Hazrat Seth Abdur Rehman Madrasi

Hazrat Seth Abdur Rehman Madrasi

حضرت سیٹھ عبدالرحمٰن صاحب مدراسی ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

نہایت آسودہ حال اور امیر گھرانے میں پیدا ہونے والے اس خو ش نصیب انسان نےحضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک تحریرپڑھ کر آپ کی تصدیق کی اور پھر دنیاوی مال و دولت کی پرواہ کئے بغیر آپ کی خدمت و اطاعت میں محو ہوگئے اور پھر اس اعلیٰ درجہ کی  نیکی اور اس قدر کثرت سے بار بار مالی قربانی کی توفیق پائی کہ رہتی دنیا تک نمونہ بنے  اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں اور خوشنودی کے وارث ٹھہرے۔


Book Content

Page 1

"حضرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب مدراسی 66 نہایت آسودہ حال اور امیر گھرانے میں پیدا ہونے کے باوجود حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی دنیاوی مال و دولت کی پرواہ کئے بغیر آپ نے سچائی کو قبول کیا اور پھر اپنی تمام طاقتیں اس سچائی کے اظہار اور تائید کے لئے صرف کر دیں.ایسے نیک اور پاک وجودلوگوں کے لئے ایک نمونہ ہوا کرتے ہیں تا کہ ان کے حالات اور خدمات کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی نیکی کے کاموں میں آگے آئیں اور اپنی تمام صلاحیتیں اور طاقتیں سچائی کی خدمت کے لئے وقف کر دیں.اللہ تعالیٰ ان پاک وجودوں پر اپنی رحمت نازل فرمائے اور ہمیں بھی اپنی زندگیاں دین کی خدمت اور اشاعت کے لئے صرف کرنے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 2

1 پیش لفظ پیارے بچو! اللہ تعالیٰ جب اپنے نبی کی بعثت فرماتا ہے تو اس کی شہرت دور دراز علاقوں میں پہنچ جاتی ہے.نتیجہ شریف النفس اور نیک لوگ زمانے کے امام کو مان کر اپنی دنیا و عاقبت سنوار لیتے ہیں.حضرت سیٹھ عبد الرحمن صاحب جو مدراس کے رہنے والے تھے ایسے ہی ایک خوش نصیب انسان تھے.آپ حضور کی ایک تحریر پڑھ کر آپ پر ایمان لائے.پھر خلافت احمدیہ کے بچے اطاعت گزار رہے.خود بھی بے مثال خدمت کی اور ہمارے لئے بھی قابل تقلید نمونہ چھوڑ گئے.خاندانی تعارف آپ کا پورا نام سیٹھ عبد الرحمان صاحب حاجی اللہ رکھا مدراسی تھا.حضرت سیٹھ صاحب کا خاندان مشہور میمن امیر خاندان تھا جو بنگلور میں آباد تھا اور تجارت پیشہ تھا.بنگلور ہندوستان کا ایک مشہور شہر ہے.یہ شہر مشہور مسلمان بادشاہ ٹیپوسلطان کی ریاست میسور میں واقع ہے اور جنوبی ہند کا تجارتی مرکز ہے.والد صاحب کی وفات کے بعد آپ کا روبار کے سلسلہ میں مدر اس گئے اور آپ کے کاروبار نے خوب ترقی کی اور اسی شہر کی طرف آپ منسوب ہونے لگے اس طرح مدراسی“ آپ کے نام کا حصہ بن گیا.مدراس جنوبی بھارت کا سب سے بڑا شہر ، اہم بندرگاہ اور صوبہ تامل ناڈو کا دار الحکومت ہے.یہ خلیج بنگال کے کنارے واقع بھارت کا تیسرا بڑا شہر ہے اور صنعتی ترقی میں خاص شہرت رکھتا ہے.بچپن اور انفاق فی سبیل اللہ آپ بچپن سے ہی بڑے نیک فطرت اور خدا ترس تھے اور نیک لوگوں کے ساتھ ہی آپ کی مجلس رہا کرتی تھی.اس میں دراصل آپ کے گھرانے کا بھی عمل دخل تھا کیونکہ نیک لوگ اکثر ان کے گھر آتے جاتے تھے اور انکی خوب خاطر مدارات کی جاتی تھیں اور یہ بات آپ کے والدین کو بہت عزیز تھی.

Page 3

3 2 بچوں کو مختلف تہواروں یعنی عیدین وغیرہ پر والدین اور دوسرے رشتہ دار کچھ رقم تحفہ کے طور پر دیا کرتے ہیں.آپ کا ایک واقعہ ہے کہ آپ نے ایسے ہی موقعوں کے کوئی دس بارہ روپے جمع کئے ہوئے تھے اور ان کو بڑی احتیاط سے رکھا ہوا سے رہی.اگر چہ ایک حد تک دو کا نداری بعد شادی کے ضروری امر ہو گیا مگر میں اس کے واسطے کچھ نہیں کرتا تھا.میری بیوی اس وقت کبھی میرے پاس رہتی تھی کبھی میکے میں گزارتی تھی اکثر عادت ایسی تھی کہ ایک ہفتہ یہاں اور ایک ہفتہ وہاں ان کا تھا.آپ کے گھر ایک خراسانی بزرگ آیا کرتے تھے.ایک روز جب وہ آئے تو گھر گزرتا تھا.مگر میری یہ حالت رہتی تھی کہ جب وہ میکے میں ہوتی تھیں میں بڑا خوش والوں نے حسب معمول ان کو کھانا وغیرہ کھلایا.اس دوران آپ نے ان بزرگ کے حالات سے اندازہ لگایا کہ آج ان کو رقم کی سخت ضرورت ہے.چنانچہ آپ نے اپنی وہ جمع شدہ رقم لا کر ان کی خدمت میں پیش کر دی.جو انہوں نے بڑی محبت سے قبول کر لی.رہتا تھا.چونکہ کمرہ خالی ہوتا تھا اور میں مصلے پر ہی صبح کرتا تھا.اس لئے مجھے اس تنہائی میں ایک خاص لطف معلوم ہوتا تھا.میرے سسرال کو چند روز کیلئے سفر در پیش آیا اور انہوں نے میری بیوی کو ساتھ لے جانا چاہا اور میرے والدین سے اس امر کی درخواست کی اور ان کو یہ بات نا پسند تھی مگر میری یہ خواہش تھی کہ اگر یہ اجازت دے یہ رقم چونکہ خالصتاً آپ کی اپنی تھی اور گھر والوں کو بھی اس کا علم نہ تھا اس دیں تو مجھے ایک عرصہ تک تنہائی میسر رہے گی.غرض ایسا ہی ہوا اور مجھے تنہائی میسر ہوگئی اور میں اس تنہائی میں اپنے شکل میں لگا رہتا تھا اور کچھ کچھ باطنی صفائی بھی مجھے محسوس ہوتی اور اچھے اچھے خواب بھی آتے تھے اور میں وہ دن بڑی خوشی اور ذوق کے ساتھ گزارتا تھا.“ لئے آپ کی یہ خدمت اس چھوٹی سی عمر میں محض اللہ کی رضا اور خوشنودی کے لئے تھی.اس عمر میں آپ کے لائق حال یہ شعر ہے.ابھی عمر سے تھوڑے گزرے تھے سال کہ دل میں پڑا اس کے دیں کا خیال محبت الہی (ضمیمہ آپ بیتی مکتوبات احمد یہ جلد نمبر 5 حصہ اول بار اول صفحہ 42) والد صاحب کی وفات اور آپ کی ذمہ داریاں آپ کی عمر کوئی پندرہ ، سولہ سال کی تھی کہ آپ کے والد صاحب نے حج آپ کو بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ کی طرف میلان اور عشق تھا.آپ کی شادی کا ارادہ کیا.چنانچہ انہوں اپنے دونوں بڑے بیٹوں حضرت سیٹھ عبدالرحمان چودہ سال کی عمر میں ہوگئی تھی مگر آپ کا جھکاؤ اپنے اللہ کی طرف ہی رہتا تھا.آپ صاحب اور ذکریا صاحب کو گھر بنگلور میں چھوڑا اور باقی تمام خاندان کو لے کر اپنی اس کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ” بعد شادی کے بھی مجھے زیادہ انس (بیت الذکر ) اور اچھے لوگوں کی صحبت حج بیت اللہ کے لئے روانہ ہو گئے.اس وقت آپ کے دو چچازاد بھائی بھی جو عمر میں آپ سے بڑے اور زیادہ

Page 4

5 4 تجربہ کار تھے پیچھے چھوڑے گئے.آپ کے چازاد بھائی نے ذکریا صاحب کو جو آب کے چھوٹے بھائی تھے مدراس والی دوکان پر کاروبار کرنے کے لئے روانہ کر دیا.دوسرے چچازاد بھائی کو بھی مدراس اپنی دکان پر روانہ کر دیا اور بنگلور کی بڑی دکان پر حضرت سیٹھ عبد الرحمان کو تجویز کیا اور خود بھی جلد ہی مدراس چلے گئے.حضرت سیٹھ صاحب نہ تو کاروباری امور کو جانتے تھے نہ ہی کوئی تجربہ تھا.اب اکیلے کا روبار کو سنبھالنا پڑا.مگر آپ نے دعا اور محنت کے ساتھ جلد ہی اس تمام کاروبار کو سنبھال لیا اور آپ کا شمار وہاں کے بڑے بڑے تاجروں میں ہونے لگا.اللہ تعالیٰ کے بھی اپنے بندوں کے امتحان کے اپنے انداز ہیں.آپ کے والد صاحب جو کہ حج کو گئے ہوئے تھے.حج کے بعد دوسرے یا تیسرے روز فوت یہاں مجھے گویا قیامت کا سامنا ہو گیا.ہزاروں کا لین دین اور کچھ بھی ندارد.مگر کیا ہوسکتا تھا بجز اس کے کہ قہر درویش بر جاں درویش.کبھی تو گھبرا کر رو پڑتا تھا اور کبھی دفتروں کو پاس رکھ کر ساری ساری رات غور کیا کرتا تھا.“ (مکتوبات احمد یہ جلد 5 حصہ اول صفحہ 43 ) اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ جلد ہی ان تمام امور پر حاوی ہو گئے اور معاملہ کو اچھی طرح سنبھال لیا.عزیز بچو! انسان جب بھی مشکل میں ہو تو اللہ سے دعا اور محنت کرنی چاہئے.اللہ تعالیٰ اس مشکل سے نجات دے دیتا ہے.خاص خوبی حضرت سیٹھ صاحب کی ابتدائے عمر سے اخیر عمر تک یہ خوبی قائم رہی کہ کسی ہو گئے.اس وجہ سے آپ کو شدید رنج پہنچا.آپ اپنے گھر میں سب سے بڑے کو آپ تکلیف نہ پہنچاتے تھے اور کسی کو تکلیف دینا آپ خطرناک امر سمجھا کرتے تھے.تمام ذمہ داری آپ پر آن پڑی.دوسری طرف تمام کام شر کاء کے ساتھ چل رہا تھا.والد صاحب کی وفات کے بعد آپ کے بھائی ذکریا بنگلور واپس آگئے اور حضرت سیٹھ صاحب کو مدراس جاکر کاروبار سنبھالنا پڑا.وہاں پر آپ کے بڑے چازاد بھائی بھی تھے مگر وہ آپ کے وہاں پہنچنے کے دوتین روز بعد مدراس سے واپس آگئے اور آپ کو نہایت مشکل سے دو چار ہونا پڑا کیونکہ وہاں پر آپ بالکل اکیلے تھے.نہ واقفیت، نہ شناسائی، نہ وہاں کے کاروبار کا انداز ہ.آپ اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں.تھے.آپ ہمیشہ دوسروں کا خیال رکھتے تھے.امام زمانہ حضرت مسیح موعود کی تحریر کا اثر آپ کی ان خوبیوں پر ہی اللہ کی نظر تھی کہ آپ کو اس زمانہ کے امام کو قبول کرنے کی توفیق عطا ہوئی.آپ اپنے دور کے لوگوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی خراب حالت پر بہت غمگین رہا کرتے تھے اور ہر طبقہ میں اخلاقی اور روحانی کمزوریاں آپ کو بے چین کر دیا کرتی تھیں اور آپ مصلح کی تلاش میں تھے.گویا آپ کا دل یہ کہتا تھا کہ

Page 5

7 میں قرباں ہوں دل سے تیری راہ کا نشاں مجھے دے مرد آگاہ کا ایک روز آپ بنگلور میں اپنے گھر میں تھے.اس وقت آپ کے بھائی ذکریا بیمار تھے اور ایک منشی بھی آپ کے پاس تھے اور وہاں پر موجودہ زمانہ کی حالت زار کا ذکر ہور ہا تھا.اسی اثناء میں محمد صالح جو کہ حضرت سیٹھ صاحب کے چھوٹے بھائی تھے ، وہ عبدالطیف صاحب شہید نے بھی حضرت اقدس کی کتاب آئینہ کمالات اسلام کا مطالعہ کیا تو آپ پر دل و جان سے قربان ہو گئے.ہمیں بھی حضرت اقدس علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرنا چاہئے.ان سے اللہ تعالی کی برکات نازل ہوتی ہیں.بہر حال بات ہو رہی تھی کہ حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب نے حضرت آئے اور کہا کہ مجھے سیالکوٹ سے غلام فاروق صاحب نے یہ کتاب بھیجی ہے.وہ اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب فتح اسلام کا مطالعہ کیا تو آپ نے یہ فیصلہ کتاب حضرت اقدس مسیح موعود کی تصنیف فتح اسلام تھی.یہ کتاب آپ کے بھائی نے کیا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کی باقی کتابیں بھی منگوا کر ان کا مطالعہ کریں پڑھ کر سنانی شروع کی.اس کا ایسا اثر آپ پر ہوا کہ آپ کے دل نے قبول کر لیا کہ یہ وہی امام ہیں جن کے آنے کی پیشگوئی کی گئی ہے.بے شک وہی ہیں اور ان کا کلام گے.اس واقعہ مذکورہ بالا کے دوسرے روز ہی آپ بنگلور سے مدراس روانہ ہو گئے اور یہاں پہنچ کر آپ نے کتب منگوانے کے لئے خطوط لکھوائے.آپ بڑے شوق سے ان کتب کا مطالعہ کرتے اور اللہ کا شکر ادا کرتے کہ اس نے عین آسمانی پوری پوری شہادت دے رہا ہے.آپ خود فرماتے ہیں کہ حضور کی کتاب فتح اسلام کو میں نے سنا اور اندر کا اندر ہی میں باغ باغ ہو گیا کہ آخر خدا نے ایک کو کھڑا ہی کر دیا...اب وقت پر اپنے مسیح و مہدی کو بھجوا دیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے سچ ہی تو گویا عین وقت پر اور وہ بھی اشد ضرورت کے وقت ہی آواز آئی ہے.سو یا اللہ تو اس آواز کو سچی اور مسلمانوں کے لیے مبارک ثابت فرما، آمین.یہ میری اندرونی حالت تھی (ضمیمہ آپ بیتی مکتوبات احمد یہ جلد نمبر 5 حصہ اول صفحہ 47,46) عزیز بچو! آپ نے دیکھا کہ حضرت اقدس مسیح موعود کے کلام میں اللہ تعالیٰ نے کتنا اثر رکھا ہے ! حضرت سیٹھ صاحب ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت لوگ ایسے تو فرمایا تھا.وقت تھا وقت مسیحا نہ کسی اور کا وقت میں نہ آتا تو کوئی اور ہی آیا ہوتا دعوت الی اللہ آپ نے اپنے دوست احباب میں حضرت اقدس علیہ السلام کی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کو پڑھ کر آپ پر ایمان لانے کی صداقت کا تذکرہ زور وشور سے شروع کر دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک چھوٹی سی توفیق پائی.چنانچہ حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی اور حضرت صاحبزادہ جماعت مدراس میں تیار ہوگئی.

Page 6

9 8 شدید مخالفت اور قادیان دارالامان روانگی عزیز بچو! اللہ تعالیٰ کے مامورین کو ماننا قربانی مانگتا ہے اور آپ کے ساتھ بھی یہی ہوا کہ جب حضرت سیٹھ صاحب اور آپ کے دوستوں کے احمدیت قبول کرنے کی خبر پھیلی تو ان کی شدید مخالفت شروع ہوگئی.اس مخالفت نے آپ کے دل میں حضرت اقدس علیہ السلام کی زیارت کی خواہش کو اور بھی بڑھا دیا.چنانچہ آپ نے مولوی حسن علی صاحب جو کہ اس وقت تک احمدی نہ ہوئے تھے کو ساتھ لے جانے کا ارادہ کیا.چنانچہ آپ نے مولوی صاحب کو اس ضمن میں تحریک کی تو انہوں نے دعاؤں اور استخاروں کے بعد جانے کا فیصلہ کر لیا.چنانچہ یہ دونوں بزرگ جو اس وقت بمبئی میں تھے قادیان کے لئے روانہ ہو گئے.جب آپ امرتسر پہنچے تو مولوی محمد حسین بٹالوی کا کوئی مرید آپ سے ملا.ہوتا گیا یہاں تک کہ دارالامان کا نظارہ نظر آنے لگا اور جامع (بیت الذکر) مجھے ایک بقعہ نور نظر آتی تھی...جب یہاں پہنچے تو میری اپنی یہ حالت تھی کہ ذوق اور محبت سے بھر گیا تھا اور عجیب وغریب لذت اپنے اندر محسوس کر رہا تھا.“ (ضمیمہ آپ بیتی مکتوبات جلد نمبر 5 حصہ اول ص 50) امام زمانہ حضرت مسیح موعود کی پہلی زیارت آپ کی ملاقات پہلے حضرت مولوی نورالدین صاحب سے ہوئی.انہوں نے آپ کی رہائش کا انتظام کر دیا.مولوی حسن علی صاحب تو اس مکان میں چلے گئے مگر آپ ابھی حضرت حکیم نورالدین صاحب کے پاس ہی تھے کہ کسی نے آکر خبر دی کہ حضرت مسیح موعود اس مکان پر تشریف لے گئے ہیں جہاں ان دونوں اس نے آپ دونوں کو قادیان جانے سے روکنے کی پوری کوشش کی مگر اس کی یہ بزرگوں کو ظہرایا گیا تھا.آپ اسی وقت اس مکان کی طرف چلے گئے.یہ آپ کی پہلی کوشش اللہ کے بندوں کو روکنے میں نہ کامیاب ہوئی تھی اور نہ ہوئی.آپ ایک زیارت تھی.آپ اس کا حال اس طرح بیان فرماتے ہیں.رات امرتسر ٹھہرے اور اگلے روز بٹالہ روانہ ہوئے.بٹالہ میں بھی مولوی محمد حسین صاحب کے ایک مرید نے روکنے کی کوشش کی مگر وہ بھی نا کام ہوا.اور آپ بٹالہ سے یکہ لے کر قادیان کی طرف روانہ ہوئے.خدا کے پیارے کی اس بستی کی طرف جانے کی کیفیت کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے لکھا ہے کہ جوں جوں دارالامان کے نزدیک ہوتے گئے ویسے ہی دل پر ایک اثر " میری نظر چہرہ مبارک پر پڑی.میں حلفا گزارش کرتا ہوں کہ حضور کا سراپا اس وقت ایک نور مجسم مجھے نظر آیا اور میں آنکھ بند کر کے حضور کی دست بوسی کر نے لگا اور جوش محبت کے ساتھ میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے." (ضمیمہ آپ بیتی مکتوبات احمد یہ جلد نمبر 5 حصہ اول ص 50)

Page 7

11 10 حضرت مسیح موعود کے ہاتھ پر بیعت کرنا مولوی حسن علی صاحب جو کہ اس سے قبل بھی ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود سے مل چکے تھے انہوں نے حضرت صاحب کے تشریف لے جانے کے بعد بلند آواز میں اللہ اکبر کہا اور کہنے لگے." خدا کی قسم یہ وہ مرزا نہیں جن کو کچھ برس پہلے میں نے دیکھا تھا یہ تو کوئی اور ہی وجود نظر آرہا ہے.“ (ضمیمہ آپ بیتی مکتوبات احمد یہ جلد نمبر 5 حصہ اول ص 50 ) حضرت سیٹھ صاحب نے تو بیعت کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا مگر حضرت مولوی حسن علی صاحب نے دعاؤں اور استخاروں کی طرف توجہ کی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی رہنمائی کی گئی کہ اس امام کے حلقہ بیعت میں شامل ہو جاؤ.چنانچہ یہ دونوں بزرگ بیعت کر کے حضرت مسیح موعود کے سلسلہ میں شامل ہو گئے.یہ جمعرات کی شام کی بات ہے.مخالفت میں مزید شدت بیعت کے قریباً دودن بعد آپ دونوں مدراس کی طرف روانہ ہو گئے.جب آپ وہاں پہنچے تو جیسا کہ اللہ کی طرف سے آنے والے پاک وجودوں کے ماننے والوں اور ایمان لانے والوں کے ساتھ ہر زمانہ میں ہوتا رہا آپ کے ساتھ بھی ہوا.آپ کی شدید مخالفت شروع ہو گئی.آپ کے ان مشکل حالات میں قربانی کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت سید محمد احسن صاحب فرماتے ہیں.ابتدا 1312ھ میں جبکہ آں مرحوم بیعت ہوئے تھے تو علمائے مخالفین نے بڑا شور وغل بر پا کیا تھا.“ الفضل قادیان 26 اگست 1915 ، صفحہ 5) حضرت سیٹھ صاحب کی مخالفت تو بہت ہوئی مگر آپ کو ان مخالفتوں کی کیا پر واہ تھی کیونکہ آپ جانتے تھے کہ مخالفین کو تو اس پاک وجود کی پہچان نہیں.مگر آپ کو تو اس زمانہ کا امام مل گیا تھا.آپ اس کے فیض سے فیض یاب ہو چکے تھے.آپ کو تو دونوں جہانوں کی متاع بے بہا مل چکی تھی اور آپ کو اس وجود پاک کے ہاتھ میں ہاتھ دینے سے روحانی ترقیات ملنی شروع ہو چکی تھیں.بیعت کی برکات اس بیعت کے نتیجہ میں آپ کو اللہ تعالی کے جو خاص فضل ملے آپ ان کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.اس امام الزماں علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کرنے کے بعد اپنے اندر جو تبدیلی ہوئی اس کو مختصر الفاظ میں لکھ دینا کافی ہے.ابتدائی عمر کے زمانہ کے بعد زمانہ اوسط اور اس کے بعد لگا تار زمانہ بیعت جو کچھ اپنی عملی حالت میں نے بتائی ہے اس کا ازالہ ہوتا چلا اور کوئی بیس پچیس برس کی تا گفتنی علتیں اور عادتیں جو اپنے اندر تھیں اور جن کی بابت کبھی کبھی خیال

Page 8

13 12 کر کے میں رود یا کرتا تھا کہ اے رب ان برائیوں سے نجات کس طرح ہوگی.اور مجھے یہ امر ناممکن معلوم ہوتا تھا اور فی الحقیقت اگر میں ہزار کوشش کر کے بھی جان چھوڑتا تو پھر یہ امر ناممکن معلوم ہوتا تھا کہ میری صحت وغیرہ میں کچھ فتور پیدا نہ ہوتا مگر حلفاً لکھتا ہوں کہ بعد بیعت وہ سب باتیں یکے بعد دیگرے ایسی دور ہوگئیں جیسا لاحول سے شیطان بھاگتا ہے اور مجھے تکلیف بھی محسوس نہیں ہوئی اور صحت کا یہ حال ہو گیا کہ گویا ان ارتکابوں کے وقت میں بیمار تھا اور ان کے ترک کے بعد تندرست ہو گیا اور یہ صرف حضرت حجۃ اللہ امام ہمام علیہ الصلوۃ والسلام کے انفاس طیبات کی طفیل نصیب ہوا.اور اب اپنے اندر وہ باتیں دیکھتا ہوں کہ بے اختیار ہو کر رب کریم ورحیم کا شکر کرتا ہوں.“ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ اول بار اول زیر عنوان آپ بیتی ص 51) تیرا یہ سب کرم ہے تو رحمت اتم ہے کیونکر ہو حمد تیری کب طاقت قلم ہے کرنی چاہئے اور حضرت خلیفہ اسیج کو بار بار دعا کے لئے محل لکھنے چاہئیں.اللہ تعالی ہم میں سے ہر ایک کو اس کی توفیق دے.آمین حضرت اقدس علیہ السلام کے لئے فدائیت پیارے بچو! حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب نے جب آپ سے ملاقات کر لی، آپ کو دیکھ لیا اور پہچان لیا تو ان پر دل و جان سے قربان ہو گئے.اس بیعت کے ساتھ آپ کی زندگی کا گویا سنہرا دور شروع ہو گیا.اور ایسا کیوں نہ ہوتا؟ آپ نے اس وجود کو پالیا تھا کہ جس کے بارہ میں ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب وہ آ جائے تو اس کی بیعت کرنا اور اس کو میر اسلام دینا اور اگر تمہارے راستہ میں برف کے تو دے بھی ہوں تو پھر بھی اس کے پاس جانا اور بیعت کرنا.آپ نے اپنے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کے حکم کو مانتے ہوئے اس مسیح و مہدی کو قبول کیا اور دل و جان سے آپ پر فدا ہو گئے.آپ کی تو دیکھا بچو! کہ امام کی بیعت کی یہ برکت ہوتی ہے کہ اللہ کے فضل وکرم سیرت کا یہ پہلو بہت نمایاں اور ہمارے لئے قابل تقلید ہے کہ آپ حضرت صاحب سے انسان اپنی کمزوریاں اور گناہوں کے چھوڑنے پر قادر ہو جاتا ہے، شیطان کے چنگل سے آزاد ہو جاتا ہے، خراب عادات سے چھٹکارا پا جاتا ہے اور پاک انسان کے ایک اشارے پر ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار رہتے تھے اور خود مشکل میں پڑکر بھی مالی قربانی سے قدم پیچھے نہ ہٹتے تھے.شدید ابتلاؤں کے باوجود آپ کی محبت اور عشق میں کوئی فرق نہ آیا اور آخر دم تک اسی اخلاص و وفا اور محبت پر قائم ہمیں بھی غور کرنا چاہئے کہ ہم نے بیعت کی ان برکات کو حاصل کیا کہ رہے.آپ کی انہیں قربانیوں اور محبت اور اخلاص کا ثمرہ تھا کہ حضرت اقدس مسیح نہیں ؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں بیعت کی اغراض کو پورا کرنے کی کوشش اور دعا اور محنت موعود آپ کے لئے ہمیشہ دعا کرتے اور آپ کو ہمیشہ خطوط کے جواب میں خطوط بن جاتا ہے.

Page 9

15 14 لکھتے.کم و بیش چورانوے (94) خطوط حضرت اقدس مسیح موعود نے آپ کو اپنے کے آپ کے نام خطوط سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے اگست 1894 ء سے دست مبارک سے لکھے جو کہ حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی نے مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ اول میں شائع فرما دیئے ہیں.حضرت اقدس کے ساتھ محبت اور اخلاص آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عشق کی حد تک محبت تھی یہی وجہ تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے خطوط میں آپ کیلئے بہت ہی محبت بھرے الفاظ استعمال فرمائے.آپ نے کہیں تو آپ کو اخویم جولائی 1905 ء تک مختلف مواقع پر کم و بیش تین ہزار نو سو پچاس روپے (3950) اپنے آقا کی خدمت میں پیش کئے جو حضرت اقدس نے قبول فرمائے.یہ اس زمانہ کے لحاظ سے ایک بڑی رقم تھی.خوش قسمتی آپ کی یہ خوش قسمتی تھی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے بعض خاص مواقع پر جب کہ مخالفین کے بالمقابل رقم کی ضرورت پڑنے کا امکان تھا تو (میرے بھائی) لکھا کہیں ”ہمارے بہادر پہلوان لکھا.کہیں مخلص ومحبّ یک آپ ہی کو اس کام کے لئے منتخب فرمایا کہ آپ اس رقم کا انتظام کریں.رنگ“ لکھا.کہیں ”مخدومی“ کے الفاظ تحریر فرمائے.کہیں حتمی فی اللہ محض اللہ کے لئے مجھ سے محبت کرنے والا) فرمایا.کہیں آپ کو سراپا محبت و اخلاص کا لقب دیا.چنانچہ آٹھم عیسائی کے ساتھ حضرت اقدس کا جب صداقت دین حق صلى الله اور حقانیت قرآن مجید اور صداقت حضرت محمد مصطفی ﷺ پر مقابلہ ہوا تو آپ نے آپ کی یہ سعادت ہے کہ مسیح و مہدی نے آپ کے اخلاص و محبت کو دیکھتے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر اسے چیلنج دیا اور یہ انعامی رقم آپ نے چار ہزار ہے ہوئے ایسے محبت بھرے کلمات والقابات میں آپ کو یا دکیا.یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی آپ کو اللہ تعالیٰ نے دنیوی طور پر خوشحالی عطا فرمائی ہوئی تھی مگر اللہ تعالیٰ کے اپنے بندوں کی آزمائش کے رنگ بھی نرالے ہوتے ہیں.آپ ایک لمبا عرصہ مالی ابتلاؤں میں رہے اور کوئی صورت ان حالات سے نجات کی بن نہ آتی تھی.مگر ان تمام تر حالات کے باوجود آپ باقاعدگی کے ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں مہمات دینیہ کے لئے رقوم بھجواتے رہے.حضرت اقدس علیہ السلام (4000) روپے تک پیش فرمائی تو اس سلسلہ میں رقم کی اگر ضرورت پڑے تو آپ کو اس کا انتظام کرنے کا ارشاد فرمایا.اسی طرح حضرت اقدس علیہ السلام نے جب بیت المبارک کی توسیع کی ضرورت محسوس فرمائی تو آپ کو اس کیلئے مالی اعانت کی تحریک خاص فرمائی.1899ء میں جب قحط کی صورت پیدا ہوئی تو آپ نے حضرت سیٹھ صاحب کو ہی تحریک فرمائی.طویل دور ابتلاء حضرت سیٹھ صاحب کے نصیب میں یہ بات بھی آئی کہ آپ کے ابتلاؤں

Page 10

17 16 کے ایام طویل ہوئے اور اس وجہ سے حضرت اقدس علیہ السلام کی ڈھیروں ڈھیر دعائیں لینے کا موقع ملا.اور حضرت اقدس کے بہت ہی محبت بھرے خطوط آپ کی دلی تسکین کا موجب بنتے رہے.حضرت اقدس نے ان ایام میں آپ کو قرآن مجید کی صبر کی تعلیم کی طرف بار بار توجہ دلائی اور دعائیں کرنے کا ارشاد فرمایا.ایک موقع پر حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کو یہ دعا سکھلائی کہ رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِى وَانْصُرْنِي وَارْحَمْنِي یعنی اے میرے رب ہر ایک چیز تیری ہی خادم ہے اور تیرے حکم میں ہے مجھے ہر ایک بلا سے محفوظ رکھ.اور میری مدد کر اور مجھ پر رحم فرما.اور اس دعا کے بارہ میں فرمایا.یہ خدا کا اسم اعظم ہے جو شخص صدق دل سے اس کو پڑھے گا وہ نجات پائیگا.دو مکتوبات احمد یہ جلد نمبر 5 حصہ اول ص 38 مکتوب نمبر (90) پیارے بچو! ہمیں بھی اس دعا کو یاد کرنا چاہئے اور ہمیشہ یہ دعا کرتے رہنا چاہئے.یہ دعا حضرت اقدس علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مشکلات اور مصائب سے نجات پانے کے لئے سکھلائی گئی تھی اور حضرت اقدس علیہ السلام نے حضرت سیٹھ صاحب کو بھی یہ دعا سکھلائی.اور اب ہمارے موجودہ امام حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بھی ہم کو یہی دعا پڑھنے کا ارشادفرمایا ہے.ابتلاء کے انہیں ایام کا ایک ایمان افروز واقعہ حضرت عزیز الدین صاحب اس طرح بیان کرتے ہیں.ایک وقت میں قادیان میں تھا کہ سیٹھ عبدالرحمان صاحب مدراس والے وہاں آئے ہوئے تھے جن کا اسباب کالدا ہوا جہاز گم ہو گیا تھا اور وہ ابتلاء میں تھے.حضرت صاحب سے مشورہ لیتے تھے کہ جہاز گم ہو گیا ہے اور روپے کی زیر باری ہوگئی ہے.قرض خواہ قرض کی ادائیگی کا مطالبہ کرتے ہیں تو پھر کیا دیوالیہ نکال دیا جائے یا اور جو تجویز آپ فرماویں عمل میں لائی جائے اور دعا بھی کریں.حضرت اقدس نے فرمایا کہ جو کچھ بھی آپ کے پاس ہے یعنی ظاہری جائیداد اور باریک در بار یک چیزیں قیمتی بھی جو تمہارے پاس ظاہر اور پنہاں ہیں قرض خواہوں کے آگے پیش کر دیں اور ہم انشاء اللہ دعا بھی کریں گے.چنانچہ سیٹھ صاحب نے ایسا ہی کیا یعنی وہ چیزیں جو نہاں در نہاں پردہ میں ان کے پاس تھیں انہوں نے سب قرض خواہوں کو بلا کر پیش کر دیں.جب قرض خواہوں نے ظاہر جائیداد کے علاوہ اور قیمتی چیزیں بھی دیکھیں جوان کے خواب وخیال میں نہیں آسکتی تھیں کہ ان کے پاس ہوں گی تو تمام قرض خواہ سیٹھ صاحب کی ایمانداری پر قربان ہوگئے اور انہوں نے ان کی تمام جائیداد، زیورات اور قیمتی چیزیں سب کی سب واپس کر دیں اور کہا کہ ہمارا دل مطمئن ہو گیا ہے تم اس روپے سے یا اور ضرورت ہو تو ہم سے لے کر اپنا کاروبار جاری رکھو اور جب تمہارے پاس روپیہ ہو جائے تو ہمارا قرض ادا کر دیں.خدا کی قدرت کہ تین سال بعد گم شدہ جہاز کہیں پکڑا گیا اور آخر وہی جہاز مع تمام اسباب کے ان کو

Page 11

19 18 دستیاب ہو گیا یعنی قریباً تین لاکھ کا مال ان کو مل گیا.جس سے سیٹھ صاحب نے تمام قرض بھی اُتار دیا اور ان کا حال بھی آسودہ ہو گیا.اس طرح حضرت مسیح موعود کی تجویز پر عمل کرنے اور دعا سے سیٹھ صاحب کی بگڑی بن گئی.“ ( تین سو تیرہ ( رفقاء ) حضرت مسیح موعود 68ص69) جماعت کے لئے نمونہ حضرت سیٹھ صاحب کی خوش بختی یہ بھی ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کا ذکر نہ صرف مکتوبات میں بلکہ اپنی کتب حقیقۃ الوحی ، سراج چنانچہ ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعود کو الہام فرمایا کہ إِنِّي مُرْسِلٌ إِلَيْكُمْ هَدِيَّةٌ “ یعنی یقیناً میں تمہاری طرف تحفہ بھجوانے والا ہوں.اس الہام کے بعد حضرت مسیح موعود کو حضرت سیٹھ صاحب کی طرف سے بھجوائی گئی رقم ملی اور حضرت صاحب نے اس رقم کا ملنا اس الہام کی صداقت کے طور پر بیان فرمایا.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم حصہ اول ص 3 مکتوب 6 مارچ 1895 ء ) | اسی طرح ایک مرتبہ حضرت سیٹھ صاحب کو کاربنکل کا پھوڑا نکلا جو نہایت منیر، کتاب البریہ ضمیمہ انجام آتھم ، تحفہ گولڑویہ اور اشتہار الانصار 14اکتوبر 1899ء خطر ناک تھا.حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کے لئے دعا کی اور اللہ تعالیٰ نے میں بھی فرمایا ہے.فرمایا.اس اشتہار میں آپ نے احباب جماعت کیلئے آپ کو نمونہ قرار دیتے ہوئے ان کا صدق اور ان کی مسلسل خدمات جو محبت، اعتقاد اور یقین سے بھری ہوئی ہیں تمام جماعت کے ذی مقدرت لوگوں کے لئے ایک نمونہ ہیں.“ اللہ تعالیٰ کے ہاں قبولیت حضرت سیٹھ صاحب کا اپنے اللہ اور اس کے مسیح کے ساتھ جو محبت اور فدائیت کا تعلق تھا اس کی وجہ سے ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پر بعض الہامات آپ کے بارہ میں نازل فرمائے.آپ کو شفاء عطا فرما دی اور حضرت سیٹھ صاحب نے اس اطلاع پر مشتمل خط کہ مجھے ہو گئی ہے حضرت مسیح موعود کو بھجوا دیا مگر اس خط کے پہنچنے سے قبل اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح کو اس کی خبر دے دی اور الہام فرمایا ” آثار زندگی یعنی اللہ تعالیٰ نے حضرت سیٹھ صاحب کو اس خطر ناک مرض سے شفا دے دی.اسی طرح ایک موقع پر آپ کے بارہ میں مشہور شعر الہاما اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا.قادر ہے وہ بارگاہ ٹوٹا کام بناوے بنا بنایا توڑ دے کوئی اس کا بھید نہ پاوے اس سے ظاہر ہے کہ جب بھی کوئی اللہ کا بندہ اپنے خدا سے محبت کرتا ہے اور اس کے حکم کو بجا لاتے ہوئے اپنے زمانہ کے امام کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ بھی

Page 12

21 20 20 اس کے ساتھ محبت کا سلوک کرتا ہے.آسماں پر سے فرشتے بھی مدد کرتے ہیں جائے اگر بندہ فرماں تیرا کوئی ہو خلافت کے ساتھ محبت حضرت سیٹھ صاحب کو خلافت کے ساتھ بھی بہت محبت تھی اور خلیفہ وقت کے ساتھ ہی ملتی ہیں.وفات پائی.حضرت سیٹھ صاحب نے خلافت ثانیہ کے دور میں 1915 ء میں وفات آپ کی کوئی اولاد نہ تھی مگر آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی حضرت سیٹھ صاحب کی طرح اخلاص کے ساتھ وابستگی، محبت اور اطاعت کا تعلق آپ کا طرہ امتیاز تھا.حضرت اقدس مسیح ووفا عطا فرمائے.ہمیں بھی ان کی طرح سلسلہ کی خدمت کی توفیق سے نوازے موعودؓ نے صدرانجمن احمدیہ کے جو ٹرسٹی مقرر فرمائے تھے ان میں آپ بھی تھے.آپ کا انجمن کے تمام ممبران کے ساتھ بہت محبت کا تعلق تھا مگر حضرت خلیفہ صحیح الثانی رحمہ اللہ کی خلافت کے موقع پر جب ان لوگوں نے فتنہ پردازی شروع کی اور جماعت میں تفرقہ پیدا کرنا چاہا اور خلافت کو نقصان پہنچانا چاہا تو آپ نے ان سے قطع تعلق کر لیا اور فوری طور پر بذریعہ تار حضرت خلیفتہ اصسیح الثانی رحمہ اللہ کی کر لی اور آخر عمر تک نہایت محبت اور وفا کے ساتھ اس پر قائم رہے.حضرت خلیفہ اسی الثانی نے 2 اپریل 1915ء کو انجمن ترقی اسلام کی بنیاد رکھی اور سیٹھ صاحب کو اس کا بھی صدر نامزد فر مایا.تاریخ احمدیت جلد نمبر 4 ص 143) پیارے بچو! ہمیں بھی حضرت سیٹھ صاحب کے اس نمونہ کو اپنانا ہے.ہمیشہ خلافت کے ساتھ اپنے آپ کو وابستہ رکھنا ہے کیونکہ تمام برکات خلافت کی اطاعت اللہ تعالیٰ ہم سے بھی راضی ہو جائے.آمین O

Page 13

نام کتاب حضرت سیٹھ عبدالرحمن صاحب مدراسی اول

Page 13