Language: UR
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی مثالی اور پاکیزہ زندگی کی نہایت خوبصورت جھلک اس کتاب میں پیش کی گئی ہے۔ گو مصنفہ کو حضور ؒ کے ساتھ بہت مختصر وقت میسر رہا، لیکن یہاں بیان کردہ واقعات اور مشاہدات اپنی گہرائی اور اثر پذیری میں غیر معمولی ہیں۔ یقینا حضور ؒ کی سیرت کے یہ واقعات پڑھ کراحمدی گھرانے جنت نظیر بننے کی راہ پر مزید تیزی سے گامزن ہوں گے۔
نامه حضرت مرزا نا صراح خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سیدہ طاہرہ صدیقہ ناصر
حضرت مرزا طاہر احمد خلیفة المسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :- " اسے جانے والے ہم تیری نیک یا دوں کو زندہ رکھیں گے.ان تمام نیک کاموں کو پوری وفا کے ساتھ پوری ہمت کے ساتھ خدا تعالیٰ سے توفیق مانگتے ہوئے چلاتے رہیں گے.اپنے خون کا آخری قطرہ تک ان کاموں میں حسن کے رنگ بھرنے کے لئے استعمال کریں گے جو رضائے باری تعالیٰ کی خاطر تو نے جاری کئے........ہم تجھ سے یہ عہد کرتے ہیں.یعنی تیری یاد سے یہ عہد کرتے ہیں.الفضل ۲۲ جون ۱۹۸۲م)
پیش لفظ ہے شکر رب عز وجل خارج از بیاں اللہ تعالیٰ کے احسانات کا ہزار بار شکر ہے جس نے لجنہ کراچی کو صد سالہ جشن تشکر کے مبارک موقع پر کتب شائع کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہوئی ہے.یہ کتاب ایک عظیم شخصیت حضرت مرزا ناصراحمد خلیفة المسیح الثالث رحم الله تعالیٰ کی سیرت و سوانح پر لکھی گئی ہے.آپ نے جشن صد سالہ سے سولہ سال قبل ار میں جماعت احمدیہ کے قیام پر سو سال پورے ہونے پر اظہار تشکر کے لئے صدسالہ جوبلی کا عظیم الشان منصوبہ جماعت کے سامنے پیش کیا تھا اور اس عالمگیر منصوبے کا ماٹو حمد اور عزم“ رکھا اور روزمرہ کے لئے دعاؤں اور عبادات کا ایک پروگرام جماعت کے سامنے پیش کیا تھا.ایک راستہ دکھا دیا تھا جس پر دھیرے دھیرے چپل کر جبن تشکر تک پہنچ گئے.الحمد للہ.یہ کتاب حضرت بیده طاهره صدیقه حرم ثانی حضرت خلیفة المسیح الثالث نے تحریر کی ہے.آپ فرماتی ہیں عجز وانکسار اور محبت آپ کی شخصیت کا نمایاں مصف تھا.آپ کا ایک قول جسے اپنے پرائے سب ہی بے ساختہ سراہتے ہیں.LOVE FOR ALL HATRED FOR NONE
آپ کی اپنی زندگی کالمحہ لحہ اس قول کی سچی تصویر تھا.شادی کے بعد ان کو بہت تھوڑا ساتھ میسر آیا مگر اس میں جو تربیت کا طریق اور شوہر کی محبت ملی وہ پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے.میاں بیوی کے تعلق میں چھوٹی چھوٹی باتیں ہی تعلق بڑھانے یا گھٹانے کا باعث ہوتی ہیں.آپ کو اللہ تعالیٰ نے دل جیت لینے کا وصف کمال حد تک عطا فرمایا تھا.خدا کرے ہمارے قوام اس کتاب کو پڑھ کر عمل کر کے صحیح سرتاج بن کر چکیں.حضور کو جماعت کی خواتین کی تربیت کا انشا خیال تھا کہ شادی کے بعد لجنہ ربوہ کی طرف سے ایڈریس کے جواب میں حضور نے آیا طاہرہ کو جو پہلا اور آخری پیغام عورتوں کے لئے دیا تھا وہ یہ تھا فرمایا : عورتوں کو یہ نصیحت کرنا کہ وہ غلبہ اسلام کی تیاری کے لئے اپنی تربیت کریں اور بچوں کی تربیت کریں اور اچھی طرح انہیں یہ بات کہیں کہ شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے ہی آگے بڑھتی جائیں.“ اللہ تعالے تمام احمدی خواتین کو حضور کی آخری نصیحت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ملبہ اسلام کی گھڑی قریب سے قریب کردے.آمین.سیکرٹری اشاعت امتہ الباری ناصر اور برکت ناصر کے علاوہ تمام معاونات جنہوں نے کتاب کے شائع ہونے اور بعد میں قارئین تک پہنچانے کی تمام ذمہ داری اٹھائی ہوئی ہے کو جزا ہائے خیر عطا کرے.کانَ اللهُ معَهُم
بسم الله الرحمن الرحيم عرض حال ابتداء میں بند کی خواہش پر میرا ارادہ تھا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی سوانح و سیرت پر ایک مختصر مضمون لکھوں.چنانچہ میں نے یہ مضمون لکھا اور اپنی تمام تمہ کوشش کے باوجود میں اسے زیادہ مختصر نہ لکھ سکی.حضور نے اپنی سوانح حیات مختلف ادوار میں تقسیم کر کے مجھے واقعاتی زنگ میں سنائی تھی.آپ کا یہ معمول تھا کہ صبح ناشتے پر اور شام کی چائے پر قریب ایک ڈیڑھ گھنٹہ آپ مجھ سے یہ واقعات بیان فرماتے.میری خواہش تو یہی تھی کہ ان بیان فرمودہ واقعات کی روشنی میں زیادہ تفصیل کے ساتھ آپ کی سوانح لکھتی لیکن طوالت کے خوف سے ایسا نہ کر سکی.میری تمام تر کوشش کے باوجود یہ مضمون کچھ طویل ہو گیا.اس لئے اسے کتابی شکل میں شائع کرنے کا فیصلہ کیا بصیرت کا حصہ جو کہ پہلے بہت ہی مختصر تھا اُسے دوبارہ لکھا اور کسی قدر تفصیل سے واقعات لکھے.لیکن اس حصے میں مجھے خود بھی یہ کمی محسوس ہوتی ہے کہ سیرت کے ضمن میں میں نے صرف وہی واقعات لکھے ہیں جو میرے ساتھ ذاتی طور پر پیش آئے.اور وسیع نظر سے حضور کی تمام زندگی پر نظر ڈالتے ہوئے سیرت کے مضمون کو بیان نہیں کیا.
اس کی دو بنیادی وجوہات تھیں.ایک تو یہ کہ مؤخر الذکر صورت میں یہ مضمون بہت زیادہ وسیع ہو جاتا.دوسرا یہ کہ اس طرز پر لکھنے کے لئے زیادہ وقت درکار تھا جبکہ لجنہ کی یہ خواہش تھی کہ صد سالہ جوبلی کے سال میں اس کی اشاعت ہو جائے یہی وجہ ہے کہ سیرت کا حقہ میں نے اس طرح سے لکھا ہے کہ واقعات بیان کرتی گئی ہوں اور کئی جگہ ترتیب کا بھی خیال نہیں رکھ سکی.واقعات کے بیان میں بھی اختصار سے کام لیا ہے ورنہ دل تو یہی چاہتا ہے کہ ایک ایک لمحے کی روداد لکھ دوں.بہر حال حضور کی زندگی کی ایک ہلکی سی جھلک اس کتاب میں پیش کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پڑھنے والے اس سے لطف بھی لیں اور فائدہ اٹھانے والے بھی نہیں.حصہ سیرت رکھتے ہوئے مجھے خیال آرہا تھا کہ اگر اس کو پڑھ کر خاوندوں کا سٹوک اپنی بیویوں سے بہتر ہو جائے تو اس کتاب کے لکھنے کا ایک مقصد پورا.ہو جائے.خاکسار ۶ نومبر ۶۱۹۸۹
نمبر شمار پیش لفظ ۲ عرض حال ترتیب عنوان سوانح حضرت خلیفة المسیح الثالث ۴ ولادت 4 بچپن اور تربیت بچپن اور نوعمری کی دلچسپیاں اور مصروفیات حصول تعلیم شادی انگلستان روانگی ۱۰ قبل از خلافت خدمات 1 " ۱۲ ۱۳ ۱۴ قید و بند ۶۱۹۵۳ وفات حضرت مصلح موعود و انتخاب خلافت دور خلافت ثالثہ میں جاری ہونے والی تحریکیں بیرونی ممالک کے دورہ جات صفحہ نمبر 2 ۹ ་་ ۱۲ ۱۵ ٢٠ ۲۱ ۲۳ ۳۲ ٣٣ ۳۲۴ ۵۷
۶۲ ۶۸ ЧЛ ۷۵ ۱۴۱ ۱۵۵ チャ 141 144 ۱۵ خلافت ثالثہ کے دوران پوری ہونے والی پیش گوئیاں 14 ۷ ستاره احمدیت ۱۸ تعمیرات 19 دور اہت وفات حضرت سید منصوره بیگم صاحبہ ۲۱ عقد ثانی ۲۲ آخری علالت ووفات ۲۳ روزمرہ کا معمول اور عادات ۲۴ سیرت کے چند اور نمایاں پہلو ۲۵ اللہ تعالیٰ سے قرب و محبت کا تعلق اور خشیت الہی ۲۶ خلافت سے محبت ۲۷ قبولیت دعا
سوانح حضرت خلیفة المسیح الثالث حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسیح الثالث - حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ المسیح الثانی کے فرزند ارجمند اور حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ مرزا غلام احمد ( آپ پر سلامتی ہو، کے پوتے اور تیسرے روحانی جانشین تھے.ولادة امام وقت مسیح الزمان سید نا حضرت اقدس کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار اہلی خبروں میں عظیم بشارت ہیں آپ کے ہاں ہونے والی اولاد کے متعلق دیں.آپ کا ہر بچہ مبشر اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک نشان تھا.اولاد کے متعلق ان ہی عظیم بشارتوں میں آپ کو ایک پانچویں بیٹے کی بشارت بطور ناخاہ دی گئی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں :- بیالیسواں نشان یہ ہے کہ خدا نے نافلہ کے طور پر پانچویں لڑکے کا وعدہ کیا تھا جیسا کہ کتاب مواہب الرحمن کے مد میں اس طرح پیشگوئی ہے :- وَبَشِّرَنِي بِخَامِسٍ فِي حِيْنِ مِنَ الْأَحْيَانِ یعنی پانچواں لڑکا چو چار کے علاوہ بطور نافلہ پیدا ہونے والا تھا اس
١٠ کی خدا نے مجھے بشارت دی کہ وہ کسی وقت ضرور پیدا ہو گا.اور اس کے بارہ میں ایک اور الہام بھی ہوا کہ جو اخبار الحکم اور البدرین مدت ہوئی کہ شائع ہو چکا ہے اور وہ یہ ہے کہ :- إنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَا مِنَافِلَهُ لَكَ وَنَافِلَةً مِّنْ یعنی ہم ایک اور لڑکے کی تجھے بشارت دیتے ہیں کہ وہ نافلہ ہو گا.یعنی لڑکے کا لڑکا.یہ نافلہ ہماری طرف سے ہے ہے ر حقیقۃ الوحی تا ۲۱) اس موعود بچے کی ولادت کی بشارت اللہ تعالیٰ نے مصلح موعود کو بھی عطا فرمائی چنانچہ ۲۶ ستمبر ۱۹۰۹ ء کے ایک مکتوب میں آپ نے تحریر فرمایا : - او مجھے بھی خدا نے خبردی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہوگا.سوان بشارتوں کے عین مطابق ۱۶ نومبر ۱۹۰۹ ء کو سیدنا حضرت مصلح موعود کے ہاں حضرت سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ رام ناصر کے لیٹین سے بیٹا پیدا ہوا جن کا نام مرزا ناصر احمد رکھا گیا.آپ حضرت مصلح موعود کے فرزند اکبر تھے.؎ سرا ناصر مرا فرزند اکبر ملا ہے جس کو حق سے تاج وافسر ر کلام محمود
11 بچپن اور تربیت آپ کی تربیت حضرت امان جان سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی مبارک گود میں ہوئی.ایک تو وہ عالی مقام جو اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کو عطا فرمایا.اور دوسرا تربیت اولاد کا وہ بے پناہ ملکہ جو آپ نے اپنی ذاتی قابلیت اور حضرت مسیح موعود کی صحبت میں رہ کر پایا، ان وجوہات کی بناء پر حضرت خلیفہ ایسے الثالث بھی اپنی اس خوش بختی پر نا نہ فرما تھے کہ ان کی تربیت حضرت اماں جان نے فرمائی لطف و سرور کے احساس میں ڈوب کہ فرمایا کرتے :- "میری تربیت تو اماں جان نے کی تھی نا ! " اور اس بے مثال تربیت کی بہت سی یادوں کا وقتاً فوقتاً آپ اپنی تقاریہ میں بھی ذکر فرماتے رہے.آپ کے بچپن کے بہت سے واقعات میں سے صرف ایک واقعہ جب سے حضور کی فطری سعادت پر بھر پوپر روشنی پڑتی ہے حضور ہی کے الفاظ میں تحریر ہے.آپ فرماتے ہیں :.میرے بچپن کا ایک واقعہ ہے میں بہت چھوٹا تھا اس وقت.لیکن ابھی تک وہ واقعہ مجھے پیار الگتا ہے.میں بہت اقصیٰ میں عشاء کی نمازہ کے لئے جایا کرتا تھا کیونکہ عشاء کی نما ز ہیت مبارک میں بہت دیر سے ہوتی تھی اور میں مدرسہ احمدیہ میں نیا نیا داخل ہوا تھا.پڑھائی کی طرف توجہ دینے اور نیند پوری لینے کی خاطر حضرت اماں جان مجھے فرماتی تھیں
۱۲ کہ تم بہت اقصی میں جا کہ نما نہ پڑھ آیا کرو.ورلی سیڑھیاں یعنی بیت مبارک کی وہ سیڑھیاں جو اُس دروازہ کے ساتھ ہیں جو دارسیح کے اندر جانے والا دروازہ ہے وہاں سے میں اتر تا اور وہ گلی بڑی اندھیری تھی.اب تو شاید وہاں بجلی لگ گئی ہو.اس زمانہ میں بجلی نہیں تھی.ایک دن میں نیچے اترا نما نہ کے لئے تو عین اُس وقت مدرسہ احمدیہ کے طلباء کی لائن نمازہ کے لئے جا رہی تھی اور اندھیرا تھا.خیر میں لائن میں شامل ہو گیا.لیکن اس اندھیرے میں کچھ پتہ نہیں لگ رہا تھا.میرا پاؤں ایک طالب علم کے سلیپر پر لگا اور وہ سمجھا کہ کوئی لڑکا اس سے شرارت کر رہا ہے وہ پیچھے مُڑا اور ایک چیڑ مجھے لگادی.اس کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ کسے میں چیڑ لگا رہا ہوں اور کیوں لگا رہا ہوں.مجھے خیال آیا کہ اگر میں اس کے سامنے ہو گیا تو اس کو بہر حال شرمندگی اٹھانی پڑے گی اس خیال سے میں ایک طرف کھڑا ہو گیا اور جب پندرہ ہیں نیچے وہاں سے گزر گئے تب میں دوبارہ اس لائن میں شامل ہوگیا تا کہ اس کو شرمندگی نہ اٹھاتی پڑ سے " بچپن کی عمر اور علم و حکمت سے بھرا ہوا یہ واقعہ آپ کی پاکیزہ نظرت کی گہری سعادت.پر بھر پور روشنی ڈالتا ہے اور پڑھنے وال کبھی فطری نیکی کے اس پیار سے واقعہ سے پیار کئے بغیر نہیں رہ سکتا.بچپن اور نوعمر کی دلچیان در معرفی تے پر جانوں کی خدمت کے لئے مہمانوں
بے لوث اور پر جوش جذبات کے ساتھ ڈیوٹی دیتے رہے.آپنے فرمایا : ہم نے بچپن کی عمریں یہ بھی نہیں سوچا تھا کہ ہماری چند گھنٹے کی ڈیوٹیاں لگیں گی.یعنی یہ کہا جائے گا کہ تم پانچ گھنٹے کام کر لو اور باقی وقت تم آزاد ہو.ہم صبح سویہ سے جاتے تھے اور رات کو دس بجے گیارہ بجے واپس آتے تھے.وہ فضا ہی ایسی تھی اور ساروں میں ہی خدمت کا جذبہ تھا.کوئی بھی اس جذبہ سے خالی نہیں تھا." الفضل ۱۴ فروری ۱۹۶۹ء نو عمری سے ہی آپ کے جذبات کے دھارے کا رخ خدمت اسلام کی طرف تھا.اپنی 14 ء کی ڈائری میں جبکہ آپکی عمر قریبیا اٹھارہ برس ہوگی ایک جگہ آپ تحریمیہ فرماتے ہیں : - اپنی ہر چیز کو قربان کردوں گا مگر اسلام کی عزت دنیا میں قائم کر کے چھوڑوں گا " پھر اسی ڈائری میں ایک جگہ آپ یہ شعر تحریہ فرماتے ہیں : یاد خدامیں لگ جا تو دید بتاں طلب نہ کر محد خیال یار ہو.ساتی و کے طلب نہ کرہ ) مرزا ناصر احمد) ۱۹۲۷ء میں ہی ریزر و فنڈ تحریک میں آپ نے بہت محنت سے چندہ جمع کیا چند سے کا حساب بڑی محنت سے اپنی ڈائری میں لکھا ہوا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثانی
۱۴ نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۴ ء پر فرمایا :- اس سال چھٹیوں کے ایام میں ہمارے سکولوں کے طلباء ڈیڑھ ہزار کے قریب چندہ جمع کر کے لائے.چند ہ لانے والے طلباء میں میرا لڑکا ناصر احمد بھی تھا جو - ۳۶ اس لیے لایا تھا حالانکہ اس کو کبھی اس سے پہلے دوسروں سے چندہ لینے کا موقعہ نہ ملا تھا " صحیح جسمانی اور ذہنی نشو نما کے لئے مختلف کھیلیں بھی کھیلتے رہے مثلاً فٹ بال ہاکی ، کرکٹ ٹینس ، اسکوائش ریکٹ ، میروڈیہ ، گلی ڈنڈا اور کلائی پکڑنا.اور سب سے زیادہ جس کھیل کو شوق سے آپ نے کھیلا اور آخری عمر تک کھیلتے رہے وہ شکار ہے.اپنے بے شمار پرانے واقعات شکار کے متعلق سنایا کرتے تھے ایک مرتبہ آپ نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ قریبا ڈیڑھ من مرغابی کا شکار فرمایا.آپ کا نشانہ بہت اچھا تھا.آخری علالت میں ایک روز مجھ سے فرمانے لگے :.یکن کب ٹھیک ہوں گا اور اپنے لیے بوٹ پہن کو شکار کے لئے جاؤں گا.بچپن میں قوت برداشتے کا ایک واقعہ آپ جب پندرہ برس کے تھے تو آپ کے بازو کی ہڈی ٹوٹ گئی.ہڈی مکمل طور پر ٹوٹ گئی تھی اور ٹوٹا ہوا حصہ اوپر والے حصہ پر چڑھ گیا تھا.انتہائی تکلیف کا سامنا تھا.لیکن آپ نے کمال برداشت کا نمونہ دکھایا.اپنا یہ واقعہ مجھے سناتے ہوئے فرمایا.کہ بڑے ماموں جان رحضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب نے بڑھی کو بلوایا
۱۵ اپنے سامنے بازو باندھنے کے لئے پھٹیاں تیار کر دائیں اور پھر بغیر بے ہوش کئے کھینچ کر بازو کو درست کہ کے باندھا.فرمایا میں نے وہ ساری تکلیف خاموشی سے برداشت کی اور اس کا کوئی اظہار نہ ہونے دیا.- حضور کی WILL POWER وقوت ارادی) بچپن سے ہی بہت مضبوط تھی اور آپ نے اپنی کوشش سے اسے بہت زیادہ ترقی دی ہوئی تھی.اپنی قوت برداشت کا ایک اور واقعہ بھی مجھے بتایا کہ چند سال قبل دور خلافت میں جب آپ کو گردے اور پیشاب میں رکاوٹ کی تکلیف محسوس ہوئی تو انگلستان میں ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ آپ IVP ٹیسٹ بھی کیا.بعض دفعہ اس کے ٹیکے سے کو PROSTATE INTRAVENOUS PYLOGRAPHY کی تکلیف ہے.انہوں نے آپ کا (توصل) REACTION ہو جاتا ہے اور دبے ہوشی ) SHOCK کی سی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے.حضور کو بھی ایسی ہی تکلیف ہو گئی.اپنی اس تکلیف کو بیان کرتے ہوئے آپ نے فرمایا : - لیکن میں نے اپنی (قوت ارادی) WILL POWER سے اپنے اوپر قابو پایا اور تکلیف کو برداشت کیا.حصول تعلیم ابتدائی تعلیم :- اپنے جن پیارے بندوں سے اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی خدمت کا کام لینا ہوتا ہے شروع سے ہی وہ ان کی تعلیم و تربیت کا انتظام بھی خود ہی فرماتا ہے.حضرت
: ۱۶ - خلیفہ اسیح الثالث کے لئے بھی ایسا انتظام فرمایا کہ پہلے آپ نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے قرآن کریم کا تاج اپنے سر پہ سجایا.۱۷ را پریل ۱۹۲۶ء کو جبکہ آپ کی عمر تیرہ سال کی تھی آپ نے حفظ قرآن مکمل کیا.وقتی طور پر دنیاوی تعلیم کا حرج ہونا لازمی امر تھا.چنانچہ حضرت اماں جان نے ایک مرتبہ حضرت مصلح موعود سے اپنے اس فکر کا اظہار فرمایا کہ کہیں ناصر دوسرے بچوں سے پیچھے نہ رہ جائے.حضرت مصلح موعود نے مسکرا کر جواب دیا." اماں جان آپ اس کا بالکل فکر نہ کریں ایک دن یہ سب سے آگے ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ " سوا اپنے پیارے کے منہ سے نکلی ہوئی بات اللہ تعالیٰ نے پوری فرمائی اور اس موعود بچے کو دینی اور دبنیادی دونوں علوم سے مالا مال فرمایا را در سب سے بڑھ کر خلافت کا منصب اعلیٰ عطا فرمایا ، بعد ازاں دینی تعلیم کے حصول کیلئے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہوئے اور جولائی ۱۹۲۹ ء میں آپ نے جامعہ احمد قادیان سے پنجاب یونیورسٹی کا امتحان " مولوی فاضل، پاس کیا اور پنجاب بھر میں تیسرے نمبر پر رہے.مدرسہ احمدیہ میں حصول تعلیم کے دوران آپ سکا پلٹس کے TROUPE LEADER مقرر ہوئے.ٹروپ لیڈر ۱۹۲۷ ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر جلسہ گاہ تنگ تھی آپ نے مدرسہ احمدیہ کے بوائے سکاؤٹس کی مدد کے ساتھ راتوں رات جلسہ گاہ کو وسیع کر دیا.چنانچہ حضرت مصلح موعود اس کام سے بہت خوش ہوئے اور آپ کے ارشاد پر افسر جلسہ سالانہ کی طرف سے میڈل دیئے گئے جو کہ حضرت مصلح موعود نے اپنے دست مبارک سے سکاؤٹس کو لگائے.
تعد مزید مولوی فاضل کرنے کے بعد آپ نے میٹرک کا امتحان پاس کیا اس کے بعد قادیان سے لاہور تشریف لے گئے اور گورنمنٹ کالج لاہور سے ۱۹۲۴ ء میں ہی.اسے کی ڈگری حاصل کی.آپ نے اس ادار سے میں ۱۹۳۲ء تا ۱۹۳۴ء تعلیم حاصل کی.گورنمنٹ کالج لاہور میں اپنی طالبعلمی کے زمانہ میں آپ نے تبلیغ اسلام کی ایک " غرض سے ایک تنظیم بنائی جس کا نام عشرہ کا مہر رکھا.اس تنظیم کے قیام کا مقصد اور اس کا طریقہ کار آپ کا تبلیغ اسلام کے لئے فطری جوش رکھنا اور آپ کی اعلی تنظیمی صلاحیتوں کی نشاندہی کرتا ہے.اس تنظیم کے تحت ایک بہت اہم کام آپ نے کیا جس کا طالب علموں پر بہت اثر ہوا اور اس کا تفصیلی ذکم آپ نے مجھ سے بھی فرمایا.وہ حضرت مسیح موعود کے اقتباسات پرمشتمل پمفلٹوں کی تیاری اور تقسیم تھی.آپ اپنے معاونین کے ساتھ ہر ماہ پانچ ہزار پمفلٹ چھپواتے اور پھر لاہور کے مختلف کالجوں میں انہیں تقسیم کرواتے.طالب علمی کے زمانہ میں دیانت داری کا مظاہرہ ابتدا سے ہی آپ کس قدر مضبوط اور با دیانت کردار کے مالک تھے اس کا اندازہ اس چھوٹے سے واقعہ سے لگایا جا سکتا ہے.بعض اوقات دوسرے لوگوں کو کسی خاص دھارے میں بہتے ہوئے دیکھ کہ
IA انسان کے لئے مین ممکن ہوتا ہے کہ خود بھی اس کو میں یہ جائے لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کے حالات زندگی پر اگر غور کیا جائے تو یہ بات بھی نمایاں طور پر سامنے آتی ہے کہ آپ نے ہر قسم کے ماحول میں، ہر قسم کے حالات میں اپنے کمر دار کی اعلی نظر خوبیوں کو نمایاں شان کے ساتھ قائم رکھا اور کبھی بھی کسی غلط راہ کو اختیار نہ کیا.پرچر امتحان کے دنوں میں طالب علم کی سوچ کی رو ایک ہی دھارے پر یہ رہی ہوتی ہے یعنی امتحان میں حصول کامیابی.اور ہوسٹلوں میں تو یہ کہو اور بھی شدت اختیار کر جاتی ہے.ایک مرتبہ امتحان سے قبل پرچہ آؤٹ ہو گیا.ہوسٹل میں بعض طالبعلموں کو اس کا علم ہوا.اپنی سمجھ کے مطابق آدھی رات کو وہ مار امامہ پہ حاصل کر کے لائے.اور فخر سے آپ کو پیش کیا.لیکن آپ نے کہاں مضبوطی کردار اور توکل علی اللہ کا ثبوت دیا.اور فرمایا :- " میں صرف اس محنت کا صلہ لینے کا حقدار ہوں جو میں نے کی.جو نمبر مفت ملتے ہوں وہ میں کبھی نہیں لوں گا.تم نے اپنی سمجھ کے مطابق مجھے فائدہ پہنچانے کی کوشش کی ہے اس کے لئے میری طرف سے شکریہ مگر اب مجھے سونے دیجئے.انگلستان میں حصول تعلیم ۱۹۳۴ء میں حضرت مصلح موعود نے ایک خاص مقصد کے حصول کے لئے آپ کو انگلستان میں مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجوایا.وہ مقصد یہ تھا :-
۱۹ میں تم کو انگلستان بھجوا رہا ہوں اس غرض سے جس غرض سے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کو فتح مکہ سے پہلے مگرہ بھجوایا کرتے تھے ہیں اس لئے بھیجوا رہا ہوں کہ تم مغرب کے نقطہ نگاہ کو سمجھو.تم اس زہر کی گہرائی کو معلوم کرو جو انسان کے روحانی تقسیم کو ہلاک کر رہا ہے.تم ان ہتھیاروں سے واقف اور آگاہ ہو جاؤ جن کو دقبال اسلام کے خلاف استعمال کر رہا ہے.غرض تمہارا کام یہ ہے کہ تم اسلام کی خدمت کے لئے اور دجالی فتنہ کی پامالی کے لئے سامان جمع کر دیا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود نے آپ کو تفصیلی ہدایات اور دعاؤں کے ساتھ قادیان سے رخصت فرمایا.آپ ۱۹۳۴ء سے لے کر شاہ تک انگلستان میں قیام پذیر رہے.اس عرصہ کا ایک ایک لمحہ آپ نے بھر پوپر رنگ میں استعمال فرمایا.دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ تبلیغ میں بھی مصروف رہے." الاسلام “ کے نام سے ایک رسالہ جاری فرمایا.یورپ کے دیگر ممالک کی سیاحت کی اور عمیق نظر سے ان کا مطالعہ کیا.اس دوران مغربی جرمنی جا کہ جرمن زبان اور مصر میں قیام فرما کہ عربی زبان سیکھی.علم کے حصول کی یہ لگن نہ ندگی کے آخر تک آپ میں رہی.آپ کی ذاتی کتب کا ایک وافر ذخیرہ تھا.بہت سے علمی رسالے باقاعدہ آپ کے زیر مطالعہ رہتے.آپ اپنی کتب اور رسالوں کو بہت حفاظت سے رکھتے.تمام رسا سے جلد کرواتے.ایک رو زمیں نے پوچھا آپ اپنے رسالے جلد کیوں کرواتے ہیں ؟ فرمایا تا کہ آج
۲۰ سے سو سال بعد بھی یہ خلافت لائبریری میں محفوظ ہوں.- گھوڑوں میں دلچسپی کے باعث بہت سی اعلیٰ کتب گھوڑوں سے متعلق بھی آپ کے پاس تھیں.مطالعہ کرتے وقت کتب پر نشان بھی لگاتے لیکن کتاب کو گندا یا اس کے صفحات کو خراب ہرگز نہ ہونے دیتے.آخری ایام میں انگلستان کے ایک رسالہ کے ایک طبی رسالہ PREVENTION COUNTRY LIFE اور امریکہ کا شوق سے باقاعدہ مطالعہ فرماتے.ایک روز مجھ سے فرمایا کہ اب مجھے کتابیں پڑھنے کا وقت نہیں ملتا اس لئے میں احمد نگر میں اپنی ایک HUT بنواؤں گا اور ہفتہ کا دن اس میں گزارا کروں گا.اور وہاں کتابوں کا مطالعہ کیا کروں گا.HUT بنوانے کے لئے آپ نے ایک نقشہ بھی پسند فرمایا.-.اپنی آخری علالت کے ابتدائی ایام میں بھی ایک روتر PREVENTION رسالہ میں سے مضمون مجھ سے پڑھوا کہ سُنا.اس مضمون میں یہ لکھا تھا کہ بوڑھا یہ ہونا یا نہ ہوتا انسان کی اپنی سوچ پر منحصر ہے.یعنی اگر بڑھاپے کو محسوس کر نا شروع کر د سے تو بوڑھا ہو جاتا ہے ورنہ نہیں.میں نے پڑھ کہ کہا یہ تو وہی بات ہے جو آپ کہتے ہیں.(حضور فرماتے تھے کہ میں اپنے آپ کو بالکل بوڑھا محسوس نہیں کرتا ).فرمایا.ہاں.شادی - آپ کا رشتہ حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کے ساتھ بچپن سے ہی اہلی بشارتوں
۲۱ کے تحت طے ہو گیا تھا.آپ نے بتایا کہ حضرت اماں جان نے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ سے سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کے حمل کے دنوں میں ہی فرمایا تھا کہ اگر تمہارے ہاں بیٹی ہوئی تو اس کا رشتہ ناصر احمد سے کروں گی.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ :- " منصورہ بیگم کے ساتھ میرا رشتہ جب وہ ابھی پیٹ میں ہی تھیں کے ہو گیا تھا." اسی طرح حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے بھی اس رشتہ کے بارہ میں ایک خواب دیکھا تھا.چنانچہ اور جولائی ۱۹۳۳ء میں حضرت مصلح موعود نے نکاح کا اعلان فرمایا.نکاح کے تقریب ایک ماہ بعد شادی کی تقریب عمل میں آئی.بارات ہم راگست ۱۳۴ ء کو مالیر کوٹلہ گئی.اگلے روند ۵ راگست کو سید تا حضرت خلیفہ المسیح الثانی خود بھی کار میں مالیر کوٹلہ تشریف لے گئے.ایک روزہ قیام کے بعد 4 اگست کو بارہ بجے بروز دو شنبہ بارات واپس قادیان پہنچی.د را اگست کو بعد نماز مغرب حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی طرف سے دعوتِ ولیمہ دی گئی جس میں اندازا دو ہزار افراد نے شرکت کی.جو اصحاب اس دعوت میں شامل نہ ہو سکے انہیں ور اگست بعد نماز ظہر کھانے پر بلایا گیا بمستورات کی ضیافت کا انتظام.ا را گست کو کیا گیا.انگلستان روانگی شادی کے قریب ایک ماہ بعد حضرت مصلح موعود کے ارشاد پر آپ ۱۹۳۴ ء
۲۲ میں انگلستان تشریف لے گئے.وہاں آپ نے آکسفورڈ کے BALLIOL COLEGE میں تعلیم حاصل کی.آپ نے وہاں ہر سال قیام فرمایا.اس دوران دو سال کے بعد چند ہفتوں کی رخصت پر آپ قادیان تشریف لائے.9 نومبر کو آپ تعلیم مکمل کر کے واپس تشریف لے آئے.اس سارے عرصہ میں آپ پوری توجہ اور انہماک کے ساتھ اپنی تعلیم میں مصروف رہے.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ نے بھی بہت ہمت اور صبر کے ساتھ آپ کی جدائی کو برداشت کیا اور اس عرصہ میں اپنی کسی تکلیف کا اظہار آپ سے نہ کیا.ایک واقعہ جس کا علم آپ کو بھی ان کی وفات کے بعد ہوا اور آپ کے دل پر اس کا گہرا اثر تھا.آپ نے بتایا کہ اس عرصہ میں معلوم نہیں یہ کیسے ہوگیا کہ حضرت مصلح موعود کی طرف سے آپ کو ر حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کو جیب خرچ نہ ملا.اور آپ غیرت مند اتنی تھیں کہ اپنے والدین سے بھی اس کا ذکر نہیں کیا.حضور کو خط لکھنے کے لئے ٹکٹ کے پیسے درکار تھے سو اپنے دوپٹے کا سچا گوٹا ایک عزیز کو بیچنے کے لئے دیا اور اسی وعدہ لیا کہ اس کا ذکر کسی سے نہیں کرے گا.اور پھر اس رقم سے آپ کو خط لکھا، لیکن مرتے دم تک اس واقعہ کا ذکمہ آپ سے نہ کیا.انگلستان سے واپس آکر آپ نے اپنی زندگی کو دین کی خدمت کے لئے وقف کر دیا.حضرت مصلح موعود آپ کے اس ارادہ سے بہت خوش ہوئے اور اپنے خط میں بہت خوشی کا اظہارہ فرمایا.- اب آپ کی بھر اور عملی زندگی کا آغازہ ہو چکا تھا.قادیان میں مقامی طور پر خدمات سرانجام دینے کے علاوہ آپ محترم حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب کے
۲۳ ساتھ تبلیغی دوروں پر جاتے رہے.اس سے آپ کو عام دیہاتی مسلمان کے ساتھ تبلیغی گفتگو کرنے کا تجربہ ہوا..قبل از خلافت خدمات اسمبلی کے الیکشن کی تیاری میں کارکردگی اسمبلی کے الیکشن میں حضرت چوہدری فتح محمد صاحب بٹالہ کے ایک با اتمہ گدی نشین خاندان کے امیدوار کے مقابل پر جماعت کے نمائندہ کی حیثیت سے کھڑے ہوئے.اس الیکشن میں آپ نے دن رات ایک کر کے انتہائی جانفشانی سے انتخابی مہم میں حصہ لیا.اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کامیابی عطا فرمائی.اس الیکشن کا ایک دلچسپ واقعہ آپ نے مجھے ستایا کہ قادیان کے قریب پٹھانوں کے ایک گاؤں کڑی افغاناں میں آپ انتخابی مہم کے سلسلہ میں گئے اور گاؤں کے ایک با اثر زمینداره غلام محمد خاں صاحب (غلام محمد خال صاحب ہمارے ننھیالی عزیز تھے اور رشتے میں میری والدہ کے پھوپھا تھے) سے ملے.انہوں نے آپ کو رات کے ایک بجے دریائے بیاس کے کنارے پر ملنے کے لئے کہا.آپ فرمانے لگے کہ اُس نے سوچا امیر زادہ ہے اتنی محنت کہاں کرے گا کہ آدھی رات کو دریا کے کنارے پہنچے.لیکن میں وہاں چلا گیا.اور باتیں ہوئیں.اس نے دوسری رات پھر مجھے ایک بجے وہیں دریا کے
۲۴ کنارے پر آنے کے لئے کہا.میں دوسری رات بھی وہاں پہنچ گیا.تو پھر اس نے مجھے اگلے دن صبح دن کے گیارہ بارہ بجے گاؤں آنے کے لئے کہا اور خوب اُونچے پلنگوں پر بیٹھایا اور اپنی مدد کا وعدہ کیا.اور پھر اپنے وعدہ کو پورا بھی کیا اور اس گاؤں کے سارے ووٹ ہمیں ملے.یہ واقعہ سنانے کے بعد آپ نے فرمایا." کڑی (افغاناں) کے بیٹھان وفادار ہوتے ہیں.تقسیم ہند اور آپ کا کردار " تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے موقعہ پر آپ نے نہایت اہم امور سرانجام دیئے اور آپ کے کردار کے بہت سے پہلو ابھر کر سامنے آئے.آپ نے پہلے انتہائی محنت اور جانفشانی سے باؤنڈری کمیشن کے لئے نقشہ جات کی تیاری کا کام کیا خیال تھا کہ قادیان پاکستان کے علاقہ میں شامل ہوگا.لیکن ایسا نہ ہوا.جماعت نے مشیت ایزدی کے سامنے سر جھکا دیا.اور نئے پیش آمدہ حالات سے بڑی خوبی کے ساتھ نیٹا.ان دنوں اس کام کے انچارج آپ تھے.آپ نے اپنی جہان کو خطرہ میں ڈال کر دن رات مشقت کی.زصبح دیکھی نہ شام.نہ کھانے کا ہوش نہ پلینے کی فکمہ.ساری توجہ اور ساری انتظامی صلاحیتوں کو اس وقت احباب جماعت اور علاقہ کے دوسرے مسلمانوں کی حفاظت ، خوراک و لباس کا انتظام اور بحفاظت پاکستان پہنچانے پر خرچ کیا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کو اس میں کامیاب کیا.اس دوران کئی کڑے وقت آئے جنہیں آپ نے انتہائی پر دباری اور حکمت عملی سے گزارا بعض احمدیوں کو اس دوران اپنی جان کے نذرانے پیش
۲۵ کمہ نے کی بھی سعادت علی تقسیم ملک کے وقت قادیان کی کچھ مسلمان عورتیں ایک جگہ محصور ہو گئیں.سکھوں کے حملہ کا خطرہ تھا اور انہیں وہاں سے بحفاظت نکالنا ضروری تھا.اس مقصد کے لئے اُس جگہ اور اس کے ملحقہ جگہ کے درمیان لکڑی کا پل بنوا کر بڑی محنت کے ساتھ ان خواتین کو وہاں سے نکالا گیا.اس دوران دشمن کی گولی لگنے سے ایک احمدی شہید بھی ہوئے.حضور نے یہ واقعہ بھی مجھے خود بتایا.اس مہم کا ایک واقعہ جو عورتوں سے تعلق رکھتا ہے اور آپ نے مجھے سنایا وہ پیش ہے.اس وقت قادیان میں مسلمانوں کو پناہ دینے کے لئے کیمپ قائم کئے گئے تھے وہاں بہت سی مسلمان عورتوں کا یہ حال تھا کہ کپڑے نہ ہونے کے باعث اپنی ستر پوشی بھی نہ کر سکتی تھیں.آپ نے فرمایا کہ میں نے منصورہ بیگم کے جہیز کے ٹینک کھولے اور وہ سب کپڑے ان عورتوں میں تقسیم کر دیئے.ان میں سے بعض جوڑے اتنے قیمتی تھے کہ اس وقت ان کی قیمت پانچ پانچ ہزار روپے تھی.ایک خاص بات جس کا آپ کے دل پر گہرا اثر تھا.کہ حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ نے کبھی اشارہ بھی آپ سے اس بات کا ذکر نہ کیا کہ آپ نے وہ کپڑے کیا کئے یا کیوں دیئے.فرقان بٹالین کی کمیٹی کی مبرشپ جون شراء سے جون ای تک فرقان بٹالین سرگرم عمل رہی.آپ رپرست کمیٹی کے ایک ممبر نامزد فرمائے گئے.فرقان فورس کے فوجی اشارات میں
۲۶ آپ فاتح الدین کے نام سے موسوم ہوتے تھے.کشمیر کے محاذ پر اس بٹالین نے زبردست کارنامے انجام دیئے.وہ واقعات اتنے حیرت انگیز تھے کہ ایک روز میں نے عرض کیا کہ آپ ان واقعات کو سکھوا کیوں نہیں دیتے ؟ فرمایا " ابھی اس کا وقت نہیں آیا " سری جاتے ہوئے مجھ سے فرمایا کہ فرقان فورس کے ساتھ ان راستوں پر سے گزرتے ہوئے میرے پیروں کے سارے ناخن ٹوٹ گئے تھے.جامعہ احمدیہ کے استاد و پرنسپل یورپ سے واپسی پر ۱۹۳۵ء میں جامعہ احمدیہ کے پروفیسر مقرر کئے گئے.جون ۱۹۳۹ ء میں حضرت مصلح موعود نے آپ کو جامعہ احمدیہ کا پرنسپل مقرر فرمایا.اپریل ۱۹۱۲ ء تک آپ اس ادارے کی نگرانی فرماتے رہے.جامعہ احمدیہ کے ساتھ آپ کی وابستگی پہلے پروفیسر اور پھر پرنسپل کی حیثیت سے ہوئی.آپ نے طلباء کو انگریزی اور فلسفہ کا مضمون پڑھایا.تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے طلباء کی جسمانی اور روحانی فشود نما کا بھی بھر پور خیال رکھا.آپ نے اس ادارہ کی کس طرح آبیاری کی یہ بات آپ کے اس بیان سے بخوبی واضح ہو جاتی ہے یہ م اس زمانہ میں جب میں جامعہ احمدیہ میں تھا تو میں نے دل اور دماغ اس ادار سے کور سے دیا تھا اور بڑی محبت سے اس کی نشو و نما کی طرف توجہ کی تھی الفضل ا ضروری نشراء..
۲۷ جامعہ احمدیہ کی اہمیت آپ کے دل میں کیا تھی؟ وہ آپ کے اس بیان سے ظاہر ہوتی ہے.۱۳ نومبر ۱۹۶۵ ء کو جامعہ کے اساتذہ اور طلباء سے خطاب فرماتے ہوئے آپ نے فرمایا :."میرا جامعہ سے بڑا دیرینہ اور گہرا تعلق ہے.جب میں نے ہوش سنبھالی یا اسے بھی پہلے حضور کے ارشادات ، ہدایات اور نصائح اور تربیت کے جو طریق تھے اسکی دل نے یہ تاثر لیا تھا کہ یہی وجامع با وہ جگہ ہے جہاں علم کو حاصل کرنا ہے اور یہی وہ جگہ ہے جہاں سے علم حاصل کرنے کے بعد اس کے استعمال کا طریق سیکھتا ہے " آپ جامعہ کے طلباء کو تبلیغ اور تقریر کی عملی مشقیں بھی کرواتے.اساتذہ اور طلباء کو بعض اوقات گرمیوں میں کسی پہاڑ پر اپنے ساتھ لے جاتے اور وہاں ان کی صحت کی طرف خاص توجہ دیتے.جامعہ کے طلباء کواپنی کوبھی النصرت میں بھی عصر کے بعد بلا کر پڑھاتے اور ساتھ ہی خور و نوش کا انتظام بھی فرماتے.بعض اوقات طلباء کو اپنی ذاتی لائبریری کی کتب سے بھی استفادہ کرنے کی سہولت دیتے.مجلس خدام الاحمدیہ کی صدارتے و نائب صدارتے فروری ۱۹۳۵ ید سے لے کر اکتو بر شیو تک آپ مجلس خدام الاحمدیہ کے صدر رہے.اور اکتوبر شراء سے نومبر 1941 ء تک آپ نائب صدر رہے.مؤخر الذکر عرصہ میں حضرت خلیفہ ایسیح الثانی بنفس نفیس مجلس خدام الاحمدیہ کے
۲۸ صدر رہے اور آپ اُن کی نگرانی میں بطور نائب صدر خدمات بجالاتے رہے اس دور میں رسالہ خالد کا اجرا ہوا.مجلس انصاراللہ کی صدارتے ۱۹۵۲ ء میں آپ کے سپرد مجلس انصار اللہ کی قیادت کی گئی.آپ نے فرمایا : - میں بوڑھا نہیں ہو گیا بلکہ مجلس انصار اللہ جوان ہو گئی ہے.اور آخری لمحے تک یہی احساس قائم رہا.فرماتے تھے.بوڑھا انسان تب ہوتا ہے.جب وہ اپنے آپ کو بوڑھا محسوس کرنے لگے ہیں تو اپنے آپ کو بالکل بوڑھا محسوس نہیں کرتا.رسالہ انصار اللہ کا اجرا آپ کے دور صدارت میں ہوا..صدر النجمین احمدیہ پاکستان کی صدار تھے مئی ۱۹۵۵ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کو صد را تخمین احمدیہ پاکستان کا صدر مقرہ فرمایا.خلافت کے انتخاب تک حضور اس عہدہ جلیلہ پر فائز رہے.افسر جلسه سالانه 1970 199 ء تا انتخاب خلافت نومبر شاید آپ نے افسر جلسہ سالانہ کی حیثیت سے شاندار خدمات سرانجام دیں.
۲۹ تعلیم الاسلام کا لج کے پرنسپل مئی ۱۹۲۳ء سے لے کہ نومبر ۱۹۶۵ تک اکیس سال ( تا انتخاب خلافت) آپ ے طور پرتیں تعلیم الاسلام کالج ابلا تفریق مذہب و قوم نوجوانوں کی بے مثال رہنمائی فرمائی.سالہا سال پر محیط اس لمبے عرصے میں ہزارہا طالب علموں کے لاتعداد واقعات جو کہ محبت شفقت اور حسین و احسان کی لانہ وال داستانیں اپنے اندر لئے ہوئے ہیں ، ان سب کی جڑیں مضمر سوچ اور جذبے کا اندازہ حضور کے ۱۹۳۳ ء میں پہلی کالج یونین کے منتخب ممبران کی تقریب سے خطاب میں بیان کردہ اس دلچسپ و منفرد نکتے سے لگایا جا سکتا ہے.آپ نے حسن اور عشق " کے موضوع پر خطاب کے دوران فرمایا :- ہر طالبعلم میں خدا تعالیٰ نے ایک مخفی حسن کسی نہ کسی کمال یا استعداد کے لحاظ سے ودیعت کیا ہوا ہوتا ہے حقیقی استاد وہ ہے جو اس حسن پر عاشق ہو کہ ایک والہانہ جستجو اور سرگرمی کے ساتھ اس مخفی حسن کو اجا گر کرے اور پھر اس کی نشو و نما کا سامان کر سے کہ اور پھر آپ نے خود اپنی ساری عمر انسانوں میں محفی اس حسن کی تلاش میں اور اس کی نشود نما میں گزار دی.ء میں ملکی تقسیم کے بعد تعلیم الاسلام کا لج قادیان سے لاہور منتقل ہو گیا.جلد ہی کالج نے یہاں بھی اپنے قدم جمالئے اور لاہور کے تمام کالجوں میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا.
تعلیم الاسلام کالج ابھی لاہور میں ہی تھا کہ حکومت نے اسکی عمارت اسلامیہ کالج کو دینے کا فیصلہ کیا.کالج کے ایک استاد گھرائے ہوئے آپ کے پاس آئے لیکن آپ نے کسی قسم کی گھبراہٹ کے بغیر اور انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا.کہ گھبرائیں نہیں اس میں بھی خدا تعالٰی کی حکمت ہوگی.شاید یہ امر ہمارے کالج کے ربوہ جانے کا سامان ہی ہو اور شاید اللہ تعالیٰ کے علم میں جماعت کا مفاد اسی میں ہو کہ ہمارا کالج اب ربوہ چلا جائے.مت گھیرائیں.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ وہی معاملہ کرے گا جو ہمارے حق میں مفید ہوگا.چنانچہ 1990 میں ٹی.آئی کالج ربوہ منتقل SHIFT ہو گیا.اور وقت نے ثابت کیا کہ حضور کی حسن ظنی اپنے رب پر بالکل درست تھی.ربوہ میں کالج کی عمارت کی تعمیر آپ نے اپنی نگرانی میں کہ دائی.اس کی تعمیر کا واقعہ بھی آپ نے مجھے اپنی زندگی کے واقعات سناتے ہوئے سنایا.آپ کو حضرت مصلح موعود نے ڈیڑھ لاکھ روپے کی رقم اس کام کے لئے عطا فرمائی.آپ نے اللہ تعالی پر توکل اور بھروسہ کرتے ہوئے اس کی تعمیر کاکام شروع کمہ دا دیا.گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں چھتری لئے سارے کام کی نگرانی خود فرما تھے.اس عرصہ میں چونکہ آپ اکیلے ربوہ میں تھے اس لئے لنگر خانہ حضرت مسیح موعود سے کھانا کھاتے رہے اور یوں دن رات کی محنت کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک عظیم الشان عمارت کا لج کے لئے تیار ہو گئی.آپ کے زیر سر پرستی کالج نے ہر میدان میں نام پیدا کیا.اعلیٰ تعلیمی معیار اور اخلاقی اقدار کے لئے کالج نے خاص شہرت پائی.غیر نصابی سرگرمیوں
۳۱ میں طالب علموں کی پوری پوری حوصلہ افزائی فرماتے کھیلیں.مباحثے اور مشاعر سے باقاعدگی سے ہوتے اور ملک بھر کے کالج ان میں شامل ہوتے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ حسین تدبیر عطا فرمایا تھا.بات اسی اندا نہ سے کرتے کہ حالات کا پانسہ ہی پلٹ دیتے.دشمن دوست بن جاتے اور سنگین سے سنگین معاملہ خوش اسلوبی سے طے ہو جاتا.جب آپ پرنسپل تھے ایک مرتبہ ٹی آئی.کالج کا کشتی رانی کا مقابلہ اسلامیہ کالج سے تھا.فضاء میں TENSION (تناؤ) تھی.اسلامیہ کالج کے پرنسپل نے اعلان کیا کہ وہ اپنی ٹیم کوئی.آئی کالج سے مقابلہ جیتنے کی صورت میں ستور و پیہ انعام دیں گے.کوئی جلد باز انسان ہوتا تو اس کا جواب اس طرز پر ہوتا کہ اگر میری ٹیم جیتے گی تو میں اُسے اتنا انعام دوں گا.لیکن آپ نے اعلان فرما یا کوئی.آئی.کالج کے پرنسپل کی طرف سے بھی اسلامیہ کالج کی ٹیم کو جیتنے کی صورت میں منتور و پیہ انعام دیا جائے گا.یہ اعلان کرنا تھا کہ فضائیں سے ساری کدورت کا فور ہو گئی اور دوستانہ ماحول میں مقابلہ ہوا.ٹی.آئی.کالج کے طالبعلاوی نے زیادہ جوش کے ساتھ مقابلہ کیا اور خُدا نے انہیں فتح عطا فرمائی کشتیوں کی اس دوڑ کا واقعہ بھی آپ نے لطف لیتے ہوئے مجھے سُنایا.ہوسٹل کے طالب علموں کا آپ بالخصوص خیال رکھتے.اگر کوئی طالب علم بیمار پڑ جاتا تو سارا سارا وقت اس کے پاس بیٹھتے.علاج کی مکمل سہولت فراہم کرتے اور خرچ کی قطعا پر واہ نہ کرتے.ایک بار مجھ سے فرمانے لگے کہ میرا تجربہ کالج کے پرنسپل کا بھی ہے نا.ہوسٹلائٹس HOSTELITES
۳۲ سکائی نہ سے زیادہ POLISHED (مہذب) ہوتے ہیں.انہیں ایک دوسرے کے لئے چھوٹی چھوٹی قربانیاں دینے کی عادت پڑ جاتی ہے.قید و بند ۱۹۵۳ء داء میں جماعت کے خلاف ہونے والے فسادات کے دوران آپ کو ایک آرائشی خنجر گھر میں رکھنے کا بہانہ بنا کہ قید کیا گیا.جب پولیس کے اہلکار آپ کو گرفتا ر کرنے کے لئے آئے تو آپ نے کسی قسم کی گھبراہٹ کا اظہار نہ فرمایا اور انہیں پور سے گھر کی تلاشی لینے دی.تلاشی کے دوران ایک معجزہ رونما ہوا.آپ کی اچکن دیوار کے ساتھ لٹک رہی تھی اس کی جیب میں ایک ضروری جماعتی کاغذ تھا.پولیس کے اہلکار نے اس کی ایک جیب میں ہاتھ ڈالا وہ خالی تھی.اُس نے دوسری جیب میں ہاتھ ڈالا لیکن وہ بھی خالی تھی اور حقیقتاً یہ ہوا تھا کہ غیبی ہاتھ نے اچکن کو گھما دیا اور اس نے دوبارہ غلطی سے پہلے والی جیب میں ہی ہاتھ ڈالا.یہ واقعہ آپ نے خود مجھے بتایا.آپ یکم اپریل ۱۹۵۳ ۴ تا ۲۸ مئی ۱۹۵۳ء قید میں رہے.اس دوران آپ کو پیش کی تکلیف ہو گئی.آپ نے جیل کے ایک ملازم سے کہا کہ مجھے پو دینے کے پتے لا دیا کرو.وہ چند دن تک پتے داتا رہا اور آپ انہیں استعمال فرماتے کر ہے.خدا تعالٰی نے آپ کو ان پودینے کے پتوں سے ہی پیچش سے شفا عطا فرمائی.سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی وفات ۱۲۰ اپریل تشبیہ کو ہوئی جبکہ آپ کو
۳۳ 1923ء میں قید کیا گیا.آپ نے فرمایا اللہ تعالی نے اپنی حکمت سے حضرت امالی جان کو پہلے وفات دے دی اور انہیں اس صدمے سے بچا لیا.حضرت سیدہ ام ناصر صاحبہ کی وفات اور جولائی شاہ کو ہوئی.ہر دو وفاتیں آپ کے لئے گھر سے صدمے کا باعث تھیں.وفات حضرت مصلح موعود اور خلیفہ ثالثے کا انتخاب ، اور ہر نومبر ۱۹۶۵ء کی درمیانی شب حضرت مصلح موعود مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفه امسیح الثانی وفات پا گئے.اور یوں بادن سال پر محیط ایک عظیم الشان دور خلافت ماہ و سال کے اعتبار سے اختتام پذیر ہوا.لیکن قدرت ثانیہ کا روحانی سلسلہ اسی آب و تاب اور روانی کے ساتھ جاری رہتا ہے.آنے والا وجود جانے والے وجود کے کارناموں کی مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہو کہ بلند سے بلند تر عمارتیں بناتا چلا جاتا ہے.جماعتی ترقی کی ہر نئی اینٹ اپنی بنیاد کو مستحکم کرتی چلی جاتی ہے.ر نومبر ۱۹۶۵ہ بعد نمازہ عشاء جماعت کے نئے خلیفہ منتخب ہوئے.۹ نومبر بعد نماز عصر آپ نے سید نا حضرت مصلح موعود کی نماز جنازہ پڑھائی اور حضور کے جید اظہر کو سپرد خاک کرنے کے بعد لمبی پر سوز دعا کروائی.
۳۴ دورِ خلافت ثالثه آپ کے دور خلافت کے کار ہائے نمایاں اور واقعات کا مختصر جائزہ اس زمانے میں جاری ہونے والی تحریکات اور آپ کی مصروفیات کی روشنی میں دیکھتے ہیں :.حضور کے دور خلافتے میں جاری ہونے والی تحریکیں اسلام کی تبلیغ اور غلیہ السلام کی مہم کو تیز سے تیز تر کرنے کے لئے خلفائے وقت ہمیشہ ضرورت وقت کے مطابق تحریکات فرماتے رہے ہیں اور فرماتے رہیں گئے.خلافت ثالثہ کا دور بھی ان با برکت تحریکات سے پر اور مزین نظر آتا ہے.اس دور میں جاری ہونے والی تحریکات کا مختصر جائزہ مندرجہ ذیل ہے :- 1 - مساکین کو کھانا کھلانے کی تحریک ار دسمبر دار کو حضور نے جماعت کو یہ تحریک فرمائی کہ :- کوئی احمدی رات کو بھوکا نہیں سونا چاہیئے " آپ نے یہ ذمہ داری افراد پر اور جماعتی تنظیموں پر ڈالی.
۳۵ ۲ - فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام جلسہ سالانہ ء کے موقعہ پر آپ نے فضل عمر فاؤنڈیشن کے نام سے ایک ادارے کے قیام کا اعلان فرمایا.یہ ادارہ حضرت مصلح موعود کی یادگار کے طور پر آپ کے محبوب مقاصد کو جاری رکھنے کے لئے قائم کیا گیا.خلافت ثالثہ " کی یہ پہلی مالی تحریک تھی.آپ نے جماعت سے ۲۵ لاکھ روپے تین سال کے عرصہ میں پیش کرنے کی تحریک فرمائی.جماعت نے والہانہ لبیک کہا اور کل رقم ۴۲,۸۵۰ ۳۷ روپے موصول ہوئی.اس فاؤنڈیشن کے درج ذیل مقاصد ہیں :- 11 حضرت فضل عمر کے جملہ خطبات و تقاریر کو سلسلہ کے لڑ پچر سے یکجا جمع کر کے انہیں شائع کیا جائے.چنانچہ خطبات کی کئی جلدیں شائع ہو چکی ہیں.(۲) سید نا حضرت فضل عمر کی سوانح حیات تالیف کی جائے اور اسے شائع کیا جائے.(اس کی دو جلدیں شائع ہو چکی ہیں ).(۳) حضرت مصلح موعود کی شدید خواہش تھی کہ علمی مسائل پر سلسلہ کے اہل علم اصحاب تصانیف مرتب کر کے شائع کریں.حضور نے ۱۹۳۰ء کے جلسہ سالانہ میں اس سلسلہ میں ایک سکیم بیان فرمائی تھی.اس ارشاد پر عمل کرنے کے لئے علمی مقالوں پر انعامات دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا.حضور کی ہر خواہش کو کامیاب بنانے کی کوشش کرنا اس ادارہ کے
مقاصد میں شامل کیا گیا.(۴) خدمت دین کے لئے جو مواقع پیدا ہوں ان میں فاؤنڈیشن حسب توفیق (0) حصہ ہے.فیصلہ کیا گیا کہ عطا یا میں جو رقم وصول ہی.اسے تجارتی رنگ میں منافع حاصل کیا جائے اور مقررہ مقاصد کے اخراجات اس منافع سے چلائے جائیں.اس فاؤنڈیشن کو جن دیگر خدمات کی توفیق ملی وہ یہ ہیں :- دا، خلافت لائبریری کی تعمیر تعمیر کے بعد اسے صدر انجمن احمدیہ کے سپرد کر دیا گیا.(ii) سرائے فضل عمر کے نام سے وسیع گیسٹ ہاوس تعمیر کیا گیا اور یہ عمارت تحریک جدید کے سپرد کر دی گئی.(ii) جلسہ سالانہ پر تقاریر کے انگریزی اور انڈونیشین زبانوں میں رواں ترجمہ کا انتظام کیا گیا.(۱) قرآن کریم کے فرانسیسی ترجمہ کی اشاعت کے لئے امداد کی گئی.(۷) جلسہ سالانہ کے مہمانوں کے لئے روٹی پکانے کی مشینوں کی تیاری کے لئے مالی امداد دی گئی.- (vi) ایک فوٹوسٹیٹ مشین خرید کر جا معہ احمدیہ کو دی گئی.وزانہ، امام بی بی ٹرسٹ کے تحت دو طالبعلموں کو وظیفہ دیا جاتا ہے.
۳۷ ۳- وقف جدید کے دفتر اطفال کا اجرا اکتوبیہ شاہ کو اس کا اجراء ہوا.جماعت کے بچوں کے دلوں میں بچپن سے ہی دین کی محبت کا بیج بونے کے لئے وقف جدید کا چندہ بچوں اور بچیوں کے ذمہ لگایا گیا.پہلے بچوں کے لئے پچاس ہزار کا ٹارگٹ مقرر فرمایا.اس کے بعد حضور نے ایک لاکھ کا ٹارگٹ مقررہ فرمایا.۴ - تحریک جدید دفتر سوم کا اجرا نوجوان اور نئی نسل کو تحریک جدید میں شامل کرنے کے لئے آپ نے تحریک جدید دفتر سوم کا اجرا فرمایا.اس کا اعلان ۲۳ را پریل شاہ کو ہوا.تعلیم القرآن کی تحریک ۱۹ اپریل ۱۹۶۷ء کو جاری فرمائی.آپ نے فرمایا : - یں پھر تمام جماعتوں کو تمام عہدیداران کو ، خصوصا امرائے صداع کو اس طرف توجہ دلاتا ہوں کہ قرآن کریم کا سیکھنا، جانا اس کے علوم کو حاصل کرنا اور اس کی باریکیوں پر اطلاع پانا اور ان راہوں سے آگاہی حاصل کرنا جو قرب الہی کی خاطر قرآن کریم نے ہمارے سے لئے کھولے ہیں از بس ضروری ہے.اس کے بغیر ہم وہ کام ہر گتہ نہیں انجام دے سکتے جس لئے اس سلسلہ کو قائم
کیا ہے.پس میں آپ کو ایک دفعہ پھر آگاہ کرتا ہوں اور متنبہ کرتا ہوں کہ آپ اپنے اصل مقصد کی طرف متوجہ ہوں اور اپنی انتہائی کوشش کریں کہ جماعت کا ایک فرد بھی ایسا نہ رہے.نہ بڑا.زچھوٹا نه مرد ، به عورت ، نه جوان، نہ بچہ کہ جسے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا نہ آتا ہو جس نے اپنے ظرف کے مطابق قرآن کریم کے معارف حاصل کرنے کی کوشش نہ کی ہو " ۶.وقفے عارضی کی تحریک (947.الفضل ۲۷ جولائی ۱۹) ار مارچ تا کو اس تحریک کا اعلان فرمایا.سال میں دو سے چھ ہفتوں تک کے لئے اپنے خرچ پر خدمت دین کے لئے وقف کہ نیکی تحریک فرمائی.آپ نے پانچ ہزار واقفین کا مطالبہ کیا.- مجلس ارشاد کا قیام جماعت کے نوجوانوں کی علمی تحقیقی ترقی کے لئے مجلس ارشاد مرکز یہ کا قیام فرمایا حضور تحقیقی مقالہ جات کے عنوانات خود تجویز فرماتے اور پھر مجلس ارشاد کے اجلاس میں جس کی صدارت بھی حضور خود ہی فرماتے.یہ مضامین پڑھ کر سنائے جاتے.مرکزہ کے علاوہ پاکستان کے دیگر بڑے بڑے شہروں میں بھی اس مجلس کا قیام عمل میں آیا.اور اس کے اجلاس ہوتے رہے.
۳۹ - - بد رسوم کے خلاف جہاد عہ ء میں جماعت احمدیہ میں پاکیزگی کو قائم کرنے کے لئے ہر بدعت اور بد رسم کے خلاف جہاد کا اعلان فرمایا.۹ - اتحاد بین المسلمین کی تحریک - ۲۲ را گست ۹۶۶ہ کو کراچی میں اپنے پہلے مغربی ممالک کے دورہ کے بعد ایک پریس کانفرنس میں آپ نے اتحاد بین المسلمین کی تحریک پیش فرمائی ، کہ سات سال کے لئے تمام فرقے اپنے باہمی اختلافات بھلا کہ ، متحد ہو کہ علیہ اسلام کی مہم میں حصہ لیں.اور عالم اسلام کے خلاف کی گئی عالمی سازشوں مہم کا مقابلہ کریں.کاش کہ آج ہی مسلمانان عالم اس تحریک کی طرف توجہ کریں.۱۰ تسبیح وتحمید اور درود شریف کی تحریک ہ میں حضور نے جماعت کو بکثرت تسبیح و تحمید اور درود شریف پڑھنے کی تاکید فرمائی اور حضرت مسیح موعود کے الہام :- سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمِ اللّهُم صَلِّ عَلَى مُحَمَّد و آلِ مُحَمَّدٍ.کا ورد کرنے کی تحریک فرمائی.تمام مرد و زن کے لئے کم از یک ۲۰۰ مرتبہ دن ہیں.۱۵ سے ۲۵ سال
۴۰ کے نوجوانوں کے لئے 100 مرتبہ ، سے ۱۵ سال کے بچوں کے لئے ۳۳.مرتبہ اور اس سے کم عمر کے لئے ۳ مرتبہ ورد کر نیکی تلقین فرمائی.۱۱- تحریک استغفار -11 ر میں ہی آپ نے جماعت پر غلبہ اسلام کی عظیم ذمہ داری سے عہدہ براً ہونے کے لئے اور اس راہ میں حائل بشری کمزوریوں کو ڈھا نچلنے کیلئے کثرت سے استغفار کرنے کی تحریک فرمائی.۱۲.سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات یاد کرنے کی تحریک کے 1919ء میں اپنے اپنے دل میں شدت سے پیدا ہونے والی اہلی تحریک کی بنا پر سورۃ بقرہ کی ابتدائی سترہ آیات کو حفظ کرنے اور معنی و تفسیر سکھتے کی تحریک فرمائی.۱۳ - خاص دعاؤں کی تحریک اء میں آپ نے جماعت اور دنیا کو پیش آنیوالے حالات کو بھانپتے ہوئے جماعت کو کثرت سے رب كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا اور رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرَ ال ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا
وانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ.پڑھنے کی تاکید فرمائی.۱۴ - مجالس موصیاں کا قیام 19 ء میں موصیان کی اخلاقی اور روحانی ترقی کے لئے اس مجلس کا قیام فرمایا.اور اس مجلس کے ذمہ قرآن کریم پڑھنے اور پڑھانے کا کام لگایا.۱۵- وقف بعد ریٹائرمنٹ کی تحریک ریٹائرڈ افراد کی صلاحیتوں سے جماعتی کام لینے کے لئے آپ نے وقف بعد ریٹائر منٹ کی تحریک فرمائی اور نظارت اصلاح و ارشاد کے ذریعہ ان افراد کی دینی علوم میں استعداد بڑھانے کا بھی انتظام فرمایا.۱۶ - اشاعت قرآن کی تحریک قرآن کریم کو دنیا کی ہر قوم تک اس کی زبان میں پہنچانے کے لئے ار فروری مشکل کو ربوہ میں ایک جدید پریس کا سنگ بنیاد رکھا جس کا نام نصرت پرنٹرز اینڈ پبلیکیشنز ہے.دنیا کے بڑے بڑے ممالک کے مشہور ہوٹلوں کے کمروں میں قرآن کریم کے نسخے رکھوائے گئے.
۱۷ - نصرتے جہاں آگے بڑھو سکیم نشاء 16 اء میں جب آپ مغربی ممالک کا دورہ فرما رہے تھے تو گیمبیا میں قیام کے دوران اللہ تعالیٰ نے بڑی شدت کے ساتھ آپ کے دل میں ان ممالک میں کم از کم ایک لاکھ پونڈ خرچ کر کے ان ملکوں کے غریب او مظلوم نسانوں کی خدمت کرنے کی تحریک ڈالی.چنانچہ مغربی افریقہ سے واپس پاکستان تشریف لاتے ہوئے بہت فضل لنڈن میں آپ نے نصرت جہاں ریز رو فنڈ کا اعلان فرمایا.اس تحریک کا نام آپ نے " نصرت جہاں آگے بڑھ سکیم تجویہ فرمایا.اس کا مقصد افریقہ میں ہسپتال اور تعلیمی ادار سے قائم کر کے وہاں کے عوام کی خدمت کمرہ نا ہے.اس عظیم الشان سکیم کا مقصد صرف اور صرف افریقہ کی خدمت کرنا ہے.اور باقی دنیا کی طرح افریقہ کو ٹوٹنا نہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا کہ ان ملکوں میں کمایا ہوا ایک پیسہ بھی باہر نہیں جائے گا بلکہ انہیں ملکوں کی بہبود پر خرچ ہو گا.اس سکیم کی تحریک فرماتے ہوئے حضور نے خاص طور نیہ اس فکر کا اظہار فرمایا کہ یہ قربانی اللہ تعالیٰ کے حضور مقبول ہو اور اس امر کے لئے خاص طور پر دعا کر نے کی تحریک فرمائی.چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں ثابت ہو گیا کہ اللہ تعالٰی نے کس شان سے اس دعا اور تحریک کو قبول فرمایا اور اس منصوبے میں کس قدر برکت عطا فرمائی.آپ ایک روزہ ڈاک ملاحظہ فرما رہے تھے.نصرت جہاں کے متعلق
۴۳ رپورٹ پڑھی تو مجھ سے فرمانے لگے کہ دیکھوئیں نے یہ منصوبہ صرف باون لاکھ (غالبا) سے شروع کیا تھا.اللہ تعالیٰ نے اس میں اتنی برکت دی ہے کہ اب ایک ہسپتال کی آمد کی والا کھ روپے (نما ئیا ، کی رپورٹ ہے اور لکھا ہے کہ فلاں فلاں وجوہات کی وجہ سے ابھی کم آمد ہوئی ہے.یہ منصوبہ جب سے متعلق اندازہ تھا کہ سات سال میں مکمل ہوگا.خدا تعالی کے فضل سے ڈیڑھ دو سال میں مکمل ہو گیا اور اس کے حیرت انگیز نت نیچ ظاہر ہوئے.الحمد لله اللہ تعالیٰ نے اس کے ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے غیر معمولی شفا رکھ دی اور دُور دُور تک ان کا شہرہ ہو گیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس منصوبے کے تحت چلنے والے سکول بھی ان ممالک کے عوام کی غیر معمولی خدمت کی توفیق پار ہے ہیں.خلافت ثالثہ کے اختتام تک ان ممالک میں کام کرنے والے ہسپتانوں اور سکولوں کی تعداد مندرجہ ذیل تھی :- ہسپتال : ۲۱ - سیکنڈری سکول : ۳۵ پرائمری اور مڈل سکول : ۱۰۰ سے زائد 19.:- نشاہ تک نصرت جہاں سکیم کے تحت ۱۸ ہسپتال اور ۲۳ سکول کام کر رہے تھے.اور اس سکیم کا بیٹ ہم کر وڑ روپے سے تجاوز کر چکا تھا.
۴۴ اس سکیم کی عظیم کامیابی کے بارہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے فرمایا :- "نصرت جہاں سکیم کو اللہ تعالی نے ایسی عظیم الشان کامیابی عطا کی ہے کہ سازی دنیا کے دماغ مل کر بھی اس کا تصور نہیں کر سکتے ہ تقریر خیلی سالانه ۲ دسمبر نشار ۱۸ - گھوڑے پالنے کی تحریک شاء آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ میں فرمودہ گھوڑوں کی اہمیت کے پیش نظر اور دنیا کو پیش آمدہ حالات کی روشنی میں جہاں ایٹمی جنگ کا خطرہ ہر وقت اس کے سریہ منڈلا رہا ہے.آپ نے جماعت کو گھوڑے پالنے کی تحریک فرمائی.اور فرمایا کہ جشن صد سالہ تک جماعت ۴۰ ہزار گھوڑے تیار کرے.آپ نے PAK ARAB نسل کی افزائش کی طرف توجہ دلائی.ربوہ میں اس سلسلہ میں ایک کلب " خَيْلُ لِلرَّحمن" کے نام سے بنایا اور ہر سال اس کے زیر انتظام ربوہ میں ایک گھڑ دوڑ ٹورنا منٹ کا بند دلبست فرمایا جس میں حضور ذاتی دلچسپی لیتے تھے.
۴۵ ۱۹- مجلس صحت کا قیام افراد ربوہ کی جسمانی صحت کی بہتری کے لئے یکم مارچ ء کو مجلس صحت کے قیام کا اعلان فرمایا جس کا کام ربوہ کے تمام باشندوں کیلئے کھیلوں اور ورزش جسمانی کا انتظام کرنا اور اس کے لئے گراؤنڈ مہیا کرنا ہے.۲۰- تعمیر مہمان خانہ جات کی تحریک تعلیمی اداروں کے قومیائے جانے کے بعد جلسہ سالانہ کے ایام میں مہمانوں کو ٹھہرانے کے لئے قیام گاہوں کی ضرورت تھی جضور نے بیر کی تعمی کرنے کی تحریک فرمائی جس میں احباب جماعت نے لاکھوں روپیہ پیش کیا چنانچہ بہت اقصیٰ کے سامنے اور لنگر خانہ دار النصر کے سامنے اور دارالضیافت کے عقب میں مجنہ اماءاللہ کی جانب سے بیر کس تعمیر کروائی گئیں.۲.قلمی دوستی کی تحریک 1907 1ء میں حضور نے بین الاقوامی سطح پر جماعت کے سامنے قلمی دوستی کی تحریک رکھی تا مختلف ممالک میں بسنے والے احمدیوں کے آپس میں روابط بڑھیں اور تبلیغ کی راہیں بھی نکلیں.
-۲۲ صد سالہ احمد یہ جوبلی کا عظیم الشان منصوبہ جلسیاں نہ سہ کے موقعہ پر حضور نے اپنی منشاء کے تحت ایک عظیم عالمگیر منصوبہ کا اعلان فرمایا جسے حضور نے دو صد ساله احمدیه جوبلی منصوباً کا نام دیا.پندرھویں صدی ہجری اور جماعت احمدیہ کے قیام کی دوسری صدی اہی بشارتوں کے تحت عالمی نمبر اسلام کی صدی ہے.اس صدی میں وحدانیت کا قیام ہوگا اور تمام قومیں محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائیں گی.اسلام کے اس عالمگیر غلبہ کو روکنے کے لئے شیطانی قوتیں بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ نبرد آزما ہیں اور روئے زمین پر آج تک لڑی جانے والی تمام روحانی جنگوں میں سے یہ جنگ عظیم تمر ہے جماعت احمدیہ کے قیام پر سو سال پورے ہونے پر اظہارت کے کے لئے حضرت خلیفہ المسیح الثالث نے صد سالہ جوبلی کا عظیم الشان منصوبہ جماعت کے سامنے پیش فرمایا.آپ نے فرمایا : ایک بین الاقوامی متحدہ حملہ کا منصوبہ بنایا گیا ہے تا کہ اسلام دنیا یہ غالب نہ آئے.اس بین الاقوامی منصوبہ کا مقابلہ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی منشا سے صد سالہ احمدیہ جوبلی منصوبہ بنایا
گیا ہے.“ ) خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۹۳مه) پھر اس منصوبہ کی اہمیت بیان فرماتے ہوئے فرمایا : - د یه اتنا زه به دست منصوبہ ہے کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں اور آج پھر کہتا ہوں آپ کے کانوں میں بار بار یہ بات ڈالنا چاہتا ہوں کہ آدم کی پیدائش کے بعد اتنا بڑا منصوبہ کبھی نہیں بنایا گیا.آدم سے لے کر آج تک اتنی زیر دست جنگ (روحانی جنگ بادی سمجھیا روں سے نہیں شیطانی قوتوں کے خلاف نہیں لڑی گئی جتنی اس زمانہ میں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ ہے لڑی جانے والی ہے.اس عالمگیر منصوبہ کا ماٹو " حمد اور عزم ہے.اس منصوبہ کا سب سے بڑا مقصد بنی نوع انسان کو خدا تعالیٰ کی معرفت دلاتا ہے.اس مقصد کے لئے دنیا کے ہر ملک میں مشن ہاؤس اور بیت الحمد ہر اور قائم کرنی ہیں.دوسرا بڑا مقصد قرآن کریم کی بعثرت اشاعت ہے اور اس کے ساتھ دنیا کی تمام نہ بانوں میں لٹریچر کی فراہمی ہے.چنانچہ حضور نے فرمایا : - " کم از کم سو زبانوں میں اسلام کی بنیادی تعلیم پرمشتمل کتاب شائع کرتی ہے.بنی نوع انسان کو امت واحدہ بنانے کے لئے بین الا قوامی سطح پر جماعتوں اور احباب جماعت کا آپس میں اور مرکز سے رابطہ ہونا چاہیئے.
۴۸ اس مقصد کے لئے TELEX کا انتظام ہو اور ایک براڈ کاسٹنگ سٹیشن بھی ہو.روحانی پروگرام :- اس منصوبہ کے لئے احباب جماعت کے ذمہ حضور نے مندرجہ ذیل روحانی پروگرام لگایا :- را، صدی مکمل ہونے تک ہر ماہ ایک نفلی روزہ رکھنا.(۲) و دو نفل روزانہ بعد نماز ظہر یا عشاء اور فجر کی نماز کے وقفہ کے دوران ادا کئے جائیں.(۳) درود شریف، استغفار اور تسبیح وتحمید کا ورد روزانه ۳۳ ۳۳ بار کیا جائے.(۳) مندرجہ ذیل دعائیں کم از کم گیارہ مرتبہ روزانہ پڑھی جائیں.ال، رَبَّنَا افْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الكَافِرِينَ.0 (i) اللّهُمَّ اِيَّا نَجْعَلُكَ فِي نُحُوْرِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ.(۵) سورۃ فاتحہ روزانہ کم از کم سات مرتبہ غور و فکرہ کے ساتھ پڑھی جائے.مالی قربانی : اس منصوبے کے لئے مالی تحریک کا نام صد سالہ جوبلی فنڈ رکھا اور جماعت کو پا ۲ کمر وڑ روپے پیش کرنے کی تحریک فرمائی.جماعت نے اس فنڈ میں والہانہ طور پر اموال پیش کئے بہاء تک اس کا بجٹ دس کروٹر روپیہ
زمانہ طالب علمی کی تصویریں حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد کے بچین کی ایک یادگار تصویر زمانہ طالب علمی میں ایک دوست کے ساتھ (انگلستان) حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد (وائس طرف سے پہلے) درمیان میں حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد
تعلیم الاسلام کالج کے زمانہ کی نادر تصاویر حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد بحیثیت پر نسپل تعلیم الاسلام کالج (دائس - وفیسر نصیر احمد خان صاحب (مرحوم) بھی تشر
۴۹ 3 زائد تھا.اس منصوبے کے تحت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو دوسیع کام بڑی تیزی سے ہو رہا ہے اس کا تفصیلی ذکر ممکن نہیں.مختصر یہ کہ اس کے تحت کئی ممالکب میں نئے مراکہ اور بیوت الحمد کا قیام ہے.بیت بشارت جو کہ پید رو آباد سپین میں بنائی گئی اس منصوبے کا اہم شہریں ثمر ہے.اس کا سنگ بنیاد حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اور اکتوبر نشاء کو رکھا اور اس کا افتتاح حضر خلیفتہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دس ستمبر شاہ کو فرمایا.قرآن کریم کے مختلف نہ بانوں میں تراجم شائع ہو رہے ہیں اور سٹریچر کا انگریزی و دیگر زبانوں میں ترجمہ کیا جارہا ہے اور ساتھ کے ساتھ کتب شائعے ہو رہی ہیں.جماعت کے قیام پر سو سال پورے ہونے پر یعنی ۲۳ مارچ شہء کو صد سالہ جوبلی کا جشن منانے کا پروگرام بھی اسی منصوبہ کا حصہ ہے اور جماعت کا یہ اظہار تشکر اس سال کے آخر تک جاری رہے گا.اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے جماعت نئی صدی میں داخل ہو گی.اس صدی میں بھر لوپر ردھانی شان کے ساتھ داخل ہونے کے لئے آپ نے بار بار اپنے خطبات اور تقاریر میں اس کی عملی تیاری کی طرف توجہ دلائی اور جماعت کو اپنی تربیت کرنے کی طرف متوجہ فرمایا.احمدی عورتوں کے لئے ایک مرتبہ مجھے بھی آپ نے یہی پیغام دیا کہ ر عورتوں سے کہنا کہ غلبہ دین کی صدی کی تیاری کے لئے وہ اپنی
تربیت کریں اور اپنے بچوں کی تربیت کریں “.اور ساتھ ہی یہ نصیحت بھی فرمائی کہ یہ بات پر زور طریق پر کہتا.۲۳ - سائیکل سفر اء میں حضور نے خدام الاحمدیہ کو سائیکل خرید نے اور سائیکل چلا نے اور اجتماعات کے موقع پر سائیکل پر آنے کی تحریک فرمائی حضور نے سالانہ جو بلی کے موقعہ پر جماعت سے ایک لاکھ سائیکل سواروں کا مطالبہ کیا.۲۳- نظام کو نفیل رکھنے کی تحریکیسے ۱۹۷ء میں حضور نے غمیل رکھنے کی تحریک جباری فرمائی.۲۵.حفظ قرآن کی تحریک YA قرآن کریم کو حفظ کرنے کے سلسلہ میں حضور نے خدام کو ارشاد فرمایا ک وہ قرآن مجید کا ایک ایک پارہ حفظ کریں.جب ایک پارہ حفظ ہو جائے تو دوسر کریں اس سکیم سے حضور کا مقصد زیادہ سے زیادہ حفاظ تیار کرتا تھا.۲۶ - اطفال کے معیار کبیر کا قیام حضور نے اطفال کو دو معیاروں میں تقسیم فرمایا.۷ سے ۱۲ سال تک معیار دو.صغیر ادر ۱۲ سے ۱۵ سال تک کے بچوں کا معیار کبیر.
اه معیار کبیر کہ خدام الاحمدیہ کی نرسری قرار دیتے ہوئے ان کے لئے ایسے پروگرام وضع کرنے کی ہدایت فرمائی جیسی وہ خدام الاحمدیہ میں شامل ہونے سے قبل ہی ایک خادم کی ٹریننگ حاصل کر لیں.۲۷ - گریجوایٹ کو وقف کرنے کی تحریک 1940 ء میں اشاعت دین حق کی غرض سے آپ نے گریجوایٹ احمدی نوجوانوں کو وقف کرنے کی تحریک فرمائی جو کہ انگریزی پڑھا اور بول سکتے ہوں تا کہ وہ بنیادی دینی تربیت لینے کے بعد ممالک غیر میں جا کر اپنی روزی بھی کمائیں اور تبلیغ بھی کریں.۲۸ - وقف جدید کے لئے درجہ دوئم کے معلمین کی تحریک کے 194 ء میں حضور نے وقف جدید کے موجود معلمین کی تعداد کو جماعتی ضرورت کے لحاظ سے کم محسوس فرماتے ہوئے درجہ دوئم کے معلمین کی سیم جماعت کے سامنے رکھی.اس کے تحت مقامی جماعتوں سے افراد تین تین ماہ کے لئے مرکز میں آکر وقف جدید کے زیر انتظام دینی تعلیم حاصل کر کے واپس جا کر اپنی اپنی جماعتوں میں تعلیم و تربیت کا کام کرتے ہیں.۲۹ یکمیونٹی سنٹر اور عید گاہ کے قیام کی تحریک ملہ میں لندن میں حضور نے یورپی ممالک میں احمدی بچوں کو احمدی
۵۲ ماحول دینے کے لئے اور ان کی اخلاقی اور روحانی تربیت کے لئے نیز مغربی اقوام کے ساتھ تعلقات بڑھانے کی غرض سے حضور نے ان ممالک میں وسیع قطعات زمین برائے عید گاہ ویکمیونٹی سنٹر نہ خریدنے کی تحریک فرمائی.اسلام آباد ڈیلفورٹی انگلستان میں اور جرمنی اور ہالینڈ میں وسیع قطعات زمین حضور کی نیک خواہشات اور دعاؤں کا ثمر ہیں.الحمد للہ.۳۰.انصار الله صف دوم کا قیام 1ء میں انصار اللہ کے سالانہ اجتماع پر حضو ر نے انصار اللہ کے صف دوم کے قیام کا اعلان فرمایا.اسی میں ، ہم سے ۵۰ سال تک کی عمر کے انصار شامل ہیں.آپ نے ان کے لئے درجوانوں کے جوان کی اصطلاح وضع فرمائی.ان کا کام انصاراللہ کی نظم اور ان کے کاموں کو تیز سے تیز تم کرتا ہے.نیز خدام کے ساتھ سرو سے سکیم میں بھی شامل ہوتا ہے.سروسے ۳۱ - فولڈر شائع کرنے کی تحریک.1ء میں سفر یورپ کے دوران اپنے جماعت کے تعارف.اس کے مقاصد اور اس کے کاموں پر مشتمل فولڈر مختلف زبانوں میں شائع کرنیکی تحریک فرمائی.۳۲ - احمدیت تعلیمی منصوبه حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں :-
۵۳ " علم ایک طاقت ہے اور طاقت سے شجاعت پیدا ہوتی ہے." > لملفوظات جلد ہشتم من پھر آپ اپنی جماعت کے متعلق پیش گوئی فرماتے ہیں :.”میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم ومعرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.(تجلیات الہیہ مٹ ) جماعت کی علمی ترقی اور اس کے افراد کی قرآن کریم کی تعلیم کو سمجھتے اور اس پر عمل کرنے کی قابلیت کو بڑھانے کے لئے تا وہ اپنی عاقبت بھی سنوارنے والے ہوں.اور عام بنی نوع انسان کے لئے ہدایت کا ذریعہ بننے والے ہوں.آپ نے ۲۰ راکتو بر شادی کو ایک عظیم الشان تعلیمی منصوبہ کا اعلان فرمایا جو کہ اپنے وسیع اور دیر پا الله اثرات کی وجہ سے جماعت کی ترقی میں یقیناً ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.اس منصوبہ کے اہم نکات یہ ہیں :- ۱- جماعت کا ہر بچہ آئندہ دس سال کے اندر کم از کم میٹرک اور ہر بچی کم از کم مڈل ضرور پاس کرے انڈل کی حد صرف سکول میسر نہ ہونے کی وجہ سے رکھی.ورنہ بچیوں کے لئے بھی کم از کم معیار میٹرک نہی رکھا.۲.کوئی بھی اچھا ذہن ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا اور یہ کہ جماعت ہر قیمیت یہ ہر ذہین بچہ کو سنبھالے گی.- ہر احمدی طالب علم اپنے سالانہ امتحان کے نتیجہ کی اطلاع خلیفتہ المسیح کو دیا کرے گا.
۵۴ ۴ - یونیورسٹی اور بورڈ کے امتحانات میں اول ، دوم، سوم پوزیشنز حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو سونے کے تمغہ جات انعام میں دیئے جائیں گے.اس کے علاوہ مقررہ نمایاں پوزیشنز حاصل کرنے والوں کو تفسیر صغیر اور تفاسیر حضرت مسیح موعود دیئے جانے کا اعلان فرمایا.حضور نے اس منصوبہ میں ذاتی طور پر بہت دلچسپی لی طلباء کی حوصلہ افزائی اور یہ نمائی فرمائی.آپ کی اس ذاتی دلچسپی اور اس منصوبہ کے نتیجہ میں احمدی طلباء میں حصولِ علم کے لئے ایک نئی لہر دوڑ گئی اور اعلیٰ پوزیشنز حاصل کرنے کے لئے ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا ج کی فوری نتائج جماعت کے سامنے آئے.اپنے طلباء کو ذہن اور حافظہ کی قابلیت کو بڑھانے کیلئے سویا لیسی متقین کھانے کی طرف بھی توجہ دلائی.حضور خود بھی اس کا باقاعدہ استعمال فرماتے تھے.اس منصوبہ کے زیر انتظام تمغہ جات دینے کی کل سات تقاریب حضور کی زندگی میں منعقد ہوئیں جن میں کل ۳۳ تمغہ جات تقسیم ہوئے تفصیل یہ ہے.اول : ۱۷ ودم : ۱۰ سوم : ۵ ذہین طلباء کو وظائف بھی دیئے جاتے ہیں ان کا نام :- وظائف ادائیگی حقوق طلباء " ہے.اس منصوبہ میں یہ کام بھی شامل ہے کہ وہ جماعت کے تمام طالبعلموں کے تعلیمی کو الف مرکتہ میں جمع کر سے اور مرکز میں طالب علم کے کوائف کا
اندراج ایک کارڈ پر ہو.حضور کا ارادہ اس پر گرام کو COMPUTERIZED کرنے کا تھا تا کہ کمپیوٹر کی مدد سے ہر طالب علم کی علمی حالت کا او تعلیمی ترقی کا پتہ چل سکے.-۳- لا اله الا اللہ کا ورد کرنے کی تحریک نشاء کے دورہ کے دوران حضور نے ایک کشف دیکھا.آپ نے فرمایا : - اللہ کا ورد کر رہا تھا.میں نے دیکھا کہ ساری کائنات میرے ساتھ حمد کر رہی ہے اور حمد باری تعالیٰ کی موجیں ہر در پہر آگئے بڑھ رہی ہیں.یہ عجیب کیفیت کا عالم تھا میں نے اس کی یہ تعبیر سمجھی کہ توحید باری کے قیام کا وقت آگیا ہے اور دہریت اشتراکیت اور شرک اور خدا سے دوری کے تمام طریقے ختم ہو جائیں گے اور یہ سلسلہ عنقریب ایک صدی کے اندر اندر ختم ہو جائے گا.انشاء اللہ.چنانچہ حضور نے احباب جماعت کو کثرت سے AND AT ALL TENDAN الله کا ورد کرنے کی تلقین فرمائی.موجوده دو یہ ابتلا ء میں اس تحریک کی حکمت واضح ہوئی.
04 ۳۴ - در زیستی کلاب ۱۹۸۱ شاہ میں حضور نے تمام جماعتوں کو صحت کو بہتر بنانے کے لئے ورزشی کلب بنانے کی تحریک فرمائی.فرمایا " مرد بھی اور لجنہ بھی کلب بنائیں اور ہر احمدی اس کلاب کا ممبر بنے؟" ۳۵ - دست ساله تحریک 464 ۲۸ اکتوبر ۱۹۷۹ء کو غلبہ دین حق کی صدی کے لئے حضور نے دنیس سالہ لائحہ عمل تجویز فرمایا.- ہر بچہ قاعدہ میسر نا القرآن جانتا ہو.- قرآن مجید ناظرہ جاننے والے ترجمہ اور تفسیر سیکھیں.-.ہر بچہ کم از کم میٹرک ہو.- ۴ - ہر احمدی دین حق کی حسین تعلیم پر قائم ہے.ہو.
بیرونی ممالک کے دورہ جاتے دنیا میں دین حق کا پیغام پہنچانے کے لئے اور بیرونی ممالک میں بسنے والے احمدیوں کی تربیت کے لئے حضور نے اپنے دور خلافت میں یورپی ممالک ، افریقہ اور امریکہ کے دورہ جات کے لئے سات تبلیغی سفر اختیار فرمائے.پہلا سفر یورپ " حضور نے 4 جولائی 199 ء کو اپنے دور خلافت کا پہلا سفر برائے ممالک بیرون اختیار فرمایا - یه دوره ۲۴ اگست ۱۹ ء تک جاری رہا.اس دوران آپ نے مغربی جرمنی ، سوئٹزرلینڈ ، ہالینڈ، ڈنمارک اور انگلستان کا دورہ فرمایا.اسی دورہ میں آپ نے خواتین کے چندہ سے تعمیر کردہ بیت نصرت جہاں کوپن ہیگن کا افتتاح فرمایا.نیز ۲۸ جولائی کو وانڈ زور تھو ٹاؤن ہال لنڈن میں اہل یورپ سے تاریخی خطاب " امن کا پیغام اور ایک حرف انتباه " فرمایا.اس دورہ میں آپ نے سات پر یس کا نفرنسوں سے خطاب فرمایا.دوسر اسفر دوسرا سفر آپ نے نشہ ء میں اختیار فرمایا.اس دوران آپ نے یورپ.اور افریقہ کے مختلف ممالک سوئٹزرلینڈ، برطانیہ، جرمنی، سپین، نائیجیریا،
غانا، آئیوری کوسٹ، لائیبیر یا گیمبیا اور سیرالیون کے مشنوں کا دورہ کیا.یہ کسی خلیفہ وقت کا افریقی ممالک کا پہلا دورہ تھا.یہ وہ اہم دورہ تھا جب سکسی دوران سپین میں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی یاد اور موجودہ حالت نے حضور کے دل میں شدید درد پیدا کیا اور اس کرب کی وجہ سے آپ ساری رات جاگے اور دعائیں کرتے رہے.جواب میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو وقت مقررہ پر آپ کی دعاؤں کے قبول ہونے کی بشارت دی.دیگر مصروفیات کے علاوہ اس دورہ کے دوران آپ نے دس پر یس کا نفرنسوں سے خطاب فرمایا.پانچ بیوت الصلواۃ کا افتتاح فرمایا.چار بیوت الصلاة کا سنگ بنیاد رکھا.دو یونیورسٹیوں میں خطاب فرمایا.ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیا.یہ دورہ چار اپریل نشاء کو شروع ہوا اور یہ رجون کو اختتام پذیر ہوا.تیسرا سفر یورپ ۱۹۷۳ء یورپی ممالک کا یہ دورہ ۱۳ جولائی ۸ ۲۶ ستمبر اید جاری رہا.اسی دوران آپ نے انگلستان، ہالینڈ، مغربی جرمنی ، سوئیٹزرلینڈ ، اٹلی ، سویڈن اور ڈنمارک کا دورہ فرمایا.اس دورہ میں اُ اعلی قسم کا پریس قائم کرنے کے امکانات کا تفصیلی جائزہ لیا اور طباعت کے مختلف اداروں کا معائنہ فرمایا.الحمد للہ کہ اللہ تعالیٰ نے حضور کی اس خواہش ی انگلستان میں قیام کے دوران آپ نے یورپ میں ایک لو بھی پورا فرمایا اور خلاقیت رابعہ کے بابرکت دور میں اسلام آباد ( لفورڈ میں
” الرقیم“ کے نام سے ایک ۵۹ COMPUTERIZED پریس کا قیام عمل میں آگیا ہے.جو دن رات جماعت کا لٹریچر شائع کرنے میں مصروف ہے.چوتھا سفر یورپ شاد 1460 1463 یه دوره پانچ اگست ۶ تا ۲۹ اکتوبر مه جاری رہا.اگرچہ اس سفر ڑ کے اختیارہ کر نے کا ایک اہم مقصد حضور کی کئی ماہ سے مسلسل جاری ہماری کی صحیح تشخیص اور علاج تھا لیکن اس دورہ میں بھی آپ جماعتی تربیت اور تبلیغی کاموں میں مصروف رہے.اس دوران آپ نے سکنڈے نیوین ممالک کا دورہ فرمایا اور صد سالہ جوبلی کے منصوبہ کے تحت تعمیر ہونے والی سویڈن کی سب سے پہلی بیت الصلواۃ کا سنگ بنیا د رکھا.سویڈن میں اللہ تعالیٰ نے ۴ ارافراد کو آپ کے دست مبارک پر بیعت کرنے کی توفیق عطا فرمائی.۲۴ - ۲۵ راگست کو انگلستان کے جلسہ سالانہ میں افتتاحی اور اختتامی خطابات فرمائے.انفرادی اور اجتماعی ملاقاتیں اور مجالس عرفان ہوتی رہیں.پانچواں سفراء یه سفر ۲۰ جولائی متشکله تا ۲۰ اکتوبر شاء جاری رہا.اس سفر میں آپنے امریکہ کینیڈا ، انگلستان ، سویڈن، نارد سے ، ڈنمارک ، مغربی جرمنی ، سوئٹزرلینڈ اور ہالینڈ کا دورہ فرمایا.امریکہ میں دورہ کے دوران جما عتہائے متحدہ امریکہ کے سالانہ کنونشن کے
افتتاحی اور اختتامی اجلاسوں سے خطاب فرمایا.جماعت کی تبلیغی اور تربیتی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور مزید ہدایات سے نوازا.سویڈن کے شہر گوٹن برگ میں بیت الصلوٰۃ کا افتتاح فرمایا.اس سفر میں ۲۳ را فراد کو بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا.گیارہ کانفرنسوں سے خطاب فرمایا.سویڈن ریڈیو نے آپ کا انٹرویو ریکارڈ کیا.سوس ریڈیو نے بھی وہاں کے مسلمانوں کے لئے عید کا پیغام ریکارڈ کیا.چھٹا سفر یه سفر در سی شار تا ۱۰ اکتوبر کشادہ جاری رہا.اس دوران اپنے مغربی جرمنی ، سوئٹزرلینڈ، ہالینڈ، انگلستان ، ناروے، سویڈن، ڈنمارک وغیرہ کادورہ فرمایا.اس دورہ کا اہم ترین مقصد کسر صلیب کا نفرنس میں شرکت فرمانا تھا جو کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت کامیاب رہی.جماعتی تربیت اور تبلیغ کی مصروفیات بھی جاری رہیں.ساتواں اور آخری سفر نشا یه دوره ۲۶ جون نشانه تا ۲۶ اکتوبر شش ابر جاری رہا اس دورہ میں اپنے تین براعظموں کے ان ممالک کا دورہ فرمایا.مغربی جرمنی ، سوئٹزرلینڈ - آسٹریا ، ڈنمارک ، سویڈن، ناروے ، ہالینڈ، سپین، نائیجیریا ، غانا، کینیڈا ، ریاست ہائے متحدہ امریکہ ، انگلستان.
اس سفر کے آخر میں آپ نے سپین میں ساڑھے سات سو سال کے بعد تعمیر ہونے والی تاریخی بہت بشارت کا سنگ بنیاد مورخه ۱۹ اکتو بر نشاء کو رکھا.یہاں آپ نے ایک پر ہجوم پریس کا نفرنس سے بھی خطاب فرمایا.اس بیت کو بنانے کی توفیق اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے آپ کی دمماؤں کو قبول فرماتے ہوئے عطا فرمائی.اس سفر میں آپ نے ناروے میں بہت اور مشن ہاوس کا افتتاح فرمایا.افریقہ کے ممالک میں ہسپتالوں اور سکولوں کا جائزہ لیا اور مزید کی منظوری عطا فرمائی.نیز باقی تمام ممالک میں تبلیغی اور تربیتی سرگرمیوں کا جائزہ لیا.اور ہدایات عطا فرمائیں.ممتاز دانشوروں اور اہم تھی شخصیتوں سے ملاقاتیں فرمائیں.اور متعدد پریس کا نفرنسوں سے خطاب فرمایا.
۹۲ خلافت ثالثہ کے دوران پوری ہونیوالی پیشگوئیاں حضرت مسیح موعود کی متعددپیش گوئیاں آپ کے بابرکت اور خلافت میں پوری ہوئیں.ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں :- ا.بادشاہوں کا برکت حاصل کرنا - یہ عظیم الشان پیشگوئی حضور کے عہد مبارک میں جماعت احمد یہ گھیا کے پریذیڈنٹ الحاج الف.ایم سنگھاٹے (جو اس وقت اپنے ملک کے گورنر جنرل تھے) کے حضرت مسیح موعود کے مقدس کپڑوں سے برکت حاصل کرنے پر پوری ہوئی.۲.تعمیر کعبہ کے مقاصد اور ان کا فلسفہ 1996 ۶۳۵ ۱۹۶۷ء میں بیت اللہ کی تعمیر کے وہ عظیم الشان مقاصد اور ان کے فلسفہ پر روشنی ڈال کر حضرت مسیح موعود کے الہام مندرجہ ازالہ اوہام شد جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت الہی کا مسئلہ سمجھتا ہے وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ اس کو اسرار ملکوتی سے حصہ ہے.ایک اولو العزم پیدا ہوگا لیا کے پورا کرنے کا اعزاز جس ہستی کو حاصل ہوا وہ نافلہ موعود حضرت
۶۳ خلیفہ اسیح الثالث ہی تھے.۳.لنڈن میں تبلیغ دین کی توفیق ملنا ازاله اوهام شاه ، صلاح پر حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں :.ائیں نے دیکھا کہ میں شہر لندن میں ایک منبر یہ کھڑا ہوں اور انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے دین حق کی صداقت بیان کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرند سے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوئے تھے " خود آپ نے اس خواب کی تفسیر یہ فرمائی کہ آپ خود نہیں بلکہ آپ کی تحریریں وہاں پھیل کر راست بازہ انگریزوں کو حلقہ بگوش دین حق کرنے کا باعث ہوں گی.جیسا کہ حضور کے دورہ جات کے ضمن میں درج کیا جا چکا ہے کہ حضور نے متعدد بار انگلستان کے سفر فرمائے اور پیام امن ان تک پہنچایا اس طرح حضور کے مبارک دور میں یہ رویا ظاہری لحاظ سے بھی پوری ہوئی.٢ - وَسِعَ مَكَانَكَ گیا قادیان کے گمنام سے گاؤں میں اکیلے کھڑے ہوئے ایک شخص کو الہا نا بتایا وسع مكانك
۶۴ انتہائی کسمپرسی کے اس زمانہ میں جبکہ مالی تنگی نے اس ڈیا کو صرف اس برنگ میں پورا ہونے دیا کہ ” الدار" میں تین چھپر کھڑے کر دیئے گئے.مگر حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی زندگی میں بویا گیا یہ بیج آپکے خلفاء کے عہد میں ایک خوبصورت باغ کی صورت اختیار کر گیا.1ء میں حضور کو بھی خدا تعالٰی نے وسیم مكانك کی ہدایت فرمائی.شاہ کے حالات میں جماعت کو مستقبل کی خوشخبری دینے والی اس پیش گوئی کے پورا ہونے کا ثبوت ده عالیشان عمارات ہیں جو دور خلافت ثالثہ میں ریوہ کے علاوہ ممالک بیرون میں تعمیر کی گئیں.اور زبان حال سے اس پیشگوئی کے بین الاقوامی سطح پر پوری آب و تاب سے پورا ہونے کا اعلان کر رہی ہیں.• ۵.علم و معرفت میں کمال مارچ مسلمہ میں حضرت مسیح موعود نے ایک حیرت انگیز پیش گوئی فرمائی جو تجلیات الہیہ کے مال پر اس طرح درج ہے : میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور سے اور اپنے دلائی اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو نوبل انعام ملا.آپ دین حق پر قائم پہلے سائنسدان ہیں جنہیں یہ انعام ملا.نوبل پرائز کا یہ عالمی اعز انسان کو شاء میں خلافت حص
طالعه حسن فطرت رت خلیفتہ المسیح الثالث حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمس اور حضرت مولانا ابو العطا" کے ساتھ بے تکلف گفتگو فرما رہے ہیں
کام میں انہماک دل بسیار دست بکار
40 ثالثہ کے دور میں ملا.حضور کا تعلیمی منصوبہ بھی احمدی طلباء کو علم ومعرفت عطا کرنے کا موجب بنا.لا اله الا اللہ کا ورد خلافت ثالثہ کی حقانیت کا ایک نہایت تابناک نشان آپ کا یہ اعلان ہے کہ چودھویں صدی کا الوداع اور پندرھویں صدی کا استقبال لا إله إِلَّا اللہ کے ورد سے ہونا چاہیے.حضرت مسیح موعود کی مارچ ء میں الہام ہوا کہ :.لا إله إلا الله - فَاكْتُبُ وَلْيُطْبَعُ وَلْيُرْسَلُ في الأرض" ابراہین احمدیہ حصہ سوم ۲۳ حاشیه در حاشیه) ترجمہ: - لا إله إلا اللہ کو کھو اور اسے چھپوایا جائے اور تمام دنیا س بھیجا جائے.نشاء میں آپ نے ایک کشفی نظارے کے بعد جماعت کو کثرت سے ALLEN ATLANTA TA اللہ کا ورد کرنے کی تلقین فرمائی.جگہ جگہ یہ کلمہ سکھا گیا.ستارہ احمدیت کے وسط میں بھی لا الہ الا اللہ درج ہے.انقلاب ایران ۱۵ر جنوری عشاء کو حضرت مسیح موعود بانی 4
سلسلہ احمدیہ کو یہ الہام ہوا کہ : - و تزلزل در ایوان کسری فتاد دیدر ۱۹ جنوری شده ) شاہ ایران کے محل میں تزلزل کی یہ پیشگوئی ۱۲ جنوری شکار کو شاہ ایران کی حکومت کا تختہ الٹ جانے اور ایران کے مذہبی رہنما روح اللہ خمینی کے بر سر اقتدار آنے کی صورت میں حضور کے عہدِ مبارک میں پوری ہوئی.- بادشاہوں کا اظہار عقیدتے حضرت مسیح موعود کے الہام : - وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا " داشتهار ۲۰ فروری انشاه کے مطابق شراء میں حضور کے دورہ افریقہ کے دوران کئی سر سیمایان سربراہان مملکت نے شرف ملاقات حاصل کیا جو ان کی عقیدت و محبت کا بڑا واضح ثبوت ہے.۹ - اشاعت دین حق کے جدید ذرائع اني انا الرَّحْمَنُ سَاجْعَلُ لَكَ سَهُولَةً فِي
كُل أمرٍ (حقیقة الوحی ) ترجمہ :.میں رحمن ہوں ہر ایک امر میں تجھے سہولت دوں گا.حضور کے دور میں تبلیغ حق کی راہ میں ملنے والی سہولیتیں مثلا کر لیں سی یڈیو ، ٹیپ ریکار ڈز، کیمر سے ، ٹیلی وژن ٹیلیکس ، دی سی آر ، فولڈ رنر اس الہام کے پورا ہونے کا زبردست ثبوت ہیں.۱۰ - ۲ را بپریل شاہ کو ایک ۵۲ سالہ شخص کا عبرتناک انجام عین پیش گوئی کے مطابق ہوا.لڑیچر حضور کے بصیرت افروز خطبات و تقاریر پرمشتمل لٹریچر فریبا دو ہزار صفحات پر محیط ہے جو ۳۶ مطبوعات پر مشتمل ہے.چند مطبوعات کے نام یہ ہیں :.-- تعمیر بیت اللہ کے ۲۳ عظیم الشان مقاصد - صفات باری کے مظہر اتم انسانیت کے محسن عظم کی عظیم روحانی تجلیات.- مقام محمدیت کی تفسیر - م - حقوق انسانی اور آئین پاکستان.۵ - اسلام مذہبی آزادی اور آزادی ضمیر کا ضامن ہے.- المصابيح.
۷۸ - A قرآنی انوار - امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ.و.اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول اور فلسفہ.۱۰ - دورۂ مغرب تھے.- ستاره احمدیت ۲۷ دسمبر احشاء کو جلسہ سالانہ کے موقعہ پر حضور نے دوسرے روز اپنے خطاب کے دوران جماعت کو ستارہ احمدیت کا خصوصی اعزاز عطا فرمایا.اس کا ڈیزائن آپ نے اپنی نگرانی میں تیارہ کہ دایا.اس ستارہ کے وسط میں لا إله إلا الله درج ہے.اور اس کے چودہ کو نے اسلام کی تاریخ کی چودہ صدیوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں.اور ہر کونے میں اللہ اکبر تحریر ہے.تعمیرات " شراء میں حضرت مسیح موعود کو الہام ہوا وسخ مكانك "دوبارہ یہی الہام حضرت خلیفۃ المسیح الثالث کو ۹۷ رو میں ہوا.دراصل یہ خدا تعا لیہ کی طرف سے ایک بشارت اور پیش گوئی تھی جو کام کے دگرگوں حالات میں جماعت
49 کو مستقبل کی خوشخبری کے طور پر عطا کی گئی.حضرت خلیفہ المسیح الثالث کو طبعا بھی عمارات تعمیر کروانے کا شغف تھا.چنانچہ قصر خلافت ( دار السلام النصرت) کی نو تعمیر شدہ عمارت کی تفاصیل بتاتے ANGULAR DESIGN کا بنوایا ہوئے جس کا نقشہ آپ نے خاص طور پر تھا اور اپنے ہاتھ سے بنائے ہوئے اپنے ذاتی گھر اصاحبزادہ مرزا انس احمد اور صاحبزادی امتہ الشکور کے گھر کا نقشہ دکھاتے ہوئے بھی مجھ سے فرمایا : - " میں آرکیٹکٹ ARCHITECT بھی ہوں نا ! " مرکز احمدیت ربوہ میں آپ کے دور خلافت میں مندرجہ ذیل عمارات کی تعمیر ہوئی : - بیت الا قصے - - خلافت لائبریری ۵ - سرائے محبت نمبرا ۲ دفتر فضل عرفاؤنڈیشن ۲.سرائے فضل عمر -- سرائے محبت نمبر ۲ گیسٹ ہاؤس انصار الله - سرائے خدمت (خدام الاحمد) - مخزن الكتب (احمدیہ بک ڈپو) 10- دار السلام النصرت (قصر خلافت) ۱۱ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری ۱۲ - زنانه مهمان خانه جلسه سالانه ۱۳ - مردانه مهمان خانه جلسه سالانه - - ۱۴ ۲۳ مارچ ایڈ کو اپنے دست مبارک سے اپنی زندگی کا آخری سنگ بنیاد صد سالہ احمدیہ جوبلی کے دفتر کا رکھا.آپ کے دور خلافت میں اندرون پاکستان کم و بیش ڈیڑھ صدیق و الصلوة
تعمیر ہوئیں.بیرون از پاکستان اڑھائی صد بیوت الصلوۃ اور تینتی کے قریب مشن ہاؤس قائم ہوئے.کل قریباً ۴۲۵ بيوت الصلوة ومشن ہا ؤس تعمیر ہوئے.الحمد للہ.(بحوالہ خالد ر بوه - سید نا ناصر دین نمبر)
ا دور ابتلاء ۱۹۷۲ء ۱۹۷۴ ۲۹ مئی ۱۹ء کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت جماعت کے خلاف ایک ملک گیر مہم کا آغاز ہوا.جگہ جگہ نفرتوں کی آگ پھیلائی گئی.جذبات بھڑکائے گئے اور احمدیوں کے اموال ٹوٹے گئے.جانیں لی گئیں.انہیں گھر سے بے گھر کیا گیا احمدی لٹ پٹ کر ، خستہ حال اپنے روحانی باپ کے پاس آتے اور واپس اس حال میں جاتے کہ ان کے چہروں سے طلال اور دکھ کی گرد و فصل چکی ہوتی اور چہروں پر مسکراہٹیں برفانی پانی کے نالوں کی طرح بہہ رہی ہوتیں.ء کے دورہ ابتداء میں آپ نے جماعت کی کشتی کو جس خوبصورتی ، جو صلے اور حکمت عملی سے ابتلاء کے پُر خطر راستہ سے گزارا مستقبل کا مورخ ہمیشہ اسے فخر کے ساتھ دہرائے گا.اس دوران آپکا ایک وہ روپ تھا جو افراد جماعت اور اہل دنیا نے دیکھا.بشاشت ، حوصله، قوت برداشت ، عزم ، استقلال ، جرأتِ بے مثال، توکل علی اللہ اور غیر متزلزل ایمان اور دوسرا روپ اس علیم اور دردمند انسان کا وہ تھا جسے صرف وہ خود جانتا تھا یا خدا تعالیٰ.اور وہ ہروپ تھا اس عاجز انسان کا جس کی تمام تر توجہ صرف اور صرف اپنے رب کے حضور اس مشکل وقت میں اپنی زمہ داریوں کی احسن سرنگ میں ادائیگی کی تو فیق.
۷۲ اور حضرت مسیح موعود کی امانت کی حفاظت کے لئے دعاؤں پر مبندول تھی.چنانچہ آپ نے مجھے بتایا کہ :.نہ کی تھی." ء میں میں نے تین دن تک منصورہ بیگم سے بھی کوئی بات آپ نے سارا وقت عاجزانہ دعاؤں میں گزارا اور تین ماہ کے اس عرصہ میں راتوں کو جاگ جاگ کر جماعت کے اس دُکھ کو دُور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کرتے رہے.آپ نے فرمایا.اس سارا عرصہ میں میں سکون سے سو نہیں سکا.قومی اسمبلی میں جولائی اگست منشاء میں آپ نے ۵۲ گھنٹے جماعت کے موقف کی وضاحت کے لئے گزار سے.آپ سارا وقت بڑے حوصلے کے ساتھ اعتراضات کے جواب دیتے رہے.اس تمام عرصہ میں اللہ تعالیٰ کی خاص تائید آپ کے شامل حال رہی.اس دور استیلاء میں ہونے والے جماعتی نقصانات کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے.یہ تفصیل میں نے ایک ڈائری سے خلاصتہ نقل کی ہے جو کہ حضور نے اپنی ذاتی الماری میں رکھی ہوئی تھی ۲۹ مئی تا ۲۳ اکتوبر مشاء کے فساد کیسے نقصانات فسادات سے متاثرہ مقامات :- کل تعداد : ۲۵۷ (۱) :- ، صوبہ پنجاب : ۳۰۰ - صویر سندھ
1 1 1 1 1 ۷۳ ۳ - صوبہ سرحد :- 6 ۲۲ - صوبہ آزاد کشمیه : - ۲۳ -۲- شهداء :- -- گوجرانوالہ : - - ٹوپی : - کل : - 1.۵ - خوشحالہ آباد شکر ہے : ۲ ۴- صوبہ بلوچستان: ۴ ۳۵۷ کل تعداد :- ۲ - کولہو دال (گوجرانوالہ) :- ۲ ہم - بالا کوٹ :- حافظ آباد : ٹیکسلا :- 1 یشاور :- ۹ - ایبٹ آباد - 1 ۱۰.کوئٹہ :.- جہلم : I 1 ۱۲- حیدرآباد :- ۱۴- کنری (سندھ) ۱۳- ریده :- 1- تهال : - کل تعداد شهداء : - ۲۸ -۳- زخمی :- زخمی :- ۲۲۹ ۴ گرفتار :- 100 دا، گرفتار (بیرون ریوه ) :- (۲) گرفتار (از ریوه : ۲۴۴ - : كل
۷۴ ۵:.متاثرہ عبادت گاہیں :- دار متاثرہ عبادت گاہیں :.۴۵ ۲، قبضہ شدہ عبادت گاہیں:.۱۳ کلا - ۵۸ 4 - متاثرہ لائبر سیریات :- لائبریر یات :- نقل مکانی : ۲۴ ۲۲ مقامات سے احمدیوں کو مجبوراً نقل مکانی کرنی پڑی.- احمدیہ مشن ہاؤس جنہیں تباہ کیا گیا :- احمدیہ مشن ہاؤس : ۳ ۹ - سوشل اور اقتصادی بائیکاٹے :- جن مقامات پر احمدیوں کا سوشل اور اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا :- 166 كل تعداد : -
وفات حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ ر دسمبر شاہ کو حضور کو اپنی حرم کی اندوہناک وفات کا صدمہ برداشت کرنا پڑا.انسانی فطرت ساتھی کے سہارے کی محتاج ہے.ایک روز آپ نے مجھ سے فرمایا کہ : جب حضرت اماں جان اور امی جان (حضرت ام ناصر صاحبہ ، کی وفات ہوئی تو منصورہ بیگم میرے ساتھ تھیں لیکن جب ان کی وفات ہوئی تو میرے ساتھ کوئی نہ تھا کہ اس عظیم صدمہ کے موقعہ پر بھی آپ نے اپنے رب کی رضا پر سرتسلیم خم کیا.اور کمال حوصلہ سے اس صدمہ کو برداشت کیا.عت ثانی حضور نے اپنی حرم کی وفات کے بعد خالصتا دینی اغراض کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکم کے تحت نکاح ثانی کرنے کا ارادہ فرمایا.اس سلسلہ میں آپ نے چالیس روزہ دعائیں کیں جو کہ ۲۵ فروری شار تاه را پریل شاہ جاری رہیں.جماعت کے تین بزرگ افراد سے بھی آپ نے سات روز تک دعائیں کر کے استخارہ کرنے کے لئے فرمایا.ہ را پریل شاعر کی شام کو آپ نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اذن پا کر شادی کا پیغام تحریر فرمایا اور اسے 4 اپریل کے شروع ہو جانے کے بعد کھولنے کے لئے ارشاد فرمایا.۱ را پریل کو ہماری شادی ہوئی اور ۱۲ راپریل کو
<4 قصر خلافت کے لان میں دعوت ولیمہ دی گئی.شادی خاص طور پر انتہائی سادگی سے کی گئی.صرف دس آدمی برات کے ساتھ آئے اور میرے والدین کو بھی صرف میرے بہن بھائیوں کو ہی شادی پر بلوانے کے لئے ارشاد فرمایا.خطیہ نکاح میں آپ نے فرمایا : - ہر انسان جو اس جہان میں پیدا ہوتا ہے ایک دن اس جہان کو چھوڑ بھی دیا ہے.کبھی خاوند پہلے چلا جاتا ہے اور بیوی پیچھے رہ جاتی ہے کبھی بیوی پہلے چلی جاتی ہے اور خاوند پیچھے رہ جاتا ہے جو لوگ خدا تعالیٰ کے پیار سے ہیں ان کی اس اجتماعی زندگی دیعنی میاں بیوی کی زوجین کی زندگی پر اگر نظر ڈالیں تو ہم اچھی طرح جانتے ہیں اور شناخت کرتے ہیں کہ رہنے والی نے اس مشن کو اکیلا رہتے ہوئے بھی پوری طرح ادا کیا جو ہر دو پہلے پورا کر رہے تھے.اگر خاوند رہ جائے اکیلا ، تو چونکہ ذمہ داری کا بعض لحاظ سے خاوند پر زیادہ بوجھ پڑتا ہے.اس لئے یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ایک ساتھی ہو جو ہاتھ بٹائے اور فکریوں کو دور کرنے والا اور تسکین پیدا کر نیوال اور طمانیت پیدا کرنے والا ہونا پھر سادگی کے ساتھ شادی کرنے کے ضمن میں فرمایا : - یہ وقت ہے ایک عظیم مہم کا.اتنی ٹیری لڑائی انسانی زندگی میں تلوار سے نہیں دلائل کے ساتھ اور دعاؤں کے ساتھ نوع انسانی کی تاریخ میں کبھی نہیں لڑی گئی جتنی آج لڑی جا رہی ہے.کیونکہ "
LL مد صلی اللہ علیہ وسم کو جو بشار نہیں لی تھیں ان کے عروج کا زمانہ آگیا ہے اس وقت سب کچھ بھول کہ ہمیں میں ہنستے مسکراتے خدا تعالیٰ کے فضلوں کے نتیجہ میں خوشیاں ہمارے چہروں سے یوں یہ کر آ رہی ہوں جس طرح پہاڑ سے برفانی پانی کے نالے بہہ کر آرہے ہوتے ہیں.اور آگے بڑھتے چلے جاؤ.SITTINGS حضور نے کن حالات میں کن ضروریات کے پیش نظر عقد ثانی فرمایا ، اور اس عقد کی واقعاتی تفاصیل کو میرے علاوہ کسی اور کے لئے پوری طرح سے بیان کرنا ممکن نہ ہوگا.اس لئے مناسب ہوگا کہ میں مختصرا اس کی تفصیل یہاں بیان کر دوں.فروری 9ء میں حضور نے میرے بھائی کرنل ایا نہ محمود احمد خاں کو جو ان دنوں پنڈی میں قیام پذیر تھے اسلام آباد اپنے پاس بلایا اور فرمایا کہ میں نے تم سے ضروری بات کرنی ہے.اس کے لئے تمہارے ساتھ دو کروں گا.ان ملاقاتوں میں سب سے پہلے آپ نے فرمایا کہ عیسائیت میں قربانی کا یہ تصور ہے کہ عورتیں NUNS بن جاتی ہیں.لیکن اسلام اس سے مختلف قربانی کا تصور پیش کرتا ہے.پھر حضور نے حضرت خدیجہ کی وفات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت عائشہ صدیقہ شے سے شادی فرمانے کا ذکر فرمایا.اس گفتگو کے دوران حضور نے حضرت مصلح موعود کی تمام شادیوں اور ان کے پس منظر میں موجود ضروریات کا ذکر کبھی فرمایا.بعدہ حضور نے حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی وفات کے بعد اپنے لئے شادی کی ضرورت کو بیان فرمایا.یہ ساری باتیں تفصیلاً بیان کرنے کے بعد آپ نے میرے رشتے کے لئے اپنے منشاء کا اظہار فرمایا اور میرا اور میرے والد کا متوقع جواب کیا
۷۸ ہوگا اس کے متعلق ان سے استفسار فرمایا.حضور نے فرمایا کہ آپ کا ارادہ اللہ تعالیٰ کے حضور ہم روزہ کے لئے استخارہ کر نے کا ہے اور پھر اگر اللہ تعالیٰ نے اس رشتہ کی اجازت دے دی تو آپ باقاعدہ پیغام بھجوائیں گے.حضور نے فرمایا کہ اس دوران دیعنی ائن.ہم دنوں میں) میں بھی دعائیں کروں اور اس غرض کے لئے ہوسٹل سے گھر آجاؤں.چنانچہ میں ۲۲ فروری کو ربوہ آگئی.حضور نے میرے بھائی سے فرمایا کہ تم میرے نمائندہ ہو گے اور میں اور تم ایک فریق ہوں گے.اور طاہرہ اور اس کی امی اور ابا دوسرا فریق ہوں گے.وہ اپریل کو ۴۰ روزہ استخارہ کی مدت ختم ہوئی تو پوری طرح سے شرح صدر ہونے کے بعد اسی روتہ مغرب کی نماز کے بعد آپ نے شادی کا پیغام تحریر فرمایا.اور اسے بھجواتے ہوئے یہ تاکید فرمائی کہ رات بارہ بجے کے بعد یعنی 4 اپریل کو ایسے کھولیں.میں ایک بات یہاں اچھی طرح سے واضح کرنا چاہتی ہوں اور اسحا کی وضاحت کے لئے یہ تفصیل لکھ رہی ہوں اور وہ یہ کہ حضور کی یہ خواہش تھی کہ میں یہ فیصلہ قطعاً کسی قسم کے دباؤ کے بغیر کروں.یہی وجہ تھی کہ حضور نے جب ہم روزہ دعاؤں کے دوران مجھے بھی دعا کرنے کے لئے کہا تو اس میں دعا کر نے کے علاوہ یہ حکمت بھی تھی که اس عرصے کے دوران یک آزادی سے اس معاملہ کے بارہ میں ذاتی طور پر سوچ بھی ہوں.کیونکہ اس وقت تک میرے والدین کو بھی اس تجونیہ کا علم نہ تھا.اور صرف میرے بھائی کے ذریعے مجھے آپ کے منشاء کا علم ہوا.میرے والدین نے بھی تجھے اس بات کی مکمل آزادی دی کہ میں یہ فیصلہ اپنی مرضی سے کروں چنانچہ میری والدہ
69 نے مجھ سے واضح طور پر کہا کہ اس رشتہ کو قبول کرنا بہت بڑی ذمہ داری کی بات ہے اس لئے تم اس بات کی بالکل پرواہ نہ کرنا کہ ہماری کیا رائے ہے اور پوری آزادی سے اپنا فیصلہ کرو.چنانچہ میں واضح اور بر ملا طور پر اس بات کا اظہا نہ کروں کی کہ حضور شادی کا فیصلہ میں نے مکمل طور پر اپنی مرضی سے کیا.حضور اس معاملہ میں بہت حساس تھے.شادی کے بعد شروع میں کئی بار مجھ سے پوچھا.تم اپنے فیصلے پر چھپتا تو نہیں رہی ہے چونکہ حضور نے اس معاملہ - میں پوری شرعی احتیاط بہتی تھی اور یہ شادی محض اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کی رضا کے لئے کی تھی اس لئے جب کبھی حضور کو محسوس ہوتا کہ کسی نے عمر کے تفاوت کی وجہ سے معترضانہ رنگ میں بات کی ہے تو آپ کو بہت تکلیف ہوتی.اور میرا اس تفصیل کے بیان سے یہی مقصد ہے کہ تا آنے والے وقت میں ہمیشہ کے لئے یہ بات واضح ہو جائے کہ یہ شادی حضور نے کلیتہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور رضا سے کی اور میں نے اس رشتہ کو بغیر کسی دباؤ کے شائبہ کے اپنی خوشی کے ساتھ قبول کیا.مناسب ہوگا کہ میں حضور کا پیغام اور وہ جواب جوئیں نے اپنے والد کو سکھا یہاں نقل کر دوں.حضور کا پیغام یہ تھا : - مکرم و محترم عبدالمجید خان صاحب السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ذاتی حیثیت میں اپنے رب کریم کا یہ عاجز بندہ بقیہ زندگی بغیر
شادی کے بھی گزار سکتا تھا.لیکن جماعتی ذمہ داریاں ایک وفادار، اختیار پیشہ ، ہمت و عزم والی واقفہ ساتھی کا تقاضا کرتی ہیں جو خلافت کے کاموں میں ممد و معاون ہو.اس سلسلہ میں جو دعائیں کروائیں اور کیں اس کے نتیجہ میں بہت سی بشارتیں ملیں.ہونے والی ساتھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے بھر پور حصہ لینے والی ہوگی.اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے شادی کی اجارت بھی دی گئی.عزیزم لقمان کو اس کی امی نے خواب میں یہ بھی بتایا کہ غز نیزہ طاہرہ " اچھا رشتہ ہے.ان سب باتوں کی روشنی میں میں پورے انشراح اور کامل بشاشت کے ساتھ عزیزہ طاہرہ خان کا رشتہ آپ سے مانگتا ہوں.امید ہے کہ عزیزہ طاہرہ کی امی اور آپ بھی اسی بشاشت کے ساتھ اسے قبول کریں گے.جزاکم اللہ (دستخط ) خلیفة المسیح الثالث ۵۴ - ۲ - میں نے جو خط اپنے والد کے خط کے جواب میں لکھا وہ یہ تھا : - بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى على رسوله الكريم و على عبد جا اسیح الموعود ہر اپریل ۱۹۸۲ پیارے ابا جی ! السلام علیکم در حمہ اللہ وبرکاتہ
مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ کیسے لکھوں.تکلفات کی بجائے میں بالکل صاف بات آپ کو بتادوں کہ جب آپ سب مجھ سے ہاں کا پوچھتے ہیں تو مجھے عجیب لگتا ہے.کیونکہ انکار کا تو میرے دل میں ایک سیکنڈ کے لئے بھی خیال نہیں آیا.یہ اس لئے نہیں کہ میں بہت مخلص ہوں بلکہ اس لئے کہ خدا تعالٰی نے جیسی میری طبیعت بنائی ہے اس کے لئے یہ بہترین سے بھی بہتر ہے.د عمادی کے دوران مجھے شدید خوف اس بات کا رہا کہ میں اللّہ تعالی مجھے رد نہ کر دے.اور جب یہ خوف بہت زیادہ بڑھ جاتا تو میں اپنی بہت کے مطابق دعا کرتی اور ہمیشہ ہی زیادہ خوف کے بعد مجھے ایسی خواب آجاتی جسے میرے دل کو اطمینان ہو جاتا.- یں خُدا تعالیٰ کے اس فضل اور احسان پر بے انتہا خوش ہوں کہ انی مجھے قبول کر لیا.میرے لئے دُعا کرتے رہیں کہ اب پکڑ کر کہیں وہ مجھے چھوڑ نہ دے.اور اپنے ان فصلوں کے قابل خود ہی مجھے بنا دے جس کے میں لائق نہ تھی.والسلام طاہرہ شادی کے بعد ایک مرتبہ حضور نے مجھ سے فرمایا :- " میرے لئے ضروری تھا کہ میں جس سے شادی کرتا اسے بچین ! سے جانتا ہوتا "
۸۲ حضور کے ساتھ میرا تعلق بیوی کی حیثیت سے اگر چہ بظاہر صرف دو ماہ کے قلیل عرصہ تک رہا.لیکن یہ تعلق اس قدر گہرا ، اس قدر مضبوط ، اس قدر پیار سے بھر پور اور اتنا بے تکلف تھا کہ بیسیوں سال پرانے رشتے بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے.حضور نے شروع دن سے ہی مجھ سے یہ فرمایا کہ دیکھو میرے ساتھ تکلف بالکل نہیں کرنا جب تک بے تکلفی نہیں ہو گی ہم اپنا کام صحیح طور پر نہیں کر سکتے میرے پاس تمہاری TRAINING کے لئے صرف ڈیڑھ دو ماہ ہیں.اس عرصہ میں میں نے تمہاری مکمل تربیت کرنی ہے.میں تمہیں اپنی ذات کے اندر اس طرح FITIN کرلوں گا جس طرح NUT کے اندر SCREW فٹ ہو جاتا ہے حضور کی خواہش تھی کہ میں جلد سے جلد تربیت حاصل کر کے خدمت دین حق میں آپ کا پورا پورا ساتھ دوں.مجھے سکھاتے بھی تھے اور جب میں آپ کی خواہش کے مطابق کوئی کام کرتی تو بہت خوش ہوتے اور حوصلہ افزائی فرماتے.حضور میں یہ خاص بات دیکھی کہ چھوٹی سے چھوٹی خوبی کو بھی ضرور APPRECIATE فرماتے.حضور کا حسن سلوک اپنے اہل خانہ کے ساتھ قابل رشک حد تک خوبصورت تھا.مجھے وہ الفاظ نہیں ملتے جن سے میں اس کا نقشہ کھینچ سکوں.لیس انشا کہ سکتی ہوں کہ چاروں طرف پیار ہی پیار تھا.شفقت ہی شفقت تھی اور اس کے سوا کچھ بھی نہ تھا.اتنا گہرا اور شدید پیار اور انی شفقت کہ عام انسان تو اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا.کب اوقات میں خود حیران رہ جاتی تھی.
۸۳ میری تربیت کا ہر چھوٹی سے چھوٹی بات میں بھی خیال رہتا لیکن ہر بات اتنے پیار سے اور نرم اندازہ سے کہتے کہ مجھے برا محسوس نہ ہوتا.جذبات کا خیال بڑی باریکی سے رکھنے بعض اوقات میں نے وہ بات محسوس بھی نہ کی ہوتی تھی لیکن حضور کو اس کا احساس ہوتا کہ شاید اس نے محسوس کیا ہو اور خود ہی اس کا ازالہ کرنے کی کوشش فرماتے.زندگی کے ہر پہلو پر جب میں نظر ڈالتی ہوں تو یہی محسوس کرتی ہوں کہ حضور اس کے لیے میری کسی نہ کسی رنگ میں ضرور رہنمائی فرما گئے ہیں.شروع شروع میں جب میں نے گھر والوں سے اور دیگر لوگوں سے ملنا جلنا شروع کیا تو حضور نے مجھے نصیحت فرمائی کہ دیکھو نکر نہیں کرنا لیکن وقار سے رہنا.“ پردے کا انتہائی خیال تھا اور اس ذمہ داری کا احساس مجھ میں پیدا فرماتے تھے کہ جماعت کی عورتوں کے لئے تم نے ایک نمونہ بننا ہے.چنانچہ شادی سے پہلے اگرچہ پر وہ تو میں کرتی تھی لیکن وہ اتنا مکمل نہ تھا.جتنا کہ اُسے حضور کے نزدیک ہونا چاہیئے تھا.چنانچہ شادی کے بعد میں پہلی دفعہ جب اپنی امی کی طرف گئی تو واپسی پر حضور ساتھ تھے ہیں پردے کے لئے بینک کا استعمال نہ کرتی تھی.حضور فرمانے لگے ”تمہاری عینک کہاں ہے ؟“ میں نے کہا وہ تو گھر ہے.فرمانے لگے اچھا پھر دونوں نقاب گرالو.اور پھر جب ہم پہلی بار اسلام آباد گئے تو حضور نے خود پسند فرما کر میرے لئے گہرے رنگ کے شیشوں والی عینک بنوائی اور اس بات کا خاص خیال رکھا کہ کہیں اس میں سے آنکھیں نظر تو نہیں آتیں.
۸۴ دستانوں کے متعلق مجھ سے فرمانے لگے کہ منصوره میگیم صاحبہ (نور اللہ مرقدہا پر دے کی خاطر دستانے پہنا کر تی تھیں.مجھ سے فرمایا کہ حمید (میرے بھائی جو انگلینڈ میں قیام پذیر ہیں) سے کہو کہ وہ تمہارے لئے دستانے لے کر ایر پورٹ پر پہنچے.پردے کا اتنا زیادہ خیال تھا کہ میں جب درزی سے اپنے کپڑے سلوانے کے لئے نمونہ دیکھ رہی ہوتی تو اس وقت بھی یہی فرمایا کہ ایسے ڈیزائین ہونے چاہئیں جن سے کسی قسم کی بھی بے پردگی نہ ہو.غرض یہ کہ میری اعلیٰ ترین تربیت کا ہر وقت خیال رہتا.ایک دن از راه حوصلہ افزائی فرمانے لگے.میں اس ہیرے کو ہزاروں پہلوؤں سے اس طرح چمکانا چاہتا ہوں کہ دنیا جس طرف سے دیکھے اس میں چمک ہی چمک نظر آئے.پھر فرمانے لگے : ” میری یہ خواہش ہے کہ تاریخ یہ لکھے کہ اس شخص کی زندگی میں دو عورتیں آئیں اور دونوں ہی عظیم.میں سوچتی ہوں اگر ہر خاوند کے دل میں اتنی اعلیٰ اور ارفع خواہشات اپنی بیوی کی تربیت کے لئے پیدا ہو جائیں تو پھر عورتوں کی تربیت کا مسئلہ باقی ہی نہ رہے کیونکہ یہ حقیقت ہے کہ عورت کی فطرت میں بنیادی طور پر یہ بات موجود ہے کہ وہ اپنے خاوند کو اپنے سے خوش دیکھنا چاہتی ہے.اور اگر وہ اسے صحیح اور بھر پور پیار دے تو یقیناً وہ اُس کی خوشی کی خاطر اس کی ہر بات ماننے کو تیار ہو جاتی ہے.پھر یہ آگے مرد کا کام ہے کہ وہ اس کو صحیح راستے کی طرف راہنمائی کرے.الرجال قوامون على النساء کا ایک مطلب یہ بھی ہے.
۸۵ پردے کی آپ انتہائی احتیاط برتے تھے.ایک انگریز خاتون نے ہماری شادی کی مبارکباد کے خط میں لکھا کہ مجھے تین وجوہات کی بناء پر اس شادی کی بہت خوشی ہے.اور ایک وجہ یہ کبھی کہ وہ نوجوان ہیں اندر ہمارے مسائل کو سمجھ سکیں گی.اس پر آپ نے تبصرہ فرمایا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ تم شاید پر د سے میں ان کے لئے ڈھیل کر وا دوگی.(اور یہ بات آپ کو پسند نہ آئی.آپ ہر طرح کے پردے کا بہت خیال رکھتے.مجھ سے فرما یا کہ میرے گھر کے مردوں سے تمہارا ویسے پردہ تو نہیں ہو گا لیکن گھونگھٹ کا پردہ ہوگا.اور پھر ایک روز بڑے پیار سے میرا ددیہ ماتھے سے ذرا آگے تک لاتے ہوئے فرمایا.یوں دوپٹہ لیا کرد.میرے گھر کے مرد کیا کہیں گے حضرت صاحب کی ہوی دوپیہ بھی اچھی طرح نہیں لیتیں " میں نے بے اختیار کہدیا.اب آپ مجھے بالکل ہی مائی تو نہ بنا دیں " میرا یہ جواب سن کر آپ خاموشی سے مجھے دیکھتے رہے.ایک روزہ میرے نئے کپڑے سل کم آئے تو ایک قمیص کا گریبان نسبتاً کھلا بن گیا.میں نے جب وہ قمیض پہنی تو آپ نے فرمایا اس کا گلا کھلا ہے.یہ گھر میں تو پہن لو لیکن باہر نہ پہننا.اگلے روز میں تیار ہوئی تو میں نے ایسی قمیص پہنی ہوئی تھی جس کا گلا بت اور ہائی نیک طرز پر تھا.آپ غسل خانے میں سے باہر آئے تو یں.DRESSING ROOM میں کھڑی تھی.مجھ پر نظر ٹوپی تو ایک دم خوش ہو کر فرمایا :- تم نے میری بات کا خیال رکھا اور میری اس تمھیں کے گلے کو پسند فرمایا.
ہماری شادی پر آپ نے ہر طرح سے سادگی کا بہت خیال رکھا.بری بھی بالکل سادہ تھی.ایک روزہ بری کے زیور کے سیٹ کے متعلق کچھ اس قسم کا اظہار فرمایا کہ وہ ہلکا تھا ، یا شاید کم تھا.میں نے کہا اچھا کیا جو آپ نے زیادہ زیور نہیں بھیجوایا.اس میں میری INSULT تھی.آپ خاموشی سے مجھے دیکھتے رہے میں نے وہ سیٹ پہنا تو فرمایا.اچھا ہے نا ! اس کے ساتھ جو کڑا تھا وہ آپ کو بہت زیادہ پسند آیا.پھر ایک روز مجھ سے کہنے لگے :- " خان صاحب میرے جیسے زمیندار ہیں.اتنا زیادہ زیور تم نے کہاں سے لیا یا کیسے لیا؟ میں نے جواب دیا.میرا یہ کنگن رجوئیں نے اس وقت پہنا ہوا تھا ، اور اسکی ساتھ کا ہار تحفہ ہے.باقی سب زیور میرا اپنا ہے.میں کپڑے سلوانے کے لئے ایک انگریزی رسالے میں ڈیزائن دیکھ رہی تھی رجو آپ نے مجھے خود دیا تھا، آپ پاس بیٹھے ڈاک دیکھ رہے تھے.فرمایا : - زیادہ ننگ دھڑنگ ڈیزائن نہ دینا " " درزی نے بعض کپڑے زیادہ ہی کھلے سی دیئے.میں نے نقص نکالتے ہوئے انہیں دکھائے تو فرمایا.اب یہ ایسے ہی پہن لو آئندہ ہدایت دے دینا " زیادہ اُونچی ایڑی والے جوتے پسند نہ تھے.میرے ایسے ہوتے دیکھ کہ فرمایا.کیا تم نے اپنے جوتوں کے نیچے درختوں کے تنے کاٹ کر لگالئے ہیں ہموار ایری والے کھلی پر خر بدے تو انہیں پسند فرمایا.اس طرح زیادہ سنگھار کرنا بھی
۸۷ آپ کو پسند نہ تھا.اس لئے مجھے ہلکا سنگھار کرنے کے لئے فرمایا.شروع دنوں میں بھی جمعہ کی نماز پر جانے کے لئے ہلکا زیور پہننے کے لئے فرمایا.بیرونی سفر ނ پر جانے کے لئے مجھ سے فرمایا کہ ناصرہ بیگم (صاحبزادی ناصرہ بیگم ) مشورہ کر لینا کہ کون کون ساز اور ساتھ لے کر جاؤں.باہر جاتے ہوئے کیا متخالف لے کر جاتے ہیں اس کے لئے تسکری (عزیزہ صاحبزادی امتہ الشکور بیگم) سے مشورہ کر لیا ہوا عزیزه گگن (بنت صاحبزادی امتہ الشکور) جو اس وقت بہت چھوٹی تھی شادی کے چند روز بعد مجھ سے کہنے لگی کہ ہم آپ کو کیا ملایا کریں میں نے یہی سوال اس کے حوالے سے حضور سے پوچھا.مجھے کہنے لگے آسٹریلینز نے اپنی زبان میں آٹھ ہزار نئے الفاظ کا اضافہ کیا ہے.جن بچوں کی تم نانی لگتی ہو وہ تمہیں ناپا زنانی آپا سے ملا لیا کریں.اور جن کی دادی وہ دایا " بلا لیا کریں.اپنے بچوں سے انہوں نے مجھے" آپا کہنے کے لئے ارشاد فرمایا.میں نے ایک روز اسلام آباد میں پوچھا کہ میں عزیزہ شکری وغیرہ کو کیا بلا یا کروں ، فرمانے لگے تم کہا کر ور بہت لاڈ سے " شکری بیٹی !" گھوڑے کی سواری کا مجھے بچپن سے ہی بہت شوق تھا.میں نے حضور سے ذکر کیا.چنانچہ ایک روز شام کے وقت حضور مجھے اپنے ساتھ اصطبل میں لے کر گئے اور سب گھوڑے باری باری دکھائے.گھوڑوں سے بے انتہا پیار فرماتے تھے.ہر ایک سے یوں پیار سے باتیں کرتے جیسے کسی انسان سے بات کر رہے ہوں.سب کو باری باری اپنے ہاتھ سے چارہ بھی کھلاتے اور پھر دو بہترین عرب
AA گھوڑوں پر سوار سے سواری کر دا کر دکھائی.میں نے ایک عربی گھوڑے کی خاص نمایاں بات جو اس وقت مجھے نظر آئی عرض کی میں نے کہا اس کے مسلمہ MUSCLES بہت TENSE بہت TENSE میں میری توجہ اُس کی ٹانگوں کے نچلے پچھوں پر تھی.چند دن بعد حضور عربی گھوڑوں پر لکھی ہوئی ایک انگریزی کتاب مجھے دکھانے لگے مصنف نے عرب گھوڑے کی اُسی نمایاں خوبی کا ذکر کیا ہوا تھا.EVERY MUSCLE TENSE WITH POWER AND ENERGY پڑھ کر بہت خوش ہوئے اور فرمانے لگے ، دیکھو اس نے بھی تمہارے والی بات لکھی ہے.پھر ایک روز مجھے گھوڑوں سے متعلق ایک کتاب میں سے ہے.مضمون نکال کر دیا جو کہ ایک لڑکی کی کہانی تھی.حضور کو جو بات اس میں پسند تھی اور جس کی خاطر مجھے اس مضمون کو پڑھنے کے لئے دیا وہ اس لڑکی کے ارادے کی پختگی اور استقلال اور محنت بھی.10 منٹ مجھے دیئے کہ ان میں اس مضمون کوختم کرو.شادی پر حضور نے تین دن کے لئے دفتر سے چھٹی کی.فرمایا میں نے سترہ سال میں پہلی مرتبہ چھٹی لی ہے آپ کی شخصیت بہت ہی دل آدینا اور حسین تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو ظاہری اور باطنی دونوں قسم کے حسن سے بھر پور انداز میں نوازا تھا.آپ دوسرے انسانوں کے حسن کو بھی پہچانتے تھے اور اس کے دلدادہ تھے.آپ کی شخصیت کی بعض خوبیاں بہت نمایاں تھیں.محبت آپ کی شخصیت کا نمایاں ترین وصف تھا.محبت کے اسی گہرے جذبے کی عکاسی کرتا ہوا آپ کا یہ قول ہے جیسے اپنے
19 اور غیر سبھی بے ساختہ سراہتے ہیں.یعنی محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں اور آپ کی زندگی کا لمحہ محہ اس قول کی سچی تصویر ہے.بے انتہا محبت فرماتے لیکن محبت کو جنانا پسند نہ تھا.خاموشی سے گہری محبت کرتے چلے جاتے.آپ کی ذات ایک خاموش سمندرکی مانند تھی جو کہ انتہائی سکون سے بہہ رہا ہو اور اسکی گہرائی کا کسی کو انداندہ نہ ہو.یں اپنے گھر میں سب سے چھوٹی تھی اس لئے اپنے والدین کا بھی بے پناہ پیار مجھے حاصل رہا.اور بڑے بہن بھائی چونکہ عمر میں کافی بڑے ہیں اس لئے ان کی طرف سے بھی انتہائی پیار ملتا رہا.اپنے ارد گرد کے ماحول سے بھی ہمیشہ محبتیں ہی ملتی رہیں لیکن میں بالکل سچ کہتی ہوں اور دل کی گہرائی سے یہ بات محسوس کرتی ہوں کہ چاروں طرف سے ملنے والے اس بے حساب پیار کے مقابلہ.میں حضرت صاحب کی طرف سے ملنے والا پیار پھر بھی زیادہ تھا.جب پہلی مرتبہ ہم اسلام آباد گئے تو ایک روز ہم ناشتے کی میز پہ بیٹھے تھے.رتی آئیں.وہ ان دنوں پنڈی آئی ہوئی تھیں.میں انہیں فون بھی نہ کر سکی.انہیں مجھ سے شکوہ تھا.مجھ سے کہا یہ لگتا ہے تمہیں اتنا پیار ملا ہے کہ ماں کا پیار بھی بھول گئی ہو یا حضور پاس ہی بیٹھے تھے.پوچھنے لگے کہ امی کیا کہ رہی ہیں.میں نے بتایا تو مسکرائے.ان کے جانے کے بعد بار بار مجھ سے پوچھا کہ اچھا تو پھر امی کو تم سے کیا شکوہ تھا اور ان کی بات دہرا کہ ہفتے رہے.آپ اس بات سے لطف سے
9.رہے تھے کہ میں واقعی اسے ماں باپ سے زیادہ پیار دینے میں کامیاب ہو گیا ہوں.اور یہ حقیقت تھی.آپ نے خود بھی مجھ سے فرمایا کہ : - جتنا پیار ہیں تم سے کہتا ہوں دنیا میں اور کوئی اتنا نہیں کر سکتا.مجھے شادی سے پہلے پیغام بھیجا کہ اسے کہنا کہ بے شک مجھ سے کبھی کبھی لڑ تھی لیا کہ سے کیونکہ اسی میاں بیوی میں پیار بڑھتا ہے.پھر شادی کے بعد بھی مجھ سے یہ بات کئی دفعہ کہی اور ہوتا ہوں کہ اگر میں کسی بات پر ناراض ہوتی یا مجھے غصہ آتا تو فوراً ہی بات کو یوں پلٹ دیتے اور اس کی ایسی وضاحت کرتے کہ میرا غصہ ختم ہو جاتا اور اس کے فوراً بعد آپ مجھ سے سوال کرتے یہ تمہارا پیار بڑھا ، اور ایسا کئی مرتبہ ہوا.آپ کی محبت اتنی گہری اور اپنے اندر اتنی وسعت رکھتی تھی کہ آپ کا میرے ساتھ گزرا ہو کوئی لمحہ ، کوئی واقعہ بھی ایسا نہیں جس میں اس کی خوشبو نہ رچی ہو.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ بھی ڈالتا ہے وہ ثواب کا مستحق ہے.چنانچہ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ آپ ناشتہ کرتے ہوئے اپنے ہاتھ سے انتہائی محبت سے میرے منہ میں لقمہ ڈالتے.ناشتے پر آپ انڈے کا استعمال فرماتے تھے.مجھے پسند نہ تھا اور پراٹھے کا بھی شوق نہ تھا.اس لئے میں اپنے لے پھل کا پکواتی اور اسے ہلکا چپڑ کر کھاتی آپ نے مجھ سے کہا کہ تم بھی اپنے لئے انڈا بنوایا کرو.میں نے کہا مجھے پسند نہیں.لیکن آپ کو یہ برداشت نہ تھا کہ آپ کھائیں اور میں نہ کھاؤں.چنانچہ آپ کا روزانہ کا معمول تھا کہ آپ ضرور اپنی پلیٹ میں سے کچھ SCRAMBLED EGG
۹۱ میری پلیٹ میں ڈالتے اور مجھے لانگا وہ کھانا ہوتا.چونکہ باورچی ہمارا ناشتہ پہلے سے بنا کر HOT PLATE پر رکھ جاتا تھا اس لئے چند مرتبہ ایسا ہوا کہ میری چپاتی با لکل اکٹر چکی تھی.میں کسی ناپسندیدگی کا اظہار کئے بغیر اسے کھا رہی تھی لیکن آپ کی طبیعت بہت حساس تھی.مجھ سے کہنے لگے '' مجھے فکر ہے کہ میں تمہیں ناشتہ اچھا نہیں دے رہا " رات کو سونے سے پہلے آپ کو دودھ پینے کی عادت تھی اور میں آپ کے لئے روزانہ دودھ کا ایک مگ کمرے میں رکھتی.مجھے تب دور جو بالکل پسند نہ تھا.آپ نے مجھ سے کہا تم اپنے لئے بھی دودھ رکھا کر و.میں نے کہا مجھے اچھا نہیں لگتا.آپ نے مجھے اپنے منگ میں سے پینے کے لئے کہا.میں نے ایک گھونٹ پیا.آپ نے فرمایا.اور پیو.اور پھر یوں کرتے کرتے چار گھونٹ پلوائے.دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا.میں پہلے سمجھی کہ شاید ایک دو دن کی بات ہے.لیکن آپ نے روزانہ دودھ پینے سے پہلے مجھے کہنا کہ تم پیو اور چار گھونٹ پلوانے.پھر جب مجھے اندازہ ہو گیا کہ یہ تو روزانہ پینا پڑے گا تو میں نے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لینے شروع کردیے.لیکن مجھے ہمیشہ ہی چار گھونٹ پینے پڑتے.اور آپ کی یہ خاص عادت میں نے دیکھی کہ آپ جو چیز بھی خود استعمال فرماتے ، خواہش رکھتے کہ میں بھی وہی استعمال کروں.کھانے پر اکثر آپ مختلف مشروبات استعمال فرماتے اور لازم تھا کہ جو آپ پلیٹیں وہی مشروب میں بھی پیوں.مجھے سیب چھیل اور کاٹ کہ دینے کے لئے فرماتے.جب میں تیار کر کے پلیٹ آپ کی طرف بڑھاتی تو آپ کا ہمیشہ کا معمول تھا کہ آپ نصف ٹکڑے اپنی طرف کر لیتے اور نصف میری طرف بڑھا دیتے اور فرماتے.کھاؤ " آہستہ آہستہ میں نے یہ بھی دیکھا کہ اگر چہ آپ
۹۴ منع نہیں کرتے تھے لیکن آپ کی خواہش ہوتی کہ جو چیز آپ نہ کھائیں وہ میں بھی نہ کھاؤں.شاید یہ آپ کی گہری محبت کا ہی ایک اندازہ تھا.مجھے بچپن سے ہی مرغ کی گردن پسند تھی اور میں ہمیشہ وہی کھاتی تھی.شادی کے بعد بھی میں نے اپنی عادت کے مطابق اپنی پلیٹ میں گردن ڈالی.- آپ نے دیکھا تو فرمایا " تم نے گردن لی ہے میں نے کہا." مجھے یہ پسند ہے " اس پر آپ نے فرمایا کہ مرغ کے گوشت میں سب سے اچھا گوشت گردن کا ہی ہوتا ہے کیونکہ اس کا ریشہ سب سے زیادہ باریک ہوتا ہے اور پھر اس روز کے بعد سے آپ کا یہ معمول تھا کہ گھر پر کھانا کھا رہے ہوں یا کسی دعوت میں ہوں آپ ہمیشہ ڈش میں سے پہلے گردن نکال کر میری پلیٹ میں ڈال دیتے اور اگرنٹے لوگ ساتھ ہوں تو یہ بھی فرما دیتے کہ انہیں گردن پسند ہے.آپ کو مرغ کی پشت کی ہڈی کی گہرائی میں واقع چھوٹی سی بوٹی پسند تھی.ایک روز مجھے وہ نکال کر دی اور اپنی پسند کا اظہار بھی فرمایا.پھر اتفاق سے جب ایک روز وہ میری پلیٹ میں آگئی تو میں نے آپ کی پسند کے پیش نظر آپ کو نکال کردی مجھ سے لیتے ہوئے مسکرا کر فرمایا : " اچھا آج میری باری ہے.روزمرہ زندگی میں ہونے والے معمولی واقعات کو بھی حسین بنا دیتے.ہم بھوربن (مری) سیر کے لئے گئے.وہاں آپ نے ایک ہاتھ کا بنا ہوا بیوہ جس میں الائچیاں اور خلال تھے مجھے دیتے ہوئے فرمایا." یہ بھوربن کا تحفہ" اور " فرمایا.یہ اپنے پرس میں میرے لئے ساتھ رکھا کر دیا اب اسی بات کو ایک خشک مزاج انسان صرف یوں کہہ دیتا کہ ان چیزوں کی مجھے سفر میں ضرورت ہوتی.پھر
۹۳ ہے یہ ساتھ رکھا کرو.لیکن آپ نے ایک عام سی بات میں بھی محبت کا رنگ بھر دیا.اور آپ کا یہ تحفہ آج بھی ایک خوبصورت یا د لئے ہوئے میرے اسی پرس (بیگ) میں موجود ہے.آپ نے مجھ سے فرمایا.میں تمہیں اکثر یوں چھوٹے چھوٹے تحفے دیتا رہوں گا.اور آپ مجھے یوں ہی کئی تحفے دیتے رہتے.ایک روز آپ دفتر سے آئے تو آپ نے ایک کرسٹل کا خوبصورت گلدان اور پیالہ مجھے دیتے ہوئے فرمایا.یہ تمہارے " لئے تحفہ ہیں یا میں خاموش رہی.میں اس وقت محبت کی ان باریکیوں سے بے خبر تھی.لیکن اب جب میں آپ کے ان تحائف کو دیکھتی ہوں تو درد اور لذت کے عجیب احساسات دل میں پیدا ہوتے ہیں.BOOK) - میں نے شادی سے پہلے ایک مرتبہ آپ کو اپنی آٹو گراف بک AUTOGRAPH) دعائیہ کلمات لکھنے کے لئے دی، آپ نے تحریر فر مایا :.بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيم نحْمَدُهُ وَنَصَلَى رَسُولِهِ نحمده ونصلى على رسوله الكريم: وعلى عبده المسيح الموعود خدائے مہربان اپنی رحمت بے پایاں سے حقائق اشیاء کا علم عطا فرمائے اور حسن بیان سے نوازہ سے ی“ دستخط از مریدا ناصر احمد خلیفة أسبح الثالث تاریخ ----- شادی سے قبل میرے پاس ایک پیسے جمع کر نے والی گڑیا تھی.میں ہوسٹل میں
۹۴ اپنی ریزہ گاری اس میں ڈال دیا کرتی تھی.شادی کے وقت میں وہ اپنی گڑیا ساتھ ہی سے آئی اور پھر ایک روز میں نے آپ کو دکھائی.آپ پلنگ پر بیٹھے تھے.آپ نے اپنی SIDE TABLE) سائیڈ ٹیبل کا درانہ کھولا اس میں سے ایک روپیہ نکالا اور میری گڑیا میں ڈال دیا.تھوڑے دن ہوئے میری ایک پرانی دوست جو کہ ہوسٹل میں میرے کمرے میں ہی رہتی تھیں ملنے آئیں تو اس گڑیا کا حال مجھ سے پوچھا.مجھے یہ سارا واقعہ یاد آ گیا.آپ کے چہرے کے تاثرات میں بیان کرنے سے قاصر ہوں.صرف انہیں یاد کر سکتی ہوں." دبعد میں میں نے وہ گڑیا اپنی ایک بھانجی کو فرسٹ آنے پر انعام میں دیدی تھی ) حضور اپنے کمرے میں اپنے لئے پانی کی تھرماس اور کٹوری رکھواتے تھے.اور وقتاً فوقتاً اس میں سے پانی پیتے.ایک روز آپ پانی پینے لگے تو کٹوری میں پہلے سے ہی کچھ پانی موجود تھا.وہ پانی میرا بچا ہوا تھا.آپ نے اسے منہ سے لگایا ہی تھا کہ میں بے اختیار یہ کہتے ہوئے آپ کی طرف بڑھی کہ " میرا جوٹھا.آپ مسکرائے اور فرمایا " تمہار سے اور میرے جوٹھے میں کوئی فرق ہے ؟ اور وہی پانی پی لیا.مجھے خوش دیکھتے تو خوشی محسوس کرتے اور اگر ذرا بھی خاموش ہو جاؤں تو فکر مند ہو جاتے.شادی کے دو تین دن بعد امی کی طرف سے فون آیا.آپ کرے میں بیٹھے تھے اور میں گیلری میں موجود فون پر باتیں کر رہی تھی.مجھے خیال نہیں تھا کہ آپ میری باتیں سن رہے ہیں.میری ایک بھتیجی نے پوچھا.آپ خوش ہیں یا میں نے کہا.ہاں خوش ہوں.اس نے کہا " بالکل ایکس نے جواب دیا " بالکل سے بھی زیادہ " آپ میرے جوابات سے ہماری گفتگو کا اندازہ کر چکے تھے.میں کمرے میں واپس آئی
۹۵ تو آپ بہت خوش تھے.کئی بار ہنستے ہوئے مجھ سے کہا."اچھا تو پھر آپ گل بل سے بھی زیادہ خوش ہیں“.مجھ سے کہتے جب تم خوش خوش تیار ہو رہی ہوتی ہو تو میں بہت ENJOY کرتا ہوں.ایک روز ناشتے پر میں کچھ خاموش تھی.آپ نے خاموشی کی وجہ پوچھی.کوئی خاص بات میرے ذہن میں نہ تھی.اس لئے میں نے کہا." کوئی بات نہیں ، آپ سمجھے شاید میں چھپا رہی ہوں.اس لئے اصرار فرمایا.جب میں نے کچھ نہ بتایا تو آپ کو رنج ہوا.اچانک آپ ناشتے کی میز سے اُٹھ گئے اور قدر سے ناراضگی سے فرمایا.اب اگلے دو گھنٹے تم مجھ سے بات نہ کرنا ہے اور غسل خانے میں تشریف لے گئے.میں کمرے میں آکر خاموشی سے بیٹھ گئی اور اس صورت حال سے حیران اور پریشان تھی.لیکن ابھی میں بیٹھی سوچ ہی رہی تھی کہ آپ فورا د معمول کی نسبت بہت جلدی واپس آگئے اور آکر میرے پاس بیٹھتے ہوئے فرمایا ” میں نے سوچا پتہ نہیں تمہارا کیا حال ہو رہا ہو گا اس لئے جلدی آگیا.ناراضگی کا شائبہ بھی نہ تھا بلکہ صرف محبت اور پیار ہی تھا.یہ واحد موقع تھا آپ نے مجھ سے کسی ناراضگی کا اظہارہ فرمایا جو کہ خود بھی چند لمحوں سے زیادہ برداشت نہ کر سکے.اسی طرح ایک روز اسلام آباد میں آپ کی آخری علالت سے قبل ایک روز یکی ناشتے پر خاموش تھی جس کا مجھے خود احساس نہیں تھا.جب ہم کمرے میں آئے تو آپ نے پوچھا تم خاموش کیوں ہو.میں نے کہا کوئی بات نہیں.میرے ذہن میں واقعی کوئی خاص بات نہیں تھی.آپ نے بار بار پوچھا اور میرے انکار پر آپ نے کہا " تم میرا وقت ضائع کر رہی ہوگا آپ نے دفتر جانا تھا ، اس پر میں گھر گئی اور میں
۹۶ نے پوری کوشش کی کہ میں انہیں کوئی جواب دے سکوں سو بے اختیار بغیر سوچے منہ سے یہ فقرہ نکلا کہ " مجھے اپنا آپ اکیلا لگتا ہے ، آپ میرا یہ جواب شن کمر خاموش ہو گئے.مجھے خریداری کے لئے کچھ رقم دی اور پھر تباہ ہو کر دفتر جانے لگے تو دروازے کے قریب میں نے آپ کو ایک منٹ کے لئے روکا اور پوچھا." آپ مجھ سے ناراض تو نہیں؟ فرمایا " ناراض میں تم سے کبھی نہیں ہوتا.آپ کے دفتر جانے کے بعد میرے دل پر بہت بوجھ رہا کہ آپ کے دل کو کہیں تکلیف نہ پہنچی ہو سو دو نفل پڑھ کر دعا کی کہ اللہ تعالیٰ دفتر میں بیٹھے بیٹھے ہی آپ کے دل کی تکلیف کو دور فرما دے اور آپ کو زیادہ دیر تکلیف نہ اٹھانی پڑے.آپ کے واپس آنے سے قبل میں نے آپ کی خاطر آپ کا پسندیدہ رسالہ نکال کر رکھا اور اسے دیکھ رہی تھی تو آپ واپس آئے.آپ کا چہرہ بہت بشاش تھا.آپ میرے پاس بیٹھ کر خوش دلی سے باتیں کرتے رہے.میں نے ان سے کہا کہ میں نے آپ کے جانے کے بعد دو نفل پڑھہ کہ اللہ میاں سے معافی مانگ لی تھی.فرمایا.شاباش تم بہت اچھی ہو".اور صبح کی بات کا آپ کے چہرے پہ مطلقاً بھی اثر نہ تھا بلکہ آپ کا رویہ معمول سے زیادہ لطف و مہربانی کا تھا.ایک روز مجھ سے فرمایا کہ منصورہ بیگم خود مجھے دفتر کے دروانے (اندرونی) تک چھوڑنے جاتی تھیں.اگلے روز جب آپ دفتر جانے لگے تو میں نے پوچھا کہ میں آپ کو چھوڑ آؤں ؟ فرمایا " نہیں ، لیکن نہیں کہنے کا انداز الیسا تھا کہ نہیں رہنے دو.کیا جانا ! اس لئے میں خود ہی آپ کو چھوڑنے کے لئے ساتھ چلی گئی.آپ کے چہرے کا اطمینان اور خوشی میں آج بھی نہیں بھلا سکتی.چہ
96 دل تو میرا بھی چاہتا تھا لیکن میں چونکہ ابھی نئی تھی اس لئے پتہ نہیں تھا کہ کیا بات پسند ہو گی اور کیا نہیں.اس لئے ہچکچاتی تھی.معمولی سی تکلیف اور دکھ کا بہت زیادہ احساس فرماتے اور خیال کرتے.ایک دفعہ رات کے وقت بیٹھے ڈاک دیکھ رہے تھے میری طبیعت تھوڑی سی خراب ہوئی.معدے میں جلن تھی.میں نے کوئی خاص پر واہ نہ کی.ایسے ہی بیٹھے بیٹھے ذکر کیا تو حضور فوراً اُٹھے اور مجھے ہو میو پیتھک دوا دی.دس دس منٹ بعد تین خوراکیں دیں.اور چہرے پر فکر کا تاثر.تھوڑی تھوڑی دیر بعد دریافت فرماتے کہ اب ٹھیک ہو.میں حیران تھی.نصف گھنٹے میں بالکل ٹھیک ہو گئی.طبیعت میں حلیم اور نرمی بہت تھی.کسی کو روتا ہوا انہیں دیکھ سکتے تھے مجھ سے بھی فرما تھے." میں تمہاری آنکھ میں آنسو نہیں دیکھ سکتا " مجھے ٹائیفائیڈ کا ٹیکہ لگوانا تھا.کوئی خاص تکلیف والی بات تو نہ تھی لیکن آپ نے جس طرح خیال اور محبت سے خودبانہ و پکڑ کر ٹیکہ لگوایا وہ میرے لئے اس وقت باعث حیرت تھا اور اب اس کی یاد باعث فرحت ہے.ایک بات کی وضاحت کرنا ضروری مجھتی ہوں.آپ کا اپنی ازواج سے بے پناہ پیار کرنے اور حسن سلوک فرمانے سے بعض دفعہ لوگوں کے ذہن میں یہ تاثر پیدا ہو جاتا کہ آپ ان مردوں میں سے ہیں جو اپنی بیویوں کے تابع ہوتے ہیں.لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی.آپ کی باتوں سے میں نے حضرت سید ہ منصورہ بیگم صاحبہ کے متعلق بھی یہی اندازہ کیا کہ باوجود اس کے کہ آپ ان کے ساتھ انتہائی نرمی اور محبت کا سلوک فرماتے تھے لیکن وہ ہر بات میں آپ کی فرمانبردار تھیں.
٩٨ اپنے لئے بھی میں نے یہ بات محسوس کی کہ آپ اگر چہ ہر بات محبت سے کرواتے لیکن چھوٹی سے چھوٹی بات بھی در اصل اپنے منشا کے مطابق کرواتے.چنانچہ میں نے ایک روزہ ان سے کہا کہ "میں نے دیکھا ہے کہ آپ ہر بات اپنی منواتے ہیں “ بے ساختہ فرمایا.وہ تو میں منواؤں گا اور حقیقت میں ہونا بھی ایسے ہی چاہیے.محبت اور شفقت کے ساتھ مردوں کو اپنا دہ کہ دار جو خدا تعالیٰ نے انہیں عطا کیا ہے ادا کرنا چاہیئے.آپ کو میری تربیت کا پورا احساس تھا اور فرماتے کہ مجھے ڈیڑھ دو ماہ لگیں گے تمہیں TRAIN کرنے کے لئے.شادی کے بعد جب میں پہلی مرتبہ اپنے امی ابا سے ملنے کے لئے گئی تو آپ نے مجھ سے کہا کہ حمید (میرے بھائی جو شادی میں شمولیت کیلئے انگلستان سے آئے تھے) سے اس کے COMMENTS ) پوچھنا.میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے میرے متعلق یہ کہا کہ " ہے تو میرا لیکن ہے بڑا کھونڈا.حضرت صاحب کو ہم انہ کم دو ہفتے لگیں گے تمہیں اپنے ساتھ TRAIN کرنے کے لئے " آپ نے جب ان کا یہ تبصرہ سُنا تو فرمایا " نہیں ڈیڑھ دو ماہ لگیں گے.مجھے تمہاری تربیت کرنے ہیں.اور پھر کئی بار محفوظ ہوتے ہوئے مجھ سے فرمایا کہ حمید کو کیا پتا کہ ہیرے کی سختی ہی تو اس کی اصل خوبی ہے اور یہ کہ میں اس ہیرے کو ہزار پہلوؤں سے چپکاؤں گا تا کہ دنیا جس ANGLE سے بھی اسے دیکھے اسے اس کی چمک نظر آئے.اس مقصد کے لئے ایک تو آپ نے یہ کیا کہ آپ روزانہ ناشتے پر اور شام کی چائے پر مجھے اپنے حالات زندگی سناتے.قریباً ناتے.قریباً گھنٹہ گھنٹہ.آپ نے مختلف ادوار میں ان واقعات کو تقسیم کرتے ہوئے سنایا.اور اس دوران بعض دفعہ آپ مجھے حضرت
۹۹ سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کے کردارہ کے بارہ میں بھی بتاتے.چھوٹی چھوٹی باتوں کا بھی خیال رکھتے.شلاً بات چیت ، ملنا جلنا ، پردہ وغیرہ.لیکن ایسے نہیں تھا کہ مجھے یہ محسوس ہو کہ آپ ہر وقت مجھے نصیحت کر رہے ہیں یا ٹوک رہے ہیں بلکہ غیر محسوس طریق پر یہ سب کچھ کرتے.اور میری چھوٹی سے چھوٹی خوبی کو بھی سراہتے اور حوصلہ افزائی فرماتے.کئی بارہ مجھ سے فرمایا " تم ذہین ہو، صاحب فراست ہو گا اور یہ بھی کر سکتی بہت جلد ہو.“ شادی کے دوسرے یا تیسرے روز ہم کھانا کھا رہے تھے.آپ نے میری طرف کر ؟" دیکھتے ہوئے مسکرا کر فرمایا " APPROVED“ میں نے پوچھا کیا ؟ " فرمایا ”جس طرح سے تم نعمہ منہ میں ڈالتی ہو اور منہ بند کرتی ہو وہ بہت اچھا ہے " آپ کو میرا کھانے کا طریق بہت پسند تھا.چنانچہ پھر ایک روز مجھ سے فرمایا " تمہیں کسی نے BRIEFING دی تھی کہ میرے سامنے یوں کھانا " میں نے کہا BRIEFING تو کسی نے نہیں دی تھی.ویسے میں آپ کے سامنے ذرا CAREFUL ہو کر کھاتی ہوں.فرمایا اچھا پھر میرے سامنے ہمیشہ CAREFUL ہو کر ہی کھانا " " پھر جب آپ 16 اپریل کو میرے امی ابا کے گھر گئے تو ان سے ہنستے ہوئے کہنے لگے.یہ کہتی ہیں کہ میرے اور کسی بہن بھائی کو کھانا کھانا آئے یا نہ آئے مجھے بہت اچھی طرح کھانا کھانا آتا ہے.ایک روز میں نے امی کی کسی بات یا کام کی تعریف کی ( مجھے اب یاد نہیں کس بات کی، مجھے بیچے میں ہی روک کر فرمایا " ٹھہر ٹھہرو.امی نے بس ایک اچھا کام کیا تمہارے جیسی بیٹی پیدا کر دی یہ میں جانتی ہوں کہ یہ صرف آپ کی محبت اور شفقت
۱۰۰ ہی تھی.لیکن یہ چھوٹی چھوٹی باتیں بیوی کے دل میں خاوند کے لئے بہت محبت پیدا کر دیتی ہیں.اور آپ ایسی دلجوئی کی باتیں اکثر کرتے.فرماتے تم بانہ وٹوٹنے کے لحاظ سے مجھ سے دو سال چھوٹی ہو ر آپ کی ۱۵ سال کی عمر میں بازو ٹوٹی تھی اور میری ۱ سال کی عمر میں ، اور عقل کے لحاظ سے چھ ماہ چھوٹی ہو.آپ کی طبیعت میں سختی ز تھی.غلط کام سے ہمیشہ نرمی کے ساتھ منع فرماتے.انسانی فطرت کے عین مطابق تفریح کی بھی اجازت دیتے لیکن لغو وقت ضائع کرنے سے منع فرماتے.اور اگر تفریح جائز حد سے بڑھنے لگتی تو ٹوک دیتے.آپ نے مجھے ایک کیلکولیٹر CALCULATOR تحفہ دیا.(حضور اکثر چھوٹے چھوٹے تھے دیتے رہتے تھے) میں اس میں دیا ہوا میوزک بجاتی رہی.مجھے خوش دیکھ کہ آپ نے بھی خوشی کا اظہار فرمایا.لیکن ایک دن پھر یں کافی دیر تک اُسے بجاتی رہی.آپ غسل خانے سے واپس آئے تو فرمایا کہ لغو وقت ضائع نہیں کرنا.سکولوں کالجوں میں پڑھتے ہوئے اور ہوسٹلوں میں رہتے ہوئے بعض اوقات ایسے الفاظ زبان میں شامل کرنے کی عادت پڑ جاتی ہے جو کہ شائستگی کے خلاف ہوتے ہیں.اگرچہ مجھے خود بھی اس قسم کے الفاظ کو استعمال کرنا پسند نہ تھا.اور میں ارادہ ان سے اعراض کرتی تھی.لیکن کچھ الفاظ انجانے میں مجھے بھی کہنے کی عادت پڑ گئی.آپ کو گفتگو میں ایسے الفاظ کا استعمال پسند نہ تھا.ایک روز میں نے انہیں اپنا کوئی قصہ سناتے ہوئے کہا کہ میں نے کہا اچھا بچوں.آپ نے مجھے ٹو کا اور فرمایا.یہ لفظ استعمال نہیں کرنا.پھر اسی طرح ایک روزہ پھر میں اپنا کوئی واقعہ سُنا
14 رہی تھی تو میں نے کہا.میں نے بونگی ماری " آپ نے مجھے یہ لفظ کہنے سے منع فرما دیا.لیکن عجیب فراست اور مجھ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے ان بندوں کو متصف فرماتا ہے.انتہائی ضرورت اور اصلاح کے خیال سے جب مناسب ہو ٹوک بھی دیتے ہیں.لیکن یہ نہیں کہ ہر وقت اور بلا ضرورت ٹوکتے رہیں.جب دیکھا کہ دوسرے کو اپنی غلطی کا پہلے ہی احساس ہے تو پھر کبھی نہ جتایا.ایک روز جب آپ بیمار تھے میرے منہ سے بات کرتے کرتے بے اختیار کسی کے لئے کمبخت کا لفظ نکل گیا.یہ لفظ منہ سے نکلتے ہی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا اور بات میرا کچھ آپ میں بات کرتے کرتے ایک لحظہ کیسے رک گئی.میرا خیال تھا آپ مجھے کچھ کہیں گے لیکن آپ خاموش مجھے دیکھتے رہے اور کچھ نہ فرمایا.میں نے اپنی بات پھر جاری رکھی.زندگی کے ہر پہلو میں آپ صرف اس بات کا خیال رکھتے کہ ہر کام قرآن کریم کے حکموں کے مطابق ہو.اچھے کھانے کھاتے تو فرماتے ہم اچھی چیزیں اس لئے کھاتے ہیں کہ قرآن شریف میں یہ لکھا ہے کہ دنیا کی بہترین چیز مسلمان کے لئے پیدا کی گئی ہے.جماعت کو قرآن شریف کے پڑھنے اور پڑھانے اور قرآن کی تعلیم کو ساری دنیا میں پھیلانے کے لئے آپ ساری زندگی جدو جہد فرماتے رہے.ہر علم اور سر برکت کا منبع قرآن کو ہی جانتا تمام علوم کو قرآن کا ہی تابع جانا.مجھے بھی ہمیشہ قرآن شریف کی تفسیر سیکھنے کی طرف توجہ دلائی.ارادہ تھا کہ خود مجھے قرآن شریف کی تفسیر سکھائیں بلکہ اس مقصد کے لئے میرے آنے سے پہلے ہی نوٹس لکھنے کے لئے کا پیاں بھی منگوائی ہوئی تھیں.چنانچہ حضرت
۱۰۲ میسج موعود در آپ پر سلامتی ہو) کی قرآن شریف کی تفسیر سے میری بسم اللہ کہ وائی.مجھے یاد ہے جب آپ نے میری نجم اللہ کروائی وہ جمعہ کا روز تھا اور آپ اپنے بستر پر بیٹھے ہوئے تھے.آغاز میں ہی حضرت مسیح موعود رآپ پر سلامتی ہو) کا ایک صرف تین لفظوں پرمشتمل فقرہ تھا.آپ نے مجھے سمجھایا کہ حضرت مسیح موعود کے کلام کا کمال ہے کہ تین لفظوں پر مشتمل جملہ ہے جس میں بے شمار مطالب موجود ہیں.جہاں تک مجھے یاد ہے جملہ تھا " قرآن حکیم ہے؟" یہ جملہ بالکل ابتدا میں تھا.ان دنوں مجھ سے ابھی زیادہ پڑھا نہیں جاتا تھا.اس میں نے اس تفسیر کا کچھ حصہ شادی سے پہلے ہی پڑھا ہوا تھا.چنانچہ ایک آیت جس میں حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے پیدائش انسانی کو پیدائش کائنات کے ساتھ منطبق کیا ہوا تھا اور قرآن کریم کی رُو سے انسانی پیدائش کی تمام حالتوں کا ذکر فرمایا ہوا تھا، اس کے متعلق میں نے عرض کیا کہ میرا ارادہ تھا کہ حضور کی اس تفسیر کو سائنسی استدلال سے ثابت کروں.آپ نے فرمایا ہاں ٹھیک ہے.لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ جہاں کہیں بھی سائنس اور قرآنِ شریف میں CONTRADICTION ہو وہاں تم پور - CONFIDENCE یہ کہنا کہ سائنس غلط ہے اور قرآن شریف صحیح کہتا ہے.یہ کہتے ہوئے آپ کی آواز یقین سے بھری ہوئی تھی.آپ نے مجھ سے فرمایا تھا کہ روزانہ دس صفحے تفسیر کے پڑھنا.مجھ سے سستی ہوئی اور پورے نہ پڑھ سکی.ایک روز فرمانے لگے مجھے فکر ہے تم قرآن شریف نہیں پڑھ رہی.میں نے کہا اب سست ہوگئی ہوں پہلے تو کالج جانے سے پہلے ضرور پڑھتی تھی.اگر دیر ہو رہی ہو تو خواہ
ایک آیت ہی پڑھ لوں.فرمانے لگے کہ ہاں ایسا ہی ہونا چاہیے.آپ بظاہر دنیا کے کاموں میں مشغول ہوتے لیکن دل میں ذکر الہی کر رہے ہوتے یا اپنا کوئی مضمون سوچ رہے ہوتے.ایک دن حضور باتیں فرما رہے تھے ، کچھ دیر کے لئے خاموش ہو گئے.میں نے تھوڑی دیر بعد کوئی اور بات شروع کر دی.فرمایا میں ایک مضمون سوچ رہا تھا تم نے بات کر کے ساری توجہ ہٹا دی ، اب اُسے RECOLECT کرنے میں میرے تین منٹ لگے ہیں.اپنے وقت کا کوئی حصہ بھی ضائع نہ فرماتے.اور کمرے میں جتنا بھی فارغ وقت ملنا اس میں اپنی ڈاک کا کچھ حصہ ملاحظہ فرما لیتے.وقت کی پابندی کا انتہائی خیال رہتا.اگر میں نے بھی کسی کو ملاقات کا وقت دیا ہوتا تو حضور نے بار بار مجھے یاد کروانا کہ فلاں وقت آپ نے ملاقات کا دیا ہوا ہے، وقت پر تیار ہو جاؤ.عبادت میں دکھاوا نہ تھا.ایک روز اسلام آباد میں ہم حضور کے ایک غیر از جماعت عزیز کے ہاں گئے ہوئے تھے.مغرب کی نماز کا وقت ہو گیا.کچھ مہمانوں نے نماز کے لئے جگہ پوچھی اور اُٹھ کر نماز کے لئے چلے گئے حضور اپنی جگہ پر تشریف فرمار ہے.میں بھی نہ اٹھی.گھر اگر حضور نے نماز ادا فرمائی اور مجھے سے فرمانے لگے نماز اس وقت پڑھنی چاہیئے جب اس کی طرف پوری توجہ ہو.اسلام آباد میں ایک روز شام کے وقت کچھ رشتہ دار خواتین آئی ہوئی تھیں مغرب کی نماز کا وقت ہوا حضور نے نماز پڑھانے کے لئے نیچے جانا تھا.آپ تیاری کے لئے اپنے کمرے میں تشریف لائے.میں آپ کے پیچھے کمرے..
۱۰۴ میں آئی.آپ نے مجھ سے فرمایا تم ان کے پاس بیٹھو نماز بعد میں پڑھ لینا.لیکن دوسری طرف یہ حال تھا کہ ایک دو مرتبہ ایسا ہوا کہ صبح کی نماز کے لئے آپ کی آنکھ وقت پر نہ کھل سکی.قضاء نماز پڑھتے ہوئے جتنا تاسف میں نے آپ کے چہرے پر دیکھا اتنا کبھی کسی اور بات پر نہ دیکھا.دوستی کو نبھانے کی جتنی بار تاکید آپ نے مجھے فرمائی ، شاید ہی کسی اور بات کی اتنی دفعہ تاکید کی ہو.آپ مجھ سے فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود ( آپ پر سلامتی ہو) نے فرمایا ہے کہ دوست سوچ سمجھ کر بناؤ ، لیکن ایک بار جب دوستی کر لو تو پھر اُس تعلق کو ہمیشہ نبھاؤ.اس ضمن میں آپ ایک بہت دلچسپ کہانی سنایا کرتے تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک لڑکا غلط قسم کے مطلب پرست دوستوں میں گھر گیا.اس کے باپ نے اُسے سمجھانا چاہا.لیکن وہ نہ سمجھا آخر اُس کے باپ نے کہا کہ آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ اصل دوستی کیسی ہوتی ہے.چنانچہ وہ اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر آدھی رات کو اپنے ایک دوست کے ہاں گیا.دروازہ کھٹکھٹایا.دوست نے نام پوچھا اور بغیر دروازہ کھولے کہا کہ میرا انتظار کرو میں آتا ہوں.کافی دیر گزرگئی دوست نہ آیا.بیٹے نے اپنے باپ سے کہا کہ دیکھ لی اپنی دوستی.انتظار کرنے کا کہہ کر بھاگ گیا.باپ نے کہا کہ صبر کرو.چنانه چنانچہ کچھ دیر بعد اُس دوست نے دروازہ کھولا تو وہ اس وقت اپنی ذرہ پہنے تیار کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک اشرفیوں کی تحصیلی تھی.وہ کہنے لگا.مجھے معاف کرتا ذرا دیر ہوگئی.رات کو اس وقت آنے پر میں نے سوچا کہ یا تو تمہیں مال کی ضرورت ہے سو وہ حاضر ہے.یا پھر میری جان کی ضرورت ہے
۱۰۵ اُس کے لئے بھی میں تیار ہوں چلو! یہ دیکھ کر بیٹیا سخت شرمندہ ہوا اور اس نے اپنی اصلاح کرلی اور برے دوستوں کی صحبت سے بچ گیا.دوستی نبھانے کی بہت تاکید کرتے.عزیزہ فریحہ اپوتی صاحبزادہ مرزا منور احمد صاحب کی تقریب آئین تھی.گرمی کی شدت اور حضور کی مصروفیت کے باعث انہوں نے حضور سے یہی درخواست کی کہ آئین کے روز وہ بچی کو قصر خلافت میں لے آئیں گئے اور حضور دعا کروا دیں.مجھے آپا محمودہ بیگم صاحبہ نے دعوتی رقعہ بھجوایا کہ میں ان کے گھر منعقدہ دعوت میں بھی شرکت کروں میں جمعہ کی نمازہ کے لئے ان کے ساتھ بیت الاقصیٰ گئی تو وہاں میری ایک ہم جماعت بھی ملیں اور مجھ سے کہنے لگیں.کہ آمین پر ضرور آنا (عزیزہ فریحہ کی امی بھی میری ہم جماعت تھیں اور بچپن میں دوستی تھی تا کہ اس بہانے اچھی طرح ملاقات ہو جائے.میں نے آپ سے بھی اس بات کا ذکر کر دیا.لیکن اپنی کسی خواہش کا اظہار نہ کیا.اسی روز یا اگلے روز عزیزم تانی (مرزا عمر احمد ) آئے اور آئین کے متعلق پوچھا کہ کس وقت بچی کو لیکر آئیں.آپ نے ان سے فرمایا.یہ آرہی ہیں تو میں نے سوچا ہے میں بھی وہیں آجاتا ہوں گے اور پھر آپ خود بھی آمین پہ میرے ساتھ گئے.آپ نے میرے اس بات کے دہرانے سے ہی یہ سمجھا کہ میرا منشاء وہاں جانے کا ہے اور پھر میری خاطر خود بھی موسم کی شدت کے باوجود تشریف لے گئے.ایک روزہ اسلام آباد میں کچھ خواتین ملنے کے لئے آئی ہوئی تھیں.ملاقات کے لئے اندر تشریف لائے اور بڑی محبت سے مسکراتے ہوئے فرمایا : - " طاہرہ کی سہیلیاں آئی ہوئی ہیں."
میں نے خطوط لکھنے کے لئے رائیٹنگ پیر منگوایا تو اس پر دوستی کے متعلق ایک فقرہ لکھا ہوا تھا.میں نے انہیں دکھاتے ہوئے کہا.دیکھیں اس پر بھی دوستی کے متعلق سیکھا ہوا ہے.آپ نے اس وقت مجھے کچھ نہ کہا.مجھے دیکھا اور میرے ہاتھ سے پیڈ لیتے ہوئے فلم لیا اور اس پیڈ پر لکھے ہوئے میرے نام سے پہلے حضرت سیدہ لکھ دیا اور پھر پیڈ میری طرف واپس بڑھا دیا.ایک روز میں نے آپ سے کہا کہ آپ ہمیشہ مجھے دوستی نبھانے کی نصیحت کرتے ہیں لیکن اگر دوست حسد کرنے لگ جائے تو کیا پھر بھی دوستی نبھانی چاہیئے.فرمایا " پھر تو وہ تمہارا دوست ہی نہ رہا ؟ آپ کا پیار بے پناہ تھا.اتنا پیار کم ہی کوئی خاوند اپنی بیوی کو دے سکتا ہے کئی بار مجھ سے فرمایا کہ خدا تعالیٰ اس طرح تمہارا پیار میرے دل میں ڈال رہا تھا کہ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی.سو اس خدائی پیار کے نتیجہ میں آپ نے بے حساب ہی محبت مجھے دی.لاڈ کے ساتھ ساتھ آپ کو یہ فکر بھی دامنگیر ہوئی کہ کہیں اتنا لاڈ پیار مجھے خراب ہی نہ کر د سے.چنانچہ ایک روز مجھے کہنے لگے." مجھے فکر ہے کہ نہیں تم سر پر ہی نہ چڑھ جاؤ ی" میں اُس وقت خاموش رہی لیکن یہ بات میرے دل کو اچھی نہ لگی.سو اگلے دن کسی بات پر مجھ کو رنج تھا.میں رو بھی رہی تھی اور اپنے غصے کا اظہار بھی کرتی جا رہی تھی.اس دوران میں نے کہا کہ آپ کو تو سارا وقت یہ فکر رہتی ہے کہ میں کہیں سر یہ نہ چڑھ جاؤں.آپ کے سر نہیں چڑھنا تو اور کس کے سر چڑھوں گی " آپ نے میری بات کا برا نہیں منایا اور بہت لاڈ پیار سے میرار نے دور کر دیا اور پھر کہا.کہ آؤ بتاؤں کہ تمہاری کن کن باتوں کی وجہ سے مجھے تمہاری قدر ہے.کوئی
1.6 آٹھ نو باتیں بتائیں اور پھر یہ بھی فرمایا کہ " اب اس دنیا میں تم ہی میرے لئے سب کچھ ہو ؟ اگلے روز فرمایا میں چاہتا تھا تم یہ بات محسوس کر د لیکن اب اگر میرے منہ سے نکل ہی گیا ہے تومیں تمہیں بتاتا ہوں کہ اب اس دنیا میں دخدا تعالیٰ کے بعد ) تم ہی میرے لئے سب کچھ ہو " آپ ہمیشہ منجز اور انکسار کی راہوں پر چلے.اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی طرح آپ کی شخصیت میں عاجزی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.لیکن عاجزی اختیار کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ انسان وقار کو ہاتھ سے جانے دے اور آپ انتہائی باوقار شخصیت کے مالک تھے.چنانچہ آپ مجھ میں بھی یہی دونوں خوبیاں دیکھنا چاہتے تھے.یعنی عاجزی بھی ہو اور وقار بھی ہو.آپ نے شادی سے پہلے دو تین روز قبل مجھے ایک رقعہ بھجوایا جس پر مندرجہ ذیل تین نصیحتیں لکھی ہوئی تھیں :- " (1) اللہ تعالٰی عاجزانہ راہوں کو پسند کرتا ہے.(۲) جو خاک میں ملے اُسے ملتا ہے آشنا.(۳) میں خاک تھا اسی نے ثریا بنا دیا.اور پھر شادی کے بعد جب میں نے پہلی مرتبہ آپ سے ملنے کے لئے آئے ہوئے افراد خاندان سے ملنا تھا تو آپ نے مجھے ہال کمرے میں جانے سے پہلے اپنے کمرے میں کھڑے کھڑے یہ نصیحت فرمائی : "دیکھو تکبر نہیں کرنا لیکن وقار سے رہنا " اور پھر ایک مرتبہ اور بھی یہی نصیحت و ہرائی.گھر کے انتظامی امور کو سنبھالنے کی طرف توجہ دلانے کے لئے اکثر مجھے بہت
۱۰۸ محبت سے کہتے :.رَبَّةُ البَيْت " اور خود مجھے ساتھ سے کر سٹور وغیرہ کی ساری چیزوں سے واقفیت کروائی.مجھے گھر کے کھانے پینے کا انتظام سنبھالنے کے لئے فرمایا.تو میں نے کہا میں ابھی یہ نہیں کر سکتی.چنانچہ آپ نے عزیزم لقمان کو گھر کا خرچ دیتے ہوئے کہا." یہ کہتی ہیں کہ ابھی مجھے ایک مہینہ اور لقمان کی ASSISTANCE کی ضرورت ہے " حضرت سیدہ چھوٹی آپا صاحبہ نے لجنہ مرکز یہ کی طرف سے ہماری شادی کی خوشی میں دعوت کے لئے حضور سے پوچھا اور مجھ سے بھی فرمایا کہ حضور سے دعوت کی اجازت کے لئے پوچھوں.میں نے آپ سے پوچھا تو فرمایا کہ گرمی بہت ہے.میں نے آپ کا جواب انہیں بتایا تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ حضور نے تو تشریف لانا نہیں صرف تمہیں بلائیں گے.اس لئے پھر لو چھو.چنانچہ میں نے ان سے دوبارہ پوچھا تو آپ نے اجازت دے دی.- پھر حضور نے مجھ سے فرمایا کہ وہاں وہ تمہیں ایڈریس بھی دیں گے اسکا تمہیں جواب دینا ہوگا.اس کے لئے میں تمہیں خود پوائنٹس دوں گا.اور میں تیار ہو رہی تھی.پھر جس روز دعوت تھی آپ کمرے میں بیٹھے ڈاک دیکھ رہے تھے میرے جانے میں تقریبا دس منٹ باقی تھے اور میں DRESSING ROOM میں تھی.آپ کام کرتے کرتے اُٹھ کر آئے اور مجھ سے فرمایا.کہ ایڈریس کا جواب دیتے ہوئے عورتوں کو یہ نصیحت کرنا کہ وہ غلبہ دین حق کی صدی کی تیاری کے لئے اپنی تربیت کریں اور اپنے بچوں کی تربیت
1.9 کریں اور اچھی طرح سے انہیں یہ بات کہنا کہ شاہراہ غلبہ دین حق پر آگے ہی آگے بڑھتی چلی جائیں (قریب یہی مفہوم تھا).میں نے دل میں سوچا کہ مجھے صرف ایک ہی بات بتائی ہے.اب میں سارا جواب کیسے دوں گی.لیکن خاموش رہی اور آپ یہ بات کہہ کر اطمینان سے اپنے کام میں مشغول ہو گئے.رات کو اکثر افراد خاندان حضور سے ملنے کے لئے آئے ہوئے تھے اور ان سے مل کر جب ہم اپنے کمرے میں آرہے تھے اُس وقت با جی جان دختر یا جزاری ناصرہ بیگم صاحبہ نے حضور سے کہا کہ " آج یہ بہت اچھا بولیں " آپ چلتے چلتے ڑکے اور واپس مڑکر فرمایا یہ ہاں میں نے دُعا کر کے جو بھیجا تھا.ابھی تو یہ بہت بوسے گی " میرا ایک سرٹیفیکیٹ دیکھ کو فرمایا.تم DEBATES بھی کرتی رہی ہو ؟ میں نے کہا.جی.اور پھر آپ نے دو تین مرتبہ مجھے مستقبل میں تقاریر کرنے کے لئے فرمایا تو میں نے جواب دیا کہ مجھے تقریر لکھنا نہیں آتی.مجھے تو میر سے گھر والے لکھ دیتے تھے اور میں کر لیتی تھی.آپ نے فرمایا " اب میں خود تمہیں پوائنٹس دیا کروں گا چھوٹی آپا کو بھی تو حضرت مصلح موعود خود پوائنٹس دیا کرتے تھے.ایک واقعہ جو میں لکھنے لگی ہوں وہ قارئین کو شاید عجیب لگے اور سرسری نظر سے پڑھنے کے بعد اس کی باریکی کو نہ سمجھ سکیں لیکن میں صرف اس لئے لکھ رہی ہوں تاکہ خلیفہ وقت کی فراست اور ان کے اعمال میں پوشیدہ حکمت کے اند تا امر بالمعروف" کے صحیح معنوں کی نشاندہی ہو سکے.جو معرفت امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے
حکم کی خلیفہ وقت کی ذات کو اللہ تعالی اعطا کرتا ہے.عام علماء کا وہ حصہ نہیں.اور یہ شان بھی خدا تعالیٰ کے پیاروں کی ہی ہوتی ہے کہ وہ اپنے اعمال اس نقطہ نظر سے نہیں کرتے کہ دیکھنے یا سننے والے کیا کہیں گے بلکہ صرف اور صرف پوری دیانتداری سے ہر پہلو سے خدا تعالیٰ کی رضا کو مد نظر رکھتے ہیں.میں نے حضور سے شادی کے غالبا دوسرے روزہ کہا کہ مجھے صبح نمانہ کے لئے جگا دیا کریں.آپ نے اگلے روزہ مجھے جگایا میں اُٹھی.نماز پڑھی.قرآن شریف پڑھا اور دوبارہ سوگئی.بس ایک ہی روز آپ نے مجھے جگایا اور پھر نہ جگایا.میں صبح اپنی نیند پوری کر کے اٹھتی اور قضا نماز پڑھتی.ایک روزہ اسلام آباد میں میں نے ان سے کہا " آپ مجھے نما نہ کے لئے جگاتے نہیں ؟ آپ خاموشی سے میری طرف دیکھتے رہے اور پھر کچھ نہ فرمایا.میں بھی چپ رہی.لیکن پھر اس کے بعد بھی آپ نے مجھے نہ جگایا.چونکہ آپ کا معمول ایسا تھا کہ آپ رات کو دیر سے سوتے تھے اور میں بھی ساتھ جاگتی تھی.آپ کو کم سونے کی عادت تھی لیکن میری نیند پوری نہ ہوتی تھی اس لئے آپ مجھے صبح نہ جگاتے.راسی طرح ایک مرتبہ حضور کے ایک غیر احمدی سرد نیز نے اسلام آباد میں ہماری دعوت کی.وہاں مغرب کی نمازہ کا وقت ہو گیا.اہل خانہ نما نہ پڑھنے کے لئے چلے گئے.حضور نے وہاں نما نہ نہ پڑھی اور واپس گھر آکر عشاء کی نمانہ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی اور مجھ سے فرمایا." نمازہ اس وقت پڑھنی چاہیے جب اس کی طرف پوری توجہ ہو یہ شادی کے غالبا تفسیر سے دن مجھ سے فرمایا.
If آج صبح جب تم سو رہی تھیں اور میں نے تمہیں دیکھا تو میں نے اپنے رب سے ایک عہد کیا کہ میں اسے اپنی زندگی میں کبھی دُکھ نہیں دوں گا.خواہ کیسی ہو.اور پھر میں نے تمہارے لئے بہت دُعا کی.اتھی ملنے آئیں تو ان سے بھی کہا کہ میں نے اپنے رب سے عہد کیا ہے کہ میں اسے کبھی دکھ نہیں دوں گا.اور یہ کہ میں نے اس کے لئے بہت دُعا کی ہے.یہ بوں میں ایک روز میں مغرب کی نماز پڑھ رہی تھی.نمازہ میں ایک معمولی سا دردناک خیال آیا اور میں رو پڑی.آپ مغرب کی نماز پڑھ کر کمرے میں آئے.مجھے دیکھا تو عجیب تا شمر آپ کی آنکھوں میں آیا مجھ سے رونے کی وجہ تونہ پوچھی لیکن آپ کی آنکھوں میں اس وقت جو سوال اور درد کا احساس تھا اُسے میں کبھی نہ بھلا سکوں گی.بہت دن گزر جانے کے بعد ایک دن جب ہم اسلام آباد میں تھے تو آپ فرمانے لگے." میں آج تک نہیں سمجھے سکا کہ اس دن تم نماز میں کیوں روئی تھیں.میں حیران رہ گئی اور دل میں سہم بھی گئی کہ وہ تو اتنی معمولی بات تھی.اگر ان کو پتہ چل گیا تو کہیں مجھے ڈانٹ ہی نہ دیں.کہ اتنی بے کا ربات کے لئے اتنی دیر پر یشان رکھا.اس لئے میں نے خاموشی ہی میں خیریت جانی لیکن اب بہت افسوس ہوتا ہے کہ بتا دیتی تو اچھا ہی تھا.انہوں نے بھلا کیا ناراض ہونا تھا.البتہ ان کے دل کا بوجھ تو اتر جاتا.پتہ نہیں آپ کو کیا کیا دہم آئے ہوں گے.آپ بہت، فراخ طبیعت کے مالک تھے اور بخل سے طبعا نفرت تھی.ایک دو واقعات جن سے بخل کی بو آتی تھی ان کا ذکر آپ نے میرے ساتھ ناپسندیدگی
کے اظہار کے ساتھ فرمایا.ایک روزہ ملاقات کے لئے آنے والی خاتون نے ہونے والے بچے کے لئے تبرک کے طور پر شہد کی فرمائش کی.میں نے خادمہ سے کہا ان سے کہو کہ کل صبح آکر سے جائیں میں ناشتے پر ان سے تبرک سے رکھوں گی.اگلے روز جب آپ ناشتہ کر رہے تھے میں نے آپ سے اُن خاتون کے لئے شہر کا تبرک دینے کے لئے کہا.شہد کی جو بوتل زیر استعمال تھی آپ نے اس کا سارا شہد ان خاتون کی لائی ہوئی شیشی میں انڈیل دیا لیکن بوتل میں شہر زیادہ نہ تھا آپ نے مجھ سے فرمایا.نئی بوتل سے آؤ اس میں سے ڈال دیتا ہوں کہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ حضرت صاحب کی نئی بیوی کنجوس ہیں.اپنے چھوٹے چھوٹے کام مجھے خود سکھائے.مثلاً شلوار میں ازار بند ڈال کر اس کے بل کیسے ٹھیک کرتے ہیں.کلف زیادہ ہو تو پہلے سلائی نیفے میں پھر ا لو.جب ہم پہلی بار اسلام آباد گئے تو آپ نے اپنے سکس کی تیاری خود میرے ساتھ کہ وائی.آپ بڑی خوبصورتی سے ہر چیز قرینے سے اپنی جگہ یہ رکھتے.اچکنیں خود نکال کر دیں کہ انہیں تہہ کر کے بکس میں رکھ دو.مجھ سے پوچھا تمہیں اچکن تہ کرنی آتی ہے ؟ میں نے کہا نہیں.پھر آپ نے عزیزہ شکری سے کہا کہ انہیں چکن تہ کرتی سکھا دو.اپنا کام خود کرنے کے عادی تھے اور زیادہ تر اپنے چھوٹے چھوٹے کام خود اپنے ہاتھ سے کرتے.اپنا ہر کام بہت نفاست سے کرتے.سفر کے لئے اپنا بجس مجھ سے تیار کروا رہے تھے.ہر چیز احتیاط اور خوبصورتی سے رکھواتے.مجھے حیرت بھی ہوتی اور مزہ بھی آتا.اور ساتھ ہی مجھے اپنا پرانا وقت یاد کر کے
خلافت ثالثہ کے قیام کے بعد جماعت سے پہلی بیعت لی جارہی ہے پہلی بیعت کے بعد مولا کریم کے حضور دست بدعا ت خلیفتہ المسیح الثالث” کے سامنے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد ایده الله آسمات
بچوں کے ساتھ شفقت (اسپین) قصر الحمراء اسپین میں خلیفة المسیح الثالث" سے شرف نیاز حاصل کر رہے ہیں احب اسکا گھرکام
شرم بھی آتی جب ہوسٹل میں آتے جاتے سفروں کے دوران ہر چیز کا گوڈر بنا کر بیگ میں ٹھونسا اور چل پڑے.اپنی دوائیں خود پیک کیا کرتے.اتنی اچھی پیکنگ میں نے کبھی نہ دیکھی تھی.کمرے میں چلتے پھرتے، اپنے چھوٹے چھوٹے کام کرتے ہوئے میں انہیں دیکھتی اور لطف اندوز ہوتی.کیونکہ ہر حرکت میں ہر کام میں خوبصورتی مخفی.ایک روز میں نے سنگھار میز کو صاف کرتے ہوئے عطروں کی شیشیوں کی ترتیب ذرا بدل دی.فرمانے لگے دیکھو آج تم نے میرے دس سیکنڈ ضائع کہ دیئے.مجھے اپنا عطر ڈھونڈنے میں فالتو دس سیکنڈ لگے.ترتیب سے خیال آیا کہ حضور اپنی چھوٹی چھوٹی چیزوں اور ہر دوائی کو ایک خاص ترتیب سے رکھنے کے عادی تھے.آخری علالت میں بھی لیٹے ہوئے مجھ سے فرماتے کہ میری فلاں دوائی فلاں لائن میں اتنے نمبر پر ہے.وہ دے دو.میں بہت حیران ہوتی کہ اتنی شدید بیماری میں بھی حضور کو پورا علم ہونا تھا کہ اپنی کونسی دوائی کس ترتیب سے کسی جگہ رکھی ہوئی ہے.دس پندرہ منٹ بھی اگر کسی کام کے دوران فارغ ملتے تو انہیں ضائع نہ فرماتے اور اس دوران اپنی ڈاک کا کچھ حصہ دیکھ لیتے.ڈاک دیکھنے کے دوران خطوط لکھنے والوں کے لئے دُعا بھی فرماتے جاتے.آخری دفعہ اسلام آباد میں ہی ایک دن شام کے وقت ڈاک ملاحظہ فرما رہے تھے.غالباً وہ بہ مئی کی شام تھی.جب آپ ڈاک دیکھ رہے ہوتے تو مجھ سے فرماتے کہ اس دوران مجھ سے کوئی بات ز کرتا.اس وقت آپ طالب علموں کی ڈاک کی فائل دیکھ رہے تھے.کوئی بات
شروع ہوگئی.حضور نے اپنی توجہ فوراً ڈاک کی طرف مبذول کر لی اور فرمانے لگے و تم نے مجھے باتوں میں لگا دیا میں تو اس وقت ان کے لئے دعا کیا کرتا ہوں ؟ اور پھر دوبارہ خاموشی سے ڈاک دیکھنے اور دعا فرمانے میں مشغول ہو گئے.آقا اور غلاموں کے درمیان دو طرح کا تعلق ہوسکتا ہے.ایک تو وہ ظاہری عزت اور احترام جو کہ ایک غلام اپنے آقا کی کرتا ہے اور دوسرا وہ بیکراں پیار جو غلام کے دل میں اس وقت ٹھاٹھیں مارتا ہے.جب آقا اس سے بے انتہا محبت کرتا ہے.وہ پیار اتنا بے لوث، انشا پاک اور اتنا سچا ہوتا ہے کہ اُسے دنیا کسی بھی قیمت پر خرید نہیں سکتی.اور نہ ہی اس پیار کا نعم البدل کہیں اور نظر آتا ہے.والدین سے حسن و احسان کا جو عملی نمونہ آپ نے مجھے دکھایا جب اس کی یاد آتی ہے تو دل فرط جذبات سے بھر جاتا ہے.آپ نے مجھ سے فرمایا.اب میں تمہاری امتی، کہہ کہ بات نہیں کیا کروں گا بلکہ صرف امتی کہا کروں گا کیونکہ اب وہ میری بھی امتی ہیں.پھر جب ہماری شادی کے بعد امتی پہلی فیہ سماے گھر آئیں تومجھ سے فرمایاکہ امی و اپن بیڈ روم میں لے جاؤ.امی ہمارے کمرے میں جانے سے گھبرا رہی تھیں اور انکار کیا.لیکن آپ نے اصرار کے ساتھ ہم دونوں لو اندر بھیجوا دیا.خود دوسرے کمرے میں میرے بھائیوں کے ساتھ رہے.بعد میں مجھ سے فرمایا :- ماؤں کو فکر ہوتی ہے کہ بیٹی کہاں اور کیسے رہ رہی ہے اس لئے میں نے امی کو تمہارے ساتھ کمرے میں بھیجوایا تھا تا کہ انہیں اطمینان
ہو جائے " اُس دن آپ بہت خوش تھے.امی کے آنے سے پہلے مجھ سے کہنے لگے امتی کو کونسا ہوس پلاؤ گی ، ناشپاتی کا یا خوبانی کا.اور پھر جب امتی آئیں تو اُن سے بے حد پیار اور عزت و احترام کے ساتھ ملے.واپسی پر انہیں باہر تک چھوڑنے گئے.امتی اُن دنوں کافی بیمار رہ چکی تھیں.باسر آئے تو ڈرائیور نے موثر ذرا چند قدم کے فاصلے پر کھڑی کی ہوئی تھی یہ آپ خود گیلری سے باہر تشریف لے گئے اور اُسے ہدایت کی بالکل دروازے کے سامنے موٹر لے کر آؤ.گرمی کا موسم تھا اور امی گھرا رہی تھیں کہ آپ ٹھنڈے کمرے سے ایک دم با سرگرمی میں آگئے ہیں.جب ہم اسلام آباد گئے تو ایک دن صبح ہم ناشتے کے لئے میز پر ہی تھے کہ میرے بھائی اباز کسی کام سے آئے.وہ امتی کے ویزے کے سلسلے میں انہیں اسلام آبا دلے کہ آئے تھے حضور کو جب معلوم ہوا کہ امتی نیچے موٹر میں ہیں تو فوراً انہیں نیچے واپس بھیجا کہ حاکمہ امتی کو لے کر آؤ کچھ دیر ہم وہیں بیٹھے باتیں کرتے رہے.امتی جب واپس جانے لگیں تو میں بے خیالی میں میز پر ہی بیٹھی رہی حضور نے مجھے اشارے سے اُٹھنے کو کہا اور فرمایا کہ امی کو چھوڑ کر آؤ.اور آپ خود بھی انہیں سیڑھیوں تک چھوڑنے آئے.اور جب تک وہ چلی نہ گئیں آپ وہیں پر کھڑے رہے.۲۳ مئی کی شام کو ہم دوبارہ اسلام آباد پہنچے.اگلے دن صبح میری امی نے انگلینڈ جانا تھا.میں رات کو انہیں ملنے کے لئے پنڈی جانے لگی تو
114 حضور سے اپنی والپسی کے متعلق پوچھا.فرمانے لگے آج جب مرضی واپس آنا لیکن سونا گھر آکر.امتی بیمار تھیں آپ نے اُن کے لئے دوائیں بھجوائیں.جب میں واپس آئی تو آپ آنکھیں بند کئے بستر پر لیٹے ہوئے تھے.میں بھی کہ آپ سورہے ہیں اس لئے آہستہ آہستہ کمرے میں آئی.آپ نے آنکھیں کھو لیں اور فرمایا کہ میں تمہارا انتظار کر رہا تھا.اور پھر مجھ سے ساری باتیں پوچھتے رہے.اگلے دن امنی کے سفر کے متعلق میں بالکل لا پرواہ تھی لیکن آپ کو ان کی بہت فکر تھی.بار بار ذکر فرمایا.میں نے کہا آپ دُعا کریں.فرمانے لگے وہ تومیں پہلے ہی کر رہا ہوں.اور پھر یہ بات باد کر کے تو میرا دل اور زیادہ بھر آنا ہے کہ آپ کس طرح دوسروں کی معمولی ترین تکلیف کو بھی کتنا زیادہ محسوس فرماتے تھے اور اپنی تکلیف کی بالکل پرواہ نہ کرتے خواہ وہ کتنی زیادہ ہی کیوں نہ ہو.آخری علالت میں جب آپ کے دل کا ایک بڑا حقہ حملہ کا شکار ہو چکا تھا، امی کا انگلینڈ سے حضور کی طبیعت پوچھنے کے لئے فون آیا یجب میں اُن سے بات کر کے کمرے میں آئی تو آپ نے مجھ سے امتی کے متعلق پوچھا میں نے کہا کہ اُن کے Eco میں تھوڑا سا ECG آپ فوراً پریشان ہو کر مجھ سے پھر پوچھنے لگے " امتی اپنی بیماری کاشن کر کہیں گھیرا تو نہیں گئیں ، میں سہنس پڑی اور عرض کی کہ انہیں تو اپنی رتی بھر بھی HEART DAMAGE ہے.پرواہ نہیں وہ تو بار بار مجھے آپ کا خیال رکھنے کی تاکید کر رہی تھیں.ہر طرح سے میری دلداری فرماتے ہماری شادی کے چند دن بعد میرے بڑے بھائی نصیر دل کی تکلیف سے کافی بیمار ہو گئے.آپ کو علم ہوا تو عزیزیم میاں
انس احمد سے فرمایا.میری طرف سے ابھی خط لکھ کر ان کی طبیعت پوچھو.اور پھر ایک روز شام کو مجھے بھی ان کی طبیعت پوچھنے کے لئے عزیزیم میاں انس احمد کے ساتھ بھیجوایا.حضور کو CHERRIES ( چیریز ، بہت پسند تھیں.میرے بڑے بھائی اباد مجب کوسٹر میں تھے تو ان سے حضور سیب اور چیریز منگوایا کرتے تھے اور ان کے بیڈی پنڈی آجانے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا حضور کو یہ پسند نہ تھا کہ جو چیز وہ خود کہہ کر منگوائیں اسے تحفہ قبول کریں.اس لئے باقاعدہ بل ادا فرماتے.میری شادی سے قبل میرے بھائی نے حضور کی اس عادت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ میں موسم کا پہلا پھیل تحفہ بھجواتا ہوں اور پھر بل سے لیتا ہوں.شادی کے بعد جب ہم پہلی بار اسلام آباد گئے تو ایک روز انہوں نے چیر نیز بھجوائیں.آپ نے کھانے پر شوق سے کھائیں اور مجھ سے کہا ایاز سے بل پوچھ لینا.میں نے پوچھا کیا یہ اس موسم میں پہلی دفعہ آئی ہیں ؟ فرمایا ! ہاں میں نے کہا پھر وہ بل نہیں لیں گے اور یہ تحفہ ہوگا.شام کو جب میرے بھائی اور بھاوج ملنے آئے تو آپ نے میری بھاوج سے بل پوچھنے کے لئے کہا.انہوں نے جواب دیا.حضور وہ تحفہ ہے.آپ خاموش رہے اور اصرار نہ فرمایا.اور پھر اس کے بعد ایک مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ مجھ سے فرمایا." آج ہم نے آپ کی بدولت CHERRIES کھائیں یہ میں جانتی تھی کہ بات تو معمولی ہے.لیکن آپ میرا دل خوش کرنا چاہتے ہیں.اس لئے محبت سے بار بار ذکر کر رہے ہیں.اور اب میں جب بھی دنیا میں کہیں بھی CHERRIES کھاؤں
IIA مجھے آپ کی یاد بہت آتی ہے.ایک روز آپ بہت تھکے ہوئے تھے.آپ رات کو کھانے کے بعد کمرے میں آئے تو ایسے ہی تھوڑی دیر کے لئے بستر پر لیٹ گئے اور لیٹتے ہی آپ پر نیند غالب آگئی.اور آپ سو گئے.میں نے دیکھا تو آپ کے پاؤں ٹھیک کر کے آپ کی گرم چادر ٹانگوں پر پھیلا دی.آپ نے نیند میں ہلکی سی آنکھ کھولی اور پھر سو گئے.یہ بہت چھوٹی سی بات تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے آپ کو عجیب قدردان طبیعت عطا فرمائی تھی.اگلے روز کھانے کی میز پہ آپ بچوں سے کہنے لگے.رات میں بہت تھک گیا تھا اور مجھے پتہ بھی نہ چلا کہ کب نیند آگئی اور محبت سے میری طرف دیکھتے ہوئے فرمایا ، صرف اتنا پتا چلا کہ کوئی میرے پاؤں ٹھیک کر رہا ہے.یہ بات کہتے ہوئے آپ کے بیجے میں بے انتہا پیار تھا.جیسے آپ کو بہت ہی لطف آیا ہو کہ کوئی تھا جو میرا خیال رکھتا.ایک روز شروع میں مجھ سے پوچھا.تمہیں امی ابا میں سے کون زیادہ پیار کرتا ہے.میں نے کہا." دونوں ہی کرتے ہیں.لیکن TYPE میں فرق ہے.فرمایا.کیا فرق.میں نے کہا کہ جب امی ہے؟ THATS WHAT I WANT TO KNOW پیار کرتی ہیں تو وہ SELALESS ہو جاتی ہیں.لیکن جب ابا جی پیار کرتے ہیں تو وہ اپنے SELF کا بھی خیال رکھتے ہیں.آپ میرا جواب سن کر خاموش رہے.آپ کا نیند سے جگانے کا انداز بہت اچھا تھا.بڑے پیار سے جگاتے اور اکثر یہ مصرع بھی پڑھتے.ع اُٹھے بس اب کہ لذت خواب سحر گئی ایک روز مجھ سے پوچھا کہ (شادی سے پہلے، تم اپنی دوستوں وغیرہ کے ساتھ
١١٩ رکھانا کھانے کے لئے کن ہوٹلوں میں جاتی تھی ؟ میں نے کہا CHINESE (چینی ہوٹلوں میں) اور جب آپ کو یہ علم ہوا کہ مجھے چینی کھانا اور SOUP (سوپ ) پسند ہیں تو اسلام آباد جانے کے بعد آپ نے بغیر میرے کہے خود ہی پتا کر وایا کہ یہاں کون سا اچھا چینی ہوئی ہے اور اس سے میرے لئے کھانا منگوایا.اپنی علالت میں بھی میری چھوٹی چھوٹی ضروریات کا بھی ایسے خیال رکھا کہ حیرت ہوتی ہے.آپ نے شاید اس خیال سے کہ کہیں مجھے کوئی ضرورت پیش آئے اور میں تکلف میں رہوں.ایک روز اپنی آخری علالت کے دوران مجھ سے فرمایا :.بیوی اگر اپنے خاوند کے پیسوں میں سے اس کی اجازت کے بغیر خرچ کر سے تو وہ چوری نہیں ہوتی.اور واقعہ میں نے اپنے پاس موجود ساری رقم صدقہ میں بھجوا دی تھی اور جب آپ نے مجھے یہ بات کہی اس وقت میرے پاس کوئی رقم نہ تھی.دوسرے انسانوں کو سمجھنے کی خدا داد فراست رکھتے تھے.اور بہت کچھ انسانوں کے چہروں سے پڑھ جاتے.اکثر اس کا مجھ سے اظہار بھی فرمایا.لیکن بہت ہی پردہ پوشی کرنے والی طبیعت تھی.اس لئے باوجود علم ہونے کے دوسرے پر اس بات کا اظہار نہ ہونے دیتے کہ آپ اس کی کمزوری کو جانتے ہیں.بارہا مجھ سے یہ فرمایا کہ مجھے سب پتہ چل جاتا ہے کہ تم کیا سوچ رہی ہو.میں خاموش رہتی اور دل میں سوچتی کہ میں نے کون سی بری بات سوچی ہے جو کہ ہو کہ انہیں پتہ نہ چل جائے.اس لئے جب مجھے یہ بات کہتے میں مطمئن رہتی.
۱۲۰ میں ناشتہ میز پر رکھنے کے بعد آپ کو جگاتی.ایک روز مجھ سے فرمایا.کہ مجھے تمہارے ہاتھ لگانے سے پتہ چل جاتا ہے کہ آج تمہارا موڈ کیسا ہے" ہمیشہ اپنے رب سے خیر کے ہی طالب رہے.ایک روز آپ ظہر کی نماز پڑھانے کے لئے بیت المبارک جا رہے تھے میں نے کہا جلدی جائیں اور جلدی آئیں سخت بھوک لگی ہے کہ ہم دوپہر کا کھا ناظہر کی نماز کے بعد کھاتے تھے ).فرمایا.ایسے نہیں کہتے بلکہ کہتے ہیں.خیر سے جائیں اور خیر سے آئیں " قرآنی دعا رب إنّي بِمَا اَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرِ فَقِيره بھی کثرت سے پڑھتے.ایک روز فرمایا.مجھے حضرت مصلح موعود کی لکھی ہوئی آئین کا یہ مصرح بہت پسندہ ہے.8 اہی خیر ہی دیکھیں نگاہیں دشمن کے لئے بھی کبھی بد دعا نہ کی.عشاء میں گفتگو کرتے ہوئے فرمایا :- ان لوگوں کے لئے بد دعا نہیں کرتی.لطیف مزاح آپ کی شخصیت کا خاص حصہ تھا.اکثرو بیشتر لطیف سراح فرماتے اور لطف اندوز ہوتے.چھوٹی چھوٹی باتوں میں مزاح کا رنگ پیدا فرما دیتے اور اگر دوسرا آدمی اس مزاج کو سمجھ کر لوٹا دیتا تو اور بھی زیادہ لطف اندوز ہوتے.ایک صبح ناشتے پر میں نے میز پر پڑے ہوئے سیر کے والے پیاز استعمال کئے.مجھے دیکھا تو میری چائے کی پیالی کی طرف اشارہ کر کے سنجیدہ چہرہ کے ساتھ فرمایا." یہ چائے میں کیسے لگ رہے ہیں ہے میں نے اسی اندانہ میں آپ کی چائے کی پیالی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ " ڈال کر بتاؤں آپ میرے اس جوابی مزاح پر بہت ہے.
۱۲۱ ہمارے آیا کو چائے بہت زیادہ پینے کی عادت تھی اور اس وجہ سے ہمارے گھر میں سب ہی زیادہ چائے پیتے تھے.جنور کو اس بات کا علم تھا.اس لئے اکثر جب میں چائے پی رہی ہوتی اور اگر کوئی عزیز بھی پاس ہوتا تو آپ ان سے مسکراتے ہوئے کہتے.ان کے گھر میں عادت ہے کہ ہر گھنٹے بعد چائے کی ایک پیالی پیتے ہیں.آپ خود کم چائے پیتے تھے.دو کپ صبح ناشتے پر اور دوشام کی چائے پر.آپ نے مجھے سے کہا تو نہیں لیکن شاید آپ چاہتے تھے کہ مکی بھی کم چائے پیوں.اسلام آباد میں ایک روز عزیزہ حسبی نے یہ جاننے کے بعد کہ مجھے شادی سے پہلے رات کے کھانے کے بعد چائے پینے کی عادی تھی تو انہوں نے خود ہی خادمہ سے کہ کہ کھانے کے فورا بعد میز پر چائے بھجوادی.انہوں نے جب چائے دیکھی تو فرمایا."اچھا تو پھر آپ اپنی پرانی عادتوں پر واپس آرہی ہیں.میں خاموش رہی.آپ نے مجھے اپنے لئے چائے کا کپ بنانا بھی سکھایا.آپ پیالی میں دودھ چائے سے پہلے ڈالتے تھے.مجھے چونکہ دودھ پہلے ڈالنے کی عادت نہ تھی اس لئے اکثر ہی اندازہ غلط ہو جاتا اور کئی بار میں غلطی سے زیادہ دودھ ڈال دیتی.آپ پوری بھری..ہوئی پیالی بنواتے.میں قہوہ ڈال رہی ہوتی تو فرماتے."اور " " اور " یہاں تک کہ پیالی کناروں تک بھر جاتی.ایک مرتبہ شروع شروع میں میں نے حضور کو اپنے ہوسٹل میں رہائش کے زمانے کی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ہم فائنل ایٹر میں اکثر رات کو ایک ایک بجے مل کر تربوز کھایا کرتی تھیں.تربوز و یسے بھی مجھے بہت پسند ہے.حضور نے اُسے یادرکھا.اکثر ذکر فرماتے کہ انہیں تو رات کو ایک بجے تربوز کھانے کی عادت
۱۲۲ ہے.وفات سے دو یا تین روز پہلے رات کے تقریباً گیارہ بجے تربوز کھا رہی تھی حضور کی طبیعت میں مزاح کا پہلو بہت تھا.ہلکی سی آنکھ کھولی.دیکھ کر مسکرائے اور فرمانے لگے ” ایک بج گیا ہے میں نے تو اپنی گھڑی کا وقت ٹھیک کرنا تھا.“ ہر احمدی کو ہمیشہ اس بنیادی اصول پر عمل کرنے کی تلقین کی جاتی ہے کہ اس نے کبھی بھی قانون شکنی نہیں کرنی.میں جب میڈیکل کالج میں پڑھتی تھی تو ایک بار ہمارے کچھ پرچے چوری ہو گئے.اسی ضمن میں ہماری کلاس نے سٹرایک کہ دی میں نے بھی اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہوئے اس میں حصہ لیا حضور کو جب علم ہوا تو آپ نے مجھے بلوایا اور فرمایا کہ تمہیں علم ہے کہ ایک بار سٹرائیک میں حصہ لینے پر حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کا جماعت سے اخراج ہونے لگا تھا.میں نے کہا کہ وہ چوروں کو نہیں پکڑتے تھے.آپ نے فرمایا تمہیں اس سے کیا ؟" سو حضور نے زمی اور پیار سے بھی اور سختی سے بھی مجھے منع فرمایا.چنانچہ اس کے بعد میں نے کبھی کسی سٹرائیک میں حصہ نہ لیا.اور کالج کی باقی سب احمدی لڑکیوں کو بھی حضور کا ارث دبتا دیا.بعد میں ازراہ مذاق حضور مجھے STRIKE LEADER.کہہ کر چھیڑتے تھے.رشک اور حد دو ایسے جذبے ہیں جن کا درمیانی فاصلہ اگر چہ بہت کم ہے لیکن ان میں سے پہلا جذبہ تو انسان کو ہمیشہ ترقیات کی طرف لے جاتا ہے اور دوسرا جذ بہ انسان میں موجود خوبیوں کو بھی تباہ کر دیتا ہے.رشک خیر کی طرف لے جاتا ہے اور حسد مشر کی طرف.آپ نے مجھے شروع دن سے ہی حضرت نواب منصورہ بیگم صاحبہ نوراللہ مرقدھا کے اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے نصیحت
١٢٣ فرمائی کہ دیکھو رشک جتنا مرضی کر لیا لیکن حسد کبھی نہ کرنا.زندہ انسانوں اور زندہ قوموں کا کبھی بھی یہ وطیرہ نہیں ہوا کہ وہ صرف اپنے ماضی کو یاد کر کے خوش ہوتے رہیں اور مستقبل کی فکر نہ کریں.بلکہ زندہ تو میں ہمیشہ اپنی نظر مستقبل پر رکھتی ہیں اور ان کا ہر قدم پچھلے قدم سے آگے ہی ہوتا ہے.اسی اصول کو مجھے ذہن نشین کروانے کے لئے ایک مرتبہ جب میں اپنے ہوسٹل کی رہائش کے زمانے کی ایک بات بتا رہی تھی تو آپ نے فرمایا کہ میں تو تب مانوں گا جب آئندہ تم ایسا کر کے دکھاؤ گی.اسی طرح آخری علالت میں ، میں نے ایک چیز کا نام انگریزی میں لیا.آپ فرمانے لگے ہیں تو اُس وقت IMPRESS ہوں گا جب تم مجھے یہ بتاؤ گی کہ ITALIAN نہ بان میں اس کو کیا کہتے ہیں.حضور کی طبیعت میں مہمان نوازی حد درجہ تھی شدید علالت میں بھی جب ہر کسی کی توجہ صرف آپ کی ہی ذات پر مرکوز تھی.آپ کو اپنے مہمانوں کی خاطر داری کا شدت سے احساس تھا.بار بار دریافت فرماتے کہ میرے مہمانوں کو کھانا ٹھیک مل رہا ہے ؟ یا یہ کہ میرے مہمانوں کا خیال رکھو." مہمانوں کے آنے سے گھر میں بہت برکت ہوتی ہے ، کئی بار مجھے کمرے سے باہر بھجواتے کہ دیکھو میرے مہمان کیا کر رہے ہیں.انہوں نے کھانا کھالیا ہے.“ حضور کو بدظنی سے سخت نفرت تھی اور معمولی سے معمولی بات پر بھی بدظنی کرنے کو پسند نہ فرماتے.فرماتے یہ جو لفظ ہوگا " ہے یہ تم لوگوں کو
۱۲۴ خراب کرتا ہے.ایک مرتبہ حضور کمرے میں تشریف لائے اور فرمانے لگے کہ آج ثاقب صاحب آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میری والدہ نے پوچھا ہے حضور آپ کا شادی کرنے کا جو مقصد تھا وہ پورا ہو گیا ہے میں نے ہنستے ہوئے کہا ثا قب صاحب کا اپنا دل کر رہا ہو گا پوچھنے کو اور کہہ اپنی والدہ کا دیا.حضور نے مجھے میری اس غلطی پر ٹو کا اور بدظنی سے منع فرمایا.خدا تعالیٰ کی صفات کا جلوہ اس وقت اور بھی زیادہ ابھر کر ہمارے سامنے آتا ہے جب ہم اس پر گہری نظر سے غور کرنا شروع کر دیتے ہیں.اور پھر یہ جلوہ پھیلتا ہی چلا جاتا ہے اور دُور دُور تک اس کی کوئی انتہا نظر نہیں آتی.اس وقت دل سے بے اختیار خدا تعالیٰ کی حمد نکلتی ہے.اور یہی وہ تعریف ہے جو معرفت الہی کے بعد کی جاتی ہے اور یہی وہ حمد ہے جو کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک زیادہ مقبول ہے.ورنہ طوطے کی طرح صرف زبان سے اقرار کرنا اور دماغی طور پر اس حقیقت کے قائل نہ ہونا انسانیت کے اُس اعلیٰ مرتبہ کے خلاف ہے جو کہ خدا نے اُسے اشرف المخلوقات بنا کر عطا فرما با حضور کے ساتھ میں نے جو چند سفر کئے اُن میں میں نے یہی دیکھا کہ آپ اپنے سفر کا بھی ایک لمحہ ضائع نہ فرماتے بلکہ راستے میں موجود ہر چیز کو نوٹ فرماتے اور میری توجہ بھی اس طرف مبذول کروانے مجھے یاد ہے کہ اگر چہ میں ان راستوں سے پہلی بار گزر رہی ہوتی تھی لیکن میں اُن پر لا پرواہی سے نظر ڈالتی.اس کے ٹیکس حضور شاید بیسیوں مرتبہ ان جگہوں سے سفر فرما چکے تھے لیکن وہ انہیں اتنے غورا در شوق سے دیکھتے کہ مجھے حیرت ہوتی.میں شادی سے پہلے مری صرف ایک بار گئی تھی میں نظاروں
۱۲۵ کو بے توجہی سے دیکھتی رہی لیکن حضور سر نظارے سے یوں لطف اندوز ہور ہے تھے جیسے پہلی بار آئے ہوں.آخر میں نے پوچھ ہی لیا کہ آپ کتنی بارمری آچکے ہیں.غالباً وہ ان گنت دفعہ تشریف لا چکے تھے.فرمانے لگے پہلی بارشتہ میں آیا تھا.اور پھر فرمایا کہ جب فرقان فورس کے ساتھ آئے تو ان پہاڑوں اور پانی میں چلتے ہوئے میرے پیروں کے سارے ناخن ٹوٹ گئے تھے.حضور کی شخصیت میں وقار بھی انتہا کا تھا، خدائی رعب اور جلال بھی تھا.نفاست بھی بے حساب تھی لیکن طبیعت میں درویشی بھی حد درجہ تھی.ایک دن اُن کی اچکن پر میں نے ایک چھوٹا سا داغ دیکھا تو عرض کیا کہ اسے ڈرائی کلین کرد نہیں.فرمانے لگے "چھوڑو.میں دردیس آدمی ہوں " بچوں کی تربیت بڑے ہی خوبصورت انداز سے کی ہوئی تھی.اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ حضور ا ور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ نور اللہ مرد با کی مشترکہ محنت تھی.بہر حال شادی کے بعد جب میں یہاں آئی تو میں نے یہ بات خاص طور پر دیکھی کہ بچے بڑوں کا انتہائی ادب کرتے ہیں اور ان میں کہنا مانے کی بہت عادت ہے.بچوں سے ان باتوں کی امید اس وقت تک نہیں کی جاسکتی جب تک ان کے ساتھ شفقت کا برتاؤ نہ کیا جائے.اگر چہ بعض اوقات سختی بھی کرنی پڑتی ہے لیکن اصل طریقہ پیار و محبت ہی ہے.حضور بچوں کے ساتھ بے انتہا محبت فرماتے تھے.آخری علالت سے چند روز پہلے بیلا بنت صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب) حضور کی پنڈلیاں دبا رہی تھی.میں نے کہا آج بیلا ناراض ہے اور اس نے رات کا کھانا بھی نہیں کھایا.ناراضگی کی وجہ یہ تھی کہ اس کا آج چینی
کھانا کھانے کو دل کر رہا تھا اور امی ابا نے اس کی بات نہیں مانی حضور مسکراتے ہوئے فرمانے لگے بالکل ٹھیک کیا.مجھ سے فرمایا کہ یہ تو میری سب سے لاڈلی پوتی ہے اور پھر اگلے روز حضور نے اپنے دست مبارک سے روپے دیتے ہوئے فرما یا کہ سب بچوں کو چینی کھانا کھلا کر لاؤ.آخری علالت کے دنوں میں سب چھوٹے بچوں کو گھر کے نچلے حصہ میں رکھا ہوا تھا.تا کہ ان کے شور سے حضور کو کسی قسم کی تکلیف نہ ہو.ایک دن مجھے سے فرمانے لگے میری چڑیوں کو کہاں بند کر دیا ہے.میں ان کے شور کے لئے اُداس ہو گیا ہوں ، اور پھر سب بچوں کو بلوا کر ان سے ملے اور نعمان سے کہا کہ انہیں CHOC BAR کھلاؤ اور COKE پلاؤ.کھانے کے کمرے میں آتے جاتے وقت اکثر ہی عثمان (مرزا لقمان احمد صاحب کے بیٹے) کے کمرے میں چلے جاتے اور کچھ دیر اس سے پیار کرتے.اس کی صحت کا ، غذا کا اور دوسرا ہر طرح سے خیال ماں باپ سے بھی زیادہ کرتے آخری دفعہ اسلام آباد میں قیام کے دوران عثمان کی طبیعت فلو سے کافی ناساز ہو گئی.حضور نے اسے اپنے کمرے میں بلوا لیا اور اپنے بستر پر شاکر خود پاس سمجھے گئے.ہومیو پیتھک دوائیں بھی دیں اور ساتھ ساتھ اس کے لئے دعائیں بھی کرتے.چند منٹوں میں اس کی طبیعت بہتر ہونے لگی.حضور نے مسرت سے میری طرف دیکھا اور فرمانے لگے دیکھو اس کی آنکھوں کی سرخی کم ہو گئی ہے.پھر بعد میں بھی خود یاد کروا کر اس کے لئے دوائی اپنے دست مبارک سے دیتے تھے.جب ہم پہلی بار اسلام آباد گئے تو بچے ساتھ نہ تھے.آپ نے سب بچیوں کے لئے
جوڑے بطور تحفہ منگوائے.کچھ تحائف میں خود جب اپنی خریداری کرنے گئی تو یکہ آئی جب ہم واپس ربوہ آئے تو مجھ سے فرمایا کہ یہ سارے تجھے کمرے میں بچھے جو کے چوکے پر سجا دو.اور پھر رات کے کھانے کے بعد آپ نے سب بہوؤں.بیٹیوں.پوتیوں نواسیوں کو بلایا کہ میرے کمرے میں آجاؤ اور سب کو باری باری موقع دیا کہ اپنی پسند کے جوڑے اپنے لئے چن لیں.بعد میں مجھ سے کہنے لگے جب ماریہ جوڑا اٹھانے لگی تو مجھے خواہش تھی کہ وہ یہ والا جوڑا لے اور پھر میں نے توجہ کی تو اس نے وہی جوڑا اٹھایا.حضور بچوں کے ساتھ بہت زیادہ شفقت فرماتے اور ان کی بیویوں میں ان کا بھر پور ساتھ دیتے.ایک دن دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے ہم کھانے کے کمرے کی طرف جارہے تھے گیلری میں سے گزرتے ہوئے بلی کے رونے جیسی آواز آئی.آواز ہم کے کمرے میں سے آرہی تھی حضور اس کے کمرے میں تشریف لے گئے.دیکھا تو جوتے کے ڈبے میں کتنے کا پہنچ رہا تھا.ماہم اسے لاہور سے لائی تھی.میں سمجھی کہ اب یہ کہیں ہم سے ناراض نہ ہوں کہ تم نے یہ کیوں یہاں پر رکھا ہوا ہے.لیکن آپ نے اسے دیکھا کسی قسم کے غصے کا اظہارنہ فرمایا اور مسکراتے ہوئے کھانے کے کمرے کی طرف چل دیئے.شادی کے بعد جب حضور میرے امی ابا کے گھر تشریف لائے تو میرے بہن بھائیوں کے بچوں سے بہت پیارہ فرمایا اور سب کی تصویریں باری باری اپنے دست مبارک سے لیں.پھر جب ہم اسلام آباد گئے تو میری چھوٹی بھیجی
í i ۱۲۸ مریم کو اپنے پاس بلایا اور اس کی تصویر اُسے دیتے ہوئے فرمایا کہ ایسی خوبصورت تصویر نہ آج تک تمہاری کسی نے کھینچی ہوگی اور نہ کھینچے گا.فوٹو گرانی میں بھی حضور کو کمال حاصل تھا اور حسین قدرتی مناظر کو CAPTURE کرنا بہت پسند تھا.بچے بھی قدرت کا حسین ترین شاہ کار ہیں.مجھے یا د ہے اپنی کھینچی ہوئی تصویریں ایک روز آپ مجھے دکھا رہے تھے اس میں ایک چھوٹی سی پیاری سی غیر ملکی بچی کی بھی تصویر تھی جو کہ حیرت سے حضور کو دیکھ رہی تھی حضور نے اُس کی تصویر لے لی.اور اس خوش قسمت بچی کا واقعہ سناتے ہوئے بھی آپ کے چہرے اور آپ کی آواز میں اس کے لئے لیے انتہا پیار تھا.میری بھیجی قدسیہ سے بھی بہت پیار فرماتے.اور فرماتے کہ اس کی شکل ہماری شیدا ( شمائلہ بنت صاحبزادہ مرزا انس احمد صاحب) سے بہت ملتی ہے.اس لئے اسے ہمیشہ محترمہ شمائلہ بنگیم ہی کہہ کر بلاتے.اور ایک دن جب امتی کی طرف گئے تو از راہ مذاق میرے بھائی سے فرمانے لگے کہ اسے یکیں ۴، روپے ۵۰ پیسے میں تم سے خرید لیتا ہوں.گزشتہ سال فروری میں میری بھابھی واپس انگلینڈ جانے والی تھیں.حضور سے ملنے گئیں تو اُن سے فرمایا کہ جانے سے پہلے بچوں کو ملوانے کے لیے لانا.دوہ ان دنوں لاہور میں اپنے والدین کے پاس تھیں.چنانچہ جب وہ بچوں کے ساتھ آئیں تو آپ نے انہیں اپنے ذاتی بیٹھنے والے کمرے میں ہی میگو ا لیا.بچوں سے بہت پیار فرمایا اور ان کی چھوٹی بیٹی" نبو" سے فرمانے لگے کہ تمہیں پتہ ہے چڑیا کو کیسے پکڑتے ہیں ؟ اور پھر آپ نے اپنا جبہ اتار
حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کسر صلیب کانفرنس کے لئے بیت فضل لندن میں تشریف لارہے ہیں (۱۹۷۸ء) حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ہیمبرگ میں پریس کانفرنس کے موقع پر ایک جرنلسٹ سے گفتگو فرمارہے ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث ” کسر صلیب کانفرنس سے خطاب فرمارہے ہیں
شکار کا شوق.گھوڑوں کا شوق فوٹو گرافی کا شوق.
۱۲۹ کہ اُس کے اوپر ڈال دیا.وہ بالکل اس میں یوں گھر گئی جیسے جال میں پرندہ.آپ اُٹھ کر اپنے کمرے میں گئے اور میٹھا چڑھے بادام بچوں کے لئے لے کر آئے پھر آپ نے اپنا جبہ اس پر سے اتارتے ہوئے فرمایا " لبس اس سے زیادہ برکت اب میں تمہیں نہیں دے سکتا.“ اور وہ اس کی حضور کے ے.“ ساتھ آخری ملاقات تھی.حضور کو شکار کا بہت شوق تھا اور بچپن سے ہی بچوں میں اس کی رغبت پیدا فظاتے.ہماری شادی سے دو تین سال پہلے کی بات ہے حضور احمد گر نیں سیر کے لئے گئے ہوئے تھے.میرے بہنوئی اور بڑی ہمشیرہ بھی اپنے بچوں کے ساتھ وہاں تھے.اُن کے بڑے بیٹے فاتح کی عمر اس وقت تقریباً 4 سال تھی.آپ نے فرمایا کہ اسے ایرگن AIRGUN لے کر دو.شادی کے بعد آپ نے مجھ سے فرمایا کہ بچہ جب کم از کم تین ہزار چھترا چلائے تو پھر اس کا نشانہ صحیح ہوتا ہے.آپا کا فون آیا تو میں نے ان سے کہا کہ حضور نے یہ فرمایا ہے اس لئے آپ فاتح کو خوب مشق کرنے دیا کریں.آپ نے بعد میں مجھ سے فرمایا کہ ہاں تم نے انہیں ٹھیک کہا ہے.حضور کبھی بائیں ہاتھ میں چیز نہ دیتے تھے.بچہ ہو یا بڑا جب تک دایاں ہاتھ سامنے نہ کمر سے آپ اُسے چیز نہ پکڑاتے بلکہ اپنا ہاتھ پیچھے کھینے لیتے اور جب وہ دایاں ہاتھ سامنے کرتا تو پھر اُسے پکڑا دیتے.آپ بہت محتاط طبیعت کے مالک تھے شادی کے پہلے دن ہی آپ مجھے اپنے ساتھ غسل خانے میں لے کر گئے اور سمجھایا کہ بہ گرم پانی کی ٹوٹی ہے اور
یہ سرد کی.پہلے سرد کھولنا پھر آہستہ آہستہ اس میں گرم ملانا.احتیاط کرنا میں ایک بار اپنا ہاتھ جلا چکا ہوں.پہلا دن تھا کچھ بول تو نہ سکی البتہ دل میں خیال آیا کہ یہ بھی بھلا کوئی بنانے والی بات ہے.اس کے بعد غلطی سے بھول کر میں نے دوبار اپنا ہا تھ جلایا.اسلام آباد میں ایک روز شام کی چائے پر انہیں چائے کے چھچھے پر عجیب ذائقہ محسوس ہوا.مجھ سے فرمانے لگے منصورہ بیگم میر ہے برتن خود دھویا کرتی تھیں.تم بھی میرے برتن خود دھویا کرو.اگلے کھانے پڑ کھانے سے پہلے میں اس غرض سے اپنے کمرے سے باہر آئی کہ ان کے لئے برتن خود دوبارہ دھو کر میٹر پر لگا دوں.میں لگانے آئی تو عزیز چسبی نے کہا کہ انہوں نے خود دھو کر لگا دیئے ہیں.میں نے شرم میں پھر نہ دھوئے ، اس کے بعد پھر ان کی بیماری میں تو کسی اور چیز کی ہوش ہی نہ تھی.اس بات کی بھی بہت احتیاط رکھنے اور مجھ سے بھی رکھواتے کہ پڑے ٹھیک طرح سے کھینچے ہوں.اور یہ کہ کوئی دروازہ، اور اس کی کل کھلی نہ ہوں.سونے سے قبل دروازوں کی گلیں خود چیک کرتے..سے دروازوں..ایک روز صبح ناشتہ کی میز پر بیٹھے تھے.میں ان کے لئے اور اپنے لئے چائے کی پیالیاں بنا کہ لائی.ایک پیالی ان کے لئے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی.دوسرے ہاتھ میں اپنے لئے چائے پکڑی ہوئی تھی.فرمانے لگے اس طرح تم سے چائے گر کر مجھے جلا سکتی ہے.چنانچہ پھر میں نے احتیاط برتنی شروع کر دی.انھیں چائے دے کر پھر اپنی
۱۳۱ پیابی لاتی.حضور نماز ظہر یا اکثر نماز عصر کے بعد تھوڑی دیر کے لئے زیر تعمیر نئے قصر خلافت چلے جاتے اور عمارت کی تعمیر کا معائنہ فرماتے.ہدایات وغیرہ دیتے.ایک روز قصر خلافت کے صحن میں لگے ہوئے ایک درخت کی چھوٹی سی پہنی ہاتھ میں پکڑے کمرے میں آئے.اس پر سبز رنگ کے چھوٹے چھوٹے بیچ کالی مرچ کی شکل اور سائز کے لگے ہوئے تھے.فرمانے لگے یہ کالی مرچ سے ملتے ہیں.میں نے چکھنے کے لئے فوراً ایک دانہ منہ میں ڈال لیا کہ دیکھوں ذائقہ بھی کالی مرچ جیسا ہے یا نہیں.آپ بہت گھبرائے اور بغیر علم کے ہر چیز کو یوں منہ میں ڈالنے سے منع فرمایا.انسانی نفسیات کو آپ کتنا سمجھتے اور اس کا کتنا احساس فرماتے تھے اس کا اندازہ آپ کی اس بات سے ہو سکتا ہے.ایک روز ناشتے پر جب میں آپ کے لئے چائے بنا رہی تھی آپ نے مجھ سے فرمایا یہ ہر عورت کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے خاوند کی زندگی میں سرے “ میں نے جب آپ کی یہ بات سنی تو آپ کو دیکھا اور خاموش رہی اور چائے بناتی رہی.آپ نے بھی خاموشی سے مجھے دیکھا اور مزید کچھ نہ فرمایا.میں اس وقت ان کی یہ بات سن کر ڈر گئی.کیونکہ شادی سے چند روز قبل میرے دل میں بھی یہ خواہش پیدا ہوئی تھی.لیکن ساتھ ہی میرے دل و دماغ میں حضور کی اس کیفیت کا نقشہ آیا.جو حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی وفات پر آپ کی تھی.جب میرے تصور میں آپ کی وہ حالت آئی تو مجھ سے برداشت نہ ہوا.کہ ایک مرتبہ پھر آپ اسی کرب میں سے گزریں.اس لئے میں نے سوچا کہ اچھا ئیں یہ تکلیف برداشت کر لوں گی لیکن اللہ تعالیٰ پھر مجھے بھی جلد
ہی بلا ہے.آپ کی اس بات سے میرے ذہن میں اپنی ساری سوچ گھوم گئی.اور میں ان سے کچھ نہ کہ سکی.آپ میں تحمل اور یہ داشت بہت تھی.میری نادانیوں کو بھی محبت سے برداشت کر تھے ایک روز مجھ سے کہا :- بعض دفعہ تم بالکل بچوں جیسی حرکت کرتی ہو گا.اور ایک دفعہ یہ کہا." بعض دفعہ تم بالکل دس سال کے بچے جیسی حرکت کرتی ہو گیا لیکن ساتھ ہی ہنس کر یہ کہہ دیتے :.BUT I ENJOY IT اور اور میں مطمئن رہتی.اللہ تعالیٰ کی ذات پر متفی کامل کی طرح بے پناہ تو کل تھا.آپ نے فرمایا :- میں نے زندگی میں کبھی کسی انسان سے کچھ نہیں مانگا " توکل علی اللہ کی اس بے مثال دولت سے مجھے بھی حصہ دے گئے.ایک مرتبہ جب ہم پہلی مرتبہ اسلام آباد گئے تو مجھے ایک چیز کی ضرورت پیش آئی.میں نے آپ سے اسے منگوانے کے لئے کہا.آپ نے اسے منگوانے کے لئے ہدایات دیں.لیکن مطلوبہ چیز مل نہیں رہی تھی.آپ نے مجھ سے ذکر نہ کیا اور کوشش کرواتے رہے.اسی روز شام یا شاید اگلے روز وہ چیز تحفہ کوئی سے آیا.- آپ نے میرے بھائی سے اس واقعہ کا ذکر کیا اور پھر بڑی سنجیدگی سے فرمایا : - " خدا اسے بھی نئی نہیں دے گا اور اس کی سب ضردر تمیں خود پوری کہ لگا یہ اور یہ حقیقت ہے کہ میں نے دن رات لمحہ بہ لمحہ اس بات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے.اور محسوس کیا ہے کہ خدا تعالیٰ خود میری ساری ضرورتیں پوری کرتا چلا جاتا ہے.ایسے اوقات میں
۱۳۳ مجھے اللہ تعالیٰ کے احسانوں کے شکر کے ساتھ ان کی محبت بھری یاد بھی ضرور آتی ہے اور نظروں میں آپ کا وہ چہرہ آجاتا ہے.مجھے یاد ہے یہ بات کہتے ہوئے آپ کا لہجہ اور چہرے کا ناثمہ بالکل بدل گیا تھا.بہت الفصل اسلام آباد کے ٹی وی لاؤنج میں بیٹھے ہوئے آپ نے یہ بات ارشاد فرمائی.میری چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کا بھی بہت احساس فرما تھے اور اس طرح خاموشی سے خیال رکھتے کہ بہت سی باتوں کا تو مجھے بعد میں پتا چلا.ایک روز رات کو آپ نے مجھے سپین کا بنا ہوا جوس پینے کے لئے دیا.مجھے وہ بہت اچھا لگا.اگلے روز سے خود ہی کہہ کہ میرے لئے کمرے میں جوس پینے کے لئے برتن رکھوانے شروع کر دیئے سب سے زیادہ حیرت تو مجھے اس وقت ہوتی جب آپ بیمار تھے.کمرے میں اور کوئی نہ ہوتا پھر بھی اگر میں نے کسی چیز پر پسند کا اظہار کیا ہوتا تو وہ میرے لئے موجود ہوتی.مجھے پتہ بھی نہ چلتا کہ آپ کب کسی آنے والے سے اس کا کہہ دیتے.آپ کے لئے باہر سے کچھ کھانے کی اشتہار آئیں میں نے اس خیال سے پہلے انہیں چکھا کہ جو زیادہ اچھا ہو وہ آپ کو دوں.میں نے چائے پھر آپ کو دیتے ہوئے کہا یہ بہت اچھا ہے.مجھے پتہ نہیں چلا آپ نے کب کس سے کہا کہ وہ اس SNACK کو خاص طور پر میرے کمرے میں رکھ جائیں.پھر اپنی علالت میں بھی میری پسند کے پیش نظر خاموشی سے میرے لئے تربوز اور چینی کھانا منگوایا.اور اپنا یہ عالم تھا کہ بے انتہا قدر کرنے والی طبیعت میری تھوڑی خدمت کو بھی بہت سمجھتے.ایک عزیزہ سے فرمایا." انہوں نے ایک رات میں میری ایک سال جتنی خدمت کی ہے." مجھے سے فرمایا " یہ چھوٹے چھوٹے ہاتھ میرا اتنا کام کرتے ہیں.ان دنوں میں میرے
۱۳۴ کھانے کے لئے خاص تاکید کی اور فرمایا" یہ کہیں ہمارہ نہ پڑ جائیں.ان کے کھانے کا خاص خیال رکھنا.“ مئی ۱۹۸۲ء کے شروع میں آپ پیش سے بیمار ہو گئے.ساتھ ہی بخارہ بھی تھا.گرمیوں کے دن تھے لیکن رات کو کمرہ ٹھنڈا ہونے کے باعث آپ اپنا گرم استعمال فرماتے تھے.مجھے آپ نے ایک ہلکا خوبصورت کمبل اوڑھنے کے لئے دیا.جب آپ کو بخار ہوا تو آپ کو سردی محسوس ہوئی.میں نے اپنا کمیل آپ کو دے دیا اور آپ کی چادر خود لے لی.آپ نے چند دن استعمال فرمایا اور آپ کو وہ بہت پسند آیا اور فرمایا یہ یہ بہت اچھا ہے " میں نے آپ کی پسند کے پیش نظر کہا کہ آپ یہی استعمال کرلیا کریں.فرمایا.ٹھیک ہے اور تم میرا دمعسہ لے لو.پھر خیال آیا کہ کہیں مجھے اس میں ٹھنڈ نہ لگے.ایک نسبتاً موٹی دلائی مجھے لا کر دیتے میں نے ہوئے فرمایا :" اگر سردی لگے تو یہ لے لینا " شاید میں اصل روح اس واقعہ کی بیان نہ کر سکوں لیکن آپ جس طرح فکر سے میرے لئے دلائی وغیرہ کا بندوبست کر رہے تھے اسے میں ہی محسوس کر سکتی ہوں.دلائی کے ذکر میں ہی آپ کی حساسیت کا ایک اور واقعہ یاد آیا.اسلام آبا دمیں ایک روز میں نے بغیر کسی مقصد کے ویسے ہی اپنی دلائی کے بارہ میں کہ دیا کہ یہ با لکل چوکور ہے " آپ نے سمجھا شاید مجھے پسند نہیں آئی.فرمایا " تم میری دلائی لے لو اور یہ مجھے دے دویا میں شرمندہ ہو گئی اور کہا " نہیں " آپ نے پھر فرمایا.کہ بدل لو لیکن میں نے آپ کی دلائی نہ لی.آپ کرے میں ڈاک دیکھ رہے ہوتے تو میں پاس بیٹھ جاتی اور کئی بار ایسا کرتی
۱۳۵ کہ آپ جو فائل دیکھ چکے ہوتے اسے اس کے لفافے میں ڈالتی جاتی اور نئی فائی نکال کر آپ کے لئے تیار رکھتی.آپ بھی اپنا کام کر تے رہتے اور میری دلچسپی کا سامان بھی رہتا.ایک روز آپ ڈاک دیکھ رہے تھے کیسی بچی کا نام رکھنے کی درخواست تھی.مجھ سے فرمایا.اس کا نام تم تجویز کردو.میں نے "قانتہ" کہا آپ نے وہی تحریر کہہ دیا.ایک روزہ ڈاک دیکھتے ہوئے ایک بچی کا نام آپ نے لکھا.غالباً " فاخرہ تھا میں نے غور سے پوری عبارت پڑھی تو پیدا ہونے والی بچی کی بڑی بہن کا بھی وہی نام لکھا ہوا تھا.میں نے کہا آپ نے اس کی بہن کا نام ہی دوبارہ رکھ دیا.پھر آپ نے وہ نام تبدیل کر دیا.اپنا کام پورے انہماک سے کرتے اور کام کے دوران مجھے بات کرنے سے منع کیا ہوا تھا.کئی مرتبہ مجھ سے فرمایا.جب میں کام کر رہا ہوتا ہوں تو تم مجھے بالکل یاد نہیں آئیں.میں یہ بات سُن کر کچھ نہ کہتی.ایک روزہ مجھ سے یہی بات کہ کہ فرمایا.لیکن جب کلرک میرے سامنے سے ایک فائل اُٹھا کر دوسری فائل رکھتا ہے تو اس دوران جود قفہ ہوتا ہے اس میں میں تمہیں یاد کر لیتا ہوں.جامعہ کے دو طالبعلموں نے (غالباً غیر ملکی تھے اور تعلیم مکمل کر نے کے بعد واپس جا رہے تھے ، اپنے دو جائے نماز حضور کو بغرض دعا دیئے.آپ انہیں کرے میں لائے اور مجھ سے فرمایا کہ انہیں بجھا دینا ( تا کہ ان پر نما نہ ادا کر سکیں، اور فرمایا تم بھی ان پر دو نفل پڑھے کہ دعا کہ دینا حضور کا تجھے دُعا کے لئے کہنا عجیب لگا.لیکن میں خاموش رہی اور ان کی بات پر عمل کیا.آپ نے ان دونوں جاء نما نہ دوں
! پر نماز ادا فرمائی.میں نے انہیں اوپر نیچے بچھانے کی بجائے اس طرح بجھایا کہ ان کا کچھ حصہ درمیان میں OVERLAP کر رہا تھا اور باقی حصہ علیحدہ تھا.میرا مقصدیہ تھا کہ ظاہراً بھی حضور کا وجود مبارک دونوں جاء نما نہوں پر آجائے میرا اپنا خیال تھا.ویسے حضور نے بھی میرے اس طرح بچھانے پر کچھ نہ فرمایا.آپ نے ہمیشہ مسکرانے کا سبق دیا اور اپنی ساری عمر حتی کہ زندگی کے آخری لمحات بھی مسکراتے ہوئے گزارے.آخری علالت میں سارا وقت خود بھی مسکراتے رہے اور دوسروں کو بھی مسکرانے کا درس دیتے رہے.ایک روز میں پاس بیٹھی بازو دبا رہی تھی.میری آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے.میں سمجھی تھی کہ آپ سورہے ہیں.اتنے میں آپ نے آنکھیں کھولیں.میری طرف دیکھا تو مسکراتے ہوئے فرمانے لگے تمہاری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں.میری طرف دیکھو ئیں کیسے سکرار ہا ہوں.اگر تم روٹی تو باہر جو بیٹھے ہیں انہیں کون نیستی دے گا.تین چار مرتبہ یہ بھی فرمایا کہ اس بیماری کے شروع دنوں میں مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ کسی بھی لمحہ میری وفات ہو سکتی ہے لیکن میں مسکراتا رہا ، اتنا عظیم حوصلہ تھا، اتنی زبر دست قوت برداشت تھی کہ باوجود اس کے کہ طبیتی طور پر ان کی علالت کی شدت کو جانتی تھی ہیں بھی یہ دھو کہ کھا جاتی تھی کہ جیسے انہیں کوئی تکلیف ہی نہیں.باہر سے جو ڈاکٹر تشریف لائے انہوں نے بھی یہی کہا کہ میں نے ایسا عظیم حوصلے والا انسان نہیں دیکھا.بیماری کی حالت میں بھی انہیں یہ پسند نہ تھا کہ وہ افسردہ چہرہ کے
! 1.۱۳۷ ساتھ دوسروں سے ملیں.چنانچہ جب بھی ڈاکٹر ز نے انہیں دیکھنے کے لئے آنا ہوتا تو ان کے آنے سے پہلے آپ بال درست کرواتے اور خوشبو وغیرہ لگواتے اور پھر انتہائی بشاشت اور حو صلے کے ساتھ اُن سے باتیں فرماتے.ہم اگر ذرا سا بھی بیمار پڑ جائیں تو یہی محسوس کرتے ہیں جیسے ساری دُنیا سے زیادہ ہم ہی تکلیف میں ہیں.لیکن حضور میں یہ بات نہ تھی.آپ کو اپنی شدید بیماری میں بھی دوسروں کا زیادہ خیال رہتا.اس بیماری کے دوران بھی آپ بار بار گھر والوں سے میرے متعلق فرماتے کہ ان کے کھانے کا خیال رکھو اور یہ کہ یہ رات بھر جاگتی ہیں اس لئے دن کے وقت انہیں سلا دو.اتنا زیادہ خیال فرماتے کہ میں اکثر شرمندہ ہو جاتی اور پھر آخری دوپہر کو کھانے کے وقت مجھے سے فرمانے لگے کہ تمہیں نیند کی دوائی دے کر اگلے چوبیس گھنٹوں کے لئے سالا دینا چاہیئے.اور اس سے قریباً ۱۲ گھنٹے بعد آپ کی وفات ہو گئی.“ اس مرد آہن نے اپنی ذات کو جماعت کے مفاد کے لئے بالکل پس گیشت ڈال دیا تھا.اپنا رغم بھول کر ہمیشہ افراد جماعت کا حوصلہ اور تہمت بندھائی.مصائب میں خود کراکر انہیں مسکرانا سکھا دیا.فرماتے تھے جب حضرت مصلح موعود ( اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو) کی وفات ہوئی اُس وقت افراد جماعت کی کمر صدمے سے ٹوٹی ہوئی تھی.اس وقت میں نے انہیں دلاسہ دنیا تھا.چنانچہ میں ایک ایک احمدی کا خط خود اپنے ہاتھ سے کھولتا، پڑھنا اور پھر اسے تسلی کا جواب دیا.پھر ہ کا صبر آزما دور آیا.افراد جماعت اپنی جانوں کے نذرانے
۱۳۸ پیش کر کے ، اپنے مال واسباب شا کہ تہی دست ہو کہ یہاں پہنچتے اور آپ اپنے سب غموں کو دل میں چھپا کر مسکراتے ہوئے چہرہ کے ساتھ انہیں ملتے اور اُن کے چہروں پر بھی مسکراہٹیں بکھیر دیتے.سوچتی ہوں وہ تو کسی دوسرے انسان کا معمولی سا دکھ بھی برداشت نہ کر سکتے تھے وہ کیسے اپنی پیاری جماعت کو پہنچائے جانے والے اس عظیم دکھ کو برداشت کرتے ہوں گے.ایک دفعہ میں کسی معمولی سی بات پر روپڑی.جب آپ نے میری آنکھوں میں آنسو دیکھے تو شدید کرب آپ کے چہرے پر آگیا اور فرمانے لگے میں نے تمھیں لکھ دیا میں بہت بڑا انسان ہوں.آپ کے چہرے کا کرب دیکھ کرا اور آپ کی بات شن کر میں گھبرا گئی اور پھر آپ کا دکھ میری برداشت سے باہر ہونے لگا.آج بھی سوچتی ہوں تو تکلیف ہوتی ہے.پھر حضرت نواب منصورہ بیگم صاحبہ نور اللہ مرقدھا کی وفات پر جس عظیم حوصلے اور برداشت کا آپ نے ثبوت دیا وہ ایک عام انسان کے بیس کی بات نھی.اُس وقت جماعت دو طرح سے دُکھ محسوس کر رہی تھی.ایک تو ان کی وفات کا اور دوسرا اس بات پر سر احمدی کا دل تڑپ رہا تھا کہ ہمارے محبوب امام اس وقت تکلیف میں ہیں.لیکن جب آپ اسی روز نماز جمعہ پڑھانے کے لئے مسجد میں تشریف لائے اور کمال صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے خطبہ ارشاد فرمایا تو ٹوٹے ہوئے دلوں کو سہارا مل گیا اور خدا کی رضا پر راضی ہونے کا حوصلہ.میں نے جب اس بات کا ذکر آپ سے کیا تو آپ فرمانے لگے کہ ہاں اگر میں اُس وقت جماعت کو سہارا نہ دیتا تو اور کون دیتا.انہوں نے جماعت کی ہمت بندھانے
کے لئے اپنے دکھ کو بھلا دیا.اور جماعت نے بھی اپنے امام سے ایسا پیار کی ہیں کی مثال آج کی دنیا میں تو نہیں ملتی ، ہاں البتہ صحابہ کے زمانہ کی یاد ضرور تازه کر دیتی ہے.برطانیہ کے ڈاکٹر ماہر امراض قلب DR.JANKINS نے جو حضور کے علاج کے لئے لندن سے تشریف لائے تھے واپسی پر مرزا فرید احمد صاحب سے فرمایا : " و میں نے اتنے CONCERNED لوگ کبھی نہیں دیکھے.حب.میں اُن کو (حضور کو) دیکھ کر لکھتا تھا تو جماعت کے لوگوں کی آنکھوں میں میرے لئے بہت پیار ہوتا تھا.صرف اس لئے ناکہ میں ان کے امام کا علاج کر رہا ہوں “ ایک مرتبہ جمعہ کی نماز پڑھانے کے بعد حضور جب گھر واپس تشریف لائے تو مجھ سے خطبہ کے متعلق میرے تاثرات پو چھے.میں نے عرض کیا کہ حضور نے خطبہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی جو تشریح فرمائی ہے وہ مجھے بہت اچھی لگی ہے.حضور کے ارشاد کا مفہوم یہ تھا کہ ہر شخص کو خدا تعالیٰ نے مختلف استعدادیں مختلف حد تک دی ہیں.حضرت رسول کریم صلی الہ علیہ وسلم کو تمام استعدادیں سب انسانوں سے بڑھ کر دی گئیں اور انہوں نے اپنی ان تمام استعدادوں کی نشو نما کو اپنی انتہا تک پہنچایا.پس اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ہر انسان کو جو روحانی ، جسمانی ، اخلاقی اور طبی استعداد ہیں عطا کی گئی ہیں وہ انہیں اُن کے نقطہ کمال تک پہنچائے.حضور کی زندگی اور شخصیت پر اگر حضور کے مندرجہ بالا ارشاد کی روشنی
۱۴۰ میں نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ حضور نے اپنی ہر استعداد کو خدا تعالے کے فضل کے ساتھ انتہا تک پہنچایا.اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اس حد تک عمل فرمایا کہ آپ کے جسم اور روح قول اور فعل کا ذرہ ذرہ اور آپ کی زندگی کا ہر ہر لمحہ اس بات پر گواہی دنیا ہے کہ آپ نے اپنی تمام عمر خدا اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکموں کی پیری کرتے ہوئے گزاری.میں پہنچ کہتی ہوں کہ چوبیس گھنٹوں میں سے حضور کے ساتھ گزارا ہوا ایک ایک لمحہ اس بات کی گواہی دیتا تھا کہ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ خدا اور اس کے رسول کے حکم کے مطابق گزر رہا ہے.ایک عام انسان کے اہل خانہ سے مراد تو وہی افراد کئے جاتے ہیں جن سے اُن کا جسمانی رشتہ ہونا ہے لیکن خلیفہ وقت کے اہل خانہ میں اس کی روحانی اولاد بھی شامل ہوتی ہے.افراد جماعت کے ساتھ حضور کو جو بے انتہا محبت اور پیار تھا.اس کا ایک وافر حصہ تو میں نے بھی شادی سے پہلے حاصل کیا ہوا تھا.لیکن اس کی اصل کیفیت کا اندازہ مجھے شادی کے بعد ہی ہوا.اور اس محبت اور پیار کا مکمل اظہار کرنے سے میرا قلم قاصر ہے اور اظہار کرنے کی چنداں ضرورت بھی نہیں کیونکہ ہر مخلص فرد جماعت کا دل خود ہی اس بات کو جانتا ہے کہ حضور نے اُس سے کس قدر محبت فرمائی.افراد جماعت کو جو دلی محبت اور پیار حضور سے تھا.آپ کو اس کا گہرا احساس تھا اور اس احساس سے لذت بھی محسوس فرماتے تھے.بارہا مجھ سے
۱۴۱ فرمایا " جماعت مجھ سے بہت پیار کرتی ہے." ۳۱ مٹی کو جب اچانک حضور کی طبیعت بہت زیادہ ناساز ہوگئی تو اُس وقت بھی جبکہ کمزوری اور سائنس کی شدید تکلیف کے باعث بات کرنا بھی دشوار تھا.حضور نے فرمایا " الفضل میں میری صحت کے متعلق ایک مبین شائع کردا دو.جماعت کو صحیح صورت حال سے آگاہ کر دو.لیکن اتنا پیار کرنے والی میری جماعت ہے." EXAGRATION نہ ہو.اس وقت انہیں اس بات کی پرواہ نہ مخفی کہ فلاں رشتہ دار کو خبر کرد یا فلاں دوست کو.بلکہ خیال تھا تو صرف اپنی پیار کرنے والی جماعت کا.سوچتی ہوں جماعت کو جو بے انتہا پیار حضور سے منھا اور ہے اس کے اظہار کا ایک طریق تو یہ ہے کہ وہ آپ کا ذکر محبت و پیار سے کرتی رہے لیکن وسرا طریق جو کہ اصلی اور حقیقی طریق ہے وہ یہی ہے کہ جماعت ان تمام خواہشات اور امیدوں کو پورا کر سے جو حضور کو اُن سے وابستہ تعمید آخری علالت اور وفات ۲۳ مئی ۱۹۸۲ء کی صبح ہم اسلام آباد روانہ ہوئے حضور کا ارادہ وہاں چند دن قیام فرما کر اپنے بیرونی سفر کی تیاری کرنا تھا جس میں بیت البشارت سپین کا افتتاح بھی شامل تھا، ربوہ سے روانگی سے قبل حضور بہت زیادہ مصروف رہے اور اپنا زیادہ تر وقت دفتری کام میں گزارا.آپ نے یہ فقرہ مجھ سے کئی بار فرمایا : کہ میں اپنا کام WIND UP کر کے جانا چاہتا ہوں.
۱۴۲ اس سفر کے دوران جب ہم جہلم کے قریب پہنچے تو حضور نے مجھ سے فرمایا : " آج میں پہلی بار سفر میں تھک گیا ہوں.حضور کو DIABETES ذیا بیطیس کی تکلیف شراء سے تھی.اور آپ اس کے لئے باقاعدگی سے گولی DIABENESE کا استعمال فرماتے اور ہومیو پیتھک دو بھی استعمال فرماتے تھے.میں نے دکھا تھا حضور کے پاؤں اکثر متورم ہوجاتے تھے.میں نے نشان دہی کی تو فرمایا : میں دفتر میں چونکہ زیادہ دیر بیٹھ کر کام کرتا ہوں اس لئے پاؤں سوج جاتے ہیں.“ بعض دفعہ حضور کو سینے میں جلن کی تکلیف بھی محسوس ہوتی جسے آپ معدے کی جلن خیال فرماتے کبھی کبھی آپ کی نبض بھی تیز ہو جاتی.۲۶ مٹی کی شام حضور نیچے مغرب اور عشاء کی نمازیں پڑھانے گئے آپ کا قیام اسلام آباد میں بیت الفضل کی بالائی منزل پر ہوتا تھا).تھوڑی دیر بعد میں کسی کام سے کمرے سے باہر جانے لگی اور دروازہ کھولا تو عین اسی وقت حضور کو اپنے سامنے پایا.ایک دم انہیں غیر متوقع طور پر سامنے پاکر میں ایک لمحے کے لئے ڈری کیونکہ حضور معمول سے ذرا جلد واپس تشریف لے آئے تھے.میں نے کہا کہ آپ نے مجھے ڈرا ہی دیا.لیکن جب میں نے حضور کا چہرہ دیکھا تو وہ بدلا ہوا تھا اور اس پر تکلیف کو سختی سے جذب کرنے والے تاثرات تھے.کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ذرا گھبراہٹ سے مجھے فرمایا کہ نماز پڑھاتے پڑھاتے میری طبیعت اچانک خراب ہوگئی میری ٹانگیں بری طرح کا نپنے لگیں.آخری رکعت میں تے بیٹھ کر صرف اپنی قوت ارادی ) ارادی) WILL
۱۴۳ POWER کے ذریعے ادا کی اور اب اوپر بھی صرف قوتِ ارادی سے ہی سیڑھیاں چڑھ آیا ہوں.میں نے پگڑی اور سوٹی پکڑ کہ کوئی اور ا چکن اتمر دا کہ ان سے کہا کہ آپ فورا کیٹ جائیں.پھر میں نے پوچھا کہ آپ کا بلڈ پریشر چیک کر لوں.فرمانے لگے ہاں ! بازو پسینے سے شرابور تھے اور قمیض اسکی بالکل تر تھی.بلڈ پر یشیر اس وقت معمول سے بہت زیادہ تھا غالباً پڑا تھا.عام طور پر حضور کا بڑا ہوتا تھا.اور منقبض کی رفتار تیز تھی.ڈاکٹر نوری آئے تو انہوں نے ای سی جی لینا چاہا.پہلے تو آپ نے انکار کر دیا.فرمانے لگے : " مجھے پتہ ہے میرا دل بالکل صحیح ہے کہ 4.دراصل میں نے دیکھا تھا کہ حضور کی طبیعت یہ بات قبول کرنے کے لئے بالکل تیارہ نہ تھی کہ ان کے دل کو کوئی تکلیف ہے.یہی وجہ تھی کہ جب انہیں دل کی تکلیفت ہوئی تو میرا دل بالکل نہیں چاہ رہا تھا کہ میں حضور کو یہ بتا دوں.میرا خیال تھا کہ آپ یہ برداشت نہیں کر سکیں گے.مگر میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب آپ کو ڈاکٹر نے صاف صاف سب کچھ بتا دیا تو آپ نے کمال حو صلے کے ساتھ بغیر کسی گھیر اہٹ کا اظہار کئے اسے قبول کر لیا.چنانچہ اس دن آپ نے پہلے تو ای سی.جی کروانے میں تامل کیا.لیکن پھر فرمانے لگے.اچھا تم لوگ چاہتے ہو تو کروا لیتا ہوں تا کہ تم اپنا شک دور کر لو.چنانچہ ڈاکٹر نوری صاحب نے ای سی بھی لیا.لیکن اس پر کوئی خاص بات نظر نہ آئی.کچھ دیر آرام کرنے سے اور کھانا کھانے کے بعد (جو کہ اس وقت حضور نے اپنے کمرے میں ہی کھایا ، طبیعت میں بہتری محسوس کی.اس روز دوپہر کا کھانا حضور نے معمول سے کم کھایا تھا.اور شام کی چائے پیر SNACKS بھی کم لئے تھے.اس لئے
یہی سمجھے کہ خون میں شکر کا لیول ( LEVEL کم ہونے کی وجہ سے ایسا ہوا ہے.اگلے تین چار روز میں حضور کی طبیعت پوری طرح ٹھیک نہ ہوئی اور مجھ سے فرمانے لگے کہ میں محسوس کر رہا ہوں کہ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہو رہی اسی لئے اس شام (۲۶ مئی) کے بعد حضور نیچے نماز پڑھانے کے لئے بھی نہ جا سکے.اس دوران حضور کو ہلکا ہلکا بخار بھی ہوتا رہا.اور کھانسی کی تکلیف بھی رہی.غالبا حضور کو دل کا حملہ ۲۲ مٹی کی شام کو ہی ہوا تھا.لیکن فوری طور پر ای سی.جی میں علامت نظر نہ آنے کی وجہ سے پہلے اس کا علم نہ ہوا.بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ای سی جی میں فوری طور پر تبدیلی رونما نہیں ہوتی.اس لئے بار بار ای بی.جی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے) ۲۹ مٹی کو ہمارا نتھیا گلی جانے کا پروگرام تھا.حضور چونکہ کمزوری محسوس کر رہے تھے اس لئے پروگرام ملتوی کر دیا.۳۰ مٹی کی شام مجھ سے فرمایا.آج میرا دل بہت اداس ہے.۱ رمئی بروز پیر صبح میری آنکھ جلد کھل گئی حضور کو کھانسی زیادہ آ رہی تھی میں نے ہا تھ لگا کر دیکھا تو ہلکا ہلکا بخار بھی تھا.میں نے کہا آپ کا گلا خراب ہے.آج ڈاکٹر کو ضرور دکھائیں.فرمایا " آپ اپنی تشخیص رہنے دیں اور چپ کر کے " سو جائیں " مجھے نیند نہیں آرہی تھی اور کچھ خط لکھنے والے تھے وہ لکھتی رہی.پھر صبح ناشتے کا وقت ہوا تو آپ کھانے کی میز پہ ہی ناشتہ کرنے گئے اور معمول کے مطابق ناشتہ کیا.سب سے باتیں بھی کرتے رہے.ناشتے کے بعد کمرے میں واپس آئے.الفضل اور کچھ خطوط دیکھیے.تھوڑی دیر کے لئے لیٹ گئے ، تھکاوٹ محسوس کر رہے تھے.میں نے جو خط اپنے بہن بھائیوں کو سکھے ہوئے تھے وہ سنائے.ان کی صحت
۱۴۵ کے متعلق میں نے اپنے بھائی ڈاکٹر حمید کو لکھا تھا کہ ان کی طبیعت شوگر لیول زیادہ گر جانے کی وجہ سے خراب ہو گئی تھی.فرمایا "زیادہ" کا لفظ کاٹ دو اسی غلطی کا امکان ہے پھر فرمانے لگے کہ اچھا ئیں دفتر جانے کے لئے تیار ہو جائیں.چنانچہ آپ غسلخانے میں تشریف لے گئے.تھوڑی ہی دیر بعد آپ نے گھبرائی ہوئی آواز میں مجھے بلایا.میں غسلخانے کی طرف جلدی سے گئی.آپ کمرے میں آگئے اپنے سلیپر بھی نہ پہنے اور مجھ سے فرمانے لگے کہ مجھ سے سانس نہیں لیا جا رہا.سینے پر ہاتھ رکھ کر فرما یا کہ یوں لگتا ہے سانس یہاں تک آتا ہے اور آگے نہیں جاتا.میں نے انہیں جلدی سے بستر پر لیٹنے کو کہا.تھوڑی دیر لیٹ کہ آپ نے فرمایا کہ میرا سینہ سٹیتھو سکوپ سے دیکھو.جب میں نے اُن کے سینے کو STETHOSCOPE کے ذریعہ بنا تو سینے کا تقریباً ہر حصہ WET تھا.میں جلدی سے باہر گئی اور ڈاکٹر نوری صاحب کو بلوا نے کے لئے کہا.اس وقت آپ کو سانس لینے میں سخت وقت تھی اور بات بھی مشکل کہ رہے تھے.حضور کی طبیعت اس وقت بہت ناسانہ تھی.آپ CARDIA FAILURE میں تھے.ڈاکٹر صاحب نے ای یہی.جی کرنے کے بعد دل کی اس حالت کا علاج شروع کر دیا اس وقت میرے دل پر کیا گزر رہی تھی.یہ سب میرے بیان سے باہر ہے.آرام کی غرض سے آپ کو سکون آور ادویہ دینا بھی ضروری تھا.اس لئے آپ کو پیتھیڈین PATH EDINE کا ٹیکہ لگایا گیا.شام کو حضور نے فرمایا : - میری صحت کے متعلق الفضل میں ایک بلیٹن شائع کروا دو.جماعت کو صحیح صورت حال سے آگاہ کردو لیکن EXAGERATION
۱۴۶ (مبالغہ نہ ہو.اتنا پیار کرنے والی میری جماعت ہے.رات بھر حضور کی طبیعت بہت ناسانہ رہی.چونکہ پیشاب آور دوا بھی دی ہوئی تھی اس لئے بار بار پیشاب آنے اور کھانسی آنے سے حضور کی آنکھ کھلتی رہی.اگلے روز شام کو کراچی سے دل کے امراض کے ماہر جنرل شرکت صاحب تشریف لائے.ان کے ساتھ راولپنڈی کے ہی ایک اور ڈاکٹر اور ڈاکٹر نوری بھی تھے.اگرچہ اس وقت بھی حضور کو بات کرنے میں بہت دشواری تھی.لیکن آپ پور سے حوصلے اور قوت کے ساتھ کوشش کر کے ان سے بات چیت کرتے رہے اور اپنی کیفیت انہیں بتائی.باتوں کے دوران آپ نے ان سے فرمایا کہ آپ تدبیر کو انتہا تک پہنچائیں اور ہم دعا کو.آگے پھر خُدا کی مرضی.شروع کے تین چار دن تو طبیعت حد سے زیادہ ناسانہ تھی.اور زیادہ تر وقت نیند اور دوا کا اثر رہتا تھا.جنرل شرکت صاحب نے حضور کو CATHETERISE کرنے کا مشورہ بھی دیا.کیونکہ حضور کو پیشاب آور دوا دی جارہی تھی اور بار بار پیشاب کی حاجت ہوتی تھی جنرل محمود الحسن صاحب نے حضور کو CAT HETERISE کیا اور اس دوران ایک معمولی MEAOTOMY بھی کیا.حضور کو اس سے کافی تکلیف ہوئی.ساد پریشین نماعمل اور بعد میں مجھ سے رنج کا اظہار بھی فرمایا.کہ آپ سے پوچھے بغیر یہ عمل کیوں کیا گیا.اور فرمایا.اب یہ معاملہ خدا نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے.“ بیماری کے شروع کے تین چار دن طبیعت ناساز تھی.نیند آور دوا دی ہوئی تھی لیکن میں نے دیکھا کہ جب آپ بظاہر سو بھی رہے ہوتے تو آپ کے ہونٹ اس طرح سے ہلتے تھے جیسے باتیں کر رہے ہوں کبھی کبھی کوئی فقرہ یا لفظ اُونچی آوازہ میں بھی کہنہ
۱۴۷ دیتے.مجھے یہ دیکھ کر بہت گھیر اہٹ ہوتی کہ آپ آرام نہیں کر رہے اور غنودگی کی حالت میں بھی کاموں کا بوجھ لے رہے ہیں.آپ نے آخری روز دوپہر کو مجھ سے انہیں شرع کے چار دنوں کے بارے میں فرمایا." میں نے اللہ تعالیٰ سے بہت باتیں کیں.پہلے دن آپ کو DIGOXIN LASIX ASIX اور PETHEDINE دی گئیں.تیسرے یا چوتھے دن ایک دن کے لئے بند کی گئی تو آپ کی سانس کی تکلیفت دوبارہ بڑھ گئی.چنانچہ LASIX دوبارہ شروع کر دی گئی ANTIBIOTICS میں سے پہلے AMPICLOX Foomg دی جاتی رہی اور پھر بعد میں NE 3RAM بھی دی گئی.خون میں شکر ایک دم بہت زیادہ ہوگئی.پہلے دن کی رپورٹ کے مطابق غالباً INSULINE بھی دی جاتی رہی.نیند کیلئے %ACOmg سے بھی زیادہ تھی اس لئے 400mg% بعد میں 5 VALIUM بھی دیتے رہے.AT VAN بھی دی گئی.برطانیہ سے آئے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے HEPARINE (خون پتلا کرنے والی دوائی بھی شروع کہ وادی.حضور کی عادت تھی کہ کبھی کوئی دوائی اس وقت تک استعمال نہ فرماتے جب تک کہ اس کے متعلق پوری معلومات حاصل نہ کر لیں.اس علالت میں آپ اتنی تفصیل سے تو نہیں جان سکتے تھے لیکن پھر بھی کوشش فرماتے کہ انہیں ہر بات کا علم ہو.چنانچہ مجھ سے HEF APINE کے متعلق بھی پوچھا کہ یہ کس لئے استعمال کرتے ہیں.اسی طرح ڈاکٹر شاہد صاحب جو امریکہ سے تشریف لائے تھے انہوں نے بھی دل کا دوران خون بہتر کرنے کے لئے ایک دوا استعمال کروائی تو آپ نے فرمایا کہ یہ پہلا موقعہ ہے کہ میں نے کوئی دوائی بغیر اس کے متعلق علم حاصل کئے استعمال کی ہے.- عام دنوں میں مختلف دوائیاں حضور بطور مختلف دوائیاں حضور بطور FOOD SLIPLIMENT لے لیا
۱۴۸ کرتے تھے.میج ناشتے کے وقت سو یا لیسی متین ۲۰۰ ملی گرام ، بی کمپلیکس ، در امن ای م ملی گرام اور کیلشیم کے لئے BONE MEAL ، ایک گولی وٹا من اے لیتے تھے.دوپہر کے کھانے کے ساتھ نہ نک ZINC سویا لیسی تھین اور GOUT کے لئے تک ایک ایک گولی لیا کرتے تھے.رات کے وقت بھی صبح ناشتے والی دوائیں ماسوائے بی کمپلکس کے اور وٹامن ای چار سوملی گرام کی بجائے دو ٹولی گرام کیپسول لیا کرتے تھے.اس علالت کے دوران یہ سب دوائیں بند کر دی گئیں.دل کے دورے کی وجہ سے نمک کا پر ہیز تھا.گوشت میں صرف مچھلی اور ت WHITE MEAT کی اجازت تھی اس لئے ان دنوں ایسی غذائیں دینا جو کہ غذائی ضرورتیا کو بھی پورا کرتی ہوں اور پر ہیز کے تقاضوں کو بھی انتہائی مشکل امر تھا.دوسرا طبیعت کی کمزوری اور نقاہت کی وجہ سے بھی حضور کی غذان دنوں با لکل ہی کم ہوگئی تھی.حضور CHICKEN BROTH بالکل ہلکے نمک اور سیاہ مرچ کے ساتھ اور ڈبل روٹی کے ایک دو ٹکڑے ساتھ لیتے وہ بھی پوری طرح نہ کھا سکتے.دوسرا آپ کو یخنیاں اور سوپ بالکل پسند نہ تھے (ایک مرتبہ مجھے بتایا کہ مجھے صرف ٹماٹر کا سوپ پسند ہے.چنانچہ اس سے بھی جلد طبیعت اکتا گئی.پودینے کی چینی بغیر نمک اور مرچ کے کبھی کبھی سو میں ما لیتے تاکہ ذائقہ کچھ بہتر ہو.مچھلی بھی پسند تھی.طبیعت کچھ بہتر ہوئی تو فرمانے لگے." مجھے اپنے کھانے پینے کے متعلق خود ہدایات دینی ہونگی.اور نئی ضروریات کے مطابق خود کھانے کی تفصیل بنانی پڑے گی یا صبح ناشتے پر دو انڈے (ابلے ہوئے) اور ڈوٹوسٹ لیتے تھے.لیکن کمزوری کے باعث وہ بھی
۱۴۹ پوری طرح سے کھا نہ سکتے تھے.جوس میں سے حضور کو سیب ، سنگترہ اور گریپ فروٹ کے جوس پسند تھے لیکن ان دنوں سنگترہ کے جوس سے گلے میں خراش محسوس کی اس لئے زیادہ سیب کا جوس ہی استعمال فرماتے رہے.شروع میں تو بدلے ہوئے معمول کے مطابق آپ کو کھانا پسند نہ آتا تھا لیکن آخری رات کا کھانا آپ نے بہت پسند فرمایا.اس رات کھانے میں مچھلی BEARIS اہلی ہوئی مکئی کے دانے اور ترکاری ، سوپ کے علاوہ تھے.حضور کھانے کی ظاہری شکل میں بھی خوبصورتی کو پسند فرماتے تھے.چنانچہ اس رات جب کرے میں کھانے کی ٹرائی آئی تو آپ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے.کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر فرمایا " ٹھہرو پہلے مجھے اسے ENJOY کرنے دو فرمایا آج تم بھی میرے ساتھ کھانا کھاؤ اور وہ حضور کا آخری کھانا تھا جو ہم نے اکٹھے کھایا.ورنہ جب سے آپ بیمار ہوئے تھے میں پہلے آپ کو کھانا کھلاتی اور بعد میں خود کھاتی.پھلوں میں سے چیری کھانے کی ڈاکٹروں نے اجازت دی تھی.چنانچہ آخری روز دونوں کھانوں پر حضور نے چیزی بھی کھائی.اس کے علاوہ بھاپ میں دم دے کر نرم کیا ہو اسیب بھی دوران علالت استعمال فرماتے رہے.کمزوری اتنی زیادہ تھی کہ تھوڑا سا کھانا کھانے سے ہی سخت تھکاوٹ ہو جاتی تھی.اور آپ فرماتے کہ بس مجھے واپس لٹا دو.لیکن بیماری کے دوران شدید کمزوری کے باوجود آپ اپنے ہاتھ سے ہی کھانا کھانا پسند فرماتے.بعض دفعہ آپ کا نقاہت سے ہاتھ کانپ رہا ہوتا تھا.ربوہ میں حضور دہی کا استعمال باقاعدگی سے دونوں کھانوں پر کیا کرتے تھے.
۱۵۰ لیکن اسلام آباد جا کر یہ عادت چھٹ جاتی کیونکہ وہ رہی آپ کو پسند نہ آتا تھا.علالت کے دوران آپ کو GLOSSITIS کی شکایت بھی پیدا ہو گئی.میں نے ڈاکٹر مبشر صاحب کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ دہی کھاتے ہیں دیں لیکن میری پوری کوشش کے باوجود حضور وہ نہ لیتے.کیونکہ اس کا ذائقہ انہیں پسند نہ آتا تھا.بھینس کا خالص دودھ بھی منگوایا جاتا لیکن بات نہ بنتی.- علالت کی دوسری رات ریوہ سے ڈاکٹر مبشر احمد صاحب بھی آگئے.اُسی شام جنرل شرکت صاحب کراچی سے تشریف لائے اور اگلے روز واپس چلے گئے پھر ڈاکٹر لطیف احمد قریشی صاحب دیوہ سے ، ڈاکٹر جیکینز SANKINS انگلستان سے اور ڈاکٹر شاہد صاحب امریکہ سے تشریف لائے.ڈاکٹروں کی اس ٹیم نے حضور کی اس علالت میں ان کی تیمار داری اور علاج کیا.ڈاکٹر جیکینز کا قیام غالبا تین روز تک رہا اور پھر دہ واپس چلے گئے.باقی تمام ڈاکٹر نہ آخر وقت تک وہیں رہے.ڈاکٹر جیکسنز نے حضور سے ان کی بیماری کے متعلق تفصیل سے گفتگو کی اور انہیں بتایا کہ آپ کو بڑا سخت ہارٹ اٹیک MAJOR) (HEART ATTACK ہوا ہے.ابھی تک مجھ میں یہ حوصلہ نہ تھا کہ میں حصد رکو صاف یہ بتا دیتی اور نہ ہی کسی اور ڈاکٹر نے حضور کو بتایا تھا.مجھے گھبراہٹ تھی کہ کہیں حضور اس بات کا طبیعت پر بہت زیادہ اثر نہ لیں.لیکن آپ نے کمال حوصلہ اور بشاشت کے ساتھ اسے قبول کیا اور بالکل کسی گھبراہٹ کا اظہار نہ فرمایا.حضور نے آخری چاکلیٹ TOBLE RONE کھایا.میں نے اسکی چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر دیے تھے.اس روز حضور کی خون میں شکر کی مقدار کافی کم ہوگئی
۱۵۱ تھی اور ڈاکٹری ہدایت کے مطابق کچھ میٹھے کی ضرورت تھی.میں نے آپ کو چاکلیٹ دیا جو آپ نے شوق سے کھایا.اپنے ساتھ مجھے بھی کھلاتے رہے.ربوہ کو حضور اس علالت میں برابر بہت یاد کرتے رہے.دو تین بار مجھے سے فرمایا." ہم ربوہ کب جائیں گے ؟ آخری روز بھی راہ کو یاد فرماتے رہے اور پھر شکار کا ذکر بھی فرمایا.آخری روز دوپہر کے کھانے کے وقت آپ نے مجھ سے کافی باتیں کیں.آپ کے چہرے کا تاثر اور لہجہ مجھے کبھی نہیں بھول سکتا.جب آپ نے مجھ سے یہ فرمایا کہ " اس بیماری کے پہلے چار دن میں نے اللہ تعالیٰ سے بہت باتیں کیں " پھر فرمایا :- دیکھونا ! ۳ ، سال اس نے مجھ پر اتنے انعامات اور اتنے فضل کئے میں نے اس سے کہا کہ اگر اب تو مجھے بلانا چاہتا ہے تو میں راضی ہوں لیکن میں نے کچھ کام ایسے شروع کئے ہوئے ہیں جن کی تکمیل کے لئے مجھے دس پندرہ سال چاہیں.یہ بات سُن کر میرے دل میں سخت رنج پیدا ہوا.میں نے اپنے آپ کو روکنا تو بہت چاہا لیکن رہا نہ گیا.آخر میں نے کہا." آپ کو میرا خیال نہیں آیا." فرمایا :- کیوں نہیں آیا تمہارا خیال.میں تمہیں بھی اپنے پاس بلا لوں گا.تم نے یہاں رہ کر کیا کرنا ہے " یہ سن کر میں ہنس پڑی اور کہا : -
1 ۱۵۲ " اچھا.پھر ٹھیک ہے" شام کے وقت تقریباً پانچ سے چھ بجے کے درمیان حضور لیے لیے دعا میں مشغول رہے.میں کسی کام کی غرض سے دو بار پلنگ کے قریب آئی تو اشار سے سے مجھے بات کرنے سے منع فرمایا.بیماری میں زیادہ بات چیت سے حضور کو منع کیا گیا تھا.اگر آپ کو میں کبھی بات کرنے سے منع کرتی تو آپ مسکراتے ہوئے بچوں کی طرح منہ پر انگلی رکھ لیتے اور خاموش ہو جاتے.اس روز شام کے وقت آپ کافی دیر تک ڈاکٹر نوری صاحب اور ڈاکٹر مبشر صاحب سے باتیں کرتے رہے.مجھے خیال آیا کہ آپ کہیں تھک نہ جائیں.اس لئے میں نے ڈاکٹر مبشر صاحب سے آہستہ سے کہا کہ بہت دیر ہو گئی ہے.آپ کو باتیں کرتے ہوئے.پوچھنے لگے کیا کہہ رہی ہیں ؟ جب انہوں نے بتا یا تو فرمایا :- " آج تو میرے چلنے کا دن تھا ( ڈاکٹری SCHEDULE کے مطابق اس دن انہیں چند قدم کمرے میں چلانے کے لئے کہا گیا تھا مجھے باتیں کرنے دو گے قریباً پونے بارہ بجے آپ نے عزیزہ شاعری اور عزیزہ نصرت کو رخصت کیا کیونکہ انہوں نے صبح ربوہ جانا تھا.ان کے جانے کے بعد پھر آپ مجھ سے باتیں کرتے رہے.اب آواز میں کمزوری آتی جا رہی تھی.میں نے سمجھا شاید نیند آنے کی وجہ سے آپ کی آواز مدھم ہو رہی ہے.میرا ہاتھ پکڑ کر آپ اپنے سینہ پر کچھ دیر ملتے رہے.شاید تکلیف کا کوئی احساس ہو رہا تھا.بارہ بجنے میں شاید دو چانہ ہی منٹ ہوں گے کہ آپ کر روٹ لیتے ہوئے اور بات کرتے ہوئے اچانک رک
۱۵۳ گئے.میں نے آپ کے چہرے کی طرف دیکھا تو یہی کہا کہ آپ مذاق کر رہے ہیں مجھے ڈرا رہے ہیں.لیکن آپ نے کوئی جواب نہ دیا تو میں گھبرا گئی اور فورا کمر سے سے باہر جاکر ڈاکٹر بلوانے کے لئے کہا.واپس آکر آپ کو پھر دیکھا.مجھے نبض محسوس نہ " ہوئی.اتنے میں باقی سب ڈاکٹرز بھی آگئے اور پھر قریباً آدھے پونے گھنٹے تک وہ ہر قسم کی کوششیں کرتے رہے.دل کی حرکت بحال کرنے کے لئے ELECTRIC SHOCKS کئی بار دیئے گئے شروع میں چند مرتبہ تو ایسا ہوا کہ دل کی حرکت چند لمحوں کے لئے نارمل ہو جاتی لیکن پھر فورا ہی FIBRILATIONS VENTICICULAR میں مختلف دواؤں کے ٹیکے BICARBONATE ہو گیا.ADRENALINE شروع ہو جائیں.اسی اثناء SOLUCORTEF.اور وغیرہ اور آکسیجن بھی دی جاتی رہی لیکن پھر ہر چیز کا اثر ہونا بند اہی تقدیر کے سامنے سب بے بس تھے.پونے ایک بجے کے قریب ڈاکٹروں نے حضور کی وفات کی خبر باہر دے دی.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.حضور کو اسلام آباد میں ہی غسل دیئے جانے کا فیصلہ ہوا.وفات کے تھوڑی دیر بعید اسی عز نیم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب کمرے میں آئے اور غسل دیئے جانے کے لئے مجھ سے پوچھا.میں ذہنی طور پر تیار نہ تھی.میں نے کہا ابھی ٹھہریں.آپ خاموشی سے باہر چلے گئے.میرے ساتھ جو عزیز خاتون بیٹھی تھیں انہوں نے مجھ سے کہا کہ دو تین بار ایسا ہوا کہ آپ آتے ، مجھ سے پوچھتے ہیں انکار کرتی تو
۱۵۴ آپ خاموشی سے باہر چلے جاتے.مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میرا ذہن اس بات کیلئے تیار نہ ہو رہا تھا.مجھے گھبراہٹ تھی کہ اتنی جلدی کیوں ؟ لیکن پھر یاد ہے کہ جب آپ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد ا کر مجھ سے دوبارہ پوچھتے تو آخر میں نے کہا.اچھا.بعد میں جس بات کا میرے دل پر اثر ہوا وہ یہ تھی کہ اگرچہ اس موقع پر وقت ضائع کرنے کی گنجائش نہ تھی لیکن جو ذہنی کیفیت اس وقت میری تھی اس کے پیش نظر آپ بڑے تحمل اور صبر سے میرے انکار کرنے پر واپس چلے جاتے اور دوسری کوئی بات نہ کہتے.اسلام آباد سے واپسی کا سفر میرے لئے زندگی کا کہ بناک ترین سفر تھا.میرے ساتھ مورمین صاحبزادی نامرہ بیگم صاحبہ آئیں.اگلی سیٹ پر عز نیم میاں اس احمد صاحب اور رحمت صاحب ڈرائیور تھے.میرے ساتھ اسی موٹر میں جب چند دن پہلے ہم اسلام آباد آئے تو حضور تشریف فرما تھے اور اب وہ میرے ساتھ نہ تھے.ہمیں بے چین ہو ہو کہ اس دن کو دیکھنے کی کوشش کرتی جس میں آپ کا جنازہ رکھا ہوا تھا.گیارہ ، ساڑھے گیارہ بجے ہم ربوہ پہنچ گئے.ہمارے کرے میں ہر چیز ویسے ہی پڑی تھی جیسے ہم چھوڑ کر گئے تھے لیکن پھر بھی سب کچھ کتنا بدل گیا تھا.حضور کا جنازہ حضور کے دفتر کے بالمقابل ایک کمرے میں رکھا گیا اور پھر پڑے ہال میں رکھا گیا.میں کبھی آپ کے پاس جاکر بیٹھتی اور کبھی اپنے کمرے میں آجاتی.دس جون کو جب آپ کا جنازہ ابھی ہاں کرے میں ہی رکھا ہوا تھا میں اپنے کمرے کے ساتھ والے کمرے میں بیٹھی تھی.مجھے نیند نہ آتی تھی لیکن چند لوں کے
۱۵۵ بند، لئے میری آنکھیں بہ لکھا کہ آپ کمرے کے درواز سے تک آئے ہیں.آپ کے ساتھ ایک اور شخص ہے ؟ سمانا.آپ نے درواز سے میں کھڑے ہو کہ مجھے دیکھا اور فرمایا.سو گئی ہے ! رو تو نہیں چلے گئے.آپ کی علامت کے دوران ایک روز میں نے جبکہ میں آپ کے قریب تھی نظارہ دیکھا کہ میرے سامنے ایک سفید کاغذ آیا جس پر کسی پروگرام کا شیڈول لکھا ہوا ہے.میں اس کے درمیان میں سے صرف دو باتیں پڑھ سکی : ڈیڑھ بجے " اور " جنازہ".اُس وقت میری طبیعت پر اس نظارے کا بہت اثر ہوا اور میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہنے لگے.آپ باتیں کر رہے تھے میں نے آپ سے اس کا ذکر نہ کیا.دن جون کو ڈیڑھ بجے دوپہر انتخاب خلافت کا وقت مقرر ہوا اور اس کے بعد حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بعد نماز عصر آپ کا جنازہ پڑھایا.گھر سے جب آپ رخصت ہوئے تو میں وہی دعائیں پڑھتی رہی جو سفر کے وقت آپ پڑھا کرتے تھے.روزمرہ کا معمول اور عادات صبح نماز کے لئے اُٹھتے تو قہوہ پیتے جو کہ رات کو ہی تھرماس میں بنوا کر کمرے میں رکھا ہوتا.ایسی خاموشی سے اُٹھتے کہ مجھے آپ کے اُٹھنے کا بالکل پتہ نہ چلتا.صبح کی نمازہ کے بعد آپ کچھ دیر آرام فرماتے اور پھر پور سے 9 بجے صبح ناشتہ
۱۵۶ فرماتے.ناشتے میں براؤن بریڈ کے دو ٹوسٹ ، دو انڈے SCHAMBLED VITAMINS AA_E گا وغیرہ لیتے.یا اُبلے ہوئے.سویا ساس اور سیاہ مرچ کے ساتھ چائے کے دو کپ لیتے.ایک کپ میں شہد استعمال فرماتے اور ایک میں ROYAL JELLY اس کے علاوہ اپنی دوائیں.سو یا لیسی تھین اور DIABENESE کی ایک گولی ناشتے سے پہلے لیتے.آپ نہایت آہستگی سے چھوٹے لقمے سے کہ اور بہت چبا کر کھانا کھاتے.اس دوران گفتگو بھی فرماتے اور قریباً ایک گھنٹے میں کھانا مکمل ہوتا.دوپہر اور رات کا کھانا ہی عموما دو ایسے اوقات ہوتے جب آپ اپنے بچوں سے گفتگو فرماتے.آپ کو کھانوں کے گوران وقفے میں کھانے پینے کی بالکل عادت نہ تھی.فرماتے NOTHING IN BETWEEN MEAL S دو پہر کا کھانا ظہر کی نماز کے بعد تناول فرماتے اور رات کا عشاء کے بعد.ہر دو کھانوں میں رہی شوق سے استعمال فرماتے.دونوں وقت آپ اپنی پانچ اناجوں سے بنی ہوئی روٹی تناول فرماتے.ایک کھانے پر ایک چپاتی استعمال فرماتے بعض اوقات اس میں سے بھی کچھ بیچے جاتی.کھانا ہے مرچ اور گوشت نہایت نرم سیکا ہوا استعمال فرماتے.مرغ کے گوشت میں اس کی پشت کی ہڈی کی گہرائی میں واقع گوشت کی چھوٹی سی بوٹی آپ کو پسند تھی.پھلوں میں سیب زیادہ پسند تھا.ایک مرتبہ بھی کا خربوزہ کھاتے ہوئے فرمایا.- " یہ اللہ تعالیٰ نے ذیا بیطس کے مریضوں کے لئے بنایا ہے.“ پھلوں کے جوس شوق سے استعمال فرماتے.ORANGE گریپ فروٹ اور سیب کا جوس زیادہ پسند تھا.-
سخت ٹھنڈ سے دودھ میں 7UP ملا کر تیار کردہ مشروب آپ کو پسند تھا.اس کے علاوہ GINGERALE اور BITTER TONIC بھی استعمال فرماتے.پنیر شوق سے استعمال فرماتے.شام کی چائے عصر کی نمانہ کے بعد لیتے.چائے کے ساتھ د نمک چڑھے بادام اور پستہ وغیرہ) ،بسکٹ، آلو کے چلس، سکھانے وغیرہ تھوڑی تھوڑی مقدار میں استعمال فرماتے.بسکٹوں میں DIG :ST VE اور NUTS BUTTER PUFF زیادہ پسند تھے.چائے میں شہد استعمال فرماتے.اگر خون میں شکر زیادہ ہو جاتی تو پھر چائے میں شہد کم کر دیتے اور ایک پیالی پھیکی اور ایک شہر والی پیتے.غذا نپی تلی تھی اور اس میں بے اعتدالی کو پسند نہ فرماتے.رات سونے سے قبل ایک ملک دودھ استعمال فرماتے.اپنی بھینسوں کے دودھ کے علاوہ کوئی دودھ پسند نہ آنا.اسلام آباد میں آخری علالت میں اسی وجہ سے باوجود میرے اصرار کے دودھ پینے سے انکار کر دیتے.ہر کھانے اور چائے کے بعد اپنے منہ اور DENTURE کی صفائی فرمائے.دانتوں کے لئے SOFT برش استعمال فرماتے.ٹوتھ پیسٹوں میں فارمنس اور میکلینس استعمال فرماتے.KOLYINOS - ط لونگ کے تیل والی ٹوتھ پیسٹ بہت پسند تھی.آخری علالت میں مجھ سے فرمایا کہ وہ منگواؤ ، مگر وہ مل نہ سکی.خلافت سے قبل پان کھاتے تھے.وفات سے ایک دو روز قبل میں نے آپ کے دانتوں پر پان کے نشان دیکھتے ہوئے پوچھا کہ آپ پان کھاتے تھے ؟ فرمایا ہاں! اور میری WILL POWER دیکھو کہ ایک روزہ ارادہ کیا کہ نہیں کھانے ، اور پھر نہیں کھائے "
۱۵۸ صفائی کا بہت خیال رکھتے.ہفتے میں تین مرتبہ غسل فرماتے اور کپڑے تبدیل فرماتے.جمعہ ، اتوار اور بدھ کو.بعض اوقات چار مرتبہ بھی کپڑے تبدیل فرما لیتے سفید لٹھے کی شلوار اور قمیض پہنتے.قمیض کا گریبان ہائی تک طرز پر ہوتا.بنیان آدھی آستین والی استعمال فرماتے.آرام کرتے وقت کھلی موری کا پاجامہ استعمال فرماتے.پگڑی کی لمبائی پور سے سات گز رکھوا تھے.پگڑی میں کلف مناسب حد تک پسند فرماتے.نہ بہت زیادہ اور نہ بہت کم.نہایت نفاست سے اور سلیقے سے بیٹھ کر پکڑی باندھتے.اچھی اچکنیں شوق سے تیار کروا تھے اور آپ کے پاس بہت سی نفیس اچکنیں تھیں.عام استعمال میں دو تین اچکنیں ہی رہتیں.خوشبو کا استعمال بہت فرما تھے.عام طور پر ہر نماز پر جانے سے قبل اور دفتر جاتے ہوئے اور ویسے بھی کئی مرتبہ خوشبو لگا تے.آخری دنوں میں ایک دوسرے عطر استعمال فرماتے رہے.ARE HIS کی خوشبو پسند تھی.سر کے YASMINE BRJTE ARAMIS › اور چند بالوں میں چنبیلی کا تیل لگاتے.میں نے ایک مرتبہ عرض کیا آپ کے بال بہت نرم ہیں.فرمایا.”میں چنبیلی کا تیل جو لگاتا ہوں کا نماز عام طور پر کھڑے ہو کر ادا فرما تھے.اگر کبھی بیٹھ کر ادا کرتی ہوتی تو پھر کرے میں بچھے ہوئے چوکے پر بیٹھ کر ادا فرماتے.ورنہ عام طور پر آپ نماز DRESSING میں بچھے ہوئے جائے نماز پر تنہائی میں ادا فرمائے.نماز پڑھتے ہوئے ROOM چہرے پر انتہائی جذب اور رقت کا تاثر ہوتا.- زنگوں میں آپ کو ہلکے رنگ پسند تھے.انگوری اور براؤن رنگ خاص طور پرپسند تھے.
۱۵۹ گرمیوں میں کاٹن کی جرا میں استعمال فرماتے.نائمون کی پسند نہ تھیں جو جوتا باہر پہنتے وہ کمرے میں نہ سے کہ آتے بلکہ اسے باہر ہی اتار دیتے.ناخن نہایت صفائی اور خوبصورتی سے تراشتے.یوں لگتا جیسے پر کار رکھ کر انہیں تراشا ہے.EXERCISE کے لئے اپنے DRESSING ROOM میں رکھی ہوئی BICYCLE استعمال فرماتے.فوٹو گرافی کا بہت شوق تھا.نہایت اعلیٰ تصویریں کھینچتے اور اس بات کا خاص خیال رکھتے کہ کس رزا ویسے) ANGLE سے تصویر اچھی آئے گی.پہلے عام نظر سے جائزہ لیتے اور انگلی کے اشارے کے ساتھ چہرے کو گھمانے کے لئے کہتے اور جب مناسب سمجھتے روک کر تصویر کھینچ لیتے.آپ LUA - M3 کیمرہ استعمال فرماتے.اور اس میں فلم وغیرہ خود ہی ڈالتے اور نکالتے تھے.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کی وفات کے بعد سے ہر جمعہ کو عصر کی نمازنہ کے بعد بہشتی مقبرہ جاتے.میر کے لئے اکثر اپنی زمینوں پر احمد نگر جاتے اور زمینداری کے کاموں میں دلچسپی لیتے.اپنے پالے ہوئے گھوڑوں کو اکثر دیکھنے کے لئے اصطبل میں جاتے.ان کے ساتھ پیار سے باتیں کرتے اور انہیں اپنے ہاتھ سے چارہ کھلاتے جانور بھی آپ سے اتنے مانوس تھے کہ آپ کے اصطبل میں آتے ہی وہ اپنے اپنے باروں میں سے گردنیں باہر نکال کر کھڑے ہو جاتے.مختصراً یہ کہ آپ نے ایک بھر پوپر ، فعال اور کارآمد زندگی گزاری اور
14.قدم قدم پر اپنے رب کی رضا کی جستجو کرتے رہے.جب کوئی سیرت نگار حضور کی سیرت پر قلم اٹھائے گا تو اس کا اندازہ یقینا اس انداز سے مختلف ہو گا جس سے میں نے قارئین کوحضور کی سیرت کی چند جھلکیاں دکھائی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے صرف اپنے ذاتی تجربہ اور زاویہ نگاہ سے حضور کی سیرت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے اور وہی باتیں بیان کی ہیں جو میرے ساتھ تعلق میں واقعہ پیش آئیں.اس لئے ہو سکتا ہے کہ کئی پہلوؤں سے یہ مضمون نامکمل رہے.لیکن یہ بھی ہے کہ کئی پہلوؤں سے یہ مضمون منفرد ہو گا.
141 سیرت کے چندا اور نمایاں پہلو اللہ تعالیٰ سے قرب محبت کا تعلق اور خشیت الہی للہ تعالیٰ اپنے پیار سے ترین بند سے انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرماتا ہے :.ثُمَّ دَنَى فَتَدَى.فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أو أدنى.د سورة بنجم آیت ۱۰۰۹) ترجمہ :.اور وہ ریعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بندوں کے اس ضطراب کو دیکھ کر اور ان پر رحم کر کے خدا سے ملنے کے لئے اس کے قریب ہوئے اور وہ (خدا) بھی دمحمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ملاقات کے شوق میں ) اوپر سے نیچے آگیا.اور وہ دونوں دو کمانوں کے متحدہ وتر کی شکل میں تبدیل ہو گئے اور ہوتے ہوتے اس سے بھی زیادہ قرب کی صورت اختیار کرلی ہے ہر انسان جو اس دنیا میں آتا ہے اس کی فطرت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات رکھ
دی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے رب کے ساتھ محبت کرتا ہے اور اس کی روح دانستہ یا نادانستہ طور پر اپنے مالک حقیقی کے وصل کی کوشش کرتی ہے.پھر اپنی استعداد ، ماحول اور تربیت کے مطابق وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کو حاصل کرتا ہے.بنی نوع انسان میں اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کی سب سے زیادہ فطری استعداد جس ہستی کو لی وہ ہمارے پیارے آقا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں.آپ کے بعد آپ کے غلام آپ ہی کے رنگ میں رنگین ہو کر اپنی اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالٰی کی محبت کو پاتے ہیں.اگرچہ ہر انسان کا تعلق اپنے رب سے ایک ذاتی تعلق ہوتا ہے.اور دوسرے انسان اس کی حقیقت کو نہیں پا سکتے.لیکن بعض اوقات کبھی کبھی اس تعلق کا کچھ اظہارہ ظاہر میں بھی ہو جاتا ہے.حضور (حضرت خلیفہ ایسح الثالث) کا اپنے رب کے ساتھ تعلق حقیقت میں اپنے اندر کتنی گہرائی اور وسعت رکھتا تھا.اس کی تفصیل تو نہ میں جانتی ہوں اور نہ بیان کرنے کی طاقت رکھتی ہوں لیکن آج بھی میرے کانوں میں اپنی تقاریر اور خطبات میں آپ کا بارہا کہا ہوا ایک لفظ شیرینی گھولتا ہے کیسی محبت سے آپ "رب" کا لفظ ادا کیا کرتے تھے.اور ادائیگی کے اس انداز میں ہی بہت کچھ آجاتا تھا.آپ کی زندگی کا مقصد ، اور آپ کے دل کی تڑپ صرف یہی تھی کہ دنیا میں " توحید خالص" کا قیام ہو.اور ساری دنیا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے.سو اپنے رب کے حضور ہی التجا کرتے ہیں :.ا سے ہمارے اللہ ! ہمار سے پیار سے رب ! تو ایسا کر کہ تیر سے یہ کمزور اور بے مایہ بندے تیرے لئے بنی نوع کے دل جیت لیں اور
۱۹۳ تیرے قدموں میں انہیں لا ڈالیں.ایسا کر کر تا ابد دنیا کے ہر گھر اور ان گھروں میں بسنے والے ہر دل سے لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدُ ترسول اللہ کی صدا اور دنیا کی ہر نہ بان سے اللہ اکبر کا نعرہ بلند ہوتا کر ہے کہ " داز جلسہ سالانہ کی دعائیں مثا ) پھر اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں:.اسے ہمارے رحمن ! ان ہی ہاتھوں کو اپنی رحمت سے بیل بیضا کردے.تیرا جمال اور حمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن دنیا پر چمکے اور تیرا جلال اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت دنیا پر ظاہر ہو اسلام اور محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے مغرور دشمن کا سر نگوں اور شرمندہ کر دے یا آپ جب نمانہ ادا کر رہے ہوتے تو اس وقت آپ کے چہرے پر انتہائی کے قت کا عالم ہوتا.میں نے کئی بارہ نمانہ پڑھتے ہوئے آپ کے چہرے کو غور سے دیکھا.آپ کے ماتھے پر پڑنے والی شکنوں سے محسوس ہوتا کہ آپ نے اپنی پوری توجہ اس طرف مبذول کی ہوئی ہے اور چہرے سے حقیقتاً ایسے لگ رہا ہوتا جیسے آپ اور ہے ہوں.اللہ تعالیٰ کی عظمت اور خوف سے آپ کا دل کتنا لی زاں رہتا اور حضرت مسیح موعود سے آپ کو کس قدر محبت تھی اس کا کچھ انداندہ اس چھوٹے سے واقعہ سے ہو سکتا ہے.ہماری شادی سے چند روز قبل کسی نے ایک خواب دیکھی جو انہوں
140 نے حضور کی خدمت میں تحریر کی.اس خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے میرا خیال رکھنے کی نصیحت فرمائی تھی.آپ اسس خواب کو بہت اہمیت دیتے اور اکثر مجھ سے اس کا ذکر فرماتے.ایک روز میں نے ہنستے ہوئے ان سے کہا کہ " اب آپ مجھے کچھ نہیں کہہ سکتے.میرے پاس بہت بڑی سفارش ہے.حضرت مسیح موعود نے میرا خیال رکھنے کے لئے فرمایا ہے.میرا یہ کہنا تھا کہ آپ ایکدم سنجیدہ ہو گئے اور چہرہ خشیت الہی سے بھر گیا.اور فرمایا : ہاں ، میں آپ کے چہرے کا تاثر دیکھ کر حیران سی رہ گئی.مجھ سے کئی بار فرمایا : الحمد" بہت پڑھا کرو.“ خلافت سے محبت حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی وفات کے بعد ایک روز میں نے اس بات پر غور کیا اور اس نتیجہ پر پہنچی کہ جن افراد کو اللہ تعالیٰ نے مستقبل میں خلافت کے منصب اعلیٰ کے لئے منتخب فرمانا ہوتا ہے ان کو خلافت کے مقام کی سمجھ اور خلافت سے محبت عام انسانوں سے بہت بڑھ کر عطا فرماتا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الاول کو دیکھیں تو حضرت مسیح موعود کے لئے ان کی فدائیت پر رشک آتا ہے.ان کے متعلق اس سے زیادہ اور کیا کہنے کی ضرورت ہے جن کے لئے خود حضرت مسیح موعود علیہ السّلام نے فرما دیا ہے کہ ے چه خوش بودے اگر سر یک زامت نور دیں بودے
140 پھر حضرت مصلح موعود کے حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کے لئے فدائیت اور اطاعت کے بہت سے واقعات ملتے ہیں.ایک چھوٹے سے واقعہ سے ہی ہردو خلفاء کی اپنی اپنی جگہ پر اپنے آقا کے لئے محبت واضح ہو جاتی ہے.حضرت خلیفہ مسیح الدل بیمار تھے حضرت مصلح موعود آپ کے پاس تشریف فرما تھے.گھر سے پیغام ملا کہ بچے ر صاحب کی طبیعت بہت ناسانہ ہے.لیکن آپ نے مطلقاً اپنے بچے کی بیماری کی پرواہ نہ کی.جبکہ اس سے پہلے آپ کا ایک بچہ وفات پا چکا تھا اور اب یہی بچہ پہلو بھٹی کا بچہ تھا اور اپنے آقا کی بیمار پرسی اور تیمارداری کو اول جانا.ادہر حضرت خلیفہ المسیح الاوّل کا عشق حضرت مسیح موعود( آپ پر سلامتی ہوا سے اتنا زیادہ تھا کہ آپ برداشت نہ کر سکے کہ ان کی اولاد کو کوئی تکلیف ہو.چنانچہ آپ نے حضرت مسیح موعود سے بچے کی نسبت یاد دلاتے ہوئے با اصرار حضرت مصلح موعود کو بچے کی تیمار داری کے لئے بھجوا دیا.اسی طرح حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کو جو محبت حضرت مصلح موعود سے تھی وہ اس محبت سے کہیں زیادہ بڑھ کر تھی جو محبت ایک بچے کو اپنے بہت پیارے باپ سے ہوتی ہے.ایک دفعہ اداس لہجے میں حضرت مصلح موعود کی وفات کے وقت جماعت کی صدمے کی حالت کا مجھ سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ میں حضرت مصلح موعود کی زندگی میں تو ان کی وفات کے متعلق سوچنا بھی گناہ سمجھتا تھا." پھر میں نے اطاعت و محبت کا یہی رنگ حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایده اله تعالٰی کی ذات میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کے لئے دیکھا.آپ نے حضور کی
144 وفات کے بعد ایک روزہ مجھ سے فرمایا :- " مجھے بھائی جان سے غلامانہ عشق تھا“ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا حضرت مصلح موعود سے گہری محبت کی عکاسی کرتا ہوا ایک واقعہ جو آپ نے خود مجھ سے بیان فرمایا.بیان کرتی ہوں.دیں شاید یہ واقعہ نہ لکھتی لیکن اس کی گہرائی میں جائیں تو حضور کی حضرت مصلح موعود سے ایسی گہری لیے لوث محبت کی جھلک ملتی ہے جو عام محبتوں سے بہت بڑھ کر ہے اور محبت کی آخری قسم جس میں انسان محبوب کی خاطر اپنی ذات کو قطعا فراموش کر دیتا ہے وہ اس میں نظر آتی ہے.آپ نے بتایا کہ ایک مرتبہ جب آپ خدام الاحمدیہ میں کام کر تے تھے آپ کی ایک والدہ نے آپ کے کام سے متعلق کسی معاملے کی حضرت مصلح موعود سے شکایت کہ دی جو غلطی فہمی پر مبنی تھی، حضرت مصلح موعود آپ سے بہت سخت ناراض ہوئے.آپ کہتے ہیں کہ میں نے خاموشی سے وہ ساری ڈانٹ اور ناراضگی بیمه داشت کرلی اور تردید نہ کی.صرف اس خیال سے کہ حضرت مصلح موعود کو تکلیفت نہ پہنچے.آپ کے جو ساتھی تھے ان کو بھی آپ نے خود ہی تسلی تشفی دے دی.قبولیت دعا بنی نوع انسان کے دکھوں کا درد اپنے سینے میں محسوس کرتے ہوئے آپ نے اپنے رب کے حضور ایک التجا کی.آپ نے فرمایا : - یکس نے آپ کی تسکین قلب کے لئے ، آپ کے بار کو ہلکا کرنے
۱۶۷ کے لئے آپ کی یہ یشانیوں کو دور کرنے کے لئے اپنے رب رحیم سے قبولیت دعا کا نشان مانگا ہے.مجھے پورا یقین ہے اور پورا بھروسہ ہے اس ذات پاک پر کہ وہ میری اس التجا کو رد نہیں کرے گا ؟ والفضل ۳ دسمبر ۶۱۹۶۵ ) آپ کے دور خلافت میں ساری جماعت نے قبولیت دعا کے ان گنت مظاہرے دیکھے ان میں سے کچھ تو مختلف مضامین میں ضبط تحریر میں آچکے ہیں لیکن بے شمار ایسے ہیں جو کہ صرف ذہنوں میں محفوظ ہیں.ایک روز آپ اپنے کمرے میں اپنے بستر پر تشریف فرما تھے.فرمایا : دیکھو اللہ تعالٰی کا مجھ پر کتنا فضل ہے ، میں تو اس کا عاجز بندہ ہوں لیکن میں منہ سے نکال دیتا ہوں کہ بیٹا ہوگا اور وہ بیٹا دے دیتا ہے " یہ بات کہتے ہوئے آپ کا لہجہ، آپ کی آوازہ ، آپ کے چہرے کا تاثہ آج بھی نظروں کے سامنے ہے.انتہائی عاجزانہ رویہ اور اپنے رب کی محبت میں ڈوبا ہوا چہرہ تھا.چنانچہ بارہا ایسا ہوا کہ آپ نے بچے کے لئے صرف لڑکے کا ہی نام بتایا اور ٹر کا ہی ہوا.یا پھر بچی کا نام دیا تو بیچی ہی پیدا ہوئی.یہ واقعات تو بے شمار ہیں.بہت سے گھروں میں جہاں سال ہا سال سے اولاد نہیں ہو رہی تھی آپ کی دعاؤں کو قبول فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے شادی کے کئی کئی سال بعد بچے عطا فرمائے.افریقہ کی ایک عورت کے ہاں شادی کے ۴۰ سال بعد جبکہ وہ اولاد پیدا کرنے کی عمر
14^ سے بھی گزرچکی تھی ، آپ کی دُعا کی برکت سے اولاد ہوئی.لا تعداد مریضوں کو اللہ تعالیٰ نے معجزانہ رنگ میں آپ کی دعا کی برکت سے شفا عطا فرمائی.صرف ایک ناقابل یقین واقعہ پیش ہے.مولوی عبد الکریم صاحب کا ٹھگڑھی شاہد مربی سلسلہ عالیہ احمدیہ MULTIPLE MYELOMA جیسی مہلک بیماری دکینسر کی ایک قسم) میں مبتلا ہو گئے.ہماری بالکل آخری حدوں تک پہنچ چکی تھی اور بے ہوشی طاری تھی.ڈاکٹر لا علاج قرار دے چکے تھے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں دُعا کے لئے عرض کیا گیا.آپ نے پیغام بھیجوایا کہ : سیٹی بوٹی صبح شام دی جائے اور ہسپتال میں رہنے دیا جاوے دعائیں خاص کی جار ہی ہیں.چنانچہ احیائے موتی کے معجزہ کے حامل حضرت مسیح موعود کے اس روحانی جانتین کی دعاؤں کی برکت سے حقیقتاً ایک مُردہ زندہ ہوا.اور پھر ان مولوی صاحب کو خدا تعالیٰ نے ۱۵، ۱۶ سال مزید زندگی عطا فرمائی.1944 ہ میں آپ گھوڑے سے گر گئے.کر کے تین مہروں میں فریکچر تھا.فرمایا :- ور ڈاکٹروں نے مجھے کہا کہ اب آپ کبھی بھی اکڑوں نہیں بیٹھ سکیں گے.میں نے اللہ تعالٰی سے دعا کی کہ خدایا میری ذمہ دالہ یاں ایسی ہیں تو مجھے شفادے کہ تین ماہ تک آپ صاحب فراش رہے اور اس کے بعد معجزانہ رنگ میں اللہ تعالیٰ نے شفادی اور آپ حسب سابق اپنی ذمہ داریاں ادا فرماتے رہے.الحمد لہ علی ذالک
149 اپنے ساتھ گزر سے ہوٹے تھوڑے سے عرصہ کی رفاقت سے وابستہ بہت سی یادوں میں سے کچھ کو سپرد قلم کر دیا ہے.جو آپ کی سیرت کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالتی ہیں.یہ ہستیاں ایسی تو نہیں ہوتیں کہ ہمارے جیسے عام انسان ان کی حسین سیرت کے سارے پہلوؤں کو دیکھ سکیں سمجھ سکیں اور پھر بیان کر سکیں.اپنی اپنی توفیق کے مطابق جس کو جتنی توفیق ملتی ہے بیان کر دیتا ہے.سو ایک معمولی سی کوشش میں نے بھی کی ہے لیکن دل میں ایک بے چینی بھی ہے کہ ابھی تو آپ کی سیرت کے متعلق میں نے کچھ بھی نہیں لکھا نہ
18.نوٹ :.اس مضمون میں مقتہ سوانح کی تیاری میں مندرجہ ذیل اختبارات ورسائل سے مدد لی گئی : - ۱ - روزنامه الفتل حضرت خلیفہ اسیح الثالث نمبر ۲ ماهنامه خالد " مصبان سيدنا ناصر نمبر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نمبر تشخید الادمان حضرت خلیفہ مسیح الثالث نمبر -۵ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کتابچه مرتبه مولا نا دوست محمد شاہد صاحب
16 نام کتاب مصنفہ خلیفة المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ سیده طاہرہ صدیقہ ناصر لجنہ اماء اللہ ضلع کراچی ۴۲ ایک ہزار ناشد شمارہ نمبر تعداد کتابت - عبد الماجد پرنٹر دائی آئی پرنٹنگ پریس
ناصر دین با ترمی روح مقدس کو سلام دین احمد کی تب و تاب بڑھادی تو نے دے کے اسپین کو اللہ کے گھر کا تحفہ ظلمت کفر میں اک شمع جلا دی تو نے ثاقب زیروی)