Language: UR
کپورتھلہ کے جن مخلصین نے امام وقت حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کو مانا، انہوں نے عشق و وفا کا اعلیٰ نمونہ دکھایاا وران کی دینی خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ عرش کے خدانے ان لوگوں کو جنت میں بھی مسیح موعود کے ساتھ ہونے کا وعدہ دیا۔ حضرت منشی ظفر احمد صاحب ؓ بھی اسی جماعت کپورتھلہ سےتعلق رکھنے والے ایک بے نظیر اور واجب التقلید وجود تھے۔ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے عشق میں مخمور اس پیارے وجود کو جب بھی ذرا بھی فرصت ملتی فوراً خدمت اقدس میں حاضر ہوجاتے۔ اور اخلاص و وفا سے مقدور بھر مالی قربانی میں بھی پیش پیش رہتے۔
صرف احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کیلئے "حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی جماعت کپورتھلہ نے خدا کے برگزیدہ مسیح موعود علیہ السلام کو مانا اور پھر عشق و وفا کا اعلیٰ نمونہ دکھایا.ان کی خدمات کسی تعریف کی محتاج نہیں.خدا حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی کے مسیح نے انہیں جنت میں بھی اپنے ساتھ ہونے کا وعدہ دیا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب بھی اسی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایک بے نظیر اور واجب التقلید وجود تھے.آپ حضور سے بیعت سے پہلے بھی تعلق رکھتے تھے اور جب حضور نے اپنے مسیح موعود ہونے کا الہام سنایا تو بغیر کسی سوال جواب کے آنحضور میلے کا سلام آپ کو پہنچایا.آپ حضرت اقدس سے انتہا درجہ کا عشق کرتے تھے.جب ذرا فرصت ملتی حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہو جاتے.آپ نے اخلاص و وفا کے ساتھ ساتھ مالی قربانی کی بھی اعلی مثالیں قائم فرما ئیں.خدا تعالیٰ ہمیں ان اعلیٰ نمونوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے.
1 پیش لفظ کپورتھلہ کے رفقاء نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق اور محبت اور فدائیت کے جو ابواب رقم فرمائے یقیناً تاریخ میں انہیں نہرے حروف میں محفوظ رکھا جائے گا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی یکے از فدائیانِ کپورتھلہ تھے.آیئے آپ کی زندگی کے چند واقعات کو پڑھتے ہیں.بلا شبہ یہ کتا بچہ ہمارے ازدیاد ایمان کا موجب ہوگا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی ہم اور آپ کوئی دو وجود ہیں؟“ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اذن الہی پا کر لوگوں کو دعوت حق دی تو وہ لوگ جو عرصہ دراز سے آس لگائے بیٹھے تھے کہ مسیحا آئے گا اور ہم پر برکتوں کے خزانے لٹائے گا اور ہم اس کی صحبت سے مستفیض ہو نگے اور الہی معارف ہم پر کھلیں گے اور ہمیں پریشانیوں سے نجات ملے گی.ایسے لوگوں میں سے وہ جو آپ کو پہلے سے جانتے تھے اور امید لگائے بیٹھے تھے کہ کب حضور علیہ السلام کو بیعت لینے کا حکم ہو اور ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور دل سکون پائیں.لہذا جب ایسا حکم ہوا تو وہ دیوانہ وار خدا کے اس مسیح کی بستی کی طرف لیکے اور ایسے آئے کہ انہیں اپنے گھر بار بھول گئے بلکہ اپنے وطن تک چھوڑنے پر آمادہ ہو گئے ، انکا اب ایک ہی مقصد تھا کہ وہ اس مسیح موعود کی ہستی سے فیضیاب ہو سکیں جسکی راہ سکتے سکھتے انکی نظر تھک گئی تھی اور جسکے دیدار کود نیا ترس رہی تھی.وہ چاہتے تھے کہ انکی روحوں کی پیاس بجھے اور دلوں کو تسکین ملے ، خدا کے اس مسیح کا دیدار کرتے رہیں اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچتی رہے اور روحانی زندگی پائیں.
3 له 2 ایسے ہی دیوانوں کا ایک مسکن ریاست کپورتھلہ میں بھی تھا جو مسیح الزمان پر پہلے ( حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی یوم وفات 20 اگست 1941 ء ہے.آپ کی سے ہی نظر جمائے بیٹھے تھے کہ کب اشارہ ہو اور وہ تن من دھن کی بازی لگا کر اس مسیحا عمر دراز کے متعلق جو روایات ملتی ہیں ان کے مطابق آپ نے 78 یا 80 برس کی عمر کے قدموں میں ڈھیر ہو جائیں اور کب وہ شمع روشن ہو کہ یہ پروانے اس کے گرد جمع پائی.لہذا اس حساب سے آپ کی تاریخ پیدائش 63-1862 عیسوی معلوم ہوتی ہے) ہو جائیں اور رضائے باری تعالیٰ اور رضائے مہدی دوراں کے وارث ٹھہریں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اعلان بیعت کے ساتھ ہی امَنَّا وَ صَدَّقْنَا کا اور آپ کوئی دو وجود ہیں ؟ حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب فرماتے ہیں: (( رفقاء ) احمد جلد چہارم ص 4) " حضرت منشی ظفر احمد صاحب میری تحقیقات میں کپورتھلہ کی جماعت کے آدم مثالی نمونہ بننے والے ، تا حیات اپنے مسیح کے در کے غلام بن کے رہ جانے والے ہیں.عین عنفوان شباب میں انہوں نے براہین احمدیہ کو پڑھا اور اس نور سے حصہ اور کہیں چین نہ پانے والے وجودوں میں سے ایک وجود حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا لیا.وہ ضلع مظفر نگر یو پی کے اصل باشندے تھے.اور ایک شریف معزز اور عالم ہے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت اور عشق نے یہ مقام عطا فر ما دیا کہ ”ہم خاندان کے فرد تھے.خاندان میں شرافت کے علاوہ دینداری کا ہمیشہ چرچا رہا.اس لئے کہ خاندان مغلیہ کے عہد میں اس خاندان کے تذکرے آتے ہیں.یہ قانون اور پھر اہالیان ریاست کپورتھلہ جو ہر دم قربانی کے لئے تیار رہتے تھے، کے متعلق گو کہلاتے تھے.قرآن کریم کو حفظ کرنے کا بھی شوق اس خاندان میں پایا جاتا ہے.چنانچہ خود حضرت منشی صاحب کے والد صاحب، دادا صاحب، پردادا صاحب سب حافظ قرآن تھے.مگر خدا تعالیٰ نے حضرت منشی صاحب کو قرآن مجید کے حقائق و معارف کے ایک چشمہ جاریہ پر لا کر کھڑا کر دیا اور وہ سیراب ہوتے رہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عشاق میں سے تھے.اہل بیت حضرت مسیح حضور نے دنیا اور آخرت میں ساتھ ہونے کی بابت بھی فرمایا.خاندان حضرت منشی ظفر احمد صاحب ریاست کپورتھلہ سے تعلق کی وجہ سے کپور تھلوی کے نام سے مشہور تھے.کپور حملہ آپ کا وطن نہ تھا بلکہ آپ وہاں اپنے چا حافظ احمد اللہ موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت ان کے ایمان کا جزو اعظم تھا...بزرگان ملت صاحب ( جو قصبہ سلطان پور ریاست کپورتھلہ میں تحصیلدار تھے اور ان کے اولاد نہ تھی) کے پاس رہتے تھے جو آپ کو اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتے تھے.آپ 1280 ساتھ محبت رکھتے تھے جو دراصل خود ان کی اس محبت کا عکس تھا.“ ھجری میں پیدا ہوئے اور 1360 ھجری میں آپ کی وفات ہوئی.حضرت خلیفہ اول، حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اور دوسرے ( رفقاء) کبار کے (( رفقاء ) احمد جلد چہارم ص 38)
5 4 آپ کا قد چھوٹا ، چیرہ با وقار اور بہت خوبصورت ، آنکھیں بڑی بڑی اور بہت اولا دعطا کی تھی.روشن، پیشانی بہت اونچی ، داڑھی چھوٹی چھوٹی اور خوش نما جسم سڈول اور مضبوط ، آواز آپ کے تینوں بھائی حافظ قرآن تھے.آپ خود حافظ تو نہ تھے مگر قرآن شریف بہت شہر میں تھی.قرآن شریف بہت خوش الحانی سے پڑھا کرتے تھے.چہرے پر خوب یاد تھا اور حافظہ کی مدد سے ہر مضمون کی آیت پڑھ دیتے تھے.آپ نے مکتبی تعلیم ہمیشہ مسکراہٹ رہتی.رفتار میں تیزی تھی ، کلام میں روانی تھی اور بہت پاکیزہ زبان کے تحت زبان فارسی اور درسی کتب کی تکمیل کی.جن اساتذہ سے آپ نے درسی کتب بولتے تھے.محاورات میں ادب کا خاص خیال رکھتے تھے اور مشکل الفاظ سے اجتناب سیکھیں انہی سے کھیل بھی سیکھا.ایک دفعہ آپ کے والد صاحب نے آپ کے استاد کرتے تھے.یوں بات کرتے کہ دل میں اتر جاتی.سے کہا کہ تم اپنے شاگردوں کے ساتھ کھیل میں بھی مصروف ہو جاتے ہو یہ وقار کے خاندان میں سب سے پہلے آپ نے اور پھر آپ کے والد مشتاق احمد عرف محمد خلاف ہے.تو اس نے جواب دیا کہ نو جوانوں کو ادھر ادھر جانے سے روکنا حفظ اخلاق ابراھیم صاحب نے بیعت کی.لیکن تھوڑے عرصہ بعد آپ کے والد صاحب کا انتقال کے لئے ضروری ہے اور اس نیت سے میں انہیں سبق کے بعد بھی مصروف رکھتا ہوں تا ہو گیا اور یہ پتہ نہیں کہ انہیں حضور علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوئی تھی کہ نہیں.اپنے والد صاحب کی بیماری میں آپ نے ان کی بہت خدمت کی.جب ان کی کہ ان کے اخلاق میں کوئی انتشار نہ پیدا ہو.(( رفقاء ) احمد جلد چہارم ص 3) وفات قریب تھی تو انھوں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے.آپ نے ان سے پوچھا کہ زمانہ طالبعلمی میں آپ کی ذہانت کے متعلق ایک مشہور واقعہ ہے کہ ایک دفعہ آپ کیا مانگ رہے ہیں؟ فرمانے لگے کہ تم نے میری بڑی خدمت کی ہے میں دعا کرتا آپ کو کسی مقدمہ کے سلسلہ میں کچھری جانا پڑا.وہاں پر ایک تحریر کسی نے خط طغری ہوں کہ خدا تعالیٰ تمہیں بہت اولاد دے.خدا کی شان ہے کہ آپ کے تینوں بھائی بے اولا در ہے مگر آپ کو خدا تعالیٰ نے اس قد را ولا ددی کہ آپ کی وفات کے وقت آپ کی (عربی رسم الخط میں فنکارانہ اور خوبصورت تحری) میں لکھ کر تھانا پیش کی ہوئی تھی.سب لوگ اس کو پڑھنے میں ناکام رہے مگر آپ نے اس تحریر کو بالکل صحیح پڑھ دیا.جس سے لوگوں پر اولاد بشمول ہوتے وغیرہ پچھیں ہو چکی تھی.آپ نے دوشادیاں کی تھیں.پہلی شادی محترمہ سیدہ بدر النساء صاحبہ سے ہوئی آپ کی ذہانت کا کافی اثر پڑا اور کچہری میں آپ کو ملازمت کی پیشکش بھی ہوئی مگر تھی جن کے والد میرٹھ کے تھے اور بالآخر مکہ چلے گئے تھے.دوسری شادی محترمہ آپ کی والدہ صاحبہ نے زمیندار گھرانے سے تعلق اور خداد کشائش رزق کے باعث پول بیگم صاحبہ آف بڑھانہ سے ہوئی.خدا تعالیٰ نے دونوں بیویوں سے آپ کو ملازمت کی اجازت نہ دی.
7 6 آپ کے چچا حافظ احمد اللہ صاحب جن کے پاس آپ رہتے تھے، نے اپنی آپ کی کوئی کتاب پڑھی جاتی یا آپ کی فلمیں خوش الحانی سے پڑھتے.عصر، مغرب وفات سے قبل اپنی جائیداد جو بہت کثیر تھی آپ کے حق میں لکھ دی تھی.مگر اپنے والد اور عشاء کی نمازیں وہیں ادا کرتے اور رات گئے گھروں کو واپس جاتے.غرضیکہ صاحب کے توجہ دلانے پر کہ اس پر حق اس بچی کا ہے جو پہلے ہی سے بے اولاد ہے اور تمام لوگ عشق و محبت کے بندے تھے اور آپس میں بے نظیر ہمدردی اور محبت رکھتے اس طرح اس کی مزید دل شکنی ہوگی ، اس تحریر کا کاغذ چاک کردیا اور تمام جائیداد اپنی تھے.اگر کسی دن کوئی شخص محفل میں شریک نہ ہوتا تو اس کے گھر پر جا کر خیریت دریافت کی جاتی.یہ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ کا نقشہ خدا کے فرستادوں سے محبت کا نتیجہ تھا.چی کے نام کروادی.(بحوالہ ( رفقاء ) احمد جلد چہارم ص 5) ریاست کپورتھلہ میں رہائش کے دوران آپ نے عدالت میں اپیل نویسی التیار کر لی.اس زمانہ میں سرکار کی طرف سے ایک ہی شخص کو اپیل نویسی کا حق ہوتا حضرت منشی ظفر احمد صاحب کو شعر ونحن سے بھی دلچسپی تھی.کپورتھلہ میں شعر وسخن تھا اس لئے ذریعہ معاش کے طور پر آپ کو معقول آمدنی ہو جاتی تھی.اور ویسے بھی کا بڑا چرچا تھا اور وہاں مشاعروں کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہتا تھا.اسی طرح کے ایک آپ تحریر میں بہت مشاق اور ماہر تھے اس لئے آپ کا نام بطور اپیل نویس مشہور تھا.مشاعرہ میں آپ بھی شامل ہوئے اور ایک غزل پڑھی.لیکن جب حضرت مسیح موعود نہ صرف یہ بلکہ مجسٹریٹ آپ سے سررشتہ داری ( ہیڈ کلرک) کا کام بھی لیتا تھا اور کی خدمت میں بازیاب ہونے کا شرف حاصل ہوا شعر گوئی ترک کر دی.آپ کے آپ کی بجائے اور شخص اپیل نویسی کا کام کر لیتا تھا.اس کا فائدہ آپ کو یہ ہوتا تھا کہ بیٹے حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب روایت کرتے ہیں کہ میں نے بچپن میں ایک غزل ملا زمت والی پابندی نہ تھی اور جب جی چاہتا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت لکھی اور والد صاحب کے ایک دوست کو سنائی.اس نے یہ بات آپ تک شکایت کے رنگ میں پہنچادی.آپ نے اس وقت تو مجھے کچھ نہ کہا مگر کچھ عرصہ بعد ایک دن حضرت منشی اروڑا صاحب اسی عدالت میں نقشہ نویس تھے اور حضرت محمد خان چلتے چلتے مسکراتے ہوئے میرے چہرے پر نظر ڈالی اور فرمایا " تم شعر کہا کرتے ہو؟“ صاحب کا دفتر بھی پاس ہی تھا.کچہری سے فارغ ہو کر آپ اور حضرت منشی اروڑا میں نے شرم سے آنکھیں نیچی کر لیں! پھر خودہی فرمایا: "ہم تو ا سے لغو کام سمجھ کر چھوڑ صاحب، حضرت محمد خان صاحب کے دفتر چلے جاتے اور دوسرے احمدی احباب بھی چکے ہیں.تمہیں اگر شوق ہو تو سلسلہ احمدیہ کی خدمت کیلئے شعر کہ لیا کرو“ اپنے کاروبار زندگی سے فارغ ہو کر وہاں آ جاتے اور پھر حضرت مسیح موعود کا ذکر ہوتا ، میں حاضر ہو جاتے تھے.(( رفقاء ) احمد جد چہارم ص 9)
9 8 97 سال ہوئی.آپ نے اپنے والد صاحب کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خدمت میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی اور انتہائی مخلص ، فدائی خادم، ماہر لسانیات، قانون گو، بزرگ اور خدا رسیدہ انسان تھے.حضرت مسیح موعود کے اس دعویٰ کو کہ عربی زبان ام الالسنہ ہے، ثابت کرنے کے لئے ہرممکن تحقیق فرمائی.حضرت خلیفہ المسح الرابع ( حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب ، حضرت منشی صاحب کے صاحبزادے تھے السلام سے محبت اور تعلق کا باعث کتاب برا این احمد یہ تھی.براہین احمدیہ جب جن کی پیدائش پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خود مبارکباد کا محل تحریر فرمایا تھا اور چھپی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کا ایک نسخہ حاجی ولی اللہ صاحب کو محمداحمد “ کا نام عطا فر مایا اور لمبی عمر کی دعا دی، آپکی وفات 28 مئی 1993 کو بعمر بھیجا جو کپورتھلہ میں مہتم بندوبست تھے.وہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے رشتہ داروں میں سے تھے.وہ کتاب اپنے ساتھ اپنے وطن قصبہ سرادہ ضلع میرٹھ لے گئے.وہاں جب حضرت منشی صاحب کی ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے وہ کتاب آپ کو پڑھنے کے لئے دے دی.آپ اس کتاب کو پڑھا کرتے اور عش عش کر اٹھتے اور اس کی فصاحت و بلاغت پر فریفتہ ہو گئے اور اسی چیز نے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا عاشق بنا دیا.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ 2 198ء کے خطاب میں آپ کی علم لسانیات میں غیر معمولی سے محبت ہو گئی.ایک دفعہ آپ کسی کام سے لدھیانہ گلیاس دوران حضرت مسیح مہارت اور عربی زبان کی تاریخی خدمات پر آپ کو خراج تحسین پیش فرمایا تھا اور آپ کی موعود علیہ السلام بھی لدھیانہ ٹھہرے ہوئے تھے اور آپ کی حضور سے ملاقات علم لسانیات کی مہارت کو اس علم کے ماہرین کے ہم پلہ بلکہ ان سے برتر قرار دیا تھا اور ہوگئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اس ملاقات کے بعد آپ کی قادیان میں خطبہ جمعہ یکم جنوری 1993ء میں آپ کو مقام کے لحاظ سے رفقاء حضرت مسیح موعود علیہ آمد و رفت عام ہوگئی.آپ نے کئی دفعہ حضور سے عرض کیا کہ بیعت لے لیں.السلام میں شمار فرمایا.آپ لمبا عرصہ امیر جماعت ہائے احمد یہ ضلع فیصل آبادر ہے اور آپکے لیکن حضور نے انکار فرما دیا کہ مجھے حکم نہیں.مگر جب حضور نے بیعت کا اعلان فرمایا تو حضرت منشی صاحب و حضرت محمد خان صاحب اور حضرت منشی اروڑا خان بعد آپکے لیے مکرم محترم شیخ مظفر احمد صاحب اب یہ خدمت سرانجام دے رہے ہیں.) بیعت صاحب کے نام ایک خط لکھا کہ آپ بیعت کے لئے کہا کرتے تھے مجھے اذن الہی ہو چکا ہے.اس محل کے مطابق مذکورہ رفقاء کرام نے لدھیانہ پہنچ کر حضرت منشی ظفر احمد صاحب کا سلسلہ احمدیہ سے بیعت اور حضرت مسیح موعود علیہ بیعت کی.
11 10 حضرت منشی ظفر احمد صاحب حضرت منشی ظفر احمد صاحب خود بیان فرماتے ہیں: خادم اپنے آقا کی نگاہ میں سبز کاغذ پر جب اشتہار حضور نے جاری کیا تو میرے پاس بھی 7،6 اشتہار حضور حضرت منشی صاحب بہت اچھے انشاء پرداز بھی تھے.بہت پاکیزہ خط اور زود نے بھیجے.منشی اروڑا صاحب فوراً لدھیانہ کو روانہ ہو گئے.دوسرے دن محمد خان صاحب اور میں گئے اور بیعت کرلی.منشی عبد الرحمن صاحب تیسرے دن پہنچے کیونکہ نویسی میں خاص ملکہ تھا اور اس پر پھر حضرت صاحب کی کتب کا بکثرت مطالعہ یہ سب انھوں نے استخارہ کیا اور آواز آئی ”عبد الرحمن آجا.ہم سے پہلے آٹھ نوکس بیعت کر امور بھی حضرت صاحب سے قرب کا باعث ہوئے.جب آپ قادیان ہوتے تو حضور کی ڈاک اور جوابات کا لکھنا آپ کے سپرد ہوتا.بہت دفعہ حضرت صاحب چکے تھے.بیعت حضورا کیلے اکیلے کو بٹھا کر لیتے تھے.اشتہار پہنچنے سے دوسرے دن مضامین واشتہارات بول کر آپ کو لکھواتے.جنگ مقدس یعنی آٹھم والا مباحثہ بھی چل کر تیسرے دن صبح ہم نے بیعت کی.پہلے منشی اروڑ ا صاحب نے پھر میں نے.آپ کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا.آپ کو ز و دنویسی کی وجہ سے حضرت صاحب کی خدمت کا میں جب بیعت کرنے لگا تو حضور نے فرمایا کہ آپ کے رفیق کہاں ہیں ! میں نے بہت موقع ملا.( رفقاء) احمدجلد چہارم ص 11 پر حضرت خلیفہ المسح الا ول کا ایک قول درج ہے عرض کی منشی اروڑا صاحب نے تو بیعت کر لی ہے اور محمد خان صاحب نہا رہے ہیں کہ نہا کر بیعت کریں.چنانچہ محمد خان صاحب نے بیعت کر لی.ان کے ایک دن بعد منشی کہ آپ نے حضرت منشی صاحب سے فرمایا کہ مجھے آپ پر رشک آتا ہے کیونکہ آپ کا عبد الرحمن صاحب نے بیعت کی.منشی عبد الرحمن صاحب ،منشی اروڑا صاحب اور محمد زود نو لیس ہونا بھی حضرت صاحب سے قرب کا موجب ہے.خان صاحب تو بیعت کر کے واپس آگئے کیونکہ یہ تینوں ملازم تھے.میں 15، 20 روز حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کے متعلق واقعات میں اپنی رسا طبیعت لدھیانہ ٹھہرا رہا اور بہت سے لوگ بیعت کرتے رہے.حضور تنہائی میں بیعت لیتے اور حاضر جوابی کی وجہ سے دقیق الفہم کا لفظ لکھا ہے.حضرت مسیح موعود کے قریباً ہر سفر تھے اور کواڑ بھی قدرے بند ہوتے تھے.بیعت کرتے وقت جسم پر ایک لرزہ اور رفت میں آپ ساتھ ہوتے تھے کیونکہ کپورتھلہ والے حضور کی ہر بات پر دھیان رکھتے تھے طاری ہو جاتی تھی.اور دعا بعد بیعت بہت لمبی فرماتے تھے.اس لئے ایک دن میں اور خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے.بیس پچیس کے قریب بیعت ہوتے تھے.ایک دفعہ حضرت صاحب دہلی تشریف لے جارہے تھے.آپ بھی ساتھ تھے.(( رفقاء ) احمد جلد چہارم صفحه 21) امرتسر کے اسٹیشن پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی پائے گئے.آپ نے حضرت
13 12 صاحب سے عرض کیا کہ محمد حسین صاحب بھی یہاں ہیں.حضور نے فرمایا انہیں ہماری سے عرض ہر روز حضور کے حالات اور الہامات لکھ کر بھیج دیا کرتے تھے.سفر میں حضور کے آرام و اطلاع کرد و محمد حسین صاحب سے آپ ( یعنی منشی صاحب کا پرانا تعلق تھا.آپ جو آسائش کا خیال رکھنا، مخالفوں کی روش پر کڑی نظر رکھنا اور تمام حالات سے باخبر رہتا.اسے ملے تو اس نے مزاحیہ انداز میں کہا : " او کپور تعلیم ! تم ابھی بھی گمراہی نہیں ضروری خدمات کو از خود کسی کی فرمائش کے بغیر ادا کرنا اور ہر امر میں محتاط اور چوکس رہنا حضور کے رفقاء کا وصف تھا اور حضرت منشی صاحب کی روایات میں یہ امور جابجا نظر 66 چھوڑتے.“ منشی صاحب حضرت صاحب دہلی تشریف لے جارہے ہیں.محمد حسین: پھر مجھے اس سے کیا ؟ منشی صاحب پھر آپ کا کام وہاں کون کرے گا ( یہ ایک بڑا طنز یہ اشارہ تھا جس پر محمد حسین صاحب نے منشی صاحب کو بے تکلفانہ بُرا بھلا کہنا شروع کیا اور پھر کہا!) محمد حسین: میں نے مرزا صاحب کی تردید میں ایک بڑا پر زور مضمون لکھا آتے ہیں.وفات وفات سے ایک سال قبل آپ نے ایک رؤیا دیکھی جس میں خود کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس دیکھا اور اس کے بعد سے گویا آپ چلنے کیلئے ہر وقت تیار رہتے.15 اگست 1941ء کو آپ بیمار ہو گئے اور پیچش اور دست کا عارضہ لاحق ہو گیا.تھا.آپ کوسنا تا مگر اتفاق ایسا ہوا ہے کہ جس بیگ میں وہ مضمون تھا وہ گم ہو گیا ہے.پھرتے اور بیگی، باوجود ہمہ قسم کے علاج کے طبیعت نہ سنبھلی اور حالت روز بروز کمزور منشی صاحب تو کیا آپ اب بھی ایمان نہیں لاتے ؟ محمد حسین: اچھا تو یہ بھی مرزا صاحب کی کرامت ہوئی ؟ منشی صاحب تو اور کیا کرامت کے سر پر سینگ ہوتے ہیں؟ محمد حسین: تو کیا میں پھر وہ مضمون نہیں لکھ سکتا ؟ نشی صاحب تو کیا خدا اسے پھر تم نہیں کر سکتا ؟ ہوتی گئی.اس کمزوری کے باوجود آپ خود اٹھنے بیٹھنے کی کوشش کرتے.اس بیماری کے دوران ایک دوست حکیم محمد یعقوب صاحب ملنے کیلئے آئے اور کہا منشی صاحب ! آپ فکر نہ کریں.جب وہ چلے گئے تو اپنے بیٹے شیخ محمد حمد مظہر صاحب سے بڑے استغناء سے مسکراتے ہوئے فرمایا: ” مجھے ذرا بھی ڈر نہیں کہ موت آئے.میرا جہاز بھرا ہوا ہے.مطلب یہ تھا کہ خدا کے فضل سے میرا انجام بخیر ہوگا.لہذا 20 اگست 1941 کو 66 (( رفقاء ) احمد جلد چہارم ص 20) اسی بیماری میں آپ کی وفات ہوئی.آپ کو حافظ محمود الحق صاحب نے غسل دیا.کپورتھلہ کے ( رفقاء) نے مرکز میں رہنے والے دوستوں کو پابند کیا ہوا تھا کہ وہ کپورتھلہ میں آپ کے بیٹے حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب نے نماز جنازہ پڑھائی.
15 14 تابوت قادیان لایا گیا اور قطعہ رفقاء میں تدفین ہوئی.قادیان میں تدفین سے قبل لائے ہیں اور مجھے فرمایا کہ اپنے ابا کو بلاؤ اور پھر بڑی محبت سے دونوں میں ملاقات حضرت مولوی شیر علی صاحب نے آپکی نماز جنازہ پڑھائی.حضرت مصلح موعود ہوئی اور حضرت مسیح موعود والد صاحب کو اپنے ساتھ لے گئے.ڈلیوری ہونے کی وجہ سے جنازو نہ پڑھا سکے اور واپس قادیان تشریف لانے پر آپ (( رفقاء ) احمد جلد چہارم ص 23-24 کی نماز جناز و غائب پڑھائی.مسیح دوران سے عشق یکے از 313 رفقاء آئینہ کمالات...میں حضرت مسیح موعود نے جہاں اپنے رفقاء کا ذکر فرمایا ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کے گھر میں کوئی تقریب تھی جس کا علم احباب وہاں یہ بھی فرمایا کہ یہ تمام ( رفقاء ) خصلت صدق و صفار رکھتے ہیں اور حسب مراتب کپورتھلہ کو نہ ہوا تو میاں محمد خان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خط لکھا کہ جس کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض بعض سے محبت اور انقطاع الی اللہ اور سرگرمی دین حضور ہمیں اس تقریب کی اطلاع نہیں دی گئی.حضور نے جواباً لکھا کہ میں نے مولوی میں سبقت لے گئے ہیں اللہ تعالیٰ سب کو اپنی رضا کی راہوں میں ثابت قدم کرے.عبدالکریم صاحب سے کہہ دیا تھا کہ آپ کو اور چند دوستوں کو ضرور اطلاع کر دیں لیکن اسی فہرست میں نمبر 7 سے 9 تک حضرت منشی اروڑ ا صاحب، حضرت میاں محمد وہ لکھنا بھول گئے اور اس تقریب میں آپ لوگوں کے شامل نہ ہونے کا مجھے بڑا قلق تھا خان صاحب اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے اسماء درج ہیں.لیکن آپ خیال نہ کریں کیونکہ کپورتھلہ کی جماعت دنیا میں میرے ساتھ رہی ہے حضرت یعقوب علی صاحب عرفانی فرماتے ہیں: اور آخرت میں بھی میرے ساتھ ہوگی.ایک مرتبہ جب کرم دین سے مقدمات کا سلسلہ جاری تھا اور وہ لمبا ہو گیا.حضرت منشی صاحب کے متعلق تو لکھا جا چکا ہے کہ آپ نے وفات سے پہلے جو حضرت صاحب کو ایک تاریخ پر قادیان سے تشریف لے جانا تھا.ایک دو روز ر یاد دیکھی تھی اس میں خود کو حضرت مسیح موعود کی معیت میں دیکھا تھا اور یہ گواہی تھی کہ پیشتر اس قدر بارش ہوئی کہ راستہ نا قابل گذر اور دشوار گذار بن گیا.سڑک پر کس طرح حضرت مسیح موعود کے الفاظ ان کے حق میں پورے ہونے والے ہیں.سیلاب جاری تھا.جو احباب گورداسپور میں مقیم تھے انہوں نے خاص آدمی حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب تحریر کرتے ہیں کہ والد صاحب کی وفات کے قادیان حضرت کو اطلاع کرنے کے لئے بھیجا کہ بارش بہت ہوئی ہے راستہ خراب تیسرے دن خاکسار نے رد یا دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمارے گھر تشریف ہے حضور تشریف نہ لاویں.اس سیلاب میں ہمارے بعض دوست گلے تک پانی
17 16 میں گذر کر گورداسپور پہنچے.ان میں منفی الظفر احمد صاحب کپورتھلہ کے مخلص ترین دوست بھی تھے.“ ( الحکم مورخہ 28 جون 1918ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظر میں آپ کا مقام ہم تین ہو گئے حضرت منشی ظفر احمد صاحب کے بارے میں حضرت مسیح موعود ازالہ اوہام طبع اول کے صفحہ 800 میں فرماتے ہیں: آپ کی چند دلچسپ روایات حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب حضور کو مسیح موعود ہونے کا الہام ہوا تو میرے دوست منشی اروڑا صاحب نے ذکر کیا کہ ایک بڑا ابتلاء آنے والا وجی فی اللہ منشی ظفر احمد صاحب.یہ جوان صالح کم گو اور خلوص سے بھرا دقیق ہے.وہ قادیان سے یہ الہام سن کر آئے تھے.میں نے ان سے دریافت کیا مگر انہوں فہم آدمی ہے.استقامت کے آثار وانوار اس میں ظاہر ہیں.وفا داری کی علامات نے نہ بتلایا.مگر یہی کہتے رہے کہ ایک بڑا ابتلاء آنے والا ہے.اس پر میں خود قادیان و امارات اس میں پیدا ہیں.ثابت شدہ صداقتوں کو خوب سمجھتا ہے اور ان سے چلا گیا تو حضور نے فرمایا کہ ہمیں یہ الہام ہوا ہے.میں نے اسی وقت عرض کیا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ان کا زمانہ پائے وہ میرا سلام انہیں پہنچائے.لذت اٹھاتا ہے.اللہ اور رسول سے سچی محبت رکھتا ہے اور ادب جس پر تمام مدار حصول فیض ہے اور حسن ظن جو اس راہ کا مرکب ہے دونوں سیر تیں ان میں پائی اس لئے میں آنحضرت ﷺ کی طرف سے حضور کو سلام پہنچاتا ہوں.حضور بہت ہی جاتی ہیں.جَزَاهُمُ اللَّهُ خَيْرَ الْجَزَاءِ 66 اور آئینہ کمالات اسلام کے صفحہ 82 میں فرماتے ہیں: ترجمه حجمی فی الله منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی.خوش ہوئے اور فر مایا کہ جس اخلاص اور محبت سے کپورتھلہ والوں نے مانا ہے اس کی نظیر کم ہے.اس کے کچھ دن بعد میں نے واپسی کی اجازت چاہی کہ اپنے دوستوں کو جا کر اطلاع دوں.حضور نے فرمایا آپ ذرا ٹھہریں میں ایک کتاب فت لکھ رہا ہوں وہ چھپ جائے تو لے کر جائیں.میں ایسے دلائل دوں گا کہ مخالفوں کو ڈھونڈ و گے تو گھر سے نہ ملیں گے.میں کپورتھلہ واپس آیا تو منشی روڑا صاحب، محمد خان صاحب سے اس دعوی کا
18 19 ذکر کر چکے تھے اور دونوں میرے انتظار میں یکہ خانہ کپورتھلہ پر جایا کرتے تھے.میں صاحب رہ گئے.حضرت منشی حبیب الرحمن صاحب حاجی پور سے روز آتے اور چلے جب واپس آیا تو میں نے یکے میں سے ہی کہا کہ ہمارا تو پہلے سے ہی ایمان ہے.جاتے مگر منشی صاحب دھونی رمائے بیٹھے تھے.ایک دن حضرت اقدس علیہ الصلوۃ آپ (منشی اروڑا صاحب) یہ ابتلاء کیا لئے پھرتے تھے.اس پر دونوں صاحب مجھ والسلام نے اس نظارہ کو دیکھ کر انہیں خطاب کر کے فرمایا سے لپٹ گئے (بغلگیر ہو گئے ) کہ ہم اب تین ہو گئے".66 نواں نو دن پرانا سودن.“ پھر ہم نے اسی وقت بلا توقف جا کر منشی عبد الرحمن صاحب سے ذکر کیا تو انھوں حضرت منشی صاحب نے اپنی اس سعادت پر جائز نظر کیا.فرمایا کرتے تھے مجھے اس وقت بہت ہی لطف آیا کہ میں خدا کے فضل سے سودن والوں اور پرانوں میں نے معاً کہا.آمَنَّا وَصَدَّقْنَا.(( رفقاء) احمد جلد چہارم صفحہ 125) شریک ہوں اور میں دل میں سمجھتا تھا کہ الحمد للہ اب خلوت میسر آ گئی.مگر چند روز کے نیانو دن پرانا سودن بعد پھر حلقہ احباب وسیع ہونے لگا.ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جالندھر کے مقام پر ٹھہرے ہوئے تھے اور اکثر احباب بھی اس موقعہ پر آگئے.ایسا کبھی ہوا ہی نہیں کہ حضور کسی مقام پر گئے ہوں میں رونے لگا اور احباب پروانوں کی طرح ادھر اُدھر سے آکر جمع نہ ہو گئے ہوں.ان آنے والوں (( رفقاء) احمد جلد چہارم صفحہ 48) حضرت منشی صاحب فرماتے ہیں کہ حضور سے جالندھر کی پہلی ملاقات کے بعد دو میں دور ونزدیک یعنی فاصلہ اور خرچ کا سوال ہی نہ ہوتا تھا.ان کی ایک ہی غرض ہوتی ماہ کے قریب گزرنے پر میں قادیان گیا.اس کے بعد مہینے ڈیڑھ بعد اکثر جایا کرتا تھا.تھی کہ روز واقعه پیش نگار خود باشیم (یعنی واقعہ کے روز میں اپنے محبوب کے پاس ہوں گا ) ایک دفعہ چار ماہ بعد گیا تو حضور نے فرمایا کیا کوئی معصیت ہوگئی ہے جو اتنی دیر لگائی.میں رونے لگا اس کے بعد میں جلدی جلدی قادیان جایا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا قیام کسی قدر مہیا ہو گیا اور احباب جو رخصت لے کر ہم سے ملتے رہا کرو آئے تھے یکے بعد دیگرے رخصت ہوتے چلے گئے.یہاں تک کہ صرف منشی ظفر احمد حضرت منشی صاحب نے بیعت سے پہلے کی حضور کی ایک نصیحت کا ذکر کرتے
21 20 ہوئے بیان کیا کہ جب سرمہ چشم آریہ طبع ہوئی تو حضور نے چار نسخے مجھے اور چار منشی مجھے اپیل نویس ہی رہنے دینا ہے.حضور نے فرمایا اس میں آزادی ہے آپ اکثر چراغ محمد صاحب کو کپورتھلہ بھیجے.چراغ محمد صاحب دینا نگر ( گورداسپور ) کے ہمارے پاس آجاتے ہیں اور زیادہ عرصہ آپ کو ہمارے پاس رہنا میسر ہے.پھر وقفہ رہنے والے تھے.محمد خان صاحب ،منشی اروڑ ا صاحب ،منشی عبد الرحمن صاحب اور کے بعد حضور نے فرمایا اچھا یوں ہو کہ منشی اروڑ صاحب کسی اور ملازمت پر چلے جائیں خاکسار سرمہ چشم آریہ ( بیت الذکر ) میں پڑھا کرتے تھے.پھر محمد خان صاحب، اور آپ ان کی جگہ پر ملازم ہو جائیں.منشی اروڑا صاحب اور میں قادیان میں گئے.منشی اروڑا صاحب نے کہا کہ خدا کی شان ہے کہ یہ بات من وعن پوری ہوئی.حضور کی زندگی میں آپ اپیل بزرگوں کے پاس خالی ہاتھ نہیں جایا کرتے چنانچہ تین چار روپے کی مٹھائی ہم نے نولیس ہی رہے اور حضور کی خدمت میں کثرت سے حاضری کا موقعہ ملتا رہتا.حضور پیش کی.حضور نے فرمایا یہ تکلفات ہیں.آپ ہمارے مہمان ہیں ہمیں آپکی تواضع کے وصال کے بعد کا واقعہ ہے کہ منشی اروڑ ا صاحب نائب تحصیلدار ہو گئے.اور آپ کرنی چاہیے.پھر ہم تینوں نے بیعت کے لئے کہا.کیونکہ سرمہ چشم آریہ پڑھ کر مستقل طور پر سر رشتہ دار ہو گئے.ہم تینوں بیعت کا ارادہ کر کے گئے تھے.آپ نے فرمایا مجھے بیعت کا حکم نہیں لیکن ہم سے ملتے رہا کرو.پھر ہم تینوں بہت دفعہ قادیان گئے اور لدھیانہ بھی کئی دفعہ حضور کے پاس گئے.(( رفقاء ) احمد جلد چہارم صفحه 17) ہم اور آپ کوئی دو ہیں؟“ (( رفقاء ) احمد جلد چہارم صفحہ 80) اس میں آزادی ہے ملک غلام فرید صاحب بیان فرماتے ہیں کہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے ایک ملاقات میں دوران گفتگو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اپنے تعلق کا ایک واقعہ سنایا.فرمانے لگے.ایک دفعہ میں قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خطوط آپ گو کہ اپیل نویس تھے مگر دراصل سررشتہ داری ہیڈ کلرک) کا کام کرتے تھے.کے جوابات دینے پر مامور تھا.حضور ہر روز کی ڈاک مجھے دے دیتے.میں خود ہی ان حضرت مسیح موعود کی زندگی میں ہی صورت رہی.اپنے اس پیشہ سے متعلق ایک واقعہ مخطوط کو پڑھتا اور خلاصہ حضور کو سنا دیتا.حضور جو جواب لکھواتے میں وہ لکھ کر بھیج دیتا.بیان فرماتے ہیں کہ میں ایک دفعہ حضور کے پاؤں دبا رہا تھا.میں نے عرض کیا حضور ایک دن ڈاک میں ایک خط آیا.اس پر لکھا ہوا تھا کہ اس مخطہ کو حضرت مسیح موعود علیہ
23 22 السلام کے سوائے کوئی نہ کھولے میں نے وہ خط حضور کے سامنے رکھ دیا.حضور نے مسابقت فی الخیرات کا اعلیٰ نمونہ فرمایا منشی صاحب کیا ہے.میں نے عرض کیا حضرت اس خط پر لکھا ہوا ہے کہ سوائے حضور کے اس خط کو کوئی نہ کھولے.اس لئے حضور ہی اس کو کھول کر پڑھیں.حضرت ایک اور روایت منشی ظفر احمد صاحب یہ بیان کرتے تھے کہ ایک دفعہ اوائل زمانہ مسیح موعود علیہا السلام نے محمد مجھے واپس دیتے ہوئے فرما یا منشی صاحب آپ ہی اس کو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لدھیانہ میں کسی ضروری اشتہار کے چھپوانے کے لئے ساٹھ روپے کی ضرورت پیش آئی.اس وقت حضرت صاحب کے پاس اس رقم کا پڑھیں :” ہم اور آپ کوئی دو ہیں ؟“.اتنا واقعہ بیان فرما کر حضرت منشی صاحب رونے لگ گئے اور روتے روتے انتظام نہیں تھا اور ضرورت فوری اور سخت تھی.منشی صاحب کہتے تھے کہ میں اس وقت کوئی دو ہیں؟“.فرمایا ! کہاں خدا کا پیارا مسیح اور کہاں یہ گنہگار.اور نوازش یہ کہ مجھے فرمایا: ”ہم اور آپ حضرت صاحب کے پاس لدھیانہ میں اکیلا آیا ہوا تھا.حضرت صاحب نے مجھے بلایا اور فرمایا کہ اس وقت یا اہم ضرورت در پیش ہے کیا آپ کی جماعت اس رقم کا انتظام کر سکے گی.میں نے عرض کیا حضرت انشاء اللہ کر سکے گی اور میں جا کر روپے لاتا ہوں.چنانچہ میں فوراً کپورتھلہ گیا اور جماعت کے کسی فرد سے ذکر کرنے کے بغیر اپنی بیوی کا ایک زیور فروخت کر کے ساٹھ روپے حاصل کئے اور حضرت صاحب کی خوش بختی (( رفقاء) احمد جلد چہارم صفحه 42) حضرت منشی ظفر احمد صاحب اپنے قادیان کے ایک قیام کے دوران اپنی خوش خدمت میں لاکر پیش کر دیئے.حضرت صاحب بہت خوش ہوئے اور جماعت بختی کا ذکر ان الفاظ میں فرماتے ہیں کہ حضور بہت محبت سے پیش آئے.خود اندر سے کپورتھلہ کو ( کیونکہ حضرت صاحب یہی سمجھتے تھے کہ اس رقم کا جماعت نے انتظام کیا کھانا لا کر کھلایا.دس بارہ دن قادیان رہا.اس وقت حافظ حامد علی خادم ہوتا تھا اور کوئی ہے ) دعا دی.چند دن کے بعد منشی اروڑا صاحب بھی لدھیانہ گئے تو حضرت صاحب نہ ہوتا.جہاں اب مہمان خانہ اور مفتی صاحب کا مکان ہے اس کے پاس بڑی چوڑی نے ان سے خوشی کے لہجہ میں ذکر فرمایا کہ منشی صاحب اس وقت آپ کی جماعت کچی فصیل ہوتی تھی.66 نے بڑی ضرورت کے وقت امداد کی.“ (( رفقاء) احمد جلد چہارم صفحہ 79) منشی صاحب نے حیران ہو کر پوچھا.حضرت کون سی امداد؟ مجھے تو کچھ پتہ
25 24 نہیں ؟.حضرت صاحب نے فرمایا " یہی جوشی ظفر احمد صاحب جماعت کپورتھلہ کی صاحب کی اس ضرورت کا مجھ سے ذکر کیوں نہیں کیا.طرف سے ساٹھ روپے لائے تھے.منشی صاحب نے کہا ”حضرت منشی ظفر احمد ، صاحب نے مجھ سے تو اس کا کوئی ذکر نہیں کیا اور نہ ہی جماعت سے ذکر کیا.اور میں ہم مشرب ہونے کا اعزاز ان سے پوچھوں گا کہ ہمیں کیوں نہیں بتایا.اس کے بعد منشی اروڑ ا صاحب میرے (( رفقاء ) احمد جلد چہارم صفحه 57-58) حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان فرماتے ہیں کہ حضرت صاحب اپنے بیٹھنے کی پاس آئے اور سخت ناراضگی میں کہا کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور تم جگہ پر کھلے کواڑ کبھی نہ بیٹھتے.بلکہ کنڈا لگا کر بیٹھتے تھے.حضرت صاحبزادہ میاں محمود نے مجھ سے ذکر نہیں کیا.میں نے کہا خشی صاحب تھوڑی سی رقم تھی اور میں نے اپنی احمد صاحب تھوڑی تھوڑی دیر بعد آکر کہتے ابا کنڈا کھول.اور حضور اٹھ کر کھول بیوی کے زیور سے پوری کر دی.اس میں آپ کی نارائستگی کی کیا بات ہے.مگر فشی دیتے.میں ایک دفعہ حاضر خدمت ہوا.حضور بوریئے پر بیٹھے تھے.مجھ کو دیکھ کر آپ صاحب کا غصہ کم نہ ہوا اور وہ برابر یہی کہتے رہے کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت نے پلنگ اٹھایا.اندر اٹھا کر لے گئے.میں نے کہا حضور میں اٹھا لیتا ہوں.آپ پیش آئی تھی اور تم نے یہ ظلم کیا کہ مجھے نہیں بتایا.پھر منشی اروڑا صاحب چھ ماہ تک مجھے فرمانے لگے بھاری زیادہ ہے آپ سے نہیں اٹھے گا اور فرمایا آپ پلنگ پر بیٹھ سے ناراض رہے.اللہ اللہ یہ وفدائی لوگ تھے جو حضرت مسیح موعود کو عطا ہوئے.جائیں.مجھے یہاں نیچے آرام معلوم ہوتا ہے.پہلے میں نے انکار کیا لیکن آپ نے ذرا غور فرمائیں کہ حضرت صاحب جماعت سے امداد طلب فرماتے ہیں مگر ایک فرمایا نہیں آپ بلا تکلف بیٹھ جائیں.پھر میں بیٹھ گیا.مجھے پیاس لگی تھی میں نے اکیلا اور غریب شخص العتا ہے اور جماعت سے ذکر کئے بغیر اپنی بیوی کا زیور فروخت گھڑوں کی طرف نظر اٹھائی.وہاں کوئی پانی پینے کا برتن نہ تھا.آپ مجھے دیکھ کر کر کے اس رقم کو پورا کر دیتا ہے.اور پھر حضرت صاحب کے سامنے رقم پیش کرتے فرمانے لگے کیا آپ کو پیاس لگ رہی ہے؟ میں پانی لاتا ہوں.نیچے زنانے سے جا ہوئے یہ ذکر تک نہیں کرتا کہ یہ رقم میں دے رہا ہوں یا کہ جماعت.تا کہ حضرت کر آپ گلاس لے آئے پھر فرمایا ذرا ٹھہرئیے، اور پھر نیچے گئے اور وہاں سے دو صاحب کی دعا ساری جماعت کو پہنچے.اور اس کے مقابل پر دوسرا فدائی یہ معلوم کر کے بوتلیں شربت کی لے آئے.جو منی پور سے کسی نے بھیجی تھیں.بہت لذیذ شربت تھا.کہ حضرت صاحب کو ایک ضرورت پیش آئی اور میں اس خدمت سے محروم رہا ایسا بیچ و فرمایا کہ ان بوتلوں کو رکھے ہوئے بہت دن ہو گئے.کیونکہ ہم نے نیت کی تھی کہ پہلے تاب کھاتا ہے کہ اپنے دوست سے چھ ماہ تک ناراض رہتا ہے کہ تم نے حضرت کسی دوست کو پا کر پھر خود پیئیں گے آج مجھے یاد آ گیا.چنانچہ آپ نے گلاس میں
27 26 شربت بنا کر مجھے دیا میں نے کہا پہلے حضور اس میں سے تھوڑا سا پی لیں.تو پھر میں پیوں گا.آپ نے ایک گھونٹ پی کر مجھے دے دیا اور میں نے پی لیا.میں نے شربت قبولیت دعا بس او پر بھی پانی ہو اور نیچے بھی پانی ہو کی تعریف کی.آپ نے فرمایا کہ ایک بوتل آپ لے جائیں اور ایک باہر دوستوں کو ایک دفعہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے بیان کیا کہ میں اور منشی اروڑا صاحب پلا دیں.آپ نے ان دونوں بوتلوں میں سے وہی ایک گھونٹ پیا ہوگا.میں آپ اکٹھے قادیان میں آئے ہوئے تھے اور سخت گرمی کا موسم تھا.اور چند دن سے بارش رکی کے حکم کے مطابق بوتلیں لے کر چلا آیا.ہوئی تھی.جب ہم قادیان واپس روانہ ہونے لگے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بابت ایک مشہور روایت خدمت میں سلام کے لئے حاضر ہوئے تو منشی اروڑا صاحب مرحوم نے حضرت حضرت منشی صاحب نے فرمایا ایک دفعہ حضور لیٹے ہوئے تھے اور سید فضل شاہ صاحب حضور کے پیر داب رہے تھے.حضرت صاحب کسی قدر سو گئے.فضل شاہ صاحب نے اشارہ کر کے مجھے کہا کہ یہاں پر جیب میں کچھ سخت چیز پڑی ہے.میں صاحب سے عرض کیا ” حضرت گرمی بڑی سخت ہے دعا کریں کہ ایسی بارش ہو کہ بس او پر بھی پانی ہو اور نیچے بھی پانی ہو." حضرت صاحب نے مسکراتے ہوئے فرمایا اچھا او پر بھی پانی ہو اور نیچے بھی پانی." مگر ساتھ ہی میں نے ہنس کر عرض کیا کہ حضرت یہ دعا انہی کے لئے کریں.نے ہاتھ ڈال کر نکال لی.تو حضور کی آنکھ کھل گئی.آدھی ٹوٹے ہوئے گھڑے کی ایک میرے لئے نہ کریں (ذرا ان ابتدائی بزرگوں کی بے تکلفی کا انداز ملاحظہ ہو کہ حضرت چینی تھی اور دو ایک ٹھیکرے.میں پھینکنے لگا تو حضور نے فرمایا یہ میاں محمود نے کھیلتے صاحب سے یوں ملتے تھے جیسے ایک مہربان باپ کے اردگرد اس کے بچے جمع ہوں ) کھیلتے میری جیب میں ڈال دیئے.آپ پھینکیں نہیں میری جیب میں ہی ڈال دیں اس پر حضرت صاحب پھر مسکرا دئیے اور ہمیں دعا کر کے رخصت کیا.منشی صاحب کیونکہ انہوں نے ہمیں امین سمجھ کر اپنے کھیلنے کی چیز رکھی ہے وہ مانگیں گے تو ہم کہاں فرماتے تھے کہ اس وقت مطلع بالکل صاف تھا اور آسمان پر بادل کا نام ونشان تک نہ سے دیں گے.پھر وہ جیب میں ہی ڈال لئے.یہ واقعہ اگر چہ مولوی عبد الکریم تھا.مگر ابھی ہم بٹالہ کے راستہ میں یکہ میں بیٹھ کر تھوڑی دور ہی گئے تھے کہ سامنے سے صاحب مرحوم کے سوانح میں لکھا ہے مگر میرے سامنے کا یہ واقعہ ہے.ایک بادل اٹھا.اور دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر چھا گیا.اور پھر اس زور کی بارش ہوئی (( رفقاء ) احمد جلد چہارم صفحہ 98-99) کہ راستے کے کناروں پر مٹی اٹھانے کی وجہ سے جو ختنہ میں بنی ہوئی تھیں وہ پانی سے
29 28 سباب بھر گئیں.اس کے بعد ہمارا یکہ جو ایک طرف کی خندق کے پاس چل رہا تھا یک لخت الٹا اور اتفاق ایسا ہوا کہ منشی اروڑ ا صاحب خندق کی طرف کو گرے اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان ہونے کا اعزاز اونچے راستہ پر گرا.جس کی وجہ سے منشی صاحب کے اوپر اور نیچے پانی ہی پانی ہو گیا.آپ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ میں قادیان سے رخصت ہونے لگا اور حضور نے اور میں بیچ رہا.چونکہ خدا کے فضل سے چوٹ کسی کو بھی نہیں آئی تھی میں نے منشی اروڑا اجازت دی.پھر فرمایا کہ ٹھہر جائیں.آپ دودھ کا گلاس لے آئے اور فرمایا پی لیں.صاحب کو اوپر اٹھاتے ہوئے ہنس کر کہا ”لو او پر اور نیچے پانی کی اور دعائیں کرالو.“ شیخ رحمت اللہ صاحب بھی آگئے.پھر ان کے لئے بھی حضور دودھ کا گلاس لائے اور اور پھر ہم حضرت صاحب کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے آگے روانہ ہوئے.پھر نہر تک ہمیں چھوڑنے کے لئے تشریف لائے اور بہت دفعہ حضور نہر تک ہمیں (( رفقاء ) احمد جلد چہارم صفحہ 57) چھوڑنے کے لئے تشریف لاتے.(( رفقاء) احمد جلد چہارم صفحہ 114) حضور کی تصویر اتارنے کا واقعہ میں قادیان میں ( بیت ) مبارک سے ملحق کمرے میں ٹھہرا کرتا تھا.میں ایک حضرت منشی ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور دہلی سے واپسی پر دفعہ سحری کھا رہا تھا.حضور تشریف لے آئے.دیکھ کر فرمایا: آپ دال سے روٹی کھا امرتسر اترے.حضرت اماں جان بھی ہمراہ تھیں.حضور نے ایک صاحبزادے کو رہے ہیں؟ اور اسی وقت منتظم کو بلوایا اور فرمانے لگے کہ آپ سحری کے وقت دوستوں جو غالباً میاں بشیر احمد صاحب تھے گود میں لیا اور ایک وزنی بیگ دوسری بغل میں لیا.کو ایسا کھانا دیتے ہیں؟ یہاں ہمارے جس قد ر ا حباب ہیں وہ سفر میں نہیں.ہر ایک مجھے فرمایا کہ آپ پاندان لے لیں.میں نے کہا حضور مجھے بیگ دے دیں.آپ نے سے معلوم کرو کہ ان کو کیا کیا چیز کھانے کی عادت ہے اور وہ سحری کو کیا کیا چیز پسند فرمایا نہیں.ایک دو دفعہ میرے کہنے پر حضور نے یہی فرمایا.تو میں نے پاندان اٹھا کرتے ہیں.ویسا ہی کھانا ان کے لئے تیار کیا جائے.پھر منتظم میرے لئے اور کھانا لیا.اور ہم چل پڑے.اتنے میں دو تین جوان عمر انگریز جو اسٹیشن پر تھے انھوں نے مجھ لایا.مگر میں کھانا کھا چکا تھا اور ( نداء) بھی ہوگئی تھی.حضور نے فرمایا (نداء ) جلد دی سے کہا کہ حضور سے کہو کہ ذرا کھڑے ہو جائیں.چنانچہ میں نے عرض کی کہ حضور یہ گئی ہے اس کا خیال نہ کرو.چاہتے ہیں کہ حضور ذرا کھڑے ہو جائیں.حضور کھڑے ہو گئے اور انھوں نے اسی حالت میں حضور کا فوٹو لے لیا.(( رفقاء ) احمد جلد چہارم صفحہ 94-95) (( رفقاء ) احمد جلد چہارم ص 120-121 ) حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب کے الفاظ حضرت منشی ظفر احمد صاحب
31 30 کر وہ قادیان گئے اور دو آنے حضور کو نذرانے کے طور پر پیش کئے.حضور نے جزاکم کپور تھلوی کی سیرت کا نقشہ یوں بیان کرتے ہیں: ” جماعت کپورتھلہ کے وہ بزرگ (جو جماعت مذکور کے بانیوں میں سے اللہ کہہ کر دو آنے لے لئے.چند دن بعد نظام الدین صاحب رخصت ہونے لگے تھے ) اور جنہوں نے اپنے عشق و وفا کا وہ عملی ثبوت دیا کہ خدا کے برگزید و مسیح موعود حضور نے فرمایا.ٹھہرو! اندر سے جا کر سات یا آٹھ روپے حضور لائے اور میاں جی علیہ الصلوۃ والسلام نے جنت میں اپنے ساتھ ہونے کا وعدہ دیا.میری تحقیقات میں کپورتھلہ کی جماعت کے آدم حضرت منشی ظفر احمد صاحب تھے اور ان کے اخلاص اور عملی زندگی نے دوسروں کو شیدائے مسیح موعود کر دیا اور پھر یہ کہنا مشکل ہو گیا کہ کون نظام الدین کو عنایت فرمائے.(( رفقاء) احمد جلد چہارم ص 124) اور حضور کی معیت کے الفاظ تو ان لوگوں کے حق میں ہمیشہ پورے ہوتے رہے پہلے ہے اور کون پیچھے.ہر ایک اپنے اپنے رنگ میں بے نظیر اور واجب التقلید تھا.اللہ اور حضرت منشی ظفر احمد صاحب کی وفات سے قبل کی رؤیا اس پر گواہ ہے.تعالیٰ ان سب پر اپنے رحم و کرم کے بادل برسائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ " آپ لوگ اس دنیا اور آخرت میں خدا تعالی کے فضل وکرم سے میرے ساتھ مقامات دے اور ہمیں ان کی عملی زندگی کی توفیق.جماعت کپورتھلہ کے مخلصین کے ہوں گے.“ نام مکتوبات بہت کم ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ عشق ومحبت کے یہ پروانے ذرا فرصت پاتے تو قادیان پہنچ جاتے اور خط و کتابت کی نوبت ہی نہ آتی.جہاں حضرت جاتے یہ ساتھ جاتے.“ 66 (بحوالہ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر پنجم) اہلیان کپورتھلہ نے جہاں مالی قربانی کی اعلیٰ مثال قائم کی وہاں اس قربانی کے بدلے میں دو گنا چوگنا اضافہ جو خدا نے قربانی کرنے والوں سے کیا ہے اسی دنیا میں اپنے امام کے ہاتھوں پورا ہوتے بھی دیکھ لیا.اس کی ایک مثال یوں ہے: میاں جی نظام الدین احمدی ساکن کپورتھلہ نہایت غریب آدمی تھے.پیدل چل حضرت منشی ظفر احمد به عین قلب دید جنت الفردوس اندر سایه دیوار دوست (حضرت منشی ظفر احمد صاحب نے اپنے دل کی آنکھ سے جنت الفردوس کو اپنے دوست کے سائے میں پالیا )
نام کتاب حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی.............اول