Hazrat Mirza Sharif Ahmad

Hazrat Mirza Sharif Ahmad

حضرت مرزا شریف احمد ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ حضرت اقدس علیہ السلام کی پاک اولاد میں سے چھٹے نمبر پر تھے۔الہامی پیش خبریوں کے عین مطابق آپ کی زندگی کے دن بسر ہوئے اور آپ حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کے میدان میں غیر معمولی اونچے مقام پر فائز تھے۔ طبیعت میں بڑی نرمی اور حلیمی تھی اور ہمدردی خلق کا ایسا جذبہ تھا کہ جب بھی کسی حاجت مند کو پاتے تو اس کی حاجت روائی میں لگ جاتے۔ عاجزی وانکساری کی اعلیٰ صفات سے متصف تھے۔ یقینا ًآپ کے اعلیٰ نمونہ کا مطالعہ آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہے۔


Book Content

Page 1

حضرت مرزا شریف احمد صاحب

Page 2

: حضرت مرزا شریف احمد صاحب نام کتاب 2016: 1000: اشاعت باراول انڈیا تعداد ناشر مطبع نظارت نشر و اشاعت قادیان فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان-143516 ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا Name of Book: Hadhrat Mirza Shareef Ahmad First Edition in India: 2016 rz Quantity : 1000 Publisher Printed at : Nazarat Nashr-o-Isha'at, Qadian : Fazale Umar Printing Press, Qadian-143516 Dist-Gurdaspur,Punjab, India

Page 3

عرض ناشر نونہالان احمدیت کی تربیت اور ان کو آسان فہم انداز میں تاریخ احمدیت سے واقفیت کرانے کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ نے بزرگان ملت کے مختصر حالات زندگی مرتب کئے ہیں.سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے نظارت نشر و اشاعت پہلی بار کتاب ”حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو حد یہ قارئین کرنے کی توفیق پا رہی ہے.اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو اس کتاب سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے.آمین ناظر نشر واشاعت قادیان

Page 4

وه حضرت مرزا شریف احمد صاحب 66 اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو جو مبشر اولا د عطا فرمائی ان میں سے بعض تو حضور علیہ السلام کی زندگی میں ہی وفات پاگئے لیکن جن کو اللہ تعالیٰ نے لمبی عمر عطا فرمائی ان سب نے ایسا اعلیٰ نمونہ پیش فرمایا کہ آج بھی وہ ہمارے لئے مشعل راہ ہیں.حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ حضرت اقدس علیہ السلام کی پاک اولاد میں سے چھٹے نمبر پر تھے.آپ تعلق باللہ، محبت قرآن کریم عشق رسول ، عاجزی و انکساری جیسی اعلیٰ صفات سے متصف تھے.طبیعت میں بڑی نرمی اور حلیمی تھی اور ہمدردی خلق کا ایسا جذبہ تھا کہ جب بھی کسی حاجت مند کو پاتے اس کی حاجت روائی میں لگ جاتے.کئی جماعتی عہدوں پر بھی فائز رہے اور ساری زندگی اعلیٰ درجہ کی خدمات پیش فرماتے رہے.اللہ کرے کہ ہم بھی ہمیشہ ان پاک وجودوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنے والے ہوں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 5

ایک بادشاہ کی کہانی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں کئی بشارتیں عطا فرمائیں.آپ کی پیدائش پر عالم کشف میں حضور علیہ السلام نے دیکھا کہ آسمان سے ایک روپیہ اترا اور آپ کے ہاتھ پر رکھا گیا اور ایک موقع پر حضور نے تحریر فرمایا کہ ایک دفعہ عالم کشف میں اسی لڑکے شریف احمد کے متعلق کہا گیا تھا اب تو ہماری جگہ بیٹھ اور ہم چلتے ہیں.اس کشف کے چند سال بعد حضور کو آپ کے بارہ میں ایک اور خواب دکھایا گیا جس کی تفصیل حضور نے خود بیان فرمائی ہے کہ شریف احمد کو خواب میں دیکھا کہ اس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں.ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ وہ بادشاہ آیا دوسرے نے کہا ” ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے.“ کسی شخص کے بارے میں کئے گئے وعدے بعض اوقات خدا تعالیٰ اس کی نسل میں کسی دوسرے فرد پر پورے کر دیتا ہے.آج ہم دیکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پوتے اور ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ اسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کو روحانی "بادشاہ" بنادیا ہے.آپ جماعت احمد یہ عالمگیر کے پانچویں امام اور خلیفہ ہیں.1

Page 6

نونہالان جماعت ! آئیے آج ہم حضرت مرزا شریف احمد صاحب جنہیں اللہ تعالیٰ نے بادشاہ قرار دیا تھا کی کہانی سنتے ہیں.عزیز بھائیو! آپ کو یہ بتاتے چلیں کہ اس بادشاہ کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے جو خوشخبریاں اور بشارتیں ان کے والد ماجد یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا فرمائی تھیں وہ بشارتیں آپ کی کتابوں اور تذکرہ“ میں لکھی ہوئی موجود ہیں.تذکرہ مجموعہ الہامات و کشوف وہ کتاب ہے جس کے اندر حضرت مسیح موعودؓ کو ہونے والے الہامات اور بشارتیں اور خوشخبریاں اور آپ کی خواہیں اور آپ کی پیشگوئیاں اکٹھی کی گئی ہیں.پیدائش آپ کی پیدائش کی بابت حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ہمیں بشارت دی گئی ہے کہ تجھے لڑکا دیا جائے گا جیسا کہ اس کے مطابق 27 ذیقعدہ 1312ھ بمطابق 24 مئی 1895ء میرے گھر لڑکا پیدا ہوا اس کا نام شریف احمد رکھا گیا.“ (ضیاء الحق صفحه 75) حضرت صاحبزادہ صاحب کی آمین کی تقریب آپ کے دوسرے بہن بھائیوں کے ساتھ یعنی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اور حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے قرآن کریم مکمل کرنے پر 30 نومبر 1901ء کو ہوئی.اس خوشی کے موقع پر حضرت 2

Page 7

مسیح موعود نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کیلئے ایک دعائیہ نظم تحریر فرمائی.اور ایک تقریب آمین منعقد فرمائی.یہ وہی آمین کی نظم ہے جو در مشین میں شامل ہے جسے بچے اور بڑے بھی بڑے شوق سے پڑھتے ہیں.تعلیم و تربیت آپ نے ابتدائی تعلیم مدرسہ احمدیہ قادیان میں حاصل کی.مدرسہ احمدیہ کا آغاز 1906ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہوا تھا.بچپن میں آپ نے حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکٹی سے تعلیم حاصل کی.آپ نے قرآن کریم حضرت پیر منظور محمد صاحب سے پڑھا( یہ وہی پیر صاحب ہیں جنہوں نے قاعدہ پیر نا ( یسرنا القرآن تیار کیا تھا).بعض دینی علوم آپ نے حضرت خلیفہ امسیح الاول حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب سے حاصل کئے.حدیث کی سب سے مستند کتاب بخاری شریف بھی آپ نے حضرت خلیفہ اسبح الاول حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب سے پڑھی.اسی طرح 1911ء کے شروع میں آپ کے بڑے بھائی اور جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ سیدنا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ایک پرائیویٹ کلاس گھر میں شروع کروائی.اس کلاس میں حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عربی کتاب خطبہ الہامیہ اور عربی ادب اور گرائمر کی کتابیں جیسے دروس النحویہ حصہ دوم اور قصیدہ بانت سعاد پڑھیں.3

Page 8

اسی طرح جب قادیان میں سب سے پہلی مبلغین کلاس شروع ہوئی تو آپ بھی اس کلاس کے طالب علم بنے.حضرت حافظ روشن علی صاحب اس کلاس کے استاد تھے.اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہاں آپ نے قرآن مجید ، صحاح ستہ ( یعنی حدیث کی چھ مستند کتابیں جن میں جامع صحیح بخاری ، جامع صحیح مسلم ، جامع ترندی، سنن ابو داؤد، سنن نسائی اور ابن ماجہ شامل ہیں) مکمل اور اصول فقہ کی بعض بنیادی اور بڑی بڑی کتا بیں آپ نے اس جماعت کے ساتھ پڑھیں.لیکن زیادہ دیر تک تعلیم کو وہاں نہ جاری رکھ سکے.1914ء میں آپ نے انٹرنس کا امتحان پاس کیا.شادی حضرت نواب محمد علی خان صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وہ پیارے صحابی ہیں جن کی شادی سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیٹی حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے ہوئی.جب حضرت نواب صاحب کی پہلی بیوی محترمہ امتہ الحمید صاحبہ وفات پاگئیں تو نواب صاحب اپنی اکلوتی بیٹی حضرت بوزینب بیگم صاحبہ کی شادی کے متعلق بہت فکر مند ہوئے.ایک دن حضرت مسیح موعود کو ان کی بیٹی کے رشتہ کے بارہ میں توجہ پیدا ہوئی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی شادی کا پیغام حضرت نواب صاحب کو دیا کہ اگر مرزا شریف احمد صاحب اور آپ کی بیٹی کی شادی ہو جائے تو کیا خیال ہے.حضرت نواب صاحب 4

Page 9

نے اس رشتہ کو خوشی سے قبول کر لیا.اس رشتہ سے حضرت نواب صاحب کے غیر احمدی بھائی اور دوسرے عزیز ناراض بھی ہوئے.مگر حضرت نواب صاحب نے اس کی قطعاً پرواہ نہ کی اور رشتہ کیلئے راضی ہو گئے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی بیٹی حضرت بوزینب بیگم صاحبہ کا نکاح 15 نومبر 1906ء کو بعد نماز عصر قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان خانہ کے صحن میں ہو گیا.حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب ( جو بعد میں 27 مئی 1908ء کو جماعت احمد یہ عالمگیر کے پہلے خلیفہ بنے ) نے حضور کی موجودگی میں ایک ہزار مہر حق پر نکاح کا اعلان فرمایا.اپنے نکاح کے بارہ میں حضرت صاحبزادہ صاحب بیان کرتے ہیں: 1907ء میں میرا نکاح میرے شہر والے مکان میں پڑھا گیا تھا.یہ وہی مکان تھا ، جو بعد میں ام طاہر کا بن گیا تھا.حضرت خلیفۃ اصبح الاول نے نکاح پڑھا تھا.مجھے یاد ہے کہ اس موقع پر باہر کے دوستوں کو بلایا گیا تھا اور دوست کافی تعداد میں آئے تھے.میری عمر چھوٹی ہی تھی لیکن ایجاب و قبول خود میں نے ہی کیا تھا.اسی طرح لڑکی کی طرف سے خود حضرت نواب محمد علی خان صاحب تھے.اس موقع پر حضرت نواب صاحب کے دو غیر احمدی بھائی بھی قادیان آئے ہوئے تھے.“ روزنامه الفضل ربوہ 30 دسمبر 1958ء) LO 5

Page 10

بچپن میں کشمیر کا ایک سفر 1909ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سری نگر تشریف لے گئے.آپ کے ہمراہ حضرت صاحبزادہ صاحب بھی تھے.بچپن کے ان دنوں کا یہ واقعہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی بیان فرماتے ہیں کہ میں چھوٹا تھا کہ ہم سری نگر جاتے ہوئے ایک گاؤں میں سے گزرے.اس وقت موٹریں نہ تھیں ، ٹانگوں پر جاتے تھے.گاؤں والوں سے ہم نے مرغ مانگا.مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ اس گاؤں میں تو و با پڑی تھی اور وہ سب مر گئے.میرے چھوٹے بھائی بھی میرے ساتھ تھے جن کی عمر اس وقت 13 سال تھی.وہ ایک گھر میں گھس گئے اور واپس آکر کہا اس میں 40 سے زائد مرغ تھے.میں نے سمجھا بچہ ہے غلطی لگی ہوگی.لیکن پاس ہی صحن تھا.میں نے جو ادھر نظر کی تو واقعی صحن مرغوں سے بھرا ہوا تھا.“ آل انڈیا کشمیر کمیٹی اور احرار، ص 16-17) پرندوں کا شکار کرنا حضرت صاحبزادہ صاحب کو بچپن سے ہی شکار کی عادت تھی.آپ کا نشانہ بہت پکا ہوتا تھا اور جب بھی گھر سے شکار کے لئے نکلتے کچھ نہ کچھ ضرور شکار کر کے ہی گھر لوٹتے.5 فروری 1911ء کی صبح سید نا حضرت خلیفہ المسیح الاول نے قرآن کریم کے 6

Page 11

درس کے دوران فرمایا: ابھی میں نے دیکھا ہے کہ اسی مقام پر کسی پرند کا مزیدار شور با کھایا ہے اور اس کی باریک باریک ہڈیاں پھینک دی ہیں.جو نہی آپ نے یہ کشف سنایا.شیخ یعقوب علی صاحب ( یہ وہی صحابی حضرت مسیح موعود ہیں جنہوں نے جماعت احمدیہ کا سب سے پہلا اخبار ”الحکم اکتوبر 1897ء میں شروع کیا) نے عرض کی کہ اس کو پورا کرنے کے لئے کسی پرند کا گوشت کا انتظام کیا جاوے.یہ کہہ کر وہ اٹھے تا کہ صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب جو کبھی کبھی ہوائی بندوق سے شکار کھیلا کرتے تھے.انہیں عرض کریں کہ کوئی پرند شکار کریں.شیخ یعقوب علی صاحب ان کے پاس پہنچے تو معلوم ہوا.کہ ٹھیک اسی وقت انہوں نے کچھ پرند شکار کئے ہیں.وہ حضرت کی خدمت میں پیش کئے گئے اور حضرت بہت خوش ہوئے.“ (اخبار بدر قادیان فروری 1911ء) حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے ہمراہ لندن میں 1924ء کا ذکر ہے کہ سیدنا حضرت خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ عنہ سفر یورپ پر تشریف لے گئے.جہاں 19 اکتوبر 1924ء کو آپ نے مسجد فضل لندن کی بنیا درکھی اور 24 اکتوبر 1924 ء کو یہاں پہلا یاد گار اور تاریخی جمعۃ المبارک پڑھایا.اس تاریخ ساز جمعتہ المبارک میں شامل ہونے والے بعض احباب کے اسماء حسب ذیل ہیں : حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب ، حضرت حافظ روشن علی صاحب 7

Page 12

مولانا ذولفقار علی خان صاحب گوہر ، حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب درد، حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ، حضرت شیخ یعقوب علی صاحب شعر فانی اور بعض دیگر احباب.الحکم قادیان 28 نومبر 1924، صفحہ 4) اس موقع پر حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے ایک نظم بھی لکھی جس کے چند اشعار آپ کے لئے تحریر کرتے ہیں: مبارک ہو تمہیں لنڈن میں مسجد کا بنا کرنا مبارک ہو تمہیں لنڈن میں مسجد کا پنا کرنا زمین کفر میں اللہ اکبر کی ندا کرنا بنو فضلوں کے وارث تم کہ تم جو کام کرتے ہو مقصد اس سے بس راضی خدا کرنا ہے خدا کی راہ پر بس ایک تم ہی چلنے والے ہو کہ آساں جانتے ہو مال کو جاں کو فدا کرنا ہوا کرتا اخبار الفضل قادیان دار الامان 23 ستمبر 1920ء) 8

Page 13

احمد یہ کور قادیان قادیان میں احمدیوں کی جسمانی ٹرینینگ کیلئے احمد یہ کور " بنائی گئی.اس کی عملی تربیت میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے بہت خدمات پیش کیں اور اس میں بھرتی ہونے والوں کی خوب ٹرینگ کی.15 ستمبر 1932 کا ذکر ہے کہ صدر انجمن احمد یہ قادیان کے مرکزی دفاتر اور صیغہ جات کے تمام کارکنان 15 ستمبر 1932ء کو احمد یہ کور کی یونیفارم پہن کر دفاتر میں آئے.صبح 10 بجے کے قریب حضرت صاحبزادہ میرزا شریف احمد صاحب نے بحیثیت ناظم ورزش جسمانی تمام دفاتر کا معائنہ کیا.تمام کارکنان بغیر کسی استثناء کے وردی میں ملبوس تھے.حتی کہ حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب ، حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے، حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال ناظر اعلیٰ ( رضی اللہ عنہم) اور دوسرے ناظر صاحبان بھی وردی پہنے ہوئے تھے.گیارہ بجے کے قریب سب کا رکنان کو جن کی تعداد ساٹھ کے قریب تھی احمد یہ سکول کے صحن میں جمع کیا گیا اور وہاں سے مارچ کرا کر ہائی سکول بورڈنگ ہاؤس میں پہنچایا گیا.پھر وہاں سے مدرسہ احمدیہ قادیان میں واپس لا کر منتشر کر دیا گیا.9 الفضل قادیان 18/4 ستمبر 1932ء)

Page 14

آپ بعد میں بھی کئی مواقع پر ایسے ہی احمدی احباب کی جسمانی ورزش کے لئے پریڈ کرواتے رہے.اللہ تعالیٰ کی حفاظت 8 جولائی 1935ء کا ذکر ہے کہ شام کے چھ بجے کے قریب حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب پر جبکہ آپ اپنے دفتر (نظامت خاص) سے اپنے مکان کی طرف بائیسکل پر تشریف لے جا رہے تھے قاتلانہ حملہ کر دیا گیا.حنیفا نامی حملہ آور قادیان کے ایک تکیہ کے فقیر کا بیٹا ایک آوارہ گرد شخص تھا جس نے لاٹھی سے حضرت صاحبزادہ صاحب پر اچانک وار کر دیا.اس بدبخت کا ارادہ قتل کرنے کا تھا مگر چونکہ آپ سائیکل پر تھے لئے کرتے کرتے آپ آگے نکل گئے اور اٹھ پشت پر پڑا.آپ فوراً اُتر کر حملہ آور کی طرف ہوئے تو اس نے دوسری ضرب پھر سر پر ماری لیکن آپ نے اسے نہایت جانبازی اور بہادری کے ساتھ اپنے ہاتھ سے تھام لیا.حملہ آور بھاگ گیا اور آپ خدا کے فضل و کرم سے معجزانہ طور پر بچ گئے ورنہ اس ظالم و سفاک نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی.اس افسوس ناک واقعہ کی خبر آگ کی طرح پہلے قادیان میں اور پھر سارے ملک میں پھیل گئی.بہر حال یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہوا اور آپ کو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر بچالیا.10

Page 15

بچوں کو سوئمنگ سکھانے کیلئے ایک تالاب کی تعمیر ربوہ ہمارا مرکز ہے.اس میں بین الاقوامی معیار کا ایک خوبصورت سوئمنگ پول ہے جس میں اطفال، خدام اور انصار بڑے شوق سے تیرتے بھی ہیں اور تیرا کی سیکھتے بھی ہیں.آج سے 70 سال پہلے 1940ء میں قادیان میں بھی حضرت مولوی محمد دین صاحب سابق ہیڈ ماسٹر تعلیم الاسلام ہائی سکول کی تحریک اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کی کوششوں کے نتیجہ میں محلہ دار العلوم قادیان میں بچوں کو تیرا کی سکھانے کے لئے ایک تالاب تعمیر کیا گیا تھا.جس کا افتتاح 10 راکتوبر 1940ء کو ہوا.حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے اس کا مقصد بیان فرمایا کہ بچوں کی صحت، ایمان اور سلسلہ کے مفاد کے لئے جو بچے اس میں تیرنا سیکھیں انہیں جسمانی طور پر ہی فائدہ نہ ہو بلکہ وہ دین کی خدمت کرنے کے 66 رض قابل بھی بن سکیں اور کسی ڈوبتے ہوئے کو بچاسکیں.“ عملی طور پر اس تالاب کا افتتاح اس طرح ہوا کہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب، حضرت چودھری فتح محمد صاحب سیال، حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب، حضرت مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثالث) اور بعض دوسرے بزرگ تالاب میں تیرتے رہے اور ان کے ساتھ سکول کے بہت سے بچوں نے بھی اس کی مشق کی.الفضل قادیان 12 اکتوبر 1940ء صفحہ 1-2) 11

Page 16

راہ مولیٰ میں اسیری یکم اپریل 1953ء کو پیش آنے والے واقعات میں تکلیف دہ واقعہ جس نے دنیا بھر کے احمدیوں کو تڑپا دیا یہ تھا کہ رتن باغ لاہور سے حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب (خلیفتہ امسیح الثالث ) ایک سراسر نا جائز اور غلط الزام میں گرفتار کر لیے گئے اور فوجی عدالت نے انہیں مارشل لاء ضوابط نمبر ۱۳ کے تحت بالترتیب ایک سال قید با مشقت اور پانچ ہزار روپیہ جرمانہ اور پانچ سال قید با مشقت اور پانچ سو روپیہ جرمانہ کی سزادی.لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور دونوں بزرگ قریباً دو ماہ کے بعد 28 مئی 1953 ء کو قید سے رہا کئے گئے.جہاں آپ قید تھے.آپ کا کمرہ بہت چھوٹا سا تھا.حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے چہرے پر کرب ، گھبراہٹ یا بے چینی کا کسی قسم کا تاثر نہیں دیکھا گیا.جیل میں بھی آپ نے ذکر الہی اور عبادات میں وقت گزارا.(ماہنامہ خالد ر بوه ، سید نا ناصر نمبر، ص241-245 ) ربوہ کا نقشہ بچو! آپ جانتے ہیں کہ ہمارے پیارے امام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ربوہ کا افتتاح ستمبر 1948ء میں فرمایا تھا.ابتداء میں اس شہر کے چھوٹے 12

Page 17

چھوٹے نقشے بنے.لیکن 1955ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی نگرانی میں بڑے سائز پر ربوہ کا ایک نقشہ تیار کروایا گیا جو بعد میں شائع ہوا.جس میں شہر کی سڑکوں ، گلیوں اور دیگر مشہور پبلک مقامات کو نمایاں کیا گیا تھا.نقشہ کی ایک بڑی غرض جلسہ سالانہ پر آنے والے دوستوں کی راہنمائی اور ان کی جائے رہائش سے متعلق صحیح معلومات بہم پہنچانا تھا.اس طرح ہمارے مرکز کا سب سے اہم نقشہ بھی آپ کو تیار کروانے کی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی.وہ پرانا نقشہ اب بھی محفوظ ہے.اب تو ربوہ کے بعض نئے نقشے بھی بن گئے ہیں.کیونکہ آج 4 5 سال بعد یہ شہر بہت پھیل چکا ہے.وفات تاریخ احمدیت جلد 18 ص 328) حضرت صاحبزادہ صاحب کی وفات 26 دسمبر 1961 کو جلسہ سالانہ ربوہ کے پہلے دن جلسہ کے افتتاح سے پہلے ہوئی.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے پونے دس بجے صبح جلسہ گاہ میں تشریف لا کر جب احباب جماعت کو آپ کی المناک وفات کی اطلاع دی تو جلسہ گاہ میں ایک سرے سے لیکر دوسرے تک یکدم غم اور دکھ کی لہر دوڑ گئی اور شدت غم کے باعث احباب کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.جلسہ سالانہ کے پہلے دن کے دوسرے اجلاس کے اختتام پر ( جسے مختصر کر دیا 13

Page 18

گیا تھا ) اڑھائی بجے بعد دو پہر کے قریب جنازہ بہشتی مقبرہ کے میدان میں لاکر رکھ دیا گیا جہاں احباب جماعت ہزارہا کی تعداد میں جمع ہو چکے تھے.تدفین کے بعد حضر ت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب نے دعا کرائی.(ضمیمه الفضل ربوہ 28 دسمبر ،30/29 دسمبر 1961ء) آپ کی بابت پیشگوئیوں کا آپ کی اولاد میں پورا ہونا ایک اردو کلاس میں جو ایم ٹی اے پر نشر ہوئی اس میں سیدنا حضرت خلیفہ اسح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے بارہ میں فرمایا تھا: یہ مرزا منصور احمد صاحب کے والد تھے ان کی پیدائش 1895ء میں ہوئی اور وفات 1961ء میں ہوئی.انہوں نے 66 سال کی عمر پائی.اپنے سب بھائیوں میں سب سے چھوٹی عمر میں فوت ہوئے ہیں.حضرت میاں شریف احمد صاحب کے متعلق الہام تھا کہ اللہ ان کو بہت عمر دے گا اور امارت دے گا اور ایک الہام یہ بھی تھا کہ وہ بادشاہ آیا.اس کے باوجود تینوں بھائیوں میں سب سے چھوٹی عمر پائی اور کبھی بھی امیر نہیں بنے.اس پر لوگ گھبراتے تھے.دیکھنے میں ان میں سے کوئی الہام بھی آپ پر پورا نہیں ہوا اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ الہامات پورے نہ ہوں.اس سے پہلے لوگ یہ کہا کرتے تھے کہ ان کی عمر میں بیماریاں آئی ہیں بچ گئے 14

Page 19

اس لئے عمر بھی لمبی ہوئی اور امارت کا ترجمہ کرتے تھے کہ امیر ہو گیا حالانکہ نہ وہ بات ٹھیک تھی نہ یہ بات ٹھیک تھی.ایک دفعہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب سے کسی نے یہ سوال کیا اور مجھے فائزہ (حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی بیٹی بی بی فائزہ صاحبہ مراد ہیں ) نے ان کی کتاب میں سے نکال کے دکھایا ہے.وہی بات کی جو میں نے کی تھی.اس زمانے میں جب کہ ابھی یہ فوت بھی نہیں ہوئے تھے، کسی نے پوچھا کہ دیکھنے میں تو ان کے متعلق یہ باتیں پوری ہوتی نظر نہیں آرہیں.تو آپ کا کیا خیال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام تو ہو نہیں سکتا کہ پورے نہ ہوں.حضرت میاں بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ نے دو باتیں کیں جو بہت عمدہ تھیں.حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے کہا.دیکھو بعض دفعہ باپ کے متعلق الہام ہوتا ہے اور بیٹے پر پورا ہوتا ہے اس لئے ان کے متعلق جو الہام ہوا وہ اگلا وقت بتائے گا کہ دراصل وہ ان کے بیٹے کے اوپر پورا ہوگا اور بیٹے تین تھے.ایک مرزا منصور احمد صاحب، ایک مرزا ظفراحمد صاحب اور ایک مرزا داؤ د احمد صاحب.وہ دونوں ( یعنی مرزا ظفر احمد صاحب اور مرزا داؤ د احمد صاحب) ان ( یعنی مرزا منصور احمد صاحب) سے بہت چھوٹے تھے اور وہ دونوں ان کی زندگی میں فوت ہو گئے اور ان کو دل کی بیماریاں اور دوسری بار بار لاحق ہوتی رہیں.ہر بیماری پر ڈاکٹر کہتے تھے کہ بس اب چھٹی.مگر بغیر توقع کے پھر عمر لمبی ہو جاتی تھی.ان کی عمر 87 سال اور آٹھ مہینے تھی.جو باقی بھائیوں سے بہت زیادہ ہے.اور حضرت میاں شریف احمد صاحب کی ان کے مقابل پر بہت چھوٹی ہے اور یہی وہ بھائی ہیں مرزا منصور احمد صاحب اللہ ان 15

Page 20

پر رحمت کرے جن کو امارت ملی ہے.یعنی ربوہ کے امیر بنے رہے ہیں اتنا لمبا عرصہ کہ دوسری ساری امارتیں اس کے مقابل پر کوئی چیز نہیں ہیں.اس لئے یہ ہیں مرزا شریف احمد صاحب جن کے متعلق الہامات ہوئے اور وہ سارے الہامات آپ کے بڑے بیٹے مرزا منصور احمد صاحب کے اوپر من و کن پورے ہوئے.“ ( اردو کلاس نمبر 336 بحوالہ روز نامہ الفضل 20 / مارچ 1999ء) آپ کی سیرت کے روشن پہلو مکرم محمد عمر بشیر صاحب بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ گرمیوں میں مجھے خلیفہ صلاح الدین احمد صاحب کے مکان پر جانے کا اتفاق ہوا وہاں حضرت مرزا شریف احمد صاحب بھی تشریف فرما تھے مجھے دیکھتے ہی یہ فرما کر کہ آج کل ہیضہ اور ٹائیفائیڈ کا موسم ہے میرا بازو پکڑ کر ٹیکہ لگا دیا ٹیکہ ایسے انداز سے لگایا کہ مجھے ٹیکہ کی تکلیف کا پتہ ہی نہ لگا.ایک مرتبہ 1956ء کے سالانہ جلسہ پر جب میں ان سے ملنے گیا تو میرے ہمراہ والد صاحب نے السلام علیکم ورحمتہ اللہ ہی کہا تھا کہ میاں صاحب آواز سنتے ہی فرمانے لگے ”محمد صدیق ؟“.والد صاحب میاں صاحب کے کلاس فیلو تھے اور قادیان سے اکٹھا ہی میٹرک کا امتحان دیا تھا یہ ان کی چالیس سال کے بعد پہلی ملاقات تھی.چالیس سال کا 16

Page 21

طویل عرصہ کوئی معمولی زمانہ نہیں جب کہ انسان کے خدوخال، لہجہ ، صورت غرضیکہ ہر چیز میں نمایاں تبدیلی آجاتی ہے.ایسے موقع پر صرف آواز سے ہی پہچان لینا یقیناً آپ کی غیر معمولی قوت پہچان کا ثبوت ہے.دعا کی قبولیت مکرم محمد عمر بشیر صاحب ہی بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ مشرقی پاکستان میں ہمارے کاروبار پر ز د پڑنے کا اندیشہ تھا.میرے چھوٹے بھائی محموداحمد کا یہ معمول ہے کہ سلسلہ کے بزرگوں کو دعاؤں کے لیے خطوط لکھتا رہتا ہے.میں جو حضرت میاں صاحب سے کافی دنوں کے بعد ملا تو مجھے دیکھ کر مسکرا کر فرمانے لگے کہ آپ کے بھائی نے تو مجھے مجبور کر دیا ہے کہ اس کے اور آپ کے کاروبار کے لیے خاص طور سے دعا کروں.اللہ تعالیٰ آپ کی نصرت فرمائے گا.اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعاؤں کو شرف قبولیت بخشا اور ہمیں ہر شر سے اور نقصان سے نہ صرف محفوظ رکھا بلکہ مزید ترقی عطا فرمائی.روزنامه الفضل ربوہ 2/اکتوبر 1962ء) عاجزی و خاکساری مکرم میاں عطا ء اللہ صاحب ایڈووکیٹ مرحوم تحریر کرتے ہیں.میں نے بغور دیکھا کہ اگر احمدی دوست حضرت صاحبزادہ صاحب مرحوم کی 17

Page 22

دست بوسی کی کوشش کرتے تو آپ بہت ہچکچاتے اور ہاتھ اس طرح کھینچنے کی کوشش کرتے کہ اسے برا بھی نہ لگے.مجھے یقین ہے بہت سے احباب نے ایسا محسوس کیا ہوگا.اس ظاہری معمولی سی حرکت کے پیچھے دل کن جذبات انکسار و فروتنی سے معمور ہوتا تھا کون اس کا اندازہ کرسکتا ہے.حضرت صاحبزادہ صاحب مرحوم کو کسی کی محبت کا رد کرنا گوارہ نہ تھا.لیکن ساتھ ہی یہ احساس بھی قلب صافی میں ایک کیفیت پیدا کر دیتا تھا کہ میں کیا ہوں کہ میرا کوئی ہاتھ چوم لے.احباب نے دیکھا ہوگا کہ حضرت صاحبزادہ صاحب مرحوم کا لباس ہمیشہ بہت سادہ ہوتا.اس میں رنگ کی ایسی شوخی یا قطع کی ایسی جدت یا مورت نہ ہوتی کہ انگلی اٹھ سکے.ہمیشہ ایک بے پروائی سی لباس میں نمایاں ہوئی.لباس کی دو ضروریات سترتن اور زینت میں سے سترتن کی طرف زیادہ توجہ ہوتی اور زینت کی طرف کم.دوسروں کی تکلیف کا احساس مکرم چوہدری عبدالمنان صاحب آف ملتان تحریر کرتے ہیں: ایک مرتبہ خاکسار ملتان سے لاہور گیا ہوا تھا کہ اچانک حضرت مرزا شریف احمد صاحب سے میوہسپتال کے دروازے پر ملاقات ہوگئی.پہلی بات ہی جو فرمائی وہ یہ تھی کہ تمہیں علم ہے کہ تمہارا فلاں عزیز مالی تنگی میں ہے اس کی مدد کرو.میرا جواب اثبات میں پاکر چہرہ پر مسرت کے آثار ظاہر فرمائے.اسی 18

Page 23

طرح ایک جلسہ سالانہ پر جبکہ انہی صاحب نے کسی سے شراکت کر کے دکان کی ہوئی تھی آپ کئی کئی بار خود تشریف لا کر دکان کی بکری اور حالات دریافت فرماتے رہے.دوسری جنگ عظیم کے شروع میں جب موصوف نے ابتداء" ایک شخص کی شراکت میں جنگی سامان کی تیاری کے ٹھیکے لئے اور اس طرح قادیان کی صنعتی اور تجارتی ترقی کی زبر دست بنیاد پڑی اور اس ذریعہ سے قادیان کی نئی نسل میں تجارت اور فنی مہارت کی رو پیدا ہوئی.ابتداء کا ریگران وغیرہ کے حصول کی وقت کے باعث قادیان کے باہر اور مضافات سے غیر احمدی اور غیر مسلم انجینئر اور مستری بھی منگوائے گئے.خاکسار کو ذاتی علم ہے کہ آپ کا سلوک ان سے اس قدر فیاضا نہ تھا کہ ان میں کئی لوگ آپ کی قابل قدر ہنمائی کی بدولت کافی ترقی کر گئے اور کئی جو پارٹیشن کے بعد مجھے ملے انہوں نے برملا حضرت مرزا شریف احمد صاحب مرحوم کے حسن سلوک کو والہانہ رنگ میں خراج تحسین ادا کیا.مرحوم اپنے ملنے والوں پر ایک گہرا اثر چھوڑتے تھے.جسے بھلا دینا کسی کے بس میں نہ ہوتا تھا.الفضل ربوہ 8 مئی 1962ء) مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب مرحوم تحریر کرتے ہیں: خاکسار نے ایک دوست سے یہ واقعہ سنا کہ ایک دفعہ حضرت میاں صاحب اپنے مکان سے باہر تشریف لا رہے تھے.کسی ضرورت مند نے آپ سے اپنی ضرورت بیان کی.آپ نے اپنی جیب دیکھی جس میں سو روپے کا نوٹ تھا 19

Page 24

آپ نے وہی اس کو عنایت فرمایا.اس سے بڑھ کر بادشاہی اور غریب پروری اور کیا ہوسکتی ہے.ایک دفعہ ربوہ کی ایک بیوہ عورت کی لڑکی دماغی عارضہ میں مبتلا ہوگئی.ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ اسے فوراً ہسپتال میں داخل کروایا جائے.وہ عورت بہت غریب تھی.آپ کو اس کی اطلاع ملی آپ نے فوراً اس لڑکی کو اپنے ایک خادم کے ہمراہ اپنے خرچ پر لاہور بھجوادیا اور اس لڑکی کے ہسپتال میں داخلے کا سفارشی خط تحریر فرما کر ہر سہولت مہیا فرمائی.نیز گاہے گاہے اس کے لواحقین سے اس کی خیریت دریافت فرماتے رہتے تھے.حضرت میاں صاحب کے خاکسار کے والد محترم خلیفہ صلاح الدین احمد صاحب سے برادرانہ محبت کے تعلقات تھے.جس کی وجہ سے آپ ہمارے ہاں اکثر تشریف لاتے.اس طرح خاکسار کو بھی آپ کی صحبت اور قرب کا شرف حاصل رہا.ہم نے آپ کو باپ سے بھی زیادہ شفیق پایا.ہمارے دل آپ کی محبت اور احترام سے بھر پور ہیں.آپ کی یاد ہمارے دلوں سے کبھی جدا نہیں ہو سکتی.محبت قرآن کریم مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب مزید تحریر کرتے ہیں: حضرت میاں صاحب کو قرآن کریم سے بہت محبت تھی.آپ نے ہم سے بھائیوں کو قرآن کریم پڑھا یا خاص طور پر خاکسار کو آپ کی شاگردی کا شرف 20

Page 25

حاصل ہے.آپ روزانہ قرآن کریم سنتے اور نماز کے وقت مسجد میں نماز باجماعت پڑھنے کی تلقین فرماتے تھے.اسی طرح سبق آموز کہانیاں یاد کرواتے تھے اور سلسلہ کے اخبارات اور کتب سنتے تھے.بعض اوقات آپ چلتے ہوئے بھی خاکسار یا کسی اور سے کوئی کتاب سنتے رہتے.حضرت میاں صاحب طبیعت کے بہت حلیم، رحم دل اور درگزر کرنے والے واقع ہوئے تھے.ایک دفعہ خاکسار آپ کے ہمراہ جارہا تھا کہ ایک شخص سائیکل پر سوار آیا اور سوار ہونے کی ہی حالت میں حضرت میاں صاحب سے کچھ عرض کرنے لگا.خاکسار اس بے ادبی کو محسوس کرتے ہوئے اس شخص سے سختی سے پیش آیا.آپ نے خاکسار کو روک دیا اور فرمایا کہ شائد اس کے لئے کسی وجہ سے سائیکل سے اتر نا تکلیف کا باعث ہو، اس لئے اسے کچھ نہ کہو آپ تو جوانوں کو اصلاح کی طرف خاص طور پر توجہ فرمایا کرتے.ایک بار آپ کے سامنے شکایت کی گئی کہ چند لڑ کے شیشے کی گولیاں اور اخروٹوں سے کھیلتے رہتے ہیں اور اپنی پڑھائی کی طرف کم توجہ دیتے ہیں آپ نے خود وہاں تشریف لے جا کر ان کو تنبیہ فرمائی اور ان سے آئندہ نہ کھیلنے کا وعدہ لیا.نصرت الہی مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب اس بارے میں تحریر کرتے ہیں: حضرت میاں صاحب نے خدا تعالیٰ کی خاص نصرت کے بعض واقعات خود 21 24

Page 26

خاکسار سے بیان فرمائے تھے جن سے آپ کا خدا تعالیٰ سے اعلیٰ تعلق اور پورے بھروسے کا اظہار ہوتا ہے.آپ نے فرمایا ایک دفعہ آپ شکار کی غرض سے ریاست کپورتھلہ تشریف لے گئے.شکار میں زیادہ وقت صرف ہو جانے کی وجہ سے رات آپ کو ایک گاؤں میں گزارنی پڑی.جس گھر میں آپ مہمان ٹھہرے اس گھر کا ایک بچہ اسی رات اچانک کہیں کھو گیا اور باوجود تلاش کے نہ ملا.آپ نے فرمایا کہ " مجھے یہ احساس ہوا کہ کہیں یہ لوگ یہ نہ خیال کریں کہ میری آمد پر بچہ کی طرف سے بے پرواہ ہونے کی وجہ سے بچہ گم ہو گیا ہے.میں نے خاص توجہ سے خدا تعالیٰ کے حضور دعا کرنی شروع کی.اے خدا میں ان کے گھر میں مہمان ہوں میرے ہوتے ہوئے ان کو کوئی دکھ نہ پہنچے اور تو ان کا بچہ واپس پہنچا دے.دعا کی حالت میں ہی مجھے غنودگی میں ایک بچہ دکھلایا گیا جسے ایک بوڑھا شخص گھر کی طرف لے کر آرہا تھا.“ آپ نے سب گھر والوں کو اسی وقت اطلاع دی کہ خدا تعالیٰ نے آپ کو بتلایا ہے وہ بچہ ایک بوڑھے شخص کے ساتھ بخیریت گھر پہنچ جائے گا.اس لئے سب آرام سے سو جائیں.صبح سویرے ہی ایک بوڑھا شخص اس بچے کو لئے ہوئے آیا اور اس نے کہا کہ یہ بچہ گاؤں سے چھ میل دور گھاس کے ایک ڈھیر میں پڑا سو رہا تھا.اس بچے سے دریافت کیا گیا تو معلوم ہوا کہ گھر سے باہر ایک گاڑی گزر رہی تھی وہ اس کے پیچھے بیٹھ گیا.گاڑی والے نے چھ میل کے فاصلے پر جانے کے بعد اسے اتار دیا.وہ رات وہیں روتا روتا سو گیا.صبح ایک 22

Page 27

بوڑھے شخص نے اسے دیکھا جو گاؤں کی طرف آرہا تھا.وہ شخص اس بچہ کے گھر والوں کو بھی جانتا تھا.اس طرح وہ بچہ حضرت میاں صاحب کی دعا سے بخیریت واپس گھر پہنچ گیا اور ان گاؤں والوں کے لئے ایک نشان کا موجب ہوا.واقعی آپ لوگوں کا خدا نرالا ہے مکرم خلیفہ صباح الدین صاحب نصرت الہی کا ایک اور واقعہ بیان کرتے ہیں: دوسرا واقعہ جو حضرت میاں صاحب نے بیان فرمایا.وہ آپ کے سفر یورپ کا ہے.لنڈن قیام کے دوران حضرت میاں صاحب کے انگریز سیکرٹری نے آپ سے یہ عرض کیا کہ سفر خرچ میں بہت کمی واقع ہو چکی ہے جس کے مطابق اب مزید سفر کا پروگرام مشکل معلوم ہوتا ہے.آپ نے سیکرٹری کو فرمایا کہ کل انشاء اللہ تعالیٰ رقم کا بندوبست ہو جائے گا.سیکرٹری اس سے بہت حیران ہوا کہ آپ اس ملک میں اجنبی ہیں پھر کس طرح مطلوبہ رقم کا انتظام ہو جائے گا.حضرت میاں صاحب فرماتے ہیں کہ آپ نے خدا تعالیٰ سے بہت دعا کی اے خدا اس غیر جگہ میں میرے لئے اپنی خاص نصرت نازل فرما اور ہماری ضرورتوں کو پورا فرما.اگلے ہی روز جبکہ سیکرٹری بھی آپ کے ہمراہ تھا ایک شخص بازار میں آپ کو ملا جس نے آپ کو روک کر Saint Saint کہنا شروع کیا.پھر ایک بڑی رقم کا چیک آپ کی خدمت میں پیش کر کے آپ سے دعا کی درخواست کی.23 23

Page 28

سیکرٹری اس واقعہ سے بہت متعجب ہوا اور کہنے لگا.واقعی آپ لوگوں کا خدا نرالا ہے.اس واقعہ سے یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت میاں صاحب کا خدا تعالیٰ سے کتنا تعلق تھا اور آپ کس طرح اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا کرتے تھے.حضرت میاں صاحب ایک دفعہ تانگہ میں سفر کر رہے تھے کچھ اور لوگ بھی آپ کے شریک سفر تھے.کچی سڑک اور جھاڑیوں کے درمیان سے تانگہ گزر رہا تھا کہ اچانک گھوڑا بدک کر رک گیا.کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بہت بڑا سانپ سڑک کے عین درمیان میں اپنا پھن پھیلائے کھڑا ہے.سب لوگ اس سے بچنے کی تدبیریں کرنے لگ گئے.آپ فرماتے تھے کہ ” میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ خدا تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے پھر بھی سب لوگ اس سانپ سے خائف رہتے ہیں آپ تانگہ سے نیچے اترے اور سیدھے سانپ کی طرف تیزی سے چلنے لگے.کچھ دیر تو سانپ کھڑا رہا.جب آپ زیادہ قریب آئے تو سانپ آپ کے آگے دوڑ پڑا اور ایک جھاڑی میں چھپنے کی کوشش میں تھا کہ آپ نے اسے مار دیا.آپ کو بندوق کے نشانہ میں خاصی مہارت حاصل تھی.آپ اکثر بڑے بڑے شکاروں کے لئے جاتے.ایک دفعہ ہریال (ایک قسم کا جانور ) کے شکار کے لئے تشریف لے گئے.آپ نے کئی ہریال شکار کئے اور کوئی نشانہ خطا نہ گیا.بلکہ آپ دوسروں کو بتلا دیتے کہ آپ نے سب سے بڑے ہڑیال کو 24

Page 29

گرایا ہے اور اس کے فلاں جگہ پر گولی لگی ہے.جو کہ عین اسی جگہ پائی جاتی.( روزنامه الفضل ربوہ 21 جنوری 1962 ءص4-3) حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق مکرم جمعدار نادر علی صاحب آف چنیوٹ لکھتے ہیں: ماہ رمضان میں جب حضرت میاں صاحب کی طبیعت اچھی ہوتی تو صبح کی نماز کے بعد مسجد مبارک میں درس دیا کرتے.جب کبھی اور جتنی دفعہ حضرت رسول کریم ع کی تکالیف کا ذکر آتا تو بوجہ رفت حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے.ایک دن صبح کی نماز کے بعد مسجد مبارک میں مسلمان بادشاہوں کی جرات اور دلیری کا ذکر فرمارہے تھے.مثال کے طور پر ٹیپو سلطان والی میسور کا ذکر آیا تو اس کی بہادری اور جرات مندانہ موت کا ذکر فرماتے ہوئے آپ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے اور آپ پر رقت طاری ہوگئی.حضرت میاں صاحب پیدل چلنے کے عادی تھے.جب کبھی کوئی ضرورت مند مسافر سڑک پر دکھائی دیتا تو اس کو اس کی منزل تک پہنچنے کا کرایہ دیتے.اگر کوئی مسافر شام کو مل جاتا تو اسے خود مہمان خانہ میں اپنے ساتھ لا کر اس کی رہائش کا انتظام فرماتے اور اگر کوئی آدمی میلے کپڑوں والا مل جاتا تو اسے صابن خرید نے 25

Page 30

کے لئے کچھ نہ کچھ رقم دے دیتے.اگر کبھی کوئی مزارع گندم لینے کے لئے ان کی کوٹھی پر آتا تو اسے کم از کم ایک من گندم خریدنے کی قیمت دے دیتے اور مجھے کہہ دیتے اس کے نام قرضہ مت لکھنا.وفات پانے سے قریباً ایک ہفتہ پہلے حضرت میاں صاحب کی طبیعت زیادہ خراب ہوگئی تو ڈاکٹر صاحب نے ملاقات کرنے کی اجازت نہ دی.اس لئے خاکسار بھی تین روز ملاقات کرنے سے محروم رہا.چوتھے روز 24 /دسمبر 1961ء کو خاکسار کو بلانے کے لئے اپنے خادم کو حکم دیا.چنانچہ نصیر احمد صاحب خادم مجھے گول بازار میں ملے اور حضرت میاں صاحب کا پیغام دیا.حسب حکم خاکسار ڈاکٹر صاحبزادہ میاں منور احمد صاحب سے اجازت لے کر میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.نہایت محبت بھرے الفاظ میں کرسی پر بیٹھنے کوفرمایا اور دریافت کیا کہ آپ تین روز سے میرے پاس کیوں نہیں آئے.چند منٹ کے بعد کھانا آ گیا.فرمانے لگے میری کلائی میں درد ہے.آپ مجھے کھانا کھلائیں.اس پر خاکسار نے کھانا کھلایا اور پھر عرض کیا کہ میں 25 دسمبر کو آپ کے پاس نہیں آسکوں گا کیونکہ جلسہ سالانہ کے لئے بچوں کو ربوہ لانا ہے.اگر آپ کا کوئی کام ہو تو ارشاد فرما ئیں.فرمایا نہیں آپ کل اپنے گھر والوں کے لئے رہائش کا انتظام کر لیں.پرسوں 26 دسمبر کو میرے پاس آجائیں.26 دسمبر کی صبح کو 9 بجے خاکسار حضرت میاں صاحب کی کوٹھی کی طرف 26

Page 31

جا رہا تھا کہ راستے میں سنا کہ حضرت میاں صاحب وفات پاگئے ہیں.سیرت حضرت مرزا شریف احمد صفحہ 120 تا 123) تاثرات حضرت صوفی محمد رفیع صاحب حضرت صوفی محمد رفیع صاحب بیان فرماتے ہیں کہ میں بفضل خدا پیدائشی احمدی ہوں اور میری تاریخ پیدائش یکم مئی 1896 ء ہے.میں چھوٹی عمر کا تھا یعنی تقریباً چھ سات سال کا جبکہ میرے والد محترم صوفی محمد علی صاحب مرحوم جو خدا کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اولین صحابہ میں اور 313 کی فہرست میں شامل ہیں مجھے دار الامان قادیان گا ہے گا ہے ساتھ لے جاتے تھے.حضرت مرزا شریف احمد صاحب رضی اللہ عنہ تقریباً اڑھائی سال مجھ سے چھوٹے تھے.اس بچپن کے زمانہ میں ہم ایک دو دوست ( خاص کر شیخ محمد مبارک سمعیل صاحب بی.اے.بی.ٹی.ریٹائرڈ ہیڈ ماسٹر جو حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی رضی اللہ عنہ کے چازاد بھائی ہیں ) شروع پرائمری سے لے کر میرے ہم جماعت اور ہم سکول لاہور میں رہتے ہیں.دونوں اکٹھے ہی دارالامان اپنے والدین کے ساتھ آتے اور احمد یہ چوک اور دوسرے بازاروں اور کوچوں میں گھومنے چلے جاتے.کبھی کبھی حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہو جاتے اور ہمیں اس بات کا بڑا فخر ہوتا کہ حضرت میاں 27 27

Page 32

صاحب ہمارے ساتھ ہیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بچپن سے ہی مشینوں اور کلوں کے سمجھنے اور ان کے متعلق غور وفکر کرنے کا خاص ارادہ عطا کیا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود سے مشابہت حضرت صوفی محمد رفیع صاحب مزید بیان کرتے ہیں: حضرت میاں صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کی شکل حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کافی مشابہت رکھتی تھی.چنانچہ جب بھی کسی وقت میرے ساتھ کوئی دوست ہوتا اور حضرت میاں صاحب رضی اللہ عنہ کبھی راستے میں مل جاتے تو میں اس مناسبت کا ذکر ان سے ضرور کرتا اور اس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد تازہ کر لیتا.پریس مشین ٹھیک ہوگئی حضرت صوفی محمد رفیع صاحب ایک واقعہ بیان کرتے ہیں: آپ ایک دفعہ ( جبکہ آپ غالباً بارہ تیرہ سال کے تھے ) اس گلی سے گزر رہے تھے جہاں پریس لگا ہوا تھا.کوئی کتاب چھپ رہی تھی مگر اچانک مشین بند ہوگئی.آپ نے جب دیکھا کہ پریس بند ہے تو آپ نے مشین چلانے والوں سے پوچھا کہ یہ کیوں بند ہے انہوں نے کہا کہ ہم نے ہر طرح سے کوشش کی ہے مگر نقص معلوم نہیں ہوتا.آپ نے فرمایا اچھا میں دیکھتا ہوں.28

Page 33

چنانچہ آپ نے اس کو ہر طرف سے دیکھا اور دیکھ کر فرمایا کہ اس کو اس طرح ٹھیک کرو اور پھر دیکھو کہ کام کرتی ہے یا نہیں؟ چنانچہ انہوں نے آپ کی ہدایت کے مطابق اس کو ٹھیک کیا اور پھر اس کو چلا کر دیکھا تو بالکل درست کام کرنے لگی.ان سب نے آپ کا شکریہ ادا کیا اور آپ تشریف لے گئے.) سیرت حضرت مرزا شریف احمد صفحہ 142 تا 144) انداز گفتگو نہایت سادہ دلکش اور پیارا تھا آپ کا انداز گفتگو بھی نہایت سادہ دلکش اور پیارا تھا.کبھی آپ کی زبان سے چبھتا ہوا فقرہ تو کیا لفظ بھی نہیں نکلتا تھا.اس کے باوجود آپ انتہاء کے اصول پسند انسان تھے.جو بات آپ کے خیال میں مبنی برحق ہوتی اس کو نہیں چھوڑتے تھے.تا ہم آپ حق بات کو قبول کرنے میں بھی تاخیر نہیں کرتے تھے.دینی اور دنیوی معاملات میں آپ کی نگاہ بہت گہری اور معنی رس ہوتی تھی.سچی بات کہنے سے آپ کبھی نہیں ہچکچاتے تھے.آپ صائب الرائے تھے اور بات کی تہہ میں فوراً پہنچ جاتے تھے.ذہانت اور زود نہی آپ کے خاص اوصاف تھے.اس کے باوجود اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی حاجات کو پورا کرنے کا خاص خیال رکھتے تھے.آپ اس وقت تک کوئی رائے قائم نہیں کرتے تھے.جب تک پوری طرح مسئلہ کے ہر پہلو کوسمجھ نہ لیتے.کوئی مسئلہ ہو آپ اس کے متعلق حرف 29 29

Page 34

ہیں کہ حرف معلوم کرتے.اگر کوئی حوالہ ہوتا تو اس کو پڑھوا کر پورے کا پورا سنتے ،کوئی کتاب یا ٹریکٹ ہوتا تو اول سے آخر تک پڑھواتے.اکثر دیکھا جاتا کہ آپ بازار میں ہیں اور کوئی دوست آپ کو کتاب پڑھ کر سنا رہا ہے.(سیرت حضرت مرزا شریف احمد ص104-107) حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے وقت آپکی عمر تیرہ سال کی تھی.مامور زمانہ اور موعود والدہ کہ جسے خدا نے خدیجہ کہا کی آغوش تربیت میں تیرہ برس کا عرصہ کوئی کم عرصہ نہیں.آپ کی زندگی کے حالات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اماں جان رضی الله عنها کی یہ دعا کثرت سے آپ کے ورد زبان رہتی.يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ نَسْتَغِيُتُ.اسی طرح درود، سورۃ فاتحہ اور سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبَحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ بھی اکثر ورد کرتے اور فرماتے حضرت مسیح موعود درود شریف اور سورۃ فاتحہ کی بہت تاکید فرماتے تھے اور سبحان اللہ و بحمدہ کی یہ مشہور حدیث سنایا کرتے تھے.كَلِمَتَانِ حَبِيْبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلَى النِّسَانِ ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزان سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيْمِ حفاظت نماز نماز کے متعلق مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب آڈیٹر صدرانجمن احمد یہ بیان کرتے 30 50

Page 35

حضرت صاحبزادہ صاحب تاکید فرمایا کرتے تھے کہ سفر میں نماز کو ہمیشہ پہلے وقت پڑھ لینا چاہیے اور یہ خیال نہ کرنا چاہیے کہ کافی وقت ہے پڑھ لیں گے.ہمیشہ اول وقت میں نماز کی ادائیگی کا اہتمام کرنا چاہئے.آپ کو نماز کا کتنا خیال ہوتا تھا اس کا اندازہ اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے کہ ایک موقع پر گجرات میں دورہ کے سلسلہ میں 4 بجے شام پہنچنا تھا لیکن مجبوراً یہ پروگرام بدلنا پڑا اور تار دے دی کہ رات بارہ بجے بذریعہ ٹرین پہنچیں گے لیکن تار بھی وقت پر نہ پہنچ سکی اور میاں صاحب کوئی ایک بجے چوہدری اعظم علی صاحب سیشن جج (جو کہ اس وقت گجرات کی جماعت کے امیر تھے ) کے مکان پر پہنچے ، رات کھانے سے فارغ ہوئے تو دو بج گئے.حضرت میاں صاحب نے فرمایا اب تہجد کی نماز پڑھتے ہیں اور اس کے بعد صبح کی نماز پڑھ کر سوئیں گے.کیونکہ اگر اب سو گئے تو صبح کی نماز ضائع ہو جائیگی.تلاوت قرآن مجید اور درس حدیث و کتب حضرت مسیح موعود حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب فرماتے ہیں: آپ بلا ناغہ صبح کی نماز کے بعد قرآن مجید کی تلاوت بآواز بلند فرماتے.مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب فرماتے ہیں: 31

Page 36

آپ سفر میں بھی اس کی پابندی فرماتے اور آپ کی آواز سن کر میں نے اکثر صحابہ کو یہ کہتے سنا ہے کہ آپ کی آواز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آواز سے بہت مشابہ ہے.صبح کی نماز کے بعد تمام افراد خانہ کو اکٹھا کر کے پندرہ ، ہمیں منٹ تک آپ حضرت مسیح موعود کی کتب کا درس دیتے تھے.اس کا طریق یہ ہوتا تھا کہ آپ بار بار حاضرین میں سے کسی کو کتاب پڑھنے کے لئے ارشاد فرماتے اور بوقت ضرورت آپ اس کی تشریح فرماتے.مسجد مبارک میں رمضان المبارک میں صبح کی نماز کے بعد بخاری کا بھی آپ درس دیتے رہے.حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب فرماتے ہیں کہ آپ کے درس بخاری شریف میں علمی نکات کے علاوہ خاص روحانی رنگ عیاں ہوتا تھا.اس کے علاوہ آپ تمام بچوں کو قرآن مجید پڑھاتے اور ان کے تلفظ کی صحت کا بہت اہتمام فرماتے.گھر میں اپنے بچوں پوتوں اور بعض بھیجے بھتیجیوں کو آپ نے ہی قرآن پڑھایا.حضرت صاحبزادہ منصور احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ قادیان میں جب ایک بار حضرت خلیفہ اسیح الثانی ایدہ اللہ تعالی نے عربی بول پال کے سیکھنے پر زور دیا تو گھر کے اکثر افراد بالخصوص مستورات آپ سے ہی تعلیم حاصل کرتیں اور یہ کہا جاتا تھا کہ آپ کا طریقہ تعلیم بہت مفید اور دلنشیں ہے اور طالب علم کو رواں کر دیتا ہے.آپ نے کوئی چھ ماہ تک جامعہ ازہر میں 32 32

Page 37

بھی تعلیم حاصل کی تھی.آپ حصول تعلیم کے لئے وہاں داخل ہوئے تھے.لیکن تعلیم کو جاری نہ رکھ سکے اور جلد واپس آنا پڑا.اس بات کا آپ کو شوق تھا کہ اپنے عزیز واقرباء کے بچوں سے قرآن سنیں اور تلفظ کی تصحیح فرمائیں.سید مبارک احمد صاحب کا رکن دفتر اصلاح وارشاد کہتے ہیں کہ مجھ سے سیر کو جاتے ہوئے کلام پاک سنتے غلطیاں نکالتے اور فرماتے لمبی لمبی سورتیں زبانی یاد کرنی چاہیں اس سے حافظہ بھی بڑھتا ہے اور ثواب بھی زیادہ ہوتا ہے.صباح الدین صاحب روایت کرتے ہیں کہ قرآن پاک کی تلاوت سنتے وقت میں نے خود آپ کی آنکھوں کو آبدیدہ دیکھا ہے.بے تکلفی حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب فرماتے ہیں: قادیان میں کارخانہ کے ضمن میں انگریز افسر آتے ، آپ نہایت بے تکلفی سے ان سے بات کرتے.لیکن چونکہ آپ کی گفتگو معلومات سے پُر ہوتی اور نہایت درجہ موثر ہوتی اس لئے آپ کی بات کا افسر کبھی انکار نہ کرتے اور جو افسر بھی آتا آپ کا گرویدہ ہوکر جاتا اور ہمیشہ آپ کا احترام کرتا.راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ کی اس دعا کا نتیجہ تھا عیاں کر ان کی پیشانی اقبال نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال 33

Page 38

آپ کے غیر معمولی وقار وجاہت اور پر تاثیر شخصیت کا ہی نتیجہ تھا کہ آپ کو حکومت کی طرف سے اسٹنٹ ریکروٹنگ افسر لا ہور امیر یا مقرر کیا گیا تھا اور آپ سے سینئر افسروں کا حلقہ اس سے چھوٹا تھا لیکن آپ تمام کام آنریری طور پر ہی کرتے اور اس کا کوئی معاوضہ حکومت سے نہ لیتے تھے.اس زمانہ میں لوگ ایک ایک ریکروٹ کے لئے سر ٹیفکیٹ حاصل کرتے.لیکن آپ اپنے ریکروٹ دوسروں کے نام لگوادیتے.محترم چوہدری ظہور احمد صاحب فرماتے ہیں کہ 25 ریکروٹ تو آپ نے میرے ہی نام لگوائے تھے.یہ وہ زمانہ تھا جب ان خدمات کے عوض لوگ بڑے بڑے انعامات اور صلے پاتے لیکن آپ نے کبھی اس کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ کبھی خواہش بھی نہیں کی.چوہدری صاحب روایت کرتے ہیں کہ حضرت میاں صاحب فرمایا کرتے تھے کہ لاکھوں ہندوستانی اس وقت محاذ جنگ پر ہیں ان کی جانوں کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ اور بھرتی دی جائے اور ہندوستان کی آزادی کے لئے بھی ضروری ہے کہ اگر انگریز کو شکست ہوگئی تو ہندوستان کی آزادی خطرہ میں پڑ جائے گی.اس انداز فکر سے آپ کے تدبر اور نکتہ رسی کا پتہ چلتا ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب فرماتے ہیں: تقسیم ملک کے بعد ہم شروع شروع میں ماڈل ٹاؤن میں رہتے تھے.ماڈل 34

Page 39

ٹاؤن میں ایک پان فروش تھا جس کا چھوٹا سا کھوکھا بڑی سٹرک کے کنارے یہ ہوتا تھا.میں بھی کبھی اس سے پان لیتا تھا.ایک دن مجھے کہنے لگا وہ بزرگ جن کا کارخانہ ہے وہ آپ کے کیا لگتے ہیں؟ میاں صاحب فرماتے ہیں شائد اس نے میرے نقوش سے اندازہ کیا ہو یا مجھے بھی آپ کے ساتھ دیکھا ہو.میں نے کہا کیوں کیا بات ہے.کہنے لگا ایک دن وہ دکان پر تشریف لائے پوچھا کیا حال ہے؟ میں نے عرض کیا کہ کساد بازاری ہے.تو جیب سے سو روپیہ کا نوٹ میرے ہاتھ میں تھما کر چل دیئے.میں نے کہا وہ روپے واپس کرنے ہیں لیکن میاں صاحب نے وہ روپے واپس لینے کے لئے دیئے کب تھے.حاجت روائی مکرم چوہدری ظہوراحمد صاحب باجوہ بیان کرتے ہیں : ایک دوائی بہت نایاب تھی اور خود ان کے لئے بھی وہ کافی نہ تھی.ایک حاجتمند آیا اور اس نے سوال کیا تو آپ نے قریباً نصف شیشی اس کے ہاتھ میں تھمادی.راقم الحروف عرض کرتا ہے کہ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ وہ اس عظیم باپ کا فرزند تھا جس نے ایک دشمن مقامی سکھ کو تھوڑا سا مشک مانگنے پر تمام نافہ ہی دے دیا تھا.یہ ہیں نازشِ ( ناز فخر ) بنی نوع انسان جنہیں زمانہ صدیوں یاد رکھتا ہے.35

Page 40

حضرت مولانا ابوالعطاء صاحب تحریر کرتے ہیں: بعض نئے دوکانداروں کی محض امداد کی خاطر دوکان پر پہنچ کر بظاہر ضرورت سے زیادہ سودا خرید فرماتے.تا ان کی امداد ہو جائے اور ان کی عزت نفس بھی قائم رہے.خود مدد کے علاوہ بعض اوقات کمزور رشتہ داروں کی مدد کے لئے کھاتے پیتے رشتہ داروں کو بھی توجہ دلاتے.بچوں سے شفقت حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب فرماتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ آپ کا سلوک بہت محبت اور شفقت کا ہوتا تھا.آپ بچوں میں خود اعتمادی کا جذبہ پیدا فرماتے.کسی چیز کے پیچھے پڑ کر اس پر زیادہ زور نہ دیتے تھے.باوجود اس کے کہ آپ بچوں کے ساتھ سیر و تفریح اور شکار کے لئے جاتے لیکن پھر بھی آپ کا اتنا ادب تھا کہ ہم آپ سے حجاب میں باتیں کرتے تھے اوراکثر دفعہ براہ راست بات کرنے سے ہچکچاتے تھے اور والدہ صاحبہ کی وساطت سے عرض کرتے.بچوں کو تیر نا بھی سکھاتے تھے.آپ کو شکار کے ساتھ ساتھ تیرنے کا بھی بہت شوق تھا.قادیان میں Swimming pool آپ کی ہی توجہ اور محنت کا نتیجہ تھا.کئی مرتبہ پکنک میں حضرت اماں جان بھی آپ کے ہمراہ ہوتیں.لیکن حضرت اماں جان کا بہت ادب فرماتے تھے.حتی کہ بعض مرتبہ بات بھی کرنے سے گریز 36

Page 41

فرماتے تھے.گھر میں آپ کے لئے کوئی علیحدہ چیز تیار نہ کی جاتی تھی.آپ بچوں کے ساتھ ہی بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا کرتے تھے.کھانے میں آپ نہایت سادہ تھے.بچوں کی ورزش اور غذا کا اہتمام حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب مزید بیان فرماتے ہیں کہ بچوں کی ورزش اور غذا کا بھی آپ اہتمام فرماتے تھے.گھر میں اکھاڑہ تھا جہاں ہم کشتی وغیرہ کرتے اور ورزش کرتے.غذا میں بچوں کے لئے دودھ اور مکھن بافراط میسر ہوتا.صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیں کہ کالج کے زمانہ تک وہ چائے کے عادی نہ تھے.کاش آج کے نوجوان بھی اس مہذب افیون سے بچ سکیں تا ان کی صحتیں بھی میاں صاحب کے بچوں جیسی ہو سکیں.وہ نہایت مشفق اور مہربان باپ تھے.آپ سلسلہ کے نظام اور خلافت کے بارہ میں بہت ہی باغیرت تھے اس بارہ میں کوئی معمولی بات بھی آپ برداشت نہ فرماتے تھے.(ماخوذ از سیرت حضرت مرزا شریف احمد ) بچوں کی تعلیم قرآن مجید میں آپ دلچسپی لیتے تھے آپ کے پوتے مرزا ادریس احمد صاحب بیان کرتے ہیں: 37

Page 42

بچوں کی تعلیم خصوصاً قرآن مجید کی تعلیم میں آپ دلچسپی لیتے تھے اور بعض اوقات چار بچوں کو مختلف کتب دیکر ان کو پڑھاتے تھے اور ہر ایک کی طرف پوری توجہ اور دھیان ہوتا اور آپ ان کی تصیح بھی فرماتے.آپ کی طبیعت میں نرمی غالب تھی حضرت مولانا ابوالعطا ءصاحب جالندھری آپ کی سیرت کے بارہ میں لکھتے ہیں : خاکسار کو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے ساتھ نظارت تعلیم و نظارت ( دعوت الی اللہ ) میں سالہا سال کام کرنے کا موقع ملا.آپ کی ہمدردی اور سلسلہ کے لئے غیرت ایک نمونہ تھی.آپ کو اپنے ماتحتوں کی تکلیف کا بہت احساس ہوتا تھا.آپ کو چین نہیں آتا تھا جب تک اس تکلیف کا ازالہ نہ کر لیں.آپ بلاشبہ نظام کے بڑے قائل تھے مگر طبیعت میں نرمی غالب تھی.آپ کو غریبوں کی غربت کا بہت احساس رہتا تھا اور ان کی امداد سے ان کو خوشی محسوس ہوتی.آپ کی طبیعت میں خدمت دین کرنے والوں کے لئے گہری محبت تھی.اپنے اساتذہ بالخصوص حضرت حافظ روشن علی صاحب کا بہت احترام کرتے تھے “ (الفرقان ربوہ جنوری فروری 1962 ، صفحہ:41) شاعری آپ کبھی کبھار شاعری بھی کرتے تھے.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک 38 88

Page 43

نظم میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کیلئے ”شریف اصغر“ کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے بھی شاعری میں’اصغر کا تخلص استعمال فرمایا ہے جو غالباً آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام سے ہی اخذ کیا ہے.آپ کی اہلیہ حضرت یو زینب بیگم صاحبہ حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی اہلیہ کا نام بو زینب بیگم صاحبہ تھا جو 1893ء میں حضرت نواب محمد علی خانصاحب کے گھر میں پیدا ہوئیں.آپ کی والدہ کا نام محترمہ مہر النساء صاحبہ تھا.آپ کا نکاح حضرت مولوی نورالدین صاحبمرضی اللہ عنہ نے 15 نومبر 1906ء کو پڑھایا اور رخصتی 9 رمئی 1909ء کو ہوئی.آپ بہت نیک خاتون تھیں.غریبوں کا بہت خیال رکھتیں اور ان کی ہر قسم کی مدد کرتیں.جس جس طرح کی ان کی ضرورتیں ہوتیں ان کی اسی طرح پورا کرنے کی کوشش کرتیں.کبھی کسی نوکر کو کھانے پینے کی تنگی نہ ہوتی.آپ صدقہ بہت دیتی تھیں اور نہ صرف خود دیتیں بلکہ اپنے بچوں کو بھی کہتیں کہ فلاں غریب ہے اسے کچھ دے دو.پھر جوان کے خدمت کرنے والے تھے.ان کا بھی خیال رکھتیں ہمیں بھی کہتیں کہ ان کو کچھ دے دو خاص طور جب کسی بچے وغیرہ کی شادی ہو.حضرت بو زینب بیگم صاحبہ کی وفات 25 /اگست 1984 ء کو 91 سال کی عمر میں 39

Page 44

لاہور میں ہوئی.آپ کو 25 اگست 1984ء کی شام مقبرہ بہشتی میں سپرد خاک کر دیا گیا آپ کی نماز جنازہ ساڑھے پانچ بجے مقبرہ بہشتی کے احاطہ میں حضرت صوفی غلام محمد صاحب نے پڑھائی جس میں اہل ربوہ کی بہت بڑی تعداد نے شرکت کی.(ماخوذ از الفضل ربوہ یکم ستمبر 1984ء) اولاد حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے حضرت بوزینب بیگم صاحبہ بنت حضرت نواب محمد علی خان صاحب رضی اللہ عنہا کے بطن سے چھ بچے پیدا ہوئے جن میں تین صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہیں.ان کے نام درج ذیل ہیں.1.حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب 2.صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب 3.صاحبزادہ مرزا داؤ د احمد صاحب کرنل (ریٹائرڈ) 4.صاحبزادی امتہ الودود ( آپ جوانی میں وفات پاگئیں ) 5.صاحبزادی امتہ الباری صاحبہ بیگم نواب عباس احمد خان صاحب 6.صاحبزادی امتہ الوحید صاحبہ بیگم صاحبزادہ خورشید احمد صاحب 40 40

Page 44