Language: UR
احادیث میں مسیح موعود کی جماعت کی یہ واضح نشانی بتائی گئی تھی کہ وہ صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والی ہوگی، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کی طرح اپنا خون اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش کرنے کی اس مماثلت میں حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے اصحاب میں حضرت صاجزادہ سید عبداللطیف شہید کا ایک لازوال مقام ہے۔ شہید مرحوم کے بارہ میں یہ کتاب احمدیت کی دوسری صدی کی پہلی عید قربان کے موقع پر ربوہ سے شائع کی گئی تھی۔ تب یہ عید قربان 14 جولائی کو تھی اور اسی تاریخ کو شہید مرحوم کو بھی کابل افغانستان میں نہایت بے دردی سے ایک مجمع کے سامنے حکومت و مذہب کے عمائدین نے سنگسار کرکے شہید کردیا تھا۔ تب اس موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ’’یہ عجیب توارد ہے کہ احمدیت کی دوسری صدی کی پہلی عید قربان ٹھیک چودہ جولائی کو منائی جارہی ہے جس میں یہ پر اسرار پیغام مخفی ہے کہ عشاق احمدیت کو اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہوگا۔‘‘ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن قادیان سے نظارت نشر و اشاعت کی طرف سے شائع کردہ ہے جس کےپانچ ابواب ہیں۔
حضرت شہزادہ سید عبداللطیف شہید مرتبه مولانا دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت حمدیت کی دوسری صدی کی پہلی عید قربان کی تقریب سعید پر الناشر نظارت نشر و اشاعت قادیان
نام کتاب : حضرت شہزادہ سید عبداللطیف شہید مرتبہ ( احمدیت کی دوسری صدی کی پہلی عید قربان کی تقریب سعید پر ) مولا نا دوست محمد شاہد صاحب مورخ احمدیت سن اشاعت : جولائی 2011ء تعداد 1000 : مطبع ناشر فضل عمر پریس، قادیان نظارت نشر و اشاعت صدرانجمن احمد یہ قادیان-143516 ضلع گورداسپور ، پنجاب (انڈیا) ISBN: 978-81-7912-327-0
پیش لفظ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح موعود کی جماعت کے متعلق سید ارشاد فرمایا تھا کہ وہ آخرین کی جماعت صحابہ کے نقش قدم پر چلنے والی ہوگی.جس طرح سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بے دریغ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر جانوں کا نذرانہ پیش کیا اسی طرح اللہ تعالیٰ ایسے فدائی اور جاں نثار ساتھی مسیح موعود کو بھی عطا کریگا.زیر نظر کتاب میں ایسے ہی ایک فدائی جاں نثار صحابی کا تذکرہ ہے جنہوں نے نہایت دلیری اور جوانمردی سے اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا.ہماری مراد شہزادہ عبد اللطیف صاحب سے ہے جن کو کابل میں نہایت بے دردی کے ساتھ سنگسار کیا گیا.اس پاک روح نے جان کی قربانی کو تو قبول کر لیا مگر اُس حق اور صداقت کو چھوڑ نا پسند نہ کیا جس پر ان کا دل ایک غیر متزلزل یقین پر قائم تھا.زیر نظر کتاب پہلی بار احمدیت کی دوسری صدی کی پہلی عید قربان کے موقعہ پر ربوہ پاکستان سے شائع ہوئی تھی.یہ عید قربان 14 جولائی کو تھی اور اسی دن شہزادہ صاحب کو شہید کیا گیا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے خطبہ میں بیان فرمایا کہ:
یہ عجیب توارد ہے کہ احمدیت کی دوسری صدی کی پہلی عید قربان ٹھیک چودہ جولائی کو منائی جارہی ہے.جس میں یہ پر اسرار پیغام مخفی ہے کہ عشاق احمدیت کو اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہنا ہوگا.“ احمدیت کی یہ دوسری صدی میں آج عشاق احمدیت نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ جانوں کی قربانیاں پیش کرنے کے لئے ہر طرح سے تیار ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ جلد اسلام احمدیت کے حقیقی اور کامل غلبہ کے سامان پیدا فرمائے.آمین.زیر نظر کتاب عوام الناس کے استفادہ کے لئے قادیان سے شائع کی جا رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کی اشاعت ہر لحاظ سے بابرکت فرمائے.آمین.والسلام خاکسار ناظر نشر و اشاعت قادیان
پہلی فصل تذکرۃ الشہادتین از قلم مبارک حضرت بانی سلسلہ احمدیہ شیخ عجم کوخراج تحسین فارسی نظم حضرت بانی سلسلہ احمد یہ مرثیه حضرت ثاقب مالیر کوٹلوی دوسری فصل | شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات سید احمد نور کا بلی (حصہ اوّل) تیسری فصل شہید مرحومکے چشمد ید واقعات روایات حضرت سید عبدالستار صاحب (حصہ دوم) (المعروف بزرگ صاحب) چوتھی فصل دنیا بھر کے احمدی سکارلز سے مولانا دوست محمد شاہد دردمندانہ اپیل ( مورخ احمدیت ) حرف آخر شہدائے افغانستان کا عالی مقام حضرت سید نا مولا نا فضل عمر
ایک ایمان افروز روایت ۷ار جنوری ۱۹۰۳ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود، حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کے ساتھ احاطہ کچہری جہلم میں تشریف فرما تھے کہ حضرت شہید مرحوم نے عرض کیا حضور! دل من می خواهد که پیش محمد حسین بروم که مرا از کابل نظر آمد و شمارا که نزدیک ترین هستید نظر نیامد حضور! میرا دل چاہتا ہے کہ (مولوی) محمد حسین کے پاس جاؤں (اور کہوں ) مجھے تو کابل سے نظر آ گیا مگر تمہیں جو سب سے نزدیک ہو کچھ دکھائی نہ دیا.بیان جناب اللہ دتہ صاحب 7 ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر قادیان مورخہ ۲۷ دسمبر ۱۹۳۹ء منقولہ روایات جلدے صفحہ ۴۰۳
بسم اللہ الرحمن الرحیم صیت نبوی اور شہید کابل محبوب کبریا خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانہ کے پُرفتن دور کا تذکرہ کرتے ہوئے وصیت فرمائی: كُونُ دُعَاةُ الضَّلَالَةِ فَإِنْ رَتَيْتَ يَوْمَئِذٍ خَلِيْفَةَ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ فَالْزِمْهُ وَإِنْ نُهِكَ جِسْمُكَ وَأُخِذَ مالک“ ( مسند احمد بن حنبل جلد ۵ صفحه ۴۰۳) اُس زمانہ میں داعیانِ ضلالت پیدا ہو جائیں گے.ان حالات میں اگر تم زمین میں خلیفہ اللہ کودیکھ تو نہایت مضبوطی کے ساتھ اس کے دامن سے وابستہ ہو جاؤ خواہ تمہارا جسم لہولہان کر دیا جائے اور تمہارا سب مال ضبط کر لیا جائے.اس وصیت نبوی کے مطابق شیخ احجم رئیس اعظم خوست حضرت مولوی شہزادہ سید عبد اللطیف نے ۱۴ جولائی ۱۹۰۳ء کو کابل میں جام شہادت نوش کیا.بنا کر دند خوش رسمے بخاک و خون غلطیدن خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را کیلنڈر کی رو سے یہ حیرت انگیز توارد ہے کہ احمدیت کی دوسری صدی کی دوسری عید یعنی عید قربان ٹھیک ۱۴ / جولائی (۱۹۸۹ء) ہی کو منائی جارہی ہے جو حضرت شہزادہ سید عبداللطیف کا یوم شہادت ہے یقینا یہ محض اتفاقی بات نہیں بلکہ اس میں عید کی خوشیاں منانے والے احمدیوں کے لئے یہ آسمانی اشارہ ہے کہ شہید مرحوم کے مقدس خون کی برکت ہے کہ احمدیت کا نھا پودہ تیز
و تندطوفانوں اور خوفناک آندھیوں کے باوجود اب سدا بہار درخت بن چکا ہے اور اس کی شاخیں یورپ سے امریکہ اور افریقہ سے آسٹریلیا تک پوری شان سے پھیل چکی ہیں اور فرزندانِ احمدیت کمال فدائیت اور بے جگری سے حضرت شہید مرحوم کے پر چم کو لہراتے ہوئے ہر بر اعظم، ہر قوم اور ہر ملک میں اپنی جان مال اور عزت و آبرو کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں.؎ عاشقوں کا شوق قربانی تو دیکھ خون کی اس راہ میں ارزانی تو دیکھ ہے اکیلا کفر سے زور آزما! احمدی کی روح ایمانی تو دیکھ ( سید نافضل عمر ) حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ نے آج سے چھیاسی برس پیشتر شہید مرحوم کے حادثہ شہادت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پیشگوئی فرمائی تھی کہ " کابل کی سرزمین پر یہ خون اس تخم کی مانند ہے جو تھوڑے عرصہ میں بڑا درخت بن جاتا ہے اور ہزار ہا پرندے اس پر اپنا بسیرا کرتے ہیں.“ نیز اپنے ایک کشف کی بناء پر خبر دی کہ: (تذکرۃ الشہادتین صفحه ۵۲ - ۵۳) اس خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتا ہے کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف کی روح رکھتے ہوں اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودہ ہوں....خدا تعالیٰ بہت سے ان کے قائم مقام پیدا کر دے گا سو میں یقین رکھتا ہوں کہ کسی وقت میرے اس کشف کی تعبیر ظاہر ہو جائے گی.“ (ایضاً صفحه ۴)
پہلی فصل " تذكرة الشهادتين" (رقم فرمودہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ) مطبوعه اکتوبر ۱۹۰۳ء
بسم اللہ الرحمن الرحیم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ اَلْحَمْدُ لِلَّهِ وَسَلَامٌ عَلَى عِبَادِهِ الَّذِينَ اصْطَفَى اس زمانہ میں اگر چہ آسمان کے نیچے طرح طرح کے ظلم ہورہے ہیں مگر جس ظلم کو ابھی میں ذیل میں بیان کروں گا.وہ ایک ایسا دردناک حادثہ ہے کہ دل کو ہلا دیتا ہے اور بدن پر لرزہ ڈالتا ہے....انہیں دنوں میں جبکہ نہایت زبردست اور قومی نشان ظاہر ہوئے اور میرا دعویٰ مسیح موعود ہونے کا دلائل کے ساتھ دنیا میں شائع ہوا.خوست علاقہ حدود کابل میں ایک بزرگ تک جن کا نام اخوند زادہ مولوی عبد اللطیف ہے.کسی اتفاق سے میری کتا میں پہنچیں اور وہ تمام دلائل جو نقل اور عقل اور تائیدات سماوی سے میں نے اپنی کتابوں میں لکھے تھے.وہ سب دلیلیں ان کی نظر سے گزریں.اور چونکہ وہ بزرگ نہایت پاک باطن اور اہلِ علم اور اہلِ فراست اور خدا ترس اور تقویٰ شعار تھے.اس لئے ان کے دل پر ان دلائل کا قوی اثر ہوا.اور ان کو اس دعوے کی تصدیق میں کوئی دقت پیش نہ آئی اور ان کی پاک کانشنس نے بلا توقف مان لیا کہ یہ شخص منجانب اللہ ہے اور یہ دعویٰ صحیح ہے.تب انہوں نے میری کتابوں کو نہایت محبت سے دیکھنا شروع کیا اور ان کی رُوح جو نہایت صاف اور مستعد تھی میری طرف کھینچی گئی یہاں تک ان کے لئے بغیر ملاقات کے دور بیٹھے رہنا نہایت دشوار ہو گیا.آخر اس زبر دست کشش اور محبت اور اخلاص کا نتیجہ یہ ہوا کہ انہوں نے اس غرض سے کہ ریاست کابل سے اجازت حاصل ہو جائے حج کے لئے مصمم ارادہ کیا اور امیر کابل سے اس سفر کے لئے درخواست کی.چونکہ وہ امیر کابل کی نظر میں ایک برگزیدہ عالم اور تمام علماء کے سردار سمجھے
جاتے تھے.اس لئے نہ صرف ان کو اجازت ہوئی بلکہ امداد کے طور پر کچھ روپیہ بھی دیا گیا.سو وہ اجازت حاصل کر کے قادیان میں پہنچے اور جب مجھ سے ان کی ملاقات ہوئی تو قسم اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے.میں نے ان کو اپنی پیروی اور اپنے دعویٰ کی تصدیق میں ایسا فنا شدہ پایا کہ جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں.اور جیسا کہ ایک شیشہ عطر سے بھرا ہوا ہوتا ہے ایسا ہی میں نے ان کو اپنی محبت سے بھرا ہوا پایا.اور جیسا کہ ان کا چہرہ نورانی تھا ایسا ہی ان کا دل مجھے نورانی معلوم ہوتا تھا.اس بزرگ مرحوم میں نہایت قابل رشک یہ صفت تھی کہ در حقیقت وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتا تھا اور در حقیقت ان راستبازوں میں سے تھا جو خدا سے ڈر کر اپنے تقویٰ اور اطاعت الہی کو انتہاء تک پہنچاتے ہیں اور خدا کے خوش کرنے کے لئے اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے اپنی جان اور عزت اور مال کو ایک ناکارہ خس و خاشاک کی طرح اپنے ہاتھ سے چھوڑ دینے کو تیار ہوتے ہیں اُس کی ایمانی قوت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر میں اس کو ایک بڑے سے بڑے پہاڑ سے تشبیہہ دوں تو میں ڈرتا ہوں کہ میری تشبیہ ناقص نہ ہو.اکثر لوگ باوجود...بیعت کے اور باوجود میرے دعویٰ کی تصدیق کے پھر بھی دنیا کو دین پر مقدم رکھنے کے زہریلے تم سے بکلی نجات نہیں پاتے بلکہ کچھ ملونی ان میں باقی رہ جاتی ہے.اور ایک پوشیدہ نخل خواہ وہ جان کے متعلق ہو اور خواہ آبرو کے متعلق اور خواہ مال کے اور خواہ اخلاقی حالتوں کے متعلق ان کے نامکمل نفسوں میں پایا جاتا ہے.اسی وجہ سے ان کی نسبت ہمیشہ میری یہ حالت رہتی ہے کہ میں ہمیشہ کسی خدمت دینی کے پیش کرنے کے وقت ڈرتا رہتا ہوں کہ ان کو ابتلاء پیش نہ آوے.اور اس خدمت کو اپنے پر بوجھ سمجھ کر اپنی بیعت کو الوداع نہ کہہ دیں.لیکن میں کن الفاظ سے اس بزرگ مرحوم کی تعریف کروں جس نے اپنے مال اور آبرو اور جان کو میری پیروی میں یوں پھینک دیا کہ جس طرح کوئی رڈی چیز پھینک دی جاتی ہے.اکثر لوگوں کو میں دیکھتا ہوں کہ ان کا اوّل اور آخر برابر نہیں ہوتا اور ادنیٰ سی ٹھو کر یا شیطانی وسوسہ یا بدصحبت سے وہ گر جاتے ہیں.مگر اس جواں مرد مرحوم کی استند €3
کی تفصیل میں کن الفاظ سے بیان کروں کہ وہ نوریقین میں دمبدم ترقی کرتا گیا اور جب وہ میرے پاس پہنچا تو میں نے اُن سے دریافت کیا کہ کن دلائل سے آپ نے مجھے شناخت کیا.تو انہوں نے فرمایا کہ سب سے پہلے قرآن ہے جس نے آپ کی طرف میری رہبری کی اور فرمایا کہ میں ایک ایسی طبیعت کا آدمی تھا کہ پہلے سے فیصلہ کر چکا تھا کہ یہ زمانہ جس میں ہم ہیں.اس زمانہ کے اکثر مسلمان اسلامی روحانیت سے بہت دور جا پڑے ہیں.وہ اپنی زبانوں سے کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے.مگر ان کے دل مومن نہیں اور ان کے اقوال اور افعال بدعت اور شرک اور انواع و اقسام کی معصیت سے پُر ہیں.ایسا ہی بیرونی حملے بھی انتہاء تک پہنچ گئے ہیں.اور اکثر دل تاریک پردوں میں ایسے بے حسن و حرکت ہیں کہ گویا مر گئے ہیں.اور وہ دین اور تقویٰ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لائے تھے جس کی تعلیم صحابہ رضی اللہ عنہم کودی گئی تھی.اور وہ صدق اور یقین اور ایمان جو اس پاک جماعت کو ملا تھا بلا شبہ اب وہ باعث کثرت غفلت کے مفقود ہے اور شاذ نادر حکم معدوم کا رکھتا ہے.ایسا ہی میں دیکھ رہا تھا کہ اسلام ایک مردہ کی حالت میں ہو رہا ہے.اب وہ وقت آ گیا ہے کہ پردہ غیب سے کوئی منجانب اللہ مجد ددین پیدا ہو.بلکہ میں روز بروز اس اضطراب میں تھا کہ وقت تنگ ہوتا جاتا ہے.انہیں دنوں میں یہ آواز میرے کانوں تک پہنچی کہ ایک شخص نے قادیان ملک پنجاب میں مسیح موعود ہونے کا دعوی کیا ہے.اور میں نے بڑی کوشش سے چند کتابیں آپ کی تالیف کردہ بہم پہنچائیں.اور انصاف کی نظر سے ان پر غور کر کے پھر قرآن کریم پر ان کو عرض کیا تو قرآن شریف کو ان کے ہر بیان کا مصدق پایا.پس وہ بات جس نے پہلے پہلے مجھے اس طرف حرکت دی وہ یہی ہے کہ میں نے دیکھا کہ ایک طرف تو قرآن شریف بیان کر رہا ہے کہ عیسی علیہ السلام فوت ہو گئے ہیں اور واپس نہیں آئیں گے اور دوسری طرف وہ موسوی سلسلہ کے مقابل پر اس امت کو وعدہ دیتا ہے کہ وہ اس امت کی مصیبت اور ضلالت کے دنوں میں ان خلیفوں کے رنگ میں خلیفے بھیجتا رہے گا جو موسوی سلسلہ کے قائم اور بحال رکھنے کے لئے بھیجے گئے
تھے.سوچونکہ ان میں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایک ایسے خلیفہ تھے جو موسوی سلسلہ کے آخر میں پیدا ہوئے.اور نیز وہ ایسے خلیفے تھے کہ جو لڑائی کے لئے مامور نہیں ہوئے تھے.اس لئے خدا تعالیٰ کے کلام سے ضرور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کے رنگ پر بھی اس امت میں آخری زمانہ میں کوئی پیدا ہو.اسی طرح بہت سے کلمات معرفت اور دانائی کے ان کے منہ سے میں نے سنے جو بعض یادر ہے اور بعض بھول گئے اور وہ کئی مہینہ تک میرے پاس رہے.اور اس قدران کو میری باتوں میں دلچسپی ہوئی کہ انہوں نے میری باتوں کو حج پر ترجیح دی اور کہا کہ میں اس علم کا محتاج ہوں جس سے ایمان قوی ہو اور علم عمل پر مقدم ہے سو میں نے ان کو مستعد پا کر جہاں تک میرے لئے ممکن تھا اپنے معارف ان کے دل میں ڈالے........مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب جب قادیان میں آئے تو صرف اُن کو یہی فائدہ نہ ہوا کہ انہوں نے مفصل طور پر میرے دعوی کے دلائل سنے بلکہ ان چند مہینوں کے عرصہ میں جو وہ قادیان میرے پاس رہے اور ایک سفر جہلم تک بھی میرے ساتھ کیا.بعض آسمانی نشان بھی میری تائید میں انہوں نے مشاہدہ کئے.ان تمام براہین اور انوار اور خوارق کو دیکھنے کی وجہ سے وہ فوق العادت یقین سے بھر گئے اور طاقت بالا ان کو کھینچ کر لے گئی......ابھی وہ اسی جگہ تھے کہ بہت سے یقین اور بھاری تبدیلی کی وجہ سے ان پر الہام اور وحی کا دروازہ کھولا گیا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے کھلے لفظوں میں میری تصدیق کے بارے میں انہوں نے شہادتیں پائیں جن کی وجہ سے آخر کار انہوں نے اس شہادت کا شربت اپنے لئے منظور کیا جس کے مفصل لکھنے کے لئے اب وقت آ گیا ہے.یقیناً یا درکھو کہ جس طرز سے انہوں نے میری تصدیق کی راہ میں مرنا قبول کیا.اس قسم کی موت اسلام کے تیرہ سو برس کے سلسلہ میں بجز نمونہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اور کسی جگہ نہیں پاؤ گے.پس بلا شبہ اس طرح ان کا مرنا اور میری تصدیق میں نفذ جان خدا تعالیٰ کے حوالہ کرنا یہ میری سچائی پر ایک عظیم الشان نشان ہے.مگر ان کے لئے جو سمجھ رکھتے ہیں.انسان شک وشبہ کی 5
حالت میں کب چاہتا ہے کہ اپنی جان دے دے.اور اپنی بیوی اپنے بچوں کو تباہی میں ڈالے.پھر عجب تریہ کہ یہ بزرگ معمولی انسان نہیں تھا.بلکہ ریاست کا بل میں کئی لاکھ کی ان کی اپنی جاگیر تھی اور انگریزی عملداری میں بھی بہت سی زمین تھی.اور طاقت علمی اس درجہ تک تھی کہ ریاست نے تمام مولویوں کا ان کو سر دار قرار دیا تھا وہ سب سے زیادہ عالم علم قرآن اور حدیث اور فقہ میں سمجھے جاتے تھے اور نئے امیر کی دستار بندی کی رسم بھی انہیں کے ہاتھ سے ہوتی تھی.اور اگر امیر فوت ہو جائے تو اس کے جنازہ پڑھنے کے لئے بھی وہی مقر رتھے.یہ وہ باتیں ہیں جو ہمیں معتبر ذریعہ سے پہنچی ہیں.اور ان کی خاص زبان سے میں نے سنا تھا کہ ریاست کابل میں پچاس ہزار کے قریب ان کے معتقد اور ارادتمند ہیں جن میں سے بعض ارکان ریاست بھی تھے غرض یہ بزرگ ملک کابل میں ایک فرد تھا.اور کیا علم کے لحاظ سے اور کیا تقویٰ کے لحاظ سے اور کیا جاہ اور مرتبہ کے لحاظ سے اور کیا خاندان کے لحاظ سے اس ملک میں اپنی نظیر نہیں رکھتا تھا.اور علاوہ مولوی کے خطاب کے صاحبزادہ اور اخوان زادہ اور شہزادہ کے لقب سے اس ملک میں مشہور تھے.اور شہید مرحوم ایک بڑا کتب خانہ حدیث اور تفسیر اور فقہ کا اپنے پاس رکھتے تھے.اور نئی کتابوں کے خریدنے کے لئے ہمیشہ حریص تھے اور ہمیشہ درس و تدریس کا شغل جاری تھا.اور صد ہا آدمی ان کی شاگردی کا فخر حاصل کر کے مولویت کا خطاب پاتے تھے.لیکن بایں ہمہ کمال یہ تھا کہ بے نفسی اور انکسار میں اس مرتبہ تک پہنچ گئے تھے کہ جب تک انسان فنافی اللہ نہ ہو.یہ مرتبہ نہیں پاسکتا.ہر ایک شخص کسی قدر شہرت اور علم سے محجوب ہو جاتا ہے.اور اپنے تئیں کچھ چیز سمجھنے لگتا ہے اور وہی علم اور شہرت حق طلبی سے اس کو مانع ہو جاتی ہے.مگر یہ شخص ایسا بے نفس تھا کہ باوجود یکہ ایک مجموعہ فضائل کا جامع تھا مگر تب بھی کسی حقیقت حقہ کے قبول کرنے سے اس کو اپنی علمی اور عملی اور خاندانی وجاہت مانع نہیں ہوسکتی تھی اور آخر سچائی پر اپنی ان قربان کی اور ہماری جماعت کے لئے ایک ایسا نمونہ چھوڑ گیا جس کی پابندی اصل 6
منشاء خدا کا ہے.اب ہم ذیل میں اس بزرگ کی شہادت کے واقعہ کو لکھتے ہیں کہ کس دردناک طریق سے وہ قتل کیا گیا اور اس راہ میں کیا استقامت اس نے دکھلا ئی کہ بجز کامل قوت ایمانی کے اس دار الغرور میں کوئی نہیں دکھلا سکتا.اور بالآخر ہم یہ بھی لکھیں گے کہ ضرور تھا کہ ایسا ہی ہوتا کیونکہ آج سے تئیس برس پہلے ان کی شہادت اور ان کے ایک شاگرد کی شہادت کی نسبت خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی تھی جس کو اسی زمانہ میں میں نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں شائع کیا تھا.سو اس بزرگ مرحوم نے نہ فقط وہ نشان دکھلایا جو کامل استقامت کے رنگ میں اُس سے ظہور میں آیا.بلکہ یہ دوسرا نشان بھی اس کے ذریعہ سے ظاہر ہوگیا جو ایک مدت دراز کی پیشگوئی اس کی شہادت سے پوری ہوگئی جیسا کہ ہم انشاء اللہ اخیر میں اس پیشگوئی کو درج کریں گے.واضح رہے کہ براہین احمدیہ کی پیشگوئی میں دو شہادتوں کا ذکر ہے اور پہلی شہادت میاں عبد الرحمن مولوی صاحب موصوف کے شاگرد کی تھی جس کی تکمیل امیر عبدالرحمن یعنی اس امیر کے باپ سے ہوئی.اس لئے ہم بلحاظ ترتیب زمانی پہلے میاں عبدالرحمن مرحوم کی شہادت کا ذکر کرتے ہیں.بیان شہادت میاں عبد الرحمن مرحوم شاگر د مولوی صاحبزاده عبد اللطیف صاحب رئیس اعظم خوست ملک افغانستان مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب مرحوم کی شہادت سے تخمینا دو برس پہلے اُن کے ایماء اور ہدایت سے میاں عبد الرحمن شاگرد و رشید ان کے قادیان میں شاید دو یا تین دفعہ آئے اور ہر یک مرتبہ کئی کئی مہینہ تک رہے اور متواتر صحبت اور تعلیم اور دلائل کے سننے سے ان کا ایمان شہداء کا رنگ پکڑ گیا.اور آخری دفعہ جب کابل واپس گئے تو وہ میری تعلیم سے €7
پور حصہ لے چکے تھے.اور اتفاقا ان کی حاضری کے ایام میں بعض کتابیں میری طرف سے جہاد کی ممانعت میں چھپی تھیں.جن سے ان کو یقین ہو گیا تھا کہ یہ سلسلہ جہاد کا مخالف ہے پھر ایسا اتفاق ہوا کہ جب وہ مجھ سے رخصت ہو کر پشاور میں پہنچے تو اتفاقا خواجہ کمال الدین صاحب پلیڈر سے جو پشاور میں تھے اور میرے مرید ہیں ملاقات ہوئی اور انہیں دنوں میں خواجہ کمال الدین صاحب نے ایک رسالہ جہاد کی ممانعت میں شائع کیا تھا.اس سے ان کو بھی اطلاع ہوئی اور وہ مضمون ایسا ان کے دل میں بیٹھ گیا کہ کابل میں جا کر جابجا انہوں نے یہ ذکر شروع کیا.کہ انگریزوں سے جہاد کرنا درست نہیں کیونکہ وہ ایک کثیر گروہ مسلمانوں کے حامی ہیں اور کئی کروڑ مسلمان امن و عافیت سے ان کے زیر سایہ زندگی بسر کرتے ہیں.تب یہ خبر رفتہ رفتہ امیر عبدالرحمن کو پہنچ گئی.اور یہ بھی بعض شریر پنجابیوں نے جو اس کے ساتھ ملازمت کا تعلق رکھتے ہیں اس پر ظاہر کیا کہ یہ ایک پنجابی شخص کا مرید ہے جو اپنے تئیں مسیح موعود ظاہر کرتا ہے اور اس کی یہ بھی تعلیم ہے کہ انگریزوں سے جہاد درست نہیں.بلکہ اس زمانہ میں قطعا جہاد کا مخالف ہے.تب امیر یہ بات سن کر بہت برافروختہ ہو گیا اور اس کو قید کرنے کا حکم دیا.تا مزید تحقیقات سے کچھ زیادہ حال معلوم ہو.آخر یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ گئی کہ ضرور یہ شخص مسیح قادیانی کا مرید اور مسئلہ جہاد کا مخالف ہے.تب اس مظلوم کو گردن میں کپڑا ڈال کر اور دم بند کر کے شہید کیا گیا.کہتے ہیں کہ اس کی شہادت کے وقت بعض آسمانی نشان ظاہر ہوئے.یہ تو میاں عبد الرحمن شہید کا ذکر ہے.اب ہم مولوی صاحبزادہ عبداللطیف کی شہادت کا درد ناک ذکر کرتے ہیں اور اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ اس قسم کا ایمان حاصل کرنے کے لئے دُعا کرتے رہیں جب تک انسان کچھ خدا کا اور کچھ دنیا کا ہے تب تک آسمان پر اس کا نام مومن نہیں.8
بیان واقعه بائلہ شہادت مولوی صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب مرحوم رئیس اعظم خوست علاقہ کا بل غفر اللہ الہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ مولوی صاحب خوست علاقہ کابل سے قادیان میں آکر کئی مہینہ میرے پاس اور میری صحبت میں رہے.پھر بعد اس کے آسمان پر یہ امر قطعی طور پر فیصلہ پاچکا.کہ وہ درجہ شہادت پاویں تو اس کے لئے یہ تقریب پیدا ہوئی کہ وہ مجھ سے رخصت ہو کر اپنے وطن کی طرف واپس تشریف لے گئے.اب جیسا کہ معتبر ذرائع سے اور خاص دیکھنے والوں کی معرفت مجھے معلوم ہوا ہے.قضاء وقدر سے یہ صورت پیش آئی کہ مولوی صاحب جب سرزمین علاقہ ریاست کابل کے نزدیک پہنچے تو علاقہ انگریزی میں ٹھہر کر بریگیڈیر محمد حسین کوتوال کو جو ان کا شاگر د تھا.ایک خط لکھا کہ اگر آپ امیر صاحب سے میرے آنے کی اجازت حاصل کر کے مجھے اطلاع دیں تو امیر صاحب کے پاس بمقام کابل میں حاضر ہو جاؤں بلا اجازت اس لئے تشریف نہ لے گئے کہ وقت سفر امیر صاحب کو یہ اطلاع دی تھی کہ میں حج کو جاتا ہوں.مگر وہ ارادہ قادیان میں بہت دیر تک ٹھہرنے کے پورا نہ ہو سکا اور وقت ہاتھ سے جاتا رہا.اور چونکہ وہ میری نسبت شناخت کر چکے تھے.کہ یہی شخص مسیح موعود ہے.اس لئے میری صحبت میں رہنا ان کو مقدم معلوم ہوا.اور بموجب نص اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُولَ حج کا ارادہ انہوں نے کسی دوسرے سال پر ڈال دیا.اور ہر ایک دل اس بات کو محسوس کر سکتا ہے کہ ایک حج کا ارادہ کرنے والے کے لئے اگر یہ بات پیش آجائے.کہ وہ اس مسیح موعود کو دیکھ لے جس کا تیرہ سو (۱۳۰۰) برس سے اہلِ اسلام میں انتظار ہے.تو بموجب نص صریح قرآن اور احادیث کے وہ بغیر اس کی اجازت کے حج کو نہیں جاسکتا.ہاں باجازت اس کے دوسرے وقت میں جاسکتا ہے.غرض چونکہ وہ مرحوم سید الشہداء اپنی صحت égè 9
نیت سے حج نہ کر سکا.اور قادیان میں ہی دن گزر گئے تو قبل اس کے کہ وہ سر زمین کابل میں وارد ہوں.اور حد و دریاست کے اندر قدم رکھیں احتیاطا قرین مصلحت سمجھا کہ انگریزی علاقہ میں رہ کر امیر کابل پر اپنی سرگزشت کھول دی جائے.کہ اس طرح پر حج کرنے سے معذوری پیش آئی.انہوں نے مناسب سمجھا کہ بریگیڈیر محمد حسین کو خط لکھا تا وہ مناسب موقعہ پر اصل حقیقت مناسب لفظوں میں امیر کے گوش گزار کر دیں.اور اس خط میں یہ لکھا کہ اگر چہ میں حج کے لئے روانہ ہوا تھا.مگر مسیح موعود کی مجھے زیارت ہوگئی اور چونکہ مسیح کے ملنے کے لئے اور اس کی اطاعت مقدم رکھنے کے لئے خدا اور رسول کا حکم ہے.اس مجبوری سے مجھے قادیان میں ٹھہر نا پڑا.اور میں نے اپنی طرف سے یہ کام نہ کیا.بلکہ قرآن اور حدیث کی رُو سے اسی امر کو ضروری سمجھا.جب یہ خط بریگیڈیئر محمد حسین کو توال کو پہنچا تو اس نے وہ خط اپنے زانو کے نیچے رکھ لیا اور اس وقت پیش نہ کیا.مگر اس کے نائب کو جو مخالف اور شریر آدمی تھا.کسی طرح پتہ لگ گیا.کہ یہ مولوی صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کا خط ہے اور وہ قادیان میں ٹھہرے رہے.تب اس نے وہ خط کسی تدبیر سے نکال لیا اور امیر صاحب کے آگے پیش کر دیا.امیر صاحب نے بریگیڈیئر محمد حسین کو تو ال سے دریافت کیا کہ کیا یہ خط آپ کے نام آیا ہے.اس نے امیر کے موجودہ غیظ و غضب سے خوف کھا کر انکار کر دیا.پھر ایسا اتفاق ہوا کہ مولوی صاحب شہید نے کئی دن پہلے خط کے جواب کا انتظار کر کے ایک اور خط بذریعہ ڈاک محمد حسین کو تو ال کو لکھا.وہ خط افسر ڈاک خانہ نے کھول لیا اور امیر صاحب کو پہنچا دیا چونکہ قضاء و قدر سے مولوی صاحب کی شہادت مقد رتھی.اور آسمان پر وہ برگزید بزمرہ شہداء داخل ہو چکا تھا.اس لئے امیر صاحب نے ان کو بلانے کے لئے حکمت عملی سے کام لیا.اور ان کی طرف خط لکھا کہ آپ بلا خطرہ چلے آؤ.اگر یہ دعوی سچا ہوگا تو میں بھی مرید ہو جاؤں گا.بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں یہ معلوم نہیں کہ خط امیر صاحب نے ڈاک میں بھیجا تھا یا دستی روانہ کیا تھا.بہر حال اس خط کو دیکھ کر مولوی صاحب موصوف کابل کی طرف روانہ ہو گئے اور قضاء وقدر نے نازل 10
ہونا شروع کر دیا.راویوں نے بیان کیا ہے کہ جب شہید مرحوم کابل کے بازار سے گزرے تو گھوڑے پر سوار تھے اور ان کے پیچھے آٹھ سرکاری سوار تھے اور ان کی تشریف آوری سے پہلے عام طور پر کابل میں مشہور تھا کہ امیر صاحب نے اخوندزادہ صاحب کو دھوکہ دیکر بلایا ہے.اب بعد اس کے دیکھنے والوں کا یہ بیان ہے کہ جب اخوندزادہ صاحب مرحوم بازار سے گزرے تو ہم اور دوسرے بہت سے بازاری لوگ ساتھ چلے گئے.اور یہ بھی بیان کیا کہ آٹھ سرکاری سوارخوست سے ہی ان کے ہمراہ کئے گئے تھے.کیونکہ اُن کے خوست پہنچنے سے پہلے حکم سرکاری ان کے گرفتار کرنے کے لئے حاکم خوست کے نام آچکا تھا.غرض جب امیر کے روبرو پیش کئے گئے تو مخالفوں نے پہلے سے ہی ان کے مزاج کو متغیر کر رکھا تھا.اس لئے وہ بہت ظالمانہ جوش سے پیش آئے.اور حکم دیا کہ مجھے ان سے بو آتی ہے.ان کو فاصلہ پر کھڑا کرو.پھر تھوڑی دیر کے بعد حکم دیا کہ ان کو اس قلعہ میں جس میں خود امیر صاحب رہتے ہیں قید کر دو اور زنجیر غراغراب لگا دو.یہ زنجیر وزنی ایک من چوبیس سیر انگریزی کا ہوتا ہے.کمر سے گردن تک گھیر لیتا ہے اور اس میں ہتھکڑی بھی شامل ہے.اور نیز حکم دیا کہ پاؤں میں بیٹری وزنی آٹھ سیر انگریزی کی لگا دو.پھر اس کے بعد مولوی صاحب چار مہینہ میں قید رہے اور اس عرصہ میں کئی دفعہ ان کو امیر کی طرف سے فہمائش ہوئی کہ تم اگر اس خیال سے تو بہ کرو کہ قادیانی در حقیقت مسیح موعود ہے تو تمہیں رہائی دی جائے گی.مگر ہر مرتبہ انہوں نے یہی جواب دیا کہ میں صاحب علم ہوں.اور حق و باطل کی شناخت کرنے کی خدا نے مجھے قوت عطا کی ہے.میں نے پوری تحقیق سے معلوم کر لیا ہے کہ یہ شخص در حقیقت مسیح موعود ہے.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میرے اس پہلو کے اختیار کرنے میں میری جان کی خیر نہیں ہے.اور میرے اہل وعیال کی بربادی ہے.مگر میں اس وقت اپنے ایمان کو اپنی جان اور ہر ایک دنیوی راحت پر مقدم سمجھتا ہوں.شہید مرحوم نے نہ ایک دفعہ بلکہ قید ہونے کی حالت میں بارہا یہی جواب دیا.اور یہ قید انگریزی قید کی طرح نہیں تھی جس میں انسانی کمزوری کا کچھ کچھ لحاظ رکھا جاتا 11
ہے.بلکہ ایک سخت قید تھی جس کو انسان موت سے بدتر سمجھتا ہے.اس لئے لوگوں نے شہید موصوف کی اس استقامت اور استقلال کو نہایت تعجب سے دیکھا اور در حقیقت تعجب کا مقام ہے.کہ ایسا جلیل الشان شخص کہ جو کئی لاکھ روپیہ کی ریاست کابل میں جاگیر رکھتا تھا اور اپنے فضائل علمی اور تقویٰ کی وجہ سے گویا تمام سرزمین کابل کا پیشوا تھا اور قریبا پچاس برس کی عمر تک تنعم اور آرام میں زندگی بسر کی تھی.اور بہت سا اہل وعیال اور عزیز فرزند رکھتا تھا.پھر یک دفعہ وہ ایسی سنگین قید میں ڈالا گیا جو موت سے بدتر تھی اور جس کے تصور سے بھی انسان کے بدن پر لرزہ پڑتا ہے.ایسا نازک اندام اور نعمتوں کا پروردہ انسان وہ اس رُوح کے گداز کرنے والی قید میں صبر کر سکے.اور جان کو ایمان پر فدا کرے.بالخصوص جس حالت میں امیر کابل کی طرف سے بار باران کو پیغام پہنچتا تھا کہ اس قادیانی شخص کے دعوی سے انکار کر دو تو تم ابھی عزت سے رہا کئے جاؤ گے مگر اُس قومی الایمان بزرگ نے اس بار بار کے وعدہ کی کچھ بھی پروا نہ کی.اور بار بار یہی جواب دیا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں ایمان پر دنیا کو مقدم رکھ لوں.اور کیونکر ہوسکتا ہے کہ جس کو میں نے خوب شناخت کر لیا اور ہر ایک طرح سے تسلی کر لی.اپنی موت کے خوف سے اس کا انکار کر دوں.یہ انکار تو مجھ سے نہیں ہوگا.میں دیکھ رہا ہوں کہ میں نے حق پالیا.اس لئے چند روزہ زندگی کے لئے مجھ سے یہ بے ایمانی نہیں ہوگی.کہ میں اُس ثابت شدہ حق کو چھوڑ دوں.میں جان چھوڑنے کے لئے تیار ہوں اور فیصلہ کر چکا ہوں مگر حق میرے ساتھ جائے گا.اس بزرگ کے بار بار کے یہ جواب ایسے تھے.کہ سر زمین کابل کبھی ان کو فراموش نہیں کریگی.اور کابل کے لوگوں نے اپنی تمام عمر میں یہ نمونہ ایمانداری اور استقامت کا کبھی نہیں دیکھا ہوگا.اس جگہ یہ بھی ذکر کرنے کے لائق ہے کہ کابل کے امیروں کا یہ طریق نہیں ہے.کہ اس قدر بار بار وعدہ معافی دیکر ایک عقیدہ کے چھڑانے کے لئے تو جہ دلائیں.لیکن مولوی عبد اللطیف صاحب مرحوم کی یہ خاص رعایت اس وجہ سے تھی کہ وہ ریاست کابل کا گویا ایک باز و تھا اور ہزار ہا انسان اس کے معتقد تھے اور جیسا کہ ہم اوپر لکھ 12
چکے ہیں وہ امیر کابل کی نظر میں اس قدرمنتخب عالم فاضل تھا کہ تمام علماء میں آفتاب کی طرح سمجھا جاتا تھا.پس ممکن ہے کہ امیر کو بجائے خود یہ رنج بھی ہو کہ ایسا برگزیدہ انسان علماء کے اتفاق رائے سے ضرور قتل کیا جائے گا.اور یہ تو ظاہر ہے کہ آج کل ایک طور سے عنانِ حکومت کابل کے مولویوں کے ہاتھ میں ہے.اور جس بات پر مولوی لوگ اتفاق کر لیں پھر ممکن نہیں کہ امیر اس کے برخلاف کچھ کر سکے.پس یہ امر قرین قیاس ہے کہ ایک طرف اس امیر کو مولویوں کا خوف تھا اور دوسری طرف شہید مرحوم کو بے گناہ دیکھتا تھا پس یہی وجہ ہے کہ وہ قید کی تمام مدت میں یہی ہدایت کرتا رہا.کہ آپ اس شخص قادیانی کو مسیح موعود مت ما نیں.اور اس عقیدہ سے تو بہ کریں.تب آپ عزت کے ساتھ رہا کر دیے جاؤ گے.اور اسی نیت سے اس نے شہید مرحوم کو اس قلعہ میں قید کیا تھا جس قلعہ میں وہ آپ رہتا تھا.تا متواتر فہمائش کا موقعہ ملتا ہے.اور اس جگہ ایک اور بات لکھنے کے لائق ہے.اور دراصل وہی ایک بات ہے جو اس بلا کی موجب ہوئی.اور وہ یہ ہے.کہ عبدالرحمن شہید کے وقت سے یہ بات امیر اور مولویوں کو خوب معلوم تھی کہ قادیانی جو مسیح موعود کا دعویٰ کرتا ہے جہاد کا سخت مخالف ہے اور اپنی کتابوں میں بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ اس زمانہ میں تلوار کا جہاد درست نہیں.اور اتفاق سے اس امیر کے باپ نے جہاد کے واجب ہونے کے بارے میں ایک رسالہ لکھا تھا جو میرے شائع کردہ رسالوں کے بالکل مخالف ہے اور پنجاب کے شر انگیز بعض آدمی جو اپنے تیں موحد یا اہلِ حدیث کے نام سے موسوم کرتے تھے.امیر کے پاس پہنچ گئے تھے.غالبًا اُن کی زبانی امیر عبدالرحمن نے جو امیر حال کا باپ تھا میری ان کتابوں کا مضمون سُن لیا ہوگا.اور عبدالرحمن شہید کے قتل کی بھی یہی وجہ ہوئی تھی کہ امیر عبدالرحمن نے خیال کیا تھا کہ یہ اس گروہ کا انسان ہے جو لوگ جہاد کو حرام جانتے ہیں.اور یہ بات یقینی ہے کہ قضاء و قدر کی کشش سے مولوی عبد اللطیف مرحوم سے بھی یہ غلطی ہوئی کہ اس قید کی حالت میں بھی جتلا دیا کہ اب لے جہاد بالسیف مراد ہے بمطابق حدیث يضع الحرب.بخاری.(ناقل) 13
یہ زمانہ جہاد کا نہیں.اور وہ مسیح موعود جو در حقیقت مسیح ہے اس کی یہی تعلیم ہے کہ اب یہ زمانہ دلائل کے پیش کرنے کا ہے.تلوار کے ذریعہ سے مذہب کو پھیلا نا جائز نہیں.اور اب اس قسم کا پودہ ہر گز بار آور نہیں ہوگا بلکہ جلد خشک ہو جائے گا.چونکہ شہید مرحوم سچ کے بیان کرنے میں کسی کی پروا نہیں کرتے تھے.اور در حقیقت ان کو سچائی کے پھیلانے کے وقت اپنی موت کا بھی اندیشہ نہ تھا.اس لئے ایسے الفاظ ان کے منہ سے نکل گئے.اور عجیب بات یہ ہے کہ ان کے بعض شاگرد بیان کرتے ہیں کہ جب وہ وطن کی طرف روانہ ہوئے تو بار بار کہتے تھے.کہ کابل کی زمین اپنی اصلاح کے لئے میرے خون کی محتاج ہے.اور درحقیقت وہ سچ کہتے تھے.کیونکہ سرزمین کابل میں اگر ایک کروڑ اشتہار شائع کیا جاتا.اور دلائل قویہ سے میرا امسیح موعود ہونا ان میں ثابت کیا جاتا تو ان اشتہارات کا ہرگز ایسا اثر نہ ہوتا جیسا کہ اس شہید کے خون کا اثر ہوا.کابل کی سرزمین پر یہ خون اس تخم کی مانند پڑا ہے.جو تھوڑے عرصہ میں بڑا درخت بن جاتا ہے اور ہزار ہا پرندے اس پر اپنا بسیرا لیتے ہیں.اب ہم اس دردناک واقعہ کا باقی حصہ اپنی جماعت کے لئے لکھ کر اس مضمون کو ختم کرتے ہیں.اور وہ یہ ہے کہ جب چار مہینے قید کے گزر گئے.تب امیر نے اپنے رو برو شہید مرحوم کو بلا کر پھر اپنی عام کچہری میں تو بہ کے لئے فہمائش کی.اور بڑے زور سے رغبت دی کہ اگر تم اب بھی قادیانی کی تصدیق اور اس کے اصولوں کی تصدیق سے میرے روبرو انکار کرو تو تمہاری جان بخشی کی جائے گی اور تم عزت کے ساتھ چھوڑے جاؤ گے.شہید مرحوم نے جواب دیا کہ یہ تو غیر ممکن ہے کہ میں سچائی سے تو بہ کروں.اس دنیا کے حکام کا عذاب تو موت تک ختم ہو جاتا ہے لیکن میں اس سے ڈرتا ہوں جس کا عذاب کبھی ختم نہیں ہو سکتا.ہاں چونکہ میں سچ پر ہوں اس لئے میں چاہتا ہوں کہ ان مولویوں سے جو میرے عقیدے کے خلاف ہیں میری بحث کرائی جائے.اگر میں دلائل کی رو سے جھوٹا نکلا تو مجھے سزا دی جائے.راوی اس قصہ کے کہتے ہیں کہ ہم اس گفتگو کے وقت موجود تھے.امیر نے اس بات کو پسند کیا اور مسجد شاہی میں خان ملا خان اور آٹھ مفتی بحث کے 14
لئے منتخب کئے گئے.اور ایک لاہوری ڈاکٹر جو خود پنجابی ہونے کی وجہ سے سخت مخالف تھا بطور ثالث کے مقرر کر کے بھیجا گیا.بحث کے وقت مجمع کثیر تھا اور دیکھنے والے کہتے ہیں کہ ہم اس بحث کے وقت موجود تھے.مباحثہ تحریری تھا.صرف تحریر ہوتی تھی.اور کوئی بات حاضرین کو سنائی نہیں جاتی تھی.اس لئے اس مباحثہ کا کچھ حال معلوم نہیں ہوا.سات بجے صبح سے تین بجے سہ پہر تک مباحثہ جاری رہا.پھر جب عصر کا آخری وقت ہوا تو کفر کا فتویٰ لگایا گیا.اور آخر بحث میں شہید مرحوم سے یہ بھی پوچھا گیا کہ اگر مسیح موعود یہی قادیانی شخص ہے تو پھر تم عیسی علیہ السلام کی نسبت کیا کہتے ہو.کیا وہ واپس دنیا میں آئیں گے یا نہیں.تو انہوں نے بڑی استقامت سے جواب دیا.کہ حضرت عیسی علیہ السلام فوت ہو چکے ہیں.اب وہ ہرگز واپس نہیں آئیں گے قرآن کریم ان کے مرنے اور واپس نہ آنے کا گواہ ہے.تب تو وہ لوگ ان مولویوں کی طرح جنہوں نے حضرت عیسی کی بات کو سن کر اپنے کپڑے پھاڑ دیئے تھے.گالیاں دینے لگے.اور کہا اب اس شخص کے کفر میں کیا شک رہا.اور بڑی غضبناک حالت میں یہ کفر کا فتویٰ لکھا گیا.پھر بعد اس کے اخوند زادہ حضرت شہید مرحوم اسی طرح پا بز نجیر ہونے کی حالت میں قید خانہ میں بھیجے گئے اور اس جگہ یہ بات بیان کرنے سے رہ گئی ہے کہ جب شہزادہ مرحوم کی ان بدقسمت مولویوں سے بحث ہورہی تھی.تب آٹھ آدمی بر ہنہ تلواریں لیکر شہید مرحوم کے سر پر کھڑے تھے.پھر بعد اس کے وہ فتویٰ کفر رات کے وقت امیر صاحب کی خدمت میں بھیجا گیا.اور یہ چالا کی کی گئی.کہ مباحثہ کے کاغذات ان کی خدمت میں عمدا نہ بھیجے گئے اور نہ عوام پر ان کا مضمون بیان کیا گیا.یہ صاف اس بات پر دلیل تھی.کہ مخالف مولوی شہید مرحوم کے ثبوت پیش کردہ کا کوئی رد نہ کر سکے.مگر افسوس امیر پر کہ اُس نے فتویٰ پر ہی حکم لگا دیا.اور مباحثہ کے کاغذات طلب نہ کئے.حالانکہ اس کو چاہئے تو یہ تھا کہ اس عادل حقیقی سے ڈر کر جس کی طرف عنقریب تمام دولت و حکومت کو چھوڑ کر واپس جائے گا خود مباحثہ کے وقت حاضر ہوتا.بالخصوص جبکہ وہ خوب جانتا تھا کہ اس مباحثہ کا نتیجہ ایک معصوم بے گناہ کی 15%
جان ضائع کرنا ہے.تو اس صورت میں مقتضا خدا ترسی کا یہی تھا.کہ بہر حال افتاں و خیزان اس مجلس میں جاتا.اور نیز چاہئے تھا کہ قبل ثبوت کسی جرم کے اس شہید مظلوم پر یہ خی روا نہ رکھتا کہ ناحق ایک مدت تک قید کے عذاب میں ان کو رکھتا.اور زنجیروں اور ہتھکڑیوں کے شکنجہ میں اس کو دبایا جا تا.اور آٹھ سپاہی بر ہنہ شمشیروں کے ساتھ اس کے سر پر کھڑے کئے جاتے اور اس طرح ایک عذاب اور رعب میں ڈال کر اس کو ثبوت دینے سے روکا جا تا.پھر اگر اس نے ایسانہ کیا تو عادلانہ حکم دینے کے لئے یہ تو اس کا فرض تھا کہ کا غذات مباحثہ کے اپنے حضور میں طلب کرتا.بلکہ پہلے سے یہ تاکید کر دیتا کہ کاغذات مباحثہ کے میرے پاس بھیج دینے چاہئیں اور نہ صرف اس بات پر کفایت کرتا کہ آپ ان کا غذات کو دیکھتا.بلکہ چاہئے تھا کہ سرکاری طور پر ان کا غذات کو چھپوا دیتا کہ دیکھو کیسے یہ شخص ہمارے مولویوں کے مقابل پر مغلوب ہو گیا.اور کچھ ثبوت قادیانی کے مسیح موعود ہونے کے بارے میں اور نیز جہاد کی ممانعت میں اور حضرت مسیح کے فوت ہونے کے بارے میں نہ دے سکا.ہائے وہ معصوم اس کی نظر کے سامنے ایک بکرے کی طرح ذبح کیا گیا اور باوجود صادق ہونے کے اور باوجود پورا ثبوت دینے کے اور باوجود ایسی استقامت کے کہ صرف اولیاء کو دی جاتی ہے پھر بھی اس کا پاک جسم پتھروں سے ٹکڑے کر دیا گیا.اور اس کی بیوی اور اس کے یتیم بچوں کو خوست سے گرفتار کر کے بڑی ذلت اور عذاب کے ساتھ کسی اور جگہ حراست میں بھیجا گیا.اے نادان! کیا مسلمانوں میں اختلاف مذہب اور رائے کی یہی سزا ہوا کرتی ہے.تو نے کیا سوچ کر یہ خون کر دیا.سلطنت انگریزی جو اس امیر کی نگاہ میں اور نیز اس کے مولویوں کے خیال میں ایک کافر کی سلطنت ہے کس قدر مختلف فرقے اس سلطنت کے زیر سایہ رہتے ہیں.کیا اب تک اس سلطنت نے کسی مسلمان یا ہندو کو اس قصور کی بناء پر پھانسی دیدیا کہ اس کی رائے پادریوں کی رائے کے مخالف ہے ہائے افسوس آسمان کے نیچے یہ بڑا ظلم ہوا کہ ایک بے گناہ معصوم جو باوجود صادق ہونے کے باوجود اہلِ حق ہونے کے اور باوجود اس کے وہ ہزارہا 16
معزز لوگوں کی شہادت سے تقویٰ اور طہارت کے پاک پیرایہ سے مزین تھا.اس طرح بے رحمی سے محض اختلاف مذہب کی وجہ سے مارا گیا.اس امیر سے وہ گورنر ہزار ہا درجہ اچھا تھا جس نے ایک مخبری پر حضرت مسیح کو گرفتار کر لیا تھا یعنی پیلاطوس جس کا آج تک انجیلوں میں ذکر موجود ہے.کیونکہ اس نے یہودیوں کے مولویوں کو جبکہ انہوں نے حضرت مسیح پر کفر کا فتویٰ لکھ کر یہ درخواست کی کہ اس کو صلیب دی جائے یہ جواب دیا کہ.اس شخص کا میں کوئی گناہ نہیں دیکھتا افسوس اس امیر کو کم سے کم اپنے مولویوں سے یہ تو پوچھنا چاہئے تھا کہ یہ سنگساری کا فتویٰ کس قسم کے کفر پر دیا گیا ہے.اور اس اختلاف کو کیوں کفر میں داخل کیا گیا.اور کیوں انہیں یہ نہ کہا گیا کہ تمہارے فرقوں میں خود اختلاف بہت ہے.کیا ایک فرقہ کو چھوڑ کر دوسروں کو سنگسار کرنا چاہئے.جس امیر کا یہ طریق اور یہ عمل ہے.نہ معلوم وہ خدا کو کیا جواب دیگا.بعد اس کے کہ کفر کا فتویٰ لگا کر شہید مرحوم قید خانہ میں بھیجا گیا.صبح روز دوشنبہ کو شہید موصوف کو سلام خانه یعنی خاص مکان در بار امیر صاحب میں بلایا گیا.اس وقت بھی بڑا مجمع تھا.امیر صاحب جب ارک یعنی قلعہ سے نکلے تو راستہ میں شہید مرحوم ایک جگہ بیٹھے تھے ان کے پاس ہو کر گزرے اور پوچھا کہ اخوند زادہ صاحب کیا فیصلہ ہوا.شہید مرحوم کچھ نہ بولے.کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ان لوگوں نے ظلم پر کمر باندھی ہے.مگر سپاہیوں میں سے کسی نے کہا کہ ملامت ہو گیا.یعنی کفر کا فتویٰ لگ گیا.پھر امیر صاحب جب اپنے اجلاس پر آئے تو اجلاس میں بیٹھتے ہی پہلے اخوندزادہ صاحب مرحوم کو بلایا.اور کہا کہ آپ پر کفر کا فتویٰ لگ گیا ہے.اب کہو کہ کیا تو بہ کرو گے.یا سزا پاؤ گے تو انہوں نے صاف لفظوں میں انکار کیا.اور کہا کہ میں حق سے تو بہ نہیں کر سکتا.کیا میں جان کے خوف سے باطل کو مان لوں.یہ مجھ سے نہیں ہوگا.تب امیر نے دوبارہ تو بہ کے لئے کہا اور توبہ کی حالت میں بہت امید دی اور وعدہ معافی دیا.مگر شہید مرحوم نے بڑے زور سے انکار کیا.اور کہا کہ مجھ سے یہ امید مت رکھو کہ میں سچائی سے تو بہ کروں.ان باتوں کو بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ سنی سنائی باتیں نہیں بلکہ ہم خود 17
اس مجمع میں موجود تھے اور مجمع کثیر تھا.شہید مرحوم ہر ایک فہمائش کا زور سے انکار کرتا تھا اور وہ اپنے لئے فیصلہ کر چکا تھا.کہ ضرور ہے کہ میں اس راہ میں جان دوں تب اس نے یہ بھی کہا کہ میں بعد قتل چھ روز تک پھر زندہ ہو جاؤں گا.یہ راقم کہتا ہے کہ یہ قول وحی کی بناء پر ہوگا جو اس وقت ہوئی ہوگی.کیونکہ اس وقت شہید مرحوم منقطعین میں داخل ہو چکا تھا اور فرشتے اس سے مصافحہ کرتے تھے.تب فرشتوں سے یہ خبر پا کر ایسا اس نے کہا.اور اس قول کے یہ معنے تھے کہ وہ زندگی جو اولیاء اور ابدال کو دی جاتی ہے.چھ روز تک مجھے مل جائے گی.اور قبل اس کے جو خدا کا دن آوے یعنی ساتویں دن میں زندہ ہو جاؤں گا اور یادر ہے کہ اولیاء اللہ اور وہ خاص لوگ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں شہید ہوتے ہیں.وہ چند دنوں کے بعد پھر زندہ کئے جاتے ہیں.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ولا تحسبن الذين قتلوا في سبيل الله امواتا بل احياء یعنی تم ان کو مردے مت خیال کرو جو اللہ کی راہ میں قتل کئے جاتے ہیں وہ تو زندے ہیں.پس شہید مرحوم کا اسی مقام کی طرف اشارہ تھا.اور میں نے ایک کشفی نظر میں دیکھا.کہ ایک درخت سرو کی ایک بڑی لمبی شاخ...جونہایت خوبصورت اور سرسبز تھی ہمارے باغ میں سے کائی گئی ہے اور وہ ایک شخص کے ہاتھ میں ہے تو کسی نے کہا کہ اس شاخ کو اس زمین میں جو میرے مکان کے قریب ہے اس بیری کے پاس لگا دو جو اس سے پہلے کاٹی گئی تھی اور پھر دوبارہ اُگے گی اور ساتھ ہی مجھے یہ وحی ہوئی کہ کابل سے کاٹا گیا اور سیدھا ہماری طرف آیا.اس کی میں نے یہ تعبیر کی کہ تخم کی طرح شہید مرحوم کا خون زمین پر پڑا ہے.اور وہ بہت بارور ہو کر ہماری جماعت کو بڑھا دیگا.اس طرف میں نے یہ خواب دیکھی اور اس طرف شہید مرحوم نے کہا کہ چھ روز تک میں زندہ کیا جاؤں گا.میری خواب اور شہید مرحوم کے اس قول کا مال ایک ہی ہے.شہید مرحوم نے مرکز میری جماعت کو ایک نمونہ دیا ہے.اور درحقیقت میری جماعت ایک بڑے نمونہ کی محتاج تھی.اب تک ان میں ایسے بھی پائے جاتے ہیں کہ جو شخص ان میں سے ادنی خدمت بجالاتا ہے وہ خیال کرتا ہے کہ اس نے بڑا کام کیا ہے اور قریب ہے کہ وہ 18
میرے پر احسان رکھے.حالانکہ خدا کا اس پر احسان ہے کہ اس خدمت کے لئے اس نے اس کو تو فیق دی.بعض ایسے ہیں کہ پورے زور اور پورے صدق سے اس طرف نہیں آئے اور جس قوت ایمان اور انتہاء درجہ کے صدق وصفا کا وہ دعوی کرتے ہیں آخر تک اس پر قائم نہیں رہ سکتے.اور دنیا کی محبت کے لئے دین کو کھو دیتے ہیں اور کسی ادنی امتحان کی بھی برداشت نہیں کر سکتے.خدا کے سلسلے میں بھی داخل ہو کر ان کی دنیا داری کم نہیں ہوتی.لیکن خدا تعالیٰ کا ہزار ہزار شکر ہے.کہ ایسے بھی ہیں کہ وہ سچے دل سے ایمان لائے اور سچے دل سے اس طرف کو اختیار کیا.اور اس راہ کے لئے ہر ایک دُکھ اُٹھانے کے لئے تیار ہیں.لیکن جس نمونہ کو اس جوانمرد نے ظاہر کر دیا.اب تک وہ قوتیں اس جماعت کی مخفی ہیں.خدا سب کو وہ ایمان سکھا دے اور وہ استقامت بخشے جس کا اس شہید مرحوم نے نمونہ پیش کیا ہے.یہ دنیوی زندگی جو شیطانی حملوں کے ساتھ ملی ہوئی ہے.کامل انسان بننے سے روکتی ہے.اور اس سلسلہ میں بہت داخل ہوں گے.مگر افسوس کہ تھوڑے ہیں کہ یہ نمونہ دکھا ئیں گے.پھر ہم اصل واقعہ کی طرف رجوع کر کے لکھتے ہیں کہ جب شہید مرحوم نے ہر ایک مرتبہ تو بہ کرنے کی فہمائش پر تو بہ کرنے سے انکار کیا تو امیر نے ان سے مایوس ہو کر اپنے ہاتھ سے ایک لمبا چوڑا کا غذ لکھا اور اس میں مولویوں کا فتویٰ درج کیا اور اس میں یہ لکھا کہ ایسے کافر کی سنگسار کرنا سزا ہے.تب وہ فتویٰ اخوند زادہ مرحوم کے گلے میں لٹکا دیا گیا.اور پھر امیر نے حکم دیا کہ شہید مرحوم کے ناک میں چھید کر کے اس میں رسی ڈال دی جائے.اور اسی رہتی سے شہید مرحوم کو کھینچ کر مقتل یعنی سنگسار کرنے کی جگہ تک پہنچایا جائے چنانچہ اس ظالم امیر کے حکم سے ایسا ہی کیا گیا.اور ناک کو چھید کر سخت عذاب کے ساتھ اس میں رسی ڈالی گئی.تب اس ریتی کے ذریعہ سے شہید مرحوم کو نہایت ٹھٹھے بنسی اور گالیوں اور لعنت کے ساتھ مقتل تک لے گئے.اور امیر اپنے تمام مصاحبوں کے ساتھ اور مع قاضیوں مفتیوں اور دیگر اہلکاروں کے یہ دردناک نظارہ دیکھتا ہوا مقتل تک پہنچا.اور شہر کی ہزار ہا مخلوق جن کا شمار کرنامشکل ہے.اس 19
تماشا کے دیکھنے کے لئے گئی.جب مقتل پر پہنچے تو شہزادہ مرحوم کو کمر تک زمین میں گاڑ دیا.اور پھر اس حالت میں جبکہ وہ کمر تک زمین میں گاڑ دیئے گئے تھے.امیران کے پاس گیا اور کہا کہ اگر تو قادیانی سے جو مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتا ہے.انکار کرے تو اب بھی میں تجھے بچالیتا ہوں.اب تیرا آخری وقت ہے اور یہ آخری موقعہ ہے جو تجھے دیا جاتا ہے اور اپنی جان اور اپنے عیال پر رحم کر.تب شہید مرحوم نے جواب دیا کہ نعوذ باللہ سچائی سے کیونکر انکار ہوسکتا ہے.اور جان کیا حقیقت ہے اور عیال و اطفال کیا چیز ہیں.جن کے لئے میں ایمان کو چھوڑ دوں.مجھ سے ایسا ہر گز نہیں ہوگا اور میں حق کے لئے مروں گا.تب قاضیوں اور فقیہوں نے شور مچایا کہ کافر ہے کافر ہے اس کو جلد سنگسار کرو.اس وقت امیر اور اس کا بھائی نصر اللہ خان اور قاضی اور عبدالاحد کمیدان یہ لوگ سوار تھے اور باقی تمام لوگ پیادہ تھے.جب ایسی نازک حالت میں شہید مرحوم نے بار بار کہہ دیا کہ میں ایمان کو جان پر مقدم رکھتا ہوں.تب امیر نے اپنے قاضی کو حکم دیا کہ پہلا پتھر تم چلاؤ.کہ تم نے کفر کا فتویٰ لگایا ہے.قاضی نے کہا کہ آپ بادشاہ وقت ہیں.آپ چلا دیں.تب امیر نے جواب دیا کہ شریعت کے تم ہی بادشاہ ہو اور تمہارا ہی فتویٰ ہے اس میں میرا کوئی دخل نہیں.تب قاضی نے گھوڑے سے اتر کر ایک پتھر چلایا جس پتھر سے شہید مرحوم کو زخم کاری لگا اور گردن جھک گئی پھر بعد کے بد قسمت امیر نے اپنے ہاتھ سے پتھر چلایا.پھر کیا تھا اس کی پیروی سے ہزاروں پتھر اس شہید پر پڑنے لگے اور کوئی حاضرین میں سے ایسا نہ تھا جس نے اس شہید مرحوم کی طرف پتھر نہ پھینکا ہو.یہاں تک کہ کثرت پتھروں سے شہید مرحوم کے سر پر ایک کوٹھہ پتھروں کا جمع ہو گیا.پھر امیر نے واپس ہونے کے وقت کہا کہ یہ شخص کہتا تھا کہ میں چھ روز تک زندہ ہو جاؤں گا.اس پر چھ روز تک پہرہ رہنا چاہئے.بیان کیا گیا کہ یہ ظلم یعنی سنگسار کرنا ۱۴ جولائی کو وقوع میں آیا.اس بیان میں اکثر حصہ ان لوگوں کا ہے جو اس سلسلہ کے مخالف تھے جنہوں نے یہ بھی اقرار کیا کہ ہم نے بھی پتھر مارے تھے.اور بعض ایسے آدمی بھی اس بیان میں داخل ہیں کہ شہید مرحوم کے پوشیدہ 20
شاگرد تھے.معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ اس سے زیادہ دردناک ہے.جیسا کہ بیان کیا گیا ہے.کیونکہ امیر کے ظلم کو پورے طور پر ظاہر کرنا کسی نے روا نہیں رکھا اور جو کچھ ہم نے لکھا ہے بہت سے خطوط کے مشترک مطلب سے ہم نے خلاصہ لکھا ہے.ہر ایک قصہ میں اکثر مبالغہ ہوتا ہے.لیکن یہ قصہ ہے کہ لوگوں نے امیر سے ڈر کر پورا پورا بیان نہیں کیا اور بہت سی پردہ پوشی کرنی چاہی.شہزادہ عبداللطیف کے لئے جو شہادت مقد رتھی وہ ہو چکی.اب ظلم کا پاداش باقی ہے انه من يَأتِ ربه مجرما فانّ له جهنم لايموت فيها ولا يحی.افسوس ہے کہ ید امیر زیر آیت من يقتل مومنا معتمدًا داخل ہو گیا اور ایک ذرہ خدا تعالیٰ کا خوف نہ کیا اور مومن بھی ایسا مومن کہ اگر کابل کی تمام سرزمین میں اس کی نظیر تلاش کی جائے تو تلاش کر نالا حاصل ہے.ایسے لوگ اکسیر احمر کے حکم میں ہیں.جو صدق دل سے ایمان اور حق کے لئے جان بھی فدا کرتے ہیں اور زن وفرزند کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتے.اے عبداللطیف تیرے پر ہزاروں رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں ہی اپنے صدق کا نمونہ دکھایا اور جو لوگ میری جماعت میں سے میری موت کے بعد رہیں گے.میں نہیں جانتا کہ وہ کیا کام کریں گے.....صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف مرحوم کا اس بے رحمی سے مارا جانا اگر چہ ایسا امر ہے کہ اس کے سننے سے کلیجہ منہ کو آتا ہے (وما رأينا ظلما اغيظ من هذا) لیکن اس خون میں بہت برکات ہیں کہ بعد میں ظاہر ہوں گے.اور کابل کی زمین دیکھ لے گی کہ یہ خون کیسے کیسے پھل لائے گا.یہ خون کبھی ضائع نہیں جائے گا.پہلے اس سے غریب عبد الرحمن میری جماعت کا ظلم سے مارا گیا اور خدا چپ رہا.مگر اس خون پر اب وہ چپ نہیں رہے گا اور بڑے بڑے نتائج ظاہر ہوں گے.چنانچہ سنا گیا ہے کہ جب شہید مرحوم کو ہزاروں پتھروں سے قتل کیا گیا تو انہیں دنوں میں سخت ہیضہ کا بل میں پھوٹ پڑا اور بڑے بڑے ریاست کے نامی اس کا شکار ہو گئے.اور بعض امیر کے رشتہ دار اور عزیز بھی اس جہان سے رخصت ہوئے.مگر ابھی کیا ہے 21
یہ خون بڑی بے رحمی کے ساتھ کیا گیا ہے اور آسمان کے نیچے ایسے خون کی اس زمانہ میں نظیر نہیں ملے گی.ہائے اس نادان امیر نے کیا کیا کہ ایسے معصوم شخص کو کمال بیدردی سے قتل کر کے اپنے تئیں تباہ کر لیا.اے کابل کی زمین تو گواہ رہ کہ تیرے پر سخت جرم کا ارتکاب کیا گیا.اے بد قسمت زمین تو خدا کی نظر سے گرگئی کہ تو اس ظلم عظیم کی جگہ ہے.ایک جدید کرامت مولوی عبد اللطیف صاحب مرحوم کی جب میں نے اس کتاب کو لکھنا شروع کیا تو میرا ارادہ تھا کہ قبل اس کے جو ۱۶ را کتوبر ۱۹۰۳ء کو بمقام گورداسپور ایک مقدمہ پر جاؤں جو ایک مخالف کی طرف سے فوجداری میں میرے پر دائر ہے یہ رسالہ تالیف کرلوں اور اس کو ساتھ لے جاؤں.تو ایسا اتفاق ہوا کہ مجھے درد گرده سخت پیدا ہوا.میں نے خیال کیا کہ یہ کام نا تمام رہ گیا صرف دو چار دن ہیں.اگر میں اسی طرح درد گردہ میں مبتلا رہا جو ایک مہلک بیماری ہے تو یہ تالیف نہیں ہو سکے گا.تب خدا تعالیٰ نے مجھے دعا کی طرف توجہ دلائی.میں نے رات کے وقت جبکہ تین گھنٹے کے قریب بارہ بجے کے بعد رات گزر چکی تھی اپنے گھر کے لوگوں سے کہا کہ اب میں دُعا کرتا ہوں تم آمین کہو.سو میں نے اسی درد ناک حالت میں صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف کے تصور سے دُعا کی کہ یا الہی اس مرحوم کے لئے میں اس کو لکھنا چاہتا تھا.تو ساتھ ہی مجھے غنودگی ہوئی اور الہام ہوا سلام قولًا مِنْ رَّبِّ الرَّحِیم یعنی سلامتی اور عافیت ہے.یہ خدائے رحیم کا کلام ہے.پس قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ ابھی صبح کے چھ نہیں بجے تھے کہ میں بالکل تندرست ہو گیا اور اسی روز نصف کے قریب کتاب کو لکھ لیا.فالحمد للہ علی ذالک.ایک ضروری امر اپنی جماعت کی توجہ کے لئے اگر چہ میں خوب جانتا ہوں کہ جماعت کے بعض افراد ابھی تک اپنی روحانی کمزوری کی 22
حالت میں ہیں.یہاں تک کہ بعض کو اپنے وعدوں پر بھی ثابت رہنا مشکل ہے.لیکن جب میں اس استقامت اور جاں فشانی کو دیکھتا ہوں جو صاحبزادہ مولوی محمد عبد اللطیف مرحوم سے ظہور میں آئی تو مجھے اپنی جماعت کی نسبت بہت امید بڑھ جاتی ہے.کیونکہ جس خدا نے بعض افراد اس جماعت کو یہ توفیق دی کہ نہ صرف مال بلکہ جان بھی اس راہ میں قربان کر گئے.اس خدا کا صریح یہ منشاء معلوم ہوتا ہے.کہ وہ بہت سے ایسے افراد اس جماعت میں پیدا کرے جو صاحبزادہ مولوی عبداللطیف کی روح رکھتے ہوں اور ان کی روحانیت کا ایک نیا پودہ ہوں.جیسا کہ میں نے کشفی حالت میں واقعہ شہادت مولوی صاحب موصوف کے قریب دیکھا کہ ہمارے باغ میں سے ایک بلند شاخ سرو کی کائی گئی لے اور میں نے کہا اس شاخ کو زمین میں دوبارہ نصب کر دو تا وہ بڑھے اور پھولے سو میں نے اس کی یہی تعبیر کی کہ خدا تعالیٰ بہت سے ان کے قائمقام پیدا کر دے گا سو میں یقین رکھتا ہوں کہ کسی وقت میرے اس کشف کی تعبیر ظاہر ہو جائے گی.بقیہ حالات حضرت صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف حساب مرحوم میاں احمد نور جو حضرت صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب کے خاص شاگرد ہیں.۸/ نومبر ۱۹۰۳ء کو مع عیال خوست سے قادیان پہنچے.ان کا بیان ہے کہ مولوی صاحب کی لاش برابر چالیس دن تک ان پتھروں میں پڑی رہی جن میں وہ سنگسار کئے گئے تھے بعد اس لے اس سے پہلے ایک صریح وحی الہی صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب مرحوم کی نسبت ہوئی تھی جبکہ وہ زندہ تھے بلکہ قادیان میں ہی موجود تھے اور یہ وحی الہی میگزین انگریزی ۹ فروری ۱۹۰۳ ء اور الحکم ۱۷/ جنوری ۱۹۰۳ء اور البدر ۱۶ / جنوری ۱۹۰۳ء کالم نمبر ۲ میں شائع ہو چکی ہے جو مولوی صاحب کے مارے جانے کے بارے میں ہے اور وہ یہ ہے کہ قُتِل خيبةً وَزَيَّدھیب یعنی ایسی حالت میں مارا گیا کہ اس کی بات کو کسی نے نہ سنا اور اس کا مارا جانا ایک ہیبت ناک امر تھا یعنی لوگوں کو بہت ہیبت ناک معلوم ہوا اور اس بات کا بڑا اثر دلوں پر ہوا.منہ 23
کے میں نے چند دوستوں کے ساتھ مل کر رات کے وقت ان کی نعش مبارک نکالی اور پوشیدہ طور پر شہر میں لائے اور اندیشہ تھا کہ امیر اور اس کے ملازم کچھ مزاحمت کریں گے مگر شہر میں و ہائے ہیضہ اس قدر پڑچکا تھا کہ ہر ایک شخص اپنی بلا میں گرفتار تھا.اس لئے ہم اطمینان سے مولوی صاحب مرحوم کا قبرستان میں جنازہ لے گئے اور جنازہ پڑھ کر وہاں دفن کر دیا یہ عجیب بات ہے کہ مولوی صاحب جب پتھروں میں سے نکالے گئے تو کستوری کی طرح ان کے بدن سے خوشبو آتی تھی.اس سے لوگ بہت متاثر ہوئے.اس واقعہ سے پہلے کابل کے علماء امیر کے حکم سے مولوی صاحب کے ساتھ بحث کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے.مولوی صاحب نے ان کو فرمایا کہ تمہارے دو خدا ہیں.کیونکہ تم امیر سے ایسا ڈرتے ہو جیسا کہ خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے.مگر میرا ایک خدا ہے.اس لئے میں امیر سے نہیں ڈرتا.اور جب گھر میں تھے اور ابھی گرفتار نہیں ہوئے تھے اور نہ اس واقعہ کی کچھ خبر تھی.اپنے دونوں ہاتھوں کو مخاطب کر کے فرمایا اے میرے ہاتھو! کیا تم ہتھکڑیوں کو برداشت کر لو گے.ان کے گھر کے لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا بات آپ کے منہ سے نکلی ہے.تب فرمایا کہ نماز عصر کے بعد تمہیں معلوم ہوگا کہ یہ کیا بات ہے تب نماز عصر کے بعد حاکم کے سپاہی آئے اور گرفتار کر لیا.اور گھر کے لوگوں کو انہوں نے نصیحت کی کہ میں جاتا ہوں اور دیکھو ایسا نہ ہو کہ تم کوئی دوسری راہ اختیار کرو.جس ایمان اور عقیدہ پر میں ہوں چاہئے کہ وہی تمہارا ایمان اور عقیدہ ہو.اور گرفتاری کے بعد راہ میں چلتے کہا کہ میں اس مجمع کا نوشاہ ہوں.بحث کے وقت علماء نے پوچھا کہ تو اس قادیانی شخص کے حق میں کیا کہتا ہے جو مسیح موعود ہونے کا دعوی کرتا ہے.تو مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ہم نے اس شخص کو دیکھا ہے اور اس کے امور میں بہت غور کی ہے.اس کی مانند زمین پر کوئی موجود نہیں اور بیشک اور بلا شبہ وہ مسیح موعود ہے اور وہ مُردوں کو زندہ کر رہا ہے.تب ملانوں نے شور کر کے کہا کہ وہ کافر اور تو بھی کافر ہے اور ان کو امیر کی طرف سے بحالت نہ تو بہ کرنے کے سنگسار کرنے کے لئے دھمکی دی گئی.اور 24%
انہوں نے سمجھ لیا کہ اب میں مروں گا.تب یہ آیت پڑھی.رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةِ إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَاب.یعنی اے ہمارے خدا دل کو لغزش سے بچا اور بعد اس کے جو تو نے ہدایت دی ہمیں پھسلنے سے محفوظ رکھ اور اپنے پاس سے ہمیں رحمت عنایت کر کیونکہ ہر ایک رحمت کو تُو ہی بخشتا ہے.پھر جب ان کو سنگسار کرنے لگے تو یہ آیت پڑھی.انت ولـي فـي الدنيا والأخرة توفنى مسلما والحقني بالصالحین یعنی اے میرے خدا تو دنیا اور آخرت میں میرا متولی ہے مجھے اسلام پر وفات دے اور اپنے نیک بندوں کے ساتھ ملادے.پھر بعد اس کے پتھر چلائے گئے.اور حضرت مرحوم کو شہید کیا گیا.انا للہ وانا اليه راجعون.اور صبح ہوتے ہی کابل میں ہیضہ پھوٹ پڑا اور نصر اللہ خان حقیقی بھائی امیر حبیب اللہ خان کا جو اصل سبب اس خونریزی کا تھا اس کے گھر میں ہیضہ پھوٹا اور اس کی بیوی اور بچہ فوت ہو گیا اور چارسو کے قریب ہر روز آدمی مرتا تھا.اور شہادت کی رات آسمان سرخ ہو گیا.اور اس سے پہلے مولوی صاحب فرماتے تھے کہ مجھے بار بار الہام ہوتا ہے اذهب الى فرعون انی معک اسمع واری و انت محمد معتبر معطر اور فرمایا کہ مجھے الہام ہوتا ہے کہ آسمان شور کر رہا ہے اور زمین اُس شخص کی طرح کانپ رہی ہے جو تپ لرزہ میں گرفتار ہو دنیا اس کو نہیں جانتی یہ امر ہونے والا ہے.اور فرمایا کہ مجھے ہر وقت الہام ہوتا ہے کہ اس راہ میں اپنا سر دیدے اور دریغ نہ کر کہ خدا نے کابل کی زمین کی بھلائی کے لئے یہی چاہا ہے اور میاں نوراحمد کہتے ہیں کہ مولوی صاحب موصوف ڈیڑھ ماہ تک قید رہے اور پہلے ہم لکھ چکے ہیں کہ چار ماہ تک قید میں رہے.یہ اختلاف روایت ہے.اصل واقعہ میں سب متفق ہیں.والسلام علی من اتبع الهدی.( تذكرة الشہا دتین صفحه ۱ تا ۱۲۰ طبع اوّل) 25
شیخ عجم کو خراج تحسین ( از حضرت بانی سلسلہ احمدیہ ) آن جوانمرد و حبیب کردگار جو ہر خود کرد آخر آشکار اس جواں مرد اور خدا کے پیارے نے آخر کار اپنا جو ہر ظاہر کر دیا نقد جان از بیر جاناں باخته دل ازیں فانی سرا پرداخته معشوق کے لئے نقد جان لٹا دیا اور اس فانی گھر سے دل کو ہٹالیا پُر خطر هست این بیابان حیات صد ہزاراں اثر دہا لیش در جهات اس میں ہر طرف لاکھوں اثر د ہے موجود ہیں یہ زندگی کا میدان نہایت پُر خطر ہے صد ہزاراں آتشے تا آسماں صد ہزاراں سیل خونخوار و دماں لاکھوں شعلے آسمان تک بلند ہیں اور لاکھوں خونخوار اور تیز سیلاب آ رہے ہیں صد ہزاراں فرسخے تا کوئے یار دشت پر خار و بلالیش صد ہزار اس دیار میں لاکھوں کوس تک کانٹوں کے جنگل ہیں اور ان میں لاکھوں بلائیں موجود ہیں بنگر ایں شوخی ازاں شیخ عجم ایں بیاباں کر دطے از یک قدم اس نے بیابان کو ایک ہی قدم میں طے کر لیا اس شیخ عجم کی یہ شوخی دیکھ کہ این چنین باید خدارا بندہ سرے دلدار خود افگنده خدا کا بندہ ایسا ہی ہونا چاہئے جو دلبر کی خاطر اپنا سر جھکا دے 26
اوئے دلدار از خود مرده بود از پئے تریاق زہرے خورده بود اپنے محبوب کے لئے اپنی خودی کو فنا کر چکا تھا تریاق حاصل کرنے کے لئے اُس نے زہر کھایا تھا تانه نوشد جام ایں زہرے کسے کے رہائی یا بد از مرگ آں کیسے جب تک کوئی زہر کا پیالہ نہیں پیتا تب تک حقیر انسان موت سے کیونکر نجات حاصل کرسکتا ہے زیر ایں موت است پنہاں صدحیات زندگی خواہی بخور جام ممات اس موت کے نیچے سینکڑوں زندگیاں پوشیدہ ہیں اگر تو زندگی چاہتا ہے تو موت کا پیالہ پی ( تذکرۃ الشہادتین صفحه ۵۲) 27
مرثیہ از حضرت منشی محمد نواب خان ثاقب گالیر کوٹلوی ) بند اوّل آه فریاد اے خدا فریاد تجھ سوا کون دے ہماری داد بیکسوں کا تو ہی سہارا ہے بے سہاروں کا تکیہ گاہ و ملاد تو کرے اپنے دوست کے لاریب دوست آباد اور عدو برباد تیرا شیدا برغم اہل زمین آسمان سے سے سُنے مبارک باد غم کی آندھی نے جس کو گھیرا ہو دشت غربت میں بادل ناشاد بیدلی اس کی تو ہوا کر دے غنچه دل بھیجے باد مراد تیری الفت کا پائے بند جو ہو قید افکار سے رہے آزاد کوئی تدبیر ہی خلاف نہ ہو جس کی تقدیر پہ ہو تیرا صاد کس طرح بھول جائے تو اس کو جس کے دل میں لگی ہو تیری یاد غم جو اُٹھائے تیرے لئے جس پہ چل جائے فجر بیداد مرنے کو زندگی سمجھے میں مٹنے کو جانے نقشِ مراد تجھ ہے گله درد شکوه الم اپنا رنج و غم اپنا پناهگاه 28 (فیروز اللغات فارسی )
بند دوم تھا ایک ہم میں دُر یگانہ تھا احمدیت کا اک خزانہ تھا اپنے عیسی کے دم کی برکت سے ہمدم مهدی زمانہ گوبسیرا زمیں پہ تھا اس کا آسماں اس کا آشیانہ تھا اس نے پائی غذائے روحانی قادیاں میں کچھ آب و دانہ تھا آیا دین کی طلب میں وہ دیندار جس نے دنیا سے جلد جانا تھا پایا اس نے مسیح اور مہدی منتظر جس کا اک زمانہ تھا تھا مسیحا کے عشق کا بیمار اس کا عاشقانہ تھا سب مرگیا پہلے اپنے مرنے سے اس کا مسلک جو صوفیانہ تھا اور ادا وہ کر کے گیا اس جو حق دوستانہ تھا پائی اس نے حیاتِ جاویداں موت کا اک فقط بہانہ تھا حُبّ احمد ہوئی جگر سے پار ناوک عشق کا نشانہ تھا تھا وہ ہشیار اس پہ دیوانہ مرگیا طور روئے احمد کا تھا وہ پروانہ بند سوم آہ مقتل میں اس کو لائے ہیں سنگدل سخت ہو کے آئے ہیں عقل پر ان کی پڑگئے پتھر سنگباری پہ ہاتھ اُٹھائے ہیں بڑھ گئی ہے یہ کچھ قساوة قلب شہر کے لوگ سب بلائے ہیں ہاتھ میں ہے ہر ایک کے پتھر رجم پر سب ادھار کھائے ہیں 29
اُف رے وحشت امیر کی دل میں کیا خیالات بد سمائے ہیں ނ قاضی سنگدل کی سختی اس یہ پتھر ابھی چلائے ہیں ایسی حالت میں بن کے استقلال وعظ کیسے انہیں سنائے ہیں رہ گئے نیک دل کلیجہ تھام داد دینے کو سر ہلائے ہیں جن میں مظلوم کی ہے دلسوزی کتنے ظالم نے جی جلائے ہیں کھڑانے کا ذکر کیا اس نے پاؤں ایمان پر جمائے ہیں مومن نرم دل کے ہاتھ اور پاؤں قبر سنگین میں دبائے ہیں خان عبد اللطیف را کشتند آه مرد لطیف را کشتند بند چهارم اس کو حق نے دیا تھا استقلال دولت صبر سے تھا مالا مال کس بلا کے تھے لشکن صدمے نہ ہوا اس کا دل ذرا بھی نڈھال اس نے جانا اگر رہا ایمان جان کا کچھ نہ ہوگا بریکا بال مجو دیدار یار باقی تھا جی میں باقی نہ تھا کچھ اس کے ملال جاہ وجلال کا تھا لالچ بیچ سامنے اس کے تھا خدائے جلال کر دکھایا جو کہا ہو گیا ایک اس کا حال و قال ہاتھ میں ہاتھ تھا فرشتوں کے ان سے ہوتے رہے جواب وسوال آرہی تھی صدا فلک سے آئے گا اس زمین پر بھونچال با دیا اپنا لائے گی تیز ہوکر رہے گی نار جدال پتھروں کا بنا نشانہ وہ نام حق کو بنایا اس نے ڈھال 30%
سن لو کابل میں جاکے یہ آواز کہہ رہا ہے جو وہ سر پامال کھیلنا جان پر یہ ہوتا ہے مرنا ایمان پر ہوتا ہے پر بند پنجم گرچہ عبداللطیف خان نہ رہا جسم کابل کے تن کی جان نہ رہا اس کا ایمان تھا جوانی فوج دین کا وہ نوجوان نہ رہا خلد میں اُڑ گیا وہ طائر قدس اس کا دنیا میں آشیان نہ رہا اُٹھ گیا چھوڑ کر وہ زن و فرزند چند دن کا تھا مہمان نہ رہا اس کو مہمانی بہشت ملی جبکہ دنیا میں آب و نان نہ رہا جس کو روح القدس کی تھی تائید وہ مسیحا کا مدح خوان نہ رہا جس نے مانا مسیح بن دیکھے اور نہ چاہا کوئی نشان نہ رہا اس کی ہر بات تھی بنات وقند لب شیریں شکر فشان نہ رہا ایک تھا سرزمین کابل میں موت عیسی کا رازدان نہ رہا چھوڑ کر جسم کا قفس خالی طائر روضه جنان نہ رہا اس کا خون رائیگا نہ جائیگا چشم ظالم کو خون رلائے گا بند کس طرح ہو بیاں ثنائے شہید ہم ہیں سو جان سے فدائے شہید اہل کابل کے دل پر تھی کے دل پر نقش ہیں ہ سنگساری میں وعظہائے شہید 319
ایسا بولا کہ خوب گونج اُٹھی سارے آفاق میں صدائے شہید دشمن حق امیر نے نہ سُنی آه حکمت بھری ندائے شہید ہے یقیں اب خدا کی نصرت سے خوب لہرائے گا لوائے شہید آئے گی خلق اس کے سایہ میں بال پھیلائے گا ہمائے شہید مار ڈالا خدا کے بندے کو تی و قیوم ہے خدائے شہید رنگ لائے گا اس کا خون ضرور خون برسائے گی حنائے شہید گر گیا چشم حق سے تو کابل جب فلک پر چڑھی دعائے شہید گرچہ آیا نہیں کوئی جاکر جان لے گا امیر رائے شہید ہے وہ زندہ خدائے پاک کے پاس فائدہ کیا کہ روئیں ہائے شہید فائدہ جس سے ہو وہ کام کریں ماتم و غم کو ہم سلام کریں بند هفتم دے کے سب کو پیام چھوڑ گیا مر گیا اپنا نام چھوڑ گیا دولت وصل کے لئے دم نقد نقد و دولت تمام چھوڑ گیا اس سہ مچھی لے سرائے دنیا میں کر کے دو دن قیام چھوڑ گیا اپنے ایمان کی سلامت سے کر کے سب سلام چھوڑ گیا اب نہ دیکھو گے اس کی صورت کو تم میں اپنا کلام چھوڑ گیا بس یہ سمجھو کہ ملک کابل کو کر کے اپنا غلام چھوڑ گیا پی گیا شوق سے مئے صافی درد نوشوں کو جام چھوڑ گیا فلیتے جلانے والا آلہ (فرہنگ آصفیہ) 32
شاخ طوبی پہ جا بسا اودام پیش صیاد خام چھوڑ گیا اپنی اولاد اور مریدوں کو اپنے سمجھا کے کام چھوڑ چھوڑ گیا چال دکھلا کے اپنا شش تمام توسن خوش خرام چھوڑ گیا مقتدائے خواص ملک اپنا ذکر بین العوام چھوڑ گیا صدق دکھلا گیا مسیحا کو مہدی کا سر چلیپا کو پیار سے مہر سے محبت سے عرض ہے احمدی جماعت سے کہ رہیں ایسی استقام کہیں مرنے اور جینے میں لیں سبق آپ کی شہادت سے جو کہیں اس کو کر کے دکھلائیں بات بنتی نہیں طلاقت سے دولت صبر سے خدا مل جائے کیا کمائیں گے مال و دولت سے نوع انساں کے ساتھ پیش آ ذات باری کے جو اوامر ہیں دیکھیں سب کو نگاہ عظمت سے زیب دیں اپنے تن کو ہم سارے نیچے تقویٰ کی زیب و زینت سے پائیں زندگی نئی نئی سے نئی زندہ عیسی کے فیض صحبت سے بس نمازیں پڑھیں زکوتیں دیں جی چرائیں نہ ہم دیانت سے نیچے ابدال بن کے دکھلائیں پوری تبدیل رسم و عادت سے دور سمجھیں نہ اپنے آپ کو ہم دور ہوں کبر اور نخوت ثاقب صدق اور صفا دکھلاؤ عسر اور ٹیسر میں وفا دکھلاؤ ( مطبوعه الحکم ۲۴ راگست ۱۹۰۴ء صفحه ۲۰۱) 33
دوسری فصل شہید مرحوم کے چشمد ید واقعات (حصہ اوّل) (از: سید احمد نور کا بلٹی) وو حضرت سید نافضل عمر کا ارشاد سید احمد نور صاحب نے حضرت مولوی عبداللطیف مرحوم کے حالات لکھے ہیں جس سے احمدیت پر ایمان میں ترقی ہوتی ہے اور یہ ایسی کتاب ہے کہ چاہئے کہ اس کو ہر شخص پڑھے اور اپنے ایمان میں ترقی کرے.“ 34
بسم اللہ الرحمن الرحیم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ جو حالات میرے چشم دید ہیں اور جو آپ کی مجلس میں بیٹھ کر میں نے معلوم کئے ان کو میں قلمبند کرتا ہوں.وباللہ التوفیق.حضرت مولانا صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید رحمہ اللہ تعالیٰ عنہ ملک خوست شمل دریا کے کنارے پر ایک گاؤں کے جس کا نام سید گاہ ہے رہنے والے تھے.آپ قوم کے سید تھے.آپ کے تمام آبا ؤ اجداد اپنے ملک میں رئیس اعظم تھے.اور آپ کی عمر قریبا ساٹھ اور ستر کے درمیان تھی.آپ بڑے مہمان نواز تھے.آپ قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سخت محبت اور دلچسپی رکھتے تھے.چنانچہ ہم آپ کے مہمان خانہ میں تمہیں چالیس آدمی رہتے تھے.ہر وقت دین کی باتوں میں مشغول رہتے تھے.کھانے وغیرہ کا انتظام بھی آپ کی طرف سے ہوتا تھا.آپ کی ایک مردانہ بیٹھک تھی جس میں قریبا سود و سو آدمی آسکتے تھے اور یہ بیٹھک مسجد کے پہلو میں تھی.پہلے لوگ نماز کے لئے جمع ہوتے تو اس بیٹھک میں قیام ہوتا اور دین کے متعلق باتیں ہوا کرتیں تھیں.جس وقت نماز کا وقت آجا تا لوگ جمع ہو جاتے تو تمام لوگ مسجد میں آجاتے نماز کے بعد لوگ اپنے گھر چلے جاتے.مسجد میں نماز سے پہلے اور بعد کوئی بات چیت نہ ہوتی تھی.مسجد کے احاطے میں حجرے بنے ہوئے تھے جن میں آپ کے شاگر درہا کرتے تھے.مسجد کے پاس شمال کی طرف مغرب سے مشرق کو ایک نہر تھی جو آپ کے گھر کے صحن میں سے ہو کر گزرتی تھی.آپ کے رہنے کی جگہ کو سید گاہ کہا جاتا تھا جو معروف بہ سید گاہ ہے.کبھی ملک میں قحط سالی آتی تو اپنے تمام علہ کو فروخت کر کے غریب لوگوں کی امداد میں لگا دیتے.خوست میں 35%
مختلف چند گاؤں تھے جن کے آپ مالک تھے بہت زمین بنوں میں انگریزوں کی حکومت میں بھی تھی.آپ نے تعلیم ہندوستان میں حاصل کی تھی.تمام علوم مروجہ کے عالم تھے.ہر وقت قرآن شریف اور احادیث کا درس آپ کے یہاں جاری تھا.کئی ہزار حدیثیں آپ کو از بریاد تھیں.چنانچہ امیر عبدالرحمن وائی کا بل بھی قائل تھا.کہ ہمارے ملک میں میرا ایک عالم باعمل شخص ہیں جن کو اتنی حدیثیں یاد ہیں.جو بھی کابل کا گورنرخوست کے لئے مقرر ہوتا آپ کا تابعدار اور آپ کے پہلو میں بچہ کی طرح رہتا.آپ بندوق چلانے کے بہت مشتاق اور خوب ماہر تھے.آپ کو گیارہ سو روپیہ سرکار کی طرف سے سالانہ ملتے تھے.امیر نے آپ کو گورنر کے ساتھ سرحد پاڑہ چنار اور خوست کی تقسیم میں انگریزوں کے ساتھ مقرر کیا تھا.اکثر اوقات انگریزوں سے تقسیم میں شامل ہوتے تھے.امیر عبدالرحمن خان نے اپنی اخیر عمر میں آپ کو کابل شہر میں اہل وعیال کے ساتھ بلایا تھا.وہاں چند سال رہائش کی.قرآن شریف اور حدیث شریف کا درس حسب معمول جاری رہا.میں بھی آپ کے ساتھ کا بل میں تھا.ایک دفعہ طالب علموں نے عرض کی کہ آپ جب کچھ فرماتے ہیں تو احمد نور کی طرف کیوں مخاطب ہوتے ہیں اور ہماری طرف کبھی بھی مخاطب نہیں ہوتے.آپ فرماتے یہ رفیق ہمارا ہے.اور یہ درس مرزا محمد حسین خان ( جو بڑا گورنر امیر عبدالرحمن خان کا تھا ) کی مسجد میں ہوا کرتا تھا.اور آپ نے یہ بھی طلباء سے فرمایا کہ احمد نور کی یہ حالت ہے کہ جب بخاری شریف شروع کی جاتی ہے تو یہ ایک وادی کی شکل بن جاتا ہے اور حدیث پانی کی طرح اس کے اندر چلی جاتی ہے اس لئے اس کو مخاطب کرتا ہوں.امیر عبدالرحمن خان صاحب جب فوت ہو گئے تو ان کے بیٹے حبیب اللہ خان تخت کے وارث ہوئے جب تمام لوگ امیر کی بیعت کے لئے آئے تو حضرت صاحبزادہ صاحب 36
موصوف کو بھی بلا بھیجا کہ میری بیعت کرو.آپ نے فرمایا کہ میں اس شرط پر بیعت کروں گا کہ آپ شریعت کے خلاف کچھ نہیں کریں گے.آپ کو شاہی دستار باندھنے کے لئے تبر کا بلایا گیا تھا.جب دستار کے دو تین پیچ باندھنے رہ گئے تو قاضی القضاء نے عرض کیا کہ کچھ پیچ میرے لئے بھی رکھے جائیں تا کہ میں بھی کچھ برکت حاصل کرلوں.سو ایسا ہی ہوا کہ کچھ پیچ دستار کے قاضی نے باندھے.پھر کچھ مدت کے بعد آپ نے اپنے اہل وعیال کو خوست بھیجا.اور مجھے بھی ان کے ساتھ بھیج دیا.دو تین ماہ کے بعد آپ نے امیر سے حج کے لئے جانے کی اجازت مانگی.امیر نے خوشی سے آپ کو اجازت دی اور کئی اونٹ اور گھوڑے آپ کے ساتھ کئے اور کچھ نقد بھی دیا.آپ خوست آکر حج کی نیت سے بنوں کے راستہ سے ہندوستان کی طرف آئے.اٹک کے پرے لگی مقام پر ایک آدمی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارے میں گفتگو ہوئی.وہ آدمی صاحب علم تھا.اس کے بشرہ سے ایسا ظاہر ہوتا تھا کہ جیسے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان لیا ہے اور ایک قسم کی خوشی اس نے ظاہر کی.اس خبر اور اس خوشی کو محسوس کر کے شہید مرحوم نے اپنی سواری کا گھوڑا اس کو بخش دیا.شہید مرحوم جس وقت انگریزوں کے ساتھ سرحد کی تقسیم میں مصروف تھے.ایک شخص آیا اور آپ کو ایک کتاب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دی.آپ وہ کتاب لے کر بہت خوش ہوئے اور کچھ انعام جیب سے نکال کر دیا.جب آپ نے وہ کتاب پڑھی تو بہت پسند کی اور اپنے مہمان خانہ میں اپنے خاص آدمیوں کو سنا کرفرمایا کہ یہ وہی شخص ہے جس کے انتظار میں دنیا لگ رہی تھی اور اب وہ آ گیا ہے.اور فرمایا کہ میں نے ہر طرف دیکھا کہ زمانہ گوصلح کا ہے لیکن مجھے کوئی مصلح نظر نہ آیا تو میں نے اپنی حالت کو دیکھا.تمام قرآن شریف اپنے حقائق و معارف مجھ پر ظاہر کرتا ہے اور کبھی کبھی مجسم بن کر اپنے معانی بتاتا ہے.تب میرے دل میں خیال پیدا ہوا.کہ شاید خدا تعالیٰ مجھے ہی مصلح کر کے کھڑا کر لگا.لیکن اس کتاب کے دیکھنے 37
سے میں نے معلوم کیا.کہ خدا نے مصلح بھیج دیا ہے اور جس کی تقدیر میں تھا وہ ہو چکا ہے.یہ وہی شخص ہے کہ جس کے بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی ہے کہ جہاں بھی نازل ہو اس کی طرف دوڑو اور سلام بھی بھیجا تھا.لہذا میں زندہ ہوں گا یا مُردہ.لیکن جو میری بات مانتا ہے اس کو میں وصیت کرتا ہوں کہ ضرور اس شخص کی طرف جائے.چند بار اپنے طلباء کو شوق دلایا کہ وہ مسیح موعود کو دیکھیں کہ کہاں ہیں اور کیا حال ہے جن میں سے مولوی سید عبدالستار صاحب جو آج کل قادیان شریف میں مہاجر کی حیثیت سے رہتے ہیں کئی بار آئے اور طلباء جو قادیان شریف آ کر واپس گئے تو انہوں نے کچھ شکوک بیان کئے تو شہید مرحوم نے ان کے شکوک کو رفع کیا اور بتلایا کہ یہ شخص سچا ہے اور تم غلطی پر ہو.اس کے بعد مولوی عبد الرحمن شہید مرحوم کو جو حضرت صاحبزادہ صاحب کے شاگرد تھے اور ان کو امیر کی طرف سے دوسو چالیس روپئے ملتے تھے اور منگل قوم کے تھے.چند اپنے شاگردوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف بھیجا اور اپنی بیعت کا خط بھی دیا.اور میں نے بھی اپنی بیعت کا خط دیدیا.اور آپ نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے کچھ خلعتیں تحفہ کے طور پر دیں کہ یہ آپ کی خدمت میں پہنچا دو.پس مولوی صاحب موصوف مرحوم بیعت کے خطوط اور خلعتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرنے کے بعد کچھ روز ٹھہرے اس کے بعد کچھ تصانیف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شہید مرحوم کے لئے لے جا کر میں اور اپنے مقام پر جو منگل میں ہے چلے گئے.اس اثناء میں امیر عبدالرحمن خان کے پاس کسی نے رپورٹ کی کہ مولوی عبدالرحمن جو منگل قوم کے ہیں اور جو آپ سے دوسو چالیس روپئے پاتے ہیں کسی غیر ملک میں چلے گئے ہیں.امیر عبدالرحمن خان کی طرف سے گورنرخوست کے نام حکم پہنچا کہ مولوی عبدالرحمن کو گرفتار کیا جاوے گورنر نے شہید مرحوم کو اطلاع دی کہ ایسا حکم امیر کی طرف سے آیا ہے جب مولوی عبد الرحمن صاحب کو معلوم ہوا تو وہ چھپ گئے.اس کے بعد دوبارہ حکم ہوا کہ اس کا 38
مال و اسباب ضبط کیا جاوے اور اس کے تمام اہل وعیال کو یہاں بھیج دیا جائے.جب مال و اسباب ضبط ہو گیا اور اہل و عیال کو کا بل بھیجا گیا.تو عبدالرحمن شہید خود امیر کے پاس چلا گیا.امیر نے پوچھا کہ تم غیر علاقہ میں کیوں چلے گئے تھے تو انہوں نے جواب دیا کہ سرکار کی خدمت کے لئے قادیان گیا تھا.اور جس شخص نے دعوی مسیحیت کا کیا ہے اس کی کتابیں آپ کے لئے اپنے ساتھ لایا ہوں.امیر نے ان سے کتابیں لے کر ان کو قید میں بھیج دیا.اس کے بعد کچھ معلوم نہیں ہوا کہ وہ کہاں گئے اور کیا حال ان کا ہوا.یا اندر ہی غائب ہو گئے.اللہ ہی بہتر جانے والا ہے اور افواہ اس کی یہ ہے کہ ان کے منہ پر تکیہ رکھ کر ان کا سانس بند کر کے مار دیا گیا.امیر کوخبر پہنچنے کی وجہ یہ تھی کہ جب شہید مرحوم کو حضرت اقدس مسیح موعود کی کتاب ملی تو شہید مرحوم نے تمام افسروں اور حاکموں اور چھوٹوں بڑوں کو خبر کر دی.کہ اس طرح قادیان میں مصلح آیا ہے چنانچہ ان پر کفر کے بڑے بڑے فتوے بھی لگ گئے.شہید مرحوم کا قادیان آنا شہید مرحوم چند احباب کے ساتھ قادیان آئے ان میں سے ایک کا نام مولوی عبدالستار صاحب ہے.دوسرے کا نام مولوی عبد الجلیل صاحب اور تیسرے کو وزیریوں کا مولوی کہا جا تا تھا.میں ان دنوں کچھ روز کے لئے اپنے گھر چلا گیا تھا.وہاں معلوم ہوا کہ شہید مرحوم حج کو چلے گئے ہیں.میرا گھر سید گاہ سے شمال کی طرف ۳۰ کوس کے فاصلہ پر گرم کی سرحد پر ہے.میرے والد صاحب کا نام اللہ نور ہے.یہ سنتے ہی میں وہاں سے چل پڑا.چونکہ مجھے علم تھا کہ شہید مرحوم پہلے قادیان ضرور ٹھہریں گے.اس لئے یہ سنتے ہی میں بھی جلد روانہ ہو گیا.اور ہفتہ ڈیڑھ ہفتہ شہید مرحوم کے قادیان پہنچنے کے بعد آ پہنچا.جب میں شہید مرحوم کے پاس پہنچا تو وہ بہت خوش ہوئے اور مجھے پکڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس لے گئے اور 39
فرمایا کہ چلو تمہاری بیعت کرا آئیں.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس آئے تو آپ نے فرمایا کہ اچھا تھوڑے دن ٹھہر جاؤ تو شہید مرحوم نے عرض کیا کہ اس آدمی کے ٹھہرنے کی ضرورت نہیں آپ اس کی بیعت لے لیں سو اس وقت میری بھی بیعت لی گئی.شہید مرحوم کئی ماہ یہاں ٹھہرے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جب ہم سیر کو جایا کرتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر سے واپس آکر گھر میں داخل ہوتے تو شہید مرحوم اپنے کپڑے گرد و غبار سے صاف نہیں کرتے تھے جب تک ذرا ٹھہر نہ جائیں اور اندازہ نہ لگالیں کہ اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے کپڑے جھاڑ لئے ہوں گے.شہید مرحوم کو الہام اور بکثرت صحیح کشف بھی ہوتے تھے.ایک روز مہمان خانہ میں سوئے ہوئے تھے کہ یک لخت اُٹھ بیٹھے اور یہ الہام ہوا.جِسْمُهُ مُنَوَّرٌ مُعَمَّرٌ مُعَطَّرٌ يُضِيْئُ مَا اللُّؤْلُوْءِ الْمَكْنُونِ نُوْرٌ عَلَى اور یہ بھی کہا کہ یہ نور ہمارے اختیار میں ہے.چنانچہ ایک روز مولوی عبدالستار صاحب کو کہا.کہ میرے چہرہ کی طرف دیکھو اور جھک گئے.مولوی صاحب دیکھنے لگے تو نہ دیکھ سکے.آنکھیں نیچی ہو گئیں.پھر جب شہید مرحوم سیدھے ہو گئے تو مولوی صاحب نے دیکھا اور سبحان اللہ سبحان اللہ پڑھنا شروع کیا.وزیریوں کے مولوی صاحب نے کہا تم نے کیا دیکھا ہے مولوی صاحب ہنسے اور کہا کہ بہت کچھ دیکھا ہے.اور یہ بھی کہا کہ جب میں نے آپ کے چہرے کی طرف دیکھا تو ان کے چہرہ کی چمک نے جو کہ سورج کی مانند تھی میری نظر کو چندھیا دیا اور نیچے کر دیا اور پھر جب انہوں نے سر اُٹھایا تو میں دیکھنے کے قابل ہوا.اور دیکھا.شہید مرحوم نے وزیروں کے مولوی صاحب کو کہا کہ تم میں تقویٰ کم ہے.اس لئے تم نے نہیں دیکھا.40
شہید مرحوم پر عجیب غریب احوال ظاہر ہوتے تھے.ایک روز بہشتی مقبرہ کی طرف جاتے ہوئے ساتھیوں کو فرمایا.کہ تم رہ گئے ہو میرے ساتھ ملنے کی کوشش کرو.میرے حالات اب اتنے باریک ہو گئے ہیں کہ بیان کرنا مشکل ہے.پھر مولوی عبدالستار صاحب کو فرمایا کہ میرے چہرہ کی طرف ذرا دیکھو.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ سورج جو کہ کافی اونچا ہے میں اس کی صرف دیکھ سکتا تھا لیکن شہید مرحوم کی جبین کی طرف دیکھنا مشکل تھا.آپ کے چہرہ سے ایسی شعاعیں نکلتی تھیں کہ سورج سے کئی درجہ بڑھ کر تھیں.قریباً تین مہینے شہید مرحوم نے قادیان میں قیام کیا.جہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام جاتے تھے شہید مرحوم ساتھ ہوتے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام شہید مرحوم سے از حد محبت رکھتے تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کو تشریف لے جارہے تھے.اور شہید مرحوم چند ایک آدمی اور بھی ساتھ تھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر سے واپس گھر چلے آئے تو شہید مرحوم نے ہمیں مہمانخانہ میں آکر مخاطب ہو کر فرمایا.آج ایک عجیب واقعہ ہوا ہے کہ جنت سے ایک خوراچھے خوبصورت لباس میں میرے سامنے آئی اور کہا.آپ میری طرف بھی دیکھیں.میں نے کہا کہ جب تک مسیح موعود علیہ السلام میرے ساتھ ہیں.ان کو چھوڑ کر تیری طرف میں نہیں دیکھوں گا.تب وہ روتی ہوئی واپس چلی گئی.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم سب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ سیر کو جارہے تھے.پھر جب واپس گھر آئے تو شہید مرحوم نے مجھے فرمایا کہ تم نے اپنے والد صاحب کو دیکھا.میں نے کہا کہ نہیں.آپ نے فرمایا کہ وہ تو تمہارے ساتھ ساتھ اور حضرت مسیح موعوڈ کے پیچھے آرہے تھے.حالانکہ میرے والد صاحب کئی برس پہلے گزر چکے تھے.شہید مرحوم کھانا بہت کم کھایا کرتے تھے.اور فرمایا کرتے تھے کہ میں دوزخ کا شور و غوغا سنتا ہوں.اگر لوگ سنیں تو وہ بھی کھانا نہ کھائیں.ایک دفعہ عجب خان تحصیلدار جو ہمارے یہاں آئے ہوئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ 41
السلام سے گھر جانے کی اجازت لے کر شہید مرحوم کے پاس آئے اور کہا کہ میں نے حضرت صاحب سے اجازت لے لی ہے.لیکن مولوی نور الدین صاحب سے نہیں لی.شہید مرحوم نے فرمایا کہ مولوی صاحب سے جا کر ضرور اجازت لینا کیونکہ مسیح موعود کے بعد یہی اول خلیفہ ہوں گے.چنانچہ جب شہید مرحوم جانے لگے تو مولوی صاحب سے حدیث بخاری کے دو تین صفحے پڑھے اور ہم سے فرمایا کہ یہ میں نے اس لئے پڑھے ہیں کہ تا میں بھی ان کی شاگردی میں داخل ہو جاؤں.حضرت صاحب کے بعد یہ خلیفہ اول ہوں گے.شہید مرحوم امیر کابل سے چھ ماہ کی رخصت لے کر آئے تھے.جب روانگی کا وقت آیا تو شہید مرحوم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رخصت ہونے کی اجازت مانگی.حضرت نے فرمایا کہ جب آپ کو دوسرے سال حج کے لئے جانا ہے تو آپ یہیں ٹھہر جاویں پھر آئندہ سال حج کو روانہ ہو جانا.بعد میں گھر بھی چلے جانا.شہید مرحوم نے عرض کیا کہ نہیں حج کے لئے پھر آجاؤں گا.جب شہید مرحوم روانہ ہوئے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور کچھ لوگ قریبا ڈیڑھ میل تک چھوڑنے کیلئے گئے.جب رخصت ہونے لگے تو شہید مرحوم مٹی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں پر گرے اور دونوں ہاتھوں سے قدم پکڑ لئے اور عرض کیا کہ میرے لئے دُعا فرما ئیں.تو حضرت صاحب نے فرمایا اچھا تمہارے لئے دُعا کرتا ہوں.تم میرے پاؤں کو چھوڑ دو.انہوں نے پاؤں نہ چھوڑنے پر اصرار کیا.حضرت صاحب نے فرمایا الامر فوق الادب میں تم کو حکم دیتا ہوں کہ چھوڑ دو.تب شہید مرحوم نے پاؤں چھوڑ دیئے.حضرت صاحب واپس چلے آئے.میں اور مولوی عبدالستار صاحب مہاجر قادیان اور شہید مرحوم کے چند شاگردوں کے ساتھ چلے گئے.تمام راستہ میں شہید مرحوم قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہے.لاہور پہنچ کرمیاں چراغ الدین صاحب کے پرانے مکان کے ساتھ ایک چھوٹی سی مسجد ہے اس میں تین چار دن 42
ٹھہرے کہ کچھ کتابیں خرید کر ان کی جلد بندھوا لیں اور دوستوں کے وہاں گھر تھے مگر چونکہ آپ کو تنہائی پسند تھی اس لئے مسجد میں اترے.....ایک روز میاں معراج الدین صاحب آئے اور شہید مرحوم سے کہا کہ کھانا تیار ہے.کھانے کے لئے تشریف لے چلئے.جب ہم سب اُٹھے تو وہ ہمیں کسی اور کے گھر لے گئے.وہاں بہت سے لوگ بیٹھے تھے.لوگ اُٹھ کر کہنے لگے کہ یہاں بیٹھئے یہاں بیٹھئے.تب شہید مرحوم نے میاں معراج الدین صاحب کو غصہ سے کہا کہ تم نے ہمیں خیرات خور سمجھا ہے کہ یہاں لے آئے ہیں یہ کہ کر شہید مرحوم باہر نکل آئے اور میں بھی آپ کے ساتھ باہر نکل آیا.ہمارے ساتھ کوئی واقف آدمی نہ تھا کہ ہمیں مسجد کا راستہ بتلائے.تب شہید مرحوم نے مجھے فرمایا کہ تم آگے ہو جاؤ تو میں یونہی ناواقفی کی حالت میں چل پڑا.خدا نے ہمیں مسجد پہنچا دیا جب تمام کتا ہیں مجلد ہوگئیں تو ہم لاہور سے چل پڑے.تمام راستہ میں شہید مرحوم گاڑی میں قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہے.آخر کو ہاٹ میں ہم اترے.وہاں سے ٹمٹم کرایہ کر کے شہر میں پہنچے.شہر میں آکر یکہ خانہ میں بنوں جانے کے لئے ایک ٹمٹم والے کو سائی کا ایک روپیہ دیگر ٹمٹم کی.جب صبح ہوئی تو ایک سرکاری آدمی آیا اور اس ٹمٹم والے کو زبردستی لے گیا.اور کہا ایک سرکاری ضروری کام ہے.جب ٹمٹم والے کو آنے میں دیر ہوئی تو شہید مرحوم نے مجھے ٹمٹم والے کی طرف بھیجا.میں وہاں سے چل پڑا.اور تلاش کرتے ہوئے ٹمٹم والے کے پاس آیا.وہ کہنے لگا کہ میں نہیں آسکتا.مجھے سرکاری آدمی لے آیا ہے.میں نے اس سے سائی کاروپیہ مانگا.کہ روپیہ دیدو.اس نے روپیہ دینے سے انکار کیا.اس اثناء میں تحصیلدار آ گیا.میں نے تحصیلدار سے کہا کہ یا توٹمٹم والے کو میرے ساتھ کر دو کہ آپ سے پہلے میں نے ٹمٹم کرایہ پر لی ہوئی تھی یا سائی کا روپیہ واپس کرا دیں اس نے کہا نہیں سرکاری کام کرنا ضروری ہے.میں آدمی نہیں دے سکتا.میں نے کہا میں بھی تو سرکاری آدمی ہوں.آخر کچھ جھگڑے کے بعد روپیہ واپس کرا دیا.43
چونکہ جھگڑنے میں مجھے بہت دیر لگ گئی تھی.اس لئے ہمارے ساتھیوں نے تنگ آکر شهید مرحوم سے عرض کیا کہ ٹمٹم والا بھی نہ آیا اور ہمارا آدمی بھی نہ لوٹا.وہی واپس آجاتا تو ہم چلنے والے بنتے.روپیہ تو ملے گا نہیں اور نہ ہی ٹمٹم والا آئے گا.شہید مرحوم نے فرمایا.میں نے ایسا آدمی پیچھے بھیجا ہے کہ یا تو ٹمٹم والے کو لے آئے گا اور یا روپیہ واپس لائے گا اور وہ ایسا آدمی ہے کہ اگر اسے پہاڑ کے سامنے کھڑا کر دیں تو ضرور ہے کہ پہاڑ کو پھاڑ کر دوسری طرف نکل جائے.اتنے میں میں آکر حاضر ہو گیا.تو شہید مرحوم فرمانے لگے کہ دیکھا جو میں نے کہا تھا کہ یہ بڑا ز بر دست آدمی ہے.سوا لیسا ہی نکلا.ریل گاڑی میں جب ہم کو ہاٹ جارہے تھے.تو شہید مرحوم فرمانے لگے کہ میرا مقابلہ ریل کے ساتھ ہے.ریل کہتی ہے کہ میں تیز رفتار ہوں.میں کہتا ہوں کہ میری رفتار پڑھنے میں تیز ہے آپ کا یہ فرمانا تھا کہ ریل کی رفتار کم ہوگئی.اور آہستہ آہستہ چلنے لگی.گارڈ نے بہت کوشش کی.وقت بھی تنگ تھا.لیکن گاڑی آخر کار کھڑی ہوگئی.تمام لوگ اتر پڑے اور شور بپا ہوگا کہ گدھا کھڑا ہو گیا گدھا کھڑا ہو گیا.خیر صبح ہوتے ہوئے بنوں کو جانے کے لئے اور ٹمٹم کرائی ٹمٹم میں بھی آپ قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہے.جب عصر کی نماز کا وقت ہوا تو نماز اتر کر پڑھی اس اثناء میں بہت سخت بارش ہوئی لیکن شہید مرحوم نے کوئی پرواہ نہ کی.اپنے مزے سے خوب ہمیں نماز پڑھائی.ایک جگہ خرم نام راستہ میں آئی رات کو سرائے کے آدمی سے بکری منگا کر ذبح کی اور پکا کر ہم سب نے کھانا کھایا اور ان لوگوں کو بھی کھلایا.آخر ہم بنوں پہنچے.وہاں ایک دو روز کے قیام کے بعد خوست کو چل پڑے.راستہ میں دوڑ ایک جگہ ہے وہاں تک ٹمٹم میں گئے.یہاں کے نمبر دار نے ہماری آمد کی بہت خوشی ظاہر کی اور ایک بکری ذبح کی اور کھانا کھلایا.شہید مرحوم نے کچھ وعظ بھی اسے کیا.صبح ہوتے ہی سید گاہ سے کچھ آدمی گھوڑوں پر استقبال کے لئے 44
آئے.وہاں سے آپ گھوڑے پر سوار ہوئے اور ہم سب پیدل تھے گھر تک پہنچ گئے..اس وقت کابل کا امیر حبیب اللہ خان تھا.جب اپنی جگہ پر پہنچے.ادھر ادھر سے رؤسا خوشی خوشی ملنے کے لئے آئے کہ صاحبزادہ صاحب حج سے واپس آگئے ہیں.آپ نے فرمایا کہ میں حج تک نہیں پہنچا.بلکہ ہندوستان میں قادیان ایک جگہ ہے.وہاں ایک آدمی نے...دعوی کیا ہے اور یہ اس کا فرمان ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آیا ہوں اور اس نے مجھے زمانہ کی اصلاح کے لئے بھیجا ہے...لوگوں نے عرض کا کہ یہ باتیں نہ کرو.انہی باتوں سے تو امیر کابل نے بر امنایا تھا.اور عبدالرحمن کو شہید کر دیا تھا.شہید مرحوم نے فرمایا کہ تمہارے دو خدا ہیں.جتنا خدا سے خوف ہونا چاہئے اتنا تم امیر سے کرتے ہو.کیا میں خدا کی بات اور حکم کو امیر کی خاطر نہ مانوں.کیا قرآن سے تو بہ کروں یا حدیث سے دستبردار ہو جاؤں اگر میرے سامنے دوزخ بھی آجائے تب بھی میں تو اس بات سے نہیں ٹلوں گا.چنانچہ خوست کے گورنر نے حاضر ہو کر بہت عرض کیا یہ باتیں نہ کرو.تمام عزیز واقارب نے بیزاری کے خطوط لکھے لیکن آپ نہ ٹلے.اور ان باتوں سے بالکل پیچھے نہ ہٹے.باوجود ایسے وقت نازک ہونے کے آپ نے پانچ خط بادشاہ کے درباریوں کو لکھے ایک ان میں سے گورنر مرزا محمد حسین خان کو لکھا.ایک مرزا عبدالرحیم خان دفتری کو لکھا.ایک شاغاشی عبد القدوس خان کو اور ایک حاجی باشی کو.جو بھی امیر کے ملک سے حاجی آتے ہیں اس کی اجازت سے آتے ہیں.ایک اور بڑا آدمی تھا.غالبا قاضی القضاۃ تھا.ان خطوں میں یہ مضمون تھا.میں حج کی خاطر روانہ ہوا تھا لیکن ہندوستان جا کر قادیان ایک جگہ ہے وہاں گیا.قادیان میں ایک آدمی ہے جس کا نام مرزا غلام احمد ہے.یہ دعوی کیا ہے کہ میں خدا کی طرف سے اس زمانہ کی اصلاح کے لئے بھیجا گیا ہوں...میں نے قادیان میں چند مہینے گزارے.اس کے تمام چال چلن کو دیکھا.دعوے کو سنا اور اقوال وافعال غور سے دیکھے...45
میں نے اسے مان لیا ہے.........جب یہ خطوط لکھے گئے تو آپ نے اپنے ایک آدمی کو فر مایا کہ یہ خطوط کابل لے جاؤ اور ان لوگوں کو دید و جن کے نام یہ خط ہیں.تب اس آدمی نے عرض کی کہ کپڑے وغیرہ لے لوں کہ سردی کا موسم ہے.آپ بہت ناراض ہوئے اور کاغذ واپس لے لئے اور فرمایا تم اس لائق نہیں ہو.ان میں سے ایک آدمی عبد الغفار صاحب برادر مولوی عبدالستار مہاجر قادیان نے جو بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں اس مجلس سے اٹھ کر عرض کیا کہ میں حاضر ہوں.آپ خوش ہو گئے اور اسے تمام خطوط دے دیئے.اس وقت سردی کا موسم تھا برف پڑی ہوئی تھی.اس نے کاغذ لے جا کر جن کے نام خطوط تھے دیدئے.یہ عبد الغفار ان لوگوں سے جن کے نام خطوط تھے شہید مرحوم کی وجہ سے خوب واقف تھے جب عبد الغفار صاحب نے ان سے جواب مانگے تو مرزا محمد حسین خان صاحب گورنر نے جواب دیا کہ تم ابھی چلے جاؤ بعد میں ڈاک کے ذریعہ مولوی صاحب کو جواب پہنچ جائے گا.پس وہ تمام خطوط بادشاہ کے یہاں پیش ہوئے.بادشاہ نے تمام اپنے معتبر مولویوں کو بلایا اور کہا کہ ان خطوط کے بارہ میں کیا جواب دیتے ہو؟ مولویوں نے عرض کیا یہ دعوی کرنے والا شخص آدھا قرآن شریف مانتا ہے اور آدھا نہیں مانتا.اور کافر ہے.جو اس کو مانے وہ بھی کافر اور مرتد ہے.اگر صاحبزادہ صاحب کے کلام کو ڈھیل دی جاوے گی تو بہت لوگ مرتد ہو جاویں گے.تب امیر نے گورنر خوست کو حکم دیا کہ صاحبزادہ صاحب کو گرفتار کر کے پچاس سواروں کے ساتھ یہاں بھیج دو.کوئی ان سے کلام نہ کرے اور نہ کوئی ملنے کے لئے آئے.نہ یہ کسی کو ملیں اور نہ کسی سے کلام کریں.مولوی عبد الغفار صاحب نے واپس آکر صاحبزادہ صاحب سے عرض کی.کہ مجھے تو 46
کوئی جواب نہ ملا.مگر محمد حسین خان صاحب نے یہ کہا ہے کہ تم جاؤ جواب ڈاک میں آجائے گا.مولوی صاحب نے یہ بھی کہا کہ مجھے تو خطرہ معلوم ہوتا ہے.اس خطرہ کے ہوتے ہوئے بھی صاحبزادہ صاحب نے کوئی پرواہ نہ کی.جواب کے آنے میں تین ہفتے گزر گئے.ایک روز میں اور صاحبزادہ صاحب اور ان کے خادم عبدالجلیل صاحب سیر کو جارہے تھے کہ صاحبزادہ صاحب اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر کہنے لگے کہ تم ہتھکڑیوں کی طاقت رکھتے ہو.اور مجھے مخاطب ہو کر فرمایا کہ جب میں مارا جاؤں گا تو میرے مرنے کی اطلاع مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کر دینا.یہ سن کر میرے آنسونکل آئے اور میں نے عرض کیا کہ جناب میں بھی تو آپ کے ساتھ ہوں.میں کب جدا ہوں گا.آپ نے فرمایا کہ نہیں نہیں.جب تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا تھا.کہ میں قادیان سے باہر نہیں جا سکتا تو انہوں نے فرمایا کہ تم ان کے ساتھ جاؤ اور تم واپس آجاؤ گے اس لئے تمہارے بارہ میں تو مسیح موعود علیہ السلام کا اشارہ ہے کہ واپس آ جاؤ گے.میرے بارے میں تو نہیں فرمایا.اسی اثناء میں کہ جواب نہیں آیا تھا.بہت سے دوستوں نے عرض کیا کہ اگر آپ نے جانا ہے تو ہم آپ کو لے جائیں گے.تمام عیال کے ساتھ بنوں چلے جائیں.اس وقت موقع ہے.آپ نے فرمایا کہ نہیں.میں ہر گز نہیں جاؤں گا...میں مارا بھی گیا تو میرے مرنے پر بھی تم کو بہت مدد ملے گی اور فائدہ پہنچ جائے گا.اس لئے میں بالکل نہیں جاؤں گا.اس روز جس روز کہ پچاس سواروں نے آنا تھا.آنے سے پیشتر آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام ایک خط لکھا جس میں تمام واقعات جو خطوں کے بارے میں ہوئے تھے لکھے.اور جو اس خط میں القاب تھے.مجھے پسند آئے.میں نے عرض کیا کہ یہ خط مجھے دیدیں نقل کر کے میں واپس دیدوں گا.آپ نے وہ خط جیب میں ڈال لیا اور فرمایا کہ یہ خط تمہارے ہاتھ میں آوے گا.47
عصر کا وقت قریب آیا.کہ یکے بعد دیگرے پچاس سواروں میں سے لوگ آنے لگے.جب نماز کا وقت آیا.تو شہید مرحوم نے آگے ہو کر نماز پڑھانی شروع کی.نماز کے بعد ان سواروں نے عرض کیا کہ آپ سے گورنر صاحب عرض کرتے ہیں کہ مجھے آپ سے ملاقات کرنی ہے.آپ خود آئیں گے یا میں حاضر ہو جاؤں.آپ نے فرمایا نہیں وہ ہمارے سردار ہیں میں خود چلتا ہوں.آپ نے گھوڑے کو زمین کرنے کا حکم دیا.لیکن سواروں میں سے ایک سوار اترا اور آپ کو سواری کے لئے گھوڑا خالی کیا.جب آپ گھوڑے پر سوار ہونے لگے تو خط آپ نے جیب سے نکال کر میرے حوالہ کیا.اور کچھ نہ فرمایا.میں آپ کے ساتھ ہولیا.جب گاؤں سے نکلا تب آپ نے فرمایا کہ پہلے پہل جب آپ مجھے ملے تھے تو میں بہت خوش ہوا تھا.اور خیال کیا کہ ایک باز میرے ہاتھ میں آیا ہے.اس بارے میں میرے ساتھ لمبی گفتگو کی.جب بہت دُور تک میں ساتھ ساتھ گیا.تو آپ نے فرمایا کہ جاؤ اب گھر چلے جاؤ.میں نے عرض کیا کہ میں آپ کی خدمت کے لئے چلتا ہوں.فرمانے لگے کہ تم میرے ساتھ مت جاؤ.تمہارا میرے ساتھ جانا منع ہے اور فرمایا.وَلَا تُلْقُوا بِأَيْدِيكُمْ إِلَى التَّهْلُكَةِ (آل عمران : ۱۹۶).تم اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو.اور فرمایا کہ اس گاؤں سے اپنے گھر چلے جاؤ.میں رخصت ہو گیا اور آپ سواروں کے ساتھ خوست کی چھاؤنی میں چلے گئے.اور گورنر نے حکم سنایا کہ یہ حکم آپ کے متعلق آیا ہے کہ نہ کوئی آپ کو ملے اور نہ آپ کسی سے ملیں اور نہ کلام کریں اس لئے آپ کو علیحدہ کوٹھی دی جاتی ہے.لہذا انہیں علیحدہ کوٹھی رہنے کے لئے مل گئی.اور پہرہ ان پر قائم ہو گیا.لیکن گورنر نے یہ رعایت ان کے لئے رکھی کہ ان کے عزیز رشتہ دار وغیرہ ان کے ملنے کے لئے آجاتے اور مل لیتے تھے.جب ان کے مرید ملنے کے لئے آئے.تو اس وقت بھی 48
انہوں نے عرض کیا کہ ہم آپ کو اور آپ کے اہل وعیال کو نکال کر لے جائیں گے یہ لوگ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتے.ہم تعداد میں زیادہ ہیں لیکن حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب مرحوم نے اس موقع پر بھی یہی فرمایا کہ اب مجھے امید ہے کہ خدا تعالیٰ مجھ سے دین کی خدمت ضرور لے گا تم یہاں کوئی منصوبہ نہ باندھنا تا اس کوٹھی میں بھی ہم سے زیادتی نہ ہو.خوست میں آپ کو اس لئے رکھا گیا تھا کہ گورنر کو خوف تھا اور خیال کرتا تھا کہ اگر سر دست ان کو کابل لے گئے.تو ایسا نہ ہو کہ راستہ میں ان کے مرید ہم پر حملہ کر دیں اور ہم سے چھڑالے جائیں اس لئے دو تین ہفتہ کے بعد جب گورنر کو معلوم ہو گیا کہ یہ خود ہی لوگوں کو اس مقابلہ سے منع کرتے ہیں تو تھوڑے سے سوار ساتھ کر کے صاحبزادہ صاحب کو کا بل بھیج دیا.ان سواروں سے روایت ہے جو ان کے ساتھ تھے.خدا جانے کہاں تک صحیح ہے.کہ جب ہم کابل جارہے تھے تو دو بار صاحبزادہ صاحب بیٹھے بیٹھے ہم سے گم ہو گئے.پھر جب دیکھا تو ویسے ہی بیٹھے ہوئے تھے.پھر انہوں نے فرمایا.کہ تم لوگوں کو معلوم ہے کہ تم مجھے زبردستی نہیں لے جاسکتے.بلکہ میں ہی جاتا ہوں.تب انہوں نے کہا کہ ہم بہت احتیاط اور ادب کے ساتھ کابل لے گئے.جب ہم کابل پہنچ گئے تو پھر حبیب اللہ خان کے بھائی امیر نصر اللہ خان کے سامنے پیشی تھی.اس نے بغیر کسی قیل وقال کے حکم دیا کہ اس کا تمام مال و اسباب چھین لو.پس تمام اسباب اور زادراہ اور گھوڑا چھین لیا گیا.پھر حکم ہوا کہ مارگ کے قید خانہ میں لے جاؤ.جہاں بڑے لوگ قید کئے جاتے ہیں.وہاں آپ کو بہت تکلیف پہنچائی.لیکن آپ کو دیکھا جاوے تو اس وقت اور اس حالت میں بھی اپنے خدا کو یاد کرتے اور قرآن کریم کی تلاوت کرتے رہے.ایک بار آپ نے کسی ذریعہ سے خبر بھیجی کہ مجھے خرچ بھیج دواس وقت ان ہی کے گاؤں میں میں تھا.آپ کے بال بچوں نے کہا کہ ابا نے خرچ مانگا ہے.کوئی لے جانے والا نہیں.49
مجھ سے کہا کہ کیا آپ لے جائیں گے.میں نے کہا کہ ہاں میں لے جاؤں گا.سردی کا موسم تھا.پہاڑی راستہ تھا.میں تن تنہا چل پڑا.منگل کے پہاڑ پر کیا دیکھتا ہوں کہ بہت سخت بارش آئی ہے مجھے خوف معلوم ہوا کہ موسم اور راستہ خطرناک ہے.بارش سخت ہے.کہیں سردی سے یہیں مر نہ جاؤں.تب میں نے بارش کو مخاطب ہو کر دعا کی.کہ آج مسیح موعود علیہ السلام کے دو آدمی یہاں آئے ہیں.ایک تو قید خانہ میں ہے اور ایک اس کے لئے خرچ لے جارہا ہے.تم بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے آئے ہو اور ہم بھی اس کے بندے ہیں تم ٹھہر جاؤ مجھ پر نہ برسنا.اگر برسنا ہے تو میرے پیچھے پیچھے برسوتب میں آگے آگے تھا اور بارش میرے پیچھے پیچھے تھی.ایسے طور سے کہ قریباً اٹھارہ ہمیں قدم کے فاصلہ پر بارش برس رہی تھی.قریبا آٹھ کوس کا فاصلہ تھا کہ جہاں میرے ایک دوست کا گھر تھا.میں نے اس گھر میں پاؤں رکھا ہی تھا کہ بارش بہت زور و شور سے حد درجہ کی ہوئی.آخر میں نے رات وہیں گزاری.جب صبح ہوئی تو پھر چل پڑا.غڑک ایک مقام ہے.وہاں پہنچ کر دیکھا کو چی لوگوں کا مال (یعنی خانہ بدوش کا) ایک ایک جگہ پر کہیں سو کہیں دوسو بکریاں بھیٹر میں متفرق طور پر سردی اور بارش سے مری پڑی ہیں اور کہیں اونٹ مرے پڑے نظر آتے ہیں.یہ سب کارروائی برف اور سردی کی تھی.غڑک سے آگے ایک مقام خوشئے ہے وہاں مجھے پہنچنا تھا لیکن غڑک کی پہاڑی پر پہنچتے وقت شام ہوگئی.سورج ڈوبنے کے قریب تھا پر جگہ یہ ایسی تھی کہ یہاں سے منزل مقصود بہت دور تھی اور کوئی رہنے کی جگہ نہ تھی.یہاں بھی مجھ پر بارش ہوئی اور اولے پڑے.میں دوڑ کر ایک غار میں چھپ گیا.تھوڑی سی دیر کے بعد بادل پھٹ گئے اور سورج نکل آیا.اس وقت میں نے دعا کی کہ اے میرے مولیٰ یا تو اس سورج کو جو ڈوبنے والا ہے کھڑا رکھیو.اور یا زمین کی طنا میں کھینچ لو.کہ میں خوشے پہنچ جاؤں اور کوئی صورت میرے پہنچنے کی نہیں تب خدا جانے کہ میری کون سی دعا قبول ہوئی اور شام ہوتے ہوتے سورج ڈوبنے تک 50
خوشئے پہنچ گیا.الحمد للہ علی ذالک.رات کو ایک مسجد میں بسیرا کیا.یہ راستہ طے کرنا بہت مشکل تھا جو خدا نے مجھ سے طے کرایا.اسی روز میں کابل پہنچ کر حاجی باشی کے پاس دو روز تک رہا.اور اس کے ذریعہ سے خرچ صاحبزادہ صاحب کو پہنچادیا.حاجی صاحب صاحبزادہ صاحب کے خاص دوست تھے.وہاں سے میں اپنے گھر واپس آیا.جو قریبا تمیں کوس کے فاصلہ پر ہے...میرا مقام جو ہے وہ سرحدار یوب اور قوم یونی (یعنی دیوانہ ) گاؤں جدران دریا کے کنارے پر آباد ہے.میرے والد صاحب کا نام اللہ نور ہے اور قوم سے سید ہوں.میرے والد صاحب بھی بے نظیر انسان تھے.وہ اپنے وقت میں کہا کرتے تھے کہ یہ ملک ظلمت ہے.تم مشرق کی طرف جاؤ وہاں آسمان سے ایک نور نازل ہوا ہے.تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ گے.کاش میں بھی اس وقت زندہ ہوتا تو میں بھی جاتا.اب پھر وہی مضمون جاری ہے.تخیل ایک مقام ہے وہاں کے تاجر عام طور پر کابل جایا کرتے ہیں.وہاں میں معلوم کرنے کے لئے گیا.ان سے معلوم ہوا کہ صاحبزادہ عبداللطیف صاحب سنگسار ہو گئے ہیں اور ایک درخت کی مانند ان پر پتھر کے ڈھیر پڑے ہیں.تب میں نے اپنے دل میں کہا کہ کوئی بات نہیں.یا تو میں بھی ان کی مانند سنگسار ہو جاؤں گا اور یا خواہ ان کو نکال لاؤں گا خواہ ایک کے بدلے دو درخت کی مانند پتھر ہوں.پھر میں نے کابل کی روانگی کا ارادہ کیا.جب شیخیل پہنچا تو وہاں کے حاکم نے مجھے کہا کہ تم گھر چلے جاؤ.ورنہ تمہیں سزا ملے گی.میں نے کہا میں نہیں جا تا.تب انہوں نے مجھ سے دو سو روپیہ کی ضمانت لی چھوڑ دیا.میں اس راستہ کو چھوڑ کر دوسرے راستہ سے کابل پہنچا.وہاں بعض دوستوں سے ذکر کیا کہ میں اس کام کے لئے آیا ہوں اور کہا کہ صاحبزادہ صاحب مرحوم کی سنگساری کی جگہ کون سی ہے.وہ لوگ بہت ڈرے اور مجھے کہا کہ ہند وسوزاں میں ہے 251
جہاں ہند ومرتے وقت جلائے جاتے ہیں.پس جگہ دیکھ کر میں واپس آ گیا.اور خیال کیا کہ میرے نکالنے پر استاد صاحب یعنی صاحبزادہ صاحب راضی ہیں یا نہیں.؟ پھر میں نے رات کو دعا کی اے مولا کریم مجھے بتا دے کہ میرا نکالنا صاحبزادہ صاحب مرحوم کو منظور ہے یا نہیں.تب میں نے خواب میں دیکھا کہ صاحبزادہ صاحب مرحوم ایک کوٹھڑی میں پڑے ہیں.دروازہ کھولا اور مجھے اجازت دی کہ آجاؤ.میں پاس جا کر پیر دبانے لگا.اور دیکھا کہ بہت نازک حالت میں زخمی ہو گئے ہیں جب نیند سے اٹھا تو میں نے معلوم کیا کہ آپ راضی ہیں.پھر میں نے خیال کیا کہ ان کو کس طرح نکالوں.آخر میں پلٹن میں ایک آدمی کو جو صاحبزادہ صاحب شہید مرحوم کا دوست تھا.ملا.اور یہ حوالدار تھا میں نے اپنی آمد کا ذکر کیا.اور اپنا منشاء شہید مرحوم کی نسبت ظاہر کیا.یہ بات سن کو وہ رو پڑا.اور کہا کہ میں نے بھی بہت دفعہ ارادہ کیا تھا لیکن مجھ میں طاقت نہیں تھی.اب آپ آئے ہیں.اب ضرور انشاء اللہ میں اس کام میں مدد دونگا.پھر میں نے اس سے کہا کہ آپ کچھ لوگ جتنے بھی مل سکیں رات کے بارہ بجے تک وہاں بھجوا دیں کفن تابوت خوشبو وغیرہ سامان میں لے آتا ہوں.پھر میں ایک مزدور سے تابوت وغیرہ سامان اٹھوا کر اس جگہ کے پاس ایک قبرستان تھا لے گیا.اس اثناء میں کہ میں کابل گیا ہوں.خدا کی قدرت بہت سخت ہیضہ کی بیماری پڑی ہوئی تھی.اور اتنی میتیں اٹھتی تھیں کہ کسی کو کسی کی کچھ سوچھتی نہ تھی.میں جب وہاں گیا تو میت پر میت آتی تھی اور لوگ دفن کرتے تھے لیکن مجھے کسی نے نہ پوچھا اپنی افراتفری میں لگے ہوئے تھے اور کسی کو خیال بھی نہ ہوا کہ تم یہاں کیسے آئے ہو اور اس تابوت میں کچھ ہے کہ نہیں.خیر آدھی رات کے قریب میں نے دیکھا کہ آدمی معلوم نہیں ہوا تب میں نے ارادہ کیا کہ میں خود ہی نکالوں خواہ کچھ ہی ہو.تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ وہ شخص بمعہ کچھ اور لوگوں کے آپہنچا اور میں بھی تابوت لے کر ہند وسوزاں پہنچا.اوّل جب صاحبزادہ صاحب شہید کئے گئے تو اس 52%
جگہ پر تین روز تک پہرہ رہا.بعد اس کے وہاں ایک میگزین ہے اس کے سپرد کیا کہ شہید مرحوم کو کوئی نکال کر نہ لے جائے.احتیاط کے لئے ہم نے ایک آدمی کو پہرہ کے لئے مقرر کیا اور ہم باقیوں نے پتھر ہٹا کر صاف میدان کر دیا جب وہ ظاہر نظر آنے لگے تو ان سے ایک ایسی اعلیٰ درجہ کی خوشبو آئی کہ ہماری خوشبو سے بدرجہا بہتر تھی.اس آدمی کے ساتھ کے لوگ کہنے لگے کہ شاید یہی وہی آدمی ہے جس کو امیر نے سنگسار کیا تھا.اس لئے ایسی خوشبو آرہی ہے میں نے کہا کہ ہاں یہ ایسا شخص تھا کہ ہر وقت قرآن شریف کی تلاوت اور خدا کو یاد کرتا تھا.یہ وہی خوشبو ہے.جب ہم نے زمین سے اُٹھا کر کفن میں رکھا تو مجھے کشف میں معلوم ہوا کہ پہاڑی کے پیچھے پچاس آدمی اور ایک سوار دورہ یعنی گشت پر آرہے ہیں.اس زمانہ میں رات کے وقت پہرہ ہوتا تھا اور کسی کو باہر پھرنے کی اجازت نہ تھی اگر کوئی رات کو پکڑا جاتا تو بغیر پوچھ پاچھ کے مار دیا جاتا.تب میں نے ان لوگوں کو کہا ہٹ جاؤ لوگ سرکاری آرہے ہیں.اور یہ چاندنی رات تھی.جب ہم ہٹ گئے تو تھوڑی دیر بعد ایک سوار اور بہت سے لوگ اس سڑک پر آئے جس سڑک سے راستہ میگزین کو جاتا ہے.اس سڑک پر سے میگزین کو گئے اور کچھ دیر بعد اس راستہ سے واپس چلے گئے.تب ہم شہید مرحوم کی لاش پر آگئے اور لاش کو تابوت میں رکھ دیا.لاش اس قدر بھاری ہو گئی تھی کہ ہم اُٹھا نہیں سکتے تھے.تب میں نے لاش کو مخاطب کر کے کہا کہ جناب یہ بھاری ہونے کا وقت نہیں.ہم تو ابھی مصیبت میں گرفتار ہیں کوئی اور اٹھانے والا نہیں آپ ہلکے ہو جائیں اس کے بعد جب ہم نے ہاتھ لگایا تو لاش اتنی ہلکی ہو گئی تھی کہ میں نے کہا کہ میں اکیلا ہی اُٹھاتا ہوں.لیکن اس دوست نے کہا کہ نہیں میں اُٹھاؤں گا.آخر اس نے میری پگڑی لے کر اور تابوت کو اس کے ذریعہ سے اٹھایا نزدیک ہی ایک مقبرہ تھا وہاں لاش رکھ کر میں نے ان کو رخصت کیا کہ وہ سرکاری آدمی تھا.صبح ہوتے ہوئے میں نے مقبرہ میں ایک زیارت والے آدمی کو کچھ پیسے دیکر ساتھ کرلیا اور تابوت کو شہر کے اندر لائے.شہر کے شمال کی طرف ایک پہاڑی بالائی سار نام کے دوسری 53
طرف ایک قبرستان تھا جو ان کے آبا ؤ اجداد کا تھا وہاں دفن کر دیئے.پھر میں ایک ماہ کابل میں ٹھہرا تا کہ معلوم ہو جائے کہ اگر گرفتاری ہو تو مجھ پر ہو.میرے اہل وعیال کو تکلیف نہ ہو.بعد اس کے میں گھر آیا اور میں نے گھر میں کہا کہ میں تو جاتا ہوں لیکن اس اثناء میں کسی نے حاکم سے یہ رپورٹ کی کہ یہ مرزا کے پاس قادیان جاتا ہے.اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ حج کو چلا ہوں.حاکم نے آدمی پکڑنے کو بھیجے.گھر میں میرا بھائی اور چا کا بیٹا تو نہیں تھا لیکن مجھے اور میرے چا کو لے گئے وہاں میں نے حاکم سے کہا کہ غرض تو میرے ساتھ ہے رپورٹ بھی میری ہوئی ہے.میرے چا کو چھوڑ دو.چونکہ حاکم میرا دوست تھا میرے چچا کو چھوڑ دیا اور مجھے رکھ لیا.پھر میں نے کہا کہ اگر میں حج کو جاتا تو میں اپنی جائیداد خرچ کے لئے بیچتا لیکن آپ دریافت کرالیں میری جائیداد ویسی کی ویسی ہے اور میں زمیندار آدمی ہوں.میرے پاس اتنی دولت کہاں ہے کہ بغیر جائیداد بیچنے کے جاؤں.تب مجھے حاکم نے چار پانچ روز تک نظر بند کر لیا.کچھ آدمی میرے پاس آئے کہ ہم تمہارے ضامن ہو جاتے ہیں.میں نے کہا کہ نہیں تم میرے ضامن نہ بنو.میں ضرور جاؤں گا.آپ کو بے فائدہ تکلیف ہوگی میرے گردا گر دلو ہے کی چار دیواری ہو تو وہ بھی مجھے راستہ دیگی اور میں انشاء اللہ تعالیٰ چلا جاؤں گا.اس طرح دھو کے سے اور کسی کو ضمانت میں پھنسا کر جانا نہیں چاہتا.کچھ روز بعد میں گھر گیا اور رات کے بارہ بجے جانے کا ارادہ کر لیا.تمام بال بچوں سے پوچھا تو سب نے رضامندی سے جانے کی اجازت دی.رات کے وقت گاؤں کے نمبر دار وغیرہ میرے پاس آئے کہ نہیں ہم نہیں جانے دیں گے یونہی ہم عذاب میں گرفتار ہو جائیں گے.جب میں نے ارادہ روانگی کا کیا تو تمام ملک اور زمین وغیرہ میرے سامنے ہو گئے کہ کیا ہمیں چھوڑ کر چلے جاؤ گے.تب میں نے کہا کہ اچھا میں وزن کروں گا کہ آیا اللہ تعالیٰ کا فضل بہتر ہے یا ملک و دولت اس خواہش کے ہوتے ہوئے اسی وقت تمام نظارہ غائب ہو گیا.پھر میں نے گاؤں کے نمبر دار وغیرہ کو کہا کہ میں نے اور میرے باپ دادا نے آپ لوگوں کو خدا کا کلام سنایا، لکھایا اور پڑھایا کیا تم چاہتے 54
ہو کہ حاکم مجھے تکلیف دے.انہوں نے کہا نہیں.پھر کہا کیا تم چاہتے ہو کہ ہم سب گاؤں کو تکلیف پہنچے.میں نے کہا تم نے تو اپنا فرض پورا کر لیا ہے.حاکم کو آگاہ کیا اور میں حاکم کے پاس سے ہو کر آیا ہوں پھر تم پر کوئی تکلیف نہیں.پھر اس نے بہت اصرار کیا.آخر اس وقت مجھ پر ایسی حالت طاری ہوئی کہ اگر میں زمین کو حکم دیتا کہ ان کو پکڑلے تو ضرور پکڑ لیتی.میں نے ان نمبر داروں سے کہا اچھا تم پکڑنے کے لئے راستہ میں بیٹھ جاؤ اور میں تمہارے پاس آتا ہوں اگر نہ آؤں تو میں اپنے باپ کا بیٹا نہیں ہوں.اس کے بعد نمبر دار کو بھی میری حالت معلوم ہوئی اور میرے پاؤں پر گر پڑا کہ اس حالت میں ہمارے لئے بددعا نہ کرنا ہمیں معاف کر دو.میں نے کہا معاف اس وقت ہوگا کہ تم مجھے اب پہاڑ کے پار چھوڑ آؤ تب میں راضی ہوں گا پس نمبر دار بمعہ تمام آدمیوں کے مجھے میرے تمام بال بچوں کے ساتھ سرحد سے پار لے آئے اور پھر میں نے ان کو وہاں سے واپس کر دیا اور ہم سب چل دیئے اور میں اپنے ساتھ شہید مرحوم حضرت صاحبزادہ مولانا عبد اللطیف صاحب کے بال بطور نشانی کے اپنے ساتھ لایا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کر دیئے اور آپ اس سے بہت خوش ہوئے اور شیشی میں بند کر کے بیت الدعامیں رکھ دیئے.صاحبزادہ عبداللطیف شہید مرحوم بڑے عالم انسان اور ذی عزّت شخص تھے.یہاں تک کہ آپ کو امیر کی طرف سے گیارہ سو روپیہ ملتے تھے اور ویسے آپ بڑی جائیدا در کھتے تھے اور اپنے علاقہ میں رئیس اعظم تھے.لیکن آپ نے حق کو نہ چھوڑا اور یک لخت تمام کی تمام عزت جاہ و جلال اور دولت و حشمت اور مال و منال سب کچھ مسیح موعود پر خدا کی راہ میں قربان کر دیا.یہاں تک کہ جان بھی جو بہت عزیز تھی قربان کر دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام آپ کے بارہ میں فرمایا کرتے تھے کہ اگر میں نہ آتا تو میری جگہ پر یہ آتا.آپ کی سنگساری کا واقعہ یوں گزرا کہ جب آپ کی قید خانہ میں میعاد پوری ہوئی تو آپ کو شریعت کی طرف بلایا گیا اور مولویوں کو امیر کی طرف سے حکم ہوا کہ ان پر سوال کئے 55
جائیں اور یہ سوال نہ کرے اور جواب دے تب ان پر کئی ہزار سوال ہوئے اور آپ سب کے اچھی طرح جواب دیتے رہے.آخر یہ پوچھا کہ تم اس شخص کو جس نے مسیحیت کا دعوی کیا ہے کیا سمجھتے ہو.آپ نے فرمایا کہ میں ان کو سچا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور اور اس زمانہ کا مصلح سمجھتا ہوں اور وہ قرآن شریف کے مطابق نازل ہوئے ہیں.پھر حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کے بارہ میں سوال ہوا آپ نے جواب دیا کہ قرآن شریف ان کو مُردہ فرماتا ہے لہذا میں ان کو مُردہ سمجھتا ہوں.تب انہوں نے کہا کہ یہ تو ملامت (یعنی مرتد ) ہو گیا ہے.قرآن شریف مسیح کو زندہ ظاہر کرتا ہے اور یہ مُردہ وفات یافتہ مانتا ہے.پھر سب مولویوں نے کفر کا فتویٰ لگایا اور کہا اس کو سنگسار کیا جاوے.امیر مولویوں سے ڈرتا تھا.اور نئی نئی بادشا ہی تھی اس لئے امیر نے مولویوں کے حوالہ کر دیا اور باہر شہر کے مشرق کی طرف ہند و سوزاں ایک جگہ ہے اور وہاں سولی ہے لے گئے.راستہ میں بہت جلد جلد اور خوش خوش جارہے تھے اور ہاتھوں میں ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں.راستہ میں ایک مولوی نے پوچھا کہ آپ اتنے خوش کیوں ہیں اور کیوں ایسی جلدی کر رہے ہیں.ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پاؤں میں بیٹریاں ہیں اور ابھی آپ سنگسار ہونے کو ہیں.آپ نے فرمایا یہ ہتھکڑیاں نہیں ہیں بلکہ محد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا زیور ہیں.اگر چہ سنگسار ہونے کی جگہ دیکھ رہا ہوں لیکن ساتھ ہی مجھے یہ خوشی ہے کہ میں جلد اپنے پیارے مولیٰ سے مل جاؤں گا.جس وقت کچھ پتھر مارے گئے حاکم نے کہا اب بھی تو بہ کر لو میں چھوڑ دوں گا.آپ نے فرمایا کہ تم شیطان ہو جو مجھے خدا کے راستہ اور حق سے روکتے ہو پس پھر وہاں مولویوں نے پتھر مار مار کر سنگسار کر دیا.اس کے بعد ایسا ہوا کہ جب شہید مرحوم کو اپنے مقبرہ میں بعد سنگساری کے ایک سال کا عرصہ گزر گیا تو میرو نام ایک ان کے شاگرد نے ارادہ کیا کہ ان کو اپنے گاؤں میں لے جا کر دفن کیا جاوے.چنانچہ اس نے پوشیدہ طور پر ان کی لاش کو ان کے گاؤں میں لے جا کر دفن کر دیا اور نہ معلوم کی قبر بنائی.لیکن خان عجب خان صاحب تحصیلدار نے کہا کہ شہید مرحوم کی قبر کو 56
اچھی طرح بنایا جائے.شاید تحصیلدار صاحب موصوف الذکر نے اپنی طرف سے کچھ امداد بھی کی شہید مرحوم کے شاگردوں نے اپنی جگہ قبرسید گاہ میں بنوائی.کچھ عرصہ کے بعد جب وہ لوگوں میں مشہور ہوئی اور لوگ دور دور سے زیارت کے لئے آنے شروع ہوئے تب بادشاہ کی طرف رپورٹ ہوئی کہ اس آدمی کی لاش جس کو سنگسار کیا تھا یہاں پر لائی گئی ہے اور اس پر ایک بڑی قبر تیار ہوئی ہے لوگ بڑی بڑی دور سے دیکھنے اور زیارت کے لئے آتے ہیں اور چڑھاوے چڑھتے ہیں.تب امیر نصر اللہ خان نے جو بادشاہ کا بھائی تھا خوست کے گورنر کو حکم دیا کہ شہید مرحوم کی لاش کو نکال کر آگ یا دریا میں ڈال دیا جاوے اور ان کی لاش نکالنے والے کو سزادی جاوے.جب گورنرخوست کو حکم پہنچا تو اس نے سرکاری آدمی بھیج کر شہید مرحوم کی لاش کی ہڈیاں نکال کر لے گئے بعض کہتے ہیں کہ ہڈیاں دریا میں ڈالی گئیں.بعض کہتے ہیں کہ کسی مقبرہ میں دفن کر دی گئی ہیں.اس لاش کے نکالنے والے کا نام بتایا جا چکا ہے کہ میر تھا.اس کا کالا منہ کر کے اور گدھے پر چڑھا کر تمام گاؤں میں پھرایا اور لوگ کہتے گئے کہ یہ وہ شخص ہے جس نے اس کا فر کی لاش کو جس کو سنگسار کیا گیا تھا نکالا ہے.دیکھو اس کی کیا سزا ہے.خیر خدا تعالیٰ نے شہید مرحوم کی قبر کو شرک کی ملونی سے پاک رکھا.اللہ تعالیٰ ان پر بڑے بڑے فضل و کرم کرے اور ہمیشہ ان کو اپنے عرش کے سایہ میں رکھے.آمین ثم آمین.57
تیسری فصل شہید مرحوم کے چشمد ید حالات (حصہ دوم) بیان فرموده: حضرت مولوی سید عبد الستار صاحب المعروف بزرگ صاحب 58
بسم اللہ الرحمن الرحیم نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُوْلِهِ الْكَرِيمِ حصہ دوم شہید مرحوم اس دوسرے حصہ میں وہ حالات درج ہیں جو کہ مولوی عبدالستار صاحب مہاجر قادیان نے حضرت صاحبزادہ صاحب سے سنے ہیں یا اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اور یہ الفاظ نقل ہ معنی ہے اور اکثر واقعات چھوڑے گئے ہیں کہ کتاب طول نہ پکڑے.ضروری ضروری باتیں درج ذیل کی جاتی ہیں.فرماتے ہیں میرے باپ دادا اچھے عالم تھے اور لوگوں کو کتابوں کا سبق پڑھایا کرتے تھے.ان لوگوں میں سے دو قسم کے لوگ تھے ایک وہ جو طالب علمی کی حالت میں تھے دوسرے وہ جو ا چھے مولوی پڑھے لکھے تھے اور وہ شیخان کہلاتے ہیں.میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ یہ لوگ اچھے سفید کپڑے پہنچے ہوئے کچھ نہ کچھ حیثیت رکھتے ہوں گے مجھے بھی طلب علم کا شوق ہوا.تب میں نے تعلیم پانے کے لئے باہر جانے کو کمر باندھی اور میں ان لوگوں کے ساتھ ہو گیا کہ جن کا لگاؤ قادری سلسلہ سے تھا.آخر میں نے ایک مولوی صاحب کی شاگردی اختیار کی.اس نے صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی ایسی تعریف میرے آگے بیان کی کہ مجھے ملنے کا شوق ہوا.اور میں ان کے ملنے کے لئے چل پڑا ابھی ان کے پاس پہنچا نہیں کہ معتون ایک مقام ہے وہاں کے ایک مولوی کا شاگرد بن گیا صاحبزادہ صاحب مرحوم کے پاس بہت لوگ تعلیم کے لئے آتے تھے اور ہر وقت خدا کا کلام اور حدیث کا بیان ہوا کرتا تھا.آپ بہت 59%
مہمان نواز تھے.خواہ امیر ہو یا غریب.میں بھی اپنے استاد کے ساتھ ایک دو جمعہ صاحبزادہ صاحب کے پاس درس سننے کے لئے جاتا رہا.ان کے وعظ اور کلام نے میرے دل میں ایسا اثر پیدا کیا کہ میں استاد کی اجازت کے بغیر ان کے پاس رہنے لگا.کچھ دنوں کے بعد میرے استاد کا حکم آیا کہ تم میرے پاس سے بغیر اجازت گئے ہو میں تم سے بہت ناراض ہوں ہر گز نہیں بخشوں گا.اس وقت میرے دل میں خوف پیدا ہوا کہ یہ میرا استاد ہے کہیں بددعا نہ دے.ایک طرف تو صاحبزادہ صاحب سے الگ ہونے کو دل نہیں چاہتا تھا.دوسری طرف استاد کا خوف رہتا تھا.آخر میں نے صاحبزادہ صاحب سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے فرمایا.ایک مولوی کی اگر کوئی شاگردی اختیار کرے تو اس سے یہ مطلب تو نہیں کہ بس غلام ہی ہو گیا ہے.جہاں آپ کا دل چاہتا ہے تعلیم پائیں.اگر آپ یہاں رہنا چاہتے ہیں بیشک آپ یہاں ٹھہریں اور دینی تعلیم پائیں.پس میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں رہ کر بہت سے حقائق اور معارف سنتارہا اور میرے دل میں بہت اثر ہوا.اس ملک خوست میں شیخان قوم کے لوگ بہت ہیں اور ان کا یہ عقیدہ ہے کہ ان کے پیر کو آسمان کی مخلوق اور دریاؤں کا علم ہے اور جو زمین کے نیچے ہے ان کا بھی علم ہے.بلکہ یہاں تک کہ جو آسمان پر دریا اور ان میں کنکر پتھر وغیرہ ہیں سب کا علم ہے.چونکہ میں بھی اسی عقیدہ پر تھا.میں نے اس کے بارہ میں صاحبزادہ صاحب سے ذکر کیا تو انہوں نے فرمایا کہ بالکل غلط ہے پیر و مرشد جو ہوتے ہیں یہ خدا تعالیٰ کے بندے اور اس کے حکم کے پابند اور اس کے رسولوں کے قدم بقدم چلتے ہیں بزرگی یا ولایت قطبیت و غوثیت یہی ہے.دوسرے مولویوں اور صاحبزادہ صاحب کے کلام میں بہت فرق تھا.جب ان سے کسی حکم یا مسئلہ کی بابت پوچھو تو جواب ملتا تھا کہ میرے خیال میں تو اس طرح سے ہو گا لیکن اگر صاحبزادہ صاحب سے پوچھا جاتا تو فرماتے کہ یہ حکم اس طرح پر ہے.یعنی اور لوگ گمان سے کہتے تھے لیکن صاحبزادہ صاحب یقین سے جواب دیا کرتے تھے کہ یہ حکم اس طریق پر ہے.09
تب مجھے معلوم ہوا کہ اگر سچا آدمی ہے تو یہی ہے.آخر جب شرندل خان جو کہ امیر عبدالرحمن صاحب کا چازاد بھائی تھا گورنرخوست مقرر ہوا.اس نے جب صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کا پُر اثر کلام سنا اور علم اور عمدہ بیان اور مہمان نوازی کی شان و شوکت دیکھی اور ان کے مریدوں کی کثرت اور تقویٰ نے ان کے دل پر اثر کیا تو یہ دل میں شوق پیدا ہوا کہ صاحبزادہ صاحب کو ہمیشہ اپنے پاس رکھوں اور جہاں میں جاؤں یہ میرے (ساتھ ) ہوں ان اُمیدوں کو لئے ہوئے صاحبزادہ صاحب سے ذکر کے اپنے پاس رکھا.جہاں گورنر جایا کرتا آپ کو بھی گھر سے بلا کر لے جایا کرتا.گورنر کو آپ کی ایسی محبت ہو گئی کہ اس کو آپ کے بغیر چین نہ آتا اور بہت سے انعام واکرام سے سلوک کرتا.جب امیر عبدالرحمن خان کو خبر ملی تو اس نے بھی انعاما آپ کے لئے گیارہ سو روپیہ مقرر کر دیا.صاحبزادہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ مجھے بڑے بڑے حاکموں اور گورنروں سے بہت نفرت ہے کہ یہ لوگ ظلمت میں رہتے ہیں اور لوگوں پر ظلم کرتے ہیں.میں اگر شر ندل خان گورنر کے ساتھ رہتا ہوں تو محض اس لئے کہ یہ غریب لوگوں پر ظلم کرتا ہے.میں ان غریبوں کو اس کے ظلم و ستم سے بچاتا ہوں تا کہ یہ لوگ اس کے پنجہ ظلم کے نیچے نہ آجاویں.صاحبزادہ صاحب ایک ایسے پر حکمت انسان تھے کہ گورنر کو آپ سے یہ بہت بڑا فائدہ پہنچا کہ منگل - جدران - تنی یہ تین قومیں ایسی زبر دست تو میں تھی کہ کبھی رعایا بن کر نہیں رہتی تھیں.لیکن آپ نے ایسی حکمت سے کام لیا کہ بلا چون و چرا یہ تمام قو میں رعایا بنا کر گورنر کے حوالہ کر دیں.بعض وقت ایسا ہوتا تھا کہ کہیں لڑائی میں کسی قسم کا حکم فوج کو دینا منظور ہوتا تو گورنر حیران ہو جاتا کہ اس موقعہ پر کیا حکم ہوا.اُس وقت صاحبزادہ صاحب فوج کو فوراً موقع کے مطابق حکم دیتے کہ گورنر کی عقل حیران رہ جاتی.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک موقعہ پر ایک تنگ درہ پر گورنر کی فوج اتری ہوئی تھی.ایک 61
روز جدران قوم بہت بڑی تعداد میں اکٹھی ہو کر گورنر کو معہ اس کی فوج کے گھیر لیا.جہاں بھی روشنی دیکھتے.فائر کر کے کچھ نہ کچھ زخمی کر دیتے.یہاں تک نوبت پہنچی کہ تمام روشنی بجھا دی گئی.گورنر حیران و پریشان ہو گیا کہ اب کیا کیا جاوے.اور جدران قوم لوٹنے کو تیار تھی.ارد گرد آگئی.صاحبزادہ صاحب نے فوراً ارد گرد تو ہیں لگوادیں اور فائر کرنے کا حکم دیدیا.جدران قوم ایسی بدحواس ہوئی کہ چھپنے کو جگہ نظر نہ آئی.آخر اس قوم نے بھاگنے کا راستہ لیا اور گورنر کی فوج صحیح سلامت رہ گئی.گھیر نے پر ہی جو نقصان ہوا سو ہوا.یہ خبر سن کر امیر عبدالرحمن خان کو بہت خوشی ہوئی کہ وہ تو میں جو کبھی بھی رعایا بن کر نہ رہتی تھیں.گورنر نے صاحبزادہ صاحب کی مدد سے ان کو فتح کیا.سو آپ کو بہت سا انعام دیا گیا.اس اثناء میں امیر کابل نے انگریزوں کے ساتھ ملک تقسیم کرنے کا گورنر خوست کو حکم دیا.نقشہ پہلے ہی تیار تھا.جب صاحبزادہ صاحب نے دیکھا کہ امیر عبدالرحمن خان کی رعایا کا قریباً کئی سو میل کا حصہ انگریزوں کے قبضہ میں آیا ہوا ہے.انہوں نے اس نقشہ پر زمین تقسیم کرنے سے انکار کیا.اور ایک نیا نقشہ تیار کرنے کا وعدہ انگریزوں سے لے لیا.جس میں وہ زمین امیر کابل کے قبضہ میں کر دی.چونکہ گورنرز میں غصہ بہت تھا اور صاحبزادہ صاحب نرم آدمی تھے.اس لئے صاحبزادہ صاحب اکیلے ہی سرحد کی تقسیم پر جایا کرتے تھے.جب تقسیم ختم ہوگئی تو گورنر نے کہا کہ جب تک ہمیں نیا نقشہ نہیں ملے گا ہم اس زمین کے قابض نہیں ہو سکتے.کیونکہ پھر پرانے نقشہ پر جھگڑا ہوگا.اس لئے صاحبزادہ صاحب مع کچھ سواروں کے کرم ، پاڑہ چنار انگریز افسر کے پاس آئے.اُس نے آپ کی بہت عزت کی اور نیا نقشہ تیار کرا کر دیدیا.اس زمین کی تقسیم میں ایک شخص آیا اور صاحبزادہ صاحب سے عرض کی کہ میں نے بہت سی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے لیکن اس کتاب کا مجھے پتہ نہیں چلتا کہ ایک آدمی نے مسیح الزمان اور نبی ہونے کا دعوی کیا ہے آپ اس کی کتاب کو پڑھ کر دیکھیں.میں نے اس کا کچھ رڈ لکھا ہے.آپ اچھا جانتے ہیں اور بڑے عالم و فاضل ہیں آپ اس کا جواب لکھ سکیں گے.آپ نے فرمایا کہ مجھے 62
یہاں کام ہے گھر جا کر کتاب کو دیکھوں گا.صاحبزادہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمارا شجرہ نسب تو جل گیا ہوا ہے لیکن ہم نے اپنے باپ دادا سے ایسا سنا ہے کہ ہم علی ہجویری گنج بخش لاہوری رحمۃ اللہ علیہ کی اولاد میں سے ہیں اور ہمارے دادا دہلی کے بادشاہ کے قاضی تھے.کتابوں کی ایک لائبریری تھی جو نو لاکھ روپیہ کی تھی.ہمارے باپ دادا نے نادانی کی جو حاکم بن گئے.حکومت پسند کرنے پر انہوں نے تعلیم کی پروا نہ کی.تمام کتابیں ضائع ہوگئیں.میرا اپنا حال یہ ہے کہ مجھے باپ دادا سے جائیداد ورثہ میں نہیں ملی ہے.اس کو رکھنے پر مجبور ہوں.میرا دل دولت کو پسند نہیں کرتا.صاحبزادہ صاحب علم مروجہ کے بڑے عالم تھے.ہر ایک قسم کا علم رکھتے تھے.بہت سے شاگرد بھی آپ سے تعلیم پاتے تھے.ایک دفعہ آپ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہندوستان بھی جانا چاہئے.یہ گورنر کے حاکم ہونے سے پہلے کا واقعہ تھا.سواس ارادہ سے آپ بنوں آئے.یہاں پر آپ کی بہت بڑی جائیداد ہے.یہاں کے نمبر دار آپ کے پاس آتے اور نیزہ بازی وغیرہ کھیلتے تھے.ایک دفعہ آپ نے نمبر داروں سے فرمایا کہ میں ہندوستان جانے کا ارادہ رکھتا ہوں.انہوں نے جواب میں کہا کہ برسات کا موسم ہے یہ گزر لینے دیں.لیکن آپ نے برسات کا خیال نہ کیا اور چل پڑے.وہاں کے نمبردار آپ کو کچھ فاصلہ پر چھوڑنے کے لئے ساتھ آئے اور آپ بہت سے کپڑے اور روپیہ لے کر گھوڑے پر سوار ہوئے جس وقت کرم دریا پر پہنچے تو دریا بہت چڑھا ہوا ہے اور پانی نہایت گدلا.صاحبزادہ صاحب کو تیرنا نہیں آتا تھا.آپ نے کپڑے اتار کر گھوڑے کی زمین پر رکھ کر تہ بند باندھا اور گھوڑ ا دریا میں ڈال دیا دوسرے لوگوں کے گھوڑے تو پار ہو گئے لیکن آپ کا گھوڑ اپانی نے اوپر اُٹھالیا اور گھوڑے بے طاقت ہو گیا.آپ گھوڑے سے دریا میں کود پڑے اور دریا میں غوطے کھانے لگے اور یہ کہتے رہے کہ یا رَحِیمُ يَارَحِيمُ يا رحيم آخر خدا نے فضل و رحم کر کے انہیں پار لگا دیا.روپیہ اور کپڑے سب دریا میں بہہ گئے.آپ نے اس کی کچھ پروا نہ کی اور 63
نمبرداروں کے آدمیوں نے گھوڑے کو دریا سے نکال لیا.پاس ہی ایک گاؤں تھا اس میں ایک مولوی جان گل رہتے تھے اور آپ سے واقف تھے ان کے گھر چلے گئے.آپ نے مولوی جان گل سے کہا کہ میرا ہندوستان جانے کا ارادہ ہے.مولوی صاحب نے عرض کیا کہ میں بھی ساتھ چلتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ میں تو ایک تہہ بند رکھتا ہوں.ملنگ کے بھیس میں جاؤں گا اگر تم میرے ساتھ جانا چاہتے ہو.تو صرف تہہ بند رکھنا ہوگا اور ملنگ بن کے چلنا ہوگا.آخر آپ اور مولوی صاحب نے تہہ بند باندھا.فقیری کے بھیس میں امرتسر آئے.صاحبزادہ صاحب کو ننگا سینہ برا معلوم ہوتا تھا.ایک رومال سینہ پر لٹکا لیا.جب امرتسر پہنچے کشمیری محلہ میں ایک حنفی مذہب کا مولوی تھا.اس کے پاس اتر پڑے.اس مولوی کے پاس کتابوں کی لائبریری تھی.آپ نے خیال کیا کہ اس کے پاس بہت سی کتابیں ہیں انہیں سے فائدہ اُٹھائیں گے.اور کتابوں کا مطالعہ کیا کریں گے.رات دن کتابوں کے مطالعہ میں مشغول رہتے.شام سے صبح تک کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے اسی گمنامی کی حالت میں رہے کہ نہ تو کوئی آپ کا واقف بنا اور نہ آپ کسی کے واقف ہوئے.صرف کبھی کبھی ملنگ فقیروں کے پاس جایا کرتے تھے.اس ڈیرہ کے لوگوں کو بہت خوش کیا کرتے تھے.کیونکہ صاحبزادہ صاحب دولتمند آدمی تھے.آپ کو پیچھے سے خرچ آیا کرتا تھا.اس لئے آپ لوگوں کو بہت کچھ دیا کرتے تھے.اور آپ نے جامہ ملنگی زیب تن رکھا.آپ پر عجیب و غریب حالات گزرتے تھے.ایک روز فر مایا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک سے جو مدینہ منورہ میں ہے امرتسر میں ایسی خوشبو آتی تھی کہ جیسے باریک رومال میں کوئی خوش ہوا اپنے پاس رکھی ہوتی تھی.ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ ایک روز میں نے معلوم کیا کہ جان گل مجھ سے روحانیت میں کتنا دور ہے.تب مجھے معلوم ہوا کہ بہت دُور ہے.فرمایا کہ میں نے جان گل سے دریافت کیا ہے کہ جان گل تو مجھ سے کتنا دور ہے اُس نے بالشتوں سے ماپ کر کہا کہ تین بالشت.میں 64
نے کہا کہ نہیں تمہارا اور میرا آسمان اور زمین کا فرق ہے.فرماتے تھے کہ ایک دفعہ ہم نے سوچا کہ اس امرتسر کے مولوی سے ہمیں یہی فائدہ کافی ہے کہ کتابوں کا مطالعہ کرتے ہیں اور اگر کوئی بات پوچھنی ہو تو پوچھ لیا کریں گے.ایک روز اہلحدیث کی طرف سے دہلی سے ایک رسالہ اس مولوی کے پاس آیا.رسالہ کا نام ضرب النعال على وجه عدو الله الدجال اور لکھا تھا کہ اس کا جواب دو.جب یہ مولوی اس رسالہ کا جواب نہ دے سکا تو وہ مولوی اہلحدیث دہلی سے امرتسر اس مولوی کے پاس مباحثہ کے لئے آئے.اس مولوی نے صاحبزادہ صاحب سے کہا کہ اہل حدیث دہلی کا یہ رسالہ آیا تھا اور اب وہ بحث کے لئے یہاں آنے لگے ہیں کیا کیا جاوے.صاحبزادہ صاحب نے کہا کہ تم مجھے اپنا وکیل بنا دینا میں خود ہی جواب دے لوں گا.جب یہ مولوی بحث کے لئے آئے تو آپ جواب کے لئے تیار ہو گئے.انہوں نے کچھ سوال کئے آپ نے ایسے جواب دیئے کہ وہ حیران ہو گئے.پھر دوبارہ انہوں نے کچھ اور سوال پیش کئے.جب دوسری دفعہ جواب دیا گیا تو وہ مولوی چپ ہو کر واپس دہلی چلے گئے یہ سب سوال و جواب تحریر تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب قریباً تین سال کے بعد واپس خوست اپنے اسی لباس مولویانہ میں تشریف لے گئے.خوست میں تین قسم کے لوگ تھے.ایک وہ جو حاکم تھے اور دوسرے مولوی اور تیسرے شیخان جو قادری سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے.آپ نے ہر ایک فرقہ کو خدا اور رسول کے خلاف پایا.حاکموں کو دیکھا کہ بہت ظالمانہ طریق پر لوگوں سے روپیہ وغیرہ لیتے ہیں.مولویوں کو دیکھا کہ یونہی ہر ایک سے جھگڑتے اور جھوٹے فتوے لگاتے ہیں اور شیخان لوگوں کو دیکھا تو ان کے پاس بڑی بڑی تبیجیں رہتی ہیں.صاحبزادہ صاحب نے سوچا کہ حاکمانہ لباس تو ہمیں باپ دادا سے حاصل ہے اور مولویانہ لباس خدا تعالیٰ نے خود مجھے خود عطا کیا ہے.اب شیخان کو دیکھنا چاہئے کہ یہ بہت پھیلے ہوئے ہیں اور ہر جگہ پائے جاتے ہیں.فرمایا کہ میں نے جب دیکھا کہ مختلف قسم کے لوگ میرے پاس آتے ہیں تو میں نے 65
شیخان لوگوں سے نرمی اور محبت کا تعلق رکھنا شروع کیا.یہ سب لوگ جو آتے تھے تو آپ ایک طرف تو دعوت شروع کر دیتے اور دوسری طرف قرآن وحدیث کا بیان کرتے.تب ان شیخان میں سے ایک مولوی نے کہا کہ منٹر کی کے مولوی جو سوات صاحب کے مؤذن ہیں ان کے پاس جانا چاہئے.وہ بہت اچھا اور بڑا مولوی ہے.تب آپ اُس کی طرف روانہ ہوئے.جگہ جگہ پر منٹر کی کے مولوی کے شاگرد تھے انہوں نے آپ کی بہت عزت کی اور بڑے خوش ہوئے کہ صاحبزادہ عبداللطیف اتنا بڑا آدمی بھی ہمارے پیر کا شاگرد ہونے آیا.اور آپ اس لئے جارہے تھے کہ تا معلوم کریں کہ آیا شیخان لوگوں کے مولویوں کی طرح یہ بھی تعلیم دیتا ہے یا کوئی اچھا آدمی ہے.پس آپ اس کے پاس پہنچ گئے.آپ کے ساتھ مختلف قسم کے لوگ منٹر کی کو آئے.یہ شیخان بہت سی قرآن اور حدیث کے خلاف تعلیم دیتے تھے.قریبا ڈیڑھ سو ایسے مسائل تھے جن میں سے کچھ یہ ہیں کہ پٹے رکھنا حرام ہے یعنی سر کے بال اور نسوار سوگھنی حرام ہے جس زمین میں نسوار کا درخت بویا جائے وہ پلید ہے.دو تین سال تک اس کی فصل بھی حرام ہے.نسوار لینے والے کی عورت بغیر طلاق کے مطلقہ ہو جاتی ہے.آپ فرمانے لگے میں اس لئے اس پیر کے پاس آیا ہوں کہ تا کہ معلوم کرلوں کہ آیا یہ غلط فتوی دینے والے ہیں یا نہیں.اور فرمانے لگے کہ جب میں اس پیر کے پاس آیا تو معلوم ہوا کہ یہ آدمی تو اچھا ہے یہ فتویٰ وہ خود نہیں بناتا کیونکہ اس کے منہ سے میں نے کوئی ایسی بات نہیں سنی جو شیخان مولویوں سے سنی جاتی تھی.تب مجھے اس پر نیک گمان ہوا.چند روز کے بعد صاحبزادہ صاحب اپنے ملک خوست واپس چلے آئے......مٹر کی مولوی کا ایک شاگر د خوست میں بھی تھا جس کا نام الہ دین تھا.صاحبزادہ صاحب نے حاکم کے پاس رپورٹ کی کہ خوست میں الہ دین نام مولوی مسٹر کی کا شاگرد ہے جھوٹے فتوے دیکر لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے اس کا انتظام کیا جاوے اور ایسے فتووں سے روکا جاوے.صاحبزادہ صاحب علاوہ معززو نامی گرامی ہونے کے ایک فاضل اجل مانے جاتے 66%
تھے اس لئے آپ کی بات حکام میں بھی مانی جاتی تھی حاکم نے جواب دیا کہ میں تو اس کو روکنے کی کوشش کروں گا لیکن امید نہیں کہ وہ میری بات پر عمل کرے اور اپنی حرکتوں سے باز آوے اور یہ بھی اندیشہ ہے کہ ان کے مرید بہت بڑی تعداد میں ہیں اور ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں ایسا نہ ہو کہ فساد ہو جاوے.ادھر یہ جواب دیا.ادھر ایک سرکاری آدمی کے ہاتھ اس مولوی کے نام ایک سمن بھیجا کہ مولوی الہ دین یہاں آکر شریعت کے احکام کا فیصلہ کرے بعد فیصلہ کے ان احکام کو بے شک جاری کرے اگر بچے ہوں.ورنہ جھوٹے مسائل سے رک جاوے.جب یہ حکم مولوی مذکور کے پاس پہنچا تو اس نے جواب دیا کہ سب ان مسائل سے خوب واقف ہوں مجھے کیا ضرورت ہے کہ ان کو طے کروں.تب وہ سرکاری آدمی واپس حاکم کے پاس لوٹ آیا اور حاکم کو اس کے انکار کی خبر دی.حاکم نے امیر عبدالرحمن خان کو رپورٹ کی کہ ایک مولوی جھوٹے مسائل بیان کرتا ہے اور اس سے فساد کا اندیشہ ہے.حضور اس باب میں کیا حکم فرماتے ہیں.امیر نے جواب دیا کہ اس مولوی کو یہاں بھیج دوا گر انکار کرے تو زبر دستی پا بز نجیر جلد روانہ کر دو.چونکہ اس مولوی کے بہت لوگ پیرو تھے اس لئے حاکم نے اپنی فوج کا شکار کے بہانے سے روانہ کیا.جب شکار کر کے واپس آنے لگے تو فوج کے بعض افسروں نے عرض کیا کہ اس گاؤں میں جو مولوی ہے اس کے گھر میں ٹھہرنا چاہئے وہ بڑا بزرگ اور اچھا آدمی ہے.حاکم کا تو پہلے ہی سے اسے پکڑنے کا ارادہ تھا مگر یہ ارادہ افسروں وغیرہ سے پوشیدہ تھا اس لئے بظاہر حاکم نے انکار کیا اور کہا کہ وہ فقیر آدمی ہے اسے کیا تکلیف دیں.آخر افسروں کے اصرار سے حاکم نے اس کے گھر کا راستہ لیا اور پہنچنے پر اس کے مکان کو گھیر نے کا حکم فوج کو دیدیا.اور مولوی کو امیر کا فرمان گرفتاری دکھا کر کہا کہ اگر تجھ کو خوشی سے امیر کے پاس جانا ہے تو چل.ور نہ زبر دستی پابز نجیر لے جانا پڑے گا.اس مولوی نے انکار کیا اور اس کے ایک شاگرد نے کھڑے ہو کر کہا کہ ہمارے صاحب ہر گز نہیں جائیں گے.حاکم نے صاحب کہنے والے کو 67
تو نکلوا دیا اور مولوی کو ہتھکڑی لگا کر روانہ کیا.جب حاکم چھاؤنی کے پاس پہنچا تو راستہ میں مولوی کے کچھ شاگر د ملے.انہوں نے عرض کیا کہ آج رات مولوی صاحب کو ہمارے گھر میں ٹھہرنے کی اجازت دی جاوے.کل چھاؤنی میں حاضر ہو جائیں گے.حاکم نے ضمانت لے کر اجازت دیدی اور آپ چلے گئے.صبح ہوتے ہی حاکم کو خبر پہنچی کہ مولوی بھاگ گیا ہے.اندھیری رات تھی مولوی اونچے ٹیلہ پر بھاگ رہا تھا کہ ایک پتھر پر گر پڑا اور ٹانگ ٹوٹ گئی.حاکم نے اعلان کیا کہ جو کوئی اس مولوی کو پکڑ کر لائے گا ایک سورو پیدا انعام پائے گا.اس راستہ سے جس پر مولوی لنگڑ پڑا ہوا تھا کچھ چنگڑ خانہ بدوش جارہے تھے.اپنے اونٹ پر سوار کر کے حاکم کے دربار میں لے آئے.حاکم نے چھاؤنی میں مولوی کو قید کر دیا.تو اس کے تمام عزیز اور شاگرد حال پوچھنے کے لئے آیا کرتے تھے.اس حالت میں مولوی نے اپنے استاد منٹر کی اور تمام اپنے ہم مشرب مولویوں کو اپنے قید ہونے کا حال لکھ دیا.چونکہ اس کے بھی شاگرد اور ہم مشرب بہت تھے.فوج بن کر چھاؤنی پر حملہ آور ہوئے.حاکم تو بھاگ کر منگل قوم باغی میں جا ملا.وہ چھاؤنی کو لوٹ کر مولوی کو چھڑا لے گئے.جس وقت امیر عبد الرحمن خان کو خبر پہنچی.شرندل خان کو جو امیر کا رشتہ دار تھا مع فوج کثیر کے خوست بھیج دیا کہ وہ باغیوں کو رعایا اور مطیع بنائے.چنانچہ اس نے آکر بڑے رعب و داب سے تمام لوگوں کو حکومت میں لے لیا اور با امن رہنے کا سامان ہوا.صاحبزادہ صاحب کی مجلس میں شرندل خان آنے جانے لگا اور آپ کے منہ سے حقائق و معارف کو سنا تو اس کے دل میں آپ کی بہت محبت پیدا ہوئی.کبھی تو یہ صاحبزادہ صاحب کے پاس جاتا اور کبھی صاحبزادہ صاحب اس کے پاس جایا کرتے.اس طرح بہت محبت پیدا ہوگئی اور شرندل خان نے ایک بچہ کی طرح آپ کے پاس پرورش پائی.ان دنوں صاحبزادہ صاحب کے ایک شاگرد جج کیلئے روانہ ہوئے جب دہلی پہنچے تو کسی نے مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے متعلق بیان کیا اور تعریف و توصیف بھی کی تو ان کے دل میں شوق پیدا ہوا کہ قادیان پہنچ کر تحقیق کرنی چاہئے.پس قادیان پہنچ کر 68
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملاقات کی اور کچھ باتیں کیں تو ان کے دل میں حضرت کی بڑی عزت و حرمت پیدا ہوئی اور فوراً بیعت کر لی.پھر جب واپس اپنے ملک کو جانے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک خط امیر عبدالرحمن کو پہنچانے کی آرزو کی.پہلے تو آپ نے فرمایا کہ تمہارا امیر ظالم اور نافہم ہے وہ یہ بات ماننے والا نہیں.آخر ان کے اصرار پر حضرت صاحب نے خط لکھ دیا.جو چھپ کر شائع ہو چکا ہے خلاصہ یہ ہے: کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کے لئے مامور ومصلح کر کے بھیجا ہے.وہ تمام باتیں جو میں کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت کرتا ہوں اور میں مجد داس زمانہ کا ہوں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آیا ہوں.الغرض اور بہت سی اچھی نصیحتیں تحریر فرما ئیں.جب یہ اپنے ملک میں پہنچا تو اس نے یہ خط صاحبزادہ صاحب کو دیا اور سب حال مین و من سنایا.صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ یہ بات تو بڑی سچی ہے اور یہ کلام ایک عظیم الشان کلام ہے لیکن بادشاہ اتنی سمجھ نہیں رکھتا کہ وہ سمجھ لے اور مان لے.اس لئے آپ کا یہ خط دکھانا بے سود ہے صاحبزادہ صاحب کے پاس یہ خط رہا اور آپ نے کسی موقعہ پر یہ خط شرندل خان کو دکھلایا تاکہ اس کے ذریعہ امیر کے پاس پہنچ جاوے.لیکن گورنر شر ندل خان نے کہا کہ بات تو سچی ہے مگر امید نہیں کہ امیر مان لے.اور یہ بھی کہا کہ ایک آدمی انگریزوں کی طرف سے سفیر بن کر امیر کے پاس آیا تھا جس وقت امیر قندھار گیا ہوا تھا اس نے بہت سی باتیں سنائیں اور مرزا صاحب کا ذکر بھی کیا تو امیر نے ناراض ہو کر سفیر کو بے عزت کر کے رخصت کر دیا اور انگریزی افسر کو اطلاع دی کہ ایسا نالائق آدمی میری طرف کیوں بھیجا گیا جو مجھے دین سے برگشتہ کرتا ہے.گورنر نے یہ واقعہ سنا کر کہا کہ اس لئے میں یہ خط امیر کے پیش نہیں کر سکتا.کہیں ایسا نہ ہو کہ امیر آپ جیسے بزرگ کے ساتھ بھی بُری طرح پیش آوے.یہ کہہ کر خط صاحبزادہ صاحب کو واپس دیدیا.پھر صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ آپ مجھے اجازت دیدیں کہ میں 69%
مسیح موعود علیہ السلام کے پاس ہو آؤں.گورنر نے کہا کہ جس طرح میں اپنے بیٹے کو اجازت نہیں دے سکتا.اسی طرح آپ کو بھی اجازت نہیں دے سکتا ہوں کہ آپ بھی ویسے ہی بڑے آدمی ہیں جیسا کہ میں.امیر ہی اجازت دے تو دے میں اجازت نہیں دے سکتا.ایک روز گورنر نے صاحبزادہ صاحب سے ذکر کیا کہ ملک میں بہت بڑا فساد پڑا ہوا ہے لوگ شیطان سیرت ہیں.ایسا نہ ہو کہ کوئی آپ کا دشمن آپ کی رپورٹ امیر کے پاس کر دے اور آپ کو امیر بلائے اس لئے چاہئے کہ آپ پہلے ہی سے امیر کے پاس ہو آئیں تا کہ آئندہ کوئی رپورٹ آپ کی نہ کر سکے.دوسرے آپ ایک بڑی عزت اور بڑی پوزیشن کے آدمی ہیں آپ کو دیکھ کر امیر خود ہی بڑی عزت اور توقیر سے پیش آئے گا.اور آپ کی ملاقات سے خوشی و مسرت کا اظہار کرے گا.صاحبزادہ صاحب کچھ آدمیوں کے ساتھ کابل تشریف لے گئے.کابل میں امیر کا درباررات کو ہوا کرتا تھا.آپ چند دن وہاں ٹھہرے.جب دربار میں حاضر ہوئے تو امیر آپ کو دیکھ کر بہت خوش ہوا اور کہا کہ رپورٹیں تو آپ کی بابت میرے پاس آئی تھیں مگر میں نے ان کو نظر انداز کر دیا اور میں آپ کے آنے پر بہت خوش ہوا.صاحبزادہ صاحب نے کچھ اور لوگوں کے متعلق بیان کیا.امیر نے جواب دیا کہ ایسے آدمی بالکل ملتے ہی نہیں.خیر آپ خاموش ہو گئے.صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ جب امیر سے ملاقات ہو چکی تو مجھے واپس گھر جانے کا خیال آیا لیکن اور جو معزة زلوگ دربار میں تھے انہوں نے مشورہ دیا کہ یہ امیر قابو میں نہیں ایسا نہ ہو کہ آپ گھر پہنچیں بعد میں آپ کو بلانے کے لئے آدمی بھیجے جائیں اس سے بہتر ہے کہ آپ کا بل میں ہی ٹھہریں.فرماتے ہیں تب میں نے امیر سے عرض کی کہ میں یہاں آپ کے پاس رہنا چاہتا ہوں.امیر بہت خوش ہوا اور کہا بہت اچھا.صاحبزادہ صاحب کو بہت شوق تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خط کسی نہ کسی طرح امیر کو دکھاؤں.لیکن کوئی موقعہ ایسا نہ نکلا کہ آپ وہ خط پیش کر دیں.اس عرصہ میں امیر بیمار 70
ہو گیا اور اس جہان سے رخصت ہوا.اس کے بعد بیٹا امیر حبیب اللہ خان تخت نشین ہوا.مفصل حال اول حصہ میں بیان ہو چکا ہے.آخر صاحبزادہ صاحب نے امیر سے رخصت لی.امیر نے کہا کہ میرے والد آپ کی بڑی عزت کرتے تھے.اس لئے میں بھی آپ کی عزت کرنی چاہتا ہوں.آپ ہمارے مہربان ہیں اور محسن ہیں.اس کے بعد امیر نے آپ کو رخصت کیا.آپ خوست آئے اور وہاں سے بنوں پہنچے اور وہاں ایک مقام لگتی ہے.یہاں ایک تحصیلدار عالم فاضل تھا اور ایک مولوی تھا.دونوں نے آپ کی بڑی عزت کی.اور چند روز ٹھہرانے کی آرزو کی.دوسرے مولوی نے کچھ مسائل پیش کئے اور کہا لوگ مجھے ان مسائل کی وجہ سے کافر کہتے ہیں.آپ اس کاغذ پر دستخط کر دیجئے کہ یہ مسائل بچے ہیں اور مولوی سچائی پر ہے.آپ نے اس کو سچائی کا خط دید یا.حضرت صاحبزادہ صاحب نے تحصیلدار کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی باتیں سنائیں.تحصیلدار چونکہ صاحب اور نیک آدمی تھا سنکر بہت خوش ہوا اور کہا کہ واقعی یہ باتیں بہت درست اور صحیح ہیں اور کچھ حقیقت ضرور رکھتی ہیں.صاحبزادہ صاحب کو خیال ہوا کہ اگر ی تحصیلدار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان گیا یہ معزز اور عالم ہے تو شاید اس کے ماننے سے اور بہت لوگ مان جاویں.اس گمان سے آپ نے خوشی میں آکر ایک قیمتی گھوڑا اس کو دیا اور پھر آپ لاہور پہنچے اور شاہی مسجد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دستار مبارک تبر گا دیکھی اور وہاں سے قادیان دار الامن والامان پہنچ گئے.یہاں آ کر آپ بہت عجائبات ہمیں سنایا کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ میں جو باتیں لوگوں کو سناتا ہوں اس سے بہت کم درجہ کی باتوں پر لوگ مارے جاتے ہیں.لیکن خدا کی قدرت میں اگر کوئی بات سناتا ہوں تو کوئی اعتراض مجھ پر نہیں کر سکتا.آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے تو پہلے ہی خدا تعالیٰ کو پہچانا تھا اور یہاں تک کہ خدا کے دروازہ کی گنڈی (زنجیر ) بھی کھٹکھٹائی تھی.لیکن حضرت مسیح موعود....نے ہمیں ترکیب کھٹکھٹانے کی 71
بتلا دی ہے.آپ سے ہمیں یہ فائدہ ہو گیا ہے کہ کھٹکھٹانے کی طرز معلوم ہوگئی کہ اس طرح کھٹکھٹاؤ گے تو کھولا جائے گا....اور فرمایا کہ بہت دفعہ مجھے خیال آیا کہ میں اپنے بازؤں پر لکھوں کہ غلام ہوں کیونکہ میراجسم بالکل مسیح موعود علیہ السلام کا بن گیا ہے.فرمایا بہت دفعہ میں جنت میں جاتا ہوں.میرا دل چاہتا ہے کہ آپ لوگوں کے لئے میوے لاؤں چونکہ میں ابھی بالغ نہیں ہوا اس لئے مجھے میوے لانے کی اجازت نہیں ہوتی.میں ہزار ہا دفعہ آسمان پر گیا ہوں لیکن جس طرح لوگ آسمان کی نسبت خیال رکھتے ہیں ایسا نہیں ہے.آسمان اور آسمان ہے.فرمایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو میں نے ایسا پُر نورحسن میں دیکھا ہے کہ ایسا کبھی بھی کسی نے نہیں دیکھا....فرمایا کہ دوسری دفعہ جب میں ہندوستان کی طرف نکلا تو میں لکھنو میں ایک مسجد میں اتر پڑا.یہاں لوگ چڑھاوا چڑھایا کرتے تھے.میں چڑھاوے سے کوئی غرض نہیں رکھتا تھا اور نہ کسی چیز کو ہاتھ لگاتا تھا.مسجد کے مہتم کی میرے ساتھ محبت ہوگئی اور بڑے اصرار سے اس نے میری دعوت کی اور جمعہ کی نماز کے بعد جس وقت میں وعظ کے لئے بیٹھا تو مجھ پر قرآن شریف کے بہت سے اسرار ظاہر ہوئے اور میں نے کھول کر بیان کئے.میرے وعظ کا اتنا اثر ہوا کہ بہت سے لوگ روتے تھے لیکن ایک فقیر تھا اس کو کچھ پرواہ نہیں ہوئی اور نہ اس کے چہرہ پر اثر پیدا ہوا.میں نے اس فقیر سے کچھ باتیں کیں اور یہ حالت بیان کی فقیر نے جواب دیا کہ ہاں کسی فقیر نے توجہ ڈالی ہوگی.تب میرے خیال میں خیال ہوا کہ یہی فقیر ہے اسی نے توجہ کی ہوگی.اور میں نے بیعت کی آرزوظاہر کی لیکن فقیر نے جواب دیا کہ اب نہیں پھر میں یہاں حاضر ہو جاؤں گا اور تیرے ساتھ میرا وعدہ ہے فقیر جب باہر نکلا تو آپ بھی پیچھے چل پڑے لیکن اس کے بہت سے وعدے کرنے سے میں واپس لوٹ آیا.کچھ دنوں کے بعد وہ فقیر دوبارہ آیا.فقیر نقشبندی طریقہ کا تھا اور بہت سے طریقوں کی اس کو اجازت تھی.جب میں 72
نے فقیر کے ہاتھ پر بیعت کی تو اس نے کہا کہ مجھے ہر طریقہ کی اجازت دی ہوئی ہے لیکن نقشبندی میں بیعت لیتا ہوں.اس کے بعد کچھ دنوں کے لئے فقیر چلا گیا اور آپ پر بہت سے اسرار کھلے چند روز کے بعد تیسری بار وہ فقیر آیا.کچھ باتیں ہوئیں تو فقیر نے کہا آپ نے تو بہت ترقی کی کہ میں بالکل آپ کی طرف نہیں دیکھ سکتا.فقیر نے صاحبزادہ صاحب سے ٹوپی جو ان کے سر پر تھی تبرک کے طور سے لے لی اور اپنے پاس سے بھی کوئی چیز تبرک کے لئے دیدی اور بیعت لینے کی خلیفہ کر کے اجازت دیدی.فقیر نے آپ سے یہ بھی کہا کہ ایسا لائق آدمی میں نے نہیں دیکھا.اور کہا کہ میں مولوی عبد الحئی کے پاس بھی گیا تھا لیکن میں نے اس میں ایسی جگہ نہیں پائی.آخر کچھ عرصہ کے بعد صاحبزادہ صاحب اپنے وطن خوست کو چلے آئے.حضرت صاحبزادہ صاحب سے احمد نور نے عرض کیا کہ میرے والد صاحب کہا کرتے تھے کہ میرے ایک کان میں سورج چڑھتا ہے اور دوسرے میں غروب ہوتا ہے.آپ نے فرمایا کہ مجھ میں سورج چڑھتا ہے اور کبھی غروب نہیں ہوتا.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ یہ وہی شخص ہے جس کی دنیا انتظار کر رہی تھی.خدا کی طرف سے سچا اور لوگوں کو راہ راست پر لانے والا ہے....ایک روز صاحبزادہ صاحب کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے.فرمایا میں دیکھتا ہوں کہ ملائکہ نے میرے سبب سے بہت سے لوگوں کو قتل کیا ہے.میں کیا کروں میں نے تو قتل نہیں کئے....ایک دفعہ ہم گھر جارہے تھے کہ صاحبزادہ صاحب شہید مرحوم سے کو ہاٹ میں ایک آدمی کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں گفتگو ہوئی.اس نے انکار کیا آپ نے فرمایا تم اپنے شہر کا حال دریافت کرو کہ کیا حال ہوا ہے.ہمیں آپ سے دریافت کرنے کا موقعہ نہیں ملا.جہاں رات ہوتی قیام کرتے لوگ ملاقات کے لئے آتے تو آپ مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر ضرور کرتے.73
جب اپنے ملک اور اپنے گاؤں سید گاہ کے قریب پہنچے تو تمام عزیز و اقارب اور شاگرد وغیرہ آپ کی ملاقات کے لئے گھوڑوں پر سوار ہو کر آئے اور بڑی خوشی منائی کہ صاحبزادہ صاحب حج سے واپس آگئے.آپ نے فرمایا میں حج سے نہیں آیا بلکہ قادیان سے آیا ہوں.جہاں ایک مقبول الہی مستجاب الدعوات اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے.آپ صاحبوں کو یہ خبر دینے آیا ہوں وہ سچا ہے صادق ہے تاکہ تم اس کا انکار نہ کر کے اقرار کرلو اور خدا کے عذاب اور قہر سے بچ جاؤ اور اس کی رحمتوں کے وارث اور مورد بن جاؤ.اور بہت سی باتیں نصیحت کے طور پر فرمائیں.آپ کے رشتہ دار بہت ناراض ہوئے اور کہنے لگے کہ ان کی بابت ہم کو یہ خبر ملی ہے کہ قادیانی نصف قرآن مانتا ہے.اور نصف کا انکار کرتا ہے اور کافر ہے اس کا پیرو بھی کافر ہے اور قادیان جانا بھی کفر ہے.اگر یہ باتیں آپ کی امیر کے پاس پہنچیں گی اور وہ سنے گا تو ہم تمام قتل کئے جائیں گے اور تباہ کر دیئے جائیں گے.آپ نے فرمایا کہ تم اس ملک کو چھوڑ کر بنو چلے جاؤ.وہاں بھی زمین ہے.یہ تمہارے لئے بہتر ہوگا اس سے کہ تم خدا کے مامور کا انکار کرو.ورنہ میں ایک ایسی بلا تمہارے پیچھے لایا ہوں کہ کبھی بھی تم بچ نہیں سکو گے اور میں تو اس بات سے ہرگز نہیں ٹلوں گا.یہ خدا کا فرمان ہے.مجھے اس کا پہنچا نا بہت ضرور ہے.اور میں نے اپنا مال اور اپنی اولا داور اپنا نفس خدا کی راہ میں دیدیا ہے.خدا نے نہیں لیا تھا.اب موقعہ آیا ہے کہ اس نے لے لیا اور تم دیکھ لو گے کہ میرا مال، اور میرے اہل وعیال اور میر انفس کس طرح خدا کی راہ میں فدا ہوتا ہے اور تم دیکھ لو گے کہ میں اپنی دولت اور عزت اور عیال کس طرح ایک چٹکی میں پھینکتا ہوں.آپ نے سید گاہ میں پندرہ بیس دن گزارے ہوں گے بڑے بڑے عمائد آپ کے پاس آتے اور کہتے کہ اگر یہ باتیں آپ چھوڑ دیں تو بہت اچھا ہے.مگر آپ نے کوئی پرواہ نہیں کی اور امیر کو خبر پہنچنے پر آپ کو کچھ سواروں کے ساتھ کا بل بلایا گیا اور آپ ارگ کے قید خانہ 74
میں قید نظر بند کئے گئے.آپ کی چار بیویاں اور اٹھارہ لڑکے لڑکیاں تھے.آپ کی موجودگی میں تین بیویاں اور چھ لڑکے لڑکیاں رہ گئے اور باقی گزر گئے.آپ کی شہادت کے بعد آپ کے اہل وعیال کو جلا وطن کر کے بیچ پہنچایا گیا اور تمام ملک ضبط کی گئی.چند سال کے بعد ان نظر بند قیدیوں نے امیر سے کہا کہ ہم کس قصور میں قید کئے گئے براہ مہربانی ہمیں ہمارے ملک میں واپس بھیجا جاوے.پس وہ رہا کئے گئے اور وطن میں بھیجا گیا اور ضبط شدہ ملک بھی واپس دیدی گئی.پھر کچھ عرصہ کے بعد نظر بند کئے گئے اور جائیداد ضبط ہوگئی...شیخان لوگ اپنے مرشد کو عالم الغیب مانتے تھے اور صاحبزادہ صاحب فرماتے کہ انسان کو خواہ وہ کسی درجہ پر ہو عالم الغیب جانا سراسر غلطی ہے.عالم الغیب خدا ہے اور کوئی نہیں.رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کون ہے ان کو بھی خدا یہ حکم دیتا ہے قُلْ رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا.وہ بھی کوئی بات بیان فرماتے تو وحی کے ذریعہ سے فرماتے.حضرت موسیقی اولوالعزم رسول خضر سے علم سیکھنے کے لئے گئے.غیب کی باتیں معلوم نہیں ہوسکتیں خدا ہی ہر ایک چیز کا علم رکھنے والا اور غیب دان ہے.شیخان کہتے ہیں کہ ہمارے پیر غوث تھے.سات آسمان پر سات دریا ہیں ان میں ریت اور کنکر ہیں ان سب کی تعداد بھی معلوم ہے.صاحبزادہ صاحب فرماتے کہ یہ تو اہل کشف کی باتیں ہیں.اہل کشف تو کہتے ہیں کہ غوث ہر زمانہ میں ہوتا ہے.اور بعض کہتے ہیں کہ نہیں.جو مانتے ہیں ان کا قول ہے کہ عارف اور بزرگ ہر زمانہ میں ہوتے ہیں اور بزرگ متقی ہوتے ہیں.شریعت کے پابند اور معرفت الہی رکھتے ہیں اور تم جو کہتے ہو کہ اکثر ہمارے پیر سے یہ ایسا واقعہ ہوا ہے کہ چاندنی راتوں میں پو پھٹنے سے پہلے صبح کی نماز ادا کی اور معلوم ہونے پر نماز وقت پر دہرائی.اتنا بڑا سورج نظر نہ آیا اور نماز میں غلطی ہوگئی.وہ چیز جو سات آسمان کے اوپر ہے اور دریاؤں کی تہ میں ہے اس کی گنتی کیونکر نظر آوے.شیخان جواب دیتے کہ وہ اپنے آپ کو چھپاتے تھے.صاحبزادہ صاحب فرماتے کہ 75
جو قصداًنماز کو وقت سے پہلے پڑھے اس نے نماز کی بہتک کی.اور یہ کفر ہے.سو تم غوث کیا اس پر خود ہی کفر کا فتویٰ لگاتے ہو.اور عوام جو خواندہ نہیں تھے آپ کے پاس تنازعوں اور جھگڑوں کے وقت آیا کرتے تھے.اور آپ کی بات کو کوئی رد نہیں کر سکتا تھا تو آپ ان کو اس طور سے نصیحت کرتے تھے.آپ لوگوں کے لئے قیامت میں کوئی عذر نہ ہو گا کہ تم لوگ مباحثات کے وقت تو مجھ پر اعتماد رکھتے ہو اور عقیدہ میں مجھ پر اعتماد نہیں کرتے اور اپنے پیر کی جھوٹی باتوں کی پیروی کرتے ہو ہمارے تمہارے درمیان مسائل کا اختلاف ہے.اُن کو تم بھی لکھ لو اور میں لکھتا ہوں.دو شخصوں کو خرچ دے کر مکہ بھیجتے ہیں.اگر انہوں نے تمہارے کاغذ پر تصدیق کر کے مہر لگا دی تو تم بچے اور میں خاموش ہو جاؤں گا اور یہ سمجھ لوں گا کہ تمام جہان پر تاریکی پھیل گئی ہے اور اگر میرے کاغذ کی تصدیق کر کے مہر لگا دی تو تم کو تو بہ کر کے میری طرف لوٹ آنا چاہئے.اور بڑے حکام کو یہ نصیحت کیا کرتے تھے کہ تم لوگ کہتے ہو کہ ہم شریعت پر عدل کے ساتھ حکومت کرتے ہیں تو رعایا آپ سے ناراض کیوں ہے اور تنگ کس لئے ہے.شریعت تو ایسی نرم ہے کہ اگر اس پر قائم رہو تو انگریزی حکومت کے ہندو اور تمام مذہبوں کے لوگ کہہ اٹھیں کہ کاش ہم پر یہ لوگ حکومت کرتے.برعکس اس کے تمہاری رعایا یہ کہتی ہے کہ انگریزی حکومت ہم پر ہوتی تو اچھا ہے.کیونکہ تم نہ شریعت کی پروا کرتے ہونہ قانون کا خیال.حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے تھے کہ مجھ پر خدا تعالیٰ نے بہت سے امور منکشف فرمائے.ایک دفعہ رات کے وقت نماز کو جارہا تھا کہ میرا پاؤں کیچڑ سے پھسل گیا اور گر گیا اس سے میرا دل خراب ہو گیا اور میں گھبرا گیا.یک لخت میری زبان پر جاری ہوا کہ درویشاں سنگ برمیدارند ( جو درویش ہوتے ہیں اگر اُن پر پتھر برسائے جائیں پروانہیں کرتے.)....حضرت صاحبزادہ صاحب جب کبھی سرداروں اور حاکموں کے ساتھ جایا کرتے تو اپنا خرچ اپنے ساتھ لے جاتے تھے.حاکم بہت زور دیتے کہ ہمارا کھانا کھائیں لیکن آپ 76%
بالکل ان کے خرچ سے تعلق نہیں رکھتے تھے.حاکم رعایا سے ظلئما لیتے تھے.ایک دفعہ گورنر مذکور نے بہت اصرار کیا کہ آپ اس کے ساتھ چائے پیئیں.اور کہا کہ ہندو لوگ ہمیں رضامندی اور خوشی سے چائے دیتے ہیں ہم زور و ظلم سے نہیں لیتے اس لئے آپ کبھی کبھی چائے پی لیا کرتے تھے.ایک دفعہ گورنر نے ایک کوٹھی بنوائی آپ سے کہا کہ اس میں کوئی نقص بتا دیں کہ آپ اس فن سے بھی واقف ہیں آپ کچھ دیر چپ رہے پھر فرمایا کہ میں کیا بتاؤں اگر نقص نکالوں تو آپ جبراً کسی نجار سے درست کرالیں گے.اگر نہ بتاؤں تو آپ اصرار کرتے ہیں کہ ضرور نقص بتاؤ ( وہاں ہر صبح کاریگروں کو حاکم بیگار میں پکڑوا کر بلاتے ہیں ) اس وقت کئی نجار تھے ایک باہر کھڑا باتیں سن رہا تھا وہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ آپ نقص بتا دیں میں خوشی سے درست کر دوں گا.تب آپ نے تمام نقص بتا دیئے.ایک دفعہ ایک غریب آدمی کے ساتھ قاضی کا مقدمہ تھا.گورنر نے صاحبزادہ صاحب کو فیصلہ کے لئے مقرر کیا.تاریخ پر حاضر ہو کر وہ آدمی عاجزی ظاہر کرنے لگا اور اسے خوف تھا کہ صاحبزادہ صاحب قاضی کے حق میں فیصلہ نہ کر دیں.صاحبزادہ صاحب جوش میں آگئے اور اس کو کہا کہ اگر ایک ہندو غریب کا گورنر سے مقدمہ ہو جاوے تو میں کسی کی طرفداری یا رعایت نہیں کروں گا.اس وقت ایک ہندو اور گورنر بھی موجود تھے.گورنر کو خوف پیدا ہوا اور ہندو سے اپنے آپ کو سمیٹ کر بیٹھ گیا.ایک بارصاحبزادہ صاحب بھی دربار میں تشریف رکھتے تھے کہ ایک آدمی کو سزا کے لئے بلا یا گیا.جس وقت وہ حاضر ہوا گورنر نے حکم دیا کہ اس کولٹا کر بید مارے جائیں.اور مجرم کو نہیں چھوڑا جاتا تھا جب تک کہ مرنے کے قریب نہ پہنچ جاوے.جب سزا مل رہی تھی صاحبزادہ صاحب نے خیال کیا کہ گورنر غصہ میں ہے سزا بند نہیں ہوگی اور وہ مجرم اس قد رسزا برداشت نہیں کر سکتا تھا کہ بوڑھا تھا تو اپنے ہاتھوں پر کپڑا لپیٹ کر اس پر ہاتھ کر دیئے کہ بید 77
آپ کے ہاتھ پر لگیں اور وہ بچ جاوے.گورنر نے یہ دیکھ کر اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ باہر جا کر سزا دی جاوے.صاحبزادہ صاحب نہ دیکھیں بیٹے نے باہر لے جا کر چھوڑ دیا اس لحاظ سے کہ صاحبزادہ صاحب نے معاف کر دیا تھا.ایک دفعہ خوست کے جرنیل نے رعایا پر ظلم کیا اور اطراف میں لوگوں کے ختنے کرا دیئے اور بہت رشوت لی.اس سے فراغت پاکر سید گاہ کے قریب ڈیرہ آلگایا.جمعہ کے روز جرنیل نے ایک آدمی بھیجا کہ ہمارا انتظار کیا جاوے کہ ہم بھی نماز جمعہ میں شامل ہو جاویں.صاحبزادہ صاحب نے پروا نہ کی اور نماز شروع کر دی.جرنیل خطبہ میں شامل ہو گیا.جرنیل نے صاحبزادہ صاحب کہا کہ میں نے دین کی بڑی خدمت کی ہے کہ بہت لوگوں کا ختنہ کرادیا.آپ نے فرمایا کہ خدمت دین کی تو کیا ہوا.غریبوں کا تم نے چھڑا اتار لیا.ظلم کیا.رشوت لی.تمہارا تمام لباس حرام کا ہے اس سے نماز نہیں ہوتی.جرنیل شرمندہ ہوا اور کچھ نہ بولا.ایک بارصاحبزادہ صاحب امیر عبدالرحمن خان کے دربار میں گئے وہ بہت خوش ہوا.آپ سے کہا کہ سوات کے لوگ یا تو انگریزوں کی رعایا ر ہیں گے یا ہماری.درمیان میں ہرگز نہیں رہ سکتے اور میں نے ان کو بلا بھیجا تھا لیکن سوات کے مولوی کے بیٹے نے آنے سے منع کر دیا اور مسلمانوں کی سلطنت سے روکنا کافر ہو جاتا ہے یا نہیں ؟ آپ سُن کر چپ ہو گئے اور سوچا کہ خدا جانے کہ اس نے کس غرض سے منع کیا ہوگا؟ پھر دوبارہ امیر نے کہا لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا.تیسری بار عام لوگوں کو مخاطب کر کے کہا.تمام حاضرین نے شور مچا دیا کہ ہاں صاحب وہ کافر ہو گیا.لیکن صاحبزادہ نے پھر احتیاطا سکوت کیا.ایک دفعہ جب مولوی عبدالغفار صاحب مرحوم مہاجر دار الامان کی والدہ فوت ہوئی تو آپ نے نماز جنازہ پڑھائی تو اس وقت زور کی بارش ہورہی تھی.آپ نے بڑی دیر تک دُعا کی.78
چوتھی فصل دنیا بھر کے احمدی سکالرز کی خدمت میں در دمندانہ اپیل ( مولانا دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت ) 79
حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی تصویر کے بارہ میں دنیا بھر کے احمدی سکالرز کی خدمت میں دردمندانہ اپیل افغان قوم دنیا کی ایک قدیم اور تاریخی قوم ہے.جس میں حضرت داتا گنج بخش شیخ علی بن عثمان ہجویری ولادت ۱۰۰۹ ء وفات ۱۰۷۲ء)، حضرت خواجہ باقی باللہ (ولادت ۱۵۶۴ء وفات ۱۶۰۳ء) حضرت مجددالف ثانی (ولادت ۱۵۶۴ء وفات ۱۶۲۴ء) اور حضرت آدم بنوری ( ولادت ۱۵۰۶ء وفات ۱۶۴۴ ء ) جیسے عارف بزرگ اہل اللہ اور علماء و مشائخ پیدا ہوئے.حضرت صاحبزادہ مولوی سید عبداللطیف صاحب رئیس اعظم خوست حضرت داتا گنج بخش کے خانوادہ سے تعلق رکھتے تھے جنہوں نے ۱۴؍ جولائی ۱۹۰۳ ء مطابق ۱۸ ربیع الثانی ۱۳۲۱ ھجری کو اپنے مقدس لہو سے دینِ حق کی آبیاری کی اور اس کی حقانیت پر مہر ثبت کر کے ایک دائی نمونہ قائم کر دیا.حضرت بانی سلسلہ احمدیہ فرماتے ہیں: ” جیسا کہ اُن کا چہرہ نورانی تھا ایسا ہی اُن کا دل مجھے نورانی معلوم ہوتا تھا.“ ( تذکرۃ الشہا دتین صفحه ۸) اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل کرم اور سید نا حضرت فضل عمر کی روحانی توجہ کی برکت سے ایسا غیبی سامان فرمایا کہ عین ایسے مرحلے پر جبکہ تاریخ احمدیت کی تیسری جلد زیر تدوین و اشاعت تھی لندن کے انڈیا آفس سے ڈیورنڈ لائن کمیشن (۱۹ ستمبر تا ۱۴ نومبر ۱۸۹۳ء) کے دو گروپ فوٹو یکا یک مہیا ہو گئے.اس کمیشن میں امیر عبدالرحمن خان نے اپنے چچا زاد بھائی شیر ندل خان گورنر خوست اور حضرت صاحبزادہ صاحب کو نمائندہ مقرر کیا.تصویر میں 80%
شامل ہر شخص کے خد وخال بہت نمایاں تھے مگر افسوس ان پر کوئی نام درج نہیں تھا.خوش قسمتی سے اس زمانے میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی سب سے بڑی بہو حضرت سیده بی بی صاحبہ بقید حیات تھیں اور پورے خاندان میں وہی اس مقدس وجود کی شناخت کر سکتی تھیں جیسا کہ صاحبزادہ سید احمد لطیف صاحب ابن حضرت صاحبزادہ سید محمد طیب صاحب تحریر فرماتے ہیں: ” ہماری تائی جان مرحومہ حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید مرحوم کے خاندان کی وہ آخری خاتون تھیں جنہوں نے حضرت شہید مرحوم کا پُر نور چہرہ دیکھا.آپ کی پاکیزہ صحبت میں ایک لمبا عرصہ رہ کر آپ کی خدمت کا شرف حاصل کیا....مرحومہ کی شادی غالبا ۱۸۹۴ء میں ہوئی.حضرت شہید مرحوم نے خود اپنے خاندان میں ہی اپنے سب سے بڑے فرزند (صاحبزادہ سید محمد سعید ) سے شادی کرائی.“ روزنامه الفضل ربوه ۸ رستمبر ۱۹۶۸ء صفحه ۵ کالم نمبر۱) رقم الحروف سرائے نورنگ ضلع بنوں میں گیا جہاں یہ مبارک خاندان ہجرت افغانستان کے بعد قیام پذیر تھا.مکرم صاحبزادہ سید ھبتہ اللہ صاحب سے کئی اہم معلومات حاصل ہوئیں اور انہوں نے بتایا کہ حضرت سیدہ بی بی صاحبہ کے نزدیک فوٹو میں جو بزرگ عمامہ پہنے اور جبہ زیب تن کئے ہوئے ہیں وہ یقینی طور پر حضرت صاحبزادہ صاحب ہی ہیں.اس تصدیق کے بعد دسمبر ۱۹۶۲ء میں تاریخ احمدیت جلد سوم کے صفحہ ۱۶۶ پر ایک گروپ فوٹو مندرجہ ذیل نوٹ کے ساتھ شائع کر دیا گیا.دو پہلی قطار بائیں سے دائیں.اسر عبد القیوم خان آف ٹوپی (۲) سر مار ٹیمر ڈیورنڈ (۳) شرندل خان گورنر خوست ان کے بعد چوتھے نمبر پر جو بزرگ کھڑے ہیں وہ صاحبزادہ سعید جان مرحوم کی اہلیہ (شہید مرحوم کی بڑی بہو ) کی 81
رائے میں قطعی طور پر حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب ہیں.شعبہ تاریخ احمدیت کی طرف سے مزید تحقیق جاری ہے.“ کتاب کی اشاعت کے بعد بھی تصویر پر تحقیق کا سلسلہ برابر جاری رہا حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ ۳۱ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب جب ۱۹۰۲ء کے آخر میں قادیان تشریف لے گئے تو حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی قادیان میں ہی تھے اور حسنِ اتفاق سے مہمان خانہ کے اسی کمرہ میں فروکش تھے جس میں حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے خاص تلاندہ یعنی حضرت مولوی عبد الستار المعروف بزرگ صاحب“.سید احمد نور صاحب کا بلی، مولوی عبدالجلیل صاحب وغیرہ کے ساتھ رونق افروز رہے.شعبہ تاریخ کی طرف سے حضرت مولانا راجیکی صاحب سے خصوصی رابطہ کیا گیا مگر پیرانہ سالی اور بعض دیگر عوارض کے باعث آپ کچھ راہنمائی نہ فرما سکے.حضرت قاضی محمد یوسف صاحب (امیر صوبہ سرحد ) کو بھی یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ بھی ان ایام میں مہمان خانہ قادیان میں ہی قیام فرما تھے اور ان کا کمرہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی جائے قیام سے بالکل متصل تھا مگر افسوس حضرت قاضی صاحب تصویر کی اشاعت کے بعد صرف چند دن زندہ رہے اور ۴ /جنوری ۱۹۶۳ء کو انتقال فرما گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُوْنَ.بعد ازاں حضرت شیخ فضل احمد صاحب بٹالوی نے بذریعہ تحریر اس ناچیز کو تو جہ دلائی کہ حضرت مولوی محمد دین صاحب (سابق مبلغ امریکہ ) نے بھی حضرت صاحبزادہ صاحب کی زیارت کی تھی.اُن سے دریافت کیا جائے.چنانچہ میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ اس وقت دفتر نظارت علیا کے سامنے برآمدہ میں ایک کرسی پر بیٹھے تھے.آپ نے تصویر پر ایک گہری نظر ڈالی اور فرمایا میرے ذہن میں ۰۳-۱۹۰۲ء سے آج تک حضرت صاحبزادہ صاحب کے جو نقوش قائم ہیں یہ تصویر بالکل ان کے مطابق ہے.82
کچھ عرصہ بعد قادیان سے مجھے درویش قادیان جناب میاں عبدالرحیم صاحب دیانت سوڈا واٹر ( والد ماجد مولانا عبد الباسط صاحب مبلغ افریقہ ) کا حسب ذیل مکتوب موصول ہوا جو دراصل انہوں نے ۱۷ فروری ۱۹۷۳ء کو صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب ناظر دعوت و تبلیغ قادیان کے نام لکھا تھا اور محترم مرزا وسیم احمد صاحب کی ہدایت پر دفتر خدمت درویشان کے توسط سے خاکسار کو ۱۲ مارچ ۱۹۷۳ء کو ملا موصوف نے اس میں تحریر فرمایا تھا کہ: ” میں اکثر اوقات اپنے والد صاحب مرحوم حضرت میاں فضل محمد صاحب (ہرسیاں والے) سے پوچھتا رہتا تھا کہ ابا جی ! سید مرحوم کی شکل کیسی تھی؟ کس سے ملتی تھی.اس شکل کا کوئی انسان آپ کی نظر سے گزرا ہے؟ تو آپ نے ایک مرتبہ فرمایا ہاں ان کی شکل کچھ کچھ حضرت میاں غلام محمد صاحب سفیر گلگت سے ملتی تھی مگر وہ ان سے بھاری اور گورے رنگ کے تھے.اس کے بعد میں میاں غلام محمد صاحب مرحوم سے ایک خاص عقیدت سے ملتا تھا.وہ بھی مجھے محبت کرتے اور بسا اوقات اپنے کاموں میں مجھ سے مشورہ بھی لیتے.ایک دن ۶ فروری ۱۹۷۳ء کو میں اپنے دفتر زائرین قادیان میں بیٹھا تھا کہ حضرت مولوی عبد الواحد صاحب فاضل کشمیری اپنے ہاتھ میں تاریخ احمدیت کی تیسری جلد لے کر آئے اور وہاں موجود دوستوں کو جو کہ خواجہ عبدالستار صاحب، بھائی الہ دین صاحب اور میرزا محمد الحق صاحب تھے.جو کہ لاہور میں سہ کا ایک گروپ فوٹو ہے.میں چونکا کیونکہ میں نے اپنی تحقیق کے دوران یہ بھی سنا ہوا تھا شہید مرحوم کے صاحبزادگان سے کہ ابا جی کا فوٹو لاہور میں کھینچا گیا تھا جو اب مالتا نہیں.اور یہ بات میرے والد صاحب نے بھی بتائی تھی اور میں نے دفتر میں موجود دوستوں سے کہا کہ اس میں تو پھر مولوی صاحب شہید کا بھی فوٹو ہوگا.فوٹو میں نے اُٹھ کر دیکھا تو فوری طور پر بے ساختہ میں ذہنی شنیدہ فوٹو پر اپنی انگلی رکھ دی 83
کہ یہ حضرت مولوی عبداللطیف صاحب مرحوم شہید کا ہے.پھر جب نیچے لکھی ہوئی لسٹ پڑھی تو میرا کہنا درست ہوا.گویا اب میں یقینی طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ مندرج فوٹو مرحوم کا ہی ہے اور آپ کی بہو کی شناخت کی روایت جو فوٹو مندرج کے متعلق ہے صحیح ہے.جن دوستوں نے مکرم غلام محمد صاحب کو دیکھا ہے وہ میری اس بات کی تائید کریں گے.والسلام عبدالرحیم درویش نمبر ۷۲ قادیان یادر ہے کہ حضرت خان بہادر غلام محمد صاحب حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے قدیم رفقاء میں تھے جنہوں نے ۲۰ جنوری ۱۸۹۲ء کو شرف بیعت حاصل کیا تھا.(رجسٹر بیعت اولی) اسی طرح حضرت میاں فضل محمد صاحب ہر سیاں والے کی بیعت دسمبر ۱۸۹۶ء کی ہے.جنوری ۱۹۰۳ء کے مشہور سفر جہلم میں حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور حضرت شہید مرحوم کے ہمرکاب جو مخلصین تھے ان میں حضرت میاں فضل محمد صاحب بھی تھے اور اخبار البدر ۲۳ و ۳۰ جنوری ۱۹۰۳ء کے صفحہ ۸ پر ان کا نام موجود ہے.اس اعتبار سے مندرجہ بالا بیان کی اہمیت اور ثقاہت بہت بڑھ جاتی ہے.حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب جس مقام پر شہید کئے گئے.شعبہ تاریخ احمدیت کو اس کی تصویر حاصل کرنے میں بھی بفضل تعالیٰ کامیابی ہوئی.چنانچہ تاریخ احمدیت جلد سوم کے دوسرے ایڈیشن میں اسے سپر د اشاعت کر دیا گیا.علاوہ ازیں حضرت مولوی عبدالستار صاحب بزرگ صاحب کی شبیہہ بھی محفوظ کر دی گئی.۱۹۸۵ء میں جب میں پہلی بار انگلستان گیا تو انڈیا آفس اور برٹش میوزیم کی ممبر شپ حاصل کی اور مسلسل ایک ماہ تک ضروری لٹریچر، دستاویزات، تصاویر اور اخبارات کا مطالعہ کرتا رہا اور بہت سی اہم کتابوں کے ضروری حوالہ جات کی فوٹو کا پیاں حاصل کیں.نیز خاص طور پر ڈیورنڈ لائن سے متعلق تصاویر بھی نکلوائیں تا کہ کسی طرح ان تصاویر میں موجود اشخاص کا 84
پتہ چل جائے اور حضرت صاحبزادہ صاحب کی بڑی بہو کی روایت کا مزید دستاویزی ثبوت مہیا ہو جائے لیکن میں یہ معلوم کر کے حیرت زدہ رہ گیا کہ اس عظیم الشان لائبریری میں ڈیورنڈ کمیشن کے فوٹو موجود ہیں مگر ناموں کی تفصیل موجود نہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب کی بڑی بہو ۱۹۶۸ء میں رحلت فرماگئیں.آپ جب تک زندہ رہیں آپ نے کبھی اپنے بیان کی کوئی تردید شائع نہیں فرمائی.آپ کے بعد شہید مرحوم کے دوفرزند حضرت صاحبزادہ محمد طیب صاحب اور سید ابوالحسن صاحب قدسی سالہا سال تک زندہ رہے اور اپنی خاموشی سے حضرت سیدہ بی بی صاحبہ کی چشم دید شہادت عملاً قبول فرمالی.اس تحقیق سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح نمایاں ہو جاتی ہے کہ یہ پر انوار تصویر حضرت صاحبزادہ مرحوم صاحب کی برگزیدہ ہستی ہی کی ہے.حضرت سیدہ بی بی صاحب ( نور اللہ مرقدھا) کے وصال کے بیس برس بعد اب حال ہی میں یہ عجیب وغریب خیال پیش کیا گیا ہے کہ یہ تصویر ہرگز حضرت صاحبزادہ صاحب کی نہیں ہوسکتی کیونکہ : اول : اس دور کے افغان علماء تصویر کے سخت مخالف تھے.دوم : حضرت قاضی محمد یوسف صاحب کی روایت کے مطابق حضرت صاحبزادہ صاحب کی عمر پچاس سال تھی اور ریش مبارک کے اکثر بال سیاہ تھے.مگر تصویر میں سفید ہیں.سوم: ایک دوسری تصویر میں جو اسی موقع کی ہے آپ گورنر خوست کے قدموں میں تشریف فرما ہیں.جو احترام سادات کی مسلّمہ افغانی روایات کے سراسر منافی ہے اور عملاً ممکن نہیں.(روز نامه الفضل ربوه ۲ رمئی ۱۹۸۹ء صفحه ۳) ضروری ہے کہ ان تینوں قیاسات کا حقائق کی روشنی میں جائزہ لیا جائے.85%
تصویر اور افغان علماء افغانستان کی مستند تواریخ سے ثابت ہے کہ صدیوں سے سلاطین و شاہانِ افغانستان کی تصاویر موجود چلی آتی ہیں مگر افغانی علماء جنہوں نے اپنے فتاویٰ سے بڑے بڑے کجکلا ہوں اور تاجوروں کے تختے اُلٹ دیئے اور ان کی بساط سیاست ہمیشہ کے لئے لپیٹ دی کبھی انہی تصاویر کے خلاف منبر ومحراب سے کوئی احتجاج نہیں کیا.عرصہ ہوا افغانستان کے ایک نامور محقق جناب محمد کریم خان نز یہی رفیق انجمن ادبی کابل نے ایک تحقیقی مقالہ تاریخچه کابل“ کے نام سے سپرد قلم کیا.جس میں فاضل مقالہ نگار نے مندرجہ ذیل افغان سلاطین کے فوٹو شائع کئے : سلطان غیاث الدین غوری شہنشاہ افغانستان (۱۱۹۲ء)، سلطان شہاب الدین غوری شہنشاہ افغانستان (۱۱۷۳ء)، سلطان قطب الدین ایبک (۱۲۰۶ء)، سلطان آرام شاه (۱۲۱۰ء)، سلطان شمس الدین التمش (۱۲۱۰ء)، سلطان رکن الدین فیروز شاہ (۱۲۳۵ء)، ملکہ رضیہ (۱۲۳۶ء)، سلطان معز الدین بہرام شاہ (۱۲۳۹ء) ، سلطان علاؤ الدین مسعود شاہ (۱۲۴۱ء).یہ باتصویر مقاله انجمن ادبی کابل کے مجلہ علمی ” سالنامہ کابل“ بابت ۳۷-۱۹۳۶ء میں طبع ہوا.امیر عبدالرحمن خان (جن کے زمانہ میں ڈیورنڈ لائن کا قیام عمل میں آیا ) کی خود نوشت تاریخ افغانستان ۱۳۲۱ ھجری میں تہران سے چھپی جس کے آغاز میں خاص اہتمام سے ان کی اپنی تصویر شامل کی گئی.افغانستان کے سیکرٹری آف سٹیٹ سلطان محمد خان بیرسٹر ایٹ لاء نے اس کتاب کی تلخیص کر کے اس کا انگریزی ترجمہ لندن سے اور اردو ترجمہ جناب سید محمد حسن بلگرامی نے مطبع سشی آگرہ سے شائع کیا.اردو ایڈیشن دبدبہ امیری“ کے نام سے چھپا جس میں ” ضیا الملتہ دو 86
والدین امیر عبدالرحمن خان غازی اور ان کے دادا امیر دوست محمد خان غازی کی تصاویر موجود ہیں.دبدبہ امیری میں امیر عبدالرحمن خان نے بتایا ہے کہ وہ راگ اور تصاویر اور ہر قسم کی صنعت کردگار کے شیفتہ ہیں (صفحہ ۸۷) نیز یہ دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے: ۱۸۸۵ء میں جب میں راولپنڈی گیا ہوا تھا ایک دن ایک فوٹو گرافر نے میرا فوٹو لینے کے لئے اپنا کیمرہ میرے سامنے نصب کیا.فوراً ہی میرا عرض بیگی چھپٹ کر کیمرہ کے پاس گیا اور اپنے دونوں ہاتھ اس پر رکھ دیئے.میں نے پوچھا یہ کیا کرتے ہو اس نے عرض کیا حضور ! آپ کو معلوم نہیں یہ ایک قسم کی نو ایجاد توپ ہے جس سے یہ شخص آپ پر نشانہ لگایا چاہتا ہے.میں یکسن کر بہت ہنسا کہ بائیں ریش وفش تمہارا دل جہالت سے بالکل تاریک ہورہا ہے.وہاں سے ہٹ آؤ اور اس شخص کو میری تصویر اُتارنے دو.اس بیچارے نے اول کبھی کیمرہ نہ دیکھا تھا.اس لئے وہ سمجھ نہ سکتا تھا کہ یہ کیا چیز ہے.میں نے ہر چند اسے سمجھایا مگر وہ نہ سمجھا.“ ( دبد به امیری صفحه ۲۴) دبدبہ امیری‘ سے یہ بھی ثابت ہے کہ امیر عبدالرحمان خان کے کمرہ ملاقات اور خوابگاہ میں بکثرت تصاویر آویزاں ہوتی تھیں اور انہوں نے تصویر سازی کے کارخانے بھی جاری کئے تھے.امیر عبدالرحمان خان کی طرح ان کے ہم عصر بعض علماء و مشائخ کی تصاویر بھی مل سکتی ہیں.مثلاً تیرہویں صدی کے مجدد شمس الولایۃ حضرت مولانا سید امیر الاطمانزی النقشبندی ( پیر کوٹھا شریف تحصیل صوابی ، وفات ۱۲۹۵ ہجری مطابق ۱۸۷۷ء) کے جانشین اور خلیفہ مجاز حافظ حاجی مولوی نور محمد صاحب نقشبندی تھے جن کا اصل وطن گڑھی.87
اماز کی تھا اور ان کا وسیع حلقہ سرحد سے بریلی اور نینی تال تک پھیلا ہوا تھا.جنوری ۱۹۰۵ء میں وفات پائی.آپ نے اپنی تصویر کیمرے سے کھچوائی جو شعبہ تاریخ احمدیت میں موجود ہے.اسی طرح صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کے ہم عصر علماء میں ایک ممتاز شخصیت مولانا سید جمال الدین افغانی صاحب ( ولادت ۱۸۳۸ ء وفات ۱۹ مارچ ۱۸۹۷ء) کی ہے.مولا نا ئین اسلام ازم (Pan Islamism) کے پُر جوش علمبر دار تھے اور اپنے وقت میں دنیائے اسلام کے محبوب لیڈر تھے.علامہ افغانی کے عہد شباب اور عالم پیری کی یادگار تصاویر دنیا بھر کے لٹریچر سے بآسانی دیکھی جا سکتی ہیں.مثلاً (۱) - تاریخ الافغان مؤلفہ علامہ سید جمال الدین افغانی.مترجم سید عبدالقدوس ہاشمی ناشر نفیس اکیڈمی کراچی.تصنیف ۱۸۷۸ء (۲) الاعلام ( تالیف خیر الدین الزرکی ) مطبوعہ بیروت لبنان ۱۹۸۶ء (۳) فیروز ستر انسائیکلو پیڈیا مطبوعہ لاہور ۱۹۶۸ء (۴)العروة الوثقى والثورة التحريرية الكبرى مؤلّفه سید ہادی خسر وشاہی.ناشر مرکز ثقافة الاسلامیہ روما.اٹلی ایضا دار العرب القاہرہ جولائی ۱۹۵۷ء) حضرت قاضی صاحب کا بیان محض اختلاف روایت ہے اب ہم حضرت قاضی محمد یوسف صاحب فاروقی قاضی خیل ہوتی ضلع مردان کے درج ذیل بیان کی طرف آتے ہیں: حضرت عبد اللطیف میانہ قد و قامت کے درمیانہ وجود کے تھے.کوئی پچاس سال کی عمر ہوگی اور داڑھی کے بال اکثر سیاہ تھے.ہاں چند بال ٹھوڑی پر سفید 88
بھی تھے سر پر سفید ململ کا عمامہ بھی تھا.اس میں بخاری کلاہ تھی واسکٹ اور اس پر کا بلی گرم چونہ پہنے ہوئے تھے.“ ظہور احمد موعود تاریخ تصنیف جنوری ۱۹۵۵ء) تاریخ اشاعت جون ۱۹۵۸ ء طابع حکیم عبد اللطیف صاحب شاہد ) میرے نزدیک حضرت قاضی صاحب کا بیان کہ داڑھی کے بال اکثر سیاہ تھے“ اُسی طرح محض اختلاف روایت کی قبیل سے ہے جس طرح حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے تذکرة الشہادتین کے ابتدائی حصہ میں فرمایا ہے: وو مولوی صاحب مرحوم چار مہینہ قید میں رہے (صفحہ ۴۹) لیکن اسی کتاب کے صفحہ ۱۲۰ پر حضرت صاحبزادہ مولوی عبد اللطیف صاحب کے خاص شاگر دسید احمد نور صاحب کا بلی کے بیان کی بناء پر رقم فرمایا: میاں احمد نور کہتے ہیں کہ مولوی صاحب موصوف ڈیڑھ ماہ تک قید میں رہے.اور پہلے ہم لکھ چکے ہیں کہ چار ماہ تک قید میں رہے.یہ اختلاف روایت ہے وو اصل واقعہ میں سب متفق ہیں.“ میں نے حضرت قاضی صاحب کے بیان کو حضور کی اصطلاح میں اختلاف روایت قرار دیا ہے.تو اس کی وجہ یہ ہے کہ سیاہ ڈاڑھی کے سوا ان کا بیان فرمودہ حلیہ ۱۸۹۳ء کی تاریخی تصویر کے بالکل عین مطابق ہے.اور اختلاف روایت کی وجہ یہ ہے کہ حضرت قاضی صاحب ۱۹۰۲ء میں جبکہ انہوں نے قادیان میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی زیارت کی اسلامیہ سکول پشاور کے ساتویں جماعت کے طالب علم تھے اور حضرت شہید مرحوم سے متعلق واقعات مدتوں بعد سپر د قلم فرمائے چنانچہ اپنی اسی کتاب (ظہور احمد موعود ) کے پیش لفظ میں ” معذرت کے زیر عنوان تحریر فرماتے ہیں: اگر کسی روایت میں کوئی سقم ہوتو وہ میرے فہم اور یادداشت کا قصور ہوگا کیونکہ 89
میں جنوری ۱۹۰۲ ء لغایت مئی ۱۹۰۸ ء کے واقعات جنوری ۱۹۵۵ء میں قید تحریر میں لا رہا ہوں.اس وقت میری عمر قریباً ۷۴ سال قمری ہیں.“ حضرت قاضی صاحب کا یہ ارشاد بالکل درست ہے.مثلاً آپ کے مندرجہ بالا بیان سے قبل لکھا ہے کہ: بالمقابل کمروں میں جانب جنوب حضرت سید عبداللطیف شہید کابل رئیس خوست مقیم تھے اور ان کے ساتھ سیّد احمد نور اور چند اور ساتھی بھی تھے.یہ ماہ جولائی ۱۹۰۲ ء سے آئے ہوئے تھے.“ (ظہور احمد موعود صفحه ۳۰) حالانکہ حضرت قاضی صاحب اپنی ایک دوسری کتاب ” عاقبۃ المکد بین حصّہ اوّل صفحہ ۳۹ میں لکھتے ہیں کہ حضرت صاحبزادہ صاحب غالبا رجب المرجب ۱۳۲۰ھ (مطابق اکتوبر نومبر ۱۹۰۲ء) میں حج بیت اللہ کے ارادہ سے ہندوستان تشریف لائے.یہی تاریخ آپ کی کتاب شہدا ء الحق صفحہ ۴۱ میں بھی درج ہے.در اصل تفصیلی واقعات کا مدتوں تک مکمل صورت میں محفوظ رہنا بہت مشکل امر ہوتا ہے.اس لئے قوت حافظہ تفصیلات کو ریکارڈ کرنے میں پوری طرح کامیاب نہیں ہوسکتی اوور جزئیات فہم اور یادداشت کی کمزوری سے متاثر ہو جاتی ہیں.اس طرح ایک کمز ور روایت کی کوکھ سے ایک دوسرا خیال جنم لیتا ہے.بالکل یہی صورت سیاہ داڑھی کے معاملہ میں ہوئی ہے.اور اسکا پس منظر یہ ہے کہ حضرت قاضی صاحب ۷۴ سال کی عمر میں ۵۳ سال پہلے کی یادداشت کی بناء پر یہ خیال فرماتے تھے کہ بوقت زیارت حضرت صاحبزادہ صاحب کی عمر پچاس سال ہوگی.حالانکہ یہ خیال حضرت صاحبزادہ صاحب کے شاگرد خاص سید احمد نور صاحب کا بلی کی چشم دید لے شاید اسی وجہ سے رسالہ ” مسلم ہیرلڈ (The Muslim Herald) لندن بابت اپریل ۱۹۶۸ء صفحہ ۲۵ میں حضرت صاحبزادہ صاحب کا سال ولادت ۱۸۵۳ ء وضع کر لیا گیا ہے.90%
اور عینی شہادت کے سراسر خلاف ہے اور کسی طرح مستند نہیں قرار پا سکتا.حضرت قاضی صاحب کو تو خود اعتراف ہے کہ وہ پہلی بار ۲۷ / دسمبر ۱۹۰۲ء کو قادیان پہنچے.(ظہور احمد موعود صفحہ ۲۸).اور اخبار البدر ۲۳ تا ۳۰ جنوری ۱۹۰۳ ء صفحہ ۸ سے ثابت ہے کہ وہ ۱۵/جنوری ۱۹۰۳ء کے سفرِ جہلم میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے ہمراہ نہیں تھے.لہذا طالب علمی کے اس دور میں انہیں صرف چند دن تک ان کی چند جھلکیاں ہی دیکھنے کا موقع میسر آسکا ہوگا.اس کے مقابل سید احمد نور صاحب کا بلی ایک عرصہ دراز تک سید گاہ (خوست ) میں حضرت صاحبزادہ صاحب کی خدمت میں حاضر رہے سفر قادیان میں بھی وہ آپ کے ساتھ تھے اور اسی کمرہ میں ٹھہرے جہاں حضرت شہید مرحوم رونق افروز رہے اور واپسی پر قادیان سے افغانستان تک شرف معیت حاصل کیا انہیں کو حضرت صاحبزادہ صاحب نے فرمایا کہ اگر میں مارا گیا تو میرا جنازہ پڑھنے کے لئے حضرت اقدس مسیح موعود کولکھنا.(سیرت احمد صفحه ۱۳۵ مولفہ مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری.مطبوعہ ۱۹۶۱ ء ر بوه) پھر حضرت صاحبزادہ صاحب کی نعش مبارک پتھروں کے ڈھیر سے نکال کر کابل شہر کے شمالی جانب بالائی سار نامی پہاڑی کے دوسری جانب قبرستان میں دفن کرنے کا کارنامہ تو ایسا ہے جسے تاریخ تا قیامت فراموش نہیں کر سکتی.حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے ایک دفعہ فرمایا: یہ بہادر نوجوان بڑے کام کا آدمی ہے.حضرت عبداللطیف شہید...کوسب جانتے ہیں.حضرت حجتہ اللہ علیہ السلام نے ایسے اعزاز واکرام سے آپ کا ذکر کیا ہے جو قیامت تک اپنی لانظیری کے فخر کے آبدار موتیوں سے مزین رہے گا.اس نوجوان نے آپ کے جسدِ مبارک کی آخری خدمت سے وہ حصہ لیا ہے جو وہ ے حضرت قاضی صاحب نے اپنی کتاب ” عاقبۃ المکذبین، صفحہ ۴۰ پر اپنی پہلی بار آمد قادیان کی تاریخ : ۲۳ دسمبر ۱۹۰۲ء تحریر فرمائی ہے.91
بھی اپنی لانظیری میں ہمیشہ کے لئے یادگار رہے گا.“ الحکم ۱۷ تا ۲۴ دسمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۳ کالم نمبر ۲) سید احمد نور صاحب کا بلی مرحوم کی شہادت کے مطابق حضرت صاحبزادہ صاحب کی عمر پچاس سال کی نہیں قریبا ساٹھ اور ستر کے درمیان تھی.(شہید مرحوم کے چشمدید واقعات حصہ اول صفحہ ا مؤلفہ سید احمد نور صاحب کا بلی مطبوعہ ضیاء الاسلام پرلیس قادیان اکتوبر ۱۹۲۱ء) اس چشم دید شہادت کے اعتبار سے ہر صاحب فہم و فراست اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس عمر میں عام طور پر وسطی ایشیا کے باشندوں کی ڈاڑھی کے بال سفید ہو جاتے ہیں یا سیاہ رہتے ہیں جیسا کہ حضرت قاضی صاحب کی روایت سل میں ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب کا اس عمر میں خضاب استعمال کرنا خارج از امکان نہیں بلکہ قرین قیاس ہے کیونکہ حضرت امام نوری رحمہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی خضاب کا استعمال فرمایا (سیرت محمدیہ ترجمہ مواہب الله في القسطلانی جلد ۲ صفحه (۵۵۵) پس اگر حضرت صاحبزادہ صاحب نے اپنے آقا و مولی مد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس مبارک سنت پر عمل کی سعادت حاصل کی ہوتو کسی عاشق رسول کو اس پر حرف گیری کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں.یہ نظریہ بھی درست نہیں کہ انیسویں صدی عیسوی کے آخر تک افغان قوم میں بھی خضاب کا رواج نہیں ہوا تھا.حق یہ ہے کہ تاریخی طور پر اس نظریہ کی تائید نہیں ہوسکتی.میں حضرت صاحبزادہ صاحب کے ہمعصر علماء کا تذکرہ کرتے ہوئے علامہ جمال الدین افغانی کی تصویر کے مآخذ بتا چکا ہوں.جن میں ” العروة الوثقى والثورة التحريرية الكبرى، بھی لے حضرت بانی سلسلہ کے عہد مبارک کی نسبت جو واقعات حضرت قاضی صاحب کی بیان فرمودہ روایات یا کتب میں مندرج ہیں ان میں بھی اختلاف روایت کی کئی مثالیں پائی جاتی ہیں.(ملاحظہ ہو سیرت المہدی حصہ سوم صفحہ ۴۸-۴۹ ، ظہور احمد موعود صفحه ۵۰،۳۳) 3392
ہے.اس کتاب کے سرورق پر جو تصویر ہے اس سے علامہ کا خضاب استعمال کرنا صاف نظر آتا ہے.فقر و درویشی کے بادشاہ اب صرف یہ سوال باقی رہ جاتا ہے حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے بلند روحانی مقام اور عظیم رتبہ کے باوجود ڈیورنڈ لائن کمیشن کی ایک تصویر میں گورنر شریندل خان کے سامنے زمین پر کیوں بیٹھے دکھائی دیتے ہیں؟ اس سوال کا مختصر اور فیصلہ کن جواب یہ ہے کہ حضرت صاحبزادہ صاحب دنیاوی وجاہت اور شاہانہ تزک واحتشام کے باوجود ایک بے مثال پیکر تواضع ، مجسمه خاکساری اور فقر و درویشی کے بادشاہ بھی تھے اور یہ تصویر اسی حقیقت کی عکاسی کرتی ہے جس کو دیکھ کر اُن سے بے پناہ عقدت پیدا ہوتی ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے.اِذَا تَواضَعَ الْعَبْدُ لِلّهِ) رَفَعَهُ اللَّهُ إِلَى السَّمَاءِ السَابِعَةِ كم جب بندہ خدا تعالیٰ کے لئے خاکساری اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اُسے ساتویں آسمان تک رفعت بخشتا ہے.حضرت صاحب زادہ صاحب کی درویشانہ طبع اور منکسر المزاجی کے ایسے ایسے واقعات آپ کی سوانح میں موجود ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.کون احمدی حضرت سید عبدالستار المعروف بزرگ صاحب سے واقف نہیں؟ وہ صاحب کشف بزرگ تھے اور حضرت صاحبزادہ صاحب کے نہایت مقرب شاگردوں میں نہایت بلند مقام رکھتے تھے.جب وہ قادیان میں واصل بحق ہوئے تو حضرت سیدنا فضل عمر ڈلہوزی میں تھے.جناب الہی سے آپ کو بتلایا گیا کہ ایک ایسا بزرگ دنیا سے رخصت ہو گیا ہے جس سے زمین و آسمان ہل گئے ہیں.(الفضل قادیان ۳ر نومبر ۱۹۳۳ صفحه ۸) لے کنز العمال جلد ۳ صفحه ۱۱۰ مطبوعہ بیروت ۱۴۰۵ھ/ ۱۹۸۵ء 93
حضرت بزرگ صاحب نے اپنی آنکھوں سے جو حالات دیکھے یا حضرت صاحبزادہ صاحب کی زبانِ مبارک سے سنے اُن کو سید احمد نور صاحب کا بلی نے ” شہید مرحوم کے چشم دید واقعات حصہ دوم کے نام سے ۲۶ / دسمبر ۱۹۲۱ء کو ایک مستقل رسالہ کی شکل میں شائع کر دیا یہ حالات بھی بہت ہی ایمان افروز ہیں اور آپ کی سیرت و سوانح پر قلم اُٹھانے والا کوئی شخص اس سے بے نیاز نہیں ہوسکتا.اس رسالہ سے یہ انکشاف بھی ہوتا ہے کہ آپ احمدیت سے وابستگی سے قبل بھی دوبار ہندوستان تشریف لے گئے تھے.دوسری بار آپ نے لکھنو میں ایک فقیر کے ہاتھ پر بیعت کی جو نقشبندی طریقے کا تھا.اس نے کہا کہ مجھے ہر طریقہ کی اجازت ہے لیکن میں نقشبندی طریقہ پر بیعت لیتا ہوں.اس کے بعد کچھ دنوں کے لئے فقیر چلا گیا اور آپ پر بہت سے اسرار کھلے.چند روز بعد وہ فقیر تیسری بار آیا.کچھ باتیں ہوئیں تو فقیر نے کہا کہ آپ نے تو بہت ترقی کی ہے کہ میں بالکل آپ کی طرف نہیں دیکھ سکتا اور پھر آپ کو بیعت لینے کی اجازت دیدی.اس رسالہ میں حضرت بزرگ صاحب نے بڑی تفصیل سے آپ کے پہلے سفر ہندوستان پر روشنی ڈالی ہے.چنانچہ فرماتے ہیں: صاحبزادہ صاحب علم مروجہ کے بڑے عالم تھے.ہر قسم کا علم رکھتے تھے.بہت سے شاگرد بھی آپ سے تعلیم پاتے تھے.ایک دفعہ آپ کے دل میں خیال پیدا ہوا کہ ہندوستان بھی جانا چاہئے.یہ گورنر ( شریندل) کے حاکم ہونے سے پہلے کا واقعہ تھا.آپ نے مولوی جان گل سے کہا کہ میرا ہندوستان جانے کا ارادہ ہے.مولوی صاحب نے عرض کیا میں بھی ساتھ چلتا ہوں.آپ نے فرمایا کہ میں تو ایک تہہ بند رکھتا ہوں.ملنگ کے بھیس میں جاؤں گا.اگر تم میرے ساتھ جانا چاہتے ہو تو صرف تہہ بند رکھنا ہوگا اور ملنگ بن کر چلنا ہوگا.آخر آپ اور مولوی صاحب نے تہہ بند باندھا.فقیری کے بھیس میں امرتسر آئے.صاحبزادہ 94
صاحب کو ننگا سینہ بُرا معلوم ہوتا تھا.ایک رومال سینے پر لٹکا لیا جب امرتسر پہنچے.کشمیری محلہ میں ایک حنفی مذہب کا مولوی تھا اس کے پاس اتر پڑے.اس مولوی کے پاس کتابوں کی لائبریری تھی....رات دن کتابوں کے مطالعہ میں مشغول رہتے.شام سے صبح تک کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے اسی گمنامی کی حالت میں رہے کہ نہ تو آپ کا کوئی واقف بنا اور نہ آپ کسی کے واقف ہوئے.صرف کبھی کبھی ملنگ فقیروں کے پاس جایا کرتے تھے.اس ڈیرہ کے لوگوں کو بہت خوش کیا کرتے تھے کیونکہ صاحبزادہ صاحب دولتمند آدمی تھے.آپ کو پیچھے سے خرچ آیا کرتا تھا.اس لئے آپ لوگوں کو بہت کچھ دیا کرتے تھے.اور آپ نے جامعہ ملنگی زیب تن رکھا....حضرت صاحبزادہ صاحب قریبا تین سال کے بعد واپس خوست اسی لباس مولویانہ میں تشریف لے گئے.“ (رسالہ مذکورہ صفحہ ۵ تا ۷ ) ضمنا یہ بتانا بھی خالی از دلچسپی نہ ہوگا کہ حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی مقدس سوانخ فروتنی، منکسر المزاجی اور انکسار کے واقعات سے لبریز ہے.دعوئی سے قبل جب آپ مقدمات کے سلسلہ میں بٹالہ یا گورداسپور تشریف لے جاتے تو اکثر خود پیدل چلتے اور اپنے خادموں کو گھوڑے پر سوار کرا دیتے.(الحکم ۲۱-۲۸ مئی ۱۹۳۴ء صفحہ ۳۰) حضرت اقدس عمر بھر انہیں عاجزانہ راہوں پر گامزن رہے.بعض اوقات آپ کی مجلس میں سادگی کی وجہ سے نو وار دلوگ آپ کو پہچاننے سے قاصر رہتے تھے.(اخلاق احمد صفحہ ۲۹) ڈاکٹر بشارت احمد صاحب کی عینی شہادت ہے کہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی پہلی بیگم صاحبہ کا انتقال ہوا تو حضرت اقدس جنازے کے ساتھ قبرستان تشریف لے گئے قبر ابھی تیار نہ تھی.میں نے جلدی سے ایک درخت کے نیچے سفید چادر بچھائی حضور اس چادر پر بیٹھ گئے.تھوڑی دیر بعد لوگ وہیں آنا شروع ہو گئے جو شخص آتا حضرت اقدس اسے فرماتے 95%
آئیے یہاں بیٹھئے اور خود پیچھے کھسک جاتے اور اسے چادر پر بٹھا لیتے ” یہاں تک کہ تھوڑی دیر نہ گزری تھی جو دیکھتا ہوں کہ حضرت صاحب تو مٹی پر بیٹھے ہیں اور مرید سارے چادر پر بیٹھے ہیں.آنے والوں کو تو زیارت اور ملاقات کے شوق و ذوق میں یہ نظر نہ آیا مگر میں دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں کڑھ رہا تھا اور ساتھ ہی ایمان ترقی کر رہا تھا کہ خدا نے کیا مرتبہ دیا ہے اور نفس میں کس قدر انکسار اور فروتنی ہے.“ مجدد اعظم حصہ دوم صفحہ ۱۲۹۳-۱۲۹۴ء مصنفہ ڈاکٹر بشارت احمد صاحب ناشر احمد یہ انجمن اشاعت لاہور دسمبر ۱۹۴۰ء) اس سے بھی حیرت انگیز واقعہ حضرت مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی کا ہے جو انہی کے الفاظ میں درج ذیل کیا جاتا ہے.فرماتے ہیں: ایک دفعہ گرمی کا موسم تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اہل خانہ لدھیانہ گئے ہوئے تھے.میں حضور کو ملنے اندرون خانہ گیا.کمرہ نیا نیا بنا تھا اور ٹھنڈہ تھا.میں ایک چارپائی پر ذرا لیٹ گیا اور مجھے نیند آ گئی.حضور اس وقت کچھ تصنیف فرماتے ہوئے ٹہل رہے تھے.جب میں چونک کر جا گا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میری چار پائی کے نیچے زمین پر لیٹے ہوئے تھے.میں گھبرا کر ادب سے کھڑا ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی محبت سے پوچھا.مولوی صاحب! آپ کیوں اُٹھ بیٹھے؟ میں نے عرض کیا حضور نیچے لیٹے ہوئے ہیں.میں اوپر کیسے سوسکتا ہوں؟ مسکرا کر فرمایا.آپ بے تکے پ بے تکلفی سے لیٹے رہیں میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا.بچے شور کرتے تھے میں ان کو روکتا تھا تا کہ آپ کی نیند میں کوئی خلل نہ آئے.اللہ اللہ ! شفقت کا کیا عالم تھا.“ ) سیرت حضرت مسیح موعود مؤلفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی ) 96
خلاصہ کلام المختصر یہ کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی ۱۸۹۳ء کی یادگار تصویر کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کا کوئی جواز نہیں.تاریخ اور سیرت کے علوم کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے.اور دونوں کا سر چشمہ عقلیات یاذ وقیات نہیں بلکہ مستند معلومات اور ٹھوس حقائق ہیں.تحقیق کے نئے گوشے اور مفکرین احمدیت سے درخواست بالآخر میں دنیا بھر کے احمدی مفکروں، دانشوروں اور ریسرچ سکالرز سے عرض کروں گا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی تصویر کے سلسلہ میں مزید تحقیق کے متعدد نئے گوشے اور زاویئے بھی ہیں.اور اس علمی اور تحقیقی میدان میں ابھی بہت سا کام باقی ہے جس کی جلد تکمیل کے لئے مجھے ان کے مخلصانہ اور پُر جوش تعاون کی بے حد ضرورت ہے.مثلاً.اگر چہ انڈیا آفس سے ۱۸۹۳ء کے گروپ فوٹو میں موجود افراد کی فہرست دستیاب نہیں ہوسکی.مگر ممکن ہے کہ جرمنی ، فرانس، ماسکو، شکاگو، واشنگٹن اور نیو یارک کی لائبریریوں سے کامیابی ہو سکے.امیر عبدالرحمن خان نے دبدبہ امیری صفحہ ۱۳۰ میں ڈیورنڈ لائن کے برطانوی وفد کے حسب ذیل ممبر بتائے: سر مارٹمر ڈیورانڈ.کرنل ایلیس ( کوارٹر ماسٹر جنرل آفس ) کپتان میک مہان.کپتان میزس اسمۃ.مسٹر کلارک ملازم فارن آفس و منصرم پولٹیکل اسٹنٹ.میجرفن وائسرائے ہند کے ڈاکٹر اور مسٹر ڈونلڈ.اگران ممبران کے ورثاء سے رابطہ کن ہو تو امید ہے کہ یہ گروپ فوٹومع اسماء کے مہیاء ہوجائیں.البدر ۲۳ تا ۳۰/جنوری ۱۹۰۳ء صفحہ ۱۰ سے ثابت ہے کہ سفر جہلم ۱۹۰۳ء کے 97
دوران بہت سے انگریز مرد اور لیڈیاں حضرت اقدس کی تصویر کھینچنے کے شائق تھے.ایک روایت کے مطابق جو مدت سے چلی آرہی ہے اور الفضل ( قادیان) میں بھی اُس کا ذکر ہے.لاہور سٹیشن پر ایک انگریز نے حضرت صاحبزادہ صاحب کی فوٹولی تھی.مگر آج تک اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا.۳.یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ امیر عبدالرحمن خان کے بیٹے امیر حبیب اللہ خان (۱۸۷۲ء تا ۱۹۱۹ء) کی رسم تاج پوشی حضرت صاحبزادہ صاحب کے ہاتھوں عمل میں آئی.اے کاش! اس شاہی تقریب کا کوئی فوٹو کابل کے میوزیم یا کسی اور ملک کی لائبریری یا عجائب گھر سے دستیاب ہو جائے.حضرت صاحبزادہ صاحب کے لختِ جگر.سلسلہ کے جید عالم اور میرے مشفق استاد حضرت سید ابوالحسن صاحب قدسی کو عمر بھر اس کے دیکھنے کی حسرت رہی.سید احمد نور کا بلی صاحب حضرت صاحبزادہ صاحب کی خونچکاں شہادت کے واقعہ کے بد بطور نشانی آپ کے بال ساتھ لائے اور حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی خدمت میں پیش کئے.حضور نے وہ بال ایک کھلے منہ کی چھوٹی بوتل میں ڈال اس بوتل کو سر بمہر کر دیا اور پھر اس شیشی میں تاکہ باندھ کر اپنی بیت الدعاء کی ایک کھونٹی سے لڑکا دیا.اور یہ سارا عمل آپ نے ایسے طور پر کیا کہ گویا ان بالوں کو آپ ایک تبرک خیال فرماتے تھے.(سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۵۴ چشمد ید واقعات حصہ اوّل صفحه ۲۳) یہ متبرک بال اگر احمدیت کی دوسری صدی تک محفوظ رہتے تو ایک احمدی کوان کی زیارت سے کتنی روحانی مسرت اور قلبی سکون حاصل ہوتا لیکن افسوس صد افسوس ! وہ تو ربع صدی کے اندر ہی غائب ہو گئے.مگر انشاء اللہ حضرت صاحبزادہ صاحب کی یادگار تصویر قیامت تک محفوظ رہے گی.کیا ہی مبارک ہیں وہ خدام دین جو اس دائمی یادگار کے محفوظ کرنے کی سعادت حاصل کرتے.اور خدا کے فضلوں کے وارث بنتے ہیں.(الفضل ۲۲ مئی ۱۹۸۹ء) 98
تازه ترین شهادت سید محمد نور صاحب کابلی ( ولد سید احمد نور صاحب کا بلی شاگرد خاص حضرت شہید مرحوم ) کا حلفیہ بیان ہے کہ: ” میں نے جب صاحبزادہ عبد السلام صاحب مرحوم سے ۱۹۳۷ء میں حالات قلمبند کئے تو معلوم ہوا کہ صاحبزادہ عبد اللطیف شہید عبدالسلام صاحب کے سٹائل کے انسان تھے اور باقی رشتہ داروں کا بھی اس وقت یہی خیال تھا.میں نے عبدالسلام صاحب کو پورے غور سے دیکھا ہوا ہے اُن کا جسم، سٹائل موجودہ تصویر سے بالکل مطابقت رکھتا ہے.میں یہ بھی حلفیہ گواہی دیتا ہوں کہ جب یہ تصویر تاریخ احمدیت میں شائع ہوئی تو اس وقت مجھے بتایا گیا کہ اس تصویر کی تصدیق صاحبزادہ صاحب شہید کی ہمشیرہ والدہ عبد القدوس صاحب (صاحبزادہ) جو اس وقت سرائے نورنگ میں زندہ تھیں فرمایا میں بھی تصدیق کرتی ہوں کہ ان کا حلیہ تمام وہی ہے کوئی شک والسلام سید محمد نور ولد سید احمد نور کا بلی مرحوم شاگرد خاص حضرت شہید مرحوم ۱۷ مئی ۱۹۸۹ء گواه شد: حمید الدین اختر ولد چوہدری الیاس الدین صاحب مرحوم بہاولپوری ۷ ارمئی ۱۹۸۹ء 99
ایک اور حلفیہ بیان میں حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ سید احمد نور صاحب کا بلی نے مجھ سے بیان کیا کہ آپ کے والد محترم خان بہادر غلام محمد صاحب (گلگتی ) سے شاہزادہ سید عبداللطیف صاحب سے شکل ملتی جلتی ہے.“ (محمد بشیر خان گلگتی ابن خان بہادر غلام محمد خان صاحب مرحوم کلکتی معرفت ملک حفیظ احمد صاحب اعوان مکان نمبر ۶۹۴ اندرون حرم گیٹ ۳۰ رمئی ۱۹۸۹ء) مکتوب ڈاکٹر محمد علی صاحب سابق امیر جماعت احمد یہ سرحد مکرمی و محترمی جناب دوست محمد شاہد صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته الفضل میں حضرت عبداللطیف شہید کی تصویر کی بابت آپ کا معرکۃ الآراء مضمون پڑھ کر بہت خوشی ہوئی.اللهم زدفرد.مبارک ہو....آپ نے جس بزرگ کا ذکر کیا ہے یعنی حافظ حاجی نور محمد صاحب وہ میرے سُسر جناب شمس الدین خان صاحب مرحوم (سابق امیر سرحد ) کے والد بزرگوار تھے...میں نے شمس الدین صاحب کے گھر میں ان کی دو تصویر میں کیمرے کی دیکھی ہیں ایک میں ان کے ساتھ ان کے بڑے صاحبزادے مولوی مسیح الدین صاحب بھی کھڑے ہیں.حافظ حاجی نور محمد صاحب بہت بوڑھے ہیں تصویر میں...ایک بار پھر ایک زبر دست تحقیقی مضمون لکھنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں.“ (مورخه ۳/ جون ۱۹۸۹ء) 100
مکتوب گرامی جناب ملک صلاح الدین صاحب ایم اے..مؤلف "اصحاب احمد بسم اللہ الرحمن الرحیم ۱۳۶۸ هش ۹/۶/۸۹ بخدمت برادرم محترم مولوی دوست محمد صاحب شاہد مؤرخ احمدیت السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ حضرت سید عبداللطیف صاحب کی تصویر کے بارے میں آپ کی طرف سے الفضل ملا.جزاکم اللہ احسن الجزاء اتفاقا چند دن پہلے یہ شمارہ مجھے مل گیا تھا اور میں نے اسے سارا پڑھا.الحمدللہ کہ بہت مدلل اور مفصل ، مفید مضمون ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ آپ کو مقبول خدمات دین کی توفیق عطا کرے.“ 101
حرف آخر شہدائے کابل کا عالی مقام (سید نا حضرت فضل عمر ) بڑی عید یہی ہے جو قربانیوں اور تکالیف کی ہے.وہ چھوٹی ہے جس میں بادشاہتیں اور حکومتیں ملتی ہیں خدا کے انعام نام ہیں قربانی کا.ہمارے لئے تخت حکومت سولی کا تختہ ہے.وہی ہماری حکومت ہے اور وہ تمام تکالیف جو ہمیں دی جاتی ہیں انہیں میں ہمارے لئے فخر ہے کیا تم سمجھتے ہو کہ جن لوگوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں جانیں دیں انہوں نے عید نہیں دیکھی.آج وہ سامنے نہیں ہیں ورنہ تم دیکھتے کہ ان کے چہروں پر ایسے آثار ہوتے تھے جو ظاہری عید منانے والوں کے چہروں پر ہو ہی نہیں سکتے.جو جان دے دیتا تھا وہ یہی سمجھتا تھا کہ میری عید آ گئی.اسی لئے انہیں شہید کیا گیا ہے.کہ وہ عید کا چاند دیکھتے ہوئے مرے.ہر مومن جو دین کے لئے فدا ہوتا ہے وہ عید دیکھتا ہے.یہی عید اضحیہ ہوتی ہے.یہی انبیاء کے زمانہ کا نشان ہے اور اسی لئے ہمیں پیدا کیا گیا ہے.پس آؤ ہم اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور اس کے نام کو بلند کریں کہ اس نے ہمیں اس عید کی توفیق دی جو سب سے بڑی عید ہے.اگر اللہ تعالیٰ کے فرشتے آسمان سے اترتے اور بادشاہوں کو تختوں سے اتار کر ہمیں ان کی جگہ بٹھا دیتے تو ان گالیوں کے مقابلہ میں وہ چیز بالکل حقیر ہوتی.جن شہداء نے افغانستان میں جانیں دیں.ان کی عزت چین جاپان 102
اور افغانستان وغیرہ کے بادشاہوں سے بہت زیادہ ہے.اور دنیا کی ہزاروں سال کی بادشاہتیں ان کے مقابلہ میں بیچ ہیں آئندہ احمدی بادشاہ جو دنیا کو فتح کریں گے.ان کی حیثیت ان شہداء کے مقابلہ میں وہی ہوگی جو پہلوان کے مقابلہ میں بچہ کی ہوتی ہے.یہ قربانیاں کرنے والے خدا تعالیٰ کے دائیں ہاتھ تخت پر بیٹھے ہوں گے اور بادشاہتیں کرنے والے مودب سامنے کھڑے ہوں گے.“ خطبات محمود جلد دوم صفحه ۱۸۲ - ۱۸۳) 103
معاونین خصوصی مکرم خواجہ قمر الزمان صاحب گوجرخان.....والدہ صاحبہ مرحومه خواجہ قمر الزمان صاحب خواجہ عبد الواحد صاحب مرحوم خواجہ عبد الرحمن صاحب والد خواجہ قمر الزمان صاحب.....مبارک احمد صاحب بیرسٹر کراچی عبد الصمد خان صاحب لاہور میاں عبدالسمیع صاحب نون ایڈووکیٹ سرگودہا....شیخ خالد مسعود صاحب فیصل آباد محمد اعظم اکسیر مربی سلسلہ فیصل آباد.....غلام مرتضی صاحب کوٹلی آزاد کشمیر منیر احمد شمس جامعہ احمد یہ ربوہ 104
د طبع (قل) الحمد لله والمنة کر یہ سال مبارک میں اقتدار پر آوا کابل اور شیخ اصل افغانستان ادریس هنرستان مولوی محمد عبد الطیف صلاح مرحوم کی شہادت کا وانین شاگردرشید میاں عبدالرحمن کے شہید ہونے کے حالات مذکور میں تالیف مور نام ایک مندرجہ ذیل رکھا گیا اپنے تذكرة الشهادتين مع رساله عربی و علامات المقربين اور یہ رسالہ مطبع ضیاء الاسلام قادیان میں باہتمام حکیم مولوی فضل الدین صاحب ایک مطبق اکتوبر کے مہینہ میں چھاپ کر شائع کیا گیا.قیمت فی جلد مدار
هران ماند قبیل تازه بخواست شانان تذبحان شهید مرحوم چشم دید واقعات حضرت مولی نا صاحبزادہ سید عبد اللطيف صاحب مینم خوست علاقه کامل موقت تیار احمد نور کا بلی ہاجرہ ارالامان قادیان نے شان کیا خازن روس نے اور دم مشهد است ضیاء الاسلام پریس قادیان میں عبدالرحمن قادیانی پنتر کے اہتمام سے چھنا