Hazrat Salman Farsi

Hazrat Salman Farsi

حضرت سلمان فارسی ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

حضرت محمد ﷺ کی بعثت کے وقت دنیا بھر میں سچا دینی علم رکھنے والے بزرگ اپنے اپنے انبیاء کی پیش گوئیوں کی روشنی میں عرب کے ریگزار میں مبعوث ہونے والے نبی امیﷺ کا بشدت انتظار کررہے تھے۔ حضرت سلمان فارسیؓ ایسے ہی لوگوں میں سے خوش نصیب انسان تھے جنہوں نے حقیقت میں اس عظیم الشان نبی ﷺ کو پالیا۔ آپ ؓ مذہبی جوش اور بے پناہ جذبہ رکھنے والے ایک بزرگ نوجوان تھے۔ جنہوں نے محض دین کی خاطر اپنے گھر بار، رشتہ داروں اور وطن کو خیر آباد کہا اور نبی وقت کی تلاش میں اتنی قربانیاں دینا خوشی خوشی منظور کیا حتیٰ کہ اپنی آزادی تک سلب کروالی۔ مگر خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ خدا نے نہ صرف آپ کی غلامی کی زنجیروں کو بھی پاش پاش کیا اور دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کی جزا دیتے ہوئے نبیوں کے سردار حضرت محمد ﷺ سےاہل بیت جیسی خاص قربت بھی بخشی اور سورہ جمعہ کی پیش گوئی کے مطابق دوسری بعثت کے مصداق حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام سے بھی ربط نصیب کردیا۔


Book Content

Page 1

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ تصنيف پیش لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت دنیا بھر میں سچا دینی علم رکھنے والے بزرگ انبیاء کی پیشگوئیوں کی روشنی میں آپ ﷺ کا بشدت انتظار کر رہے تھے.ان میں سے انتہائی خوش نصیب وہ وجود تھے جنہوں نے حقیقت میں اس عظیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پا لیا.حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی مذہبی جوش اور جذبہ رکھنے والے ایک بزرگ نو جوان تھے جنہوں نے محض دین کی خاطر اپنے گھر بار، رشتہ دار اور وطن کو خیر باد کہا.اس راہ میں اتنی قربانیاں دیں کہ اپنی آزادی تک سلب کروا لی.مگر اللہ تعالیٰ کو کچھ اور منظور تھا.آپ کی بظاہر یہی غلامی کی زنجیر آپ کو حقیقی آزادی کی جانب کشاں کشاں لے گئی ، اور آپ نے اپنی زندگی کا اصل مقصد حاصل کر لیا.یقیناً آپ کی سوانح حیات ہمیں دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا واضح درس دیتی ہے.

Page 2

2 1 بسم الله الرحمن الرحيم سابق الفارس حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے والد مجھ سے بہت پیار کرتے تھے اتنا زیادہ کہ ایک لمحے کے لئے بھی مجھے اپنی آنکھوں سے اوجھل نہ ہونے دیتے تھے.حضرت سلمان نے اپنی کہانی بیان کرتے ہوئے کہا.مجلس میں مکمل خاموشی تھی اور سب لوگ پورے غور سے حضرت سلمان فارسی کی زندگی کا ماجر اسن رہے تھے.کیونکہ حضرت رسول کریم ﷺ بھی مجلس میں موجود تھے اور آپ نے تمام حاضرین کو غور سے یہ واقعات سننے کا ارشاد فر مایا تھا.میں اصفہان کے نزدیک آباد ایک بستی جی کا رہنے والا ایک ایرانی باشندہ ہوں.میرے والد علاقے کے معروف جاگیردار تھے اور مجھ سے بے انتہا محبت اور پیار کرتے تھے.یہی وجہ تھی کہ مجھے لڑکیوں کی طرح گھر میں ہی رکھا جاتا تھا اور ایک لمحے کے لئے بھی میرے والد مجھے اپنی نظروں سے دور نہیں ہونے دیتے تھے.پھر یک مرتبہ یوں ہوا کہ ہمارے گھر میں تعمیر کا کچھ کام شروع ہوا جس میں میرے والد محترم بہت مصروف تھے اور ان کے لئے گھر سے نکلنا ممکن نہ تھا.دوسری جانب زمینوں کے معاملات دیکھنا بھی ضروری تھا اس لئے میرے والد نے مجھے اپنے پاس بلایا اور کہا کہ آج تم میری جگہ چلے جاؤ لیکن خیال رہے کہ زیادہ دیر مت لگانا کیونکہ تمہاری غیر حاضری مجھے پریشان کر دیتی ہے.چنانچہ میں اپنے والد کی ہدایت کے مطابق گھر سے زمینوں کی طرف روانہ ہو گیا راستے میں میرا گزر ایک گرجے کے پاس سے ہوا جس میں کچھ عیسائی بزرگ مصروف عبادت تھے اور ان کی دعاؤں اور مناجات کی آواز میں یا ہر بھی سنائی دے رہی تھیں.میری طبیعت میں تجسس پیدا ہوا اور میں گر جا گھر کے اندر جا پہنچا اور ان لوگوں کی عبادت دیکھنے لگا جو مجھے بہت اچھی لگی اور میں اس میں محو ہو گیا.دراصل ہمارے خاندان کا آبائی مذہب " آتش پرستی " تھا اور ہم لوگ آگ کی عبادت کیا کرتے تھے.مجھے ابتداء سے ہی مذہب میں بہت دلچسپی تھی اور میں اپنی مذہبی عبادات میں بھر پور حصہ لیا کرتا تھا یہاں تک کہ مجھے " قطن النار " یعنی آگ کے نگران کی حیثیت حاصل ہو چکی تھی یعنی میں اپنے آتش کدے میں ہمیشہ آگ روشن رکھنے کا ذمہ دار تھا اور بہت خوبی سے یہ کام کیا کرتا تھا.لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ مجھے ہمیشہ سے ایک اعلیٰ اور اچھے مذہب اور طریق عبادت کی جستجو تھی کیونکہ آگ کی عبادت دل کو کچھ بھائی نہیں تھی.آج جب گرجے میں بعض لوگوں کو عبادت کرتے دیکھا تو میری رُوح مچل

Page 3

4 3 گئی اور مجھے لگا کہ یہ مذہب یقیناً ہمارے مذہب سے اچھا اور بہتر ہے میں اپنے سب کام بھلا کر وہیں رک گیا اور وہ تمام دن میں نے انہی عیسائی بزرگوں کے ساتھ گزارا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا اور رات کی تاریکی چھانے لگی.میں نے عیسائیت کے بارے میں بہت سے سوالات کئے اور اُن لوگوں سے یہ بھی پوچھا کہ آپ کے مذہب کا مرکز اور منبع کہاں پر ہے؟ انہوں نے مجھے بتایا کہ "شام " ہمارا بنیادی مرکز ہے.نیز انہوں نے مجھے اپنے مذہب کے بارے میں بہت سی باتیں بتا ئیں اور یہ وہ پہلا موقعہ تھا جب میں نے مذہب کی تبدیلی کے بارے میں سوچنا شروع کیا.رات گئے جب میں گھر واپس پہنچا تو سب کو اپنا منتظر پایا.ہر طرف مجھے تلاش کرنے کے لئے آدمی روانہ کئے جاچکے تھے اور گھر میں داخل ہوتے ہی باز پرس کی جانے لگی کہ آخر میں غائب کہاں ہو گیا تھا.میں نے سچ سچ سارا ماجرا سنادیا اور عیسائی بزرگوں کی عبادت کی تعریف بھی کر دی.یہ سن کر میرے والد نے مجھے سمجھانا شروع کیا اور اپنے مذہب کی خوبیوں کے بارے میں دلائل دینے لگے لیکن میرا دل اب اس مذہب سے اُچاٹ ہو چکا تھا اس لئے میں نے بر ملا اس کا اظہار کر دیا.یہ خیالات سن کر میرے والد کی تو گویا دنیا ہی اندھیر ہوگئی باوجود مجھ سے بہت زیادہ محبت کے وہ سختی کرنے لگے اور اس معاملے میں کوئی بھی بات سننے سے انکار کر دیا.لیکن جب انہیں لگا کہ میں مذہب کے بارے میں ان کے خیالات سے اتفاق نہیں رکھتا تو انہوں نے آخری تدبیر کے طور پر مجھے گھر میں قید کر دیا.میرے یاؤں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں اور میری نگرانی کی جانے لگی.گو میں گھر میں قید کر دیا گیا تھا لیکن میرا دل اب بھی بچے مذہب کی تلاش کے لئے بے چین تھا.چنانچہ میں نے کسی ذریعے سے انہی عیسائی بزرگوں کو کہلا بھیجا کہ جب بھی شام کی طرف جانے کے لئے کوئی قافلہ روانہ ہونے والا ہو مجھے ضرور بتایا جائے تا کہ میں سچے مذہب کے مرکز تک پہنچ سکوں.اتفاق سے انہی ایام میں شام کے کچھ تاجر ہمارے شہر میں آئے اور گرجے والوں نے مجھے ان کے بارے میں خبر دی.ہم نے یہ طے کیا کہ جب یہ تاجر اپنے کام سے فارغ ہو جائیں گے اور واپس روانہ ہوں گے تو میں بھی ان کے ساتھ شامل ہو جاؤں گا اور شام کی طرف چلا جاؤں گا.چنانچہ جب مجھے اطلاع ملی کہ وہ تاجر واپس روانہ ہونے والے ہیں تو میں نے اپنے پاؤں سے بیڑیاں نکالیں اور چھپتے چھپاتے شام جانے والے تاجروں سے جاملا اور ہمارا سفر شروع ہو گیا.وہ سفر جس نے بالآخر مجھے میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے قدموں تک پہنچانا تھا گو بھی اس منزل تک پہنچنے کے لئے بہت سے کٹھن مراحل میرے منتظر تھے.کئی دن کے سفر کے بعد ہم شام پہنچ گئے اور میں نے لوگوں سے دریافت کیا کہ یہاں علم اور تقویٰ کے اعتبار سے سب سے بڑا شخص کون ہے؟ لوگوں نے مجھے سب سے بڑے پادری " اسقف اعظم" کی طرف روانہ کر دیا.جس نے میری

Page 4

6 5 رودادسن کر مجھے اپنے پاس رہنے کی اجازت دے دی.میں علم ، روحانیت اور تقویٰ میں ترقی کرنے کے لئے گھر بار چھوڑ کر یہاں پردیس میں آن بسا تھا لیکن اس پادری کے ساتھ کچھ عرصہ رہنے کے بعد مجھے اپنی یہ سب محنت اور قربانی رائیگاں جاتی دکھائی دی کیونکہ بظاہر نیک نظر آنے والا یہ پادری در حقیقت انتہائی دنیا پرست اور لالچی تھا.اس کی دنیا طلبی کی عادتیں دیکھ کر میرا دل شدید متنفر ہو گیا لیکن اب تو واپسی کا بھی کوئی راستہ نہ تھا.چنانچہ میں انتظار کرتا رہا کہ خدا تعالیٰ میرے لئے کوئی بہتر راستہ نکالے.ہے پھر یوں ہوا کہ ایک دن وہ پادری مرگیا اور لوگ اس کی تدفین وغیرہ کے لئے انتظام کرنے لگے.میں چونکہ اس پادری کے ساتھ رہتا تھا اس لئے مجھے معلوم تھا کہ اس نے صدقہ و خیرات کے لئے آنے والے درہم و دینار بہت سے مشکوں میں چھپارکھے ہیں.اب چونکہ وہ مر چکا تھا اس لئے میں نے لوگوں کو اس خزانے کے بارے میں بتادیا تا کہ وہ اسے غریبوں میں تقسیم کر سکیں.شہر کے لوگوں نے جب اسقف اعظم کی یہ حقیقت سنی تو بہت طیش میں آئے اور شدید نفرت کا اظہار کیا.اس شخص کے مرنے کے بعد جو پادری منتخب ہواوہ ایک نیک اور صالح آدمی تھا جسے دنیاداری سے کوئی غرض نہیں تھی.پس میں اس کے ساتھ محبت کرنے لگا اور ہر وقت اس کی خدمت میں مستعد رہنے لگا.لیکن اس نیک پادری کی عمر نے بھی وفا نہ کی اور اس کا آخری وقت آپہنچا.میں نے ان کی خدمت میں عرض کیا کہ اب آپ تو مجھے چھوڑے جاتے ہیں لیکن یہ تو بتائے کہ آپ کے بعد میں بچے دین کی تلاش اور جستجو کے لئے کس کی خدمت میں حاضر ہوں.یہ سن کر انہوں نے کہا کہ اے میرے عزیز بیٹے دین کی جس بچی تعلیم پر میں عمل کر رہا تھا وہ تو اب معدوم ہوتی چلی جارہی ہے.لوگوں نے مذہب میں اپنی مرضی سے تبدیلیاں کرلی ہیں اور حقیقی تعلیمات پر کار بند نہیں رہے اور بتایا کہ میری وفات کے بعد تم ایک بزرگ سے موصل میں ملانا اور روحانیت میں ترقی کرنا.چنانچہ ٹیک بزرگ کی وفات کے بعد میں موصل پہنچا اور اس صالح بزرگ کی خدمت میں حاضر ہو گیا.شاید ابھی میری منزل دور تھی اس لئے اسی طرح ایک بزرگ کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے کا پتہ پوچھتا پوچھتا میں موصل کے بعد نصیبین اور پھر عموریہ کے ایک بزرگ کے پاس رہا.اور بالآخر جب عموریہ کے بزرگ کا آخری وقت آن پہنچا اور میں نے ان سے کسی مرد صالح کا پتہ پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اب اس دین کی بچی تعلیم پر کار بند کوئی شخص میرے علم میں تو نہیں ہے.ہاں سر زمین عرب میں ایک نبی کے ظہور کا وقت قریب آچکا ہے جو اپنی بعثت کے بعد ایک ایسے مقام کی طرف ہجرت کرے گا جہاں کھجوریں بہت کثرت سے ہونگی اس کی تین علامتیں یا درکھنا اور اس سے اسے پہچان لینا پہلی یہ کہ وہ صدقہ نہیں کھائے گا.دوسری یہ کہ تحفہ قبول کرے گا اور تیسری یہ کہ اس کے دونوں کندھوں کے درمیان مہر کی طرح کا ایک نشان ہوگا.

Page 5

8 7 یہ میری زندگی کا ایک اہم موڑ تھا کیونکہ ان بزرگ کے ذریعے سے مجھے ایک عظیم الشان نبی کی آمد کی اطلاع مل گئی تھی اور میں بے چین تھا کہ کسی بھی طرح جلداز جلد سرزمین عرب میں پہنچ جاؤں تا کہ آنے والے نبی سے مل سکوں اور پھر ایک دن میری دلی مراد بر آئی جب مجھے یہ پتہ چلا کہ عرب سے آئے ہوئے " قبیلہ کلب" کے کچھ تاجر عرب کی طرف جا رہے ہیں.میں اُن تاجروں سے ملا اور اُن سے درخواست کی کہ مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں.انہوں نے معاوضے کے طور پر مجھ سے میری بھیڑ بکریاں لے لیں اور مجھے اپنے ساتھ لے کر عرب کی طرف روانہ ہو گئے.جب ہمارا قافلہ وادی القریٰ پہنچا تو میرے ساتھی تاجروں کی نیت میں فتور آ گیا.وہ مجھ سے میری بھیڑ بکریاں تو لے ہی چکے تھے اب مزید ظلم یہ کیا کہ وادی القریٰ میں انہوں نے مجھے ایک یہودی کے ہاتھ غلام بنا کر فروخت کر دیا اور میں جو اپنی منزل کے قریب پہنچ چکا تھا تاجروں کی بد عہدی کی وجہ سے ایک آزاد شخص سے غلام بنالیا گیا.“ حضرت سلمان کی داستان حیات کے اس حصے کو سُن کر حاضرین کے دل بھر آئے اور بڑی محبت سے اس عظیم انسان کو دیکھنے لگے جس نے اپنے عیش و آرام کو محض خدا تعالی کی سچی تڑپ میں چھوڑ دیا تھا.جو ایک آزاد انسان سے غلام بن گیا تھا.کل جو ایک جاگیردار اور علاقے کے معزز گھرانے کا فرزند تھا آج ایک یہودی کا زرخرید تھا.سچا عشق اسی کو تو کہتے ہیں.وقت گویا ٹھہر گیا تھا اور تمام لوگ خود کو ان واقعات کا حصہ سمجھتے ہوئے ہمہ تن گوش تھے اور پھر کچھ توقف کے بعد حضرت سلمان کی آواز نے سکوت کو توڑا.میں اب وادی القریٰ میں اپنے یہودی مالک کی غلامی میں دن گزار رہا تھا اور گو یہ دن بہت کٹھن تھے لیکن میں اس امید پر یہ دن گزار رہا تھا کہ شاید یہ وہی علاقہ ہو جس کے بارے میں میرے بزرگ نے مجھے بتایا تھا.وادی القریٰ میں غلامی کے دن گزارتے ہوئے ابھی کچھ عرصہ ہی گزرا تھا کہ میرے یہودی آقا کا چچازاد بھائی اس سے ملنے کے لئے آیا.اس نے جب مجھے محنت اور دیانتداری سے کام کرتے دیکھا تو بہت خوش ہوا اور خرید لیا.یہ شخص میٹر ب کا رہنے والا تھامذ ہباً یہودی تھا اور بنوقریظہ نامی قبیلے سے تعلق رکھتا تھا.یوں میں اپنے نئے آقا کے ساتھ میٹر ب آ گیا وہی بیٹرب جس نے مدينة البنى یا مدینہ بننا تھا.گوا بھی مجھے اس کے بارے میں حتمی علم تو نہیں تھا لیکن میرے استاد نے مجھے جو نشانیاں بتائی تھیں وہ بہت حد تک میثرب میں پائی جاتی تھیں اسلئے میری امیدیں ایک مرتبہ پھر زندہ ہو گئیں اور میں خدا تعالیٰ کی تقدیر کا انتظار کرتا رہا.یہ وہی دور تھا جب رسول کریم ﷺ مکہ میں دعویٰ نبوت فرما چکے تھے اور آپکی شدید مخالفت کی جارہی تھی.مسلمانوں کو تکالیف دی جارہی تھیں اور بالآخر اللہ

Page 6

10 9 تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہجرت کر نیکی اجازت دے دی تھی.حضور اکرم ﷺ اللہ تعالی کے حکم کے ماتحت حضرت ابو بکر صدیق کے ساتھ مکہ سے نکلے اور اللہ کی حفاظت میں سفر کرتے ہوئے بالآخر مدینہ منورہ سے چند میل دور واقع ایک بستی قباء میں پہنچے اور وہاں پڑاؤ فرمایا.قباء سے تھوڑے ہی فاصلے ر بنو قریظلہ کا وہ نخلستان تھا جہاں میں اپنے یہودی آقا کی زمینوں پر کام کیا کرتا تھا.اس روز بھی حسب دستور اپنے کام میں مصروف کھجور کے ایک درخت پر چڑھا ہوا کھجوریں تو ڑ رہا تھا.میرا مالک درخت کے نیچے بیٹھا کام کی نگرانی کر رہا تھا.اچانک میں نے دیکھا کہ میرے آقا کا ایک رشتہ دار تیز تیز قدم اٹھا تا ہوا ہماری جانب آیا اور انصار کے قبائل کو بُرا بھلا کہتے ہوئے میرے آقا کو بتانے لگا کہ وہ سب لوگ قباء میں ایک شخص کے پاس جمع ہیں جو خود کو خدا کا نبی کہتا ہے اور آج ہی مکہ سے یہاں پہنچا ہے.اس شخص کے منہ سے ان فقرات کا سنا تھا کہ میں تو گویا خوشی سے دیوانہ ہو گیا.مارے اشتیاق کے میرے جسم پر کپکپی طاری ہوگئی اور مجھے یوں لگا کہ میں درخت سے نیچے گر جاؤں گا.میرا عجیب حال تھا مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کروں اور اپنے دل کی حالت کے بتاؤں.جب مجھ سے برداشت نہ ہوا تو میں درخت سے نیچے اترا اور اپنے مالک کے رشتہ دار سے جو یہ خبر لایا تھا پو چھا کہ ابھی آپ کیا بتا رہے تھے ؟ میرے مالک نے جب میرا اشتیاق اور اضطراب دیکھا تو وہ غصے میں آ گیا اور مجھے ایک زور کا تھپڑ مار کر بولا تمہیں ان باتوں سے کیا غرض ہے؟ تم جاؤ اور اپنا کام کرو.مجھے غرض نہیں ہے اس بات سے؟ میں نے اپنے مالک کی بات سنی تو اپنے دل میں سوچا.میں جس نے اسی ایک لمحے کیلئے اپنی پوری زندگی صرف کر دی تھی.وہ نبی جس کی ملاقات کی خاطر میں بستی بستی قریہ قریہ گھوما تھا.میری حالت تو اس مسافر کی سی تھی جو صحرا میں راستہ بھٹک جائے اور جب وہ اپنی زندگی سے مایوس ہو جائے تو اچانک ہی اسے اپنی منزل سامنے دکھائی دینے لگے بلکہ مجھے تو شاید اس سے بھی زیادہ خوشی تھی لیکن ان باتوں کو دنیا دار لوگ کہاں سمجھ سکتے ہیں.اب تو میری زندگی کا ایک ہی مقصد تھا کہ کسی طرح نبی عربی کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ کو دیکھوں اور پتہ چلاؤں کہ آیا آپ وہی نبی ہیں جن کی خبر میرے بزرگوں نے مجھے دی تھی.چنانچہ جو نبی رات ہوئی میں کھانے کی کوئی چیز لے کر قباء میں حضور کی قیامگاہ پر جا پہنچا اور کھانا پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ مجھے پتہ چلا تھا کہ آپ اللہ کے ایک نیک بندے ہیں اور قباء میں مقیم ہیں.آپ کے ساتھ آپ کے کچھ غریب اور حاجت مند ساتھی بھی ہیں لہذا میں صدقہ کے طور پر یہ کھانا لے کر حاضر ہوا ہوں اگر آپ اسے قبول کر لیں تو مجھے بہت خوشی ہوگی.میں یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آپ سے صدقہ کھاتے ہیں یا نہیں.اور پھر یہ دیکھ کر میری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی کہ حضور اکرم ﷺ نے وہ کھانا اپنے اصحاب کو دے دیا اور خود اس میں سے کچھ بھی نہیں کھایا.لیکن صلى الله

Page 7

12 11 ابھی دوسری علامت بھی ذہن میں تھی اسلئے اگلی مرتبہ میں ایک تھال میں کچھ کھجوریں سجا کر پھر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ حضور میں نے دیکھا تھا کہ آپ صدقہ نہیں کھاتے اسلئے آپ کی خاطر یہ تحفہ لے کر حاضر ہوا ہوں.از راہ کرم اسے قبول فرمائیں.یہ سن کر حضور ﷺ نے تحفہ قبول کیا اور خود بھی اس میں سے کھایا اور اپنے صحابہ کو بھی اس میں شامل کیا.میں دل ہی دل میں ان علامتوں کے پورا ہونے پر بہت خوش تھا اور مجھے یوں لگ رہا تھا کہ میری منزل مجھے ملنے ہی والی ہے بس ایک آخری علامت جو مجھے میرے بزرگ نے بتائی تھی اسے دیکھنا باقی تھا اور پھر اگر وہ علامت بھی مل گئی تو گویا مجھے دنیا جہان کی خوشی مل گئی.اور یہ علامت آپ کے کندھوں کے درمیان موجود یک نشان کی تھی.حضرت رسول کریم ع کو مدینہ تشریف لائے ابھی تھوڑا سا ہی عرصہ ہوا علوم تھا کہ حضرت کلثوم بن الہدم النصاری وفات پاگئے.آپ کے جنازے اور تدفین میں خود رسول خدا ﷺ نے بھی شرکت فرمائی تھی.اور اس وقت رسول اللہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ جنت البقیع میں موجود تھے کہ میں بھی وہاں جا پہنچا اور حضور ﷺ کے نزدیک پیچ کر آپ کے جسم پر موجود چادروں میں سے وہ نشان تلاش کرنے کی کوشش کرنے لگا.اور پھر ایک لمحے کے لئے چادر سر کی اور میں نے آپ کی کمر پر موجود وہ نشان دیکھ لیا جس کی مجھے تلاش تھی.میری آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر بے تحاشا رونے اور آپ کو چومنے لگا.حضور نے جب یہ حالت دیکھی تو مجھے اپنے سامنے بٹھایا اور میری اس حالت کے بارے میں دریافت فرمایا.میں نے اپنی درد بھری داستان سنانی شروع کی تو حضور اکرم ﷺ نے دیگر اصحاب کو بھی اس طرف متوجہ فرمایا اور کہا کہ خاموشی سے سیہ واقعات سنیں.چنانچہ میں نے اپنی تمام داستان بیان کر دی.اور رسول اللہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے مسلمان ہو گیا.اب تو میری یہی خواہش تھی کسی طرح اپنے یہودی آقا سے آزادی حاصل کرلوں اور خود کو ظاہری اعتبار سے بھی حضور کی غلامی کے لئے پیش کر دوں لیکن اس خواہش کے پورا ہونے میں بہت وقت لگ گیا کیونکہ میرا یہودی مالک مجھے آزاد کرنے کے لئے تیار ہی نہ تھا اور اسی وجہ سے میں غزوہ بدر اور غزوہ احد میں بھی شامل نہ ہو سکا.بالآخر رسول کریم ﷺ نے مجھے اپنے مالک سے مکاتبت کرنے کا مشورہ دیا جس کا مطلب یہ ہے کہ غلام اپنے آقا کو کچھ رقم دے دے یا اس کیلئے کوئی بڑا کام سرانجام دے تو وہ آزاد ہوسکتا ہے.چنانچہ میں نے اپنے مالک سے مکاتبت کی بات کی تو وہ بہت بحث کے بعد بالآخر اس پر راضی ہوگیا اور یہ شرط لگائی کہ میں اپنے مالک کو تین سو کھجور کے درخت لگا کر دوں اور جب میں کھجور کا یہ باغ لگادوں گا تو میں آزاد ہو جاؤں گا.میں قربان جاؤں اپنے آقا حضرت محمد مصطفی ہے کے آپ نے جب یہ امی

Page 8

14 13 شرط سنی تو تمام صحابہ کو حکم دیا کہ اپنے اس بھائی کی آزادی کیلئے اس کی مدد کرو.چنانچہ سب صحابہ نے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق کھجور کے پودے مہیا کئے.ہم سب نے مل کر گڑھے کھودے اور جب تین سو گڑھے کھود لئے گئے تو ہم نے حضور کو اطلاع کی.آپ خود تشریف لائے صحابہ آپ کو ایک ایک پودا پکڑاتے گئے اور حضور خود اپنے مبارک ہاتھوں سے ان پودوں کو گڑھوں میں رکھتے گئے.اس طرح سارے کے سارے پودے حضور نے اپنے ہاتھوں سے لگائے اور میں حلفیہ بیان کرتا ہوں کہ یہ تمام پودے پھر بڑے ہو گئے اور ان میں سے ایک بھی پودا جلا نہیں.یوں میں اپنے یہودی مالک کی غلامی سے آزاد ہو گیا اور اپنے آقا ومولی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی کامل غلامی میں آگیا اور بالآخر وہ منزل آگئی تھی جس کا خواب میں نے نو جوانی میں دیکھا تھا.آج مجھے اپنا تمام سفر بہت مختصر معلوم ہورہا تھا.راستے کی تمام پریشانیاں اور دکھ جیسے دھواں بن کر اڑ چکے تھے.آج میں کامیاب ہو گیا تھا.میرے خدا نے میرے سچے جذبوں کی قدردانی کرتے ہوئے مجھے اپنے محبوب نبی کے قدموں میں پہنچا دیا تھا.گو کبھی کبھی کسی ایک لمحہ کیلئے اپنے گھر والوں کی کمی کا احساس بھی ہوتا تھا اور یہ خیال آتا تھا کہ میرا کوئی گھر کوئی عزیز یا رشتہ دار نہیں ہے لیکن یہ سوچ بھی اس وقت ہمیشہ کیلئے ختم ہوگئی جب اول حضور نے مجھے مواخات کرتے ہوئے ابوالدرداء انصاری کا دینی بھائی بنادیا اور بعد میں غزوہ خندق کے موقعہ پر حضور ﷺ نے اس کمزور غلام کے بارے میں یہ ارشاد فرمایا کہ "سَلَمَانُ مِنَّا اَهْلَ الْبَيْتِ" یعنی سلمان ہمارا ہے اسلئے اسے ہمارے اہل بیت میں شمار کیا جائے.اپنے ایک کمزور غلام پر ایسی شفقت ایسی محبت.حضور اکرم ﷺ کے اہل بیت میں شمولیت کی سعادت تو یقیناً ایسی تھی کہ اس پر مجھے ہزاروں محبتیں اور رشتہ داریاں اور قربانیاں بہت چھوٹی معلوم ہونے لگیں اور میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے لگا.اب میری زندگی ایک نئی ڈگر پر چل نکلی تھی.میری سب سے بڑی خواہش یتھی کہ زیادہ سے زیادہ وقت رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں گزاروں.چنانچہ میں بعض دیگر دوستوں کے ساتھ مسجد نبوی سے متصل ایک چبوترے پر موجودرہتا جہاں ہر وقت دینی باتیں ہوتی رہتیں اور جب حضور مسجد میں تشریف لاتے تو ہم آپکی خدمت میں حاضر ہو جاتے.عربی زبان میں چبوترے کو صفہ کہتے ہیں اسلئے لوگوں نے ہمارا نام "اصحاب صفہ رکھ دیا تھا.یہ میری زندگی کا بہت قیمتی وقت تھا کیونکہ ایک طرف مجھے اپنے محبوب نبی کا قرب اور محبت حاصل تھی اور دوسری طرف ہر ذمہ داری سے بے نیاز محض دین کی خاطر وقت گزارنے کا موقعہ مل رہا تھا لیکن آنے "" والے وقتوں میں بہت سی ذمہ داریاں اور کام پڑنے والے تھے.اور ان کا آغاز شوال 5 ہجری میں ہونے والے غزوہ احزاب یا غزوہ خندق سے ہوا جس میں محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے کافی کام کرنے کی توفیق

Page 9

16 15 حاصل ہوئی.الله حضور اکرم ﷺ کو یہ اطلاع ملی کہ کفار مکہ بہت سے قبائل کو اپنے ساتھ ملا کر ایک بڑے لشکر کی صورت میں مدینہ پر حملہ آور ہونے والے ہیں.اور قریباً 24000 سپاہیوں پر مشتمل اس فوج کی نیت یہ ہے کہ اس مرتبہ مسلمانوں کا نام و نشان بھی مٹادیا جائے.بہت خوفناک صورتحال تھی اسلئے حضوراکرم علی نے اللہ تعالی کے حکم " شاوِرُهُم فِی الامر" کے پیش نظر اپنے تمام صحابہ کومشورے کیلئے جمع کیا اور مشورہ مانگا.شہر مدینہ کی جغرافیائی صورتحال سے میں مکمل طور پر آگاہ تھا اور یہ جانتا تھا کہ اتنے بڑے لشکر سے براہ راست ٹکراؤ کے بجائے اسے کسی اور طرح سے روکنا مناسب ہوگا.چنانچہ میں نے ایران میں رائج طریق جنگ کو ذہن میں رکھتے ہوئے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ اگر ہم مدینہ کے شمال کی طرف ایک چوڑی خندق کھود دیں تو شہر کی حفاظت کی جاسکتی ہے کیونکہ صرف شمالی جانب ہی ایسی تھی جہاں سے کوئی بڑ الشکر حملہ آور ہوسکتا تھا جبکہ مدینہ کی دیگر اطراف سے جغرافیائی وجوہات کی بناء پر حملہ ممکن نہیں تھا.حضور نے اس تجویز کے تمام پہلوؤں پر غور کر کے اسے قبول فرمالیا اور خندق کھودنے کا حکم دیتے ہوئے یہ کام صحابہ کی مختلف جماعتوں کے سپر د کیا اور اپنی نگرانی میں نشان لگوا کر کام کا آغاز کروادیا.سخت سردی کا موسم تھا لیکن صحابہ اپنے پیارے نبی ﷺ سے علم کی تعمیل میں دن رات ایک کر کے اس کام میں مصروف ہو گئے اور یہ دیکھ کر تو ان کے حوصلے اور بھی بلند ہو جاتے تھے کہ اُن کا پیارا آقا بھی ہر لمحہ ان کے ساتھ ان کاموں میں شامل تھا اور نگرانی کے ساتھ ساتھ خود اپنے ہاتھ سے بھی کام کر رہا تھا.یوں مسلسل چھ دن رات کام کر کے یہ خندق مکمل ہوگئی اور جب کفار کا لشکر جرار مدینہ کو ملیامیٹ کرنے کے خواب دیکھتا تھا یہاں پہنچا تو مارے حیرت اور پریشانی کے ان کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں.اس طویل و عریض خندق کو پار کرنا اُن کے بس کی بات نہیں تھی اسلئے نا چارو ہیں خندق کے پار پڑاؤ ڈال کر بیٹھ گئے اور آئندہ کیلئے منصوبے سوچنے لگے.حضور اکرم علیہ بھی اپنے تین ہزار صحابہ کے ساتھ خندق کی اس جانب خیمہ زن ہوئے اور کفار کی سرگرمیوں کا مشاہدہ کرنے لگے..کفار مکہ نے مدینہ کو محاصرے میں لیتے ہوئے ایسی جگہوں کی تلاش شروع کی جہاں سے مدینہ پر حملہ ممکن ہو.اور ساتھ ہی ساتھ سیاسی چالیں چلتے ہوئے مدینہ سے متصل یہودی قبیلے بنوقریظہ کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا.حالانکہ ان قبائل کا رسول اکرم ﷺ کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ ہو چکا تھا.مدینہ کے باہر ایک لشکر جرار اور مدینہ کے اندر سے بنو قریظہ کی غداری نے ظاہری اعتبار سے جنگ کا پانسہ مکمل طور پر کفار کے حق میں کردیا تھا اور کمزور ایمان کے لوگ اور منافقین بر مایہ کہنے لگے تھے کہ اللہ اور اس کے رسول کے وعدے غلط نکلے.لیکن دوسری جانب کامل مومن اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کئے ہوئے تھے اور جانتے تھے کہ حالات خواہ کیسے ہی

Page 10

18 17 خراب کیوں نہ ہو جائیں یہ نقد سرائل ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ہی غالب آئیں گے اور دشمن نامراد ہوکر رہے گا.اسلئے جوں جوں ظاہری امید میں ختم ہوتی جارہی تھیں خدا تعالیٰ پر ان کا ایمان اور بھی مضبوط اور گہرا ہوتا چلا جارہا تھا.دشمن کی طرف سے رات دن یہی کوشش تھی کہ کسی طرح بھر پور حملہ کیا جائے لیکن سوائے چھوٹے چھوٹے حملوں کے جن میں کچھ جانی نقصان بھی ہوا کوئی بڑا حملہ ممکن نہ ہو سکا اور دن یونہی گزرتے چلے گئے اور اتحادی لشکر کے حو صلے جواب دینے لگے.یہ شکر بھی چونکہ مختلف قبائل کا مجموعہ تھا اور سوائے مسلمانوں کی دشمنی کے اور کوئی وجہ اشتراک یا محبت آپس میں نہ تھی اسلئے جوں جوں دن گزرتے گئے باہم غلط فہمیاں پیدا ہوتی چلی گئیں اور بالآخر لشکر میں واضح طور پر پھوٹ پڑ گئی اور مین اسی رات جب یہ بد اعتمادی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی خدا تعالی کی طرف سے ایک نہایت تیز آندھی چلی جس سے کفار کے کیمپ میں کھلبلی مچ گئی.طوفان کی وجہ سے خیمے پھٹ گئے.قناتیں اکھڑ گئیں.ریت مٹی اور کنکریوں نے گویا بارش کی طرح کفار کے لشکر کو الٹ پلٹ کر دیا.وہ تمام آگیں بھی بجھ گئیں جو لشکر کی عظمت کی علامت کے طور پر روشن کی گئی تھیں.ان لوگوں کے دلوں پر جو پہلے ہی ایک دوسرے سے متنفر ہو چکے تھے سخت ہیبت اور لرزہ طاری ہو گیا اور یہ لشکر جو مدینہ کو تباہ کرنے کی نیت لے کر یہاں آیا تھا صبح ہونے سے پہلے پہلے بدحواسی کا شکار ہوکر میدان چھوڑ گیا.میں جو بستی بستی ہے دین کی تلاش کرتا ہوا بالآخر اسلام کی آغوش میں آگیا صلى الله تھا اب ہر راحت و آرام میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر رہتا اور جس قدر ممکن ہوتا آپ سے فیض حاصل کرتا.یہ ایام جو میں نے اپنے پیارے آقا کی خدمت میں گزارے میری زندگی کا حاصل اور سب سے بڑا سرمایہ تھے.لیکن مجھے بی اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن مجھے اپنی زندگی میں ہی اپنے پیارے نبی کی جدائی کا دن بھی دیکھنا پڑے گا.مکہ فتح ہو گیا.دین کی تکمیل ہوگئی.لوگ جوق در جوق اسلام میں داخل ہونے لگے.اور پھر ایک دن اچانک ہمارے پیارے نبی ہم سے رخصت ہو کر اپنے رفیق اعلیٰ کے حضور حاضر ہو گئے.میری تو گو یاد نیا ہی اندھیر ہو گئی.دیگر صحابہ کی طرح میں بھی شدت غم سے گویا دیوانہ سا ہو گیا اور ایک لمحہ کیلئے تو یوں لگا کہ جیسے سب کچھ ختم ہو گیا ہے لیکن پھر دوسرے ہی لمحے اللہ تعالیٰ نے خلافت راشدہ کے ذریعے سے ہمارے خوف کو امن میں بدل دیا اور اسلام ترقی کرنے لگا.لیکن مدینہ میں اپنے محبوب کی یاد میں اس قدر ستاتی تھیں کہ دل بے تاب ہو جایا کرتا تھا، اور پھر جب حضرت عمر فاروق کے دور میں مجھے یہ موقع ملا کہ میں عراق میں جا کر آباد ہو جاؤں تو میں نے عراق میں سکونت اختیار کر لی تا کہ ایک طرف مختلف مہمات میں دیگر مسلمانوں کے ساتھ شامل ہو سکوں اور دوسرے وہاں موجود نو مسلموں کی تعلیم و تربیت کا کام کرسکوں.عراقی اور ایرانی مہمات میں میری شمولیت اسلامی لشکر کیلئے اس اعتبار سے بھی بہتر تھی کہ میں ان علاقوں کے بارے میں زیادہ معلومات رکھتا تھا اور فارسی زبان جاننے کی وجہ سے اپنے اہل وطن کو اسلام کا درست پیغام بھی پہنچا سکتا تھا.

Page 11

20 19 چنانچہ میری یہ عادت تھی کہ جب بھی کسی علاقے کی طرف پیش قدمی ہوتی تو اہل علاقہ کو پہلے اسلام کی عام تعلیمات سے آگاہ کر دیا تا کہ اگر وہ چاہیں تو دشمنی چھوڑ کر دوستی کا ہاتھ بڑھ سکیں.چنانچہ حضرت عمر نے مجھے ان مہمات میں لشکر اسلامی میں داعی اور رائڈ کے عہدے عطا فرما دیئے.بحیثیت داعی میرا کام کفار کو اسلام کی تعلیمات پہنچانا تھا جبکہ بحیثیت رائد میں فوج کے افراد اور جانوروں کیلئے کھانے پینے کا انتظام کرتا تھا اور عام طور پر ہر اول دستے میں شامل ہوتا تھا.بحیثیت رائد میرا پہلا معرکہ "بویب " تھا جس میں ہم ایرانی لشکر کے خلاف مقابلے کیلئے نکلے تھے.سخت مقابلے کے بعد بالآخر ایرانی فوج کو شکست ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں فتح سے ہمکنار کیا.اسکے بعد 14 ہجری میں مجھے جنگ قادسیہ میں بھی حصہ لینے کی توفیق حاصل ہوئی جس میں مسلمانوں کے تمہیں ہزار سپاہیوں کے مقابلے پر ایرانی ایک لاکھ بیس ہزار کی تعداد میں تھے.حضرت سعد بن ابی وقاص اس جنگ میں مسلمانوں کے سپہ سالار تھے.اللہ تعالیٰ نے باوجود مسلمانوں کی تعداد کم ہونے کے انہیں ایک بڑی طاقت کے مقابلے پر فتح عطا فرمائی اور ایران جیسی سپر پاور کو فیصلہ کن شکست ہوئی اور مسلمان لشکر مختلف علاقوں کو فتح کرتا ہوا بالآخر کسی ایرانی کے دارالحکومت مدائن تک جا پہنچا اور 16 ہجری میں مدائن بھی فتح ہو گیا.ہم اللہ تعالیٰ کے ان فصلوں پر اس کا شکر بجالائے.مدائن کی فتح کے ایک سال بعد تک ہی شہر عراق کا صوبائی دارالحکومت رہا لیکن یہاں کی آب و ہوا عرب مجاہدین کو زیادہ راس نہیں آرہی تھی اور وہ کمزور ہورہے تھے اسلئے حضرت عمرؓ کے حکم پر میں اور حذیفہ بن یمان کسی ایسی جگہ کی تلاش میں نکلے جس کی آب و ہوا مناسب ہو اور جانوروں کیلئے وافر چارہ موجود ہو.چنانچہ ہم دونوں نے کافی تلاش اور جستجو کے بعد ایک مناسب جگہ کا انتخاب کیا اور وہاں پر اسلامی لشکر کی رہائش کیلئے ایک نیا شہر آباد کیا گیا جس کا نام " کوفہ " رکھا گیا.میں اپنی صلاحیتوں اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے مطابق خدمات سرانجام دے رہا تھا اور اپنے کاموں پر مطمئن تھا کہ خلیفہ وقت کی طرف سے مجھ پر ایک بہت بڑی ذمہ داری ڈال دی گئی ، حضرت عمر نے مجھے مدائن کا گورنر مقرر کر دیا.گو یہ بہت بڑا کام تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے مجھے احسن رنگ میں یہ ذمہ داری نبھانے کی توفیق عطا کی.میری یہ کوشش ہوتی تھی کہ ان خدمات کے بدلے میں جو بھی تنخواہ ملے وہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دوں اور خود اپنے ہاتھ سے محنت کر کے روزی کماؤں.چنانچہ باوجود گورنر ہونے کے میں بوریاں بن کر فروخت کرتا تھا اور اس کی کمائی سے اپنا گزارہ کرتا تھا.حضرت عمر کو جب اس بارے میں پتہ چلا تو آپ نے از راہ ہمدردی مجھے حکماً اس کام سے روک دیا.میں ایک سادہ مزاج اور عام سا آدمی تھا اسلئے گورنر بننے کے بعد بھی میں نے اپنا یہی انداز برقرار رکھا اور کبھی یہ خیال بھی ذہن میں نہ آنے دیا کہ میں لوگوں پر حاکم بنادیا گیا ہوں.میں تو کل بھی ایک خادم تھا اور آج گورنر بننے کے بعد بھی ایک

Page 12

22 21 خادم ہی تھا اور مجھے لوگوں کے کام آکر اُن کی مددکر کے مزہ آتا تھا اسی سادگی اور بے تکلفی کی وجہ سے ایک روز ایک عجیب واقعہ بھی پیش آیا.ہوا یوں کہ ایک شخص جو اجنبی تھا اور کسی دوسرے علاقے سے مدائن آیا تھا اُسے اپنا سامان اٹھانے کیلئے کسی مزدور کی ضرورت پیش آئی.میں اس وقت وہاں سے گزر رہا تھا اس اجنبی نے میرے سادہ حلیہ کو دیکھ کر مجھے مزدور گمان کیا اور کہا کہ میرا یہ سامان اٹھا کر فلاں جگہ تک پہنچا دو.میں نے بھی اسے نہ بتایا کہ میں یہاں کا گورنر ہوں اور چپ چاپ اس کا سامان اٹھا کر اسکے ساتھ چل دیا.شہر کے لوگوں نے جب یہ حال دیکھا تو اس شخص کو اصلیت بتائی اور معذرت کرنے کو کہا.وہ اجنبی تو بہت ہی زیادہ پریشان ہوا اور مجھے سے معذرت کرنے لگا کہ میں نے ناحق آپ کو تکلیف دی.لیکن میں نے اسے حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ کوئی بات نہیں اب تو میں تمہارا سامان منزل تک پہنچا کر ہی واپس آؤں گا.چنانچہ اسکے لاکھ اصرار کے باوجود میں نے ایسا ہی کیا.لوگ اس بات پر بہت تعجب کرتے تھے لیکن میری نظر میں یہ کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں تھی.حضرت عمرؓ کے دور خلافت کے آخری سالوں میں مجھے شادی کرنے کا خیال پیدا ہوا اور یہ احساس ہوا کہ تنہائی کو دور کرنے کیلئے ایک ساتھی ہونا ضروری ہے.چنانچہ میں نے بنی کندہ کے ایک گھرانے میں شادی کر لی.میری بیوی کا نام بقیر ہ تھا اور اللہ کے فضل سے وہ ایک نیک اور معاملات کو سمجھنے والی خاتون تھیں.میں جواب تک عائلی ذمہ داریوں سے آزاد تھا اب ان ذمہ داریوں کو بھی اٹھانے کیلئے کوشش کرنے لگا.اس سے پہلے گھر بنانے کا خیال کبھی ذہن میں نہ آیا تھا لیکن اب میں نے ایک مختصر سا گھر بھی تیار کر لیا تا کہ اطمینان کے ساتھ زندگی بسر کی جاسکے.اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسا ہی ہوا.گو میں جنگ بدر میں شامل نہ ہوا تھا لیکن حضرت عمرؓ نے رسول اللہ سے قریبی تعلق ہونے کی وجہ سے میرا وظیفہ بدری صحابہ کے برابر ہی مقر فر ما دیا تھا اور یوں زندگی اللہ کے فضل سے بہت اچھی گزر رہی تھی.اب ماضی کے کٹھن حالات محض ایک خواب بن چکے تھے کہ کیسے میں ایران سے روانہ ہو کر سرزمین عرب تک پہنچا.آزادی سے غلامی اور پھر اپنے آقا کے توسط سے غلامی سے واپس آزادی کا سفر گو کافی طویل تھا لیکن اب زندگی کے اس موڑ پر پہنچ کر یہ سب کچھ محض ایک یاد بن کر رہ گیا تھا.ہر دکھ اور تکلیف دور ہو چکی تھی اور زندگی کامیاب اور مطمئن گزر رہی تھی." حضرت سلمان فارسی کی داستانِ حیات آپ نے سنی.وہ عظیم شخص جس نے محض خدا تعالی پر بھروسہ اور توکل کرتے ہوئے ان راہوں کو پہنا جو بہت کٹھن اور مشکل راہیں تھیں.اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کر وہ سچے دین اور نبی صادق کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے راستے کی کسی مشکل نے ان کے عزم اور حوصلے کو کم نہ کیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس بچے جذبے کو ضائع نہیں ہونے دیا.آپ نہ صرف رسول اللہ سے ملنے میں کامیاب ہوگئے بلکہ حضور ﷺ نے آپ کو کمال شفقت کرتے ہوئے اپنے اہل بیت میں سے قرار دیا.اور صرف یہی نہیں

Page 13

24 23 صلى الله بلکہ سورۃ الجمعہ کی تفسیر کرتے ہوئے حضور اکرم ﷺ نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر یہ عظیم پیشگوئی فرمائی کہ "اگر ایمان ثریا ستارے پر بھی جا پہنچا تو اس ( سلمان فارسی) کی قوم کا ایک فردا سے واپس لے آئے گا." اور جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود کے وجود میں پوری ہوئی جو فارسی الاصل تھے اور آپ کا خاندان ایران سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہوا تھا.غرض حضرت سلمان فارسی گودیر سے مسلمان ہوئے اور ابتدائی طور پر بہت سے مشہور غزوات میں بھی شامل نہ ہو سکے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کے اخلاص اور سچے جذبوں کو بہت پھل لگائے اور نمایاں خدمات کی توفیق عطا فرمائی.حضرت عمرؓ نے آپ کو مدائن کا گورنر مقرر فرمایا اور یہیں پر آپ کی شادی بنو کندہ کے ایک گھرانے کی ایک معزز خاتون بقیرہ سے ہوگئی.33 ہجری میں مواخات کے نتیجے میں آپ کے بھائی بننے والے عظیم صحابی رسول حضرت ابو درداء دمشق (شام) میں وفات پاگئے تو آپ اُن کی اہلیہ سے تعزیت کرنے کے لئے شام تشریف لے گئے.آپ کی وفات 35 ہجری میں مدائن میں ہوئی.حضرت سعد بن ابی وقاص نے نماز جنازہ پڑھائی اور مدائن میں ہی آپ کی تدفین ہوئی.آپ کا مزار اب بھی وہاں موجود ہے اور اس علاقے کو "سلمان پاک" کہتے ہیں.اس جگہ آنے والے زائرین دعا کیلئے آپ کے مزار پر ضرور جاتے ہیں.آپ نے پسماندگان میں اپنی بیوی کے علاوہ تین بیٹیاں پیچھے چھوڑی تھیں.ایک بیٹی اصفہان میں بیاہی گئی جبکہ باقی دو کی شادیاں مصر میں ہوئیں.حضرت سلمان فارسی کا یہ اعزاز بہت بڑا تھا کہ آپ اہل فارس میں سے سب صلى الله سے پہلے مسلمان ہوئے اور آپ کی نیکی علم اور تقویٰ کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ اور آپکے خلفاء حضرت سلمان سے بہت محبت اور شفقت کا سلوک فرمایا کرتے تھے.آپ کا وجود خدا تعالیٰ اور اسکے رسول سے محبت کی زندہ تصویر تھا.یہ اللہ تعالٰی کی سچی محبت عشق اور اس سے ملنے کی تڑپ ہی تھی جس نے آپ کو گھر کے آرام دو ماحول سے نکل کر آبادیوں اور جنگلوں میں پھرنے پر مجبور کر دیا.عشق ہے جس سے ہوں طے یہ سارے جنگل پُر خطر عشق ہے جو سر جھکا دے زیر تیغ آبدار آپ کی جستجو چونکہ بچی تھی اسلئے اللہ تعالی نے اس بچی طلب کو رائیگاں نہ جانے دیا اور آپ کو خود اُس نبی کے قدموں تک پہنچا دیا جوسب نبیوں کا سردار تھا.اور یہاں بھی آپ نے ایسی کامل غلامی اختیار کی کہ غلامی کے درجے سے ترقی کرتے کرتے رسول اللہ کے اہل بیت میں شمار ہونے لگے.سچ ہے کہ یہ محبت تو نصیب والوں کو ہی مل سکتی ہے اور یقیناً حضرت سلمان فارسی ایسے ہی اچھے نصیب والے وجود تھے.

Page 14

نام کتاب حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اشاعت طبع اوّل

Page 14