Language: UR
اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ایسے بہت سے بے نفس رفیق عطافرمائے جنہوں نے دنیاوی لحاظ سے اعلیٰ مقام اور مواقع رکھتے ہوئے بھی امام وقت کے قدموں کی خاک بننے کو ترجیح دی، اس کے در کی فقیری پر فخر محسوس کیا اور اس کے مقابل پر ہر دنیوی عہد ہ وآسائش کو کھلے دل سے خیر آباد کہہ دیا۔حضر ت مولوی شیر علی صاحب ؓ بھی ایسے ہی بزرگ وجود تھے جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی، اپنے مضمون میں عبور حاصل کیا لیکن جب مسیح الزمان ؑ کےمبعوث ہونے کی خبرپائی توآپ ؑ کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور تادم ِ آخر اس سے جداہونا گوارا نہ کیا۔ آپ سلسلہ کے اہم عہدوں پر فائزرہے اور اعلیٰ علمی و انتظامی خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی ۔ اس فرشتہ صفت درویش وجود کی سادگی، محنت اور خدمت آج بھی مشعل راہ ہے۔
حضرت مولوی شیر علی صاحب
:حضرت مولوی شیر علی صاحب نام کتاب 2016: 1000: : نظارت نشر و اشاعت قادیان فضل عمر پرنٹنگ پر لیس قادیان-143516 ضلع گورداسپور، پنجاب ،انڈیا اشاعت باراول انڈیا تعداد ناشر مطبع Name of Book Hadhrat Maulvi Sher Ali rz : First Edition in India: 2016 Quantity Publisher Printed at : 1000 : Nazarat Nashr-o-Isha'at, Qadian : Fazale Umar Printing Press, Qadian-143516 Dist-Gurdaspur,Punjab,India
عرض ناشر نونہالان احمدیت کی تربیت اور ان کو آسان فہم انداز میں تاریخ احمدیت سے واقفیت کرانے کے لئے مجلس خدام الاحمدیہ نے بزرگانِ ملت کے مختصر حالات زندگی مرتب کئے ہیں.سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی اجازت و منظوری سے نظارت نشر واشاعت پہلی بار کتاب ”حضرت مولوی شیر علی صاحب کو حد یہ قارئین کرنے کی توفیق پارہی ہے.اللہ تعالیٰ احباب جماعت کو اس کتاب سے استفادہ کی توفیق ،، عطا فرمائے.آمین ناظر نشر واشاعت قادیان
حضرت مولوی شیر علی صاحب " خدا تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ایسے بہت.وجو د ساتھیوں کے طور پر عطا فرمائے جنہوں نے دنیاوی لحاظ سے اعلیٰ مقام رکھنے کے باوجود اس دور کی فقیری میں فخر محسوس کیا اور اس کے مقابل پر ہر دنیوی عہدہ اور آسائش کو خیر باد کہہ دیا.حضرت مولوی شیر علی صاحب بھی ایسے ہی بزرگ وجودوں میں سے ہیں جنہوں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی لیکن جب مسیح الزماں کے آجانے کی خبر پائی تو اس کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور تادمِ آخر اس سے جدا ہونا گوارہ نہ کیا.آپ سلسلہ کے اہم عہدوں پر فائز رہے اور اعلیٰ خدمات سرانجام دینے کی توفیق ملی.آپ کے مقام کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ جب مرکز سے باہر تشریف لے جاتے تو آپ کو امیر مقرر فرمایا کرتے تھے.خدا تعالیٰ ہمیں ان پاک لوگوں کی نیکیوں کو قائم رکھنے اور ان کے نقش قدم پر چلتے کی توفیق عطا فرمائے.
حضرت مولوی شیر علی صاحب ایک مرتبہ دو انگریز قادیان آئے.جب وہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی کے شمالی جانب سے گزرے تو قریب ہی ایک بزرگ اپنی بھینسیں چرا رہے تھے.اور وہ نہایت سادہ لباس میں ملبوس تھے.ان انگریز افسروں میں سے ایک نے ان سے پوچھا کہ ہمیں ریویو آف ریلیجنز کے ایڈیٹر سے ملنا ہے وہ کس جگہ ملیں گے؟ تو بزرگ نے فرمایا : چلیے میں آپ کو ان کے مکان پر لیے چلتا ہوں اور اپنے ہمراہ لا کر اپنی بیٹھک میں بٹھا کر فرمایا.آپ تشریف رکھیں میں انھیں بلاتا ہوں.اس بزرگ کا مقصد یہ تھا کہ چائے وغیرہ تیار کروائیں.باتوں باتوں میں تعارف بھی ہو جائے گالیکن انھوں نے کہا کہ ہمیں ان کے گھر پر ہی لے چلیں.اس پر بزرگ نے فرمایا ریویو کا ایڈیٹر میں ہی ہوں.وہ دونوں افسر یہ سن کر بے حد حیران ہوئے اور بے ساختہ ان کے منہ سے نکلا کہ ہم تو سمجھتے تھے کہ اس رسالہ کا ایڈیٹر کوئی انگریز ہو گا.777
یہ بزرگ حضرت مولوی شیر علی صاحب صحابی حضرت مسیح موعود علیہ السلام تھے جن کا ذکر آئندہ صفحات میں کیا جائے گا.وو خاندان و پیدائش حضرت مولانا شیر علی صاحب پنجاب کے ایک چھوٹے سے گاؤں’ادرحمہ “ میں 24 نومبر 1857ء کو پیدا ہوئے جو تحصیل بھلوال ضلع سرگودھا میں واقع ہے.آپ رانجھا قوم سے تعلق رکھتے تھے جو خاندان قریش کی شاخ ہے.آپ کا آبائی وطن موضع چارہ ( متصل بھیرہ) تھا جو تحصیل بھلوال میں ہی واقع ہے جہاں آپ کی جدی ملکیت تھی.آپ کے دادا مولوی غلام مصطفیٰ صاحب کی شادی چونکہ ”پڑھاڑ قوم میں ہوئی تھی اس لیے انھوں نے اپنی لڑکی کو زمین اور مکان وغیرہ دے کر حضرت مولوی صاحب کے والد صاحب حضرت مولوی نظام الدین صاحب کو اپنے پاس ہی بلالیا جہاں آپ نے مستقل سکونت اختیار کر لی.چنانچہ مولوی صاحب نے یہیں جنم لیا اور بچپن کی معصوم زندگی کے شب و روز اسی گاؤں میں بسر کئے.آپ کا حلیہ مبارک حضرت مولوی صاحب کا قد لمبا، رنگ گندمی ، آنکھیں سیاہ چمکدار اور بڑی بڑی مگر غض بصر کا نمونہ، چہرہ خوبصورت جو روحانیت کی تازگی اور نور فراست کا آئینہ دار تھا اور ان کی شناخت ان کے چہروں پر سجدوں کے نشان کے ذریعہ موجود ہے کے قالب میں ڈھلا ہوا جس پر ہر وقت قسم کی خفیف جھلک نمایاں رہتی تھی.ناک ستواں 2
چہرہ پر مسنون تراش کی ریش.حیا کا چلتا پھرتا مجسمہ، آواز دی مگر پکار میں اثر وسوز چال پر وقار سر پر سفید عمامہ، ان پر سادہ قمیض، ڈھیلا ڈھالا کوٹ، اور ملکی شلوار جوٹنوں سے اوپر رہتی تھی.موسم سرما میں دو، دو میضیں بھی پہن لیتے تھے لیکن اس میں یہ خوبی تھی کہ صاف ستھرا ہوتا جس میں تکلف کی کوئی خو بو نظر نہ آتی.پاؤں میں اکثر دیسی جوتا ہوتا جسم نہ زیادہ بھاری بھر کم اور نہ دبلا.والدین حضرت مولوی صاحب کے والد بزرگوار اپنے گاؤں میں عالم دین کی حیثیت سے نہایت قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.ان کی علمی برتری ، تقویٰ وطہارت اور صحیح دینی روح ایسے اوصاف تھے جن کے باعث ان کا نہ صرف اپنے علاقہ میں اثر ورسوخ تھا بلکہ اردگرد کے علاقوں اور قصبات میں بھی آپ کے پسندیدہ فضائل اور عالم دین ہونے کا بہت چرچا تھا.حضرت مولوی صاحب کی والدہ ماجدہ حضرت گوہر بی بی صاحبہ خود ایک نہایت زمین اور تہجد گزار خاتون تھیں.علوم ریا یہ میں اچھی خاصی دسترس رکھنے کے علاوہ ان کو حافظہ قرآن ہونے کی سعادت بھی نصیب تھی.ایسے برگزیدہ والدین کی زیر نگرانی تربیت پانے والا شیر علی کیوں نہ ایک جو ہر قابل اور باخدا انسان ثابت ہوتا جب کہ ایک طرف پاکباز ماں کی گود آپ کا گہوارہ تربیت تھی جس کا سینہ قرآن پاک کا خزینہ تھا تو دوسری طرف اس فاضل باپ کی شفقت اور محبت بھری نظریں شب و روز آپ کی نگرانی 3
میں مصروف تھیں جو اس وقت علم و فضل میں ایک غیر معمولی شخصیت کا مالک تھا.اس لئے رشد وسعادت کے آثار بچپن سے ہی حضرت مولوی صاحب کی روشن پیشانی پر عیاں تھے.آپ کی والدہ نہایت ذہین اور نیک سرشت خاتون تھیں.خدا تعالیٰ نے ان کو اپنے خاوند حضرت مولوی نظام الدین صاحب سے پہلے احمدیت قبول کرنے کی توفیق بخشی.چنانچہ آپ موصیبہ بھی تھیں اور صحابیہ حضرت مسیح موعود بھی تھیں.ان کی وفات 7 مارچ 1907 ء میں ہوئی.ان کے بچپن کے واقعات میں سے ایک واقعہ خالی از دلچپسی نہ ہوگا.یہ اس وقت کا ذکر ہے جب کہ حضرت مولوی صاحب کے نانا جو خود بڑے عالم اور موضع للہانی ضلع سرگودہا میں خاص شہرت کے مالک تھے اور آپ کے درس القرآن کا فیض عام جاری تھا انہی کے پاس آپ کی والدہ قرآن کریم پڑھا کرتی تھیں.ایک وفعہحضرت مولوی شیر علی صاحب کے نانا صاحب نے ان لڑکوں اور لڑکیوں سے جو ان کے پاس تعلیم پاتے تھے.دریافت کیا کہ پچھلا سبق جو میں پڑھا چکا ہوں وہ تم میں سے کون سنا سکتا ہے.بعض نے کچھ بتایا اور بعض بتانے سے قاصر رہے.پھر آپ نے اپنی لڑکی ( یعنی حضرت مولوی صاحب کی والدہ) سے پوچھا کہ تم کو بھی پچھلا سبق یاد ہے؟ اس پر فوراً مولوی صاحب کی والدہ صاحبہ نے جواباً عرض کیا کہ میں قاعدہ سے پڑھ کر سناؤں یا زبانی؟ اس پر انہوں نے کہا زبانی کس طرح سنا سکتی ہو.یہ تو بہت 4
مشکل ہے.امتحانا انہوں نے مختلف مقامات سے سنانے کو کہا تو انہوں نے زبانی فرفر سنادیا جس سے وہ ان کی ذہانت پر حیرت زدہ ہوئے اور بہت مسرت کا اظہار کیا.جب انہوں نے ایسا جو ہر قابل دیکھا اور قرآن ایسی نعمت کا صحیح حامل سمجھا تو انہوں نے ان کو قرآن حفظ کرا دیا.ان کا کمال یہ تھا کہ جو ایک دفعہ پڑھ لیا وہ ذہن میں نقش ہو گیا.دوبارہ دیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی تھی.༡ حضرت مولوی شیری علی صاحب نے ابتدائی دینی تعلیم اپنے والد بزرگوار سے حاصل کی اس کے بعد آپ اپنے بڑے بھائی حضرت حافظ عبدالعلی صاحب کے ساتھ بھیرہ ہائی سکول میں داخل ہوئے جو ادرحمہ“ سے تیس میل کے فاصلہ پر واقع ہے.آپ نے پرائمری بھیرہ ہائی سکول میں پاس کی.پانچویں کلاس کے دو سیکشن تھے، آپ چونکہ لائق اور قابل طالب علموں میں شمار ہوتے تھے اس لئے ہر سیکشن کے استاد کی یہ خواہش ہوتی تھی کہ یہ لڑکا میرے سیکشن میں رہے.وظیفہ کے امتحان میں حضرت مولوی صاحب کو بھی شریک ہونا تھا ممتحن کی موجودگی میں ہر دو اساتذہ کی اس بات پر تکرار ہوگئی.ایک استاد مُصر تھا کہ یہ لڑکا میرے فریق کا ہے اور دوسرے استاد کو یہ ضد تھی کہ یہ میرے فریق میں شامل ہے.غرض اس طرح علم کی منزلیں ذوق وشوق اور اعزاز واکرام کے ساتھ طے 5
کرتے ہوئے آپ نے ۱۸۹۵ء میں انٹرنس میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور ایف سی کالج لاہور میں داخل ہوئے.کالج میں ہر روز قریباً آدھ گھنٹہ تک انجیل کا درس ہوتا تھا جس میں کسی کو بولنے یا سوال کرنے کی اجازت نہ تھی.بلکہ ہر ایک طالب علم کو نہایت توجہ اور سکون کے ساتھ درس سنے کی تلقین کی جاتی تھی.اس لئے تمام طلباء کالج کے قوانین کے احترام کی خاطر اس عرصہ میں خاموش بیٹھنے پر مجبور ہوتے اور طوعا یا کرھا بہر حال اس وقت کو اس انداز میں پورا کرتے کہ کالج کے نظم وضبط میں کوئی خلل واقع نہ ہو.حضرت مولوی شیر علی صاحب ہمہ تن گوش ہو کر نہایت غور سے انجیل کے اس درس کو سنا کرتے تھے.آپ چونکہ ذہین اور قابل طلباء میں شمار ہوتے تھے اس لئے آپ کو اپنے اساتذہ کے ساتھ سیر کرنے اور مختلف علمی مباحث پر تذکرہ کا موقع بھی ملتا.چنانچہ ایک روز سیر کو جاتے ہوئے آپ کے ایک عیسائی پروفیسر نے تبلیغ کی غرض سے چند باتیں بیان کیں جن پر مولوی صاحب نے نہایت ٹھوس اور وقیع اعتراضات پیش کر دئیے.یہ سن کر پروفیسر آپ کے وسعت مطالعہ اور دقت نظر سے بہت متاثر ہوا اور آپ کی قابلیت کے باعث وہ آپ کی زیادہ قدر کرنے لگا.ان دنوں میں آپ کی صحت بہت کمزور تھی.آپ کے بڑے بھائی حضرت حافظ عبدالعلی صاحب بیان کرتے ہیں کہ شیر علی لیٹار ہتا اور میں اس کو اس کی کتب پڑھ کر سنایا کرتا تھا.“ چنانچہ بھائی کی کوششوں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ نے باوجود کمزوری صحت کے 6
بی.اے میں پنجاب بھر میں ساتویں پوزیشن حاصل کر کے نمایاں کامیابی حاصل کی.آپ کی بیعت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق ان دنوں احمدیت کا پنجاب کے طول وعرض میں کافی چرچا ہورہا تھا.حضرت مولوی صاحب اس سے قبل خود بھی حضرت حکیم فضل الدین صاحب بھیروی کی صحبت میں رہ کر احمدیت سے روشناس ہو چکے تھے.علاوہ ازیں مولوی حکیم شیر محمد صاحب جو قبول احمدیت کے نقطہ نظر سے آپ کے خاندان کے بانی ہیں ان کے نیک اعمال کا پر تو بھی آپ پر پڑتا تھا.اس لئے اس مسلسل مذہبی ماحول سے حضرت مولوی صاحب کا قلب سلیم اثر پذیر ہوئے بغیر نہ رہ سکا.پس یہی وجہ تھی کہ میٹرک سے قبل ہی احمدیت کے گہرے اثرات آپ کے رگ وریشہ میں سرایت کر چکے تھے.بی.اے پاس کر چکنے کے بعد جب کہ آپ کا شعور کافی بیدار ہو چکا تھا اور علمی لحاظ سے بھی آپ تکمیل کی منازل طے کر چکے تھے صرف ایک جذ بہ آپ کے دل کی گہرائیوں میں کارفرما تھا اور صرف ایک پاک خواہش آپ کے احساسات کو جھنجھوڑ رہی تھی کہ کس طرح قادیان پہنچ کر مہدی آخر الزمان کی ملاقات کی سعادت حاصل کریں.چنانچہ آپ ۱۸۹۷ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت اقدس کے دست مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کر کے مستقل طور پر حضور کے در کے مرید ہو کر رہ گئے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو آپ کی سادگی ، نیک مزاجی اور حلم کے 7
باعث آپ سے بہت محبت ہوگئی.حضرت مولوی صاحب بھی اس گوہر مقصود کے مل جانے پر ایک عاشق صادق کی طرح آپ کے مقدس دامن کے ساتھ وابستگی میں فخر محسوس کرنے لگے.حضرت اقدس کی مقبول دعائیں آپ کو بہترین صحت سے ہمکنار کرنے میں بھی کامیاب حربہ ثابت ہوئیں.چنانچہ معجزانہ طور پر نہایت سرعت کے ساتھ آپ کا صحت کی جانب قدم بڑھنے لگا.ایک دفعہ نماز کے بعد آپ بیت الذکر میں لیٹے ہوئے تھے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کا بازو پکڑ کر فرمایا: ”میں تب خوش ہوں گا جب شیر علی کا بازو اس سے دو گنا موٹا ہو جائے گا.اور حضور علیہ السلام نے آپ کو دودھ پینے کا ارشاد فرمایا.حضور کے ارشاد پر حضرت مولوی صاحب نے پورے استقلال سے عمل شروع کیا اور بتدریج آپ کو دودھ پینے کی اتنی عادت ہو گئی کہ آپ نے روٹی کھانی ترک کر دی اور صرف دودھ پر ہی گزارہ کرنے لگے یہاں تک کہ چومیں گھنٹہ میں آپ سولہ سیر تک دودھ پی لیتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دہن مبارک سے جو الفاظ نکلے تھے وہ معجزانہ طور پر کارگر ہوئے اور رفتہ رفتہ حضرت مولوی صاحب کے نحیف جسم میں تازگی کے آثار شروع ہو گئے اور کچھ عرصہ بعد تو واقعی آپ کا جسم دو گنا موٹا ہو گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات سے آپ کو عشق تھا.ایسا عشق جو نو را ایمان اور 8
نور فراست سے لبریز تھا.اس عشق و محبت کی ادنیٰ جھلک حضرت مفتی صاحب کے بیان فرمودہ اس واقعہ سے بخوبی عیاں ہوتی ہے: ابتدائی ایام میں جب کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب ہنوز لا ہور میں طالب علم تھے اور رخصتوں پر کبھی کبھی قادیان آجاتے تھے.ایک ایسے ہی موقع پر احباب کی مجلس میں آپ نے نہایت محبت بھرے انداز میں فرمایا: معلوم نہیں حضرت صاحب مجھے پہچانتے بھی ہیں یا نہیں.اتفاق سے اسی وقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام بھی تشریف لے آئے تو حضرت حافظ حامد علی صاحب نے حضور سے عرض کی کہ " حضور مجھے آٹا پسوانے جانا ہے میرے ساتھ دوسرا آدمی جائے تو بہتر ہے.“ اس پر حضور علیہ السلام نے حضرت مولوی صاحب کا بازو پکڑ کر حافظ حامد علی صاحب سے فرمایا: ” میاں شیر علی کو ساتھ لے جاؤ.“ یہ فقرہ سن کر حضرت مولوی صاحب کی مسرت کی انتہا نہ رہی اور اس امر کا بار بار ذکر کرتے کہ حضرت صاحب مجھے پہچانتے ہیں اور میرا نام بھی جانتے ہیں.“ یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات سے آپ کو عشق اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شفقت و محبت کا نتیجہ تھا کہ جب آپ کو جج بننے کی پیشکش کی گئی تو آپ نے اس پاک جذبہ کے تحت کہ مبادا والد صاحب یہ چٹھی پڑھ کر مجھے وہاں جانے کے لئے 9
مجبور کریں ان کو اطلاع دیئے بغیر فور اچٹھی کو پھاڑ دیا.قادیان ہجرت قادیان آنے کے بعد آپ قادیان کے ہی ہور ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مبارک دور میں قادیان تشریف لائے اور پھر سوائے اس کے کہ آپ کو کسی کام کی غرض سے قادیان سے باہر بھجوا دیا گیا ہو آپ نے قادیان کی مبارک بستی سے دور ہونا گوارا نہ کیا.تقسیم ملک کے وقت حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے حکم پر لاہور آگئے اور وہیں پر وفات پائی.00000 در کادر کا دریا در کا 10
خدمات اور سیرت کے چند پہلو امارت کے فرائض حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ جب قادیان سے باہر تشریف لے جاتے خلیفة تو آپ نے کئی دفعہ مرکزی مقامی امیر آپ کو مقر فر مایا.بلکہ آپ کو یہ قابل رشک فخر بھی حاصل تھا کہ ۱۹۲۴ء میں جب حضور ولایت تشریف لے گئے تو برصغیر پاک و ہند کے امیر بھی آپ ہی کو مقرر فر مایا.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اس موقع پر حضرت مولوی صاحب کو امارت کے اہم منصب پر فائز کرتے ہوئے آپ کے متعلق ذیل کے الفاظ ارشاد فرمائے: مولوی شیر علی صاحب نہایت مخلص لوگوں میں سے ہیں اور حیاء والے آدمی ہیں.انتظام کے لئے سختی کی بھی ضرورت ہوتی ہے مگر میں دیکھتا ہوں وہ ان میں نہیں.باوجود اس کے میں سمجھتا ہوں خلیفہ کی عدم موجودگی میں ایسے ہی آدمی کی ضرورت ہے کہ جو لوگوں کے دلوں کو رکھ سکے.خلیفہ بطور باپ کے ہوتا ہے اور اگر ایک باپ مر جاتا ہے تو خدا تعالیٰ روحانی بچوں کو دوسرا باپ دیدیتا ہے.لیکن جب باپ ہو اور موجود نہ ہو تو دل بہت نازک ہوتے ہیں اس لئے نرم 11
66 آدمی کی ہی ضرورت ہے.“ خدمات کی توفیق ( الفضل ۲۲ جولائی ۱۹۲۴ء) اولاً آپ بیس روپیہ مشاہرہ پر تعلیم الاسلام ہائی سکول میں ہیڈ ماسٹری کے عہدہ پر فائز ہوئے.پھر مینیجر کی خدمات نہایت حسن و خوبی سے انجام دیں.ریویو آف ریلیجنز کی ادارت کے زمانہ میں آپ نے نہایت اعلیٰ مضامین سے معارف کا گلشن بکھیر دیا.ناظر تالیف و تصنیف مقرر ہوئے تو علاوہ دیگر فرائض کی انجام دہی کے اسلام میں ارتداد کی سزا کے متعلق ایک اعلیٰ پائے کی کتاب لکھ کر ایک ایسا ٹھوس کام کیا جو دینی دنیا میں ہمیشہ یادگار رہے گا.کچھ عرصہ ناظر اعلیٰ بھی رہے انصار اللہ کے سب سے پہلے صدر بھی آپ ہی تھے.پھر آپ کی زندگی مختلف ادوار سے گذرتی ہوئی اس منزل پر آ پہنچی جس سے آپ کو طبعی مناسبت تھی یعنی قرآن پاک کا انگریزی ترجمہ اور اس کی تفسیر کا کام جسے آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک نہایت خوبی اور تندہی سے ادا کرتے رہے.آپ نے اس مہتم بالشان کام کی تکمیل کے لئے ہر ممکن کوشش کی.اگر ایک طرف آپ نے خدا کے آستانہ پر گر کر مددطلب کی تو دوسری طرف اپنی ذہنی کاوشوں کو نقطۂ کمال تک پہنچادیا.خدا تعالیٰ سے محبت خدا تعالیٰ کی محبت آپ کے رگ وریشہ میں اس طرح سرائیت کئے ہوئے تھی 12
جیسے پھولوں میں خوشبو بسی ہوتی ہے.جس مجلس میں آپ تشریف فرما ہوتے آپ کے تقدس کی تأثیرات سے وہ معطر ہو جاتی اور آپ کو ایک نظر دیکھ کر ہر شخص اثر پذیر ہوئے بغیر نہ رہ سکتا.مجلس میں اور فارغ اوقات میں آپ کی زبان ذکر الہی سے ہمیشہ معمور رہتی.پاس بیٹھنے والا انسان آپ کی تصیح وتحمید و تمجید کو بخوبی سن سکتا تھا.یہ آپ کا عزیز ترین مشغلہ تھا.اگر آپ کی تمام زندگی کا مختصر ترین الفاظ میں تجزیہ کیا جائے تو ہمیں محبت الہی سے بہتر الفاظ نہیں ملتے.صلى الله رسول کریم ﷺ سے محبت حضرت مولوی صاحب عشق و محبت کے ایسے مجسمہ تھے کہ آپ کی ہر حرکت و سکون میں ہمیں حضرت رسول اکرم ﷺ کے ارشادات کا مکمل عکس نظر آتا ہے.اگر کسی سے خفیف سے خفیف کو تاہی سرزد ہوتی تو آپ کی دور بین نگاہیں فوراً اسے بھانپ لیتیں اور جب تک سنت رسول کریم ﷺ کے مطابق اس سے وہ عمل نہ کر ا لیتے آپ کو حقیقی سکون نصیب نہ ہوتا.آپ کو ہر موقع کی دعائیں از بر تھیں جن سے آپ کی روح کو غذا ملتی تھی.آپ کی حتی الامکان یہ آرزو اور کوشش ہوتی تھی کہ میرا ہر عمل آپ کی متابعت میں ہو.اس ضمن میں آپ کی صاحبزادی محترمہ رقیہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں : مجھے اچھے اچھے ناموں سے بچپن سے ہی پیار تھا اور اپنا نام مجھے بھدا معلوم ہوتا 13
تھا.ایک روز میں نے اباجی سے شکوہ کیا کہ آپ نے میرا نام کیسا رکھ دیا ہے.دوسروں کے کتنے اچھے اچھے نام ہوتے ہیں.اباجی فرمانے لگے حضرت رسول کریم ﷺ نے اپنی بیٹی کا نام رقیہ رکھا تھا.میرے دل پر اس بات کا کچھ ایسا اثر ہوا کہ اُس بات کا خیال ہی جاتا رہا.عشق مسیح موعود علیہ السلام ایک دوست نے بیان کیا کہ ایک دفعہ جمعرات کے دن میں نے حضرت مولوی شیر علی صاحب کو دیکھا کہ آپ مسجد اقصیٰ کے پرانے حصہ کے ایک ستون سے بازو کا سہارا لئے کافی دیر تک اشکبار رہے.یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی گہرے درد سے آنسو خود بخود بے اختیاری کے عالم میں گرتے جارہے ہیں.دوسرے روز جمعہ کے دن حضرت مولوی صاحب نے خود ہی اپنے اس طرح رونے کی وجہ بیان فرمائی کہ ایک دفعہ میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو اسی ستون کے ساتھ ٹیک لگائے دیکھا تھا.مجھے اس زمانہ کی یاد نے تڑپا دیا اور ضبط نہ کر سکا اس لئے آبدیدہ ہو گیا.امام سے محبت مکرم مولوی تاج الدین صاحب آف لائکپور بیان کرتے ہیں.غائبا ۱۹۲۵ء کا ذکر ہے جب کہ میں مبلغین کلاس میں تعلیم پارہا تھا ایک روز میں اپنے استاد حضرت حافظ روشن علی صاحب کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی کتاب 14
احمدیت یعنی حقیقی اسلام“ سنا رہا تھا.پڑھتے پڑھتے ایک جگہ پنکھا جھلنے کے الفاظ آئے تو حضرت حافظ صاحب نے استفسار کے رنگ میں دریافت فرمایا کہ کیا پنکھا جھلا اردو میں استعمال ہوتا ہے؟ میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو فرمایا کہ مولوی شیر علی صاحب سے پوچھ آئیں.حضرت مولوی صاحب ان دنوں قریب ہی لائبریری کے ایک کمرے میں تحریری کام کیا کرتے تھے.میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس محاورے کے اردو میں استعمال ہونے کے متعلق دریافت کیا.اس پر آپ نے فرمایا : میں تو اردو میں سند نہیں ہوں ذرا توقف کے بعد فرمایا کہ ” جب حضرت صاحب نے یہ محاورہ استعمال کیا ہے تو اگر اردو میں اس سے قبل نہ بھی بولا جاتا ہو تو بھی اب یہ محاورہ بن گیا ہے.“ اطاعت امام ایک دوست روایت کرتے ہیں.حضرت مولوی صاحب کے دل میں حضرت (خلیفہ امسیح) کے احکامات کو اولین فرصت میں بجالانے کی تڑپ تھی.ایک دفعہ حضور نے سوموار اور جمعرات کے روز روزہ رکھنے کی جماعت کو ہدایت فرمائی.حضرت مولوی صاحب کو میں نے دیکھا کہ آپ اپنے داماد چوہدری ولی محمد صاحب مرحوم کے چھوٹے بچوں کو بھی سحری کے وقت جگا دیا کرتے.ایک روز میں نے حضرت مولوی صاحب سے عرض کیا کہ ان 15
چھوٹے بچوں کو جگانے کا کیا فائدہ؟ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا کہ ان میں سے جب کوئی روتا ہے تو اس طرح حضور کے حکم کی تعمیل میں شریک ہو جا تا ہے.خاندان حضرت مسیح موعود کا احترام مکرم وحیدالدین صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جلسہ سالانہ کے ایام میں خاکسار چند احباب کے ہمراہ ریتی چھلہ ( قادیان میں ایک جگہ ) میں حضرت مولوی صاحب کے پاس کھڑا تھا.آپ ایک کرسی پر تشریف فرما تھے کہ آپ فوراً ”میاں صاحب آگئے“.”میاں صاحب آگئے“ کہتے ہوئے کھڑے ہو گئے.پہلی نظر میں ہم تو نہ دیکھ سکے لیکن جب غور سے دیکھا تو کافی فاصلہ سے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بڑے بازار سے تشریف لاتے دکھائی دیئے.یہاں تک کہ حضرت میاں صاحب مولوی صاحب کے پاس تشریف لے آئے.آپ سے مصافحہ فرمایا اور مختصر سی گفتگو کے بعد جلسہ گاہ کی طرف تشریف لے گئے.اس کے بعد حضرت مولوی صاحب کرسی پر تشریف فرما ہوئے.آپ کی سیرت کے چند پہلو مکرم ڈاکٹر عطر دین صاحب درویش قادیان بیان کرتے ہیں کہ ۱۹۳۶ء کا ذکر ہے جب حضرت مولوی شیر علی صاحب ترجمۃ القرآن کے سلسلہ میں ولایت تشریف لے جارہے تھے.آپ نے چند روز بمبئی میں قیام فرمایا.میں بھی و ہیں تھا اس موقع پر میں نے آپ کو ٹرام (tram) وغیرہ کے کرایہ کے لئے مبلغ پانچ 16
روپے دیئے.اس بات پر کئی سال گزر گئے جب حضرت مولوی صاحب فوت ہوئے تو اس کے کچھ دن بعد آپ کے بڑے صاحبزادے کی طرف سے مجھے خط موصول ہوا کہ ابا جان مجھے وصیت کر گئے ہیں کہ پانچ روپے آپ کو ادا کر دیئے جائیں اس لئے آپ وہ رقم مجھ سے لے لیں.گو میری طبیعت نہ چاہتی تھی لیکن پھر ان کے اصرار پر میں نے وہ رقم ان سے لے لی.اس واقعہ کا اب تک میرے دل پر گہرا اثر ہے.مکرم مولانامحمد شفیع اشرف صاحب بیان کرتے ہیں کہ زمانہ طالب علمی میں ایک مرتبہ میں نے حضرت مولوی شیر علی صاحب سے انگریزی پڑھانے کی درخواست کی جسے آپ نے بخوشی منظور فرمالیا.مزید بیان کرتے ہیں : ' آپ ان دنوں دارالانوار کے گیسٹ ہاؤس) میں ترجمۃ القرآن کا کام کرتے تھے میں بھی وہیں چلا جایا کرتا تھا.ایک روز باہر سے کوئی رسالہ آیا اس کے پتے والے کاغذ پر ایک ٹکٹ ایسا بھی تھا جس پر ڈاک خانہ کی مہر نہیں لگی ہوئی تھی.میں نے حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں عرض کی کہ اس ٹکٹ پر مہر نہیں ہے.آپ اگر چہ اس کاغذ کو ردی کی ٹوکری میں پھینک چکے تھے لیکن میرے اشارہ کرنے پر آپ 17
نے اس ٹکٹ کو چاک کرتے ہوئے فرمایا.کہ اس ٹکٹ سے جو مقصد تھا وہ تو پورا ہو چکا 66 ہے.وفات 1945ء میں آپ کو بندش پیشاب کی تکلیف ہوئی.اس کے علاج کے لئے حضرت طلیقہ امسیح الثانی کے ارشاد پر آپریشن کیا گیا جس سے ایک دفعہ تو افاقہ محسوس ہوا لیکن بایں ہمہ کھانسی شروع ہوگئی اور کھانسی کا علاج کرنے پر اسہال شروع ہو گئے اور انہیں بیماریوں کے نتیجہ میں 13 نومبر 1947 ء کو لاہور میں وفات پائی.اولاً آپ کی اماناً تدفین لاہور میں ہوئی بعد ازاں بہشتی مقبر ور بود کے آغاز پر حضرت خلیلہ اسی المسیح الثانی کے ارشاد پر آپ کا جسد خا کی ربوہ منتقل کر دیا گیا.آپ کی ایک صاحبزادی بیان کرتی ہیں کہ وفات کے وقت لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ کا ورد آپ کی زبان پر جاری تھا.00000 18