر د کر دیا اور بڑی ہی بہادری اور جرات سے جام شہادت نوش فرمایا.حیا حضرت عثمان کی طبیعت میں حیا بہت تھی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے احساسات کا پورا خیال رکھتے تھے.یتیموں اور بیوگان کی خبر گیری آپ بہت رحمدل اور نرم مزاج تھے.ساری عمر یتامیٰ اور بیوگان اور غریبوں کی دل کھول کر مدد کرتے رہے.آخری وقت پر بھی آپ کے پاس یتامی اور بیوگان کی امانتیں تھیں جو آپ نے ام المومنین حضرت ام حبیبہ کے سپرد کیں.اپنی جان سے بھی زیادہ آپ کو ان امانتوں کا فکر تھا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بہت مال و دولت عطا فر مایا لیکن آپ نے اس کا اکثر حصہ دین کے کاموں ، یتامیٰ ، بیرگان اور غریبوں کی خبر گیری میں خرچ کر دیا.بچو! ابھی آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی کہانی سنی.انسان حیران ہوتا ہے کہ کس طرح آپ نے اسلام کی سربلندی، اشاعت قرآن اور خلافت کے قیام کے لیے اپنا مال، جان ، وقت اور عزت سب کچھ قربان کر دیا.بڑی وفا کے ساتھ اللہ کے کاموں میں لگے رہے اور فتنوں کے وقت با وجود طاقت اور قدرت کے بدی کا مقابلہ نہ کیا اور امن کا شہزادہ بن کر صبر کا ایسا نمونہ دکھایا کہ آنے والی نسلیں قیامت تک آپ کے پاک نمونہ سے سبق حاصل کرتی رہیں گی اور آپ پر درودوسلام بھیجتی رہیں گی.انشاء اللہ تعالی.(ختم شد)
نام کتاب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ.سوم