Language: UR
حضرت صاجزاہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانی خدا تعالیٰ کی خاص بشارت کے تحت پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی خاص تائید ونصرت کے ساتھ 50 سال سے زائد عرصہ تک خلافت پر متمکن رہے۔ آپ کی سیرت و سوانح کے لئے سینکڑوں صفحات پر مشتمل کتابیں بھی ناکافی ہونگی ۔ زیر نظر چھوٹی سی ٹائپ شدہ کتاب حضرت مصلح موعود ؓ کی حیات طیبہ کی ایک مختصر سی جھلک پیش کررہی ہے ۔ جس کو بطور خاص نوجوان نسل کے لئے لکھا گیا ہے تاکہ انہیں معلوم ہوسکے کہ آپ ؓ کی عہد ساز اور تاریخ ساز شخصیت کس قدر بلند اور عزم و ہمت سے پُر تھی آپ کا خدا پر ایمان اور توکل کس قدر پختہ تھا، اور آپ قوم کی بھلائی کے لئے کس قدر ولولہ رکھتے تھے۔
حضرت مصلح موعود تصنیف صاحبزادی امۃ القدوس دییاچه ”اے خدا! میں تجھ کو حاضر ناظر جان کر تجھ سے سچے دل سے یہ عہد کرتا ہوں کہ اگر ساری جماعت احمدیت سے پھر جائے تب بھی وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ تو نے نازل فرمایا ہے میں اس کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلاؤں گا“.یہ عہد تھا اس شخص کا جو بڑوں کے سامنے ابھی کل کا بچہ تھا اور بچوں کے لئے وہ ابھی نوجوان ہی تو تھا.لڑکپن کا عہد تھا، لیکن یہ عہد بعد میں ایک تاریخ ساز عہد ثابت ہوا اور عہد کرنے والا خود ایسا کہ عہد ساز کہلایا.ایک تاریخ تھی جو اس نے رقم کی.جو عہد اس وقت انیس سال کی عمر میں آپ نے کیا وہ چھہتر سال تک نبھایا اور اس خوبصورتی سے اس عہد کو پورا کیا کہ اب وہ ایک دائمی حقیقت بن چکا ہے جس کے نقوش رہتی دنیا تک قائم رہیں گے.اس زمانے کی تاریخ اسی سے شروع ہوگی اور اسی پر ختم ہوگی اور آئندہ بھی جب تاریخ لکھی جائے گی تو اس کے ذکر کے بغیر تاریخ نامکمل اور ادھوری رہے گی.یہ عہد ساز اور تاریخ ساز با برکت وجود حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی ومصلح موعود کا تھا.جن کی سیرت و سوانح کی
ایک مختصری جھلک اس کتابچہ میں آپ پڑھیں گے اور دیکھیں گے کہ خدا تعالیٰ پر ایمان لانے والے، اس پر تو کل کرنے والے جب کسی کام کو شروع کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کس طرح ان کی مدد فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ اس کا مطالعہ آپ کے لئے مفید اور نفع بخش بنائے.آمین پیش لفظ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفتہ المسیح الثانی خدا تعالیٰ کی خاص بشارت کے تحت پیدا ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور اس کی خاص تائید و نصرت کے ساتھ 50 سال سے زائد عرصہ تک خلافت پر متمکن رہے.آپ کی سیرت اور سوانح کے لئے سینکڑوں صفحات پر مشتمل کئی کتا بیں بھی ناکافی ہوں گی.زیر نظر چھوٹی سی کتاب حضرت مصلح موعود کی حیات طیبہ کی ایک مختصر سی جھلک پیش کر رہی ہے.اللہ تعالیٰ اس کتاب کو تمام احباب کے لئے از دیا دایمان کا ذریعہ بنائے.آمین
2 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب لمصلح الموعود پیارے بچو! تم نے بہت سے بڑے آدمیوں کی کہانیاں پڑھی ہوں گی آج ہم تمہیں اس زمانے کے ایک ایسے بڑے آدمی کی کہانی سناتے ہیں جس کے پیدا ہونے کی خبر اللہ میاں نے اس کی پیدائش سے پہلے دے دی تھی.تو بچو! یہ کہانی شروع ہوتی ہے۱۸۸۶ء سے.لوسنو ! حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ۲۲ جنوری ۱۸۸۶ء کو ہوشیار پور تشریف لے گئے.وہاں آپ چالیس دن تک شیخ مہر علی صاحب جو ہوشیار پور کے رئیس تھے کے مکان کی اوپر والی منزل میں ٹھہرے.اس مکان کا نام طویلہ تھا.ان چالیس دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نہ کسی سے ملے نہ کسی کے گھر گئے.بس سارا دن خاموشی سے خدا تعالیٰ کی عبادت اور دعائیں کرتے رہتے.انہی دنوں اللہ میاں نے آپ کو ایک بہت نیک بیٹے کی خوش خبری دی.۲۰ فروری ۱۸۸۶ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار لکھا جس میں وہ پیشگوئی تھی جس میں اللہ میاں نے آپ کو ایک بہت عظیم بیٹے کی خبر دی تھی.بچو ا عظیم کا مطلب ہے بڑا عظیم اس کو کہتے ہیں جو بہت بڑے بڑے اور اچھے اچھے کام کرے اور بہت اچھے اخلاق والا ہو.اس پیشگوئی کے کچھ حصے ہم یہاں لکھ رہے ہیں تا کہ تمہیں بھی اس پیشگوئی کا پتہ چل جائے.وو پیشگوئی مصلح موعود سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا.وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریت ونسل ہوگا.خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے.اس کا نام عنمو ائیل اور بشیر بھی ہے.اس کو مقدس روح دی گئی ہے.اور وہ رجس سے پاک ہے.وہ نور اللہ ہے.مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے.اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا.وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا.وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا.وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے.وہ سخت ذہین و نسیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پر کیا جائے گا“.وو نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا.ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا.وہ جلد جلد بڑھے گا.اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا
4 3 وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيًّا “ 66 بچو! یہ ہے وہ پیشگوئی جو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب مصلح موعود خلیفہ المسیح الثانی کے متعلق تھی اور خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ یہلڑ کا جس کا ذکر پیشگوئی میں ہے 9 سال کے اندر اندر پیدا ہو جائے گا.حضرت مصلح موعود سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوا جو چھوٹی عمر میں فوت ہو گیا اس پر دشمن بہت خوش ہوئے کہ آپ کی بات غلط نکلی ہے لیکن اللہ میاں کی باتیں کبھی غلط نہیں ہوا کرتیں اور یہ پیشگوئی تو اللہ میاں کی طرف سے تھی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ وو دوسرالڑکا جس کی نسبت الہام نے بیان کیا کہ دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا دوسرا نام محمود ہے وہ اگر چہ ابھی تک جو یکم دسمبر ۱۸۸۸ء ہے پیدا نہیں ہوا مگر خدا تعالیٰ کے وعدے کے موافق اپنی میعاد کے اندر ضرور پیدا ہوگا.زمین و آسمان ٹل سکتے ہیں پر اس کے وعدوں کا ملنا ممکن نہیں." حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے سبز رنگ کے کاغذ پر ایک اشتہار چھپوایا جسے سبز اشتہار کہتے ہیں اس میں آپ نے لکھا، کہ مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا اور نیز دوسرا نام اس کا محمود اور تیسرا نام اس کا بشیر ثانی بھی ہے اور ایک الہام میں اس کا نام فضل عمر ظاہر کیا گیا ہے.پنڈت لیکھرام جو حضور کا بہت بڑا دشمن تھا اس نے اپنے اشتہاروں میں لکھا کہ تین سال تک آپ کی اولا د ختم ہو جائے گی اور آپ کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہے گا.لیکن اس کی بات غلط ہوئی اور حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب حضرت نصرت جہاں صاحبہ کے ہاں ۱۲ / جنوری ۱۸۸۹ء کو رات کے دس گیارہ بجے کے قریب پیدا ہوئے.بچو! یادر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت نصرت جہاں صاحبہ سے شادی بھی خدا تعالیٰ کے الہام کے مطابق ہوئی تھی.اور اس شادی سے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے علاوہ اور بچے بھی پیدا ہوئے.ان میں سے جنہوں نے لمبی عمر پائی ان کے نام یہ ہیں : - حضرت مرزا بشیر احمد صاحب.حضرت مرزا شریف احمد صاحب.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت سیدہ امتہ الحفیظ صاحبہ.حضرت مصلح موعود کا عقیقہ ۱۸ / جنوری ۱۸۸۹ء کو جمعہ کے دن ہوا اور جس حجام نے آپ کے بال کاٹے اس کا نام دینا تھا.پرانے خاندانوں میں رواج تھا کہ چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے لئے کوئی عورت رکھ لیتے تھے تا کہ وہ بچے کو سنبھال لے.آپ کو بھی ایک کھلائی نے دودھ پلایا.آپ بچپن سے ہی بہت بیمار رہتے تھے ، چنانچہ دو سال کی عمر سے لے کر مسلسل بارہ تیرہ سال ایسا ہی ہوتا رہا کہ کبھی بہت زیادہ کھانسی ہو جاتی کبھی بخار ہو جاتا کبھی خنازیر کی گلٹیاں پھول کر گیند کے برابر ہو جاتیں.ڈاکٹر کہتے تھے کہ اس بچے کا بچنا مشکل ہے.لیکن اللہ میاں نے آپ کو لمبی عمر دینے کا اور آپ سے بڑے بڑے کام لینے کا وعدہ کیا ہوا تھا اس لئے ڈاکٹروں کی مایوسی کے باوجود اللہ تعالیٰ نے خود اپنے
6 5 فضل سے آپ کو بچالیا.سچ ہے جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے.حضرت مصلح موعود اپنے ماں باپ کے جتنے لاڈلے بیٹے تھے آپ کی تربیت کا اتنا ہی خیال رکھا جاتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان (حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ ) شروع سے ہی خیال رکھتے تھے کہ آپ کی تربیت اس طرح سے ہو کہ آپ ایک اچھے مومن بنیں اور آپ میں اچھے اخلاق پیدا ہوں.اس لئے آپ کی تربیت کرتے ہوئے چھوٹی چھوٹی بات کا بھی خیال رکھا جاتا تھا.یہاں ہم آپ کو ایک دو باتیں بتاتے ہیں جن سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ آپ کی تربیت کس طرح ہوئی.ایک دفعہ بچپن میں آپ ایک طوطا شکار کر کے لائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا.محمود ! اس کا گوشت حرام تو نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے ہر جانور کھانے کے لئے پیدا نہیں کیا.بعض خوبصورت جانور دیکھنے کے لئے ہیں بعض کی آواز اللہ میاں نے اچھی بنائی ہے کہ ہم ان کی آواز سن کر خوش ہوں.یعنی بچپن میں ہی آپ کو بتایا گیا کہ بعض چیزیں حرام تو نہیں لیکن ان کا کھانا ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں کیا.ایک بار حضرت مصلح موعود نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب سے جو آپ کے چھوٹے بھائی تھے کہا کہ بشیر تم بتاؤ علم اچھا ہے یا دولت؟ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پاس ہی بیٹھے تھے.جب آپ نے یہ سنا تو فرمایا.بیٹا محمودا توبہ کر توبہ کرو.ن علم اچھانہ دولت.خدا کا فضل اچھا ہے".اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے چھوٹے سے بیٹے کے دماغ میں شروع سے یہ خیال ڈال دیا کہ اگر خدا کا فضل نہ ہو تو علم اور دولت دونوں کسی کام کے نہیں کیونکہ اس علم اور دولت سے اگر برے کام کرنے لگ جائیں تو یہ برے بن جاتے ہیں.اسی طرح ایک اور واقعہ ہے.ایک دفعہ حضرت مصلح موعود گھر میں چڑیاں پکڑ وو رہے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کہا.” میاں گھر کی چڑیاں نہیں پکڑا کرتے.جس میں رقم نہیں اس میں ایمان نہیں.ان باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح چھوٹی چھوٹی باتوں میں آپ کی تربیت کا خیال رکھا جاتا تھا.آپ بچپن سے ہی بہت ذہین تھے.ایک دفعہ آپ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے کہ حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب (خلیفۃ اسیح الاوّل) وہاں سے گزرے.آپ نے بڑے پیار سے پوچھا.”میاں آپ کھیل رہے ہیں؟ حضرت مصلح موعود نے فوراً جواب دیا کہ ” بڑے ہوں گے تو ہم بھی کام کریں گئے.اس وقت آپ کی عمر صرف ۴ سال تھی.اسی طرح ایک دفعہ آپ ایک لڑکے کے ساتھ گھر میں کھیل رہے تھے اس وقت آپ تقریبا 9 سال کے تھے.کھیلتے کھیلتے آپ نے یونہی ایک کتاب اٹھا کر کھولی تو اس میں لکھا تھا کہ جبرائیل اب نازل نہیں ہوتے.آپ نے کہا کہ یہ غلط ہے میرے ابا پر تو نازل ہوتے ہیں.اس لڑکے نے کہا کہ نہیں جبرائیل اب نہیں آتے کیونکہ اس کتاب میں یہی لکھا ہے.دونوں اپنی اپنی بات پر اڑے ہوئے تھے.وہ لڑکا کہتا تھا حضرت جبرائیل اب اللہ میاں کا پیغام لے کر نہیں آتے اور حضرت مصلح موعود کہتے تھے آتے ہیں.آخر دونوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس گئے اور
8 7 اپنا جھگڑا بتایا تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ " کتاب میں غلط لکھا ہے جبرائیل اب بھی آتا ہے ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن سے آپ کے بچپن کے علم اور ذہانت کا پتہ چلتا ہے.۱۸۹۵ء میں حافظ احمد اللہ صاحب ناگپوری نے آپ کو قرآن شریف پڑھانا شروع کیا.۷ جون ۱۸۹۷ء کو آپ کی آمین ہوئی.اس آمین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک نظم لکھی جس کے کچھ شعر یہ ہیں: کیونکر ہو شکر تیرا.تیرا ہے جو ہے میرا تو نے ہر اک کرم سے گھر بھر دیا ہے میرا جب تیرا نور آیا جاتا رہا اندھیرا یہ روز کر مبارک سُبْحانَ مَنْ يَّرَانِي تو نے یہ دن دکھایا محمود پڑھ کے آیا دل دیکھ کر یہ احساں تیری ثنا میں گایا صد شکر ہے خدایا، صد شکر ہے خدایا یہ روز کر مبارک سُبْحانَ مَنْ يُرَانِي بچا یہ نظم در مشین میں ہے.میرا خیال ہے تم لوگوں نے پڑھی ہوگی.اگر نہیں پڑھی تو اب ضرور پڑھ لینا.کچھ عرصہ آپ ڈسٹرکٹ بورڈ کے لوئر پرائمری سکول قادیان میں پڑھتے رہے.۱۸۹۸ء میں تعلیم الاسلام سکول بنا تو آپ اس میں داخل ہو گئے.حضرت مصلح موعود نے جن لوگوں سے سکول میں تعلیم حاصل کی ان کے نام یہ ہیں:- ا.حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ایڈ میر الحکم قا دیان.۲.حضرت قاضی سید امیرحسین صاحب بھیروی..حضرت مولانا سید محمد سرور شاہ صاحب.۴.حضرت مولانا شیر علی صاحب.۵.حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب (سابق مہر سنگھ ) ۶.حضرت مفتی محمد صادق صاحب.ے.حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب وغیرہ.حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب کہتے ہیں کہ جب میں حضرت مصلح موعود کو پڑھایا کرتا تھا تو ایک دن میں نے کہا کہ میاں آپ کے والد صاحب کو تو کثرت سے الہام ہوتے ہیں.کیا آپ کو بھی الہام ہوتا اور خوابیں آتی ہیں؟ تو آپ نے جواب دیا کہ مولوی صاحب ! خوا ہیں تو بہت آتی ہیں اور ایک خواب تو روز ہی دیکھتا ہوں کہ میں ایک فوج کی کمان کر رہا ہوں.مولوی صاحب کہتے ہیں کہ جب میں نے آپ سے یہ خواب سنا تو مجھے یقین ہو گیا کہ آپ کسی دن جماعت کی قیادت کریں گے.حضرت مولانا شیر علی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے بچپن سے ہی حضور میں سوائے اچھی عادتوں اور اچھے اخلاق کے کچھ نہیں دیکھا.ابتدا میں ہی آپ میں نیکی اور تقویٰ کے آثار ملتے تھے.اکتوبر ۱۹۰۲ء میں آپ کا نکاح حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی بیٹی
10 9 حضرت سید محمودہ بیگم صاحبہ سے رڑکی میں ہوا.اور ۱۹۰۳ء میں آپ کی شادی ہوئی.حضرت اُئِم ناصر صاحبہ ( حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ کو ام ناصر کہا جاتا ہے ) کے سات لڑکے اور دولڑکیاں ہیں جن کے نام یہ ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب (مرحوم).صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب ( مرحوم ).صاحبزادہ مرزا حفیظ احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا انور احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا اظہر احمد صاحب.صاحبزادہ مرزا رفیق احمد صاحب.صاحبزادی ناصرہ بیگم صاحبہ ( والدہ محترمہ حضرت خلیفہ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ).صاحبزادی امتہ العزیز بیگم صاحبہ.۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات ہوئی تو حضرت مصلح موعود کے دل میں خیال آیا کہ اب لوگ طرح طرح کے اعتراض کریں گے اور جماعت کی بہت مخالفت کریں گے اس وقت آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سرہانے کھڑے ہو کر عہد کیا کہ اگر سارے لوگ بھی آپ کو چھوڑ دیں گے اور میں اکیلا رہ جاؤں گا تو میں اکیلا ہی ساری دنیا کا مقابلہ کروں گا اور کسی مخالفت اور دشمنی کی پرواہ نہیں کروں گا.“ چنانچہ آپ نے اپنی ساری زندگی کبھی کسی کی دشمنی اور مخالفت کی پرواہ نہیں کی اور ہمیشہ دین اور جماعت کی ترقی کے لئے کوششیں کرتے رہے.آپ کے متعلق اللہ میاں نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ وہ اولوالعزم ہوگا.یعنی بہت ہمت اور حوصلے والا ہوگا.اور جس بات کا ارادہ کر لے گا اسے پورا کرے گا.چنانچہ آپ جب کسی بات کا ارادہ کر لیتے تھے تو چاہے ادھر کی دنیا ادھر ہو جائے اسے ضرور پورا کرتے تھے.۱۹۱۲ء میں آپ پہلے مصر اور پھر عرب تشریف لے گئے.اور خانہ کعبہ کا حج کیا.آپ نے شریف مکہ سے بھی ملاقات کی اور انہیں وہاں صفائی کے انتظام کی طرف توجہ دلائی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد ۲۷ رمئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مولوی نورالدین صاحب جماعت کے پہلے خلیفہ بنے تو حضرت خلیلة اسبیع الاول کے ہاتھ پر سب سے پہلے حضرت مصلح موعود نے بیعت کی.آپ حضرت خلیفتہ امسیح الاول سے بہت پیار کرتے تھے اور بہت عزت کرتے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الاول کو بھی آپ سے بہت پیار تھا.جب بھی آپ حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کی مجلس میں حاضر ہوتے تو حضور آپ کے لئے اپنا آدھا گدیلا خالی کر دیتے اور اس پر بیٹھنے کے لئے فرماتے.ایک دفعہ ایک خطبہ میں حضرت خلیفہ اسیح الاول نے فرمایا کہ میاں محمود بالغ ہے اس سے پوچھ لو کہ میرا سچا فرمانبردار ہے.ہاں ایک معترض کہہ سکتا ہے کہ میرا سجا فرمانبردار نہیں.مگر نہیں میں خوب جانتا ہوں، کہ وہ میر اسچافرمانبردار ہے اور ایسا فرمانبردار کہ تم میں سے ایک بھی نہیں.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فوت ہونے کے بعد دشمنوں نے بہت اعتراض شروع کر دیئے تو حضرت مصلح موعود نے ان کا جواب لکھا جو کتاب کی شکل میں چھپا اس کتاب کا نام ہے ” صادقوں کی روشنی کو کون دور کر سکتا ہے.“ یہ آپ کی وو
12 11 پہلی کتاب تھی.اسے پڑھ کر حضرت خلیفہ اول نے مولوی محمد علی صاحب سے فرمایا کہ مولوی صاحب! مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر مخالفین نے جو اعتراض کئے ہیں ان کے جواب میں تم نے بھی لکھا ہے اور میں نے بھی.مگر میاں ہم دونوں سے بڑھ گیا ہے.“ جون ۱۹۱۳ء میں آپ نے جماعت کے لئے قادیان سے اخبار ” الفضل“ نکالا.اس وقت چونکہ جماعت کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ ایک اخبار بھی نکال سکتی.اس لئے آپ کی بیوی حضرت ام ناصر صاحبہ نے اپنے سارے زیور حضور کی خدمت میں پیش کر دیئے جن کو بیچ کر الفضل ، چھپنے کا انتظام کیا گیا.” ۱۳ / مارچ ۱۹۱۴ ء کو حضرت خلیفۃ امسیح الاول فوت ہوئے.اس دن عصر کی نماز کے وقت سب لوگ بیت نور قادیان میں جمع ہو گئے جہاں حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے داماد تھے حضرت خلیفۃ اسیح الاول کی وصیت پڑھ کر سنائی اور لوگوں سے درخواست کی کہ وصیت کے مطابق کسی شخص کو خلیفہ مقرر کریں.اس پر حضرت مولوی سید محمد احسن صاحب امروہوی نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب مصلح موعود کا نام پیش کیا.پہلے تو آپ نے انکار کیا لیکن لوگوں کا جوش اور اصرار دیکھ کر آپ سمجھ گئے کہ خدا تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے.چنانچہ آپ نے لوگوں سے بیعت لے لی.اس طرح خدا تعالیٰ نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دوسرا خلیفہ مقرر فرمایا.غیر مبالکین نے حضرت خلیفۃ ابیع الاول کی وفات پر خلافت کو ختم کرنے کے لئے بہت زور لگایا.وہ لوگ چاہتے تھے کہ خلافت ختم ہو جائے.لیکن خدا کے فضل سے ان کی کوئی کوشش کامیاب نہ ہو سکی اور جماعت احمدیہ میں خلافت قائم رہی.جو لوگ چاہتے تھے کہ خلیفہ کی بجائے انجمن جماعت کا انتظام سنبھالے ان میں آگئے آگے مولوی محمد علی صاحب، خواجہ کمال الدین صاحب وغیرہ تھے.لیکن احمدی جانتے تھے کہ جب تک جماعت کا کوئی خلیفہ نہیں ہوگا جماعت ترقی نہیں کر سکتی.اس لئے انہوں نے ان لوگوں کی بات نہیں مانی.جب مولوی محمد علی صاحب وغیرہ نے دیکھا کہ ہماری کوئی بات نہیں مان رہا تو انہوں نے اپنی ایک علیحدہ جماعت بنالی اور اپنا مرکز لا ہور میں بنالیا.اسی جماعت کو لاہوری یا پیغامی یا غیر مہاکھین کہتے ہیں.حضرت خلیلۃ ابیع الثانی کی مصروفیات خلیفہ بننے کے بعد بہت بڑھ گئیں.آپ صبح فجر کی نماز پڑھانے کے بعد درس دیتے پھر بارہ بجے تک ڈاک دیکھتے اور جواب لکھواتے اور جماعت کے دوسرے کام کرتے.عصر کے بعد بیت اقصا قادیان میں قرآن کا درس دیتے.مغرب کے بعد بیت مبارک میں مجلس عرفان ہوتی اس مجلس میں آپ لوگوں سے پیاری پیاری باتیں کرتے.آپ شروع ہی سے بیمار رہتے تھے لیکن خلیفہ بننے کے بعد تو آپ کی صحت پر بہت اثر پڑا اور آپ بہت کمزور ہو گئے.لیکن بیماری اور کمزوری کے باوجود آپ بہت ہمت سے خلافت کے کام کرتے رہے.۱۲ را پریل ۱۹۱۴ء کو حضرت مصلح موعود کے حکم کے مطابق ( دعوت الی اللہ ) کے معاملہ پر غور کرنے کے لئے بیت مبارک قادیان میں ملک بھر کے احمدی نمائندوں کی مجلس شوری ہوئی.اس میں آپ نے فرمایا کہ ”میں چاہتا ہوں کہ ہم میں ایسے لوگ
14 13 ہوں جو ہر زبان جاننے والے ہوں تا کہ ہم ہر زبان میں آسانی سے ( دعوت الی اللہ ) کر سکیں.لندن میں حضرت خلیفہ المسیح الاول کے عہد میں ہی احمد یہ مشن قائم ہو چکا تھا.آپ کی خلافت کے دوسرے سال جماعت احمدیہ کا دوسرا بیرونی مشن ماریشس میں قائم ہوا.۳۱ مئی ۱۹۱۴ ء کو حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی بیٹی حضرت امتہ اُٹئی صاحبہ سے آپ کا نکاح ہوا.ان کے تین بچے ہوئے.جن کے نام یہ ہیں:.صاحبزادہ مرزا خلیل احمد صاحب مرحوم.صاحبزادی امتہ القیوم صاحبہ.صاحبزادی امتہ الرشید صاحبہ.۱۹۰۰ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا تھا.” تائی آئی یہ الہام یوں پورا ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی بیوی نے جو حضرت مصلح موعود کی تائی تھیں مارچ ۱۹۱۶ء میں حضور کے ہاتھ پر بیعت کی.جماعت کے تربیتی کام بڑھتے جارہے تھے اس لئے حضرت مصلح موعود نے ۷ د دسمبر ۱۹۱۷ء کوزندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی.اس تحریک پر سب سے پہلے ۶۳ نوجوانوں نے اپنے نام پیش کئے جن میں مولوی عبدالرحیم صاحب، شیخ یوسف علی صاحب ، صوفی عبد القدیر صاحب نیاز ، صوفی محمد ابراہیم صاحب ، مولوی جلال الدین صاحب شمس ، مولوی ظہور حسین صاحب، شیخ محمود احمد صاحب عرفانی وغیرہ تھے.جیسا کہ ہم نے پہلے لکھا ہے کہ آپ کی صحت کچھ عرصہ سے زیادہ خراب ہوگئی تھی.۱۹۱۸ ء میں حضور زیادہ بیمار ہو گئے تو ڈاکٹروں نے بمبئی جانے کا مشورہ دیا.چنانچہ سرمئی ۱۹۱۸ ء کو آپ قادیان سے روانہ ہوئے اور لاہور میں ناک اور حلق کا علاج کرانے کے بعد بمبئی تشریف لے گئے وہاں جا کر آپ کی طبیعت اچھی ہوگئی اور ۱۵رجون ۱۹۱۸ ء کو آپ واپس قادیان آگئے.آپ کو جماعت کے ہر قسم کے لوگوں کا خیال رہتا تھا.آپ کے کہنے پر قادیان میں احمدی یتیم بچوں کے لئے 1919ء میں احمد یہ یتیم خانہ قائم کیا گیا تا کہ یتیم بچوں کا کوئی ٹھکانہ بن جائے.اس یتیم خانہ کے افسر حضرت میر قاسم علی صاحب مقرر ہوئے.۲۱ فروری ۱۹۲۱ء کو حضرت فضل عمر ( حضرت مصلح موعود کا ایک الہامی نام) نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک رفیق حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب کی بیٹی حضرت سیدہ مریم بیگم صاحبہ سے شادی کی.ان کو اللہ میاں نے ۴ بچے دیئے جن کے نام یہ ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفتہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی.صاحبزادی امتہ الحکیم صاحبہ (مرحومہ).صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ (مرحومہ).صاحبزادی امتہ الجمیل صاحبت ۲۵ / دسمبر ۱۹۲۲ ء میں حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے لجنہ اماءاللہ کی بنیاد رکھی جس کی پہلی سیکرٹری حضرت سیدہ امتہ الحئی صاحبہ تھیں.لجنہ کی مبرات نے حضرت اماں جان سے درخواست کی کہ اس کی صدارت قبول فرما ئیں لیکن پہلے اجلاس میں ہی آپ نے حضرت ام ناصر صاحبہ کو اپنی جگہ بٹھا کر لجنہ کا صدر بنادیا.لجنہ کے ساتھ ساتھ ناصرات
16 15 الاحمدیہ کی تعظیم بھی بنائی گئی جس میں سے سے ۱۵ سال تک کی احمدی بچیاں شامل ہوتی ہیں.لجنہ اور ناصرات کی تنظیمیں اس لئے بنائی گئیں تا کہ احمدی عورتوں کو دینی تعلیم دی جاسکے.اور وہ اچھی بہنیں، اچھی بیٹیاں، اچھی مائیں اور اچھی بیویاں بنیں.بچو! ۱۲ ۷ء میں محمد بن قاسم نے ہندوستان میں اسلامی حکومت قائم کی.اس کے بعد ہندوستان کے بہت سے ہندومسلمان ہو گئے لیکن ان میں سے بعض علاقوں کے مسلمانوں کے طور طریقے سب ہندوؤں جیسے ہی تھے اور وہ بس نام کے مسلمان تھے.کئی سو سال تک وہ اسی طرح مسلمان رہے.لیکن اٹھارہویں صدی میں پنڈت دیانند سرسوتی نے ایک ایسی تحریک چلائی جس کا مقصد دوسرے مذہب کے لوگوں کو ہندو بنانا تھا اسے شدھی کی تحریک کہتے ہیں اس کی وجہ سے بہت سے ایسے مسلمان جن کو اسلام سے پوری واقفیت نہ تھی ہندو ہو گئے.حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے ۱۹۲۳ء کے شروع میں شدھی تحریک کے خلاف کام شروع کیا اور احمدیت کے (مربی) ان جگہوں میں بھیجے جہاں شدھی تحریک زوروں پر تھی.اس کے نتیجہ میں بہت سے مسلمان ہندو ہونے سے بچ گئے اور بہت سے لوگ جو ہندو ہو گئے تھے دوبارہ مسلمان ہو گئے.اخبار ”زمیندار“ نے اس کی تعریف کرتے ہوئے لکھا ہے:.احمدی بھائیوں نے جس خلوص ، جس ایثار، جس جوش اور جس ہمدردی سے اس کام میں حصہ لیا ہے وہ اس قابل ہے کہ ہر مسلمان اس پر فخر کرے.“ ۱۹۲۴ ء کے شروع میں انگلستان میں ویمبلے پارک میں ایک نمائش لگی جس کے ساتھ ایک مذہبی کا نفرنس بھی ہوئی تھی.اس کانفرنس میں شریک ہونے کے لئے وو حضرت مصلح موعود خود تشریف لے گئے.اس کانفرنس میں آپ کا مضمون " احمدیت یعنی حقیقی (دین) مکرم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے پڑھا جو بہت پسند کیا گیا.حضرت سیدہ امتہ الحئی صاحبہ کی وفات کے بعد ۱۳ را پریل ۱۹۲۵ء کو حضرت مولوی عبدالماجد صاحب بھاگلپوری کی صاحبزادی حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ سے آپ کا نکاح ہوا جن کے دو بیٹے صاحبزادہ مرزا رفیع احمد صاحب (مرحوم)، صاحبزادہ مرزا حنیف احمد صاحب اور ایک بیٹی صاحبزادی امتہ النصیر صاحبہ ہیں.ہم نے پہلے بتایا تھا نا کہ آپ نے احمدی عورتوں کے لئے لجنہ اماء اللہ قائم کی تا کہ احمدی عورتیں مل جل کر کام کرنا سیکھیں.لجنہ قائم کرنے کے۳ سال بعد ۱۹۲۵ء میں احمدی عورتوں کی علمی ترقی کے لئے آپ نے قادیان میں مدرسۃ الخواتین کی بنیاد رکھی جس میں دوسرے استادوں کے علاوہ آپ خود بھی پڑھاتے تھے.آپ کو عورتوں کی اصلاح کا بہت خیال رہتا تھا.چنانچہ آپ فرماتے تھے کہ اگر پچاس فیصد عورتوں کی اصلاح ہو جائے تو جماعت ترقی کرے گی“ اسی لئے آپ نے لڑکیوں کی تعلیم کے لئے سکول اور کالج بھی بنوایا تا کہ احمدی لڑکیاں یہاں پڑھیں اور دوسری تعلیم کے ساتھ انہیں دینی تعلیم بھی دی جائے تا کہ وہ کچی احمدی ( مومن ) عورتیں بنیں.یکم فروری ۱۹۲۶ ء کو حضور کا نکاح سیٹھ ابوبکر یوسف صاحب آف جدہ کی بیٹی حضرت عزیزہ بیگم صاحبہ سے ہوا.ان سے دو بیٹے صاحبزادہ مرزا وسیم احمد
18 17 صاحب ( مرحوم ) اور صاحبزادہ مرزا نعیم احمد صاحب ( مرحوم) پیدا ہوئے.آپ کو مردوں اور عورتوں دونوں کی تعلیم کا خیال رہتا تھا لڑکوں کے لئے سکول تو پہلے ہی تھا لیکن آپ نے ان کی دینی تعلیم کے لئے جامعہ احمد یہ بنایا کہ احمدی بچے یہاں پڑھیں اور اچھے (مربی) بن کر لوگوں کو احمدیت کی تعلیم دیں.۱۵ سر اپریل ۱۹۲۸ ء کو جامعہ احمدیہ قائم ہوا جواب بھی ربوہ میں قائم ہے.یہاں سے احمدیت کے (مربی) تیار ہو کر نکلتے ہیں جو اپنے ملک میں بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی احمدیت اور ( دین حق ) کے متعلق لوگوں کو بتاتے ہیں ان کی کوششوں اور خدا کے فضل سے ہر سال بہت سے لوگ احمدی ہو جاتے ہیں.لڑکوں کو اعلی تعلیم دلوانے کے لئے آپ نے تعلیم الاسلام کا لج بھی بنایا.دسمبر ۱۹۳۰ ء میں آپ کے بڑے بھائی حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اس طرح ایک رنگ میں یہ پیشنگوئی بھی پوری ہوئی کہ وہ تین کو چار کر نے والا ہوگا“.آپ کو صرف احمدیوں سے ہی پیار نہیں تھا بلکہ آپ کو دوسرے مسلمانوں سے بھی بہت زیادہ ہمدردی تھی.کشمیر کے مسلمانوں پر بہت سالوں سے ہندو ظلم کر رہے تھے.۱۹۳۱ء میں یہ ظلم بہت زیادہ بڑھ گئے اور کشمیر کی ہندو حکومت نے سینکڑوں مسلمانوں کو شہید کروا دیا.ان کی جائیداد میں لوٹ لیں.بہت سے مسلمانوں کو قید کر لیا.کشمیر کے مسلمانوں نے آپ کو واقعات لکھے اور درخواست کی کہ آپ کشمیر کے معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لے لیں.آپ نے فوراً وائسرائے ہند کو تار دلوائی کہ کشمیر کے مسلمانوں کی مشکلات دور کی جائیں.اس کے علاوہ آپ نے مسلمانوں کے سارے بڑے بڑے لیڈروں کا ایک اجلاس شملہ میں بلایا جس میں آپ نے کہا کہ کشمیر کے مسلمانوں کی مدد کے لئے ایک کمیٹی بنائی جائے جو کوشش کر کے ان کا حق انہیں دلوائے.چنانچہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی بن گئی اور خواجہ حسن نظامی اور علامہ اقبال نے صدارت کے لئے آپ کا نام پیش کیا.پہلے تو آپ نے بہت انکار کیا لیکن ان کے بار بار زور دینے پر کہ مسلمانوں کو اس وقت آپ کی مدد کی ضرورت ہے آپ مان گئے.اس زمانہ میں ریاست کشمیر کے بڑے بڑے مسلمان لیڈر آپ کے پاس قادیان آتے تھے اور آپ سے مشورے لیتے تھے.آخر آل انڈر یا کشمیر کمیٹی کی کوششوں سے مہاراجہ کشمیر نے مسلمانوں کو ان کے حقوق دینے کا وعدہ کر لیا.۳۰ ستمبر ۱۹۳۵ء کو حضرت اصلح الموعود کی شادی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب کی بیٹی حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ سے ہوئی.ان کی ایک بیٹی ہیں جن کا نام صاحبزادی امتہ المتین صاحبہ ہے.لمصل ۱۹۴۷ء میں جب پاکستان بنا تو جماعت احمدیہ نے اپنے محبوب آقا حضرت مصلح موعود کی ہدایات کے مطابق بہت کام کیا اور بہت قربانیاں دیں.پاکستان بننے کے وقت باوجود اس کے کہ کشمیر میں مسلمانوں کی آبادی ہندوؤں سے بہت زیادہ تھی ہندو مہاراجہ نے انگریزوں کے ساتھ مل کر کشمیر کو ہندوستان میں شامل کروالیا تھا.کشمیر کے مسلمان پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہتے
20 19 تھے.لیکن مہاراجہ اور ہندوستان کی حکومت کے ظلم کے آگے بے بس تھے.حکومت پاکستان نے خیال ظاہر کیا کہ کشمیر کی آزادی کے لئے رضا کاروں کی ایک جماعت چاہئے جو پاکستانی فوج کی مدد کرے.چنانچہ آپ نے فرقان بٹالین بنائی جو ۱۹۴۸ء سے ۱۹۵۰ ء تک قائم رہی اور احمدی جوانوں نے اس میں بہت جوش سے حصہ لیا اور میدان جنگ میں اپنی فوج کی مدد کی.ایک بار حضرت مصلح موعود خود بھی محاذ پر تشریف لے گئے جس سے احمدی جوانوں کے حوصلے بہت بڑھ گئے.احمدیوں کے اس جہاد کے متعلق رسالہ ” قائد اعظم نے ۱۹۴۹ ء میں لکھا کہ جہاد کشمیر میں مجاہدین آزادی کشمیر کے دوش بدوش جس قد ر احمدی جماعت نے خلوص اور درد دل سے حصہ لیا ہے اور قربانیاں دی ہیں ہمارے خیال میں مسلمانوں کی کسی دوسری جماعت نے ابھی تک ایسی جرات اور پیش قدمی نہیں کی.“ آپ کو ہر وقت یہ فکر رہتی تھی کہ کسی طرح جماعت زیادہ سے زیادہ ترقی کرے.اس سلسلہ میں آپ نے ۱۹۳۴ ء میں تحریک جدید کی بنیاد رکھی.تحریک جدید کے آغاز میں انیس (۱۹) مطالبات تھے جن میں سے کچھ ہم یہاں لکھتے ہیں تاکہ تمہیں بھی اس کا پتہ چل جائے.د, ایک مطالبہ تو یہ تھا کہ ہر احمدی اقرار کرے کہ وہ صرف ایک سالن استعمال کرے گا.ضرورت ہو تو نیا لباس بنوائے ورنہ یونہی فضول خرچی نہ کرے.سنیما وغیرہ نہ دیکھے.تمام احمدی تین سال کے لئے اپنا روپیہ بیت المال میں جمع کرائیں جو تین سال کے بعد انہیں واپس کر دیا جائے گا.ہ لوگ احمدیت کی ترویج کے لئے اپنے خرچ پر باہر جائیں.اسی طرح عارضی طور پر بھی اپنے آپ کو وقف کریں.جن لوگوں کی پنشن ہو چکی ہے وہ بھی دین کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.اسی طرح ڈاکٹر، وکیل وغیرہ بھی جماعت کے لئے خود کو وقف کریں.احمدی بچے مختلف قسم کی تعلیم حاصل کریں.کوئی ڈاکٹر بنے ،کوئی وکیل، کوئی الجھینئر، کوئی ریلوے میں جائے ، کوئی فوج میں.غرض ہر پیشے میں احمدی آجائیں.اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی عادت ڈالیں.کوئی احمدی بیکار نہ رہے.مزدوری کریں.اخبار یا کتا ہیں بچھیں.کچھ کریں لیکن بیکار نہ بیٹھیں.اگر اپنے ملک میں کام نہیں ملتا تو باہر چلے جائیں.جو لوگ معذور ہیں چل پھر نہیں سکتے.کچھ کام نہیں کر سکتے وہ بیٹھے بیٹھے دعائیں کرتے رہیں.احمدیوں نے تحریک جدید کے مطالبات کو بہت خوشی اور جوش سے پورا کیا.یہ مطالبات پہلے صرف تین سال کے لئے تھے لیکن بعد میں کچھ مطالبات کو مستقل کر دیا گیا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے خود بھی تحریک جدید پرسختی سے عمل کیا.شروع شروع میں تو اتنا کام ہوتا تھا کہ آپ کبھی رات کو ایک بجے سے پہلے نہیں سوئے.بعض دفعہ تو تین چار بجے صبح تک کام کرتے رہتے.آپ نے ذاتی طور پر تحریک کے فنڈ میں ایک لاکھ اٹھارہ ہزار چھ سو چھیاسی روپے چندہ دیا اس کے علاوہ اپنی قیمتی زمین بھی تحریک جدید کو دے دی.
22 21 بچو! ایک واقعہ سنو.ایک دفعہ آپ کھانے کے لئے آئے.لیکن کھانا دیکھ کر چپ چاپ اٹھ کر چلے گئے بعد میں فرمایا کہ میں نے کہا ہے کہ میز پر صرف ایک سالن ہوا کرے لیکن آج تین قسم کے کھانے تھے اس لئے میں کھانا نہیں کھاؤں گا.آپ نے ہم سال تک اپنی قمیصوں کے لئے کپڑا نہیں خریدا اور تحریک جدید سے پہلے کی بنی ہوئی قمیصیں ہی سنبھال سنبھال کر استعمال کرتے رہے.شروع میں گرمی میں برف اور بوتلوں وغیرہ کا استعمال بھی چھوڑ دیا تھا.آپ نے اپنے سب بیٹوں کو وقف کر دیا تھا.آپ نے فرمایا ” میرے تیرہ لڑکے ہیں اور تیرہ کے تیرہ دین کے لئے وقف ہیں.“ آپ خود بھی وقار عمل میں شریک ہوتے تھے.آپ کہتے ہیں.” جب پہلے دن میں نے کہی (کسی ) پکڑی اور مٹی کی ٹوکری اٹھائی تو کئی مخلصین ایسے تھے جو کانپ رہے تھے اور وہ دوڑے دوڑے آتے اور کہتے.حضور تکلیف نہ کریں ہم کام کرتے ہیں لیکن جب چند دن میں نے ان کے ساتھ مل کر کام کیا تو وہ عادی ہو گئے اور سمجھنے لگے کہ یہ ایک مشترکہ کام ہے جو یہ بھی کر رہے ہیں اور ہم بھی کر رہے ہیں.“ آپ کی ہمیشہ کوشش رہی کہ کوئی احمدی نکما نہ بیٹھے اس لئے احمدی نوجوانوں میں صنعت و حرفت کا شوق پیدا کرنے کے لئے آپ نے دار الصناعہ قائم کیا اور اس کے افتتاح کے موقع پر اپنے ہاتھ میں زندہ لے کر لکڑی صاف کی اور آری سے لکڑی کاٹ کر اپنے عمل سے یہ بتایا کہ اپنے ہاتھوں سے کام کرنا ذلت نہیں بلکہ عزت دیتا ہے.یہ ادارہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج بھی ربوہ میں قائم ہے.آپ نے دنیا کے بہت سے ملکوں میں مشن قائم کئے.جہاں احمدیت کے (مربی) لوگوں کو ( دین حق ) کی تعلیم دیتے ہیں.اس طرح دنیا کے کونے کونے میں لوگ آپ کا نام جاننے لگے اور اس طرح یہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قو میں اس سے برکت پائیں گی.“ حضرت فضل عمر نے جن تحریکوں کی بنارکھی ان میں سے ایک نہایت شاندار اور اہم تحریک مجلس خدام الاحمدیہ کا قیام ہے.بینظیم ۱۹۳۸ ء میں قائم ہوئی.یہ نو جوانوں کی تعظیم ہے اور اس لئے بنائی گئی ہے کہ ہر زمانے میں جماعت احمدیہ کے نو جوانوں کی تربیت اس طرح ہوتی رہے کہ وہ (دین حق ) کا جھنڈا بلند رکھیں.پھر خدام الاحمدیہ کے ماتحت ہی جماعت کے بچوں کے لئے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم بنائی تاکہ بچپن سے ہی ان کی تربیت ( دین حق ) کے مطابق کی جاسکے.۱۹۳۹ ء میں خلافت جوبلی منائی گئی.کیونکہ اس سال آپ کی خلافت کے ۲۵ سال پورے ہو گئے تھے ( نیز جماعت کے قیام پر بھی پچاس سال پورے ہو گئے تھے ) اس موقع پر حضور نے جماعت سے کہا کہ شکرانے کے طور پر نیک کاموں میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں.اسی سال حضور نے ایک کمیٹی بنائی جس کا کام یہ تھا کہ وہ ہجری شمسی سال کا ڈھانچہ تیار کرے.آپ نے ہجری شمسی سال کے مہینوں کے یہ نام رکھے:.ے.وفا (جولائی) ظهور (اگست) اصلح (جنوری) ۲ تبلیغ (فروری)
24 23 ۳.امان (مارچ) ۹ - تبوک (ستمبر) ۱۰.اخاء (اکتوبر) ۴.شہادت (اپریل) ۱۱.نبوت (نومبر) ۵ ہجرت (مئی) ۶.احسان (جون) ۱۲ فتح (دسمبر) ان تمام مہینوں کے نام تاریخ اسلام کے کسی اہم واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں.حضرت مصلح موعود اپنی جماعت کے بچوں، بوڑھوں، جوانوں اور عورتوں سب کی تربیت کے متعلق سوچتے رہتے تھے.اسی لئے آپ نے ان سب کی تنظیمیں بنادی تھیں کہ سب لوگ ایک طریقہ اور تنظیم سے کام کرنا سیکھیں.پہلے آپ لجنہ اماءاللہ، خدام الاحمدیہ، ناصرات الاحمدیہ اور اطفال الاحمدیہ کی تنظیمیں بنا چکے تھے.جولائی ۱۹۴۰ء میں آپ نے انصار اللہ کی تنظیم بنائی اس میں۴۰ سال سے اوپر کے مرد شامل ہیں تا کہ جماعت کے بوڑھے بھی سست ہو کر نہ بیٹھ جائیں اور وہ بھی جماعت کے کاموں میں حصہ لیں.جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ اللہ میاں نے آپ کے متعلق پہلے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتا دیا تھا کہ آپ مصلح موعود ہیں.لیکن ابھی تک آپ نے خود یہ اعلان نہیں کیا تھا کہ مصلح موعود کی پیشنگوئیاں آپ کے لئے ہی تھیں.جنوری ۱۹۴۴ ء میں اللہ میاں نے ایک رؤیا میں آپ کو بتایا کہ آپ ہی مصلح موعود ہیں.اس کے بعد آپ نے خطبہ جمعہ میں اعلان کیا کہ میں ہی مصلح موعود ہوں یہ اعلان سن کر احمدی بہت خوش ہوئے اور ایک دوسرے کو مبارکباد دینے لگے.۲۴ جولائی ۱۹۴۴ء کو حضرت سید و بشری بیگم صاحبہ بات حضرت سید عزیز الله شاہ صاحب ابن حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب سے آپ کا نکاح ہوا.جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ آپ نے ہر موقعہ پر مسلمانوں کی مدد کی.جب ہندوستان کے مسلمانوں نے اپنے لئے ایک علیحدہ ملک بنانے کا فیصلہ کیا تو آپ نے اس تحریک کو کامیاب کرنے کے لئے بہت کام کیا اور تمام احمد یوں کو بھی حکم دیا کہ وہ پاکستان بنانے کے لئے ہر طرح کی قربانی کریں.۱۹۴۷ ء میں جب پاکستان بننے کے بعد فساد شروع ہوئے تو آپ نے قادیان کو ایک کیمپ بنا دیا.جہاں آس پاس کے علاقوں کے مسلمان پناہ لینے پہنچ گئے.کیونکہ قادیان خدا کے فضل سے ہندوؤں سکھوں کے حملوں سے نسبتا محفوظ تھا.ملک کی تقسیم کے وقت قادیان بھی ہندوستان کے حصے میں آ گیا تھا.آپ نے فیصلہ کیا کہ سارے احمدی قادیان کو نہیں چھوڑیں گے.چنانچہ آپ کے حکم سے تقریباً ۳۱۳ احمدی قادیان میں ہی رہے.آپ نے اپنے بیٹے مکرم مرز او سیم احمد صاحب کو بھی قادیان ہی میں رہنے کا حکم دیا.جو آخری دم تک قادیان میں رہ کر جماعت کی خدمت کرتے رہے.آپ خود بھی سب کو پاکستان بھیجنے کے کافی دنوں کے بعد قادیان سے لاہور آئے.اب چونکہ قادیان جو احمدیوں کا مرکز تھا ہندوستان میں رہ گیا تھا اس لئے آپ نے پاکستان میں جماعت کا نیا مرکز بنایا جس کا نام ربوہ رکھا.ربوہ کا مطلب ہے اونچی جگہ.شروع شروع میں نہ یہاں پانی تھا نہ سبزہ تھا.لیکن آپ کی ہمت اور دعاؤں سے ربوہ آباد ہونا
26 25 شروع ہو گیا.اللہ میاں نے پانی بھی زمین سے نکال دیا.بارشیں بھی زیادہ ہونے لگیں.سبزہ بھی ہر طرف نظر آنے لگا.پہلے یہاں سے دن کے وقت صرف دو گاڑیاں گذرتی تھیں.رات کو کوئی گاڑی نہیں گذرتی تھی.سڑک بھی صرف دن کے وقت کچھ چلتی تھی لیکن جب حضور کی کوششوں سے یہاں شہر آباد ہو گیا تو ریوه با قاعدہ شیشن بن گیا.بسیں، موٹریں وغیرہ کثرت سے آنے جانے لگیں، یہاں بجلی بھی آئی فون بھی آیا سوئی گیس بھی آگئی اور یوں خدا کی قدرت سے بنجر زمین آباد ہوگئی.آپ اللہ تعالیٰ سے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اور قرآن شریف سے بہت محبت کرتے تھے.آپ نے اپنی ساری زندگی قرآن شریف کو سمجھنے اور سمجھانے میں گزار دی.۱۹۵۴ء میں جب آپ بیت مبارک ربوہ میں عصر کی نماز پڑھا کر واپس آنے لگے تو ایک دشمن نے چاقو سے آپ پر حملہ کر دیا.آپ کی گردن پر بہت گہرا زخم لگا لیکن خدا تعالی نے آپ کو بچا لیا.اس کے بعد آپ کافی لمبا عرصہ بیمار رہے.مگر بیماری میں بھی کام نہیں چھوڑا اور مسلسل کام کرتے رہے.تفسیر صغیر کا سارا کام آپ نے اپنی بیماری میں ہی کیا.ساری ساری رات جاگ کر قرآن شریف کی تفسیر لکھتے رہتے.آپ نے قرآن شریف کی جو مختصر تفسیر لکھی ہے اس کا نام تفسیر صغیر ہے.ایک تفسیر زیادہ تفصیل سے کی ہے وہ تفسیر کبیر کہلاتی ہے.آپ کی عادت تھی کہ آپ ٹہلتے ہوئے پڑھتے تھے.سوائے زیادہ بیماری کے.جب آپ بہت کمزور ہو گئے تھے ورنہ ہم نے آپ کو ہمیشہ ٹہلتے ہوئے دیکھا.ہاتھ میں قرآن شریف ہوتا ٹہلتے جاتے اور پڑھتے جاتے.جیسا کہ پیشگوئی میں اللہ میاں نے پہلے سے بتا دیا تھا آپ بہت ذہین تھے بڑے سے بڑے مسئلے کو فوراً حل کر دیتے.آپ کا رعب بہت تھا کسی میں اگر کوئی غلط بات دیکھتے تو فوراً ڈانٹ دیتے چاہے وہ اپنے بچے ہوں یا دوسرے لوگ ہوں.لیکن آپ دل کے بہت حلیم تھے.اگر ایک وقت ڈانٹتے تو دوسرے وقت اس کی دلجوئی بھی کر دیتے تھے اس لئے سب لوگ آپ سے بہت پیار کرتے تھے اور آپ کو اپنا سچا ہمدرد مجھتے تھے.جماعت کے اتنے بہت سے کاموں کے باجود آپ کبھی تھکتے نہیں تھے.بے حد زندہ دل تھے.ہمیشہ ہنستے رہتے تھے.اکثر سارے خاندان کو جمع کر کے پکنک پر بھی لے جاتے تھے.نہ چھوٹوں سے گھبراتے نہ بڑوں سے.ساری جماعت سے بچوں کی طرح پیار کرتے تھے.بلکہ اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں تو لگتا تھا کہ حضور اپنے بچوں سے زیادہ ہمیں پیار کرتے ہیں.چھوٹے بچوں سے بہت پیار کرتے تھے اور ان سے جنسی مذاق کرتے رہتے تھے.ایک دفعہ میں آپ کے پاس کچھ مخط لے کر گئی جو باہر سے کسی پہرہ دار نے مجھے پکڑا دیئے تھے.آپ اس وقت کھانا کھا رہے تھے.مجھے دیکھ کر بہت سنجیدہ ہو کر کہنے لگے.تم نے ایک جرم کیا ہے اور میں تمہیں اس کی سخت سزا دوں گا.میری تو جان ہی نکل گئی کہ پتہ نہیں میں نے کیا کر دیا ہے.کہنے لگے کہ تمہارا جرم یہ ہے کہ تم میری بیٹی
28 27 کی بیٹی ہو اور سزا یہ دوں گا کہ تمہیں پیار کروں گا.آپ جتنا پیار کرتے تھے تربیت کا بھی اتنا ہی خیال رکھتے تھے.جب شروع میں ربوہ بنا تو ہمارے گھر کچی اینٹوں کے تھے.گھروں کے ساتھ ہی ایک دود کا نیں بھی تھیں.ایک دفعہ میں دکان سے کوئی چیز لے کر واپس آ رہی تھی.آپ نماز پڑھانے جا رہے تھے مجھے دیکھ کر کہنے لگے.کہاں سے آ رہی ہو.میں نے کہا بازار سے.مجھے تو کچھ نہیں کہا لیکن امی سے آ کر کہنے لگے کہ ٹھیک ہے کہ یہ ابھی چھوٹی ہے لیکن دکان پیدا کیلے بھیجنا مناسب نہیں ہے.آپ ہر انسان کی عزت کرتے تھے اور کسی کو برانہیں سمجھتے تھے.ایک دفعہ صفائی کرنے والے ایک خاکروب نے آپ کے ایک نواسے کے منہ پر پیار کر لیا.اس پر بچوں نے اس بچے کو چھیڑا کہ جمعدار نے تمہیں پیار کر لیا ہے اور تم بھی گندے ہو گئے ہو.جب حضور کو پتہ لگا تو حضور نے اسے بلا کر پوچھا کہ تمہیں جمعدار نے کہاں پیار کیا تھا.بچے نے گال پر انگلی رکھ کر بتایا کہ اس جگہ.حضور نے بچے کو اپنے ساتھ چمٹا کر اسی جگہ پیار کیا اور اس طرح بچوں کو یہ سبق دیا کہ کوئی آدمی بھی برا نہیں ہوتا.آپ کی آواز بہت اچھی تھی.تلاوت کرتے تھے تو دل چاہتا تھا کہ بس سنتے جائیں.تقریر ایسی کرتے تھے کہ بس مزہ آ جاتا تھا.کئی کئی گھنٹے تقریر کرتے اور سننے والے کا دل کرتا کہ یہ تقریر ہوتی رہے.کبھی ختم نہ ہو.۱۹۵۴ء کے بعد سے آپ بہت بیمار رہنے لگے تھے اور بہت کمزور ہوتے جا رہے تھے.ڈاکٹروں کے کہنے اور جماعت کے زور دینے پر آپ علاج کرانے کے لئے ۱۹۵۵ء میں یورپ گئے.علاج کے علاوہ وہاں احمدی مشنوں کا کام بھی دیکھا اور وہاں کے احمدیوں سے ملاقاتیں بھی کیں.علاج سے آپ کو کسی حد تک فائدہ ہوا مگر پوری طرح تندرست نہ ہو سکے اور آخرے اور ۸/ نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی رات تقریباً دو بجے اللہ میاں نے ہمارے پیارے امام حضرت مصلح موعود کو اپنے پاس بلا لیا.آپ کی وفات کا پتہ لگتے ہی دور و نزدیک کے ہزاروں احمدی ربوہ آنے شروع ہو گئے.اگلے روز جماعت نے اکٹھے ہو کر اپنے نئے امام کا انتخاب کیا اور حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کو اپنا خلیفہ منتخب کر کے ان کی بیعت کی.۹ نومبر کی شام کو آپ کا جنازہ بہشتی مقبرے لے جایا گیا.جہاں حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث نے بے شمار احمدیوں کے ساتھ آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.آپ کا مزار آپ کی والدہ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے پہلو میں بنایا گیا.بچو! ہر وقت دعا کرتے رہنا کہ خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم حضرت مصلح موعود کی طرح ( دین حق ) کے خادم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سچا پیار کرنے والے ہوں اور یہ بھی دعا کیا کرو کہ ہمارے پیارے خلیفہ کی بہت لمبی عمر ہو اور ہم پیار محبت سے اکٹھے ہو کر ہر کام کریں اور ہمارے خلیفہ جو حکم ہمیں دیں ہم مانیں کیونکہ خلافت میں بہت برکتیں ہیں.جس طرح درخت کی شاخیں جب تک درخت کے ساتھ لگی رہتی ہیں ہری بھری رہتی ہیں اور جب ان کو درخت سے علیحدہ کر دیں تو وہ سوکھ جاتی ہیں.اسی طرح جب تک جماعت کے لوگ خلافت کا ساتھ دیتے رہتے ہیں ان کا ایمان تازہ رہتا ہے اور جب کوئی بدقسمت خلافت کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے تو اللہ میاں
30 29 اس کو سوکھی ہوئی ٹہنی کی طرح کر دیتا ہے جس کی کوئی قدرو قیمت نہیں ہوتی.تو بچو! یہ تھے حضرت فضل عمر کے مختصر حالات زندگی جو ہم نے آپ کے سامنے پیش کر دیئے.محمود نام ہے ترا، ہر کام خیر ہے ہر فعل، ہر عمل، تیرا ہر گام خیر ہے تیری تمام زندگی تقوی کی آغاز خیر تھا تیرا انجام ہے مثال ہے مصلح موعود کی زندگی کے اہم سال ۱۲ جنوری ۱۸۸۶ ء.پیشگوئی مصلح موعود.۱۸۸۹ء.پیدائش ۲۶ رمئی ۱۹۰۸ء.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انتقال ہوا.۱۹۱۴ ء آپ خلیفہ بنے.۱۹۱۶ ء حضرت مصلح موعود کی تائی صاحبہ نے آپ کی بیعت کی.۱۹۲۰ ء.امریکہ میں مشن کی بنیاد.۱۹۲۲ء.لجنہ اماءاللہ کا قیام.۱۹۲۲ ء.شدھی تحریک کے خلاف تحریک شروع کی.۱۱ جولائی ۱۹۲۴ء.ویمبلے کا نفرنس کے لئے یورپ روانہ ہوئے.۱۹۲۸ء.جامعہ احمدیہ کا قیام.۱۹؍ دسمبر ۱۹۲۸ ء امرتسر قادیان ریلوے کا افتتاح.پہلی گاڑی قادیان ٹھہری.دسمبر ۱۹۳۰ ء.آپ کے بڑے بھائی حضرت مرزا سلطان احمد صاحب نے آپ کی بیعت کی.۱۹۳ ء.آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا قیام.۱۹۳۴ء تحریک جدید کا قیام.
30 ۱۹۳۸ ء خدام الاحمدیہ کا قیام.۱۹۳۹ء.خلافت جو بلی.۱۹۴۰ ء.ہجری شمسی سال کا اجرا.۱۹۴۰ء.انصار اللہ کا قیام.۱۹۴۴ ء.دعوی مصلح موعود.۳۱ را گست ۱۹۴۷ء.قادیان سے پاکستان کی طرف ہجرت.۱۹۴ ء.نئے مرکز ربوہ کا قیام.۱۹۵۴ء.آپ پر حملہ ہوا.۱۹۵۵ء.سفر یورپ ۱۹۵۷ ء.وقف جدید کا قیام.۸/نومبر ۱۹۶۵ء.وفات.نام کتاب: حضرت مصلح موعود