Language: UR
حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب جوانی کی عمر میں دین کی طرف توجہ کرنا اور دینی مہمات کیلئے قربانیاں حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب پیش کرنا ایک مشکل کام ہے.عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ جوانی کی عمر ہے.ابھی بہت وقت پڑا ہے.وقت آئے گا تو دین کی طرف بھی توجہ کر لیں گے.لیکن درحقیقت یہ سوچ درست نہیں.اللہ تعالیٰ کے پیارے اور برگزیدہ وہی لوگ ہوتے ہیں جو آغاز سے ہی اپنی توجہ کو اپنے معبود کی طرف پھیر لیتے ہیں.حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب بھی ایک ایسے ہی پاک وجود تھے جنہوں نے نو جوانی میں سچائی کو قبول کیا اور تادم آخر اخلاص و وفا کے ساتھ اس پر قائم رہے.یہ وہ پاک وجود ہیں جو ہمارے لئے مشعل راہ ہیں اور ہر ایک احمدی بچے اور نوجوان کیلئے مثال ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں بھی ان نیک نمونوں کو قائم رکھنے کی توفیق عطا فرمائے.(آمین)
1 پیش لفظ پیارے دوستو ! حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب بچپن سے ہی حق کی سچی تلاش میں تھے.یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی ملاقات حضرت امام الزمان مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کروائی.آپ حضرت اقدس علیہ السلام کے پرانے خدام میں سے تھے.آپ ان چند خوش نصیب چشم دید گواہوں میں سے ایک ہیں کہ جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کا وہ دور بھی دیکھا جب آپ علیہ السلام اپنے ایک یا دو خدام کے ساتھ بیت مبارک میں نماز ادا کرتے اور پھر اس زمانہ کو بھی پایا جب اللہ تعالیٰ کے الہام کے مطابق لاکھوں افراد نے قادیان کا رخ کیا یہاں تک کہ قادیان کے راستوں پر گڑھے پڑ گئے.خود بھی بے مثال خدمت بجالائے اور ہمارے لئے بھی اعلیٰ درجہ کا قابل تقلید نمونہ چھوڑ گئے.اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو.آمین حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب ایک سعید فطرت نو جوان دنیا کی رعنائیوں اور فانی للہ توں سے ڈیرہ موڑ کر محض اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے میل ہا میل کا فاصلہ طے کر کے خدا تعالیٰ کے برگزیدہ پاک مسیح کی خدمت میں قادیان حاضر ہو جاتا ہے.خدا اور اُس کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق کے بعد اُس کا دل آپ کی محبت سے لبریز ہے.وہ آپ کی صحبت میں رہ کر نہ صرف اپنی روحانی پیاس بجھاتا ہے اور آپ سے فیض حاصل کرتا ہے بلکہ آپ کی طرف سے جو کام بھی اُس کے سپرد کیا جائے وہ بہت توجہ اور اخلاص سے اُسے سرانجام دیتا ہے اور ہمیشہ دین کو دُنیا پر مقدم رکھتا ہے.ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ قادیان آیا اور امام الزمان کے کسی کام میں مصروف تھا کہ ملازمت سے اُس کی چھٹی کی میعاد ختم ہوگئی.اُس نے مسیح پاک سے واپس جانے کے لئے نہایت ادب سے اجازت طلب کی تو حضور نے فرمایا کہ ابھی ٹھہر جاؤ.چنانچہ اُس نوجوان نے مزید رخصت کے لئے درخواست بھجوادی.مگر جس محکمہ میں وہ ملازم تھا اُس کی طرف سے جواب آیا کہ مزید چھٹی نہیں مل سکتی.اُس نوجوان نے ساری بات مسیح پاک کی خدمت میں عرض کر دی.حضور نے پھر بھی فرمایا کہ ابھی ٹھہر جاؤ.چنانچہ اس صالح نوجوان نے خدا کی رضا کے لئے ملازمت کے رہنے نہ رہنے کا خیال ہی نہیں کیا اور اُس نے پاک مسیح کی کمال اطاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لکھ دیا کہ میں ابھی ملازمت پر نہیں آسکتا.اس پر محکمہ والوں نے اُسے Dismiss یعنی ملازمت سے برخاست کر دیا.کئی مہینے وہ میچ پاک کے ارشاد کی تعمیل میں قادیان ٹھہرا اور جب
3 له 2 قادیان سے واپس گیا تو اللہ تعالیٰ کا سلوک دیکھئے کہ محکمہ والوں نے اس کی لمبی غیر حاضری کی ذرہ بھی پرواہ نہیں کی بلکہ یہ سوال اُٹھا دیا کہ جس افسر نے اُنہیں برخاست کیا تھا اس افسر کا یہ حق نہیں تھا کہ وہ انہیں ڈسمس کرتا.چنانچہ مسیح پاک کا یہ عاشق صادق اور فرمانبردار نوجوان نہ صرف اپنی ملازمت پر بحال کیا گیا بلکہ اسے اُن سب مہینوں کی تنخواہ بھی مل گئی جو وہ قادیان گزار آیا تھا.یہ صالح نوجوان حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب تھے.جن کے بارے میں خود امام الزمان مسیح پاک علیہ السلام فرماتے ہیں: حتمی فی اللہ میاں عبداللہ سنوری.یہ جوان صالح اپنی فطرتی مناسبت کی وجہ سے میری طرف کھینچا گیا.میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ اُن وفادار دوستوں میں سے ہے جن پر کوئی ابتلاء جنبش نہیں لا سکتا.وہ متفرق وقتوں میں دو دو تین تین ماہ تک بلکہ زیادہ بھی میری صحبت میں رہا اور میں ہمیشہ بنظرِ امعان (یعنی گہری نظر سے.ناقل ) اس کی اندرونی حالت پر نظر ڈالتا رہا ہوں.سو میری فراست نے اس کی تہہ تک پہنچنے سے جو کچھ معلوم کیا وہ یہ ہے کہ یہ نوجوان در حقیقت اللہ اور رسول کی محبت میں ایک خاص جوش رکھتا ہے.اور میرے ساتھ اس کے اس قدر تعلق محبت کے بجز اس بات کے اور کوئی بھی وجہ نہیں جو اس کے دل میں یقین ہو گیا ہے کہ یہ شخص محبانِ خدا اور رسول میں سے ہے اور اس جوان نے بعض خوارق اور آسمانی نشان جو اس عاجز کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ملے بچشم خود دیکھے ہیں جن کی وجہ سے اُس کے ایمان کو بہت زیادہ تعارف فائدہ پہنچا.الغرض میاں عبد اللہ نہایت عمدہ آدمی اور میرے منتخب محبوں میں سے ہے اور باوجود تھوڑے سے گزارہ ملازمت پٹوار کے ہمیشہ حسب مقدرت اپنی مالی خدمت میں بھی حاضر ہے اور اب بھی بارہ روپیہ سالانہ چندہ کے طور پر مقرر کر دیا ہے.بہت بڑا موجب میاں عبداللہ کے زیادت خلوص و محبت و اعتقاد کا یہ ہے کہ وہ اپنا خرچ بھی کر کے ایک عرصہ تک میری صحبت میں آکر رہتا رہا اور کچھ آیات ربانی دیکھتا رہا.سواس تقریب سے رُوحانی امور میں ترقی پا گیا.کیا اچھا ہو کہ میرے دوسرے مخلص بھی اس عادت کی پیروی کریں.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۵۳۱) حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب اُن چند خوش نصیب ابتدائی فدائیوں میں شامل وہ با برکت وجود ہیں جنہیں اس زمانے کے مامور حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوکر، لمبے عرصہ تک آپ کی بابرکت صحبت میں رہ کر آپ کے نور سے مستفیض ہونے علم و عرفان کے خزانے سمیٹنے اور آپ کی خدمت میں کمر بستہ رہنے کی توفیق ملی اور الہی نشانات کا بچشم خود مشاہدہ کرنے کی سعادت حاصل ہوئی.اور صرف یہی نہیں بلکہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک عظیم الشان منفر دنشان کے چشم دیدہ گواہ اور اُس کے ظاہری ثبوت کے حامل بھی تھے.
5 4 یوسف صاحب ہی بنے.پھر ایک اور عظیم خوش بختی آپ کی یہ ہے کہ رب دو جہان نے اپنے پیارے سنوری صاحب کی روحانی تربیت کے لئے کوئی نہ کوئی پروگرام بناتے رہتے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کے کئی معاملات کے بارہ میں الہاما آگاہ فرمایا.تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ملاقات کا باعث بھی یہی مولوی محمد ایں سعادت بزور بازو نیست خدا کے پاک مسیح نے متعدد مقامات پر اپنی زبان مبارک سے، پھر اپنی کتب حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب کا خاندان گو ایک زمیندار خاندان تھا اور خطوط میں آپ کے اخلاص اور محبت کا شیریں تذکرہ کر کے دوسرے افراد جماعت لیکن اس خاندان کے لوگ زمینداری کے علاوہ علم دوستی کی بناء پر تعلیم حاصل کر کے کو آپ کا نیک نمونہ اختیار کرنے کی نصیحت فرمائی.بالعموم بند و بست یا مال کے محکمہ میں ملازمت کیا کرتے تھے.بچپن پیدائش و خاندانی حالات حضرت عبداللہ سنوری صاحب کی پیدائش ۱۸۶۱ء میں ہوئی.آپ بچپن سے ہی آپ خاموش طبع تھے.مجلس میں بیٹھ کر زیادہ باتیں کرنے کے ہندوستان کی ریاست پٹیالہ تحصیل سرہند کے قصبہ سنور کے رہنے والے تھے.یہ قصبہ عادی نہ تھے.آپ اپنے کام میں منہمک رہتے.دوسروں کی ہمدردی کے لئے خاص پٹیالہ سے چند میل کے فاصلہ پر واقع ہے.جوش تھا.مخلوق خدا میں جانوروں تک سے نہایت ہمدردی کے ساتھ پیش آتے.آپ کے والد صاحب کا نام کریم بخش اور دادا کا نام محمد بخش صاحب تھا.اوائل میں ان کی عادت میں داخل تھا کہ روٹی کے چھوٹے چھوٹے ریزے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ سنوری صاحب نے اپنے والد صاحب کی کچھ بد عادات کا ( بھورے) بنا کر چڑیوں کو ڈالا کرتے تھے.یہ عادت رفتہ رفتہ اس قدر ترقی کرتی گئی ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کیا تو حضور نے والد صاحب کے متعلق کہ آپ اپنے ہاتھوں اور جھولی میں ان ریزوں کو رکھتے اور چڑیاں آپ کے شانوں اور ایسا کہنے سے آپ کو منع فرمایا.حضور کے اس فرمان کے بعد سے والد صاحب کی ہاتھوں پر آبیٹھتی تھیں.اور نہایت بے فکر اور بے خطر ہو کرکھایا کرتی تھیں.حالت میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی اور پھر آخر ان کا انجام نہایت اچھا ہوا اور حضور کے ساتھ ان کی عشق کی سی حالت ہوگئی.حضرت عبداللہ سنوری صاحب کے خاندان کے لوگ دیندار اور علم دوست واقع ہوئے تھے.آپ کے حقیقی ماموں مولوی محمد یوسف صاحب کی نیک طبیعت سے تعلیم وملا زمت (روز نامه الفضل ۲۱ /اکتوبر ۱۹۲۷ء) آپ بہت ذہین اور قابل تھے.ریاضی میں اعلیٰ دماغ رکھتے تھے.اور بھی اس بات کا اندازہ ہو سکتا ہے کہ آپ ہر وقت اپنے ایک فطرت بھانجے عبداللہ ریاضی کے مشکل سے مشکل سوال کو آسانی سے حل کر لیا کرتے تھے.ابتدائی تعلیم
7 6 حاصل کرنے کے بعد آپ کچھ عرصہ مہندرا سکول میں پڑھتے رہے.جہاں آپ کی نکلنے لگے.تو جھپٹ کر ان کو اندر پکڑ لائے.اور فرمایا کہ ان تمام روپوں کو اکٹھا کرو.ریاضی دانی کا خوب شہرہ تھا.جس طالب علم کو کوئی مشکل پیش آتی وہ آپ کے پاس آ ان بے چاروں نے بڑی شرمندگی کی حالت میں روپے اکٹھے کئے.پھر حکم دیا کہ اب کر سوال حل کروالیتا تھا.بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے بعد خاندانی رواج کے مطابق ان کو گنو اور اپنی رقم پوری کرو اور کوئی ایک روپیہ بھی صحن میں نہیں رہنا چاہئے.پھر فرمایا آپ نے بھی عملی زندگی کے لئے مال ہی کے محکمہ کو پسند کیا.ریاست پٹیالہ کے کہ میں نے وعدہ کیا تھا کہ میں چار دن کے بعد آ کر تمہارا کام کر دوں گا.تو تم نے یہ نو گاؤں تحصیل پائل اور غوث گڑھ میں پٹواری رہے.حرکت کیوں کی.اس کے بعد وعدہ کے مطابق ان کے ہاں تشریف لے گئے اور ان کی آپ جس محکمہ میں ملازم تھے اس محکمہ کے اکثر لوگ نا جائز ذرائع سے زمین کی صحیح پیمائش کر آئے.اپنا دو پہر کا کھانا گھر سے ساتھ لے کر گئے تھے.روپیہ پیسہ ہور تے تھے.لیکن آپ کو رزق حلال پسند تھا چنانچہ بھی اور کسی حال میں یہ محکمہ آپ کے لئے ناجائز منفعت یا تحریص کا محرک نہ ہوا.بلکہ آپ کا حال ابتدائی مسلک و تربیت یہ تھا کہ بحیثیت پٹواری جب آپ اپنے حلقے میں جاتے تو زمینداروں سے اپنی گھوڑی کے لئے چارہ بھی نہ لیتے تھے.حالانکہ زمیندار خود چارہ پیش کرتے لیکن آپ انکار کر دیتے.(ماہنامہ انصار اللہ مارچ ۱۹۹۰ء صفحہ ۵۵) حضرت عبد اللہ سنوری صاحب ابتدا میں اہلحدیث تھے.جہلم وغیرہ کی رسم کے سخت مخالف تھے.بدعات سے متنفر تھے.اور کسی کامل بزرگ کی تلاش میں لگے خدمت اقدس میں کھینچ لائی.حضرت عبد اللہ سنوری صاحب کے ماموں مولوی محمد یوسف صاحب مرحوم کو رہتے تھے.یہ تڑپ آپ کو ہر وقت بے قرار رکھتی تھی.اور دراصل صحبت صالحین کی چوہدری عطا محمد صاحب والد محترم چوہدری محمد ابراہیم صاحب ( سابق مینجر یہی تڑپ، نیک فطرت اور اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کی محبت آپ کو امام الزمان کی ماہنامہ انصار اللہ ربوہ ) بیان کرتے ہیں کہ کسی گاؤں کے دو تین آدمی اپنی زمین کی پیمائش کے لئے حضرت منشی صاحب کے پاس آئے.حضرت منشی صاحب نے تین چار روز کے بعد آنے کا وعدہ فرمایا.اُن آدمیوں نے رقم دیتے ہوئے عرض کی کہ یہ رقم آپ سے خاص محبت تھی.وہ آپ کی روحانی تربیت کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے نہ قبول فرمالیں.بس ان کا اتنا کہنا تھا کہ حضرت منشی صاحب کا چہرہ غصہ سے سُرخ ہو جانے دیتے تھے.انہوں نے ہی آپ کو مشورہ دیا کہ امرتسر میں مولوی عبداللہ صاحب گیا اور جس بانسی میں رقم رکھ کر پیش کی گئی تھی.اُسے اپنے گھر کے صحن میں زمین پر غزنوی کی خدمت میں حاضر ہوں جن کی بزرگی کا ان دنوں خوب چرچا تھا.اور لوگ دے مارا.چاندی کے روپے تھے.ادھر ادھر بکھر گئے اور فرمایا کہ مجھے سو رکھلا نا چاہتے ان کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے.چنانچہ حضرت منشی صاحب بھی ان کی ہو.وہ آدمی حضرت منشی صاحب کے غصے کی تاب نہ لا کر جلدی جلدی گھر سے باہر خدمت میں حاضر ہو کر تین چار روز ان کی صحبت میں رہے.اور جب آپ نے محسوس
9 8 کیا کہ یہ ایک موحد بزرگ ہیں تو آپ نے بیعت کرنے میں تامل نہ کیا.مولوی عبداللہ غزنوی صاحب نے آپ کی روحانی تربیت....کی.مُرشد کامل کی تلاش (روز نامه الفضل ۱۴ اکتوبر ۱۹۲۷ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلی ملاقات یہ ۱۸۸۲ ء کی بات ہے.آپ کی عمر اس وقت ۲۰ ۲۱ سال تھی.قادیان پہنچنے پر مولوی عبد اللہ سنوری صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہو گئے.حضور اس وقت ایک چھوٹے سے حجرے جس میں دس پندرہ افراد مولوی عبداللہ غزنوی صاحب کی بیعت کرنے کے بعد بھی مولوی عبد اللہ سے زیادہ کی گنجائش نہ تھی یعنی بیت الفکر میں تشریف فرما تھے ( تجلی قدرت مؤلفہ الحاج سنوری صاحب کی طبیعت میں بیقراری اور اضطراب باقی تھا.اور آپ دیگر اولیاء اللہ مولوی قدرت اللہ سنوری صاحب صفحہ ۳) اور قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف تھے.مولوی کے حالات معلوم کرتے رہتے تھے.آپ کے ماموں مولوی محمد یوسف صاحب بھی عبد اللہ سنوری صاحب نے السلام علیکم عرض کر کے مصافحہ کیا.حضور کا چہرہ مبارک آپ کی اس روحانی تحقیقی کو خوب جانتے تھے.انہیں نہایت ہی پیارا اور نورانی محسوس ہو ا جسے دیکھتے ہی اُن کے دل میں عشق کی آگ انہیں آرہ یعنی بہار میں ایک بزرگ ہستی کا علم ہوا.تو انہوں نے اپنے بھڑک اٹھی.اس بارے میں آپ خود فرماتے ہیں کہ میری ہدایت کا موجب صرف بھانجے مولوی عبد اللہ سنوری صاحب کو آرہ جانے کا مشورہ دیا.آپ تو گویا ایسے مشورہ حضور کا چہرہ مبارک ہی ہوا.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا.آپ کہاں کے انتظار ہی میں رہا کرتے تھے.مشورہ ملتے ہی اُدھر روانگی کا ارادہ کر لیا.لیکن پھر آپ کے ماموں نے آپ کو بتایا کہ قادیان میں ایک بزرگ نے ایک کتاب لکھنا شروع کی ہے اور اس پر دس ہزار روپے انعام رکھا ہے.اور یہ بھی کہا سے آئے ہیں اور کیا نام ہے؟ عرض کیا: سنور متصل پٹیالہ سے.عبداللہ نام ہے.حضور اقدس کی مبارک صحبت میں تین روز رہ کر اجازت لے کر واپس روانہ کہ معلوم ہوتا ہے یہ شخص کوئی بڑا کامل ہے.اگر زیارت کرنے کیلئے جانا ہے تو اسی کے ہوئے.جب بٹالہ پہنچے تو دل ایسا بے قرار ہوا کہ پھر قادیان چلے آئے.حضور نے پوچھا کیوں واپس آگئے.عرض کیا حضور جانے کو دل نہیں چاہتا.مُسکر ا کر فرمایا کہ اچھا پاس جاؤ.مولوی عبد اللہ سنوری صاحب نے اپنے بزرگ ماموں کا یہ مشورہ سن کر آرہ اور رہو.اس کے بعد قریباً ایک ہفتہ اور حضور کی صحبت میں رہے.ان ایام میں قادیان جانے کا خیال ترک کر دیا اور دل میں کچھ ایسا ولولہ اٹھا کہ جس جگہ یہ مشورہ انہیں ملا ایک انتہائی بے رونق گاؤں تھا.بہت کم آدمی چلتے پھرتے نظر آتے تھے.بازار بھی وہاں سے وہ گھر بھی نہ گئے بلکہ قادیان کی طرف روانہ ہو گئے.بٹالہ ٹیشن پر ریل گاڑی خالی اور بے آباد تھے.دراصل دکانیں ہی بہت کم تھیں.بعض تو ٹوٹی پھوٹی اور بعض سے اتر کر رات وہیں رہے اور علی اصبح وہاں سے پیدل چل کر قادیان پہنچے.غیر آباد.چھوٹی چھوٹی ضرورت کے لئے لوگوں کو گیارہ میل دور بٹالہ جانا پڑتا تھا.لیکن
11 10 انہی دنوں یعنی ۱۸۸۲ء میں خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ خبر تھے اور خود ہی نماز پڑھایا کرتے تھے.صرف دو تین مقتدی ہوا کرتے تھے.ان میں دی تھی کہ لوگ تیرے پاس دور دور سے آئیں گے اور تیری مدد کرنے والے وہ لوگ حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب بھی شامل ہوا کرتے.ہوں گے جن کو آسمانی تحریک ہوگی.( براہین احمدیہ جلد سوم طبع اوّل صفحه ۲۴۰ ) روزنامه الفضل قادیان ۲۶ ستمبر ۱۹۱۶ء) اس زمانے میں حضرت منشی عبد اللہ سنوری صاحب کو رات دن حضرت مسیح چنانچہ فی الواقعہ اس خدائی بشارت کے ماتحت آپ کی زیارت اور خدمت موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس رہنے کا بہت زیادہ موقع ملتا.حضور انور دن کو میں حاضر ہونے والے اولین دوخوش قسمت افراد میں سے ایک مولوی عبداللہ سنوری (بیت) مبارک کے حجرہ یعنی بیت الفکر میں اور رات کو بالعموم ( بیت ) مبارک کی چھت پر آرام فرمایا کرتے تھے.اکثر ایسا بھی ہوتا کہ رات کو صرف منشی عبد اللہ سنوری صاحب تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب سنور واپس تو چلے گئے لیکن دل میں حضور سے سچا عشق پیدا ہو گیا تھا.جب بھی موقع ملتا کرایہ وغیرہ جمع ہوتا ، فوراً قادیان چلے آتے.اور کئی کئی ماہ تک خصوصاً ماہ رمضان میں تو ضرور حضرت اقدس کی خدمت میں حاضر رہتے.جب کبھی حضور زیاد و مصروف ہوتے تو منشی عبد اللہ سنوری صاحب کو خط تحریر فرما کر قادیان بلا لیتے تھے.آپ بھی خط ملتے ہی فورا روانہ ہونے کے لئے تیار ہو جاتے تھے.اور حضور کی صحبت سے فیضیاب ہونے کی توفیق پایا کرتے.جس قدر زیادہ عرصہ حضور کی خدمت میں گزرتا حضور علیہ السلام سے آپ کا عشق اور آپ سے حضور علیہ السلام کی اُلفت و محبت بڑھتی چلی جاتی.ان ایام میں حضور علیہ السلام پانچ مرتبہ اول وقت میں ( نداء) دیا کرتے صاحب ہی حضور کے پاس ہو ا کرتے.آپ کی خواہش تھی کہ آپ دنیا کے کاروبار سے بالکل منقطع ہو کر قادیان ہی کے ہو کر رہ جائیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف صورتوں میں کاروبار اور تعلقات ملازمت قائم رکھنے کی ہدایت فرمائی.ایک قلیل تنخواہ کے ملازم ہونے کے باوجود آپ دو دو تین تین ماہ قادیان آ کر ٹھہرتے.آپ خود فرماتے ہیں: میں حضرت صاحب کی خدمت عالی میں چونکہ عرصہ تک رہا کرتا تھا اس واسطے حضور کو جب کسی کام کے واسطے امرتسر یالا ہور بھیجنے کی ضرورت ہوتی تو مجھے بھیج دیا کرتے تھے.اور خرچ کافی دے دیتے.واپسی کے وقت کبھی حساب نہیں مانگتے تھے.میں خود حساب بنا کر پیش کر دیا کرتا تھا.“ (ماہنامہ انصار اللہ مارچ ۱۹۹۰ ء )
13 12 بیعت کی خواہش حضرت منشی عبد اللہ سنوری صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے شرف باریابی حاصل کرنے کے بعد سے حضور کی بیعت کرنے کے خواہشمند تھے.تشریف لے گئے.جہاں حضرت منشی عبد اللہ سنوری کے گھر کو بھی اپنے قدم مبارک سے برکت بخشی.دو پہر کا کھانا وہاں تناول فرمایا.تجلی قدرت صفحه ۴) اُس وقت حضرت عبد اللہ سنوری صاحب کے دادا محمد بخش صاحب کو بھی لیکن چونکہ حضور کو ابھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی ایسا حکم نہ تھا.اور طبعا بھی یہ حضور حضور اقدس سے مصافحہ کا شرف حاصل ہوا.بعد ازاں حضور پٹیالہ سے ہوتے ہوئے کے مزاج کے موافق نہ تھا.اس لئے حضور اس پر راضی نہ ہوئے.حضرت عبد اللہ سنوری صاحب فرماتے ہیں: ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ حضرت مجھے بیعت کر لیں.فرمایا نہیں اور فرمایا کہ میاں عبد اللہ پیر بنا بہت مشکل کام ہے.اور میں اس سے گھبراتا ہوں اور سخت کراہت بھی آتی ہے.پیر کو اپنے مریدوں کے گند اندرونی ہاتھ سے دھونے پڑتے ہیں.گویا پیر کو بھنگی کا کام کرنا پڑتا ہے.مجھے اس سے کراہت آتی ہے.مگر کیا خبر تھی کہ حضور کے ہی کام سپرد ہوگا." (ماہنامہ انصار اللہ مارچ ۱۹۹۰ ء ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پہلا سفر سنور واپس انبالہ چھاؤنی روانہ ہو گئے.اس سفر میں حضرت منشی عبد اللہ سنوری صاحب کو بھی حضور کی ہمراہی کا شرف حاصل ہوا.تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحه ۲۳۹) حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب کی خصوصی ذمہ داری مارچ ۱۸۸۵ ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جب خدا تعالیٰ کے حکم سے امام الزمان اور مجدد وقت ہونے کا دعویٰ فرمایا تو حضرت عبداللہ سنوری صاحب کے ایمان کو مزید تقویت حاصل ہوئی.اس دعوی کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مذاہب عالم کے لیڈروں کو الہی بشارتوں کے تحت نشان نمائی کی دعوت دی کہ اگر وہ طالب صادق بن کر آپ کے پاس قادیان آ کر ایک سال تک قیام کریں تو وہ ضرور اپنی آنکھوں سے ۱۸۸۴ء میں حضور نے انبالہ چھاؤنی کا سفر اختیار فرمایا جہاں آپ کے خسر دین حق کی حقانیت کے چمکتے ہوئے نشان مشاہدہ کر لیں گے.اور اگر ایک سال رہ کر حضرت میر ناصر نواب صاحب مقیم تھے.سنور کے مخلصین کو معلوم ہوا تو انہوں نے بھی وہ آسمانی نشان سے محروم رہ ہیں تو انہیں دو سو روپے ماہوار کے حساب سے چوہیں حضور کی خدمت میں ایک وفد بھیجوایا جس میں منشی عبد اللہ سنوری صاحب بھی شامل تھے.منشی صاحب کی درخواست پر حضور واپسی کے وقت پٹیالہ کے راستے سنور بھی سوروپے بطور ہر جانہ پیش کیا جائے گا.اس دعوت کی عالمگیر اشاعت کے لئے خدائی تحریک کے مطابق حضرت مسیح
15 14 موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خاص اہتمام فرمایا اور مولوی عبد اللہ سنوری صاحب کو اس کام کے لئے مقرر کیا کہ مذکورہ بالا مضمون کے اشتہار انگریزی، لاہور سے چھپوا کر قادیان لا ئیں.اس خصوصی ڈیوٹی کی انجام دہی کے علاوہ براہین احمدیہ حصہ چہارم کی طباعت کی نگرانی کا کام بھی مولوی عبد اللہ سنوری صاحب نے احسن رنگ میں سرانجام دیا.معجزات اور نشانات کے عینی شاہد حضرت عبد اللہ سنوری صاحب کو یہ عظیم الشان شرف بھی حاصل ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت سے معجزات اور نشانات الہیہ کے چشم دید گواہ ہیں.میں رہ گیا اس سے قضا و قدر کی کتاب پر دستخط کئے.خدا کی معجز نمائی کا نشان دیکھئے کہ ادھر عالم کشف میں قلم کی سُرخی چھڑ کی گئی اور ادھر یہ سرخی وجود خارجی میں منتقل ہوگئی.منشی صاحب نے سخت حیرت زدہ ہو کر دیکھا کہ حضور کے ملنے پر سرخی کا ایک قطرہ پڑا ہے.انہوں نے اپنی دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اس قطرہ پر رکھی تو وہ قطرہ ٹخنے اور انگلی پر پھیل گیا.تب اُن کے دل میں یہ آیت گزری.صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً (البقرة: ۱۳۹) تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحه ۲۶۷) اُنہوں نے سوچا کہ جب یہ اللہ کا رنگ ہے تو اس میں خوشبو بھی ہو گی مگر اس میں خوشبو نہیں تھی.ابھی وہ اس حیرت و استعجاب میں تھے کہ انہیں حضور کے گرتے پر ان نشانات میں منفرد ترین نشان سُرخی کے چھینٹوں کا حیرت انگیز نشان بھی سُرخی کے چند تازہ چھینٹے دکھائی دیئے.وہ مبہوت ہو کر آہستہ سے چار پائی سے ہے.اور یہ نشان ایسا تھا جو آپ کے ساتھ خاص تھا.اٹھے اور انہوں نے اِن قطرات کا سراغ لگانے کے لئے چھت کا گوشہ گوشہ پوری ۱۰ جولائی ۱۸۸۵ ء بمطابق ۲۷ / رمضان المبارک ۱۳۰۲ھ کا ذکر ہے کہ بار یک نظر سے دیکھ ڈالا.انہیں اس وقت یہ بھی خیال آیا کہ کہیں چھت پر کسی چھپکلی کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام طلوع آفتاب کے وقت حسب معمول ( بیت ) دُم کٹنے سے خون نہ گرا ہو.مگر وہ تو دستِ قدرت کا کشفی معجزہ تھا.خارج میں اس کا مبارک کے شرقی جانب حجرہ میں ایک چار پائی پر آرام فرما رہے تھے اور حضرت منشی کھوج کیا ملتا.ناچار وہ چار پائی پر بیٹھ گئے اور دوبارہ پاؤں دابنے کی خدمت میں عبداللہ سنوری صاحب نیچے بیٹھے حضور کے پاؤں داب رہے تھے کہ حضرت اقدس مصروف ہو گئے.تھوڑی دیر بعد حضور عالم کشف سے بیدار ہو کر اٹھے اور بیت مبارک نے کشفی عالم میں دیکھا کہ بعض احکام قضاء وقدر حضور نے اپنے ہاتھوں سے لکھے ہیں میں تشریف لے آئے.کہ آئندہ زمانہ میں ایسا ہو گا اور پھر اس کو دستخط کرانے کے لئے خداوند قادر مطلق جل منشی عبد اللہ سنوری صاحب پھر داہنے لگے اُس وقت انہوں نے عرض کیا کہ شانہ کے سامنے پیش کیا اور اس نے جو ایک حاکم کی شکل میں متمثل تھا اپنے قلم کو سرخی حضور میں ایک بات پوچھنا چاہتا ہوں.فرمایا پوچھو! اُنہوں نے دریافت کیا کہ حضور کی دوات میں ڈبو کر اول اس سرخی کو آپ کی طرف چھڑکا اور بقیہ سرخی کا قلم کے منہ پر یہ سرخی کہاں سے گری ہے.یہ کیا سر ہے ؟ حضور اقدس نے آپ کو کشف کی پوری
17 16 تفصیل سنائی.بلکہ اپنے دست مبارک سے کشف میں قلم کے جھاڑ نے اور دستخط کے عہد کے مطابق اور آپ کی اپنی وصیت کے مطابق آپ کے ساتھ دفن کر دیا گیا.کرنے کا نقشہ بھی کھینچا اور اسی طرز پر جنبش دی.اور اُن سے کہا کہ اپنا گر نہ اور ٹوپی صرف یہی نشان ہی آپ کے سامنے ظاہر نہیں ہوا بلکہ کئی اور الہی نشانات دیکھیں کہیں ان پر بھی سرخی کا قطرہ تو نہیں گرا.انہوں نے کر نہ دیکھا تو وہ بالکل صاف دیکھنے کی سعادت بھی آپ کے حصہ میں آئی.تھا.مگر ململ کی سفید ٹوپی پر ایک قطرہ موجود تھا.منشی صاحب نے حضور سے آپ کا وہ چنانچہ ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چند مہمانوں کی اعجازی گر تہ تبرکاً عنایت کرنے کی درخواست کی.حضور پہلے تو رضامند نہ ہوئے.اور دعوت کی اور ان کے واسطے گھر میں کھانا تیار کروایا.مگر عین کھانے کے وقت اتنے ہی فرمایا کہ مجھے اندیشہ ہے کہ ہمارے بعد اس سے شرک پھیلے گا.اور لوگ اس کو زیارت مہمان اور آگئے اور کہا جاتا ہے کہ بیت مبارک مہمانوں سے بھر گئی.حضور نے اندر کہلا گاہ بنا کر اس کی پو جا شروع کر دیں گے.لیکن جب منشی صاحب نے یہ عرض کرتے بھیجا کہ اور مہمان آگئے ہیں کھانا زیادہ بھجوائیں.اس پر حضرت بیگم صاحبہ نے حضور کو ہوئے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات جن صحابہ کے پاس تھے وہ اندر بلا بھیجا اور کہا کہ کھانا تو تھوڑا ہے.صرف ان چند مہمانوں کے مطابق پکایا گیا تھا مرتے ہوئے وصیتیں کر گئے کہ ان تبرکات کو ہمارے کفن کے ساتھ دفن کر دینا.اصرار جن کے واسطے آپ نے کہا تھا مگر شاید باقی کھانے کا کچھ کھینچ تان کر انتظام ہو سکے گا.لیکن زردہ تو بہت تھوڑا ہے.اس کا کیا کیا جاوے.میرا خیال ہے زردہ بھجواتی ہی نہیں صرف باقی کھانا نکال دیتی ہوں.حضور نے فرمایا نہیں یہ مناسب نہیں.تم زردہ کا کیا اور کہا کہ میں بھی مرتا ہوا ایسی وصیت کر جاؤں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ”ہاں اگر یہ عہد کرتے ہو تو لے لو.“ برتن میرے پاس لاؤ.چنانچہ حضور نے اس برتن پر رومال ڈھانک دیا اور پھر رومال تاریخ احمدیت جلد اوّل صفحه ۲۶۸) کے نیچے اپنے ہاتھ گزار کر اپنی انگلیاں زردہ میں داخل کر دیں.اور پھر کہا کہ اب تم سب کے واسطے کھانا نکالو خدا برکت دے گا.چنانچہ حضور نے جمعہ کے لئے کپڑے بدلے اور یہ گر یہ منشی صاحب کے سپرد کر دیا.حضرت عبد اللہ سنوری صاحب کہتے ہیں کہ کھانا سب کے واسطے آیا اور زردہ منشی صاحب کی یہ بات جماعت کو ہمیشہ ممنون احسان رکھے گی کیونکہ اس بھی.زردہ سب کے کھانے کے بعد بھی کچھ بچ گیا.طرح سے یہ گر یہ ۴۳ سال بیک منشی صاحب کے پاس رہا.منشی صاحب ہر سال جلسہ سالانہ کے موقع پر افراد جماعت کو یہ گر نہ دکھایا کرتے.یوں ہزاروں بلکہ لاکھوں (سیرت المہدی حصہ اول مطبوعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۳ء صفحه ۱۲۹ روایت نمبر ۱۴۱) پھر ۱۹۰۰ ء کی عید الاضحیہ کے موقع پر نماز کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ آدمیوں نے اس اعجازی گرتے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا.اور آپ کی وفات پر الصلوۃ والسلام نے نہایت فصیح و بلیغ عربی زبان میں جو الہا می خطبہ ارشاد فرمایا.اُس ۷ اکتو بر ۱۹۲۷ء کو یہ گر تہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے کئے گئے آپ موقع پر بھی مولوی عبد اللہ سنوری صاحب موجود تھے.
19 18 سرانجام دیتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سفروں میں رفاقت اسی طرح سفر ہوشیار پور کے دوران ہونے والے تمام اخراجات کا حساب حضرت عبداللہ سنوری صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے نوٹ کرنے کا کام بھی آپ کے سپر د تھا.جو آپ تفصیل کے ساتھ تاریخ وار نوٹ کیا بہت سے سفروں میں آپ کے ہمراہ رہنے کا موقع ملا.جب حضور کسی سفر پر جانے کا کرتے تھے.(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه ۱۲۱ روایت نمبر ۱۳۳) ان ایام کے بارے میں حضرت صاحب نے منشی عبداللہ سنوری صاحب ارادہ فرماتے ، حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب کو خط لکھ کر بلوا لیتے تھے.چنانچہ آپ کو ہوشیار پور، لدھیانہ، بٹالہ، انبالہ، امرتسر، علی گڑھ اور جالندھر کے سفروں میں حضور کی رفاقت نصیب ہوئی.یوں تو یہ تمام سفر ہی بہت تاریخی تھے.جن میں قدم قدم پر سے فرمایا کہ میاں عبداللہ ان دنوں میں مجھ پر بڑے بڑے خدا تعالیٰ کے فضل ہوئے آپ کو اپنے پیارے آقا کی خدمت کی توفیق ملتی رہی اور خدا تعالیٰ کے بے شمار نشانات ہیں اور فضل کے دروازے کھلے ہیں اور بعض دفعہ دیر دیر تک خدا تعالیٰ مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے.اگر اُن کولکھا جاوے تو کئی ورق ہو جاویں.دیکھنے کی سعادت ملی.لیکن سفر ہوشیار پور کا ذکر اپنی ذات میں منفرد ہے.۱۸۸۴ ء میں حضور نے گوشتہ تنہائی میں جا کر چلہ کشی کا ارادہ فرمایا جس کے لئے سو جان پور کا پہاڑ پسند فرمایا.آپ نے اس بارے میں مولوی عبد اللہ سنوری تاریخ احمدیت جلد نمبر ا صفحه ۲۷۶) موعود بیٹے کے متعلق الہی بشارتیں بھی اس چلہ کشی میں آپ کو عطا ہوئیں صاحب کو بھی لکھ بھیجا جس پر مولوی عبد اللہ سنوری صاحب نے حضور کے شریک سفر تھیں اور چلہ کے بعد ہوشیار پور سے ہی آپ نے اس پیشگوئی یعنی پیشگوئی مصلح ہونے کی خواہش کا اظہار کیا جسے حضور نے منظور فرمایا.مگر پھر حضور کو الہام ہوا کہ موعود کا اعلان فرمایا تھا.تمہاری عقدہ کشائی ہوشیار پور میں ہوگی.چنانچہ آپ نے سو جان پور کی بجائے ہوشیار ان سفروں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی توجہ باطنی اور پور جانے کا ارادہ کر لیا.اور جب حضور جنوری ۱۸۸۶ء میں اس تاریخی سفر پر تشریف دعاؤں سے آپ کی تربیت فرماتے رہے.جس کے نتیجے میں ایک طرف آپ کی لے جانے لگے تو حضور نے خط لکھ کر منشی عبداللہ سنوری صاحب کو قادیان بلوالیا.اس حضور سے محبت گہری ہوتی چلی گئی تو دوسری طرف آپ کو خود بھی مجاہدات کے بے نظیر عظیم الشان تاریخی سفر میں آغاز سے اختتام تک آپ کو حضور کے رفیق سفر رہنے کا مواقع ملتے رہے اور آپ عرفانِ الہی کی بہت سی منزلیں طے کر گئے.خدا تعالیٰ کی شرف نصیب ہوا.ہوشیار پور میں قیام کے دوران چلہ کشی کے دنوں میں منشی عبداللہ طرف سے آپ پر رویاء وکشوف کے دروازے کھل گئے.ان رویاء صالحہ میں ایک سنوری صاحب کے سپر د خاص طور پر کھانا وغیرہ تیار کرنے اور حضور کی خدمت میں رویاء حضرت مصلح موعود کے متعلق ہے.جس کے بارے میں آپ بیان فرماتے ہیں: پیش کرنے کا کام تھا جو آپ بہت توجہ اور شوق، اخلاص اور عقیدت وارادت کے ساتھ میں نے خواب میں دیکھا تھا کہ دو آفتاب جن کے درمیان کچھ
21 20 بیعت تھوڑا سا فاصلہ تھا مغرب کی طرف سے چڑھے اور نصف النہار تک پہنچتے ہیں.سو جب حضور نے اس خواب کی یہ تعبیر کی تو اس میں اکابر دین جن سے فائدہ دین کا پہنچے“ کے الفاظ سے میں اسی وقت یہ بات سمجھا کہ ایک آفتاب تو خود حضور ہیں اور دوسرے آفتاب کے لئے منتظر تھا.جب حضور نے ہوشیار پور سے پسر موعود کا اشتہار دیا تو اُس وقت مجھ کو بہت خوشی ہوئی اور مجھے یقین ہو گیا کہ دوسرا آفتاب یہی ہے.اور اس کو میں بخوبی دیکھوں گا.سو الحمد للہ کہ میں نے یہ دوسرا آفتاب بھی دیکھ لیا جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ ثانی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں (مکتوبات احمد یہ جلد پنجم ۵، حاشیه صفحه۱۵۰) یوں تو پہلی ملاقات میں ہی حضرت عبداللہ سنوری صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حلقہ ارادت و بیعت میں دل و جان سے داخل ہو چکے تھے اور بیعت کے لئے مامور فرماوے.چنانچہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے حکم سے ۱۸۸۹ء میں سلسلہ بیعت شروع کرنے کا اعلان فرمایا تو منشی عبد اللہ سنوری صاحب کی خوشی کی انتہا نہ رہی.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لدھیانہ میں مقیم تھے.اور پہلی بیعت لدھیانہ کے محلہ جدید میں واقع حضرت صوفی احمد جان صاحب کے مکان پر ہوئی.۲۳ مارچ۱۸۸۹ء کو حضرت اقدس بیعت لینے کے لئے مکان کی ایک کچی کوٹھڑی میں (جو بعد میں دارالبیعت کے نام سے موسوم ہوئی ) تشریف فرما ہوئے اور دروازے پر حافظ حامد علی صاحب کو مقرر کر دیا اور انہیں ہدایت دی کہ جسے میں کہتا جاؤں اُسے کمرہ میں بلاتے جاؤ.اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجلس میں بیعت نہ لیتے تھے بلکہ ایک ایک شخص کو الگ الگ بلا کر بیعت لیا کرتے تھے.پہلی بیعت جب شروع ہوئی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے چوتھے نمبر پر حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب کو نام لے کر خود بلایا.(سیرت المہدی صفحه ۶۳ روایت نمبر ۹۶) اُس وقت جب حضور نے ابھی سلسلہ بیعت شروع نہیں فرمایا تھا حضور سے اپنی بیعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق لینے کی درخواست بھی کی لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضور کو ایسا کوئی حکم نہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت میں مولوی عبد اللہ سنوری حضور کو طبعا یہ بالکل پسند نہ تھا اس لئے آپ بیعت کی خواہش رکھنے والے کو انکار فرما صاحب ایسے سرشار ہو چکے تھے کہ ہر دوسرا دن آپ کی محبت اور اخلاص کو بڑھاتا چلا جاتا اور آپ کا اخلاص اور ایمان بھی روز بروز ترقی کی منازل طے کرتا چلا جاتا.آپ کو لیکن منشی عبد اللہ سنوری صاحب اُس روز کے منتظر تھے جب اللہ تعالیٰ حضور کو قریب سے دیکھنے والے یہ نتیجہ نکالنے پر مجبور ہو جاتے کہ آپ تو اپنے آقا ہی کے ہو دیا کرتے تھے.
23 22 چکے ہیں کیونکہ آپ کے دل و دماغ بلکہ سارے جسم میں وہی محبوب آقا سمایا ہوا تھا.پاؤں دبانے بیٹھے تو آپ نے شیخ حامد علی صاحب سے کہا کہ کوئی حقہ اچھی طرح تازہ محبوب کی یاد آپ کو ہر فکر و پریشانی سے دُور رکھتی تھی.یہی وجہ تھی کہ آپ مجلسوں میں کر کے لاؤ.جب شیخ حامد علی صاحب حقہ لے آئے تو حضور نے حضرت عبداللہ بیٹھنے اور بہت باتیں کرنے کے عادی نہ تھے بلکہ عموماً خلوت پسند اور کم گو تھے.آپ سنوری صاحب سے فرمایا کہ پیو.وہ شرمائے مگر حضور فرمانے لگے جب تم پیتے ہو تو شرم ہمیشہ خوش رہتے.جب کبھی کسی سے ملتے تو ہمیشہ مسکراتے ہوئے چہرے کے ساتھ ملا کی کیا بات ہے؟ پیو کوئی حرج نہیں.حضرت میاں عبد اللہ سنوری صاحب نے بڑی کرتے.آپ کی اپنے آقا اور ایمان سے محبت کا آپ کے ماحول میں لوگوں کو بھی مشکل سے رُک رُک کر ایک گھونٹ پیا.پھر حضور فرمانے لگے میاں عبداللہ مجھے اس بخوبی علم تھا.اسی بناء پر کوئی شخص آپ کے سامنے ایسی بات نہ کر سکتا تھا جو کسی پہلو سے سے طبعی نفرت ہے.میاں عبداللہ صاحب کہتے ہیں کہ حضور کے یہ فرمانے کے ساتھ ہی میرے دل میں اس کی نفرت پیدا ہوگئی اور میں نے اسی وقت سے حقہ نوشی ترک کر دی.اعتراض کا رنگ رکھتی ہو.یوں بھی آپ کسی کی غیبت سننا گوارا نہیں کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک روز ( بیت ) میں اکیلے ٹہل رہے تھے.حضرت میاں عبد اللہ سنوری صاحب (بیت) کے ایک کونے میں قرآن کریم (سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۴ ۸ روایت نمبر ۱۱۰) نماز میں وہ ہمیشہ صف اول میں آنے کے عادی تھے.حضرت شیخ یعقوب پڑھنے بیٹھ گئے.حضور نے ٹہلتے ٹہلتے ایک دفعہ ٹھہر کر حضرت عبد اللہ سنوری کی طرف علی صاحب عرفانی تحریر فرماتے ہیں کہ بہت کم ایسا اتفاق ہوا ہو گا کہ وہ اس سے قاصر رہے ہوں.( روزنامه الفضل ۲۱ اکتو بر ۶۲۷) ہوشیار پور سے واپسی کا واقعہ ہے.حضرت منشی عبداللہ صاحب فرماتے ہیں دیکھا اور اُنہوں نے بھی اُسی وقت حضور کی طرف دیکھا.وہ کہتے ہیں کہ جب میری اور حضور کی نظر ملی تو خبر نہیں اُس وقت حضور کی نظر میں کیا تھا کہ میرا دل میرے سینے کے اندر پکھل گیا اور میں نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھالئے اور بڑی دیر تک دعا کرتا رہا.حضور ٹہلتے رہے.پھر آخر حضور نے مجھ سے فرمایا میاں عبد اللہ دعا بہت ہو چکی اب بند کرو.کہ ایک دفعہ میں نے عرض کیا کہ حضور بیعت تو لیتے نہیں اور میں چاہتا ہوں کہ حضور حضرت عبداللہ سنوری صاحب کہتے ہیں کہ اُس دن مجھے سمجھ آئی کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ سے میرا خاص تعلق ہو جاوے تو حضور مجھ کو اپنا شاگرد ہی بنا لیں اور قرآن شریف پڑھایا کریں.فرمایا بہت اچھا.یہ رمضان شریف کا ذکر ہے.پھر عید کے دن مجھے فرمایا کہ آج مبارک دن ہے آج قرآن شریف شروع کر لو.نیز یہ بھی فرمایا کہ ایک ابتداء میں حضرت عبداللہ سنوری صاحب کو حقہ نوشی کی بہت عادت تھی.اب آنے کے بتاشے لے آؤ تا کہ باقاعدہ شاگرد بن جاؤ.چنانچہ ایسا ہی کیا گیا.بتاشے ذرا غور کیجئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے شیخ حامد علی صاحب نے یہ ذکر تقسیم کر کے قرآن کریم شروع کروایا.پھر حضور ایک ہفتہ کے بعد ایک آیت کے کر دیا تو اگلی صبح جب میاں عبد اللہ سنوری صاحب حضور کے پاس گئے اور آپ کے سادہ معنی اور کبھی کسی آیت کی تھوڑی سی تفسیر پڑھا دیا کرتے تھے.اس سادہ ترجمہ کی بعض وقت کامل کی ایک نظر انسان کو کیا سے کیا بنادیتی ہے.اس کا کیا مطلب ہے.(سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۸۴ روایت نمبر ۱۰۹)
25 24 وجہ سے حضرت میاں عبد اللہ سنوری صاحب کے اندر فہم قرآن کا ایک خاص اثر پیدا ہو گیا جس کا وہ اظہار بھی فرماتے.(ماہنامہ انصار اللہ مارچ ۱۹۹۰ ء، سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۸۳) حضرت میاں عبد اللہ سنوری صاحب نے ایک روز حضور کی خدمت میں حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق رکھنے والے بہت سے واقعات اور آپ کے فرمودات کے امین بھی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مشہور مخالف پادری عبد اللہ آتھم کے ساتھ ہونے والے مباحثہ کے بارے میں حضرت میاں عبد اللہ سنوری صاحب کا بیان عرض کیا کہ حضور میں جب قادیان آتا ہوں تو اور کوئی خاص بات محسوس نہیں ہوتی مگر ہے کہ جب حضور نے یہ بیان کیا کہ آتھم نے اپنی کتاب از روئے بائبل میں آنحضرت میں یہ دیکھتا ہوں کہ یہاں وقتاً فوقتا یکلخت مجھ پر بعض آیات قرآنی کے معنے کھولے صلی اللہ علیہ وسلم کو ( نعوذ باللہ ) دجال کہا ہے تو آتھم نے ایک خوفزدہ انسان کی طرح جاتے ہیں اور میں اس طرح محسوس کرتا ہوں کہ گویا میرے دل پر معافی کی ایک پوٹلی اپنا چہرہ بنایا اور اپنی زبان باہر نکال کر کانوں کی طرف ہاتھ اٹھائے اور کہا کہ میں نے یہ بندھی ہوئی گرا دی جاتی ہے.حضور نے فرمایا کہ ہمیں قرآن شریف کے معارف کہاں لکھا ہے یا کب لکھا.یعنی نہیں لکھا.دے کر ہی مبعوث کیا گیا ہے اور اسی کی خدمت ہمارا فرض مقرر کی گئی ہے.پس ہماری صحبت کا بھی یہی فائدہ ہونا چاہئے.(سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۲۴۴ روایت نمبر۲۷۰) حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام (سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۸۳ روایت نمبر ۱۰۸) کے کئی ارشادات بھی سنایا کرتے.اُن کی روایت ہے کہ حضور فرماتے تھے کہ مجھے وہ لوگ جو دنیا میں سادگی سے زندگی بسر کرتے ہیں بہت ہی حضرت میاں عبد اللہ سنوری صاحب حضور کی صحبت سے فیضیاب ہونے کی پوری کوشش فرمایا کرتے.حضور کی نصائح اپنی نوٹ بک میں درج فرما لیا کرتے.آپ کی نوٹ بک میں تحریر ہے کہ ۱۳۰۳ھ ماہ ذی الحجہ بروز جمعہ بوقت دس بجے حضرت صاحب نے مجھ سے فرمایا کہ اگر کسی شخص کا خوف اور دل پر اس کے رعب پڑنے کا اندیشہ ہو تو آدمی صبح کی نماز کے بعد تین دفعہ یسین پڑھے اور اپنی پیشانی پر خشک انگلی سے یا عزیز لکھ کر اُس کے سامنے چلا جاوے انشاء اللہ اس کا رعب نہیں پڑے گا.بلکہ خوداس پر رعب پڑ جائے گا.(سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۱۲۲ روایت نمبر ۱۳۴) پیارے لگتے ہیں.“ (سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۲۴۰ روایت نمبر ۲۶۱) اسی طرح یہ بھی کہ الْإِسْتِقَامَةُ فَوقَ الْكَرَامَةِ “ (سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۲۴۴ روایت نمبر ۲۶۸) اور مرضی مولا از ہمہ اولی یعنی خدا کی رضا سب سے مقدم ہونی چاہئے.(سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۲۴۰ روایت نمبر ۲۶۲) حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب اپنے محبوب آقا کے لئے دل میں
27 26 انتہائی غیرت کے جذبات رکھتے تھے.شروع میں آپ مولوی محمد حسین بٹالوی کے اُسی وقت سید ھے پادری کی کوٹھی پر چلے گئے.وہاں پادری صاحب کے خانساماں بہت معتقد تھے.حضور جب کوئی خط وغیرہ دے کر مولوی محمد حسین بٹالوی کے پاس نے ان کی بڑی خاطر مدارت کی اور اگلی صبح پادری صاحب سے ملاقات کروا دی.حضرت میاں عبد اللہ سنوری صاحب اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کر کے قادیان واپس آ آپ کو بھجواتے تو آپ بہت عقیدت سے ملا کرتے مگر آپ کا بیان ہے کہ ” جب اس نے حضرت صاحب کی مخالفت کی تو مجھے اس سے نفرت ہوگئی اور میں نے کبھی اس کی صورت تک دیکھنی پسند نہیں کی.“ (سيرة المهدی صفحه ۲۴۶ روایت نمبر ۲۷) گئے اور حضور کی خدمت میں سارا واقعہ عرض کر دیا.اہم دینی خدمات (سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۲۴۲ ، ۲۴۳ روایت نمبر ۲۶۶) حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب اپنے محبوب آقا کی دل و جان سے اطاعت کرتے اور اس کے لئے ہر وقت تیار رہا کرتے.اپنے آقا کی طرف سے جو حکم حضرت عبداللہ سنوری صاحب کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی ملتا اُس پر فوراً عمل کرنا شروع کر دیتے.محبت و اخلاص ایک عاشقانہ رنگ رکھتی تھی.آپ اپنے آقا کے مشن کو کامیاب بنانے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ اشتہار دیا کہ کوئی کیلئے ہر قسم کی خدمت کے لئے تیار رہا کرتے.ادنیٰ سے ادنیٰ کام کی انجام دہی میں غیر مذہب کا ماننے والا یا کوئی مخالف اگر کوئی نشان دیکھنا چاہتا ہے تو میرے پاس آ بھی کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے.یہی وجہ تھی کہ حضور سے پہلی ملاقات کے دن کر رہے.پھر اگر نشان نہ دیکھے تو میں اُسے اتنا انعام دوں گا.اشتہار دیے جانے سے اپنی وفات تک آپ نے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی خاطر ہر کام کو نہایت خوشی اور مسرت کے کچھ عرصہ بعد حضور نے ایک روز حضرت میاں عبد اللہ سنوری صاحب کو بٹالے سے سرانجام دیا اور اپنے لئے اس کام کو فخر اور سعادت سمجھا.میں پادری وائٹ بریخٹ کے پاس جانے کا ارشاد فرمایا تا کہ وہ اُنہیں نشان نمائی کی اس دعوت کو قبول کرنے کے لئے آمادہ کر سکیں.تھی لیکن آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا اُس وقت شام ہو چکی تھی.سردیوں کے دن تھے اور بارش بھی ہو رہی تھی.کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا.مسلسل کئی کئی ماہ تک خصوصاً ماہِ رمضان میں آپ اس لئے حضرت میاں حامد علی صاحب نے روکا کہ صبح چلے جانا.مگر حضرت میاں قادیان آ کر حضور کی صحبت میں رہا کرتے اور یہ مواقع اُن ایام میں آپ کو نصیب عبد اللہ سنوری صاحب نے کہا کہ جب حضرت نے فرمایا ہے تو خواہ کچھ ہو میں تو ابھی ہوئے جبکہ کوئی دوسرا وہاں نہ ہوتا.آپ گھنٹوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جاؤں گا.چنانچہ وہ اُسی وقت قادیان سے بٹالہ جانے کے لئے پیدل روانہ ہو گئے اور رات کے قریباً دس بجے بارش سے تر بتر اور سردی سے کانپتے ہوئے بٹالہ پہنچے اور اگر چہ آپ محکمہ مال میں ملازمت کرتے تھے اور آپ کی تنخواہ بھی کچھ زیادہ نہ دبانے کا شرف حاصل کرتے.ابتدائی ایام میں جب کہ حضور نے ابھی ماموریت کا دعویٰ نہیں فرمایا تھا آپ
29 28 بہت سے خطوط حضرت عبد اللہ سنوری صاحب سے لکھوایا کرتے.اسی طرح حضور کہ حضرت صاحب کی طرف سے کوئی تحریک ہو اور اُس میں حصہ لیں بلکہ اُنہوں نے کے گھر کے دوسرے بہت سے کام سرانجام دینے کی توفیق بھی آپ کو ملتی رہتی.حضور اپنی زندگی کے روزمرہ معمولات میں اس بات کو داخل کر لیا تھا کہ سلسلہ کی مالی خدمت کئی مرتبہ آپ کو طباعت و اشاعت کے کاموں کے سلسلہ میں امرتسر بھجوایا کرتے اور پھر ایک ایسا ہی فرض ہے جیسا کہ انسان کو زندہ رہنے کے لئے کھانے پینے کی ضرورت آپ ہی مطبوعہ مواد کو حضور کے ساتھ ترتیب دیتے اور بہت سے خطوط اور اشتہارات ہے.یہ احساس اور شعور اُن کی زندگی کا حصہ بن چکا تھا.وغیرہ ڈاک خانے جا کر پوسٹ کرتے.اشاعت کے کاموں کے علاوہ دیگر کئی کاموں سے بھی حضور آپ کو دوسرے مقامات پر بھجوایا کرتے.وَسِعُ مَكَانَگ“ (یعنی اپنے مکان کی توسیع کر ) کا الہام ہونے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس وقت کے حالات کے مطابق عملی طور پر اُس الہام کو پورا کرنے کی غرض سے دو تین چھپر بنوانے کے لئے آپ ہی کو امرتسر بھجوایا.(سیرۃ المہدی حصہ اول صفحه ۱۲۹ روایت نمبر ۱۳۸) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مختلف سفروں میں آپ کو حضور کے حضور اپنی کتاب ”ازالہ اوہام میں چندہ دہندگان کی فہرست میں اول نام آپ کا درج کر کے تحریر فرماتے ہیں: میاں عبد اللہ نہایت عمدہ آدمی ہے اور میرے منتخب متبوں میں سے ہے اور باوجود تھوڑے گزارہ ملازمت پٹوار کے ہمیشہ حسب مقدرت اپنی مالی خدمت میں بھی حاضر ہے اور اب بھی بارہ روپیہ سالانہ کے طور پر مقرر کر دیا ہے.“ (ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد نمبر ۳ صفحه ۵۳) سلسلہ کی خدمت کے لئے آپ کے دل میں جس قدر جوش اور جذبہ تھا اُس کا ساتھ رہ کر خدمات بجالانے کا جو موقع ملا اس کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے.غرض ان نیام اظہار اس واقعہ سے بھی ہوتا ہے کہ دوسری شادی کو ابھی چند سال ہی گزرے تھے کہ میں وقت اور جذبات کی بے مثال قربانی کی توفیق آپ کو حاصل ہوتی رہی لیکن اسی پر سلسلہ کے کاموں کے لئے آپ نے اپنی چھوٹی اہلیہ کے زیور نتھ طلائی وغیرہ حضور کی بس نہیں بلکہ تھوڑی تنخواہ ہونے کے باوجود اُس کا ایک بڑا حصہ مختلف صورتوں میں خدمت میں بذریعہ ڈاک بھجوا دیئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش فرما دیا کرتے.حضور نے کوئی تحریک ایسی نہیں کی جس میں آپ مکمل انشراح صدر کے ساتھ شریک نہ ہوئے ہوں.بلکہ سچ تو یہ ہے کہ آپ نے اپنے لئے اپنا کچھ رکھا ہی نہ تھا.آپ کو قریب سے جاننے والے بتاتے ہیں کہ وہ اپنی ضروریات اور اپنے کنبہ کی ضروریات کو جس قدر کم کر سکتے تھے کرتے تھے اور جو کچھ بھی پس انداز کر سکتے تھے بچاتے تھے اور لاکر حضرت صاحب کی خدمت میں پیش کر دیتے تھے.وہ دراصل اس بات کے منتظر نہ رہتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ اور آپ کی اہلیہ محترمہ کی اس خدمت کو سراہتے ہوئے درج ذیل خط تحریر فرمایا: بسم الله الرحمن الرحیم نحمده ونصلى مجی عزیزی اخویم میاں عبد اللہ صاحب سلمہ السلام عليكم ورحمة الله وبركاته آپ کا تحفہ مرسلہ منتقه طلائی به سبیل ڈاک مجھ کو پہنچ گیا.اس سے بڑھ کر
31 30 علامت اخلاص اور دلی محبت کیا ہوگی کہ آپ نے اپنے گھر کے لوگوں کے زیور کو بھیج دیا اور نیز آپ کے گھر کے لوگوں کی محبت اور اخلاص قابل تعریف ہے کہ زیور جو عورتوں کو بالطبع عزیز ہوتا ہے اس کے دینے سے دریغ نہیں کیا.معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ آپ کو اس سلسلہ کی خدمت کے لئے دل میں جوش آ رہا ہے اور بباعث کثرت مصارف اور قلت آمدن روپیہ میسر نہ ہو سکا.اسی صورت میں دل کی بیتابی نے یہی ہدایت دی کہ آپ اپنی عزیز زوجہ کا زیور اتار کر بھیج دیں.سوخدا تعالیٰ آپ کو اس اخلاص کی بہت بہت جزائے خیر دے اور آپ کی زوجہ کو علاوہ ثواب آخرت کے دنیا میں بہت سے زیور طلائی عنایت کرے کہ دہ (دس ) دنیا اور ستر آخرت تو ایک وعدہ ہے.آمین ثم آمین....والسلام خاکسار مرزا غلام احمد از قادیان کرتے.اس طرح آپ کی کوشش سے بلا مبالغہ لاکھوں انسانوں نے یہ گر تہ اپنی آنکھوں سے دیکھا.حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب نے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سنور اپنے گھر تشریف لے جانے کی درخواست کی تھی جسے حضور نے منظور فرما لیا تھا اُسی طرح آپ نے خلیفہ اسیح الثانی حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ کی خدمت میں بھی یہی درخواست کی جسے حضور نے از راہ شفقت منظور فرما لیا.حضرت منشی صاحب آپ کو سنور لے جا کر دلی محبت وعقیدت سے اسی حصہ مکان میں اسی طرح خدمت بجالائے.خلافتِ ثانیہ کے دور ہی میں ۱۹۱۶ء میں آپ کو سلسلہ کی ایک اور خدمت کی توفیق اس طرح حاصل ہوئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سرخ روشنائی والے واقعہ کے متعلق مولوی ثناء اللہ امرتسری کے اعتراض کرنے پر آپ اُس سے مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہو گئے اور ۲۷ نومبر ۱۹۱۶ء کو اس کے گھر تک جا پہنچے.لیکن مولوی ثناء اللہ کو جرات نہ ہوئی کہ اس مقابلہ میں سامنے آتا.اس پر اتمام حجت کر کے آپ قادیان واپس آئے.چنانچہ اگر چہ وہ کرتہ ہمارے سامنے موجود نہیں لیکن آپ مکتوبات احمدیہ جلد نمبر پنجم صفحه ۱۹۵،۱۹۴ مکتوب نمبر ۱۴۲/۷) کے حلفیہ بیان اور دعوت مباہلہ کے بعد اب کوئی شخص اس بیان کو جھٹلا نہیں سکتا.حضرت منشی عبد اللہ سنوری صاحب جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ منشی عبد اللہ سنوری صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بے پناہ عشق تھا.آپ کی وفات کے بعد آپ کی جماعت اور آپ کے جانشینوں و السلام کی زندگی میں اپنے اموال سلسلہ کی ضروریات کے لئے پیش فرمایا کرتے کے ساتھ بھی اُلفت و محبت کا یہ سلسلہ مسلسل جاری رہا.دیگر کاموں کے علاوہ ہر اسی طرح آپ کے وصال کے بعد بھی مختلف مالی تحریکات میں پیش پیش سال جلسہ سالانہ میں آپ ضرور شمولیت فرماتے.اور اس موقع پر آپ حضرت مسیح ہے.چنانچہ منارة اسبح قادیان کی تعمیر میں آپ نے مالی طور پر شمولیت کی توفیق موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سُرخ روشنائی والا اعجازی گر نہ افراد جماعت کو دکھایا ہائی اور اس مینار کے دروازہ کے بالکل اوپر نصب سنگ مرمر کی تختی پر آپ کا اسم
33 32 گرامی کندہ شدہ ہے.ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک مجلس میں موجود احباب پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے سیرۃ المہدی میں جو روایات جمع کی ہیں سے گفتگو فرما رہے تھے.اس مجلس میں مولوی عبد اللہ سنوری صاحب بھی موجود تھے.جو تاریخ احمدیت کی تدوین میں بھی نہایت ممد و معاون ثابت ہوئیں، ان روایات کی جب مولوی صاحب بولتے تو حضرت صاحب دوسروں کی طرف سے توجہ ہٹا کر ان کی ایک بڑی تعداد حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب سے مروی ہے.حضرت مرزا طرف توجہ فرماتے تھے.محترم سید فضل شاہ صاحب کو اس کا ملال ہوا اور اُنہوں نے بشیر احمد صاحب نے خود لکھا ہے کہ انہوں نے طریق روایت میں آپ کو خاص طور پر حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب کے ساتھ حضور کے اِس سلوک پر رشک کیا.حضور محتاط پایا ہے.آپ کی بیان فرمودہ یہ روایات بلاشبہ ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں.آپ کے خیال کو فوراً سمجھ گئے اور سید فضل شاہ صاحب کو مخاطب ہو کر فرمانے لگے.شاہ صاحب آپ جانتے ہیں یہ کون ہیں؟ انہوں نے عرض کیا ہاں حضرت سیرت المہدی حصہ اول مطبوعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۲۳ ء صفحه ب) انہیں بیان کرتے ہوئے آپ کی جو کیفیت ہو جاتی تھی حضرت مرزا بشیر احمد میں میاں عبداللہ صاحب کو جانتا ہوں.آپ نے فرمایا: صاحب نے اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے.”میاں عبداللہ صاحب مرحوم سابقون اوّلون میں سے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ ان کو ایک غیر معمولی عشق تھا.میرے ساتھ جب وہ حضرت صاحب کا ذکر فرماتے تھے تو اکثر ان کی آنکھیں ڈبڈبا آتی تھیں اور بعض اوقات ایسی رقت طاری ہو جاتی تھی کہ وہ بات نہیں کر سکتے تھے.“ ”ہمارا یہ مذہب ہے کہ قدیمان خود را بیفزائے قدر (یعنی پرانوں کی قدر وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جاتی ہے ) یہ آپ سے 66 بھی قدیم ہیں.“ سید فضل شاہ صاحب کہتے تھے کہ اس دن سے میں نے سمجھ لیا کہ ہمارا ان سے مقابلہ نہیں یہ ہم سے آگے ہیں.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب لکھتے ہیں کہ جس وقت سید فضل شاہ صاحب نے یہ روایت بیان کی اُس وقت حضرت میاں (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه ۱۰۸) عبداللہ سنوری صاحب بھی پاس بیٹھے تھے اور اُن کی آنکھیں پر نم تھیں.(سیرت المہدی حصہ اوّل صفحه ۵۴، ۵۵ روایت نمبر ۸۵) حضور علیہ السلام کو مولوی صاحب کے حالات و واقعات سے اس قدر دلچسپی خادم سے آقا کی بے مثال محبت خادم تو اپنے آقا کی محبت سے سرشار تھا ہی اُس کا پیارا آقا بھی اپنے تھی کہ آپ کو اکثر اپنی دعاؤں میں یادر کھتے اور جب کبھی حضرت میاں عبد اللہ سنوری خادم سے بے انتہا پیار ومحبت کرتا تھا.متعدد مواقع پر مختلف طریقوں سے جس کا صاحب اپنی کسی مشکل یا ضرورت کی اطلاع حضور کی خدمت میں کرتے تو حضور ضرور ان کے لیے دعا کرتے.آپ کے نام ایک خط میں تحریر فرماتے ہیں تمہارے لئے کئی اظہار ہوتا رہتا تھا.
35 34 دفعہ دعا کروں گا کہ اللہ جلشانہ مشکل پیش آمدہ سے مخلصی عطا فرمائے.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۵ صفہ نمبر ۱۵۶ مکتوب نمبر ۸۲/۱۱) پھر ایک اور خط میں حضور نہایت محبت سے تحریر فرماتے ہیں: میں بخوبی اس بات پر مطمئن ہوں کہ خدا تعالیٰ نے آپ کے دل میں اخلاص اسی طرح حضرت میاں عبد اللہ سنوری صاحب کے نام ایک اور خط میں درج اور محبت کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے.اور آپ کو فطرتی مناسبت ہے اور ایسی محبت ہے کہ ہے کہ آپ کے لئے حضرت باری عَزّ اسمہ میں تہجد میں دعا کی گئی.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۵ صفحہ نمبر ۱۷۵ مکتوب نمبر ۱۱۸/۴۷) ایک اور مکتوب میں تحریر فرماتے ہیں: میں نے اس خط کے لکھنے سے پہلے جناب الہی میں بہت دعا کی ہے.اگر تقدیر مبرم نہ ہو تو قبول ہونے کی اُمید ہے.“ مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۵ صفحه نمبر ۲۰۲ مکتوب نمبر ۱۵۰/۷۹) صرف دعائیں کرنے پر بس نہیں بلکہ حضور کئی مرتبہ مجرب نسخے بھی تجویز فرماتے اور حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب کی دل جوئی اور ہمدردی کے لئے حسب حالات بہت کچھ تحریر فرمایا کرتے.زمانے کے رنگ بدلانے سے دور نہیں ہوسکتی.سو میں آپ پر بہت خوش ہوں.“ مکتوبات احمدیہ جلد پنجم نمبر ۵ صفحه۲۰۱،۲۰۰ مکتوب نمبر ۱۴۹/۷۸) اور ایک موقع پر تو حضور کے دوائی بھجوانے کا ذکر بھی ملتا ہے.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم صفحه ۱۸۵ مکتوب نمبر ۱۳۰/۵۹) اپنی کتب بھی کئی مرتبہ آپ کو ارسال فرماتے جیسا کہ اپنی کتاب نشان آسمانی ۲۳ جولائی ۱۸۹۲ء کو بذریعہ ڈاک ارسال فرمائی.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۵ صفحه ۱۷ مکتوب نمبر ۱۰۹٫۳۸) پھر حضور آپ کی خیریت وعافیت کے بارہ میں بھی اکثر دریافت فرماتے رہتے تھے اور آپ کے نام کئی خطوط میں اپنے حالات خیریت سے جلد جلد مطلع کرنے مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۵صفه نمبر۳۰۲ مکتوب نمبر ۱۵۰/۷۹) کی نصیحت فرماتے.حضور صرف آپ کی خیریت کی اطلاع کافی نہ خیال فرماتے تھے بلکہ آپ سے پیار و محبت اس قدر تھا کہ اکثر خط لکھ کر قادیان بلوایا کرتے اور منتظر رہا کرتے.آپ کے آنے کی اطلاع ملتی تو نہایت خوش ہوتے.ایک خط میں حضور تحریر فرماتے ہیں: میں تم پر بہت راضی ہوں اور جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے تمہارے دل میں اخلاص اور محبت بھری ہوئی ہے.“ مکتوبات احمد یہ جلد پنج نمبر ۵ صفحه ۱۲ مکتوب نمبر ۸۶/۱۵) اسی طرح آپ کے نام حضور کے ایک اور خط میں تحریر ہے.میں آپ کے اخلاص اور محبت سے شکر گزار ہوں.جَزَاكُمُ اللهُ خَيْرًا مکتوبات جلد پنجم نمبر ۵ صفحه ۱۶ مکتوب نمبر ۸۸/۱۷) مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۵ صفحه ۱۷۱ مکتوب نمبر ۱۱۰٫۳۹) حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب کی ہر دو اہلیہ کے ساتھ بھی حضور نہایت شفقت و محبت کا سلوک فرماتے.اسی طرح آپ کے والد صاحب اور بیٹوں کی صحت کے بارہ میں بھی دریافت فرمایا کرتے اور اُن کے لئے بھی دعائیں کرتے.مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۵ صفحه ۱۹۳ ۲۰۶،۲۰۵،۲۰۴،۲۰۲،۱۹۴۷)
37 36 خادم اور آقا کے درمیان محبت و پیار کا یہ رشتہ ایسا تھا کہ حضور اپنی ذاتی خوشی کے پہلی مرتبہ قادیان آنے سے پہلے ہو چکی تھی.دوسری شادی کے معاملات میں کے مواقع پر بھی حضرت میاں عبداللہ صاحب کو یاد فرمایا کرتے.چنانچہ ۱۵ / جنوری جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ آپ کے قریبی تعلق اور الفت ۱۸۸۹ ء کو آپ کے نام خط میں اپنے صاحبزادے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کی و محبت اور آپ کے حضور سے پیار کا اظہار ہوتا ہے وہاں اس کے متعلق بعض الہی ولادت اور عقیقہ کی تحریری اطلاع ارسال فرمائی.اسی طرح ۲۰ را پریل ۱۸۹۳ء کو ایک نشانات کا ظاہر ہونا اسے نہایت منفرد اور تاریخی بنادیتا ہے.دوسرے بیٹے کی پیدائش کی اطلاع بھجواتے ہوئے سب احباب کو اطلاع دینے کی دوسری شادی کی ضرورت پیش آنے پر جب آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اس کا ذکر کیا تو حضور جو اپنے خدام پر بے انتہا شفقت فرمایا کرتے مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۵ صفحه ۱۷۲۱۶۳) تھے آپ کے اس معاملہ میں ذاتی توجہ سے ہر ممکن کوشش فرماتے رہے.ڈیوٹی بھی آپ کے سپرد کی.حضرت میاں عبد اللہ سنوری صاحب سے حضور کی یہ محبت اس قدر گہری تھی خطاب سے قبل بھی میاں عبد اللہ سنوری صاحب کا ذکر خیر فرمایا.ایک جگہ آپ کے رشتے کی بات چل رہی تھی.اس سلسلہ میں حضرت مسیح کہ ۱۸۹۱ء میں منعقد ہونے والے جماعت کے پہلے جلسہ سالانہ پر حضور نے اپنے موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے دست مبارک سے خطوط بھی تحریر فرمائے.سفر انبالہ کے دوران سرہند تشریف لے جانے کی ایک وجہ اس رشتہ کی کوشش بھی تھی.حضور اس (سیرت المہدی حصہ اول صفحه ۱۶۵ روایت نمبر ۱۶۹) غرض کے لئے دعاؤں میں بھی مصروف رہے لیکن دعا کرتے ہوئے حضور کو الہام ہوا ”ناکامی پھر دعا کی تو الہام ہوا ” اے بسا آرزو کہ خاک شدہ.پھر اس کے بعد ایک پیار ومحبت کے اس تعلق کی انفرادیت یہ بھی تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر میاں عبداللہ سنوری صاحب کو خاتمہ تک آپ اور الہام ہوا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ “.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خودان الہامات کی زندگی میں پیش آنے والے اہم واقعات و حالات سے آگاہ کر دیا تھا.میاں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: عبد اللہ سنوری صاحب بیان کرتے ہیں کہ اُن کی زندگی میں اُسی کے مطابق حالات و واقعات پیش آتے رہے ہیں.(سیرت المہدی صفحہ ۱۶۱ روایت نمبر ۱۵۹ ) یہاں تک کہ اُن کی وفات بھی جمعہ کے روز ہوئی جیسا کہ حضور نے آپ کو بتلایا تھا.شادی واولاد معلوم نہیں میاں عبداللہ صاحب کا ہمارے ساتھ کیسا تعلق ہے کہ ادھر دُعا کرتا ہوں اور اُدھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب مل جاتا ہے.‘“ (سیرت المہدی حصہ اول صفحہ اے ) چنانچہ حضرت ماسٹر قا در بخش صاحب کی ہمشیرہ سے رشتہ کے لئے حضرت حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب نے دوشادیاں کیں.پہلی شادی اُن مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کوشش فرمائی.جسے ماسٹر قا در بخش صاحب نے بلا
39 38 غذ رقبول کر لیا.صوفی عبدالقدیر صاحب کو آپ نے خدمت سلسلہ کے لئے وقف کر دیا تھا.انہیں حضرت ماسٹر قا در بخش صاحب کے والد ماجد کا اُس وقت جماعت سے جاپان میں دین حق کی دعوت الی اللہ واشاعت کے علاوہ بہت سی انگریزی کتب کے کوئی تعلق نہ تھا بلکہ وہ ماسٹر صاحب کے بھی سخت مخالف تھے.اور ماسٹر صاحب تراجم کرنے کی توفیق بھی ملی.آپ نے درشین کے منتخب اشعار کا انگریزی ترجمہ کیا جو بہت سے ابتلاؤں سے گزر رہے تھے.اس پر یہ امتحان بہت بڑا اور سخت تھا.لیکن PSALMS OF AHMAD کے نام سے شائع شدہ ہے.آپ انگریزی رساله ریویو آف ریجنز REVIEW OF RELIGIONS کے ایڈیٹر بھی حضرت ماسٹر صاحب اس امتحان میں کمال تعریف کے ساتھ کامیاب ہو گئے.اُنہوں نے نہ تو یہ خیال کیا کہ حضرت منشی صاحب کی تنخواہ بہت کم ہے اور نہ یہ سوچا رہے اور کئی جماعتی خدمات بجالاتے رہے.بیٹی مریم صاحبہ کی شادی معروف خادمِ سلسلہ حضرت مولانا عبدالرحیم در دصاحب کے ساتھ ہوئی.کہ وہ صاحب اولاد ہیں بلکہ سچ یہ ہے کہ اُنہوں نے کچھ دیکھا نہ پوچھا بلکہ اپنے آقا کے حکم کی تعمیل کو عین ثواب سمجھا اور اپنے والد صاحب اور خاندان کی مخالفت کے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے حضرت منشی عبد اللہ سنوری صاحب کو کثیر اولاد باوجود اپنی ہمشیرہ زینب صاحبہ کی شادی حضرت منشی صاحب سے کر دی اور خدا تعالیٰ بخشی.آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ کے بعد آپ کے بچے سلسلہ کی خاطر ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہتے تھے.اور اپنے والد کی طرح سلسلہ کے فدائی تھے.نے اس کو بہت با برکت فرمایا.منشی عبداللہ صاحب نے اپنے مشفق آقا کو اپنی شادی کے بارہ میں اطلاع آپ کی نسل سے تعلق رکھنے والے بہت سے افراد کو سلسلہ کی خدمت کی توفیق ملتی رہی دی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آپ کے ولیمہ کی تقریب ۲۲ / جنوری اور اب تک حاصل ہو رہی ہے.۱۸۹۷ء کو قادیان میں منعقد فرمائی.جس میں ۸۰ سے زائد احباب شامل ہوئے.اس دعوت ولیمہ کا تمام تر انتظام پیارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود فرمایا اور اس کا نصف خرچ بھی حضور نے اپنی طرف سے ادا کیا.( مکتوبات احمد یہ جلد پنجم نمبر ۵ صفحه ۱۸۷) اخلاق فاضلہ حضرت میاں عبداللہ سنوری صاحب کی پاکیزہ اور دیندارانہ طبیعت، رزق آپ کی اہلیہ اول سے چار بیٹے رحمت اللہ صاحب ، حبیب اللہ صاحب ، حلال کا شوق، صحبت صالحین کی تڑپ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول حضرت محمد عبدالرحیم صاحب اور عصمت اللہ صاحب اور ایک بیٹی شریفن صاحبہ تھیں.عصمت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے پاک مسیح سے عشق ، تقویٰ، اخلاص، عہد و پیمان کی پاسداری، آپ کا دینی خدمات کے لئے خود کو وقف کرنا، امام الزمان کی دل و جان اللہ صاحب بچپن میں ہی فوت ہو گئے تھے.دوسری اہلیہ سے صوفی عبدالقدیر نیاز صاحب اور مریم صاحبہ پیدا ہوئیں.سے اطاعت اور وفاداری جیسے اوصاف کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے.
41 40 حضرت شیخ محمد احمد مظہر صاحب نے آپ کے بارے میں بجا طور پر فرمایا ہے: پیکر ایمان و عرفان مهبط نوریقین جان اخلاص و مروت نازش ارباب دیں خیر خواه دوستاں سرمایہ مہر و وفا زنده دار عهد و پیماں پاک باز و پاک ہیں روز نامه الفضل قادیان دارالامان ۲۰ دسمبر ۱۹۲۷ء) حضرت عبداللہ سنوری صاحب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو عاشقانہ تعلق تھا اس کی وجہ سے وہ ہر دم حضور کی صحبت میں رہنا چاہتے تھے.لیکن حضور نے ان کو دنیا کے کاروبار سے بالکل منقطع ہو کر قادیان ہی میں بیٹھے رہنے کا نہیں فرمایا.بلکہ مختلف صورتوں میں کاروبار اور تعلقات ملازمت کو قائم رکھنے کی ہدایات فرماتے.اور حقیقت میں یہ سلسلہ ملازمت بہت ہی مفید اور بابرکت ہو ا.شروع میں آپ نو گاؤں میں پٹواری تھے اور تنخواہ ۵۵ روپے سالا ن تھی.آپ آپ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہر حکم کی اطاعت نے اپنا تبادلہ تحصیل پائل میں کروالیا.لیکن وہاں جانے کے بعد دل بالکل نہ لگا کیونکہ کیا کرتے اسی طرح آپ کو حضور کے معمولات کی اتباع کرنے کا بھی بے حد شوق وہاں کوئی ( بیت الذکر ) نہ تھی اور یہ ہندو جاٹوں کا گاؤں تھا.آپ نے بہت بے تھا.صوم وصلوٰۃ کے پابند اور تہجد کے عادی تھے.نماز میں ہمیشہ صف اول میں آنے کے عادی تھے.حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ بہت کم قراری سے حضور کی خدمت میں دعا کی درخواست کی کہ نو گاؤں میں واپس چلا جاؤں.حضور نے فرمایا ”جلدی نہیں کرنی چاہئے اپنے وقت پر یہ خود بخود ہو جائے اتفاق ہوا ہو گا کہ وہ اس سے قاصر رہے ہوں.آپ نہایت سادہ زندگی بسر کرتے گا.کچھ عرصہ بعد آپ کا تبادلہ غوث گڑھ ہو گیا.جہاں پر آپ کا اتنا دل لگا کہ نو تھے.سادہ لباس زیب تن کرتے.سادہ گر نہ ، شلوار، دیسی جوتا (جیسا کہ حضرت مسیح گاؤں کی خواہش دل سے نکل گئی.اور آپ نے حضور کے فرمان کی یہ تاویل کر لی کہ موعود علیہ الصلوۃ والسلام پہنتے تھے ) اور سر پر بغیر گلہ کے پگڑی باندھتے تھے.چونکہ غوث گڑھ مسلمانوں کا گاؤں ہے اور اس میں ( بیت ) بھی ہے اور یہاں دل بھی (روز نامه الفضل ۲۱ /اکتوبر ۱۹۲۷ء) راستبازی، معاملات میں حد درجہ صفائی اور دیانت و امانت کا بہترین نمونہ لگ گیا ہے.اس لئے حضور کے فرمان کے یہی معنی ہوں گے جو پورے ہو گئے.مگر تھے.ہر ایک کے دُکھ درد میں شریک ہوتے.آپ کے دل میں دوسروں کی ہمدردی کا کچھ عرصہ بعد نو گاؤں کا حلقہ بھی خالی ہو گیا اور تحصیلدار نے آپ کی ترقی کی سفارش بے حد جوش تھا.خاص طور پر آپ قرابت داروں کے حقوق کا بے حد خیال رکھتے.کرتے ہوئے لکھا کہ ترقی کی یہ صورت ہے کہ آپ کو علاوہ غوث گڑھ کے نو گاؤں کا آپ اگر چہ خلوت پسند تھے لیکن کسی سے ملتے تو ہمیشہ مسکراتے ہوئے چہرے حلقہ بھی جس کی تنخواہ ۵۵ روپے سالانہ تھی دے دیا جائے.یہ سفارش مہاراج سے کے ساتھ ملا کرتے.انہیں قریب سے دیکھنے والے یہ گواہی دیتے ہیں کہ کسی شخص کو منظور ہوگئی اور اس طرح آپ کے پاس غوث گڑھ اور نو گاؤں دونوں حلقے آگئے.اس طرح ترقی بھی ملی اور تنخواہ بھی ۱۱۰ روپے سالانہ ہوگئی.حضرت میاں عبد اللہ سنوری کبھی بھی ان سے رنج یا تکلیف نہیں پہنچی.
43 42 صاحب فرماتے ہیں کہ یہ خدا کا ایک خاص اقتداری فعل تھا اور نہ نو گاؤں غوث گڑھ اخلاق کا ذکر حضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحب گوہر ناظر اعلیٰ ( قادیان) یوں سے پندرہ کوس کے فاصلے پر تھا اور درمیان میں کئی حلقے ہیں.( سيرة المہدی حصہ اول صفحه ۱۶۱ ۱۶۲) حضرت منشی صاحب اپنی ملازمت کے دوران قریباً چالیس سال (۱۸۸۵ءتا ۱۹۲۵ء) موضع غوث گڑھ ریاست پٹیالہ میں مقیم رہے.جماعت غوث گڑھ کو احمدیت کا نور حضرت منشی صاحب کی وساطت سے ملا.وہاں اکثر لوگوں نے دلائل و براہین سے نہیں بلکہ منشی صاحب کی عملی زندگی اور تقویٰ وطہارت کو دیکھ کر احمدیت قبول کی.کیونکہ خود احمدیت کے نور سے پورے طور پر منور تھے اور شمع ہدایت سے براہ راست روشنی پائی تھی اس لئے دوسروں کی فوری ہدایت کا موجب بن گئے.یہ جماعت تعلیمی لحاظ سے بہت پیچھے تھی.لوگ سادہ اور فطرتا نیک تھے.استاد کامل تھا.منشی صاحب کی وجہ سے غوث گڑھ کے اردگرد بھی جماعتیں قائم ہوئیں.چک لوہٹ بہت بڑی جماعت تھی.نماز با جماعت کی پابندی کی تاکید ، قرآن کریم کا درس، قادیان کی مرکزی تحریکات کو جماعت تک پہنچانا اور ان پر عمل کرانا، حضرت اقدس اور ان کی وفات کے فرماتے ہیں: تیری وہ راستی تیری دیانت تیری سچائی تیری شفقت تیرے اخلاق تیری پاک دامانی ان اوصاف حمیدہ نے مسخر کر لیا آخر انہیں جو رات دن رہتے تھے مجو شغل شیطانی جماعت غوث گڑھ کی تیرے انفاس مقدس نے بنائی اور دی تعلیم اخلاقی و روحانی رہا تو جس جگہ آنکھوں میں اور دل میں جگہ پائی دلوں پر حکمرانی کی دلوں کی کی نگہبانی (روز نامه الفضل قادیان دارالامان یکم نومبر ۱۹۲۷ء) آپ کے زہد و تقویٰ کا غیروں پر یہ اثر تھا کہ کئی مواقع پر ایسا ہوا کہ آپ اپنا چنده مرکز میں بھجواتے تو ہندو اور سکھ بھی اپنا چندہ پیش کرتے اور کہتے منشی جی ہما را چندہ بعد آپ کے خلفاء سے جماعت کے لوگوں کی ذاتی ملاقاتوں کا اہتمام کرانا ، لوگوں کو بھی قادیان بھجوا دیں.غوث گڑھ کے رہنے والے محترم محمد یوسف صاحب سابق فسق و فجور سے محفوظ رہنے اور ان میں احمدیت کی صحیح روح پیدا کرنے کی تگ و دو کرنا، پروفیسر جامعہ احمدیہ کا بیان ہے کہ آپ کے حلقہ پٹوار کے بعض غیر احمدی لوگوں نے نو جوانوں پر خاص نظر رکھنا اور ان کی قوتوں کو سلسلہ کی تعلیمات سے ہم آہنگ کرنا.ان سے ذاتی طور پر بیان کیا کہ ہم نے عبداللہ سنوری صاحب جیسا بزرگ انسان نہیں لوگوں کے خانگی معاملات و تنازعات کو دُور کر کے محبت اور پیار کی فضا سازگار رکھنا.یہ دیکھا.وہ بہت نیک پارسا بلکہ ولی اللہ تھے.دیہات کی زندگی میں ایک دوسرے کے وہ موٹی موٹی باتیں ہیں جن کے لئے منشی صاحب ساری عمر کوشاں رہے.آپ کی ساتھ رنجش ، عائلی مسائل اور جھگڑے اور جھمیلے عام طور پر ہو جاتے ہیں.بات ذرا اور وفات کے بعد آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ایک مریے میں آپ کے انہی بڑھ جائے تو پولیس کا دور دورہ ہو جاتا ہے.حضرت منشی صاحب حالات پر کڑی نظر
45 44 رکھتے تھے.گاؤں کے لوگوں پر آپ کی بات کا بہت نیک اثر تھا.جھگڑوں کی صورت ہوا جو اگرچہ بہت شدید تھا تا ہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ کے حواس درست میں فوراً حکمت و دانائی کے ساتھ معاملات طے کروا دیتے.ایک دفعہ گاؤں کے باہر رہے لیکن بولنے کی سکت نہ رہی اور کھانے پینے میں دقت ہونے لگی.ہر قسم کی طبی ایک تھانیدار ملا.اس نے از راہ تفاخر حضرت منشی صاحب سے کہا کہ اپنا گاؤں تو دکھا امداد مہیا کی گئی لیکن رفتہ رفتہ کمزوری بڑھتی گئی.مگر چہرے پر مسرت اور اطمینان کے دیں.منشی صاحب نے فرمایا ہمارا گاؤں غریب ہے دیکھ کر کیا کرو گے.غوث گڑھ کے آثار ہر وقت نمایاں رہتے.جب بھی کوئی شخص عیادت کے لئے جاتا اس کی طرف محترم چوہدری عطا محمد صاحب فرمایا کرتے تھے کہ منشی صاحب کی زندگی میں اور بعد خندہ پیشانی سے ہاتھ بڑھا دیتے.اس کی باتوں کو سکتے اور کبھی کبھی سر ہلا کر یا آنکھ کے میں بھی ایک عرصہ تک پولیس فوٹ گڑ نہیں آئی.اشارے سے اس کا جواب بھی دیتے.کسی قسم کی گھبراہٹ اور بے چینی نہ تھی.ہر ایک نشی عبداللہ صاحب محنت کے عادی اور بیکار رہنے کے دشمن تھے.اپنی عمر دیکھنے والا مجھے سکتا تھا کہ آپ زندہ ہی خدا تعالی کی جنت میں ہیں.کے آخری وقت تک برابر کام کرتے رہے.۱۹۲۵ ء میں ملازمت سے ریٹائر ہونے حضرت خلیفہ اسیح الثانی اُن دنوں شملہ تشریف لے گئے ہوئے تھے.اور منشی کے بعد آپ مستقل طور پر قادیان ہی آگئے تھے اور یہاں آ کر بھی فارغ نہ رہے بلکہ صاحب شاید حضور کی آمد ہی کے منتظر تھے.کوئی دو ہفتے کی بیماری میں ۷۵ اکتوبر کوکسی حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے فارم کی نگرانی کی خدمت سرانجام دیتے رہے.وو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں: مرحوم نے اس انتظام کو ایسی خوبی کے ساتھ نبھایا کہ میں اس کے تفکرات سے قریباً بالکل آزاد ہو گیا.“ آخری ایام اور وفات (سیرت المہدی حصہ دوم صفحه (۱۰۸) قدر شدت پیدا ہوئی.قادیان واپسی کے بعد ۶ اکتوبر کو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی آپ کی عیادت کو تشریف لے گئے.جس کے بعد اُن کا آخری وقت قریب ہونے لگا.اور اگلے روز ۷ اکتوبر ۱۹۲۷ء کو بروز جمعہ اا بجے اپنے محبوب حقیقی سے جاملے.انا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک کا دیا ہوا صابن کا ایک ٹکڑا، بالوں میں لگانے کے لئے تیل کی ایک چھوٹی بوتل اور عطر کی ایک چھوٹی شیشی رکھی ہوئی تھی.اسی صابن سے غسل دینے کے حضرت منشی عبداللہ سنوری صاحب نے ۶۶ سال کی عمر پائی.آپ کی صحت بالعموم اچھی رہی.آخری عمر میں بڑھاپے کے باوجود آپ کے قومی نہایت عمدہ اور بعد یہی تیل اور عطر آپ کے بالوں وغیرہ کو لگایا گیا.اور آپ کی وصیت کے مطابق مضبوط تھے.البتہ سر میں رعشہ کی تکلیف کچھ عرصہ رہی.ستمبر ۱۹۲۷ ء کے آخری ہفتے سرخی کے چھینٹوں والا اعجازی گر تہ آپ کو پہنایا گیا.لوگ نہایت شوق اور در دو رقت میں آپ نماز فجر کی سنتیں ادا کر رہے تھے کہ آپ کے جسم کی دائیں طرف فالج کا حملہ کے ساتھ آپ کے جسد خاکی کو دیکھتے رہے جو اس کر نہ میں ملبوس عجیب شان کا حامل
47 46 تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نوراللہ مرقدہ نے خطبہ جمعہ کے بعد آپ کے انتقال کے متعلق نہایت رقت انگیز تذکرہ کے آغاز میں فرمایا: مولوی عبد اللہ سنوری صاحب اپنے اخلاص کے لحاظ سے جو درجہ رکھتے تھے وہ سب کو معلوم ہے.حضرت صاحب کے پرانے خادموں میں سے تھے.اُن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف موقعوں پر بہت کچھ لکھا ہے.ان کی وفات ایک بہت بڑا صدمہ ہے...6❝ (روز نامه الفضل ۱۱/اکتوبر ۱۹۲۷ء) نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد حسب اعلان لوگ بہشتی مقبرہ کے متصلہ باغ میں جمع ہونے شروع ہو گئے.جنازے کو کندھا دینے والوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ آدمی پر آدمی گرا پڑتا تھا.جنازہ میں لوگ اس کثرت سے شریک ہوئے کہ اس سے قبل قادیان میں کسی جنازے میں اتنا مجمع نہیں دیکھا گیا.ما میں حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی تشریف آوری تک مردوں اور عورتوں کے بہت بڑے ہجوم نے حضرت منشی عبد اللہ سنوری صاحب اور سُرخی کے چھینٹوں والے مقدس گرتے کی آخری زیارت کی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے بھی میت کو کندھا دیا.اس رنج و ملال کرتا ہوں جن کو خدا تعالیٰ کی مشیت نے اس سال ہم سے جدا کر لیا.ان میں مقدم وجود مولوی عبد اللہ سنوری صاحب کا ہے.میرے نزدیک ہر سلسلہ کے خادم اور ہر ( دین حق ) کے خدمت گزار کا جدا ہونا بہت رنج اور تکلیف کی بات ہے مگر مولوی عبد اللہ سنوری صاحب سلسلہ کے خادم ہی نہ تھے بلکہ اپنے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک نشان بھی رکھتے تھے جو ان کے دفن ہونے کے ساتھ ہی دفن ہو گیا.“ ( تقریر دلیل مسلم ۵) پھر حضور فرماتے ہیں: ان باتوں کا اظہار میں نے اس لئے کیا ہے تا جماعت میں احساس پیدا ہو کہ جو وجود سلسلہ کے خدمت گزار اور قابل قدر ہوں اُن کے لئے محبت اور الفت کے جذبات پیدا ہوں.....ان سے اپنے اخلاص کا اظہار کیا جائے.“ ( تقریر دلپذ یر صفحه ۸،۷) خدا کرے کہ ہم حضرت مصلح موعود کی اس خواہش کو پورا کرتے رہیں اور کے بعد نماز جنازہ پڑھائی اور بخش مبارک مقبرہ بہشتی قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فرمان کے مطابق حضرت منشی عبد اللہ سنوری الصلوۃ والسلام کے مزار کے قریب قلعہ خاص میں دفن کی گئی.صاحب جیسے مقدس وجودوں کی عادات واطوار اپنا کر خدا تعالیٰ کی رضا کی راہوں پر اسی سال جلسہ سالانہ کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے تقریر دلپذیر چلنے کی توفیق پائیں.آمین.میں بزرگ ہستیوں کی وفات پر اظہار افسوس کرتے ہوئے فرمایا: میں نہایت افسوس کے ساتھ ان چند احباب کی جدائی پر اظہار
نام کتاب حضرت مولوی عبد اللہ سنوری صاحب......اوّل