Language: UR
یہ کتاب نہایت موثر اور آسان انداز میں لکھی ہے جس میں آنحضورﷺ کا بچوں سے پیار، اور ان خوش نصیب بچوں کا اپنے آقا و مولاﷺ سے پیار اور وارفتگی، آنحضورﷺ کی والدین کو نصائح اور معاشرے کے اس قیمتی اثاثے کے متعلق فقہی مسائل بھی درج کئے گئے ہیں۔
احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے) رسولِ حضرت رسول کریم ہی ہے اور بچے - حضرت رسول کریم علی دو جہانوں کے لئے رحمت و شفقت - شفقت شاہ دو جہاں اور باغ اسلام کے ننھے پھول - حضرت محمد مصطفے ﷺ کے زمانے کے مسلمان بچوں کے سنہری کارنامے گلشن اسلام کی منھی کلیوں پر خصوصی شفقت والدین کی تربیت و اصلاح کے لئے زریں ہدایات بچے کی پیدائش اور ابتدائی تربیت پر ارشادات ل - والدین پر بچوں کے حقوق - بچوں پر والدین کے حقوق - نوزائیدہ کے کان میں اذان و اقامت کی فلاسفی درخواست دعا و ہدیہ تشکر قارئین کرام کی خدمت عالیہ میں محترمہ بیگم و محترم بابو اللہ داد خان صاحب کے درجات کی بلندی کے لئے دُعا کی درخواست ہے جن کی اولاد نے اپنے والدین کے لئے صدقہ جاریہ کے طور پر اس کتاب کا سارا خرچ ادا کیا اس کارِ خیر کے لئے شعبہ پیش کرتا ہے اور احباب سے دُعا کی درخواست کرتا ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو نسلاً بعد نسل مقبول خدمت دین کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے.آمین
4 3 نمبر نگرا بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ ساله جشن تشکر کے موقع پر لجنہ اماء اللہ نید صاحبہ نے بچوں کے لئے کتاب 'حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بچے تحریر کی ہے جو شعبہ سے منظور شدہ ہے.بہت آسان اور مؤثر انداز تحریر ہے.یہ کتاب ہمارے سلسلے کی 17 ویں کتاب تھی.جو بہت مقبول ہوئی اُس کے پانچ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں.جدید ایڈیشن میں مرتبہ نے مفید معلومات کا اضافہ کیا ہے.اس کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بچوں سے پیار، بچوں کا اپنے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی والدین کو نصائح اور بچوں کے متعلق فقہی مسائل شامل ہیں.خوش قسمت ہیں وہ بچے اور والدین جو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اُمت میں شامل ہیں اور جنہیں یہ محبت بھرا پیار اور پندونصائح حاصل ہیں.اللہ تعالیٰ پیارے بچوں کو یہ پیار اپنے اندر سمونے اور والدین کو ان نصائح پر عمل کرنے کی توفیق دے تا ہر طرف جنت ہی جنت نظر آئے اور اس جنت کے مکینوں پر ہم سب کے آقا اور سردار خاتم النبین ﷺ کر سکیں.آمین یا رب العالمین عرض حال الحمد للہ کہ مجھے اُس عظیم ہستی کے بارے میں لکھنے کی توفیق ملی جو خدا کی محبوب ہے اور ہم سب کی بھی محبوب اور محسن اور مشفق ہستی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نور اللہ مرقدہ کے ارشاد کے تحت میری شدید خواہش تھی کہ بچوں کے بارے میں ایسا مضمون لکھوں جو ان کی تربیت و اصلاح میں والدین اور بچوں دونوں کے لئے بے حد مفید ہو اور مشعل راہ کا کام دے.پہلا لے گا.اب لجنہ کراچی نے صد سالہ جشن تشکر کے سلسلے میں لکھنے کے لئے مجھے یہ عنوان ”حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بچے دیا جو مجھے نہایت مناسب معلوم ہوا اور میری خواہش کے مطابق بھی تھا.اگرچہ یہ میرا مضمون ہے تاہم ہر پڑھنے والا اس میں سے ضرور کچھ نہ کچھ حاصل کر پس میرے اس مضمون کو پڑھنے والے جہاں اپنے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے مثال شفقت و محبت کو محسوس کرتے ہوئے بے اختیار درود بھیجنے پر مجبور ہوں وہاں ہمارے پیارے والد صاحب حضرت مولانا ابوالبشارت مولوی عبدالغفور صاحب جو سلسلہ عالیہ کے سرگرم مناظر اور مربی تھے ) کو بھی اپنی پُر خلوص دُعاؤں میں یاد رکھیں کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے میں نے جو کچھ پایا ان کی ہی زیر تربیت پایا ہے.الحمد للہ
6 5 بسم الله الرحمن الرحيم حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو جہانوں کے لئے رحمت و شفقت وَمَا أَرْسَلْنَكَ إِلَّا رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ) (الانبياء : 108) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبت فرماتا ہے کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم نے تجھے دوجہانوں کے لئے رحمت و شفقت بنا کر بھیجا ہے.ہر امت کے لئے نبی جب سے دنیا قائم ہوئی ہے اللہ تعالیٰ کی سنت یہ رہی ہے کہ جب بھی نسلِ انسانی کو ضرورت پڑی اس کی اصلاح کے لئے اپنے برگزیدہ انبیاء بھیجتا رہا ہے.جیسا کہ فرمایا:.وَ إِنْ مِّنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ (سورة فاطر : 25) یعنی ہم نے تمام قوموں کی طرف نبی بھیجے جن کی آمد کا اولین مقصد نسل انسانی کی بھلائی کرنا اور ان کو اخلاق کے اعلیٰ معیار پر قائم کرنا ہوتا ہے.اور ان کے سامنے اپنا قابل عمل نمونہ پیش کر کے ان کو صفات حسنہ سے متصف کرنا ہوتا ہے.قیامت تک کے لئے نمونہ گزشتہ تمام انبیاء خاص زمانوں اور خاص قوموں کے لئے مبعوث ہوتے رہے مگر ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے تمام نوع انسان کے لئے قیامت تک کے لئے رہنما بنا کر بھیجا جیسا کہ فرمایا:- قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمُ جَمِيعًا (الاعراف : 159) کہ اے رسول تو لوگوں سے کہہ دے کہ میں تم سب کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں.مکمل ضابطہء حیات چنانچہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو ضابطہ حیات بنی نوع انسان کے لئے دائمی طور پر پیش کیا آپ کی زندگی اس کا عملی نمونہ ہے.کوئی ادنی غلام ہو یا بڑے سے بڑا بادشاہ ہر سطح اور ہر رنگ ونسل کے انسان کے لئے آپ کی زندگی مکمل رہنمائی اور ہدایت کا کام دیتی ہے.بعثت کا مقصد چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا:.بُعثتُ لِأُتَمِّمَ مَكَارِ مَ الْأَخلاق (مدارج النبوة 55 سن اشاعت ربیع الاول 1395 ہجری) کہ میں اس لئے بھیجا گیا ہوں کہ تمام اخلاق اور خوبیوں کو درجہ کمال
8 7 تک پہنچاؤں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے وجود کو دنیا میں ہر قسم کے حالات سے گزارا اور آپ کی زندگی کا کوئی گوشہ ادھورا اور نامکمل نہیں.آپ کی سیرت کے جس پہلو کو دیکھیں وہ قرآنی ارشاد إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم : 4) کے مطابق اخلاق کے انتہائی عظمت و کمال پر متم متمکن ہے.عادات مبارکہ ہمارے پیارے آقا کبھی کسی کو بُرا بھلا نہیں کہتے تھے.اگر کوئی بُرا سلوک کرتا تو اس کے جواب میں کبھی بُرا سلوک نہ فرماتے بلکہ درگزر کرتے اور معاف فرما دیتے.☆ اپنے ذاتی معاملات میں کبھی کسی سے انتظام نہیں لیا.آپ نے کبھی کسی غلام لونڈی یا کسی عورت یا خادم کو یہاں تک کہ کسی جانور کو بھی اپنے ہاتھ سے نہ ما آپ نے کبھی کسی پر لعنت نہ کی گھر تشریف لاتے تو خندہ پیشانی سے اور مسکراتے ہوئے.بہت نرم طبیعت تھے کسی کی عیب گیری نہ کرتے.حضرت ابوسعید خدری بیان کرتے ہیں کہ آپ کی زندگی بے حد سادہ تھی.آپ کسی کام میں عار نہیں سمجھتے تھے اپنے اونٹ کو خود چارہ ڈالتے تھے.گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتے اپنی جونیوں کی خود مرمت کر لیتے.کپڑوں کو پیوند لگا لیتے.بکری دوھ لیتے خادم کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے.آٹا پیتے پیتے اگر خادم تھک جاتا تو اس میں اس کی مدد فرماتے.بازار سے گھر کا سامان اُٹھا کر لانے میں شرم محسوس نہ کرتے.امیر غریب ہر ایک سے مصافحہ کرتے.سلام میں پہل کرتے.اگر کوئی معمولی کھجوروں کی بھی دعوت دیتا تو آپ اس کو حقیر نہ سمجھتے اور قبول فرماتے.آپ نہایت ہمدرد.نرم مزاج اور حلیم الطبع تھے.آپ کا رہن سہن بڑا صاف ستھرا تھا.تبسم آپ کے چہرہ پر جھلکتا رہتا.آپ زور دار قہقہہ لگا کر نہیں ہنتے تھے.خدا کے خوف سے فکر مند رہتے.لیکن ترش روئی اور خشکی نام کو نہ تھی.منکسر المزاج تھے.لیکن اس میں کسی کمزوری پست ہمتی کا شائبہ تک نہ تھا.بڑے سخی ( کھلے ہاتھ کے) لیکن بے جا خرچ سے ہمیشہ بچتے.نرم دل، رحیم و کریم تھے.ہر مسلمان سے مہربانی سے پیش آتے.اتنا پیٹ بھر کر نہ کھاتے کہ اباسیاں آتی رہیں.کسی حرص وطمع کے جذبے سے ہاتھ نہ بڑھاتے، بلکہ صابر و شاکر اور کم پر قانع رہتے.کھانے میں کبھی نقص نہ نکالتے اور نہ کبھی یہ فرماتے کہ یہ کھانا برا ہے ترش ہے نمک کم ہے یا زیادہ ہے شوربہ گاڑھا ہے یا پتلا.پسند ہوتا تو کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے.(مدارج النبوة ) اشغال تعلیم و تربیت ہمارے پیارے آقا نے ہمیشہ اپنا شغل تعلیم و وعظ ہی رکھا اور اپنی سادہ زندگی کو کبھی نہ چھوڑا.آپ لوگوں کو خدائے واحد کی پرستش کی تعلیم دیتے.اخلاق فاضلہ اور معاملات کے متعلق اسلامی احکامات لوگوں کو سکھاتے.پانچ وقت کی نماز مسجد میں آکر خود پڑھاتے.جن لوگوں میں جھگڑے ہوتے اُن
10 9 کے درمیان فیصلہ فرماتے.اور ضروریات قومی کی طرف توجہ فرماتے.جیسے تجارت، تعلیم ، حفظانِ صحت وغیرہ، غرباء کے حالات معلوم کرتے اور ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش فرماتے.پھر بچوں کے اندر قومی روح پیدا کرنے کے لئے انکی کھیلوں میں جاکر شامل ہو جاتے اور ان کو کھیلوں میں جوش دلاتے.جب گھر میں داخل ہوتے تو بیویوں کے گھر کے کام کاج میں مدد کرتے.عبادت.(ہمارا رسول "ص، 26،25) اور جب رات ہوتی اور سب لوگ آرام سے سوجاتے تو آپ آدھی رات کے بعد اُٹھ کر رات کی تاریکی میں خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہو جاتے.یہاں تک کہ بعض مرتبہ کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں سوج جاتے.لہذا اس سنت کی اتباع بھی ہمارے بچوں کو کرنے کی کوشش کرنی چاہئے محمد ہی نام اور محمد ہی کام علیک الصلوۃ علیک السلام پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش، بچپن اور پرورش آئیے اب دیکھتے ہیں کہ جس عظیم اور مشفق ہستی نے قوم کے نونہالوں کو بے مثال شفقت سے نوازا اور اعلیٰ تربیت کے اصول وضع کئے اس کا اپنا بچپن کا کردار کیسا اعلیٰ ہو گا.ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم آج 1500 سال پہلے عرب کے ایک شہر مکہ میں پیدا ہوئے.آپ کے والد کا نام عبداللہ تھا جو آپ کی پیدائش سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے.آپ کے دادا کا نام ”عبدالمطلب“ تھا.انہوں نے ہی آپ کا نام ”محمد“ صلی اللہ علیہ وسلم رکھا.آپ کی والدہ کا نام آمنہ“ تھا.انہوں نے آپ کی پیدائش سے چند روز قبل خواب میں دیکھا کہ ان کے جسم سے ایک نہایت ہی چمکدار نُور نکلا ہے جس سے دور دراز تک کے ملک روشن ہو گئے.مکہ کے لوگوں میں رواج تھا کہ دیہات سے ہر چھ ماہ بعد عورتیں آتیں اور شرفاء کے شیر خوار بچوں کو دودھ پلانے اور پرورش کرنے کے لئے گاؤں میں لے جایا کرتیں.چنانچہ حلیمہ نامی ایک عورت آپ کو ساتھ لے گئیں اور نھا معصوم بچہ پانچ سال تک دائی حلیمہ کی گود میں پرورش پاتا رہا.ایک عجیب واقعہ (سیرت الحلبیہ جلد اوّل صفحہ 96) اچانک ڈاکو آ گئے ، ننھے معصوم کی بے مثال بہادری اور جرات ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ابھی پانچ سال کے بچے ہی تھے کہ ایک عجیب واقعہ پیش آیا.آپ گاؤں کے دوسرے بچوں کے ساتھ حسب معمول بکریاں چرا رہے تھے کہ یکا یک ڈاکو ادھر آ نکلے جن کی خوفناک شکلیں اور چمکدار تلواریں دیکھ کر سب بچے بھاگ گئے.صرف ایک بچہ نہ ڈرا نہ بھا گا بلکہ چپ چاپ اپنی جگہ کھڑا رہا.اور یہ بچہ ہمارا آقا صلی اللہ علیہ وسلم تھے.پھر یوں ہوا کہ ڈاکوؤں نے بچے کی موجودگی کا کچھ خیال نہ کرتے ہوئے بکریاں اکٹھی کیں اور چلنے لگے.ننھا بچہ آگے بڑھا اور ڈاکوؤں.ނ
12 11 کہا بکریاں تو گاؤں والوں نے ہمارے سپرد کی ہیں پہلے گاؤں والوں سے چھ لو پھر لے جانا.ڈاکو بچے کی بھولی باتوں پر ہنسے اور بچے کی بات کی پرواہ کئے بغیر بکریاں لے کر جانے لگے.تو ننھا بچہ تیزی سے آگے بڑھا اور راستہ روک کر کھڑا ہو گیا.اور کہا مجھے مار ڈالو پھر بکریاں لے جاؤ جب تک میں زندہ ہوں بکریاں یہاں سے نہیں جائیں گی.ڈاکو حیران ہو گئے کہ اتنا چھوٹا سا بچہ اور اتنا دلیر.ان کے سردار نے تعجب سے آگے بڑھ کر بچے کو پیار کیا اور پوچھا تم کس کے لڑکے ہو.بچے نے جواب دیا ”عبدالمطلب گا“.سارے عرب میں کوئی شخص اس نام سے ناواقف نہ تھا.ڈاکو بولا بیشک سردار قریش کے لڑکے کو ایسا ہی بہادر ہونا چاہئے.میں تمہاری بہادری کی قدر کرتا ہوں اور تمہارے لئے تمہاری بکریاں چھوڑتا ہوں.پھر ڈاکوؤں سے اس کا نام پوچھا تو آپ نے بتایا 'محمد' ڈاکوؤں نے کہا کتنا نے بچے پیارا نام ہے اور کہا تمہاری پیشانی کا نُور ظاہر کر رہا ہے کہ ایک دن سارا عرب تم پر فخر کرے گا.اور ڈاکو سلام کر کے چلے گئے.(روضۃ الانف ) ایک اور انوکھا واقعہ فرشتوں نے سینے میں نور بھر دیا اسی عمر میں جب آپ ایک دن باہر جنگل میں بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ آپ نے دیکھا دو فرشتے آئے ہیں اور انہوں نے پکڑ کر آپ کو لٹا دیا اور سینہ چاک کر کے دل کو صاف کیا اور اس میں نور بھر دیا.یہ نظارہ کشفی تھا.جسے بچے دیکھ کر اور بزرگ سُن کر ڈر گئے اور دائی حلیمہ نے آپ کو مکہ میں لا کر آپ کی والدہ کے سپرد کر دیا.دائی حلیمہ اور اس کے خاندان کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام عمر خیال رکھا اور ہمیشہ جب بھی اُن سے ملتے بہت اچھا سلوک فرماتے.(حجة البالغہ جلد 2، 154) آپ کی والدہ اور دادا عبدالمطلب کی وفات جب آپ چھ سال کے ہوئے تو آپ کی والدہ کا بھی انتقال ہو گیا اور آپ ماں کی محبت بھری گود سے محروم ہو گئے.پھر آپ اپنے دادا کے پاس رہنے لگے، دو سال بعد وہ بھی وفات پا گئے.(سیرت ابن ہشام جلد اول جز اوّل صفحہ 107، 116) ننھے معصوم کی دُعا قبول ہو گئی ایک دفعہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے مکہ میں شدید قحط پڑ گیا اور مکہ والے سخت پریشان ہو گئے کہ کیا کریں کہ اچانک آپ کے چچا کو کچھ خیال آیا.اپنے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا کہ بچے !لوگ بے عد پریشان ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ تمہارا دل معصوم اور زبان پاک ہے اور تمہاری زندگی بڑی عجیب زندگی ہے.شہر والوں کے ساتھ جنگل میں جاؤ اور اپنے خدا سے بارش کے لئے دُعا مانگو.بھتیجے نے کہا چا میں کیا اور میری دُعا کیا میں تو ابھی بچہ ہوں یہ کام تو بڑے بزرگوں کا ہے مگر میں آپ کے ارشاد پر تعمیل کے لئے تیار ہوں چلئے میں دُعا مانگتا ہوں کیا عجب کہ خدا مجھ کمزور کی دُعا سُن لے.چنانچہ اہلِ مکہ کے معزز احباب کے ساتھ نھا آقا (صلی اللہ علیہ وسلم) جنگل میں گیا اور سارے مجمع کے ہمراہ کھڑے ہو کر اپنے ننھے ننھے ہاتھ دُعا کے لئے آسمان کی طرف اُٹھا دیئے.بادلوں کے فرشتے شاید اسی گھڑی کے منتظر تھے.دُعا مانگتے ہی اتنی تیز بارش ہوئی کہ قحط کی ساری تکلیف دور ہو گئی.اہل مکہ کو پہلی دفعہ یہ احساس ہوا کہ ان میں ایک مقدس لڑکا موجود
14 13 (سیرت ابن ہشام جلد اول ص 116) مقدس بچہ اور موعود نبی کی پیشنگوئی جب آپ گیارہ بارہ سال کے تھے تو اپنے چچا ابوطالب کے ہمراہ ایک تجارتی قافلہ کے ساتھ شام کی طرف گئے وہاں ایک عیسائی درویش نے جس کا نام بحیرہ تھا آپ سے ملاقات کی اور اس کی دور بین نگاہ نے محسوس کر لیا کہ یہ وہی بچہ ہے جو بڑا ہو کر نبی بننے والا ہے اور جس کا ہمیں انتظار ہے.چنانچہ اس عیسائی راہب نے آپ کے چچا کو تاکید کی کہ آپ اس بچے کی خاص حفاظت کریں اور اس کو یہودیوں اور عیسائیوں کے شر سے بچا کر رکھیں.(ابن ہشام جلد اول جز اول صفحہ 118، حیات رسالت مآب صفحہ 73) آپ بچپن میں ہی ماں باپ کی محبت سے محروم ہو گئے تھے اور یتیم ہو چا کی کفالت میں آ گئے تھے اس لئے آپ بہت ہی حساس واقع ہوئے تھے.جب تمام گھر کے بچے کھیل کود میں مشغول ہوتے وہاں آپ خاموشی سے بچی کا کام میں ہاتھ بٹاتے جب کھانے کا وقت آتا بچے ماں کے گرد جمع ہو کر کھانے کے لئے شور مچا دیتے اور ہر ایک دوسرے سے زیادہ حصہ چھین لے جانے کی کوشش کرتا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ عادت نہ تھی.جس وقت گھر کے سب بچے چھینا جھپٹی میں مشغول ہوتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف خاموش ہو کر بیٹھ جاتے کیونکہ سوال کرنا آپ کو اتنا نا گوار تھا کہ کھانا بھی مانگ کر نہ کھاتے تھے اور اس بات کا انتظار کرتے کہ آپ کی چی خود آپ کو کھانا دیں اور جو کچھ آپ کی بچی خود آپ کو دے دیتیں خوش ہو کر کھا لیتے اور کھانے میں کبھی نقص نہیں نکالتے تھے.اسی وجہ سے آپ کی چچی آپ سے بہت محبت کرتی تھیں.آپ کے چچا ابو طالب کا بیان ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی سے بہت نیک تھے.کبھی جھوٹ نہ بولتے تھے.ہمیشہ سچ بولتے تھے.ہمیشہ سادہ رہتے.اور دوسروں کی مدد کرتے.ہمسایوں کا سودا بھی لا دیتے.کبھی کسی سے جھگڑا نہ کرتے اور جو کچھ میسر آتا اس پر خدا تعالیٰ کا شکر بجا لاتے.(ترمذی ، ہمارے رسول ص 6) شاندار الفاظ پیارے آقا کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآنِ کریم میں ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبہ محبت اور مومنوں پر شفقت اور رحمت کو شاندار اور مؤثر الفاظ میں یوں بیان فرماتا ہے.لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُم حَرِيصٌ عَلَيْكُمُ بِاالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيم (التوبه : 128) یعنی اے مومنو! تمہارے پاس وہ رسول آیا ہے جو تم میں سے ہے اور یہ نبی ایسا مشفق و مہربان ہے کہ تم کو کسی رنج و تکلیف میں مبتلا دیکھ ہی نہیں سکتا.وہ اس پر سخت گراں ہے اور اسے ہر وقت اس بات کی شدید خواہش اور تڑپ لگی رہتی ہے کہ تم کو خیر اور بھلائی پہنچتی رہے وہ تمہارے لئے ہر خیر ہے اور مومنوں سے انتہائی شفقت کرنے والا اور بار بار اُن کی طرف رحمت کے ساتھ جھکنے والا ہے.پس جہاں آپ کے پیار اور شفقت و رحمت کی وسعت نے تمام عالمین کو اپنے احاطہ میں کیا ہوا ہے آپ نے بچوں یعنی قیمتی نونہالوں سے بھی بے پناہ محبت و شفقت کا سلوک فرمایا اور کا بھوکا آج میں اپنے اس مضمون میں پیارے آقا کی بچوں پر بے مثال شفقت و
16 15 محبت بیان کروں گی.نقت شاہ دو جہاں اور باغ اسلام کے ننھے پھول P یہی بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے بچوں یعنی قوم کے نوجوانوں سے انکے ماں باپ سے بڑھ کر پیار اور محبت سے پیش آتا ہے جس کی مثالیں ہمیں آپ کی زندگی میں جاری ملتی ہیں.اگر چہ آپ کا بچپن بچوں کے لئے ، جوانی جوانوں کے لئے ، اور بڑھاپا بوڑھوں کے لئے نمونہ تھا ، تاہم آپ کا وجود مبارک معصوم اور چھوٹے بچوں کے لئے سراپا شفقت و محبت تھا.ماں سے زیادہ اولاد کے ساتھ کون محبت کر سکتا ہے.بچے سے ماں کی محبت مثالی ہوتی ہے.مگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم فرماتے ہیں کہ اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم وہ شفقت جو مخلوق خدا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دیکھی کسی نے اپنی ماں سے بھی نہ دیکھی ہو گی.الفضل سیرت النبی منمبر 1983 ص17) درخشاں ستارے پس ان ننھے پھولوں پر جو آج کے بچے اور کل کے باپ ہیں جنہوں نے مستقبل کی قیادت سنبھالنی ہے.ہاں ہاں! جنہوں نے اس کائنات کو اپنی خوبصورتی اور مہک سے متاثر کرنا ہے ان پر ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پوری توجہ دیتے اور ان سے محبت و شفقت سے پیش آتے تاکہ بچے ملک وقوم و ملت کے لئے درخشاں ستارے بن سکیں.ہمارے پیارے آقا بچوں سے اس لئے پیار کرتے تھے کہ انہوں نے دین کے لئے کام کرنے ہی.بیچے بھی مانوس ہو جاتے ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے بہت پیار کرتے نتیجہ یہ ہوتا کہ بچے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مانوس ہو جاتے.آپ ان کو گود میں اُٹھاتے.ان کا منہ چومتے.سینے سے لگاتے.ان کے لئے دُعائیں کرتے اور موقع بموقع ان کو دین کی باتیں سکھاتے.اور یہ بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اعلیٰ درجہ کا حسنِ سلوک تھا کہ بچوں کو بھی آپ سے بے پناہ محبت اور لگاؤ تھا.بچے جب آپ کو بازار یا گلی کوچوں میں دیکھتے تو خوشی سے اچھلتے کودتے آپ سے آ آ کر ملتے.آپ انہیں باری باری گود میں اُٹھا کر پیار کرتے.آپ کی یہ عادت تھی کہ بچوں کو ہمیشہ پہلے خود سلام کرتے بچوں کی بہت دلجوئی فرماتے ان سے پاکیزہ مزاح بھی کرتے اور ساتھ ساتھ اچھی باتیں بھی بتاتے جاتے.(فضائل نبوی) الفضل سیرت النبی نمبر 1983 ص 17 ابو داؤد کتاب الادب) بچوں نے بھی مشورہ کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو از خود علم ہو جاتا کہ بچے آپ سے کیا چاہتے ہیں.اپنے گھر سے نکل کر مسجد میں تشریف لاتے تو ہمارے پیارے آقا کی یہ عادت تھی کہ بچوں کو خود سلام کرتے ایک دفعہ مدینہ کے بچوں نے مشورہ کیا کہ آج ہم لوگ خود حضور کو پہلے سلام کریں گے اور چُھپ کر درخت کے پیچھے کھڑے ہو گئے مگر حضور نے دیکھ لیا اور پہلے آکر سلام کیا.آپ کا ارشاد ہے:.ان اولى الناس بااللهِ مَنْ بَدَاءَ با السلام یعنی وہ لوگوں میں اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے جو سلام میں پہل کرتا ہے (رسول اللہ کی باتیں ص 13 حدیث (12) پیارے حضور نے فرمایا:.
18 17 اے بچے جب تم گھر میں جاؤ تو پہلے سلام کیا کرو یہ تیرے لئے اور تیرے گھر والوں کے لئے باعث برکت ہے.ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سا سلام بہتر ہے آپ نے فرمایا جس کو تو جانتا ہے اس کو بھی سلام کہے اور جسے نہیں جانتا اُسے بھی سلام کہے.آپ کا ارشاد ہے:.افْذُو السَّلام یعنی السلام علیکم کہنے کو رواج دو اور پھیلاؤ مجھے بھی پیار کیا احادیث الاخلاق ص 86 ، 118) جاوید بن تمرہ بچپن کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی نماز سے فارغ ہو کر آپ اپنے گھر کی طرف چلے میں بھی ساتھ ہولیا کہ ادھر سے چند لڑکے نکل آئے آپ نے سب کو پیار کیا اور مجھے بھی پیار کیا.بچوں کی دلجوئی (الفضل سیرت النبی نمبر 1983 ) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی بہت دلجوئی فرماتے حرم مبارک سے نکل کر مسجد تشریف لاتے تو راستے میں بلا امتیاز بچوں کو پیار کرتے اور گود میں اٹھا لیتے اور اگر آپ کے پاس کوئی کھانے کی چیز ہوتی تو تھوڑی تھوڑی سب بچوں میں تقسیم کر دیتے.اور ان کو سمجھاتے جاتے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر کھانا شروع کرو.سیدھے ہاتھ سے کھاؤ.آہستہ کھاؤ اپنے سامنے سے کھاؤ.بچے کو جو چیز پسند ہوتی اپنے ہاتھ سے اُٹھا کر دیتے اور محبت سے کھلاتے.ایسا کرنے کا مقصد خدا کا شکر گزار بندہ ہونے کے علاوہ بچوں میں شکر گزار بندہ بننے کی صلاحیت پیدا کرنا ہوتا.(زاد المعاد ، اسوہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ص 163) خطا پر سرزنش نہ کرتے آپ بچوں کو سیر کے لئے بھی ساتھ لے جاتے ان کے کھیل میں بھی شریک ہوتے.اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ بچوں سے کوئی نقصان ہو جائے یا کام میں دیر ہو جائے تو گھر والے سخت سرزنش کرتے ہیں مگر ہمارے پیارے آقا رؤف و رحیم کا یہ حال تھا کہ اپنے غلاموں سے بھی سخت الفاظ نہ بولتے تھے بلکہ کسی کو کبھی جھڑ کا نہ ڈانٹا.بچوں کو جسمانی سزا دینے کے سخت (شمائل ترمذی الفضل سیرت النبی منمبر 1983) خلاف تھے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کی معمولی تکلیف کو رفع کردیتے.آپ بچوں کو کبھی تکلیف میں نہ دیکھ سکتے.آپ ﷺ نے کبھی کسی بچے پر ہاتھ نہیں اُٹھا یا.زندگی بھر کسی بچے کو نہیں پیٹا ، آپ بچوں کی معمولی تکلیف پر تڑپ اٹھتے اور اسے رفع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے.بچے اور ماں پر رقم الفضل سيرة النبي نمبر 1983) ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم بچوں کے آرام و سکون کا بھی بہت خیال رکھتے تھے.فرماتے تھے کہ میں نماز شروع کرتا ہوں تو ارادہ ہوتا ہے کہ دیر سے ختم کروں مگر کسی بچے کے رونے کی آواز کان میں پڑ جاتی
20 20 19 ہے تو نماز مختصر کر دیتا ہوں.یہ بچے پر بھی رحم ہے اور ماں پر بھی.(بخاری کتاب الصلوۃ جلد اوّل حدیث 669، ص 456) نانا کا نواسوں سے پیار حضرت حسن و حسین سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بے حد پیار تھا.ایک دفعہ آپ ان کو پیار کر رہے تھے اور ان کو چوم رہے تھے.ایک بدو سردار آیا اس نے جب یہ نظارہ دیکھا تو کہا یا رسول اللہ ! آپ بچوں کو پیار کر رہے ہیں؟ میرے تو دس بچے ہیں لیکن میں ایک کا بھی منہ نہیں چومتا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اگر اللہ تمہارے دل سے محبت چھین لے تو میں کیا کرسکتا ہوں.نیز فرمایا.مَنْ لَا يَرْحَمُ لَا يُرُ حَم جو شخص کسی پر رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جائے گا.(ادب المفرد هیچ بخاری، کتاب الاول جلد سوم ص 344، الفضل سيرت النبی 1983 ص17 ) اسی طرح ایک دفعہ یہ بھی فرمایا:- أَكْثِرُو قِبْلَةَ اَوْلَادِكُمْ فَإِنَّ لَكُمْ بِكُلِ قِبْلَة دَرَجَةٌ فَى الجَنَّةِ اے لوگو! بچوں کو چوما کرو کیونکہ ان کو چومنے کے بدلے میں تم کو جنت میں ایک درجہ ملے گا.( صحیح بخاری، تشخیز الاذہان ربوہ مئی 1993 ص 11، الادب المفرد باب رحمت العيال) نیز یہ بھی فرمایا:- لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمُ صَغِيرَنَا يَعْرِفْ شَرَف كبيرنا ( ترمذی کتاب البر والصله ) جو بچوں کے ساتھ رحمت و شفقت کا سلوک نہیں کرتا اور بڑوں کی عزت نہیں کرتا اس کا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں.جنت کی خوشبو تھا.علاوہ ازیں ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کو ہی دیکھ کر فرمایا تم بے شک ماں باپ کو بھیل بھی بناتے ہو اور بزدل بھی بناتے ہو لیکن تم جنت کی خوشبو بھی ہو“.(سیرت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، ص 247 ، ترمذی ) بچہ سوار ہو جاتا تو سجدے سے سر نہ اُٹھاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے نواسوں حسن اور حسین کو بے حد عزیز رکھتے تھے ان کو کندھوں پر بٹھاتے اور گود میں اٹھاتے رہتے.آپ نماز میں ہوتے تو دونوں بچے پیٹھ پر سوار ہو جاتے مگر آپ سجدے سے اس وقت تک سر نہ اٹھاتے جب تک بچے خود ہی نہ اتر جائیں.(ابو داؤد کتاب الادب، ، الفضل 3 مارچ 2004) سواری بھی پیاری اور سوار بھی پیارا ایک دفعہ پیارے نواسے نے نانا سے کہا میں اونٹ پر سواری کروں گا کیونکہ آگے ایک بچہ اونٹ پر جا رہا تھا.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اس کو کندھے پر بٹھا لیا اور اونٹ کی طرح چلنا شروع کر دیا اور آواز بھی لگانے لگے.اس طرح حسنؓ اور حسین خوش ہو گئے.کسی نے راستے میں دیکھ کر کہا کتنی پیاری سواری ہے تو فوراً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سوار بھی کتنا 66 پیارا ہے.ترندی ص 312 ، موج کوثر صفحہ 212، 213)
21 24 بچے کو گود میں اٹھا کر نماز ادا کی آئیے اب ایسا ہی ایک اور حسین نظارہ دیکھتے ہیں.حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی لختِ جگر امامہ سے شفقت.حضور نماز پڑھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زینب کی بیٹی کو اُٹھایا ہوا تھا جب رکوع اور سجدہ کرتے تو اس کو نیچے اُتار دیتے اور جب سجدے سے اٹھتے تو اُس کو پھر اُٹھا لیتے غرض کہ بچوں سے بے حد محبت کرتے.آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات غیر معمولی طور پر سراپا رحمت و برکت تھی.(صحیح بخاری کتاب الادب جلد سوم ص 344) مسجد کے آداب آپ بچوں کو بھی برابر مسجد میں لے جاتے اور نماز میں شریک فرماتے اور مسجد کے آداب سے بھی آگاہ فرماتے.اور ان کی تربیت اور بہبودی میں کوشاں رہتے نیز فرماتے.جو شخص بد بودار درخت ( پیاز لہسن وغیرہ) کھائے وہ ہماری مسجد میں نہ آئے کیونکہ جس چیز سے آدمیوں کو تکلیف ہوتی اُس سے فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے.حضور ہے ( صحیح مسلم ، رسول اللہ کی باتیں ص 46 حدیث نمبر 41) حسین نظارہ حضرت اسامہ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ میں کسی ضروری کام کے لئے ورصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا.تو آپ اپنی گود میں چادر کے نیچے کوئی چیز چھپائے تشریف فرما تھے.میرے دریافت کرنے پر چادر اٹھائی اور فرمایا ”یہ میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں.اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں اور ان سے بھی محبت کرتا ہوں جو ان سے محبت کا سلوک کرے.“ عجیب پیارے انداز میں بچوں سے لاڈ پیار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی عزیز بیٹی حضرت فاطمہ کے بیٹوں حسن اور حسینؓ سے بہت پیار کرتے.انہیں گود میں اٹھاتے سینے سے لگاتے ان کا منہ چومتے.عجیب انداز میں ان سے لاڈ پیار کرتے.آپ کے صحابی حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے دیکھا.ایک دن حسین کو پکڑا ہوا ہے اس کے پاؤں حضور کے پاؤں پر ہیں اور آپ فرما رہے ہیں.آجاؤ، اوپر چڑھو.یہاں تک کہ حسین کے پاؤں حضور کے سینے پر آگئے پھر حضور نے حسین کو کہا منہ کھولو.حسینؓ نے منہ کھولا تو حضور نے منہ چوم لیا اور فرمایا بارالہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت رکھ.(سیرت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 253) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں بازو پھیلا دیے ایک روز حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی شخص نے کھانے پر بلایا تھا.آپ کے ساتھ بعض صحابہ بھی تھے.گلی میں یہ بھی تھے.گلی میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حسین کو دیکھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ سے آگے بڑھے اور دونوں بازو پھیلا دیے.حسین کبھی ادھر دوڑتے کبھی اُدھر.حضور نے اسے پکڑا.ایک ہاتھ حسینؓ کی ٹھوڑی پر رکھا اور دوسرا سر کے نچلے حصے پر اور حسین کا منہ ( ترمذی ابواب المناقب) چوما.علی اور بچوں کو بھی بلاؤ ایک دن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین حضرت اُمِ سلمی کے گھر تشریف فرماتھے حضرت فاطمہ حلوہ بنا کر لائیں.حضور نے فرمایا علی اور 22 22
24 23 بچوں کو بھی بلاؤ وہ آئے تو آپ نے کھانا شروع کیا.( مسند احمد بن حنبل جلد 6 ، 797، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 257) پیارے آقا کے پیارے نواسے حضرت حسن اور حضرت حسین کی فراست درست وضو کا دلچسپ اور انوکھا واقعہ رض ย حضرت حسن اور حسین حضرت علی اور حضرت فاطمہ کے بیٹے اور رسول پاک کے نواسے تھے.ایک دن وہ مسجد میں بیٹھے تھے ایک بزرگ نماز پڑھنے کے لئے آئے اور وضو کرنے لگے.حضرت حسن اور حسین نے دیکھا کہ اُن بزرگ کو وضو کرنا نہیں آتا دونوں نے مشورہ کیا کہ اُن بزرگ کو وضو کا درست طریقہ سکھایا جائے.مگر وہ یہ بھی سوچ رہے تھے کہ یہ بزرگ ہیں اور ہم بچے ہیں.آخر ایک ترکیب سوجھی.دونوں اس بزرگ کے پاس گئے اور حسین نے کہا باباجی آپ ہمارا فیصلہ کردیں بزرگ شخص نے حیران ہوکر ان کی طرف دیکھا اور پوچھا کس بات کا فیصلہ.حسن نے کہا بابا میں حسن ہوں اور یہ میرا بھائی حسین ہے.یہ کہتا ہے کہ میرا وضو کا طریقہ ٹھیک ہے.اور میں کہتا ہوں میرا وضو کا طریق ٹھیک ہے ہم دونوں آپ کے سامنے وضو کرتے ہیں آپ دیکھ کر فیصلہ کر دیجئے کہ کس کا وضو درست یہ کہہ کر حضرت حسنؓ اور حسین دونوں اس بزرگ شخص کے سامنے بیٹھ گئے اور وضو کرنے لگے.بزرگ شخص ان کی طرف غور سے دیکھتے رہے.جب وہ وضو کر چکے تو بزرگ شخص نے محبت سے ان دونوں کے ہاتھ تھام ہے.لئے اور کہا! بیٹا تم دونوں کا وضو درست ہے میرا غلط تھا.اس طرح بڑے عمدہ طریق سے بزرگ آدمی کو وضو کا درست طریق سکھا دیا.( تشخیذ الاذہان 1973) سب سے زیادہ محبوب حضرت انس روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ اہل بیت میں سے مجھ کو حسن اور حسین سب سے زیادہ محبوب ہیں.آپ کو حسین سے جو محبت تھی اس کا آپ نے اظہار بھی کیا اور اعلان بھی تاکہ بعد میں آنے والے لوگ بھی اُن سے محبت کریں.( تفخیذ الاذہان 1973) بچہ پیاس سے نڈھال ہو گیا حضرت ابو جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ سیدنا امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت چھوٹی عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی گود میں تھے کہ ان کو شدید پیاس محسوس ہوئی.پانی تلاش کرایا گیا مگر اس وقت کہیں پانی نہ ملا.ادھر بچہ پیاس سے نڈھال ہو رہا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً اپنی زبان حسن کے منہ میں ڈال دی.چنانچہ وہ زبان اقدس چوس کر سیراب ہو گئے اور ان کی وہ تکلیف دہ کیفیت جاتی رہی.(ابن عساکر) (الفضل 14 دسمبر 1974 ص 3) لعاب مبارک کی برکت سے پانی مل جاتا جناب ابوعبد نحوی رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عامر بن کریز اپنے بیٹے عبداللہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لائے جب کہ آپ کی عمر پانچ سال تھی.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے منہ میں لعاب مبارک ڈال دیا.اس کی برکت یہ ظاہر ہوئی کہ پانی کی ضرورت
26 25 کے وقت انہیں پانی مل جاتا تھا.خواہ وہ جنگل میں ہوں، صحرا میں ہوں یا (الفضل ربوہ 14 دسمبر 1974 ص 3 ) آبادی میں.شیر خوار بچوں پر شفقت ย آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آزاد کردہ لونڈی سے روایت ہے کہ آپ عاشورہ کے دن صحابہ کرام کے شیر خوار بچوں اور اپنی صاحبزادی سیدہ فاطمہ کے بچوں کو بلا کر ان کے منہ میں اپنا لعاب دہن ڈال دیتے اور ان کی ماؤں سے فرما دیا کرتے تھے کہ اب ان کو دن بھر دودھ نہ پلانا.مدینے میں مہاجرین کا پہلا بچہ الفضل 14 دسمبر 1974 ص 3) ہجرت مدینہ کے بعد مہاجرین کے ہاں جو بچہ پیدا ہوا وہ عبداللہ بن زبیر تھے جن کی سب نے بے حد خوشی منائی.زبیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور ان کی بیوی یعنی عبداللہ کی ماں حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بڑی بیٹی حضرت اسماء تھیں.جس وقت عبد اللہ کو اُٹھا کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور کو اپنے منہ میں نرم کر کے اس کا لعاب عبداللہ کے منہ میں ڈالا اور ان کے لئے دُعا فرمائی.(فدایان رسول ص 123 ، اسوہ رسول اکرم ﷺ ص 613) سو سال کی عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی حضرت عبداللہ بن سیر رضی اللہ تعالیٰ تھے جب وہ بچہ تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر فرمایا اس لڑکے کی عمر سو سال کی ہو گی چنانچہ ان کی عمر ایک سوسال کی ہوئی.ماں سے بھی بڑھ کر مشفق حضور ( بیہقی حجۃ اللہ صفحہ 501) ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ماں سے بھی بڑھ کر بچوں پر شفقت کرنے والے تھے.ایکدفعہ ایک عورت اپنا بیمار بچہ لے کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی کہنے لگی حضور صلی اللہ علیہ وسلم یہ بچہ ہمیشہ بیمار رہتا ہے اس کو کئی بیماریاں ہیں.رصلی اللہ علیہ وسلم دُعا کریں یہ مر جائے اور اس کو تکلیفوں سے نجات ملے.ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر رحم آیا.آپ نے فرمایا کیا میں یہ دُعا نہ کروں کہ تیرا بچہ تندرست ہو جائے پھر جوان ہو کر جہاد میں شریک ہو اور شہادت کا درجہ پالے.چنانچہ ایسا ہی ہوا وہ بچہ تندرست ہوا.بڑا ہو کر مخلص مسلمان بنا اور میدانِ جنگ میں شہادت پائی.ماں تو کہتی ہے کہ بچہ مر جائے.مگر ماں سے زیادہ مشفق نے فرمایا نہیں میں دُعا کرتا ہوں بچہ زندہ رہے گا.آگ سے جلا ہوا بچہ لعاب مبارک سے ٹھیک ہو گیا حضرت محمد بن حاطب روایت کرتے ہیں کہ جب میں بچہ تھا تو میں ایک روز اپنی ماں کی گود میں سے آگ میں گر کر جل گیا چنانچہ اس وقت میری والدہ مجھے اُٹھا کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ازراہ شفقت مجھے گود میں لیا اور میرے جسم کے جلے ہوئے حصوں پر لعاب دہن لگا کر دُعا فرمائی تو میں بالکل ٹھیک ہو گیا (صحت یاب ہو گیا).الفضل 14 دسمبر 1974 ص 4) (ابن عساکر)
28 27 گونگا بچہ باتیں کرنے لگا حجتہ الوداع کے موقعہ پر ایک عورت اپنا بچہ لے کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا ”حضور یہ گونگا ہے.بولتا نہیں.حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وقت پانی منگوایا ، کلی کی اور اپنے ہاتھ دھوئے اور ارشاد فرمایا یہ پانی اس کو پلا دو اور کچھ پانی اس کے جسم پر چھڑک دو.دوسرے سال وہ عورت آپ کے پاس آئی اور خوش ہو کر بیان کیا.حضور کی دعا سے اب میرا بیٹا باتیں کرتا ہے اور بالکل اچھا بولتا ہے.الفضل 14 دسمبر 1974 ص 4) بچے نے معجزہ دیکھ کر اسلام قبول کرلیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوئی کے وقت حضرت عبداللہ بن مسعودؓ ابھی کمسن تھے اور بکریاں چرا رہے تھے.کہ آنحضرت " مع حضرت ابوبکر ادھر آ نکلے.حضرت ابوبکر نے اُن سے کہا بچے اگر تمہارے پاس دودھ ہے تو پلاؤ مگر بچے نے جواب دیا کہ بکریاں کسی کی ہیں اس لئے میں آپ کو دودھ نہیں پلاسکتا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی ایسی بکری جس نے ابھی بچہ نہ دیا ہو تو اُسے لاؤ.چنانچہ وہ ایک بکری لے آیا آپ نے اُس کے تھنوں پر ہاتھ پھیر کر دعا مانگی تو اتنا دودھ اُتر آیا کہ تینوں نے سیر ہو کر پیا پھر میں نے عرض کیا مجھے قرآن مجید سے کچھ سنائیے اس پر حضور اقدس نے قرآن مجید کا کچھ حصہ سنایا حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں میرے اسلام قبول کرنے کا موجب اس وقت یہی معجزہ ہوا.( اسد الغابہ تذکرہ عبد اللہ بن مسعود ،الفضل 14 دسمبر 4،1974) ایک بچے کی قربانی اور اس کے ثمرات ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ ارشاد فرمار ہے تھے کہ جو شخص کی حالت میں صبر کرے اللہ تعالیٰ اُسے غنی کرے گا.حضرت ابوسعید خدری جن کی عمر اپنی والدہ کی وفات کے وقت 13 سال تھی اور فاقوں کے وقت ان کی ماں نے حضور سے کچھ مانگنے کے لئے بھیجا تھا.مگر جب آپ نے حضور کا خطبہ سنا تو واپس آئے اور سوچا کہ جب میرے پاس اونٹنی ہے تو پھر مجھے مانگنے کی کیا ضرورت ہے.اس صبر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی بات ان کے حق میں پوری کی اور اس قدر رزق دیا کہ تمام انصار سے دولت ، ثروت میں بڑھ گئے.چڑیا کے بچوں پر شفقت ایک موقعہ پر ایک صحابی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے.ان کی جھولی میں کوئی چیز تھی انہوں نے عرض کیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم آج میں نے عجیب واقعہ دیکھا.میں نے ایک پرندے کے بچے پکڑ کر جھولی میں ڈال لئے تو بچوں کی ماں میرے سر پر منڈلانے لگی.میں نے جھولی کھولی تو بچوں کی محبت کی وجہ سے بچوں کی ماں بھی سیدھی میری جھولی میں آگئی اور بچوں سے لپٹ گئی.میں نے جھولی بند کر لی.اب بچے اور ان کی ماں میری جھولی میں ہیں.تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو چھوڑ دو.خدا ان بچوں کی ماں سے بھی زیادہ اپنے بندوں سے محبت کرنے ( حديقة الصالحين 687 حدیث نمبر 723) والا ہے.مضطرب پرندے پر شفقت ایک موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک پرندہ
30 29 اضطراب کی حالت میں اُڑ رہا ہے ہے اور آواز دے رہا ہے.حضور نے فرمایا اسے کس نے تکلیف دی ہے ایک نو عمر صحابی نے عرض کیا یارسول اللہ میں نے اس کے انڈے اُٹھا لئے ہیں فرمایا اس پر رحم کرو اور اس کے انڈے وہیں رکھ دو.( سیرت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 275) غلام بچوں سے شفقت اور حسن سلوک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غلاموں اور خادموں سے ایسا اعلیٰ اور نیک سلوک فرماتے اور ایسی شفقت و محبت سے پیش آتے کہ جس کی مثال دُنیا کا کوئی لیڈر یا مذہبی پیشوا یا کوئی بادشاہ پیش نہیں کر سکتا.حضور اپنے خادم کے ساتھ مل کر کھانا کھاتے.سفر میں سواری پر بٹھاتے اس کی ہر ذاتی ضرورت پوری کرتے اور کام میں مدد فرماتے.اور غلاموں سے سے اتنی محبت سے پیش آتے کہ ان کو ماں باپ کا پیار دیتے.حضرت زید بہت چھوٹی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے لیکن آپ کے محبت بھرے سلوک اور بے پناہ شفقت کی وجہ سے اپنے ماں باپ کو بھول گئے.زید نے ماں باپ کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا حضرت زید بہت چھوٹی عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آئے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے محبت بھرے سلوک اور بے پناہ شفقت کی وجہ سے اپنے ماں باپ کو بُھول گئے.حضرت زیڈ غلام تھے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آزاد کر کے بیٹا بنا لیا تھا.یہاں تک کہ لوگ انہیں زید بن محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہنے لگے تھے.زید کے والد اور رشتہ دار اُن کو لینے آئے تو ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب زید نے ساتھ جانے سے انکار کر دیا.اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی پر فخر کر کے اس نے والدین کے پیار پر ترجیح دی.حضرت زید غلاموں میں سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے.آپ کا قرآن کریم میں بھی ذکر آتا ہے.(سرکار دو عالم طبقات ابن سعد قسم اول جز ثالث نمبر 27) کبھی اُف تک نہ کہی حضرت انس کے ساتھ بھی یہی شفقت و محبت کا سلوک روا تھا.حضرت انس فرماتے ہیں کہ پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کبھی ڈانٹا.نہ مارا نہ جھڑ کا بلکہ جو خود کھاتے وہ مجھے کھلاتے.اچھا کپڑا پہناتے اور کام میں برابر ہاتھ بٹاتے.دس سال تک میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہا مگر اس طویل عرصہ میں آپ نے مجھے اُف تک نہ کہی.نہ یہ کہا کہ یہ کام کیوں کیا ہے اور یہ کام کیوں نہیں کیا.بلکہ میرے آقا میرے ساتھ کام میں برابر شریک ہوتے اور مجھ سے کوئی ایسا کام نہ لیتے جو میں کر نہیں سکتا تھا میرے ساتھ خود کام کرتے.اگر مجھ سے کوئی کام خراب بھی ہو جاتا تو کبھی غصہ نہ فرماتے اور نہ ہی نفرت سے دیکھتے.اور نہ بُرا بھلا کہتے بلکہ مجھے تسلی تشفی سے سمجھا دیتے سخت کلامی سے پیش نہ آتے.: (بخاری، جلد سوم 356 ، حدیث نمبر 975) نیز حضرت انسؓ نے فرمایا میں نے رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ بچوں پر رحم و شفقت کرنے والا اور کوئی نہیں دیکھا.(مسلم کتاب الفصل صفحه 27)
32 31 زیور پہنانے کی خواہش ایک دفعہ آپ کے منہ بولے بیٹے حضرت زید کے بیٹے اسامہ کو چوٹ لگ گئی.حضور صلی اللہ علیہ وسلم خود اس کا خون صاف کرتے تھے اور ماں کی طرح پیار کرتے ہوئے فرماتے تھے.اگر اسامہ لڑکی ہوتی تو میں اسے زیور پہناتا.و (مسند احمد جز سادس صفحه 222) اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ حضور کو بچیوں سے زیادہ محبت تھی یہ نسبت بچوں کے.پینے اور غلاموں کے بچوں میں مساوات حضرت اسامہ بن زید اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گود میں لے کر ایک ران پر مجھے اور دوسری ران پر اپنے نواسے حسن کو بٹھا لیتے اور دونوں کو سینے سے لگا کر بھینچتے اور فرماتے اے اللہ میں ان دونوں سے پیار کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت کر.( بخاری مناقب الحسن و الحسین، الفضل سیرت النبی نمبر 1984،ص11) صفائی کا خیال حضرت اسامہ بچے تھے ان کی ناک بہہ رہی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ نے صاف کرنا چاہا حضرت عائشہؓ نے عرض کیا یارسول اللہ میں صاف کر دیتی ہوں.تو آپ نے فرمایا تو اسامہ سے محبت کر کیونکہ میں بھی اس سے محبت و الفت رکھتا ہوں.الفضل 1984 سیرت النبی ص 11 ، بخاری کتاب الفضائل اصحاب ) غیر مسلم غلام بچے کی عیادت حضرت انس بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خادم تھا وہ ایک دفعہ بیمار ہو گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور اس کے سرہانے تشریف فرما ہوئے اس حدیث سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پاک اور اعلیٰ نمونہ ظاہر ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک نوکر کی عیادت کے لئے جو مسلمان بھی نہیں تھا تشریف لے گئے اور اس کا حال پوچھا.( بخاری کتاب الجنائز حدیث نمبر 216 ، رسول اللہ کی باتیں، ص 32) مشرکین کے بچوں سے شفقت اور ہمدردی ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ صرف مسلمان بچوں سے بے انتہا لگاؤ تھا بلکہ دوسرے مذاہب کے بچے بھی آپ کی اس محبت سے محروم نہ تھے.ایک جنگ میں مشرکین کے چند بچے مارے گئے.حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو علم ہوا تو آپ کو اس کا بہت رنج اور دُکھ ہوا.اور سخت ناراض ہوئے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بچے مسلمانوں کے تو نہ تھے.اس پر آپ نے فرمایا تم سے اچھے تھے.خبردار بچوں کو قتل نہ کرو.ہر جان خدا ہی کی فطرت پر پیدا ہوتی ہے.(مسند احمد بن حنبل جلد 3 صفحہ 135) عورتوں اور بچوں کو نہ ماریں نیز آپ لڑائی میں تاکید فرماتے تھے کہ مسلمان کبھی خود حملہ نہ کریں.ہمیشہ دفاعی طور پر لڑیں.اور یہ کہ عورتوں اور بچوں کو نہ ماریں.بوڑھوں اور معذوروں کو نہ ماریں.جو ہتھیار ڈال دیں ان کو نہ ماریں عمارتیں نہ گرائیں.درختوں کو نہ کاٹیں فصلوں اور گاؤں کو نہ لوٹیں.اگر آپ کو معلوم
34 =4 33 ہوتا کہ کسی نے ایسی غلطی کی ہے تو سخت ناراض ہوتے.یتیم بچوں سے حسن سلوک (مسلم) جنت واجب ہوگئی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یتیموں کی خبر گیری کے لئے بہت سی ہدایات دے کر قوم کو خبردار کیا ہے کہ یتیم کا خاص خیال رکھا جائے.جیسا کہ فرمایا:- (1) فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقُهَرُ (الضحی : 10 ) (2) كَلَّا بَلْ لَّا تُكْرِمُونَ الْيَتِيم (الفجر : 18 ) کہ یتیم کی احسن طریق پر پرورش کرو.اور اسے دباؤ نہیں اور ہرگز ایسا نہ ہو کہ ان کی عزت نہ کرو بلکہ ہمیشہ ان کے ساتھ حسنِ سلوک روا رکھو اور ان کی حفاظت اور تربیت کا خیال رکھو.یتیم بچے قوم کا ایک نہایت قیمتی خزانہ ہوتے ہیں اگر ان کی طرف توجہ نہ دی جائے تو یہ خزانہ ضائع ہو جاتا ہے.بے بس اور بے سہارا بچے آوارگی کا شکار ہو جاتے ہیں اور قوم کے لئے نقصان کا باعث بنتے ہیں.یتیم کی پرورش کرنے والا جنت میں نیز ہمارے پیارے آقا نے جو خود بھی یتیم تھے فرمایا:- اَنَا وَكَافِل اليتيم فِي الْجَنَّةَ كَهَا تَين (ترندی) کہ میں اور یتیم کی پرورش و حفاظت کرنے والا مسلمان جنت میں دونوں اس طرح ساتھ ساتھ ہوں گے جس طرح یہ میری دو انگلیاں اور.فرماتے ہوئے آپ نے اپنے ہاتھ کی دو انگلیاں اُٹھا کر ملا کر دکھائیں.( بخاری کتاب الادب، ص 346 حدیث نمبر (943) پھر فرمایا:- مَنْ ضَمَّ يَتِيمًا إِلَى طَعَامِهِ وَشَرَابِهِ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةِ (مسلم کتاب الزہد ) یعنی جو شخص اپنے کھانے پینے میں یتیم کو شامل کرتا ہے اس کے لئے جنت واجب ہو گئی.اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 465،464) ہلاکت کا موجب پھر فرمایا:- أَكُلُ مَا لِ الْيَتِيمِ اهْدِ الْمُوبَقَاتِ کا مال کھانا ہلاکت کا موجب بنتا ہے.ان کے منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہوں گے.اسوہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 464) یتامی کو وظائف ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیموں سے بے پناہ محبت و شفقت کا سلوک فرماتے.ان کی دیکھ بھال کی طرف خاص توجہ دیتے تھے.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے بیت المال سے یتامیٰ کو وظائف دئے جاتے اور ان کی ضروریات پوری کی جاتیں.الفضل سیرت النبی نمبر 1983 ص 17) یتیم بچے کی حالت دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو آگئے.ایک دفعہ مکہ کے بازاروں میں ایک یتیم بچہ روتا ہوا جا رہا تھا.اس
36 36 35 کے پاس اتنے کپڑے بھی نہ تھے کہ وہ اپنا جسم اچھی طرح سے ڈھانپ لے اس کے پاؤں زخمی تھے.حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو بچوں سے بے حد پیار کرتے تھے اُسے دیکھ کر آپ کی آنکھیں بھر آئیں.اور کوئی ہوتا تو پرواہ بھی نہ کرتا اور دیکھ کر پاس سے گزر جاتا مگر آپ نے آگے بڑھ کر یتیم بچے کو گود میں اٹھا لیا.اس نے کئی روز سے کچھ کھایا بھی نہ تھا.آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے گھر لے گئے.کھانا کھلایا.کپڑے پہنائے اور اسے اپنے بچوں کی طرح رکھا اور اس کے رشتہ داروں کو اطلاع دی اور ان کے پاس پہنچایا.( محمد عربی مرتبہ خورشید احمد انور ) بچے قوم کا مستقبل بچے سے پوری قوم کا مستقبل وابستہ ہوتا ہے.اور آئندہ قوم کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں آنی ہوتی ہے.اور بچے سے قوم کی ساری توقعات وابستہ ہوتی ہیں.اس لئے بچپن ہی سے بچے کو اس طرح تیار کیا جانا چاہئے کہ وہ کل کو پیش آنے والی تمام تر ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہو سکے.چنانچہ ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس طرح اولاد کی تربیت کی اور قدم قدم پر بچوں کی رہنمائی فرمائی بچوں پر عظیم احسانات ہیں.بچوں پر شفقت تربیت کے رنگ میں (1) نماز میں نظر سجدے کی جگہ پر رکھو: وہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم تھے.جب بچے تھے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو ہدایت فرمائی کہ بچے نماز میں اپنی نظر سجدے کی جگہ پر رکھا کرو.اور ادھر اُدھر نہ دیکھا کرو.نماز میں پھونکیں نہ مارو: (2 (3 (مشكوة 91) فد ایک مسلمان بچہ جس کا نام افلح تھا وہ نماز میں سجدے میں پھونکیں مار رہا تھا.تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اے اصلح نماز میں پھونکیں نہ مارا کرو.منہ کو مٹی لگتی ہے تو لگنے دو.(مشكوة 91) تہجد کے بارے میں تعلیم حضرت عبداللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے.جب وہ ابھی چھوٹے تھے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نماز تہجد ادا کرنے کی خاطر اپنی خالہ کی وجہ سے ایک رات آپ کے گھر میں ٹھہر گئے.وہ کہتے ہیں کہ جب حضور تہجد کے لئے رات کو کھڑے ہوئے تو میں بھی وضو کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ بائیں طرف کھڑا ہو گیا.تو حضور نے میرا ہاتھ پکڑ کر پیچھے سے اپنے دائیں طرف کھڑا کر دیا.(4 (مشكوة 99) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا یہ سمجھانا مقصود تھا کہ جب دو آدمی نماز پڑھیں تو مقتدی امام کے دائیں طرف کھڑا ہو.اور یہ کہ تہجد کی نفلی نماز بھی باجماعت پڑھی جا سکتی ہے.حدیث میں آتا ہے کہ جب باجماعت نماز ہو تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بچوں کی صف پیچھے بنانے کا ارشاد فرمایا کرتے تھے.کھانا کھانے کے آداب ایک لڑکا عمر نامی جس کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پالا تھا.کھانا کھانے کے وقت سالن کے پیالے میں ادھر اُدھر ہاتھ مارتا تھا تو حضورصلی
38 37 اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بچے اللہ کا نام لے کر شروع کرو اور اپنے دائیں ہاتھ سے کھاؤ.کھانا اللہ کا نام لے کر شروع کرنا چاہئے اور داہنے ہاتھ سے کھانا چاہئے (مشكوة 263) حضرت ابن ابی سلمہ فرماتے ہیں ایک دفعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا آپ کھا نا تناول فرما رہے تھے.آپ نے فرمایا :.اونِ يا بن بسم الله وكُلْ بِيَمِينِكَ وَ كُلِّ مِمَّا يَلِيْک (صحیح بخاری کتاب الطعام) آپ نے فرمایا بیٹے میرے قریب آجاؤ اور اللہ کا نام لیکر کھانا شروع کرو.اور پھر ھدایت فرمائی بیٹے داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور اپنے آگے سے کھاؤ.بائیں ہاتھ سے شیطان کھاتا ہے.نیز یہ بھی فرمایا کہ داہنے ہاتھ سے کھاؤ اور داہنے ہاتھ سے پیو.اس لئے کہ بائیں ہاتھ سے شیطان کھاتا اور پیتا ہے.سیدھے ہاتھ سے لیتے اور دیتے.جب کسی کو کوئی چیز دیتے اور کوئی چیز لیتے تو سیدھے ہاتھ سے لیتے اور دیتے.ہاتھ پکڑ لیتے (شمائل ترمذی) جو شخص بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھے بغیر کھانا شروع کردیتا تو آپ اُس کا ہاتھ پکڑ لیتے اور اُس کو بسم اللہ پڑھنے کی تاکید فرماتے.چند آدمیوں کے ساتھ کھانا (اسوہ رسول اکرم 131 ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چند آدمیوں کے ساتھ کھانا باعث برکت ہوتا ہے.برکت زیادہ ہوگئی فرمایا کھانے میں جتنے ہاتھ جمع ہونگے اتنی ہی برکت زیادہ ہوگی میزبان کے لئے دُعا کسی کے ہاں مدعو کرنے پر کھانا تناول فرماتے تو میزبان کے لئے حضور دعا فرماتے تھے.کھانا شروع کرنے کی دعا بسم الله على بركة الله اللہ تعالیٰ کی برکت کے ساتھ کھانا شروع کرتا ہوں.کھانا کھانے کے بعد کی دعا پیارے اسلام کی پیاری باتیں صفحہ 24 الحمد لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانا وجَعَلَنا مِنَ المسلمين.سب تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے ہمیں کھلایا پلایا اور ہمیں مسلمان بنایا.پیارے اسلام کی پیاری باتیں صفحہ 124 ، ”شمائل ترمذی) نیا پھل اور سب سے کم عمر بچہ جب آپ کی خدمت میں نئے موسم کا پھل پیش ہوتا تو آپ اس کو
40 39 آنکھوں اور ہونٹوں پر رکھتے ، پھر یہ الفاظ ارشاد فرماتے:.اللهم كما اريتنا اوله فَارنا آخره (زاد المعاد) اے اللہ جس طرح آپ نے ہمیں اس پھل کا شروع دکھلایا اسی طرح اس کا آخر بھی ہمیں دکھا“.پھر آپ کی خدمت میں جو سب سے کم عمر بچہ (اسوہ رسول اکرم صفحہ 138) ہوتا اس کو وہ عنایت فرماتے.پھل توڑنے کے لئے پتھر نہ مارو ایک اور واقعہ ہے ایک دفعہ ایک بچہ کھجور کے درخت سے کچھ کھجوریں گرانے کے لئے پتھر مار رہا تھا تو لوگ اس کو پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں لے آئے تو ہمارے مہربان آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بچے! جو کھجوریں از خود گر گئی ہوں ان کو بیشک اُٹھا لیا کرو.مگر پتھر نہ مارا کرو.اور اس کے ساتھ اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا اور اس کے لئے دُعا فرمائی.(الفضل 31 اکتوبر 1973) حضرت امام حسن اور صدقہ کی کھجور پھر یہ ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حُسنِ تربیت کا ایک ثبوت ہے کی ایک دفعہ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب کہ وہ ابھی بچے ہی تھے تو صدقہ کی کھجور اپنے منہ میں ڈال لی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے منہ میں انگلی ڈال کر نکال کر پھینک دی اور فرمایا تمہیں معلوم ہے ہم صدقہ نہیں کھاتے.( بخاری ابواب الزكوة ، حدیث نمبر 1397) گویا اپنے نواسوں کی بچپن سے ہی تربیت کا خیال رکھتے تھے.ان کو بھی اسلامی آداب سکھاتے اور حلال وحرام کی تمیز بھی سمجھاتے تھے.پینے کے آداب رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادت مبارک بیٹھ کر پانی پینے کی تھی آپ نے کھڑے ہوکر پانی پینے کو منع فرمایا ہے.(اسوہ رسول اکرم صفحه 139) پانی پینے میں تین مرتبہ سانس لیا کرتے حضرت انس فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم پانی پینے میں تین مرتبہ سانس لیا کرتے اور یہ فرماتے کہ اس طرح سے پانی پینا زیادہ خوشگوار ہے اور خوب سیر کرنے والا ہے.اور حصولِ شفا کے لئے اچھا ہے.نیز فرمایا کہ جب تم میں سے کوئی پانی پیے تو پیالے میں سانس نہ لے بلکہ پیالے سے منہ ہٹالے.سرد اور شیریں پانی زیادہ محبوب تھا.دودھ کو پسند فرماتے تھے.آپ نے فرمایا کوئی چیز ایسی نہیں جو کھانے اور پینے دونوں کے کام آئے.بجز دودھ کے.کھانے کے بعد دعا فرماتے.اللهم زد نا خير منه اے اللہ ہمیں اس سے زیادہ اور بہتر عطا فرما.پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم شہد میں پانی ملا کر علی الصبح نوش فرماتے اور جب اس پر کچھ وقت گزر جاتا اور بھوک معلوم ہوتی تو جو کچھ کھانے کی قسم کا ہوتا تناول فرماتے.(مدارج النبوة، اسوہ رسول اکرم صفحه 139)
42 41 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے مسلمان بچوں کے سنہری کارنامے بچپن کا زمانہ ایک سنہری زمانہ ہوتا ہے.اس عمر میں حافظہ بھی بہت تیز ہوتا ہے چنانچہ جب ہم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے بچوں کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان بچوں کے سنہری کارناموں کے واقعات پڑھ کر بہت حیرت ہوتی ہے.اس زمانے کے بچوں کو اللہ اور اس کے رسول سے بے حد محبت تھی وہ بے حد ذکی اور فہیم تھے اور قرآنِ کریم کی تعلیم کا اس قدر شوق تھا کی بچپن میں ہی حفظ کر لیتے تھے اور تحصیل علم کا بھی بے حد شوق رکھتے تھے.چند واقعات مسلم بچوں کے درج ذیل ہیں.علم القرآن کا حریص بچہ حضرت عثمان بن العاص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانے میں اسلام لائے تھے اور اس وقت آپ کی عمر بہت چھوٹی تھی مگر علمی پایہ اس قدر زیادہ تھا کہ حضرت عمرؓ فرمایا کرتے تھے کہ یہ لڑکا تفقہ فی الاسلام اور علم القرآن کا بڑا حریص ہے.کم سنی کے باوجود علمی امتیاز کے باعث آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو بنی ثقیف کا امام مقرر فرمایا تھا.سب سے چھوٹا نقیب (تہذیب الناس 260) اس طرح حضرت سعد بن ابی زرارہ کو آپ نے بوجہ ان کی علمیت کے بنو نجار کا نقیب مقرر فرمایا تھا آپ سب نقیبوں سے چھوٹے تھے (اسد الغابہ جلد اوّل صفحہ 71) حضور نے بچوں سے قرآن سُنا تو بہت خوش ہوئے حضرت زید بن ثابت نے گیارہ سال کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا اور اسی وقت قرآن کریم پڑھنا شروع کر دیا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ تشریف لائے تو آپ سترہ (17) سورتیں حفظ کر چکے تھے.عرب کے لوگوں کے لئے یہ اچنبا بات تھی اس لئے لوگ آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ سے قرآن سُنا تو بہت خوش ہوئے.آپ بہت ہی ذکی ذہین اور سمجھدار تھے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے پاس خطوط سریانی اور عبرانی میں آتے ہیں جن کا اظہار کسی پر مناسب نہیں ہوتا.اور یہ زبانیں سوائے یہودیوں کے اور کوئی نہیں جانتا.تم یہ زبانیں سیکھ لو.چنانچہ آپ سیکھنے لگ گئے اور اس قدر شوق اور محنت سے کام کیا کہ پندرہ ہی روز میں خطوط پڑھنے اور ان کا جواب لکھنے پر قادر ہو گئے.(مسند احمد جلد 5 صفحہ 186) کمسنی میں قرآن حفظ کرلیا حضرت مجمع بن ماریہ نے بچپن ہی میں سارا قرآن حفظ کرلیا تھا.اس زمانے کے تمدن کے لحاظ سے بہت بڑی بات تھی.اور اپنے زہد و تقویٰ کے وجہ سے اپنی قوم میں امام تھے.(اسدالغابہ جلد 4 صفحہ 303) صحابہ سے زیادہ واقفیت حضرت نعمان منذر کی عمر آٹھ سال تھی لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حالات کا بغور مطالعہ کرتے رہتے اور انہیں یاد رکھتے تھے.منبر کے بالکل قریب بیٹھ کر وعظ سنتے تھے.ایک مرتبہ دعویٰ کیا کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے متعلق اکثر صحابہ سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں.
44 43 (مسند جلد 4 صفحہ 269) حافظ قرآن بچہ سات آٹھ سال کی عمر میں امامت کراتا اور منبر پر کھڑا ہوکر خطبہ دیتا حضرت عامر بن سلمہ فرماتے ہیں کہ ہم مدینہ کے راستے میں رہتے تھے جو لوگ وہاں آتے وہ بتاتے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے اور یہ آیتیں نازل ہوتی ہیں.چنانچہ میں وہ آیتیں یاد کر لیتا اور مسلمان ہونے سے پہلے ہی مجھے بہت سارا قرآن یاد ہو گیا تھا.جب مکہ فتح ہوا تو ہم سب مسلمان ہو گئے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں احکام دین سکھائے.نماز سکھائی.جماعت کا طریقہ سمجھایا اور فرمایا تم میں سے جسے زیادہ قرآن یاد ہو وہ امامت کے لئے افضل ہے.چنانچہ میری قوم نے تلاش شروع کی تو مجھ سے زیادہ حافظ قرآن کوئی نہ نکلا.اور مجھے ہی امام بنایا گیا.میں نماز پڑھاتا اور منبر پر کھڑا ہو کر خطبہ دیتا.اس وقت میری عمر سات آٹھ سال تھی.(مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے ص 79 ، ابوداؤد ، کتاب الصلوۃ) سو سے زیادہ حافظ قرآن مسلم نوجوانوں کو قرآن سیکھنے کا اسقدر شوق تھا کہ ایک دفعہ کسی خاص غرض کے تحت حضرت عمر نے حفاظ کی مردم شماری کرائی تو معلوم ہوا کہ فوج کے ایک دستے میں سو (100) سے زیادہ حفاظ تھے.(فضائل القرآن ، مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے ص 77) ننھا بچہ علم وفضل کی وجہ سے اُستاد بن گیا حضرت عبد اللہ بن عباس حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچازاد بھائی تھے.اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں بہت کمسن تھے.مگر علمی پایہ اتنا بلند تھا کہ حضرت عمرؓ اکثر پیچیدہ اور مشکل مسائل ان سے حل کراتے تھے.وہ اپنی کم عمری کی وجہ سے مجلس میں بات کرتے جھجکتے تو حضرت عمر ان کی ہمت بندھاتے اور فرماتے کہ علم عمر کی کمی یا زیادتی پر منحصر نہیں.آپ کو شیوخ بدر کے ساتھ بٹھاتے حضرت عبداللہ بن عباس کا علمی پایہ بھی بہت بلند تھا.آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے اصحاب کے پاس جاتے اور ان سے حضور کی باتیں سنتے تھے.جب آپ کو معلوم ہوتا کہ فلاں شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث سنی ہے تو فوراً اس کے مکان پر پہنچتے اور اس سے حدیث سنتے.اور اس طرح آپ نے عرب کے کونے کونے میں پھر کر ان جواہر پاروں کو جمع کیا.جو اطراف ملک میں مختلف لوگوں کے پاس منتشر صورت میں موجود تھے.چنانچہ اس محنت کا نتیجہ یہ تھا کہ صحابہ کرام میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول و فعل پر اختلاف ہوتا تو حضرت عبداللہ بن عباس کی طرف رجوع کرتے تھے.جس طرح آپ نے کوشش اور محنت کے ساتھ علم حاصل کیا تھا اسی طرح اس کی اشاعت بھی کرتے چنانچہ ان کا حلقہ درس بہت وسیع تھا اور سینکڑوں طلباء روزانہ ان سے اکتساب علم کرتے.آپ کی مرویات کی تعداد 2260 ہے.(مستدرک حاکم جلد ۲، فضائل ابن عباس جلد 3) کا گھر اور اسکا دروازہ حضرت علیؓ نے کمسنی میں ہی اسلام قبول کیا تھا.تاہم تحصیل علم کا
46 45 شوق اسقدر تھا کہ آپ کے علم و کمال کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:." انا مدينة و على با بها.یعنی ”میں علم کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں“ نیز فرمایا علی مجھے میں ہے اور میں علی میں ہوں“ کمسن کا علم وفضل حضرت عمر بن سعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اس قدر کمسن تھے کہ کسی غزوہ میں شرکت نہ کر سکے.تاہم صحابہ میں بہ لحاظ علم وفضل ایسا بلند مرتبہ حاصل کرلیا تھا کہ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ کاش مجھے عمر جیسے چند آدمی مل جاتے تو امورِ خلافت میں ان سے بہت مدد ملتی.نجران کا حاکم (سیر انصار جلد 8 صفحہ 120) حضرت عمر بن حزم نے کمسنی میں اسلام قبول کیا تھالیکن علمی قابلیت اور اصابت رائے قوتِ فیصلہ کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ 20 سال کی عمر میں ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو نجران کا حاکم مقرر کر کے بھیجا.بچوں کی تعلیم و تربیت کا خیال تو سیر انصار جلد 2 صفحہ 119) قیدی اپنی رہائی کے لئے بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں باقاعدہ اسکول تو نہیں ہوتے تھے لیکن ہمارے پیارے آقا کو بچوں کی تعلیم و تربیت کا بہت خیال رہتا تھا جب جنگِ بدر میں دشمن قیدی بن کر مدینہ آئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن قیدیوں کے لئے جو پڑھے لکھے تھے صرف یہ فدیہ مقرر کیا کہ جو قیدی رہا ہونا چاہتے ہیں وہ مدینہ کے دس.دس مسلمان بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں.تو آزاد کر دئے جائیں گے.چنانچہ زید بن ثابت نے، جن سے بعد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی بھی لکھواتے تھے.اسی طرح (ہمارے نبی پیارے نبی 17) لکھنا پڑھنا سیکھا تھا.احادیث کے حافظ بچے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے بچوں کو احادیث یاد کرنے میں بھی بڑی مہارت تھی.ان بچوں نے اپنے حافظہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کثیر تعداد میں احادیث یاد کیں.(اسدالغابہ جلد 1 صفحہ 71) (1 حضرت ابو سعید خدری کی عمر گو آپ کے زمانے میں بہت چھوٹی تھی.تاہم آپ سے 1170 احادیث مروی تھیں جن سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ آپ حصولِ علم کا کس قدر شوق رکھتے تھے.(2 (اسدالغابہ جلد 1 صفحہ 71) حضرت سہل بن سعد کی عمر آپ کے زمانے میں بہت چھوٹی تھی.تاہم تحصیل علم کے شوق کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ آپ سے 1188 احادیث مروی ہیں.(3 حضرت عبداللہ بن عباس کی عمر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت صرف چودہ پندرہ سال تھی مگر پھر بھی علمی جستجو اسقدر بڑھی ہوئی تھی کہ آپ کی مرویات کی تعداد 2200 ہے.
48 47 (4 حضرت اسامہ بن زید کی عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت صرف بیس سال تھی.لیکن یہ بات متفق علیہ ہے کہ آپ کا سینہ اقوال النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خزینہ تھا.بڑے بڑے صحابہ کو جس بات میں شک ہوتا اس کے لئے آپ کی طرف رجوع کرتے.حضرت سمرہ بن جندب عہد نبوت میں بالکل صغير السن تھے.(5 مگر ان کو سینکڑوں حدیثیں یاد تھیں.لکھا ہے " كان من الحفاظ لمكثرين عن رسول الله سلم یعنی آپ حدیث کے حافظ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کثیر روایت کرنے والے تھے.(استیعاب جلد 2 صفحہ 579) صحابہ کرام کو دینی علم کے علاوہ دنیوی علوم کی طرف بھی خاص توجہ تھی.غلاموں کے ساتھ ان کی مادری زبان میں گفتگو حضرت عبداللہ بن زبیر کی عمر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں گو صرف سات، آٹھ سال کی تھی تاہم بڑے ہوئے تو دینی علوم میں نہایت بلند پایہ رکھنے کے علاوہ دنیوی علوم کے بھی ماہر تھے.ان کے پاس مختلف ممالک کے غلام تھے.اور سب کے ساتھ اُن کی مادری زبان میں گفتگو کیا کرتے تھے.اس زمانے میں حصول علم کی راہ میں جو مشکلات تھیں.ان کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر اس بات پر غور کیا جائے تو معلوم ہوسکتا ہے کہ صحابہ کرام تحصیل علم کے لئے کس قدر محنت کرتے تھے.(مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 549) حضرت حسن کا علمی پایه آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت حضرت حسنؓ کی عمر صرف آٹھ نو سال تھی.لیکن باوجود اس کے آپ نے علمی لحاظ سے اسقدر ترقی کی تھی کہ بعد کے زمانے میں.مدینہ میں جو جماعت علم افتاء کی تربیت کے لئے مقرر ہوئی آپ اس کے ایک رکن تھے.(اعلام المومنین جلد 1ص2) بچوں کا جذبہ اخلاص و فدائیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اخلاص و فدائیت میں بھی مسلمان بچے کسی طرح صحابہ سے کم نہ تھے.حضرت انس آٹھ دس سال کی عمر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت پر مامور ہوئے تھے لیکن اس کمسنی کے باوجود آپ پر دیوانہ دار فدا تھے اور نہایت محبت اور اخلاص کے ساتھ اپنے فرائض کو ادا کرتے تھے.حتی کہ نماز فجر سے قبل اُٹھ کر مسجد نبوی میں پہنچتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے سے پہلے ہی پانی وغیرہ کا خاطر خواہ انتظام کر کے حاضر رہتے.(سیر انصار جلد 1 صفحہ 127) بچہ منبر کے لئے لکڑی کاٹ کر لے آیا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک ستون کے سہارے کھڑے ہو کر خطبہ ارشاد فرمایا کرتے تھے.تو ایک دن آپ نے منبر کا خیال ظاہر کیا تو ایک کمسن صحابی سہیل اُٹھے اور منبر کے لئے جنگل سے لکڑی کاٹ کر لے آئے.بچوں کی عبادت اور پاکبازی رات بھر نماز پڑھتے رہتے (مسند احمد جلد 5) صحابہ کی طرح مسلمان بچے بھی عبادت اور پاکبازی اور تقویٰ میں
50 49 بہت بڑھے ہوئے تھے.حضرت شداد بن اوس کمسنی میں اسلام لائے تھے مگر نہایت عابد زاہد تھے.رات کو دیر تک عبادت میں مصروف رہتے تھے.بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ لیٹتے تو پھر خیال آجاتا کہ میں نے خدا کی عبادت کا حق ادا نہیں کیا.اس وجہ سے فوراً اُٹھ بیٹھتے اور عبادت میں مصروف ہو جاتے حتی کہ بعض اوقات رات رات بھر نماز پڑھتے اور عبادت میں (اسد الغابہ جلد 2 صفحہ 318) مصروف رہتے.سجاد لقب پڑ گیا تھا حضرت ابو طلحہ نے بالکل نوعمری میں اسلام قبول کیا تھا.لیکن عبادت کے ذریعہ تقویٰ میں وہ بلند مقام حاصل کر لیا تھا کہ بڑے بڑے صحابہ ان سے دُعائیں کراتے تھے اور سجاد لقب پڑ گیا تھا.(مستدرک حاکم جلد 3 صفحہ 214) عابد زاہد بچہ حضرت علیؓ کی عمر قبول اسلام کے وقت بہت چھوٹی تھی لیکن آپ نہایت عابد زاہد تھے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ كَانَ مَا عَلِمُتُ صَائماً قَوْماً ـ کہ جہاں تک مجھے علم ہے.حضرت علی بہت روزہ ( ترمذی کتاب المناقب) دار اور عبادت گزار تھے.چڑیاں آ آکر پیٹھ پر بیٹھ جائیں حضرت عبداللہ بن زبیر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بہت کمسن تھے تاہم حد درجہ عبادت گزار تھے.نماز اس قدر استغراق سے پڑھتے تھے کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا ایک بے جان ستون کھڑا ہے رکوع اتنا لمبا کرتے کہ اتنے عرصہ میں سورہ بقرہ ختم کی جاسکے.اور سجدے میں گرتے تو اس قدر محویت طاری ہوتی تھی کہ چڑیاں آآکر پیٹھ پر بیٹھ جاتی تھیں.لوگ سمجھتے بھول گئے ہیں (ابن اثیر جلد 4 صفحہ 292 ) حضرت انس کے متعلق آتا ہے کہ آپ قیام و سجدہ کو اس قدر لمبا کرتے تھے کہ لوگ سمجھتے تھے کہ بھول گئے ہیں.( یہ ان کی اکیلی نماز کے متعلق ہے ) (مسلم نوجوانوں کے سنہری کارنامے صفحہ 176 ) بچے کی دینی امور میں رازداری حضرت انس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے اور باوجود اس کے کہ آپ کی عمر آٹھ دس سال تھی.آپ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کاموں میں انتہائی رازداری سے کام لیتے تھے.ایک دفعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت سے فارغ ہوکر گھر کو روانہ ہوئے.راستے میں بچے کھیل رہے تھے چنانچہ آپ بھی یہ تقاضائے عمر کھیل دیکھنے میں مشغول ہو گئے کہ اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آئے.لڑکوں نے انہیں بتایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے ہیں.حضور جب قریب پہنچے تو حضرت انس کا ہاتھ پکڑ کر ان کو علیحدہ لے گئے اور ان کے کان میں کچھ ارشاد فرمایا جسے سُن کر حضرت انس وہاں سے چلے گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے انتظار میں وہیں تشریف فرما رہے.حضرت انس فارغ ہوکر واپس آئے اور حضور کو جواب سے آگاہ فرمایا.جسے سُن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم واپس تشریف لے گئے اور حضرت انس گھر چلے گئے.اور اس غیر معمولی کام کی وجہ سے چونکہ گھر آنے میں معمول سے تاخیر ہو گئی تھی والدہ نے تاخیر کی وجہ پوچھی تو حضرت انسؓ نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
52 51 کام سے بھیجا تھا اس لئے دیر ہوگئی چونکہ آپ ابھی بچے تھے.والدہ نے، اس خیال سے کہ کہیں یہ بہانہ ہی نہ ہو کہا کہ کس کام سے بھیجا تھا.حضرت انس نے جواب دیا کہ ایک خفیہ بات تھی جو افسوس ہے کہ میں آپ کو بتا نہیں سکتا.والدہ کی سعادت دیکھئے کہ اُنہوں نے نہ صرف یہ کہ خود دریافت کرنے پر اصرار نہیں کیا بلکہ تاکید کی کہ کسی اور سے بھی اس بات کا ذکر ہرگز نہ کرنا.( حديقة الصالحين جلد 1 ص 77 مسلم کتاب الفضائل حدیث 323 ،مستدرک حاکم جلد 3) پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس عرفان اور بچے * رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس عرفان میں ایک اچھا خاصہ حصہ بچوں کا بھی ہوتا تھا.جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و شفقت کے نتیجے میں کھنچے چلے آتے تھے.اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں کو غور سے سُنتے تھے.دُنیا کے معلّم یہی بچے بڑے ہوکر دُنیا کے معلم بن گئے.اور دُنیا کے اطراف جوانب میں اشاعت نور مصطفوی کا باعث بنے.ان میں ایک حضرت علی بھی تھے.آپ کو بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی.وہ فرماتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اونٹنی کے پیچھے رہتا ہے.یہ کشش اور یہ محبت اور یہ محسن سلوک نہ کسی باپ میں نہ کسی ماں میں اور نہ ہی کسی نبی میں ہے.اگر ہے تو صرف اور صرف ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے.(مسند جلد 5 صفحہ 135) یوں بچوں کی دینی جرات اور بہادری قوت ایمانی اور کمزور بچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ 10 سال کے تھے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے خاندان کو تبلیغ کرنے کے لئے ایک دعوت کا اہتمام کیا.بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو دعوت اسلام دی اور فرمایا کہ میں تمہارے سامنے دین و دُنیا کی بہترین نعمت پیش کرتا ہوں.کون ہے جو میرا مددگار و معاون ہوگا.سب لوگ خاموش رہے مگر ایک چھوٹے دُبلے پتلے بچے یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُٹھ کر فرمایا میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دست راست بنوں گا.آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ.دوسری دفعہ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حاضرین کو مخاطب کر کے یہی دریافت فرمایا.پھر سب خاموش رہے اور حضرت علیؓ نے اُٹھ کر کہا میں آپ کا ہر طرح سے مدد گار اور معاون رہوں گا.آپ نے فرمایا بیٹھ جاؤ.آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر تیسری دفعہ یہی سوال دھرایا مگر تینوں دفعہ کوئی نہ بولا.مگر حضرت علی نے تینوں دفعہ کھڑے ہوکر آپ کا ساتھ دینے کا وعدہ کیا اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ خاندان کے سب بڑے بڑے لوگ اس بار کو اُٹھانے سے انکار کر رہے ہیں.دشمنوں کی مجلس میں جاکر قرآن سُنا دیا (طبری صفحه 1172 ) ایک روز مسلمانوں نے مشورہ کیا کہ قریش کو قرآن کریم سنایا جائے لیکن یہ کام اس قدر مشکل تھا کہ اس کو سر انجام دینا سخت خطرناک تھا مگر عبداللہ بن مسعود فوراً اس کام کیلئے تیار ہو گئے.انہوں نے قرآن حفظ کیا ہوا
54 53 تھا.دوسرے صحابہ نے کہا کہ ابھی بچے ہیں اس کام کے لئے موزوں نہیں.کوئی ایسا ہو جس کا خاندان وسیع ہوتا کہ قریش حملہ نہ کر سکیں.مگر عبداللہ نے کہا مجھے جانے دو میرا خدا حافظ ہے.چنانچہ اگلے روز جب قریش کی مجلس لگی ہوئی تھی یہ شمع قرآنی کا دیوانہ وہاں جا پہنچا اور تلاوت قرآن کریم شروع کردی.یہ دیکھ کر تمام مجمع مشتعل ہو گیا اور سب کے سب آپ پر ٹوٹ پڑے اور اس قدر مارا کہ چہرہ متورم ہو گیا.لیکن پھر بھی آپ کی زبان بند نہ ہوئی اور تلاوت جاری رکھی.اس سے فارغ ہو کر جب صحابہ میں واپس آئے تو آپ کی حالت نہایت خستہ ہو رہی تھی.صحابہ نے کہا ہم اسی ڈر کی وجہ سے تمہیں جانے سے روکتے تھے.مگر حضرت عبداللہ نے جواب دیا خدا کی قسم اگر کہو تو کل پھر جا کر اسی طرح کروں گا.دشمن خُدا آج سے زیادہ مجھے کبھی ذلیل نظر نہیں آئے.(اسد الغابہ تذکرہ عبداللہ بن مسعودؓ) بہادر بچے کی حکمت عملی ، ڈاکو بھاگ گئے ایک مسلمان بہادر بچے کا کارنامہ سنیے.ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ چر رہے تھے.کفار آئے اور چرواہے کو قتل کر کے اونٹ لے کر چل دئیے.اتفاق سے ایک ننھے بچے سلمہ کی نظر پڑ گئی.اونٹ پہچان لئے اور سمجھ گئے کہ یہ میرے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ چرا کرلے جا رہے ہیں.حضرت سلمہ بن اکوع ایک پہاڑی پر چڑھ گئے.اور زور زور سے چلا کر مسلمانوں کو بتایا کہ ڈاکو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ لے جا رہے ہیں.سلمہ بن اکوع دوڑنے میں بہت تیز رفتار تھے.ابھی بارہ سال کے ہی تھے کہ وہ ہرنی کی طرح تیز دوڑتے اور عرب کے تیز رفتار گھوڑوں سے بھی زیادہ تیز دوڑ لیتے.اس کے علاوہ بہترین تیرانداز بھی تھے.آپ نے اکیلے ہی ڈاکوؤں پر تیروں کی بوچھاڑ کردی.ڈاکو سمجھتے رہے کہ بہت سارے لوگ ان کا پیچھا کر رہے ہیں وہ بدحواس ہو کر بھاگ رہے تھے جب مڑ کر دیکھا تو اکیلا ایک بچہ ہی تھا.اس کا پیچھا کیا.تو سلمہ پھر دوڑ کر پہاڑی پر چڑھ گئے اور ڈاکوؤں سے کہا میرا نام سلمہ بن اکوع ہے.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں اگر تم میں سے کوئی مجھے پکڑنا چاہے تو ہرگز نہیں پکڑ سکتا.البتہ میں تم کو پکڑ سکتا ہوں.اس طرح انہوں نے ڈاکوؤں کو باتوں میں لگائے رکھا.یہاں تک کہ مسلمان ان کی مدد کو پہنچ گئے.مسلمان بچوں کی بہادری کے ایسے کارنامے ہیں کہ دُنیا ان کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے.رسول خدا کی اونٹنی اور دوخوش نصیب بچے ہجرت کے بعد جب ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو ہر شخص کی یہی خواہش تھی کی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس کے گھر قیام فرمائیں ہر ایک آگے بڑھ کر کہتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم حاضر ہیں ہمارے مال و جان حاضر ہیں آپ قبول فرمائیں اور جوش محبت میں اونٹنی کی باگ پکڑ لیتے.حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے چھوڑ دو یہ خدا کی طرف سے مامور ہے جہاں خدا کا منشا ہوگا یہ وہیں بیٹھے گی.چنانچہ یہ عظیم سعادت اللہ تعالیٰ نے دو خوش نصیب یتیم بچوں کو عطا فرمائی کہ سہل اور سہیل کی زمین پر جا کر وہ اونٹنی بیٹھ گئی.خدا تعالیٰ نے ان بچوں کے جذبہ قربانی کو قبول فرمایا اور حضور نے وہ زمین بچوں سے خرید کر وہاں مسجد نبوی تعمیر کی.( بخاری باب مقدم النبی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم ) اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ مسجد کے لئے زمین خرید کر تعمیر کرنی
56 55 بچے میدانِ جنگ میں وہ حضرت اسماء خادم رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر 13 برس کی تھی جب میدانِ جنگ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے.اور یہ ہی عمر حضرت ابو سعید خدری کی تھی جب ان کو ان کے والدین نے جنگ میں شریک ہونے کے لئے رسولِ خدا کی خدمت میں پیش کیا.تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سر سے پاؤں تک دیکھا اور فرمایا کہ بہت کمسن ہیں باپ نے ہاتھ پکڑ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھایا کہ پورے مرد کا ہاتھ ہے تاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت نہ دی.( بخاری باب غزوہ نبی مصطلق ، الفضل 31 اکتوبر 1977) لیکن اس سے یہ بات واضح ہے کہ صحابہ کرام دینی خدمات کو اس قدر ضروری اور قابل فخر سمجھتے تھے کہ اپنے بچوں کو اس کا موقع دلانے کے لیے نہایت حریص رہتے تھے اور ان کو آگے کرتے تھے کہ کسی نہ کسی طرح سعادت حاصل ہو جائے.ہمارے زمانہ میں جو لوگ نہ صرف خود پیچھے ہٹتے ہیں بلکہ اپنی اولاد کو بھی اپنے گھروں میں چھپا کر رکھنا چاہتے ہیں.انہیں سوچنا چاہیئے کہ اُن لوگوں کی اپنی اولادوں سے محبت ہم سے کم نہ تھی.وہ بھی ہماری طرح انسان تھے.اُن کے پہلو میں بھی دل تھے جو ہماری طرح پدری شفقت سے لبریز تھے.مگر جوشِ ایمان اور خدمت اسلام ان کے نزدیک دنیا کی ہر چیز سے زیادہ محبوب تھی.بچوں کا جذبہ جہاد فی سبیل اللہ اور شوق شہادت ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بچوں سے انتہائی محبت و شفقت کا سلوک فرماتے وہاں بچے بھی آپ سے والہانہ محبت و عقیدت رکھتے تھے.یہاں تک کہ وہ آپ کے لئے جان تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے اور فدا کاری کے جذبے سے سرشار ہوکر میدان جنگ میں شمولیت کے لئے درخواست کرتے اور اپنے آپ کو پیش کر دیتے.ننھا مجاہد - ننھا شہید جنگ بدر کی تیاریاں ہو رہی تھیں.مسلمانوں کو مکہ کے کافروں کے پہلا موقعہ جہاد میسر آیا تھا.اس لئے بڑے جوش و خروش سے تیاریاں ہو رہی تھیں.خلاف سعد بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی امیر بہت کمسن تھے.انہوں نے سُنا کہ حضور کمسن بچوں کو واپس کر رہے ہیں تو لشکر کے پیچھے چھپ گئے اور ڈر رہے تھے کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے.دل میں خدا کی راہ میں شہید ہونے کی بڑی خواہش تھی.جب انہیں تلاش کیا گیا اور واپسی کا حکم ملا تو بے تحاشا رونے اور چلانے لگے.جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہوا تو آپ نے ننھے صحابی کو بادل نخواستہ اجازت دے دی.چنانچہ اُن کے بڑے بھائی نے تیار کر دیا اور تلوار باندھی جو اس کمسن سپاہی سے بھی بڑی تھی.اللہ تعالیٰ نے اس معصوم کی شدید آرزو کو قبول کرتے ہوئے اسے شہادت کا رتبہ عطا فرمایا.اللہ اللہ کیا جاں شادی کا جذبہ تھا جو نوجوانوں کے لئے مشعل راہ ہے آپ نے اللہ اور اس کے رسول پر اپنی جان قربان (فدایانِ رسول 105) کردی.زار و قطار رونے لگے
58 57 حضرت براء بن عازب بھی غزوہ بدر کے وقت بہت کمسن تھے.انہوں نے شریک جہاد ہونے کے لئے اجازت مانگی اجازت نہ ملی تو زار و قطار فدایان رسول 116، الفضل 31 اکتوبر 1977 رونے لگے.جنگ بدر کے جانباز بچے شمن خدا کو قتل کر دیا مسلمان کفارِ مکہ کے خلاف برسر پیکار تھے.پیغمبر اسلام کے لشکر میں صرف تین سو تیرہ سپاہی تھے ان میں بھی بہت سے بچے شامل تھے.ستر 70 اونٹ اور دو گھوڑے تھے مگر مقابلے پر ایک ہزار کفار تھے.جنگ کے طوفان میں دو نوخیز لڑکے کسی جستجو میں پھر رہے تھے ابو جہل کہاں ہے.حضرت عبدالرحمن بن عوف جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر کے میدان میں میں نے دائیں بائیں نظر ڈالی تو دیکھا کہ ایک طرف معوذ اور دوسری طرف معاذ ہیں میں نے ایک لمحہ کے لئے سوچا.اگر میرے دائیں بائیں کوئی مضبوط نوجوان ہوتے تو جنگ میں لڑنے کا مزا بھی آتا.اس خیال کے آتے ہی ایک بچے نے دائیں طرف سے کہنی ماری اور پوچھا چا ابو جہل کہاں ہے.ادھر سے دوسرے نے کہنی مار کر پوچھا.چچا! وہ ابو جہل کہاں ہے جو رسول کریم صلی اللہ صلی علیہ وسلم کو گالیاں دیتا رہتا ہے اور مسلمانوں کو تکالیف دیتا ہے ہم نے ارادہ کیا ہے یا تو اسے قتل کردیں یا اپنی جان بھی دے دیں گے.میں نے ابھی اُنگلی سے اشارہ ہی کیا تھا کہ وہ دیکھو میدان جنگ میں پہروں میں کھڑا لوہے سے لدا ہوا ہے وہی ابوجہل ہے.حضرت عبدالرحمن بن عوف کہتے ہیں میں نے اشارہ ہی کیا تھا کہ دونوں بچے تیزی سے باز کی طرح اور تلواروں سے ایسا تابڑ توڑ حملہ کیا کہ ابوجہل زمین پر گر گیا.عکرمہ، اس کا لڑکا، اس کے پاس ہی کھڑا تھا اس نے ایک لڑکے پر وار کیا اور اس کا ایک بازو کٹ کر لٹک گیا جو جنگ میں لڑنے میں حائل ہو رہا تھا.تو اس نے بازو کو پاؤں کے نیچے رکھ کر جسم سے الگ کر دیا اور پھر لڑنے لگا.دشمن خدا، ابو جہل نے مرتے ہوئے بڑی حسرت سے کہا میں کمسن لڑکوں کے ہاتھوں قتل ہوا ہوں.( بخاری کتاب المغازی باب غزوہ بدر ) جنگ اُحد کے جانباز کمسن سپاہی جنگ اُحد بڑی خون ریز جنگ تھی بہت سے کم عمر لڑکے بھی اس جہاد میں شامل ہونے کے لئے بیتاب تھے یہ صحرا کے بچے تھے جن کے سروں میں اللہ کی راہ میں اپنی جانیں فدا کرنے کا جنوں سمایا ہوا تھا وہ یا تو فتح چاہتے تھے یا شہادت کا رتبہ مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان معصوم بچوں کو جنگ کی آگ میں جانے کی اجازت نہ دی اور بچوں کو واپس جانے کے لئے کہا.ان میں ایک بچہ رافع بھی تھا جو بہت اچھا تیرانداز تھا اس کے باپ نے حضور صلی اللہ ولیہ وسلم کی خدمت میں درخواست کی کہ اسے ماہر نشانہ باز ہونے کی وجہ سے اجازت دے دی جائے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم مان گئے.) یہ دیکھ کر ایک نوخیز بہادر سمرع جو رافع سے زیادہ طاقتور تھا جوش میں آیا اور اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے التجا کی کہ میں گشتی میں رافع کو پچھاڑ سکتا ہوں.مقابلہ کرالیں.اگر میں نے اس کو گرا لیا تو مجھے بھی اجازت دے دیں چنانچہ گشتی میں سمرع نے فوراً رافع کو گرالیا کیونکہ واقعی و بہت طاقتور تھا.چنانچہ اس طریقے سے اُسے بھی میدانِ جنگ میں جانے کی وہ
60 59 اجازت مل گئی.(ابن ہشام جلد ثانی جز ثالث 586) سات بہنوں کا ایک بھائی میدان جنگ میں حضرت جابر ایک بچے ہی تھے جو سات بہنوں کے واحد بھائی تھے.ان کے والد بھی شہید ہو چکے تھے.جنگ اُحد کے بعد پھر جنگ کا اعلان ہوا تو جابر جہاد میں شامل ہونے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اجازت چاہی.آپ میدان جنگ میں جانے کے لئے بے قرار تھے حضور کے سامنے گھٹنے ٹیک کر جھک کر اس قدر عاجزی سے التجا کی کہ حضور نے متاثر ہو کر اجازت دے دی.چنانچہ خوشی خوشی میدانِ جنگ میں پہنچ گئے.عقاق محمد صلی اللہ علیہ وسلم (فدایانِ رسول 118) عشق محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں کمسن بچوں کی بہادری اور جاں سپاری کے یہ واقعات اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ وہ آپ کے حسن سلوک اور محبت و شفقت کے گرویدہ تھے.آپ نے ان کے دل و جان پر یہاں تک قبضہ کر لیا تھا کہ وہ اپنا سب کچھ آپ پر نچھاور کرنے پر تلے بیٹھے تھے.اور ان معصوم بچوں نے اس بات کو یقیناً سچ کر دکھایا تھا کہ ” یا رسول اللہ ! ہم آپ کے دائیں بھی لڑینگے اور بائیں بھی لڑینگے اور آپ کے آگے بھی لڑینگے اور آپ کے پیچھے بھی لڑینگے اور دشمن آپ تک ہرگز نہیں پہنچ سکے گا جب تک وہ ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ جائے.(الفضل 31دسمبر 1977) يَا حِبِّ إِنَّكَ قَدْ دَّ خَلْت مَحَبَّةٌ فِي مُهْجَتَى وَ مَدَا رِكِي وَ جَنَا نِي اے میرے محبوب ایقیناً آپ کی محبت مجھ میں میری جان ،میرے دماغ اور میرے دل میں رچ گئی ہے.پس یہ اسلام کے بچوں کی بہادری اور شجاعت کی ایسی زندہ ، روشن اور سنہری داستانیں ہیں جو قیامت تک مشعل راہ کا کام دیتی رہیں گی انشاء اللہ العزيز قرآن کریم میں ارشاد ہے:.(ال عمران: 160) فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ ج وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ کہ اے نبی تیری طبیعت میں خدا نے جو رحمت و شفقت کا جذبہ رکھ دیا ہے اس کی وجہ سے تو ان سب سے نرمی ، حلیمی اور شفقت سے پیش آتا ہے.اور اگر کہیں خدانخواستہ تو سخت دل، سخت مزاج ، درشت زبان ، بد زبان اور ترش رُو ہوتا تو کوئی بھی تیرے قریب نہ آتا.اور سب دور دور ہی رہتے.پس یہ تیری شفقت و محبت اور حسن سلوک کی وجہ سے ہی ہے کہ یہ سب تیرے ساتھ جذبہ محبت و عشق رکھتے ہیں اور تجھ پر دیوانہ وار فدا ہوتے ہیں یہ وہ بے پایاں شفقت و محبت ہے جس کی نظیر روئے زمین پر آج تک نہیں مل سکی ہے نہ آئندہ مل سکے گی.سب سے پیارا نبی صلی اللہ علیہ وسلم محبت محبت سے پیدا ہوتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان لَا يُؤْمِنُ اَحَدَكُمْ حَتَّى اَكُون اَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلِدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِين (حديث الاخلاق ص 22 حدیث نمبر (4) کہ کوئی اس وقت تک سچا مومن نہیں کہلا سکتا جب تک کہ میں اس کو اس کے ماں باپ اس کی اولاد اور دوسرے سب لوگوں سے زیادہ پیارا نہ لگوں.
62 61 پس آپ کے زمانے کے بچوں نے آپ کے اس قول کو خوب خوب نبھایا اور نہ دن دیکھا ، نہ رات ، نہ جان ، نہ مال ، نہ رشتہ دار، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر اشارے پر لبیک یا رسول اللہ لبیک یا رسول اللہ کہتے ہوئے سب کچھ ہی قربان کر دیا.سبحان اللہ کیسا پیارا تھا یہ رسول کیسے پیارے تھے یہ بچے! جن کی مثال دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے.جِسْمِي يَطِيرُ إِليكَ مِنْ شَوقَ على يَا لَيْتَ كَانَتْ قُوةُ الطَّير ان ترجمہ : میرا جسم غالب اور وا فر شوق سے آپ کی طرف اُڑا جاتا ہے اے کاش مجھے اُڑنے کی طاقت حاصل ہو.عرب کا حاکم اور گلیوں کے بچے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم عرب کے حاکم تھے.دین و دنیا کے بادشاہ تھے مگر آج.ہاں آج کون ایسا حاکم ہے یا کون سا ایسا بادشاہ ہے جو گلیوں میں پیدل چلتا ہے.اور جب وہ کہیں جا رہا ہوتا ہے.تو مٹی میں کھیلتے ہوئے بچے اس کی ٹانگوں سے لپٹ جاتے ہیں.ہاں..ہاں یہ وہی ہمارے پیارے آقا ہیں.دونوں جہانوں کے بادشاہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہ جب وہ بچوں کے پاس سے گزرتے ہیں تو خود ان کو سلام کرتے ہیں.اُن کے سروں پر پیار سے ہاتھ رکھتے ہیں.ان کو محبت سے گود میں اُٹھا لیتے ہیں اور جب کوئی پھل یا میوہ آتا ہے تو سب سے پہلے اُس بچے کو دیتے ہیں جو لمسن ہو.غرض کہ آپ کی شفقت و محبت کے عطر سے ممسوح گلشنِ اسلام کے ننھے پھول رہتی دنیا تک مہکتے رہیں گے اور آپ کے حسن و احسان کے آفتاب سے منور ہوتے رہیں گے.اللهم صلّ على محمد و على ال محمد و بارک وسلم علیه.يارب صلی علی نبیک دائماً في هذه الدنيا و بعث ثاني اے میرے رب تو اپنے نبی ﷺ پر ہمیشہ درود و سلام اور رحمتیں نازل فرما اس دنیا میں بھی اور دوسرے جہان میں بھی.گلشن اسلام کی ننھی کلیوں پر شفقت ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت محبت صرف ننھے پھولوں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ آپ کا وجود مبارک باغ اسلام کی معصوم کلیوں کے لئے بھی سراپا شفقت و محبت تھا.اور جہاں آپ ان کے جذبات و احساسات کا پورا خیال رکھتے.وہاں بچیاں بھی آپ سے والہانہ عقیدت رکھتی تھیں.بچیاں خوشی اور پیار کے گیت گا رہی تھیں پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ سے مدینہ تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا استقبال کرنے والے صرف جوان بوڑھے اور بچے ہی نہ تھے بلکہ کمسن بچیاں بھی تھیں جو ایک خاص شان سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق و محبت میں دیدہ و دل فرش راہ کر رہی تھیں اور دف بجا بجا کر خوشی سے استقبالیہ گیت گا رہیں تھیں.طَلَعِ الْبَدْرُ عَلَيْنَا مِنْ ثَنِيَاتِ الْوَدَاع وَجَبَ الشُّكُرُ عَلَيْنَا مَا دَعَالِلَّهِ دَاع لباب الاخبار صفحہ 48، سیرت النبی شبلی جلد اول صفحہ 176) و
64 63 ثنیات الوداع (ایک گھائی کا نام ہے) سے ہم پر چاند طلوع ہوا ہے اور ہم پر خدا کا شکر اس وقت تک واجب ہے جب تک کوئی خدا کی طرف بلانے والا بُلاتا ہے.پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ محبت بھرا نظارا دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بچیوں سے پوچھا کیا تم مجھ سے پیار کرتی ہو؟ انہوں نے کہا جی رسول اللہ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں.اس پر تو مسلمان بچیاں جتنا بھی فخر کریں کم ہے (الفضل سیرت النبی نمبر 1983 صفحہ 11، سیرت النبی نمبر 1984 صفحہ 17) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی بیٹی سے پیار اور احترام حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں اپنی بیٹی حضرت فاطمہ سے مل کر جاتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ان کے گھر جاکر ملتے.(مشكوة كتاب اللباس) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بے حد پیار تھا.حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جب بھی اپنے والد حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ملنے آتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم احتراماً اُٹھ کر بیٹی کا استقبال کرتے.انہیں خوش آمدید کہتے اور ان کی پیشانی پر بوسہ دیتے.اُن کے بیٹھنے کے لئے اپنی چادر بچھا دیتے.کیا ہی خوبصورت کپڑا ہے (ابو داؤد کتاب الادبباب جی القیام) حضرت ام خالد روایت کرتی ہیں کہ میں بچی تھی کہ اپنے والد کے ساتھ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئی میں نے زرد رنگ کی قمیض پہن رکھی تھی تو آپ نے مجھے دیکھ کر فرمایا ” کیا ہی خوبصورت کپڑا ہے“ ( بخاری کتاب اللباس) ماں نے کھجور کاٹ کر آدھی آدھی دونوں بچیوں کو دے دی ایک بار حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس ایک عورت کچھ طلب کرنے کے لئے آئی.اس کے ساتھ دو بچیاں بھی تھیں.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس اس وقت صرف ایک کھجور ہی تھی.وہی اُنہوں نے اس کو دے دی.اس عورت نے کھجور کے دوٹکڑے کئے اور دونوں بچیوں کو آدھی آدھی دے دی.اور خود نہ کھائی.جب حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ماں کی بچیوں سے محبت اور ایثار کا واقعہ سُنا دیا.تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : مَنْ بُـلـى مِـنْ هذه البنات شيئاً فَأَحْسَنَ إِلَيْهِنَّ تكن لَهُ سِترة مِنَ النَّارِ - ( بخاری کتاب الاداب ، حدیث نمبر 933) عائشہ جو شخص بھی لڑکیوں کی پیدائش کے ذریعے آزمایا جائے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کر کے آزمائش میں کامیاب ہو تو یہ لڑکیاں اس کے لئے قیامت کے روز جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی.لڑکی کی پیدائش پر فرشتے آکر کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو حدیث شریف میں ہے کہ جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو خدا اس کے ہاں فرشتے بھیجتا ہے جو آکر کہتے ہیں اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو.
66 65 وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں.یہ کمزور جان ہے جو ایک کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے.جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد اس کے شامل حال رہے گی.اسوۃ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم 462 ، طبرانی) آج کی بچیاں کل کی مائیں آج کل عام لوگ لڑکیوں کی تربیت کی طرف زیادہ دھیان نہیں دیتے.آج جو لڑکیاں ہیں وہ کل کی مائیں ہیں.قوم کی آئندہ نسل نے ان ہی کی گود میں پرورش پانی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ان کی بچپن سے ہی ایسی تربیت کی جائے جو انہیں بڑے ہوکر ذمہ داریوں کا بار اٹھانے کے قابل بنادے اور جنت کے حصول کا ضامن بنا دے.حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.اگر تم میں سے کسی کی دو یا تین بیٹیاں یا بہنیں ہوں اور وہ ان کی تربیت اچھے رنگ میں کرے اور ان کے بارے میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت عطا کرے گا.(ترمذی ابواب البر والصلہ ) یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بچیوں کی پیدائش اور احسن تربیت کو جنت کے حصول کا ضامن بنادیا.ہر مسلمان لڑکی کے لئے بھی علم حاصل کرنا فرض قرار دیا آپ نے فرمایا:.طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسلم و مُسلمةٍ یعنی نہ صرف ہر مسلمان لڑکے بلکہ ہر مسلمان لڑکی پر بھی علم حاصل کرنا فرض قرار دے دیا.تا کہ قوم کا یہ طبقہ کمزور نہ رہ جائے اور تعلیم حاصل کر کے قوم کی ترقی میں ممدومعاون ثابت ہو.بیٹیوں والے کو تسکی (چالیس جواہر پارے ص 151 حدیث نمبر 39) لڑکیوں میں برکت ہوئی ہے اوس نام کے ایک انصاری حضرت رسول کریم صلی اللہ وسلم کے پاس ایک دفعہ آئے تو آپ نے ان کے چہرے پر کچھ رنج وغم کے آثار دیکھے.پوچھا کیا بات ہے؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری کئی بیٹیاں ہیں ان کی وجہ سے میرا دل عملین رہتا ہے اور میں تو ان کی موت کی دُعا مانگتا رہتا ہوں.ہمارے مہربان و مشفق آقا نے فرمایا.اوس تم یہ دُعا نہ کیا کرو.دیکھولڑکیوں میں بھی برکت ہوتی ہے.☆ ☆ ☆ یہ لڑکیاں نعمت کے وقت شکر کرنے والی مصیبت کے وقت تمہاری ہمدردی میں رونے والی اور تمہاری بیماری کے وقت تیمارداری اور خدمت کرنے والی ہوتی ہیں.ان کا بوجھ زمین پر ہے.ان کی روزی اللہ کے ذمے ہے.پھر کیوں تم ناحق رنج کرتے ہو.( تشخیز مئی 1988ء) بیٹیوں کو پہلے دو بیٹیاں جنہیں بیٹوں سے کمتر سمجھا جاتا تھا اور جن کو اسلام سے پہلے
68 67 زنده درگور کر دیا جاتا تھا ان کے ساتھ ترجیحی سلوک کرنے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تعلیم دی.فرمایا جب تم اپنے بچوں میں تقسیم کرنے کے لئے کوئی چیز لاؤ.تو بیٹیوں سے شروع کرو کیونکہ بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیاں اپنے والدین سے زیادہ محبت کرتی ہیں.ظالم باپ پر کوئی اثر نہ ہوتا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب میں بچیوں سے کیا جانے والا سلوک بیان کرنے سے بدن کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں.کسی کے گھر لڑکی پیدا ہونا بے عزتی خیال کیا جاتا تھا اور بچی کا وجود باپ کی عزت و ناموس پر دھبہ خیال کیا جاتا تھا.لڑکی پیدا ہوتی تو اس کا باپ اس کو زندہ در گور کر دیتا.گڑھا کھود کر اس میں دھکا دے کر مٹی ڈال کر دفن کر دیتا.وہ ابا ابا پکارتی رہ جاتی مگر ظالم باپ پر کوئی اثر نہ ہوتا اور بچی کو ماں باپ کی شفقت کا کوئی لمحہ نصیب نہ ہوتا...اور جب ایک مجلس میں ایک شخص نے اپنی پیاری بچی کو زندہ دفن کرنے کا درد انگیز واقعہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم اس ظلم کو کس طرح برداشت کر سکتے تھے.چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسل نے اس کر یہ ظلم کو ہمیشہ کے لئے بند کرا دیا.اور بچیوں کو زندہ درگور کیا جانا شرعی جرم قرار دے دیا اور یہ بھی فرمایا اگر جاہلیت کے کسی فعل پر سزا دینا جائز ہوتا تو میں زندہ درگور کرنے والے کو سزا دیتا.لڑکوں کو لڑکی پر ترجیح نہ دو نیز فرمایا:.(ادب المفرد ، سیرت النبی شبلی حصہ دوصفحه 625) جس شخص کے ہاں کوئی لڑکی ہو پھر وہ اس کو زندہ درگور نہ کرے اور نہ ہی اپنے لڑکوں کو اس پر ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں داخل کرے (الفضل سیرت النبی نمبر 1983 شبلی حصہ ششم صفحه 378) گا.اونٹوں پر آبگینے سوار ہیں انجشہ آہستہ چلاؤ اونٹوں پر آبگینے سوار ہیں عورت کے لئے ( قواریر) آبگینے کا لفظ استعمال کر کے کمزوری اور نازک مزاجی کی طرف اشارہ کیا اور اس کے ساتھ حسن سلوک اور حد درجہ محتاط ہونے کا ارشاد فرمایا نیز فرمایا’ وہ پہلی سے پیدا کی گئی ہے عورت کو پہلی سے مشابہ قرار دے کر اس سے حسن سلوک کرنے کی طرف نہایت لطیف پیرائے میں اشارہ کیا گیا ہے.وو 66 کہ! عورتوں سے زیادہ سختی کا معاملہ نہ کیا کرو اگر تم زیادہ زور دو گے تو وہ ٹوٹ جائے گی سیدھی نہیں ہو سکے گی.“ انسان کی صحیح تربیت میں آدھا حصہ عورت کا ہے نیز عورت کو مرد کے برابر درجہ عطا فرما کر اسکے حقوق و فرائض میں توازن قائم کر کے عزت و وقار قائم کردیا.اور فر مایا آر وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ (بقره 229) پ نے اپنے آخری خطبہ میں فرمایا.دیکھو میں تم کو عورتوں کے متعلق خاص طور پر وصیت کرتا ہوں کہ ان کا خیال رکھنا اور ان پر کبھی سختی نہ کرنا.جس طرح ان کی ذمہ داریاں ہیں ان کے حقوق بھی ہیں اگر ایک
70 69 عورت نیک اعمال بجا لائے گی تو وہ بھی اسی طرح جنت میں جائے گی جس طرح نیک اعمال بجا لانے والا مرد.اور پھر آپ نے یہ فرما کر کہ آدھا دین عائشہ سے سیکھو نصف دین سیکھنے کے لئے تمام مرد و زن کو حضرت عائشہ کا مرہونِ منت بنا دیا.اور اسطرح انسان کی صحیح تربیت میں آدھا حصہ عورت کا ہے.وو ( بخاری ) الجنة تحت اقدام الامهات جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے ماؤں کے مقدس رشتہ کو اہمیت عطا فرما کر دنیا کے ہر مرد، ہر عورت، ہر بچے کے لئے اس کی اطاعت اس کی خدمات اور حسن سلوک کے صلے میں ماں کے قدموں تلے جنت کی بشارت دی.بیٹیوں اور بہنوں کے حقوق قائم کئے.حجۃ الوداع کے موقع پر مردوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا فَاتَّقُو الله في نِساءِ كُمُ عورتوں کے بارے میں تقویٰ سے کام لو اور ان کا احترام کرو ان کے حقوق کا خیال رکھو.آپ کے اس پُر شفقت اور احسان بھرے سلوک سے باغ اسلام کی کلیوں نے ہمیشہ کی زندگی پائی ہاں ہاں ان ننھی کلیوں نے جنہوں نے کل کی مائیں بننا ہے اور اسلام کے فاتح اور مستقبل کے معماروں کی پرورش کرنی ہے.ان کا تحفظ فرمایا.ان کا مرتبہ بلند کیا.اس کو زندہ رہنے اور باعزت زندگی گزارنے کا حق دلایا اس کا گھر کے معاملات میں کوئی دخل نہ تھا اس کو گھر کی مالکہ قرار دیا حتی کہ ان سب کے لئے ورثہ کا حق قائم کیا.ورنہ اسلام سے پہلے کسی مذہب نے عورت کا ورثہ قائم نہیں کیا.مسلمان عورتوں کے لئے خدمتِ دین کے لئے مواقع فراہم کئے.اور انہوں نے مردوں کے دوش بدوش کار ہائے نمایاں انجام دیئے.ورنہ اسلام سے پہلے دنیا کے پردہ پر عورتوں سے بڑھ کر کوئی مظلوم مخلوق نہ تھی.عورتوں کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک روا رکھا جاتا تھا.یہ مخلوق کسی عزت کی مستحق نہ سمجھی جاتی تھی.اس کا کوئی مقام نہ تھا اس کا کوئی حق نہ تھا.بچوں کی تربیت کرنے والی ہستی پر بے مثال شفقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جنہیں اللہ تعالیٰ نے رحمت اللعلمین بنایا ހނ ہے اس مظلوم طبقہ کے لئے محسن اعظم بن کر آئے اور آپ نے خواتین حسنِ سلوک کا اپنا اعلیٰ اور پر حکمت اسوہ حسنہ پیش فرمایا.عن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم خَيْرُكُمْ خَيْرُ كُمْ لِاهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لَا هُلِي حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اے لوگو تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے.اور میں تم سب سے اچھا اور بہترین سلوک کرنے والا ہوں.بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کو اسلام میں بہت نمایاں درجہ حاصل ہے.کہ تم میں سے خدا کی نظر میں، بہتر انسان وہی ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ سلوک کرنے میں بہتر ہے.اس فرمان کے ساتھ آپ نے مسلمان عورتوں کے ازدواجی حقوق کو بہت ہی اعلیٰ معیار پر قائم کردیا.مثالی سلوک حضرت عائشہ فرماتی ہیں.آپ تشریف لاتے تو گھر کے کام کاج میں بیویوں کا ہاتھ بٹاتے.آپ کا سلوک بیویوں کے ساتھ مثالی تھا.
72 71 علیحدہ خطاب اس طبقے کی تربیت کے لئے حضور ان کو مردوں سے علیحدہ خطاب فرماتے.انہیں دینی امور میں قربانی کی تلقین کرتے.اور صحابہ کو ان سے حُسن سلوک کی تلقین فرماتے.(سیرت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم 245) محبوب ترین اور سب سے بڑھ کر یہ کہ محبوب خدا نے یہ فرمایا کہ اے لوگو! مجھے تمہاری دُنیا میں سے دو چیزیں بہت پسند ہیں.ایک خوشبو اور دوسری عورت اور اُسے اپنی محبوب ترین ہستی قرار دے کر اسے آسمانوں تک رفعت عطا فرما دی اور طبقہ نسواں کی ہستی کو چار چاند لگا دئے.پس یہ ہے میرا متن را مشفق آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھیج درود اُس محسن پر تو دن میں سوسو بار پاک محمد مصطفی نبیوں کا سردار کتنا اعلیٰ اُسوہ تھا جو ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا جس کی نظیر ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل سکتی.صَلِّ عَلَى نبينا صَلِّ عَلَى محمد والدین کی تربیت اور اصلاح کے لئے ہدایات یہ تو تھیں پیارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شفقت و محبت بچوں اور اُن کی ماؤں کے ساتھ اور بچوں کی اپنے دل و جان سے پیارے آقا کے ساتھ محبت وعقیدت کی داستانیں.اب ہم پیارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت و شفقت ایک اور زاویے سے مشاہدہ کرتے ہیں.اور آپ کی عطا کردہ پر حکمت تعلیم بیان کرتے ہیں جو آپ نے نہ صرف بچوں بلکہ ان کے والدین کی تربیت و اصلاح کے لئے قرآن کریم کی روشنی میں عطا فرمائی.اور آج کے دور میں اگر کوئی بہترین نظام عمل ہے تو وہ صرف اور صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی طریق عمل ہے جو ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے.جیسا کہ حضرت عائشہ نے فرمایا ہے.کــان خـلـقـه القرآن که رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی قرآن کریم کی عملی تصویر تھی.نیز آپ نے ہر شعبہ زندگی میں واضح طور پر اُسوہ حسنہ عطا فرمایا ہے.والدین کو تلقین آپ ﷺ نے اپنے پاک نمونے سے والدین کو تلقین فرمائی کہ اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری قومی زندگی لمبی ہو اور اگر تم چاہتے ہو کہ تمہاری اولا د نسلاً بعد نسل اسلامی تعلیم پر عمل پیرا رہے تو اپنے بچوں کی نگرانی سے غفلت نہ برتو اور ان کے اندر اچھے اخلاق اور عمدہ اوصاف اور بہتر عادات پیدا کرنے کے کوشش کرتے رہو اور ہر آن یہ دُعائیں پڑھتے رہو.اولاد آنکھوں کی ٹھنڈک ہو رَبَّنَاهَبُ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إمَاماً (الفرقان : 75) یعنی اے ہمارے رب تو ہم کو ہماری بیویوں اور بچوں کی طرف سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرمادے اور ہمیں متقیوں اور پرہیز گاروں کا امام بنا.اور یہ تب ہی ممکن ہے جب کہ اولاد نیک ہو اور متقی ہو.تب ہی یہ ان کا امام ہوگا اس سے گو یا متقی ہونے کی بھی دعا ہے.ہمیں یہ دعائیں
74 73 ہمیشہ توجہ اور دردِ دل سے مانگتے رہنا چاہئے.والدین کی ذمہ داری اولا د تو اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور مقدس امانت ہے جس کی تربیت کی ذمہ داری والدین کے سپرد کی گئی ہے.يَا يُهَالَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَارًا (التحريم: 6) یعنی اے مومنو! اپنے آپ کو بھی اور اپنی اولاد کو بھی دوزخ کی آگ سے بچاؤ.اس سے ظاہر ہے کہ اگر والدین کی تربیت نہ ہو تو اولاد کی تربیت ہو ہی نہیں سکتی سو واضح ہے کہ اولاد کی تربیت کے سلسلے میں عملی نمونہ بنیادی تربیت کا حامل ہے.اور جب تک والدین دینی تربیت کا مظہر نہ بنیں اولاد کی تربیت نہیں ہو سکتی پس ضروری ہے کہ پہلے اپنی اصلاح کی جائے.نیک اولاد ہونے کی دُعا اولاد کو دینی تعلیم اور اخلاق حسنہ سے متصف کرنا والدین کی اہم ذمہ داری ہے.اور اس ذمہ داری سے احسن طریق سے عہدہ برآ ہونے لے کے لئے ہمیں یہ دعا سکھائی گئی ہے.الدُّعَاءِ رَبِّ هَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَة إِنَّكَ سَمِيعُ (ال عمران : 39 ) اے میرے رب تو مجھے اپنی جناب سے پاکیزه ذریت عطا کر یقیناً تو بہت دعا سننے والا ہے.پس اگر اولاد کے لئے خواہش ہو تو صرف اسی غرض سے ہونی چاہئے کہ وہ دیندار اور صالح ہو نیز آپ نے ایسی دُعائیں اور طریقے بھی سکھائے ہیں جن سے آئندہ آنے والی اولاد نیک اور صالح ہوسکتی ہے.نیک اولاد پیدا کرنے کے لئے دعا آپ نے نیک اولاد پیدا کرنے کا ایک گر یہ بتایا ہے کہ والدین اپنے خیالات کو بھی پاک رکھیں اور اللہ تعالیٰ سے یہ دُعا کرتے رہیں.اللهُم جَنِّبْنَا الشَّيْطَنَ وَجَيِّبِ الشَّيْطَانَ مَارَزَ قُتَنَا.( بخاری کتاب الدعوات ) ترجمہ:.اے خدا ہمیں بھی شیطان سے محفوظ رکھنا اور جو کچھ بھی تو ہمیں عطا کرے اس کو بھی شیطان سے محفوظ رکھ.جو یہ دُعا کرتا ہے نتیجتاً وہ اولاد ہونے کے بعد بھی اُس کی تربیت سے غافل نہیں ہوتا اور اللہ تعالیٰ کے فضل وہ بچے جو ایسی دُعاؤں کے بعد پیدا ہوئے ہیں اُن میں شیطنت اور گندی باتیں نہیں ہوتیں اور وہ نیک بچے ہوتے ہیں.سے وہ اولاد کو تقویٰ پر قائم رکھنے کی دُعائیں پھر جب اولاد ہو جائے تو اس کو نیکی اور تقویٰ پر قائم رکھنے کے لئے یہ بھی دُعا کرتے رہنا چاہیئے.جیسا کہ قرآنی ارشاد ہے:.وَاَصْلِحُ لِي فِي ذُرِّيَّتِي (احقاف: 16) کہ اے میرے خدا میری اولاد کو نیکی اور تقویٰ پر قائم رکھ ہر قسم کے شرک سے بچنے کی دُعا پھر یہ بھی دُعا کرتے رہنا چاہیئے.
76 75 وَ اجْنُبُنِي وَ بَنِيَّ أَنْ نَعْبُدَ الْأَصْنَام (ابرهيم : 36) کہ اے میرے اللہ مجھے اور میری اولاد کو بت پرستی اور شرک سے بچا اور فرمانبردار لوگ پیدا ہوتے رہیں.نماز کی پابندی کی توفیق پھر یہ دُعا بھی کرتے رہنا چاہیئے.رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي (ابراہیم : 41) اے میرے رب مجھے اور میری اولاد کو نماز کی باقاعدہ پابندی کی توفیق عطا فرماتا رہ.نسل اور قومی زندگی کی دعا پھر فرمایا! ( پیارے رسول کی پیاری باتیں 93) وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ امْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُ قُهُم وَإِيَّاكُم ط (بنی اسرائیل : 32) کہ غربت اور افلاس کے ڈر سے اولاد کو قتل نہ کرو.تمہیں بھی تو ہم ہی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دے سکتے ہیں اور دیتے بھی ہیں.ان الفاظ کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ اگر تم اولاد کی عمدہ تربیت اور اعلیٰ تعلیم کا خیال نہیں رکھو گے تو تم انہیں قتل کرنے والے ٹھہرو گے اور اگر کوئی قوم دیر تک زندہ رہنا چاہتی ہے تو وہ آئندہ نسل کی اچھی تربیت کے نتیجہ میں ہمیشہ زندہ رہ سکتی ہے.نیز ہم سب کو یہ دُعا ہمیشہ پڑہتے رہنا چاہئیے.کو رَبِّ زِدْنِي عِلْماً (115:') ترجمہ:.اے ہمارے رب ہمیں زیادہ سے زیادہ علم عطا فرما اور اسے ہمیشہ بڑھاتا رہ.آمین ہمارے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی جن زیادہ علم کسی کو نہیں دیا گیا ہمیشہ یہ دُعا مانگا کرتے تھے.نیک اولاد کی خاطر نیک بیوی کا انتخاب کرو (اللہ کی باتیں صفحہ 27) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا کہ تُنْكَحُ الْمَرَاءَ قُلَارُ بَعِ لِمَا لِها وَ لِحَسْبِهَا وَ لِجَمالِها ولدينها فَاظُفُرُ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ (بخاری کتاب النکاح باب الاكفاء فی الدین) کسی عورت سے نکاح کرنے کی چار ہی بنیادیں ہوسکتی ہیں.-1 -2 -3 -4 اس کے مال کی وجہ سے اس کے خاندان کی وجہ سے اس کے حُسن جمال کی وجہ سے اس کی دینداری کی وجہ سے سو اے مرد تو دیندار اور بااخلاق عورت کے انتخاب کو ہمیشہ مقدم رکھ ورنہ تیرے ہاتھ ہمیشہ خاک آلود رہیں گے.عظیم الشان دائمی نعمت پس نہ صرف خانگی خوشی کے لحاظ سے بلکہ آئندہ نسل کی حفاظت کے لحاظ سے اور ترقی کے لحاظ سے بھی نیک اور با اخلاق بیوی عظیم الشان نعمت ہے کہ دُنیا کی کوئی نعمت اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی.اس لئے ہمارے پیارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں.دنیا تو سامانِ زیست ہے اور نیک عورت سے بڑھ کر کوئی سامان
78 77 زیست نہیں.(ابن ماجہ ابواب النكاح افضل النساء) نیک اور خوش اخلاق بیوی کا گہرا اثر اولاد پر پڑتا ہے اس طرح ایک دائمی نعمت ہے.ظاہر ہے بچپن میں اولاد کی اصل تربیت ماں کے سپرد ہوتی ہے کیونکہ ایک تو طبعا بچے کو ماں کی طرف زیادہ رغبت ہوتی ہے اور وہ ماں کے پاس زیادہ وقت گزارتا ہے اور وہ اس سے زیادہ بے تکلف بھی ہوتا ہے.اور دوسرے باپ اپنے فرائض کی وجہ سے اولاد کی طرف زیادہ توجہ بھی نہیں دے سکتا.اس لئے اولاد کی ابتدائی تربیت کی بڑی ذمہ داری بہر حال ماں پر ہوتی ہے اگر ماں نیک اور با اخلاق ہوگی تو وہ اپنے بچوں کے اخلاق کو شروع سے ہی اچھی بنیاد پر قائم کر دیتی ہے.اور دیندار ماں ہی اولاد کی صحیح رنگ میں تربیت کر سکتی ہے.مرد خواہ کتنا ہی نیک ہو.اگر اس کی بیوی اس کا ساتھ نہ دے تو اس کی اولاد ضائع ہو جاتی ہے.پس گھریلو اتحاد اور گھریلو خوشی کی حقیقی بنیاد عورت کے دین اور اس کے اخلاق پر قائم ہوتی پس ماں اگر چاہے تو اپنے بچوں کو جنتی بناسکتی ہے.اور ماں کی اچھی تربیت کے نتیجے میں ساری قوم کا قدم ہی جنت کی طرف اُٹھ سکتا ہے.پس نیک ماں کی نگرانی میں تربیت پانے والے بچے نہ صرف دن رات اپنی ماں کے نیک اعمال یعنی نماز ، روزہ، تلاوتِ قرآنِ کریم.صدقہ خیرات اور جماعتی کاموں کے لئے چندے خدا اور رسول کی محبت اور دینی غیرت وغیرہ کے نظارے دیکھتے رہتے ہیں.اسی لئے آپ نے فرمایا:.تو با اخلاق اور دیندار رفیقہء حیات کا انتخاب کر ، اس طرح تو نہ صرف اپنی آئندہ زندگی کو کامیاب بنائے وو گا بلکہ تیری اولاد ایسی ہو گی جو دیندار اور بااخلاق ہوگی اور تیرے ذکر کو دوام بخشے گی“ ابن ماجہ.ابوداؤد - حياة المسلين (باب فصل النكاح ، ابواب النکاح) اے عورتو! تم محمد کی تصویر اپنی اولاد کے دلوں پر کھینچو عورتوں کو خصوصیت کے ساتھ میں اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے زیادہ احسان ان پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے کیونکہ دُنیا کے پردہ پر عورتوں سے بڑھ کر کوئی مظلوم قوم نہ تھی.عورتوں کے ساتھ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک رکھا جاتا تھا.یہ مخلوق کسی عزت کی مستحق نہ سمجھی جاتی تھی.اس کا کوئی مقام نہ تھا اس کا کوئی حق نہ تھا.رحمۃ للعلمین" اس مظلوم طبقہ کے لئے محسن اعظم بن کر آئے.آپ کا عورتوں پر یہ بہت بڑا احسان ہے کہ آپ نے ان کی قدرومنزلت قائم کی اور ان کے احساسات و جذبات کا خیال رکھنے کی مردوں کو ہدایت کی.اس احسان کی یاد میں جو آپ نے عورتوں پر کیا ہے.ان کا فرض ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ آپ کے اعمال و اخلاق کی نقل کریں.اور اعمال و اخلاق کے یہی نقوش اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں.آج کا انسان در اصل مجبور ہوتا ہے ان اخلاق سے جو ٹو یا دس سال کی عمر میں اس کے بنا دیے جاتے ہیں وہ تو یا دس سال کی عمر تک ماں کی گود میں پلتا اور اس سے اخلاق و عادات سیکھتا ہے.پس بہترین مصور دُنیا میں عورتیں ہوسکتی ہیں جن کی گود میں اُن کے بچے پلتے ہیں اور جو چھوٹی عمر میں ہی ان کے قلوب پر جو تصویر اُتارنا چاہیں اُتار سکتی ہیں.پس تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تصویر اپنی اولاد کے دلوں پر
80 79 کھینچو تا کہ جب وہ بڑے ہوں تو انہیں کسی نئی تصویر کی ضرورت محسوس نہ ہو.بلکہ ان کے بڑے ہونے کے ساتھ ہی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ تصویر بھی بڑی ہو جائے جو اُن کی ماؤں نے اُن کے دلوں پر کھینچی تھی.اس سے ساتھ ہی میں بڑوں سے بھی درخواست کرتا ہوں جو کوتاہی آپ لوگوں سے اب تک اس سلسلہ میں ہو چکی ہے اس کو دور کرو.اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کا ایسا اعلیٰ درجے کا نمونہ پیش کرو کہ دُنیا والوں کو اس جہان میں اس کے سوا اور کوئی چیز نظر ہی نہ آئے.جیسے ایک شاعر نے کہا ہے.جدھر دیکھتا ہوں اُدھر تو ہی تو ہے اسی طرح ان کی اخلاق میں ترقی کرتے کرتے ایسی حالت ہو جائے کہ کچھ عرصہ کے بعد ہم جدھر بھی دیکھیں سوائے محمد کے اور کوئی نظر نہ آئے.خواہ وہ چھوٹا محمد ہو یا بڑا محمد.اور یہ کیسی بات ہے کہ جب اس دُنیا میں محمد ہی محمد نظر آنے لگیں گے تو چونکہ محمدؐ اس دُنیا میں خدا تعالیٰ کی صفات کی ایک تصویر ہیں.اسلئے دُنیا میں توحید کامل پیدا ہو جائے گی اور شرک باقی نہیں رہے گا.کیونکہ جہاں خدا ہی خدا ہو وہاں شرک باقی نہیں رہتا.از اسوۂ حسنہ تقریر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی صفحہ 138، 141) تربیت اولاد کے بارے میں والدین سے باز پرس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تربیت اولاد پر بہت زور دیا ہے اور آپ نے بچوں کی پیدائش سے بھی پہلے اس کی تربیت کے آسان اور موثر طریق بیان فرماتے ہوئے فرمایا:.كُلُّكُمْ رَاعٍ وَّ كُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيته چالیس جواہر پارے صفحہ 148 حدیث نمبر 38) تم میں سے ہر ایک بادشاہ ہے اور اپنی رعیت کا ذمہ دار ہے اور ہر شخص اپنے دائرہ کے اندر ایک حاکم کی حیثیت رکھتا ہے اور تم میں سے ہر ایک کو اپنے ماتحتوں کے متعلق پوچھا جائے گا.ہر شخص اپنی رعیت کا خدا تعالیٰ کے رو برو جواب دہ ہوگا.اس ارشاد سے آپ نے ہر ماں ہر باپ ، ہر بھائی ، ہر چا ، ہر دادا، خاندان کے ہر بڑے بزرگ اور ہر اُستاد کے ذمہ لگا دیا ہے کہ تم بچوں کے اخلاق عادات اور تعلیم کے خدا کے روبرو ذمہ دار ہو.تم سے سوال کیا جائے گا کہ کیوں فلاں نیکی اُن میں موجود نہیں اور کیوں ترقی کی اہلیت کے باوجود انہوں نے ترقی نہیں کی.اور کیوں مقدرت کے باوجود تعلیم اُن کے مناسب حال ان کو نہیں دی.بچے کی پیدائش پر ارشادات احادیث میں ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کسی کے ہاں بچہ پیدا ہو تو اس کے دائیں کان میں اذان اور بائیں کان میں اقامت کہی جائے تو اس کو ام الصبیان کی بیماری نہیں ہوتی.حضرت حسنؓ کی پیدائش الجامع الصغير جلد 2 صفحہ 182 حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ کے ہاں جب حضرت حسنؓ پیدا ہوئے تو ولادت کی خبر سُن کر آپ تشریف لائے اور فرمانے لگے بچے کو دکھاؤ.بچے کو منگوا کر اس کے کانوں میں اذان دی.اپنا لعاب دہن حسنؓ کے منہ میں ڈالا
82 81 رکھا اور فرمایا کیا نام رکھا ہے.والدین نے عرض کیا 'حرب' نام ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اس کا نام حسنؓ ہوگا اور ساتویں دن عقیقہ کیا گیا.اور بالوں کے برابر چاندی صدقہ کی گئی.(اسد الغابہ (18) جب کسی مسلمان کے ہاں لڑکا یا لڑکی پیدا ہو تو اس کے جسم کی صفائی کر کے سب سے پہلے اس کے کانوں میں اسلامی اذان کے الفاظ دہرائے جائیں.ان الفاظ میں قرآنی تعلیم کا خلاصہ آجاتا ہے.ولادت کے بعد بچے کے کانوں میں ان الفاظ کے دہرانے میں یہ ارشاد مقصود ہے کہ بچے کے دل میں دین کی تعلیم کا پختہ نقش قائم ہو جائے.بچے کے کان میں کوئی نیک اور بزرگ انسان اذان دے تاکہ نیک اثرات مرتب ہوں.نیک اور بزرگ انسان کے خیالات کا بچے پر اچھا اثر پڑے گا.نفسیاتی نکته نیز اس سے والدین کو سمجھایا گیا ہے کہ بچے کی تربیت کا زمانہ اس کی پیدائش سے شروع ہو چکا ہے گو اس وقت بچے کی آنکھیں اور کان پوری طرح کام نہیں کر رہے اور بچہ بظاہر سمجھ نہیں سکتا لیکن یہ نفسیاتی نکتہ ہے کہ بچہ پیدا ہوتے ہی اپنے ماحول کا اثر قبول کرنا شروع کردیتا ہے اس لئے ماں باپ اور بڑوں کے لئے ضروری ہے کہ اس کی پیدائش کے وقت سے ہی اس کے ماحول کو پاک صاف رکھیں کیونکہ بچے نے ان کے ہی الفاظ سُننے اور سیکھنے ہیں.ان کے منہ سے پاک اور متبرک الفاظ ہی بچے کے سامنے نکلنے جائیں فحش کلامی اور جھوٹ اور لغو گفتگو سے بچے کے سامنے پرہیز کیا جائے اور اسے پاکیزہ لوریاں اور دُعائیہ کلمات ت سے بہلایا جائے.اذان شیطان کو دھتکار دیتی ہے اذان کے متعلق ہمارے آقا کا ارشاد ہے کہ اذان شیطان کو دھتکار دیتی ہے.( بخاری ) اور اذان دے کر گویا بچے کو شیطان کے حملوں سے محفوظ رکھا گیا ہے.عقیقہ جب بچہ سات دن کا ہو جائے تو اس کا عقیقہ کیا جائے اور بچے کا سر منڈوا دیا جائے اور اس کی طرف سے قربانی کی جائے.قربانی لڑکی کی طرف سے ایک بکرا اور لڑکے کی طرف سے دو بکرے زیادہ پسندیدہ ہیں اور اگر لڑکا پیدا ہو تو اس کا ختنہ بھی کرایا جائے.اس کے بعد حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچوں کی ابتدائی تربیت کے اصول بیان فرمائے بچے کی ابتدائی تعلیم آپ نے فرمایا جب تمہاری اولاد بولنے لگے تو اس کو لا اله الا لله سکھاؤ.پھر مت پرواہ کرو کہ کب مرے اور جب دودھ کے دانت گر جائیں تو نماز کا حکم دو.ہمارے پیارے آقا بچوں کی نمازوں کی خاص طور پر نگرانی فرمایا کرتے تھے.وہ فرماتے سات سال کی عمر کے بچے کو نماز پڑھنے کی ترغیب دینی چاہیے اور اس سے پہلے اس کو نماز کے الفاظ اور دعائیں یاد کرا دینی چاہئیں.اور جب بڑا ہو جائے اور باہر اکیلے چلنے پھرنے کے قابل ہو جائے تو پیارے آقا نے ہدایت فرمائی ہے.مُرُو اوْلَادَكُمُ بِالصَّلوةِ وَهُمْ أَبْنَاءَ سَبْعِ وَاضْرِبُوا هُمُ
84 83 عَلَيْهَا وَ هُمْ أَبْناءَ عِشْرِينَ وَفَةٍ قُوْنَهُمْ فِي الْمَضَاجِعِ (ابو داؤد) یعنی جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو نماز کا حکم دو اگر تین سال کی کوشش کے بعد بھی نماز نہ پڑھے تو اس کو سرزنش کی جائے اور دس سال کی عمر میں اس کو علیحدہ سلائیں.نماز برائیوں سے روکتی ہے إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَر (عنکبوت : 46) ترجمہ: یعنی نماز برائیوں اور فحشاء سے بچانے کا سامان مہیا کرتی ہے.اور بچے کو بدی سے بچا کر دین کی طرف راغب کرنے اور دینی تربیت میں اس کی مددگار بنتی ہے اگر بچہ بچپن میں ہی نماز کا عادی بن جائے اور خدا تعالیٰ سے رشتہ جوڑے تو وہ ضائع نہیں ہوتا.نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الصَّلوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَبَا مَّوْقُوتًا (النساء : 104 ) نماز اپنے مقررہ وقتوں میں مسلمانوں پر فرض ہے“ ہمارے پیارے آقا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.نماز وقت پر باجماعت ادا کرنا اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ پسند ہے.نیز فرمایا.” میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے“ کامل نماز کامل نماز وہ ہے جس میں نماز پڑھنے والا نیت کرے کہ میں خدا کو دیکھ رہا ہوں یا کم از کم یہ کہ خدا تعالیٰ مجھے دیکھ رہا ہے.اکیلے نماز پڑھنے کی نسبت باجماعت نماز ادا کرنے سے ستائیس گنا زیادہ ثواب ہوتا ہے.نماز کے لئے مسجد کی طرف چلنے سے ہر قدم پر ایک نیکی لکھی جاتی ہے.اور ایک بدی مٹادی جاتی ہے.إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ العبد الصلوة“ قیامت کے دن بندے سے سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا.اللہ تعالیٰ سب مسلمان بچوں کو ہمیشہ وقت پر با جماعت نمازیں ادا کر کے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرماتا رہے.آمین ثم آمین عورتوں سے عہد بیعت اولاد کو قتل نہیں کریں گی اولاد کی تربیت میں ماں کا زیادہ دخل ہوتا ہے اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے بیعت لیتے وقت یہ عہد بھی لیتے تھے کہ وہ اولاد کو قتل نہیں کریں گی جس کا یہ مفہوم بھی ہے کہ وہ اپنی اولاد کی احسن طریق پر تربیت کریں گی اور ان کے اخلاق و عادات کو دینی شعار کے مطابق ڈھالیں گی.عورتیں کس حال میں روزہ نہ رکھیں علاوہ ازیں بچوں سے ہمدردی اور خیر خواہی کے پیش نظر ہمارے من مشفق آقا نے فرمایا حاملہ اور مرضعہ روزے نہ رکھیں کیونکہ اس سے بچے کی صحت پر اثر پڑتا ہے.طلاق اور خلع ناپسندیدہ افعال ہیں P نیز آپ نے طلاق اور خلع کو اَبغَضُ الْحَلَال (مشکوۃ، ابو داؤد) (حلال چیزوں میں سب سے ناپسندیدہ ) اس لئے قرار دیا کہ اس سے بچوں کی
86 85 تربیت پر بُرا اثر پڑتا ہے اور وہ اخلاقی طور پر تباہ ہو جاتے ہیں.نیز فرمایا جنگ کے دوران بھی عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائے.(مسلم) بچے ایمان سے محروم نہ رہ جائیں نیز روایت ہے کہ جب طائف کے اوباش لوگوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مار مار کر لہو لہان کر دیا تو پہاڑوں کا فرشتہ آپ کے پاس آیا اور اس نے کہا اگر آپ حکم دیں تو میں یہ پہاڑیاں ان ظالموں کے اوپر گرا کر ان سب کو ہلاک کردوں.تو ہمارے مشفق و مهربان آقا نے فرمایا نہیں! نہیں! اگر یہ تباہ ہو گئے تو کل ان کے بچے بھی دولت ایمان سے محروم رہ جائیں گے.( بخاری بدء الخلق جز ثانی مصری 140) بچوں کے حقوق والدین پر.ننھے پھولوں کی نگہداشت کے متعلق ارشادات عالیہ -1 رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.حَقُّ الْوَلَدِ عَلَى وَالِدِهِ أَنْ يُحْسِنَ اسْمَهُ وَ يُحْسِنُ مُرْضِعَه وَيُحْسِنُ أَدَبَه یعنی بیٹے کا حق اس کے باپ کے ذمے یہ ہے کہ وہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کا عمدہ ٹھکانا بنائے اور اسے پسندیدہ آداب سکھائے.بچوں کو کبھی بھی بُرے ناموں سے نہیں پکارنا چاہئے بلکہ اچھے ناموں سے پکارنا چاہیے اس سے ان کے کردار پر اچھا اثر پڑتا ہے.پھر آپ نے فرمایا : ” اپنے بچوں کو ادب سکھاؤ کیونکہ تمہارا یہ -2 فعل روزانہ ایک صاع صدقہ کرنے کے برابر ہے.-3 پھر آپ نے فرمایا: باپ اپنے بیٹے کو آداب سکھانے سے بہتر کوئی چیز نہیں دیتا.دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ آج کل اس بات کو چھوڑ کر دنیا کمانے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں.اُن کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ مرنے سے پہلے اپنے بچوں کے لئے کوٹھیاں بنائیں، مربعے خریدیں ، کارخانے لگائیں یا بچوں کو انجینئر یا ڈاکٹر بنائیں اور وہ اس فکر سے بے نیاز ہوتے ہیں کہ اُن کے بچے نیک ہوں با اخلاق ہوں با ادب شہری اور معاشرے کے لئے اچھے شہری ہوں ایسے والدین کو فکر کرنی چاہئے اور اپنی اولاد کی تربیت سے غافل نہیں رہنا چاہئے بلکہ شروع سے ہی اچھے رنگ میں تربیت کرنی چاہئے.بچہ تو فطرتِ صحیحہ پر پیدا ہوتا ہے مَا مِن مَوْلُودٍ إِلَّا يُوْ لَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ فَابَوهُ يُهَوِ دَانِهِ أَوْ يُنَصِرَانِهِ أَوْ يُمَحِسَنِهِ (مسلم کتاب القدر) یعنی ہر بچہ فطرت اسلام ( یعنی فطرتِ صحیحہ ) پر پیدا ہوتا ہے مگر اس کے والدین ہی اسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں.اس حدیث سے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ جب بچہ بڑا ہوتا ہے تو والدین اُسے بپتسمہ دے کے یہودی ، عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں.بلکہ مراد یہ ہے کہ بچہ سب سے پہلے والدین سے ہی سیکھتا ہے اور والدین اس کے سامنے جو عملی نمونہ پیش کرتے ہیں وہ اس کی نقل کرتا ہے اگر والدین حتی المقدر اپنی اولاد کو احسن رنگ میں تربیت دیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ان کی اولاد صالح نہ بنے.بچوں میں تین خوبیاں ضرور پیدا کرو فرمایا اذِبُو أَوْلَا دَكُمْ عَلَى ثَلاثَ خِصَالِ حُبِّ نَبِيكُمْ وَحُبِّ
88 87 أَهْلِ بَيْتِهِ وَقِرَاءةُ الْقُرْآنِ فَإِنَّ حَمَلَةِ الْقُرْآنِ فِي ظِلِ اللَّهِ يَوْم لَا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ مَعَ انْبِيَاءِ هِ وَاَصْفِيَاءِ ؟ تم میں سے سب سے بہتر وہ شخص ہے جو قرآن سیکھتا اور سکھا تا ہے الجامع الصغير للسيوطى جز اول (۱۸) اپنی اولاد کی نیکی میں مدد کرو کہ اپنی اولاد کی ایسے رنگ میں تربیت کرو کہ یہ تین خوبیاں بطورِ عادت و خصلت کے ان میں راسخ ہو جائیں: پڑھنا -1 اپنے نبی کی محبت 2 اہل بیت کی محبت 3- قرآن کریم کا کیونکہ قرآن کریم کے حاملین اس روز اللہ تعالیٰ کے انبیاء اصفیاء کے ساتھ اللہ کے سائے کے نیچے ہوں گے جس روز اس کے سائے کے سوا کہیں بھی کوئی سایہ نہیں ہوگا.ان احادیث میں تلاوت قرآن کریم اور اس کی تعلیم پر عمل کرنے کی سخت تاکید کی گئی ہے اور یہی آج کامیابی کی کلید ہے.پس بچپن سے ہی بچے کو اسلامی شعار کی تربیت دے کر راسخ کر دینا چاہئے کیونکہ بچپن کی عمر حافظہ کی عمر ہوتی ہے اور اس وقت کا سیکھا ا ہوا ساری عمر کام آتا رہتا ہے.بچپن کا سیکھا ہوا پتھر پر نقش کی طرح ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:.مَثَلُ الَّذِي يَتَعَلَّمُ الْعِلْمَ فِي صِغَرِهِ كَا النَّقْشِ عَلَى الْحَجُرِ (الجامع الصغير للسيوطى جلد 2-3 صفحه 153 یعنی بچپن میں علم سیکھنے والے کی مثال پتھر پر نقش کی طرح ہے.پھر فرمایا:.خير كم من تعلم القرآن و علمه (کتاب الایمان جلد اوّل صفحہ 143-144) پھر میرے محسن آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أحسنوا اولادكم على البر (الجامع الصغیرا بن سیوطی ابن ماجہ ) یعنی نیکی کے کاموں میں اپنے بچوں کی مدد کیا کرو.باپ کی دُعا بچے کے حق میں قبول ہوتی ہے پھر آپ نے مزید فرمایا: دُعَاءُ الوَالِدِ لِوَلَدِهِ كَدُ عَاءِ النَّبِي لِأُمَّتِهِ الجامع الصغیر ابن سیوطی ابن ماجہ ) یعنی باپ کی دُعا اپنے بچے کے حق میں ایسی ہی مقبولیت کا درجہ رکھتی ہے جیسے نبی کی دُعا اپنی اُمت کے لئے.اللہ تعالیٰ کی ہزار ہزار رحمتیں اور برکتیں ہوں ہمارے پیارے آقائے دو جہان صلی اللہ علیہ وسلم پر جہاں یہ فرمایا کہ نیک کاموں میں اپنے بچوں کی حوصلہ افزائی کرو اور ان سے تعاون کرو.وہاں مزید یہ بھی فرمایا کہ والدین اپنے بچوں کو اپنی دُعاؤں میں کبھی فراموش نہ رکھیں اور ان کی بہتری کے لئے دعائیں بھی کرتے رہیں کیونکہ ان کی دُعائیں بے حد قبولیت کا درجہ رکھتی ہیں.اپنی اولاد کا واجبی احترام کرو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس سے بھی بڑھ کر فرمایا: اَكْرِ مُوْ اَوْلَادَ كُمْ فَإِنَّ اكْرَمُ الْاَوْلَادِ سِتْرَ مِنَ النَّارِ
90 89 ولا كُلُ مَعَهُمُ بَرَآةُ مِّنَ النَّارِ الفضل ، 31 اکتوبر 1977 صفحہ 4،سنن ابن ماجہ ابواب الادب) یعنی اے لوگوں اپنے بچوں کی عزت کیا کرو کیونکہ ان کی عزت کرنا دوزخ کا پردہ ہے اور ان کے ساتھ مل کر کھانا جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہے.مزید یہ بھی واضح فرمایا کہ: أَكْرِ مُوَ أَوْلَادَ كُم وَاَحْسِنُوا أَدَبَهُمْ (ابن ماجہ ابواب الادب باب برالوالد ) ان احادیث سے واضح ہے کہ والدین کو چاہئے کہ اپنے بچوں کے ساتھ محبت و شفقت سے پیش آئیں اور ان کے ساتھ نرمی اور ملاطفت اور درگزر کا سلوک روا رکھیں.اور اپنے بچوں کا واجبی احترام کر کے انہیں اچھے قالب میں ڈھالیں.بعض اوقات بچوں سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں مگر والدین کے لئے یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ان کی تربیت و اصلاح کی لئے سزا ہی دی جائے اور بات بات پر جھڑک کر ان میں احساس کمتری پیدا کیا جائے اور پھر ناراضگی کا اظہار کر کے پابندی عائد نہ کی جائے بلکہ انہیں اسے کسی قدر آزادی بھی دی جائے اور ان کے ساتھ بے تکلفی کا اظہار بھی ہونا چاہئے اس طرح وہ اپنے مربیوں سے متنفر نہیں ہوں گے.اور اس طرح ان کی تربیت کا موقعہ ملتا رہے گا.اگر بچے والدین کی سختی سے ڈر کر ان سے دور دور رہیں گے تو ان کی خرابیوں اور بُری عادتوں کا والدین کو علم نہیں ہو سکے گا اور اصلاح نہیں ہو سکے گی.بعض والدین چھوٹی چھوٹی باتوں پر ناراضگی کا اظہار کرتے اور گالی گلوچ پر اتر آتے ہیں.ایسے پست اور عامیانہ سلوک سے بچوں کے وقار اور خودداری اور عزت نفس کو ٹھیس پہنچتی ہے اور ان کے حوصلے پست ہوتے ہیں.پس اگر والدین بچوں کے ساتھ عزت و احترام و محبت سے پیش آئیں تو بچوں کے اندر اچھے اخلاق پیدا ہوں گے اور ان کا وقار بڑھتا رہے گا اور اچھے کاموں کی طرف رغبت پیدا ہوگی اور ان کے اندر نیک کاموں کے کرنے کی جرات اور حوصلہ پیدا ہوگا.کبھی چہرے پر نہ مارو پیارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ کبھی چہرے پر نہ مارو پس اگر لوگ اس ہدایت اور رحم کی تعلیم پر عمل کریں.اور بچوں کے منہ پر نہ ماریں تو بہت سے حادثوں سے نجات مل سکتی ہے.(ابو داؤد حياة المسلمين ) والدین بچوں سے جھوٹ نہ بولیں الا و قول الزور چالیس جواہر پارے ص 65 حدیث نمبر 14) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ” خبر دار جھوٹ بات کہنے سے بچو اور جھوٹی گواہی دینے سے بچو حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ جب بندہ جھوٹ بولتا ہے تو فرشتہ اس کے جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے ایک میل دور چلا جاتا ہے تین بڑے گناہ ہیں.اول.شرک دوم.والدین کی نا فرمانی اور تیسرا بڑا گناہ جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے.جھوٹ کی عادت آپ جانتے ہیں کہ اگر بچے جھوٹ بولتے ہیں.ان کی بچپن کی یہ عادت پھر بڑے ہو کر بھی نہیں چھٹتی اور یہ جھوٹ اکثر ماں باپ خود سکھاتے ہیں اور جب بچہ خوب جھوٹ بولنے لگتا ہے تو حیران ہو کر کہتے ہیں کہ خبر
92 91 نہیں اسے جھوٹ بولنے کی عادت کسی نے لگادی.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک صحابی کے ہاں تشریف لے گئے.وہاں ان کی بی بی اپنے بچے کو بلا رہی تھیں اور کہہ رہی تھیں کہ 'یہاں آؤ تو میں تمہیں کچھ دوں، آپ نے پوچھا ” تم اسے کیا دوگی، عرض کیا کہ چھوہارا آپ نے فرمایا.” اگر تم بچوں سے وعدہ کروگی اور پھر ان کو کچھ نہ دوگی تو ایک جھوٹ کا گناہ تمہارے اعمال میں لکھا جائے گا “.اگر والدین بچوں سے جھوٹ نہ بولیں تو دنیا میں جلد ایک راستباز قوم پیدا ہو جائے گی آپ نے فرمایا ايا كم والكذب“ تم کبھی جھوٹ نہ بولو.عليكم بالصدق“ تم ہمیشہ سچ بولو.كلو من الطيبت“ پاکیزہ چیزیں کھایا کرو.المسلم مراة المسلم ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا آئینہ ہے.یعنی مومن اپنے مسلمان بھائی کا آئینہ ہے.جب کوئی اس میں عیب دیکھتا ہے تو اُس کو اصلاح کی طرف متوجہ کرتا ہے آپ نے فرمایا: (اسوہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 520) اے مسلمانوں تم اپنے آئینے صاف رکھو، لوگ تمہارے آئینے میں میری تصویر دیکھیں گے“ پیارے بچوں کے لئے جنت ہی جنت اطاعت والدین.خدمت والدین.اللہ تعالیٰ نے دُنیا میں ہمارے لئے بے شمار نعمتیں پیدا کی ہیں.ان سب میں ایک بہت ہی قابل قدر نعمت ہمارے لئے والدین کا وجود ہے.خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم احمدی ہیں اور ہمارا مذہب ہمیں اطاعت اور فرمانبرداری سکھاتا ہے......پس ( دین حق ) میں جہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے وہاں ماں باپ کی اطاعت و فرمانبرداری کو بھی لازم قرار دیا گیا ہے..جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے.فَلا تَقُل لَّهُمَا رُقٍ وَّلَا تَنْهَرُهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ، وَا خُفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُلْ رَّبِّ ارْ حَمُهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًاه وو (بنی اسرائیل : 25،24) ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو.اگر ان میں سے کسی ایک پر یا دونوں پر تیری زندگی میں بڑھاپا آجائے اور اگر تمہیں اپنی ناسمجھی کی وجہ سے ان کی کوئی بات ناگوار بھی لگے تو انہیں اُف تک نہ کہو اور ان کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کرو اور نہ ہی انہیں کبھی جھڑ کو.والدین کو (ان کو کسی بات پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے ) اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑ کو اور اُن سے ہمیشہ نرمی سے بات کرو اور رحم کے جذبے کے ماتحت ان کے سامنے عاجزانہ رویہ اختیار کر اور اُن کے لئے دعا کرتے وقت کہا کرو کہ اے میرے رب ان پر
94 93 مہربانی فرما کیونکہ انہوں نے بچپن کی حالت میں میری پرورش کی تھی.یعنی ماں باپ سے محبت سے اور نرمی سے ساتھ بات کرو یعنی رحم کے جذبے کے تحت عاجزی اور انکساری کے بازوؤں کو محبت اور رحم کے ساتھ جھکائے رکھو اور ان کے لئے ہمیشہ خدا سے دُعا مانگتے رہو کہ خدایا جس طرح میرے ماں باپ نے مجھے بچپن میں جبکہ میں بالکل بے سہارا تھا محبت اور شفقت کے ساتھ پالا اسی طرح تو اُن سے بڑھاپے میں اُن پر شفقت اور رحم کی نظر رکھ.آمین پس یہ حقیقت ہے کہ ایک وقت ایسا تھا کہ ہم اتنے چھوٹے تھے کہ کچھ بھی کر نہ سکتے تھے.نہ بول سکتے تھے نا کھا پی سکتے تھے نہ چل پھر سکتے تھے اس وقت ہمارے ماں باپ نے بڑی محبت سے اور بڑی تکلیفیں اٹھا کر ہمیں پالا ، کھلایا ، پلایا پڑھایا لکھایا اور ہر طرح سے ہمارا خیال رکھا.اگر ہم بیمار ہو جاتے تو راتوں کو جاگ جاگ کر ہمارا خیال رکھتے.اور ہمارے لئے خدا کے حضور دعائیں کرتے رہتے.اسی لئے ہمارے پیارے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں باپ کی اس خدمت گزاری اور احسان کے بدلے میں ہمارے لئے بھی ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا فرض قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جس شخص نے اپنے والدین کے بڑھاپے کا زمانہ پایا اور پھر اس نے ان کی خدمت کے ذریعے اپنے واسطے جنت کا دروازہ نہیں کھولا وہ بڑا ہی بدقسمت انسان ہے.نیز فرمایا : کتنا ہی سعید اور خوش قسمت وہ انسان ہے جو محبت اور خلوص سے والدین کی خدمت کر کے جنت کا وارث بنتا ہے.....نیر فرمایا جس شخص کے والدین زندہ ہوں اور ضعیف ہوں وہ اُن کی خوب خوب خدمت کرے تو اس کو حج کا ثواب مل جائے گا.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آپ کے پاس آیا اور عرض کی اے اللہ کے رسول تمام لوگوں میں سے میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے ؟ آپ نے ارشاد فرمایا تیری ماں! اسی صحابی نے پھر عرض کی یا رسول اللہ اس کے بعد کون آپ نے مکرر ارشاد فرمایا 'تیری ماں.اُس نے پھر پوچھا ، پھر کون آپ نے فرمایا 'تیری ماں اس نے پھر پوچھا پھر کون آپ نے فرمایا تیرا باپ اور پھر درجہ بدرجہ دوسرے لوگ.اس مبارک حدیث سے والدین کے حق کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے.اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا کہ ” ماں باپ کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کی خوشی ہے اور ماں باپ کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے.اسی لئے ہمارے پیارے آقا نے ارشاد فرمایا ” دوسرے گناہوں کی سزا اگر خدا تعالیٰ چاہے تو قیامت تک اُٹھا رکھے لیکن ماں باپ کو دکھ دینے والے کو دُنیا میں ہی ضرور سزا دیتا ہے.پس جو نیک اچھے اور فرمانبردار بچے ہوتے ہیں وہ خدا اور اس کے رسول کے فرمان کی روشنی میں ماں باپ جیسی نہایت قیمتی اور بابرکت نعمت کی قدر کرتے ہوئے ان کی خوب خوب خدمت کرتے ہیں اور ان کے لئے دعائیں بھی کرتے رہتے ہیں.وہ ماں باپ بہت ہی خوش قسمت ہیں جو اپنے پیچھے دُعائیں کرنے والی اولاد چھوڑ جاتے ہیں اور وہ بچے بھی بڑے خوش نصیب ہیں جو والدین کی خوشنودی اور محبت بھری دُعائیں حاصل کر کے آخرت میں بھی جنت کے وارث بنتے ہیں اور دُنیا میں بھی کامیابیاں حاصل کرتے رہتے ہیں.
96 95 زریں اصول وو حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آپ نے ارشاد فرمایا ہے کہ ” اے مسلمانوں اپنے والدین کے ساتھ نیکی کا برتاؤ کیا کرو تاکہ تمہاری اولاد بھی تمہارے ساتھ نیکی سے پیش آئے.یعنی آگے کی بجائے پیچھے دیکھو“.(ادب المفرد) بچے کے کانوں میں اذان واقامت کی فلاسفی نئی تحقیق کی روشنی میں از خطاب - حضرت خلیفہ المسح الرابع رحمۃ اللہ تعالیٰ الفضل 4 مئی 1983) پر حکمت تعلیم : جب بچہ پیدا ہو اس کے کانوں میں اذان اور اقامت کہنے کی پُر حکمت تعلیم ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے 1500 سال قبل دی.ایسے وقت میں دی جبکہ ملک عرب جہالت کا گہوارہ تھا.ساری جہالتیں وہاں پنپ رہی تھیں.اللہ تعالیٰ نے وہاں ہمارے پیارے آقا کو مبعوث فرمایا اور اعلان فرمایا: يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ (الجمعة 3) گویا بتایا کہ معجزہ اس کو کہتے ہیں کہ وہ ملک ساری دُنیا میں سب سے زیادہ جاہل ملک اور جس میں بسنے والے اُمی محض ہیں انہی میں سے.میں ایک آدمی کو چنتا ہوں اور اچانک تم دیکھتے ہو کہ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وہ انہیں تعلیم بھی دینے لگ گیا ہے اور پس پردہ حکمتیں اور فلسفے بھی بیان کرنے لگ گیا ہے.اس شان کا معلم ہمیں عطا ہوا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے علم کے حصول پر بہت زور دیا ہے اور علم کے متعلق نصیحتیں فرمائیں.گویا جس دن اسلام پیدا ہو رہا تھا اس دن دُنیا کے علوم بھی ساتھ ساتھ پرورش پارہے تھے.پس آپ کی عطا کردہ تعلیم نہایت پر حکمت اور ہمیشہ اثر انداز ہونے والی سائنسدانوں کی تحقیق ہے.اور آج پندرہ سو سال بعد موجودہ تحقیق سے سائنسدانوں نے ثابت کیا ہے کہ انسانوں کے دماغ کا ایک حصہ ایسا ہے کہ بچپن میں بچہ جو سنتا ہے وہ اس کو اخذ کرتا ہے اور محفوظ بھی کر لیتا ہے اور پھر بھی وقت آنے پر خود بخود یاد آجاتا ہے.حیرت انگیز واقعہ چنانچہ ایک حیرت انگیز واقعہ معلوم ہوا ہے کہ ایک بچی جس کو انگریزی کے سوا کوئی زبان نہیں آتی تھی اور کسی دوسری زبان کا ایک لفظ بھی نہیں جانتی تھی.ایک دفعہ جب اس کے دماغ کا آپریشن ہونے لگا اور اس کے ڈاکٹروں نے سوئیاں گزارنی شروع کیں تو ایک جگہ پہنچ کر وہ نہایت روانی سے جرمن بولنے لگ گئی کیونکہ دماغ کا ایک حصہ متحرک کر دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں وہ جرمن زبان بولنے لگ گئی.ڈاکٹر بڑے متعجب ہوئے کہ کیا قصہ ہے.اس کے ماں باپ سے سوال کیا.انہوں نے کہا ہم نے اسے کبھی جرمن نہیں سکھائی پھر گرید کر سوالات پوچھنے پر ماں کو یاد آگیا کہ اصل میں اس کی دایہ ایک جرمن تھی اور اس کی عادت تھی کہ وہ بیٹھی آپ ہی آپ منہ میں باتیں کیا کرتی تھی.اب یہ اس کے بچپن کا تھوڑا سا دور تھا اس وقت اس کی کوئی شعوری کیفیت ایسی نہیں تھی کہ وہ سیکھنا چاہتی تھی ( کانشس برین) اس کا شعوری
98 97 ذہن اس کو رد کر رہا تھا.لیکن جو وہ سن رہی تھی دماغ اس کو جذب کرتا جا رہا تھا.اس کے نتیجے میں جب اس نے شعوری دور میں علم سیکھا تو وہ سٹور ہوکر دب گئیں.اور اس کو پتہ نہیں تھا کہ میرے اندر کیا قابلیت موجود ہے.جب برقی آلوں نے دماغ کے اس حصہ کو فعال کیا تو اچانک قوت پیدا ہوگئی اور پتہ لگا کہ انسان کے ذہن کی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بہت زیادہ ہے اور آپ ہی آپ علم کو جذب کرتا چلا جاتا ہے.دماغ میں علم کے سٹور اس پر بہت ریسرچ ہوچکی ہے اور پتہ چلا ہے کہ دماغ کے بے شمار ایسے ہیں جن میں علم کے سٹور بھرے ہوئے ہیں.ہم نے کسی وقت کوئی چیز سیکھی تھی اور وہاں محفوظ ہوگئی ہے.ان کو مستعدی کے ساتھ استعمال کرنے کی طاقت ہم میں ہو یا نہ ہولیکن دماغ میں وہ چیزیں موجود ہیں.دماغ ریکارڈ کرتا ہے ایک اور تجربہ جس کے متعلق بعض سائنسدان کہتے ہیں کہ جو کچھ سیکھنا یا سکھانا ہو ریکارڈ کرلو اور رات بھر ہلکی آواز میں چلا کر خود سوجاؤ.ساری رات دماغ اس کو اخذ کرتا رہے گا.ہوسکتا ہے کہ جب تھوڑی دیر کے لئے گہری نیند میں آجائے تو اس وقت نہ کرے.لیکن ساری رات نیند کی کوئی سٹیج (منزل) ہو ذہن اس کو نوٹ کرتا چلا جاتا ہے.نیز یہ بھی تحقیق سے ثابت ہے کہ اس سلسلے میں کیسٹ ریکارڈر نہایت با اثر کردار ادا کرسکتا ہے.جو کچھ سکھانا ہو اس کا کیسٹ لگادیں تو وہ بچے کا ذہن اخذ کرتا رہتا ہے.اگر سویا ہوا ہو تو اس کا ذہن اخذ کرتا رہتا ہے.اور نوٹ کرتا ہے.عظیم الشان دماغ اللہ تعالیٰ نے انسان کو عظیم الشان دماغ دیا ہے کہ سائنسدان جنہوں نے دماغ پر غور کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم دماغ کا ہزارواں حصہ بھی استعمال نہیں کر سکے.آج تک ہم سب سے کم جس چیز کو سمجھ سکے ہیں وہ انسانی دماغ ہے اور بدقسمتی یہ ہے کہ اس کا اکثر حصہ بغیر استعمال کے ہی پڑا رہ جاتا ہے.جس طرح دُنیا کے پسماندہ ممالک میں ان کے اکثر ذرائع اور وسائل بغیر استعمال کے پڑے رہ جاتے ہیں.اس طرح ان بے چاروں کے دماغ بھی بغیر استعمال کے پڑے رہ جاتے ہیں.پس یہی دوسرے لوگوں اور مسلمانوں میں فرق تھا.اس قوم نے اپنے دماغ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کی روشنی میں استعمال کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑے بڑے پھل عطا کئے.دینی ترقیات بھی عطا کیں اور دنیاوی ترقیات بھی.بچپن کا حافظہ اور یہ تو سب کو تجربہ ہے کہ بچپن کی یاداشت کتنی زیادہ ہوتی ہے اور بڑے ہو کر بھی بچپن کی باتیں یاد آتی رہتی ہیں.پس یہ بات سو فیصدی ہے کہ ذہن بچپن میں ضرور اخذ کرتا ہے اور وقت آنے پر اس سے درست فائدہ اٹھاتا ہے.گیارہ سال تک انتظار اسی طرح زبانوں کے متعلق ریسرچ سے معلوم ہوا ہے کہ گیارہ سال کی عمر تک آپ جتنی چاہیں زبانیں سیکھیں آپ کے اوپر کوئی بوجھ نہیں پڑے گا.ذہن کا ایک حصہ ایسا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے زبانیں سکھائی جاتی ہیں.گیارہ سال تک وہ انتظار کرتا رہتا ہے.پھر وہ ناکارہ ہو
100 99 جاتا ہے اور اس سے کچھ بھی یاد نہیں ہوتا.اس طرح دماغ کا یہ حصہ گیارہ سال تک انتظار کرتا رہتا ہے کہ اسے استعمال کیا جائے جو لوگ اسے استعمال نہیں کرتے ضائع کر دیتے ہیں.دماغ کی قدر جائے پس دماغ کی قدر کرنی چاہئے اور اسی حکمت کے تحت ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.بچپن میں سات 7 سال تک بچے کو نماز یاد کرادینی چاہئے اور جب دس سال کا ہو کر گیارہویں سال میں لگ اور نماز نہ پڑھے تو پابندی کرنے کے لئے اسے سرزنش کریں تاکہ نماز کی عادت اسی عمر میں پختہ ہو جائے ورنہ اس کے بعد نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا.ذہن ریکارڈ کرتا ہے پس یہ بات درست ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ذہن ضرور ریکارڈ کرتا ہے اور پھر اس سے استفادہ بھی کرتا ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا سسٹم ضرور ہے ورنہ یہ سارا بیکار تھا اور اللہ تعالیٰ کوئی باطل اور بیکار چیز پیدا نہیں کرتا.چنانچہ پہلے دن بچے کے ایک کان میں اذان دینا اور دوسرے کان میں تکبیر یعنی اقامت کہنا یہ بھی ایک بن جاتا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کے خلاف لغو فعل قرآن کریم کی تعلیم کے خلاف ہے.اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسا کرہی نہیں سکتے اگر لغو ہوتا....آپ کی زندگی کا ایک ذرہ بھی تعلیم قرآنی کے خلاف نہیں.پس یقینا اللہ تعالیٰ نے سب کا نشس برین سے کانشس برین کے استفادہ کا نظام قائم کیا ہوا ہے.اور اس کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہے.اور کا قائم فرمودہ علمی اور تربیتی نظام نہ صرف حیرت انگیز ہے بلکہ قیامت تک کے استفادہ کے لئے روشنی کے مینار کی حیثیت رکھتا ہے.پس آج کے اس پر آشوب دور میں جب کہ تمام دنیا میں بے چینی اور خوف و ہراس اور فساد اور لڑائیاں پھیلی ہوئی ہیں اور دُنیا امن کی متلاشی ہے.ہم ان کو بتادینا چاہتے ہیں کہ اگر چاہتے ہو کہ دُنیا میں امن قائم ہو.ایک دوسرے کا احترام دلوں میں قائم ہو اور عزت و وقار قائم ہو تو یہ صرف اور صرف ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی حسین تعلیم پر عمل کر کے ہی ہوسکتا ہے.خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمادے کہ ہم اپنے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری اور حسین تعلیم پر صدقِ دل سے عمل کریں.اور اس میں ہی ہماری جماعت اور قوم کی بھلائی ہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین! حرف آخر وہ خزائن جو ہزاروں سال سے مدفون تھے اب میں دیتا ہوں اگر کوئی ملے اُمیدوار ( درشین) پس یہی وہ انمول خزانے ہیں جو ہمارے اس زمانے کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم دو جہانوں کے بادشاہ سے پاکر تقسیم کئے ہیں اور جو ہمیں عطا ہوئے ہیں اور ان میں سے جو ہم چاہتے ہیں لے لیتے ہیں اور لیتے رہیں گے.اور اپنے ایمانوں کو جلا بخشتے رہیں گے.انشا اللہ ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَّشَاء
102 101 پس آج کے اس پر آشوب دور میں تمام دنیا میں بے چینی اور خوف و ہراس اور فساد اور لڑائیاں پھیلی ہوئی ہیں اور دنیا امن کی متلاشی ہے.ہم ان کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ اگر چاہتے ہو کہ دنیا میں امن قائم ہو ایک دوسرے کا احترام دلوں میں قائم ہو اور عزت و وقار قائم ہو.تو یہ صرف اور صرف ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیاری اور حسین تعلیم پر عمل کر کے ہی حاصل ہوسکتا ہے.خدا تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے پیارے آقا کی پیاری اور حسین تعلیم پر صدق دل سے عمل کریں.آمین...اس میں ہماری بہتری ہے.اور اس میں ہماری اولادوں کی بھی بہتری ہے اور اس میں ہماری جماعت کی اور قوموں کی بھلائی ہے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے نے کوئی دیں دین محمد سا نہ پایا ہم آؤ لو گو کہ یہیں نورِ خدا پاؤ گے لو تمہیں طور تسلی کا بتایا ہم نے ( در شین) اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدٍ َو عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَ عَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ اَللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَّجِيد خاکسار امتہ الہادی از کراچی.پاکستان مرتبہ کا تعارف محترمہ امتہ الہادی اہلیہ محمد رشید الدین صاحب بنت حضرت مولنا ابوالبشارت عبدالغفور صاحب (حضرت رفیق مسیح موعود ، مربی سلسلہ جید عالم و مناظر 29 جولائی 1928ء کو قادیان میں پیدا ہوئیں آپ کے دادا حضرت میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں والے اور دادی حضرت برکت بی بی صاحبہ اسی طرح آپ کے نانا حضرت مولوی فضل الدین صاحب اور نانی حضرت مہتاب بی بی صاحبہ بھی رفقائے حضرت مسیح موعود تھے.قادیان میں نصرت گرلز ہائی سکول اور جامعہ نصرت میں دینیات کالج کی درجہ ثالثہ تک تعلیم پائی درجہ ثانیہ میں اچھے نمبر لینے کے انعام میں حضرت مصلح موعود سے وظیفہ ں کیا اور اسی بابرکت رقم سے وصیت کرنے کی توفیق ملی.تقسیم برصغیر کے بعد پاکستان آئیں والد صاحب کے سرگودھا میں بطور مربی تعیناتی کے دوران 1948 میں سرگودھا میں لجنہ قائم کی.1948 میں محترم رشیدالدین صاحب ایم.اے کے ساتھ شادی ہوئی اللہ کے فضل سے ان کے والدین حضرت محمد عزیز الدین ولد حضرت محمد وزیر الدین اور والدہ حضرت عائشہ بی بی بھی رفقائے حضرت مسیح موعود تھے.اس طرح حضرت اقدس کے بابرکت رفقاء کی نگرانی ، تربیت اور سائے میں تربیت پائی.محترمہ امتہ الہادی صاحبہ نے کراچی لجنہ کی 1960 سے 2000 تک مختلف ذمہ دار عہدوں پر نمایاں خدمت کی.متعدد اسناد خوشنودی کی حقدار قرار دی گئیں خلفائے کرام اور خاندان حضرت مسیح موعود سے انتہائی مخلصانہ عقیدت رکھتی تھیں.جماعت کی طرف سے مالی قربانی کی تحریک میں مجاہدانہ حصہ لیتی ہیں کئی جگہ چندہ دہندگان میں آپ کا نام کندہ ہے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی تحریک پر قرآن کریم کے دس پارے حفظ کئے قبل ازیں خطبہ الہامیہ اور قصیدہ بھی حفظ کیا.زیر نظر کتاب کی اشاعت پر حضرت چھوٹی آپا مریم صدیقہ صاحبہ نے پانچ سو روپے انعام دیا اللہ تعالیٰ نے دو بیٹے ڈاکٹر نصیر الدین صاحب، فاتح الدین صاحب اور چار بیٹیاں حلیمہ ، امتہ الرشید ، امتہ القادر اور امتہ المعین عطا کیں جو سب خادم دین ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ آپ اور آپ کے خاندان کے نفوس، اموال اور اخلاص میں نسلاً بعد نسل برکت عطا فرماتا چلا جائے.آمین اھم آمین
104 103 تعارف کتاب از روزنامه الفضل ربوه لجنہ اماء اللہ کراچی کچھ عرصے سے نہایت قیمتی لٹریچر فراہم کر رہی ہے.اس لٹریچر کی ایک کڑی ” حضرت رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بچے کی کتابی صورت میں ظاہر ہوئی ہے.یہ کتاب محترمہ امتہ الہادی صاحبہ نے ترتیب دی ہے اور صدر صاحبہ لجنہ اماء اللہ کراچی محترمہ سلیمہ میر صاحبہ کے مطابق یہ کتاب شعبہ اشاعت مرکزیہ سے منظور شدہ ہے.بہت آسان اور موثر انداز میں تحریر کی گئی ہے.اس میں آپ کا بچوں سے پیار والدین کو نصائح اور بچوں کے بارے میں فقہی مسائل شامل ہیں.اس کتاب میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بچوں سے پیار کے جو واقعات درج کئے گئے ہیں والدین کے لئے ایک ایسی مشعل راہ ہیں جو بچوں کی تربیت کے سلسلے میں سب سے زیادہ روشنی مہیا کرتے ہیں.آپ کا یہ پیار صرف ایک محبت کا جذبہ ہی نہیں تھا بلکہ اس کے پیچھے خدائی منشاء کے مطابق وہ مقصد بھی کار فرما تھا جس کے لئے آپ دُنیا میں تشریف لائے یعنی اخلاق حسنہ کی تعمیل کے لئے.حضور کے بچوں سے پیار کے واقعات کو ان دونوں نظریوں سے دیکھنے کی ضرورت ہے.ایک تو یہ کہ بچہ پیار کا مستحق ہے دوسرے یہ کہ اسی پیار کے ذریعے اس کی تربیت کرنا مقصود بن جائے.جن بچوں کا اس رنگ میں ذکر ہے کہ انہوں نے اپنے آقا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار کا اظہار کیا وہ نہ صرف ہمارے بچوں کے لئے رہنمائی کا باعث ہیں بلکہ بڑوں کو بھی ایک رنگ میں تلقین کا موجب ہیں کہ اپنے بچوں کو اس طرح بزرگ ہستیوں سے پیار کرنا سکھانا چاہئے.کتاب کا اختتام حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے ایک خطبہ کے اقتباس پر کیا گیا ہے.جس میں حضور نے اس بات کی تلقین فرمائی ہے.کہ تربیت کا کام بچوں کی زندگی کے روزِ اوّل سے ہی شروع ہوجانا چاہئے.اور اس وقت سے ہی اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ اس کے سامنے صرف ایسی باتیں کی جائیں یا ایسے کام کئے جائیں جو نیکی کی طرف رغبت دلانے والے ہوں کیونکہ بچوں کے دماغ پر کسی نہ کسی رنگ میں تمام وہ باتیں اور وہ افعال جو اس کے سامنے کئے جائیں مرتسم ہو جاتے ہیں اور بڑا ہوکر غیر شعوری طور پر ہی سہی ان سے متاثر رہتا ہے.پس یہ کتاب اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ زیادہ تعداد میں بچوں کے ہاتھوں میں جائے.ہمارے سامنے اکثر یہ بات آئی ہے کہ ایسی کتابوں سے چند ایک لوگ تو فائدہ اٹھا لیتے ہیں لیکن اکثریت کے ہاتھوں میں یہ کتاب نہ جانے کی وجہ سے وہ لوگ اس سے محروم رہ جاتے ہیں حالانکہ جیسا کہ مرتبہ نے دُعا کی ہے.خدا تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے پیارے آقا کی حسین اور پیاری تعلیم پر صدق دل سے عمل کریں.اس میں ہی ہماری بہتری ہے اور اسی میں ہماری اولادوں کی بھی بہتری ہے.آمین ثم آمین.یہ بات حاصل کرنے کے لئے لازم ہے کہ یہ کتاب اگر ہر احمدی بچے کے ہاتھ میں نہ دی جائے تو کم از کم ہر احمدی گھرانے میں ضرور موجود ہونی چاہئے.از محترم جناب نور محمد نسیم سیفی صاحب ایڈیٹر روز نامہ الفضل 25 ستمبر 1990)
106 105 حضرت مسیح موعود (علیہ السلام) کے عربی قصیدہ سے چند منتخب اشعار يَا عَينَ فَيُضِ اللَّهِ وَالْعِرفان اے اللہ تعالیٰ کے فیض اور عرفان کے چشمہ (رواں)! يَسْعَى إِلَيْكَ الْخَلُقُ كَالظَّمُان آپ کی طرف لوگ پیاسوں کی طرح دوڑے (چلے) آتے ہیں يَابَحُــرَ فَضْلِ الْمُنْعِمِ الْمَنَّـانِ اے انعام احسان کرنے والے! خدا تعالیٰ کے فضل کے سمندر تَهُوِى إِلَيْكَ الرُّمَرُ بِالْكِيزَانِ آپ کی طرف لوگ گوزے لئے گروہ در گروہ بھاگے آتے ہیں اے ملک يَا شَمْسَ مُلْكِ الْحُسْنِ وَالْإِحْسَانِ حسن احسان کے آفتاب نَوَّرْتَ وَجْهَ الْبَرِّ وَالْعُمْرَانِ آپ نے خشکی اور آبادی کا منہ روشن کردیا یعنی اپنے نور ہدایت سے جنگلوں اور آبادیوں میں بسنے والے گمراہوں کو ہدایت دی اے يَـــــابَــدْرَنَايَا آيَةَ الرَّحُمْ ہمارے چاند! اے خدائے رحمن کے نشان! اَ هُدَى الْهُدَاةِ وَاشْـجَـعَ الشُّجُعَـانِ اے ہادیوں کے ہادی اور سب سے بڑے بہادر اِنّى أَرى فِى وَجُهِكَ المُتَهَلل بے شک میں آپ کے چمکدار چہرے میں ایسی شان دیکھتا ہوں شَأْنَايَفُوقَ شَمَائِلَ الإِنسان جو تمام انسانی شمائل و خصائل پر فوقیت رکھتی ہے , فَطَلَعُتَ يا شَمْسَ الْهُدَى نُصْحالَّهُمُ اے آفتاب ہدایت (آپ نے ایسی تاریکی اور ظلمت کی حالت میں ان کی خیر خواہی کے لئے ان پر طلوع فرمایا لِتُضِيْتَهُمْ مِنْ وَجُهِكَ النُّوْرَانِي اپنے نورانی چہرہ انہیں منور و روشن کریں يَالَلُفَتَى مَاحُسُنُه وَجَمَالُه وہ (خوبصورت) نوجوان! آپ کے حسن جمال (کی خوبیاں کیسے بیان ہوں رَيَّاهُ يُصْبِى الْقَلْبَ كَالرَّيْحَانِ جن کی خوشبو ریحان کی طرح دل کو فریفتہ کرلیتی ہے وَجُهُ الْمُهَيْمِنِ ظَاهِرٌ فِي وَجْهِهِ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے سے خدائے مھیمن کا چہرہ نظر آتا ہے وَشُئُونُه لَمَعَتْ بِهَذَا الشَّـان اور آپ کے تمام احوال (اور اخلاق اسی ) شان و شوکت) کے ساتھ چمکتے ہیں جِسْمِي يَطِيرُ إِلَيْكَ مِنْ شَوْقٍ عَلَا میرا جسم اور شوق تیری طرف اڑ کر جانا چاہتا ہے يَا لَيْتَ كَانَتْ قُوةٌ الطَّيران مجھ میں اُڑنے کی يَا رَبِّ صَلِّ عَلى نَبِيِّكَ دَائِماً اے خدا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا رہ کاش طاقت في هذه الدنيا وَ بَعْثٍ ثان اس دنیا میں بھی ہوتی اور آخرت میں بھی
108 107 نام کتاب حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور بچے 17 1000 شماره ایڈیشن تعداد