Language: UR
حضر ت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ایسے چند افراد میں سے تھے جو زندگی کی ہر قسم کی آسائش میسر ہونے کے باوجود امام وقت کو قبول کرکے ہر قسم کی تنگی کو برداشت پر آمادہ ہوگئے۔ پھر بڑے بڑے ابتلاء بھی آئے لیکن آپ کے پائے استقلال میں لغرش نہ آئی۔ آپ کو یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بڑی صاجزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ؓ آپ کے عقد میں آئیں۔ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی محبت اور پیار کی نظروں کے مورد بننے والے اس وجود کے حالات زندگی کا مطالعہ بہت سوں کے لئے غفلت کی چادریں اتارنے والا بنے گا۔
حضرت نواب محمد علی خان صاحب حضرت نواب محمد علی خان صاحب“ سلسلہ احمدیہ کے ابتدائی عشاق اور بزرگان کے حالت پڑھنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح اس پیغام کی سچائی کو قبول کرنے کے لئے انہوں نے اپنی جان، مال ، وقت اور عزت پر اس سچائی کو ترجیح دی اور تمام تر قربانیوں کے باوجود اس نور سے چھٹے رہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتارا گیا.حضرت نواب محمد علی خان صاحب بھی سلسلہ کے ایسے ہی بزرگان میں سے ہیں.جنہیں حضرت مسیح موعود کا شرف دامادی حاصل ہوا.جو حضور کی لخت جگر اور پاک بیٹی کے شوہر بنے.جن کا خاندان حضرت اقدس سے ایک رشتہ آپ کے بیٹے کی وجہ سے بھی بنا اور ایک رشتہ آپ کی بیٹی کی وجہ سے بھی قائم ہوا.اور ان تمام پاک رشتوں کے نیک اور پاکیزہ اثرات آج تک قائم ہیں.یہ وہ وجود ہیں جن کی باتیں اور یادیں دل کو نیکیوں کی طرف مائل کرتی ہیں.جنہیں سن کر خدایاد آتا ہے.جنہیں پڑھ کر روحانیت ترقی کرتی ہے.
1 پیش لفظ حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ ایسے چند افراد میں سے ہیں جو زندگی کی ہر قسم کی آسائش میسر ہونے کے باوجود امام وقت کو قبول کر کے ہر قسم کی تنگی کو برداشت کرنے پر آمادہ ہو گئے.پھر بڑے بڑے ابتلاء بھی آئے لیکن آپ کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی.آپ کو یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ حضرت اقدس مسیح موعود کی بڑی صاحبزادی حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ جن کے بارہ میں یہ الہام تھا کہ تُنشَ تُنْشَاءُ فِی الْحِلْيَةِ“ آپ کے عقد میں آئیں.حضرت اقدس مسیح موعود آپ کو بڑی محبت اور پیار کی نظر سے دیکھتے تھے اور بڑے محبت بھرے الفاظ میں آپ کا تذکرہ بھی فرمایا.خدا تعالیٰ ہمیں ان پیارے وجودوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ تعارف وہ معزز و مکرم ہستی جو اپنی عظمت اور شان کے لحاظ سے جماعت احمدیہ میں اپنی مثال آپ تھی.وہ شوکت اور تمکنت رکھنے والی ہستی جس کے خاندان میں حکومت پشتوں سے چلی آرہی تھی.وہ دور بین اور دور اندیش ہستی جس نے مذہب سے بیگانہ اور دنیوی عیش و عشرت میں ڈوبے ہوئے ماحول سے نکل کر اپنی عمر کے ابتدائی زمانہ میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس وقت شناخت کیا جب بہت علم رکھنے والے، بڑی بڑی ریاضتیں کرنے والے اور مسیح موعود کی آمد کا بے تابی سے انتظار کرنے والے لوگوں کی آنکھوں پر کبر ونخوت کی پٹی بندھی ہوئی تھی.وہ خدا تعالیٰ کی رضا اور قرب کی جو یاں ہستی جس نے اپنا وطن چھوڑ کر جہاں سے ہر رنگ کی ریاست حاصل تھی اور حکومت کے سامان میسر تھے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے در کی گدائی کو ترجیح دی اور اس وقت ترجیح دی جبکہ قادیان کی بستی میں معمولی ضروریات زندگی بھی میسر نہیں آسکتی تھیں.وہ شاہانہ
3 2 ماحول میں پاکیزہ اطوار رکھنے والی ہستی جس نے اپنے وسیع محلات کو چھوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قرب میں اور چند فٹ کی کوٹھڑی میں رہائش پسند کی.وہ جو دوسخا میں اپنا ثانی نہ رکھنے والی ہستی جس نے اس کثرت اور اس وسعت سے اپنے اموال احمدیت کو تقویت پہنچانے اور غرباء کی امداد کرنے کے لئے صرف کئے کہ ابتدائی زمانہ میں اس کی مثال نہیں ملتی یعنی حضرت نواب محمد علی خان صاحب رئیس مالیر کوٹلہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کے متعلق نہایت ہی تعریفی کلمات استعمال فرمائے ہیں جو قیامت تک قائم رہیں گے.اور نہ صرف آپ کے متعلق بلکہ آپ کے والد ماجد کے متعلق یہاں تک رقم فرمایا کہ مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو.یہی نہیں بلکہ خود اللہ تعالیٰ نے حضرت نواب صاحب کو حضرت مسیح موعود کے ذریعہ حجۃ اللہ کے لقب سے نوازا.حقیقت یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل و کرم سے آپ کو وہ مرتبہ اور وہ شان عطا کی جو کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتی.آپ کی نیکی ، اخلاص، تقویٰ وطہارت اور پاکبازی کی خدا تعالی نے ایسی قدردانی کی جو قیامت تک کسی اور کو حاصل نہیں ہو سکتی.خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں بڑے بڑے رؤساء، نواب، والیان ریاست اور ملکوں کے بادشاہ داخل ہوئے ہیں اور انشاء اللہ آئندہ بھی ہوتے چلے جائیں گے مگر کسی کو وہ رتبہ کہاں حاصل ہوسکتا ہے جو حضرت نواب صاحب کو ہوا.آپ نے حضرت مسیح موعود کی صحبت میں رہنے کا سالہا سال تک شرف حاصل کیا اور آپ کے مقرب رفیق بنے.آپ نے دین کی خاطر اپنے اموال بے دریغ صرف کئے.آپ کی تعریف و توصیف جن الفاظ میں حضرت مسیح موعود نے کی وہ کسی اور کو کب میسر آسکے گی.پھر آپ کو حضرت مسیح موعود کی دامادی کا جو شرف حاصل ہوا اور حضور کی جگر گوشہ حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا مبارک وجود آپ کے کاشانہ کی رونق بنا، یہ کتنا بڑا انعام ہے.پھر حضرت مسیح موعودؓ کی دوسری صاحبزادی حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نکاح آپ کے نہایت نیک اور پارسا صاحبزادے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب سے ہوا.قادیان میں ہجرت کر کے آپ نے صبر، استقلال، فدائیت اور جان نثاری کی اعلیٰ مثال قائم کی اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ اور اپنے مال کا بہت بڑا حصہ خدا تعالیٰ کے لئے اس کی مخلوق کی ہدایت اور اس کی پرورش کے لئے خرچ کر دیا.حتی کہ آخری سانس بھی اسی پاک سرزمین میں لیا جہاں خدا تعالی کی خاطر شاہانہ شان وشوکت چھوڑ کر آپ نے دھونی رمائی تھی.جس طرح آپ کی جوانی قابل رشک تھی، جس طرح آپ کی آخری وقت تک کی زندگی قابل رشک تھی ، اس سے بھی بڑھ کر آپ کا انجام قابل رشک ہے.
5 ما 4 خاندانی حالات حضرت نواب محمد علی خان صاحب کا تعلق ایک معزز خاندان غوری سے ہے.آپ ریاست مالیر کوٹلہ کے رئیس تھے.آپ کے مورث اعلیٰ شیخ صدر جہاں صاحب ایک با خدا بزرگ اور جلال آبادسروانی قوم کے پٹھان تھے.آپ کے والد ماجد کا نام نواب غلام محمد خان صاحب تھا.ولادت و ابتدائی حالات حضرت نواب محمد علی خان صاحب یکم جنوری 1870ء کو اپنے والد کی چوتھی بیگم نواب بیگم صاحبہ بنت سردار خان صاحب کے بطن سے پیدا ہوئے.آپ اپنی والدہ کے پہلے اور بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے.دو بڑے بھائی خان احسن علی خان صاحب اور خان باقر علی خان صاحب بڑی والدہ کے بطن سے تھے اور حضرت نواب صاحب سے کافی بڑے تھے.آپ کی والدہ بہت شفیق تھیں اور صفائی کا بہت خیال رکھتیں.آپ کو اپنے والد سے بے حد محبت تھی.آپ کی عمر بھی ساڑھے سات سال تھی جب وہ وفات پاگئے.آپ کو اپنے والد کا زمانہ، ان کی شکل وصورت، ان کی باتیں بہت اچھی طرح یاد تھیں.اپنے والد کو میاں کہتے تھے اور اسی نام سے ان کا ذکر بہت محبت سے فرماتے.والد گرامی کا طریق تربیت نہایت اعلیٰ تھا اور بہت عمدہ اخلاق کے مالک تھے، سخاوت اور وسعتِ حوصلہ حضرت نواب صاحب نے انہی سے ورثہ میں پایا تھا.باوجود بے حد محبت کے آپ کے والد کا آپ پر بہت رعب تھا.ان کی مرضی کے خلاف کوئی بات بچپن میں بھی آپ نہیں کر سکتے تھے.طرح طرح کے کھلونے اور دلچسپی کی چیزیں وہ آپ کے لئے مہیا کرتے ، اپنے سامنے کھیل کھلواتے اور خوش ہوتے.آپ کے والد روپے دیتے کہ اپنے نوکروں میں تقسیم کردو.اکثر آپ کے ہاتھ سے چیزیں تقسیم کرواتے کہ اس سے دوسروں کی مدد کی عادت پڑتی ہے.بہت سے خادم لڑکے آپ کے ساتھ ہی پرورش پاتے اور ساتھ ہی کھیلتے تھے.ایک دفعہ آپ نے اپنے استاد کی غیر موجودگی میں اپنے قیمتی کپڑے نکال کر خادم لڑکوں میں تقسیم کر دیئے بلکہ ان کو پہنا دیئے.تعلیم جب آپ چھ سات سال کی عمر کو پہنچے تو آپ کے والد ماجد نے اس زمانہ کے سب سے اعلیٰ تعلیمی ادارے چیفس کا لج انبالہ میں بھیجا جہاں رؤسائے پنجاب کے بچے زیر تعلیم رہے تھے.آپ کے ساتھ ملازم، اتالیق گھوڑے اور سواری الغرض کافی عملہ بھیجا گیا تھا.وہاں تینوں بھائی بڑی شان وشوکت سے رہتے تھے.انبالہ اور لاہور کی بے قاعدہ تعلیم کی وجہ سے آپ بیرسٹری کے لئے یورپ نہ جاسکے.
7 6 بچین سکول میں آپ کے اساتذہ نے ہمیشہ اچھا سلوک کیا.آپ اکثر با وقار طور پر دوسرے لڑکوں سے الگ تھلگ رہتے تھے.نہ کسی سے دوستی ، نہ جھگڑوں میں پڑتے اور نہ کوئی قانون شکنی کرتے.اس وجہ سے شکایت کا کوئی موقع ہی نہ آیا.بچپن ہی سے آپ کی طبیعت میں ایک عزم تھا.جس بات کو درست سمجھتے اس پر پوری طرح قائم رہتے.بچپن سے ہی قوم کے لئے غیرت تھی اور غلامی کوئر سمجھتے تھے.آپ نے کبھی انگریزی لباس نہ پہتا تھا.آپ ٹینس کا کھیل کھیلتے تھے اور اس کو پسند فرماتے تھے.آپ کو ہر چیز کی دریافت کا فطر تا شوق تھا.کھلونے آتے اور فوراً تو ڑکر ان کو جوڑنے کی ترکیبیں سوچتے رہتے تھے.سوچنے کی عادت آپ کو بچپن کے زمانہ سے ہی تھی.پہلی شادی آپ کا نکاح 14 سال کی عمر میں اپنی خالہ زاد مہر النساء بیگم صاحبہ سے ہو چکا تھا.21 سال کی عمر میں تقریب رخصتانہ عمل میں آئی جس میں حضرت نواب صاحب نے حتی المقدور کسی قسم کی رسوم نہ ہونے دیں.آپ کو رسم ورواج اور بدعات سے بہت نفرت تھی.مذہب کی طرف رحجان جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے آپ کو بچپن سے سوچ و بچار کی عادت تھی.والد صاحب کے دل میں بزرگان دین کا ادب اور محبت تھی اور علماء کی صحبت کا شوق تھا.آپ کو بھی گھر میں آنے والے مولوی یا مجتہد سے ضرور ملواتے اور ان سے باتوں کے دوران آپ کو پاس بٹھائے رکھتے.بچپن سے ان مجلسوں کی وجہ سے آپ میں مذہبی ذوق و شوق پیدا ہو گیا.آپ کے والد شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے تھے لیکن آپ کو 14 سال کی عمر میں اس مسلک سے ملبغا دوری پیدا ہوگئی.حضرت مسیح موعود کا سفر مالیر کوٹلہ براہ راست حضرت مسیح موعود سے تعلق کا آغاز ہونے سے قبل حضرت نواب صاحب کے خاندان کے ایک معزز فرد کے حضرت اقدس سے اچھے تعلقات پیدا ہو چکے تھے جو بالآخر حضور کے مالیر کوٹلہ تشریف لے جانے کا موجب ہوئے.اور حضور نے یہ سفر اس لئے فرمایا تھا کہ نواب ابراہیم علی خان صاحب نے براہین احمدیہ کی اشاعت میں حصہ لیا تھا.ان کی طرف سے براہین احمدیہ کی اعانت حضرت اقدس کی نگاہ میں قابل قدر ٹھہری.آپ نے نواب ابراہیم علی خان صاحب کو سلسلہ کے لٹریچر میں ایک زندگی عطا کی اور ان کی بیماری کی خبر پا کر دعا کے لئے بھی تشریف لے گئے تا کہ عیادت اور شکریہ کی عملی روح نمایاں ہو.
9 8 حضرت مسیح موعود نے یہ سفر مالیر کوٹلہ 1884ء کو لدھیانہ کے سفر کے دوران فرمایا.نواب ابراہیم علی خان صاحب سے ملاقات اور دعا کے بعد حضرت مسیح اقدس فوراً ہی واپس لدھیانہ تشریف لے گئے.اس سفر میں آٹھ دس آدمی بھی حضور کے ہمراہ تھے.حضرت مسیح موعود سے تعلقات کا آغاز حضرت نواب صاحب کی پرورش ابتداء سے ہی مذہبی ماحول میں ہوئی تھی.ابتدائی عمر میں آپ نے اپنے استاد جو مولوی سید گل علی شاہ صاحب کے فرزند تھے، سے حضرت مسیح موعود کا ذکر سنا.آپ پر مذہب کا بہت اثر تھا.حضرت مسیح موعودؓ کا ان دنوں کوئی دعوی نہ تھا.رفتہ رفتہ حضرت اقدس کا ذکر آپ تک پہنچتا رہا اور جب حضور نے مالیر کوٹلہ کا سفر کیا تھا اس موقع پر حضرت نواب صاحب تعلیم کے سلسلہ میں مالیر کوٹلہ سے باہر گئے ہوئے تھے.حضرت نواب صاحب نے حضرت اقدس سے خط و کتابت 1889ء میں شروع کی.مالیر کوٹلہ کا طبقہ امراء جو ہر وقت عیش وعشرت میں غرق رہتا اور غافلانہ زندگی بسر کرتا تھا.اس طبقہ میں سے ایسا شخص جو لاکھوں روپیہ کی جائیداد کا مالک اور عز و جاہ سے مالا مال تھا.جس کو عیش و عشرت کے سامان حاصل تھے ، ہمیں سال عمر اور جوانی کا عالم تھا، سر پر کوئی روک ٹوک کرنے والا بھی نہ تھا.ایسی حالت میں بھی حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے 1890ء میں قادیان کا تاریخی سفر کیا.آپ اپنے آرام کو الوداع کہہ کر ، کچے راستے کے ہچکولے کھاتے ہوئے قادیان کی طرف رواں دواں ہوئے جو دنیاوی اسباب سے یکسر خالی تھا بلکہ جہاں معمولی سامان زندگی بھی مشکل سے میسر آتا تھا.آپ کی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سعادت ودیعت ہوئی تھی.یہ سفر آپ نے تحقیق حق کی خاطر کیا کیونکہ ابھی تک آپ حلقہ بگوش احمدیت نہ ہوئے تھے.سلسلہ احمدیہ میں شمولیت بعد ازاں بعض سوالات کا اطمینان بخش جواب پانے کے بعد آپ نے بلا تأمل بیعت کا خط لکھ دیا.رجسٹر بیعت میں آپ کا بیعت نمبر 210 اور تاریخ بیعت 19 نومبر 1890 ء درج ہے.حضرت مسیح موعود نے اپنی کتاب ازالہ اوہام میں حضرت نواب صاحب اور آپ کے خاندان کا ذکر فرمایا ہے.پہلے پہل حضرت نواب صاحب نے اپنی بیعت کو بعض مصلحتوں کی وجہ سے مخفی رکھا.حضرت اقدس نے جب آپ کے خاندانی حالات ازالہ اوہام میں درج فرمائے تو اس طرح آپ کی بیعت کا اعلان ہو گیا.جلسہ سالانہ 1892ء میں شرکت حضرت اقدس نے حضرت نواب صاحب کو اپنے ایک مکتوب میں
11 10 بار بار تحریک فرمائی کہ کچھ عرصہ حضور کی صحبت میں آکر رہیں.حضور نے اپنے مکتوب کے آخر پر فرمایا: ملاقات نہایت ضروری ہے.میں چاہتا ہوں کہ جس طرح ہو سکے 27 دسمبر 1892 ء کے جلسہ میں ضرور تشریف لاویں.انشاء اللہ القدیر آپ کے لئے مفید ہوگا.چنانچہ حضرت نواب صاحب اس جلسہ میں شریک ہوئے.حضرت مسیح موعود گاہے بگا ہے آپ کے مکان پر تشریف لے جاتے ،تقریر فرماتے اور اپنے خواب اور الہام کا ذکر کرتے.خلیفہ اول سے قرآن کریم پڑھنا حضرت نواب صاحب نے حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ میں حضرت مولوی نورالدین صاحب (خلیفہ اسیح الاول) سے قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں.چنانچہ حضرت اقدس کے ارشاد پر حضرت مولوی صاحب 1896 ء میں مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے اور چند ماہ وہاں قیام کیا.آپ کے ہمراہ آپ کے گھر والے بھی تھے.کچھ عرصہ آپ کا قیام شہر میں رہا، پھر آپ کے قیام کا انتظام شیروانی کوٹ میں ہوا جہاں ہر طرح کا مکمل انتظام تھا.گھوڑا گاڑی بھی آپ کی ضرورت کے لئے وہاں تھی.حضرت نواب صاحب شہر سے روزانہ شیروانی کوٹ جاتے تھے اور آپ سے قرآن شریف پڑھتے اور دوپہر کا کھانا آپ کی معیت میں تناول کر کے واپس آتے.حضرت مسیح موعود حضرت نواب صاحب کو بار بار ملاقات کی تلقین فرماتے تھے اور حضور کی تو جہات سے نواب صاحب کو قادیان بار بار آنے کا موقع ملا.قادیان ہجرت حضرت نواب صاحب کی قادیان ہجرت میں بہت سی روکیں تھی.ظاہری دولت وحشمت ، مال و منال عزت و اکرام، جاگیریں اور وطن جہاں آپ کی ایک طرح کی حکومت تھی.قادیان آنا گویا ان سب چیزوں کو چھوڑنا تھا.حضرت مسیح موعودؓ کی توجہ، شفقت اور دعاؤں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت نواب صاحب کے لئے تمام مشکلات آسان کر دیں اور انشراح قلب کے ساتھ قادیان ہجرت کی توفیق عطا فرمائی.ابتداء میں آپ کو قادیان میں قیام کے لئے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تا ہم آپ کی ہجرت اللہ تعالیٰ نے جس رنگ میں قبول فرمائی اور جس طرح آپ کو نو از ایہ آپ کی زندگی کا ایک کھلا ورق ہے.ہجرت کے بعد آپ اپنے دو کچے کمروں میں آکر ٹھہرے جو ” الدار سے ملحق تھے.آپ کے بیٹے نواب عبدالرحمن صاحب کہتے ہیں کہ اس مکان کی تنگی کی یہ حالت تھی کہ ایک کوٹھڑی جس میں صرف ایک پلنگ کی گنجائش تھی.حضرت والد صاحب اور خالہ جان ( دوسری والدہ ) رہتے تھے اور ہم تینوں بھائی ساتھ کے کچے کمرے میں رہتے تھے.جب بارش ہوتی تو اس کچھے کمرے کے گرنے کا خطرہ
13 12 ہوتا تو والد صاحب اپنے کمرے میں بلا لیتے اور ہم زمین پر بستر کرکے سوتے.ہجرت قادیان، حضرت نواب صاحب اور آپ کے خاندان کے لئے کوئی معمولی قربانی نہ تھی.حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت والد صاحب سے پوچھا کہ آپ اتنے بڑے محل کو چھوڑ کر ایک تنگ کمرے میں جو آئے تو کیا وجہ تھی؟ فرمانے لگے کہ وہ زمانہ ایسا تھا کہ حضرت مسیح موعود کو داغ ہجرت کا الہام ہو چکا تھا.گورنمنٹ بھی ہماری مخالف تھی اور لوگوں کی مخالفت بھی زدوروں پر تھی تو میں نے مالیر کوٹلہ اس عزم وارادہ سے چھوڑا کہ اب وہاں واپس نہیں جانا.اسلئے مجھے کسی قسم کی تنگی اور تکلیف کا احساس نہ ہوا.(( رفقاء ) احمد جلد دوم ص 130) حضرت اقدس کی مہمان نوازی حضرت مسیح موعود آپ سے بہت شفقت اور محبت کا سلوک فرمایا کرتے تھے.حضرت نواب صاحب نے بڑی کوشش کی کہ حضور اجازت دیں کہ کھانے کا انتظام اپنا کریں اور عرض کیا کہ میرے پاس باورچی ہیں لیکن حضور نہ مانے اور تقریباً چھ ماہ تک حضور کے ہاں سے کھانا آتا رہا جس کا انتظام حضرت اماں جان خود فرماتیں.پھر یہاں تک ہی بس نہیں حضور نواب صاحب کے خدام سے بھی دریافت فرمایا کرتے کہ نواب صاحب کون سا کھانا شوق اور رغبت سے کھاتے ہیں پھر وہ کھانا بھجواتے.مہمان نوازی اعلیٰ درجہ کی تھی جو برابر چھ ماہ تک رہی.اتنے لمبے عرصہ کی مہمان نوازی کے بعد حضور نے بمشکل کھانے کا اپنا انتظام کرنے کی اجازت دی ورنہ حضور یہی پسند فرماتے تھے کہ یہ مہمان نوازی بدستور جاری رہے.چھ ماہ تک پانچ پانچ چھ چھ کھانے حضور کے ہاں سے روزانہ تیار ہوکر آتے تھے.حضرت نواب صاحب اپنے طور پر لنگر خانہ کے لئے رقم دے دیتے تھے تا کہ تا سلسلہ پر بوجھ نہ ہو.حضرت مسیح موعود کی شفقت بے پایاں کا گونا گوں رنگ میں اظہار ہوتا رہتا تھا.حضرت مسیح موعود نے حضرت نواب صاحب کو قادیان میں مکان بنانے کی بھی کئی مرتبہ تحریک فرمائی.اللہ تعالیٰ نے آپ کے مکانات کو بہت برکت عطا فرمائی.پہلی بیوی کی وفات جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے کہ حضرت نواب صاحب کی شادی اپنی خالہ زاد محتر مہ مہر النساء بیگم سے ہوئی تھی، وہ بہت شریف اور منتظم خاتون تھیں.ان کی وفات نومبر 1898ء میں ہوئی.حضرت مسیح موعود نے مرحومہ کا جنازہ غائب پڑھا تھا اور حضور نے مرحومہ کے غریق رحمت ہونے کی دعا اپنے تعزیتی مکتوب
15 14 میں کی تھی.اہلیہ اول سے اولاد حضرت نواب صاحب کی اہلیہ اول کے بطن سے دولڑکیاں ایک امتہ السلام جو چند ماہ بعد وفات پاگئیں اور دوسری بیٹی حضرت بوزینب بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب (ولادت 19 رمئی 1893ء) تھیں.ان کے بعد اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل چار بیٹوں سے نوازا.1 - نواب عبد الرحمن خان صاحب، ولادت 19 اکتوبر 1894ء 2.نواب محمد عبد اللہ خان صاحب، ولادت یکم رجنوری 1896ء 3.نواب عبدالرحیم خان صاحب، ولادت 13 جنوری 1897ء 4.عبدالرب صاحب جو 1898ء میں والدہ کی وفات کے چند روز بعد ہی فوت ہو گئے تھے.دوسری شادی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مشور ہ اور تحریک پر حضرت نواب صاحب نے اپنی مرحومہ اہلیہ اول کی چھوٹی بہن محترمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ سے شادی کرلی.یہ نکاح حضرت مولوی نورالدین صاحب نے پڑھا تھا اور اس تقریب پر حضرت عبد الکریم صاحب سیالکوئی بھی مالیر کوٹلہ آئے تھے.یہ شادی با برکت ثابت ہوئی اور اس سے حضرت نواب صاحب کا اہلیہ اول کی وفات کا غم غلط ہوا.لیکن ان کے بطن سے کوئی اولاد نہ ہوئی.آپ کی اہلیہ ثانی 1906ء میں وفات پا گئیں.ان کا جنازہ حضرت مسیح موعود نے پڑھایا تھا.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے نکاح اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے ماتحت 17 فروری 1908ء کو حضرت مسیح موعود کی بڑی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت نواب محمد علی خان صاحب سے ہو گیا.یہ نکاح حضرت مولوی نورالدین صاحب نے پڑھا.حضرت نواب صاحب کی وجاہت اور ریاست کے لحاظ سے چھپن ہزار روپے حق مہر مقرر ہوا.حضرت مسیح موعود کی وفات کے بعد 14 / مارچ 1909ء کو حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رخصت ہو کر حضرت نواب صاحب کے گھر آئیں اور 15 / مارچ 1909 ء کو دعوت ولیمہ دی گئی.حضرت نواب صاحب کی اکلوتی بیٹی حضرت نواب بوز ینب بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت مسیح موعود کے لخت جگر حضرت مرزا شریف احمد صاحب سے 9 مئی 1909ء کو ہوا.حضرت مسیح موعود نے اپنی مبارک زندگی میں یہ رشتہ طے فرمایا تھا.(حضرت بو زینب صاحبہ ، حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی
17 16 دادی محترمہ ہیں ) اسی طرح حضرت مسیح موعود کی لخت جگر صاحبزادی حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے نکاح کا اعلان ہمراہ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب ابن حضرت نواب محمد علی خان صاحب سے مورخہ / جون 1915ء کو حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب نے بیت اقصیٰ میں کیا.اور رخصتانہ 22 فروری 1917ء کو عمل میں آیا.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے اولاد 1: محترم نواب محمد احمد خان صاحب 2: محترم نواب مسعود احمد خان صاحب 3: حضرت صاحبزادی منصور و بیگم صاحبه حرم حضرت خلیفه امسیح الثالف 4: محترمہ صاحبزادی محمودہ بیگم صاحبہ اہلیہ محترم صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب 5 محترمہ صاحبزادی آصفه مسعوده بیگم صاحبه اہلیہ محترم ڈاکٹر کرنل صاحبزادہ مرزا مبشر احمد صاحب مقدس اور مثالی جوڑا اگر چہ حضرت نواب صاحب اور حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی عمر میں 27 سال کا فرق تھا، اس کے باوجود حضرت نواب صاحب ، حضرت نواب مبارکه بیگم صاحبہ کی عقل سمجھ ، متانت، محبت ، وفا اور سیرت کے قدردان تھے.وہ جانتے تھے کہ یہ مقدس باپ کی مبارک بیٹی ہیں، چنانچہ آپ سے نکاح ہونے کے بعد حضرت نواب صاحب اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں: یہ وہ فضل اور احسان اللہ کا ہے اگر میں اپنی پیشانی کوشکر کے سجدے کرتے کرتے گھساؤں تو بھی خدا تعالیٰ کے شکر سے عہدہ برآنہیں ہوسکتا.میرے جیسے نابکار اور اس کے ساتھ یہ نور.یہ خدا کا خاص رحم اور فضل ہے.اے خدا! اے میرے پیارے مولیٰ ! اب تو نے اپنے مرسل کا مجھ کو داماد بنایا ہے اور اس کے لخت جگر سے میرا تعلق کیا ہے تو مجھ کوبھی نور بنادے کہ اس قابل ہوسکوں“ پھر ایک جگہ آپ اپنی ڈائری میں بیگم صاحبہ کے بارے میں لکھتے ہیں: پھر صورت کے لحاظ سے...اور روحانی لحاظ سے بھی حالت معزز ہے اور سیرت کے لحاظ سے کس باپ کی بیٹی ہیں.بس نہایت پیارا انداز اور عجیب دلکش طبیعت ہے.محبت کرنے والی بیوی ہیں پھر مجھ کو کیوں نہ محبوب ہوں.“ (( رفقاء ) احمد جلد دوم ص 253 )
19 18 حضرت نواب صاحب چھوٹی چھوٹی بات میں بھی حضرت بیگم صاحبہ سے برکت لینے کی کوشش کرتے.ایک مرتبہ نئے سال کا کیلنڈر آپ نے حضرت بیگم صاحبہ کو دیا کہ اس پر کوئی شعر لکھ دیجئے.حضرت بیگم صاحبہ نے کیلنڈر کے سرورق پر لکھا: فضل خدا کا سایہ ہم پر رہے ہمیشہ ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر گزرے آپ فرماتی ہیں کہ یہ شعر حضرت نواب صاحب ہمیشہ نئے سال کے کیلنڈر کے سرورق پر لکھتے تھے.اسی طرح حضرت نواب صاحب اکثر آپ سے اشعار کی فرمائش کرتے اور آپ میاں بیوی ہونے کے باوجود دنیا کے فرسودہ اور فانی محبت کے اشعار کی بجائے عشق حقیقی کے اور دعائیہ اشعار فارسی اور اردو میں کہتیں جن کو حضرت نواب صاحب بہت پسند کرتے تھے.حضرت نواب صاحب حضرت بیگم صاحبہ کی بہت عزت ، محبت اور قدر کرتے.ان کی ادنیٰ سے ادنی اور بڑی سے بڑی خواہش کا احترام کرتے ان کی ہر بات پوری کرتے.کوئی اور بیوی ہوتی تو یقیناً مغرور ہو جاتی اور شوہر کے حقوق اور محبت اور عزت میں کوتاہی کرنے لگتی اور اپنی بڑائی کا خیال پیدا ہو جاتا.مگر حضرت بیگم صاحبہ نے اس بے تکلفی اور اپنی عزت افزائی کے باوجود حضرت نواب صاحب کا ہمیشہ بے حد ادب کیا ، بے انتہا محبت اور عزت کی.جن باتوں کو وہ پسند نہ کرتے تھے ان کا ہمیشہ خیال رکھا.اس حسن سلوک کی مثال بہت کم ملتی ہے.آپ کی بابرکت تعمیرات حضرت مسیح موعود حضرت نواب صاحب کو بار ہا قادیان آنے اور قادیان میں مکان بنانے کی تحریک فرما چکے تھے.چنانچہ حضرت نواب صاحب نے ہجرت سے پہلے ایک دو کچے کمرے دار اسیح سے ملحق جانب مشرقی تعمیر کروائے اور چند سال بعد انہیں گرا کر ایک پختہ چوبارہ تعمیر کروایا.یہ چوبارہ حضرت اقدس علیہ السلام کی پرانی ڈیوڑھی کے اوپر ہے اس لئے ”الدار کا ہی حصہ ہے.خلافت اولی میں آپ نے قادیان کی اس وقت کی آبادی سے باہر ایک کھلی جگہ پر دار السلام کو بھی تعمیر کروائی جس میں باغ بھی لگوایا.یہ کوٹھی اور باغ بہت بڑا تھا.حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ قادیان کی کوٹھی کا نام " دار السلام" مالیر کوٹلہ کے شہر والے بڑے مکان کا نام ”دار الفضل“ اور شیروانی کوٹ والی کوٹھی کا نام دارالاحسان حضرت نواب صاحب نے رکھے.یہ چوبارہ جو الدار‘ کا ہی حصہ ہے حضرت مسیح موعود کی لخت جگر حضرت سید و نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے رخصتنانہ کے ساتھ بابرکت ہوا.کوٹھی ” دار السلام حضرت خلیفتہ اسی الاول کے بار بار وہاں جانے ، مرض الموت میں وہاں قیام اور خلافت کے قیام کے مشوروں اور حضرت مسیح موعود کی دو صاحبزادیوں کی لمبی رہائش سے بابرکت ہوئی.
21 20 ایک تاریخی سعادت حضرت مسیح موعود نے حضرت نواب صاحب کو خط بھجوایا کہ قادیان آتے ہوئے اپنا فونوگراف ( پرانے زمانے کا ٹیپ ریکارڈر ) ساتھ لیتے آئیں تا کہ غیر ممالک میں دعوت الی اللہ کی غرض سے کچھ پیغام بھرے جائیں.چنانچہ حضرت نواب صاحب فونوگراف قادیان لائے اور حضرت مسیح موعود کی نظم ے آواز آرہی ہے یہ فونو گراف ހނ اور کچھ دیگر نظمیں اور تقریریں بھری گئیں.حضرت نواب صاحب کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ ان کے فونوگراف میں غیر ممالک میں دعوت الی اللہ کے لئے پیغام ریکارڈ کیا گیا.حضرت مسیح موعود کی خدا تعالیٰ نے غیر ممالک میں دعوت الی اللہ کی یہ خواہش ایم ٹی اے کی صورت میں پوری فرمائی جس کے ذریعہ سے آج دنیا بھر میں خدائے واحد کا پیغام پھیل رہا ہے.آپ ایک مردم شناس، قدردان، معاملہ فہم اور وفادار بزرگ تھے.خدا تعالیٰ نے آپ کو قلب سلیم اور دماغ فہیم عطا فر مایا تھا.اس لیے آپ ہر مسئلہ کی تحقیق خود کرتے تھے.تعصب اور غصہ ہر گز نہ تھا.سچ کے قبول کرنے پر ہر وقت آمادہ رہتے تھے.ابتدائی مذہبی تعلیم کے بعد لاہور کے ایچی سن کالج میں داخل ہوۓ جو حکومت نے رؤسائے پنجاب کے بچوں کے لئے قائم کیا تھا.حضرت نواب صاحب با وجود ایک طالبعلم ہونے کے کالج کے طلبہ میں ہر دلعزیز ہی نہ تھے بلکہ کالج کے پروفیسر بھی نواب صاحب کی قوت عمل اور بلندی کردار کی وجہ سے ان کی قدر کرتے تھے.علم دوست شخصیت آپ ایک علم دوست شخصیت تھے.آپ کا روپیہ ہمیشہ نیک کاموں میں خرچ ہوا.خواتین کی اصلاح کے لئے آپ نے ایک انجمن مصلح الاخوان قائم کی اور ایک سکول قائم کیا.جس کے کل اخراجات آپ اپنی جیب سے ادا کرتے تھے.حضرت نواب صاحب کو 1888ء میں سرسید احمد خان صاحب کے کام اور تعلیمی نظام سے دلچسپی پیدا ہوگئی.آپ سرسید کی مساعی میں دل کھول کر چندہ دیا کرتے تھے.اور سرسید ان کے مداح تھے اور ان کے باہمی گہرے تعلقات تھے.علی گڑھ کے سٹریچی ہال کی تعمیر کے لئے جن ایک سو احباب نے پانچ پانچ سور و پریہ چندہ دیا تھا اس کی یادگاری تختی پر حضرت نواب صاحب کا نام تیسرے نمبر پر کندہ کیا گیا.آپ کو تعلیم کی عام ترویج کا بہت شوق تھا.مدرسہ احمدیہ کے لئے کئی مرتبہ مالی تعاون کیا اور آپ ہی کی عالی ہمتی سے قادیان میں کالج کا قیام ہوا.آپ کو مدرسہ احمدیہ اور کالج کے امور میں بہت شغف رہتا تھا.
23 22 راسخ الاعتقاد مومن حضرت نواب صاحب کو ایک فطرتی جوش طلب حق کا تھا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسی جرات عطا فرمائی تھی کہ جو بات ان کی سمجھ میں نہ آتی، اس کے متعلق سوال کرنے سے کبھی مضائقہ نہ کرتے تھے.حضرت مسیح موعودؓ فرماتے تھے کہ اگر کسی کو کوئی اعتراض پیدا ہو تو فوراً پیش کرنا چاہئے.حضرت نواب صاحب کی زندگی ایک راسخ الاعتقاد عملی مومن کی زندگی تھی.وہ کوئی امر جس کی اسوۂ حضرت نبی کریم میں نظیر نہ ہوا ختیار نہیں کرتے تھے.حضرت مسیح موعود کی محبت میں سرشار تھے اور آپ کے احکام کی اتباع اپنا فریضہ سمجھتے تھے.رشوت سے نفرت حضرت نواب صاحب کی زندگی ایک مرد مومن کی عملی زندگی کی تصویر ہے.آپ رشوت سے بہت نفرت کرتے تھے.جب مالیر کوٹلہ ریلوے برانچ جاری ہوئی تو آپ نے اس لائن پر کچھ کام بطور ٹھیکہ لے لیا.وہ کام دراصل آپ کے ایک خاص امتیاز کے اظہار کا موجب ہوا.آپ سے چاہا گیا کہ ان انجینئروں یا افسروں کو جو اس کام کے پاس کرنے والے تھے کچھ روپیہ دے دیں.آپ نے اسے رشوت قرار دیا اور صاف انکار کر دیا.اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو خطرناک مالی نقصان ہوا مگر آپ نے اس کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہ کی.آپ نہایت عالی حوصلہ اور مستقل مزاج بزرگ تھے.اپنے مقام ومرتبہ کے باوجود طبیعت نہایت منکسر المزاج تھی.فطری سخاوت آپ کی فطرت میں سخاوت کا طبعی جوش تھا اور بسا اوقات آپ اپنی ضرورتوں پر دوسروں کو مقدم کر لیتے تھے.جماعت کے غرباء آپ کی فیاضیوں سے آسودگی کی زندگی بسر کرتے تھے.آپ کبھی غمزدہ اور فکر مند نہ ہوتے تھے.ہمیشہ چہرہ پر خوشی اور مسرت رہتی تھی اور اللہ تعالیٰ پر کامل تو کل اور بھروسہ تھا.سلسلہ کے کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے.مدرسہ تعلیم الاسلام کے اخراجات اپنی ڈائریکٹری کے زمانہ میں ایک عرصہ تک چلاتے رہے اور جب حضرت اقدس نے خود محسوس فرمایا کہ مالی ابتلاء نہ آ جائے تو انتظام دوسرے ہاتھوں میں منتقل کر دیا.صدرانجمن کے کاموں میں اپنی رائے پر مستقل رہتے تھے.فتنہ ملکانہ ( جہاں ہندوؤں نے شدھی تحریک چلائی تا مسلمانوں کو ہندو بنایا جائے ) کے وقت آپ نے اپنی خدمات پیش کیں.بہترین سیرت کے مالک حضرت نواب صاحب حد درجہ کا اخلاص رکھتے تھے جو آپ کی دعوت الی اللہ کی جدو جہد اور مالی خدمات سے ظاہر ہوتا ہے.آپ ابدال کے رنگ میں بہترین
25 24 سیرت کے مالک تھے اور اس کا اظہار اللہ تعالیٰ نے کئی رنگ میں کر دیا.جب آپ 14 نومبر 1901ء کو قادیان تشریف لائے تو اس سفر کے بارے میں آپ بے تکلفانہ انداز میں اپنی ڈائری میں لکھتے ہیں.گیارہ بجے بٹالہ پہنچے فوراً رتھ پر سوار ہو کر قادیان کو روانہ ہوئے ، رتھ کے ہچکولے کھاتے ، گرد پھانکتے روانہ ہوئے.قادیان پہنچے آرزو دارم که خاک آن قدم رکھوں) طوطیائے چشم سازم دم بدم ( ترجمہ: میری خواہش ہے کہ اس قدم کی خاک کو مسلسل آنکھ میں سموئے کتنے اخلاص سے پُر اعلیٰ درجہ کے جذبات ہیں، آپ کے یہ الفاظ آپ کی سیرت کا بہترین اور روشن ترین پہلو ظاہر کرتے ہیں اور ان الفاظ کی شان اور بھی بلند ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ یہ جذبات وقتی کیفیت کا عکس نہیں تھے بلکہ دل کی گہرائیوں سے خلوص کا اظہار تھا کیونکہ حضرت نواب صاحب کی ہر حرکت وسکون آپ کے ان جذبات و خیالات کی عملی تفسیر تھی.دو حضرت اقدس آپ کے خاندان کا تذکرہ یوں فرماتے ہیں: بہادر خان کی نسل میں یہ جوان صالح ، خلف رشید، نواب غلام محمد خان صاحب مرحوم ہے.جس کا عنوان میں ہم نے نام لکھا ہے.خدا تعالیٰ اس کو ایمانی امور میں بہادر کرے اور اپنے جد شیخ بزرگوار صدر جہان کے رنگ میں لا وے.سردار محمد علی خان صاحب نے گورنمنٹ برطانیہ کی توجہ اور مہربانی سے ایک شائستگی بخش تعلیم پائی جس کا اثر ان کے دماغی اور دلی قومی پر نمایاں ہے.ان کی خدا دا د فطرت بہت سلیم اور معتدل ہے اور باوجود معین شباب کے کسی قسم کی حدت اور تیزی اور جذبات نفسانی ان کے نزدیک آئی معلوم نہیں ہوتی.میں قادیان میں جب وہ ملنے کے لئے آئے تھے اور کئی دن رہے، پوشیدہ نظر سے دیکھتا رہا ہوں کہ التزام ادائے نماز میں ان کو خوب اہتمام ہے اور صلحاء کی طرح توجہ اور شوق سے نماز پڑھتے ہیں اور منکرات اور مکروہات سے بکلی مجتنب ہیں.مجھے ایسے شخص کی خوش قسمتی پر رشک ہے جس کا ایسا صالح بیٹا ہو کہ باوجود بہم پہنچنے تمام اسباب اور وسائل غفلت اور عیاشی کے اپنے عنفوان جوانی میں ایسا پر ہیز گار ہو.معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بتو فیقہ تعالیٰ خود اپنی اصلاح پر زور دے کر رئیسوں کے بے جاطریقوں اور چلنوں سے نفرت پیدا کر لی ہے اور نہ صرف اسی قدر بلکہ جو کچھ نا جائز خیالات اور اوہام اور بے اصل بدعات شیعہ مذہب میں ملائی گئی ہیں
27 26 اور جس قدر تہذیب اور صلاحیت اور پاک باطنی کے مخالف ان کا عمل درآمد ہے ان سب باتوں سے بھی اپنے نور قلب سے فیصلہ کر کے انہوں نے علیحدگی اختیار کر لی ہے.“ (ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد 3 ص 526) خلیفہ اول سے عقیدت ومحبت حضرت نواب صاحب حضرت خلیفہ المسیح الاول سے حد درجہ اخلاص اور اطاعت کا تعلق رکھتے تھے.اسی کا نتیجہ تھا کہ آخری دو ہفتے نواب صاحب کو حضور کی عیادت وخدمت کا بہترین موقع میسر آیا.ڈاکٹروں نے قصبہ سے باہر کسی کھلی جگہ رہنے کا مشورہ دیا.حضرت نواب صاحب نے اپنی کوٹھی دار السلام کا ایک حصہ حضور کے لئے خالی کر دیا.حضرت خلیفہ اول نے 27 فروری 1914 ء کو یہاں نقل مکانی فرمائی.اور اس جگہ کو بہت پسند فرمایا.دو ہفتے بعد 13 / مارچ 1914ء کو حضرت خلیفہ اول نے دار السلام میں ہی وفات پائی.حضرت نواب صاحب کا جماعت میں مقام حضرت نواب صاحب کا مقام جماعت احمدیہ میں بہت بلند ہے.1918ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنی ایک وصیت میں خلیفہ کا انتخاب کرنے والی کمیٹی کا نواب صاحب کو صدر مقرر فر مایا تھا.حضرت خلیفہ اول سے آپ کو حد درجہ محبت و عقیدت تھی.خلافت اولی اور ثانیہ کے قیام میں آپ کی سعی بلیغ اور مساعی جمیلہ تاریخ احمدیت کا سنہری باب ہیں.آپ اعلیٰ درجہ کے علمی ذوق کے مالک تھے.علم دوست ہونے کی وجہ سے آپ کو ہر قسم کی کتب رکھنے کا بے حد شوق تھا.اور کتابوں سے بہت محبت تھی.آپ قابل اور عالم اشخاص کی قدر کرتے اور ان کے ساتھ عزت سے پیش آتے.حضرت نواب صاحب کو بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے ابتدائی رسالے تالیف کرنے کا شوق تھا، آپ نے اردو اور عربی قواعد تالیف فرمائے.انکساری اور فروتنی حضرت نواب صاحب کی طبیعت میں بہت انکسار تھا.بیت الذکر میں نماز کے لئے تشریف لاتے تو عموماً سب سے آخری صف میں جوتیوں کے قریب بیٹھ جاتے.اگر حضرت مسیح موعود ارشاد فرماتے تو آگے چلے جاتے.حضرت نواب صاحب کے دل میں حد درجہ فروتنی کے باعث آپ کا دل غرباء ، ملازمین اور ضرورتمندوں کے لئے جذبات محبت و شفقت سے پُر رہتا تھا.آپ انہیں اپنے جیسا انسان خیال کرتے تھے اور ان سے حسن سلوک سے پیش آتے تھے.
29 28 اقارب سے بھی حضرت نواب صاحب بہت حسن سلوک اور مروت سے پیش آتے تھے.اللہ تعالیٰ کی توفیق سے آپ نے ہر رنگ میں جماعت احمدیہ کی بڑھ چڑھ کر خدمات سرانجام دیں.آپ کا قدم ہر لمحہ شاہراہ ترقی پر گامزن رہا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اور ان کی اولا د کو اپنے خاص فضل سے، بے نظیر رنگ میں نوازا.حجتہ اللہ کا خطاب یکم مارچ 1903ء کو صبح کی سیر میں حضرت اقدس نے نواب صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آج رات ایک کشف میں آپ کی تصویر ہمارے سامنے آئی اور اتنا لفظ الہام ہوا ”حجۃ اللہ “ اس کے متعلق یوں تفہیم ہوئی کہ کیونکہ آپ اپنی برادری اور قوم میں سے الگ ہو کر آئے ہیں تو اللہ تعالیٰ نے آپ کا نام حجتہ اللہ رکھا یعنی آپ ان پر حجت ہو نگے.چونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کا نام حجتہ اللہ رکھا ہے، آپ کو چاہیے کہ آپ ان لوگوں پر تحریر سے ، تقریر سے ہر طرح سے حجت پوری کردیں.( تذکرہ جدید ایڈیشن صفحہ 383) اس الہام کے بعد آپ نے حتی المقدور دعوت الی اللہ کی اور کوئی کسر اٹھا نہ رکھی.جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے خاندان کے بعض اور افراد بھی احمدی ہوئے.مالی قربانی آپ نے متعدد مواقع پر مالی قربانی کی مختلف تحریکات میں حصہ لیا، امانت فرمائی اور عمارات کی درستگی اور وسعت کے لئے گاہے بگاہے رقم مہیا کی جن میں مدرسہ احمد یہ منارہ مسیح اور مرکزی لا ہر بری وغیرہ شامل ہے.آپ نے قادیان میں بہت سے رفاہ عامہ کے کام سرانجام دیئے.سڑکوں کو ہموار بنوایا اور پختہ نالیاں بنوائیں، نیز مریضوں کی امداد کے لئے ایک معقول رقم پیش کی.ان کے علاوہ سلسلہ کے پہلے اخبار الحکم کی اعانت ، دار الضعفاء کیلئے زمین اور الفضل کے اجراء میں اعانت بھی آپ کی مالی قربانیوں کی اعلیٰ مثالیں ہیں.الفضل کے اجراء کیلئے اعانت الفضل کے اجراء کے لئے حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ نے بہترین ایثار کا نمونہ دکھایا، انہوں نے دوزیورالفضل کے اجراء کے لئے دیئے اور ان کی پونے پانچ صد روپے کی قیمت الفضل کیلئے ابتدائی سرمایہ بنی اور پھر حضرت اماں جان نے اخبار کیلئے زمین دی جو تقریبا ایک ہزار روپے میں فروخت ہوئی.تیسرے شخص جن کے دل میں اللہ تعالیٰ نے تحریک کی وہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب تھے.آپ نے
31 30 کچھ روپیہ نفقد اور کچھ زمین اس کام کے لئے دی.اس طرح آپ بھی ان برکات میں حصہ دار بنے جو اللہ تعالیٰ نے الفضل کے ذریعہ جاری فرمائیں.نیز حضرت نواب صاحب نے اپنے مکان کی نچلی منزل دی.صدر انجمن احمدیہ میں خدمات مقبرہ کے انتظام کے لئے حضرت مولوی نورالدین صاحب کی صدارت میں حضرت مسیح موعود نے ایک کمیٹی مقرر فرمائی.جنوری 1906ء میں صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا.اس کے ممبران میں حضرت نواب صاحب بھی تھے.آپ کو 1900ء سے 1918 ء تک مختلف عہدوں پر سلسلہ کی خدمات کا موقع ملا.آپ کا سلوک رفقاء کار سے بہت اچھا رہا.آپ بہت سادگی سے اپنی زندگی بسر کرتے تھے.میز کرسی کے استعمال کی آپ کو عادت نہ تھی.تمام دن فرش پر بیٹھ کر ہی سب کام کرتے تھے اور پورے غور و فکر سے دفتری امور کو سرانجام یتے.آپ صالح ، نیک، پابند شریعت زاہد اور عابد انسان تھے.آپ اس امر کو نا پسند فرماتے تھے کہ ان کا ماتحت کارکن کھڑا رہے اور پھر کاغذات پیش کرے اسلئے ہمیشہ بیٹھنے کا ارشاد فرماتے.آپ کا طریق تھا کہ صبح دس بجے گھوڑا گاڑی پر دفتر پہنچتے اور خوب جم کر پونے چھ گھنٹے کام کرتے.چار بجے گاڑی آجاتی اور آپ چار بجے واپس اپنی کوٹھی دار السلام چلے جاتے.قیام صدر انجمن احمد یہ سے قبل 6 جنوری سے 15 دسمبر 1902 تک پہلے آپ میگزین ریویو کے اسسٹنٹ فنانشل سیکرٹری اور پھر فنانشل سیکرٹری کے طور پر کام کرتے رہے.1909ء میں آپ صدر انجمن احمدیہ کے امین مقرر ہوئے.1911ء میں آپ صدر انجمن کی طرف سے ناظر مقرر ہوئے.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے 19 اپریل 1914ء کو 16 ممبران پر مشتمل ایک کمیٹی کا تقررفرمایا جس کا کام یہ تھا کہ تعلیم م کالج قادیان کس طرح جلد سے جلد اور کم خرچ پر قائم کیا جاسکتا ہے.نواب صاحب بھی اس کمیٹی میں شامل تھے.1915ء اور 1916ء کو دوسال تک حضرت نواب صاحب صدر انجمن احمدیہ کے جنرل سیکرٹری کے عہدہ پر فائز رہے.الاسلام اخلاق فاضلہ آپ کے اخلاق فاضلہ کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ نہ آپ کسی پر اعتراض کرتے ، نہ ہی کسی کا شکوہ کرتے اور نہ اسے پسند کرتے.نہ غیبت کرتے اور نہ سنتے.آپ کے سامنے کسی کے خلاف بات کرنے کی کسی کو مجال کم ہی ہوتی تھی.ادب اور حفظ مراتب کے بے حد پابند تھے اور اکثر اپنی اولاد اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتے تھے.حضرت نواب صاحب ایک شیر مومن تھے.جس بات کو درست سمجھتے تھے وہی کرتے تھے.
33 32 بزرگان کے لئے احترام آپ اپنے بڑے بھائیوں، بزرگان ، رفقاء کرام اور خاندان حضرت مسیح موعود کیلئے حد درجہ احترام کا جذبہ رکھتے تھے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت نواب صاحب کے اخلاص کا ایک واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے عہد مبارک میں حضرت نواب صاحب نے شہر میں اس جگہ اپنا مکان بنانے کا ارادہ کیا جہاں بعد میں حکیم مولوی قطب الدین صاحب ،سید احمد نور صاحب کابلی ، بابو محمد وزیر خان صاحب اور قاری غلام یین صاحب نے مکان بنوا لئے.جب حضرت نواب صاحب کے مکان کے لئے آپ کے کارکنان نے سرحد میں قائم کیں تو ایک کو نہ ایک بزرگ کی زمین میں چلا گیا اور اس بزرگ کی ناراضگی کا موجب ہوا.حضرت نواب صاحب کے دل میں بزرگوں کا اس قدر احترام تھا کہ آپ نے وہاں مکان بنانے کا ارادہ ہی ترک کر دیا کہ اس میں ابتداء میں ہی تنازعہ ہوا ہے یہ جگہ میرے لئے مبارک نہیں ہو سکتی.اور فرمایا ہماری قادیان میں آمد کی غرض وغایت مکان کی تعمیر نہیں.اللہ تعالیٰ نے اس احتیاط کے نتیجہ میں جو برکات آپ کو عطا کیں وہ بہت زیادہ ہیں.صبر و استقامت حضرت نواب صاحب صبر واستقامت کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے.جن حالات میں آپ نے احمدیت قبول کی اور شجاعت سے اس کا اظہار کیا یہ آپ ہی کا خاصہ تھا ورنہ شاذ و نادر ہی لوگ ایسے صبر واستقامت اور شجاعت کا اظہار کرتے ہیں.عبادات میں شغف آپ حد درجہ کے عفت پسند اور زمانہ کے مفاسد کے باعث پردہ کے حد درجہ پابندی کے حامی تھے.نمازوں کی ادائیگی ، روزہ ، تلاوت قرآن کریم مشاغل دینیہ وغیرہ میں ہمہ وقت مصروف رہتے.آپ معمولاً شب بیدار اور تہجد گزار تھے حتی کہ سفر میں بھی التزام رکھتے.آپ نمازیں نہایت خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرتے.آپ کی اہلیہ محترمہ حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ اس باره بیان فرماتی ہیں.رات کو تہجد میں دعائیں کرتے تو یوں معلوم ہوتا کہ خدا تعالیٰ کا نور کمرہ میں نازل ہورہا ہے.اور اس طرح دعائیں کرتے اور اس قدر گریہ وزاری کرتے کہ نیند اڑ جاتی.تلاوت قرآن مجید کی کثرت کے باعث قریبا تمام قرآنی دعائیں یاد
35 34 نہیں.احادیث کی بھی بہت سی دعا میں یاد تھیں جو اکثر پڑھا کرتے تھے.“ تلاوت قرآن کریم حضرت نواب صاحب صبح کی نماز سے قبل قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور فرمایا کرتے تھے کہ قرآن مجید ایک سمندر ہے جو کوئی بھی اس بحر میں غوطہ زنی کرے گا خالی ہاتھ نہ لوٹے گا، کچھ نہ کچھ حاصل کرے گا.آپ تلاوت قرآن کریم کثرت سے کرتے اور بعض نکات کے معلوم ہونے پر ان کے متعلق علماء سلسلہ سے تبادلہ خیالات کرتے گویا قرآن کریم کی تلاوت آپ کی غذا تھی.ڈائری نویسی حضرت نواب صاحب معمولاً ڈائری لکھنے کا التزام نہ فرماتے لیکن عرصہ ڈائری آپ نے لکھی ہے اس سے آپ کی سیرت و شمائل کا ایک قیمتی حصہ خود آپ کے قلم سے ہمارے سامنے آتا ہے.آپ ڈائری میں چھوٹے بڑے امور کو محفوظ کرتے.آپ نے اپنی زندگی کا ایک لائحہ عمل بنایا ہوا تھا.اس پر مداومت کرتے اگر کسی دن روزانہ معمولات میں فرق آجا تا تو اس کا ذکر بھی کرتے.اس ڈائری سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے وقت کا اکثر حصہ یا تو عبادت و تلاوت قرآن کریم میں گزرتا یا دعوت الی اللہ اور بعض اوقات اہم امور میں مختلف احباب سے تبادلہ خیالات میں.یہ امور عموماً جماعتی نظام کے استحکام کے متعلق ہوتے تھے.سلسلہ کی وسعت اور قومی استحکام کے متعلق آپ کو بڑا درد رہتا تھا.آپ کی زبر دست خواہش ہوتی تھی کہ حضرت مسیح موعود کے ایام زندگی میں جماعت عملی رنگ میں ایک بلند مقام پر پہنچ جائے.آپ کی ڈائری نویسی سے ایک بات یہ ظاہر ہوتی ہے کہ اس میں واقعات کو بالکل صحیح اور سادہ رنگ میں ظاہر کیا ہے.تکلف نہیں مثلاً اگر نماز میں دیر ہو گئی تو اس کا اخفاء نہیں کیا گیا جس سے ان کی صداقت پسندی اور محبت صدق کا اظہار ہوتا ہے.ڈائری سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کے لئے بھی آپ کچھ نہ کچھ وقت دیتے تھے.اس سے بچوں کے ذاتی رجحان اور اخلاق کی درستی میں مددملتی ہے.ن آخری علالت اور وفات حضرت نواب صاحب کی آخری علالت لمبا عرصہ رہی.اس بیماری میں آپ کامل سکون کے ساتھ زندگی کے کاموں میں مصروف رہتے اور احباب جماعت سے اسی خندہ پیشانی سے ملتے.بیماری کا سلسلہ تو بہت پرانا تھا تا ہم آخر پر پیشاب میں خون آنے لگا.اس کیلئے ہر قسم کے علاج کئے گئے مگر کچھ افاقہ نہ ہوا.آخر 10 فروری 1945ء کو بعمر 75 سال حضرت نواب صاحب کا انتقال
37 36 ہوگیا.انَّالِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ وفات کی خبر ملتے ہی قادیان کے مرد اور خواتین حضرت نواب صاحب کی کوٹھی پر پہنچ گئے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی بھی تشریف لے گئے اور رات گیارہ بجے پر تک وہیں رہے.احباب جماعت کے علاوہ سکھ اور ہندو اصحاب بھی بکثرت آتے رہے.مالیر کوٹلہ سے آپ کے عزیز واقارب کے علاوہ لاہور، امرتسر ، کپورتھلہ اور جالندھر وغیرہ سے بعض احباب نے بھی نماز جنازہ میں شرکت کی.حضرت خلیفہ مسیح الثانی نے جنازے کو کندھا دیا بہشتی مقبرہ قادیان سے متصل باغ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.آپ کی تدفین احاطہ خاص میں ہوئی جس میں حضرت مسیح موعود کا مزار مبارک ہے.میت کو لحد میں اتارنے کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ، حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب اور حضرت نواب محمد احمد خان صاحب اترے.قبر مکمل ہونے پر حضور نے تمام مجمع سمیت دعا کرائی.خدا تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کو اپنے قرب میں خاص مقام عطا کرے.ہم اُمید رکھتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جماعت کے جن گرانقدر وجودوں کو اپنی مصلحت کے ماتحت اپنے پاس بلایا ہے ان کے قدموں پر چلنے والے اور وجود عطا فر مائے گا.کیا گیا.کتابیات اس کتاب کی تیاری کے لئے مندرجہ ذیل کتب و اخبارات سے استفادہ ا ازالہ اوہام ا حقیقۃ الوحی ا تذکرہ مکتوبات احمد یہ ( رفقاء ) احمد جلد دوم کتاب سیرت حضرت نواب محمد علی خان صاحب حمد سیرت اماں جان سیرت حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ تاریخ احمدیت اخبار الحکم اخبار الفضل
نام کتاب حضرت نواب محمد علی خان صاحب اشاعت.طبع اوّل