Language: UR
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی صحبت اور تعلیم سے پیدا شدہ انقلاب کے سنہری ابواب میں قبولیت دعا اور تبلیغ اسلام احمدیت شامل ہیں۔ اور انہی دو عناوین کو ذہن میں رکھنے سے جو عملی شکل اور مجسم تصویر بن کرپاکیزہ وجود ابھرتے ہیں ان میں حضرت مولوی غلام رسول صاحب راجیکی صاحب ایک تھے۔ خداتعالیٰ سے زندہ اور مستقل تعلق رکھنے والے اس پیارے وجود نے ہندوستان کے طول وعرض میں پھر کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پھیلایا، قرآن کریم کے حقائق و معارف کا درس دکھایا، درس و تدریس کا سلسلہ جاری رہا، ہر مذہب و فرقے کے مدمقابل کو جہاں علمی مناظرہ کے مخصوص قولی و منطقی دلائل سے لاجواب کیا وہاں قبولیت دعا اور غیب کی صاف صاف خبروں کے ذریعہ بھی ایک تاریخ رقم فرمائی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا زندہ اور چلتا پھرتا ثبوت بن کر ایک طویل عمر پانے والے اس ممتاز اور قدیمی صحابی کے حالات سے آگہی بہت سوں کے لئے موجب ہدائیت ہوگی۔
”حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی 66 حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکی حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحب کا نام ذہن میں آتے ہی قبولیت دعا اور خدا تعالی کے ساتھ انسان کے زندہ تعلق کا خیال دل میں پیدا ہوتا ہے.در حقیقت آپ کی زندگی اللہ تعالیٰ سے محبت اور اسکے پیاروں کی اطاعت کے واقعات سے رنگین نظر آتی ہے.دعوت الی اللہ آپ کا دینی مشغلہ تھا اور گاؤں کے گاؤں آپ کے ذریعہ سے دین حق میں داخل ہوئے ، قرآن کریم کے حقائق و معارف بیان کرنے میں ایک خاص ملکہ حاصل تھا اور ہمیشہ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے.خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بھی اس پاک وجود کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.
1 پیش لفظ امام الزمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک عاشق صادق ساتھی، فرمانبردار وجود حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیلی نے لڑکپن میں قبول احمدیت کا شرف حاصل کیا.آپ نے دین حق کی اشاعت اور ملک ہند میں موجود احمدی جماعتوں کی تربیت میں نمایاں خدمات سرانجام دیں.اللہ تعالیٰ کے کام میں نہ بیماری کی پرواہ کی اور نہ کسی اور تکلیف کی.جہاں موقعہ ملا ، جب وقت ملا آپ نے دین حق کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کا حق ادا کیا.بلا شبہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کا ایک زندہ ثبوت تھے.خود بھی انتہائی اعلیٰ درجہ کی خدمات سرانجام دیں اور بعد میں آنے والوں کیلئے بھی انتہائی اعلیٰ نمونہ چھوڑ گئے.اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو.( آمین ) حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ممتاز اور پرانے رفقاء وا میں سے تھے اور جماعت کی صف اول کے ممتاز ترین فرد تھے.آپ کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے معارف سے وافر حصہ عنایت فرمایا تھا اور آپ نے جماعت کے لئے اپنی زندگی وقف کر کے.....دین کی سربلندی کے لئے ساری عمر خدمات سرانجام دیں اور جماعت میں عزت و احترام کا خاص مقام حاصل کیا.آپ کو اللہ تعالیٰ نے بزرگی کا خاص مقام عطا فرمایا تھا اور آپ کی دعاؤں کو اپنی جناب سے خاص قبولیت کا شرف بخشا تھا.اس کے ساتھ ساتھ آپ خلافت احمدیہ سے محبت و وفا اور اخلاص کے تعلق میں بھی بہت بڑھے ہوئے تھے.آئیے اس کتاب کے چند صفحات میں ہم آپ کی عظیم الشان زندگی کے بعض پہلوؤں پر نظر ڈالیں اور ساتھ ساتھ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے تعلق باللہ ، خدمت دین ، خلافت احمدیہ سے اخلاص و وفا کے تعلق اور دیگر نیکیوں کے اعلیٰ معیار قائم کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
3 2 ولادت ، وطن تعلیم حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعارف جن دنوں آپ گولیکی گاؤں میں حضرت مولانا امام الدین صاحب سے آپ کی پیدائش 1877 ء اور 1879 ء کے دوران بھادوں کے موسم میں را جیکی ضلع گجرات ( پنجاب ) میں ہوئی.آپ کی کنیت ابوالبرکات تھی.آپ کے پڑھا کرتے تھے انہی دنوں کی بات ہے کہ آپ بیت الذکر میں حضرت مولانا صاحب سے سبق پڑھ رہے تھے کہ ایک سپاہی آیا جس کے پاس حضرت مسیح موعود والد کا نام میاں کرم دین صاحب اور والدہ کا نام آمنہ بی بی صاحبہ تھا.آپ کی قوم وڑائچ تھی.آپ کی والدہ صاحبہ نے آپ کی پیدائش سے قبل خواب میں دیکھا تھا کہ علیہ السلام کی کتاب ” آئینہ کمالات اسلام تھی.حضرت مولا نا امام الدین صاحب گھر میں ایک چراغ روشن ہوا ہے جس کی روشنی سے سارا گھر جگمگا اٹھا ہے.آپ نے پرائمری تک کی تعلیم موضع منگووال ( ضلع گجرات) میں پائی اور نڈل کی تعلیم کے لئے قصبہ کنجاہ میں داخل ہوئے لیکن ابھی آپ کی تعلیم مکمل نہ ہوئی تھی کہ آپ کے ایک بھائی کی وفات کی وجہ سے والد صاحب نے آپ کو واپس بلا لیا.چنانچہ آپ نے اپنے ہی گاؤں میں میاں محمد دین صاحب سے فارسی کی چند کتابیں سکندر نامہ اور ابوالفضل وغیرہ پڑھیں اور مثنوی مولانا روم پڑھنے کے لئے آپ نے حضرت مولانا امام الدین صاحب جو گولیکی ضلع گجرات کے رہنے والے تھے، کی شاگردی اختیار کی اور 1899ء میں قادیان سے واپسی پر آپ مدرسہ رحیمیہ لاہور میں مولوی فاضل کی جماعت میں داخل ہو گئے.چونکہ آپ کا رجحان تصوف کی طرف زیادہ تھا اس لئے باقی طالب علم آپ کو صوفی کہ کر پکارا کرتے تھے.آدھا سال گزرنے کے بعد جب مدرسہ میں موسمی تعطیلات ہوئیں تو آپ وطن واپس چلے آئے اور دعوت الی اللہ میں مشغول ہو گئے.آپ دعوت الی اللہ میں اس قدر منہمک ہوئے کہ مزید تعلیم حاصل کرنے کا خیال چھوڑ دیا.نے یہ کتاب دیکھی تو پڑھنے کی خاطر کچھ دنوں کے لئے اس سپاہی سے لے لی.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نے بھی اس کتاب کو پڑھا اور اس طرح آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے پیغام کا تعارف ہوا.اس کتاب میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظمیں پڑھیں جنہوں نے آپ کو بہت متاثر کیا.ان میں سے ایک کا پہلا شعر ہی یہ تھا کہ عجب نوریست در در جان محمد عجب لعلیست کان محمد ( ترجمہ محمد کی جان میں عجب نور ہے.محمد کی کان میں عجب لعل ہے ) جب آپ نے اس پوری نظم کو پڑھا تو آپ کے دل پر بہت اثر ہوا یہاں تک کہ آپ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل آئے.اسی طرح یہ شعر کہ کرامت گرچه بے نام و نشان است بیا بنگر غلمان P (ترجمہ: کرامت اگر چہ بے نام و نشان ہے.تو آ اور محمد کے غلاموں سے دیکھ ) آپ بیان کرتے ہیں کہ اس شعر کے پڑھنے سے میرے دل میں شدید
5 4 تڑپ پیدا ہوئی کہ کاش ہم بھی اس عظیم آدمی سے فیض حاصل کر سکیں.اسی طرح آپ بیان کرتے ہیں کہ مندرجہ ذیل شعر پڑھنے سے آپ کے دل میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مخالفوں کے رویہ کی وجہ سے بہت افسوس پیدا ہوا.کافر و ملحد و دجال ہمیں کہتے ہیں نام کیا کیا غم ملت میں رکھایا ہم نے گیا.جب آپ کے استاد حضرت مولوی امام الدین صاحب کو علم ہوا تو انہوں نے کہا کہ آپ نے بیعت کرنے میں جلدی کی ہے.بہتر ہوتا ہے کہ آپ پوری تحقیق کرتے تاکہ آپ کو تسلی ہو جاتی.آپ نے جواب دیا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری تسلی ہوگئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کا شرف آپ کو 1899ء میں نصیب ہوا.آپ کے ساتھ آپ کے استاد حضرت مولانا امام الدین صاحب بھی قادیان آئے اور انہوں نے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی.آپ خود قادیان پہنچ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت اور بیعت کا یہ کتاب پڑھنے کے بعد آپ نے اپنے استاد حضرت مولانا امام الدین صاحب سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق پوچھا.انہوں نے بتایا کہ آپ قادیان ضلع گورداسپور کے رہنے والے غلام احمد صاحب ہیں اور یہ کہ آپ نے مسیح و واقعہ بیان فرماتے ہوئے لکھتے ہیں.مہدی ہونے کا دعویٰ کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب پڑھنے اور آپ کا تعارف سننے کے بعد پہلا فقرہ جو آپ کے منہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق نکلا وہ یہ تھا کہ دنیا بھر میں اس شخص کے برابر کوئی حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ 66 وسلم کا عاشق نہیں ہوا ہو گا.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت اور زیارت ستمبر یا اکتوبر 1897ء میں آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بیعت کا خط لکھ دیا جس کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منظور فرما لیا اور آپ کو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کے ہاتھ کا لکھا ہوا جواب بھی موصول ہو ( بیت ) مبارک کے زینہ سے چڑھتے ہوئے میں تو نذرانہ پیش کرنے کے لئے رقم نکالنے لگا اور حضرت مولوی صاحب حضرت اقدس کی خدمت میں جا پہنچے.حضور نے مصافحہ کا شرف بخشتے ہی فرمایا.وہ جو لڑ کا آپ کے پیچھے آرہا ہے اس کو بلاؤ چنانچہ مولوی امام الدین صاحب پیچھے لوٹے اور مجھے کہنے لگے کہ حضور آپ کو یاد کرتے ہیں.میں بے ساختہ حضور علیہ السلام کے قدموں پر گر گیا اور روتے روتے میری ہچکی بندھ گئی.حضور نے نہایت شفقت سے میرے سر پر اور میری پیٹھ پر دست مسیحائی پھیرا اور مجھے دلاسہ دیا اور میں نے دوبارہ دستی بیعت کی.“ حیات قدسی حصہ اول صفحہ 19-20)
7 6 آپ کے والدین کا جماعت سے تعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شفقت آپ کی والدہ محترمہ احمدیت و سچا گھتی تھیں اور تکلیف کے وقت برکات زلزلہ کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام باغ میں خیمہ لگا کر رہتے کے حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یاد کرتی تھیں.اسی طرح تھے تو مولوی صاحب نے ایک دن اپنے گرتے کے بٹن کھول کر عرض کیا کہ حضور آپ کے والد محترم نے اگرچہ بیعت نہیں کی تھی لیکن وہ عام طور پر نماز میں احمد ہوں میرے سینہ پر پھونک ماریں اور دستِ مبارک بھی پھیریں.حضور علیہ السلام نے کے ساتھ ہی پڑھا کرتے تھے اور جب مخالفین اعتراض کرتے اور مخالفت کرتے تو آپ کی خواہش پر از راہ شفقت ایسا ہی کیا.آپ ہمیشہ احمدیوں کا ساتھ دیا کرتے تھے.ایک دفعہ آپ قادیان آئے تو شر میلے پن کی وجہ سے اور اس وجہ سے کہ بزرگانِ سلسلہ حضور علیہ السلام کے قریب ہوتے ہیں، دو تین دن تک حضور علیہ السلام سے ملاقات کا شرف حاصل نہ کر سکے.چنانچہ آپ نے ایک رقعہ میں اس کیفیت کو بیان کر کے حضور علیہ السلام کی خدمت میں بھیجا.جب حضور علیہ السلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مجالس میں ، 1899ء میں جب آپ کو پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ( بیت ) مبارک میں تشریف لائے تو آپ کو دیکھتے ہی فرمایا کیوں جی آپ اتنے دنوں سے آئے ہوئے ہیں اور ابھی تک ملے نہیں.آپ نے جو وجہ رقعہ میں لکھی زیارت کا شرف حاصل ہوا تو آپ نے اس وقت دستی بیعت بھی کی.ان دنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام باہر خدام کے ساتھ ہی کھانا تھی پھر عرض کر دی.حضور علیہ السلام نے فرمایا.خواہ کوئی بھی ہو آپ میرے پاس آکر بیٹھا کریں.اس طرح سب بزرگوں نے بھی یہ بات سن لی اور آپ کو بھی جرات ہو گئی.چنانچہ حضور علیہ السلام کی اس شفقت کے نتیجہ میں جب بھی حضور علیہ السلام ( بیت الذکر ) میں تشریف رکھتے تو آپ عموماً حضور علیہ السلام تناول فرماتے تھے.چنانچہ آپ کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ کھانا کھانے اور حضور کا بچا ہوا تبرک کھانے کی سعادت نصیب ہوئی.ایک دفعہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زیارت کے لئے قادیان حاضر ہوئے لیکن آپ کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ آپ نذرانہ پیش کر سکیں.چنانچہ کے پاس بیٹھ کر آپ کا جسم مبارک دبانا شروع کر دیتے.آپ نے دوآنہ کے پتاشے خرید کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں بطور نذرانہ پیش کئے جو حضور نے بڑی خوشی سے قبول فرمائے اور گھر کے اندر بھجوا دیئے.ایک دفعہ آپ نے بیت مبارک میں 133 اشعار پر مشتمل اپنا ایک قصیدہ نایا جس کا یہ شعر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بہت پسند فرمایا اور دوبارہ پڑھنے کا
8 ارشاد فرمایا.یہ گرمی کے موسم کا واقعہ ہے.چند دن ٹھہر نے کے بعد آپ اور آپ کے ساتھی قادیان سے جانے لگے تو ارادہ کیا کہ رات ہی بٹالہ پہنچ کر صبح کی گاڑی سے روانہ ہوں.جب حضور علیہ السلام کی خدمت میں اجازت کے لئے حاضر ہوئے تو حضور نے مولوی صاحب کو مخاطب کر کے فرمایا ” آپ کبھی کبھی ملا کریں اور سب کو شرف مصافحہ بخشتے ہوئے فرمایا ”اچھا خدا حافظ قادیان سے بٹالہ پہنچنے تک پانچ دفعہ سانپ سے سامنا ہوا.ایک تو مولوی صاحب کے پاؤں کے اوپر بھی چڑھ گیا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرمودہ ” خدا حافظ کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے محفوظ رکھا.9966 ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی ) کو بھیج کر آپ کو بلوایا اور از راہ شفقت اپنی کتابیں ”مواہب الرحمن “، ” اعجاز احمدی اور نسیم دعوت جو آپ نے خاص پر اپنے لئے جلد کروائی تھیں عنایت فرمائیں اور مطالعہ کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا کہ دیگر کتب کے متعلق بھی کہہ دیتا ہوں وہ بھی آپ کومل جائیں گی.چنانچہ حضور کے ارشاد پر باقی کتب بھی مولوی صاحب کو مل گئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ملاقات کی برکات آپ کو بار ہا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا.ان بابرکت ایام کی برکات کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ وہ کیا ہی بابرکت زمانہ تھا کہ نماز کے وقت نمازیوں کے خشوع مخضوع، رقت قلب اور اشکبار آنکھوں کے ساتھ گڑ گڑانے اور آو ویکا کرنے کا شور ( بیت ) مبارک میں بلند ہوتا تھا.حضرت اقدس کے زمانہ میں حضور کی معیت میں قادیان میں شاید ہی کوئی نماز پڑھی ہوگی جو رقت قلب اور اشکبار آنکھوں سے ادا نہ کی گئی ہو.علاوہ اس کے دعا کرنے پر جواب بھی فورا مل جاتا.خواہ رات کو رؤیا کے ذریعہ یا کشفی طور پر یا بذریعہ الہام کے.“ (حیات قدسی حصہ سوم صفحہ 97) آپ کی عائلی زندگی شادی شادی کے لئے آپ کو کئی رشتے پیش ہوتے رہے.لیکن جب آپ استخارہ کرتے تو وہ آپ کو مناسب معلوم نہ ہوتے اور پھر بعد کے واقعات سے بھی ان رشتوں کے نا مناسب ہونے کا علم ہو جاتا.ایک دفعہ آپ ایک دوست کے ساتھ حافظ آباد گئے.وہاں حضرت مولوی جلال الدین صاحب مرحوم کے صاحبزادے مکرم حکیم محمد حیات صاحب نے اپنی والدہ صاحبہ کے لئے دعا کی درخواست کی جو بہت بیمار تھیں.آپ نے
11 10 ان کیلئے دعا کرنے کے ساتھ ساتھ دم بھی کیا.جس سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ خلافت احمدیہ کا سلسلہ جاری فرمایا تو آپ بڑی مضبوطی کے ساتھ اس سے چمٹ گئے ٹھیک ہو گئیں.اور نہ صرف اخلاص و وفا اور کامل ایمان کے ساتھ اس پر قائم رہے بلکہ خلافت کے رات کو حکیم صاحب نے خواب میں دیکھا کہ ان کے گھر میں اچانک ایک مخالف فتنوں کے سامنے بھی سینہ سپر رہے.آپ اپنے اوپر ہونے والے تمام بہت بڑا چراغ روشن ہو گیا ہے اور خواب میں فرشتہ نے بتایا کہ یہ چراغ مولوی غلام افضال کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کی برکات سمجھتے تھے اور دوسروں کو بھی خلفاء احمدیت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق قائم کرنے کی تاکید فرماتے.چنانچہ مکرم مسعود احمد دہلوی صاحب سابق ایڈیٹر الفضل اپنے ایک مضمون رسول صاحب را جیکی ہیں.چنانچہ حکیم صاحب نے اپنی چھوٹی ہمشیرہ عزیز و بخت صاحبه کا رشتہ بہت اصرار سے پیش کیا جو مولوی صاحب نے استخارہ کے بعد قبول کر لیا اور اس طرح ان سے آپ کی شادی ہو گئی.اولاد میں لکھتے ہیں: " حضرت مولا ناراجیکی صاحب میں عاجزی و انکساری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی.آپ سے ہر شخص بآسانی مل لیا کرتا تھا.آپ اکثر فرمایا کرتے تھے اور میں آپ کے دس بچے ہوئے جن میں سے ایک بیٹا تو بچپن میں ہی فوت ہو گیا نے آپ کی مجلس میں لوگوں کو مخاطب کر کے یہ فرماتے ہوئے بار بار سنا کہ میں تو ایک اور دو بیٹے مکرم مولوی مصلح الدین صاحب راجیکی اور مولوی برکات احمد صاحب عاجز انسان ہوں یہ سب تفضلات جو آپ لوگوں کو نظر آتے ہیں سید نا حضرت اقدس را جیکی در ولیش قادیان ( سابق ناظر امور عامہ و خارجہ قادیان) جوانی میں وفات پا مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ محبت وعقیدت اور خلفائے سلسلہ عالیہ احمدیہ کی کاملا گئے.نیز دو صاحبزادیوں کا بھی انتقال ہو گیا.آپ کی وفات کے وقت آپ کی دو صاحبزادیاں اور تین صاحبزادے مکرم اقبال احمد صاحب را جیکی، مکرم مبشر احمد راجہ صاحب را جیکی اور مکرم عزیز احمد صاحب را جیکی حیات تھے.خلافت احمدیہ پر مضبوط ایمان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے وصال کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے طاعت وفرمانبرداری کا نتیجہ ہے.آپ اپنی مجالس میں بڑی کثرت سے یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ اگر اپنے مقصد میں کامیاب ہونا چاہتے ہو تو سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ کی خدمت میں دعا کی درخواست پر مشتمل خطوط با قاعدگی سے ارسال کیا کرو اور پھر خود بھی اللہ تعالیٰ کے حضور دعاؤں میں لگے رہو.خلیفہ کا آسمانی وجود ایک پاور ہاؤس ہے اس سے تعلق محبت و عقیدت قائم کئے بغیر آپ لوگ خدا تعالی کے فضلوں کے وارث نہیں بن سکتے.لوگ مجھ سے دعا کے لئے کہتے ہیں میں دعا کر دیتا
13 12 ہوں.اگر خدا تعالیٰ کے دائمی فیض کے وارث بننا چاہتے ہو تو خلیفہ وقت کی دعاؤں کا اپنے آپ کو مورد بناؤ اور خود دعا ئیں کرنا اپنی عادت بنا لو.تا کہ خدا تعالیٰ کے دائمی خلافت حقہ کے متعلق آخری وصیت مؤرخہ 12 مئی 1951ء کو حضرت مولوی صاحب نے اپنے بیٹے مکرم فضلوں کو جذب کرنے والے بن سکو.میں نے خود آپ کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے مولوی برکات احمد صاحب بی.اے کے نام اپنے ایک خط میں ایک وصیت نامہ خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ تنبیہ ہوتی رہتی ہے کہ میں اپنی اور دوسروں کی حاجت براری (منظوم) اپنی اولاد کے لئے تحریر فرمایا.اس میں ایمان ورشد اور خلافت حقہ احمدیہ کے کے لئے خلیفہ وقت سے دعاؤں کی درخواست کرتار ہوں.چنانچہ میں اپنی ہر حاجت ساتھ چھٹے رہنے کی تاکید فرمائی.اس نظم کے خلافت کے متعلق اشعار درج ذیل ہیں.اور بالخصوص دعوت الی اللہ کی مہمات میں حضرت خلیفہ امسیح کی خدمت اقدس میں بار جب جماعت میں کبھی ہو اختلاف بار دعاؤں کی درخواست پر مشتمل مخطوط ارسال کرتا رہتا ہوں.آپ کی اس نصیحت کی خود حیات قدسی“ کے مطالعہ سے تصدیق ہو جاتی ہے.“ ( روزنامه الفضل یکم اکتوبر 2007 ء ) اسی طرح ایک دفعہ آپ نے قادیان میں مکان بنوانے کے لئے قرض لیا.جب اس قرض کی ادائیگی میں آپ کو وقت کا سامنا ہوا تو آپ نے اس کے لئے رمضان کے مہینے میں خصوصی دعا کا سلسلہ شروع کیا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ” جب میں نے خاص توجہ سے اس گراں بار قرض کے اترنے کے لئے دعا کی اور دعا کرتے ہوئے آٹھواں دن ہوا تو اللہ تعالیٰ کی قدوس ذات میرے ساتھ ہمکلام ہوئی اور اس پیارے اور محبوب مولا نے مجھ سے ان الفاظ میں کلام فرمایا.”اگر تو چاہتا ہے کہ تیرا قرضہ جلد اتر جائے تو خلیفتہ امسیح کی دعاؤں کو بھی شامل کرائے.“ (حیات قدسی حصہ چہارم صفحہ 6، 7 ) آل احمد میرے بچو مجھ سے سن لو صاف صاف مل جائیں سبھی اس سے گمراہی نہ پائیں گے کبھی ހނ وہ وصیت آخری یہی میری ہے عمل کرنا اسی یاد رکھنا تفرقہ جب ہے بہتری پر ہو عیاں خلافت ہی ہدایت کا نشاں آل احمد اور خلافت ہو جدھر سب میری اولاد ہو جائے اُدھر ہے ہدایت کا یہی معیار ایک میرے پیارے اس سے ہوں گے پاک و نیک ہوتا ہوں رخصت پیارو آپ سے یاد رکھنا بات اپنے باپ سے حیات قدسی حصہ سوم صفحہ 79،78)
15 14 دعوت الی اللہ اور تقاریر اور مناظرات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کے بعد خاص طور پر آپ کے علم و عرفان اور اور تعلق باللہ میں اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی برکت بخشی اور آپ کو روحانی نعمتوں سے اس قدر وافر حصہ عطا فرمایا کہ آپ تقریباً نصف صدی سے زائد عرصہ تک بھٹکے ہوؤں کو راہ راست پر لانے اور فیض رسانی کا ذریعہ بنے رہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو علمی قابلیت کے ساتھ ساتھ الہام اور رؤیا وکشوف کی نعمت سے بھی بکثرت نوازا.آپ کے تقوی اور زہد کی وجہ سے آپ کی دعائیں اللہ تعالیٰ کی جناب میں بکثرت مقبول ہوتی تھیں.اس کے علاوہ خدا تعالیٰ نے آپ کو غیر معمولی رنگ میں دین کی خدمت کی (جوغوث اور قطب مشہور تھے )، چا حضرت حافظ نظام الدین صاحب مرحوم اور ان کے بیٹے حضرت میاں غلام علی صاحب مرحوم (سابق صدر جماعت سعد اللہ پور ) نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کر لی.غیر احمدی و غیر مبائع علما ء، آر یہ پنڈتوں اور پادریوں سے آپ کے بے شمار مناظرات ہوئے جن میں خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کو کامیابی نصیب ہوتی رہی اور سینکڑوں افراد بیعت کر کے جماعت میں داخل ہوئے.آپ کی یہ ساری کامیابیاں ظاہری علم سے زیادہ آپ کی دعاؤں کی تاثیر کا نتیجہ تھیں اور آپ کی زندگی کے اکثر واقعات ایسے ملتے ہیں جن میں مخالفین خدا تعالیٰ کی طرف سے کرشماتی رنگ میں ظاہر ہونے والے نشان کو دیکھ کر عاجز آ جاتے تھے.یوں تو آپ سلسلہ بیعت میں داخل ہونے کے بعد شروع ہی سے دعوتِ ایسی توفیق عطا فرمائی جس کے نتیجہ میں آپ بلاشبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الی اللہ میں انتہائی سرگرم تھے اور آپ کی زندگی کے اوقات دعوت الی اللہ میں ہی بسر اس الہام کے مصداق ٹھہرے کہ يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ ہو رہے تھے لیکن جماعت کے باقاعدہ (مربی) کے طور پر آپ نے خلافت اولی کے زمانے میں کام شروع کیا اور پھر قریباً نصف صدی تک ایسے ایسے عظیم الشان کارنامے سرانجام دیئے جو رہتی دنیا تک یادر ہیں گے.آپ نے اپنی دعوت الی اللہ کے تجربات اور زندگی میں پیش آنے والے غیر معمولی واقعات کو اپنی خود نوشت سوانح حیات حیات قدسی میں محفوظ فرما دیا ہے.جس کا مطالعہ از دیاد ایمان کا باعث ہوتا ہے.آپ کے اعلائے کلمتہ اللہ میں انہماک اور تقاریر ومناظرات کے ( ترجمہ: ایسے مرد تیری مدد کریں گے جنہیں ہم آسمان سے وحی کریں گے ) 1897ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیعت کے بعد سے ہی آپ انتہائی شوق سے دعوت الی اللہ میں لگ گئے اور تقریباً نصف سال تک (بیت) رحیمیہ لاہور میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ اپنے گاؤں واپس آگئے اور پوری طرح دعوت الی اللہ میں مصروف ہو گئے.آپ کی اس دعوت الی اللہ کو دیکھ کر مخالفین چند واقعات نمونہ کے طور پر پیش ہیں.نے آپ پر کفر کے فتوے لگوائے لیکن آپ کے نیک اثر اور اللہ کے فضل سے آپ کے قریبی رشتہ داروں میں سے آپ کے تایا حضرت میاں علم الدین صاحب مرحوم ابتدا میں جب آپ اپنے علاقہ میں دعوت الی اللہ میں مصروف تھے.ایک قریب کے گاؤں میں ایک احمد دین نامی مولوی نے احمدیوں کے خلاف سخت
17 16 اشتعال پیدا کیا اور کہا کہ جس گاؤں میں بھی احمدی ہیں وہ گاؤں ایسے کنوئیں کی مانند ہے جس میں خنزیر پڑا ہو.اگر گاؤں والے گاؤں کو پاک رکھنا چاہتے ہیں تو مرزائیوں کو نکال دیں.کئی روز کی تقریروں سے اشتعال بڑھتا گیا اور مولوی نے سمجھا کہ کوئی بھی اب میرا مقابلہ نہیں کر سکتا.حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی کو بلایا گیا.آپ نے آتے ہی مولوی کے نام عربی میں ایک خط لکھا.اس نے آپ کو بلا بھیجا کہ آپ منبر پر تقریر کریں.لیکن جب آپ تقریر کیلئے ( بیت الذکر ) میں پہنچے تو اس نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر میں کافر کو تقریر نہیں کرنے دوں گا اور اعتراض کرنے لگا.آپ نے اس کی علمی پردہ دری کی تو اس نے آپ کو تھپڑ مار دیا.اس بدتمیزی پر نمبردار وغیرہ نے مولوی کو سخت ملامت کی اور مجمع منتشر ہو گیا.لیکن اس طرح ہزار ہا افراد تک جو وہاں موجود تھے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کا اعلان پہنچا.یہ معلوم کر کے کہ مولوی ابھی گاؤں میں ہی ہے.حضرت مولوی صاحب نے نمبر دار سے کہا کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعوئی کو قرآن مجید اور دین حق کی رو سے سچا سمجھ کر آپ لوگوں سے الگ ہوا ہوں.اس لئے آپ اس مولوی سے میری گفتگو کرائیں تا لوگوں پر حق کھل جائے.لیکن مولوی نے باوجود امن کی تسلی دلانے کے خطرہ کا عذر کر کے وہاں سے بھاگ جانا مناسب سمجھا اور پھر ادھر کا کبھی رُخ نہیں کیا.بلکہ چند روز کے بعد ہی مرض آتشک میں گرفتار ہوا اور پھر جلد ہی مر گیا.حضرت مولوی صاحب نے اس گاؤں میں چند دن خوب دعوت الی اللہ کی لیکن لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوا.آپ نے خواب دیکھا کہ طاعون نے اس گاؤں پر حملہ کر دیا ہے اور سخت تباہی ہوئی ہے.چنانچہ چند دن بعد ایسا ہی ہوا اور طاعون سے قریباً گیارہ سو افراد ہلاک ہوئے.گاؤں میں خوف پیدا ہوا کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے.جب کہ ارد گرد کے کے دیہات طاعون سے بالکل محفوظ ہیں.تو ایک شخص نے کہا کہ مجھے خواب میں اس تباہی کا باعث ایک بزرگ یا فرشتہ نے وہ تھپڑ بتایا ہے جو 66 اس گاؤں میں خدا کا حکم سناتے ہوئے خدا کے ایک بندہ کو مارا گیا تھا.بمقام مڈھ رانجھا حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل کے عہد مبارک میں مولوی شیر عالم صاحب کے ساتھ تحریری مباحثہ ہوا.اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا راجیکی صاحب کے دل میں القا کیا اور آپ نے اپنا پرچہ پڑھنے سے پہلے یہ دعا کی کہ ”اے خدا تعالیٰ اگر میرا پر چہ تیری رضا کے مطابق ہے تو سنانے سمجھانے کی توفیق دے اور حاضرین کو سنے اور سمجھنے کی اور قبول کرنے کی.ورنہ نہ مجھے سُنانے کی اور نہ حاضرین کو سننے کی توفیق ملے.“ چنانچہ آپ نے چار گھنٹے تک صداقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور وفات حضرت مسیح ناصری پر اپنا پر چہ زبانی تشریح کر کے سُنایا اور غیر احمدی دوستوں نے خوب شوق سے سُنا.غیر احمدی مولوی صاحب نے بھی حضرت راجیکی صاحب کے کہنے پر دعا کی اور پر چہ سُنانا شروع کیا.تو تمام حاضرین یہ کہتے ہوئے چلے گئے کہ یہ وہی پرانی باتیں ہیں جو سنی ہوئی ہیں اور صرف مولانا راجیکی صاحب مع دو اور احباب کے رہ گئے اور ان مولوی صاحب نے پرچہ سُنا نابند کر دیا کہ اب کس کو سُناؤں.حضرت مولوی صاحب نے اس دعا کی طرف توجہ دلا کر کہا کہ یہ آپ کے اقارب، دوست اور ہم مذہب تھے اور میں دوسری جگہ کا آدمی ہوں.انہوں نے میری باتیں توجہ سے سنیں اور تمہاری نہ سنیں.اللہ تعالیٰ نے یہ بھی حضرت مسیح موعود
19 18 علیہ السلام کی صداقت کا نشان دکھایا ہے.وہ شرمندگی سے چھپ کر اپنے گاؤں چلا مناظر تھا وہ کلکتہ کالج میں عربی کا پروفیسر تھا اسے فکر ہوا کہ اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی تو شرمندگی ہوگی.اس طرح کسی عالم کو مقابلہ کی جرات نہ ہوئی.مولوی محمد ابراہیم صاحب سیالکوٹی کرسی پر چڑھ کر نعرے بلند کرنے لگے.لیکن الفاظ پورے نہ نکلے گیا اور آٹھ احباب نے بیعت کر لی.اسی طرح کی تائید 1912ء میں مبادی مولکھیر میں بھی ہوئی جہاں حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کے ارشاد پر حضرت مولوی سرور شاہ صاحب، میر قاسم علی صاحب، کہ کرسی اُلٹی اور ان کا سر نیچے اور ٹانگیں اوپر ہوگئیں اور پگڑی ڈور جاپڑی اور ان کے حضرت حافظ روشن علی صاحب اور آپ پہنچے.غیر احمدیوں نے یہ سمجھ کر کہ احمدی ساتھیوں نے جن کو ان مولوی صاحب نے دعوت دی تھی کہ قادیانی علماء عربی بالکل عربی میں مباحثہ نہیں کر سکیں گے اصرار کیا کہ پہلا پرچہ احمدی مناظر عربی میں لکھے اور پھر ترجمہ کے ساتھ پڑھ کر سنائے.اس موقعہ پر قریباً ڈیڑھ سو مخالف علماء جمع تھے.فیصلہ ہوا کہ حضرت راجیکی صاحب مناظر ہوں.مجمع پندرہ ہزار افراد پر مشتمل تھا.دو دو صدر فریقین کے اوپر اور ایک صدر اعظم ہند و آنریری مجسٹریٹ تھے.پولیس کے اعلیٰ افسر بھی موجود تھے.مولانا راجیکی صاحب نے اپنا پر چہ بمع ترجمہ لکھا اور سنانے کیلئے کھڑے ہوئے تو محسوس کیا کہ کوئی چیز آسمان سے اتر کر آپ کے وجود اور حواس پر مسلط ہوگئی گویا کہ روح القدس کی بجلی ہوئی.اس وقت تائید الہی سے آواز اس قدر بلند ہوگئی کہ تمام حاضرین تک پہنچتی تھی اور خوش الحانی بھی پیدا ہو گئی.یہ دیکھ کر کہ اس کا اثر ہورہا ہے مخالفین بلکہ ان کے صدروں نے بھی بار بارٹو کنا اور شور مچانا شروع کر دیا.بار بار صدر اعظم نے ان مخالفین کو روکا.اسی دوران آٹھ اچھے نہیں جانتے.ان کے اس جھوٹ کی وجہ سے ملوں اور لاتوں سے ایسی درگت بنائی کہ الامان والحفیظ علمی قابلیت و قلمی خدمات صوفیانہ اور درویشانہ مزاج کے ساتھ ساتھ آپ علمی لحاظ سے بھی ایک بہت بلند اور خاص مقام رکھتے تھے.آپ کی عربی دانی نہ صرف جماعت میں بلکہ غیر از جماعت اہل علم حضرات کے نزدیک بھی مسلم تھی.آپ کے عربی قصائد منقوطہ وغیر منقوطہ ( نقطوں والے اور بغیر نقطوں کے) نے آپ کی عربی دانی اور علم کا سب سے لوہا منوایا تھا.آپ کے آقا سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی نَوَّرَ اللَّهُ مَرْقَدَهُ نے جن کے پڑھے لکھے افراد جن میں سے بعض گریجویٹ بھی تھے سٹیج کی طرف بڑھے اور کہا کہ فیض صحبت سے آپ نے بہت کچھ حصہ پایا اور آپ کے علم و عرفان کو جلا ءنصیب ہم ابھی قبول احمدیت کا اعلان کرنا چاہتے ہیں مگر ان کو ڈیرہ پر آنے کے لئے کہا گیا.ہوئی ، آپ کے متعلق فرمایا: صدر اعظم نے جلسہ برخواست ہونے کا اعلان کر دیا کیونکہ مخالفین کے خلاف توقع حضرت مولوی صاحب نے پرچہ عربی میں لکھ کر سنانا شروع کیا تھا.مقابل پر جو میں سمجھتا ہوں کہ مولوی غلام رسول صاحب را نیکی کا اللہ تعالی نے جو بحر کھولا ہے وہ بھی زیادہ تر اسی زمانہ سے تعلق رکھتا ہے.پہلے ان کی علمی حالت ایسی
21 20 شامل ہیں.نہیں تھی مگر بعد میں جیسے یکدم کسی کو پستی سے اٹھا کر بلندی تک پہنچادیا جاتا ہے.اسی آپ کی تصانیف میں سے حیات قدسی ، توحید باری تعالیٰ ، کشف الحقائق طرح خدا تعالیٰ نے ان کو قبولیت عطا فرمائی اور ان کے علم میں ایسی وسعت پیدا کر کلمتہ الفصل (عربی) خاص طور پر قابل ذکر ہیں.علاوہ ازیں آپ نے ہزاروں صفحات دی که صوفی مزاج لوگوں کے لئے ان کی تقریر بہت ہی دلچسپ، دلوں پر اثر کرنے پر مشتمل علمی مسودات بھی اپنی یادگار چھوڑے جن کے بعض حصے ”حیات قدی“ میں والی اور شبہات و وساوس کو دور کرنے والی ہوتی ہے.گزشتہ دنوں میں شملہ گیا تو ایک دوست نے بتایا کہ مولوی غلام رسول صاحب را جیلی یہاں آئے اور انہوں نے ایک جلسہ میں تقریر کی جو رات کے گیارہ ساڑھے گیارہ بجے ختم ہوئی.تقریر کے بعد ایک ہندو ان کی منتیں کر کے انہیں اپنے گھر لے گیا اور کہنے لگا کہ آپ ہمارے گھر میں چلیں آپ کی وجہ سے ہمارے گھر میں برکت نازل ہوگی.“ (خطبہ جمعہ فرموده 8 نومبر 1940 ء ) آپ کی بزرگی ، زہد و تقوی اور خدمات جلیلہ کے سبب سید نا حضرت خلیفہ مسیح الثانی نور الله مرقدہ نے فروری 1957ء میں آپ کو صدرانجمن احمد یہ پاکستان آپ بیک وقت عربی، فارسی، اردو اور پنجابی کے قادر الکلام شاعر تھے.آپ کی پنجابی نظمیں اور سہ حرفیاں بہت مقبول ہوئیں اور خاص طور پر آپ کی نظم جھوک مہدی والی تو دیہاتی جماعتوں میں زبان زدعام رہی اور بہتوں کی ہدایت کا موجب بنی.علاوہ ازیں بعض رسائل و کتب درج ذیل ہیں: (۱) گلدسته احمدی (۲) جام وحدت (۳) اظہار حقیقت (۵) مباحثہ لاہور کا مستقل ممبر مقر فرمایا.چنانچہ آپ اپنے وصال تک صدر انجمن احمدیہ کے ممبر ہے (1) التنقيـد بـجـواب الخبر الصحيح عن قبر المسيح (عربي)(۷) مذہب کی علاوہ ازیں آپ افتاء کمیٹی کے بھی رکن تھے.تعریف اور اس کی ضرورت (۸) اسوة الثّقاة (۹) تصدیق اسیح (۱۰) جھوک اگر چہ حضرت مولوی صاحب کی زندگی کا لمبا عرصہ سفروں میں گزرا جس کی مہدی والی (۱۱) کا من احمدی (۱۲) رسالہ اب یا رب وجہ سے کتب کی تالیف و تصنیف کے لئے زیادہ وقت آپ کو میسر نہ آسکا لیکن اس کے باوجود آپ نے اردو اور عربی زبان میں اہم علمی موضوعات پر سینکڑوں قیمتی مضامین لکھے جو سلسلہ کے اخبارات میں وقتا فوقتاً شائع ہوتے رہے.اسی طرح حقائق و معارف سے پُر آپ کی جلسہ سالانہ کی تقاریر بھی شائع ہوئیں جن میں سے بعض علیحدہ کتابی صورت میں بھی طبع ہوئیں.آپ کا علمی فیض بعد کے مربیان کے علاوہ سلسلہ کے کئی بزرگوں کو بھی آپ کے علم سے فیض حاصل کرنے کا موقعہ ملا.جیسا کہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب، حضرت
23 22 مولوی عبدالرحیم صاحب درد، حضرت مرزا عبدالحق صاحب سابق امیر ضلع سرگودھا) محترم میاں عطاء اللہ صاحب ایڈووکیٹ (سابق امیر را ولپنڈی) اور محترم نواب اکبر یار جنگ صاحب حیدر آباد دکن و غیرہ.خلافت اولی کے زمانہ میں جب آپ کی تقرری لاہور میں تھی تو صدر انجمن احمدیہ کے تین اراکین خواجہ کمال الدین صاحب، ڈاکٹر سید محمد حسین شاہ صاحب اور ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب بھی آپ سے تفسیر القرآن، حدیث اور بعض دینی عربی کتب پڑھتے رہے.لیکن افسوس کہ یہ تینوں خلافت ثانیہ کی بیعت سے محروم رہے.تکالیف پر صبر و ثبات اور اعلائے کلمتہ اللہ میں استقلال ایسی اعصابی بیماریوں اور مشکل حالات میں بھی آپ نے دور دراز کے سفر ے کیے اور تمام تکالیف کو نہایت خندہ پیشانی اور صبر سے برداشت کیا.چنانچہ اس بارہ میں شیخ محمود احمد صاحب عرفانی ایڈیٹر الحکم کا مضمون امراض و آلام کا شکار ( مربی “ کا خلاصہ قارئین کی خدمت میں پیش ہے.آپ لکھتے ہیں: آج ہم ایسے (مربی) کا ذکر سُناتے ہیں جو صبر کے لحاظ سے اس زمانہ کا ایوب ہے.1915ء کا واقعہ ہے کہ خاکسار کو ایک (مربی) کے ساتھ ( دعوت الی اللہ ) کا سفر کرنا پڑا.یہ سفر بہت طویل تھا.میں اس وقت ایک نا تجربہ کار نو جوان تھا.میرا ساتھی ایک عالم فاضل اور متقی اور با خدا انسان تھا.راستہ میں دہلی کے سٹیشن حضرت مولوی صاحب اپنی زندگی کے اکثر حصہ میں اعصابی امراض کا پر میرے ساتھی کو اعصابی دورے شروع ہو گئے.مجھ سے اُن کی حالت دیکھی نہ شکار رہے ہیں.لیکن باوجود شدید تکلیف کے آپ صبر و تسلیم کے ساتھ ہر وقت جاتی تھی.ان کے پٹھے کھینچ جاتے تھے اور کبھی یہ عصبی در دسر اور گردن اور پٹھوں پر ہوتا خدمت دین کے لئے مستعد رہے.آپ نے سالہا سال تک بیت اقصیٰ قادیان اور بھی جبڑوں کے پٹھوں پر بھی کندھے اور بازو پر اور کبھی کسی اور جگہ میں.میں میں رمضان المبارک کے دوران درس دیا.کئی دفعہ شدید دماغی محنت کے باعث حیران تھا کہ ایسی حالت میں یہ دعوت الی اللہ ) کیا کریں گے؟....رات کے دس اعصابی دورہ کا حملہ ہو جاتا اور آپ کی آنکھوں اور چہرہ پر تشنج کی کھچاوٹ پیدا ہو بجے کے قریب کا نپور پہنچے.مولانا کو شدید بخار ہو گیا تھا.رات کو خان بہادر محمد حسین جاتی.لیکن آپ ایسی حالت میں بھی درس القرآن میں مصروف رہتے.بعض دوست ہمدردی سے آرام کا مشورہ دیتے تو آپ پنجابی زبان کی کہاوت بیان کرتے.جس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر گرد کھاتے ہوئے کسی کی موت واقعہ ہو تو ہونے دو صاحب حج کی کوٹھی تلاش کی.مگر نہ ملی.پریشان ہو کر ایک سرائے میں پناہ گزین ہوئے.گرمی کا موسم تھا.سرائے کے لوگوں سے اندیشہ تھا کہ چوری نہ کریں.اس لئے کمرے کے اندر رات گزاری.مچھروں نے بری طرح کاٹا.ادھر مولانا کو اور فرماتے کہ اگر میری موت کلام الہی سناتے ہوئے واقع ہو جائے تو اس سے بڑھ شدت بخار سے ہوش نہ رہا.صبح بمشکل کوٹھی کا پتہ ملا اور ٹانگہ پر وہاں گئے.کر اور کیا سعادت ہوگی.اس بیماری کی حالت میں کوٹھی پر لوگ ملنے آئے.ہمارا ( مربی ) اعصابی
25 24 دیتے.اس تکلیف میں چھ ماہ کا لمبا عرصہ گزر گیا.مگر ایک منٹ کے لئے بھی نا شکری نہ کی اور نہ سلسلہ کی ( دعوت الی اللہ ) کو چھوڑا.ان کا صبر ایوب کا صبر تھا.انہوں نے یہ بے نظیر نمونہ ( دعوت الی اللہ ) میں قائم کیا.باوجود شدت امراض کے بھی ( دعوت الی اللہ ) نہ چھوڑی.دردوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ( دعوت الی اللہ ) کرتا رہا.کبھی پگڑی سے سر اور منہ مگر جب افاقہ ہوتا تو لوگوں کو جمع کر کے سلسلہ کا پیغام دیتے.قرآن کریم کا درس کو باندھتا اور کبھی ٹانگوں پر پگڑی باندھتا اور کبھی بازوؤں پر.انہی دنوں ایک اہلحدیث کانفرنس کا نپور میں ہو رہی تھی.مولوی ثناء اللہ صاحب بھی وہاں موجود تھے اور مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی بھی تھے.کانفرنس میں ثناء اللہ صاحب نے ہمارے سلسلہ کو پینج دیا اور ہمارے (مربی) کا نام لے کر چیلنج دیا.میں نے کہا کہ وقت دو تا کہ میں ان کو لے آؤں.مولوی ثناء اللہ صاحب نے آدھ گھنٹے کا وقت دیا جو کافی نہ تھا.اس دن ٹانگے والوں کی ہڑتال تھی.مگر خدا کی قدرت، میں جب پنڈال سے نکلا تو ایک یکہ کھڑا تھا.اس سے پیسے پوچھے تو اس نے آٹھ آنے مانگے.میں نے منہ مانگے دام دیئے اور جج صاحب کی کوٹھی پر آیا.مولانا کو قصہ سنایا.وہ اس وقت اعصابی تکلیف میں مبتلا تھے.اس وقت بے اختیار ان کے منہ سے نکالا کہ پھر چلیں؟ میں نے کہا کہ ہاں.گرم کوٹ کھونٹی سے اتار کر صبر کی ایک اور مثال (الحکم مورخہ 7 ستمبر 1924 ء) حضرت مولوی صاحب کے جواں سال اور عالم فرزند مکرم مولوی مصلح الدین صاحب فوت ہو گئے.آپ کے پاس دوست تعزیت کے لئے آئے تو آپ نے پہن لیا اور اللہ کا نام لے کریکہ پر بیٹھ گئے اور اعصابی دردوں کی موجودگی میں پنڈال فرمایا کہ جب کسی دوست کا لڑکا اپنے چا، ماموں یا پھوپھی کے پاس جاتا ہے تو وہ نخر پہنچ گئے.آٹھ دس ہزار کا مجمع تھا.سامنے سے صفوں کو چیرتے ہوئے پیج پر چلے گئے.مولانا ثناء اللہ صاحب نے کرسی منگوا کر دی اور میں پاس سٹیج پر بیٹھ گیا.اس غیرت ایمانی سے طبیعت میں ایک ایسی حالت پیدا ہوئی کہ وہ در درک گیا.مباحثہ شروع ہوا.دو گھنٹہ تک وہ رنگ پیدا ہوا کہ غیر احمدیوں نے ہمارے (مربی) کے ہاتھ چومے اور دعا کی درخواستیں دیں.پھر منگلور پہنچے تو یہاں بھی شدید قسم کی تکلیفوں میں مبتلا رہے.پہلے اعصابی دورے تھے.پھر بخار ہوا.پھر یہ بیماری اب انفلوئنزا ہو گیا.کئی کئی گھنٹہ بیہوشی رہتی.سے کہتا ہے کہ میرالڑ کا فلاں عزیز کے پاس گیا ہوا ہے.اب میرالر کا سب سے زیادہ محسن اور پیارے خدا کے پاس چلا گیا ہے اور بہشتی مقبرہ میں دفن ہوا ہے تو اس میں میرے لئے رنج کی کون سی وجہ ہے.شکر ہے کہ اس کا انجام بخیر ہو گیا اور وہ اپنے حقیقی مولا کے پاس پہنچ گیا." آپ کی عاجزانہ راہیں سادگی“ حضرت مولوی صاحب نے ظاہری اعتبار سے انتہائی سادگی سے زندگی
27 26 گزاری.یہاں تک کہ آپ کے لباس کو دیکھ کر جو دیہاتی طرز کا ہوتا، کوئی آپ کی بالقضا اور اللہ تعالیٰ کی محبوب و محسن ہستی کے ساتھ والہانہ عشق، سیدنا ومولانا حضرت علمیت کا اندازہ نہیں کر سکتا تھا.جناب سردار دھر ماننت سنگھ صاحب پرنسپل سکھ مشنری محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم و حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے مقدس کالج امرتسر نے بیان کیا ہے کہ میں قادیان میں جلسہ سالانہ میں شریک ہوا.جب خلفاء کی کامل اطاعت و فرمانبرداری.اہل بیت سے محبت و اخلاص، انکسار اور ہر حضرت مولوی غلام رسول صاحب را جیکی تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو میں نے ضرورت کے موقعہ پر آستانہ الہی پر جھک جانا آپ کی پاک زندگی کا آئینہ ہے.اللہ اور میرے ساتھیوں نے آپ کی نہایت سادہ وضع قطع اور لباس کو دیکھ کر سٹیج سے باہر تعالیٰ نے آپ کی مضطر بانہ دعاؤں کی برکت سے آپ کو اپنا قرب اور وصال بخشا.جانا چاہا.لیکن جب ہم اٹھ کر باہر جارہے تھے تو آپ کی تقریر کے ابتدائی فقرات آپ پر دینی حقائق واسرار کھولے اور انشراح صدر کی نعمت عطا فرمائی اور ایک طویل ہمارے کانوں میں پڑے جو اس قدر پر تاثیر تھے کہ ہم رُک گئے اور آپ کی تقریر عرصہ تک آپ سے تائید دین کے لئے مقبول خدمات لیں.سننے کے لئے بیٹھ گئے.آپ نے جو حقائق و معارف اپنی تقریر میں بیان فرمائے اس آخری عمر تک بڑھاپے میں بھی آپ روزانہ اپنے مکان پر بھی اور بیت سے ہمیں بہت لطف آیا.چنانچہ تقریر کے بعد ہم آپ کے گھر پر بھی آپ سے الذکر میں بھی درس و تدریس اور وعظ ونصیحت میں مصروف رہتے اور ( دین حق ) اور عارفانہ نکات سنتے رہے اور ہمیں محسوس ہوا کہ آپ کے نہایت سادہ لباس کے اندر معرفت الہی اور نور و برکت کا مجسمہ چھپا ہے.پھر تو جب بھی ہم قادیان آتے تو حقائق و معارف سننے کے لئے اکثر آپ کے پاس حاضر ہوتے.مکرم چوہدری حسن دین صاحب باجوہ (درویش) ذکر کرتے ہیں کہ جن ایام میں حضرت مولوی صاحب سے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب لاہور میں بعض عربی کتب پڑھتے تھے تو اس وقت میں محترم چوہدری صاحب کے ہاں ملازم تھا اور آپ نے مجھے تاکید فرما رکھی تھی کہ بوجہ حضرت مولوی صاحب کی سادگی کے آپ کے اعزاز و احترام میں فرق نہ آنے دوں.کیونکہ آپ کا مقام بہت بلند اور عظیم القدر ہے.شمائل کریمہ احمدیت کی ترقی کے لئے اور خاندان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے لئے اور ضرورت مند احباب کے لئے جو بکثرت آپ کی خدمت میں دعاؤں کی درخواست کے لئے حاضر ہوتے ، یا درجنوں خطوط اس بارہ میں آتے ، آپ دعاؤں میں مصروف رہتے.وفات آپ کو تقریباً ایک سال تک پیشاب کی بندش اور سینہ میں درد کی تکالیف لاحق رہیں جن کی وجہ سے آپ بہت کمزور ہو گئے تھے.درمیان میں بعض دفعہ ان تکالیف سے افاقہ ہو جاتا لیکن پھر یہ تکالیف دوبارہ شروع ہو جاتیں.بالآخر آپ مؤرخہ 15 دسمبر 1963ء کو نماز عشاء کے وقت سات بجے کے قریب 85 سال آپ کی زندگی خلوص، قربانی ، مصائب و مشکلات پر صبر ، توکل علی اللہ ، رضا کی عمر میں انتقال فرما گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
28 نماز جنازه و تدفین مؤرمہ 16 دسمبر 1963 ء کو احباب بیت مبارک میں عصر کی نماز پڑھ کر بہشتی مقبرہ پہنچ گئے جہاں حضرت خلیفہ اسیح الثانی نَوَّرَ اللهُ مَرْقَدَہ کی زیر ہدایت حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب ناظر اصلاح وارشاد نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی.خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے افراد، ( رفقاء) کرام، بزرگان سلسلہ کے علاوہ ملک کے دیگر متعدد مقامات سے 4 ہزار احباب نے آپ کے جنازہ میں شرکت کی.بہشتی مقبرہ میں قطعہ خاص کی چاردیواری سے جانب مغرب مالحق قطعہ میں آپ کی تدفین ہوئی.قبر کی تیاری پر حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب نے ہی دعا کروائی.اللہ تعالیٰ آپ پر بے شمار رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے اور ہمیں آپ کے پاکیزہ اخلاق کی پیروی کرتے ہوئے اپنی رضا سے نوازے.آمین آپ کی مقدس زندگی کے تفصیلی حالات جاننے کے لئے آپ کی خود نوشت سوانح حیات قدسی“ اور ” ( رفقاء ) احمد جلد 8 “ کا مطالعہ کرنا چاہئے.اس کتاب کی تیاری میں بھی زیادہ تر مندرجہ بالا کتب سے ہی مدد حاصل کی گئی ہے.حضرت مولانا غلام رسول صاحب را جیکی نام کتاب.اشاعت طبع اوّل