Language: UR
آپ ؓ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے داماد اور حضرت نواب محمد علی خاں صاحب ؓ آف مالیر کوٹلہ کے فرزند تھے جنہوں نے ہر قسم کی آسائش کو چھوڑ کر مسیح پاک ؑ کی قربت کی خاطر ایک چھوٹے سے حجرے میں رہنا پسند کیا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صداقت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ کے سلسلہ بیعت میں صرف غریب اور کمزور لوگ ہی شامل نہ ہوئے بلکہ مالی لحاظ سے بڑےمستحکم اور دنیاوی لحاظ سے عزت و تکریم رکھنے والے بھی آپ کی غلامی میں آئے۔ ایسے آسودہ حال لوگوں نے مسیح پاکؑ کو قبول کرکے پھر باہم محبت و اخوت اور مساوات کا عظیم نمونہ قائم فرمایا۔ عاجزی ، انکساری، ہمدردی خلق، مہمان نوازی ، توکل علی اللہ، خدمت دین اور انفاق فی سبیل اللہ کے نمونہ دکھانے والے اس عظیم وجود کے حالات زندگی کا مطالعہ بہت کچھ سکھانے والا ہے۔
صرف احمدی احباب کی تعلیم تربیت کیلئے " حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب ان پاک وجودوں میں سے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب ہیں جنہوں نے جوانی میں ہی تقویٰ کا اعلیٰ نمونہ دکھایا.حضرت مسیح پاک کی پیار کی نظر آپ پر پڑی اور آپ خدا تعالیٰ کے عظیم فضلوں کے وارث بنے.دنیاوی جاہ و جلال اور شان و شوکت اپنی جگہ مگر آپ کی ذات کو حضرت مسیح پاک علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک انتہائی قریبی رشتہ داری ہونے کے باوجود آپ عاجزی، انکساری، ہمدردی خلق ، مہمان نوازی، انفاق فی سبیل اللہ کا ایک نمونہ تھے.خدا تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان پاک وجودوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.
1 پیش لفظ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے داماد اور عظیم رفیق حضرت نواب محمدعلی خان صاحب ریٹس مالیر کوٹلہ جیسے وجود کے فرزند ہیں جنہوں نے ہر قسم کی آسائش کو چھوڑ کر حضرت مسیح پاک علیہ السلام کی قربت پانے کے لئے ایک چھوٹے سے حجرے میں رہنا پسند فرمایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ آپ کے سلسلہ بیعت میں صرف غریب اور کمزور لوگ ہی شامل نہ ہوئے بلکہ ایسے افراد بھی کثرت سے شامل ہوئے جن کی مالی حیثیت بڑی مستحکم تھی اور دنیوی لحاظ سے بھی عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.لیکن جب قبول کر لیا تو پھر باہمی اخوت، محبت اور مساوات کا عظیم نمونہ دنیا کیلئے قائم کیا.حضرت نواب عبداللہ خان صاحب ایسے ہی وجودوں میں سے تھے جنہیں بعد میں حضرت مسیح موعود کی دامادی کا شرف بھی حاصل ہوا اور دخت کرام حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ آپ کے عقد میں آئیں.حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فدائی رفیق حضرت حجۃ اللہ نواب محمد علی خان صاحب کے صاحبزادے تھے جنہوں نے عین عنفوان شباب میں حضرت مسیح موعود کی بیعت کی توفیق پائی.آپ کیکم جنوری 1896 ءکو پیدا ہوئے.ابھی اڑھائی تین سال ہی کے تھے کہ والدہ کی شفقت بھری گود سے محروم ہو گئے.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب اپنے والد ماجد ( حضرت نواب محمد علی خان صاحب) کے ہمراہ اواخر دسمبر 1901ء میں ہجرت کر کے مالیر کوٹلہ سے قادیان آ گئے تھے.اس طرح آپ کو تقریباً ساڑھے چھ سال تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک صحبت میں رہنے کا موقع ملا اور لمبا عرصہ تک حضرت صاحب کی مہمان نوازی سے فیض یاب ہوئے.اللہ تعالیٰ نے حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو یہ اعزاز بھی بخشا کہ خدا کے پاک مسیح نے اپنی صاحبزادی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کو جن کے متعلق الہام ” نواب مبارکہ بیگم ہو چکا تھا آپ کے عقد میں دے دیا.بچپن میں حضرت نواب عبد اللہ خان صاحب اور ان کے بھائی میاں عبد الرحیم خان صاحب کو حضرت پیر منظور صاحب موجد قاعدہ میسر نا القرآن نے قرآن مجید ناظرہ پڑھایا تھا اور ترجمہ قرآن آپ نے حضرت حافظ روشن علی صاحب سے پڑھا.حضرت نواب محمد عبد اللہ خان
3 2 صاحب نے بچپن میں سات پارے بھی حفظ کئے تھے.اس کے ساتھ ساتھ گھر میں ابتدائی تعلیم بھی جاری رہی.غیر احمدی رشتہ کا ختم ہونا حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب اور میاں عبدالرحیم خان صاحب کے رشتے پہلے غیر حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت والد صاحب ( نواب محمد جب عمر تھوڑی زیادہ ہوئی تو مدرسہ کی زندگی شروع ہوئی.اس زمانے کا نقشہ کھینچتے ہوئے احمدی رشتہ داروں میں طے ہوئے تھے جو کہ بعد میں ختم ہو گئے.حضرت نواب عبد اللہ خان صاحب کے بھائی حضرت میاں عبدالرحیم صاحب بیان کرتے ہیں کہ وہ کیا زمانے تھے.ہم بھائیوں میں سے ہر ایک کی سواری کے لئے ایک ایک گھوڑی تھی.میری مشکی.عبداللہ خان کی ”سبزہ.عبدالرحمان کی کمیڈ.ہر ایک کا الگ الگ سائیس تھا.علی خان صاحب) نے مالیر کوٹلہ سے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں لکھا کہ میں پہلے بھی اس بات کا خواہش مند تھا کہ میرے لڑکوں کے رشتے احمدیوں میں ہوں تا کہ ان میں دینی جذ بہ قائم حضرت نواب صاحب بہترین شکاری ، اچھے کھلاڑی اور مدرسہ کی فٹ بال ٹیم کے ممبر بھی رہے اور وہ غیر احمدیوں کی طرف مائل ہوتے ہیں جو مجھے نا پسند ہے اب جو یہ رشتے ٹوٹے ہیں رہے.بیڈ منٹن بھی بہت اچھی کھیل لیا کرتے تھے.بچپن میں مرغیاں بھی پائی تھیں جس کی وجہ مجھے اس کی وجہ سے بہت تکلیف ہوتی ہے.حضرت خلیفہ اسیح الاول نے فرمایا کہ مجھے تمہارے والد سے بڑی محبت ہے اور والد سے حضرت نواب محمد علی خان صاحب ان کو مرغی مینیجر کہتے تھے.کوٹھی سے مدرسہ گھوڑیوں پر جاتے تھے.کالج میں داخلہ صاحب کا خط دکھایا اور کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ تمہارے رشتے احمدیوں کے ہاں ہوں.اور ان کو ان رشتوں کے ٹوٹنے کی وجہ سے بڑی تکلیف ہوئی ہے.نوابوں اور رئیسوں کی طرف تم لوگ میٹرک میں آپ کے اساتذہ کی رائے تھی کہ یہ پاس نہ ہوسکیں گے اس لئے سکول کی نیک رغبت نہ کرو.ان لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے عبرت کے طور پر قائم رکھا ہوا ہے.تم مغرب اور عشاء کے نامی کے لئے انہیں کمرہ امتحان میں نہ بٹھایا جائے.خود حضرت نواب عبد اللہ خان صاحب کی بھی در میان دورکعت نفل پڑھا کرو اور دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ نواب صاحب کی مالی تکلیف دور کرے یہی رائے تھی مگر آپ کو الہام ہوا مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَمَى یعنی پھر خدا کے فضل سے آپ نے امتحان دیا اور کامیاب ہو گئے.اس سے آپ کے خدا تعالیٰ سے تعلق کا بھی پتہ چلتا ہے.اور اپنے رشتوں کے لئے بھی دعا کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ بہتر جگہ کر دے.حضرت نواب عبداللہ خان صاحب فرماتے ہیں کہ چونکہ حضرت خلیفہ اول جمعہ کے روز عصر سے مغرب تک اپنے گھر میں علیحدگی میں دعا کیا کرتے تھے اس لئے جماعت میں بھی ایسی رو چلی حضرت نواب عبداللہ خان صاحب کا لاہور کے کالجوں میں پڑھے ہوئے احمدی طلباء کے ہوئی تھی.میں بھی کبھی جنگل کی طرف چلا جاتا تھا یا مکان پر ہی دعا کرتا.ایک حصہ پر بڑا احسان ہے.میٹرک کے بعد جب آپ لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخل ہوئے تو اس وقت احمدی طلباء مختلف کالجوں کے ہوسٹلوں میں رہتے تھے اور ان کے اکٹھے رہنے کا کوئی انتظام نہ تھا.آپ نے دوڑ دھوپ کر کے ایک بہت اچھا مکان کرایہ پر لے کر احمد یہ ہوسٹل قائم کروایا.بشارت الہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ بشارت دی کہ آپ کی شادی حضرت مسیح موعود کے گھر میں ہوگی.چنانچہ آپ بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں دو پہر کے وقت آرام کر رہا تھا کہ مجھے خواب میں کسی
5 4 نے کہا ”حضرت مسیح موعود کے گھر میں“.وہ پاک جذبات جن کے تحت یہ رشتہ ہوا ہو جائیں گی اس وقت اس کی بابت گفتگو کی جائے گی.پھر تحریر کیا کہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول مولانا نورالدین صاحب نے بھی اس رشتہ کے حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے اپنے بیٹے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کو متعلق اشارہ فرمایا تھا.تحریر فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ تمہارا رشتہ امتہ الحفیظ حضرت مسیح موعود کی صاحبزادی سے ہو اور یہ مجھ کو اس لئے تحریک ہوئی کہ اس وقت دوسرے بھائیوں کی نسبت تمہیں دین کا شوق ہے رشتے کے بعد حضرت مسیح موعود یا (خاندان) مسیح موعود سے تعلق رشتہ کو موجب برکت و فخر سمجھنا چاہئے اور اپنے آپ کو وہی من آنم کہ من دانم سمجھنا چاہئے.میں نے رشتہ کیا برابری کا خیال بالکل دل سے نکال دیا.جس طرح حضرت اقدس کی عزت کرتا تھا وہی عزت و ادب بعد رشتہ رہا ہے اور جس طرح حضرت ( اماں جان ) کا ادب و عزت کرتا تھا اسی طرح اب مجھ کو عزت اور ادب ہے اور اس سے بڑھ کر.اسی طرح جس طرح اس پاک وجود کے ٹکڑوں کی میں پہلے عزت کرتا تھا ویسی اب ہے.اگر یہ طرز تم بھی برت سکو تو پھر اگر تمہاری منشاء ہو تو میں اس کی تحریک بعد استخارہ کروں.ورنہ ان پاک وجودوں کی طرف خیال لے جانا بھی گناہ ہے.“ حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کا بیان ہے کہ مجھے چونکہ پہلے خواب بھی آچکا تھا اور اس سے بڑھ کر میری اور کیا خوش قسمتی ہو سکتی تھی کہ میرا رشتہ حضور کے ہاں ہو.میں نے والد صاحب کی تمام شرائط کو مانتے ہوئے ہاں کہہ دی.پس بعد از استخارہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے رشتہ کی درخواست حضرت مصلح موعود کی خدمت میں کی اور رشتہ کرنے کے محرکات کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کیا کہ حضرت اقدس نے فرمایا تھا کہ والدہ محمود نے تو خواب میں دوسرے بچے عبداللہ خان کو دیکھا ہے.اور فر مایا تھا که سر دست جب تک مبارکہ رخصت نہ ہولے اس بارہ میں گفتگو نہیں ہوسکتی جب مبارکہ رخصت جواب میں حضرت مصلح موعود نے تحریر فرمایا کہ عزیز عبد اللہ خان نہایت نیک اور صالح نو جوان ہے اور اس کے متعلق ہمیں کسی قسم کا اعتراض نہیں بلکہ ہم سب اس رشتہ کو پسند کرتے ہیں اور خوش ہیں کہ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو یہ رشتہ ہو جائے.“ چنانچہ 7 جون 1915ء کو بروز دوشنبه بعد از نماز عصر حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب اور دخت کرام حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے پندرہ ہزار روپے حق مہر پر پڑھا.حضرت مولانا صاحب اس عظیم سعادت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ خدا کی عظیم الشان نعمت اور رحمت ہے اور ان کو نصیب ہوئی ہے جن کو خدا تعالیٰ نے حجتہ اللہ فرمایا ہے.اس سے میری مراد حضرت نواب صاحب ہیں.حضرت مسیح موعود کی ایک بیٹی جس کے گھر میں جائے اس کو کس قد رسعادت ہے لیکن بتاؤ اس کی سعادت کا کس طرح اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جس کی طرف حضرت مسیح موعودؓ کی دوسری بیٹی بھی خدا تعالیٰ کا فضل لے جائے.اگر ہزار ہا سلطنتیں اور بادشاہتیں بھی حضرت نواب صاحب کے پاس ہوتیں اور انہیں آپ قربان کر کے حضرت مسیح موعود کا دیدار کرنا چاہتے تو ارزاں اور بہت ارزاں تھا لیکن اب تو انہیں خدا تعالی کا بہت ہی شکر کرنا چاہئے کہ انہیں خدا تعالیٰ کے ایک بہت ہی عظیم الشان نبی کی بیٹی مل گئی ہے اور دوسری بیٹی بھی ان ہی کے صاحبزادے کے نکاح میں آئی ہے.“ (( رفقاء ) احمد جلد 2 صفحہ (297)
7 CO رخصتانه 22 فروری1917ء بروز جمعرات حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا رخصتانہ عمل میں آیا.اور مورخہ 23 ،24 فروری 1917ء کو حضرت نواب صاحب نے کوٹھی دار السلام میں احباب کو دعوت ولیمہ پر مدعو کیا.اولاد والا ہے.اس کی تعبیر بعد میں سمجھ آئی کہ میرے دونوں سگے بھائیوں کی شادیاں غیر احمدی خاندانوں میں ہوئیں اور وہ اولاد سے محروم رہے اور مجھے اللہ تعالیٰ نے اولاد در اولا ددی.شادی کی برکات اس شادی کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نواب صاحب کو دینی و دنیوی حسنات سے (( رفقاء ) احمد جلد 12 صفحہ 60) نوازا اور غیب سے اللہ تعالیٰ نے عجیب در عجیب رنگ میں آپ کی مشکلات کو دور فر مایا.سندھ میں آپ نے اراضی خریدی تو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.لیکن حضرت اماں اللہ تعالیٰ نے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب اور دخت کرام حضرت امتہ الحفیظ بیگم جان، خاندان حضرت مسیح موعود کی دعاؤں کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت بخشی اور آپ کو ان نا مساعد حالات سے باہر نکالا.ان حالات کا ذکر کرتے ہوئے حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب صاحبہ کو جو اولاد عطا فرمائی ان کے اسماء درج ذیل ہیں: 1.صاحبزادی آمنہ بیگم صاحبہ 2.صاحبزادہ عباس احمد خاں صاحب 3.صاحبزادی طاہرہ بیگم صاحبہ 4.صاحبزادی ذکیہ بیگم صاحبہ 5.صاحبزادی قدسیہ بیگم صاحبہ 6.صاحبزادہ شاہد احمد خاں صاحب 7.صاحبزادی فوزیہ بیگم صاحبہ 8.صاحبزادہ مصطفی احمد خاں صاحب حضرت مولوی ظہور حسین صاحب مجاہد بخارا بیان کرتے ہیں کہ حضرت نواب صاحب فرماتے تھے کہ حضرت خلیفہ اول کی نصیحت کے مطابق احمدی رشتہ کے حصول کے لئے دعائیں کیں.ایک پٹھان بزرگ نے جن سے میں دعا کرواتا تھا خواب دیکھا کہ ایک تین کونوں والا باغ ہے جس کے دو کو نے تو سوکھ گئے ہیں مگر تیسرا کو نہ نہایت سرسبز و شاداب اور پھلوں پھولوں فرماتے ہیں کہ ” خدا تعالیٰ نے عجیب در عجیب رنگ میں میری مشکلات کو دور فرمایا.مجھے ہر رنگ میں نوازا.میری اس قدر پردہ پوشی فرمائی جس کا اندازہ سوائے میری ذات کے کوئی نہیں لگا سکتا.جب میں نے نواب شاہ سے یہاں آنے کے لئے استخارہ کیا کہ کیا میں اس رقبہ کو حاصل کروں یا نہ.تو اس دعا اور استخارہ کے نتیجے میں میں نے ایک لرزا دینے والی آواز سنی جو کہ میرے اپنے وجود میں پیدا ہورہی تھی کہ تُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ إِنَّ اللهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.اس رقبہ کو لینے کے بعد کس قدر مایوس کن حالات پیش آئے وہ لوگ جو اس وقت میرے ساتھ تھے وہ جانتے تھے کہ کس قدر مشکلات کا سامنا تھا.بسا اوقات میں خود یہ محسوس کرتا تھا کہ میں سندھ میں نہ رہ سکوں گا.لیکن خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ وہ مجھے عزت دے گا اور اپنی قدرت نمائی دکھائے گا.میری ہر ایک دقت اور مصیبت میرے لئے ایک سیٹرھی تھی جو کہ مجھے رفعت اور بلندی کی طرف لے جاتی رہی.اس زمانہ میں میرے مولیٰ نے
9 00 8 اپنی رحمت اور شفقت کا سلوک نہیں چھوڑا.بار بار مجھے اور میری بیوی کو بشارات دے کر میری ڈھارس بندھاتا رہا.خاندان مسیح موعود سے محبت حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کو اللہ تعالیٰ نے جس رحمت اور برکت سے نوازا اس پھر انہی دنوں میں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی کہ مصیبت اور مشکلات میں تیری ناراضگی کا موجب تو نہیں.اگر میری کوتاہی کی وجہ سے ہیں تو مجھے آگاہ کرتا کہ میں کو کبھی بھی آپ نے اپنی طرف منسوب نہیں کیا بلکہ ان سارے انعاموں کو حضرت اماں جان کی اصلاح کروں.میرے پیارے مولیٰ نے ایک رات میری زبان پر یہ الفاظ جاری کئے.وَالضُّحَى وَ الَّيْلِ إِذَا سَجَى مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَ مَا قَلَى وَ لَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولَى وَلَسَوْفَ يَعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَی که الله تعالیٰ نے عروج و زوال انسان کے ساتھ رکھے ہوئے ہیں.وہ نہ تجھ پر ناراض ہوا ہے اور نہ تجھ کو اس نے چھوڑا ہے.عنقریب تیرا رب تجھے اس قدر دے گا کہ تو راضی ہو جائے گا.یہ الفاظ میں نے اس وقت سنے جبکہ یہ زمین وسعت کے باوجود میرے لئے تنگ تھی.ہر طرف مایوسی ہی مایوسی نظر آتی تھی لیکن میں ان مشکلات اور مصائب میں پہاڑ کی طرح کھڑا تھا.اللہ تعالیٰ کی رحمت وکرم کا امیدوار تھا.آخر خدا تعالیٰ نے اپنا وعدہ پورا کیا.“ شاکر بندہ حضرت نواب عبد اللہ خان صاحب اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعماء کا شکر ادا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ اس نے نہ صرف مجھے دنیا ہی نہیں دی بلکہ اپنے بے شمار رحم اور کرم فرما کر حقیقی معنوں میں مجھے عبداللہ بنا دیا.آج میرا دل شکریہ اور اس کی محبت میں لبریز ہے، میرا دل چاہتا ہے کہ جو کچھ میرا ہے وہ سب کچھ اسی کی خاطر قربان ہو جائے اور میں اسی کا ہو کر رہ جاؤں.“ (( رفقاء ) احمد جلد 12 صفحہ 68) دعاؤں کی برکت قرار دیا.اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں کہ در اصل اماں جان انہیں ( حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ.ناقل ) کی اماں نہیں ہیں بلکہ میری بھی اماں ہیں.میرے ساتھ جو محبت اور پیار کا سلوک انہوں نے کیا ہے اپنے ساتھ ایک داستان رکھتا ہے.جب میری شادی ہوئی تو مجھے ایک عورت کے ہاتھ کہلا کر بھیجا کہ میاں کی عمر زیادہ تھی یعنی میرے والد کی.تم چھوٹی عمر والے داماد ہو.تم مجھ سے شر مایا نہ کروتا جو کمی رہ گئی ہے اس کو پورا کر سکوں.پھر آپ نے حقیقی ماں بن کے دکھایا.“ (( رفقاء) احمد جلد 12 صفحہ 69 حاشیہ) حضرت اماں جان سے حضرت نواب صاحب کو بے حد انس تھا.جب آپ ان کے گھر تشریف لاتیں تو یوں معلوم ہوتا کہ گویا نواب صاحب کے لئے عید کا چاند نکل آیا ہے.فور اسب کو بلاتے کہ اماں جان آئی ہیں یہ لاؤ وہ لاؤ، کسی کو کہتے کہ پاؤں دباؤ اور چہرے سے خوشی چھپائے نہ چھپتی تھی.اسی جذ بہ تشکر اور محبت کی وجہ سے اپنے خرید کردہ رقبہ کا نام حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب نے بعد از اجازت حضرت اماں جان کے نام مبارک پر نصرت آباؤ رکھا.حضرت مسیح موعود کی صاحبزادیوں کے متعلق فرمایا کہ دو میں اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود کی دو بیٹیوں کا خادم سمجھتا ہوں.میری ساری کوشش اور محنت صرف اس لئے ہے کہ اس پاک وجود کے جگر پارے آرام پائیں جن میں سے اللہ تعالیٰ نے ایک کو میرے والد اور ایک کو میرے سپرد کیا.“
11 10 ایک دفعہ آپ نے فرمایا کہ میں نے کبھی اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا کہ گو وہ میری wife ہیں مگر حضرت مسیح موعود کی بیٹی اور شعائر اللہ میں سے ہیں.میں تو محسوس کرتا ہوں کہ میں کما حقہ ان کی قدر نہیں کر سکا.اللہ تعالیٰ مجھے توفیق دے کہ میں ان کا تا زندگی کامل طور پر احترام کرتا رہوں.“ اسی طرح وصیت میں اپنی اولاد کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ” میری دعاؤں اور نیک خواہشوں کا وہی بچہ حقدار ہوگا جو اپنی ماں کی خدمت کو جز و ایمان اور فرض قرار دے گا.پس جو بچے میرے بعد ان کو خوش رکھیں گے اور ان کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ان کیسا تھ میری دعا ئیں اور نیک آرزوئیں ہوں گی.جو بچے ان کو ناراض کریں گے وہ میری روح کو دکھ دیں گے میں ان سے دور وہ مجھ سے دور ہوں گے.“ 66 (( رفقاء ) احمد جلد 12 صفحہ 95,96) اپنی اراضی سندھ کے مختار عام منشی عزیز احمد صاحب کو ایک دفعہ فرمایا کہ ”میری زندگی کا کیا اعتبار ہے.میں سچ کہتا ہوں کہ ایسی حالت میں مجھے اگر زندگی کی خواہش ہے تو صرف اور صرف اس لئے ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ مہلت دے تو بقیہ زندگی بیگم صاحبہ کی خدمت کر کے ان کی خدمت کا کچھ صلہ ادا کرسکوں.“ ہمدردی مخلوق آپ ایک جگہ فرماتے ہیں.(( رفقاء ) احمد جلد 12 صفحہ 131) لین دین میں قطعا زیادتی نہیں ہونی چاہیے.آپ احتیاط کرتے ہوئے بے شک میرا حصہ کسی ہاری کو دے دیں لیکن کسی ہاری کا حق میرے لئے حاصل نہ کریں.میں ہر ایک ایسی چیز کو جو کہ ناجائز طور پر حاصل کی جاتی ہے جہنم کی آگ کا ایندھن تصور کرتا ہوں.میں تمام ہاریوں کے رو برو آپ لوگوں کو کہتا ہوں کہ ایسی چیز جو کہ جبر سے، زیادتی سے ہاریوں سے آپ لوگ حاصل کریں گے میں اس سے بری ہوں.اللہ تعالیٰ کے حضور اس کے جواب دہ آپ لوگ ہوں گے میں نہیں ہوں گا.اگر کسی پر زیادتی ہوتی ہے.میرے پاس آئیں، انشاء اللہ اس کا حق اس کو دلایا جائے گا.“ ایک دفعہ آپ کے پاس ایک آدمی نے آ کر اپنی ضروریات کا ذکر کیا.آپ نے اس سے دریافت کیا کہ کتنی رقم سے اس کی حاجت روائی ہو سکتی ہے.بتانے پر اس شخص کو اس سے دگنی رقم کا چیک دے دیا.ایک دفعہ ایک شخص کو اس کی مالی حالت سنوارنے کے لئے دکانداری کے لئے بہت سا روپیہ دیا.اس سے وہ خرچ ہو گیا اور شرمندگی کے باعث بھاگ گیا.آپ کو افسوس ہوا کہ بھاگنے کی اس کو ضرورت نہ تھی.چند سال بعد اس سے ملاقات ہوئی تو نہایت شفقت سے اس سے پیش آئے جس سے اس کا خوف جاتا رہا.کفالت یتامی 1918ء میں قادیان میں انفلوئنزا کی وبا پھیلی.ایک رفیق حضرت حکیم محمد زمان صاحب شاگر د حضرت خلیفتہ اسیح الاول جو کہ حضرت نواب صاحب کے پاس مدت سے بطور خاندانی معالج کے تھے.وہ بھی اسی بیماری میں مبتلا ہو کر راہی ملک بقا ہوئے اور بہشتی مقبرہ میں مدفون ہیں.آپ کے پسماندگان ایک بیوہ ، ایک لڑکا اور چار لڑکیوں کی کفالت حضرت نواب صاحب موصوف نے اپنے ذمہ لے لی.(( رفقاء) احمد جلد 12 صفحہ 135) مکرم خان شاہد احمد خان صاحب فرزند حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب آپ کی رحمدلی کا واقعہ بیان کرتے ہیں کہ ایک واقعہ آپ کی رحمدلی کا میرے بچپن کے ذہن میں ایس نقش
13 12 ہوا ہے کہ اس کی یاد اس طرح تازہ ہے کہ جیسے کچھ ہی دیر قبل کی بات ہو.ایک دفعہ ہم آپ کے یہی رحمدلی کا جذبہ جانوروں کے ساتھ بھی نمایاں نظر آتا تھا.اکثر چڑیوں وغیرہ کو دانہ ساتھ لاہور گئے.کار کا ڈرائیور چند دن پہلے ہی ملازمت میں آیا تھا.آپ نے اسے بہت سا اپنے ہاتھ سے ضرور ڈالتے تھے.قادیان میں ان کے گھر بلیاں آجاتی تھیں.ان کے لئے رو پیدا خراجات کے لئے دیا اور آپ کی اجازت سے وہ ہماری ضروریات پر خرچ کرتا تھا.لاہور قصائی کے ہاں سے باقاعدہ چھیچھڑے آتے تھے.دودھ مقرر تھا.آپ خود سامنے کھلواتے اور سے مراجعت پر اس نے جو حساب دیا.تو اس میں قریباً ایک سور و پیہ کا غبن نکلا.چنانچہ آپ کے بے حد خیال رکھتے.سختی سے پوچھنے پر اس نے تسلیم بھی کر لیا.اس پر آپ نے اسے سخت ست کہا اور کہا کہ اگر شام کو کہیں سے حساب پورا نہ کرو گے تو میں تمہارا معاملہ پولیس کے سپر د کر دوں گا.چنانچہ وہ چلا گیا.انفاق فی سبیل الله آپ نے کئی بار اس خواہش کا اظہار فرمایا کہ میں چاہتا ہوں کہ میں خوب دولت پیدا کروں کو خرچ کر کے اس بات کو عملی رنگ میں ثابت کیا کہ خدا کے مقربین اور متقی لوگ جو کچھ خدا نے شدید ترین حمله مرض شام کو کہیں سے روپیہ لے کر آ گیا.آپ اس وقت باغ میں ٹہل رہے تھے اور پاس ہی میں کھیل اور خدا کی راہ میں خوب چندے دوں.آپ نے اپنی ساری زندگی میں خدا کی راہ میں اپنے مال رہا تھا.جب اس نے روپیہ آپ کو دیا تو میں نے دیکھا کہ روپیہ چھوٹے چھوٹے نوٹوں کی شکل میں تھا اور معلوم ہوتا تھا کہ وہ جگہ جگہ سے مانگ کر اکٹھا کر کے لایا ہے.آپ نے روپیہ لے لیا.تو ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں.اسے کہا کہ تم نے نہایت ہی گندی حرکت کی ہے.اگر ضرورت تھی تو مجھ سے مانگ لیا ہوتا.ایسی اخلاق سے گری ہوئی حرکت کی سزا یہ ہے کہ تم نوکری سے فارغ ہو اور ابھی نکل جاؤ.ابھی والد صاحب نے اپنی بات پوری نہیں کی تھی کہ ڈرائیور رو پڑا اور کہنے لگا.نواب صاحب! میں بیوی بچوں والا ہوں.ضرورت انسان کو بہت سے گرے ہوئے کام کرنے پر مجبور کر دیتی ہے.آپ جبکہ ڈاکٹر بھی مایوس تھے ، سیدنا حضرت مصلح موعود کو نومبر 1950ء میں اللہ تعالیٰ نے آپ کی مجھے معاف کر دیں.میں آئندہ ایسی حرکت کبھی نہیں کروں گا.آپ یقین کریں.میں نے یہ صحت یابی کی اطلاع دی جو کہ پوری ہوئی.آپ اس دورہ کے بعد 13 سال اور حضرت مصلح روپے گھر گھر مانگ کر اکٹھے کئے ہیں.اس کا یہ کہنا تھا کہ آپ کا غصہ یک لخت فرو ہو گیا اور آپ موعود کے کشف کے بعد گیارہ سال زندہ رہے.نے آہستہ آہستہ ٹہلنا شروع کر دیا اور ساتھ ساتھ اسے نصیحت آمیز رنگ میں سمجھاتے بھی جاتے تھے اور ٹہلتے ٹہلتے اس کے قریب پہنچتے تو پانچ یا دس کا نوٹ اس کے ہاتھ میں تھما دیتے اور پھر میں نے دیکھا کہ نوٹوں کی وہ تھی آہستہ آہستہ تمام کی تمام دوبارہ اس ڈرائیور کے ہاتھوں میں منتقل ہو 1949ء میں آپ کو دل کا دورہ پڑا.کئی سال تک بیم و یاس کی حالت رہی.ان ایام میں حضرت مصلح موعود اپنے کشف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں صبح کی نماز کے وقت نماز پڑھ کر لیٹ گیا.بالکل جاگ رہا تھا کہ کشفی طور پر دیکھا کہ کمرہ کے آگے برآمدہ میں میاں عبداللہ خان صاحب چار پائی سے اتر کر گئی اور والد صاحب خالی ہاتھ نہیں بلکہ رحمدلی کے بدلہ رحمت الہی کے ڈھیروں ڈھیر لے کر گھر زمین پر کھڑے ہیں.میں ہی ان کے سامنے ہوں.ان کو جو کھڑے دیکھا تو اس خیال وا پس آگئے.اور اس کی غربت پر رحم کھا کر یہ رقم اسے معاف کر دی.گو اس کی بد دیانتی کی وجہ سے اسے پھر ملازمت میں رکھنے کا خطرہ مول نہیں لیا.سے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو صحت بخشی ہے بے اختیا ر منہ سے الحمد للہ نکلا.اور پھر جیسا کہ عام طور پر ہمارے ملک میں نظر لگ جانے کا وہم ہوتا ہے مجھے بھی اس وقت خیال آیا
15 14 کہ میری نظر نہ لگ جائے.میں نے جھٹ اپنی آنکھیں نیچی کر لیں اور پھر یہ نظارہ جاتا رہا.اس وقت میں مکمل طور پر جاگ رہا تھا.بالکل نیند کی حالت یہ تھی.خواب میں مریض کو یکدم تندرست ہوتا دیکھنا عام طور پر منذر ہوتا ہے مگر ساتھ ہی چونکہ الحمد للہ کہا ہے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ یہ نیک اور مبشر خواب ہے.“ الفضل 23 نومبر 1950 ، صفحہ 4) معجزانہ شفایابی اور شکر خداوندی دوستوں کی خدمت میں درخواست دعا کے عنوان کے ماتحت آپ اس معجزانہ شفا کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: " مجھے 8 فروری 1949ء کو کارونری تھر میبوسس Coronary) (Thrombosis کا اس قدر شدید حملہ ہوا کہ لاہور کے ایک مشہور ڈاکٹر جب دوسرے دن میرے کمرے سے نکلے تو مجھے زندہ دیکھ کر miracle,miracle ( معجزه معجزہ) کہتے ہوئے نکلے.ان کو یہ خیال ہی نہ تھا کہ آج رات میں زندہ کاٹ سکوں گا.میری اس بیماری سے رہائی محض اللہ تعالیٰ کے کرم کا نتیجہ ہے.میں آج سے 5 سال قبل ختم ہو گیا ہوتا لیکن میرے بزرگوں، میرے عزیزوں ، میرے مخلص دوستوں اور اس برادری کے افراد نے جن کو حضرت مسیح موعود نے ایک دوسرے کے ساتھ منسلک کر دیا ہے، میری چلتی پھرتی تصویر انھیں کی دعاؤں کا کرشمہ ہے، جو انھوں نے مضطر بانہ اور بے قراری کے جذبہ کے ماتحت میرے لئے کیں.انھوں نے مجھے اپنے مولیٰ کریم جو کہ جی قیوم اور سمیع ہے مانگ کر صبر کیا.ایک مخلص بہن نے میری بیوی کو لکھا کہ جب انھوں نے میری تشویشناک حالت کو اخبار میں پڑھا تو وہ سجدہ میں گر گئیں اور اس قدر اضطراب اور بے قراری سے ان الفاظ میں دعا کی کہ جب تک اے میرے مولیٰ تو مجھے ان کی صحت کے متعلق مطمئن نہیں کر دیتا میں تیرے حضور سے سر نہیں اٹھاؤں گی، چنانچہ ان کو تسلی مل گئی تو پھر انھوں نے بارگاہ ایزدی سے سر......اٹھایا پھر فرماتے ہیں: پھر میں کس کس بات کا شکر یہ ادا کروں یہ میری خوش نصیبی سمجھئے یا حسن اتفاق کہ اس کڑے وقت میں سارا خاندان ایک جگہ اکٹھا تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی اس بیماری کے ایام میں مہربانی فرماتے رہے.ان کی خاص دعاؤں کا مورد بنارہا کہ انھوں نے میرے اچھا ہونے سے پہلے خواب میں مجھے پورا صحت یاب دیکھا.پھر حضرت اماں جان جو کہ میرے لئے ماں سے بڑھ کر تھیں ، میں اپنی ماں کی محبت سے محروم تھا کیونکہ میں بچہ ہی تھا کہ وہ فوت ہو گئیں لیکن اس کمی کو حضرت اماں جان کی محبت نے پورا کر دیا.جب میری طبیعت زیادہ خراب ہوتی تو وہ فوراًمیری چارپائی کے پاس آن کر بیٹھ جاتیں.نہ صرف دعا کرتیں بلکہ ان کا پر سکون چہرہ اور پر امید چہرہ میرے لئے ایک بیش بہا آسرا ہوا کرتا تھا.پھر اپنی والدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا شکر یہ ادا کرنے کے لئے الفاظ نہیں پاتا.انھوں نے میری محبت میں ایک سال نہایت تکلیف اور بے آرامی میں میرے کمرے میں گذارا.ہر قسم کے آرام و آرائش کو چھوڑ کر میرے آرام میں لگی رہیں.نہ صرف یہ کیا بلکہ جماعت میں جو مضطر بانہ اور بے قراری کا جذبہ دعا کے لئے پیدا ہوا، زیادہ یہ انہیں کی تحریک کا نتیجہ تھا.اب میں یہاں آکر اپنی بیوی حضرت دخت کرام امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کا ذکر نہ کروں تو نہایت ناشکری اور ظلم ہوگا.یہ نور کا ٹکڑہ حضرت مسیح موعود کا جگر گوشہ جو کہ میرے پہلو کی زینت بنا ہوا ہے.کس خدمت اور کس نیکی کے عوض مجھے حاصل ہوا
17 16 ہے.اس بات کو سوچ کر میں ورطہ حیرت و استعجاب میں پڑ جاتا ہوں...اللہ تعالیٰ نے اس انعام کو دے کر مجھے زمین سے اٹھا کر آسمان پر پہنچا دیا.اس مہر و وفا کی مجسم نے جب میری بیماری کی اطلاع راولپنڈی میں پائی تو نہایت درجہ پریشانی کی حالت میں فور الا ہور پہنچیں.یہ میری بیماری کی پہلی رات تھی اور ساری رات موٹر پر ان کو رہنا پڑا صبح چار بجے کے قریب لاہور پہنچیں.پھر اس قدر تند ہی اور جانفشانی سے میری خدمت میں لگ گئیں کہ میں نہیں کہہ سکتا کوئی دوسری عورت اس قد ر محبت اور پیار کے جذبہ سے اپنے خاوند کی خدمت کر سکتی ہو.ان ایام میں ملازموں کے علاوہ تمام عزیز رشتہ دار میری خدمت میں لگے ہوئے تھے.میں اس بیماری میں اپنے آپ کو اس قدر خوش نصیب اور خوش بخت لوگوں میں متصور کرتا تھا جس کا آپ لوگ اندازہ ہی نہیں کر سکتے.“ بیماری کے متعلق خواب چلنے پھرنے لگ گئے تھے مگر پوری طرح آرام نہ آیا تھا.میاں رحم دین صاحب جو حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے قدیمی ملازم تھے اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے سفر یورپ 1924ء میں ہمرکاب رہے.بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کے والد ماجد سے ان کے ایک دوست سردار جوگندر سنگھ صاحب نے جو پنجاب میں وزیر تھے کہا کہ اپنے بچوں کو بھجوائیں تو میں اعلیٰ ملازمتیں دلوا دوں گا.حضرت نواب صاحب نے میاں عبد الرحمان کا نام لیا تو سردار صاحب نے میاں عبداللہ خان صاحب کو بھجوانے کے لئے کہا.لیکن نہ صرف حضرت نواب صاحب نے بلکہ میاں صاحب موصوف نے بھی انکار کیا اور کہا کہ میں دنیوی ملازمت کا خواہش مند نہیں.اول تو میں سلسلہ کی خدمت کروں گا، ورنہ تجارت.(( رفقاء) احمد جلد 12 صفحہ 145) چنانچہ آپ کو خواہش کے مطابق تجارت میں بھی خدا تعالیٰ نے خوب برکت دی اور خدمات سلسلہ بھی بجالانے کی توفیق آپ کو ملی.خدمات سلسلہ آپ نے متعد د خدمات سلسلہ کی توفیق پانچن کا مختصر ذکر کیا جاتا ہے.1919-1 ء میں بطور قائم مقام آڈیٹر حضرت نواب صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنی بیماری کے آغاز میں خواب دیکھا کہ حضرت والد صاحب ایک باغ میں ہیں جس کے اردگرد ایک اونچی فصیل بنی ہوئی ہے.لیکن میں اس کے اندر جانا چاہتا ہوں اور نٹوں کی طرح ایک بانس کا سہارا لے کر اندر جانا چاہتا ہوں لیکن حضرت والد صاحب مانع ہو رہے ہیں اور ان کے حکم سے پولیس مجھے پکڑ کر لے گئی ہے اور مجھے پانچ سال کی قید سنادی گئی ہے.یہ خواب میں نے کئی عزیزوں کو کئی بار سنایا ہے اور آج یہ خواب پورا ہوتا نظر آتا ہے.کیونکہ میری بیماری کے عرصہ کو 8 فروری 1954ء کو پورے پانچ سال ہو جائیں گے.میرے متعلق حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور دیگر احباب کو کثرت سے بشارتیں احمد یہ رقم فرماتے ہیں: ہوئیں.ان سے پتہ چلتا ہے کہ میری صحت اللہ تعالیٰ کے رحم وکرم سے اور ترقی کرے گی.(( رفقاء ) احمد جلد 12 صفحہ 87,88) اس بیماری کی وجہ سے آپ صاحب فراش ہو گئے تھے.پانچ سال کے بعد آپ تھوڑا بہت رپورٹ سالانہ صدر انجمن احمد یہ بابت 1919, 1918، صفحہ 14) 2.جلسہ 1917ء کے متعلق حضرت خلیفہ رشید الدین صاحب جنرل سیکرٹری صدر انجمن میں اب سب احمدیان قادیان کا اور ممبران سب کمیٹی برائے انتظام جلسہ سالانہ کا، خصوصاً صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب وصاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ومیاں عبداللہ خان صاحب اور ماسٹر محمد دین صاحب بی.اے کا شکر یہ ادا کرتا ہوں کہ
19 18 انہوں نے دن رات محنت اور مشقت اٹھا کر اور گرم بستروں کو خیر باد کہہ کر اپنے عزیز مہمانوں کی خاطر مدارات کی.جَزَاهُمُ اللَّهُ اَحْسَنَ الْجَزَاءِ برکات ہوا بلکہ آپ کے خاندان کے لئے بھی تا ابد باعث صد افتخار ہوا کہ حضرت مسیح موعود کی صاحبزادی حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے 24 اگست 1962ء کو زیورک میں وارد ہو کر اگلے 3.جلسہ سالانہ 1919ء میں مہمانوں کے متعلق ضروری انتظامات اور جلسہ گاہ کی تیاری دن بروز ہفتہ صبح ساڑھے دس بجے قلب یورپ میں یعنی سوئٹزر لینڈ کے مرکزی شہر زیورک میں کا کام آپ کے سپر د تھا.4.جلسہ سالانہ 1924ء میں آپ مہتم جلسہ سالانہ بیرون قصبہ تھے.5.حضرت مصلح موعود نے 11 اپریل 1944ء کو بعد نماز مغرب بیان کیا: ایک دفعہ رویا میں میں نے دیکھا کہ ہمارے مکانات کے ایک کمرہ میں حضرت مسیح موعود چار پائی پر بیٹھے ہیں اور میں بھی آپ کے ساتھ بیٹھا ہوں.اتنے میں زلزلہ آیا اور وہ زلزلہ اتنا شدید ہے کہ اس کے جھٹکوں سے مکان زمین کے ساتھ لگ جاتا ہے.یہ دیکھ کر میں وہاں سے بھاگنے لگا ہوں مگر معا مجھے خیال آتا ہے کہ حضرت مسیح موعود بھی تو یہیں تشریف رکھتے ہیں میں کس طرح بھاگ سکتا ہوں.جب زلزلہ ہٹا اور میں باہر نکلا تو میں نے دیکھا کہ میاں عبداللہ خان باہر کھڑے ہیں اتنے میں پھر زلزلہ آیا اور مکان اپنی جگہ واپس چلا گیا.صرف اس کی مٹی ذرا ٹیڑھی ہے اور میں خواب میں ہی کہتا ہوں کہ مکان اپنی جگہ واپس آ گیا ہے.“ خانہ خدا کی عمارت کا سنگ بنیاد اللہ تعالیٰ کے حضور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اپنے دست مبارک سے رکھنے کی توفیق پائی.یہ یورپ کی پانچویں (بیت الذکر ) ہے.ایک خصوصی تقریب میں آپ نے زیر تعمیر ( بیت الذکر کی محراب والی جگہ کے نیچے بنیاد میں وہ اینٹ جس پر سیدنا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی نے دعا کی ہوئی تھی رکھی.تبرکات حضرت مسیح موعود نظارت تالیف و تصنیف کے اعلان کے مطابق حضرت میاں صاحب کے پاس درج ذیل تبرکات تھے.1.ایک گرم کوٹ 2.ایک کر پی لمل 3.ایک پاجامہ -4 ایک صندوقچی جس میں حضرت صاحب مسودہ جات وغیرہ رکھا کرتے تھے.5.ایک چوتہی جو کہ وقت وصال حضور کے زیر استعمال تھی.6.ایک دوتی جس پر حضور نے برکت کی دعا فرما کر عطا فرمائی.الفضل 10 مئی 1944 صفحہ 5) چنانچہ تقسیم ہند کے بعد حضرت میاں صاحب کو اولین ناظر اعلی کے طور پر خدمات تفویض ہوئیں جو انھوں نے کمال حسن و خوبی سے سرانجام دیں.6.آپ کو تالیف واشاعت اور انسداد ارتداد کے شعبہ جات میں بھی خدمات بجالانے کا ایک ٹویی.موقعہ ملا.آپ نے ناظر اور پھر نائب ناظر اشاعت کے طور پر بھی کام کیا.7.حضور کے عمامہ مبارک سے کاٹ کر ایک ململ کا کرتہ نوزائیدہ بچہ کو پہنانے کے لئے اور اولاد کو وصیت (( رفقاء ) احمد جلد 12 صفحہ 94,95) آپ نے قرب وفات محسوس کر کے وصیت رقم فرمائی.اس میں سے کچھ حصے درج اولین ( بیت الذکر ) سوئٹزر لینڈ کا سنگ بنیاد تاریخ احمدیت میں یہ امر ہمیشہ یادگار رہے گا جو نہ صرف یورپین ممالک کے لئے موجب کئے جاتے ہیں.
21 20 صلى الله میں ایمان رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات کے ساتھ وحدہ لا شریک ہے.حضور سرور کائنات نبی کریم ﷺ خاتم النبین ہیں اور حضرت مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود اور مہدی آخر الزمان متصور کرتا ہوں.آپ نے عشق نبی کریم صلى الله ے میں اس قدر کمال حاصل کیا کہ آپ مَنْ فَرَّقَ بَيْنِي وَبَيْنَ الْمُصْطَفَى فَمَا عَرَفَنِي وَ مَا رَای کے مصداق ٹھہرے اور کلی طور پر فنافی الرسول کا مقام حاصل کیا اور حضور کی غلامی میں نبوت کا درجہ حاصل کیا.میرے ایمان کا جزو ہے کہ خلافت کا قیام الہی سلسلوں کے قیام اور بقاء کے لئے لازمی اور ضروری ہے.جو سلسلہ اس نظام سے بدقسمتی سے محروم ہو گیا ہے اس کو کبھی استحکام حاصل نہیں ہو سکا.ایک منتشر پراگندہ گروہ ہو کر رہ گیا.میری دعا اور آرزو ہے کہ میری اولا دخلافت سے منسلک رہے اور ہمیشہ اس گروہ کا ساتھ دیں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولاد کے افراد زیادہ سے زیادہ ہوں کیونکہ حضور سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے اِنِّی مَعَكَ وَمَعَ أَهْلِكَ (میں تیرے اور تیرے اہل کے ساتھ ہوں ).نماز باجماعت ادا کرنے کی کوشش کریں اور ہر مصیبت میں مولیٰ کریم کو قادر مطلق خدا تصور کرتے ہوئے اس کے حضور جھک کر عجز وانکسار سے استقامت طلب کریں.میں نے اسی طریق سے زندہ خدا کو پایا اور اپنی مشکلات کو کافور ہوتا دیکھا.حقوق اللہ اور حقوق العباد کا خاص خیال رکھیں.ہمیشہ ان کے سامنے یہ بات ہونی چاہیے کہ وہ کس ماں کی اولاد ہیں اور کس نانا کے وہ نواسے اور نواسیاں ہیں.کس مقام کا ان کا ماموں ہے اور وہ اس دادا کی اولاد ہیں جس نے اپنی اور اپنی اولا دسنوارنے کے لئے اپنے وطن کو چھوڑا اور محلات کو چھوڑ کر ایک کور بستی میں ایک تنگ مکان میں بسیرا کیا اور صرف اس لیے حضرت مسیح موعود کے قدموں میں آن بیٹھا تا اس کو اور اس کی اولادکو از لی زندگی حاصل ہو اور دین کو مقدم کرنے کا موقعہ ملے.“ پھر تحریر فرماتے ہیں: ”میری دعاؤں اور نیک خواہشوں کا وہی بچہ حقدار ہوگا جو اپنی ماں کی خدمت کو جز و ایمان اور فرض قرار دے گا.ان کی ماں معمولی عورت نہیں ہیں.میں نے ان کے وجود میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات کو کارفرما دیکھا ہے.ہر وقت اور ہر مشکل کے وقت ان کی ذات کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار کا محور پایا.چار سال کی عمر میں اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے حبیب کی گود سے لیا پھر عجیب در عجیب رنگ میں ان کی ربوبیت فرمائی.میں نے اللہ تعالیٰ کے جو نشانات اپنی زندگی میں ان کے وجود میں دیکھے ہیں وہ ایک بڑی حد تک احمدیت پر ایمان کامل پیدا کرنے کا موجب ہوئے ہیں.پس جو بچے میرے بعد ان کو خوش رکھیں گے اور ان کی رضا حاصل کرنے کی کوشش کریں گے ان کے ساتھ میری دعائیں اور نیک آرزوئیں ہوں گی.جو بچے ان کو ناراض کریں گے وہ میری روح کو دکھ دیں گے میں ان سے دور وہ مجھ سے دور ہوں گے.“ مرض الموت 66 (( رفقاء) احمد جلد 12 صفحہ 95,96) مرض الموت میں آپ نے 1949 ء کے دورہ مرض کے حالات اور موجودہ حالت مرض بیان کر کے صحت اور خاتمہ بالخیر کے لئے درخواست دعا کرتے ہوئے رقم فرمایا: ” مجھے 49ء میں کا رونری تھر مبوسس کا حملہ ہوا تھا.یہ حملہ اس قدر شدید تھا کہ پانچ سال تک مجھے چار پائی پر رہنا پڑا.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے محض اپنے رحم وکرم سے اس قدر فضل فرمایا کہ میں چار پائی سے اٹھ بیٹھا.پھر تھوڑا بہت چلنے پھرنے لگ گیا اور گھر میں اپنی معمولی ضروریات پوری کر لیتا تھا.پچھلے سال تک میرا دل بیمار تھا لیکن زندگی کی بشاشت باقی تھی.کبھی دل میں کمزوری آئی.دوائی لے لی.آرام آ
23 22 گیا.لیکن اس سال پھر بیماری کے بعض عوارض عود کر آئے ہیں.دل کی کمزوری کی وجہ سے دل و جگر بڑھ گیا ہے.معدہ کی حالت درست نہیں رہی ہے.نفخ ہو جاتا ہے جس سے رات کو نیند خراب ہو جاتی ہے.ڈیڑھ ماہ سے ایک قلبی بیماری جس کو Atrial Fibrillation کہتے ہیں پیدا ہو گئی ہے.جس کی وجہ سے نبض خراب رہتی ہے.میں ڈاکٹر محمد یوسف صاحب ایم.ڈی کے زیر علاج ہوں.ان کا فرمانا ہے کہ اوائل بیماری میں یہ تکلیف پیدا ہوئی تھی لیکن پھر جاتی رہی تھی اور اب پھر قلبی کمزوری کی وجہ سے پیدا ہوگئی ہے.اس کا علاج انہوں نے دعا بتایا ہے.جس سے صاف ظاہر ہے کہ ان کے پاس علاج کوئی نہیں.خدا تعالیٰ سے رحمت کے ہی امیدوار ہیں.اس کے علاوہ ان کو علم ہے کہ میری پچھلی بیماری میں مجھے بزرگان سلسلہ اور احباب کرام کی دعاؤں سے ہی شفا ہوئی تھی.ورنہ ظاہری اسباب میرے بچنے کے کوئی نہ تھے.اس لئے بھی علاج کے ساتھ انہوں نے دعاؤں پر زور دیا ہے.بہر حال ڈیڑھ ماہ سے صاحب فراش ہوں.حالت بدستور ایک جیسی چلی جاتی ہے.کمزوری بڑھ گئی ہے.طبیعت کی بشاشت جاتی رہی ہے.اب مجھ سے بعض دوستوں نے خواہش ظاہر کی ہے کہ میں اپنا حال اخبار الفضل میں دوں تا کہ حالت کا علم ہونے پروہ دوست جو مجھ سے محبت کا تعلق رکھتے ہیں دعا کرسکیں اور اللہ تعالیٰ پہلے کی طرح اپنا رحم و کرم فرمادے اور صحت دے.چار پانچ سال کا عرصہ ہوا ہے جبکہ میں کافی بیمار تھا.میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی شخص کہتا ہے کہ تمہاری عمر 66 سال کی ہوگی.کچھ فاصلہ پر حضرت والد صاحب نواب محمد علی صاحب مرحوم کھڑے ہیں.وہ مجھ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا کہتا ہے.میں نے عرض کی کہ کہتا ہے کہ میری عمر 66 سال کی ہوگی.اس پر آپ فرماتے ہیں.ہاں ہاں 66 سال کی تو ہو ہی جائے گی.لہجہ اس قسم کا ہے جس سے مترشح ہوتا ہے کہ ممکن ہے کہ 66 سال سے کچھ زائد بھی ہو جائے.بہر حال اللہ تعالیٰ اپنے امر پر غالب ہے.میاں فضل محمد صاحب ہرسیاں والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ( رفقاء) میں سے تھے.انہوں نے خواب دیکھا کہ ان کی عمر 45 سال کی ہو گی.وہ روتے ہوئے حضرت مسیح موعود کے پاس پہنچے کہ حضور میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور میں نے یہ خواب دیکھا ہے.حضور نے ان کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا ”میاں فضل محمد! اللہ تعالیٰ اس پر بھی قادر ہے کہ 45 کی بجائے تمہاری عمر اللہ تعالیٰ نوے سال کر دے.چنانچہ انہوں نے نوے سال کی عمر پائی.مومن کی دعا تقدیر میں بدل دیتی ہے.اس لئے مایوس ہونے والی کوئی بات نہیں لیکن جوں جوں 66 سال کے قریب میری عمر پہنچ رہی ہے بیماری کا زور بھی بڑھتا چلا جاتا ہے.یہ امر قابل تشویش ہے.اس وقت میری عمر 65 سال 7 ماہ ہے.اس لئے اپنے خاص محبت رکھنے والے دوستوں اور افراد سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ دعا کریں جتنی عمر اللہ تعالیٰ دے وہ فعال زندگی ہو.نافع ، مفید زندگی ہو.میں بے بس ہوں.بے کس ہو کر دوسروں کے ہاتھوں میں نہ پڑ جاؤں.میری بیوی حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ نے بے مثال نمونہ میری خدمت کا میری چھلی بیماری میں پیش کیا تھا.اس خدمت اور محنت سے ان کے اعصاب پر بہت برا اثر پڑا ہے.اللہ تعالیٰ اب ان کو لیبی تیمار داری سے بچائے اور مجھے ایسی صحت اور عمر دے کہ ان پر میں کسی قسم کا بار نہ بنوں.میرا خاتمہ بالخیر ہو.اولا دا ایسی چھوڑ کر جاؤں جو احمدیت کی سچی خادم اور اللہ تعالیٰ کی رضا لئے ہوئے ہو.بعض ذمہ داریاں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بھی مجھ پر ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی کما حقہ ادائیگی کی توفیق دے.پس بزرگان سلسلہ اور ( رفقاء) کرام اور درویشان قادیان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ اپنی خاص دعاؤں میں مجھے یا درکھیں.فجزاهم الله احسن الجزاء الفضل 10 اگست 1961 ء صفحہ 2)
25 24 وفات حضرت نواب صاحب کی طبیعت 17 اور 18 ستمبر 1961 کی درمیانی رات کو بہت زیادہ سیرت حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب خراب ہوگئی تھی.18 ستمبر بروز دوشنبہ ساڑھے آٹھ بجے صبح آپ نے لاہور میں بعمر 66 سال حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کی امتیازی خصوصیت وہ عشق و وفا تھی جو آپ کو اللہ داعی اجل کو لبیک کہا.آپ نے ایک خواب دیکھا تھا جس میں آپ کی عمر 66 سال بتائی تعالی ، رسول کریم ﷺ اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مسیح موعود کیجاندان اور پھر گئی تھی.19 ستمبر کو صبح ساڑھے آٹھ بجے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کی تدفین بہشتی مقبرہ ربوہ قطعہ خاص میں عمل میں آئی.آپ کی وفات پر جماعت کے لئے حضرت مصلح موعود نے ارشاد فرمایا: نواب عبد اللہ خان صاحب حضرت مسیح موعود کے داماد تھے ان کا حق ہے کہ جماعت ان کی بلندی درجات کے لئے خاص طور پر دعائیں کرے.“ احباب جماعت سے علی حسب مراتب تھی.ذوق نماز و دعا حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب شروع سے ہی نماز کے عاشق تھے.مدرسہ کی زندگی سے ہی نمازوں میں پیش پیش تھے.آپ کے دوست ملک غلام فرید صاحب ایم.اے بیان کرتے ہیں کہ آپ پنجوقتہ نماز با جماعت کے نہایت شدت کے ساتھ پابند تھے.میں نے اپنی الفضل 28 ستمبر 1961 ء صفحہ 1) زندگی کے پچاس سال ان کے ساتھ گزارے.میں ایمانداری کے ساتھ یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے آپ کی طرح تمول اور تنعم میں پرورش پایا ہوا نماز کا ایسا پابند انسان ساری عمر نہیں دیکھا.وہ جہاں کہیں ہوتے تھے ، یہاں تک کہ جب سیر یا بحالی صحت کے لئے پہاڑ پر بھی جایا کرتے تھے تو ان کی کوٹھی کا ایک کمرہ ہمیشہ نماز با جماعت کے لئے مخصوص ہوتا تھا.نہایت با قاعدگی سے پانچ وقت ( نداء) ہو کر نماز با جماعت ہوتی تھی.انھوں نے زندگی کے آخری سال لا ہور میں گزارے اور شاید سارے لاہور میں صرف ان کی کوٹھی ہی تھی جہاں پانچ وقت نماز باجماعت کے علاوہ ماڈل ٹاؤن کے احباب نماز جمعہ بھی ادا کرتے تھے اور وہاں حدیث ، کتب حضرت مسیح موعود کا درس بھی ہوتا تھا.جن حالات میں آپ نے پرورش پائی ان کو دیکھتے ہوئے ان کا ایسا پا بند صوم وصلوۃ ہونا ان کے باخدا انسان ہونے کی ایک زندہ دلیل ہے.الفضل 30 ستمبر 1961 ءصفحہ 5)
27 26 حضرت نواب صاحب کے بھائی حضرت میاں عبدالرحیم خاں صاحب کا بیان ہے کہ و میں نے ان کو کبھی روتے نہیں دیکھا البتہ نماز میں اللہ تعالیٰ کے حضور ضر ور روتے تھے.“ (( رفقاء) احمد جلد 12 صفحہ (32) حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ مسیح الرابع حضرت میاں صاحب کے نماز سے لگاؤ کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”نماز کے عاشق تھے.خصوصا نماز با جماعت کے قیام کے لئے آپ کا جذبہ اور جدوجہد امتیازی شان کے حامل تھے.بڑی باقاعدگی سے پانچ وقت ( بیت الذکر ) میں جانے والے.جب دل کی بیماری سے صاحب فراش ہو گئے تو ( نداء) کی آواز کو ہی اس محبت سے سنتے تھے جیسے محبت کرنے والے اپنے محبوب آواز کو.جب ذرا چلنے پھرنے کی سکت پیدا ہوئی تو بسا اوقات گھر کے لڑکوں میں سے ہی کسی کو پکڑ کر آگے کھڑا کر دیتے اور باجماعت نماز ادا کرنے کے جذبہ کی تسکین کر لیتے.یا رتن باغ میں نماز والے کمرے کے قریب ہی کرسی سرکا کر با جماعت نماز میں شامل ہو جایا کرتے.حضرت پھوپھا جان ان افراد میں سے نہیں تھے جو خود تو سختی سے نمازوں کے پابند ہوں لیکن بچوں کا اس بارہ میں خیال نہ رکھیں.کم ہی ایسے بزرگ ہوں گے جو اتنی با قاعدگی سے بلاناغہ روزانہ بچوں کو پنجوقتہ نمازوں کی تلقین کرتے ہیں اور پھر تلقین بھی ایک خشک ملاں کی بے لذت متشددانہ تلقین نہیں بلکہ ایسی پر اثر تلقین جیسے دل اس کے ساتھ لپٹا ہوا ساتھ چلا آیا ہو.اگر کوئی بچہ ستی کرتا تو چہرہ پر غم اور فکر کے آثار بے اختیار ظاہر ہوتے اور اگر کوئی بچہ آواز پر فوراً لبیک کہتا تو ناز سے بھری ہوئی خوشی کے جذبات آپ کے چہرہ کو شگفتہ کر دیتے.“ دعا گو ، دعائیں کرنے والے، دعا گو بزرگوں کی خدمت کو سعادت سمجھنے وال رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ کی مجسم تصویر.ہرا ہم کام (( رفقاء) احمد جلد 12 صفحہ 152,154) میں کثرت کے ساتھ بزرگوں ، دوستوں عزیزوں سے استخارے کرواتے حتی کہ گھر کے بچوں کو بھی بار بار دعا کے لئے کہنا اور پھر منتظر رہنا کہ کسی پر خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی بشارت ظاہر ہو.“ حضرت نواب صاحب کے فرزند شاہد احمد خان صاحب اپنے والد بزرگوار کی سیرت کے اس پہلو پر یوں اظہار کرتے ہیں کہ والد محترم نہایت با قاعدگی سے تہجد پڑھتے تھے اور اس میں بلند آواز سے دعائیں کرتے تھے.عرصہ تک میں سمجھتا رہا کہ نماز تہجد شاید بچوں کو معاف ہے اور بڑوں پر فرض ہے کیونکہ میں نے والد صاحب کو اس باقاعدگی سے تہجد ادا کرتے ہوئے دیکھا کہ مجھے یہ معلوم کر کے از حد حیرت ہوئی کہ یہ نماز فرض نہیں.گو بعض لوگ اسے معمولی سمجھیں لیکن میری نظر میں غیر معمولی ہے اور اب تک اس کا اثر میرے ذہن پر قائم ہے اور یہ نظارہ میرے ذہن پر بچپن میں ایسا کھب گیا تھا کہ اب بھی جب میں سوچتا ہوں تو چند لحہ قبل کی بات معلوم ہوتی ہے.ایک دفعہ سفر کراچی میں آپ کے ہمراہ تھا.ان دنوں یہ سفر دوراتوں اور ایک دن میں طے ہوتا تھا.رات کو آپ نے مجھے نچلے برتھ پر سلا دیا اور خود اوپر والے برتھ پر سو گئے.رات کے آخری حصہ میں مجھے ایک مخصوص سی آواز نے جگا دیا.میں نے اوپر کی طرف جھانکا تو آپ کو حسب معمول اپنے رب کے حضور تہجد میں گریہ وزاری میں مصروف پایا.حضرت مرزا عبدالحق صاحب بیان کرتے ہیں: آپ ان بزرگوں میں سے تھے جنہیں اللہ تعالیٰ پر زندہ ایمان ہوتا ہے اور اس کے آستانہ کے ساتھ اپنی ساری حاجات کو وابستہ کر دیتے ہیں.آپ ہر معاملہ میں سب سے اول دعا کی طرف رجوع کرتے اور اپنے دوستوں کو بھی نہایت عاجزی کے ساتھ دعا کی درخواست کرتے.یہ آپکے ایمان کا تقاضا ہوتا جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے آپ کے اندر پیدا فرمایا تھا.آپ دعاؤں میں بہت تضرع
29 28 اور زاری سے کام لیتے تھے.“ ایک اعزاز حضرت ملک غلام فرید صاحب فرماتے ہیں: (( رفقاء) احمد جلد 12 صفحہ 126) حضرت خلیفتہ اسیح الاول ایک درس اپنے کچے مکان کے صحن میں مغرب کی عشق قرآن حضرت میاں صاحب کو قرآن مجید سے عشق تھا.قرآن کی کثرت کے ساتھ اور ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کرتے تھے.خصوصاً قُرانُ الفَجر نہایت خشوع اور الحاح سے پڑھتے.یوں معلوم ہوتا کہ ہر لفظ پر غور کیا جا رہا ہے اور ہر لفظ سے دل گداز ہو رہا ہے.حضرت خلیفۃ امسیح الاول اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے درسوں میں با قاعدہ شامل ہوتے تھے.آپ حضرت مصلح موعود کی نماز کے بعد بھی دیا کرتے تھے.میں اس درس میں شامل ہوا کرتا تھا.میں نے ایک دن حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب اور میاں عبدالرحیم خاں صاحب خالد کو اس درس میں شامل ہونے کی تحریک کی...اس وقت قادیان کی زندگی نہایت غریبانہ تھی اور درس کی اس مجلس کے لئے نہایت معمولی ایک آدھ لیمپ ہوا کرتا تھا.درس میں حاضری کی دوسری شام کو ہی میاں عبداللہ خان صاحب اپنی کوٹھی سے گیس کا ایک لیمپ لے آئے.حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے جب گیس کی وہ سفید اور خوش نما روشنی دیکھی تو حضور نہایت خوش ہوئے اور بار بار فرماتے کہ آج تو ہمارا دل باغ باغ ہو گیا ہے اور ان دونوں صاحبزادوں کو بہت دعائیں دیں.انہی دنوں درس کی مجلس میں ایک عجیب وغریب واقعہ ہوا.حضرت خلیفۃ المسیح الاول، حضرت شاہ عبدالرحیم دہلوی کے تعلق باللہ کے کچھ واقعات سنا رہے تھے.ان واقعات میں حضور نے یہ ذکر بھی فرمایا کہ ایک دن مجلس میں بیٹھے ہوئے شاہ عبدالرحیم صاحب کو الہام ہوا کہ تم حاضرین مجلس کے لئے دعا کرو تو یہ سب لوگ جنت میں جائیں گے.یہ بات بیان کر کے خدا کے پاک مسیح کے صدیق نے فرمایا کہ خدا نے مجھے بھی فرمایا ہے کہ تم اپنی اس مجلس کے حاضرین کے لئے دعا کرو تو یہ سب بھی جنت میں جائیں گے.اس کے بعد حضور نے دعا فرمائی.اس مجلس میں حضرت میاں عبداللہ خان صاحب بھی شامل تھے.“ الفضل 29 ستمبر 1961ء صفحہ 4) تفسیر کبیر نہایت شوق اور محبت سے پڑھتے تھے.مولوی محمد احمد صاحب ثاقب سے فرمایا کہ میں ایک قیمتی خزانہ سے محروم ہوں.تفسیر کبیر کی پہلی جلد دستیاب نہیں ہے کہیں سے مہیا کریں.مولوی صاحب ربوہ سے اپنی جلد لے کر حاضر ہو گئے.لیکن جب مولوی صاحب نے ہدیہ لینے سے انکار کیا تو آپ ناراض ہوئے اور باصرار دیا.کیا اچھا ہو کہ جتنی ہیر وارث شاہ آپ کو آتی ہے اتنا قرآن مجید بھی آجائے“ محترم چوہدری رشید احمد صاحب جو کہ سال ہا سال تک آپ کی اراضی کے مینجر رہے بیان کرتے ہیں کہ میں لا ابالی پن میں ہیر وارث شاہ پڑھتا تھا.آپ نے مجھے فرمایا کہ کیا اچھا ہو کہ جتنی ہیر وارث شاہ آپ کو آتی ہے اتنا قرآن مجید بھی آجائے.چنانچہ آپ نے توجہ دلا کے مجھے قرآن مجید با ترجمہ اور کچھ طب پڑھائی اور اس نیک اثر کے تحت ہیر کا پڑھنا چھٹ گیا.خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لَا هَلِهِ لِاهلِه (( رفقاء) احمد جلد 12 صفحہ 174) میاں عباس احمد خان صاحب تحریر کرتے ہیں کہ حضرت والد صاحب محترم کو حضرت والدہ محترمہ کا اپنی زوجہ ہونے کے علاوہ بحیثیت دختر حضرت مسیح موعود بہت زیادہ پاس تھا اور ان کی زندگی کی مساعی میں سے یہ ایک بڑی کوشش تھی کہ حضرت والدہ محترمہ کو ہرممکن آرام پہنچے اور اپنے
31 30 بچوں کے لئے یہی خواہش رہی کہ وہ اپنی والدہ صاحبہ کو خوش رکھیں.شفقت اولاد الفضل 27 اکتوبر 1961 ، صفحہ 5) آپ اپنے بچوں سے بے حد پیار کرتے تھے اور آپ نے اپنے بچوں کو ناز و نعم سے پالا لیکن دینی امور کی پابندی آپ نہایت سختی سے کرواتے تھے.آپ یہ خیال رکھتے تھے کہ آپ کے بچے نمازوں کے پابند ہوں اور اس سلسلہ میں خود بھی ان کے ساتھ ( بیت الذکر ) میں تشریف لے جاتے اور آپ نے اس امر کی بھی کبھی پرواہ نہ کی کہ بچہ سردی میں بیمار ہو جائے گا.یہ بھی شفقت کا ایک رنگ ہے کہ اولاد میں یہ احساس پیدا کر دیا جائے کہ کون سا امران کے لئے مفید اور باعث فلاح ہے.لحاف منگوایا کہ اگر کوئی فالتو ہو تو بھیج دیں.ہمارے لحاف روئی بھر کر آجائیں گے تو بھجوا دیں گے.امی جان کے پاس بھی بستر نا کافی تھے.انہوں نے دو کمبل بھجوا دیئے.دو مہینے کے بعد اچانک رات کو کسی مہمان کی آمد سے ضرورت ہونے پر امی جان نے اس خیال سے کہ لحاف تیار ہو چکے ہوں گے.کمبل منگوا لئے.صبح کو ابا جان نے امی جان سے کہا کہ میں تو رات نہیں سو سکا.لڑکی کو کہیں ضرورت نہ ہو.جب شام کو میری بہن آئی تو ابا جان نے فرمایا ، مجھے رات سخت تکلیف رہی تمہیں کمبلوں کی ضرورت ہوگی اور تم نے ہمارے منگوانے پر بھجوا دیے.اس نے غیرت کی وجہ سے بتایا نہیں اور یہی کہا کہ نہیں ہمیں تو اب ضرورت نہیں تھی.مگر ابا جان نہ مانے.انہوں نے فرمایا کہ نہیں ضرورت تب بھی تم ساتھ لے جاؤ.آخر مجھے اتنی تکلیف کیوں ہوئی.اور واقعہ یہ ہے کہ اس رات وہ لوگ جو بھی کوئی چادر پلنگ پوش اور کھیں تھے.وہ لپیٹ کر لیٹے اور ساری رات سردی کی وجہ سے نہیں سو سکے کئی سال کے بعد جب حالات ٹھیک ہو گئے.تو اس نے یہ واقعہ بتایا.امی اور ابا جان کو بہت رنج ہوا.ابا جان لڑکی کو بیماری کے بعد آپ زیادہ چل نہیں سکتے تھے تو اکثر اپنی پہیہ دار کرسی پر ہی جا کر دروازے کھٹکھٹاتے اور اپنے صاحبزادوں کو نماز کے لئے بھیجتے.اور لڑکیوں کو بھی نماز اور دعا کے لئے تاکید کرتے.آپ کی صاحبزادی محترمہ آمنہ طیبہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ ایک دفعہ شملہ میں قیام کی بات ہے.جبکہ میں غالباً گیارہ بارہ سال کی ہوں گی.سردی بہت تھی.میں تیم چھپ کر ناراض ہوئے اور فرمایا کہ ساری عمر یہ دکھ میرے دل میں رہے گا.تم لوگ ماں باپ کر رہی تھی کہ ابا جان نے دیکھ لیا اور مجھے بلا کر کہا کہ دیکھو اگر کوئی دیکھ لیتا تو کیا کہتا کہ حضرت مسیح موعود کی نواسی تیم کر کے نماز پڑھ رہی ہے.آپ کو اپنی اولاد کا اتنا خیال ہوتا کہ اگر کوئی چھپی ہوئی پریشانی دل کے کسی گوشہ میں ہوتی تو سے تکلف کرتے ہو.اگر ضرورت تھی تو نہ بھیجتیں.غرض ابا جان کسی بچہ کی تکلیف نہیں 66 برداشت کر سکتے تھے.“ آپ کی سب سے بڑی خواہش یہ تھی کہ ان کی اولا د بندار اور سلسلہ کی خادم ہو.آپ اسے فوراً بھانپ لیتے اور حضرت بیگم صاحبہ سے کہتے تھے بیگم! فلاں لڑکی اداس لگتی ہے.پتہ کے بچوں میں بھی سلسلہ کی خدمت کا جذ بہ نمایاں تھا.چنانچہ ایک دفعہ موسم گرما میں صاحبزادہ کرو.آپ اپنے بچوں کی تکلیف سے بے کل ہو جاتے تھے.صاحبزادی محترمہ طیبہ آمنہ بیگم عباس احمد خاں صاحب علاقہ سری گوبند پور میں دھوپ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے گاؤں گاؤں شوق ( دعوت الی اللہ ) میں پھرتے رہے اور کبھی اگر کھانا نہ ملا تو صرف چنے چبا کر صاحبہ ایک واقعہ بیان کرتی ہیں کہ دو تقسیم ملک کے بعد حالات سب کے خراب تھے.بستر بھی نا کافی تھے.ایک گزارا کرتے رہے.ایک رضائی میں دو دو تین تین مل کر سوتے تھے.میری ایک بہن نے امی جان سے جس طرح ان کا اپنا جسمانی رشتہ حضرت مسیح موعود سے ہے اسی طرح ان کی ساری
33 32 اولاد کا بھی خونی تعلق حضور سے قائم ہو.اسی خواہش کے مدنظر انہوں نے اپنے سارے اس کے مقابل پر اپنی ہستی کو ادنی ہستی تصور کرتے تھے.بچوں اور بچیوں کے رشتے خاندان حضرت مسیح موعود میں کئے.اپنے بچوں کے لئے رشتہ کے انتخاب میں حضرت مسیح موعود کے تعلق کے مقابلہ میں کسی دنیوی دولت یا و جاہت کو ذرہ برا برا ہمیت نہ دی.الفضل 21 ستمبر 1961ء صفحہ 4) حضرت نواب صاحب عجز وانکسار کے پتلے تھے.باوجود نواب ہونے کے اس لقب کو کبھی کسی فخر یا خوشی کا موجب نہیں سمجھا.آپ کبھی گرمیوں میں پہاڑ وغیرہ پر جاتے.رستہ میں جنگلوں آپ اپنی اولاد کو بکثرت دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے اور اپنی دعاؤں کی قبولیت اور اللہ میں ڈاک بنگلہ وغیرہ میں ٹھہرتے تو اکثر حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے پاس آکر کہتے بیگم! ایک تو یہ نوابی پیچھا نہیں چھوڑتی.یہاں جنگل میں ان کو کس نے بتا دیا کہ ہم نواب ہیں.سارے لوگ کہہ رہے ہیں.نواب صاحب آئے ہیں.“ کبھی حضرت بیگم صاحبہ سے فرماتے کہ بیگم ! میں بعض وقت سوچتا ہوں کہ نفس کا بھی کوئی حق ہوتا ہے.مگر دوسری باتوں پر خرچ کر کے جو لذت پاتا ہوں وہ نفس پر خرچ کرنے سے کہاں ملتی ہے.“ تعالیٰ کے بیشمار انعامات کا ذکر کرتے اور ان کو بھی دعا کے لئے کہتے رہتے.اپنے بچوں کو نصیحت فرماتے کہ اپنی امی کا بہت خیال رکھا کرو اور کہتے کہ ویسے تو ماں کے قدموں میں جنت ہوتی ہی ہے لیکن ان کے قدموں میں دو جنتیں ہیں.ایک تو ماں ہونے کے لحاظ سے، دوسرے موعود اولا د ہونے کی وجہ سے.عجز و انکسار اپنی اولاد کو وصیت کرتے ہوئے حضرت نواب صاحب تحریر کرتے ہیں: ہر مصیبت کے وقت مولیٰ کریم کو قادر مطلق خدا تصور کرتے ہوئے اس کے حضور جھک کر عجز و انکسار سے استقامت طلب کریں.میں نے اسی طریق سے زندہ خدا کو پایا اور اپنی مشکلات کو کافور ہوتا دیکھا.“ (( رفقاء) احمد جلد 12 صفحہ 96) حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب رقم فرماتے ہیں کہ آپ کی وفات ایک بزرگ ہستی انجام بخیر کی خواہش حضرت خان عبدالمجید خان صاحب کپور تھلوی فرماتے ہیں: آپ سادہ طبیعت، کم گو، راستباز اور متحیر ، رشتہ داروں اور ( رفقاء) جماعت احمدیہ سے نہایت محبت کرنے والے بزرگ تھے.خاکسار پر خاص طور پر مہربان تھے اور بہت محبت فرماتے تھے.سلسلہ احمدیہ کی ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے.بفضلہ تعالی مذہبی تھے.باقاعدہ چندہ ادا کرنے میں خوشی محسوس کرتے.سلسلہ احمدیہ کی وفات ہے جس کے ذرہ ذرہ میں احمدیت سمائی ہوئی تھی.آپ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے پر کے شیدائی ، اپنے ملا زمان پر ہمیشہ مہربانی فرماتے ، گالی دینے سے نفرت کرتے.ان ہونے والے قسم قسم کے احسانوں اور فضلوں پر ہر آن شکر گزار رہنے والے بزرگ تھے.باوجود یکہ آپ نواب زادہ تھے لیکن حضرت مسیح موعود کی دامادی کو اس قد ر نعمت عظمیٰ جانتے تھے کہ سے قصور ہو جاتا تو معاف فرماتے.جب بھی آپ سے ذکر کرتا کہ آپ کے لئے نمازوں میں دعا کیا کرتا ہوں تو اس کے جواب میں ہمیشہ یہ فرماتے کہ خانصاحب
35 34 میرے لئے خصوصیت سے یہ دعا کیا کریں کہ میرا انجام بخیر ہو.“ مهمان نوازی الفضل 28 نومبر 1961 ء صفحہ 5) حضرت نواب عبداللہ خان صاحب کی ایک صفت اکرام ضیف تھی.مہمان یا مسافر خواہ اندر سے ایک نیا عمدہ گرم جرابوں کا جوڑا لائے اور فرمانے لگے کہ میں نے خود اپنے ہاتھوں سے آپ کے پاؤں میں ڈالنی ہیں.میں نے ہر چند انکار کیا لیکن آپ کی بات ماننی پڑی اور آپ نے خود وہ جوڑا اس عاجز کو پہنایا.“ (( رفقاء ) احمد جلد 12 صفحہ 127) ایک دفعہ آپ کو بعد از عشاء ایک ہم جماعت کے آنے کی اطلاع ملی.مصروفیت کے امیر ہو یا غریب اس کے کھانے کا انتظام نہایت پر تکلف کرتے تھے بلکہ یہ کوشش کرتے کہ اس کو باعث آپ نے فرمایا کہ صبح ناشتہ پر ملاقات ہوگی اور قیام وطعام کا بندو بست کروا دیا.ناشتہ پر اپنے ساتھ کھانا کھلا ئیں.وقت یا بے وقت مہمان نوازی کے لئے ہمیشہ مستعد رہتے تھے اور گھر مہمان کے متعلق دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ کسی کام سے شہر چلے گئے ہیں.آپ نے فرمایا والوں کو تاکید کرتے تھے کہ مہمان کی خاطر مدارات میں کوئی فرق نہ آئے.مہمان نوازی اس خوشی مجھے اطلاع دی ہوتی.یہ تو اچھی بات نہیں اسے جانے کیوں دیا.جلدی جاؤ وہ بس سٹاپ پر ہوں اور مسرت سے کرتے تھے کہ آنے والے کا دل باغ باغ ہو جاتا تھا.حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ امسیح الرابع " نے آپ کی وفات پر تحریر فرمایا: غرباء کے ہمدرد، کثرت سے صدقہ خیرات کرنے والے، مہمان نوازی میں طرہ امتیاز کے حامل، اس قسم کے فدائی اور خلیق میزبان اس زمانہ میں تو شاذ و نادر ہی ہوں گے.مہمان کے آرام کا خیال و ہم کی طرح سوار ہو جاتا.میری طبیعت پر آپ کی مہمان نوازی کا ایسا اثر ہے کہ اگر غیر معمولی مہمان نوازی کا جذبہ رکھنے والے صرف چند بزرگوں کی فہرست لکھنے کو مجھے کہا جائے تو آپ کا نام میں اس فہرست میں ضرور گے.چنانچہ خادم سائیکل پر جا کر انہیں لے آیا.آپ بہت تپاک سے ملے.ساتھ ناشتہ کرایا.اور بار بار پوچھا کہ آپ ناشتہ کے بغیر کیوں چلے گئے تھے اور پھر گیٹ پر الوداع کہنے گئے.ان کے جانے کے بعد فرمایا ” میری یادداشت میں اب تک نہیں آئے.انہوں نے ہم مکتب ہونے کا جو کہا ٹھیک ہوگا.اسی لحاظ سے میں نے خاطر مدارات کی ہے.“ دیانت داری و تقوی ایک دفعہ ایک ہندو سیٹھ نے آپ کے اوصاف حمیدہ سے متاثر ہو کر آپ کو اپنے کاروبار میں شریک کر لیا.جب محکمہ انکم ٹیکس کو پیش کرنے کے لئے گوشوارے سیٹھ صاحب نے تیار کرنے تھے ،سیٹھ صاحب نے عام کاروباری فرموں کی طرح کچھ اس قسم کا حساب تیار کروایا جو حقیقت حضرت مرزا عبدالحق صاحب حضرت میاں صاحب کے جذبۂ مہمان نوازی کے متعلق سے مختلف تھا اور انہوں نے کوشش کی کہ بطور حصہ دار اس سٹیٹمنٹ پر حضرت نواب محمد عبد اللہ خان تحریر کروں گا.“ کہتے ہیں: (( رفقاء) احمد جلد 12 صفحہ 154) ”آپ مہمان نوازی کا اعلیٰ جذبہ رکھتے تھے.مہمان نوازی کا پورا حق ادا فر ماتے.ایک شام کو میں گورداسپور سے آیا تو سردی زیادہ تھی.مجھے گرم جرابوں کی ضرورت نہ ہوتی تھی اور یہ بات آپ کے لئے باعث تعجب تھی.آپ اسی وقت صاحب بھی دستخط کر دیں.مگر انہوں نے سختی سے انکار کر دیا اور فرمایا کہ انھوں نے اپنی تمام عمر ایک پیسہ بھی اپنے حق کے علاوہ اور ناجائز حاصل نہیں کیا اور وہ اپنے آپ کو اس قسم کے ناجائز کاموں کے اہل نہیں پاتے.باوجود اس حقیقت کے کہ اس کاروبار میں کافی منافع حاصل کیا تھا اور آئندہ بھی بہت بڑے منافع کی توقعات تھیں مگر اس واقعہ کے بعد حضرت نواب محمد عبداللہ خان
37 36 صاحب جو بہت پاک باطن بزرگ تھے کی طبیعت اس کاروبار سے نفرت محسوس کرنے لگی اور چند ہی ایام کے بعد آپ نے اس شراکت اور کاروبار سے علیحدگی اختیار کر لی.آپ نے ساڑھے پانچ ہزار ایکڑ اراضی ضلع نواب شاہ میں حاصل کی تھی.لیکن حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر آپ نے اس کا تبادلہ کرا کے نصرت آباد والی اراضی حاصل کی اور حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کے ماموں زاد بھائی خان رشید علی خان صاحب جس دوست کو مینیجر مقرر کیا انہیں فرمایا کہ میرے اور آپ کے درمیان اللہ تعالی ضامن ہے.بیان کرتے ہیں کہ والد محترم کی قادیان میں اراضی تھی جو کہ انھوں نے حضرت مرزا سلطان اگر آپ میر احق کسی کو یا کسی کا حق مجھے دیں گے تو بارگاہ الہی میں آپ ذمہ دار ہوں گے.اس احمد صاحب مرحوم سے خریدی تھی اور سٹیشن کے قریب ہونے اور شہر کی تیزی سے بڑھتی ہوئی منتظم کو بعض شرائط کے پورا کرنے پر سولہواں حصہ دینے کا وعدہ کیا تھا وہ شرائط پوری نہ ہوئی آبادی کی وجہ سے وہ زرعی سے سکنی بن گئی تھی.اس اراضی کی فروخت کا والد صاحب نے اشتہار تھیں.اس بناء پر عدم استحقاق کا مشورہ بعض احباب دیتے تھے لیکن آپ نے پھر بھی اپنا وعدہ دیا تو معلوم ہوا کہ بھائی جان مرحوم بھی اس کو خریدنے کے خواہش مند ہیں.مجھے یاد ہے اس پورا کیا.زمانہ میں ہمارے پھوپھا جان حضرت نواب محمد علی خان صاحب بیمار تھے.جب والد صاحب کو پھوپھا جان کی بیماری کی خبر دہلی میں ملی تو وہ اس قدر بے چین ہوئے کہ فوراً قادیان روانہ ہو اللہ کا تقویٰ (( رفقاء ) احمد جلد 12 صفحہ 130) گئے.خاکسار بھی ان کے ہمراہ قادیان گیا.ان ہی ایام میں بھائی عبداللہ خان صاحب کی بات ایک دفعہ ایک کیس میں بیان تحریری دینے کے متعلق آپ کے قانونی مشیر نے ایک ایسی چیت اراضی کے متعلق ہوئی اور غالبا ساٹھ ہزار روپیہ میں زمین کا سودا طے ہو گیا اور جہاں تک بات تجویز کی جس سے مفہوم ابہام آمیز اور مفید مطلب ہوسکتا تھا اور اسے جھوٹ بھی نہیں کہا جا مجھے یاد ہے بھائی جان نے کچھ رقم بطور بیعانہ دے بھی دی.چند روز بعد پھوپھا جان کی علالت سکتا تھا.آپ نے مسکراتے ہوئے ان سے فرمایا لیکن کیا تقویٰ ہے؟ اس کے یہ کہنے پر کہ تشویشناک صورت اختیار کر گئی اور آپ کا انتقال ہو گیا.کچھ دن ٹھہر کر والد صاحب نے یہ سمجھ کر اس طرح بلا وجہ لاکھوں کا نقصان ہونے کا امکان ہو سکتا ہے.فرمایا ' خواہ لاکھوں کا نقصان کہ میاں عبداللہ خان کہ ذمہ داریوں کی نوعیت نواب صاحب کے انتقال کے بعد کچھ مختلف ہوگئی ہو.میں تقوی اللہ کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکتا.“ ہے کہا کہ میاں اگر آپ سودا کو منسوخ کرنا چاہیں تو کر لیں.مگر بھائی جان نے فرمایا کہ ماموں ان سے اشارہ یہ کہا گیا کہ ایسا بیان دینے میں کوئی حرج نہیں.کیونکہ اس طرح ان کے کسی عزیز کا صاحب! میں نے یہ سودا جب آپ سے کیا ہے تو انشاء اللہ وعدہ کو نبھاؤں گا.میرے تو تمام لاکھوں کا نقصان ہو سکتا ہے تو فرمایا: 'خواہ میرے کسی عزیز ترین عزیز کا لاکھوں روپیہ کا نقصان ہو اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ سے بھی تعلق رکھتا ہے جب سودے اللہ تعالیٰ کے تو کل پر ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہر کام میں فائدہ ہی بخشتا ہے.چنانچہ حسب جائے.مگر میں کسی امر کے متعلق کوئی ایسا بیان دینے کو تیار نہیں کہ جس میں ذرہ بھی شک واشتباہ کا امکان پایا جائے.صرف وہ بات کہ سکتی ہوں کہ جس کا مجھے ذاتی طور پر یقینی علم ہے.“ حق گوئی کی برکت وعدہ 1946ء میں بقایا رقم ادا کر دی اور فرمانے لگے مجھے اس سودے میں بے حد منافع رہا اور میں نے پلاٹ بنا کر زمین سے خوب فائدہ حاصل کیا اور بہت اچھے داموں پر فروخت کی.اس طرح خدا تعالیٰ تمام عمران کی نیک نیتی اور دیانت داری کی وجہ سے ان کو خوب نو از تارہا.الفضل 22 اکتوبر 1961 ، صفحہ 3) مکرم و محترم خان شاہد احمد خان صاحب اپنے والد حضرت میاں محمد عبد اللہ خان صاحب کی
39 38 دیانت کے متعلق ایک واقعہ بیان کرتے ہیں کہ تک نہیں مل سکتا.میں نے کہا.ہاں مجھے سب معلوم ہے.اس نے کہا.تو پھر آپ کیا سمجھ کر ایک دفعہ ان کا کلیم ایک عدالت میں پیش تھا.حاکم نے وکیل کے دلائل سن کر فیصلہ کیا کہ میرے پاس آئے ہیں؟ میں نے جواباً کہا کہ دراصل وکیل کو اس اراضی کے متعلق علم نہیں تھا اور اگر نواب صاحب یہ حلف نامہ عدالت میں داخل کر دیں کہ اس کے علاوہ انہوں نے ابھی تک کوئی والد صاحب نے حقیقت کو اپنے بیان میں درج کیا ہے اور وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس کا نتیجہ زمین بطور شیڈول نمبر 6 حاصل نہیں کی تو ان کا اتنے لاکھ کا کلیم منظور کیا جاتا ہے.اور اس حلف کیا ہوسکتا ہے.مجھے افسوس ہے کہ میں نے آپ کا وقت ضائع کیا ہے.یہ کہ کر میں باہر جانے نامہ کے داخل کرنے کی میعاد صرف چوبیس گھنٹے مقرر کی.پڑتال کرنے پر معلوم ہوا کہ قریباً کے لئے دروازہ کی طرف بڑھا.ابھی بمشکل دروازہ تک ہی پہنچا تھا کہ افسر موصوف نے بڑی 18 کنال اراضی کسی غلط فہمی کی وجہ سے الاٹ ہو چکی ہے.وکیل نے والد صاحب سے کہا کہ نرمی سے ٹھہرنے کی درخواست کی اور پھر مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کر کے گھنٹی سے اپنے سٹینو کو بلا زمین ہم واپس کر دیں گے.آپ حلف نامہ داخل کر دیجئے.والد صاحب نے کہا کہ آپ چوبیس کر میرے سامنے فیصلہ لکھوایا کہ ہم نے اچھی طرح سے اپنی تسلی کر لی ہے کہ مدعی کے پاس اٹھارہ گھنٹے میں اراضی واپس نہیں کر سکتے اور میں غلط حلفیہ بیان نہیں دے سکتا.اس لئے آپ حلف کنال کے سوا اور کوئی اراضی نہیں.اس لئے اس کے کلیم میں سے اٹھارہ کنال کی قیمت وضع کر کے باقی کلیم کا اسے حق پہنچتا ہے.ثبوت کے لئے مدعی کا حلفی بیان کافی ہے.اس حق گوئی کی دلائل کے بعد آپ کے پاس اگر ایک انچ زمین بھی پائی گئی تو آپ کا کیس خراب ہو جائے برکت سے اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حالات میں فضل فرمایا.گا.اور آپ کو ایک پیسہ کا معاوضہ نہیں ملے گا.آپ نے جواب دیا کہ میں ایسے حلف نامہ پر دستخط نامہ میں تحریر کر دیجئے کہ ہمارے پاس اٹھارہ کنال اراضی ہے.وکیل نے کہا کہ میرے پیش کردہ کرنے کو ہرگز تیار نہیں.اول تو آپ کو جرات کیسے ہوئی کہ آپ مجھ سے اس قسم کی غلط بیانی کی توقع رکھیں.ان حالات میں اگر آپ میری وکالت کے فرائض سرانجام نہیں دے سکتے تو آپ اپنے آپ کو اس ذمہ داری سے سبکدوش سمجھیں اور پھر مجھ سے کہا کہ ایک حلف نامہ تحریر کر کے لاؤ جس میں لکھو کہ میرے پاس اٹھارہ کنال سے زائد کوئی اراضی نہیں ہے.چنانچہ ایسے حلف نامہ پر دستخط کر کے مجھے فرمایا کہ جاؤ اس افسر کے پاس لے جاؤ اور ساتھ ہی بآواز بلند انَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا.(( رفقاء ) احمد جلد 12 صفحہ 179,180) میاں عبداللہ خان کے کام تو خدا کرتا ہے حضرت میاں عبداللہ خان صاحب اس قصے کو بڑے فخر سے بیان کیا کرتے تھے کہ ایک دفعہ حضرت مصلح موعود نے محمد آباد اسٹیٹ کے کارکنان کو کسی بدانتظامی پر تنبیہ کی اور فرمایا کہ تمہارے قریب ہی میاں عبداللہ خان کی اسٹیٹ نصرت آباد ہے.وہ کیسی عمدگی سے اس کا چونکہ آپ کی آخری عمر میں آپ کی جائیداد کا انتظام میرے سپرد تھا اس لئے مجھے بخوبی انتظام کر رہے ہیں.حالانکہ وہ ذاتی طور پر زیادہ عرصہ وہاں نہیں رہتے اور تمہیں میں نے یہاں معلوم تھا کہ اس کا انجام کیا ہوگا.بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اس حلف نامہ کو افسر کے رو برو پیش کرنے ہر قسم کی سہولتیں دے رکھی ہیں.لیکن پھر بھی تم کام ٹھیک نہیں کرتے.جب حضور ناراض ہو چکے تو میں میں نہایت شرم محسوس کر رہا تھا.چنانچہ جب میں نے یہ کا غذ اس کے سامنے پیش کیا تو اس آخر پر نرمی سے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ میاں عبد اللہ خان کے کام تو خدا کرتا ہے.نے پڑھ کر نہایت غصہ سے مجھے مخاطب کر کے کہا کہ یہ کیا ہے؟ کیا آپ کے وکیل کے تمام دلائل اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ہمیں اپنے تمام بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین غلط اور بے بنیاد تھے؟ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس حلفیہ بیان کے بعد آپ کو معاوضہ کا ایک پیسہ
نام کتاب.طبع حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب..........اول