Hazrat Syed Muhammad Sarwar Shah

Hazrat Syed Muhammad Sarwar Shah

حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

آپ وہ عظیم بزرگ انسان تھے جو اپنے بچپن سے ہی نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے ۔ آپ آغاز سے سچائی پر کاربند، نما ز کے عادی اور علم دوست انسان تھے۔ اوائل جوانی میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام پر ایمان لائے اور اس پیارے کی بستی کے ہوکر رہ گئے۔ مسیح دوراں ؑ کے محبوب دوستوں میں داخل تھے  اور خلافت احمدیہ سے محبت، اطاعت ، وفا اور خدمت کا وہ معیار نبھایا کہ خود بھی بے مثال زندگی گزاری اور بعد میں آنے والوں کے لئے قابل تقلید نمونہ چھوڑ گئے۔


Book Content

Page 1

دیپاچه اللہ تعالی سے لولگا نا اور پھر محبت کے ساتھ اس تعلق کی حفاظت حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کرنا ایک بہت ہی نازک کام ہے.لیکن بعض وجود ایسے بھی ہوتے ہیں جو اللہ کی محبت میں ایسے کھو جاتے ہیں کہ دنیا اور اس کے سب سامانوں سے بے پرواہ ہو کر اسی کی ذات میں فنا ہو جاتے ہیں اور پھر اس فنا کے بعد ہمیشہ کی زندگی پا جاتے ہیں.زیر نظر واقعات بھی ایک ایسے ہی وجود کے ہیں جو ہم میں سے ہر ایک کو دعوت عمل دیتے ہیں کہ ہمیں بھی دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اللہ تعالی کی بیان کردہ راہوں پر آگے سے آگے بڑھتے چلے جانے کی کوشش کرنی چاہیے.

Page 2

1 پیش لفظ پیارے بچو! آپ کے ہاتھ میں ایک ایسے عظیم بزرگ کے بارے میں لکھی گئی کتاب ہے جو بچپن ہی سے نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے.خاندانی تعارف اور آپ کی پیدائش بہت نیچے ، نہایت پکے نمازی اور علم دوست تھے.اپنی جوانی کی ابتداء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لائے اور آہستہ آہستہ اللہ تعالیٰ کے پیارے مسیح کی بستی کے ہی ہو کر رہ گئے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے محبوب دوستوں میں سے تھے.خلافت احمدیہ سے محبت تو گویا آپ کی رگوں میں خون بن کر دوڑتی تھی.خود بھی بے مثال خدمت کی اور ہمارے لئے قابل تقلید نمونہ چھوڑ گئے.اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو! حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب نور اللہ مرقدہ مورخہ 10 ستمبر 1873ء( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ دوم صفحہ 101) میں ضلع مظفر آباد کشمیر کے ایک گاؤں گھنڈی میں پیدا ہوئے.آپ کا خاندان تعظیم صوفی بزرگ حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی اولا د میں سے ہے جو کشمیر کے علاقے میں آباد ہوا اور یہیں آپ کی خاندانی جائیداد تھی.آپ کے والد کا نام سید محمد حسن شاہ صاحب اور دادا سید زین العابدین صاحب تھے جن کے ایک بھائی شاہ محمد غوث صاحب تھے جو ایک ولی اللہ بزرگ تھے.ان کا مزار لاہور میں ہے.ابتدائی تعلیم ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ اول صفحہ 5 تا 12 ) ساڑھے چار سال کی عمر میں آپ کی باقاعدہ پڑھائی کا آغاز ہوا اور مروجہ طریق کے مطابق بغدادی قاعدہ شروع کیا.اس کے بعد آپ نے صرف دس ماہ میں قرآن مجید ناظرہ ختم کر لیا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اعلیٰ ذہنی صلاحیتیں عطا فرمائی تھیں.

Page 3

3 2 بچپن سے ہی آپ کی طبیعت اس قدر حساس تھی کہ آپ کے والد صاحب نے انہی دنوں کا ایک واقعہ ایسا ہے جس سے آپ کی ذہانت کا اندازہ لگایا جا سکتا آپ کے استاد کو کہ رکھا تھا کہ میرے اس بچہ کو آپ بالکل نہ ماریں.میرے دوسرے ہے.ابھی آپ نے لکھنا نہ سیکھا تھا کہ آپ کے والد صاحب ایک دفعہ ہزارہ گئے اور بچوں کو آپ مارتے بھی ہیں پھر بھی وہ پڑھتے ہیں مگر یہ نہیں پڑھے گا.اس کے باوجود ان کی غیر حاضری میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس کی اطلاع حضرت سید سرور شاہ صاحب آپ کے استاد صاحب نے ایک دن غصہ میں آپ کی پیٹھ پر تیج ماردی.جس کا نتیجہ یہ اپنے والد صاحب کو دینا ضروری سمجھتے تھے لیکن آپ یہ بھی پسند نہ کرتے تھے کہ اس کے ہوا کہ آپ بالکل خاموش ہی ہو گئے اور مسلسل تین دن تک یہی کیفیت رہی.بالآخر بارہ میں کسی اور کو معلوم ہو.اُس زمانے میں فارسی میں خطوط لکھنے کا رواج تھا اور آپ کو استاد آپ کو والد کے پاس لے گئے انہوں نے کہا کہ آپ نے ضرور بچہ کو مارا ہوگا.اس قدر فاری آتی تھی کہ اپنا مافی الضمیر ادا کر سکیں.چنانچہ آپ نے فارسی کی ایک استاد صاحب نے واقعہ سنایا کہ مارا تو نہیں صرف حقیہ کے طور پر ایک تسبیح ماری تھی.کتاب ” گلستان اپنے سامنے کھول کر رکھ لی اور جو لفظ لکھنا ہوتا اس میں سے تلاش کر والد صاحب نے کہا کہ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا کہ اسے مت ماریں.آئندہ کے لئے کے اس جیسی شکل کا غذ پر بنا لیتے.اس طرح آپ نے خط مکمل کر کے نوکر کے ہاتھ والد آپ طے کر لیں کہ جب یہ سبق یاد کر لے تو اسے چھٹی دے دیا کریں.خواہ چھٹی کا صاحب کو بھیج دیا.وقت ہو گیا ہو یا نہ ہوا ہو.والد صاحب اسے دیکھ کر حیران ہو گئے اور آپ کے بھائیوں کو سرزنش کی کہ تمہیں ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ اول صفحہ 13 ) استاد اور میں بھی باقاعدہ پڑھاتا ہوں مگر تمہیں ابھی تک لکھنا نہیں آیا لیکن جسے کوئی نہیں عزیز ساتھیو! پھر ایک اور ایسا واقعہ ہوا.جس کی بناء پر آپ کے والد صاحب کو یہ بچپن میں آپ کی زبان میں لکنت تھی اور پھر اس خیال سے بھی کہ بڑے دو بیٹے پڑھاتا اس نے ایسا عمدہ خط لکھا ہے.پڑھتے ہیں اگر چھوٹے بیٹے کو تعلیم دلا دی تو زمینداری کا کام کون سنبھالے گا.آپ کے والد صاحب نے آپ کو پڑھائی سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی فیصلہ کرنا پڑا کہ آپ کو ضر ور تعلیم دلوائی جائے.ذہنی استعداد عطا کی ہوئی تھی کہ ان کے بھائیوں کو تو بار بار سبق دہرانے سے بھی یاد نہ ہوا کچھ یوں کہ حضرت سید سرور شاہ صاحب کے والد صاحب آپ کے بڑے ہوتا تھا مگر آپ کو ایک بار دہرانے سے ہی یا د ہو جاتا.بعض اوقات آپ کا بھائی آپ کو بھائی سے مغرب کے بعد سبق سنا کرتے تھے.ایک روز وہ سبق سناتے ہوئے ایک جگہ کوئی چیز دے کر پاس بیٹھنے پر آمادہ کر لیتا تا کہ آپ سبق یاد کر لیں اور بعد میں آپ اٹک گئے.والد صاحب نے پھر شروع سے سنانے کو کہا لیکن پھر بھی وہ اسی جگہ اٹک گئے.پھر والد صاحب کے کہنے پر تیسری بار شروع سے سناتے ہوئے اسی جگہ پہنچے تو سے سبق دہرا لیتا.( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ اول صفحہ 13 ) حضرت سید سرور شاہ صاحب کے منہ سے بے ساختہ وہ لفظ نکل گیا کیونکہ آپ کو یقین تھا

Page 4

5 4 کہ اگر اس بار بھی بھائی اٹک گئے تو والد صاحب سے مار پڑے گی.اس پر والد پیاس برداشت کی.مگر بہتر سے بہتر علم کی تلاش میں سرگرم رہے.آپ نے قرآن مجید، صاحب کو بہت تعجب ہوا اور پوچھا کہ تمہیں کس طرح آ گیا.آپ نے کہا کہ مجھے سبق حدیث اور طب کے ساتھ ساتھ دوسرے مروجہ علوم بھی حاصل کئے.ایک دفعہ سننے سے یاد ہو جاتا ہے اور جب آپ پڑھاتے ہیں تو میں پاس بیٹھ کر سن لیتا ملازمت ہوں.اس پر آپ کے والد صاحب نے آپ کو سبق سنانے کو کہا جو آپ نے سنا دیا.( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ اول صفحہ 14 ) حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب تعلیم سے فارغ ہو کر دوسال مدرسہ مظاہر العلوم ( رفقائے احمد جلد پنجم حصہ دوم صفحہ 16) آپ طلباء کے پسندیدہ استاد تھے اور آپ نے طلباء کو اجازت دے رکھی تھی کہ انہیں جب بھی اور جس وقت بھی کوئی بھی علمی مسئلہ در پیش ہو وہ بلا جھجک آپ سے پوچھ بچو! دیکھا اللہ تعالیٰ نے حضرت سید سرور شاہ صاحب کو کیسی ذہانت عطا فرمائی سہارن پور میں پڑھاتے رہے.ہوئی تھی کہ صرف ایک دفعہ سبق دہرانے سے آپ کو سبق یاد ہو جایا کرتا تھا.یہ وہ اوامر تھے جن کی وجہ سے آپ کے والد صاحب نے بھی آپ کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دے دی.اس طرح آپ کی عمرا بھی صرف تیرہ برس کی تھی کہ آپ نے حصول تعلیم کے سکتے تھے.پھر آپ ایبٹ آباد میں ایک انجمن کے ملازم ہو گئے اور قرآن مجید کی تفسیر لئے اپنے گھر کو خیر باد کہہ دیا اور بہت مشکلات اور تکالیف برداشت کیں مگر علم کے پڑھانے لگے جہاں سے آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت حصول کے لئے آپ نے کسی مشکل کو آڑے نہ آنے دیا.حتی کہ ایک بار آپ نے قسم کھا کرنے کی وجہ سے برخاست کر دیا گیا.مگر اللہ تعالیٰ نے آپ کی ملازمت کے سامان کر کہا کہ میں گرمی یا کسی اور تکلیف کی وجہ سے اُس جگہ کو جہاں میر اسبق اچھا ہوتا ہے کر دیئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کے طفیل آپ کو مشن کالج پشاور میں پڑھانے کی ملازمت مل گئی جہاں آپ بیعت کے بعد اڑھائی سال تک پڑھاتے ہر گز نہیں چھوڑوں گا تا وقتیکہ میرے سبق میں کوئی حرج واقعہ ہونے لگے.( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ اول صفحہ (21) رہے.چنانچہ علم کے حصول کی خاطر آپ نے مشکل ترین سفر اختیار کئے اور شدید دھوپ حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب بھیروی سے ملاقات میں دو دو میل تک پیدل بھی چلنا پڑا مگر آپ اپنے استاد کے پاس جاتے اور سبق لیتے.حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کے والد سید محمد حسن شاہ صاحب حضرت حکیم آپ ہمیشہ اس کوشش میں رہتے کہ علم اور تقویٰ کے لحاظ سے بہتر سے بہتر استاد کی تلاش مولانا نورالدین صاحب بھیروی (خلیفہ اسیح الاوّل) کے عقیدت مند تھے اور آپ کی جائے.اس کے لئے آپ کو بہت سی مشکلات سے دوچار ہونا پڑا.پشاور ، ہزارہ ، نے سید محمد سرور شاہ صاحب کو تاکید کر رکھی تھی کہ جب بھی حضرت حکیم مولانا نورالدین لاہور ، سہارنپور اور دیو بند وغیرہ کے سفر اختیار کئے.راتوں کو بیوت میں رہے ، بھوک صاحب لاہور تشریف لائیں تو ان سے ضرور ملا کرو.چنانچہ ایک دفعہ لاہور میں زمانہ

Page 5

7 6 طالب علمی کے دوران جب اطلاع ملی کہ حضرت حکیم مولا نا نور الدین صاحب ایک آپ کے دل میں چونکہ احمدیت کے بارے میں جانے کی جستجو تھی اس لئے آپ دعا جلسہ میں تقریر کے سلسلہ میں لاہور تشریف لائے ہوئے ہیں تو آپ ان کی تقریر سننے سے کام لیتے رہے.1892ء میں جب حضور دیو بند جاتے ہوئے لدھیانہ ٹھہرے تو کے لئے گئے.یہ تقریر چار گھنٹے تک جاری رہی.تقریر کے بعد حضرت حکیم مولانا اس دوران آپ کو حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو کر تین گھنٹے تک صحبت سے نورالدین صاحب نے لوگوں سے مصافحہ کیا.مصافحہ کرتے ہوئے جب حضرت سید مستفید ہونے کی سعادت ملی.سرور شاہ صاحب تک پہنچے تو آپ نے حضرت شاہ صاحب کو بغل گیر کرتے ہوئے زمین سے اٹھا لیا اور اپنے واقفوں سے کہا کہ یہ میرے دوست بلکہ عاشق کا بیٹا ہے.اس وقت بیعت معلوم ہوا کہ حضرت مولانا نورالدین صاحب آپ کو جانتے ہیں.احمدیت سے تعارف ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ اول صفحہ 48) بچھا جب کوئی شخص بچے دل سے خدا تعالی کے حضور جھکتا ہوا سچائی کا طلب گار ہوتا رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ اول صفحہ 42 ہے تو اللہ تعالیٰ ایسے بندے کو بھی مایوس نہیں کرتا.بلکہ مختلف ذرائع سے اس کی سچائی کی طرف راہنمائی کر دیتا ہے.حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب بھی تہجد میں حضرت اقدس طالب علمی کے زمانہ میں لاہور میں قیام کے دوران آپ نے حضرت اقدس مسیح مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی بابت دعاؤں میں لگے رہے.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو پانچ مختلف خوابوں کے ذریعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی موعود علیہ السلام کا ذکر سنا تو آپ کے دل میں احمدیت کے متعلق جاننے کی جستجو پیدا سچائی کے بارے میں آگاہ کیا.مگر چونکہ خوابوں میں ایک رنگ اخفاء کا ہوتا ہے اس ہوئی اور آپ نے جاننا چاہا کہ احمدیت کیا چیز ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سچے لئے آپ حقیقت تک نہ پہنچ سکے.مگر پانچواں خواب فیصلہ کن ثابت ہوا.جس میں آپ ہیں یا نہیں؟ لیکن مخالفین کی شدید مخالفت کی وجہ سے آپ کو احمد بیت کی صحیح تعلیم سے نے دیکھا کہ آپ (بیت الذکر) کے برآمدہ میں قبلہ رو بیٹھے ہوئے قرآن مجید پڑھ آگا ہی نہ ہوئی.رہے ہیں اس دوران حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لائے ہیں اور آپ کے پاس ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام جب لا ہور تشریف لائے تو آپ آکر کھڑے ہو گئے ہیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضور بات کرنے کیلئے تلاوت ختم نے ملاقات کی بہت کوشش کی مگر نہ تو مخالفین آپ کے قیام کا پتہ معلوم ہونے دیتے تھے ہونے کا انتظار کرتے ہیں.حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کے دل میں کبھی خیال آتا اور نہ ہی احمدی احتیاط کی وجہ سے آپ کے بارے میں معلومات دیتے تھے.اس لئے ہے کہ ایک آدمی کے واسطے میں قرآن مجید کی تلاوت کیوں بند کر دوں پھر خیال آتا ہے کہ ایک شریف آدمی انتظار میں کھڑا ہے اور میں اس کی پرواہ نہ کروں اور تلاوت میں ملاقات کا موقع نہ مل سکا.

Page 6

9 8 ( رفقائے احمد جلد نمبر حصہ اول صفحہ 56) مشغول رہوں.یہی خیال غالب آیا اور قرآن مجید بند کر کے کھڑے ہو گئے اور آپ علاقے کے لوگ ابھی تک احمدیت سے بکلی نا آشنا ہیں اور آپ نے بیعت کر لی تو یہ کے سلام کرنے سے قبل حضور نے السلام علیکم کہا اور آپ نے وعلیکم السلام کہا.حضور نے لوگ آپ سے فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے بلکہ مخالفت پر آمادہ ہو جائیں گے لیکن اگر اسی ہاتھ بڑھایا اور آپ نے مصافحہ کیا.حضور نے آپ کا ہاتھ پکڑے ہوئے کہا کہ اب تو حالت میں رہ کر آپ انہیں سمجھاتے رہیں گے تو سب نہیں تو اکثر آپ کے ساتھ شامل وقت نزدیک آ گیا ہے اب تو تم میری مخالفت چھوڑ دو.آپ کی طبیعت میں تر در پیدا ہو جائیں گے.ہوا کہ اگر میں کہتا ہوں کہ میں خلاف نہیں کرتا تو یہی جھوٹ ہوگا اور اگر میں کہتا ہوں کہ مگر حضرت شاہ صاحب کی طبیعت اس بات کو پسند نہ کرتی تھی اور تاخیر برداشت خلاف کرتا ہوں تو شرافت کے خلاف ہے کہ ایک معز شخص کے منہ پر ہی ایسی بات سے باہر تھی.آخر آپ نے مناسب سمجھا کہ اس بارہ میں حضور سے مشورہ لیں چنانچہ کیوں.فوراً خیال آیا کہ گزشتہ کو جانے دو اور یہ جواب دو کہ میں آئندہ خلاف نہیں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں تحریر کیا کہ یا مریعنی ہے کہ میرے اعلان احمدیت پر یہ لوگ میرے مخالف ہو جائیں گے اور اس ملازمت سے برخاست کروں گا.اور آپ نے یہی جواب دیا.رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ اول صفحہ 53) کر دیں گے.برخواستگی مجھے ناپسند ہے.میں چاہتا ہوں کہ میں پہلے استعفیٰ دوں پھر اس خواب کی ملاقات کا آپ پر یہ اثر ہوا کہ وہی باتیں جن میں پہلے آپ کا خیال اعلان کروں.احمدی احباب مجھے مشورہ دیتے ہیں کہ میں دو تین ماہ تک اسی حالت میں مخالفت کی طرف جایا کرتا تھا، اب آپ کو ایسا لگتا جیسے کوئی پکڑ کر حضور علیہ السلام کی رہوں اور اس کے بعد بیعت کروں لیکن میں چاہتا ہوں کہ حق اللہ تعالیٰ نے مجھ پر کھول باتوں کی طرف لے جاتا ہے اور شکوک وشبہات کا ازالہ ہونے لگا.دیا ہے اور میں بیعت کرلوں.پھر وفات مسیح کے متعلق آیات پر غور کرنے سے اس نتیجہ پر پہنچے کہ اس بارے میں اس پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا آپ کو جواب ملا کہ احمدی احباب کا جو حضور بیان کرتے ہیں وہی حق ہے.اس کے علاوہ آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود مذکورہ مشورہ صیح نہیں کیونکہ اپنے نفس کا حق اپنے اوپر دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے اس علیہ السلام کی بعض کتب خصوصاً ” آئینہ کمالات اسلام “ مطالعہ کی ہوئی تھی جس کی وجہ لئے اپنی اصلاح دوسروں کی اصلاح سے مقدم ہوتی ہے پس آپ فوراً بیعت کا اعلان سے آپ احمدیت کی طرف مائل ہوئے.کر دیں اور استعالی سے متعلق خیال صحیح نہیں.شریعت کا حکم ہے الْإِقَامَةُ فِي مَا أَقَامَ چنانچہ آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کا خط الله ( یعنی جب تک اللہ تعالیٰ کسی جگہ پر قائم رکھے اس وقت تک انسان کو وہیں قائم لکھنے کا تہیہ کر لیا اور اس کا اظہار آپ نے ایبٹ آباد کے ایک احمدی دوست با بو غلام محی رہنا چاہئے.ناقل ).اور اگر کوئی اس کے خلاف کرتا اور اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے الدین سے کیا.انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ سر دست آپ بیعت نہ کریں کیونکہ اس گزارہ کو خود چھوڑتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو میں نے دیا تھاوہ تم نے چھوڑ دیا اب تم

Page 7

11 10 خود اپنے لئے کچھ کرو اور انسان ابتلاء میں پڑ جاتا ہے لیکن اگر خدا خود چھڑا دیتا ہے تو پھر بچو! جواللہ تعالیٰ کی خاطر تکالیف اٹھاتا ہے اللہ تعالی خود اس کا کفیل بن جاتا ہے جیسا وہ خود کفیل ہوتا ہے اور اس کے لئے کوئی صورت نکال دیتا ہے پس آپ استعفی مت دیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ اس کے گزارے کے سامان کر دیتا ہے.جب وہ نکال دیں گے تو اللہ تعالیٰ کوئی اور انتظام کر دے گا.چنانچہ جب بیعت کرنے کے نتیجہ میں آپ کو برخاست کر دیا گیا تو اللہ تعالیٰ نے پشاور میں بیعت کا اعلان ( رفقائے احمد جلد نمبر حصہ اول صفحہ 57-56) آپ کی ملازمت کے سامان کر دیئے اور آپ مشن کالج پشاور میں پڑھانے لگے.قادیان آمد اوائل مارچ 1887ء کی بات ہے کہ ایک دن حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب ظہر حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب قادیان مستقل ہجرت کر آنے سے قبل تین بار کی نماز پڑھا کر ابھی بیٹھے دعائیں ہی پڑھ رہے تھے کہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود قادیان آئے.پہلی بار 1898 ء کی موسم گرما کی تعطیلات میں قادیان آئے ( رفقائے احمد علیہ السلام کا مندرجہ بالا خط آپ کے ہاتھ پر رکھ دیا.جب آپ نے اسے کھول کر جلد 5 صفحہ 188) اور مہمان خانہ میں قیام کیا.اور جب بیت مبارک میں آپ نماز کے پڑھنا شروع کیا تو اس کے پہلے الفاظ یہ تھے کہ آپ فوراً بیعت کا اعلان کر دیں.آپ لئے تشریف لائے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے مصافحہ کا شرف ملا.حضور نے اتنا حصہ پڑھ کر اگلا حصہ پڑھے بغیر اعلان کر دیا کہ میری بیعت کی قبولیت کا خط کے دریافت کرنے پر آپ نے بتایا کہ آپ پشاور سے آئے ہیں.پھر حضور نے قادیان سے آ گیا ہے اور آج سے میں احمدی ہو گیا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ تم لوگوں دریافت فرمایا آپ مولوی سرورشاہ ہیں تو آپ نے تصدیق کی.نے میری امامت میں جتنی نمازیں پڑھی ہیں ان میں سے زیادہ قابل قدر اور لائق قبولیت وہ ہیں جو میرے احمدی ہونے کے بعد آپ نے میرے پیچھے پڑھی ہیں لیکن اگر تعصب کی وجہ سے کسی کو نماز دہرانے کا شوق ہو تو وہ اپنی نماز دہراسکتا ہے.بیعت کے نتیجہ میں مخالفت ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ اول صفحہ 62) اس ملاقات سے قبل آپ کا غائبانہ تعارف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ایک اشتہار کے ذریعہ ہو چکا تھا جو پیر مہر علی صاحب گولڑوی کی طرف سے حضرت مسیح ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ اول صفحہ 57) موعود علیہ السلام پر کئے گئے سوالات کے جوابات پر مشتمل تھا.یہ جوابات حضرت شاہ صاحب نے ایک اشتہار کی صورت میں شائع کروائے تھے اور ایک اشتہار آپ نے ادھر آپ نے بیعت کا اعلان کیا اُدھر ایبٹ آبا دشہر میں ایک شور برپا ہوگیا اور اس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں قادیان بھجوایا تھا.ان جوابات کو حضور نے پسند فرمایا تھا جس کا اظہار آپ نے حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب نوراللہ مرقدہ الجمن نے جس کے آپ ملازم تھے آپ کو برخاست کرنے کا فیصلہ کر لیا.

Page 8

13 12 اس کے بعد فر مایا کہ ہم لوگ جو خدا کی طرف سے آتے ہیں (اس وقت حضور علیہ (خلیفہ امسیح الاول ) کے سامنے حضرت شاہ صاحب سے ملاقات کے دوسرے دن کیا.حضور نے فرمایا کہ جب ان کا اشتہار پہنچا تو میں نے معمولی اشتہار سمجھ کر ایک دو السلام کا چہرہ نہایت پر جلال نظر آتا تھا) ہمیں ایک فراست دی جاتی ہے اس فراست سطریں دیکھ کر رکھ دیا.دو پہر کو جب لیٹا تو پاس کوئی کتاب نہ تھی یہ اشتہار تھا اسے اٹھا کے ساتھ ہم جان لیتے ہیں کہ اس شخص میں رشد اور سعادت کا مادہ ہے مگر لوگوں کو ایک کر پڑھنا شروع کیا.ابھی چند سطریں ہی پڑھی تھیں تو مجھے علم کی بُو آئی اور پھر سارا غلطی لگی ہوئی ہے وہ یوں سمجھتے ہیں کہ ولایت ایک ایسی چیز ہے جو ولیوں کی جیب میں پڑھا.انہوں نے ایسی گرفت کی ہے کہ پیر صاحب ہرگز اس کا جواب نہیں دے سکتے.ہے یا ان کے رومال کے ساتھ بندھی ہوئی ہے اور جس شخص پر وہ خوش ہوں اس شخص کو ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ اول صفحہ 62) جیب سے نکال کر یا رومال سے کھول کر دے دیتے ہیں.مگر یہ غلط ہے اس میں شک 1899ء میں آپ دوسری بار قادیان آئے اور ایک ماہ قیام کرنے کے بعد واپس نہیں کہ وہ ملتی انہی لوگوں سے ہے جو خدا کی طرف سے آتے ہیں مگر ان سے ملنے کا یہ طریق نہیں کہ وہ جب چاہیں دے دیں بلکہ جس طرح پر نالہ کے ذریعہ بارش کا پانی ملتا چلے گئے.( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ سوم صفحہ 188) ہے اسی طرح ولایت بھی انہی کے ذریعہ ملتی ہے مگر اس کا طریق یہ ہے کہ ان لوگوں پر 1900 ء کی موسم گرما کی تعطیلات میں آپ تیسری بار قادیان آئے.( رفقائے احمد فیضان کے خاص وقت آتے ہیں.ان اوقات میں جو رشد اور سعادت والے لوگ جلد نمبر 5 حصہ سوم صفحہ 188) اس بار آپ کا قادیان میں تین ماہ ٹھہرنے کا ارادہ تھا لیکن ہوتے ہیں اپنی استعداد کے مطابق اس فیضان سے حصہ حاصل کرتے رہتے ہیں.اس ابھی تین دن ہی گزرے تھے کہ آپ کے دوسرے ساتھیوں نے واپس جانے پر اصرار طرح فیضان کے مختلف وقتوں میں حسب استعداد وہ اس قدر فیضان حاصل کر لیتے ہیں کیا جسے دیکھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اجازت مرحمت فرمائی مگر کہ جسے ولایت کہتے ہیں.اس کے بعد فرمایا کہ اس خدا داد فراست کے ساتھ ہم لوگ حضرت شاہ صاحب بعض امور کی انجام دہی کے لئے رُک گئے.اسی دوران حضرت جس میں رشد و سعادت کو دیکھ لیتے ہیں اگر وہ شخص فیضان کے نزول کے وقت موجود مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو خاص طور پر بلوایا اور اپنے ساتھ چار پائی پر بٹھا لیا.نہیں ہوتا تو ہمیں کچھ رنج اور افسوس ہوتا ہے کہ فلاں شخص موجود نہ تھا اگر ہوتا تو وہ بھی پھر آپ کو مخاطب ہو کر فرمایا کہ میں نے آپ کو اس لئے بلایا ہے کہ زندگی کا کوئی اعتبار فائدہ اٹھا لیتا.نہیں.ہم دیکھتے ہیں کہ جوان اچھا تندرست آدمی ہوتا ہے اور اس کے مرنے کا خیال اس کے بعد فرمایا کہ خدا نے مجھے جو فراست دی ہے اس کے ساتھ میں آپ میں تک بھی نہیں ہوتا اور پھر یکدم سنتے ہیں کہ وہ فوت ہوگیا.....اس لئے انسان کو جو کچھ وہ رشد اور سعادت دیکھتا ہوں اس لئے میرا جی چاہتا ہے کہ آپ کم از کم آٹھ نو مہینے میرے پاس رہیں.اس پر حضرت شاہ صاحب نے عرض کی کہ حضور گو میرے ساتھی حاصل کرنا چاہیے اسے مقدم رکھنا چاہیے.

Page 9

15 14 چلے گئے ہیں مگر میں رہنے کے واسطے تیار ہوں.اگر حضور ا جازت دیں تو میں ہمیشہ کے زندگی وقف کرنا واسطے حضور کی خدمت میں رہنے کے لئے تیار ہوں.اس پر حضور نے فرمایا کہ اس وقت آپ کا رہنا مناسب نہیں کیونکہ آپ پادریوں کے پاس ملازم ہیں اور وہ لوگ گو کہ حضرت شاہ صاحب کا قادیان مستقل ہجرت کر جانا ہی زندگی وقف کر دینا ہمارے دشمن ہیں.جب انہیں معلوم ہوگا کہ آپ ہمارے پاس رہ گئے ہیں تو وہ آپ پر تھا مگر پھر بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے 1907ء میں جب وقف زندگی کی کوئی مقدمہ بنا دیں گے اس لئے سر دست آپ چلے جائیں اور پھر آٹھ نو ماہ کی رخصت تحریک فرمائی تو آپ نے اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے اپنے آپ کو پیش کر دیا.اس طرح اللہ تعالی نے آپ کو یہ توفیق دی کہ آپ کا شمار اولین واقفین زندگی میں ہوا.لے کر آجائیں.اس پر آپ رخصت ہوئے.مستقل قادیان ہجرت ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ اوّل صفحہ 66-65) آپ کا وقف قبول فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کی درخواست حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب 1901ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے مستقل قادیان آگئے اور پھر ہمیشہ کے لئے قادیان کے ہو کر رہ گئے.پر تحریر فرمایا: آپ کو اس کام کے لائق سمجھتا ہوں“ ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ سوم صفحہ 117-116) ماسوائے چھ ماہ کے لئے جن میں آپ حضور علیہ السلام کی اجازت سے عائلی معاملات آپ نے عمر بھر نہایت اخلاص اور محبت کے ساتھ اس وقف زندگی کے عہد کو کی انجام دہی کے لئے اپنے آبائی علاقے کشمیر گئے تھے.نبھایا اور دینی خدمات میں دنیا سے لا تعلق ہو کر اپنی زندگی گزاردی.آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت میں رہ کر مختلف جماعتی خدمات کرنے کا موقع ملتا رہا.پھر حضرت خلیفہ امسیح الاول اور حضرت خلیفہ اسیح شادی اور اولاد الثانی کے ادوار میں آپ کو اعلیٰ جماعتی عہدوں پر خدمات بجالانے کی توفیق ملتی رہی.حضرت سید محمد سرورشاہ صاحب نے دوشادیاں کی تھیں.پہلی شادی سید محمد آپ قرآن کریم اور حدیث کے مختلف علوم میں دسترس رکھتے تھے جن کا فیض آپ اشرف صاحب سکنہ دایہ ضلع ہزارہ کی بیٹی سے ہوئی جوتپ دق کے عارضہ کے سبب کچھ دروس کے ذریعہ احباب جماعت تک پہنچاتے رہے.مختلف مضامین اور کتب کی عرصہ بیمار رہنے کے بعد انتقال کر گئیں اور بوقت وفات ان کی ایک بیچی تھی جس کی عمر تصنیف کے ذریعہ آپ نے احمدی احباب کی تعلیم وتربیت کے لئے نمایاں خدمات سر دس ماہ تھی.اس بچی کا عقد پہلے صاحبزادہ میاں عبدائی صاحب ابن حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفہ امسیح الاول سے ہوا اور صاحبزادہ صاحب کی وفات کے بعد انجام دیں.ا

Page 10

17 16 سید محمود اللہ شاہ صاحب این حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب سے ہوا.ان کے بطن سے ایک صاحبزادہ محترم سید داؤ د مظفر شاہ صاحب تھے جو حضرت خلیفہ اسیح الثانی حصه دوم نوراللہ مرقدہ کے داماد بنے.اس طرح سید محمد سرور شاہ صاحب کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ روحانی نسبت کے ساتھ ساتھ جسمانی تعلق بھی قائم ہو گیا.آپ کی دوسری شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اجازت سے مکرم جیون بٹ صاحب امرتسری کی بیٹی سے ہوئی جن کے بطن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹیاں اور دو بیٹے عطا فرمائے.وفات خدمات سلسلہ ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ دوم صفحہ 39) حضرت مسیح موعود کے مبارک عہد میں خدمات اللہ تعالیٰ نے حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کو یہ سعادت عطا فرمائی کہ انہیں وقت آپ کی صحت عمر کے آخری حصہ تک ٹھیک تھی اور بظاہر کوئی بیماری لاحق نہ تھی البتہ کے امام کی بابرکت صحبت سے نوازا.1901ء میں قادیان مستقل آجانے کے بعد آپ بڑھاپے کی وجہ سے آپ کو کمزوری اور ضعف ہونے لگا تھا.اس کمزوری اور نقاہت کے ہرلمحہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بابرکت وجود سے فیضیاب ہوتے رہے.حضرت با وجود آپ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کی مجالس عرفان میں شریک ہوتے مسیح موعود علیہ السلام بھی آپ کے علم اور تقویٰ کی وجہ سے آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے رہے.ایک روز جب آپ مجلس عرفان میں تشریف فرما تھے تو آپ کو بے ہوشی ہوگئی تھے.آپ کو حضرت مسیح موعود کے ساتھ متعد د سفروں میں رفاقت کی سعادت نصیب ہوئی اور آپ کو قادیان کے نور ہسپتال میں داخل کرا دیا گیا.چند روز ہسپتال میں علیل رہنے کے بعد مورخہ 3 جون 1947ء کو آپ انتقال فرما گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ سوم صفحہ 171).....اسی طرح آپ کو پاک صحبت میں رہ کر بعض نشانات دیکھنے کا بھی موقع ملا.1902ء میں حضرت سید سرور شاہ صاحب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مولوی ثناء اللہ امرتسری کے ساتھ مباحثہ کرنے کے لئے جماعت کی طرف سے نمائندہ بنا کر ممد نامی گاؤں بھیجا.چنانچہ آپ اس مباحثہ میں کامیاب ہوئے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس پر خوشنودی کا اظہار فرماتے ہوئے آپ کو غضنفر، یعنی غرانے والا شیر

Page 11

19 18 کے لقب سے نوازا.اس مباحثہ کا تفصیلی ذکر حضور نے اپنی ایک کتاب ”اعجاز احمدی‘ میں نورالدین صاحب بھیروی کی عدم موجودگی میں آپ بیت مبارک قادیان میں درس قرآن دیتے رہے اور پھر حضرت مسیح موعود کے عہد میں بھی قرآن مجید کی تفسیر لکھنے کا.66 فرمایا ہے.حضرت سید محمد سرور شاہ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک عہد میں نمازیں موقع ملا.یہ تفسیر آپ ہی کی زیر ادارت جولائی 1906ء سے شروع ہونے والے رسالے اور جمعہ پڑھانے کا شرف ملتا رہا.اس تنظیم سعادت کا ذکر آپ یوں کرتے ہیں: تعلیم الاسلام میں چھپتی رہی.اس رسالہ کے بند ہو جانے کے بعد یہ تفسیر ریویو آف حضور نے مجھے ( بیت) اقصیٰ کا امام مقرر کیا تھا.حضرت مولوی عبدالکریم رپیجر اُردو میں شائع ہونے لگی.پی تفسیر تفسیر سروری" کے نام سے مشہور ہے.صاحب کی وفات کے بعد حضور نے مجھے ( بیت ) مبارک میں نمازیں پڑھنے کا ارشاد مارچ 1908ء سے ایک سہ ماہی رسالہ ”تفسیر القرآن“ آپ ہی کی نگرانی میں آپ فرمایا.اس لئے کہ کبھی مجھے بھی ( بیت ) مبارک میں نماز پڑھانی ہوتی تھی.چنانچہ میں کی تفسیر کی خاطر جاری کیا گیا جس میں تمبر 1912 تک تغیر شائع ہوتی رہی.نے بیسیوں جمعے اور نمازیں ( بیت ) مبارک میں پڑھا ئیں کہ جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مقتدی ہوتے تھے.“ رسالہ تخمیذ الاذہان جو 1906ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا محمود احمد (خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ ) نے جاری فرمایا تھا اس میں آپ کے بہت قابلِ قدر مضامین شائع ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ دوم صفحہ 67) ہوتے رہے.جنہیں غیر از جماعت احباب بھی سراہتے تھے اور پسندیدگی کی نظر سے آپ کے خطبہ جمعہ اس قدر بلیغ ہوا کرتے تھے کہ حضور بھی تعریف فرمایا کرتے دیکھتے تھے.خصوصی طور پر مسائل شرعیہ کے عنوان سے چھپنے والے مضامین نے تھے چنانچہ حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب ایم.اے تحریر فرماتے ہیں: ” مجھے ان کا ایک خاص واقعہ خوب یاد ہے.ایک دفعہ انہوں نے (بیت) مبارک قادیان میں جمعہ کی نماز پڑھائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس نماز میں شامل تھے اور حضور نے گھر میں آکر حضرت (اماں جان) سے فرمایا کہ آج مولوی سرور شاہ صاحب نے بہت اچھا خطبہ دیا.یہ بات میرے کانوں نے سنی اور مجھے اب تک یاد ہے.“ ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ دوم صفحہ 195) پذیرائی حاصل کی.( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ اول صفحہ 113-112) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عہد مبارک میں آپ کو اس وقت مدرسہ تعلیم الاسلام میں قائمقام استاد مقرر کیا گیا جب مولوی مبارک علی صاحب دسمبر 1901ء میں ایک ماہ کی رخصت پر سیالکوٹ چلے گئے.آپ کے علمی مقام کو دیکھتے ہوئے 1902ء میں آپ کا با قاعدہ تقر راستاد مدرسہ تعلیم الاسلام کے طور پر کر دیا گیا.( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ دوم صفحہ 77) 1909ء میں جب مدرسہ احمدیہ کا آغاز ہوا تو اس کے پہلے ہیڈ ماسٹر حضرت مولانا حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کو یہ بھی اعزاز حاصل رہا کہ حضرت حکیم مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب مقرر ہوئے.پھر جب 1912ء میں اس درسگاہ کے طریقہ تعلیم

Page 12

21 20 اور نصاب کی تیاری کا مرحلہ آیا تو حضرت شاہ صاحب بھی اس کمیٹی میں شامل تھے جس تعلیم و تدریس کے علاوہ آپ کی تمام خدمات اعزازی تھیں.آپ نے خلافت نے ہندوستان کے مختلف مدارس کا دورہ کرنے کے بعد مدرسہ احمدیہ کے قواعد وضوابط اولیٰ و ثانیہ میں جو خدمات سرانجام دیں وہ من وار مختصراً پیش ہیں: 1908ءتا1912ء: ایڈیٹر رسالہ تفسیر القرآن" اور نصاب تیار کیا.1919-20 1915 1909☆ خلافت ثانیہ کے دور میں مدرسہ احمدیہ کی طرف خصوصی توجہ دی گئی اور 20 مئی 1928ء میں مدرسہ احمدیہ کو ترقی دے کر جب جامعہ احمدیہ کی شکل دی گئی تو اس کے پہلے پرنسپل حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب بنائے گئے اور 30 اپریل 1939 ء تک مطالعہ کیا.خدمت پر مامور ہے.اس طرح جامعہ احمدیہ کی ابتدائی صورت سے لیکر آج جبکہ جامعہ احمد یہ ایک عظیم درسگاہ کے طور پر مسلم ہے.حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کی خدمات نمایاں مقام رکھتی ہیں.( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ اوّل صفحہ 77 تا 101 ) خلافت اولی و ثانیہ کے ادوار میں خدمات سلسلہ ء: رکن کمیٹی برائے تجویز نصاب مدرسہ احمدیہ 1912ء: رکن وفد جس نے استفادہ کیلئے ہندوستان کی درسگاہوں کا معائنہ و 1915ء: رکن مجلس علماء جنہوں نے پارہ اول قرآن مجید کا ترجمہ مع تفسیر تیار کیا.1916ء: تقرر بطور افسر بہشتی مقبره 1917ء: رکن مجلس معتمدین وافر تعمیر 1918 :: رکن مجلس معتقدین، افرینه تعمیر و بہشتی مقبرہ ، قا ئمقام جنرل سیکرٹری حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کی خدمات کا سلسلہ قادیان ہجرت کر جانے سے صدر انجمن احمدیہ، اولین ناظر تعلیم و تربیت بعدہ بطور قائمقام رہے ، قائمقام افسر صیغہ لیکر وفات تک پھیلا ہوا ہے.اس تقریباً چالیس سالہ عرصہ میں آپ نے ایک وقت مساکین ، یتامی وزکوۃ.میں مختلف عہدوں پر رہ کر سلسلہ کی خدمت کی توفیق پائی تاہم تعلیم و تدریس کے ساتھ آپ آخری وقت تک با قاعدہ منسلک رہے.مدرسہ تعلیم الاسلام سے تدریس کا آغاز کر کے آپ مدرسہ احمدیہ میں بطور ہیڈ ماسٹر اور پھر جامعہ احمدیہ میں پرنسپل کے عہدہ پر فائز رہنے کے بعد 1939ء میں جب ریٹائر ہو گئے تو حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے آپ کو جامعہ الواقعین کا پرنسپل مقرر فرما دیا جس کا مقصد گریجوایٹ اور دوسرے واقفین کو علوم دینیہ میں ٹریننگ دینا تھا.اسی سال حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے آپ سمیت تین علماء افتاء کے لئے مقرر فرمائے.لیکن بعد ازاں آپ ہی وفات تک ملتی سلسلہ احمد سیر ہے.1919ء: رکن مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ ، قائمقام جنرل سیکرٹری صدر انجمن احمد یہ سیکرٹری مجلس منتظمہ برائے جلسہ سالانہ 1919ء افسر بیت المال.1920ء: رکن مجلس معتمدین صدرانجمن احمدیہ، سیکر ٹری مجلس منتظمہ برائے جلسه سالانه، قائمقام جنرل سیکر ٹری صدر انجمن احمدیه، قائمقام افسر بہشتی مقبره، ( رفقائے احمد جلد نمبر 2 صفحہ 102 )

Page 13

23 22 قائمقام محاسب.1921ء: قائمقام جنرل سیکرٹری صدر انجمن ،رکن وفد جس نے وائسرائے ہند سے ملاقات کی.1922 ء تا 1947ء: رکن شوری اور 16 بار مختلف کمیٹیوں کے رکن.قلمی خدمات خلافت اولی کے اواخر میں خلافت کے متعلق ایک طبقہ نے خیالات فاسدہ کی اشاعت کا آغاز کیا.حضرت خلیفہ امسیح الاول نور اللہ مرقدہ نے پورے زور سے ان کا ابطال اور تردید کی.حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب بھی اس جہاد میں شرکت 1922ء: سیکرٹری صدر انجمن احمدیہ، ناظم جلسہ سالانہ اندرون شہر ،شہزادہ ویلیز کرنے والوں میں سے صف اول میں تھے جو آپ کی خلافت سے محبت کی آئینہ دار ہے کو تحفہ پیش کرنے والے وفد کے رکن.اور آپ کے نزدیک خلافت کا مقام نہایت ارفع و اعلیٰ تھا.آپ نے متعدد تصانیف اور 1923ء: سیکرٹری صدر انجمن احمد یہ، رکن وفد برائے ملاقات گورنر پنجاب مضامین کے ذریعہ سے خلافت کے ساتھ اپنی محبت کا ثبوت دیا اور مخالفین کو دندان شکن 1924ء: حضرت مصلح موعود کے سفر مغربی ممالک کے وقت مجلس شوری کے رکن.جواب دیئے.1925ء: قائمقام افسر بہشتی مقبرہ اور پھر سیکرٹری بہشتی مقبرہ ہوئے اور تا وفات اس عہدہ پر فائز رہے.1927ء: قائمقام ناظر تعلیم وتربیت 1930-31ء ، 32-1931ء افسر صیغہ جائیداد ( رفقائے احمد جلد 2 صفحہ 50 تا 52 حاشیہ) خلافت اولی اور ثانیہ میں آپ کو ہار ہا امام الصلوۃ ہونے اور خطبات جمعہ کے علاوہ درس دینے کا موقع بھی ملتا رہا.اس کے علاوہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کے قادیان سے باہر ہونے کی صورت میں آپ کو متعدد بار امیر مقامی قادیان ہونے کا شرف حاصل کرہا ہے.ایک اور سعادت جو آپ کے حصہ میں آئی وہ یہ ہے کہ آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نور اللہ مرقدہ کے دو نکاح پڑھے.( رفقائے احمد جلد نمبر 2 صفحہ 109 ) ( رفقائے احمد جلد 5 حصہ دوم صفحہ 155 تا 160 ).....

Page 14

25 24 حصه سوم عبادت اخلاق عالیہ اسی طرح مکرم مولوی خلیل الرحمن بیان کرتے ہیں: وو آپ ( بیت ) مبارک میں ہمیشہ اول صف میں بیٹھا کرتے تھے اور دو رکعت نماز تحیۃ ( البيت ) کے طور پر ضرور پڑھتے تھے.سخت سردی اور سخت گرمی اور بارش بھی با جماعت ادا ئیگی نماز میں روک نہ بنتی تھی.بلکہ بسا اوقات سخت بخار کی حالت میں بھی آپ ( بیت ) میں تشریف لے آتے تھے.ایک مرتبہ آپ کو سخت بخار تھا تو حضور ایدہ حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب فنافی اللہ وجود تھے.آپ کی عبادت ایک اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ارشاد پر خاکسار کے والد محترم عبدالرحیم خاں صاحب مرحوم خاص مقام رکھتی تھی جس میں انتہائی سوز و گداز ہوتا تھا.آپ کی نمازیں لمبی ہوا کرتی درولیش اور ایک اور دوست نے سہارا دے کر گھر پہنچایا.“ ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ سوم صفحہ 21) تھیں.جن میں آپ اللہ تعالیٰ کی محبت میں ڈوب کر ذکر الہی کیا کرتے تھے.بیت مبارک قادیان میں آپ ہمیشہ پہلی صف میں بیٹھے نظر آتے تھے اور نماز سے کافی پہلے آکر آپ کی نماز میں خشوع و خضوع اور سوز و گداز سے بھر پور ہوا کرتی تھیں.آپ کی ذکر الہی میں مصروف ہو جاتے.آپ باجماعت نماز کی اس قدر پابندی فرماتے کہ خواہ نمازوں میں ایک خاص محویت اور انہاک ہوتا.جس کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت کیسے ہی حالات ہوں، کیسا ہی موسم ہو ، آپ حتی المقدور بیت الذکر پہنچتے.آپ کی عبادت میر محمد اسحق صاحب بیان کیا کرتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب پہلے تو سورت فاتحہ کا نقشہ چوہدری محمد شریف صاحب سابق مربی مغربی افریقہ و بلاد عر بیہ ان الفاظ میں تلاوت فرماتے ہیں اس کے بعد اس کا لفظی ترجمہ کرتے ہیں.ازاں بعد با محاورہ ترجمہ اور اس کے بعد وہ اس کی تفسیر میں محو ہو جاتے ہیں.آپ کی محویت اور انہاک کا کھینچتے ہیں.( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ سوم صفحہ 25) آپ کی زندگی نہایت سادی اور درویشانہ تھی.آپ کی شخصیت میں ریا کاری ، عجیب عالم تھا.میں نے سینکڑوں نمازیں آپ کی اقتدا میں ادا کیں اور ان میں ایک نمود و نمائش اور تکبر نام کی کوئی چیز نہ تھی.ستی اور کا بلی آپ کے پاس تک نہ پکتی تھی.خاص لطف پایا.پانچوں نمازیں ( بیت ) مبارک میں ادا فرماتے تھے.مینہ ہو ، آندھی ہو ، اندھیری رات ہو،سخت دھوپ ہو ، جلسہ ہو ، جلوس ہو ، مشاعرہ ہو، مناظرہ ہو، عام تعطیل ہو یا خاص آپ نوافل بڑے اہتمام سے اور باقاعدگی سے ادا کر تے تھے بسا اوقات رات آپ نماز کھڑی ہونے سے بہت دیر پہلے اپنے مقررہ وقت پر اپنی مقررہ جگہ پر موجود کا بیشتر حصہ نوافل کی ادائیگی میں گزار دیتے.چنانچہ مولوی احمد خان صاحب نسیم کا ہوتے تھے.( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ سوم صفحہ 175) بیان ہے:

Page 15

27 26 بہت عبادت گزار تھے اور قیام الیل میں تو میرا مشاہدہ ہے کہ رمضان کے خلافت سے محبت مہینہ میں مدرسہ احمدیہ کے صحن میں ایک دفعہ سویا ہوا تھا تو میں تو حضرت مولوی صاحب کو جب بھی میری آنکھ کھلتی نماز میں مشغول پاتا.آپ اپنے مکان کی چھت پر نماز پڑھ رہے ہوتے.جو سمن بورڈنگ مدرسہ احمدیہ کے ساتھ ملحق تھا اور یہ حال سارا رمضان کا مہینہ ہوتا تھا.“ مکرم مولانا ارجمند خان صاحب سابق وائس پرنسپل جامعہ احمد یہ آپ کی خلافت سے محبت اور تعظیم کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ( بیت ) مبارک میں نماز ظہر یا نماز عصر کے بعد جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز تشریف فرما ہوتے تو حضور کے پر مغز اور پُر معارف کلام ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ سوم صفحہ 23) کو سنے کیلئے سامعین مؤدبانہ طور پر ہمہ تن گوش ہوتے تھے اور حضرت مولانا صاحب کی یہ عادت تھی کہ آپ کے ہاتھ میں رومال ہوتا تھا جس سے کسی مکھی کو آپ حضور کے جسم مبارک پر نہیں بیٹھنے دیتے تھے.اس سے مجھ پر یہ اثر تھا کہ آپ کو منصب خلافت کی عظمت کا بہت خیال ہے.“ نماز با جماعت کی ادائیگی پر آپ سختی سے پابند تھے خواہ کیسے ہی حالات ہوں.آپ باجماعت نماز کی ادائیگی کے لئے بیت الذکر پہنچتے.مکرم مولوی سلیم اللہ صاحب فاضل تحریر کرتے ہیں: مجھے 1911 ء سے 1927ء تک قادیان میں قیام کا موقع ملا.آپ کی شاگردی کا شرف بھی حاصل کیا.آپ کو باجماعت نماز کا جس قدر احساس تھا وہ اس واقعہ سے ظاہر ہے کہ آپ کی صاحبزادی حلیمہ بیگم نزع کی حالت میں تھیں کہ (نداء ) ہو گئی.آپ نے بچی کا ماتھا چوما اور سر پر ہاتھ پھیرا اور اسے سپرد خدا کر کے ( بیت الذکر ) چلے مرکز سلسلہ سے محبت ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ سوم صفحہ 54) آپ کی سیرت کا ایک نمایاں وصف آپ کا مرکز سلسلہ سے محبت کرنا تھا.قادیان گئے.بعد نماز جلدی سے اٹھ کر واپس آنے لگے تو کسی نے ایسی جلدی کی وجہ دریافت کی خاطر آپ نے اپنے عزیز و اقرباء اور دنیوی اموال کو رد کیا اور خلیفہ اسیح کی صحبت کی تو فرمایا کہ نزع کی حالت میں بچی کو چھوڑ آیا تھا اب فوت ہو چکی ہو گی.اس کے کفن میں رہ کر دین کو دنیا پر مقدم کیا.آپ کے صاحبزادے سید مبارک احمد سرور صاحب دفن کا انتظام کرنا ہے.چنانچہ بعض دوسرے دوست بھی گھر تک ساتھ آئے اور بچی اس ضمن میں بیان کرتے ہیں: وفات پا چکی تھی." تایا جان حضرت سید محمد صادق صاحب مرحوم نے حضرت والد صاحب کو خط لکھا ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ سوم صفحہ 82) کہ میں بوڑھا ہو چکا ہوں میری دولڑکیاں جوان ہیں.میں چاہتا ہوں کہ بڑی بیٹی کی

Page 16

29 28 شادی عزیز سید مبارک احمد سے کر دوں آپ عزیز کو میرے پاس کشمیر بھیج دیں تا کہ وہ نورفراست بھی یہاں کے حالات دیکھ لے.“ جب سید مبارک احمد صاحب سرور کشمیر ان کے پاس گئے تو ان کے تایا جان ان سے کہنے لگے کہ ” میری عمر کا آخر ہے نرینہ اولا دکوئی نہیں میری یہ خواہش ہے کہ آں عزیز کو بطور خانہ داماد یہاں رکھوں.اس طرح میری جائیداد خاندان سے باہر جانے سے محفوظ رہے گی اور تم مستقل طور پر یہاں رہائش رکھو تا کہ میرے بعد جائیداد کے مالک بنو.“ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو ایسی فراست عطافرماتا ہے کہ جس سے وہ بعض امور پر قبل از وقوع اطلاع پا لیتے ہیں.حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب بھی ایسے ہی خدا رسیدہ بندے تھے جواللہ تعالی کے عطا کردہ نور فراست سے سرفراز کئے گئے تھے.جس کی ایک مثال آپ کا حضرت مرزا بشیر الدین محمود صاحب (خلیفہ اسیح الثانی) کے بچپن میں ہی آپ کو مستقبل میں ایک عظیم الشان وجود کے طور پر دیکھنا ہے.چنانچہ مولانا شریف احمد صاحب سابق ( رفقائے احمد جلد 5 حصہ سوم صفحہ 80) مربی بلا د مغربی افریقہ و بلا عر بیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب فرمایا صاحبزادہ سید مبارک احمد سرور صاحب نے یہ سارا معاملہ اپنے والد صاحب کے کرتے تھے: سامنے رکھا تو اس پر والد صاحب نے جو کہا اس کا ذکر آپ یوں کرتے ہیں: جب حضرت خلیفہ صحیح ثانی ایدہ اللہ تعالی بھی بچے تھے اور مدرس تعلیم حضرت والد صاحب کا جواب آیا تو سخت غصہ سے بھرا ہوا تھا.جس کا لب لباب الاسلام میں تعلیم پاتے تھے اور میں بھی مدرسہ تعلیم الاسلام میں پڑھایا کرتا تھا اس وقت یہ تھا کہ تم کو شرم آنی چاہیے کہ تمہارے والد نے تو اللہ تعالیٰ اور اس کے مسیح کی خاطر اپنا میں نے خواب میں دیکھا (جس کا مفہوم یہ ہے.خواب میں کشتی وغیرہ بنانے اور اس کا وطن اور اقارب کو چھوڑ چھاڑ کر قادیان ڈیرہ آجمایا اور دنیوی حرص و آس کو خیر باد کہتے نا خدا بنانے کا ذکر تھا) کہ آپ کی بہت بڑی شان ہوگی.اس وقت سے لے کر آخر تیک ہوئے پشاور کالج کی اعلیٰ ملازمت ترک کر دی اور قادیان میں پندرہ روپے کی میں جب آپ والی کلاس میں جاتا اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی وہاں موجود ہوتے تو ملازمت قبول کر لی اور آج تک اپنے بھائیوں سے جدی جائیداد کا حصہ یا اراضی کا غلہ میں کرسی پر نہیں بیٹھتا تھا بلکہ کھڑا ہو کر ہی پڑھایا کرتا تھا اور اس بات کو سوء ادب خیال نہیں لیا.حالانکہ میرا بھی ویسا ہی حق تھا جیسا کہ ان کا تھا.لیکن مجھے تم پر افسوس ہے کہ تم کیا کرتا تھا کہ میں آپ کے سامنے کرسی پر بیٹھوں اور یہ خواب میں نے حضرت خلیفہ دین چھوڑ کر دنیا کی طرف جانا چاہتے ہو.حالانکہ تمہیں میری طرح دین کو دنیا پر مقدم اسیح الثانی کو انہی دنوں میں سنا دیا تھا اور کہا تھا صاحبزادہ صاحب ! اس وقت ہمارا بھی رکھنا چاہیے تھا.تم فوراً قادیان واپس آجاؤ.“ خیال رکھنا.“ ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ سوم صفحہ 80) ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ سوم صفحہ 168-167) آپ کا یہ ادب و احترام صرف درس و تدریس تک ہی محدود نہ تھا بلکہ زندگی کے ہر

Page 17

31 30 مصلح موعود آپ ہی ہیں.“ ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ دوم صفحہ 150 ) شعبہ میں آپ حضرت خلیفہ امسیح الثانی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے اور آپ کے وجود کی علوشان کی وجہ سے محتاط رہتے کہ کہیں عزت نفس میں کمی واقع نہ آجائے چنانچہ مولوی انداز تربیت سلیم اللہ صاحب فاضل بیان کرتے ہیں: پیارے بچو! حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب بچوں کی تربیت محبت اور پیار سے ” مجھے یاد ہے کہ خلافت اولیٰ میں آپ حضرت صاحبزادہ صاحب کو گول کمرے میں فرماتے اور اس طور سے سمجھاتے کہ انہیں احساس رہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے سبق پڑھاتے تھے اور میں وہاں آپ کیلئے قہوہ لے کر جاتا.جب میں دروازہ پر دستک دیتا احمدی بچے ہیں اور اس طرح ہمارا رویہ عام بچوں سے الگ ہونا چاہیے.چنانچہ مکرم شیخ تو صاحبزادہ صاحب اٹھ کر دروازہ کھولتے اور قہوہ کی ٹرے پکڑ لیتے اور مولوی صاحب کے یوسف علی صاحب عرفانی بیان کرتے ہیں: سامنے رکھ دیتے.مولوی صاحب نے مجھے فرمایا کہ جب قہوہ لاؤ.السلام علیکم کہو اور آواز دو و کسی بات پر ایک سکھ لڑکے نے ایک اور احمدی بچے کو گالی دے دی.احمدی بچے تا کہ میں آواز پہچان کر خود اٹھ کر ٹرے لیا کروں.لیکن باوجود اس کے بعض دفعہ صاحبزادہ نے بھی وہی الفاظ دہرا دیے.حضرت مولوی سرور شاہ صاحب نے سُن لیا اور پوچھا کہ بچے تم کس کے بیٹے ہو؟ مگر اس نے کوئی جواب نہ دیا.پھر مجھ سے پوچھا کہ یہ کس کا صاحب ہی قہوہ پکڑ لیتے.اس پر مولوی صاحب نے مجھے قہوہ وہاں پہنچانے سے منع کر بچہ ہے.میں نے بتا دیا.تو آپ نے فرمایا کہ بیٹا! تم احمدی باپ کے بیٹے ہو.گالی دیا اور فرمایا کہ چونکہ صاحبزادہ صاحب بعض دفعہ ٹرے پکڑ لیتے ہیں مجھے اس سے بہت دے رہے ہو.یہ اچھی بات نہیں تو بہ کرو.وہ کچھ سہم سا گیا تھا.اس نے کہا اس نے تکلیف ہوتی ہے.آپ عالی شان وجود ہیں اور انبیاء کی پیشگوئیوں کے مصداق ہیں.“ پہلے مجھے گالی دی تھی.آپ نے فرمایا: ہم احمدی ہیں.تم ابھی بچے ہو تمہیں معلوم نہیں ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ سوم صفحہ 84،83) 66 کہ لوگ ہمیں کس قدر گالیاں دیتے ہیں.ہم صبر کرتے ہیں.تم بھی صبر کرو.“ ( رفقائے احمد جلد نمبر 5 حصہ سوم صفحہ 18 ،19 ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جب ایک موعود بیٹے کی بشارت دیتے ہوئے اس کی علامات کا بھی اللہ تعالیٰ سے الہام پا کر ذکر فرمایا تو حضرت سید محمد سرور پیارے بچو! ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں ان بلندشان بزرگوں شاہ صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے ہی اس یقین پر قائم تھے کہ کی طرح خلافت کا سچا عاشق اور اطاعت گزار بنائے ، ہمیں ہر لمحہ نیکی کی توفیق عطا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہی مصلح موعود ہیں.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: فرماتا چلا جائے اور ہم احمدیت کا سچا چہرہ دنیا کے سامنے پیش کرنے والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہی میرا یہی اعتقاد تھا کہ ہوں.(آمین) حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ہی مصلح موعود ہیں.میں نے انہی دنوں میں اس پیشگوئی پر اچھی طرح غور کیا تھا.اس فور کے نتیجہ میں میں اس اعتقاد پر پہنچا تھا کہ وو

Page 18

حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب نام کتاب طبع..اوّل

Page 18