Language: UR
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے عشاق میں ایک اہم نام حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا بھی ہے جو ابتدائی عمر میں احمدیت میں داخل ہوئے اور براہ راست امام الزمان ؑ سے تربیت پائی اور انگلستان اور امریکہ جیسے دو ر دیسوں میں اسلام احمدیت کی روشنی اور نور پھیلانے کا فریضہ نبھایا۔ اطاعت امام، خدمت دین،تبلیغ حق، تحقیق کی لگن،تاریخ کو محفوظ بنانے کا شغف، علم کا حصول اور اس کی ترویج آپ کے نمایاں اوصاف تھے۔
حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت مسیح موعود کے عشاق میں سے ایک اہم نام حضرت مفتی محمد صادق صاحب کا بھی ہے.بہت ابتدائی عمر میں آپ نے احمدیت سے ناطہ جوڑا.براہ راست امام زمان سے تربیت پائی اور پھر دور دیسوں تک اس روشنی اور نور کو پھیلانے کا فریضہ سر انجام دیا.اطاعت امام اور خدمت دین کی تڑپ آپ کے نمایاں اوصاف میں سے تھے.دعوت الی اللہ کے کام کو بے انتہا جذ بہ اور جوش سے سر انجام دینے والے یہ پاک وجود اور ان کی زندگی آج ہمیں بھی دعوت عمل دیتی ہے اور یہ سمجھاتی ہے کہ اس روشنی اور نور کو پھیلانے کیلئے ہمیں بھی اپنا ایک ایک لمحہ وقف کرنا چاہئے.
1 پیش لفظ عزیز ساتھیو ! حضرت مفتی محمد صادق صاحب بچپن ہی سے بزرگوں کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے.آپ کو حضرت مسیح موعود کی ذات اور خلفاء سے عشق تھا.پیدائش اسی طرح آپ بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء کے حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت مفتی محمد صادق صاحب کی پیدائش 13 جنوری 1872 ء بروز جمعرات محبوب خدام میں سے تھے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے خلفاء بھیرہ میں ہوئی.بھیرہ اُس زمانے میں ضلع شاہ پور میں تھا لیکن اس وقت ضلع سرگودھا کا ہی فیض تھا کہ حضرت مفتی صاحب اپنی ذات میں علم کا ایک سمندر گنے جاتے تھے.آپ کو انگلستان اور امریکہ جیسے دور دراز علاقوں میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کی سعادت ملی.خود بھی اعلیٰ درجہ کی خدمت کی توفیق پائی اور ہمارے لئے قابل تقلید نمونہ چھوڑ گئے.اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو! میں ہے.خاندانی تعارف آپ کے والد ماجد کا نام مفتی عنایت اللہ صاحب اور والدہ محترمہ کا نام حضرت فیض بی بی صاحبہ تھا.آپ کے والد صاحب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دھوئی سے قبل ہی وفات پاچکے تھے.جبکہ آپ کی والدہ محترمہ نے 1896 یا 1897ء میں قادیان آ کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کی.جب آپ اپنی والدہ کے ہمراہ قادیان سے واپس جانے لگے تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام آپ کو چھوڑنے کے لئے یکہ والی جگہ تک آئے اور کھانا منگوایا تا کہ سفر میں ساتھ لے جاسکیں لنگر والوں نے کھانا بغیر کسی کپڑے کے بھجوا دیا.حضور نے اپنے عمامہ مبارک میں سے ایک گز کے قریب کپڑا پھاڑ کر اس میں کھانا باندھ دیا.(ذکر حبیب صفحہ 45)
3 له 2 خبر حضرت مفتی صاحب کے والد کو ملی تو وہ سیالکوٹ پہنچے اور آپ کو بھیرہ واپس لے آئے.اور وہاں میٹرک میں داخل کرا دیا.1890ء میں آپ نے میٹرک پاس کر لیا.آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے گھر پر ہی ہوئی.9 سال کی عمر میں پہلا سفر قادیان تیسری جماعت میں داخل ہوئے اور 15 سال کی عمر میں مڈل پاس کر لیا.قرآن مجید آٹھ نو سال کی عمر میں محلے کے ایک مولوی اور ان کی اہلیہ سے پڑھ چکے تھے.صحبت نورالدین 1890ء میں آپ نے انٹرنس کا امتحان پاس کیا اور جموں جا کر ہائی سکول میں بطور مدرس ملازم ہو گئے.سکول میں جب رخصتیں ہوئیں تو آپ نے قادیان کی (لطائف صادق صفحہ 121) طرف اپنا پہلا سفر کیا.اس سفر کی تفصیل بیان کرتے ہوئے آپ تحریر فرماتے ہیں: غالبا دسمبر 1890 ء تھا.سردی کا موسم تھا.بٹالہ سے میں اکیلا ہی 1888ء میں آپ کے والد محترم آپ کو حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب یکہ میں سوار ہو کر آیا اور بارہ آنہ کرایہ دیا.حضرت مولانا صاحب (خلیفہ اسیح الاوّل) کے پاس قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے کے واسطے جموں چھوڑ آئے.آپ تقریباً 6 ماہ حضرت مولانا صاحب کے پاس جموں میں رہے.حضرت مولانا نورالدین صاحب سے آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر سنتے رہے اور اسی وجہ سے آپ کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہا السلام سے متعلق ایک محسن نکن پیدا ہو گیا.مولوی نورالدین نے مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام ایک سفارشی خط دیا تھا.حضرت کے مکان پر پہنچ کر وہ خط میں نے اُسی وقت اندر بھیجا.حضرت صاحب فوراً باہر تشریف لائے.فرمایا : مولوی صاحب نے اپنے خط میں آپ کی بہت تعریف کی ہے.مجھ سے پوچھا ایک دفعہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب جموں گئے تو حضرت مفتی صاحب کو کیا آپ کھانا کھا چکے ہیں.تھوڑی دیر بیٹھے اور پھر اندرون خانہ تشریف لے گئے.“ دیکھ کر حضرت خلیفہ اول سے آپ کے حالات دریافت فرمائے اور پھر درخواست کی کہ مفتی صاحب کو ان کے ساتھ سیالکوٹ بھیج دیا جائے جہاں یہ سکول میں داخل ہو کر میٹرک کرلیں اور قرآن مجید کا ترجمہ مجھ سے پڑھتے رہیں.حضرت مولوی صاحب نے اجازت دے دی اور آپ مولوی صاحب کے ساتھ سیالکوٹ چلے گئے.جب یہ کے ساتھ سیر پر تشریف لے گئے.(ذکر حبیب صفحہ 4) اگلے دن جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام سیر کے لئے گئے تو آپ بھی حضور
5 4 دوسرے یا تیسرے دن آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت میں آپ اس سکول کے ہیڈ ماسٹر مقرر ہوئے اور مارچ 1905 ء تک اس ذمہ داری کر لی اور آخرین کے خوش نصیب گروہ میں شامل ہو گئے.گئے.آپ جموں میں ہائی سکول میں انگریزی کے استاد تھے.کو نبھاتے رہے.قادیان میں آپ 1890ء میں بیعت کر کے اپنی ملازمت پر جموں واپس چلے بطور ایڈیٹر ” البدر تقرری مارچ 1905ء میں اخبارالبدر کے ایڈیٹر حضرت منشی محمد افضل خاں صاحبہ اس کے بعد آپ جب تک جموں رہے آپ دیوانہ وار ہر سال موسم گرما کی وفات پاگئے.اور حضرت مفتی صاحب کی خدمات تعلیم الاسلام ہائی سکول کی رخصتوں میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے اور حضور کی صحبت میں اپنی جھولی کو برکات اور روحانی نعمتوں سے مالا مال کرتے رہے.بعض دفعہ آپ سال میں دو دو دفعہ بھی جموں سے قادیان آتے رہے.1895ء میں ہیڈ ماسٹری سے اخبار ”البدر کی ایڈیٹری کی طرف منتقل ہو گئیں.آپ کے البدر کے ایڈیٹر بنے پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا: میں بڑی خوشی سے یہ چند سطریں تحریر کرتا ہوں.کہ اگر چہ منشی آپ نے ایف اے کا امتحان پرائیویٹ طور پر جموں میں ہی پاس کیا تھا.اسی سال محمد افضل مرحوم ایڈیٹر اخبار البدر قضائے الہی سے فوت ہو گئے ہیں.مگر آپ اگست یا ستمبر میں جموں کی ملازمت ترک کر کے اسلامیہ سکول لاہور میں خدا تعالی کے شکر اور فضل سے ان کا نعم البدل اخبار کو ہاتھ آگیا ہے.یعنی ہمارے سلسلہ کے ایک برگزیدہ رکن، جوان، صالح اور ہر یک طور سے لائق ، جن کی خوبیوں کے بیان کرنے کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں.یعنی مفتی محمد صادق صاحب بھیروی قائم مقام منشی محمد افضل صاحب مرحوم ہو گئے ہیں.آگئے.چھ ماہ آپ یہاں ملازم رہے.پھر آپ لاہور میں ہی اکا ؤنٹنٹ جنرل پنجاب کے دفتر میں کلرک ہو گئے اور قادیان ہجرت تک جو 1901ء میں ہوئی آپ اسی دفتر میں ملازم رہے.دور مسیح موعود علیہ السلام میں آپ کی خدمات میری دانست میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس اخبار کی قسمت حضرت مفتی محمد صادق صاحب جنوری 1901 ء میں حضرت اقدس مسیح موعود جاگ اٹھی ہے کہ اس کو ایسا لائق اور صالح ایڈیٹر ہاتھ آیا.خدا تعالیٰ یہ علیہ السلام کی منشاء کے مطابق ہجرت کر کے قادیان آگئے اور حضور علیہ السلام کے کام ان کے لئے مبارک کرے اور ان کے کاروبار میں برکت ڈالے.حکم سے تعلیم الاسلام ہائی سکول میں بطور سیکنڈ ہیڈ ماسٹر کام کرنے لگ گئے.بعد آمین ثم آمین (ذکر حبیب صفحہ 332)
7 CO عبرانی زبان سیکھنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں آپ نے اس عظیم مقصد کو پورا کرنے کے لئے ( دعوت الی اللہ ) کے خطوط کا ایک سلسلہ شروع کر دیا.یہ سلسلہ خطوط صرف حضرت مفتی صاحب کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں تعلیم ہندوستان تک محدود نہیں تھا بلکہ برطانیہ نے بھی اس چشمہ سے حصہ لیا اور امریکہ اور روس بھی اس سے فیض یاب ہوئے.الاسلام ہائی سکول کی ہیڈ ماسٹری اور اخبار ” البدر کی ایڈیٹری کے علاوہ اور بھی بہت ساری خدمات جلیلہ کی توفیق ملی.ان عظیم الشان خدمات میں سے آپ کو ایک خدمت یہ کرنے کا موقع ملا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کو ارشاد سفر میں خدمت فرمایا کہ عبرانی سیکھیں.ان دنوں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اپنی معرکة الآراء حضرت مفتی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سفروں میں حضور کی کتاب من الرحمان لکھ رہے تھے.جس میں آپ ثابت کر رہے تھے کہ عربی زبان خدمت کے متعلق فرماتے ہیں: اُمُّ الا لسنه یعنی تمام زبانوں کی ماں ہے.اس سلسلے میں حضور علیہ السلام کو عبرانی زبان کی بھی ضرورت محسوس ہوئی تا اہل دنیا پر واضح کیا جاسکے کہ عبرانی زبان بھی عربی سے جس سفر میں حضرت اماں جان) حضور کے ساتھ نہیں ہوتی تھیں.اُس میں میں حضور کے قیام گاہ میں حضور کے کمرے کے اندر ہی نکلی ہوئی ہے.حضرت مفتی صاحب کو حضور کا یہ حکم سن کر بہت خوشی ہوئی کہ خدا نے ایک چھوٹی سی چار پائی لے کر سورہتا تھا.تا کہ اگر حضور کو رات کے خدمت کا موقع دیا ہے.ان دنوں آپ لاہور میں ملازم تھے چنانچہ آپ نے لاہور میں عبرانی سیکھی اور عبرانی الفاظ حضور کی خدمت میں پیش کئے جن سے حضور علیہ السلام نے یہ ثابت کیا کہ یہ زبان بھی عربی سے نکلی ہوئی ہے.دعوت الی اللہ کے خطوط وقت کوئی صورت پیش آئے.تو میں خدمت کرسکوں.چنانچہ اس زمانہ میں چونکہ مجھے ہوشیار اور فکر مند ہو کر سونا پڑتا تھا تا کہ ایسا نہ ہو کہ حضرت صاحب مجھے کوئی آواز دیں اور میں جاگنے میں دیر کروں.اس لئے اس وقت سے میری نیند بہت ہلکی ہو گئی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام اگر کبھی مجھے آواز دیتے تھے اور میری آنکھ نہ کھلتی تھی تو حضور آہستہ سے مسیح دوراں کا جو پیغام آپ نے سنا اور مھدی زماں کے جس نور سے آپ منور اٹھ کر میری چار پائی پر بیٹھ جاتے تھے.اور میرے بدن پر اپنا دست ہوئے آپ کی شدید خواہش تھی کہ یہ نور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک بہت جلد آپنچ جائے مبارک رکھ دیتے تھے.جس سے میں جاگ پڑتا تھا.اور سب سے پہلے اور تمام مخلوق اس عظیم فرستاد و پر ایمان لا کر اپنے حقیقی خدا تک پہنچ سکے.حضور وقت دریافت فرماتے تھے.اور حضور کو جب الہام ہوتا تھا.
9 8 حضور مجھے جگا کر نوٹ کروادیتے تھے.چنانچہ ایک رات ایسا اتفاق ہوا کہ حضرت نے مجھے الہام لکھنے کے لئے جگایا مگر اس وقت اتفاق سے میرے پاس کوئی علم نہیں تھا.چنانچہ میں نے ایک کوئلہ کا ٹکڑا لے کر اس بڑے بڑے دعوے کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ مقابلہ کے نتیجے میں شخص تنہا رہ کر انتہائی حسرت اور نا کامی کی حالت میں مرا.ڈاکٹر ڈوئی (Dr.Dowie) کے ساتھ رابطے کا بنیادی محرک بھی حضرت مفتی سے الہام لکھا.لیکن اس وقت کے بعد سے میں ہمیشہ با قاعدہ پنسل یا محمد صادق صاحب ہوئے تھے اور انہی کے ذریعے ڈوٹی کا لٹریچر حضرت مسیح موعود علیہ فونٹین کوین اپنے پاس رکھنے لگا.“ ڈاک کا انتظام السلام تک پہنچا جس کی تفصیل آپ کی کتاب "ذکر حبیب میں درج ہے.یہ کتاب (ذکر حبیب صفحہ 319) حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے متعلق اپنی یادوں پر مبنی تحریر فرمائی ہے.روس کی مشہور ومعروف شخصیت کا ؤنٹ ٹالسٹائی ( Count Tolstoy) کو بھی حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کی وفات کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ڈاک کا کام آپ کے سپرد ہو گیا.چنانچہ حضور علیہ السلام کی ہدایات کے آپ نے مخطوط کے ذریعہ دعوت الی اللہ کی.اس کا تفصیلی ذکر بھی ذکر حبیب ماتحت آپ ان خطوط کے جوابات تحریر فرماتے اور حضور علیہ السلام کے ارشادات لوگوں تک پہنچاتے.ڈاکٹر ڈوٹی کی ہلاکت صفحہ 399 تا 401“ پر موجود ہے.(ذکر حبیب صفحہ 391،390) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آپ پر شفقت کے چند نمونے امریکہ کے ایک مشہور و معروف شخص ڈاکٹر ڈوئی نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب اپنے آقا و مطاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اپنے پیارے مرید پر شفقت کے نمونے بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں.السلام کے زمانہ میں نبوت کا دعویٰ کیا.اس کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مقابلہ ہوا.شیخص بہت گندی زبان استعمال کر نیوالا تھا.اس کے لٹریچر میں انبیاء کے وضو کے واسطے پانی لا دیا متعلق بہت گستاخی اور بے باکی کے الفاظ ہوتے تھے.دین حق کے خلاف بہت زیادہ جوش رکھتا تھا.اور مسلمانوں کو تمام دنیا سے کچل ڈالنے اور ہلاک کرنے کے کے اندر گیا جو بیت مبارک میں سے حضرت صاحب کے اندرونی مکانات کو جاتا ہے.ایک دفعہ میں وضو کے واسطے پانی کی تلاش میں لوٹا ہاتھ میں لئے اُس دروازے
11 10 تا کہ وہاں حضرت صاحب کے کسی خادم کو لوٹا دے کر پانی اندر سے منگواؤں.اتفاقاً رضائی اور ایک دھہ ارسال فرمایا اور فرمایا کہ رضائی محمود کی اور دھہ میرا ہے.جو اندر سے حضرت صاحب تشریف لائے.مجھے کھڑا دیکھ کر فرمایا.آپ کو پانی چاہئے.آپ پسند فرمائیں رکھ لیں اور اگر چاہیں تو دونوں رکھ لیں.آپ نے رضائی رکھ لی اور میں نے عرض کی ہاں حضور.حضور نے لوٹا میرے ہاتھ سے لے لیا.اور فرمایا.میں دھہ واپس بھیج دیا.لا دیتا ہوں اور خود اندر سے پانی ڈال کر لے آئے اور مجھے عطا فرمایا.مخدوم نے خدمت کا نمونہ دکھایا مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ میں لاہور سے قادیان آیا ہوا تھا.غالباً 1897ء یا 1898 ء کا واقعہ ہوگا.مجھے حضرت صاحب نے ( بیت ) مبارک میں بٹھایا جو کہ اس خلافت اولی میں خدمات (سیرت المهدی حصہ دوم صفحہ 103 روایت نمبر 430) حضرت مفتی محمد صادق صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت خلیفۃ امسیح الاوّل کی بھی اُسی جذبہ، شوق اور ولولہ کے ساتھ اطاعت و وقت ایک چھوٹی سی جگہ تھی.فرمایا کہ آپ بیٹھے میں آپ کے لئے کھانا لاتا ہوں.یہ فرمانبرداری کرتے رہے جس شوق اور جذبہ سے مھدی دوران کی کیا کرتے تھے.کہہ کر آپ اندر تشریف لے گئے.میرا خیال تھا کہ کسی خادم کے ہاتھ کھانا بھیج دیں گے.مگر چند منٹ کے بعد جبکہ کھڑ کی کھلی تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ اپنے ہاتھ سے سینی اٹھائے ہوئے میرے لئے کھانا لائے.مجھے دیکھ کر فرمایا کہ آپ کھانا کھایئے میں پانی لاتا ہوں.بے اختیار رقت سے میری آنکھوں سے آنسونکل آئے کہ جب خلافت اولیٰ کے دور بابرکت میں مفتی صاحب نے برصغیر کے طول وعرض میں اعلائے کلمۃ اللہ اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچانے کے لئے ہزاروں میل کا سفر کیا.حضرت ہمارے مقتداء پیشوا ہو کر ہماری یہ خدمت کرتے ہیں تو ہمیں آپس میں ایک حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے احکام کے مطابق ہندوستان کے دور دراز علاقوں تک پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ کے جلسوں پر انتہائی مدلل اور مؤثر تقاریر کیں.روحانیت سے لبریز اور تاثیر سے پُر ان تقاریر میں آپ نے نہ صرف دوسرے کی کس قد ر خدمت کرنی چاہئے.ایک دفعہ حضرت مفتی صاحب حضور علیہ السلام کی ملاقات کے لئے تشریف لائے.سردیوں کے دن تھے اور آپ کے پاس اوڑھنے کے لئے کچھ نہ تھا.آپ نے ہزار ہا احمدی احباب کی پیاس کو بجھایا بلکہ ہزارہا غیر احمدی احباب کو بھی احمدیت کا کہلا بھیجا کہ حضور رات سردی لگنے کا اندیشہ ہے.حضور نے نہایت شفقت سے ایک پیغام انتہائی مؤثر اور دلکش رنگ میں پیش کیا.
13 12 دور خلافت ثانیہ میں خدمات حضرت مفتی صاحب نے جس طرح خلافت اولیٰ کے دور بابرکت میں حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کے ارشاد کے مطابق ہندوستان کے طول وعرض میں اپنی تقاریر اور حضرت مفتی صاحب کو اس مقدس خواہش کی تکمیل میں ابتدائی دور میں بھر پور حصہ لینے کی توفیق ملی.حضرت مفتی محمد صادق صاحب انگلستان میں دعوت الی اللہ کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حکم پر 10 مارچ 1917ء کو قادیان سے روانہ ہوئے.آپ کے لیکچروں کے ذریعہ دعوت الی اللہ کی اسی طرح آپ نے دور خلافت ثانیہ میں بھی سینے میں کفر کو پاش پاش کرنے کی تڑپ اور آہنی عزم اور مضبوط ارادوں کا اندازہ ان حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کے حکم سے ہندوستان کے متعدد مقامات پر احمدیت کا پیغام بڑی کثرت سے پھیلایا.خلافت ثانیہ کے وقت غیر مباھین (لاہوری گرد و جو خلافت حقہ کا منکر ہوگیا ) الفاظ سے ہوتا ہے جو آپ نے مدرسہ احمدیہ کی طرف سے 5 مارچ1917ء کو دی گئی الوداعی پارٹی کے موقع پر فرمائے تھے.آپ نے فرمایا: میں ولایت میں اس لئے نہیں جارہا کہ وہاں کے رہنے والوں کی کے فتنے نے جماعت احمدیہ میں تفرقہ وانتشار کی خطرناک فضا قائم کرنے کی کوشش تقلید کروں.بلکہ اس لئے جا رہا ہوں کہ ان کو اپنی تقلید کراؤں“ کی.غیر مبائع حضرات خلافت کے خلاف جگہ جگہ زہر پھیلانے میں مصروف تھے، خصوصاً ان علاقوں میں جو مرکز سے دور تھے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس زہر ناک پروپیگنڈہ کے تریاق کے لئے حضرت مفتی صاحب کو کئی جگہ بھیجا.حضرت دوران سفر کا میابیاں مفتی صاحب نے کئی دور دراز علاقوں کے سفر کر کے خلافت کی اہمیت و برکات سے الفضل 10 مارچ 1917ء) آپ چونکہ دعوت الی اللہ کے لئے انگلستان روانہ ہورہے تھے.آپ کے سینہ آگاہ کیا اور اس زہر کا بہترین تریاق کیا.اس مقصد کی تکمیل کے ساتھ ساتھ آپ نے میں دعوت الی اللہ کا اس قدر جوش اور جذبہ تھا کہ دوران سفر بھی آپ نے مسافروں کو جگہ جگہ خوب دعوت الی اللہ کی.سفرانگلستان خوب دعوت الی اللہ کی.جس کے نتیجے میں کئی افراد سلسلہ احمدیت میں داخل ہوئے.مثلا آپ کے جہاز پر سوار ہونے کے چوتھے دن ایک انگریز ( مؤمن ) ہو گیا جس کا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی شدید خواہش تھی کہ یورپ کے ظلمت کدے نام داؤ د رکھا گیا.26 مارچ کو دو اشخاص سلسلہ احمدیہ میں داخل ہو گئے.ان میں سے آسمانی نور سے جلد منور ہوں اور بلا د کفر میں خدائے واحد و یگانہ کی منادی کی جائے.ایک پنجاب اور دوسرا بمبئی کے علاقے سے تعلق رکھتا تھا.
15 14 17 / اپریل 1917 ء کو آپ بخیریت انگلستان پہنچ گئے اور پہنچتے ہی حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو ناردیا کہ Reached London Safely Mufti Sadiq (الفضل 24 را پریل 1917ء) سفر امریکہ دسمبر 1920ء کا جلسہ سالانہ قادیان جماعتی روایات کے مطابق منعقد ہور ہا تھا.جماعت احمدیہ کے امام حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے 27 دسمبر کی تقریر میں جماعت احمدیہ کے جانثار اور فدائی فرزندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: تمہیں ساری دنیا کے لئے (مربی) بنایا گیا.اس فرض ( دعوت الی لندن میں حضرت مفتی صاحب کی دعوت الی اللہ سے سب سے پہلے جس شخص کو اللہ ) کے بھی دو حصے ہیں.اوّل اپنے مذہب والوں کو امر بالمعروف سلسلہ احمدیہ میں داخل ہونے کی توفیق ملی اس کا نام سپیر و Sparrow) تھا.کرنا.دوسرے غیروں میں ( دعوت الی اللہ ) کرنا......خدا کا وعدہ ہے کہ الی الفضل 12,9 جون 1917ء) ہم کامیاب ہوں گے.اگر چہ ہم بہت کمزور ہیں.مگر خدا طاقتور ہے.ہم Sparrow عربی زبان کے لفظ عُصفور سے نکلا ہے جس کے معنے چڑیا کے نے افغانستان میں، ایران میں مشن قائم کرنے ہیں.امریکہ کے متعلق ایک ہیں.گویا یہ پہلا سفید پرندہ یا چڑیا تھی جو حضرت مفتی صاحب نے لندن میں آ کر پکڑی.رویا میں نے پہلے سنائی تھی اب ایک اور ہوئی ہے.مفتی صاحب عنقریب ایک اور شخص نے بھی مفتی صاحب کے ذریعے بیعت کی جس کا نام برڈ (Bird) انشاء اللہ امریکہ چلے جائیں گے." تھا.عجیب اتفاق ہے کہ پہلے جس شخص نے بیعت کی اس کا نام Sparrow یعنی چڑیا تھا.یہ دوسرے صاحب تھے جس کے معنے پرندہ کے ہیں.الفضل 12.9 جون 1917 ء) (الفضل 8 جنوری 1920ء) چنانچہ حضرت مفتی صاحب اپنے پیارے امام کے ارشاد کے مطابق انگلستان کی زمین کو خیر باد کہتے ہوئے 26 جنوری 1920ء کو بعزم امریکہ لندن سے روانہ ہوئے.دعوت الی اللہ کے شوق اور جذبے سے سرشار حضرت مفتی محمد صادق صاحب گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق کہ لندن شہر میں میں نے سفر میں بھی مسلسل موقع محل کے مطابق دعوت الی اللہ کرتے چلے گئے.یہاں تک کہ بہت سے سفید پرندے پکڑے ہیں.اللہ تعالیٰ نے اس پیشگوئی کو ایک پہلو سے ظاہری الفاظ میں بھی پورا کر دیا.دوران سفر آپ کے ذریعے 5 چینی باشندے جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے.( الفضل 26 اپریل 1920 ء )
17 16 امریکہ میں داخلہ میں رکاوٹ عزم صمیم کے آگے پہاڑ ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں اور طوفان اپنا منہ موڑ کر واپس چلے جاتے ہیں.ان متوالوں کے ارادے اور حوصلے دریاؤں کو چیر ڈالتے ہیں اور پہاڑوں جب حضرت مفتی صاحب امریکہ کے ساحل پر جہاز سے اترے تو افسران محکمہ کو کاٹنے پر کمر ہمت کس لیتے ہیں.چنانچہ مفتی صاحب نے یہ فیصلہ نامنظور کر کے ان امیگریشن نے آپ کو امریکہ میں داخل ہونے سے روک دیا.ان کے دل برداشت نہ کے بڑے افسروں کے پاس محکمہ سیکرٹریٹ میں جو واشنگٹن میں تھا داخلہ کی اپیل کی.کر سکے کہ ایک (مؤمن) مشنری ان کے ملک میں ( دین حق ) کی ( دعوت الی اللہ ) خدا تعالیٰ نے ان کے دلوں کو نرم کیا اور انہوں نے مفتی صاحب کے امریکہ میں داخلہ کی اپیل منظور کر لی لیکن ساتھ یہ حکم دیا کہ جب تک فیصلہ نہ ہو جائے شہر میں آنے کی جب مفتی صاحب کے آقا سید نا محمود نے سنا کہ ان کے غلام کو امریکہ داخلہ سے اجازت نہیں ہے اور ساحل سمندر پر ایک مکان میں الگ رہنے کی ہدایت کی.دوماہ کرے اور عیسائیوں کو ( مؤمن ) بنائے.روکا جارہا ہے تو آپ نے سیالکوٹ میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ”امریکہ کے پاس جہاز ہیں.وہ سمجھتا ہے کہ یورپ کی طاقتیں اس بعد بہت سی تکالیف اٹھانے کے بعد آخر آپ کو اجازت مل گئی اور آپ نیو یارک میں چلے گئے اور آخر کار خدا کا شیر اپنے آقا کی پیشگوئی کے مطابق کہ ”مجھے خدا تعالیٰ نے بتا سے ڈرتی ہیں.پھر اس کو اپنی فوجوں پر ناز ہے.مگر باوجود اپنے ان دیا ہے کہ مفتی صاحب امریکہ میں ضرور داخل ہوں گے امریکہ میں داخل ہوا.سامانوں کے وہ ہمیں داخلہ سے نہیں روک سکتا.ہم امریکہ میں داخل ہوں گے.اور ضرور داخل ہو نگے مجھے خدا تعالیٰ نے بتا دیا تھا کہ مفتی صاحب امریکہ میں ضرور داخل ہوں گے.“ 66 (الفضل 18 دسمبر 1923ء) ادھر آقا نے یہ اعلان کیا تو اُدھر غلام نے ساحل امریکہ پر بیٹھے ہوئے افسران محکمہ امیگریشن کے فیصلہ کا انکار کر دیا اور کہہ دیا کہ میں اب واپس نہیں جاؤں گا.حضرت مفتی صاحب تو خدا تعالیٰ کے شیر تھے جو امریکہ کو فتح کرنے کی بنیادی اینٹ رکھنے گئے تھے.خدا کے شیر کسی کے آگے جھکا نہیں کرتے.ان دیوانوں کے حضرت مفتی صاحب نے پہلے نیو یارک میں رہائش اختیار کی لیکن بعد میں چند وجوہات کی بناء پر آپ نے نیو یارک کی بجائے شکا گوکوامریکہ کا جماعتی مرکز بنایا.Look Jesus Christ ایک دفعہ آپ شکاگو کے بازار سے گذر رہے تھے کہ ایک عمارت سے ایک لڑکی کی آواز آئی اس نے اپنی ماں کو مخاطب کر کے نہایت خوشی سے پکارا.Look! Look! Mother, Jesus Christ has come! یعنی ماں دیکھو، دیکھو کہ یسوع مسیح آگئے ہیں.
19 18 اس پر اس کے ماں باپ نے آپ کو اوپر بلایا اور آپ کا انٹرویو لیا.آپ نے کی.ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ انہیں امریکہ میں مخلصین کی ایک جماعت عطا فرمائے جو کہ.انہیں بتایا کہ میں "Christ" نہیں ہوں بلکہ مسیح پاک کا ایک خادم ہوں.آپ نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والے ہوں.دوسرے یہ کہ دین حق کی اشاعت کیلئے انہیں انہیں دعوت الی اللہ کی اور پمفلٹ دیئے.ایک میگزین نکالنے کی طاقت دے.تیسرے ایک بیت الذکر کی تعمیر کے لئے دعا کی مقالہ سیرت حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 467-468) جس میں اللہ تعالی کے نام کی پرستش کی ہو.اسی طرح مکرم صوفی عبدالغفور صاحب سابق مشنری امریکہ نے روایت بیان کی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی تینوں خواہشات کو پورا کیا مخلص جماعت بھی آپ کو کہ ایک دفعہ حضرت مفتی صاحب نے بتایا کہ وہ شکاگو کے ایک بازار سے گزرر ہے عطا ہوئی.میگزین ( مومن ) سن رائز“ شائع ہونا شروع ہو گیا.اور دلی تمنا کے تھے کہ ایک پادری آیا اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی تھا.پادری صاحب نے آپ کو مطابق جولائی 1922ء میں آپ نے ایک دوکان خرید کر اس کو بیت الذکر میں تبدیل بلایا.اور بتایا کہ میں دوکان پر بیٹھا تھا کہ اس لڑکے نے آپ کو دیکھ کر کہا کر دیا اور گنبد، محراب اور منبر وغیرہ بھی بنائے.اس کے علاوہ ایک اور بیت الذکر بھی Father! Father! Jesus Christ! Jesus Christ! آپ نے ان کو بتایا کہ میں مسیح نہیں ہوں بلکہ مسیح محمدی کا ایک غلام ہوں اور آپ نے انہیں دعوت الی اللہ کی.اسی طرح مکرم صوفی صاحب نے یہ بھی بیان کیا کہ حضرت مفتی صاحب بتاتے تھے کہ ایک دفعہ آپ ایک دوکان پر گئے وہاں پر چند عور تیں تھیں.ان کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ تھا.اس نے آپ کو دیکھا تو اپنی ماں کو جو سوداسلف خریدنے میں مشغول تھی کھینچنا شروع کیا اور نہایت سرگوشی کے رنگ میں آہستہ آہستہ اس نے کہا کہ Mother! Mother! Jesus Christ! Jesus Christ! مقالہ سیرت حضرت مفتی محمد صادق صاحب صفحہ 468) حضرت مفتی صاحب نے اللہ تعالیٰ سے امریکہ میں تین عظیم امور کے لئے دعا آپ کے دور میں بن گئی.چنانچہ آپ لکھتے ہیں: فلاڈلفیا.یہ اس ملک میں دوسرے درجے کا شہر ہے.تین سال ہوئے جب میں پہلے یہاں اترا تھا اور ساحل سمندر پر چھ ہفتہ روکا گیا تھا.اس وقت کی خوا ہیں اور امیدیں آج پوری ہو رہی ہیں.اس وقت بھی اخباروں نے میرے متعلق مضامین لکھے تھے اور اب پھر چار روزانہ اخباروں کے ایڈیٹر ملنے آئے.اور میری تصویر کے ساتھ لمبے مضامین شائع کئے کہ تین سال میں اللہ تعالیٰ نے مجھے سات سو ( نومبائعین ) اس ملک میں عطا کئے اور ( بیت الذکر ) اور مشن ہاؤس قائم ہوا اور رسالہ جاری ہوا.فالحمد للہ“ (الفضل 9 اکتوبر 1923ء)
21 20 ساڑھے تین سال سے زائد عرصہ آپ امریکہ کے گلی کوچوں میں مسیح محمدی کی آپ 18 ستمبر 1923 ء کو امریکہ سے روانہ ہو کر 4 دسمبر 1923 کو قادیان پہنچ گئے.منادی دینے کے بعد 18 ستمبر 1923ء کو جہاز پر سوار ہوکر عازم قادیان ہوئے.(الفضل4, 7 دسمبر 1923ء) حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک مجمع کثیر کے ساتھ سڑک کے موڑ کے قریب (الفضل 30 /اکتوبر 1923ء) اس عرصہ میں آپ نے خدا تعالیٰ کے فضل سے 700 افراد کو جماعت احمدیہ میں حضرت مفتی صاحب کا استقبال کیا.حضرت مفتی صاحب نے حضور سے مصافحہ کرتے ہوئے دیر تک دست بوسی کی.اس وقت خوشی اور مسرت کے جذبات آنسوؤں کی شکل داخل کیا.(الفضل 9 اکتوبر 1923ء) جب آپ قادیان روانگی کے لئے امریکہ سے جہاز پر بیٹھے تو امریکہ کی طرف میں آپ کی آنکھوں سے ڈھلک رہے تھے.دیکھ کر بے اختیار آنکھیں پُر آب ہو گئیں.اس لئے نہیں کہ آپ کو امریکہ رہنے کا امریکہ سے واپسی پر خدمات شوق تھایا جدائی تکلیف دہ تھی بلکہ آپ فرماتے ہیں: اس لئے کہ جس خدمت پر میں مامور کیا گیا تھا اس کا حق پورے طور سے مجھ سے ادا نہ ہوا.جب قادیان جیسے دیار محبوب کو چھوڑا تو جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی 1924ء میں دورہ یورپ پر تشریف لے گئے تو آپ نے قادیان میں اپنی غیر حاضری میں مکرم مولانا شیر علی صاحب کو امیر مقامی مقررفرمایا اور ان کے ساتھ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت مفتی صاحب کو امریکہ کیا چیز ہے کہ اس کا چھوڑ نا رنج دہ ہو.مجھے تو اب ساری زمین نائب امیر مقرر فرمایا.ایک ہی شہر دکھائی دیتی ہے اور حضرت محمود کے حکم کے ماتحت دینی خدمات کے واسطے مشرق و مغرب سب میرے لئے یکساں ہو رہا ہے.نہ مجھے کسی ملک یا کسی شہر میں رہنے کی خواہش اور نہ کسی سے نکلنے کی (الفضل 22 جولائی 1924ء) 1926ء میں آپ ناظر امور عامہ و خارجہ کے عہدہ پر فائز رہے اور دس سال تک اس عہدہ پر متمکن رہے.1935ء میں تحقیقات قبر مسیح کے سلسلہ میں کشمیر گئے اور جب آرزو باقی ہے.جو حضرت امام کا حکم ہو اس کی تابعداری میں فخر ، راحت واپس آئے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے آپ کو پرائیویٹ سیکرٹری کے عہدہ پر اور آرام ہے.ہاں میں مقر ( اقراری) ہوں کہ میں حق خدمت کا بجا نہیں لا سکا.اور اللہ تعالیٰ کی غفاری، ستاری اور غریب متعین کیا.لیکن پیشاب کی بیماری کے باعث دوسال کے بعد ہی یعنی 1937ء میں 66 نوازی سے بخشش اور پردہ پوشی کا امیدوار ہوں.“ (الفضل 30 اکتوبر 1923ء) آپ کو پنشن دے کر سلسلہ عالیہ کے کاموں سے فارغ کر دیا گیا.(لطائف صادق صفحہ 125 126 )
23 22 حضرت مفتی صاحب کی امریکہ سے واپسی کے بعد ایک بہت نمایاں خدمت سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بعد از نماز عصر بیت مبارک میں نماز آپ کے ہندوستان کے طول وعرض میں دعوت الی اللہ کے لیکچرز، تقاریر اور دورہ جنازہ پڑھائی.اور آپ کے جنازہ کو کندھا دیا.اپنے دست مبارک سے مٹی ڈالی جات ہیں.آپ کو برصغیر کے بیسیوں شہروں میں جا کر جماعتی جلسہ ہائے سالانہ پر اور بہشتی مقبرہ میں تدفین کے بعد دعا کروائی اور اس طرح اپنے پیارے غلام اور تقاریر کا موقعہ ملا اور متعدد شہروں میں دعوت الی اللہ کے لیکچر دیئے جن میں حضرت مسیح مجاہد کو رخصت کیا.موعود علیہ السلام کا حقیقی پیغام پہنچایا.چونکہ آپ انگلستان و امریکہ میں 7 سال گزار کر آئے تھے.اور آپ اپنی تقاریر میں ان ایمان افروز واقعات کا بھی ذکر کرتے تھے جو الفضل 15 جنوری 1957ء) اس عرصہ میں آپ سے پیش آئے اس لئے لوگ بڑے شوق اور ذوق کے ساتھ آپ دلچسپ اور ایمان افروز واقعات کے لیکچروں میں شمولیت فرماتے تھے.حضرت مفتی صاحب کی زندگی سلسلہ عالیہ احمدیہ کی شاندار خدمات کے طویل علاوہ ازیں حضرت مفتی صاحب کو مرکزی جلسہ ہائے سالانہ پر بھی متعدد بار زمانہ میں بڑے دلچسپ اور ایمان افروز واقعات، پرلطف مباحثات اور پرکیف تقاریر کرنے کا شرف حاصل ہوا.وصال لطائف سے لبریز ہے.ان دلچسپ واقعات ومباحثات میں سے طوالت کے خوف سے صرف چند ایک یہاں درج کئے جاتے ہیں جو حضرت مفتی صاحب کے آخر مسیح الزماں کا یہ محبت صادق مخلص دوست، لائق اور صالح نو جوان سلسلہ تقویٰ، قابلیت اور اعلیٰ کردار کے عظیم مجاہد ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہیں.یہ واقعات عالیہ احمدیہ کا ایک برگزیدہ رکن، مجاہد احمدیت ، مربی دین حق ، انگلستان اور امریکہ کے لطائف صادق مرتبہ محمد اسمعیل پانی پتی اور تحدیث بالنعمۃ از حضرت مفتی محمد صادق ظلمت کدوں میں توحید کی شمعیں روشن کرنے والا عظیم وجود تقریباً 85 برس کی عمر پا کر صاحب سے لئے گئے ہیں.مورخہ 13 جنوری 1957ء بروز اتوار صبح چھ بج کر 35 منٹ پر ربوہ میں اپنے رفیق اعلیٰ سے جاملا.اور اہل دنیا کو ہمیشہ ہمیش کے لئے داغ مفارقت دے گیا.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ے راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہو خدائی تصرف ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ حضرت مفتی صاحب نے لا ہور کی پنجاب پبلک لائبریری میں ایک کتاب دیکھی جس میں یوز آسف کے نام پر ایک گرجا کا حوالہ دیا گیا تھا.مفتی
25 24 ہندوستان میں درج فرمایا ہے.دعا کا ایک عجیب کرشمہ (لطائف صادق صفحہ 62) صاحب نے اس کا ذکر قادیان آ کر حضرت اقدس سے کیا.حضرت نے فرمایا ”وہاں اور حضرت صاحب کو دکھا ئیں.چنانچہ اس کتاب کا حوالہ حضور نے اپنی کتاب "مسیح سے وہ کتاب لے آئیں.“ جب مفتی صاحب لائبریری میں گئے تو اس کتاب کا نام بھول گئے.ہر چند تلاش کیا مگر کتاب نہ ملی.جب تک نام معلوم نہ ہو کتاب کس طرح مل سکتی تھی.لائبریہ بین نے بھی عذر کر دیا.ناچار واپس آ کر حضرت صاحب سے صورت معاملہ بیان کر دی.اس واقعہ کے ایک ہفتہ کے بعد حضرت صاحب نے فرمایا کہ مفتی صاحب آپ پھر جائیے.اب کے وہ کتاب آپ کومل جائے گی.حضرت مفتی صاحب نے سنایا کہ ”جب میں ہندوستان سے انگلینڈ کے لئے روانہ ہوا تو پاسپورٹ کی رو سے راستہ میں فرانس نہیں اتر سکتا تھا لیکن میرا بڑا دل چاہتا مفتی صاحب نے حکم کی تعمیل تو کی.مگر حیران تھے کہ جب نام ہی یاد نہیں تو تھا کہ فرانس میں اتروں.اس کا ذکر میں نے افسر جہاز سے کیا.اس نے کہا تم فرانس کتاب کو کس طرح اور کہاں تلاش کروں.میں صرف اس صورت میں اتر سکتے ہو جب تمہارے پاس اتنا خرچ ہو.جب میں نے خیر اسی فکر میں مفتی صاحب لائبریری پہنچے.اس وقت اتفاق سے لائبریرین اپنے سرمایہ کو دیکھا تو معلوم ہوا کہ جس قدر کپتان کہتا ہے کہ خرچ ہوگا.میرے پاس ضرورتا ایک آدھ منٹ کے لئے باہر چلا گیا.اس کی میز پر ایک کتاب پڑی ہوئی تھی.اس سے دو پونڈ کم تھے.میں نے سوچا کسی سے یہ رقم قرض لے لوں.مگر جہاز میں میرا مفتی صاحب نے بغیر کسی خیال کے ویسے ہی اسے اٹھالیا.کھولا تو مطلوبہ کتاب تھی.کوئی بھی شناسا نہ تھا.کس سے لیتا.آخر جب بالکل مایوس ہو گیا تو میں نے دعا کی کہ اس خدائی تصرف کو دیکھ کر مفتی صاحب حیران رہ گئے.لائبریرین آیا تو مفتی اے زمین اور آسمان کے مالک ! اے خشکی اور تری کے خالق ! تو ہر چیز پر قادر ہے اور صاحب نے یہ عجیب و غریب واقعہ اس سے بیان کیا کہ حضرت صاحب نے فرمایا تھا تجھے ہر قسم کی قدرت اور طاقت حاصل ہے.تو جانتا ہے کہ مجھے اس وقت دو پونڈ کی "جاؤ کتاب مل جائے گی اور غیر متوقع طور پر کتاب فورا مل گئی.ضروت ہے پس تو مجھے یہ دو پونڈ دیدے.خواہ آسمان سے گرایا سمندر سے نکال مگر لائبرمرین نے کہا کہ جناب اگر آپ کچھ دیر پہلے آتے تب بھی آپ کو یہ کتاب دے ضرور.میں نے بہت ہی الحاح اور زاری کے ساتھ خدا سے دعا مانگی اور دعامانگنے نہ ملتی کیونکہ ابھی ابھی باہر سے آئی تھی.اور اگر ذرا بھی دیر کے بعد آتے تب بھی یہ کے بعد مجھے پختہ یقین ہو گیا کہ مجھے دو پونڈ ضرور مل جائیں گے.مگر میری یہ سمجھ میں نہ کتاب آپ کو نہ ملتی کیونکہ میں اسے فوراً اس کی جگہ رکھوادیتا.اب اسے لے جائیں آتا تھا کہ بالکل اجنبی جگہ اور بالکل اجنبی آدمیوں میں یہ دو ہو نا کس طرح ملیں گے ؟
27 26 یہ جنگ یورپ کا زمانہ تھا.جہاز چلتے چلتے یکدم ایک ایسی جگہ ٹھہر گیا جہاں پہلے کہ جہاز ٹھہر جائے گا اور میں آپ سے مل سکوں گا.اس لئے یہ دو پونڈ مٹھائی کے ہیں کبھی نہیں ٹھہرا تھا.میں نے اس خیال سے کہ جنگ کا زمانہ ہے ممکن ہے اس جگہ رکھ لیں.“ فی الحقیقت دعا ایک بڑی ہی عجیب و غریب چیز ہے جو ہر مشکل موقع پر ہمارے کچھ احمدی دوست ہوں، میں نے کپتان جہاز سے کہا کہ مجھے خشکی پر جانے کی اجازت دیں لیکن اس نے صاف انکار کر دیا اور کہا آپ یہاں ہرگز نہیں اتر سکتے.کام آتی ہے.“ ہم تو ویسے ہی یہاں محض سمندر کی حالت معلوم کرنے کے لئے اتفاقاً کھڑے ہو گئے مفتی صاحب بچے ہوئے گیہوں ہیں ہیں اور نہ اس سے پہلے یہاں آج تک کبھی کھڑے نہیں ہوئے.تھوڑی دیر میں میں نے دیکھا کہ ایک کشتی جہاز کی طرف آ رہی ہے میں نے کپتان سے کہا کہ یہ کشتی یہاں کیوں آرہی ہے.جب یہاں اترنے کی اجازت ہی الطائف صادق صفحہ 66,65) 1917ء میں جب کہ جنگ عالمگیر اپنے پورے شباب پر تھی.حضور خلیفہ المسیح نے مجھے حکم دیا کہ ( دعوت دین حق ) کے لئے انگلستان جاؤ.عورتوں نے حضور کی خدمت میں عرض کی حضور سمندری سفر خطرے سے خالی نہیں؟ کپتان نے کہا مجھے پتہ نہیں کہ کیوں آ رہی ہے.پاس آئے تو حالات کا علم ہو.نہیں.لوگ گیہوں کی طرح پس رہے ہیں.اگر حضرت مفتی صاحب کو ابھی روک لیا جب کشتی جہاز کے قریب آئی تو میں نے پہچانا کہ اس میں ہمارے بھائی حاجی جائے تو بہتر ہے.اس کے جواب میں حضور نے فرمایا کہ گیہوں چکی میں پسنے کے عبدالکریم صاحب تھے.انہوں نے کسی طرح سن لیا تھا کہ میں فلاں جہاز سے لئے ڈالے جاتے ہیں.مگر ان میں سے بھی کچھ اوپر رہ جاتے ہیں جو نہیں پیتے.تو یہ انگلستان جارہا ہوں اور فلاں وقت جہاز یہاں سے گذرے گا.ان کو معلوم تھا کہ مفتی صاحب بچے ہوئے گیہوں مہیں پسنے والے نہیں.جہاز یہاں نہیں ٹھہرے گا.پھر بھی وہ ساحل پر آگئے تھے.لیکن جب جہاز جزیرہ کے جب ہمارا جہاز بحیرہ روم میں داخل ہوا تو جہاز کے کپتان نے جہاز کے تمام سامنے آ کر اچانک ٹھہر گیا تو وہ فورا کشتی لے کر جہاز کے پاس آگئے.کپتان نے ان مسافروں کو اوپر ڈیک پر بلایا اور ایک تقریر کرتے ہوئے کہا.یہ سمندر جس میں ہم کو دریافت حال کے لئے اوپر آنے کی اجازت دی خیر وہ مجھ سے ملے اور ادھر ادھر کی داخل ہوئے ہیں جرمن جہازوں سے بھرا پڑا ہے.اور معلوم نہیں کہ کب ہمارا جہازان باتوں کے بعد جب رخصت ہونے لگے تو یہ کہ کر دو پونڈ میری جیب میں ڈال دیے کہ کے نشانے سے ڈوب جائے.اگر ایسا ہوا تو جہاز کے ڈوبنے سے پہلے ایک سیٹی بجے مجھے کچھ مٹھائی آپ کے ساتھ کے لیے لانی چاہیے تھی مگر مجھے تو اس کا وہم بھی نہ تھا گی.چنانچہ کپتان نے سیٹی بجا کر سنائی.پھر کہا کہ جب یہ سیٹی بجے تو یہ کشتیاں جو
29 28 جہاز کے دونوں طرف لٹک رہی ہیں.آپ لوگوں کے لئے ہیں.پھر اس نے نام بنام چھوٹی عمر میں تھی کہ مجھے خیال ہوا کہ میں تحقیقات کروں کہ دنیا میں سب سے زیادہ سچا کشتیوں کے نمبر بتائے اور سلسلہ تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آپ لوگ ایسے موقعہ مذہب کونسا ہے.سواس خیال سے کئی ایک مذاہب میں داخل ہوئی اور دعائیں کرتی پر اپنی اپنی کشتیوں میں بیٹھ جائیں.پھر یہ کشتیاں جہاں کہیں آپ لوگوں کو لے جائیں رہی.مگر کہیں سے میری تشفی نہ ہوئی.یہاں تک کہ میری شادی ہوئی.بچے ہوئے آپ کی قسمت.ہم اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتے.پوتے ہوئے.مگر میری اس دعا کی قبولیت مجھے نصیب نہ ہوئی.آج سے دو سال قبل کپتان کے اس لیکچر کو سننے کے بعد میں اپنے کمرے میں آیا اور اس خطرے سے ایک رات میں اسی آرام کرسی پر لیٹی ہوئی اس خیال میں رونے لگی کہ میں نے عمر بھر خدا بچنے کے لئے اللہ کریم سے گڑ گڑا کر دعا کی.اسی رات میں میں نے خواب میں دیکھا تعالیٰ سے دعا کی وہ بھی قبول نہ ہوئی اور میں غم میں روتے روتے سوگئی.تب خواب کہ ایک فرشتہ میرے کمرے میں کھڑا ہوا ہے اور مجھے انگریزی میں کہتا ہے.میں ایک فرشتہ دیکھا.اس نے کہا بیگم غم نہ کرو.تمہاری دعا سنی گئی.ادھر دیکھو وہ کون.” صادق یقین کرو یہ جہاز سلامت پہنچے گا جارہا ہے.جب میں نے کھڑکی سے اس طرف نگاہ کی تو مجھے ایک مشرقی شخص دکھائی اس خوشخبری کو پاکر میں نے تمام مسافروں کو اور کپتان کو اطلاع دی اور ایسا ہی دیا.پھر اس فرشتے نے کہا.یہ شخص یہاں یعنی امریکہ میں آ رہا ہے.جو مذہب وہ ہوا.ہمارا جہاز ساحل انگلستان پر سلامتی سے پہنچ گیا.کئی جہاز ہمارے سامنے آگے لائے گا وہ سچا ہے.تم اس کو قبول کرو.دیکھیے، دائیں بائیں ڈو ہے.ان جہازوں کی لکڑیاں پانی میں تیرتی ہوئی دیکھیں.میں اس خواب کے بعد کئی دن تک اس کھڑکی سے ہر آنیوالے کو دیکھتی رہی.مگر خداوند تعالیٰ نے ہمارا جہاز سلامت پہنچا دیا.“ آخر مجبور ہو کر نا امیدی کو پاس بلا لیا.آج اتفاق سے میں پھر کسی ارادے کے ایک بوڑھی عورت (لطائف صادق صفحہ 131,130) بغیر یہاں بیٹھی تھی اور آپ کو جاتے ہوئے دیکھا.میری آنکھوں میں وہ خواب پھر گیا.میں پہچان گئی کہ جو شخص خواب میں دکھایا گیا وہ آپ ہیں.پھر اس نے ( دین حق ) قبول کیا.“ ایک دفعہ امریکہ کے مشہور شہر شکاگو کی ایک سڑک سے گزر رہا تھا.ایک چھوٹا بچہ آیا اور کہا کہ آپ کو میری ماں بلاتی ہے.میں بچے کے ساتھ ان کے گھر پہنچا جہاں سمندر کا جوش ساکن ہو گیا ایک بوڑھی عورت نے استقبال کیا.خاطر و مدارات کے بعد اس نے کہا کہ میں ابھی (لطائف صادق صفحہ 137,136) ایک بحری سفر میں ایک دن سمندر بڑے جوش میں آ گیا.سمندر کی لہروں نے
31 30 صلى الله جہاز کو ایسی حرکت میں ڈالا کہ دوران سر متلی اور قے سے طبیعت بہت بیمار ہوگئی.تب سے مدد کرتا ہے.ہمیں بھی دعا کرنی چاہیے کہ اللہ تعالی ہمیں حضرت نبی کریم ہے اور میں نے سمندر کو مخاطب کر کے کہا کہ اے سمندر تو جانتا ہے کہ کون اس جہاز میں حضرت مسیح موعود کی تعلیمات کا سچا پیروکار اور خلافت احمدیہ کا سچا اطاعت سوار ہے.ایک مسیح کا حواری صرف دعوت ( دین حق ) کے واسطے سفر کر رہا ہے.تجھے گزار بنائے.آمین شرم نہیں آتی.کہ تو مجھے بے آرام کرتا اور تکلیف دیتا ہے ٹھہر جا، تا کہ جہاز میں حرکت نہ ہو.فورا سمندر ساکن ہو گیا.اور جہاز ایسے سکون سے چلتا تھا گویا ہم خشکی پر ہیں.فالحمد للہ ثم الحمد لله دعا سے دوائی معلوم ہوگئی ایک دفعہ میں بیمار ہوا.روز بخار آ جاتا.حضرت مولا نا حکیم نورالدین صاحب (خلیفہ امسیح الاول ) کئی ایک دوائیں تجویز کر چکے مگر بخار نہ اترنے میں آیا.رات کو میں دعا کرتے سو گیا.یہ الفاظ زبان پر آئے ایسائی ٹو ڈا (assafoetida‘.میں اس وقت نہ جانتا تھا کہ اس کے کیا معنی ہیں صبح حضرت حکیم صاحب سے عرض کیا.کتابیات ا ذکر حبیب مصنفہ حضرت مفتی محمد صادق ۲- تحدیث بالنعمة فرمودہ حضرت مفتی محمد صادق بار چہارم اپریل 1936ء با اہتمام محمد یا مین اینڈ سنز ما لک احمد یہ کتب خانہ قادیان - لطائف صادق مرتبہ شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی ادارہ احمد کیڈ می ربوہ.ناشر جمال الدین انجم مطبوعہ: لا ہور آرٹ پر لیں 15 انار کلی لاہور فرمایا یہ ہینگ کا انگریزی نام ہے.یہ دوائی آپ کے بخار کے لئے بہت مفید ہوگی.کیونکہ یہ معدے کا بخار ہے.افسوس ہے کہ مجھے اس کا خیال نہیں آیا.چنانچہ بینگ کا ایک نسخہ تیار کیا گیا.جس سے اسی دن بخار اتر گیا.فالحمد للہ ثم الحمداللہ.( تحدیث بالنعمۃ صفحہ 6) ۴.مقالہ سیرت حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق مقالہ نگار مفتی احمد صادق ابن حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق -۵ سيرة المهدی از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب.اخبار الفضل پیارے بچو! آپ نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیارے مسیح موعود کے ماننے والوں اور پھر خلفاء احمدیت کی بچی اطاعت کرنے والوں کی کس طرح آپ آسمان
حضرت مفتی محمد صادق صاحب نام کتاب طبع...اول