Language: UR
آپ 1890ء میں پیدا ہوئے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور پھر خلافت احمدیہ کے بابرکت سایہ میں رہنے کی سعادت پائی۔ قرآن کریم کا اردو ترجمہ کرنے کا شرف پایا۔ نبی امی ﷺ سے آپ کے عشق کا یہ عالم تھا کہ علم حدیث کو اس لگن سے پڑھاکہ برصغیر پاک و ہند میں کوئی آپ کے پایہ کا عالم حدیث نہ ہوا۔ مخلوق خدا کی ہمدردی، خبر گیری اور بہبود کےلئے خود کو تکلیف میں ڈالنا بھی گوارا کرلیتے لیکن یتیموں اور بے سہاروں کا سہارا بنتے رہے۔ الغرض حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ا دائیگی کے قرینے سیکھنے کے لئے اس خوش نصیب وجود کے حالات زندگی کا مطالعہ مفید رہے گا۔
حضرت میر محمد اسحاق صاحب دیباچه یہ کتاب ایک ایسے وجود کے بارے میں ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت میں سرشار تھا اور جس کی محبت کا عالم اس کے اپنے الفاظ میں کچھ یوں ہے.وو و مجھے خدا کی بزرگ کتاب قرآن مجید کے بعد حضور رسول مقبول ﷺ کی احادیث سے عشق ہے.اور سرور کائنات کا کلام میرے لئے بطور غذا کے ہے کہ جس طرح روزانہ اچھی غذا ملنے کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا.اسی طرح بغیر سید کونین کے کلام کے ایک دو ورقہ پڑھنے کے میری طبیعت بے چین رہتی ہے.جب کبھی میری طبیعت گھبراتی ہے تو بجائے اس کے کہ میں باہر سیر کیلئے کسی باغ کی طرف نکل جاؤں، میں بخاری یا حدیث کی کوئی اور کتاب نکال کر پڑھنے لگتا ہوں.اور مجھے اپنے پیارے آقا کے کلام کو پڑھ کر خدا کی قسم وہی تفریح حاصل ہوتی ہے جو ایک غمزدہ گھر میں بند رہنے والے کو کسی خوشبو دار پھولوں والے باغ میں سیر کر کے ہوسکتی ہے.اور میری تو یہ حالت ہے کہ باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا میرا بستاں کلام احمد ہے
اور واقعہ میں میرے آقا کا کلام ایس پاکیزہ ، ایسا پیارا، ای دلفریب اور ایسا دلربا ہے کہ کاش دنیا اسے پڑھے اور پھر اسے معلوم ہو کہ میرے بادشاہ کا منہ ایسے پھول برساتا تھا کہ جن کی خوشبو اگر ایک دفعہ کوئی سونگھ لے ، پھر اسے دنیا کی کوئی خوشبو کوئی عطر اور کوئی پھول اپنی طرف مائل نہیں کر سکتا.اور میری ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ لوگ میرے آقا کا کلام پڑھیں اور سنیں اس لئے میں بخاری شریف کی حدیثیں لوگوں کو سناتا رہتا ہوں.“ پیش لفظ پیارے بچو! یہ کہانی ایک ایسے خوش نصیب وجود کی ہے جنہوں نے 1890 میں جنم لیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور پھر خلافت کے بابرکت سایہ میں رہنے کی توفیق پائی.آپ کو نبی کریم ﷺ کے کلام سے عشق تھا اور آپ نے اسے اتنی لگن سے پڑھا کہ برصغیر پاک و ہند میں کوئی آپ کے پایہ کا عالم حدیث نہ ہوا.دوسری طرف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفاء احمدیت سے اتنی محبت اور عقیدت کہ سیر پر جاتے ہوئے اگر چھڑی پکڑانے کا شرف بھی پایا تو اپنے آپ کو دنیا کا خوش نصیب ترین انسان سمجھا.خود بھی بے لوث خدمات سرانجام دیں اور آنے والوں کے لئے بھی قابل تقلید نمونہ چھوڑ گئے.اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو!
2 خاندانی پس منظر بالمقابل ایک کھنڈر سے زیاد ہ حیثیت نہیں رکھتی تھی لیکن تمام خاندان دنیا کو ترک کر کے یہاں آباد ہونے پر خوش تھا.مغلیہ سلطنت کے چھٹے بادشاہ اور نگ زیب عالمگیر کے زمانہ میں ایک سید حضرت خواجہ محمد ناصر عندلیب نے یہاں عبادت اور ریاضت کی حد کر دی.خاندان بخارا سے ہندوستان آیا اور پائیہ تخت دہلی میں اترا.اس کے سر براہ خواجہ سید محمد ایک روز حالت استغراق میں آپ نے ایک کشفی نظارہ دیکھا کہ ایک خوبصورت طاہر تھے.چونکہ آپ حضرت بہاء الدین نقشبندی کی اولاد میں سے تھے اور اورنگ نوجوان جس کے سر پر ایک جواہر نگارتاج تھا سامنے آیا اور آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہا.”اے زیب عالمگیر بھی اسی سلسلہ بیعت سے تھے اس لئے اس نے انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا اور محمد ناصر ابیہ کیا جبر و ستم ہے جو تو اپنے نفس پر کرتا ہے تجھے معلوم نہیں ہے کہ تو ہمارا لخت دلی میں ایک معزز مقام پر بٹھایا اور ان کے صاحبزادوں سے مغل شہزادیاں بیاہ کر اس جگر ہے اور تیرے بدن کی چوٹیں ہمارے دل پر پڑتی ہیں اور تیری تکلیف ہمارے جد خاندان کو اپنے خاندان میں شامل کر لیا.نیز انہیں مختلف خطابات اور منصب دے کر عَلَيْهِ التَّحِيَّةُ وَالتَّنَاءُ کو تکلیف دیتی ہے.اس لئے ہرگز ہرگز ایسا نہ کرنا.“ (سیرۃ حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 70،69) حکومتی امور میں بھی شامل کر لیا.اور نواب اور خان کے خطابات دیئے.اور نگ زیب کے انتقال کے بعد اس خاندان کی ہندوستان کے شاہی یہ نظارہ دیکھ کر آپ تھڑ گئے.اس بزرگ نے آپ کو سینے سے لگا کر اس میں خاندان میں ایک خاندان ہی کی حیثیت تھی اور فرخ سیر اور جہاندار شاہ کی چپقلش میں نور بھر دیا.آپ نے بے تاب ہو کر پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ تو فرمایا کہ میں حسن بن علی اس خاندان کے بزرگوں نے بھی اپنی وفاداریاں ثابت کیں.لیکن دنیا کی اس کشمکش سے تنگ آکر ان کے ایک بزرگ حضرت خواجہ محمد بن ابوطالب ہوں اور آنحضور کے منشاء کے مطابق آیا ہوں.پھر فرمایا :- ایک خاص نعمت تھی جو خانوادہ نبوت نے تیرے واسطے محفوظ رکھی تھی.اس ناصر عندلیب نے اپنے تمام تر خطابات اور مناصب کو ٹھکرا کر دتی کے قریب برمدہ کے کی ابتداء تجھ پر ہوئی ہے اور انجام اسکا مہدی موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ہوگا.ہم خوشی نالہ میں گوشہ نشینی اختیار کر لی اور عبادت اور ریاضت میں دن گزارنے لگے.ان کے سے تجھے اجازت دیتے ہیں کہ اس نعمت سے جہان کو سیراب کر اور جو تجھ سے طالب ساتھ ان کے خاندان کے چھوٹے بڑے یہیں چلے آئے.یہ جگہ شاہی محلات کے ہوا سکو فیض پہنچا تا یہ سلسلہ پھیلے اور یہ ساعت جو ابھی کچھ دیر باقی رہے گی.نہایت ہی
4 3 مبارک ہے.اس وقت تو جس شخص کو اپنے ہاتھ پر بیعت کرے گا اسے بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہوگا اور قیامت تک اس کا نام آفتاب کی طرح چمکتا رہے گا.“ جب آپ دتی میں اپنی بارہ دری میں مقیم تھے تو محمد شاہ ہندوستان کا بادشاہ تھا.ایک روز حضرت خواجہ صاحب کی شہرت سن کر بارہ دری میں حاضر ہوا.اور عرض (سیرۃ حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 71،70) کی کہ میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائیے.خواجہ میر درد نے فرمایا: خواجہ ناصر عندلیب نے حضرت حسنؓ سے اس فرقہ کا نام دریافت کیا تو انہوں نے اسکا نام ”طریقہ محمد یہ بتایا.حضرت خواجہ ناصر عندلیب اس عظیم الشان کشف کو دیکھ کر باہر نکلے تا کہ اپنے صاحبزادے کو بیعت میں لے لیا جائے تاکہ انہیں بقا باللہ کا مرتبہ حاصل ہو جائے اور " آپ کے لائق یہی خدمت ہے کہ اب کبھی فقیر خانہ پر تشریف نہ لائیے گا کیونکہ آپ کے آنے سے فقیر کا نفس موٹا ہوتا ہے.“ (سیرۃ حضرت نصرت جہاں بیگم صاحبہ صفحہ 113) خواجہ میر درد کے ایک صاحبزادے تھے جو چھوٹی عمر میں وفات پاگئے.ان اپنے تیرہ سالہ صاحبزادے حضرت خواجہ میر درد کو بیعت میں لے کر یہ امانت آگے کی اولاد میں میر محمد بخش اور ایک صاحبزادی امانی بیگم تھیں.میر محمد بخش کو ان کے ایک منتقل کر دی.یہ خواجہ میر درد وہی مشہور شاعر ہیں جنہیں ہندوستان میں اردو ادب کی ملازم نے سوتے میں قتل کر دیا.چونکہ میر محمد بخش کی کوئی اولاد نہ تھی.اس لئے خلافت کے سوال پر فیصلہ ہوا کہ خلافت خواجہ میر درد کی لڑکیوں کی اولاد میں منتقل کر دی جائے.دنیا میں ایک عظیم الشان مقام حاصل ہے.چنانچہ اس طرح طریقہ محمدیہ کے نام سے ایک جدید طریق جاری ہوا.ان میں امانی بیگم کی شادی خواجہ سید ناصر جان صاحب سے ہوئی تھی.جو خود بھی اچھے حضرت خواجہ محمد ناصر صاحب کے انتقال کے بعد اس طریق کے گدی نشین آپ کے شاعر تھے.ایک دوسری صاحبزادی بی نصیرہ بیگم کی شادی سید ہاشم علی صاحب سے صاحبزادے حضرت خواجہ میر درد ہوئے.آپ بہت عرصہ تک برمدہ کے نالہ کے ہوئی تھی جو حضرت اماں جان کے والد ماجد حضرت میر ناصر نواب صاحب کے دادا مکانات میں فروکش رہے.مگر پھر اور نگ زیب کی بہو شہزادی مہر پرور کے اصرار پر جو تھے.اور جن کے خاندان کا ذکر آگے آئے گا.آپ کی بہت معتقد تھیں آپ نے دلی میں رہنا منظور فرمالیا مگر اس شرط کے ساتھ کہ وہاں انہیں سادہ مکانات بنوا دئیے جائیں.سید ہاشم علی اور صاحبزادی سیدہ بی نصیر و بیگم صاحبہ کے بطن سے سید ناصر امیر پیدا ہوئے ان کی دو بیگمات تھیں.ان میں سے ایک زوجہ بی بی روشن آراء بیگم صاحبہ
6 5 کے بطن سے ہمارے بزرگ حضرت میر ناصر نواب صاحب اور دو صاحبزادیاں خواجہ میر درد کے گدی نشین میر ناصر امیر صاحب اچانک انتقال کر گئے اور اپنی اولاد چھوٹی عمر کی چھوڑ گئے.میر ہاشم علی صاحب ابھی حیات تھے اور غدر کے زمانہ میں اسی پیدا ہوئیں.ذکر ہورہا تھا خواجہ میر درد کی گدی نشینی کا.تو امانی بیگم نے جو خاندان کی بڑی سال کے تھے.حضرت میر ناصر نواب صاحب تحریر فرماتے ہیں: تھیں فیصلہ کیا کہ گدی نشینی سید ناصر امیر صاحب کے سپرد کر دی جائے.جو حضرت وو دادا صاحب اگر چہ موجود تھے مگر وہ اتنی سالہ ضعیف تھے اور کچھ جائیداد بھی 66 میر ناصر نواب صاحب کے والد تھے.میر صاحب کی وفات کے بعد یہ گدی حضرت نہ رکھتے تھے اور جو جائیداد تھی وہ ہمارے خاندان سے جا چکی تھی.“ میر ناصر نواب صاحب کے بڑے بھائی میر ناصر وزیر صاحب کے سپرد ہوئی.لیکن خدا تعالیٰ کے ارادے کچھ اور تھے.(حیات ناصر صفحہ نمبر 3) حضرت میر ناصر نواب غالبا 1846ء میں پیدا ہوئے.آپ کی والدہ صاحبہ حضرت میر ناصر نواب کے والد میر ناصر امیر صاحب دہلی کے ایک اور مشہور سید ناصر امیر صاحب کی دوسری زوجہ تھیں جن کا نام روشن آراء بیگم تھا.1857ء کے سادات خاندان کے فردسید ہاشم علی صاحب کے صاحبزادے تھے.یہ خاندان بھی حالات آپ کو اچھی طرح یاد تھے.جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت آپ کی عمر بخارا سے ہجرت کر کے ہندوستان آیا تھا او رسلسلہ نقشبندیہ کے بزرگوں کی اولاد گیارہ بارہ سال رہی ہوگی.اپنی خود نوشت میں تحریر فرماتے ہیں: تھا.انہیں بھی مغل بادشاہوں نے اچھے مقامات پر فائز کیا.ان کے ایک بزرگ نواب ایک زمانہ آیا کہ میں پیدا ہوا اور دتی شہر میں جنم لیا.خواجہ میر درد صاحب خان دوران منصور خان سلطنت مغلیہ میں نہایت اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے.آپ مشہور علیہ الرحمہ کے گھرانے میں پیدا ہو کر نشو ونما پایا اور ان کی بارہ دری میں کھیل کود کر بڑا جرنیل عزیز مرزا گوگلتاش کے نواسے تھے.جن میں بڑے کا نام قمر الدین خان اور ہوا.ان کی ( بیت ) میں پڑھا کرتا تھا.ماں باپ کے سایہ میں پرورش پار ہا تھا.کوئی چھوٹے اختشام علی خان تھے.احتشام علی خان کے بیٹے میر ہاشم علی تھے.جو غالباً فکر واندیشہ دامن گیر نہ تھا کہ ناگہاں میرے حال میں ایک تبدیلی پیدا ہوئی.جس کا جائیداد کی دیکھ بھال ہی کرتے تھے.کسی سرکاری منصب پر فائز نہ تھے.یہی میر ہاشم بظاہر کسی کو وہم و گمان بھی نہ تھا.اتفاقاً میرے والد ماجد کسی کام کیلئے بنارس تشریف علی صاحب حضرت میر ناصر نواب صاحب کے دادا تھے.ان کے صاحبزادے اور لے گئے اور شاہ آباد آرہ میں ہیضہ سے ان کا انتقال ہو گیا اور میں معہ اپنی دو ہمشیرہ
8 7 کے یتیم رہ گیا.“ (حیات ناصر صفحہ نمبر 2) کھلوا کر ہمارے مردوں پر بندوقوں کی ایک باڑہ ماری اور جس کو گولی نہ لگی اس کو تلوار والد صاحب کی وفات کے بعد اچانک یہ خاندان مالی مشکلات کا شکار سے قتل کیا.یہ نہیں پوچھا کہ تم کون ہو.ہماری طرف کے ہو یا دشمنوں کے طرفدار ہو.ہو گیا.اس صورت میں کفالت کا بوجھ آپ کے نانا میر شفیع احمد صاحب ساکن فراشخانہ اسی یک طرفہ لڑائی میں میرے چند عزیز را ہی ملک عدم ہو گئے.پھر حکم ملا کہ فوراً یہاں نے اٹھایا.آپ کے دو ماموں محکمہ نہر میں ملازم تھے.بڑے ماموں ڈپٹی کلکٹر تھے اور سے نکل جاؤ حکم حاکم مرگ مفاجات‘ ہم سب زن و مرد دو بچہ اپنے مردوں کو بے چھوٹے ماموں مادھو پور ضلع گورداسپور میں اسی محکمہ میں ملازم تھے.انہوں نے آڑے گور و کفن چھوڑ کر رات کے اندھیرے میں حیران و پریشان وہاں سے روانہ ہوئے لیکن یہ سبب رات کے اندھیرے اور سخت و اثرگوں کی تیرگی ( منحوس قسم کی وقت میں مدد کی.1857ء میں جنگ آزادی کے موقع پر دتی پر جو آفت آئی.جس سے تاریکی) کے رات بھر قطب صاحب کی لاٹ کے گرد طواف کرتے رہے.صبح کو معلوم حضرت میر صاحب کا خاندان بھی متاثر ہوا.حضرت میر ناصر نواب صاحب کے اپنے ہوا کہ تیلی کے بیل کی طرح وہیں کے وہیں ہیں.ایک کوس بھی سفر طے نہیں ہوا.“ الفاظ میں تحریر کرتا ہوں: یہ عاجز بھی ہمراہ اپنے کنبہ کے دنتی دروازہ کی راہ سے باہر گیا.چلتے وقت (حیات ناصر صفحہ 4،3) ان حالات میں بالآخر یہ خاندان بے سروسامان پانی پت پہنچا جہاں میر لوگوں نے اپنی عزیز چیزیں جن کو اٹھا سکے ہمراہ لے لیں.میری والدہ صاحبہ نے اللہ صاحب کے ماموں محکمہ نہر میں ڈپٹی کلکٹر تھے.یہاں اطمینان نصیب ہوا اور ان کو جنت نصیب کرے میرے والد کا قرآن شریف جواب تک میرے پاس ان کی میر صاحب کو بھی ان کے ماموں نے محکمہ نہر میں ہی بطور اوورسیئر ملازم کروا دیا.نشانی موجود ہے، اٹھالیا.شہر سے نکل کر ہمارا قافلہ سر بصحر ا چل نکلا اور رفتہ رفتہ قطب بعد کے حالات سے واضح ہوتا ہے کہ یہ سب کام خدا تعالیٰ کی خاص مشیت صاحب تک جودتی سے 11 میل پر ایک مشہور خانقاہ ہے جا پہنچا.وہاں پہنچ کر ایک کے تحت ہورہے تھے.میر صاحب محکمہ نہر میں ملازمت کے دوران قتلے کی نہر کی دور وز ایک حویلی میں آرام سے بیٹھے رہتے تھے کہ دنیا نے ایک اور نقشہ بدلا.یکا یک کھدائی کے دوران قادیان میں عارضی طور پر کچھ عرصہ رہے.جہاں سے آپ کا تعلق ہارسن صاحب افسر رسالہ معہ مختصر ار دل کے قضا کی طرح ہمارے سر پر آپہنچے اور دروازہ حضرت مسیح موعود سے قائم ہوا.اور میر صاحب کے خاندان میں جو پیشگوئی میر ناصر
10 9 عندلیب کے زمانہ سے چلی آتی تھی کہ ایک امانت ہے جسکی ابتداء تجھ سے ہوئی ہے اور بچے پیدا ہوئے جو بچپن میں ہی فوت ہو گئے پھر 1881ء میں حضرت ڈاکٹر میر محمد انتہا مہدی موعود علیہ السلام پر ہوگی بڑی شان سے پوری ہوئی.اسماعیل صاحب کی پیدائش ہوئی اس کے بعد پھر پانچ بچوں کی جدائی کا صدمہ 1865ء میں حضرت میر صاحب کے ہاں شادی کے تین سال بعد حضرت برداشت کرنا پڑا اور 1890ء میں لدھیانہ میں حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی پیدائش ہوئی.جو حضرت اماں جان کے نام سے پیدائش ہوئی.معروف ہیں.حضرت میر ناصر نواب صاحب جب نہر کی کھدائی کے سلسلہ میں اس کتاب کا اصل موضوع حضرت میر محمد اسحاق صاحب کا ذکر خیر ہی ہے اس قادیان میں رہتے تھے تو آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شخصیت اور تعلق باللہ سے لئے اب میں آپ کے سوانح جو خود آپ نے رقم فرمائے درج کرتا ہوں.حد درجہ متاثر تھے.بعدہ جب آپ دلی تشریف لے گئے تو ان دنوں حضرت مسیح موعود ” میری پیدائش 8 ستمبر 1890ء کو بمقام لدھیانہ ہوئی جہاں حضرت والد علیہ السلام کی مشہور تصنیف " براہین احمدیہ " شائع ہوئی تھی.جس سے ہندوستان کے صاحب مرحوم سرکاری ملازم تھے.غالباً 1894ء کے بعد سے مستقل سکونت قادیان سمجھدار مسلمانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی.حضرت میر صاحب کو بھی یہ کتاب پہنچی.میں ہے.قیام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں آپ کے دار میں تھا.بچپن آپ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہلے سے جانتے تھے اور آپ کے تقویٰ کے سے اٹھارہ سال کی عمر تک حضرت مسیح موعود کے روز وشب کے حالات مشاہدہ میں معترف تھے چنانچہ انہی دنوں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں آئے اور اب تک قریباً اسی طرح ذہن میں محفوظ ہیں.گورداسپور، بٹالہ، لاہور، اپنی بیٹی کے رشتہ کے لئے دعا کی درخواست کی.اس کے جواب میں مشیت ایزدی سیالکوٹ اور دہلی کے سفروں میں ہمرکاب ہونے کا فخر حاصل ہے.کے تحت حضور نے اپنا پیغام بھجوادیا اور چونکہ خدا تعالیٰ کو یہی منظور تھا اس لئے اس طرح آخری بیماری کی ابتداء سے وصال تک حضرت جری اللہ فی حلل الا بنیاء کے ایک بابرکت جوڑے کی بنیاد رکھی گئی جس سے وہ نسل پیدا ہوئی تھی جس کو دنیا کی راہ پاس رہا.حضور نے متعدد مرتبہ مجھ سے لوگوں کے خطوط کے جوابات لکھوائے.حقیقۃ الوحی کا مسودہ مختلف جگہ سے فرماتے گئے اور میں لکھتا گیا.روزانہ سیر میں آپ کے حضرت سید و نصرت جہاں بیگم صاحبہ کی پیدائش کے بعد میر صاحب کے پانچ ساتھ جاتا اور جانے کے اہتمام مثلاً قضاء حاجت ، وضو کا انصرام اور ہاتھ میں رکھنے کی نمائی کا کام سونپا جانا تھا.
12 11 چھڑی تلاش کر کے دینے سے سینکڑوں دفعہ مشرف ہوا.آپ کی کتابوں میں بیسیوں علاوہ بعض اور کام بھی خلافت ثانیہ میں سلسلہ کے سرانجام دینے کی کوشش کرتا جگہ میرا ذکر ہے.آپ کے بہت سے نشانوں کا عینی گواہ ہوں اور بہت سے نشانوں کا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود سے جو شرف حاصل ہوئے وہ اس لئے لکھے مورد بھی ہوں.جن دنوں حضور باہر مہمانوں کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے.دونوں ہیں کہ ابتداء ایسی اچھی ہے.پڑھنے والے دعا کریں کہ انتہا بھی ایسی ہی اچھی ہو.وقت میں بھی شریک ہوتا تھا.مجھے یاد ہے.ہم عربی میں أَسْقِنِي الْمَاءَ کہہ کر پانی مانگا کرتے تھے.بچپن میں بیسیوں دفعہ ایسا ہوا کہ حضور نے مغرب وعشاءاند رعورتوں کو جماعت سے پڑھا ئیں اور میں آپ کے دائیں طرف کھڑا ہوتا.عورتیں پیچھے کھڑی ہوتیں.غالبا میں پیدائشی احمدی ہوں.نہایت چھوٹی عمر سے اب تک عروسی بود نوبت ماتمت اگر برنکوئی بود خاتمت“ دو بھائی از غلام باری سیف صفحہ 85 تا 88) حضرت میر محمد اسحاق صاحب کے نام کی وجہ تسمیہ یہ بنی کہ ایک دفعہ دتی کے حضور کے دعاوی پر ایمان ہے.آپ کے وصال کے بعد حضرت مولوی نور الدین مشہور اہل حدیث عالم مولوی نذیر حسین صاحب حضرت میر ناصر نواب صاحب سے صاحب کو دل سے...سچا خلیفہ تسلیم کیا.حضرت خلیفہ اول سے بچپن سے نہایت بے لدھیانہ ملنے آئے تو میر صاحب نے حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کو جوا بھی چھوٹے تکلفی اور محبت و پیار کا تعلق تھا.ان کی وفات پر سچے دل سے صاحبزادہ مرزا محمود احمد تھے ان سے ملایا.مولوی نذیر حسین صاحب نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے یہ صاحب کو خلیفہ ثانی سمجھتا ہوں.با قاعدہ اور بے قاعدہ مولوی عبد الکریم صاحب، حافظ روشن علی صاحب، مولوی سرور شاہ صاحب، مولوی محمد اسماعیل صاحب اور حضرت خلیفہ اول سے عربی علوم پڑھنے کی کوشش کی.1910ء میں مولوی فاضل کا امتحان پاس کیا.1912ء شعر پڑھا برائے کردن تنبیہ فساق دوبارہ آمد اسماعیل و اسحاق یعنی فاسقوں کو تنبیہ کرنے کیلئے اسماعیل اور اسحاق نے دوبارہ جنم لیا ہے.حضرت میر محمد الحق صاحب نے بچپن ہی سے نہایت اعلیٰ وجودوں سے فیض میں صدر انجمن احمد یہ قادیان کی ملازمت میں داخل ہوا.جامعہ احمدیہ کے قیام سے قبل حاصل کیا.آپکو آپکی عظیم الشان ہمشیرہ حضرت اماں جان نے دودھ پلایا.اس طرح مدرسہ احمدیہ میں مدرس تھا.اب جامعہ احمدیہ میں پڑھاتا ہوں.اس ملازمت کے آپ حضرت خلیفہ اسیح الثانی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام مبشر اولاد کے نہ
14 13 صرف ماموں تھے بلکہ رضاعی بھائی بھی تھے.آپ کی تعلیم کا آغاز حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے عربی کی ابتدائی کتب پڑھ کر ہوا.آپ بچپن سے ہی نہایت ذہین اور ذ کی تھے اور بات کی تہہ تک فوراً پہنچ جاتے تھے.تعلیم آپ کا درس حدیث دلوں میں عشق رسول ﷺ پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ تھا.آپ اپنے بارے میں فرماتے ہیں: ” مجھے خدا کی بزرگ کتاب قرآن مجید کے بعد حضور رسول مقبول ﷺ کی احادیث سے عشق ہے.اور سرور کائنات کا کلام میرے لئے بطور غذا کے ہے کہ جس طرح روزانہ اچھی غذا ملنے کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا.اسی طرح بغیر سید کو نین جب حضرت میر صاحب کی تعلیم کا سوال اٹھا تو حضرت میر ناصر نواب کے کلام کے ایک دو ورقہ پڑھنے کے میری طبیعت بے چین رہتی ہے.جب کبھی میری صاحب نے حضرت خلیفہ مسیح الاول سے مشورہ کیا.آپ نے دینی تعلیم کے حصول کا طبیعت گھبراتی ہے تو بجائے اس کے کہ میں باہر سیر کیلئے کسی باغ کی طرف نکل جاؤں، مشورہ دیا جس پر حضرت میر ناصر نواب صاحب نے کہا کہ میرا ایک بیٹا ( حضرت میر میں بخاری یا حدیث کی کوئی اور کتاب نکال کر پڑھنے لگتا ہوں.اور مجھے اپنے پیارے محمد اسماعیل صاحب) ڈاکٹر ہے.دوسرے کو اگر میں دینی تعلیم دلواؤں تو وہ تو پھر لوگوں آقا کے کلام کو پڑھ کر خدا کی قسم وہی تفریح حاصل ہوتی ہے جو ایک غمزدہ گھر میں بند کی روٹیوں پر ہی پلے گا.لیکن بالاخر اس مشورے کے نتیجے میں آپ نے دینی تعلیم کے رہنے والے کو کسی خوشبودار پھولوں والے باغ میں سیر کر کے ہوسکتی ہے.اور میری تو یہ حالت ہے کہ حصول کا راستہ اپنایا.آپ کو حدیث سے عشق تھا اور ایسا درس حدیث دیتے کہ سماں بندھ جاتا.لوگ دور دور سے آپ کے درس میں شریک ہوتے.اس دوران آپ پر رقت طاری ہو جاتی اور اس محبت اور وار قلی سے آنحضور میلے کا ذکر کرتے کہ یوں لگتا کہ جیسے لوگ باغ احمد سے ہم نے پھل کھایا میرا بستاں کلام احمد ہے اور واقعہ میں میرے آقا کا کلام ایسا پاکیزہ ، ایسا پیارا، ایسا الغریب اور ایسا ای مجلس میں موجود ہیں.حاضرین کو تیرہ سو سال قبل کے زمانہ میں واپس لے جاتے اور دلر با ہے کہ کاش دنیا اسے پڑھے اور پھر اسے معلوم ہو کہ میرے بادشاہ کا منہ ایسے پوری تفصیل سے حالات بھی بتاتے اور احادیث کی حکمتیں بھی واضح کرتے.الغرض پھول برساتا تھا کہ جن کی خوشبو اگر ایک دفعہ کوئی سونگھ لے، پھر اسے دنیا کی کوئی خوشبو
16 15 کوئی عطر اور کوئی پھول اپنی طرف مائل نہیں کر سکتا.اور میری ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے 1937 ء میں آپ کو مدرسہ احمدیہ کا ہیڈ ماسٹر بنادیا گیا.آپ نے تو گویا اس کی کہ لوگ میرے آقا کا کلام پڑھیں اور سنیں اس لئے میں بخاری شریف کی حدیثیں کا یا پلٹ دی.ایسا عمدہ انتظام شروع کیا کہ دیکھتے ہی دیکھتے مدرسہ احمد یہ ایک نہایت عمدہ ادارے کی حیثیت اختیار کر گیا.طلباء کو وقت پر آنے کا کہتے اور اسمبلی کے چند منٹ لوگوں کو سناتا رہتا ہوں.“ دو بھائی از غلام باری سیف صاحب صفحہ 108-107 ) بعد گیٹ بند کروادیتے.جو طلباء دیر سے آتے ان کے لئے صحن میں ایک دائرہ کھنچوا دیا چونکہ آپ نے اپنی زندگی جماعت کی خدمت کے لئے وقف کی ہوئی تھی اس جس میں کچھ دیر انہیں کھڑا ر کھتے.اس دائرے کا نام ” دَائِسرةُ الكُسَالی “ یاست لئے تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ جماعت کے مختلف شعبہ جات میں خدمات سرانجام طلباء کا دائرہ رکھا.چنانچہ طلباء اس دائرے میں کھڑے ہونے سے بچنے کے لئے دیتے رہے جن میں جامعہ احمد یہ میں استاد اور لنگر خانہ کے نگران کی حیثیت سے آپ وقت پر آنا شروع ہو گئے.سبق نہ یاد کر کے آنے والوں کیلئے چھٹی کے بعد ایک کلاس کی خدمات بہت نمایاں ہیں.آپ جلسہ سالانہ کے دنوں میں انتظامات جلسہ کے بٹھا دی جاتی جسے "تنبيه الْغَافِلِين“ یا غافلوں کے لئے وارننگ کا نام دیا.غرض مختلف نگران ہوا کرتے تھے.ایک بار پہلے دن جب حضرت خلیفہ اسیح الثانی افتاحی تقریر ذرائع سے طلباء میں بیداری پیدا کر دی.کے لئے جلسہ گاہ تشریف لائے تو حضور نے محسوس کیا کہ جلسہ گاہ حاضرین کی گنجائش لنگر خانہ کے نگران ہونے کی حیثیت سے مہمانوں کا بہت خیال رکھتے.حتی سے چھوٹی تعمیر کی گئی ہے.اور اس پر اظہار نا پسندیدگی فرمایا.میر صاحب نے راتوں کہ بعض اوقات قادیان میں مخالفین احمدیت کے جلسوں کے موقع پر غیر از جماعت رات خدام اکٹھا کر کے جلسہ گاہ تو ڑ کر وسیع جلسہ گاہ تعمیر کر دی.اگلے روز جب حضور احباب کو گھومتا دیکھتے تو ان کو اپنے ہمراہ لنگر خانے لے آتے اور کھانا کھلاتے.تقریر کیلئے تشریف لائے تو جلسہ گاہ کا نقشہ دیکھ کر بہت حیران بھی ہوئے اور اظہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک رفیق حضرت حافظ معین الدین خوشنودی بھی فرمایا.اس طرح میر صاحب نے جہاں نہ صرف اطاعت کی ایک صاحب تھے جو نا بینا تھے.وہ لنگر خانے سے کھانا کھاتے تھے.ایک دفعہ انہیں کسی نے شاندار مثال قائم کی وہاں اعلیٰ ہمتی کا سبق بھی ہمیں دیا کہ ارادہ کر لو تو کوئی کام مشکل وال کا پیالہ دیا جو نہایت پتلی تھی.حضرت حافظ صاحب ایک اچھی حس مزاح رکھنے والے تھے.آپ پیالہ پکڑ کر حضرت میر صاحب کے پاس گئے اور فرمانے لگے کہ میر نہیں رہتا.
18 17 صاحب ایک فتویٰ درکار ہے.میر صاحب نے پوچھا کہ کیا بات ہے تو حافظ صاحب جو بچے اس ادارے میں رہتے تھے ان سے نہایت شفقت کا سلوک فرماتے نے پیالہ دکھا کر میر صاحب سے پوچھا کہ کیا اس طرح کی دال سے وضو ہو سکتا ہے.اور کوشش کرتے کہ انہیں اپنے ماں باپ کی محرومی کا احساس کم سے کم ہو.ایک دفعہ میر صاحب نے ان سے پیالہ لے لیا کہ میں ذراغور کر کے بتاتا ہوں.اور وہ پیالہ ایک بچے نے فیس جمع کروانی تھی اور اس کے پاس رقم نہیں تھی.میر صاحب مدرسہ دیگ میں الٹا کر گوشت کا پیالہ حضرت حافظ صاحب کو پیش کیا اور کہا کہ آپ کے فتویٰ کے انچارج تھے اور فیس وصول کرنے کے نگران کے پاس بچے باری باری جا کر فیس جمع کرواتے تھے.جب وہ بچہ قریب آیا تو میر صاحب نے اپنے ایک ہاتھ سے چپکے کا یہ جواب ہے.ایک دفعہ ایک دوست دیر سے آئے تو اتفاقا روٹی ختم ہو چکی تھی.انہوں نے سے انہیں فیس پکڑا دی کہ یہ جمع کروا دو.اس طرح فیس بھی جمع ہوگئی اور بچہ پریشان میر صاحب سے شکایت کی تو میر صاحب انہیں لے کر دستر خواں پر گئے تو وہاں بعض ہونے سے بچ گیا.بچے ہوئے ٹکڑے موجود تھے.ان کی دلداری کیلئے میر صاحب نے کہا کہ روٹی تو عید کے موقع پر ان بچوں کو عیدی تقسیم کرنے کے لئے نئے سکے منگواتے اور ہے.میں نے بھی کھانا ابھی کھانا ہے.آیئے کھاتے ہیں چنانچہ خود ان بچے ہوئے ان میں عیدی تقسیم کرتے.ٹکڑوں سے کھانا شروع کر دیا.چنانچہ وہ دوست بھی کھانے لگے اور شکوہ دور ہو گیا.اسی طرح غریبوں کا خیال رکھنے کی ہر طرح کوشش کرتے.ایک دفعہ مہمان نوازی کے اس امتیازی وصف کے ساتھ میر صاحب کا دوسرا بڑا وصف قادیان سے باہر کچنک پر گئے اور سب ساتھیوں کیلئے بھنے ہوئے چنے اور ان میں شکر غریبوں اور یتیموں کی دیکھ بھال تھا.آپ نے دار الشیوخ ( قادیان دارالامان میں ڈلوا کر پیش کی.ایک نابینا دوست جو راستے میں گندے پانی میں گر گئے تھے اور ان یتامی کی کفالت کا ادارہ) کا کام سنبھالا اور اس کے اخراجات کیلئے مخیر احباب سے کے کپڑے خراب اور بد بودار ہو گئے تھے علیحدہ کھڑے تھے.جب میر صاحب نے چند ہو لیا کرتے تھے.ایک دفعہ منتظم نے عرض کی کہ آنا وغیرہ ختم ہو گیا ہے تو میر صاحب انہیں دیکھا تو پلیٹ پکڑ کر ان کے پاس گئے اور ان کے ساتھ بیٹھ کر کھانے لگے.یہ کو شدید بخار تھا.آپ اسی حالت میں اٹھے، تانگہ منگوایا اور بعض دوستوں کے پاس ادا ئیں آپ نے اپنے مطاع حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہی سیکھی تھیں جو اپنے جا کر چندہ کی تحریک کی اور اس طرح اس مسئلہ کو حل کر دیا.ایک غریب رفیق میاں نظام الدین صاحب کو الگ لے جا کر ایک پیالے میں
20 19 کھانا کھانے لگے تھے.میر صاحب قادیان سے طلباء کو لے کر روانہ ہوئے تو مخالفین نے راستے میں ایک پل آپ عظیم الشان مقرر تھے.آپ کی تقریر بہت علمی اور منطقی ہوتی اور مخالف پر روکنے کی کوشش کی.حضرت میر صاحب نے طلباء سے کہا کہ ان کو جواب دیئے بغیر مشکل میں گرفتار ہو جاتا.آپ موقع کی مناسبت سے نہایت اعلیٰ بات کیا کرتے تھے.چار چار کی ٹولیوں میں چپ چاپ بڑھتے جاؤ.جب بھا میری پہنچے اور جلسہ شروع ہوا ایک مناظرے میں ہندو مقرر نے اپنی تقریر ہندی اور سنسکرت زبان میں کی جس سے تو مخالفین نے شور ڈالنا شروع کر دیا.خیر جلسہ کے اختتام پر جب واپسی ہونے لگی تو کوئی احمدی واقف نہیں تھا.دوست بیان کرتے کہ ہم پریشان تھے کہ اس کا کیا جواب ایک حویلی سے مخالفین نے پتھر مارنے شروع کر دیئے.طلباء جوش میں آگئے لیکن دیں گے.لیکن میر صاحب اطمینان سے بیٹھے رہے.جب میر صاحب کی باری آئی میر صاحب نے ایک لکیر کھینچ کر طلباء سے کہا کہ اس سے آگے نہیں بڑھنا.اس دوران تو آپ نے عربی میں تقریر شروع کر دی.مخالفین نے اعتراض کیا کہ ہمیں تو سمجھ نہیں پتھر پڑتے رہے اور میر صاحب کھڑے رہے.بالآخر آہستگی سے واپس ہونا شروع آ رہی آپ نے فرمایا کہ ہمیں بھی نہیں آئی تھی.چنانچہ وہ اس بات پر آمادہ ہوگئے کہ تقریر ہوئے تو ایک گروہ پر جو غلط راستہ پر چل پڑا تھا مخالفین نے حملہ کر دیا.انہیں اکٹھا کر کے پھر چلے تو کھیتوں میں سینکڑوں سکھوں اور ہندؤوں نے جو کلہاڑیوں اور اردو میں ہوگی.ابھی میر صاحب کی عمر 28 سال تھی کہ ہندوستان کے ایک مشہور پادری لاٹھیوں سے مسلح تھے دھمکیاں دینی شروع کر دیں.مگر حضرت میر صاحب سامنے جوا الا سنگھ سے جو اپنی تقاریر کی وجہ سے بہت مشہور تھا مناظر و قرار پایا اور خدا تعالیٰ نے کھڑے رہے.اور خدا تعالیٰ کی حفاظت میں بخیریت قادیان پہنچے.قادیان پہنچ کر میر صاحب کو عظیم الشان فتح عطا فرمائی.جلسوں اور مناظروں میں طلباء کو ساتھ لے میر صاحب نے طلباء کے حوصلہ کی بہت تعریف کی.جاتے تاکہ ان کی تربیت ہوتی رہے اور بہت حوصلہ افزائی فرماتے.جس کے نتیجے میں آپ کے شاگردوں میں بہت اعلیٰ درجے کے مقرر پیدا ہوئے.دلچسپ بات یہ ہوئی کہ مخالفین نے احمدیوں پر ایک مقدمہ کھڑا کر دیا کہ انہوں نے فساد کی کوشش کی تھی.چنانچہ وہ مقدمہ ضلع گورداسپور کی عدالت میں تھا اور اسی طرح کے ایک جلسہ میں جو قادیان سے متصل گاؤں بھامبری میں ہوا، میر صاحب کا نام بھی اس میں درج تھا.میر صاحب کو ہر پیشی پر گورداسپور جانا ہوتا فساد ہو گیا.ہوا یوں کہ جلسہ میں مخالفین نے گڑبڑ کرنے کی سوچی.جب حضرت تھا.آپ کو عدالت میں کرسی پیش کی جاتی لیکن جب آپ جاتے تو مجرموں کے
22 22 21 کٹہرے میں ایک دو منٹ کھڑے رہتے.پھر کرسی پر آ کر بیٹھتے.لوگ بھی آپ کے تھے آپ سے ٹکرا گئے.اور سارا سالن کپڑوں پر گر گیا.آپ نے ناراض ہونے کی احترام میں کھڑے رہتے.کسی نے دریافت کیا کہ کیا معاملہ ہے؟ آپ نے جواب دیا بجائے صرف اتنا کہا کہ حافظ صاحب اگر سڑک پر جارہے ہو تو زور سے السلام علیکم کہ اس عدالت میں آ تمارام مجسٹریٹ نے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کھڑا رکھا کہتے رہا کرو تا کہ لوگوں کو آپ کی آمد کا علم ہو جائے.تھا.میں اس یاد میں کچھ دیر کھڑارہتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کے بارے میں کئی الہامات اور رویا آپ کے مزاج میں مانگی تھی.اور عمدہ مزاح کا ذوق رکھتے تھے.ایک دفعہ ہوئے.بچپن میں ایک دفعہ آپ بہت بیمار ہو گئے.حضور نے دعا کی تو الہام ایک ہندو کی دکان کے پاس سے گزرے جس نے میلے کچیلے کپڑے پہن رکھے ہوا.سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِيمٍ.یہی الہام آپ کی صحت کا موجب ہوا.تھے.دکان کے بورڈ پر تحریر تھا.سیٹھ لال جی داس".آپ نے اپنے ساتھیوں سے آپ کی شادی بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک رؤیا کے نتیجہ میں پوچھا کہ اس بورڈ میں کیا غلطی ہے کوئی نہ بتا سکا تو آپ نے فرمایا کہ دو نکتوں کی کمی ہے ہوئی.حضور نے دیکھا لیکن آپ کی شادی حضرت پیر منظور محمد صاحب ( مؤلف دراصل اس بورڈ کو ہونا چاہیے.سیٹھ لال چی داس.“ قائدہ میسر نا القرآن ) کی صاحبزادی صالحہ بیگم صاحبہ کے ساتھ ہو رہی ہے.ابھی ہفتہ میں چھٹی والے دن طلباء کو قتلے کی نہر پر پکنک کیلئے لے جاتے.آپ کی آپ دونوں چھوٹے ہی تھے کہ اس رویا کی بناء پر آپ کا نکاح ان سے کر دیا یہ پانکس قادیان بھر میں مشہور تھیں اور بہت سے لوگ ساتھ چل پڑتے.نمبر پر پہنچ کر گیا.آپ کی شادی کے موقع پر حضرت مصلح موعود نے ایک نظم بھی تحریر فرمائی جس تیرا کی کے مقابلے ہوتے.دوسری کھیلیں ہوتیں.نمازیں باجماعت پڑھائی جاتیں کے چند اشعار درج ذیل ہیں.اور علمی بحثیں چھیڑی جاتیں.غرض یہ کہ ذہنی اور جسمانی دونوں طرح سے یہ پلنکس تربیت کے بہترین مواقع تھے.ایک دفعہ جمعہ پر جانے کے لئے دھوبی کے دھلے ہوئے کپڑے زیب تن کر کے جارہے تھے کہ ایک نابینا صاحب جو ہاتھ میں سالن کا ڈبہ پکڑے ہوئے آرہے میاں اسحاق کی شادی ہوئی ہے آج اے لوگو ہر اک منہ سے یہی آواز آتی ہے مبارک ہو دعا کرتا ہوں میں بھی ہاتھ اٹھا کر حق تعالیٰ سے کہ اپنی خاص رحمت سے وہ اس شادی میں برکت دے
24 23 23 خدایا اس بنی پر اور بنے پر فضل کر اپنا اور انکے دل میں پیدا کر دے جوش دیں کی خدمت کا کلام پاک کی الفت کا انکے دل میں گھر کر دے نبی سے ہو محبت اور تعشق ان کو ہو تجھ سے بھی تھا تو عارضی.آپ کہا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام" "خدا اسکو پہلی بار ہلاکت سے بچائے گا.“ بھی آپ ہی کے بارہ میں ہے.آپ بیماری کے با وجود آرام کی پرواہ کئے بغیر کام میں مصروف رہتے.بالآخر 16 مارچ 1944 ء کو اچانک بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئے.آپ کو گھر لے جایا گیا اور فوری علاج شروع بہت بھایا ہے اے محمود یہ مصرعہ میرے دل کو ہوا.مگر کوئی افاقہ نہ ہوا.17 مارچ کی شام مغرب کے قریب نبض کمزور ہونے لگی.حافظ قدرت اللہ صاحب نے سورۃ یسین سنانی شروع کی تو جب اس آیت پر پہنچے مبارک ہو یہ شادی خانہ آبادی مبارک ہو ( کلام محمود صفحه 3) سَلَامٌ قَوْلًا مِّنْ رَّبِّ رَّحِيمٍ تو آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی.عجیب آپ سادہ لباس پہنتے تھے اور نہایت سادگی سے رہتے تھے.ایک دفعہ اپنے اتفاق ہے کہ بچپن میں آپ کی صحت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہی کپڑے مرمت کیلئے دیئے تو درزی نے کہا کہ اب اسکی مرمت صرف اسی صورت میں آیت الہام ہوئی تھی اور اسی آیت پر آپ کا بابرکت انجام ہوا.ہوسکتی ہے کہ اس پر پیوند لگایا جائے.آپ نے فرمایا کہ بےشک پیوند لگا دو.آنحضور ہ بھی پیوند لگے کپڑے زیب تن فرما لیتے تھے.فرمالیتے حضرت مصلح موعود وہیں موجود تھے حضور نے آپ کی وفات پر جو کچھ فرمایا.میں اپنے اس مضمون کو انہی الفاظ پر ختم کرتا ہوں کہ یہ الفاظ ہمیں ہماری ذمہ آپ نے کئی کتب تحریر کی تھیں.عام طور پر منطقی انداز تحریر ہوتا اور بڑے داری بتارہے ہیں.حضرت مصلح موعود نے فرمایا.دو بڑے مسائل کو آسانی اور سادہ انداز میں سمجھانے کا خاص ملکہ آپ کو حاصل تھا.طلباء کو میر محمد اسحاق صاحب خدمات سلسلہ کے لحاظ سے غیر معمولی وجود تھے.تعلیم بھی اسی طرز پر دیتے تھے کہ طلباء میں سبق سے دلچسپی پیدا ہو جاتی اور مشکل مسائل در حقیقت میرے بعد علمی لحاظ سے جماعت کا فکر اگر کسی کو تھا تو ان کو.رات دن قرآن کو سادہ زبان میں سمجھا دیتے.وحدیث لوگوں کو پڑھانا ان کا مشغلہ تھا.وہ زندگی کے آخری دور میں کئی بارموت کے آخری عمر میں آپ بیمار رہنے لگے تھے.کئی دفعہ علاج کروایا اگر افاقہ ہوتا منہ سے بچے.جلسہ سالانہ پر وہ ایسا اندھا دھند کام کرتے کہ کئی باران پر نمونیہ کا حملہ
26 25 ہوا.ایسے شخص کی وفات پر طبعا لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اب ہم کیا ہیں.....آٹھ دس علماء تو ہر وقت ایسے چاہئیں جو مرکز میں رہیں اور مختلف ( بیوت کریں گے.لیکن اگر ہماری جماعت کا ہر شخص ویسا ہی بننے کی کوشش کرتا تو آج یہ الذکر) میں قرآن و حدیث اور کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا درس احساس نہ پیدا ہوتا کہ اب ہم کیا کریں گے بلکہ ہر شخص جانتا ہے کہ ہم سب یہی کر با قاعدہ جاری رہے اور اس طرح نظر آئے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رہے ہیں.عزیز اور دوست کی جدائی کا غم تو ضرور ہوتا ہے مگر یہ احساس نہیں ہوتا کہ ہم میں زندہ موجود ہیں....اب اس کام کو کون سنبھالے گا.قرآن کریم کا درس ہم میں جاری رہے تو گویا کہ زندہ خدا ہم میں موجود موت کا رنج تو لازمی بات ہے.مگر یہ رنج مایوسی پیدا نہیں کرتا.بلکہ ہر شخص ہوگا.اگر حدیث کا درس جاری رہے تو گویا آنحضرت ﷺ ہم میں زندہ ہوں گے.ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے.کہ اس نے وقت پر چاروں کونوں کو سنبھال اگر کتب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا درس جاری ہے تو گویا حضرت مسیح لیا تھا.احباب کی اس غلطی کی وجہ سے کہ ہر ایک نے وقت پر اپنے آپ کو سلسلہ کا واحد موعود علیہ السلام ہم میں زندہ ہوں گے.....نمائندہ تصور نہ کیا.اور اس کے لئے کوشش نہ کی.آج میر صاحب کی وفات ایسا بڑا.....پس اب بھی سنبھلو ! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یادگار لوگ اب نقصان ہے کہ نظر آرہا ہے اس نقصان کو پورا کرنا آسان نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ بہت تھوڑے رہ گئے ہیں.....بڑے خطرات کے دن ہیں.اس لئے سنبھلو.اپنے السلام کے زمانہ میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اس طرز کے آدمی تھے ان کے بعد نفسوں سے دنیا کی محبت سرد کر دو.اور دین کی خدمت کے لئے آگے آؤ اور ان لوگوں حافظ روشن علی صاحب مرحوم تھے.اور تیسرے اس رنگ میں میر صاحب رنگین کے علوم کے وارث بنو جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت پائی تاتم آئندہ نسلوں کوسنبھال سکو “ قحط الرجال ایسی چیز ہے جو لوگوں کے دل میں مایوسی پیدا کر دیتی ہے....اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اس نے مجھے بر وقت سمجھ دی اور میں نے نوجوانوں کو 66 ( دو بھائی صفحہ 141 تا 144) آپ کی چار صاحبزادیاں اور تین صاحبزادے تھے.بڑی صاحبزادی محترمہ زندگیاں وقف کرنے کی تحریک کی جس کے ماتحت آج نوجوان تعلیم حاصل کر رہے سیده نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب تھیں.دوسری صاحبزادی
27 محترمہ سیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ملک عمر علی صاحب آف ملتان تیسری صاحبزادی محترمه سیده بشری بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم میجر سید سعید احمد صاحب اور چوتھی صاحبزادی محترمہ آنسہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم قاضی شوکت محمود صاحب ہیں.آپ کے صاحبزادوں میں محترم سید میر داؤد احمد صاحب مرحوم ( سابق پرنسپل نام کتاب جامعہ احمد یه ربوه و سابق صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ ) - محترم سید میر مسعود احمد صاحب مرحوم مربی سلسلہ اور محترم سید میر محمود احمد صاحب ناصر پر نسپل جامعہ احمد سیدر بوه ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے تمام اولا د کو خدمت سلسلہ کی عمدہ توفیق ملی اورمل رہی ہے.خدا تعالیٰ ان کی نسلوں میں بھی یہ جذبہ زندہ رکھے.آمین حضرت میر محمد اسحاق صاحب حيد ☆