Language: UR
اس مختصر کتابچہ میں عام اور آسان فہم انداز میں شہید مرحوم کے حالات و واقعات بتائے گئے ہیں جن کا مطالعہ ازدیاد ایمان کا باعث ہے۔ موجودہ ٹائپ شدہ ایڈیشن خلافت احمدیہ کی صدسالہ جوبلی کے موقع پر شائع کیا گیا۔
و صرف احمدی احباب کی تعلیم وتربیت کے لئے حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب اللہ تعالیٰ کی راہ میں جان دینا ایک بہت بڑی سعادت ہے.راہ مولیٰ میں قربان ہونے والے ہمیشہ کی زندگی پا لیتے ہیں اور امر ہو جاتے ہیں لیکن جس ہمت ، حو صلے ، عزم ، یقین ، محبت اور ایمان کے ساتھ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا اور موت کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جس دلیری اور جوانمردی کے ساتھ اُسے شکست دی یہ غیر معمولی شان ہمیشہ آپ کی پہچان کے طور پر قائم رہے گی.آپ ایک عظیم انسان تھے.یگانہ روزگار عالم تھے سچ کی لگن اور تڑپ رکھنے والے متقی وجود تھے اور جب آپ نے سچائی دیکھ لی تو پھر اس سے چمٹ گئے اور سب دنیاوی عزتوں دولتوں اور عہدوں کو ٹھوکر مار کر ان سے الگ ہو گئے اور اس راہ میں پتھر کھانا تو قبول کر لیا لیکن سچ سے منہ نہ موڑا.آپ کی زندگی ہم میں سے ہر ایک کے لئے نمونہ ہے مشعل راہ ہے.
پیش لفظ جب خدا کے مرسل دنیا میں آتے ہیں تو خدا تعالیٰ مستعد دلوں میں ایک ایسی تحریک پیدا کر دیتا ہے کہ نیک روحیں خدا کے مامور کی طرف کھینچی چلی آتی ہیں.ایسی ہی ایک پاک روح حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب کی تھی جسے امام الزمان کی قوت قدسیہ کابل سے کھینچ کر قادیان لے آئی.پھر اس مرد باصفا نے عشق ، فدائیت اور استقامت کا ایسا کامل نمونہ دکھایا کہ با وجود ایسی تکالیف کے جو اگر ایک پہاڑ پر پڑتیں تو وہ ریزہ ریزہ ہو جاتا ، اپنے جذبہ فدائیت میں کوئی فرق نہ آنے دیا.اس پاک روح نے جان کی قربانی دینا تو قبول کر لیا مگر اُس حق اور صداقت کو چھوڑنا پسند نہ کیا جس پر ان کا دل ایک غیر متزلزل یقین پر قائم تھا.”اے عبداللطیف تیرے پر ہزار رحمتیں کہ تو نے میری زندگی میں اپنے صدق کا نمونہ دکھایا.“ ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام)
3 2 حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب پیارے بچو! آج ہم تمہیں ملک افغانستان کے ایک شہزادے کی سچی کہانی سناتے ہیں.آج سے ڈیڑھ سو سال پہلے کی بات ہے افغانستان کےصوبہ خوست کے ایک گاؤں سیدگاہ میں ایک بچہ پیدا ہوا.ماں باپ نے اس کا نام محمد عبد اللطیف رکھا جو بعد میں شہزادہ عبداللطیف مشہور ہوئے.آپ حضرت داتا گنج بخش کی اولاد میں سے تھے اور آپ کے بزرگ ہندوستان سے ہجرت کر کے افغانستان جا کر آباد ہوئے تھے.آپ سید تھے اس لئے آپ کے گاؤں کا نام بھی سید گاہ پڑ گیا.اس علاقہ میں آپ کا خاندان پھیلتا رہا اور آہستہ آہستہ بہت بڑے زمینداروں میں شمار ہونے لگا.اس زمانہ میں اس خاندان کی کل جائداد تھیں ہزارایکٹر کے قریب تھی جس کی قیمت اس وقت بھی کئی لاکھ روپے تھی.افغانستان کی حکومت بھی اس خاندان کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور افغانستان کے بادشاہ امیر عبدالرحمن کی طرف سے اس خاندان کے ایک بزرگ کو پنشن بھی ملتی تھی.اس گھرانے کے لوگ ” صاحبزادہ“ کے لقب سے یاد کئے جاتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو شہزادہ لکھتے تھے اس لئے اس کہانی میں ہم آپ کو شہزادہ ہی کہیں گے.یه خاندان دینی لحاظ سے بھی بہت مشہور تھا.مہمان نوازی ان کی خاص خوبی تھی اور ان کے علم دین کی سارے علاقے میں شہرت تھی.شہزادہ عبداللطیف صاحب اس امیر خاندان میں پیدا ہوئے.گھر میں اللہ کا دیا سب کچھ تھا.کسی چیز کی کمی نہ تھی لیکن شہزادہ صاحب کو بچپن سے ہی دنیا کی بجائے دین کے کاموں سے زیادہ محبت تھی.آپ خود کہا کرتے تھے کہ مجھے بچپن سے ہی درود پڑھنے کا بہت شوق تھا اور اس کے پڑھنے سے مجھے بہت مزا آتا تھا.شہزادہ صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنے علاقہ خوست میں ہی حاصل کی پھر زیادہ تعلیم کے لئے پشاور آئے اور یہاں کئی سال رہ کر بڑے بڑے استادوں اور عالموں سے پڑھتے رہے.اس کے بعد آپ لکھنؤ آئے اور بعض اور شہروں کے مختلف دینی مدرسوں میں علم سیکھتے رہے.لکھنو کے مشہور عالم مولوی عبدالحئی لکھنوی صاحب بھی آپ کے استاد تھے.ان کو شہزادہ صاحب سے بہت پیار تھا.ایک دفعہ مولوی صاحب کے شاگردوں نے ان سے شکایت کی کہ آپ شہزادہ صاحب سے بہت محبت سے پیش آتے ہیں.مولوی صاحب نے جواب دیا یہ اس وجہ سے پیارے لگتے ہیں کہ ان کا نام بھی لطیف ہے اور ذہن بھی لطیف یعنی بہت ذہین ہیں.ہندوستان میں کئی سال رہ کر علم حاصل کرنے کے بعد جب آپ واپس اپنے ملک افغانستان گئے تو آپ کی شادی اپنی ایک رشتہ دارشاہ جہاں بی بی سے کر دی گئی جو بڑی نیک اور نماز روزہ کی پابند تھیں.شادی کے کچھ عرصہ بعد شہزادہ صاحب نے علم کے شوق میں دوبارہ ہندوستان کا سفر کیا اور دہلی اور لکھنو کے بڑے بڑے مدرسوں میں جا کر علم حاصل کیا.اس زمانے میں آپ
5 4 کے گھر والے خاص آدمی خوست سے ہندوستان بھیجتے تھے جو آپ کو ضرورت کے لئے خرچ وغیرہ دے جاتا تھا.ہندوستان سے اعلیٰ دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد جب آپ واپس وطن تشریف لائے تو اپنے گاؤں میں قرآن اور حدیث کا درس شروع کیا.لوگ دور دور سے آپ کے پاس پڑھنے کے لئے آنے لگے اور آپ کی شہرت دور دور تک پھیل گئی.آپ نے اپنی ( بیت) کے ارد گرد کمروں میں طالب علموں کے رہنے کا انتظام بھی کیا ہوا تھا اور ان کو کھانا بھی آپ مفت دیتے تھے.ان پڑھنے والوں کی تعداد میں چالیس کے قریب ہوتی تھی.ان کے علاوہ بہت سے مہمان ، مسافر ، غریب لوگ اور آپ کے مرید آپ کے گھر سے کھانا کھاتے تھے.کہتے ہیں ایک دن کھانا کھانے والوں کی تعداد کم ہو کر اسی رہ گئی تو شہزادہ صاحب بہت سوچنے لگے کہ اس کی کیا وجہ ہے.آپ نے اپنے خاندان کے لوگوں کو اکٹھا کیا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ مہمانوں اور مسافروں کی یہ تعداد بڑھا دے.جب کبھی علاقے میں قحط پڑتا تو آپ اپنی ساری گندم ضرورت مند غریب لوگوں میں تقسیم کروا دیتے.آپ بہت بڑے عالم تھے.آپ کی اپنی لائبریری تھی جس میں تفسیر ، حدیث ، فقہ اور تاریخ کی بڑی بڑی اور پرانی کتابیں موجود تھیں.آپ کو کتابیں پڑھنے کا بھی بہت شوق تھا.بعض دفعہ ساری ساری رات پڑھتے رہتے تھے.آپ کی ان خوبیوں کی وجہ سے کئی لوگ آپ کے مرید ہو گئے جن کی تعداد پچاس ہزار کے قریب بتائی جاتی ہے.آپ کو لوگ صاحبزادہ اور شہزادہ کے لقب سے یاد کرتے تھے.پیارے بچو! اس وقت ملک افغانستان پر بادشاہ عبدالرحمن حکومت کرتا تھا.جب آپ کی شہرت بادشاہ نے سنی تو اس نے آپ کو دارالحکومت کابل میں بلوا بھیجا.آپ آ کر بادشاہ سے ملے تو اس پر آپ کے علم اور بزرگی کا بہت اثر ہوا اور وہ آپ کے اچھے خیالات اور خوبصورت باتیں سن کر بہت خوش ہوا اور اپنے ملک میں مذہبی مشوروں کے لئے آپ کو مشیر اور اپنے بیٹے حبیب اللہ خاں کا استاد مقرر کیا.بادشاہ پر آپ کے علم کا اتنا اثر تھا کہ اس نے ایک مرتبہ آپ کے بارہ میں لکھا کہ کاش! ہمارے تین چار اور ایسے آدمی ہوتے جو صاحبزادہ صاحب جیسا علم رکھتے.بادشاہ کے کہنے پر آپ نے بیوی بچوں کو بھی خوست سے کابل بلوالیا اور یہیں رہنے لگے.۱۸۹۴ ء میں افغانستان اور ہندوستان کی سرحدیں مقرر کرنے کے لئے دونوں ملکوں کی طرف سے کچھ افسر مقرر ہوئے تھے.افغانستان کے اس وفد کا سب سے بڑا افسر بادشاہ کا چچا سردار شیر بندل خان تھا اور اس کے نائب شہزادہ صاحب تھے.بادشاہ خود فوج کے ساتھ ان کو شہر سے باہر کافی دور تک چھوڑنے کے لئے آیا.شہزادہ صاحب نے اس کام میں حکومت افغانستان کے نمائندہ کے طور پر بہت اہم خدمات ادا کیں.اس موقع پر شہزادہ صاحب کی دونوں ملکوں کے افسروں کے ساتھ یادگاری تصویر بھی موجود ہے.جب افغانستان کا بادشاہ عبدالرحمن فوت ہوا اور اس کے بیٹوں میں سے کسی کو بادشاہ بنانے کا سوال پیدا ہوا تو شہزادہ صاحب کے مشورے سے تجویز ہوئی کہ بادشاہ کے بڑے بیٹے امیر حبیب اللہ خاں کو تخت پر بٹھایا جائے جو اپنے دوسرے بھائیوں کی نسبت زیادہ عالم اور انصاف پسند تھا.اس موقع پر ایک بہت شاندار در بار لگا جس میں دور دور سے آکر لوگ شامل ہوئے.حکومت افغانستان کے طریقہ کے مطابق ملک کے سب سے عزت والے اور بڑے آدمی نے بادشاہ کے سر پر پگڑی باندھ کرتا جپوشی کی رسم ادا کرنی تھی.اس کام کے لئے بادشاہ نے
7 6 سارے ملک میں سے شہزادہ صاحب کو چنا اور ۳/اکتوبر ۱۹۰۲ کو شہزادہ صاحب نے بادشاہ کو شاہی تاج پہنایا.شہزادہ صاحب سچ بات کہنے والے اور نڈر انسان تھے.جب امیر حبیب اللہ خاں بادشاہ بن گیا تو تمام لوگوں نے بادشاہ کی بیعت کی.بادشاہ نے شہزادہ صاحب کو بھی بلا بھیجا کہ وہ بھی بیعت کریں تو آپ نے بڑی بہادری سے بادشاہ کو کہا.میں اس شرط پر بیعت کروں گا کہ آپ شریعت ( یعنی اسلام کے حکموں) کے خلاف کوئی کام نہیں کریں گے.....آپ اتنے دلیر انسان تھے کہ بادشاہ کے سامنے بھی سچی بات کہنے سے نہیں رکے.پیارے بچو! اب ہم تمہیں بتائیں گے کہ شہزادہ صاحب احمدی کس طرح ہوئے؟...یہ تو ہم بتا چکے ہیں کہ شہزادہ صاحب بہت بڑے اور مشہور عالم تھے.آپ نے حدیثوں میں یہ بات پڑھی تھی کہ آخری زمانہ میں جب مسلمان گمراہ ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے لئے مہدی علیہ السلام کو بھیجے گا.آپ نے زمانہ کے حالات اور نشانیوں سے اندازہ کر لیا تھا کہ وہ یہی زمانہ ہے.آپ اس بات کا ذکر اپنے درسوں میں اور تقریروں میں بھی کیا کرتے تھے.آپ بڑے بزرگ انسان تھے اور اکثر آپ کو سچی خوا میں بھی آتی تھیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو خواب میں بھی کئی دفعہ بتایا تھا کہ امام مہدی آ گیا ہے.اس پر آپ نے دعا اور کوشش سے مہدی علیہ السلام کی تلاش شروع کی.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کر لی اور جلد ہی آپ کو امام مہدی کا پتہ چل گیا.یہ واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے.۱۸۹۳ء کی بات ہے شہزادہ صاحب ہندوستان اور افغانستان کی سرحدوں کا فیصلہ کرنے والے افسروں میں افغانستان کی طرف سے سرکاری نمائندہ تھے.دونوں ملکوں کے افسر دن کے وقت تو اپنا اپنا کام کرتے اور شام کے وقت ایک جگہ خیموں میں اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کی دعوت کرتے اور بات چیت ہوتی.ہندوستان کے وفد کے ساتھ پشاور کے ایک احمدی کلرک سید چن بادشاہ صاحب بھی تھے.ایک دن باتوں باتوں میں انہوں نے ذکر کیا کہ قادیان میں حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام نے مسیح موعود اور مہدی ہونے کا دعویٰ کیا.شہزادہ صاحب تو پہلے ہی تلاش میں تھے.آپ نے اس بارے میں کئی سوال چن بادشاہ صاحب سے کئے اور ان سے کافی معلومات حاصل کیں.یہ شوق دیکھ کر چن بادشاہ صاحب نے شہزادہ صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب آئینہ کمالات اسلام پڑھنے کیلئے دی.شہزادہ صاحب بہت خوش ہوئے اور کچھ رقم چن بادشاہ صاحب کو انعام بھی دی.شہزادہ صاحب خود بتاتے تھے کہ میں نے رات کو کتاب پڑھنی شروع کی.ساری رات سونہ سکا اور صبح تک کتاب کا کافی حصہ پڑھ لیا.یہ کتاب پڑھ کر میرے دل نے حضرت مسیح موعود کے دعوی کو قبول کر لیا اور مجھے بہت خوشی ہوئی.آپ نے یہ کتاب اپنے خاص آدمیوں کو سنا کر فرمایا یہ وہی شخص ہے جس کا دنیا انتظار کر رہی تھی اب وہ آ گیا ہے.اور میں نے ہرطرف دیکھا، زمانہ کو ایک اصلاح کرنے والے شخص کی ضرورت تھی لیکن کوئی نظر نہیں آتا تھا لیکن اس کتاب کے پڑھنے سے معلوم ہوا ہے کہ خدا نے اسے بھیج دیا ہے.یہ وہی ہے جس کے متعلق رسول اللہ ﷺ نے حکم فرمایا تھا کہ جہاں بھی آئے اس کی طرف دوڑو اور اسے میر اسلام پہنچاؤ.اس لئے میں زندہ رہوں یا مر جاؤں جو میری بات مانتا ہے اس کو میں وصیت کرتا ہوں کہ وہ ضرور اس شخص کے پاس جائے اور اس کو مان لے.شہزادہ صاحب جب واپس کا بل گئے تو اپنے خاص شاگردوں کو قادیان میں حالات دیکھنے کے لئے بھجوانا شروع کیا.دسمبر ۱۹۰۰ ء میں شہزادہ صاحب نے مولوی عبدالرحمن صاحب کو اپنے کچھ اور شاگردوں کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس اپنی بیعت
8 کا خط دے کر بھیجا نیز حضور کے لئے بہت خوبصورت اور قیمتی کپڑے تحفہ بھجوائے.شہزادہ صاحب کے خاص شاگرد مولوی عبدالرحمن صاحب آپ کے کہنے پر کئی دفعہ قادیان گئے تھے اور خود بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں داخل ہو چکے تھے.1900 ء میں آپ آخری بار قادیان گئے.واپسی پر آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کچھ کتابیں بھی ساتھ لے کر آئے.بادشاہ کو کسی نے ان کی شکایت کر دی کہ مولوی عبدالرحمن صاحب بغیر اجازت قادیان گئے تھے.بادشاہ نے ان کو گرفتار کرنے کا حکم دیا اور یہ معاملہ مولویوں کے سپر د کر دیا.انہوں نے مولوی عبدالرحمن صاحب پر کفر کا فتویٰ لگایا اور قتل کرنے کی رائے دی.اس پر آپ کو قید کر لیا گیا اور بعد میں قید کے دوران ہی گلے میں کپڑا ڈال کر سانس بند کر کے راہ مولیٰ میں قربان کر دیا گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ جب امیر عبدالرحمن کے بعد اس کا بیٹا حبیب اللہ خاں بادشاہ بنا تو شہزادہ صاحب نے بادشاہ سے حج پر جانے کی اجازت مانگی.نئے بادشاہ نے جو آپ کا شاگرد بھی تھا خوشی سے اجازت دی اور کئی اونٹ، گھوڑے اور نقد انعام دے کر آپ کو کابل سے روانہ کیا.شہزادہ صاحب اپنے وطن سے ہوتے ہوئے بنوں کے راستے ہندوستان آئے.اس سفر میں آپ کے کچھ شاگر د بھی ساتھ تھے.اٹک کے قریب ایک جگہ پر شہزادہ صاحب کی ایک آدمی سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں بات ہوئی.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مان لیا ہے اور اس بات پر وہ خوش لگتا تھا.شہزادہ صاحب نے اپنی سواری کا گھوڑا اسے انعام دے دیا.جب آپ لاہور پہنچے تو معلوم ہوا کہ طاعون کی بیماری پھیلنے اور بعض اور باتوں کی وجہ سے حج پر جانے میں کچھ روکیں پیدا ہو گئی ہیں اس لئے آپ نے لاہور میں ٹھہرنے کی بجائے قادیان جا کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملنے کا ارادہ کیا.شہزادہ صاحب لاہور سے بٹالہ آئے اور بٹالہ سے پیدل چل کر قادیان پہنچے.سب سے پہلے حضرت مولانا حافظ نورالدین صاحب (اللہ آپ سے راضی ہو ) ( جو جماعت کے پہلے خلیفہ ہوئے) سے ملے.ظہر کی نماز کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملے.آپ خط کے ذریعہ تو پہلے ہی بیعت کر چکے تھے ، حضور کو دیکھتے ہی آپ کے ہاتھ پر بھی بیعت کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان سے پہلی دفعہ ملنے کا حال لکھا.آپ لکھتے ہیں: ” جب مجھ سے ان کی ملاقات ہوئی تو قسم اس خدا کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے میں نے ان کو اپنی پیروی اور اپنے دعوی کی تصدیق میں ایسا فنا شدہ پایا جس سے بڑھ کر انسان کے لئے ممکن نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک دفعہ شہزادہ صاحب سے پوچھا کہ آپ نے کیا دیکھ کر مجھے مانا تو انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے قرآن شریف نے مجھے یہ راستہ دکھایا.میں نے دیکھا کہ زمانہ کے لوگ مذہب سے دور ہو گئے ہیں اور شرک اور کئی قسم کے گناہ کرتے ہیں اور دوسرے مذہب کے لوگ اسلام پر طرح طرح کے اعتراض کر رہے ہیں اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ خدا کی طرف سے کوئی مجدد آئے.میں یہی سوچتا رہتا تھا کہ انہی دنوں میں میں نے سنا کہ ایک شخص نے قادیان کی بستی میں مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور میں نے کوشش کر کے آپ کی کچھ کتابیں لیں اور ان کو غور سے پڑھا تو آپ کی ہر بات کو سچا اور قرآن کے مطابق پایا.اس لئے میں نے آپ کو سچا مان کر قبول کیا ہے.شہزادہ صاحب ۱۹۰۲ ء میں قادیان آئے اور قریباً ساڑھتے تین ماہ قادیان میں
11 10 رہے.آپ روزانہ نماز با جماعت ( بیت ) مبارک قادیان میں ادا کیا کرتے تھے.آپ کو قرآن سے بہت محبت تھی.مہمان خانہ میں اپنے کمرے کے باہر بیٹھے رہتے اور قرآن شریف کی تلاوت کرتے رہتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام روزانہ صبح سیر کے لئے جایا کرتے تھے.شہزادہ صاحب بھی ساتھ ہوتے تھے.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت تھی اور آپ کا بڑا ادب کرتے تھے.حضور کے ساتھ جب سیر سے واپس آتے تو اس وقت تک اپنے کپڑوں سے مٹی اور گرد صاف نہیں کرتے تھے جب تک یہ اندازہ نہ کر لیتے کہ حضور نے اندر جا کر اپنے کپڑے جھاڑ لئے ہوں گے.شہزادہ صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ جہلم کا ایک سفر بھی کیا.حضور کو ایک مقدمہ میں گواہی کے لئے جنوری ۱۹۰۳ء میں جہلم جانا پڑا تھا.جہلم کے اسٹیشن پر دس ہزار لوگوں نے حضور کا شاندار استقبال کیا.حضور تین دن جہلم میں رہے اور تقریباً ڈیڑھ ہزار لوگ بیعت کر کے ان دنوں میں احمدی ہوئے.۱۷ جنوری کو جہلم میں حضور کچہری میں تشریف لے گئے جہاں اس روز بہت لوگ جمع ہو گئے تھے.حضور ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور شہزادہ صاحب حضور کے قدموں میں بیٹھے ہوئے تھے.شہزادہ صاحب نے ایک بہت اچھا سوال کیا کہ حضور! میں نے ہمیشہ آپ کی سچائی سورج کی طرح روشن دیکھی ہے مجھے اس میں کوئی شک نہیں کیا مجھے ثواب ہوگا.حضور نے بھی کتنا پیارا جواب دیا.فرمایا: "آپ نے اس وقت دیکھا جب کوئی نہ دیکھ سکتا تھا اور آپ نے اپنے آپ کو خطرات میں ڈال دیا اور ہر دکھ اور مصیبت کو اس راہ میں اٹھانے کے لئے تیار ہو گئے اس لئے 66 اللہ تعالیٰ آپ کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا.“ اسی سفر کا ہی واقعہ ہے کہ ایک رات شہزادہ صاحب اپنے ساتھیوں کے پاس آئے اور کہا ہمیں بار بار الہام ہوتا ہے سر دے دو.سر دے دو.اس سفر سے واپسی پر شہزادہ صاحب چند دن قادیان میں رہے اور پھر واپس وطن روانہ ہوئے.حضور علیہ السلام نے آپ کے بارہ میں کہا ہے کہ اگر چہ ان کو بہت زیادہ میرے پاس رہنے کا موقع نہیں ملالیکن جتنا عرصہ بھی وہ یہاں رہے انہوں نے مجھ سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا.شہزادہ صاحب کو حضرت حافظ مولوی نورالدین صاحب (خلیفتہ اسیح الاول ) ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) سے بڑی محبت تھی اور ان کا بھی بہت ادب کرتے تھے.جب آپ واپس وطن جانے لگے تو حضرت مولوی صاحب سے عرض کیا کہ مجھے بخاری کی کوئی حدیث پڑھا دیں اور بہت کہہ کر بخاری کے دو تین صفحے آپ سے پڑھے اور اپنے شاگردوں سے بعد میں کہا کہ میں نے یہ صفحے اس لئے پڑھے ہیں تا کہ حضرت مولوی صاحب کے شاگردوں میں شامل ہو جاؤں کیونکہ حضرت صاحب کے بعد یہ پہلے خلیفہ ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے واپسی کی اجازت لے کر جب شہزادہ صاحب جانے لگے تو خود حضور اور کچھ اور لوگ بٹالہ کی نہر تک پیدل آپ کو چھوڑنے گئے جو قادیان سے ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ہے.جب شہزادہ صاحب کی رخصت کا وقت آیا تو آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں گر پڑے اور دونوں ہاتھوں سے حضور کے پاؤں پکڑ لئے اور عرض کیا کہ میرے لئے دعا کریں.حضرت صاحب نے فرمایا اچھا آپکے لئے دعا کرتا ہوں میرے پاؤں چھوڑ دیں.شہزادہ صاحب جانے کے غم اور محبت کی وجہ سے پاؤں نہیں چھوڑتے تھے.
13 12 تب حضرت صاحب نے فرمایا کہ حکم کا درجہ ادب سے زیادہ ہے.میں حکم دیتا ہوں کہ پاؤں چھوڑ دیں.اس پر شہزادہ صاحب نے حضور کے پاؤں چھوڑے.معلوم ہوتا ہے شہزادہ صاحب کو خدا کی طرف سے پتہ چل گیا تھا کہ حضور کے ساتھ یہ ان کی آخری ملاقات ہے اور شاید پھر حضور سے نہ مل سکیں.اس سفر میں بھی شہزادہ صاحب کے ساتھ ان کے چند شاگرد تھے.شہزادہ صاحب لاہور آئے اور تین چار دن ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں رہے.کچھ کتابیں بھی لاہور سے خریدیں اور پھر ریل گاڑی سے کوہاٹ گئے.لاہور سے کو ہاٹ تمام راستہ قرآن شریف پڑھتے رہے.کوہاٹ سے ایک نئم ( دوگھوڑوں وال تانگہ ) کرامیہ پر لے کر آپ بنوں گئے ٹمٹم میں بھی قرآن شریف ہی پڑھتے رہے.جب عصر کی نماز کا وقت ہوا تو ٹمٹم رکوا کر نماز پڑھائی.اس دوران بارش شروع ہوگئی مگر آپ نے مزے سے اپنی نماز پوری کی.اس سفر میں راستے میں ”خرم“ ایک گاؤں تھا یہاں آپ نے رات سرائے میں گزاری.سرائے کے آدمی سے بکری منگوا کر ذبح کرائی خود بھی کھانا کھایا اور سرائے کے آدمیوں کو بھی کھلایا.آخر یہ قافلہ بنوں پہنچا جہاں آپ کی زمین تھی.کچھ دن یہاں ٹھہر نے کے بعد آپ خوست روانہ ہوئے.اس راستے میں ایک گاؤں دوڑ آیا یہاں کا نمبر دار شہزادہ صاحب کے آنے پر بہت خوش ہوا اور بکری ذبح کر کے آپ کی دعوت کی.یہاں شہزادہ صاحب نے تقریر کی اور نصیحتیں فرمائیں.رات آپ کے گاؤں کے لوگوں کو آپ کے آنے کی خبر ہوئی تو صبح ہوتے ہی گاؤں کے لوگ گھوڑوں پر سوار ہو کر آپ کو لینے آئے اور اس طرح گھوڑ سواروں کے اس قافلے کے ساتھ آپ واپس اپنے گاؤں سید گاہ پہنچ گئے.ریاست کا بل میں شہزادہ صاحب کی آمد کابل جانے سے پہلے آپ نے اپنے شاگر دمحمد حسین کو جواس وقت افغانستان کی فوجوں کا سب سے بڑا افسر تھا خط لکھا کہ آپ بادشاہ سے میرے کابل آنے کی اجازت لیکر مجھے لکھیں تا کہ میں بادشاہ کے پاس حاضر ہو جاؤں.اجازت کے بغیر اس لئے نہ گئے کہ سفر پر جاتے ہوئے بادشاہ سے حج پر جانے کی اجازت لی تھی مگر حج میں روک پڑ جانے کی وجہ سے نہیں جا سکے تھے اور قادیان چلے گئے تھے.اس خط میں آپ نے لکھا کہ میں حج کے لئے گیا تھا سفر میں اس مسیح موعود کو دیکھنے کا موقع مل گیا جس کی فرمانبرداری خدا اور اس کے رسول ﷺ کا حکم ہے اس لئے قادیان ٹھہر نا پڑا.آپ نے یہ بھی لکھا کہ مناسب وقت پر یہ باتیں بادشاہ کو بتادی جائیں.جب یہ خط محمد حسین کو ملا تو اس نے وہ خط بادشاہ کونہ دکھایا اور مناسب وقت کی تلاش میں رہا لیکن اس سے پہلے بادشاہ کے بھائی سردار نصر اللہ خاں کو کسی طرح اس خط کا پتہ چل گیا.سردار نصر اللہ خاں بادشاہ کا نائب بھی تھا اور شہزادہ صاحب کا بڑا مخالف تھا اس لئے اس نے وہ خط لے کر بادشاہ کو شکایت کر دی.بڑے بڑے سرکاری عہدیدار اور افسر آپ کے دوست تھے شہزادہ صاحب نے ان کو بھی خط لکھے.آپ نے لکھا کہ ایک شخص نے قادیان میں مسیح موعود اور امام مہدی ہونے کا دعوی کیا ہے.میں نے اس کے پاس رہ کر اسے دیکھا ہے اور سچا پا کر اسے مان لیا ہے.میرا مشورہ ہے کہ تم بھی اسے مان لو اور خدا کے عذاب سے بچ جاؤ.یہ سارے خط بھی بادشاہ کے پاس پہنچا دیئے گئے.بادشاہ نے بڑے بڑے مولویوں کو بلایا اور ان کی رائے پوچھی تو انہوں نے کہا کہ کافر اور مرتد ہے.تب بادشاہ کی طرف سے
15 14 خوست کے گورنر کو یہ حکم بھجوایا گیا کہ شہزادہ صاحب کو گرفتار کر کے پچاس سواروں کے ساتھ یہاں بھیج دو.یہ حکم بادشاہ کے بھائی نصر اللہ خاں نے خوست کے گورنر کو بھجوایا تھا.شہزادہ صاحب کو اپنی گرفتاری اور خدا کی راہ میں قربان کئے جانے کی اطلاع اللہ تعالیٰ کی طر گرفتاری سے پہلے کا واقعہ ہے ایک دن آپ شاگردوں کے ساتھ سیر پر جارہے تھے راستے میں اپنے ہاتھوں کو دیکھ کر فرمانے لگے ” کیا تم ہتھکڑیاں پہننے کی طاقت رکھتے ہو؟“ پھر اپنے شاگر داحمد نور صاحب کا بلی سے کہا میں مارا جاؤں گا تم میرے مرنے کی اطلاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو دے دینا.اس پر آپ کے شاگرد کے آنسو نکل آئے اور کہا میں بھی تو آپ کے ساتھ ہوں تو آپ نے فرمایا کہ تمہیں یاد ہے افغانستان واپسی پر جب تم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کہا تھا کہ میں قادیان سے باہر نہیں جاسکتا تو حضور نے فرمایا کہ ان کے ساتھ جاؤ تم واپس آجاؤ گے.پس تمہارے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کہنا ہے کہ واپس آجاؤ گے.میرے بارہ میں تو یہ نہیں فرمایا.بادشاہ کا حکم آنے سے پہلے جب آپ نے اپنی گرفتاری کی خبر اپنے ساتھیوں کو بتائی تو سب نے کہا کہ آپ بنوں چلے جائیں جہاں آپ کی زمین بھی تھی مگر آپ نہ گئے.شہزادہ صاحب کی گرفتاری اب شہزادہ صاحب کی گرفتاری کا وقت قریب آرہا تھا.جس دن آپ گرفتار ہوئے اس روز آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ اسلام کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں اس وقت تک کے تمام واقعات اور حالات لکھے.آپ نے عزت و تکریم کے جو الفاظ حضور کو لکھے وہ اتنے پیارے تھے کہ آپ کے شاگر داحمد نور صاحب کا بلی نے کہا آپ یہ خط مجھے دے دیں نقل کر کے واپس دے دوں گا.آپ نے وہ خط جیب میں ڈال لیا اور فرمایا یہ خط تمہارے ہاتھ آجائے گا.جب عصر کا وقت ہوا تو پچاس سوار آپ کو پکڑنے کے لئے حاکم خوست کی طرف سے آئے.علاقہ خوست کے حاکم شہزادہ صاحب کی بہت عزت کرتے تھے ان سواروں کو بھی یہی حکم تھا.جب شہزادہ صاحب عصر کی نماز پڑھا چکے تو ان سواروں نے آپ کو یہ پیغام دیا کہ حاکم خوست کہتے ہیں کہ مجھے آپ سے ملنا ہے آپ خود آئیں گے یا میں حاضر ہو جاؤں.آپ نے فرمایا نہیں وہ ہمارے سردار ہیں میں خود چلتا ہوں.تب آپ نے اپنے گھوڑے پر زین ڈالنے کا حکم دیا لیکن سواروں میں سے ایک سوار نے اتر کر اپنا گھوڑاشہزادہ صاحب کو سواری کے لئے پیش کر دیا.چلنے سے پہلے آپ نے گھر والوں کو نصیحت کی کہ میں اب جا رہا ہوں دیکھو ایسا نہ ہو کہ میرے بعد تم کوئی اور راستہ اختیار کرو.جس ایمان اور عقیدہ پر میں ہوں وہی تمہارا مذہب ہونا چاہئے.جب آپ جانے لگے تو جو خط حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھا تھا جیب سے نکال کر اپنے شاگر د احمد نور صاحب کا بلی کو دیا اور کچھ نہ کہا.گاؤں سے باہر تک آپ کا شاگرد آپ کے ساتھ رہا پھر آپ نے فرمایا اب تم واپس چلے جاؤ.اس نے خدمت کے لئے ساتھ رہنے کی اجازت مانگی تو آپ نے قرآن کریم کی وہ آیت پڑھی جس کا مطلب ہے اپنے آپ کو مصیبت میں نہ ڈالو.اور فرمایا اس گاؤں سے اپنے گھر واپس چلے جاؤ اور خود شہزادہ صاحب سواروں کے ساتھ خوست کی چھاؤنی میں چلے گئے.گورنر نے آپ کو بتایا کہ کابل سے حکم آیا ہے کہ نہ کوئی آپ سے ملے اور نہ آپ کسی سے ملیں اس لئے علیحدہ کوٹھی آپ کو دی جاتی ہے.اور اس کوٹھی پر پہرہ لگادیا گیا لیکن گورنر نے
17 16 یہ رعایت آپ کو دی کہ عزیز رشتہ دار اس کو ٹھی میں آکر آپ سے مل جاتے تھے.کوٹھی میں ایک دن آپ کے مرید آپ سے ملنے کے لئے آئے اور کہا کہ ہم آپ کو یہاں سے نکال کر لے جاتے ہیں یہ لوگ ہمارا مقابلہ نہیں کر سکتے.آپ نے فرمایا تم کوئی منصوبہ نہ بنانا اللہ تعالیٰ مجھ سے اپنے دین کی خدمت لینا چاہتا ہے.کچھ دنوں کے بعد جب خوست کے حاکم کو معلوم ہو گیا کہ آپ مریدوں کو امن کی تعلیم دیتے ہیں اور اسے کوئی خطرہ نہ رہا تو شہر دہ صاحب کو آٹھ گھوڑ سواروں کے ساتھ کا بل بھجوایا.ادھر شہزادہ صاحب کو بھی بادشاہ کی طرف سے ایک خط مل چکا تھا جس میں اس نے لکھا تھا کہ آپ بغیر کسی ڈر یا خوف کے آجا ئیں اگر اس مسیح کا دعوی سچا ہوگا تو میں بھی مان لوں گا.آپ کے کابل پہنچنے سے پہلے مشہور ہو چکا تھا کہ آپ کو دھوکا دے کر بلایا گیا ہے.جب آپ کابل کے بازار سے گزرے تو پیچھے پیچھے آٹھ سرکاری سوار تھے کئی بازاری لوگ بھی پیچھے ہو لئے اور شہزادہ صاحب کو دربار میں پیش کیا گیا.شہزادہ صاحب قید میں بادشاہ کو آپ کے خلاف بہت بھڑکایا گیا تھا وہ بختی سے پیش آیا اور کہا کہ ان کو ارک کے قلعہ میں قید کر دو.یہ ایک بہت بڑا قلعہ تھا جس کے ایک حصہ میں خود بادشاہ رہتا تھا.یہ حکم بھی دیا گیا کہ آپ کو ایک زنجیر جسے غرغراب کہتے ہیں پہنا دی جائے.یہ زنجیر ایک من چوبیس سیر وزنی ہوتی تھی جو گردن سے کمر تک گھیر لیتی تھی اور اس میں ہتھکڑی بھی تھی اور آپ کے پاؤں میں آٹھ سیروزنی بیڑی لگا دی گئی.اس طرح آپ نے چار مہینے قید با مشقت میں گزارے اور بہت تکلیف اٹھائی مگر اس سخت قید کی حالت میں بھی آپ خدا کو یاد کرنے اور قرآن مجید پڑھنے میں اپنا وقت گزارتے تھے.آپ کو اس قلعہ کے ایک کمرے میں بند کر کے باہر سے دروازے بند کر دئیے جاتے تھے اور کسی کو آپ سے ملنے کی اجازت نہیں ہوتی تھی اور دن رات سپاہی اس کمرہ کا پہرہ دیتے تھے.یہ پہریدار بیان کرتے ہیں کہ ہمیں دن رات آپ کے کمرہ سے قرآن شریف پڑھنے کی آواز آتی تھی اور ہم حیران ہوتے تھے کہ اتنی روکوں کے باوجود آپ اپنی ضروریات کس طرح پوری کرتے ہوں گے.تمام سپاہی آپ کو بڑا بزرگ مانتے تھے اور ان کے دلوں میں آپ کی بہت محبت تھی.قید کے دوران ایک بار آپ نے کسی ذریعہ سے اپنے گھر خبر بھیجی کہ مجھے خرچ بھیج دو.آپ کے شاگر د احمد نور صاحب کابلی سخت سردی کے موسم میں خطر ناک سفر طے کر کے خوست سے پیدل کا بل آئے اور شہزادہ صاحب کو خرچ پہنچایا.شہزادہ صاحب کاصبر قید کے دوران بادشاہ افغانستان نے شہزادہ صاحب کو اپنے پاس بلایا اور کہا کہ کیا ہی اچھا ہوا گر آپ اس شخص کو مسیح موعود ماننے سے انکار کر دیں اور اس مصیبت سے بچ جائیں مگر شہزادہ صاحب نے جواب دیا کہ جن باتوں کو میں قرآن اور حدیث سے سچا مان چکا ہوں ان کو کس طرح غلط اور جھوٹ کہہ دوں.اس سے تو مرنا اچھا ہے مگر ا نکار نہیں کر سکتا.بے شک اس سے پہلے بادشاہ آپ کی بہت عزت کرتا تھا اور آپ کو بے گناہ سمجھتا تھا لیکن دوسری طرف وہ مولویوں سے بھی ڈرتا تھا اس لئے وہ قید کے تین چار مہینوں میں شہزادہ صاحب کو بار بار کہتا رہا کہ مسیح موعود کا انکار کر دیں تو عزت کے ساتھ رہا کر دئیے جائیں گے مگر
19 18 ہر دفعہ اس بہادر شہزادے نے یہی جواب دیا کہ میں نے پوری تحقیق اور تسلی سے ایک شخص کو سچا مان لیا ہے اب خواہ جان چلی جائے ، اولا د برباد ہو جائے مجھے پرواہ نہیں.میں دین اور ایمان کو جان پر مقدم رکھتا ہوں.کابل کے لوگ شہزادہ صاحب کا ایمان دیکھ کر اور دین کے لئے ایسی بہادری کی باتیں سن کر حیران ہوتے تھے اور یہ بات تھی بھی عجیب کہ کابل کا ایک شہزادہ جس کے پچاس ہزار لوگ مرید تھے اور وہ تہیں ہزا را یکڑ جاگیر کا مالک تھا اور جس نے پچاس سال بڑے آرام سے شاہانہ زندگی گزاری تھی اتنی سخت اور مشکل قید میں بھی بڑے صبر کے ساتھ بچے عقیدہ پر قائم رہا اور بڑی بہادری سے یہ اعلان کرتا رہا کہ میں جان ، مال اور اولاد چھوڑنے کے لئے تیار ہوں مگر سچائی کو نہیں چھوڑ سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ بادشاہ کے وعدوں کے مقابل آپ کے جواب ایسے تھے کہ کابل کی زمین کبھی ان کو بھول نہیں سکتی اور کابل کے لوگوں نے اپنی ساری عمر میں ایمانداری کا یہ نمونہ نہیں دیکھا ہوگا.کابل کے مولویوں سے بحث جب چار مہینے قید کے گزر گئے تو بادشاہ نے آپ کو آخری موقع دیا اور دربار عام میں آپ کو بھی بلایا اور سمجھاتے ہوئے کہا کہ اب بھی مسیح موعود کا انکار کر دو تو تمہاری جان بچ جائے گی مگر آپ نے سب کے سامنے یہ اعلان دو ہرایا کہ یہ ناممکن ہے کہ میں سچائی سے تو بہ کروں.بے شک مخالف مولویوں کے ساتھ میری بحث کرالی جائے اگر میں جھوٹا ثابت ہو جاؤں تو مجھے سزادی جائے.بادشاہ نے یہ بات مان لی اور شہزادہ صاحب اور مولویوں کے درمیان کابل کی جامع مسجد میں بحث ہوئی.اس دن بہت سے لوگ مباحثہ سننے کے لئے وہاں جمع ہو گئے.شہزادہ صاحب کو ز نجیریں اور ہتھکڑیاں لگا کر پولیس کی نگرانی میں مسجد لے جایا گیا.ادھر مسجد.....میں کابل کے بڑے آٹھ مفتی اور مولوی بحث کے لئے تیار تھے جن کے ساتھ اسی آدمی حوالے وغیرہ تلاش کرنے کے لئے تھے شہزادہ صاحب اکیلے تھے مگر خدا تو آپ کے ساتھ تھا..مباحثہ دیکھنے والے کہتے ہیں کہ بحث لکھ کر ہوتی تھی اور کوئی بات لوگوں کو سنائی نہیں جاتی تھی.یہ بحث سات بجے صبح سے تین بجے دوپہر تک جاری رہی جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچائی ،مسئلہ جہاد اور حضرت عیسی علیہ اسلام کی وفات پر بحث ہوئی.جب بحث ہو رہی تھی تو آٹھ آدمی ننگی تلوار میں لے کر شہزادہ صاحب کے سر پر کھڑے پہرہ دے رہے تھے.مولویوں کو حکم تھا کہ شہزادہ صاحب سے سوال کئے جائیں اور شہزادہ صاحب کو صرف جواب دینے کا حکم تھا سوال کی اجازت نہ تھی.شہزادہ صاحب پر بہت سے سوال ہوئے اور آپ نے اچھی طرح سب کے جواب دیئے.آپ سے پوچھا گیا کہ اس شخص کو جس نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا ہے کیا سمجھتے ہو.آپ نے فرمایا میں ان کو سچا سمجھتا ہوں.وہ خدا سے حکم پا کر اس زمانہ کی اصلاح کے لئے قرآن شریف کی پیشگوئیوں کے مطابق آئے ہیں اور ہم نے اس شخص کو دیکھا ہے اس جیسا انسان دنیا میں اس وقت کوئی نظر نہیں آتا اور بے شک وہی مسیح موعود ہے...اس پر ملاؤں نے شور مچا کر کہا وہ بھی کافر ہے اور تو بھی کافر ہے.تب اس بہادر شہزادے نے سب مولویوں کو کہا تمہارے دو خدا ہیں کیونکہ تم بادشاہ سے ایسا ڈرتے ہو جیسا کہ خدا سے ڈرنا چاہئے مگر میرا خدا ایک ہے اس لئے میں بادشاہ سے نہیں ڈرتا.پھر آپ سے حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق سوال کیا گیا کہ وہ واپس آئیں گے یا نہیں ؟ تو آپ نے جواب دیا کہ قرآن کریم ان کی وفات اور دوبارہ نہ آنے پر گواہی دیتا ہے.تب مولوی لوگ آپ کو گالیاں دینے لگے اور کہا کہ اب اس شخص کے کافر ہونے میں کیا
21 20 شک رہ گیا ہے.بحث کا ثالث اور منصف ڈاکٹر عبدالغنی گجراتی تھا جو شہزادہ صاحب کا سخت مخالف تھا.اس نے اور سب مولویوں نے مل کر فیصلہ کیا کہ بحث کے کاغذات بادشاہ کو نہ دکھائے جائیں اور لوگوں میں مشہور کر دیا جائے کہ شہزادہ صاحب کو شکست ہوئی ہے اور بادشاہ کو صرف اطلاع کر دی جائے کہ شہزادہ صاحب کی باتیں غلط ہیں اور ہم ان کے کفر کا فتویٰ دیتے ہیں ورنہ اگر بحث کے اصل کا غذات اور شہزادہ صاحب کے جوابوں کا عام لوگوں کو پتہ لگا تو خطرہ ہے کہ لوگ احمدی نہ ہو جائیں.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور بادشاہ کو کاغذات نہ بھیجے گئے.ایک شخص نے بعد میں اس بحث کا آنکھوں دیکھا حال بیان کیا اور کہا کہ میں خود اس میں شامل تھا شہزادہ صاحب کے دلائل قرآن اور حدیث کے مطابق تھے.مولویوں کے پاس کہنے کے لئے سوائے کچھ حوالوں کے کوئی خاص بات نہ تھی اور وہ شہزادہ صاحب پر غالب نہ آسکے کیونکہ ان کو شہزادہ صاحب جتنا علم نہیں تھا بلکہ شہزادہ صاحب سے بحث کرنے والوں کا لیڈ راور کابل کا قاضی اور مفتی عبدالرزاق خود مانتا تھا کہ ہمیں شہزادہ صاحب کی طرح قرآن کا وسیع علم نہیں تھا.بحث ختم ہونے کے بعد شہزادہ صاحب کو ایک جلوس کی صورت میں بازار سے گزار کر شاہی قلعہ میں لے گئے اور بادشاہ کے سامنے پیش کیا.یہاں مولویوں اور عام لوگوں کا بڑا ہجوم تھا وہاں بادشاہ کا بھائی اور شہزادہ صاحب کا سخت مخالف نصر اللہ خان بھی موجود تھا.اس نے پوچھا کیا فیصلہ ہوا اس پر منصوبہ کے مطابق مولویوں نے اور دوسرےلوگوں نے شور مچایا کہ شہزادہ صاحب ہار گئے ہیں اور کافر ہیں.بادشاہ نے شہزادہ صاحب سے کہا مولویوں کا فتویٰ تو کافر ہونے اور سنگسار کرنے کا ہے اگر آپ تو بہ کر لیں تو سزا سے بچ سکتے ہیں.پھر سردار نصر اللہ خاں نے علماء کا لکھا ہوا فتویٰ لوگوں کو پڑھ کر سنایا اور خود ہی لوگوں سے کہنے لگا آپ تسلی رکھیں بادشاہ سلامت آپ کی مرضی کے خلاف فیصلہ نہیں کریں گے اور ضرور علماء کے کہنے پر عمل کریں گے.وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ صاحبزادہ عبداللطیف کو کچھ مہلت دے کر تو بہ کا موقع دیں.اس کے بعد مجمع بکھر گیا اور شہزادہ صاحب کو قید خانہ بھیج دیا گیا.آپ قید خانہ میں یہ دعا پڑھتے تھے رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (ال عمران ) یعنی اے ہمارے خدا! ہمارے دل کو ٹھوکر سے بچا اور ہدایت کے بعد ہمیں پھسلنے سے محفوظ رکھ اور اپنے پاس سے ہمیں رحمت عنایت کر کیونکہ ہر ایک رحمت تو ہی بخشتا ہے.جان بچانے کا آخری موقع اگلے دن ۱۴ / جولائی سوموار کی صبح شہزادہ صاحب کو بادشاہ کے دربار میں پھر بلایا گیا جہاں بہت سارے لوگ موجود تھے.بادشاہ نے پھر تو بہ کرنے کے لئے کہا آپ نے پورے ایمان اور دلیری سے جواب دیا مجھ سے یہ امید نہ رکھو کہ میں سچائی سے تو بہ کروں.ان باتوں کو بیان کرنے والے کہتے ہیں کہ یہ سنی سنائی باتیں نہیں ہم خود اس جگہ موجود تھے اور لوگ بہت زیادہ تھے.شہزادہ صاحب ہر دفعہ بادشاہ کے سمجھانے پر بڑے زور سے انکار کرتے تھے....ایا معلوم ہوتا ہے آپ دل میں فیصلہ کر چکے تھے کہ آپ سچائی کی راہ میں جان دے دیں گے.سامنے موت دیکھ کر بھی اس بہادر شہزادے کے قدم ذرا برابر پیچھے نہ ہٹے اور بادشاہ کے بار بار کہنے کے باوجود آپ نے ایمان نہ چھوڑا.بادشاہ نے تنگ آکر ایک لمبا چوڑا کا غذ لکھا.اس میں مولویوں کا فتویٰ درج کر کے لکھا کہ ایسے کافر کی سزا موت ہے.پھر وہ فتویٰ شہزادہ
23 22 صاحب کے گلے میں لٹکایا گیا اور بادشاہ نے حکم دیا کہ صاحبزادہ صاحب کی ناک میں سوراخ کر کے رسی ڈالی جائے اور رسی سے کھینچ کر ان کو سنگسار کرنے کی جگہ پر لے جایا جائے.چنانچہ اس بے گناہ شہزادے کی ناک میں سوراخ کر کے سخت دکھ دے کر رسی ڈالی گئی اور ہنسی ٹھٹھا کرتے ہوئے اور گالیاں دیتے ہوئے آپ کو اس جگہ لے گئے جہاں آپ کو مارنا تھا...اس شہزادے کے ہاتھ میں لوہے کی ہتھکڑیاں تھیں اور ناک میں رسی تھی جس کو وہ ظالم کھینچ رہے تھے لیکن اس وقت بھی وہ خوش خوش تیزی کے ساتھ قتل ہونے کے لئے جار ہا تھا.کسی مولوی نے پوچھا آپ خوش کیوں ہیں؟ اس شہزادے نے جواب دیا یہ ہتھکڑیاں جو دیکھ رہے ہواصل میں ہتھکڑیاں نہیں ہیں بلکہ محمد مصطفے ﷺ کے دین کا زیور ہے.بے شک میں وہ جگہ دیکھ رہا ہوں جہاں مجھے زندہ زمین میں گاڑ کر پتھروں سے ہلاک کر دیا جائے گا لیکن مجھے خوشی ہے کہ میں اپنے پیارے مولیٰ سے مل جاؤں گا.افغانستان کا بادشاہ بھی اپنے وزیروں، مفتیوں ، مولویوں اور درباریوں کے ساتھ یہ نظارہ دیکھتا ہوا سنگسار کرنے کی جگہ تک پہنچا اور شہر کابل کے ہزاروں لوگ بھی یہ تماشا دیکھنے آئے.بے گناہ شہزادہ کی راہ مولیٰ میں دردناک قربانی شہر کا بل کے مشہور قلعہ بالا حصار کے جنوب میں امرائے کابل کے پرانے قبرستان میں اڑھائی فٹ گہرا ایک گڑھا کھودا گیا جس میں اس شہزادے کو کھڑا کر کے کمر تک زمین میں گاڑ دیا گیا.پھر اس حالت میں بادشاہ شہزادہ صاحب کے پاس گیا اور کہا اب تمہارا آخری وقت ہے اگر تم اب بھی قادیانی مسیح کا انکار کر دو تو میں تمہیں بچالوں گا.اپنی جان پر اور اپنے بال بچوں پر رحم کرو.پیارے بچو! جانتے ہو اس وقت جب موت بالکل سامنے کھڑی تھی.جب آدھا جسم زمین میں گڑ چکا تھا اور لوگ ہاتھوں میں پتھر لئے انتظار میں تھے کہ جو نہی حکم ہو پتھروں کی بارش کر دیں.......ان خطر ناک لمحات میں بھی آخری وقت میں اس بہادر نے بڑی دلیری سے کہا سچائی سے انکار کیونکر ہو سکتا ہے.جان کیا ہے اور بال بچے کیا چیز ہیں جن کے لئے میں ایمان چھوڑ دوں.مجھ سے ایسا ہر گز نہیں ہوگا.میں حق کے لئے جان دے دوں گا.سب سے پہلا پتھر قاضی نے مارا جس کے بعد بد قسمت بادشاہ نے آپ پر پتھر پھینکا پھر کیا تھا چاروں طرف سے شہزادہ صاحب پر پتھروں کی بارش شروع ہوگئی اور ہزاروں پتھر آ کر ان پر پڑنے لگے.پتھروں کی اتنی بارش ہوئی کہ مرحوم کے سر پر پتھروں کا ایک ڈھیر جمع ہو گیا اور آپ کا جسم پتھروں کے اس ڈھیر میں دب گیا اور روح اپنے پیارے اللہ کے حضور حاضر ہوگئی.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.وہ شہزادہ ایک بکرے کی طرح ذبح کیا گیا اور باوجو د سچا ہونے کے اس کا جسم پتھروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا گیا مگر اس نے ایسا صبر دکھایا کہ ایک آہ بھی اس کے منہ سے نہ نکلی...یا جولائی ۱۹۰۳ ء کی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس واقعہ کی اطلاع میں سال پہلے ہی دے دی گئی تھی.آپ کو خدا نے بتایا تھا کہ دو بکریاں ذبح کی جائیں گی اور اس سے مراد شہزادہ صاحب اور آپ کے شاگر د حضرت مولوی عبد الرحمن صاحب تھے.شہزادہ صاحب کی شہادت کے بعد آپ کی بیوی شاہجہاں بی بی صاحبہ اور ان کے یتیم بچوں پر بہت ظلم کئے گئے اور قید میں رکھا گیا مگر انہوں نے شہزادہ صاحب کی وصیت کے مطابق بہت صبر کیا اور شہزادہ صاحب کی طرح یہی کہتی رہیں کہ اگر احمدیت کی وجہ سے میں اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے (قتل) کر دئیے جائیں تو میں اس پر خدا تعالیٰ کا شکر کروں گی
25 24 اور اپنے عقیدہ میں تبدیلی نہیں کروں گی.آپ کے دو بیٹے سید محمد سعید صاحب اور سید محمد عمر صاحب ان تکلیفوں کی وجہ سے افغانستان میں ہی ( وفات پاگئے.بالآخر شہزادہ صاحب کے خاندان کا لٹا پٹا قافلہ ۲ رفروری ۱۹۲۶ ء کو افغانستان سے ہجرت کر کے بنوں آ گیا.شہزادہ صاحب کا مزار کابل میں جس جگہ پر شہزادہ صاحب کو ( راہ مولیٰ میں قربان ) کیا گیا تھا تین دن تک حکومت کی طرف سے وہاں پہرہ رہا.شہزادہ صاحب کی شہادت کے کچھ عرصہ بعد آپ کے شاگر د حضرت احمد نور صاحب کا بلی کو کابل کے تاجروں سے پتہ چلا کہ وہ وفات پاگئے ہیں تو حضرت احمد نور صاحب نے ارادہ کیا کہ خواہ میری جان چلی جائے شہزادہ صاحب کی نعش ضرور پتھروں سے نکال کر دفن کروں گا.چالیس دن بعد کا بل کے احمدیوں کی مدد سے شہزادہ صاحب کی میت نکال کر قریب ہی ایک مقبرہ میں دفن کر دی.ایک سال بعد شہزادہ صاحب کے ایک اور شاگر د ملا میر صاحب نے ارادہ کیا کہ اپنے استاد کی نعش لا کر اپنے گاؤں میں دفن کروں گا.چنانچہ وہ کابل جا کر شہزادہ صاحب کا تابوت نکالنے میں کامیاب ہو گئے اور خچر پر لاد کر شہزادہ صاحب کے گاؤں سید گاہ میں لے آئے اور ایک نامعلوم سی قبر بنادی.اتفاق کی بات ہے کہ ان دنوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفیق خان عجب خاں میرام شاہ وزیرستان میں نائب تحصیل دار تھے.انہیں جب اپنے بھائی کی قبر کا پتہ چلا تو انہوں نے محبت میں اس پر ایک خوبصورت مقبرہ بنوا دیا آہستہ آہستہ خوست میں شہزادہ صاحب کے اس مزار کی شہرت ہو گئی اور آپ کے مرید یہاں زیادہ تعداد میں آنے لگے.یہ اطلاع جب سردار نصر اللہ خاں کو ہوئی تو جنوری ۱۹۱۰ء میں اس کے حکم سے شہزادہ صاحب کا تابوت نکال کر کسی نامعلوم جگہ پر دفن کر دیا گیا.حضرت شہزادہ صاحب کا کتبہ بہشتی مقبرہ قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بطور یادگار لگا دیا تھا.شہزادہ صاحب کی شہادت پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھا: کل کا بل کی سرزمین دیکھ لے گی کہ یہ خون کیسے کیسے کیسے پھل لائے گا.یہ خون کبھی ضائع نہیں جائے گا.آپ نے فرمایا: کابل کی زمین ، جہاں اتنا بڑا ظلم کیا گیا ہے، خدا کی نظر سے گر گئی ہے.شہزادہ صاحب نے بھی شہادت کے وقت پیشگوئی کی تھی کہ ان کے قتل کے بعد ملک پر سخت تباہی آئے گی.چنانچہ جس دن شہزادہ صاحب راہ مولیٰ میں قربان ہوئے اسی رات نو بجے اچانک ایک زبر دست طوفان، آندھی اور جھکڑ کا آیا جو آدھ گھنٹہ تک جاری رہا.شہادت سے اگلے دن ۱۵ جولائی ۱۹۰۳ کو ہیضہ کی خوفناک وبا نے شہر کابل اور اردگرد کے علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا حالانکہ عام اندازے کے مطابق ابھی چار سال تک اس بیماری کے آنے کا کوئی امکان نہ تھا.روزانہ ہیضہ کی وبا سے تین چار سو آدمی کابل اور اس کے اردگرد مرنے لگے اور بادشاہ کے بھائی سردار نصر اللہ خاں کی بیوی بھی اسی سے ہلاک ہوئی جس کے غم سے سردار نصر اللہ خاں قریباً پاگل ہو گیا، ہر وقت ڈرا سہما ر ہنے لگا.پھر امان اللہ خاں جب افغانستان کا بادشاہ بنا تو اس کے حکم سے سردار نصر اللہ خاں کو قید کر کے کابل لایا گیا اور اسی قلعے میں نظر بند کیا گیا جس میں شہزادہ صاحب کو رکھا گیا تھا.اس صدمہ سے سردار نصر اللہ خاں کا دماغ خراب ہو گیا اور قید کے دوران ہی گلا گھونٹ کر اسے قتل کر دیا گیا.بادشاہ حبیب اللہ خاں بھی خدا کے عذاب سے نہ بچ سکا اور ۲۰ فروری ۱۹۱۹ ء کو ایک آدمی نے اسے قتل کر دیا اور وہ مولوی جنہوں نے شہزادہ صاحب کے خلاف فتویٰ دیا تھاوہ بھی
27 26 اپنے برے انجام سے بچ نہ سکے اور اپنے کئے کی سزا پائی.شہزادہ صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت تھی.آپ نے ایک قصیدہ فارسی زبان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعریف میں لکھا ہے اس میں آپ حضور کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں: 66 آپ کی خوبصورتی کو دیکھ کر فرشتے بھی حیران ہیں اور جنت کے خوبصورت لوگ بھی آپ کے چہرہ کے آگے کچھ چیز نہیں ہیں...آپ ہمیشہ کے بادشاہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے دنیا کے امام بن کر آئے ہیں اور آپ نے اپنے کلام کے ذریعہ سے ایسی باتیں بیان کی ہیں جو پہلے چھپی ہوئی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی شہزادہ صاحب سے بہت محبت تھی.شہزادہ صاحب کی شہادت کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خاص طور پر آپ کے متعلق ایک کتاب لکھی اور اس کا نام تذکرۃ الشہادتین“ رکھا جس کا مطلب ہے دو شہادتوں کا ذکر.اس کتاب میں حضور نے شہزادہ صاحب اور آپ کے شاگرد مولوی عبدالرحمن صاحب کی شہادت کا حال لکھا ہے اور شہزادہ صاحب کی تعریف کرتے ہوئے ان کی خوبیاں بیان کی ہیں.حضور نے ایک واقعہ بھی لکھا ے کہ اکتو بر ۱۹۰۳ ء کو جب آپ نے یہ کتاب لکھنی شروع کی تو ایسا اتفاق ہوا کہ حضور کو سخت درد گردہ ہوگئی حضور کہتے ہیں کہ میں نے دعا کی کہ یا الہی اس مرحوم کے لئے میں لکھنا چاہتا ہوں تو ساتھ ہی...الہام ہوا 66 سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبٍ رَّحِيمٍ “ اور صبح سے پہلے پہلے آپ تندرست ہو گئے.واقعہ شہادت کے بعد احمد نور کا بلی شہزادہ صاحب کا ایک بال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس قادیان لائے تو حضور نے وہ بال کھلے منہ کی ایک چھوٹی سی بوتل میں ڈال کر بند کر دیا اور بوتل دھاگہ سے باندھ کر بیت الدعاء کی کھونٹی سے لٹکا دی.حضور اس کے متعلق فرماتے ہیں: ایک بال ان کا اس جگہ پہنچایا گیا جس سے اب تک خوشبو آتی ہے اور ہمارے بیت الدعاء کے ایک گوشہ میں لڑکا ہوا ہے.“ شہزادہ صاحب کے متعلق لکھتے ہوئے حضور فرماتے ہیں: (...) مرحوم نے میری جماعت کو ایک نمونہ دیا.“ ایک اور جگہ آپ نے لکھا ہے: اور جیسا کہ ان کا چہرہ نورانی تھا ایسا ہی ان کا دل مجھے نورانی معلوم ہوتا تھا...اور در حقیقت وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھتا تھا.اس کی ایمانی قوت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ اگر میں اس کو ایک بڑے پہاڑ سے تشبیہ دوں تو میں ڈرتا ہوں کہ میری تشبیہ ناقص ہو.“ ایک دفعہ آپ کے متعلق حضور علیہ السلام نے فرمایا: عبداللطیف کہنے کوتو مارا گیامگر یقینا سمجھو کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا.“
نام کتاب...حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب