Language: UR
آپ ؓ حضر ت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے خسر اور صحابی تھے اور دہلی کے ایک پاکیزہ اور ممتاز خاندان کے فرد تھے جنہوں نے قادیان ہجرت کے بعد دن را ت خدمات سلسلہ کے لئے خود کو وقف کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے علاوہ اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے آپ کو قلمی اور تقریری ملکہ بھی خوب بخشا تھاجسے آپ سلسلہ کی خدمت میں استعمال فرماتے رہے ۔ آپ کے حالات زندگی کا مطالعہ اس دور کی تاریخ کا عکاس بھی ہے۔
حضرت میر ناصر نواب صاحب ”حضرت میر ناصر نواب صاحب“ دہلی کی بربادی کے وقت جب سب لوگ اپنے گھروں سے قیمتی سامان اٹھا کر جانیں بچانے کے لئے بھاگ رہے تھے تب ایک نیک خاتون نے گھر کے قیمتی ترین سامان کے طور پر اپنے ساتھ قرآن کریم لیا اور دلی کو الوداع کہہ دیا.یہ وہ پاک خاتون تھیں جن کی گود سے حضرت میر ناصر نواب صاحب جیسا نیک اور بزرگ وجود تربیت پاکر پروان چڑھا اور یہی محبت قرآن حضرت میر ناصرنواب صاحب اور آپ کی نسل کے حصہ میں بھی آئی.اور اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو یوں عزت عطا کی کہ آپ کی صاحبزادی حضرت مسیح موعود کے عقد میں آئیں اور یوں ایک نیک اور پاک خاندان کی بنیاد رکھی گئی.حضرت میر ناصر نواب صاحب کے حالات زندگی پڑھ کر آپ بھی اپنے ایمانوں میں ایک تازگی محسوس کریں گے.
1 پیش لفظ امام الزمان حضرت مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے جو رفقاء کی صورت میں عظیم وجود عطا فرمائے ان میں ایک حضرت میر ناصر نواب صاحب بھی ہیں.آپ کا مقام اس لحاظ سے بھی بہت بڑھ جاتا ہے کہ آپ کو حضرت مسیح موعود کا خسر ہونے کا شرف بھی حاصل ہوا.دن رات خدمات سلسلہ میں مصروف رہنے والے اس وجود کو خدا تعالیٰ نے قلمی اور تقریری ملکہ بھی عطا فر مایا تھا جسے انہوں نے خدمات سلسلہ میں خوب استعمال فرمایا.خدا تعالیٰ ہمیں بھی آپکے نقش قدم پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے.(آمین) تعارف پیارے بچو! دہلی ہندوستان کا مغلیہ دور میں بھی ایک عرصہ تک دارالحکومت رہا اور آج بھی آزاد ہندوستان کا دارالحکومت ہے.دہلی اُن معروف ومشہور شہروں میں سے ہے جو تاریخی شواہد کے لحاظ سے کئی مرتبہ اُجڑے اور آباد ہوئے.جب بھی دہلی دار الحکومت بنتی تو خوب آباد ہو جاتی اور جب حکومت کے کارندے اس شہر کو چھوڑ دیتے تو یہ بھی اپنی شوکت کھو دیتی.دہلی میں بہت بڑے بڑے بزرگ گزرے ہیں.جن لوگوں میں حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کا کی، حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء ، حضرت امیر خسر وشامل ہیں.دہلی کی رونق مغل بادشاہوں میں سے شاہجہان کے زمانہ میں دوبالا ہوئی کہ اُنہوں نے دہلی کی معروف و مشہور عمارت لال قلعہ کے ساتھ ساتھ عالی شان جامع مسجد بھی تعمیر کروائی جو کہ آج بھی دہلی کی شان ہے اور کم از کم سال میں دومرتبہ لال قلعہ کی اس عمارت سے ہندوستان کے وزیراعظم پورے ہندوستان کو مخاطب کرتے ہیں.یہ تو دہلی کا مختصر تعارف تھا جو پیش کیا گیا لیکن ہمارے نزدیک دہلی اس لحاظ سے خاص مقام رکھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک خاص شادی کا وعدہ فرمایا تھا.اور آپ کی شادی اللہ تعالیٰ کے حکم سے دہلی کے ایک معزز خاندان میں ہوئی.جن سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مبشر اولا د عطا کی جو کہ آج ساری دنیا میں چاند ستاروں کی طرح روشن دکھائی دیتی ہے.میری مراد حضرت میر ناصر نواب صاحب سے ہے.اور میں آج آپ کو حضرت میر ناصر نواب صاحب کے بارے میں جو نانا جان“ کے نام سے بھی مشہور تھے.کچھ بتانا چاہتا ہوں تو غور سے سنو!
3 له 2 خاندان و نسبت حضرت میر ناصر نواب صاحب کا خاندان دہلی کے تمام شریف خاندانوں میں سے واجب الاحترام اور ممتاز یقین کیا گیا ہے.حضرت میر صاحب کے والد کا نام ناصرا میر صاحب تھا.آپ کے دادا کا نام میر ہاشم علی صاحب تھا.خواجہ میر در د صاحب رحمۃ اللہ علیہ بھی اسی خاندان سے تھے جن کی روحانی برکات اور فیوض کا سلسلہ بہت وسیع ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو دین و دنیا کے لحاظ سے شرف عطا کیا تھا.پیدائش حضرت میر ناصر نواب صاحب کا خاندان دہلی ہی میں آباد تھا اور آپ کی پیدائش وہیں ہوئی، وہیں پرورش پائی اور کھیل کود کر بڑے ہوئے.آپ کی زندگی میں اچانک ایک تغیر پیدا ہو گیا کہ آپ کے والد کسی کام سے بنارس تشریف لے گئے اور دوران سفر ہی شاہ آباد آرہ میں ہیضہ سے آپ کا انتقال ہو گیا.اس طرح آپ دو بہنوں کے ساتھ یتیم رہ گئے.والد صاحب کی وفات کے بعد زندگی گزارنے کے سامان بظاہر نہ رہے.آپ کے دادا حیات تھے لیکن ان کی عمر بھی اتنی 80 برس کے قریب تھی اور کوئی جائیداد بھی نہ رکھتے تھے.جو بھی جائیداد تھی وہ خاندان سے جا چکی تھی.بہر حال آپ کی پرورش نانا اور ماموں نے اپنے ذمہ لے لی.آپ دہلی میں ہی قیام پذیر تھے کہ دہلی والوں پر ایک آفت ٹوٹ پڑی اور انگریزی فوج میں بغاوت ہوگئی.باغی فوجی بھاگ بھاگ کر دہلی آنے لگے.ہر طرف فساد برپا ہو گیا.1857 ء کا واقعہ ہے.انگریزوں نے اپنی فوجی طاقت جمع کر کے دہلی پر حملہ کر دیا اور دہلی کو چاروں طرف سے گھیر لیا گیا.جیسے جیسے محاصرہ تنگ ہوتا گیا دہلی کے لوگوں کی بے چینی بڑھتی گئی آخر یہ ہوا کہ باغی فوجی دہلی چھوڑ کر بھاگ گئے اور انگریز فوج دہلی میں داخل ہوگئی.پھر کیا تھا صد ہا لوگ قتل ہوئے سینکڑوں کو پھانسی دے دی گئی.شہر کے لوگ ڈر کے مارے بھاگنے لگے ایسے حالات میں آپ بھی اپنے کنبہ کے ساتھ دہلی دروازے سے باہر نکل گئے.حضرت میر صاحب فرماتے ہیں کہ سب لوگ اپنے اپنے گھروں سے خاص خاص اور قیمتی اشیاء ساتھ لے جانے کے لئے اٹھارہے تھے میری والدہ نے اللہ انہیں جنت نصیب کرے میرے والد صاحب کا قرآن اٹھا لیا جو کہ میرے پاس نشانی کے طور پر موجود ہے.الغرض دہلی سے نکلنے کے بعد اس قافلہ نے دہلی سے گیارہ میل دور قطب صاحب میں پہنچ کر وہاں ایک حویلی میں پناہ لی.ابھی دو دن ہی گزرے تھے کہ ایک رسالہ افسر وہاں آپہنچا.دروازہ جیسے ہی کھلا اس سے قبل کہ وہ یہ دریافت کرتا کہ تم مخالف کے آدمی ہو یا ہمارے.اس نے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی.جو بچ گئے ان کو حویلی سے نکل جانے کا حکم ہوا.سب لوگ اپنے مردوں کو یوں ہی بے کفن و دفن چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں نکل گئے.رات اندھیری تھی راستہ دکھائی نہ دیتا تھا.ساری رات چلنے کے بعد روشنی ہونے پر معلوم ہوا کہ رات بھر وہیں چکر لگاتے رہے ہیں.دوسرے دن یہ قافلہ درگاہ نظام الدین پہنچا اور وہاں پہنچ کر لوگ اپنے بچھڑنے والوں کو یاد کرتے رہے اور روتے رہے یہاں سب سے بڑی مشکل اب یہ تھی کہ لوگوں کے پاس کھانے کو کچھ باقی نہ رہا تھا.اسی دوران آپ کے ایک ماموں جو حکمہ نہر میں ڈپٹی کلکٹر تھے اور پانی پت اپنے کنبہ کے ساتھ پہنچ چکے تھے.انہیں آپ لوگوں کا حال معلوم ہوا تو چند چھکڑے بھیج کر آپ کو پانی پت بلا لیا.اس طرح اللہ تعالیٰ کی رحمت نازل ہوئی اور دہلی والوں کا پانی پت والوں نے بہت ساتھ دیا اور مدد کی.آپ کا خاندان دو سال تک پانی پت میں مقیم رہا.اس کے بعد لوگوں کو دہلی آنے کی اجازت دے دی گئی اور لوگ اپنے مکانوں میں آنے شروع ہوئے.اس طرح آپ کا خاندان بھی پھر سے دہلی میں آباد ہو گیا.
4 ༡༥/ جب آپ کا خاندان دہلی میں آباد ہو گیا اور کچھ امن کی صورت پیدا ہوئی تو اس وقت آپ کی عمر بارہ سال کے قریب ہو چکی تھی.آپ کی والدہ محترمہ نے آپ کو حضرت میر ناصرحسین صاحب کے پاس جو کہ آپ کے ماموں تھے اور ملک پنجاب میں بمقام مادھو پور ضلع گورداسپور میں رہتے تھے بھجوادیا.اُن کے پاس رہ کر دیگر علوم تو حاصل کئے لیکن بڑے بھائی کے مشورہ پر انگریزی پڑھنے سے انکار کر دیا.شادی پیارے بچو! حضرت میر صاحب کا زمانہ ایسا تھا کہ لوگ اپنے بچے بچیوں کی شادیاں چھوٹی عمر میں ہی کر دیا کرتے تھے.اسی رواج کے مطابق آپ کی فہمیدہ اور مہربان والدہ نے آپ کی شادی سولہ 16 سال کی عمر میں ہی کر دی.آپ کی بیوی کا نام سید بیگم تھا.حضرت میر صاحب نے اپنی بیوی کی وہ تمام صفات گنوائی ہیں جو ایک باوفاعورت میں ہونی چاہئیں.آپ فرماتے ہیں: اس بابرکت بیوی نے جس سے میرا پالا پڑا تھا.مجھے بہت ہی آرام دیا.اور نہایت ہی وفاداری سے میرے ساتھ اوقات بسری کی.اور ہمیشہ مجھے نیک صلاح دیتی رہی.اور کبھی بے جا مجھ پر دباؤ نہیں ڈالا.اور نہ مجھ کو میری طاقت سے بڑھ کر تکلیف دی.میرے بچوں کو بہت ہی شفقت اور جانفشانی سے پالا.نہ کبھی بچوں کو کوسانہ مارا.اللہ تعالیٰ اسے دین ودنیا میں سرخرو رکھے اور بعد انتقال جنت الفردوس عنایت فرما دے.بہر حال عسرویسر میں میرا ساتھ دیا.جس کو میں نے مانا اس کو اس نے مانا.جس کو اولاد 5 میں نے پیر بنایا.اس نے بھی اس سے بلا تامل بیعت کی.چنانچہ عبداللہ صاحب غزنوی کی میرے ساتھ بیعت کی.نیز مرزا صاحب کو جب میں نے تسلیم کیا.تو اس نے بھی مان لیا.ایسی بیویاں بھی دنیا میں کم میسر آتی ہیں.(حیات ناصر صفحہ 5-6) 1865ء میں شادی کے تین سال بعد آپ کے ہاں ایک با اقبال لڑکی پیدا ہوئیں.یہ وہی لڑکی تھیں جو بعد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حرم میں داخل ہو کر ( حضرت اماں جان ) کہلائیں.حضرت میر ناصر نواب صاحب کے ہاں حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے بعد پانچ بچے پیدا ہوئے اور سب ہی مشیت الہی نے اپنے پاس بلا لئے مگر پانچ بچوں کا داغ جدائی کھا کر بھی ثابت قدم ناصر نواب اپنے رب کا عبد شکور رہا.تب خدا تعالیٰ نے 1881ء میں اپنے فضل سے ایک بچہ عطا فرمایا جس کا نام محمد اسماعیل رکھا گیا جو بعد میں اپنے وقت کا ایک خاص آدمی ثابت ہوا اور ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کر کے ترقی کرتے ہوئے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب سول سرجن کہلایا.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب کی پیدائش کے بعد بھی حضرت میر صاحب کے پانچ بچے اور پیدا ہوئے جو سب کے سب اللہ تعالیٰ کی منشاء کے ماتحت وفات پا گئے.حضرت میر صاحب نے ان سب کی وفات پر رضاء بالقضاء کا ثبوت دیا.تب 1890ء میں اللہ تعالیٰ نے بمقام لدھیانہ ایک اور بچہ عطا فر مایا.اس کا نام حضرت میر صاحب نے محمد اسحق رکھا.(سیرت حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ، صفحہ 123)
7 6 ملازمت جب آپ کی عمر 21 برس ہوئی تو آپ کی والدہ نے یہ دیکھ کر کہ ذریعہ معاش کوئی نہیں ، آپ کو آپ کے ماموں کے پاس لاہور بھیج دیا.جہاں آپ نے ایک سال تک تعلیم حاصل کی اور پھر آپ کے ماموں کی ہی وساطت سے آپ کو ملازمت مل گئی.سب سے پہلے آپ بحیثیت اوورسیئر امرتسر میں رہے بعد میں آپ سٹھیالی اور کاہنوان میں بھی قیام پذیر رہے اور کچھ وقت آپ کو قادیان میں رہنے کا بھی موقعہ نصیب ہوا.جن دنوں آپ کا قیام قادیان میں تھا اس وقت آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات بھی کی.آپ اُن دنوں براہین احمدیہ لکھ رہے تھے.اس زمانہ میں وفات وحیات مسیح کا کوئی اختلاف نہ تھا.ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت میر ناصر نواب صاحب سے جب کہ آپ قادیان میں اکیلے رہا کرتے تھے اپنے اہل وعیال کو بھی ساتھ رکھنے کی تحریک فرمائی.خدا کا کرنا یوں ہوا کہ جب آپ کے بیوی بچے قادیان ہی میں مقیم تھے تو آپ کا تبادلہ قادیان سے لاہور ہو گیا.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ اپنے اہل وعیال کو یہاں ہی چھوڑ جائیں جب تک وہاں کوئی رہائش کا انتظام نہ ہو جائے.تو اس تجویز پر حضرت میر صاحب اپنے اہل و عیال کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر چھوڑ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں حضرت میر صاحب کی بے حد عزت تھی.حضرت میر صاحب نے فرمایا کہ مجھے اس بات کا علم ہوا کہ جتنے دن میرے اہل وعیال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر پر رہے حضوڑ اس گھر میں داخل نہ ہوئے بلکہ دوسرے گھر میں قیام پذیر رہے.چند دنوں میں رہائش کا انتظام ہو گیا.اور آپ اپنے اہل وعیال کو لے کر لا ہور چلے گئے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے براہین احمدیہ شائع فرمائی اور حضرت میر صاحب کو اس بات کا علم ہوا تو آپ نے براہین احمدیہ خرید کی اور مطالعہ کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا نکاح اسی اثناء میں حضرت میر صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بعض امور کے متعلق دعا کے لئے لکھا.اُن میں سے ایک امر یہ بھی تھا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ مجھے نیک صالح داماد عطا کرے.اس دعائیہ خط کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو لکھا وہ حضرت میر صاحب کی تحریر میں ہی پیش کرتا ہوں.آپ تحریر فرماتے ہیں: میں اور نکاح کرنا چاہتا ہوں.مجھے اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایا ہے.کہ جیسا تمہارا عمدہ خاندان ہے.ایسا ہی تم کو سادات کے عالیشان خاندان میں سے زوجہ عطا کروں گا.اور اس نکاح میں برکت ہوگی.اور اس کا سب سامان میں خود بہم پہنچاؤں گا.تمہیں کچھ تکلیف نہ ہوگی.یہ آپ کے خط کا خلاصہ ہے.بلفظ یاد نہیں.اور یہ بھی لکھا کہ آپ مجھ پر نیک ظنی کر کے اپنی لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دیں.اور تا تصفیہ اس امر کو خفی رکھیں اور رد کرنے میں جلدی نہ کریں.مجھ کو یہ نہیں لکھا تھا کہ تمہارے ہاں یا دلی میں نکاح ہونے کا مجھے الہام ہوا ہے.لیکن بعض اپنے احباب کو اس سے بھی مطلع فرمایا کہ دلی میں سادات کے خاندان میں میرا نکاح ہوگا.پہلے تو میں نے کچھ تامل کیا کیونکہ مرزا صاحب کی عمر زیادہ تھی اور بیوی بچہ موجود تھے اور ہماری قوم کے بھی نہ تھے.مگر پھر حضرت مرزا صاحب کی نیکی اور نیک مزاجی پر نظر کر کے جس کا میں دل سے خواہاں تھا.میں نے اپنے دل میں مقرر کر لیا کہ اسی نیک مرد سے میں اپنی دختر نیک اختر کا رشتہ کر دوں.نیز مجھے دلی کے لوگ اور وہاں کی عادات واطوار بالکل ناپسند تھے.اور وہاں کے رسم ورواج سے سخت بیزار تھا.اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا مانگا کرتا تھا.کہ میرا
9 8 مربی ومحسن مجھے کوئی نیک اور صالح داماد عطا فرما دے.اور یہ دعا میں نے بار بار اللہ تعالیٰ کی جناب میں کی آخر قبول ہوئی اور مجھے ایسا بزرگ صالح متقی خدا کا مسیح و مہدی نبی اللہ ورسول اللہ خاتم الخلفاء اللہ تعالیٰ نے داماد عطا فرمایا.جس پر لوگ رشک کریں تو بجا ہے اور میں اگر اس پر فخر کروں تو کچھ بے جانہ ہوگا.“ نیز لکھتے ہیں: (حیات ناصر صفحہ 8-7) اپنی فرمانبردار بیوی کو لڑکی کے نکاح کے بارہ میں بہت سمجھا بجھا کر راضی کیا اور سوائے اپنی رفیق بیوی کے اور کسی کو اطلاع نہیں دی.اس واسطے کہ ایسا نہ ہو کنبہ میں شور پڑ جاوے اور میرا کیا کرایا کام بگڑ جاوے اور میری والدہ صاحبہ و دیگر اقرباء مانع ہوں.انجام کار 1885ء میں میں نے حضرت مرزا صاحب کو چپکے سے بلا بھیجا.اور خواجہ میر درد صاحب کی مسجد میں بین العصر والمغرب اپنی دختر نیک اختر کا حضرت صاحب سے گیارہ سو روپیہ مہر کے بدلے نکاح کر دیا.نکاح کا خطبہ مولوی نذیرحسین صاحب محدث دہلوی نے پڑھا.وہ ڈولی میں بیٹھ کر تشریف لائے تھے.کیونکہ ضعف اور بڑھاپے کے باعث چل پھر نہیں سکتے تھے.“ (حیات ناصر صفحہ: 8) اس طرح حضرت میر صاحب کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے خسر کا رشتہ قائم ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جب اللہ تعالیٰ نے یہ بات بتائی کہ تو ہی وہ مسیح و مہدی ہے جس کی پیشگوئیاں سابقہ کتب میں موجود ہیں اور لوگوں سے بیعت لینے کا حکم ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت لکھ کر لوگوں کو لدھیانہ آنے اور بیعت کرنے کی دعوت دی تھی.اس وقت حضرت میر ناصر نواب صاحب کا تقر رلدھیانہ ہی میں تھا.یہ 1889 ء کا واقعہ ہے.جس وقت لدھیانہ میں پہلی بیعت ہوئی اس وقت حضرت میر صاحب لدھیانہ ہی میں موجود تھے لیکن آپ نے بیعت نہ کی.اس کے باوجود کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بڑے عقیدت مند تھے اور پھر حضور داماد بھی تھے یہ دونوں باتیں بھی آپ کو اس طرف راغب نہ کرسکیں.کیونکہ آپ حضرت مرزا صاحب کو مسیح موعود اور مہدی تسلیم کرنے کو تیار نہ تھے یا یہ کہنا چاہیے کہ اس وقت تک آپ کو اس بات کا یقین نہ تھا کہ اس طرح کوئی مسیح و مہدی ہو سکتا ہے.بہر حال آپ نے بیعت نہ کی.اسی زمانہ میں مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی سے لدھیانہ ہی میں ایک مباحثہ بھی ہوا جس میں حضرت میر صاحب بھی شامل تھے.پھر آپ کا تبادلہ لدھیانہ سے پٹیالہ ہو گیا.اللہ تعالیٰ نے آپ کے سینہ کوکھولنا اور حقیقت آپ پر آشکار کرنی تھی اس غرض سے اللہ تعالیٰ نے یہ سامان پیدا کر دیئے کہ پہلے جلسہ سالانہ قادیان میں آپ کو شامل ہونے کی توفیق حاصل ہوئی جو کہ 1891 ء میں ہوا.آپ قادیان تشریف لائے تو اللہ تعالیٰ نے آپ پر حق آشکار کر دیا.اور فوراً حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کر کے آپ کی غلامی میں داخل ہو گئے.اور پھر ساری زندگی جس وفا اور صدق سے آپ نے بسر کی وہ ہر احمدی کے لئے مشعل راہ ہے.پنشن اور قادیان آمد حضرت میر صاحب سرکاری ملازم تھے.آپ مختلف جگہوں سے تبدیل ہوتے ہوئے جب مردان پہنچے تو وہاں آپ کا دل نہ لگتا تھا اس پر آپ رخصت لے کر قادیان آگئے.ابھی رخصت ختم بھی ہونے نہ پائی تھی کہ آپ کی پنشن منظور ہوگئی.پھر کیا تھا آپ قادیان ہی کے ہوکر رہ گئے.
11 10 آپ بیعت تو کر ہی چکے تھے اپنا سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قدموں میں ڈال دیا.اور ہمیشہ کے لئے آپ کی خدمت پر مامور ہو گئے.آپ ہر کام کرتے اور کرواتے.مالی بھی آپ تھے.انجینئر بھی آپ تھے زمین کے مختار بھی آپ تھے.بس یوں کہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پرائیویٹ سیکرٹری تھے.امانت و دیانت آنحضرت ﷺ نے ہر مسلمان کو امین اور دیانت دار ہونے کی طرف توجہ دلائی ہے.حضرت میر صاحب میں یہ وصف نمایاں تھا اپنے تو اپنے غیر بھی آپ کی امانت و دیانت کا اعتراف کرتے تھے.آپ جن دنوں ملازم تھے اس وقت کا ایک واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ افسران نہر نے قاعدہ کے مطابق آپ سے ایک سو روپے کی نقد ضمانت طلب کی.آپ کے دوسرے ساتھیوں نے تو روپیہ جمع کر دیا.لیکن آپ نے فرمایا کہ میرے پاس تو نہیں ہے اور واقعی نہ تھا حالانکہ آپ کے سپرد اوورسیئر کا کام تھا اور لوگ تو اس میں ہزاروں کما لیتے ہیں لیکن آپ حلال و حرام کو اچھی طرح سمجھتے تھے اس لئے آپ نے کبھی رشوت نہ لی اور اکل حلال آپ کا شیوہ تھا.جب آپ نے رقم جمع کروانے سے انکار کیا اور کہا کہ میرے پاس نہیں ہے تو لوگوں نے مشورہ دیا کہ قرض لے کر ادا کر دو.اس پر آپ نے فرمایا کہ پھر قرض کہاں سے ادا کروں گا.ضمانت کی رقم جمع نہ کروانے کا مطلب تھا عہدہ سے علیحد گی.آپ کو آخری نوٹس بھی دے دیا گیا.اس پر آپ نے عزم کر لیا کہ علیحد گی منظور ہے.جب یہ معاملہ چیف انجینئر تک پہنچا تو اس نے تمام کاغذات منگوائے اور دیکھے تو اس نے بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ ہمارے محکمہ میں بھی ایسا امین موجود ہے.وہ جانتا تھا کہ سب اوورسیئر ہزاروں روپیہ کماتے ہیں اور یہ شخص سوروپیہ بھی داخل نہیں کر سکتا جب کہ اسے علم ہے کہ اس رقم کے جمع نہ کروانے کا نتیجہ ملازمت سے علیحدگی ہے اور قرض بھی نہیں لیتا کہ ادا نہ کر سکوں گا تو لازماً یہ شخص امین ہے.ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے اس نے آپ کو ضمانت کی رقم داخل کرنے سے مستی کر دیا.دیکھا بچو! اللہ تعالیٰ بھی ایماندار اور صادق وامین لوگوں کی کس طرح مدد کرتا ہے.آپ کو بھی ہمیشہ اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے.نیک دل اور صاف دلی آنحضرت ﷺ کا حکم ہے کہ ایک مومن اپنے دوسرے مومن بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراضگی نہ رکھے.حضرت میر ناصر نواب صاحب کی طبیعت بعض معاملات میں بڑی سخت تھی لیکن اگر آپ کسی سے ناراض بھی ہو جاتے تو تین دن سے زیادہ کبھی بھی اس ناراضگی کو طول نہ دیتے.بلکہ آگے بڑھ کر السلام علیکم کہہ کر نا راضگی دور کر لیتے.زیادتی کرنے والے کو بھی معاف کر دیتے یہ آپ کی خاص صفت تھی جو ساری زندگی نظر آتی رہی.ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ میاں الہ دین صاحب جن کو فلاسفر صاحب بھی کہا جاتا تھا اُن سے کسی بات پر تکرار ہوگئی اور معاملہ یہاں تک پہنچا کہ فلاسفر صاحب کو مار پڑی.یہ شکایت جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پاس پہنچی تو آپ نے فلاسفر صاحب کے حق میں فیصلہ دیا اور فلاسفر صاحب سے معافی مانگنے کی بات کی.اس بات کو سن کر حضرت میر صاحب سب سے پہلے فلاسفر صاحب کے پاس گئے اور معافی مانگ لی.اس واقعہ سے آپ کی صاف دلی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے.آپ اپنا سینہ ہمیشہ صاف رکھتے تھے.سچی بات کو فوراً قبول کرتے اور مان لیتے اور سخت ناراضگی کے باوجود معاف فرما دیتے اور معافی طلب بھی کر لیتے.اللہ تعالیٰ آپ پر ہزار ہزار رحمتیں نازل کرے.آمین اسی سلسلہ میں حضرت یعقوب علی عرفانی کی ایک روایت ملتی ہے کہ میں جب قادیان آیا
13 12 جوانی کا زمانہ تھا طبیعت میں تیزی بھی بہت تھی اُن دنوں میں تعلیم الاسلام سکول کا ہیڈ ماسٹر تھا اور ناناجان ( حضرت میر ناصر نواب صاحب) ناظم تھے تو کسی معاملہ میں نانا جان سے ٹھن گئی.معاملہ یہاں تک بڑھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے شکایت کرنے کے لئے کچھ بولا ہی تھا کہ حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب (خلیفہ امسیح الاول) نے مجھے ڈانٹ دیا.اور ان کی ڈانٹ مجھے بہت پیاری تھی.میں بیٹھ گیا.حضور نے دریافت فرمایا تو حضرت حکیم نورالدین صاحب نے فرمایا حضور کچھ نہیں معمولی سی بات ہے میں سمجھا دوں گا اور حضرت حکیم نورالدین صاحب مجھے لے کر ایک طرف چلے گئے اور فرمانے لگے حضرت میر صاحب بہت صاف دل ہیں.تم کو اُن کے ساتھ اس طرح نہیں کرنا چاہیے ان کی بیٹی ( حضرت اماں جان ) ہیں تم کو فوراً اُن سے معافی مانگ لینی چاہیے.کہتے ہیں کہ ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ کیا دیکھا سامنے سے حضرت میر صاحب تشریف لا رہے تھے آپ نے دور سے ہی بآواز بلند السلام علیکم کہا اور آگے آکر گلے سے لگالیا.یہ تھا آپ کا حسن سلوک اور آپ کی صاف دلی جو کہ ہمیشہ ہی آپ کے وجود میں دکھائی دیتی تھی.غرباء سے ہمدردی اور محبت حضرت میر صاحب میں خدا تعالیٰ کے احکامات کی پابندی کا وصف اور غریبوں کے ساتھ ہمدردی اور محبت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عاشق اپنے عزیز وطن کو چھوڑ کر قادیان آ کر آباد ہونا چاہتے تھے.بعض لوگ تو ایسے تھے جو اس قدر مالی وسعت رکھتے تھے کہ کرایہ پر مکان حاصل کر کے رہ سکتے تھے.لیکن بعض اس قدر غریب تھے کہ معمولی کرایہ دینا بھی اُن کے لئے محال تھا.ایسے غریبوں کا خیال حضرت میر صاحب کو ہمیشہ رہتا اور دل میں یہ تڑپ رہتی کہ ان غریبوں کے لئے کچھ کیا جائے.آپ نے اس سلسلہ میں حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو توجہ دلائی اور خواہش ظاہر کی کہ ان غریبوں کے لئے مکان بنائے جائیں.چنانچہ حضرت نواب صاحب نے اس غرض کے لئے ایک قطعہ زمین وقف کر دیا اور حضرت خلیفہ امسیح الاول نے ان مکانوں کی بنیاد رکھی.حضرت میر صاحب نے ان مکانوں کی تعمیر کے لئے چندہ اکٹھا کرنا شروع کیا آپ ہر ایک کے پاس جاتے اور چندہ جمع کرتے اور دل میں کسی قسم کا کوئی حجاب نہ تھا.کیونکہ یہ کام خدا کی خاطر ہور ہا تھا.بلکہ کہتے ہیں کہ آپ نے اپنی ایک کاپی پر یہ شعر لکھا ہوا تھا.مانگوں نہیں پر مرر ہوں پیٹ بھرن کے کاج پر سوار تھ کے کام کو مانگتے مجھے نہ آوے لاج یعنی اپنا پیٹ بھرنے کی غرض سے مانگوں اس سے بہتر ہے کہ میں مر جاؤں لیکن دوسروں کی مدد کے لئے اور رفاہ کے لئے مانگتے مجھے کوئی شرم نہیں آتی.آپ ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھنے کے علاوہ عظیم انسان تھے سرکاری عہدہ سے پنشن حاصل کی تھی لیکن رفاہ عامہ کے کاموں کے لئے ہر وقت کوشش کرنا اور ایک ایک در پر کھڑے ہو کر مانگنا یہ آپ کی بلند حوصلگی کی اعلیٰ مثال تھی.آپ نے بڑی محنت اور جانفشانی سے محلہ دار الضعفاء کی تعمیر کی جسے محلہ ناصر آباد بھی کہا جاتا ہے.یہ محلہ آپ کی جانب سے احمدیوں کے لئے ایک گراں قدر تحفہ تھا.اور آپ کی ہمیشہ یاد کی جانے والی یادگار.حضرت میر صاحب کا صرف یہی ایک کارنامہ نہیں ہے بلکہ آپ کے رفاہ عامہ کے کارناموں کی ایک لمبی فہرست ہے.آپ نے ایک ہسپتال کے لئے چندہ جمع کرنا شروع کیا اس غرض کے لئے آپ نے خاکروب تک کو تحریک کی اور اُن سے چندہ لینے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہ کی اور نور ہسپتال ہی میں آپ نے ایک وارڈ ناصر وارڈ کے نام سے تعمیر کروایا.آپ جب لوگوں سے چندہ وصول کرتے اور کوئی آپ کو کم چندہ دیتا جو کہ اس کی استطاعت سے بہت کم ہوتا تو آپ کسی نہ کسی رنگ میں کوئی بات کر کے یا کوئی شعر سنا کر اُس کو احساس دلاتے
15 14 اور سننے والا خود بخود اپنے چندے میں اضافہ کر دیتا آپ کا یہ طریق بڑا ہی پیارا تھا ہر شخص آپ کی عزت بھی کرتا اور آپ کی بات کو سمجھ کر اس پر فورا عمل کرنے کے لئے آمادہ بھی ہو جا تا.احمد یہ کالج قادیان میں تعمیر ہونے والی ( بیت ) نور بھی آپ ہی کا کارنامہ ہے.بیت مبارک کے سامنے فرش پیارے بچو! قادیان ایک ایسا شہر تھا کہ سب گلیاں کچی تھیں.کوئی پکی سڑک نہ تھی نہ ہی کوئی کی نالی ، لوگ اپنے گھروں کا پانی باہر تو نکال دیتے لیکن وہ پانی راستوں میں ہی بہتا رہتا اور بیل گاڑیوں اور چھکڑوں کے آنے جانے سے کیچڑ ہو جاتا.ہر آدمی اس بات کا احساس تو کرتا لیکن کوئی آگے بڑھ کر کام نہ کرتا.( بیت ) مبارک کے پاس بھی یہی حال تھا.اس کا لوگ خیال بھی کرتے لیکن اس جگہ پر اینٹوں کا فرش لگانے کے لئے اگر کوئی آگے آیا تو وہ آپ ہی کا وجود تھا.آپ نے بڑی محنت سے الدار کے راستوں اور ( بیت ) مبارک کے سامنے اینٹوں کا فرش لگایا اور ہر آنے جانے والے کے لئے سہولت پیدا ہوئی.ڈھاب کی بھرتی حضرت میر ناصر نواب صاحب کی یہ خصوصیت تھی کہ آپ کبھی بھی بریکار نہ بیٹھتے تھے اور ہر وقت کوئی نہ کوئی تجویز آپ کے ذہن میں پیدا ہوتی رہتی جس سے سلسلہ کو فائدہ پہنچانا آپ کے مد نظر ہوتا.انہیں میں سے ایک یہ بات بھی ہے کہ آپ نے قادیان کے چاروں طرف جو ڈھاب تھی اس کی مشرقی جانب سے بھروائی شروع کر دی.اُن دنوں روپوں کا کام پیسوں میں ہوتا تھا.جب آپ یہ کام کروا ر ہے تھے تو کہتے ہیں کہ اُن دنوں ایک مرتبہ خواجہ کمال الدین صاحب قادیان آئے اور حضرت میر صاحب کے اس کام کو دیکھ کر کہنے لگے کہ آپ یہ کیا کام کر رہے ہیں.سلسلہ کا پیسہ غرق کر رہے ہیں.حضرت میر صاحب کی طبیعت بھی بڑی تیز تھی آپ نے انہیں جواب دیا کہ میں غرق کرتا ہوں تو تم سے لے کر نہیں.حضرت صاحب کا روپیہ ہے تم کون ہو جو مجھ پر اعتراض کرتے ہو.جاؤ حضرت صاحب کو کہو.حضرت میر صاحب کی یہ بات سن کر خواجہ صاحب تو خاموش ہو گئے لیکن ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں یہ بات کہہ ڈالی.اس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا: ”میر صاحب کے کاموں میں دخل نہیں دینا چاہیے.“ اب دیکھو جن لوگوں کو حضرت میر صاحب کی یہ بات فضول دکھائی دیتی تھی کہ آپ ڈھاب میں بھرتی ڈال رہے ہیں اُن کو اپنی غلطی کا احساس اس وقت ضرور ہوا ہوگا جب مدرسہ احمدیہ کی عمارت وہاں تعمیر ہوئی ہو گئی.پیارے بچو! آج بھی جامعہ احمدیہ قادیان اور تعلیم الاسلام اسکول کی عمارتیں اسی جگہ پر واقع ہیں جہاں حضرت میر صاحب نے بڑی محنت اور مشقت سے بھرتی ڈالی تھی.اس مدرسہ سے فارغ ہونے والے (مربیان) نے دنیا کے کونے کونے میں جا کر احمدیت کا پیغام پہنچایا اور ( دین حق) کے غلبہ کی بنیادوں کو مضبوط کیا.اللہ تعالیٰ حضرت میر صاحب کی اس کاوش کو قبول فرمائے اور آپ کو اجر عظیم عطا کرے.آمین حضرت اقدس کی خدمت حضرت میر صاحب نے جہاں اپنے آپ کو سلسلہ کے کاموں کے لئے وقف کر دیا تھا وہاں آپ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت کرنا بھی اپنے پر فرض کرلیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سب کام آپ ہی دیکھا کرتے حتی کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام قادیان سے باہر کہیں جاتے تو سب گھر بار کی نگرانی آپ ہی کے سپر دہوتی.حضرت اقدس کی آخری عمر میں بھی ہمیشہ آپ کے ہمرکاب ہوتے اور آپ کی خدمت پر مامور رہتے.
17 16 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جب لاہور کا آخری سفر فرمایا جس میں آپ کی وفات ہوئی حضرت میر صاحب نے ساتھ ہی سفر کیا تھا.حضرت میر صاحب فرماتے ہیں کہ وفات سے ایک دن قبل شام کو حضرت اقدس نے جو سیر کی اس میں بھی میں حضور کے ساتھ تھا.دوسرے روز ہی دو پہر سے قبل حضرت اقدس کا انتقال ہوا.اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.اور انتقال کے وقت بھی آپ حضرت اقدس کے پاس ہی موجود تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر لاہور میں ایک شور برپا ہو گیا.اور مخالفین غل غپاڑہ کرنے لگے اور لوگوں نے اس گھر کو گھیر لیا جہاں حضرت اقدس رہائش پذیر تھے.رات کے وقت حضرت اقدس علیہ السلام کا جنازہ بٹالہ بذریعہ ریل پہنچا اور پھر وہاں سے قادیان.اس سارے سفر میں بھی حضرت میر صاحب کو حضرت اقدس علیہ السلام کے جنازہ کے ساتھ ساتھ رہنے کی سعادت نصیب ہوئی.پھر جنازہ سے قبل اُن لوگوں میں بھی آپ شامل تھے.جنہوں نے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیروی کو خلیفہ المسیح کی حیثیت سے چنا اور اُن کی بیعت کی.حضرت میر صاحب کی قلمی خدمات پیارے بچو! حضرت میر صاحب جیسے دوسری خدمات سلسلہ میں مصروف رہتے تھے ایسے ہی آپ نے قلمی جہاد میں بھی خوب حصہ لیا.جن دنوں انجمن حمایت اسلام لا ہور کا نیا نیا دور شروع ہوا اس کے تحت بڑی دھوم دھام سے جلسے ہوا کرتے تھے.حضرت میر صاحب کو بھی ان جلسوں میں شرکت کی توفیق حاصل ہوئی.آپ شاعر بھی تھے اور اپنا مدعا بڑی عمدگی کے ساتھ اشعار میں لوگوں کے سامنے رکھا کرتے تھے.ایک مرتبہ آپ نے ایک نظم پڑھی اس میں ایک شعر یہ بھی تھا پھولوں کی گر طلب ہے تو پانی چمن کو دے جنت کی گر طلب ہے تو زر انجمن کو دے آپ کی یہ نظم بہت پسند کی گئی اور لوگوں نے یہ نظم سن کر دل کھول کر روپیہ دیا اور آپ کی یہ نظم الدَّالُ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ ( یعنی نیکی کی طرف رہنمائی کرنے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہوتا ہے ) کا موجب ہوئی.آپ کا یہ طریق بھی تھا کہ مخالفین احمدیت کا جواب بھی آپ نظموں میں دیا کرتے تھے.لدھیانہ شہر میں ایک اہل حدیث مولوی تھا حضرت میر صاحب چونکہ پہلے خود بھی اہل حدیث تھے آپ اس کی عزت کیا کرتے تھے اس لئے بھی کہ وہ نو مسلم بھی تھا.لیکن جب اس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف معاندانہ اشعار لکھے تو حضرت میر صاحب کو قطعاً برداشت نہ ہوا آپ نے اس وقت حضرت حسان بن ثابت کا کردار ادا کرتے ہوئے اس پر ایک نظم لکھی اس کے چند اشعار یوں ہیں.اک سگ دیوانہ لدھیانہ میں ہے آجکل وہ خرشتر خانہ میں ہے مومنوں کا لائن و طاعن بنا کھل گیا سب اس کا نومسلم پنا شاعری پر اس کو اپنی ناز ہے ہے وہ شاعر یا کہ پھکڑ باز ہے اس کی بربادی کے ہیں آثار یہ دن بدن ہوگا زیاده خوار گر نہ باز آیا تو ہووے گا ذلیل اس پر نازل ہوگا ہر دم قہر ایل اس طرح آپ کا جواب ( دین حق ) اور احمدیت کے دشمنوں کے لئے ننگی تلوار کی طرح تھا.حضرت میر صاحب ایک شاعر کے ساتھ ساتھ زبر دست مناظر بھی تھے.آپ کا جواب دشمنوں کے لئے دندان شکن ہوا کرتا تھا.اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ نے مناظرہ میں آپ کو غیر معمولی کامیابی عطا فرمائی.
19 18 اس سب کے ساتھ ساتھ آپ بہترین مقرر بھی تھے.آپ کی تقریر عام فہم ہوا کرتی.آپ بات کو بڑے اطمینان سے بیان کرتے کہ سننے والا اچھی طرح سمجھ جائے.حضرت خلیفہ ایح الاول کے دور خلافت میں 1910 ء میں جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر بھی آپ کو تقریر کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.حضرت خلیفۃ اسیح الاوّل کے ساتھ وفاداری حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد جب حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب بھیروی پہلے خلیفہ منتخب ہوئے تو آپ کی تمام تر وفاداریاں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دیگر خدمات سلسله پیارے بچو! اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ حضرت میر صاحب ہر وقت دین کی خدمت میں مصروف رہتے تھے جس طرح کہ آپ پہلے پڑھ چکے ہیں.اس کے ساتھ ساتھ بعض خاص قسم کے کام بھی آپ کے سپر د تھے اُن میں سے چند کا ذکر کرتا ہوں.مدرسہ تعلیم الاسلام کے مینیجر مدرسہ تعلیم الاسلام قادیان کی تعمیر 1897 ء کے آخر پر ہوئی تھی اور اجراء 1898ء کو ہوا.اس مدرسہ کے سب سے پہلے مینیجر آپ مقرر ہوئے.آپ نے اس مدرسہ کو کامیاب کرنے اور ساتھ تھیں آپ کی طرف منتقل ہوگئیں اور حضرت خلیفہ اصبح الاؤل بھی آپ کے کاموں کو بڑی بہتر رنگ میں چلانے کے لئے اپنی تمام تر قوتوں کو صرف کر دیا.آپ نے ساری زندگی مدرسہ کے عزت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.ایک مرتبہ حضرت خلیفہ امسیح الاول نے آپ کو لکھا.مکرم معظم حضرت میر صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ آپ کے کاموں اور خواہشوں کو دیکھ کر میری خواہش ہوتی اور دل میں بڑی تڑپ پیدا ہوتی ہے کہ جس طرح آپ کے دل میں جوش ہے کہ شفاخانہ زنانہ ،مردانہ،(بیت الذکر ) اور دار الضعفاء کے لئے چندہ ہو اور آپ ان میں سچے دل سے سعی و کوشش فرمارہے ہیں اور الحمد للہ آپ کے اخلاص صدق و سچائی کا نتیجہ نیک ظاہر ہورہا ہے اور ان کاموں میں آپ کے ساتھ والے قابل شکر گزاری سے پر جوش ہیں.ہمارے اور تمام کاموں میں سعی کرنے والے ایسے ہی پیدا ہوں.وَمَاذَلِكَ عَلَى اللَّهِ بِعَزِيزِ “ 66 نورالدین 30 اپریل 1909ء (حیات ناصر صفحہ 71) ساتھ بڑی دلچسپی دکھائی.ناظم تعمیرات جب مدرسہ تعلیم الاسلام جاری ہوا تو جہاں آپ مینیجر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے وہاں آپ ناظم تعمیرات بھی مقرر ہوئے.اس وقت جس جگہ پر جامعہ حمدیہ کی پختہ عمارت ہے یہاں تعلیم الاسلام اسکول کی کچی اینٹوں کی عمارت تعمیر کروانا آپ ہی کا کام تھا.آپ نے اس کام کے لئے رات دن محنت کی اور بڑی عمدگی کے ساتھ اس کام کو سرانجام دیا.افسر بہشتی مقبره آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے باغ کی درستی کی طرف خاص توجہ دی.وہاں بہت سے درخت لگائے.آموں کی مختلف قسمیں لاکر لگائی گئیں.پھر بہشتی مقبرہ میں کنواں بھی آپ ہی نے کھدوایا تھا تا اس کے ذریعہ سیرابی کا کام ہو سکے.اسی طرح جس وقت زلزلہ کے
21 20 ایام تھے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام خدا تعالیٰ کی وحی کے تحت اپنے باغ میں تشریف لے گئے.آپ کے ساتھ اور بھی بہت سے احباب وہاں جا ٹھہرے.اس وقت وہاں عمارتوں کی ضرورت تھی تو حضرت میر صاحب نے بڑی تیزی کے ساتھ وہاں مکان تعمیر کئے.جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کئی دنوں تک ٹھہرے رہے.نمیر دارالقرآن حضرت حکیم الملک خلیفہ مسیح الاول قرآن کریم کا درس عام طور پر ( بیت ) اقصیٰ میں دیا کرتے تھے.آپ کو یہ خیال پیدا ہوا کہ ایک عمارت دارالقرآن کے نام سے تعمیر ہونی چاہیے.جس میں قرآن کریم کا درس دیا جایا کرے.اور مدرسہ کے کام بھی آئے.اس کے باوجود کہ صدر انجمن احمدیہ کا محکمہ تعمیرات موجود تھا لیکن حضرت خلیفۃ اسبح الاول نے یہ کام حضرت میر صاحب کے سپرد کیا.اور جماعتوں میں یہ اعلان کیا کہ اس غرض کے لئے کم از کم اڑھائی ہزار روپے کی ضرورت ہے جو کہ احباب جمع کر دیں اور یہ روپیہ دارالقرآن کے نام سے حضرت میر صاحب کو ارسال کیا جائے.قدرت ثانی کے لئے دعا کا التزام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات کے بعد حضرت حکیم نورالدین صاحب کو جماعت نے اپنا پہلا خلیفہ منتخب کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب رسالہ الوصیت میں تحریر فرمایا کہ جماعت کومل کر قدرت ثانیہ کے لئے دعا کرنی چاہیے.اس بات کو مد نظر رکھ کر حضرت میر صاحب نے لمبی لمبی دعائیں کرنے کا التزام کیا.حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے اس سلسلہ میں خاص اعلان کرنے کا ارشاد بھی فرمایا جو اخبارات نے شائع کیا.حضرت میر ناصر نواب صاحب قادیان میں وہ پہلے بزرگ تھے جنہوں نے اجتماعی دعا کرنے کی تحریک کو عملی صورت دی.آپ ہر روز بعد مغرب اس مقصد کے لئے لمبی دعا کیا کرتے تھے.اور یہ سلسلہ کچھ عرصہ تک برابر جاری رہا.حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب فرماتے ہیں کہ میں خودان دعاؤں میں شریک ہوتا تھا اور آج تک اس لطف کو محسوس کرتا ہوں.قدرت ثانیہ کے لئے دعائیں ہوتی رہیں اور بطور عملی محرک کے حضرت میر صاحب قبلہ اس کے لیڈر تھے.خلافت ثانیہ پیارے بچو! حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے رسالہ الوصیت میں جس قدرت ثانیہ کا ذکر فرمایا ہے اس سلسلہ میں آپ نے یہ بات بھی فرمائی ہے کہ یہ قدرت ثانیہ تم میں ہمیشہ رہے گی.اور تم اس کے لئے سب مل کر دعائیں کرو.خدا تعالی کی یہ سنت ہے کہ جو بھی اس دنیا میں آیا اس نے بہرحال اللہ تعالیٰ کے پاس واپس لوٹ جانا ہے.خلیفہ مسیح الاوّل بھی خلافت پر چھ سال متمکن رہنے کے بعد اپنے اللہ کے حضور حاضر ہو گئے اور آپ کی وفات حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی میں ہوئی جو کوٹھی دار السلام کے نام سے موسوم تھی اور احمد یہ کالج کے جانب شمال ہے.حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی وفات سے پہلے ہی کچھ لوگ اس نظریہ کو پھیلا رہے تھے کہ خلیفہ کی ضرورت نہیں اور صدرانجمن احمد یہ ہی کافی ہے.گویا کہ وہ قدرت ثانیہ کی اس نعمت کو کاٹ دینا چاہتے تھے جس کے ہمیشہ رہنے کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے دیا تھا.جماعت کے بزرگوں نے حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کی وفات کے بعد سب سے پہلا کام خلیفہ کے انتخاب کا کیا جس کا انتخاب ( بیت ) نور میں ہوا.حضرت میر صاحب نے پوری وفا کے ساتھ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے ہاتھ پر بیعت کی.نہ صرف بیعت کی بلکہ غیر مبائعین کے فتنہ کو دور کرنے کے لئے آپ نے دور دراز علاقوں کے سفر بھی کئے اور تقاریر کے ذریعہ لوگوں کو سمجھایا.حضرت سیٹھ
23 22 عبدالرحمن مدراسی جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخلص ( رفقاء) میں سے ایک تھے اور با قاعده صدرانجمن احمدیہ کے ٹرسٹی بھی تھے ان کو غیر مبائعین کے فتنہ سے مطلع کرنے کے لئے حضرت میر صاحب نے مدراس کا سفر بھی کیا.اس طرح آپ نے خلافت ثانیہ کے دوسرے مظہر کے گرد مخلصین جماعت کو جمع کرنے کی بہت کوشش کی.صد انجمن احمدیہ کے خزانہ پر ان لوگوں کا قبضہ تھا جو خلافت کے منکر تھے.اُن کے لاہور منتقل ہونے پر خزانہ بھی ساتھ لے گئے.حضرت میر صاحب نے اس وقت جماعتی کاموں کو چلانے کے لئے اپنی طرف سے ایک خطیر رقم بھی حضرت خلیفہ اسیح کی خدمت میں پیش کی.اس طرح آپ نے خلافت ثانیہ کے ساتھ بھی بڑی محبت اور وفا کا تعلق رکھا.حضرت میر صاحب اس بات کو بخوبی سمجھتے تھے کہ اگر افراد جماعت کو ( دین حق ) کی حقیقی ہم پر چلانا ہے اور جماعتی عقائد سے واقف کروانا ہے تو اُن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے مطالعہ کی تحریک ہونی چاہیے.اس لئے جہاں آپ نے اور بہت سے کام کئے وہاں آپ نے افراد جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرنے کی تحریک فرمائی.اس کے ساتھ ہی آپ کو کتب کی اشاعت کا بھی بہت شوق تھا.رزق حلال کی تحریک اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تم حلال اور طیب چیزیں کھاؤ.آپ پیچھے پڑھ آئے ہیں کہ کس طرح حضرت میر صاحب نے ساری زندگی رزق حلال حاصل کیا.کوئی شخص بھی آپ پر انگلی نہیں اٹھا سکتا تھا.جہاں آپ خود اس پر قائم رہے وہاں آپ نے افراد جماعت میں رزق حلال کی تحریک کی غرض سے یہ کام بھی کیا کہ قادیان میں ایک چھوٹی سی دوکان کھول لی اور یہ قادیان میں کسی احمدی کی پہلی دوکان تھی.آپ غور کریں.مخالفت کا دور پھر حضرت میر صاحب کا اپنا مرتبہ اور مقام پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے رشتہ داری کی قربت کا معاملہ.آپ نے ان سب باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کہ لوگ آپ کو کیا کہیں گے کہ اتنے بڑے خاندان کا معز شخص اور ایک چھوٹی سی دوکان کھول لی ہے، صرف اس لئے دوکان جاری کی کہ رزق حلال کی خاطر کسی قسم کی شرم کرنے کی ضرورت نہیں.دراصل رزق حلال حاصل کرنے کی تحریک کرنا تھا.آج کے زمانہ میں دیکھیں کتنے نوجوان فارغ گھومتے ہیں لیکن چھوٹی موٹی دوکانداری کرنا چھوٹی تجارت کرنا اپنے لئے معیوب خیال کرتے ہیں.ہمارے نوجوانوں کو ان بزرگوں سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے اور رزق حلال میں چھوٹی تجارت اور چھوٹی موٹی دوکانداری کو عار نہیں سمجھنا چاہیے.اگر آج کے نوجوان ان بزرگوں کے نقش قدم پر چلیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی ان کے اموال میں برکت دے گا.فارغ رہنا اور گھومنا شیطان کی دوکان کے مترادف ہے.سانحہ وفات حضرت میر صاحب کے اس قدر اوصاف ہیں کہ جس قدر بھی بیان کئے جائیں کم ہیں.یہ دنیا تو عارضی ٹھکانا ہے.جس کو ہر صورت میں ایک دن الوداع کہنا ہے.حضرت میر صاحب آخری وقت میں بھی باوجود اعصابی کمزوری کے ہر وقت جماعتی کاموں میں مصروف رہتے اور ( بیت الذکر ) میں آکر نمازیں ادا کیا کرتے تھے.آپ کے سعادتمند بیٹوں نے آپ کے ساتھ ایک آدمی مستقل طور پر رکھا ہوا تھا.آپ جہاں بھی جاتے وہ ساتھ ساتھ رہتا.1924ء کی بات ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی لندن تشریف لے گئے تھے.انہیں دنوں آپ کی وفات کا سانحہ پیش آیا.انا للهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - حضرت خلیفہ آیح الثانی نے لندن ہی میں آپ کی نماز جنازہ غائب ادا فرمائی.حضرت خلیفتہ امسیح الثانی نے اس وقت لندن میں (بیت) فضل کا سنگ بنیاد رکھا تھا اور عارضی ( بیت الذکر ) ہی بنی تھی.غالباً اس ( بیت الذکر ) میں نماز جنازہ غائب کی یہ پہلی نماز تھی.
24 حضرت میر صاحب کی وفات بروز جمعہ مورخہ 19 ستمبر 1924ء کو صبح نو بجے ہوئی تھی اور بعد نماز جمعه باغ حضرت اماں جان میں ایک مجمع کثیر کے ساتھ حضرت مولانا شیر علی صاحب نے آپ کی نماز جنازہ ادا کی اور اسی روز مقبرہ بہشتی میں آپ کی تدفین عمل میں آئی.اور یہ پاک وجود ان پاک دل لوگوں میں شامل ہو گیا جن کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس مقبرہ بہشتی کے لئے دعا کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ اس جگہ کو پاک دل لوگوں کی قبروں کی جگہ بنادے.پیارے بچو! حضرت میر ناصر نواب صاحب نے اپنے پیچھے نہایت نیک صالح خدمت دین کرنے والی پاک اولا د صدقہ جاریہ کے طور پر چھوڑی جنہوں نے آپ کی تمام خوبیوں کو زندہ رکھا.آج اس شجر پاک کے پھل دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلے دکھائی دیتے ہیں.جو خدمت دین میں مصروف عمل ہیں.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آپ کو اپنے قرب میں جگہ عطا کرے اور جماعت احمدیہ کو ایسے نیک وجود ہمیشہ ملتے رہیں جو ان کی نیکیوں کو زندہ رکھنے والے اور خدمت دین کرنے والے ہوں.آمین نام کتاب.طبع حضرت میر ناصر نواب صاحب دوم