Language: UR
حضرت عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت ﷺ کے دوسرے خلیفہ راشد تھے اور آپ ان خوش نصیب لوگوں میں سے ایک تھے جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی دعا سے قبولِ اسلام کا شرف پایا۔ یقیناً آپ کی ذات، اوصاف اور آپ کے دور خلافت جو تاریخ اسلام کا سنہری دور تھا، میں ہونے والے کارناموں سے واقفیت قارئین کو جہاں علم و عرفان میں بڑھائے گا وہاں ان کے لئے درست اسلامی تاریخ سے واقفیت پیدا کرنے کا موجب بھی ہوگا۔
لله حضرت عمر رضي عنه حضرت عمر حضرت عمر بن الخطاب دلیر اور بہادر حضرت عمرؓ خلفائے راشدین میں سے دوسرے خلیفہ تھے.اللہ تعالیٰ کی قدرت ہے کہ وہ عمر رضی اللہ عنہ جو ایک وقت رسول اللہ علیہ کو شہید کرنے کے لئے جاتے ہیں دوسرے وقت وہی عمر دین کی سربلندی کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر دیتے ہیں.مکہ میں آپ کی دلیری اور بہادری کے چرچے تھے.اسی بناء پر ابو جہل نے آپ کے ذریعہ سے رسول اکرم کو نقصان پہنچانے کا منصوبہ بنایا.لیکن اللہ تعالیٰ جو آپ کے کردار کی عظمت اور فطری نیکی سے آگاہ تھا اُس نے آپ کی راہنمائی درست سمت میں کر دی اور آپ رسول کریم کے نور کو پہچان کر آپ کے ساتھ ہو گئے اور پھر یہ تعلق اور محبت اس قدر بڑھا کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اسی محبوب کے غلام ہو گئے.خدمت دین کی تڑپ، غیرت ، دلیری، بہادری اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول سے سچی محبت آپ کے نمایاں اوصاف تھے اور یہی اوصاف حمیدہ انسان کو خدا تعالیٰ کا محبوب بنا دیتے ہیں.آپ بھی اللہ تعالیٰ کے محبوب اور پیارے بندوں میں سے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین کی خدمت اور سر بلندی کے لئے غیر معمولی مواقع بھی عطا فرمائے.اللہ تعالیٰ ان بزرگوں کی پاک یادوں اور نیکیوں کو ہمیشہ ہم سب کی زندگیوں میں جاری رکھے.
حضرت عمر حضرت عمر 1 پیش لفظ پیارے بچو! حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ آنحضرت ﷺ کے دوسرے خلیفہ راشد تھے.آپ ان خوش نصیبوں میں سے تھے جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی دعا سے قبول اسلام کا شرف پایا.آپ نہایت متقی ، نیک، غریب پرور، اسلام کی بہت غیرت رکھنے والے، بارعب، اور نہایت اعلیٰ درجہ کے منتظم تھے.آپ کے دورِ خلافت میں سلطنتِ اسلامیہ معلوم دنیا کے اکثر حصہ پر پھیل چکی تھی.اور پوری سلطنت میں کیا مسلمان اور کیا غیر مسلم سب حضرت عمرؓ کے ممنون احسان اور اعلیٰ انتظام کے قائل تھے.آپ نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایک قابل تقلید نمونہ چھوڑ گئے.آپ کا دور خلافت تاریخ اسلام کے سنہری ابواب میں سے ایک ہے.زیر نظر کتاب پہلی مرتبہ مکرم سیدمحمود احمد صاحب کے دور صدارت میں شائع ہوئی اور اس کتاب کو مکرم منصور احمد نورالدین صاحب نے نہایت محنت سے تیار کیا.اب خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی کے موقع پر بعض ضروری تبدیلیوں کے ساتھ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہو رہا ہے.اس کتاب کی تیاری میں خاکسار تمام معاونین خصوصا مکرم مدثر احمد مزمل صاحب اور مکرم عطاء العلیم ثمر صاحب کے تعاون کا تہ دل سے شکر گزار ہے.فجزاهم الله تعالى الاحسن الجزاء حضرت عمر آپ کا نام عمر تھا.آپ کا سلسلۂ نسب کچھ یوں ہے.عمر بن خطاب بن نفیل.اہل عرب عموماً عدنان یا قحطان کی اولاد ہیں.عدنان کی نسل سے حضرت عمر پیدا ہوئے.اس طرح حضرت عمرؓ کا سلسلہ نسب آٹھویں پشت میں جا کر حضرت رسول کریم کے ساتھ مل جاتا ہے.خانہ کعبہ کی تولیت کا کام جو کہ آپ کے خاندان یعنی قریش سے متعلق تھا اس میں آپ کے آباء صیغہ سفارش کے افسر تھے یعنی قریش کو جب کسی قبیلے کے ساتھ کوئی ملکی معاملہ پیش آتا تو اس کے لئے صیغہ کے نگران بن کر جایا کرتے.آپ کی والدہ جن کا نام حنتمہ تھا ہشام بن المغیرہ کی بیٹی تھیں.مغیرہ اس رتبہ کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی قبیلہ سے لڑنے کے لئے جاتے تو فوج کا اہتمام یہ کیا کرتے تھے گویا حضرت عمرؓ نجیب الطرفین تھے.ولادت حضرت عمرؓ ہجرت نبوی سے ۴۰ برس قبل پیدا ہوئے.اس طرح آپ حضرت رسول کریم سے عمر میں ۱۳ سال چھوٹے تھے.بچپن اور جوانی (طبقات ابن سعد) اس زمانے میں شرفائے عرب جن چیزوں کی تربیت حاصل کرتے ان میں نسب دانی، سپہ گری، شہسواری، پہلوانی اور خطابت شامل ہیں.حضرت عمرؓ نے ان تمام کاموں میں کمال حاصل کیا.فن نسب دانی میں تو آپ کے والد اور دادا نفیل دونوں اپنے
2 حضرت عمرؓ زمانے میں بہت مہارت رکھتے تھے.اسی طرح حضرت عمرؓ نے بھی اس موروثی فن کو سیکھا.فن پہلوانی اور کشتی میں کمال مہارت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ عکاظ کے دنگل میں جہاں سال کے سال میلہ لگتا تھا اور اہل عرب کے تمام معروف ترین اور چوٹی کے اہل فن اپنے فنون کے جوہر دکھایا کرتے تھے.اس میلے میں حضرت عمرؓ بھی اپنی پہلوانی اور کشتی کے فن کا مظاہرہ کرتے تھے.اسی طرح آپ کو لکھنے پڑھنے کا بھی شغف تھا.تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت رسول کریم کی بعثت کے وقت قریش میں صرف ۱۷ آدمی لکھنا پڑھنا جانتے تھے، ان میں ایک حضرت عمر بن الخطاب تھے.(فتوح البلدان بلاذری صفحه ۴۷۱) عربوں میں اونٹ چرانا قومی روایات میں سے تھا اور اس کو معیوب نہیں گردانا جاتا تھا.حضرت عمر نے بھی اپنے والد کے حکم سے جوانی میں اونٹ چرائے.بعد میں اپنی خلافت کے زمانے میں ایک مرتبہ جب حضرت عمرؓ کا اس مقام (فنجان جہاں آپ بچپن میں اونٹ چراتے تھے ) سے گزر ہوا تو آبدیدہ ہو کر فرمایا کہ اللہ اکبر ایک وہ زمانہ تھا کہ میں نمرہ کا کرتہ پہنے ہوئے اونٹ چرایا کرتا تھا اور تھک کر بیٹھ جاتا تو باپ کے ہاتھ سے مار کھاتا.آج یہ دن ہے کہ خدا کے سوا میرے اوپر کوئی حاکم نہیں“.سلسلہ تجارت (طبقات ابن سعد) عربوں میں تجارت کا پیشہ سب سے زیادہ معزز تھا.حضرت عمرؓ نے اسی معزز پیشے کو اختیار کیا اور تجارت کی غرض سے دور دراز ملکوں کا سفر اختیار کیا.گو کہ ان سفروں کے حالات حضرت عمر 3 پوری طرح تاریخ میں محفوظ نہیں ہیں لیکن آپ کی تجارتی دلچسپیوں کا ذکر تاریخوں میں ملتا ہے.عکاظ کے معرکوں اور تجارتی تجربوں نے آپ کو خود دار، تجربہ کار، بلند حوصلہ اور معاملہ فہم بنا دیا.انہی اوصاف کی بناء پر آپ کو قریش نے سفارت کے منصب پر مامور کر دیا.قبائل میں جب کوئی پر خطر معاملہ پیش آتا تو آپ ہی کو سفیر مقرر کیا جاتا.قبول اسلام آپ ۲۷ برس کے تھے جب حضرت رسول کریم ﷺ نے خدا تعالیٰ کے حکم سے نبوت کا دعویٰ کیا اور لوگوں کو خدا کے نام پر اسلام کی دعوت دینی شروع کر دی.آغاز میں حضرت عمرؓ اسلام اور رسول کریم کے بارہ میں نہایت سخت رویہ رکھتے تھے.حالانکہ آپ کے خاندان کے بعض افراد اسلام میں داخل ہو چکے تھے جن میں ایک معزز فرد نعیم بن عبداللہ تھے.اسی طرح آپ کی بہن فاطمہ اور بہنوئی سعید بلکہ اسی خاندان کی ایک کنیز لبینہ بھی اسلام قبول کر چکی تھی.حضرت عمر تک جب یہ بات پہنچی تو آگ بگولہ ہوئے اور قبیلے میں جو لوگ اسلام لا چکے تھے ان کے دشمن بن گئے.کنیز لبینہ جو مسلمان ہو چکی تھی اس کو بے تحاشہ مارتے اور مارتے مارتے تھک جاتے تو کہتے ذرا دم لے لوں تو پھر ماروں گا.لبینہ کے سوا اور جس جس پر زور چلتا زدوکوب سے دریغ نہ کرتے.لیکن جو بھی اسلام قبول کر لیتا، مارتو کھالیتا مگر اسلام سے انکار نہ کرتا.تکالیف کے اس انتہائی دور میں خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو دو بڑی خوشیاں عطا فرمائیں.یعنی حضور کے حقیقی چچا حضرت حمزہ اور دوسرے حضرت عمرؓ جیسے ذی مقدرت افراد نے اسلام قبول کر لیا.آپ کے قبول اسلام کا قصہ نہایت دلچسپ ہے.حضرت عمرؓ کی طبیعت میں سختی کا مادہ تو تھا ہی مگر اسلام کی عداوت نے اسے اور بھی
4 حضرت عمر زیادہ کر دیا تھا.چنانچہ اسلام سے قبل حضرت عمرؓ مسلمانوں کو ان کے اسلام کی وجہ سے بہت سخت تکلیف دیا کرتے تھے، لیکن جب وہ انہیں تکلیف دیتے دیتے تھک گئے اور ان کے واپس آنے کی کوئی صورت نہ دیکھی تو خیال آیا کہ کیوں نہ اسلام کے بانی کا ہی (نعوذ باللہ ) کام تمام کر دیا جاوے.یہ خیال آنا تھا کہ تلوار لے کر گھر سے نکلے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش شروع کی.راستہ میں ایک شخص نے انہیں بنگی تلوار ہاتھ میں لئے جاتے دیکھا تو پوچھا.عمرؓ! کہاں جاتے ہو؟“ حضرت عمرؓ نے جواب دیا.محمد کا کام تمام کرنے جاتا ہوں“.اس نے کہا." کیا تم محمد (ع) کو قتل کر کے بنو عبد مناف سے محفوظ رہ سکو گے؟ ذرا پہلے اپنے گھر کی تو خبر لو تمہاری بہن اور بہنوئی مسلمان ہو چکے ہیں“.حضرت عمرؓ جھٹ پلٹے اور اپنی بہن فاطمہ کے گھر کا رستہ لیا.جب گھر کے قریب پہنچے تو اندر سے قرآن شریف کی تلاوت کی آواز آئی.جو خباب بن الارت خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر سنا رہے تھے.حضرت عمرؓ نے یہ آواز سنی تو غصہ اور بھی بڑھ گیا.جلدی سے گھر میں داخل ہوئے.لیکن ان کی آہٹ سنتے ہی خباب تو جھٹ کہیں چھپ گئے اور فاطمہ نے قرآن شریف کے اوراق بھی اِدھر اُدھر چھپا دیئے.حضرت عمر اندر آئے اور بلند آواز سے کہا ! ” میں نے سنا ہے تم اپنے دین سے پھر گئے ہو.“ یہ کہہ کر اپنے بہنوئی سعید بن زید کی طرف لپکے.فاطمہ اپنے خاوند کو بچانے کے لئے حضرت عمر 5 آگے بڑھیں تو وہ بھی زخمی ہو ئیں.مگر فاطمہ نے دلیری کے ساتھ کہا.ہاں عمر ! ہم مسلمان ہو چکے ہیں اور تم سے جو ہو سکتا ہے کر لو ہم اسلام کو نہیں چھوڑ سکتے.“ حضرت عمرؓ نہایت سخت آدمی تھے لیکن اس سختی کے پردہ میں محبت اور نرمی کی بھی ایک جھلک تھی جو اپنا رنگ دکھاتی تھی.بہن کا یہ دلیرانہ کلام سنا تو آنکھ اور پر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا وہ خون میں تر بتر تھیں.اس نظارہ کا حضرت عمر کے دل پر ایک خاص اثر ہوا.کچھ دیر خاموش رہ کر بہن سے کہنے لگے.” مجھے وہ کلام تو دکھاؤ جو تم پڑھ رہے تھے؟“ فاطمہ نے کہا.66 د میں نہیں دکھاؤں گی کیونکہ تم اوراق کو ضائع کر دو گے.“ حضرت عمرؓ نے جواب دیا.66 و نہیں نہیں تم مجھے دکھا دو.میں ضرور واپس کر دوں گا.“ فاطمہ نے کہا.مگر تم پاک نہیں ہو اور قرآن کو پاکیزگی کی حالت میں ہاتھ لگانا چاہئے.اس لئے تم پہلے غسل کر لو اور پھر دیکھنا.“ غالبا ان کا منشاء یہ بھی ہوگا کہ غسل کرنے سے حضرت عمرؓ کا غصہ جاتا رہے گا اور وہ ٹھنڈے دل سے غور کرنے کے قابل ہوسکیں گے.جب حضرت عمرؓ غسل سے فارغ ہوئے تو فاطمہ نے قرآن کے اوراق نکال کر ان کے سامنے رکھ دیئے.انہوں نے اٹھا کر دیکھا تو سورۃ طہ کی ابتدائی آیات تھیں.حضرت عمر نے ایک مرعوب دل کے ساتھ انہیں پڑھنا شروع کیا.ایک ایک لفظ اس سعید فطرت کے اندر گھر کئے جاتا تھا.پڑھتے پڑھتے
7 حضرت عمر حضرت عمر 6 حضرت عمر اس آیت پر پہنچے کہ إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَ أَقِمِ الصَّلوةَ لِذِكْرِى إِنَّ السَّاعَةَ اتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيْهَا لِتُجْزِى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى دد یعنی میں ہی اللہ ہوں.میرے سوا اور کوئی معبود نہیں.پس میری عبادت کر اور میرے ذکر کے لئے نماز کو قائم کر.ساعت ضرور آنے والی ہے.بعید نہیں کہ میں اسے چھپائے رکھوں تا کہ ہر نفس کو اس کی جزا دی جائے جو وہ کوشش کرتا ہے.“ (طه: ۱۵،۱۶) جب حضرت عمرؓ نے یہ آیت پڑھی تو گویا ان کی آنکھ کھل گئی اور سوئی ہوئی فطرت چونک کر بیدار ہوگئی.بے اختیار ہوکر بولے.یہ کیسا عجیب اور پاک کلام ہے!“ حضرت خباب نے یہ الفاظ سنے تو فورا باہر نکل آئے اور خدا کا شکر ادا کیا اور کہا.یہ رسول اللہ کی دعا کا نتیجہ ہے کیونکہ خدا کی قسم! ابھی کل ہی میں نے آپ کو یہ دعا کرتے سنا تھا کہ یا اللہ تو عمر بن الخطاب یا عمرو بن ہشام ( یعنی ابو جہل ) میں سے کوئی ایک ضرور اسلام کو عطا کر دے.“ حضرت عمرؓ نے حضرت خباب سے کہا.مجھے ابھی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ بتاؤ“ آپ اس وقت ایسے جوش میں تھے کہ تلوار اسی طرح ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی.اس زمانہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دار ارقم میں مقیم تھے.چنانچہ خباب نے انہیں وہاں کا پتہ بتا دیا.حضرت عمرؓ گئے اور دروازہ پر پہنچ کر زور سے دستک دی.صحابہ نے دروازے کی دراڑ میں سے حضرت عمر کونگی تلوار تھامے ہوئے دیکھ کر دروازہ کھولنے میں تامل کیا، مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دروازہ کھول دو.“ اور حضرت حمزہ نے بھی کہا کہ وو دروازہ کھول دو.اگر نیک ارادہ سے آیا ہے تو بہتر ، ورنہ اگر نیت بد ہے تو واللہ! اُسی کی تلوار سے اس کا سراُڑا دوں گا.“ دروازہ کھولا گیا.حضرت عمر ننگی تلوار ہاتھ میں لئے اندر داخل ہوئے.ان کو دیکھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور عمر کا دامن پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا اور فرمایا.عمر کس ارادہ سے آئے ہو؟ واللہ ! میں دیکھتا ہوں کہ تم خدا کے 66 عذاب کے لئے نہیں بنائے گئے.“ عمرؓ نے عرض کیا.یا رسول اللہ ! میں مسلمان ہونے آیا ہوں.“ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ سنے تو خوشی کے جوش میں اللہ اکبر کہا اور ساتھ ہی صحابہ نے اس زور سے اللہ اکبر کانعرہ مارا کہ مکہ کی پہاڑیاں گونج اُٹھیں.حضرت عمرؓ اس وقت ۳۳ سال کے تھے اور آپ اپنے قبیلہ بنو عدی کے رئیس تھے.قریش میں سفارت کا عہدہ بھی انہی کے سپر د تھا اور ویسے بھی نہایت بارعب اور دلیر تھے.ان کے اسلام لانے سے مسلمانوں کو بہت تقویت پہنچی اور انہوں نے دارارقم سے نکل کر علی الاعلان مسجد حرام میں نماز ادا کی.یہ بعثت نبوی کے چھٹے سال کے آخری ماہ کا واقعہ ہے.اس وقت مکہ میں مسلمان مردوں کی تعداد چالین تھی.قبول اسلام سے پہلے حضرت عمر کی طبیعت کی سختی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ
9 حضرت عمر حضرت عمر 8 الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: و کسی نے حضرت عمرؓ سے پوچھا کہ کفر کے وقت تم بڑے غصہ والے تھے اب غصہ کا کیا حال ہے؟ فرمایا غصہ تو اب بھی ہے مگر پہلے اس کا استعمال بے جا تھا اب ٹھکانے پر لگ گیا ہے.“ ( ملفوظات جلد ۴ صفحه ۵۲۲) اسلام کے لئے جوش حضرت عمرؓ معزز قبیلہ کے ایک فرد تھے.لوگوں میں ارادہ اور رائے کی پختگی کی وجہ سے معروف تھے.اس کے ساتھ ہی خوب بہادر اور فصیح البیان بھی تھے.جب آپ نے اسلام قبول کر لیا تو اپنی تمام تر صلاحیتیں اسلام کے لئے وقف کر دیں.فرمایا کرتے تھے کہ جب اللہ نے میرے سینہ کو اسلام کے لئے کھول دیا تو آنحضرت سے زیادہ محبوب مجھے کوئی نہ تھا.اسلام قبول کر لینے کے بعد حضرت عمرؓ نے مختلف دروازوں پر دستک دے کر کہا کہ میں مسلمان ہو گیا ہوں.وہ جانتے تھے کہ جو مسلمان ہوتا ہےاسے تختۂ مشق بنایا جاتا ہے.خود بیان کرتے ہیں: میں نے چاہا کہ میں بھی اس لذت سے حصہ پاؤں جس میں کمزور، بے یار و مددگار مسلمان مبتلا ہیں.چنانچہ میں اپنے ماموں کے پاس گیا جو ذی عزت و وقار تھے.دروازہ کھٹکھٹایا.انہوں نے پوچھا کون.میں نے کہا.ابن الخطاب.وہ دروازہ کھول کر باہر آئے.میں نے کہا آپ کو علم ہے میں مسلمان ہو گیا ہوں ؟ انہوں نے کہا واقعی تو مسلمان ہو گیا ہے؟ میں نے کہا ہاں.انہوں نے کہا ایسا مت کرو.انہوں نے مجھے پھر منع کیا.میں نے کہا میں نے اسلام قبول کر لیا ہے.انہوں نے دروازہ بند کر لیا، میں باہر رہ گیا.میں نے کہا یہ تو کچھ بھی نہیں.میں وہاں سے چند اور معزیزین قریش میں سے ایک کے پاس آیا اور کہا کہ تم جانتے ہو میں مسلمان ہو گیا ہوں.اس نے پوچھا واقعی تم نے اسلام قبول کر لیا ہے؟ پھر کہا ایسا مت کرو.میں نے کہا.میں نے اسلام قبول کر لیا ہے.چنانچہ اس نے بھی دروازہ بند کر لیا.پھر میں وہاں سے چلا تو مجھے ایک شخص نے کہا.کیا تم چاہتے ہو تمہارے اسلام کا چرچا ہو؟ میں نے کہا.ہاں.اس نے کہا جب لوگ خانہ کعبہ کے سایہ میں اکٹھے بیٹھے ہوں وہاں فلاں شخص ( جمیل بن معمر ) کو آہستہ سے بتادو.تو تمہارے اسلام کا چرچا ہونے لگ جائے گا.چنانچہ میں نے جا کر اس سے اسی طرح بات کی.کیا تمہیں علم ہے، میں مسلمان ہو گیا ہوں؟ اس نے یہ سنا تو شور مچا دیا.لوگو! سنو عمر بن الخطاب صابی (اپنا دین چھوڑنے والا) ہو گیا ہے.چنانچہ لوگوں نے مجھے زدوکوب کرنا شروع کیا.میں بھی ان کو مارتا تھا.یہ کیفیت اس وقت تک جاری رہی جب تک دھوپ کی شدت نے انہیں اس فعل کے ترک کرنے پر مجبور نہ کر دیا.میرے ماموں عاص بن وائل سہمی ادھر آ نکلے.انہوں نے پوچھا یہ کیا ماجرا ہے؟ کسی نے بتلایا عمر بن الخطاب سے لوگ لڑ بھڑ رہے ہیں.چنانچہ وہ وہاں آئے اور لوگوں کو ہاتھ کے اشارہ سے رکنے کے لئے کہا.پھر کہا لوگو سنو! میں اپنی بہن کے بیٹے کو پناہ دیتا ہوں.چنانچہ.
10 حضرت عمر لوگ ہٹ گئے.لیکن میں نہیں چاہتا تھا کہ لوگ اسلام لانے کی وجہ سے پیٹے جائیں اور میں امن سے رہوں.میں نے کہا یہ کوئی بات نہ ہوئی.پھر ایک روز جب لوگ خانہ کعبہ کے سایہ میں بیٹھے تھے.میں اپنے ماموں کے پاس گیا اور کہا.ماموں میری بات سنیے.انہوں نے کہا بھانجے ایسا مت کر.میں نے کہا نہیں ماموں.اپنی پناہ کو اٹھا لیجئے.ماموں نے کہا.بہت اچھا جو تمہاری مرضی.پھر لوگ مجھے مارنے لگ گئے.میں بھی ان کا مقابلہ کرتا.حتی کہ اللہ نے اسلام کو معزز کر دیا.“ حضرت عمرؓ کے اس اقدام نے ان ضعیف و بے کس مسلمانوں کو بہت زیادہ سہارا دیا جنہوں نے آغاز میں اسلام قبول کیا اور قریش نے ان کو تختہ مشق بنایا.حق و باطل میں فرق کرنے والا اُسد الغابہ میں لکھا ہے کہ حضرت عمر نے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک دفعہ بیان کیا کہ دو میں نے حضور سے عرض کی کہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ حضرت نبی اکرم نے فرمایا کیوں نہیں، خدا کی قسم تم زندہ رہو یا موت آ جائے تم حق پر ہو.اس پر حضرت عمرؓ نے عرض کی کہ ہم پھر چھپ کر کیوں رہتے ہیں.قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا، ہم باہر نکلیں گے.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دو قطار میں بنائیں.ایک کی قیادت حضرت حمزہ کے سپرد کی، دوسری قطار کو میری قیادت میں حضرت عمر دیا.چنانچہ ہم خانہ کعبہ میں آئے.قریش نے ہمیں دیکھا تو انہیں وہ صدمہ ہوا کہ اس سے پہلے اس کی مثال نہ تھی.اس پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فاروق لقب دیا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ حق و باطل میں فرق کر دیا.“ ہجرت مدینہ 11 مدینہ کا اصل نام یثرب تھا لیکن جب حضرت نبی اکرم ﷺ نے اس شہر کو اپنی رہائش کا شرف عطا فر مایا تو اس کا نام مدينة النبی ہو گیا جو کہ بعد ازاں صرف مدینہ کے نام سے معروف ہوا.قریش لمبا عرصہ تک حضرت رسول کریم کے دعوی نبوت کو بے اعتنائی سے دیکھتے رہے.پھر اشاعت اسلام میں اضافہ کی بدولت ان کی بے اعتنائی اور لا پرواہی غیظ و غضب میں بدل گئی اور پھر جوں جوں مسلمانوں کی تعداد میں کثرت نمایاں ہوئی ،قریش نے زورو قوت کے ساتھ اسلام کو مٹا دینے کا ارادہ کیا.حضرت ابو طالب کی وفات تک تو اعلامیہ کچھ نہ کر سکے لیکن ان کی وفات کے بعد مسلمانوں پر اس طرح امڈ آئے کہ چاروں طرف سے مسلمانوں کو گھیر لیا اور مصائب کے پہاڑ توڑنے شروع کر دیئے.چنانچہ ہ نبوی میں حضرت رسول کریم ﷺ نے خدا تعالیٰ کے منشاء کے مطابق مسلمانوں کو یثرب کی طرف ہجرت کر جانے کا حکم دیا.ہجرت کرنے والے ابتدائی صحابہ میں سے حضرت مصعب بن عمیر تھے جو مدینہ کے لئے پہلے مبلغ اسلام بھی تھے.اسی طرح ابو سلمہ عبداللہ بن اشہل پھر حضرت بلال بن رباح وغیرہ نے بھی شروع شروع میں ہجرت کی.حضرت عمرہ کی ہجرت کا واقعہ نہایت دلچسپ ہے.آپ کے ساتھ ۲۰ افراد نے مدینہ کا سفر اختیار کیا.جب آپ سفر
12 حضرت عمر حضرت عمر سردار تھے.مدینہ کے لئے تیار ہوئے تو ہتھیار لگائے ، پہلو میں تلوار لٹکائی، کندھے پر کمان دھری ، تیر ہاتھ میں لئے ، نیز ہ سنبھالا اور خانہ کعبہ گئے.صحن حرم میں قریش کی مجلس جمی تھی.آپ نے خانہ کعبہ کا طواف کیا.مقام ابراہیم پر نماز ادا کی.پھر قریش جہاں دائرہ بنا کر بیٹھے ہوئے تھے وہاں آئے اور کہا.دشمن مغلوب ہوں، جو چاہتا ہے اس کی ماں بین کرے، اس کی اولاد یتیم ہو اور اس کی رفیقہ حیات بیوہ ہو.وہ مجھے اس وادی کے پار روک کر دیکھے.(اسد الغابه زیر عنوان هجره لیکن کسی کو جرات نہ ہوئی کہ آپ کا راستہ روک سکے.حضرت عمرؓ کے سوا تمام لوگوں نے مخفی ہجرت کی.جب آپ مدینہ منورہ پہنچے تو آپ نے قبا میں قیام کیا جو دراصل مدینہ سے دو تین میل کے فاصلے پر تھا.یہیں پر دوسرے مسلمانوں نے ہجرت کے بعد قیام کیا تھا.ہجرت کا یہ سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ ۱۲۱ ء میں خود حضرت رسول کریم ﷺ نے مکہ چھوڑا اور آفتاب رسالت مدینہ میں طلوع ہوا اور اہل مدینہ نے طَلَعَ الْبَدْرُ عَلَيْنَا ( یعنی چودھویں کا چاند ہم پر طلوع ہوا) کے گیتوں سے آپ کا استقبال کیا.حضرت رسول کریم ﷺ نے مدینہ پہنچ کر مہاجرین کے رہنے سہنے کا انتظام کیا.انصار و مہاجرین میں بھائی چارہ قائم کیا جس کا اثر یہ ہوا کہ مہاجر جس انصاری کا بھائی قرار پاتا انصاری اس کو اپنی جائداد، مال اور نقدی تمام چیزیں آدھا آدھا بانٹ دیتا تھا.اس بھائی چارے کے رشتے کے قیام میں حضور نے طرفین کے رتبہ اور حیثیت کا فرق مراتب ملحوظ خاطر رکھا.چنانچہ حضرت عمرؓ کو حضرت عتبان بن مالک کا بھائی بنایا جو قبیلہ بنی سالم کے 13 حضرت عمرؓ نے ہجرت کے بعد مستقل رہائش قبا میں ہی رکھی.لیکن زندگی کا یہ معمول بنا لیا کہ ایک دن ناغہ دے کر باقاعدگی کے ساتھ آنحضرت کے پاس جاتے اور دن بھر خدمت اقدس میں رہتے.ناغہ کے دن حضرت عتبان بن مالک حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور جو کچھ سنتے وہ حضرت عمرؓ کے پاس آ کر بیان کرتے.اذان کی ابتداء مدینہ پہنچ کر مسلمانوں کو امن اور سکون کی زندگی نصیب ہوئی.اب وقت آ گیا تھا کہ اسلام کے فرائض و ارکان کی تعیین ہو.نماز کے اعلان کا طریقہ بھی معین نہ تھا.صحابہ عموماً وقت کا اندازہ کر کے خود نماز کے لئے جمع ہو جاتے.لیکن یہ صورتحال قابل اطمینان نہ تھی.خصوصاً جب مسلمانوں نے مسجد نبوی کی تعمیر کر لی تو اس بات کا زیادہ احساس ہونے لگا کہ کس طرح مسلمان وقت پر نماز کے لئے جمع ہوا کریں.حضور کے مشورہ طلب کرنے پر کسی صحابی نے ناقوس کی رائے دی، کسی نے یہود کی طرح بوق (بنگل) کی تجویز پیش کی ، اس طرح بعض اور تجاویز بھی سامنے آئیں.اس موقع پر حضرت عمر نے مشورہ دیا کہ کسی آدمی کو مقرر کرایا جاوے جو کہ نماز کے وقت اعلان کر دیا کرے کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے.آنحضرت نے اس رائے کو پسند فرمایا اور حضرت بلال کو حکم دیا کہ وہ اس فرض کو ادا کیا کریں.اس کے بعد جب نماز کا وقت ہوتا تو وہ الصَّلوةُ جَامِعَة کہہ کر پکارا کرتے اور لوگ مسجد نبوی میں جمع ہو جایا کرتے.بلکہ اگر نماز کے علاوہ کسی اور مقصد کے لئے بھی لوگوں کو مسجد میں جمع کرنا مقصود ہوتا تو یہی ندادی جاتی.کچھ عرصہ کے بعد ایک صحابی عبداللہ بن زید انصاری کو خواب میں موجودہ اذان کے
14 حضرت عمر الفاظ سکھائے گئے.انہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کا ذکر کیا اور عرض کیا کہ میں نے خواب میں ایک شخص کو اذان کے طریق پر یہ الفاظ پکارتے سنا ہے.اس پر آپ نے فرمایا کہ یہ خواب خدا کی طرف سے ہے اور عبد اللہ کوحکم دیا کہ بلال کو یہ الفاظ سکھا دیں.عجیب اتفاق یہ ہوا کہ جب بلال نے ان الفاظ میں پہلی مرتبہ اذان دی تو حضرت عمرؓ سے سن کر جلدی جلدی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ! آج جن الفاظ میں بلال نے اذان دی ہے بعینہ یہی الفاظ میں نے بھی خواب میں دیکھے ہیں.ایک اور روایت میں ذکر ملتا ہے کہ جب رسول کریم نے اذان کے یہ الفاظ سنے تو فرمایا کہ اسی کے مطابق وحی بھی ہو چکی ہے.الغرض اس طرح موجودہ اذان کا طریقہ رائج ہوا.جنگ بدر جب مسلمان مکہ معظمہ کی اذیت ناک زندگی سے چھٹکارا حاصل کر کے مدینہ پہنچے تو ہر طرف اسلام کا چرچا ہونے لگا.اسلام ایک چھوٹے پودے سے مضبوط تناور درخت بننے لگا.اس بات نے قریش کی آتشِ غضب کو اور بھی بھڑ کا دیا اور انہوں نے مدینہ پر چڑھائی کا ارادہ کر لیا.اس کے لئے اخراجات کی فراہمی کا بندوبست مکمل کر لینے کے بعد رمضان ۲ ہجری میں مدینہ کے جنوب مغرب میں بدر کی وادی میں ڈیرے ڈال دیئے.قریش ایک ہزار تجربہ کا رسپاہ کے ساتھ میدان میں اترے.جبکہ ان کے پاس ۱۰۰ گھوڑے تھے.مقابل پر مسلمانوں کی کل تعداد ۱۳ سنتھی اور جس میں صرف ۳ گھوڑے اور ے اونٹ تھے.جن پر مسلمان باری باری سوار ہوتے تھے.جنگ پر روانگی سے قبل حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب صحابہ سے مشورہ طلب کیا تو حضرت ابو بکر اور حضرت عمرؓ نے جانثارانہ تقاریر کیں.حضرت عمر 15 انصار میں سے حضرت سعد بن عبادہ نے جانثارانہ تقریر کی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ ہم انصار بھی ہر خدمت اور قربانی کے لئے تیار ہیں.اس غزوہ میں حضرت عمر رائے ، تدبیر، جانبازی اور جرأت کے لحاظ سے ہر موقع پر حضور کے دست و بازو بنے رہے.حضرت عمرؓ کے قبیلہ کے ۱۲ افراد آپ کے ساتھ اس غزوہ میں شامل تھے.سب سے پہلا شہید ہونے والا خوش نصیب بھی حضرت عمرؓ کا ہی غلام تھا.حضرت عمرؓ کا ماموں عاصی بن ہشام بن مغیرہ جو کہ قریش کا ایک معزز سردار تھا حضرت عمرؓ کے ہاتھوں مارا گیا.اس جنگ میں ۱۴ مسلمان شہید ہوئے اور مشرک مارے گئے اور خدا تعالیٰ نے مسلمانوں کو فتح نصیب فرمائی.مارے جانے والے مشرکین میں سے ۲۴ سردارانِ قریش میں شمار ہوتے تھے.غزوة أحد غزوہ بدر میں دشمنان اسلام کو جو شدید ترین نقصان اٹھانا پڑا اور وہ اپنے بڑے بڑے سرداروں سے محروم ہو گئے تو مکہ میں عظیم ماتم برپا ہوا.سرداران قریش نے قسمیں کھائیں که مقتولین بدر کا بدلہ لینا ہے.ابوسفیان نے قسم کھائی کہ جب تک بدلہ نہ لوں گا اس وقت تک غسل نہ کروں گا.انہی عزائم کے ساتھ غزوہ بدر کے ٹھیک تیرہویں مہینے یعنی شوال ۳ھ میں مدینہ سے قریباً سو میل کے فاصلے پر احد پہاڑ کے دامن میں سرداران قریش ۳ ہزار تجربہ کار جنگجو افراد پر مشتمل لشکر لے کر پہنچ گئے.دوسری طرف مسلمانوں کا صرف ےسوافراد پر مشتمل نا تجربہ کا رلشکر تھا.سے شوال کولڑائی شروع ہوئی اور جلد ہی مسلمان کفار پر غالب آگئے.دشمن کی فوج کی
16 حضرت عمر صفیں الٹ دی گئیں.فتح حاصل ہوتے ہی ایک گھائی میں متعین تیراندازوں کے گروہ نے دوسرے فاتحین کے ساتھ مل کر مال غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا.خالد بن ولید کو گھائی خالی نظر آئی تو اس نے ادھر سے حملہ کیا.مسلمانوں میں ایسی بھگدڑ مچی کہ بعض جگہ مسلمانوں کی تلوار میں مسلمانوں پر پڑنے لگیں.ابن قمہ اور عتبہ بن ابی وقاص نے حضور پر حملہ کیا جس سے حضور کے دانت مبارک شہید ہو گئے اور چہرہ خون آلود ہو گیا.لیکن ابن قمہ نے یہ مشہور کر دیا کہ میں نے محمد ( ﷺ ) کو نعوذ باللہ ) قتل کر دیا ہے.مسلمان صحابہ اور بعض صحابیات نے اس روز حضور کا دفاع جان پر کھیل کر کیا.حضرت سعد بن ابی وقاص نے تیراندازی کر کے دشمنوں کو پرے دھکیلا جبکہ حضرت طلحہ نے نبی کریم کو تیروں کی بارش سے بچانے کے لیے اپنا ہاتھ حضور کے چہرہ مبارک کے سامنے کیے رکھا.حتیٰ کہ ان کا ہاتھ شل ہو گیا.حضرت ام عمارہ نے اس روز حضور کا دفاع خنجر سے کرتے ہوئے کندھے پر گہرا گھاؤ کھایا.زید بن سکن انصاری نے پانچ انصار صحابہ کے ساتھ آنحضور ﷺ کے سامنے ایک ایک کر کے جان دی.اس روز ستر مسلمان شہید ہوئے.لڑائی کا زور کچھ کم ہونا شروع ہو گیا.صحابه حضور سمیت ایک درے تک پہنچ گئے تب قریش کے ایک دستے نے خالد بن ولید کی کمان میں پہاڑ پر چڑھ کر حملہ کرنا چاہا لیکن آنحضرت کے حکم سے حضرت عمرؓ نے چند مہاجرین کو ساتھ لے کر اس کا مقابلہ کیا اور اسے پسپا کر دیا.اس موقع پر ابوسفیان نے ابن قمہ کے نعرہ پر یقین کرتے ہوئے کہ میں نے محمد کو قتل کر دیا ، میں نے محمد کو قتل کر دیا اونچے ٹیلے پر کھڑے ہو کر کہا.کیا تم میں محمد ہیں ؟ ابوبکر تم میں ہیں؟ پھر پوچھا عمر باقی ہیں؟ آنحضور ﷺ کے منع فرمانے پر مسلمانوں نے کوئی جواب نہ دیا.تب اس نے ہبل بت کا نعرہ بلند کیا اور کہا آج ہم نے بدر کا بدلہ لے لیا.اس پر حضرت عمر 17 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر فاروق و فر مایا تمہیں کیا ہو گیا ہے، جواب کیوں نہیں دیتے ؟ اس کا جواب دو اور حضور کے سکھانے پر حضرت عمر نے کہا.لله اغلى وَ اَجَل یعنی بلندی و بزرگی صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے.“ جب حضرت عمرؓ نے ابوسفیان کو جواب دیا.تو ابوسفیان نے حضرت عمرؓ کی آواز الله پہچان کر کہا کہ عمر سچ سچ بتاؤ کیا محمد زندہ ہیں.“ حضرت عمر نے کہا.ہاں ہاں ! خدا کے فضل سے وہ زندہ ہیں اور تمہاری یہ باتیں سن رہے ہیں.“ ابوسفیان نے کسی قدر دھیمی آواز سے کہا تو پھر ابن قمہ نے جھوٹ کہا ہے.کیونکہ میں تمہیں اس سے زیادہ سچا سمجھتا ہوں.حضرت حفصہ بنت عمرہ کی شادی حضرت عمر بن خطاب کی ایک صاحبزادی تھیں جن کا نام حفصہ تھا.وہ حضرت خنیس بن خذافہ کے عقد میں تھیں جو ایک مخلص صحابی تھے اور جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے.بدر کے بعد مدینہ واپس آنے پر حضرت خنہیں بیمار ہو گئے اور اس بیماری سے جانبر نہ ہو سکے.کچھ عرصہ بعد آنحضور ﷺ نے خود حضرت عمرؓ کو حضرت حفصہ کے لئے پیغام بھیجا.حضرت عمرؓ کو اس سے بڑھ کر اور کیا چاہئے تھا.انہوں نے نہایت خوشی سے اس رشتہ کو قبول کیا اور شعبان ساتھ میں حضرت حفصہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آ کر حرم نبوئی میں داخل ہوگئیں.( سيرة خاتم النبین صفحہ ۴۷۷ )
19 حضرت عمر حضرت عمر 18 غزوہ خندق غزوۂ احد سے اگلے سال شوال ۳ھ میں کفار مکہ نے عرب کے دیگر قبائل کو برانگیخت کر کے دس ہزار افراد پر مشتمل ایک فوج تیار کی اور مدینہ کا محاصرہ کر لیا.مسلمانوں نے مدینہ کے گرد ایک خندق کھود کر شہر کا دفاع کیا.اس محاصرہ میں جو کہ تمیں دن تک جاری رہا، حضرت عمر اور آپ کے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دوش بدوش رہے.کفار مکہ کبھی کبھی خندق میں اتر کر حملہ کرتے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غرض سے خندق کے ساتھ ساتھ کچھ فاصلہ پرا کا بر صحابہ کو تعین کر دیا تا کہ دشمن اُدھر سے نہ آنے پائے.ایک جانب سے جہاں حضرت عمرؓ متعین تھے ایک دن کافروں نے حملہ کیا جسے حضرت عمر نے آگے بڑھ کر روکا اور دشمنوں کا گروہ درہم برہم کر دیا.اس وجہ سے پورا دن ان کو کافروں کے مقابلہ میں رہنا پڑا.چنانچہ اس روز مسلمان ظہر وعصر کی نماز وقت پر ادا نہ کر سکے.حضرت عمر نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے نماز نہیں پڑھی اور سورج غروب ہوا چاہتا ہے.دشمنوں نے ہماری نماز قضا کر دی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عمر بخدا میری نماز بھی رہ گئی.چنانچہ حضور نے اکٹھی نمازیں پڑھائیں.”اے مسلمانو! مجھے محض اسلام کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا ہے.خدا کے لئے مجھے بچاؤ.“ مسلمان اس نظارہ کو دیکھ کر تڑپ اٹھے مگر سہیل بھی اپنی ضد پر اڑ گیا اور کہنے لگا کہ یہ پہلا مطالبہ ہے جو میں اس معاہدہ کے مطابق آپ سے کرتا ہوں کہ ابوجندل کو میرے حوالے کر دیں.حضور نے فرمایا کہ ابھی تو معاہدہ تکمیل کو نہیں پہنچا لیکن سہیل نہ مانا.چنانچہ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دردمندانہ الفاظ میں فرمایا: ”اے ابو جندل ! صبر سے کام لو، خدا کی طرف نظر رکھو، خدا تمہارے لئے اور تمہارے ساتھ کے دوسرے کمزور مسلمانوں کے لئے خود کوئی راستہ کھول دے گا لیکن ہم اس وقت مجبور ہیں کیونکہ اہل مکہ کے ساتھ معاہدہ کی بات ہو چکی ہے اور ہم اس معاہدہ کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھا سکتے.“ مسلمان یہ نظارہ دیکھ رہے تھے اور مذہبی غیرت سے ان کی آنکھوں میں خون اتر رہا تھا مگر رسول اللہ کے سامنے ادب سے خاموش تھے.آخر حضرت عمرؓ سے رہا نہ گیا.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب آئے اور کا نپتی ہوئی آواز میں عرض کیا.” کیا آپ خدا کے برحق رسول نہیں ؟“ صلح حدیبیہ کے موقع پر حضرت عمرؓ کا جوش و خروش آپ نے فرمایا.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سہیل بن عمرو کے ساتھ معاہدہ طے فرمارہے تھے تو اس موقع پر ابو جندل جو مسلمان ہو چکے تھے گرتے پڑتے وہاں پہنچ گئے اور دردناک آواز میں پکارنے لگے کہ ”ہاں ہاں ضرور ہوں.“ حضرت عمرؓ نے کہا." کیا ہم حق پر نہیں اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں؟“ آپ نے فرمایا.
21 حضرت عمر حضرت عمر 20 66 ”ہاں ہاں ضرور ایسا ہی ہے.“ عمر نے کہا.تو پھر ہم اپنے بچے دین کے معاملہ میں یہ ذلت کیوں برداشت کریں؟“ آپ نے حضرت عمرؓ کی حالت کود یکھ کر مختصر الفاظ میں فرمایا.دیکھو عمر میں خدا کا رسول ہوں اور میں خدا کے منشاء کو جانتا ہوں اور اس کے خلاف نہیں چل سکتا اور وہی میرا مددگار ہے.“ مگر حضرت عمر کی طبیعت کا تلاطم لحظہ بہ لحظہ بڑھ رہا تھا.کہنے لگے." کیا آپ نے ہم سے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف کریں گے؟“ آپ نے فرمایا.ہاں میں نے ضرور کہا تھا مگر کیا میں نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ طواف ضرور اسی سال ہوگا ؟“ عمرؓ نے کہا.نہیں ایسا تو نہیں کہا.“ آپ نے فرمایا.تو پھر انتظار کرو.تم انشاء اللہ ضرور مکہ میں داخل ہو گے اور کعبہ کا طواف کرو گے.“ مگر اس جوش کے عالم میں حضرت عمر وہاں سے اُٹھ کر حضرت ابوبکر کے پاس آئے اور ان کے ساتھ بھی اسی قسم کی جوش والی باتیں کیں اور حضرت ابو بکر نے بھی اسی قسم کے جواب دیئے.لیکن ساتھ ہی حضرت ابو بکر نے نصیحت کے رنگ میں فرمایا.دیکھو عمر سنبھل کر رہو اور رسول خدا کی رکاب پر جو ہاتھ تم نے رکھا ہے اسے ڈھیلا نہ ہونے دو.کیونکہ خدا کی قسم یہ شخص جس کے ہاتھ میں ہم نے اپنا ہاتھ دیا ہے بہر حال سچا ہے.“ حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ اس وقت میں اپنے جوش میں یہ ساری باتیں کہہ تو گیا مگر بعد میں مجھے سخت ندامت ہوئی اور میں تو بہ کے رنگ میں اس کمزوری کے اثر کو دھونے کے لئے بہت سے نفلی اعمال بجالایا.یعنی صدقے کئے، روزے رکھے نفلی نماز میں پڑھیں اور غلام آزاد کئے تا کہ میری اس کمزوری کا داغ دھل جائے.(بخاری کتاب الشروط ابن هشام حالات حدیبیه) فتح کی خوشخبری جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ سے واپسی کے لئے روانہ ہوئے تو حضرت عمر خود بیان کرتے ہیں کہ رات کے وقت جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں تھے تو اس وقت میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے کچھ عرض کرنا چاہا مگر آپ خاموش رہے.میں نے دوبارہ اور سہ بارہ عرض کیا مگر آپ بدستور خاموش رہے.مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی پر بہت غم ہوا اور میں نے اپنے نفس میں کہا کہ عمرہ تو تو ہلاک ہو گیا کہ تین دفعہ تو نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کیا اور آپ نے جواب نہیں دیا.چنانچہ میں مسلمانوں کی جمعیت میں سے سب سے آگے نکل آیا اور اس غم میں پیچ و تاب کھانے لگا کہ کیا بات ہے اور مجھے ڈر پیدا ہوا کہ کہیں میرے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل نہ ہو جائے.اتنے میں کسی شخص نے میرا نام لے کر آواز دی کہ عمر بن خطاب کو رسول اللہ نے یا دفرمایا ہے.میں نے کہا بس ہو نہ ہو میرے بارے میں کوئی قرآنی آیت نازل ہوئی ہے.چنانچہ میں گھبرایا ہوا جلدی جلدی
22 حضرت عمر رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کر کے آپ کے پہلو میں آ گیا.آپ نے فرمایا کہ مجھ پر اس وقت ایک ایسی سورۃ نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے.پھر آپ نے سورۃ فتح کی آیات تلاوت فرمائیں.حضرت عمرؓ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! کیا یہ صلح واقعی اسلام کی فتح ہے؟ آپ نے فرمایا یقینا یہ ہماری فتح ہے اس پر حضرت عمر نسلی پا کر خاموش ہو گئے.(بخاری کتاب التفسیر، مسلم باب صلح حدیبیه حضرت نبی کریم کا وصال اھ میں جب ایک مختصر بیماری کے بعد حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تو حضرت عمر فاروق کی حالت شدید غمزدہ تھی.آپ نے تلوار سونت لی اور یہ اعلان کیا کہ جو یہ کہے گا کہ محمد فوت ہو گئے ہیں میں اس کی گردن اڑا دوں گا.اس موقع پر حضرت ابوبکر تشریف لائے اور حضرت رسول کریم کے چہرہ مبارک سے کپڑا ہٹایا اور پیشانی پر بوسہ دیا اور فرمایا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، خدا کی قسم! اللہ آپ پر دو موتیں اکٹھی نہیں کرے گا.وہ موت جو مقدر تھی وہ آچکی.پھر آپ نے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ”لوگو! سن لو جو محمد کی عبادت کرتا تھا وہ جان لے کہ محمد فوت ہو گئے اور جو اللہ کی عبادت کرتا تھا جان لے کہ اللہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا.“ اس کے بعد آپ نے سورۃ آل عمران کی ان آیات کی تلاوت فرمائی.وَمَا مُحَمَّدٌ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُل أَفَائِنُ مَّاتَ أَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمُ عَلَى أَعْقَابِكُمْ - حضرت عمر حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ ” جب میں نے یہ آیت سنی تو میرے پاؤں لڑکھڑا گئے اور میں زمین پر گر گیا کہ واقعی حضور صلی اللہ علیہ وسلم وفات پاگئے ہیں.“ (بخاری کتاب المغازی) انتخاب خلافت اولی 23 آنحضور ﷺ کی وفات کے بعد کچھ مہاجرین اور انصار نے جو بڑے مرتبہ کے صحابہ تھے ایک جگہ اکٹھے ہو کر حضرت ابو بکر کو اپنا خلیفہ چن لیا اور اس وقت موجود تمام صحابہ نے آپکی بیعت کر لی.اگلے روز حضرت ابوبکر سے قبل حضرت عمر منبر پر تشریف لائے اور خدا کی تسبیح وتحمید بیان کرنے کے بعد کہا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں سب سے بہتر آدمی کے ہاتھ پر جمع کر دیا ہے.جس کے بارے میں اِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنا کی آیات نازل ہوئی ہیں یعنی ابوبکر کو حضور کا ساتھی قرار دیا گیا جو غار میں آنحضرت کے ساتھ تھے.پس اٹھو اور ان کی بیعت کرو.چنانچہ حضرت عمرؓ کی اس تقریر کے بعد عام بیعت شروع ہوئی.عہد صدیقی میں حضرت عمرؓ کی اہم خدمات حضرت ابو بکر کی خلافت کے دور میں حضرت عمر آپ کے خاص الخاص مشیر و مددگار دکھائی دیتے ہیں.حضرت ابوبکر ہر امر میں آپ سے مشورہ لیتے.جب دور خلافت میں پہلے حج کا وقت آیا تو حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو امیر الحجاج مقرر فرمایا جس طرح حضرت رسول کریم نے حضرت ابوبکر کو امیر الحجاج مقرر فر مایا تھا.
24 جمع قرآن حضرت عمر اس زمانہ میں کاغذ نہیں ہوتا تھا اورتحریر لکھنے کیلئے مختلف اشیاء مثلاً پتھر کی سلیں، درختوں کی چھال اور چمڑے کو استعمال کیا جاتا تھا.اسی وجہ سے قرآن مجید بھی اس وقت مختلف اشیاء پر لکھا ہوا تھا اور ایک جگہ پر اکٹھانہ لکھا تھا.لیکن یہ ضرور تھا کہ کثیر التعدادصحابہ نے اسے اصل ترتیب سے حفظ کر رکھا تھا اور اس طرح قرآن مجید بالکل محفوظ تھا.حضرت ابوبکرؓ کے عہد خلافت میں باغیان اسلام کے خلاف کئی جنگیں لڑیں گئیں.ان جنگوں کے نتیجہ میں بہت سے حفاظ قرآن شہید ہوئے.خصوصاً یمامہ کی جنگ میں اس قدر صحابہ شہید ہوئے کہ حضرت عمرؓ کو اندیشہ ہوا کہ شہادتوں کا یہی سلسلہ قائم رہا تو قرآن کریم کا بہت سا حصہ ضائع ہی نہ ہو جائے.چنانچہ حضرت عمر نے حضرت ابو بکر کو قرآن کریم ایک جلد میں جمع کرنے کا مشورہ دیا.شروع میں تو حضرت ابوبکر کو پوری طرح انشراح نہ تھا مگر حضرت عمر نے یہ مشورہ اس قدر تکرار سے دیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس عظیم الشان کام کے لئے حضرت ابوبکر کا سینہ کھول دیا اور آپ نے حضرت عمر کے مشورے سے حضرت زید بن ثابت انصاری کو جو آنحضرت کے کاتب وحی رہ چکے تھے حکم دیا کہ وہ قرآن مجید کو با قاعدہ ایک کتاب کی صورت میں اکٹھا لکھوا کر محفوظ کر دیں.چنانچہ زید بن ثابت انصاری نے بڑی محنت کے ساتھ ہر آیت کے متعلق زبانی اور تحریری ہر دو قسم کی پختہ شہادت مہیا کر کے اسے ایک باقاعدہ کتاب کی صورت میں اکٹھا کر دیا.حضرت عمرؓ کے متعلق صحابہ کی رائے حضرت ابو بکر کو اس بات کا یقین تھا کہ خلافت کا بارگراں حضرت عمرؓ کے سوا اور کسی حضرت عمر 25 سے اٹھ نہیں سکتا لیکن پھر بھی وفات کے قریب انہوں نے عام رائے کا اندازہ کرنے کے لئے اکابر صحابہ سے مشورہ کیا.سب سے پہلے عبدالرحمن بن عوف کو بلا کر پوچھا.انہوں نے کہا عمر کی قابلیت میں کیا کلام ہے لیکن مزاج میں سختی ہے.حضرت ابو بکر نے فرمایا کہ ان کی سختی اس لئے تھی کہ میں نرم تھا.جب کام ان پر ہی آپڑے گا تو خود بخو دنرم ہو جائیں گے.پھر حضرت عثمان کو بلا کر پوچھا انہوں نے کہا کہ میں اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ عمر کا باطن ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں میں ان کا جواب نہیں.اس طرح حضرت ابوبکر صدیق نے بعض اور صحابہ سے مشورہ کر کے حضرت عمرؓ کو اپنے بعد خلیفہ نامزد کر دیا.
27 حضرت عمر حضرت عمر 26 حضرت عمر کی خلافت حضرت ابوبکر بخار کی وجہ سے ۱۵ دن بیمار رہے.اس دوران حضرت عمر نماز کی امامت کرتے رہے اور حضرت عثمان نے بھر پور طریقے سے تیمارداری کا حق ادا کیا.حضرت ابوبکر کو احساس ہو گیا تھا کہ یہ آخری بیماری ہے.حضرت ابو بکر نے صحابہ سے مشورہ کے بعد حضرت عثمان کو بلا کر زندگی کی آخری تحریرلکھوائی.اللہ کے نام کے ساتھ جو رحمن اور رحیم ہے.اس دنیا سے رخصت ہوتے وقت آخری اور دوسرے جہاں جاتے ہوئے یہ ابوبکر کی پہلی تحریر ہے.....میں نے اپنے بعد عمرؓ کو خلیفہ نامزد کیا ہے.پس اس کی سننا اور اطاعت کرنا، میں نے اللہ، اس کے رسول، اسلام اور تمہاری خیر خواہی میں کوئی کوتا ہی نہیں کی.اگر عمر بھی اسی راہ پر قائم رہا اور یقیناً وہ اس پر قائم رہے گا.اگر اس میں تبدیلی آگئی تو ہر آدمی اپنے اعمال کے لئے خدا کے سامنے جواب دہ ہے.میں نے بھلائی کی غرض سے یہ کیا ہے.ہاں غیب کو خدا ہی جانتا ہے اور عنقریب ظالم جان لیں گے وہ کہاں پھر رہے ہیں.والسلام علیکم ورحمتہ اللہ “ (أسد الغابه) اس پر اپنی مہر ثبت فرمائی.حضرت عثمان یہ خط لے کر باہر آئے اور لوگوں سے کہا.اس خط میں جس شخص کے بارہ میں وصیت ہے کیا تم اس کی بیعت کے لئے تیار ہو.لوگوں نے اثبات میں جواب دیا.بعض نے کہا ہم جانتے ہیں جس شخص کے بارہ میں وصیت کی گئی ہے.چنانچہ سب نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا اور بیعت کا اقرار کیا.پھر حضرت ابو بکر نے حضرت عمر کو بلایا.انہیں وصیت کی.جب عمر رخصت ہوئے تو حضرت ابو بکر نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا.”اے اللہ ! میں نے مسلمانوں کی بہتری کے لئے اور فتنہ سے بچنے کے لئے یہ کیا اور تو اسے خوب جانتا ہے.میں نے مشورہ سے یہ قدم اٹھایا اور ان کا والی اُسے مقرر کیا جو اُن میں سے سب سے بہتر ، سب سے زیادہ قوی اور ان کی رشد و ہدایت کا سب سے زیادہ خواہاں ہے.اے اللہ ! اسے اپنے رُشد اور ہدایت یافتہ خلفاء میں سے بنانا.یہ نبی الرحمۃ کی پیروی کرنے والا ہو.جن کی باگ ڈور اس کے سپرد ہے وہ اس کے اطاعت گزار ہوں.“ حضرت عمرؓ کو آپ نے جو وصیت کی وہ یہ تھی.”اے عمر! اللہ کے بعض حقوق رات کے متعلق ہیں.وہ ان کو دن میں قبول نہیں کرے گا اور بعض حقوق دن کے متعلق ہیں ان کو وہ رات میں قبول نہیں کرے گا.جب تک فرائض کی ادائیگی نہ کی جائے اللہ نوافل قبول نہیں کرتا.“ ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ ایک روز آپ کو قدرے افاقہ ہوا تو آپ نے طاقچہ سے سرمبارک نکال کر لوگوں سے فرمایا: میں نے ایک وصیت کی ہے.کیا تمہیں منظور ہے؟ سب لوگوں نے جواب دیا.اے خلیفہ رسول ! منظور ہے.اسی بیماری میں حضرت ابو بکر کی وفات ہوگئی اور خلافت کی ذمہ داری حضرت عمر پر آن پڑی.حضرت عمرؓ نے تدبیر ، دعا اور نصرت خداوندی سے اس فرض کو خوب نبھایا.
29 حضرت عمر حضرت عمر 28 خلافت عمر کے اہم کام حضرت ابو بکڑ نے اپنے دور خلافت میں باغیوں سے چھٹکارا حاصل کر کے فتوحات ملکی کا آغاز کر دیا تھا.خلافت کے دوسرے ہی برس میں عراق پر لشکر کشی ہو چکی تھی اور حیرہ ย کے تمام اضلاع فتح ہو چکے تھے.ان مہمات کا ابھی آغاز ہی تھا کہ حضرت ابوبکر صدیق وفات پا گئے.دراصل حضرت رسول کریم کی حیات مبارکہ میں انہی رومی افواج نے مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کر رکھی تھیں لیکن رسول کریم ﷺ خود پیش قدمی کر کے تبوک کے مقام پر پہنچے اس طرح دشمن کو آگے بڑھنے کا حوصلہ نہ ہوا.لیکن رومیوں کی طرف سے تیاریوں کی خبریں ملتی رہیں.چنانچہ حضرت ابو بکر نے جس کام کا آغاز کیا.حضرت عمر نے مسند خلافت پر متمکن ہوتے ہی ان مہمات کی طرف توجہ کی.اس وجہ سے کئی جنگی مہمات پیش آئیں.بویب کا معرکہ اور عراق کی فتح ۱۴ھ میں حضرت عمرؓ نے بھر پور تیاری کے ساتھ سارے عرب سے مختلف قبائل پر مبنی لشکر تیار کروایا اور حضرت منی کو سپہ سالار مقرر کیا.کوفہ کے قریب بویب نامی مقام پر اسلامی فوجوں نے ڈیرے ڈالے.مجھی سردار مہان پایہ تخت سے روانہ ہو کر سیدھا بویب آیا اور دریائے فرات کے کنارے خیمہ زن ہوا.جنگ میں مسلمانوں نے بھر پور ہمت، شجاعت، جوانمردی اور اپنی بہترین جنگی قابلیتوں کا اظہار کیا.گھمسان کی لڑائی ہوئی.دونوں طرف سے نقصان ہوا مگر عجمی سپہ سالار کے قتل ہوتے ہی لڑائی کا خاتمہ ہو گیا.عراقی نہایت ابتری سے بھاگے.انہیں شدید شکست ہوئی.اس فتح کا عجمیوں پر خاص اثر ہوا.وہ دہشت زدہ ہو گئے.اس معرکہ کے بعد مسلمان عراق کے تمام علاقہ میں پھیل گئے لیکن قادسیہ کے معرکہ کے بعد پورا عراق مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا.یہ فتح عراق کی فتوحات کا خاتمہ تھی کیونکہ عراق کی حدیں یہاں ختم ہو جاتی تھیں.حضرت عمر نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو قادسیہ کا سپہ سالار مقرر فرمایا.جنگ قادسیہ مسلسل جنگوں میں شکست کی وجہ سے آخر رستم نے غضبناک ہو کر جنگ کرنے کا حکم دے دیا اور خود تمام رات جنگی تیاریوں میں مصروف رہا.صبح کے وقت قادسیہ کا میدان عجمی سپاہیوں سے آدمیوں کا جنگل نظر آنے لگا.جس کے پیچھے ہاتھیوں کے کالے کالے اور بڑے بڑے پہاڑ تھے جو کہ خوفناک سماں پیدا کر رہے تھے.دوسری طرف مجاہدین اسلام کالشکر جرار صف بستہ کھڑا تھا، اللہ اکبر کے نعروں سے جنگ شروع ہوئی ، دن بھر شدید جنگ جاری رہی ، شام کو جب تاریکی چھا گئی تو دونوں حریف اپنے اپنے خیموں میں واپس آئے ، قادسیہ کا یہ پہلا معرکہ تھا.قادسیہ کی دوسری جنگ معرکہ اغواث کے نام سے مشہور ہے.اس معرکہ میں شام کی چھ ہزار فوج مین جنگ کے وقت پہنچی اور حضرت عمر کے قاصد بھی جن کے ساتھ بیش قیمت تحائف تھے، عین جنگ کے موقع پر پہنچے اور پکار کر کہا ”امیر المومنین نے یہ انعام ان کے لئے بھیجا ہے جو اس کا حق ادا کریں.“ اس نے مسلمانوں کے جوش و خروش کو اور بھی بھڑ کا دیا ، تمام دن جنگ ہوتی رہی ، شام تک مسلمان دو ہزار اور ایرانی دس ہزار مقتول و مجروح ہوئے لیکن فتح وشکست کا کچھ فیصلہ نہ ہوا.
31 حضرت عمر حضرت عمر 30 تیسرا معرکہ یوم العماس کے نام سے مشہور ہے، اس میں مسلمانوں نے سب سے سراقہ کوکنگن پہنانے کا واقعہ پہلے کوہ پیکر ہاتھیوں سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کی ، کیونکہ ایرانیوں کے مقابلے میں مجاہدین اسلام کو ہمیشہ اس کالی آندھی سے نقصان پہنچا تھا، اگر چہ قعقاع نے اونٹوں پر سیاہ جھول ڈال کر ہاتھی کا جواب تیار کر لیا تھا.تا ہم یہ کالے دیو جس طرف جھک جاتے تھے ہجرت کے موقع پر جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق مدینہ کی طرف تشریف لے جارہے تھے تو چونکہ مکہ والوں نے یہ اعلان کر رکھا تھا کہ جو شخص محمد رسول صف کی صف پس جاتی تھی ، حضرت سعد بن ابی وقاص نے فخم وسلم وغیرہ پارسی نومسلموں الله ﷺ کو گرفتار کر کے لے آئے گا اسے سو اونٹیاں انعام میں دی جائیں گی اس لئے کئی سے اس سیاہ بلا کے متعلق مشورہ طلب کیا، انہوں نے کہا ان کی آنکھیں اور سونڈ بریکار کر دیئے جائیں، سعد نے قعقاع ، جمال اور ربیع کو اس خدمت پر مامور کیا.ان لوگوں نے ہاتھیوں کو نرغے میں لے لیا اور بر چھے مار مار کر آنکھیں بیکار کر دیں، قعقاع نے آگے بڑھ کرفیل سفید کی سونڈ پر ایسی تلوار ماری کہ سونڈ الگ ہو گئی ، جھرجھری لے کر بھاگا، اس کا بھا گنا تھا کہ تمام ہاتھی اس کے پیچھے ہو لئے ، اس طرح دم کے دم میں یہ سیاہ بادل چھٹ گیا.اب بہادروں کو حوصلہ افزائی کا موقع ملا، دن بھر ہنگامہ کا رزار گرم رہا، رات کے وقت بھی اس کا سلسلہ جاری رہا اور اس زور کا رن پڑا کہ نعروں کی گرج سے زمین دیل اٹھتی تھی ، اسی مناسبت سے اس رات کو لیلتہ الحریرہ کہتے ہیں، رستم پامردی اور استقلال کے ساتھ مقابلہ کرتا رہا، لیکن آخر میں زخموں سے چور ہو کر بھاگ نکلا اور ایک نہر میں کود پڑا کہ تیر کر نکل جائے.بلال نامی ایک مسلمان سپاہی نے تعاقب کیا اور ٹانگیں پکڑ کر نہر سے باہر کھینچ لایا اور تلوار سے کام تمام کر دیا ، رستم کی زندگی کے ساتھ سلطنت ایران کی قسمت کا بھی فیصلہ ہو گیا، ایرانی سپاہیوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی.قادسیہ کے معرکوں نے خاندان کسری کی قسمت کا آخری فیصلہ کر دیا ، ان کا جھنڈا ہمیشہ کے لئے سرنگوں ہو گیا اور اسلامی علم نہایت شان وشوکت کے ساتھ ایران کی سرزمین پر لہرانے لگا.لوگ آپ کو تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑے ہوئے.انہی لوگوں میں سراقہ بن مالک ایک بدوی رئیس بھی تھا جو انعام کے لالچ میں آپ کے پیچھے روانہ ہوا.جب اس نے آپ کو دیکھ لیا تو وہ خوشی سے پھولا نہ سمایا اور اس نے سمجھا کہ اب میں آپ کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جاؤں گا مگر اللہ تعالیٰ اسے اپنا نشان دکھانا چاہتا تھا.جب وہ آگے بڑھا تو اچانک اس کے گھوڑے نے ٹھوکر کھائی اور زمین پر گر گیا.سراقہ جو بعد میں مسلمان ہو گیا تھا وہ خود اپنا واقعہ بیان کرتا ہے کہ جب میں گھوڑے سے گرا تو عرب کے قدیم دستور کے مطابق میں نے اپنے تیروں سے فال لی کہ مجھے آگے بڑھنا چاہئے یا نہیں اور فال یہ نکلی کہ آگے نہیں بڑھنا چاہئے مگر انعام کے لالچ کی وجہ سے میں پھر گھوڑے پر سوار ہو کر آپ کے پیچھے دوڑا.جب میں آپ کے اور قریب پہنچا تو پھر میرے گھوڑے نے ٹھو کر کھائی اور میں نیچے گر گیا.اس وقت میں نے دیکھا کہ ریت میں گھوڑے کے پاؤں اتنے پھنس گئے تھے کہ ان کا نکالنا میرے لئے مشکل ہو گیا.آخر میں نے سمجھ لیا کہ خدا اس شخص کے ساتھ ہے.چنانچہ یا تو میں آپ کو گرفتار کرنے کے لئے آیا تھا یا خود آپ کا عقیدت مند اور شکار بن کر نہایت ادب کے ساتھ خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں اس ارادہ کے ساتھ آیا تھا مگر اب میں نے اپنا ارادہ تبدیل کر لیا ہے اور واپس جارہا ہوں کیونکہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ خدا آپ کے ساتھ ہے.جب سراقہ لوٹنے لگا تو معا اللہ تعالیٰ نے سراقہ کے آئندہ
32 حضرت عمر حالات زندگی آنحضور ﷺ پر غیب سے ظاہر فرما دیئے اور آپ نے اسے فرمایا.سراقہ اُس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب شہنشاہ ایران کے سونے کے کنگن تیرے ہاتھ میں ہوں گے.سراقہ نے حیران ہو کر کہا کسری بن ہرمز شہنشاہ ایران کے؟ آپ نے فرمایا ہاں! وہ حیرت اور استعجاب کا مجسمہ بن کر واپس چلا آیا مگر اللہ تعالیٰ کی شان دیکھو کہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں جب ایران فتح ہوا اور اس کے خزانے مسلمانوں کے قبضے میں آئے تو ان میں وہ کڑے بھی تھے جو شہنشاہ ایران تخت پر بیٹھتے وقت اپنے ہاتھوں میں پہنا کرتا تھا اور جو ہیروں اور جواہرات سے لدے ہوئے تھے.حضرت عمرؓ کے سامنے جب یہ کڑے رکھے گئے تو آپ کو فور ارسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ پیشگوئی یاد آ گئی اور آپ نے فرمایا سراقہ کو بلاؤ.سراقہ آئے ، حضرت عمرؓ نے کہا کہ کسریٰ کے کنگن لو اور اپنے ہاتھوں میں پہنو.چنانچہ سراقہ نے وہ کنگن لے کر اپنے ہاتھوں میں ڈالے اور اس طرح مسلمانوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عظیم الشان پیشگوئی کو اپنی آنکھوں سے پورا ہوتے دیکھا.( تفسیر کبیر جلد ششم صفحه ۴۵۳ - ۴۵۴) يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ ایران کی لڑائیوں کے سلسلے کا یہ مشہور واقعہ ہے کہ ایک جگہ پر مسلمانوں نے کافروں کو گھیرا ہوا تھا.حضرت ساریہ مسلمان فوجوں کے سپہ سالار تھے.ایک دن جب کافروں کو باہر سے مدد لی تو انہوں نے مسلمانوں پر اچانک حملہ کر دیا.اس حملے کے نتیجے میں مسلمانوں کو شدید نقصان ہو سکتا تھا.حضرت عمرؓ جو اس وقت مدینہ میں خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ان کو کشفاً یہ نظارہ دکھایا گیا.انہوں نے دوران خطبہ اونچی آواز میں فرمایا.يَا سَارِيَةُ الْجَبَلَ یعنی ساریہ پہاڑ کی طرف ہٹ جاؤ ، ساریہ پہاڑ کی طرف ہٹ جاؤ.خدا کی قدرت کہ یہ حضرت عمر 33 آواز جو مدینہ سے اٹھ رہی تھی ایران میں ہزاروں میل کی مسافت پر حضرت ساریہ اوران کی فوج نے سنی اور پہاڑ کی طرف ہٹ گئے اور اس کے ساتھ ہی مسلمان جنگ جیت گئے.فتح شام حضرت عمر کمسند خلافت پر متمکن ہوئے تو اس وقت دمشق محاصرہ میں تھا.حضرت خالد بن ولید نے اپنی جنگی مہارت کی وجہ سے اس کو فتح کر لیا.رومی دمشق کی شکست کی وجہ سے سخت برہم ہوئے اور ہر طرف سے فوجیں جمع کر کے مقام بیسان میں مسلمانوں کے مقابلہ کے لئے جمع ہوئے.مسلمانوں نے فحل مقام پر پڑاؤ ڈالا.خونریز معرکہ پیش آیا اور دشمن کے پاؤں اکھڑ گئے.اس طرح مسلمان اردن کے تمام مقامات پر قابض ہو گئے.فتوحات کا یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ مسلمانوں نے ہر قل کے پایۂ تخت انطاکیہ کا رخ کیا مگر حضرت عمرؓ نے حکم دیا کہ اس سال آگے بڑھنے کا ارادہ نہ کیا جائے.خطرناک وبا کا پھیلنا کا چھ میں شام، مصر اور عراق کے علاقوں میں نہایت ہی خوفناک اور جان لیوا بیماری پھیلی جس نے تھوڑے ہی عرصہ میں کثیر تعداد میں لوگ فوت ہوئے.حضرت عمرؓ کو جب یہ خبر پہنچی تو اس کی تدبیر اور انتظام کے لئے خود روانہ ہوئے.سرخ کے مقام پر پہنچ کر سپہ سالار حضرت ابو عبیدہ بن الجراح سے معلوم ہوا کہ بیماری کی شدت میں اضافہ ہورہا ہے.مهاجرین وانصار کو بلایا اور رائے طلب کی مہاجرین نے یک زبان ہو کر کہا کہ آپ کا یہاں ٹھہر نا مناسب نہیں.حضرت عمرؓ نے حضرت عباس کو حکم دیا کہ پکار دے دیں کہ کل کوچ کے لئے تیار رہیں.
34 حضرت عمر مسلمانوں نے جابیہ میں جا کر قیام کیا.جو آب و ہوا کی خوبی میں مشہور تھا.اس کے بعد حضرت عمر تو مدینہ واپس چلے گئے لیکن لشکر وہیں ٹھہرا.جابیہ پہنچ کر حضرت ابوعبیدہ جو لشکر کے سپہ سالار تھے اس وبا سے بیمار ہو گئے اور جلد وفات پاگئے.ان کے علاوہ اور بھی بہت سے مسلمان اس وبا کا لقمہ بنے جن میں بعض بڑے درجہ کے صحابہ بھی شامل تھے.اب فوج کے سپہ سالار حضرت عمرو بن العاص مقرر ہوئے.انہوں نے لشکر کو پہاڑوں میں ادھر ادھر پھیل جانے کو حکم دیا.اس تدبیر سے وبا کا خطرہ جا تا رہا.حضرت عمرؓ کو ان حالات سے اطلاع ہوتی رہتی تھی اور مناسب احکام بھیجتے رہتے تھے.اس قیامت خیز و با کی وجہ سے فتوحات اسلام کا سیلاب دفعہ رک گیا.حضرت عمرؓ نے ان حالات سے مطلع ہو کر شام کا قصد کیا.حضرت علی کو مدینہ میں اپنا قائم مقام مقرر فرمایا اور خود ایلہ کوروانہ ہوئے.ایلہ پہنچ کر دو ایک روز قیام کیا.کرنہ جو زیب بدن تھا کجاوے کی رگڑ کھا کر پیچھے سے پھٹ گیا تھا ایلہ کے پادری کے حوالہ کیا اس نے خود اپنے ہاتھ سے پیوند لگائے اور اس کے ساتھ ایک نیا کر یہ بھی تیار کر کے پیش کیا لیکن حضرت عمرؓ نے اپنا کرتہ پہن لیا اور فرمایا اس میں پسینہ خوب جذب ہوتا ہے.ایلہ سے دمشق آئے اور شام کے اکثر اضلاع میں دودو چار چار دن قیام کر کے مناسب انتظام کئے.فوج کی تنخواہیں تقسیم کیں.جو لوگ وبا میں ہلاک ہو گئے تھے ان کے دور و نزدیک کے وارثوں کو بلا کر ان کی میراث دلائی.سرحدی مقامات پرفوجی چھاؤنیاں قائم کیں.بیت المقدس کی فتح حضرت عمرؓ نے فلسطین کی مہم پر حضرت عمرو بن العاص کو مقررفرمایا.آپ نے ۱۲ھ میں بیت المقدس کا محاصرہ کیا.کچھ دنوں کے محاصرے کے بعد عیسائی مصالحت پر راضی حضرت عمر 35 ہو گئے اور اطمینان کے لئے یہ خواہش ظاہر کی کہ امیر المؤمنین خود یہاں آ کر اپنے ہاتھ سے معاہدہ لکھیں.حضرت عمرؓ کا سفر بیت المقدس جب اس معاہدے کی خبر حضرت عمرؓ کو دی گئی تو آپ نے اکابر صحابہ سے مشورہ کر کے حضرت علی کو قائمقام مقرر فرمایا اور رجب ۱۶ھ کو مدینہ سے بیت المقدس کے لئے روانہ ہوئے.آپ کا یہ سفر نہایت سادگی سے ہوا.جاہیہ کے مقام پر افسروں نے استقبال کیا اور دیر تک قیام کر کے بیت المقدس کا معاہدہ صلح ترتیب دیا.پھر وہاں سے روانہ ہو کر بیت المقدس میں تشریف لے گئے.وہاں سیر کی.نماز کا وقت ہوا تو انہوں نے گرجا میں نماز پڑھنے کی اجازت دی لیکن حضرت عمرؓ نے اس خیال سے کہ آئندہ نسلیں اس کو حجت قرار دے کر مسیحی معبدوں میں دست اندازی نہ کریں باہر نکل کر نماز پڑھی.بیت المقدس سے واپسی کے وقت حضرت عمر نے تمام ملک کا دورہ کیا.سرحدوں کا معائنہ کر کے ملک کی حفاظت کا انتظام کیا اور بخیر و خوبی مدینہ واپس تشریف لائے.مصر اور دریائے نیل مصر کے گورنر حضرت عمرو بن العاص نے آپ کی خدمت میں تحریر کیا کہ یہاں یہ رواج ہے کہ جس سال دریائے نیل میں پانی کم آئے اس سال یہ لوگ کسی نوجوان لڑکی کو زیورات وغیرہ پہنا کر ، بنا سنوار کر نیل کی لہروں کی نذر کرتے ہیں اور اس سال بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے دریا میں پانی نہیں ہے جس وجہ سے مصر کی زمین زرخیزی سے محروم ہے اور لوگوں نے نقل مکانی شروع کر دی ہے.حضرت عمر نے جواباً لکھا کہ اسلام میں یہ ہرگز نہ
36 36 حضرت عمر ہوگا.اسلام پہلی بدعتوں اور لغو باتوں کو ختم کرنے کے لئے آیا ہے.حضرت عمرؓ نے حضرت عمر و بن العاص کو جو خط بھجوایا اس کے ساتھ ایک رقعہ بھی تھا فر مایا میرا یہ رقعہ دریائے نیل میں پھینک دینا.اس کی عبارت یہ تھی: ”اللہ کے بندے عمر امیر المؤمنین کی جانب سے نیل مصر کے نام.دیکھ اگر تو اپنی منشاء سے طغیانی لاتا تھا تو بے شک نہ لا لیکن اگر خدا تجھے میں طغیانی لاتا تھا تو میں خدائے واحد و قہار سے دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھ میں طغیانی لے آئے.یہ رقعہ ان کے مخصوص دن سے ایک روز قبل نیل میں پھینک دیا گیا.اگلی صبح اہل مصر نے دیکھا نیل میں طغیانی آچکی تھی اور قحط سالی دور ہونے کے سامان ہو گئے.دیگر فتوحات حضرت عمرؓ کے زمانہ خلافت میں جو معروف علاقے فتح کئے گئے.ان میں جلولاء عراق کا علاقہ ) نخل ( دمشق کا علاقہ ) جمع ( شام کا علاقہ ) ، یرموک، قیساریہ ( فلسطین کا علاقہ ) ، آذربائیجان، طبرستان، آرمینیا، کرمان، سیستان، مکران، خراسان ، مصر اور اسکندریہ معروف ترین علاقے ہیں.ان فتوحات کی وجہ سے ان تمام علاقوں میں اسلام پھیل گیا.حضرت عمرؓ کی شہادت مدینہ میں فیروز نام کا ایک پارسی غلام تھا.جس کی کنیت ابولولو تھی.اس نے ایک دن حضرت عمرؓ سے آکر شکایت کی کہ میرے آقا مغیرہ بن شعبہ نے مجھ پر بہت بھاری محصول مقرر کیا ہے.آپ کم کرادیجئے.حضرت عمر نے تعداد پوچھی اس نے کہا کہ روزانہ دو درہم، حضرت عمر 37 حضرت عمرؓ نے پوچھا تمہارا پیشہ کیا ہے، بولا کہ نجاری، نقاشی ، آہن گری.فرمایا کہ ان صنعتوں کے مقابلے میں یہ رقم زیادہ نہیں ہے.فیروز دل میں سخت ناراض ہو کر چلا گیا.دوسرے دن حضرت عمرؓ صبح کی نماز کے لئے نکلے تو فیروز خنجر لے کر مسجد میں آیا.حضرت عمر کے حکم سے کچھ لوگ اس کام پر مقرر تھے کہ جب جماعت کھڑی ہو تو صفیں درست کریں.جب صفیں درست ہو چکتیں تو حضرت عمرؓ تشریف لاتے اور امامت کراتے تھے.اس دن بھی حسب معمول صفیں درست ہو چکیں تو حضرت عمر امامت کے لئے بڑھے اور جوں ہی نماز شروع کی.فیروز نے جو انتظار میں تھا دفعہ چھ وار کئے.حضرت عمرؓ نے فوراً حضرت عبدالرحمن بن عوف کا ہاتھ پکڑ کر اپنی جگہ کھڑا کر دیا اور خود زخم کی وجہ سے گر پڑے.فیروز نے اور لوگوں کو بھی زخمی کیا، لیکن بالآ خر پکڑ لیا گیا اور ساتھ ہی اس نے خود کشی کر لی.حضرت عمرؓ کو لوگ اٹھا کر گھر لائے.سب سے پہلے انہوں نے پوچھا کہ ” میرا قاتل کون تھا، لوگوں نے کہا.فیروز.فرمایا کہ الحمداللہ میں ایسے شخص کے ہاتھ سے نہیں مارا گیا جو اسلام کا دعویٰ رکھتا تھا.لوگوں کو خیال تھا کہ زخم زیادہ کاری نہیں ہے اور غالباً شفاء ہو جائے گی.چنانچہ طبیب بلایا گیا.اس نے دودھ پلایا تو وہ زخم سے باہر نکل آیا.اُس وقت لوگوں کو یقین ہو گیا کہ وہ زخم سے جان بر نہیں ہو سکتے.حضرت عمرؓ نے اپنے فرزند حضرت عبداللہ کو بلا کر کہا کہ ام المومنین حضرت عائشہ کے پاس جاؤ اور کہو کہ عمر آپ سے اجازت طلب کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں دفن کیا جائے.حضرت عبداللہ حضرت عائشہ کے پاس آئے.وہ رورہی تھیں.سلام کہا اور حضرت عمرؓ کا پیغام پہنچایا.حضرت عائشہ نے کہا کہ اس جگہ کو میں اپنے لئے محفوظ رکھنا چاہتی تھی.لیکن آج میں حضرت عمر کو اپنے اوپر ترجیح دوں گی.عبداللہ واپس آئے لوگوں
38 حضرت عمرؓ نے حضرت عمرؓ کو خبر کی.بیٹے کی طرف مخاطب ہوئے اور کہا کہ کیا خبر لائے؟ انہوں نے کہا 66 کہ ”جو آپ چاہتے تھے.“ حضرت عمرؓ فرمایا کہ یہی سب سے بڑی آرزہ تھی.“ حضرت عمرؓ کو قوم اور ملک کی بہبود کا جو خیال تھا اس کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ عین کرب و تکلیف کی حالت میں جہاں تک ان کی قوت وحواس نے ساتھ دیا اسی دھن میں مصروف رہے.لوگوں کو مخاطب کر کے کہا جو شخص خلیفہ منتخب ہو اس کو میں وصیت کرتا ہوں کہ پانچ قسم کے لوگوں کے حقوق کا نہایت خیال رکھے.مہاجرین، انصار، اعراب ( اہل عرب جو دوسرے شہروں میں جا کر آباد ہو گئے تھے ) ، اہل ذمہ ( یعنی عیسائی، یہودی، پارسی جو اسلامی مملکت کی رعایا تھے.پھر ہر ایک کے حقوق کی وضاحت کی.حضرت عمرؓ تین دن کے بعد انتقال فرما گئے اور محرم کی پہلی تاریخ ہفتہ کے دن مدفون ہوئے.نماز جنازہ حضرت صہیب نے پڑھائی.حضرت عثمان ، حضرت علی، حضرت عبدالرحمن ، حضرت سعد بن ابی وقاص نے قبر میں اتارا.ازواج واولاد حضرت عمرؓ نے مختلف اوقات میں متعدد نکاح کئے ، آپ کی ازواج کی تفصیل یہ ہے.زینب: ہمشیرہ حضرت عثمان بن مظعون ، مکہ میں مسلمان ہو کر فوت ہوئیں.عاتکہ بنت زید: ان کا نکاح پہلے عبداللہ بن ابی بکر سے ہوا تھا، پھر حضرت عمرؓ کے نکاح میں آئیں.ام کلثوم : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نواسی اور حضرت علی و فاطمہ کی بیٹی تھیں، حضرت عمرؓ نے خاندانِ نبوت سے تعلق پیدا کرنے کے لئے ان سے حضرت عمر کا ھ میں چالیس ہزار مہر پر نکاح کیا.39 ملیکتۃ بنت جرول الخزاعی: مشرکہ ہونے کی وجہ سے ان کو بھی طلاق دے دی.ام حکیم بنت الحارث بن هشام المتز وی حضرت عمرؓ کی اولاد میں حضرت حفصہ اس لحاظ سے سب سے ممتاز ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات میں داخل تھیں، حضرت عمرؓ نے اپنی کنیت بھی ان ہی کے نام پر رکھی تھی.بیٹوں کے نام یہ ہیں.عبداللہ ، عبید اللہ ، عاصم ، ابوشحمہ ، عبدالرحمن ، زید ، مجیر.ان سب میں عبداللہ عبید اللہ اور عاصم اپنے علم وفضل اور مخصوص اوصاف کے لحاظ سے زیادہ مشہور ہیں.
41 حضرت عمر حضرت عمرؓ 40 آپ کے کارنامے اسلامی ریاست کو غیر معمولی وسعت دینے کے عظیم الشان کام کے علاوہ حضرت عمرؓ نے کئی ایسے اہم کام کئے کہ جو اسلام جیسی عظیم الشان عمارت کے لئے بنیادی پتھر کی حیثیت رکھتے ہیں.استحکام خلافت خلافت کے نظام کو حضرت عمر نے مزید مستحکم کیا.اس میں ایک مجلس شوری قائم فرمائی.جس میں تمام ملکی و قومی مسائل طے پاتے.اس مجلس میں مہاجرین وانصار کے منتخب اہل الرائے شامل ہوتے تھے.احتساب خلیفہ وقت کا بہت بڑا کام قوم کی حفاظت، ان کو اخلاق حسنہ پر کار بند کرنا، اور برے اخلاق سے بچانا ہوتا ہے.اسی طرح حکام کی نگرانی کرنا بھی ایک اہم ذمہ داری ہے.حضرت عمر اس فرض کو نہایت اہتمام سے انجام دیتے تھے.وہ اپنے ہر عامل ( گورنر ) کو بہت سادہ رہنے کی تلقین کرتے اور عہد لیتے تھے کہ ترکی گھوڑے پر سوار نہ ہوگا.بار یک کپڑے نہ پہنے گا.چھنا ہوا آٹا نہ کھائے گا.دروازہ پر دربان نہ رکھے گا.ضرورت مند کے لئے دروازہ ہمیشہ کھلا رکھے گا اور اس بات کا جائزہ لیتے رہتے تمام عامل دیانتداری پر قائم ہیں اور لوگوں کے حقوق ادا کر رہے ہیں.ملکی نظم ونسق شام و ایران کی فتوحات کے بعد حضرت عمر نے ان تمام علاقوں میں بہترین ملکی نظام قائم فرمایا.عراق کی پیمائش کرائی، قابل زراعت اراضی کا بندوبست کیا.عشر وخراج کا طریقہ قائم کیا.تجارت پر محصول چنگی لگائی.تمام ملک میں مردم شماری کرائی.اضلاع میں با قاعدہ عدالتیں قائم کیں.محکمہ قضا کے اصول وقوانین بنائے.بیت المال حضرت عمر سے قبل بیت المال یعنی خزانہ کا وجود نہ تھا.بلکہ جو مال غنیمت آتا یا جو بھی مال آتا اس کو اسی وقت تقسیم کر دیا جاتا.حضرت عمرؓ نے بیت المال قائم فرمایا اور حضرت عبداللہ بن مسعود کو خزانہ کا افسر مقرر کیا.اس زمانے میں بیت المال کی وسعت کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ دارالخلافہ کے باشندوں کی جو تنخواہیں اور وظائف مقرر تھے صرف ان کی تعداد تین کروڑ درہم تھی.نئے شہروں کی آبادکاریاں نے فتح ہونے والے علاقوں میں حضرت عمرؓ نے کئی نئے شہر آباد کر وائے.ان میں بصرہ، کوفہ ، فسطاط، موصل نام کے شہر معروف ہیں.نہروں کا قیام شہروں کے قیام کے علاوہ حضرت عمر نے نہروں کے قائم کرنے کی طرف توجہ کی تاکہ زراعت زیادہ سے زیادہ ترقی کر سکے اور شہروں میں پانی با آسانی دستیاب ہو سکے.
43 حضرت عمر حضرت عمر 42 نہرابی موسیٰ: یہ نہر دریائے دجلہ سے بصرہ شہر کے لئے کھودی گئی اور 9 میل لمبی تھی.نہر معقل : یہ نہر بھی دریائے دجلہ سے نکالی گئی اس کا اہتمام چونکہ ایک صحابی رسول معقل بن یسار نے کیا تھا اس لئے اس کا نام معقل مشہور ہوا.نہرا امیر المؤمنین: یہ سب سے بڑی اور نفع رساں نہر تھی اس میں دریائے نیل کو بحر قلزم سے ملایا گیا تھا.اس کے ساتھ ہی بحر روم کو بحر قلزم کے ساتھ ملانے کی تجویز بھی زیر غور تھی جو کہ نہر سویز ہوتی مگر بعض حکمتوں کے پیش نظر حضرت عمرؓ نے اس کام کو روک دیا.تعلق باللہ سیرت فاروقی کی چند جھلکیاں حضرت عمر کی سیرت میں خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق کا وصف نمایاں طور پر نظر آتا ہے.آپ خشوع و خضوع کے ساتھ رات کو اٹھ کر نمازیں ادا فرماتے اور صبح ہونے کے قریب گھر والوں کو جگاتے اور اس آیت کی تلاوت فرمایا کرتے وَأَمُرُ أَهْلَكَ بِالصَّلوةِ.مؤطا امام مالک) نماز میں عموماً قرآن مجید کی ایسی سورتیں تلاوت فرماتے کہ جن میں خدا کی عظمت و جلال کا بیان ہوتا اور اس قدر متاثر ہوتے کہ روتے روتے ہچکی بندھ جاتی.حضرت امام حسن کا بیان ہے کہ ایک دفعہ حضرت عمر نماز پڑھ رہے تھے جب اس آیت پر پہنچے اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌ مَّالَهُ مِنْ دَافِع یعنی تیرے رب کا عذاب یقینی ہو کر رہنے والا ہے اس کو کوئی دور کرنے والا نہیں.تو بہت متاثر ہوئے اور روتے روتے آپ کی آنکھیں سوج گئیں.حضرت رسول کریم کے ساتھ محبت (کنز العمال) ایک دفعہ حضرت عمر نے آنحضور عالے سے عرض کی کہ یا رسول اللہ میں اپنی جان کے سوا حضور کے ساتھ تمام دنیا سے زیادہ محبت رکھتا ہوں.حضور نے جواب دیا میری محبت اپنی جان سے بھی زیادہ ہونی چاہئے.حضرت عمر نے جواب دیا حضور اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں.(فتح الباري)
44 حضرت عمر ایک دفعہ حضرت عمرؓ حضور کے پاس حاضر ہوئے.حضور کھجور کی ایک معمولی چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے.یہ دیکھ کر حضرت عمر کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.عرض کیا کہ قیصر و کسریٰ اُس آرام میں اور خدا کے رسول کی یہ بے سروسامانی.اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا.عمر! میری مثال اس دنیا میں ایک مسافر کی ہے.آرام کے لئے ذرا لیٹ لیا پھر اپنی منزل کی طرف چل دیا.حضرت ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے وصال کے وقت میں آپ کی چار پائی کے پاس تھا کہ ایک شخص نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر حضرت عمرؓ سے مخاطب ہوکر کہا.اللہ آپ پر رحم فرمائے.مجھے اُمید ہے کہ اللہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ رکھے گا.میں اکثر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانِ مبارک سے سنا کرتا تھا.آپ فرماتے میں تھا اور ابو بکر اور عمر.میں نے اور ابو بکر اور عمر نے کہا.میں اور ابو بکر اور عمر گئے.مجھے امید ہے اللہ آپ کے ساتھ ان دونوں کو رکھے گا.“ ایک دن نماز کے وقت حضرت بلال سے درخواست کی کہ آج اذان دو.حضرت بلال نے کہا کہ میں عزم کر چکا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لئے اذان نہ دوں گا.لیکن آج ( اور صرف آج) آپ کا ارشاد بجالا ؤں گا.اذان دینی شروع کی تو تمام صحابہ کو رسول کریم کا عہد مبارک یاد آ گیا اور رقت طاری ہوگئی.ابوعبیدہ و معاذ بن جبل روتے روتے بیتاب ہو گئے ، حضرت عمر کی پیچکی بندھ گئی اور دیر تک یہ اثر رہا.حضرت عمرؓ کی آنحضرت کے ساتھ انتہائی محبت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا واقعہ رونما ہوا تو آپ کو یقین نہ آتا تھا اور حضرت عمر 45 حالت وارفتگی میں بار بار کہتے تھے کہ جو کہے گا حضور فوت ہو گئے ہیں میں اس کا سرتن سے جدا کر دوں گا.محبوب کا عزیز بھی عزیز ہوا کرتا ہے.حضرت عمر نے اپنے خلافت کے قیام میں صحابہ کے جو وظائف مقرر کئے ان میں اسامہ بن زید کا وظیفہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے زیادہ تھا.اسی طرح جب مدائن کی فتح کے بعد مال غنیمت آیا تو حضرت عمر نے حضرت حسن اور حضرت حسین کو ہزار ہزار درہم دیئے جبکہ اپنے بیٹے عبداللہ کو صرف ۵۰۰ درہم ، حضرت عبداللہ نے کہا کہ اس وقت یہ دونوں بچے تھے جب میں حضور کے ساتھ غزوات میں شامل ہوا.حضرت عمرؓ نے فرمایا: درست لیکن ان کے بزرگوں کا جو رتبہ ہے وہ تیرے باپ دادا کا نہیں.اتباع سنت (مستدرک) آپ حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی پیروی کرنے کا خاص اہتمام فرمایا کرتے.ایک مرتبہ جب حج کے لئے تشریف لے گئے تو حجر اسود کو بوسہ دیا اور اس کے ساتھ فرمایا: میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے.نہ نقصان پہنچا سکتا ہے نہ نفع ، اگر میں رسول اللہ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھتا تو تجھے ہرگز بوسہ نہ دیتا.“ حضرت عمرؓ قبا میں رہائش رکھتے تھے جو کہ مدینہ سے کچھ فاصلے پر تھا.روزانہ مدینہ آنا ممکن نہ ہوا کرتا.چنانچہ حضرت عمر نے اپنے دینی بھائی حضرت عتبان بن مالک کے ساتھ یہ مستقل طے کیا ہوا تھا کہ ایک دن حضرت عمرؓ مدینہ تشریف لائیں گے اور حضور کی مجلس میں رہیں گے اور دوسرے دن حضرت عتبان بن مالک آئیں گے اور وہ حضور کی مجلس میں رہیں گے.اس طرح دونوں باری باری حضور کے پاس ہوتے اور پھر ایک دوسرے کو حضور کے
46 حضرت عمر اس روز کے تمام واقعات بیان کر دیتے.اس سے غرض یہ تھی کہ حضور کی سنت کا کوئی عمل ایسا نہ رہ جائے جو ہمارے علم میں نہ ہو اور ہم اس پر عمل نہ کر سکیں.حضرت عمر ذوالحلیفہ میں دو رکعت نماز صرف اس لئے پڑھا کرتے کہ آپ نے حضور کو ایک مرتبہ اس مقام پر نماز پڑھتے دیکھا تھا.حضرت عمرؓ کے صائب الرائے ہونے پر خدا کی تائید حضرت عمرؓ کے صائب الرائے ہونے پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ آپ کی اکثر حضرت عمر 47 کہا کہ اسے لے جاؤ اس کے ختم ہونے سے پہلے اللہ فضل کر دے گا.ساتھی نے عرض کی کہ آپ نے اسے بہت زیادہ دے دیا ہے.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ میں نے اس کے باپ اور بھائی کی خدمات دیکھی ہیں.اسے تول اور ماپ کر دیں یہ مناسب نہیں ہے.اسی طرح ایک مرتبہ آپ رات کو گشت کر رہے تھے دیکھا ایک مکان میں بچے اور ہے ہیں.چولہے پر ہنڈیا دھری ہے.حضرت عمر نے بچوں کے رونے کی وجہ دریافت کی تو عورت نے جواب دیا کہ بچے بھوک کے سبب رور ہے ہیں.آپ نے فرمایا آگ پر ہنڈیا دھری ہے.اس میں کیا ہے؟ عورت نے جواب دیا اس میں پانی ڈالا ہے ان کو بہلانے کے آراء مذہبی احکام بن گئیں.آپ انتہائی درجہ کے نکتہ رس واقعہ ہوئے.امام سیوطی نے اپنی کتاب تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ کم از کم ۲۱ مقامات ایسے ہیں کہ جہاں حضرت عمر کی خدا کے احکام سے موافقت ہوئی.مقام ابراہیم کو مصلی بنانے کے بارے میں.پردے کے بارے اور خصوصاً از واج مطہرات کے پردے کے بارے میں وغیرہ.خبر گیری خلیفۃ الرسول ہونے کے ناطے حضرت عمرؓ اس بات کے لئے ہر وقت بے چین رہتے کہ کہیں ان کی قوم میں سے کوئی فرد تکلیف میں نہ ہو.ایک رات زید بن اسلم کو ساتھ لے کر حضرت عمر باہر نکلے.راستہ میں ایک عورت ملی اس نے عرض کی کہ حضور! میرے خاوند فوت ہو گئے ہیں.میرے چھوٹے چھوٹے بچے بھوکے ہیں.ہمارا ذریعہ آمدنی کوئی نہیں ہے.میں حناف بن ایمن غفاری کی بیٹی ہوں جو حدیبیہ کے مشہور تاریخی موقع پر موجود تھے.حضرت عمرؓ نے یہ سنا تو گھر آئے.ایک پر کھانے پینے کا سامان اور کپڑے وغیرہ لا دے اور اونٹ کی نکیل اس عورت کے ہاتھ تھا کر لئے اسے ہلا دیتی ہوں.یہ اس طرح انتظار کرتے کرتے سو جائیں گے.حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے.اسی وقت بیت المال گئے.ایک تھیلے میں کھانے پینے کی اشیاء، کپڑے اور کچھ درہم ڈالے اور اپنے ساتھی زید بن اسلم کو کہا کہ یہ بوجھ میرے کندھے پر رکھ دو یہ بوجھ اٹھا کر آپ خود اس عورت کے گھر پہنچے.ہنڈیا میں کچھ آٹا ، کچھ چر بی اور کھجور میں ڈال کر حریرہ پکانا شروع کیا.جب ہنڈیا پک گئی تو بچوں کو کھانا کھلا کر وہاں سے رخصت ہوئے.انفاق فی سبیل الله (اسدالغابه) ایک دفعہ آنحضرت نے مالی تحریک فرمائی.صحابہ نے اس پر لبیک کہا حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ آج میں ابو بکر سے سبقت لے جاؤں گا.میں گھر گیا اور آدھا مال لا کر حضور کی خدمت میں پیش کر دیا.حضرت ابو بکر آئے اور سارا مال جو گھر میں موجود تھا لے آئے.حضور نے فرمایا کہ گھر کیا چھوڑ آئے ہو.عرض کی کہ اللہ اور اس کا رسول.
49 حضرت عمرؓ 48 حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں نے یہ کیفیت دیکھی تو کہا میں اس شخص سے کبھی سبقت نہیں لے جا سکتا اور ابوبکر سے اس موقع پر کہا کہ ابوبکر میرے اہل اور میری جان آپ پر قربان ، بھلائی اور نیکی کا جو بھی دروازہ کھلا آپ اس میں داخل ہونے کے لئے ہم سے سبقت لے گئے.فتح خیبر کے موقع پر آنحضرت نے خیبر کی زمین مجاہدین میں تقسیم کی.چنانچہ ایک ٹکڑا جمع نامی حضرت عمرؓ کے حصہ میں آیا.حضرت عمرؓ نے اسے راہ خدا میں وقف کر دیا.تواضع و انکساری حضرت عمرؓ کی عظمت اور رعب کا یہ عالم تھا کہ بڑی بڑی سلطنتوں کے بادشاہ بھی آپ کا نام سن کر تھراتے تھے.دوسری طرف تواضع اور انکساری کا یہ عالم تھا کہ کاندھے پر مشک رکھ کر بیوہ عورتوں کے لئے پانی بھرتے تھے.مجاہدین کی بیویوں کا بازار سے سودا سلف خرید کرلا دیتے تھے.پھر اس حالت میں تھک کر مسجد کے گوشہ میں لیٹ جاتے تھے.حضرت عمرؓ ا کثر سفر پر نکلتے مگر کبھی بھی آپ کے ساتھ خیمہ نہ ہوا کرتا بلکہ درخت کے سایہ تلے زمین پر آرام فرمالیا کرتے.سفر شام کے موقع پر مسلمانوں نے اس خیال سے کہ عیسائی امیر المومنین کے معمولی لباس اور بے سروسامانی کو دیکھ کر اپنے دل میں کیا کہیں گے؟ سواری کے لئے ترکی گھوڑا اور پہننے کے لئے قیمتی لباس پیش کیا.حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ خدا نے ہم کو جو عزت دی ہے وہ اسلام کی عزت ہے اور ہمارے لئے یہی کافی ہے.ایک مرتبہ صدقہ کے اونٹوں کے بدن پر تیل مل رہے تھے.ایک شخص نے کہا امیر المومنین یہ کام کسی غلام سے لیا ہوتا.جواب دیا مجھ سے بڑھ کر کون غلام ہوسکتا ہے.جوشخص مسلمانوں کا والی ہے وہ ان کا غلام ہے.(کنزالعمال) رحمدلی 1ھ میں جب عرب میں قحط پڑا تو اس وقت حضرت عمر کی بے قراری دیکھنے کے قابل تھی.دور دراز ممالک سے غلہ منگوا کر تقسیم کیا.گوشت، گھی اور دوسری مرغوب غذا ئیں اپنی ذات کے لئے ترک کر دیں.خدمت خلق (کنز العمال) حضرت عمر اپنی غیر معمولی مصروفیات میں سے بھی مجبور اور بے کس اور اپاہج آدمیوں کی خدمت گزاری کے لئے وقت نکال لیا کرتے تھے.مدینے کے اکثر نابینا اور ضعیف اشخاص حضرت عمرؓ کی خدمت گزاری کے ممنون تھے.خلوص کا یہ عالم تھا کہ خود ان لوگوں کو خبر بھی نہ تھی کہ یہ فرشتہ رحمت کون ہے؟ حضرت طلحہ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز صبح سویرے امیر المومنین کو ایک جھونپڑے میں جاتے دیکھا.خیال ہوا حضرت عمرؓ کا یہاں کیا کام؟ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ اس میں ایک نابینا ضعیفہ رہتی ہے اور وہ روزانہ اس کی خبر گیری کے لئے جایا کرتے ہیں.اولیات عمر حضرت عمرؓ نے اپنے ۱۰ سالہ دورِ خلافت میں عوام الناس کی فلاح و بہبود کے لئے بعض ایسے کام جاری کروائے جن کی نظیر پہلے نہیں ملتی اس لئے ان کو مؤرخین اولیات عمر کے نام سے یاد کرتے ہیں.بیت المال یعنی خزانہ قائم کیا.عمال عدالتیں قائم کیں اور قاضی مقرر کئے.
51 50 ہجری سنہ قائم کیا جو آج تک جاری ہے.فوجی رجسٹر ترتیب دیا.فوجی چھاؤنیاں قائم کیں.ید شہروں کی پیمائش کروائی.مردم شماری کرائی.☆ ☆ حمد نہریں کھدوائیں.حمد نئے شہر آباد کیے یعنی کوفہ، بصرہ ، فسطاط، موصل.جی ممالک مقبوضہ کو صوبوں میں تقسیم کیا.حمد جیل خانہ قائم کیا.راتوں کو گشت کر کے رعایا کے دریافت احوال کا طریقہ نکالا.پولیس کا محکمہ قائم کیا.مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک مسافروں کے آرام کے لئے سرائیں بنوائیں.مختلف شہروں میں مہمان خانے تعمیر کرائے.مکاتب قائم کئے.معلموں اور مدرسوں کے وظیفے اور تنخواہیں مقرر کیں.حضرت ابو بکر کو قرآن مجید کے ایک جگہ جمع کرنے کا مشورہ دیا اور اپنے اہتمام سے اس کام کو پورا کیا.قیاس کا اصول قائم کیا.فجر کی آذان میں اَلصَّلوةُ خَيْرٌ مِّنَ النَّوْمِ کا اضافہ کیا.حمله نماز تراویح با جماعت شروع کروائی.شراب کی سزا کے لئے اسی (۸۰) کوڑے مقرر کئے.
نام کتاب حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ...دوم حضرت عمر