Hazrat Mirza Bashir Ahmad

Hazrat Mirza Bashir Ahmad

حضرت مرزا بشیر احمد ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

نونہالان احمدیت کی تربیت اور ان کو آسان فہم انداز میں تاریخ احمدیت سے واقفیت کرانے کے لئے بزرگان ملت کے مختصر حالات زندگی کی سیریز میں یہ کتابچہ حضرت صاجزادہ مرزا بشیراحمد صاحب ایم اے، قمر الانبیاء کے متعلق ہے۔ آپ ؓ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پاک اور مبشر اولاد میں سے ہیں۔ آپ تعلق باللہ، محبت قرآن کریم اور عشق رسول ﷺ جیسی اعلی ٰ صفات سے متصف ایک عالم باعمل اور دین کے خادم و خلافت کے سلطان نصیر تھے۔ مخلوق خدا کی ہمدردی و بھلائی کے لئے وقف رہنے والے اس قمر الانبیاء نے علمی میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا اور کئی اعلیٰ درجہ کی مفید کتب تصنیف فرمائیں۔ اور ساری زندگی اعلیٰ درجہ کی خدمات میں پیش پیش رہے۔


Book Content

Page 1

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب

Page 2

: حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نام کتاب 2016: 1000: : نظارت نشر و اشاعت قادیان فضل عمر پر نٹنگ پریس قادیان-143516 ضلع گورداسپور، پنجاب، انڈیا اشاعت باراول انڈیا تعداد ناشر مطبع Name of Book: Hadhrat Mirza Basheer Ahmad' First Edition in India: 2016 rz Quantity Publisher Printed at : 1000 : Nazarat Nashr-o-Isha'at, Qadian : Fazale Umar Printing Press, Qadian-143516 Dist-Gurdaspur, Punjab, India

Page 3

عرض ناشر نونہالان احمدیت کی تربیت اور ان کو آسان فہم انداز میں تاریخ احمدیت سے واقفیت کرانے کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ نے بزرگانِ ملت کے مختصر حالات زندگی مرتب کئے ہیں.سید نا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے نظارت نشر و اشاعت پہلی بار کتاب ”حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو حد یہ قارئین کرنے کی توفیق پارہی ہے.اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو اس کتاب سے استفادہ کی توفیق عطا فرمائے.آمین ناظر نشر واشاعت قادیان

Page 4

وو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب " حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پاک اور مبشر اولاد میں سے ہیں.آپ تعلق باللہ، محبت قرآن کریم اور عشق رسول علہ جیسی اعلیٰ صفات سے متصف تھے.بڑے مہمان نواز اور بچوں سے بہت محبت رکھتے تھے.ہمدردی خلق کا ایسا جذبہ تھا کہ جب بھی کسی حاجت مند کو پاتے اس کی حاجت روائی میں لگ جاتے.اسی طرح علمی میدان میں بھی اپنا لوہا منوایا اور کئی اعلیٰ درجہ کی مفید کتب تصنیف فرما ئیں.کئی اعلیٰ جماعتی عہدوں پر بھی فائز رہے اور ساری زندگی اعلیٰ درجہ کی خدمات پیش فرماتے رہے.اللہ کرے کہ ہم بھی ہمیشہ ان پاک وجودوں کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرنے والے ہوں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین

Page 5

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب یہ خاکسار حضرت مسیح موعود کے گھر میں پیدا ہوا اور یہ خدا کی ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کے شکریہ کیلئے میری زبان میں طاقت نہیں بلکہ حق یہ ہے کہ میرے دل میں اس شکریہ کے تصور تک کی گنجائش نہیں.“ یہ عاجزانہ اور تشکرانہ الفاظ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ہیں جو حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی موعود علیہ السلام کے فرزندار جمند تھے.آپ کی مبارک پیدائش کے 5 ماہ قبل خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہاماًیہ خوشخبری دی: (ترجمہ) ” نبیوں کا چاند آئے گا اور تیرا کام تجھے حاصل ہو جائے گا اور خدا تیرے منہ کو بشاش کرے گا اور تیرے برہان کو روشن کر دے گا اور تجھے ایک بیٹا عطا کرے گا اور فضل تجھ سے قریب کیا جائے گا یقیناً میرا نور نزدیک ہے.“ ان الہامات کی بناء پر آپ کو ” قمر الانبیاء یعنی نبیوں کا چاند کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے.1

Page 6

پیدائش الہی پیشگوئیوں کے مطابق 20 اپریل 1893ء بروز جمعرات کو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ولادت ہوئی.آپ شکل و شباہت میں اپنے بھائی مرزا فضل احمد صاحب سے مشابہ تھے (جو حضرت مسیح موعود کی پہلی بیوی.پیدا ہوئے).آپ کی پیدائش کے بعد سلسلہ عالیہ احمدیہ کی سچائی کیلئے پے در پے نشانات ظاہر ہونے شروع ہوئے جن کی وجہ سے اسلام کا درد رکھنے والے لوگوں کی نظریں حضرت مسیح موعود کی طرف اٹھنا شروع ہوگئیں اور لوگ کثرت کے ساتھ اس سلسلہ میں داخل ہونا شروع ہو گئے.ان نشانات میں سے چند ایک یہ ہیں : (1) آپ کی پیدائش کے سال حضرت مسیح موعود کو پنڈت لیکھرام کی ہلاکت کی خبر دی گئی جو آنحضرت ﷺ اور اسلام کی صداقت ثابت کرنے کا ایک عظیم الشان ذریعہ بن گئی.(2) اسی سال آپ نے عربی زبان میں کرامات الصادقین جیسی بے نظیر کتاب لکھی اور بالمقابل قلم اٹھانے والے علماء کیلئے ایک ہزار روپیہ انعام کا وعدہ کیا لیکن کوئی مقابل پر نہ آیا جس سے آپ کے علم و فضل کی دھاک بیٹھ گئی.(3) پھر تھوڑے سے عرصے کے اندر ہی آپ کی سچائی پر گواہی دینے کیلئے 13 2

Page 7

ماه رمضان 1311ھ بمطابق 20 مارچ 1894ء کو چاند گرہن اور 28 رمضان 1311ھ بمطابق 6 اپریل 1894ء کو سورج گرہن ہوا.بچین حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ہمشیرہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں: ”میری ہوش میں پہلا نظارہ منجھلے بھائی کے بچپن کا مجھے بہت صاف یاد ہے.وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کہیں باہر سے تشریف لائے تھے.گھر میں خوشی کی لہر سی دوڑ گئی.آپ آکر بیٹھے، میں پاس بیٹھ گئی اور سب مع حضرت اماں جان بھی بیٹھے تھے کہ ایک فراخ سینہ، چوڑے منہ والا ہنس کھلڑ کا ملی ٹوپی پہنے بے حد خوشی کے اظہار کیلئے حضرت مسیح موعود کے سامنے کھڑا ہو کرا چھلنے کودنے لگا.یہ میرے پیارے بھائی تھے.حضرت اقدس مسکرا رہے ہیں.دیکھ کر خوش ہورہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ” جاٹ ہے جات بہت کم بولتے اور کم ہی بے تکلف ہو کر سامنے آتے تھے.ویسے طبیعت میں لطیف مزاح بچپن سے لے کر اب تک تھا.ایسی بات کرتے چپکے سے کہ سب ہنس پڑتے اور خود وہی سادہ سامنہ بنائے ہوتے.حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ اول تو بچوں کو کبھی میں نے مارا نہیں ویسے ہی کسی شوخی پر اگر دھمکایا بھی تو میر ابشری ( یعنی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) ایسی بات کرتا کہ مجھے ہنسی آجاتی اور غصہ دکھانے کی نوبت بھی نہ آنے پاتی.ایک دفعہ شاید کپڑے بھگو لینے پر ہاتھ اٹھا کر دھمکی دی تو بہت گھبرا کر کہنے لگے ” نہ اماں کہیں چوڑیاں نہ ٹوٹ جائیں“ اور حضرت اماں جان 3

Page 8

نے مسکرا کر ہاتھ نیچے کر لیا.“ الفضل 29 اکتوبر 1963 ، صفحہ 7) حضرت اماں جان کو آپ سے خاص محبت تھی اور بشیر کی بجائے ” بشری کہہ کر پکارتی تھیں.اسی طرح آپ پیار کے طور پر حضرت میاں بشیر احمد صاحب کو کبھی کبھی منجھلے میاں" بھی کہا کرتی تھیں.آنکھوں کی تکلیف بچپن میں ایک دفعہ آپ کی آنکھیں دُکھنے لگیں اور یہ تکلیف اتنی لمبی ہوگئی کہ کئی سال گذر گئے.آخر حضرت مسیح موعود نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی تو آپ کو الہام ہوا ”بَرَّقَ طِفْلِى بَشِيرٌ یعنی میرے لڑکے بشیر احمد کی آنکھیں اچھی ہو گئیں.یہ الہام قریب 1898 ء کا ہے جب کہ آپ کی عمر 5 سال کی تھی.حضور فرماتے ہیں کہ اس الہام کے ایک ہفتے کے بعد اللہ تعالیٰ نے اس کو شفا دی اور آنکھیں بعد اللہ تندرست ہو گئیں.“ (نزول المسیح صفحه 230) حضرت مسیح موعود کا پیار حضرت میر محمد اسماعیل صاحب روایت کرتے ہیں: حضرت مرزا بشیر احمد صاحب جب چھوٹے تھے تو ان کو ایک زمانہ میں شکر کھانے کی بہت عادت ہوگئی تھی.ہمیشہ حضرت مسیح موعود کے پاس پہنچتے اور ہاتھ پھیلا 4

Page 9

کر کہتے ”با پٹی ( چٹی شکر کو کہ رہے ہیں.کیونکہ بولنا پورا نہ آتا تھا اور مراد یہ تھی کہ سفید رنگ کی شکر لینی ہے ) حضرت صاحب تصنیف میں بھی مصروف ہوتے تو کام چھوڑ کر فوراً اٹھتے کوٹھڑی میں جاتے شکر نکال کر ان کو دیتے اور پھر تصنیف میں مصروف ہو جاتے.تھوڑی دیر میں میاں صاحب موصوف پھر دست سوال دراز کرتے ہوئے پہنچ جاتے اور کہتے ”ابا چٹی حضرت صاحب پھر اٹھ کر ان کا سوال پورا کر دیتے.غرض اس طرح ان دنوں میں باوجود کئی کئی دفعہ یہ ہیرا پھیری ( یعنی آنا جانا ) ہوتی رہتی تھی مگر حضرت صاحب باوجود تصنیف میں سخت مصروف ہونے کے کچھ نہ فرماتے بلکہ ہر دفعہ ان کے کام کیلئے اٹھتے تھے.یہ 1895 ء یا اس کے قریب کا ذکر ہے.(جبکہ آپ کی عمر قریباً3 سال تھی “ خطبہ الہامیہ کا نظارہ (سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ 305) اپریل 1900 ء میں جب عید الاضحی کے موقع پر حضرت مسیح موعود نے خطبہ الہامیہ پڑھا تو اس وقت آپ کی عمر صرف سات سال تھی مگر آپ فرمایا کرتے تھے : مجھے وہ نظارہ خوب یاد ہے.حضرت صاحب بڑی مسجد کے پرانے حصہ کے درمیانی در کے پاس صحن کی طرف منہ کئے ہوئے تھے اور اس وقت آپ کے چہرہ پر ایک خاص رونق اور چمک تھی اور آپ کی آواز میں ایک خاص درد اور رعب تھا اور آپ کی آنکھیں قریباً بند تھیں.“ 66 5 (سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ 164)

Page 10

:༡་ رض حضرت مسیح موعود اپنے بچوں کو مروجہ تعلیم دلانے سے قبل قرآن مجید جو تمام علوم کا خزانہ ہے پڑھایا کرتے تھے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے قرآن مجید حضرت پیر منظور محمد صاحب (مصنف قاعدہ میسر نا القرآن ) سے پڑھا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں: قاعدہ یسر نا القرآن جس نے بعد میں اتنی شہرت حاصل کی وہ ہم بہن بھائیوں کی تعلیم کی غرض سے ہی ایجاد کیا گیا تھا اور خدا کے فضل سے اس قاعدہ کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ لاکھوں احمدیوں اور غیر احمدیوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے اور اس وقت تک اس کے بے شمار ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں“ الفضل 23 جون 1950ء) 30 نومبر 1901ء کو جبکہ آپ کی عمر نو سال تھی آپ کی آمین کی تقریب منعقد ہوئی.یہ تقریب آپ کے ختم قرآن کے کئی سال بعد وقوع میں آئی جب کہ آپ کے چھوٹے بھائی حضرت مرزا شریف احمد صاحب اور بہن حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے بھی قرآن پڑھ لیا.اس موقع پر حضرت مسیح موعود نے ایک دعائر اعظم بھی لکھی جس کے ابتدائی 3 اشعار یہ ہیں: خدایا اے میرے پیارے خدایا یہ کیسے ہیں تیرے مجھے پر عطايا 6

Page 11

کہ تو نے پھر مجھے یہ دن دکھایا بیٹا دوسرا بھی پڑھ کے آیا احمد تو نے پڑھایا شفا دی آنکھ کو بینا بنایا آپ چونکہ ابتدائی تعلیم گھر میں حاصل کر چکے تھے اس لئے آپ مدرسہ تعلیم الاسلام کی لوئر پرائمری میں قیا سا 1901ء میں داخل کرائے گئے.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب شاید دوسری جماعت میں پڑھتے ہونگے کہ ایک دفعہ آپ چار پائی پر الٹی سیدھی چھلانگیں مار رہے اور قلابازیاں کھا رہے تھے.حضرت مسیح موعود نے دیکھا اور تقسیم کرتے ہوئے حضرت اماں جان سے فرمایا دیکھو یہ ایسا کر رہا ہے اور پھر فرمایا اسے ضرور ایم.اے کروانا.اس تعلیمی دور کا واقعہ ہے کہ ایک دن حضرت مسیح موعود نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کو بلا کر فرمایا کہ جو تم میرے بیٹے ہو گے تو ناول نہیں پڑھو گے.“ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ الحمد للہ میں حضرت صاحب کی توجہ سے خدا کے فضل کے ساتھ اس لغو فعل سے محفوظ رہا.“ 7 (حیات بشیر صفحہ 51)

Page 12

1910ء میں آپ نے تعلیم الاسلام ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے پاس کیا.اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا اور 1912ء میں یہاں سے ایف.اے کا امتحان پاس کیا اور پھر اسی سال بی.اے میں داخلہ لے لیا.بی.اے کی تعلیم کے دوران ایک دفعہ کسی طالب علم نے اسلام یا احمدیت کے متعلق کوئی ایسا سوال کیا جس کا آپ فوری طور پر جواب نہ دے سکے.اس کا آپ کی طبیعت پر ایسا اثر ہوا کہ آپ نے کالج چھوڑ دیا اور یہ فیصلہ کیا کہ جب تک میں قرآن پورے طور پر نہ پڑھ لوں گا کالج نہیں آؤں گا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے فرمایا: کالج تو پھر مل جائے گا مگر زندگی کا کچھ اعتبار نہیں.ممکن ہے کہ قرآن مجید و حدیث پڑھنے کا اور پھر وہ بھی نورالدین ایسے پاک انسان سے پھر موقع نہ مل سکے.اس لئے میں نے یہی بہتر جانا.“ تشحید الا ذہان مارچ 1913 صفحہ 154) 8 نومبر 1913ء کو آپ نے سارا قرآن کریم حضرت مولانا حکیم نور الدین مایہ اصبح الاول سے پڑھ لیا.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے آپ کیلئے بہت خليفة دعائیں کیں اور حضرت اماں جان نے اس خوشی میں مٹھائی بانٹی.مئی 1914ء میں آپ نے بی.اے کا امتحان دیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کامیاب ہو گئے.8

Page 13

اس کے بعد دینی خدمات کے ساتھ آپ پرائیویٹ طور پر ایم.اے عربی کے امتحان کی تیاری بھی کرتے رہے اور 31 مئی 1916 ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایم.اے عربی کا امتحان پاس کر لیا.نکاح و شادی 12 ستمبر 1902ء کو آپ کے نکاح کی مبارک تقریب عمل میں آئی.آپ کا نکاح حضرت مولوی غلام حسن خاں صاحب پشاوری کی صاحبزادی سرور سلطان صاحبہ سے ایک ہزار روپیہ مہر پر پڑھایا گیا.نکاح حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ نے پڑھا.مئی 1906ء میں آپ کی شادی کی تقریب عمل میں آئی.حضرت مسیح موعود کی آخری تقریر 25 مئی 1908ء کو حضرت مسیح موعود نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے خواجہ کمال الدین صاحب کے مکان پر ایک بڑی پر جوش تقریر فرمائی تھی.اس تقریر میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب بھی موجود تھے.آپ فرمایا کرتے تھے: اس تقریر کے بعض فقرے اب تک میرے کانوں میں گونجتے ہیں.آپ نے فرمایا تم عیسی کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی زندگی ہے.نیز فرمایا اب ہم تو اپنا کام ختم کر چکے ہیں." (سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ 74) 0

Page 14

دینی خدمات مارچ 1911 ء جب کہ آپکی عمر تقریبا 18 سال تھی حضرت خلیفہ المسح الاول رضی اللہ عنہ نے آپ کو صدرانجمن احمد یہ قادیان کا ممبر مقرر فرمایا.اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ سلسلہ کی خدمات بھی بجا لاتے رہے.آپ نے آنریری طور پر تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پڑھانا شروع کر دیا اور ساتھ ہی افسر مدرسہ احمدیہ کا عہدہ بھی آپ کے سپرد کر دیا گیا.آپ نے جماعت کے مشہور اخبار الفضل“ اور رسالہ ریـــــــــــو آف ریلیجنز “ کی ادارت کے فرائض بھی سرانجام دیئے.مختلف وقتوں میں جن اہم جماعتی عہدوں پر آپ فائض رہے ان کی تفصیل کچھ یوں ہے: ناظر امور عامه ناظر تعلیم و تربیت قائمقام ناظر اعلی حمد ناظر اول (1922ء میں حضور نے نظارت کے صیغوں کی مزید نگرانی اور خاص طور پر محکمہ تجارت کی نگرانی کیلئے یہ عہدہ قائم فرمایا تھا ( حیات بشیر صفحہ 7) مناظر تالیف و تصنیف ناظر خدمت درویشاں 10

Page 15

اس کے علاوہ آپ نے جماعت کی مختلف رنگ میں خدمات کی توفیق پائی.دینی خدمات کا شوق اور فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داری کا یہ عالم تھا کہ ستمبر - 1924ء میں آپ کے پاؤں پر پھنسیاں نکل آئیں جن کی وجہ سے جوتا پہننا آپ کیلئے مشکل ہو گیا مگر آپ کی سادگی اور اپنے کام میں انہماک کا یہ عالم تھا کہ آپ ننگے پاؤں ہی دفاتر میں اِدھر اُدھر جاتے رہے.بحیثیت ناظر تعلیم و تربیت آپ نے اس امر کی پُر زور تحریک فرمائی کہ دوستوں کو اپنے گھروں میں بھی قرآن شریف اور حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود کا درس جاری کرنا چاہیے.آپ نے تحریر فرمایا: بہترین وقت صبح کی نماز کے بعد کا ہے لیکن اگر وہ مناسب نہ ہو تو جس وقت بھی مناسب سمجھا جائے اس کا انتظام کیا جائے.اس کے موقع پر گھر کے سب لوگ مرد، عورتیں ، لڑکے، لڑکیاں بلکہ گھر کی خدمت گاریں بھی شریک ہوں اور بالکل عام فہم سادہ طریق پر دیا جائے اور درس کا وقت پندرہ بیس منٹ سے زیادہ نہ ہوتا کہ طبائع 66 میں ملال نہ پیدا ہو.......علمی خدمات الفضل 16 مارچ 1928 ء ) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب قمر الانبیاء نے بے پایاں علمی وادبی خدمات بھی سر 11

Page 16

انجام دیں.کئی تصنیفات کے علاوہ آپ وقتا فوقتا الفضل اور جماعت کے دوسرے رسائل کیلئے مضامین بھی لکھتے رہے.اس کے علاوہ جلسوں میں مختلف موضوعات پر تقاریر جماعتی لٹریچر میں محفوظ ہیں.آپ کی سب سے شاندار اور اہم تصنیف ”سیرت خاتم النبین ﷺ ہے.آپ کی دوسری بے نظیر کتاب ”سیرت المہدی“ ہے.اس کے علاوہ آپ کی اہم کتب میں سلسلہ احمدیہ تبلیغ ہدایت ، ہمارا خدا، کلمة الفصل ختم نبوت کی حقیقت، وغیرہ شامل ہیں.آپ نے طلباء کیلئے ایک رسالہ امتحان پاس کرنے کے گر بھی شائع کیا کیونکہ آپ نے یہ محسوس کیا کہ طالبعلم محنت کر کے امتحانات کیلئے مقررہ کتابیں تو تیار کر لیتے ہیں لیکن امتحان دینے کے طریق اور فن کو نہیں جانتے جس کی وجہ سے بہت سے طالبعلم باوجود تیاری کے امتحانوں میں فیل ہو جاتے ہیں یا کم از کم اتنے نمبر حاصل نہیں کر سکتے جو انہیں تیاری کے لحاظ سے حاصل کرنے چاہیے.“ یہ رسالہ طلباء کیلئے نہایت اعلیٰ ہدایات پر مشتمل ہے.حضرت مسیح موعود کی تاریخ پیدائش کا تعین (حیات بشیر صفحه 94) آپ کا ایک عظیم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اگست 1936 ء میں گہری تحقیق کے بعد اس امر کا اعلان فرمایا کہ حضرت مسیح موعود کی تاریخ پیدائش 13 فروری 1835ء بروز جمعہ ہے.12

Page 17

قیام پاکستان اور آپ کی ہجرت پاکستان کے قیام کے کچھ دنوں بعد 31 اگست 1947 ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی جماعتی مشورہ سے قادیان سے پاکستان کیلئے روانہ ہو گئے اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو ضلع گورداسپور اور قادیان کیلئے اپنا قائمقام مقررفرمایا.نہایت نازک حالات میں آپ قادیان میں مقیم رہ کر اپنے فرائض سرانجام دیتے رہے.22 ستمبر 1947ء کو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے حکم کے ماتحت آپ قادیان سے لا ہور ( پاکستان ) تشریف لے آئے.آپ کے پاکستان تشریف لانے کے بعد حضرت خلیفہ الحی الثانی رضی اللہ عنہ نے’ حفاظت مرکز“ کے نام سے ایک جدید صیغہ قائم فرمایا جس کا تعلق درویشانِ قادیان کے ساتھ تھا اور اس کے ناظر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مقرر فرمایا.جس پر آپ اپنے وصال تک فائز رہے بعد میں اس دفتر کا نام تبدیل کر کے دفتر خدمت درویشاں رکھا گیا.ربوہ کا تاریخی سفر 19 ستمبر 1949ء کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ ربوہ میں مستقل رہائش کی غرض سے لاہور سے ربوہ روانہ ہوئے.اس سفر کی تاریخی اہمیت کے پیش نظر 13

Page 18

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بھی اپنے اہل وعیال کے ساتھ حضور کے ہمسفر رہے اور اس دن شام کو لاہور واپس آگئے.آپ نے خودر بوہ میں مستقل رہائش جنوری 1951ء میں اختیار کی.حضرت اماں جان کی آواز کی ریکارڈنگ 1951ء میں امریکہ سے ایک صاحب مکرم سید عبدالرحمن صاحب ایک ریکارڈنگ مشین لے کر آئے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی تحریک پر 7 فروری 1952ء کو حضرت اماں جان کی آواز ریکارڈنگ کے ذریعہ محفوظ کی گئی.حضرت اماں جان نے جماعت کے نام ایک مختصر سا پیغام سوال و جواب کے رنگ میں ریکارڈ کروایا.سوال کرنے والے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب تھے.یہ مکالمہ کچھ یوں تھا: حضرت مرزا بشیر احمد صاحب : اماں جان السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت اماں جان : ”وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب : ” آپ کی آواز جماعت برکت کے خیال سے محفوظ کرنا چاہتی ہے اگر آپ کی طبیعت اچھی ہو تو جماعت کے نام کوئی پیغام دے کر ممنون فرمائیں.“ حضرت اماں جان : ” میرا پیغام یہی ہے کہ میری طرف سے سب کو سلام پہنچے.اور اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کی طرف سے کبھی غافل نہ ہو.اسی میں ساری برکت 14

Page 19

ہے.میں جماعت کیلئے ہمیشہ دعا کرتی ہوں.جماعت مجھے اور میری اولا دکو دعاؤں میں یادر کھے.“ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب: "یہ حضرت اماں جان حال مقیم ربوہ کا جماعت احمدیہ کے نام پیغام ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس پر عمل کرنے کی توفیق دے اور حضرت اماں جان کی صحت اور عمر اور فیض میں برکت عطا فرمائے.‘“ (الفضل 4 جون 1952ء) انجام بخیر کیلئے درخواست دعا 66 جولائی 1961 ء کے آخر میں آپ علاج کی غرض سے لا ہور تشریف لے جانے گے تو آپ نے دوستوں سے دعا کی درخواست کرتے ہوئے یہ تحریر فرمایا کہ ” جب سے میں نے تریسٹھ (63) سال کی عمر سے تجاوز کیا ہے میرے دل پر بوجھ رہنے لگ گیا ہے کہ رسول پاک ﷺے والی عمر پائی مگر ابھی تک حقیقی طور پر نیک اعمال کا خانہ بڑی حد تک خالی ہے.اگر تھوڑی بہت نیکیاں ہیں تو وہ یقیناً حضرت مسیح موعودؓ کی دعاؤں کا نتیجہ اور آپ کا پاک ورثہ ہیں مگر کمزوریاں سب کی سب میری اپنی کمائی ہیں اور یہ کوئی ایسی پونچی نہیں جو خدا تعالیٰ کے سامنے پیش کرنے کے قابل ہو پس مخلص احباب اپنی دعاؤں سے میری نصرت فرمائیں کہ میری بقیہ زندگی نیک اور خدمت دین میں کئے اور انجام خدا تعالیٰ کی رضا کے ماتحت اچھا ہو.امین یا ارحم الراحمین.66 15 ( الفضل 3 جون 1961ء)

Page 20

آپ کی صحت دن بدن کمزور ہوتی جارہی تھی لیکن جسمانی کمزوری اور طبیعت کی خرابی کے باوجود آپ آخری دم تک نہایت ذمہ داری کے ساتھ خدمات سلسلہ سر انجام دیتے رہے.وفات آپ 2 ستمبر 1963 ، شام چھ بجکر 48 منٹ پر لاہور میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے.آپ کا جنازہ اسی روز ر بوو لایا گیا جہاں اگلے روز آپ کی تجہیزر ویلین اور چہرہ مبارک کی زیارت کے بعد آپ کا جنازہ حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب نے بہشتی مقبرہ کے وسیع احاطہ میں پڑھایا اور بہشتی مقبرہ ربوہ کے قطعی ص میں آپ کی تدفین عمل میں آئی.وفات کے وقت آپ کی عمر قریباً 70 سال تھی.اولاد آپ کی اولاد کے نام مع تاریخ پیدائش درج ذیل ہیں: 1.صاحبزادی امتہ السلام بیگم صاحبہ پیدائش 7 راگست 1907ء.2.صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب پیدائش 28 فروری 1913ء.3.صاحبزادہ مرزا حمید احمد صاحب پیدائش 3 جنوری 1915ء.4.صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ پیدائش 16 اگست 1916ء.16

Page 21

-6 5.صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب پیدائش 26 /اگست 1918ء.- صاحبزادہ ڈاکٹر مرزا مبشر احمد صاحب پیدائش 22 راگست 1922ء.7.صاحبزادہ مرزا مجید احمد صاحب پیدائش 18 جولائی 1924ء.8.صاحبزادی امتہ المجید بیگم صاحبہ پیدائش 15 جنوری 1926ء.9.صاحبزادی امتہ اللطیف بیگم صاحبہ پیدائش 4 نومبر 1935ء.17

Page 22

محبت الہی سیرت کے چند اہم پہلو آپ کے دل میں اپنے خالق حقیقی کی محبت بھری ہوئی تھی.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی کے بیٹے محترم مولوی برکات احمد صاحب را جیکی کا بیان ہے: چھ سات سال کی بات ہے کہ خاکسار آپ کی خدمت میں حاضر ہوا.اس وقت ماہ رمضان کو گزرے ابھی چند دن ہوئے تھے.آپ نے اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے راز و نیاز کے تعلق کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اس دفعہ رمضان المبارک کے شروع ہونے سے پہلے میں نے اللہ تعالیٰ کے احسانات بے پایاں اور اس کی رحمت و رافت پر بھروسہ کرتے ہوئے اس کی جناب میں عرض کیا کہ اے خدا! تو میرے روزوں کو قبول فرما اور میرا جو روزہ مقبول ہو جائے اس کی قبولیت کا ایک ظاہری نشاں نازل فرما.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میری اس درخواست کو منظور فرماتے ہوئے میرے تمام روزوں کو قبول فرمایا اور میری خواہش کے عین مطابق ان کی قبولیت کا نشان ظاہر فرمایا.“ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے یہ دعا کی تھی کہ ( الفضل 18 اکتوبر 1963ء) ” میرا جو روزہ مقبول ہو جائے اس کی قبولیت کا ظاہری نشان یہ ہو کہ اس کی 18

Page 23

افطاری میں خود نہ کروں بلکہ باہر سے میرے لئے افطاری کا سامان آئے.“ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل کیا کہ پورے 30 روزوں کی افطاری آپ کو باہر سے آئی.آپ ہر حالت میں خدا تعالیٰ کا شکر بجالاتے اور اس کی رضا پر راضی رہتے.آپ فرماتے ہیں: میں نے اپنے دل کے سارے گوشوں میں جھانک کر اور کونے کونے کا جائزہ لے کر آخر یہی نتیجہ نکالا کہ میں خدا کے فضل سے اور اس کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ اپنے خدا اور اس کی ہر تقدیر پر پورے شرح صدر کے ساتھ راضی ہوں.“ الفضل 13 نومبر 1951 ، صفحہ 4) آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود سے عشق آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کو انتہا درجہ کا عشق تھا.آپ کے بڑے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب بیان کرتے ہیں: آپ کا طریق تھا کہ گھر کی مجالس میں احادیث ، نبی کریم ﷺ کی زندگی کے واقعات اور حضرت مسیح موعود کی زندگی کے حالات اکثر بیان فرماتے رہتے تھے.میرے اپنے تجربے میں یہ ذکر سینکڑوں مرتبہ کیا ہوگا.لیکن مجھے یاد نہیں کہ کبھی ایک مرتبہ بھی نبی کریم ﷺ یا حضرت مسیح موعود کے ذکر سے آپ کی آنکھیں آبدیدہ نہ ہوئی ہوں.بڑی محبت اور سوز سے یہ باتیں بیان فرماتے تھے اور پھر ان کی روشنی 19

Page 24

میں کوئی نصیحت کرتے تھے.“ الفضل 20 نومبر 1963 ، صفحہ 4) مکرم مختار احمد صاحب ہاشمی ہیڈ کلرک دفتر خدمت درویشاں کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت میاں صاحب نے مجھے ایک مسودہ املا کروایا.اس میں ایک فقرہ یہ بھی تھا کہ حضرت رسول کریم ﷺ نے فرمایا میں نے جلدی میں صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے صرف صلعم “ لکھ دیا.دستخط کرتے وقت فرمایا کہ صلعم“ لکھنا ناپسندیدہ ہے.جب اتنی طویل و عریض عبارتیں لکھی جاسکتی ہیں تو صرف رسول کریم ﷺ کے نام کے ساتھ ہی تخفیف کا خیال کیوں آجاتا ہے.پھر اپنی قلم سے صلی اللہ علیہ وسلم لکھ دیا.اس موقع پر آپ نے مزید فرمایا کہ مجھے انگریزی میں محمد ﷺ کا مخفف Mohd “ بھی سخت نا پسند ہے اور مجھے Mohd لکھا ہوا دیکھ کر ہمیشہ ہی افسوس اور رنج پہنچا ہے نہ معلوم کس نے یہ مکر وہ ایجاد کی ہے اور تخفیف کا سارا زور صرف ”محمد“ کے نام پر ہی صرف کر ڈالا ہے.وو صحابہ حضرت مسیح موعود سے محبت 66 (حیات بشیر صفحه 205) حضرت مسیح موعود کے صحابہ سے آپ کو بے حد محبت تھی اور آپ ان کا بہت احترام فرمایا کرتے تھے.نوجوانوں کو ہمیشہ تحریر کے ذریعہ بھی اور زبانی بھی تحریک فرمایا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود کیصحا بہ اب بہت تھوڑی تعداد میں رہ گئے ہیں.ان 20

Page 25

سے ملتے رہا کرو اور ان کی برکات سے فائدہ اٹھاتے رہا کرو.نیز کوشش کرو کہ ان جیسا خلوص، فدائیت اور تعلق باللہ کا رنگ تمہارے اندر بھی پیدا ہو جائے.مرکز سلسلہ سے محبت مرکز سلسلہ سے آپ کو اس قدر محبت تھی کہ سوائے اشد مجبوری کے آپ مرکز سے باہر رہنا ہرگز پسند نہیں فرماتے تھے.ایک خط میں تحریر فرمایا: " آج (61-2-17) لاہور میں پہلا روزہ ہے.مگر افسوس ہے کہ میں بوجہ علالت روزے سے محروم ہوں اور زیادہ افسوس یہ ہے کہ لاہور میں ہونے کی وجہ سے نماز تراویح سے بھی محروم ہوں.لوگ غور کریں تو مرکز کی غیر معمولی برکات ہیں اور رمضان میں تو مرکز کی برکات بہت زیادہ ہو جاتی ہیں.“ ہمدردی خلق (حیات بشیر صفحہ 297) بنی نوع انسان سے ہمدردی اور شفقت آپ میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.آپ کسی کی تکلیف اور پریشانی کو دیکھ نہیں سکتے تھے.جو حاجت مند آپ کے دروازہ پر آتا وہ خالی لوٹ کر ہرگز نہیں جاتا تھا.آپ اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق ضرور اس کی امداد فرماتے تھے.اور یہ ایک حقیقت ہے کہ مصیبتوں اور تکلیفوں میں مبتلا انسانوں کا ایک تانتا بندھا رہتا تھا.کوئی شخص اپنی کاروباری مشکلات کو پیش کر کے 21

Page 26

مشورہ کرنے آرہا ہے.کوئی کسی مقدمہ کے بارہ میں امداد طلب کرنے آرہا ہے.کسی کو بیماری نے پریشان کر رکھا ہے اور وہ آپ سے علاج کیلئے مشورہ طلب کرنا چاہتا ہے.کوئی مقروض ہے قرض خواہوں نے اسے تنگ کر رکھا ہے اور وہ دعا کروانا چاہتا ہے.مگر آپ ہیں کہ ہر ایک کی بات کو بڑے تحمل اور بردباری سے سن رہے ہیں اور جو امداد کا مستحق ہے اس کی امداد کر رہے ہیں جو مشورہ کا محتاج ہے اسے مشورہ دے رہے ہیں جو دعا کا طالب ہے اسے دعا دے رہے ہیں.محترم مختار احمد صاحب ہاشمی ہیڈ کلرک دفتر خدمتِ درویشاں بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ مجھے ہدایت فرمائی کہ اگر آپ کی نظر میں کوئی امداد کا مستحق ہو اور وہ خودسوال کرنے میں حجاب محسوس کرتا ہو تو ایسے افراد کا نام آپ اپنی طرف سے پیش کر دیا کریں مگر یہ خیال رہے کہ وہ واقعی امداد کا مستحق ہو.چنانچہ میں اس عرصہ میں ہر موقع پر مستحق افراد کے نام پیش کر کے انہیں امداد دلوا تا رہا ہوں.ایک دفعہ حضرت میاں صاحب نے چند غرباء کو رقم بطور امداد ادا کرنے کی مجھے ہدایت فرمائی مگر میں خاموش ہو رہا.اس پر حضرت میاں صاحب نے میری طرف دیکھتے ہوئے میری خاموشی کی وجہ دریافت فرمائی.میں نے عرض کی کہ امداد فنڈ ختم ہو چکا ہے اور کوئی گنجائش (Balance) نہیں ہے.آپ نے مشفقانہ نگاہوں سے میرے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے فرمایا.گھبرائیں نہیں، رقم اوور ڈرا ( Over 22

Page 27

draw) کر کے ادا کر دیں.اللہ تعالیٰ بہت روپیہ دے گا.چنانچہ اگلے چند دنوں میں اس مد میں سینکڑوں روپے آگئے.“ 66 مهمان نوازی (حیات بشیر صفحہ 271) مہمان نوازی کے بارہ میں بھی آپ آنحضرت ﷺ اور حضرت مسیح موعود کی پوری پیروی کرتے.ایک بار قادیان کی ایک بوڑھی خاکرو بہ سلام کیلئے حاضر ہوئی اور زمین پر بیٹھنے لگی تو آپ نے فرمایا.اٹھو کرسی پر بیٹھو اور وہ عورت جسے گھر کے ایک خادم کے سامنے بھی کرسی پر بیٹھنے کی جرات نہیں ہوتی تھی اور جس کی ساری عمر خاک میں لتھڑے ہوئے گزری اسے با اصرار آپ نے کرسی پر بٹھایا اور اپنے خادم خاص بشیر سے کہا کہ قادیان سے آئی ہے.پرانی خادمہ ہے اس کیلئے چائے لاؤ لیکن اس خاکرو بہ نے یہ کہہ کر کہ ابھی فلاں کے گھر سے چائے پی کر آئی ہوں معذرت پیش کر دی.پھر آپ بڑی ہمدردی سے کافی دیر تک اس کے حالات پوچھتے رہے.“ (حیات بشیر صفحہ 253) ایک صاحب زمانہ طالب علمی میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے ہاں 12، 15 يوم بطور مہمان رہے.وہ بتاتے ہیں: اپریل کا مہینہ تھا.کھانا کھانے کے بعد عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر ان کی 23

Page 28

بیٹھک کے صحن میں سو جایا کرتا تھا.رات کو سوتے وقت مجھے قطعاً خیال نہیں رہتا تھا کہ آیا میرے پاس پینے کیلئے پانی، وضو کرنے کیلئے پانی ہے یا نہیں؟ جب صبح اٹھتا تو میرے نزدیک میز پر پانی کا جگ، وضو کیلئے پانی کا لوٹا اور تولیہ موجود ہوتا تھا.بچپن کی بے پروائی کے باعث حسب معمول اٹھ کر وضو کر کے نماز پڑھ کر چائے کے انتظار میں بیٹھا رہتا تھا اور کبھی یہ خیال نہ آتا تھا کہ پانی کا لوٹا اور تولیہ کہاں سے آجاتا ہے.ایک دن صبح کی اذان کے وقت نیم خوابیدہ حالت میں چار پائی پر پڑا تھا.کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت میاں صاحب موصوف میری چار پائی کے قریب پانی کا لوٹا اور کرسی پر تولیہ رکھ کر خود مسجد تشریف لے گئے.اسی طرح روزانہ میرے قیام کے دوران وہ کرتے رہے.66 (حیات بشیر صفحہ 254) بچوں سے سلوک بچوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے بارہ میں بھی آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے طریق کار کی اتباع کرتے تھے.حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب رقم طراز ہیں کہ ”ہم بہن بھائیوں سے بھی بہت شفقت کا سلوک فرماتے تھے.اولاد کا احترام کرتے تھے اور جب کبھی ہم باہر سے جلسہ وغیرہ اور دوسرے مواقع پر گھر جاتے تھے تو ہر ایک کیلئے بہت اہتمام فرماتے تھے.خود تسلی کرتے تھے کہ سونے والے کمرہ میں بستر 24

Page 29

وغیرہ ہر چیز موجود ہے؟ غسل خانے میں پانی صابن تولیہ موجود ہے؟ یوں احساس ہوتا تھا جیسے کسی برات کا اہتمام ہو رہا ہو.اور ہمیں شرم آتی تھی لیکن خود ذوقا یہ اہتمام فرماتے تھے.ہم واپس جاتے تو کمرہ میں آکر دیکھتے کہ کوئی چیز بھول کر چھوڑ تو نہیں گئے.اگر کچھ ہوتا تو اسے حفاظت سے رکھوا لیتے اور ہمیں اطلاع ضرور دیتے کہ فلاں چیز تم یہاں چھوڑ گئے ہو.میں نے رکھوالی ہے.پھر آؤ تو یا د سے لے لینا.مجھے فرمایا کرتے تھے کہ بچوں کی تربیت کے معاملہ میں میرا وہی طریق ہے جو حضرت مسیح موعود کا تھا.میں انہیں نصیحت کرتا رہتا ہوں لیکن دراصل سہارا خدا کی ذات ہے جس کے آگے جھک کر میں دعا گو رہتا ہوں کہ وہ تم لوگوں کو اپنی رضا کے راستوں پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور دین کا خادم بنائے.ہمیں جب بھی نصیحت فرماتے تو اس بات کو ملحوظ رکھتے کہ سیکی کا پہلو نہ ہو.فرمایا کرتے تھے کہ اگر نصیحت ایسے رنگ میں کی جائے کہ دوسرے کی خفت ہو تو وہ ٹھیک اثر پیدا نہیں کرتی.بلکہ بعض دفعہ اُلٹا نتیجہ پیدا کرتی ہے.مجھے یاد ہے کہ بچپن میں جب بھی میری کوئی حرکت پسند نہ آتی.تو اس کے متعلق تفصیل سے خط لکھتے تھے اور بڑے موثر اور مدال طور پر نصیحت فرماتے تھے.کسی خادمہ یا چھوٹے بچے کے ہاتھ خط اس ہدایت سے بھیجتے کہ پڑھ کر اسے واپس کر دو.اس طریق میں ایک پہلو تو یہی ہوتا تھا کہ دوسروں کے سامنے ڈانٹ ڈپٹ یا نصیحت کا اچھا اثر نہ پڑے گا اور دوسرے بعض مواقع پر شاید حجاب بھی مانع ہوتا ہو.ہم بہن بھائیوں کے دینی معاملات میں دلچسپی لیتے اور کام سے بہت خوش 25

Page 30

ہوتے تھے اور اپنی خوشی کا اظہار فرماتے تھے اور یہی خواہش رکھتے تھے کہ دنیوی زندگی کا حصہ ایک ثانوی حیثیت سے زیادہ اہمیت حاصل نہ کرے.“ بچوں سے پیار (حیات بشیر صفحہ 222، 223) حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بچوں سے بہت پیار کیا کرتے تھے.اس بارہ میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا بیان غالباً حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے.آپ فرماتے ہیں: بچوں سے محبت اور پیار کرتے تھے.آپ اس پیار میں اتنا بڑھے ہوئے تھے کہ ہمیشہ اپنی الگ الماری میں بچوں کیلئے گولیاں، ٹافیاں، غبارے، مُرمُرا (بھنے ہوئے چاول)، پھلیاں.....پاپڑ اور سردیوں کے موسم میں چلغوزے اور دیگر خشک میوہ جات وغیرہ مقفل رکھتے تھے.الماری کیا تھی گویا ایک چھوٹے بچوں کی دلچسپی کی دوکان تھی البتہ اس دوکان سے پیسوں کے نہیں بلکہ ہمیشہ محبت اور شفقت اور معصوم خوشیوں کے سودے ہوا کرتے تھے.بچے بڑی کثرت سے عمو صاحب کو سلام (حیات بشیر صفحه 223) کرنے جاتے.“ تو پیارے بچو! یہ تھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے فرزندار جمند حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے کی مختصر سوانح حیات.ہمیں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور دینی و دنیوی لحاظ سے ان کی جگہ خدمات بجالانے کی توفیق بخشے.آمین 26

Page 30