Hazrat Peer Sirajul Haq Nomani

Hazrat Peer Sirajul Haq Nomani

حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب ؓ کا تعلق ایک گدی نشین خاندان سے تھا۔مگر آپ بچپن سے ہی نہایت سادہ طبیعت کے مالک تھے اور امام وقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کرلینے کے بعد تو آپ کی زندگی ہی بدل گئی ۔ آپ کو نہ دنیا کے جاہ و جلال کی پرواہ رہی نہ ہی جائیداد کی فکر رہی۔ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پوری تندہی سے لگ گئے اور پھر خلفائے احمدیت سے بھی محبت و اطاعت کا رشتہ پروان چڑھایا اور خوب نبھایا۔ یقیناً آپ نے خود بھی اعلیٰ دینی خدمات سرانجام دیں اور بعد میں آنے والوں کے لئے بھی قابل تقلید نمونہ چھوڑ گئے۔ آپ ایک قابل فخر وجود تھے ۔ آپ کے حالات کا مطالعہ اور آپ کی سیرت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنا آج بھی انسان کو غیر معمولی برکات کا وارث بنانے والا ہے۔


Book Content

Page 1

حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ وقت گزار نے والے ہر ایک وجود کی شان غیر معمولی تھی.یہ وہ لوگ تھے جو اپنی فطری نیکی اور حضرت اقدس کی صحبت کے نتیجے میں روحانی ترقیات کرتے چلے گئے.اور ہر پہلو سے اپنی زندگیوں کو پاک کر کے تقویٰ سے مزین ہو گئے.یہ قابل فخر وجود اور ان کی زندگیاں ہمارے لئے راہنما ہیں.اگر ہم بھی ان بزرگوں کی سیرت کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں تو انہیں غیر معمولی برکات کے وارث بن سکتے ہیں جو ہمیں ان کی زندگیوں میں نظر آتی ہیں.

Page 2

1 پیش لفظ حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کا تعلق ایک گدی نشین خاندان سے تھا.مگر آپ بچپن سے ہی نہایت سادہ طبیعت کے مالک تھے.اور امام وقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر لینے کے بعد تو آپ کی زندگی ہی بدل گئی.آپ کو نہ دنیا کے جاہ وجلال کی پر واہ رہی نہ ہی جائیداد کی.حضرت اقدس مسیح موعود کی خاندانی تعارف حضرت پیرمحمد سراج الحق صاحب نعمانی جمالی کے والد صاحب کا نام شاہ حبیب الرحمان تھا.وہ سر ساوہ ضلع سہارن پور کے رہنے والے تھے.ان کا تعلق ایک ایسے جلیل القدر خاندان سے تھا جس میں اپنے وقت کے نہایت بڑے بڑے اولیاء، ابدال ،غوث، قطب وغیرہ گزرے خدمت میں پوری تندہی سے لگ گئے.پھر خلفاء احمدیت سے بھی آپ کا محبت کا تعلق ہیں.حضرت پیر صاحب کے نعمانی کہلانے کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ آپ کا شجرہ نسب امام اعظم بے مثال تھا.خود بھی اعلیٰ خدمات سرانجام دیں، ہمارے لئے بھی قابل تقلید نمونہ چھوڑ گئے.اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو.آمین خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی کے اس بابرکت موقع پر خلافت کے جانثاروں کے بارے میں تعارفی کتب شائع کرنے کا سلسلہ جاری ہے.زیر نظر کتاب کے قلم سے لکھی گئی ہے، اور یہ اس کتاب کی پہلی اشاعت ہے.مصنف کتاب هذا حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی کے خاندان سے ہیں.خاکسار اس کتاب کی تیاری میں معاونت کا تہہ دل سے شکر گزار ہے.فجزاهم الله تعالى الاحسن الجزاء کی حضرت ابوحنیفہ سے ملتا ہے جن کا اصل نام نعمان تھا.آپ کا خاندان لوگوں میں اتنا مشہور تھا کہ آپ جہاں بھی جاتے لوگ آپ کو پیر صاحب یا صاحبزادہ صاحب کہہ کر پکارتے تھے اور آپ کے خاندان کو بڑی عزت و تکریم سے دیکھا جاتا تھا.آج بھی سرساوہ میں عرس ہوتا ہے اور گدی جاری ہے.پیدائش حضرت پیر محمد سراج الحق صاحب نعمانی انداز 1855ء میں پیدا ہوئے.آپ کی پیدائش کی معین تاریخ کا تو علم نہیں ہو سکا لیکن آپ کے سن وفات سے اور آپ کی عمر سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ آپ کی پیدائش 1855ء کے لگ بھگ ہی ہوئی.حلیہ مبارک مکرم عزیز الرحمن خالد صاحب حضرت پیر صاحب کو دیکھنے والے احمدیوں کی زبانی بیان کرتے ہیں: حضرت صاحبزادہ صاحب گندمی رنگ اور چوڑے سینہ اور کھلے جسم کے مالک تھے.

Page 3

3 2 نہایت بلند قد و قامت بزرگ تھے.جناب عبد الرحمن شاکر صاحب نے مجھے بتایا کہ پیر صاحب سخت زندگی گزارنے کی عادت پڑے.آپ کے والد صاحب آپ کو بعض اوقات گرم کپڑے بھی ہماری جماعت میں نہایت لمبے قد والے انسان تھے اور کسی شخص کا قد ہماری جماعت میں اس قدر بنا کر نہ دیتے تا کہ آپ کے اندر برداشت کی طاقت پیدا ہو سکے.نہ تھا.یہی حالت آپ کے پاؤں کی تھی.چنانچہ مولوی محمد صادق صاحب (مربی) سماٹرا نے مجھے بتایا کہ حضرت پیر صاحب جس قدر لمبے قد کے مالک تھے اس مناسبت سے اپنے سر پر لمبی ترکی ٹوپی بھی پہنا کرتے تھے.“ نام تعلیم حضرت پیر صاحب کی ابتدائی تعلیم کے بارے میں تو کسی کو زیادہ علم نہیں ہے لیکن آپ کے گھر کے ماحول سے ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم اپنے گھر سے ہی روایات بحوالہ مقالہ مکرم عزیز الرحمن خالد صاحب مربی سلسلہ 1969ء) حاصل کی کیونکہ آپکے گھر میں تعلیمی لحاظ سے کسی چیز کی کمی نہ تھی والد صاحب بہت نیک اور پڑھے لکھے انسان تھے اس لئے یہ لگتا ہے کہ ابتداء میں تو آپ زیادہ تر اپنے والد صاحب کے حضرت پیر صاحب کی پیدائش پر آپ کے والد صاحب نے آپ کا نام نصیر الدین رکھا تھا زیر تربیت رہے لیکن بعد میں خود ہی محنت کر کے علم حاصل کرتے رہے.قرآن مجید کا ترجمہ لیکن بعد میں بدل کر سراج الحق رکھ دیا.حضرت پیر صاحب فرماتے ہیں.بچپن ”میرا نام بھی میرے والد نے نصیر الدین رکھا تھا پھر سراج الحق رکھ دیا.“ ، فارسی اور دیگر چھوٹی موٹی کتابیں بقول آپ کے آپ خود ہی پڑھ لیا کرتے تھے صرف عربی کے بارے میں پتا چلتا ہے کہ آپ نے ایک استاد سے پڑھی جس پر آپ کے مرید آپ سے ( تذکرۃ المہدی صفحہ 172) ناراض ہو گئے کیونکہ آپ پیر تھے اور مرید یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ پیروں کا کوئی استاد ہو.لیکن اصل تعلیم تو بقول آپ کے آپ کو بیعت کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت حضرت پیر صاحب بچپن میں دوسرے تمام بچوں سے بالکل مختلف تھے.آپ کو بچپن سے میں رہ کر حاصل ہوئی جس کی بدولت آپ نے مخالفوں کے اعتراضات کے منہ توڑ جوابات ہی قرآن مجید پڑھنے کا شوق تھا.آپ روزانہ ایک منزل ( یعنی تقریباً چار پارے ) کی تلاوت کیا دیے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام پیر صاحب کوکئی دفعہ فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مولانا نور کرتے تھے اور ہر وقت عبادات میں مصروف رہتے.الدین صاحب خلیفہ امسیح الاول کے دروس القرآن میں شرکت کیا کریں اور ان سے تفسیر حضرت پیر صاحب کو بچپن سے ہی سخت زندگی گزارنے کی عادت ڈالی گئی تھی اور اس میں القرآن سنیں اور سیکھیں.چنانچہ قرآن مجید کا علم آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اللہ تعالی کی خاص مرضی شامل تھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے پیارے بندے حضرت مسیح خلیفہ اسی الاول سے ہی آیا.موعود علیہ السلام کی تائید و نصرت کے لئے کھڑا کرنا تھا اور اسی حکمت کے تحت اللہ تعالیٰ نے ایسے حضرت پیر صاحب کی یہ ایک سعادت عظمی ہے کہ آپ کے ایک استاد تو حضرت مسیح مہدی انتظامات فرمائے تا کہ بعد میں آپ کے لئے مشکل نہ ہو.چنانچہ بچپن میں ہی آپ کے والد آپ موعود علیہ السلام تھے اور دوسرے حضرت خلیفتہ اسی الاول تھے.جس شخص کو محض اللہ تعالیٰ کے فضل کو ریاضت و عبادت کے لئے جنگلوں میں لے جایا کرتے تھے تا آپ کو آرام کی زندگی کی بجائے سے اس قدر با برکت اساتذہ سے فیض پانے کی توفیق ملی ہو اس کا علمی معیار کیسے نہ بلند ہو.

Page 4

5 امام مہدی کی تلاش سے معلوم ہوتا ہے کہ امام مہدی پیدا ہو لئے.مجھے یہ سن کر بڑی خوشی ہوئی اور ہر روز اس قصیدہ کو پڑھتا اور چومتا.کبھی اس کو پڑھتا اور کبھی اور کتابوں کے موافق زمانہ کے حالات خراب پر نظر ڈالتا تو معلوم ہوتا کہ ضرور یہ زمانہ امام مہدی ومسیح کا ہے پھر جو دل میں سماتا کہ لاکھوں آدمیوں میں حضرت امام مہدی کی زیارت کیسے نصیب ہوگی ، تو اس نا امیدی سے چیخ مار کر رو دیا کرتا تھا.“ ( تذكرة المهدی صفحه 171-170) حضرت پیر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے کچھ ایسی فراست عطا فرمائی تھی کہ چاروں طرف دینی ماحول کے باوجود آپ کو کہیں بھی چین نہ آتا تھا، کہیں تسکین قلب نہ ملتی تھی.چنانچہ آپ نے اس غرض کے لئے کئی سفر کئے.کئی چلے کاٹے ، پیروں فقیروں کی صحبت میں جا کر رہے.آپ کو یہ اندازہ تھا کہ اس زمانہ میں امام مہدی نے آنا ہے اور زمانے کے حالات بھی اسی طرف اشارہ کر رہے ہیں لیکن ان کی یہ بھی خواہش تھی کہ وہ امام ان کی زندگی میں مبعوث ہوں جن کا انتظار کرتے نصرت الہی کرتے ہزاروں اولیاء، ابدال، غوث اور قطب گزر گئے اور آپ کو ان کے ہاتھ پر بیعت کرنے اور صحبت مبارکہ میں رہنے کا شرف حاصل ہو.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: کتابوں میں ، وعظوں میں یہ دیکھ کر اور سن کر کہ حضرت امام مہدی پیدا ہوں گے اور عیسی ان کو پہچان سکیں.علیہ السلام آسمان سے نازل ہونگے ، نہایت شوق تھا اور خدا سے دعائیں کرتا کہ الہی ہمارے زمانہ مجد والوقت کی خبر اور ملاقات کا شوق میں بھی امام مہدی اور حضرت عیسی ہونگے اور ہمیں بھی کبھی زیارت ہوگی ؟ پھر خیال آتا کہ امام اللہ تعالیٰ نے حضرت پیر صاحب کی اس تڑپ کو دیکھا اور آپ کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور مبشر رؤیا کے ذریعے آپ کو خبر دی کہ مہدی وقت کون ہیں تا کہ وقت آنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس خبر کے بعد آپ کے اندر مزید تڑپ پیدا ہوگئی اور ایک امیدسی مہدی و عیسی کہاں اور ہم کہاں.پھر خیال ہوتا کہ اگر عیسی ہوئے بھی تو ہم جیسوں کو زیارت کب نظر آنے لگی.انہیں دنوں میں آپ کو اطلاع ملی کہ قادیان میں کسی نے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا نصیب ہوگی ، وہاں تو عالم، فاضل، غوث، قطب، ابدال، امیر کبیر ، بادشاہ ، نواب تمام دنیا کے جمع ہے.چنانچہ آپ خبر ملتے ہی فوراً قادیان کے لئے روانہ ہو گئے تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہوں گے تیرے جیسوں کی رسائی اس دربار میں کب ہو سکے گی.پھر میں نے درخت پر چڑھنے کی مشق کی کہ اگر حضرت امام مہدی اور عیسی علیہ السلام ہمارے زمانہ میں ہو بھی جاویں اور ان سے ملا جا سکے اور آپ کے دعوئی کے بارے میں معلوم کیا جائے.چنانچہ آپ قادیان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ علیہ السلام سے آپ کے دعوی کے بارے کے دربار میں باریابی نہ ہو تو وہ جنگ کے لئے یا کسی اور مقصد کے لئے سواری پر نکلے تو درخت پر میں پوچھا اور آپ کے دلائل سنے.بیٹھ کر ہی زیارت کر لیں گے.پھر دعائیں کرتا اور رو رو کر دعائیں کرتا کہ الہی ان کی زیارت نصیب ہو ، جوانی میں ہو، ضعیفی میں ہو، خواہ کسی طرح سے ہو.ایک دفعہ میرے دوست ولی محمد بیعت کرنا سرساوی نے ایک قصیدہ شاہ نعمت اللہ ولی کا پرانا بوسیدہ کرم خوردہ (جسے کیڑہ لگا ہو ) لا کر دیا اور کہا جب حضرت پیر صاحب کو خبر ہوئی کہ حضور اقدس علیہ السلام لدھیانہ میں قیام فرما ہیں تو کہ تم کو بڑا شوق ہے کہ حضرت امام مہدی کی زیارت ہو سو تم کو مبارک ہو اس قصیدہ کے حساب آپ نے ارادہ کیا کہ بیعت کر لی جائے.چنانچہ اس غرض اسے آپ متعدد بار، بعض دفعہ تو کسی

Page 5

7 CO 6 مسئلہ کے حل کے لئے اور بعض دفعہ صحبت سے فیضیاب ہونے کے لئے لدھیانہ تشریف لے گئے نہ کی اور اس کو مباحثہ کی دعوت دی کیونکہ آپ اس کو اپنا دشمن سمجھتے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ لیکن آپ کی خواہش تھی کہ آپ قادیان دارالامان میں بیعت کریں اس لئے آپ پہلی بیعت السلام سے دشمنی کرتا تھا.میں شامل نہ ہوئے اگر چہ آپ وہاں موجود تھے.تاریخ احمدیت میں لکھا ہے کہ رشتہ داروں کے علاوہ بھی بعض لوگ ایسے بھی تھے جو پہلے سے ہی آپ کے مخالف تھے یعنی آپ کی پیری اور خاندانی عزت سے حاسد تھے جب ان کو حضرت پیر صاحب کی بیعت کا پتہ چلا پیر سراج الحق نعمانی - شیخ یعقوب علی صاحب تراب اور مولا نا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی تو آپ کو بدنام کرنے کا ایک سنہری موقعہ ان کے ہاتھ آ گیا.اس دن لدھیانہ میں موجود تھے مگر پہلی بیعت میں شامل نہ ہو سکے.پیر سراج الحق نعمانی صاحب کا منشاء قادیان کی ( بیت ) مبارک میں بیعت کرنے کا تھا جسے حضرت اقدس نے منظور فرمالیا اور 23 دسمبر 1889 ءکو بیعت لی.“ بیعت کرنے کے بعد کی زندگی ہجرت حضرت پیر صاحب کا اپنا وطن سر ساوہ تھا جو ضلع سہارنپور میں ایک قصبہ ہے.جب آپ نے احمدیت قبول کی تو تمام لوگ آپ کے مخالف ہو گئے.اور آپ کو اندازہ ہو گیا کہ اب یہ جگہ تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 341) آپ کے رہنے کے قابل نہیں.چنانچہ آپ نے قادیان میں مستقل رہائش اختیار کرنے کا فیصلہ کیا.دراصل یہ بھی ایک خدائی فیصلہ تھا اور قادیان جانے سے پہلے ہی آپ پر اور آپ کی اہلیہ مومن کے درجات کی بلندی کے لئے مشکلات بھی آتی ہیں.جب مومن کی راہ میں پر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ رویا ظاہر کر دیا تھا کہ اب قادیان ہی ہے جو آج امن کی جگہ ہے باقی ہر جگہ مشکلات اور تکلیفیں آتی ہیں اور وہ اس پر صبر وتحمل سے ثابت قدم رہتا ہے تب اس کے ایمان فساد ہی فساد ہے.(رساله سراج الحق صفحہ 6، 7 ) کے معیار کا اندازہ ہوتا ہے.حضرت پیر محمد سراج الحق صاحب نعمانی نے بھی جب حضرت مسیح چنانچہ آپ کی اہلیہ کو اللہ تعالیٰ نے ایک رؤیا دکھایا.آپ تحریر فرماتے ہیں: موعود علیہ السلام کی غلامی اختیار کی تو آپ کو کئی قسم کی تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اور مشکلات کو ”میری بیوی کہنے لگی کہ آج رات میں نے ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک بزرگ جن کے جھیلنا پڑا لیکن خدا کے فضل سے آپ ثابت قدم رہے.وہ لوگ جو آپ کو پیر مانتے تھے اور آپ کا سرور لیش (یعنی سر اور داڑھی.ناقل ) میں مہندی لگی ہوئی ہے اور بال سفید ہیں مونڈ ہوں تبرک کھانا اپنی خوش قسمتی سمجھتے تھے اب آپ کو راہ چلتے گالیاں دینے لگے اور کفر کے فتوے (کندھوں) تک لٹکتے ہیں اور درمیانہ قد اور دہرا بدن ہے، گندمی رنگ ہے.وہ ایک مکان میں آپ کے تمام گھر والوں اور ہم وطنوں نے بھی منہ موڑ لیا سوائے آپ کی زوجہ محترمہ کے کھڑے ہیں اور دنیا میں چاروں طرف قتل عام ہور ہا ہے اور کہیں آگ لگ رہی ہے اور کسی جگہ جنہیں اللہ تعالیٰ نے قبول احمدیت کی توفیق عطا فرمائی.مولوی رشید احمد گنگوہی جو حضرت مسیح طوفان آرہا ہے اور کسی طرف تلوار میں اور نیزے چل رہے ہیں اور روئے زمین پر کہیں امن کی موعود علیہ السلام کا ایک بڑا مخالف تھا رشتہ میں آپ کا ہم زلف تھا.لیکن آپ نے کسی رشتہ کی پرواہ جگہ نہیں.لوگ غل مچارہے ہیں روتے ہیں اور میں بھی حیران کھڑی ہوں اور دل میں کہتی ہوں آپ پر لگنا شروع ہو گئے.

Page 6

9 8 کہ الہی کدھر جاؤں کوئی جگہ امن کی نہیں ملتی.میری نظر اس مکان کے بالا خانہ پر پڑی، وہ حضور کے دست مبارک کی تاثیر بزرگ مجھے دیکھنے لگے اور فرمانے لگے کہ بیٹی اوپر آ جاؤ.میں یہ غنیمت سمجھ کر کہ کچھ تو امن کا مکان ملا.اوپر بالا خانہ پر اس بزرگ کے پاس گئی.انہوں نے فرمایا کہ بہت اچھا ہوا کہ تم حضرت پیر صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ رمضان شریف کا ذکر ہے کہ جب میرے دانتوں میں درد ہوا حضرت حکیم الامت مولانا نورالدین صاحب اور ڈاکٹر عبد اللہ صاحب (نومبائع) یہاں آگئیں.دنیا میں سوائے ہمارے اب کوئی جگہ امن کی نہیں ہے تم بھی رہو.میں نے یہ نے بہت سی دوائیں لگائیں اور کھلائیں کچھ آرام نہ ہوا.جب سخت درد ہوا اور میری حالت درد بات اس بزرگ کی زبانی سنی خدا کا شکر کیا پھر میری آنکھ کھل گئی.بتلاؤ وہ کون بزرگ تھے اور یہ سے متغیر ہوئی تو میں صبح ہی اٹھ کر حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا.میرے در دکو کیا بات ہے؟ میں نے کہا یہ حلیہ یہ صورت یہ لباس اور یہ ہیئت جو تم نے بیان کی ہے یہ حضرت دیکھ کر آپ علیہ السلام بیتاب سے ہو گئے اور صندوق کھول کر کونین کی شیشی نکالی ، اپنے ہاتھ میں اقدس مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کی ہے اور یہ مکان بھی وہی ہے جو میں دیکھ کر آیا ہوں.پانی ڈال کر جلدی جلدی سے گولی بنائی اور فرمایا منہ کھولو! میں نے کھولا تو حضرت نے اپنے ہاتھ کہنے لگی شاید وہی ہوں اور شاید دنیا میں پھر غدر پڑ جاوے اور بے امنی ہو جاوے اور قادیان سے کونین کی گولی میرے منہ میں ڈالدی.فرمایا نگل جاؤ.میں نگل گیا.پھر پانی کا گلاس اپنے ہاتھ مبارک سے بھر کر لائے اور مجھے پلایا پھر فرمایا کونین ہر ایک بیماری کے دورہ کو روکنے والی ہے خدا شفاء دے.پس دومنٹ کے بعد درد کو آرام ہو گیا.پھر جو ایک دفعہ درد ہوا اور میں نے کونین کھائی میں ہی امن ملے.چلو وہیں چلے چلیں.“ رفاقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تذكرة المهدی صفحه 207) کچھ بھی فائدہ نہ ہوا تب میں نے جانا کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے دست مبارک کی تاثیر تھی.“ حضرت پیر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ایک لمبا عرصہ رہنے اور فیض اٹھانے کا موقع دیا اور ایک عرصہ تک آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پس خوردہ کی تاثیر خدمت کی اور در حقیقت خدمت کا حق ادا کیا.آپ ان چند رفقاء میں سے ایک ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کثرت سے صحبت نصیب ہوئی.(تذکرة المهدی صفحه 10) آپ مزید فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ مجھے نزلہ اور زکام کی بہت شکایت تھی چار برس یا کچھ کم و بیش میں اس مرض میں مبتلا رہا دودھ پینا، خوشبوسونگھنا میرے لیے زہر تھا.ایک روز حضرت اقدس علیہ السلام پیر صاحب کو اکثر صاحبزادہ صاحب“ کہہ کر پکارا کرتے تھے.بعد نماز عشاء ( بیت) مبارک کی چھت کی شہ نشین پر حضرت اقدس علیہ السلام تشریف رکھتے تھے حضور علیہ السلام کو آپ سے بہت محبت تھی اور کثرت سے ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے پتہ اور سب احباب جیسے چاند کے چار طرف ستارے کوئی نیچے اور دائیں اور بائیں بیٹھے تھے آپ چلتا ہے کہ حضور اقدس علیہ السلام پیر صاحب پر بہت شفقت اور مہربانی فرمایا کرتے تھے اور آپ نے دودھ پینے کے لئے طلب کیا اور ایک گھونٹ دودھ کا پی کر گلاس کو میرے ہاتھ دے دیا اور فرمایا پی لو.میں نے عرض کیا کہ مجھ کو نزلہ اور زکام کی سخت شکایت ہے میں نہیں پی سکتا.اگر کی ہر ضرورت کا خیال رکھا کرتے تھے.

Page 7

11 10 کسی وقت پی لیتا ہوں تو مجھے زہر ہو جاتا ہے اور نزلہ بڑھ جاتا ہے.فرمایا: خیر پی بھی لو! کا ہے کا صرف ایک دیوار بیچ میں ہے.میں نے عرض کیا کہ حضور کی نوازش اور مہربانی ہے...یہ فرما کر زکام و کام؟ میں نے ادب سے انکار نہ کیا اور گلاس پی لیا.پھر مجھے اس کے بعد کبھی بھی نزلہ نہیں آپ تشریف لے گئے.دن بھر سے میرے خفیف سابا ئیں مونڈھے سے لیکر نصف صدر میں درد ہوا چاہے جتنا دودھ پیا اور جو وقت چاہا پیا اور اس سے پہلے یہ حالت رہتی تھی کہ اگر قدر قلیل بھی تھا مجھے کچھ چنداں خیال نہ ہوا.جب دس بجے تو وہ درد زیادہ بڑھنے لگا میں نے کچھ سینک کی.دودھ پی لیتا تھا تو پندرہ پندرہ میں ہمیں روز تک نزلہ رہتا تھا اورلکھنے پڑھنے سے بیکار ہو جا تا تھا اور درد کم نہ ہوا زیادہ ہی زیادہ بڑھتا گیا.جب بارہ کے قریب رات گئی تو میں درد سے بے چین ہو گیا اب دودھ پی لیتا ہوں تو خدا کے فضل اور آپ کے پس خوردہ کی تاخیر سے کوئی شکایت نہیں ہوتی.اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور میں دیوار سے کمر لگا کر بیٹھا اور در دشدت پکڑتا گیا.اسی یہ حضرت اقدس کے پس خوردہ کی تاخیر تھی جواب تک اس کا اثر ہے.“ حالت میں مجھ پر ایک کشفی حالت طاری ہوگئی اور کشف میں میں نے دیکھا کہ پانچ فرشتے میری ( تذكرة المهدی صفحه 11-10) چار پائی پر میرے سامنے بیٹھے ہیں.ایک فرشتہ نے کہا صاحبزادہ کے درد بہت ہے، دوسرے نے کہا ہاں درد بہت ہے، تیسرے نے کہا اس کا علاج کیا؟ چوتھے نے کہا اس کا علاج یہ ہے کہ ہم ہر تکلیف کا خیال رکھنا سب تقسیم کر لیں.پانچویں نے کہا اچھا پھر سب نے با ہیں اوپر کی طرف کر کے انگڑائی لی اور مجھے آپ فرماتے ہیں ” میں حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے مکان کے اندر ایک طرف بھی اشارہ سے کہا.گویا تم بھی انگڑائی لو میں نے بھی اپنی باہیں اوپر کی طرف کر کے انگڑائی لی اور معہ اہل وعیال رہتا تھا اور آپ نے وہ جگہ بتلادی تھی اور اس سے اوپر کے چوبارہ میں آپ رہتے جس طرح انہوں نے اون (مد کے ساتھ آواز نکالی ) میں نے بھی وہی آواز نکالی.بس اس تھے.دو ماہ بعد سردی کا موسم شروع ہو گیا.آپ عصر کے وقت اچانک میری جائے نشست میں میں کوئی آدھا منٹ بھی نہیں لگا اور کشف جاتا رہا اور وہ فرشتے غائب اور در دموقوف ہو گیا لیکن رونق افروز ہوئے اور پہلے ہی السلام علیکم فرمایا.میں نے جواب وعلیکم السلام عرض کیا.فرمایا حصہ رسد درد کی کچھ کسک باقی رہ گئی اور آرام ہو گیا.میری بیوی جو میرے قریب دوسری چار پائی خیریت ہے اور کوئی تکلیف تو نہیں ہے؟ اگر کوئی تکلیف ہو تو کہہ دینا.اگر نہ کہو گے تو تم تکلیف پر لیٹی پڑی تھی اور سوتی تھی میری آواز سن کر چونکی اور جاگ اٹھی ، کہنے لگی درد کا کیا حال ہے اور یہ اٹھاؤ گے.میں نے عرض کیا کہ جناب کی توجہ اور غریب نوازی سے کوئی بھی تکلیف نہیں ہے اور لمبی آواز کیسے نکالی؟ میں نے یہ سارا ماجرا سنایا پھر میں آرام سے سو گیا ، بعد نماز صبح حضرت اقدس حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ دستور تھا کہ جب کوئی مہمان آتا تو دریافت فرماتے کہ کسی بات یا پھر میرے مکان میں تشریف لائے.دور سے ”السلام علیکم فرمایا اور حسب عادت میری صورت کسی شے کی تکلیف نہ اٹھانا اور بے تکلف کہہ دینا.زبانی موقع نہ ملے تو رقعہ تحریر کر لینا اور اگر تم دیکھ کر ہنسنے لگے اور فرمایا کہ کیا حال ہے؟ میں نے کہا رات کو میرے درد تھا اور اس قسم کا واقعہ نہیں کہو گے تو تم کو آپ تکلیف اٹھانی پڑے گی ، ہم تو بڑے بے تکلف ہیں.پھر خاکسار سے گزرا.فرمایا یہ کشف صحیح ہے.ہم بھی اس وقت دیوار سے کمر لگائے بیٹھے تھے اور ہمیں یہ الہام فرمایا آج سے ہم بھی تمہاری ہمسائیگی میں آگئے ہیں.چونکہ اب سردی کا موسم شروع ہو گیا ہے.ہوا.وہ الہام مجھے یعنی خاکسار کو اس وقت یاد نہیں رہا لیکن وہ الہام الہامات میں درج ہے.پھر اوپر کے مکان سے اس نیچے کے مکان میں آگئے ہیں اور ہماری تمہاری چار پائی برابر برابر رہے گی میں نے حضرت مولانا مولوی نورالدین صاحب سے اس درد اور کشف اور صحت کا حال اور حضرت

Page 8

13 12 اقدس علیہ السلام کا تشریف لانا وغیرہ بیان کیا.تب حکیم الامت نے فرمایا کہ بے شک صحبت فرمایا لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّة إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِيمِ وَاسْتَغْفِرُ اللَّهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَّ أتُوبُ إِلَیهِ.ان دنوں مجھے زکام کی وجہ سے کھانسی ہورہی تھی.بارہ بجے ہونگے ، بار بار کھانسی صالحین میں یہی برکت ہے اور یہی مطلب ہے.پان لانا ( تذکرۃ المہدی صفحه 14-12) اٹھتی تھی.فرمایا آج صاحبزادہ صاحب آپ کو کھانسی ہو رہی ہے کیا سبب ہے؟ میں نے عرض کیا کہ شام سے میں حضور اقدس کی خدمت میں حاضر ہوں پان نہیں کھایا.مجھے حضور اجازت دیں تو میں گھر سے پان کھا بھی آؤں اور دو چار گلوریاں ساتھ لے آؤں.فرمایا جاؤ نہیں ، لکھے جاؤ ایک روز کا ذکر ہے کہ قصیدہ اعجاز احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھ رہے تھے اور اس کی کاپی کی ضرورت ہے پر لیس میں چھاپ رہے ہیں دیر ہو جائے گی.میں پان لاتا ہوں.یہ فرما کر بالا خانہ سے نیچے کے مکان میں گئے.مجھے آپ کے بولنے کی آواز آتی تھی.فرماتے تھے جلد کا پی غلام محمد کا تب امرتسری لکھ رہا تھا.مجھے بھی بلوالیا اور فرمایا کہ تم کاپی کھوتا کہ جلدی یہ قصیدہ بتلا ؤ محمود کی والدہ کہاں ہیں؟ اتنے میں حضرت محمود صاحب کی والدہ جناب (حضرت اماں چھپ جائے اور فرمایا کہ کاپی ہمارے پاس بیٹھ کر لکھو.میں نے عرض کیا بہت اچھا.آپ ایسا جان ) آگئیں.حضور نے فرمایا صاحبزادہ صاحب کا پی لکھ رہے ہیں وہ گھر جائیں گے تو دیر ہو جلدی قصیدہ تصنیف کرتے تھے اور مجھے دیتے جاتے تھے کہ میں ابھی مضمون ختم نہیں کر سکتا تھا جو جائے گی آٹھ دس پان معہ مصالحہ لگا کر دو.تو ( حضرت اماں جان ) سلمہا اللہ تعالیٰ نے دس پان آپ اور مضمون دے دیتے تھے.رات کے گیارہ بج گئے آپ کے لئے کھانا آیا، فرمایا شام سے تو ثابت لگا کر دیے اور ایک تھالی میں رکھ کر لائے.میں نے پان تو منہ میں ڈال لیا الا بچی بھی کھالی تم یہیں لکھ رہے ہو کھانا نہیں کھایا ہو گا آؤ ہم تم ساتھ کھائیں.ہمیں تو ( دین حق ) کی خوبیاں اور قرآن شریف کے منجانب اللہ ہونے کے دلائل دینے اور ثبوت نبوت محمد ﷺے میں یہاں تک اور چھالیہ بھی پھر فرمایا کسی اور چیز کی ضرورت ہو تو وہ بھی کہو.میں نے عرض کیا کہ روشنی کم ہے.پھر حضور علیہ السلام نیچے مکان میں تشریف لے گئے اور دس بارہ موم بتی لیکر آئے اور فرمایا استیلا ءاور غلبہ ہے کہ ہمیں نہ کھانا اچھا لگتا ہے، نہ پانی، نہ نیند.جب بھوک اور نیند کا سخت غلبہ ہوتا ہے تو ہم کھاتے ہیں یا سوتے ہیں.پھر میں نے اور حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک دستر خوان تم لکھے جاؤ ہم روشن کر دیں گے.سو حضرت اقدس نے اپنے دست مبارک سے چا رہتی یکدم روشن کر دیں اور باقی میرے پاس رکھ دیں اور آپ علیہ السلام قصیدہ لکھنے میں مشغول ہو گئے.پر کھانا کھایا.جب کھانا کھا چکے تو فرمایا یہ دن بڑے ثواب اور جہاد کے ہیں اور اب تو لوگ مخالفت کرتے ہیں لیکن ایک زمانہ آئے گا کہ لوگ آج کے دن کو یاد کریں گے اور افسوس کریں آرام کا خیال رکھنا گے اور پچھتائیں گے.میں نے عرض کیا کہ حضور ہمیشہ یہی قاعدہ رہا ہے کہ اللہ والوں سے حضرت صاحبزادہ صاحب تحریر فرماتے ہیں ” میرے لئے جو ایک چار پائی حضرت اقدس معاصرت ( یعنی ہم زمانہ ہونے) کی وجہ سے لوگ مخالفت کیا ہی کرتے ہیں اور کرتے رہتے علیہ السلام نے دے رکھی تھی جب مہمان آتے تو میری چار پائی پر بعض صاحب لیٹ جاتے اور ہیں.آپ کی بھی مخالفت اس وقت بہت کرتے ہیں.لوگ مردہ پرست ہیں.آپ کی وفات میں مصلے زمین پر بچھا کر لیٹ جاتا اور جو میں بستر چارپائی پر بچھا لیتا تو بعض مہمان اسی چار پائی کے بعد آپ کی قبر مبارک پر پھول اور مٹھائیاں اور غلاف چڑھائیں گے اور نذرنیا لائیں گے.بستر شدہ پر لیٹ جاتے.میرے دل میں ذرہ بھر بھی رنج یا ملال نہ ہوتا اور میں سمجھتا کہ یہ مہمان

Page 9

15 14 ہیں اور ہم یہاں کے رہنے والے ہیں اور بعض صاحب میرا بستر چارپائی کے نیچے زمین پر پھینک اسٹیشن پر تشریف لے گئے.سوار ہوتے ہوئے حضرت اقدس علیہ السلام نے خلاف عادت مجھے دیتے اور آپ اپنا بستر بچھا کر لیٹ جاتے.ایک دفعہ ایسا ہی ہوا، حضرت اقدس علیہ السلام کو ایک سینہ سے لگایا اور فرمایا کہ اب تم جاؤ پھر جلدی قادیان آنا.ہمارا جی نہیں چاہتا کہ تم کو چھوڑ کر ہم عورت نے خبر دیدی کہ حضرت! پیر صاحب زمین میں لیٹے پڑے ہیں.آپ نے فرمایا چار پائی چلے جائیں.اللہ کے حوالے.فی امان اللہ “ ( تذكرة المهدى صفحه 260-259) کہاں گئی؟ اس نے کہا مجھے معلوم نہیں.آپ فورا باہر تشریف لائے اور گول کمرہ کے سامنے مجھے امامت کروانا بلایا کہ زمین میں کیوں لیٹ رہے ہو؟ برسات کا موسم ہے اور سانپ بچھو کا خطرہ ہے.میں نے سب حال عرض کیا کہ ایسا ہوتا ہے اور میں کسی کو کچھ نہیں کہتا.آخر ان لوگوں کی تواضع اور خاطر و مدارت ہمارے ذمہ ہے یہ سن کر آپ علیہ السلام اندر گئے اور ایک چار پائی میرے لئے بھجوا ایک اور بات جس سے حضور اقدس علیہ السلام کی پیر صاحب سے محبت کا اندازہ ہوتا ہے یہ ہے کہ حضور اقدس علیہ السلام بعض دفعہ پیر صاحب سے امامت بھی کروایا کرتے تھے اور پیر صاحب کو یہ سعادت حاصل ہے کہ آپ نے متعدد بار حضور اقدس علیہ السلام کی موجودگی میں امامت دی.ایک دور وز تو وہ چار پائی میرے پاس رہی آخر پھر ایسا ہی معاملہ ہونے لگا جیسا کہ میں نے کروائی اور حضور اقدس علیہ السلام نے آپ کے پیچھے نماز پڑھی.چنانچہ آپ بیان فرماتے ہیں: آپ علیہ السلام کے ہاں لوگوں کی آمد ورفت بہت کم تھی.یہاں تک بعض دو دو چار بیان کیا.پھر کسی نے آپ سے کہہ دیا پھر آپ نے اور چار پائی بھجوا دی.پھر ایک روز کے بعد وہی معاملہ پیش آیا پھر آپ کو کسی نے اطلاع دی اور صبح کی نماز کے بعد مجھ سے فرمایا کہ چار یا دس دس کوس کے آدمی بھی آپ سے کم واقفیت رکھتے تھے.مجھے خوب یاد ہے کہ اس صاحبزادہ صاحب بات تو یہی ہے کہ تم کرتے ہو اور ہمارے احباب کو ایسا ہی کرنا چاہئے لیکن تم وقت دو چار نمازی آپ علیہ السلام کے ساتھ ہوتے تھے.اکثر حضرت اقدس علیہ السلام نماز ایک کام کرو ہم ایک زنجیر لگا دیتے ہیں، چار پائی میں زنجیر باندھ کر چھت میں لٹکا دیا کرو.پڑھایا کرتے تھے اور کبھی میں ایک ہی مقتدی ہوتا تھا اور آپ علیہ السلام امام اور کبھی میں امام مولوی عبد الکریم صاحب مرحوم یہ سن کر ہنس پڑے اور کہنے لگے کہ ایسے بھی استاد آتے ہیں جو 66 اسکو بھی اتار لیں گے پھر آپ بھی بننے لگے.“ (احکم قادیان 21،28 مئی 1924 ، صفحہ 5) حضرت پیر صاحب کو گلے لگانا اور آپ علیہ السلام مقتدی.تصانیف میں ذکر 66 (الحکم 30 اپریل 1902 ءصفحہ 9) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی یہ عادت تھی کہ آپ بہت شاذ و نادر ہی کسی کو گلے لگایا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے از راہ شفقت اپنی تصانیف میں بھی بعض جگہ حضرت پیر کرتے تھے وگرنہ اکثر مصافحہ ہی فرماتے تھے.حضرت پیر صاحب کی یہ ایک بہت بڑی صاحب کا ذکر فرمایا.چنانچہ اس سلسلہ میں حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنی معرکۃ الآراء تصنیف سعادت ہے کہ جب دہلی سے حضور اقدس علیہ السلام واپس جانے لگے تو آپ نے پیر صاحب کو ازالہ اوہام کے صفحہ 434 پر پیر صاحب کا نہایت محبت بھرے الفاظ میں ذکر فرمایا.اس کے گلے لگایا اور محبت بھرے کلمات فرمائے.چنانچہ حضرت پیر صاحب تحریر فرماتے ہیں: علاوہ تحفہ قیصریہ میں حضور اقدس علیہ السلام نے دو نشانوں کے گواہ کے طور پر صفحہ 352 اور 354 پر مباحثہ کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام نے چلنے کی تیاری کی اور بگھیاں منگوائیں اور پیر صاحب کا ذکر فرمایا، ضمیمہ انجام آتھم میں اپنے مریدوں کی فہرست میں حضور اقدس علیہ السلام

Page 10

17 16 66 نے آپ کا نام 24 ویں نمبر پر درج کیا (انجام آتھم روحانی خزائن جلد نمبر 11 صفحہ 313(بقیہ موعود علیہ السلام کا خاص احسان اور شفقت کا تعلق تھا جو آپ علیہ السلام نے فرمایا حساب نہ دو “ حاشیہ) اور آئینہ کمالات اسلام میں 1892ء کے جلسہ سالانہ کا چندہ دینے والے احباب کی فہرست خطبہ جمعہ حضرت خلیفہ امسیح الرابع فرمودہ 7 مارچ 2003) میں آپ کا نام 267 ویں نمبر پر ہے.نور الحق (روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 626) حضرت پیر صاحب کی حضور اقدس علیہ السلام سے محبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی ایک تصنیف مبارک نور الحق کا نام بھی حضرت پیر صاحب کے نام پر رکھا تھا.حضرت پیر صاحب بیان فرماتے ہیں: پھر حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کتاب کا جواب لکھنا شروع کیا.جب دو صفحے کتاب کے لکھے تو باہر تشریف لائے اور فرمایا کہ " صاحبزادہ صاحب ہم نے اس کتاب کا نام تمہارے نام پر نورالحق رکھ دیا ہے.“ حساب دوستان در دل حضرت پیر صاحب جوانی کی عمر سے اس تلاش میں تھے کہ کب امام وقت مبعوث ہوں اور ان کی بیعت کرنے اور صحبت میں رہنے کا شرف حاصل ہو.جب اللہ تعالیٰ نے آپ کی تضرعات کوسن لیا اور آپ کو اس امام موعود علیہ السلام کی بیعت کی توفیق عطا فرمائی تو آپ نے بھی اپنی زندگی اس امام وقت کے لئے وقف کر دی اور محبت کی اعلیٰ مثالیں قائم کیں.حضرت پیر صاحب ان چند احباب میں سے ہیں جو دعویٰ سے بھی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت سے فیضیاب ہوئے اور پروانوں کی طرح آپ کے گر درہتے تھے.(تذکرۃ المہدی صفحہ 48) حضرت پیر صاحب کو جسم دبانے کا بہت اچھا طریقہ آتا تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بہت پسند تھا اور آپ اکثر پیر صاحب سے دبوایا کرتے تھے.اسی طرح ایک دفعہ حضرت مسیح حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 7 مارچ 2003 میں موعود علیہ السلام کے سر مبارک میں بہت درد ہوا تو آپ نے پیر صاحب کو فرمایا کہ تیل لگا کر حضرت پیر صاحب کی ایک روایت بیان کرتے ہوئے فرمایا: ہماری پنڈلیوں کی مالش کرو.سو آپ ایک اور رفیق کے ساتھ حضرت اقدس علیہ السلام کی حضرت پیر سراج الحق صاحب فرماتے ہیں کہ میں دارالامان سے بٹالہ کسی کام کو گیا اور پنڈلیوں کی مالش کرنے لگے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے اجازت طلب کی اور آپ علیہ السلام نے 20 روپے ( تذکرۃ المہدی صفحہ 52) ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ آپ یہی چاہتے تھے کہ ہر وقت حضور کی خدمت میں دیے کہ 20 روپے کا سودہ لیتے آنا.میں نے تمام سودہ خریدا، شاید 2 روپے بچ گئے.جب رہیں اور آپ علیہ السلام کی خدمت کرتے رہیں.جب آپ کو کہیں جانا پڑتا تو حضور اقدس قادیان آیا اور آپ علیہ السلام کو وہ سودہ دیا کہ جو آپ نے منگایا تھا، ساتھ دو روپے بھی علیہ السلام سے اجازت لئے بغیر نہ جاتے اور اگر اجازت نہ ملتی تو نہ جاتے خواہ دنیا ادھر کی دئے.فرمایا یہ کیسے ہیں؟ میں نے کہا یہ تو بچ گئے تھے.فرمایا حساب نہ دو’حساب دوستاں در اُدھر ہو جائے.اسی طرح ایک دفعہ حضرت پیر صاحب کو ایک مقدمہ در پیش آیا.آپ نے اس سلسلہ میں بھی خود کوئی فیصلہ نہ کیا بلکہ حضور سے مشورہ کیا اور حضرت اقدس علیہ السلام سے ہی دل دوستوں کا حساب تو دل میں ہوا کرتا ہے.اور نہ یہ ہمارا کام ہے.“ اس کی تشریح میں حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: اب لوگ اس سے غلط نتیجہ نہ نکال لیں.حساب دیں تو پورا دینا چاہیے.یہ حضرت مسیح اجازت طلب کی.حضرت پیر صاحب کی حضور اقدس علیہ السلام سے محبت کا ایک یہ بھی انداز تھا کہ آپ نے

Page 11

19 18 بعض دفعہ حضور اقدس علیہ السلام کو تحفے بھی پیش کئے اور حضور اقدس علیہ السلام نے بہت پسند فرمایا.چنانچہ حضور اقدس علیہ السلام اپنے ایک خط میں اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مکرمی مخدومی اخویم ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ عنایت نامه نیز یک دستار ہدیہ آں مخدوم پہنچا.حقیقت میں یہ عمامہ نہایت عمدہ خوبصورت ہے جو آپ کی دلی محبت کا جوش اس سے مترشح ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے.( آمین ) اور اب یہ عاجز شاید ہفتہ عشرہ تک اس جگہ ٹھہرے گا زیادہ نہیں.والسلام.خاکسار غلام احمد عفی عنہ، از ہوشیار پور 9 مارچ 1886ء مکتوبات احمد جلد 5 مکتوب نمبر 5 صفحہ 85) حضرت پیر صاحب نے حضور علیہ السلام سے اپنی محبت کا اظہار شعروں کی صورت میں کا بھی کیا ہے اور آپ بعض دفعہ حضور اقدس علیہ السلام کو نظم بھی سنایا کرتے تھے.حضور اقدس علیہ السلام کو حضرت پیر صاحب کی آواز بہت پسند تھی.چنانچہ آپ بیان فرماتے ہیں: حضرت اقدس علیہ السلام بھی کبھی بیمار ہو جاتے تھے یا لکھتے لکھتے تھک جاتے تو فرماتے کہ صاحبزادہ صاحب کو بلاؤ ان سے کوئی غزل سنیں گے اور میں سنا دیتا تو آپ کو تکلیف میں تسکین ہو جاتی.ایک روز فرمانے لگے کہ صاحبزادہ صاحب کوئی غزل سناؤ کہ تمہاری آواز بہت پیاری معلوم ہوتی ہے..ایک روز جہاں چھاپہ خانہ ضیاء الاسلام ہے وہاں رہتا تھا اور میرے گھر کے آدمی سرسادہ گئے ہوئے تھے.صرف میں اکیلا تھا.حضرت اقدس علیہ السلام کے سر میں درد شدت سے تھا، وہاں حضرت اقدس علیہ السلام میرے پاس آکر لیٹ گئے اور فرمایا ہماری پنڈلیاں دباؤ.میں دبانے لگا.پھر فرمایا صاحب زادہ صاحب کوئی غزل پڑھو.میں نے یہ غزل نظیر کی خوش الحانی سے سنائی: غزل کیا کہیں دنیا میں ہم انسان یا حیوان تھے خاک تھے کیا تھے غرض اک آن کے مہمان تھے غیر کی چیزیں دبا رکھنی بڑی سمجھے تھے عقل چھین لی جب اس نے تب جانا کہ ہم نادان تھے ایک دن ایک استخواں پر پڑ گیا جو میرا پیر کیا کہوں اس دم مجھے غفلت میں کیا کیا دھیان تھے پیر پڑتے ہی غرض اس استخواں نے آہ کی اور کہا ہم بھی کبھی دنیا میں صاحب جان تھے ست و پا کام و زباں گردن شکم پشت و کمر دیکھنے کو آنکھیں اور سننے کی خاطر کان تھے رات کے سونے کو کیا کیا نرم و نازک تھے پلنگ بیٹھنے کو دن کے کیا کیا تخت اور ایوان تھے لگ رہے تھے دل کئی چنچل پری زادوں کے ساتھ کچھ نکالی تھی ہوس کچھ اور بھی ارمان تھے ایک ہی تھپڑ اجل نے آن کر ایسا دیا پھر نہ ہم تھے اور نہ وہ سب عیش کے سامان تھے ایسی بیدردی سے مجھ پر پاؤں مت رکھو نظیر او میاں ہم بھی کبھی تیری طرح انسان تھے ( تذكرة المهدی صفحہ 176-175)

Page 12

سعادتیں 20 20 پرائیویٹ سیکرٹری 21 پیر صاحب کو اللہ کے فضل سے یہ سعادت بھی حاصل ہے کہ قادیان کا نام قادیان دارالامان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے پیر صاحب کے مشورہ سے رکھا.اور اسی طرح حضرت صاحبزادہ صاحب کافی عرصہ تک حضور اقدس علیہ السلام کے ساتھ پرائیویٹ سیکرٹری کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے.ان خدمات میں خطوط لکھنا اور ان کو روانہ کرنا ، کتب کے جب جماعت احمد یہ میں شامل ہونے والوں کے لئے کوئی خاص نام نہ تھا اور مردم شماری کے لئے سلسلہ میں ہر قسم کا اہتمام کرنا فہرست ور جسر مبائعین و نو مبائعین تیار کرنا وغیرہ شامل تھے.لوگوں کے کئی خطوط آرہے تھے کہ ہم اپنے آپ کو کیا لکھوائیں ؟ اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رفقاء سے مشورہ لیا تو حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے احمدی نام کی تجویز دی.جس کو حضور علیہ السلام نے از راہ شفقت منظور فرمالیا.خدمات قلمی خدمات حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے مبعوث ہونے کے بعد ایک دفعہ پھر روحانی جہاد کا آغاز ہوا اور یہ قلم کا جہا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جا بجا اپنے خطابات اور وعظوں میں حضرت پیر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت سے ہی اپنی زندگی کو سلسلہ کی اپنے رفقاء کو اس طرف توجہ دلائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس بات پر لبیک کہتے ہوئے خدمات کے لئے گویا وقف کر رکھا تھا.آپ کسی بھی خدمت کے لئے ہر وقت تیار رہتے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے بھی اعلائے کلمتہ اللہ اور مخالفین کے رد میں کتب لکھیں اور اس آپ کی ساری زندگی دراصل سلسلہ کی خدمات میں گزرگئی.یہاں تک کہ زندگی کے آخری ایام میدان میں بھی پیچھے نہ رہے.آپ نے مختلف عناوین پر کم و بیش 9 کتب تحریر فرمائیں.میں بڑھاپے اور ضعف کی حالت میں بھی، جبکہ آپ کسی سے ہاتھ بھی نہ ملا سکتے تھے مبادا کوئی ذرا خلافت کی کامل اطاعت اور فرمانبرداری سا بھی دبا لے اور درد ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی تصنیف مبارک حضرت پیر صاحب نے نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی کامل ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں: فرمانبرداری اور سچی اطاعت کا نمونہ دکھایا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد بھی ھی فی اللہ صاحبزادہ سراج الحق صاحب ابواللمعان محمد سراج الحق جمالی نعمانی ابن شاہ آپ علیہ السلام کے خلفاء سے تاحیات کامل فرمانبرداری اور کچی اطاعت کے رشتہ سے منسلک حبیب الرحمن ساکن سرساوه ضلع سہارنپور از اولا د قطب الاقطاب شیخ جمال الدین احمد ہانسوی رہے.اور اپنی زندگی کے آخری ایام تک خدمت دین میں ہمہ تن مصروف رہے.اکابر خلصین میں سے ہیں.صاف باطن، یک رنگ اور للہی کاموں میں جوش رکھنے والے اور اعلائے کلمہ حق کے لئے بدل و جان ساعی وسرگرم ہیں.“ حضرت خلیفہ ایح الاول کے ساتھ (روحانی خزائن جلد 3 ازالہ اوہام صفحہ 534) حضرت خلیفہ امسح الاول کا حضرت صاحبزادہ صاحب کے ساتھ بہت محبت اور شفقت کا

Page 13

23 22 تعلق تھا.حضرت پیر صاحب بھی حضرت خلیفہ اسی الاول کا بہت ادب و احترام کرتے تھے.ہے اور تھوڑے سے حصہ میں حضرت میر ناصر نواب صاحب.....بھی میرے شریک اور ہم سبق حضرت صاحبزادہ صاحب کو حضرت خلیفہ مسیح الاول سے قرآن کریم کی تفسیر پڑھنے اور رہے.در حقیقت قرآن شریف اور بخاری شریف کے سمجھنے کا حق بعد حضرت اقدس علیہ السلام اسباق حاصل کرنے کا شرف بھی حاصل ہے جس کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت پیر نورالدین ہی کا ہے جس کا نام ہی نور دین ہو وہ نور قرآن سے حصہ نہ لے تو اور کون لے ! حضرت صاحب کو خصوصیت سے توجہ دلائی تھی.خلیفہ مسیح کو قرآن شریف کا یہاں تک عشق و محبت ہے کہ کوئی وقت آپ کا قرآن شریف سے حضرت پیر صاحب اپنی کتاب تذکرۃ المہدی“ میں حضرت خلیفہ مسیح الاول کا مقام خالی نہیں ہے اور اندر زنانہ مکان میں جابجا قرآن شریف رکھے ہوئے ہیں تا کہ دیکھنے میں دیرینہ لگے اور سستی و کسل برپا نہ ہو.جہاں ہوں وہیں قرآن شریف دیکھ لیں.ایک دفعہ آپ فرماتے اور اپنا ان سے تعلق بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: و مجھے خلیفہ امسیح کی بارگاہ میں کئی قسم کا شرف حاصل ہے.ایک تو یہ کہ آپ ہمارے تھے کہ خدا تعالیٰ جو مجھے بہشت میں اور حشر میں نعمتیں دے تو میں سب سے پہلے قرآن شریف مرشدوں کی اولاد سے ہیں اور دوسرا اس سے زیادہ شرف یہ کہ آپ حضرت اقدس مسیح موعود مہدی مانگوں اور طلب کروں تاکہ حشر کے میدان میں بھی اور بہشت میں بھی قرآن شریف پڑھوں، معہو دامام زمان عالی جناب مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام الی یوم القیامہ کے خلیفہ اور جانشین ہیں.اور ایک یہ شرف کہ حضرت اقدس علیہ السلام مجھے بار بار فرمایا کرتے تھے کہ حضرت پڑھاؤں،سناؤں.“ مولوی نورالدین صاحب کی تفسیر قرآن آسمانی تفسیر ہے.صاحبزادہ صاحب ان سے قرآن پڑھا حضرت مصلح موعود کے ساتھ ( تذكرة المهدی صفحہ 174) حضرت مصلح موعو مرزا بشیر الدین محموداحمد خلیفہ مسیح الثانی سے حضرت صاحبزادہ صاحب موعود محموداحمدخلیفہ کرو اور ان کے درس میں بہت بیٹھا کرو اور سنا کرو.اگر تم نے دو تین سیپارے بھی حضرت مولوی صاحب سے سنے یا پڑھے تو تم کو قرآن شریف سمجھنے کا مادہ اور تفسیر کرنے کا ملکہ ہو جاوے گا.یہ بچپن سے ہی بہت محبت کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے واضح اشاروں سے آپ کو بات مجھ سے حضرت اقدس علیہ السلام نے شاید پچاس مرتبہ کہی ہوگی اور درحقیقت میں اسرار بھی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ یہی وہ موعود بچہ ہے جس کی پیشگوئی کی گئی تھی.قرآنی اور تفسیر کلام رحمانی سے نا آشنا اور نا واقف تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت پیر صاحب کو اس بات کی نصیحت کی تھی اور ایک پس میں حضرت اقدس علیہ السلام کے فرمانے سے درس میں بیٹھنے لگا اور قرآن شریف سننے رنگ میں بشارت دی تھی کہ جب میرا بیٹا مصلح موعود ہوگا تو اس کی پیروی کرنا.اس واقعہ کوحضرت لگا اور پھر ایک لطف ایسا آنے لگا کہ جس کا بیان میری خیز تحریر سے باہر ہے اور آپ کی ہی برکت پیر صاحب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: سے مجھے قرآن شریف کی تفہیم ہوتی گئی (یعنی سمجھ آتی گئی) اور خود حضرت اقدس علیہ السلام بھی مجھے پڑھایا کرتے تھے اور مطالب قرآن شریف سمجھایا کرتے تھے.اور ایک شرف مجھے آپ سے یہ ہے کہ میں نے بخاری شریف کا کچھ حصہ آپ سے پڑھا ، " ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ) مولوی عبدالکریم صاحب سے بہت تفصیلی باتیں کیں اور بہت سے واقعات جو آپ کے بعد ہونے والے تھے وہ بیان کر رہے تھے جو میں بھی پہنچ گیا اور سلسلہ کلام جاری رہا.فرمایا: خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ ہمارے سلسلہ میں بھی سخت تفرقہ

Page 14

25 24 پڑے گا اور فتنہ انداز اور ہوا و ہوس کے بندے جدا ہو جائیں گے.پھر خدا تعالیٰ اس تفرقہ کو دراصل حضور یہاں ان اکابر رفقاء کرام کے بارے میں بیان فرمارہے ہیں جنہوں نے مٹادے گا.باقی جو کٹنے کے لائق اور راستی سے تعلق نہیں رکھتے اور فتنہ پرداز ہیں وہ کٹ جائیں حضور کی بیعت کی.اس سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کی صداقت اور حضرت پیر گے اور دنیا میں ایک حشر برپا ہوگا وہ اول الحشر ہوگا.اور تمام بادشاہ آپس میں ایک دوسرے صاحب کی اطاعت وفرمانبرداری اور خلوص کا اندازہ ہوتا ہے.پر چڑھائی کریں گے اور ایسا کشت و خون ہوگا کہ زمین خون سے بھر جائے گی اور ہر ایک بادشاہ کی مجالس مشاورت میں شرکت رعایا بھی آپس میں خوفناک لڑائی کرے گی.ایک عالمگیر تباہی آوے گی اور اس تمام واقعات کا حضرت پیر صاحب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے دور میں مجالس مشاورت میں بھی مرکز ملک شام ہوگا.صاحبزادہ صاحب ( خاکسار راقم کو فرمایا ) اس وقت میرالڑ کا موعود ہوگا.نمائندہ خاص کے طور پر شرکت فرماتے رہے.چنانچہ 1922ء اور 1923ء کی مجلس مشاورت کی رپورٹس میں مرکزی نمائندگان کی فہرست میں آپ کا نام ملتا ہے.حضرت مصلح موعود کی شفقت خدا نے اس کے ساتھ ان حالات کو مقدر کر رکھا ہے.ان واقعات کے بعد ہمارے سلسلہ کو ترقی ہوگی.اور سلاطین ہمارے سلسلہ میں داخل ہوں گے.تم اس موعود کو پہچان لینا.یہ ایک بہت بڑا نشان پسر موعود کی شناخت کا ہے.مولوی صاحب موصوف مرحوم نے باہر نکل کر حضرت اقدس علیہ السلام کی اس بات کو دہرایا اور مجھے فرمایا پیر صاحب تم کو مبارک ہو.میں نے کہا کیسی مبارک باد؟ فرمایا تم نے حضرت مسیح جنازہ بھی آپ نے خود پڑھائی.موعود علیہ السلام کا فرمان نہیں سنا کہ خاص تم سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ تم اس ولد موعود کو پہچان لینا حضرت مصلح موعود کو بھی حضرت پیر صاحب سے بڑا پیار تھا.حضرت پیر صاحب کی نماز حضرت صاحبزادہ صاحب کی وفات کے بعد بھی حضرت مصلح موعود نے حضرت پیر مجھے نہیں فرمایا.وہ ہنگامہ محشر تم دیکھو گے اور موعود کو بھی.سوالحمد للہ وہ ہنگامہ محشر اور پسر موعود میں صاحب کے خاندان کی ضرورتوں کا خیال رکھا اور حضرت پیر صاحب کی اہلیہ کے لئے وظیفہ بھی 66 نے اپنی آنکھ سے دیکھا اور مولود مسعود کو پہچانا.“ (تذکرۃ المہدی صفحه 274) مقرر کیا ہوا تھا.بعض دفعہ حضور اپنے پاس سے بھی مددفرما دیا کرتے تھے.حضرت صاحبزادہ صاحب نے نہ صرف مولود مسعود کو پہچانا بلکہ سچے دل سے اس کی پیروی اور اتباع کی توفیق بھی پائی.چنانچہ حضرت پیر صاحب کے بارے میں حضرت مصلح موعود بیان فرماتے ہیں: آخری ایام حضرت صاحبزادہ سراج الحق صاحب نعمانی اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بھی خدمت دین میں مصروف رہے.آپ سارا دن گھر میں بیٹھ کر علمی کام میں مصروف رہتے تھے اور گھر سے اسی طرح پیر سراج الحق صاحب نعمانی ہیں جو نہ صرف یہ کہ شروع کی بیعت کرنے والے باہر نہ نکلتے تھے.اس کی ایک وجہ تو کام میں مصروفیت تھی اور دوسری وجہ یہ کہ آپ انتہائی کمزور ہو چکے تھے یہاں تک کہ آپ لوگوں سے ہاتھ بھی نہ ملاتے تھے کیونکہ لوگ زور سے ہاتھ ملاتے تھے ہیں بلکہ انہوں نے وقتا فوقتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی لمبی صحبت بھی حاصل کی ہے.“ آئینہ صداقت انوار العلوم جلد 6 صفحہ 167) اور آپ کو درد ہوتا تھا.

Page 15

تاریخ وفات 26 حاصل کرنے کی توفیق بھی ملی.27 حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی نے اپنی زندگی کے اتنی سال پورے کئے اور روایات از صاحبزادی صاحبہ پیر صاحب) آپ کی صاحبزادی صاحبہ نے ابتدائی تعلیم قادیان سے ہی حاصل کی.آٹھ جماعتوں کے 3 جنوری 1935ء کو اس جہان فانی سے رخصت ہو گئے.آپ کی نماز جنازہ حضرت مصلح موعود بعد ربوہ آگئیں اور میٹرک نصرت گرلز ہائی سکول ربوہ سے کیا.آپکی شادی حضرت صوفی سید تصور نے پڑھائی.اخبار الحکم میں آپ کی وفات کی خبر درج ذیل الفاظ میں شائع ہوئی.یہ خبر نہایت رنج اور افسوس سے پڑھی جائے گی کہ حضرت پیر سراج الحق صاحب جمالی حسین صاحب کے صاحبزادہ سید احمد شاہ صاحب سے ہوئی جو اس وقت مربی کے طور پر خدمات سلسلہ سرانجام دے رہے تھے.1929ء میں آپ مع اپنے خاندان راولپنڈی منتقل ہو گئیں.یہاں آپ نے لیڈی ہیلتھ نعمانی سرساوی جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرانے خدام میں سے تھے اور جنہوں نے وزٹر(lady health visitor) کا کورس کیا اور ساتھ ہی پریکٹس شروع کر دی.آپ آج کل سلسلہ کے قبول کرنے کے ساتھ سلسلہ پیری مریدی پر لات مار دی تھی ، 3 جنوری کو ظہر کی نماز کے وقت انتقال فرما گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ 4 جنوری کو بعد نماز جمعہ حضرت اقدس نے نماز جنازہ پڑھائی.اور آپ مقبرہ بہشتی میں دفن ہوئے.“ پسماندگان راولپنڈی میں مقیم ہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو تین بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا اور آپ کی تمام اولا دکو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے علم و ہنر کی دولت سے بہرہ ور فر مایا.یہ تمام برکات دراصل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بابرکت صحبت اور ان دعاؤں کا نتیجہ ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت پیر صاحب کے بیٹے کی وفات پر کیس کہ اللہ تعالیٰ ا حکم 14 جنوری 1935 ، صفحہ 11) بہترین نعم البدل عطا فرمائے اور ایک کی جگہ دس بیٹے عطا فرمائے.خاکسار کے خیال میں دس سے حضور اقدس علیہ السلام کا کثرت اولاد کی طرف اشارہ تھا جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت پیر عمدہ فطرت آپ کے پسماندگان میں آپ کی اہلیہ کے علاوہ ایک کم سن بچی بھی تھیں جن کا نام محمد ہ ناہید صاحب کے حق میں قبول فرمایا.ہے اور آپ خاکسار (مصنف) کی دادی صاحبہ ہیں اور بفضل اللہ تعالیٰ حیات ہیں.اس کے علاوہ آپ کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں کم سنی کی عمر میں وفات پاگئے تھے.آپ کی وفات کے بعد جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے حضرت مصلح موعود اور حضرت اماں جان حضرت پیر صاحب نہایت خوش مزاج انسان تھے.آپ اعلیٰ اور نفیس طبیعت کے مالک نے آپ کے خاندان کی ہر ضرورت کا خیال رکھا.حضرت پیر صاحب کی صاحبزادی صاحبہ بیان تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کی طبیعت کو بہت پسند فرماتے تھے اور تعریف فرمایا کرتے کرتی ہیں کہ وہ ہر وقت حضرت اماں جان کے پاس رہتیں اور آپ کی صحبت سے فیضیاب تھے.اپنے ایک مکتوب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام صاحبزادہ صاحب کو فرماتے ہیں: ہوتیں.حضرت اماں جان کیسا تھ بیٹھ کر کھانا کھاتیں اور آپ کے پس خوردہ سے کئی دفعہ برکت ( مکتوبات احمد جلد 5 مکتوب 5) آپ کی فطرت بہت عمدہ ہے...

Page 16

29 28 ایک اور جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ سے آپ بیان فرماتے ہیں کہ فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام بننے لگے اور فرمایا اس شخص پر یہ مثال خوب صادق آتی ہے.بے ” صاحبزادہ صاحب تمہارے اس بیان سے اور ان عادات سے جو ہمیں ہر روز مشاہدہ ہوتا شک یہ آج بھولے سے ( بیت الذکر) میں آگیا ہے.وہ شخص ایسا خفیف اور شرمندہ ہوا کہ اسی روز ہے معلوم ہوتا ہے کہ تم میں نرمی بہت ہے اور کبھی غصہ نہیں آتا ہے اور بردباری بہت ہے.مگر یہ سے نماز پڑھنے لگا.“ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ غضب بھی خطرناک ہوتا ہوگا.میں نے عرض کیا کہ حضرت سچ ہے اول تو مجھ اہل وعیال سے سلوک کو غصہ آتا نہیں اور جو آتا ہے تو پھر اس کا جانا محال.فرمایا حدیث میں بھی آیا ہے اَعُوذُ بِاللهِ مِنْ غَضَبِ الْحَلِيمِ “ مزاح ( تذكرة المهدی صفحه 179) جیسا کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتا ہے.حضور ﷺ کے اس فرمان کے تحت حضرت پیر صاحب کا بھی اپنے ( تذكرة المهدی صفحهیم ) گھر والوں ، خاص کر اپنی اہلیہ سے بہت ہی محبت والا سلوک تھا.حضرت پیر صاحب گھر کے کام کاج اکثر خود کیا کرتے تھے.آپ خود ہی گھر میں جھاڑو دے دیا کرتے تھے اور خود ہی برتن بھی حضرت پیر صاحب جہاں بعض مواقع پر اپنے غصہ کا اظہار فرماتے تھے تو وہاں بعض دھو لیتے تھے.مواقع پر نہایت لطیف مزاح بھی آپ کی طبیعت میں پایا جاتا تھا.بعض دفعہ حضرت پیر صاحب دوسری اہلیہ چونکہ بہت چھوٹی تھیں اس لئے بعض دفعہ کھانا بنانا بھول جاتیں تھیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بعض دلچسپ حکایات ولطائف سنایا کرتے تھے.اسی طرح صاحبزادہ صاحب کا رویہ ان سے بہت ہی اچھا ہوتا تھا.جب کبھی بھی ایسا ہوا کہ کھانا بنانا بھول گئیں تو رونے لگ جاتیں ، اس پر پیر صاحب ان کو تسلی دیتے اور فرماتے ”میں نے بند لا کر کھا لیا ایک دفعہ کا ذکر ہے: قادیان کی ( بیت الذکر) میں ایک ایسا شخص جو پہلے ( بیت الذکر ) میں نہ آیا تھا اچانک (بیت ہے اگر تمہیں بھوک لگی ہے تو لا دیتا ہوں.“ (روایات صاحبزادی صاحبہ حضرت پیر صاحب) الذکر) میں دیکھا گیا.اس پر حضرت مولوی عبدالکریم صاحب نے دریافت فرمایا کہ تم ( بیت الذکر ) میں کس طرح آگئے؟ تم نماز تو پڑھتے نہیں ہو.اس پر حضرت پیر صاحب نے فرمایا: زہد و تقویٰ آپ کے دل میں بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کی بری عادتوں اور بری روایات ”اس کی ایسی مثال ہے کہ ایک (آدمی ) کا گھوڑا چھوٹ کر ( بیت الذکر) میں گھس گیا.کے متعلق نفرت رکھی ہوئی تھی اور آپ ہمیشہ ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.آپ کو بچپن سے لوگوں نے اس کو دھمکایا اور کہا کہ ( آدمی) تیرے گھوڑے نے ( بیت الذکر ) کی بے ادبی کی.ہی روحانی ماحول میسر تھا اور طبیعت بھی نیکی کی طرف مائل تھی.( آدمی ) نے جواب دیا کہ جناب گھوڑا حیوان تھا اس نے ( بیت الذکر ) کی بے ادبی کی اور ( بیت الذکر میں گھس گیا.کبھی مجھے بھی دیکھا کہ میں نے کبھی (بیت الذکر ) کی بے ادبی کی ہو، اور مجھے نماز میں حضور قلب کی طلب کبھی ( بیت الذکر ) میں گھستے اور بے ادبی کرتے دیکھا ہے.حضرت پیر صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آنے سے پہلے کئی قسم

Page 17

31 30 کے وظائف کیا کرتے تھے لیکن آپ کو اطمینان نصیب نہ ہوتا تھا.بیعت کرنے کے بعد آپ نے فرماتے ہیں.فرمایا کہ حدیث شریف میں آیا ہے آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ پابر ہند (ننگے پاؤں) حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا کہ کوئی وظیفہ وغیرہ ارشاد فر ما ئیں.چنانچہ حضرت مسیح شخص خدا کو دیکھ لیتا ہے.موعود علیہ السلام نے صاحبزادہ صاحب کی نیک طبیعت کو دیکھتے ہوئے آپ کو چند وظائف کرنے کا ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا: حضرت پیر صاحب نے جب حضور اقدس علیہ السلام کی یہ بات سنی تو آپ نے بھی یہ فیصلہ کر لیا کہ جو تا نہیں پہنیں گے.چنانچہ جب آپ کو ایک سال ننگے پاؤں رہتے گزر گیا تو ایک روز آپ صبح اب تم بعد نماز کے دس بار درود شریف اور دس با اسْتَغْفِرُ اللَّهِ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ وَّ کی نماز سے پہلے درود شریف پڑھ رہے تھے کہ دو شخص خوبصورت جوان موٹے تازے لمبے قد کے اتُوبُ إِلَيْهِ اور اکتیس بار لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ الْعَلِيِّ الْعَظِیمِ پڑھا کرو اور جوکسی وقت سفید کپڑے پہنے ہوئے آئے اور آپ کو ایک ایسی جگہ لے گئے جو بہت خوبصورت تھی اور روشنی ہی اکتیس مرتبہ لاحول نہ ہو سکے تو اکیس بار اور جو اکیس بار نہ ہو سکے تو گیارہ بار ضرور پڑھ لینا.روشنی تھی.آپ کے دل میں یہ خیال آیا کے یہ اللہ تعالیٰ کا نور ہے.آپ اور وہ دونوں فرشتے وہاں اسی طرح فرمایا کہ جتنی دیر وظیفہ میں لگے وہ نماز میں خرچ کرونماز میں اهْدِنَا الصِّرَاطَ کھڑے رہے اور اندر سے آواز آئی کہ کہو أَشْهَدُ اَنْ لا إِلهَ إِلَّا اللہ میں نے کہا أَشْهَدُ اَنْ لَّا اللَّهُ الْمُسْتَقِيمَ بکثرت پڑھو اور رکوع اور سجدے میں بعد تسبيح يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْتُ إِلَّا الله پھر فرمایا تو حید کو میری قائم کرو تو حید مجھے محبوب ہے.زیادہ پڑھو اور اپنی زبان میں نماز کے اندر دعائیں کرو.اسی طرح نماز میں حضور قلب حاصل کرنے کے لئے بھی پیر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کیا اور آپ علیہ السلام نے پیر صاحب کو نماز میں حضور قلب کا طریقہ ارشاد روایات فرمایا کہ (تذکرة المهدی صفحہ 289) حضرت صاحبزادہ سراج الحق نعمانی صاحب سے بعض بہت دلچسپ روایات ملتی ہیں.جس قدر دیر لگے اتنی دیر نماز میں لگاؤ اور اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ زیادہ پڑھو اور حضرت اقدس کی بعض صفات کا بیان اس قدر پڑھو کہ ہاتھ پیر اور تمام بدن دکھ جاوے.“ اللہ تعالیٰ سے محبت 66 ( تذكرة المهدی صفحه 150 ) حضرت صاحبزادہ صاحب بیان فرماتے ہیں: حضرت اقدس علیہ السلام سے جو عرض کرتا کہ میں نے نظم لکھی ہے وہ سنانی چاہتا ہوں، حضرت پیر صاحب ہر وقت اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کی طلب خواہ وہ پنجابی زبان میں ہو خواہ فارسی میں خواہ عربی میں، آپ علیہ السلام بے تکلف فرماتے کہ اچھا میں لگے رہتے تھے.اس کا کچھ حد تک اندازہ تو اوپر کے بیان سے بھی ہوتا ہے لیکن ذیل میں سناؤ اور آپ شوق سے سنتے خواہ وہ کیسی ژولیدہ طور ( بے ترتیب) سے ہوتی.کسی کا دل نہیں ایک ایسا واقعہ درج کیا جاتا ہے جو اپنی ذات میں نہایت حیرت انگیز ہے اور حضرت پیر صاحب توڑتے اور جزاک اللہ فرماتے.لیکن میں نے خوب غور سے دیکھا کہ آپ کے جسم یا کسی عضو کو کی قوت ارادی کی پختگی پر دلالت کرتا ہے.حضرت مسیح موعود کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے غزل ، قصیدہ نظم سننے کے وقت کسی قسم کی حرکت نہ ہوتی تھی اور آپ چپ چاپ بیٹھے سنا کرتے

Page 18

33 32 تھے اور بات چیت کرتے وقت یا وعظ کے وقت کبھی آپ کا عضوحرکت نہ کرتا تھا.نہ آنکھ نہ رخسار کا دودھ ہمیں بھی لے دو.سبحان اللہ امام ہو تو ایسا ہو.کیسا شفیق ورفیق اور کیسا رحیم و کریم انسان نہ ہاتھ.جیسے لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ باتیں کرتے وقت ہاتھوں سے آنکھوں سے چہروں کہ آپ بھی ہماری اپنی شفقت سے ہمراہ رہنا چاہتے ہیں.سے حرکت کیا کرتے ہیں اور جسم کی بوٹی بوٹی پھڑ کا کرتی ہے اور جو اس طرح سے بات کرتا آپ نا پسند کیا کرتے تھے.مولوی عبد اللہ مجتہد لودھیانوی پر خدا تعالیٰ کی رحمت نازل ہو وہ کہا کرتے تھے کہ تم صاحبزادہ صاحب غور کر کے دیکھنا اور میں نے تو خوب غور کیا ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام باتیں کرتے ہیں اور ہنستے ہنساتے ہیں اور باتیں لوگوں کی سنتے ہیں اور لوگوں میں بیٹھتے 66 (الحکم قادیان 30 اپریل 1902 ء صفحہ 10) حضرت پیر سراج الحق نعمانی جمالی کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ حضرت پیر صاحب کو ہیں لیکن آپ کے چہرہ اور بشرہ سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی کے انتظار میں بیٹھے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ نے ساری زندگی اس بات کی توفیق عطا فرمائی کے آپ نیکیوں اور اعمال صالحہ میں آگے آیا اور کھڑے ہوئے.گویا جیسے کسی عاشق کو اپنے معشوق کا انتظار ہوتا ہے.سو واقعہ میں یہی سے آگے بڑھتے رہیں.حالت حضرت اقدس علیہ السلام کی دیکھی کہ حضرت رب العزت سے وہ لو لگ رہی تھی اور آپ آپ کی راہ میں کئی قسم کی مشکلات آئیں.آپ کی پیری مریدی جاتی رہی ، مریدوں نے ذات باری تعالیٰ میں ایسے محو و متفرق معلوم ہوتے تھے کہ کسی چیز کی کوئی پرواہ نہیں تھی اور ذات منہ موڑ لیا.آپ کے رشتہ داروں نے قطع تعلق کر لیا.یہاں تک کہ آپ کے بھائی نے بھی ( تذكرة المهدی صفحہ 178) جائیداد دینے سے انکار کر دیا اور آپ نے اپنی ساری جائیداد جو کہ 18 گاؤں اور 5 آموں کے باغات پر مشتمل تھی روایت از صاحبزادی صاحبہ حضرت پیر صاحب) کی کوئی پرواہ نہ کی اور جب بھائی احدیت میں فنا ہیں.66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دودھ خریدنا نے کا غذات پر دستخط لینے چاہے تو آپ نے بے چون و چرا دستخط کر دیے لیکن اپنے ایمان کا سودا ایک روز حضرت اقدس علیہ السلام سیر کے لئے تشریف لے گئے.جب واپس تشریف نہ کیا.آپ کے دوست آپ سے ناراض ہو گئے لیکن آپ نے کوئی فکر نہ کی.آپ کا بیٹا جس سے لائے تو بکریوں سے میدان بھر پور تھا اور دودھ اس قد رفروخت ہوتا تھا کہ لوگ ایک دوسرے پر آپ کو بہت محبت تھی جب فوت ہوا تو آپ کے منہ سے کوئی ناشکری کا کلمہ نہ نکلا بلکہ اللہ تعالیٰ پر گرے پڑتے تھے اور وہ خریداری میں اس قدر مصروف و مستغرق تھے کہ حضرت علیہ السلام کی بھروسہ کیا.آپ کو اپنا وطن چھوڑنا پڑا اور قادیان میں آکر کئی قسم کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.پھر تشریف آوری کی بھی کسی کو خبر نہ ہوئی.ادھر تو حضرت کے ساتھ پچاس ساٹھ آدمی ادھر خریدار جمع آخری ایام میں جب آپ کو ہاتھ ملانے سے بھی درد ہوتا تھا تب بھی آپ خدمات دینیہ میں ہوکر عجیب وغریب نظارہ پیدا ہوا.حضرت کو بھی آگے چلنے کی جگہ نہ ملی.فرمایا یہ کیا ہے میں نے اور مصروف عمل رہے.ایک اور بھائی نے عرض کیا کہ حضرت بکریاں آئی ہیں ہمارے بھائی سب دودھ خرید رہے ہیں.اتنا صبر اور حوصلہ آپ کو کہاں سے ملا.آپ بھی دوسرے انسانوں کی طرح ایک انسان فرمایا ہاں خرید و اور ہمیں خریداری میں ساتھ ملالو کہ ہم بھی تمہارے شریک ہو جاویں.اچھا دو پیسے تھے.دراصل یہ ساری برکات امام الزماں کی معیت کی بدولت تھیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بچپن

Page 19

34 سے ہی امام وقت کی خدمت کے لئے چن لیا تھا اور آپ کی نشو و نما ایسے رنگ میں ہوئی تھی کہ آپ کا دل ہر وقت اسی طرف مائل رہتا تھا.حقیقت یہی ہے کہ آپ نے بیعت کا حق ادا کیا اور ہم سب کے لئے ایک عظیم مثال قائم کر گئے.آپ نے اپنی مرضی کو امام وقت کی مرضی کے تابع کر دیا تھا اور یہی وقف کی اصل روح تھی.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی ایسے رفقاء کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم بھی اسی حال میں اس دنیا فانی سے رخصت ہوں کہ ہمارا امام اور ہمارا خدا جو کہ ایک زندہ خدا ہے ہم سے خوش اور راضی ہو اور ہم خدا تعالیٰ کے اس فرمان کے مصداق ٹھہریں کہ اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ تعالیٰ سے راضی ہو گئے.“ بالـ نام کتاب اشاعت.حضرت پیر سراج الحق صاحب نعمانی طبع اوّل

Page 19