Hazrat Munshi Arure Khan

Hazrat Munshi Arure Khan

حضرت منشی اروڑے خان صاحب ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

دنیا میں یوں تو عشق و محبت کی بہت سی داستانیں بکھری پڑی ہیں۔ لیکن ایسے وجود جو صرف خدا کی خاطر محبت کریں ان کی شان کی نرالی ہوتی ہے۔ حضرت منشی اروڑے خان صاحب بھی ایک ایسے ہی وجود تھے جنہوں نے امام وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محض اللہ تعالیٰ کا قرب و محبت حاصل کرنے کے لئے پیوند جوڑااور اس راہ میں ترقی کرتے کرتے عشق کے ایسے انداز دکھانے والے بن گئے جن کے اسلوب محبت آج بھی آب زر سے لکھے جانے والے ہیں۔ یہ محبت کی کہانی ہے۔ سچی محبت اور اخلاص سے بھرے ہوئے عشق کی داستان۔ اس کتا ب کا مطالعہ اور حضرت منشی صاحب کے حالات سے آگاہی کے بعد ہر کوئی اپنا جائزہ آپ لے سکتا ہے اور عشق حقیقی کی نئی منازل تک پہنچ سکتا ہے۔


Book Content

Page 1

صرف احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے حضرت منشی محمد ا روڑے خان صاحب " حضرت منشی محمد اروڑے خان صاحب دنیا میں یوں تو عشق ومحبت کی بہت سی داستانیں بکھری پڑی ہیں.لیکن ایسے وجود جو صرف خدا تعالیٰ کی خاطر محبت کریں ان کی شان ہی نرالی ہوتی ہے.حضرت منشی اروڑے خان صاحب بھی ایک ایسے ہی وجود تھے جنہوں نے امام سے اللہ تعالیٰ کی خاطر پیوند جوڑا.ترقی کرتے ہوئے محبت میں بڑھتے چلے گئے اور پھر عشق کے ایسے انداز دکھائے جو آج بھی آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں.یہ محبت کی کہانی ہے.سچی محبت اور اخلاص سے بھرے ہوئے عشق کی کہانی.اس داستان کو پڑھ کر ہم میں سے ہر ایک بھی اپنا جائزہ لے سکتا ہے اور عشق حقیقی کی نئی منازل تک پہنچ سکتا ہے.

Page 2

1 پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے انبیاء پر ایمان لانے والوں پر اللہ تعالیٰ کے ان گنت فضائل میں سے ایک فضل یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کا ہر قدم کیا دینی لحاظ سے اور کیا دنیاوی لحاظ سے روبہ ترقی ہوتا ہے.حضرت منشی صاحب بھی ان مؤمنین میں سے ایک زندہ مثال ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء سے محبت اور عقیدت آپ کی شخصیت کا ایک روشن پہلو ہونے کے ساتھ ساتھ آپ کی دنیاوی ترقی بھی ہمارے لئے ایک بہت اعلیٰ مثال ہے.آپ نے اپنے گھر یلو حالات کی وجہ سے نہایت کم عمری میں ایک نہایت چھوٹے سے درجہ سے نوکری شروع کی اور امام وقت پر ایمان لانے کی برکت سے ترقی کرتے کرتے ”خان بہادر کا خطاب پا گئے.خود بھی اعلیٰ درجہ کی خدمات بجا لائے اور ہمارے لئے بھی بے مثال نمونہ چھوڑ گئے.اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو! آمین حضرت منشی محمد اروڑے خان صاحب کپور تھلوی کا شمار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جلیل القدر اور جان شار رفقاء میں ہوتا ہے.آپ ان رفقاء کپورتھلہ میں شامل تھے جن کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دلی محبت کا شرف حاصل تھا اور حضور نے ان کے بارہ میں فرمایا تھا کہ آپ اس دنیا اور آخرت میں بھی میرے ساتھ ہو نگے.حضرت منشی صاحب اُن معدودے چند رفقاء میں سے تھے جن کو حضرت مسیح موعود کے ساتھ آپ کے دعوئی سے پہلے بھی تعارف اور عقیدت تھی.بیعت اولی کے موقع پر بیعت کی سعادت پائی.سفروں میں ہم رکاب رہے.سلسلہ کی خاطر سب کچھ نچھاور کرتے رہے.حضور کی ملاقات کے لئے تڑپتے رہتے تھے اور موقع ملتے ہی قادیان کا رخ کر لیتے تھے.۳۱۳ رفقاء میں شامل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی قبولیت دعا کے زندہ نشان تھے اور در حقیقت شمع محمدی کے جاں نثار پروانے تھے جن کی زندگی کا مقصد اس شمع کے گرد گھوم کر جان دینا تھا ، انتہا درجہ محبت کرنے والے ، وفا اور اخلاص کا اظہار کرنے والے اور اپنے محبوب کی محبت میں جینے کو اپنا مذ ہب سمجھنے والے تھے.اسی عشق حقیقی میں ساری زندگی گزار دی اور پھر اپنے محبوب آقا کے قرب میں ابدی مقام حاصل کر لیا.

Page 3

3 له 2 دل و جان سے وفا دار اور سچائی کے عاشق سید نا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شاندار الفاظ میں آپ کے اخلاص، لگے اور وہاں عارضی کام مل گیا اور عدالتوں کے احکام کی اطلاع متعلقہ اشخاص کو دینے کا کام شروع کر دیا.یہ کام کرنے والے کو ان دنوں مذکورئیے“ کا نام دیا جاتا تھا.آپ عدالت سے احکام لیتے اور دیہاتوں میں پہنچا دیتے اس سے کچھ آمدنی کا ذریعہ پیدا ہو گیا.محبت اور قربانی کا ذکر فرمایا ہے.یہ خوبصورت تذکرہ حضرت منشی صاحب کی سیرت کا اس کام کے بعد آپ کو چیڑ اسی کی ملازمت عدالت میں مل گئی.کچھ عرصہ تک اس کام خلاصہ ہے.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: پر رہے.پھر آپ سے خواندہ چپڑاسی کا کام لیا جانے لگا ایک عرصہ تک اس عہدہ پر کام کیا اور جسی فی اللہ نشی محمد روڈ ا نقشہ نویس مجسر، بیٹی منشی صاحب محنت اور خلوص اور ارادت پھر عدالت میں ترقی کر کے اہل مد کا عہدہ مل گیا.اس میں بھی آپ نے نہایت تندہی سے میں زندہ دل آدمی ہیں.سچائی کے عاشق اور سچائی کو بہت جلد سمجھ جاتے ہیں.خدمات کو کام کیا.افسران بالا آپ کے کام اور دیانت سے ہمیشہ متاثر اور خوش رہے اور پھر آپ ترقی نہایت نشاط سے بجالاتے ہیں بلکہ وہ تو دن رات اسی فکر میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی خدمت کر کے عدالت میں نقشہ نویس ہو گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ازالہ مجھ سے صادر ہو جائے عجیب منشرح الصدر اور جاں نثار آدمی ہے.میں خیال کرتا ہوں کہ اوہام میں جب آپ کا ذکر خیر فرمایا تو اس وقت آپ نقشہ نویس ہی تھے.نقشہ نویس سے ان کو اس عاجز سے ایک نسبت عشق ہے.شاید ان کو اس سے بڑھ کر اور کسی بات میں خوشی ترقی کر کے آپ سرشتہ دار ہو گئے.اس سے ترقی کر کے آپ نائب تحصیلدار اور پھر نہیں ہوتی ہوگی کہ اپنی طاقتوں اور اپنے مال اور اپنے وجود کی ہر توفیق سے کوئی خدمت تحصیلدار کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے اور ریاست کی جانب سے خان بہادر کا خطاب بجالا ویں.وہ دل و جان سے وفادار اور مستقیم الاحوال اور بہادر آدمی ہیں.خدا تعالیٰ انکو ملا.پنشن حاصل کرنے کے بعد ۱۹۱۵ ء میں مستقل طور پر قادیان سکونت اختیار کر لی.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه۵۳۲) آپ کا حلیہ مبارک جزائے خیر بخشے.آمین ابتدائی و خاندانی حالات حضرت منشی محمد اروڑا خان صاحب کی وفات کے بعد آپ کے ایک عقیدت مند شہاب مالیر کوٹلوی صاحب نے آپ کا حلیہ ان الفاظ میں بیان کیا: حضرت منشی محمد اروڑا خان صاحب کپورتھلہ شہر کے رہنے والے تھے.کپورتھلہ میں قد درمیانہ معمول سے کسی قدر نکلتا ہوا.رنگت جوانی میں تو بہت گوری ہوگی لیکن ہی آپ کی پیدائش ہوئی.حضرت منشی عبدالرحمن صاحب کپورتھلوی کے بیان کے مطابق اب بھی باوجود بڑھاپے اور اس قسم کی ( درویشانہ ) زندگی کے جوانہوں نے اختیار کی ہوئی آپ ان سے تین برس چھوٹے تھے اس کے مطابق آپ کی پیدائش انداز ۱۸۴۶ ء کے لگ تھی ، گوری تھی.چہرہ گول اور چوڑا ،سر بڑا، کشادہ پیشانی ،آنکھیں بڑی بڑی اور نہایت بھنگ کی ہے.آپ کے والد محترم نے آپ کو خیمے سینے اور کشیدہ کاری کے کام میں لگایا.ابھی خوبصورت ، ناک سیدھی ، جوانی میں بڑا تن و توش تھا جس کے آثار اب تک نمایاں تھے.آپ کی عمر چھوٹی ہی تھی کہ آپ کے والد وفات پاگئے اور تمام کنبہ کا بوجھ آپ کے کندھوں پر بہت سے دانت اکھڑ گئے تھے.کبھی کبھی داڑھوں میں درد ہوتا تو بطور علاج وسمہ لگاتے اور آن پڑا.چنانچہ اس کیلئے تلاش معاش کی فکر ہوئی جس کے لئے آپ عدالتوں میں جانے اس کے لئے پان بھی کھانا شروع کر دیا تھا.

Page 4

5 4 قادیان میں فقیرانہ اور مستانہ شان میں رہتے تھے.کوئی شخص جو جانتا نہ ہو وہ کبھی وہم بات تھی جو ہمارے دل میں بیٹھ گئی اور جس نے ہمیں تمام دنیا سے علیحدہ کر کے حضرت مسیح بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ شخص تحصیلدار رہا ہے.“ (الفضل قادیان یکم نومبر ۱۹۱۹ء) موعودؓ سے پیوستہ کر دیا.حضرت مسیح موعود سے تعارف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب سرمہ چشم آریہ ۱۸۸۶ء میں تصنیف ریاست کپورتھلہ کے گوہر نایاب اور آسمان احمدیت کے روشن ستارے حضرت منشی محمد ہوئی.( رفقاء) کپورتھلہ حضرت منشی اروڑا خان صاحب حضرت منشی ظفر احمد صاحب، اروڑے خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ابتدائی خدام میں سے حضرت منشی عبدالرحمن صاحب اور حضرت منشی محمد خان صاحب حضور کی کتاب سرمہ چشم تھے.جنہیں حضرت مسیح موعودؓ سے تعارف اور زیارت دعوئی سے پہلے ہی ہو چکی تھا اور وہ آریہ (بیت الذکر ) میں پڑھا کرتے تھے.اس کتاب کے پڑھنے کے بعد حضرت منشی حضرت مسیح موعود کی صداقت کا آپ کے دعوئی سے پہلے ہی اقرار کر چکے تھے اور آپ سے اروڑا خان صاحب اپنے دو دیرینہ دوستوں حضرت منشی ظفر احمد اور حضرت منشی محمد خان بیعت کی درخواست بھی کر دی ہوئی تھی.براھین احمدیہ کے مطالعہ سے آپ کو حضرت مسیح صاحب کپورتھلوی کے ہمراہ قادیان گئے.اس موقع پرمنشی اروڑا خان صاحب نے کہا کہ بزرگوں کے پاس خالی ہاتھ نہیں جایا کرتے.چنانچہ تین چار روپے کی مٹھائی حضور اقدس کی موعود سے محبت پیدا ہوگئی تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کی پہلی ملاقات بٹالہ میں ہوئی جبکہ ابھی خدمت میں پیش کی تو حضرت نے فرمایا یہ تکلفات ہیں.آپ ہمارے مہمان ہیں ہمیں بشیر اول زندہ تھے اور حضور ان کی بیماری کے علاج کے لئے بٹالہ میں قیام پذیر تھے.اس آپ کی تواضع کرنی چاہئے.اس ملاقات میں تینوں احباب نے حضور اقدس کی خدمت وقت عیسائیوں کی طرف سے اشتہار شائع ہوا تھا کہ اگر آپ ملہم ہیں اور خدا آپ سے میں بیعت لینے کے لئے درخواست کی کیونکہ سرمہ چشم آریہ پڑھ کر تینوں احباب بیعت کا باتیں کرتا ہے تو ہم ایک لفافہ میں کچھ لکھ کر رکھیں گے آپ خدا سے پوچھ کر بتادیں.آپ ارادہ کر کے آئے تھے.حضور نے بیعت کی درخواست پر فرمایا کہ مجھے بیعت کا حکم نہیں لیکن نے جواب دیا کہ ہاں ہمارا خدا قادر ہے کہ اپنے بندہ کو خفیہ مضمون سے اطلاع دے دے.ہم سے ملتے رہا کرو.اس کے بعد تینوں احباب بہت بار قادیان حضور کی خدمت میں میں دعا کرونگا اور میرا خدا انشاء اللہ مجھے بتائے گا لیکن ایک شرط ہو گی وہ یہ کہ جب ہم اس حاضر ہوتے رہے اور لدھیانہ میں بھی کئی دفعہ حضور اقدس کی خدمت میں شرف ملاقات مضمون کو بتلا دیں تو پادری صاحب کو ایمان لانا ہوگا.پادریوں نے اس شرط کو قبول نہ کیا.پایا.اس موقع پر حضرت منشی اروڑا خان صاحب کا بیان ہے کہ پہلے ہم میں مذہبیت بہت بیعت اولیٰ میں شمولیت کی سعادت تھی.ہم مولویوں کے وعظ کرایا کرتے تھے اور ان کی بڑی خدمت کیا کرتے تھے مگر یہ بات اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب حضور علیہ السلام کو بیعت لینے کا حکم ملا تو حضور نے کسی مولوی یا صوفی میں نہ دیکھی تھی جو دینی اصول کی صداقت کے اثبات کے لئے اس ( رفقاء) کپورتھلہ کو بھی اشتہار بھجوائے اور لدھیانہ آنے کے لئے فرمایا.چنانچہ حضرت منشی طرح سینہ ٹھونک کر دشمن کے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو جائے کہ آؤ میں ثبوت دیتا ہوں.یہ محمد اروڑا صاحب فوراً لدھیانہ روانہ ہو گئے.۲۳ مارچ ۱۸۸۹ء کو حضرت مسیح موعود علیہ

Page 5

7 6 الصلوة والسلام نے حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کے گھر (جو بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عشق و محبت السه دار البیعت کہلایا) بیعت لینے کا آغاز فرمایا اور سب سے پہلے حضرت حکیم الامت مولانا حضرت منشی محمد اروڑا خان صاحب کپور تھلوی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق نورالدین خلیفہ اسیح الاول نے بیعت کی سعادت حاصل کی.اسی دن بیعت کی سعادت صادق تھے.شمع محمدی کے گرد پروانوں کی طرح گھومنا آپ کی زندگی کا مقصد تھا.اپنا سب حاصل کرنے والوں میں حضرت منشی محمد اروڑا خان صاحب بھی شامل تھے.( رفقاء) کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت میں نثار کر دیا تھا.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ کپورتھلہ میں سب سے پہلے آپ کو بیعت کی سعادت حاصل ہوئی.السلام سے کس قدر محبت اور عشق تھا اس کو ناپنے کے لئے الفاظ کا کوئی پیمانہ نہیں ہے.تاہم آئندہ آنے والے واقعات اور مالی قربانی کی مثالیں آپ کے وفا اور عشق کی سچی داستان کی ۳۱۳ رفقاء میں شمولیت کا اعزاز حضرت منشی محمد اروڑا خان صاحب ۳۱۳ رفقاء میں شامل تھے اور آپ کا ساتواں نمبر تھا.غمازی کریں گی.آپ کے عشق اور محبت کا اظہار خود آقا نے بھی کیا ہے.آقا کی شفقت ومحبت کے بھی آپ مورد ٹھہرے ہیں.۳۱۳ رفقاء میں شمولیت ایک بہت بڑا اعزاز ہے کیونکہ ان اسماء کے تحریر کرنے کے سونے کا تحفہ یعنی پونڈ پیش کرنے کی خواہش پورا کرنا الله بعد آنحضور ﷺ کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جس میں آپ نے فرمایا تھا کہ مہدی معہود کدعہ ( قادیان) نامی بستی سے نکلے گا اور وہ دور دور سے دوستوں ( رفقاء) کو جمع کریگا جنکی تعداد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عشق اور والہانہ محبت کا ایک یہ انداز بھی آپ کی زندگی میں ہمیں نظر آتا ہے کہ باوجود معمولی تنخواہ دار ہونے کے آپ کی خواہش تھی کہ میں شاملین بدر (۳۱۳) کے برابر ہوگی اور ان کے اسماء مع انکی سکونت وغیرہ کے ایک کتاب حضور کی خدمت میں سونے کا تحفہ یعنی پونڈ پیش کروں.آپ نے اس مقصد کی تکمیل کے میں درج کریگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجام آتھم میں اپنے ۳۱۳ ( رفقاء) کا ذکر لئے کس قدر محنت، کوشش اور محبت شامل محنت کی ہوگی اس قصہ کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی تحریر کر کے اس پیشگوئی کو پورا کر دیا.اس پیشگوئی کے الفاظ کو شیخ علی حمزہ بن علی ملک الطوسی کی زبانی سنئے : نے اپنی کتاب جواہر الاسرار میں تحریر کیا ہے.مجھے وہ نظارہ نہیں بھولتا اور نہیں بھول سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتاب انجام آتھم میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۳۱۳ وفات پر ابھی چند ماہ ہی گذرے تھے کہ ایک دن باہر سے مجھے کسی نے آواز دے کر بلوایا اور ( رفقاء) کے تذکرہ میں سات نمبر سے لیکر انمبر تک جماعت کپورتھلہ کے مخلص اور خدائی خادمہ یا کسی بچے نے بتایا کہ دروازہ پر ایک آدمی کھڑا ہے اور وہ آپ کو بلا رہا ہے.میں باہر نکلا تو منشی اروڑے خان صاحب مرحوم کھڑے تھے.وہ بڑے تپاک سے آگے بڑھے مجھے جاں نثاروں کا ذکر فرمایا ہے.جس کی ترتیب یوں ہے.حضرت منشی محمد اروڑا خان صاحب، مصافحہ کیا اور اس کے بعد انہوں نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا جہاں تک مجھے یاد ہے انہوں حضرت میاں محمد خان صاحب، حضرت منشی ظفر احمد صاحب، حضرت منشی عبدالرحمن صاحب نے اپنی جیب سے دو یا تین پونڈ نکالے اور مجھے کہا کہ یہ اماں جان کو دے دیں اور یہ کہتے اور حضرت منشی فیاض علی صاحب کپور تھلوی.اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہو.ہی ان پر ایسی رقت طاری ہوئی کہ وہ چیخیں مار کر رونے لگ گئے اور ان کے رونے کی

Page 6

9 8 یہ اخلاص کا کیسا شاندار نمونہ ہے کہ ایک شخص چندے بھی دیتا ہے، قربانیاں بھی کرتا حالت اس قسم کی تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے بکرے کو ذبح کیا جا رہا ہے.میں کچھ حیران سا طرح میں آہستہ آہستہ کچھ رقم جمع کر کے انہیں پونڈوں کی صورت میں تبدیل کرتا رہا اور میرا ہو گیا کہ یہ رو کیوں رہے ہیں.مگر میں خاموش کھڑا رہا اور انتظار کرتا رہا کہ وہ خاموش ہوں تو منشا یہ تھا کہ میں یہ پونڈ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بطور تحفہ پیش کرونگا.مگر اس سے رونے کی وجہ دریافت کروں.اس طرح وہ کئی منٹ روتے رہے.جب میرے دل کی آرزو پوری ہوگئی اور پونڈ میرے پاس جمع ہو گئے تو...یہاں تک وہ منشی اروڑے خان صاحب مرحوم نے بہت ہی معمولی ملازمت سے ترقی کی تھی.پہنچے تھے کہ پھر ان پر رقت کی حالت طاری ہو گئی اور وہ رونے لگ گئے.آخر روتے روتے پہلے کچہری میں وہ چپڑاسی کا کام کیا کرتے تھے پھر اہل مد کا عہدہ آپ کو مل گیا اس کے بعد انہوں نے اس فقرے کو اس طرح پورا کیا کہ جب پونڈ میرے پاس جمع ہو گئے تو حضرت مسیح نقشہ نویس ہو گئے.پھر اور ترقی کی تو سرشتہ دار ہو گئے.اس کے بعد ترقی پاکر نائب موعود علیہ السلام کی وفات ہوگئی.تحصیلدار ہو گئے اور پھر تحصیلدار بن کر ریٹائر ہوئے.ابتدا میں انکی تنخواہ دس پندرہ روپے سے زیادہ نہیں ہوتی تھی.ہے.مہینہ میں ایک دفعہ نہیں ، دو دفعہ نہیں بلکہ تین تین دفعہ جمعہ پڑھنے کے لئے قادیان پہنچ جب ان کو ذرا صبر آیا تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ روئے کیوں ہیں.وہ کہنے جاتا ہے.سلسلہ کے اخبار اور کتابیں بھی خریدتا ہے.ایک معمولی سی تنخواہ ہوتے ہوئے جب لگے میں غریب آدمی تھا مگر جب بھی مجھے چھٹی ملتی پھر قادیان آنے کے لئے چل پڑتا کہ آج اس تنخواہ سے بہت زیادہ تنخواہیں وصول کرنے والے اس قربانی کا دسواں بلکہ بیسواں تھا.سفر کا بہت ساحصہ میں پیدل ہی طے کرتا تھا تا کہ سلسلہ کی خدمت کے لئے کچھ پیسے پیچ حصہ بھی قربانی نہیں کرتے.اس کے دل میں یہ خیال آتا ہے کہ امیر لوگ جب حضرت مسیح جائیں مگر پھر بھی روپیہ ڈیڑھ روپیہ خرچ ہو جاتا یہاں آکر جب میں امراء کو دیکھتا کہ وہ موعود علیہ السلام کی خدمت میں سونا پیش کرتے ہیں تو میں ان سے پیچھے کیوں رہوں.چنانچہ سلسلہ کی خدمت کے لئے بڑا روپیہ خرچ کر رہے ہیں تو میرے دل میں خیال آتا کہ کاش وہ ایک نہایت ہی قلیل تنخواہ میں سے ماہوار کچھ رقم جمع کرتا اور ایک عرصہ دراز تک جمع کرتارہتا میرے پاس بھی روپیہ ہو اور میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بجائے چاندی ہے.نہ معلوم اس دوران میں اس نے اپنے گھر میں کیا کیا تنگیاں برداشت کی ہوں گئی.محض کا تحفہ لانے کے سونے کا تحفہ پیش کروں.آخر میری تنخواہ کچھ زیادہ ہوگئی (اس وقت انکی اس لئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں اشرفیاں پیش کر سکے.مگر جب اس تنخواہ شاید میں پچیس روپیہ تک پہنچ گئی تھی ) اور میں نے ہر مہینے کچھ رقم جمع کرنی شروع کی خواہش کے پورا ہونے کا وقت آتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی حکمت اس کو اس رنگ میں خوشی کر دی اور میں نے اپنے دل میں یہ نیت کی کہ جب یہ رقم اس مقدار تک پہنچ جائے گی جو حاصل کرنے سے محروم کر دیتی ہے جس رنگ میں وہ اسے دیکھنا چاہتا تھا.“ میں چاہتا ہوں تو میں اسے پونڈوں کی صورت میں تبدیل کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں نے مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہے وہ جھوٹے نہیں ہو سکتے کی خدمت میں پیش کروں گا.پھر کہنے لگے جب میرے پاس ایک پونڈ کے برابر رقم جمع ہو حضرت مصلح موعود حضرت منشی اروڑے خان کا ذکر جاری رکھتے ہوئے آپ کی گئی تو وہ رقم دے کر میں نے ایک پونڈ لے لیا.پھر دوسرے پونڈ کے لئے رقم جمع کرنی حضرت مسیح موعود کے ساتھ محبت اور کامل ایمان کے بارہ میں فرماتے ہیں: شروع کر دی اور جب کچھ عرصہ کے بعد اس کے لئے رقم جمع ہوگئی تو دوسرا پونڈ لے لیا.اسی میں نے کئی دفعہ سنایا ہے کہ منشی اروڑے خان مرحوم فرمایا کرتے تھے کہ مجھے بعض

Page 7

11 10 غیر احمدی دوستوں نے کہا تم ہمیشہ ہمیں دعوت الی اللہ کرتے رہتے ہو.فلاں جگہ مولوی ثناء فرماتے ہیں: اللہ صاحب آئے ہوئے ہیں تم بھی چلو اور انکی باتوں کا جواب دو منشی اروڑے خان (ایک) دوست نے بتایا کہ منشی اروڑے خان صاحب تو ایسے آدمی ہیں کہ یہ صاحب مرحوم کچھ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے.دوران ملازمت میں ہی انہیں پڑھنے لکھنے کی مجسٹریٹ کو بھی ڈرا دیتے ہیں.پھر اس نے سنایا کہ ایک دفعہ انہوں نے مجسٹریٹ سے کہا جو مشق ہوئی وہی انہیں حاصل تھی.وہ کہنے لگے جب ان دوستوں نے اصرار کیا تو میں نے میں قادیان جانا چاہتا ہوں مجھے چھٹی دے دیں.اس نے انکار کر دیا.اس وقت وہ سیشن کہا اچھا چلو.چنانچہ وہ انہیں جلسہ میں لے گئے.مولوی ثناء اللہ صاحب نے احمدیت کے حج کے دفتر میں لگے ہوئے تھے.انہوں نے کہا قادیان میں نے ضرور جانا ہے.مجھے آپ خلاف تقریر کی اور اپنی طرف سے خوب دلائل دیئے.جب تقریر کر کے وہ بیٹھ گئے تو منشی چھٹی دے دیں.وہ کہنے لگا کام بہت ہے اس وقت آپ کو چھٹی نہیں دی جاسکتی.وہ کہنے اروڑے خان صاحب سے ان کے دوست کہنے لگے کہ بتائیں ان دلائل کا کیا جواب ہے.لگے بہت اچھا آپ کا کام ہوتا رہے گا میں تو آج سے ہی بددعا میں لگ جاتا ہوں.آپ منشی اروڑے خان صاحب فرماتے تھے میں نے ان سے کہا یہ مولوی ہیں اور میں ان پڑھ اگر نہیں جانے دیتے تو نہ جانے دیں.آخر اس مجسٹریٹ کو کوئی ایسا نقصان پہنچا کہ وہ سخت آدمی ہوں.ان کی دلیلوں کا جواب تو کوئی مولوی ہی دے گا میں صرف اتنا جانتا ہوں کہ ڈر گیا اور جب بھی ہفتہ کا دن آتا تو وہ عدالت والوں سے کہتا کہ آج کا کام ذرا جلدی بند میں نے حضرت مرزا صاحب کی شکل دیکھی ہوئی ہے وہ جھوٹے نہیں ہو سکتے.کر دینا کیونکہ منشی اروڑے خان صاحب کی گاڑی کا وقت نکل جائیگا.اس طرح وہ آپ منشی اروڑے خان صاحب شروع میں قادیان بہت زیادہ آیا کرتے تھے.بعد میں ہی جب بھی منشی صاحب کا ارادہ قادیان آنے کا ہوتا انہیں چھٹی دے دیتا اور وہ قادیان چونکہ بعض اہم کام ان کے سپرد ہو گئے اس لئے جلدی چھٹی ملنا ان کے لئے مشکل ہو گیا تھا پہنچ جاتے.“ مگر پھر بھی وہ قادیان اکثر آتے رہتے تھے.ہمیں یاد ہے جب ہم چھوٹے بچے ہوا کرتے آقا کی محبت میں دیوانگی تھے تو ان کا آنا ایسا ہی ہوا کرتا تھا جیسے کوئی مدتوں بچھڑا ہوا بھائی سالہا سال کے بعد اپنے حضرت مصلح موعود آپ کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے والہانہ محبت اور دیوانہ وار کسی عزیز سے آکر ملے.کپورتھلہ کی جماعت میں سے منشی اروڑے خان صاحب منشی عشق کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں.ظفر احمد صاحب اور منشی محمد خاں صاحب جب بھی آتے تھے تو ان کے آنے سے ہمیں بڑی خوشی ہوا کرتی تھی.“ مجسٹریٹ ڈر گیا دو پھر انکی محبت کا یہ نقشہ بھی مجھے تبھی نہیں بھولتا جو گو انہوں نے مجھے خود ہی سنایا تھا مگر میری آنکھوں کے سامنے وہ یوں پھرتا رہتا ہے کہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کے وقت میں بھی وہیں موجود تھا.انہوں نے سنایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلو والسلام سے ایک دفعہ ہم نے عرض کیا کہ حضور بھی کپورتھلہ تشریف لائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ حضرت مصلح موعود حضرت منشی صاحب کا ذکر جاری رکھتے ہوئے آپ کی حضرت مسیح والسلام نے وعدہ فرمایا کہ جب فرصت ملی تو آ جاؤں گا.وہ کہتے تھے ایک دفعہ کپورتھلہ میں موعود اور قادیان دارالامان کے ساتھ کچی محبت کا ایک ایمان افروز واقعہ بیان کرتے ہوئے میں ایک دوکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ ایک شدید ترین دشمن اڈے کی طرف سے آیا اور مجھے کہنے

Page 8

13 12 حضرت منشی اروڑے خان صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لگا تمہارا مرزا کپورتھلہ آ گیا ہے.معلوم ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب فرصت ملی تو وہ اطلاع دینے کا وقت نہ تھا اس لئے آپ بغیر اطلاع کے ہی چل پڑے منشی ساتھ جو عشق کیا وہ اس وجہ سے تھا کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا چہرہ دیکھا تھا اروڑے خان صاحب نے یہ خبر سنی تو وہ خوشی میں ننگے سر اور پاؤں اڈے کی طرف بھاگے.کہ یہ کسی جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا.یہ دل کی آنکھ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مگر چونکہ خبر دینے والا شدید ترین مخالف تھا اور ہمیشہ احمدیوں سے تمسخر کرتا رہتا تھا.ان کا صداقت کا مشاہدہ کا نتیجہ تھا جس کے مقابل پر دوسرے دلائل کی کوئی حیثیت نہیں ہے.بیان تھا کہ تھوڑی دور جا کر مجھے خیال آیا کہ بڑا خبیث دشمن ہے اس نے ضرور مجھ سے ہنسی میں تو ان کے منہ کو بھوکا تھا کی ہوگی.چنانچہ مجھ پر جنون سا طاری ہو گیا اور یہ خیال کر کے کہ نہ معلوم حضرت مسیح قمرالانبیاء حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رفقاء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنے آقا موعود علیہ الصلوۃ والسلام آئے بھی ہیں یا نہیں ، میں کھڑا ہو گیا اور میں نے بے تحاشہ برا بھلا و مرشد کے ساتھ والہانہ محبت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت منشی اروڑے خان صاحب کی کہنا شروع کر دیا کہ تو بڑا خبیث اور بدمعاش ہے، تو کبھی مرا پیچھا نہیں چھوڑتا اور ہمیشہ بنسی نا قابل فراموش مثال دیتے ہوئے رقمطراز ہیں: کرتا رہتا ہے.بھلا ہماری قسمت کہاں کہ حضرت صاحب کپورتھلہ تشریف لائیں.وہ کہنے ان پاک نفس بزرگوں کا دل بلکہ ان کے جسموں کا رواں رواں حضرت مسیح موعود لگا آپ ناراض نہ ہوں اور جا کر دیکھ لیں ، مرزا صاحب واقعہ میں آئے ہوئے ہیں.اس علیہ السلام کی محبت سے لبریز تھا.مجھے خوب یاد ہے اور میں اس واقعہ کو کبھی نہیں بھول سکتا کہ نے کہا تو پھر میں دوڑ پڑا.مگر پھر خیال آیا کہ اس نے ضرور مجھے دھوکا دیا ہے.چنانچہ پھر میں جب ۱۹۱۴ ء میں مسٹر والٹر آنجہانی جو آل انڈیا وائی ایم سی.اے کے سیکرٹری تھے اور سلسلہ اسے کو سنے لگا کہ تو بڑا جھوٹا ہے ہمیشہ مجھ سے مذاق کرتا رہتا ہے.ہماری ایسی قسمت کہاں احمدیہ کے متعلق تحقیق کرنے کے لئے قادیان آئے تھے.انہوں نے قادیان میں یہ خواہش کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے ہاں تشریف لائیں.مگر اس نے پھر کہا کہ کی کہ مجھے بانی سلسلہ احمدیہ کے کسی پرانے (رفیق) سے ملایا جائے.اس وقت منشی اروڑا منشی صاحب وقت ضائع نہ کریں مرزا صاحب واقعہ میں آئے ہوئے ہیں.چنانچہ پھر اس صاحب قادیان میں تھے.مسٹر والٹ کو منشی صاحب مرحوم کے ساتھ ( بیت ) مبارک میں ملایا خیال سے کہ شاید آہی گئے ہوں میں دوڑا پڑا مگر پھر یہ خیال آجاتا کہ کہیں اس نے دھوکا ہی گیا.مسٹر والٹر نے منشی صاحب سے رسمی گفتگو کے بعد یہ دریافت کیا کہ آپ پر جناب مرزا نہ دیا ہو.چنانچہ پھر اسے ڈانٹا آخر وہ کہنے لگا مجھے برا بھلا نہ کہو اور جا کر اپنی آنکھوں سے دیکھ صاحب کی صداقت میں سب سے زیادہ کس دلیل نے اثر کیا.منشی صاحب نے جواب دیا لو، واقعہ میں مرزا صاحب آئے ہوئے ہیں.غرض میں کبھی دوڑتا اور کبھی یہ خیال کر کے کہ مجھے مذاق ہی نہ کیا گیا ہو.میری یہی حالت تھی کہ میں نے سامنے کی طرف جو دیکھا تو نے سب سے زیادہ اثر کیا وہ حضرت صاحب کی ذات تھی.جس سے زیادہ سچا اور زیادہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تشریف لا رہے تھے.اب یہ والہانہ محبت اور محبت کا رنگ دیانت دار اور خدا پر زیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا.انہیں دیکھ کر کوئی شخص لوگوں کے دلوں میں پایا جاتا ہے.یقیناً بہت ہی کم لوگوں کے دلوں میں.“ یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص جھوٹا ہے.باقی میں تو ان کے منہ کا بھوکا تھا.مجھے زیادہ دلیلوں کا کہ میں زیادہ پڑھا لکھا آدمی نہیں ہوں اور زیادہ لمبی دلیلیں نہیں جانتا مگر مجھے پر جس بات (الفضل ۲۸ اگست ۱۹۴۱ء) علم نہیں ہے.یہ کہ کر منشی صاحب مرحوم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد میں اس قدر بے

Page 9

15 14 ہر وقت یا قرآن کریم پڑھتے یا مسیح پاک کا منظوم اور غیر منظوم کلام پاک حضرت مسیح موعود چین ہو گئے کہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی.اس وقت مسٹر والٹر کا یہ حال تھا کہ کا ٹو تو بدن میں لہو نہیں.ان کے چہرے کا رنگ ایک دھلی ہوئی کی عبارتوں کی عبارتیں زبانی یاد تھیں.ایک بار کسی شخص نے دوران (دعوت الی اللہ ) کہا ہم چادر کی طرح سفید پڑ گیا تھا اور بعد میں انہوں نے اپنی کتاب ”احمد یہ موومنٹ میں اس نے مسیح موعود کو مانا تو خسارہ میں نہیں رہے.اگر جھوٹے بھی ہوں تو....آپ نے سنا تو اس واقعہ کا خاص طور پر ذکر بھی کیا اور لکھا کہ جس شخص نے اپنی محبت میں اس قسم کے لوگ پیدا سے سخت ناراض ہو گئے اور فرمایا تم نے یہ کیوں کہا اگر جھوٹے بھی ہوں..وہ جھوٹا نہیں تھاوہ سچا تھا.اس کے لئے اگر ہمیں دوزخ ملے تو ہم بہشت کو اس پر قربان کر دیں گے.“ کئے ہیں اسے ہم کم از کم دھو کے باز نہیں کہہ سکتے.“ ہاں صاحب میں فقیر ہو گیا (الفضل و ستمبر ۱۹۴۱) آقا کی جگہ پر نماز پڑھنا 66 (الفضل یکم نومبر ۱۹۱۹) حضرت منشی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں سرشار رہتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد مختلف اداؤں سے حضرت مسیح تھے اور پنشن حاصل کرنے (۱۹۱۴ء) کے بعد قادیان میں دھونی رما کر بیٹھ گئے اور اپنی موعود علیہ السلام سے محبت عشق اور عقیدت کا اظہار فرمایا کرتے تھے.حضرت شیخ محمد احمد زندگی کے بقیہ ایام آستانہ حضرت مسیح موعود کی حاضری میں ہی گزارنا چاہتے تھے.پنشن صاحب مظہر بیان فرماتے ہیں کہ آپ کے وقت حکام حضرت منشی صاحب کی محنت، دیانت کی وجہ سے فارغ نہیں کرنا چاہتے تھے ( بیت ) مبارک میں پہلی صف کے جنوبی گوشے میں جہاں حضرت مسیح موعود علیہ لیکن آپ نے اصرار سے پنشن لے لی.رخصت ہوتے وقت انگریز وزیر اعظم ریاست السلام نماز پڑھا کرتے تھے پنجوقتہ نماز با جماعت ادا کرتے اور اس بات کو برداشت نہ کر سے ملے تو اس نے کہا تم فقیر ہو گیا حضرت منشی صاحب نے کہا صاحب میں فقیر ہو گیا.سکتے تھے کہ کوئی اور شخص اس جگہ کو روک لے.یہ عشق و محبت تھا جو اس جگہ سے انہیں ۱۹۱۵ء میں قادیان آگئے.فقیر نے در حبیب پر دھونی رمالی.ایک تاریک کوٹھڑی تازیست رہا.ایک دن منشی اروڑ ا صاحب بہشتی مقبرہ کی طرف جارہے تھے ، میں ساتھ تھا، میں رہنے لگے.نہایت سادہ لباس گرمیوں میں کلاہ ،سردیوں میں لنگی کر تہ اور تہبند اور پرانا فرمانے لگے اللہ نے میری سب مرادیں پوری کر دیں بس ایک آرزو باقی ہے اور بہشتی مقبرہ کوٹ اور کوئی سالن خود پکاتے اور روٹی لنگر سے خریدتے ایک بار روٹی بھی خود پکانے کا کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے کہ یہ جسد خا کی یہاں دفن ہونا باقی ہے.“ ارادہ کیا لیکن پک نہ سکی.چار پائی کے قریب اوپلے اور راکھ کا ڈھیر ہوتا ایسی مستانہ شان سے رہتے تھے کہ کوئی شخص جو جانتا نہ ہو و ہم بھی نہیں کر سکتا تھا کہ یہ شخص تحصیلدار رہا ہے.کیا خوب کہا عدم نے جو بھی تیرے فقیر ہوتے ہیں آدمی ہے نظیر ہوتے ہیں حضور سے والہانہ عشق (( رفقاء ) احمد جلد چہارم ص ۱۴ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے آپ کا والہانہ عشق تھا.ملاقات کیلئے تڑپتے اور قادیان حاضر ہو جاتے.حضور کے لئے تحائف لے کر جانا ، پاؤں دبانا ، راستے بدل

Page 10

17 16 بدل کر قادیان جانا یہ سب آپ کے عشقیہ انداز تھے اور پھر رقم بچا بچا کر حضور کے قدموں عادت تھی کہ حضرت صاحب کے پاس ہمیشہ بیٹھے پیر دباتے رہتے تھے.(الحکم ۲۸ مارچ میں لا ڈالتے جبکہ خود انتہائی درویشانہ زندگی بسر کرتے.۱۹۳۴) حضرت منشی اروڑا خان صاحب کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضرت منشی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ جلسہ سالانہ کے وقت میں احمدیوں کے لئے ساتھ فدائیت ، محبت اور والہانہ عشق کے یہ انداز یقیناً بارگاہ ایزدی میں ان کے بلندی ایک امتحان رہتا ہے.کسی کی بیوی بیمار ہو جاتی ہے اور کسی کا بچہ بیمار ہو جاتا ہے.یہ لوگ درجات کا باعث ہو نگے.جلسے میں آنے سے روکنا چاہتے ہیں، یہ امتحان ہوتے ہیں مگر ہم کبھی ان کی پرواہ نہیں کرتے منشی جی ! اتنی جلدی اور کبھی نہیں رکھتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عشق و محبت کو خود حضرت منشی صاحب ان الفاظ حضرت سید عزیز الرحمن صاحب بریلوی مہاجر قادیان جنہیں حضرت منشی صاحب کو میں بیان کرتے ہیں: قریب سے دیکھنے اور ان کی رفاقت سے حصہ ملا وہ بیان کرتے ہیں کہ منشی محمد اروڑے خان صاحب کی توند بھاری تھی.جب ایک کرتا پیٹ پر سے پھٹتا تب دوسرا بناتے تھے.یہ کوئی د بعض اوقات میری یہ حالت ہوتی کہ میں کپورتھلہ سے بے قرار ہوکر دیوانہ وار آتا اور میری عادت اور معمول ہمیشہ یہ تھا کہ یکہ سے اترتے ہی اگر نماز کا وقت ہوتا تو اپنا کپڑا کنجوسی نہ تھی بلکہ حضرت اقدس سے ایک والہانہ عشق تھا.جس طرح سے جو کچھ بھی ہو سکتا بچاتے اور حضرت اقدس کے قدموں میں لا ڈالتے تھے.بيت الذکر) میں رکھ کر سیدھا حضرت کے دروازے پر پہنچتا اور اطلاع کرا کے زیارت کر لیتا تو چین پڑتا.مجھ پر کئی اوقات ایسے بھی آئے کہ میں آیا اور نیاز حاصل کیا اور واپس جانے (الحکم ۲۸ جنوری ۱۹۳۵) کی اجازت چاہی اس لئے کہ وقت نہیں ہوتا تھا ایسے موقعے پر حضرت اقدس ضرور فرماتے.دد منشی جی ! اتنی جلدی میں عرض کرتا حضور زیارت ہی کے لئے آیا تھا.اس سرور کا حضور اقدس کے پاؤں دباتے رہنا حضرت منشی محمد اروڑے خان صاحب حضرت مسیح موعلیہ السلام کے ساتھ عشق رکھتے مزا لیتے علی العموم یہ شعر پڑھتے اور فرماتے کہ ہمارا تو یہی اصول ہے.در حقیقت بس است یار یکے دل یکے جاں یکے نگار یکے تھے.اس کا اظہار مختلف اداؤں اور طریقوں سے کرتے تا حضور کی قربت بھی نصیب ہو اور آپ کی خدمت بھی کر سکیں.آپ خود فرماتے تھے کہ جب ہم قادیان میں آتے تو بیت الذکر ) میں ایسی جگہ کپڑا رکھ دیتے جہاں حضرت اقدس کے قریب بیٹھ سکیں.نماز ختم ہوتی اور ہم حضور کے پیروں کو لپٹ جاتے.بعض دفعہ میں آپ کا پیر دبانے کے لئے کھینچ یہ ہمارے مرشد کا حکم ہے لیتا اور بعض دفعہ جو نہی کہ میں ہاتھ بڑھا تا حضرت خود میری طرف پیر کو بڑھا دیتے.(الفضل یکم نومبر ۱۹۱۹ ء ص ۵) (الحکم ۲۸ مارچ ۱۹۳۴) حضرت منشی ظفر احمد صاحب اطاعت امام کا ایک روح پرور واقعہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ایک مرتبہ لدھیانہ جارہے تھے.ہم کرتار پور سے آپ کے ساتھ ریل میں حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی بھی بیان کرتے ہیں کہ منشی اروڑا صاحب کی سوار ہو لیے یعنی منشی اروڑ ا صاحب یا محمد خان صاحب اور خاکسار.حضور انٹر کے درجہ میں

Page 11

19 18 تھے.ہم اتفاق سے وہیں جا بیٹھے مگر ہمارے پاس تیسرے درجہ کا ٹکٹ تھا.حضور نے پوچھا حضرت مسیح موعود کے قریب دفن ہونے کی خواہش آپ کے پاس ٹکٹ کونسے درجے کے ہیں.( یہ محض اتفاقیہ اور خلاف معمول بات تھی جو حضرت مصلح موعود نے ۲۲ اگست ۱۹۴۱ء کو اپنے خطبہ جمعہ میں حضرت منشی ظفر احمد حضور نے دریافت فرمایا ) ہم نے کہا سوئم درجے کے ٹکٹ ہیں.آپ نے فرمایا انٹر کا کرایہ کپورتھلوی کا ذکر خیر فرمایا.حضور نے حضرت منشی ظفر احمد صاحب حضرت منشی اروڑا خان ادا جا کر کر دینا.جب اسٹیشن پر ہم نے وہ زائد پیسے دیئے تو اسٹیشن ماسٹر نے جو ہمارا واقف صاحب ، حضرت میاں عبد اللہ سنوری اور حضرت منشی محمد خان صاحب کپور تھلوی کے ذکر تھا لینے سے انکار کیا کہ معمولی بات ہے.منشی اروڑ صاحب نے کہا کہ یہ ہمارے مرشد کا حکم میں فرمایا کہ چاروں ( رفقاء) حضرت مسیح موعود کے ساتھ ابتدائی ایام میں اکٹھے رہے اور یہ ہے.اس پر بہت اثر ہوا اور وہ پیسے ادا کئے گئے.“ رتبہ پنجاب کی دوریاستوں پٹیالہ اور کپورتھلہ کونصیب ہوا.حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں: (( رفقاء) احمد جلد ۴ صفحه ۲۱۶) اطاعت امام اور مرشد کے حکم کے سامنے کیسی فدائیت اور سرتسلیم خم کرنے والے یہ وجود تھے.اللہ تعالیٰ ان کے نقش قدم پر چلنے کی ہم کو بھی تو فیق عطا فرمائے.فور بٹالہ روانہ ہو گئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت اور اطاعت کا ایک واقعہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ یہ چار آدمی تھے جن کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ دعویٰ ماموریت اور بیعت سے بھی پہلے کے تعلقات تھے کہ ایک منٹ کیلئے بھی دور رہنا بر داشت نہیں کر سکتے تھے.“ 66 (الفضل ۲۸ اگست ۱۹۴۱ء) حضرت منشی اروڑے خان صاحب حضور اقدس کی زندگی میں بھی حضور سے ایک منٹ کے لئے بھی دور رہنا برداشت نہیں کر سکتے تھے بلکہ حضور کی وفات کے بعد آپ کی منشی اروڑا خان صاحب کے پاس کپورتھلہ خط آیا کہ حضرت صاحب پر مقدمہ قتل خواہش تھی کہ آپ حضور کے قریب دفن ہوں.چنانچہ آپ نے اپنی وفات سے قبل حضرت بن گیا ہے.وہ فوراً بٹالہ روانہ ہو گئے.ہمیں اطلاع تک نہ کی.میں اور محمد خان صاحب خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں عرض کیا کہ جہاں مجھے دفن کرنا ہے وہ جگہ مجھے دکھا دیں.تعجب کرتے رہے کہ منشی کہاں اور کیوں چلے گئے ہیں.ہمیں کچھ گھبراہٹ سی تھی.خیر اگلے مجھے لوگوں پر اعتبار نہیں خدا جانے کہاں دفن کر دیں.حضور نے فرمایا منشی صاحب آپ تسلی رکھیں...حضرت صاحب کے اس فرمانے سے آپ بہت خوش ہوئے.دن میں قادیان جانے کے ارادہ سے روانہ ہو گیا.بٹالہ جا کر معلوم ہوا کہ حضرت صاحب یہاں تشریف رکھتے ہیں اور مارٹن کلارک والا مقدمہ بن گیا ہے.ابھی میں حضور کی قیام گاہ پر جا کر کھڑا ہی ہوا تھا اور حضور نے مجھے دیکھا بھی نہ تھا نہ میں نے حضور کو ، کہ آپ نے فرمایا منشی ظفر احمد صاحب کو بلا لو.میں حاضر ہو گیا.منشی اروڑا صاحب کی عادت تھی کہ حضرت صاحب کے پاس ہمیشہ بیٹھے پیر دباتے رہتے تھے.(الحکم ۷ دسمبر ۱۹۴۴ ص ۱۶) اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی یہ خواہش پوری ہوئی اور آپ کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعود نے بہشتی مقبرہ میں خصوصیت سے حضرت اقدس کے مزار کے قریب منشی صاحب کے لئے قبر تیار کروائی جو حضرت مسیح موعود کے دائیں طرف ۱۲ گز کے فاصلہ پر ہے.(( رفقاء ) احمد جلد ۴ ص ۲۰۲) یوں آپ کو اپنے معشوق و محبوب و مرشد کی دائی رفاقت نصیب ہوئی اور الْمَرْءُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ

Page 12

21 20 ( یعنی آدمی اسی کے ساتھ ہوتا ہے جس سے محبت کرتا ہے) کی ظاہری صورت بھی پیدا ہوگئی.ایں موعود کو بھی آپ سے محبت تھی.آپ کی مرض الموت میں آپ کے پاس بیٹھے رہے اور پھر آپ کے ایمان افروز واقعات ، محبت اور وفا کو خطبات میں بیان فرماتے رہے.سعادت بزور بازو نیست.حضرت اماں جان سے عقیدت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کا ایک انداز حضرت اقدس کے اہل بیت حضور اقدس کی آپ سے محبت اور شفقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے رفقاء سے محبت اور شفقت کا سلوک فرمایا سے عقیدت و محبت کا اظہار ہوتا تھا.حضرت منشی صاحب حضرت اقدس کے اہل بیت سے حد درجہ عقیدت کا اظہار فرماتے تھے.حضرت اماں جان جب بھی حضرت منشی صاحب کی کرتے تھے.ہمدردی اور شفقت علی الناس آپ کا اعلیٰ وصف تھا.حضرت منشی محمد اروڑے کوٹھڑی کے پاس سے گزرتیں تو منشی صاحب کھڑے ہو جاتے اور السلام علیکم عرض کرتے خان صاحب کے ساتھ آپ کا بہت محبت اور پیار کا تعلق تھا.اپنے فدائی غلام سے حد درجہ تھے.حضرت اقدس کے بچوں کے ساتھ پیار اور محبت کا اظہار فرمایا کرتے تھے اور بچے بھی شفقت فرماتے تھے.آپ کی قادیان آمد پر خوش ہوتے.جب حضرت خلیفتہ اسیح ثانی کے بچوں یا خاندان کے دوسرے بچوں کا پاس سے گزر ہوتا تو کہتے میاں ! بابے کو سلام نہیں کرنا اور بہت خوش ہوتے.مجھے یکہ پر سوار کرا دیا اور خود پیدل ایک دفعہ حضرت میر ناصر نواب صاحب لنگر کے لئے تحریک کرنے آئے تو انہیں دو ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گورداسپور ایک ضروری کام کے لئے جانا تھا.روپے نذر کئے اور دو پونڈ نکال کر دیئے کہ یہ حضرت اماں جان کو دے دیں.اسی طرح جب آپ قادیان سے روانہ ہوئے تو بہت سے لوگ آپ کی مشایعت کے لئے اس سڑک حضرت اقدس کے لئے جمع کئے ہوئے پونڈ آپ کی وفات کے بعد آپ نے حضرت اماں تک جو کہ بٹالہ کو جاتی ہے آپ کے ساتھ آئے اور سڑک پر جا کر آپ ٹھہر گئے اور واپس قادیان آنے والے لوگوں سے مصافحہ کر کے فرمایا کہ تم واپس چلے جاؤ اور وہ چند رفقاء حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے محبت جان کو بھجوادیے.جنہوں نے آپ کے ساتھ گورداسپور جانا تھا ان کو فرمایا تم آگے چلو اور مجھ کو کہا تم ٹھہرو.حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے عقیدت و محبت کا تعلق تھا.جب حضرت منشی صاحب سب رفقاء چلے گئے اور صرف میں اور حضرت صاحب اور یکہ والا وہاں رہ گئے....گاڑی کا پنشن پا کر مستقل ہجرت کر کے قادیان آگئے تو عزیز الرحمن صاحب بریلوی بیان کرتے ہیں وقت چونکہ تنگ ہو رہا تھا اس لئے میں نے عرض کیا کہ حضور مجھے بٹالہ میں اپنی لڑکی سے ملنا کہ مجھے فرمانے لگے کہ میاں (حضرت خلیفہ ثانی ) کے بارہ میں کوئی بات سناؤ.جب میں ہے اور وقت بہت کم ہوتا جاتا ہے.آپ نے فرمایا تم اس یکہ پر سوار ہوکر آگے چلو اور اپنا نے ایک روایت سنائی تو بہت خوش ہوئے.اسی طرح میری بیوی کو بھی کہتے کہ حضرت کام کر کے پھر مجھے راستہ میں آملنا.میں نے عرض کیا کہ حضور یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ میں میاں صاحب کی کوئی روایت سناؤ.وہ جب کوئی بات سناتی تو بہت خوش ہوتے.(الحکم تو یکہ پر سوار ہو کر چلا جاؤں اور حضور کو اکیلا چھوڑ جاؤں اور حضور پیدل چلیں.آپ نے ۷ دسمبر ۱۹۴۴ء) حضور کی خدمت میں عید کے موقع پر نذرانہ ضرور پیش کرتے.حضرت مصلح فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں تم یکہ پر سوار ہو جاؤ.پھر بھی میں نے سوار ہونے کی جرات نہ

Page 13

23 22 کی اور سوار نہ ہونے پر اصرار کرتا رہا.حضور نے فرمایا: الآمُرُ فَوقَ الْآدَب - ( یعنی حکم آپ ظاہر نہ کرتے تو مسیح موعود علیہ السلام کا یہ اخلاقی معجزہ ظاہر نہ ہوتا کہ آپ نے ایثار ادب سے اوپر ہوتا ہے).اس کے بعد مجھے ناچار سوار ہونا پڑا اور میں روانہ ہو گیا.راستہ کا کامل نمونہ دکھایا.میں بٹالہ کے قریب سینکڑوں لوگ برلب سڑک حضور کے انتظار میں بیٹھے ہوئے میں نے دیکھے.انہیں دیکھ کر میں اپنے مسیح کی شفقت اور نوازش کو یاد کر کے وجد میں آگیا.منشی جی! آپ دعا کیلئے کیوں نہیں لکھتے میں نے خیال کیا کہ وہ انسان جس کے دیکھنے کے منتظر ہزاروں لوگ گھروں سے نکل (الحکم ۲۸ مارچ ۱۹۳۴ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے پیاروں کے ساتھ بہت محبت بھرا سلوک اور تعلق کر راستہ میں انتظار کرتے ہیں وہ اپنے مریدوں سے شفقت کا وہ برتاؤ کرتا ہے کہ ان کے رکھتے تھے.حضرت منشی محمد اروڑا خان صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اقدس لئے خود تکلیف اٹھانی پسند کرتا ہے.نے مجھے فرمایا بنشی جی لوگ دعا کے لئے لکھتے ہیں آپ کیوں نہیں لکھتے ؟ میں نے عرض کیا کہ حضور میں جانتا ہوں کہ حضور کا وقت بہت قیمتی ہے.جتنا وقت حضور میرا خط پڑھنے میں میں بٹالہ پہنچ کر اپنی لڑکی کے گھر گیا اور ان کی خیر و عافیت دریافت کر کے وہاں سے قادیان آنے والی سڑک کی طرف روانہ ہو گیا تا کہ حضور سے ملوں اور اپنے واقف کارلوگوں لگائیں گے اتنے میں دین کا کوئی کام کریں گے.باقی رہی دعا اگر حضوڑ کے دل میں ہم سے کہا کہ آؤ تمہیں حضرت مرزا صاحب کو دکھاؤں.وہ بھی میرے ساتھ چل پڑے اور نے جگہ پیدا کر لی ہے اور حضور کو ہم سے محبت ہے تو ہمارے بغیر عرض کرنے کے بھی حضور اپنی دعاؤں میں ہم کو نہ بھولیں گے.جب بٹالہ شہر سے نکل کر کچی سڑک پر پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ خدا کا مسیح تن تنہا ہاتھ میں عصا پکڑے پیدل تشریف لا رہا ہے.میں یکہ سے اتر گیا اور حضور کو بٹھا لیا اور حضور نے مجھے بھی ساتھ ہی بیٹھنے کا حکم دیا.اس طرح پر حضور بٹالہ سٹیشن پر پہنچے.صرف میرے کہنے پر کہ مجھے اپنی لڑکی سے ملنا تھا اور اب چونکہ وقت تنگ آ گیا ہے اس لئے نہیں مل سکوں گا.حضور (الحکم ۲۸ مارچ ۱۹۳۴) دوطرفہ محبت کا یہ خوبصورت اظہار ہے جو اس روح پرور واقعہ میں بیان ہوا ہے.آپ اور غلام دونوں ایک دوسرے کے لئے تعلق محبت رکھتے ہیں.نے پیدل چلنا منظور فرمایا اور مجھے یکہ میں بٹھا کر روانہ کر دیا تا کہ ایک آدمی کو لے کر جلدی آؤ مصافحہ تو کرلیں بٹالہ پہنچ جاوے.حضرت سید عزیز الرحمن صاحب بریلوی بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ السلام کو بھی منشی منشی صاحب جب بھی اس واقعہ کو بیان کرتے تو ان کی آنکھیں پرنم اور آواز میں ایک اروڑے خان صاحب سے بڑی محبت تھی.جب حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کا نکاح رقت اورسوز پیدا ہو جایا کرتا تھا.یہ واقعہ مارٹن کلارک کے مقدمہ کا ہے.کبھی کبھی وہ یہ بھی ہوا اس دن منشی صاحب کپورتھلہ آئے ہوئے تھے.منبر کے متعلق بعض احباب کی رائے فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جب اس واقعہ کی یاد آتی ہے تو کانپ جاتا ہوں کہ مجھ سے بڑی تھی کہ منبر دروازے کے در میں رکھا جائے.بعض کا خیال تھا ( بیت ) اقصیٰ کے صحن میں غلطی ہوئی اگر میں اس ضرورت کا اظہار نہ کرتا تو حضرت صاحب کو یہ تکلیف نہ ہوتی.رکھا جائے.آخر ( بیت) کے صحن میں رکھا گیا.منشی صاحب بھی منبر کے پاس بیٹھے تھے.اس بات پر ایڈیٹر الحکم حضرت عرفانی صاحب منشی صاحب کو کہتے ہیں کہ منشی صاحب ! اگر ابھی حضور سے ملے نہیں تھے.حضور نے منبر پر چڑھتے وقت منشی صاحب کو دیکھ لیا اور

Page 14

25 24 فرمانے لگے اچھا منشی صاحب آپ آگئے ! آؤ مصافحہ تو کرلیں تکلیف تھی.اس لئے بلا نہ سکا“ اور صرف اس وقت منشی صاحب سے ہی مصافحہ کیا.اس سے اس خاص محبت کا پتہ مجھے آپ سے دلی محبت ہے چلتا ہے جو حضور کو نشی صاحب سے تھی.حضور نے کھانا بٹالہ بھیجوا دیا (الحکم کے دسمبر ۱۹۴۴ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آپ سے محبت کا ایک روح پرور واقعہ حضرت سید عزیز الرحمن صاحب بریلوی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ایک دفعہ حضرت منشی اروڑے خان صاحب اور حضرت منشی محمد خان صاحب اور ( ملفوظات جلد ۳ ص ۵۴۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام منشی صاحب اور دوسرے رفقاء کپورتھلہ کے ساتھ دلی محبت رکھتے تھے اور حضوڑ نے آپ لوگوں کو اس دنیا اور آخرت میں خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے اپنے ساتھ ہونے کی نوید سنائی اور کپورتھلہ کی جماعت سے محبت کا اظہار فرماتے وئے کپورتھلہ کو قادیان کا محلہ قرار دیا.ہو (( رفقاء ) احمد جلد ۴ صفحہ ۲۲۷) حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب نے بعض دوستوں کی غالباً کسی غفلت پر تنبیہ خاکسار عزیز الرحمن قادیان حاضر ہوئے.جب واپس جانے لگے تو حضور سے اجازت کے الفاظ تحریر فرمائے جن کو حضرت محمد خان صاحب موحوم نے اپنے متعلق گمان کیا.جب چاہی تو حضور نے فرمایا کہ کھانا پک رہا ہے کھا کر جانا.ساتھ ہی حضور ہم کو اندر لے گئے اور یہ بات حضرت مسیح موعود تک پہنچی تو آپ نے حضرت محمد خان صاحب کو اپنے دست کھانا پکتا ہوا دکھایا.وہاں سے ہم مہمان خانہ آگئے.جہاں ہمارے لئے لنگر خانہ سے کھانا مبارک سے ۲۷ جنوری ۱۸۹۴ء کو خط تحریر فرمایا.اس سے حضور کی رفقاء کپورتھلہ سے دلی آگیا ہم نے وہ کھانا کھا لیا.چونکہ ہم نے اجازت تو لے ہی لی ہوئی تھی اس لئے ہم محبت کا روح پرور ا ظہار ہوتا ہے.حضور تحریر فرماتے ہیں: کھانا کھا کر چل پڑے.بٹالہ پہنچ کر جب ہم نے ٹکٹ خرید لئے اور ریل میں بھی بیٹھ گئے زبانی اخویم منشی محمد اروڑا صاحب معلوم ہوا کہ آں محب نے اخویم مولوی حکیم تو ہم نے دیکھا کہ ایک شخص ایک یکہ کو بڑی تیزی سے دوڑاتے ہوئے آرہا ہے.چنانچہ نورالدین صاحب کی تحریر کو اپنی نسبت خیال کیا ہے.مگر حاشا و کلا ایسا نہیں ہے.آپ وہ آدمی آیا اور ہم سے کہنے لگا کہ تم کو کہا تھا کہ کھانا کھا کر جانا تم ویسے ہی چلے آئے.یہ کھانا دلی دوست اور مخلص ہیں اور میں آپ کو اور اپنی اس تمام مخلص جماعت کو ایک وفادار اور حضرت اقدس نے بھجوایا ہے.چنانچہ ہم نے اس سے وہ کھانا جس میں پلا ؤ وغیرہ شامل صادق گروہ یقین رکھتا ہوں اور مجھے آپ سے اور منشی محمد اروڑ ا صاحب اور دوسرے کپورتھلہ (الحکم ۷ دسمبر ۱۹۴۴ء) کے دوستوں سے دلی محبت ہے پھر کیونکر ہو کہ ایسی جماعت کی نسبت کوئی نا گوار کلمہ منہ سے تھا ، لے کر رکھ لیا.آواز پہچان لی نکلے.میں امید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اس دنیا و آخرت میں خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے جنوری ۱۹۰۴ء کو صبح کے وقت منشی اروڑا خان صاحب نے حضرت اقدس سے نیاز میرے ساتھ ہوں گے اور آپ ان دوستوں میں سے ہیں جو بہت ہی کم ہیں.آپ نے دلی حاصل کیا تو آپ نے فرمایا : ” میں نے آواز تو رات کو ہی شناخت کر لی تھی مگر طبیعت کو محبت سے ساتھ دیا اور ہر ایک موقع پر صدق دکھلایا پھر کیونکر فراموش ہو سکتے ہیں.چاہئے

Page 15

27 26 کہ فرصت کے وقتوں میں ہمیشہ ملتے رہیں.باقی تمام احباب کو السلام علیکم.“ (( رفقاء ) احمد جلد ۴ ص ۲۳۶) رفقاء کپورتھلہ کے لئے حضور علیہ السلام کی محبت اور شفقت کا یہ ایک زریں اور روشن اظہار ہے.منشی جی ! میں نہیں جاتا حضور کے خاص خاص دوستوں میں شامل حضرت منشی اروڑا خان صاحب کا شمار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چند خاص رفقاء میں ہوتا ہے.دہلی کے سفر میں حضور نے آپ کو کپورتھلہ سے بلوالیا.اکثر سفروں میں آپ حضور علیہ السلام کے ساتھ رہے اور کوئی موقع قربت کا جانے نہ دیتے تھے.حضور علیہ السلام بھی آپ سے محبت اور شفقت کا سلوک فرماتے اور غیر معمولی آپ سے برتا ؤرکھتے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے ساتھ جو محبت اور شفقت کا سلوک فرماتے تھے تھے.( رفقاء) کپورتھلہ کے ساتھ حضور کو ایک خاص تعلق تھا اور یہ ( رفقاء) بھی ایک اس کا ایک بہت ہی محبت بھرا واقعہ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی اس طرح رقم دوسرے سے بڑھ کر محبت اور وفا کا اظہار اپنے آقا سے رکھتے تھے.حضرت منشی ظفر احمد فرماتے ہیں: صاحب ایک روایت بیان فرماتے ہیں: ایک موقع پر جس کا محرک میں ہی تھا ایک عجیب واقعہ پیش آیا.( بیت ) اقصیٰ میں حضور کا ایک خط آیا.لفافہ پر ہم تین آدمیوں کا نام لکھا تھا.منشی اروڑا صاحب کا، جلسہ کا انتظام تھا اور مجمع کثیر تھا.حضرت اقدس اندر تشریف فرما تھے.منشی اروڑے خان محمد خان صاحب کا اور میرا.بات یہ ہوئی تھی کہ حضور کے ہاں کوئی ختنہ یا عقیقہ یا اسی قسم کی صاحب بمشکل حضرت صاحب تک پہنچے تھے.میں نے عرض کیا کہ حضوڑ باہر لوگ حضور کی کوئی تقریب تھی.اس کی اطلاع ہمیں نہیں آئی تھی.اس پر ہم تینوں نے حضور کو لکھا کہ ہمیں زیارت کے لئے بے قرار ہیں منشی جی کو خیال ہوا کہ حضرت صاحب باہر تشریف لے جائیں اس بارے میں اطلاع نہیں ہوئی اور شرف شمولیت نہیں ملا.اس کا ہمیں صدمہ ہے.اس پر گے.میری طرف بھی دیکھا اور حضرت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑ لیا جس کا مطلب یہ تھا آپ کا یہ خط آیا کہ واقعی آپ کو صدمہ ہی ہوگا.میں نے مولوی عبد الکریم صاحب کو کہہ دیا کہ باہر نہیں جانے دیتے.حضرت اقدس نے منشی صاحب کی اس خواہش کو سمجھ لیا اور انکی تھا کہ بعض خاص خاص دوستوں کو شامل ہونے کے لئے اطلاع دے دو.انہیں سہو ہو گیا جو طرف مخاطب ہو کر نہایت محبت بھرے الفاظ میں متبسم ہو کر فرمایا: آپ کو اطلاع نہیں دی اور اس کا مجھے بھی قلق ہے.“ نہیں منشی جی میں نہیں جاتا منشی اروڑے خان صاحب جب خود اس واقعہ کو بیان کرتے تو ان کی آنکھوں سے آنسو ڈبڈبا آتے اور کبھی فخریہ لہجہ میں کہتے کہ حضرت صاحب تو ہم پر اس قدر شفقت دہلی بلوالیا (( رفقاء ) احمد جلد ۴ صفحه ۲۱۸) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکتوبر ۱۸۹۱ ء میں دہلی تشریف لے گئے وہاں فرماتے تھے کہ ہم آپ کو بچوں کی طرح ضد منوانے کے لئے مجبور کرتے تھے اور آپ کبھی پہنچ کر جبکہ مخالفت زوروں پر تھی تو حضرت اقدس نے اپنے بعض فدائیوں کو دہلی آنے کا خط ہماری بات کو ر ڈ ہی نہیں کرتے تھے.(الحکم ۲۸ مارچ ۱۹۳۴) لکھا.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی بیان کرتے ہیں: دہلی سے حضور نے ایک خط بھیجا.لفافہ پر محمد خان صاحب ہنشی اروڑ ا صاحب اور

Page 16

29 28 خاکسار متینوں کا نام تھا.خط میں یہ لکھا تھا کہ یہاں کے لوگ اینٹ پتھر بہت پھینکتے ہیں اور روزہ کھولنے لگے.میں نے عرض کیا کہ حضور منشی جی کو ( منشی اروڑا خان صاحب کو ایک علانیہ گالیاں دیتے رہتے ہیں.میں بعض دوستوں کو اس ثواب میں شامل کرنا چاہتا ہوں.گلاس میں کیا ہوتا ہے.حضرت مسکرائے اور جھٹ اندر تشریف لے گئے اور ایک بڑا لوٹا اس لئے تینوں صاحب فوراً آجائیں.ہم تینوں کچہری سے اٹھ کر چلے گئے.گھر میں بھی شربت کا بھر کر لائے اور منشی جی کو پلایا.منشی جی یہ سمجھ کر کہ حضرت اقدس کے ہاتھ.شربت پی رہا ہوں پیتے رہے اور ختم کر دیا.“ نہیں آئے.رفقاء ) احمد جلد ۴ صفحه ۱۸۷) اس واقعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ( رفقاء) کپورتھلہ سے کس قدر محبت تھی کہ دہلی پہنچ کر انہیں بلا لیا اور یہ فدائی بھی ایسے تھے کہ فوراً کچہری سے دہلی کے لئے روانہ ہو گئے اور جاتے ہوئے اپنے گھروں کو بھی نہیں گئے کیونکہ آقا کا بلاوا آیا اور دیوانہ وار غلام اس کے حضور حاضر ہو گئے.(( رفقاء) احمد جلد ۴ ص ۲۲۴) منشی صاحب کے سوالوں کا جواب دینا حضرت منشی محمد اروڑا خان صاحب کے بعض سوالات اور ان کے حضرت اقدس کی طرف سے جوابات سلسلہ کے لٹریچر میں ہمیشہ کے لئے ہمارے افادہ کے لئے محفوظ ہو گئے ہیں.سوال و جواب کے سلسلہ میں بھی محبت کا عنصر غالب ہے.حضور اقدس کے ہاتھ سے شربت پیتے رہے ملفوظات جلد اول کے صفحہ اول پر حضرت منشی محمد اروڑا خان صاحب کا سوال درج رفقاء مسیح موعود علیہ السلام کی حضرت مسیح موعود اور آپس میں محبت نیز حضرت مسیح موعود ہے.۱۸۹۱ء میں جالندھر کے مقام پر منشی صاحب نے حضور اقدس سے سوال کیا کہ ایمان کی اپنے جاں نثاروں سے شفقت و محبت کا ایک بہت ہی خوبصورت واقعہ حضرت منشی ظفر کتنی طرح کا ہوتا ہے.حضور نے لطیف جواب دیتے ہوئے فرمایا: احمد صاحب روایت کرتے ہیں.ایک مرتبہ میں اور منشی اروڑے خان صاحب اور حضرت خاں صاحب محمد خاں کرے اور بار یک ایمان یہ ہے کہ میرے پیچھے ہوئے.“ صاحب لدھیانہ حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر ہوئے.رمضان کا مہینہ تھا.میں نے روزہ رکھا ہوا تھا اور میرے رفقاء نے نہیں رکھا تھا.جب ہم حضرت کی خدمت میں حاضر ”ایمان دو قسم کا ہوتا ہے.موٹا اور بار یک.موٹا ایمان تو یہی ہے کہ دین العجائز پر عمل ( ملفوظات جلد اول ص ) ایک دفعہ منشی محمد اروڑے خان صاحب نے کرتار پور کے اسٹیشن پر حضرت اقدس سے ہوئے تو تھوڑا سا وقت غروب آفتاب میں باقی تھا.حضرت کو انہوں نے کہا کہ ظفر احمد نے پوچھا کہ معجزہ کسے کہتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: روزہ رکھا ہوا ہے.حضور فوراً اندر تشریف لے گئے اور شربت کا ایک گلاس لے کر آئے اور منشی جی ! معجزہ کی ایسی مثال ہے کہ گرمی شدید پڑ رہی ہو.ایک پیر کے مرید ہوں.وہ فرمایا روزہ کھول دو.سفر میں روزہ نہیں چاہئے.میں نے تعمیل ارشاد کی اور اس کے بعد بوجہ مرید اپنے پیر سے کہیں کہ دعا کرو کہ ٹھنڈی ہوا چل جائے اور پھر اس کے بعد ٹھنڈی ہوا بھی مقیم ہونے کے ہم روزہ رکھنے لگے.چل پڑے.اس سے مریدوں کا تو ایمان بڑھتا ہے کہ ہمارے پیر نے دعا کی اور ٹھنڈی ہوا افطاری کے وقت حضرت اقدس خود تین گلاس ایک بڑے تھال میں رکھ کر لائے.ہم چل گئی مگر مخالف اس پر اعتراض کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ہوا کا کام تو چلنا ہی ہے یہ کیا معجزہ

Page 17

31 30 ہے.معجزہ کی مثال ایسی ہی ہے.“ بارہ حواریوں میں شامل ہونے کا اعزاز خاکسار اور حافظ حامد علی تھے.پھر بھی گاڑی پر اینٹ پتھر برستے رہے.جب ہم چلے تو (الحکم کے دسمبر ۱۹۴۴ء) مولوی عبد الکریم صاحب پیچھے رہ گئے.محمد خان صاحب گاڑی سے کود پڑے اور مولوی صاحب کے گرد لوگ جمع ہو گئے جو محمد خان صاحب کو دیکھ کر ہٹ گئے اور محمد خان صاحب وفات مسیح کے بارہ میں مولوی نذیر حسین دہلوی کے ساتھ مباحثہ کی تجویز ہوئی.حضور مولوی صاحب کو لے کر آئے.نے انہیں مباحثہ کا چیلنج دیا اور پھر قسم کھانے پر آمادہ کیا لیکن وہ لیت و لعل سے کام لیتارہا اور (( رفقاء) احمد جلد ۴ ص ۱۹۸) کئی قسم کی شرائط پیش کرتا رہا.حضور نے منشی ظفر احمد اور منشی اروڑے خان صاحب کو ایک خط حضور کی قبولیت دعا کے گواہ دے کر مولوی نذیر حسین کے پاس بھیجا جس میں لکھا تھا کہ کل ہم جامع مسجد دہلی پہنچ جائیں حضرت منشی اروڑا خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کئی نشانات اور گے.اگر تم نہ آئے تو خدا کی لعنت ہو گی.اصرار کے باوجود انہوں نے کوئی جواب نہ دیا.قبولیت دعا کے مور د اور گواہ تھے.خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب نزول اسیح اگلے روز حضرت اقدس اپنے بارہ حواریوں کے ساتھ جامع مسجد میں پہنچ گئے.ان بارہ روحانی خزائن جلد ۱۸ کے صفحات ۵۴۴ اور ۶ ۵۷ میں اپنی پیشگوئی بابت عبداللہ آتھم اور حواریوں میں حضرت منشی اروڑے خان صاحب بھی شامل تھے.پیشگوئی بابت مقدمه اقدام قتل از مارٹن کلارک کے گواہ کے طور پر حضرت منشی اروڑا خان ہزاروں کا مجمع تھا لیکن مولوی نذیر حسین نے حضور کی طرف سے دلائل وفات مسیح صاحب کا نام تحریر فرمایا ہے.دئے جانے کے بعد قسم کھانے سے انکار کیا جس پر انگریز افسر پولیس نے کہا کہ چلے جائیں.(۱) ایک روایت جو کہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی نے بیان فرمائی ہے اس رفقاء نے کہا کہ پہلے فریق ثانی جائے فریق ثانی مصر رہا کہ پہلے ہم جائیں.حضرت منشی کا براہ راست آپ سے تعلق ہے.بیان فرماتے ہیں: ظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ اس بارے میں کچھ قیل قال ہوتی رہی پھر کپتان پولیس ’ ایک دفعہ منشی اروڑ اصاحب محمد خان صاحب اور خاکسار قادیان سے رخصت نے قرار دیا کہ دونوں ایک ساتھ اٹھیں.ایک دوازے سے وہ اور دوسرے سے ہم چلے ہونے لگے.گرمیوں کا موسم تھا اور گرمی بہت سخت تھی.اجازت اور مصافحہ کے بعد منشی جائیں.غرض اس طرح ہم اٹھے.ہم بارہ آدمیوں نے حضرت صاحب کے گرد حلقہ باندھ اروڑ ا صاحب نے کہا کہ حضور گرمی بہت ہے.ہمارے لئے دعا فرمائیں کہ پانی ہمارے لیا اور ہمارے گرد پولیس نے.اس وقت دہلی والوں نے اینٹ پتھر بہت پھینکے مولوی نذیر اوپر اور نیچے ہو.حضور نے فرمایا خدا قادر ہے.میں نے عرض کی حضور یہ دعا انہیں کے لئے حسین پر بھی اور ہم پر بھی.ہم درے کی جانب والے دروازے سے باہر نکلے تو ہماری فرمانا میرے لئے نہیں کہ ان کے اوپر نیچے پانی ہو.قادیان سے یکہ سے سوار ہوکر ہم تینوں گاڑی جس میں ہم آئے تھے دہلی والوں نے کہیں ہٹادی تھی.کپتان پولیس نے ایک شکرم چلے تو خاکروبوں کے مکانات سے ذرا آگے نکلے تھے کہ یکدم بادل آکر سخت بارش شروع میں ہمیں سوار کرایا.کوچ بکس پر انسپکٹر پولیس، دونوں پائیدانوں پر دوسب انسپکٹر اور پیچھے ہوگئی.اس وقت سڑک کے گرد کھائیاں بہت گہری تھیں.تھوڑی دور آگے جا کر یکہ الٹ سپاہی گاڑی پر تھے.گاڑی میں حضرت صاحب محمد خان صاحب ہمنشی اروڑ ا صاحب، گیا.منشی اروڑا صاحب بدن کے بھاری تھے وہ نالی میں گر گئے اور محمد خان صاحب اور میں

Page 18

33 32 کود پڑے.منشی اروڑا صاحب کے اوپر نیچے پانی اور وہ ہنستے جاتے ہیں.“ ہائی کورٹ تک پہنچا اور اب پینشن پاتا ہوں.بہت دفعہ ہم نے دیکھا کہ حضور نے بغیر دعا (( رفقاء ) احمد جلد ۴ ص ۱۶۲) کے کوئی بات فرما دی ہے اور پھر وہ اسی طرح وقوع میں آگئی (( رفقاء) احمد جلد ۴ ص ۲۰۵) (۲) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ازالہ اوہام میں آپ کے بارہ میں جو یوں حضرت منشی اروڑا خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت اور خراج تحسین تحریر فرمایا ہے اس میں آپ کو سچائی کے عاشق اور بہادر آدمی قرار دیا ہے.خدا قبولیت دعا کے مظہر اور زندہ گواہ تھے.کے مسیح کی بات کیسے پوری ہوئی.جب یہ تحریرلکھی جارہی تھی تب آپ نقشہ نویس تھے لیکن حضرت منشی اروڑے خان صاحب نے فدائیت اور قربانی کی لازوال مثالیں قائم کی ہیں.اپنا مال اپنا نہیں سمجھا بلکہ حضرت اقدس کی خدمت میں لا ڈالنے میں سعادت سمجھا بے مثال مالی قربانیاں آپ کی سچائی اور دیانتداری کی وجہ سے سرکار نے آپ کو ترقیات دیں اور تحصیلدار ہوکر ریٹائر ہوئے اور ریاست نے خان بہادر کے خطاب سے نوازا.گویا حضرت صاحب کے الفاظ خطاب خان بہادر کی صورت میں ظاہری لحاظ سے بھی پورے ہو گئے.آپ خود بیان کرتے تھے.خود انتہائی غریبانہ اور درویشانہ زندگی گزارتے.ایک لباس ہی اپنے پاس کرتے ہیں کہ خدا نے مسیح موعود کی باتوں کو کیسا سچا ثابت کیا ہے.اس نے میرے رکھتے اور کھانے میں بھی انتہائی سادگی لیکن روپیہ جمع کر کر کے اور بچا بچا کے حضرت متعلق لکھا کہ سچائی کے کاموں کے کرنے میں یہ شخص بہادر ہے.اب بہادر پٹھان ہوتے اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جھولی میں ڈال دیا کرتے تھے.آپ کی فدائیت اور مالی ہیں میں ذات کا چھینا ( دھوبی).اس کی بات کو سچا کرنے کے لئے خدا نے مجھے خان قربانی کی بعض بے نظیر مثالیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ عشق و محبت کے صاحب کا خطاب دلوایا“ تذکرہ میں بیان ہو چکی ہیں جو ہمارے لیے قابل تقلید نمونہ ہیں.ذیل میں چند ایمان (الفضل یکم نومبر ۱۹۱۹ء) (۳) حضرت منشی ظفر احمد صاحب ایک روایت بیان کرتے ہیں.”ایک دفعہ میں اور منشی اروڑا صاحب مرحوم قادیان گئے مینشی اروڑا صاحب اس ایک روشن ترین پہلو ہے.وقت ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے سرشتہ دار تھے اور میں اپیل نویس تھا.باتوں باتوں میں میں سور و پیر کی انعامی رقم حضور کی نذر کردی نے عرض کی کہ حضور مجھے اپیل نولیس ہی رہنے دینا ہے؟ فرمایا کہ اس میں آزادی ہے.افروز واقعات آپ کی مالی قربانی کے بیان کئے جارہے ہیں جو کہ آپ کی سیرت طیبہ کا ایک دفعہ حضرت منشی اروڑا خان صاحب کو سو روپیہ انعام ملا آپ نے اپنے بھائی کو پ ایک ایک دو دو ماہ ٹھہر جاتے ہیں.پھر خود ہی فرمایا ایسا ہو کہ منشی اروڑ ا صاحب کہیں اور بلایا جو کہ درزی کا کام کرتا تھا اسے بلا کر فرمانے لگے کہ ایک روپیہ میں مجھے دو گر تے بنا دو.چلے جائیں (مطلب یہ کہ کسی اور آسامی پر ) اور آپ ان کی جگہ سرشتہ دار ہو جائیں.اس اس نے کہا کہ منشی جی یہ تو مشکل ہے.آپ نے فرمایا کہ میں تو ایک روپیہ سے زیادہ خرچ سے کچھ مدت بعد جب کہ حضور علیہ السلام کا وصال ہو چکا تھا منشی اروڑ ا صاحب تو نائب نہیں کر سکتا تب اس نے کہا کہ اچھا میں کوشش کرونگا.تحصیلدار ہو کر تحصیل بھرنگہ میں تعینات ہو گئے اور میں انکی جگہ سرشتہ دار ہو گیا.پھر منشی حضرت منشی اروڑے خان صاحب نے ایک روپیہ رکھ کر باقی ننانوے روپے حضرت صاحب نائب تحصیلداری سے پنشن پا کر قادیان جارہے اور میں سرشتہ داری سے رجسٹراری اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں بھیج دیئے.اس سے آپ کی مالی قربانی

Page 19

35 34 کے بے مثل ہونے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ خود اپنے لئے ایک حصہ اور ننانوے حصے اپنے جلسہ کی خاص بات یہ بھی ہے کہ حضور اقدس نے ان کے اسماء آئینہ کمالات اسلام کے آخر پر درج فرمائے ہیں.چنانچہ روحانی خزائن جلدہ کے صفحہ ۶۲۵ ۶۲۴ نمبر پر حضرت منشی اروڑا خان صاحب کپورتھلوی کا نام درج ہے.آقا کے لئے مقرر کئے.(الحکم ۷ دسمبر ۱۹۴۴ ء ص ۱۵ ) حضور کے قدموں میں روپیہ ڈال دیتے حضرت سید عزیز الرحمن صاحب بریلوی حضرت منشی صاحب کے قریبی دوستوں میں اس جلسہ کے موقع پر تجویز ہوا کہ اشاعت دین کی خاطر قادیان میں مطبع قائم ہونا سے تھے وہ حضرت منشی صاحب کی مالی قربانی کے شوق ، جذ بہ اور اس میں محبت کے عنصر کو چاہئے جس میں تائید دین حق کیلئے کتب اور اخبار بھی شائع ہوا کریں.اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا اور مخلصین سلسلہ نے حسب استطاعت ماہانہ اور سالانہ چندہ مطبع کے لئے لکھایا.اس طرح بیان کرتے ہیں.حضرت منشی محمد اروڑے خان صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک چندہ لکھوانے والوں میں حضرت منشی اروڑا خان صاحب بھی شامل تھے.حضور علیہ السلام عشق تھا اور وہ سب کچھ حضوڑ پر فدا کر چکے تھے.آپ کی حالت یہ تھی کہ آپ ہرممکن نے فرمایا تھا کہ اپنی خوشی سے حسب استطاعت مخلصین چندہ لکھوائیں.۲۹ دسمبر ۱۸۹۲ء کو یہ طریق سے اپنے مال کو بچاتے رہتے تھے اور اس طرح سے جمع کرتے جیسے کوئی بخیل مال چندہ لکھوایا گیا.ان مخلصین کے اسماء جن کی تعداد ۹۳ تھی آئینہ کمالات اسلام کے آخر پر کو جمع کرتا ہے اور اس روپیہ کو ایک ہمیانی ( روپے رکھنے کی تھیلی ) میں جمع کرتے جاتے اور درج ہیں.حضرت منشی محمد اروڑا خان صاحب کا نام۰ ۵ نمبر پر تحریر شدہ ہے.یوں آپ کی یہ کہیں کمیشن کی فیس اور تنخواہ میں سے جس قدر بچے سب اس ہمیانی میں ڈال دیتے.مالی قربانی تا قیامت کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام میں محفوظ ہو گئی ہے.جب وہ بھر جاتی تو میرے پاس آتے اور مجھے ساتھ لے جا کر وہ ہمیانی دکھاتے اور کہتے خدمت نہ ملنے پر ناراض ہو گئے کہ ”ہن نشہ اتر گیا ہے قادیان چلو.یہ دیکھ ہمیانی رو پے نال بھر گئی ہے.کبھی میں کہتا حضرت مسیح موعود علیہ السلوۃ والسلام نے ازالہ اوہام میں آپ کے بارہ میں یہ بیان کہ میں تو نہیں جا سکتا تو مجھے دھکا دیکر کہتے کہ ”جا اور آپ تنہا چلے جاتے اور اگر میں فرمایا ہے کہ ” خدمات کو نہایت نشاطت سے بجالاتے ہیں بلکہ وہ تو دن رات اسی فکر میں کہتا کہ میں چلوں گا تو سینے سے لگا لیتے اور کہتے تو میرا بھرا ہے چل ! اور بڑی خوشی لگے رہتے ہیں کہ کوئی خدمت مجھ سے صادر ہو جائے.“ سے قادیان کا سفر کرتے اور جب قادیان پہنچ جاتے تو حضرت مسیح موعود کے قدموں پر ہمیانی کھولتے اور حضور کے پیروں تلے روپیہ ڈال دیتے.“ اس کے مشاہدہ اور خراج تحسین کا ایک عملی مظاہر اس بے نظیر واقعہ سے ہمیں ملتا ہے کہ کس قدر حضرت منشی صاحب بے تاب رہتے تھے کہ ان سے سلسلہ کی خدمت صادر ہو (الحکم ۲۱ نومبر ۱۹۳۴ء) جائے.حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپور تھلوی کی زبانی سنئے.بیان فرماتے ہیں.ایک دفعہ حضور لدھیانہ میں تھے کہ میں حاضر خدمت ہوا.حضور نے فرمایا کہ آر مطبع کے لئے چندہ جماعت احمدیہ کا دوسرا جلسہ سالانہ ۲۷، ۲۸، ۲۹ دسمبر ۱۸۹۲ء کو قادیان دارلامان میں کی جماعت ساٹھ روپے ایک اشتہار کے صرف کے لئے جس کی اشاعت کی ضرورت تھی منعقد ہوا.اس جلسہ کے شرکاء میں حضرت منشی محمد اروڑا خان صاحب بھی شامل تھے.اس برداشت کر لے گی ؟ میں نے اثبات میں جواب دیا اور کپورتھلہ واپس آکر اپنی اہلیہ کی

Page 20

37 36 سونے کی تلڑی فروخت کر دی اور احباب جماعت میں سے کسی سے ذکر نہ کی اور ساٹھ حضرت منشی اروڑا خان صاحب کا نمبر ۹۹ پر نام تحریر شدہ ہے.روپے لے کر میں اڑ گیا اور لدھیانہ جا کر پیش خدمت کئے.چند روز بعد منشی اروڑا تمہارے رویے سے ہی اشتہارات چھپوائیں گے صاحب بھی لدھیانہ آگئے.میں وہیں تھا.ان سے حضور نے ذکر فر مایا کہ آپ کی جماعت ( رفقاء) کپورتھلہ کی استقامت، کامل ایمان اور شاندار مالی قربانی کا ایک بے مثل نے اچھے موقع پر امداد کی منشی اروڑ ا صاحب نے عرض کی جماعت کو یا مجھے تو پتہ بھی نہیں.واقعہ حضرت منشی ظفر احمد صاحب کپورتھلوی کی زبانی سنئے.آپ فرماتے ہیں: اس وقت منشی صاحب مرحوم کو معلوم ہوا کہ میں اپنی طرف سے آپ ہی روپیہ دے آیا ہوں اور وہ مجھ سے بہت ناراض ہوئے اور حضوڑ سے عرض کیا کہ اس نے ہمارے ساتھ بہت عبد اللہ آتھم کی پیشگوئی کی میعاد کے جب دو تین دن رہ گئے تو محمد خان صاحب مرحوم اور منشی اروڑا خان صاحب مرحوم اور میں قادیان چلے گئے اور بہت سے دوست بھی دشمنی کی جو ہم کو نہ بتایا.حضور نے منشی ارواڑ ا صاحب کو فر مایا.منشی صاحب خدمت کرنے آئے ہوئے تھے.سب کو حکم تھا کہ پیشگوئی کے پورا ہونے کے لئے دعائیں مانگیں.مرزا کے بہت سے موقعے آئیں گے.آپ گھبرائیں نہیں منشی صاحب اس کے بعد ایک عرصہ تک مجھ سے ناراض رہے.“ جشن جو بلی کے لئے چندہ ایوب بیگ مرحوم برادر ڈاکٹر یعقوب بیگ صاحب اس قدر گریہ وزاری سے دعا مانگتا تھا که بعض دفعہ گر پڑتا تھا، گرمیوں کا موسم تھا.محمد خان صاحب اور منشی اروڑ ا صاحب اور میں (( رفقاء ) احمد جلد چہارم ص ۱۴۱) ( بیت ) مبارک کی چھت پر سویا کرتے تھے.آخری دن معیاد کا تھا کہ رات ایک بجے کے قریب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ ابھی منشی اروڑا صاحب مرحوم نے مجھے محمد خان صاحب سے اور اپنے پاس سے کچھ ملکہ وکٹوریہ کی ڈائمنڈ جوبلی تقریبات کے سلسلہ قادیان میں بھی ۲۰ سے ۲۲ جون الہام ہوا ہے کہ اس نے رجوع حق کر کے اپنے آپ کو بچالیا ہے.۱۸۹۷ ء تک تقریبات منعقد ہوئیں.اس جلسہ کو جلسہ احباب کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے.شدید گرمی میں بیرون جات سے کثیر احباب شامل ہوئے.حضرت منشی اروڑا خان روپے لے کر جو ۳۰، ۳۵ کے قریب تھے حضور کی خدمت میں پیش کئے کہ حضور اس کے صاحب بھی اس جلسہ میں شریک ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تاریخی موقعہ متعلق جو اشتہار چھپیں وہ اس سے صرف ہوں.حضور بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ ہم پر تحفہ قیصریہ کے نام سے کتاب تالیف فرما کر خوبصورت جلد میں ملکہ معظمہ کے لئے تمھارے روپے سے ہی اشتہارات چھپوا ئیں گے.ہم نے عرض کی کہ ہم اور بھی روپے روانہ کی.اس موقع پر چھ زبانوں میں دعائیں کی گئیں.جن میں اردو، عربی، فارسی، بھیجیں گے.پشتو، پنجابی اور انگریزی زبان شامل تھی.یہ دعا ئیں روحانی خزائن جلد ۱۲ کے صفحات نمبر ہم نے اسی وقت رات کو بیت سے اتر کر آدمیوں سے ذکر کیا کہ وہ رجوع بحق ہو کر بچ ۲۸۸ تا ۲۹۸ پر درج ہیں.اس موقع پر جہاں تقاریر، چراغاں، غربا ء کوکھانا دیا گیا وہاں چندہ گیا اور صبح کو پھر یہ بات عام ہوگئی.صبح کو ہندو مسلمانوں کا ایک بہت بڑا مجمع ہو گیا کہ معلوم بھی جمع ہوا.حضرت منشی اروڑا خان صاحب بھی چندہ دینے والوں میں شامل تھے چندہ کریں کہ انتم مر گیا یا نہیں.پھر ان لوگوں کو یہ الہام سنایا گیا.اس کے بعد ہم اجازت لیکر دینے والئے ۱۳۱۸ حباب کی فہرست روحانی خزائن جلد ۱۲ کے صفحہ ۳۰۱ تا ۳۱۳ درج ہے.قادیان سے امرتسر آئے اور آکر امرتسر میں دیکھا کہ عیسائیوں نے آٹھم کا جلوس نکالا ہوا

Page 21

38 ہے.ایک ڈولا ساتھ جس میں آٹھ بیٹھا تھا اور اس ڈولے کو اٹھایا ہوا تھا اور وہ چپ چاپ ایک طرف کو گردن ڈالے بیٹھا تھا.پھر ہم کپورتھلہ چلے آئے.بہت سے آدمیوں نے مجھ سے چھیڑ چھاڑ بھی کی.ہم جب امرتسر ، قادیان سے گئے تھے تو شائع شدہ اشتہار لوگوں کو دیئے کیونکہ ہم تین دن قادیان ٹھہرے تھے اور یہ اشتہار چھپ گئے تھے.“ (( رفقاء ) احمد جلد چہارم ص ۱۵۱) یہ واقعہ ( رفقاء) کپورتھلہ کی فدائیت کا منہ بولتا ثبوت ہے جسے آب زر سے لکھا جانا چاہئے کہ بجائے پیشگوئی کے بارہ میں استفسار کرتے حضور کی خدمت میں رقم پیش کی کہ آپ پیشگوئی کی بابت اشتہار ہمارے پیسے سے شائع کروا ئیں.سبحان اللہ.اللہ تعالی ہم سب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلافت احمدیہ کے عشاق کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے کیونکہ یہی کامیابی کی راہیں ہیں.حضرت منشی اروڑے خان صاحب..........اول

Page 21