Hazrat Mufti Muhammad Sadiq Lajna

Hazrat Mufti Muhammad Sadiq Lajna

حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی زندگی للہی صدق و وفا کے جہاں عشق میں گزری،حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کے شاگرد اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس مقتدر رفیق کے احوال زندگی پر یہ پہلی سیر حاصل کتا ب ہے۔ فاضل مصنفہ نے اس کتاب میں ان ساری خوبیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جن کی بدولت اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی صاحب کو حضرت اقدس علیہ السلام کی پیاری نگاہوں کے پیار کے قابل بنادیا۔ حضرت مفتی صاحب کی تبلیغی ، تحقیقی، علمی اور ادبی خدمات ہمیشہ سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔


Book Content

Page 1

حضر میفتی محمد صادق صاحب علی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب علی اللہ

Page 2

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مفتی محمد صادق عفی اللہ تعالیٰ عنہ

Page 3

2 حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالی عنہ نام کتاب احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کیلئے حضرت مفتی محمد صادق (علی اللہ تعالی عنہ )

Page 4

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ انتساب محتر مہ رضی مومن صاحبہ کے نام رضیہ نے اپنے ابا جان پر کتاب لکھنے کی فرمائش کر کے مجھے پر بڑ احسان کیا ہے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی زندگی للہی صدق و وفا کے جہانِ عشق میں گزری.مجھے بھی اس کتاب کی تیاری اور تحریر میں مسحور کن روح پرور فضاؤں میں سانس لینے کی توفیق ملی.اللہ تعالیٰ دونوں کو جوار رحمت میں جگہ دے آمین.پوری کوشش کی ہے کہ موضوع سے انصاف کر کے اپنی سہیلی کی روح کی تسکین کا سامان کرسکوں.مولا کریم کو تاہیوں سے صرف نظر کر کے خوبیوں کو ابھارے اور اپنی رضا کی جنت عطا فرمائے.آمين اللهم آمين.3

Page 5

4 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ فہرست مضامین عنوان صفحہ نمبر 3 13 15 16 18 20 22 24 27 30 32 34 34 34 35 انتساب پیش لفظ عرض حال باب اول: ابتدائی حالات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا بابرکت دور عہد اول کے وہ احباب کرام آج کہاں پیدائش، طفولیت، بچپن تعلیم القرآن بھیرہ میں تعلیم نمبر شمار قادیان کا پہلا سفر اور شرف بیعت وہ قصیدہ میں کروں وصف مسیحا میں رقم پادری عبد اللہ آتھم والی پیشگوئی اور مفتی صاحب کا ثبات قدم ترے کوچہ میں گزرے زندگانی والدہ صاحبہ کا قبول احمدیت زمانہ قیام لاہور اور حضرت اقدس علیہ السلام کی عنایات خسروانہ 1- رباعی لکھ دی ۱۱- پاک ممبر ، نظیف مٹی ، پاک محب 1 2 3 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10

Page 6

5 36 الله الله الله الله ا ة ة 37 37 38 38 39 40 40 ه نه نه نه نه ج 41 42 42 43 43 44 44 46 46 47 48 49 52 54 حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ 111- آپ کی آمد حضرت اقدس مالی شام کی خوشیوں میں اضافہ کر دیتی ۱۷- پگڑی کے کپڑے میں کھانا ۷.آموں کی دعوت ۷۱- رضائی محمود کی اور دھسا میرا ۷۱۱- وضو کے واسطے پانی |||۷.اب وہ کتاب مل جائے گی IX- مخدوم نے خدمت کا نمونہ دکھایا چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس XI- عشاء سے فجر ہوگئی ||X- اے صادق مجھے تین بجے جگا دینا XIII - تین دن.تین سال XIV- میرا قدم حضرت اقدس علیہ السلام کے قدم کے ماتحت XV - مقابلہ مضمون نویسی XVI تحائف ایک نشان کے اول گواہ واقعات صحیحہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں نب، لفافے اور کاغذ پیارے مسیح کا پیغام اہل لاہور کے نام بشپ الفریڈ کو مسکت جواب عبرانی زبان کی تعلیم الہی تمغہ 11 12 13 14 15 16 17

Page 7

74 75 77 77 79 82 85 85 90 90 لا له لا لا له هه مان من 8 8 8 90 6 55 68 22 % 2 % 2 0 GG 69 69 64 63 60 56 57 59 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 حضور علیہ السلام سجدہ شکر میں گر گئے شام سے صبح ہوگئی محبت کا تو اک دریا رواں ہے نوجوان عاشق ، قابل تقلید ، قابل فخر حضرت مفتی صاحب کے خواب اور ان کی تعبیریں وہی ئے ان کو ساقی نے پلا دی قادیان ہجرت تعلیم الاسلام ہائی سکول میں آپ کی خدمات خطبہ الہامیہ زبانی یاد کر لیا حضرت اقدس علیہ السلام کی علمی وتحقیقی کاموں میں معاونت ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج مسٹر پگٹ اور مسٹر چارلس کے خطوط ٹالسٹائی ڈوئی فری تھنکروں میں ایک احمدی پروفیسر کلیمنٹ ریگ تبلیغ کے راستے حضرت مفتی صاحب بحیثیت ایڈیٹر بدر قادیان حضرت اقدس علیہ السلام کی قدر دانی کے انوکھے انداز 1- آپ بیٹھے رہیں 11- آپ میرے پاس بیٹھ جائیں

Page 8

7 91 92 93 93 94 95 96 96 99 99 100 101 101 105 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 11- نسخہ تجویز فرمایا 37 38 الله الله ا ا ة 39 40 41 14 - ماں سے زیادہ پیار کرنے والا وجود حسن کارگردگی پر اعتماد.آپ نے اس کام میں خوب ہمت کی ۷۱۱- معلومات درکار ہیں بزرگان اُمت کی قبور کی زیارت بچوں کی وفات پر صبر کی تلقین حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ڈاک کا انتظام وقف زندگی منظور بيت الصدق بابا نانک کی پوتھی وطن میں بے وطن تحریک وصیت پر لبیک سو فیصد وصیت الہامات لکھنے کی سعادت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور خوابوں میں حضرت مفتی 107 صاحب کا ذکر 1- مغرب سے طلوع شمس 11- ایک عزت کا خطاب سفید چڑیوں سے مراد ۱۷- مفتی محمد صادق میرے ہمراہ تھے خطوط امام بنام غلام 107 107 109 109 110 42 ته نه 43 44 45 46 444 47

Page 9

8 114 116 116 116 116 117 117 118 118 119 119 119 120 120 120 121 121 121 124 127 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 48 49 49 60 50 ذکرِ حبیب اصل میں وصل حبیب ہے ا.دوسری جماعت 11- غیر مسلم کو قربانی کا گوشت 111- بیوی کو باخبر رکھتے ۱۷- قصیدے کی شان نزول صلوٰۃ اور دُعا میں فرق ۷۱- کارکن کی صفات ۷۱۱- قادیان آنے کی ضرورت |||۷- جو راہ چل رہا ہے اُس سے راستہ پوچھنا چاہیے ۱- قرآن شریف کا ادب - منارہ بنانا کوئی معمولی بات نہیں X1- حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی XII - مدافعت کے لئے تھا XIII اذان کے وقت پڑھنا جائز ہے XIV - غیر احمدی امام کے پیچھے نماز XV وحدت شہود وحدت وجود کا مسئلہ XVI- ہر موقعہ پر السلام علیکم لکھنا حَتَّى تَوارَت بالحجاب حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کے نام درخواست باب دوم : خلافت اولیٰ میں خدمات آئینه صداقت 51

Page 10

9 130 131 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ نور صداقت اور دیگر سلسلے دعوت الی اللہ اور دورے مدرسہ الہیات کانپور اور انجمن حمایت الاسلام کے جلسوں میں شرکت 139 اور مولانا شبلی سے ملاقات مونگھیر کا تربیتی دوره جماعت احمد یہ بنارس کے جلسہ میں شرکت جلسہ احمدی لکھنؤ کا سالانہ جلسہ صدائے صادق ٹریکٹ سیریز حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی ڈاک صادق لائبریری باب سوم : خلافت ثانیہ میں خدمات اور انگلستان میں دعوت الی اللہ خلافت ثانیہ میں خدمات کلکتہ کے نواح کا دورہ نظام دکن کو حضرت خلیفہ ثانی کا تحفہ والدہ صاحبہ کی وفات کامیابی کا مفہوم آپ سورہے ہیں ادھر امام مہدی تشریف لے آئے ہیں قادیان سے روانگی کام کا آغاز ایک دہریہ سے گفتگو آپ کون سی شراب پیتے ہیں ! 141 142 147 149 149 150 151 153 155 156 156 161 164 168 169 171 52 53 21 54 55 56 57 58 59 60 08 2 233 2 64 62 63 61 65 66 67 68 69 70

Page 11

10 171 175 176 177 179 182 183 186 187 190 191 195 198 200 201 202 202 207 210 211 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 71 72 73 74 75 لام له لا لا 76 77 78 79 80 81 82 83 84 8 % % %0 00 00 00 00 00 00 2 85 86 87 88 89 90 ایک پادری صاحب سے دلچسپ مکالمہ قادیان کی یاد شاہ بلوط کے نیچے ایک ریلوے سٹیشن پر لندن میں عید الفطر لندن میں کامیابیوں پر ایک غیر از جماعت کا تبصرہ انگلستان سے واپسی کا ارشاد باب چہارم : امریکہ میں پہلے داعی الی اللہ و بانی احمد یہ مشن اللہ تعالی نے امریکہ میں کامیابی کی بشارت دی خلیفتہ امسیح کی دُعا ئیں اور پر عزم قیادت زحمت میں رحمت امریکی مسلمانوں کو نصائح سلسلہ نقار یر وسوال و جواب خدا آپ کو بہت ڈگریاں دے گا مسلم سن رائز کا اجراء سن رائز کے پہلے ٹائٹل اور ڈگریوں کا عکس حضرت مصلح موعود کا پیغام امریکی اخبارات میں مشن اور میگزین کا ذکر فرضی مکالمہ.حقیقت کو آئینہ پادریوں سے دلچسپ گفتگو خواب سے رہنمائی

Page 12

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 91 92 93 6686 94 95 96 97 98 99 100 شکا گونتقلی اور انصار اللہ کا کارواں 213 ڈیٹرائٹ میں دعوت الی اللہ اور افریقن امریکن باشندوں کے حقوق کے لئے مساعی 217 واپسی کا ارشاد واپس قادیان دارالامان میں فتوحات نمایاں باب پنجم : امریکہ سے واپسی پر قادیان اور ربوہ میں خدمات حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کے نکاح میں وکالت دنیا کی چوبیس زبانوں میں تقریریں شملہ میں ایک رومن کیتھولک سے گفتگو کولمبو کا دورہ 101 سید دلاور شاہ صاحب ایڈیٹر مسلم آؤٹ لک کا استقبال 102 جلسہ ہائے سیرۃ النبی سلایا کہ تم میں تقاریر 103 تحریک پاکستان میں قادیان کی آواز 104 ایک ڈچ قنصل قادیان میں 105 حضرت مصلح موعود کی ایک سکیم کی الہی تائید 106 تحقیق جدید متعلق به قبر مسیح 107 108 109 مہاراجہ الور کے دیوان خانے میں 1947 میں مسلمانوں پر آنے والی مصیبتوں کی وجہ دعادعا وجود ا ایام علالت میں دُعا 11- دُعا سے اولاد ہوئی 219 225 226 231 233 234 235 237 239 240 240 244 245 247 251 254 255 256 257 11

Page 13

12 257 257 258 258 259 260 262 262 263 264 265 266 267 268 271 275 276 278 282 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 111- دُعا سے صحت و سلامتی ۱۷- دعا سے مصالحت ۷.دُعا سے دوائی معلوم ہوگئی ۷۱- دُعا سے افسر تبدیل ہو گیا ۷۱۱- دُعا سے سر در دٹھیک ہو گیا 110 مسیح پاک کے محب صادق کی وفات 111 112 تصانیف شادیاں اور اولاد حضرت مفتی صاحب کے ایمان کا ارفع مقام 114 حضرت مفتی صاحب کا توکل علی اللہ 115 116 117 محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا شیدائی حضرت مفتی صاحب اور قیام ربوہ حضرت مفتی صاحب کے اوصاف حمیدہ کا ایک نمونہ بیٹیاں توڑ کے چلتے ہوئے یارانِ کہن ایک رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دامادی کا شرف ہنگری کے پروفیسر جولیس جرمانوش کی میز بانی میرے نانا جان کی پیاری یا دیں نمونه تبلیغی خطوط حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی ایک دُعا 120 121 122 123

Page 14

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيمِ پیش لفظ 13 بفضلہ تعالیٰ لجنہ اماءا کے شعبہ تصنیف و اشاعت کو صد سالہ جشن تشکر کے سلسلہ کی کتاب نمبر 97 پیش کرنے کی توفیق حاصل ہو رہی ہے.زیر نظر کتاب ”حضرت مفتی محمد صادق عفی اللہ تعالیٰ عنہ ہماری عزیزہ امتہ الباری ناصر صاحبہ نے تحریر کی ہے.جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس مقتدر رفیق پر پہلی سیر حاصل کتاب ہے.مصنفہ نے اس میں اُن ساری خوبیوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جن کی بدولت اللہ تبارک تعالیٰ نے اُن کو حضرت اقدس علیہ السلام کی پیاری نگاہوں میں پیار کے قابل بنا دیا.آپ کو اپنے جذبہ عشق اور اطاعت گزاری میں تن من دھن کی ہوش نہ رہی تھی.آپ بھیرہ کے رہنے والے تھے.بچپن درویشوں اور زاہدوں کے ماحول میں پروان چڑھا.قبولیت دُعا پر کامل یقین پیدا ہوا.محبت الہی اور محبت دین سے ان کا دل معمور تھا.پھر خدا تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا فرمائے کہ رسائی حضرت اقدس علیہ السلام تک ہوگئی.اللہ تعالیٰ نے خدمات دینیہ کے لئے وقف کی رُوح کو غیر معمولی صلاحیتوں سے نوازا اور آپ کو ملک اور بیرون ملک اشاعت دین کی سعادت حاصل ہوئی.دینِ حق کے دفاع میں تحریر و تقریر کی اثر انگیزی نے خاطر خواہ نتائج پیدا کئے جس کا اعتراف نہ صرف اپنوں نے بلکہ غیروں نے بھی دل کھول کر کیا.جیفرسن یونیورسٹی آف شکاگو کی طرف سے ڈاکٹر آف لٹریچر کی ڈگری ملنا ایک مثال ہے.جو خدا کا ہو جاتا ہے خدا بھی اس کا ہو جاتا ہے.اس خوش قسمت انسان نے اطاعت اور محبت سے کام کر کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خوشنودی حاصل کی جس کی وجہ سے آپ کا نام رہتی دنیا تک قابل رشک و تقلید نمونہ کے طور پر زندہ اور قائم و دائم رہے گا.اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے.آمین اللهم آمین.

Page 15

14 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ آپ کے مقام بلند کے متعلق حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب شہید نے ایک کشف دیکھا تھا جس میں انہوں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت مفتی صادق صاحب کو آسمان پر دیکھا تھا.( افضل 7 جنوری 1936 ء )

Page 16

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ عرض حال 15 اللہ تبارک تعالیٰ کی حمد وشکر سے لبریز دل کے ساتھ اپنے شعبہ اشاعت کے تحت چھپنے والی کتب کے شمارہ نمبر 97 کا عرض حال لکھ رہی ہوں.89-1988ء میں جشن صد سالہ تشکر کے سلسلے میں کم از کم سو کتب کی اشاعت کا منصوبہ پیش کرنے والوں کے پاس علم ، صلاحیت، کتابیں چھاپنے کا تجربہ نہ ہونے کے برابر تھا.اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمانیت کے سائے میں اس اصحاب الکہف والرقیم جیسے زمانے میں قلم کے جہاد کا موقع عطا فرمایا.الحمد للہ ہر ذرہ تن حمد میں جھکا ہوا ہے مگر شکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا.حضرت مفتی محمد صادق صاحب پر کتاب لکھنے کے لیے وسیع مطالعہ کا موقع ملا.نور ہدایت سے منور ستارے کی روشنی میں سفر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور اس کے پیاروں کی محبت میں اضافہ ہوا.دُعا ہے کہ قارئین کرام بھی ایسا ہی نفع اور لذت حاصل کریں.اس کتاب کو سنوارنے میں کے مخلصانہ مشورے بہت کام آئے.اسی طرح کے تحت کتاب کی تصحیح اور حوالوں کی جانچ پڑتال کا محنت طلب کام کرنے والوں کے لئے نہ دل سے شکر گزار ہوں.فجزاهم اللہ تعالیٰ احسن الجزاء دُعا ہے کہ رحیم و ودود خدا ہماری ہر حقیر کاوش کو اپنے فضل سے ہماری بخشش کا سامان بنادے اور ہم حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دُعاؤں کے وارث بنیں.آمین اللهم آمین.

Page 17

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ باب اوّل ابتدائی حالات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا بابرکت دور عہد اول کے وہ احباب کرام آج کہاں! 16 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے فیض یافتہ بزرگ رفقائے کرام میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب ایک قابلِ رشک نمایاں مقام پر متمکن ہیں.آپ نے اپنی تمام تر توانائیوں کے ساتھ عمر عزیز کے ساٹھ سال صف اول کے جرنیل کی طرح خدمت دین اور اعلائے کلمہ حق کے لئے جہاد کی توفیق پائی.وہ کا سر صلیب کے ایسے بازوئے شمشیر زن تھے جس نے شرق و غرب میں دہریت و تثلیث کی صفوں میں گھس کر باطل پر کاری ضربیں لگائیں.وہ میدانِ کارزار میں زہد و تقوی اور علم و معرفت کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر اترتے اور ہر محاذ پر بے جگری سے لڑتے ہوئے الہی تائید کے ساتھ فتح و ظفر سے ہمکنار ہوتے.اُن کی سرشت میں ناکامی کا خمیر نہ تھا.اُن کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور اُن کے دو خلفائے کرام کا دست راست رہنے کا شرف حاصل ہوا.وہ ہر کامیابی کو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی اور دعاؤں کا ثمر سمجھتے.اُن کا قلم سلطان القلم کے قلم سے برکت پذیر تھا.اُن کا بیان، بندہ رحمان سحر البیان مسیح زمان کے فیضان سے بہرہ یاب تھا.وہ ہفت زبان جن کی تحقیق کے لعل و جواہر روحانی خزائن میں شامل ہیں ، وہ عاجزی و انکساری کے پتلے جو جوتیوں کی غلامی میں حضرت اقدس علیہ السلام کی خوشنودی اور دُعاؤں سے تاجور ہوئے.یہ دُعا ئیں اور اعتماد آپ میں جادوئی طاقت بھر دیتے.آپ کا ہر قدم اخلاص ، قربانی اور

Page 18

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 17 فدائیت میں پہلے سے آگے اُٹھتارہا.ایک فنافی اللہ کامیاب و با مراد ہستی کی سیرت و سوانح پر ایک نظر ہمیں عشق کے اسلوب اور جاں نثاری کے آداب سکھا کر دعوت عمل دیتی رہے گی.آپ جیسے باہمت مجاہدین کو حضرت اقدس علیہ السلام اپنی صداقت کے نشان کے طور پر پیش فرماتے ہیں: الْقَيْتُ عَلَيْكَ مَحَبَّةٌ مِّلى ولتصنع على عينى" یعنی خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تیری محبت لوگوں کے دلوں میں ڈالوں گا اور میں اپنی آنکھوں کے سامنے تیری پرورش کروں گا.یہ اُس وقت کا الہام ہے کہ جب ایک شخص بھی میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا تھا.پھر ایک مدت کے بعد یہ الہام پورا ہوا اور ہزار ہا انسان خدا نے ایسے پیدا کئے کہ جن کے دلوں میں اُس نے میری محبت بھر دی.بعض نے میرے لئے جان دے دی اور بعض نے اپنی مالی تباہی میرے لئے منظور کی اور بعض میرے لئے اپنے وطنوں سے نکالے گئے اور دُکھ دیئے گئے اور ستائے گئے اور ہزار ہا ایسے ہیں کہ وہ اپنے نفس کی حاجات پر مجھے مقدم رکھ کر اپنے عزیز مال میرے آگے رکھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ اُن کے دل محبت سے پر ہیں اور بہتیرے ایسے ہیں کہ اگر میں کہوں کہ وہ اپنے مالوں سے بکلی دست بردار ہو جائیں یا اپنی جانوں کو میرے لئے فدا کریں تو وہ طیار ہیں.جب میں اِس درجہ کا صدق اور ارادت اکثر افراد اپنی جماعت میں پاتا ہوں تو بے اختیار مجھے کہنا پڑتا ہے کہ اے میرے قادر خدا! در حقیقت ذرہ ذرہ پر تیرا تصرف ہے.تو نے ان دلوں کو ایسے پر آشوب زمانہ میں میری طرف کھینچا اور اُن کو استقامت بخشی یہ تیری قدرت کا نشان عظیم الشان ہے.“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 239-240) بھیرہ کی مٹی سے اُٹھنے والا یہ سنگریزہ کس طرح پاک ہاتھوں میں پروان چڑھتا ہوا آغوش احمد میں آکر قیمتی ہیرا بن گیا.اس کہانی کا آغاز بے حد مبارک تھا.وقت صدیوں سے اس جو ہر کی

Page 19

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ پرورش کر رہا تھا.18 حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت عثمان بن عفان خلیفہ ثالث رضی اللہ عنہ کی نسل سے تھے.آپ کے بزرگ عرب سے ایران آئے اور پھر سلطان محمود غزنوی کے زمانے میں پنجاب اور ملتان اور پاکپتن میں مقیم ہوئے اور عموماً حکومت وقت کی طرف سے قاضی کے عہدہ پر سرفراز رہے.حضرت اور نگ زیب کے زمانے میں اس خاندان کے ایک عالم دین بھیرہ کے مفتی بنے اور یہیں آباد ہو گئے.“ پیدائش،طفولیت اور بچپن تاریخ احمدیت جلد 9 ص 3) آپ 11 جنوری 1872ء کو صبح ساڑھے چھ بجے بھیرہ میں پیدا ہوئے.( بھیرہ پہلے ضلع شاہ پور میں تھا اب ضلع سرگودھا میں ہے ) بھیرہ میں مفتیوں کے چار پانچ گھر ایک ہی محلہ میں تھے.اس لئے وہ مفتیوں کا محلہ“ کہلاتا تھا.آپ کے والد صاحب کا اسم گرامی مکرم مفتی عنایت اللہ صاحب اور والدہ کا نام حضرت فیض بی بی صاحبہ تھا.(آپ کے والد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی سے پہلے فوت ہو گئے تھے ) آپ کی والدہ صاحبہ کے دس بچے پیدا ہوئے جو کم عمری میں فوت ہو جاتے تھے.وہ پیری مریدی کی قائل تھیں.قبروں مزاروں پر جاتیں منتیں مرادیں مانگتیں مگر مسلسل نامرادی سے مزاروں سے مانگنے سے بدظن ہو کر مالک حقیقی سے مانگنے لگیں.مولا کریم نے دُعاؤں کو سنا اور مفتی محمد صادق جیسا قابل فخر اور باعمر بیٹا عطا فر مایا.حضرت مفتی صاحب اپنی پیدائش اور ایام طفولیت کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں: "خدا کی رحمت اور بخشش ہو حضرت والد صاحب مرحوم اور والدہ مرحومہ پر جن کی توجہ ہمیشہ علماء ، فقراء اور صوفیاء کی صحبت کی طرف رہی اور ہنوز میں ابھی پیدا بھی نہ ہوا تھا کہ والدہ محترمہ اپنے وطن کے زاہدوں اور عابدوں اور درویشوں سے میری صلاحیت کے واسطے خواستگار دُعا ہوا کرتی تھیں.قرآن خوانی اور درود و وظائف کی آوازوں کے

Page 20

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ درمیان میری پیدائش ہوئی.صلحاء نے آکر میرے کان میں سب سے اوّل بذریعہ آذان کلمہ توحید کی تبلیغ پہنچائی قوم کے بزرگوں کو القاء ہوا کہ میرا نام محمد صادق ہو.اس سارے شہر میں، جس میں میں پیدا ہوا، یہ نام مجھ سے قبل کسی کا اُس وقت نہ تھا.میری پیدائش کئی ایک پاک نفس صلحاء کی دُعاؤں کا نتیجہ تھی.فالحمد لله ثم الحمد للہ.عالم بچپن میں اگر مجھے اسباق یاد نہ ہوتے اور اُستاد کی ناراضگی کا خوف ہوتا تو میری دُعا میرے خوف کی دُوری کے سامان پیدا کر دیتی.اگر میرا کوئی بزرگ یا اُستاد بیمار ہوتا تو میں اس کی صحت کے واسطے دُعا کرتا اور فوراً اُسے صحت پاتے دیکھ لیتا اگر چہ میں اس کا ذکر کسی سے نہ کرتا مگر قبولیت دعا کی خوشی میرے قلب کو اللہ تعالیٰ کی حمد سے بچپن میں ہی پر رکھتی تھی.فالحمد للہ ثم الحمداللہ.بہت ہی بچپن کی بات ہے کہ ہمسایہ میں ایک قبیلہ کی عورتوں نے مجھ سے بے جا تمسخر کیا اور مجھے رُلایا اور میں نے اُن کے حق میں بددُعا کی اور وہ سب کی سب ایک لکڑی کے ٹوٹنے سے جس پر وہ بیٹھی تھیں گریں اور زخمی ہوئیں.نہ صرف مسجد میں جا کر دُعا کرتا بلکہ اپنی ہر خلوت میں، چلتے ہوئے بستر میں لیٹتے ہوئے میں اپنے لئے اور دوسروں کے واسطے متفرق دُعائیں کرتا اور ان کو قبول ہوتے دیکھتا.“ تحدیث بالنعمه از مفتی محمد صادق صاحب ص 2 تا 4) 19 اس طرح کم عمری سے ہی اپنے خالق و مالک سمیع و بصیر خدا کا چہرہ آپ پر روشن ہونے لگا.فطری طور پر سچائی اور نور نبوت کی تلاش کا رجحان پیدا ہوا.دس بارہ سال کی عمر میں جولڑکپن کی بے فکری اور کھیل کود کی عمر ہوتی ہے آپ کی سوچ میں سنجیدگی نظر آنے لگی.اپنے ساتھی لڑکوں سے ایک دفعہ کہا: ”ہم عجیب زمانے میں پیدا ہوئے ہیں کہ نہ کوئی اس زمانہ میں نبی ہے نہ بادشاہ

Page 21

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ ہے.سب کچھ قصوں میں پڑھتے ہیں دیکھنے میں کچھ نہیں آتا.“ 20 یہی آرزو تھی جس کی آسمان نے دستگیری کی اور نورحق کی طرف آپ کی راہیں کھلنے لگیں.سب پہلے ایک شخص حکیم احمد دین صاحب سے یہ ذکر سنا کہ قادیان میں ایک مرزا صاحب ہیں جن کو الہام ہوتے ہیں یہ 1885ء کا زمانہ تھا.آپ کے لئے یہ بات بہت تعجب خیز تھی کیونکہ سننے میں یہی یا تا کہ الہام کا دروازہ بند ہو چکا ہے.انوکھی بات ہونے کی وجہ سے ذہن میں رہ گئی.ایک اچھی بات یہ ہوئی کہ بھیرہ میں حضرت حکیم نور الدین صاحب (خلیفہ اسیح الاوّل) کا مکان آپ کے مکان کے بہت قریب تھا.قرابت داری بھی تھی.حضرت حکیم صاحب کی پہلی بیوی محترمہ فاطمه بی بی صاحبہ جو مکرم مفتی شیخ مکرم صاحب قریشی عثمانی بھیروی کی صاحبزادی تھیں مفتی صاحب کی رشتے میں خالہ تھیں.گھریلو تعلق کی وجہ سے آپس میں آنا جانا تھا.اس طرح بعد میں صدیق کے مقام پر فائز ہونے والے نادر وجود سے شناسائی کا شرف حاصل تھا.آپ کو بچپن کا ایک واقعہ یاد تھا کہ ایک دفعہ حضرت حکیم صاحب کے گھر گئے تو انہوں نے ایک چھوٹا سا سبز رنگ کا قلمدان تحفہ دیا.بچے کو دیا گیا یہ تحفہ ایک اشارہ غیبی ثابت ہوا.بعد میں آپ کو تمام عمر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی فوج میں قلم کے ہتھیار سے جہاد کا موقع ملا.بچپن کی یادوں میں یہ بھی محفوظ تھا کہ ایک دفعہ دوا پکڑنے کے لیے بایاں ہاتھ آگے بڑھایا تو حضرت حکیم صاحب نے ٹوک دیا کہ دایاں ہاتھ آگے بڑھانا چاہیے.تعلیم القرآن مفتی صاحب کے والد صاحب کو بچے کو قرآن کریم پڑھانے کا بہت شوق تھا.اس غرض سے سب سے پہلے جس اُستاد پر نظر مظہری وہ حضرت حکیم نورالدین تھے مگر اُن دنوں وہ جموں میں رہائش رکھتے تھے.بچے کی اچھی تعلیم کی خاطر فیصلہ کیا کہ بیٹے کو جموں بھیج دیا جائے.چنانچہ 1888ء میں کمزوری صحت کے باوجود خود بیٹے کو لے کر جموں گئے اور حکیم صاحب کے حوالے کر کے کہا:

Page 22

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 21 سپردم بتو مایه خویش را آپ نے فرمایا : اللہ کے سپرد.اللہ کے سپرد.اس زمانے میں آپ کی نشست گاہ اور مطب دونوں شیخ فتح محمد صاحب کے مکان پر تھے جس میں مختصر سے دو کمرے اور سامنے ایک لمبا پلیٹ فارم تھا اور زنانہ مکان تھوڑے فاصلے پر محلہ کے اندر ایک مسجد کے پاس تھا.آپ اُن دنوں ایک سخت بیماری سے شفا یاب ہوئے تھے اور کمزوری کے آثار نظر آ رہے تھے.چہرہ بھی زردی مائل تھا اس بیماری کے دوران قادیان سے آپ کے محبوب دوست حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام بیمار پرسی کے لئے تشریف لائے تھے اور تین دن وہاں قیام فرمایا تھا.اپنے جموں پہنچنے سے پہلے حضرت صاحب نے آپ کو اطلاع دی کہ مجھے بشارت دی گئی ہے کہ میرے وہاں پہنچنے سے پہلے آپ کو آرام ہوگا اور ایسا ہی ہوا.مفتی صاحب نے یہ ذکر کئی بار سنا.اللہ تعالیٰ سے اس قدر قریبی اور زندہ تعلق کی باتیں سن کر بہت متعجب اور متاثر ہوئے.حضرت حکیم صاحب کے اُس اللہ والے دوست کو دیکھا نہیں تھا مگر ایک اُنسیت اور حسن ظن پیدا ہو گیا.باغ میں ملت کے ہے کوئی گل رعنا کھلا آئی ہے بادِ صبا گلزار سے مستانہ وار ( در ثمین) آپ اس غیر معمولی نعمت کے حصول پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے فرماتے ہیں: یہ اس کا فضل اور احسان ہے کہ چھوٹی ہی عمر میں مجھے حضرت مولوی نور الدین اعظم جیسے باخدا انسان کی صحبت کا موقع ملا.جموں اور کشمیر میں کئی ماہ آپ کی خدمت میں سفر اور حضر میں رہ کر مجھے آپ کی پاک زندگی کے دیکھنے اور اس کے طرز کو اختیار کرنے کا موقع نصیب ہوا.ہنوز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو میں نے نہ دیکھا تھا کہ آپ کی آمد کی

Page 23

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 22 خبر مجھے دی گئی اور آپ کی سچائی مجھ پر ظاہر کی گئی اور اس کے قبول کرنے کی مجھے تو فیق بخشی گئی.فالحمد لله ثم الحمد لله تحديث بالنعمة از مفتی محمد صادق صاحب ص 4) اس زمانے کی حضرت حکیم صاحب کی شفقتوں کو یاد کرتے ہوئے مفتی صاحب لکھتے ہیں : ” جب میں چھوٹا بچہ تھا چودہ پندرہ برس کا ہوں گا تو مجھے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کے لئے جموں بھیج دیا گیا...حضرت حکیم صاحب مجھ سے بے حد محبت کرتے تھے اور مجھے اپنے بیٹوں کی طرح رکھتے تھے ان کے میرے ساتھ طرز عمل سے عام لوگ یہی سمجھتے تھے کہ میں ان کا بیٹا ہوں.(لطائف صادق مرتبه شیخ محمد اسمعیل پانی پتی ص5) جموں میں چھ ماہ قیام کیا.اس مختصر عرصے میں جو تعلق قائم ہوا وہ استاد شاگرد سے بڑھ کر باپ بیٹے کی طرح تھا.آپ ساری عمر ایک مودب بیٹے کی طرح حضرت مولانا نورالدین صاحب کی عزت کرتے تھے.تحریر میں آپ کے نام کے ساتھ ابی المکرم لکھتے تھے.جموں سے واپسی پر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے ساتھ سیالکوٹ تک آئے اور پھر واپس بھیرہ پہنچ گئے.بھیرہ میں تعلیم آپ کے والد صاحب نے مزید تعلیم کے لئے علی گڑھ سکول میں داخل کرانے کا ارادہ کیا اور اس مقصد کے لئے سرسید احمد خان صاحب سے خط و کتابت کی.انہوں نے جواب دیا کہ اگر حکیم نورالدین صاحب بچے کی لیاقت ، استعداد اور ذہانت کی تصدیق کریں گے تو داخلہ مل جائے گا.مگر حضرت نے ایسی کوئی سند نہ دی.داخلہ نہ ملا.اس طرح ایک سعید فطرت بچے کے لئے علی گڑھ کے دروازے نہ کھلے اُسے تو اللہ تعالیٰ نے قادیان لانا تھا.(استفاده بدر 18 نومبر 1912ء) علی گڑھ کا ارادہ ترک کر کے بھیرہ سکول میں داخل ہو گئے.آپ کو اس زمانے کا حضرت حکیم صاحب کی عمومی تربیت کا ایک دلچسپ واقعہ یا درہا.ایک دفعہ آپ جموں سے بھیرہ آئے ہوئے

Page 24

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 23 تھے، آپ کے ہاتھ میں ایک کتاب دیکھی.دریافت فرمایا کہ کون سی کتاب پڑھتے ہیں ؟ عرض کیا مورل ریڈر فرما یا مورل ریڈر کے کیا معنی ہیں؟ آپ نہ بتا سکے اور کہا کہ اساتذہ ہمیں کتاب پڑھاتے ہیں مگر کتاب کے نام کی وجہ تسمیہ اور ترجمہ نہیں پڑھاتے.فرمایا.کل پوچھوں گا.آپ نے اگلے روز بتا یا کہ اس کے معنی ہیں ادب آموز کتاب شاگرد نے اس واقعہ سے الفاظ پر غور وفکر کی عادت اپنائی اور آئندہ اپنے شاگردوں کو کتابوں کے نام کی وجہ تسمیہ بھی بتاتے رہے.1889ء میں جب کہ آپ ہائی سکول بھیرہ میں زیر تعلیم تھے ایک رات اپنے مکان کی چھت پر سور ہے تھے کہ ایک حیرت انگیز خواب دیکھا.فرماتے ہیں: میں دیکھتا ہوں کہ ایک ستارہ مشرق سے نکلا اور میرے دیکھتے دیکھتے وہ اُوپر کو چلا جتناوہ آگے بڑھتا ہے اُس کا قد اور روشنی بڑھتے جاتے ہیں یہاں تک کہ وہ ٹھیک آسمان کی چوٹی پر پہنچا اس وقت وہ چاند کے برابر بڑا اور روشن ہو گیا وہاں پہنچ کر اُس نے چکر لگانا شروع کیا اُس کے چکر کا ہر دائرہ پہلے سے بڑا اور زیادہ تیز رفتار تھا یہاں تک کہ اُس کا چکر اُفق تک پہنچا جہاں زمین و آسمان ملے ہوئے نظر آتے ہیں.یہاں اُس کے چکر ایسے روشن اور تیزی کے ساتھ ہوئے کہ اُس کی ہیبت نے مجھے بیدار کر دیا اور میں اُٹھ کر (ذکر حبیب ص 3) بیٹھ گیا.“ صبح آپ نے یہ رویا اپنے استاد حضرت مولانا نورالدین صاحب اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو لکھ کر بھیج دیا.حضرت مولانا صاحب نے تعبیر بتائی کہ ایسار و یا اس وقت دکھایا جاتا ہے جب کوئی عظیم مصلح ظاہر ہونے والا ہوتا ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے جواب دیا: گا " آپ کا خط ملا جس میں آپ نے رویا کی تعبیر دریافت کی تھی میری طبیعت ان دنوں علیل ہے.اس واسطے میں توجہ نہیں کر سکتا بشرط یاددہانی میں آپ کو پھر جواب لکھوں (ذکر حبیب ص 3)

Page 25

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 24 یہ اُس وقت کی بات ہے جب حضرت اقدس ماموریت کا دعویٰ فرما چکے تھے اور سلسلہ بیعت جاری ہو چکا تھا.آپ نے فوراً اس خواب کو خود پر چسپاں نہ کیا جس کی وجہ سے مفتی صاحب کی نظروں میں آپ کے مقام و مرتبے میں بہت اضافہ ہوا.قادیان کا پہلا سفر اور شرف بیعت 1890ء میں آپ نے انٹر پاس کر لیا اور حضرت مولانا نورالدین صاحب کی وساطت سے جموں ہائی سکول میں انگلش کے ٹیچر مقرر ہوئے.اُسی سال کے آخر میں آپ نے قادیان دارالامان کا پہلا سفر کیا اور بیعت سے مشرف ہوئے.چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں: 1890ء میں یہ عاجز امتحان انٹرنس پاس کر کے جموں گیا.اور وہاں مدرسہ میں ملازم ہو گیا.ایک اور مدرس جو میرے ہم نام تھے ( مولوی فاضل محمد صادق صاحب مرحوم ) میرے ساتھ اکٹھے رہتے تھے.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب ”فتح اسلام، جموں میں پہنچی (غالباً وہ پروف کے اوراق تھے جو قبل اشاعت حضرت مولوی نور الدین صاحب....کو بھیج دیئے گئے تھے ) اس کتاب میں حضرت صاحب نے پہلی دفعہ بالوضاحت عیسی ناصری کی وفات اور اپنے دعوی مسیحیت کا ذکر کیا.وہ کتاب میں نے اور مولوی محمد صادق صاحب نے مل کر پڑھی.اور میں نے اس پر چند سوالات لکھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجے.جن کے جواب کے متعلق حضرت مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم نے اُن دنوں جموں میں تھے مجھے زبانی فرمایا کہ عنقریب ایک کتاب شائع ہوگی.اس میں ان سب سوالوں کے جواب آجائیں گے.اس کے بعد اسکول میں کسی رخصت کی تقریب پر میں قادیان چلا آیا.غالباً دسمبر 1890ء تھا.سردی کا موسم تھا.بٹالہ سے میں اکیلا ہی یکہ میں سوار ہو کر آیا.اور بارہ آنہ کرایہ دیا.حضرت مولانا نورالدین صاحب.....نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام ایک سفارشی خط دیا تھا.حضرت کے مکان پر پہنچ کر وہ خط میں نے اُسی وقت اندر بھیجا.حضرت صاحب فوراً باہر تشریف

Page 26

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 25 لائے فرمایا.مولوی صاحب نے اپنے خط میں آپ کی بہت تعریف کی ہے.مجھ سے پوچھا کیا آپ کھانا کھا چکے ہیں.تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر اندرون خانہ تشریف لے گئے.اُس وقت مجھ سے پہلے صرف ایک اور مہمان تھا.(سید فضل شاہ صاحب مرحوم ) اور حافظ شیخ حامد علی صاحب مہمانوں کی خدمت کرتے تھے اور گول کمرہ مہمان خانہ تھا.اس کے آگے جو تین دیواری بنی ہوئی ہے ، اُس وقت نہ تھی.رات کے وقت اس گول کمرہ میں عاجز راقم اور سید فضل شاہ صاحب سوئے.نماز کے وقت حضرت صاحب ( بیت ) مبارک میں جس کو عموماً چھوٹی (بیت) کہا جاتا ہے تشریف لائے.آپ کی ریش مبارک مہندی سے رنگی ہوئی تھی.چہرہ بھی سرخ اور چمکیلا.سر پر سفید بھاری عمامہ.ہاتھ میں عصا تھا.دوسری صبح حضرت صاحب زنانہ سے باہر آئے.باہر آ کر فرمایا کہ سیر کو چلیں.سید فضل شاہ صاحب (مرحوم) حافظ حامد علی صاحب (مرحوم) اور عاجز راقم ہمراہ ہوئے.کھیتوں میں سے اور بیرونی راستوں میں سے سیر کرتے ہوئے گاؤں کے شرقی جانب چلے گئے.اس پہلی سیر میں میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کیا کہ گناہوں میں گرفتاری سے بچنے کا کیا علاج ہے؟ فرمایا: موت کو یا درکھنا.جب آدمی اس بات کو بھول جاتا ہے کہ اُس نے آخر ایک دن مر جانا ہے تو اس میں طول امل پیدا ہوتا ہے.لمبی لمبی اُمیدیں کرتا ہے کہ میں یہ کرلوں گا اور وہ کرلوں گا اور گناہوں میں دلیری اور غفلت پیدا ہو جاتی ہے.سید فضل شاہ صاحب مرحوم نے سوال کیا کہ یہ جولکھا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام اُس وقت آئے گا جبکہ سورج مغرب سے نکلے گا.اس کا کیا مطلب ہے.فرمایا: یہ تو ایک طبعی طریق ہے کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے.مغرب میں غروب ہوتا ہے.اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی.مراد اس سے یہ ہے کہ مغربی ممالک کے لوگ اس زمانہ میں دین اسلام کو قبول کر نے لگ جائیں گے.چنانچہ سنا گیا ہے کہ لور پول میں چند ایک انگریز مسلمان ہو گئے ہیں.جو کچھ

Page 27

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 26 باتیں اُس سفر میں ہوئیں، اُن میں سے یہی دو باتیں مجھے یاد ہیں.میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ کیا چیز تھی جس نے مجھے حضرت صاحب کی صداقت کو قبول کرنے اور آپ کی بیعت کر لینے کی طرف کشش کی.سوائے اس کے کہ آپ کا چہرہ مبارک ایسا تھا جس پر یہ گمان نہ ہوسکتا تھا کہ وہ جھوٹا ہو.دوسرے یا تیسرے دن میں نے حافظ حامد علی صاحب سے کہا کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.حضرت صاحب مجھے ایک علیحدہ مکان میں لے گئے.جس حصہ زمین پر نواب محمد علی خان صاحب کا شہر والا مکان ہے اور جس کے نیچے کے حصہ میں مرکزی لائبریری رہ چکی ہے، جس کے بالا خانہ میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رہ چکے ہیں.( آج کل اگست 1935ء میں وہ بطور مہمان خانہ استعمال ہوتا ہے ) اس زمین پر اُن دنوں حضرت کا مویشی خانہ تھا.گائے ، ہیل اُس میں باندھے جاتے تھے اس کا راستہ کو چہ بندی میں سے تھا.حضرت صاحب کے اندرونی دروازے کے سامنے مویشی خانہ کی ڈیوڑھی کا دروازہ تھا.یہ ڈیوڑھی اُس جگہ تھی ، جہاں آج کل لائبریری کے دفتر کا بڑا کمرہ ہے.اس ڈیوڑھی میں حضرت صاحب مجھے لے گئے اور اندر سے دروازہ بند کر دیا.اُن ایام میں ہر شخص کی بیعت علیحدہ علیحدہ لی جاتی تھی، ایک چارپائی بچھی تھی اس پر مجھے بیٹھنے کو فرمایا.حضرت صاحب بھی اس پر بیٹھے، میں بھی بیٹھ گیا.میرا دایاں ہاتھ حضرت صاحب نے اپنے ہاتھ میں لیا اور دس شرائط کی پابندی کی مجھ سے بیعت لی.دس شرائط ایک ایک کر کے نہیں دہرائیں.بلکہ صرف دس شرائط کہہ دیا....“ ذکر حبیب صفحہ 4 تا 6 از حضرت مفتی محمد صادق صاحب مطبوعہ 1936 ء) اسی زمانے کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: ” جب میں پہلی دفعہ قادیان آیا جو کہ غالباً دسمبر 1890ء کے آخر میں تھا.اس وقت میں اُس کمرے میں ٹھہرایا گیا، جسے گول کمرہ کہتے ہیں.اس کے آگے وہ تین دیواری نہ تھی جواب ہے.اس وقت یہی مہمان خانہ تھا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہیں بیٹھ کر

Page 28

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ و, مہمانوں سے ملتے تھے.یا اس کے دروازے پر میدان میں چار پائیوں پر بیٹھا کرتے تھے.اس کے بعد بھی دو تین سال تک وہی مہمان خانہ رہا.اس کے بعد شہر کی فصیل جب فروخت ہوئی تو اُس کو صاف کر کے اس پر مکانات بننے کا سلسلہ جاری رہا اور وہ جگہ بنائی گئی جہاں اب مہمان خانہ ہے.پہلے اس میں حضرت خلیفہ امسیح اول رہا کرتے تھے.جب حضرت خلیفہ المسیح اول نے دوسری طرف مکان بنالئے تو یہ مکان مہمانوں کے استعمال میں آنے لگا.میں اس مہمان خانہ میں بھی مقیم رہا.پھر جب مولوی محمد علی صاحب کے واسطے بیت المبارک کے متصل اپنے مکان کی تیسری منزل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کمرہ بنوایا تو جب تک مولوی محمد علی صاحب کی شادی نہیں ہوئی مجھے بھی اُسی کمرے میں حضرت صاحب ٹھہرایا کرتے.“ ذکر حبیب صفحہ 8 از حضرت مفتی محمد صادق صاحب مطبوعہ 1936ء) 313 صحابہ ء کرام میں آپ کا نمبر 69 ہے.27 (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 ص 544) تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 452 پر آپ کی تاریخ بیعت 31 جنوری 1891ء درج ہے.وہ قصیدہ میں کروں وصف مسیحا میں رقم “ بیعت کے بعد اپنی ملازمت پر واپس جموں گئے تو حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کے بارے میں چھوٹی چھوٹی تفصیل پوچھی اور بہت دلچسپی کا اظہار کیا جس سے آپ کے دل میں یہ تحریک ہوئی کہ دیگر احباب کو بھی اسی قدر دلچسپی ہوگی.چنانچہ آپ کو بیگن لگ گئی کہ جو کچھ دیکھیں باریک بینی سے دیکھیں اور نوٹ کر لیں پھر تفصیل سے دوسروں کو آگاہ کریں.چنانچہ آپ نے نوٹ لینے اور دور و نزدیک شہروں بلکہ ملکوں تک حالات لکھ کر بھیجنے شروع کر دیئے.اسی شوق اور لگن نے بعد میں اخبار الحکم اور بدر میں ذکر حبیب کے سلسلوں کی طرف

Page 29

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 28 رہنمائی کی.یہ شوق وقت کے ساتھ بڑھتا گیا.جولائی 1899 ء میں ایک معزز افسر قادیان آ کر حضرت اقدس علیہ السلام سے ملے.آپ نے اس مہمان اور دوسرے احباب کو مخاطب کر کے مختصر خطاب فرمایا.حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں: یہ گفتگو ایسی مفید اور کارآمد باتوں پر مشتمل تھی کہ میں نے اکثر فقروں کو اپنی عادت کے موافق اُسی وقت اپنی نوٹ بک میں جمع کیا اور بعد میں مجھے خیال آیا کہ بذریعہ اخبار الحکم میں دوسرے احباب کو بھی اس پر لطف تقریر کے مضمون سے حظ اٹھانے کا موقع دوں.لہذا ان فقرات کی مدد سے اپنی یادداشت کے ذریعہ میں نے مفصلہ ذیل عبارت ترتیب دی ہے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ 206 ایڈیشن 2003 ء مطبوعہ ربوہ ) آپ کے اس مفید شوق سے حضرت اقدس علیہ السلام کے فرمودات محفوظ ہوتے گئے.اللہ تعالیٰ نے تحریر پر قدرت عطا فرمائی تھی.خوبی سے قلمبند کیا ہوا یہ خزانہ آئندہ نسلوں پر ایک احسان عظیم ثابت ہوا.حضرت اقدس علیہ السلام کے شب و روز معمولات طعام ، معمولات سفر اور معمولات سیر غرضیکہ ہر لمحہ آپ کی مشتاق نگاہوں سے دل میں اُتر جاتا اور مشاق قلم سے صفحہ ء قرطاس پر کندہ ہو جاتا.آپ کے اس شوق کو احکام کی فائلوں کے مطالعہ نے بھی ہوادی.کتاب نزول مسیح کی تصنیف کے دنوں میں بعض نشانات درج کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مفتی صاحب کو ارشاد فرمایا کہ نشانات کی ایک فہرست بنائیں.وہ عاشق صادق جو اس تاک میں رہتے تھے کہ خدمت کی راہیں ملیں تو سر دھڑ کی بازی لگا دیں اس کام میں لگ گئے.اپنی کیفیت اس طرح تحریر فرماتے ہیں: اس کتاب کی تکمیل کے واسطے یہ بھی ضروری سمجھا گیا کہ ان نشانات میں سے بعض کی ایک فہرست اس میں درج کی جائے.جو حضرت حجتہ اللہ کے ہاتھ پر ظاہر ہو

Page 30

29 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ چکے ہیں.اس امر کے واسطے اس عاجز کو بھی حکم ہوا کہ بعض نشانات کو متفرق کتابوں وغیرہ سے جمع کر کے ان کی ایک یادداشت بنا کر امام برحق کی خدمت میں پیش کروں تا کہ اس جہاد دینی میں میرے لئے کچھ ثواب کا حصہ ہو.اس امر کے واسطے مجھے ضرورت ہوئی کہ میں اخبار الحکم کے گزشتہ پرچوں سے کچھ مدد لوں.چنانچہ میں نے دفتر 'الحکم سے سارے فائل منگوائے اور ان کو دیکھنا شروع کیا.مطلب تو اپنے مطلب ہی سے تھا لیکن ورق گردانی کرتے ہوئے کبھی اس سُرخی اور کبھی اُس سرخی پر نظر پڑ کر میرے دل پر اس با قاعدہ ریکارڈ کا ایک عجیب اثر ہوا اور اخبار کے کالموں میں اُن سالوں کے لئے اس پاک سلسلہ کی ایک محفوظ تاریخ دیکھ کر بے اختیار قلب میں ایڈیٹر الحکم کا شکریہ اور اس کے واسطے دُعائے خیر نکلی.“ (ذکر حبیب صفحہ 102 ) نزول المسیح کے لئے جو فہرست اور نقشہ پیشنگوئیوں کا آپ نے تیار کیا وہ ہی حضرت اقدس علیہ السلام نے مناسب اصلاح کے بعد کتاب میں شامل فرمایا.(ذکر حبیب صفحہ 158) ’1890ء کا آخیر یا 1891ء کا ابتدا تھا جب سے مجھے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دست بیعت ہونے اور آپ کی غلامی میں شامل ہونے کا فخر حاصل ہے.تب سے ہمیشہ میری یہ عادت رہی ہے کہ آپ کے مقدس کلمات کو نوٹ کرتا اور لکھ لیتا اور اپنی پاکٹ بکوں میں جمع کرتا اور اپنے مہربانوں اور دوستوں کو کشمیر، کپورتھلہ ، انبالہ، لاہور، سیالکوٹ، افریقہ اور لندن روانہ کرتا جس سے احباب کے ایمان میں تازگی آتی اور میرے لئے موجب حصول ثواب ہوتا.مدتوں لاہور میں یہ حالت رہی کہ جب احباب ئن پاتے کہ یہ عاجز دارالامان سے ہو کر آیا ہے تو بڑے شوق اور التزام کے ساتھ ایک جگہ اکٹھے ہوتے اور میرے گرد جمع ہو جاتے جیسا کہ شمع کے گرد پروانے.تب میں انہیں وہ روحانی غذا دیتا جو کہ میں اپنے امام کے پاس سے جمع کر کے لے جاتا اور ان کی پیاسی

Page 31

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ روحوں کو اس آپ زُلال کے ساتھ سیر کر دیتا کہ اُن کی تشنگی اور بھی بڑھ جاتی اور اُن کی عاشقانہ رُوحیں اپنے محبوب کی محبت میں اچھلنے لگتیں.یہی حال ہر جگہ کے محبان کا تھا.“ (ذکر حبیب صفحہ 104 ) یادری عبد اللہ آتھم والی پیشگوئی اور مفتی صاحب کا ثبات قدم 30 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے عیسائی معاند عبد اللہ آتھم کے متعلق پیشگوئی کی تھی کہ حق کی مخالفت کرنے والا پندرہ ماہ میں ہاویہ میں گرایا جائے گا.مگر آتھم نے تو بہ کی اور وہ خوفزدہ ہوا تو حسب وعدہ الہی اُس کو مہلت دی گئی.اگر چہ بعد میں بے باکی کے باعث ہلاک کیا گیا مگر پندرہ ماہ میں ہلاکت کے ٹل جانے سے مخالفین کی کم فہمی کے باعث مخالفت کے شور کا خطرہ تھا.مفتی صاحب اُس وقت جواں عمر تھے اور ایمان کی حدت سے مخلصانہ جذبات میں سرشار تھے اپنے آقا علیہ السلام کے حضور اطاعت گزاری کا اظہار بایں الفاظ ایک مکتوب میں کیا: میں قریباً چار سال سے آپ کے قدم پکڑے ہوئے ہوں اور آپ کی ہدایت پر دل سے ایمان لایا ہوں.پیشتر اس کے کوئی پیشگوئی پوری ہوتی ہوئی یا نشان ظاہر ہوتا ہوا دیکھوں اب ایک بے نظیر نشان کے ظاہر ہونے کا وقت آپہنچا ہے میں اپنی تمام دعاؤں اور خواہشوں کو ترک کر کے رات دن خداوند کے حضور میں یہی دُعا کر رہا ہوں کہ اے رحمن رب! تیرے بندے ضعیف اور کوتاہ اندیش ہیں.ایسے وعدے کو تو کھلے کھلے طور سے پورا کرتا کہ لوگ اپنی نادانی سے تیرے فرستادہ کا انکار کر کے اپنے گلوں میں لعنت کے طوق نہ ڈال لیں.مگر ظاہر ہے کہ ایسے موقعوں پر کئی طرح کے ابتلا پیش آجایا کرتے ہیں اس واسطے میں نہایت عاجزی سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میرا ایمان حضور کی صداقت پر پختہ ہے اور اسے ہرگز کوئی جنبش بفضلہ تعالیٰ نہیں.پیشگوئی کے پورا ہونے کی خبر سننے کی خواہش مجھے اس لئے ہے کہ دوسروں کو سنایا جائے اور ان پر حجت قائم کی جائے ورنہ میں تو اُسی وقت سے اسے پورا ہو گیا ہوا

Page 32

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ سمجھتا ہوں جس وقت کہ آپ نے سنائی تھی.الغرض کچھ ہی ہو حضور مجھے اپنا غلام اور اپنی جوتیوں کا خادم سمجھیں اور دُعا میں یا درکھیں.“ محمد صادق مفتی مدرس انگریزی جموں 31 (ذکر حبیب صفحہ 13 ,12 ) جب پیشگوئی شان سے پوری ہوگئی تو مفتی صاحب نے ایک معاند پادری ٹامس ہاؤل کو ایک مکتوب لکھا جس کی نقل حضرت مولانا نور الدین صاحب کو بھجوائی.آپ نے یہ مکتوب حضرت اقدس : مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر دیا جس پر آپ نے اظہار پسندیدگی فرمایا.آپ کے الفاظ مبارک تھے : اللہ ہی لکھواتا ہے (ذکر حبیب صفحہ 11) یہ الفاظ ایسے مقبول ہوئے کہ مولا کریم نے مفتی صاحب کے نصیب میں قلم کا جہاد لکھ دیا اور ساری عمر خوب خوب لکھوایا.یہ عظیم حوصلہ افزائی ایک رنگ میں مستقبل کے لئے پیشگوئی ثابت ہوئی.خدمت دین کے لئے تربیت میں حضرت حکیم نورالدین صاحب کا بڑا ہاتھ تھا.وہ اپنے شاگرد کی سعادت اور قابلیت کو پہچان چکے تھے اور چاہتے تھے کہ ساری لیاقت جماعت کی خدمت میں صرف ہو.آپ کی اپنے ہونہار شاگرد کی تعلیم وتربیت میں دلچسپی کا اظہار ایک بے حد قیمتی مکتوب سے ہوتا ہے جو آپ نے مفتی صاحب کو 6 دسمبر 1893ء کو تحریر فرمایا.ملاحظہ فرمائیے: پیارے بچہ ! السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته دنیا روزے چند کار با خداوند.دوسرے سیپارے میں لیس البران تولوا وجوهکم سے دوسرا پاؤ شروع ہوتا ہے اس کو پڑھو.اس میں متقی کی صفتیں مندرج ہیں اور ادھر الحد کا پہلا رکوع دیکھو اس میں ھدی للمتقین آیا ہے.پھر بدوں تقویٰ ہدایت ہی نہیں....تمہیں سیالکوٹ بلا تا مگر وہاں رہنے کا ارادہ نہ تھا.گلگت کے لئے

Page 33

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 32 اپنی کوشش رکھنا اور ضرور رکھنا.حضرت بھی آج کل فیروز پور میں ہیں جب تشریف لائیں گے....مفصل آپ کو لکھوں گا....والسلام نورالدین ( بدر 19 ستمبر 1912ء) 1893 ء میں حضرت اقدس علیہ السلام لاہور میں چینیاں والی مسجد میں نماز جمعہ کے لئے تشریف لے گئے مفتی صاحب کو آپ کی ہمراہی کا شرف حاصل ہوا.1894ء میں جب کسوف خسوف کی پیشگوئی پوری ہوئی، آپ جموں سے قادیان آئے ہوئے تھے اس طرح اس پیشگوئی کے پورا ہونے کے چشم دید گواہ بنے.(ذکر حبیب ص 20) جموں میں ملازمت کے دوران آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مکتوب موصول ہوا جس میں تحریر تھا کہ مرزا فضل احمد ( حضرت اقدس علیہ السلام کی پہلی بیوی سے دوسرے صاحبزادے) جموں میں پولیس میں ملازم ہیں.بہت دنوں سے گھر میں کوئی خیریت کا خط نہیں آیا.اُن کی والدہ گھبرا رہی ہیں آپ ان کا حال اور خیر خیریت دریافت کر کے اطلاع دیں.ایسا ہی خط دوسری دفعہ بھی آیا.آپ نے دونوں دفعہ خیریت معلوم کر کے بواپسی ڈاک اطلاع بھیجی.ترے کوچے میں گزرے زندگانی (ذکر حبیب صفحہ 20) اللہ تعالیٰ نے اپنے پاک وجود کے طفیل اُس پاک بستی میں بھی کشش رکھ دی.آپ ایک بے قرار پروانے کی طرح موقع نکال کر قادیان پہنچ جاتے.ملازمت کی پابندیوں میں جہاں گنجائش نکلتی عازم سفر ہوتے جس کی منزل قادیان ہوتی.1891 ء میں ایک دفعہ قادیان کا ارادہ کیا تو معلوم ہوا کہ حضرت اقدس علیہ السلام لدھیانہ تشریف لے گئے ہیں.آپ بھی لدھیانہ پہنچ گئے وہاں حضرت اقدس علیہ السلام کا ارادہ امرتسر جانے کا ہو گیا.آپ نے حضرت مفتی صاحب کو ارشاد فرمایا

Page 34

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ کہ آپ بھی ساتھ چلیں.تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحہ 413) 33 اس طرح حضور کی معیت میں سفر کرنے کا موقع نصیب ہوا.ٹرین کا سفر تھا گاڑی رکتی تو آپ تیزی سے جاتے مستورات کی خیر خبر لے آتے اور آکر حضور علیہ السلام کو مطلع کرتے اس سرگرمی پر حضور نے خوشنودی کا اظہار فرمایا کہ: آپ سفر میں بہت ہشیار ہیں“ اس سند پر گویا آپ کی قسمت میں سفر لکھ دیئے گئے.بعد کی زندگی میں اعلائے کلمہ حق کے لئے ملک میں اور بیرون ملک بہت سے سفر کئے.سفر و حضر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے قریب سے قریب تر رہنے کا شوق تھا.اس سال کے اواخر میں اپنے دوست مولوی محمد صادق اور ایک طالب علم خان بہادر غلام محمد صاحب کے ساتھ قادیان آئے ان دو احباب نے بیعت کا شرف حاصل کیا.حضرت اقدس علیہ السلام قادیان سے ٹرین پر لاہور تشریف لے جا رہے تھے ، آپ نے بھی سفر میں ہمراہی کی سعادت پائی.آپ نے 1895ء میں ایف اے کا امتحان پرائیویٹ طور پر پاس کر کے بی اے کی تیاری شروع کر دی.بی اے میں آپ نے انگریزی، عربی اور عبرانی مضامین رکھے.امتحان قریب آیا تو تیاری کے لئے چند دن کی رخصت لے کر قادیان.آئے حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کو اُس کمرے میں ٹھہرایا جو ( بیت ) مبارک اور حضور علیہ السلام کی قیام گاہ کے درمیان شمالی جانب ہے اور جس میں ( بیت ) مبارک کی طرف ایک کھڑکی کھلتی ہے، اسے بیت الفکر کہتے ہیں.لیکن امتحان دینے سے قبل ہی آپ نے جموں کی ملازمت ترک کر دی اور لاہور منتقل ہونے کا ارادہ کیا.اس غرض کے لئے بزرگوں سے مشورہ کیا تو سب نے اس تبدیلی کو پسند کیا، کیونکہ لاہور میں تعلیمی ترقی اور دیگر بہت سی ترقیوں کے امکان اور مواقع زیادہ تھے.جب آپ نے اپنے اس ارادہ کا ذکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کیا تو آپ نے بھی لاہور کو ترجیح دی.مگر پسندیدگی کی وجہ مختلف بتائی اور وہ وجہ یہ تھی کہ لاہور جموں کی نسبت قادیان سے زیادہ قریب ہے.جب کبھی چھوٹی موٹی رخصت

Page 35

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ ہو تو چند دنوں یا ایک دن کے لئے بھی قادیان آسکتے ہیں.والدہ صاحبہ کا قبول احمدیت 34 1897ء میں آپ کی والدہ محترمہ فیض بی بی صاحبہ نے بیعت کی سعادت حاصل کی.بیعت کے بعد قادیان سے واپس بھیرہ جانے لگیں تو حضرت اقدس علیہ السلام بنفس نفیس مفتی صاحب اور آپ کی والدہ صاحبہ کو الوداع کہنے کے لئے یکہ والی جگہ تک تشریف لائے اور کھانا منگوا یا کھانا کسی کپڑے میں بندھا ہوا نہیں تھا.حضور نے اپنے عمامہ مبارک سے ایک گز کے قریب کپڑا پھاڑا اور اُس میں کھانا باندھ دیا.زمانہ قیام لاہور اور حضرت اقدس علیہ السلام کی عنایات خسروانہ مفتی صاحب جموں میں پانچ سال ملازم رہے اگست ستمبر 1895ء میں لاہور آ گئے.لاہور (ذکر حبیب ص 45) میں جنوری 1901 ء تک قیام پذیر رہے.( تاریخ احمدیت جلد 9 ص561) پہلے مدرسہ انجمن حمایت اسلام شیرانوالہ دروازہ میں چھ ماہ تک ریاضی کے اُستادر ہے پھر یہ ملازمت ترک کر کے اکاؤنٹینٹ جنرل پنجاب لاہور کے دفتر میں کلرک لگ گئے.آپ کی رہائش مزنگ کے علاقہ میں تھی.لاہور سے دیار محبوب کا رخ رہتا.حضرت اقدس علیہ السلام آپ سے بے انتہا شفقت فرماتے للہی محبت کے عجیب رنگ ہوتے ہیں.آپس کی محبت کی چند جھلکیاں دیکھئے : رباعی لکھ دی دیکھ لو میل و محبت میں عجب تاثیر ہے ایک دل کرتا ہے جُھک کر دوسرے دل کو شکار 1897ء میں بھیرہ کی ایک خاتون نے روپہلی کام والا مٹی کا ایک کوزہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پیش کیا.آپ نے اس کی خوبصورت بناوٹ کی تعریف کی اور کسی شاعر کی ایک

Page 36

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 35 رباعی پڑھی.مفتی صاحب کی درخواست پر آپ نے از راہ ذرہ نوازی رباعی ان کی نوٹ بک پر دست مبارک سے تحریر کر دی جس سے آپ کو بہت خوشی ہوئی اور آپ نے اس کو دیر تک محفوظ رکھا.رباعی درج ذیل ہے: این کوزه چو من عاشق زارے بودست در بند سر زلف نگارے بودست این دست که در گردن او می بینی دست است که در گردن یاری بودست پاک ممبر ، نظیف مٹی، پاک محب 13 دسمبر 1900 ء کا حضرت اقدس علیہ السلام کا الہام ہے: وو لاہور میں ہمارے پاک ممبر موجود ہیں ان کو اطلاع دی جاوے.نظیف مٹی کے ہیں....لاہور میں ہمارے پاک محب ہیں وسوسہ پڑ گیا ہے پر مٹی نظیف ہے وسوسہ نہیں رہے گا مٹی رہے گی“ ( تذکره ص328) حضرت مفتی صاحب اُن ہیں خوش نصیبوں میں شامل ہیں جو اُن دنوں لاہور میں موجود تھے اور قلبی اخلاص اور محبت کی وجہ سے مخلصین میں شمار ہوتے تھے جس کی آسمان سے تائید ہوئی.حضرت اقدس علیہ السلام مفتی صاحب کو لاہور کا سفر خرچ عطا فر ماتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: جن ایام میں میں دفتر اکاؤنٹینٹ جنرل لاہور میں ملازم تھا اور بعض دینی خدمات کے خیال سے یا صرف حضرت صاحب کی ملاقات کے شوق میں بار بار قادیان آتا تھا بلکہ بعض مہینوں میں ایسا ہوتا کہ ہر اتوار میں قادیان آ جاتا.ان ایام میں عموماً حضرت صاحب مجھے واپسی کے وقت دور و پئے مرحمت فرمایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ آپ کی اس دینی خدمت میں ہم بھی ثواب لینا چاہتے ہیں.اُن ایام میں دو روپئے میں لاہور

Page 37

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ قادیان کی آمد ورفت ہو جاتی.(ذکر حبیب ص 331) آپ کی آمد حضرت اقدس علیہ السلام کی خوشیوں میں اضافہ کر دیتی حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں: مولوی شیر علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ یوں تو حضرت صاحب اپنے سارے خدام سے ہی محبت رکھتے ہیں لیکن میں محسوس کرتا تھا کہ آپ کو مفتی صاحب سے خاص محبت ہے.جب کبھی آپ مفتی صاحب کا ذکر فرماتے تو فرماتے ہمارے مفتی صاحب.اور جب کبھی مفتی صاحب لاہور سے قادیان آیا کرتے تو حضرت صاحب ان کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے...66 (سیرۃ المہدی روایت نمبر 298) 36 حضرت اقدس علیہ السلام کا اپنے ایک مرید سے حسن سلوک قابل رشک تھا.انتہائی لطف وکرم سے خوش نصیب مفتی صاحب کو سر شار کر دیتے جس سے اس محب صادق کے والہانہ پن میں ہر لحظہ اضافہ ہوتا.حضرت مولوی فضل الہی بھیر وی بیان کرتے ہیں : ” جب بندہ لاہور اور نینٹل کالج میں تعلیم حاصل کر رہا تھا تو حضرت مفتی صاحب کے ساتھ رہتا تھا.حضرت مفتی صاحب موصوف قریباً ہر ہفتہ کی شام کو لاہور سے روانہ ہو کر رات بارہ بجے کے قریب سٹیشن بٹالہ پر اتر کر پیدل چل کر نماز تہجد کے وقت قادیان دار الامان پہنچ جایا کرتے تھے تمام دن حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں گزار کر عصر کے بعد قادیان سے روانہ ہوتے اور اُس وقت حضرت مفتی صاحب نے بتلایا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام میرے قادیان سے جانے کا یکہ کا کرایہ خود ادا فرماتے اس کی وجہ یہ بتلائی کہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں کہ جس قسم کا اخلاص آپ مجھ سے بوجہ مسیح موعود ہونے کے رکھتے ہیں اس اخلاص میں شریک ہو کر یہ ثواب حاصل کرنے کی خاطر ہم بھی آپ کے سفر خرچ میں کچھ حصہ ڈال دیتے ہیں.اسی طرح ایک

Page 38

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ دفعہ حضرت اقدس علیہ السلام علیہ نے مبلغ دو روپیہ حضرت مفتی صاحب کو دیئے اور فرمایا کہ ہم قادیان کی آمد ورفت میں خرچ کریں کیونکہ یہ ایک غریب آدمی نے بھیج کر لکھا ہے کہ کسی ایسی جگہ خرچ فرمانا جہاں مجھے بہت ثواب ہو اس لئے آپ اس کو اس سفر میں خرچ کریں.“ پگڑی کے کپڑے میں کھانا (رجسٹر روایات نمبر 12 ص 322 تا 327) عنایات خسروانہ کے واقعات اتنے حسین ہیں کہ تبصرہ کی ضرورت نہیں رہتی مفتی صاحب نے لکھا: ”جب میں قادیان سے واپس لاہور جایا کرتا تھا تو حضور اندر سے میرے لئے ساتھ لے جانے کے واسطے کھانا بھجوایا کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ جب میں شام کے قریب قادیان سے آنے لگا تو حضرت صاحب نے اندر سے میرے واسطے کھانا منگوایا.جو خادم کھانا لا یا وہ یونہی کھلا کھانا لے آیا.حضرت صاحب نے فرمایا کہ مفتی صاحب یہ کھانا کس طرح ساتھ لے جائیں گے کوئی رومال بھی ساتھ لانا تھا جس میں کھانا باندھ دیا جاتا.اچھا میں انتظام کرتا ہوں، اور پھر اپنے سر کی پگڑی کا ایک کنارا کاٹ کر اس میں وہ کھانا باندھ دیا.“ آموں کی دعوت (ذکر حبیب ص 321) 37 گاہے بگاہے حضور اپنے باغ سے آم منگوا کر خدام کو کھلاتے.ایک دفعہ عاجز راقم لا ہور سے چند یوم کی رخصت پر قادیان آیا تھا کہ حضور نے عاجز راقم کی خاطر ایک ٹوکرا آموں کا منگوایا اور مجھے کمرہ ( نشست گاہ) میں بلا کر فرمایا کہ: مفتی صاحب یہ میں نے آپ کے واسطے منگوایا ہے کھالیں.“ میں کتنے کھا سکتا تھا.چند ایک میں نے کھا لئے اس پر تعجب سے فرمایا.کہ آپ نے بہت

Page 39

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ تھوڑے کھائے ہیں.“ رضائی محمود کی ہے اور دھسا میرا (ذکر حبیب ص 326) 38 ایک دفعہ میں لاہور سے حضور کی ملاقات کے لیے آیا اور وہ سردیوں کے دن تھے اور میرے پاس اوڑھنے کیلئے رضائی وغیرہ نہیں تھی.میں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں کہلا بھیجا که حضور رات کو سردی لگنے کا اندیشہ ہے.حضور مہربانی کر کے کوئی کپڑا عنایت فرمائیں.حضرت صاحب نے ایک ہلکی رضائی اور ایک دھسا ارسال فرمائے اور ساتھ ہی پیغام بھیجا کہ رضائی محمود کی ہے اور دھسا میرا.آپ ان میں سے جو پسند کریں رکھ لیں اور چاہیں تو دونوں رکھ لیں میں نے رضائی رکھ لی اور دھسا واپس بھیج دیا.اس خیال سے کہ چادر بہت قیمتی تھی اور نیز اس خیال سے کہ (ذکر حبیب 326,321) ڈلائی صاحبزادہ صاحب کی مستعملہ تھی.“ وضو کے واسطے پانی لا دیا ایک دفعہ میں وضو کے واسطے پانی کی تلاش میں لوٹا ہاتھ میں لئے اُس دروازے کے اندر گیا جو ( بیت ) مبارک میں سے حضرت صاحب کے اندرونی مکانات کو جاتا ہے تا کہ وہاں حضرت صاحب کے کسی خادم کو لوٹا دے کر پانی اندر سے منگواؤں.اتفاقاً اندر سے حضرت صاحب تشریف لائے مجھے کھڑا دیکھ کر فرمایا: میں لا دیتا ہوں.“ اور خود اندر سے پانی ڈال کر لے آئے اور مجھے عطا فرمایا.“ (ذکر حبیب 326) جب عاجز راقم لاہور سے قادیان آیا کرتا تھا تو حضور مجھے عموماً صبح ہر روز پینے کے واسطے دودھ - بھیجا کرتے تھے.ایک دفعہ مجھے اندر بلا یا ایک لوٹا دودھ کا بھرا ہوا حضور کے ہاتھ میں تھا.اُس میں سے ایک بڑے گلاس میں حضور نے دودھ ڈالا اور مجھے دیا اور محبت سے فرمایا.آپ یہ پی لیں.پھر میں اور دیتا ہوں.میں تو اس گلاس کو بھی ختم نہ کر سکا.ابھی اُس میں دودھ باقی تھا بس کر دی اور واپس

Page 40

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ کیا تقسم کرتے ہوئے حضور نے فرمایا: بس ! آپ تو بہت تھوڑا پیتے ہیں“ اب وہ کتاب مل جائے گی 39 (ذکر حبیب ص 171 ) ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نے لاہور کی پبلک لائبریری میں ایک کتاب دیکھی جس میں یوز آسف کے نام کے گرجے کا حوالہ دیا گیا تھا.میں نے حضور علیہ السلام سے اس کا تذکرہ کیا.حضور نے فرمایا کہ وہ کتاب تو ضرور لانی چاہیئے.حضور نے مجھے بھیجا، مگر خدا کی شان میں اس کتاب کا نام تو میں بھول گیا.اس لئے مجھے خالی ہاتھ واپس آنا پڑا.اس واقعہ کے ٹھیک ایک ہفتہ کے بعد حضور نے فرمایا کہ مفتی صاحب اب جائیے وہ کتاب آپ کو مل جائے گی.چنانچہ حسب ارشاد میں چلا گیا.نام تو میں بھول چکا تھا.لائبریرین کسی حاجت کے لئے باہر گیا ہوا تھا.اس کی میز پر اتفاقاً ایک کتاب میں نے اُٹھا کر دیکھی تو وہ وہی کتاب تھی جس کے لیے میں گیا تھا.لائبریرین آیا اس سے میں نے ذکر کیا.اس نے کہا کہ اگر آپ کچھ دیر پہلے آتے تب بھی آپ کو یہ کتاب نہ ملتی.کیونکہ یہ با ہرگئی ہوئی تھی اور یہ ابھی آئی ہوئی ہے اگر آپ تھوڑی دیر بعد آتے تب بھی آپ کو نہ ملتی کیونکہ یہ ابھی اپنی جگہ پر رکھ دی جاتی اور جس طرح آپ پہلے خالی واپس چلے گئے اسی طرح اب بھی خالی ہاتھ جانا پڑتا.حضور کے طفیل سے ہمیں بھی یہ شرف حاصل ہوا کہ ہماری دُعائیں بھی قبول کی جاتی ہیں.ایک دفعہ جمعہ کا دن تھا.حضور نے مجھے فرمایا.آپ جائیے مجھے تو سر میں سخت درد ہو رہی ہے.میرے دل میں ایک درد پیدا ہوا اور میں نے دُعا کی کہ الہی حضرت علیہ السلام کو جلد شفا ہو جائے.اتنے میں دیکھا کہ حضرت صاحب بھی تشریف لے آئے ہیں اور فرمایا: 66 و مفتی صاحب آپ چلے آئے تو میری درد بھی اچھی ہو گئی.“

Page 41

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 40 مخدوم نے خدمت کا نمونہ دکھایا ” مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا غالباً 1897ء یا 1898ء کا واقعہ ہو گا.مجھے حضرت صاحب نے مسجد مبارک میں بٹھایا جو کہ اس وقت ایک چھوٹی سی جگہ تھی.فرمایا کہ آپ بیٹھئے میں آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں.یہ کہ کر آپ اندر تشریف لے گئے.میرا خیال تھا کہ کسی خادم کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گے.مگر چند منٹ کے بعد جبکہ کھٹڑ کی کھلی تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے ہاتھ سے سینی اُٹھائے ہوئے میرے لئے کھانا لائے.مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کھانا کھائیے میں پانی لاتا ہوں.بے اختیار رقت سے میرے آنسو نکل آئے کہ جب حضرت ہمارے مقتدا پیشوا ہو کر ہماری یہ خدمت کرتے ہیں تو ہمیں آپس میں ایک دوسرے کی کس قدر خدمت کرنی چاہیے.“ (ذکر حبیب ص 327) د چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس“ ” جب میں لاہور میں ملازم تھا اور وہاں اکاؤنٹ جنرل کے دفتر میں آڈیٹر تھا تو وہاں میں ایک دفعہ ایسا بیمار ہو گیا کہ دن رات چار پائی پر لیٹا رہتا اور کہیں آنے جانے کی ہمت نہ تھی.اتفاق سے انہی دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام چند روز کے لیے قادیان سے لاہور تشریف لے گئے اور لاہور میں منشی تاج الدین صاحب احمدی کے مکان پر مقیم ہوئے.سب دوست حضور سے ملنے کے لئے جاتے رہے.مگر میں بسبب علالت نہ جا سکا.ایک دن حضور نے اپنی مجلس میں دوستوں سے ذکر کیا کہ مفتی صاحب ہمیں ملنے نہیں آئے کیا سبب ہے؟ دوستوں نے عرض کیا کہ مفتی صاحب ایسے بیمار ہیں کہ چل نہیں سکتے.حضور نے فرمایا.وہ چل نہیں سکتے تو ہم تو چل سکتے ہیں.ہم اُن کی بیمار پرسی کے لئے چلیں گے.چنانچہ دوسری صبح حضور میرے مکان پر تشریف لائے.میں اس وقت لاہور کے محلہ ستھاں میں ایک کرایہ کے چھوٹے سے چوبارے میں رہتا تھا.حضور اس چو بارے میں

Page 42

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 41 میرے پاس تشریف لائے.صاحبزادہ محمود احمد اور حضرت مولوی نورالدین صاحب آپ کے ساتھ تھے.چند اور دوست بھی تھے مگر وہ نیچے گلی میں کھڑے رہے.چونکہ او پر مکان تنگ تھا.حضور میرے پاس چار پائی پر بیٹھ گئے اور حالات دریافت فرماتے رہے اور مختلف باتیں ہوتی رہیں.قریباً ایک گھنٹہ کے بعد حضور نے پینے کے واسطے پانی مانگا.جو میری بیوی نے پاس کے کمرہ سے پیش کر دیا.جب حضور پی چکے تو میں نے ہاتھ بڑھایا تا کہ باقی پانی میں پی سکوں.حضور نے فرمایا.کیا آپ پئیں گے میں نے عرض کیا.پیوں گا.تب حضور نے فرمایا اچھا میں اس میں دم کر کے دیتا ہوں.حضور نے کچھ پڑھ کر اس میں دم کر کے مجھے دیا اور میں نے پی لیا.اس کے بعد حضور نے فرمایا کہ آپ بیمار ہیں اور لکھا ہے کہ بیمار کی بھی دُعا قبول ہوتی ہے.آپ ہمارے سلسلہ کی ترقی اور کامیابی کے واسطے دُعا کریں.“ (الحكم 21 تا 28 جون 1943 ء ) عشاء سے فجر ہوگئی 1897ء کی گرمیوں کی ایک رات کا یادگار واقعہ اور مفتی صاحب کا موثر انداز بیان ملاحظه فرمائیے: حضرت نے ایک نہایت ضروری مضمون لکھنا تھا جس کا صبح تک تیار ہو جانا ضروری تھا.عشاء کے قریب ایوب و صادق کو حکم ہوا کہ حضرت مضمون جلدی جلدی لکھتے جائیں گے جس کا صاف کرنا بھی ضروری ہے اس واسطے ایوب بیگ لکھاتے جائیں گے اور محمد صادق لکھتا جائے گا.چونکہ حضرت میرے طرز خط کو پسند کرتے تھے اس واسطے یہ فخر مجھے حاصل ہوا.دنیا دار تو کہا کرتے ہیں: اے روشنی مطبع تو بر من بلاشدی مگر مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں کے طفیل میرے خط کی عمدگی برائے من رحمت شدی والا معاملہ ہو گیا.عشاء کے بعد ہم اندر والے مکان میں بیٹھ گئے.دوہری کین روشن کئے گئے.لکھتے لکھتے فجر ہوگئی موذن نے اللہ اکبر کہا تو حضرت نے قلم رکھا.ہمارا حال تو یہ تھا کہ خیال ہوتا تھا موذن

Page 43

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 42 نے غلطی کھائی ، ہنوز اذان کا وقت کہاں ابھی تو بہت تھوڑا ہی وقت گزرا ہے کہ ہم لکھنے بیٹھے تھے.مگر رات بھر کی کوفت نے اور معلوم نہیں کتنی ایسی شب حضرت نے پہلے گزاری ہوگی ، حضرت کی طبیعت پر ایک خوفناک اثر کیا.اچانک ہاتھ پاؤں سرد ہو گئے اور دورانِ سر ہو کر آپ گر گئے.بہت دیر کے بعد آرام آیا تو پھر آپ نے قلم دوات لے لی.“ (بدرنمبر 2 جلد 15-11 دسمبر 1913ء) اے صادق مجھے تین بجے جگا دینا ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجلس میں یہ تذکرہ تھا کہ پچھلی رات نماز تہجد کے جاگنے کے لئے کیا تجویز کرنی چاہیے.تب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے فرمایا کہ اگر آپ سوتے وقت اپنے آپ کو مخاطب کر کے یہ کہا کریں: ”اے صادق مجھے تین بجے جگا دینا توضرور تین بجے آپ کی آنکھ کھل جائے گی.“ تین دن.تین سال (ذکر حبیب ص (167) ایک دفعہ تین دن کی چھٹی تھی.قادیان آتے ہوئے بے چین ہو کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان تین دنوں کو تین سالوں جیسی طوالت دے دے.قادیان پہنچے تو حضور نے ارشاد فرمایا مفتی صاحب آپ بڑے عمدہ وقت پر پہنچے ہیں.آپ کے آنے کے ساتھ ہی ایک کتاب تفسیر بائبل پہنچی ہے لیکن انگریزی میں ہے آپ مجھے پڑھ کر سنادیں ساتھ ہی پوچھا آپ کی رخصت کتنی ہے.عرض کی تین دن.فرمایا: ” تین دن میں انشاء اللہ ختم ہو جائے گی.“ آپ یہ کہہ کر کہ مفتی صاحب کو اندر لے گئے اب سارا دن حضور علیہ السلام اس کتاب کو سنتے رہے یا مفتی صاحب تھے یا حضور علیہ السلام باہر تشریف لائے تو مفتی صاحب کے ساتھ کھانا پینا سب حضور علیہ السلام کے ساتھ.یہاں تک کہ تین دن اسی طرح گزر گئے.خلاصه از الفضل 13 جولائی 1923ء ص 10 کالم 3)

Page 44

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ میرا قدم حضرت اقدس علیہ السلام کے قدم کے ماتحت 43 ”ایک دفعہ میں نے اپنی ایک کمزوری کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں شکایت کی کہ مجھ میں یہ کمزوری ہے اور میں اس میں بار بار گرتا ہوں اور اس سے نکلنے کی توفیق نہیں پاتا.حضور نے دُعا کا وعدہ فرمایا.31 اگست 1899ء کی رات مجھے رؤیا ہوا کہ میں قادیان میں ایک چار پائی پر بیٹھا ہوں ایک اور چار پائی پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیٹھے ہیں اور دونوں چار پائیوں کے درمیان قریباً تین چار پائیوں کی چوڑائی کا فاصلہ ہے.ایک رسی ہے جس کا ایک سرا میرے پاؤں سے بندھا ہوا ہے کہ میں قدم اُٹھا نہیں سکتا جب تک کہ حضرت صاحب پہلے نہ اُٹھا ئیں.گویا میرا قدم حضرت صاحب کے قدم کے ماتحت کر دیا گیا ہے.اُس وقت سے وہ کمزوری مجھ سے دُور ہوگئی اور پھر اُس نے مجھے نہ ستایا.“ مقابلہ مضمون نویسی (ذکر حبیب ص 234) حضرت مسیح موعود نے اپنے خدام کو ضرورت امام و مصلح کے موضوع پر مضمون لکھنے کا ارشاد فرمایا.مفتی صاحب نے بھی مضمون لکھا.سب مضامین مکرم منشی ظفر احمد صاحب نے حضور کو پڑھ کر سنائے اور مفتی صاحب کو بتایا کہ حضور علیہ السلام نے آپ کے مضمون کو بہت پسند فرمایا.تحالف (خلاصہ ذکر حبیب ص 58) ایک بار حضرت مفتی صاحب موسم گرما کی رخصتوں میں قادیان تشریف لائے ہوئے تھے.حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب قادیان ہجرت کر چکے تھے.وہ مکان بن چکا تھا جہاں آپ مطب کیا کرتے تھے.حضرت مفتی صاحب قریباً سارا وقت اسی مطب میں گزارتے تھے.

Page 45

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 44 ایک دن حضرت اقدس علیہ السلام کے وہاں تشریف لے آئے، ہاتھ میں کچھ کتابیں تھیں، آپ بے تکلفی سے اُسی چٹائی پر بیٹھ گئے جہاں آپ کے دو غلام بیٹھے تھے.آپ نے حضرت حکیم صاحب سے فرمایا کہ یہ چند نسخے سرمہ چشم آریہ کے میرے پاس پڑے ہوئے تھے میں لایا ہوں کہ حسبِ ضرورت آپ تقسیم کر دیں.حضرت مفتی صاحب نے عرض کی کہ ایک مجھے چاہیئے.آپ نے ایک نسخہ عنایت فرمایا.مفتی صاحب ایک دفعہ لاہور سے قادیان آئے ہوئے تھے، مسجد سے جو تا گم ہو گیا.جب حضرت اقدس علیہ السلام کو معلوم ہوا تو اپنا پرانا جو تا عنایت فرمایا.ایک دفعہ آپ نے ایک جیبی گھڑی حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی آپ نے اندر بلایا اور فرمایا: ” ہمارے پاس دو گھڑیاں ہیں.یہ آپ لے جائیں.اور دونوں گھڑیاں مفتی صاحب کو عنایت فرما ئیں.(خلاصہ ذکر حبیب ص 45) ایک نشان کے اول گواہ حقیقۃ الوحی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کئی جگہ بطور گواہ حضرت مفتی صاحب کا نام تحریر فرمایا ہے.ایک سو بیسواں نشان' کے عنوان کے تحت تحریر فرمایا: انجمن حمایت اسلام لاہور کے متعلق خدا نے میرے لیے ایک نشان ظاہر کیا تھا چونکہ اس نشان کے اول گواہ مفتی محمد صادق صاحب ایڈیٹر اخبار بدر ہیں اس لیے انہیں کے ہاتھ کا خط بطور شہادت ذیل میں درج کیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے : بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسوله الكريم حضرت مرشد نا و مهدینا مسیح موعود و مہدی معہود الصلوۃ والسلام علیکم ورحمۃ اللہ برکاته جناب عالی ! مجھے جو کچھ معلوم ہے خدمت میں عرض کرتا ہوں اور وہ یہ کہ جب

Page 46

45 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ کتاب امہات المومنین عیسائیوں کی طرف سے اپریل 1898ء کو شائع ہوئی تھی.تو انجمن حمایت اسلام لاہور کے ممبروں نے گورنمنٹ میں اس مضمون کا میموریل بھیجا تھا کہ اس کتاب کی اشاعت بند کی جائے اور اُس کے مصنف سے جس نے ایسی گندی کتاب لکھی ہے باز پرس ہو ، ان ایام میں یہ عاجز لاہور میں دفتر اکاؤنٹنٹ جنرل میں ملازم تھا جبکہ حضور علیہ السلام کی خدمت میں اُن کے میموریل کا ذکر کیا گیا تو مجھے خوب یاد ہے کہ حضور بہت سے آدمیوں کے ساتھ.......باغ کی طرف سیر کو جارہے تھے تب حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ: یہ بات انجمن نے ٹھیک نہیں کی ہم اس میموریل کے سخت مخالف ہیں.چنانچہ حضور علیہ السلام نے اس مخالفت کو اپنی ایک تحریر میں جو بصورت میموریل بخدمت گورنمنٹ بھیجی تھی صاف طور پر 4 مئی 1898ء کو شائع بھی کر دیا تھا جس پر انجمن والوں نے بہت شور مچایا اور اخباروں میں حضور کے برخلاف مضمون شائع کئے انہیں دنوں میں جب حضور باہر سیر کرنے کو گئے تو حضور نے فرمایا کہ ہمیں انجمن حمایت اسلام لاہور کی اس کارروائی کے متعلق الہام ہوا ہے کہ ستذکرون ما اقول لكم.وافوض امرى الى اللہ اور اس کے ترجمہ اور تفہیم میں حضور نے فرمایا کہ عنقریب انجمن والے میری بات کو یاد کریں گے کہ اس طریق کے اختیار کرنے میں ناکامی ہے اور جس امر کو ہم نے اختیار کیا ہے یعنی مخالفین کے اعتراضات کو رڈ کرنا اور اُن کا جواب دینا اس امر کو خدا تعالیٰ کو سونپتا ہوں یعنی خدا میرے کام کا محافظ ہو گا مگر وہ ارادہ جو انجمن والوں نے کیا ہے کہ امہات المؤمنین کے مؤلف کو سزا دلائیں ، اس میں اُن کو کامیابی ہرگز نہ ہوگی اور بعد میں اُن کو یاد آئے گا کہ جو پیش از وقت بتلایا گیا تھا وہ واقعی اور درست تھا.اس الہام کے سننے کے

Page 47

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ ایک دو دن کے بعد جب میں واپس لاہور گیا تو حسب معمول مسجد گنٹی بازار لاہور میں ایک جلسہ کیا گیا اور اُس جلسہ میں یہ عاجز اپنے قادیان کے سفر کی رپورٹ سناتا تھا.چنانچہ حضور کا یہ الہام اور اُس کی تشریح ایک گروہ کثیر کو وہاں سنائی گئی اور ہنوز میں عنا ہی چکا تھا کہ ایک شخص نے خبر دی کہ انجمن کو لیفٹیننٹ گورنر کی طرف سے جواب آ گیا ہے اور اُن کا میموریل نامنظور ہوا ہے اور مؤلف رسالہ امہات المؤمنین کسی قانون کے مواخذہ کے نیچے نہیں آ سکتا.تب اس خبر کا سننا تمام حاضرین جلسہ کے واسطے از دیادِ ایمان کا موجب ہوا اور سب نے خدا تعالیٰ کے عجیب کاموں پر اُس کی حمد کی.(راقم) حضور کی جوتیوں کا غلام محمد صادق واقعات صحیحہ 46 (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 ص 289،288) 1899 ء میں پیر مہر علی شاہ گولڑوی نے حضرت اقدس علیہ السلام کی مخالفت شروع کی آپ نے انہیں تفسیر نویسی میں مقابلہ کی دعوت دی.پیر صاحب نے چالاکی سے اپنے مریدین کو جمع کر کے یہ کوشش کی کہ جلسہ کی صورت ہو جائے جس میں شور مچا دیا جائے کہ مقابلہ پر کوئی نہیں آیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد پر لاہور سے اشتہارات شائع کر کے حقیقت حال واضح کی گئی یہ اشتہار مفتی صاحب نے تحریر کئے جن کو بعد میں ایک رسالہ کی شکل میں شائع کیا گیا.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس رسالہ کا نام واقعات صحیحہ رکھا.

Page 48

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 47 حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں نب، لفافے ، کاغذ اوائل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کلک کے قلم سے لکھا کرتے تھے اور ایک وقت میں چار چار پانچ پانچ قلمیں بنوا کر اپنے پاس رکھتے تھے تا کہ جب ایک قلم گھس جاوے تو دوسری کا انتظار نہ کرنا پڑے کیونکہ اس طرح روانی میں فرق آتا ہے.لیکن ایک دفعہ جبکہ عید کا موقع تھا، میں نے حضور کی خدمت میں بطور تحفہ دو ٹیڑھی نہیں پیش کیں.اس وقت تو حضور نے خاموشی سے رکھ لیں.لیکن جب میں لاہور واپس گیا تو دو تین دن کے بعد حضرت اقدس علیہ السلام کا خط آیا کہ آپ کی وہ نہیں بہت اچھی ہیں اور اب میں اُن ہی سے لکھا کروں گا.آپ ایک ڈبیہ ویسی نبوں کی بھجوا دیں.چنانچہ میں نے ایک ڈبیہ بھجوا دی اور اس کے بعد اس قسم کی نہیں حضور کی خدمت میں پیش کرتا رہا.لیکن جیسا کہ ولایتی چیزوں کا قاعدہ ہوتا ہے کچھ عرصے کے بعد مال میں کچھ نقص پیدا ہو گیا اور حضرت صاحب نے مجھ سے ذکر فرمایا کہ اب یہ نب اچھا نہیں لکھتا.جس پر مجھے آئندہ کے لئے اس ثواب سے محروم ہو جانے کا فکر دامن گیر ہوا اور میں نے کارخانے کے مالک کو ولایت میں خط لکھا کہ میں اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں تمہارے کارخانہ کی نہیں پیش کیا کرتا تھا.لیکن اب تمہارا مال خراب آنے لگا ہے اور مجھ کو اندیشہ ہے کہ حضرت صاحب اس نب کے استعمال کو چھوڑ دیں گے اور اس طرح تمہاری وجہ سے میں اس ثواب سے محروم ہو جاؤں گا اور اس خط میں میں نے یہ بھی لکھا کہ تم جانتے ہو کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کون ہیں؟ اور پھر میں نے حضور کے دعوی وغیرہ کا ذکر کر کے اس کو اچھی طرح تبلیغ بھی کر دی.کچھ عرصے کے بعد اس کا جواب آیا جس میں اُس نے معذرت کی اور ٹیڑھی نبوں کی ایک اعلیٰ قسم کی ڈبیہ مفت ارسال کی جو میں نے حضرت کے حضور کو پیش کر دی.اور اپنے خط اور اس کے جواب کا ذکر کیا حضور یہ ٹن کر مسکرائے.مگر مولوی عبد الکریم صاحب جو اس وقت حاضر تھے ہنستے ہوئے فرمانے لگے کہ جس طرح شاعر اپنے شعروں میں ایک مضمون سے دوسرے مضمون کی طرف گریز کرتا ہے اسی طرح آپ نے

Page 49

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 48 بھی اپنے خط میں گریز کرنا چاہا ہو گا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں نبوں کے پیش کرنے کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے دعاوی کا ذکر شروع کر دیا لیکن یہ کوئی گریز نہیں زبر دستی ہے.66 ( ذکر حبیب ص 323,322 ) ایک دفعہ آپ نے چند لفافے انگریزی میں پتہ لکھ کر اور ٹکٹ لگا کر حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پیش کئے.اس پیش کش کو حضور نے پسند فرمایا ایک مکتوب میں لکھا: کیا: " آپ نے لفافے بھیج کر بہت آسانی کے لئے مجھے مدددی.جزاکم اللہ خیرا (ذکر حبیب ص 346) ایک دفعہ مفتی صاحب نے اچھے کاغذ دیکھے تو سلطان القلم کو تحفہ دینے کا خیال آیا، خط میں تحریر دو مضمون لکھنے کے لئے بہت عمدہ کاغذ لا ہور سے آئے ہیں تھوڑے سے ارسال خدمت کرتا ہوں امید ہے کہ جناب کو پسند آئیں گے.“ (ذکر حبیب ص 363) ترے کوچے میں کن راہوں سے آؤں وہ خدمت کیا ہے جس سے تجھ کو پاؤں پیارے مسیح کا پیغام اہل لاہور کے نام ایک دفعہ مفتی صاحب قادیان سے واپس لاہور جا رہے تھے حضرت اقدس علیہ السلام نے از راه شفقت فرمایا: لاہور کی جماعت کو ہماری طرف سے السلام علیکم کہہ دیں اور ان کو سمجھا دیں کہ دن بہت ہی نازک ہیں.اللہ تعالیٰ کے غضب سے سب کو ڈرنا چاہیے.اللہ تعالیٰ کسی کی پرواہ نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی.آپس میں اخوت اور محبت کو پیدا کرو اور درندگی اور

Page 50

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ اختلاف کو چھوڑ دو.ہر ایک قسم کے ہنرل اور تمسخر سے مطلقاً کنارہ کش ہو جاؤ کیونکہ تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے.آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آؤ.ہر ایک آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کر لو اور اس کی اطاعت میں پیش آجاؤ.6 49 یہ ایک قدرے طویل پیغام ہے.ایک دردمند باپ کی طرح محبت بھرے دل سے اپنے بچوں کے لئے صلح و امن کا پیغام دیا ہے جس سے آپ کی اپنے مریدین کے لئے محبت چھلکتی ہے.فرماتے ہیں: وو یہ میری وصیت ہے اور اس بات کو وصیت کے طور پر یا درکھو کہ ہرگز تندی اور سختی سے کام نہ لینا بلکہ نرمی اور آہستگی اور خلق سے ہر ایک کو سمجھاؤ“ (ذکر حبیب 61,60) بشپ جارج الفریڈلیفر ائے کومسکت جواب 18 مئی 1900ء کو فورمین چیپل لاہور انار کلی لاہور میں بشپ جارج الفریڈ لیفرائے نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخانہ انداز میں تقریر کی.تقریر کا موضوع معصوم نبی تھا مؤقف یہ تھا کہ قرآن مجید میں لفظ ذنب استعمال کیا ہے جس کا مطلب ہے کہ کہ وہ گناہ گار تھے.آخر میں کہا کہ کوئی ہے جو اعتراض کر سکے.اس لیکچر میں انہوں نے ضعیف روایات اور تفاسیر کی بناء پر حضرت عیسی علیہ السلام کے علاوہ سارے نبیوں کو گنہگار ثابت کرنے کی کوشش کی.آخر میں کہا کہ کوئی ہے جو اعتراض کر سکے.سارا مجمع خاموش تھا.علماءحضرات لاحول ولا قوۃ پڑھتے ہوئے جلسہ سے چل دئے.صرف ایک عاشق رسولِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا سر صلیب کا تربیت یافتہ اُٹھا اور جلالی شان سے آنحضور کا دفاع کیا دلائل سے ثابت کیا کہ آپ معصوم نبی تھے جبکہ انجیل خود مسیح کو معصوم نبی نہیں مانتی.آپ نے حضرت مسیح کا قول دہرایا کہ تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے کوئی

Page 51

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ 50 نیک نہیں سوائے باپ کے جو آسمان پر ہے.وہ خود کو معصومیت کے مقام پر کھڑا نہیں کرتے تھے جبکہ ہمارے پیارے نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق خدا تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ واللہ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس ، آپ کی تقریر سے عیسائی پادری مبہوت رہ گیا اور مسلمانوں کے دلوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ خوب اسلام کا بول بالا کیا.کئی دن تک اس کا عام چر چار ہا کہ مرزائی جیت گیا.“ جب حضرت اقدس علیہ السلام کو بشپ صاحب کے اس لیکچر کا علم ہوا تو حضور نے ایک اشتہار شائع فرما یا جس میں معصوم نبی کے موضوع پر بحث کرنے کے لئے بلایا اور لکھا کہ کسی نبی کو معصوم ثابت کرنا کوئی عمدہ نتیجہ نہیں پیدا کر سکتا کیونکہ نیکی کی تعریف میں کئی مذاہب کا آپس میں اختلاف ہے.مثلاً بعض مذاہب شراب پینا حرام کہتے ہیں بعض جائز بلکہ ضروری سمجھتے ہیں.پس عمدہ طریقہ یہ ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کاعلمی و عملی اور تقدیسی اور برکاتی اور ایمانی اور عرفانی اور افاضہ خیر اور طریق معاشرت وغیرہ وجوہ فضائل میں باہم موازنہ اور مقابلہ کیا جائے یعنی یہ دکھلایا جائے کہ ان تمام امور میں کس کی فضیلت اور فوقیت ثابت ہے اور کس کی ثابت نہیں وغیرہ.یہ اشتہار کثرت سے شائع کیا گیا اور بشپ صاحب مذکور کو بھی انگریزی میں ترجمہ کروا کے بھیجا گیا.بشپ صاحب نے اپنی خفت مٹانے کے لئے یہ اشتہار دیا کہ وہ 25 مئی کو زندہ رسول“ کے موضوع پر پھر لیکچر دیں گے.حسب سابق مسلمانوں کو مقابلہ پر آنے کی دعوت دی.مسلمانوں میں بڑا جوش پھیلا مولوی ثناء اللہ کو جواب دینے کے لئے کہا گیا مگر انہوں نے مسلمانوں کو جلسہ سے باز رکھنے کی کوشش کی.اس پر سب کی نظریں مرزائیوں کی طرف اُٹھیں کہ اسلام اور عیسائیت کی جنگ میں مرزائی ہی جواب دے سکتے ہیں.24 مئی کو نماز ظہر کے بعد مفتی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں سب واقعات پیش کئے.جلسے میں چوبیس گھنٹے باقی تھے.آپ کی طبیعت بھی کچھ کمزور تھی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت ،عظمت اور جلال کے

Page 52

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 51 لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو غیرت بخشی تھی اُس نے آپ میں وہ طاقت بھر دی اور ایسا جوش پیدا کیا کہ آپ نے اُسی وقت قلم پکڑا اور ”زندہ رسول“ کے موضوع پر ایک لاجواب اور مسکت مضمون تحریر فرمایا.جس میں آپ نے حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کا ناقابل تردید دلائل سے ثبوت دینے کے بعد بتایا کہ زندہ نبی تنہا ہمارے آقا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جن کی تاثیرات و برکات کا ایک زندہ سلسلہ قیامت تک جاری ہے اور اس کا ایک نمونہ میں ہوں کہ کوئی قوم اس بات میں میرا مقابلہ نہیں کر سکتی.خدا نے مجھے بھیجا ہے کہ تا میں اس بات کا ثبوت دوں کہ زندہ کتاب قرآن اور زندہ دین اسلام ہے اور زندہ رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے.“ ڈیڑھ دو گھنٹہ میں روح القدس کی تائید سے لکھا ہوا یہ مضمون راتوں رات چھپا.پھر حضرت مفتی صاحب چار بجے یہ مضمون لے کر لاہور روانہ ہوئے.یہ جلسہ رنگ محل ہائی سکول میں منقعد ہوا.جلسہ میں بشپ موصوف نے زندہ رسول“ کے عنوان پر تقریر کے بعد سوالات کے لئے وقت دیا.مفتی صاحب نے مضمون پڑھ کر سنایا اس وقت تین ہزار کا مجمع تھا.پر شوکت مضمون سن کر لاہور ایک بار پھر دین حق کی فتح کے نعروں سے گونج اُٹھا.خوشی کی بات یہ بھی تھی کہ حضرت اقدس علیہ السلام کے مضمون میں جو روح القدس کی تائید سے لکھا گیا تھا پادری صاحب کے ہر اعتراض کا جواب موجود تھا.بشپ صاحب ایسی زبر دست شکست کھا کر انگشت بدنداں ہو گئے اور چپ سادھ لی.کہا تو یہ کہ: معلوم ہوتا ہے تم مرزائی ہو ہم تم سے گفتگو نہیں کرتے ہمارے مخاطب عام مسلمان ہیں.“ وہ لوگ جو وعظ سن رہے تھے باہر آ کر کہنے لگے مرزائی اگر چہ کافر ہیں مگر آج اسلام کی عزت انہی نے رکھ دکھائی ہے.( خلاصہ الحکم 31 مئی 1900ء تاریخ احمدیت جلدص 90 تا 92 ملفوظات جلد پنجم ص 1397ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

Page 53

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 52 پادری صاحب کی ہزیمت پر متعدد انگریزی اخبارات مثلاً پاؤ نیر،انڈین سپیکٹیٹر اور انڈین ڈیلی ٹیلی گراف وغیرہ نے تبصروں میں حیرت کا اظہار کیا.(حیات طیبہ ایڈیشن دوم صفحہ 210) عبرانی زبان کی تعلیم 1895ء حضرت اقدس علیہ السلام کے زمانے میں قرآن پاک پر ایک اعتراض یہ بھی ہوا کہ پہلی کتب مقدسہ جن قوموں کے واسطے نازل ہوئی تھیں انہیں کی زبان میں ہوئی تھیں قرآن کریم کا دعوی ہے کہ وہ ساری دنیا کے لئے ہے تو پھر اس کے زبان عربی میں ہونے کی کیا وجہ ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کے جواب میں ایک کتاب ” من الرحمان تصنیف فرمائی جس میں یہ ثابت فرمایا کہ عربی ام الالسنہ ہے اس لئے اس زبان میں ساری دنیا کے لئے آخری شریعت نازل ہوئی اس مقصد کے لئے ہر زبان کے الفاظ سے ثابت کرنا مقصود تھا کہ وہ عربی سے نکلے ہیں.یہ ایک مشکل کام تھا.حضرت اقدس علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے انتہائی بے قراری عاجزی اور تضرع سے مدد مانگی.اللہ تبارک تعالیٰ نے ایک آیت کی طرف اشارہ فرمایا: اگر تو چاہتا ہے کہ آیت موصوفہ اور اس کے حملے سے نجات ہو تو قرآن کے اس مقام کو پڑھ جہاں یہ لکھا ہے کہ لتنذر ام القری ومن حولها جس کے یہ معنی ہیں کہ ہم نے قرآن کو عربی زبان میں بھیجا تا تو اس شہر کو ڈراوے جو تمام آبادیوں کی ماں ہے اور ان آبادیوں کو جو ان کے گرد ہیں یعنی تمام دنیا کو اور اس میں قرآن کی مدح اور عربی کی مدح ہے.پس عقلمندوں کی طرح اس پر تدبر کر اور غافلوں کی طرح ان پر سے مت گزر اور جان کہ یہ آیت قرآن اور عربی اور مکہ کی عظمت کو ظاہر کرتی ہے اور اس میں ایک نور ہے جس نے دشمنوں کو ٹکڑے ٹکڑے اور لاجواب کر دیا.پس تمام آیت کو پڑھ اور اس کے نظام کی طرف دیکھ اور دانشمندوں کی طرح تحقیق کر اور میں نے ان آیتوں میں تدبر کیا پس کئی بھیدان میں پائے پھر گہری غور کی تو کئی نوران میں پائے پھر ایک بہت ہی

Page 54

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ عمیق نظر سے دیکھا تو ا تارنے والے قہار کا مجھے مشاہدہ ہوا جو رب العالمین ہے اور میرے پر کھولا گیا کہ آیت موصوفہ اور اشارات ملفوفہ عربی کے فضائل کی طرف ہدایت کرتی ہیں اور اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ ام الالسنہ ہے اور قرآن پہلی کتابوں کا ام یعنی اصل ہے اور مکہ تمام زمین کا ام ہے.“ 53 ) روحانی خزائن جلد 9 من الرحمن ص 183 ) مسیح زمان کو اللہ تعالیٰ نے اس کام پر لگایا اور انصار بھی مہیا فرما دیئے.مفتی صاحب حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : ” مجھے کوئی دینی خدمت سونپیں“ حضور نے فرمایا: ہم چاہتے ہیں کہ یہ بھی ثابت کریں کہ عبرانی زبان بھی عربی سے نکلی ہے لیکن یہاں کوئی عبرانی پڑھا ہوا نہیں ہے جو عبرانی زبان کے الفاظ کی فہرست بنائے جیسا کہ دوسری زبانوں کے الفاظ کی ہم نے فہرستیں بنوائی ہیں.پس آپ لاہور میں کسی سے عبرانی سیکھیں پھر آکر ہمیں سنائیں.“ یہ ایک انتہائی دقیق علمی کام تھا جو اُن کے مرشد نے تفویض کیا تھا.لاہور میں عبرانی کے اُستاد کی تلاش کی مگر ناکامی ہوئی.صرف یہ معلوم ہوا کہ انارکلی کے چوباروں میں کوئی رنڈی رہتی ہے جو عبرانی جانتی ہے، وہاں آپ نے مناسب خیال نہ کیا اور یہ معاملہ حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پیش کر دیا.حضور نے فرمایا: انما الاعمال بالنيات آپ چلے جائیں آپ کی نیت پر آپ کو ثواب ہو گا.مفتی صاحب اُس کے پاس پہنچے تو اس نے بتایا کہ چند دن میں اُس کا ایک ہم وطن یہودی آنے والا ہے جو عبرانی پڑھا سکے گا.اس طرح ایک ٹیوٹر کا انتظام ہو گیا.صرف تین ماہ میں آپ نے عبرانی سیکھ لی تا کہ الفاظ کی فہرست بنا کر حضرت

Page 55

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 54 اقدس علیہ السلام خدمت میں پیش کر سکیں.اس سلسلے میں آپ نے عبرانی بائبل کو بغور پڑھا تو اُس میں بہت سی پیشگوئیاں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق اصلی حالت میں ملیں جبکہ تراجم میں اُن کو مشتبہ کر دیا گیا تھا.یہ مواد آپ وقتا فوقتا حضرت اقدس علیہ السلام خدمت میں پیش کرتے جو آپ اپنی کتب میں شامل فرماتے.عبرانی تحریر بھی مفتی صاحب کی لکھی ہوئی ہے.تحفہ گولڑویہ کے صفحات 114, 117 اور 138 پر ایسی تحریر میں موجود ہیں.کچھ حوالے اربعین نمبر 4 کے تتمہ ص 8 پر بھی درج فرمائے.(خلاصہ افضل 3 جنوری 1945 صفحہ 5) الہی تمغہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اس کام میں معاونت کرنے والوں کو دلی دُعاؤں سے نوازا اور آخر میں جو نام تحریر فرمائے اُن میں چھٹا نام اخویم مفتی محمد صادق صاحب بھیروی ہے.تحریر فرماتے ہیں کہ : ہم اس جگہ اپنے ان دوستوں کا شکر ادا کرنے سے رہ نہیں سکتے جنہوں نے ہمارے اس کام میں زبانوں کا اشتراک ثابت کرنے کے لئے مدد دی ہے.ہم نہایت خوشی سے اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ ہمارے مخلص دوستوں نے اشتراک السنہ ثابت کرنے کے لئے وہ جان فشانی کی ہے جو یقینا اس وقت تک اس صفحہ دنیا میں یاد گار رہے گی جب تک کہ یہ دنیا آباد رہے.ان مردان خدا نے بڑی بہادری سے اپنے عزیز وقتوں کو ہمیں دیا ہے اور دن رات بڑی محنت اور عرق ریزی اُٹھا کر اس عظیم الشان کام کو انجام دیا ہے.میں جانتا ہوں کہ ان کو جناب الہی میں بڑا ثواب ہوگا کیونکہ وہ ایک ایسے جنگ میں شریک ہوئے ہیں جس میں عنقریب اسلام کی طرف سے فتح کے نقارے بجیں گے پس ہر ایک اُن میں سے الہی تمغہ پانے کا مستحق ہے.میں اس کیفیت کو بیان نہیں کر سکتا کہ وہ کیوں کر ہر یک جلسہ میں اشتراک نکالنے کے لئے اندر ہی اندرصد با کوس نکل جاتے تھے اور پھر کیوں کر کامیابی کے ساتھ واپس آکر کسی لفظ مشترک کا تحفہ پیش کرتے تھے یہاں

Page 56

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 55 تک کہ اسی طرح دنیا کی زبانیں ہمارے پاس جمع ہوگئیں ہیں.کبھی اس کو فراموش نہیں کروں گا کہ اس عظیم الشان کام میں ہمارے مخلص دوستوں نے وہ مدددی جو میرے پاس وہ الفاظ نہیں جن کے ذریعے سے میں اُس کا اندازہ بیان کرسکوں اور میں دُعا کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ یہ اُن کی محنتیں قبول فرمادے اور ان کو اپنے لئے قبول کر لیوے اور گندی زیست سے ہمیشہ دور اور محفوظ رکھے اور اپنا اُنس اور شوق بخشے اور اُن کے ساتھ ہو.آمین ثم آمین.“ 66 من الرحمن روحانی خزائن جلد 9 ص 144,143 ) دینی اغراض کے لئے عبرانی کی تعلیم کا ایک واقعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آیا تھا جب اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ آپ کا کوئی صحابی عبرانی سے واقفیت پیدا کرے.آپ نے اس غرض سے ایک نوجوان صحابی حضرت زید بن ثابت انصاری سے جنہوں نے جنگ بدر کے قیدیوں سے عربی لکھنا پڑھنا سیکھا تھا اور جو گویا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کاتب خاص یا پرائیویٹ سیکریٹری کا کام کرتے تھے ارشاد فرمایا کہ وہ عبرانی لکھنا پڑھنا بھی سیکھ لیں چنانچہ حضرت زید نے جو خاص طور پر ذہین واقع ہوئے تھے صرف پندرہ دن کی محنت سے عبرانی سیکھ لی.(اصابه و میس) حضور علیہ السلام سجدہ شکر میں گر گئے جن ایام میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی ایک کتاب معرکۃ الآرا تصنیف "مسیح ہندوستان میں لکھ رہے تھے، ایک دوست میاں محمد سلطان صاحب آئے اور ذکر کیا کہ میں ایک مرتبه افغانستان گیا تھا وہاں مجھے ایک قبر دکھائی گئی تھی جو لا مک نبی کی قبر کے نام سے موسوم تھی.حضور نے مفتی صاحب کو فرمایا کہ اس کے معنی عبرانی میں کیا ہیں لغت میں دیکھ کر بتا ئیں.مفتی صاحب نے بتایا کی لائک کے معنی جمع کرنے والا اور حضرت مسیح گمشدہ بھیڑوں کو جمع کرنے کے لئے ہی تھے اس لئے یہ نام ان کے لئے تجویز ہوا اور ان کا یہ نام اناجیل میں درج ہے.اس نے کہا کہ میں

Page 57

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 56 بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کو جمع کرنے کے واسطے آیا ہوں، یہ سن کر حضور کو بہت خوشی ہوئی اور آپ مسجدہ میں گر گئے اور آپ کے ساتھ مفتی صاحب نے بھی سجدہ کیا.(ذکر حبیب 84) شام سے صبح ہوگئی ایک دفعہ بائبل کی کسی آیت کے مفہوم میں اختلاف رائے ہو گیا.حضرت اقدس علیہ السلام نے مفتی صاحب کو لکھا کہ آیت کی اصل عبرانی مع لفظی ترجمہ کے ہمیں بھیج دیں.جب حضور علیہ السلام کا یہ ارشاد موصول ہوا، آپ دفتر میں تھے.دفتر سے واپس آکر ضروری کاموں کے بعد عبرانی کی بائبل کھول کر بیٹھے آیت کا لفظ بلفظ ترجمہ لغت سے تحقیق کر کے لکھا.یہ ساری رات اسی تعمیل ارشاد میں گزرگئی.صبح کی اذان کے ساتھ کام مکمل ہوا.دفتر جا کر خط ڈاک میں ڈال دیا.یہ صدق و وفا کے انداز تھے جو حضرت مسیح پاک سے دُعائیں لوٹتے تھے.آپ نے تحریر فرمایا: آپ کے لیے ہمیشہ دُعا کرتا ہوں اور مجھے نہایت قوی یقین ہے کہ آپ تزکیہ نفس میں ترقی کریں گے اور آخر خدا سے ایک قوت ملے گی جو گناہ کی زہریلی ہوا اور اُس کے اُبال کو بچائے گی.آج مجھے بیٹھے بیٹھے یہ خیال ہوا کہ کسی قدر عبرانی کو بھی سیکھ لوں.اگر خدا چاہے تو زبان کا سیکھنا بہت سہل ہو جاتا ہے.آپ نے مجھے انگریزی میں تو بہت مدددی ہے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ وقت ملنے پر میں جلد تر کچھ انگریزی میں دخل پیدا کر سکتا ہوں.اب اس میں بالفعل آپ سے مدد چاہتا ہوں کہ آپ عبرانی کے جدا جدا حروف سے مجھے ایک نمونہ بھیج کر اطلاع دیں اور اس کے ساتھ ساتھ ایک حصہ تراکیب کا بھی ہو.اس نمونہ پر صورت حرف در فارسی صورت حرف در عبرانی.ایسا کریں جس سے مجھے تین حروف جوڑنے میں قدرت ہو جائے.باقی خیریت ہے.“ مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ

Page 58

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 57 حضرت اقدس علیہ السلام کی خواہش پر آپ نے موٹے حروف کی انجیل خریدی اس کے الفاظ کاٹ کر ایک کاپی پر چسپاں کئے اور ان کے نیچے خوش خط حروف میں تلفظ اور معانی لکھے.حضور نے اس طرز کو پسند فرمایا.آپ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی آسانی کے لئے ایک عبرانی قاعدہ بھی تصنیف کیا تھا.(ذکر حبیب ص 44) محبت کا تو اک دریا رواں ہے حضرت مفتی صاحب کی حضرت اقدس علیہ السلام اور قادیان دارالامان کی محبت کا اندازہ لگانے کے لئے آپ کا ایک مکتوب پیش ہے اور اُس مکتوب سے پہلے حضرت محمد ظہور الدین اکمل صاحب کا ایک نوٹ جو اخبار بدر مورخہ 19 مارچ 1908ء میں شائع ہوا ہے پیش خدمت ہے.یہ مکتوب آپ نے 1899 ء میں ڈاکٹر رحمت علی مرحوم کو افریقہ بھیجا تھا.اکمل صاحب کا نوٹ : یہ وہ وقت تھا جب ہمارا صادق عثمانی دوست (ایڈیٹر بدر ) اپنے محبوب کے عشق میں سرگرداں تھا.وہ اس پروانہ کی مانند تھا جو شمع کے گرد بڑی بے تابی سے اِدھر اُدھر پھرتا اور آخر پھر اس میں آکر اپنی ہستی کو مٹا دیتا ہے وہ اس بچہ کی مانند تھا جو بدر کامل کو دیکھ کر ہمک ہمک کر اُوپر اُٹھتا اور اُس تک پہنچتے میں مقدور بھر کوشش کرتا ہے.یہ ابتدائی زمانہ بھی کیا ہی پر لذت زمانہ تھا.ہمارا دوست جب کوئی موقع پاتا تو دیوانہ وار اُٹھ دوڑتا نہ رات دیکھتا نہ دن.آخر عشق صادق نے اپنا رنگ دکھایا اور وہ قطرہ سمندر میں آکر مل گیا یا یوں کہیے کہ جس لڑی کا موتی تھا اُس میں پرو دیا گیا....ناظرین مطلع رہیں کہ سب سے پہلے ڈائری لکھنے والا میرا صادق بھائی ہے: ہے.یہ مبارک رسم انہیں پر صدق ہاتھوں سے پڑی ہے.“ اس تمہید کے بعد حضرت مفتی صاحب کا ایک طویل مکتوب درج ہے.جس کا آغاز اس طرح

Page 59

58 حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور برکت ہمیشہ آپ کے ساتھ اور آپ کی جماعت افریقہ کے ساتھ ہو.مثل مشہور ہے.کہ جس کو لگتی ہے وہی جانتا ہے اور دوسرا کیا جانے.امام پاک کے قدموں سے دوری کے سبب جو کچھ آپ کے دل کا حال ہے اس کو میں خوب سمجھ سکتا ہوں.کیونکہ ایسی اشیاء کے اندازہ کے واسطے میرا دل بھی ایک پیمانہ ہے.میں جانتا ہوں کہ کوئی مضبوط ہو اور وہ ایسے صدموں کو کم Feel کرے اور کوئی میرے جیسا کمزور ہو اور وہ ذراسی بات پر سر گرداں ہو جاوے مگر وہ شارٹ سائٹ کے چشموں کی طرح ہر ایک شارٹ سائٹڈ دوسرے شارٹ سائٹڈ کے چشمے کو دیکھتے ہی فوراً تا ڑ جاتا ہے کہ یہ بھی اس مرض میں میرا ساتھی ہے سو کیا ہوا کہ ہم آپ سے بہت دور ہیں اور ہمیں آپ کی ملاقات اور زیارت سے وافر حصہ نہیں ملا بہر حال ؎ دل را بدل رہیست اور میں خوب سمجھتا کہ احباب افریقہ کے مخلصین کے قلوب کس جوش میں بھرے ہوئے ہیں.....میں اس بات کے کہے بغیر رک نہیں سکتا کہ ہماری جانیں قربان ہو جاویں اس پیارے کے نام پر جواحمد " کا غلام پر ہمارا سید اور آقا ہے کہ اس کی جوتیوں کی غلامی کی طفیل ہمارے سارے دُکھ مبدل بہ راحت ہو گئے اور ہمارے سارے غم مبدل بہ خوشی ہو گئے.ہمارا ملنا اور ہمارا جُدا ہونا سب خدا کے لئے ہو گیا.اور ہمارا سفر اور ہمارا حضر سب دین کے لئے بن گیا اور ہم خدا کی محبت کے قلعہ میں ایسے آگئے کہ شیطان کا کوئی تیر ہم تک نہیں پہنچ سکتا کہ ہم وغم میں ڈالے.خیر ! تو گزشتہ دو دنوں کے واسطے مجھے توفیق عطا ہوئی تھی کہ میں تھوڑی دیر کے واسطے اس پاک سر زمین کی آب و ہوا کے ذریعہ سے اپنی بیماریوں کے مدافعت کے لئے سعی کروں تو آج واپس آکر میں نے سوچا کہ جو میوے اس بہار سے میں لایا ہوں ان کے ساتھ اپنے پیارے رحمت علی کی دعوت

Page 60

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ کروں تاکہ کسی کی دلی دُعا میرے واسطے بھی رحمت کا موجب ہو جائے.“ نوجوان عاشق، قابل تقلید قابل فخر 59 6 جنوری 1900ء کو حضرت مولا نا عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے ایک مضمون لکھا جس میں حضرت اقدس علیہ السلام کی صحبت سے استفادہ کی اہمیت بیان کرتے ہوئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو بطور مثال پیش کیا.مضمون سے آپ کی سیرت پر خوب روشنی پڑتی ہے: ایک مفتی صادق صاحب کو دیکھتا ہوں (سلمہ اللہ وبارك عليه وفیہ) کہ کوئی چھٹی مل جائے یہاں موجود مفتی صاحب تو نقاب کی طرح اس تاک میں رہتے ہیں کہ کب زمانہ کے زور آور ہاتھوں سے کوئی فرصت غصب کریں اور محبوب اور مولی کی زیارت کا شرف حاصل کریں.اے عزیز برادر! خدا تیری ہمت میں استقامت اور تیری کوششوں میں برکت رکھ دے اور تجھے ہماری جماعت میں قابلِ اقتداء اور قابل فخر کارنامہ بنائے.حضرت صاحب نے بھی فرمایا: لاہور سے ہمارے حصے میں تو مفتی صادق صاحب ہی آئے ہیں.میں حیران ہوں کہ کیا مفتی صاحب کو کوئی بڑی آمدنی ہے؟ اور کیا مفتی صاحب کی جیب میں کسی متعلق کی درخواست کا ہاتھ نہیں پڑتا اور مفتی صاحب تو ہنوز نو عمر ہیں اور اس عمر میں کیا کیا اُمنگیں نہیں ہوا کرتیں پھر مفتی صاحب کی یہ سیرت اگر عشق کامل کی دلیل نہیں تو اور کیا وجہ ہے کہ وہ ساری زنجیروں کو توڑ کر دیوانہ وار بٹالہ میں اتر کر نہ رات دیکھتے ہیں نہ دن، نه سردی نہ گرمی نہ بارش ، نہ اندھیری.آدھی آدھی رات کو یہاں پیادہ پہنچے ہیں جماعت کو اس نوجوان عاشق کی سیرت سے سبق لینا چاہیے.“ (الحکم 24 جنوری 1900 صفحہ 7)

Page 61

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ مفتی صاحب کے خواب اور اُن کی تعبیریں 60 جب میں لاہور دفتر اکاونٹنٹ جنرل میں ملازم تھا اور مزنگ میں رہا کرتا تھا اُن ایام میں میں نے ایک خواب دیکھا کہ ایک شخص جس کا نام کا لو ہے ہمارے زنانخانہ میں بے تکلف آ گیا ہے اور میری بیوی نے اُس سے پردہ نہیں کیا.ظاہر ہے کہ ایسی حالت ایک غیور مرد کے واسطے کہاں تک قابل برداشت ہے جس کے گھر میں خاندانی عادت سخت پردہ قائم رکھنے کی ہو.اس واسطے اس نظارہ سے مجھے ایسا غصہ آیا کہ بسبب رنج کے میں کانپ اُٹھا اور بیدار ہو گیا.اس خواب کے نظارہ نے مجھے متوحش کر دیا کہ مجھے اُس مکان سے بھی نفرت ہو گئی جس میں وہ خواب دیکھا تھا اور میں نے ارادہ کیا کہ اس مکان کو چھوڑ دوں کیوں کہ وہ کرایہ پر لیا ہوا تھا.جب میں نے اپنی بیوی سے اس کا ذکر کیا اُس نے مجھے مشورہ دیا کہ خوابوں کی تعبیریں ہوتی ہیں ظاہر پر حمل نہیں ہوسکتا چونکہ مکان بظاہر ہر طرف سے آرام دہ ہے اس واسطے اتنی بات پر چھوڑ دینا مناسب نہیں.آپ پہلے اپنا خواب بخدمت حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان لکھ بھیجیں اور اس کی تعبیر دریافت کریں پھر جو وہ ارشاد فرماویں گے اُس کی تعمیل ضروری ہوگی.مجھے یہ مشورہ پسند آیا اور میں نے حضرت صاحب کی خدمت میں اُسی روز ڈاک میں خط دیا جس پر حضرت صاحب کا جواب آیا کہ اس خواب کی وجہ سے مکان تبدیل نہ کریں.اگر آپ کے گھر میں حمل ہے تب اس کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کے گھر میں لڑکا پیدا ہو گا؛ کالو.کالا در اصل عربی الفاظ ہیں اور اس کے معنی ہیں نگاہ رکھنے والا.یہ خدا تعالیٰ کا نام ہے.کالو کے گھر میں آنے کی تعبیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس مشکل مرحلیہ جمل میں آپ کی بیوی کا نگہبان ہوگا اور فرزند نرینہ عطا کرے گا.حسن اتفاق سے ان دنوں ہمارے گھر میں حمل تھا جس کی حضرت صاحب کو کوئی خبر نہ تھی.چنانچہ اس تعبیر کے مطابق ایام حمل کے پورا ہونے پر میرے گھر میں لڑکا پیدا ہوا.رویا کی تعبیر کرنا بھی ہر کسی کا کام نہیں.خدا کے خاص بندوں کو یہ علم بخشا جاتا ہے.(ذکر حبیب 230,229)

Page 62

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 61 یکم اگست 1898ء کو مفتی صاحب لاہور سے قادیان تشریف لائے ہوئے تھے.آپ نے صبح کی نماز کے بعد اپنے دو خواب حضور اقدس کو سنائے : جن میں سے ایک میں نور کے کپڑوں کا ملنا اور دوسرے میں حضرت اقدس علیہ السلام کے دیئے ہوئے مضمون کا خوش خط نقل کرنا تھا جس کی تعبیر حضرت اقدس علیہ السلام نے کامیابی مقاصد بیان فرمائی.“ (احکام 6 تا 13 راگست 1898 ء ) جون 1899ء کا واقعہ ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب مرحوم کی پیدائش سے چند روز قبل جب کہ مفتی صاحب قادیان آئے ہوئے تھے، خواب میں دیکھا کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم ایک چھوٹے سے نوزائیدہ بچہ کو اٹھائے ہوئے باہر تشریف لائے ہیں.حضرت صاحب کی خدمت میں خواب سنایا تو آپ نے فرمایا کہ اس میں ہمارے ہاں لڑکا پیدا ہونے کی بشارت ہے.چند روز کے بعد صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب پیدا ہوئے تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: مفتی صاحب کو اطلاع کرو کہ اُن کی خواب پوری ہوگئی.(ذکر حبیب ص 66,65 ) حضرت مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں: حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ایک دفعہ میں نے خواب دیکھا کہ حضرت صاحب شہر بھیرہ کی ایک منڈی میں جس کو وہاں گنج کہتے ہیں، جا رہے ہیں اور چند خدام آپ کے ہمراہ ہیں.میں نے اپنا یہ خواب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا.تو حضور نے فرمایا کہ اس خواب میں یہ اشارہ ہے کہ ہم کو اپنے سلسلہ کے کاموں میں بھیرہ سے بہت سی نصرت ملی ہے.ابتدائی زمانہ میں جبکہ احمدی بہت تھوڑے تھے.ان میں بہت اخلاص رکھنے والے اور دین کی راہ میں خرچ کرنے والے زیادہ تر بھیرہ کے لوگ تھے.جیسا کہ حضرت مولوی حکیم

Page 63

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 62 نورالدین صاحب اور حکیم فضل دین صاحب اور بھیرہ کے محلہ مستریوں کے بہت سے آدمی اور محلہ معماروں کے بہت سے آدمی.بھیرہ کے مفتی خاندان کے تین اشخاص اور خاندان خواجگان کے بہت سے ممبر.سب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں احمدی ہو گئے تھے اور احمد یوں کی دو ( بیوت) بنائی گئیں.(المصلح 8 جنوری 1954 ء) تذکرہ صفحہ 687 پر درج ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے اپنے ایک خواب کے نتیجہ میں مفتی صاحب سے فرمایا: میں نے دیکھا کہ منظور ( حضرت مفتی صاحب کے صاحبزادے) کی طرف چیل جھپٹی ہے آپ ایک مسکین کو کھانا کھلایا کریں.“ " مفتی صاحب نے عرض کیا...حضور مقرر کر دیا ہے.“ حضرت مفتی صاحب کے نو سال کے بیٹے محمد منظور صادق نے ایک مندر خواب دیکھا.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا گیا تو آپ نے فرمایا: مومن کبھی رویا دیکھتا ہے اور کبھی اُس کی خاطر کسی اور کو دکھاتا ہے ہم نے اس کی تعمیل میں چودہ بکرے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے.سب جماعت کو کہہ دو کہ جس جس کو " استطاعت ہے قربانی کرد...( بدر 13 را پریل 1905ء) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس خواب کو سن کر اپنے خاندان کے ہر فرد کی طرف سے ایک ایک بکر اذ بح کیا اور آپ کی اتباع میں ہر شخص نے جو مقدرت رکھتا تھا ہر ممبر خاندان کی طرف سے ایک ایک یا کل خاندان کی طرف سے ایک ہی بکرا ذبح کیا اور اس قسم کی قربانیوں سے خون کی ایک نالی جاری ہو گئی تھی.کم از کم ایک سو بکرا ذبح ہو گیا ہو گا.(سیرت حضرت مسیح موعود از یعقوب علی عرفانی ص 388 ) 20 ستمبر 1905ء کو مفتی صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں اپنی ایک رؤیا

Page 64

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 63 بیان کی کہ میں رات مولوی عبد الکریم کے واسطے بہت دُعا کرتا تھا تو تھوڑی غنودگی میں ایسا معلوم ہوا کہ میں کہتا ہوں یا کوئی کہتا ہے بلاؤں میں جندرے مارے گئے“ فرمایا: ”مبشر ہے“ اسی دن ایک اور خواب بھی پیش کیا کہ طاعون بہت پھیلا ہوا دکھائی دیا اور کوئی کہتا ہے یا میں کہتا ہوں کہ جو آجکل رات کو اٹھ کر دُعا کر لے گا وہ اس سے آئندہ طاعون کے وقت بچایا جائے گا.فرما یا یہ بالکل سچ ہے راتوں کو اٹھ کر بہت دُعائیں کرنی چاہئیں کہ اللہ تعالی آنے والے عذاب سے اپنے فضل واحسان سے محفوظ رکھے.( بدر 29 ستمبر 1905 ء) وہی مے ان کو ساقی نے پلا دی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے عشق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چراغ اپنے زیر تربیت متبعین کے قلوب میں بھی روشن کر دیئے تھے حضرت مفتی صاحب لکھتے ہیں: جنوری 1897 ( بیت ) مبارک میں بیٹھے ہوئے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ میں اپنی تمام خواہشوں کے عوض میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا کروں گا.میرے واسطے دُعا کی جائے.حضور نے ہاتھ اُٹھا کر تمام حاضرین کے ساتھ دُعا کی.“ ( ذكر حبيب ص 236) یہ خیال آپ کو ایک حدیث پڑھ کر آیا تھا جس کا ترجمہ ہے: " حضرت اُبی بن کعب کہتے ہیں میں نے ایک رات حضور علیہ السلام کے جگانے پر اُٹھ کر) عرض کیا یا رسول اللہ میں اپنی دُعا کا بڑا حصہ حضور کے لئے مخصوص کر دیا کرتا ہوں ( مگر بہتر ہو کہ حضور ارشاد فرما دیں کہ) میں اپنی دُعا کا کتنا حصہ حضور کے لئے مخصوص کیا کروں فرمایا جتنا چاہو.میں نے عرض کیا ایک چوتھائی ؟ فرمایا جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ (حصہ میرے لئے مخصوص کیا) کرو تو زیادہ بہتر ہو گا میں نے عرض کیا نصف حصہ؟ فرمایا جتنا چاہو اور اگر اس سے بھی

Page 65

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 64 بڑھا دو تو اور بہتر ہوگا.میں نے عرض کیا دو تہائی ؟ فرمایا جتنا چاہو اور اگر اس سے زیادہ کر دو تو اور بھی بہتر ہوگا.میں نے عرض کیا کہ میں آئندہ اپنی تمام دُعا کو حضور کے لیے مخصوص رکھا کروں گا فرما یا اس میں تمہاری سب ضرورتیں اور حاجتیں آجائیں گی اور اللہ تعالیٰ تمہارے سارے کام درست کر دے گا اور تمہاری ساری مرادیں پوری کر دے گا اور کوتاہیاں معاف کر دے گا.“ قادیان ہجرت 1898ء میں آپ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں درخواست لکھی کہ مجھے اجازت دی جائے کہ ملازمت ترک کر کے قادیان ہجرت کرلوں.حضرت اقدس علیہ السلام نے جواب میں تحریر فرمایا: مومن کے واسطے قیام فیما اقام اللہ ضروری ہے یعنی جہاں اللہ تعالیٰ نے اس کو کھڑا کیا ہے اور اس کے لئے روزی کا سبب بنایا ہے وہیں صبر کے ساتھ کھڑا رہے یہاں تک کہ کوئی سبب آپ کے لئے ایسا بنے کہ آپ کو کسی کام کے واسطے قادیان بلالیا جائے لیکن چونکہ آپ نے ہجرت کا ارادہ کر لیا ہے اس واسطے آپ کو اس کا ثواب ہر حال ملتا رہے گا.“ (ذکر حبیب ص 27) 1900ء میں قادیان کا مڈل سکول ہائی سکول میں بدل گیا.سکول کے ناظمین نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی کہ مفتی صاحب کو قادیان بلا لیا جائے.چنانچہ حضرت اقدس علیہ السلام نے مفتی صاحب کو ارشاد فرمایا: ” آپ فی الحال دفتر سے تین ماہ کی رخصت لے کر آجائیں.“ حضرت مفتی صاحب نے یہ ارشادسن کر تین ماہ کی رخصت کی درخواست لکھی.آخر میں یہ بھی لکھ دیا کہ اگر مجھے رخصت نہیں مل سکتی تو استعفیٰ منظور کر لیا جائے.آپ کو حضرت اقدس علیہ السلام کے حکم کی تعمیل اپنی ملازمت برقرار رہنے سے زیادہ عزیز تھی.معلوم ہوتا ہے کہ قادیان میں اس امر کے

Page 66

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 65 بارے میں مزید مشورے ہوئے جس کے نتیجہ میں حضرت اقدس علیہ السلام نے دوبارہ پیغام دیا.پ استعفیٰ نہ دیں ہاں آسانی سے رخصت مل جائے تو رخصت لے کر یہاں چلے آئیں.“ (ذکر حبیب ص 28) حضور کا یہ پیغام لے کر مکرم عبد العزیز قادیان سے صبح سحری کے وقت لاہور پہنچے اُن دنوں مفتی صاحب اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب جو اس وقت میڈیکل کے پہلے سال کے طالب علم تھے ایک ہی مکان میں رہتے تھے.مسیح پاک کا ارشاد موصول ہوا تو مفتی صاحب نے جو اپنی درخواست پر لکھ چکے تھے کہ اگر درخواست منظور نہ ہو تو استعفیٰ منظور کر لیا جائے اکاؤنٹنٹ جنرل کی میز پر پڑی ہوئی درخواست میں سے لفظ استعفیٰ کاٹ دیا.چھٹی کی درخواست منظور ہوگئی.آپ کی دلی مراد بر آئی فوراً قادیان پہنچے جہاں آپ کو تعلیم الاسلام ہائی سکول میں سیکنڈ ماسٹر کے فرائض سونپ دیئے گئے.جب تین ماہ گزر گئے تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا.آپ چھ ماہ کے لئے اور رخصت کی درخواست بھیج دیں.(ذکر حبیب ص 28) چھ ماہ کی درخواست دے دی گئی جن میں سے تین ماہ کی رخصت منظور ہوگئی.جب یہ تین ماہ بھی گزر گئے تو حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: آپ استخارہ کریں“ آپ نے سات دفعہ استخارہ کیا.جب انشراح صدر نصیب ہوا تو محبت و اخلاص سے بھر پور ایک خط 7 جولائی 1901ء کو حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا: گزارش ہے کہ اس عاجز نے گزشتہ تین چار دنوں میں کئی دفعہ اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں کی معافی چاہتے ہوئے اور اپنی کمزوریوں کا اظہار کرتے ہوئے استخارہ کیا ہے اور اس کے بعد اپنے دینی اور دنیوی فوائد کو یہ عاجز اسی میں دیکھتا ہے کہ حضور کی جو تیوں میں حاضر رہے.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل وکرم سے اس امر کے لئے اس عاجز کو

Page 67

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ انشراح صدر عطا فرمایا ہے پھر جیسا حضور اقدس علیہ السلام حکم فرما دیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور آپ کی متابعت میں اللہ تعالیٰ کی رضا ہے.میرے قلب کا میلان بعد دُعائے استخارہ کے بالکل اس طرف ہو گیا ہے اے خدا میرے گناہوں کو بخش دے میری کمزوریوں کو دُور فرما اور مجھے صراط مستقیم پر چلا.اللہ تعالیٰ آپ کا حامی و ناصر ہو اور آپ کے دشمنوں کو رو سیاہ کرے آمین ثم آمین.آج سات تاریخ ہے اس واسطے اب لا ہور خط لکھ دینا چاہیے.حضور کی جوتیوں کا غلام عاجز محمد صادق....قادیان 66 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جواب عنایت فرمایا: جب کہ آپ کا دل استخارہ کے بعد قائم ہو گیا ہے تو یہ امر خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے.خدا تعالیٰ آپ کو مبارک کرے.ہمیں بہت خوشی اور عین مراد ہے کہ آپ اس جگہ رہیں.خاکسار مرزا غلام احمد عفی عنہ (ذکر حبیب ص 352) ملازمت ترک کرنے کی خبر پہنچنے پر حضرت مفتی صاحب کے دفتر کے مسلمان کلرکوں کی طرف سے ایک ڈیپوٹیشن قادیان آیا.اُس کے لیڈر مکرم منشی نظام الدین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ اُن کو لاہور میں رہنے دیا جائے.مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے فیصلے پر قائم رہے.حضرت مفتی صاحب نے استعفی بھیج دیا جو منظور ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دُعاؤں کو شرف قبولیت بخشا دائمی وصل کے سامان کر دیئے.آپ نے جنوری 1901ء میں ہجرت کی.حضرت مفتی

Page 68

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 67 صاحب نے استعفی بھیج دیا جو منظور ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دُعاؤں کو شرف قبولیت بخش دانگی وصل کے سامان کر دیئے.آپ نے جنوری 1901ء میں ہجرت کی.(ذکر حبیب ص 26) تاریخ احمدیت جلد اول صفحہ 492 پر ہجرت کرنے والوں کی فہرست میں آپ کی ہجرت کا سال جولائی 1900ء تحریر ہے: می پریدم سوئے گوئے تو مدام من اگر میداشتم بال و پرے جب آپ قادیان آئے تو آپ کے دو صاحبزادے محمد منظور بعمر 5 سال عبد السلام بعمر ایک سال تھے.حضرت اقدس علیہ السلام نے آپ کو الدار میں وہ کمرہ رہائش کے لئے دیا جو آپ کے او پر والے مکان کے رہائشی صحن اور کوچہ بندی کے اُوپر والے صحن کے درمیان تھا.اور آپ کے رہائشی کمرے سے اس قدر قریب تھا کہ گھر میں باتیں کرنے کی آواز کمرے میں سنائی دیتی تھی.ایک سال مکان کے اس حصہ میں رہنے کی سعادت حاصل ہوئی اور مسلسل ایک سال اس خاندان کا دونوں وقت کا کھانا لنگر خانہ سے آتا رہا.یہ مسیحائے زمان کی میز بانی کا ایک دلکش پہلو ہے.حضرت مفتی صاحب فرماتے ہیں: میں نے کئی بار حضرت صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ چونکہ اب میں یہاں ملازم ہوں اور صورت مہمانی کی نہیں ہے.اس لئے میرے واسطے مناسب ہے کہ میں اپنے کھانے کا خود انتظام کروں مگر حضرت صاحب نے اجازت نہ دی ایک سال کے بعد جب میں نے ایسا رقعہ لکھا اور اس میں میں نے یہ اصرار کیا کہ میں اس واسطے اپنا انتظام علیحدہ کرنا چاہتا ہوں کہ میرا بوجھ جوانگر پر پر ہے وہ خفیف ہو کر مجھے ثواب حاصل ہو اس کے جواب میں حضرت صاحب نے مجھے لکھا: چونکہ آپ بار بار لکھتے ہیں اس واسطے میں آپ کو اجازت دیتا ہوں اگر چہ آپ کے لئے لنگر سے کھانا لینے کی صورت میں بھی آپ کے ثواب میں کوئی کمی نہ تھی.“ 66 (ذکر حبیب ص 330)

Page 69

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ 68 تعلیم الاسلام ہائی سکول میں آپ کی خدمات قادیان میں مدرسہ کا آغاز 1898ء میں پرائمری سکول سے ہوا تھا.فروری 1900ء میں ہائی سکول بنا.اس کے تین سال بعد ترقی دے کر کالج بنادیا گیا جو تعلیم الاسلام کالج کے نام سے موسوم ہوا.کالج کا افتتاح 28 مئی 1903ء کو ہوا.اس کالج کے ابتدائی سٹاف میں حضرت مفتی صاحب بھی شامل تھے.آپ کالج کے مینجر ہسپر نٹنڈنٹ اور منطق کے پروفیسر بھی تھے.تاریخ احمدیت جلد 3 ص 323) حضرت مفتی صاحب نے 1903 ء سے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں خدمات کا سلسلہ شروع کیا جو آپ کی قابلیت اور ان تھک محنت سے یاد گار عرصہ شمار کیا جاتا ہے.9 اگست 1904ء کوسکول کا انسپیکشن ہوا تو حسن کارکردگی سے متاثر ہوکر انسپکٹر صاحب نے نوٹ لکھا: تمام مکانات صاف ستھرے ہیں.اور اس مدرسہ کے تمام کاروبار میں ایک سنجیدگی اور محسن انتظام کی خوشبو آتی ہے جو نہایت ہی قابل تعریف ہے.“ ( الحکم 10 راگست 1904ء) اس رپورٹ کے نتیجے میں سکول Recognize ہو گیا ( الحکم 24 ستمبر 1904ء) اس کے بعد 20 فروری 1905ء کو انسپکٹر صاحب مدارس حلقہ جالندھر اور ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس گورداسپور نے سکول کا معائنہ کر کے خوشنودی کا اظہار کیا.سکول میں آپ کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو پڑہانے کا اعزاز حاصل ہوا ( تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 32) 18 جنوری 1905ء میں میٹرک کے امتحان کے لئے فارم پر کرنے سے پہلے آپ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں لکھا: اس میں ایک خانہ ہے اس لڑکے کا باپ کیا کام کرتا ہے میں نے نبوت لکھا ہے آپ نے جواب دیا نبوت کوئی کام نہیں.یہ لکھ دیں کہ فرقہ احمد یہ جو تین لاکھ کے قریب ہے اس

Page 70

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ 69 کے پیشوا اور امام ہیں.اصلاح قوم کام.تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 52) خطبہ الہا میزبانی یاد کر لیا 11 اپریل 1901ء کو عید الاضحیہ کے موقع پر حضرت اقدس علیہ السلام نے خطبہ الہامیہ ارشاد فرمایا.یہ خطبہ ایک زبردست علمی نشان تھا.اس اہمیت کے پیش نظر آپ نے اپنے خدام کو تحریک فرمائی کہ اسے حفظ کیا جائے چنانچہ اس کی تعمیل میں حضرت مفتی صاحب نے بھی اسے حفظ کر لیا اور ایک دن مغرب وعشاء کے درمیان (بیت) مبارک کی چھت پر حضرت اقدس علیہ السلام کو زبانی سنانے کی سعادت بھی حاصل ہوئی.روایات صحابہ جلد 3، تاریخ احمدیت جلد دوم ص 85 جدید ایڈیشن) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی علمی وتحقیقی مہمات میں معاونت آپ نے 1900 ء سے طوعی طور پر یہ مشغلہ اختیار کر رکھا تھا کہ اخبارات میگزین اور کتب خریدتے ، مطالعہ کرتے ، ضروری نکات سے حضرت اقدس علیہ السلام کو آگاہ کرتے اور قلم کاروں سے خطوط کے ذریعے رابطہ رکھتے.اس کام کو آپ دو طریق سے کرتے ایک تحقیق الادیان اور دوسرا تبلیغ دین حق اور انہیں عنوانات سے بدر میں رپورٹیں اور جائزے شائع کرواتے.خطوط کی ترسیل کئی ممالک کو ہوتی.مثال کے طور پر 11 نومبر 1902ء کو حضرت مفتی صاحب نے ایک خط پگٹ کو لکھا جس کے جواب میں اُن کے سیکریٹری نے ایک خط اور دواشتہار روانہ کئے.حضرت اقدس علیہ السلام نے مفتی صاحب کا طریق استدلال پسند فرمایا.حضرت مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں: اس تاریکی کے زمانے میں جب یہ خدا کے پیارے مخلوق الہی کو سیدھی راہ پر بلا

Page 71

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ رہے ہیں تو میرے دل میں جوش اُٹھا کہ میں بھی ان کی امداد کروں جو خود کمزور ہو وہ کسی کی کیا مدد کرے گا.مگر ایسے پر جوش اور پر طاقت با ہمت عالی حوصلہ عالی دماغ اصحاب کے کارناموں کو اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتا دیکھ کر نہ رہ سکا کہ نچلا بیٹھ رہوں میں بھی لگا کچھ ہاتھ ہلانے اور کچھ آوازیں دینے.بھلا اس چھوٹے سے ہاتھ اور باریک سی آواز نے کیا کرنا تھا مگر خدا نے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ سے جو دنیا بھر کو تبلیغ پہنچانی تھی تو اس کے واسطے سامان بھی ایسے ہی مہیا کر دئے.پس میرے ہاتھ اور آواز کو ڈاک نے ایسی مدددی کہ میں گھر بیٹھے بیٹھے انگلستان، امریکہ اور جاپان تک جانے لگا.اور تو کیا کر سکتا تھا پھر دو باتوں کی آہستہ آہستہ عادت سمجھو، قوت سمجھو، نشہ سمجھو کچھ سمجھو دو کام آہستہ آہستہ کرنے لگا ایک تو یہ کہ جہاں کہیں کوئی نیا فرقہ دیکھا،گمراہی کا کوئی خوفناک گڑھا پایا ، ضلالت کا کوئی ہولناک کنواں معلوم کیا اُن کی خبر خدا کے مسیح کو دی تا کہ وہ اُن کی دستگیری کے لئے توجہ کریں اور دوسرا یہ کہ جو ملاکسی نہ کسی بہانے اُس کے کان میں کچھ اسلام کے بانی علیہ السلام اور اسلام کے موجودہ امام کی خبر ڈال دی.کسی نے گالی دی ،کسی نے برا منایا، کوئی ہنس کر خاموش رہا، کسی نے خشک شکریہ میں ٹالا.کوئی تھوڑی دور ساتھ ہولیا اور پرسانِ حال رہا پر میں اپنا کام کئے گیا.یہاں تک کہ بعض رشید اور سعید ایسے نکلے کہ جنہوں نے اس آواز کو قبول ہی کر لیا ( بدر 24 نومبر 1904ء) اس کام کو مفید دیکھ کر بعض احباب نے مالی معاونت کی پیشکش کی تو آپ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں اجازت اور دُعا کے لئے عریضہ تحریر کیا آپ نے جواباً رقم فرمایا: السلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ میرے نزدیک جہاں تک کچھ دقت اور حرج واقع نہ ہو، اس کام میں کچھ مضائقہ 70

Page 72

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں ہے، موجب تبلیغ ہے.جو صاحب اس کام میں مدد دینا چاہیں وہ بے شک دیں.والسلام خاکسار مرزا غلام احمد مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں: 71 ( بدر 24 نومبر تا یکم دسمبر 1904ء) ( قریباً 1902ء) میں ایک لیڈی مس روز (Miss Rose) نام تھی جس کے مضامین اُس ملک کے اخباروں میں اکثر چھپا کرتے تھے.میں نے اُس کے ساتھ تبلیغی خط و کتابت شروع کی اور اُس کے خط جب آتے تھے میں عموماً حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ترجمہ کر کے سنایا کرتا تھا اور ہماری مجلسوں میں اُسے مس گلا بو کہا جاتا تھا.ایک دفعہ مس گلا بو نے اپنے خط کے اندر پھولوں کی پتیاں رکھ دیں حضرت صاحب نے انہیں دیکھ کر فرمایا: یہ پھول محفوظ رکھو کیونکہ یہ بھی يأتيك مِن كُل فج عمیق کی پیشگوئی کو پورا (ذکر حبیب ص99) کرنے والے ہیں.“ ذکر حبیب کے صفحہ 94 تا 98 پر ایک طویل مکتوب کا ترجمہ ہے جو آپ نے امریکہ کے ایک نو مسلم جے ایل راجرز ساکن شہر سیتا کروز ریاست کیلی فورنیا کے نام لکھا تھا.حضرت اقدس علیہ السلام نے ان کا اسلامی نام عبد الرحمن تجویز فرمایا تھا.حضرت مفتی صاحب عیسائیوں کی کتب اور اخبارات پڑھ کر سلسلہ عالیہ کے لئے مفید مضامین اور حوالے تلاش کر کے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر سنانے کا بے حد شوق رکھتے تھے.آپ جن موضوعات پر تحقیق فرما رہے ہوتے.مفتی صاحب اُن سے واقفیت رکھتے اور مناسب مواد تلاش کر کے بہم پہنچاتے.اس طرح کی تحقیقی کاوشیں حضرت اقدس علیہ السلام کی پسندیدگی کی سند حاصل کرتیں اور آپ دلی دُعاؤں سے نوازتے.17 نومبر 1901ء کی صبح حضرت

Page 73

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 72 اقدس علیہ السلام حسب معمول سیر کے لئے تشریف لے گئے.واپسی پر کچھ دیر حضرت حکیم نورالدین کے مطب میں بیٹھ گئے.گفتگو جاری تھی کہ ایک یورپین سیاح ڈی ڈی ڈکسن نامی آگئے.حضرت اقدس علیہ السلام کے ارشاد پر مفتی صاحب نے ترجمانی کے فرائض ادا کئے اور مناسب رنگ میں دعوت الی اللہ کی.عصر کی نماز کے بعد ڈکسن صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کی تین تصویریں کھینچیں دو خدام کے ساتھ اور ایک صرف آپ کی.(خلاصه از تاریخ احمدیت (جدید ایڈیشن) جلد 2 ص 196 ) حضرت مفتی صاحب کی مخلصانہ مساعی پر بدر کا خراج تحسین دیکھئے: ”ہمارے مکرم دوست مفتی محمد صادق صاحب مدرسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان کے مڈل ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ ماسٹر سلسلہ احمدیہ کے ایک چھپے ہوئے رستم ہیں.آپ فارن ممالک کے ساتھ خط و کتابت رکھتے ہیں.مفتی صاحب کا دستور ہے کہ مذہبی رنگ میں کسی شخص کا نام کسی اخبار میں دیکھ لیں یا کسی فہرست میں کوئی کتاب نظر آجاوے جس کا تعلق مذہب سے ہو تو جھٹ اُس شخص کے نام خط لکھ کر اس کے حالات دریافت کرتے ہیں اور مناسب ہو تو احمد یہ مشن سے اُسے انٹروڈیوس کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ کتاب منگواتے ہیں اور اس کا خلاصہ نکال کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سناتے ہیں.مفتی صاحب موصوف کے کارنامے تو ایسے ہیں کہ ان کا مفصل ذکر کیا جاوے اور جیسے انہوں نے ایک ایک لحظہ اور ایک ایک سیکنڈ دینی خدمات کے لئے وقف کیا ہوا ہے اور اپنا اوڑھنا اور بچھونا دین کی خدمت بنایا ہوا ہے ویسی توفیق خدا تعالیٰ ہمیں اور ہمارے احباب کو عطا کرے.“ (البدر 31 اکتوبر 1902ء) ملفوظات جلد چہارم ص 417 پر تحریر ہے: مفتی صاحب نے حسب الحکم حضرت اقدس علیہ السلام کو وہ تمام حوالہ جات کتب سابقہ کے سنائے جن کا ارشاد حضرت اقدس علیہ السلام نے آج صبح کی سیر میں کیا تھا، اسی طرح صفحہ 443 پر

Page 74

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 73 تحریر ہے مفتی محمد صادق حسب الارشاد حضرت اقدس علیہ السلام ایک عیسائی کی کتاب سے گناہ کی حقیقت سناتے رہے اس کتاب میں ایک جگہ گناہ کی تعریف دیکھی گئی تھی کہ جو امر کانشنس یا شریعت کے خلاف ہو وہ گناہ ہے.“ اس طرح کئی مواقع پر مضامین ، تراجم، کتب، اخبار سنانے کا ذکر ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے ایک موقع پر فرمایا: اس لئے سنتے ہیں کہ کہیں غیرت آجاتی ہے اور بعض اوقات کوئی عجیب تحریک ( بدر 7 نومبر 1902ء) ہوتی ہے.“ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ایک مضمون تحریر فرما رہے تھے جس میں پطرس کی عمر پر بحث جاری تھی.حضرت مفتی صاحب کے ذہن پر اس مسئلے کا حل مسلط تھا.اکتو بر 1902ء میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ( خلیفتہ امسیح الثانی کی بارات ساتھ رڑ کی گئے تو وہاں پادریوں سے پطرس کی عمر کے بارے میں تحقیق کا موقع ملا.جس سے ثابت ہوتا تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کو صلیب دئے جانے کے وقت پطرس کی عمر تیس سے چالیس سال کے درمیان تھی.پطرس کا ایک نوٹ ملا تھا جس میں اُس نے تحریر کا وقت مسیح کی وفات کے تین سال بعد لکھا تھا.اس طرح ثابت ہو گیا کہ وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کے بعد 47 سال زندہ رہا یہ ایک ثبوت تھا وفات مسیح کا جس پر تحقیقی مواد ملنے سے حضرت اقدس علیہ السلام بہت خوش ہوئے.(خلاصہ از ملفوظات جلد دوم ص 312) 1902ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام پیشگوئی ذوالقرنین کے پورا ہونے کی گفتگو فرما رہے تھے.آپ نے فرمایا: ذوالقرنین اس لئے نام رکھا کہ وہ دوصدیوں کو پائے گا.اب جس زمانہ میں خدا نے مجھے بھیجا ہے سب صدیوں کو جمع کر دیا ہے.کیا یہ انسانی طاقت میں ہے کہ اس طرح پر دوصدیوں کا حساب ہو جاوے.ہندوؤں کی صدی بھی پائی اور عیسائیوں کی بھی.مفتی

Page 75

" حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ صاحب نے کوئی 16 یا 17 صدیاں جمع کر کے دکھائی تھیں.( ملفوظات جلد 2 صفحہ 140 ) 1907ء میں حضرت اقدس علیہ السلام نے قادیان کے آریہ اور ہم تحریر فرمائی تو مولوی ثناء اللہ صاحب نے جواب دینے کا معقول راستہ چھوڑ کر کج بحثی شروع کر دی تو حضرت اقدس علیہ السلام سے حضرت مفتی صاحب کو اس کا جواب لکھنے کا ارشاد فرمایا.آپ نے ہر پہلو سے شافی و کافی جواب تحریر کئے جس کا عنوان لگایا : مباہلہ کے واسطے مولوی ثناء اللہ امرتسری کا چیلنج قبول کر لیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم سے لکھا گیا " ہر طرف آواز دینا ہے ہمارا کام آج ( بدر 4 اپریل 1907ء) 74 18 جون 1908 ء کے اخبار بدر میں حضرت اقدس علیہ السلام کی مصروفیات کی 23 مئی 1908ء کی ڈائری میں حضرت مفتی صاحب کے شوق تبلیغ کے بارے میں بہت شاندار نوٹ ہے: حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو تبلیغ سلسلہ احمدیہ کی ایک قسم کی کو اور ڈھن لگی ہوئی ہے اور بہت کم ایسے مقامات ولایت میں ہونگے جہاں کے محقق انگریزوں اور اخبارات کے ایڈیٹر ان وغیرہ کی اطلاع پاکر انہوں نے ان معاملات میں خط و کتابت نہ کی ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کی تبلیغ ان کو نہ کی ہو.امریکہ کے ڈوئی کی حسرت ناک تباہی اور لندن کے پگٹ کی مایوسانہ نامرادی بھی حضرت مفتی صاحب ممدوح ہی کی کوششوں کا نتیجہ ہیں.انہوں نے جس طرح ڈوئی اور پگٹ کا بیڑا غرق کر دیا اسی طرح کئی سعید روحوں کے لئے باعث ہدایت آپ ہی ہوئے.آپ کی سچی مخلصانہ کوششیں اور جوشِ

Page 76

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 75 تبلیغ حق کا یہ نتیجہ ہوا کہ یورپ اور امریکہ کے بعض انگریزوں اور لیڈیوں نے حضرت اقدس علیہ السلام کی صداقت کو مان لیا اور اپنے خیالات فاسدہ سے تو بہ کی.غرض مفتی صاحب موصوف کسی تعارف کے محتاج نہیں ساری احمدی دنیا ان کے نامِ نامی سے واقف اور ان کے اخلاص صدق و وفا سے آگاہ ہے.“ ذیل میں اس للہی خدمت کی چند جھلکیاں پیش ہیں : مسٹر پگٹ اور مسٹر چارلس کو خطوط ا.اکتوبر 1902ء کی صبح کی سیر میں ڈوئی اور پگٹ عیسائی معاندین کا ذکر ہو رہا تھا حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: پگٹ کو ضرور چٹھی لکھنی چاہیے.اگر مقابلہ کرے تو خوب اثر ہو گا اور لوگ بھی توجہ کریں گے.“ ( ملفوظات جلد 2 ص 439) عجیب روح پرور سیریں ہوتیں.صبح کا سماں ، قدرتی حسن کی ضو پاشیاں باد نسیم کے جھونکے خوشبو اور تازگی کے امتزاج میں آسمان روحانیت کے جلو میں نجوم کا جھرمٹ اور باتوں کا موضوع کائنات کو الہی رنگ دینے کے منصوبے! مسٹر پیٹ نامی رسالت اور خدائی کے دعوی دار کے مضامین اخبار میں چھپ رہے تھے.مفتی صاحب نے اُس سے خط و کتابت کی.اس کے سیکرٹری نے ایک خط اور دواشتہار بھیجے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کوسنائے گئے.آپ نے اس شخص کے متعلق فرمایا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں بھی ایسے کا ذب مدعی پیدا ہوئے تھے جو کہ بہت جلد نابود ہو گئے.یہی حال اس کا ہوگا.اس کے متعلق الہام ہے ان اللہ شَدِيدُ العِقاب» بدر جلد 2 نمبر ص 34 مورخہ 20 فروری 1903ء) حضرت اقدس علیہ السلام نے اس کو تنبیہ کرنے کے لئے ایک اشتہار بھی لکھا جو کثرت سے انگلستان کے اخباروں میں شائع ہوا مگر اُس نے کوئی جواب نہ دیا.

Page 77

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 76 مسٹر پگٹ کو حضرت مفتی صاحب نے جو جواب لکھا اُسے حضور نے بہت پسند فرمایا.آپ نے مسیحیوں کے غلط عقائد کا ذکر کرنے کے بعد لکھا: وو...ہمیشہ سے عیسائیوں اور مسلمانوں میں مباحثات ہوتے چلے آئے ہیں اور مسلمان عیسائیوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتے چلے آئے ہیں کہ یسوع صرف ایک انسان تھا اور وہ اس میں تھوڑے بہت کامیاب بھی ہوتے رہے لیکن تثلیث کی تاریکی روئے زمین پر اس طرح سے پھیلتی ہوئی چلی گئی جیسے برص کا داغ مبروص کے تمام بدن پر.لیکن اب خدائے غیور و قادر کی غیرت اس جوش میں ہے کہ اُس کے نام کی بے عزتی دنیا میں نہ ہو اور اسی لئے اس حکیم خدا نے رسولوں کے سردار، نبیوں کے خاتم اور ولیوں کے بادشاہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں سے اپنا ایک نبی مبعوث کیا ہے اور اس کو ایسے معجزات اور خوارق عطا کئے ہیں جن کے سامنے انجیلی مجزات پیچ نظر آتے ہیں.پس بلحاظ ہمدردی میں تم کو نصیحت کرتا ہوں کہ تم اپنے تئیں یا کسی دوسرے انسان کو خدا کہنے کے بڑے اور قابل شرم گناہ سے تو بہ کرو...خدا کے اس مسیح موعود علیہ السلام کو مانو جو ان دونوں کا مقدس رسول ہے اور جس کا نام میرزا غلام احمد....ہے تو یقینا خدا تمہیں بہت سی برکتیں دے گا.میں ہوں سسیح موعود احمد کا ایک غلام محمد صادق البدر نمبر 4 جلد ایک 12 نومبر 1902ء) (خلاصہ ذکر حبیب صفحہ 106 تا 109 ) 1903ء میں ایک ڈاکٹر چارلس جو عیسائی مذہب کے پیرو تھے امریکہ سے عیسویت پر لیکچر دینے کے لئے لاہور آئے.حضرت مفتی صاحب کو علم ہوا، وہ تو ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے تھے، اُنہیں ایک مفصل خط لکھا جس میں عیسائی تعلیمات کے بعض حصوں پر عمل کرنے کے مضر نتائج دلائل سے ثابت کئے اور پھر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی عالمگیر شریعت کی خوبیاں بیان کر کے لکھا:

Page 78

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ ان دنوں میں بھی خدائے قادر مطلق نے پہلے نبیوں کی مانند ایک نبی مبعوث کیا ہے جس کے ہاتھ پر سینکڑوں معجزات دنیا میں ظاہر ہو چکے ہیں.وہ ان سب کو روحانی زندگی عطا کرتا ہے جوحق مجوئی کی نیت سے اس کے پاس آتے ہیں.“ روسی ادیب (1910-1828) Count Leo Tolstoy (ذکر حبیب ص 435) 77 اس عالمی شہرت یافتہ ادیب سے بھی مذہبی موضوعات پر خط وکتابت ہوئی.آپ نے انہیں حضرت اقدس علیہ السلام کی ایک تصویر، ریویو آف ریلیجنز کی ایک کاپی اور کشمیر میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر کی تصویر بھجوائی جس کے جواب میں اُن کا 5 جون 1903ء کا لکھا ہوا مکتوب ملا کہ: "..عقلمند انسان حیات عیسی کا قائل ہو ہی نہیں سکتا.....میگزین کے نمونے کے پرچے میں دو مضمون بہت ہی پسند آئے یعنی گناہ سے کس طرح آزادی ہوسکتی ہے اور آئندہ زندگی کے مضامین ، خصوصاً دوسرا مضمون بہت پسند آیا نہایت ہی شاندار اور صداقت سے بھرے ہوئے خیالات ان مضامین میں ظاہر کئے گئے ہیں....میں ہوں آپ کا مخلص ٹالسٹائی اس کے بعد بھی کچھ عرصہ مراسلت جاری رہی.ڈوئی John Alexander Dowie سے خط و کتابت 1903ء میں حضرت مفتی صاحب کے پاس کلکتہ کا ہفتہ وار پر چہ اپنی فینی آیا.اس میں ذکر تھا کہ امریکہ میں ڈوئی نام کا ایک شخص نبوت کا مدعی ہے.آپ نے ڈوئی کو خط لکھ کر حالات دریافت کر کے اُس کو اپنا لٹریچر بھیجا.حضرت اقدس آپ کی اس خط و کتابت سے خوش ہوئے اور فرمایا کہ اس کا

Page 79

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 78 اخبار منگوانا چاہیے.کچھ رقم بھی عنایت فرمائی جو مفتی صاحب نے امریکہ بھیج کر اُس کا اخبار Leaves of Healing منگوانا شروع کیا.مفتی صاحب اس اخبار کا ترجمہ حضرت اقدس کو کئی مہینوں تک ( بیت ) مبارک میں نماز ہائے مغرب و عشاء کے درمیان سناتے رہے.ایک دفعہ اس نے مسلمانوں کے خلاف بہت سخت لفظ لکھے کہ میں تمام مسلمانوں کو کچل ڈالوں گا اور ہلاک کر دوں گا اس پر حضرت اقدس علیہ السلام کو بہت جوش آیا.خدا کے اس شیر نے اُس روبہ زار و نزار کو للکارا.فرمایا: مفتری کذاب اسلام کا خطرناک دشمن ہے بہتر ہے کہ اُس کے نام ایک کھلا خط چھاپ کر بھیجا جاوے اور اس کو مقابلہ کے لئے بلا یا جاوے اسلام کے سواد نیا میں کوئی سچا مذہب نہیں ہے اور اسلام ہی کی تائید میں برکات اور نشان ظاہر ہوتے ہیں میرا یقین ہے کہ اگر یہ مفتری میرا مقابلہ کرے گا تو سخت شکست کھائے گا اور اب وقت آگیا ہے کہ خدا تعالیٰ اس کے افتراء کی اس کو سزا دے.“ ( ملفوظات جلد دوم ص 234 ایڈیشن 2003، مطبوعہ ربوہ ) اس مذہبی گشتی میں جو حق کے بول بالا پر منتج ہوئی.حضرت مفتی صاحب کو کئی طرح حضرت اقدس علیہ السلام کے دست راست ہونے کا شرف حاصل ہوا.امریکہ کے مسٹر اینڈرسن حضرت مفتی صاحب سے خط و کتابت کر کے 26 ستمبر 1904ء کو داخل اسلام ہوئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ان کا نام احمد تجویز فرمایا.یہ مسٹر الیگزینڈر ویب کے ذریعے متعارف ہوئے تھے.17 جنوری 1905ء کو مفتی محمد صادق صاحب نے ولایت سے آیا ہوا ایک خط پیش کیا.یہ خط ایک ایسی کمیٹی کی طرف سے لکھا گیا تھا جو کہ انگلینڈ میں اختلاف السنہ کے دور کرنے کے لئے قائم ہوئی ہے.اس کمیٹی کا یہ خیال ہے کہ ایک ایسی عام زبان یا بولی ایجاد کی جاوے جسے ہر ملک و دیار

Page 80

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 79 اور ہر طبقہ کے لوگ آسانی سے سیکھ لیں اور اس طرح سے روئے زمین پر ایک ایسی زبان رواج پکڑے جو کہ ہر ایک شخص ، خواہ کہیں کا رہنے والا ہو سمجھ لیوے.یہ خبر پا کر مجھی مفتی محمد صادق صاحب نے اس کمیٹی کی طرف ایک خط لکھا جس کا خلاصہ مضمون یہ تھا کہ دنیا بھر میں ایک زبان کا ہونا محال ہے کیونکہ اختلاف السنہ اللہ تعالی کا ایک نشان ہے.جس کا ذکر کتب مقدسہ میں ہے تاہم میں آپ کی سعی کو دیکھنا چاہتا ہوں آپ ابتدائی قواعد سے مجھے اطلاع دیں.جن کے عوض میں آپ کو ایک بڑی تحریک کے متعلق کچھ چھپی ہوئی تحریر بھیجتا ہوں جو مشرق میں خدا کے حکم سے قائم ہوئی ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے ولایت سے آیا ہوا پال کا تھیوں کا مکتوب سن کر فرمایا: در اصل اب عیسویت سے دستبرداری دنیا میں شروع ہوگئی ہے اور اس مذہب کو جلا دینے والی آگ دنیا میں بھڑک اٹھی ہے آگ کا یہ دستور ہے کہ وہ اول ذراسی شروع ہو کر پھر آہستہ آہستہ بڑھتی جاتی ہے یہی حال اب عیسائیت کا ہو گا.“ ( بدر یکم فروری 1905 ء ) فری تھنکروں کی کانگرس میں ایک احمدی 1904ء میں اٹلی کے فری تھنکرز کی ایک کانفرنس ہوئی تھی.آپ نے اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک طویل مضمون ارسال فرمایا جو الحکم 30 نومبر 1904ء کے پرچے میں چھپا تھا: غلامی موجودہ زمانہ کی مہذب دنیا میں مفقود ہے اور ہم کوئی غلام نہیں پاتے ہیں بجز ان قیدیوں کے جو جنگی یا ملکی جیل خانوں میں رکھے جاتے ہیں اس طرح پر گو یا تمام لوگ آزاد ہیں با ایں ہمہ آزادی ایک نسبتی یا اضافی امر ہے.ایک دوسرے کے مقابلہ میں زیادہ لطف آزادی اٹھاتا ہے اور فی الحقیقت اس پشتِ زمین پر ایک بھی ایسا آدمی نہیں ہے جو کلیہ آزاد ہو.کیونکہ ہر شخص کو کسی نہ کسی قانون وضابطہ کی پابندی سے زندگی بسر کرنا ضروری ہے خواہ وہ قانون ملکی ہو یا جنگی ، اخلاقی ہو یا تمدنی ،قومی ہو یا انسانی.پھر آزادی تین امور میں ہو سکتی ہے یا نہیں ہوسکتی، یعنی اعمال، اقوال اور

Page 81

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 80 خیالات میں اور اول الذکر تو بہت ہی مشکل بلکہ قریب به محال ہے اور آخر الذکر ایسی آزادی ہے جو ہر ایک شخص خواہ سہل الحصول ہے.آزادی اعمال کوئی بھی حاصل نہیں کر سکتا اور آزادی خیال گو یا انسانی میراث ہے ہر شخص اسے پا سکتا اور اس سے لطف اٹھا سکتا ہے.کوئی آدمی آپ کو مجبور نہیں کر سکتا ایسی ہی حالت ہے چنانچہ قرآن مجید نے صاف طور پر فرمایا " لا إكراه في الدين “.پس بلحاظ خیالات کے سب کے سب آزاد ہیں مگر اعمال یا اقوال کے لحاظ سے کوئی آدمی بھی غالباً آزاد مطلق نہیں ہوسکتا.دوسری طرف ہر ایک شخص (خواہ کے باشد ) کچھ نہ کچھ کرنے کا پابند ہے اور ہر شخص کو کسی نہ کسی قانون کی پابندی لازمی ہے اور نجات اطاعت سے وابستہ ہے.ان تمام امور پر یکجائی نظر کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کوئی شخص یہ استثنائے احدے بلحاظ خیالات یا من حیث الاقوال یا من حيث الا فعال آزاد خیال نہیں ہے بلکہ سب کے سب متبع ہیں.لہذا انسانی بناوٹ اور فطرت حسب حال فرمانبردار کا نام موزوں ہے جو عربی لفظ مسلم کا ٹھیک ترجمہ ہے.پس ہمیں بجائے کسی اور نام ولقب کے اپنے تئیں مسلم کہنا اور کہلانا چاہیے.قرآن شریف نے سچ فرمایا سلما كُمُ الْمُسْلِمِينَ “ اس نے یعنی اللہ تعالیٰ نے تمہارا نام مسلم رکھا ہے اس قدر بحث تو نام کے متعلق تھی اب میں آزاد خیال لوگوں کے آغاز نشو ونما اور انجام پر نظر کرنا چاہتا ہوں.آزاد خیال لوگوں کا مبدا اور باعث ہی بائبل ہے جو عیسائی پاسٹروں کے ہاتھ میں ہے نہ کچھ اور.قطع نظر اس امر کے کہ آیا اس کے تراجم غلط ہیں یا صحیح اور موجودہ کتا بیں ناپاک ہیں یا خلاف اخلاق ، اس میں کوئی کلام نہیں کہ ان کا اتباع ہر شخص کو آزاد خیال بنا تا ہے.اگر آزاد خیالی کوئی خطا ہے تو اس کی ذمہ دار عیسائیت ہے یعنی وہ عیسائیت کا جرم ہے یہ ایک گناہ ہے لیکن اس کے ذمہ دار اور موجب یورپین پاسٹر اور پادری ہیں.دلیل و برہان کے اس زمانہ میں کون ایسا بیوقوف ہے جو کسی انسان خدا کا یقین رکھ سکتا ہے؟ یا اس بات کا معتقد ہو سکتا ہے کہ انسان خدا وہ جو سہ گوشہ ہے ایسا خدا جو مصلوب ہوا ؟ علی

Page 82

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ هذا القياس.81 لیکن میں افسوس سے دیکھتا ہوں کہ اس قسم کے عقائد کی دور باشی کے ساتھ ہی آزاد خیال لوگوں نے تمام گراں بہا اور قیمتی موتی پھینک دیئے ہیں.بہت سی باتیں ایسی معقول اور فطرت کے موافق موجود ہیں جو کسی صورت میں بھی صاحب دل اور اہل بصیرت کی نظر میں حقیر نہیں ہونی چاہئیں مثلاً انبیاء علیہم السلام کا وجود اور وحی اور الہام، خدا تعالیٰ کے مامور معلم جن کو دوسروں کے پاک وصاف کرنے کے لئے مقناطیسی قوت دی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنے رسولوں کو بھیجتا ہے گزشتہ کا تو کیا ذکر ہے خود انہیں دنوں میں خدا نے ایک رسول بھیجا ہے اور ہزاروں ہزار نشانات اور علامات انہیں اپنی سچائی کے ثبوت کے لئے عطا فرمائے ہیں.اس وقت یہی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک مامور عین ضرورت کے وقت آیا ہے تا کہ وہ انبیاء سابقین کے اوضاع واطوار سے دنیا کو آگاہ کرے.اس کا کلام مدلل اور معقول ہے اس کا نطق وہی ہوتا ہے جو اسے رب العظیم سے الہام ہوتا ہے اور جو ہر وقت سچائی کے ثبوت کے لئے آمادہ رہتا ہے اس کا نام مرزا غلام احمد ( ایدہ اللہ الاحد) ہے وہ قادیان ضلع گورداسپور ( پنجاب، انڈیا) میں رہتا ہے.وہ اس لئے آیا ہے تا لوگوں کو یہ سمجھا وے کہ ایک ہی قادر مطلق خدا ہے آزاد خیال لوگوں کو اس کے پاس آنا چاہیے تا وہ معلوم کریں کہ انبیاء کیا ہوتے ہیں اور سچے حقیقی قوانین قدرت کیا ہیں؟ میں اس چٹھی کو اس پر ختم کرتا ہوں کہ کانگرس کے تمام مبروں پر سلامتی ہو.مجھے خوشی ہوگی اگر ان میں سے کوئی ارادت مند مجھ سے سلسلہ خط و کتابت جاری کرے گا.‘ (الحکم 30 رنومبر 1904 صفحہ 14 ) پروفیسر کیمنٹ ریگ Clement Lindley Wragge انگلستان کے ایک مشہور سیاح ، ہیئت دان اور لیکچرار پروفیسر کلیمنٹ ریگ ہندوستان کی سیاحت کر رہے تھے.لاہور میں ان کا لیکچر تھا.حضرت مفتی صاحب کو لیکچر سن کر اندازہ ہوا کہ وہ غیر

Page 83

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 82 متعصب اور انصاف پسند ہیں.لیکچر کے بعد اُن سے ملے اور پوچھا: ” پروفیسر تم دنیا میں گھومے،کیا تم نے کبھی کوئی خدا کا نبی بھی دیکھا اور حضرت اقدس علیہ السلام کے دعوی مسیحیت و مہدویت اور اس کے دلائل سے اس کو خبر کی.ان باتوں کو سن کر وہ بہت خوش ہوا اور کہا کہ میں ساری دنیا کے گرد گھوما ہوں.مگر خدا کا نبی کوئی نہیں دیکھا.اور میں تو ایسے ہی آدمی کی تلاش میں ہوں اور حضرت کی ملاقات کا از حد شوق ظاہر کیا.مفتی صاحب نے مکان پر حضرت صاحب سے ذکر کیا.حضرت صاحب ہنسے اور فرمایا: د مفتی صاحب تو انگریزوں کو ہی شکار کرتے رہتے ہیں، (ذکر حبیب ص409) 12 مئی 1908ء کو پروفیسر صاحب کو شرف باریابی نصیب ہوا.پروفیسر صاحب نے کئی سوالات کئے مثلاً خدا کی مخلوق بے شمار اور غیر محدود ہے تو اس کے فضل کو کیوں صرف اس حصہ زمین یا کسی مذہب وملت میں محدود رکھا جائے؟ گناہ کیا چیز ہے؟ شیطان کسے کہتے ہیں؟ آئندہ زندگی کس طرح ہوگی وغیرہ وغیرہ ان کے ساتھ ایک خاتون بھی تھیں جن کا سوال تھا کہ کیا وفات یافتگان سے رابطہ کر کے صحیح حالات دریافت کئے جاسکتے ہیں؟ حضرت اقدس علیہ السلام کے جوابات پر مہمان بہت متاثر ہوئے اور حضور کا شکریہ ادا کیا.یہاں تک کہا کہ مجھے ہر طرح سے کامل اطمینان ہو گیا ہے اور یہ اطمینان دلانا خدا کے نبی کے سوا کسی کے بس میں نہیں.مسٹر ریگ 18 مئی کو دوبارہ حاضر ہوئے اور علوم جدیدہ کے ماہرین کو جن باتوں سے خلش ہوتی ہے سب پوچھ ڈالیں.وہ وجد میں آ کے کہنے لگے میں تو خیال کرتا تھا کہ سائنس اور مذہب میں بڑا تضاد ہے آپ نے تو تضاد بالکل اُٹھا دیا ہے.حضور نے فرمایا: یہی تو ہمارا کام ہے اور یہی تو ہم ثابت کر رہے ہیں کہ سائنس اور مذہب میں بالکل اختلاف نہیں بلکہ مذہب بالکل سائنس کے مطابق ہے اور سائنس خواہ کتنا عروج

Page 84

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 83 پکڑ جاوے مگر قرآن کی تعلیم اور اسلام کے اصولوں کو ہرگز نہ جھٹلا سکے گی.“ پروفیسر صاحب بعد میں احمدی ہو گئے تھے اور مرتے دم تک دین حق پر قائم رہے اور حضرت مفتی صاحب کے پاس آپ کے خطوط آتے رہے.(خلاصہ الحکم 6 جون 1908ء) اللہ تعالیٰ نے ان پر اس رنگ میں احسان فرمایا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے دورہ آسٹریلیا کے موقع پر ان کے لئے دُعا کی اور بہت اچھے رنگ میں ذکر فرمایا.حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: یہ ڈاکٹر کلیمنٹ صاحب جو ہیں یہ 1908ء میں ہندوستان آئے تھے اور یہ مختلف جگہوں پر لیکچر دیتے رہے.نیوزی لینڈ کے رہنے والے تھے اور آسٹرانومی کے ماہر تھے.لاہور میں جب انہوں نے لیکچر دیئے تو وہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو پتہ چلا.انہوں نے ان کا لیکچر سنا اور اُس کے بعد اُن سے رابطہ کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وقت لیا اور 12 مئی 1908ء کو پہلی ملاقات ہوئی اور پھر 18 مئی کو دوسری ملاقات حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے وقت لے کے انہوں نے کی اور بڑی تفصیل سے مختلف موضوعات پر سوال و جواب ہوئے.کائنات کے بارے میں، روح کے بارے میں ، مذہب کے بارے میں، خدا تعالیٰ کے بارے میں تو بہر حال ان سوالوں کی ایک لمبی تفصیل ہے جو ملفوظات میں بھی اور ریویو کے انگریزی حصے میں بھی چھپی ہوئی ہے.ڈاکٹر صاحب نے اس گفتگو کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عرض کیا.میں تو سمجھتا تھا کہ سائنس اور مذہب میں بڑا تضاد ہے جیسا کہ عام طور سے علماء میں مانا گیا ہے مگر آپ نے تو اس تضاد کو بالکل اُٹھا دیا ہے.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہی تو ہمارا کام ہے اور یہی تو ہم ثابت کر رہے ہیں کہ سائنس اور مذہب میں بالکل اختلاف نہیں.پھر ڈاکٹر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا شکریہ ادا کیا اور اس گفتگو کے بعد جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ دو سٹنگر.(Sittings) ہوئی تھیں ڈاکٹر صاحب کی طبیعت پر جو اس کے اثرات تھے اس کا ذکر حضرت مفتی صاحب نے پھر ایک اور مجلس میں حضور کی خدمت میں کیا.یہ 23 مئی وفات سے چند دن قبل کا

Page 85

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالی عنہ 84 واقعہ ہے کہ اس کی طبیعت میں اتنا فرق پڑ گیا ہے کہ بالکل خیالات بدل گئے ہیں.کہیں تو وہ حضرت عیسی علی مثالیں دیا کرتا تھا.کفارہ کا ذکر کیا کرتا تھا مگر اب اپنے لیکچروں میں خدا کی کبریائی اور بڑائی بیان کرتا ہے.اور پہلے ڈارون کی تھیوری کا قائل تھا مگر اب کیفیت یہ ہے کہ ڈارون کا قول ہے، اس طرح ذکر کر کے بات کرتا ہے.اور اپنے لیکچروں میں یہ شروع کر دیا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کو سمجھایا تھا کہ حقیقت میں انسان اپنی حالت میں خود ہی ترقی کرتا ہے تو یہ ڈاکٹر صاحب بعد میں حضرت مفتی صاحب سے رابطہ میں رہے گو کہ صحیح ریکارڈ نہیں ہے لیکن غالب امکان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت کی وجہ سے ایمان لے آئے تھے اور مسلمان ہو گئے تھے.ان کے پوتے اور پوتی کو جب پتہ چلا، ان سے رابطہ کیا ان کو بتایا کہ میں اس طرح آ رہا ہوں اور ملنا بھی ہے تو انہوں نے بھی ملنے کا اظہار کیا اور Reception میں آئے اور بعد میں دونوں بیٹھے بھی رہے ، باتیں ہوتی رہیں دونوں کافی بڑی عمر کے ہیں.یعنی بڑی عمر سے مراد 55-60 سال کے.پوتے کو زیادہ علم نہیں تھا لیکن پوتی نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب مسلمان ہو گئے تھے اور ہندوستان سے واپس آنے کے بعد پہلی بیوی نے علیحدگی لے لی تھی.انہوں نے دوسری شادی ہندوستان میں کی تھی اور بتایا کہ ہم اس دوسری بیوی کی نسل میں سے ہیں.مزید میں نے استفسار کیا کا غذات کے بارے میں کہ کس طرح مسلمان ہوئے؟ کب بیعت کی ؟ کس طرح کیا.انہوں نے بتایا کہ ان کے بہت سارے کاغذات تھے لیکن آگ لگنے کی وجہ سے وہ سارار یکارڈ ضائع ہو گیا، کوئی خط محفوظ نہیں ہے.لیکن بہر حال اس بات پر انہوں نے یقینی کہا کہ ان کی موت اسلام کی حالت میں ہوئی تھی اور وہ اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے رہے تھے.اور اس لحاظ سے قیاس کیا جاسکتا ہے کیونکہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی وجہ سے اسلام میں داخل ہوئے تھے اس لئے احمدی ہوئے ہوں گے.“ الفضل انٹر نیشنل 9 تا 15 جون 2006 صفحہ نمبر 9,8) 7 مئی 2006ء کو حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نیوزی لینڈ کے دار الحکومت Auck Land تشریف لے گئے وہاں آپ قبرستان Pompallier تشریف لے

Page 86

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 85 گئے اور پروفیسر Clement Lindley Wragge کی قبر پر دُعا کی.آپ نے 10 دسمبر 1922ء کو وفات پائی تھی.آپ آخر دم تک احمدیت پر قائم رہے تھے.تبلیغ کے راستے حضرت مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں: 1910 ء یا اس کے قریب امریکہ شہر شگاگو میں ایک مذہبی کا نفرنس ہوئی تھی جس میں تمام مذاہب کے لوگوں کو مدعو کیا گیا تھا.اس کانفرنس میں مسلمانوں کی طرف سے مسٹر محمد الیگزنڈ رویب نے ایک مضمون پڑھا.جس میں اسلام کی خوبیاں بیان کی گئی تھیں.یہ صاحب نو مسلم تھے.ان کی اولا د میں صرف ایک بیٹی تھی جو افسوس کہ مسلمان نہ ہوئی اور ویب صاحب 1918ء میں فوت ہو گئے اور ان کے پیچھے ان کے کام کو کسی نے جاری نہ رکھا.ان کی عادت تھی کہ جب کسی شخص کو اسلام کی طرف دیکھتے تو اسے میرا ایڈریس دے دیتے اور کہتے کہ اس شخص کے ساتھ خط و کتابت کرو.اس ذریعہ سے کئی عیسائیوں نے اسلام قبول کیا.(لطائف صادق 142) حضرت مفتی صاحب بحیثیت ایڈیٹر بدر قادیان قادیان سے البدر کا اجراء 31 اکتوبر 1902ء کو ہوا.البدر کے مالک ومدیر محمد افضل صاحب تھے (ذکر حبیب ص 332) اور میجر منشی فیض عالم صابر صاحب تھے.محمد افضل صاحب 21 مارچ کو انتقال کر گئے جس پر اخبار معراج الدین عمر صاحب نے خرید لیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے مفتی صاحب کو اس کا ایڈیٹر مقرر فرمایا.30 مارچ 1905ء کو ایک خاص اعلان کے ذریعہ جماعت کو اطلاع دی: میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں کہ اگر چہ نشی محمد افضل مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر قضائے الہی سے فوت ہو گئے ہیں مگر خدا تعالیٰ کے شکر اور فضل سے اُن کا نعم

Page 87

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ البدل اخبار کو ہاتھ آگیا ہے یعنی ہمارے سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن جوان ، صالح اور ہر ایک طور سے لائق جن کی خوبیوں کے بیان کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں.یعنی مفتی محمد صادق صاحب بھیروی قائم مقام منشی محمد افضل صاحب مرحوم ہو گئے ہیں.میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اٹھی ہے کہ اس کو ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا.خدا تعالیٰ یہ کام اُن کے لئے مبارک کرے اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے.30 مارچ 1905ء آمین ثم آمین خاکسار مرزا غلام احمد البدر جلد 1 نمبر 1.16اپریل 1905ء) حضرت مولانا نورالدین صاحب نے بھی اس تقرری کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور فرمایا: ” میرا دل گوارا نہیں کرتا کہ قادیان سے کوئی مفید سلسلہ جاری ہو اور وہ رُک جاوے.البدر کا چند روزہ وقفہ رنج تھا.اس کے لئے سر دست اللہ تعالیٰ نے تدبیر نکالی ہے کہ میاں معراج الدین عمر جن کو دینی امور میں خاص جوش بخشا ہے اس طرف متوجہ ہوئے اور نصرت اللہ یوں جلوہ گر ہوئی کہ اس کی ایڈیٹری کے لیے میرے لیے میرے نہایت عزیز مفتی محمد صادق ہیڈ ماسٹر ہائی سکول قادیان کو منتخب کیا گیا اور اس تجویز کو حضرت امام نے بھی پسند فرمایا.میں یقین کرتا ہوں کہ ہمارے احباب اس نعم البدل پر بہت خوش ہوں گے.نورالدین 86 حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی نے الحکم میں اس تقرری کا خیر مقدم کرتے ہوئے تحریر

Page 88

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ فرمایا: فی الحقیقت مفتی صاحب ایسا متقی صاحب دل ایڈیٹر البدر کے لئے ملنا نا ممکن نہ تھا تو محال تو ضرور تھا......خدا کرے کہ مفتی صاحب کی خدمات قوم کے لئے مفید اور 66 بابرکت ہوں.آمین.“ 87 16 اپریل 1905ء کو آپ نے ایڈیٹر کے فرائض سنبھال لئے پہلے پرچے میں انتہائی عاجزی سے رب کریم کی حمد وثنا کرتے ہوئے کام ا آغاز کیا.بسم اللہ کے عنوان سے ایڈیٹوریل نوٹ میں دُعا کی: میں اس کام کو شروع کرتا ہوں جو خدمت دینِ اسلام کا کام ہے.اور تیرے فرستادہ برگزیدہ مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت گزاری ہے.اس میں اپنی رحمت اور برکت اور رضا رکھ لکھنے والوں اور لکھانے والوں اور پڑھنے والوں کے لیے.روپئے خرچنے والوں اور مدد کرنے والوں، کام کرنے والوں کے لئے.اور سننے والوں اور سنانے والوں کے لئے.اور اس عاجز بندے کو اپنے پاک کلمات عطاء القاء والہام فرما جو دلوں میں قائم رہنے والی تا شیر کریں اور مخلوق کو تیرے راہ پر لاویں اور دین کے دشمنوں پر حجت قاطع قائم کریں.اللهم الهمنى رشدى واعذني من شر نفسى اللهم اجعل سريرتى خيراً من علانيتي واجعل علانيتي صالحة.اللهم رب اجعل لى لسان صدق في الاخرين رب اشرح لی صدری و یسر لی امری اور دنیا و آخرت میں حسنات عطا فرما حضرت ابی المکرم حکیم مولوی نورالدین صاحب کو قرآن جن کی جان ہے اور جن کے درس قرآن سے اس اخبار کے ناظرین نے آج تک فائدہ اٹھایا ہے اور آئندہ مستفید ہوں گے انشاء اللہ تعالیٰ اور ایسا ہی دنیا و دین کی نعمتیں اور برکتیں عطا فر ما قوم کے لیڈر عبدالکریم صاحب کو جن کی دردمندانہ پر تاثیر نصائح و وعظ انسان کو حقیقی عاشق مزاج بنادیتی

Page 89

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ 66 ہیں......(بدر 6را پریل 1905ء) 88 جب مفتی صاحب نے اخبار کا چارج سنبھالا تو اس کی مالی حالت کمزور تھی.اخبار کی اشاعت جنوری 1905 ء میں 700 تھی.مالی حالت کی کمزوری کا یہ عالم تھا کہ بہت مشکل سے اخراجات پورے ہوتے.دفتر اور مطبع کرائے کے مکان میں تھے.مفتی صاحب کی تنخواہ پچاس روپے مقرر ( بدر 10 جولائی 1905 ء) ہوئی.پرسوز دُعاؤں کے ساتھ کام شروع کیا.اخبار کا نام البدر سے تبدیل کر کے 'بدر' رکھا گیا.جو گھٹنے بڑھنے والے چاند کی بجائے اسلامی فتوحات کا مستقل نشان ہے.اخبار کی لوح پیشانی پر ایک طرف میدان بدر کا خاکہ اور آیت وَلَقَدْ نَصَرَ كُمُ اللهُ بِبَدْرٍ وَأَنْتُمْ أَذِلَّةٌ.درمیان میں بدر قادیان اردو اور انگریزی میں دوسری طرف بیت اقصیٰ کے خاکے کے ساتھ آیت سُبْحَنَ الَّذِي أسرى بعبدہ کا شعر مستقلاًآ ٹائٹل کا حصہ تھا.ے سارے جہاں سے اچھا دارالاماں ہمارا دار الاماں ہمارا جنب نشان ہمارا درج ذیل اشعار بھی جگہ پاتے.امروز قوم من نه شناسد معتام من روزے بگریه یاد کند وقت خوشترم چه گوئم با تو گر آئی چها در قادیان بینی دوا بینی ، شفا بینی ، غرض دارالامان بینی اخبار پر ہجری شمسی تاریخیں لکھواتے اور ایڈیٹر منیجر مفتی محمد صادق کے ساتھ عفی اللہ عنہ کی عاجزانہ دعا شامل ہوتی.اخبار بدر کے متعلق انتظامی امور بھی آپ ہی کے سپر د تھے.آپ نے صفحہ اوّل پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تازہ الہام شائع کرنے شروع

Page 90

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 89 کئے.بدر صادق کے نام سے ایک کالم میں حالات پر تبصرہ یا کسی اعتراض کا جواب ہوتا.تحقیق الادیان...کے تحت دنیا کے مذاہب اور فرقوں کا تعارف کروایا جا تا نیز غیر ممالک میں اشاعتِ دین کا جائزہ اور زیر دعوت لوگوں سے خط و کتابت درج ہوتی.بدر مسیح ، کالم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روزانہ ڈائری ہوتی جو اکثر مفتی صاحب خود ہی لکھتے تھے اخبار قادیان کے کالم میں قادیان کے خاص حالات درج ہوتے.قادیان سے محبت رکھنے والے احباب اس کالم کو بڑے شوق سے پڑھتے.بدر منور اس کالم میں قرآن پاک پر حضرت اقدس علیہ السلام کے تفسیری نوٹس شائع ہوتے پھر اس میں حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب کی بیان فرمودہ تفسیر بھی دی جاتی.بدر کے ان کالموں سے حضرت اقدس علیہ السلام کی بیان فرمودہ تفسیر محفوظ ہوتی گئی.انتخاب الجرائد، مدینتہ اسی ، ایڈیٹوریل نوٹ ، مکتوبات امیر مستقل کالم تھے.حضرت مفتی صاحب نے بخاری شریف کے درس کے نوٹس بھی لکھنے شروع کئے جو حضرت مولانا حکیم نور الدین صاحب کو دکھا کر شائع کرتے.آپ نے قرآن پاک کی تفسیر بھی لکھنی چاہی احتیاط کے مد نظر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مشورہ طلب کیا.حضور نے تحریر فرمایا.بہت بہتر ہے اس سے لوگوں کو نفع پہنچتا ہے مگر ضروری ہے کہ مولوی صاحب کو دکھلا لیا کریں تا کہ غلطی نہ ہو جائے.“ والسلام مرزا غلام احمد ( بدر 2 اپریل 1908 ء ) اخبار میں ایک کالم بد رالنساء میں عورتوں کے متعلق مسائل، مضامین اور وعظ و نصیحت ہوتا.کالم مفتی میں دینی مسائل کے جواب دیئے جاتے نا لقول الطیب کے نام سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اقوال زریں سارے ہفتے کی ڈائری اور لوگوں کے سوالات کے جواب ہوتے نانتخاب الاخبار کالم میں دنیا کی چیدہ چیدہ خبریں دی جاتیں.دسمبر 1907ء میں پرچے کی تعداد 1300 ہوگئی تھی.

Page 91

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 90 1916ء میں کامیاب بلند پایہ خدمات کے بعد اس عہدہ سے سبکدوش ہوئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اخبار بدر اور الحکم کے متعلق فرمایا: یہ اخبار ہمارے دو بازو ہیں الہامات کو فوراً ملکوں میں شائع کرتے ہیں اور گواہ بنتے ہیں.“ حضرت اقدس علیہ السلام کی قدر دانی کے انوکھے انداز آپ بیٹھے رہیں ( بدر 8 جون 1905ء) 1903ء میں مقدمہ کرم دین کے ایام میں ایک دن گورداسپور میں بالا خانہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے.خواجہ کمال الدین صاحب وکیل اور چند دوسرے اصحاب نیچے دری پر بیٹھے تھے آپ ( یعنی مفتی صاحب موصوف ) حضرت اقدس علیہ السلام کے پاؤں دبا رہے تھے سردی کا موسم تھا.خواجہ صاحب نے عرض کی کہ چند قانونی امور پر حضور سے گفتگو کرنی ہے.دوسرے دوست اُٹھ جائیں تا کہ خلوت ہو جائے مفتی صاحب بھی اُٹھنے لگے تو حضور نے فرمایا: آپ بیٹھے رہیں آپ کے ہاتھ گرم ہو چکے ہیں.“ ( ذكر حبيب ص 110) آپ میرے ساتھ بیٹھ جائیں حضرت اقدس علیہ السلام کی غلام نوازی کا ایک عجیب واقعہ حضرت مفتی صاحب نے بیان فرمایا: ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور کو مقدمات وغیرہ کے لئے اکثر گورداسپور جانا پڑتا تھا.اور عموماً یکوں کا انتظام میں ہی کیا کرتا تھا.میں سب کو سیکوں میں بٹھا کر پھر حضور علیہ السلام سے آکر پوچھتا کہ حضور تو اکیلے ہی یکہ میں بیٹھیں گے.تو آپ علیہ السلام فرما دیتے کہ آپ میرے ساتھ بیٹھے

Page 92

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 91 جائیں.میں گرمی کی دھوپ کا خیال کر کے حضور کو سائے والی طرف بیٹھا تا اور خود دھوپ والی طرف بیٹھ جاتا.میں دل میں خیال کرتا تھا کہ شاید حضور نے اس بات کو محسوس نہیں کیا.مگر ایک روز یہ بات بھی کھل گئی.ایک دفعہ ہم گورداسپور گئے اور سخت گرمی کے وقت واپس آنا تھا.کیونکہ حضور علیہ السلام کے گھر میں کچھ علالت تھی.وہاں ٹھہر نہ سکتے تھے.گیارہ ، بارہ بجے کا وقت تھا.دھوپ سخت پڑ رہی تھی.خدا نے ایسا فضل کیا کہ اسی وقت ایک چھوٹی سی بدلی ہمارے یکہ کے اوپر آگئی اور قادیان تک وہ ہمارے ساتھ ساتھ آئی.حضور علیہ السلام نے فرمایا کہ دیکھو خدا نے کتنا بڑا فضل کیا کہ اتنی بڑی سخت گرمی میں اس نے سایہ کرنے کے لئے بادل بھیج دیا.فرمایا ایک دفعہ پہلے بھی ہمارے ساتھ ایسا واقعہ گزرا ہے.امرتسر سے بٹالہ کو میں نے آنا تھا.ایک ہندو بھی میرے ساتھ سوار ہوا.آپ تو اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ مجھے سایہ والی طرف بٹھاتے ہیں.مگر اس ہندو نے مجھے سایہ والی طرف سے اُٹھا دیا اور آپ بیٹھ گیا.خدا نے ایک بادل بھیج دیا.جس نے بٹالہ تک ساتھ دیا اور ٹھنڈی ہوا اس طرف سے آتی تھی ، جدھر میں بیٹھا ہوا تھا.آخر وہ ہندو کہنے لگا کہ رام رام مہاراج آپ کو تو خدا نے بہت اچھی جگہ دے دی.“ نسخه تجویز فرمایا دسمبر 1903ء کا ذکر ہے ایک دن نماز مغرب ادا کر کے حضور تشریف لے جانے لگے تو مفتی صاحب نے عرض کی کہ سر درد اور متلی وغیرہ کی شکایت ہے.حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: آج شب کو کھانا نہ کھانا اور کل روزہ نہ رکھنا.سکنجبین پی کر اس کی قے کریں.پھر حضرت مفتی صاحب سے مکان کی نسبت دریافت فرمایا اور فرمایا کہ اس کے مالکوں کو کہو کہ روشن دان نکال دیں اور آج کل گھر میں خوب صفائی رکھنی چاہیے اور کپڑوں کو بھی بالکل صاف ستھرا رکھنا چاہیے.آج کل دن بہت سخت ہیں اور ہوا زہریلی ہے اور صفائی کا خیال رکھنا تو سنت ہے قرآن شریف میں بھی لکھا ہے.

Page 93

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ وَثِيَابَكَ فَطَهَّرُه وَالرُّجْزَ فَاهْجُر (74:5,6 ) ( البدر 16 دسمبر 1903ء) ماں سے زیادہ پیار کرنے والا وجود 92 1904ء کی بات ہے مفتی صاحب کو ہلکا ہلکا بخار رہنے لگا.مدرسہ کے کام کی طرف خاطر خواہ توجہ نہ ہو سکی تھی..31 دسمبر کو حضرت اقدس علیہ السلام نے جناب مفتی محمد صادق صاحب کی علالت طبع کا حال استفسار کرتے ہوئے فرمایا کہ اگر دودھ ہضم ہونے لگ جاوے تو بخار اس سے بھی ٹوٹ جاتا ہے.“ ( بدر 10 جنوری 1905ء ص 5) جنوری، فروری 1905ء میں بھی آپ علیل رہے.اخبار بدر میں دُعا کا اعلان چھپتا رہا.حضرت حکیم مولانا نور الدین صاحب کا علاج تھا مگر فائدہ نہ ہوا تو مسیحائے زماں نے خود دوائیں دینی شروع کیں جس دوا سے فائدہ ہوا وہ ایک گولی تھی جو حضور خود اپنے ہاتھ سے بناتے تھے اور روزانہ بنا کر بھیجتے تھے.آپ کی بیماری میں آپ کی والدہ صاحبہ قادیان تشریف لائی ہوئی تھیں.انہوں نے حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر دعا کی درخواست کی حضور نے فرمایا: ہم تو اُن کے لیے دُعا کرتے ہی رہتے ہیں آپ کو خیال ہو گا کہ صادق آپ کا بیٹا ہے اور آپ کو بہت پیارا ہے.لیکن میرا دعویٰ ہے کہ وہ مجھے آپ سے زیادہ پیارا ہے.“ (ذکر حبیب ص 325) بیماری کے ذکر میں ایک اور روایت ہے کہ اس بیماری کی حالت میں ایک وقت تنگی اور تکلیف کا ان پر ایسا وارد ہوا کہ ان کی بیوی مرحومہ نے سمجھا کہ ان کا آخری وقت ہے وہ روتی چیختی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں پہنچیں.حضور نے تھوڑی سی مشک دی کہ انہیں کھلا ؤ اور میں دُعا کرتا ہوں.یہ کہہ کر اسی وقت وضو کر کے نماز میں کھڑے ہو گئے.صبح کا وقت تھا.حضرت مفتی صاحب کو مشک کھلائی گئی اور ان کی حالت اچھی ہونے لگ گئی.اور تھوڑی دیر میں طبیعت سنبھل گئی.

Page 94

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 93 سیرت مسیح موعود علیہ السلام از یعقوب علی عرفانی ص510) ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بیت مبارک میں تشریف فرما تھے.ان دنوں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کچھ بیمار تھے کسی نے عرض کیا حضور مولوی صاحب بیمار ہیں ان کی نسبت فکر ہو رہی ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: مجھے تو مفتی صاحب کی فکر رہتی ہے یہ بہت دُبلے پتے ہیں.“ حسن کارکردگی پر اعتماد مفتی صاحب نے فرمایا: الفضل 7 جنوری 1936 میں 4 کالم (2) قبل نماز ظہر عاجز راقم سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دریافت کیا کہ آیا شیخ یعقوب علی صاحب اشتہار النداء کے انطباع کے انتظام کے واسطے لاہور چلے گئے ہیں میں نے عرض کی کہ صبح چلے گئے ہیں فرمایا: ”ہمارا جی چاہتا ہے کہ آپ بھی جائیں اور پروف کو بغور پڑھ کر درست کر دیں.“ چنانچہ حسب الحکم یہ عاجز شام کو لاہور چلا گیا اور چار روز کے بعد واپس دار الامان حاضر ہوا.( بدر جلد 1 نمبر 4 صفحہ 6 مورخہ 127اپریل 1905ء) آپ نے اس کام میں خوب ہمت کی خوشنودی کا یہ کلمہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی زبان مبارک سے نصیب ہونے کا باعث ایک کار خدمت تھا جس کی آپ کو بتوفیق الہی سعادت حاصل ہوئی.تین سال کے اندر طلب نشان والی پیشگوئی کے اشتہار کا انگریزی ترجمہ ہو کر لاہور میں طبع ہونے کے واسطے آیا ہوا تھا.اس کو لے کر ہفتہ کی شام کو میں یہاں سے روانہ ہوا اور چھینہ کے سٹیشن

Page 95

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 94 پر اتر کر دار الامان کو روانہ ہوا.راستہ میں سے چراغ علی صاحب جو کہ حامد علی صاحب کے چا ہیں نہایت مہربانی سے میرے ساتھ ہوئے اور میرا بوجھ اُٹھایا اور مجھے راستہ دکھایا اور ہم دار الامان پہنچے فالحمد لله على ذالك نماز فجر کے وقت حضور اقدس کی زیارت مسجد میں ہوئی جس سے قلب کو نور حاصل ہوا اور نماز فجر کے بعد آپ نے وہ انگریزی اشتہار اول سے آخر تک سنا.عبارت انگریزی پڑھ کر اور ہر ایک فقرہ کے ساتھ ترجمہ کر کے میں نے سنایا اور اس کے بعد آپ اندر تشریف لے گئے اور پھر نو بجے کے قریب سیر کے واسطے تشریف لائے ملتے ہی فرمایا: معلومات درکار ہیں ' آپ نے اس کام میں خوب ہمت کی.( بدر 19 مارچ 1908 ء صفحہ 3) حضرت مفتی صاحب کی خوش بختی اور خوشی کا اندازہ لگائیے ! جب گا ہے گا ہے حضرت اقدس علیہ السلام کا اس قسم کا ارشاد موصول ہوتا کہ کوئی علمی نکتہ یا معلومات درکار ہیں.آپ ہمہ تن سرشاری اور سرگرمی سے مطلوبہ معلومات بہم پہنچا اس سعادت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوں گے.مثال کے طور پر حضرت اقدس علیہ السلام کا یہ ارشاد ملاحظہ کیجیے: ' آپ براہ مہربانی اس وقت جہاں تک جلد ممکن ہو تین باتوں کی نقل کر کے بھیج دیں اول وہ انجیل جس کا رات ذکر ہوا تھا اس کا نام اور باب اور ایک وہ جس کا یہ مضمون ہے کہ مسیح صلیب سے نہیں مراگلیل میں موجود ہے.دوسرے پطرس کی تحریر مع حوالہ تیسرے جرمن کے پچاس پادریوں کا قول کہ مسیح صلیب سے نہیں مرا شاید انسائیکلو پیڈیا میں یہ قول ہے.اس وقت یہ مضمون لکھ رہا ہوں جلد یہ تحریریں آجائیں تو بہتر ہوگا.“ (ذکر حبیب 348,347) آپ جلد مجھے اس بات سے اطلاع دیں کہ یورپ یا امریکہ کے عیسائیوں میں سے کوئی ایسا

Page 96

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 95 آدمی یا چند آدمی ہیں جو ہمارے سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں اور صاف لفظوں میں اس کا اظہار کیا ہے ان کا نام پورا مع سکونت خوشخط اردو میں ابھی بھیج دیں ضرورت ہے.“ بزرگانِ اُمت کی قبور کی زیارت (مکتوبات دسمبر 1904ء ،ذکر حبیب ص 351) 1905ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دہلی تشریف لے جانے کا ارادہ فرمایا تو آپ کے حکم اور اجازت سے چند خدام بھی ساتھ گئے حضرت مفتی صاحب کی طبیعت بیمار تھی اور چند روز بخار رہا تھا ، حضور نے فرمایا: ” چلے چلو تب ریلی آب و ہوا سے بھی فائدہ ہوتا ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم ص 486) 23 اکتوبر کو دہلی پہنچے دوسرے روز صبح حضرت مفتی صاحب نے بعض احباب کی خواہش پر سیر دہلی کی اجازت چاہی تو حضور نے فرمایا لہو ولعب کے طور پر پھر نا درست نہیں یہ فضول بات ہے میں اس کو پسند نہیں کرتا.ہاں یہاں اکثر اولیاء اللہ اور ا کا بر اُمت کے مزار ہیں ان پر جانے کا ہمارا بھی ارادہ ہے کہ ہو آئیں.آپ نے مفتی صاحب کو ایسے بزرگان کی فہرست بنانے کا ارشاد فرمایا.پھر مع خدام ان کی قبروں کی زیارت کی اس دوران زیارت قبور کے متعلق فرمایا: قبرستان میں ایک روحانیت ہوتی ہے اور صبح کا وقت زیارت قبور کے لئے ایک سنت ہے.یہ ثواب کا کام ہے اور اس سے انسان کو اپنا مقام یاد آ جاتا ہے.انسان اس دنیا میں مسافر ہے آج زمین پر ہے تو کل زمین کے نیچے ہے حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب انسان قبر پر جاوے تو کہے : السلام عليكم يا اهل القبور من المومنين والمسلمين و انا انشاء الله بكم للاحقون 66 ( بدر 31 اکتوبر 1905ء)

Page 97

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ بچوں کی وفات پر صبر پر تلقین 96 3 جون 1905ء حضرت مفتی صاحب کی لڑکی سعیدہ بیگم بعمر تین سال آٹھ ماہ بعارضہ اُمّ الصبیاں فوت ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بمع جماعت باغ میں جنازہ پڑھا اور فرمایا: اولاد جو پہلے مرتی ہے وہ فرط ہوتی ہے حضرت عائشہ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی تھی کہ جس کی کوئی اولاد نہیں مرتی وہ کیا کرے گا ؟ فرمایا میں اپنی اُمت کا فرط ہوں، آپ صبر کریں اللہ تعالیٰ چاہے گا تو اس کے عوض میں لڑکا دے گا.صبر تو خواہ مخواہ کرنا ہی پڑتا ہے.لڑکیوں کے معاملات بھی مشکل ہوتے ہیں.الخَیرُ فی مَا وَقَعَ.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈاک کا انتظام ( ملفوظات جلد چہارم ص 291) 1905ء میں حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ڈاک کا مکمل انتظام حضرت مفتی صاحب کے سپرد ہو گیا.اور پھر حضرت اقدس علیہ السلام کی زندگی کے آخری وقت تک اُن کے سپر درہا.اُن دنوں ڈاک کا کوئی الگ دفتر نہیں ہوتا تھا.حضرت مفتی صاحب کے بیان سے ڈاک آنے ، جواب لکھنے اور بھیجنے کا پورا نقشہ نظر کے سامنے آجاتا ہے.تحریر فرماتے ہیں: ڈاکخانہ سے پوسٹ مین ڈاک براہ راست حضرت صاحب کے پاس لے جایا کرتا تھا.حضور " کا کوئی خادم یا خادمہ پوسٹ مین کے آواز دینے سے دروازہ پر آکر ڈاک اندر لے جاتا تھا.بعض دفعہ حضور علیہ السلام خود ہی تشریف لے آتے اور پوسٹ مین سے ڈاک لے جاتے.تمام خطوط کھولتے ، پڑھتے بعض پر کچھ نوٹ کر دیتے کہ کیا جواب لکھا جائے.بعض بغیر نوٹ کے میرے پاس بھیج دیتے اور بعض اپنے پاس رکھ

Page 98

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ لیتے اور خود دست مبارک سے اُن کے جوابات لکھتے.ایسے خطوط عموماً سیٹھ عبدالرحمن صاحب مرحوم مدراسی کے ہوتے یا عبداللہ صاحب مرحوم سنوری کا خط یا بعض احمدیان کپورتھلہ کے خطوط جو پرانے مخلصین میں سے تھے.ایسے خط بھی عموماً لفافہ میں بند کر کے پتہ لکھنے کے واسطے مجھے بھیج دیا کرتے تھے.جب پہلے پہل ڈاک میرے سپرد ہوئی تو وہ مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم مغفور کے ایک دفعہ سیالکوٹ تشریف لے جانے کے وقت تھی.جب میں نے خطوط کو دیکھا تو اکثر خطوط درخواست دُعا کے لئے تھے اور میں نہیں جانتا تھا کہ اس کا کیا جواب دوں.اس واسطے میں نے اُن سب کی ایک فہرست بنائی اور ایک نقشہ بنا کر اس میں ہر شخص کا نام اور مقام اور مطلب درخواست دُعا درج کیا اور فہرست اندر بھیج دی مگر حضور نے وہ فہرست واپس نہ کی اور نہ اس کے متعلق کچھ فرمایا.دوسرے دن میں نے پھر ویسی ہی ایک فہرست بنائی اور اندر بھیج دی.وہ فہرست بھی اندر ہی رہی اور جواب کچھ نہ آیا.تیسرے دن میں نے پھر بعد نما زبانی عرض کیا تب حضور نے فرمایا: ایسے اصحاب کو لکھ دیا کریں کہ دُعا کی گئی کیونکہ میں خط اپنے ہاتھ سے نہیں رکھتا کہ جب تک دُعا نہ کرلوں اور اب آپ فہرست بنا کر بھیجتے ہیں تو فہرست آگے رکھ کر پھر دُعا کر دیا کرتا ہوں اس طرح اب دو دفعہ دُعا ہو جاتی ہے.“ 97 میں یہ سن کر بہت خوش ہوا کہ میری اس تجویز سے دوستوں کے واسطے دو بار دُعا ہو جاتی ہے اور میں نے اس سلسلہ کو جب تک ڈاک میرے پاس رہی جاری رکھا.جب حضرت مولوی عبدالکریم صاحب واپس تشریف لائے تو پھر ڈاک ان کے پاس جانے لگی لیکن ان کی وفات کے بعد شیخ رحمت اللہ صاحب کی تحریک پر ڈاک پھر میرے سپرد ہوئی تو پھر میں نے اس فہرست کا سلسلہ جاری کیا جو آخر تک جاری رہا.....جن خطوط پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی طرف سے کچھ نوٹ نہیں ہوتا تھا اُن

Page 99

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 98 کے متعلق میں دریافت کر لیا کرتا تھا کہ اس کا جواب کیا دیا جائے جن خطوط میں مسائل دریافت کئے ہوتے تھے اُن کے جواب بعض دفعہ خود لکھ دیا کرتے تھے لیکن اکثر یہ فرماتے تھے کہ مولوی صاحب سے پوچھ لیں (مولوی صاحب سے مراد حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب ہوتی تھی ) عموماً اکثر دوست اپنے نومولود بچوں کے نام تبر کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے دریافت کرتے تھے اور میں حضرت صاحب سے پو چھ کر نام لکھ دیا کرتا تھا لیکن کچھ عرصے بعد حضور نے مجھے فرمایا: مفتی صاحب آپ کو اجازت ہے کہ آپ ہماری طرف سے بچوں کے نام رکھ دیا کریں.“ عموماً حضرت صاحب ڈاک کسی خادم کے ہاتھ میرے پاس بھیج دیا کرتے تھے مگر بعض دفعہ خود ہی اپنے ہاتھ میں ڈاک لئے ہوئے نماز ظہر کے واسطے باہر تشریف لاتے تو جو کھڑ کی حضور کے کمروں سے بیت مبارک میں کھلتی ہے.اس سے نکلتے ہی مجھے آواز دیتے کہ: یہ ڈاک ہے....مفتی صاحب کہاں ہیں.اس کی وجہ تھی کہ حضور علیہ السلام مجھے روزانہ ڈاک دیتے اور اس کے متعلق ہدایات فرماتے.اس طرح سب سے اوّل مجھے حضور علیہ السلام سے باتیں کرنے کا موقع ملتا.ان ایام میں عموماً اوسط ڈاک ہیں خط روزانہ ہوتے تھے لیکن جن ایام میں کوئی پیشگوئی پوری ہوتی یا نشان ظاہر ہوتا تو ان دنوں میں خطوط کی تعداد بہت بڑھ جاتی تھی.ڈاک کے کام کے واسطے حضور نے میرے ساتھ مکرمی حضرت پیر افتخار احمد صاحب کو مقرر کیا ہوا تھا.بعض خط میں انہیں جواب لکھنے کے لئے دے دیتا تھا وہ لکھ کر میرے دستخط کرالیتے تھے بعض دوست جو اس امر کے بہت ہی مشتاق ہوتے تھے کہ حضور علیہ السلام کے دستخط مبارک کا خط انہیں ملے انہیں اگر حضرت صاحب به سبب کم فرصتی خود خط نہ لکھ سکتے تو میں لکھ کر حضور سے دستخط کرالیتا تا کہ ان کے واسطے کچھ تشفی اور خوشی کا موجب

Page 100

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ ہو.جن خطوط کا جواب عام معلومات کے لئے مفید ہوتا وہ میں عموماً اخبار احکم اور بدر میں چھپواد یا کرتا تھا تا کہ عوام کو فائدہ ہو اور مجھے ثواب بھی حاصل ہو.“ وقف زندگی منظور (الحکم 7 مئی 1934 ء ص 11.مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 10,9) 99 ستمبر 1907ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کے سامنے وقف زندگی کی تحریک فرمائی.اس تحریک پر قادیان میں مقیم نوجوانوں کے علاوہ بعض اور دوستوں نے بھی وقف زندگی کرنے کی درخواستیں حضور کی خدمت میں پیش کیں.حضرت اقدس علیہ السلام کی ڈاک کی خدمت ان دنوں حضرت مفتی صاحب کے سپر د تھی اس لئے حضرت اقدس علیہ السلام نے مفتی صاحب کو ہی یہ ہدایت فرمائی کہ ایسے واقفین کی فہرست بنائیں.چنانچہ انہوں نے اس غرض کے لئے ایک رجسٹر کھول دیا.حضرت مفتی صاحب نے بھی زندگی وقف کی درخواست دی.حضور نے اُن کی درخواست پر تحریر فرمایا: "منظور بيت الصدق (ذکر حبیب ص 147-148 ) 1907ء میں قادیان میں مکان بنانے کا ارادہ کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام مکتوب میں اس مکان بنانے کی غرض اس طرح تحریر کی : اپنی زندگی تو انشاء اللہ حضور کے قدموں میں گزر رہی ہے اور آئندہ بھی خدا سے دُعا ہے کہ دین پر خاتمہ ہو لیکن آئندہ اولاد کے واسطے بھی یہ حیلہ ہے کہ ان کے لئے ایک مکان بنادیا جائے تو ان کے ذہن نشین ہو جاوے کہ ہمارا وطن اور گھر اسی جگہ حضرت خلیفہ اللہ کے قدموں میں ہے......حضور دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس مکان کو میرے

Page 101

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ 100 اور میرے آل واہل کے واسطے موجب برکت اور اپنی رضا مندیوں کا ذریعہ بناوے.حضور کی سنت کے مطابق میں چاہتا ہوں کہ اس مکان کا کچھ نام رکھوں اور میرے خیال میں وہ نام بیت الصدق ہے.اگر حضور کی اجازت ہو.“ حضرت اقدس علیہ السلام نے جواب عنایت فرمایا: مکان خدا مبارک کرے.آمین.نام بہت موزوں ہے.“ اس مکان کی تعمیر میں مؤاخاة کا ایک بے نظیر نمونہ دیکھنے کو ملا.مکرم عبدالمجید خان صاحب نے اپنے حصہ زمین میں سے جو مفتی صاحب کے مکان سے ملحق ہے دس فٹ چوڑی اور 73 فٹ لمبی زمین تحفہ میں دی تا کہ وہ اپنے مکان کو کشادہ کر سکیں.اسی طرح میاں معراج الدین عمر صاحب نے بھی اپنی زمین سے ایک قطعہ 15 فٹ چوڑا اور اکاون فٹ لمبا بلا قیمت مکان کی وسعت کے لیے دیا.( بدر 8 جولائی 1909 ء) بابا نانک کی پوتھی 1908ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 8 آدمیوں کا ایک وفد گرو ہر سہائے ضلع فیروز پور کو بھیجا تھا کیونکہ سنا گیا تھا کہ وہاں بابا نانک صاحب کی ایک پوتھی رکھی ہے جس سے برکت حاصل کرنے کے واسطے دُور دُور سے سکھ لوگ آتے ہیں.حضرت مفتی صاحب اُس وفد میں شامل تھے آپ نے دیکھا کہ وہ پوتھی قرآن شریف ہی تھا اور قلمی لکھا ہوا تھا اس کو باوا صاحب اپنے پاس رکھتے تھے.واپس آکر جور پورٹ آپ نے حضرت اقدس علیہ السلام کی خدمت میں پیش کی وہ آپ نے اپنی کتاب چشمہ معرفت میں صفحہ 337 پر درج فرما دی.( الفضل 5 جنوری 1945ء) دسمبر 1907ء میں لاہور میں آریہ سماج وچھو والی کے جلسہ بین المذاہب میں حضرت اقدس علیہ السلام کا مضمون پڑھ کر سنایا گیا.قادیان سے جس وفد نے شرکت کی اُس میں حضرت مفتی صاحب بھی شامل تھے.

Page 102

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ وطن میں ایک بے وطن 101 مارچ 1908ء میں حضرت مفتی صاحب کو ایک مقدمہ کے سلسلہ میں بھیرہ جانا پڑا بھیرہ آپ کا وطن تھا وہاں آپ کا گھر تھا باپ دادا وہیں کے تھے اور آپ ایک عرصے کے بعد وہاں گئے تھے مگر آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور قادیان سے ایسی محبت تھی کہ اس عارضی جدائی کو شامت اعمال تصور کیا اور اپنی کیفیت ایک خط میں اس طرح قلم بند کی : یہاں کے حالات میں آپ کو کیا سناؤں اپنے وطن میں ہوں اور پھر بھی وطن سے بہت دور ہوں اہل وطن کے لئے میرا آنا ایک عید بن گیا ہے پر میرا چاند میری آنکھوں سے اوجھل، دوست بہت خوش ہیں کہتے ہیں جمعہ تک یہاں رہو.کیوں نہ ہو یار کی گلی کا تو کتا بھی پیارا لگتا ہے اور میں تو پھر انسان ہوں.حضرت امام کی حاشیہ نشینی میں جو کچھ سنا ہوا ہے اور طوطے کی طرح یاد ہے اُن کو سنا تا ہوں باغ باغ ہو جاتے ہیں.طوطے کی طرح اس واسطے کہ میں بھی ان باتوں کا عالم ہوں عامل نہیں.اب دوست چاہتے ہیں کہ اس طوطے کو پنجرے میں ڈال دیں.پنجرے میں پڑنے کو تو میں تیار ہوں پر جس نے قفس قادیان دیکھا ہو اس کو کوئی قفس کیوں کر پسند آوے اس واسطے عنقریب اُڑتا ہوں دار الامان پہنچتا ہوں.“ تحریک وصیت پر لبیک.سو فیصد کی وصیت ( بدر 2 اپریل 1908 ء ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب نظام وصیت کی بنیاد رکھی تو حضرت مفتی صاحب نے بھی اپنے امام وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے 27 دسمبر 1905ء کو ایک وصیت لکھ کر اپنے امام کے حضور پیش کر دی.یہ تحریر مفتی صاحب کی مکمل شخصیت، خلوص ، جذبہ ایمان اور توکل علی اللہ کی عکاسی

Page 103

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالی عنہ کرتی ہے تحریر فرمایا: 102 ربنا تقبل منا انك انت السميع العليم - اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له و اشهد ان محمد عبده و رسوله و خاتم النبیین و اشهدان مرزا غلام احمد المسيح الموعود والمهدی المعهود و نبی الله و رسوله و صلوة الله عليه و سلامة اما بعد.چونکہ زندگی کا اعتبار نہیں کہ موت کس وقت آجائے اس واسطے میں عاجز محمد صادق بن مفتی عنایت اللہ صاحب مرحوم یہ وصیت کرتا ہوں اور خاص و عام کی اطلاع کے واسطے اس کو چھاپ کر شائع کرتا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد میرا تمام تر کہ بھی میری وہ سب جائداد منقولہ و غیر منقولہ.( جن میں اس وقت علاوہ اسباب کے دو مکان سکونتی ہیں ) اور آج کے بعد جو نئی جائداد میں پیدا کروں گا اور وقت موت اپنے ملک میں چھوڑ مروں وہ ساری کی ساری اشاعت اسلام اور تبلیغ احکام قرآنیہ وغیرہ کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے اشتہار الوصیت مورخہ 20 دسمبر 1905ء میں تحریر فرمایا ہے حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام اور آپ کے جانشین اور انجمن کے سپرد کی جائے جو حضرت حجۃ اللہ علیہ الف الف صلوۃ مقرر ہے.میری دلی تمنا ہے کہ بعد الموت میری خواب گاہ خدا کے فرستادہ مسیح اور اس کے پاک نفس اصحاب کے ساتھ ہو اور عرصہ آٹھ یا نو سال کا ہوا ہے جب کہ مجھے ایک رؤیا میں بشارت دی گئی تھی کہ میں مرزا صاحب کی قبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں دفن کیا جاؤں گا.پس اگر میری وفات کہیں باہر ہو تو میرے وارث اور میرے دوست مجھے یہاں لاویں لیکن اگر سلسلہ حقہ احمدیہ کی خدمت گزاری میں مجھے کسی ایسی جگہ کا حکم

Page 104

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ ہو جہاں سے نہ تو میں زندہ واپس آسکوں اور نہ میرا جنازہ آسکے یا اگر میں قادیان میں ہی وفات پاؤں لیکن مقبرہ کے ناظم مجھ میں تمام شرائط کامل مومن اور خدا کے راہ میں جاں فشانی کرنے والا ہونے وغیرہ کے نہ سمجھیں تو یادر ہے کہ متذکرہ بالا وصیت سارے ترکہ کے دینے کی اس شرط کے ساتھ میری طرف سے مشروط نہیں کہ میں اس مقبرہ بہشتی میں دفن کیا جاؤں بلکہ میرا تر کہ ہر حال میں اس راہ میں دیا جاوے.خواہ میں کسی جگہ دفن کیا جاؤں.میں نہیں جانتا کہ میں کہاں فوت ہوں گا کیسا موقع پیش آئے گا.نیز اس مقبرہ میں دفن ہونے کی جو بھی شرط ہے یعنی خدا کے ساتھ جانفشانی کا تعلق رکھنا.سو میں اپنے آپ کو ایک ناکارہ اور نابکار اور بے عمل اور بہت عاجز انسان پاتا ہوں.پس میں اس مقبرہ میں جگہ پانے کی بات کو رب کی ستاری اور غفاری اور اس کے فضل و احسان پر چھوڑتا ہوں.اور کوئی ایسا خیال نہ کرے کہ میں نے اپنے پسماندگان کے واسطے کچھ نہیں چھوڑا بلکہ میرا ایمان اور یقین ہے کہ میں نے ایسا کرنے سے ان کے واسطے سب سے بہتر خبر گیر اور بہت اعلیٰ جائداد چھوڑی ہے.میں اپنے پس ماندگان کے متعلق کسی اور طریقہ میں تشفی نہیں پاتا اور میں اپنے غفور الرحیم سمیع علیم رب سے بہت دُعائیں مانگا کرتا ہوں لیکن سب سے زیادہ میری ٹھنڈک اس دُعا میں ہے کہ میری جان و مال اولا د اور ہر شے جو میرے ساتھ تعلق رکھتی ہے اور ہر نفس جو میرے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس کی راہ میں خرچ آوے اور اسی نیت سے میں درود شریف زیادہ پڑھتا ہوں.اور محمد کے لفظ میں اپنے مسیح کو بھی دیکھتا ہوں اور پھر آل محمد میں بھی اپنے امام کو مراد پاتا ہوں.اللھم صلی على محمد و على آل محمد و بارك وسلم انك حميد مجيد - - ربنا اغفر لنا ذنوبنا و كفر عنا سياتنا وتوفنا مع الابرار.آمين.103

Page 105

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ اور میری بیوی مسمات امام بی بی بنت الہی بخش مرحوم کی وصیت ہے کہ اس کے ترکہ کا دسواں حصہ اس کام کو دیا جائے.ربنا ظلمنا انفسنا وان لم تغفر لنا وترحمنا لنكونن من الخاسرين.محمد صادق عفی اللہ عنہ 1905 27 ایڈیٹر اخبار بدرقادیان ضلع گورداسپور 104 ( بدر 17 دسمبر 1908ء) یہاں یہ ذکر بھی از دیادِ ایمان کا باعث ہوگا کہ 1939ء میں ایک دفعہ حضرت مفتی صاحب تشویشناک حد تک بیمار ہو گئے اس کو وقت آخر سمجھتے ہوئے آپ نے ایک وصیت لکھ کر سرہانے رکھ دی یہ تحریر بھی آپ کے ایمان و اخلاص پر ایک نادر دستاویز ہے آپ نے لکھا: میں موصی ہوں اور اپنی آمدنی کا دسواں حصہ ہمیشہ انجمن کو ادا کرتا ہوں نیز میں وصیت کر چکا ہوں کہ میرے مرنے کے بعد میرا جو تر کہ ہو اس کا بھی دسواں حصہ صدر انجمن احمدیہ کو اشاعت (دین) کے کاموں کے واسطے دیا جائے اور میری لاش کو بہشتی مقبرہ میں دفن کیا جائے اس وصیت میں جو میں کر چکا ہوں اتنی اصلاح کرتا ہوں کہ جو دسواں حصہ میں دے چکا ہوں یا آئندہ دوں اور جو کچھ میرے ترکہ میں سے دیا جائے وہ اس شرط کے ساتھ مشروط نہیں کہ میری لاش مقبرہ میں دفن کی جائے بلکہ بغیر کسی شرط کے یہ سب رقم انجمن کی ہوگی خواہ میں مقبرہ میں دفن کیا جاؤں یا نہ کیا جاؤں.مقبرہ میں دفن کیا جانے کو میں محض اللہ تعالیٰ کی بخشش اور فضل اور رحم پر چھوڑتا ہوں.نہ کہ کسی اپنے اعمال پر.....خدا تعالیٰ سے بخشش چاہتا ہوں جس کے سوا کوئی بخشتا نہیں.“

Page 106

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 105 الہامات لکھنے کی سعادت 1897ء کی بات ہے حضرت مفتی صاحب سفر گورداسپور میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں رہتے.رات کے وقت کمرے میں ہی چار پائی ڈال کر سورہتے.سونے میں بھی ہشیار اور فکر مند رہتے کہ کہیں ایسانہ ہو حضرت اقدس علیہ السلام کو کوئی کام ہو اور آپ کی گہری نیند کی وجہ سے آپ کو زحمت ہو ہلکی سی آواز پر اُٹھ بیٹھتے کبھی ایسا بھی ہوتا کہ آپ مفتی صاحب کی چار پائی پر بیٹھ کر آپ کے بدن پر اپنا دست مبارک رکھتے جس سے آپ فوراً بیدار ہو جاتے.بالعموم ایسا اُس وقت ہوتا جب کوئی تازہ الہام لکھوانا ہوتا.سفر گورداسپور میں ایک دن سب لوگ کچہری گئے ہوئے تھے آپ لیٹے ہوئے تھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سور ہے ہیں اس حالت میں آپ نے سر اٹھایا اور فرمایا مجھے الہام ہوا ہے لکھ لو اتفاق سے اُس وقت وہاں لکھنے کے لئے کچھ نہ تھا آپ باورچی خانے سے کوئلہ لائے اور کاغذ پر لکھا حضور نے وقفے وقفے سے چند الہامات لکھوائے.(خلاصہ، ذکر حبیب ص 319) حضرت مفتی صاحب کی ڈائری میں 21 اگست 1897ء کی تاریخ کے تحت چھ الہام درج ہیں (ذکر حبیب ص 221) ڈائری نویسی کی اچھی عادت کی وجہ سے سلسلے کی تاریخ میں کئی اہم واقعات یادداشتیں آپ کے حوالے سے مذکور ہیں.تذکرہ میں صفحہ 353 پر جو الہام درج ہے اُس پر آپ کی ڈائری کا حوالہ ہے.( ذكر حبیب ص 216) اسی طرح تذکرہ صفحہ 674 پر حضرت مفتی صاحب کا ایک بیان درج ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں ایک صاحب جو غالباً ریاست جنید کے رہنے والے تھے بیمار ہو کر علاج کے واسطے قادیان آئے اور پیر سراج الحق صاحب کے مکان پر اُنہوں نے قیام کیا.پیر صاحب نے اُن کی سفارش حضرت صاحب علا السّلام سے کی کہ یہ بیمار رہتے ہیں حضور ان کے لئے دُعا کریں.حضور علیہ السلام نے دُعا کی تو حضور کو الہام ہوا: کچلہ ، کونین، فولاد.یہ ہے دوائے ہمزاد ( تذکرہ ص674)

Page 107

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ ذکر حبیب ص 239 240 پر چند الہامات اس طرح درج ہے: 1900 ء فرمایا: تھوڑی سی غنودگی کے ساتھ الہام ہوا: ا اللہ ہمارا بھائی اس دنیا سے چل دیا.“ مصداق ذہن میں نہیں آیا اللہ تعالیٰ عزا پرسی کرتا ہے اور اظہار ہمدردی کرتا ہے.5 جون 1900ء: عند ذالك اوشك الرّدَى إِنَّ الله عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (ایسے وقت میں موت قریب ہو جاتی ہے یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے) 7 جون 1900ء: إنا كذلك تجزى المحسنين 106 ( جو ہماری طرف آتے ہیں ہم ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں ) تذکرہ ص780‘ ذکر حبیب ص 239)

Page 108

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور خوابوں میں مغرب سے طلوع شمس حضرت مفتی صاحب کا ذکر کتابوں میں امام مہدی کی نشانیوں میں ایک نشانی مغرب سے طلوع شمس لکھی ہے.حضر مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی وضاحت میں فرمایا : سورج اور چاند اور ستاروں اور سیاروں کے واسطے جو رفتاریں اللہ تعالیٰ نے مقرر کی ہیں ان میں تبدیلی نہیں ہوتی.پیشگوئیوں میں جو اس قسم کے الفاظ ہوتے ہیں ان کی تعبیر کی جاتی ہے.اس پیشگوئی میں جو یہ لکھا ہے سورج مغرب سے نکلے گا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کی تعلیم کا سورج مغربی ممالک پر پہلے روشنی نہیں دے گا.لیکن آخری زمانہ میں جب امام مہدی کے ظہور کا وقت ہوگا تو مغربی ممالک پر بھی اسلام کی اشاعت ہونے لگے گی اس سے پہلے نہ ہوگی.“ (ذکر حبیب ص 5) 66 107 اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ نظام الاوقات میں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے آنے کا وقت مقدر تھا وہی مغرب سے طلوع شمس کا تھا.اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا ذریعہ بنے میں حضرت مفتی صاحب کو منفرد مقام حاصل ہوا جو محض فضل الہی ہے.ایک عزت کا خطاب 122اکتوبر 1899ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں آپ نے اپنی الہامی پیشگوئی ایک عزت کا خطاب پورا ہونے کے متعلق تشریح فرمائی کہ بیشکوئیاں کس

Page 109

108 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ طرح پوری ہوتی ہیں.اس میں حضرت مفتی صاحب کا بھی ذکر ہے فرماتے ہیں: ” میرے ساتھ خدا تعالیٰ کی عادت یہ ہے کہ کبھی کسی پیشگوئی میں مجھے اپنی طرف سے کوئی تشریح عنایت کرتا ہے اور کبھی مجھے میرے فہم پر ہی چھوڑ دیتا ہے.مگر یہ تشریح جو ابھی میں نے کی ہے اس کی ایک خواب بھی مؤید ہے جو ابھی 21 اکتوبر 1899ء کو میں نے دیکھی ہے اور وہ یہ ہے کہ میں نے خواب میں محبی اخویم مفتی محمد صادق کو دیکھا ہے.اور قبل اس کے جو میں اک خواب کی تفصیل بیان کروں اس قدر لکھنا فائدہ سے خالی نہیں ہوگا کہ مفتی محمد صادق میری جماعت میں سے اور میرے مخلص دوستوں میں سے ہیں جن کا گھر بھیرہ شاہ پور میں ہے.مگر ان دنوں میں ان کی ملازمت لاہور میں ہے.یہ اپنے نام کی طرح ایک محب صادق ہیں.مجھے افسوس ہے کہ میں اشتہار 6 راکتوبر 1899ء میں سہواً ان کا تذکرہ کرنا بھول گیا.وہ ہمیشہ میری دینی خدمات میں نہایت جوش سے مصروف ہیں.خدا ان کو جزائے خیر دے.اب خواب کی تفصیل یہ ہے کہ میں نے مفتی صاحب موصوف کو خواب میں دیکھا کہ نہایت روشن اور چمکتا ہوا چہرہ ہے اور ایک لباس فاخرہ جو سفید ہے پہنے ہوئے ہیں اور ہم دونوں ایک بگھی میں سوار ہیں اور وہ لیٹے ہوئے ہیں اور ان کی کمر پر میں نے ہاتھ رکھا ہوا ہے.یہ خواب ہے اور اس کی تعبیر جو خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالی ہے یہ ہے کہ صدق جس سے میں محبت رکھتا ہوں ایک چمک کے ساتھ ظاہر ہوگا اور جیسا کہ میں نے صادق کو دیکھا ہے کہ جیسا کہ اس کا چہرہ چمکتا ہے.اسی طرح وہ وقت قریب ہے کہ میں صادق سمجھا جاؤں گا اور صدق کی چمک لوگوں پر پڑے گی.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد 15 ص 504)

Page 110

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 109 سفید چڑیوں سے مراد انگریز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک دفعہ کشف میں دکھایا گیا تھا کہ آپ انگلستان میں ہیں اور سفید چڑیاں پکڑ رہے ہیں.حضور نے فرمایا: میں نے دیکھا کہ میں شہر لنڈن میں ایک ممبر پر کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرندے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے.اور ان کے رنگ سفید تھے اور شاید تیتر کے جسم کے موافق ان کا جسم ہوگا سو میں نے اس کی یہ تعبیر کی اگر چہ میں نہیں مگر میری تحریریں ان لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راستباز انگریز صداقت کا شکار ہو جائیں گئے“ (ازالہ اوہام.روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 377) حضرت مفتی صاحب کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ وہ اس خواب کی ایک رنگ میں تعبیر کا سامان بنے.لندن میں دعوت الی اللہ کا موقع ملا اور سب سے پہلا جو انگریز مسلمان ہوا اُس کا نام ، Sparrow تھا سپیر وانگریزی میں چڑیا کو کہتے ہیں.مفتی محمد صادق صاحب میرے ہمراہ تھے 16 را پریل 1904ء فجر کے وقت فرمایا کہ ہم نے ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک سڑک ہے جس پر کوئی درخت نہیں ہے اور ایک مقام دارہ (فقراء کے تکیہ وغیرہ) کی طرح ہے میں وہاں پہنچا ہوں.مفتی محمد صادق میرے ساتھ تھے.دو چار اور دوست بھی ہمراہ تھے.لیکن اُن کے نام اور وہ حصہ خواب کا بھول گیا ہوں آخر سڑک کے کنارہ آیا تو ایک مکان دیکھا جو کہ میرا یہ ( سکونتی ) مقام معلوم ہوتا ہے لیکن چاروں طرف پھرتا ہوں اُس کا دروازہ نہیں ملتا اور جہاں دروازہ تھا وہاں ایک پختہ عمارت کی دیوار معلوم ہوتی

Page 111

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ ہے.فجو ( فضل النساء) سفید کپڑے پہنے بیٹھی ہے اور اُس کے ساتھ فجا (فضل) بھی ہے لیکن فجی کی ایک انگلی پر خفیف سا زخم ہے جس سے وہ روتا ہے.نجی نے آکر ایک ستون جیسی دیوار کو صرف ہاتھ ہی لگایا ہے کہ وہاں ایک دروازہ بڑی پھاٹک کی طرح ایسے کھل گیا ہے جیسے ایک پہینچ کے دبانے سے بعض کل دار دروازے کھل جاتے ہیں جب اُس دروازے کے اندر داخل ہوا تو کسی نے کہا کہ یہ دروازہ فضل الرحمن نے کھول دیا ہے." خطوط امام بنام غلام ( تذکره ص 425) 110 آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دستی خطوط سب سے پہلے جموں میں ملے.جہاں آپ 1890ء تا1895ء بطور مدرس تعینات تھے مگر یہ خطوط محفوظ نہیں رہ سکے.اُن دنوں حضرت اقدس علیہ السلام کے فرزند مرزا فضل احمد جموں پولیس میں ملازم تھے.یہ خطوط زیادہ تر انہیں کے حالات کے استفسار پر تھے.زمانہ قیام لاہور ( جو 1898ء تا 1900ء ہے ) میں جو خطوط موصول ہوئے تھے اُن کی تعداد 51 ہے.یہ خطوط حضرت اقدس علیہ السلام کے دست مبارک سے تحریر شدہ تھے جو آپ کی کتاب ذکر حبیب کے صفحہ 338 تا 372 پر طبع شدہ ہیں.ایک ایک حرف زروجواہر سے قیمتی ہے.صرف طرز تخاطب میں ہی کتنی عظیم الشان بشارت ہے اس کا اندازہ کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود کا ایک اقتباس دیکھئے.فرماتے ہیں: رسول کریم صل السلام فرماتے ہیں قیامت کے دن چند قسم کے آدمیوں پر اللہ تعالی کا سایہ ہو گا اور ان آدمیوں میں سے ایک وہ دو شخص ہوں گے جو اللہ تعالی کے لئے آپس میں محبت کرتے ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی لئے ان لوگوں کو جو ابتدائی زمانہ میں بیعت کرتے تھے جسی فی اللہ لکھا کرتے تھے اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہوتا تھا کہ آپ نے اللہ تعالی کے لئے مجھ سے تعلق پیدا کیا ہے اور قیامت کے روز آپ اللہ تعالی

Page 112

111 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ کے سایہ کے نیچے ہوں گے.“ (خطبات محمود دجلد 13 صفحہ 204) خطوط سے چند اقتباسات درج کرتی ہوں: د محبی اخویم مفتی صاحب سلمہ اللہ تعالیٰ میں آپ کے لئے ہمیشہ دعا کرتا ہوں اور مجھے نہایت قوی یقین ہے کہ آپ تزکیہ نفس میں ترقی کریں گے اور آخر خدا تعالیٰ سے ایک قوت ملے گی جو گناہ کی زہریلی ہوا اور اُس کے اُبال سے بچائے گی.“ ”خدا تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور مکروہات دین و دنیا سے بچائے آمین ثم آمین.فیصلہ عمر سے خوشی ہوئی الحمد للہ آپ کے اخلاص اور محبت سے نہایت دل خوش ہے.خدا تعالیٰ ربانی طاقت سے آپ کو بے نظیر استقامت بخشے.“ (18 جولائی 1896ء) " آپ مناسب ہے کہ ایک دن کے لئے ہو آویں.دل تو نہیں چاہتا کہ آپ جاویں مگر شہر میں ہرگز نہیں جانا چاہیے.کرم داد کی شہادت میں ابھی شک ہے.امرتسر لاہور سے شہادت آ جائے تو بہتر ہے بسا اوقات بادل کا ٹکڑا خیال کے غلبہ سے ہلال معلوم 66 ہوتا ہے." (فروری 1904ء) آپ کو معلوم ہے کہ محمود احمد پڑھائی میں بہت کمزور ہے اس لئے میرے نزدیک یہ تجویز مناسب ہے کہ آپ تجویز کر دیں کہ ایک ہشیار طالب علم ایک وقت مقرر کر کے پڑھایا کرے.جو کچھ آپ مقرر کریں اس کو ماہ بماہ دیا جائے گا ضرور تجویز آج ہی کر دیں اور مجھ کو اطلاع دیں.“ (ذکر حبیب ص 364) حضرت اقدس علیہ السلام اپنے خط کے اختتام پر عموماً اس طرح دستخط فرماتے.خاکسار مرز اغلام احمد عفی اللہ عنہ

Page 113

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 112 حضرت مفتی صاحب اپنے آقا کے حضور جس اخلاص و فدائیت سے مکتوب لکھتے اُن میں القاب و آداب اور اختتام کے انداز سے عجیب عاشقانہ رنگ جھلکتا.ایک خط دیکھئے: مرشد ناومهدینا نائب رسول صلی اللہ علیہ وسلم السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاته گزشتہ ہفتہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ آپ ایک کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور میں ذرا ہٹ کر خادموں کی طرح پاس کھڑا ہوں.اتنے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے کپڑوں کی ایک بستنی کھولی.اور اس میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بوٹ نکالا جو کہ بادامی رنگ کا مضبوط بنا ہوا دکھائی دیتا تھا.اور اس پر بادامی ہی رنگ کے گول گول بٹن بھی لگے ہوئے تھے جو کہ صرف زیبائش کے لئے لگائے جاتے ہیں.میرے دل میں یہ خیال ہے کہ یہ میں نے ہی یہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا تھا.سو وہ بوٹ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ میں لیا اور میری طرف دیکھ کر کچھ ناراضگی کے طور پر ارشاد فرمایا کہ: ” کیوں جا یہ کیا!" اس فقرہ سے میں نے اپنے دل میں خواب کے اندر یہ سمجھا کہ آپ مالی پیام فرماتے ہیں کہ اس سے عمدہ قسم کے بوٹ ہمیں تم سے آنے کی امید تھی.مگر میں شرمندگی سے خاموش ہوں اور اس خواب کی تعبیر میں نے سمجھی تھی کہ اس سے مراد اس خدمت میں کمی اور نقص ہے جو کہ میں حضور اقدس علیہ السلام کی کرتا ہوں کیونکہ میں اپنے خطوط میں لکھا کرتا ہوں کہ میں حضور اقدس نائب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتیوں کا غلام ہوں اور خواب میں بھی مجھے یہی دکھلایا گیا ہے کہ گویا میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک جوتی بھیجی ہے.سو میں نے ایک تو ارادہ کیا ہے کہ بجائے ۳ روپئے کے

Page 114

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ جو میں ماہوار ارسال خدمت کرتا ہوں.آئندہ ۱۰ روپے ماہوار ارسال خدمت کیا کروں گا.وما توفیقی الا با الله العلى العظيم.ڈرتا ہوں کہ اس اولو العزم نبی حبیب خدا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کے سبب ہلاک نہ ہو جاؤں.میں یہ نہیں کہتا کہ صرف دس روپیہ ماہوار ہی ارسال کروں بلکہ اس سے بھی زیادہ جو حضور حکم فرما دیں.انشراح صدر کے ساتھ حاضر خدمت کرنے کو تیار ہوں اور تھوڑی رقم پر غریبی کے ساتھ گزارہ کرنے کو راضی ہوں.اس رحمان و رحیم اللہ کے واسطے جس نے آپ کو اس زمانہ میں اپنے حبیب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا نائب بنا دیا.حضور میرے واسطے دُعا اور شفاعت کریں.تاکہ میں ہلاک نہ ہو جاؤں.اللہ تعالیٰ آپ کی ہر ایک دُعا کو قبول کرتا ہے.اور آپ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دستار مبارک ہیں.پس آپ میرے لئے شفاعت کریں اور مجھے وہ طریق سکھلائیں اور اس راہ پر چلا ئیں جن سے میں اپنے اللہ اور رسول کو راضی کرلوں.آپ کی جوتیوں کا غلام محمد صادق اس کے جواب میں حضرت مسیح پاک علیہ السلام نے تحریر فرمایا: مجی اخویم مفتی محمد صادق صاحب سلمہ اللہ اسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاته میں نے آپ کا خط پڑھا.میں انشاء اللہ الکریم آپ کے لیے دُعا کروں گا.تا یہ حالت بدل جائے اور انشاء اللہ دعا قبول ہوگی.مگر میں ابھی آپ کو صلاح نہیں دیتا کہ اس تنخواہ پر آپ دس روپیہ بھیجا کریں.کیونکہ تنخواہ قلیل ہے اہل وعیال کا حق ہے بلکہ میں آپ کو تاکیدی طور پر اور حکماً لکھتا ہوں کہ آپ اس وقت تک کہ خدا تعالیٰ کوئی گنجائش یا 113

Page 115

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ ترقی بخشے یہی تین روپیہ بھیج دیا کریں.اگر میرا کانشنس اس کے خلاف کہتا تو میں ایسا ہی کرتا مگر میرا نور قلب یہ مجھے اجازت دیتا ہے کہ آپ اسی مقررہ چندہ پر قائم رہیں.ہاں بجائے زیادت کے درود شریف بہت پڑھا کریں کہ وہی ہدیہ ہے.جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچتا ہے.ممکن ہے کہ اسی ہدیہ کے ارسال میں آپ سے ستی ہوئی ہو.18 مارچ 1898ء ذکر حبیب اصل میں وصل حبیب ہے والسلام خاکسار مرزا غلام احمد عفی اللہ عنہ 114 ذکر حبیب ص (349,350) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے محترم رفقاء میں سے خاص طور پر اہلِ قلم حضرات کے ہم پر بہت احسانات ہیں جنہوں نے اپنے مشاہدات تحریری طور پر محفوظ کر کے حضرت اقدس علیہ السلام کی مبارک حیات کے ہر پہلو تک رسائی آسان کر دی.ذکر محبوب پر مشتمل مفتی صاحب کی کتاب ذکر حبیب الحکم بدر الفضل، مسلم سن رائز کے سب سلسلے درج کئے جاسکتے تو لطف رہتا تاہم آپ کا انداز نظر اور وفور عشق کی جھلک دکھانے کیلئے چند نمونے پیش ہیں.آپ فرماتے ہیں: معزز اراکین صدر انجمن احمدیہ کے ارشاد کی تعمیل میں میں نے چاہا کہ اپنے احباب کے سامنے کچھ تقریر کروں لیکن جب میں نے مضمون تقریر پر توجہ کی تو مجھے اس سے بہتر کوئی بات نہ نظر آئی کہ میں اس جلسہ پر جمع ہونے والوں کو جلسہ کے بانی کے منہ سے سنی ہوئی باتیں کچھ سنادوں اور میں دُعا کرتا ہوں کہ یہ ذکرِ حبیب ہم سب کے واسطے موجب ہدایت اور باعث حصولِ رضائے الہی ہو کسی شاعر نے کہا ہے؎

Page 116

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ ذکرِ حبیب کم نہیں وصل حبیب سے 115 یہ مقولہ صداقت کی حقیقت تک پہنچتا ہو یا نہ پہنچتا ہومگر اس میں شک نہیں کہ ذکرِ حبیب انسان کو وصل حبیب تک کھینچ کے لے جاتا ہے...جن لوگوں کو سیح موعود کی صحبت کا موقع نہیں ملا وہ اس کے جانشین کی صحبت سے فائدہ اٹھا ئیں.ایسے لوگوں کی مجلس میں بیٹھنا انسان کے دل کو پاک کرتا ہے.اس کی عقل کو بڑھاتا ہے.اس کے تقوی میں ترقی ہوتی ہے.گناہ بخشے جاتے ہیں اور روحانی قوی ترقی پکڑتے ہیں...جبکہ میں نے پہلے پہل یہاں سکونت اختیار کی تو ابتدا حضرت کے رہائش کے مکان کے اندر ہی مجھے بھی ایک جگہ ملی.ایک دن حضرت عورتوں کو وعظ کر رہے تھے.اور یہ سبب زیادہ قریب ہونے کے مجھے بھی آپ کی دلر با آواز پہنچ رہی تھی انسان کی پیدائش اور پھر لا زمی موت اور رجوع الی اللہ کا ذکر بہت ہی دلکش پیرایہ اور سہل طریقہ سے عورتوں کے ذہن نشین کر رہے تھے.تو اس مضمون کو آپ نے عورتوں کی سمجھ کے مطابق ایک تمثیل میں بیان کیا.فرمایا: دیکھو جب کسی کے گھر میں لڑکی پیدا ہوتی ہے.تو وہ اس کو پالتا ہے اور اس کی تربیت کے تمام سامان مہیا کرتا ہے.اس پر بہت سا خرچ کرتا ہے اور وہ اسے بہت پیاری ہوتی ہے لیکن جلد ایک وقت آتا ہے کہ والدین باوجود اس الفت اور محبت کے جو انہیں اس لڑکی کے ساتھ ہے اسے اپنے گھر سے نکالنے کی تجاویز سوچتے ہیں اور اپنے پاس سے بہت سا روپیہ خرچ کر کے بچشم گریاں اس پیاری بچی کو اپنے گھر سے نکال کر دوسرے گھر میں بھیج دیتے ہیں.یہ مجبوری انہیں کیوں پیش آئی صرف اس واسطے کہ اس لڑکی میں خدا تعالی نے ایک جو ہر رکھ دیا ہے جو شگفتگی حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ اس گھر کو چھوڑ کر دوسرے سے نہ ملے.اسی طرح انسان میں ایک جو ہر رکھا گیا ہے جس کی شگفتگی عالم ثانی میں ہوسکتی ہے اور یہ عالم صرف اس کی تیاری کا ہے اس گھر کو انسان اپنا گھر نہ سمجھے ہاں تیاری کرے.قابلیت پیدا کرے، ہنر سیکھے تا کہ خاوند حقیقی کے پاس

Page 117

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 116 پہنچ کر اس کی قدر اور عزت ہو.موت صرف ایک نقل مکان ہے.“ (بدر 11 دسمبر 1913 ص 4 کالم 1 ) حضرت مفتی صاحب کو حضرت اقدس علیہ السلام کے قریب رہنے کی سعادت حاصل رہی.آپ کے خدا داد مشاہدے کا حاصل کچھ نمونے درج ذیل ہیں: دوسری جماعت فرمایا کہ مسجد میں جب ایک جماعت ہو چکے تو حسب ضرورت دوسری جماعت بھی ہوسکتی ہے.غیر مسلم کو قربانی کا گوشت ( ذكر حبیب ص 83) فرمایا: قربانی کا گوشت غیر مسلم کو بھی دینا جائز ہے.بیوی کو باخبر رکھتے حضرت صاحب ہر ایک اچھی بات اپنے گھر میں حضرت اماں جان کو سب سے پہلے بتاتے تھے اور اُن کی قدر کرتے تھے اور ان کی بہت قدر کرتے تھے.قصیدے کی شان نزول حضور نے جس وقت آئینہ کمالات اسلام لکھی تو اس کا کچھ حصہ فارسی میں لکھا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے فرمایا کہ کچھ عربی بھی ہونا چاہیے.حضور نے فرمایا: ”عربی تو میں نے کبھی نہیں لکھی.مولوی عبد الکریم صاحب نے کہا میں کب کہتا ہوں خود لکھئے طور پر جائیے وہاں سے لائیے.تب حضور نے فرمایا ”ہاں میں دُعا کرتا ہوں ، چنانچہ عصر کے وقت حضور تشریف لائے اور فرمایا کہ: عر بی تو اردو کی طرح آسان ہے میں یہ نظم عربی میں لکھ کر لایا ہوں.“

Page 118

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 117 ه يا عين فيض الله والعرفان یہ پہلی نظم ہے جو حضور علی السّلام نے لکھی.حضور علی لسّلام فرماتے تھے کہ کوئی زبان ایسی نہیں کہ تین دن بھی میں اس کی طرف توجہ کروں اور اس کا ماہر نہ ہو جاؤں.انگریزی بھی ایک مفید زبان ہے مگر میں اس کو آپ لوگوں کے ثواب کے لئے چھوڑتا ہوں.( بدر 11 دسمبر 1913ء) صلوۃ اور دُعا میں فرق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ایک مرتبہ میں نے خیال کیا کہ صلوٰۃ اور نماز میں کیا فرق ہے.حدیث شریف میں آیا ہے.الصَّلوةُ هِيَ الدُّعا.صلوۃ ہی دُعا ہے.الصَّلوةُ مُخ العبادة نماز عبادت کا مغز ہے.جب انسان کی دُعا محض دنیوی امور کے لئے ہو تو اس کا نام صلوۃ نہیں لیکن جب انسان خدا کو ملنا چاہتا ہے اور اس کی رضا کو مد نظر رکھتا ہے اور ادب، انکسار، تواضع اور نہایت محویت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور میں کھڑا ہو کر اس کی رضا کا طالب ہوتا ہے تب وہ صلوۃ میں ہوتا ہے.اصل حقیقت دُعا کی وہ ہے جس کے ذریعے سے خدا اور انسان کے درمیان رابطہ تعلق بڑھے.صلوۃ کا لفظ پر سوز معنی پر دلالت کرتا ہے.جیسے آگ سے سوزش پیدا ہوتی ہے ویسی ہی گدازش دُعا میں پیدا ہونی چاہیے.جب ایسی حالت کو پہنچ جائے جیسے موت کی حالت ہوتی ہے تب اُس کا نام صلوۃ ہوتا ہے.کارکن کی صفات ( ذكر حبيب ص 132 ) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرمایا کرتے تھے : " جب تک کسی شخص میں تین صفتیں نہ ہوں وہ اس لائق نہیں ہوتا کہ اُس کے سپر د کوئی کام کیا جائے اور وہ صفات یہ ہیں :

Page 119

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ دیانت ، محنت، علم 118 اگر کوئی شخص دیانتدار اور محنتی بھی ہو لیکن جس کام میں اس کو لگا یا گیا ہے اس فن کے مطابق علم اور ہنر نہیں رکھتا تو وہ اپنے کام کو کس طرح پورا کر سکے گا اور اگر علم رکھتا ہے محنت بھی کرتا ہے دیانتدار نہیں تو ایسا آدمی بھی رکھنے کے لائق نہیں.اور اگر علم و ہنر بھی رکھتا ہے اپنے کام میں خوب لائق ہے اور دیانتدار بھی ہے مگر محنت نہیں کرتا تو اس کا کام بھی ہمیشہ خراب رہے گا.غرض کارکن میں ہرسہ صفات کا ہونا ضروری ہے.“ قادیان آنے کی ضرورت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ( ذکر حبیب ص 208) لوگ میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر یہ تو کہ جاتے کہ دین کو دنیا پر ترجیح دوں گا لیکن یہاں سے جا کر اس بات کو بھول جاتے ہیں.وہ کیا فائدہ اُٹھا سکتے ہیں اگر وہ یہاں نہ آویں گے.دنیا نے ان کو پکڑ رکھا ہے.اگر دین کو دنیا پر ترجیح ہوتی تو وہ دنیا سے فرصت (ذکر حبیب ص 229) پا کر یہاں آتے.“ جو راہ پر چل رہا ہے اُس سے راستہ پوچھنا چاہیے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: قرآن شریف میں آیا ہے قَد أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا.اس نے نجات پائی جس نے اپنے نفس کا تزکیہ کیا.تزکیہ نفس کے واسطے صحبت صالحین اور نیکوں کے ساتھ تعلق پیدا کرنا بہت مفید ہے.جھوٹ وغیرہ اخلاق رذیلہ دور کرنے چاہئیں اور جو راہ پر چل رہا ہے اُس سے راستہ پوچھنا چاہیے.اپنی غلطیوں کو ساتھ ساتھ درست کرنا چاہیے جیسا کہ غلطیاں نکالنے کے بغیر املاء درست نہیں ہوتا.آدمی ایسا جانور ہے کہ اس کا تزکیہ ساتھ

Page 120

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 119 ساتھ ہوتا رہے تو سیدھی راہ پر چلتا ہے ورنہ بہک جاتا ہے.“ (ذکر حبیب ص 237) قرآن شریف کا ادب گورداسپور کا واقعہ ہے غالباً 1902ء یا اس کے قریب کا ہوگا کہ ایک دفعہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ سلام کی مجلس میں بیٹھے ہوئے ایک کاغذ پر قرآن شریف کی چند آیات بطور حوالہ کے لکھی گئیں.تھوڑی دیر کے بعد کسی دوائی کی پڑیا بنانے کے واسطے جو کاغذ کی ضرورت ہوئی تو حاضرین میں سے کسی نے وہی کاغذ اٹھایا.اس پر حضرت صاحب ناراض ہوئے اور فرمایا: قرآن شریف کی آیات کو پُڑیاں بنانے میں استعمال نہ کرو یہ بے ادبی ہے.(ذکر حبیب ص 391) 66 منارہ بنانا کوئی معمولی بات نہیں: حضرت اقدس مسیح موعود عل السّلام نے فرمایا: یہ ایک عظیم الشان کام ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اس سے پوری ہوتی ہے جیسا کہ حضرت عمر نے پیشگوئیوں کو پورا کرنے کے لئے ایک صحابی کو سونے کے کڑے پہنائے تھے ہم نے دُعا کی ہے جو شخص منارة امسیح کے واسطے روپیہ دے گا خدا اُس کو کسی نہ کسی ذریعہ واپس کرے گا.“ (ذکر حبیب ص 240) حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی حضرت اقدس مسیح موعود علی السلام فرماتے ہیں: قرآن شریف میں نہ تو کشتی کی لمبائی چوڑائی کا ذکر ہے اور نہ ساری دنیا پر طوفان آنے کا ذکر ہے.بلکہ صرف الارض یعنی وہ زمین جس میں نوح نے تبلیغ کی.صرف اس کا

Page 121

120 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ ذکر ہے.لفظ اراراٹ، جس پر کشتی ٹھہری تھی اصل اراریت ہے جس کے معنی میں پہاڑ کی چوٹی کو دیکھتا ہوں.ریت پہاڑ کی چوٹی کو کہتے ہیں.قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے جودی رکھا ہے جس کے معنے ہیں میرا جود و کرم یعنی وہ کشتی میرے جو دو کرم پر ٹھہری.“ مدافعت کے لئے تھا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: (ذکر حبیب ص 273) نادان مولوی ذرا ذرا بات پر جہاد کا فتوی دیتے ہیں حالانکہ جہاد تو آخر اٹیل تھا.اس کو اول الحیل بناتے ہیں کوئی بدذات کسی طرح بھی باز نہ آوے تب حکم تھا کہ تلوار چلاؤ اور یہ بات صاف ہے کہ تمام مسائل سنائے جائیں.روشن دلائل دئے جاویں.تیس پر بھی خدا کا نمک حرام، خدا کے نشانات کا منکر باز نہ آوے اور دین میں سدِ راہ بنے تو ایسے کے لئے خس کم جہاں پاک کہنا بے جا نہیں.پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تلوار نہیں اُٹھائی صرف مدافعت کے لئے ایسا کیا گیا اور سچ یہ ہے کہ پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر انہوں نے تلوار اٹھائی اور آخر وہ تلوار انہیں کی اُن پر پڑی.“ اذان کے وقت پڑھنا جائز ہے (ذکر حبیب ص274) ایک شخص اپنا مضمون اشتہار درباره طاعون سنار ہا تھا.اذان ہونے لگی تو وہ چپ ہو گیا.فرمایا پڑھتے جاؤ اذان کے وقت پڑھنا جائز ہے.(ذکر حبیب ص 296) غیر احمدی امام کے پیچھے نماز حضرت اقدس علیہ السلام مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:

Page 122

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے تمہارا فرض ہے کہ اُسے واقف کرو پھر اگر تصدیق کرے تو بہتر ، ورنہ اُس کے پیچھے اپنی نماز ضائع نہ کرو اور اگر خاموش رہے، نہ تصدیق کرے اور نہ تکذیب ، تو وہ بھی منافق ہے.اس کے پیچھے نماز نہ پڑھو.“ وحدت شہود، وحدت وجود کا مسئلہ حضرت اقدس علیہ السلام مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ( ذکر حبیب ص 299) 121 ایک سمندر ہے جس میں سے سب شاخیں نکلتی ہیں مگر ہمیں شہودیوں والی بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ قرآن شریف کے شروع ہی میں تو کہا ہے الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِين علمین کا رب تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رب اور ہے اور عالم اور ہے.ورنہ اگر وحدت وجود والی بات صحیح ہوتی تو رَبُّ العین ہوتا.“ ہر رقعہ پر السلام علیکم لکھنا حضرت مفتی صاحب فرماتے ہیں: (ذکر حبیب 316-317) مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ مکرم میاں معراج دین صاحب عمر نے کسی بات کے دریافت کرنے کے واسطے ایک چھوٹا سا دوسطر کا رقعہ حضرت مرزا صاحب مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں لکھا.حضرت نے چند لفظوں میں اس کا جواب دے دیا مگر پہلے السلام علیکم ورحمتہ اللہ لکھا اور پھر لکھا کہ ہر رقعہ پر مضمون سے قبل السلام علیکم لکھا کریں.میاں صاحب کے رقعہ پر السلام علیکم نہ تھا.“ تاریخ احمدیت لا ہور صفحہ 104 ) حَتَّى تَوَارَتُ بالحجاب 27 را پریل 1908ء کو حضرت مسیح موعود علیشام قادیان سے لاہور کے لئے روانہ ہوئے.قیامِ لاہور میں خطوط کے جواب لکھنے کے لئے مفتی صاحب کو طلب فرمایا.آپ تعمیل ارشاد میں لاہور

Page 123

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 122 حاضر ہو گئے اور بدر اخبار کا عارضی دفتر بھی وہیں قائم کر لیا.11 مئی 1908ء کو مفتی صاحب نے حضرت اقدس علیہ سلام سے ایک دن کی رخصت اور اجازت مانگی تا کہ قادیان جا کر حسابات دیکھ آئیں.حضور علا السلام نے تحریر فرمایا: ”بے شک، آپ ہو آویں.اختیار ہے.“ والسلام مرزا غلام احمد عفی عنہ آپ کو اپنے محبوب آقا کے لئے ترجمانی کی آخری خدمت کا موقع 12 اور 18 مئی کو ملا جب محترم پروفیسر کلیمنٹ ریگ کی ملاقات کروائی ( تفصیل دی جا چکی ہے ) حضرت اقدس علیای شام نے آپ کی مساعی کو پسندیدگی سے دیکھا.22 مئی کو اپنے احباب سے گفتگو میں حضرت اقدس علیہ السلام نے سلسلے کا پیغام عام کرنے کی ضرورت کے ذکر میں فرمایا: اگر کچھ ایسے قابل اور لائق آدمی سلسلے کی خدمات کے واسطے نکل جاویں جو فقط لوگوں کو اس سلسلے کی خبر ہی پہنچاویں تو بھی بہت بڑے فائدے کی توقع کی جاسکتی ہے.مسٹر ریگ کو دیکھو وہ ہمارے پاس آیا تو آخر کچھ نہ کچھ تبادلہ خیالات کر ہی گیا.“ ( بدر 18 جون 1908ء) 25 مئی 1908ء کی رات کو مفتی صاحب حضرت قاضی ظہور الدین اکمل صاحب کے ساتھ کسی کام میں دو بجے تک مصروف رہے.واپس آکر ابھی بستر پر لیٹے ہی تھے کہ پیغام آیا حضرت کے پاس اندر آ ئیں.آپ اندر گئے اور پھر چار بجے صبح تک اندر ہی رہے.(الفضل 26 مئی 1931ء) وقت وصال کی کیفیت کی تصویر کشی والا بیان تاریخ کا ایک حصہ بن چکا ہے.تحریر فرمایا: لاہور میں آپ پیغام صلح لکھ رہے تھے چونکہ وہاں مسافرت کا مقام تھا جلد واپس آنے کا خیال بھی تھا.پیغام صلح کے لیکچر کی بڑے زورشور سے تیاری ہورہی تھی.اشتہار شائع ہو گئے.مضمون بہت زبردست تھا.غیر قو میں مخاطب تھیں اس واسطے بہت توجہ

Page 124

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ سے آپ عالی سلام اس مضمون کے لکھنے میں مصروف ہوئے اور رات دن اسی کام میں لگے رہتے.شام کی سیر بھی ترک کی ہوئی تھی کئی روز تک متواتر کام کرتے رہے.آخری دن جس دن مضمون ختم ہوا تو فرمایا آج ہم نے اپنا کام ختم کیا.اس شام کو سیر کے واسطے بھی تشریف لے گئے مگر طبیعت پر اس محنت کی کوفت کا اثر نمایاں تھا.عصر کی نماز میں ایک ملاں نے مباحثہ کا رنگ اختیار کیا اس کو آپ علیہ السلام بہت سمجھاتے رہے جب اس نے بہت ضد کی تو بالآخر فر مایا کہ ہم تو اپنا کام پورا کر چکے ہیں.اب تم جاؤ جو تمہارا جی چاہے کرتے پھر واسی رات کو عشاء کے قریب آپ پر وہی دوران سر اور ہاتھ پاؤں سرد ہونے کا دورہ پڑا.اور اسہال ہوا.پہلے اس کو اکثر نے معمولی سمجھا اور علاج معالجہ ہوتا رہا.مگر طبیعت ساعت بساعت زیادہ خراب ہوتی گئی.فجر کی نماز کے وقت میں پاؤں دبا رہا تھا.صاحبزادہ محمود احمد صاحب سرہانے بیٹھے تھے تب آپ علیہ سلام نے آہستگی سے فرمایا نماز صاحبزادہ صاحب نے خیال کیا کہ مجھے نماز پڑھنے کے واسطے فرماتے ہیں.انہوں نے عرض کی کہ میں نے نماز پڑھ لی ہے.آپ علا السلام نے پھر فرمایا' نماز اور دونوں ہاتھوں کو سینے پر رکھا تب ہم نے جانا خود نماز پڑھتے ہیں اس کے بعد جلد آپ علیسلام کو بے ہوشی ہوئی اور اپنے خدا سے جاملے اس دنیا میں آپ عالی شام کا آخری کام بھی خدا کی ا عبادت ہی تھا.میں آپ علیہ اسلام کے قدموں میں حاضر تھا.“ ( بدر 11 دسمبر 1913ء) روحانیت کا آفتاب دنیا میں چمکا بے حجاب وہ حسن جس کے سامنے سارے حسیں تھے آب آب آئی اجل اتنی شتاب گویا کہ اک دیکھا تھا خواب ہم کو بھلا تھی کیا خبر ہیں وہ کھڑے پادر رکاب بے فکریوں میں ہم رہے حتی توارت بالحجاب 123

Page 125

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 124 حضرت اقدس علی شام کے وصال نے اس چہرے کے بھو کے عشاق پر غم کے پہاڑ گرادیئے اس شمع کے پروانوں کے لئے جسمانی فراق کا یہ صدمہ قیامت سے کم نہ تھا.عشق و محبت ناپنے کا کوئی آلہ نہیں ہوتا البتہ بے ساختہ ادائیں دل کا حال کہتی ہیں.حضرت اقدس علیہ السلام کچہری میں کرسی پر تشریف فرما ہیں مفتی صاحب کو خیال آیا کہ پاؤں تھک گئے ہوں گے اپنا کوٹ اتارتے ہیں گول ساکشن بناتے ہیں اور پائے مبارک کے نیچے رکھ دیتے ہیں.حضرت اقدس علیہ السلام جوتا پہنے میں دائیں بائیں کے تکلف میں نہیں پڑتے تو آپ علی سلام کی سہولت کے لئے دائیں جوتے پر سیاہی سے نشان لگاتے ہیں.یکے پر بیٹھتے ہیں تو دھوپ کے رخ پر خود بیٹھتے تا کہ دھوپ کی تمازت خودسہ لیں.ہر محفل میں حضرت اقدس علی سلام کے قریب ترین بیٹھنے کی کوشش کرتے تاکہ اللہ تعالی سے مناجات کے لئے ہاتھ اٹھیں تو ہونٹوں کی جنبش سے مانگنے کا سلیقہ سکھ سکیں.تصویر کھنے لگی تو قدموں میں بیٹھ کر چھڑی کا آخری سرا تھام لیتے ہیں.عشق میں تعلقِ خاطر کا یہ انداز دل کے سکون کا باعث بنتا ہے ایسے محبوب کا بچھڑنا بھی ایک امتحان ہوتا ہے.مگر اللہ ہی ولی اور والی ہے جو غمزدہ دلوں کو تھام لیتا ہے اور مضبوط سہارا بنتا ہے.حضرت مولوی حکیم نورالدین صاحب کے نام درخواست ایسے جذباتی حادثات کے وقت بسا اوقات انسان کو اپنی ذہنی حالت پر بھی قابونہیں رہتا.یہ محض فضل و احسانِ خدا وندی تھا اور حضرت اقدس علی سلام کا فیضانِ صحبت و تربیت کہ حضرت مفتی صاحب نے جماعت کو ایک ہاتھ پر اکٹھا رکھنے کی اہمیت کو محسوس کیا اور فوری طور پر ایک درخواست حضرت مولوی نورالدین صاحب کے نام لکھی.یہ اُسی طرح کے غم واندوہ کا وقت تھا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم پر گزرا تھا.اُس وقت اُمت کا پہلا اجماع وفات مسیح علیہ السلام پر ہوا تھا اور وفات مسیح موعود علیہ السلام پر پہلا اجماع خلافت کے اجراء پر ہوا.تاریخ کے اس سنگ میل پر حضرت مفتی صاحب کا مکتوب اُن کے قلبی اخلاص اور مصلحت

Page 126

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ اندیشی کا مظہر ہے.آپ نے تحریر فرمایا: بِسْمِ الله الرّحمنِ الرَّحِيم محمدة ونُصلى على رسوله الكريم الحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِين والصلوة والسلام على خاتم النبيين محمد المصطفى وعلى مسيح الموعود خاتم الاولياء 125 اما بعد مطابق فرمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام مندرجہ رسالہ الوصیۃ ہم احمدیاں جن میں سے کچھ کے دستخط ذیل میں ثبت ہیں اس امر پر صدق دل سے متفق ہیں کہ اول المہاجرین حضرت مولوی حکیم نور الدین صاحب جو ہم سب میں سے اعلم اور اتی ہیں اور حضرت امام کے سب سے زیادہ مخلص اور قدیمی دوست ہیں اور جن کے وجود کو حضرت امام علی سلام اسوہ حسنہ قرار دے چکے ہیں جیسا کہ آپ علیای سلام کے شعر چه خوش بودے اگر ہر یک زامت نور دیں بودے ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بودے سے ظاہر ہے کہ ہاتھ پر احمد کے نام پر تمام احمدی جماعت موجودہ اور آئندہ نئے ممبر بیعت کریں اور حضرت مولوی صاحب کا فرمان ہمارے واسطے آئندہ ایسا ہی ہو جیسا کہ حضرت اقدس علیہ سلام کا تھا.اس دستاویز پر جماعت کے قریباً60 سر کردہ احباب کے دستخط ہیں جن میں کچھ نام درج ذیل ہیں.ناقل ) رحمت اللہ مالک انگلش ویر ہاؤس لاہور ) ( صاحبزادہ ) مرزا محمود احمد، (مفتی ) محمد صادق عفی اللہ عنہ، سید محمد احسن امروہی ، سید محمد حسین اسسٹنٹ سرجن لاہور.( مولوی ) محمد علی ایڈیٹر ریویو آف ریلیز ، خواجہ کمال الدین.( ڈاکٹر ) مرزا محمد یعقوب بیگ.خلیفہ رشید الدین اسسٹنٹ سرجن.مرزا خدا بخش.( شیخ ) یعقوب علی (ایڈیٹر الحکم ).(مولوی) ماسٹر شیر علی ہیڈ ماسٹر مدرسہ تعلیم الاسلام.(نواب) محمد علی خاں (رئیس مالیر کوٹلہ ) ( صاحبزادہ ) مرزا بشیر احمد (حضرت میر ) ناصر نواب

Page 127

126 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ جنہوں نے اس موقع پر کھڑے ہو کر اس امر کی رقت آمیز اور دردمندانہ الفاظ میں تائید کی کہ ہم میں سے اب مسیح کا جانشین بننے اور بیعت لینے کے لائق حضرت مولوی صاحب موصوف ہیں.( بدر 2 جون 1908ء) حضرت مفتی صاحب یہ تحریر پڑھ کر سنا چکے تو حضرت مولوی صاحب کھڑے ہوئے اور ایک درد انگیز تقریر کی.اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے صدمے سے چور چورا حباب جماعت کے خوف کی حالت کو اللہ تبارک تعالیٰ نے امن میں بدل دیا.بیعت ہوئی اور آہ و بکا کے ساتھ جماعت کی یک جہتی اور سلامتی کی دُعائیں مانگتے ہوئے حضرت اقدس علیہ السلام کے چہرہ مبارک کی آخری زیارت ہوئی اور اس گنج گراں مایہ کوسپر د خاک کر دیا گیا.حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد روئے گل سیر ندیدیم و بهار آخر شد احباب جماعت نے اپنے محبوب کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے نئے عزم سے کام شروع کیا.27 مئی 1908ء کو جماعت قدرت ثانیہ کے دور اول میں داخل ہو گئی.

Page 128

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ آئینه صداقت باب دوم خلافت اولی میں خدمات 127 جماعت کو ایک ہاتھ پر جمع ہوتا دیکھ کر مخالفین کو شدید تکلیف ہوئی.انہوں نے حسد کے مارے اعتراضات کی تیراندازی شروع کر دی.قلم کا ہتھیار لے کر مستعد مجاہد آگے بڑھا اور ہر اعتراض کا مدلل جواب لکھا ایک کتاب لکھی جس میں آپ عالی سلام کی کامیاب زندگی کے ثبوت پیش کئے.نیز اردو اور انگریزی اخبارات کے حضرت اقدس علی سلام کب وفات کے متعلق خبروں اور تبصروں کے تراشے جمع کئے اور آپ کے وصال پر جو تاریخیں لکھی گئیں اُن کو جمع کیا اور آخر میں آپ کی تعلیم کا نمونہ بھی دیا.اس کتاب کا نام آئینہ صداقت رکھا گیا.(بدر 9 جولائی 1908ء) اس کتاب آئینہ صداقت کے متعلق مولوی محمد علی صاحب نے بے حد تعریفی مکتوب تحریر کیا جو 23 جولائی 1908ء کے بدر اخبار میں چھپا.اس میں لکھا: اس قدر مدلل اور سیر کن بحث اس میں ہے کہ کوئی پہلو باقی نہیں رہ جاتا اور پڑھنے والا، بشرطیکہ، وہ حق طلبی دل میں رکھتا ہو اور منہاج نبوت سے اس سلسلہ کو دیکھے اس کی صداقت کا قائل ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا.آئینہ صداقت لفظی معنوں میں بھی آئینہ صداقت ہے خدا اسے بہتوں کی بہتری اور ہدایت کا موجب کرے.“ ( بدر 8 جولائی 1908ء) اس بیدار مغز عاشق صادق نے نہ صرف اپنے محبوب کے روشن چہرے پر اعتراضات کی گردنہ آنے دی بلکہ احباب جماعت کو صبر جمیل پر قائم رہ کر ہمت اور حو صلے سے باوقار انداز میں حضرت اقدس علیہ السلام کے مشن کی کامیابی کے لئے آگے بڑھتے رہنے کی تلقین کی.آپ نے احباب

Page 129

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ جماعت کے نام ایک مکتوب لکھا: ” خدا کے صادق رسول کے صادق مریدو! خدا کی طرف سے سلامتی اور رحمت اور برکت تم پر ہو ایسے وقت میں جبکہ تمہیں اپنے مرشد و ہادی کی جدائی کا صدمہ اُٹھانا پڑا ہے اور تمہارے دل اس صدمہ سے اند و نگیں ہیں.میرا جی چاہتا ہے کہ تم کو ایک ہمدردی کا خط لکھوں جو تمہارے واسطے تسکین کا موجب ہو.....پیارے بھائیو! میرا یہ خط کیا ہے ایک دلی در دکا اظہار ہے.تیرہ سو سال کے بعد خدا کا نبی دنیا میں آیا.وہ آیا اور دنیا میں رہا اور دنیا سے چلا بھی گیا.ہنوز کثیر حصہ مخلوقات کا وہ ہے جس نے اس کو نہ پہچانا اور نہ مانا اور بہتوں نے اس کی طرف توجہ بھی نہ کی اور ایسے بھی ہوئے جنہوں نے اس کی مخالفت کی اس کو دکھ دیا اور اس کی ساری عمر میں بدقسمتوں نے سوائے آزار دہی کے اور کوئی تجویز نہ کی اور ان کے نصیبے میں نہ ہوا کہ وہ خدا کے پیارے سے ایک نیک دُعالے لیتے.ان لوگوں کی وہ مثال ہے جس کا ذکر حدیث قدسی میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کہے گا کہ اے ابن آدم میں مریض ہوا تھا تو میری عیادت کو نہ آیا.میں نے تجھ سے کھانا مانگا تھا تو نے مجھے نہ دیا.میں نے تجھ سے پانی مانگا تھا تو نے نہ پلایا.انسان کہے گا تو رب العالمین ہے.میں کس طرح تیری عیادت کرتا اور کس طرح تجھے کھانا کھلاتا اور کس طرح تجھے پانی پلاتا.خدا تعالیٰ کہے گا کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا تھا اگر تو اس کی بیمار پرسی کرتا تو مجھے اس کے پاس پاتا اگر تو فلاں بندے کو کھلاتا اور پلاتا تو اس کھانے اور پینے کو آج میرے پاس پاتا.معلوم نہیں کہ کس کس طرح بندے کی طرف خدا تعالیٰ اس میں اشارہ کرے گا.مگر اس میں کیا شک ہو سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے خاص بندوں ، اس کے مرسلین اور مامورین کی عیادت کرنا اور 128

Page 130

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 129 ان کو کھانا اور پانی دینا.خدا تو غنی ہے وہ کسی چیز کا محتاج نہیں کہ اس سے پیار کرنے والے اپنی محبت کے جوش میں اس کی دعوت کریں اور اسے روٹی کھلا ئیں لیکن چونکہ انسان آخر انسان ہے.وہ اپنی محبت کا اظہار انسانیت کے رنگ میں ہی کر سکتا ہے اس واسطے خدا نے اپنے خاص بندوں کو دنیا میں بھیجا ہے تا کہ اس کے نام پر جو کوئی ان بندوں کی خدمت کرے وہ خدا کی خدمت سمجھی جائے.افسوس ان پر صد ہزار افسوس جنہوں نے خدا کے برگزیدہ کو سوائے گالیوں کے کوئی تحفہ نہ بھیجا اور سوائے اعتراضات کے کوئی دعوت سامنے پیش نہ کی.وہ دنیا میں آیا اور چل دیا، پر انہوں نے اپنے واسطے سوائے جہنم کے کسی بات کی تیاری نہ کی.پر مبارک ہو تم پر میرے بھائیو کہ خدا تعالیٰ نے ایسی تاریکی کے زمانہ میں تمہاری دستگیری کی اور تمہیں اپنے مہدی کے ذریعہ ہدایت یافتہ بنایا اور اپنے مسیح کے طفیل تمہاری روحوں کو برائیوں سے اور بداعتقادات سے نجات دی.خدا کا تم پر فضل زیادہ سے زیادہ ہو تم آسمان پر رسول کے ساتھیوں میں لکھے گئے اور خدا نے تمہیں خاص کام کے واسطے برگزیدہ کیا.لیکن میرے پیار و غم نہ کرو اور حزین مت بنو کیونکہ ضرور ایسا تھا کہ ایسا ہوتا کہ تم آزمائے جاؤ اور خدا کے دشمنوں سے دُکھ اُٹھا کر اور ناگوار باتیں سن کر پختہ ہو جاؤ اور تاکہ تمہارے ساتھ بھی وہ سنت پوری ہو جائے جو صحابہ رسول کریم حضرت محمدمصطفی سلیم ایم کے ساتھ ہوئی تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو سب نے آپ سال تا پریتم کی وفات کو قبل از وقت سمجھا.سو میرے دوستو تم بھی اس وقت صبر سے کام لو اور صحابہ کا درجہ پاؤ.“ ( بدر 11 جون 1908ء) اس کے بعد حضرت مفتی صاحب نے اس خط میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کئے گئے مختلف اعتراضات کا مسکت جواب دیا اور آپ کے فضائل لکھے اور بتایا کہ دراصل ہمارا مسیح زندہ ہے اور نہیں مرے گا کہ ہمارا خدا زندہ ہمارا نبی زندہ ہمارا مسیح زندہ.

Page 131

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ نور صادق اور دیگر سلسلے 130 عقیدت، محبت اور مؤدت کے اپنے اپنے انداز ہوتے ہیں.بحیثیت ایڈیٹر بدر آپ نے کئی سلسلے حضرت خلیفہ اسیح کی سیرت اور پیغام پہنچانے کے جاری رکھے.نور صادق کے نام سے ذاتی مشاہدات قلم بند کئے.وجہ تسمیہ یہ بتائی کہ وہ نور الدین جو صادق کی آنکھوں کے راستہ اُس کے دل پر نازل ہوا اور وہ نور جو صداقت کی شعاعوں سے چمک رہا ہے.....نیز تحریر فرمایا: اللہ کی رحمت اور مغفرت ہو میرے ماں باپ پر جس نے مجھے چھوٹی سی عمر میں نور الدین کے پاس پہنچایا اور اس کا شاگرد بنایا.اور دینی و دنیاوی حسنات عطا ہوں میری ماں کو جس کے سبب سے میں بچپن سے نورالدین کو جانتا ہوں.“ ( بدر 19 ستمبر 1912ء) کلام امیر کے عنوان کے تحت لطیف نکتے اور سبق آموز واقعات ہوتے قرآنِ رمضان اور درس القرآن کے تحت تفسیری نکات جمع کرتے درس حدیث میں بخاری شریف کا درس شامل تھا.یہ سب کام بے حد محنت طلب تھے جو محض اللہ تعالیٰ کی دستگیری سے ممکن ہوتے تھے.تفسیر لکھنے کی ذمہ داری کا ذکر کرتے ہوئے مفتی صاحب تحریر کرتے ہیں: حضرت مولوی نور الدین صاحب کے درس کے فوائد کا اُس میں درج کرنا حضرت اقدس علیہ السلام کے اقوال کا اُس کے متعلق تلاش کرنا پھر خود بھی تدبیر کرنا ،دُعا کرنا.یہ سب کچھ کوئی تھوڑا کام نہیں بلکہ سچ تو یہ ہے کہ اگر تفسیر کے لئے اُس کا حق پورے طور سے ادا کرنا ہو تو اس کام کے لئے بدر کے ایڈیٹوریل سٹاف میں ایک ایڈیٹر صرف اس کام کے واسطے خاص ہونا چاہیے جسے اور کسی طرف فکر کرنے کی ضرورت نہ ہو......ایڈیٹر کو علاوہ اخبار کی ایڈیٹری کے اُس کی مینجری بھی خود ہی کرنی پڑتی ہے.

Page 132

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ اب ایک جان خریداروں سے خط و کتابت کرے.نئے خریدار بنانے کی کوشش کرے ان کی قیمتوں کا حساب رکھے.روزانہ آمد و خرچ کو سمجھائے، اخبار کے فنڈ کو بڑھانے کی کوشش کرے فنڈ تھوڑا ہو جائے تو اس کی فکر کرے.اخبار کو وقت پر نکالنے کا انتظام کرے.پریس میں اور کل کشوں کے ساتھ مشہور سرکھپائی کو بھگتے.یہ سارے دھندے بھی کرے پھر اس کے ساتھ چالیس پچاس اخباریں پڑھے.خبروں کا انتخاب کرے.نامہ نگاروں کے مضمون پڑھے اُن میں سے اچھے برے کا امتیاز کرے.ایڈیٹوریل بھی لکھے.یہ سب کچھ سوچیں کہ وہ مفسری کے فرائض کس عمدگی سے ادا کر سکے گا خصوصاً جب کہ اُس کا انسان ہونا.کھانے پینے سونے اور زندگی کے دیگر لوازمات کا اس کے لاحق حال ہونا.صاحب اہل وعیال ہونا بھی نگاہ میں رکھ لیا جاوے اور اُس کے ساتھ یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ وہ مسلمان بھی ہے پنج وقتہ نماز بھی پڑھنا اُس کے لئے ضروری ہے.“ ( بدر 3 اکتوبر 1912 ء ) دعوت الی اللہ اور دورے 131 دور خلافت اولیٰ میں آپ کی خدمات میں سر فہرست دعوت الی اللہ اور نئی انجمنیں قائم کرنے کے لئے دورے تھے.صدر انجمن احمدیہ کی سالانہ رپورٹ 09-1908ء میں لکھا ہے: حضرت مفتی محمد صادق ایڈیٹر بدر نے ایک لمبا دورہ کیا جس میں انہوں نے سلسلہ کی تبلیغ بھی کی اور بہت جگہ نئی انجمنیں قائم کیں نیز اُن کے مواعظ حسنہ سے متاثر ہو کر کئی لوگ احمدی ہوئے.“ 26 جون 1908ء کو آپ نے بھیرہ میں ایک بڑے جلسے میں جس کی صدارت جناب دیوان گنپت رائے آنریری مجسٹریٹ نے کی تھی، پیغام صلح پڑھ کر سنائی جس کا بہت اچھا اثر ہوا.یہ وہ زمانہ تھا جب احمدیوں کے دل اپنے محبوب کی جدائی میں دکھے ہوئے تھے.حضرت مفتی صاحب

Page 133

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 132 کے دورے طمانیت قلب کا باعث بنے کیونکہ آپ وہ ہستی تھے جو حضرت اقدس علیہ السلام کے سفر رحلت میں آپ عالی سلام کے قریب تھے 22 تاریخ کو کپورتھلہ کی جماعت کو مخاطب کر کے فرمایا: ”میرے دوستو !صبر سے کام لو دیکھو تم اس کے عاشق تھے وہ بھی آگے کسی کا عاشق تھا.تمہارا عشق بہت بڑا تھا مگر اس کے عشق کا درجہ نہایت اعلی تھا.تم اس کے دیدار کے خواہشمند تھے تو وہ بھی اپنے محبوب کے وصال کا آرزومند تھا اس نے بہت صبر کیا جو اتنے سال تک تمہارے درمیان رہا مگر کب تک! آخر وہ اپنے پیارے کے پاس چلا ہی گیا اور اس کی آخر کلام یہی تھی کہ اے میرے پیارے اللہ.اے میرے پیارے اللہ اور اس کا آخری فعل اس دنیا میں اپنے پیارے اللہ کے حضور نماز پڑھنا تھا یہ خادم اس آخری وقت کے چھ سات گھنٹہ برابر اس کے قدموں میں حاضر تھا اور اس نظارے کو دیکھ رہا تھا کہ کس طرح وہ دنیا و مافیھا سے لا پرواہ ہو کر اپنے محبوب حقیقی کی طرف چلا گیا.اس نے دنیا کی کسی چیز کو یاد نہ کیا اور نہ کسی طرف توجہ کی بس اپنے مولا کا دھیان رکھا اور اسی میں فنا ہو گیا وہ نماز پڑھتا تھا اور اسی نماز میں وہ اللہ کے حضور پہنچ گیا ہمارے سامنے نماز کا بہانہ کیا آپ یار کے پاس جا بیٹھا اور ہمیں یتیم چھوڑ گیا...حضرت مفتی صاحب نے 27 فروری سے 18 مئی 1909ء تک پونے تین ماہ گورداسپور، امرتسر، جالندھر تین اضلاع اور ایک ریاست کپورتھلہ میں دورے کئے.160افراد حلقہ بگوش دین ہوئے.بدر کو 80 نئے خریدار ملے قریباً پچاس تقاریر کا موقع ملا اور آٹھ جگہ نبی مجلسیں قائم کیں.یہ دورے کئی لحاظ سے بے حد اہم ثابت ہوئے سب سے بڑھ کر حضرت اقدس مسیح موعود عل السلام کے ایک ارشاد کی تعمیل ہوئی.آپ نے فرمایا تھا: 66 ( بدر 8 را کتوبر 1908ء) اخبار کی اشاعت کے واسطے دورے کرو اس لئے غیر معمولی برکت بھی حاصل ہوئی.دوسرے ان جماعتوں کے مشاہدہ اور معائنہ سے

Page 134

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 133 آپ نے جو تاثرات قلم بند کئے وہ تاریخی اہمیت کے حامل ہیں.جب بھی ان علاقوں کی تاریخ لکھی جائے گی ان تاثرات کو نظر انداز نہ کیا جا سکے گا.آپ اپنے دوروں کی رپورٹیں اخبار بدر کو بھیجتے جو ساتھ کے ساتھ شائع ہوتیں.اس طرح احباب جماعت میں آپس میں ایک دوسرے سے تعارف و محبت میں اضافہ ہوتا.مثال کے طور پر چند واقعات درج کئے جاتے ہیں: لودھی منگل میں آپ کی ملاقات ایک بزرگ مولوی نور احمد صاحب سے ہوئی.اُن کے پاس حضرت اقدس علیہ السلام کا دستِ مبارک سے تحریر کیا ہوا 6 ستمبر 1872ء کا ایک مکتوب تھا.یہ فارسی منظوم خط کے جواب میں فارسی نظم کی صورت میں لکھا گیا تھا.کل ننانوے اشعار ہیں.آپ نے نظم نقل کروالی اور بدر 29 اپریل 1909ء کے پرچے میں شائع کی.یہ نظم اسی حوالے سے فارسی ڈریشمین میں شامل ہے.یہ ایک بیش بہا خزانہ ہے جو حضرت مفتی صاحب کے ہاتھ لگا.سپاس آں خداوند یکتائے را بمہر پہر و بیمه عالم آرائے را لحظه امید یاری از وست بہر حالتے دوستداری از وست پس منظر اس نظم کا یہ ہے کہ حضرت اقدس علیہ السلام نے لودھی نگل کے مولوی اللہ دتا صاحب کو اپنے صاحبزادگان کی تعلیم کے لئے قادیان بلوایا تھا مگر وہ زیادہ دیر یہاں نہ رہ سکے اور واپس لودھی منگل چلے گئے.ایام اقامت قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بعض مسائل پر مذاکرہ علمیہ یا مباحثہ جو کچھ بھی کہا جائے ہوتا رہا.قادیان سے واپس جا کر مولوی صاحب نے حضرت اقدس علیہ السلام کو ایک منظوم فارسی خط لکھا جس کے جواب میں آپ نے منظوم جواب بھیجا.یہ نظم عشق محمد مصطفی سلیم ایام سے لبریز ہے.اس نظم سے آپ علیہ سلام کی احیائے دین کی تڑپ ،علمائے زمان کی حالت، اولاد کی تعلیم کی اہمیت غرضیکہ کئی اہم امور کا علم ہوتا ہے.(حیات احمدص 254)

Page 135

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 134 سیکھواں میں تین محترم بھائیوں حضرت جمال الدین صاحب، حضرت امام الدین صاحب اور حضرت خیر الدین صاحب سے ملاقات ہوئی.ان خوش نصیبوں کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بار ہا ذکر فرمایا ہے اور ان کی مالی خدمات کو سراہا ہے.یہاں ایک صاحب مہر رساون نامی نے بتایا کہ چھ سال ہوئے ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ اُن کی آنکھ کی بینائی ختم ہو جائے گی.جب سے وہ ہر جمعہ قادیان آکر حضرت اقدس علیہ السلام کا دامن اپنی آنکھوں سے ملتے رہے جس سے آنکھ کی قوت خلاصه بدر 4 تا 11 مارچ 1909ء) باقی رہی.تلونڈی جھنگلاں میں مدرسہ احمدیہ کی شاخ قائم تھی.مفتی صاحب نے اپنی رپورٹ میں تحریر کیا: مولوی رحیم بخش صاحب کی محنت اور کوشش اور تبلیغ کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جگہ کی احمدی جماعت دینی کاموں میں بہت جوش رکھتی ہے.اس جماعت کے للی جوش کے سبب یہاں پر صدر انجمن نے اپنے مدرسہ کی ایک شاخ قائم کی ہے جس نے تھوڑے عرصے میں اس قدر ترقی کی ہے کہ اب اس میں تقریباً ساٹھ طلباء ہیں.میں نے اس مدرسہ کا معائنہ کیا لڑکوں کو تمام مضامین میں ہوشیار پایا.“ ( بدرر 18 مارچ 1909ء) امرتسر میں ڈاکٹر قاضی کرم الہی صاحب سے مل کر آپ بہت خوش ہوئے خوشی کی وجہ بیان فرماتے ہیں: ڈاکٹر صاحب موصوف کو یہ فخر حاصل ہے کہ اُن کے خاندان کی چار پچھتیں حضرت مرزا صاحب مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام کو دیکھنے والی اور آپ کو صدق دل سے قبول کرنے والی ہیں.یعنی ڈاکٹر صاحب موصوف کے والد ،خود ڈاکٹر صاحب.ان کے صاحبزادے اور اُن کے پوتے.ڈاکٹر صاحب کے بیٹوں ، پوتوں ، نواسوں کی ایک

Page 136

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ جماعت لڑکوں اور بچوں کی ایک جگہ رہنے والی.اس طرح شریفانہ حسنِ سلوک کے ساتھ ایک دوسرے سے بولنے والی.کم زبان.نیک مزاج نماز کی پابند، اپنی تعلیم میں شوق سے مصروف بہت ہی کم دیکھنے میں آئی اللہ تعالیٰ کا فضل سب کے شامل حال ہو.“ 66 ( بدر 13 مئی 1909 ء) 135 جالندھر میں حضرت مرز اسلطان احمد سے ملاقات کا حال لکھتے ہیں : خان صاحب مرزا سلطان احمد صاحب ای.اے سی آج کل اس ضلع میں افسر مال ہیں خان صاحب موصوف کی خدمات محکمہ مال میں جس اعلیٰ پایہ کی ہیں ان کا اندازہ کچھ ان کے افسر ہی کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں.ماتحتوں پر جس قدر حسن سلوک وہ کرتے ہیں اس کے سبب سے تمام اہل کار ان کے ازحد ممنون احسان ہور ہے ہیں لیکن سب سے زیادہ جو قابل ذکر امر ہے وہ یہ ہے کہ غریب زمینداروں کی حالت کی اصلاح کے واسطے وہ شب و روز کوشاں رہتے ہیں.کپورتھلہ میں مکرم عبدالمجید خان صاحب کی لائبریری سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے بہت سے خطوط ملے جو آپ نے بدر میں شائع کروائے.ان میں وہ عارفانہ خط بھی شامل ہے جو آپ نے اپنے والد صاحب کو فارسی میں تحریر فرمایا تھا.جس میں سعدی کا یہ شعر درج ہے.مکن تکہ ( بدر 20 مئی 1909ء) بر عمر نا پائیدار معاش ایمن از بازی روزگار ( بدر 24 جون 1909 ء ) ریاست کپورتھلہ کی بستی منار میں آپ شدید بیمار ہو گئے.پندرہ دن سر درد اور بخار ہوتا رہا.مولا کریم سے دعا کی تو خواب میں علاج بتایا گیا.دو دن دوا استعمال کی خدا کے فضل سے معجزانہ شفا عطا ہوئی.( بدر 8 جولائی 1909 ء)

Page 137

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 136 کپورتھلہ میں احباب جماعت کے اخلاص اور محبت سے آپ بے حد متاثر ہوئے.خاص طور پر منشی عبدالمجید خان صاحب انچارج افسر بھی خانہ کے حسن سلوک کا تذکرہ تفصیل سے کیا.ان کے والد مکرم محمد خان مرحوم کے ذکر میں آپ لکھتے ہیں: ”میاں محمد خان کے ذکر خیر کے بغیر کپورتھلہ کی تاریخ احمدیت مکمل نہیں ہو سکتی.....محبت اور دوستی کے حقوق کی ادائیگی میں حضرت امام علی سلام کے ساتھ اخلاص میں خان صاحب اپنے والد مرحوم کے قدم بقدم چلنے کی کوشش میں مصروف ہیں.ان کی مہمان نوازی کا یہ حال ہے جب کوئی مہمان آجاوے اسے حتی الوسع جانے نہیں دیتے اور ہر طرح کی خاطر داری میں کوشاں رہتے ہیں.خان صاحب کے بھائی بشیر احمد خان صاحب بھی بڑے خلیق اور نیک مزاج جوان ہیں......خان صاحب کے بھائی میاں سردار خان کا سینہ حضرت امام علی سلام کی محبت سے پر ہے.بہت کم وقت ہو گا جو خان صاحب آپ کی یاد میں رطب اللسان نہ ہوں......کپورتھلہ کے اکثر دوست احمدیت کے واسطے نمونہ ہیں.میں نے منشی ظفر احمد صاحب منشی محمد اروڑا ہنی عبدالرحمان صاحب کے گھر دیکھے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا ان لوگوں کو پختہ یقین ہے اور دلی ایمان ہے کہ یہ صرف چند روزہ گزارے کی جگہ ہے اور لا یموت پر بسر ہورہا ہے دنیا سے کوئی دل بستگی نہیں.ایسے ایسے عہدوں پر ہو کر جہاں ہزاروں کی آمد ہوسکتی ہے ایک کوڑی تک کے روادار نہیں.“..( بدر 8 جولائی 1909ء) اس سفر میں مفتی صاحب نے ان سارے علاقوں کی تاریخ مرتب کر دی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کے زندہ نشان جمع کر کے ازدیاد ایمان کا سامان بہم پہنچا یا ہے.غرضیکہ ہر تفصیل جاندار حقائق پر مبنی ہے.حاجی پورہ میں مکرم منشی حبیب الرحمان صاحب کی بے مثال مہمان نوازی کے لطف اور اُن کے

Page 138

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 137 بھائی حافظ محبوب الرحمان صاحب کی خوش الحانی کا ذکر ہے ان محترم کی حسن قرآت کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی مداح تھے.ستمبر 1909ء میں آپ اپنی والدہ محترمہ کے ہمراہ چند دن کے لئے بھیرہ اور پھر وہاں سے ڈیرہ غازی خان تشریف لے گئے ( جہاں آپ کی اکلوتی بہن رہتی تھیں جو ان دنوں علیل تھیں ) اس سفر میں دریائے سندھ میں کشتی کا سفر بھی کیا.بھیرہ میں نوتعمیر شدہ بیت احمدیہ میں پہلی بار پڑھی جانے والی نماز جمعہ کی امامت کی.یہ بیت حضرت خلیفتہ امسیح اوّل کے جدی مکان میں بنائی گئی تھی جو آپ نے جماعت کے نام وقف کر دیا تھا.ڈیرہ غازی خان میں آپ نے ایک عجیب عبرت کا نشان دیکھا یہاں لوگ مخالفت میں بڑے ضدی اور اڑیل تھے.برسات کا زمانہ تھا پورا ہندوستان بارشوں اور سیلاب کی لپیٹ میں تھا.جب کہ ڈیرہ غازی خان بارش سے محروم رہا.ایک طرف تو بارش سے محرومی دوسری طرف دریائے سندھ پنجاب کے بالائی علاقوں سے پانی کا ریلا لے کر اس شہر پر حملہ آور ہوا اور خوفناک تباہی پھیلائی.ڈیرہ میں آپ نے جماعت کے سیکریٹری مولوی عزیز بخش صاحب کے رجسٹر اور حساب کتاب کی پڑتال کی انہیں درست اور عمدہ پایا.نیز وہاں کی لائبریری کی بھی بہت تعریف کی.احباب کے نام اور آپ کے اخلاص کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: میں نے گزشتہ دورہ کے ایام میں اس بات کو بخوبی دیکھا ہے کہ جہاں کہیں اپنی جماعت کے مخلص لوگ موجود ہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے ان کو خصوصیت کے ساتھ لوکل ضروریات کے مطابق لوکل نشانات اور خوارق بھی دکھائے ہیں اور اگر ان نشانات کو جمع کیا جائے تو ان کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے.“ ( بدرستمبر 23-1909 ء) ایک بیدار مغز سیاح کی طرح آپ باریک بینی سے گرد و پیش کا جائزہ پیش کرتے ہیں.بہاولپور کے متعلق لکھا:

Page 139

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ 138 ”بہاول پور کا شہر کچھ بہت پر رونق نظر نہیں آیا جیسا کہ دارالسلطنت کو ہونا چاہیے سڑکیں عموماً کشادہ اور سایہ دار ہیں.باغات خوش نما ہیں لیکن ریلوے سٹیشن کی سڑک بہت ہی قابل مرمت ہے.“ ( بدر 30 ستمبر 1909ء) قارئین کو مشاہدہ میں شریک کرنے کے ساتھ ساتھ احباب کرام سے ملاقات بھی کرواتے ہیں.لیہ کے اسٹیشن پر سردار امام بخش صاحب قیصرانی چند دیگر احباب کے ساتھ ملاقات کے لئے کھڑے تھے.ایک زندہ تصویر بنادی ہے احمدی بھائیوں کے آپس میں اخلاص و وفا کی.خدا تعالیٰ ان سب پر رحمتوں کی بارش برساتا رہے.آمین.مفتی صاحب نے 27 فروری سے 18 مئی 1909 ء تک امرتسر کپورتھلہ اور جالندھر اضلاع کے کئی شہروں کے دورے کئے ان دوروں میں وعظ ونصیحت ، جماعتوں کا قیام، جماعتوں کے رجسٹر اور حساب کتاب کی پڑتال کی.اس دورے میں قریباً 60 افراد حلقہ بگوش دین حق ہوئے اور بدر کو 80 نئے خریدار ملے.ستمبر 1909ء میں چند دن کے لئے بھیرہ ، ڈیرہ غازی خان ، مظفر گڑھ، بہاول پور اور خانیوال کا دورہ کیا اس سفر میں آپ کی والدہ صاحبہ آپ کے ہمراہ تھیں.( بدر 30 دسمبر 1909ء) اپریل 1910ء کے شروع میں علی گڑھ اور مظفرنگر کا سفر کیا.علی گڑھ میں تعلیمی کانفرنس کی طرف سے ایک دعوت نامہ قادیان بھیجا گیا تھا جس میں مدرسہ تعلیم الاسلام کے کارکنان کو سالانہ جلسہ مدرسین میں شامل ہو کر اسلامی مدارس ہند کے اتحاد اور اصلاح کے وسائل پر بحث کرنے کے لئے مدعو کیا گیا تھا.حضرت خلیفتہ اسی الاول نے حضرت مولانا شیر علی صاحب اور حضرت مفتی صاحب کو آل انڈیا محمڈن کا نفرنس میں شمولیت کے لیے منتخب فرمایا.کانفرنس کے بعد حضرت مفتی صاحب مظفر نگر تشریف لے گئے جہاں آپ کے دو لیکچر ہوئے.8 مئی کو واپس قادیان پہنچ گئے.خلاصه از بدر 19, 26 مئی 1910ء)

Page 140

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 139 24 جولائی 1910ء کو حضرت خلیفہ اسی الاول کو ایک طبی شہادت کے لئے ملتان تشریف لے جانا پڑا تو حضرت مفتی صاحب کو بھی رفاقت کا شرف بخشا.سفر کے ارادہ پر حضرت مفتی صاحب نے 23 جولائی کی شام کو حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں درخواست بھیجی کہ اجازت ہو تو عاجز بھی حضور کے ہمرکاب ملتان جائے.حضرت نے اس پر اپنے قلم سے رقم فرمایا: شام کو عرض کروں گا.نورالدین اللہ اللہ! خدا کا ذی شان خلیفہ کس انکسار وفروتنی سے اپنے خدام کو خطاب فرماتا ہے.( تاریخ احمدیت جلد چہارم ص 341) پھر اجازت ملنے پر مفتی صاحب اور بعض دیگر احباب آپ کے ہم رکاب ہوئے.چار بجے شام آپ قادیان سے روانہ ہوئے.جس یکہ پر حضرت مفتی صاحب سوار تھے وہ گھوڑے کی کمزوری کی وجہ سے پیچھے رہ گیا.جب بٹالہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت (خلیفہ اسیح الاوّل ) اور آپ کے ساتھی بذریعہ ریل گاڑی لاہور تشریف لے جاچکے ہیں.مجبوراً حضرت مفتی صاحب کو رات بٹالہ ٹھہر نا پڑا.اگلے دن 25 جولائی کو جب آپ لاہور پہنچے تو معلوم ہوا کہ حضرت....ابھی تک لاہور ہی میں ہیں اور جناب شیخ رحمت اللہ صاحب کے ہاں کھانے پر تشریف لے گئے ہوئے ہیں.یہ سن کر آپ نے الحمد للہ کہا اور اپنے آقا کے حضور تشریف لے گئے.(حیات نورص 453) مدرسہ الہیات کا نپور اور انجمن حمایت الاسلام کے جلسوں میں شرکت اور مولانا شبلی سے ملاقات اگست 1910ء میں مدرسہ الہیات کانپور اور انجمن ہدایت الاسلام اٹاوہ کے سالانہ جلسے منعقد ہو رہے تھے جن میں احمدی علماء کی شرکت کے لئے حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں درخواست پہنچی بلکہ مدرسہ الہیات کی طرف سے خود آپ کو بھی تشریف لانے کی دعوت دی گئی.آپ کا جانا تو مشکل

Page 141

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 140 تھا، آپ نے اپنی طرف سے 19اکتوبر 1910ء کو ایک وفد بھجوایا جس میں حضرت مفتی صاحب بھی شامل تھے.یہ وفد کانپور اور اٹاوہ کی کانفرنسوں میں کامیاب لیکچر دینے کے بعد لکھنو پہنچا جہاں دار العلوم ندوہ کے بانی مولانا شبلی سے بھی ملاقات ہوئی.مولانا شبلی بڑے اخلاق سے پیش آئے اور دریافت کیا کہ کیا آپ لوگ مرزا صاحب مرحوم کو نبی مانتے ہیں.مفتی محمد صادق صاحب نے جواب دیا: ”ہمارا عقیدہ اس معاملہ میں دیگر مسلمانوں کی طرح ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں آپ کے بعد کوئی دوسرا نبی آنے والا نہیں نہ نیا اور نہ پڑانا.ہاں مکالمات الہیہ کا سلسلہ برابر جاری ہے اور وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل.آپ سے فیض حاصل کر کے اس اُمت میں ایسے آدمی ہوتے رہے ہیں.جن کو الہام الہی سے مشرف کیا گیا اور آئندہ بھی ہوتے رہیں گے چونکہ حضرت مرزا صاحب بھی الہام الہی سے مشرف ہوتے رہے اور الہام کے سلسلہ میں آپ کو خدا تعالیٰ سے بہت سی آئندہ کی خبریں بھی بطور پیشگوئی کے بتلائی جاتی تھیں جو پوری ہوتی رہیں اس واسطے مرزا صاحب ایک پیشگوئی کرنے والے تھے اور اس کو عربی لغت میں نبی کہتے ہیں اور احادیث میں بھی آنے والے مسیح موعود علیہ السلام کا نام نبی رکھا ہے.اس پر مولوی شبلی صاحب نے فرمایا کہ بے شک لغوی معنوں کے لحاظ سے یہ ہوسکتا ہے.اور عربی لغت میں اس لفظ کے یہی معنی ہیں لیکن عوام اس مفہوم کو نہ پانے کے سبب گھبراتے ہیں.اور اعتراض کرتے ہیں....اس کے بعد جناب شبلی نے فرمایا کہ میں مدت سے ایک نہایت مشکل اور اہم مسئلہ کی فکر میں ہوں اور بالخصوص گزشتہ چھ ماہ سے بہت ہی فکر میں ہوں مگر کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کیا جاوے.اگر ہم طلباء کوصرف عربی پڑھاتے ہیں تو ان میں سے پرانی سستی اور کمزوری اور کم ہمتی نہیں جاتی جو آج کل کے

Page 142

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ ہوا.مسلمانوں کو لاحق حال ہو رہی ہے اور اگر انہیں انگریزی علوم کا صرف ایک چھینٹا بھی دے دیا جائے تو اس کا یہ اثر ہوتا ہے کہ دین کو بالکل چھوڑ بیٹھتے ہیں ہم حیران ہیں کہ کیا کریں.ہاں آپ کی جماعت میں یہ خوبی دیکھی ہے کہ آپ کی جماعت کے ممبر انگریزی خوان بھی ہیں اور دین کے بھی پورے طور پر پابند ہیں.میں مرزا صاحب کے دعوی کو نہیں مانتا مگر ان کی جماعت میں جو یہ خوبی ہے اس کا قائل ہوں.“ ( بدر 20 جولائی 1911 ء ) 141 المختصر لکھنو سے یہ وفد کامیاب و کامران ہو کر 17 اکتوبر 1910 ء کی شام کو دارالامان میں داخل مونگیر کا تربیتی دوره حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل کے ارشاد پر حضرت مولوی سرور علی شاہ صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے 8 سے 26 نومبر 1910ء تک شاہجہان پور، مونگھیر ،سورج گڑھ، اور ین، بھاگلپور، بنارس ، چڑیا کوٹ اور الہ آباد کا تبلیغی دورہ کیا اور سالانہ جلسہ میں شرکت کی.شاہجہان پور میں لیکچرز سے متاثر ہو کر دو ہندو مرد اور ایک عورت مشرف بہ دین حق ہوئے جو حضرت حافظ سید علی میاں صاحب اور ان کے فرزند حضرت حافظ سید مختار احمد صاحب کے زیر دعوت تھے.اس جلسہ کی مفصل خبر پیسہ اخبار میں شائع ہوئی، حضرت مفتی صاحب کی تقریر کے متعلق اخبار نے لکھا: آپ کا بیان علی العموم اور وہ حصہ بالخصوص بہت ہی دلپذیر تھا جس میں آپ نے عبرانی کی تو رات سے حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پیشگوئیاں پڑھ کر اُن کا ترجمہ عنایا جس نے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ شریف اور نام مبارک اصل زبان عبرانی کی تو رات شریف میں لکھا دکھا دیا اور فضیلت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے

Page 143

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ 142 ثبوت پیش کرتے ہوئے سورۃ کوثر کی بڑی عمدہ و لطیف تفسیر کی جو سامعین کو محو حیرت بنا گئی.اخبار بدر 22 دسمبر 1910ء ص 9-10) حضرت مفتی صاحب نے اس سفر کی روداد کا خلاصہ نکالا: اس دورے میں ہم نے دو ہزار سے کچھ زائد میل طے کئے.کل اٹھارہ دن خرچ ہوئے.دس جگہ قیام کیا.اکیس لیکچر ہوئے.تین ہندو نو مسلم ہوئے.چودہ کس نے بیعت کے خطوط لکھے.اخیر میں پھر ضروری ہے کہ میں اللہ تعالی کا شکریہ کروں کہ اس کے محض فضل اور رحمت سے اس سفر میں ہم یہ بہت سے برکات نازل ہوئے علاوہ اس کے ایک تعدا د سلسلہ حقہ میں شامل ہوئی.اور انہوں نے بیعت کے خط لکھ دیئے ہیں.ایک بڑی جماعت کے دل سے شبہات دور ہوئے اللہ تعالی نے خلیفہ اسیح کی دُعا ئیں خدام کے حق میں قبول کیں.“ ( بدر 5 جنوری 1911ء) 27 نومبر کو قادیان وا پسی ہوئی.جماعت احمدیہ بنارس کے جلسہ میں شرکت 25 را پریل 1911ء کو حضرت خلیفتہ المسیح الاول کے ارشاد پر بنارس، مونگھیر ، شاہ آباد ، شاہجہان پور، گوجرانوالہ اور بھیرہ کا دورہ کیا اس سفر کے وفد میں حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب اور حضرت حافظ روشن علی صاحب بھی شامل تھے.حضور نے روانگی کے وقت نصیحت فرمائی: در علم پر گھمنڈ نہ کر وصرف خدا تعالیٰ کے فضل پر بھروسہ کرو.میں اس معاملہ میں 66 بہت تجربہ کار ہوں صرف اس کا فضل ہے جو کام آتا ہے.( بدر 8 جون 1911 ء) بنارس کے ٹاؤن ہال میں بہت بڑے جلسے میں حضرت مفتی صاحب نے بنارس اور کاشی کی تاریخی اہمیت بیان کی اور انہیں پیغام حق دیا.توحید کی طرف بلاتے ہوئے آپ کا انداز دلی جذب و کیفیت میں ڈوب کر اُبھرتا.جلالی انداز میں آپ نے طویل تقریر کی.آخر میں مسیح محمدی کی آمد کا پیغام دیا

Page 144

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ دمے کاشی کے بسنے والو! 143 تم نے کرشن مہاراج کے قصے سنے.تمہارے دل میں بسا اوقات یہ آرزو پیدا ہوئی ہوگی اور یہ خواہش گدگدی کرتی ہوگی کہ کاش ہم بھی کرشن مہاراج کے وقت میں ہوتے.تو ان کا ساتھ دیتے.اے کاشی کے بسنے والو! اس کر پالو، دیالو ایک خدا کے آگے شکریہ میں اپنا سرزمین پر رکھ دو کہ اُس نے تمہیں میں سے تمہارے ملک میں پھر رڈ ز گوپال پیدا کر دیا ہے.مبارک ہیں وہ جنہوں نے اس آواز کو سنا اور اس کا ساتھ دیا کیونکہ وہ اس زمانے کا نور ہے اور وہی نجات کا دروازہ ہے کوئی خدا کی رضا حاصل نہ کر سکے گا جب تک کہ اس دروازے سے داخل نہ ہو.....ایک شخص اس زمانے میں اس واسطے اُٹھا ہے کہ تمام ادیان پر دین حق کو غالب کر کے دکھا دیوے.وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت کو دنیا پر قائم کرنے کے واسطے آ گیا ہے.....ہاں اے پیارے بھارت نواسیو! میں تبلیغ کا حق تم پر ادا کر چکا.خدا کی بات تم تک پہنچا چکا.خدا کے فرستادہ کا پیغام تمہارے شہر میں کھڑا ہو کر سنا چکا اب قبول کرو تو خدا غفور رحیم ہے اور اگر نہ کرو تو غنی عن العالمین تقریر کے بعد 9 ( نو ) احباب سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.(خلاصہ بدر 8 جون 1911ء) اس لیکچر سے پہلے حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب کو کشف ہوا کہ آسمان سے بارش کی طرح انوار اتر رہے ہیں اور بشارت معلوم ہوئی: کامیابی ، کامیابی ، کامیابی.حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل نے فرمایا:

Page 145

144 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ جزاک اللہ احسن الجزاء.پڑھ لیا ہے بہت عمدہ ہے.( بدر 2 مئی 1911 ) حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب نے اپنے مکتوب میں تحریر فرمایا: مبارک مبارک مبارک " تحفہ بنارس کی قبولیت کے شہرہ آفاق ہونے اور اس کی روز افزوں عزت اور اس کا دوست و دشمن میں کثرت کے ساتھ تذکرہ پایا جانے سے نہایت ہی راحت اور مسرت ہوتی ہے.یہ مقبولیت لاریب آپ کے صدق اور اخلاص کی وجہ سے حضرت رب العزت نے آپ کو ایسے پاک مضمون.......کی تو فیق دی جو مقبولیت کے سمندر کا اس وقت قیمتی موتی ثابت ہو رہا ہے.باوجود یکہ اس میں احمدیت کی بھی کھلی دعوت ہے پھر بھی احمدی اور غیر احمدی کی نگاہ میں اپنی عزت اور وقعت کے لحاظ سے یکساں ہے دوست تو دوست دشمن بھی اس کی خوبی کی شہادت دے رہے ہیں وَالْفَضْلُ ما شهدت به الأعداء دوسرے احباب کے مقابل مجھے اس کی مقبولیت کا نظارہ دیکھ کر دو چند خوشی ہوتی ہے کیونکہ بحمد للہ میرے بنارسی کشف کی مصدق ہے اللہ تعالیٰ آپ پر بہت بہت رحم فرمائے.“ تقریر پر چندا ہم تبصرے ایڈیٹر صاحب وقائع رنگون تحریر فرماتے ہیں: ( بدر 16 مئی 1912 ء ) مولوی محمد صادق صاحب احمدی ایڈیٹر بدر قادیان نے 30 را پریل 1911ء کو جو اپنا لیکچر ٹاؤن ہال میں دیا تھا.....فاضل لیکچرار نے ہندوؤں کی مذہبی مقدس کتابوں سے نہایت سنجیدگی سے واقعات کے ساتھ مورتی کھنڈن کرتے ہوئے انہیں توحید کا پیغام پہنچایا ہے.اور اصنام پرستی کو واہمہ خیالات کو زمانہ حال کے یادگاری مجسمہ سے تطبیق دے کر ان کے خیالات کو خاص اغراض کی طرف منعطف کر کے دعوت اسلام دی

Page 146

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ ہے.لیکچر نہایت ہی دلچسپ صاف اور سلیس اردو میں ہے....مذہبی واقفیت پیدا کرنے والوں اور سچے مذہب کے طلب گاروں کے لئے خضر کامل ہے.( بدر 28 مارچ 1912ء) اسی طرح ایڈیٹر صاحب اخبار میونسپل گزٹ صدائے ہند لا ہور لکھتے ہیں : یہ وہ لیکچر ہے جو 30 را پریل 1911ء کو مولوی محمد صادق صاحب نے ٹاؤن ہال بنارس میں اہل بنارس کو بطور پیام تو حید سنا یا تھا.جس میں توحید باری تعالیٰ کو بہت عمدہ پیرا یہ اور مناسب الفاظ میں بیان کیا گیا ہے.بت پرستی سے پر ہیز کرنے اور خدا کو واحد جان کر اسلام کی طرف رجوع کرنے کی ترغیب دی گئی ہے چونکہ لیکچر کے الفاظ نہایت ملائم اور سنجیدہ ہیں اس لیے ہر مذہب و ملت کے فرقہ کے افراد کو اسے ملاحظہ کرنا 66 145 چاہیے.کیونکہ اس میں سوائے حق بات کے اور کچھ نہیں دکھایا گیا.“ ( بدر 7 مارچ 1912ء) آپ کا یہ لیکچر تحفہ بنارس کے نام سے شائع ہوا.واپسی کے سفر میں 2 تا 4 مئی کے جلسہ سالانہ میں مفتی صاحب نے مہاجرین کو کیسا ہونا چاہیئے کے موضوع پر تقریر کی.پھر شاہ آباد اور شاہجہان پور سے ہوتے ہوئے چند گھنٹے لکھنو میں قیام کیا اور حضرت خلیفہ اسی الاول کے ارشاد پر اپنے اہل وعیال کو ساتھ لے جانے کے لئے 13 مئی کو بھیرہ پہنچے.واپسی پر کچھ دیر گوجرانوالہ رُک کر 17 مئی 1911 ء کو قادیان تشریف لے آئے.اس کے بعد 24 جون سے یکم جولائی 1911 ء تک حضرت میر ناصر نواب صاحب کے ہمراہ صدر انجمن احمدیہ کے واسطے چندہ جمع کرنے کے لیے بٹالہ، امرتسراور کپورتھلہ کا سفرکیا.حضرت خلیفہ اسیح الاول نے رخصت کرتے ہوئے فرمایا: (خلاصہ بدر 8 جون 1911ء) جمعہ کے خطبہ کا مضمون راستے میں لوگوں کو بتاتے جانا ( بدر 6 جولائی 1911ء) جلسه سالانه قادیان 1911ء پر جلسہ کے آداب پر تقریر کا موقع ملا.1911ء میں حضرت

Page 147

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 146 مفتی صاحب نے کسی کام کے سلسلے میں لاہور، ریاست خیر پور، حیدرآباد سندھ اور کراچی کا سفر کیا (بدر 5 /اکتوبر 1911ص3) جس میں تئیس (23) دن صرف ہوئے.8 را پریل 1912ء کو حضرت خلیفہ المسیح کے ارشاد پر محترم شیخ عبدالرحیم صاحب اور اپنے صاحبزادے عبدالسلام کے ہمراہ بٹالہ سے بھیرہ اور کھیوڑہ کے راستے سفر کر کے دوالمیال پہنچے وہاں جلسہ تھا.تقاریر کیں اور جماعتی ریکارڈز کی جانچ پڑتال کی.دوالمیال کی جماعت بہت مخلص اور مالی قربانی کی عادی ہے.وہاں سے ڈلوال اور تکیہ شاہ مراد جاکر اپنے خاندان کے بزرگوں اور یادگاروں کو دیکھنے کا موقع ملا.15 را پریل کو قادیان واپس تشریف لے آئے.(خلاصہ بدر 5 ستمبر 1912ء) مئی 1912ء آگرہ کی انجمن ہدایت الاسلام میں لیکچر دینے کے لئے قادیان سے تین اصحاب تشریف لے گئے.جن میں حضرت مفتی صاحب بھی شامل تھے.آپ نے کفارہ اور اتحاد لمسلمین کے عنوانات سے لیکچر دئے.15 جون کو حضرت خلیفتہ امسیح الاول حضرت شیخ رحمت اللہ صاحب کے مکان کا سنگ بنیادرکھنے لا ہور تشریف لے گئے حضرت مفتی صاحب کو ہمراہی کا شرف حاصل ہوا.(بدر 20 جون 1912ء) 6 جولائی 1912ء کو حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے ارشاد پر محترم شیخ غلام احمد صاحب کے ہمراہ جموں تشریف لے گئے اور بیت احمد یہ جوں کی بنیاد رکھی.( بدر 25 جولائی 1912 ) 11 تا 14 جولائی 1913ء حضرت خلیفہ اُسیح کے ارشاد پر کپورتھلہ کا دورہ کیا.جولائی کے آخری ہفتہ میں انجمن تائید اسلام کی درخواست پر گورداسپور میں فضیلت قرآن مجید پر لیکچر دیا.( بدر 24 جولائی 1913ء) وسط نمبر 1913ء کو دھرم کوٹ اور 19 اکتوبر 1913ء کو ہوشیار پور میں حاضرین کو خطاب کیا.اہلِ ہوشیار پور کو ہوشیار کرنے کے لئے آپ نے فرمایا:

Page 148

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ ”اے ہشیار پور! تیری گلیاں مجھے پیاری ہیں کیونکہ میرا پیارا مرشد میرا ہادی تیری گلیوں میں پھر چکا ہے.اس نے اپنی ایک خاص عبادت کا چلہ تیرے اندر گزارا اور اسی میں دین حق کی تائید میں آریوں سے مباحثہ کیا اور سرمہ چشم آریہ کی کتاب مرلی دھر کے جواب میں لکھی.اے ہشیار پور! تو نے وہ زمانہ بھی دیکھا جب کہ وہ خدا کا پیارا عاشق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اکیلا اس شہر میں آیا کرتا تھا اور اکیلا پھرا کرتا تھا.مرلی دھر نے اس کا مقابلہ کیا سواس کی مربی اسی دن ٹوٹ گئی.پر اُٹھ اے ہشیار پور! اور چاروں طرف دنیا میں نگاہ کر کے دیکھ کہ آج کہاں تک اور زمین کے کن کن گوشوں تک اس حامی دین کی تعریف میں مرلیاں بج رہی ہیں.سواے ہوشیار پور! تو جاگ.آسمان کی آواز پر لبیک کہہ تا کہ تیری برکات زیادہ ہوں.اپنے خدا کو راضی کرلے.منادی کرنے والے کی منادی پر کان رکھ ہاں اس فقیر کی صدا تیرے بسنے والوں کے لئے ، نہ صرف ان کے لئے جو اہل اسلام کہلاتے ہیں بلکہ ان کے لئے جو سناتنی ہندو ہیں...پھر اے ہشیار پور تجھ میں کوئی مسیحی ہے تو وہ بھی سن لے کہ مسیح مسیح کہنے سے کچھ فائدہ نہیں..،، ہم اپنا فرض دوستو اب کر چکے ادا اب بھی اگر نہ سمجھے تو سمجھائے گا خدا 147 ( بدر 27 نومبر 1913ء) 25, 26 اکتوبر 1913ء گوجرانوالہ میں اسلام اور عیسائیت کے عنوان سے لیکچر دیا.جماعت احمدیہ لکھنو کا سالانہ جلسہ ( بدر 30 اکتوبر 1913 ) 2 تا12 نومبر 1913ء کے تبلیغی دورے کے دوران عید الفطر آئی.قادیان سے باہر عید کرنے

Page 149

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالی عنہ 148 میں جانثاروں کو ایک انوکھی لذت ملی کہ اگر وہ قادیان سے باہر ہیں تو اعلائے کلمہ حق کے لئے ہیں.حمیت کا جھنڈا بلند کرنے کی کاوشوں میں جوعید تھی اس کا اور ہی مزا تھا.خدا کے دین کے منادی سفر میں عید کر رہے تھے اور قادیان میں خلیفہ اسیح الاوّل اُنہیں دُعائیں دے رہے تھے.فرمایا: مفتی محمد صادق صاحب و مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب لکھنو جلسہ پر گئے تھے عید پر قادیان نہیں پہنچ سکے.رستہ میں جس شہر میں عید کی نماز پڑھی ہوگی اس شہر کے بھائیوں کو عید مبارک ہو.ہم نے ان کے لیے دُعائیں کیں اور آخری دُعا میں شامل رکھا.“ ( بدر 12 نومبر 1913ء) 8 نومبر کے جلسہ لکھنو میں حضرت مفتی صاحب نے اہل لکھنو کو نولکھا ہار کے نام سے کو نصائح کیں: 1.خدا کا شکر کرو.2.شرک سے بچو.3.والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو.4.انبیاء کی اتباع کرو اور خصوصا فخر موجودات کی کہ وہ سب سے بڑھ کر محبوب خداوندی ہے اور پھر اس زمانہ کے مامور نبی مسیح عالی شام کی اور پھر اس کے خلیفہ نورالدین کی.5-نماز اور ذکر الہی کی طرف توجہ دو.6.اچھے کاموں کے کرنے کی ہمیشہ تلقین کرتے رہو اور بُرے کاموں سے خود بھی بچو اور دوسروں کو بھی روکتے رہو.7 - تکبر نہ کرو، جامہ انکساری پہنو.8- افراط و تفریط سے بچ کرمیانہ روی اختیار کرو.

Page 150

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالی عنہ 9.بے جا، بے وقت کبھی بھی خلاف حکم خداوندی آواز بلند نہ کرو.149 (یہ دلنشین تقریر ضمیمہ اخبار بدر قادیان کے 18 دسمبر 1913 ء کے پرچے میں شائع ہوئی ) بعد ازاں آپ نے جب بائبل سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا مژدہ سنایا تو جلسہ سے احسنت و مرحبا کے نعرے بلند ہوئے.اس سفر میں ڈیرہ بابا نانک دھرم کوٹ، ہوشیار پور گوجرانوالہ بھگواڑہ لدھیانہ سہارن پور مظفر نگز بریلی اور شاہ جہان پور کا دورہ ہوا.(خلاصه از بدر 20, 13, 6 نومبر.بدر 18 دسمبر 1913ء) نومبر کے آخر میں 30, 29 تاریخ کو ملتان میں ایک بڑا جلسہ ہوا جس کے لیے حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد، حضرت حافظ روشن علی صاحب، حضرت مولاناسید سرور شاہ صاحب اور حضرت مفتی صاحب کو دُعاؤں کے ساتھ بھیجا.آپ نے فرمایا: میں نے بہت دُعا کی ہے.ملتان میں شیعہ بہت ہیں.پر تم چار یار وہاں جاتے ہو نرمی سے وعظ کرو.سخت کلامی نہ کرو.دُعاؤں سے بہت کام لو.امیر بنا بنایا تمہارے ساتھ ہے.66 یہاں حضرت مفتی صاحب نے اسلام اور عیسائیت کے موضوع پر تقریر کی.حضرت صاحبزادہ صاحب کی امارت میں یہ سفر بہت کامیاب رہا.وفد یکم دسمبر کو واپس قادیان پہنچ گیا.’صدائے صادق، ٹریکٹ سیریز ( بدر 18 دسمبر 1913ء) دسمبر میں اخبار بدر کی اشاعت بند کرنی پڑی.مفتی صاحب نے 18 فروری 1913ء سے صدائے صادق ٹریکٹ سیریز کے نام سے ایک سلسلہ جاری کیا جو چند نمبروں کے بعد ختم ہو گیا.

Page 151

محمد ا ا ا ا ا ا ا اه اهالی منه حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی ڈاک 150 حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں حضرت خلیفہ اول کا عام دستور تھا کہ جہاں تک ممکن ہوتا اپنے قلم سے خطوں کا جواب دیتے مگر زمانہ خلافت میں یہ اہتمام ناممکن تھا اس لئے عموماً حضرت پیر افتخار احمد صاحب اور حضرت مفتی محمد صادق صاحب آپ کی طرف سے خطوط کے جواب پر مقرر تھے.آپ نے تحریر فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال پر حضرت خلیفہ اول حکیم نورالدین صاحب نے بھی ڈاک کا کام بدستور میرے پاس ہی رہنے دیا.تو میں نے ان کی خدمت میں بھی ویسی ہی فہرست بنا کر بھیجنی شروع کی.( جیسی حضرت اقدس علیہ السلام کے لئے تیار کرتے تھے.ناقل ) حضرت مولانا صاحب اس فہرست کو اپنے سرہانے رکھ لیتے اور تہجد کے وقت اس فہرست کو ہاتھ میں لے کر ایک ایک کا نام دیکھتے اور دُعائیں کرتے.بعض شب تہجد کے وقت میں آپ کے پاس پہنچ جایا کرتا تھا.(مکتوبات احمد جلد اول صفحہ 10) صادق لائبریری ’1908ء میں صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک پبلک لائبریری قائم کی تھی جس میں مفتی صاحب نے اپنی کتابیں پیش کی تھیں.دسمبر میں حضرت مفتی صاحب نے اپنی تمام بیش بہا کتابوں کا ذخیرہ صدر انجمن احمدیہ کے نام وقف کر دیا اور صدرانجمن احمدیہ نے حضرت خلیفہ اڈل کا کتب خانہ اور تشخیز اور ریویو کی لائبریری میں اسے مدغم کر کے ایک مستقل مرکزی لائبریری صادق لائبریری کے نام پر قائم کردی.( تاریخ احمدیت جلد 4 جدید ایڈیشن ص194)

Page 152

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ باب سوم انگلستان میں دعوت الی اللہ خلافت ثانیہ میں خدمات 151 1914ء سے جماعت احمد یہ خلافت ثانیہ کے بابرکت دور میں داخل ہوئی.اللہ تبارک تعالیٰ نے آپ کو اس قدر بصیرت دے رکھی تھی کہ آپ کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کے با اقبال ہونے کا یقین تھا.آپ لکھتے ہیں : ( ہمارے دوست) شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی کو یاد ہوگا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد کوئی بات ان کو ناگوار گزری.وہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے اگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام آج زندہ ہوتے تو ایسا نہ ہوتا میں نے انہیں کہا آپ صبر کریں جب صاحبزادہ صاحب خلیفہ ہوں گے تو پھر وہی رنگ پیدا ہو جائے گا.جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت تھا.گویا اس زمانے میں ہمارے قلوب شہادت دے رہے تھے کہ آپ خلیفہ ہوں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے ماتحت میں نے عبرانی زبان سیکھی تھی.اس کی مقدس کتابوں میں یہ لکھا ہوا میں نے پڑھا تھا کہ پہلے مسیح نے تو شادی نہ کی تھی مگر دوسرا مسیح شادی کرے گا اس کے اولاد ہوگی اور اس کا بیٹا اس کا جانشین ہو گا.ہم تو اس وقت سے ہی جانتے تھے کہ آپ ضرور خلیفہ ہوں گے.“ (الفضل 2اکتوبر 1935 ء ص 1 تا2) حضرت مفتی صاحب اس دور میں بھی روایتی اخلاص و فدائیت کے ساتھ خدمت دین کے جہاد میں پیش پیش رہے.مارچ سے مئی 1914 ء تک آپ نے بنارس کے نواح میں جماعت کو متحد و منظم

Page 153

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 152 کرنے کے لئے اور پیغام احمدیت کو تشنہ لبوں تک پہنچانے کے لئے دورہ جاری رکھا.اس کے بعد ہمیر پور اور گھوسی بھی تشریف لے گئے جو آریوں کے زیر اثر علاقے تھے.مئی میں ہی حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ارشاد پر کلکتہ اور اس کے گردونواح کا دورہ کیا.دورے کا مقصد بھی افراد جماعت میں دل جمعی پیدا کرنا اور دعوت الی اللہ تھا.پارسیوں اور ہندوؤں سے گفتگو کی بہت توفیق ملی.کلکتہ میں آپ کو اپنے محبوب خلیفہ کا دست مبارک سے تحریر کیا ہوا مکتوب ملا.جس میں حضرت صاحب نے آپ کو چند ماہ کلکتہ میں قیام کرنے کا ارشاد فرمایا تھا.نیز یہ کہ انگریزی میں لیکچر دینے کی مہارت پیدا کریں اور پھر مسیح پاک کا نمائندہ بن کر امریکہ جائیں.مفتی صاحب اس ارشاد سے بے حد خوش ہوئے اور خدا تعالیٰ کے حضور شکر ادا کرتے ہوئے مزید توفیق کی عاجزانہ دعا میں لگ گئے.”اے کاش کہ یہ خدمات مجھ سے پورے طور پر ادا ہو جائیں.میں جب اپنی کمزوری کو دیکھتا ہوں بلکہ کمزوریوں کو تو مایوسی سے نہیں بلکہ اپنی عاجزی کے احساس سے بھرا ہوا سجدہ میں گر جاتا ہوں.“ (الفضل 27 مئی 1914ء ص 18 کالم 1 ) تبلیغ کا جوش تو اللہ تعالیٰ نے آپ کی فطرت میں ودیعت کیا ہوا تھا.آپ نے خلیفہ المسیح کے ارشاد پر انگریزی کی طرف زیادہ توجہ دینا شروع کی.چنانچہ برہمن بڑ یہ میں انگریزی میں تقریر کی اور اس مقصد کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو دُعا کے لئے خط لکھا: طبیعت میں تبلیغ کا بہت شوق ہے ہر انسان جو نظر کے سامنے آتا ہے جی چاہتا ہے کہ یہ پورے طور پر باخبر ہو جاوے.مگر انگریزی کی کافی لیاقت کے واسطے چند روز کا مطالعہ کتب بھی ضروری ہے.سو میں نے سوچا کہ نصف دن سر دست مطالعہ کیا کروں اور نصف دن تبلیغ کا کام.یا جیسا حضور فرمائیں.الفضل 30 مئی 1914ء ص 10 کالم 1 ) آپ دونوں کام ایک ساتھ بھی کرتے رہے ایک رومن کیتھولک کتاب میں لفظ Antichrist

Page 154

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 153 کی تحقیق کے خیال سے ایک گرجا پہنچ گئے.پادری صاحب تو موجود نہ تھے اُن کی ڈیوڑھی پر ایک دیسی عیسائی نوجوان سے خوب تفصیل سے بات چیت کی آخر وہ شخص خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوا اور جیکب سے محمد یعقوب بن گیا.کلکتہ کے نواح کا دورہ مئی کے اواخر میں آپ کو حضرت صاحب کی طرف سے کلکتہ کے نواح میں کٹک جانے کا ارشاد موصول ہو اوہاں بھی ایک دلچسپ واقعہ پیش آیا.ٹرام میں سفر کے دوران ایک بنگالی ہندو کو خوب تبلیغ کی.جب اُس کی منزل آگئی تو سوچا ڈرائیور کو بھی پیغام حق دیا جائے.اُس سے خوب گفتگو رہی حتی کہ اُس نے حضرت احمد کو قبول کر لیا اور بہت شکر گزار ہوا کہ آپ نے مجھے اس نور سے حصہ دیا.تلخیص از الفضل 30 مئی 1914 ء ص 8 کالم 3) کٹک سے سنگڑھ گئے.اس سفر کا کچھ حصہ ریل گاڑی میں طے ہوا قریباً 20 میل کچا راستہ گدھا گاڑی پر سواری کرنی پڑی.آپ نے حضرت صاحب کو تحریر فرمایا: کچی سڑک اور 20 میل کا سفر الامان ! مگر دُعا کا خوب لطف آیا.اللہ آپ کا ناصر ہو کہ آپ کے طفیل اہل قادیان بلکہ کٹک سے اٹک تک پھر سب ایک ہیں اور سب دُعا الفضل 6 جون 1914 ء ص 2 کالم 1) میں یاد آتے ہیں.“ سفر کا کچھ حال ایک مکتوب میں لکھا: آٹھ نو گھنٹے کا راستہ، بیٹھو تو سر چکرائے اور لیٹو تو پسلیاں ٹوٹیں.مگر قربان جاؤں مسیح موعود علی شام کے قدموں پر کہ اپنے سفر کو الہی رضامندی کے واسطے پا کر دل ایسی حالت میں رنجیدہ نہ ہوا بلکہ خوش ہوا.جسم تکلیف میں تھا پر رُوح فرحت سے پر تھی کہ حصول ثواب کا موقع ملا....اس علاقہ میں مجھے اکیلے کو اس قدر وعظ کرنے پڑے کہ شاید کہیں کئے ہوں.صبح سے

Page 155

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ شام تک بعض دفعہ رات کا بھی بڑا حصہ وعظ میں گزرتا.اکثر شریف الطبع لوگوں نے تشفی کا اظہار کیا اور اُمید ہے کہ وہ جلد سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوں گے.کئی ایک نے تجدید بیعت کی اور دونئے احمدی ہوئے فالحمد للہ“ (الفضل 10 جون 1914ء ص 18 کالم 1 ) 154 سنگڑھ میں آپ کا قیام صرف چھ دن رہا.7 جون کو واپس کلکتہ آئے.آپ کی طبیعت کچھ علیل رہی.ایک دن اخبار دیکھ رہے تھے اخبار میں کسی پادری صاحب کے لیکچر کی خبر تھی.عنوان تھا مسیح کی آمد ثانی سب بیماری اور کمزوری پس پشت ڈال کر لیکچر میں تشریف لے گئے.لیکچر میں جو حقائق پیش کئے گئے سراسر احمدیت کی تائید میں تھے.آپ نے کھڑے ہوکر پر جوش انداز میں مسیح موعود کی تشریف آوری کی خبر دی اور مختصر تقریر بھی کی.بعد میں اُس ہال کے مینجر آپ سے ملے اور درخواست کی کچھ وقت مقرر کر کے آپ تقریر فرما ئیں.آپ کو ایسے مواقع کی تلاش رہتی تھی.فوراً 13 جون شام سات بجے کا وقت مقرر ہوا.آپ نے ”سنو.ایک خدا‘ موضوع پر توحید کی طرف دعوت دی.اس کے بعد 26 جون 1914ء کو آپ نے The Message Of The Later Days کے موضوع پر کلکتہ میں انگریزی میں لیکچر دیا.حضرت خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور فضیلت پر ایسے دلکش انداز میں تقریر کی کہ سامعین نے گہرا اثر قبول کیا.لیکچر کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوا کہ لوگوں کے پر زور اصرار پر آپ سے ،ایک ہفتہ بعد ، پھر لیکچر دینے کی درخواست کی گئی وہ پیکچر بھی بفضل الہی بے حد پسند کیا گیا.حضرت خلیفہ مسیح کے ارشاد پر 15 جولائی 1914ء کو تین دن کے لئے ڈھا کہ تشریف لے گئے.جہاں دعوت الی اللہ کے بہت مواقع ملے.کثرت سے پمفلٹ تقسیم کئے، پر رونق جگہوں پر سرِ راہ کھڑے ہو کر پیغام حق دیا.مساجد میں بھی گئے.وہاں جو بھی ملتا اُس سے دینی گفتگو شروع کر دیتے اگر کوئی نہ ملتا تو لٹریچر دروازے پر رکھ دیتے.

Page 156

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 155 دورانِ سفر پیش آنے والے مختلف واقعات و تجربات کی روشنی میں آپ نے مندرجہ ذیل سفارشات مرتب کر کے حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کیں : بڑے شہروں میں تبلیغ سے قبل مختصر رسالہ ضرور چھپوا کر ساتھ رکھنا چاہیے.چاہیے.تقسیم رسالہ سے قبل شہر کے حالات سے پوری واقفیت اور بعض شرفاء سے ملاقات کر لینی حمد ایسا انتظام کرنا چاہیے کہ شہر کے مختلف حصوں میں تمام رسالہ ایک دفعہ ایک یا دو دن میں تقسیم ہو جائے.خواص سے قبل عوام میں تقسیم ہوا اور سب سے قبل طلباء مدرسہ میں.تقسیم رسالہ کے بعد کم از کم ایک ماہ اس شہر میں قیام کرنا چاہیے اور مقام کا پتہ رسالے پر قلمی لکھ دینا چاہئے.الفضل 30 اگست 1914 ء ص 8 کالم 3) اس طویل سفر کے بعد 26 جولائی کو آپ واپس قادیان تشریف لے آئے.نظام دکن کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کا تحفہ وسط نومبر 1914ء میں حضرت خلیفہ اسیح کے ارشاد پر حضرت سید محمد سرور شاہ کی معیت میں حیدر آباد دکن تشریف لے گئے اور حضرت صاحب کا ایک تحفہ نظام دکن کی خدمت میں پیش کیا.تاریخ احمدیت جلد 4 نیا ایڈیشن ص (155) جس کا ذکر حیدر آباد بلیٹن نے اپنی 17 دسمبر کی اشاعت میں بایں الفاظ کیا.مرزا بشیر الدین محمود احمد نے جو مرزا غلام احمد قادیانی مہدی معہود کے فرزند اور خلیفہ ثانی ہیں اپنے دو خادموں یعنی مفتی محمد صادق اور مولوی سید سرور شاہ صاحب کو حضور نظام کی خدمت میں ایک تبلیغی خط دے کر ارسال کیا ہے اور ہم کو معلوم ہوا ہے کہ حضور نظام نے اس خط کو جس کا نام تحفتہ الملوک ہے قبول فرمالیا ہے اب اس خط کی مطبوعہ

Page 157

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ کا پیاں حیدرآباد کے رؤسا میں تقسیم کی جارہی ہیں.“ 156 آپ نے خود بھی نظام دکن کو سلسلہ حقہ سے متعارف کروایا.اس سفر کے دوران جلسہ سالانہ قادیان میں شمولیت کے لئے قادیان تشریف لائے 26 دسمبر کو دوسرے اجلاس کی صدارت کی اور عہد خلافت ثانیہ کے کارنامے کے موضوع پر خطاب فرمایا.جلسہ کے بعد دوبارہ عازم سفر ہوئے تو حضرت صاحب کے ارشاد کے مطابق آپ کے رفیق سفر حضرت حافظ روشن علی صاحب تھے.( افضل 16 فروری 1915ء) والدہ صاحبہ کی وفات اس سفر کے دوران آپ کو ایک شدید صدمہ سے دو چار ہونا پڑا.آپ کی والدہ محترمہ فیض بی بی صاحبہ بھیرہ میں وفات پا گئیں.انا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُون.الفضل نے آپ کی والدہ صاحبہ کی وفات پر تعزیت کا نوٹ لکھا: برادرم مفتی صادق صاحب ( جو حیدر آباد دکن میں دعوت الی اللہ فرما رہے ہیں ) کی والدہ ماجدہ نے بھیرہ میں وفات پائی.ایک چھت نا گہاں آ پڑی مرحومہ ایک نیک بخت صالحہ بی بی تھیں.سب احمدی احباب ان کا جنازہ غائب پڑھ دیں.مفتی صاحب کو اپنی والدہ صاحبہ سے بہت محبت تھی اس لئے انہیں سخت صدمہ پہنچنا نا گریز ہے مگر وہ جس کے کام میں لگے ہیں ماں سے بھی زیادہ محبوب ہے.یقین ہے کہ ان کے استقلال الفضل 9 فروری 1915ء ص 1 کالم2) میں فرق نہیں آئے گا.“ کامیابی کا مفہوم آپ حقیقتاً استقلال سے دینی کام میں مصروف رہے.کامیابی آپ کے قدم چومتی رہی.آپ نے کامیابی کو جو مفہوم سمجھا تھاوہ آپ کے اس بیان سے ظاہر ہے :

Page 158

157 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ اس جگہ میں اس امر کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے بعض دوستوں نے دعوت الی اللہ کے معاملہ میں کامیابی کے معنے غلط سمجھ رکھے ہیں.ان کا خیال یہ ہے کہ جب ہم کہیں جائیں اور غیر احمدی لوگ کثرت سے ہمارے استقبال کو آویں اور ہمارے لیکچر سننے کے واسطے ہزار ہا جمع ہوں اور ہماری باتوں کو سن کر واہ واہ کریں اور تالی بجائیں اور ہمارے گلے میں پھولوں کے ہار پہنا ئیں تو ہم کامیاب ہو گئے اور اگر ایسا نہ ہو تو ہم نا کام ہو گئے.میرے خیال میں بے شک یہ ایک کامیابی ہے اور بہت بڑی کامیابی ہے بشرطیکہ ہمارا مقصد صرف یہ ہو کہ بہر حال لوگ ہم سے خوش ہو جائیں اور ہم بھرے جلسوں میں پھولوں کے ہار پہنائے جائیں.جو چیز کسی شخص کو مد نظر ہو اس کا حصول اس کے لئے کامیابی ہے.جو بات کہ سامعین پہلے سے جانے ہوئے ہوں اس کے مزید دلائل ان کو سنا کر خوش کر لینا کوئی مشکل بات نہیں.اہل اسلام میں کھڑے ہو کر حضرت مسیح کی تعریف کے گیت گا کر چیرز لے لینا یا مندر میں جا کر کرشن مہاراج کی خوبیاں بیان کر کے اہل ہند سے واہ واہ کہلانا ایک آسان کام ہے اور ہر ایک شخص جو تقریر کرنے کی کچھ قوت رکھتا ہو ایسا کام کر سکتا ہے.لیکن اس شخص کے واسطے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو کر آیا ہے اور لوگوں کو ان کی غلطیوں پر آگاہ کرنے کا کام اس کے سپر دکیا گیا ہے بہت سی مشکلات کا سامنا اور اس کے ساتھیوں کے واسطے جو دل استوار کر کے پبلک کو حق پہنچانا چاہتا ہے بڑی کٹھن منزلیں ہیں ایسے لوگوں کی.کامیابی اس امر میں نہیں کہ لوگ ان پر خوش ہوں بلکہ ان کی کامیابی صرف اس بات میں ہے کہ وہ مخلوقات کو حق کا پیغام پہنچا دیں.اگر انہوں نے اس منشاء کو پورا کر لیا تو وہ کامیاب ہو گئے خواہ سننے والوں نے اُسے قبول کیا یا سن کر پتھر پھینکے.اس کی کامیابی میں شک نہیں اور اگر کسی خوف یا طمع یا بزدلی

Page 159

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 158 یا کمزوری نے اسے خاص پیغام پہنچانے سے روک دیا تو پھر وہ نا کام ہے اگر چہ ساری دنیا اس پر راضی ہو جائے.دہلی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا دروازہ توڑا گیا مگر حضرت کامیاب تھے اور امرتسر میں آپ پر پتھر پھینکے گئے اور لیکچر کسی نے نہ سنا مگر آپ کامیاب تھے.صاحبزادہ عبد اللطیف صاحب پتھروں کے درمیان مارے گئے مگر وہ کامیاب اور با مراد اس دنیا سے گزرے کیونکہ ان واقعات نے کلمہ حق کی اشاعت کی اور اللہ تعالیٰ کے تازہ نشان جو آسمان سے نازل ہوتے تھے وہ ان واقعات کے ذریعہ سے زمین پر پھیلے.پس صادق کی کامیابی اسی میں ہے کہ ملامت سے نہ ڈرے ہاں نیک نیتی کے ساتھ حکمت سے کام لینا ضروری ہے.لیکن اس کا نام حکمت نہیں کہ اصل مقصد ہاتھ سے جاتا رہے.غرض ہم نے یہاں حق پہنچانا ہے اور صاف لفظوں میں پہنچایا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور ہم پر اس کی غریب نوازی ہے کہ ہم کسی تکلیف اور ابتلاء میں نہیں ڈالے گئے.لیکن ہم نے اپنے آپ کو ہر وقت اس امر کے لئے تیار کر رکھا ہے کہ حق کے اظہار سے جو ہو سو ہو.“ 6 حیدر آباد میں درس قرآن کا سلسلہ بھی جاری رہا.درس سے استفادہ کرنے والوں میں سیٹھ عبد اللہ الہ دین صاحب بھی تھے جو بعد میں مخلص فدائی دین ثابت ہوئے.سیٹھ صاحب اپنے گھر پر بھی درس اور تقریروں کا اہتمام کرتے رہے.سعادت مندی اللہ تعالیٰ نے قبول کر لی اور آپ کو سلسلہ میں داخل ہونے کی توفیق مل گئی.دکن میں آپ کی دعوت الی اللہ سے ایک غریب یکہ بان کا دل بھی حق کے لئے کھل گیا.یکہ پر بیٹھنے سے لے کر اُترنے تک آپ اُسے آسان انداز میں مسائل سمجھاتے رہے.آپ کا سفر ختم ہوا تو اُس کی کایا پلٹ چکی تھی ، بیعت کی درخواست کر رہا تھا.حضرت مفتی صاحب نے ایک ہال کرایہ پر لے رکھا تھا جہاں روزانہ لیکچر ہوتے اور سوالات کے جوابات دیئے جاتے.ایک لیکچر تھیوسوفیکل ہال میں بھی ہوا جس کا عنوان ”اسلام اور

Page 160

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 159 صوفیاء “ تھا.اس دورے میں دونوں احباب نے نواحی ریاستوں کے بھی دورے کئے تحفۃ الملوک کثرت سے تقسیم کی.اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ عمال حکومت تک پیغام پہنچانے کی توفیق دی.میمن خاندان سے تعلق رکھنے والے دلّی کے مشہور سیٹھ حاجی کریم میاں صاحب کے پوتے داؤد احمد میمن نے احمدیت قبول کی.حیدر آباد سے واپسی پر آپ نے سب احباب جماعت کا خاص طور پرسید بشارت احمد چوک رسیاں حیدر آباد کے تعاون کا شکریہ ادا کیا.واپسی پر 19 جون کو اورنگ آباد میں طویل تقریر کرنے کا موقع مل گیا جس میں آپ نے صداقت مسیح موعود کے دلائل بیان فرمائے.جب آپ دورانِ سفر بمبئی پہنچے تو معلوم ہوا کہ ایک جگہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا مباحثہ ہو رہا ہے.مباحثہ بر لب سڑک تھا کثرت سے لوگ کھڑے ہو کرشن رہے تھے.آپ بھی کچھ عرصہ تو خاموش سنتے رہے پھر اجازت لے کر نہایت جوش سے بائبل کی رُو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت بیان فرمائی.24 جون کو پھر آپ کو ایک جلسہ میں جہاں مسلم، ہندو، پارسی، عیسائی، یہودی سب موجود تھے مسیح کی آمد ثانی پر خطاب کا موقع ملا.جلسہ میں موجود یہودیوں اور پارسیوں نے آپ کی وسیع معلومات پر حیرت کا اظہار کیا.سوال جواب کے سلسلہ کے بعد آپ نے فرمایا: تم نے ایک مسیح کو نہ مانا تکفیر کی حتی کہ وہ ہجرت کر کے ہندوستان کشمیر آ گیا اور تمھاری بد قسمتی پر مہر ہوئی اب دوسرے مسیح کو تو مانو اور ان برکات سماوی کے وارث بنو جو مومنوں کے لئے مقدر ہوتی ہے.اس مسیح کے جھنڈے تلے آ جاؤ تا بخشے جاؤ اور سابقہ گناہوں کا کفارہ ہو.“ یکم جولائی کو آپ بخیریت قادیان واپس پہنچ گئے.(الفضل 4 جولائی 1915ء) 15 راگست کو ایک شادی کے سلسلے میں ظفر وال تشریف لے گئے.ریل گاڑی میں اور شادی

Page 161

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 160 کی تقریب میں دعوت الی اللہ کا سلسلہ جاری رہا بعض غیر مسلم مدعوئین نے بہت اچھا اثر لیا.(الفضل 29 اگست 1915ء) ظفر وال سے واپسی پر چانگڑیاں اور سمبڑیال میں بھی تقاریر کیں.پھر حضرت خلیفتہ امسیح کے ارشاد پر منصوری پھر سر انواں ضلع فیروز پور پہنچے جہاں 28, 29 اگست کو مباحثہ طے ہوا تھا.فریقِ مخالف کی غیر سنجیدگی سے مباحثہ کی صورت تو نہ بنی تاہم آپ نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر پنجابی زبان میں عمدگی سے جماعت کا تعارف کروایا.ستمبر میں حضرت خلیفہ اسیح نے آپ کو انگریزی ترجمہ القرآن کی طباعت کے سلسلے میں مدراس بھیجا.راستے میں دو گھنٹے متھرا قیام کے دوران ایک اجنبی فخر الدین کو پیغام حق دیا جس نے احمدیت قبول کر لی.اس سفر میں بھرت پور متھرا وغیرہ میں آپ نے دیکھا کہ ان علاقوں میں احمدیت کا پیغام ہی نہیں پہنچا.آپ کی جنوں خیز طبیعت میں تموج پیدا ہوا اور اضطرار نے ایک دُعا کی صورت اختیار کر لی تحریر فرماتے ہیں: ”میرا جی چاہتا ہے کہ کوئی عالی ہمت جو ان ایسا اُٹھے جو جرس ہاتھ میں لئے ہراک شہر اور گاؤں کے گلی کوچوں میں منادی کرتا پھرے کہ مسیح موعود علیہ السلام اور مہدی موعود علیہ السلام آ گیا ہے.اے سننے والو سنو! اور اللہ کے فرستادہ نبی کو قبول کرو تا کہ عذابوں سے بچو اور آسمانی برکات کے وارث بنو.اس کام کے لئے مجذوب صفت کے لوگ ہونے چاہئیں جو منادی کرتے ہوئے شہروں کے شہر اور ملکوں کے ملک پھر نکلیں ان کے پاس مختصر اشتہار ہوں جو لوگوں میں تقسیم کر دیں.خود نہ کریں صرف خبر پہنچا دیں اور مزید حالات دریافت کرنے کے لئے قادیان کا پتہ بتلاتے ہوئے جائیں جہاں رات آئی سو گئے جو ملا کھا لیا کسی مشاہرے کے خواہش مند نہ ہوں.وہ مسیح موعود علی اسلام کے مجذوب اور دیوانے ہوں.اللہ تعالیٰ ان کو ہر جگہ رزق دے گا اور ان کے لیے سب سامان مہیا کر دے گا اور ان کا حافظ و ناصر ہوگا.“ (الفضل 17اکتوبر 1915ء)

Page 162

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ آپ سورہے ہیں اُدھر امام مہدی تشریف لے آئے ہیں 161 پونا میں خدام ہند کالج میں مسیح و مہدی دوراں کا تعارف کرا کے اسٹیشن کی طرف جارہے تھے کہ ایک مسجد نظر آئی.گاڑی روک کر اُترے یہ بھنڈارشاہ کی مسجد کہلاتی تھی.امام مسجد صاحب سو رہے تھے.آپ نے آہستہ سے سلام کہا مگر وہ نہ اُٹھے.پھر ذرا زور سے سلام کیا تو آنکھوں کھولیں.مفتی صاحب نے فوراً کہا آپ سو رہے ہیں اُدھر مہدی تشریف لے آئے ہیں.اس نے سلام کا جواب دیا اور کہا اچھا اچھا اور پھر سو گئے.مفتی صاحب نے پھر اٹھا یا اور کہا کہ میں عرض کر رہا ہوں کہ حضرت امام مهدی مسیح موعود علیہ السلام قادیان پنجاب میں آگئے ہیں اور آپ سورہے ہیں.میں وہاں سے آیا ہوں اور آپ کو ان کی خبر دے رہا ہوں.انہوں نے آنکھیں کھولیں کہا امام مہدی آ گئے؟ اچھا بہت اچھا رات سوئے نہیں تھے اب نیند آ رہی ہے.یہ کہہ کر وہ پھر سو گئے.تیسری بار آپ نے پھر جگایا اور بتایا کہ اُٹھو بھٹی امام مہدی آگئے ہیں اُن کو قبول کرو یہ سونے کا وقت نہیں.انہوں نے پھر آنکھیں کھولیں اور کہا ہاں ہاں کیوں نہیں امام مہدی آگئے نیند بہت آرہی ہے.اس طرح ان نیند کے ماتوں کو پیغام حق دے کر آپ آگے روانہ ہو گئے.رائے پور کے اسٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں چند گھنٹے رکنا پڑا.انتظار گاہ میں موجود چند آدمیوں کو دعوت الی اللہ کی جن میں سے دو نے احمدیت قبول کر لی.اسی طرح راستے میں قیام کی مناسبت سے دعوت الی اللہ کرتے ہوئے مدراس پہنچے.اُسی دن شام کو وکٹوریہ ہال مدر اس میں ایک جلسے میں مسیح کی آمد ثانی کی خبر دی.19 را کتوبر کو آپ ٹرام پر سفر کر رہے تھے.جگہ کم ہونے کی وجہ سے آپ ایک طرف کھڑے ہو گئے اور انگریزی میں ٹرام کے مسافروں کو مخاطب کیا: ” صاحبان میرے واسطے بیٹھنے کی جگہ نہیں.آپ صاحبان کے سامنے کھڑا ہوں.اس سے فائدہ اُٹھا کر میں آپ کو کچھ سنانا چاہتا ہوں.سنئے کہ میں پنجاب کا رہنے والا ہوں میرے مقام رہائش کا نام قادیان ہے اور میں آپ کو خوشخبری سناتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ

Page 163

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 162 نے اس زمانہ میں ایک بڑا مصلح بھیجا ہے جیسا کہ کرشن اور موسی“ اور مسیح اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پہلے زمانوں میں گزرے ہیں ایسا ہی یہ خدا کی طرف سے نبی ہو کر آیا ہے.اس کا نام ہے احمد اور مقام ہے قادیان.میں نے اسے دیکھا اور قبول کیا اور بڑی برکت پائی.“ الفضل 26 /اکتوبر 1915 ء ص 8 کالم 3) مدراس میں آپ نے تھوما (حواری مسیح علیالسلام ) کی قبر کی زیارت بھی کی جہاں سے آپ کو ایسی معلومات حاصل ہوئیں جن سے مسیح کے سفر کشمیر وسری نگر پر روشنی پڑتی تھی.ان معلومات پر مشتمل مضامین دوقسطوں میں الفاروق اپریل و مئی 1916ء کے پرچوں میں شائع ہوئے.مدراس میں انگریزی ترجمۃ القرآن چھپوا کر پہلے پارے کی 500 کا پیاں ہمراہ لے کر جلسہ سالانہ پر قادیان حاضر ہوئے اور جلسہ سالانہ پر سفر کے حالات سنائے.(الفضل 28 دسمبر 1915ء) جنوری 1916ء میں مسٹر والٹر (سیکریٹری کرسچن بینگ مین ایسوسی ایشن لاہور ) سلسلہ احمدیہ کی تحقیق کے لئے قادیان آئے.مسٹر ہیوم ( ایجو کیشنل سیکریٹری ) اور مسٹر یوکس (وائس پرنسپل فورمین کرسچین کالج لاہور ) بھی اُن کے ہمراہ تھے ان سب صاحبوں نے دوبارہ حضور سے ملاقات کر کے بعض مذہبی امور دریافت کئے اور حضور نے بڑی تفصیل سے اُن کے جواب دئے اس پر انہوں نے بہت خوشی کا اظہار کیا گفتگو میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب اور قاضی عبدالحق صاحب ترجمان تھے.تاریخ احمدیت جلد 4 (جدید ایڈیشن) ص 188) ترجمہ کی طباعت کے سلسلے میں آپ دوبارہ مدر اس تشریف لے گئے.آپ جہاں بھی ہوتے مسیح کی آمد کی خبر دیتے.بیان کی صداقت اور تاثیر سے مخاطبین بے حد متاثر ہوتے اور قبول حق کی توفیق پاتے.حضرت مفتی صاحب کی بھجوائی ہوئی ایمان افروز رپورٹیں الفضل میں شائع ہوتیں جو سب احمدیوں کے لئے تقویت ایمان کا باعث بنتیں.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ارشاد پر ایک جلسہ میں شمولیت کے لئے دہلی روانہ ہوئے.یہ جلسہ 3 مارچ سے 6 مارچ تک جاری رہا.آپ کی تقریر کا موضوع ”اسلام اور مسیحیت تھا.آپ

Page 164

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 163 نے انجیل اور قرآن مجید کا مقابلہ کیا.قرآن کریم کے محفوظ ہونے اور بائبل کے غیر محفوظ ہونے کو نہایت مدلل انداز میں بیان فرمایا.خلاصہ الفضل 18 مارچ 1916ء) جلسہ کے آخری دن پھر آپ کا خطاب تھا.اس میں بھی آپ نے دلائل سے قطعیت کے ساتھ اسلام کا قابل عمل ہونا ثابت فرمایا اور بائبل کے وہ احکام بیان فرمائے جن پر عمل ہو رہا ہے نہ ہو سکتا ہے.اسی موضوع پر ایک لیکچر امروہہ میں بھی ہوا 12 مارچ کی صبح کو آپ واپس قادیان تشریف لے آئے.13 مارچ کی صبح آپ حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے ساتھ پانی پت تشریف لے گئے.طویل تقریر کا موقع ملا.سارے شہر میں احمدیت کا خوب چرچا ہوا.23 مارچ کو ملتان میں صداقت مسیح موعود علیہ السلام پرلیکچر دیا.( خلاصه از الفضل یکم اپریل 1918ء) اس کے بعد ستمبر 1916ء میں حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے ارشاد پر حضرت مولاناسید محمد سرورشاہ صاحب کی معیت میں سرحدی علاقے کا سفر کیا.اس علاقے میں بعض تربیتی امور پر وعظ ونصیحت کے علاوہ غیر ماتعیین کے پھیلائے ہوئے غلط خیالات کی تردید کی.(خلاصہ الفضل 26 ستمبر 1916ء) آپ نے مردان، درگئی، نوشہرہ، مالاکنڈ اور مظفر آباد کا دورہ کیا.احمدیوں کو خلافت کا اصل مقام سمجھایا.سرگودھا میں 26, 27 /اکتوبر کو ہونے والے جلسہ میں اسلام اور عیسائیت“ کے موضوع پر تقریر کی.(الفضل 4 نومبر 1916ء) جلسہ سالانہ قادیان 1916 ء میں 28 اور 29 دسمبر کو تقاریر کا موقع ملا.15 فروری 1917ء لاہور میں ایک بہت بڑے جلسہ سے خطاب فرمایا.اس جلسے کا اہتمام حاجی محمد موسیٰ صاحب کے نئے مکان پر ہوا تھا.اس جلسہ کی صدارت حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے فرمائی.خلاصه از الفضل 20 فروری 1917ء) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے 1907ء کے آخر میں دین کے لیے زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا: اس بات کی ضرورت ہے کہ بعض نوجوان دور ونزدیک تبلیغ کے واسطے اپنی زندگیاں

Page 165

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ وقف کریں.“ 164 اس ارشاد پر حضرت مفتی صاحب نے ایک مکتوب میں درخواست پیش کی کہ اگر اس لائق سمجھا جاؤں تو دنیا کے کسی حصے میں بھیجا جاؤں.اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے تحریر فرمایا: منظور آپ کی سلسلہ عالیہ کے لئے وقف کی روح درگاہ الہی میں ایسی منظر ہوگئی کہ الہ تعالی نے آپ کو دعوت الی اللہ کے جہاد کے لئے چن لیا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے فیصلہ فرمایا کہ آپ کو علم احمدیت تھما کر انگلستان روانہ کیا جائے اس زمانے میں اعلائے کلمہ حق کے لئے عیسائیوں کے گڑھ میں جانا بڑی ذمہ داری اور ہمت کا کام تھا مگر اللہ تعالیٰ کی حکمت یہی تھی کہ کا سر صلیب کا نمائندہ صلیب والوں کے گھر کے اندر جا کر یہ فریضہ ادا کرے.اُن دنوں عالمگیر جنگ پورے شباب پر تھی.بعض حلقوں سے یہ آواز اُٹھی کہ سمندری سفر خطرے سے خالی نہیں.لوگ گیہوں کی طرح پس رہے ہیں.اگر مفتی صاحب کو ابھی روک لیا جائے تو بہتر ہے.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ گیہوں چکی میں پسنے کے لئے ڈالے جاتے ہیں مگر ان میں سے کچھ اوپر رہ جاتے ہیں جو نہیں پتے تو یہ مفتی صاحب بچے ہوئے گیہوں ہیں اپنے والے نہیں.قادیان سے روانگی آپ کی روانگی کے وقت قادیان میں خاصا جوش پیدا ہو گیا.مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے 5 مارچ 1917ء کو آپ کو اور محترم مولوی عبید اللہ صاحب کو الوداعی دعوت دی جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی بھی جلوہ افروز تھے.آپ نے اپنے خطاب میں بیرونِ ملک دعوت الی اللہ کے لئے ہدایات دیتے ہوئے فرمایا: اس بات کو خوب یا درکھیں کہ ان کا کام لوگوں کو حق منوانا اور قبول کروانا نہیں بلکہ

Page 166

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ حق پہنچانا ہے." 66 (الفضل 10 مارچ 1917 ءص 6 کالم 2) 165 8 مارچ 1917ء کو تعلیم الاسلام ہائی سکول کے طلباء نے الوداعی پارٹی دی.9 مارچ کو جمیع احباب کرام ہر دو مدارس کے طلباء اساتذہ، دکاندار ومہمانان اپنے اس مجاہد بھائی کو رخصت کرنے جمع ہوئے دو میل تک دُعائیں کرتے ہوئے ساتھ ساتھ گئے.یہ ایک عجیب روح پر ورسماں تھا.دورانِ سفرانبالہ اور ممبئی میں دین حق کی حقانیت بیان کرنے کے لئے کئی جگہ لیکچرز دئے.22 مارچ کو ساڑھے پانچ بجے شام جہاز سارڈینیا ، جس میں آپ نے سفر کرنا تھا ممبئی سے روانہ ہوا.اپنی قلبی کیفیت کا اظہار ایک خط میں اس طرح کرتے ہیں: ”میرا دل اللہ تعالیٰ کے شکر سے بھرا ہوا ہے اور میری آنکھیں اس شکریہ میں تر ہیں کہ حضرت محمود کی اولوالعزمیوں کے طفیل اس نابکار نے یہ توفیق پائی کہ محض دین کی خدمت کے لیے خوفناک اور پر خطر سفر کو خوشی سے قبول کروں.میرے پیارو! میں نے اپنی طرف سے موت کی تیاری کی ہے.اگر میں الہی رضا مندی کی راہ میں قربان ہو جاؤں تو میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا.اور اگر اللہ پاک مجھے اپنی رضامندی کے کسی کام کے سرانجام دینے کے واسطے زندہ رکھے تو میری عرض اس کے حضور یہی ہے کہ وہ مجھے اپنے رحم اور کرم اور غریب نوازی سے اس کام کے بخیر وخوبی سر انجام دینے کی توفیق دیوے.وما توفیقی الا باللہ العلی العظیم.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں مجھے دکھایا گیا تھا کہ میں یہ ہمراہی خلیفہ المسیح الثانی لندن بھیجا گیا ہوں اور ہم بخیریت واپس پہنچ گئے ہیں اور ایک بالا خانہ میں مقیم ہیں.سو وہ بات انشاء اللہ اب پوری ہو رہی ہے.“ ( مکتوب 22 مارچ 1917 ءخلاصہ از الفضل 27 مارچ1917ء) بحری جہاز سے سفر کرتے ہوئے آپ نے تاحدِ نظر پانی اور اوپر نیلا آسمان دیکھا.اللہ تعالیٰ کی

Page 167

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 166 قدرت کے عجیب نظارے تھے.دل حمد سے بھر گیا.جہاز آگے بڑھتا رہا قادیان سے فاصلوں میں اضافہ ہوتا گیا.ایک مکتوب میں تحریر کیا: ”مبارک ہے تو قادیان کی بستی اور مبارک ہیں تجھ میں رہنے والے کہ آج روئے زمین پر کسی کو وہ درد اور محبت سے بھرا ہوا دل نہیں دیا گیا جو تجھے عطا ہوا ہے.تو میرے محبوب کے بسنے کی جاہے تو خدا کے مسیح کے نزول کا مقام ہے.تیرا آسمان نیا تیری زمین نرالی ہے میں تجھ میں اس واسطے داخل نہ ہوا تھا کہ کبھی نکلوں مگر میرا داخل ہونا اور باہر آنا دونوں تیری آبادی کی خاطر ہیں خدا کی رحمتوں کی بارش ہمیشہ تجھ پر ہو اور تجھ سے پیار کرنے والوں پر ہو.“ اہل قادیان کی دُعائیں ہمرکاب تھیں : ( فاروق 19 را پریل 1917 ء) آپ کے بیڑے کا حافظ ہو خدائے کن فکاں فضل کے جھونکے بنیں کشتی کے اوپر بادباں کیا مبارک ہے وہ ، محبوب خدا ہو گا رواں یا الهی از طفیل حضرت احمد رسول مفتی صاحب کو بنانا کامیاب و کامراں ( کلام منشی قاسم علی خان صاحب) حضرت مفتی صاحب اپنے سفر کے دوران قبولیت دُعا کا ایک عجیب ایمان افروز واقعہ تحریر فرماتے ہیں: ”جب ہمارا جہاز بحیرہ روم میں داخل ہوا تو جہاز کے کپتان نے جہاز کے تمام مسافروں کو اوپرڈیک پر بلایا اور تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یہ سمندر جس میں ہم داخل ہوئے ہیں جرمن جہازوں سے بھرا پڑا ہے اور معلوم نہیں کہ کب ہمارا جہاز اُن کے نشانے سے ڈوب جائے.اگر ایسا ہوا تو جہاز ڈوبنے سے پہلے ایک سیٹی بجے گی.جب

Page 168

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ یہ سیٹی بجے تو یہ کشتیاں جو جہاز کے دونوں طرف لٹک رہی ہیں آپ لوگوں کے لئے ہیں.پھر اس نے نام بنام کشتیوں کے نمبر بتائے اور سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ ایسے موقع پر اپنی اپنی کشتیوں میں بیٹھ جائیں پھر یہ کشتیاں جہاں کہیں آپ کو لے جائیں آپ کی قسمت ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے.کپتان کے اس لیکچر کو سننے کے بعد میں اپنے کمرے میں آیا اور خطرے سے بچنے کے لئے اللہ کریم سے گڑ گڑا کر دُعا کی.اُسی رات میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک فرشتہ میرے کمرے میں کھڑا ہوا ہے اور مجھے انگریزی میں کہتا ہے : صادق یقین کرو یہ جہاز صحیح سلامت پہنچے گا اس خوشخبری کو پا کر میں نے تمام مسافروں اور کپتان کو اطلاع دی اور ایسا ہی ہوا.ہمارا جہاز ساحل انگلستان پر سلامتی سے پہنچ گیا.کئی جہاز ہمارے سامنے آگے پیچھے دائیں بائیں ڈوبے ان جہازوں کی لکڑیاں پانی میں تیرتی ہوئی دیکھیں مگر خداوند تعالیٰ نے ہمارا جہاز سلامت پہنچا دیا.“ (لطائف صادق) 167 جہاز کے مسافروں سے راہ و رسم بڑھا کر گفتگو میں دینِ حق کے تعارف کا سلسلہ شروع ہو گیا.کپتان کو Philosophy of Teachings of Islam) اسلامی اصول کی فلاسفی ) پیش کی.آپ اپنی سرگرمیوں سے خلیفتہ امسیح کو مطلع رکھتے.الفضل میں آپ کے مکتوب اور رپورٹس شائع ہوتیں جو سب کی دلچسپی اور دُعاؤں کا باعث ہوتیں.جہاز میں سفر کے چوتھے روز ایک انگریز (الفضل یکم مئی 1917 ء ) نے اسلام قبول کیا جس کا اسلامی نام داؤ درکھا.28 مارچ کو پانیوں پر سفر کے بعد عدن کے پہاڑ نظر آئے تو ایک خوشی تو خشکی کے قریب پہنچنے کی تھی.دوسری یہ وہ سرز مین تھی جو حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم سے منسوب تھی.بے اختیار آپ نے درود پڑھتے ہوئے دُعا کی:

Page 169

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ ”اے خدا وہ دن لا کہ جیسے میں نے رسول پاک کے ملک کا نظارہ دیکھا ہے اس کی بستی اور مرقد کو بھی دیکھوں اور اس مقدس گھر میں تیری عبادت کروں جو تیرے پاک نام سے بیت اللہ کہلاتا ہے اور وہاں بھی بر و محمد سال لیا ایم کی بشارت سناؤں.“ (الفضل یکم مئی 1917 ء ص 9 کالم 1) 168 عدن کے چند گھنٹے قیام میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے چار افراد نے احمدیت قبول کی.راستے میں ایک دلچسپ مشاہدہ ہوا.روزانہ صبح جب آپ گھڑی دیکھتے تو وہ جہاز کی گھڑی سے دس پندرہ منٹ آگے ہوتی.استفسار پر بتایا گیا کہ سفر چونکہ مغرب کی جانب ہے سورج ہندوستان کی نسبت دیر سے غروب ہوتا ہے اس واسطے جہاز کی گھڑی مقامی وقت کے مطابق درست کر دی جاتی ہے.جب جہاز مکہ مکرمہ کے سامنے سے گزرا تو حضرت مفتی صاحب نے خصوصی دعائیں مانگیں.دُعا کی درخواست کرنے والوں کی فہرست کے علاوہ عمومی طور پر سب کو یاد کیا.اپنے محبوب آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر درودو سلام بھیجنے کا خوب موقع ملا.جذبات کے تموج نے دُعا میں گداز کا رنگ بھر دیا.جہاز میں ایک پادری صاحب سے ملاقات ہوئی جو امریکہ سے مصر جا رہے تھے.آپ نے اُن کو تین اصولی ہدایات دیں.مثلاً مسلمانوں کی موجودہ حالت سے اسلام کی تعلیم کا اندازہ نہ کریں بلکہ صحابہ کرام کو دیکھیں یا دین حق کی نشاۃ ثانیہ میں بننے والی جماعت احمدیہ کو دیکھیں.ہر تفسیر مستند نہیں ہے.مسیح زماں کی تفسیر جو الہی رہنمائی میں کی گئی ہے مستند مانی جائے ، نیز ثابت کیا کہ عربی ام الاسنہ ہے.پادری صاحب نے بہت اچھا اثر لیا.کام کا آغاز 15 را پریل کو پیرس اور 17 اپریل 1917ء کو بخیریت لندن پہنچ گئے.محترم قاضی محمد عبد اللہ صاحب پہلے ہی لندن میں سرگرم عمل تھے.قدرے آرام کے بعد 22 اپریل کو کام کا آغاز

Page 170

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 169 یہودیوں کے ایک جلسہ سے ہوا جس میں عبرانی زبان میں تقریر کی.آپ کی وضع قطع ، سبز عمامہ اور عبرانی زبان سب ہی توجہ کے جاذب تھے.اس جلسے میں حضرت احمد علیہ السلام کا تعارف کروایا.حاضرین دم بخودرہ گئے.اتوار کو ہائڈ پارک میں ؎ ”ہر ایک انگریز مرد اور عورت کے نام کے نام سے ایک پمفلٹ تقسیم کیا اور بآواز بلند یہ خوشخبری سناتے رہے کہ موجودہ زمانے کے امام تشریف لے آئے ہیں.سوال جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا.ایک شخص نے جو محکم تعلیم سے تعلق رکھتا تھا علی الاعلان آپ کی گفتگو میں معقولیت کا اعتراف کیا یہ دراصل دین حق کی فتح تھی.دوران سیر آپ کو ایک صاحب ملے جن کا نام Sparrow تھا یعنی چڑیا.آپ نے ہندوستانی نبی کا تعارف اس رنگ میں کرایا کہ وہ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے یہ پہلا سفید پرندہ تھا جو آپ کے ذریعے مسیح عل السلام کے قفس میں آیا....حسن اتفاق سے 129 اپریل کو پھر ہائڈ پارک میں ایک شخص نے احمدیت قبول کی جن کا نام Bird برڈ تھا.سپیرو کے بعد برڈ یعنی حضرت اقدس مسیح موعود علی السلام کا کشف لفظ لفظ پورا ہوا.( فاروق 14 جون 1917ء) اس کے ساتھ ہی اللہ کے فضل و احسان سے بیعتوں کا سلسلہ شروع ہو گیا.حضرت مفتی صاحب کا اپنے مقصد سے جنون کی حد تک لگاؤ کا عجیب رنگ تھا، جہاں عام حالات میں کوئی شخص سوچ بھی نہیں سکتا.آپ پیغام دینے کی صورت بنا لیتے.ایک بازار سے گزر رہے تھے ، لوگوں کا مجمع دیکھا، معلوم ہوا کوئی شخص ہے جس کا قد آٹھ فٹ دو انچ ہے اس کے گر دسب جمع ہیں نمائش ہو رہی ہے ٹکٹ لگا ہوا ہے.آپ بھی پہنچ گئے اور ا سے آٹھ فٹے شخص کو پیغام حق دیا اور کتب تحفہ میں دیں.ایک دہریہ سے گفتگو ایک سیر گاہ میں ایک دہریہ سے گفتگو ہوگئی.اُس کا اصرار تھا کہ چونکہ اُس نے خدا کو نہیں دیکھا، وہ اُسے نہیں مانتا.مفتی صاحب نے جواب دیا کہ کیا آپ نے ہندوستان دیکھا ہے؟ اگر نہیں دیکھا

Page 171

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 170 تو کیسے مانتے ہیں کہ ہندوستان فی الواقع ہے.اُس نے کہا کہ میں نے نہیں دیکھا مگر ایسے ہزارہا آدمی موجود ہیں جنہوں نے دیکھا ہے.حضرت مفتی صاحب نے اسی بات سے بات آگے بڑھائی کہ اگر آپ ہزار ہا آدمیوں کی شہادت سے بات مان جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے وجود پر تو ہزاروں لاکھوں گواہ ہیں.آپ اُن کی بات مان جائیں.اُس دہریہ نے کہا مگر مجھے تو کوئی ایسا شخص نہیں ملا جو کہتا ہو کہ اُس نے خدا تعالیٰ کو دیکھا ہے.آپ نے بڑے جلال سے جواب دیا: ”دیکھو اور غور سے دیکھو! یہ جو تمہارے سامنے کھڑا ہے اور بول رہا ہے اس نے خدا کو دیکھا ہے.سنو! میں جہاز سارڈینیا پر آرہا تھا.ہمارا جہاز بحیرہ روم میں پہنچا سب لوگ خوفزدہ تھے کہ بحیرہ روم میں آب دوز کشتیاں بہت ہیں جو جہازوں کو غرق کر رہی ہیں اور جان کا سخت خطرہ ہے.ہر شخص لائف بیلٹ ہر وقت اپنے ساتھ رکھتا تھا اس وقت مجھے دکھایا گیا کہ اللہ تعالیٰ اس جہاز کی حفاظت کر رہا ہے اور مجھے تشفی دی گئی کہ یہ جہاز صحیح سلامت کنارے پر پہنچے گا تب میں نے جہاز میں بہت لوگوں کو جن میں بعض پادری بھی تھے اور جن کو میں دعوت الی اللہ دے رہا تھا یہ خوشخبری دی اور جہاز کے چلانے والوں کو بھی بتلایا.اُن میں سے کئی لوگ اب بھی انگلینڈ میں موجود ہیں جا کر اُن سے پوچھ لو.کیا یہ ہستی باری تعالیٰ کا ثبوت نہیں؟ کیا انسان اپنے قیاس سے ایسا کر سکتا ہے؟“ (خلاصہ از الفضل 30 جون 1917ء ص 7) 29 جون 1917ء کو آپ نے الفضل کو اپنی ایک رپورٹ لکھ کر بھیجی جس میں دعوت الی اللہ کے دو دلچسپ واقعات ہیں.تحریر فرمایا: اتفاقا راستہ میں ایک لیڈی سے ملاقات ہوئی جو کبھی ہندوستان میں رہ چکی ہے.وہ میرا ایڈریس لے گئی تھی.خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا.میں نے کچھ رسالے روانہ کئے.گزشتہ اتوار کو اس نے مجھے اپنے مکان پر بلایا.قریب تین گھنٹے گفتگو رہی.آخر اس نے اقرار کیا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں.جیسا کہ

Page 172

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 171 پہلے زمانوں میں ہوا کرتے تھے اور اس مضمون کی ایک تحریر اپنے دستخط کے ساتھ مجھے دی.اس لیڈی کا نام موسے ہے.ان کا خاوند بنگال میں سیشن جج تھا اور اب ان کا بیٹا جائداد کی حفاظت کرتا ہے جو ڈیڑھ لاکھ روپئے کی ہے اور بیٹا فوج میں معزز عہدہ پر ممتاز ہے.عمر 72 سال ہے مگر مستعدی کا یہ عالم ہے کہ تمام اخباروں کے مختلف مضامین کاٹ کاٹ کر الگ رکھتی ہیں.کتا ہیں خوب مطالعہ کرتی ہیں اور علم کے ساتھ محبت ہے.انہوں نے اپنے کتب خانہ سے چند کتابیں عیسائیت کے رڈ میں مجھے دیں جو بہت عمدہ ہیں.“ آپ کون سی شراب پیتے ہیں لندن میں لوگ کثرت سے شراب پیتے تھے.ایک تاجر نے آپ سے پوچھا کہ آپ کون سی شراب پیتے ہیں.جواب دیا کہ کوئی نہیں یہ اسلام میں جائز نہیں.اُس نے کہا پھر آپ بیئر پی لیا کریں.یہ ملکی شراب ہے اور اس ملک میں اس کا پینا بہت ضروری ہے.آپ نے بتایا کہ ہم نہ شراب پیتے ہیں نہ بیر.تو اُس نے حیران ہو کر پوچھا کہ پھر کیا پیتے ہیں؟ آپ نے کہا کہ پانی.کہنے لگا میرے باپ نے ساری عمر میں ایک دفعہ پانی پیا، ساری عمر شراب پیار ہا اور جس دن اُس نے پانی پیا اُسی دن مر گیا اور میں نے آج تک کبھی پانی نہیں پیا.آپ نے بتایا کہ ہم نے ہمیشہ پانی پیا اور آج تک خدا کے فضل سے ٹھیک ٹھاک ہیں.وہ بہت حیران ہوا.“ (الفضل 10 جولائی 1917 ء ص 4 کالم 2) ایک پادری صاحب سے دلچسپ مکالمے کا احوال مفتی صاحب کی زبانی ہائیڈ پارک (لندن) میں ایک پادری صاحب وعظ کر رہے تھے میں بھی جا پہنچا مندرجہ ذیل گفتگو ہوئی: صادق: - پادری صاحب میرا بھی ایک سوال ہے.میں پیچھے کھڑا تھا.سامعین نے ، جن میں زیادہ تر مستورات تھیں ، میری آواز سن کر میرے

Page 173

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ لئے جگہ کر دی اور میں آگے میدان میں جا کھڑا ہوا) پادری:.ضرور فرمائیے.خوشی سے.172 صادق: - آپ کے فرمانے کے مطابق خدا نے اولاد چاہی تو اس کا ایک بیٹا ہے مگر بیٹی نہیں.(اس سوال پر سب بہت خوش ہوئے اور ہر طرف سے آوازیں آئیں کہ پادری صاحب جواب دیں.ضرور جواب دیں.) پادری - آپ بہت شریف آدمی ہیں آپ کہاں سے آئے ہیں ؟ سامعین :.یہ سوال کا جواب نہیں.پادری صاحب اس جنٹلمین کے سوال کا جواب دیں اور باتیں نہ بنائیں.پادری: - ( ایک بولنے والے سے مخاطب ہو کر ) تم کیوں بیچ میں بولتے ہو؟ صادق:.میں سفارش کرتا ہوں کہ آپ ان لوگوں کی خواہش کو پورا کر دیں اور میرے سوال کا جواب دیں.پادری :- ( مجھے مخاطب کر کے ) آپ نہیں جانتے یہ شخص یہودی ہے جو درمیان میں بولتا ہے.صادق:.یہودی کا شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ اگر وہ ابن اللہ کو صلیب پر نہ چڑھاتے تو آپ کی نجات نہ ہوتی.اس کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے؟ (اس پر حاضرین نے قہقہ لگایا اور پادری صاحب گھبرائے ) پادری :.یہ تو آپ نے نیا سوال کر دیا.سامعین : اس کا بھی جواب دو.صادق:.اچھا نمبر وار جواب دیجئے.پہلے وہ اور پھر یہ.پادری : - آپ ان لوگوں کی باتوں کا خیال نہ کریں.خدا وند نے فرمایا ہے کہ مردوں کو مردے دفن کرنے دو.

Page 174

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 173 حاضرین: - ( پادری سے ) جواب دو ٹالتے کیوں ہو.صادق:.میں اس شہر میں اجنبی ہوں اور نیا آیا ہوں مجھے مہربانی کر کے سمجھا دیجئے.کیا یہاں عیسائی ملک میں جب کوئی مرجاتا ہے تو اسے وہ لوگ دفن نہیں کرتے جو زندہ ہیں بلکہ مُردے قبروں سے نکل کر آتے ہیں اور دفن کرتے ہیں؟ پادری:.یہ تیسر اسوال ہو گیا.حاضرین:.تینوں کا جواب دو.پادری :.ہاں آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ کہاں کے رہنے والے ہیں؟ صادق:.میں ہندوستان سے آیا ہوں.پادری:.اوہ بہت خوشی ہوئی میری بیوی بھی ہندوستان میں پیدا ہوئی تھی.صادق:.جب وہ میری ہم وطن ہے میں اسے ضرور ملوں گا.سامعین : - پادری صاحب سوالوں کا جواب دو یا کہہ دو مجھے جواب نہیں آتے.پادری :- ( بڑے جوش سے ) میں دیانتدار آدمی ہوں.میں جھوٹ نہیں بول سکتا.اگر مجھے جواب نہیں آتے تو میری بیوی بہت ہوشیار ہے.وہ ضرور جواب دے گی.مجھے مخاطب کر کے ) اور میری بیوی سالن بہت اچھا پکا سکتی ہے.یورپ کے رہنے والے سالن نہیں پکانا جانتے.صادق:.بڑی خوشی کی بات ہے.میں اس کو کہاں مل سکوں گا.پادری :.وہ یہاں آیا کرتی ہے اور اُس کی علامت یہ ہے کہ وہ بائبل کی آیات اپنی ٹوپی پر لکھا کرتی ہے.آپ اس ہائیڈ پارک کے اندرصدہا کے درمیان اُسے پہچان لیں گے.صادق:.میں پہنچانے میں ایسا ہو شیار نہیں.آپ میرا ایڈریس لے جائیں اور وقت مقرر کر کے مجھ سے ملاقات کروائیں اور آپ کا نام کیا ہے؟

Page 175

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ پادری :.مجھے لوگ اولڈ جو کہتے ہیں.صادق: - گڈ نائٹ مسٹر اولڈ بجو.174 سامعین نے شور مچایا کہ پادری صاحب کو جواب نہیں آئے.میں تو چلا آیا معلوم نہیں پھر اس غریب کے ساتھ کیسی گزری.(الفضل 18 اگست 1917 ء ص 8) اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی صاحب کو حاضر دماغی سے مدلل گفتگو کرنے کا عجیب ملکہ عطا فرمایا تھا.آپ کی دعوت الی اللہ کے کئی واقعات ہیں جن میں آپ دوسروں کو ان کی باتوں میں سے ہی سوال کر کے لاجواب کر دیتے تھے.مثلاً ایک پادری نے کہا آدم وحوا کے گنہگار ہونے کی وجہ سے سارا جہان گنہگار ہو گیا.اس طرح حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی گنہگار ہوئے.حضرت مفتی صاحب نے پوچھا کہ آدم و حوا میں سے آپ کے نزدیک کون زیادہ گنہ گار تھا اُس نے جواب دیا حوا آپ نے جوابا کہا کہ اگر عورت کو زیادہ گنہ گار مانتے ہیں تو صرف عورت سے پیدا ہونے والا زیادہ گنہگار ہوگا یا عورت و مرد دونوں سے......پادری صاحب کو کوئی جواب نہ بن پڑا.ایک مجمع میں وعظ کرنے والے پادری صاحب سے آپ نے کہا کہ آپ کا مذہب عیسائیت امن کی عمدہ تعلیم دیتا ہے.جرمن اور آسٹرین بھی عیسائیت پر عمل پیرا ہیں تو وہ جنگیں کیوں کر رہے ہیں؟ پادری صاحب نے کہا کہ وہ اس پر عامل نہیں ہیں.آپ نے فرمایا 1900 سال سے اس تعلیم پر کون عمل کر رہا ہے.کیا اس تعلیم پر عمل ہو سکتا ہے؟ ظاہر ہے پادری صاحب کے پاس جواب نہیں تھا.خلاصه از الفضل 28 اگست 1917 میں 10 بات سے بات نکال کر اپنے مطلب کی بات پر آجانا بھی آپ کا خاص طریق تھا.وعظ کرتے ہوئے ایک پادری صاحب نے ٹوپی زمین پر رکھی.کئی ایک نے کہا کہ زمین پر نہ رکھیں ہمیں دے دیں.اُس نے انکار کیا اور حضرت مفتی صاحب کو ٹوپی تھما دی.کسی نے کہا کہ ہم پر تو اعتبار نہیں کیا اور اس اجنبی پر کر لیا.آپ نے فوراً اس کی وجہ یہ بتائی کہ میں ایشیائی ہوں یسوع مسیح بھی ایشیائی تھے.وہ بھی ہندوستان چلے گئے تھے میں بھی ہندوستان سے آیا ہوں.یسوع مسیح ہندوستان جا کر فوت

Page 176

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ ہو گئے تھے وہاں اُن کی قبر بھی ہے.خلاصہ فاروق 23 اگست 1917 ء ) 175 قادیان کی یاد آپ جہاں بھی ہوتے قادیان کی یاد ساتھ رہتی الفضل 4 ستمبر 1917ء ص 11 کالم 2 میں آپ کی ایک تحریر چھپی ہوئی ہے جس میں آپ نے چاند کو مخاطب کر کے کہا: ”اے چاند تو بڑا خوش قسمت ہے جو ہر روز کوچہ یار میں گشت لگاتا ہے.اگر چہ تو دلوں کی کچھ بات نہیں سناتا پھر بھی تو اس لئے پیارا معلوم دے رہا ہے کہ تو نے میرے پیاروں کو دیکھا ہے اور تیری کرنوں نے قبر سیح کو بوسہ دیا.بھلا ایک بات تو بتلا کہ تو زیادہ حسین ہے یا میرا پیارا محمود، بی اللہ کا نہ صرف بیٹا بلکہ اُس کا سچا وارث ، مسیح محمدی کا تخت نشیں.اگر تجھ میں زبان ہوتی تو ضرور شہادت دیتا تجھ میں زبان ہے اور وہ بول رہی ہے کہ میں نے محبوب خدا سرور انبیاء فخر رسل محمد مجتبی کے زمانہ ء ہجرت سے لے کر 1335 دور پورے کر دیئے ہیں.دانا دانیال کی نبوتیں پوری ہوئیں فرشتوں کا کہنا حق ہوا.مبارک وہ جنہوں نے صبر سے انتظار کیا اور قبول کیا.“ اعلائے کلمہ حق کے لئے حضرت مفتی صاحب کے دل میں عجیب تڑپ تھی.آپ چاہتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ احمدی اس جہاد میں شامل ہوں.آپ کا6ر جولائی کا لکھا ہوا مکتوب الفضل میں شائع ہوا: وو ہمیں ایسے بہادروں کی ضرورت ہے جو اللہ اور اُس کے رسول کی خاطر اپنی جان اور اپنے آرام کو قربان کر دیں.دُعا اور توجہ کے ساتھ اپنے خادمانہ کام کا ایک عزم اپنے دل میں قائم کریں اُس پر ایسے قائم ہو جائیں کہ کوئی تلوار کی زد، نیزے کا حملہ، اور بندوق کا نشانہ اُنہیں پیچھے نہ ہٹا سکے.ہر قدم آگے ہو.گو ہر قدم پر موت کا مقابلہ ہو ایک مرکز بہشت کو چلا جائے تو دوسرا اس کی جگہ کھڑا ہو جائے......اے مسیح کی جماعت!

Page 177

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 176 تو اُٹھ اور دنیا کے چاروں کونوں میں پھیل جا اور خدا کے رسول کی آمد کی منادی کرتا کہ دنیا تیرے ذریعے سے امن، ایمان اور فضل سے بہرہ ور اور پاک برکات سے بھر پور ہو.“ الفضل 2 اکتوبر 1917ء ص 11,12) آپ کی دُعاؤں کوسن کر اللہ تعالیٰ غیبی تائید و نصرت سے عجیب مواقع بہم پہنچاتا.بعض اخباروں کے فوٹو گرافروں نے آپ کے فوٹو سنڈے پکٹوریل اور دوسرے اخباروں میں چھپوائے.سنڈے پکٹوریل ہر اتوار کو لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوتا تھا.ایک دفعہ تصاویر چھپنے کی صورت اس طرح بنی کہ 15 اگست 1917ء کو امریکی فوجی جو تعداد میں 5000 تھے فرانس جاتے ہوئے انگلستان سے گزر رہے تھے.کثرت سے لوگ انہیں دیکھنے کے لئے قصر کھنگم کے سامنے سڑک پر جمع تھے.شاہی خاندان کے افراد بھی تھے.آپ کو حسنِ اتفاق سے نمایاں جگہ مل گئی.آپ نے کچھ افسروں اور سپاہیوں سے دین حق کے موضوع پر گفتگو کی اس دوران فوٹو گرافروں نے آپ کے فوٹو لے لئے اور ایک جگہ چند معززین امریکن جھنڈا لئے بیٹھے تھے، فوٹو ہو رہے تھے ، آپ کو بھی ساتھ بٹھا لیا یہ فوٹو لندن کے اخبارات کیچ اور گرافک وغیرہ میں چھپ گئے.نیز امریکہ میں بھی ان کی خوب اشاعت ہوئی.شاہ بلوط کے نیچے حضرت مفتی صاحب نے سنا کہ شاہ بلوط کے درخت صحت کے لئے اچھے ہوتے ہیں.ایک جگہ درخت نظر آئے تو کچھ دیر کے لئے رُک گئے.ایک بیمار فوجی جو ہسپتال سے فارغ ہو کر گھر جارہا تھا آپ کو دیکھ کر وہاں رک گیا آپ نے گفتگو کا سلسلہ درختوں سے شروع کیا.ہندوستان کی طرف موڑا اور حضرت احمد تک لے گئے اُس شخص نے احمدیت قبول کی جمال الدین نام رکھا.(خلاصہ الفضل 2 /اکتوبر 1917ء) کام کی مصروفیات اپنی جگہ اور پیاروں کی یاد اپنی جگہ.اگست میں پہلے ہفتے کی ڈاک راستے میں غرق کر دی گئی.دوسرے ہفتے کی ڈاک میں بھی تاخیر ہوئی تو آپ نے بے چین ہو کر الفضل کے

Page 178

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ نام مکتوب لکھا: اگر چہ میری توجہ زیادہ تر اس طرف ہے کہ یورپ کیوں کر مسلمان ہو جائے تا ہم میرے اوقات کا ایک بڑا حصہ اپنے محبین کے خیال میں اور اُن کے واسطے دُعاؤں اور توجہ میں گزرتا ہے.بسا اوقات لندن کی بیرونی سیر گاہوں کے جنگل ہوتے ہیں جو کئی میل میں پھیلے ہیں اور میں ہوتا ہوں جو تنہائی اور خاموشی میں پیاروں کی یاد میں آنسو بہاتا الفضل 9 اگست 1917 ء ) ہوں.ایک ریلوے اسٹیشن پر 177 ایک پادری صاحب سے ملاقات ہوئی دلچسپ مکالمہ ہوا.محترم قاضی محمدعبداللہ صاحب بھی آپ کے ساتھ تھے.پہلے تو تعارف پر ہی دونوں کے نام کے ساتھ محمد لفظ سے ہی وہ چونکے اور کہا کہ نجات مسیح کے ساتھ ہے جو پھانسی چڑھ گئے.حضرت مفتی صاحب نے سمجھایا کہ جو خود اپنی ذات کو ظلم سے نجات نہ دے سکے وہ دوسروں کا کیا بھلا کر سکتے ہیں.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تو اپنی ذات کا بھی بھلا کیا اور خود سے بڑھ کر دوسروں کا بھلا کیا.مسیح تو ایک عاجز انسان تھے جو ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہوئے وہ خدا کیسے ہو سکتے ہیں.پادری صاحب نے گاڑی نکل جانے کے بہانے سے گفتگو ختم کرنے کی کوشش کی مگر اسٹیشن کچھ اس طرح بنا ہوا تھا کہ گھوم پھر کر وہیں آگئے.آپ نے پھر بات نکالی کہ حضرت یسوع نے آپ کی مدد نہ کی اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کریں.خلاصه از الفضل 3 /نومبر 1917 ءص2) 2 اکتوبرکو پروفیسر مارگولیتھ کی دعوت پر آپ آکسفورڈ گئے.کتب خانے اور کالج دیکھا جب بھی آپ کو کوئی گر جا نظر آتا کلمہ شہادت پڑھ کر دعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ کے نام کا بول بالا ہو.الفضل 6 نومبر 1917ء ص 6) یہاں دو پھل بھی ملے.ایک مسٹر ولیم ہل جو شاہی بحری بیڑے میں ملازم تھے ان کا نام ولید

Page 179

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 178 رکھا گیا اور ایک خاتون ڈورا نامی ان کا نام سعیدہ رکھا.لندن کے قریب دو شہروں Leicester اور South Sea میں لیکچرز کا موقع ملا 15افراد نے دین حق قبول کیا.الفضل 24 نومبر 1917ء) اخبارات میں اشتہار چھپوانے سے بھی رابطے بڑھتے.تقاریر کا ذکر اخبارات میں ہوتا.لندن کالج آف سائیکالوجی نے آپ کو اپنا فیلو منتخب کیا.ڈپلوما اور ایف پی سی کا ٹائیٹل بھی دیا گیا.خلاصه از الفضل 27 را پریل 1918ء ص 2 کالم 2) روابط بڑھانے کے لئے ایک دلچسپ صورت یہ پیدا کی کہ اخبار میں رہائش کے لئے جگہ کی ضرورت کا اعلان دیا.بہت سے خطوط موصول ہوئے جن میں بھیجنے والوں کے پتے درج تھے آپ نے اُن پتوں پر پمفلٹ ارسال کئے اور بعد میں تعلقات بھی رکھے.(الفضل 4 مئی 1918 م2) حضرت مفتی صاحب کو ایک ایسا گر جا دیکھنے کا اتفاق ہوا جو صرف تاریخی یاد گار تھا.آپ نے مہمانوں کی کتاب پر ایک جملہ تحریر کیا: وو " 29 جنوری مفتی محمد صادق - عیسی مسیح کا ایک مبلغ اس کی آمد ثانی میں جو قادیان ہندوستان میں واقع ہوئی.“ ایک پادری سے عیسائیوں کے عبادت کے لئے گھنٹہ بجانے اور مسلمانوں کے اذان دینے کے موضوع پر بات ہو رہی تھی آپ نے وہیں اذان دی اور مطالب سمجھائے کہ کس قدر پر معارف کلام ہے.7 مئی 1918ء کو ایک بڑی دُعائیہ تقریب ہوئی جس میں قریباً چار ہزار افراد نے شرکت کی.حُسنِ اتفاق سے مفتی صاحب کو لارڈ مئیر کے پاس جگہ ملی اور خطاب کا موقع ملا.آپ نے دُعا کی قبولیت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جنگ کے متعلق پیشگوئیوں کا ذکر فرمایا.الفضل 14 جولا ئی 1918 ءص6)

Page 180

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ لندن میں عید الفطر 179 اس سال عید الفطر کا اخباروں میں اعلان کروایا گیا تھا.اس لئے بہت سے غیر از جماعت بھی بیت احمد یہ میں نماز پڑھنے آئے.ہر دن نئے افق نئے اُجالے لے کر آتا.نئے پھل طمانیت کا سامان بنتے.ستمبر 1918ء کو آپ نے حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کو ایک مکتوب لکھا جس میں اپنے جذبات کا اظہار کیا: ہم کیا اور ہماری ہستی کیا اور ہمارا کام کیا اور ہماری سعی کیا سب بیچ ہیں اور سب بیکار ہے بغیر اس قدوس سبوح ، اعلیٰ عظیم کے فضل بخشش ، رحم، کرم پردہ پوشی اور غریب نوازی کے.اُسی کی سب طاقتیں ہیں اور اُس کے سب خزانے ہیں.ہر ھے اُس کے قبضہ قدرت میں ہے.وہ جسے چاہتا ہے دیتا ہے اور اُس کے حضور میں جواب دہ ہیں اور کوئی اُس سے پوچھنے والا نہیں.اندھی عیسائیت اور سرکش دہریت کی اس سنگلاخ سرزمین میں کون ہدایت پاسکتا ہے کوئی نہیں سوائے اُس کے جس کو وہ ہدایت دے.ہماری کوششیں کمزور بلکہ کمزور کا لفظ بھی اُس کے واسطے کمزور ہے.“ الفضل 12 اکتوبر 1918ء ص 10) یہ عاجزانہ راہیں اور متضرعانہ دُعائیں آپ کا زادِ راہ تھیں.خدا تعالیٰ کی رحمت کے جلوے دیکھئے امریکہ کی آزادی کا دن 4 جولائی کو لندن میں منایا جارہا تھا، چوٹی کے افسران مدعو تھے ، آپ بھی جلسہ دیکھنے پہنچ گئے.اس بات سے ناواقف کہ داخلہ کے لئے ٹکٹ کی بندش تھی.گیٹ پر ٹکٹ طلب کیا گیا آپ کے پاس تو کوئی ٹکٹ نہ تھا گیٹ کیپر نے کہا آپ کی پگڑی ہی آپ کا ٹکٹ ہے اور اندر جانے دیا.اندر گئے تو ہر نشست پر نام لکھا تھا.کہاں بیٹھتے آپ کے نام کی تو کوئی کرسی نہ تھی.ایک ناظم نے کہا سٹیج پر ایک کرسی خالی ہے آپ وہاں تشریف رکھیں.سٹیج پر بیٹھ کر مسٹر چرچل اور دوسرے لیڈروں کی تقاریر سنیں.یہاں پر بھی روابط پیدا کئے اور ایڈریس لے کر تبلیغی خط و

Page 181

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ کتابت شروع کی.(خلاصہ از الفضل 12 اکتوبر 1918ء ص 10,11 ) 180 اگست میں دس لیکچر دیئے تین سو کے قریب خطوط لکھے.بارہ افراد نے دین حق قبول کیا.خدمت کی توفیق پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کا انداز دیکھئے.الفضل 9 نومبر 1918ء کے پرچے میں صفحہ نمبر 2 پر آپ کا ایک خط شائع ہوا: انسانی زندگی بھی عجائبات سے پر ہے.کہاں قادیان اور کہاں انگلستان.کبھی وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ میرا کمزور جسم اتنے سمندروں کا سفر طے کرتے ہوئے انگلستان پہنچے گا.میں نے عربی پڑھی مگر مولویوں میں میں مولوی نہ تھا.میں نے انگریزی پڑھی مگر انگریزی خوانوں میں انگریزی خوان نہ تھا.مگر اللہ کے راز اللہ ہی جانے.وہ چاہے تو ذرے سے پہاڑ کا کام کرائے اور قطرے کو سمندر بنا دے.میں نے وطن چھوڑا.ملازمت سرکاری سے استعفیٰ دیا.قادیان میں جھونپڑا بنا کر بیٹھ گیا.اُس دن کے انتظار میں جب ایمان کے ساتھ خاتمہ بالخیر ہو اور مسیح کے قدموں میں قبر کی جگہ مل جائے.ہر جنازہ جس پر مسیح اور اس کے خلفاء نے نماز پڑھی میرے لئے جائے رشک تھا اور ہر قبر کو میں چاہتا تھا کہ یہ میری قبر ہو.پر یہ میرے خیال کی باتیں تھیں.اللہ تعالیٰ کو منظور تھا کہ ہنوز مجھ سے اپنے دین کی خدمت کے یا کچھ دینی خدمات کا کام میری طرف منسوب کیا جائے.ہندوستان سے اُٹھا انگلستان لا بٹھا یا جسے کبھی انگریزوں کے ساتھ بحث اور گفتگو کرنے اور اُن کے درمیان کھڑے ہو کر تقریریں کرنے کا کام سپر د کیا گیا.جو گرمیوں میں بھی عموماً کمرے کے اندر سونے کا عادی تھا اُسے سر د ملک میں رہنے کا حکم ہوا.یہ خلافت ثانیہ کے فیوض کا کرشمہ ہے کہ نالائق لائق بن رہا ہے اور نابکار کار آمد ہورہا ہے ورنہ من آنم کہ من دانم.“ 31 اکتو بر کو آپ لندن کے جنوب میں دو سو میل کے فاصلے پر واقع ایک شہر ٹار کی تشریف لے

Page 182

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 181 گئے.جلسوں میں تقاریر سے سلسلہ کا تعارف کروایا.آپ سرد موسم کی وجہ سے وہاں زیادہ عرصہ قیام نہ کر سکے اور واپس لندن تشریف لے آئے.لندن کی ایک سیر گاہ میں جنگ میں کام آنے والوں کی یاد میں ایک چبوترے پر پھول رکھے جا رہے تھے.آپ نے اُن احمدیوں کی یادگار کے طور پر جو جنگ میں یعنی اپنی گورنمنٹ کے وفادار رہ کر شہید ہوئے تھے ، گلدستہ رکھا اور اس کے ساتھ ایک موٹے کارڈ پر درج ذیل تحریر لکھ کر رکھی : لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ الله عزیز برادران احمد یہ جنہوں نے محسن گورنمنٹ برطانیہ کی خاطر ایام جنگ میں اپنی جانیں قربان کر دیں کیونکہ انہیں اپنے رُوحانی سردار حضرت نبی اللہ احمد قادیانی ہندی مسیح موعود مہدی موعود کا یہی حکم تھا کہ ہمیشہ اپنی گورنمنٹ کے حق میں فرنبردار اور تابعدار رہیں اور ہر حال میں گورنمنٹ برطانیہ کی خدمت اور امداد کریں.حضرت نبی اللہ نے پہلے سے اس جنگ کی پیشگوئی کی تھی اور تاج برطانیہ کے لئے دُعائیں کی تھیں کہ وہ کامیاب اور فتح مند ہو.صد ہانے فرانس، مصر، درہ دانیال، عراق، عرب، وغیرہ کے میدان ہائے جنگ میں لڑائیاں کیں خدا کی رحمت اُن افراد پر جو قتل ہوئے یا زخموں سے فوت ہو گئے.از طرف مفتی محمد صادق و قاضی عبد الله احمدی واعظان الفضل 21 جنوری 1919 ءصفحہ 7-8 ) اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کے لئے ہر موقع سے فائدہ اُٹھانے کی راہیں نکالنا آپ کو خوب سوجھتا تھا.آغاز 1919ء میں شاہ جارج پنجم اور ملکہ نے فتح کی خوشی میں لندن کا کئی دن دورہ کیا.لوگ سڑکوں پر کھڑے ہو جاتے تالیاں بجاتے مبارکباد دیتے.آپ نے اس موقع پر ملکہ ، وزیر اعظم برطانیہ، اتحادی بادشاہوں اور پریذیڈنٹوں کو جو جنگ میں برطانیہ کے طرف دار تھے مبارک باد کے خطوط لکھے جس میں حضرت اقدس علیہ السلام کی تصویر اور تحفۃ الملوک کتاب کے ساتھ ذکر کیا کہ اس

Page 183

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ فتح کی پیشگوئی حضرت اقدس علیہ السلام نے کر دی تھی.وو 182 خلاصه از الفضل 25 جنوری 1919 ء ص 7) لندن میں کامیابیوں پر ایک غیر از جماعت کا تبصرہ انگلستان میں دعوت حق کی کامیابی کے ذکر میں لندن کی ایک اسلامی سوسائٹی کے ناظم احمد دین کار نے پیسہ اخبار کو درج ذیل مراسلہ بھیجا یہ مراسلہ 7 فروری 1919ء کے اخبار میں شائع ہوا: سب حمد و شکر اللہ تعالیٰ کے لئے جو دلوں کو ہدایت دینے والا ہے شہر لندن کی جارج سٹریٹ میں زیر اہتمام ڈاکٹر عبدالمجید صاحب ونواب جنگ بہادر ایک اسلامی جلسہ ہوا جس میں ہندی اور عرب اور افریقی مسلمانوں کے علاوہ انگریز نومسلم جنٹلمین اور لیڈیاں ایک بڑی تعداد میں جمع ہوئیں مفتی محمد صادق صاحب نے عربی زبان میں درود شریف کی عملی محبت پر ایک تقریر کر کے ضرورت اشاعت اسلام کی طرف حاضرین کو توجہ دلائی اور ہندیوں اور انگریزوں کی درخواست پر اسی تقریر کو انگریزی واردو میں دُہرایا.اس کے بعد دو نوجوان لیڈیاں حضرت مفتی صاحب کے ہاتھ پر مشرف بہ اسلام ہو ئیں.....ان کے اسلامی نام مریم اور سعیدہ رکھے گئے.....گزشتہ ہفتہ جو لیڈی مسلمان ہوئی تھی اس کا نام فضل اور ایک ہندی طالب علم کا نام محمد خان رکھا گیا.نہایت خوشی سے اس خبر کو شائع کیا جاتا ہے کہ حضرت مفتی صاحب کے مضمون علم اللسان اور بعض دیگر مضامین کو کامیاب امتحانی پرچہ تسلیم کر کے فریج سوسائٹی فلالوجی نے آپ کوبی فل کی ڈگری اور ڈپلومہ عطا کیا ہے.اور ایک اور کالج نے ایف سی کی ڈگریاں اور ڈپلوما عطا کیا ہے.اللہ تعالیٰ مبارک کرے.“ الفضل 11 فروری 1919 ء ص 7) وہ مسلم جو جرمنی کی قید سے آزاد ہو کر لندن آئے اُن میں تین چار سو ملاح ہندوستان سے تعلق رکھنے والے تھے اسلامک سوسائٹی نے اُن کے لئے ایک جلسہ کیا.حضرت مفتی صاحب نے بھی

Page 184

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 183 خطاب کیا اور پیغام پہنچایا.الفضل 22 / مارچ 1919ء ص2) حضرت مفتی صاحب کی صحت پر لندن کی شدید سردی نے بُرا اثر ڈالا.گلے اور ناک کی تکلیف کی وجہ سے ڈاکٹر نے آپ کو بورن متھ جانے کا مشورہ دیا.ڈاکٹر آپ کو جسمانی صحت کے لئے مشورے دے رہا تھا.آپ نے اُسے روحانی صحت کے مشورے دیئے.سردی کی وجہ سے باہر نکلنے کے مواقع کم ہوئے تو آپ نے کثرت سے مضامین اور خطوط اخبارات و رسائل کو بھجوائے.اخبارات میں اشاعت سے آپ کے حلقہ تعارف میں اضافہ ہوا.صرف اپریل میں آپ نے 265 خطوط لکھے.انگلستان سے واپسی کا ارشاد آپ کی صحت کی کمزوری کی وجہ سے حضرت خلیفہ مسیح الثانی کے ارشاد پر چوہدری فتح محمد سیال صاحب اور حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحب 6 اگست 1919 ء کو لندن پہنچ گئے.حضرت صاحب نے الفضل کے لئے ایک مضمون لکھا جس میں آپ کی اور محترم قاضی محمد عبد اللہ صاحب کی حسن کارکردگی کو اچھے الفاظ میں سراہا.تحریر فرماتے ہیں: برادران! السلام عليكم خدا تعالیٰ کا فضل ہے کہ احمدیت اس وقت بڑے زور وشور سے یورپ میں پھیل رہی ہے اور ( دین حق ) کی روشن کرنیں اس روحانی طور پر تاریک قلعہ کومنور کر رہی ہیں.اللہ تعالیٰ نے چاہا تو وہ دن دور نہیں کہ ایک ہزار سالہ مسیحی قلعہ میں خدا تعالیٰ کی توحید کے نعرے لگائے جائیں.اور ہمارے بچھڑے ہوئے حق کو قبول کر کے ہم میں آملیں.مکرمی مفتی محمد صادق صاحب اور قاضی محمد عبد اللہ صاحب اس کام میں کوشاں ہیں اور خدا تعالیٰ ان کے کاموں میں برکت دے رہا ہے.چونکہ ان بھائیوں کا واپس آنا ضروری تھا خصوصاً قاضی محمد عبداللہ صاحب کا.اس لئے چوہدری فتح محمد صاحب اور

Page 185

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 184 ماسٹر عبدالرحیم صاحب کو اُن کی جگہ کام کرنے کے لئے بھیج دیا گیا ہے جو اُمید ہے کہ دو چار دن میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انگلستان پہنچ جائیں گے.66 (الفضل 9 اگست 1919 ء ص3) حضرت مفتی صاحب نے ایک مکتوب میں انگلستان میں اعلائے کلمہ حق کی روداد کا خلاصہ بیان فرمایا.یہ خط جلسہ سالانہ پر 20 دسمبر 1919 کو حضرت منشی فرزند علی خان صاحب نے پڑھ کرسنایا: دم لحمد للہ ثم احمد للہ کہ جس غرض کے واسطے حضرت مرشد صادق مهدی محمود خلیفہ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس ملک میں عاجز کو بھیجا تھا وہ گزشتہ اڑھائی سال میں برفاقت برادر عزیز قاضی عبد اللہ صاحب حسب دل خواہ حاصل ہوئی.قریب ایک صد نو مسلم ہوئے لندن کے مرکز میں سلسلہ احمدیہ کا جھنڈا گڑ گیا.بہت سے لیکچر ہوئے.رسالوں اور اخباروں میں ہماری تصاویر اور مضمون شائع ہوئے.بادشاہوں اور امیروں کو بھی پیغام پہنچایا گیا اور غرباء کو بھی تبلیغ کی گئی.ہزار ہا رسالے تقسیم کئے گئے.مباحثات ہوئے مخالفین کو چیلنج دئے گئے.مضافات میں بھی لیکچر ہوئے اور اشاعت رسالہ جات کی گئی غرض ہر طرح کا تبلیغی کام با وجود ایام جنگ کی مشکلات اور دقتوں کے جبکہ ملک میں مردوں کی شکل دکھائی نہ دیتی تھی اور گاڑیوں پر بھی عورتیں کام کرتی تھیں اور کھانے کی اشیاء بھی پورے طور پر میسر نہ آتی تھیں.ایسی تنگی اور تکلیف کے وقت میں اللہ تعالیٰ نے ہمارے مشن کو کامیاب کیا یہ اس کا فضل ، کرم، رحم، حلم اور غریب نوازی ہے.اس غفار، ستار، قدیم، کریم ، رحیم کی بخشش ہے ورنہ ہم کیا اور ہماری ہستی کیا.جو ہوا اسی سے ہوا اور آئندہ جو ہونے والا ہے اُسی سے ہے...میں نے اس ملک میں آکر بہت کچھ دیکھا ہے.اور بہت کچھ سنا ہے مگر میں آپ صاحبان کو یقین دلاتا ہوں کہ ملک انگلستان میرے خیالات اور میرے طرز زندگی میں کچھ تبدیلی نہیں کر سکا.بہتیرے میری صحبت

Page 186

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ میں تبدیل ہوئے.مگر کسی کی صحبت نے مجھے تبدیل نہیں کیا.مجھے اب بھی قادیان کی زندگی ویسی ہی پیاری ہے جیسی ہمیشہ تھی.گو حضرت خلیفہ اسیح کے حکم کے بعد میں اپنی کوئی مرضی نہیں رکھتا.میرے دل میں مطلقاً کوئی خواہش نہیں کہ میں قادیان واپس بلایا جاؤں یا یہاں رکھا جاؤں یا افریقہ یا امریکہ بھیجا جاؤں.میں نے اپنے قلب سے تمام خواہشوں کو باہر نکال دیا اور اپنے دل کے خانے کو صاف کر دیا ہے تا کہ اس میں سوائے حضرت مرشد صادق بادی دین فضل عمر نصرہ اللہ کے حکم اور خواہش کے اور کوئی شے اس کے اندر داخل نہ ہو میرا نقل و حرکت اب میرا نہیں بلکہ محمود کا ہے وہ جو چاہے اس کے ساتھ کرے اور جدھر چاہے بھیج دے.حکم محمود کے بعد مجھے نہ کسی سمندر کا ڈر ہے نہ کسی جنگل کا خوف، نہ وطن کی خواہش نہ سیر کا شوق ہے.یہ خدا کا فضل ہے اور اس کی رحمت ہے کہ اس ملک میں بھی لوگوں نے میری بہت عزت کی اور بہت سے میرے محب پیدا ہو گئے.دو کالجوں کا میں فیل منتخب ہو چکا ہوں علوم السنہ کی بیچلر کی ڈگری حاصل ہوئی ہے.دو معز ز سوسائٹیوں کی ممبری اور ایسوسی ایٹ حاصل ہوئی ہے.“ (الفضل 5 جنوری 1920ء ص 9) 185 اڑھائی سال تک لندن میں اعلائے کلمہ حق کا حق ادا کرنے والے اس مقبول داعی الی اللہ کو جماعت احمد یہ لندن نے 20 جنوری 1920ء کو الوداعی پارٹی دی جس میں شاندار ایڈریس پیش کیا اور متضرعانہ دُعاؤں سے رخصت کیا.

Page 187

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 186 باب چهارم حضرت مفتی محمد صادق امریکہ میں پہلے داعی الی اللہ و بانی احمد ید شن اللہ تبارک تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ دین حق کی تعلیمات زمین کے کناروں تک وہ خود پھیلائے گا.اس مقصد کے لئے وہ اپنے فضل سے بعض بندوں کو چن کر تو فیق کا رعنایت فرماتا ہے.1914 ء کی بات ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے حضرت مفتی صاحب کے نام اپنے ایک مکتوب میں دستِ مبارک سے تحریر فرمایا تھا کہ : آپ مسیح موعود علیہ السلام کا اینچی بن کر امریکہ پہنچیں.“ بعد میں فیصلہ انگلستان بھیجنے کا ہو گیا مگر آپ کی ارشاد فرمائی ہوئی بات 1919ء میں پوری ہوئی.11 دسمبر 1919ء صفحہ 2 پر الفضل میں ناظر صاحب تالیف واشاعت قادیان کی طرف سے یہ اعلان شائع ہوا: میں اطلاع دیتا ہوں کہ امام جماعت احمدیہ نے بغیر کسی دوسری انجمن کی شمولیت کے امریکہ میں ایک مشن بہت جلد قائم کرنے کا فیصلہ فرما لیا ہے.یہ عام طور پر معلوم ہی ہے کہ امام جماعت احمدیہ کے چار نمائندے انگلینڈ میں جناب مفتی محمد صادق صاحب.....کے ماتحت کام کر رہے ہیں اور ان کو اس وقت تک خاص انگلینڈ کے باشندوں نیز بیرونی لوگو میں تسلی بخش کامیابی ہوچکی ہے.اب ان میں سے جناب مفتی محمد صادق صاحب کو حضرت خلیفہ اسیح نے بذریعہ تار ارجنٹ حکم بھیجا ہے کہ فوراً امریکہ روانہ ہو جائیں.اس کے متعلق یہ یا درکھنا چاہیے کہ یہ مشن امام جماعت احمدیہ کی ہدایت

Page 188

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 187 کے ماتحت بھیجا جا رہا ہے اور دوسرے مشنوں کی طرح محض مذہبی ہوگا.خاکسار رحیم بخش ناظر تالیف و اشاعت حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے جلسہ سالانہ پر 27 دسمبر کو تقریر میں فرمایا: تمہیں ساری دنیا کے لیے (مربی) بنایا گیا ہے اس فرضِ (دعوت الی اللہ ) کے بھی دو حصے ہیں.اوّل اپنے مذہب والوں کو امر باالمعروف کرنا دوسرے غیروں میں (دعوت الی اللہ ) کرنا....خدا کا وعدہ ہے کہ ہم کامیاب ہوں گے اگر چہ ہم بہت کمزور ہیں مگر خدا طاقتور ہے.ہم نے افغانستان میں ایران میں مشن قائم کرنے ہیں.امریکہ کے متعلق ایک رویا میں نے پہلے سنائی تھی.اب ایک اور ہوئی ہے مفتی صاحب عنقریب انشاء اللہ امریکہ چلے جائیں گے.“ (الفضل 8 جنوری 1920 ءص7) اللہ تعالیٰ نے امریکہ میں کامیابی کی بشارت دی امریکہ جانے کا حکم موصول ہونے پر آپ نے بارگاہِ خداوندی میں استخارہ کیا تو خواب میں دیکھا کہ میں امریکہ کے کسی شہر میں ایک بڑے ہال میں لیکچر دے رہا ہوں.بہت سے مرد اور عورتیں میرا لیکچر سن کر خوشی کا اظہار کرتے رہے.جب لیکچر ختم ہوا تو بعض لوگوں نے کچھ سوالات کئے جن کے میں نے جواب دیئے اس کے بعد وہ جلسہ ختم ہوا اور سب لوگ اُٹھ کر چلے گئے مگر ایک نو جوان لیڈی بیٹھی رہی.میں نے آگے بڑھ کر اس لیڈی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ لیکچر توختم ہو گیا اور سب لوگ چلے گئے آپ کس واسطے بیٹھی ہیں.اس نے جواب دیا کہ آپ نے (دین حق ) کی صداقت پر جو تقریر کی ہے وہ مجھے بہت پسند آئی ہے اور میں اس کو تسلیم کرتی ہوں آپ مجھے بھی ( دین حق ) میں داخل کر لیں.میں نے اسے کلمہ پڑھایا اور شرائط بیعت کے کاغذ پر اس کے دستخط ا

Page 189

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ کرائے اور جیسا کہ ہر نومسلم کو کوئی اسلامی نام دیتے ہیں اس لڑکی کا نام فاطمہ مصطفی رکھا.188 (لطائف صادق ص 139 ) اسی طرح الہی بشارات اور حضرت خلیفہ المسیح کی دُعاؤں کے ساتھ 26 جنوری 1920ء کو امریکہ کے سفر کا آغاز ہوا.لندن سے Liver Pool تک محترم عبدالرحیم صاحب نیر نے ساتھ سفر کیا تا کہ اپنے بھائی کو الوداع کہ سکیں ساحل پر کھڑے ہوکر دیر تک دُعائیں کرتے رہے.اس سفر کے بابرکت ہونے کی نوید آپ کو بذریعہ رویا مل چکی تھی آپ نے آواز سنی تھی.اسلام کا درخت پھولے گا پھلے گا اور دنیا کے کونوں تک پھیلے گا.خود مفتی صاحب نے مبشر خواب دیکھے تھے.ایک خواب یہ تھا کہ جس ہوٹل میں وہ ٹھہرے ہیں اُس کے دروازے پر بڑا سا بورڈ لگا ہوا ہے جس پر لکھا ہے: ر فتح محمد بهادر خلاصہ الفضل 8 / مارچ 1920 ءص2) 28 جنوری کو بحر اوقیانوس کی سطح پر کھڑے دیو ہیکل بحری جہاز S.S.Haverford پر سوار ہوئے جسے فرانس اور کینیڈا میں ٹھہرتے ہوئے فلاڈلفیا تک جانا تھا.اللہ تعالیٰ نے اپنے مجاہد بندے کو جہاز میں بھی کام بھیج دیا.فرانس سے دو ہزار چینی اپنے وطن جانے کے لئے اسی جہاز میں سوار ہوئے.یہ جنگ کے زمانے سے رُکے ہوئے تھے ان میں کچھ مسلمان بھی تھے.حضرت مفتی صاحب کی قرآن کی تلاوت اور تفسیر سے متاثر ہوکر 7 افراد سلسلہ حقہ میں داخل ہو گئے.اس طرح سمندر سے ہی کامیابیوں کا آغاز ہو گیا.یہ جہاز 15 فروری کو (Philadelphia) فلاڈلفیا پہنچا.الفضل 3 مئی 1920 صفحه 1 ) دنیائے روحانی کا کولمبس اس ملک کو فتح کر کے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں ڈالنے کا عزم لے کر آیا تھا.آپ کے پاس تلوار نہ تھی ، دھن دولت کی چمک نہ تھی.آپ کا زاد راہ

Page 190

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 189 قادر وتو انا اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت پر مکمل بھروسہ اور توکل تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعا ئیں تھیں ، جہاد کا ولولہ تھا اور ہاتھ میں قلم تھا.امریکہ کی مذہبی حالت کو ذہن میں رکھ کر آپ کے کام کی مشکلات کا اندازہ کریں اور پھر مسلسل معجزے دیکھیں پہلے قدم پر ہی دُعا کی قبولیت کا ایک نشان ظاہر ہوا.بندرگاہ پر پہنچتے ہی ڈاکٹری معائنہ کے لئے بھیجے گئے.ان دنوں آپ کو آنکھوں میں تکلیف تھی اور خوف تھا کہ یہ تکلیف طبی لحاظ سے رکاوٹ نہ بنے.دُعا کرتے کرتے ڈاکٹر کے کمرہ میں داخل ہوئے اُس کو آپ کی پگڑی کا سبز رنگ بہت پسند آیا.اُس نے کہا کہ یہ رنگ میری بیوی کو بھی بہت پسند ہے.آپ نے پگڑی اُتار کر اُس کے میز پر رکھ دی اور کہا کہ یہ اپنی بیوی کو میری طرف سے تحفہ دے دیں اور خود دوسری پگڑی نکال کر پہن لی.ڈاکٹر نے کہا آپ تو بالکل تندرست ہیں آپ کا معائنہ کیا کرنا اس طرح اللہ تعالیٰ نے اُس کی توجہ سبز رنگ کی طرف رکھی اور یہ مرحلہ بخیر خلاصه لطائف صادق ص 139) گزر گیا.امریکہ میں داخلے سے پہلے کچھ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا.محکمہ امیگریشن نے کئی گھنٹوں تک سوالات میں الجھائے رکھا.کئی اعتراض اُٹھائے جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ کا تعلق جس مذہب سے ہے اس میں کثرت ازدواج کی اجازت ہے جو ہمارے مذہب میں ممنوع ہے.اس لئے ہم آپ کو امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے سکتے لہذا آپ واپس چلے جائیں، البتہ آپ کو اپیل کرنے کا حق ہے.اس صورت میں آپ کو الگ تھلگ مکان میں رکھا جائے گا تا آنکہ آپ کی اپیل کا کوئی فیصلہ آجائے.آپ نے جواب دیا کہ واپس تو میں نہیں جاؤں گا میں تو فاطمہ مصطفی کو مسلمان کرنے آیا ہوں اپیل کا حق استعمال کروں گا.آپ کو Ellis Island میں Philadelphia House of Detention میں ٹھہرایا گیا.جہاں سے باہر نکنے کی ممانعت تھی صرف چھت پر ٹہل سکتے تھے.اس کا دروازہ دن میں صرف دو دفعہ کھلتا تھا جب کھانا دیا جاتا.اس جگہ اور لوگ بھی بند تھے جو رفتہ رفتہ مفتی صاحب سے مانوس ہو گئے اور اُن کا

Page 191

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 190 احترام کرنے لگے.ان کی ضروریات کا خیال رکھتے.نماز پڑھنے کے لئے جگہ بھی دی.تاہم ایک آزاد پرندے کے لئے یہ حدود و قیود بہت تکلیف دہ تھے.آپ نے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا: دو جس حالت میں یہ عاجز دن گزار رہا ہے اس کی تفصیل کی سردست ضرورت نہیں.اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو آوے سب مبارک ہے.جس یار کے ہاتھوں اثمار شیر میں کھائے اُس کی خاطر کوئی تلخی اُٹھانا موجب رنج نہیں.راضی بہ قضا ہوں اور اُس کے فضلوں کا اُمید وار.دُعاؤں کے واسطے موقع مل رہا ہے.مقابلہ بہت بڑے لوگوں سے ہے مگر کچھ غم نہیں کیونکہ میرے ساتھ میرا خدا ہے اور خلیفتہ امسیح اور احباب کرام کی دُعائیں ہیں اور بزرگوں کی امداد روحانی ہے.قریباً ہر شب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام یا خلیفہ اول یا فضل عمر سے ملاقات ہو جاتی ہے.دن بھر اجنبیوں میں ہوتا ہوں الفضل 29 ابريل 1920 ء ص 7) رات بھر اپنوں میں.“ حضرت خلیفہ اسیح کی دعائیں اور پر عزم قیادت حضرت خلیفۃ اسیح آپ کی اس حالت اور امریکہ میں داخلے میں رکاوٹ سے رنجیدہ تھے مگر اپنے قادر وتو انا خدا تعالیٰ سے پر امید تھے کہ فتح بالآخرحق کی ہوگی.ایک تقریر کے دوران آپ نے جلال سے فرمایا: امریکہ جسے طاقتور ہونے کا دعویٰ ہے اس وقت تک اس نے مادی سلطنتوں کا مقابلہ کیا اور انہیں شکست دی ہو گی.روحانی سلطنت سے اس نے مقابلہ کر کے نہیں دیکھا اب اگر اس نے ہم سے مقابلہ کیا تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ ہمیں وہ ہرگز شکست نہیں دے سکتا کیونکہ خدا ہمارے ساتھ ہے ہم امریکہ کے اردگرد علاقوں میں (دعوت الی اللہ ) کریں گے اور وہاں کے لوگوں کو مسلمان بنا کر امریکہ بھیجیں گے اور ان کو امریکہ نہیں روک سکے گا اور ہم امید رکھتے ہیں کہ امریکہ میں ایک دن لا اله الا اللہ محمد

Page 192

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 191 رسول اللہ کی صدا گونجے گی اور ضرور گونجے گی“ (الفضل 15 اپریل 1920 ء ص 12) حضرت مولانا شیر علی صاحب نے ایک مضمون لکھا جس میں آپ نے امریکہ کے آزادی ضمیر ، انصاف و عدل اور برابری کے تصور اور اُن کے عمل میں تضاد پر زوردار بحث کی.نیز لکھا کہ اگر حضرت مفتی صاحب کو امریکہ میں تعلیم دین کا حق نہیں دیا گیا تو امریکیوں کو ہندوستان میں کیوں یہ حق دیا جائے.دینِ حق تو دنیا میں پھیلنے کے لئے ہے اور ضرور پھیلے گا.اُسے کسی امریکی کی مدد کی ضرورت نہیں.اللہ قومی وقادر اسے پھیلائے گا.(خلاصہ از ریویو آف ریلیجنز ا پریل مئی 1920 ء) زحمت میں رحمت اللہ قادر و توانا کی قدرت کے نظارے اپنے پیاروں کے ساتھ تائید و نصرت بن کر رہتے ہیں.ساحل پر ایک ہندوستانی مشنری کو روکا گیا یہ واقعہ اخبار والوں کے لئے رپورٹنگ کا اچھا موضوع بنا.ایک نو وارد کو تو ابھی علم اور تجربہ بھی نہیں تھا کہ تشہیر کی کون سی صورت سے کام نکلنے کے سامان ہوں گے اور اگر ہوتا بھی تو زر کثیر صرف کرنے سے ہوتا.اخبار گھر گھر جاتے اور احمدیت کا تعارف کرواتے اور ساتھ ہی ایک احمدی کی آمد کے اغراض و مقاصد بھی بتاتے.اُس وقت درج ذیل اخبارات نے یہ خبریں دیں: The Philadelphia Record, Public Record, North Americian Buletin Evening Buletin, The Press, Public Ledger.ایک نمونہ ملاحظہ کیجئے.The Press نے طویل خبر دی:.جیسا کہ امریکہ کے مختلف مذہبی فرقے اپنے مذہب کی اشاعت کے لئے ہزاروں لاکھوں روپیہ ہر سال خرچ کرتے ہیں اور دنیا کے دور دراز ملکوں اور خطوں میں اپنے فلاسفر اور پادری مسیح کے مذہب کی تبلیغ اور اشاعت کے لئے بھیجے جاتے ہیں.تبت کے وحشت ناک جنگلوں میں ، عرب اور ہندوستان کے گرم ریگستانوں میں اور افریقہ اور چین کے غیر آباد اور دشوار گزار راستوں میں پادریوں کی آواز سنائی دیتی ہے.اسی طرح مفتی

Page 193

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ محمد صادق بے یار و غمگسار ہزاروں میلوں کا سفر طے کر کے امریکہ میں اپنی مذہبی جنگ شروع کرنے کے لئے پہنچے ہیں اور ان کو امید ہے کہ وہ امریکہ کے لوگوں کو ان اصولوں کی طرف کھینچ لائیں گے جو کہ احمد نبی نے جس کے وہ مرید ہیں اس زمانے میں دنیا کو سکھائے.مفتی محمد صادق کے ارادوں میں اس سلوک نے جو امریکہ نے کیا، تزلزل نہیں پیدا کیا اور وہ بے چین ہیں کہ جلدی سے جلدی اپنا لیکچر شروع کریں.وہ امریکہ کے لوگوں کو اس امن پسند مذہب کے اصولوں کی طرف رہبری کریں جو کہ احمد نبی ، بروز محمد نے اس زمانے میں لوگوں کو سکھایا.صادق جو کہ قادیان پنجاب کے باشندہ ہیں ، ایک فلاسفر ہیں اور ایک تجربہ کار اور بلند ہمت اور پختہ ارادوں کے انسان ہیں.نہایت شائستہ اور مہذب ہیں جو کہ تعلیم یافتہ لوگوں کا خاصہ ہے.اپنے مذہب کو پریس کے رپورٹر کے سامنے پیش کیا اور کہا کہ میں نے تین سال داعی الی اللہ کی حیثیت سے لندن میں کام کیا.وہاں میں نے بہت لیکچر دیئے.بہت سے لوگوں کو احمدی بنایا.احمد نبی جو کہ اس سلسلہ کے بانی تھے 1835ء میں پیدا ہوئے تھے.1888ء ( نقل مطابق اصل ) میں انہوں نے اپنے کام کو شروع کیا.1908ء میں جبکہ ان کے ماننے والوں کی تعداد دو لاکھ سے تجاوز کر چکی تھی.فوت ہوئے.احمد ایک پیغمبر اور رسول کا منصب رکھتے تھے اور قرآن پاک کو خدا کی کتاب یقین کرتے تھے.ان کا دعویٰ تھا کہ خدا اُن سے کلام کرتا ہے اور اُس نے دنیا کی اصلاح کے لئے مسیح کا منصب دے کر مبعوث کیا ہے.آپ نے بہت سی پیشگوئیاں کیں جو کہ اپنے وقت میں پوری ہوئیں.انہوں نے ان پیشگوئیوں اور ان کے علاوہ اور معجزات کو جو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھ پر ظاہر کئے اپنے منجانب اللہ ہونے کا ثبوت پیش کیا.میں 8 سال ان کی صحبت میں رہا ہوں.انہوں نے خطرناک جنگ اور زار روس کی قابل رحم اور ابتر حالت کی نسبت بھی ان واقعات کے وقوع سے دس سال 192

Page 194

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ پہلے پیشگوئی کی تھی اور اس کو چھاپ کر دنیا میں شائع بھی کر دیا.انہوں نے ہندوستان میں طاعون کے متعلق پیش گوئی کی تھی اور بہت سے اہم واقعات کے متعلق مختلف پیشگوئیاں کیں جو کہ اپنے وقت میں پوری ہوئیں.انہوں نے شکاگو کے ڈاکٹر ڈوئی سے مقابلہ بھی کیا تھا اور دنیا کو بتایا تھا کہ چونکہ ڈاکٹر ڈوئی ایک مفتری انسان ہے اس لئے جلد ہی ہلاک ہو جائے گا.چنانچہ امریکہ نے اس کی ہلاکت کو دیکھا.“ الفضل 15 را پریل 1920ء ص 3,4) 193 ایک طرف اخبارات میں ان خبروں اور تبصروں نے آپ کے مشن کے لئے زمین ہموار کی دوسری طرف آپ نے قرنطینہ میں موجود احباب کو دعوت الی اللہ کا فریضہ ادا کرنا شروع کر دیا.اللہ تعالیٰ کے فضل سے 9 احباب نے آپ کی دعوت قبول کر لی ان میں ہر رنگ ونسل کے لوگ تھے جن کا تعلق جمیکا، برٹش گی آنا، پولینڈ، رشیا، جرمنی ، از ورز (Azores)، بیلجیم ، پرتگال، اٹلی اور فرانس سے تھا.گویا اس گوشہ تنہائی میں آدھی دنیا آپ کے سامنے حاضر کر دی گئی جن کو پیغام حق دے کر آپ کی تسکین روح وقلب کے سامان ہوئے.پہلا شخص جس نے دین حق قبول کیا Mr.R.J.Rochford تھے جن کا نام حمید رکھا گیا.(سن رائز جولائی 1921 ء ص 12) ان کامیابیوں کی خبریں حکام کے لئے پریشان کن تھیں.آخر 3 مئی 1920 ء کو آپ کو سیکرٹری آف سٹیٹ کے حکم سے امریکہ میں داخل ہونے کی اجازت دے دی گئی.آپ نے نیو یارک سٹی سے کام کا آغاز کیا آپ کا ہیڈ کوارٹر Madison Avenue 1897 پر تھا.مئی کے مہینہ میں بارہ افراد نے قبول حق کی سعادت پائی جن میں چھ افراد پہلے عیسائی اور چھ مسلمان تھے.(النحل 1996USA حضرت مفتی محمد صادق نمبر ص 30) یہاں ایک دلچسپ اعتراض کی وجہ سے آپ کو مکان تبدیل کرنا پڑا.ایک دن دروازے کے شیشے سے کسی خاتون نے آپ کو نماز پڑھتے دیکھ لیا.اس نے جا کر مکان کی مالکن کو بتایا کہ جس کو تم

Page 195

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 194 نے مکان کرایہ پر دیا ہے وہ کوئی جادوگر ہے عجیب و غریب حرکتیں کرتا ہے فور امکان خالی کروالو ورنہ نقصان اُٹھانا پڑے گا.مالکن نے بھی چھپ کر دیکھا اور نماز کو کوئی شعبدی بازی سمجھا لہذا باصرار (خلاصہ لطائف صادق ص138) مکان خالی کروالیا.اس کے بعد جو مکان کرایہ پر لیا اُس میں ایک ہال بھی تھا.اسی ہال میں آپ نے لیکچرز کا آغاز کیا.مقامی اخباروں میں اشتہار دیے.پہلے ہی لیکچر کے بعد سوال جواب کا سلسلہ شروع ہو گیا اور پھر سب اُٹھ کر چلے گئے.صرف ایک خاتون بیٹھی رہیں.حضرت مفتی صاحب کو اپنا خواب یاد آ گیا جا کر پوچھا کہ آپ کیوں بیٹھی ہیں؟ انہوں نے جواب دیا مجھے آپ کی تقریر بہت پسند آئی ہے میں مسلمان ہونا چاہتی ہوں.مفتی صاحب نے بیحد خوشی کا اظہار کیا اور انہیں بتایا کہ میں آپ کو پہلے ہی خواب میں دیکھ چکا ہوں.آپ نے اُس خوش نصیب کا نام فاطمہ مصطفی رکھا.پہلے اُن کا نام Mrs.S.W Sobolewski تھا.لیکچرز کے ساتھ خطوط لکھنا، لٹریچر دینا، اخبارات میں مضامین لکھنا سر را ہے ملاقات سے راہ و رسم بڑھا کر پیغام دینا آپ کے خاص خاص ہتھیار تھے.4 جون 1920ء کی رپورٹ کے مطابق آپ کو 29 پھل مل چکے تھے.اکتوبر 1920ء میں مفتی صاحب نیو یارک سے شکا گومنتقل ہو گئے.اس شہر کو زیادہ مرکزی حیثیت حاصل تھی.حضرت مفتی صاحب امریکہ میں قیام کے پہلے سال کے متعلق تحریر فرماتے ہیں: ترجمہ :.دین حق کے مقصد سے امریکیوں سے رابطہ کا یہ پہلا تجربہ تھا.اس لئے ان تمام دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا جو پہلی کوشش کرنے والوں کو در پیش ہوتی ہیں.میرے سامنے کوئی مثال نہ تھی اس لئے بہت سا وقت ہیڈ کوارٹرز کے انتخاب اور تبدیلی میں اور پھر امریکیوں تک رسائی کے طریقوں کی تلاش کی نذر ہو گیا.میں دعویٰ نہیں کرتا کہ میں نے کوئی عظیم کارنامہ سرانجام دیا ہے مگر مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے امید ہے کہ

Page 196

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ بعد میں آنے والے داعیان الی اللہ کے لئے بہت سی راہیں ہموار کر دی ہیں اور اس تمام علاقے میں سچائی کا ایسا بیج بود یا ہے جو اپنے وقت پر بڑھے گا اور مضبوط تناور درخت بن کر ہزاروں کے لئے رزق اور سایہ فراہم کرے گا اور لاکھوں کروڑوں تک حق کا پیغام پہنچائے گا.پچھلے بارہ مہینوں میں میں نے نیویارک، شکاگو، ڈیٹرائیٹ Dowagia (M) Siouxسٹی اور فالز وغیرہ شہروں میں پچاس لیکچرز دیے ان سب کے لئے اخبارات میں پہلے اشتہارات چھپوائے.پچھلے پندرہ مہینوں میں موصول ہونے والے خطوط کی تعداد 4000 تھی جبکہ بھیجے جانے والے خطوط کی تعداد 15000 تھی اس خط و کتابت میں تعاون کے لئے James Sodick ، یوسف خان ، شیخ عبدالله (J.L.Mott) اور محترمہ بہن راحت اللہ کا شکر گزار ہوں.“ (استفاده.سن رائز 1-1921 ء ص 12 تاص 14) 195 آپ نے اپنے قیام کے پہلے سال اخبارات میں مضامین کے ذریعے دین حق کی تعلیمات عوام تک پہنچانے کا طریق بھی استعمال فرمایا.قریباً 20 مضامین لکھے جو مختلف اخبارات اور جریدوں میں طبع ہوئے.سب سے اہم The New York Times تھا.اُس زمانے میں جو سنی مسلم احباب امریکہ میں مقیم تھے اُنہوں نے ڈیٹرائٹ میں اپنا مرکز بنایا ہوا تھا اور کچھ تنظیمیں بھی کام کر رہی تھیں مگر عملاً ست رو تھیں.حضرت مفتی صاحب نے شان کے ساتھ دین حق کا نام بلند کیا تو اُن کو خوشی ہوئی اور نیا حوصلہ ملا.امریکی مسلمانوں کو نصائح آپ نے ایک تقریر کی جس کا موضوع تھا My Advice to Mohammadans in America یه مضمون سن رائزا اکتوبر 1921ء میں شائع شدہ ہے.

Page 197

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 196 اس میں تحریر تھا کہ یونائیٹڈ سٹیٹس میں ہزاروں مسلمان ہیں جو البانیہ ، بوسنیا، سربیا، سیر یا، فلسطین، انڈیا، کردستان اور ترکی سے یہاں آکر آباد ہوئے ہیں.ان کے صرف نام اسلامی ہیں.ان کے کلچر میں اسلام کا کوئی عمل دخل نہیں اس لئے آپ نے انہیں درج ذیل مشورے دیئے : 1 - اسلامی نام قائم رکھیں.2.روزانہ نماز ادا کریں.3.عربی زبان پڑھیں لکھیں اور بولیں جو اسلام کی زبان ہے.4 اپنے بچوں کو اچھا مسلمان بننا سکھا ئیں.5.سیونگ بنگ اکاؤنٹ کا سود اسلام کی اشاعت پر خرچ کے لئے دیں.6.ہر شہر میں مسجد بنا ئیں.7 - اسلام کا پر چار کریں.8 - احمد یہ جماعت میں شامل ہو جائیں.اس تقریر کے بعد آپ نے اور ایک عربی اخبار السیرت کے ایڈیٹر مسٹر موہن نے مل کر ایک سوسائٹی بنائی جس کا مقصد امریکہ میں اسلام کا دفاع کرنا تھا.مفتی صاحب اس کے پریذیڈنٹ اور مسٹر موہن اس کے سیکرٹری منتخب ہوئے.حضرت مفتی صاحب کے کام کی نوعیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں مقامی لوگوں کو دین حق سے واقفیت ہی نہیں تھی اور اگر تھی بھی تو غلط فہمیوں میں ملوث بگڑی ہوئی مسخ شدہ صورت تھی.آپ نے سب سے پہلے دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اصل شکل دکھانے کے لئے ایک دس نکاتی فارمولا مرتب کیا: 1.جن کو آپ محمڈن کہتے ہیں وہ محمد " کو خدا انہیں سمجھتے بلکہ ایک انسان ، نبی اور سب نبیوں سے افضل مانتے ہیں.

Page 198

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 197 2.جن کو آپ محمڈن کہتے ہیں وہ خود کو مدن نہیں کہتے یہ اُن کا اصل نام نہیں ہے.ان کا اصل نام جواُن کو اللہ تعالیٰ نے عنایت فرمایا ہے مسلم ہے جس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار.3- اسی طرح ہمارے مذہب کا نام محمدن ازم نہیں ہے.اسلام کا مطلب امن اور خدا تعالیٰ کی رضا کے مطابق عمل کرنا ہے.-4.مسلم کبھی بھی محمد کی پرستش نہیں کرتے.بلکہ محمد کے خدا کی پرستش کرتے ہیں.اُسی واحد خدا کی جس کی حضرت ابراہیم ، حضرت الحق ، حضرت اسماعیل، حضرت موسیٰ حضرت داؤد اور حضرت عیسی علیهم السلام عبادت کرتے تھے.عربی میں گاڈ کواللہ کہتے ہیں.5- مسلمان ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ واحد ہے، لاشریک ہے.اُس کے ماں باپ بہن کوئی نہیں اُس کو بیٹے بیٹی یا بھائی کی کوئی ضرورت نہیں.6.مسلمانوں کا ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بخشش بے شمار ہے.بخشش کے لئے کسی دوسرے کی قربانی کی ضرورت نہیں اُس کی طاقت لا انتہا ہے.وہ بخشش اور نجات کا سر چشمہ ہے.7 - اسلام کبھی بھی تلوار سے نہیں پھیلا تھا.حضرت رسول اکرم نے اپنے بچاؤ میں تلوار کا جہاد کیا.8- اسلام میں روحانی ترقی کے لئے مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں.اسلام میں اولیاء اللہ میں مرد اور عورتیں دونوں شامل ہیں.9.حضرت عیسی علیہ السلام کی پیدائش بھی بابرکت اور وفات بھی بابرکت تھی.وہ کبھی بھی صلیب پر لعنتی موت نہیں مرے.بلکہ زندہ اُتار لئے گئے.وہ بیہوش تھے.پھر ہوش میں آئے.چالیس دن تک اپنے دوستوں کے ساتھ کھایا پیا.پھر وہ ملک چھوڑ دیا اور مشرق کی طرف سفر کیا 120.سال کی عمر میں وفات پائی اور انڈیا کے شمالی حصہ کشمیر میں مدفون ہیں.10 - حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد ثانی اُسی 1900 سالہ جسم کے ساتھ نہیں ہوگی بلکہ جس طرح

Page 199

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 198 عالی جاہ جون بیٹسٹ (Baptist) کی شکل اور طاقت لے کر آئے اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام بھی حضرت احمد علیہ السلام کی شکل اور پیغام کے ساتھ انڈیا میں دوبارہ تشریف لا چکے ہیں.وہ جو سکنے کے کان رکھتا ہے سن لے.حضرت مفتی صاحب کو ایک دفعہ پھر اپنا ہیڈ کوارٹر تبدیل کرنا پڑا.اب وہ مشی گن کے علاقے Highland Park میں منتقل ہو گئے.یہ ڈیٹرائٹ کے قریب ہے اس جگہ کو کراؤب ہاؤس کہا جاتا ہے.Karoub House دراصل امریکہ میں بننے والی پہلی مسجد تھی جو 55,000 ڈالر لاگت سے بنوائی گئی تھی.یہ مسٹر حسین کراؤب نے بنوائی تھی بعد ازاں بعض حالات کی وجہ سے اسے فروخت کرنا پڑا.یہ مسجد جماعت احمدیہ کے کام آئی.اس کا ایڈریس تھا: 74, Karoub House, Victor Avenue, Highland Park (MI.سلسلہ نقار پیر اورسوال وجواب سلسلہ احمدیہ ہرا تو ارکو 3 بجے مکان نمبر 4334 ایس ایوی نیو میں مفتی محمد صادق صاحب احمدی مشنری دین حق اور مشرقی مضامین پر لیکچر دیتے ہیں داخله عام سوالات کی اجازت امریکہ کے اخباروں میں یہ چھوٹا سا اشتہار چھپتا.شائقین متوجہ ہوتے اور اتوار کے اتوار پر

Page 200

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 199 رونق ہال میں احمدی مربی علم و عرفان پر مشتمل تقریر کرتا.ملائکۃ اللہ قلوب میں اثر پیدا کرتے اور قبول حق کے لئے زمین ہموار کرتے.تقاریر کے چند موضوع دیکھئے: 7- نومبر فضائل قرآن 8 نومبر سوانح حضرت احمد علیہ السلام 21 نومبر دین حق کی خوبیاں 28 نومبر نماز 5- دسمبر بائبل اور قرآن 12 دسمبر کو ہونے والے لیکچر میں حاضرین کی تعداد میں یک دم بہت اضافہ ہو گیا اس کی وجہ ایک دلچسپ واقعہ تھا.ہوا یوں کہ آپ نے سر را ہے ایک گرجا پر لکھا ہوا نام پڑھا Church of Love نام کے نئے پن نے متوجہ کیا اندر داخل ہو گئے.وہاں ایک ایسے صاحب سے ملاقات ہوگئی جو پہلے کبھی آپ کا لیکچرٹن چکے تھے انہوں نے ناظم گر جا سے تعارف کروایا.ناظم صاحب نے حضرت مفتی صاحب سے درخواست کی کہ آج ہمارے گرجا کا افتتاح ہے آپ بھی کچھ ارشاد فرمائیں.ہماری خواہش ہے کہ گر جائے محبت کا افتتاح آپ کے وعظ سے ہو.حضرت مفتی صاحب تو ایسے مواقع سے فائدہ اٹھانا خوب جانتے تھے.اپنے وعظ میں حقیقی محبت کے لائق اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دی اور حضرت احمد علیہ السلام سے اللہ تعالیٰ کے زندہ تعلق اور وحی و الہام کا ذکرفرمایا.ایک پادری صاحب نے متاثر ہو کر اپنے کام سے استعفیٰ دے دیا کہ الوہیت مسیح بے کار ہے.اس لیکچر کے بعد سے نہ صرف گر جائے محبت کے بہت سے سامعین آپ کے لیکچر میں آنے لگے بلکہ آپ کو بھی ہفتہ میں ایک بار گر جا میں خطاب کا موقع ملتا رہا.5دسمبر سے 21 جنوری تک احمدیہ ہال میں آپ کی نو نقار یر اور چھ تقاریر Church of Love میں ہوئیں.

Page 201

200 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 15 فروری 1921ء کو آپ نے عیسائی دنیا کو ایک چیلنج دیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے عیسائی وفد کو مسجد نبوی میں عبادت کی اجازت دے کر اخلاق اور مذہبی رواداری کی اعلیٰ مثال قائم فرمائی تھی.آج میں عیسائیوں کو چیلنج دیتا ہوں کہ اگر حوصلہ ہے تو مجھے اپنے گرجا میں نماز Information پڑھنے کی اجازت دیں مگر پادریوں نے صاف انکار کر دیا.(الفضل 25 / مارچ 1921ء ) پادریوں کے منہ سے انکار کے الفاظ سننا ہی مقصود تھا.خلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا تب آسان نہیں.تائید و نصرت الہی کی ہوائیں غلام احمد کے غلام کے ساتھ تھیں جو پیغام درویش احمد پر لے کر تیزی سے چل رہی تھیں.امریکہ میں ایک دفتر معلومات تھا Bureau Washington D.C جس سے امریکہ کے بارے میں ہر قسم کی معلومات حاصل کی جاسکتی تھیں.ایک دن مفتی صاحب کو اس دفتر کی طرف سے خط ملا کہ ہمیں اپنے مستقل پتے سے آگاہ کریں ہمارے پاس اسلام کے متعلق معلومات کے لئے بے شمار خطوط آ رہے ہیں ہم انہیں آپ سے پوچھ کے جواب دینا چاہتے ہیں.اس طرح آسانی کے ساتھ تعارف میں وسعت پیدا ہوئی.خدا آپ کو بہت ڈگریاں دے گا حضرت مفتی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ایک مرتبہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بی.اے کا امتحان پاس کرنے کی اجازت چاہی تا ڈگری ہاتھ آجائے.حضور نے فرمایا: مفتی صاحب! آپ کو ڈگریاں حاصل کرنے کی ضرورت نہیں خدا آپ کو بہت ڈگریاں دے گا.“ حضرت اقدس عالیشام کی یہ پیشگوئی اس طرح پوری ہوئی کہ آپ کو امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں سے متعدد ڈگریاں اور اعزاز حاصل ہوئے: • Doctor of Literature, Lincoln Jefferson University Chicago.• Doctor of Divinity, The College of Divine Metaphysics.St.Louis, MO.Doctor of Orientalistic Sciences, Oriental University of Washington DC.

Page 202

201 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ Doctor of Law, Oskaloosa College.Member of the Press Congress of the World, Columbia, USA.• Diploma of the Mental Science.Rochestetr Minn., USA.Doctor of Divinity کی ڈگری خاص طور پر قابل ذکر ہے جو حضرت مفتی ص پہلے کسی غیر عیسائی کو نہیں دی گئی تھی.( تاریخ احمدیت لا ہور از شیخ عبدالقادر ص 84,83 ) جیفرسن یونیورسٹی شکا گو نے آپ کی علمی لیاقت اور خدمات برائے بہبودی خلق کو تسلیم کرتے ہوئے ڈاکٹر آف لٹریچر کی ڈگری دی.مسلم سن رائز کا اجراء الفضل 28 / مارچ 1921 ءص2) جولائی 1921ء میں امریکہ سے پہلا دینی رسالہ جاری کیا گیا.ابتدا میں یہ سہ ماہی تھا.اس رسالے کے اجراء کے ساتھ حضرت مفتی صاحب کی کس قدر دُعائیں شامل تھیں اس کا اندازہ لگائیے ، لکھتے ہیں: ”جب میں لندن سے امریکہ بھیجا گیا تو میں نے تین دعائیں کیں ایک مخلص جماعت نومسلموں کی مجھے عطا ہو.ایک بیت الذکر بنانے کی توفیق ہو.ایک رسالہ جاری کرنے کے سامان مہیا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے باوجو د سخت مشکلات کے تینوں دعائیں قبول ہوئیں.مخلص جماعت پہلے ہی سال مل گئی رسالہ دوسرے سال جاری ہو گیا " اور بیت الذکر اور مکان تیسرے سال تیار ہو گئے.“ ( تحديث بالنعمة ص 10) اس رسالے کا نام اور ٹائٹل (لوح) کا بنیادی خیال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ارشاد سے اخذ کیا گیا.آپ سے ایک دفعہ پوچھا گیا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام اس وقت آئے گا جبکہ سورج مغرب سے نکلے گا آپ نے فرمایا: یہ تو ایک طبعی طریق ہے کہ سورج مشرق سے نکلتا ہے مغرب میں غروب ہوتا ہے اس میں تبدیلی نہیں ہو سکتی.مراد اس سے یہ ہے کہ مغربی لوگ اس زمانے میں دین

Page 203

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 202 اسلام کو قبول کرنے لگ جائیں گے.“ اس حدیث اور آپ کے مفہوم کو پیش نظر رکھ کے رسالے کا نام مسلم سن رائز یعنی طلوع شمس الاسلام رکھا اور اس کے سرورق پر امریکہ کا نقشہ بنا کر اس پر سورج چڑھتا ہوا دکھایا گیا.حضرت مصلح موعود کا پیغام (ذکر حبیب ص 5) اس کا پہلا سہ ماہی پر چہ جولائی 1921ء میں تین ہزار کی تعداد میں چھپا جو مفت تقسیم کیا گیا.اس شمارے میں حضرت مصلح موعودؓ کی پورے قد کی تصویر کے ساتھ آپ کا پیغام شائع ہوا: GREETINGS The pioneers in the colonization of Amercian land are always looked back upon with great honor and respect.Their work was temporal but now, my dear Brothers and Sisters, Allah the Almighty has made you the pioneers in the spiritual colonization of the Western world.If you will work with the same love, zeal, sincerity and loyalty as they did, your honor and respect and name will be still greater than their's, as you will have moreover the reward at the last day and Allah's pleasure, the grandeur and beauty of which no one can estimate here in this world.Mirza Mahmud Ahmad امریکی اخبارات میں مشن اور میگزین کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دُعاؤں سے برکت یافتہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی کاوشوں سے امریکہ میں پہلے پہل جو ارتعاش پیدا ہوا اور دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے واقفیت بڑھی، اس کا اظہار ان کے اخبارات کے درج ذیل تراشوں سے بخوبی ہو جاتا ہے جو میگزین سن رائز کے جولائی کے شمارہ سے لئے گئے ہیں:

Page 204

203 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ Free Press, Detroit "That Highland Park is to be the centre of Mohammadanism in the Western World was indicated Friday when the first issue of the 'Moslem Sunrise', a monthly magazine devoted to missionary work among English speaking people, was circulated by Dr.Mufti Mohammad Sadiq, 74 Victor Avenue.Dr.Sadiq is the head in Amercia of the Ahmadia Movement or the missionary work of Islam which is under the direction of Mirza Bashir ud-Din Mahmud Ahmad of Qadian, Punjab, India." News, Detroit "Detroit is to be the centre for the teaching in Amercia of the Ahmadia Movement of the Moslem faith.This movement is described as a reformed Mohammadanism, with Dr.Mufti Sadiq, formerly of India, as its apostle to Amercia.Dr.Sadiq will publish the first Moslem paper in English in Amercia.It is the 'Moslem Sunrise' and appears in July.It will serve as a medium to explain Mohammadanism to the non-believers and to link the English-speaking Moslems in Amercia into a closer unity, Dr.Sadiq says." Bremen Inquirer "The first Moslem Missionary to Amercia speaks faultless English and is a brilliant conversationalist.Concerning his religion he says: "Islam is no new religion.Islam means obeying the will and commandments of God.It is a continuance of that great religious system started by Abraham and followed by Moses, David and Jesus.worship none, but one God.He is the only God, God of the forefathers.Mohammad is the latest exponent of that religious system.He cleared whole Arabia from idol worshipping.We believe and respect all the prophets of all the religions but take Mohammand as the Master-Prophet, and the Quran as the latest sacred book of law from God.Mohammadan never take Mohammad as God.Mohammad was a man-prophet, a great teacher.Revelation from

Page 205

204 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ God never ceases.God is God of all ages, all nations and all countries.As He spoke to holy men in the days of old, so He does even now.Thus He spoke recently to the Prophet Ahmed of Islam in India who spoke many prophecies including those about the great war and the dethronement of the Czar of Russia.He founded the Ahmadiya Movement, called after his name.We are preparing an English translation of the Holy Quran." Times (Toledo) Dated July 12, 1921 "Handsome automobiles continue to drive up to the humble dwelling where Dr.Sadiq is a guest and many....remain for long periods in consultation with the gentleman from India.His personality and charm merit their acquaintance even though his faith may not attract the occidental mind, say those who have met him.He has been lending books on Islam to his callers and receives his visitors daily from 4 to 8 P.M." Times (Toledo) Dated July 12, 1921 (published Hazrat Mufti Sahibs photo with a long description of Islam) "If you see a more or less venerable gentleman wearing a vivid green turban on Toledo streets this week, make obeisance.It is none other than Dr.Mufti Muhammad Sadiq.....On the visiting card of Dr.Sadiq appears the Mohammadan Motto in Arabic and beneath is the translation, there is none adorable but God and Muhammad is Messenger of God.We are unitarians in the strictest sence, the Doctor explained.That is, we do not believe in the Trinity.We believe in a future life and that no soul shall ever come to naught.We do not believe in transmigration of soul...." ان خبروں سے مسلم حلقوں میں خوشی کی ایک لہر دوڑ گئی.بلا تعصب اس کو اُمت کی آواز سمجھا گیا اور جوش و خروش سے پزیرائی ہوئی.محترم حاجی غازی الدین محمد یوسف صاحب نے جونا گڑھ سے لکھا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسد اللہ الغالب بنایا ہے.یہ سورج مغرب

Page 206

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالی عنہ 205 سے طلوع ہوا ہے جس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے پیشگوئی فرما دی تھی.محترم سید حسین خان صاحب نے تہران ایران سے لکھا: ( سن رائز | |-1923ء) ددسن رائز کے بہت سے مضامین ترجمہ کر کے ایرانی اخبارات میں چھپتے ہیں.ہم خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ آپ کی تنظیم اور میگزین نہ صرف امریکہ میں روشنی پھیلا رہے ہیں بلکہ ہم فخر سے کہہ سکتے ہیں کہ ان سے ساری دنیا کے سارے ملکوں میں اُجالا ہو رہا ہے.میری خدا سے دُعا ہے کہ آپ کی تنظیم سے نہ صرف امریکہ میں بلکہ دنیا میں ہر طرف حق کا نور پھیل جائے.(سن رائز 11-1923ء) انڈیا کے ایک رسالہ صوفی نے فکر انگیز مضمون لکھا جس کا کچھ حصہ درج ذیل ہے: احمدی جماعت کوشش کر رہی ہے کہ وہ دنیا کے تمام حصوں میں اپنے ملک کی تعلیم و اشاعت کا کام جاری کر دیں.چنانچہ چین، افریقہ، آسٹریلیا وغیرہ میں ان کے مشنری کام کر رہے ہیں اور امریکہ میں بھی ان کے مربی ڈاکٹر مفتی محمد صادق نہایت محنت سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں.امریکہ میں انہیں قدم رکھے دوسرا سال ہے لیکن اس قلیل زمانہ میں انہوں نے وہاں کافی مقبولیت حاصل کر لی ہے.اور تقریباً سو (100) آدمی وہاں (احمدی ) ہو چکے ہیں.انہوں نے وہاں سے شمس الاسلام ( ایک سہ ماہی رسالہ) بھی جاری کیا ہے جس کی پہلی اشاعت جولائی 1921ء سے کی گئی.اس کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر محمد صادق صاحب نے امریکہ میں کن کن مصائب کو برداشت کیا اور ابتداء ہی میں وہ کن مشکلات میں گھر گئے لیکن چونکہ عزم مستقل تھا اور ہمت استوار اس لئے مصیبتوں کا بادل چند دن میں ہٹ گیا اور کامیابی کی شعائیں نمودار ہونے لگیں.

Page 207

حضرت مفتی محمد صادق عضی اللہ تعالیٰ عنہ تجربہ نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ یورپ و امریکہ اشاعت اسلام کے بہترین میدان ہیں اور اگر کوئی شخص وہاں اسلام کی صحیح تعلیمات پیش کرے اور مسیحی دنیا میں جو شبہات اسلام کے متعلق پائے جاتے ہیں ان کو دور کر دے تو کامیابی بہت آسان ہے لیکن افسوس ہے کہ ہندوستان کی جماعت اسلام ( جسے دنیا کی سب سے بڑی جماعت اسلام ہونے کا فخر حاصل ہے ) اس سے بالکل غافل ہے اور علماء کا گروہ مطلقاً اس طرف توجہ نہیں کرتا.اس وقت ہم اس کے اسباب پر غور کر کے تفصیل بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتے کیونکہ اس صورت میں ہمیں بہت سے تلخ تجربات اور ناخوشگوار واقعات سے بحث کرنی پڑے گی.تاہم احمدی جماعت کی اس قوت عمل کو ایک نمونہ کی صورت میں ضرور پیش کرنا چاہتے ہیں جو بہترین درس عمل ہے.شمس الاسلام کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ میں خالص احمدی معتقدات کی تعلیم ہو رہی ہے اور وہاں کی آبادی جو اس وقت تک اسلام کی تعلیمات ہی سے ناواقف تھی اور جو فی الحال کسی طرح احمدی و غیر احمدی تعلیمات میں کوئی امتیاز پیدا نہیں کر سکتی.نہایت سرعت کے ساتھ قادیانی ہوتی جارہی ہے.ہر چند یہ بھی غنیمت ہے کہ ایک مسیحی قادیانی ہی ہو کر مسلمان ہو جائے لیکن ضرورت تھی کہ ہمارے ہاں جمیعت علماء اس ضرورت سے فائدہ اُٹھاتی اور اسلام و مسیحیت کے درمیان اس بیچ کے درجہ کو بھی ہٹا دیتی لیکن چونکہ اس کی کوئی امید نہیں اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ ہم اس جماعت کی کامیابی سے خوش نہ ہوں.یہ رسالہ احمد یہ موقف کے بیان اور اسلام پر اعتراضات کے جوابات کی نہایت مؤثر صورت ثابت ہوا.وہ دردمندانہ دُعا ئیں جو اس کے جاری کرتے وقت حضرت مفتی صاحب نے کی تھیں در مولیٰ پر مقبول ہوئیں.یہ رسالہ اب تک امریکہ سے مختصر وقفوں 206

Page 208

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 207 کے بعد پوری آب و تاب سے نکل رہا ہے.اللہ تعالیٰ مفتی صاحب کے اس صدقہ جاریہ کو بہتوں کی ہدایت کا باعث بنائے.آمین.“ الفضل 16 مارچ 1922 ص 8) سن رائز سے دعوت الی اللہ میں خاطر خواہ تیزی آگئی.اجراء کے بعد پہلے تین ماہ میں 646 خطوط موصول ہوئے اور 2800 ارسال کئے گئے.خطوط کے ساتھ حسب ضرورت لٹریچر اور سن رائز کی کاپی رکھ دی جاتی.ایسے خطوط بھیجنے کے مواقع اس طرح تلاش کئے جاتے کہ اعلیٰ شخصیات کی تقریبات کی کوئی خبر چھپتی تو اُس کے حوالے سے ایک صورت بنا کر لٹریچر بھیج دیا جاتا جس سے خط و کتابت کا ایک سلسلہ نکلتا اور سلسلہ کا تعارف ہو جاتا.امریکہ کی اہم لائبریریوں میں بھی لٹریچر بھیجا جاتا.فرضی مکالمہ حقیقت کو آئینہ امریکہ میں داخل ہوتے وقت آپ کو جو مشکلات پیش آئی تھیں انہیں ذہن میں رکھ کر آپ نے ایک دلچسپ فرضی مکالمہ Sunrise میں شائع کیا جو کئی پہلوؤں سے حقیقت حال کو آئینہ دکھاتا ہے ترجمہ درج ذیل ہے: اگر مسیح علیہ الصلواۃ السلام جن کا جسم سری نگر ہندوستان میں آرام فرما رہا ہے اور جن کی روح دوسرے انبیاء کے ساتھ بہشت میں ہے.موجودہ ایام میں زندہ ہوتے اور امریکہ تشریف لانے کا ارادہ فرماتے تو ان کے ساتھ محکمہ داخلہ ملک کی طرف سے کیا سلوک کیا جاتا.ذیل میں اس گفتگو کو درج کرتے ہیں جو افسر محکمہ اور حضرت یسوع مسیح کے مابین ہوئی.افسر : ( حضرت مسیح سے ) براہ مہربانی اس امر پر حلف اٹھانے کے لئے ہاتھ اٹھائیے کہ جو کچھ آپ کہیں گے وہ سچ ہوگا.حضرت مسیح میں قسم کھانے پر اعتقاد نہیں رکھتا کیونکہ یہ جائز نہیں ہے.

Page 209

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ افسر : آپ کا نام کیا ہے.حضرت مسیح: يسوع افسر : آپ کا پورا نام کیا ہے.حضرت مسیح: یہی میرا نام ہے.افسر : آپ کا دوسرا نام کیا ہے.حضرت مسیح میرا کوئی دوسرا نام نہیں.میرا صرف یہی نام ہے.افسر: کیسی عجیب بات ہے آپ کے باپ کا کیا نام ہے.حضرت مسیح: میرا کوئی باپ نہیں.افسر: کیا تمہارا کوئی باپ نہیں پھر تم کس طرح پیدا ہوئے.208 حضرت مسیح : معجزانہ طور پر بغیر باپ کے جو حیرت انگیز ہے.خدا کے نزدیک درست ہے بھلا آپ مجھے بتائیں کہ حضرت آدم بغیر ماں اور باپ کے کس طرح پیدا ہوئے.افسر: میں نہیں جانتا.آپ کہاں سے آئے ہیں؟ حضرت مسیح: ہندوستان سے.افسر : کون سے شہر سے.حضرت مسیح: سری نگر کشمیر سے.افسر : آپ کے پاس کس قدر روپیہ ہے.حضرت مسیح میں اپنے پاس کوئی روپیہ نہیں رکھتا.افسر بغیر روپیہ کے آپ کس طرح گزارا کریں گے.حضرت مسیح کل کی فکر نہیں کل اپنی فکر آپ کرے گا.افسر : عجیب بات ہے ہم تو اس ملک کے لئے سو سال پہلے انتظام کرتے ہیں.آپ کی قومیت

Page 210

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ کیا ہے؟ حضرت مسیح میں یہودی ہوں.209 ہے.افسر کیا آپ حضرت موسیٰ کی شریعت پر اعتقاد رکھتے ہیں جو تعداد ازدواج کی اجازت دیتی حضرت مسیح: یقینا میں اس پر اعتقاد رکھتا ہوں جو کوئی موسیٰ کی شریعت کے احکام کا چھوٹے سا چھوٹا حصہ بھی توڑے گا ، وہ آسمانی بادشاہت میں سب سے جھوٹا سمجھا جائے گا.افسر: آپ کے ہاتھوں میں زخموں کے نشان کیسے ہیں.حضرت مسیح: بے انصافی سے صلیب پر لٹکا دیا تھا.افسر: آپ کا پیشہ کیا ہے.حضرت مسیح : میں خدا کے احکام کا وعظ کرتا ہوں.میں اپنی طرف سے کچھ نہیں کہتا بلکہ وہی جس کے کہنے کا خدا کی طرف سے حکم ہوتا ہے.افسر : کیا آپ کے پاس ایسے کاغذ ہیں جن سے ثابت ہوتا ہو کہ آپ واعظ ہیں.حضرت مسیح مجھے کاغذوں کی ضرورت نہیں.افسر : کیا آپ اپنے ملک کے لئے لڑیں گے اگر کبھی ضرورت پڑی.حضرت مسیح میں لڑنے پر اعتقاد نہیں رکھتا میں صرف محبت کا معتقد ہوں.افسر کیا آپ شراب پینا جائز سمجھتے ہیں.حضرت مسیح : ہاں نہ صرف جائز سمجھتا ہوں بلکہ اعجازی طور پر مہیا بھی کر سکتا ہوں اگر دعوت وعدہ کے موقع پر اس کی ضرورت ہو.فیصلہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ مسیح کو اس ملک میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی جاسکتی.

Page 211

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ چونکہ 210 ا ایک ملک راہیں کے بندوں تر 1 - یہ ایک ایسے ملک سے آیا ہے جو اُن ملکوں میں شمار نہیں جن کے باشندوں کو اس ملک میں داخل ہونے کی اجازت ہے.2.اس کے پاس گزارے کے لئے روپیہ نہیں ہے.3- یہ مہذب لباس میں ملبوس نہیں.4.اس کے ہاتھوں کی ہتھیلیوں میں زخموں کے نشان ہیں.5- یہ حفاظت ملک کے لئے لڑنے کے خلاف ہے.6.یہ جب ضرورت پڑے شراب بنانا جائز خیال کرتا ہے.7.اس کے پاس اپنی سندات نہیں ہیں جن سے ثابت ہو کہ یہ ذمہ دار واعظ ہے.8.یہ موسیٰ کے قانون پر عمل کرنے پر مستعد ہے جو کہ تعدد ازواج کی اجازت دیتا ہے لیکن فیصلہ کے خلاف واشنگٹن آفس میں اپیل کر سکتا ہے.حضرت مسیح: میں کوئی اپیل پیش نہیں کرنا چاہتا کیونکہ میرے جیسے آدمی کو داخل ہونے کی اجازت نہ دینا برائی در برائی کا مقابلہ کرنا میرے اصولوں کے خلاف ہے.پس میں اپنے پاؤں کی گرد جھاڑتا ہوں اور دل پسند ملک ہندوستان میں واپس جاتا ہوں.پادریوں سے دلچسپ گفتگو ( الفضل 25 مئی 1922 ء ص 1,2 ) 1921 ء کے وسط میں آپ نے Fort Bremen Wayne Toledo شکاگو کا دورہ کیا جس میں حسب معمول تقاریر اور انٹرویوز کا موقع ملا.ایک عیسائی پادری نے جورومن کیتھولک تھا، اثنائے گفتگو ایک عجیب سا نکتہ اٹھایا.کہنے لگے کہ مسیح علیالسلام نے پطرس کو اپنے چرچ کا بنیادی پتھر قرار دیا ہے.پس پطرس مسیح کا جانشین ہوا اور پوپ

Page 212

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 211 پطرس کے جانشین ہیں اس لئے پوپ سے غلطی ہونے کا امکان نہیں.حضرت مفتی صاحب نے جواب دیا کہ انجیل سے ثابت ہوتا ہے کہ جب مسیح پطرس کو بنیادی پتھر قرار دے چکے تو اس کے بعد ان سے بہت بڑی غلطی سرزد ہوئی.اس نے خطرے کے وقت کہ دیا کہ میں مسیح کونہیں جانتا.پس جب اس سے غلطی ہوسکتی ہے تو پادریوں اور پوپ سے بھی ہوسکتی ہے.خلاصہ الفضل 4 مئی 1922 ء ص 2) امریکہ میں ایک مدعی نبوت تھا.عراقی تھا، مگر لمبے عرصے سے امریکہ میں رہ رہا تھا.اُس کا دعوی تھا کہ وہ سب سے بڑا نبی ہے مگر کالوں اور ہندوستانیوں کے لئے نہیں ہے.اس شخص سے حضرت مفتی صاحب نے گفتگو کی اور دینِ حق کا تعارف کروایا.اُسے جب پتہ چلا کہ آپ کا تعلق ہندوستان سے ہے تو کہنے لگا.”ہندوستان میں بہت گرجے ہیں آپ کوشش کریں کہ وہاں سے کچھ امداد کا بندوبست ہو جائے.آپ نے فرمایا کہ تم تو ہندوستان کے لئے نبی نہیں ہو اور اس ملک کے بہت خلاف ہو اور تمہارے الہامات میں ہندوستان کے خلاف وعظ ہے.یہ کس طرح ہو سکتا ہے کہ وہاں سے امداد بھی ملے.کچھ سوچ کر کہنے لگا اچھا تم ابھی کسی سے کچھ نہ کہنا میں اپنے الہامات میں سے ہندوستان کے خلاف والا حصہ نکال دوں گا.یہ تھا مدعی نبوت کے الہامات کا حال! خلاصہ الفضل 5 جون 1922 ءص7) خواب سے رہنمائی حضرت مفتی صاحب تحریر فرماتے ہیں : ” مجھے ایک لیڈی کا خط آیا جس میں لکھا تھا کہ جب کبھی کوئی مشکل آتی ہے میں دُعا کرتی ہوں اور ایک آدمی مجھے نظر آتا ہے اور وہ میری راہ نمائی کرتا ہے.وہ آدمی مشرق کی طرف کا ہے کوٹ پہنتا ہے.اس کے سر پر پگڑی ہوتی ہے.جب کبھی کوئی مشکل پیش آتی ہے میں دعا کرتی ہوں اور وہ آدمی خواب میں مجھے دکھائی دیتا ہے اور میری رہنمائی کرتا ہے.لیکن

Page 213

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 212 ہر دفعہ میں افسوس کرتی ہوں کہ میں نے کیوں نہ پوچھا کہ آپ کون ہیں کہاں کے رہنے والے ہیں.میں ہر دفعہ یہ نیت کرتی ہوں کہ اب پوچھوں گی لیکن ہمیشہ بھول جاتی ہوں.اس عورت نے مجھے لکھا کہ میں نے اخباروں میں پڑھا ہے کہ آپ مذہبی آدمی ہیں اور اسلام کے مبلغ ہیں اور یہ کہ آپ مشرق سے آئے ہیں، ممکن ہے اس شخص کے بارہ میں آپ میری کوئی راہ نمائی کریں.میں نے سوچا کہ اول تو یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ہی وجود ہے جو خواب میں اُسے دکھائی دیتا ہے اور اس کی راہ نمائی کرتا ہے.یا ممکن ہے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ کی شکل خواب میں اسے دکھائی دیتی ہو.تیسرے چونکہ میں مشرق سے آیا ہوں، اور...کی تبلیغ کر رہا ہوں.ممکن ہے میری ہی شکل اس کے سامنے آگئی ہو.چنانچہ میں نے تین تصویریں لیں جن میں سے ایک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تھی اور ایک حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی تھی اور ایک میری تھی.اس عورت کو بھیج دیں.میں نے ساتھ ہی یہ لکھا کہ میڈم یہ تین تصویر یں ہیں ان میں سے کوئی ایک شخص ایسا ہے جو تمہیں خواب میں دکھائی دیتا ہے اور تمہاری راہ نمائی کرتا ہے.چند دنوں کے بعد حضرت خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ اور میری تصویریں واپس آگئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر اس نے رکھ لی اور لکھا مجھے وہ آدمی مل گیا ہے جو خواب میں میری راہ نمائی کرتا ہے.پھر یہی خواب اس کے احمدی ہونے کا موجب ہوئی.“ آپ چلتے پھرتے داعی اللہ تھے.آپ کا لباس مختلف انداز ہونے کی وجہ سے توجہ کا جاذب بنتا.شکاگو کا واقعہ ہے ایک دفعہ آپ بازار سے گزر رہے تھے کہ ایک بچی نے اپنی والدہ سے کہا: "Look ! Look ! Mother, Jesus Christ has come." می ! دیکھئے یسوع مسیح آگئے ہیں

Page 214

213 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی والدہ سے گفتگو میں آپ نے رُخ اپنے مرشد حضرت احمد علا السّلام کی طرف موڑا اور اُسے سمجھایا کہ دیکھئے اگر ایک غلام احمد اس قدر خدا نما نظر آتا ہے تو خود احمد کیسے ہوں گے.شکا کو منتقلی اور انصار اللہ کا کارواں حضرت مفتی صاحب نے 1922ء میں اپنا ہیڈ کوارٹر شکا گومنتقل کر لیا.Wabash 4448 Avenue پر ایک مکان لیا اس میں کچھ رد و بدل کیا چھت کو ایک گنبد اور دو میناروں سے مزین کروایا.اس نئی جگہ کو آراستہ کرنے اور دیگر کاموں میں نئے احمدی ہونے والے دوستوں نے ذوق و شوق سے حصہ لیا.عقیدت و احترام سے سرگرم عمل ہونے والے احباب حضرت مفتی صاحب کے دست و بازو بن گئے.مفتی صاحب، با قاعدگی سے سن رائز میگزین میں نئے شامل ہونے والوں کی فہرست طبع کرواتے اور اسی طرح جماعتی خدمات کرنے والوں کے نام اور کام بھی شکریے اور دُعاؤں کے ساتھ شامل فرماتے.آپ کا اظہار ممنونیت ایک تاریخ رقم فرما گیا.چند ایک کا ذکر تازہ کرتے ہیں.سسٹر راحت اللہ بیگم مصطفی که صاحبہ ابتدائی احمدی خواتین میں سے تھیں زندگی وقف کی روح کے ساتھ خدمت میں مصروف رہتیں.تعلیم یافتہ اور با صلاحیت تھیں نثر نگار اور شاعرہ تھیں ،تقریر بھی اچھی کرتی تھیں.ان کے ذریعے بہت سی روحوں کو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کی سعادت نصیب ہوئی.مشن ہاؤس کے بہت سے کام اپنے ذمے لے رکھے تھے.سن رائز میں کئی جگہ ان کے مضامین اور نظمیں نظر آتے ہیں.نمونہ کلام : ALHAMDOLILLAH: The Moslem Sunrise is scattering seeds upon the desert sand And with each seed is mingled a drop of rain Thy mind is but a desert without the sacred truth Receive, O blind one, the seed and rain the Moslem Sunrise gives to you After two years of ceaseless labor Sowing seeds in hard baked soil,

Page 215

214 Here and there a flower is blooming To gladden the Mufti's heart.حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ RAHATULLAH (Mrs.Mustapha Taha) مسٹر اور مسٹر مبارک صاحب جو خود نئے احمدی تھے.البرٹا میں اشاعت دین کرتے اور نئی بیعتیں حاصل کرتے.شیخ عبداللہ دین محمد صاحب نیو اورلینز New Oreleans میں سرگرم تھے.وہ نئی بیت بنوانے کا عزم رکھتے تھے جس کے خرچ میں خود 500 ڈالر ادا کئے.دوسرے امریکی دوست بھی مالی تعاون کے لئے تیار تھے.جیمز سوڈک صاحب کی خدمات متنوع ہیں ان کا ارادہ شکاگو میں مشن ہاؤس بنوانے کا تھا.مسٹر یوسف خان صاحب انتہائی محنتی انسان تھے.مفتی صاحب کے ساتھ ڈاک کا انتظام جواب لکھنے، لٹریچر بھیجنے اور سن رائز کے کاموں میں مستعد رہتے.شکا گومیں با قاعدگی سے اجلاس ہوتے جس کے سیکریٹری مسٹر ایل رومن تھے.محمد یعقوب صاحب.Mr) (Endrew Jacob اور غلام رسول صاحب (Mr.Elias Russell) با قاعدہ مشنریز کی طرح کام کرتے.بہت سے امریکیوں کو حلقہ بگوش احمدیت کیا.شیخ احمد دین صاحب نے Saint Louis میں لیکچر دیئے ایک نئے احمدی جن کا نام حکیم رکھا گیا، غیر معمولی قابلیت کے مالک تھے علی الاعلان کہتے کہ جو روحانی سکون احمدیت سے ملا ہے عیسائیت میں نہیں ہے.صادقہ صادق صاحبہ (غالباً یہ وہی خاتون ہیں جن سے حضرت مفتی صاحب نے شادی کی تھی) سن رائز کی تیاری میں مدد دیتیں.آپ تربیت یافتہ نرس تھیں اور اپنی خدمات سلسلہ کو سونپ دی تھیں.سن رائز میں ایک اشتہار شائع ہوا: "Mrs.Sadiqah Sadiq, being a graduated registered nurse and having vast experience in that branch of medical science, will be glad to help the Moslem sisters in the country by her valuable advice personally or through corespondence.Address all communications to 4448, Wabash Avenue Chicago." (Muslim Sunrise 1923 II page 32) اپریل 1922ء کا مہینہ غیر معمولی مصروفیات میں گزرا.امریکہ کے ایسوسی ایٹڈ

Page 216

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 215 (Associated Press) کے نمائندوں نے آپ کے انٹرویوز مکان اور بیت کی تصاویر کے ساتھ شائع کئے جس سے استفسارات کا ایک ہجوم امڈ آیا.خط و کتابت اور فون کے علاوہ مشن ہاؤس پر آنے والوں کو احمدیت سے متعارف کروایا گیا.کئی سوسائیٹیز نے لیکچرز کے لئے بلایا.چنانچہ ایک لیکچر سپر چوٹل ہال (Spiritual) میں اور ایک ہندوستان ایسوسی ایشن کی دعوت پر ہوا.اپنے خطابات میں آپ نے کئی زاویوں سے پیغام حق پہنچایا.عیسائیوں کو یہ بتایا کہ عیسائیت کی تعلیم پر عمل عملاً ختم ہو رہا ہے.جبکہ اسلام کی حسین تعلیم پر عیسائی بھی عمل کر رہے ہیں.اسی طرح ہندوؤں کو کرشن جی مہاراج کی زندگی کے حالات سنا کر حقیقی دین کی طرف دعوت دی.خلاصہ الفضل 11 جون 1923 ء ص 1,2 ) سہ ماہی کی رپورٹ میں لکھا ہے کہ آپ (Grand Rapid (MI تشریف لے گئے.وہاں 15 لیکچرز ہوئے.بہت سے انٹرویوز ہوئے 700 خط آئے 3000 بھیجے گئے.جس میں یوسف خان اور فاطمہ صاحبہ نے مدد کی 1800 سرکلر لیسٹرز اور لٹریچر منتخب کالجوں اور یونیورسٹی کے پرنسپلز اور گورنرز کو بھیجے گئے.تھیوسوفیکل ہال والوں کی دعوت پر اُن کے کمیونٹی ہالز اور چرچوں میں خطاب کا موقع ملا.سال کے آخری مہینوں میں نارتھ ڈکوٹا North Dacota منی سوٹا Minnessota اور مشی گن Michigan بہت سی جگہوں پر تقاریر کے مواقع ملے.27 نومبر کو Exchange Club Grand Havens Mi نے مدعو کیا.کلب کے پریذیڈنٹ نے بہت اچھے الفاظ میں تعارف کرواتے ہوئے کہا کہ ہم اُن مشنریوں کو سننے کے عادی ہیں جو یہاں سے انڈیا جاتے ہیں.آج ایک غیر معمولی مہمان جو انڈیا سے امریکیوں کو اسلام سکھانے آئے ہیں کوئنیں گے.یہاں قریباً سوا گھنٹے تک ایسے تمام مسائل کے متعلق تقریر کا موقع ملا جن کے متعلق آپ کو تجربہ ہو چکا تھا کہ ان کے ذہنوں میں سوال بن کر رہتے ہیں.اس کی وضاحت کے لئے بائبل کے مقابلے میں قرآن مجید کے نظریات پیش فرمائے.آخر میں بتایا کہ انڈیا میں خدا

Page 217

216 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ کا فرستادہ ظاہر ہو چکا ہے.تقریر کے بعد چار پادریوں نے یکے بعد دیگرے سوالات کئے جن کے تسلی بخش جواب دئے گئے.حاضرین تعلیم یافتہ تھے.باوقار انداز میں توجہ سے ساری تقریرسُنی نومبر ہی میں کرکسٹن ( منی سوٹا )Crookston Minn میں سٹیٹ فارم سکول کے سپرنٹنڈنٹ نے اسلام کے موضوع پر لیکچر کے لئے دعوت دی.اخبارات میں اعلان کی وجہ سے لیکچر والے دن سٹوڈنٹس اور ٹیچرز کے علاوہ دوسرے شہری بھی آگئے.ایک گھنٹہ کی تقریر ہوئی.بعد میں چیئر مین نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے میں اسلام کے متعلق صرف یہی جانتا تھا کہ یہ لوگ محمد کی پرستش کرتے ہیں (نعوذ باللہ ) اور کر سچنز کوقتل کرتے ہیں.آج اسلام کا صحیح چہرہ دیکھنے کا موقع ملا ہے.اس لیکچر کے بعد بہت لوگوں نے معلومات حاصل کیں کہ آپ کا دوبارہ لیکچر کہاں ہوگا.Crookston Daily Times نے لکھا: "Dr.Sadiq is the editor of the Moslem Sunrise, a magzine publised at Chicago and which is widely circulated in Northern Minnesota and North Dacota.He is the first Moslem preacher to be sent to America by the Ahmadia Movement from India.His headquarters and church (the mosque) are located in Chicago.Dr.Sadiq is a man of wide travels and many experiences.He is able to speak seven languages fluently and has a wonderful command of English, which he acquired while attending the Indian Universities and later schools in England." (Moslem Sunrise 1923 I page 166) حضرت مفتی صاحب کی تربیت سے امریکہ میں جو جماعت بن رہی تھی اس میں قادیان والوں کا رنگ نمایاں تھا.خواتین با حجاب رہ کر خدمات دین میں پیش پیش تھیں اسی طرح چندوں کی ادائیگی بھی شوق سے کرتیں.قادیان میں حضرت خلیفہ اسیح برلن میں خدا کا گھر بنانے کے لئے چندے کی تحریک فرماتے ہیں اور امریکہ میں لبیک کہا جاتا ہے.چندہ دہندگان کی ایک چھوٹی سی فہرست ملاحظہ ہو :

Page 218

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالی عنہ صادقہ صادق 10 ڈالر سسٹر فاطمہ مسز رسل 5 ڈالر مسزا براہم ہولسی 10 ڈالر مس رومیسا رحمان 5 ڈالر مسر ولیم میکسوین 4 ڈالر مسز اینابی راس 5 ڈالر مسر عبد الحکیم آگسٹو 7 ڈالر فاروق مسز ایلس 7 ڈالر سٹر سعیدہ مسٹر جوزف 5 ڈالر سٹر زینب مسز وائس 1 ڈالر مسز اینڈریو جیکبز 2 ڈالر مسر ڈبلیو ہل نجم الدین 4 ڈالر 217 (Sunrise 1923 page 196) ڈیٹرائٹ میں دعوت الی اللہ اور افریقن امریکن باشندوں کے حقوق کے لئے مساعی امریکہ میں بسنے والے سیاہ فام باشندوں سے امتیازی سلوک کئی طرح کی پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے.حضرت مفتی صاحب نے اس کے لئے آواز اُٹھائی.آپ کی آواز میں تعلیمات نبوی کی روشنی میں ایسی کشش تھی کہ کئی ہم خیال افراد اور تنظیموں سے رابطہ ہوا.اگر مؤرخ کھوج لگائے تو آزادی ضمیر اور انسان کی برابری کی تحریکات اُٹھنے کے سلسلے حضرت مفتی صاحب سے جاملیں.1923ء میں حضرت مفتی صاحب نے (U.N.I.A) United Improvement Association Hall Detroit میں پانچ لیکچرز دئیے.ان دنوں Marcus Gravey کا بہت چر چاتھا اور یہ اُن ہی کی تنظیم تھی.مفتی صاحب نے ان سے اچھے تعلقات بنا لئے.ان لیکچرز کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے چالیس Gareyites کو احمدیت قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی جن میں سے ممتاز ترین شیخ عبدالسلام تھے جن کو ڈیٹرائٹ جماعت کا امیر بنایا گیا.ان کا پہلا نام Reverend Sutton تھا اور منسٹر کے عہدے پر فائز تھے.یہاں ایک خاتون Mrs.Wright نے اپنے بچوں کے ساتھ احمدیت قبول کی ان کا نام نزیلہ رکھا گیا.

Page 219

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 218 1923ء میں سن رائز میں متعدد مضامین شائع کئے گئے.ایک مضمون کا عنوان تھا 'ہلال یا صلیب اس میں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات میں رنگ ونسل کی تفریق کو مٹا دینے کا مثالوں کے ساتھ ذکر تھا جس نے بہت سے سیاہ فام امریکیوں کو متاثر کیا.وہ جو نسلی امتیازات کے ستائے ہوئے تھے اپنے حقوق کی برابری کی تعلیم دینے والے دین حق کے دامن میں آنے لگے.اگر چہ حضرت مفتی صاحب نے دعوت دین میں کالے گوروں کی تمیز نہیں رکھی تھی تاہم حالات ایسے تھے کہ کالے امریکی احمدیت سے زیادہ متاثر ہوئے.اُن کو جماعت میں پر وقار مقام حاصل ہوتا اور عملی طور پر برابر کی عزت و توقیر دی جاتی.جماعتی عہدے اور خدمات کے مواقع برابر ہوتے.حضرت مفتی صاحب کی آواز وقت کی آواز بن گئی.آپ نے لکھا: ” میرے پیارے امریکن نیگرو بھائیو! عیسائی منافع خود تمہیں تمہارے وطن افریقہ سے نکال لائے اور عیسائی بنا کر ایسے حالات پیدا کر دیئے کہ تم اپنے آبائی مذہب اور زبان کو بھول گئے جو اسلام اور عربی تھے.اب تم نے سالہا سال عیسائیت کا تجربہ کر لیا ہے اس سے کوئی بھلائی حاصل نہیں ہوئی بلکہ مکمل ناکامی ہوئی.عیسائیت اقوام عالم میں حقیقی بھائی چارہ نہیں لاسکتی اس لیے اب اس کو چھوڑ دو اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین قبول کر لو جو عالمی اخوت کا حقیقی مذہب ہے جو ہر قسم کی رنگ ونسل کی تمیز مٹادیتا ہے.“ جنوری 1923ء میں معمول کے کاموں کے علاوہ نیو یارک سٹی کا سفر اختیار کیا.راستے میں پٹس برگ Pittsburgh اور بغلو Buffalo بھی تشریف لے گئے جس کے نتیجہ میں بہت سے احباب جماعت کے کارواں میں شامل ہوئے.نیو یارک میں Mrs.A.Enerson اور اُن کے ساتھی ممبروں نے ویمنز کلب میں دو ضیافتوں کا انتظام کیا.پہلے تقاریر ہو ئیں جو بہت متاثر کن تھیں.بفیلو میں مسلم بردن تنظیم کے ایک اجتماع سے خطاب فرمایا.سامعین میں زیادہ تر تاجر پیشہ لوگ

Page 220

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 219 تھے.یہ شام عجیب روحانی ماحول میں گزری.تلاوت قرآن کریم ، نعت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سحر آفریں اثر تھا پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق رسول سے فیضیاب حضرت مفتی صاحب کا خطاب بعض احباب آبدیدہ آنکھوں سے رخصت ہوئے.“ ( آزادتر جمہ مسلم سن رائز 1923 ء11 ) واپسی کا ارشاد اگست کے آخری ہفتے میں قادیان سے سپہ سالار افواج احمدیت خلیفتہ امسح اثانی کا پیغام موصول ہوا کہ تین ماہ کے بعد اس محاذ پر لڑنے کے لئے تازہ دم سپاہی محترم محمد دین صاحب امریکہ پہنچ جائیں گے.آپ فرماتے ہیں: مفتی صاحب جب امریکہ سے واپس آئے تھے تو اُس وقت میں نے رؤیا دیکھا کہ میں کہتا ہوں میں اب مفتی صاحب اور مولوی شیر علی صاحب کو باہر نہیں جانے دوں گا.رویا میں گو یہ میرا اپنا فقرہ تھا مگر رؤیا کے اس قسم کے الفاظ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوتے ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں یہ کام اس قسم کا ہے کہ اگر وہ قلیل سے قلیل عرصہ اس کام میں لگا کر واپس آجائیں تو ان کا وہاں کا قیام بھی قادیان کا قیام سمجھا جائے گا." ( حواله الفضل 29 فروری 1936ء) مجاہد کے لئے جہاد کی اہمیت ہوتی ہے.اس سے غرض نہیں کہ کس محاذ پر مقرر کیا جاتا ہے آپ نے شرح صدر اور بشاشت سے اس فیصلہ کو خوش آمدید کہا ایک مکتوب ملاحظہ کیجئے جو جلسہ سالانہ قادیان پر پڑھ کر سنایا گیا: میں تو سمجھتا تھا کہ اس سال کے جلسہ پر میں خود قادیان میں ہوں گا اور آپ اصحاب کی زیارت کا شرف حاصل کروں گا مگر ہنوز قسمت میں یہ نہیں کہ دیار محبوب میں داخلہ کی عزت مجھے حاصل ہو.مجھے قادیان پیارا ہے اور پھر مجھے اپنے بیوی بچے پیارے ہیں اور میرے محب مجھے پیارے ہیں اور اُن کی جُدائی کا صدمہ چھ سال سے میرے

Page 221

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 220 قلب پر ہے.مگر شکر ہے کہ سفر کسی ذاتی غرض کے لئے نہیں بلکہ دین کے واسطے ہے.عزیز و اقرباء کے فراق کا احساس ایک طبعی امر ہے، میرے اختیار میں نہیں لیکن اگر حضرت امام کا حکم مجھے اس ملک میں زیادہ رہنے کا ہو یا یہاں سے جنوبی امریکہ یا جاپان چلا جانے کا حکم آجاوے تو میرا قلب اس حکم کو ماننے کے واسطے ایسا ہی تیار ہے جیسا کہ قادیان کے واسطے مرشد صادق کی اطاعت میں میرے لئے وطن اور غربت ایک ہے.سفر اور حضر برابر.میرا یہ دعویٰ نہیں کہ میں نے اس سفر میں کوئی کام کیا ہے یا زیادہ ٹھہروں گا تو کچھ اور قابل تعریف کام کروں گا ہر گز نہیں.کام کرنے والا اللہ پاک خود ہے اور اگر کچھ ہوا تو محض حضرت مرشد ایدہ اللہ اور محبین صادق کی دُعاؤں کا نتیجہ ہے اور انہیں کے لئے اس کا اجر ہے.“ آپ امریکہ میں انجمن احمدیہ کو رجسٹرڈ کرانے میں کامیاب ہو گئے جس کے نتیجہ میں البیت اور مشن ہاؤسر ٹیکس سے مستثنیٰ ہو گئے.الفضل 25 جنوری 1923 ء ص 2,1) ( الفضل 18 جون 1923 ء ) مولا نا محمد دین صاحب کی تشریف آوری کے بعد آپ کی واپسی کا پروگرام قادیان سے سفر خرچ موصول ہونے سے منسلک تھا.دعوت الی اللہ کے سب سلسلے جاری رہے.بلکہ دورانِ سفر بھی جہاں مخلوق خدانظر آتی پیغام حق پہنچانے کا فریضہ جاری رکھتے.شکاگو سے آشلینڈ Ashland تشریف لائے تو ان کی مساعی کو دیکھتے ہوئے مقامی اخبار Ashland Daily Independent نے لکھا: ان دنوں شہر آئلینڈ میں جس شخص کا ذکر ہر جگہ دلچسپی سے ہو رہا ہے وہ مشرق کے معزز عالم اور فاضل ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب ہیں جوسبز پگڑی پہنتے ہیں.فصیح تقاریر سے ہمارے شہر کے عیسائیوں کو دین محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت دے رہے ہیں.کبھی ہم مسیحی مشنری ملک عرب بھیجتے تھے آج نبی عربی کے مشنری یہاں پہنچ رہے ہیں.“ ( الفضل 4 ستمبر 1923ء)

Page 222

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 221 جولائی میں آشلینڈ Ashland سے ولیم سن Williamson آئے تو مقامی اخبار نے آپ کی آمد کی خبر شائع کی.جس سے مقامی لوگوں میں آپ کا تعارف اچھے انداز میں ہوا.جولائی کے آخر میں ویسٹ ورجینیاWest Virginia میں تین لیکچرز دیئے انفرادی رابطے بھی ہوئے.ایک قابل ڈاکٹر نے احمدیت قبول کی.سنگسٹن میں تین دن قیام رہا وہاں کے اخبار کے ایڈیٹر نے انٹر ویولیا اور آپ کی تصویر کے ساتھ شائع کیا.خلاصہ الفضل 2اکتوبر 1923 ءص9) خلاصہ الفضل 12اکتوبر 1923 ص 10) وسط اگست میں واشنگٹن سے ہوتے ہوئے فلاڈلفیا پہنچے یہ وہی شہر تھا جہاں امریکہ داخلے کے وقت رو کے گئے تھے.واپسی اس شان سے ہو رہی تھی کہ چار اخباروں کے نمائندے انٹرویو لینے کے لئے آئے.ساڑھے تین سال میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کے ان گنت نظارے دیکھنے کے بعد 18 ستمبر 1923ء کو واپسی کا سفر شروع ہوا.( الفضل 30 اکتوبر 1923ء) جہاز روانہ ہونے لگا تو آپ عرشے پر کھڑے ہو گئے پرنم آنکھوں سے امریکہ کی طرف دیکھتے رہے لبوں پر دُعا ئیں تھیں : ”اے میرے رب غفار! اے میرے رب ستار! میرے وہ گناہ بخش جو میں نے اس ملک امریکہ میں اور اس زمین پر کئے.میری بدیوں اور غفلتوں اور کمزوریوں کو ڈھانپ دے اور مٹادے یا باری، یا ناجی، یا صادق، یا قادر، یا قدیم، یا کریم، یا لطیف، جو نیکیاں میں نے اس ملک میں اور اس سرزمین پر کیں اور دین کے لئے کام کیا ان کو قائم رکھ اور بڑھا اور اس میں پھول اور پھل لگا اور مستحکم بنا اور بڑھا اور ترقی دے.وہ سب جن کو میں نے تبلیغ کی اور جن کے ساتھ میراتعلق محبت ہوا، جنہوں نے میری اعانت کی، وہ سب جو مسلمان ہوئے اور وہ جو اسلام کے قریب ہوئے ان سب پر رحم کر ان کو ہدایت دے اور انہیں پاک رضا مندیوں میں سے یہ سب کچھ تیرے اختیار میں ہے.تو مالک

Page 223

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ حقیقی ہے اور تو ہی حاکم حقیقی ہے.ان مبلغین کا ہادی و ناصر ہو جو میرے بعد اس خدمت میں کمر بستہ ہوئے اور آئندہ ہوں.ہمارے امام محمود کا، جس نے ہمیں ان خدمتوں کا موقع دیا مؤید ہو.اُسے ہر میدان میں فتح عظیم دے.اس کی ہر مراد کو پورا کر صحت و عافیت اور عزت اور کامیابی کے ساتھ اُسے لمبی عمر عطا کر.اُسے اپنے قرب میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقامات پر ترقی دیتا چلا جا.ان سب پر اپنا فضل کر جنہوں نے اس مشن کی اعانت کی.امریکہ میں اسلام کا غلبہ ہو اور بے شمار بیوت تیری خالص عبادت کے لئے بنائی جائیں اور آباد کی جائیں اور ان سب کی مرادوں کو بر لا جنہوں نے مجھ سے دُعا کی خواہش کی اور اُن کی خواہش کو بھی پورا کر جنہوں نے دُعا کے واسطے کہنے سے شرم کی یا موقعہ نہ پایا کہ تو دلوں کے بھید جانے والا ہے اور تیری بخششوں کے خزانے بے انتہا وسیع ہیں.اللهم صل على محمد و بارك وسلم و آل محمد و جميع الانبياء والمرسلين والاولياء المجددين و على مسيح الموعود و خلفاء وجميع المرسلين والمومنين برحمتك يا ارحم الراحمين آمين.“ الفضل 30اکتوبر 1923 ء ص2) 222 23 مارچ 1923ء کو پیرس پہنچے ( الفضل 30 نومبر 1923 ء ) یہاں جہاز کچھ دن کھڑا رہا.آپ نے وقت سے فائدہ اُٹھایا.پیرس لائبریری دیکھی اور کئی جگہ لیکچرز کا موقع ملا.کئی اخبارات نے آپ کی تصاویر کے ساتھ طویل خبریں اور تبصرے شائع کئے مثلاً : Salem Evening News, The Philadelphia Record, The Washington Post, Philadelphia Inquirer, Public Ledger Philadelphia.(M.Sunrise 1923 vol.1 page45) Rev.Brakeman کی دعوت پر آپ نے Congregational Peabody City Hall and Church میں دو لیکچر دیے دونوں بہت کامیاب رہے.ان کی رپورٹنگ میں فرانس

Page 224

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 223 کے ایک نمایاں اخبار La Petit Marsellais بھی شامل تھا.شکا گوٹریبیون (Tribune) نے اپنے پیرس ایڈیشن نومبر میں اچھا خاصا طویل مضمون لکھا: MOSLEM PRIEST IN CHICAGO WINS 700 TO HIS FAITH Mohammedanism is the solution of Amercia's race problem says Dr.Sadiq, now in Paris on his way back to Bombay after converting seven hundred Chicagoans to the Moslem faith.Mixed congregations of white and colored converts mingle without prejudice at the mosque, 4448 S.Wabash Avenue, but the Moslem missionary foresees a hot scrap between his people and the Ku Klux Klan.In the bright green gown and tunic of his order, Dr.Sadiq is thoroughly oriental.His American converts become slightly orientalized as soon as they join the faith.They get a Mohammedan name to replace their ordinary title.Thus Simon Buford of Chicago is now Abdus Sattar.His brother Willie Buford is Abdul Jabbar.Evalina Johnson now calls herself Hadya, her sister Louella is changed to Aleema, while Mrs.Wilhelmina Ulzhoefer of Dayton, Ohio, is known as Saleema."Abe" Becomes "Azezullah".Bill Kelly of Chicago has added Wali to his good old Irish moniker and Mr.Abe Lincoln of Detroit is called Azezullah by the faithful.There are nearly a thousand more names and addresses in Dr.Sadiq's book of converts.Missions have been established in Detroit.New Orleans and other cities in Florida, South Carolina, Indiana, West Virgina and New York.The movement is going strongest in Detroit, Chicago and St.Louis, declares the leader, but with other priests carrying on the work he is assured the number of converts will swell rapidly.He has already made several priests among his colored converts in America, but so far none have arisen from the white brethern.Veils like those of Turkey's harem women are worn by many of the ladies who now answer the Muezzin's call at the Chicago mosque."It is easier for the ordianary man or women of today to be a Mohammedan than to be a Christian," explains the learned Dr.Sadiq,

Page 225

224 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ stroking his venerable gray whiskers."Divorce is not frowned on by us.The Koran says a man's house should be like paradise.How can it be like Paradise if he cannot get on with his wife?" Dr.Sadiq leaves Paris today for Marseilles to sail for India.He has found Paris in need of a Moslem mission and will recommend the sending of Mohammedan priests in large number to Amercia.We wish Dr.Sadiq a happy recess at home before he is called upon to take up some greater and a higher work and we hope that his life will be one continuous and progressive roll of useful work in the service of humanity.God bless him." (M.Sunrise1924 vol 1 page 4546) ڈاکٹر صادق فرماتے ہیں کہ امریکہ میں جو رنگ کا مسئلہ ہے اس کا علاج صرف اسلام ہے.ڈاکٹر موصوف سات سو مسلمان بنا کر شکاگو سے پیرس کے راستے بمبئی جا رہے ہیں.ڈاکٹر صادق نے اپنے مریدوں میں سے کئی مبلغ تیار کئے ہیں.خواتین ترکی حرم عورتوں کی طرح برقع پہنتی ہیں اور نماز پڑھنے ( بیت ) جاتی ہیں.الفضل 26 فروری 1924 ء ص2) بحری جہاز میں ایک دلچسپ واقعہ ہوا.لوگ بوریت سے بچنے کے لئے اپنے اپنے طریق پر تفنن طبع کا سامان کر رہے تھے.آپ نے اپنے ذوق کا سامان کیا سیرت محمدی پر تقریر شروع کر دی بعد میں ایک عرب بے حد محبت سے ملا.آپ نے حیرت سے پوچھا کہ تقریر تو انگریزی میں تھی آپ کو کیسے علم ہوا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں.جواب ملا نام نامی محمد تو سمجھ میں آتا تھا اسی سے بے حد خوشی ہوتی تھی.اس تعارف کے بعد آپ بینچ پر بیٹھ گئے.چاند کی روشنی میں لہروں کا نظارہ کرتے ہوئے عربی میں باتیں ہوتی رہیں.فرط محبت سے اُس نے حج پر آنے اور اپنے پاس قیام اور سارا خرچ اُٹھانے کی پیش کش کر دی حضرت مفتی صاحب نے کہا کہ ایک صاحب ابوبکر بن یوسف بن جمال میرے ایک واقف جدہ میں ہیں.یہ سن کر وہ چونکا اور بولا : والله هُوَ قادیانی آپ نے تحمل سے جواب دیا: انا قادیانی

Page 226

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 225 اس پر اس کی محبت پر افسوس غالب آگیا یہ نہیں ہوسکتا، یہ نہیں ہوسکتا اتنا اچھا دین کا خادم اور قادیانی.واپس قادیان دار الامان میں جہاز 9 نومبر کو روانہ ہو کر 23 نومبر کو مبئی پہنچ گیا.(الفضل 27 نومبر 1923ء ص 7) 4 دسمبر بروز منگل مغرب کے وقت آپ اپنی محبوب بستی قادیان دارالامان واپس پہنچے ( افضل 4 دسمبر 1923ء ص 1) ل حمد وشکر سے لبریز تھا.حضرت خلیفہ اسی الثانی نے ایک مجمع کثیر کے ساتھ سڑک کے موڑ کے قریب استقبال کیا.حضرت خلیفہ اسیح کے ہاتھوں میں ہاتھ تھا، اهلا و سهلا کے نعرے بلند ہورہے تھے.دیر تک مشتاق دید احباب سے مصافحے ومعانقے ہوئے.قادیان کی طرف جاتے ہوئے آپ نے بتایا کہ راستے میں طبیعت بے حد خراب ہوگئی تھی.سمندری سفر تکلیف دہ ہو گیا تھا.میں نے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی اور سمندر سے مخاطب ہو کر کہا: ”اے سمندر تجھ کو معلوم نہیں کہ تجھ پر کون جارہا ہے یہ مسیح کا ایک خادم ہے جو اپنے نفس کے لیے نہیں بلکہ خدا کے دین کی خدمت کے لئے جا رہا ہے کیا تو مجھے دھوکا دے گا.“ خواب میں دیکھا کہ آسمان سے دو بڑے ہاتھ اُترے اور جہاز کو دبا لیا جب آنکھ کھلی تو دیکھا سمندر بالکل ساکن تھا اور جہاز اس طرح چل رہا تھا جیسے بالکل خشک جگہ پر چل رہا ہو.یہ مبارک قافلہ سیدھا بیت مبارک پہنچا.آپ نے شکرانے کے نفل پڑھے.حضرت خلیفۃ المسیح نے مغرب کی نماز میں لمبی دعا کرائی.پھر مفتی صاحب نے مختصر سا خطاب کیا جس میں آپ نے بتایا کہ سات سال کے بعد وطن لوٹے ہیں.کئی دکھ درد کے قصے ہیں جو بعد میں سنائیں گے، اس وقت تو صرف شاندار استقبال کا شکر یہ ادا کرنا ہے.سوائے قادیان کے کہیں امن نہیں.مشرق جنت ہے ہم نے مغرب کو جنت بنانا ہے.آپ نے فرمایا: اس خوشی میں کہ خدا نے محمود جیسا مقدس امام ہمیں عطا کیا ہے.معجزانہ کام ہور ہے

Page 227

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں.میں چاہتا ہوں کہ ہم سب لوگ سجدہ میں جھک جائیں.میں نے حضرت مسیح موعود علی ئیسلام کو دیکھا ہے کہ جب کوئی خوشی کی بات ہوتی تو آپ عالی شام سجدہ کرتے.میں بھی اس وقت سجدہ کرتا ہوں آپ لوگ بھی سجدہ میں جھک جائیں.“ خلاصه از الفضل 4 دسمبر 1923 ء ص 1,2) 226 آپ قادیان پہنچے تو لمبا سیاہ کوٹ پہنا ہوا تھا.سبز عمامہ تھا اس طرح آپ نے جاتے ہوئے جو اقرار کیا تھا کہ کسی ملک کی رسموں کی تقلید نہیں کریں گے اُس پر پورے اترے.اس لباس نے آپ کو کہیں بھی تکلیف نہ دی.اللہ تعالیٰ کی مدد شاملِ حال رہی.آپ قادیان واپس تشریف لائے تو صحت اچھی تھی ، داڑھی بالکل سفید، چہرہ پر نورانیت اور رونق تھی.ایک موقع پر آپ نے فرمایا: ”میرے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ میں مغربی ممالک میں تبلیغ کر سکوں گا.میں ایسا ضعیف البنیان انسان ہوں ، سمجھا کرتا تھا کہ مغربی ممالک میں ایک ہفتہ کے لئے بھی زندہ نہ رہ سکوں گا مگر میری صحت قائم رہی.میں نے لمبے لمبے سفر کئے ، تنگ کوٹھڑیوں میں دن گزارے.میرے قتل کے منصوبے کئے گئے جو نا کام رہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے ہر اعتبار سے کامیابی بخشی مگر یہ معجز محمود کا معجزہ ہے.“ (الفضل 22 جولائی 1922ء) 4 رونمبر کو مدرسہ تعلیم الاسلام اور 5 دسمبر کو مدرسہ احمدیہ کے طلباء نے استقبالیہ پارٹی دی.حضرت خلیفہ اسیح بھی شامل ہوئے.ہر جگہ احباب آپ سے حالات سنتے.10 اپریل 1924ء کو لجنہ اماءاللہ نے پارٹی دی اور ایڈریس خوبصورت فریم میں لگوا کر پیش کیا.فتوحات نمایاں اللہ تعالیٰ کے مسیح کی فوج کے تنہا سپاہی نے صرف تین سال میں جو فتوحات نمایاں حاصل کیں

Page 228

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ اُس پر ایک عیسائی پادری کا تبصرہ پڑھئے : امریکی نیگروز میں اسلام پھیلنے کا راز کیا ہے.پانچ شہروں میں مسلمانوں کی جماعتیں موجود ہیں.یہ ایک عیسائی پادری کی کوشش کا نتیجہ ہے جو اب مسلمان ہو گیا ہے.چند سال ہوئے وہ شکاگو کے ہندوستانی مسلمان مبلغوں سے مل کر مسلمان ہو گیا اور واپس آکر اسلام کی تبلیغ بلا معاوضہ شروع کر دی.ہندوستانی مبلغ 1920ء میں احمد یہ جماعت کی طرف سے بھیجا گیا.اس جماعت کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی علالسلام ہیں.میں خود نئے مسلمان ہونے والوں سے ملا ہوں وہ اسلامی شعار پر عمل کرتے ہیں.اپنی بیت ہے.محمد کے اخلاق کو بطور نمونہ پیش کیا جاتا ہے.ان کا دعوی ہے کہ.......آخری مذہب ہے.ان کا 227 ایک میگزین بھی ہے.“ خلاصه از الفضل 18 جولائی 1927 ءص8) اسی طرح امریکہ کے ایک اخبار سیرے کس ہیرالڈ Syracuse Herald جون 1922ء کے میگزین سیکشن میں تصاویر کے ساتھ مفصل رپورٹ شائع ہوئی جواحد یہ مشن کی فتح کا اعتراف ہے: امریکہ کے عیسائی لوگ ہر سال لاکھوں ڈالر یسوع کی انجیل کو تمام دنیا میں پھیلانے اور روئے زمین کے لوگوں کو عیسائی بنانے کے لئے خرچ کر رہے ہیں اور کثیر خرچ ممالک غیر میں اپنے وقف شدہ عیسائی مشنریوں کے آرام و آسائش کے لئے جو نہایت سرگرمی سے کام کر رہے ہیں ، کیا جا رہا ہے.دنیا کے دیگر بڑے بڑے مذاہب میں سے ایک مذہب عیسائی امریکہ میں اپنے قدم جمانے کے لئے زبردست کوشش کر رہا ہے.مسلمانوں کے لیڈروں نے 22,7000,000 یا اس سے کم و بیش پیروان اسلام پر جو کہ اس وقت ٹرکی ہندوستان اور دیگر ممالک میں ہیں، اکتفانہ کرتے ہوئے اپنی عنان تو جہ کو یونائٹڈ سٹیٹس اور کینیڈا کی طرف پھیرا ہے تا کہ ان دونوں قوموں کو اسلام کے مضبوط قلعے بنائیں.ان کا ارادہ ہے کہ وہ اپنی خوشنما مسجدیں اور مینار (جن پر کھڑے ہو کر مؤذن اذانیں دیتے

Page 229

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں ) اس کثرت سے ان ممالک میں بنائیں جس کی کثرت سے ہمارے گرجے بنے ہوئے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ وہ دن آنے والا ہے اور وہ کوئی زیادہ دور نہیں جبکہ ہلال صلیب پر غالب آئے گا اور اہل امریکہ کی بہت بڑی تعداد ان اعتقادات کی پیروبن جائے گی جو قرآن میں بیان ہوئے ہیں.امریکہ کے کروڑوں عیسائی جو بہت مدت سے بڑے اشتیاق کے ساتھ اس وقت کا انتظار کرتے رہے ہیں کہ صلیب دنیا کے ہر حصے میں غالب ہو جائے گی اور تمام دنیا کے انسان یسوع مسیح کے پیرو بن جائیں گے ان کے نزدیک اس بر اعظم کو کافر ترک“ کے مذہب پر فتح کر لینے کی تجویز ایک نا قابل اعتبار بات معلوم ہوگی لیکن اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ تجویز واقعی طور پر عمل میں لائی جا رہی ہے اور اس مذہبی جوش کے ساتھ جس کے لئے تمام مسلمان مشہور ہیں.ایک سال سے کچھ ہی زیادہ عرصہ ہوا ہے جب کہ ریاست ہائے متحدہ میں ایک مبلغ آیا ہوا ہے جس کے ذمہ یہ فرض رکھا گیا ہے کہ وہ اپنے مذہب کو شمالی امریکہ کے طول و عرض میں پھیلائے.اس کا نام مفتی محمد صادق ہے اور وہ قادیان ( پنجاب ہندوستان ) سے آیا ہے جہاں ان کے سلسلہ احمدیہ کا مرکز ہے.سلسلہ احمد یہ اپنے بانی کی وجہ سے اس نام سے پکارا جاتا ہے جس کے متعلق مسلمان اعتقاد رکھتے ہیں کہ زمانہ موجودہ میں مثیل مسیح ہو کر آیا ہے.مسیح کو وہ خدا کا نبی سمجھتے ہیں.لیکن اپنے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر فضیلت دیتے ہیں جسے وہ خاتم النبین کہتے ہیں.سلسلہ احمدیہ کا خاص مقصد دین کو دنیا میں پھیلانا ہے اور جس قدر ممکن ہو سکے عیسائیت، یہودیت ، بدھ ازم اور دیگر مذاہب کے لوگوں کو اس مذہب میں داخل کرنا ہے اس سلسلے کے لوگوں کا ماٹو یہ ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.“ وہ طریق جس سے جماعت احمد یہ اپنا کام کرتی ہے بہت بڑی مشابہت رکھتا ہے.اس 228

Page 230

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ طریقہ سے جو عیسائیت کے مشنریوں نے اپنے انتظام کا رکھا ہوا ہے.ہندوستان میں مرکز سلسلہ سے ایسے مبلغین جنہوں نے اپنی زندگیاں محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) کی تعلیم کو جو قرآن میں بیان کی گئی ہے، دنیا میں پھیلانے کے لئے وقف کی ہوئی ہیں، دنیا کے ہر حصہ میں بھیجے جاتے ہیں ہنوز اسلام غالب مذہب نہیں ہے.یہ واعظ اعلیٰ درجہ کے تعلیم یافتہ آدمی ہیں.متعدد زبانوں میں گفتگو کرتے ہیں جو انہیں اس کام کے لئے سکھائی جاتی ہیں جو ان کو در پیش ہے.ان کے فرائض اور ذمہ داریاں بہت ہی قریب مشابہت رکھتی ہیں ہمارے واعظ پوپوں کی ذمہ داریوں سے.اس وقت علاوہ اس مبلغ کے جو امریکہ میں ہے اس سلسلہ کے مبلغ تمام ہندوستان میں، انگلینڈ، برما، سیلون، چین، آسٹریلیا، ایران میسو پوٹیمیا، عرب، مصر، مشرقی اور مغربی امریکہ، ماریشس اور متعدد دوسرے مقامات میں ہیں اور مبلغ بھی بیرون جات میں بھیجے جائیں گے.ڈاکٹر صادق ایسے مشنری ہیں جن کے سپر دریاست ہائے متحدہ اور کینیڈا کو فتح کرنے کا کام دیا گیا ہے.وہ اپنے آپ کو بہت محنت اور سرگرمی سے کام کرنے والا ثابت کر رہے ہیں اور معلوم ایسا ہوتا ہے کہ ان کے اخراجات کا کافی انتظام ہے.اس ترقی نے جس کے متعلق وہ دعوی کرتے ہیں کہ انہیں چند ماہ میں حاصل ہوئی ہے ان کے دلداروں کو یہ خیال کرنے کا موقع بہم پہنچا دیا ہے کہ وہ دن جبکہ امریکہ مسلمان ہو جائے گا، ان کی امیدوں سے بھی پہلے طلوع ہونے والا ہے.ان کئی سو نو مسلموں کے علاوہ جن کے متعلق انہوں نے لکھا ہے کہ عیسائیت کے مختلف فرقوں سے مسلمان بنائے گئے ہیں، انہوں نے ہزاروں ترک اور دوسرے مسلمانوں میں جو کہ امریکہ میں رہتے ہیں مذہبی دلچسپی کو بحال کرنے کے متعلق بہت بڑا کام کیا گیا ہے.ڈاکٹر صادق کے یہاں آنے کے بعد ایک مسجد خوشنمائی اور ہر طرح کی احتیاط کے ساتھ ہائی لینڈ پارک میں جو کہ ڈیٹرائٹ کے مفضلات میں سے ہے تعمیر ہوئی ہے.اس وقت تک 229

Page 231

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ یہ مبلغ یہیں قیام پذیر تھا مگر حال ہی میں وہ شکا گو چلا گیا اور مستقبل قریب میں شکاگو، نیو یارک اور بہت سے دوسرے بڑے شہروں میں تعمیر شدہ مساجد کو دیکھنے کی امید رکھتا ہے.ڈاکٹر صادق کے کام کی ترقی کی رپورٹ ایک رسالہ میں چھپتی ہے جسے مسلم سن رائز“ کہتے ہیں جس کا کہ وہ خود ایڈیٹر اور پبلشر ہے اور جو تین ماہ کے بعد نکلتا ہے.یہ ایک خوبصورت چھپا ہوا 28 صفحہ کا رسالہ ہے جو سوائے بعض عربی الفاظ کے بالکل انگریزی میں ہوتا ہے.اس کے صفحہ اوّل کا نقشہ مذہب کے شیدائی مسلمانوں کی عظیم الشان اُمید کو ظاہر کرتا ہے.وہ ریاست ہائے متحدہ اور کینیڈا کا نقشہ ظاہر کرتا ہے.یہ دونوں قومیں اسلام کے سورج کی شعاعوں کے نیچے نہا رہی ہیں.اپریل 1922ء کے مسلم سن رائز کے پرچہ میں امریکہ کے 33 مردوں اور عورتوں کی فہرست شائع ہوئی ہے جن کے متعلق بیان کیا گیا ہے کہ حال ہی میں انہوں نے احمدیت کو قبول کیا.ان کو امریکن ناموں کے بعد عربی نام دیئے گئے.ڈاکٹر صادق کا رسالہ قرآن اور احادیث سے اقتباس شائع کرتا ہے اور زمانہ حال کے نبی احمد کی تحریروں کو بھی درج کرتا ہے.اس میں کئی ایک مضمون ایسے ہیں جن میں اسلام اور 230 عیسائیت کا مقابلہ کیا گیا ہے اور بلاشبہ ہر موقع پر مؤخر الذکر کی ذلت دکھائی گئی ہے.“ حضرت مصلح موعودؓ نے 1956ء میں امریکہ کی جماعت کے نام ایک پیغام میں تحریر فرمایا: امریکہ میں جماعت احمد یہ 1920ء سے قائم ہے گویا 36 سال اس کو قائم ہوئے 66 ہوگئے ہیں...مفتی صاحب کے زمانے میں یہ جماعت 7000 تک پہنچ گئی تھی.“ تاریخ احمدیت جلد 19 ص 477)

Page 232

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ باب پنجم امریکہ سے واپسی پر قادیان اور ربوہ میں خدمات 231 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی مسحور کن خوشبوؤں میں بسی قادیان کی بھاگوں بھری سدا بہار بستی میں استقبالیوں کی رونقوں اور پیاروں کی مسکراہٹوں ،مصافحوں اور معانقوں کے لطف میں حضرت خلیفہ المسیح کے ارشاد میں دینی خدمات کے تسلسل کی راحت بھی شامل ہوگئی.آپ نے لاہور اور سیالکوٹ کے تربیتی دورے کے لئے روانہ ہونے کا ارشاد فرمایا.چنانچہ 24 فروری کو آپ حضرت حافظ روشن علی صاحب کی معیت میں لاہور اور سیالکوٹ تشریف لے گئے.وہاں غیر احمدیوں نے جلسہ میں شمولیت کی دعوت دی تھی.الفضل 26 فروری 1924 ءص1) 24 مارچ کو آپ دونوں اصحاب نے انجمن اسلامیہ جموں کے سالانہ جلسہ میں تقریریں کیں.جموں کے غیر احمدی رؤسا کی مستورات کے اصرار پر حضرت مفتی صاحب نے ایک جلسہ میں امریکن عورتوں کے حالات پر تقریر کی.اپریل 1924 ء کو آپ کو صدرانجمن احمدیہ کا جنرل سیکرٹری مقرر کیا گیا.(الفضل 14 اپریل 1924ء) 2 جولائی سرگودھا میں اسلام اور عیسائیت کے موضوع پر لیکچر دیا حاضری قریب دو ہزارتھی.(الفضل 25 جولا ئی 1924ءص6) 4 جولائی کو آپ جماعت احمد یہ صوبہ سرحد کی درخواست اور حضرت مصلح موعود کی اجازت سے پشاور تشریف لے گئے.ریلوے اسٹیشن پر محترم محمد یوسف صاحب (امیر جماعت) کی معیت میں کثیر تعداد میں احباب نے استقبال کیا.8 جولائی کو اسلامیہ کلب پشاور میں ممالک مغربیہ اور

Page 233

حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ اسلام کے موضوع پر لیکچر دیا.عمائدین شہر بھی مدعو تھے.232 خلاصه از الفضل 29 جولائی 1924 ءص 10) واپسی پر جہلم میں ایک بہت بڑے جلسے سے خطاب کیا.1924ء میں جب حضرت مصلح موعود یورپ تشریف لے گئے تو اپنی غیر حاضری میں مولانا شیر علی صاحب کو امیر مقامی اور آپ کو نائب امیر مقرر فرمایا.آپ کے ساتھ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد بھی نائب امیر تھے.حضرت مصلح موعود نے جولائی میں خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا:.مفتی محمد صادق بھی پرانے مخلصین میں سے ہیں اور سلسلہ کی خدمات میں انہوں نے بہت حصہ لیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان سے خصوصیت سے محبت تھی وہ مسیح موعود علیہ السلام کے ایسے خدام میں سے تھے جو ناز بھی کرلیا کرتے تھے.اس زمانہ میں بھی خدا تعالیٰ نے انہیں دعوت الی اللہ کی خدمتوں کا موقع دیا ہے.مگر مجھے ان سے انتظامی امور میں تجربہ کا موقع نہیں ملا ہے.لیکن میں دیانت داری سے یقین رکھتا ہوں که وه...اپنی فہم کے ساتھ سلسلہ کی خدمت کرنے میں ایسا حصہ لیں گے جو مبارک ہوگا.“ (الفضل 22 جولائی 1924 ءص6) وسط جولائی 1924ء میں بھیرہ میں ایک حادثہ پیش آیا.کچھ غیر احمدیوں نے ملانوں کے اُکسانے پر بلوہ کیا.خود ان کے ہاتھوں ایک غیر احمدی مارا گیا.لیکن 22 احمد یوں کو حوالات میں ڈال دیا گیا.حضرت صاحب نے قادیان سے حضرت مفتی صاحب کو دو ساتھیوں کے ساتھ تحقیق کے لئے بھجوایا.جنہوں نے نہایت محنت سے تحقیقات کر کے مفصل رپورٹ دی.تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 471 جدید ایڈیشن) 25 مئی 1924ء کو مسلم لیگ کے ایک اجلاس میں شمولیت کے لئے ایک قافلہ قادیان سے روانہ ہوا.اُس میں حضرت مفتی صاحب حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب اور حضرت ذوالفقار

Page 234

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 233 علی خان صاحب شامل تھے.ان کے مقاصد میں حضرت خلیفہ المسیح کے لکھے ہوئے رسالہ اساس الاتحاد" کی اشاعت بھی تھی جو مسلم لیگ کی رہنمائی کے لئے لکھا گیا تھا.(الفضل 30 مئی 1924 ء ص 7) آخر ستمبر میں آپ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب اور محترم قاضی محمد عبد اللہ صاحب کے ساتھ ایک جلسہ کے لئے دہلی تشریف لے گئے.نومبر میں حضرت مصلح موعود دورہ یورپ سے واپس تشریف لائے تو استقبال کے لئے ممبئی گئے اور بعض ضروری جماعتی کاموں کی وجہ سے کچھ قیام کے بعد 2 دسمبر کو واپس قادیان پہنچ گئے.4 دسمبر کو حضرت صاحب کے ارشاد پر مکرم ملک غلام فرید صاحب ایم اے کولندن کے سفر پر دُعاؤں کے ساتھ رخصت کیا.جلسہ سالانہ 1924ء میں بحیثیت جنرل سیکرٹری صدر انجمن رپورٹ پیش کی.دوسرے روز اپنے محبوب موضوع ذکر حبیب پر تقریر کی.اس جلسہ میں آپ کے سپر دجلسہ گاہ کا سٹیج تھا.جس کا بہت عمدہ انتظام کیا.الفضل 3 جنوری 1925 ص 2) 22 فروری تا15 مارچ 1925 ء آپ نے سیالکوٹ ،لاہور، دہلی، منٹگمری ( حال ساہیوال) کا دورہ کیا اور احباب جماعت کو خطاب فرمائے.حضرت سیدہ سارہ بیگم کے نکاح میں وکالت 12 /1 اپریل 1925ء کو حضرت مصلح موعود کے حضرت سیدہ سارہ بیگم صاحبہ کے ساتھ نکاح میں آپ دلہن کے وکیل مقرر ہوئے.یہ نکاح حضرت صاحب نے خود پڑھایا تھا.آپ نے فرمایا: مفتی صاحب آپ کو ایک ہزار حق مہر پر ساره بیگم بنت مولوی بھاگلپوری عبد الماجد صاحب کا نکاح مجھ سے منظور ہے.اس پر مفتی صاحب نے کھڑے ہو کر منظوری کا اقرار کیا.اس طرح ایک نرالی سعادت آپ کے حصے میں آئی.“ (الفضل 18 اپریل 1925 ء ص2)

Page 235

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 234 12, 13 مئی کو امرتسر میں صداقت دینِ حق کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے آپ نے پُر جوش انداز میں فرمایا: اللہ تعالیٰ نے دنیا میں تبلیغ کے لیے احمدیوں کو چن لیا ہے.اگر احمدی بچے نہ ہوتے تو اللہ تعالیٰ ہرگز ان سے یہ خدمت نہ لیتا.یہ کام خدا تعالیٰ ہمیشہ اپنے انبیاء سے لیتا ہے.اولیاء وصلحاء کے ذریعے کرواتا ہے نہ کہ بدکاروں سے.پس احمدیت کی صداقت پر یہ زبردست دلیل ہے.پس اے احمد یو! غفلت کو چھوڑ و اور آگے بڑھو! دنیا تمہاری منتظر ہے.ان کے ہونٹوں سے وہ آب حیات لگا دوتا وہ بھی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندگی (الفضل 23 رمئی 1925ء ص 2) پائیں.“ 15 جولائی 1925ء کو آل مسلم پارٹیز کانفرنس میں شمولیت کے لئے جو وفد قادیان سے روانہ ہوا اُس میں حضرت مفتی صاحب بھی شامل تھے.الفضل 18 جولائی 1925 ءص1) اس کے بعد آپ نے لاہور، گوجرانوالہ، گجرات ، راولپنڈی اور ایبٹ آباد کے جلسوں سے خطاب فرمایا.یکم اکتو بر 1925ء کو آپ کو ناظر امور خارجہ مقرر فرمایا گیا.یہ نی نظارت بنائی گئی تھی.الفضل 21 نومبر 1925 ء ص 7) 25 نومبر کو ڈپٹی کمشنر گورداسپور کی تبدیلی پر الوداعی تقریب میں شرکت کی.جلسہ سالانہ 1925ء میں صدر انجمن احمدیہ کی رپورٹ پڑھی اور ذکر حبیب کے موضوع پر تقریر کی.دنیا کی چوبیس زبانوں میں تقریریں 29 جنوری 1926ء کو حضرت مفتی صاحب کے زیر اہتمام پہلی بار ایک جلسہ ہوا جس میں دنیا کی چو میں زبانوں میں تقریریں ہوئیں.ان سب کا موضوع صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھا.اور یہ زبانوں کا اجتماع بجائے خود صداقت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ثبوت تھا.تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 553)

Page 236

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 235 مارچ1926 ء سے پھر سفروں کا سلسلہ شروع ہوا.کیمل پور میں 23 مارچ کو امریکہ میں اسلام کے موضوع پر تقریر کی مئی میں دہلی کے جمعیت خلافت کے جلسہ میں حضرت صاحب کو دعوت دی گئی تھی.آپ کے ارشاد پر حضرت مفتی صاحب نے نمائندگی کی.انجمن احمد یہ لائل پور ( حال فیصل آباد ) کا جلسہ 28 تا 30 مئی ہوا اس جلسہ میں آپ نے پانچ تقریریں کیں.جولائی میں سنور اور پٹیالہ کا سفر اختیار کیا.شملہ میں رومن کیتھولک سے گفتگو 28 راگست کو جماعت احمدیہ شملہ کے جلسہ سالانہ میں شرکت کی.9ستمبر شملہ میں غیر از جماعت کی مسجد میں اُن کی دعوت پر فضائل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے موضوع پر تقریر کی.اسی شام تھیوسوفیکل لاج میں بھی سیرت النبی کے موضوع پر اظہار خیال عقیدت ومحبت کا موقع ملا.ستمب، اکتوبر کو حضرت مصلح موعود کے ساتھ شملہ جانے کی سعادت ملی جو خدمات آپ کے سپرد ہوئیں اُن کے سلسلہ میں شہر میں خوب گھومنا پھرنا پڑا.اس سفر کے دوران ایک رومن کیتھولک چرچ کے آرچ بشپ سے دلچسپ گفتگو ہوئی جو افادہ عام کے لئے درج ذیل ہے: حضرت مفتی صاحب : - آپ تاریخ زمانہ مسیح کے بڑے ماہر ہوں گے کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ یسوع مسیح نے مسیح ہونے کا دعوی کیا تو اس کوٹن کر یہود نے کیا جواب دیا.آرچ بشپ :.انہوں نے کہا کہ ہم مسیح کو نہیں جانتے.وہ مسیح کو ظاہری رنگ میں دیکھنا چاہتے تھے.ایسانہ پا کر انہوں نے صاف انکار کر دیا.حضرت مفتی صاحب : بے شک ان کا جواب نامناسب اور کافرانہ تھا.کیا آپ مہربانی فرما کر بتا سکتے ہیں کہ یہ خبر پا کر کہ آنے والا سیح آ گیا ہے اُن کو کیا جواب دینا چاہیے تھا.آرچ بشپ:.یہ تو ظاہر ہی ہے کہ اُن کو کہنا چاہیے تھا کہ مسیح آ گیا ہم ایمان لائے.اور بس ایمان لانا چاہیے تھا.ایمان میں ہر ایک کی نجات ہے.

Page 237

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 236 حضرت مفتی صاحب :.بے شک آپ نے سچ فرمایا اگر میں آج آپ کو کہہ دوں کہ جس مسیح کے آنے کا اس وقت آپ کو انتظار ہے وہ مسیح آ گیا ہے تو آپ کیا جواب دیں گے.آرچ بشپ :.میں کیا جواب دوں گا.میں ایسے مدعی کو کہوں گا کہ ثبوت پیش کرو.بغیر ثبوت کے میں کیوں کر مان لوں کہ وہ آنے والا سیح ہے.حضرت مفتی صاحب:.بے شک آپ کا حق ہے کہ آپ ثبوت مانگیں مگر یہود کے حق میں آپ نے نہ فرمایا کہ انہیں کہنا چاہیے تھا کہ ثبوت لاؤ.ان کے حق میں آپ نے یہ رائے دی کہ اُن کو چاہیے تھا کہ دعوی کو سنتے اور کہہ دیتے مسیح آ گیا ہم ایمان لائے.آرچ بشپ :.ہاں میں نے ایسا کہا مگر کوئی حرج نہ ہوتا اگر وہ ثبوت مانگتے.مفتی صاحب : اچھا آرچ بشپ صاحب ! آپ کو میں اب یہ خبر دیتا ہوں کہ آنے والا مسیح آ گیا ہے آپ اس کو قبول کر لیں.وہ حضرت احمد کی شکل میں قادیان میں مبعوث ہوا میں نے اُسے سچا پا یا سچا مانا.برسوں اس کی صحبت میں رہا.اس نے بہت سے نشانات پیشگوئیوں میں بیماریوں کے چنگا کرنے ، مصیبت زدوں کی مصیبت دور کرنے میں ، دشمنوں کی ہلاکت میں ، علمی تحریر میں عقلی دلائل میں غرضیکہ ہر رنگ میں اپنی صداقت میں دکھائے.اپنا کام پورا کر کے اس دنیا سے رُخصت ہوا.لیکن اب بھی وہ اپنے قائم کردہ سلسلہ کی زندگی میں اور اپنے خلفاء کے شاندار کاموں میں زندہ ہے اور اس کی رُوح کام کر رہی ہے اور اس کا ایک خلیفہ بیٹا اس وقت شملہ میں آپ کے گھر کے قریب منزل کئے ہوئے ہے.آرچ بشپ :.میں ان نشانات کو نہیں مانتا.خداوند آسمان پر بیٹھا ہے وہ آسمان سے نمودار ہوگا ہمارے سامنے نازل ہوگا ہم اسے آسمان سے اتر تا دیکھیں گے اور مان لیں گے.مفتی صاحب :.مگر آپ جانتے ہیں زمین گول ہے.ایک ہی وقت میں سب جگہ لوگ اسے آسمان سے اترتا نہیں دیکھ سکتے اگر وہ سیلون میں اُتر آیا تو آپ کو کیا معلوم ہوگا.آپ کس طرح

Page 238

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 237 مانیں گے اور امریکہ اور یورپ کے لوگ کیوں کر تسلیم کریں گے.آرچ بشپ:.بے شک یہ ایک مشکل بات ہے اس پر غور کرنا ضروری ہے اس کے بعد آرچ بشپ صاحب کسی بہانے سے الگ ہو گئے اور راہ فرار اختیار کر لی.الفضل 13 دسمبر 1927 صفحہ 6,5) مئی 1927ء کے پہلے ہفتہ میں لاہور میں زبردست فساد کے نتیجہ میں بہت سے مسلمانوں کو مار ڈالا گیا.حضرت صاحب کو بے حددُ کھ ہوا.آپ نے فورا قیام امن ، خدمت خلق اور مظلومین کی امداد کے لئے قادیان سے حضرت ذوالفقار علی خان صاحب اور حضرت مفتی صاحب کو لاہور بھجوایا.ان حضرات نے سب سے پہلے مقتولین اور مجروحین اور ان کے پسماندگان سے متعلق ضروری اور مفصل معلومات حاصل کرنے کے لئے ایک مفصل اشتہار دیا جس پر صبح چھ بجے سے لے کر نو بجے شام تک لاہور کے مختلف حصوں سے بکثرت اطلاعات آنا شروع ہوگئیں اور جہاں جہاں بھی فوری امداد کی ضرورت محسوس ہوئی ان بزرگوں نے امداد پہنچائی اور خود کو تو الی میں جا کر زیر حراست مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کی مرنے والوں کے لواحقین اور متعلقین کی ڈھارس بندھائی اور مناسب ضروریات کا بندوبست کیا اور لاہور کے احمدی ڈاکٹروں کو ہسپتال میں جا کر زخمیوں کی دیکھ بھال کے لئے بھجوایا.خدمت مہینوں تک جاری رہی.تاریخ احمدیت جدید ایڈیشن جلد 4 صفحہ 579,578) کولمبو کا دورہ 17 اکتوبر تا 7 نومبر 1927ء آپ حضرت صاحب کے ارشاد پر کولمبو تشریف لے گئے.وہاں اخبارات میں آپ کی آمد کا خوب چرچا ہوا.استقبال کے لئے ایک جم غفیر امڈ آیا اور جلوس کی شکل میں قیام گاہ پر لے گئے.وہاں ایک پادری نے مباحثہ کا چیلنج دیا مگر آپ کی آمد کی خبر پا کر وہ کہیں اور روانہ ہو گئے.حضرت مفتی صاحب نے دینِ حق کے موضوع پر لیکچرز دیئے اخبارات کے ایڈیٹرز

Page 239

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 238 اور نامہ نگار آپ سے انٹرویوز لے کر شائع کرتے رہے.اس دورے کی خاص بات یہ تھی کہ بدھ مذہب کے لوگوں کو پیغام حق پہنچانے کا موقع ملا.ایک تقریر بدھسٹ سوسائٹی کے ہال میں بھی کی.تمام انتظامات بدھ حضرات نے کئے.سیلون سے واپسی پر حضور کے ارشاد پر مالا بار، بنگلور، کلکتہ، بھاگلپور، مونگھی ، پٹنہ اور الہ آباد کا تبلیغی دورہ کیا.مالا بار میں احمدیوں کا جوش و خروش دیدنی تھا اردگرد کے علاقوں سے بھی احباب کثیر تعداد میں استقبال کے لئے آئے.اخبارات میں چرچا اور اشتہارات نے غیر از جماعت کو بھی مشتاق بنادیا تھا.کینا نور میں لیکچر کی صدارت بلد یہ کینا نور کے صدر نے کی.انگریزی میں آپ کے خطابات اور امریکہ میں خدمت دین کے واقعات لوگوں کو بہت متاثر کرتے رہے.جہاں ضرورت ہوتی مقامی زبان میں بھی ترجمہ کیا جاتا.کالی کٹ میں 12 نومبر 1927ء کو ہونے والی تقریر بھی سامعین کو بے حد پسند آئی.18 نومبر کو بنگلور پہنچنے پر بے نظیر استقبال ہوا اور جلوس کی شکل میں استقبالیہ نعروں کے ساتھ قیام گاہ تک پہنچایا گیا.دن میں Y.M.C.A ینگ مین کرسچین ایسوسی ایشن ہال میں اور رات کو مد علی ہال میں تقاریر ہوئیں.احمدیت اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پر انوکھے رنگ میں گفتگو نے سامعین کے دل موہ لئے.24 نومبر کو مسلم انسٹی ٹیوٹ ہال کلکتہ میں زیر صدارت شمس العلماء مسٹر کمال الدین احمد ایم اے لیکچر ہوا.تقریر کرتے ہوئے آپ نے بتایا کہ امریکہ میں کس طرح چھ ہفتے نظر بند رہنا پڑا اور اس اثناء میں 15 نفوس داخل اسلام ہوئے.25 نومبر کو آپ نے بنگال کے نام پیغام کے عنوان پر زیر صدارت سر دیوا پرشاد دلبر بدهیکاری سی آئی ای البرٹ ہال میں لیکچر دیا.27 نومبر کو بھی اسی ہال میں امریکہ میں ہندوستانی طلباء کے حالات سنائے.صدر جلسہ بابو بین چندر پال نے کہا کہ دُنیا میں آئندہ امن وامان صرف اسی صورت میں قائم ہو سکتا ہے کہ تمام بنگال احمدی ہو جائے تاکہ لوگوں کے جان ، مال اور عزت محفوظ رہ خلاصه از الفضل 6 دسمبر 1927 ء ص 5 تا 8 ) سکیں.

Page 240

239 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ برہمن بڑ یہ میں بھی پیام امن دینے کے مواقع ملے.2 دسمبر کوڈھا کہ میں زیر صدارت جناب ڈاکٹر عبدالستار صاحب صدیقی ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ آف عربک اینڈ اسلامک سٹڈیز امریکہ میں اشاعت اسلام سے متعلق اپنے خیالات پیش کئے.3 دسمبر کو بوگرا میں ایک جم غفیر کے سامنے گھنٹوں حقانیت اسلام پر پر مغز تقریر کی.5 دسمبر کو ٹاؤن ہال رنگ پور ، 6 دسمبر کو صبح کار مائیل کالج میں اور شام ٹاؤن ہال میں "The Coming Jesus of India“ کے موضوع پر خطابات فرمائے.تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 505 جدید ایڈیشن) حضرت مصلح موعود نے اس دورے کے بارے میں فرمایا: اس سال جو تبلیغی کام ہوا ہے وہ اعلیٰ درجہ کا ہے.ابھی کچھ دن ہوئے دو بڑے تبلیغی دورے ہوئے ہیں.مفتی محمد صادق صاحب کولمبو گئے وہاں سے بنگال، مدراس، مالا بار اور یوپی میں کئی بڑے مقامات پر انہوں نے لیکچر دیئے گویا سوائے سندھ کے انہوں نے سارے ہندوستان کا دورہ کیا اور آٹھ ہزار میل سفر کیا.24 ہزار میل ساری دنیا کا چکر کا فاصلہ بتایا جاتا ہے.مفتی صاحب اس کے تیسرے حصے میں پھر آئے.“ (انوار العلوم جلد 10 ص 82) 30 اور 31 مارچ کو دہلی میں آل انڈیا مسلم لیگ کا اجلاس ہوا.یہ اجلاس روشن تھیٹر دہلی اجمیر دروازہ میں ہوا تھا.اس میں مسٹر محمد علی جناح ، حاجی عبداللہ ہارون صاحب، مولوی شفیع صاحب داؤدی ، مولوی ظفر علی خان صاحب کے علاوہ حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب اور حضرت ذوالفقار علی خان صاحب اور دوسرے مقتدر حضرات شامل تھے.سید دلاور شاہ صاحب ایڈیٹر مسلم آؤٹ لک کا استقبال سید دلاور شاہ صاحب کو جون 1927ء کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ناموس کے تحفظ کے سلسلہ میں جیل میں ڈالا گیا تھا.22 دسمبر کو رہا ہوئے 25 دسمبر کو قادیان آنے کی اطلاع ملی.جلسہ سالانہ کی وجہ سے کثیر تعداد میں احمدی موجود تھے.حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر قصبہ سے باہر جا

Page 241

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 240 کر بہت سے احباب نے حضرت مفتی صاحب کی قیادت میں اپنے معزز بھائی کا خیر مقدم کیا.الفضل 3 جنوری 1928 ص 1) جلسہ ہائے سیرۃ النبی سال یا پین میں تقاریر جون 1928 ء میں حضرت مصلح موعود کی تحریک پر سارے ہندوستان میں جلسہ ہائے سیرت النبی الایام منعقد کئے گئے.جن میں کسی مذہب وملت کی تخصیص نہیں تھی.قادیان سے قریباً پچاس مقررین ہند کے طول و عرض میں مختلف شہروں میں تقاریر کے لئے بھیجے گئے.جن میں ایک حضرت مفتی محمد صادق تھے.چنانچہ کلکتہ میں تمام اہل مذاہب کے لئے زیر صدارت سر پی رائے البرٹ ہال میں لیکچرز کا انتظام کیا گیا تھا.17 جون کی شام کو حضرت مفتی صاحب کا موضوع ” اُسوہ حسنہ تھا.اس جلسے میں ہر مذہب وملت کے بااثر اور سر کردہ نمائندے موجود تھے جنہوں نے اس کو تاریخی اہمیت کی کوشش قرار دیا.(الفضل 22 جون 1928 ءص8) 22 ستمبر 1929ء کو تھیوسوفیکل ہال کراچی میں ایک لیکچر دیا.ہر مذہب وملت کے لوگ موجود تھے عنوان تھا".The Experiences About Amercian Spiritual Life" الفضل 4/اکتوبر 1929 ص2) تحریک پاکستان میں قادیان کی آواز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تربیت اور ہدایت کے مطابق کلمہ حق کہنا، انسانیت کی بہبود اور قوم کی ترقی و خیر خواہی میں کوشاں رہنا حضرت مصلح موعود کا شعار تھا.ارضِ ہندوستان میں جب اہل اسلام کی فلاح کے لئے سیاسی طور پر حرکت ہوئی تو آپ نے اپنے الہی تائید یافتہ تدبر کے ساتھ آواز حق اُٹھائی.آپ کے ارشاد پر عملی طور پر آگے بڑھ کے کام کرنے والوں میں حضرت مفتی صاحب بھی تھے.سائمن کمیشن کے سامنے جماعت احمدیہ کا وفد دو دفعہ پیش ہوا.ایک بار گورداسپور میں دوسری

Page 242

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 241 بار لاہور میں.دونوں دفعہ حضرت مفتی صاحب اس میں شامل تھے.الفضل 20 مارچ 1928 ءص1) اس وفد نے احمدی نکتہ خیال سے سیاسی امور پر اپنی رائے کا اظہار کیا جس نے پہلے جماعت احمدیہ کے عقائد بتائے اور ممبران کمیشن کولٹریچر پیش کیا.حضرت خلیفہ امسیح کا نہر ور پورٹ پر تبصرہ کتابی شکل میں شائع کر کے خاص طور پر کلکتہ اور دہلی میں پھیلا دیا گیا.کئی اصحاب نے حضرت مفتی صاحب سے کہا : م صلی اور عملی کام تو آپ کی جماعت کر رہی ہے اور جو تنظیم آپ کی جماعت میں ہے وہ کہیں نہیں دیکھی جاتی.“ کلکتہ کنوینشن میں مسلم لیگی نمائندے نہرورپورٹ کے حامی نظر آئے مگر حضرت مفتی صاحب نے اپنی تقریر میں واضح کیا کہ ہم اس کے مخالف ہیں اور اس کے خلاف ہمارے رسالے اور مضامین شائع ہوئے، لیکچرز دئے گئے ، مجالس قائم کی گئیں مگر اس کے باوجود ہم نے کنوینشن کی دعوت قبول کی اور اس میں شامل ہوئے کیونکہ ہم بائیکاٹ کے قائل نہیں.ہماری رائے ہے کہ سب سے ملنا چاہیے.پھر خواہ ہماری بات تسلیم ہو یا رڈ کر دی جائے لیکن سب کے خیالات سُن لینا ضروری ہے.آپ نے نہرورپورٹ میں ترمیم کے لئے دس نکات پیش کئے جن سے جماعت احمدیہ کے سیاسی خیالات خوب کھل کر سامنے آگئے.خلاصہ از الفضل 18 مارچ 1928ء) مسلم مطالبات کی پامالی دیکھ کر تمام مشہور مسلمان نمائندے دہلی میں جمع ہوئے.31 دسمبر 1928ء سے 2 جنوری 1929 ء تک آل انڈیا مسلم کانفرنس کا انعقاد ہوا.اس کانفرنس میں متعدد احمدی منتخب ہو کر شامل ہوئے.مرکز سے جماعت کی نمائندگی حضرت مفتی صاحب نے کی.کانفرنس کے آغاز میں سر شفیع صاحب نے جو قرار داد پیش کی اس میں بیشتر نکات حضرت خلیفہ المسیح کے تجویز کردہ تھے.یہی وہ قرارداد تھی جو قائد اعظم کے چودہ نکات کی بنیاد بنی.اس کا نفرنس میں

Page 243

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 242 حضرت مفتی صاحب کی دو تقریریں ہوئیں.ایک سبجیکٹ کمیٹی میں اور دوسری کھلے اجلاس میں ہوئی.مسئلہ کا وکشی پر آپ نے فرمایا: حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے سب سے پہلے اس بات کو ہندوؤں کے سامنے پیش کیا تھا کہ اگر ہندو اس وجہ سے ناراض ہیں کہ مسلمان گائے کا گوشت کھاتے ہیں تو ہم ان کی خاطر ایک جائز اور حلال چیز چھوڑنے کو تیار ہیں بشرطیکہ وہ بھی ہماری خاطر ایک چھوٹی قربانی کریں اور وہ یہ ہے کہ پاکوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کا سچا نبی مان لیں اور آپ کے خلاف بدزبانی سے باز آجائیں.“ مسلمان زعماء نے نہ صرف اس بات سے اتفاق کیا بلکہ حضرت خلیفتہ امسیح کی سیاسی بصیرت کو سراہا.(خلاصہ افضل 11 جنوری 1929 میں 1) اس موقع پر جناح لیگ اور شفیع لیگ کے الحاق کی کوشش اور کامیابی بھی جماعت احمدیہ کے حصے میں آئی.حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی نگاہ میں جناب محمد علی جناح کی سیاسی خدمات کی بہت قدر و منزلت تھی اس لئے آپ کی خواہش تھی کہ مسلم لیگ متحدر ہے.مارچ 1929ء میں جب جناب محمدعلی جناح اور سر محمد شفیع کی ملاقات ہوئی تو جماعت احمدیہ کے نمائندہ کی حیثیت سے مفتی صاحب ( ناظر امور خارجہ بھی موجود تھے.دونوں لیڈر باہمی گفت و شنید کے بعد اتحاد پر آمادہ ہو گئے.3029,28 مارچ کا اجلاس مسلم لیگ دہلی میں قرار پایا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی خدمت میں بھی دعوت نامہ بھیجا گیا.حضور خود مجلس مشاورت کی وجہ سے تشریف نہ لے جا سکے.اپنے نمائندہ کے طور پر حضرت مفتی صاحب کو بھیجا.مسلم لیگ کے اجلاس میں سبجیکٹ کمیٹی کے سامنے جناح صاحب کا تیار کردہ جو مسودہ پیش کیا گیا اس میں نہرورپورٹ رڈ کر دی گئی تھی.اس کی حضرت مفتی صاحب نے تائید کی.اجلاس بغیر کسی فیصلہ کے ختم ہو گیا مگر مفتی صاحب نے اپنی کوشش برابر جاری رکھی جو بالآخر بار آور ثابت ہوئی.چنانچہ 28 فروری 1930ء کے اجلاس میں مسٹر جناح

Page 244

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ اور جناب سر شفیع میں صلح ہو گئی.243 1930ء کے الہ آباد اجلاس کے لئے علامہ اقبال کے صدر مقرر کئے جانے کا فیصلہ مسلم لیگ کے جس اجلاس میں کیا گیا اس کے صدر حضرت مفتی صاحب تھے.الفضل 20 دسمبر 1930 ص 8) 1931ء میں تحریک آزادی کشمیر میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا نمایاں کردار تاریخ کا حصہ ہے.آپ نے آل انڈیا کمیٹی سارے مسلمانان ہند نمائندوں کی شمولیت کی کوششیں کیں.شروع میں جبکہ کمیٹی کا قیام ہوا نظارت امور عامہ نے جس کے ناظر ان دنوں حضرت مفتی محمد صادق صاحب تھے کام سنبھالا.یوم کشمیر کے پروگرام سب جماعتوں اور غیر احمدی معززین کو بھیجے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کا پمفلٹ 'کشمیر کے حالات، راتوں رات چھپوا کر بھیجا.چندہ کے متعلق جماعت میں تحریکات کیں اور کئی دن پور اعملہ اسی میں مصروف رہا.عمائدین سے ملنے کے لئے جو حضرات قادیان سے تشریف لے جاتے اُن میں حضرت مفتی صاحب بھی شامل تھے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اپنے ایک مکتوب میں تحریر فرمایا: ”ہز ایکسی لینسی وائسرائے بہادر کے پرائیویٹ سیکرٹری اور پھر خود حضور وائسرائے کے پاس میں نے مفتی محمد صادق صاحب کو بھیج کر مظالم کشمیر کے دُور کرنے کی طرف توجہ دلائی.“ تاریخ احمدیت جلد 5 ص 596) تحریک پاکستان میں آپ کی مساعی کا مختصر ا ذکر کر کے اب دوسرے موضوع کی طرف آتے ہیں.سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسے زوروں پر تھے.صبح سیاسی جلسہ ہوتا تو شام پیارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے حسین پہلوؤں پر تقریریں ہوتیں.انجمن احمد یہ دہلی کا نواں جلسہ سالانہ 27-28-29 مارچ 1931ء کو پریڈ گراؤنڈ میں منعقد ہوا تھا.اس جلسہ کا موضوع تھا ” حضرت رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیا پر احسانات آپ نے

Page 245

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 244 رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی احسانات بیان فرماتے ہوئے خصوصیت سے شراب سے متعلق فرمایا کہ مہذب اقوام بھی آج تنگ آکر اس چیز کو چھوڑ رہی ہیں جسے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی سو برس قبل ممنوع قرار دیا تھا.تیسرے دن کا تیسرا اجلاس زیر صدارت ڈاکٹر عبد المامون سہر وردی ایم.اے.پی.ایچ ڈی 8 بجے شب شروع ہوا.” بلاد عربیہ میں اسلامی خدمات“ کے موضوع پر تقریر کی.آپ نے بتایا کہ ان ممالک میں تبلیغ پھیلنے کا ذکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کیا تھا.ایک ڈچ قنصل قادیان میں الفضل 14 اپریل 1931 میں 9 کالم (3) 5 اپریل 1930ء مسٹر انڈر یا ساڈچ قنصل قادیان آئے.واپسی پر انہوں نے مفتی محمد صادق صاحب کو ایک خط لکھا جس میں تحریر کیا کہ میں نے قادیان میں نیکی کے سوا کچھ اور نہیں پایا.سفر ہندوستان سے جو بہت سے اثرات میرے دل پر ہوئے ان میں خاص اثرات قادیان کے ہیں.جنہوں نے میرے دل میں خاص جگہ حاصل کی ہے.سب سے اوّل آپ لوگوں کی مہمان نوازی ہے جس سے میں مسرور ہوا اور میں آپ کا ممنون ہوں گا.اگر آپ میرا شکر یہ اپنے سب احباب کو پہنچا دیں.خاص بات جو مجھ پر اثر کرنے والی ہوئی وہ ایک طبعی ایمان اور کچی برادری ہے جو لمبی محبت سے پیدا ہو کر قادیان کو رسولوں کی سی ایک فضا بخش رہی ہے جو عیسائی حلقوں میں شاذ و نادر ہے.(ترجمہ از ڈچ زبان ) ( تاریخ احمدیت جلد 5 ص 185) 31 نومبر 1931ء کو آپ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جلسہ کے سلسلہ میں کلکتہ تشریف لے گئے جہاں پر آپ نے ایک عظیم الشان اجتماع سے خطاب فرمایا.اس تقریر میں آپ نے حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی روحانی بادشاہت کے متعلق پیشگوئی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود باجود میں اس کا پورا ہونا اور دیگر چند پیشگوئیوں پر تفصیلی بحث فرمائی اور صداقت حضرت فخر

Page 246

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 245 الانبیاء خاتم النبي محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک بے مثال لیکچر دیا.ایک جلسہ عام شام کو انگریزی زبان میں ہوا جس کی صدارت کے فرائض ڈاکٹر مترا صاحب نے سر انجام دیئے اس میں آپ کی تقریر کا موضوع ” حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقناطیسی طاقت رکھنے والی شخصیت تھا.الفضل 19 نومبر 1931 صفحہ 8) 1931ء کے جلسہ سالانہ جماعت احمدیت کے پہلے اجلاس میں آپ نے عیسائی کلیسا کی تاریخ اور اس میں پیدا ہونے والے غلط عقائد اور ان کی وجوہات پر تقریر کی.خواتین میں آپ کی تقریر کا موضوع تھا تبلیغ احمدیت میں احمدی خواتین کا فرض.“ حضرت مصلح موعود کی ایک سکیم کی الہی تائید ایک دفعہ حضرت مصلح موعود کے ذہن میں دعوت الی اللہ کے لئے ایک خاص سکیم آئی جس کا کسی سے ذکر کئے بغیر بعض بزرگوں کو دُعا کے لئے ارشاد فرمایا.مولوی عبدالستار خان صاحب کی طرف سے دو تین دن کے بعد جواب ملا جس میں حضرت اقدس علیہ السلام کے دعوت الی اللہ کے متعلق بعض الہامات تھے.پھر ایک رؤیا لکھی: ایک میدان میں تمام لوگ کھڑے ہیں اور میں انہیں کہتا ہوں کہ دنیا میں ( دعوت الی اللہ ) کرو.مفتی محمد صادق صاحب بھی وہیں ہیں.پھر لکھا.آپ نے یہ کہنے کے بعد مفتی صاحب کو کسی پہاڑی سرد علاقے میں ( دعوت الی اللہ ) کے لئے بھیج دیا.گویا جو (دعوت الی اللہ ) کا نقشہ میرے ذہن میں تھا وہ خدا تعالیٰ نے ان کو سارے کا سارا بتادیا پھر جزئیات بھی بتا دیں جواب تک پوری ہو رہی ہیں.چنانچہ مفتی محمد صادق صاحب کو عرصہ تک باہر ( دعوت الی اللہ ) کے لئے میں نے بھیج دیا اور اب بھی پہاڑوں پر انہیں مختلف کاموں سے بھیجنا پڑتا ہے.“ ( خطبات محمود جلد 13 صفحہ 624.خطبہ 28 اکتوبر 1932 ء)

Page 247

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 246 حضرت مفتی صاحب کا تبحر علمی ، وسیع تجربات اور دلکش انداز تخاطب اس قدر معروف تھا کہ آپ جہاں تشریف لے جاتے آپ سے تقریر کا پُر شوق مطالبہ ہوتا.1932ء میں آپ کی آنکھوں میں تکلیف رہنے لگی.بغرض علاج دہلی تشریف لے گئے تبلیغی سفروں میں قدرے کمی رہی البتہ مرکز میں خدمات سرانجام دیتے رہے.15 مارچ 1932 ء کوحضرت خلیفہ مسیح الثانی قادیان سے باہر تشریف لے گئے تو آپ کو امیر الفضل 17 مارچ 1932، ص 7) مقامی مقرر فرمایا.اس سال 9 دسمبر کو روہتک کے ایک بڑے جلسہ میں جو ٹاؤن ہال میں بصدارت جناب سید محمود شاہ صاحب وکیل منعقد ہوا، آپ نے امریکہ میں تبلیغ اسلام کے تجربات پر تقریر کی جس میں ہر مذہب وملت کے سامعین حاضر تھے.(الفضل 18 دسمبر 1932 ء ص2) جلسہ سالانہ قادیان میں 28 دسمبر کے پہلے اجلاس میں تہذیب و تمدن کے موضوع پر تقریر کی.(الفضل یکم جنوری 1933 ص8) 1933ء میں 31 جولائی کو انڈین کلب لائبریری ہال میں اسلام کی عالگیر اخوت“ کے عنوان پر بصدارت ڈاکٹر فیروز الدین مراد مسلم یو نیورسٹی علی گڑھ ایک تقریر کی.(الفضل 8 اگست 1933 ءص9) اس سال جلسہ سالانہ میں 26 دسمبر کو آپ کی تقریر کا موضوع تھا.” معاملات لین دین میں اسلامی اور مغربی تمدن کا مقابلہ 28 دسمبر کو خواتین میں ذکرِ حبیب “ کے موضوع پر ایمان افروز واقعات سنائے.(الفضل 4 جنوری 1934 ء ص (2) 19 فروری 1934 ء کو دہلی میں وائسرائے ہند سے ملاقات کی اور 21 فروری کو ٹریٹوریل فورس انبالہ چھاؤنی کی احمد یہ کمپنی کا معائنہ کیا اور رجمنٹ کے دیگر افسروں سے ملاقات کی.الفضل یکم مارچ 1934 ص 2)

Page 248

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 247 1934ء میں 124 اپریل کو بیت اقصیٰ میں ذکر حبیب کے موضوع پر ایسے دلنشین انداز میں اپنے حبیب کے واقعات سنائے گویا اہل قادیان کو وہ زمانہ سامنے دکھا دیا جس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام قادیان میں اپنے پیاروں کے ساتھ رہتے تھے.تحقیق جدید متعلق به قبر مسیح 20 مئی کو تین ماہ کی رخصت لے کر آپ کشمیر تشریف لے گئے.آپ کو قبر مسیح پرتحقیق کا موقع ملا اپنی تحقیق کے نتائج ایک کتاب تحقیق جدید متعلق به قبر مسیح کی صورت میں مرتب کئے.سری نگر کشمیر میں آپ نے ایک شاندار جلسے میلاد النبی سے خطاب فرمایا.اس خطاب کا خلاصہ اخبار حقیقت سری نگر 29 جون 1934ء میں شائع ہوا جو درج ذیل ہے فرمایا: حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں اگر 20 سال کا وقت بھی ہو تو کم ہے 20 منٹ میں کیا ہو سکتا ہے.مختصر یہ کہ بعد از خدا بزرگ توئی قص مختصر مجھ سے قبل چند ہند و اصحاب نے تقریریں کیں.ان میں سے ایک نے فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات نے انسانوں کی عزت قائم کر دی.مذکور ہے: لولاك لَمَا خَلَقْتُ الْأَفلاك یعنی خدا فرماتا ہے کہ اگر تو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) نہ ہوتا تو میں افلاک پیدا ہی نہ کرتا.یہ ایک حقیقت ہے مثال اس کی یہ ہے کہ ایک کالج کے سارے لوازمات موجود ہیں مکان ہے، طالب علم ہے، کتب خانہ ہے، دوسری سب چیزیں موجود ہیں.مگر کالج کا پرنسپل نہیں تو کہا جا سکتا ہے اگر پرنسپل نہیں تو کالج نہیں.انسانی زندگی کا مقصد عظیم خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک تعلق پیدا کرنا ہے.اللہ تعالیٰ نے اسی غرض کے لئے انبیاء، رسول ،غوث ، قطب بھیجے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے گر

Page 249

248 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ بتائے اور خود نمونہ پیش کیا.کوئی پہلے درجہ پر پہنچا کوئی دوسرے اور تیسرے درجہ پر اور کوئی اس سے بڑے درجہ پر پہنچا مگر سب سے زیادہ اخیر اور اتم درجہ جو ملا تو آنحضور سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج شریف میں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملائکہ کا بھاری لشکر تھا جب آنحضور" پہلے آسمان پر پہنچے تو کچھ پہلے آسمان پر رہ گئے.اسی طرح گھٹتے گھٹتے آخری آسمان پر آنحضور کے ساتھ حضرت جبرئیل علیہ السلام کے بغیر کوئی نہ رہا اور اس سے آگے حضرت جبرئیل بھی نہ جا سکے اور آنحضور کو فرمایا میں اس کے آگے نہیں جاسکتا.ظاہر ہے کہ آنحضور کا درجہ نہ صرف انسانوں میں اعلیٰ ترین بلکہ ملائکہ سے بھی آنحضور افضل ہیں.آنحضور صل الا ایلیم ہی کے طفیل ہمیں ہدایت ہوئی کہ ہم ہر ایک قوم کے بزرگوں کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں.خدا کے ساتھ محبت کرنے میں جو طاقت اور تزکیہ اور عمل کی توفیق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوملی اور کسی جگہ نہیں ملتی اور آنحضور ہی کامل نمونہ ہیں.آج یورپ اور امریکہ میں اس بات کی سخت ضرورت محسوس ہوئی کہ شراب نوشی قانو نا بند ہومگر قانون سازی سے کوئی کمی نہیں ہوئی.مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آج سے 1300 سال قبل ارشاد فرماتے ہیں کہ شراب کو خدا نے حرام کر دیا اور مسلمان اناً فاناً کلیۂ چھوڑ دیتے ہیں.یہ جادو اور تاثیر اسی مرسل ربانی کے تزکیہ کا نتیجہ ہے.میں عمر رسیدہ ہوں اور مجھے تجربہ ہے کہ کوئی وظیفہ درود شریف کے برابر سریع التاثیر نہیں یہ کثرت سے پڑھنا چاہیے.عید میلاد کی غرض و غایت صرف یہ ہے کہ مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات پر چلنا سیکھیں اور آپ کی سوانح عمری سے سبق حاصل کریں.“ یہ تقریب سری نگر کی پتھر مسجد میں بڑی دھوم دھام اور شان و شوکت سے منائی گئی.سامعین کی تعداد ہزاروں تھی.انجمن معاونین کشمیر کے زیر انتظام شہر میں ایک عظیم الشان جلوس بھی نکالا گیا

Page 250

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 249 جس میں پر جوش فرزندانِ توحید کے ہاتھوں میں آٹھ پرچم تھے جن پر حسب ذیل اشعار خوشخط لکھے ہوئے تھے: بعد از خدا بعشق محمد مخترم کفر این بود بخدا سخت کافرم وہ پیشوا ہمارا جس ނ ہے نور سارا نام اس کا ہے محمد دلبر مرا یہی ہے جان و دلم فدائے جمال محمد است خاکم شار کوچه آل محمد است ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے دیں دین محمد سا نہ پایا ہم نے کوئی ہم ہوئے خیر اُمم تجھ سے ہی اے خیر رُسل تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے یا رسول الله برویت عهد دارم استوار عشق تو باشم ازاں روز یکه بودم شیر خوار وادی کشمیر عشاق رسول کے وجد آفریں ترانوں اور سرمدی نغموں سے گونج رہی تھی.( عالم روحانی کے لعل و جواہر نمبر 386 از محترم مولانا دوست محمد شاہد صاحب) ) الفضل 2 جون 2006، ص 2

Page 251

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 250 فروری 1935 ء میں آپ حضرت خلیفہ سیح الثانی کے پرائیویٹ سیکرٹری مقر ہوئے.اکتوبر 1935ء کو حضرت مفتی صاحب کو یہ سعادت حاصل ہوئی کہ حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کا نکاح حضرت مریم صدیقہ صاحبہ سے پڑھایا.اس نکاح کے بابرکت اور مقدس ہونے کے بارے میں عبرانی اناجیل کی پیشگوئی کا ذکر فرمایا کہ مسیح آئے گا شادی کرے گا اولا د بھی ہوگی.پس یہ وہ مبارک اولاد ہے جس کی پیشگوئی آسمانی صحائف میں بھی موجود ہے.الفضل 2 /اکتوبر 1935 ، ص 7) 1936ء میں آپ نے دو اہم تقاریر کیں.ایک 9 نومبر کو مہمان خانہ میں زیر صدارت حضرت میر محمد الحق صاحب ، ذکر حبیب کے موضوع پر اور دوسری تقریر 11 نومبر کو بیت اقصیٰ میں زیر صدارت محترم شیخ بشیر احمد صاحب کی.اسی سال اپنے حبیب کی یادوں پر مشتمل کتاب شائع کی جو ذکر حبیب کے نام سے ایک معرکۃ الآراء تصنیف ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی سیرت اور معمولات زندگی کا باریک بینی سے جائزہ لے کر ایک جامع اور مستند تصویر پیش کر دی.جو حضرت اقدس علیہ السلام کے عشاق کے لئے قیمتی دستاویز ہے.یکم جون 1937ء کو آپ کی صحت کی کمزوری کی وجہ سے صدر انجمن احمدیہ نے آپ کی خدمات کا زبردست اعتراف کرتے ہوئے آپ کو مرکزی رکنیت سے سبکدوش کیا.آپ کے متعلق ایک ریزولیشن پاس ہوا: حضرت مفتی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدیم اور خاص رفقاء میں سے ہونے کے علاوہ صدر انجمن احمدیہ کے بھی قدیم ترین اور ممتاز کارکنوں میں سے ہیں اور ان کے ریٹائر ہونے پر صدر انجمن ان کی خدمات کا شکر گزاری کے ساتھ اعتراف کرتے ہوئے ان کے متعلق محبت اور قدر دانی کے جذبات کا اظہار کرتی ہے اور دُعا کرتی

Page 252

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں تادیر سلامت رکھے اور صحت اور خوشی کی زندگی کے ساتھ خدمت دین کی مزید توفیق عطا فرمائے.“ 251 1937ء کے جلسہ سالانہ میں ذکر حبیب کے موضوع پر تقریر میں آپ نے اپنی صحت کی خرابی کا ذکر فرمایا: گو میں ان دنوں سخت بیمار ہوں چار پائی سے ہی لگ گیا ہوں مگر پھر بھی اگر کوئی کام نہیں کر سکتا تو نہ کہی دُعا کرتا ہوں، بہت دُعا کرتا ہوں اپنے لئے، اپنی اولاد کے لئے ، اپنے محبین کے لئے، سلسلہ احمدیہ کے لئے ، حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کے لئے ، غیروں کے لئے ، دشمنوں کے لئے ، بیماری کی شدت کی وجہ سے طبیعت میں سوز پیدا ہوتا ہے اور روح پگھل کر آستانہ الوہیت پر بہہ پڑتی ہے اور دُعا کے لئے خوب وقت بھی مل جاتا ہے.خدا تعالیٰ قبول فرمائے.اس کے بعد آپ نے حضرت مسیح پاک علیہ السلام کا دشمنوں سے سلوک کے بارہ میں ایک نہایت ہی عمدہ تقریر فرمائی اور بتایا کہ میرا آقا تو کبھی دشمنوں سے بھی سختی اور کرختگی سے پیش نہیں آتا تھا.“ الفضل 30 دسمبر 1937ء ص 3) 1937ء میں حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کے ہمراہ شملہ جانے کی سعادت حاصل ہوئی وہاں مہاراجہ الور بھی آگئے.حضور نے فرمایا.مفتی صاحب معلوم ہوا ہے کہ ان کے خیالات اچھے ہیں آپ جائیں اور ان کو تبلیغ کریں.مہاراجہ الور کے دیوان خانے میں آپ چند کتابیں لے کر مہاراجہ الور کی جائے رہائش پر پہنچ گئے.ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے کہا مہاراجہ صاحب ابھی مصروف ہیں فارغ ہوں گے تو آپ کو بلا لیں گے.اُس نے آپ کو دیوان خانہ میں بیٹھا دیا.وہاں دیوان عبد الحمید کپورتھلہ والے اور شملہ کی پہاڑی ریاستوں میں سے ایک ریاست کے راجہ بھی آگئے ، انہیں بھی پرائیویٹ سیکرٹری نے دیوان خانہ میں بٹھا دیا.تھوڑی دیر کے بعد ایک انگریز آیا اُس نے کہا کہ میں مہاراجہ کا اسٹرالوجر ہوں.دیوان عبد الحمید صاحب

Page 253

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 252 اُس سے اپنی قسمت پوچھتے رہے اور وہ بعض باتیں کرتا رہا.حضرت مفتی صاحب فرماتے ہیں میں نے کتابوں میں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر نکالی اور اس کو دکھا کر کہا بتائیے یہ کون ہے؟ اس نے تصویر دیکھی اور یک دم اُس کے منہ سے یہ الفاظ نکلے :He is a Prophet یہ اللہ تعالیٰ کا کوئی نبی ہے.تھوڑی دیر کے بعد مہاراجہ صاحبہ نے ہم سب کو اندر بلایا.وہ انگریز بھی ساتھ تھا.جب میں نے کتابیں پیش کیں اور دعوت الی اللہ کی تو اس وقت بھی وہ انگریز بول پڑا.بے شک یہ نبی ہے.میں نے یہ تصویر دیکھی ہے جو کسی نبی کی ہی ہو سکتی ہے.الفضل 31 جولائی 1957 ص 3,4) 1938ء کے جلسہ سالانہ پر بھی آپ کو ذکر حبیب" کے موضوع پر تقریر کرنے کا موقع ملا.اس کے بعد آپ تبدیلی آب و ہوا کے لئے کراچی تشریف لے گئے.کراچی میں 23 ستمبر 1939ء کوزیر صدارت جناب پیر الہی بخش صاحب وزیر تعلیم مغربی ممالک میں تجربات کے موضوع پر تقریر کرنے کا موقع ملا.صدارتی تقریر میں مفتی صاحب کے خیالات کو بے حد سراہا گیا.الفضل 27 اکتوبر 1939ء ص 5) 1939ء جلسہ خلافت جوبلی میں 26 دسمبر کو خلافت اور پاپائیت کے موضوع پر تقریر کی.16 ستمبر 1940ء کو قادیان میں سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک شاندار جلسہ تعلیم الاسلام ہائی سکول کے میدان میں ہوا.احباب اپنے اپنے حلقوں سے خوبصورت جھنڈے لئے ہوئے تسبیح و تحمید اور درود و سلام پڑھتے ہوئے بیت اقصیٰ میں جمع ہوئے.حضرت مولانا شیر علی صاحب کی صدارت میں جلسہ ہوا جس میں پہلی تقریر حضرت مفتی صاحب کی تھی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں گندھا ہوا آپ کا بیان بہت پسند کیا گیا.جلسہ سالانہ میں حسب معمول ذکر حبیب کے موضوع پر تقریر کی سعادت حاصل کی.1942ء میں 23 مئی کو بیت اقصیٰ میں مجلس ارشاد کے تحت علمی تقاریر کے سلسلہ میں ایک جلسے میں آپ کی تقریر کا موضوع تھا مسیح کا مردے زندہ کرنا.الفضل 21 مئی 1942 ، ص 1)

Page 254

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 253 جون 1942ء کے پہلے ہفتے میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ناظر تعلیم و تربیت رخصت پر قادیان سے باہر تشریف لے گئے تو حضرت مفتی صاحب کو آپ کا قائم مقام مقرر کیا گیا.(الفضل 19 جون 1942 ء ص 7) جلسہ سالانہ میں آپ نے پہلے روز جو تقریر کی اُس کا موضوع تھا مسیح کی قبر کا انکشاف.آپ نے فرمایا کہ ہر نبی کو بعض مخصوص کام سونپے جاتے ہیں.جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بت پرستی کے خلاف کھڑا کیا گیا.ہمارے زمانے میں حضرت اقدس علیہ السلام کو مسیح علیہ السلام کی قبر کا انکشاف سونپا گیا ہے.آپ نے بہت سے دلائل دے کر ثابت کیا کہ مسیح کی قبر کشمیر میں ہی ہے.الفضل 30 ستمبر 1942ء) 15 اکتوبر 1943ء کو حضرت مولانا فرزند علی صاحب چند ایام کے لئے شملہ تشریف لے گئے تو آپ کو قائم مقام ناظر بیت المال مقر رکیا گیا.(الفضل 17 اکتوبر 1943 ءص1) 5 جون 1945ء کو حضرت خلیفتہ اسیح ڈلہوزی تشریف لے گئے تو آپ کو قادیان میں امیر مقامی الفضل 10 جون 1945 ص 7) مقرر فرمایا.18 نومبر 1945ء 19ء حضرت خلیفہ اسی کی طبیعت ناساز تھی آپ نے ارشاد فرمایا.عید کا خطبہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب پڑھا ئیں.حضور کے ارشاد کے مطابق نماز عید حضرت مفتی صاحب نے پڑھائی اور خطبہ بھی مختصر طور پر دیا.خطبات محمود جلد 2 صفحہ 282) جلسہ سالانہ کی ذکر حبیب کی تقریر میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان فرمودہ تمثیلات کا ذکر فرمایا اور ثابت کیا کہ تمثیلات میں وعظ و نصیحت میں حضرت عیسی علیہ اسلام سے مماثلت ہے.یہ خطاب بلاشبہ ایک تحقیقی معرکہ ہے.اس میں آپ نے حضرت عیسی عالی سلام سے حضرت اقدس علیہ السلام کی ایک مماثلت کو تفصیل سے بیان فرمایا.مسیح ناصری کی عادت تھی کہ بہت سی باتیں

Page 255

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 254 تمثیلوں میں بیان کرتے تھے ایسا ہی مسیح محمدی بھی اکثر باتیں سمجھانے میں تمثیلوں سے کام لیتے تھے آپ نے اپنے خطاب میں حضرت اقدس علیہ السلام کی اٹھائیس تماثیل بیان فرمائیں.1947ء کے آغاز میں حضرت مفتی صاحب بیمار ہو گئے اور علاج کے لئے میوہسپتال لاہور میں داخل ہوئے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی ہدایت کے مطابق کرنل بھر وچہ سے مرض التہاب اور غدہ قدامیہ کا آپریشن کروایا جو خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہا.لاہور کے بہت سے احباب نے آپ کی مزاج پرسی کی.حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب نے بھی ہسپتال تشریف لا کر حضرت مفتی صاحب کی عیادت فرمائی.1947 ء میں مسلمانوں پر آنے والی مصیبتوں کی وجہ حضرت مفتی صاحب کا اوڑھنا بچھونا دعوت الی اللہ تھا.اس کی طرف توجہ کی کمی کو مصیبت کا باعث اور توجہ کو ہر مشکل کا حل خیال فرماتے.1947ء کے حالات میں گھر بیٹھے مسلمانوں پر جو مصیبتیں ٹوٹیں اُن کی وجوہات اور حل بیان کرتے ہوئے فرمایا: ”جہاں تک میں نے غور کیا ہے میرے خیال میں مصیبت مسلمانوں پر اس واسطے آئی ہے کہ انہوں نے اپنے ایک اہم مذہبی فرض ادا کرنے سے غفلت کی ہے اور وہ اہم فرض تھا تبلیغ اسلام کئی سو سال سے مسلمان ہندوستان میں مقیم ہیں مگر انہوں نے اس امر کی طرف کبھی توجہ نہیں کی کہ اپنی ہمسایہ اقوام کو دینِ اسلام کی برکات سے مالا مال کریں.پس مسلمانوں کو اب چاہیے کہ وہ اپنے اس گناہ کا اعتراف کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کریں اور آئندہ کے واسطے مصمم ارادہ کریں کہ وہ ہندوؤں کو مشرف بہ اسلام کرنے کے واسطے ہر طرح کی جائز کوششوں میں مصروف رہیں گے.“ الفضل 7اکتوبر 1947 ص 4) 27 دسمبر 1947ء لاہور میں جلسہ سالانہ پر ذکر حبیب کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے

Page 256

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 255 احمدیوں کو نصیحت کی کہ آزمائشوں پر صبر سے کام لینا اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کا ذریعہ ہے.متحدہ ہندوستان میں عیسائی مشنوں کی طرف سے حضرت مفتی صاحب کے فوٹوز شائع ہوئے کہ کوئی عیسائی آپ سے مذہبی گفتگو نہ کرے.یہ عیسائیت کی شکست کا عیسائیوں کی طرف سے واضح گ الفضل 25 جنوری 1957 ء ) اعلان تھا.اکتوبر 1948 ء کو لاہور سے چنیوٹ تشریف لائے.(الفضل 17اکتوبر 1948ء ص 5) چنیوٹ میں مرکزی دفاتر اور ہائی سکول کھلنے سے کئی بزرگانِ دین یہاں قیام پزیر ہو گئے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا قیام محلہ گڑھا میں تھا.چنیوٹ کا کوئی کو چہ ایسا نہیں ہوگا جسے اپنے با برکت قدموں سے نہ چھوا ہو.( محلہ گڑھا) میں مندر والی گلی بہت معروف تھی جہاں مکرم سردار مصباح الدین صاحب کا مسکن تھا.اس گلی میں حضرت مفتی صاحب کا اکثر گزررہتا تھا.نواحی علاقوں کے لوگوں میں آپ کا بہت احترام تھا.د عاد عا وجود حضرت مفتی صاحب کا وجود جماعت احمد یہ اور کل انسانیت کے لیے باعث رحمت و برکت تھا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اتباع کی برکت سے قبولیت دعا کا شرف بخشا تھا.آپ کی عاجزانہ راہیں اللہ تعالیٰ کو پسند آئیں.آپ اپنے دستخطوں کے ساتھ خاکساری سے لکھتے : 66 حضور کی جوتیوں کا غلام.عاجز محمد صادق عفی اللہ عنہ.“ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں: رب کریم کی کرم فرمائیاں بے انتہا ہیں.میں جاہل تھا اس نے مجھے مالا مال کیا.میں تاریکی میں تھا اُس نے مجھے روشنی دکھائی.میں بیمار تھا اُس نے مجھے شفا دی.میں محتاج تھا اُس نے میری ضرورتوں کو پورا کیا.میں مغلوب تھا اُس نے میری نصرت کی.میں اکیلا

Page 257

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ تھا اُس نے مجھے مخلص ساتھی دیئے.اس نے میرے گناہوں کو بخشا.میری کمزوریوں کو معاف کیا.اس نے میری دُعاؤں کو شنا.ان دعاؤں کو بھی سنا جو میں نے اپنے لئے کیں اور اُن دُعاؤں کو بھی سنا جو میں نے اور وں کے واسطے کیں اور اس کا شکر ہے کہ اُس نے دُعا کے معاملہ میں مجھے بخیل نہیں بنایا.میں نے ہر مذہب وملت کے لوگوں کے واسطے دُعائیں کیں کیونکہ اللہ سب کا رب ہے.مسلمانوں کے لئے ، ہندوؤں کے لئے پارسیوں کے واسطے.اور اللہ تعالیٰ نے غریب نوازی کی اور ان مرادوں کو پورا کیا.فالحمد للہ ثم الحمد للہ“ ایام علالت میں دُعا 256 حضرت مفتی صاحب کی صحت دن بدن کمزور ہو رہی تھی.اس ضعیفی اور نقاہت میں بھی احباب جماعت کے لئے محبت سے دُعائیں کرتے.آپ نے تحریر فرمایا احباب اخبار میں عاجز کی علالت کے حالات مطالعہ کرتے رہتے ہیں.بعض اوقات حالت ایسی ہو جاتی رہی کہ میں نے سمجھا اب آخری وقت ہے ایسے ہی ایک وقت میں مجھے خیال آیا کہ جو احباب عاجز کو دُعاؤں کے واسطے لکھتے رہتے ہیں ان کو یہ افسوس ہوگا کہ ہمارا ایک دُعا گو کم ہو گیا.پس میں نے ان کے واسطے یہ دُعا اللہ تعالیٰ سے کی کہ: ”اے خدائے غفور و رحیم ! بخشش کر کہ میرے مرنے کے بعد بھی میرے محب جو رت صادق کے نام پر تجھ سے دُعائیں مانگیں تو اُن کی دُعاؤں کو قبول کر یو اور ان کی مرادوں کو پورا کر یو.آمین.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طفیل اللہ تعالیٰ نے عاجز کو ایسے محبین مخلصین کی ایک بے تعداد جماعت عطا فرمائی ہے جن کے محبت بھرے پیغام اور عاجز کے ذریعے قبولیت دُعا کی اطلاعیں اور حصول مراد کی خوشخبریاں وصول ہو کر عاجز کو اللہ تعالیٰ کے حضور میں شکریہ کے ساتھ سر بسجدہ کرتی رہتی ہیں.( تحدیث بالنعمت ص 11 تاص 13)

Page 258

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 257 سمیع و مجیب خدا تعالیٰ آپ کو انہی قریب، کے جلوے کئی رنگ میں دکھا تا ہوگا اور آپ کئی رنگ میں لذت حاصل کرتے ہوں گے.یہاں بطور نمونہ آپ ہی کے منتخب کردہ قبولیت دُعا کے چند واقعات تحدیث بالنعمت سے درج ہیں : دُعا سے اولاد ہوئی امریکہ میں ہمارے ایک دوست مسٹر رومن نام ہیں ایک شب مجھے ان کے گھر میں قیام کا اتفاق ہوا ان کی بیوی ہمیشہ میری خاطر و خدمت کرتی تھیں.میں نے دیکھا کہ وہ ایک آسودہ حال گھر تھا.ہر ایک آرام اور خوشی کا سامان موجود تھا.شادی کو دس سال سے زائد ہو چکے تھے.مگران کی کوئی اولاد نہ تھی.بے اختیار میرا قلب ان کے واسطے اولاد کی نعمت ملنے کی دُعا کی طرف متوجہ ہوا اور اس شب میں نے بہت دُعا کی.گوان سے ذکر نہ کیا.مگر ایک سال کے بعد جب دوبارہ مجھے اس شہر میں جانے کا اتفاق ہوا.تو مسز رومن کی گود میں بچہ تھا جس سے اس گھر کی خوشی کئی گنا بڑھی.دُعا سے صحت و سلامتی فالحمد لله ثم الحمد لله جموں میں میرے ایک دوست میرے ہم نام تھے.ایک دفعہ ان کے گھر سے خبر آئی کہ ان کے والد بزرگوار بیمار ہیں.وہ خود جا نہ سکتے تھے.میں ان کی جگہ گیا.راستہ میں ان کی صحت کے واسطے دُعائیں کرتا گیا.میرے جانے سے قبل ان کو آرام ہو چکا تھا.اور بعد میں وہ سالہا سال تک کہا کرتے تھے کہ جب سے آپ ہمارے گھر میں آئے ہیں ہمارے ہاں کوئی بیمار نہیں ہوا.دُعا سے مصالحت فالحمد لله ثم الحمد لله راولپنڈی میں ایک دفعہ چند معززین کے درمیان لڑائی ہوئی.معاملہ مقدمات عدالت تک

Page 259

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 258 پہنچا.مجھے بھیجا گیا کہ میں ان کے درمیان مصالحت کراؤں.میں نے راستہ میں دُعا کی کہ یا اللہ العالمین تو جانتا ہے مجھے نہ لڑنا آتا ہے اور نہ صلح کرانی آتی ہے.اپنے فضل سے ایسے سامان کر کہ خود ہی ان لوگوں میں صلح ہو جائے.جب میں صبح کی گاڑی میں وہاں پہنچا تو مجھے جاتے ہی یہ خوشخبری دی گئی کہ فریقین میں مصالحت ہوگئی مگر آپ اتفاق سے آگئے ہیں تو چند پیکچر کر جائیں.چنانچہ پھروں سے فارغ ہو کر واپس آگیا جب حضرت خلیفہ اسیح سے اس کا ذکر ہوا تو فرمایا: ہم کو تو ایسے ہی مبلغین کی ضرورت ہے." فالحمد لله ثم الحمد لله دُعا سے دوائی معلوم ہوگئی ایک دفعہ میں بیمار ہوا روز بخار ہو جائے.حضرت مولانا حکیم صاحب کئی ایک دوائیں تجویز کر چکے.بخار نہ اترنے میں آئے رات کو میں دُعا کرتے سو گیا.یہ الفاظ زبان پر آئے ایسا فی ٹوڈا میں اس وقت نہ جانتا تھا کہ اس کے کیا معنی ہیں.صبح حضرت حکیم صاحب سے عرض کیا.فرمایا یہ ہینگ کا انگریزی نام ہے.یہ دوائی آپ کے بخار کے لئے بہت مفید ہوگی کیونکہ یہ معیادی بخار ہے افسوس ہے کہ مجھے اس کا خیال نہیں آیا.چنانچہ ہینگ کا ایک نسخہ تیار کیا گیا.جس سے اسی دن بخار اتر گیا.فالحمد لله ثم الحمد لله دُعا سے افسر تبدیل ہو گیا جب میں لاہور میں ملازم تھا میرے ایک دوست ایک شب میرے پاس آئے وہ بہت غمگین تھے اور ذکر کیا کہ مجھ سے ایک دفتری غلطی ہوئی ہے جس پر بڑے افسر نے کل مجھے طلب کیا ہے کہ اپنی سروس بک لے کر پیش ہو.شاید کوئی برار یمارک کرے یا تنزلی کر دے.رات میں نے ان کے واسطے دُعا کی اور بشارت ہوئی کہ ان کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.اس کی انہیں خبر کی گئی.صبح جب

Page 260

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 259 وہ دفتر گئے تو معلوم ہوا کہ اس افسر کو فوری تبدیلی کا تار آ گیا ہے اور وہ چارج دے رہا ہے.چنانچہ اسی دن وہ چارج دے کر چلا گیا اور انہیں کسی نے طلب بھی نہ کیا.فالحمد لله ثم الحمد للہ.سر درد کی دوا ایک دفعہ مجھے سر درد کا دورہ شروع ہوا.صبح سے دوپہر تک شدید در درہتا پھر رفتہ رفتہ اچھا ہو جاتا کئی علاج کئے کچھ فائدہ نہ ہوا.رات دُعا کرنے کے بعد مجھے یہ نسخہ بتلایا گیا کالی مرچ دو دانه، نوشادر دورتی تھوڑے سے پانی میں رگڑ کر پی لیں.اس کے استعمال سے پہلے ہی دن آرام ہو گیا.فالحمد لله ثم الحمد للہ.ایک دفعہ میں پنجاب کے تبلیغی دورے پر تھا.گاؤں بہ گاؤں پھر نے اور بے وقت غذا کھانے سے معدہ خراب ہو گیا.کھانا ہضم نہ ہوتا.دُعا کے بعد علاج بتلایا گیا کہ ایک رتی رسونت کھاؤ.اس کے استعمال سے دو تین روز میں آرام ہو گیا.اس طرح بسا اوقات اپنے اور دوستوں کے واسطے بیماریوں کے علاج کے لئے ادویہ بتلائی گئیں جو ہمیشہ تیر بہدف ثابت کا مثال ہوئیں اور ان سے فوراً آرام ہو گیا.کیونکہ وہ علاج اس خاص مرض اور وقتی حالت کے واسطے موزوں علم غیب سے بتلایا گیا تھا.وَهُو الْعَليمُ الْحكيم عبد القدوس مالا باری صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ وفات سے پہلے آخری ایام میں بیوی بچوں کو پاس بیٹھا کر جود عاد ہراتے تھے اور بچوں کو بھی دہرانے کے لیے فرماتے تھے وہ یہ ہے: یارب ! بخش کہ جنگ کوئی نہ ہو.پاکستان غالب رہے اور امن وامان میں رہے قادیان اور ربوہ اور اس کے اردگرد کے علاقہ میں ہمیشہ حضرت خلیفہ اسیح کے خدام بستے رہیں اور احمدی جہاں کہیں ہوں مخالفوں کے شر سے محفوظ رہیں.آمین.“ الفضل 2 فروری 1957 ء ) آپ اپنی صحت و عمر کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعا کی برکت کاشمر بیان فرماتے.ایک

Page 261

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ مضمون میں آپ نے لکھا: ” میری عمر اس وقت 81 سال ہے اور میں اپنی جسمانی حالت کے لحاظ سے کبھی یہ خیال نہ کرتا تھا کہ اتنی عمر پاؤں گا لیکن یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ میں اس عمر کو پہنچ گیا.قادیان میں ایک دفعہ میں ایسا بیمار ہوا کہ میری بیوی نے سمجھا کہ میرا آخری وقت آگیا ہے اور وہ گھبرا کر روتی ہوئی حضرت مسیح موعود کے پاس چلی گئی ہم اس وقت قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے ایک حصہ میں مقیم تھے.میری بیوی نے جس کا نام امام بی بی تھا روتے ہوئے میری حالتِ زار کی خبر حضرت صاحب کو دی.حضور نے تھوڑی سی کستوری دی کہ یہ مفتی صاحب کو کھلا ؤ اور میں دُعا کرتا ہوں اللہ تعالیٰ صحت دے گا.یہ صبح کا وقت تھا حضور اُسی وقت اُٹھے اور وضو کر کے نماز شروع کر دی اور میرے لئے صحت کی دُعا کرتے رہے.اللہ تعالیٰ نے فضل کیا اور میری حالت صحت اچھی ہوگئی.“ 260 مسیح پاک کئے "محب صادق الائق و صالح ایڈیٹر اور سلسلہ احمدیہ کے برگزیدہ رکن کی وفات 13 جنوری 1957ء بروز اتوار صبح چھ بج کر پینتیس منٹ پر بعمر 85 سال حضرت مفتی صاحب اس دار فانی سے رحلت فرما گئے.انا للہ وانا إِلَيْهِ رَاجِعُون.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ارشاد پر مقامی اداروں میں تعطیل کا اعلان کر دیا گیا.شدید سردی اور ابر کے باوجود لوگ بڑی تعداد میں حضرت مفتی صاحب کے آخری دیدار کے لئے پہنچ گئے.غسل اور تکفین کے بعد سہ پہر تین بجے جنازہ اُٹھایا گیا.صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی لاہور سے آکر شامل ہو گئے اور دور تک کندھا دیا.بیت مبارک کے بیرونی احاطہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے نماز جنازہ پڑھایا.بعد میں جنازه دفاتر صدر انجمن کی عمارت میں رکھا گیا.ربوہ کے اردگرد کے شہروں سے کثرت سے لوگ پہنچ

Page 262

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 261 گئے.14 جنوری کی صبح حضرت خلیفہ المسح الثانی اور خاندان مسیح موعود علی نام کے افراد و اکابرین سلسلہ نے کندھا دیا.حضور نے نعش کو قبر میں اُتارنے میں حصہ لیا اور دستِ مبارک سے قبر پر مٹی ڈالی اور مرحوم کے اوصاف حمیدہ کا ذکر کرتے رہے.تدفین مکمل ہونے پر اجتماعی دُعا بھی کروائی.خلاصه از الفضل 15, 16 جنوری 1957ء) غسل دینے میں مکرم سید مبارک احمد شاہ صاحب، مکرم غلام محمد صاحب صادق، مکرم سید داؤد احمد صاحب اور مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی نے حصہ لیا.ما اسفا على فراق قوم هم المصابيح والحصون والمدن والمزن والرواسي والخير و الامن والسكون لم يتغير لنا الليالي حتى توفهم المنون فكل جمر لنا قلوب وكل ماء لنا عيون یعنی ہائے افسوس ان لوگوں کی جدائی پر جو ورثہ تھے اور شہر تھے اور بادل تھے اور پہاڑ تھے اور امن اور سکون تھے..ہمارے لئے زمانہ اس وقت تک نہیں بدلا جب تک موت نے ان کو وفات نہیں دی.مگر اب تو یہ حال ہے کہ دل انگارا ہے تو آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں.اس آگ کے سوا ہمارے پاس کوئی آگ نہیں اور اس پانی کے سوا کوئی پانی نہیں.

Page 263

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ تصانیف حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی مشہور تصانیف حسب ذیل ہیں: 2 تحديث بالنعمت 262 1- واقعات صحیحہ 3- مقصد حیات 5- کفاره 4- آئینہ صداقت 6 تحقیق جدید متعلق قبر مسیح 7 - بائبل کی بشارات بحق سرور کائنات 8- تہنیت نامہ مجتبی صادق.9 - How To Save The World 10 - پیر مہر علی شاہ صاحب کو ایک رجسٹر ڈ خط.11-CHRISTIAN DOCTRINE 12- تحفہ بنارس 13.ہم احمدی کیوں ہوئے 14- ذکر حبیب 15- صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از روئے بائبل 16 - لطائف صادق (مرتبہ محمد اسمعیل صاحب پانی پتی ) 17 - قاعدہ عبرانی ( قلمی نسخه ) شادیاں اور اولاد بھیرہ میں محترمہ امام بی بی صاحبہ سے پہلی شادی ہوئی.یہ بہت خدا رسیدہ اور وفاشعار خاتون تھیں.ان سے دو بیٹے عبدالسلام صاحب اور محمد منظور صاحب اور ایک بیٹی سعیدہ صاحبہ پیدا ہوئیں.حضرت مفتی صاحب ان کے اخلاص کے ذکر میں ایک واقعہ تحریر فرماتے ہیں : اہلیہ نے اپنے لڑکے عبدالرحمن کی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ایک گرتا تبر کا مانگ کر لیا اور اس گرتے سے چھوٹے چھوٹے کرتے بنا کر محفوظ رکھے اور ہر بچہ کو پیدا ہونے کے وقت پہلے وہی کرتا پہنایا.“ ( ذكر حبيب ص 173 )

Page 264

263 حضرت مفتی محمد صادق عنی اللہ تعالیٰ عنہ 1922ء میں امریکہ میں ایک شادی کی جس سے کوئی اولاد نہیں ہوئی.ایک شادی ہالینڈ میں ہوئی جس سے ایک بیٹا بھی ہوا مگر دونوں زندہ نہ رہ سکے.ایک شادی انگلینڈ میں کی تھی جس سے اولاد بھی ہوئی مگر جماعت سے تعلق نہیں ہے.سب سے آخر میں 68 سال کی عمر میں مالا بار کی ایک خاتون محترمہ رقیہ بانو صاحبہ سے شادی کی.ان سے دو بچے ہوئے.محترمہ رضیہ صادق صاحبہ جو اپنے والد صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی وفات کے وقت ستر دو سال کی تھیں اور ایک بیٹا مفتی احمد صادق صاحب جو صرف ساڑھے چھ سال کے تھے.رضیہ مومن صاحبہ نے اپنے والد محترم کی صفات سے وافر حصہ ورثہ میں پایا تھا.ایک مثالی خاتون تھیں جن کی زندگی کا محور حصول رضائے الہی تھا.سادہ بے نفس خاتون تھیں لجنہ کراچی اُن کی خدمات کو کبھی فراموش نہ کر سکے گی.حضرت مفتی صاحب کے ایمان کا ارفع مقام تحریر : حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایمان دو طرح کا ہوتا ہے ایک وہ ایمان جس کی جڑ دماغ میں ہوتی ہے اور جس میں یقین کی بنیاد دلائل پر رکھی جاتی ہے اور ایک وہ ایمان ہے جس کی جڑ دل میں ہوتی ہے اور اس میں یقین کی بنیاد عشق اور محبت پر رکھی جاتی ہے یہ ایمان اول الذکر ایمان سے افضل ہے.لیکن سب سے افضل وہ ایمان ہے جس کی جڑیں دل اور دماغ دونوں میں ہوں تا کہ دلائل کا رنگ بھی نمایاں ہوا اور عشق و محبت کا رنگ بھی غالب رہے.حضرت مفتی صاحب کو ایمان کا یہی ارفع مقام حاصل تھا.اس لئے آپ زندگی بھر جہاد کی صف اول میں رہ کر جہاں دلائل کے ذریعہ اسلام اور احمدیت کی نمایاں خدمات سرانجام دیتے رہے وہاں آپ نے عشق اور محبت کی گرمی کے ذریعہ بھی لوگوں کو مامور زمانہ کی مقناطیسی کشش سے متاثر کیا (الفضل 15 جنوری 1957ء)

Page 265

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مفتی صاحب کا توکل علی اللہ تحریر:.مکرم محمد الحق صاحب خلیل ، بی اے شاہد 264 حضرت مفتی صاحب کو اللہ تعالیٰ پر توکل اور یقین کا جو مقام حاصل تھا.وہ شاذ ہی کسی کو نصیب ہوتا ہے.چند ماہ قبل ایک دفعہ میں حضرت مفتی صاحب کی خدمت میں دُعا کے لئے حاضر ہوا اور عرض کی کہ مجھے دعوت الی اللہ کے لئے بیرونی ممالک میں بھجوایا جارہا ہے.اس پر آپ نے مجھے فرمایا کہ مسافر کی دُعا بہت قبول ہوتی ہے.سفر میں میری صحت اور شفایابی کے لئے دُعا کرنا.اللہ تعالیٰ ہر بات پر قادر ہے.حضرت مفتی صاحب کا یہ طریق تا کہ ہر دعا میں حضرت (خلیفہ (مسیح) کی صحت آپ کے عزائم میں برکت اور کامیابی کے ئے ضرور دُعا کرتے.ایک دفعہ ملاقات کے دوران آپ نے فرمایا کہ میں بستر علالت پر ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دُعا کرتا رہتا ہوں.اور تین مقاصد کو دُعا میں خاص طور پر مد نظر رکھتا ہوں.(1) ربوہ اور قادیان ہمیشہ حضرت خلیفہ لمسیح الثانی ایدہ اللہ کے مخلص خدام سے آباد رہیں (2) ہاں جہاں بھی احمدی ہیں مخالفین کے شر سے محفوظ رہیں.(3) پاکستان ہمیشہ ترقی اور فتح کے راستے پر گامزن رہے اور اللہ تعالیٰ اسے جنگ کے شعلوں سے محفوظ رکھے.حضرت مفتی صاحب کا یہ طریق تھا کہ ہاتھ اُٹھا کر جب دوسروں کے لئے دُعا کرتے تو اکثر بالجہر دُعا کرتے.سورۃ فاتحہ اور درود شریف کو خاص طور پر دہراتے تھے.اس کے بعد اس دُعا کا التزام میں نے اکثر دیکھا ہے.اذهب البأس رب الناس واشف انت الشافي لا شفاء الا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما صغيرًا ولا كبيرا.اسی طرح میں نے قادیان میں حضرت مفتی صاحب کی زبان مبارک سے یہ دعا بھی بکثرت سنی ہے.

Page 266

265 حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ اللهم اقسم لنا من خَشْيَتِكَ ما تحول به بيننا و بين معاصيك ومن طاععتك ما تبلغنا به جنتك و من اليقين ما تهون به علينا مصيبات الدنيا و متعنا باسما عنا و ابصارنا وقوتنا ما احييتنا واجعله الوارث منا و اجعل ثارنا على من ظلمنا وانصرنا على من عادانا اللهم لا تجعل مصيبتنا في ديننا ولا تجعل الدنيا اكبر همنا ولا مبلغ علمنا اللهم علمنا بما ينفعنا وزدنا علماً علم القران الفضل 31 جنوری 1957 ء ) و علم الاخلاص محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا شیدائی ایڈیٹر افضل مکرم روشن دین تنویر صاحب کو ایک غیر از جماعت دوست کا مکتوب موصول ہوا: حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی رحلت کی خبر پڑھ کر اناللہ وانا الیہ راجعون کی عملی تفسیر سامنے آئی.اللہ تعالیٰ مرحوم کو جوار رحمت میں جگہ دے.آمین.میری دانست میں وہ ایک سچا مبلغ اسلام تھا اور اس کی تحریر میں اسلام کی پاکیزگی تھی اور ظاہر اور باطن میں وہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا شیدائی تھا.چونکہ میں احمدیت یا مرزایت یا قادیانیت کا مخالف ہوں اس لئے میں نے کبھی یہ امر مطالعہ نہیں کیا کہ ان کو احمدیت سے کتنی محبت تھی.بلکہ مجھے ایک بار ایک سفر میں جو دہلی اور لاہور کے درمیان تھا ان سے شرف مکالمہ اور مخاطبہ حاصل ہوا.اور اس کے بعد مجھے ان کے مبلغ اسلام ہونے میں کبھی شک نہیں گزرا.اس لئے مجھے بہت صدمہ ہوا.میرے اس خط کو ان کے لواحقین تک پہنچائیں.“ فقط والسلام مولوی عبد الود و دسرحدی سرکی دروازہ پیشاور ( پاکستان )

Page 267

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت مفتی محمد صادق اور قیام ربوہ وو از مکرم ڈاکٹر غلام مصطفی صاحب (ربوہ) 266 سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنا ایک خواب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فجر کے وقت فرمایا کہ ہم نے ایک خواب دیکھا ہے کہ ایک سڑک ہے جس پر کوئی کوئی درخت ہے ایک مقام داره ( فقراء کے تکیہ وغیرہ ) کی طرح ہے.میں وہاں پہنچا ہوں مفتی محمد صادق میرے ساتھ تھے.دو چار اور دوست بھی ہمراہ تھے.لیکن ان کے نام اور وہ حصہ خواب کا بھول گیا ہوں.آخر سڑک کے کنارے آیا تو ایک مکان دیکھا جو کہ میرا یہ ( سکونتی ) مقام معلوم ہوتا ہے.لیکن چاروں طرف پھرتا ہوں اس کا دروازہ نہیں ملتا اور جہاں دروازہ تھا وہاں ایک پختہ عمارت کی دیوار معلوم ہوتی ہے.فجو (فضل النساء) سفید کپڑے پہنے بیٹھی ہے اور اس کے ساتھ فجا(فضل ) بھی ہے لیکن فجے کی ایک انگلی پر ایک خفیف سا زخم ہے.جس سے وہ روتا ہے.(فضل النساء دار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک خادمہ تھی جس نے حضرت مصلح الموعود ایدہ اللہ کو دودھ بھی پلایا تھا) فجے نے آکر ایک ستون جیسی دیوار کو صرف ہاتھ ہی لگایا ہے کہ وہاں ایک دروازہ بڑی پھاٹک کی طرح ایسے کھل گیا ہے جیسے ایک پینچ دبانے سے بعض کل دار دروازے کھل جاتے ہیں.جب اس دروازہ کے اندر داخل ہوا تو کسی نے کہا کہ یہ دروازہ فضل الرحمن نے کھول دیا ہے.(البدر جلد ۳ نمبر ۱۶ ۱۷ مورخہ ۱۲۴ پریل دیکم مئی ۱۹۰۴ء ص ۶) اس الہام الہی میں ربوہ کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب ربوہ کے قیام کے وقت زندہ ہوں گے اور ربوہ میں سکونت اختیار کریں گے.ربوہ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک اور الہام بھی ہوا: میں کسی اور جگہ ہوں اور قادیان کی طرف آنا چاہتا ہوں.ایک دو آدمی ساتھ ہیں.کسی نے کہا

Page 268

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 267 راستہ بند ہے ایک بڑا بحر ذخار چل رہا ہے.میں نے دیکھا کہ واقع میں کوئی دریا نہیں بلکہ ایک بڑا سمندر ہے.اور پیچیدہ ہو ہو کر چلتا ہے جیسے سانپ چلا کرتا ہے ہم واپس چلے آئے کہ ابھی راستہ نہیں اور یہ راہ بڑا خوفناک ہے.“ ( البدر جلد 1 نمبر 10 مورخہ 2 جنوری 1903 ص 77) یہ الہام بھی بڑا صاف اور واضح ہے اور حیرت انگیز رنگ میں پورا ہوا.الحمد للہ.حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا 1944ء میں گنگا رام ہسپتال لاہور میں ایک خطر ناک آپریشن کرنل بڑوچہ نے کیا تھا.اس وقت حضرت مفتی صاحب کو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر زندگی بخشی.ایک وقت کرنل بڑ وچہ بالکل مایوس ہو چکے تھے.حضرت صاحب کو متعدد دُعا کے لئے تاریں دی گئیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو معجزانہ طور پر زندگی عطا فرمائی.حتی کہ ربوہ آباد ہوا اور یہاں انہوں نے سکونت اختیار کی پس حضرت مفتی صاحب کی زندگی اور موت دونوں اس خدائی الہام کے پورا ہونے کے نشان ہیں.“ حضرت مفتی صاحب کے اوصاف حمیدہ کا ایک نمونہ از مولوی محمد اسمعیل صاحب دیا لگڑھی خاکسار کی نسبتی ہمشیرہ عزیزہ رضیہ سلطانہ سلمہا اللہ نے ایک واقعہ سنایا جو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی پاکیزہ سیرت اور بلند خلق کا ایک اعلیٰ نمونہ ہے.یہ واقعہ آج سے تیرہ چودہ سال قبل کا ہے.عزیزہ رضیہ سلطانہ جس کی عمر اس وقت 10,9 سال کی تھی.بازار سے سودا خرید کر اپنے مکان واقع محلہ دار الفضل قادیان کی طرف آرہی تھی کہ ریتی چھلہ کے پاس حضرت مفتی صاحب ملے.آپ نے جب دیکھا کہ ایک بچی سر پر سات آٹھ سیر آٹا اُٹھائے اور ہاتھ میں ڈیڑھ سیر سبزی وغیرہ کا تھیلا پکڑے جارہی ہے تو آپ نے پاس آکر پہلے السلام علیکم کہا اور پھر بڑی شفقت اور اپنے مخصوص میٹھے انداز میں فرمایا.بیٹی تم چھوٹی ہو اور اتنا بوجھ اُٹھائے لئے جارہی ہو.لاؤ یہ بوجھ بانٹ لیں.عزیزہ رضیہ نے آپ کے احترام کی وجہ سے انکار کر دیا اور کہا کہ نہیں مفتی صاحب آپ تکلیف

Page 269

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 268 نہ فرمائیں مجھے کوئی بوجھ محسوس نہیں ہو رہا.لیکن حضرت مفتی صاحب مرحوم...نے اصرار کیا اور جب دیکھا کہ بچی محض میرے احترام کی وجہ سے انکار کر رہی ہے تو حکیمانہ انداز میں فرمایا: دیکھو بیٹا چھوٹے بڑوں کی بات مانا کرتے ہیں.اس پر رضیہ مجبور ہو گئی کہ آپ کا حکم مانے.چنانچہ اس نے سبزی کا تھیلا مفتی صاحب کی طرف بڑھا دیا.اس پر حضرت مفتی صاحب نے فرمایا.نہیں بیٹا میں بڑا ہوں اور تم چھوٹی ہو اس لئے چھوٹی چیز تم اُٹھاؤ اور بڑی مجھے اُٹھانے کے لئے دو.اور یہ کہہ کر سات آٹھ سیر کی آٹے کی پوٹلی رضیہ کے سر سے لے لی اور قریباً چارسو گز کے فاصلہ تک جب عزیزہ اپنے مکان کے دروازہ تک پہنچ گئی.آپ یہ بوجھ اُٹھا کر ساتھ چلتے رہے اور راستہ بھر مشفقانہ اور حکیمانہ انداز میں باتیں کرتے رہے.مثلاً پوچھا بیٹی تمہارا نام کیا ہے.جب اس نے نام رضیہ سلطانہ بتایا تو بہت خوش ہوئے اور فرمایا.میری بیٹی کا نام بھی رضیہ سلطانہ ہے.وہ بھی میری بیٹی ہے اور تم بھی میری بیٹی ہو.حضرت مفتی صاحب مرحوم کے اخلاق حسنہ کی سینکڑوں مثالوں میں سے ایک یہ مثال ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مسیح محمدی کا یہ روحانی فرزند اپنے حبیب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت اور آپ کے انفاس قدسیہ سے کس قدر فیض یاب تھا.اللھم صل على محمد وعلى آل محمد و على خلفاء محمد وبارك وسلم انك حميد مجيد.بیڑیاں توڑ کے چلتے ہوئے یاران کہن (الفضل 25 جنوری 1957ء) حضرت حافظ سید مختار احمد شاہجہانپوری نے 19 فروری 1957ء کو اپنے سکونتی مقام جو دھامل بلڈنگ لاہور کے بالائی کمرے میں باوجود بہت علیل و ناتواں ہونے کے اپنے 65 سال کے رفیق طریق حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی بہت سی خوبیاں احباب کو سنا ئیں.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے مرحوم کو کیسی محبت و عقیدت تھی اور آپ کے اخلاص واطاعت کا پا یہ کتنا بلند تھا اور حضور

Page 270

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 269 علیہ السلام کے بعد حضرت خلیفہ امتع اول اور پھر حضرت خلیفہ لمسیح الثانی سے زمانے میں آپ کے حسن عقیدت و اطاعت کا کیا حال تھا.اسی یاد میں درج ذیل نظم ہوئی: جان ہے تن میں مگر پھر تنِ بے جاں ہوں میں نئے انداز کا مید جوش غم نرغہ امراض فراق رفقاء غم ہجراں ہوں میں میں اک مجموعہ حالات پریشاں ہوں صبح و شام اب وہ کہاں مجلس یاران قدیم دل تڑپتا ہے کہ جی کھول کے گریاں ہوں میں روز ہوتا تھا کبھی صحبت احباب سے شاد مگر اب نوحہ گر فرقت یاراں ہوں میں کیسے کیسے مرے غم خوار چھٹے ہیں مجھ سے عہد اول که وائے تقدیر کہ وقف غم ہجراں ہوں میں وہ احباب کرام آج کہاں جن کا مشتاق بصد حسرت و حرماں ہوں میں جن کی ہر طرز سے ہوتی تھی نئی شان عیاں جن کی ہر شان یہ کہتی تھی کہ تاباں ہوں میں دیکھتے دیکھتے ہر ایک نے لی راہ عدم داغ پر داغ وہ کھایا ہے کہ لرزاں ہوں میں حیف اُن میں سے جو باقی تھے وہ دو بھی نہ رہے حیف صد حیف که پس ماندہ یاراں ہوں میں

Page 271

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ نہ ہیں اب حضرت صادق نہ غلام غوث آه کیا کیا ہو گیا آشفتہ و حیراں ہوں میں ان کے اوصاف ہیں پیش نظر و وردِ زباں الله الله وہ ان کے الطاف کا قائل یہ دل و جاں ہوں میں الفت وہ محبت اُن کی آرزو ہے اللہ اللہ وہ اخلاص کہ نازاں ہوں میں کہ انہیں تقرب الہی مل جائے ان پر اس فضل، اس انعام کا خواہاں ہوں میں 270

Page 272

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ ایک رفیق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دامادی کا شرف تحریر :.لیفٹینٹ کمانڈر عبدالمومن، کراچی 271 میں پرائمری میں پڑھتا تھا جب میرے ذہن میں یہ سوال آیا کہ میرا نام شہر میں کسی اور کا نہیں ہے.میں نے اپنے والدین سے پوچھا.یہاں میں نے کسی کا نام عبد المومن نہیں سنا.آپ نے یہ نام کیسے رکھا.انہوں نے بتایا کہ ایک بزرگ حضرت مفتی محمد صادق صاحب 1927ء میں لوگوں کو دین حق کی تعلیم دینے مالا بار آئے تھے.والد صاحب مولوی ای احمد (E.Ahmed) اُن سے پہلے قادیان میں مل چکے تھے، وہ اردو جانتے تھے اس لیے گفتگو بھی ہوئی تھی.حضرت مفتی صادق صاحب نے والد صاحب سے گھر بار بیوی بچوں کا حال پوچھا تو انہوں نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گھر میں ولادت متوقع ہے.حضرت مفتی صاحب نے فرما یا بچہ کا نام عبدالمومن رکھنا.اللہ تعالیٰ نے آپ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ مبارک کئے بیٹا پیدا ہوا اور نام عبدالمومن رکھا گیا.اُس وقت کے علم تھا کہ بطن مادر میں جس کا نام تجویز کر رہے ہیں وہ ایک دن اُن کا داماد بنے گا.قدرت نے بڑے ہو کر ملاقات اور پھر رشتہ داری کے جو سامان کئے وہ بھی بہت دلچسپ ہیں.تقسیم ملک سے قبل Royal Indian Navy میں سیلر تھا (Sailor) 1947ء میں پاکستان بنتے ہوئے یہ رائے مانگی گئی کہ چاہے تو ہندوستان میں رہو چاہے پاکستان چلے جاؤ.ہم مالا بار کے چند لوگوں نے پاکستان جانا پسند کیا.ہم پاکستان آ تو گئے مگر چھٹیوں میں گھر جانا مشکل ہو گیا.دوتین مرتبہ پندرہ پندرہ دن کے لئے گیا.1954ء میں یہ بھی بند کر دیا گیا.میں اپنے گھر کا کفیل بھی تھا والد صاحب فوت ہو چکے تھے.میری والدہ دو بھائی اور ایک بہن سب وہاں تھے.پاکستان میں کوئی عزیز رشتہ دار نہ تھا.میری تعلیم صرف میٹرک تھی کمائی بھی واجبی ہی تھی.میری عمر چھبیس سال ہو چکی تھی مگر وسائل کی کمی کی وجہ سے شادی کا سوچا بھی نہ تھا.جب حالات نے کافی پریشان کر دیا تو اللہ تعالیٰ کے آگے بہت دُعا کی.اور ساری مشکلات اُس مشکل کشا کے آگے رکھ کر فریاد کی کہ ان

Page 273

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 272 حالات میں شادی کرنے سے مسائل حل ہو سکتے ہیں.تو خود ہی بتا کہ کہاں شادی کروں.یہ 1956ء کی بات ہے، مجھے دُعا کرتے ڈیڑھ ماہ کا عرصہ گزرا تھا کہ ایک دن ایک ٹیلی گرام ملا، یہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی طرف سے تھا.لکھا تھا: "Come for marriage" شادی کے لئے آؤ.یہ تو مجھے یقین تھا کہ میری دُعاؤں کا جواب ہے لیکن بظاہر یہ صورت کس طرح بنی غالباً اہلیہ حضرت مفتی صاحب جن کا تعلق مالا بار سے تھا، میرے والدین کو جانتی تھیں.انہوں نے مفتی صاحب سے ذکر کیا ہوگا.اس ٹیلی گرام کے بعد ایک دو مبشر خواب آئے جن سے مجھے یقین ہوا کہ یہ رشتہ میرے لئے اچھا ہو گا.اب دوسرا فکر سوار ہو گیا.میرے پاس شادی کے لئے کوئی روپیہ پیسہ نہیں.سو روپئے بھی میرے پاس نہیں تھے.رہائش Navy کی طرف سے مل جاتی مگر باقی اخراجات کا کیا کروں گا.باپ سر پہ نہیں.والدہ صاحبہ کو خرچ میں بھیجتا تھا.مجھے پتہ تھاوہاں کچھ جمع جوڑا نہیں ہو گا.اس بے بسی میں اللہ تعالیٰ بہت یاد آتا.جن دنیاوی رشتوں سے آس نہ ہونے کی وجہ سے میں بہت پریشان تھا.اللہ تعالیٰ کی ذات اُن سب سے بہت زیادہ طاقتور ہے.میں اپنی بے بسی کو اللہ تعالیٰ کے آگے رکھتا تو آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے.دو چار دن ہی گزرے تھے کہ کمانڈر نصیر الدین احمد ( جو کہ پی این ایس شفا کے Executive Officer تھے ) نے بلا یا اور کہا کہ امریکہ جانے کے لئے تیار ہو جاؤ، فارمیسی کی ٹریننگ کے لئے ایک آدمی کو بھیجنا تھا.22 لوگوں کے انٹرویو میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں منتخب ہو گیا.میرے انتخاب کی وجہ شاید یہ ہوئی کہ میں یہی مضمون پڑھاتا تھا.میں نے پتہ کیا کہ کیا کچھ اضافی الاؤنس بھی ملے گا مگر اُس وقت یہی معلوم ہوا کہ صرف تنخواہ ہوگی.جس سے شادی کے اخراجات تو نہیں نکلیں گے مگر میرا مولا کریم میرے لئے سامان کر رہا تھا.جانے سے دو ہفتے پہلے معلوم ہوا کہ ساڑھے چار ڈالر روزانہ الاؤنس ملے گا.اب کچھ تسلی ہوئی حضرت مفتی صاحب کو ٹیلی گرام سے جواب دیا کہ ایک سال کے لئے

Page 274

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 273 امریکہ ٹرینگ پر جارہا ہوں واپس آکر شادی کروں گا.میری ساس نے کراچی آکر نکاح فارم پر دستخط کروالئے اور اس سال یعنی 1956ء میں ولی کے ذریعے میرا نکاح حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے بیت مبارک میں پڑھایا 1957ء میں 13 جنوری کو جب کہ میں کلاس میں بیٹھا ہوا تھا، ٹیلی گرام آیا کہ حضرت مفتی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے.مجھے افسوس ہوا کہ اس بزرگ ہستی سے بحیثیت داماد ملاقات نہیں ہو سکی.اپنے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ تو وفات یافتہ بزرگوں سے ملانے پر قادر ہے میری آرزو پوری کر دے.ابھی اس دُعا کو تین دن ہوئے ہوں گے کہ خواب میں دیکھا امریکہ میں بہت لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں اور کسی اہم شخصیت کی آمد کا انتظار ہے.اچانک وہ شخصیت ٹی وی پر نمودار ہوتی ہے.ایک نوجوان لڑکا جس کی ابھی داڑھی بھی نہیں آئی تھی سکرین پر ہے اور میں نے پہچان لیا کہ وہ مفتی صاحب ہیں ساتھ ہی موٹے حروف میں لکھا ہوا نظر آیا کہ Minister of Ahmed.آنکھ کھل گئی تو بہت شکر کیا.اللہ تعالیٰ نے نہ صرف ملاقات کروادی بلکہ اُن کا مقام ومرتبہ بھی بتا دیا.اکتوبر 1957ء میں واپسی ہوئی.چھ نومبر کو شاد رکھی گئی حضرت خلیفہ المسیح الثانی لاہور گئے ہوئے تھے.غالباً اُن کے ارشاد پر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے شمولیت فرما کر دُعا کروائی.ہم تو سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثانی اپنی مصروفیات چھوڑ کر ہم جیسے معمولی لوگوں کی شادی میں تشریف لائیں گے مگر آپ کا بڑہ پین دیکھئے کہ اگلے دن مبارک باد کا خط بھیجا اور لکھا کہ اگر لاہور ضروری کام کے لئے جانا نہ ہوتا تو میں خود حاضر ہوتا اور میری ساس کے لئے لفافے میں -/1500 روپئے بھی بھیجے جو اُس زمانے کے لحاظ سے بہت بڑی رقم تھی.شادی کے بعد میں نے اپنی ساس سے پوچھا کہ حضرت مفتی صاحب کو میرا خیال کیسے آیا یہ رشتہ کیسے ہوا؟ تسلّی کیسے ہوئی ؟ آپ نے مجھے حضرت مصلح موعود کا ایک خط لا کر دکھایا جس میں حضرت مفتی صاحب کے خط کے جواب میں لکھا تھا کہ :

Page 275

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ اچھی بات ہے، میں جانتا ہوں مجھے ملنے آیا تھا لڑ کا واقعی بہت نیک تھا.“ 274 میں حیران رہ گیا حضرت صاحب سے میری ملاقات چھ سال پہلے صرف دو تین منٹ کی ہوئی تھی اور حضور کو یا درہ گیا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا مگر یقین ہو گیا کہ واقعی خلفاء کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے.اب سمجھ میں آیا کہ یہ سب کام جو ہو رہے تھے خلیفہ امسیح کی دُعا سے ہو رہے تھے.میں نومبر 1949ء میں جب حضور سے ملا تھا آپ نے پوچھا تھا کیسے آنا ہوا میں نے عرض کیا کہ پاکستان بننے کے نتیجے میں ہندوستان اور خاص طور پر مالا بار کے احمدیوں کو مشکلات تو نہیں ہوں گی.یہ ن کر میری طرف نظر اٹھائی اور پوچھا تم کیا کرتے ہو؟ میں نے بتایا کہ میں پاکستان نیوی میں Sailor ہوں.آپ نے پوچھا کہ پروموشن کہاں تک مل سکتی ہے.میں نے کہا لیفٹیننٹ کمانڈر تک.آپ نے یقینا میرے لئے دُعا کی ہوگی.کیونکہ انہیں دنوں خواب میں دیکھا کہ حضور کا خط آیا ہے جس میں لکھا ہے.ہم نے جو دعائیں تمہارے لئے کی ہیں وہ اللہ تعالیٰ نے قبول کی ہیں، میں لیفٹیننٹ کمانڈر تک ترقی پاکر ریٹائر ڈ ہوا.شادی بھی اچھے گھرانے میں ہو گئی.میری ساس کہا کرتی تھیں کہ میں نے شادی سے بہت پہلے تمہارا نام فضل الہی خواب میں دیکھا تھا“ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا بھی مجھ سے بہت شفقت کا سلوک تھا میں اُن کو دُعا کے لئے لکھتا رہتا.ان کی وفات کے بعد خواب میں اُن کو دیکھا اظہار ہوا کہ وہ ولی اللہ تھے خواب میں بھی میرے لئے دُعا کی.ہماری شادی میں حضرت مفتی صاحب کی ایک بہن بھی شامل ہوئی تھیں جو آپ کے بچپن کے حالات سنایا کرتی تھیں.ربوہ کی ایک خاتون جن کو مائی روڑی کے نام سے سب جانتے تھے بتاتی ہیں کہ جس دن

Page 276

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 275 حضرت مفتی صاحب کی وفات ہوئی صبح اذان سے پہلے انہوں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور اُن کے کچھ رفقاء گھوڑوں پر سوار ہیں اور حضرت مفتی صاحب کے گھر کے اردگرد گھوم رہے ہیں.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بتایا کہ یہ حضرت مفتی صادق کا گھر ہے.حضرت صاحب نے فرمایا کہ کچھ وقت باقی ہے آگے سے ہو کر آتے ہیں.مائی روڑی کی آنکھ کھل گئی تو فوراً ایک بچے کو بھیجا کہ مفتی صاحب کا حال پوچھ کر آؤلڑکے نے واپس آکر بتایا کہ ان کی ابھی ابھی وفات ہو گئی ہے.شادی کے بعد میں نے اہلیہ رضیہ صادق سے پوچھا کہ کیا آپ کے ابو نے آپ کو کبھی ڈانٹا تھا تو بتایا کہ ہاں ایک دفعہ امی نے کوئی شکایت لگائی تھی تو ابا جان نے بلا کر کہا تھا' رضیہ ایسا مت کرو پھر میں سارا دن روتی رہی تھی.میں نے رضیہ کو سمجھایا کہ دیکھو تمہارے ابا جان کی تربیت حضرت مسیح الزماں نے کی تھی.اس لئے وہ بے حد نرم زبان استعمال کرتے تھے.میری تربیت فوجی پریڈ گراؤنڈ میں ہوئی ہے وہاں نرمی سے بات کرنے والے کو نالائق سمجھا جاتا ہے.اب کیا بنے گا؟ لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہماری زندگی بہت اچھی گزری میرا حضرت مفتی صاحب کی بیٹی سے بیالیس سال ساتھ رہا میں نے اُسے رحم دل اور دین دار پایا.وہ 2000ء میں انتقال کر گئی اُس کی یاد آتی رہتی ہے.اللہ تعالیٰ غریق رحمت فرمائے.اپنے والد صاحب اور اُن کے پیاروں کے ساتھ جگہ دے آمین.اللهم آمین.ہنگری کے پروفیسر جولیس جرمانوش کی میزبانی مکرم ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب اپنے ایک مضمون' تاریخ احمدیت کا ایک بازیافتہ ورق مطبوعہ النور ( یوایس اے.فروری ۲۰۰۴ء) میں لکھتے ہیں: ہنگری کے مشہور مستشرق پروفیسر جولیس جرمانوش 1929ء میں رابندر ناتھ ٹیگور یونیورسٹی شانتی نکیتن بنگال میں اسلامی علوم کے پروفیسر مقرر کئے گئے اور 1933 ء تک وہاں درس و تدریس کا کام

Page 277

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 276 سرانجام دیتے رہے.اس دوران انہیں جماعت احمدیہ کے عقیدہ ء وفات مسیح کا علم ہوا.1931ء میں وہ قادیان تشریف لے گئے اور سیدنا حضرت خلیفہ اسیح ثانی کی خدمت میں باریاب ہوئے.حضور نے اپنے دستخطوں سے اپنی ایک تصویر انہیں مرحمت فرمائی جو ان کی مشہورِ زمانہ کتاب اللہ اکبر میں شامل ہے.اس کتاب میں وہ لکھتے ہیں : ترجمہ : ” ڈاکٹر جر مانوش اور ان کی بیگم 1931ء میں قادیان گئے.ان کی مہمانداری کے لئے سلسلہ کی طرف سے حضرت مفتی صاحب اور ان کی ولندیزی بیگم کی ڈیوٹی لگائی گئی.مفتی صاحب نے ڈاکٹر جر مانوش کو جماعت کے عقائد سے آگاہ کیا.وہ خاص طور پر جماعت کے وفات مسیح کے عقیدہ کی تفصیل جاننا چاہتے تھے اور جب کشمیر میں ان کی قبر کی بات سنی تو کشمیر میں ان کی قبر کی زیارت کے لئے بھی گئے.چنانچہ ڈاکٹر جر مانوش نے اپنی کتاب میں مسیح اول کی محلہ خانیار سرینگر میں واقع قبر کی تصویر اور مسیح ثانی کے مزار مبارک قادیان کی تصاویر ایک ہی صفحے پر اکٹھی شائع کی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مزار پر دُعا کرتے ہوئے جو لوگ کھڑے ہیں ان میں مفتی محمد صادق کی جوانی کی شبیہ نمایاں ہے.مفتی محمد صادق صاحب کی بیگم صاحبہ مسز جر مانوش کو حضرت صاحب کے گھر والوں سے ملوانے کے لیے لے گئیں.بیگم جرمانوش کا کہنا ہے کہ اگر اسلام ان شرائط کے ساتھ چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے اور شوہر وہ انصاف روا رکھ سکتا ہے جو امام جماعت احمدیہ نے روا رکھا ہے تو اسلام کا یہ عقیدہ مغرب والوں کے لیے قابل اعتراض نہیں ہونا چاہیئے." میرے نانا جان کی پیاری یا دیں محتر مہامہ المیہ علی صاحبہ نے جو حضرت مفتی محمد صادق کی نواسی اور حضرت خلیفہ مسیح اول کی پوتی ہیں اپنے نانا جان کی یادیں قلم بند کی ہیں جنہیں قدرے اختصار کے ساتھ درج کیا جارہا ہے:

Page 278

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ 277 میں تین چار سال کی تھی جب ایک دفعہ نانا جان نے پوچھا تمہیں ایک آنہ چاہیے.ایک آنہ معمولاً ملنے والے پیسوں سے چار گنا بڑا تھا.ایک آنہ ملنے کے تصور سے خوشی کی انتہا نہ رہی اور میں نے جوش سے کہا جی جناب مجھے ایک آنہ چاہئے.نانا جان نے میرے ہاتھ دُعا کے انداز میں اُٹھائے اور کہا اچھا دُعا کر والے اللہ ایک آنہ فلاں دیوار کی فلاں درز میں رکھ دے.آمین.دُعا کے بعد بھاگ کر گئی تو دیکھا اُس درز میں ایک آنہ مل گیا.اس طرح بہت چھوٹی عمر میں اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا طریق سکھایا لیکن ابھی ایک اور سبق بھی دینا تھا.میں نے دُعا کرنی شروع کر دی کہ اے رحیم خدا دیوار کی ہر درز میں ایک آنہ رکھ دے مگر یہ دُعا قبول نہ ہوئی تو پھر نانا جان کے پاس گئی.آپ نے بتایا کہ صرف خواہش اور دُعا کافی نہیں ہوتی کوشش بھی کرنی ہوتی ہے اور یہ اللہ تعالیٰ پر ہے کہ وہ کون سی دُعا سنتا ہے کون سی نہیں.ایک دفعہ امتحان میں چند دن باقی تھے، میں نے آپ سے دُعا کی درخواست کی تو آپ نے مجھے سمجھایا کہ خوب محنت کرو اور پھر دُعا کرو کہ اے اللہ میں نے جس قدر ممکن ہو سکا محنت اور کوشش کر لی اب مجھے بڑی کامیابی عطا فرما.اس طرح ان دونوں واقعات سے اللہ تعالیٰ کی محبت ، اُس سے دُعا کرنی اور دُعا کے ساتھ پوری کوشش کرنے کا سبق ملا.آپ ہمیشہ نرمی سے بات کرتے کبھی سختی سے ڈانٹ کر بات نہ کرتے.ان کے سکھانے کا طریقہ تحمل، پیار اور نرم انداز میں احساس دلاتے رہنا تھا.آپ باقاعدگی سے تہجد پڑھتے.میری آنکھ کھلتی تو میں انہیں سجدے میں درد سے دُعائیں مانگتے سنتی.اے اللہ اے رحیم و کریم خدا ہم پر رحم کر میں ایک عاجز گنہگار ہوں تو رب رحیم ہے اے اللہ جو سب سے زیادہ بخشنے والا ہے سب سے زیادہ مہربان ہے ہمارے گناہ بخش دے.دُعا کے الفاظ کے ساتھ سسکیوں سے رونے کی آواز شامل ہوتی.گھر میں ہوتے تو فجر کی نماز سب بچوں کو شامل کر کے جماعت سے پڑھاتے پھر قرآن مجید پڑھتے.رمضان المبارک میں افطاری کا بہت اہتمام کرتے جس میں غرباء کو اور بچوں کو شامل کرتے.اسی طرح آپ کو بیماروں کا بہت خیال رہتا.

Page 279

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 278 اُن کے گھر جا کر ہاتھ اُٹھا کر دعا کرتے اور میں نے کئی بار دیکھا کہ آپ دُعا اور آمین کے درمیان ذرا دیر کے لئے خاموش ہو جاتے مجھے لگتا کہ وہ بیمار پر دُعا پڑھ کر پھونک مارتے تھے.وہ ہماری تربیت کے لئے ایسے واقعات بھی سنا دیتے جن سے اُن پر ہنسنے کا موقع ملتا مگر وہ اس بات کی پرواہ نہیں کرتے تھے.ہمیں بتایا کہ ایک دفعہ ایک عرب دوست نے آپ کی دعوت کی.کھانے کے بعد جب آپ نے جزاک اللہ کہا تو وہ بُرا مان گئے.کہنے گئے جزاک اللہ کہہ کر آپ نے میری بے عزتی کی ہے.جزاکم اللہ احسن الجزاء کہا کریں.دوسرا واقعہ لندن کا تھا.شدید سردی کے موسم میں آپ ایک ہوٹل میں گئے.گرم چائے منگوائی اور اپنے قادیان کے سادہ سٹائل میں سٹرپ سٹرپ کر کے پینے لگے.چائے کا کپ ختم ہونے تک ہوٹل سے آدھے لوگ اُٹھ کر چلے گئے.بل آیا تو توقع سے بہت بڑا تھا ویٹر سے پوچھا کہ ایک کپ کا اتنا بڑا بل؟ تو اُس نے بتایا کہ آپ کے چائے پینے کے انداز سے بیزار ہو کر لوگ بغیر بل دئے چلے گئے ہیں اُن کا بل بھی آپ کے بل میں ڈالا گیا ہے.یہ واقعہ سنانے کے بعد آپ نے بتایا کہ ہر ملک کے آداب مختلف ہوتے ہیں کھانے پینے، ملنے جلنے میں طور طریق کا لحاظ رکھنا چاہیے.تربیت کا یہ انداز بھلا تھا کہ بات دل میں اُتر گئی.اللہ تعالیٰ میرے پیارے نانا جان کے درجات بلند فرمائے اور ہمیں اُن کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے (خلاصہ وتر جمہ از انحل 1996 والیوم 7 نمبر 3) آمین نمونه تبلیغی خطوط ڈاکٹر چارلس امریکہ سے لاہور آ کر عیسویت کی تبلیغ کر رہے تھے.حضرت مفتی صاحب نے اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے انہیں ایک مفصل مکتوب تحریر فرمایا.آپ کے انداز اور استدلال کی عمدگی ملاحظہ کیجئے: میں نے ایک اخبار میں پڑھا ہے کہ آپ امریکہ سے خاص اس مقصد کے لئے تشریف لائے ہیں کہ اس ملک کے باشندوں کو تجربہ مذہب عیسویت پر چند وعظ

Page 280

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ 279 کریں گے میں اس بات کے سمجھنے سے قاصر ہوں کہ وہ کون سا تجربہ مذہب عیسویت ہو سکتا ہے جس کو آپ مذہب عیسوی کی صداقت کے ثبوت میں دلیل کے طور پیش کر سکتے ہیں اگر اس تجربہ سے آپ کی مراد علمی تحقیقات اور ایجاداور ملکی قوت کی ترقی ہے تو یونان کے بت پرست اور روما کے ہزاروں دیوتاؤں کے پجاری ان علمی اور ملکی ترقیوں کے باعث اپنے زمانے کے یہود اور نصاریٰ کے مقابلہ میں زیادہ تر سچے مذہب کے پیر و معلوم ہوتے ہیں اور اگر تجربہ سے آپ کی مراد یہ ہے کہ یورپ کے عیسائیوں نے تجارت اور دوسرے ذرائع سے بہت روپیہ جمع کر لیا ہے اور یہ اُن کے مذہب کی صداقت کا ایک نشان ہے تو پھر عیسائیت کے معتقدین سید ھے جہنم کو جاتے ہوئے نظر آتے ہیں.اگر موجودہ تہذیب مذہب عیسوی کی صداقت کا ثبوت ہے تو پھر پہلے حواری اور خود آپ کا خداوند یسوع مذہب عیسوی کا ایک بڑا دشمن نظر آتا ہے.اگر عیسائی تجربہ سے آپ کا یہ منشاء ہے کہ عیسائیوں میں اعلیٰ درجے کی اخلاقی اور تمدنی خوبیاں پائی جاتی ہیں اور یہ اُن کے مذہب کی صداقت کا ایک نشان ہے تو یورپ کے موجودہ اخلاق کے متعلق جو سینکڑوں شہادتیں خود اہلِ یورپ سے ہمیں ملی ہیں اُن میں سے صرف دو تین کو میں یہاں نقل کر کے دکھاتا ہوں کہ عیسائی تجربہ کیا شہادت دیتا ہے.نمبر 1.ایسی مفلسی ، ایسی تباہی ، ایسی مصیبت ، ایسی جہالت اس جگہ پائی جاتی ہے کہ یہ مقام مجھے ایک آتش فشاں پہاڑ کی چوٹی پر نظر آ رہا ہے.نمبر 2.تمام عیسائی دنیا قدیم الایام سے آج تک مفلسی تباہی بدی اور پرلے درجے کی گناہ گاری میں پڑی ہوئی ہے.نمبر 3 لکھوکھا آدمی جو بپتسمہ لے چکے ہیں نہایت ہی خراب قسم کی بدکاری میں اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں.

Page 281

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ نمبر 4.تمام مختلف گرجوں کے افسر ہم کو اطلاع دیتے ہیں کہ قوم مذہب سے بالکل بے پرواہ ہے اور انجیل ان پر اپنا کوئی اثر نہیں ڈال سکتی.میں تعجب کرتا ہوں کہ اپنے اس امر کے واسطے اتنے اتنے وسیع سمندر چیرنے کی تکلیف اُٹھائی کہ ہمیں عیسائی تجربے سے آگاہ کریں.جہاں تک میں دیکھ سکتا ہوں انجیل میں یسوع کا کوئی بھی ایسا حکم نہیں جو کسی عاقل اور دور اندیش کے لئے قابل عمل ہو.مثال کے طور پر یسوع کے چار پانچ احکام کو لیتا ہوں اور پوچھتا ہوں کہ کیا کوئی دانا ان پر عمل کر سکتا ہے.اول : یسوع کہتا ہے کہ الزام نہ لگاؤ کیا تم کو عدالتیں فوراً بند کر دینی چاہیے.حج فورا موقوف کر دینے چاہئیں.دوم : یسوع کہتا ہے کہ کل کا فکر نہ کرو“ سوم : یسوع کہتا ہے کہ اپنا خزانہ زمین پر نہ رکھ.چہارم: یسوع کہتا ہے کہ صدقہ پوشیدگی میں دے“ کیا مشنریوں کی تمام خیرات کی فہرستیں جو اخباروں میں چھپتی ہیں کفر سے بھری ہوئی ہوتی ہیں.پنجم : یسوع کہتا ہے کہ اگر کوئی تیرا کوٹ لے تو اُسے چغنہ بھی دے دے.“ کیا جب یوٹروں نے ہماری دانا گورنمنٹ سے ٹرانس وال پر جھگڑا کیا تو اُن کو ساتھ ہی کیپ کالونی بھی دے دینی چاہیے تھی.مثال کے لئے یہ باتیں کافی ہوں گی.یسوع کے تمام اصول اسی قسم کے ہیں.اور اصل بات یہ ہے کہ یہ اصول ایک غریب چھوٹے سے گروہ کے واسطے تھے جو غریب یسوع کے پیچھے ہولیا تھا یسوع کا کبھی یہ منشاء نہ تھا کہ ایک عالمگیر مذہب دُنیا میں قائم کرے.لیکن 280

Page 282

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ عالمگیر مذہب اور شریعت اللہ تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب قران شریف میں نازل کی ہے جو نبیوں کے خاتم، رسولوں کے سرتاج حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا تھا.میں اس پاک کتاب کی چند آیتوں کا ترجمہ اس جگہ نقل کرتا ہوں جس سے آپ کو اس عالمگیر شریعت کی عظمت اور شان نظر آجاوے گی.اول.اُن کو سزا دینا ضروی ہے جو مخلوق کو تکلیف دیں اور زمین میں فساد کریں.دوم.تم اپنا صدقہ پوشیدہ بھی دو اور ظاہر بھی دو.سوم.جو کچھ خدا نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرو.چہارم.کہہ دو کہ ایک ہی اللہ ہے.وہ بے احتیاج ہے اور اس کو کسی نے جنا نہ وہ جنتا ہے اور کوئی اس کی مانند نہیں ہے.ان دنوں میں بھی خدائے قادر مطلق نے پہلے نبیوں کی مانند ایک نبی مبعوث کیا ہے جس کے ہاتھ پر سینکڑوں معجزات دُنیا میں ظاہر ہو چکے ہیں.وہ اُن سب کو روحانی زندگی عطا کرتا ہے جو حق جوئی کی نیت سے اُس کے پاس آئے ہیں.میں آپ کو میگزین ریویو آف ریلیجنز کے چند نمبر ایک علیحدہ پیکٹ میں ارسال کرتا ہوں جن کا مطالعہ آپ کے اور امریکہ میں آپ کے دوستوں کے لئے موجب برکت ہوگا.میں ہوں آپ کا خیر خواہ ۲ جنوری ۱۹۰۳ء محمد صادق قادیان 281

Page 283

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالی عنہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی ایک دُعا 282 اللهم رب السموت و رب الارض و رب كل شيئ فالق الحب و النوى.منزل التورات والانجيل وصحف الانبیاء والقرآن.یا علیم، یا خبیر، یا قدیر، یا رحمن، یارحیم یا کریم، یا قدیم، یا غفور، یا ستار.اے میرے پاک پروردگار تو مجھے ایسے کلام اور ایسی تحریر کی توفیق اور قوت عطا فرما جس میں ریب نہ ہو.جو حق ہو اور اس میں کچھ باطل نہ ہو اور جو مخلوق کے واسطے موجب ہدایت ہو اور سب زبانوں اور قوموں میں اس کی صحیح اشاعت اور اس پر پاک عمل درآمد ہو، جو میرے لئے اور پڑھنے والوں کے لئے اور سننے والوں کے لئے اور چھاپنے اور چھپوانے والوں کے لئے اور شائع کرنے والوں اور خریدنے والوں کے لئے تیری پاک رضا مندیوں کے حصول اور دین و دنیا میں حسنات کے پانے کا ذریعہ ہو، جو تیری مخلوق کے واسطے رہنمائی کا باعث اور تیرے ساتھ اتحاد کا موجب ہو.ہاں اے میرے بخشنہار.میرے پاک پروردگار میرے مجیب ، میرے نجیب، تو میرے گناہوں کو بخش اور میری پردہ پوشی فرما.یا ربی ، یا ربی ، یار بی تو میرے خیال میں، میری زبان میں اور میرے قلم میں رحمت، برکت ، قوت، راحت عطا فرما اور وہ سب جن کے ساتھ میری محبت کا تعلق ہوا اُن کی بخشش کر اور انہیں ایمان، صحت تقویٰ اور اقبال مرحمت فرما.اے میرے رب ، اے میرے ہادی ، اے میرے مالک، اے میرے آقا تو اپنے پاک الہام سے میرے کلام کو مستحکم فرما اور ایسے الفاظ مجھے عطا فرما جو تیری مخلوق کی ترقی ، بہبودی ، بھلائی حقیقی راحت اور خوشحالی کا ذریعہ ہوں.اللهم ايدنا بروح القدس.اللهم ايدنا بروح القدس.اللهم ايدنا بروح القدس سبحان ربي الاعلى وما توفيقى الا بالله العلى العظيم و آخر دعونا ان الحمد للله رب ( محمد صادق) العلمين 谢谢

Page 284

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ تعالیٰ عنہ ماخذ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تذکرہ روحانی خزائن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام ذکر حبیب حضرت مفتی محمد صادق صاحب مطبوعہ قادیان 1936ء تحديث بالنعمة حضرت مفتی محمد صادق صاحب لطائف صادق حضرت محمد اسمعیل صاحب پانی پتی تاریخ احمدیت جلد 9,5,4,3,2,1 از مولانا دوست محمد شاہد صاحب حیات نور محترم عبدالقادر صاحب سیرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت یعقوب علی عرفانی صاحب نوٹس اخبارات النحل ( یوایس اے) محترم مفتی محمد صادق صاحب الحکم، بدر اور الفضل Summer 1996 Vol, 7 No3 283 Muslim Sunrise U.S.A 1924, 1923, 1922, 1921

Page 285

ال مالی ورحم الله ایران محبت ، تا کی 2 خطوط امام خطوط غلام حد استانی است اور کرومات دینیہ دوریات کجاوے این این فیلم عمر سے مروی ہے الحمد تو اپنے احقاق اور محبت سے بات ال دراستانی رباتی طاقت سے آپ کو کیا سورات وره حاله لد میر امام خاص F ما ترن شارات علوم کن و تیر باری ارسال و انجیل ایک رات کو از کاران الوقت the ه مو دارم معلی ساده رو

Page 286

سلام ورحمة الله dence که بابت تجبر الخولی یعنی تو ان کے

Page 287

بسم الله اسرین کریم تھی اپنے علی رسولہ اللہ و کے اور شیخ اقرب سے محب نے اس واقع کے لفظون اعت کی غلطی کو مت تی اور جرعت حضرت مرشد نار بر تاکسی با مرد دید کامل پر میں شائع کر دیا ہے.اب کیا حضور پسند کرتے ہیں کہ میں ہی ایسی السلام سمیرم در همه العبد كانه ثانی رجب کے لڑکے کی وفات کی تحریک پر و طع الله دون اس میں شماتت کا اندیشہ ہے نے جمعہ کے دلت جو ہمدردی کا وعظ کیا تہا.اُت اور کمیشن نکته چنیں کریں گے.کین الکسر مش لع مشاع لینے اسطرح درج اختیار کرنے کا ارادہ کیا تہا.موجودہ واقع کا ذکر نجر اور علم پر جماعه احمدیہ کو آپ نصیت ہے کہ اگر ہماری جماعت کے کرلی فرد طاعون سے شہید ہو تو کسطح سطح مهار برویم کرنی چاہیے مگر افسوس ہے کہ یہ سب نہو نے پریس کے ہمارا اختیار اب تک ہند ہو چکا ہے یا ایک اپنی نہیں تجویز کے مطابق اسکر عام نیمت کے پیرانہ میں کہون - والسلام حضور کی جو تیروں کا شکرم وق مدرسه هنر لیم اللہ اور تین نشانیم - محمود الصلح عمل و کرا حضرت ابوسی در شده ناو مدونتنا السلام کی.سعد الله ه متعلق میکنی پنے نعروں کیا ہے.حضور ملا حظہ دیائویین اور خراجہ جب منبع کرنے کا ستار ہیں اگر مناسب ہے.تو چند الفا ام توضیح الفاظ قرر فرمار میدین - تحریر عاشر من

Page 288

علیکم اسلام رنیمه کمره واقیع کار سر او اکستریم خطرت اندرس ریشه دار بود یا کسی اور ان کا نام السلام علیکم که اخته الصور كاتر روٹی کے اخبار کا جاری رکھتا غالبا حضور پسند فرمات گے.اسکا پیچیده چندہ ختم ہو گیا ہے.اگر چہ رو ہے ارسال کیے جائیں تو قریباً چہ کے واسطے کافی ہوگا.مناسب اور کار آمد ہو تو یہ عاجز ہی حضور کے اگر سانہ گور در سیپور جای السم فر کی برترین کا مسلم ماجرا سلامات قادریان العالمين الصيم - محمد و صلح ملے کا یہ دانہ نہیں.فروشد تا امیدنا مسیح موعود و جلوی نبود السلام سیم و رحمته السريانه - بیره این مینی با ساگ محمدہ ہوتا ہے ہڑا سا گوش کے سٹوریا پر ڈال رہا ہے تو خراب ہوتا ہے پنے امور کے واسطے سرایا تہا - ارسال خدمت ہے.ے پاس رہائش کے لیے کوئی مکان نہیں.اسباب بہت خراب ہو رہا ہے.مطلع بدر کا واسطے ہوا نکال کی + کیا ضرورت ہے.میر علی شاه و ملوان خالی ہے.اگر حضور اجازت دینا تو کرائے پر لے لیا جاہے.اوپر ہم رہیں گے نے مطبع رہے گا.والسلم منظور کی جو توران کا معلم ماجرا تصدیق یا

Page 289

خطبہ الہامیہ کے موقع کا گروپ فوٹو 11 اپریل 1900ء حضرت اقدس علیہ السلام کے قدموں میں حضرت مفتی محمد صادق عفی اللہ

Page 290

حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تصویر جوسن رائز کے پہلے پرچے میں آپ کے پیغام کے ساتھ شائع ہوئی حضرت مصلح موعود اور حضرت مفتی محمد صادق عفی اللہ عنہ

Page 291

Oriental University WASHINGTON, D.C.Classical, Commercial, Agricultural, Engineering and Paychie Science Colleges.Theological, Philosophical, Medical, Law and Art Schools.Theomonistic and Oriental Seminaries.TO ALL TO WHOM THESE PRESENTS SHALL COME Greeting: Be it known that, by the authority of the State of Virginia and the United States of America, in academic jurisdiction vested in us, we hereby confer upon Mufti Muhammad Sadiq who has satisfied the requirements of this University School, the Degree of Doctor of Orientalistic Sciences according to the ancient and universal custom of adding dignity to general merit, as with all the rights, privileges and honors, so with all the duties pertaining to this distinction.In Testimony Whereof, the Board of Trustees by their President and Secretary, and by the Dean of the Oriental University's Orientalistic Seminary hereunto have subscribed and/have affixed the corporate seal in the City of Washington, D.C., this second day of January in the year...one thousand nine hundred and twenty-two.W.MAYES MARTIN, A., D.D.LI.D.JOHN F.B.WALKER, Ph.D., T.D President and Dean of the Theological SEG.RAVENSCROFT, Ph.D., J.D., D.C.L A.W.SLADE, A.K.C., D.D., LL.D.Dean of the College Ma Man of the College of Music Secretary FREDERICK ARND, A.R.LL.D.Dean of the University Law IRVING R.JACOBS, Ph.G., Pharm.D.Dean of the School of Pharmacy LINCOLN JEFFERSON UNIVERSITY CHICAGO, ILLINOIS TO WHOM THIS MAY COME Greeting! This is to certify that under and by virtue of a charter granted by the State of Illinois to the Trustees of the Lincoln-Jefferson Uni- versity, there has been conferred upon MUFTI MUHAMMAD SADIQ The Honorary Degree DOCTOR OF LITERATURE on the nomination and approval of the faculty, in recognition of his attainments as a scholar, success as a leader of men, and his devotion to promoting the higher and nobler relations between man and man.To him we grant all the rights, privileges, o and honors appertaining to this degree, and in testimony thereof witness the signature of our President and the Seal of this Univer- sity.Done in the City of Chicago, Illinois, this the 16th day of December, 1920.ORIENTAL CAL UNIVERSITY SEAL DISTRICT OF COLUMBIA H.P.HOLLER, Ph.D.S.T.D., President M.LIFEROCK, PLD., Dean MAKINE MAROON, D.C.M.BURTRUM CRABILL, D.O.P.C., Secretary J.B.HOLLAND, PL, G., M.B.GEO.De SALIJ.D.D.LINCOLN JEFFERSON UNIVERSITY CORPORATE SEAL (Sd.) JOHN F.B.WALKER, Ph.D., D.D., Litt.D., President of the University and of the Board of Trustees.ILLINOIS لا اله الا الله محمد رسول الله THE MOSLEM SUNRISE EDITED BY DR.MUFTI MUHAMMAD SADIQ سمين الاسلام DOMINION OF CANADA ZION ALT LAKE CITY CHICAGO PRANCISCO UNITED LOS ANGELES MEXICO PACIFIC OCEAN STATES MONTREAL HIGHLAND PARK DETROIT NEW ORLEANS NEW YORK PHILADELPHIA God We Trust-United in One--"E Pluribus Unum" The College of Divine Metaphysics By These Presents, Know All Men That MUFTI MUHAMMAD SADIQ having satisfac- torily and honorably completed a Course of Study.and Training in the College of Divine Metaphysics, we, the Board of Trustees, do hereby issue this Diploma and in accordance with the Article of In- corporation under and by authority of the State of Missouri (U.S.Amer.) confer upon him the title of DOCTOR OF DIVINITY.Given at St.Louis, Mo., July 16th, 1921.(Sd.) R.HARTMANN C, M.PORTER M.E.ALLEN M.L.DENBIC A.ULMER L.BEHM No.2-October, 1921 Brief Report of Work New Converts A Day at Qadian I Am a Moslem Jewish Massacres There is a God 10 Facts for Americans Beauties of Islam A Quarterly Magazine Annual Subscription, $1.00 (England 5/- India Rs.5/-) Single Copy 25c 27 LaBelle Ave., Highland Park, Mich., U.S.A.*JAA SEAL E VITT P.M.BOYD C.D.BOYD W.C.ORTGIER T.W.FOBY G.E.ORTGIER (Sd.) JOSEPH PERCY GREEN (President)

Page 292

The Illuminated Address presented to Dr.M.M.Sadiq in London on the eve of his departure for America.Bismillah-ir-Rahman-ir-Raheem Nahmado-hu-wa-nusalli ala Rasuli hil-Kareem Rev.Mufti Muhammad-Sadiq B.Phil., F.P.C.(London), F.C.Chrom., A.S.P., M.R.A.S., Ahmadi Missioner.Our Respected and Dear Brother and Teacher: you Peace be with you and Mercy and Blessings of Allah the Almighty and Gracious.It is with mingled feelings of joy and sorrow that we Ahmadees of England have gathered today to bid farewell.We are sorry to part from you because we all love you as you love us.We are glad because you now carry the Message of Islam to the farthest west, thus ful- filling the Prophecies of the Master-Prophet Muhammad and the Prom- ised Messiah and Mehdi the Prophet Ahmad (Peace be upon them both).Those who live for God and His creatures, never die, so we hope that your benevolence and cheerful ways shall never be forgotten in this country.The great number of converts to Islam secured by you in this land shall make a prominent page in the History of Great Britain.The tender plant of Islam that has been strengthened so much through your incessant efforts of three years shall grow stronger and stronger every day until it will cover not only England but the whole continent of Europe.Dear Brother, our parting request to you is not to forget us in your prayers.May Allah bless you and bless all your undertakings and be with you wherever you be, and may create friends and helpers to you and make.your days of sojourn in America a blessing to the Americans as well as the Ahmadia Brotherhood.Ameen.With renewed prayers and wishing you a safe voyage and happy fortune, we remain, Yours Fraternally, London, 21st January, 1920.(Sd.) Presidend and Secretary Farewell Committee.

Page 293

نارتھ امریکہ شکا گو میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی قائم کردہ پہلی بیت الذکر حضرت مفتی محمد صادق -مستعد مجاہد

Page 294

حضرت مفتی محمد صادق علی اللہ عنہ

Page 295

Le Seig DERWESH 577 دو گھوڑوں والی بگھی میں حضرت مفتی محمد صادق صاحب یہ تصویر کلتہ (انڈیا) میں 1931ء میں لی گئی قادیان میں حضرت مفتی صاحب کے مکان کی تصویر نومبر 2012 ء

Page 296

ڈھل گئی عمر مگر لوحِ جبیں تاباں ہے

Page 297

حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے زیر اہتمام 29 جنوری 1926ء کو قادیان میں چوبیس زبانوں میں صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر تقاریر کے موقع کا یادگار فوٹو جلسہ جو بلی 1939 ء گروپ فوٹو حضرت مفتی محمد صادق صاحب کے ساتھ

Page 298

The Highland Park Mosque, circa 1927.This is the first Moslem mosque built in this land and I am proud to have the first prayer in it, as the first imam therein.This mosque, although built for the followers of Islam, will be open to the believers of all religions for a place of rest, prayer and meditation.Mohammedans believe in worshiping but the one God.Mohammet, on whom be peace and the blessings of God, is a prophet of God who teaches us how to come into communion with Him.We are all children of the one God.There is no original sin.There is no eternal hell.The religion of Islam treads underfoot all racial prejudices.Islam teaches its devotees that when they go to any other country they must peacefully obey the laws of the government of that country.Thus it is the sacred and religious duty of every Mohammedan here to be a good citizen of America and to learn the language of the country, without which we cannot understand each other rightly.Dr.Mufti Mohammad Sadiq (from India) Detroit News.Thursday, June 9, 1921 بعض اخباری تراشے

Page 299

THE DETROIT FREE PRESS, MOSLEMS CELEBRATE FEAST OF ID-UL-FILTR.Left to right: Kaliel Bizzy, Multi Mohammed Sadiq and Hungen Karout.These three Moslem nicks were central figures in the parade celebrating the opening of the ac Mohammedan mosque.Dr.Sada because of his higher rank, was catitled to wear green canonicali, while the others wore white.In the ret in the smallest Mohammedan in the parade is a Bedouin and was garbed in native costura.Mohammedaniem d its day chland Turder Prom early the orang, axural hun- de fai Palkmeli la praser ruza al upon the mud r tramme plated maque at 365 War Avenue, e middle of the he afternoon, we alena labad, the day na war B The Read the sutalang Poraret sic which dir materially in form from a Christian sharsh errice except that ihe membat the congregation re ved hele h before minin the prace of ice tar.The fing was far sapletion That these had put be laid the basement and rugs werd OUT HS- n wait ant impare Fat Was Then Broken The half hour prayer was con Noharacted by for Watu media- and this was followed by mr- ociation fall to time at neats inwenners 3 bucks and this matan Young The Quens by and sad maching un Her flat linners of America, Arabia.Syria Meek and Troy in th aquand Fear Victor can, y permitted their woman in ira colgon The ride a the parla alle that blake was break arcour backbone of the syrian al hay, to Junt of the bammedan vous wid not has been permb taire ciuem aash- hammar, wh aan, and thence out the id wart a PC pipild Tumque here the parade train for flebration.It was the fost The mat of the mornium The Treka sat legalka of when Moslama il pen and mutnal will- heyday fast, and it WAR wling Immy AP E the re many hats the pady formed made the thinly wing In OR, TE LAA is the tedd at The three daya dating bega however wILA inapitem, and mis That the hing i for bunday of the Auule u Arah.down of the Arabia Ameri there is the Christian Christ- tastares at the rarty morninal ma ALLAH HO AKBAR!' IS CHANT IN DETROIT WHEN CITY'S MOSLEMS GATHER FOR SERVICE PER-BOONE hammadas fine, ad omne take of the eldere Defro Amathem as an amoreplated pics of Mr Name The Muhammen faith premier Trans.Rindould have been regards an act man in the congreson dhe polivalentata in Hyra praefflege by the family the base art party bear may b other nationales, ambled adventure by the phonradan andered as an attempt the part of the religious papoply, is merial ma io imitats the work of one day the menth have ten this acred to be swn in 11 h.AN, heat.Sat largely with Mall, 1941 in the reporter and the had all posed for the sekue View of peevesling ba water were the farited gr That an ein resity del was A Tefe-ll ke the accalon of as Bill Fecr fe- canharamedens.It was lar the fric time la 2 y al the Call that the ass el illah wa by communal way f lehland Park for several year map of the b mosene, Moder acted there in 1921 end which ha nine gas through a stormy career.But al Mosiem praver from I want is the hamp prayer any offered In allah.the last day at Ramadas, coding the Mohannadan, Abril 11, acceeding in the Christian cl dar.HOUR OF PRAE - Tet their headed wating beth robes Try of prayer rab manged them Pad in the wrenial Hall Aad Tor more than hour tald to Ah, with an Mecca ad homita Pusat dere "Allah To Alba Allah is pow Arful chamala ine Inma Dragerleader, as Cagregation ra 10 te er fell no ne, or touched the rug with farshade Inord- with the Mahamedan rell Twover very performed the Abacarmesy of racing de Ian and the non wassal l their lowly and J in ends to their strai In the wote at the 1 Awar A werd the ratarul me wore knella the sacric rug.I prof devotion hair But this time went for the ryand in Prapies, these news bio- KORAN PORED.Are sigthing bean would en redes perd The Koran, or hamda bēbis, permiso artistio imitaties ed i..EMBRACING THE MAN naturapular rater neral, ayd partrait of amat religinis arber - Keme the object of wonalp to wor prioli ommunity, and the work deceneries Idolatr Wara leme time this has on a Free In theiography V indas as Malema in Aais da nat 44 10 Bar Belen a PRAN SCATTERED fiat late s Irimination te arava brhuren Petanizali madarash portrail in oil or warenler Plasing raps are permitted, but no Mister would he signif TER, F de of the Cyril amic c les under h Asis the lere et she amede tail intended as hi sb ham tid We Meams worth's the te ras 13 Fivia Eu we dr melarbi Mohammed, homok FELPE BRI as Grew maiREAR Du Mataimed.All delal Ta popular une plur, held by no lio is Ramadan is the proth in hack Memmmed rosed 3 dias re elation.he unit w pertat at animin e The Pub The mat fant every de Le a sth.il pas une a farben ring the price hameder in period of a As for the othe le Irod Buring th El-Feir Duse Medi iraled the information ar was a m deed by abraham The sold a C Did THX- nt in erroMEONS Enis Delal ses Megammed All dated Wa Masindana bild that it was mart, the am of Hays, w Last of alwha wana terrible by Art And The Bill-Puli la vă o cure nemeratkom vi ha

Page 300

برگزیده رکن، جوان صالح ہمارے سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن، جوان صالح اور ہر ایک طور سے لائق جن کی خوبیوں کو بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں.یعنی مفتی محمد صادق صاحب بھیروی قائم مقام منشی محمد افضل صاحب مرحوم ہو گئے ہیں.میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس اخبار کی قسمت جاگ اٹھی ہے کہ اس کو ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا.خدا تعالیٰ یہ کام آن کے لئے مبارک کرے اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے.آمین ثم آمین.خاکسار مرزا غلام احمد 30 مارچ 1905ء ہفت روزہ بدر قادیان 6 اپریل 1905ء)

Page 300