Hazrat Masih Ka Dawa Az Ru-eQuran Aur Injeel

Hazrat Masih Ka Dawa Az Ru-eQuran Aur Injeel

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ از روئے قرآن و انجیل

Author: Other Authors

Language: UR

UR
عیسائیت

Book Content

Page 1

בכו شما خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجود ہو گے جو دوسر کی قدر میں کام حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ از روئے قرآن و انجیل پروفیسر جامعه احمد به ماندن ایم اے شاہد (واقف زندگی ) وہو میو پیت

Page 2

Page 3

نام کتاب ( جملہ حقوق محفوظ ہیں) حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل تصنیف و تدوین اقبال احمد نجم ایم.اے شاہد، انگلستان سن اشاعت تعداد رابطه $2009 1500 (ایک ہزار ) Jamia Ahmadiyya Int.UK.8, South Gardens, Collierswood London, SW 19, 2NT U.K ianajam9@yahoo.co.uk, ianajam@hotmail.com iqbalnajamuk@gmail.com ناشران مقام اشاعت اشتیاق احمد شاکر، ناروے رانا محمد عامر ، سلو (لندن) انگلستان محمود ا قبال، کولیئروڈ ،لندن-انگلستان Unitech Publications Mohalla Ahmadiyya, Qadian Distt.Gurdspur (Pb.) INDIA Ph.+91-9815617814, 9872341117 khursheedkhadim@yahoo.co.in

Page 4

بسم اللہ الرحمن الرحیم فهرست مضامين حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل صفحہ نمبر باب نمبر عنوان انتساب پیش لفظ حرف اوّل باب اول حضرت مسیح علیہ السلام کا نسب نامہ اور خاندانی حالات متی کا نسب نامہ لوقا کا نسب نامہ حضرت مسیح علیہ السلام کے خاندانی حالات حضرت مسیح علیہ السلام کا خاندان اور خاندانی حالات از روئے بائیبل باب دوئم حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش بشارت مسیح علیہ السلام اور بن باپ پیدائش میں حکمت 15 21 22 29 38 43 44 52 54 58 65 73 الله 73 ولادت مسیح علیہ السلام کے متعلق قرآنی بیان انا جیل اور ولادت مسیح علیہ السلام دوران حمل اور بعد پیدائش سفر اور واقعات حضرت مسیح علیہ السلام کا مقام پیدائش اور تاریخ پیدائش مسیح علیہ السلام کا نام قرآن کریم میں مسیح علیہ السلام کا نام

Page 5

85 888G 75 83 87 88 93 95 99 انا جیل میں مسیح علیہ السلام کا نام مسیح علیہ السلام کا ختنہ، عقیقہ اور یروشلم کی طرف پہلا سفر باب سوئم حضرت مسیح علیہ السلام کی جوانی قرآن کریم اور اناجیل میں آپ کے حالات جوانی تكلم في المهد وكهل حضرت مسیح علیہ السلام کی حضرت یحیٰ سے بیعت اور ان سے بپتسمہ لینا حضرت مسیح علیہ السلام کی رفیقہ حیات حضرت مسیح علیہ السلام خانہ کعبہ میں 106 باب چہارم حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ نبوت 114 121 123 125 127 129 129 136 147 164 164 قرآن کریم میں آپ کے دعوی نبوت اور مسیحیت کا ذکر آپکے دعوی نبوت اور مسیحیت کی ابتداء حضرت مسیح علیہ السلام کی چلہ کشی یعنی مجاہدہ کروحانی حضرت مسیح علیہ السلام کے ابتدائی حواری حضرت مسیح علیہ السلام کی تبلیغ اور قبولیت عام باب پنجم حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت کی حقیقت قرآن کریم میں آپ کی نبوت کا ذکر انا جیل اربعہ میں آپ کی نبوت کا ذکر باب ششم حضرت مسیح علیہ السلام کے دعوی ابنیت کی حقیقت باب ہفتم حضرت مسیح علیہ السلام کا مشن قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کے مشن کا ذکر

Page 6

168 175 185 198 208 211 212 213 214 215 221 222 222 222 224 241 250 250 254 257 حضرت مسیح علیہ السلام کا مشن از روئے اناجیل بنوا سماعیل کی طرف نبوت کی منتقلی کا اعلان باب ہشتم حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب دعوی الوہیت کی تردید موجودہ عیسائیت کے دلائل دربارہ الوہیت مسیح اور اس کی حقیقت انجیل کی اندرونی شہادت مکتوب یروشلم مسیح علیہ السلام کا کفن بحیرہ مردار کے صحیفے حضرت مسیح علیہ السلام کی تصاویر انجیل مرقس کا آخری ورق مردوں کو زندہ کرنا بیماروں کو اچھا کرنا کھانا بڑھانا بغیر کشتی کے سمندر پر چلنا دلائل درباره تردید الوہیت مسیح علیہ السلام باب نهم کفاره باب دہم انجیل یوحنا کی ابتدائی آیات کا صحیح مفہوم یوحنا کی ابتدائی آیات کی صحیح حیثیت آیات کا صحیح مفہوم حرف آخر حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی

Page 7

انتساب یہ کتاب کا سر صلیب حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے نام کرتا ہوں.حضرت خاتم الخلفاء علیہ السلام کی خلافت کے اسال پورے ہونے پر ہم صد سالہ خلافت جوبلی منارہے ہیں اس موقع پر یہ تحفہ حضرت اقدس خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت اقدس میں پیش کرتا ہوں گر قبول افتدزه عزّ و شرف

Page 8

پیش لفظ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی حیات وموت کا مسئلہ تمام مذاہب عالم کیلئے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے.ایک طرف یہود آپ کو نعوذ باللہ ملعون اور مردود قرار دیتے ہیں تو دوسری طرف سے عیسائیوں نے آپ علیہ السلام کے بارے میں اسقدر غلو سے کام لیا کہ آپ کو اپنے منصب حقیقی سے ہٹا کر ابن اللہ اور الوہیت کے مقام پر پہنچا دیا.حالانکہ مسیح علیہ السلام اور برگزیدہ رسولوں میں سے ایک تھے جو خدا تعالیٰ کی توحید کو دنیا میں قائم کرنے اور شرک کے استیصال کیلئے مبعوث ہوئے تھے.رفتہ رفتہ ان کے ماننے والے تو حید خالص سے دور ہوتے چلے گئے.بالآخر تثلیث کے بے بنیاد اور من گھڑت عقائد کو وضع کیا.موجودہ عیسائیت حضرت مسیح علیہ السلام کی اصل سیرت و کردار، عقائد و نظریات سے کوسوں دور ہے.اس زمانہ میں عیسائیوں کو ان کے حقیقی اور اصل عقائد کی طرف واپس لانے کیلئے جماعت احمد یہ ساری دنیا میں کوشش کر رہی ہے.آپ کی پاکیزہ سیرت کے واقعات ، توحید خالص کے قیام اور ترویج کیلئے آپ کی کوششیں منظر عام پر لائی جارہی ہیں تا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ محبت اور عقیدت کا دم بھرنے والے حضرات آپ کی حقیقی سیرت وکردار کے حامل ہو سکیں.زیر نظر کتاب حضرت مسیح علیہ السلام کے دعوئی (از روئے قرآن و انجیل ) اور آپ کی سیرت و سوانح پر لکھی گئی ہے.اس میں محترم اقبال نجم صاحب نے قرآن کریم اور بائیبل کا تقابلی جائزہ پیش کرتے ہوئے سیرت نگاری کا حق بخوبی ادا کیا ہے.یہ کاوش یقیناً جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں گراں قدراضافہ کا باعث ہے.سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعہ جوعظیم الشان علمی وتحقیقی انکشافات عمل

Page 9

میں آئے ان میں حضرت مسیح علیہ السلام کی صلیبی موت سے نجات اور واقعہ صلیب کے بعد گمشدہ اسرائیلی بھیڑوں کی تلاش میں ہندوستان کی طرف ہجرت اور 120 سال کی عمر میں کشمیر میں آپ کی وفات اور محلہ خانیار میں آپ کی قبر کا پایا جانا شامل ہے.یہ عظیم الشان علمی و تاریخی انکشاف دنیا بھر کے صاحبان علم و عقل کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے.متعدد تحقیقی مقالہ جات اس بارے میں لکھے جا چکے ہیں اور وہ دن دور نہیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس علمی انکشاف کا اعتراف کرنے پر دنیا مجبور ہوگی.بہر کیف حضرت مسیح علیہ السلام کی سیرت و سوانح اور آپ کے دعاوی پر مشتمل یہ کتاب وقت کی اہم ضرورت ہے.امید واثق ہے کہ علمی حلقوں میں یہ کتاب پسند کی جائے گی.اللہ تعالیٰ محترم اقبال نجم صاحب کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ان کی علمی صلاحیتوں میں برکت ڈالے اور اس کتاب کو نافع الناس بنائے.اللہ تعالیٰ سب کو حسنات دارین سے نوازے.آمین.والسلام خاکسار 27-05-2009 منیرالدین شمس ایڈیشنل وکیل التصنيف،لندن

Page 10

حرف اوّل حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی کیا تھا اور قرآن وانجیل کی رو سے آپ کی طرف منسوب کئے جانے والے دعاوی کی حقیقت کیا ہے، اس موضوع پر یہ کتاب پیش کی جا رہی ہے.دعاوی کے متعلق کچھ کہنے سے پیشتر مدعی کے حالات زندگی اور اس کی شخصیت کے خد وخال کو اجاگر کرنا بھی ایک ضروری امر معلوم ہوتا تھا تا کہ آپ کے دعاوی کو پر کھنے اور سمجھنے میں آسانی ہو سکے.اسی لئے پہلے تین ابواب میں آپ کے حالات زندگی کو بیان کیا گیا ہے.اختصار کے ساتھ آپ کی زندگی پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے انجیل کی طرف سے پیش کردہ آپ کے نسب ناموں اور قرآن کریم کے بیان کردہ آپ کے حسب و نسب کی حقیقت تک پہنچنے کیلئے چھان بین کی گئی ہے.انجیل ایک طرف تو آپ کی پیدائش کو بن باپ تسلیم کرتی ہے اور دوسری طرف اس کوشش میں ہے کہ آپ کو ابن داؤ د ثابت کیا جائے، لیکن قرآن کریم آپ کو آل عمران میں سے قرار دیتا ہے اور کسی قسم کے تضاد کا شکار نہیں.جبکہ انجیل میں گویا ایک تضاد پایا جاتا ہے.قرآن کریم آپ کی والدہ کو آل عمران کا ایک فرد بتاتا ہے اور اس کا ثبوت انا جیل سے بھی ملتا ہے اور یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ آپ علیہ السلام کو بھی والدہ کی نسبت سے آل عمران کا ایک فرد قرار دیا جانا چاہئے اور مفسرین بائیبل نے بھی یہ بات صحیح قرار دی ہے اور بشارات کے ساتھ پیدائش ہونے کے لحاظ سے آپ کو حضرت یحی علیہ السلام کے ساتھ ایک مشابہت حاصل ہے.جیسا کہ لکھا ہے: اور زکریا دیکھ کر گھبرا گیا اور اس پر دہشت چھا گئی.مگر فرشتہ نے کہا اے زکریا! خوف نہ کر کیونکہ تیری دعاسنی گئی اور تیرے لئے تیری بیوی الیصبات کے بیٹا ہو گا تو اس کا نام یوحنا رکھنا اور تجھے خوشی و خرمی ہو گی اور بہت سے لوگ اسکی پیدائش کے سبب سے خوش

Page 11

ہوں گے.کیونکہ وہ خداوند کے حضور میں بزرگ ہوگا اور نہ ہے اور نہ کوئی اور نشہ پئے گا.(لوقا ۱۲:۱ تا ۱۵) اسی طرح آپ کی بغیر باپ کے پیدائش میں بھی کوئی ایسی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے آپ کو کسی ایسی عظمت کا سزاوار سمجھا جائے کہ گویا آپ خدا کی خدائی میں شریک ہو گئے ہیں.انسائیکلو پیڈیا آف بریٹیز کا نے اور بھی بعض ایسی مثالیں پیش کی ہیں جن کی پیدائش بن باپ ہوئی تھی.مثلاً چنگیز خان خود اور منچو خان کے جدا مجد بغیر باپ کے پیدا ہوئے.اور اس معاملہ میں قرآن کریم حضرت مسیح علیہ السلام کو حضرت آدم علیہ السلام سے مشابہہ قرار دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کی اس قسم کی پیدائش کو بنی اسرائیل کیلئے انذار اور نبوت کا بنی اسرائیل سے بنو اسماعیل کی طرف منتقل کئے جانے کی علامت قرار دیتے ہیں.اور خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت سے بھی یہی بات درست معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیشگوئی کے مطابق ” وہ عظیم الشان نبی“ بنو اسماعیل میں سے ظاہر ہوا.جسکی بابت لکھا ہے: خدا وند تیرا خدا تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کرے گا.“ (استثنا ۱۵:۱۸) اور حضرت مسیح علیہ السلام خود بھی بنی اسرائیل کو انذار فرما چکے تھے اور یہ کہہ چکے تھے: ” خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائیگی.اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے دے (متی ۴۳:۲۱) دی جائیگی.“ آپ کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی یہ بھی ایسے سوالات ہیں جنکا جواب اور حل ضروری ہے.کیونکہ دنیائے عیسائیت آپ کی پیدائش کو ۲۵ دسمبر اور موسم سرما میں تسلیم کئے ہوئے ہے.جب کہ قرآن کریم اسے تسلیم نہیں کرتا اور انجیل کے حوالوں سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ قرآن کریم درست کہتا ہے کہ آپ کی پیدائش موسم سرما کے بجائے موسم گرما میں ہوئی

Page 12

تھی جو کسی طرح بھی ۲۵ دسمبر نہیں ہوسکتی.لکھا ہے: اس علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلہ کی نگہبانی کر رہے تھے.“ (لوقا ۸:۲) اور اس بات کی تائید میں پیکس کی تفسیر بائیبل اور رائز آف کر تیچینٹی.انسائیکلو پیڈیا آف بریٹین کا اور چیمبرز انسائیکلو پیڈیا اور ینابیع الاسلام کے مصنفین نے بھی لکھا ہے.علاوہ ازیں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انجیل کا یسوع قرآن میں عیسی کیونکر ہو گیا ؟ معلوم ہوا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی مادری زبان میں آپ کا نام عیسی ہی تھا اور ابتداء عیسائیت میں آپکو اسی نام سے پکارا جاتا تھا.اور آپ کا نام تراجم میں جا کر تبدیل ہوا ہے.قرآن کریم نے آپکو آپکے اصل نام سے یاد کیا ہے.اس امر کی تائید میں جو دلائل میسر آئے ہیں انہیں درج کر دیا گیا ہے.آپ کی جوانی پر وقار اور پاکیز تھی جیسا کہ قرآن کریم نے آپکو غلاماً زکیا کہا ہے.اور ایک لفظ میں آپ کی جوانی کی صحیح تصویر کھینچ دی ہے.آپ اپنی والدہ کے فرماں بردار بیٹے تھے اور آپ کی والدہ آپ کی نبوت پر ایمان لانے والی مومنہ تھیں اور اسی راہ میں پوری طرح قربانی دینے والی خاتون تھیں اور آپ کی زوجہ محترمہ مریم بھی آپ کے مشن کی تکمیل کیلئے ہر وقت آپ کے ہمراہ سرگرم عمل تھیں.آپ نے ایک عام انسان کی طرح زندگی گزار دی اور خدا تعالیٰ کی عبادات اور ریاضات میں مصروف رہے.یہاں تک کہ حضرت یحی علیہ السلام سے بپتسمہ بھی لیا.چالیس دن کی چلہ کشی آپکی اس تڑپ پر دال ہے جو آپ کو اپنے مولیٰ سے عشق کی وجہ سے تھی.اور یہ بھی ہے جب آپ صلیب سے بیچ کر بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش میں نکلے تو مکہ میں بیت اللہ کی بھی آپ نے جا کر زیارت فرمائی جس کی تائید آنحضرت ﷺ کے اس کشف سے بھی ہوتی ہے کہ جس میں آپ نے ستر نبیوں کو بشمول حضرت عیسی علیہ اسلام کے

Page 13

حج کرتے ہوئے دیکھا.صلیبی واقعہ عمداً اس کتاب میں پیش نہیں کیا گیا.کیونکہ اس پر اب تک بہت کچھ لکھا جا چکا ہے.تاہم باب ہشتم میں اس پر ضمنا کچھ روشنی ڈالی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس موضوع پر اپنی کتاب "مسیح ہندوستان میں پہلی بار لکھا ہے اور بعدہ کئی تائیدی کتب منصہ شہود پر آگئی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کے حالات زندگی کے متعلق فرماتے ہیں : ظاہر ہے کہ اگر ابن مریم کے واقعات کو فضول اور بے ہودہ تعریفوں سے الگ کر لیا جائے تو انجیلوں سے اس کے واقعی حالات کا یہی خلاصہ نکلتا ہے کہ وہ ایک عاجز اور ضعیف اور ناقص بندہ یعنی جیسے کے بندے ہوا کرتے ہیں اور حضرت موسیٰ کے ماتحت نبیوں میں سے ایک نبی تھا.اور اس بزرگ اور عظیم الشان رسول کا ایک تابع تھا اور خود اس بزرگی کو ہرگز نہیں پہنچا تھا یعنی اس کی تعلیم ایک اعلی تعلیم کی فرع تھی مستقل تعلیم نہ تھی اور وہ خود انجیلوں میں اقرار کرتا ہے کہ میں نہ نیک ہوں نہ عالم الغیب ہوں نہ قادر ہوں بلکہ ایک بندہ عاجز ہوں“.( براہین احمدیہ ایڈیشن اوّل صفحه ۴۱۹ حاشیہ اامطبوع الشركة الاسلامیه، ربوہ، پاکستان) قرآن کریم کا انبیاء سابقین پر یہ احسان ہے کہ انکی شخصیات پر جو دھول بوجہ مرورزمانہ پڑگئی تھی اسے جھاڑ کر انکی شخصیات کو نکھار کر دنیا کے سامنے پیش فرمایا ہے.آخر میں خاکسار محترم منیر الدین صاحب شمس ایڈیشنل وکیل التصنیف لندن کا انتہائی شکر گزار ہے جنہوں نے نہایت محبت سے اس کتاب کے مسودے کو ملاحظہ فرمایا اور پیش لفظ تحریر فرمایا.اسی طرح خاکسار مکرم مجید احمد صاحب شاہد سیالکوٹی کا بھی شکر یہ ادا کرتا ہے جنہوں نے پروف ریڈنگ کے سلسلہ میں میری مدد فرمائی.میں مکرم عزیزم کا شف ورک صاحب طالب علم

Page 14

جامعہ احمدیہ یو کے کی معاونت کیلئے بھی مشکور ہوں اور میں قارئین سے اپنے محترم استاد سید مہ محمود احمد صاحب ناصر کیلئے دعا کی درخواست کرتا ہوں جنہوں نے بہت محبت سے ہمیں تعلیم دی.سچ تو یہ ہے کہ شاگرد نے جو پایا استاد کی دولت ہے.“ اس سلسلہ میں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ اس کتاب کے مسودہ کو محترم مولانا نذیر احمد صاحب مبشر مرحوم مبلغ مغربی افریقہ و سابق صدر صدر انجمن احمدیہ ، ربوہ محترم مولا نانسیم سیفی صاحب مرحوم مبلغ مغربی افریقہ و سابق ایڈیٹر افضل اور محترم مولانا منیر احمد صاحب خادم ایڈیشنل ناظر تعلیم القرآن وقف عارضی وایڈیٹر ہفت روزہ بدر قادیان نے پڑھا اور سراہا ہے.یہ بھی عرض کردوں کے کتاب ھذا میں بائیبل کے حوالے، کتاب مقدس یعنی پرانہ اور نیا عہد نامہ بائیبل سوسائیٹی انار کلی لاہور 1963 Revised Version سے لئے گئے ہیں.اسی طرح ملفوظات اور روحانی خزائن کے حوالے مطبوعۃ الشرکتہ الاسلامیہ ربوہ کے اول ایڈیشن سے لئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ کا بے حد احسان ہے کہ خاکسار کو یہ کتاب، خلافت کے سوسال پورے ہونے پر، بطورش رشکرانہ پیش کرنے کی توفیق مل رہی ہے.اللہ تعالیٰ میری اس ادنی کوشش کو قبول فرمائے اور دعوت الی اللہ کیلئے اسے مفید بنائے اور یہ میرے لئے باعث ثواب دارین ہو.آمین.والسلام خاکسار اقبال احمد نجم واقف زندگی انگلستان

Page 15

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل باب اوّل حضرت مسیح علیہ السلام کا نسب نامہ اور خاندانی حالات 15 نصاری حضرت عیسی علیہ السلام کو حضرت داؤد علیہ السلام کی نسل سے ظاہر کرتے ہیں.جیسا کہ رومیوں باب ایک آیت ۲-۳ میں لکھا ہے کہ: " جسکا اس نے پیشتر سے اپنے نبیوں کی معرفت کتاب مقدس میں اپنے بیٹے ہمارے خداوند یسوع مسیح کی نسبت وعدہ کیا تھا جوجسم کے اعتبار سے تو داؤد کی نسل سے پیدا ہوا.متی باب اوّل اور لوقا باب سوم میں حضرت عیسی علیہ السلام کے دو نسب نامے بھی پیش کئے گئے.چنانچہ مستی میں نسب نامہ پیش کرنے سے قبل لکھا ہوا ہے کہ : یسوع مسیح ابن داؤد ابن ابراہام کا نسب نامہ اور نسب نامہ بیان کرنے کے بعد آخر میں لکھا ہے کہ: یعقوب سے یوسف پیدا ہوا یہ اس مریم کا شوہر تھا جس سے یسوع پیدا ہوا جو مسیح کہلاتا تھا.“ اس میں عجیب بات یہ ہے کہ یہ نسب نامہ آپ کے قانونی والد یوسف نجاڑ کا ہے.جسکی صلب سے آپ ہرگز نہیں تھے.اگر اس نسب نامہ کو صیح تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس کے بڑے بھیانک نتائج برآمد ہوتے ہیں.اوّل نعوذ باللہ حضرت مریم جو پاکباز تھیں ان کے تعلقات قبل از شادی یوسف نجار سے ماننے پڑیں گے.لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ انا جیل آپ کی پیدائش کو

Page 16

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.16 بن باپ بھی تسلیم کرتی ہیں اور آپ کے نسب نامے بھی پیش کرتی ہیں.جو آپ کے قانونی والد یوسف نجار کے ہیں.اور صرف یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ان نسب ناموں کی رو سے آپ داؤد کی نسل سے تھے.اور اس طرح سے دو متضاد باتوں کو ایک جگہ جمع کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل نویں چاہتے یہ ہیں کہ کسی نہ کسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام پر وہ قدیم پیشگوئیاں چسپاں کر دیں جنکی بناء پر یہود میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ آنے والا مسیح داؤد کی نسل میں سے ہوگا.مثال کے طور پر اسی طرح کی ایک کوشش یوحنا کو بھی داؤد کے گھرانے سے ثابت کرنے کی انجیل لوقا میں کی گئی ہے.اور ایسا کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انجیل نویسوں کی عام عادت تھی کہ کسی نہ کسی طرح قدیم پیشگوئیوں کو اپنے بزرگوں پر چسپاں کرنے کی کوشش کرتے رہتے تھے.جیسا کہ لکھا ہے: (جب یوحنا کی پیدائش کے بعد ) زکریا روح القدس سے بھر گیا اور نبوت کی راہ سے کہنے لگا کہ خدا وند اسرائیل کے خدا کی حمد ہو کیونکہ اس نے اپنی امت پر توجہ کر کے اسے چھٹکارا دیا.اور اپنے خادم داؤد کے گھرانے میں ہمارے لئے نجات کا سینگ نکالا.( جیسا اس نے اپنے پاک نبیوں کی زبانی کہا تھا جو کہ دنیا کے شروع سے ہوتے آئے ہیں ) (لوقا باب اول آیت ۶۷ تا ۷۰ ) حالانکہ لوقا کی انجیل میں ہی یہ بات واضح کی گئی ہے کہ یوحنا یعنی حضرت یحی علیہ السلام داؤد کی نسل سے نہیں تھے بلکہ لاوی قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں اور عمرام یا عمران کی نسل سے تھے.چنانچہ لکھا ہے: دو ہیرودیس کے زمانہ میں آبیاہ کے فریق میں سے زکریا نام کا ایک کا ہن تھا.“ (لوقا باب اول آیت ۵)

Page 17

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - اور ابیاہ کے متعلق عہد نامہ قدیم میں تو اریخ باب اول ۱۳ تا ۲۳ لکھا ہے کہ: عمرام کے بیٹے ہارون اور موسیٰ تھے اور ہارون الگ کیا گیا تھا تا کہ اس کے بیٹے ہمیشہ پاک ترین چیزوں کی تقدیس کریں.“ پھر باب ۲۴ میں لکھا ہے کہ : ” نبی ہارون کے فریق یہ تھے.آٹھویں آیاہ...یہ ان کی خدمت کی ترتیب 17 تھی.“ عہد نامہ قدیم اور جدید کی ان معلومات کی تطبیق کی جائے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ زکریا آبیاہ کے فریق میں سے تھا.اور آبیاہ نبی ہارون کے فریق میں سے تھا اور ہارون عمرام کے بیٹے تھے.لہذ از کریا اور ان کا بیٹا یوحنا یعنی حضرت یحی علیہ السلام آل داود میں سے نہیں تھے بلکہ آل عمران میں سے تھے.اسی طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام کی والدہ الیصبات کے متعلق بھی لوقا باب ۱ آیت ۵ میں لکھا ہے کہ: زکریا نام کا ایک کا ہن تھا اور اس کی بیوی ہارون کی اولاد میں سے تھی اس کا نام الصبات تھا“.اور یہ الیصبات ہی وہ خاتون تھیں جن کی رشتہ داری کا تعلق حضرت مریم علیہ السلام والدہ حضرت عیسی علیہ السلام سے تھا.چنانچہ لکھا ہے: والا ہے.“ مریم کو فرشتہ نے کہا دیکھ تیری رشتہ دار الیصبات کو بھی بڑھاپے میں بیٹا ہونے (لوقا باب اوّل آیت ۳۶) پس در حقیقت حضرت عیسی علیہ السلام جو بن باپ پیدا ہوئے تھے جیسا کہ عہد نامہ جدید نے بھی اسے تسلیم کیا ہے.صرف اپنی ماں کی نسبت سے ہی کسی خاندان یا نسب نامہ کی طرف منسوب

Page 18

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل 18 کئے جا سکتے ہیں.اور جس شخص کی صلب سے آپ تھے ہی نہیں اس کی طرف آپ کو منسوب کرنا ایک کذب بیانی اور کوتاہ اندیشی ہے.متی کے نسب نامہ میں تو صاف بتایا گیا ہے کہ یہ نسب نامہ یوسف کا ہے جو اس مریم کا شوہر ہوا (بعد میں ).جس سے یسوع پیدا ہوا تھا جو مسیح کہلاتا تھا.اور لوقا کے نسب نامہ کے شروع میں لکھا ہے کہ : ” جب یسوع خود تعلیم دینے لگاتو تقریباً ۳۰ برس کا تھا اور (جیسا کہ سمجھا جاتا ہے) یوسف کا بیٹا تھا.“ (لوقا باب ۳ آیت ۲۳) اور لوقا باب اوّل آیت ۳۴ میں صاف لکھا ہوا ہے کہ جب فرشتہ نے حضرت مریم کو بیٹے کی بشارت دی تو آپ نے کہا: یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ جبکہ میں کسی مرد کو نہیں جانتی“ اور متی باب ایک آیت ۱۸ تا ۲۱ میں ہے : یسوع مسیح کی پیدائش اس طرح ہوئی کہ جب کہ اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوگئی تو ان کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ روح القدس سے حاملہ پائی گئی.پس اس کے شوہر یوسف نے جور است باز تھا اور اسے بدنام نہیں کرنا چاہتا تھا اسے چپکے سے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا.وہ ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خدا وند کے فرشتے نے اسے خواب میں ظاہر ہو کر کہا کہ اے یوسف ابن داؤد اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے.“ ابھی جبکہ حضرت مریم اور یوسف کے ازدواجی تعلقات قائم نہیں ہوئے تھے اور اس سے قبل ہی حضرت عیسی علیہ السلام رحم مادر میں قرار پاچکے تھے اور بائیبل اس بات کو تسلیم کرتی ہے.پھر اس حقیقت کے متضاد خیالات کا اظہار کرنا اور اسکی تائید میں نسب نامے پیش کرنا تو چنداں عقل مندی معلوم نہیں ہوتی.جبکہ انجیل میں حضرت عیسی علیہ السلام کو صاف طور پر ” مریم کا بیٹا“ کہا گیا

Page 19

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل ہے.لکھا ہے کہ: یہ وہ بڑھئی نہیں جو مریم کا بیٹا اور یعقوب اور یوسیس اور یہوداہ اور شمعون کا بھائی ہے.اور کیا اسکی بہنیں یہاں ہمارے ہاں نہیں ؟ اور پس انہوں نے اس کے سبب سے ٹھوکر کھائی.“ (مرقس باب ۶ آیت ۳) 19 انا جیل کے نسب نامے بیان کر کے ان پر محاکمہ کرنے سے قبل بہتر ہوگا کہ قرآن کریم میں بیان کردہ آپ کے حسب و نسب کو بھی دیکھ لیا جائے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: ١ - ذلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ : قَوْلَ الْحَقَ الَّذِي فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ (سورة مريم : آیت (۳۵) ٢ - إِذْ قَالَ اللهُ يَعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى قف وَالِدَتِكَ، إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ مَن تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَةَ وَالْاِ نْجِيْلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطَّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِى فَتَنْفُخُ فِيْهَا فَتَكُوْنُ طَيْرًا بِإِذْنِي وَتُبْرِيُّ الأكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ، وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَى بِإِذْنِي ، وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ عَنْكَ إِذْ جَفْتَهُمْ بِالْبَيِّنَتِ فَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ إِنْ هذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ ٣ - إِذْ قَالَتِ الْمَلَئِكَةُ يَمَرْيَمُ إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكَ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ.( سورة المائده: آیت ا ا ا ) صلے ق اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (سورة آل عمران : آیت (۴۶) -۴- إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ يَعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ أَنْ

Page 20

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 20 يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ ، قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (سورة المائده: آیت ۱۱۳) ۵- قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيْدًا لِاَ وَّلِنَا وَاخِرِنَا وَآيَةً مِّنْكَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ ( سورۃ المائدہ آیت ۱۱۵) خَيْرُ الرَّزِقِينَ.وَقَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ لا مِنَ التَّوْرَةِ - وَآتَيْنَهُ الْإِنْجِيْلَ فِيْهِ هُدًى وَّنُوْرٌ وَمُصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَةِ وَهُدًى وَمَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِيْنَ ) (سورة المائده: آیت ۴۷) --- مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ ، وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ، كَانَا يَأْكُلن الطَّعَامَ ، أَنْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنَ لَهُمُ الْآيَتِ ثُمَّ انْظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُوْنَ.(سورة المائده : آیت (۷۶) يَأَهْلَ الْكِتَبِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ، إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِنْهُ ، فَاسِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ ع وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلَتَهُ، إِنْتَهُوا قف ج خَيْرًا لَّكُمْ ، إِنَّمَا اللهُ إِلهُ َواحِدٌ ، سُبْحَنَهُ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ، وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيْلَا هِ (سورة النساء آیت ۱۷۲) وَإِذْ قَالَ اللهُ يَعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ ءَ أَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُرْنِى وَأُتِيَ الهَيْنِ مِنْ دُونِ اللَّهِ ، قَالَ سُبْحَنَكَ مَا يَكُوْنُ لِي أَنْ أَقُوْلَ مَا لَيْسَ لِيْ بِحَقِّ ، إِنْ كُنْتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ، تَعْلَمُ مَا فِي

Page 21

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل 21 نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ، إِنَّكَ أَنْتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ (سورة المائده: آیت ۷ ۱ ۱ ) قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیات کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جہاں جہاں بھی مخاطب فرمایا ہے ، ابن مریم ہی کہا ہے کیونکہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے اور جسم کے لحاظ سے آپ کا تعلق صرف حضرت مریم علیہا السلام سے تھا.اسی لئے آپ کو مریم کا بیٹا بیان کیا گیا ہے.اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عرف عام میں آپ ابن مریم ہی مشہور تھے.آپ کے حواری بھی آپکو عیسی ابن مریم کہہ کر مخاطب کرتے تھے.اب ہم اناجیل کے نسب ناموں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں.اور ان کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں.متی کا نسب نامہ متی کی انجیل باب اول آیت ایک تا۱۷ میں لکھا ہے : یسوع مسیح ابن داؤد ابن ابراھام کا نسب نامہ.ابراھام سے اضحاق پیدا ہوا.اور اضحاق سے یعقوب پیدا ہوا اور یعقوب سے یہودا اور اسکے بھائی پیدا ہوئے اور یہودا سے فارص اوزارح تمر سے پیدا ہوئے.اور فارص سے حصرون پیدا ہوا اور حصرون سے رام پیدا ہوا اور رام سے عمید اب پیدا ہوا اور عمید اب سے نحسون پیدا ہوا اور نسون سے سلمون پیدا ہوا اور سلمون سے بوعز راحب سے پیدا ہوا.بوعز سے عوبید روت سے پیدا ہوا اور عوبید سے یتسی پیدا ہوا اور یسی سے داؤد بادشاہ پیدا ہوا.اور داؤد سے سلیمان اس عورت سے پیدا ہوا جو پہلے اور یا کی بیوی تھی.اور سلیمان سے رحبعام پیدا ہوا اور رحبعام سے ابیاہ پیدا ہوا اور ابیاہ سے آسا پیدا ہوا.اور آسا سے یہو سفط پیدا ہوا اور یہو سفط سے یورام پیدا ہوا اور یورام سے عز یاہ پیدا ہوا اور عزیاہ سے یو تام پیدا ہوا اور یوتام سے آخر

Page 22

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.22 پیدا ہوا اور آخر سے حز قیاہ پیدا ہوا اور حز قیاہ سے منسی پیدا ہوا اور منسی سے امون پیدا ہوا اور امون سے یوسیاہ پیدا ہوا اور گرفتار ہو کر بابل جانے کے زمانہ میں یوسیاہ سے یکونیاہ اور اسکے بھائی پیدا ہوئے.اور گرفتار ہوکر بابل جانے کے بعد یکونیا سے سیاستی ایل پیدا ہوا اور سیالتی ایل سے زربابل پیدا ہوا اور زربابل سے ابیہود پیدا ہوا اور ابیہود سے الیا قیم پیدا ہوا اور الیا قیم سے عاز ور پیدا ہوا.اور عازور سے صدوق پیدا ہوا اور صدوق سے اخیم پیدا ہوا اور اخیم سے الیہود پیدا ہوا اور الیہود سے الیعز رپیدا ہوا اور الیعز رسے متان پیدا ہوا اور متان سے یعقوب پیدا ہوا اور یعقوب سے یوسف پیدا ہوا یہ اس مریم کا شوہر تھا جس سے یسوع پیدا ہوا جو مسیح کہلاتا ہے.“ پس سب پشتیں ابراہام سے داؤد تک چودہ پشتیں ہوئیں اور داؤد سے لیکر گرفتار ہو کر بابل جانے تک چودہ پشتیں اور گرفتار ہو کر بابل جانے سے لیکر مسیح تک چودہ پشتیں ہوئیں.لوقا کا نسب نامہ باب ۳ آیت ۲۳ تا ۳۸ میں یوں لکھا ہے : ” جب یسوع خود تعلیم دینے لگا قریباً ۳۰ برس کا تھا اور (جیسا کہ سمجھا جاتا تھا یوسف کا بیٹا تھا اور وہ عیلی کا اور وہ متات کا وہ لاوی کا اور وہ ملکی کا اور وہ بینا کا اور وہ یوسف کا اور وہ متیا کا اور وہ عاموس کا اور وہ ناحوم کا اور وہ اسلیاہ کا اور وہ نو گہ کا اور وہ ماعت کا اور وہ متیا کا اور وہ شمعی کا اور وہ یوسخ اور وہ پوداہ کا اور وہ یوحنا کا اور یسا کا اور وہ زر بابل کا اور وہ سیالتی ایل کا اور وہ نیری کا اور وہ ملکی کا اور وہ اڈی کا اور وہ قو سام کا اور وہ المودام کا اور وہ عمیر کا اور وہ یشوع کا اور وہ الیعز رکا اور یوریم کا اور وہ متات کا اور وہ لاوی

Page 23

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل.23 کا اور وہ شمعون کا اور وہ یہوداہ کا اور وہ یوسف کا اور وہ یونان کا اور وہ الیا قیم کا اور وہ ملے آہ کا اور متاہ کا اور وہ متناہ کا اور نائن کا اور وہ داؤد کا اور وہ میسی کا اور وہ عوبید کا اور وہ بوعز کا اور وہ مسلمون کا اور وہ نحسون کا اور وہ عمید اب اور وہ ارنی کا اور وہ حصروں کا اور وہ فارص کا اور وہ یہوداہ اور وہ یعقوب کا اور وہ اضحاق اور وہ ابراھام کا اور وہ تارہ کا اور وہ نحو رکا اور وہ سروج کا اور وہ رعد کا اور وہ فلج کا او وہ عمر کا وہ سلح کا اور وہ قینان کا اور وہ ارفکسد کا اور وہ سم کا اور وہ نوح کا اور وہ لمک اور وہ متوسلح کا اور وہ حنوک کا اور وہ یا رد کا اور وہ مہلل ایل کا اور وہ قینان کا اور وہ انوس کا اور وہ سیت کا اور وہ آدم کا اور وہ خدا کا تھا.“ حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف منسوب نسب نامے اناجیل اربعہ میں سے صرف متی اور لوقا نے لکھے ہیں اور مرقس اور یوحنا نے اس بارہ میں میں خاموشی اختیار کی ہے.ان دونوں نسب ناموں میں جو دراصل آپ کے قانونی باپ یوسف کے ہیں.یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ یوسف ابن داؤد خاندان یہوداہ ابن یعقوب سے تھا.لہذا آپ یعنی حضرت عیسی علیہ السلام بھی ابن داؤد ہوئے.حالانکہ انجیل اس بات پر فخر کرتی ہے کہ آپ بے باپ تھے اور یوسف کی صلب سے نہیں تھے.علاوہ ازیں متی نے اپنے نسب نامہ میں یسوع مسیح سے حضرت ابراہیم علیہ السلام تک چالیس پشتیں لکھی ہیں.جبکہ متی ہی کے نسب نامہ کے بعد بیان کردہ آیات ۱۷ کے تحت ۴۲ پیشیں بننی چاہئیں تھیں.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قدیم پیشگوئیوں کے مطابق ۱۴ کے عدد کو کوئی خاص اہمیت حاصل تھی تبھی تو اس کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے.اور ۱۴ ۱۴ کی تعداد کو پورا کرنے کیلئے اصل نسب ناموں میں کمی بیشی بھی کی گئی ہے.مثال کے طور پر اخز یا.یو س اور امصیاہ کامتی کے نسب نامہ میں سرے سے کوئی ذکر نہیں ملتا.جبکہ عہد نامہ قدیم میں تواریخ اول کے باب ۳ آیت ۱۱.۱۲ میں لکھا ہے: یورام اس کا بیٹا اختر یا اسکا بیٹا یو س اس کا بیٹا امیصاہ اس کا بیٹا عز ریاہ..66

Page 24

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 24 لیکن متی کے نسب نامہ میں یورام کا بیٹا عز ریاہ کو بتایا گیا ہے.اسی طرح پرانے عہد نامہ میں تواریخ اول باب ۳ آیت ۱۷ تا ۱۹ میں زربائل کو یکونیا کے بیٹے فدایاہ کا بیٹا قرار دیا گیا ہے.جیسا کر لکھا ہے: ”اور یکو نیا جو اسیر تھا اس کے بیٹے یہ ہیں سیانتی ایل اور ملکرام اور فدایاہ اور شینا ضر، یقیماہ ، ہو سمع اور ند بیاہ اور فدایاہ کے بیٹے یہ ہیں : زربابل اور سمعی.“ لیکن متی کے نسب نامہ میں عہد نامہ قدیم کی مہیا کردہ معلومات کے برخلاف زر بابل کو یکونیا کے بیٹے سیانتی ایل کا فرزند قرار دیا گیا ہے.بنایا.66 پرانے عہد نامه سلاطین ۲ باب ۲۳ آیت ۳۴ میں لکھا ہے : اور فرعون نکوہ نے یوسیاہ کے بیٹے الیا تم کو اس کے باپ یوسیاہ کی جگہ بادشاہ لیکن متی کے نسب نامہ میں لکھا ہے: گرفتار ہو کر بابل جانے کے زمانہ میں یوسیاہ سے یکونیاہ اور اس کے بھائی پیدا ہوئے.اور گرفتار ہو کر بابل جانے کے بعد یکونیا سے سیانتی ایل پیدا ہوا اور سیانتی ایل سے زر بابل پیدا ہوا، اور زر بابل سے ابیہود پیدا ہوا اور بیہود سے الیا قیم پیدا ہوا.“ اب اگر آپ عہد نامہ قدیم کے نسب نامہ کو درست تسلیم کریں تو مستی نے اپنے پیش کردہ نسب نامہ میں کئی پشتیں بڑھادی ہیں اور اس نے ۱۴ کی تعداد کو پورا کرنے کیلئے اپنے نسب نامہ میں کئی جگہ کمی بیشی کر دی ہے.اسی طرح متی اور لوقا کے نسب ناموں میں پشتوں کا فرق بھی باہم بہت نمایاں ہے.متی کے نسب نامہ کی رو سے خداوند یسوع سے حضرت ابراہیم علیہ السلام تک صرف ۴۰ پشتیں بنتی ہیں.اور لوقا کے نسب نامہ کی رو سے ۵۵ پشتیں بنتی ہیں.صاف ظاہر ہے کہ متی نے ۱۵ پشتیں

Page 25

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - کم کر دی ہیں.اور لوقا نے ۱۵ پشتیں زیادہ کر دی ہیں.25 دونوں کے نسب ناموں میں ایک بڑا فرق یہ بھی ہے کہ متی نے یسوع کو داؤد کے بیٹے سلیمان کی اولاد سے قرار دیا ہے.اور لوقا نے داؤد کے بیٹے ناتن کی اولاد سے قرار دیا ہے.اس ضمن میں ایک دل چسپ بات یہ سامنے آئی ہے کہ قدیم زمانہ میں یہودیوں میں یہ بحث ہوا کرتی تھی کہ آنے والا مسیح داؤد کے کسی بیٹے کی نسل میں سے ہوگا.بعض یہ کہتے تھے کہ وہ داؤد کے بیٹے سلمان کی نسل میں سے ہوگا اور کچھ یہ کہتے تھے کہ وہ داؤد کہ کسی بیٹے کی نسل سے بھی ہوسکتا ہے.مندرجہ بالا تجزیہ سے یہ بات کھل کر سامنے آگئی ہے کہ لوقا اور متی کے پیش کردہ نسب ناموں میں بہت اختلافات ہیں.اور یہ اختلافات کسی خاص مقصد کے پیش نظر کئے گئے ہیں.اور وہ مقصد اس کے سوا اور کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ تا کسی نہ کسی طرح قدیم پیشگوئیاں مسیح پر چسپاں ہو جائیں.ان پیشگوئیوں میں سے چند ایک پیشگوئیاں جن کی بناء پر یہود میں یہ خیال پیدا ہو گیا کہ آنے والا مسیح داؤد کی نسل میں سے ہو گا مندرجہ ذیل ہیں: اوّل یسیاہ باب اا آیت ا میں لکھا ہے: ” اور ینسی کے تنے سے ایک کونپل نکلے گی اور ان کی جڑوں سے ایک بار آور شاخ پیدا ہوگی.“ دوم یرمیاہ باب ۲۳ آیت ۵ میں لکھا ہے : دیکھ وہ دن آتے ہیں.خداوند فرماتا ہے کہ میں داؤد کیلئے ایک صادق شاخ پیدا کروں گا.“ سوئم: زبور باب ۱۳۲ آیت ا اور آیت ۱۳ میں لکھا ہے: ” خداوند نے سچائی کے ساتھ داؤد سے قسم کھائی ہے کہ وہ اس سے پھرنے کا نہیں

Page 26

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - کہ میں تیری اولاد میں سے کسی کو تیرے تخت پر بٹھاؤں گا.“ 26 علماء بائیل نے بھی نسب ناموں کے اس اختلاف اور اناجیل کے دو متضاد نظریات کی وجہ سے پیدا ہونے والی اس الجھن کو محسوس کیا ہے اور اس پر بحث کی ہے.چنانچہ آکسفورڈ جونئیر انسائیکلو پیڈیا میں یسوع مسیح کے زیر لفظ جو مقالہ دیا ہے اس میں لکھا ہے: وو اور نئے عہد نامہ میں مسیح کے متعلق مختلف بیانات ملتے ہیں ایک طرف تو اسے یوسف اور مریم کا لڑکا کہا گیا ہے اور باپ کی جانب سے داؤد کے شاہی خاندان سے بتایا گیا ہے اور دوسری طرف یہ دعوی کیا گیا ہے کہ اسکا باپ نہ تھا اور وہ کنواری کے بطن سے پیدا ہوا تھا.“ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ یہود کا ایک بڑا طبقہ اس امر میں راسخ العقیدہ تھا کہ آنے والے مسیح کیلئے ابن داؤد ہونا لازمی ہے.اور اس بات کیلئے بالکل تیار نہ تھے کہ وہ یہ سوچتے بھی کہ یسوع مسیح داؤد کی نسل کے علاوہ بھی پیدا ہوا سکتا ہے.چنانچہ یہود کے اس عقیدہ کو مدنظر رکھتے ہوئے انا جبیل میں مسیح کے ایسے نسب نامے درج کئے گئے ہیں جو کم از کم یوسف نجار کی طرف سے مسیح کو ابن داؤد ثابت کرتے ہیں.چنانچہ پیکس کی شرح بائیبل کے صفحہ ۷۰۱ پر یوں لکھا ہے: شاید یہ تمام کے تمام نسب نامے اس لئے مرتب کئے گئے ہیں کہ یہود کے اس اعتراض کا جواب دیا جائے کہ یسوع مسیح نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ داؤد کی نسل سے نہیں ہے.لیکن اس بات کو ثابت کرنے کیلئے ان نسب ناموں کا سہارا ایک بودہ اور کمزور سہارا ہے جبکہ حضرت مسیح علیہ السلام یوسف نجار کی ذریت اور نسل سے ہی تسلیم نہیں کئے جاتے.بشپ اپنی فی نیس چوتھی صدی عیسوی میں لکھتے ہیں کہ ابتدائی موحدین عیسائی جو کہ یہودی النسل تھے اور ابیونی یعنی غریب الطبع کہلاتے تھے.متی اور لوقا کے نسب ناموں کی صحت کے منکر

Page 27

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل تھے اور انہوں نے انہیں مکمل طور پر رد کر دیا تھا.(Epifihancius:Hoer) 27 چنانچہ ابیونی فرقہ کے عیسائی متی کو کو خصوصاً محترف مبدل خیال کرتے تھے.جس کے ثبوت کے طور پر وہ اس بات کے دعوی دار تھے کہ متی کی اصل عبرانی انجیل ان کے پاس موجود ہے.متی کا نسب نامہ تاریخی حقائق کے اعتبار سے زیادہ تختہ مشق بنا ہے.اور لوقا کا نسب نامہ کسی حد تک درست تسلیم کیا گیا ہے.لیکن اگر درست بھی تسلیم کیا جائے تو یہ ہے تو یوسف مجا رہی کا نسب نامہ جو کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا ہر گز نہیں ہو سکتا.کیونکہ قرآن کریم اور ا نا جیل دونوں ماخذ ہی اس بات پرسو فیصدی متفق ہیں کہ حضرت یسوع ناصری بے باپ کے پیدا ہوئے تھے.قرآن کریم فرماتا ہے: يَأَهْلَ الْكِتَبِ لَا تَغْلُوا فِي دِينِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ، إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ : أَلْقَهَا (سورة النساء: آیت ۱۷۲) إِلَى مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِّنْهُ ترجمہ: اے اہل کتاب تم دین کے معاملہ میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کے متعلق سچی بات کے سوا کچھ نہ کہا کرو.مسیح عیسی ابن مریم ہیں اور اللہ تعالیٰ کے ایک رسول ہیں اور اسکی ایک بشارت ہیں جو اس نے مریم پر نازل کی تھی.اور اس کی طرف سے ایک رحمت ہیں.انا جیل میں پیش کردہ نسب ناموں میں بدقسمتی سے چار ایسی خواتین کا بھی ذکر ہے جن کا کردار از روئے بائیل ایسا نہیں ہے کہ وہ کسی طرح مسیح علیہ السلام کے لئے قابل فخر ہو سکیں.چنانچہ تم ، راحاب، روت اور اور یا کے متعلق بائیل میں لکھا ہے : اور یوں ہوا کہ قریب تین ماہ کے بعد یہوداہ سے کہا گیا ہے تیری بہو تمر نے زنا کیا اور دیکھ اسے چھنالے کا حمل بھی ہے.یہوداہ بولا اسے باہر لا کہ وہ جلائی

Page 28

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل جائے.جب وہ نکالی گئی تو اس نے اپنے سر کو کہلا بھیجا کہ مجھے اس شخص کا حمل ہے جس کی یہ چیزیں ہیں اور کہا کہ دریافت کیجئے کہ یہ چھاپ اور باز و بند اور یہ عصاء کس کا ہے.تب یہوداہ نے اقرار کیا اور کہا کہ وہ مجھ سے زیادہ صادق ہے.کیونکہ میں نے اسے اپنے بیٹے سیلہ کو نہ دیا.لیکن وہ آگے کو اس سے ہم بستر نہ ہوا.“ وہیں ٹکے.“ دو دو 28 ( پیدائش ۳۸ آیت ۲۴ تا ۲۶) وہ دومرد گئے اور ایک فاحشہ کے گھر میں جس کا نام راحاب تھا آئے اور ( یشوع باب ۲ آیت۱) روت نے نہا دھو کر خوشبو لگا کر اور اپنی پوشاک پہنی چپکے چپکے آئی اور اسکے پاؤں کھول کر لیٹ گئی اور آدھی رات کو ایسا ہوا کہ وہ مرد ڈر گیا اور اس نے کروٹ لی اور دیکھا کہ ایک عورت اس کے پاؤں کے پاس پڑی ہے.تب اس نے پوچھا تو کون (روت باب ۳ آیت ۷-۸) ہے؟ اس نے کہا میں تیری لونڈی روت ہوں.سو تو اپنی لونڈی پر اپنا دامن پھیلا دے.کیونکہ تو نزدیک کا قریبی ہے.“ ایک دن شام کو ایسا ہوا کہ داؤد اپنے بچھونے پر سے اٹھا اور بادشاہی محل کی چھت پر ٹہلنے لگا.وہاں سے اس نے ایک عورت کو دیکھا جو نہا رہی تھی وہ نہایت خوبصورت تھی.تب داؤد نے اس عورت کا حال دریافت کرنے کو آدمی بھیجے.انہوں نے کہا کہ وہ العام کی بیٹی بنت سبع حتی اور یا کی جورو نہیں ؟ اور داؤد نے لوگ بھیج کر اس عورت کا بلا لیا.چنانچہ وہ اس کے پاس آئی اور وہ اس سے ہم بستر ہوا.کیونکہ وہ ناپاکی سے پاک ہوئی تھی.اور وہ اپنے گھر کو چلی گئی.اور وہ عورت حاملہ ہوگئی.“ (۲ سیموایل باب ۱۱ آیت ۲ تا ۵) مذکورہ بالا چارخواتین کا ذکر نسب نامہ میں ملتا ہے اور بتایا گیا ہے کہ وہ بدکردار تھیں.نامعلوم

Page 29

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ از روئے قرآن و انجیل.29 انجیل نویسوں کے نزدیک ان کے ذکر سے کیا مطلب ہے.ان کا ذکر نہ تو مسیح علیہ السلام کیلئے قابل فخر ہو سکتا ہے نا آپ کے قانونی باپ یوسف کیلئے.اور نہ ہی انبیاء کرام کی یہ شان ہے کہ نعوذ باللہ ان کی جدات بدکردار ہوں بلکہ ان کی تو شان یہ ہے کہ وہ صحیح النسب ہوتے ہیں.تا کہ کوئی ان پر طعن و تشنیع نہ کر سکے.اور خدا تعالیٰ کی سنت بھی یہی ہے کہ اسکا نبی مفقود النسب نہیں ہوتا بلکہ اس کی زندگی اور خاندانی شرافت و نجابت اس کی سچائی کی دلیل ہوتی ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کے خاندانی حالات قرآن کریم میں سورۃ آل عمران میں خاندان عمران کے اصطفاء کا ذکر ہے اور اس کے بعد حضرت مریم کی والدہ کا ذکر ہے.اور انہیں امراة عمران کہا گیا ہے.یعنی عمران کے خاندان کی ایک عورت اور اس کے بعد حضرت مریم ، حضرت یحییٰ اور حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کی پیدائش کا ذکر آتا ہے.اس ترتیب سے ظاہر ہے کہ قرآن کریم سب کو آل عمران سے قرار دیتا ہے.جیسا کہ لکھا ہے: إِنَّ اللَّهَ اصْطَفَى آدَمَ وَنُوحًا وَّالَ إِبْرَاهِيمَ وَآلَ عِمْرَانَ عَلَى الْعَلَمِيْنَ ذُرِّيَّةً بَعْضُهَا مِنْ بَعْضٍ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ.إِذْ قَالَتِ امْرَأَتُ عِمْرَنَ رَبِّ إِنِّي نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنّى : إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ فَلَمَّا وَضَعَتْهَا قَالَتْ رَبِّ إِنِّي وَضَعْتُهَا أُنْثَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا وَضَعَتْ ، وَلَيْسَ الذَّكَرُ كَالا نُثَی وَإِنِّي سَمَّيْتُهَا مَرْيَمَ وَإِنِّيْ أعِيْدُهَا بِكَ وَذُرِّيَّتَهَا مِنَ الشَّيْطَنِ الرَّحِيمِ (سورة ال عمران آیات ۳۴ تا ۳۷)

Page 30

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 30 ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم اور حضرت نوح کو برگزیدہ کیا اور نسل ابراہیم اور نسل عمران کو اپنے زمانہ کے لوگوں پر امتیاز بخشا.(اس نے ) ایک ایسی نسل کو ( فضیلت دی ) جو ایک دوسرے سے پوری مطابقت رکھنے والی تھی اور اللہ بہت سننے والا (اور ) بہت جاننے والا ہے.اور وہ وقت بھی یاد کرو جب نسل عمران کی ایک عورت نے بارگاہ ایزدی میں عاجزانہ دعا کی اور کہا کہ خداوند میرے پیٹ میں جو بچہ ہے میں اسے تیرے لئے وقف کرتی ہوں.اور وہ دنیوی دھندوں سے آزاد ہوگا.تو میری یہ قربانی قبول فرما تو سننے والا اور جاننے والا ہے.جب اس خاتون نے بچہ جنا تو اسے دیکھ کر کہا کہ اے خدا میرے ہاں تو لڑکی پیدا ہوئی ہے.اللہ کوخوب پتہ ہے کہ اس نے کیا جنا تھا.اس کا ذہنی لڑکا اس لڑکی کی طرح نہیں ہوسکتا تھا.اس نے کہا میں اب اس کا نام مریم رکھتی ہوں.اور اسے اور اسکی ذریت کو شیطان الرجیم سے بچانے کیلئے تیری پناہ میں دیتی ہوں.اس کے علاوہ سورۃ تحریم میں بھی حضرت مریم کو بنت عمران کہا گیا ہے اور فرماں بردار قرار دیا گیا ہے.اور سورۃ مائدہ اور سورۃ آل عمران میں حضرت مریم کو پاکباز اور صدیقہ کہا گیا ہے.اور آپکی فضیلت کو بیان کیا گیا ہے.جیسا کہ لکھا ہے: رُّوحِنَا.وَ مَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَانَ الَّتِي أَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَحْنَا فِيْهِ مِنْ (سورة التحريم: آیت ۱۳) ترجمہ: اور مریم جو عمران کی بیٹی تھی جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی تھی اور ہم نے اس میں اپنا کلام ڈالا تھا.مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُوْلٌ : قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ

Page 31

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل الرُّسُلُ، وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ.ط (سورة المائدة : آیت (۷۶) 31 ترجمہ: اور درحقیقت مسیح ابن مریم صرف ایک رسول تھے اور اس سے قبل کے تمام رسول بھی وفات پاچکے ہیں.اور اس کی ماں بڑی راستبا رتھی.وَ صَدَّقَتْ بِكَلِمَتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَنِتِينَ ٥ (سورة التحريم: آیت ۱۳) ترجمہ: اور اس نے اس کلام کی جو اس کے رب نے اس پر نازل کیا تھا تصدیق کی تھی اور اسکی کتب پر ایمان لائی تھی.اور ہوتے ہوتے ایسی حالت کو پہنچ گئی تھی کہ فرماں برداری کا اعلیٰ مقام حاصل کر لیا تھا.وَإِذْ قَالَتِ الْمَئِكَةُ يَمَرْيَمُ إِنَّ اللهَ اصْطَفْكِ وَطَهَّرَكِ وَ اصْطَفْكِ عَلَى نِسَاءِ الْعَلَمِيْنَ.(سورة آل عمران آیت (۴۳ مندرجہ بالا آیات قرآنیہ سے مندرجہ ذیل امور مستنبط ہوتے ہیں.اوّل یہ کہ حضرت مریم خاندان عمران کی چشم و چراغ تھیں اور آپ بہت نیک اور صدیقہ تھیں اور آپ حضرت عیسی علیہ السلام پر نازل ہونے والے کلام الہی پر چلنے والی فرماں بردار اور اس زمانہ کی تمام خواتین پر فضیلت رکھتی تھیں.اور آپ حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں کے ساتھ مل کر عبادت کرتی تھیں.اور ان میں ایک نمایاں مقام رکھتی تھیں.چنانچہ بخاری کی حدیث کی کتاب میں بھی حضرت عیسی علیہ السلام اور حضرت یحییٰ علیہ السلام کی رشتہ داری کا حوالہ ملتا ہے.لکھا ہے: إِنَّ يَحْىٰ وَعِيْسَىٰ هُمَا إِبْنَا الْخَالَة.کہ یحی او عیسی علیھما السلام خالہ زاد بھائی تھے.(البخاری باب المعراج از ابو عبید اللہ محمد بن اسماعیل بخاری، مکتبہ رحمانیہ اردو بازار، لاہور )

Page 32

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل 32 مسلمانوں کے علماء سیر و تاریخ بھی کہتے ہیں کہ حضرت زکریا علیہ السلام حضرت مریم کے کفیل بھی اسی لئے بنائے گئے تھے کہ زکریا کی بیوی الیصبات اور والدہ حضرت مریم حنا دونوں حقیقی بہنیں تھیں (ا پا کر فل نیوٹامنٹ از ایم آر جیمس صفحہ ) اور خالہ زاد بمنزلہ والدہ کے ہوتی ہے.(دیکھیں فتح الباری جلد ۴ صفحه ۳۶۴) دراصل حضرت یحی علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی خالہ کے بیٹے تھے.والدہ کی خالہ کو اولاد بھی خالہ ہی کہتی ہے.اس لئے مجاز حدیث بخاری میں ا بنا الخالہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے.قرآن وحدیث کے ان شواہد کی روشنی میں یہ استنتاج درست ہوگا کہ حضرت عیسی علیہ السلام کو خاندان آل عمران کا ایک فرد سمجھا جائے.کیونکہ آپ کی والدہ کا تعلق آل عمران سے ثابت ہو گیا ہے.دوسری بات یہ ہے جو بیان ہوئی ہے کہ آپ فرماں بردار، نیک ایماندار اور تمام عورتوں میں ایک فضیلت رکھنے والی خاتون تھیں.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس بات کو بیان کرنے کی ضرورت کیوں پڑی کہ آپ ایک نیک اور فرماں بردار خاتون تھیں.اس سوال کا جواب دینے سے قبل حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ کا پیش کردہ اصول بیان کر دینا ضروری سمجھتا ہوں.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں : یادر ہے کہ قرآن شریف یہود اور نصاری کی غلطیوں اور اختلافات کو دور کرنے کیلئے آیا ہے.اور قرآن شریف کی کسی آیت کے معنی کرتے وقت جو یہود اور نصاری کے متعلق ہوں یہ ضرور دیکھ لینا چاہئے کہ ان میں جھگڑا کیا تھا.جس کا فیصلہ قرآن شریف کرنا چاہتا ہے.(براہین احمدیہ (روحانی خزائن ) ایڈیشن اول جلد پنجم صفحه ۴۱) چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے اپنی تفسیر کبیر زیرآیت: يَأُخْتَ هَرُوْنَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَّمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيَّاهِ (سورة مريم: آیت ۲۹)

Page 33

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 33 33 میں وہ بات بیان فرما دی ہے جس پر ان میں جھگڑا تھا.آپ فرماتے ہیں: یعنی اے ہارون کی بہن تیرا باپ تو برا آدمی نہیں تھا.اور تیری ماں بھی بد کا رنہیں تھی.پھر یہ کیا اندھیر ہوگیا.میرے نزدیک اس کے ایک معنی اور بھی ہیں.جس سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے حضرت مریم کو ہارون کی بہن طنز کے طور پر کہا تھا.بات یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی ایک سوتیلی بہن تھی.جو ہارون کی سگی تھی یا بعض مورخوں کے نزدیک وہ حضرت موسیٰ کی سوتیلی بہن نہیں بلکہ سالی تھی.اور اس کا نام بھی مریم تھا.(گنتی باب ۱۲) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مریم نے جو ہارون کی سگی تھی اور حضرت موسیٰ کی سوتیلی تھی اور بعض کے نزدیک حضرت موسیٰ کی سالی تھی.بہر حال ہارون سے اس کا زیادہ رشتہ تھا اور موسیٰ سے کم.ہارون کے ساتھ مل کر ایک کوشی عورت سے شادی کرنے کی وجہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر اعتراض کئے تھے.قرآن کریم سے پتہ لگتا ہے کہ یہ اعتراض اس حد تک تھے کہ گویا ناجائز تعلق قائم کیا گیا ہے.کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يْأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ اذَوْا مُوسَى فَبَرَّاهُ اللَّهُ مِمَّا قَالُواء (سورة الاحزاب : آیت (۷۰) یعنی اے ایمان والو تم ان لوگوں کی طرح نہ بنو جنہوں نے موسیٰ کو اذیت دی.پھر خدا نے اس کی بریت کی.معلوم ہوتا ہے کہ یا تو انکو یہ اعتراض تھا کہ ایک بدکار عورت سے موسیٰ نے شادی کر لی ہے اور یا یہ تھا کہ کسی شادی شدہ عورت سے شادی کر لی ہے.بہر حال پتہ لگتا ہے کہ ان پر نا جائز رشتہ کا الزام لگا تھا.اور بائیبل میں لکھا ہے کہ اس جرم کی سزا میں مریم کو کوڑھی کر دیا گیا تھا.مگر چونکہ بائیل ایک طرف یہ بتاتی ہے کہ ہارون اور مریم دونوں نے اعتراض کیا اور دوسری طرف بائیبل سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ

Page 34

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 34 صرف مریم کو سزا ملی ہارون کو سزا نہ ملی اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ ہارون کا نام بائیبل میں حسب معمول انبیاء پر اعتراض کرنے کے شوق میں درج کر دیا گیا ہے...پس میرے نزدیک یا أُخْتَ هَرُونَ کہ کر انہوں نے طعنہ دیا ہے کہ اے ہارون کی بہن.یعنی جس طرح اس مریم نے قہر مارا اور وہ کوڑھی ہو گئی تھی اس طرح تو نے بھی کوڑھیوں والا کا م کیا ہے.پس ان الفاظ میں ان کی طعنہ زنی تھی.کہ اس مریم نے بھی طوفان اٹھایا تھا تو نے بھی طوفان اٹھایا ہے.اس نے موسیٰ پر بدکاری کا الزام لگایا تھا.اور تو نے آپ بدکاری کی ہے.حالانکہ تیرا باپ برا نہیں تھا.اور تیری ماں بھی بری نہیں تھی.پس تو نے یہ کیا گندا چھالا.“ اسی طرح ایک مسیحی مصنف اپنی کتاب مسیح کی شان کے صفحہ ے پر لکھتے ہیں : ان پر خدا کی مار ہوئی اور آج بھی اُن مردود یہودیوں کے بعض ہمنوا اس پاکباز پر زبان طعن دراز کرتے ہیں.اور اس لعنت میں شریک ہوتے ہیں.جو یہودیوں کیلئے مقدر ہے.“ چنانچہ ایک تو یہ طعن تھا جو یہودیوں کی طرف سے آپ پر کیا جاتا تھا کہ آپ نے نعوذ باللہ بدکاری کی تھی.اور اسی وجہ سے غالباً یہودیوں کو خوش کرنے کیلئے انجیل نویسوں نے جا بجا ایسے بیانات رقم کئے ہیں جن سے حضرت مریم کا مقام کم درجہ کا معلوم ہو.خصوصاً متی میں ایسے بیانات زیادہ ملتے ہیں.کیونکہ متی کی انجیل خاص طور پر یہودیوں کیلئے اور یہودی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے.اسی لئے اس میں عہد نامہ قدیم کی پیشگوئیاں دوسری انا جیل کی نسبت زیادہ چسپاں کرنے کی کوشش نظر آتی ہے.لکھا ہے: ” جب وہ بھیٹر سے یہ کہہ ہی رہا تھا تو دیکھو اسکی ماں اور بھائی باہر کھڑے تھے اور اس سے بات کرنا چاہتے تھے.کسی نے اس سے کہا دیکھ تیری ماں اور تیرے بھائی باہر

Page 35

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.کھڑے تجھ سے بات کرنا چاہتے ہیں.اس پر اس نے جواب میں خبر دینے والے سے کہا کون ہے میری ماں اور کون ہیں میرے بھائی؟ اور اپنا ہاتھ شاگردوں کی طرف بڑھا کر کہا کہ دیکھو میری ماں اور میرے بھائی یہ ہیں کیونکہ جو کوئی میرے آسمانی باپ کی مرضی پر چلے وہی میرا بھائی اور میری بہن اور میری ماں ہے.“ 35 (متنی باب ۱۲ آیت ۴۹ تا ۵۰) ” وہ حیران ہو کر کہنے لگے یہ حکمت اور معجزے کہاں سے آئے ہیں.کیا یہ بڑھئی کا بیٹا نہیں ؟ اور اسکی ماں کا نام مریم اور اسکے بھائی یعقوب اور یوسف اور شمعون اور یہوداہ نہیں ؟ اور کیا اسکی سب بہنیں ہمارے ہاں نہیں.(انجیل مرقس باب ۳ آیت ۲۱) ” جب اسکے عزیزوں نے یہ سنا تو اسے پکڑنے کیلئے نکلے کیونکہ کہتے تھے وہ بے خود (انجیل مرقس باب ۶ آیت ۳۲) ہے." پھر لکھا ہے کہ اس کی ماں سے بے رخی اتنی بڑھی ہوئی تھی کہ ایک دفعہ ایک عورت نے اس کے لیکچر سے متاثر ہو کر کہا: ”مبارک ہے وہ پیٹ جس میں تو رہا اور وہ چھاتیاں جو تو نے چوسیں.مگر مسیح سے اتنی بات بھی برداشت نہ ہو سکی.اور اس نے کہا: مگر زیادہ مبارک وہ ہیں جو خدا کا کلام سنتے اور اس پر عمل کرتے ہیں.“ (انجیل لوقا باب ۱۱ آیت ۲۷.۲۸) یہ وہ طعن و تشفیع اور حضرت مریم کی نعوذ باللہ بے ایمانی اور یسوع کی نبوت سے انکار کی تصویر ہے جو علماء یہود اور علماء انجیل دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے.قرآن کریم نے اسکی پر زور تردید کی ہے اور بتایا ہے کہ حضرت مریم عفیفہ تھیں اور راستباز اور ایمان دار تھیں اور دیگر حواریوں کے ساتھ مل کر رکوع و سجود کرنے والی عبادت گزار تھیں اور اس وقت کی تمام خواتین مثلاً مریم مگد لینی وغیرہ

Page 36

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 36 سے افضل تھیں.عجیب بات تو یہ ہے کہ انا جیل میں ہی لکھا ہے کہ آپ روح القدس سے حاملہ ہوئیں اور فرشتہ نے آپکو اس غیر معمولی پیدائش اور معجزانہ طور پر ایک غیر معمولی قوتوں والے بیٹے کی بشارت دی تھی.جو ظاہری حالات کے لحاظ سے قطعی ناممکن نظر آتی تھی.اور پھر خدا تعالیٰ نے اس ناممکن کو ممکن بنا دیا.پھر بھی وہ باوجود اس عظیم الشان نشان کو دیکھنے کے انجیل کے کہنے کے مطابق مسیح علیہ السلام کو نعوذ باللہ پاگل سمجھتی رہیں اور اس پر ایمان نہ لائیں.اگر کسی کو رویاء میں بچہ کی پیدائش کے متعلق بتایا جائے پھر اس کے ہاں بچہ پیدا ہو جائے تو بے شک یہ ایک نشان ہوگا.مگر جتنا بڑا یہ معجزہ تھا اتنا بڑا نہیں ہو سکتا.یہاں کوئی معمولی نشان نہیں دکھایا گیا.یہاں ایک کنواری حاملہ ہوتی ہے.اور فرشتہ اس کے پاس آتا ہے اور اسے خبر دیتا ہے کہ تیرے ہاں بچہ ہوگا اور اپنے اندر یہ صفات رکھے گا اور پھر واقعہ اسے حمل ہو جاتا ہے اور اسکے ہاں بچہ پیدا ہو جاتا ہے.اور وہ دنیا میں غیر معمولی عزت اور شہرت حاصل کرتا ہے.کیادنیا کی کوئی بھی عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ اتنے بڑے نشان کے بعد بھی وہ عورت اپنے بچے کو پاگل کہے گی.یا اسکے دعوی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دے گی.جس نے خدا تعالیٰ کی قدرت کا اتنا بڑا اور عظیم الشان نشان دیکھا اس کیلئے تو انکار کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی.پس انجیل کا یہ بیان کہ آپ کا فرد تھیں اور آپ حضرت عیسی کو پاگل سمجھتی تھیں عقلاً نا قابل قبول ہے.انجیل میں کئی مریموں کا ذکر آتا ہے جنکی نیکی اور تقدس کی بڑی تعریف کی گئی ہے.لیکن وہ مریم جو مسیح کی ماں تھی اسکو عیسائیوں نے مسیح کا دشمن اور مخالف ظاہر کیا ہے.یہ بات نا قابل یقین ہے.در اصل ام عیسی کو ہی دیگر خواتین پر فضیلت دی گئی تھی.بنی اسرائیل کے محاورہ کے مطابق کسی کو ذراسی کچی خواب آ جاتی تھی تو اسے نبیہ کہ دیا جاتا تھا.حضرت مریم کو تو کشفی طور پر عظیم الشان بشارت دی گئی اور ان کو اس غرض کیلئے ان کی پارسائی اور نیکی کی بدولت اور قرب خداوندی کے بموجب اس زمانے کی تمام خواتین میں چنا گیا.ان پر روح القدس کا نزول ہوا.ان کے بطن سے

Page 37

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل 37 حضرت عیسی علیہ السلام جیسا عظیم الشان نبی پیدا ہوا.جو سلسلہ موسوی کا آخری نبی اور آنحضرت جیسے باکمال اور افضل الرسل خاتم النبین ﷺ کا ارباص ہوا.دھیری نے قرآن کریم پر الزام لگایا ہے کہ وہ واقعات کو دنیا کے سامنے غلط رنگ میں پیش کرتا ہے.لیکن یہاں تو قرآن کریم کے پیش کردہ حقائق نہ صرف واقعات و مشاہدات بلکہ عقل کی کسوٹی پر بھی سو فیصدی صحیح ثابت ہورہے ہیں.بلکہ اناجیل نے واقعات کو توڑ مروڑ کر حقائق کے برخلاف لکھا ہے.ایک معمولی عقل کا آدمی بھی اس بات کو سمجھ سکتا ہے کہ متی مرقس لوقا اور یوحنا نے یہ ظاہر کرنے کیلئے کہ وہ بہت مقرب ہیں مسیح کی والدہ پر انتہائی ظلم کیا ہے کہ ان کو کافرہ اور بے ایمان ٹھہرا دیا ہے.لیکن قرآن کریم نے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی علیحدہ کر کے دکھا دیا ہے.چنانچہ حضرت مریم جو اپنے بیٹے کا جلد از جلد بڑھنا اور حکمت اور دانائی میں ترقی کرناد یکھ چکی تھیں اور ان پر ایمان لائی تھیں.مصر میں ناگ حمادی کے مقام سے نکلنے والی تو ما حواری کی انجیل میں ایک مسیح کا قول لکھا ہے جس سے یہ بات مزید پایہ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ قرآن کا بیان ہی درست ہے.یسوع نے کہا جو اپنے باپ اور ماں سے میری راہ میں نفرت نہیں کرتا وہ میرا شاگر دنہیں بن سکے گا.اسی طرح جو شخص اپنے باپ اور ماں سے میری راہ میں محبت نہیں کرے گا وہ میرا شاگرد نہیں بن سکے گا.اس کے بعد اپنی والدہ کے متعلق فرماتے ہیں: ” میری ماں ہاں میری صدیقہ ماں اس نے مجھے زندگی سے روشناس کیا.“ ( قول ۱۰۱) (The Gospal According to Thomas Published by Harper & Brothers 1959) اس حوالہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ مسیح کی تعلیم عمومی رنگ میں یہ تھی کہ اس کے شاگرد اپنے کافر والدین سے بے شک علیحدہ رہیں مگر مومن والدین سے حسن سلوک کریں اور اپنی والدہ

Page 38

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ از روئے قرآن و انجیل 38 کو آپنے صدیقہ کہا ہے اور ان کے احسان کو بیان کیا ہے.جس سے قرآنی بیان کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ وہ درست حقائق کو بیان کر رہا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کا خاندان اور خاندانی حالات از روئے بائیبل تو رات کی رو سے عمرام یا عمران حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون اور انکی بہن مریم کے والد کا نام ہے ( گفتی باب ۲۶ آیت ۵۹) عمران لاوی بن اسرائیل کے پوتے تھے اور خاندان عمران کے بانی تھے (خروج باب ۶ آیت ۱۸ تا ۲۰) اور بنی اسرائیل میں خاندان کہانت کا تعلق حضرت ہارون کی نسل سے تھا ( تواریخ اول باب ۶ آیت (۴۴) جو کہ آل عمران کے چشم و چراغ تھے.چونکہ کا ہن اس خاندان میں سے چنے جاتے تھے اس لئے یہ خاندان بنی اسرائیل میں سے سب سے بڑی عزت و منزلت کا نشان سمجھا جاتا تھا.اسی خاندان سے شروع میں حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون جیسے نبی ظاہر ہوئے.اور ان کی بڑی بہن مریم بھی ملہمہ تھی.جس کے باعث تو رات میں ان کو نبیہ لکھا گیا ہے.(گنتی باب ۲۶ آیت ۵۹) پھر حضرت ہارون کی نسل میں کا ھنوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو دین اور شریعت کے محافظ اور کل قوم کے امام تھے.بائیبل میں لکھا ہے کہ عمرام کی اولا د ہارون اور موسیٰ اور مریم اور نبی ہارون ہیں.(دیکھیں تواریخ اول باب ۴ آیت۱) آخر میں اس خاندان میں سے حضرت زکریا اور حضرت یحی علیہ السلام مبعوث ہوئے.اور انجیل لوقا میں صاف طور پر لکھا ہے کہ حضرت زکریا مشہور و معروف کا ہن ابیاہ کی نسل میں سے تھے.( دیکھیں لوقا 1 آیت ۵) تو رات میں یہ بھی لکھا ہے کہ ابیاہ ابنائے ہارون میں سے تھے یعنی آل عمران سے تعلق رکھتے تھے.(دیکھیں تواریخ اول باب ۲۴ آیت ۱۰ تا ۱۹) ابتدائی موحد عیسائی فرقہ جو کہ ابیونی کہلاتا تھا ان

Page 39

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.39 کی ایک انجیل جس کا نام اہیونیوں کی انجیل ہے.اس میں لکھا ہے کہ حضرت عیسی ہارون کی نسل سے تھے.(دیکھیں اپا کر فل نیوٹیسٹا منٹ از ایم اراجیمس صفحہ ۹) حضرت یحییٰ علیہ السلام کی والدہ اور حضرت زکریا علیہ السلام کی اہلیہ الصبات بھی اسی خاندان یعنی ہارون کی نسل سے تھی (لوقا : آیت ۵) حضرت مریم کی والدہ کا نام اناجیل اربعہ میں نہیں آیا لیکن عیسائی لٹریچر میں ان کا نام حتا بیان ہوا ہے.وہ بھی اسی نسل سے تعلق رکھتی تھی یہ وجہ ہے کہ انجیل میں الیصبات اور حضرت مریم کو قریبی رشتہ دار بتایا گیا ہے.(لوقا : آیت ۳۶) اور حتا اور الیصبات رشتہ میں بہنیں تھیں.حضرت مسیح ناصری علیہ السلام چونکہ حضرت مریم کے بطن سے بغیر باپ کے پیدا ہوئے اسی لئے آپکا خاندان بھی وہی ہوا جو آپ کی والدہ کا خاندان تھا یعنی آل عمران.اور اس بات کی تصدیق قرآن کریم نے کی ہے.اور انجیل بھی اس کی مصدق ہے.دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہئے کہ وہ خاندان جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون علیہ السلام جیسے عظیم الشان نبیوں سے شروع ہوا حضرت عیسی علیہ السلام پر آکر اس روحانی سلسلہ کا اختتام ہو گیا.چنانچہ قرآن کریم میں اسی وجہ سے آل عمران کے روحانی اصطفاء کا ذکر بڑے شاندار الفاظ میں ملتا ہے.اور بائیبل کے یہ بیانات بھی آپ کے خاندان کو روحانی منزلت رکھنے والا آل عمران کا خاندان قرار دیتے ہیں.اب یہ دیکھنا چاہئے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کس خاندان کی طرف اپنے آپ کو منسوب فرماتے تھے.اگر آپ کسی خاندان کی طرف اپنے آپکو منسوب نہیں فرماتے تھے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو اس کی طرف منسوب نہیں کر سکتی.انجیل میں جو آپ کو ابن داؤد کہا جاتا ہے اس کے متعلق آپ خود کیا کہتے ہیں.اول تو انا جیل اربعہ میں ایک جگہ بھی ایسی نہیں ہے جہاں آپ نے خود کو ابن داؤد کہا ہو.بلکہ اس کے برعکس انا جیل اربعہ میں آپ کا واضح انکار موجود ہے کہ میں ابن داؤد نہیں ہوں ! انجیل مرقس میں لکھا ہے کہ ایک اندھے نے یسوع مسیح کو ابن داؤد کے لقب سے پکارا اور

Page 40

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 40 اپنی بینائی کی واپسی کیلئے التجا کی ( باب ۱۰ : آیت ۴۷) چنانچہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام بھی اس بات کو خوب سمجھتے تھے کہ یہودیوں کیلئے آنے والے مسیح کا داؤد کی نسل میں سے ہونا لازمی قرار دیا جاتا ہے.چنانچہ آپ نے اس بات کا ازالہ کرنا ضروری سمجھا جیسا که مرقس باب ۱۲ : آیت ۳۵ تا ۳۷ میں لکھا ہے : و پھر یسوع نے ہیکل میں تعلیم دیتے وقت یہ کہا کہ فقیہ کیونکر کہتے ہیں کہ مسیح داؤد کا بیٹا ہے؟ داؤد نے خود روح القدس کی ہدایت سے کہا خداوند نے میرے خداوند سے کہا میری داھنی طرف بیٹھ.جب تک میں تیرے دشمن کو تیرے پاؤں کے نیچے نہ کر دوں داؤد تو آپ اسے خداوند کہتا ہے.پھر وہ اس کا بیٹا کہاں سے ٹھہرا.“ ہوا ہے.یہ واقعہ منی میں باب ۲۲: آیت ۴۴ تا ۴۵ اور لوقا میں باب ۲۰: آیت ۴۱ تا ۴۴ میں بھی بیان ان حوالوں سے تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام یہودیوں کے اس خیال کو رد فرماتے تھے کہ یہ سمجھا جائے کہ مسیح موعود لازمی طور پر داؤد کی نسل سے ہوگا اور ابن داؤد کہلائے گا.آپکی دلیل یہ ہے کہ جب داؤد نے آنے والے مسیح موعود کو اپنا بیٹا نہیں کہا بلکہ اپنا آقا او خداوند کہا ہے تو پھر ابن داؤد کیسے ہو سکتا ہے.مرقس کے اس مقام کی شرح کرتے ہوئے پیکس تفسیر بائیل میں زیر عنوان ” کیا مسیح ابن داؤد ہے“ لکھا ہے.”اب یسوع اپنے سامعین سے ایک سوال پوچھتے ہیں اس سوال کی غرض و غائیت کیا ہے؟ اسکی تعین تو آسان بات نہیں.لیکن بظاہر یسوع یہ سمجھتے تھے کہ مسیح موعود کی صداقت کیلئے داؤد کی نسل سے ہونا کوئی لازمی امر نہیں.کیونکہ یسوع کے نزدیک آنے والے مسیح کا مقام نسل داؤد کی برتری سے بالا تر تھا.مرقس کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو یسوع یہ سمجھتے تھے کہ وہ داؤد کے خاندان میں سے نہیں یا وہ اس تعلق کو بہت کم

Page 41

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل اہمیت دیتے تھے.“ 41 اسی طرح کنسائزہ تفسیر بائیل میں مرقس ۳۵ آیت ۱۲ صفحہ ۶۹۶ پر لکھا ہے: اس سے ظاہر یہ ہوتا ہے کہ یسوع نے ابن داؤد کا لقب اختیار نہیں کیا.بلکہ اس کو رڈ کیا یا پھر یہ صورت ہو سکتی ہے کہ یسوع نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ اس کو داؤد کی نسل سے ایک بادشاہ ثابت کرنا ایک مشکل امر ہے.یسوع کا استدلال یہ ہے کہ اگر مسیح موعود داؤد کا بیٹا ہے تو داؤد نے آنے والے مسیح کو اپنا آقا اور خداوند کیوں کہا ہے...یہ امر بھی نہایت قابل توجہ ہے کہ مرقس باب ۱۱ آیت ۱۰ کی رو سے مسیح کے عقیدت مند لوگ آپ کی آمد کو ہمارے باپ داؤد کی بادشاہت کا ظہور قرار دیتے ہیں.لیکن یہ نہیں کہتے کہ یسوع ابن داؤد ہے.66 (Concise Bible Commentary By The Rewerend W.K Clark.page 195 published by Macmillan 1953) ان مذکورہ بالا حوالوں سے یہ بھی نتیجہ نکلتا ہے کہ شارحین بائیبل بھی مرقس کے اس مقام کی شرح میں بالکل بے بس ہو کر رہ گئے ہیں اور یہ ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اس بات کا اظہار کریں کہ حضرت مسیح نے ابن داؤد ہونے کا دعویٰ نہیں کیا.اور یوحنا کے ایک حوالہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بھی آپکو آل داؤد سے نہ سمجھتے تھے.جیسا کہ لکھا ہے: و بس بھیڑ میں سے بعض نے یہ باتیں سن کر کہا بے شک یہی وہ نبی ہے اور وں نے کہا یہ مسیح ہے.بعض نے کہا کیوں؟ کیا مسیح گلیل سے آئے گا.کیا کتاب مقدس میں یہ نہیں آیا کہ مسیح داؤد کی نسل اور بیت لحم کے گاؤں سے آئے گا جہاں کا داؤ د تھا.“ (یوحنا باب ۷ آیت ۴۰ تا ۴۲) اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کیلئے یہ لازم سمجھا جاتا تھا کہ وہ داؤد کی نسل سے ہو اور

Page 42

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 42 بیت الم کے گاؤں سے ظاہر ہو.مسیح چونکہ لوگوں کے نزدیک گلیل کے گاؤں ناصرہ سے ظاہر ہوا اور نہ داؤد کی نسل سے ہی تھا اس لئے لوگ معترض ہوئے اور کہا کہ یہ مسیج کیسے ہو سکتا ہے.متی میں لکھا ہے کہ مسیح کے عقیدت مندوں نے جب آپ کا جلوس نکالا تو ابن داؤد کے خطاب سے آپکو پکارا.(۲۱ باب ۹ آیت) لیکن مرقس میں جو کہ قدیم ترین انجیل ہے.اس واقعہ کے بیان میں ابن داؤد کا خطاب موجود نہیں.( باب ۹:۱۱ آیت) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بعد کی اختراع اور ایجاد ہے.اب یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ از روئے انجیل آپ آل داؤد کی بجائے آل عمران سے تھے.اور یہی عام لوگ آپ کے متعلق سمجھتے تھے.قرآن کریم بھی آپکو آل عمران ہی قرار دیتا ہے.اور حواری بھی آپ کو ابن مریم کہ کر پکارتے تھے.حضرت مسیح ناصری گلیل کے علاقہ میں بود و باش رکھتے تھے.اور اس علاقہ میں ماہی گیری ایک اہم پیشہ تھا.اکثر حواری ماہی گیر تھے.اور یسوع نے انہیں کہا تھا کہ آؤ میں تمہیں آدم گیر بنادوں.لیکن انجیل کے بیان کردہ ان کے قانونی باپ یوسف نجاری کا کام کرتے تھے.اس لئے آپ کو نجار کہ دیا گیا ہے اور یہ کوئی بعید بھی نہیں کہ آپ نے اپنے قانونی والد یوسف کا ہاتھ بٹانے کیلئے یہ پیشہ بھی اختیار کیا ہو.جیسے کہ لکھا ہے: " کیا یہ وہی بڑھئی نہیں جو مریم کا بیٹا اور یعقوب اور یوسیس اور یہودہ اور شمعون کا بھائی ہے.‘“ (مرقس باب ۶ آیت ۳)

Page 43

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل باب دوئم حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش 43 انبیاء کرام جو آسمان روحانیت کی رفعتوں میں چمکنے والے ستارے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے نظر انسانی امید کا پیغام حاصل کرتی ہے اور فکر انسانی دعوت عمل کی راہ متعین کرتی ہے اور جب ذات خداوندی اپنی قدرت کاملہ کے تحت ہدایت انسانی کیلئے انکی بعثت مقدر کرتی ہے تو سماء د نیا پر بھی تمثیلی رنگ میں ایسے نجوم ابھر آتے ہیں جو انزال رحمت خداوندی کی نشاندہی کرتے ہیں، اور اسطرح سے یہ وجود جہاں ایک طرف طاغوتی قوتوں کیلئے اجل کا پیغام بن جاتے ہیں وہاں ملکوتی طاقتوں کے لئے رحمت کا نشان ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: الْحَقُّ سَنُرِيهِمْ آيَتِنَا فِي الآفَاقِ وَفِي أَنْفُسِهِمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُ (سورة حم السجده : آیت ۵۴) ترجمہ: پس ہم ضرور انہیں آفاق میں بھی اور اُن کے نفوس کے اندر بھی اپنے نشانات دکھائیں گے یہاں تک کہ اُن پر خوب کھل جائے کہ وہ حق ہے.پس یہ الہی سنت ہے کہ انبیاء کی صداقت ظاہر کرنے کیلئے آفاقی نشانات ظاہر کئے جاتے ہیں چنانچہ اس کے مطابق جب حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کا زمانہ قریب آیا تو مشرق میں ایک ستارہ دیکھا گیا.لکھا ہے:

Page 44

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل تو دیکھو کئی مجوسی پورب سے یروشلم میں یہ کہتے ہوئے آئے کہ یہودیوں کا بادشاہ جو پیدا ہوا ہے.وہ کہاں ہے! کیونکہ پورب میں اس کا ستارہ دیکھ کر اسے سجدہ کرنے آئے ہیں یہ سنکر ہیرود لیس بادشاہ اور اس کے ساتھ یروشلم کے سب لوگ گھبرا گئے.“ 44 (متی باب ۲ آیت ۳) سچ ہے! ایسے آسمانی وجودوں کی آمد پر جہاں خدائے رحمان کے بندے اُن کے متعلق بشارتیں پاتے ہیں وہاں شیطانی قوتیں پریشان ہو جاتی ہیں.بسبب اس کے کہ وہ سمجھ جاتی ہیں کہ اب ان کا تسلط اپنے اختتام کو پہنچ جائے گا.چنانچہ لکھا ہے: اور دیکھو یروشلم میں شعمون نامی ایک آدمی تھا اور وہ آدمی راستباز اور خدا ترس اور اسرائیل کی تسلی کا منتظر تھا اور روح القدوس اُس پر تھا اور اس کو روح القدس سے آگاہی ہوئی تھی کہ جب تک تو خداوند کے مسیح کو دیکھ نہ لے موت کو نہ دیکھے گا“ اسی طرح لکھا ہے : (لوقا باب ۲ آیت ۲۵ - ۲۶) اس علاقے میں چرواہے تھے جو رات کو میدان میں رہ کر اپنے گلہ کی نگہبانی کر رہے تھے اور خداوند کا فرشتہ اُن کے پاس آکھڑا ہوا اور خداوند کا جلال ان کے چوگرد چپکا اور وہ نہایت ڈر گئے.مگر فرشتے نے ان سے کہا کہ ڈرومت کیونکہ دیکھو میں تمہیں خوشی کی بشارت دیتا ہوں.جو ساری امت کے واسطے ہوگی کہ آج داؤد کے شہر میں تمہارے لئے منجی پیدا ہوا ہے.“ (لوقا باب ۲ آیت ۸ تا ۱۱)

Page 45

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 45 بشارت مسیح علیہ السلام اور بن باپ پیدائش میں حکمت حضرت مسیح علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی قدرت خاص کے ماتحت بن باپ پیدا ہوئے اور آپ کی پیدائش کے متعلق حضرت مریم علیہا السلام کو بایں الفاظ بشارت دی گئی تھی:....إِذْ قَالَتِ الْمَلَئِكَةُ يَمَرْيَمُ إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكَ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ ما اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيْهَا فِى الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَمِنَ الصَّلِحِيْنَ.قَالَتْ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي وَلَدٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ ، قَالَ گذلِكِ اللَّهُ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ، إِذا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُوْلُ لَهُ كُنْ فَيَكُونُه (سورة ال عمران آیات (۴۶ تا ۴۸ ترجمہ: اور اس وقت کو یاد کرو کہ جب ملائکہ نے کہا تھا کہ اے مریم اللہ تعالیٰ تجھے اپنے کلام کے ذریعہ سے ایک لڑکے کی بشارت دیتا ہے.اس ( مبشر) کا نام مسیح عیسی ابن مریم ہوگا.جو اس دنیا میں صاحب منزلت ہوگا اور خدا کے مقربوں میں سے ہوگا.اور پنگھوڑے ( یعنی چھوٹی عمر میں بھی لوگوں سے باتیں کرے گا اور ادھیڑ عمر ہونے کی حالت میں (بھی) اور نیک لوگوں میں سے ہوگا.اس نے کہا ( کہ ) اے میرے ربّ! میرے ہاں بچہ کسطرح ہوگا.حالانکہ کسی بشر نے ( بھی ) مجھے نہیں چھوا.فرمایا اللہ کا کام ) ایسا ہی ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے ( اور ) جب وہ کسی بات کا فیصلہ کر لیتا ہے تو اُس کے متعلق صرف یہ فرماتا ہے کہ وجود میں آجا.سو وہ وجود پذیر ہو جاتی ہے.

Page 46

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل....قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ سده لا هَبَ لَكِ غُلَمًا زَكِيَّاه قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَمٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَّلَمْ أَكُ بَغِيَّاهِ قَالَ كَذلِكِ قَالَ رَبُّكِ هُوَ عَلَيَّ هَيِّنٌ ، وَلِنَجْعَلَهُ آيَةً لِلنَّاسِ وَرَحْمَةٌ مِنَّاءَ وَكَانَ أَمْرًا مَّقْضِيَّاه 46 (سورة مريم : آیت ۲۰ تا ۲۲) ترجمہ : فرشتے نے کہا کہ میں تیرے رب کی طرف سے ایچی ہوں تا کہ تجھے پاکیزہ لڑکے کی خوشخبری عطا کروں.مریم نے کہا کہ میرے لڑکا کیسے ہو سکتا ہے جبکہ جائز طور پر بھی مجھے کسی مرد نے نہیں چھوا اور نہ میں بدکار ہوں.اس نے کہا کہ یہ واقعہ یوں ہی ہے.مگر تیرے رب نے فرمایا ہے کہ اس طرح ( بن باپ) پیدا کرنا میرے لئے بالکل آسان ہے.نیز اس لئے بھی ایسا ہوگا کہ ہم اسے لوگوں کیلئے نشان بنائیں گے.وہ ہماری طرف سے رحمت ہوگا اور یہ امر طے شدہ ہے.انا جیل میں حضرت مریم والدہ میں علیہ السلام کو مندرجہ ذیل بشارات دی گئی ہیں : (1) چھٹے مہینے میں جبرائیل فرشتہ خدا کی طرف سے گلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرہ تھا ایک کنواری کے پاس بھیجا گیا.جس کی منگنی داؤد کے گھرانے کے ایک مرد یوسف نامی سے ہوئی تھی.اور اس کنواری کا نام مریم تھا اور فرشتہ نے اس کے پاس اندر آ کر کہا کہ سلام تجھ کو جس پر فضل ہوا.خداوند تیرے ساتھ ہے.وہ اس کلام سے بہت گھبرا گئی اور سوچنے لگی کہ یہ کیسا سلام ہے.فرشتے نے اس سے کہا اے مریم خوف نہ کر کیونکہ خدا کی طرف سے تجھ پر فضل ہوا ہے.اور دیکھ تو حاملہ ہوگی اور تیرے بیٹا ہوگا.

Page 47

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - گا.47 اُس کا نام یسوع رکھنا.وہ بزرگ ہوگا.خدا تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا.اور خدا وند خدا اس کے باپ داؤد کا تخت اسے دے گا.اور وہ یعقوب کے گھرانے پر ابد تک بادشاہی کرے گا.اور اس کی بادشاہی کا آخر نہ ہوگا.مریم نے فرشتہ سے کہا یہ کیونکر ہوگا جبکہ میں مرد کو نہیں جانتی ؟ اور فرشتہ نے جواب میں اس سے کہا کہ روح القدس تجھ پر نازل ہوگا اور خدا تعالیٰ کی قدرت تجھ پر سایہ ڈالے گی اور اس سبب سے وہ مولود مقدس خدا کا بیٹا کہلائے (لوقا باب اآیت ۲۶ تا ۳۶) (ب) اب یسوع مسیح کی پیدائش اسطرح ہوئی کہ جب اس کی ماں مریم کی منگنی یوسف کے ساتھ ہوگئی تو ان کے اکٹھے ہونے سے پہلے وہ روح القدس کی قدرت سے حاملہ پائی گئی.پس اس کے شوہر یوسف نے جو راستباز تھا اور بدنام کرنانہیں چاہتا تھا.چپکے سے اس کے چھوڑ دینے کا ارادہ کیا.وہ ان باتوں کو سوچ ہی رہا تھا کہ خداوند کے فرشتے نے اسے خواب میں دکھائی دیکر کہا اے یوسف بن داؤد! اپنی بیوی مریم کو اپنے ہاں لے آنے سے نہ ڈر کیونکہ جو اس کے پیٹ میں ہے وہ روح القدس کی قدرت سے ہے.(متی باب ا آیات ۱۸ تا ۲۰) ان قرآنی اور انجیلی بیانات سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش کے متعلق جہاں آپ کی والدہ حضرت مریم کو بشارات ملیں وہاں شمعون نامی بزرگ اور بیابان میں رہنے والے چرواہوں اور مجوسیوں کو اور آپ کے قانونی والد یوسف نجار کو بھی بشارات ملیں.اور یہ ہی ایک نبی کی شان ہوتی ہے.ہر دو صحائف میں آپ کو بن باپ قرار دیا گیا ہے اور آپ کی والدہ حضرت مریم کو راستباز ٹھہرایا گیا ہے لیکن عجیب بات ہے کہ یہودی علماء اور بعض نادان جو خدا تعالیٰ کی قدرتوں سے نابلد تھے آپ کی پیدائش کو بن باپ نہیں مانتے تھے اور دوسری طرف مبالغہ آرائی کرنے والوں نے آپ کو خدائی سے ہم کنار کر دیا حالانکہ صاف بتایا گیا ہے کہ حضرت مریم

Page 48

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 48 ایک راستباز خاتون تھیں کوئی الہی صفات رکھنے والی ہرگز نہ تھیں کہ آپ کی کوکھ سے خدا کا بیٹا اور پھر خدا جنم لیتا.آپ کی پیدائش کو بن باپ نہ ماننے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ حضرت آدم کی مثال تو بن باپ اور بن ماں کی ہے اور یہ سب کچھ خدا تعالیٰ کی قدرت سے بعید نہیں ہے ایسی پیدائش کی کئی ایک مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں.اور موجودہ زمانہ کی طبی تحقیقات نے بھی ایسا ہونا ممکن قرار دیا ہے.چنانچہ انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا میں ایسی کنوارپنے کی پیدائش کے چند ایک واقعات درج کئے گئے ہیں : یہ کہ: (1) د منچو خاندان جو چین میں حکمران تھا اور جو ء یا کے ء میں آکر تباہ ہوا ہے اس کی بنیاد بھی اسطرح پڑی تھی کہ اس خاندان کی ایک پڑدادی بغیر نکاح کے حاملہ ہوگئی تھی.لوگوں نے بڑا شور مچایا تھا مگر اس نے کہا کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے.وہ کسی گڈریا کی بیٹی تھی.اس نے کہا کہ میں ایک دن اپنے جانور چرا رہی تھی کہ ایک فرشتہ نازل ہوا اور اس نے کہا کہ میں تجھ پر خدا کا نور ڈالتا ہوں.تیرے ہاں ایک لڑکا پیدا ہوگا اور اس لڑکے کا لڑکا سارے چین کا بادشاہ ہوگا.چنانچہ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ مجھے حمل ہو گیا ہے پس اس میں میرا کیا قصور ہے لوگوں نے یہ بات سنی تو انہوں نے کہا کہ یہ عورت آئندہ کی ایک خبر بتا رہی ہے.انتظار کرو کہ کیا ہوتا ہے چنانچہ 9 ماہ بعد اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گیا.لوگوں نے کہا کہ اس عورت کی پہلی بات تو سچی ہوگئی ہے.اب اگلی خبر کا انتظار کرنا چاہئے چنانچہ وہ لڑکا جوان ہوا اور اٹھارہ.بیس سال کی عمر میں اس کی شادی ہو گئی پھر جلدی ہی اس کے ہاں ایک لڑکا پیدا ہو گیا اور وہ لڑکا پندرہ سولہ سال کا تھا کہ ملک میں فساد شروع ہو گیا چونکہ وہ بہادر تھا اس نے نو جوانوں کو

Page 49

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 49 اپنے ساتھ ملایا اور حملہ آور ہو کر ارد گرد کے دیہات پر قابض ہو گیا پھر اس کا میابی سے اس کا حوصلہ بڑھا اور اس نے قدم اور آگے بڑھایا.پھر وہاں بھی کامیابی ہوئی تو وہ اور آگے بڑھا.یہاں تک کہ ہوتے ہوتے وہ چین کا بادشاہ بن گیا اور اس واقعہ نے ثابت کر دیا کہ جو کچھ اس عورت نے کہا تھا وہ درست تھا اور اسے خدا نے ہی خبر دی تھی." (ب) اسی طرح چنگیز خاں جو ترکوں کی دوسری نسل کا سردار تھا اس کے متعلق بھی ایسا واقعہ لکھا ہے کہ: ” جب چنگیز خاں کا باپ فوت ہو گیا اور اس کی ماں بیوہ ہوگئی تو ملک کے رواج کے مطابق اس کی ماں ہی کو بادشاہ تسلیم کیا گیا.ایک دن اس کی ماں نے درباریوں کو بلایا اور کہا کہ مجھے حمل ہو گیا ہے.درباریوں نے شور مچادیا کہ ہم تو تجھے قتل کر دیں گے اس نے اس پر کہا کہ اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے.میں نے رویاء میں دیکھا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک نور آیا ہے اور وہ میرے آر پار ہو گیا ہے اس کے ساتھ ہی مجھے بتایا گیا ہے کہ تیرے ہاں ایک لڑکا ہوگا جو دنیا کا بادشاہ ہوگا.چنانچہ میں جب بیدار ہوئی تو مجھے حمل ہو چکا تھا.انہوں نے یہ سن کر صبر کر لیا اور فیصلہ کر لیا کہ ہمیں اس خبر کے پورا ہونے کا انتظار کرنا چاہئے چنانچہ اس حمل سے چنگیز خاں پیدا ہوا جس کے ذریعہ سے ساری دنیا میں بڑی تباہی آئی اور وہ اس وقت کی معروف دنیا کا بادشاہ بن گیا.“ اس طرح ڈاکٹر Helem Suprway یونیورسٹی کالج لنڈن کی یہ تھیوری ہے کہ پیدائش کیلئے ہمیشہ ضروری نہیں کہ نر کی ضرورت ہو.چنانچہ Lancetالنڈن کی ایک ہفتہ وار میگزین کی ایک اشاعت میں اس کے تجربات شائع ہوئے ہیں.Sunday Pictorial لنڈن ۴/ نومبر ۱۹۵۵ء کی اشاعت میں اس تھیوری کے متعلق شائع شدہ ایک مضمون کے جواب میں ایک ہفتہ بعد ہی یعنی ۱۳/ نومبر کو شائع ہونے والے رسالہ میں تین ایسی عورتوں کی شہادتیں شائع ہوئی ہیں اس

Page 50

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 50 میں انہوں نے یہ کہا ہے کہ ان کا بچہ خود بخود ہوا ہے.اور اس کی پیدائش میں کسی بھی مرد کا عمل دخل نہیں.اس کے بعد ۲۸ دسمبر کے رسالہ میں ایسی ہی انہیں خواتین نے اس امر کی مزید شہادات پیش کی ہیں.ان مذکورہ بالا تاریخی اور ڈاکٹری شواہد سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے کہ بغیر باپ کے پیدائش ہونا نا ممکن نہیں ہے اور حضرت مسیح علیہ السلام بھی بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے.قرآنی اور انجیلی بیانات بھی اس امر میں متفق ہیں.اب دیکھنا یہ ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو کس حکمت کے تحت بغیر باپ کے پیدا فرمایا؟ در اصل جو وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے ان کی نسل کے متعلق فرمایا تھاوہ بنی اسرائیل اور بنو اسماعیل دونوں کیلئے تھا.چنانچہ پیدائشی باب ۱۷ آیت ۷ تا ۲۱ لکھا ہے: دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہوگا.تو اپنے بدن کی کھلی کا ختنہ کیا کرنا اور یہ اس عہد کا نشان ہوگا....تیری بیوی سارہ کے تجھ سے بیٹا ہوگا تو اس کا نام اضحاق رکھنا اور پھر میں اُس سے اور اس کی اولاد سے اپنا عہد جو ابدی عہد ہے باندھوں گا اور....اسماعیل کے حق میں بھی میں نے تیری دعاسنی.دیکھ میں اُسے برکت دوں گا اور اُسے برومند کروں گا اور اسے بہت بڑھاؤں گا.“ پس جانا چاہئے کہ اس میں اضحاق کا ذکر پہلے ہے اور اسماعیل کا ذکر بعد میں کیا گیا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ بنی اسرائیل میں پہلے برکت خداوندی کا نزول ہوگا اور جب تک وہ عہد کا پاس رکھیں گے اللہ تعالیٰ بھی اپنا عہد ان سے نبھائے گا.لیکن جب وہ اس عہد سے لاپر واہ ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ اپنے عہد کے مطابق اپنی برکات کا نزول حضرت اسماعیل علیہ السلام کی اولاد میں منتقل کر دے گا.جیسا کہ استثناء باب ۱۸ آیت ۱۵ میں لکھا ہے: ” خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں (یعنی بنی

Page 51

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل اسماعیل) میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کرے گا.“ 51 بن باپ پیدائش کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہم نے بیسیوں دفعہ سنا ہے کہ مسیح کی بن باپ پیدائش نبوت کا کانٹا پھیر نے اور یہود کو یہ بتانے کیلئے تھی کہ بنی اسرائیل سے خدا تعالیٰ نے اپنا منہ موڑ لیا ہے اور وہ ان کی بداعمالیوں کی سزا میں نبوت کا سلسلہ ایک دوسری قوم میں منتقل کرنے والا ہے.چونکہ سلسلہ نبوت باپ کی طرف سے چلتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے مسیح کو بن باپ پیدا کیا یہ بتانے کیلئے کہ اب یہود میں کوئی مردا ایسا نہیں رہا جس کی اولاد میں سے کسی کو نبی بنایا جاسکے.چنانچہ اب ہم جس کو نبی بنارہے ہیں.بغیر باپ کے بنارہے ہیں.صرف اس کی ماں اسرائیلی ہے مگر آنے والے نبی میں اتنا حصہ بھی نہیں ہوگا.اور اللہ تعالیٰ اسرائیل سے اپنے تعلقات کلی طور پر منقطع کر لے گا.“ پھر فرماتے ہیں: ( تفسیر کبیر سورۃ مریم جلد چہارم صفحه ۱۵۳ ایڈیشن اوّل) لوگ دلیر ہو گئے اور انہیں اس امر کا یقین ہو گیا کہ خواہ کچھ بھی ہو جائے.خدا تعالیٰ اولاد ابراہیم کو نہیں چھوڑ سکتا.اور موسوی سلسلہ سے نبوت اور بادشاہت باہر نہیں جاسکتی.اس کا نتیجہ یہ نکلنا شروع ہوا کہ خدا تعالیٰ کے انبیاء کا انذار بے کار جانے لگا.نبی آتے اور اپنی تعلیم پیش کرتے تو یہود ان کا مضحکہ اڑا دیتے جیسا کہ یرمیاہ و غیرہ آئے اور یہود سے ہنس کر اُن کو رڈ کر دیا اور سمجھا کہ خدا نے یہ نعمت ہمیں ہمیشہ کیلئے دے دی ہے.تب انہیں خدا نے بعض انبیاء کی معرفت یہ خبر دی کہ ایک کنواری بیٹا جنے گی یعنی وہ موعود آدھا اسرائیلی اور آدھا غیر اسرائیلی ہو گا.یہ ایک انذار تھا جس میں اسطرف اشارہ کیا گیا تھا کہ اگر یہود نبیوں کی باتیں نہ سننے پر اسطرح مقر رہے تو آئندہ وہ نبی آئے گا جو نہ

Page 52

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 52 باپ کی طرف سے اسرائیلی ہوگا اور نہ ماں کی طرف سے اسرائیلی ہوگا اور مسیح کے وجود میں وہ وعدہ پورا ہوا اور اس کے ذریعہ سے یہود کونوٹس دے دیا گیا کہ آدھی نبوت ان سے لے لی گئی ہے.کیونکہ نسل ہمیشہ باپ سے چلتی ہے سو انہیں کہا گیا کہ اب جو نبی آیا ہے.وہ باپ کی طرف سے یہود میں سے نہیں ہے.اگر اس انذار سے بھی یہود نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا تو اگلا نبی بالکل ہی غیر اسرائیلی ہوگا گوابراہیم کی نسل سے ہوگا چنانچہ ایسا ہی ہوا.“ ( تفسیر کبیر.سورہ مریم جلد چہارم صفحه ۸۶ ایڈیشن اول) پس حضرت مسیح علیہ السلام کی بن باپ پیدائش میں یہ حکمت تھی تا کہ یہود کو نبوت کے انعام کی منتقلی سے آگاہ کیا جائے اور دوسری طرف ان کی بداعمالیوں کی انہیں یہ انعام لیکر سزادی جائے اور یہ کہ حضرت ابراہیم کے دوسرے بیٹے حضرت اسماعیل کی نسل کو بھی نبوت ورسالت کے عظیم الشان انعام سے نوازہ جائے اور اُن سے بھی اپنے عہد کو پورا کیا جائے تاکہ اس عظیم نبی کو برپا کیا جائے جو مثیل موسیٰ ہونا تھا جس کے متعلق پیشگوئیاں تو رات میں اور انجیل میں بکثرت موجود و ویل یوں ہوا تھا جس کے تعلق پیچا تھیں.ولادت مسیح علیہ السلام کے متعلق قرآنی بیان قرآن کریم نے حضرت مسیح علیہ السلام کی ولادت کے متعلق بڑی وضاحت کے ساتھ تاریخی حقائق سے نقاب کشائی فرمائی ہے اور انجیل کے سقم کو دور کرتے ہوئے صحیح حالات سے روشناس کروایا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيَّاه فَأَجَاءَ هَا الْمَخَاضُ إِلى جِذْعِ النَّخْلَةِ ، قَالَتْ يَلَيْتَنِي مِثْ قَبْلَ هَذَا وَكُنْتُ نَسْيًا مَّنْسِيَّاه

Page 53

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 53 فَنَادَهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِى قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيَّاه وَهُزَى إِلَيْكِ بجذع النَّخْلَةِ تُسْقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيَّاهِ فَكُلِيْ وَاشْرَبِي وَقَرَيْ عَيْنًا فَإِمَّا تَرَينَّ مِنَ الْبَشَرِ أَحَدًا فَقُوْلِيْ إِنِّي نَذَرْتُ لِلرَّحْمَنِ صَوْمًا فَلَن أُكَلَّمَ الْيَوْمَ إِنْسِيَّاه فَأَتَتْ بهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ، قَالُوْا يَمَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيَّاه (سورة مريم: آیت ۲۳ تا ۲۸ ترجمہ: اس پر مریم نے (اپنے پیٹ میں ) اس بچہ کو اٹھا لیا اور پھر اس کو لے کر ایک دور کے مکان کی طرف چلی گئی.پس ( جب مریم کو یقین ہو گیا کہ اس کے ہاں بچہ ہونے والا ہے تو اسنے دنیا کی انگشت نمائی کا خیال کر کے ) کہا اے کاش ! میں اس سے پہلے مرجاتی اور میری یاد بھی مٹادی جاتی.( پس فرشتہ نے ) اس کو نچلی جانب کی طرف سے پکار کر کہا کہ اے عورت ) غم نہ کر اللہ نے تیری نچلی جانب ایک چشمہ بہایا ہوا ہے (اس کے پاس جا اور اپنی اور بچہ کی صفائی کر ) اور ( وہ ) کھجور ( جو تیرے پاس ہوگی ) اس کی ٹہنی کو پکڑ کر اپنی طرف ہلا وہ تجھ پر تازہ پھل پھینکے گی.پس ان کو کھاؤ اور چشمہ سے پانی بھی پیو( اور خود نہا کر اور بچہ کونہلا کر ) اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو پھر اگر ( اس عرصہ ) میں تو کسی مرد کو دیکھے تو کہہ دے کہ میں نے رحمن (خدا) کیلئے (ایک) روزہ کی نذر کی ہوئی ہے پس میں آج کسی انسان سے بات نہیں کروں گی.اس کے بعد وہ اس کو لیکر اپنی قوم کے پاس سوار کرا کے لائی جنہوں نے کہا اے

Page 54

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل مریم ! تو نے بہت برا کام کیا ہے.انا جیل اور ولادت مسیح علیہ السلام 54 " پس یوسف بھی گلیل کے شہر ناصرہ سے داؤد کے شہر بیت لحم کو گیا جو یہود یہ میں ہے.اسلئے کے داؤد کے گھرانے اور اولاد میں سے تھا تا کہ اپنی منگیتر مریم کے ساتھ جو حاملہ تھی نام لکھوائے جب وہ وہاں تھے تو ایسا ہوا کہ اس کے وضع حمل کا وقت آ پہنچا اور اس کا پہلوٹھا بیٹا پیدا ہوا اور اس نے اس کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھا کیونکہ ان کے واسطے سرائے میں جگہ نہ تھی.“ 54 (لوقا کی انجیل باب ۲ آیت ۳ تا ۷ ) ولادت مسیح کے متعلق ایک اقتباس متی کی انجیل سے پیش ہے جو ایم آر جیمز کی کتاب The Apocryphal New Testament published by Oxford University Association 1924.میں اقتباس کیا گیا ہے اور اس انجیل کے ضروری حصوں کا انگریزی ترجمہ اس میں شامل کیا گیا.اسی طرح وہاں پر اس انجیل کی تاریخ پر ایک نوٹ بھی موجود ہے.اور اس سے معلوم ہوتا ہے که قدیم زمانہ سے یہ انجیل عیسائیوں میں رائج تھی اور اس کی روایات بھی قدیم سے ہی عوام الناس میں رائج چلی آتی ہیں.چنانچہ اس قسم کی انجیل بعثت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل عیسائیوں میں رائج اور خصوصا عوام میں مقبول تھی چونکہ اناجیل اربعہ میں طفولیت مسیح کے مفصل واقعات نہیں پائے جاتے اس لئے اس کی کمی کو پورا کرنے کیلئے قدیم روایات کو بنیاد بنا کر یہ اناجیل حواریوں کے نام سے لکھی گئیں اور دیکھتے دیکھتے عوام میں رائج اور مقبول ہوگئیں عرب کے اھلِ کتاب کے پاس بھی ایک ایسی انجیل طفولیت مسیح کے نام سے موجود تھی اور یہ عربی ترجمہ تھی.چنانچہ اس ایم آر جمیز کی کتاب میں جو اپا کر فل میں شامل ہے کہ صفحہ ۳ ۷ تا ۸۰ میں لکھا

Page 55

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل ہے: 55 چنانچہ جب یوسف نجار آپ دونوں کو مصر میں لے گئے تو تیسرے دن مریم نے ایک کھجور کا درخت دیکھا.اس کے نیچے آرام کیا اور جب وہ وہاں بیٹھ گئی تو درخت پر پچھل دیکھ کر یوسف نے جواب دیا کہ مجھے تعجب ہے کہ تو ایسا کہتی ہے کیونکہ درخت بہت اونچا ہے.میں تو پانی کی فکر میں ہوں اسلئے کہ ہمارے پاس پانی بہت کم بچا ہے.پھر یسوع نے جو مریم کی گود میں تھا چہرے سے خوشی ظاہر کی اور کھجور کے درخت کو حکم دیا کہ اپنے پھل اس کی ماں کو دے دے پس درخت مریم کے پاؤں تک جھک گیا اور اس نے اس سے اتنا توڑ ا جتنا اس نے چاہا.اس کے بعد یسوع نے درخت کو سیدھا ہو جانے کا حکم دیا اور یہ بھی فرمایا کہ جو پانی اس کی جڑ میں چھپا ہوا ہے ان کو کچھ اس میں سے دے دے چنانچہ ایک چشمہ بہ نکلا اور سب نے خوش ہو کر اس میں سے پیا.دوسرے دن جب انہوں نے اس جگہ کو چھوڑا تو مسیح نے کھجور سے کہا کہ میں تجھے یہ انعام دیتا ہوں کہ تیری شاخوں میں سے ایک شاخ میرے فرشتوں کے ذریعہ میرے باپ کی فردوس میں لے جا کر لگائی جائے گی.چنانچہ ایک فرشتہ اترا اور اس درخت کی ایک شاخ لیکر اڑ گیا‘.عیسائی علماء تسلیم کرتے ہیں کہ یہ بے سروپا معجزات پر مبنی قدیم روایات ہیں اور ایسی روایات عیسائیوں میں خصوصاً عوام الناس میں قدیم زمانہ سے چلتی چلی آرہی ہیں.(ملاحظہ فرماویں رسالہ تحریف بائیبل و صحت بائیبل شائع کردہ ریجیس سوسائٹی پنجاب از ڈبلیو میچن ایم اے) مذکورہ بالا روایت میں اس حقیقت کی جھلک ہمیں ضرور ملتی ہے کہ مسیح کی ولادت کے ساتھ کسی ایسے واقعہ کا ضرور تعلق ہے جس واقعہ میں کھجور کے درخت کو خاص اہمیت حاصل ہے اس قسم کی روایات چونکہ عیسائیوں میں بے سروپا معجزات کے ساتھ رائج تھیں اس لئے قرآن کریم نے

Page 56

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 56 اصل واقعہ کو بیان کرنا ضروری سمجھا ہے شاید ایک ظاہر بین نگاہ قرآنی بیان کو بے ترتیب قرار دے کہ یک دم ولادت کے واقعات کے بعد نبوت اور رسالت کی باتیں کی جارہی ہیں.لیکن جب مسیحیوں میں رائج غلط روایات کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات ضروری معلوم ہوتی ہے کہ آپ کی نبوت ورسالت کے متعلق کچھ بیان کرنے سے قبل آپ کی عبودیت کو ثابت کیا جائے اور نام نہاد الوھیت کی تار پورد کو جڑ سے اکھیڑ پھینکا جائے اسی لئے قرآن کریم نے آپ کی ولادت کے واقعات تفصیل سے بیان فرمائے ہیں اور پھر آپ کی نبوت کا تذکرہ فرمایا ہے.دراصل ہوا یوں کہ جب حضرت مریم حاملہ ہوئیں تو خاوند نے اس کو بُرا جانا اور کہا کہ یہ عمل میرا نہیں ہے.اور ادھر خاوند کو خواب بھی آگئی کہ مریم کو اپنے گھر میں لے آوے.کیونکہ وہ جو کچھ کہتی ہے ٹھیک کہتی ہے.مگر جس کو خواب آگئی اُسکی تو تسلی ہوگئی کہ بیوی بدکار نہیں ہے.لیکن شہر والے تو نہیں مان سکتے جو بھی سنتا وہ کہتا کہ یہ بچہ تو نا جائز ہے اور کوئی خاوند یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس کی بیوی کو بدکار کہا جائے پس چونکہ لوگوں میں بدنامی کا ڈر تھا اس لئے تین چار مہینے جب تک کہ حمل چھپ سکتا تھا وہ اپنے گھر میں رہے جب دیکھا کہ اب حمل چھپ نہیں سکتا تو ایک دور کے علاقے میں چلے گئے اور وہاں جا کر بچہ پیدا ہوا اور پیدائش کے وقت وہ ایک ایسے علاقے میں تھے جو کھجوروں کا علاقہ تھا اور شہر سے باہر تھا اور وہاں ہی انہیں قیام کرنا پڑا.کیونکہ وہ لوگوں کے سوال و جواب سے بچنے کیلئے غیر آباد علاقہ میں قیام کرنا پسند کرتے تھے.اسی لئے قرآن کریم نے حضرت مریم کے خاموشی کا روزہ رکھنے کے متعلق بھی ذکر کیا ہے لیکن لوقا نے اس اعتراض سے بچنے کیلئے کہ مریم اور اس کا خاوند یوسف اللہ تعالیٰ کے اس قدر نشانات اور معجزات دیکھنے کے باوجود لوگوں کے اعتراضات سے ڈرتے تھے.اور لوقا اس بات سے بھی انکار نہیں کرسکتا کہ مریم اور یوسف کو سفر کرنا پڑا جس کے لئے یہ جواز پیدا کیا ہے کہ ولادت کو چھپانے کی غرض سے نہیں بلکه مردم شماری میں نام لکھانے کی غرض سے سفر پر گئے تھے.اور ساتھ ہی اپنی عادت سے مجبور

Page 57

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل ہو کر کئی معجزات بھی جڑ دیئے ہیں.57 لیکن قرآن کریم نے ایسی پیدائشی کے وقت پیدا ہونے والے فطری جذبات کا ذکر فرمایا ہے کہ حضرت مریم اور ان کے خاوند قوم کے طعن سے بچنے کیلئے ایک دور کی جگہ پر چلے گئے تھے اور جب دردزہ شدید ہوگئی تو حضرت مریم نے اس تکلیف کے احساس سے اور بعد میں ہونے والے اعتراضات کے خیال سے اس فطری جذبہ کا اظہار کیا کہ اے کاش ! میں اس سے قبل ہی مرگئی ہوتی.اس وقت انکی والدہ یا کوئی اور مددگار بھی قریب نہ تھا.انتہائی تکلیف کا عالم تھا اور پہلی پیدائش کی تکلیف بھی زیادہ ہوتی ہے ایسے مواقع پر آپ کا ایسا کہنا عین فطرت کے مطابق ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو ہدایات دینی شروع کیں اور کھجور کے تنے کو پکڑ اپنی طرف کھینچنے کو کہا تا کہ ولادت بھی آسان ہو جائے اور کھجور پر سے پکا ہوا پھل بھی گرے اور مناسب خوراک کا بھی انتظام ہو جائے.اور پھر فرشتہ کے ذریعہ سے پانی کے چشمہ سے بھی مطلع فرمایا.چنانچہ جیسی غذا کی اور جن ہدایات کی ایسے مواقع پر ضرورت ہوتی ہے خدا تعالیٰ نے وہ غذا بھی مہیا فرمائی اور وہ ہدایات بھی ارشاد فرمائیں.ان تمام تفصیلات کے بیان کرنے کی غرض یہ ہے کہ تا یہ بتلایا جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیدائش عام طریق سے ہوئی ہے اور اسی طرح جس طرح خواتین کو پیدائش کے وقت میں اور خصوصاً پہلی پیدائش کے وقت میں نسبتا زیادہ تکلیف ہوا کرتی ہے.یہ تکلیف حضرت مریم کو بھی ہوئی تھی اور اس کی وجہ سے آپ بہت بے قرار اور بے چین بھی ہوئی تھیں.تب اللہ تعالیٰ نے جو کہ حقیقی مونس و غمخوار ہے آپ کی تکلیف کو کم کرنے اور مشکلات کو آسان بنانے کا طریق سمجھایا.اور لوگوں کے بے سروپا سوالات جو ایسے موقع پر ہوا کرتے ہیں ( مثلاً یہ کہ یہ کس کا بچہ ہے؟ تم لوگ کس علاقہ کے رہنے والے ہو؟ یہاں کیوں آئے ہو؟ وغیرہ وغیرہ) سے بچنے کیلئے چپ کا روزہ رکھنے کی تاکید فرمائی.جس میں صرف ضروری بات کی جائے اور یہ کہ خاموشی اختیار کرنے سے ایسے موقع پر قوت بھی کافی بحال ہو جایا کرتی ہے.

Page 58

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.58 ان حالات کا تفصیلی بیان اس لئے بھی ضروری تھا کہ یہ بتایا جائے کہ یہ رائج الوقت خیال کہ آپ کی پیدائش دردزہ کے بغیر ہوئی اور بچہ جو پیدائش کے وقت چیختا ہے تو وہ مسن شیطان کی وجہ سے چیختا ہے.لیکن یہ کہ آپ چینے چلائے نہیں اور آپ اس وجہ سے مس شیطان سے محفوظ رہے.اور آپ کا مسن شیطان سے محفوظ رہنا آپ کی الوہیت کی دلیل ہے.یہ وہ غلط خیال اور موہوم استدلال تھے جس کا زد اس جگہ قرآنی بیان سے ہو جاتا ہے.ظاہر بات ہے کہ جب حضرت مریم علیہ السلام کو اتنی تکلیف ہوئی تو حضرت مسیح علیہ السلام کو تو بدرجہ اولی بڑی مشکل کا سامنا کرنا پڑا ہوگا اور آپ بہت چیخے چلائے ہوں گے اس سے ظاہر یہ کرنا مقصود ہے.اے عیسائیو! تم اس کو خدایا خدا کا بیٹا بناتے ہو جس کی پیدائش ایک عام پیدائش تھی اور بعض لحاظ سے یہ پیدائش حضرت مریم کے لئے زیادہ تکلیف کا باعث بنی تھی.کیا ایک عورت کے بطن سے پیدا ہونے والا بچہ خدا یا خدا کا بیٹا ہو سکتا ہے ! ہاں وہ بچہ اس عورت کا بیٹا ہی کہلائے گا یعنی ابن مریم یہ اور بات ہے کہ ہم اسے اپنے مقربین میں جگہ دے کر نبوت سے سرفراز کر دیں.دوران حمل اور بعد پیدائش سفر اور واقعات اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : وَاذْكُرْ فِي الْكِتَبِ مَرْيَمَ ، إِذا نُتَبَذَتْ مِنْ أَهْلِهَا مَكَانًا ص قف وقف لازم شَرْقِيَّاهِ فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُونِهِمْ حِجَابًا سفت (سورة مريم : آیت ۷ ۱ تا ۱۸) ترجمہ: اور اس کتاب میں مریم کا ذکر کر جب وہ اپنے گھر والوں سے جدا ہوکر جانب مشرق ایک جگہ چلی گئی.پس اس نے اپنے اور ان کے درمیان ایک حجاب حائل کرلیا.پس اس روحانی مجاہدہ کے دوران آپ کو فرشتہ کے ذریعہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بن

Page 59

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل باپ پیدا ہونے کی بشارت ملی.فَحَمَلَتْهُ فَانْتَبَذَتْ بِهِ مَكَانًا قَصِيَّاه (سورة مريم : آیت (۲۳) 59 59 یعنی تب مریم نے اپنے پیٹ کے بچہ کو اٹھا لیا اور پھر اس کو لے کر ایک دور کے مکان کی طرف چلی گئی.حضرت مریم علیہ السلام نے اور یوسف نے حمل کو چھپانے کی غرض سے اور اس لئے کہ تا قوم کے طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنیں دور کا سفر اختیار کیا تھا.مشرق کو اہل یہود کے ہاں خاص اہمیت حاصل ہے.وہ مشرق کو مقدس جانتے ہیں اور اس لئے یہود اور عیسائی اپنی عبادت گاہوں کو بھی اس طرز سے تعمیر کرتے ہیں کہ مشرق کی طرف ان کا منہ ہو.لوقا کی انجیل میں سفر کا ذکر تو ہے مگر غرض سفر مردم شماری میں نام لکھا نا بیان کی گئی ہے لکھا ہے: ان دنوں میں ایسا ہوا کہ قیصر السطس کی طرف سے حکم جاری ہوا کہ ساری دنیا کے لوگوں کے نام لکھے جائیں.یہ پہلی اسم نویسی سوریہ کے حاکم کورینس کے عہد میں ہوئی.سب لوگ نام لکھوانے کیلئے اپنے اپنے شہر کو گئے.پس یوسف بھی گلیل کے شہر ناصرہ سے داؤد کے شہر بیت لحم کو گیا جو یہودیہ میں ہے اس لئے کہ وہ داؤد کے گھرانے اور اولاد سے تھا تا کہ اپنی منگیتر مریم کے ساتھ جو کہ حاملہ تھی نام لکھوائے.“ (لوقا کی انجیل باب ۲ آیت ایک تا۴ ) عجیب بات ہے کہ روما کی تاریخ کا مطالعہ کرنے سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کی پیدائش کے سن میں کوئی مردم شماری نہیں ہوئی.جو زیفس جو مسیح کے زمانے کا سب سے بڑا مؤرخ ہے وہ یہ لکھتا ہے کہ پہلی مردم شماری ہوئی ہی سن ہے، میں تھی اور اس سے سات سال قبل کوئی مردم شماری نہیں ہوئی.وہ لکھتا ہے کہ یہ مردم شماری یہود کیلئے اتنی نئی چیز تھی کہ وہ حیران ہوتے تھے اور تعجب کرتے تھے کہ یہ مردم شماری کیوں کروائی جارہی ہے اور اس سے کیا غرض ہے.اگر سات سال قبل بھی کوئی مردم شماری ہوئی ہوتی تو یہود اتنے حیران نہ ہوتے.علاوہ ازیں تاریخ سے بھی

Page 60

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 60 معلوم ہوتا ہے کہ Herod ہیروڈ کی وفات کے وقت کونسٹیلیس وار وہی سوریہ کا گورنر تھا لوقا کا بیان کرده Qurinius کو ریس گورنر نہیں تھا بلکہ رومی تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے Sentinous گورنر تھا اور پھر Titnis تھا.اول الذکر و قبل مسیح سے 4 قبل مسیح تک رہا اور ثانی الذکر تاریخ میں، اقبل مسیح بیان کیا جاتا ہے.(انسائیکلو پیڈیا بلی کا زیر لفظ کرانیکل ) مذکورہ بالا تاریخی حقائق سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسیح کی پیدائش کے دس سال قبل سے لیکر ھیرو دیں اوّل کی وفات تک کو رینیس نام کا کوئی گورنر نہیں ہوا.پس جبکہ دس سال قبل مسیح سے لیکر بعد فات ہیروڈ تک کے گورنروں کے نام ہمیں معلوم ہیں اور ان میں سے کوئی بھی لوقا کا بیان کردہ کورینس نہیں ہے اور جوزیفس کے بیان کے مطابق اس وقت کوئی مردم شماری ہوئی ہی نہ تھی تو ہم یہ نتیجہ نکالنے میں حق بجانب ہیں کہ لوقا کے ذہن میں یا تو تاریخی واقعات خلط ملط ہو گئے ہیں یا مریم اور یوسف نے جس قدرتی جذبہ کے تحت یہ سفر اختیار کیا تھا یعنی یہ کہ یہ پیدائش کسی کی نظر میں نہ آئے اور وہ طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنیں.اس حقیقت کو چھپانے کیلئے لوقا نے مردم شماری کا بعد کا واقعہ پہلے بیان کر کے ایک جائز وجہ سفر پیش کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ اتنے زبردست تاریخی واقعات کو آگے پیچھے کر دینا کوئی ایسی آسان بات نہیں ہے.اور صحیح یہی ہے کہ قرآن کریم نے آپ کی ولادت کو واقعۂ اصلی اور فطری شکل میں پیش کیا ہے جبکہ انجیل نے اسے جو بہ فہم معجزات کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے.اور اسے عیسائی علماء بھی تسلیم کئے بغیر نہ رہ سکے اور کہا کہ انجیل نویس نے حقائق بیان کرنے میں پہلوتہی کی ہے اور بے سر و پا معجزات اور قصوں کو درمیان میں بیان کر دیا ہے.(ملاحظہ ہو.پادری ڈبلیو سچن ایم اے کا رسالہ تحریف انجیل و صحت انجیل ) حضرت مسیح کی والدہ کے دوران حمل سفر کو مردم شماری کے سات سال بعد کے ہونے والے واقعہ کے ساتھ جوڑنے کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ اگر حمل کی وجہ سے مریم کا سفر پر جانا ثابت

Page 61

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 61 ہو جائے تو خیال یہ کیا جائے گا کہ گویا مریم اور اس کے خاوند یوسف اللہ تعالیٰ کے اس قدرنشانات اور معجزات کے دیکھنے کے باوجود لوگوں کے اعتراضات سے ڈرتے تھے لیکن سفر بھی آپ نے کیا جس سے انکار بھی ممکن نہیں.لہذا مردم شماری کو بطور جواز سفر کے بیان کر دیا گیا.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ بیت الحم میں ٹھہرنے کا عرصہ کتنا تھا؟ اب اگر بچہ کے پیدا ہوتے ہی فوراً بعد اپنے شہر میں واپس آ جاتے ہیں تو اعتراض قائم رہتا ہے کہ مریم کو یوسف کے گھر میں آئے تو ابھی پانچ ماہ ہی ہوئے تھے تو یہ بچہ کہاں سے پیدا ہوگیا ؟ اگر وہ ٹھیک نو ماہ کے بعد بھی واپس آ جاتے اور کہتے یہ بچہ جائز حمل کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے.تو بچہ کی شکل سے لوگ پہچان جاتے ہیں که به نوازائدہ بچہ ہے یا اس کی پیدائش پر چار پانچ ماہ گزر چکے ہیں اس بات کو چھپانے کا صرف ایک ہی طریق تھا کہ وہ کئی سال باہر رہتے.چنانچہ بڑی عمر کا بچہ لے آؤ تو پھر کچھ پتہ نہیں چل سکتا کہ وہ کب پیدا ہوا او حقیقت بھی یہی ہے کہ انہیں کئی سال بیت لحم میں رہنا پڑا جیسا کہ لوقا باب ۲ آیت ۴۱ میں لکھا ہے: اس کے ماں باپ ہر برس عید فتح پر یروشلم کو جایا کرتے تھے.“ بیت لحم کا علاقہ یروشلم سے ۵.ے میل جنوب میں واقع ہے چنانچہ بیت تم سے ہر سال یروشلم میں آپ کے ماں باپ کا جانا اتنا مشکل نہیں ہے.لیکن اگر پیدائش کے بعد متی کے بیان کے مطابق آپ کا مصر میں جانا تسلیم کیا جائے تو ہر سال اتنی دور سے آنا قرین قیاس نہیں ہے کیونکہ اس زمانہ میں وسائل سفر بھی تو اتنے آسان نہیں تھے اور نہ ہی مصر سے ہر سال آنے کے واقعات کا کہیں ذکر ہے.دوسرے آپ کے مصر کے سفر کا واقعہ سوائے متی کے کسی انجیل نویس نے نہیں لکھا اور جبکہ لوقایہ کہتا ہے کہ: ”اے معز تھیفلس میں نے بھی مناسب جانا کہ سب باتوں کا سلسلہ شروع سے

Page 62

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 62 ٹھیک ٹھیک دریافت کر کے ان کو تیرے لئے ترتیب سے لکھوں تا کہ جن باتوں کی تو نے تعلیم پائی ہے ان کی پختگی تجھے معلوم ہو جائے.“ (لوقا باب ایک آیت ۳ اور ۴ ) مصر کے سفر کا واقعہ لوقا کی کاوشوں اور تحقیقات کے نتیجہ میں بھی درست ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس نے اس کا ذکر نہیں کیا جبکہ لوقا کی انجیل متی کی انجیل کے بعد لکھی گئی ہے اور لوقا کے سامنے متی کا بیان سفر مصر کے سلسلہ میں موجود تھا تیسرے متی کا مصنف ایک پیشگوئی کو سچا ثابت کرنے کیلئے مسیح اور ان کے والدین کو مصر لے گیا ہے اور ممکن ہے اس واقعہ کے بیان کرنے سے اس کی غرض آپ کو حضرت یعقوب سے مشابہت دینا ہو جیسا کہ وہ لکھتا ہے: ”دیکھو خداوند کے فرشتہ نے یوسف کو خواب میں دکھائی دیکر کہا کہ اُٹھ بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لیکر مصر کو بھاگ جا اور جب تک کہ میں تجھ سے نہ کہوں وہیں رہنا.کیونکہ ہیرود لیں اس بچے کو تلاش کرنے کو ہے تا کہ اسے ہلاک کرے.پس وہ اٹھا اور رات کے وقت بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لیکر مصر کو روانہ ہو گیا اور ہیرودیس کے مرنے تک وہیں رہا تا کہ جو خداوند نے نبی کے معرفت کہا تھا وہ پورا ہو کہ مصر میں سے میں نے اپنے بیٹے کو بلایا.66 پھر لکھا ہے: وو ” جب ہیرودیس نے دیکھا کہ مجوسیوں نے میرے ساتھ ہنسی کی ہے تو نہایت غصے ہوا اور آدمی بھیج کر بیت لحم اور اس کی سب سرحدوں کے اندر کے ان سب لڑکوں کو قتل کروا دیا جو دو.دو برس کے تھے یا اس سے چھوٹے تھے اس وقت کے حساب سے جو اس نے مجوسیوں سے تحقیق کی تھی اس وقت وہ بات پوری ہوئی جو یرمیاہ نبی کی معرفت کہی گئی تھی کہ:

Page 63

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ از روئے قرآن و انجیل - رامہ میں آواز سنائی دی رونا اور بڑا ماتم را خیل اپنے بچوں کو رو رہی ہے اور تسلی قبول نہیں کرتی کہ وہ نہیں ہیں جب ہیر ود ویسی مر گیا تو دیکھو فرشتہ نے مصر میں یوسف کو خواب میں دکھائی دیکر کہا اُٹھ اس بچے اور اس کی ماں کو لیکر اسرائیل کے ملک میں چلا جا کیونکہ جو بچے کے خواہاں تھے وہ مر گئے.“ ھوسیع نبی کی کتاب میں لکھا ہے: بلایا.(متی باب ۲ آیت ۱۳ تا ۲۰) ” جب اسرائیل ابھی بچہ ہی تھا میں نے اس سے محبت رکھی اور اپنے بیٹے کو مصر سے ھوسیع باب ۲۸ آیت ایک ) 63 متی نے ھوسیع کے اس بیان کو پیشگوئی سمجھ کر اس کو مسیح پر چسپاں کرنے کی کوشش کی ہے حالانکہ توسیع نبی کے بیان میں حقیقتا کوئی پیشگوئی نہیں ہے بلکہ نبی اسرائیل کے مصر سے آنے کا ذکر ہے چنانچہ اس وجہ سے مستی کا یہ سارا بیان ہی مشکوک ہوکر رہ جاتا ہے.در حقیقت یسوع کا مصر جانا اور واپس آنا اور اسی طرح متی کا پیدائش مسیح علیہ السلام کے وقت بچوں کے قتل عام کا واقعہ بھی فرضی ہے.کیونکہ لوقا.یوحنا.اور مرقس اس واقعہ کے صحیح ہونے کی گواہی نہیں دیتے بلکہ سرے سے ذکر ہی نہیں کرتے بلکہ اس سے غافل ہیں دوسرے اس واقعہ کومتی نے اس لئے بیان کیا ہے تاکہ یرمیاہ نبی کی کتاب باب ۳۱ آیت ۱۵ کی پیشگوئی چسپاں کرے.حالانکہ یرمیاہ نبی کی کتاب میں نبی اسرائیل کی جلاوطنی کے وقت جو حالات تھے اس کا شاعرانہ نقشہ کھینچا گیا ہے جس کو پیشگوئی سمجھ کر متی کے مصنف نے خوامخواہ اور خلاف واقعہ مسیح کی پیدائش سے منسلک کر دیا ہے.اور اگر یہ واقعہ حقیقت میں وقوع پذیر ہوتا تو خاصہ مشہور ہوتا.اور جوزیفس جو اس زمانہ کا مشہور مورخ ہے وہ تو اسے جانتا.مگر جو زیفس بالکل خاموش ہے پس

Page 64

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 64 ایسے مشہور مورخ کا اس واقعہ کو بیان ہی نہ کرنا اور خاموش رہنا بتاتا ہے کہ ایسا کوئی واقعہ وقوع پذیر نہیں ہوا اور یہ اس بات کیلئے کافی دلیل ہے کہ یہ واقعہ متی کے مصنف کی خود ساختہ ایجاد ہے.ایسا کوئی قتل عام کا واقعہ نہیں ہوا اور نہ ہی مسیح علیہ السلام اور ان کے والدین کو ہیر وولیس سے ڈرکر اور خواب کی بشارت کے مطابق مصر کا سفر اختیار کرنا پڑا.عجیب بات تو یہ ہے کہ اس واقعہ میں ایک جگہ فرشتے کو بھی اطلاع دینے میں غلطی لگ گئی ہے.یعنی یوسف کو فرشتہ نے اطلاع دی کہ خطرہ ٹل گیا ہے اور واپس چلے جاؤ لیکن یوسف کے نزدیک ابھی واپس بیت لحم میں جانا خطرہ سے خالی نہ تھا جیسا کہ لکھا ہے: دو ” جب ہیر وولیس مرگیا تو دیکھو خداوند کے فرشتہ نے مصر میں یوسف کو خواب میں دکھائی دے کر کہا کہ اُٹھ اس بچے اور اس کی ماں کو لیکر اسرائیل کے ملک میں چلا جا.کیونکہ جو بچے کی جان کے خواہاں تھے وہ مر گئے.پس وہ اٹھا اور بچے اور اس کی ماں کو ساتھ لیکر اسرائیل کے ملک میں آ گیا مگر جب سنا کہ ارخلاؤس اپنے باپ ہیر وولیس کی جگہ یہودیہ میں بادشاہت کرتا ہے.تو وہاں جانے سے ڈرا اور خواب میں ہدایت پا کر گلیل کے علاقہ کوروانہ ہو گیا اور ناصرہ نام کے ایک شہر میں جابسا تا کہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہو کہ وہ ناصری کہلائے گا.(متی باب ۲ آیت ۱۹ تا ۲۳) چنانچہ فرشتہ نے دوبارہ خواب میں ہدایت دی کہ غلطی ہوگئی ہم سے اس کی اصلاح اسطرح کی جاتی ہے کہ اب تم اسرائیل میں جانے کی بجائے گلیل کے علاقہ میں چلے جاؤ اور آگے یہ غلطی جو فرشتے کو متی کے مصنف نے لگائی ہے اس کی قلعی بھی اُس وقت کھل جاتی ہے جبکہ ناصری کہلانے والی پیشگوئی کو چسپاں کر دیا جاتا ہے.چنانچہ یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ منتی کے انجیل نولیس نے جابجا پیشگوئیوں کو زبردستی چسپاں کرنے کیلئے غلط اور خلاف تاریخ واقعات کو ایجاد کیا ہے.(انالله وانا اليه راجعون)

Page 65

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 65 حضرت مسیح علیہ السلام کا مقام پیدائش اور تاریخ پیدائش قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی ایسے مقام پر پیدا ہوئے تھے جہاں پر کھجوریں پائی جاتی تھیں.اور ایسے وقت میں پیدا ہوئے جبکہ کھجوریں پکی ہوئی تھیں اور نشیب وفراز والا پہاڑی علاقہ تھا لکھا ہے: فَنَادَهَا مِنْ تَحْتِهَا أَلَّا تَحْزَنِي قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيَّاه وَهُزِّنْ إِلَيْكِ بجذع النَّخْلَةِ تُسْقِطْ عَلَيْكِ رُطَبًا جَنِيَّاهِ فَكُلِيْ وَاشْرَبِي وَقَرِى عَيْنًا (سورة مريم: آیات ۲۵ تا ۲۷) ترجمہ: ” پس فرشتہ نے اس کی نچلی جانب سے پکار کر کہا اے عورت ) غم نہ کر تیری نچلی جانب ایک چشمہ بہایا گیا ہے (اس کے پاس جا اور اپنی اور اپنے بچہ کی صفائی کر) اور کھجور جو تیرے قریب ہے اس کی ٹہنی کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ وہ تجھ پر تازہ بتازہ پھل پھینکے گی.پس ان کو کھاؤ اور چشمہ کا پانی بھی پیو.(اور خود نہا کر اور بچہ کو نہلا کر ) اپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو.“ بائیل سے بھی کھجوروں والے شہر اور علاقے کا پتہ لگتا ہے استثناء باب ۳۴ آیت ۳ میں لکھا ہے اور موسیٰ کو پہاڑ پر سے جنوب کا ملک اور وادی سیر یجو جو خرموں کا شہر ہے اس کی وادی کا میدان ضُغر تک اس کو دکھایا.پھر قضاۃ باب ایک آیت ۱۶ میں لکھا ہے.تب موسیٰ کے سرقینی کی اولاد کھجوروں کے شہر سے بنی یہودہ کے ساتھ یہودہ کے بیابان کو ، جو عراد دیکھن کی طرف ہے ، چڑھیں.عراد ، جس کا یہاں ذکر کیا گیا ہے، بیت لحم سے کوئی سو میل کے فاصلے پر ہے اور اس کے شمال کی طرف کھجوروں کا شہر اور کھجوروں کا علاقہ ہے.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ بیت لحم کے

Page 66

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 66 قریب یقیناً کھجور میں پائی جاتی تھیں ویسے بھی یہ علاقہ ملک عرب سے ملتا ہے اس لئے بھی کھجوروں کا یہاں پایا جانا یقینی ہے.بیت لحم ایک پہاڑ کی چوٹی پر واقع ہے جو سطح سمندر سے ۲۳۵۰ فٹ بلندی پر ہے.اس کے ارد گر دسر سبز وادیاں ہیں جو سارے یہودہ سے زیادہ خوبصورت ہیں اور سرسبز بھی ہیں.اس پہاڑی کے اندر دو تین چشمے ہیں جن کو چشمہ سلیمان کہتے ہیں اور شہر میں پانی بھی یہاں سے ہی مہیا کیا جاتا ہے.گویا شہر میں تالاب سلیمان سے نالیوں کے ذریعہ پانی لایا جاتا ہے.اور اس طرح شہر سے جنوب مشرق کی طرف آٹھ سو گز یعنی کوئی نصف میل کے فاصلہ پر ڈھلوان کی طرف ایک اور چشمہ ہے.( قاموس کتاب المقدس ترجمه و تالیف از ڈاکٹر جارج ای پوسٹ ایم ڈی ) چنانچہ حضرت مریم جب بیت لحم گئیں تو وہ شہر میں ٹھہرنے کی بجائے اس مضافاتی علاقہ میں چلی گئیں اور وہاں ہی ٹھہری تھیں جیسا کہ لوقا باب ۲ آیت ۸ میں لکھا ہے: ” اس علاقہ میں چرواہے تھے جو رات کے وقت میدان میں رہ کر اپنے گلہ کی نگہبانی کرتے تھے.“ پس آپ بیت لحم کے مضافات میں ڈھلوان کی طرف اس مقام پر جہاں سے نشیب کی طرف چشمہ تھا در دزہ کی وجہ سے بے قرار ہوئیں اور فرشتہ نے چشمہ کی طرف سے پکارا اور کہا: قَدْ جَعَلَ رَبُّكِ تَحْتَكِ سَرِيًّا.(سورة مريم: آیت۲۵) تیرے رب نے تجھ سے نشیب کی طرف ایک چشمہ جاری کیا ہوا ہے.اسکی طرف جا اور کھجور کے درخت کو پکڑ کر اپنی طرف کھینچ تاکہ تیری مصیبت آسان ہو.زچگی بھی ہو جائے اور اس طرح سے تیرا پکا ہوا پھل بھی گرے اور پکی ہوئی کھجور میں بھی اور اس طرح سے عمدہ اور مناسب غذا میسر آجائے.رسالہ مسلم ورلڈ جلد | صفحہ ۱۸۹ میں لکھا ہے: "Mary gave birth outside the town is more confirmable to the Quran.E.F.F Bishop suggests that the "Streamlet"

Page 67

67 حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.or "Revulet" was Pilots agueduct at Bethlehem." (The Muslim World Vol 3 page 189) اب مقام پیدائش کے متعین کر لینے کے بعد تاریخ پیدائش کا متعین کرنا رہ جاتا ہے ایک مشکل یہ ہے کہ عیسائیت ہمیں یہ بتاتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام ۲۵ دسمبر کو پیدا ہوئے تھے.لوقا یہ کہتا ہے کہ اس وقت قیصر نے مردم شماری کروائی تھی.جس کیلئے یوسف اور مریم ناصرہ سے بیت لحم گئے تھے اور وہاں پر ہی حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش ہو گئی تھی لیکن قرآن کریم بتا تا ہے کہ آپ کی پیدائش سرما میں نہیں ہوئی بلکہ گرما میں ہوئی اور اس موسم میں ہوئی جس موسم میں ملک کنعان میں کھجور میں اتنی پک جاتی ہیں کہ درخت کے ہلانے سے گرنے لگتی ہیں.اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کھجور میں فلسطین میں بہت دیر سے پکتی ہیں.اور یہ ماہ اگست ستمبر کا زمانہ ہوتا ہے.اور دسمبر کا مہینہ تو علاوہ شدید سردی کے فلسطین میں سخت بارش اور دھند کا مہینہ ہوتا ہے.فلسطین میں موسم برسات کیکم نومبر سے شروع ہو جاتا ہے اور پہاڑی علاقہ میں تو بالخصوص شدید سردی اور دھند ہوتی ہے.جان ڈی ڈیوس کی بائیل ڈکشنری میں زیر لفظ year ایک نقشہ دیا گیا ہے جس میں یہودی مہینوں کے نام دیگر ان کے مقابل پر انگریزی ماہ درج کئے گئے ہیں اور یہ بتایا گیا ہے کہ فلسطین میں کس ماہ میں کونسی فصل اور کونسا پھل پک کر تیار ہو جاتا ہے.اس نقشہ میں یہودیوں کا چھٹا مہینہ ایلول ( Elul) ہے اور اس کے بالمقابل انگریزی مہینہ انداز ماہ ستمبر لکھا گیا ہے.اور Season یعنی موسم کے کالم میں یہ وضاحت موجود ہے کہ ماہ ستمبر میں کھجور اور موسم گرما کی انجیر پک کر تیار ہو جاتی ہیں.ڈکشنری مذکورہ میں یہودی مہینہ کے بالمقابل ستمبر کا مہینہ ایک موٹے اندازے کے مطابق درج کیا گیا ہے دراصل ماہ اگست ستمبر میں یہ مہینہ آتا ہے.(ملاحظہ کریں پیکس تفسیر بائیل ص ۱۱۷) By Thomas Nelsone & Sons Ltd.London 1962.لوقا کے حوالے سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ان دنوں میں اس علاقے میں چروا ہے

Page 68

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 68 رات کو باہر میدان میں گلہ بانی کرتے تھے.ظاہر ہے کہ یہ موسم گرمی کا تھا.شدید سردی میں وہ ایسا نہیں کر سکتے تھے.پھر لکھا ہے: اس کا پہلوٹھا بیٹا پیدا ہوا اور اس نے اس کو کپڑے میں لپیٹ کر چرنی میں رکھا.(لوقا ۷:۲) ظاہر ہے کہ سخت سردی میں بے وقوف سے بے وقوف ماں بھی ایسا نہیں کرتی کہ باہر کھر لی میں اپنے پیارے بچے کو رکھ دے بلکہ وہ اپنے نوزائیدہ بچے کو گرم کپڑوں میں لپیٹ کر کسی بند کمرے میں رکھے گی تاکہ لا پرواہی کے نتیجہ میں بچہ کونمونیہ نہ ہو جائے لیکن حضرت مریم کا یہ عمل بتاتا ہے کہ وہ گرمیوں کا موسم تھا اور باہر کھلی جگہ پر آپ کولٹا نا چنداں نقصان دہ نہیں تھا.اس تاریخی غلطی کے متعلق عیسائی محققین بھی آگاہ ہیں اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہماری روایات میں یہ غلطی ہوئی ہے.اور یہ غلطی بعد کی ایجاد ہے.اور حضرت مسیح علیہ السلام گرمیوں میں ہی پیدا ہوئے تھے نہ کہ سردیوں میں چنانچہ مسیحی کتاب ” اتفاق البشرین“ مطبوعہ بیروت صفحه ۴۸ بحواله رساله الفرقان نومبر ۱۹۴۷ء میں لکھا ہوا ہے: (1) - إِنَّ السَنَةَ الَّتِي وُلِدَ فِيهَا مُخْلِصُنَا غَيْرُ مَعْلُومَةٍ تَمَامًا.کہ ہمیں مسیح کا سن ولادت معلوم نہیں پھر کہتے ہیں إِنَّ الْيَومَ الَّذِي وُلِدَ فِيهِ الْمَسِيحُ غَيْرُ مَعْلُوم کہ وہ دن بھی ہمیں معلوم نہیں جب حضرت مسیح پیدا ہوئے تھے.پھر لکھتے ہیں تیسری اور چوتھی صدی میں مشرقی گرجوں نے 4 جنوری کو یوم ولادت مسیح منانا شروع کر دیا تھا.لیکن مغربی گرجے چوتھی صدی کے وسط کے بعد سے ۲۵ دسمبر کو یوم ولادت مسیح مناتے ہیں.(۲).پیکیس تفسیر بائیل میں لوقا کی انجیل کے مفتر پرنسپل اے جے گر یوایم اے اے ڈی لوقا کے اس بیان پر کہ حضرت مسیح کی پیدائش جس موسم میں ہوئی تھی اس وقت چروا ہے گلوں کو باہر

Page 69

69 69 حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ از روئے قرآن و انجیل - نکالکر کھلے میدان میں راتیں بسر کرتے تھے مندجہ ذیل تبصرے فرماتے ہیں: "The season would not be December our christmas day is a comparatively later tradition found first in the west." (Page 727) کہ یہ موسم ماہ دسمبر کا نہیں ہوسکتا.ہمارا کرسمس ڈے مقابلہ بعد کی ایک روایت ہے جو کہ پہلے پہل مغرب میں پائی گئی.(۳).مسٹر جے سٹی ورٹ کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت مسیح ستمبر یا اکتوبر میں پیدا ہوئے تھے.پیکس تفسیر بائیل (Ltd (.by Thomas Nelson & Sons Ltd) میں لکھا ہے کہ: By M.J Stewart :When did our lord actually live? "From an Angore temple incription and a quotation in an old chines classic, which speaks of the Gospel story reaching china A.D 25, puts the birth of Jesus in S.B.C." (Sept.- Oct.) P 987 مسٹرایم جے سٹی ورٹ نے اپنی تصنیف میں معبد انگورا کے ایک کتبہ اور ایک مستند قدیم چینی مصنف کے حوالہ سے یہ استدلال کیا ہے کہ میسج آٹھ سال قبل مسیح میں پیدا ہوئے اور موجودہ عیسوی سال آٹھ سال بعد مسیح شروع ہوا تھا.ایم جے سٹی ورٹ کے نزدیک ستمبر یا اکتوبر کے مہینہ میں آپ کی پیدائش ہوئی تھی مذکورہ قدیم چینی مصنف نے انجیلی کہانی کا ذکر کیا ہے کہ یہ چین میں ۲۵ تا ۲۸ سن عیسوی میں پہنچی تھی.گویاصلیبی واقع سے ۲-۳ سال بعد اور اُسی زمانہ میں ہی آپ کی فلسطین سے ہجرت اور کشمیر کے علاقہ میں سکونت اختیار کرنے کے بارے میں بہت اہم انکشافات حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام نے فرمائے ہیں.ملاحظہ فرمائیں آپ کی کتاب

Page 70

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 70 و مسیح ہندوستان میں اور قرآن کریم نے سب سے پہلے اس حقیقت سے نقاب کشائی فرمائی ہے فرماتا ہے : وَّاوَيْنَهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِيْنٍ (سورة المومنون : آیت (۵) ترجمہ: اور ہم نے اُن دونوں ( مریم اور ابن مریم ) کو ایک بلند پہاڑیوں والی اونچی قابل رہائش اور چشموں والی جگہ میں پناہ دی تھی.(۴) اسی طرح بشپ بارنس (Bishop Barns )اپنی کتاب Rise of Christianity (مطبوع.Longman Green & Coلندن) میں تحریر فرماتے ہیں: اس تعیین کیلئے کوئی قطعی ثبوت نہیں ہے کہ ۲۵ دسمبر ہی مسیح کی پیدائش کا دن ہے.اگر ہم لوقا کی بیان کردہ ولادت مسیح کی کہانی پر یقین کر لیں کہ اس موسم میں گڈریے رات کے وقت اپنی بھیڑوں کے گلہ کی نگرانی بیت لحم کے قریب کھیتوں میں کرتے تھے تو اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش موسم سرما میں نہیں ہوئی جبکہ سرما میں رات کو ٹمپریچر اتنا گر جاتا ہے کہ یہودیہ کے پہاڑی علاقہ میں برف باری ایک عام بات ہے اسلئے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہمارا کرسمس ڈے کافی بحث و تمحیص کے بعد قریباً ۳۰۰ء میں متعین کیا گیا ہے.“ (صفحہ ۹۷) عیسائی محققین و مفسرین بائییل کے مذکورہ بالا بیانات سے ولادت مسیح کے قرآنی بیان کی نہ صرف تصدیق ہوتی ہے بلکہ سچائی ظاہر ہوتی ہے اور یہ حقیقت کھل کر سامنے آگئی ہے کہ عیسائیوں کا رانج کرسمس ڈے بہت بعد میں متعین ہوا ہے چنانچہ پولوس نے عیسائی مذہب کے بنیادی عقائد میں غیر قوموں کیلئے جب بے جا لچک پیدا کرنی شروع کی جس کے لئے عیسائی مذہب متحمل نہ تھا

Page 71

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.71 تب سے ہی اسی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے رائج الوقت تیوہاروں کو مدنظر رکھتے ہوئے مسیح کی تاریخ ولادت میں بھی تبدیلی کر لی گئی ۲۵ دسمبر ایک مقدس تاریخ سمجھی جاتی تھی.ارباب کلیسیا نے اس دن کی مقبولیت کے پیش نظر حضرت مسیح کی پیدائش کا دن بھی یہی مقرر کر لیا تا کہ مشرکین کو عیسائیت میں آکر غیریت کا احساس نہ ہو.پہلے وہ اپنے دیوتاؤں کا دن مناتے تھے بعد میں وہ خداوند یسوع مسیح کا یوم پیدائش منانے لگ گئے ولادت مسیح کی تاریخ کے تبدیل کئے جانے کا یہ پس منظر ہے جو مندرجہ ذیل کتب میں دیکھا جاسکتا ہے: (1) انسائیکلو پیڈیا آف برٹینی کا زیر لفظ کرسمس (۲) چیمبرز انسائیکلو پیڈیاز مر لفظ کرسمس (۳) پیکس تفسیر بائیل صفحه ۶۳۲ (۴).......Rise of christianity صفحه ۷۹ ( بینابیع المسیحیت از خواجہ کمال الدین ایم.اے چنانچہ دیوتاؤں کے ساتھ رائج الوقت اس دن کی نسبت کو بینابیع المسیحیت میں یوں بیان کیا گیا.ہندوستان میں سورج دیوتا کو ایت" کہتے ہیں.ایران میں متھر ا بابل میں بعل.فریجیا میں آطیس کار تحصیح میں اور سیر یا میں ” اڈوانس یونان اور روما میں ” بیکس اور ھر کیولیس، مصر میں ہورس یا اوریں روما میں ” اپالو اور امریکہ اور میکسیکو میں لیٹن کوئل.ہرا توار کے دن ان کی عبادت ہوتی تھی اور انگریزی میں Sunday کا دن یا ایت وار ہندوستان میں اس امر کی یادگار ہے پولوس نے اس کا مظہر اور قائم مقام یسوع کو ظاہر کیا اور صرف نام بدلا.پھر لکھا ہے: ینابیع امسیحیت صفحه ۷۲ از خواجہ کمال الدین ایم اے) قریباً ان تمام دیوتاؤں کے پیدائش کا دن بھی ۲۵ لغائیت ۲۸ دسمبر ہے جس کو بڑا

Page 72

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 72 دن یا یوم ولادت یسوع کہتے ہیں.متھرا ایک غار میں ۲۵ دسمبر کو ایک کنواری کے بطن سے پیدا ہوا.اس کے ۱۲ شاگرد تھے.وہ قبر میں دفن ہوا اور قبر سے زندہ ہو کر نکلا اس کے زندہ ہونے پر خوشیاں منائی گئیں.اس دن میں دو تہوار منائے جاتے ہیں اور ہفتہ جنوری بجائے ہفتہ دسمبر اور آخر ہفتہ مارچ جو کہ ایسٹر ہالی ڈیز کا قائم مقام ہے.اس کے پیرو عشائے ربانی میں شریک ہوتے ہیں.اس کو منجی یا شفیع کہتے ہیں اور اس کو بچھڑے کی شکل میں ظاہر کیا جاتا ہے.“ پھر لکھا ہے: ینابیع المسیحیت صفحه ۷۴-۷۵ از خواجہ کمال الدین ایم.اے) اپالو متھرا کا قائم مقام اوتار تھا.اپالو ۲۵ دسمبر کو پیدا ہوا.اس کے بارہ شاگردوں کی بجائے ۱۲ کارنامے ہیں.آسمان پر ۱۲ برج یعنی حمل.ثور.جوزا.سرطان.اسد.سنبلہ.میزان.عقرب قوس.جدی.دلو.حوت.اس سورج دیوتا کے ۱۲ یادگار ہیں.جس کے قائمقام ۱۲ حواری یسوع کے ہیں.برج عقرب کو یہود اسکر لوطی سے نسبت دی گئی ہے.“ ینا ئج المسیحیت صفحه ۹۶ از خواجہ کمال الدین ایم.اے) تاریخ ولادت مسیح کے متعلق ارباب کلیسیا میں زبر دست اختلاف پایا جاتا تھا.اور مختلف تواریخ ان کے زیر بحث تھیں.بعض اپریل اور مئی اور بعض مارچ اور اپریل میں اور بعض جنوری میں خیال کرتے تھے چنانچہ اس اختلاف کیلئے ملاحظہ فرماویں.انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا اور چیمبرز انسائیکلو پیڈیاز پر لفظ کرسمس پس جو اختلاف مسیحیوں میں پایا جاتا تھا قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے صحیح واقعہ پیدائش بیان فرما کر حل فرما دیا ہے.اور بتا دیا ہے کہ وہ گرمیوں کا موسم تھا اور وہ مہینہ تھا جس میں فلسطین میں کھجور میں اسقدر پک چکی ہوتی ہیں کہ درخت کے ہلانے سے گرنے لگتی ہیں چنانچہ وہ اگست ستمبر کا مہینہ بنتا ہے.

Page 73

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل مسیح علیہ السلام کا نام 73 اب آپ کے نام کے متعلق جائزہ لیتے ہیں کہ وہ دراصل کیا تھا؟ کیونکہ اس کے متعلق بھی قرآن کریم کے پیش کردہ اور انجیل کے پیش کردہ نام میں اتفاق نظر نہیں آتا دونوں صحائف کا جائزہ لیتے وقت تاریخی انکشافات اور محققین کی کاوشوں کو مد نظر رکھنا مفید ہوگا تا کہ معلوم ہو سکے کہ دونوں کتب میں سے کس نے اس بارہ میں صحت کا اور انصاف کا خیال رکھا ہے.قرآن کریم میں مسیح علیہ السلام کا نام یہاں وہ دس آیات قرآن درج کی جاتی ہیں جن میں آپ کا نام آیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ابْنُ مَرْيَمَ إنَّ اللهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ سَيْه اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى (سورة آل عمران آیت (۴۶.....ذَلِكَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ قَوْلَ الْحَقِ الَّذِي فِيْهِ يَمْتَرُوْنَ (سورة مريم : آیت ۳۵) إِذْ قَالَ اللهُ يَعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَى وَالِدَتِكَ، إِذْ أَيَّدْتُكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ مَن تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا قف وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَةَ وَالْاِ نْجَيْلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطَّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنْفُخُ فِيْهَا فَتَكُوْنُ طَيْرًا بِإِذْنِي وَتُبْرِيُّ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِيْ : وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَى بِإِذْنِيْ وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِيْ إِسْرَاءِ يْلَ عَنْكَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَيِّنَتِ فَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا مِنْهُمْ إِنْ هذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ (سورة المائده آیت ۱۱۱)

Page 74

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل....إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ يَعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيعُ رَبُّكَ 74 أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَائِدَةٌ مِّنَ السَّمَاءِ ، قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (سورة المائده: آیت ۱۱۳) قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنْزِلْ عَلَيْنَا مَآئِدَةٌ مِّنَ السَّمَاءِ تَكُوْنُ لَنَا عِيْدًا لَّا وَّلِنَا وَاخِرِنَا وَايَةٌ مِّنْكَ وَارْزُقْنَا وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّزِقِيْنَ.(سورة المائده: آیت ۱۱۵) وَآتَيْنَا عِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَتِ وَأَيَّدْنَهُ بِرُوْحِ الْقُدُسِ.(سورة البقره آیت ۲۵۴....وَلَمَّا جَاءَ عِيْسَى بِالْبَيِّنَتِ قَالَ قَدْ جِئْتُكُمْ بِالْحِكْمَةِ وَلَا بَيْنَ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي تَخْتَلِفُوْنَ فِيْهِ ، فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيْعُوْنَ ٥ (سورة الزخرف : آیت ۶۴) يَاَهْلَ الْكِتَبِ لَا تَغْلُوا فِي دِيْنِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ، إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَهَا إلى مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِنْهُ ، فَاسِنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ ص وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلَثَهُ ، إِنْتَهُوا قف ج خَيْرًا لَّكُمْ ، إِنَّمَا الله إله واحِدٌ ، سُبْحَنَهُ أَنْ يَكُوْنَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ، وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيْلاً ه (سورة النساء آیت ۱۷۲) لَنْ يَسْتَنْكِفَ الْمَسِيحُ أَنْ يَكُوْنَ عَبْدَ لِلَّهِ وَلَا الْمَلَئِكَةُ الْمُقَرَّبُوْنَ ، وَمَنْ يَسْتَنْكِفْ عَنْ عِبَادَتِهِ وَيَسْتَكْبِرْ فَسَيَحْشُرُهُمْ إِلَيْهِ جَمِيعًا ه (سورة النساء: آیت ۱۷۳)

Page 75

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 75...مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ.وَأُمُّهُ صِدِيقَةٌ ، كَانَا يَأْكُلَنِ الطَّعَامَ ، أَنْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَتِ ثُمَّ انْظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُوْنَ انا جیل میں مسیح علیہ السلام کا نام (سورة المآئدة: آیت ۷۶).......یسوع مسیح ابن داؤد ابن ابراہیم کا نسب نامہ.(متی باب اآیت۱) فرشتہ نے خواب میں یوسف سے کہا...اس کے بیٹا ہوگا اور تو اس کا نام یسوع رکھنا.گے.( متی باب ا آیت ۲۱)....د کچھ ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام عمانویل رکھیں (متی باب (آیت ۲۳)....اور اس کا نام یسوع رکھا.(متی باب اآیت ۲۵).....ناصرہ نام ایک شہر میں جابسا تا کہ جو نبیوں کی معرفت کہا گیا تھا وہ پورا ہوا کہ وہ ناصری کہلائے گا.(متی باب ۲ آیت ۲۳)....اور اس کا الزام لکھ کر اس کے سر سے اوپر لگا دیا کہ یہ یہودیوں کا بادشاہ یسوع ہے.(متی باب ۲۷ آیت ۳۸) یسوع مسیح ابن خدا کی خوشخبری کا شروع.(مرقس باب ایک آیت۱)...وہ ناصرہ میں آیا جہاں اس نے پرورش پائی تھی اور اپنے دستور کے موافق سبت کے دن عبادت خانہ میں گیا اور پڑھنے کو کھڑا ہوا.اور یسعیاہ نبی کی کتاب اس کو دی گئی اور کتاب کھول کر اس نے وہ مقام نکالا جہاں یہ لکھا تھا کہ خداوند کا روح مجھ پر ہے.اسلئے کہ اس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کیلئے مسخ کیا.ط (لوقا باب ۴ آیت ۱۶ تا ۲۰)

Page 76

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.....اس نے پہلے اپنے سگے بھائی شمعون سے ملکر اس سے کہا کہ ہم کو خرستیں یعنی مسیح مل گیا.(یوحنا باب (آیت ۴۱).....عورت نے اس سے کہا کہ میں جانتی ہوں کہ مسیح جو خرستس کہلاتا ہے آنے والا ہے جب وہ آئے گا تو ہمیں سب باتیں بتا دے گا.یسوع نے اس سے کہا کہ میں جو (یوحنا باب ۴ آیت ۲۶) 76 تجھ سے بول رہا ہوں وہی ہوں.قرآن کریم نے آپ کا نام مسیح عیسی ابن مریم لکھا ہے اور آپ کے لئے مسیح اور عیسی کا نام علیحدہ بھی استعمال کیا ہے اور آپ کے حواری بھی آپ کو عیسی کے نام سے یاد کرتے تھے اور عیسی ہی آپکاذاتی نام تھا.مسیح آپ کا صفاتی نام تھا اگر ہم اصلی ہے تو مَسَحَ سے ہے جو ممسوح کے معنے میں ہے یا آپ کی سیاحت کی وجہ سے سائح کے معنوں میں ہے.اور اناجیل میں آپ کو یسوع مسیح کہا گیا ہے.فرشتہ نے یسوع نام رکھنے کیلئے یوسف کو تاکید کی تھی اور آپ کا نام بھی یہی رکھا گیا تھا اور اس وقت کے یہودی بھی آپ کو یسوع ہی کے نام سے یاد کرتے تھے.نیز آپ نے اپنے آپ کو مسیح بھی ظاہر کیا ہے اور آپ کے حواری آپ کو خرستس یعنی مسیح کہتے تھے اور عوام الناس میں بھی خرستس یعنی مسیح کے نام سے معروف ہوئے.ان اسماء کے متعلق کتاب The Book of Knowledge by Gorden Stewert (مطبوعہ 1955.The Waverly Book Co.Ltd) میں لفظ Jesus christ کے نیچے لکھا ہے: "Jesus is the name by which he was known on the earth.It is from the greek form of old hebrew name Joshua."Christ" is a title rather than a name.The word kristos is the greek form of another Hebrew word Mashiach or Messiah, which means "The anointed one"

Page 77

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 77 اب جہاں تک مسیح یعنی خرستس کا تعلق ہے.اس میں اناجیل اور قرآن کریم آپس میں متفق ہیں اور کوئی اختلاف نہیں ہے.جو اختلاف ہے وہ صرف اتنا ہے کہ انجیل کا لفظ ” یسوع“ قرآن کریم میں جا کر عیسی کیسے بن گیا ہے.دراصل بات یہ ہے عیسی علیہ السلام اور ان کے حواری شمالی فلسطین کے رہنے والے تھے انجیل میں ان کو گلیلی کہا گیا ہے گلیل میں یہود کے علاوہ اور بھی کئی اقوام سکونت پذیر تھیں.مثلاً آرمینی.رومی اور یونانی وغیرہ.اسی وجہ سے ہی گلیلی جویم، یعنی غیر قوموں کا گلیل بھی کہا جاتا تھا.گلیل میں یہودی تو آرامی زبان بولتے تھے.لیکن یہ وہ آرامی زبان نہیں تھی جو کہ یہودیہ میں بولی جاتی تھی.ان کی زبان کافی حد تک اہل یہود کی زبان سے مختلف تھی.انجیل متی میں لکھا ہے: تھوڑی دیر کے بعد جو وہاں کھڑے تھے انہوں نے پطرس کے پاس آکر کہا بے شک تو بھی ان میں سے ہے کیونکہ تیری بولی سے بھی ظاہر ہوتا ہے.“ (متی باب ۲۶ آیت ۷۳ ) اس سے بھی یہ ظاہر ہوتا ہے کہ عیسی ابن مریم اور حواریوں کی زبان یہود یہ والوں سے مختلف تھی.Concised Dictionary of Bible میں زیر لفظ گلیل لکھا ہے: اہل گلیل حروف حلقی ادا کرنے میں خاص دقت محسوس کرتے تھے.ان کا لب و لہجہ ٹھیٹھ اور دیہاتی تھا“ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی کاھن گلیلی یہودیوں کو” عامی ھا ارض “ کہتے تھے یعنی ملک کے عام لوگ اور انکو خواص میں شمار نہیں کیا جاتا تھا.پس حضرت مریم علیہا السلام کو بھی آپ کی اپنی زبان میں ہی بشارت حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق ملی تھی.عبرانی یسوعہ آرامی میں الیسوعہ ہے اور گلیلی لوگوں کو حروف حلقی کے ادا کرنے میں وقت محسوس کرنے کی وجہ سے الیسوعہ کو مقلوب کر کے عیسی کہنا پڑتا تھا.اور یہ ان کا محاورہ زبان تھا جس طرح مثلا عربی لفظ جبل الطارق اور امیر

Page 78

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 78 الجزء انگریزی میں جبرالٹر اور ایڈ مرل بن گیا ہے.پس حضرت مریم کی روز مرہ کی زبان میں الیسوع کو عیسیٰ کہتے تھے اور بشارت میں بھی یہی مادری زبان میں آپ کا نام بتایا گیا تھا اور یہی نام رکھا گیا تھا اور یہ کہنا کہ آپ کا نام یسوع رکھا گیا تھا ایک ایسا دعوی ہے جو بلا دلیل ہے جبکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اناجیل کے تراجم مختلف زبانوں میں ہوتے رہے اور اصل نام جو رکھا گیا تھا محفوظ نہ رہ سکا.اور آج سرے سے ہی عبرانی اناجیل نا پید ہیں اور یونانی انا جیل میں ” آئی سو اس نام ملتا ہے.سریانی میں الیسوع اور لاطینی میں ” آسوس یا ھی سوس‘ جتنے تراجم ہوتے گئے اتنے ہی نام ہیں.ہیسٹنگ بائیل ڈکشنری میں کفِ افسوس ملتے ہوئے تسلیم کیا گیا ہے کہ مسیح کے نام کا صحیح تلفظ بھی محفوظ نہیں ہے کیونکہ اصل نام نا پید ہے.اس میں لکھا ہے: "It is strange that even his name has not yet been explained with certainity" یہ امر حیران کن ہے کہ ابھی تک مسیح کے نام کی تصریح بھی حتمی طور پر نہیں ہو سکتی“ پس یسوع نام کی ابتدائی صورت تو رات میں یہوشع ہے.اس سے یشوع اور یشوعہ بنا ہے جو آرامی زبان میں الیسوع اور الیسوعہ ہو گیا ہے اور گلیل کی ٹھیٹھ پہاڑی اور عام زبان میں عیسی کہلایا.ظاہر ایسا ہوتا ہے کہ یشوع نام کا لسانی سفر یہوشع سے شروع ہو کر عیسی پر ختم ہوا.عبرانی یہوشع.یشوع.یشوع.....آرامی الیسوعہ الیسوع inous گلیلی عیسی Essa حضرت مسیح علیہ السلام اس علاقہ میں مبعوث ہوئے جس میں عوام الناس یسوع کو عیسی پکارتے تھے.فرشتہ نے حضرت مریم صدیقہ کو ان کی مادری زبان میں بشارت دی جیسا کہ سنت

Page 79

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 79 اللہ ہے کہ وہ ہم سے اس کی اپنی زبان میں کلام فرماتا ہے اور قرآن کریم نے پیغمبر گلیل کے گم شدہ نام کو دوبارہ دنیا کے سامنے رکھ دیا.اس حقیقت کی تائید میں جو دلائل میسر آئے ہیں وہ پیش کئے جاتے ہیں: یوسی بیوس تاریخ کلیسیا کا باپ سمجھا جاتا تھا.اس کی تاریخ میں قرنِ اولیٰ کے بعض فرقوں کا ذکر ہے پہلے علماء یہ سمجھتے تھے کہ یہ یہودی فرقے ہیں.اب مزید تاریخی خزائن کے دستیاب ہونے پر علماء کا یہ نظریہ بہت حد تک بدل گیا ہے.موجودہ نظریہ یہ ہے کہ یہ ان عیسائیوں کے نام ہیں جو عبرانی النسل تھے.یعنی یہودیوں میں سے عیسائی ہوئے تھے.پولوس چرچ نے بعد میں انہیں بدعتی قرار دے دیا تھا پہلے با این صورت ہیں.عیسائیو Essaioe Galilioe انجیل میں لکھا ہے کہ یہودی حواریان مسیح کوگلیلی کہتے تھے.تاریخ میں انکا اولین نام ” عیسائیو ہے کیونکہ وہ عیسی علیہ السلام کو مانتے تھے.تیسری صدی کی یہ شہادت بہت قابل غور ہے.اس پر تفصیل سے بحث میتھیو بلیک نے اپنی کتاب The Scrolls and Christian Origins میں کی ہے.(صفحه ۵۳-۵۴) چوتھی صدی کے ایک عیسائی عالم ” اپنی فنی نی الیس گواہی دیتے ہیں کہ ابتداء نصاری عیسائیو“ کہلاتے تھے.انگریزی میں Essaioe اور بعد میں کرسچین کہلائے.The Scrolls and Christian Origins by Mathew Black صفحه ۷۲) published in London by N.Y Charles Scribner's Sons 1961) اس حوالہ میں بیان کردہ تاریخی حقیقت کے متعلق یہ کیوں نہ خیال کیا جائے کہ حواریان مسیح جو کہ سب گیلی تھے عیسی نام کی وجہ سے عیسائی کہلاتے تھے.ورنہ یسوع نام کی وجہ سے تو انہیں " یسوعی“ کہلا نا چاہئے تھا.اور ایسا نہیں تھا بلکہ عیسائی“ کہلاتے تھے.اس شہادت سے بھی معلوم

Page 80

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 80 ہوتا ہے کہ قرونِ اولیٰ میں گلیلی عیسائی حضرت یح علیہ السلام کو کیسی ہی کہتے تھے.جس کی وجہ سے وہ خود عیسائی کہلاتے تھے.مریم اور ابن مریم کی مادری زبان میں انجیل کا کوئی نسخہ محفوظ نہیں البتہ صحائف مند یہ جونسطوری یحی' کی تحویل میں ہیں.وہ اسی زبان میں ہیں جو کہ حضرت مسیح بولا کرتے تھے.ان صحائف میں آپ کا نام ہمیں مین سے عیسو مسیحا ملتا ہے.(انسائیکلو پیڈیا ریلیجس اینڈ تھکس (published in London)زیرلفظMandians) یہ امر بھی مدنظر رہنا چاہئے کہ منڈین اس مسیح کے قائل نہیں جس کا نام عیسو مسیحا بیان کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ رومی مسیح الوھیت کا مدعی تھا.حقیقی مسیح اور تھا.انجیلی مسیح کو وہ سچا نہیں سمجھتے ہیں یہاں اس وقت اس بات سے تو کوئی مطلب نہیں بلکہ نام کے تلفظ سے غرض ہے چنانچہ انجیلی مسیح کو مسیحا سمجھیں یا نہ سمجھیں اس کا نام اُن کے قدیمی صحائف میں ” عیسو سی ، جو آرامی میں عیسی کے مشابہہ ہے آیا ہے.....Jesus in Quran کے نام سے ایک کتاب جیوفری پیرنڈر نے لکھی ہے اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ جنوبی شام اور عرب کے نسطوری عیسائیوں نے الیسوعہ کو عیسی کہنا شروع کر دیا اس کے ثبوت میں وہ جنوبی شام کی ایک خانقاہ کا ذکر کرتے ہیں جو کہ ۵۷۱ عیسوی تک عیسا نیہ کہلاتی تھی.یعنی عیسی کے ماننے والوں کی خانقاہ.وہ لکھتے ہیں: "It is possible that the pronunciation of the syriac word was varied Nestorian christians in southern Syria and Arabia.It seems that there was a monastery in southern Syria which as early as A.D 571 bore the name "Isaniya " of the followers of jesus."

Page 81

81 حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - (Jesus in the Quran by Geoffary Parrinder P.71 printed at Sheldon Press) سیر یانی نام الیسوعہ کے متعلق یہ احتمال ہے کہ جنوبی شام اور عرب کے نسطوری عیسائیوں نے اس کا تلفظ بدل دیا ہے.اس کا ثبوت جنوبی شام میں ایک خانقاہ ہے جس کا نام ۷۱ ۵ عیسوی تک عیسا نیہ تھا یعنی عیسی کے ماننے والوں کی خانقاہ.اس کے ساتھ ہی انہوں نے قدیم سریانی لٹریچر کے علماء کے کچھ حوالے بھی حاشیہ میں درج کئے ہیں حالانکہ یہ انکشافات تو اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ابتدائی گلیلی عیسائیوں کے وقت سے ہی عیسی نام کی نسبت سے خانقاہ کا نام "عیسانیہ رکھا گیا تھا.اور نسطوری عیسائیوں نے اسے نہیں بدلا.کیونکہ نسطوری عیسائیوں کی انجیل میں بدلتی ہوئی صورت الیسوع ہے.اندرین صورت و حالات بائیبل کے تلفظ کو تبدیل کرنا قرین قیاس بھی نہیں لگتا اور نہ ہی یہ صحیح ہے.صحیح یہی ہے کہ عرف عام میں حضرت مسیح کا ذاتی نام عیسی تھا.اس لئے انہوں نے اپنی خانقاہ کا نام بھی عیسا نیہ رکھا تھا یعنی عیسی کے ماننے والوں کا معبد.☆ اسی طرح تبت کی خانقاہوں سے حضرت مسیح کی نامعلوم زندگی کے حالات ” نوٹوچ کو ملے ہیں.جو اس نے اپنی کتاب Unknown Life of Jesus میں شائع کردیئے ہیں چنانچہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ تبت کے قدیم نوشتوں میں بھی مقدس عیسی کا خطاب موجود ہے.[The divine child to whom was given the name Issa (4:8)] بھوشیہ پر ان میں راجہ شالبان کو حضرت مسیح نے اپنا نام عیسی مسیح بتایا تھا.علماء اس نام کی بہت

Page 82

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 82 دلچسپ توجیح کرتے تھے.یعنی ” آئے ایش، یعنی خدا کے روپ میں اس لئے آپ عیسی کہلائے.(ملاحظہ فرمائیں جیز زان روم آخری باب از رابرٹ گریوز اینڈ یشوعا پوڈر ومطبوعہ.Cassel & Co (1957.ان تمام شواہد سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا نام عیسی تھا.اس نام سے حضرت مریم کو بشارت ملی.نیز ابتدائی عیسائی آپ کو اسی نام سے پکارتے تھے اور خود کو عیسائیو کہتے تھے.مشرق و مغرب میں آپ عیسی اور یسوع کے نام سے مشہور ہوئے.اب اناجیل کے کچھ اور بیان کردہ ناموں کا جائزہ لیتے ہیں.مثلاً ” عمانویل“ اور آپ کا ناصری“ کہلا نا متی کا انجیل نویس کہتا ہے کہ خداوند نے یسعیاہ بنی کی معرفت کہا تھا کہ : ”دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا جنے گی اور اس کا نام عمانویل رکھیں گے.“ (دیکھو یسع یا باب ۷ آیت ۱۴) مگر عجیب بات ہے کہ جب یسوع اپنی ماں کے پیٹ میں تھے تو فرشتہ نے اس پیشگوئی کے برخلاف اس کا نام یسوع رکھ دیا جیسا کہ متی باب ایک آیت ۲۱ اور لوقا باب ۲ آیت ۲۱ کے مطابق آپ کا نام یسوع رکھا گیا تھا.اگر عما نویل والی پیشگوئی یسوع کے متعلق ہی تھی تو آپ کا نام یسوع کیوں رکھا گیا تھا ؟ عمانویل کیوں نہیں رکھا گیا تھا ؟ اور باقی کی تینوں اناجیل عمانویل والی پیشگوئی کے متعلق ذکر بھی نہیں کرتیں اور بالکل خاموش ہیں.معلوم ہوا کہ پیشگوئیاں چسپاں کرنے کی یہ ایک اور متی کی کوشش ہے جو بری طرح ناکام ہو گئی ہے.جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی کے متعلق ذکر بھی نہیں کرتیں اور بالکل خاموش ہیں.یہ پیشگوئی تو یسعیا نبی کو اپنے بیٹے کی پیدائش کے بارہ میں دی گئی تھی اور جو بموجب باب ۸ آیت ۳ کے پوری بھی ہو چکی تھی.لیکن متی کے انجیل نویس نے پیشگوئیوں کو مسیح پر چسپاں کرنے کے اپنے شوق کو یہاں ایک دفعہ پھر پورا کرنے کی کوشش کی ہے.اسی طرح متی نے لکھا ہے کہ ” ناصرہ میں یسوع جالسا تا کہ نبیوں کی معرفت جو کہا گیا تھا کہ

Page 83

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.83 وہ ” ناصری کہلائے گا پورا ہو حالانکہ تمام عہد نامہ قدیم چھان مارو ا سطرح کی پیشگوئی کسی نبی کی ”نقر“ معرفت بیان شدہ کہیں نہیں ملتی.ہوسکتا ہے کہ متی کے انجیل نویسی کے ذہن میں یہ ہو کہ عبرانی میں کو نیل کو کہتے ہیں.اور یہ کہا گیا تھا کہ داؤد کے گھرانے سے ایک تر و تازہ شاخ پھوٹے گی.شاید تر و تازہ جسے عبرانی میں نَضَرہ کہتے ہیں کو ناصرہ بنادیا گیا ہے.یا پھر قاضیوں باب ۱۳ آیت ۵ کے الفاظ ہیں کہ وہ خدا کا نذیر ہوگا جو نذر سے نکلا ہے ہو سکتا ہے اس کو نصر یا ناصری بنادیا گیا ہو.حقیقت یہ ہے کہ ناصرہ ایک نامعلوم اور غیر معروف جگہ تھی جیسا کہ لکھا ہے: کہ کیا ناصرہ سے کوئی اچھی چیز نکل سکتی ہے.“ (یوحنا باب اوّل آیت ۴۶) اور عہد نامہ قدیم میں کسی نبی کی معرفت بھی یہ نہیں کہا گیا تھا کہ آنے والا مسیح ناصری کہلائے گا.مسیح علیہ السلام کا ختنہ و عقیقہ اور یروشلم کی طرف پہلا سفر شریعت موسویہ میں لکھا ہے: اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ بنی اسرائیل سے کہہ کہ اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور اسکے لڑکا ہو تو وہ سات دن نا پاک رہے گی جیسے حیض کے ایام میں رہتی ہے.اور آٹھویں دن لڑکے کا ختنہ کیا جائے...جس عورت کے ہاں لڑکا یا لڑکی ہو اس کے بارے میں شرع یہ ہے کہ اگر تو اس کو برہ لانے کا مقدور نہ ہو تو وہ دوقمریاں یا کبوتر کے دو بچے ایک سوختنی قربانی کیلئے اور دوسرا خطاء کی قربانی کیلئے لائے.“ (احبار باب ۱۲ آیت ایک تا۸) پس اس شریعت کے مطابق مسیح علیہ السلام کا ختنہ ہوا اور عقیقہ بھی ہوامگر افسوس کہ اس اسوہ

Page 84

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 84 ابرا نہیمی کو جو برسوں سے چلا آ رہا تھا اور اس عہد کو جو ابراہیم علیہ السلام نے خداوند سے باندھا تھا بعد کے عیسائیوں نے پس پشت ڈال دیا جس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے بھی اپنے عہد کو ان سے پھرا کر بنی اسماعیل کی پشت پناہی فرمائی جیسا کہ تمام مسلمان بھی اسی سنت ابراہیمی کے موافق ختنہ کرواتے ہیں.حضرت مسیح کی پیدائش کے بعد آپ کے نام رکھنے اور ختنہ اور عقیقہ کے فرائض کسطرح سرانجام دیئے گئے اس کے بارہ میں لکھا ہے کہ: ” جب آٹھ دن پورے ہوئے اور اسکے ختنہ کا وقت آیا تو اس کا نام یسوع رکھا گیا جو فرشتہ نے اس کے پیٹ میں پڑنے سے پہلے رکھا تھا.پھر جب موسیٰ کی شریعت کے موافق ان کے پاک ہونے کے دن پورے ہو گئے تو وہ اس کو یروشلم میں لائے تا کہ خداوند کے آگے حاضر کریں جیسا کہ خداوند کی شریعت میں لکھا ہے کہ ایک پہلوٹا خداوند کے لئے مقدس ٹھہرے گا اور خداوند کی شریعت کے اس قول کے موافق کریں کہ قمریوں کا ایک جوڑ ایا کبوتر کے دو بچے لاؤ.(لوقا باب ۲ آیت ۲۱ تا ۲۵)

Page 85

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل باب سوئم حضرت مسیح علیہ السلام کے حالات جوانی 85 55 انبیاء علیھم السلام کی زندگی یوں تو ساری کی ساری ہی مثالی ہوتی ہے کیا بچپن اور کیا جوانی ان کی زندگی کے تمام ادوار خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق گزرتے ہیں اسی لئے یہ مثل مشہور ہے کہ النَّبِيُّ نَبِيٌّ وَلَوْ كَانَ صَبيا اور اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے : در جوانی توبه کردن شیوه پیغمبری وقت پیری گرگ ظالم میشود پرہیز گار جوانی کا زمانہ انبیاء کی بعثت کا زمانہ ہوتا ہے جبکہ وہ اپنے نیک اخلاق سے دنیا کا دل موہ لیتے ہیں اور اپنے پرائے سب نیک اطوار پر شاہد ہوتے ہیں اور یہی شہادتیں بعد میں ان کی نبوت کی سچائی کی دلیل بن جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: قُلْ لَّوْشَاءَ اللهُ مَا تَلَوْتُهُ عَلَيْكُمْ وَلَا أَدْرَكُمْ بِهِ سِي فَقَدْ لَبِثْتُ صلے فِيْكُمْ عُمُرًا مِنْ قَبْلِهِ ، أَفَلَا تَعْقِلُوْنَه (سورة يونس: آیت (1) ترجمہ: (اور ) تو (انہیں) کہہ دے کہ اگر اللہ کی ( یہی ) مشیت ہوتی ( کہ اس کی جگہ کوئی اور تعلیم دی جائے ) تو میں اسے تمہارے سامنے پڑھ کر نہ سنا تا اور نہ وہ (ہی) تمہیں اس (تعلیم) سے آگاہ کرتا.چنانچہ اس سے پہلے میں ایک عرصہ دراز تم میں گزار چکا ہوں کیا پھر ( بھی ) تم عقل سے کام نہیں لیتے.

Page 86

98 86 حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل اور انجیل میں یوں لکھا ہے: ”میرا فیصلہ سچا ہے کیونکہ میں اکیلا نہیں بلکہ میں ہوں اور باپ ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور تمہاری توریت میں بھی لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی مل کر سچی ہوتی ہے.ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں اور ایک باپ جس نے مجھے بھیجا میری گواہی دیتا ہے.“ (یوحنا باب ۸ آیت ۱۶ تا ۱۸) پس یہ ایک حقیقت ہے کہ نبی کی قبل از بعثت زندگی بھی اس کی سچائی کی دلیل ہوتی ہے لیکن انا جیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کی قبل از بعثت زندگی کے بہت کم حالات ملتے ہیں اور اس سلسلہ میں تشنگی کا احساس ہوتا ہے.انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا زیر لفظ جیز ز کرائسٹ (Jesus Christ) لکھتا ہے: "Any attempt to write a life of Jesus should be frankly abandoned, the material for it certainly does not exist.It has been calculated that the total number of the days in his life regarding which we have any record does not exceed 50." کہ مسیح کے حالات زندگی کے متعلق ریکارڈ شدہ حالات ۵۰ دن سے زیادہ نہیں ملتے.نیز اکثر و بیشتر یہ وہ حالات ہیں جو بعثت کے بعد کے حالات ہیں.تاہم یہ کہ آپ کی جوانی کیسی گزری تھی اس کی تحقیق اب ہم کرتے ہیں.

Page 87

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل قرآن کریم اور ا نا جیل میں آپ کے حالات جوانی اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَيُكَلِّمُ النَّاسَ فِى الْمَهْدِ وَكَهْلاً وَّمِنَ الصَّلِحِيْنَ.87 (سورة ال عمران آیت ۴۷) ما قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُوْلُ رَبِّكِ سده لا هَبَ لَكِ غُلَمًا زَكِيَّاه (سورة مريم: آیت ۲۰) فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ، قَالُوْا يَمَرْيَمُ لَقَدْ جِئْتِ شَيْئًا فَرِيَّاه يأُخْتَ هَرُوْنَ مَا كَانَ أَبُوكِ امْرَأَ سَوْءٍ وَمَا كَانَتْ أُمُّكِ بَغِيًّا ه فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ ، قَالُوْا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيَّاهِ قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللهِ النِيَ الْكِتَبَ وَجَعَلَنِي نَبِيَّاهِ وَجَعَلَنِي مُبْرَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ ، وَ أَوْطَنِى بِالصَّلوةِ وَالزَّكُوةِ مَادُمْتُ حَيَّاهِ وَبَرَّا بِوَالِدَتِيْ ط قف وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيَّاه (سورة مريم: آیات ۲۸ تا ۳۳) إِذْ قَالَتِ الْمَلَئِكَةُ يَمَرْيَمُ إِنَّ اللَّهَ يُبَشِّرُكِ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ ، صلى اسْمُهُ الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ (سورة ال عمران آیت (۴۶ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَه قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیات کریمہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مریم کو ایسے بیٹے کی بشارت دی گئی تھی جس نے جوانی کی عمر کو بھی پہنچا تھا یعنی عمر پانے والا ہونا تھا نیز یہ بھی بتایا گیا ہے کہ وہ پاکیزہ جوانی کا بھی حامل ہوگا.جیسا کہ فرمایا غلاماً زکیا ، پاک غلام تجھے دیا جائے گا.غلام کے معنی صاحب منجد اور صاحب مفردات نے کئے ہیں اطار الشارب، جس کی مونچھیں

Page 88

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 88 بھیگ رہی ہوں.قرآن کریم نے دو لفظوں میں آپ کی ساری جوانی کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے.اور ہمیں بتا دیا ہے کہ کوئی چاہے کچھ کہتا پھرے آپ کی جوانی نہایت پاکیزہ تھی.تَكَلَّمْ فِي الْمَهْدِ وَالكَهْل دوسری بات جس کی طرف قرآن کریم نے توجہ دلائی وہ آپ کا مہد اور کہولت کے زمانہ میں غیر معمولی کلام کرنا ہے.چنانچہ حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کو دو زمانوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے.ایک زمانہ مہد سے تعبیر کیا گیا ہے اور دوسرا کہل سے اور کہولت کے زمانہ کے متعلق لغاتِ عربیہ تاج العروس صحاح.اور جو ہری بتارہی ہیں کہ مردوں کا کہل کا زمانہ تھیں سال کے بعد ہوتا ہے اور تفاسير ابن جرير تنوير المقياس حاشيه للقنوى على البيضاوي.غاية البرهان.كمالين معالم التنريل جامع البيان.غرائب القرآن وغیرہ سب کہتے ہیں کہ کہل کا زمانہ میں سال کے بعد ہی ہوتا ہے.پس ظاہر ہوا کہ پہلے میں سال تک مہد کا زمانہ ہے.قرآن کریم نے میں مہد کا لفظ یوں استعمال کیا ہے: وَمَهَّدْتُ لَهُ تَمْهِيْدًاه (سورة المدثر: آیت (15) ترجمہ: اور میں نے اس کے لئے بہت سے ترقیات کے سامان پیدا کئے تھے.لمصل حضرت اصلح الموعود فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوتا ہے کہ محاورہ قرآن میں مہد کے ایک معنی تیاری کے زمانے کے بھی ہیں.پس مہد کا لفظ محاورہ میں اس زمانہ کیلئے بھی بولا جاتا ہے جو تیاری کا زمانہ ہوا اور تیاری کا زمانہ جوانی کا زمانہ ہوتا ہے کیونکہ اس زمانہ میں انسان آئندہ کے لئے اپنے اندر طاقتیں جمع کرتا ہے.یہاں بھی جوانی کے زمانہ کیلئے استعارہ مہد کا لفظ بولا گیا ہے اور قوم کے بڑے لوگ چھوٹی عمر کے نوجوانوں کا ذکر انہی الفاظ میں کیا کرتے ہیں.مگر

Page 89

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 89 اس سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ وہ واقع میں پنگھوڑے میں پڑے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ اس سے یہ مراد ہوتی ہے کہ وہ ہم سے بہت چھوٹے ہیں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھو تو آپ کی عمر ساٹھ برس کے قریب تھی بڑھاپا شروع ہو چکا تھا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار کی طرف سے ایک رئیس آپ سے گفتگو کر نے کیلئے آیا تو وہ بار بار کہتا اے بچے میں تجھے کہتا ہوں کہ میری بات مان لو حالانکہ اس وقت آپ ساٹھ سال کے تھے.مگر پھر بھی وہ آپ کو بچہ ہی کہتا تھا.کیونکہ خود اسی سال کا تھا.تو قوم کے بڑے لوگوں کا یہ کہنا کہ اس سے ہم کیا گفتگو کریں یہ تو بھی کل کا بچہ ہے کوئی قابل تعجب بات نہیں.مولوی محمد احسن صاحب امروہی جب سخت غصہ میں ہوا کرتے تو انجمن کے ممبروں سے کہا کرتے تھے کہ تم کل کے بچے دودھ پیتے بچے میرے سامنے بات کرتے ہواب اگر کوئی اس بات کو سن کر یہ کہنا شروع کر دیتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے چودہ ممبران پر مشتمل ایک انجمن بنائی تھی جس میں صرف ایک جوان شخص تھا باقی سب دودھ پیتے بچے تھے تو یہ کیسی ہنسی کی بات ہوگی.اسی طرح یہودی کہتے تھے کہ یہ جو ہمارے سامنے پوتڑوں میں کھیلا ہوا ہے کیا ہم اس سے بات کریں گویا ان الفاظ میں وہ اپنے علم وفضل اور اپنی عمر کی بڑائی پر فخر کرتے تھے“ ( تفسیر کبیر سوره مریم از حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ صفحہ ۱۹۵-۱۹۹ ایڈیشن اوّل، ادارۃ المصنفین ، ربوہ پاکستان ) چنانچہ زمانہ مہد میں، جو کہ میں سال تک کا زمانہ ہے، انا جیل میں آپ کی غیر معمولی گفتگو کا ذکر ملتا ہے اول اس وقت جب آپ بارہ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ یروشلم میں تشریف لائے.چنانچہ لکھا ہے: ” اور تین روز کے بعد کہ انہوں نے اسے ہیکل میں استادوں کے بیچ میں بیٹھے ان

Page 90

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل کی سنتے اور ان سے سوال کرتے ہوئے پایا اور جتنے اس کی سن رہے تھے اس کی سمجھ اور اس کے جوابوں سے دنگ تھے.“ (لوقا باب ۲ آیت ۴۶ - ۴۷) 90 پس قرآن کریم کی سورۃ مریم میں جس تکلم فی المہد کا ذکر ہے وہ تمہیں سال کی عمر میں اس وقت کا کلام کرنا ہے جب یوحنا کی وفات کے بعد آپ نے اعلان نبوت فرمایا جیسا کہ قرآنی آیات کے سیاق سباق سے معلوم ہوتا ہے ورنہ اگر یہ سمجھا جائے کہ آپ نے پنگھوڑے میں یہ کہا قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللهِ ، اتْنِي الْكِتَبَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا هِ وَجَعَلَنِي ط قف مُبرَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ - وَأَوْصَنِي بالصَّلوةِ وَالزَّكَوةِ مَادُمْتُ حَيَّاه وَبَر ا بِوَالِدَ تِي ، وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيَّاه (سورة مريم : آیات ۳۱ تا ۳۳) کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور مجھے نبی بنایا گیا ہے.حالانکہ آپ پوتڑوں میں پڑے تھے اور اس وقت ابھی نبوت سے بھی سرفراز نہیں ہوئے تھے اور یہ کہنا کہ نماز اور زکوۃ کا مجھے حکم دیا گیا ہے جبکہ آپ پر نہ ابھی نماز فرض تھی اور نہ ہی اپنا کچھ بھی نہ ہونے کی وجہ سے زکوۃ فرض تھی اور مجھے والدہ سے نیک سلوک کرنے والا ٹھہرایا ہے جبکہ ابھی سلوک تو کیا آپ خود سلوک کے محتاج تھے.یہ سب باتیں اگر پنگھوڑے میں متصور کی جائیں تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ نبی نہیں تھے مگر اس کے باوجود آپ نے اپنے آپ کو نبی کہا.آپ پر نماز اور زکوۃ فرض نہیں تھی مگر آپ نے کہا مجھے اس کا حکم دیا گیا ہے.لیکن یہ میچ نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کو غلاما زکیا کہا ہے.جس میں جھوٹ کی نفی موجود ہے.باقی رہا فَاتَتْ به قَوْمَهَا تَحْمِلُہ میں حملہ سے نتیجہ نکالنا کہ حضرت مریم آپ کو گود میں اٹھا کر لائی تھیں یہ بھی درست نہیں کیونکہ ایسا ترجمہ کرنا قرآنی محاورہ کے خلاف ہے جیسا کہ سورۃ جمعہ آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

Page 91

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل مَثَلُ الَّذِيْنَ حُمِلُو التَّوْارَةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوْهَا.ترجمہ: ”جن لوگوں پر تورات کی اطاعت واجب کی گئی ہے مگر باوجود اس کے انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا 91 یہاں پر حمل کے لفظ کے استعمال سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے تو رات کی تبلیغ اور تائید چھوڑ دی تھی چنانچہ مفردات امام راغب زیر آیت لکھتے ہیں: كُلِّفُوا أَنْ يَقُومُوا بِحَقِّهَا فَلَمْ يَحْمِلُوهَا.یعنی یہودیوں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ تو رات کے واجبات کو ادا کریں اس کی ظاہری اور باطنی طور پر تائید و حفاظت کریں اور اس کے احکام پر خود بھی عمل پیرا ہوں اور دوسروں کو بھی اس کی تبلیغ کریں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا.پس تحملہ کا مطلب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے زیر آیت ہذا تفسیر کبیر سورۃ مریم میں یہ کئے ہیں کہ : ” جب انہوں نے نبوت کا دعویٰ کیا تو ماں ان کے ساتھ تصدیق کرتی اور انکے دعوی کی تائید کرتی ہوئی آئی اس طرح حملہ کے معنی حوصلہ دلانے اور ہمت بڑھانے کے بھی ہو سکتے ہیں پس فَأَتَتْ بهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُه ، (سورة مريم: آیت ۲۸) کے یہ معنی نہیں کہ حضرت مسیح کو اٹھائے ہوئے تھیں بلکہ مراد یہ ہے کہ وہ مسیح کی تعلیم پر عمل کرنے والی اور اس کی تصدیق کرنے والی تھیں گویا انجیل نے جو الزام لگایا تھا کہ حضرت مریم مسیح کو نہیں مانتی تھیں قرآن کریم نے فَأَتَتْ بِهِ قَوْمَهَا تَحْمِلُهُ ، کے الفاظ میں اس کی تردید کی ہے.اور بتایا ہے کہ یہ بالکل غلط ہے وہ تو مسیح کے ساتھ ساتھ آئی تھیں اور کہتی جاتی تھیں کہ میں اس پر ایمان لاتی ہوں یہ سچا ہے تم کہتے ہو یہ حرام کا

Page 92

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - بچہ ہے کیا حرام کے بچے ایسے ہی ہوا کرتے ہیں تم اس سے بات کر کے تو دیکھو تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ یہ حلال زادہ ہے یا نہیں ؟“ 92 انا جیل میں نبوت کے اعلان کے بعد آپ کی تبلیغ کا کسی قدر تفصیل سے ذکر ہے اور آپ کی وعظ ونصیحت بیان کی گئی ہے.مثال کے طور پر لکھا ہے: پھر یسوع روح کی قوت سے بھرا ہوانگلیل کولوٹا اور سارے گردونواح میں اس کی شہرت پھیل گئی اور وہ اُن کے عبادت خانوں میں تعلیم دیتارہا اور سب اس کی بڑائی کرتے رہے اور وہ ناصرہ میں آیا جہاں اس نے پرورش پائی تھی اور اپنے دستور کے موافق سبت کے دن عبادت خانوں میں گیا اور پڑھنے کو کھڑا ہوا...پھر آپ نے یسعیاہ نبی کی کتاب باب ۶۱ آیت ۱ تا ۳ جو آپ کو دی گئی تھی سے پڑھا اور تبلیغ کی اور سب نے اس پر گواہی دی وہ ان پر فضل باتوں پر جو اس کے منہ سے نکلتی تھیں تعجب کر کے کہنے لگے کیا یہ یوسف کا بیٹا نہیں ؟ (لوقا باب ۴ آیت ۱۵ تا ۲۳) انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی پیدائش بیت لحم کے مضافات میں ہوئی تھی جو آپ کے قانونی باپ کا وطن تھا اور آپ ایک لمبا عرصہ اپنے نھیال سے دور رہ کر پرورش پاتے رہے جیسا کہ ہم گذشتہ ابواب میں لکھ آئے ہیں اور حضرت مریم آپ کو لے کر اس وقت ناصرہ میں آئیں جب آپ نبوت پر سرفراز ہو چکے تھے.اور اس وقت آپ کی غیر معمولی گفتگو اور تبلیغ آپ کے رشتہ داروں کے ساتھ ہوئی جس کا ذکر سورہ مریم کی آیات میں ہے.اس سے قبل بیت لحم یعنی یروشلم کے گرد و نواح میں ہی پرورش پاتے رہے جیسا کہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی فرمایا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ حضرت مریم کئی سال باہر رہیں جب تک کہ وہ تمیں سال کے ہو گئے.آپ فرماتے ہیں: اور اللہ تعالیٰ نے ان کو نبوت کے مقام پر فائز کر دیا تو حضرت مریم ان کو ساتھ

Page 93

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 93 لے کر اپنی قوم میں واپس آئیں مگر معلوم ہوتا ہے کہ دشمن رشتہ دارٹوہ میں رہے تدبیر کارگر نہ ہوئی اور دشمنوں نے راز کا پتہ لگا ہی لیا اور پھر خدا تعالیٰ نے اپنے نشان کو نمایاں کرنے کیلئے راز فاش کر دیا.“ ، (تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعودؓ صفحہ ۱۹ ایدین اول مطبوعہ ادارۃ المصنفین ، ربوده پاکستان ) حضرت مسیح علیہ السلام کی حضرت بحی علیہ السلام سے بیعت اور ان سے بپتسمہ لینا حضرت مسیح علیہ السلام نے ابتداء سے ہی شریعت موسویہ کی تعلیم پائی.اس لئے عہد نامہ قدیم کے اقتباسات بھی آپکو زبانی یاد تھے.آپ حسب موقع اپنی گفتگو میں بیان بھی فرماتے تھے.اناجیل اربعہ میں کثیر مواقع پر اس کا ثبوت ملتا ہے مثلاً : پستمہ پانے کے بعد جب شیطان آپ کو آزما تا رہا تو آپ نے اس کے سامنے اپنے دفاع میں عہد نامہ قدیم کی تعلیم ہی رکھی.حالانکہ شیطان کوئی یہودی تو نہ تھا کہ آپ اس پر حجت کر رہے تھے.“ ( متی باب ۴ آیت ۱ تا ۱۴) اور اسی طرح طالمود آف جیزز (12-Talmud of Jesus (PasachinVI) اور طالمودآف باب, 66.9 Talmud of Bab.Pasachin) First printed in USA, Canada, Produced in Jerusalem by (Keter Publishing House Ltd.Israel ہر ایک کے ابو تھ باب ایک اور دو سے معلوم ہوتا ہے کہ: "Hallel was the true master of Jesus" یعنی حلل جو یہودی فقہ کے ایک سلسلہ کا بانی تھا وہ مسیح علیہ السلام کا استاد تھا یعنی آپ ھلل

Page 94

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 94 کے فقہ کو ترجیح دیتے تھے اور اس کی آپ نے تعلیم پائی تھی.اور آپ سختی سے موسوی شریعت پر عمل کرتے تھے اور نیکی اور راستبازی سے زندگی بسر کرتے تھے.اس لئے جب آپ نے دیکھا کہ یوحنا گناہوں کی معافی کا پستمہ دے رہا ہے تو اس تڑپ کی وجہ سے کہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل ہو جائے گا آپ نے یوحنا سے گناہوں کی معافی کا بپتسمہ لیا اور اس کے بعد آپ نے بیابان میں چلہ کشی بھی کی.شیطان کی سخت آزمائش سے بھی سابقہ پڑا.لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کے نبی حضرت ی علیہ السلام کی بیعت کر چکے تھے اور اُن سے فیض حاصل کر چکے تھے.اس لئے آپ شیطانی آزمائش میں کامیاب ہوئے اور روحانی مجاہدات کے ذریعہ روحانیت میں ترقی کرتے رہے.آپ کی اس تڑپ اور کوشش سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اس سے قبل بھی خدا تعالیٰ کی شریعت کے موافق سب احکام بجالاتے تھے جیسا کہ آپ نے بعد میں دوسروں کو تا کید بھی کی اور کہا: اگر تو زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے تو حکموں پر عمل کر.“ ( متی باب ۱۹ آیت ۱۷) پس اس جذبہ کے تحت آپ نے حضرت یحیی کی بیعت کی اور گناہوں کی معافی کا پیستمہ لیا جیسا کہ لکھا ہے: (1) اُن دنوں یہودیہ کے بیابان میں یوحنا منادی کرنے لگا کہ تو بہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہت نزدیک آگئی ہے اس وقت یروشلم اور سارے یہودہ اور بردن کے گردو نواح کے سب لوگ نکل کر اس کے پاس گئے اور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے دریائے مردن میں اس سے بپتسمہ لیا.اس وقت یسوع گلیل سے بردن کے کنارے یوحنا کے پاس آیا.اس سے بپتسمہ لینے لگا.اور یسوع بپتسمہ لیکر فی الفور پانی میں سے اوپر گیا اور ( متی باب ۳ آیت ا تا ۱۶) دیکھو اس کیلئے آسمان کھل گیا.“ (۲)....مرقس کہتا ہے:

Page 95

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.95 یوحنا آیا اور بیابان میں بپتسمہ دیتا اور گناہوں کی معافی کیلئے تو بہ کے بپتسمہ کی منادی کرتا تھا اور یہودیہ کے ملک کے سب لوگ اور یروشلم کے سب رہنے والے نکل کر اس کے پاس گئے اور انہوں نے اپنے گناہوں کا اقرار کر کے دریائے پر دن میں اس سے بپتسمہ لیا اور ان دنوں ایسا ہوا کہ یسوع نے گلیل کے ناصرہ سے آکر بر دن میں یوحنا سے بپتسمہ لیا.“ (۳).....لوقا کہتا ہے: ( مرقس باب اوّل آیت ۴ تا ۹ ) اس وقت خدا کا کلام بیابان میں زکریا کے بیٹے یوحنا پر اترا اور بردن کے سارے گردو نواح میں جا کر گناہوں کی معافی کیلئے تو بہ کے بپتسمہ کی منادی کرنے لگا...جب سب لوگوں نے بپتسمہ لیا اور یسوع بھی بپتسمہ پا کر دُعا مانگ رہا تھا تو ایسا ہوا کہ آسماں (لوقا باب ۳ آیت ۲ تا ۲۱) کھل گیا.“ انسان روحانیت میں بھی بتدریج ترقی کرتا ہے اسی طرح حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی تدریج ترقی کی.اور حضرت یحییٰ علیہ السلام سے فیض یاب ہوئے لیکن جب حضرت یحییٰ علیہ السلام شہید ہو گئے تو حضرت عیسی علیہ السلام نے خدا تعالیٰ کی طرف سے نبوت پا کر انجیل کی منادی شروع کر دی.حضرت مسیح علیہ السلام کی رفیقہ حیات رہبانیت کا اختیار کرنا حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم میں ضروری نہ تھا بلکہ اختیاری اور وقتی ضرورت کے پیش نظر تھا جیسا کہ آپ فرماتے ہیں: شاگردوں نے اس سے کہا کہ اگر مرد کا بیوی کے ساتھ ایسا ہی حال ہے تو بیاہ کرنا ہی اچھا نہیں اس نے ان سے کہا سب اس بات کو قبول نہیں کر سکتے مگر وہی جن کو یہ

Page 96

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - قدرت دی گئی ہے کیونکہ بعض خوجے ایسے ہیں جنہوں نے آسمان کی بادشاہی کیلئے اپنے آپ کو خوجہ بنایا جو قبول کر سکتا ہے کرے.“ 96 96 (متی باب ۱۹ آیت ۱۲:۱۱) اس سے قبل آپ نے فرمایا کہ خدا نے مرد اور اس کی بیوی کو ایک جسم بنایا ہے جسے خدا نے جوڑا ہے اسے آدمی جدا نہ کرے آپ نے خوامخواہ چھوٹی سی بات پر طلاق دینے سے منع فرمایا ہے اور بیاہ کو پسند فرمایا ہے اور اسے خدا کا جوڑ نا قرار دیا ہے.لیکن حواری چونکہ تبلیغی سفروں پر نکلتے تھے اس لئے ان کیلئے بیوی کا ساتھ رکھنا مشکل ہو جاتا تھا.لہذا انہیں رہبانیت کا طریق اختیار کرنا پڑتا تھا.دیکھا دیکھی عیسائی صوفیا نے یہ طریق منتقلاً اختیار کرلیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَأْفَةٌ وَّرَحْمَةٌ ، وَرَهْبَانِيَّةَ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنَهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَ رِعَايَتِهَا فَاتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوْا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ ، وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فسقونه ج (سورة الحديد: آیت (۲۸ ترجمہ: اور ان لوگوں کے دلوں میں جنہوں نے اس کی پیروی کی نرمی اور مہربانی رکھ دی اور ہم نے ان پر رہبانیت فرض نہیں کی تھی جو انہوں نے بدعت بنالی مگر اللہ کی رضا جوئی ( فرض کی تھی ) پس انہوں نے اس کی رعایت کا حق ادا نہ کیا تو ہم نے ان میں سے ان کو جو ایمان لائے اور ( نیک عمل بجالائے ) ان کا اجر دیا جبکہ ایک بڑی تعدادان میں بد کرداروں کی تھی.حضرت مسیح علیہ السلام کو ان مشکلات کا علم تھا جو بیاہ نہ کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں.

Page 97

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 97 اس لئے بیاہ نہ کرنے کے متعلق فرمایا کہ سب ایسی بات کو قبول نہیں کر سکتے.حضرت عیسی علیہ السلام نے بچے مذہب کی مردوزن دونوں میں تبلیغ کر کے اُن کی اصلاح کرنی تھی.اور ہر وقت یہودی اس بات کی ٹوہ میں آپ کے پیچھے لگے رہتے تھے کہ آپ کے اخلاق وکردار کے متعلق کوئی ایسی بات ملے جو اسے اچھالیں.اور نمونہ بننا آپ کیلئے ایک وقت کی ضرورت بھی تھی.ایک تو انبیاء مواقع تہمت سے بکلی اپنے آپ کو بچا کر رکھتے ہیں اور کوئی ایسا موقع زندگی میں انکی دشمن کیلئے نہیں آتا کہ وہ اس سے ناجائز فائدہ اٹھا کر نہیں بد نام کرسکیں اور ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ آپ کو اس وجہ سے کہ آپ مردوزن میں کھلے عام تبلیغ ومنادی کرتے تھے دوش دیتے تھے جیسے لکھا ہے: پیلاطوس نے ان کے پاس باہر آ کر کہا کہ تم اس آدمی پر کیا الزام لگاتے ہو؟ انہوں نے جواب میں اس سے کہا کہ اگر یہ بدکار نہ ہوتا تو ہم اسے تیرے حوالے نہ کرتے.( یوحنا باب ۱۸ آیت ۲۹-۳۰) حضرت عیسی علیہ السلام کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ ان کے ساتھ عورتیں رہتی تھیں حتی کہ بعض اوقات آپ کو بدچلن عورتوں سے ملنا پڑتا تھا.لوقا کہتا ہے: ”دیکھو ایک بد چلن عورت جو اس شہر کی تھی سنگ مرمر کے عطردان میں عطر لائی.اس نے اس کے پاؤں چومے اور اُن پر عطر ڈالا...فریسی یہ دیکھ کر اپنے جی میں کہنے لگے کہ اگر شخص نبی ہوتا تو جانتا کہ جو اسے چھوتی ہے وہ کون اور کیسی عورت ہے؟“ پھر لکھا ہے: (لوقا باب ۷ آیت ۳۷ تا ۳۹) تھوڑے عرصہ کے بعد یوں ہوا کہ وہ منادی کرتا اور خدا کی بادشاہی کی خوشخبری سنا تا ہوا شہر شہر گاؤں گاؤں پھرنے لگا اور وہ بارہ اس کے ساتھ تھے اور بعض عورتیں

Page 98

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل جنہوں نے بری روحوں اور بیماریوں سے شفا پائی تھی یعنی مریم مگر لینی کہلاتی تھی جس میں سے سات بدروحیں نکلی تھیں.اور یو انسہ ہیر دیس کے دیوان خوزہ کی بیوی اور 98 سوسنا اور بہتیری اور عورتیں بھی تھیں جو اپنے مال سے اُن کی خدمت کرتی تھیں.“ (لوقا باب ۸ آیت اتا۳ ) پس ایسے حالات میں آپ کے لئے شادی ضروری تھی تا کہ کسی کو ٹھوکر نہ لگے.اور ہوا بھی ایسا ہی تھا.مریم مگر لینی جو آپ سے بہت تعلق رکھتی تھی اور انجیل میں جا بجامریم مدلینی کی طرف سے ایسے وارفتگی کے جذبات کا اظہار دکھایا گیا ہے جس سے یہ یقین ہوتا ہے کہ آپ کا اُس کے ساتھ زوجیت کا تعلق تھا.ورنہ کسی اور کو جومحرم نہ ہو نبی اپنے اتنا قریب نہیں آنے دیتا جو اس کی روحانیت کیلئے بھی نقصان دہ ہو اور معاشرہ میں بھی اس کے ذریعہ ایک بد مثال قائم ہوتی ہو.لکھا ہے: یسوع کی صلیب کے پاس اس کی ماں اور اس کی ماں کی بہن مریم کلو پاس اور مریم مگر لینی کھڑی تھیں“ ( یوحنا باب ۲۰ آیت ۱ تا ۱۶) ظاہر ہے ایسے نازک مرحلہ میں رشتہ داروں کے ہی پاس رہنے کا امکان ہے اور مریم مگر لینی بھی اُن میں شامل تھی.پھر لکھا ہے: ”ہفتہ کے پہلے دن مریم مگدینی ایسے تڑ کے کہ ابھی اندھیرا ہی تھا قبر پر آئی...مریم با ہر قبر کے پاس کھڑی روتی رہی....اس لئے کہ میرے خداوند کو اٹھالے گئے.اس نے باغباں سمجھ کر اس سے کہا میاں اگر تو نے اس کو یہاں سے اٹھایا ہو تو مجھے بتادے اسے کہاں رکھا ہے تاکہ میں اُسے لے جاؤں.یسوع نے اس سے کہا مریم ! اس نے مڑ کر عبرانی زبان میں کہا ر بونی! ( یوحنا باب ۲۰ آیت ۱ تا ۱۶)

Page 99

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 99 پس یہ دیکھنے والی بات ہے کہ آپ کے لئے اتنا بے قرار ہونا اور صبح صبح قبر پر پہنچ جانا اور آپ کو نہ پا کر رونا اور بے چین ہونا اور مسیح کو باغبان کے لباس میں روپوشی کی شکل میں دیکھ کر گھبراہٹ کے عالم میں انہی سے پوچھنا مسیح علیہ السلام کے متعلق اور مسیح علیہ السلام پر اپنا حق جتانا کہ میں اُسے لے جاؤں.پس آپ سوچیں کہ اس قسم کی اپنائیت اور حق جتانے کی بات کرنا کیا بیوی کے علاوہ کوئی اور بھی کر سکتا ہے.اور جب حضرت مسیح نے خاص انداز میں مریم! کہا تو وہ فوراً پہچان گئیں جیسا کہ گھر میں ایک دوسرے کو پکارنے کے خاص انداز ہوتے ہیں یہ سب امور اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ آپ حضرت مسیح کی زوجہ تھیں جو ہمہ وقت اور ہر وقت ساتھ رہتی تھیں.چنانچہ مصر کے آثار قدیمہ سے جن انا جیل کا انکشاف ہوا ہے.اس میں اس بات کو صاف طور سے تسلیم کیا گیا کہ اور اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت کر دی گئی ہے کہ آپ حضرت مسیح علیہ السلام کے ساتھ رشتہ زوجیت میں منسلک تھیں چنانچہ فلپ حواری کی انجیل ( مطبوعہ 1932.Kessengir Publishing Co) میں لکھا ہے: "There were three who walked with the lord at all times Mary, his mother and her sister and Magdalane, Whom they called his consort for Marry was his sister and his mother and his consort".(107:5) یعنی تین خواتین ہمیشہ حضرت مسیح علیہ السلام کے شریک سفر رہیں.مریم والدہ یسوع اور مریم آپ کی ہمشیرہ اور مریم مگدینی جسے وہ حضرت مسیح علیہ السلام کی رفیقہ حیات کہتے تھے.مریم حضرت مسیح کی والدہ اور اسی نام کی ایک خاتون آپ کی بہن اور ایک آپ کی رفیقہ حیات تھی.

Page 100

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل حضرت مسیح علیہ السلام خانہ کعبہ میں 100 انا جیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو تمیں سال کی عمر میں نبوت ملی.چند سال آپ نے تبلیغ کی اور پھر آپ کو واقعہ صلیب سے دو چار ہونا پڑا اور صلیب کے بعد آپ مشرقی ممالک کی طرف ہجرت کر گئے اور مشرق میں انجیل کی منادی کرتے رہے جیسا کہ انجیل مرقس کے نسخہ ایتھا اس میں لکھا ہے: اور یسوع بنفس نفیس مشرق میں ظاہر ہوا“ (ڈکشنری آف کرائسٹ اینڈ دی گاسپل از بیسٹنگر زیر لفظ مارک ۱۳۱ مطبوعہ میک ملن کمپنی 1953ء) گو یہ بات کہ آپ کو ۳۳ سال میں واقعہ صلیب سے دو چار ہونا پڑا انجیل کے دو حوالوں سے مشکوک ہو جاتی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ۴۵ یا ۴۶ سال کی عمر میں یہ واقعہ صلیب پیش آیا تھا اور پھر آپ نے ہجرت کی تھی اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آناً فانا واقعہ صلیب واقع نہیں ہو گیا تھا بلکہ آپ کے متعلق حکومتی عدالت میں اور مذہبی عدالت میں مقدمات چلتے رہے.اور یہ بھی ممکن ہے کہ آپ کو نبوت چالیس سال کی عمر میں ہی ملی ہو جیسا کہ سنت اللہ ہے.اور پھر چند سال کے بعد مقدمات کا سلسلہ چل پڑا اور واقعہ صلیب کے بعد بیچ نکلنے کے بعد آپ مشرقی ممالک یعنی کشمیر میں ہجرت کر گئے.دیکھیں کتاب " مسیح ہندوستان میں از حضرت مسیح موعود مرزا غلام احمد علیہ السلام - روحانی خزائن ایڈیشن اوّل مطبوعه الشرکۃ الاسلامیه، ربوہ پاکستان) یوحنا باب ۲ آیت ۱۸ تا ۲۲ میں لکھا ہے: ” پس یہودیوں نے اس سے کہا تو جوان کا موں کو کرتا ہے ہمیں کون سا نشان دکھاتا ہے؟ یسوع نے جواب میں ان سے کہا اس مقدس کو ڈھا دو تو میں اسے تین دن میں کھڑا کر دوں گا.یہودیوں نے کہا چھیالیس برس میں یہ مقدس بنا ہے اور کیا تو اسے تین

Page 101

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - دن میں کھڑا کر دے گا.اس نے اپنے بدن کے مقدس کی بابت کہا تھا.پس جب وہ مُردوں میں سے جی اٹھا تو اسکے شاگردوں کو یاد آیا کہ اس نے یہ کہا تھا.“ پھر لکھا ہے یوحنا باب ۸ آیت ۵۷ میں کہ : تمہارا باپ ابراہیم میر دن دیکھنے کی امید پر بہت خوش تھا.چنانچہ اس نے دیکھا اور خوش ہوا.یہودیوں نے اس سے کہا تیری عمر جو ابھی پچاس برس کی نہیں پھر کیا تو نے ابراہیم کو دیکھا ہے“ 101 احادیث نبویہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی عمر ۱۲۰ سال کی ہوئی تھی جیسا کر لکھا ہے: إِنَّ عيسى ابنِ مَرْيَمَ عَاشَ عِشْرِيَن وَمِائَةَ سَنَةً.مواهب اللدنيه قسطلانی جلد ا صفحه ۴۳ مطبوعہ دارالمعارف ، بیروت لبنان) حضرت عیسی علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارباص تھے اور اپنے سے بعد میں آنے والے عظیم الشان نبی کی بشارت اور خوشخبری دینے آئے تھے.آپ نے ایک لمبی زندگی دنیا میں گزاری ملک ملک کی سیاحت کی اور اسباط نبی اسرائیل کو ڈھونڈ کر بتا یا کہ آسمان کی بادشاہت قریب آگئی ہے اور تاکید کی کہ جب آپ کی آمد ہو تو آپ کی تصدیق کرنا چنانچہ بنی اسرائیل کے جس حصہ نے آپ کا انکار کیا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی انکار کر دیا اور جن بنی اسرائیل کے قبیلوں نے آپ کو مانا اور آنے والے کے متعلق آپ کے پیغام کو سمجھ لیا انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی بغیر کسی مزاحمت کے مان لیا سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا ایسا نہ ہوا ہوگا کہ آپ نے اپنے جدا مجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے تعمیر کردہ بیت اللہ کی زیارت نہ کی ہوگی اور آنحضرت کے ہونے والے مولد و مسکن میں پہنچ کر اپنی آنکھیں فرش راہ نہ کی ہوں گی جبکہ آپ کا ایک فرض خانہ کعبہ کی عظمت کو یہودیوں کے دلوں میں قائم کرنا بھی تھا اور یہ بھی تھا کہ وہاں

Page 102

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ از روئے قرآن و انجیل - 102 پر آئندہ پیدا ہونے والے عظیم الشان نبی جس کے متعلق ابتداء سے الہی نوشتوں میں ذکر آچکا تھا کی آمد کا اعلان کیا جائے اور اس کے متعلق بوضاحت سمجھایا جائے.یوحنا عارف کے مکاشفہ باب ۲۱ آیت ۱ تا ۲ میں لکھا ہے: ” پھر میں نے ایک نئے آسمان اور ایک نئی زمین کو دیکھا کیونکہ پہلا آسمان (موسوی شریعت) اور پہلی زمین (امت بنی اسرائیل ) جاتی رہی تھی اور (روحانیت کا مخزن ) سمندر بھی نہ رہا تھا پھر میں نے شہر مقدس نئے یروشلم کو آسمان پر سے خدا کے پاس سے اترتے دیکھا.وہ اس دُلہن کی مانند آراستہ تھا جس نے اپنے شوہر کیلئے سنگھار کیا ہو.“ پھر لکھا ہے: اس مقدس شہر میں حواریان مسیح کے نام لکھے ہوئے تھے اور بڑہ یعنی مسیح نے بھی اس میں قیام کیا.یہاں نئے یروشلم سے مراد مکہ ہے.“ یوحنا عارف کو بھی کشف دکھایا گیا اور حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کشفی نظارہ دکھایا گیا اور آپ نے فرمایا کہ: وادی مکہ میں مجھ سے پہلے ستر نبی گذرے ہیں.وہ مختلف الفاظ میں تلبیہ کہتے......تھے اور....حضرت عیسی کے تلبیہ کے الفاظ یہ تھے میں حاضر ہوں.اے میرے خدا میں تیرا بندہ ہوں اور تیری بندی کا بیٹا ہوں جو تیرے دونوں بندوں کی بیٹی تھی.میں حاضر ہوں اے میرے خدا میں حاضر ہوں اس طرح دوسری حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ 66 حواریوں نے بھی حج کیا تو وہ حرم کی تعظیم میں ننگے پاؤں چلے.“ اخبار مکه از آزرقی ۲۲۳ صفحه ۲۳۶ تا ۲۳۸ مطبوعہ دارالمعارف بیروت، لبنان) وَحُدِّثَتْ أن قريشاً وَجَدوُا فِى الرُّكْن كِتَاباً بِالْسُرْ يَا نِيَّةِ فَلَمْ يدروا مَاهُوَ حتى قرآ لَهُمْ رَجُلٌ مِنْ يَهُودٍ فَإِذَا هُوَ.

Page 103

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.آنَا اللهُ ذُوبَكَهُ خَلَقْتُهَا يوم خَلَقْتُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ وَصَوّرَتْ الشَّمْسَ وَالقَمَرَ وَحَفَفْتُهَا بِسَبْعَةِ املاک حُنَفَاءَ لَا تَزُولَ حَتَّى يَزْوُلَ اخْشَابِهَا، مُبَارَكٌ لَا هْلِهَا فِي المَاءِ وَاللَّيْنِ.103 (سیرۃ ابن ہشام جلد اول صفحه ۲۱۲ دار البیان العربی ، مصر ) سیرۃ ابن ہشام میں یہ روایت ہے کہ قبل بعثت نبوی بیت اللہ کی تعمیر کے وقت قریش کو رکن کے پاس سے کعبہ کی دیوار میں سے ایک کتاب ملی تھی جس میں بخظ سریانی کچھ لکھا تھا ان سے پڑھا نہ گیا کہ کیا لکھا تھا.آخر ایک یہودی سے پڑھوایا تو معلوم ہوا کہ اس میں یہ عبارت لکھی تھی: میں خدا ہوں.مکہ میرا ہے.میں نے اُس کو اس روز پیدا کیا تھا ( دوسری روایت میں ہے کہ اس روز سے محترم بنایا تھا) جس روز آسمان وزمین پیدا کئے اور چاند اور سورج بنائے اور ہمیشہ کے واسطے سات فرشتوں کو متعین کیا جو اس پر سایہ مگن رہتے ہیں.اور یہ زائل نہ ہو گا جب تک اس کے دونوں پہاڑ قائم ہیں.برکت والا ہے اپنے اھل کے 66 لئے اس کا پانی اور دودھ.“ (سیرۃ ابن ہشام متر جمہ شیخ محمد اسماعیل صاحب پانی پتی صفحہ ۱۰۱ مطبوعہ لاہور 1969ء) بعض روایات میں ہے کہ: یہ ایک کتبہ تھا جو کہ کعبہ کی لوح میں کندہ تھا اسے پڑھنے والا ایک عیسائی راہب تھا.اخبار مکه صفحه ۴۲ مطبوعہ دارالمعارف، بیروت، لبنان) کتبہ کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبارت کسی عیسائی زائر کی مناجات کا حصہ ہے یہ سریانی زبان میں ہے جو ابتدائی عیسائیوں کی زبان تھی ان مناجات سے خانہ کعبہ کیلئے اس عزت اور احترام کا پتہ لگتا ہے جو ابتدائی عیسائیوں کے دلوں میں خانہ کعبہ کیلئے موجود تھی.قرون اولیٰ کے عیسائیوں کی تحویل میں ایک مجموعہ سریانی نظموں کا تھا جو وہ معابد میں پڑھا

Page 104

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 104 کرتے تھے.زیادہ تر ان نظموں میں حضرت مسیح دنیا سے مخاطب ہیں.نظم چہارم میں اللہ تعالیٰ کے ایک ایسے گھر کا ذکر ہے جو اولُ بيتٍ وُضِعَ لِلنَّاس کا مصداق ہے.لکھا ہے: کوئی انسان اے میرے خدا تیری مقدس جگہ کو تبدیل نہیں کرتا اور ممکن بھی نہیں کہ وہ اسے بدل سکے اور اُسے کسی دوسری جگہ لے جائے کیونکہ ایسا کرنے کا اسے کوئی اختیار نہیں.کیونکہ تیرا گھر تو وہ ہے جسے تو نے اس وقت تشکیل دیا جبکہ دوسرے مقامات معرض وجود میں بھی نہیں آئے تھے.جو بڑا ہے اس کی جگہ وہ مقامات نہیں لے سکتے جو کہ ابتدا سے اس سے چھوٹے ہیں.تو نے اپنی دلی محبت ان لوگوں پر نچھاور کردی جو کہ دولت ایمانی سے مالا مال ہیں.تیرے کام کبھی نا کام نہیں ہوتے اور نہ تیرے محل بے شمر.کیونکہ مجھ پر ایمان کی ایک گھڑی بہت زیادہ قیمتی ہے.بس کون ہے؟ جس نے تیرے فضل پر بھروسہ کیا اور اس نے نقصان اٹھایا.تیری مہر کو جان لیا گیا.تیری مخلوقات اسے پہچان گئی ہے اور تیری آسمانی افواج اسے اپنے قبضہ میں لئے ہوئے ہیں....قطرات شبنم ہم پر گرا اور اپنے ان عظیم چشموں کے در کھول دے جو کہ ہم پر دودھ اور شہد کے دھارے بہادیں جس چیز کا بھی تو نے وعدہ کیا اس کے پورا کرنے میں بھلا تجھے کیا پچھتاوا ہوسکتا ہے؟ اور انجام تیرے سامنے منکشف ہے کیونکہ جب تو دینے پر آتا ہے تو بے بہا دیتا ہے 66 (The Lost Books of the Bible - Ode No IV Odes of Solomon) ان مناجات میں حضرت مسیح علیہ السلام نے خانہ کعبہ کے مرتبہ اور فضیلت کا ذکر کیا ہے اور یروشلم اور دیگر مقامات کو اس سے کم تر گردانا ہے اور یہ اشارہ کیا ہے کہ تیرے ہاتھ کے لگائے ہوئے بخل کبھی بے ثمر نہیں ہوتے.تو نے ابراہیم علیہ السلام کے ذریعہ سے یہ گھر بنایا تھا اور اس کی اولاد سے وعدے کئے تھے وہ وعدے پورے ہوں گے اور ابراہیم علیہ السلام نے

Page 105

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 105 تیرے فضل پر بھروسہ کیا تھا اور کون ہے جس نے تیرے فضل پر بھروسہ کیا ہوا اور نقصان اٹھایا ہو یا بے نصیب رہا ہو.پھر آپ نے اپنے عظیم مشن کے متعلق جو آپ کے سپر د کیا گیا تھا یعنی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشخبری دینا.اس کے متعلق ”مہر“ کا لفظ استعمال کر کے کہتے ہیں کہ لوگوں نے اس خوشخبری کو خوب اچھی طرح جان لیا ہے اور تیری مخلوقات نے اس کے متعلق تعارف حاصل کر لیا ہے.اب میرا کام ختم ہو گیا ہے.مجھ پر اپنے انعامات فرما اور میرے لئے روحانی دودھ اور شہد کے دھارے بہا اور وہ وقت قریب لا جب تیر ا عظیم وعدہ پورا ہو.ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مناجات اور دلپذیر اشعار مکہ معظمہ میں کہے گئے اور اس وقت کہے گئے ہیں جب آپ مشرق میں بذات خود اور مغرب میں حواریوں کے ذریعہ سے انجیل کی خوب اچھی طرح منادی کر چکے تھے.اور اپنا کام ختم سمجھتے تھے چنانچہ آخری عمر میں خانہ کعبہ میں خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوکر آپ نے نذرانہ عقیدت پیش فرمایا ہے اور اس موقعہ پر آپ نے حج بھی کیا ہے جو کشف میں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا بھی گیا تھا.

Page 106

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل باب چهارم حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی نبوت 106 آج سے تقریباً ۲ ہزار سال قبل سرزمین فلسطین ظلم و جور کی آماجگاہ بنی ہوئی تھی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل میں ایک لمبے عرصہ تک سلسلہ نبوت جاری رہا تھا اور وہ اب وَإِذا بُتَلَى إِبْراهِمَ رَبُّهُ بِكَلِمَت فَأَتَمَّهُنَّ ، قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ، قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِي ، قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّلِمِيْنَ (سورة البقره آیت ۱۲۵) کی مصداق بن چکی تھی.اللہ تعالیٰ نے انہیں متنبہ کرنے کیلئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان سے قبل حضرت یحییٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمایا.اس وقت یہود عہد نامہ قدیم کی پیشگوئیوں کے مطابق تین وجودوں کے منتظر تھے جیسا کہ یوحنا باب اوّل آیت ۱۹ تا ۲۵ میں لکھا ہے : یوحنا کی گواہی یہ ہے کہ جب یہودیوں نے یروشلم سے کاھن اور لاوی یہ پوچھنے کو اس کے پاس بھیجے کہ تو کون ہے؟ تو اس نے اقرار کیا اور انکار نہ کیا اور اقرار کیا کہ میں تو مسیح نہیں ہوں.انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے؟ کیا تو ایلیا ہے؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں کیا تو وہ نبی ہے؟ اس نے جواب دیا کہ نہیں.پس انہوں نے اس سے کہا پھر تو ہے کون؟ انہوں نے اس سے کہا کہ نہ تو مسیح ہے نہ ایلیاء ہے نہ وہ نبی تو پھر

Page 107

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل بپتسمہ کیوں دیتا ہے.107 اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہود، ایلیا ، مسیح اور وہ نبی تین وجودوں کے انتظار میں تھے.تفصیل کیلئے دیکھیں (۱) پیدائش باب ۴۹ آیت ۹-۱۰ (۲) زبور باب ۱۱۸ آیت ۲۵-۲۶ (۳) دانی ایل باب ۷ آیت ۱۳ ۱۴ (۴) دانی ایل باب ۱۲ آیت ۵ تا ۱۳ (۵) یسعیاہ باب ۶۱ آیت ۱ تا ۳ (۶) ملاقی باب ۴ آیت ۵ وغیرہ.جن تین وجودوں کے وہ منتظر تھے ان کو وہ نبی ہی سمجھتے اور یقین کرتے تھے وہ کسی خدا یا خدا کے اکلوتے بیٹے کی آمد اور ظہور کے قائل تھے نہ منتظر تھے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے معاقبل آنے والے حضرت یحییٰ علیہ السلام کو ایلیاء قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا: سب نبیوں اور تورات نے یوحنا تک نبوت کی اور چاہو تو مانو کہ ایلیاء جو آنے والا تھا یہی ہے جس کے سننے کے کان ہوں سن لے.“ متی باب ۱۱ آیات ۱۳ تا ۴۷ ) ، ( مرقس باب ۹ آیات ۱۱ تا۱۳)، (لوقا باب ایک آیات اتا۱۷) اور حضرت یحییٰ علیہ السلام نے اپنے آپ کو حضرت عیسی علیہ السلام کا ارہاص اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مسیح قرار دیا ہے جیسا کہ لکھا ہے: انہوں نے یعنی یوحنا کے شاگردوں نے ) یوحنا کے پاس آکر کہا اے ربی ! جو شخص بر دن کے پار تیرے ساتھ تھا.جس کی تو نے گواہی دی تھی دیکھ وہ بپتسمہ دیتا ہے اور سب اس کے پاس آتے ہیں یوحنا نے جواب میں کہا انسان کچھ نہیں پاسکتا جب تک اس کو آسمان سے نہ دیا جائے.تم خود میرے گواہ ہو کہ میں نے کہا.میں مسیح نہیں مگر اس کے آگے بھیجا گیا ہوں جس کی دلہن ہے وہ دولہا ہے.مگر دولہا کا دوست جو کھڑا ہے اور اس کی سنتا ہے.دولہا کی آواز سے خوش ہوتا ہے پس میری یہ خوشی پوری ہوگئی ضرور ہے کہ وہ بڑھے اور میں گھٹوں ( یوحنا باب ۳ آیت ۲۶ تا ۲۹) جیسا کہ لکھا ہے ( ناصرہ کے عبادت خانہ

Page 108

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل میں ) یسعیاہ نبی کی کتاب اس کو دی گئی اور کتاب کھول کر اس نے وہ مقام نکالا جہاں پر لکھا تھا کہ خداوند کا روح مجھ پر اسلئے اس نے مجھے غریبوں کو خوشخبری دینے کیلئے مسح کیا.اس نے مجھے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رہائی اور اندھوں کو بینائی پانے کی خبر سناؤں کچلے ہوؤں کو آزاد کروں.اور خداوند کے سال مقبول کی منادی کروں.“ 108 (لوقا باب ۴ آیت ۱۴ تا ۱۹) پس آپ کا اصل دعوی دعویٰ مسیحیت تھا اور اس وقت مسیح کا انتظار بھی کیا جارہا تھا اور آپ کا مشن یہ تھا کہ بنی اسرائیل کو بنوا سماعیل میں سے آنے والے عظیم الشان نبی کی بشارت دی جائے.وہ نبی جس کے متعلق لکھا ہے: خداوند تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے تیرے ہی بھائیوں ( یعنی بنو اسماعیل میں سے ) تیری مانند ایک نبی پر پا کرے گا.“ استثنا باب ۱۸ آیت (۱۵) اور مسیح علیہ السلام جب اس آسمانی بشارت کو بیان فرماتے تھے اور کہتے تھے کہ: ” خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اُس قوم کو جو اس کے پھل لائے دیدی جائے گی.“ ( متی باب ۲۱ آیت ۴۳) تو یہودی یہ سوچ کر، کہ یہ مسیح تو ہم سے انعامات نبوت جو ہماری میراث ہیں ہم سے چھین کر کسی اور قوم کو دینے کیلئے آگیا ہے، مشتعل ہو جاتے تھے.پھر ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہودی آج کل کے مسلمانوں کی طرح ایسے خونی مسیح کے منتظر تھے جو طاقت کے ذریعہ غیر یہودی حکومت کو ہٹا کر یہود کو آزاد بھی کرائے اور ان کی حکومت قائم کرے اسی لئے مسیح کو ابن داؤد کہا اور سمجھا جاتا تھا چنانچہ اس لئے یہود بھی اور حکومت بھی جب آپ کے متعلق مسیح کا لفظ سنتے تو غلط فہمی کا شکار ہو

Page 109

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 109 جاتے تھے.اور اسی لئے حضرت عیسی علیہ السلام اس لفظ کے استعمال میں احتیاط فرماتے تھے چنانچہ اسی خیال کے پیش نظر فریسیوں نے ایک بار آپ سے پوچھا بھی تھا کہ خدا کی بادشاہی کب آئے گی اور اس غیر یہودی بادشاہت سے کب نجات ملے گی.آپ نے انہیں حقیقت حال سے اسطرح آگاہ فرمایا کہ خدا کی بادشاہی ظاہری طور پر نہ آئے گی.اور لوگ یہ نہ کہیں گے کہ یہاں ہے یا وہاں ہے (لوقا باب ۱۷ آیت ۲۰) لیکن اس کے باوجود بھی جو شخص آپ کو بطور مسیح کے پہچان لیتا تھا آپ اس پر خوش ہوتے تھے جیسا کہ لکھا ہے: ())...” پھر یسوع اور اس کے شاگرد قیصر فلپی کے گاؤں چلے گئے اور راہ میں اس نے اپنے شاگردوں سے یہ پوچھا کہ لوگ مجھے کیا کہتے ہیں انہوں نے جواب دیا کہ یوحنا بپتسمہ دینے والا اور بعض ایلیاہ اور بعض نبیوں میں سے کوئی اس نے پوچھا لیکن تم مجھے کیا کہتے ہو.پطرس نے جواب میں اس سے کہا کہ تو مسیح ہے.پھر اس نے ان کو تاکید کی کہ میری بابت کسی سے یہ نہ کہنا پھر وہ انکو تعلیم دینے لگا.“ خدا کا مسیح ( مرقس باب ۸ آیت ۲۷ تا ۳۱ ) (۲) اس نے اُن سے کہا لیکن تم مجھے کیا کہتے ہو؟ پھر اس نے جواب دیا کہ دو (لوقا باب ۹ آیت ۲۰) (۳) دوسرے دن پھر یوحنا اور اس کے شاگردوں میں سے دو شخص کھڑے تھے.اس یسوع پر جو جار ہا تھا نگاہ کر کے کہا دیکھو یہ خدا کا بر ہ ہے وہ دونوں شاگر داس کو یہ کہتے ہوئے سن کر یسوع کے پیچھے ہو لئے ایک شمعون پطرس کا بھائی اندریاس تھا.اس نے سب سے پہلے اپنے سگے بھائی شمعون سے ملکر اس سے کہا کہ ہم کوخرستس یعنی مسیح مل گیا وہ اسے یسوع کے پاس لایا.یسوع نے اس پر نگاہ کر کے کہا کہ تو یوحنا کا بیٹا شمعون ہے تو کیفا یعنی پطرس کہلائے گا.“ ( یوحنا باب ۱ آیات ۳۵ تا ۴۲)

Page 110

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل (۴) ” جب یسوع قیصر یہ قلیمی کے علاقہ میں آیا تو اس نے اپنے شاگردوں سے یہ پوچھا کہ لوگ ابن آدم کو کیا کہتے ہیں.انہوں نے کہا بعض یوحنا بپتسمہ دینے والا کہتے ہیں.بعض ایلیاہ بعض بر میاہ یا نبیوں میں سے کوئی.اس نے ان سے کہا مگر تم مجھے کیا کہتے ہو! شمعون پطرس نے جواب میں کہا تو زندہ خدا کا بیٹا مسیح ہے.یسوع نے جواب میں کہا مبارک ہے تو شمون بر یونا کیونکہ یہ بات گوشت اور خون سے نہیں بلکہ میرے باپ نے جو آسمان پر ہے تجھ پر ظاہر کی ہے.اور میں بھی تجھ سے کہتا ہوں کہ پطرس ہے اور میں اس پتھر پر کلیسیا بناؤں گا اور عالم ارواح کے دروازے اس پر غالب نہ آئیں گے میں آسمان کی بادشاہی کی کنجیاں تجھے دوں گا.اور جو کچھ تو زمین پر باندھے گا وہ آسمان پر بندھے گا.اور جو کچھ تو زمین پر کھولے گا وہ آسمان پر کھلے گا.اس وقت اس نے اپنے شاگرد کو حکم دیا کہ سی کو نہ بتانا کہ میں مسیح ہوں.“ 110 (متی باب ۱۶ آیات ۱۳ تا ۲۰) انا جیل کے ان اقتباسات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مسیح ہی کہا گیا ہے.صرف متی نے ” خدا کا بیٹا' کے الفاظ زائد کئے ہیں.اناجیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے غیر یہودیوں میں آپ کا لقب بطور مسیح کے ہی معروف تھا.اپنے پرائے بھی آپ کو مسیح ہی خیال کرتے تھے گویا ملک وقوم اور حاکم تک یسوع کی شہرت بطور مسیح اور نبی کے تھی جیسا کہ لکھا ہے: پیلاطوس نے ان سے کہا.پھر یسوع کو جو مسیح کہلاتا ہے میں کیا کروں.“ (متنی باب ۱۲۷ آیت ۲۲) تب انہوں نے (یہود نے ) اس (یسوع) کے منہ پر تھوکا اور اس کو مارا اور کہا اے مسیح ہمیں نبوت سے بتا کہ کس نے تجھ کو مارا.“ متی باب ۲۶ - آیات ۷ ۶ تا ۶۸)

Page 111

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 111 عورت نے اس سے کہا اے خداوند مجھے معلوم ہوتا ہے کہ تو نبی ہے.....یسوع نے عورت سے کہا کہ اے عورت میری بات کا یقین کر کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ تو اس پہاڑ پر باپ کی پرستش کرو گے اور نہ یروشلم میں عورت نے اس سے پہلے کہا میں جانتی ہوں کہ مسیح جو خرسنتس کہلاتا ہے آنے والا ہے.جب وہ آئے گا تو ہمیں سب باتیں بتا دے گا.یسوع نے کہا میں جو تجھ سے بول رہا ہوں وہی ہوں.“ (یوحنا باب ۴ آیات ۱۹ تا ۲۷) عورت نے آپ کی غیب دانی کی وجہ سے آپ کو پہلے نبی کہا جب آپ نے اسے بتایا کہ باپ کی پرشش یروشلم میں نہ رہے گی اور وقت آتا ہے کہ باپ کی پرستش سچائی اور روح سے کہیں اور ہوگی اور خدا کچے پرستار ڈھونڈے گا تو اس نے کہا کہ ہاں ہاں مجھے معلوم ہے.مسیح آنے والا ہے وہ ساری باتیں بتا دے گا اور حضرت عیسی علیہ السلام نے فوراً اپنے آپ کو مسیح بتایا اور بتایا کہ میں تمہیں وہ اہم باتیں بتا رہا ہوں جن کے بتانے کیلئے مسیح کا مامور ہونا مقدر تھا.اور آپ اپنے حواریوں اور عقیدت مندوں کو بھی یہی باتیں بتاتے تھے مگر عوام الناس سے صرف تمثیلات میں کلام فرماتے تھے.جیسا کہ فرمایا: ” مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا.“ ( یوحنا باب ۱۶ آیات ۱۲ ۱۳) پھر آپ نے منتی باب ۲۴ آیت میں بھی اپنے ماننے والوں کو یہ کہہ کر ہوشیار کیا کہ : بہترے جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اٹھیں گے اور بڑے بڑے نشان دکھا ئیں گے.آپ نے واضح فرمایا ہے کہ میرے بعد جھوٹے طور پر کئی مسیح اور نبی ہونے کا دعویٰ کریں

Page 112

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل گے تم انہیں پہچان لینا بلکہ اپنے دوبارہ آنے کے متعلق فرمایا: ابن آدم کے آنے کا نشان یہ ہو گا کہ سورج تاریک ہو جائے گا اور چاند اپنی روشنی نہ دے گا اور ستارے آسمان سے گریں گے اور آسمان کی قوتیں ہلائی جائیں گی اور اس وقت ابن آدم کا نشان ظاہر ہوگا." (متی باب ۲۴ آیات ۲۹-۳۰) 112 چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد وہ سچائی کا روح اور یوحنا کے مکاشفے کے مطابق نبیوں کی مہر آنحضرت علیہ ظاہر ہوئے اور آپ نے بھی اپنے بعد ایک مہدی اور مسیح کی آمد کے متعلق پیشگوئی فرمائی اور مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی کیلئے جو نشان ظاہر ہونا تھا اس کو وضاحت سے بیان فرمایا.لکھا ہے: إِنَّ لِمَهْدِينَا يَتَيْنِ لَمْ تَكُونَا مُنْذُ خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ يَنْكَسِفُ القَمَرُ لِاَوَّل لَيْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَتَنْكَسِفُ الشَّمْسُ فِي النِصْفِ مِنْهُ دار قطنی صفحه ۱۸۸ مطبوعہ مکتبہ رحمانیہ اردو بازار، لاہور، پاکستان) حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اورمحمد بن علی نے روایت کی ہے کہ ہمارے مسیح و مہدی کے دو نشان ہیں.یہ نشان آسمان وزمین کی پیدائش سے لیکر آج تک کبھی کسی کیلئے ظاہر نہیں ہوئے ایک تو یہ کہ قمر کو پہلی رات میں ( گرھن والی راتوں میں سے ) گرھن لگے گا اور دوسرا یہ کہ سورج کو اس رمضان میں ( گرھن والے دنوں میں سے ) درمیانے دن میں گرھن لگے گا.اس نشان میں خصوصیت یہ ہے کہ ابتداء دنیا سے صرف مسیح و مہدی کے لئے ہی یہ نشان مخصوص ہے.مسیح علیہ السلام نے بھی کہا تھا کہ یہی ابن آدم کے دوبارہ آنے اور اس کی صداقت کا نشان ہوگا.چنانچہ مسیح علیہ السلام کے بتائے ہوئے نشان کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تصدیق و تجدید فرما دی اور ۱۸۹۴ء میں بعینہ یہی نشان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روحانی فرزند اور مسیح و مہدی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام کے حق میں پورا ہو گیا اور اگلے سال ۱۸۹۵ء میں انہی رمضان کی

Page 113

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 113 تاریخوں میں دوسرے نصف کرہ ارض یعنی امریکہ والی طرف دکھایا گیا.اور جسطرح ایلیا علیہ السلام کی آمد بشکل یحییٰ علیہ السلام ہوئی تھی اسی طرح مسیح علیہ السلام کی آمد ثانی حضرت مرزا غلام احمد علیہ السلام کی شکل میں پوری ہو گئی ہے.جس کے کان سنے کیلئے ہوں سن لے اور قبول کرلے.پس حضرت مسیح علیہ السلام جہاں مسیح تھے وہاں نبی بھی تھے.مندرجہ ذیل جگہوں سے آپ کا دعویٰ نبوت ثابت ہوتا ہے مثلا فر مایا: جو مجھے قبول کرتا ہے اسے جس نے مجھے بھیجا ہے قبول کرتا ہے جو کوئی نبی کے نام سے قبول کرتا ہے وہ نبی کا اجر پائے گا.(متی باب ۱۰ آیات ۴۰ تا ۴۱) پھر جب آپ یروشلم میں داخل ہوئے تو سارے شہر میں غل مچ گیا.لوگ پوچھنے لگے کہ یہ کون ہے.تب بھیڑ نے کہا کہ بی کلیل ناصرہ کا یسوع نبی ہے.“ ( متی باب ۲۱ آیات ۱۰ تا ۱۱) اس پر بعض فقیہوں اور فریسیوں نے جواب میں اُس سے کہا اے استاد ہم تجھ سے ایک نشان دیکھنا چاہتے ہیں.اُس نے جواب دیکر اُن سے کہا اس زمانہ کے برے اور حرامکار لوگ نشان طلب کرتے ہیں مگر یوناہ نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان ان کو نہ دیا جائے گا.دیکھو یہاں وہ ہے جو یوناہ سے بھی بڑا ہے.دکھن کی ملکہ....دنیا کے کنارے سے سلیمان کی حکمت سنے کو آئی اور دیکھو یہاں وہ ہے جو سلیمان سے بھی بڑا ( متی باب ۱۲ آیات ۳۸ تا ۴۲ ) ہے." آپ نے اپنے آپ کو یہاں یونس نھی اور سلیمان نھی کے مشابہہ بلکہ اس سے بڑا نبی قرار دیا ہے.نیز آپ نے فرمایا: نبی اپنے وطن اور گھر کے سوا کہیں بے عزت نہیں ہوتا.“ (متی باب ۱۳ آیت ۵۷ لوقا باب ۱۴ آیت ۲۴.یوحنا باب ۴ آیت ۴۴)

Page 114

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل.....و پطرس یعقوب اور یوحنا کے سامنے پہاڑ پر ان کے سامنے اس کی صورت بدل گئی اور اس کی پوشاک ایسی نورانی اور نہایت سفید ہوگئی اور ایلیا اور موسیٰ کے ساتھ ان کو دکھائی دیا اور وہ یسوع سے باتیں کرتے تھے.“ 114 (لوقا باب ۹ آیات ۲۸ تا ۳۰ مرقس باب ۹ آیات ۷ تا ۸ ) کشفی طور پر حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے آپ کو حضرت ایلیا اور حضرت موسیٰ" کے ساتھ دیکھا اور وہ دونوں نبی تھے اور آپ بھی سلسلہ موسوی کے آخری نبی تھے اور نبوت میں اُن کے مشابہہ تھے.نیز فرمایا: میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اس نے مجھے بھیجا.‘ ( یوحنا باب ۹ آیات ۴۳) اناجیل اربعہ کے مندرجہ بالا اقتباسات سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کا اصل دعویٰ مسیحیت کا تھا اور اسی وجہ سے آپ نبی اور رسول بھی تھے اور آپ نے اپنے آپ کو جا بجا ابن آدم کے نام سے یاد بھی کیا ہے.آپ اپنے آپ کو مامور من اللہ اور یک از ذریت آدم ہی سمجھتے تھے.قرآن کریم میں آپ کے دعویٰ مسیحیت و نبوت کا ذکر فرمایا: إِذْ قَالَتِ الْمَلَئِكَةُ يَمَرْيَمُ إِنَّ اللهَ يُبَشِّرُكَ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ و سَى اسْمُهُ ق الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ وَجِيْهَا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ (سورة آل عمران : آیت (۴۶) ترجمہ: ( پھر اس وقت کو یاد کر ) جب فرشتوں نے کہا تھا کہ اے مریم ! اللہ تجھے اپنے کلام کے ذریعہ سے (ایک لڑکے کی ) بشارت دیتا ہے.اُس (مبشر ) کا نام مسیح ابن مریم ہوگا.جو ( اس ) دنیا اور آخرت میں صاحب منزلت ہوگا اور خدا کے مقربوں میں

Page 115

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل سے ہوگا.* يَأَهْلَ الْكِتَبِ لَا تَغْلُوْا فِي دِيْنِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ ، إِنَّمَا الْمَسِيحُ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِنْهُ ، فَامِنُوا بِاللهِ وَرُسُلِهِ ع وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلَثَةٌ إِنْتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ ، إِنَّمَا اللهُ إِلهُ وَاحِدٌ ، سُبْحَنَهُ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ، وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيْلاً ه 115 (سورة نساء : آیت ۱۷۲) ترجمہ: اے اہل کتاب ! تم اپنے دین کے ( معاملہ ) میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کے متعلق سچی بات کے سوا ( کچھ نہ کہا کرو.مسیح عیسی ابن مریم اللہ کا صرف (ایک) رسول اور اس کی (ایک) بشارت تھا جو اس نے مریم پر نازل کی تھی اور اس کی طرف سے ایک رحمت تھا.اس لئے تم اللہ ( پر ) اور اس کے تمام رسولوں پر ایمان لاؤ اور یوں نہ کہو کہ (خدا) تین ہیں.( اس امر سے) باز آ جاؤ (یہ) تمہارے لئے بہتر ہوگا.اللہ ہی اکیلا معبود ہے اور وہ (اس بات سے ) پاک ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہو.جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے (سب) اسی کا ہے اور اللہ کی حفاظت کے بعد اور کسی حفاظت کی ضرورت نہیں.قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللهِ اثْنِيَ الْكِتَبَ وَجَعَلَنِيْ نَبِيَّاه ط قف (سورة مريم: آیت (۳۱) ترجمہ: ( یہ سن کر ابن مریم نے ) کہا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس نے مجھے کتاب بخشی ہے اور مجھے نبی بنایا ہے.مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ

Page 116

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ از روئے قرآن و انجیل - 116 الرُّسُلُ ، وَأُمُّهُ صِدِيقَةٌ ، كَانَا يَأْكُلن الطَّعَامَ ، أَنْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنَ لَهُمُ الْآيَتِ ثُمَّ انْظُرْ أَنَّى يُؤْفَكُوْنَ (سورة المائده : آیت ۷۶) ترجمہ: مسیح ابن مریم صرف ایک رسول تھا، اس سے پہلے رسول ( بھی ) فوت ہو چکے ہیں.اور اس کی ماں بڑی راستباز تھی.وہ دونوں کھانا کھایا کرتے تھے.دیکھ ہم کس طرح ان کے (فائدہ کیلئے ) دلائل بیان کرتے ہیں.پھر دیکھ کہ ان کا خیال کس طرح بدل دیا جاتا ہے.وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِينَ أَنْ آمِنُوْابِيْ وَبِرَسُوْلِيْ قَالُوْا امَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُوْنَه إِذْ قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ يَعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ هَلْ يَسْتَطِيْعُ رَبُّكَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْنَا مَآئِدَةٌ مِّنَ السَّمَاءِ ، قَالَ اتَّقُوا اللَّهَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ (سورة المائده: آیات ۱۲ ۱ تا ۱۱۳) ترجمہ: اور اس وقت کو یاد کرو جب میں نے تیرے حواریوں یعنی شاگردوں کو وحی کی کہ مجھ پر اور میرے رسول پر ایمان لاؤ.انہوں نے اس وحی کے جواب میں کہا کہ ہم ایمان لاتے ہیں اور تو گواہ رہ کہ ہم فرماں برداروں میں شامل ہو گئے ہیں.اور اس وقت کو بھی یاد کرو جب حواریوں نے کہا کہ اے عیسی ابن مریم کیا تیرے رب میں طاقت ہے کہ ہمارے لئے آسمان سے کھانوں سے بھرا ہوا ایک خوان اتارے.اس پر مسیح نے کہا کہ اگر تم سچے مومن ہو تو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.إِنَّ مَثَلَ عِيْسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ ، خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ ط قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُوْنُ.(سورة آل عمران : آیت ۶۰)

Page 117

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل ترجمہ: (یاد رکھو) عیسی کا حال اللہ کے نزدیک یقیناً آدم کے حال کی طرح ہے.اسے ( یعنی آدم کو ) اس نے خشک مٹی سے پیدا کیا.پھر اس کے متعلق کہا کہ تو وجود میں آجا تو وہ وجود میں آنے لگا.ا وَإِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يُبَنِي إِسْرَاءِ يْلَ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُّصَدِ قَالِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَةِ وَمُبَشِّرًا ، بِرَسُوْلِ يَأْتِي مِنْ.بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ ، فَلَمَّا جَاءَ هُمْ بِالْبَيِّنَتِ قَالُوْا هَذَا سِحْرٌ مُّبِيْنٌه 117 م (سورة الصف: آیت) ترجمہ: اور (یاد کرو) جب عیسی ابن مریم نے اپنی قوم سے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں اللہ کی طرف سے تمہاری طرف رسول ہو کر آیا ہوں ، جو کلام میرے آنے سے پہلے نازل ہو چکا ہے یعنی تو رات اس کی پیشگوئیوں کو میں پورا کرتا ہوں اور ایک ایسے رسول کی بھی خبر دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہوگا.پھر جب وہ رسول دلائل لے کر آ گیا، تو انہوں نے کہا یہ تو کھلا کھلا فریب ہے.لا وَرَسُوْلًا إِلَى بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ أَنِّي قَدْ جِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ أَنِّي أَخْلُقُ لَكُمْ مِّنَ الطَّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ فَأَنْفُخُ فِيْهِ فَيَكُوْنُ طَيْراً بِإِذْنِ اللَّهِ وَأَبْرِيُّ الْأَكْمَهَ وَالْاَبْرَصَ وَأَحْيِ الْمَوْتَى بِإِذْنِ اللَّهِ وَأُنَبِّئُكُمْ بِمَا تَأْكُلُوْنَ وَمَا تَدَّخِرُوْنَ فِي بُيُؤْتِكُمْ ، إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ.(سورة آل عمران: آیات ۵۰) ترجمہ: اور بنی اسرائیل کی طرف رسول ( بنا کر اسے پیغام کے ساتھ بھیجے گا ) کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نشان لے کر آیا ہوں (اور وہ یہ ہے ) کہ میں تمہارے (فائدہ) کیلئے بعض طینی خصلت رکھنے والوں سے پرندہ (کے پیدا

Page 118

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - کرنے) کی طرح (مخلوق) پیدا کروں گا.پھر میں ان میں ایک نئی روح پھونکوں گا.جس پر وہ اللہ کے حکم کے ماتحت اڑنے والے ہوں جائیں گے.اور میں اللہ کے حکم کے ماتحت اندھے کو اور مبروص کو اچھا کروں گا اور مردوں کا زندہ کروں گا.اور جو کچھ تم کھاؤ گے اور جو کچھ تم اپنے گھروں میں جمع کرو گے اس کی تمہیں خبر دوں گا (اور ) اگر تم مومن ہو تو اس میں تمہارے لئے ایک نشان ہوگا.إِنَّا أَنْزَلْنَا التَّوْرَةَ فِيْهَا هُدًى وَنُوْرٌ يَحْكُمُ بِهَا النَّبِيُّوْنَ الَّذِيْنَ أَسْلَمُوْا لِلَّذِيْنَ هَادُوا وَالرَّبَّانِيُّونَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتَحْفِظُوْا مِنْ كِتَبِ اللهِ وَكَانُوْا عَلَيْهِ شُهَدَاءَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَاخْشَوْنَ وَلَا تَشْتَرُوْا بِايَتِى ثَمَنًا قَلِيْلًا، وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الْكَفِرُونَ.وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ ، وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَ الْأَنْفَ بِالْأَنْفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِ ، وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ ، وَمَنْ لَّمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّلِمُوْنَ.وَقَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَةِ - وَآتَيْنَهُ الْإِنْجِيْلَ فِيْهِ هُدًى وَّ نُوْرٌ وَّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ مِنَ التَّوْرَةِ وَهُدًى وَ مَوْعِظَةٌ لِلْمُتَّقِينَ.ط 118 (سورة المائده آیات ۴۵ تا ۴۷) ترجمہ: ہم نے تو رات کو یقیناً ہدایت اور نور سے بھر پورا تارا تھا.اس کے ذریعہ سے انبیاء ( جو ہمارے ) فرماں بردار تھے اور عارف اور علماء بسبب اس کے کہ ان سے

Page 119

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ از روئے قرآن و انجیل.اللہ کی کتاب کی حفاظت چاہی گئی تھی اور وہ اس پر نگران تھے، یہودیوں کے لئے فیصلے کیا کرتے تھے.پس تم لوگوں سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو.اور تم میری آئینوں کے بدلہ میں تھوڑی قیمت نہ لو.اور جو (لوگ) اس ( کلام) کے مطابق جو اللہ نے اتارا ہے فیصلہ نہ کریں تو وہ حقیقی کا فر ہیں.اور ہم نے اس (تورات) میں ان پر فرض کیا تھا کہ جان کے بدلہ میں جان اور آنکھ کے بدلہ میں آنکھ ، اور ناک کے بدلہ میں ناک، اور کان کے بدلہ میں کان ، اور دانت کے بدلہ میں دانت اور نیز ( زخموں کے بدلہ میں زخم برابر کا بدلہ ہیں مگر جوشخص (اپنے ) اس حق کو چھوڑ دے تو (اس کا یہ فعل ) اس کیلئے گناہ کی معافی کا ذریعہ ہو جائے گا.اور جو (لوگ) اس ( کلام) کے مطابق فیصلہ نہ کریں جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہی (حقیقی) ظالم ہیں.ہم نے عیسی ابن مریم کو جب کہ وہ اس ( کلام ) یعنی تو رات کو پورا کرنے والا تھا ، ان (مذکورہ بالا نبیوں) کے نقش قدم پر چلایا.اور ہم نے اسے انجیل دی تھی جس میں ہدایت اور نور تھا اور وہ اس ( کلام) کو جو اس سے پہلے ( آچکا) تھا پورا کرنے والی تھی اور وہ متقیوں کیلئے ہدایت اور نصیحت تھی.وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوْحًا وَابْرِهِيْمَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَبَ فَمِنْهُمْ مُهْتَدِ : وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَسِقُوْنَ.ج ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلَى آثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَقَفَّيْنَا بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ وَآتَيْنَهُ الْإِنْجِيلَ وَجَعَلْنَا فِي قُلُوبِ الَّذِينَ اتَّبَعُوْهُ رَأفَةٌ وَرَحْمَةً ، وَرَهْبَانِيَّةَ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنَهَا عَلَيْهِمْ إِلَّا ابْتِغَاءَ رِضْوَانِ اللَّهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَا ، فَأَتَيْنَا الَّذِينَ آمَنُوا مِنْهُمْ أَجْرَهُمْ وَكَثِيرٌ 119

Page 120

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل مِّنْهُمْ فَسِقُوْنَ 120 (سورة الحديد: آیات ۲۸.۲) ترجمہ: اور ہم نے نوح اور ابراہیم کو بھی رسول بنا کر بھیجا تھا.اور کی ذریت سے نبوت اور کتاب کو مخصوص کر دیا تھا.پس بعض ان میں سے ہدایت پانے والے تھے اور بہت لوگ ان میں سے فاسق تھے.پھر ہم نے ان کے یعنی (اولادنوح و ابرا ہیم کے ) بعد اپنے رسول ان کے نقش قدم پر چلا کر بھیجے.اور عیسی ابن مریم کو بھی ان کے نقش قدم پر چلایا اور اس کو انجیل بخشی.اور جو اس کے متبع ہوئے ہم نے ان کے دل میں رافت اور رحمت پیدا کی اور انہوں نے کنوارا رہنے کا طریق اختیار کیا، جسے انہوں نے خود اختیار کیا تھا.ہم نے یہ حکم ان پر فرض نہیں کیا تھا ( گو ) انہوں نے اللہ کی رضا حاصل کرنے کیلئے یہ طریق اختیار کیا تھا.مگر اس کا پورا لحاظ نہ رکھا.پس ان میں سے جو مومن تھے ان کو ہم نے مناسب حال اجر بخشا اور ان میں سے بہت سے فاسق تھے.ان آیات کریمہ کی روشنی میں مندرجہ ذیل حقائق کا علم ہوتا ہے: آپ روحانی لحاظ سے مسیح تھے اور نام آپ کا عیسی ابن مریم تھا آپ اللہ کے رسول اور بنی اسرائیل کی طرف مامور تھے.پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کا ذکر دیگر انبیاء کے ساتھ بھی فرمایا ہے اور نبوت میں اور پیدائش میں مثیل آدم قرار دیا ہے.نیز آپ نے دیگر انبیاء کی طرح تو ریت سے نور اور ہدایت حاصل کی جو انبیاء اس کے ذریعہ فیصلے کرتے تھے انہی کے نقش قدم پر چلنے والے آپ بھی تھے.آپ کے حواریوں کو بھی جو سعید روح رکھتے تھے الہام بتایا گیا تھا کہ آپ من جانب اللہ نبی اور رسول ہیں.اور یہی بات آپ بھی لوگوں کے سامنے پیش فرماتے تھے.انا جیل میں بھی لوقا باب ۴ آیت ۱۷۸ میں آپ نے دعویٰ مسیحیت فرمایا اور منتی باب

Page 121

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 121 ۱۲ آیت ۱۲-۱۳ اور لوقا باب ۹ آیت ۲۸ تا ۳۰ اور مرقس باب ۹ آیت ۷.۸ میں آپ نے اپنے آپ کو نبیوں کی طرح ایک نبی کہا.پطرس شمعون بر یوناہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا گیا تھا اسی طرح حضرت یحییٰ علیہ السلام کو بھی آپ کا مقام بتایا گیا تھا اور انہوں نے اپنے شاگردوں کو بھی اس سے آگاہ فرمایا تھا.(دیکھیں یوحنا باب ۱۶ آیات ۱۲ تا ۱۳ اور منتی باب ۱۶ آیت ۷ ایوحنا باب ۱۷) قرآن کریم اور انا جبیل اس حد تک تو آپ کے دعویٰ نبوت ورسالت اور مسیحیت میں متفق نظر آتی ہیں ان دلائل قرآنیہ واناجیل کی موجودگی میں اگر کوئی شخص کوئی اور دعویٰ آپ کی طرف منسوب کرتا ہے تو وہ رڈ کرنے کے قابل ہے نہ کہ قبول کرنے کے لائق.آپکے دعوی نبوت و مسیحیت کی ابتداء انجیل سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ۳۰ سال کی عمر میں تعلیم دینی شروع کی جیسا کہ لکھا ہے: ” جب یسوع خود تعلیم دینے لگا قریباً ۳۰ برس کا تھا.(لوقا باب ۳ آیت ۲۳) اور آپ پر روح القدس کا نزول یوحنا علیہ السلام سے بپتسمہ لینے کے فورابعد ہوا تھا جیسا کہ لکھا ہے: ” یسوع بھی پیستمہ پا کر دعا کر ہا تھا تو ایسا ہوا کہ آسمان کھل گیا اور روح القدس جسمانی صورت میں کبوتر کی مانند اس پر نازل ہوا.“ (لوقا باب ۳ آیت ۲۲ مرقس باب ۱ آیت ۰ ۱ متنی باب ۳ آیت ۱۶) لوقا نے روح القدس کے تجسم کا ذکر کیا ہے.مرقس نے صرف روح کے نزول کا لیکن متی نے خدا کی روح کے الفاظ زائد لکھتے ہیں ان تینوں انجیلوں نے روح القدس کے نزول کا ذکر اس رنگ میں کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس واقعہ کا تعلق بظاہر یوحنا سے کچھ نہیں بلکہ اس کا تعلق صرف مسیح کی ذات سے ہے.لیکن یوحنا میں لکھا ہے:

Page 122

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 122 اور یوحنا نے گواہی دی ہے کہ میں نے روح کو کبوتر کی طرح آسمان سے اترتے دیکھا اور وہ اس پر ٹھہر گیا.اور میں تو اسے پہچانتا نہ تھا مگر جس نے مجھے پانی سے بپتسمہ دینے کو بھیجا ہے اسی نے مجھ سے کہا کہ جس پر تو روح کو اترتے اور ٹھہرتے دیکھے گا وہی روح القدس سے بپتسمہ دینے والا ہے.چنانچہ میں نے دیکھا اور گواہی دی کہ یہ خدا کا بیٹا ہے.“ ( یوحنا باب ایک آیات ۳۲ ۳۳) اس اقتباس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ یوحنا کا کشف تھا اور کشفی نظارہ دکھا کر ہونے والے مسیح کے متعلق آپ کو اطلاع دی گئی تھی غالبا دیگر انا جیل میں اس واقعہ کی نوعیت کو الفاظ کے ہیر پھیر سے بدل دیا گیا ہے.آپ نے نبوت کی منادی کب کی؟ اس کے متعلق انا جیل کے بیانات مندرجہ ذیل ہیں : ” جب اس نے سنا کہ یوحنا پکڑوادیا گیا ہے گلیل کو روانہ ہوا.اس وقت سے یسوع نے منادی کرنا اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ تو بہ کرو کیونکہ آسمان کی بادشاہی نزدیک آگئی.“ متی باب ۴ آیت ۱۳ تا ۱۷) مرقس باب ۱ آیت ۴ الوقا باب ۴ آیت ۲ اور باب ۱۵اور آیت ۱۵) ان باتوں کے بعد یسوع کے شاگرد یہودیہ کے ملک میں آئے او وہ وہاں ان کے ساتھ رہ کر بپتسمہ دینے لگا.اور یوحنا بھی شالیم کے نزدیک عینون میں پستمہ دیتا تھا کیونکہ وہاں پانی بہت تھا اور لوگ آ کر پستمہ لیتے تھے.کیونکہ یوحنا اس وقت قیدخانہ میں ڈالا نہ گیا تھا.“ تینوں اناجیل متی ، مرقس اور لوقا اس بات پر متفق ہیں کہ آپ کا زمانہ اعلان ماموریت یوحنا کے پکڑوائے جانے کے بعد شروع ہوا تھا.لیکن یوحنا کو ان تینوں سے اختلاف ہے یوحنا کی انجیل یہ کہتی ہے کہ ایک ہی وقت میں دونوں نبی اپنی اپنی جگہ پستمہ دیتے تھے اور جب یوحنا کے شاگردوں نے اس بات کا ذکر تعجب سے کیا اور کہا کہ جو شخص ہر دن کے پار تیرے ساتھ تھا جس کی تو ( یوحنا باب ۳ آیات ۲۲ تا ۲۴)

Page 123

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ از روئے قرآن و انجیل.دیا 123 نے گواہی دی ہے ان کو وہ بہپیسہ دیتا ہے اور لوگ اس کے پاس آتے ہیں.اس پر یوحنا نے جواب انسان کچھ نہیں پاسکتا جب تک اس کو آسمان سے نہ دیا جائے....تم خود میرے گواہ ہو کہ میں نے کہا کہ میں مسیح نہیں بلکہ اس کے آگے بھیجا گیا ہوں.میری یہ خواہش پوری ہوئی ضرور ہے کہ وہ بڑھے اور میں گھٹوں.“ ( یوحنا باب ۳ آیات ۲۴ تا ۲۹) انا جیل میں آپ کے اعلان ماموریت کے زمانہ کے متعلق بھی اختلافات ہیں انجیل ایک طرف ہے اور تین اناجیل ایک طرف البتہ یوحنا کا بیان یہاں زیادہ درست معلوم ہوتا ہے کہ دونوں اپنے اپنے علاقہ میں تو رات کی صحیح تعلیم لوگوں میں پھیلاتے تھے اور جب یوحنا پکڑ وادئے گئے تو آپ نے اپنی تبلیغ کو اور وسعت دی جس کی وجہ سے آپ کو بھی واقعہ صلیب سے دوچار ہونا پڑا.حضرت مسیح علیہ السلام کی چلہ کشی یعنی مجاہدہ روحانی بپتسمہ لینے کے بعد اور نبوت کی عام منادی سے قبل آپ نے ایک چلہ کشی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی سنت کے مطابق کی.اس روحانی مجاہدہ کے متعلق لکھا ہے: اور خداوند نے موسیٰ سے کہا کہ پہاڑ پر میرے پاس آ اور وہیں ٹھہرا رہ....اور پہاڑ پر چالیس دن اور چالیس راتیں رہا.“ ( خروج باب ۲۵ آیات ۱۲ تا ۱۸) آپ سے جو آزمائشیں شیطان نے لیں اس میں سب سے قبل یہ کہ اس نے پتھروں کو روٹی بنانے کیلئے کہا.آپ نے جو جواب دیا اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیا کا رزق انسان کیلئے صرف کافی نہیں کلام الہی پر عمل کرنا ہی اصل زندگی ہے.دوسرے بلندی سے چھلانگ لگانے سے انکار میں بھی آپ کے ذریعہ بتایا گیا کہ تقدیر عام پر دین بجز اختیار کرتے ہوئے چلنا چاہئے تقدیر خاص کا متمنی نہیں ہونا چاہئے اگر اللہ تعالیٰ مہربانی فرما دے تو اس کی طرف سے احسان ہے.تیسرے

Page 124

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.124 شیطان نے اپنے آپ کو سجدہ کرنے کو کہا اور بدلہ میں دنیا کی سلطنتوں اور بادشاہتوں کا وعدہ کیا.آپ کا جواب ایک فطرتی جواب تھا اور تورات کی تعلیم کے مطابق تھا نیز ظاہر کیا کہ یہ دنیا جیفہ مردار ہے اور ان کی کوئی حقیقت نہیں اصل تو آسمانی بادشاہت ہے.( تفصیل کیلئے دیکھیں مرقس باب ایک آیات ۱۲ تا ۲۰ نیز منتی باب ۴ آیات ۱ تا ۱۱ ) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ کئے گئے ایک مکالمہ مخاطبہ الہیہ کا بھی ذکر فرمایا.فرماتا ہے: وَمَا تِلْكَ بِيَمِيْنِكَ يَمُوْسَى هِ قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّوا عَلَيْهَا وَاهُشُ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيْهَا مَارِبُ أُخْرَى (سورة طه آیات ۱۸ تا ۱۹) اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دنیاوی سہاروں پر تکیہ نہ کرنے اور اللہ کے اذن کے بغیر کسی سہارے کو اہمیت دینے سے منع فرمایا ہے کیونکہ وہ سہارا جس میں اللہ تعالیٰ کا اذن نہ ہو سانپ کی طرح نقصان دہ ہو جاتا ہے اور اگر اذنِ الہی شامل حال ہو جائے تو سانپ جیسے نقصان دہ امور بھی نفع رساں ہو جاتے ہیں.فنافی اللہ کے مقام کو حاصل کرنا اور تو کل علی اللہ کا یہ سبق تمام انبیاء اور اہل اللہ کو دیا جاتا ہے اور یہی سبق ان کی کامیابی کی دلیل ہوتا ہے.یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس چلہ کشی کی کا میابی کا دارو مدار حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت اور آپ کی تعلیم پر تھا.جسے آپ اپنا نصب العین سمجھتے تھے اور ہر موقع پر اسی سے اپنے لئے راہنمائی تلاش فرماتے تھے.اس چلہ کشی کے بعد آپ نے حضرت یحی' علیہ السلام کے پکڑوائے جانے کے بعد کھلی تبلیغ شروع فرمائی.حضرت مسیح علیہ السلام کے ابتدائی حواری حضرت یحییٰ علیہ السلام پر اس بات کا انکشاف ہو چکا تھا کہ آپ مقام مسیحیت پر فائز ہیں اور انہوں نے اپنے شاگردوں کو بھی یہ بات بتائی تھی.اس وجہ سے حضرت یحییٰ علیہ السلام آپ

Page 125

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل علیہ السلام سے اچھی طرح متعارف تھے.جیسا کہ لکھا ہے: وو دوسرے دن اس نے یسوع کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھ کر کہا دیکھو یہ خدا کا برہ ہے دوسرے دن پھر یوحنا اور اس کے دو ساتھی کھڑے تھے.اس نے یسوع پر جو جارہا تھا نگاہ کر کے کہا.دیکھو یہ خدا کا برہ ہے.وہ دونوں شاگر اس کو یہ کہتے سن کر یسوع کے پیچھے ہو لئے یسوع نے پھر کر انہیں پیچھے آتے دیکھ کر ان سے کہا.تم کیا ڈھونڈتے ہو؟ انہوں نے اس سے کہا اے ربی ( یعنی استاد ) تو کہاں رہتا ہے؟ اس نے ان سے کہا چلو دیکھ لو گے.پس انہوں نے آکر اس کے رہنے کی جگہ دیکھی.اور اس روز اس کے ساتھ رہے.ایک شمعون پطرس کا بھائی اندریاس تھا.اس نے اپنے سگے بھائی شمعون سے ملکر کہا ہم کو خرسنس یعنی مسیح مل گیا.“ ( یوحنا باب ۱ آیات ۲۹ تا ۴۱) 125 پس یحی علیہ السلام کے شاگردوں کا پہلے ہی آپ سے تعارف تھا چنانچہ آپ کے اعلان ماموریت کے بعد حضرت یحییٰ علیہ السلام کے شاگرد ہی سب سے پہلے آپ کے حلقہ بگوش ہوئے جیسا کہ لکھا ہے: اور اس نے گلیل کی جھیل کے کنارے پھرتے ہوئے دو بھائی یعنی شمعون جو پطرس کہلاتا ہے اور اس کے سگے بھائی اندریاس کو جھیل میں جال ڈالتے دیکھا کیونکہ وہ ماہی گیر تھے اور ان سے کہا میرے پیچھے چلے آؤ میں تم کو آدم گیر بناؤں گا وہ فوراً جال چھوڑ کر اس کے پیچھے ہو لئے اور وہاں سے آگے بڑھ کر اس نے اور دو بھائیوں یعنی زبدی کے بیٹے یعقوب اور اس کے بھائی یوحنا کو دیکھا کہ اپنے باپ زبدی کے ساتھ کشتی پر اپنے جالوں کی مرمت کر رہے ہیں ان کو بلا یا وہ فورا کشتی اور اپنے باپ کو چھوڑ کر اس کے پیچھے ہولئے.“ ( متی باب ۴ آیت ۱۸ تا ۲۲- مرقس باب ا آیت ۱۶ تا ۲۰)

Page 126

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل حلفی کا بیٹا لاوی.“ ( مرقس باب ۲ آیت ۱۲) یوحنا جس کا نام بوانرگس یعنی گرج کے بیٹے رکھا.(مرقس باب ۳ آیت ۱۷) مریم مگدلینی.یوانہ ہیرودیس کے دیوان خوزہ کی بیوی اور سوسناہ اور کئی اور عور تیں بھی تھیں جو اپنے مال سے ان کی خدمت کرتی تھیں اور بارہ رسولوں کی طرح اس کے ساتھ رہتی تھیں.“ (لوقا باب ۸ آیات ۱ تا ۳ ) 126 انا جیل نے آپ کے شاگردوں کی طرف بعض کمزوریاں اور غفلتیں بھی منسوب کی ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ یہ آپس کے حسد کا نتیجہ تھا.قرآن کریم آپ کے حواریوں کی طرف منسوب الزامات کو قبول نہیں کرتا اور قرین قیاس بھی ایسا نہیں کہ دونبیوں کی صحبت میں یکے بعد دیگرے رہنے کے بعد ان سے ایسی کمزوریاں سرزد ہوئی ہوں.اور(لوقا باب ۹ آیت ۳۰ تا ۳۸) سے پتہ لگتا ہے کہ آپ کے حواری خصوصاً پطرس، یوحنا، یعقوب نیک تھے اور روحانی لحاظ سے ترقی یافتہ تھے.وہ آپ کے ایک کشف میں بھی شریک ہوئے تھے.انہوں نے پہاڑ پر مسیح علیہ السلام کو انبیاء اور موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ دیکھا کہ وہ آپس میں باتیں کر رہے تھے.اسی پطرس کے متعلق مسیح نے بہت سی بشارتیں دی تھیں جس نے آپ کو بطور مسیح کے پہچانا اور جس کے بارے میں مسیح نے کہا تھا کہ میں تجھ پر اپنی کلیساء بناؤں گا.پھر اس کے باوجود یہ بھی لکھا ہے کہ اس سے ایسی غلطی ہوئی کہ مسیح نے کہا کہ اے شیطان میرے سامنے سے دور ہو.( دیکھیں متی باب ۱۶ آیت ۲۳) یہ متضاد بیانات صحیح معلوم نہیں ہوتے قرآن کریم کہتا ہے: فَلَمَّا أَحَسَّ عِيْسَى مِنْهُمُ الْكُفْرَ قَالَ مَنْ أَنْصَارِي إِلَى اللَّهِ.قَالَ الْحَوَارِيُّوْنَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللَّهِ امَنَّا بِاللهِ وَاشْهَدْ بأنَّا مُسْلِمُونَ رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُوْلَ فَاكْتُبْنَا مَعَ ط

Page 127

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل الشَّهِدِينَ (سورة آل عمران آیت ۵۴.۵۳ ترجمہ: پھر جب عیسی نے ان کی طرف سے انکار محسوس کیا تو کہا کہ اللہ کیلئے کون میرا مددگار بنتا ہے حواریوں نے کہا ہم اللہ کے دین کے مددگار ہیں.ہم اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور تو گواہ رہ کہ ہم فرما بردار ہیں اے ہمارے رب جو کچھ تو نے اتارہ ہے.سو اسی پر ایمان لائے اور اس رسول کے متبع ہو گئے ہیں.اس لئے تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے.آمین.مسیح علیہ السلام کی تبلیغ اور قبولیت عام 127 یسوع ( علیہ السلام) تمام گلیل میں پھرتارہا اور ان کے عبادتخانوں میں تعلیم دیتا اور بادشاہی کی خوشخبری کی منادی کرتا اور لوگوں کی ہر طرح کی بیماریوں اور کمزوریوں کو دور کرتا رہا اس کی شہرت تمام سور یا میں پھیل گئی اور گلیل اور دکپلس اور یروشلم اور یہود یہ اور بیرون کے پار سے بڑی بھیڑ اس کے پیچھے ہولی.“ ( متی باب ۴ آیت ۲۳ تا ۲۵) ” جب اس کے عزیزوں نے سنا تو اسے پکڑنے کو نکلے کیونکہ کہتے تھے کہ وہ بے خود ہے.اور فقیہہ جو یروشلم سے آئے تھے ( کہتے تھے ) کہ اس کے ساتھ بعلز بول ہے یہ بھی کہ وہ بدروحوں کے سردار کی مدد سے بدروحوں کو نکالتا ہے.“ ( مرقس باب ۳ آیت ۲۰ تا ۲۲) حضرت عیسی علیہ السلام نے جواباً فرمایا کہ: شیطان کو شیطان کس طرح نکال سکتا ہے.“ ( مرقس باب ۳ آیت ۲۴) کیونکہ آپ علیہ السلام تو شیطان کی حکومت کو ختم کر کے رحمان کی حکومت کو قائم فرما رہے تھے اور اسی کی منادی کر رہے تھے.آپ نے اپنے کام کی حقیقت کو پیش کیا اور ان کے اعتراض کورڈ کر دیا انبیاء کو ساحر اور مجنون کہنا قدیم سے مخالفین انبیاء کا طریق رہا ہے اور یہی طریق مخالفین

Page 128

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 128 نے آپ کے ساتھ بھی روار کھا نیز آپ پر بدکاری کا الزام بھی لگایا جیسا کہ لکھا ہے: اگر یہ بد کا رنہ ہوتا تو ہم اسے تمہارے حوالے نہ کرتے.( یوحنا باب ۱۸ آیت ۳۰) ایسے الزامات انبیاء کے مخالفین ان پر لوگوں میں ان کے متعلق نفرت پیدا کرنے کیلئے لگاتے ہیں لیکن اس کا نتیجہ ہمیشہ الٹ ہوتا ہے ان کی مقبولیت بڑھتی ہے اور ماننے والوں کی تعداد بھی بڑھتی ہے حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے دعوی نبوت کی صداقت کے حق میں تین مشہور دلائل بیان فرمائے ہیں جو ہر نبی اپنی سچائی کیلئے پیش فرماتا ہے.اوّل نفسی ناطقہ، دوم نصرت الہی ،سوم حالات زمانہ.آپ فرماتے ہیں: تمہاری توریت میں بھی لکھا ہے کہ دو آدمیوں کی گواہی کچی ہوتی ہے ایک تو میں خود اپنی گواہی دیتا ہوں اور ایک باپ جس نے مجھے بھیجا میری گواہی دیتا 66 (استثنا باب ۱۷ آیات ۱۵ تا ۱۹) اے ریا کارو! آسمان اور زمین کی صورت میں تو امتیاز کرنا تمہیں آتا ہے.لیکن اس زمانہ کی بابت امتیاز کرنا نہیں آتا.( لوقا باب ۱۲ آیت ۵۷) پس آپ کی اپنی گواہی آپ کی پاکیزہ زندگی تھی جسے آپ نے اپنے دعوی کے ثبوت کے طور پر پیش فرمایا.سچ ہے آفتاب آمد دلیل آفتاب.اور دوسری دلیل آپ نے خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کو پیش فرمایا ہے.اور تیسری گواہی زمانے کی پرکھ کرنے کو پیش کیا ہے کہ زمانہ اس بات کا مقتضی تھا کہ مسیح کی آمد ہو.لوگ اس کا انتظار کر رہے تھے اور دین کی ابتر حالت بھی اس بات کا تقاضا کرتی تھی کہ کوئی آکر انہیں نام نہاد فقہوں اور فریسیوں کے چنگل سے آزاد کرے.جو لماً تَقُولُونَ مَالَا تَفْعَلُون کے مصداق بنے ہوئے تھے.

Page 129

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل باب پنجم حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت کی حقیقت 129 قرآنی شریعت کے نزول سے قبل موسوی شریعت کا دور دورہ تھا.جن معاملات میں ابھی کوئی قرآنی حکم نازل نہیں ہوا ہوتا تھا تو اس کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی موسوی شریعت کو مد نظر رکھتے تھے.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے اسحاق علیہ السلام کی اولاد میں سلسلہ نبوت جاری رہا اور یہ سلسلہ حضرت عیسی علیہ السلام پر آکر ختم ہوا.اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام جو نبی تھے تو کس قسم کے نبی تھے آپ کی نبوت کی حقیقت کیا تھی.یعنی کیا آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح شارع نبی تھے یا دیگر غیر شارع نبیوں کی طرح ایک نبی تھے جو اپنے سے پہلے کی شریعت کے تابع ہوتے ہیں یا شریعت کی لعنت سے بنی نوع انسان کو آزاد کرانے کیلئے تشریف لائے تھے اب دیکھتے ہیں کہ قرآن کریم اور اناجیل اربعہ اس امر پر کیا روشنی ڈالتے ہیں.قرآن کریم میں آپ کی نبوت کا ذکر وَجَعَلَنِي مُبْرَكًا أَيْنَ مَا كُنْتُ ، وَأَوْصَنِي بِالصَّلوةِ وَالزَّكُوةِ مَادُمْتُ حَيَّاه (سورة مريم: آیت ۳۲) ترجمہ: اس نے مجھے کتاب دی اور نبی بنایا اور مجھے مبارک کیا جہاں کہیں بھی میں ہوں.اور مجھے نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم دیا.جب تک کہ میں زندہ ہوں.

Page 130

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - حم* وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَةَ وَالْاِ نْجَيْلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطَّيْنِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنْفُخُ فِيْهَا فَتَكُوْنُ طَيْرًا بِإِذْنِيْ (سورة المائده: آیت ا ا ا ) ترجمہ : اور جب میں نے تجھے کتاب کا علم سکھایا تھا اور حکمت عطا کی تھی اور تورات و انجیل سکھائی تھی اور جب تو میرے حکم سے مٹی سے پرندے کی صورت بناتا تھا اور تو جب اس میں پھونک مارتا تھا تو وہ میرے حکم سے (روحانی پرواز کرنے والا ) پرندہ بن جاتا تھا.وَيُعَلِّمُهُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَةَ وَالْإِنْجَيْلَ.130 (سورة آل عمران: آیت ۴۹) ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ (عیسی کو ) کتاب و حکمت تورات وانجیل سکھلائے گا.وَمُصَدِ قَالِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَةِ وَلَا حِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ (سورة ال عمران آیت ۵۱) ترجمہ: اور مصدق ہوں اس کا جو کچھ کے تو رات میں ہے اور تمہارے سامنے ہے اور اس لئے آیا ہوں کہ بعض چیز میں جو تم پر حرام ہوئی تھیں ان کو تمہارے لئے حلال کروں.وَإِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يُبَنِي إِسْرَاءِ يْلَ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَةِ وَمُبَشِّرً ا بِرَسُوْلِ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ، فَلَمَّا جَاءَ هُمْ بِالْبَيِّنَتِ قَالُوْا هَذَا سِحْرٌ مُّبِينٌ.(سورة الصف: آیت (7) ترجمہ: اے بنی اسرائیل میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں.اور مصدق ہوں

Page 131

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 131 اس کا جو تو رات میں ہے اور اپنے سے بعد آنے والے احمد کی بشارت دینے والا ہوں.قرآن کریم کی ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو الکتاب یعنی تو رات اس غرض کیلئے دی گئی تھی تا آپ بنی اسرائیل سے اس پر عمل کروائیں.دراصل لمبازمانہ گزر جانے کی وجہ سے قوموں میں شریعت کے الفاظ تو رہ جاتے ہیں پھر اسمیں بیان کردہ احکامات کی حکمت مفقود ہو جاتی ہے.یہی وہ حکمت تھی جو آپ بنی اسرائیل کو سکھانے پر مامور کئے گئے تھے.وَأَوْصَنِي بِالصَّلوةِ وَالزَّكَوةِ مَادُمْتُ حَيَّاه (سورة مريم: آیت ۳۲) سے پتہ لگتا ہے کہ آپ شریعت کے مکلف تھے اور دوسروں کو بھی شریعت کے احکامات پر چلنے کی تلقین فرماتے تھے.کیونکہ نبی اپنے زمانہ کیلئے ایک نمونہ ہوتا ہے اور اس پر ایمان لانے والوں کو اس کے نقش قدم پر چلنا ہوتا ہے.آپ جب خدا کی عبادت اور انفاق فی سبیل اللہ کے حکموں پر عمل کرنے کے مکلف تھے یعنی حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرتے تھے تو کیسے ہوسکتا ہے کہ آپ کے متبعین ایسا کرنے سے آزاد ہوں اور کسی امر کی نبی کو تاکید در اصل اس کے متبعین کو تاکید ہوتی ہے.کیونکہ نبی تو پہلے ہی خدا تعالیٰ کے منشاء اور حکم کے مطابق زندگی گذار رہا ہوتا ہے.وَاذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتب (سورة المائده: آیت ١ ١ ١) کا مطلب یہی ہے کہ آپ کو شریعت کا علم اس کی حکمت تک رسائی دی گئی تھی اور یہی حکمت احکام آپ اپنے ماننے والوں کو سکھاتے تھے.پھر فرمایا: وَمُصَدِ قَالِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ (سورة آل عمران آیت ۵۱) یعنی تو رات کے احکامات اور پیشگوئیوں کی تصدیق کرتے تھے اور تصدیق تین طور پر ہوتی

Page 132

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - ہے.اوّل تصدیق بالقلب، دوم تصدیق باللسان اور سوم تصدیق بالجوارح.حضرت مسیح علیہ السلام نے تینوں طور پر تصدیق فرمائی مثلا کہا کہ: 132 ” خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ.بڑا اور پہلا حکم یہی ہے اور دوسرا اس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ انہی دو حکموں پر تمام تورات اور انبیاء کے صحیفوں کا دارومدار ہے.“ ( متی باب ۲۲ آیت ۷۳ استثنا باب ۵ آیت ۴-۵) محبت اور نفرت دل کا فعل ہے اور اس کا حکم جو دیا گیا ہے اسے شریعت موسویہ کی جان قراردیا گیا ہے حضرت مسیح علیہ السلام یہ حکم دوسروں کو بھی دیتے تھے اور خود بھی اس پر عمل کرتے تھے اور تصدیق بالجوارح اسطرح کہ انجیل سے بکثرت یہ علم ہوتا ہے کہ آپ دعا اور ذکر الہی میں اپنا وقت گزارتے تھے اور موسوی شریعت کے سارے حکموں پر عمل کرنے کی بہت تاکید فرماتے تھے لکھا ہے: نیز لکھا ہے: 66 اگر تم ان باتوں کو جانتے ہو تو مبارک ہو بشر طیکہ ان پر عمل بھی کرو.“ ( یوحنا باب ۱۳ آیت ۱۷) اگر تو کامل ہونا چاہتا ہے تو جا اپنا مال و اسباب بیچ کر غریبوں کو دے.“ (متنی باب ۱۹ آیت ۲۱) وہ نوکر جس نے اپنے مالک کی مرضی جان لی اور تیاری نہ کی نہ اس کی پھر لکھا ہے: مرضی کے موافق عمل کیا بہت مار کھائے گا.“ (لوقا باب ۱۲ آیت ۴۷)

Page 133

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل پھر لکھا ہے: کرتے ہیں.“ ” میری ماں اور میرے بھائی تو یہ ہیں جو خدا کا کلام سنتے اور اس پر عمل اور مسیح علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے کہ: 133 (لوقا باب ۸ آیت ۲۱) وہ ان دنوں میں جب شیطان ۴۰ دن تک آزما تا رہا تو ریت سے ہی اپنے لئے راہنمائی حاصل کرتے رہے اور شیطانی حربوں کو ناکام بناتے رہے.“ اسی طرح وہ دعا پر بھی بہت زور دیتے تھے جیسا کہ: وَأَوْصَنِي بِالصَّلوة ( متی باب ۴ آیت اتا۱۱) (سورة مريم : آیت ۳۲) میں کہا گیا ہے اور اوصاهُ بِكَذا معنے ہوتے ہیں عَهَدَ إِلَيْهِ.اس نے مجھے دعائیں کرنے کی بڑی زور سے تاکید کی ہے پس آپ مستقل طور پر بہت دعائیں کرنے کے عادی تھے.لوقا باب ۲۲ آیت ۳۹ ۴۰ میں لکھا ہے: ” جب وہ تنہائی میں دعا کر رہا تھا اور شاگرداس کے پاس تھے.اور ایسا ہوا کہ ایک جگہ دعا مانگتا تھا.جب مانگ چکا.ایک نے اس کے شاگردوں میں سے اس کو کہا اے خداوند ہم کو دعا مانگنا سکھا جبکہ یوحنا نے اپنے شاگردوں کو سکھایا اس نے ان سے کہا کہ جب تم دعا مانگو تو کہو...پھر لکھا ہے: 66 (لوقا باب ۱۱ آیت ۱ تا ۲) اور وہ جان کنی میں پھنس کر بہت گڑ گڑا کے دعا مانگتا تھا اور پسینہ لہوکی بوند کی مانند ہوکر زمین پر گرتا تھا“.(لوقا باب ۲۲ آیت ۴۴)

Page 134

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل پھر لکھا ہے: 134 وہ جنگلوں میں الگ جا کر دعا کیا کرتا تھا.“ (لوقا باب ۵ آیت ۱۶) اسی طرح آپ اپنے مال میں سے خدا کا حصہ نکالنے کے حکم کو انجیل میں تسلیم کرتے ہیں جیسے کہ کہا: پس جو چیزیں قیصر کی ہیں قیصر کو دو اور جو خدا کی ہیں خدا کو دو.“ ( متی باب ۲۲ آیت ۲۱) مسیح علیہ السلام کے لنگر سے بہت سے لوگوں کے وقتا فوقتنا کھانا کھلائے جانے کا ذکر بھی انجیل میں ملتا ہے ( مثلامتی باب ۱۵ آیت ۳۲ تا۳۹ میں ) پس یہ وہی زکوۃ کے حکم کی تعمیل ہی تو تھی کہ آپ آسودہ لوگوں سے لیکر غریبوں کو آسمان کی بادشاہت کی منادی بھی سناتے تھے اور اس روحانی ضیافت کے ساتھ ساتھ ظاہری ضیافت کا اہتمام بھی فرماتے تھے.قرآن کریم فرماتا ہے : وَمُصَدِ قَالِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَةِ وَلَا حِلَّ لَكُمْ بَعْضَ الَّذِي حُرِّمَ عَلَيْكُمْ وَجِئْتُكُمْ بِآيَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ مَن فَاتَّقُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوْنَo قف اِنَّ اللهَ رَبّى وَرَبُّكُمْ فَاعْبُدُوهُ ، هَذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِيمٌ ط (سورة آل عمران: آیات ۵۲.۵۱) ترجمہ: تصدیق کرتا ہوں جو تمہارے پاس ہے اس کی ( یعنی تو رات ) اور اس لئے آیا ہوں کہ بعض ایسی چیزیں جو تمہارے لئے حرام قرار دی گئی تھیں (اور تم سے روک دی گئی تھیں) تمہارے لئے حلال کر دوں اور میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نشان لیکر آیا ہوں اس لئے تم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور میری اطاعت کرو.یقینا اللہ میرا بھی رب ہے اور تمہارا بھی رب ہے.پس اس کی ہی (اللہ ) کی عبادت کرو.یہی سیدھا راستہ ہے.ان آیات میں فرمایا یعنی تمہاری شرارتوں کی وجہ سے جو وحی الہی کا سلسلہ بند کر دیا گیا تھا

Page 135

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.135 میرے ذریعہ سے دوبارہ اس کو جاری کیا گیا ہے.اس آیت کریمہ سے شاید کسی کو غلط نہی ہو کہ آپ شریعت کے بعض حصوں کو منسوخ کرنے آئے تھے تو دراصل بات یہ ہے کہ یہودیوں نے شریعت کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں اپنے گلے میں بہت سے طوق بدعات کے ڈال لئے تھے آپ نے خدا تعالیٰ کی وحی اور اس کی راہنمائی کے نتیجہ میں ان طوق اور اغلال کو دور کیا اور آپ کے ماننے والے پھر خدا تعالیٰ کی شریعت کے حکموں کی صحیح حکمت کو سمجھتے ہوئے مجاہدات کے ذریعہ خدا تعالیٰ کا قرب حاصل کر کے اس کے کلام اور الہام کے مورد ہو گئے جیسا کہ قرآن کریم میں لکھا ہے: وَإِذْ أَوْحَيْتُ إِلَى الْحَوَارِينَ أَنْ أَمِنُوْابِيْ وَبِرَسُوْلِي، قَالُوا آمَنَّا وَاشْهَدْ بِأَنَّنَا مُسْلِمُوْنَ (سورة المائدة: آیت ۱۱۲) چنانچہ انجیل میں بھی حضرت مسیح علیہ السلام نے پطرس کے متعلق کہا: ظاہر کی.“ یہ بات گوشت اور خون نے نہیں بلکہ میرے باپ نے ، جو آسمان پر ہے، تجھ پر ( متی باب ۱۶ آیت ۱۷) پس الہام اور وحی کا انعام آپ کے ماننے والوں میں جاری فرمایا گیا (یا حلال کیا گیا) جو یہودیوں کی بداعمالیوں کی وجہ سے اُن پر حرام ہو گیا تھا.( یعنی ان سے روک دیا گیا تھا) انجیل کے بعض مقامات سے بھی یہ استنباط کیا جاتا ہے کہ آپ نے شریعت کو منسوخ کیا حالانکہ آپ نے اصل حکم کہیں بھی منسوخ نہیں فرمایا بلکہ اس حکم کے ارد گرد جنگلہ ( سیاج ) لگا دیا تا کہ حکم کی روح پر آنچ نہ آئے اور صرف ظاہر الفاظ کی اندھی تقلید نہ ہو جیسے یہودی فقہ میں یہ رواج چل نکلا تھا.چنانچہ پیکس کی شرح بائیل میں پہاڑی وعظ کے بارے میں لکھا ہے : "Here is not a new law and not a new Moses but a messianic intensification, producing the true rightiousness which belongs to the kingdom." از پرنسپل اے جی گریوایم اے مطبوعہ 1962 Thomas Nelson & Sons Ltd.London)

Page 136

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 136 سبت کے ذکر میں جبکہ آپ کے شاگردوں نے بالیاں توڑ کر کھالیں اور فریسیوں نے اعتراض کیا اور کہا کہ دیکھ تیرے شاگردوہ کام کرتے ہیں جو سبت کے دن روانہیں تو آپ نے داؤد علیہ السلام کی مثال دی کہ انہوں نے بھوک کی حالت میں مجبور انذر کی روٹیاں کھالی تھیں جو صرف کا ہنوں کیلئے کھانی جائز ہیں.پھر آپ نے کہا کا ہن سبت کے دن سبت کی بے حرمتی کرتے ہیں اور بے قصور رہتے ہیں اور ہم جو شریعت کے حقیقی ماننے والے اور خادم ہیں، اضطراراً کوئی کام کرتے ہیں تو اعتراض کرتے ہو.پھر کہا کہ اگر تم اس کے معنے جانتے ہو کہ میں قربانی نہیں بلکہ رحم پسند کرتا ہوں تو قصور وار نہ ٹھہراتے.کیونکہ ابن آدم سبت کا مالک ہے.یہاں پر سبت کا مالک ہونے سے یہ مراد نہیں لینا چاہئے کہ آپ کے لئے سب کچھ جائز تھا یہاں ابن آدم سے مراد تمام آدام زاد ہیں جیسا کہ مرقس میں اس موقعہ پر یوں لکھا ہے: اس نے ان سے کہا کہ سبت آدمی کیلئے بنا ہے نہ کہ آدمی سبت کیلئے !“ اور یہی اصول ربانیوں کی تحریرات میں ملتا ہے: (مرقس باب ۲ آیت ۲۸) "Sbait is given to you not you are given to sbait" ( انٹر پریٹر کا منٹری آف بائیل مطبوعہ ابینگڈن پرلیس 1971 ء) یہاں پر مسیح علیہ السلام یہ بتانا چاہتے ہیں کہ سبت کے تمام احکام انسان کو مصیبت میں ڈالنے کیلئے نہیں ہیں.آپ شریعت کا اصل منشاء بتا رہے ہیں نہ کہ اسے منسوخ کر رہے ہیں.اناجیل اربعہ میں آپ کی نبوت کا ذکر انا جیل اربعہ میں آپ کی نبوت کی حقیقت بھی یہی بیان ہوئی ہے کہ آپ تو رات کے تابع ایک نبی تھے آپ شریعت موسوی کے سارے حکموں پر ان کی صحیح روح کو قائم رکھتے ہوئے عمل کرواتے تھے اور کسی چھوٹے سے چھوٹے حکم کو ٹالنا بھی پسند نہیں فرماتے تھے.شریعت پر عمل

Page 137

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 137 کروانے کے ساتھ اپنی صحبت صالح میں رکھ کر انہیں روحانی پرواز کرنے والے پرندے بناتے تھے جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ذلِكَ أَدْنَى أَنْ يَأْتُوْا بِالشَّهَادَةِ عَلَى وَجْهِهَا أَوْيَخَافُوا أَنْ تُرَدَّ أَيْمَانٌ : بَعْدَ أَيْمَانِهِمْ ، وَاتَّقُوا اللهَ وَاسْمَعُوْا وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفُسِقِيْنَ اور انجیل میں یوں آیا ہے: (سورة المائدة: آیت ۱۰۹) ”اے یروشلم ! اے پیروشلم ! کتنی بار میں نے چاہا کہ جس طرح مرغی اپنے بچوں کو پروں تلے جمع کر لیتی ہے اسی طرح میں بھی تیرے لڑکوں کو جمع کرلوں مگر تو نے نہ چاہا.“ متی باب ۲۳ آیت ۳۷ - لوقا باب ۱۳ آیت ۳۵) آپ نے فرمایا: یہ نہ سمجھو کہ میں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں.منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں.کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان وزمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شعشہ توریت سے ہرگز نہ ملے گا.جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے گا پس جو کوئی ان چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گا تو آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گا.لیکن جو ان پر عمل کرے گا اور ان کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے بڑا کہلائے گا کیونکہ میں تم سے کہتا ہوں کہ اگر تمہاری راست بازی فریسیوں کی راست بازی سے زیادہ نہ ہوگی تو تم آسمان کی بادشاہی میں ہرگز داخل نہ ہو گے.“ (متی باب ۲۳ آیت ۲ تا ۴ ) فقیہہ اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں پس جو کچھ وہ تمہیں بتا ئیں وہ

Page 138

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - سب کرو اور مانولیکن ان سے کام نہ کرو کیونکہ وہ کہتے ہیں اور کرتے نہیں.وہ ایسے بھاری بوجھ باندھ کر لوگوں کے کندھوں پر رکھتے ہیں مگر آپ ان کو اپنی انگلی سے بھی ہلانا نہیں ( متی باب ۲۳ آیات ۲ تا ۴ ) چاہتے.اے ریا کار و فقیہو ! اور فریسیو! تم پر افسوس کہ پودینہ اور سونف اور زیرہ پر تو دہ یکی دیتے ہو پر تم نے شریعت کی زیادہ بھاری باتوں یعنی انصاف اور رحم اور ایمان کو چھوڑ دیا لازم تھا یہ بھی کرتے اور وہ بھی نہ چھوڑتے.“ ( متی باب ۲۳ آیت ۲۳) وہ فورا کوڑھ سے پاک صاف ہو گیا.یسوع نے کہا...کا حصن کو دکھا اور جونز رموسیٰ نے مقرر کی ہے اسے گزران تا کہ ان کے لئے گواہی ہو.“ 138 (متی باب ۸ آیت اتا۴) یسوع نے جواب میں ان سے کہا کہ تم گمراہ ہو اس لئے کہ نہ کتاب مقدس کو جانتے ہو نہ خدا کی قدرت کو “ ( متی باب ۲۲ آیت ۲۹ ، مرقس باب ۱۲ آیت ۲۴) اے استاد تو رات میں کونسا حکم بڑا ہے.اس نے ان سے کہا خداوند سے اپنے دل اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے محبت رکھ.بڑا اور پہلا حکم یہی ہے اور دوسرا اس کی مانند یہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے اپنے برابر محبت رکھ.ان دو حکموں پر تمام توریت اور انبیاء کے صحیفوں کا دار ومدار ہے.( متی باب ۲۲ آیت ۳۶ تا ۴۰ - مرقس باب ۳۰ آیت ۱۳) یوں تو خدا کے کلام کو اپنی روایت سے جو تم نے جاری کی باطل کر دیتے ہواور ایسے کئی کام کرتے ہو اور وہ لوگوں کو پھر پاس بلا کر ان سے کہنے لگا تم سب میری سنو اور سمجھو.کوئی چیز باہر سے آدمی میں داخل ہو کر نا پاک نہیں کر سکتی مگر جو چیزیں آدمی میں

Page 139

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.سے نکلتی ہیں وہی چیز میں آدمی کو نا پاک کرتی ہیں کیونکہ اندر سے یعنی آدمی کے دل سے برے خیالات نکلتے ہیں حرام کاریاں.چوریاں خونریزیاں.لالچ بدیاں زنا کاریاں.مکر شہوت پرستی.بد نظری بدگوئی شیخی بیوقوفی یہ سب باتیں اندر سے نکل کر آدمی کو ناپاک کرتی ہیں.“ ( مرقس باب ۷ آیت ۱۳ تا ۲۳) تو حکموں کو جانتا ہے خون نہ کر.زنانہ نہ کر.چوری نہ کر.جھوٹی گواہی نے دے.فریب دیگر نقصان نہ کر.اپنے باپ اور ماں کی غیرت کر اس نے کہا اے استاد میں نے لڑکپن سے ہی ان سب پر عمل کیا.یسوع نے اس پر نظر کی اور اسے اس پر پیار آیا.( مرقس باب ۱۰ آیت ۲۰ تا ۲۱) میں تجھ سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوڑی کوڑی ادا نہ کرے گا وہاں سے ہرگز نہ چھوٹے گا.“ ( متی باب ۵ آیت ۲۶) 139 پہاڑی وعظ میں مسیح علیہ السلام نے نہ صرف موسیٰ کی شریعت کی پابندی پر زور دیا بلکہ اس سے بڑھ کر خون ریزی ، زنا کاری قسم خوری، انتقام لینے ، عداوت ، راست بازی، خیرات ، دعا، روزہ تو کل علی اللہ اور عیب جوئی وغیرہ کی تشریح کی ہے اور شریعت کے باغی کو یہ کہا ہے: بہتیرے مجھ سے کہیں گے.اے خداونداے خداوند اس وقت میں ان سے صاف کہوں گا میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی اسے بدکارو ! میرے پاس سے چلے جاؤ.پس جو کوئی میری یہ باتیں سنتا ہے اور ان پر عمل بھی کرتا ہے وہ اس عقل مند آدمی کی مانند ٹہرے گا جس نے چٹان پر اپنا گھر بنایا اور مینہ برسا اور پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اس کے گھر پر ٹکرا ئیں لیکن وہ گر انہیں کیونکہ اس کی بنیاد چٹان پر ڈالی گئی تھی اور جو میری یہ باتیں سنتا ہے اور عمل نہیں کرتا وہ اس بے وقوف آدمی کی مانند ٹھہرے گا جس نے اپنا گھر ریت پر بنایا اور مینہ برسا.پانی چڑھا اور آندھیاں چلیں اور اُس گھر کو صدمہ پہنچا

Page 140

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.اور وہ گر گیا اور بالکل برباد ہو گیا.“ آسان ہے.66 ( متی باب ۷ آیت ۲۲ تا ۲۷ ) آسمان اور زمین کا ٹل جانا شریعت کے ایک نکتہ کے مٹ جانے سے (لوقا باب ۱۶ آیت ۱۷) 140 انا جیل اربعہ کے ان مقامات کا مطالعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام تو رات یا نبیوں کی کتابوں کا کچھ منسوخ کرنے نہیں آئے تھے بلکہ ان احکامات کی حکمتیں لوگوں کو بیان فرما کر ان سے ان پر عمل کرانے آئے تھے.جیسا کہ مثلاً پہاڑی وعظ میں آپ نے حکموں کی حکمتیں بتا کر انہیں مزید شدت پیدا کر دی تا کہ صرف الفاظ کی پیروی کرنے کی بجائے ان احکام کی روح کو مدنظر رکھا جائے تاکہ اس کے نتیجہ میں آپ کو ماننے والے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرسکیں اور ان میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہو سکے.اور انجیلی زبان میں یہ کہ وہ خدا کی بادشاہت میں شامل ہو سکیں اور خدا کی بادشاہت یہ ہے کہ جسم وروح پر خدا تعالیٰ کے احکامات جاری ہوں اور وہ ان احکامات پر عمل کرنے والے ہوں.جیسا کہ آپ نے ایک فریسی کے سوال پر کہ خدا کی بادشاہت کب آئے گی جواب دیا کہ: ” خدا کی بادشاہت ظاہری طور پر نہ آئے گی اور لوگ یہ نہ کہیں گے کہ دیکھو وہ یہاں ہے یا وہاں بلکہ دیکھو خدا کی بادشاہت تمہارے درمیان میں ہے.“ (لوقا ۱۷ آیت ۲۰) پھر آپ نے ہر چھوٹے سے چھوٹے شریعت کے حکم پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی اور فرمایا کہ جب تک تمہاری اطاعت اور راست بازی فقیہوں اور فریسیوں کی راست بازی سے زیادہ نہیں ہوگی تو تم خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہ ہو سکو گے اور جب تک اپنے اندر یہ روحانی انقلاب نہ پیدا کرسکو گے اس کے انعامات کے وارث نہیں ٹھہر سکو گے.پھر آپ نے فرمایا کہ بے عمل فقیہی اور فریسی موسیٰ کی گدی پر بیٹھے ہیں جو شریعت کے احکامات وہ تمہیں بتا ئیں ان پر عمل کرنا تمہارا

Page 141

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل.141 فرض ہے کیونکہ شریعت ان کی نہیں موسیٰ کی ہے.لیکن وہ خودای شریعت پر عمل نہیں کرتے اس لئے ان کی بے عملی کو اپنا نمونہ نہ بناؤ اور بے عمل نہ بن جاؤ.پھر آپ فقیہوں اور فریسیوں کو ریا کار قرار دیتے ہیں کیونکہ وہ اپنے ذاتی فائدہ کے لئے احکامات پر دکھاوے سے عمل کرتے ہیں تا کہ ربیا استاد کہلا و ہیں.اور دکھاوے کی خاطر نماز کو طول دیتے ہیں جبکہ اس میں روح مفقود ہوتی ہے صرف مرید بڑھانے کی خاطر وہ سب کچھ کرتے ہیں احکامات کی حکمتیں ان کو نہیں بتاتے.پیالے اور رکابی کے اوپر سے تو صاف کرتے ہیں اور ان کے اندرلوٹ بھری ہوئی ہے.قبر پرستی کرتے ہیں مگر ان لوگوں کے سے عمل نہیں کرتے جو ان قبروں میں ہیں.اور شریعت کی زیادہ وزنی باتیں مثلاً انصاف اور ایمان کے پیدا کرنے کیلئے کوئی پرواہ نہیں کرتے.صرف ظاہر پرستی ان میں ہے اور کچھ بھی نہیں ہے.پھر آپ فرماتے ہیں لازم تھا کہ شریعت کے ظاہر پر بھی عمل کرتے اور شریعت کی روح کو سمجھتے ہوئے اس کے منشاء کو بھی مدنظر رکھتے.آپ نے خود بھی شریعت موسویہ پر اپنے مریدوں سے عمل کروایا.ایک کوڑھی اچھا ہوا تو اسے ہدایت دی کہ شریعت موسویہ کے مطابق نذر گزار جیسا کہ احبار 14 آیت 1 تا 2 میں ہدایات موجود ہیں.آپ نے تو رات کے حکموں کو لوگوں کیلئے بیان فرمایا اور کسی کو شریعت سے مستی نہیں ٹھہرایا.نیز آپ نے کتاب مقدس کو نہ جانے والوں اور اس پر اس کے مطابق عمل نہ کرنے والوں کو گمراہ قرار دیا اور مسیح علیہ السلام سے جب پوچھا گیا کہ بڑا حکم کونسا ہے تو آپ نے استثناء کے باب ۶ آیت ۵ اور احبار باب ۱۹ آیت ۱۸ کے احکامات کو یکے بعد دیگرے بیان کر دیا کہ اپنے سارے دل ساری جان اور ساری طاقت سے خدوندا اپنے خدا سے محبت رکھ اور آپ نے طاقت کی جگہ عقل فرمایا.کیونکہ اس زمانہ میں بے وقوفی اور نا سمجھی کا دور دورہ تھا.خدا تعالیٰ کی صفات اور قدرتوں کو مد نظر نہیں رکھا جاتا تھا جیسا کہ صدوقیوں کے اسی سوال پر کہ قیامت کے روز سات خاوند کرنے والی کس خاوند کے پاس ہوگی.فرمایا کہ تمہیں نہ کتاب مقدس کا علم ہے نہ خدا کی

Page 142

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل.142 قدرتوں کو جانتے ہو ( متی باب ۲۸ آیت ۲۲) کیونکہ قیامت میں بیاہ شادی نہ ہوگی بلکہ لوگ آسمان پر فرشتوں کی طرح رہیں گے اسی بات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں شریعت کے معاملہ میں کتنی جہالت تھی کہ قیامت کے منکر اسطرح سے مذاق اڑاتے تھے.حضرت مسیح علیہ السلام نے اپنے دل کو پاک کرنے اور گندے خیالات کو روکنے کی تلقین فرمائی ہے کیونکہ یہی خیالات بعد میں بداعمالیوں کی طرف لے جاتے ہیں اور فرمایا یہ خیالات شریعت کو توڑنے والی بداعمالیاں پیدا کرتے ہیں اور ان کے ذریعہ انسان ناپاک ہو جاتا ہے.گویا آپ نے شریعت کے احکامات کو تو ڑ نا نا پاک ہونے کے مترادف قرار دیا ہے.آگے چل کر آپ نے ایک شخص کو شریعت کے وہ موٹے موٹے احکامات گنوائے اور ان پر عمل کرنے کی تاکید فرمائی آپ نے شریعت کے احکامات پر جو مواخذہ ہوگا اس سے متنبہ فرمایا.اور فرمایا کہ جب تک کوڑی کوڑی ادا نہ کرے گا وہاں سے ہرگز نہ چھوٹے گا.اور اپنے پہاڑی وعظ میں احکامات شریعہ پر عمل کرنے والوں کو نظمند اور مضبوط بنیادوں پر اپنا گھر بنانے والا اور مخالفت اور مصائب کے طوفانوں اور آندھیوں اور بارشوں میں محفوظ رہنے والا قرار دیا ہے اور اس کے برعکس بے عمل کو بے وقوف اور ریت پر اپنے گھر کی بنیاد رکھنے والا قرار دیا ہے جو معمولی طوفانوں اور آندھیوں میں غیر محفوظ رہتا ہے.انا جیل اربعہ سے تو یہی مترشح ہوتا ہے کہ آپ شریعت موسویہ کے تابع فرمان تھے اور حکمت اور دانائی سے اس پر عمل کرتے اور کرواتے تھے اور اس زمانہ کے لوگوں کو احکامات کی صحیح روح کے قائم رکھنے کی تلقین فرماتے تھے.یہاں تک کہ اپنے شاگردوں کو بھی شریعت کی ظاہری شکل کو برقرار رکھنے کی تلقین فرمائی اور فرمایا کہ کتاب مقدس کا باطل ہو نا ممکن نہیں.( دیکھیں یوحنا باب ۱۰ آیت ۳۵) اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر حضرت مسیح علیہ السلام نے شریعت کی فرمانبرداری کی اور حواریوں سے کروائی تو یہ خیال کہ شریعت لعنت ہے اور اعمال کی کوئی ضرورت نہیں صرف

Page 143

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل 143 کفارہ مسیح پر ایمان لانے سے ہی نجات ہو جائے گی بس یہ ہی کافی ہے یہ خیال عیسائیت میں کہاں سے پیدا ہو گیا ؟ اس کے متعلق صرف یہ ہی کہا جا سکتا ہے کہ پولوس جو مسیح علیہ السلام کا ایک سخت مخالف یہودی تھا.آپ کے صلیب کے واقعہ کے پیش آنے کے بعد جب آپ نے ممالک شرقیہ کی طرف ہجرت فرمائی تو اس نے اپنا ایک رویا پیش کر دیا اور اپنے تئیں حواریوں میں شامل ہو گیا اور اپنا مقام بنانے کیلئے اس نے یہ طریق اختیار کیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی واضح ہدایات کے برخلاف غیر اقوام میں تبلیغ کرنے لگا اور عیسائی عقائد کو ان غیر اقوام کے حالات اور رسومات کے مطابق ڈھالنے لگا اور عیسائی عقائد میں تبدیلی پیدا کر دی تاکہ غیر اقوام کی تعداد کو نام نہاد عیسائیت میں سمولے اور خودسردار بن بیٹھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمد یہ عالمگیر اپنی کتاب ”چشمہ مسیحی“ کے صفحہ نمبر ۳۴ پر فرماتے ہیں: یہ مذہب جو عیسائی مذہب کے نام سے شہرت دیا جاتا ہے.دراصل پولوسی مذہب ہے نہ کہ مسیحی.اس مذہب میں تمام خرابیاں پولوس سے پیدا ہوئیں حضرت مسیح تو بے نفس تھے جنہوں نے یہ نہ چاہا کہ ان کو کوئی نیک انسان کہے.“ پھر آپ علیہ السلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں: یہ پولوس وہی شخص ہے جس نے حضرت مسیح کو جب تک وہ اس ملک میں رہے بہت دُکھ دیا تھا اور جب وہ صلیب سے نجات پا کر کشمیر کی طرف چلے آئے تو اس نے ایک جھوٹی خواب کے ذریعہ سے حواریوں میں اپنے تئیں داخل کیا اور تثلیث کا مسئلہ گھڑا اور عیسائیوں پر سود کو جو تو ریت کی رو سے ابدی حرام تھا حلال کردیا اور شراب کو بہت وسعت دے دی اور انجیلی عقیدہ میں تثلیث کو داخل کیا تا ان بدعتوں سے یونانی بت

Page 144

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل پرست خوش ہوں.“ 144 نیوامریکن لائبریری سے Robert Miller کی چھپنے والی کتاب The Uses of the Past (مطبوعہ نیو یارک امریکن لائبریری) میں بھی اس بات کی تائید ملتی ہے وہ لکھتے ہیں کہ پولوس نے اولین کام یہ کیا کہ مسیح کے حقیقی تاریخی وجود کو اپنے خیالات کی بھینٹ چڑھا دیا..اس نے یہ خیال پیش کیا کہ نجات صرف مسیح کے ذریعہ وابستہ ہے.پولوس نے بڑے خلوص کے ساتھ اس انجیل کی منادی کی جس کی تعلیم مسیح نے اپنی انا جیل میں قطعا نہ دی تھی.یہی وجہ ہے کہ آج کل کے محققین پولوس کی تبلیغی کامیابیوں کو بنظر استحسان نہیں دیکھتے.چنانچہ برنارڈ شاہ اس کے متعلق تحریر کرتا ہے: یہ پولوس ہی تھا کہ جس نے اس مذہب کو جو صرف ایک انسان کو گناہ اور موت سے نجات دیتا ہے ایسے مذہب میں تبدیل کر دیا جس سے اب کروڑوں انسان اپنے آپ کو آزاد سمجھتے ہیں.حالانکہ ان کی فطرت صحیحہ ان کو ملامت کرتی ہے کہ وہ مذہبی زندگی سے بالکل مبرا ہیں چنانچہ پہلے پہل پولوس نے گیتوں کو اپنے خط (صفحہ ۱۵۶) میں تحریر کیا.کیونکہ جتنے شریعت کے اعمال پر تکیہ کرتے ہیں وہ سب لعنت کے ماتحت ہیں مسیح جو ہمارے لئے لعنتی بنا اس نے ہمیں مول لیکر شریعت کی لعنت سے چھڑایا کیونکہ لکھا گیا ہے کہ جو کوئی لڑکا یا گیا وہ عنتی ہے.(دیکھیں گلیوں باب ۳ آیت ۱۰ تا ۱۳) حالانکہ یعقوب حواری جنہوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کی صحبت پائی اور ان کی تعلیم کو اچھی طرح سمجھا.اس غلطی کی انہوں نے تردید کی ہے چنانچہ لکھا ہے: ایمان بھی اگر عمل کے ساتھ نہ ہو تو اکیلا ہو کہ مردہ ہے.“ (یعقوب کا خط عام - باب ۲ آیت ۱۷) لیکن پولوس کی مصلحت بینی کی غلط پالیسی نے مسیح علیہ السلام کی دی ہوئی تعلیم اور نقطہ نظر اور

Page 145

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 145 حواریوں کے نقطہ نظر کے خلاف عیسائی مذہب کو بدل کر رکھ دیا.اور یہ صرف مرید بڑھانے کی تگ ودوہ میں مصروف ہو گیا.چاہے وہ ایمان کے تقاضوں یعنی اعمال صالحہ کو بجا لاتے ہوں یا نہ.جیسا کہ مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں فریسی کہا کرتے تھے جس کے متعلق مسیح علیہ السلام نے فرمایا: ”اے ریا کار فقیہو ! اور فریسیو! تم پر افسوس کہ ایک مرید کرنے کیلئے تری اور خشکی کا دورہ کرتے ہو اور جب وہ مرید ہو جاتا ہے تو اسے اپنے سے دو نا جہنم کا فرزند بنا دیتے ہو.66 اور یہی کام پولوس نے کیا اس منافقت کا ذکر وہ خود یوں کرتا ہے: ( متی باب ۲۳ آیت ۱۵) میں یہودیوں کے لئے یہودی بنا تا کہ یہودیوں کو بھینچ لاؤں.جو لوگ شریعت کے ماتحت ہیں.ان کیلئے شریعت کے ماتحت ہوا تاکہ شریعت کے ماتحتوں کو کھینچ لاؤں، اگر چہ وہ خود شریعت کے ماتحت نہ تھا.بے شرع لوگوں کیلئے بے شرع بنا تا کہ بے شرع لوگوں کو کھینچ لاؤں.کمزوروں کیلئے کمزور بنا تا کہ کمزوروں کو کھینچ لاؤں.میں سب آدمیوں کیلئے سب کچھ بنا ہوا ہوں تا کہ کسی طرح سے بعض کو بچاؤں.“ (کرنتھیوں باب ۹ آیت ۱۹ تا ۲۲) چنانچہ پولوس نے حضرت مسیح علیہ السلام کی تعلیم کے برخلاف یہ خیال لوگوں میں پھیلانا شروع کیا کہ نجات اعمال کی شریعت سے نہیں بلکہ ایمان کی شریعت سے ہے.چنانچہ شریعت کے طوق اترتے ہی عیسائیوں میں بد عملی اور بدکاری کی ایسی رو چلی جو نہ چلتی اگر مسیح علیہ السلام کی باتوں کو مدنظر رکھا جاتا.حالانکہ مسیح علیہ السلام نے تو صاف طور پر متنبہ کر دیا تھا کہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اٹھ کھڑے ہوں گے اور ایسے بڑے کام اور عجیب کام دکھا ئیں گے کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کر لیں.( متی باب ۲۴ آیت ۲۴) ایسا ہی ہوا کہ عیسائیت اپنے اصل کو چھوڑ کر پولوس کے جال میں پھنس گئی اور عالمگیر طور پر

Page 146

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 146 بداعمالیوں کا دروازہ کھل گیا.چنانچہ ابتدائی دور میں شریعت سے آزاد ہوتے ہی جب عیسائیوں میں بدعملی بہت بڑھ گئی اور بدکاری عام ہوگئی تو پولوس کو ہی ایک موقع پر بادل نخواستہ کہنا پڑا: ” یہاں تک سننے میں آیا ہے کہ تم میں حرامکاری ہوتی ہے بلکہ ایسی حرامکاری جو غیر قوموں میں بھی نہیں ہوتی.چنانچہ تم میں سے ایک شخص اپنے باپ کی بیوی کو رکھتا ہے اور تم افسوس تو کرتے نہیں تا کہ، جس نے یہ کام کیا، تم میں سے نکالا جائے بلکہ شیخیاں مارتے ہو.“ (کرنتھیوں باب ۵ آیت ۱-۲) عجیب بات ہے گھل مل جانے کے بعد تو یہی کچھ ہونا تھا اور ہورہا ہے.افسوس وہ کیوں کرتے اور شیخیاں وہ کیوں نہ بگھارتے کہ خود ہی تو پہلے شریعت کو لعنت قرار دیکر ان کو شریعت سے آزاد کیا اور انکی فطرت صحیحہ کو سخ کر دیا اور اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چگ گئیں کھیت.

Page 147

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل 147 حضرت مسیح علیہ السلام کے دعوی امنیت کی حقیقت اللہ تعالیٰ نے انسانی بقا کیلئے توالد و تناسل کا سلسلہ جاری فرمایا ہے نیز کمزور انسان اپنے بڑھاپے میں کسی سہارے کا محتاج ہے لہذا جو اولاد ہوتی ہے وہ اس کا سہارا بن جاتی ہے خصوصاً بیٹے پیری کا عصا ہو جاتے ہیں.اس کے مرنے کے بعد اس کی یاد گار بھی.لیکن بعض لوگ خدا کے بیٹے بھی تجویز کرتے ہیں اور اگر خدا کا بیٹا تصور بھی کر لیں تو وہ سب تصورات ابھرنے لگتے ہیں جو کسی وجہ سے بیٹے کی ضرورت ہوتی ہے پھر سوچنا پڑتا ہے کہ کیا خدا اپنی سلطنت کا انتظام خود اکیلا نہیں چلا سکتا ؟ کیا اس میں کسی وقت ضعف و بڑھا پا پیدا ہوگا اور کیا کسی ضعیفی اور نا توانی کے باعث وہ کسی سہارے کا محتاج ہے یہ سب سوال پیدا ہوتے ہیں پھر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ خدا ایسا کمزور ہے تو پھر اس سے انسان کو کیا فائدہ؟ سو جاننا چاہئے کہ قرآن کریم کسی ایسے کمزور خدا کو ماننے کیلئے ہرگز تیار نہیں ہے اور وہ برداشت ہی نہیں کرتا کہ ایسا تصور ابن اللہ کا مانا جائے.یا خدا کو کسی طرح سے بھی ذات وصفات میں کمزور سمجھا جائے.وہ اپنی صفات وذات میں از روئے قرآن یگا نہ بھی ہے اور وہ اپنی حکومت و سلطنت میں بھی کوئی اپنا ثانی یا شریک نہیں رکھتا.اس سلسلہ میں فرماتا ہے: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيْمِ ٥ قُلْ هُوَ اللَّهُ أَحَدٌ o اللَّهُ الصَّمَدُه لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌه (سورة الاخلاص)

Page 148

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.ترجمہ: تو کہتا چلا جا کہ دراصل اللہ اپنی ذات میں اکیلا ہے اور اللہ وہ ہستی ہے جس کے سب محتاج ہیں اور وہ کسی کا محتاج نہیں نہ اس نے کسی کو جنا اور نہ وہ جنا گیا.اور اس کی صفات میں بھی اس کا کوئی شریک نہیں.پھر فرماتا ہے: وَقَالُوا اتَّخَذَ اللَّهُ وَلَدًا : سُبْحَنَهُ ، بَلْ لَّهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ كُلٌّ لَّهُ قَنِتُوْنَ ٥ بَدِيعُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ ، وَإِذَا قَضَى أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُوْلُ لَهُ كُنْ فَيَكُوْنُ.148 (سورة البقره آیت ۱۱۸.۱۱۷) ترجمہ: اور وہ کہتے ہیں کہ اللہ نے بیٹا بنا رکھا ہے.حالانکہ وہ پاک ہے اور اسی کا ہے جو کہ آسمانوں اور زمین میں ہے اور ہر ایک اسی کا پورا پورا فرما بردار ہے.وہی ذات ہے جو زمین و آسمان کو ابتدا پیدا کرنے والی ہے اور جب کسی کام کے کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو صرف یہ کہہ دیتا ہے کہ ایسا ہو جائے ویسا ہی پس ہو جاتا ہے.پھر فرماتا ہے: سُبْحَنَهُ أَنْ يَكُونَ لَهُ وَلَدٌ لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ.وَكَفَى بِاللَّهِ وَكِيلاً ه (سورة النساء: آیت ۱۷۲) ترجمہ: وہ اس بات سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو.جو کچھ کہ آسمانوں اور زمین میں ہے سب کا سب اسی کا ہے اور اللہ ہی اکیلا کارساز ہے.پھر فرماتا ہے: وَخَرَقُوْا لَهُ بَنِيْنَ وَبَنْتِ بِغَيْرِ عِلْمٍ سُبْحَنَهُ وَتَعَلَى عَمَّا يَصِفُوْنَ ٥ بَدِيعُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ، أَنَّى يَكُوْنُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَّهُ b

Page 149

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل صَاحِبَةٌ ، وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ هِ 149 (سورة الانعام آیت ۱۰۱ تا ۱۰۲) ترجمہ: اور انہوں نے بغیر کسی علم قطعی کے اس کے بیٹے اور بیٹیاں گھڑ لئے ہیں حالانکہ وہ پاک ہے اور بلند و برتر ہے.ان باتوں سے جو وہ بیان کرتے پھرتے ہیں اور وہ زمین اور آسمان کو ابتد ا پیدا کرنے والا ہے اس کیلئے بیٹا کیسے ہوسکتا ہے جبکہ اس کی بیوی نہیں ہے.اور اسی نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور وہ ہر چیز کو جاننے والا ہے.قرآن کریم نے ابن اللہ کا کوئی تصور پیش نہیں کیا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیاروں کیلئے عبد کا لفظ استعمال کرنا پسند کیا ہے جیسا کہ فرمایا: ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا.(سورة مريم: آیت ۳) ترجمہ: یہ تیرے رب کی اس رحمت کا ذکر ہے جو اس کے بندے ذکر یا پرتھی.وَقَالُوا اتَّخَذَ الرَّحْمَنُ وَلَدًا سُبْحَنَهُ ، بَلْ عِبَادٌ مُّكْرَمُوْنَ.(سورة الانبياء آیت ۲۷) ترجمہ: اور کہ دیا انہوں نے کہ خدائے رحمن نے اپنے لئے بیٹا بنالیا ہے.پاک ہے وہ.جن کو وہ بیٹے کہتے ہیں وہ تو اس کے معزز بندے ہیں.وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِيْنَ يَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهلُوْنَ قَالُوْا سَلَمًا.(سورة الفرقان آیت (۶۴) ترجمہ: اور اس خدائے رحمان کے مخلص بندے وہ ہیں جو زمین میں نرمی اور آہستگی سے چلتے ہیں.اور جب جاہل لوگ ان سے خطاب کرتے ہیں تو یہ ان کو سلام دیتے ہیں.

Page 150

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل يَأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَالْكِتَبِ الَّذِي نَزَّلَ عَلَى رَسُولِهِ وَالْكِتب الَّذِى اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ، وَمَنْ يَكْفُرْ بِاللَّهِ وَمَلَئِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَلًا، بَعِيْدًاه 150 (سورة النساء : آیت۱۳۷) ترجمہ: اے ایمان دارو! اللہ اور اس کے رسول ( پر ) اور اس کتاب پر جو اس نے اپنے رسول پر اتاری ہے اور اس کتاب پر جو اس نے (اس سے) پہلے اتاری ہے ایمان لا ؤ اور جو شخص اللہ اور اس کے فرشتوں اور اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور بعد میں آنے والے دن کا انکار کرے تو ( سمجھ لو کہ ) وہ پرلے درجے کی گمراہی میں پڑ گیا ہے.سَلَمٌ عَلى نُوحٍ فِي الْعَلَمِيْنَه إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِ نَا الْمُؤْمِنِيْنَ (سورة الصفت : آیت ۸۰ تا ۸۲) ترجمہ: تمام قوموں کی طرف سے نوح پر سلامتی کی دعا ہو رہی ہے.ہم محسنوں کو اسی طرح جزا دیا کرتے ہیں.وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا.سَلَمٌ عَلَى إِبْرَاهِيْمَ ٥ كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ هِ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنينَ (سورة الصفت: آیت ۱۱۰ تا ۱۱۲) ابراہیم پر سلامتی نازل ہوتی رہے.ہم محسنوں کو اسی طرح بدلہ دیا کرتے ہیں.وہ یقیناً ہمارے مومن بندوں میں سے تھا.سلمٌ عَلَى مُوسَى وَهَرُوْنَ ٥ إِنَّا كَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ ٥ إِنَّهُمَا مِنْ عِبَادِ نَا الْمُؤْمِنِيْنَ (سورة الصفت: آیت ۱۲۱ تا ۱۲۳) ترجمہ: موسیٰ اور ہارون پر ہمیشہ سلامتی ہوتی رہے.ہم اسی طرح محسنوں کو بدلہ دیا

Page 151

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - کرتے ہیں.وہ دونوں ہمارے مومن بندے تھے.سَلَمٌ عَلَى إِلْ يَاسِيْنَ ٥ إِنَّا كَذلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ o إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ (سورة الصفت آیت: ۱۳۱ تا ۱۳۳) ترجمہ: الیاسین پر ہمیشہ ہمیش سلامتی ہوتی رہے.ہم اسی طرح محسنوں کو جزا دیا کرتے ہیں.وہ ( یعنی پہلا الیاس ) ہمارے مومن بندوں میں سے تھا.وَإِنَّ يُونُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ (سورة الصفت: آیت ۱۴۰) ترجمہ: اور یونس بھی یقینا رسولوں میں سے تھے.سُبْحَنَ اللهِ عَمَّا يَصِفُوْنَ ٥ إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِيْنَ.151 (سورة الصفت آیت ۱۶۰ تا ۱۶۱) ترجمہ: اللہ ان کی بیان کردہ باتوں سے پاک ہے ( یعنی فرشتے بیٹیاں نہیں بلکہ عبادت گزار بندے ہیں ) حضرت الیاس علیہ السلام، حضرت الیاسین علیہ السلام ، حضرت لوط علیہ السلام ، حضرت یونس علیہ السلام اور دیگر انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے: سن رکھو کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں جو کہہ رہے ہیں کہ اللہ نے بیٹا قرار دے لیا ہے اور ہم پھر کہتے ہیں) کہ وہ یقیناً جھوٹے ہیں..پاک ہے وہ اللہ ان باتوں سے جو وہ بیان کرتے ہیں سوائے اس کے کہ وہ اللہ کے بندے ہیں جو اس کیلئے خالص کئے گئے ہیں.پس ان آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنے پیارے بندوں کیلئے ”عبد“ کا لقب استعمال فرماتا ہے مندرجہ ذیل مثالیں دیکھیں: جبکہ بائیل کے محاورہ میں ابن“ کا لفظ اللہ تعالیٰ کے پیاروں کیلئے استعمال ہوتا ہے.

Page 152

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل ☆ ☆ آدم خدا کا بیٹا.اسرائیل خدا کا بیٹا.(لوقا باب ۳ آیت ۳۸) خروج باب ۴ آیت ۲۲) افرائیم خدا کا پلوٹھا بیٹا ہے.( یرمیاہ باب ۳۱ آیت ۲۰) داؤد خدا کا بڑا بیٹا ہے.(زبور باب ۸۹ آیت (۲۶) ہ سلیمان خدا کا فرزند ہے.( تاریخ اول باب ۲ آیت ۹-۱۰) تمام بنی اسرائیل خدا کے بیٹے.(استثناء باب ۱۴ آیت ۹) ☆ تمام یہودی خدا کے بیٹے.( یوحنا باب ۸ آیت ۴۳) 152 تم اپنے دشمنوں سے محبت رکھو اور بھلا کرو اور بغیر ناامید ہوئے قرض دو تو تمہارا بڑا اجر ہوگا اور تم خدا کے بیٹے ٹھہر وگے.☆ (لوقا باب ۶ آیت ۳۶) جو لوگ اس لائق ٹھہریں گے کہ اس جہان کو حاصل کریں....فرشتوں کے برابر ہوں گے اور قیامت کے فرزند ہو کر خدا کے بھی فرزند ہوں گے.(لوقا باب ۲۰ آیت ۳۶) ☆ تم نور کے بیٹے ہو.(تھسلمینکوں نمبر 1 باب ۵ آیت ۵) جن معنوں میں اوپر کے حوالوں میں نیک بندوں کو بیٹا کہا گیا ہے انہی معنوں میں حضرت مسیح علیہ السلام کو بھی انجیل میں بیٹا کہا گیا ہے مثلا لکھا ہے: ☆ یہ میرا پیارا بیٹا ہے جس سے میں خوش ہوں.(مرقس باب اآیت (1) ایک اور تمثیل سنو.آخر اس نے اپنے بیٹے کو ان کے پاس بھیجا کہ وہ میرے بیٹے کا تو لحاظ کریں گے.( مرقس باب ۱۲ آیت ۶.۷) خدا نے اپنے بیٹے کو اس لئے نہیں بھیجا کہ دنیا پر سزا کاحکم کرے بلکہ اس لئے کہ دُنیا اس کے وسیلہ سے نجات پائے.( یوحنا باب ۳ آیت ۱۷) اس حوالہ میں مسیح کا خدا کا بیٹا کہلانے کی وجہ اُس کا دُنیا کو نجات دینا قرار دیا گیا ہے لیکن

Page 153

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 153 انگوری باغ والی تمثیل میں (لوقا باب ۲۰ آیات ۹ تا ۱۸) کہا گیا ہے کہ خدا کے بیٹے کو اس وجہ سے بھیجا گیا ہے تا کہ وہ حجبت تمام کرے اور نکموں کو سزادے.یہ بات مسیح کے پہلے قول کے بالکل الٹ ہے.متی کا ایک حوالہ تو یہ بتاتا ہے کہ صلح کرانے کی وجہ سے انسان کو خدا کا بیٹا کہلانے کا حق ہوتا ہے اور دوسرے میں یہ بتاتا ہے کہ یہ وجہ مسیح میں نہیں تھی اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ مسیح خدا کے بیٹے نہ تھے.پس جاننا چاہے کہ مسیح علیہ السلام نے جہاں اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہا ہے تو اسی محاورہ کے مطابق اور انہی معنوں میں جن میں یہ استعمال ہوتا تھا تبھی مسیح نے اپنے آپ کو آدم کا بیٹا بھی قرار دیا ہے جیسا کہ لکھا ہے: ☆ ☆ ابن آدم اس لئے نہیں آیا کہ خدمت لے بلکہ اس لئے کہ خدمت کرے.( متی باب ۲۰ آیت ۲۸) جیسا نوح کے دنوں میں ہوا ویسا ہی ابن آدم کے وقت ہوگا.( متی باب ۲۴ آیت ۳۸) جس گھڑی تم کو گمان بھی نہ ہو گا ابن آدم آجائے گا.(متی باب ۲۴ آیت ۴۰) فانی خوراک کیلئے محنت نہ کرو بلکہ اس خوراک کیلئے جو ہمیشہ کی زندگی تک باقی رہتی ہے جسے ابن آدم دے گا.☆ ☆ ( یوحنا باب ۶ آیت ۲۷) یسوع نے کہا جب تم ابن آدم کو اونچے پر چڑھاؤ گے تو جانو گے.(یوحنا باب ۸ آیت ۲۸) اے یہوداہ کیا تو بوسہ لیکر ابن آدم کو پکڑوا تا ہے.(لوقا باب ۲۲ آیت ۴۸) ان حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام جب آئے تب بھی ابن آدم تھے جب دوبارہ آئیں گے تب بھی ابن آدم ہوں گے.جب صلیب پر لٹکایا گیا تب بھی ابن آدم تھے پس جب مسیح علیہ السلام اپنے آپ کو ابن آدم کہتے ہیں تو خدا کے بیٹے کے ایسے معنی کرنا جو تورات اور

Page 154

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 154 انجیل کی تعلیم اور محاورہ کے خلاف ہو ہرگز درست نہیں ہوسکتا.ایک طرف انا جیل میں مسیح علیہ السلام کو ابن اللہ کہا گیا ہے اور دوسری طرف حضرت مسیح علیہ السلام اپنے آپ کو ابن آدم کہتے ہیں اس کا حل صرف یہ ہی ہو سکتا ہے ایک بیان کو اصل اور دوسرے کو استعارہ مانا جائے.آپ اگر ابن آدم کو استعارہ مانیں تو ابن اللہ کو اصل ماننا پڑے گا.اور اگر ابن اللہ کو استعارہ مانیں تو ابن آدم کو اصل ماننا پڑے گا اور یہ حقیقت بھی واضح ہو جائے گی کہ اسطرح سے خدا کے بیٹے کی قربانی پر جو کفارہ کی بنیاد رکھی گئی ہے وہ بھی ساری کی ساری باطل اور بے بنیاد ہو جاتی ہے.اب ہم جائزہ لیتے ہیں اور اس نقطہ نگاہ سے انجیل کو دیکھتے ہیں.ہمیں انجیل میں مسیح کے یہ الفاظ ملتے ہیں: ”مبارک ہیں وہ جو صلح کراتے ہیں کیونکہ وہ خدا کے بیٹے کہلائیں گے.“ ( متی باب ۵ آیت ۹) یہاں حضرت مسیح علیہ السلام اپنے سوا دوسرے انسانوں کو بھی خدا کا بیٹا قرار دیتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا بیٹا کہنا انجیل کا محاورہ ہے اور اس سے انسان خدا انہیں بن جاتا.اگر کسی کو خدا کا بیٹا ماننے سے اس میں خدائی بھی ماننی پڑتی ہے تو وہ تمام لوگ جو صلح کراتے ہیں اس حوالہ کے مطابق خدائی کے دعویدار بن سکتے ہیں اور تمام کے تمام کفارہ دینے کے قابل ٹھہرتے ہیں اور مسیح علیہ السلام کا کوئی امتیاز نہیں رہتا بلکہ اس حوالہ میں خدا کا بیٹا کہلانے کی وجہ بھی بتائی گئی ہے اور یہ وجہ متی باب ۱۰ کے ایک حوالے کی رو سے مسیح علیہ السلام میں نہیں پائی جاتی مسیحی پادری غور فرماویں کہ اسطرح تو مسیح علیہ السلام کے خدا کے بیٹے ہونے کی صاف نفی پائی جاتی ہے جیسا کہ لکھا ہے: ہوں.66 یہ نہ سمجھو کہ میں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلانے آیا ( متی باب ۱۰ آیت ۳۴)

Page 155

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 155 پس در حقیقت آپ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا آپ کے مقرب الہی ہونے کی وجہ سے کہا گیا ہے نہ کہ خدا کے حقیقی بیٹا ہونے کے معنی میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اپنی تفسیر کبیر سورۃ مریم کے صفحہ ۶۶ تا ۶۸ فرماتے ہیں: " حضرت مسیح نے یہود سے کہا جو کام میں اپنے باپ کے نام سے کرتا ہوں.وہ ہی میرے گواہ ہیں ( یعنی میری سچائی معلوم کرنے کیلئے تمہیں باہر سے کسی شہادت کے معلوم کرنے کی ضرورت نہیں ) جو کام خدا تعالیٰ نے مجھ سے کروائے ہیں وہ اپنی ذات میں اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ میں سچا اور راستباز انسان ہوں ) لیکن تم اس لئے یقین نہیں کرتے کہ میری بھیڑوں میں سے نہیں ہو ( یعنی چونکہ تم میری جماعت میں سے نہیں ہو.اس لئے تم میرے مخالف ہو ) میری بھیٹرمیں میری آواز سنتی ہیں ( یعنی جو لوگ میری جماعت میں سے ہیں وہ میری آواز کو سنتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں) اور میں انہیں جانتا ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے چلتی ہیں.اور میں انہیں ہمیشہ کی زندگی بخشتا ہوں اور وہ ابد تک کبھی ہلاک نہ ہوں گی اور کوئی ان کو میرے ہاتھ سے چھین نہ لے گا.میرا باپ جس نے مجھے وہ دی ہیں سب سے بڑا ہے اور کوئی انہیں باپ کے ہاتھ سے نہیں چھین سکتا میں اور باپ ایک ہے ( جب حضرت مسیح علیہ السلام نے یہودیوں سے یہ بات کہی تو چونکہ آخری فقرہ یہ تھا کہ کوئی انہیں میرے ہاتھ سے چھین نہیں سکتا اور پھر انہوں نے یہ کہ دیا کہ میں اور باپ ایک ہیں اور باپ سے مراد خدا تھا تو اس کے معنی یہ بن گئے کہ میں اور خدا ایک ہیں اس سے یہودیوں نے یہ سمجھا کہ یہ شخص خدا ہونے کا دعوی کر رہا ہے چنانچہ لکھا ہے کہ اس فقرہ پر یہودیوں نے سنگ سار کرنے کیلئے پھر پتھر اٹھائے یسوع نے انہیں جواب دیا کہ میں نے تم کو باپ کی طرف سے بہترے اچھے کام دکھائے ہیں ان میں سے

Page 156

156 حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - کسی کام کے سبب سے مجھے سنگسار کرتے ہو ( یعنی مسیح علیہ السلام نے ان سے کہا کہ میں لوگوں کو نیکی کی تعلیم دیتا ہوں کیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو.میں لوگوں کو حلم اور عفو کی تعلیم دیتا ہوں کیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو.میں لوگوں کو محبت الہی اور خدا ترسی کی تعلیم دیتا ہوں کیا تم اس وجہ سے مجھے سنگسار کرتے ہو.میں بنی نوع انسان کی خدمت کرتا ہوں اور دوسروں کو بھی خدمت کرنے کی تعلیم دیتا ہوں.کیا تم مجھے اس وجہ سے سنگسار کرتے ہوں جو کام خدا تعالیٰ نے میرے سپرد کئے ہیں ان میں سے بہترے کام میں نے کئے ہیں تم مجھے یہ بتاؤ کہ میرا کونسا جرم ہے جس کی وجہ سے تم مجھے سنگسار کرنا چاہتے ہو؟ ) یہودیوں نے اسے جواب دیا اچھے کاموں کے سبب سے نہیں بلکہ کفر کے سبب سے تجھے سنگسار کرتے ہیں.(یعنی خدمت خلق.غریبوں سے اچھا سلوک اورحلم اور عفو کی تعلیم اور رحم دلی وغیرہ وہ چیزیں نہیں جنکی وجہ سے ہم تجھے سنگسار کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہمارے سنگسار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ تم نے اپنی زبان سے کفر کا کلمہ نکالا ہے اور اس لئے کہ تو آدمی ہو کر اپنے کو خدا بناتا ہے.یعنی تو نے انسان ہو کر دعویٰ کیا ہے کہ میں خدا ہوں اس لئے ہم تجھے سنگسار کریں گے ) یسوع نے انہیں جواب دیا کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں نے کہا تم خدا ہو ( یعنی بائیل میں کیا یہ بات درج نہیں کہ خدا نے اپنے بندوں کو خدا کہا ہے؟ جبکہ اس نے انہیں خدا کہا جن کے پاس خدا کلام آیا اور کتاب مقدس کا باطل ہونا ممکن نہیں ( زبور ۸۲) آیا تم اس شخص سے جسے باپ نے مقدس کر کے دنیا میں بھیجا.کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے اس لئے کہ میں نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں حضرت مسیح کہتے ہیں تمہارے لئے بائیبل میں خدا کا لفظ بولا گیا ہے مگر تم خدا نہیں ہو گئے.نہ تم اس وجہ سے کافر بن گئے مگر میرے لئے صرف بیٹے کا لفظ

Page 157

157 حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل بولا گیا ہے اور تم کہتے ہو کہ میں کافر ہوں.جب مجھ سے پہلے لوگوں کیلئے خدا کا لفظ استعمال ہوا اور وہ کافر نہ ہوئے بلکہ یہ سمجھا گیا کہ یہ استعارہ ہے جو استعمال کیا گیا ہے تو میرے لئے بیٹے کا لفظ استعمال کرنے میں کون سا قہر ہو گیا کہ تم نے مجھے کافر قرار دے دیا.یہاں حضرت مسیح نے صاف طور پر اقرار کیا ہے کہ بائیبل میں جو انکے متعلق بیٹے کا لفظ استعمال ہوا ہے وہ حقیقی بیٹے کے معنوں میں نہیں کیونکہ دوسروں کی نسبت خدا کا لفظ آتا ہے اور تم یہ کبھی نہیں کہتے کہ وہ واقعی خدا بن گئے تھے.جب تم انہیں مشرک نہیں کہتے.جب تم اس لفظ کے باوجود انہیں خدائی کا دعویٰ کرنے والے قرار نہیں دیتے تو مجھے کیوں کہتے ہو کہ میں نے یہ لفظ استعمال کر کے خدائی کا دعویٰ کر دیا ہے اور اس وجہ سے میں کافر اور سنگسار کئے جانے کے قابل ہوں ) اگر میں اپنے باپ کے کام نہیں کرتا تو میرا یقین نہ کرو( یعنی لفظی ہیر پھیر اور شرارتوں سے کام لینے کا کیا فائدہ؟ ) سوال یہ ہے کہ جو کام میں کرتا ہوں وہ خدا کی تو حید اور اس کے جلال کے اظہار کیلئے کرتا ہوں اگر میں تمام کام مواحد وں والے کرتا ہوں تو الہام میں اگر میرے متعلق خدا کے بیٹے کا لفظ استعمال کیا گیا ہے تو بہر حال اس کے کچھ اور معنی کرنے پڑیں گے.اور ضروری ہوگا کہ اس بارہ میں کسی نتیجے پر پہنچنے سے قبل میرے کاموں کو دیکھا جائے.لیکن اگر میں کرتا ہوں تو گومیرا یقین نہ کرومگر ان کاموں کا تو یقین کرو تا کہ تم جانو اور سمجھو کہ باپ مجھ میں اور میں باپ میں ہوں انہوں نے پھر اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ ان کے ہاتھوں سے نکل گیا.(دیکھیں یوحنا باب ۱۰ آیات ۲۵ تا ۳۹) اس حوالے میں مسیح نے خود اپنے بیٹا ہونے کے معنی کر دیئے ہیں اور بتایا ہے کہ جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں خدا کا بیٹا ہوں تو میری مراد یہ نہیں ہوتی کہ واقعہ میں

Page 158

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.خدائی مجھ میں آگئی ہے.یا میں بھی ایک خدا ہوں.بلکہ جس طرح بائیبل میں دوسرے لوگوں کے متعلق آتا ہے کہ وہ خدا ہیں لیکن اس کے باوجود وہ خدا نہیں بن گئے بلکہ یہ ایک استعارہ تھا جو استعمال ہوا اسطرح جب میں اپنے آپ کو خدا کا بیٹا کہتا ہوں تو یہ بھی ایک استعارہ ہوتا ہے یہ مراد نہیں ہوتی کہ میں واقعہ میں خدا بن گیا ہوں.66 ( تفسیر کبیر سوره مریم از حضرت خلیفہ امسح الثاني لمصلح موعود ایڈیشن اول صفحہ ۲۶ تا ۲۸ مطبوعہ دار امام ربوہ پاکستان ) 158 لمصنفين حقیقت اور استعارہ کو معلوم کرنیکا ایک اور طریق بھی ہے مثلا شیر کا بچہ شیر ہوتا ہے اور کسی بہادر انسان کو بھی شیر کہہ دیتے ہیں.اب ایک چھوٹے بچے کو کیسے معلوم ہو کہ ان دونوں شیروں میں کیا فرق ہے.چڑیا گھر میں جا کر وہ جنگل کے بادشاہ کو کیسے پہچانے.پس اسے بتانا پڑے گا کہ در حقیقت شیر کی ایسی ایسی دم ہوتی ہے.پنجے ہوتے ہیں گردن اور پھر اس پر ایسے ایسے بال ہوتے ہیں وہ دھاڑتا ہے وغیرہ وغیرہ یعنی شیروں والی علامات بچے کو سمجھائی جائیں گی تو فوراً بچہ چڑیا گھر میں جاکر شیر کو پہچان لے گا.اس طرح ابن اللہ کے معنی اگر خدا کے ہیں تو اسمیں بھی اللہ تعالیٰ کی صفات و علامات ہونی چاہئیں ورنہ ابن کا استعمال استعارہ پر محمول ہو گا اب دیکھتے ہیں کہ کیا مسیح علیہ السلام میں بھی وہ علامات اور صفات موجود تھیں جو خدا کے بیٹے میں عقل ہونی چاہئیں؟ مثال کے طور پر چند صفات و علامات کو نمونے کے طور پر لیتے ہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے : اللهُ لا إلهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّوْمَ لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ، لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَهُ إِلَّا بِإِذْنِهِ.يَعْلَمُ مَابَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْءٍ مِّنْ عِلْمِةٍ إِلَّا ط

Page 159

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.بِمَا شَاءَ وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوَاتِ وَلْاَرْضَ وَلَا يَعُوْدُهُ حِفْظُهُمَا = ج وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُه (سورة البقرة: آیت ۲۵۶) 159 ج یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات پر موت وارد نہیں ہوسکتی وہ خود ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا.اور بائیل میں بھی لکھا ہے: دو ” ہر ایک صوبہ کے لوگ دانی ایل کے خدا کے حضور ترساں ولرزاں ہوں.کیونکہ وہ زندہ خدا ہے اور ہمیشہ قائم ہے اور اسکی سلطنت لازوال ہے اور اس کی مملکت ابد تک رہے گی.“ لیکن مسیح کے متعلق اس کے برعکس یوں لکھا ہے: دانی ایل باب ۶ آیت ۲۶) اور یسوع نے پھر بڑی آواز سے چلا کر جان دے دی.“ (متی باب ۲۷ آیت ۵۱) ” پس یسوع نے جب وہ سر کہ پیا تو کہا کہ تمام ہوا اور سر جھکا کر جان دے دی.“ ( یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۰) الْقَيُّومُ (البقره ۲۵۶) خود بھی قائم بالذات اور دوسروں کو بھی جہاں چاہے جس طرح سے چاہے قائم کر دے.مگر لکھا ہے: (۱) ہاں وہ کمزوری کے سبب سے مصلوب ہوا.(۲ کرنتھیوں باب ۱۳ آیت ۴) نیز مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں: (۲) اپنے دائیں بائیں کسی کو بٹھا نا میرا کام نہیں.(متی باب ۲۰ آیت ۲۲)....لَهُ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ، (سورة البقرة: آیت ۲۵۶) ترجمہ: جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے سب ہی خدا کا ہے.اور بائیل میں بھی لکھا ہے:

Page 160

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.” خدا تھکے ہوؤں کو زور بخشتا ہے اور ناتوانوں کی توانائی زیادہ کرتا ہے.“ لیکن مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: 160 یسعیاہ باب ۴۰ آیت ۲۹) (زبور ۱۴۵ آیت ۱۴) لومڑیوں کے بھٹ ہوتے ہیں اور ہوا کے پرندوں کے گھونسلے مگر ابن آدم کیلئے 66 سر دھرنے کی جگہ نہیں.“ ( متی باب ۸ آیت ۲۰)...القُدُّوسُ ( سورة الحشر: آیت ۲۴) وہ ہر قسم کی نیکیوں کا مجموعہ اور پاک ہے.لیکن حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں: تو مجھے نیک کیوں کہتا ہے؟ اور کوئی نیک نہیں مگر ایک یعنی خدا‘ (لوقا باب ۱۸ آیت ۱۹)...الغنى ( سورۃ الحشر: آیت ۲۴ وہ کسی کی مدد کا محتاج نہیں اور نہ ہی خدا کسی سے دعائیں کرتا ہے بلکہ اس سے دعائیں کی جاتی ہیں لیکن مسیح علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: تیسرے پہر کو یسوع بڑی آواز سے چلایا کہ ایلی ایلی لما شبقتنی یعنی اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.(مرقس باب ۱۵ آیت ۳۴) پھر لکھا ہے: وہ سخت پریشانی میں مبتلا ہو کر اور بھی دلسوزی سے دعا کرنے لگا اور اسکا پسینہ گویا خون کی بڑی بڑی بوندیں ہو کر زمین پر ٹپکتا تھا.“ ( لوقا باب ۲۲ آیت ۴۴) کہا، یہاں بیٹھے رہو.جب تک میں دعا کروں اور پطرس اور یعقوب اور یوحنا کو اپنے ساتھ لیکر نہایت حیران اور بے قرار ہونے لگا اور ان سے کہا میری جان نہایت غمگین ہے.یہاں تک کہ مرنے کی نوبت پہنچ گئی ہے.(مرقس باب ۱۴ آیت ۳۲ تا۳۳) السلام : وہ ہر ذلت اور بے عزتی سے پاک ہے لیکن مسیح علیہ السلام کے متعلق

Page 161

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل لکھا ہے: ' تب بعض اس پر تھوکتے اور اس کا منہ ڈھانپتے اور اس کے مکے مارتے.اور پیادوں نے اسے طمانچے مار مار کر اپنے قبضہ میں لیا...یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالے کیا تا کہ صلیب دیا جائے.انہوں نے اسے ارغوانی چوغہ پہنایا اور کانٹوں کا تاج بنا کر اس کے سر پر رکھا اور وہ اس کے سر پر سر کنڈا مارتے اور اس پر تھوکتے...اور وہ اس پر لعن طعن کرتے تھے.“ مرقس باب ۱۵ اور آیت ۱۵-۱۷-۳۲۱۹) الْعَلِیمُ : وہ ہر ذرہ ذرہ سے واقف ہے.بائیل میں بھی لکھا ہے : تو ، ہاں تو ، اکیلا سارے بنی آدم کے دلوں کو جانتا ہے.“ (سلاطین باب ۸ آیت ۳۹) لیکن مسیح علیہ السلام کہتے ہیں: اس وقت میں صاف ان سے کہہ دوں گا کہ میری کبھی تم سے واقفیت نہ تھی.“ 161 ( متی باب ۷ آیت ۲۳) اس دن یا اس گھڑی کی بابت کوئی نہیں جانتانہ آسمان کے فرشتے نہ بیٹا مگر باپ.“ ( مرقس باب ۱۳ آیت ۲۳) پھر شہر کو جارہا تھا اسے بھوک لگی اور راہ کے کنارے انجیر کا ایک درخت دیکھ کر اس کے پاس گیا اور پتوں کے سوا اس میں کچھ نہ پاکر اس سے کہا کہ آئندہ تجھ پر کبھی پھل نہ لگے ( متی باب ۲۱ آیت ۱۹-۲۰) یسوع نے کہا وہ کون ہے جس نے مجھے چھوا ؟ جب سب انکار کرنے لگے تو پسطرس اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ اے صاحب لوگ تجھے دباتے اور تجھ پر گرے پڑتے ہیں مگر یسوع نے کہا کہ کسی نے مجھے چھوا تو ہے کیونکہ میں نے معلوم کیا کہ قوت مجھے سے نکلی.“ (لوقا باب ۸ آیت ۴۷۴۶)

Page 162

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل الْقَادِ رُ: وہ اپنے آپ سے جو چاہے کر سکتا ہے.لیکن مسیح علیہ السلام نے کہا: میں اپنے آپ سے کچھ نہیں کر سکتا جیسا سنتا ہوں عدالت کرتا ہوں.“ ” جو میں نے سنا وہی دنیا کو کہتا ہوں.“ اپنے معجزہ کے متعلق کہا: 162 ( یوحنا باب ۵ آیت ۳۰) ( یوحنا باب ۸ آیت ۲۸) یسوع نے اسے جھڑ کا اور بد روح اس میں سے نکل گئی.شاگردوں نے خلوت میں پوچھا ہم اسے کیوں نہ نکال سکے آپ نے فرمایا ایمان کی کمی کے سبب سے.لیکن یہ قسم دعا کے سوا اور کسی طرح نہیں نکل سکتی.“ (متی باب ۱۷ آیت ۱۸ تا ۲۱).....الْمَلِكُ: وہ دونوں جہانوں کا بادشاہ ہے.لیکن مسیح علیہ السلام نے فرمایا: ” میری بادشاہی اس دنیا کی نہیں اگر میری بادشاہی اس دنیا کی ہوتی تو میرے خادم لڑتے تاکہ میں یہودیوں کے حوالے نہ کیا جاتا مگراب میری بادشاہی یہاں کی نہیں.“....لَا تَأْخُذُهُ سِنَةٌ وَّلَا نَوْمٌ ط ( یوحنا باب ۱۸ آیت ۳۷-۳۶) وہ نیند اور اونگھ کی غفلتوں سے بری ہے.انجیل میں لکھا ہے: ایک دن ایسا ہوا کہ وہ اور اس کے شاگرد کشتی میں سوار ہوئے اور اس نے ان سے کہا آؤ جھیل کے پار چلیں.پس وہ روانہ ہوئے مگر جب کشتی چلتی جاتی تھی تو وہ سو گیا اور جھیل پر بڑی آندھی آئی اور کشتی پانی سے بھری جاتی تھی.اور وہ خطرہ میں تھے انہوں

Page 163

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل نے پاس آکر اُسے جگایا اور کہا صاحب ہم ہلاک ہوئے جاتے ہیں.“ اسی طرح لکھا ہے : 163 (لوقا باب ۸ آیت ۲۲ تا ۲۵) ”چنانچہ یسوع سفر سے تھکا ماندہ ہو کر اس کنویں پر یونہی بیٹھ گیا.( یوحنا باب ۴ آیت ۶) مذکورہ بالا جائزہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام میں اللہ تعالیٰ کی صفات و علامات کا عشر عشیر بھی موجود نہیں تھا پس ابن اللہ جو بائیبل میں محاورہ نیک اور مقرب لوگوں کیلئے استعمال ہوا ہے استعارہ استعمال ہوا ہے اور چونکہ اس لفظ کی وجہ سے ٹھو کر گی لہذا قرآن کریم نے اس محاورہ کو ترک کر دیا اور اس کی جگہ پر اس سے بہتر لفظ عبد کا استعمال کیا.قرآن کریم نے فرمایا ہے : لَنْ يَسْتَنْكِفَ الْمَسِيحُ أَنْ يَكُوْنَ عَبْدًا لِلَّهِ.(سورة النساء : آیت ۱۷۳) ترجمہ مسیح اس بات کو ہرگز نا پسند نہیں کرے گا کہ اسے اللہ تعالیٰ کا ایک مخلص بندہ قرار دیا جائے.اور سچ ہے کہ آپ علیہ السلام نے اپنے آپ کو ابن آدم ہی کہا ہے جیسا کہ یوحنا باب ۱۰ آیت ۱۵ تا ۳۹ سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے.پس آپ کے متعلق ابن اللہ کا لفظ استعارۃ وارد ہوا ہے جسے حقیقت پر محمول نہیں کیا جا سکتا.

Page 164

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل باب ہفتم حضرت مسیح علیہ السلام کا مشن : 164 انبیاء کرام کا اہم فریضہ ہدایت پھیلانا اور غلط مروجہ خیالات کو دور کرنا ہوتا ہے.اس کیلئے وہ احکامات شریعت کی حکمتوں کو بیان کرتے اور خود اُن احکام پر عمل کر کے ایک پاک نمونہ پیش کرتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام نے بھی اپنے زمانہ میں شریعت موسویہ پر عمل کیا اور کروایا جسے گذشتہ ابواب میں بیان کیا جا چکا ہے.اور آپ کا یہ کام بنی اسرائیل کیلئے تھا اور آپ اس امت کے ہادی تھے.جیسا کہ آپ نے فرمایا: نہ تم ہادی کہلاؤ کیونکہ تمہارا ہادی ایک ہی ہے یعنی مسیح ( متی باب ۲۳ آیت ۱۰) اس باب میں معلوم کرتے ہیں کہ آپ کا دائرہ عمل کیا تھا اور وہ کون سے اہم امور تھے جن کی وجہ سے آپ کو مبعوث کیا جانا ضروری تھا.قرآن کریم میں حضرت مسیح علیہ السلام کے مشن کا ذکر وَإِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَبَنِي إِسْرَاءِ يْلَ إِنِّي رَسُوْلُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ وَمُبَشِّرً ا بِرَسُوْلِ يَأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ، فَلَمَّا جَاءَ هُمْ بِالْبَيِّنَتِ قَالُوْا هَذَا سِحْرٌ (سورة الصف: آیت 7) ترجمہ: اور یاد کرو جب عیسیٰ ابن مریم نے اپنی قوم سے کہا کہ اے بنی اسرائیل میں

Page 165

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل.تو اللہ کی طرف سے تمہاری طرف رسول ہو کر آیا ہوں ، جو ( کلام ) میرے آنے سے پہل نازل ہو چکا ہے یعنی تورات، اس کی پیشگوئیوں کو میں پورا کرتا ہوں اور ایک ایسے رسول کی بھی خبر دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا، جس کا نام احمد ہوگا.پھر جب وہ رسول دلائل لے کر آ گیا، تو انہوں نے کہا یہ تو کھلا کھلا فریب ہے.وَ رَسُوْلًا إِلَى بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ لا 165 (سورة ال عمران : آیت (۵۰) ترجمہ: اور بنی اسرائیل کی طرف رسول ( بنا کر اسے پیغام کے ساتھ بھیجے گا) جَعَلْنَهُ مَثَلًا لِبَنِي إِسْرَاءِ يْلَه (سورة الزخرف: آیت (۲۰) ترجمہ: اور اس کو بنی اسرائیل کیلئے بطور عبرت کے بنایا تھا.ما فَا مَنَتْ طَائِفَةٌ مِّنْ بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ وَكَفَرَتْ طَائِفَةٌ : (سورة الصف : آیت (۱۵) ترجمہ: پس بنی اسرائیل کا ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور ایک گروہ نے انکار کر دیا.وَقَالَ الْمَسِيحُ يَبَنِي إِسْرَاءِ يْلَ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبِّكُمْ ترجمہ: اور مسیح نے (تو) کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل ! تم اللہ کی عبادت کرو جو میرا (بھی) رب ہے اور تمہارا ( بھی ) رب ہے.(سورۃ المائدة: آیت ۷۳)....وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَاءِ يْلَ عَنْكَ (سورة المائدة : آيت ا ا ١ ) ترجمہ: اور جبکہ بنی اسرائیل کو ( جو تیرے قتل کا ارادہ رکھتے تھے ) میں نے تجھ سے روکے رکھا.

Page 166

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل و لِكُلِّ قَوْمِ هَا دِه (سورة الرعد آیت (۸) ترجمہ: اور ہر ایک قوم کیلئے ( خدا کی طرف سے ) ایک راہنما ( بھیجا جا چکا ) ہے.وَ إِذْ أَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّنَ مِيْنَا قَهُمْ وَمِنْكَ وَمِنْ نُوحٍ وَ إِبْرَاهِيمَ وَمُوسَى وَعِيْسَى ابْن مَرْيَمَ وَأَخَذْنَا مِنْهُمْ مِّيْثَاقًا غَلِيْظًاه ص 166 (سورة الاحزاب آیت (۸) ترجمہ: اور (یاد کرو) جب کہ ہم نے نبیوں سے ان پر عائد کردہ ایک خاص بات کا وعدہ لیا تھا اور تجھ سے بھی ( وعدہ لیا تھا ) اور نوح اور براہیم اور موسیٰ اور عیسی ابن مریم سے بھی اور ہم نے ان سب سے ایک پختہ عہد لیا تھا.وَمُصَدِ قَالِمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرَاةِ (سورة ال عمران: آیت ۵۱) ترجمہ: اور ( میں اس وحی کو) جو مجھے سے پہلے ( آچکی ) ہے.یعنی تو رات اس کو پورا کرنے والا ( بن کر آیا ) ہوں....وَاوَيْنَهُمَا إِلَى رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِيْنِ (سورة المؤمنون: آیت ۵۱) ترجمہ: اور ہم نے ان دونوں کو ایک اونچی جگہ پر پناہ دی جو ٹھہرنے کے قابل اور بہتے ہوئے پانیوں والی تھی.وَمَا قَتَلُوْهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَكِنْ شُبِّهَ لَهُمْ.ترجمہ: حالانکہ نہ انہوں نے اسے قتل کیا اور نہ انہوں نے اسے صلیب پر لٹکا کر مارا بلکہ وہ ان کیلئے ( مصلوب کے ) مشابہ بنادیا گیا.(سورة النساء : آیت ۱۵۸)

Page 167

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 167 اوّل: ان آیات قرآن سے تو یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے صرف تورات کی ہی تصدیق فرمائی اور ان کا مشن بھی صرف بنی اسرائیل تک ہی محدود تھا.جیسا کہ وَإِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يَبَنِي إِسْرَائِيلَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ (سورة الصف: آیت) سے معلوم ہوتا ہے.آپ کے مخاطب صرف بنی اسرائیل تھے اور انہی کیلئے آپ مثال اور نمونہ تھے ان کی ایک طائفہ یعنی جماعت نے آپ کو قبول کیا اور ایک جماعت نے آپ کا انکار کر دیا.اور جب آپ نے ہدایت دینے کا کام زور شور سے شروع فرمایا تو انہوں نے آپ کو صولی پر چڑھا دیا.لیکن انہیں آپ کو ناکام بنانے میں کامیابی نہ ہوسکی کیونکہ آپ اللہ تعالیٰ سے تائید یافتہ تھے بلکہ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ - فرمایا کہ بنی اسرائیل کی اس سازش میں اللہ تعالیٰ نے ایک روک پیدا فرما دی.اور وہ بذریعہ صلیب انہیں قتل نہ کر سکے.بلکہ انہیں ایسی اونچی جگہ پر جو ٹھہر نے کیلئے عمدہ اور چشموں والی جگہ ہے، پناہ دی گئی تھی.اور وہ اپنے وطن سے ہجرت کر کے بنی اسرائیل کے دیگر جلاوطن قبیلوں میں تبلیغ کرنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے.(تفصیل کیلئے دیکھیں مسیح ہندوستان میں‘ از حضرت مرزا غلام احمد علیه السلام مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام) (روحانی خزائن، ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامہ، ربوہ - پاکستان ) دوئم: جیسا کہ ہم نے دیکھا یہود تین نبیوں کے منتظر تھے.جن میں سے ایلیاء حضرت یحی علیہ السلام اور مسیح بشکل حضرت عیسی علیہ السلام آچکے تھے اور اب صرف ایک عظیم الشان نبی کی آمد باقی رہ گئی تھی.قرآن کریم نے بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر نبی سے یہ عہد لیا تھا کہ وہ اور اس کے ذریعہ اسکی امت آنے والے کی تصدیق بھی کرے اور اس پر ایمان بھی لائے.یعنی نبی موصوف اپنی امت میں آنے والے کی نشانیاں بتا کر یہ بات اچھی طرح جاگزین کردے تا کہ جب وہ آئے تو یہ لوگ اس پر ایمان لاکر اس کے ساتھ ملکر اسکے کام میں مدد گار ثابت ہوں.یہ

Page 168

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.168 اقرار حضرت نوح حضرت ابراہیم حضرت موسی حضرت عیسی علیہ اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے لیا گیا کہ اپنے سے بعد آنے والے کی تصدیق کریں اور اپنے متبعین کو اس کے قبول کرنے کیلئے بشارات دیکر تیار کریں چنانچہ اس عہد اور اقرار کے بموجب حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے بھی اپنے بعد آنے والے عظیم الشان نبی یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نہ صرف خبر دی بلکہ آپ کا ارہاص ہو نیکی وجہ سے بنی اسرائیل کی کثیر تعداد کو بذریعہ بشارات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے کیلئے تیار کیا چنانچہ ہم تاریخ پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ جن دو قبیلوں نے آپ کا یروشلم میں انکار کردیا تھا انہوں نے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے انکار کر دیا.اور جن دس قبیلوں نے آپ کو قبول کیا انہوں نے ہی بلا چوں و چرا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا قبول کیا.سوئم: اسطرح تو رات اور نبیوں کی کتب میں مرورِ زمانہ سے بہت سی تحریف و تبدیلی ہو چکی تھی جسکی وجہ سے ہدایت کا فقدان اور غلط خیالات کی ترویج ہو رہی تھی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسی علیہ السلام کو تو رات کا صحیح علم دیا اور تفسیر سکھائی جو آپ نے اپنے ماننے والوں کو سکھا کر ہدایت دی.اب انا جیل کا اسی نقطہ نظر سے جائزہ لیتے ہیں کہ اسمیں آپ کا مشن کیا بیان کیا گیا ہے.حضرت مسیح علیہ السلام کا مشن از روئے اناجیل حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق تصور یہی تھا کہ آپ بنی اسرائیل کیلئے ظاہر ہوں گے جیسا کہ حضرت یحییٰ علیہ السلام نے فرمایا: اس لئے پانی سے بپتسمہ دیتا آیا تاوہ بنی اسرائیل پر ظاہر ہو جائے.“ پھر لکھا ہے: ( یوحنا باب ۱ آیت ۳۱)

Page 169

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل اور دیکھو یروشلم میں شمعون نام ایک آدمی تھا اور وہ آدمی راستباز اور خدا ترس اور اسرائیل کی تسلی کا منتظر تھا اور روح القدس اس پر تھا.اور اس کو روح القدس سے آگاہی ہوئی تھی کہ جب تک تو خداوند کے مسیح کو دیکھ نہ لے موت کو نہ دیکھے گا.“ پھر لکھا ہے: 169 (لوقا باب ۲ آیت ۲۵-۲۶) ” اس علاقہ میں چرواہے تھے...اور خداوند کا فرشتہ ان کے پاس آکھڑا ہوا.....اور اس نے ان سے کہا دیکھو میں تمہیں بڑی خوشی کی بشارت دیتا ہوں جو ساری امت اسرائیل کے واسطے ہو گی کہ آج داؤد کے شہر میں تمہارے لئے ایک منجی پیدا ہوا ہے (یعنی مسیح) (لوقا باب ۲ آیت ۱۱) پھر لکھا ہے کہ جب بادشاہ ہیرود لیس نے فقیہوں اور فریسیوں سے پوچھا کہ مسیح کی پیدائش کہاں ہونی چائے ؟ تو انہوں نے میکاہ باب ۵ آیت ۲ کی پیشگوئی کے مطابق بتایا کہ نبی کی معرفت یوں لکھا ہے کہ: ”اے بیت لحم کے یہودہ کے علاقے تو یہودہ کے حاکموں میں سے ہرگز چھوٹا نہیں کیونکہ تجھ میں سے ایک سردار نکلے گا جو میری امت اسرائیل کی گلہ بانی کرے گا.“ انا جیل کے مذکورہ بالا حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ آنے والے مسیح کے متعلق یہی سمجھا جاتا تھا کہ وہ بنی اسرائیل کیلئے ہی نجات دھندہ ہو گا ان کی گلہ بانی کرے گا.حضرت یحییٰ علیہ السلام نے بھی یہی فرمایا اور بزرگ شمعون نے بھی یہی بتایا.یہی چرواہوں کو خدا کے فرشتہ نے بتایا اور یہی اس وقت کے فریسی اور فقیہ بھی سمجھتے تھے اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کے متعلق حضرت مسیح علیہ السلام کا اپنا دعویٰ کیا تھا چنانچہ اس کے متعلق انا جیل نے مندرجہ ذیل معلومات مہیا کی ہیں.آپ نے فرمایا:

Page 170

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 170 میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.( متی باب ۱۵ آیت ۲۲) کیونکہ ابن آدم کھوئے ہووں کو ڈھونڈ نے اور نجات دینے آیا ہے.( متی باب ۱۸ آیت ۱۱)....جب ایک کنعانی غیر اسرائیلی عورت نے مسیح علیہ السلام کو پکار پکار کر اپنی بیٹی کی شفایابی کیلئے درخواست کی اور بہت اصرار کیا تب بھی یہی کہا.(دیکھیں متی باب ۱۵ آیت ۲۶) پہلے لڑکوں کو سیر ہو نے دو کیونکہ لڑکوں کی روٹی لیکر کتوں کو ڈال دینا اچھا نہیں.( مرقس باب ۷ آیت ۲۷) اس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ لڑکوں یعنی بنی اسرائیل تک ہی اپنے مشن کو محدود سمجھتے تھے اور غیر اسرائیلیوں کو اپنے دائرہ تبلیغ اور روحانی شفایابی سے باہر خیال کرتے تھے اور بنی اسرائیل کو چھوڑ کر دوسروں کو فیض پہنچانا بنی اسرائیل کی حق تلفی سمجھتے تھے.حضرت مسیح علیہ السلام کا یہ فرمانا کہ میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیٹروں کے سوا کسی اور کے پاس نہیں بھیجا گیا.یہ اس لئے بھی فرمایا تاکہ ان کے متعلق بیان کردہ یسعیاہ باب ۵۶.آیت ۸ والی پیشگوئی پوری ہو جائے جو یہ ہے: ” خداوند خدا جو اسرائیل کے تتر بتر کئے ہوؤں کو جمع کر نیوالا ہے.یوں فرماتا ہے کہ میں ان کے سوا جو اُسی کے ہو کر جمع ہوئے ہیں اور وں کو بھی اس کے پاس جمع کروں گا.چنانچہ بنی اسرائیل کے ۱۲ قبائل تھے ان میں سے صرف دو قبیلے یروشلم میں رہ گئے تھے اور دس قبائل جلاوطن ہو کر مشرقی ممالک میں بس گئے تھے اور دیگر اقوام کے ساتھ رہتے تھے جیسا کہ تاریخ کلیسیا مصنفہ پادری کین ڈبلیوبی ہیرلیس ( مطبوعہ کر چن نالج سوسائیٹی ) میں لکھا ہے:

Page 171

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل یہودی قوم کو ۷۲۰ ق.م میں سارگون اور ۵۵۸ میں بنو کد نضر اسیر کر کے لے گیا تھا اس جلا وطنی کے زمانہ میں یہ قوم ماوی پارتھی اور فارس کے علاقہ میں جابسی تھی حضرت مسیح ناصری کی گمشدہ بھیڑ میں جن تک پیغام حق پہنچانا آپ نے اپنا مشن قرار دیا ہے ان کا زیادہ تر حصہ پار کھیتا کی سلطنت میں پایا جاتا تھا اور یہ سلطنت دریائے فرات سے لیکر دریائے سندھ تک پھیلی ہوئی تھی 171 بائیل ڈکشنری از جان ڈی ڈیوس مطبوعہ 1973.Royal Publishers Inc زیر لفظ فرات) اور بنی اسرائیل کے گمشدہ فرقے بابل، ایران، افغانستان اور دوسرے مشرقی ممالک میں منتشر تھے.جیسا کہ لکھا ہے: پس میں انہیں بابل کے پرے لے جاؤں گا.“ (اعمال باب ۷ آیت ۴۳) انجیل میں لکھا ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام نے جب یہودیوں کے بد ارادوں کے پیش نظر اس خیال کا اظہار کیا کہ میں یہاں سے چلا جاؤں گا تو یہودیوں نے کہا کہ کیا آپ ان علاقوں میں جانے کا ارادہ رکھتے ہیں جہاں یہودی اسباط متنشر ہیں.( یوحنا باب ۷ آیت ۳۳ تا Authorised Version۳۶) چنانچہ مشرقی ممالک کے یہودی اور مجوسی بھی آپ کیلئے چشم براہ تھے انجیل میں لکھا ہے کہ جب وہ عظیم الشان ستارہ مشرقی ممالک میں ظاہر ہوا جو کہ ولادت مسیح کا نشان تھا تو مشرق کے ماگی یعنی مجوسی کا ہن جو یہودیوں کے زیر اثر تھے کنعان میں اس تحقیق کے لئے آئے کہ مسیح کہاں پیدا ہوا ہے.ان کی فراست نے مسیح کو پہچان لیا اور وہ زیارت کے بعد مشرق کولوٹ گئے.(انجیل متی باب ۲) پس مشرق کے مجوسی وہ بزرگ تھے جو کہ خوابوں کی تعبیر بتایا کرتے تھے اور وہ

Page 172

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - لوگ ملہم من اللہ ہونے کے دعویدار تھے علم نجوم میں دسترس رکھتے تھے اور زرتشتی مذہب 66 کے پیروکار تھے.“ 172 بائیبل ڈکشنری از جان ڈی ڈیوس مطبوعہ 1973.Royal Publishers Inc صفحه ۲۲۸) اسی طرح انجیل طفولیت مسیح کا ایک آرمینین نسخہ ملا ہے یہ انجیل نئے عہد نامہ کے اواخر میں شامل ہے اس میں لکھا ہے کہ یروشلم آنے والے مجوسی تعداد میں تین تھے یہ لوگ ہندوستان ایران اور عرب کے حکمران تھے چنانچہ آپ صلیب سے بیچ کر مشرق میں ظاہر ہوئے.اپا کر فل نیوٹٹا منٹ از ایم آر جیمس صفحہ ۸۳) (Published by Oxford University Association - 1924) اور آپ کی تبلیغ ان ممالک میں کامیاب ہوئی.انجیل مرقس کے نسخہ ایتھاس میں صاف لکھا ہے اور مشہور بائیبل سکالری آرگریگوری نے اپنی کتاب "The Canon and Text of the New Testament" میں جو کہ 1907ء میں شائع ہوئی نسخہ ایتھاس کا تعارف بایں الفاظ کرایا ہے: "And here is the still stranger thing.We have in manuscript a totally different ending, a manuscript I found at Mount Athos twenty years ago.Continuous after the (greek word "gar") gap and all the thing announced to those about Peter briefly they spread abroad.And after that Jesus also himself appeared from east and upto west.He sent out by them sacred incorrupted preaching of the eternal salvation.Amen." اور اس سے بھی عجیب تریہ کہ ہمیں انجیل مرقس کے ایسے نسخے بھی ملتے ہیں جن کے اختتام پر بالکل مختلف عبارت درج ہے.ایک نسخہ مجھے آج سے بیس سال قبل ماؤنٹ ایتھاس سے ملا ہے جو گر یک لفظ gar) کے بعد یوں شروع ہوتا ہے:

Page 173

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.173 یسوع کی فرمودہ تمام باتیں پطرس کے ساتھیوں کو مختصر طور پر پہنچا دی گئیں.انہوں نے انہیں مختلف اطراف میں پھیلا دیا.اس کے بعد یسوع خود بھی مشرق سے ظاہر ہوا.اور اس نے ان لوگوں کے ذریعہ مقدس بے عیب دائمی نجات کی تعلیمات کو مغرب تک پہنچایا.آمین.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ نے اپنی کتاب ” مسیح ہندوستان میں“ تفصیل سے اس بات پر روشنی ڈالی ہے اور بادلائل تحریر فرمایا ہے کہ حضرت مسیح ناصری علیہ السلام ہجرت فرمانے کے بعد اسباط بنی اسرائیل کے درمیان کشمیر میں آکر سکونت پذیر ہو گئے تھے اور آپکا یہ کہنا بجا تھا کہ: ” میری اور بھی بھیڑیں ہیں جو اس بھیٹر خانے کی نہیں مجھے ان کا بھی لانا ضرور ہے 66 اور وہ میری آواز سنیں گی پھر ایک ہی گلہ ہوگا اور ایک ہی چرواہا ہوگا.“ (یوحنا باب ۱۰ آیت ۱۶) اسی طرح آپ نے اپنے حواریوں کو بھی یہ نصیحت فرمائی تھی کہ وہ غیر اسرائیلیوں کے پاس تبلیغ کی غرض سے نہ جائیں جیسا کہ لکھا ہے: ان بارہ کو یسوع نے بھیجا اور ان کو حکم دیکر کہا.غیر قوموں کی طرف نہ جانا سامریوں کے شہر میں داخل نہ ہونا بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا.“ ( متی باب ۱۰ آیت ۵ تا۶) چنانچہ بائیل میں ایسے حوالے ملتے ہیں جن میں لکھا ہے: اور ضرور ہے کہ پہلے سب قوموں میں انجیل کی منادی کی جائے.(مرقس باب ۱۳ آیت ۱۱) تو لفظ سب قوموں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہئے یہاں پر قوم سے مراد وہی منتشر اسباط اسرائیل ہی ہیں انہیں قومیں کہا گیا ہے.

Page 174

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.پس تم جاؤ اور سب قوموں کو شاگرد بناؤ.174 ( متی باب ۲۸ آیت ۱۹) سب قوموں میں تو بہ اور گناہوں کی معافی کی منادی اس کے نام سے کی جائے گی.اس آیت کے نیچے Peaks (مفسرانجیل ) نے لکھا ہے: (لوقا باب ۲۴ آیت ۴۸) بظاہر مسیح کا مشن سب اقوام کیلئے تھا.لیکن کیا وجہ ہے کہ ابتدائی کلیسیا غیر اقوام میں تبلیغ کرنے سے ہچکچاہٹ کا اظہار کرتے تھے“.در اصل سب قوموں اور غیر قوموں میں بڑا فرق ہے سب قوموں سے مراد منتشر قبائل یہود ہیں.اور غیر قوموں کا مطلب تو ظاہر ہے کہ غیر اسرائیلی اقوام مراد ہیں جن کی طرف نہ جانے اور انہیں تبلیغ نہ کرنے کا حواریوں کو حکم تھا اسی لئے ابتدائی کلیسیا ہچکچاہٹ محسوس کرتا تھا.چنانچہ رسولوں یعنی حواریوں کے متعلق لکھا ہے : مگر یہودیوں کے سوا کسی کو خدا کا کلام نہ سناتے تھے.(اعمال بابا آیت ۱۹) چنانچہ ایک دفعہ جب غیروں میں منادی کی خبر رسولوں کو پہنچی تو انہوں نے شدید مخالفت کی چنانچہ لکھا ہے: ” اور رسولوں اور بھائیوں نے جو یہودیہ میں تھے سنا کہ غیر قوموں نے بھی خدا کا کلام قبول کیا جب پطرس یروشلم میں آیا تو مختون اس سے بحث کرنے لگے کہ تو نامتو نوں کے پاس گیا اور ان کے ساتھ کھانا کھایا.“ (اعمال باب ال: آیات اتا۳ ) پس ان امور کے جائزہ کے بعد یہی ثابت ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے متعلق پہلے سے تصور بھی یہی تھا کہ آپ صرف بنی اسرائیل کی تسلی اور نجات کیلئے مبعوث ہوں گے.اسی بات پر آپ نے خود بھی عمل کیا اور حواریوں کو بھی حکم دیا اور ابتدائی رسولوں کا جو آپ کی تعلیمات سے خوب واقف تھے اور آپکے صحبت یافتہ تھے یہی طریق عمل رہا کہ اپنے مشن کو حضرت مسیح موعود علیہ

Page 175

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل السلام کی واضح ہدایات کے مطابق اسباط بنی اسرائیل تک ہی محدود رکھا.بنو اسماعیل کی طرف نبوت کی منتقلی کا اعلان 175 عہد نامہ قدیم میں ایک عظیم الشان نبی کی آمد کی پیشگوئیاں پائی جاتی ہیں جن کے لئے بنی اسرائیل منتظر تھے.مثال کے طور پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: خداوند خدا تیرا خدا تیرے لئے تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی بر پا کرے گا.تم اس کی سننا یہ تیری اس درخواست کے مطابق ہوگا جو تو نے خداوند اپنے خدا سے مجمع کے دن حورب میں کی تھی کہ مجھ کو نہ تو خداوند اپنے خدا کی آواز پھر سنی پڑے اور نہ ہی ایسی بڑی آگ کا نظارہ ہو.تا کہ میں مر نہ جاؤں.اور خداوند نے مجھ سے کہا کہ جو کچھ کہتے ہیں سوٹھیک کہتے ہیں.میں ان کے لئے ان ہی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا وہ ہی ان سے کہے گا.“ (استثنا باب ۱۸ آیت ۱۵ تا ۱۹) پیشنگوئیوں میں موسیٰ کی مانند ایک شرعی نبی کی آمد کی اطلاع ہے جو بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنو اسماعیل میں سے ہوگا.چونکہ حضرت مسیح علیہ السلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارباص تھے اس لئے ان کے فرائض میں یہ چیز داخل تھی کہ میثاق مبین کے مطابق بنی اسرائیل میں اس نبوت کی منتقلی کا اعلان فرماتے.چنانچہ آپ نے آنے والے کی عظمت اسطرح بیان فرمائی ہے کہ اس کا آنا گویا مالک کا آنا قرار دیا ہے اور اپنے آنے کو گو یا مالک کے بیٹے کا آنا قرار دیا ہے.چنانچہ انگورستان کی تمثیل میں فرماتے ہیں: پس جب تاکستان کا مالک آئے گا تو ان باغبانوں کے ساتھ کیا کرے گا.

Page 176

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل انہوں نے اس سے کہا ان بدکاروں کو بری طرح ہلاک کرے گا اور تاکستان کا ٹھیکہ دوسرے باغبانوں کو دے گا جو موسم پر اس کو پھل دیں.یسوع نے ان سے کہا کیا تم نے کتاب مقدس میں کبھی نہیں پڑھا کہ جس پتھر کو معماروں نے رڈ کیا وہی کونے کے سرے کا پتھر ہو گیا.یہ خداوند کی طرف سے ہوا اور ہماری نظر میں عجیب ہے.اس لئے میں تم سے کہتا ہوں کہ خدا کی بادشاہی تم سے لے لی جائے گی اور اس قوم کو جو اس کے پھل لائے گی دی دی جائے گی اور جو اس پتھر پہ گرے گا ٹکرے ٹکڑے ہو جائے گا لیکن جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا اور جب سردار کا ہنوں اور فریسیوں نے اس کی تمثیلیں سنیں تو سمجھ گئے کہ ہمارے حق میں کہتا ہے.اور وہ اسے پکڑنے کی کوشش میں تھے لیکن لوگوں سے ڈرتے تھے کیونکہ وہ اسے نبی جانتے تھے.“ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: 176 (متی باب ۲۱ آیت ۴۱ تا ۴۶) إِنَّ مَثَلِيْ وَمَثَلَ الأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِى كَمَثَلِ رَجُلٍ بَنِي بُنْيَانًا فَأَحْسَنَهُ وَاجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لِبْنَةٍ مِّنْ زَاوِيَةِ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوفُونَ بِهِ وَيَعْجَبُونَ له ويَقُولُونَ مَا رَأَيْنَا بُنيانَا اَحْسَنَ مِنْ هَذَا إِلَّا هَذِهِ اللَّبْنَةِ فَكُنْتُ أَنَا تِلْكَ اللَّبْنَةَ.مسلم جلدم کتاب الفضائل النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ترجمہ: میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسے شخص کی مثال کی طرح ہے جو ایک گھر بنائے اور اسکو اچھا بنائے اور خوبصورت بنائے سوائے ایک اینٹ کی جگہ کے جو ایک کونے میں ہو پس لوگ اس کا طواف کریں گے اور حیران ہوں گے اور کہیں گے کہ یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی گئی رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ

Page 177

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل اینٹ میں ہوں.177 اللہ تعالیٰ نے آنحضرت علیہ کو آخری اور دائمی شریعت عطا فرمائی آپ بنو اسماعیل کے ایک فرزند تھے.یہ بات بنی اسرائیل کو عجیب لگی لیکن بمطابق پیشگوئی حضرت مسیح علیہ السلام باوجود عجیب لگنے کے اور بنو اسرائیل کے ناپسند کرنے کے خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے فرزند ارجمند کو بادشاہت روحانی کا وارث بنادیا اور بنی اسرائیل سے یہ انعام لے لیا اور یہ آسمانی بادشاہت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے بنو اسماعیل کو اس لئے دی گئی تا کہ وہ اپنے وقت پر پھل لاویں.پس آپ کی اس امت میں بکثرت اولیاء اور مجددین کا ہونا اور ہمارے زمانہ میں حضرت مرزا غلام احمد مسیح و مہدی علیہ السلام کا پیدا ہونا اور قادیان کی بستی سے پوری شان کے ساتھ اپنے وقت پر اس تازہ بتازہ پھل سے شجر محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کالڈ جانا ایک زندہ ثبوت ہے اس بات کا آپ ہی اس پیشگوئی کے مصداق ہیں.اللھم صل علی محمد وآل محمد.برنباس کی انجیل میں ایک بڑی واضح پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق موجود ہے.اس میں لکھا ہے کہ عہد کا رسول بنی اسماعیل میں سے ہوگا چنانچہ (فصل ۴۳: آیات ۲۵ تا ۳۱ صفحه ۱۷۹ اور فصل ۴۴: آیات ۱ تا ۲ صفحہ ۱۸۰) میں لکھا ہے: فصل ۴۳ اس وقت یسوع نے کہا جب رسول اللہ آئے گا وہ کسی کی نسل سے ہوگا؟ شاگردوں نے جواب دیا داؤد کی نسل سے.تب یسوع نے جواب دیا تم اپنے آپ کو دھو کے میں نہ ڈالو کیونکہ داؤد اس کا علم پا کر نبی موعود کو آقا اور خداوند کے نام سے پکارتا ہے.اگر آنے والا داؤد کا بیٹا ہوتا تو وہ اسے اپنا خداوند نہ کہتا.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ عہد اسماعیل کے ساتھ کیا گیا تھا نہ کہ اسحق کے ساتھ.فصل ۴۴ تب شاگردوں نے کہا اے استاد موسیٰ کی کتاب میں یونہی کہا

Page 178

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - گیا ہے کہ عہد اسحاق کے ساتھ ہوا.یسوع نے آہ سرد بھر کے جواب دیا: یہی لکھا ہے لیکن موسیٰ نے اس کو نہیں لکھا اور نہ یسوع نے.بلکہ ہمارے احباب نے جبکہ وہ خدا سے نہیں ڈرتے.میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ اگر تم جبرائیل کے کلام مندرجہ توریت پر غور کرو گے تو تم کو ہمارے کاتبوں اور فقیہوں کی بد باطنی کا علم ہو جائے گا.کیونکہ فرشتہ نے خدا تعالیٰ کا یہ پیغام دیا کہ اپنے پلو ٹھے بیٹے اسماعیل کو قربانی کے طور پر پیش کر پس اسحاق کیونکر پلوٹھا ہو سکتا ہے حالانکہ جب وہ پیدا ہوا تھا اس وقت اسماعیل کی عمر ۱۴ سال کی تھی.تب اس وقت شاگردوں نے کہا بے شک فقیہوں کا دھو کہ صاف ظاہر ہے“ 178 (انجیل برنباس تلخیص فصل ۴۳-۴۴ تر جمہ اردو از محمد علیم انصاری ادارۃ اسلامیات، کراچی) اب انجیل برنباس کے اس حوالے کو متی کے حوالے کی روشنی میں دیکھیں تو یہ انجیل کا حصہ معلوم ہوتا ہے اور اس کے بعد متی کے حوالے کو زبور کی روشنی میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے موعود نبی کے متعلق ہی گفتگو فرمائی تھی نا کہ اپنے متعلق متی کہتا ہے: ” اور جب فریسی جمع ہوئے تو یسوع نے ان سے یہ پوچھا کہ تم مسیح کے حق میں کیا سمجھتے ہو؟ وہ کس کا بیٹا ہے؟ انہوں نے اس سے کہا داؤد کا.اس نے ان سے کہا پس داؤد روح کی ہدایت سے کیونکر اسے خداوند کہتا ہے.خداوند نے میرے خداوند سے کہا ” میری دھنی طرف بیٹھ جب تک میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کے نیچے نہ کر دوں.پس جب داؤد اس کو خداوند کہتا ہے تو وہ اس کا بیٹا کیونکر ہوا ؟“ (متی باب ۲۲ آیات ۴۱ تا ۴۵) اب مسیح نے جوز بور کا حوالہ دیا ہے وہ دیکھتے ہیں کہ وہ کس پر صادق آتا ہے.مسیح پر یا موعود نبی پر.جس سے یہ پتہ چل جائے گا کہ مسیح نے یہودیوں سے اپنے متعلق پوچھا تھا یا آنے والے موعود نبی کے متعلق سوال کیا تھا ؟ لکھا ہے:

Page 179

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل یہوداہ نے میرے خداوند سے کہا تو میرے داہنے ہاتھ بیٹھ جب تک کہ میں تیرے دشمنوں کو تیرے پاؤں کی چوکی نہ کر دوں خداوند تیرے زور کا عصاء صیون سے بھیجے گا تو اپنے دشمنوں میں حکمرانی کر لشکر کشی کے دن تیرے لوگ خوشی سے اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں.تیرے جوان پاک آرائش میں ہیں اور صبح کے بطن سے شبنم کی مانند.خداوند نے قسم کھائی ہے اور پھر لگا نہیں کہ تو ملک صادق کی طرح پر ابد تک کا ہن ہے.خداوند تیرے دھنے ہاتھ پر اپنے قہر کے دن بادشاہوں کو چھید ڈالے گا.وہ قوموں میں عدالت کرے گا.وہ لاشوں کے ڈھیر لگادے گا.وہ بہت سے ملکوں میں سروں کو کچلے گا.وہ اس کے سر کو سر بلند رکھے گا.“ 179 (زبوره ۱۱: آیات اتا۷ ) صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ صیون یعنی یروشلم سے عصاء حکومت منتقل ہو جائے گا اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے اوصاف بتائے کہ وہ اشدّ آءُ عَلَى الكُفَّارِ اور رُحُمَاءُ بینھم ہوں گے.ملک صادق ایک صالح عرب بادشاہ تھا.تو رات میں اس کی تعریف آئی ہے چنانچہ لکھا ہے: اور ملک صادق سالم کا بادشاہ روٹی اور مے لایا اور وہ خدا کا کا ہن تھا.اور اس نے اس کو برکت دے کر کہا کہ خدا کی طرف سے جو آسمان اور زمین کا مالک ہے.ابرام مبارک ہو.اور مبارک ہے خدا جس نے تیرے دشمنوں کو تیرے ہاتھ میں کر دیا تب ابرام نے سب کا دسواں حصہ اُس کو دیا.“ ( پیدائش باب ۱۴ آیت ۱۸ تا ۲۱) حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کو عشر دیا.نبی موعود نے ملک صادق بن کر آنا تھا یعنی عربوں میں مبعوث ہونا تھا اور نسل ابراہیم نے ان کوعشر دینا تھا.حضرت مسیح علیہ السلام نے اس

Page 180

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.180 پیشگوئی کا حوالہ دیکر بتایا ہے کہ آنے والا عظیم الشان نبی موعود بنی اسرائیل سے نہیں بلکہ عرب میں بسنے والی نسل اسماعیل میں سے ہونے والا ہے.یہی وہ بات تھی جو حضرت مسیح علیہ السلام یہودیوں کی مخالفت کی وجہ سے تمثیلوں میں بیان کرتے تھے.کیونکہ یہودی اس خبر کوسن کر کہ نبوت کا انعام ان سے لیکر نسل اسماعیل کو دیا جارہا ہے مشتعل ہو جاتے تھے.اسی لئے آپ کہتے تھے : ” مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں کر سکتے لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا.اس لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا.لیکن جو کچھ سنے گا وہی کہے گا.اور تمہیں آئندہ کی خبر میں دے گا اور میرا جلال ظاہر کرے گا.“ (یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ تا ۱۴) چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم نے حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق رائج غلط نظریات اور سب الزامات کو جو آپ پر لگائے جاتے تھے رڈ کیا ہے.اور آپ کے عبودیت کے بلند مقام پر جس پر کہ آپ فائز تھے بیان کیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کامل تعلیم اور شریعت پیش فرمائی جس کے متعلق کہا گیا تھا: ”ہمارا علم ناقص ہے اور ہماری نبوت نا تمام لیکن جب کامل آئے گا تو ناقص جاتارہے گا.“ (کرنتھیوں باب ۱۳ آیت ۹-۱۰) قرآن کریم نے خود بھی دعویٰ فرمایا ہے: الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ (سورة المائده آیت (۴) ترجمہ : آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا ہے.

Page 181

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل اور یسعیا باب ۱۴۲ آیت ۱۹ تا ۲۱ میں آیا ہے: ” میر ا رسول جسے میں بھیجوں گا.وہ کامل ہے.وہ شریعت کو بزرگی دے گا اور اسے عزت بخشے گا پھر مسیح علیہ السلام نے فرمایا: میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو مددگار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر میں جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا.“ 181 ( یوحنا بات ۱۶ آیت ۷ ) از روئے لغت مددگار" کے لفظ کے ، جو یہاں استعمال ہوا ہے ، کئی معنی کئے جاتے ہیں.مثلاً : شفیع ، وکیل، تسلی دینے والا ، روح حق ، معلم، مالک، حامی مبین ، واعظ.لیکن ڈاکٹر سیل اس کا معنی ستودہ کرتے ہیں جس کا ترجمہ عربی میں ”احمد بنتا ہے.چنانچہ ابتداء میں انجیل یوحنا کا عربی زبان میں ترجمہ ہوا تو اس میں ” فار قلط‘ کا ترجمہ ”احمد“ کیا گیا جس کا اعتراف سرولیم میور نے اپنی کتاب 'لائف آف محمد ص ۷ جلد ایک میں کیا ہے اور قرآن کریم میں اس پیشگوئی کو با ایں الفاظ بیان کیا گیا ہے: وَمُبَشِّرً ا بِرَسُولٍ يَّأْتِي مِنْ بَعْدِى اسْمُهُ أَحْمَدُ (سورة الصف : آیت ۷) ترجمہ: اور ایک ایسے رسول کی بھی خبر دیتا ہوں جو میرے بعد آئے گا ، جس کا نام احمد ہوگا.اور غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۰ تا ۱۶ میں حضرت سلیمان علیہ السلام نے اپنے محبوب افضل الرسل حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ بتاتے ہوئے آپ کے اسم مبارک کا یوں

Page 182

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل ذکر کیا ہے: 182 وہ سراپا عشق انگیز ہے.اے یروشلم کی بیٹیو! ( مگر یہ ترجمہ عربی بائیل کی نقل ہے جس میں بجائے محمد یم کے ملتا جلتا لفظ رکھ دیا گیا ہے.یہ بھی تحریف کی ایک شکل ہے حالانکہ عبرانی میں لفظ محمد یم ہے.چنانچہ لکھا ہے ): و كُلَّهُ مُحَمَّدِيْم هذا خَلِيلِى وَذَاحَبيبي بناتِ اور شليم.عبرانی بائیبل غزل الغزلات باب ۵ آیت ۱۰) محمد یم میں دیم علامت جمع ہے جو بطور تعظیم کے استعمال ہوئی ہے.انجیل یعنی بشارت میں خوشخبری کی منادی یہی تھی کہ اس محبوب خداوندی کا پتہ دیا جائے.وہ محبوب خداوندی جس کی راہ سکتے تکتے بہت سے پاکباز گزر گئے.جس کی بجلی کی ایک جھلک موسیٰ علیہ السلام نے پہاڑ پر دیکھی تو لرز گئے اور پہاڑ کہ عظمت شان کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو گیا جس کے متعلق پیشگوئیاں ابتداء سے سب خدا کے فرستادے کرتے آئے اور اسکی محبت اور شان اور مدح کے گیت حضرت داؤد علیہ السلام نے گائے.اور اسے اپنا خداوند ٹھہرایا جسکی خاطر اللہ تعالیٰ نے کائنات کو تخلیق فرمایا وہ جو خدا کا پیارا اور خدا کے پیاروں کا پیارا تھا جس کے پیار میں خدا کے پیار کا انعام ملنا سہل ہوا.جس نے مخلوق کو خالق سے جا ملایا.وہ آسمان بادشاہت کا شہنشاہ جس کیلئے تمام انبیاء نوکروں کی طرح کام کرتے رہے اور اس کی راہ تیار کی کہ تاوہ اپنی بزرگی و عظمت کے تخت پر متمکن ہو.اللَّهُم صل على سيدنا ومولانا محمد وعلى آلِ مُحَمَّدٍ بِعَدَدِ كُل ذَرِّةٍ مَائَةٍ الف الف مرة.عظمت خانہ کعبہ کی طرف توجہ دلانا بھی حضرت مسیح علیہ السلام کا ایک مشن تھا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے ھیکل سلیمانی تعمیر کیا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے انہیں فرمایا:

Page 183

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل کہ اس گھر کو جسے میں نے اپنے نام سے مقدس کیا ہے اپنے سامنے سے دور کروں گا.“ (تواریخ ۲ باب ۷ آیت ۲۰) اور حضرت مسیح علیہ السلام نے اس امر کی طرف یوں توجہ دلائی اور فرمایا: ”میری بات کا یقین کرو وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ اس پہاڑ پر باپ کی پرستش کرو گے اور نہ یروشلم میں.“ ( یوحنا باب ۴ آیت ۲۱) 183 پس اس کی اہمیت کو خوب سمجھنے کی وجہ سے حضرت مسیح علیہ السلام اور آپ کے ابتدائی حواریوں نے خانہ کعبہ کی زیارت کی جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے.علاوہ ازیں بائیبل میں جو تحریف ہو چکی تھی اسکے متعلق بھی آپ نے اپنے حواریوں کو بتایا چنانچہ خطبات کلمنٹائین ابتدائی عیسائیوں کی ایک اہم دستاویز ہے اس میں لکھا ہے: و ہمیں اور ہمارے پیغمبر کو وہ نگاہ بصیرت دی گئی ہے جس کی وجہ سے ہم تو رات کے محرف حصوں کو صاف پہچان جاتے ہیں.“ پھر لکھا ہے: تو رات میں ایسے بھی حصے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کی صفات حسنہ کے خلاف باتیں ہیں اور انبیاء کرام کی شان میں ناروا بیانات تحریر کئے گئے ہیں.ہمارا پیغمبر اسلئے مبعوث ہوا کہ تورات کے حقیقی اور محرف حصہ کے متعلق ہمیں مطلع کرے ہمارے پاس وہ کسوٹی ہے اور نگاہ انتخاب ہے جس سے ہم حق باطل میں فرق کر سکتے ہیں“ اس حوالے کی تائید انجیل بر باس سے بھی ہوتی ہے.خاص حلقہ احباب میں فرمایا: اگر موسیٰ کی کتاب ہمارے باپ داؤد کی کتاب سمیت جھوٹے فریسیوں اور فقیہوں کی انسانی روایتوں کے ساتھ فاسد نہ کی جاتی تو خدا تعالیٰ ہرگز مجھے اپنا کلام عطانہ کرتا.

Page 184

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ از روئے قرآن و انجیل - 184 (فصل ۱۸۹ آیت انجیل برنباس ایڈیشن اول 1916ء اردوترجمہ مولانا محمد حلیم انصاری 2003ء مطبوعہ ادارہ اسلامیات.کراچی 2003ء) پس از روئے اناجیل وقرآن کریم حضرت مسیح علیہ السلام کا مشن بنی اسرائیل میں ہدایت کو پھیلانا تھا اور آنے والے موعود نبی کی راہ ہموار کرنا تھا اور بائیبل کی تحریف و تبدیلی سے مطلع کرنا تھا.پس جن قبائل نے آپ کو قبول کیا انہیں نبی آخر الزمان حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو قبول کرنے کی سعادت مل گئی اور جنہوں نے آپ کی ہدایت کو مستر د کر دیا وہ آسمان پر بھی مسترد ہوئے اور نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی قبولیت کی سعادت سے بے نصیب رہے.کاش کہ وہ آج مسیح کی آمد ثانی کے دور میں حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح و مہدی علیہ السلام کی قبولیت کا شرف حاصل کر کے اپنی پرانی بدنصیبی کوخوش نصیبی میں تبدیل کرسکیں.آمین.

Page 185

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل باب ہشتم 185 حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب دعوي الوہیت کی تردید دنیا کے بیشتر مذاہب کا بنیادی عقیدہ کائنات کے خالق اور ربوبیت کرنے والے وجود پر یقین اور ایمان ہے.اسی صداقت کو قرآن کریم یوں بیان فرماتا ہے: وَلَئِنْ سَأَلْتَهُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ الله (سورة الزمر آیت (۳۹) یعنی اگر دنیا کے لوگوں سے پوچھا جائے کہ تمہارا پیدا کرنے والا کون ہے تو فوراً بول اٹھیں گے کہ ہمارا خالق اللہ ہے اس عظیم الشان اتفاق اور ایسے بے نظیر اجماع کی دوسری وجہ فطرت کی گواہی بھی ہے.کیونکہ ہر ایک انسان کی فطرت سلیمہ اُسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اس شہادت کا اقرار کرے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ ، قَالُوْا بَلَى (سورة الاعراف آیت ۱۷۳) یعنی انسان کی فطرت پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ ایک ایسی ہستی ضرور موجود ہے جو کہ ربوبیت کر رہی ہے بلکہ صحیح فطرت انسانی ایک لمحہ کیلئے بھی یہ وہم و گمان نہیں کر سکتا کہ وہ بغیر کسی حاکم کے دنیا میں زندگی بسر کر رہا ہے.چنانچہ خالق فطرت کلام فرماتا ہے: افِي اللهِ شَكٍّ فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (سورة ابراهيم: آیت | 1) یعنی فطرت صحیحہ حیرانی سے اس بات کا اظہار کرتی ہے کہ کیا خدا تعالیٰ کے وجود کے ہونے یا نہ ہونے کے متعلق بھی کوئی شک کر سکتا ہے.پس مذاہب عالم میں خدا کی ہستی کے متعلق کوئی

Page 186

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 186 اختلاف نہیں اگر اختلاف ہے تو اس کی صفات میں اور اس کی صفات کے ظہور میں اختلاف ہے.اسلام اور قرآن کریم ذات باری کو صفات حسنہ سے متصف اور حسنات سیئہ سے منزہ قرار دیتا ہے وہ واحد لاشریک ہے لیکن موجودہ عیسائیت حضرت مسیح علیہ السلام کو ابن اللہ قرار دے کر یہ دعویٰ کرتی ہے کہ مسیح علیہ السلام کے وجود میں اللہ تعالیٰ نے تجسم اختیار کیا ہے اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس عقیدہ کی حقیقت کیا ہے.پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام تو حید خداوندی کے علمبردار تھے.اور تمام انبیاء اسی صداقت کو لیکر مبعوث ہوتے رہے ہیں اناجیل میں یا عہد نامہ جدید کے دوسرے حصوں میں کہیں بھی مسیح علیہ السلام کا دعوی الوہیت موجود نہیں بلکہ جابجا توحید خداوندی کی تعلیم ملتی ہے مثلاً دیکھیں مندرجہ ذیل اقتباسات انجیل : اور ہمیشہ کی زندگی یہ ہے کہ وہ تجھ خدائے واحد اور برحق کو اور یسوع مسیح کو جسے تو نے بھیجا ہے جائیں.(یوحنا باب ۱۷ آیت ۳) اول یہ کہ اے بنی اسرائیل سن خداوند ہمارا خدا ایک ہی خداوند ہے.اور تو خداوند اپنے خدا سے اپنے سارے دل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل اور اپنی ساری طاقت سے محبت رکھ.(مرقس باب ۱۲ آیت ۲۹ - ۳۰ لوقا باب ۱۰ آیت ۳۷ متنی باب ۲۲ آیت ۳۷ - ۳۸) تم جو ایک دوسرے سے عزت چاہتے ہو اور وہ عزت جو خدائے واحد کی طرف سے ہوتی ہے نہیں چاہتے تو کیوں کر ایمان لا سکتے ہو؟ (یوحنا باب ۵ آیت ۴۴) اوپر جاتا ہوں.میں اپنے باپ اور تمہارے باپ اور اپنے خدا اور تمہارے خدا کے پاس ( یوحنا باب ۲۰ آیت ۱۷) تمہارا باپ ایک ہی ہے جو آسمان پر ہے.(متی باب ۲۳ آیت ۹)

Page 187

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل اور سب کا خدا اور باپ ایک ہی ہے جو سب کے اوپر سب کے درمیان اور سب کے اندر ہے.(افسیوں باب ۴ آیت ۶) 187 ان اقتباسات سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام تو حید خداوندی کے علمبر دار تھے اور اس عقیدہ کو بنیادی عقیدہ قرار دیتے تھے سارے دل جان عقل اور طاقت سے بلا شرکت غیرے اس سے محبت رکھنا آپ کی تعلیم کا بنیادی ستون تھا.گو یا نجات تو کیا مسیح علیہ السلام نے ہر قسم کی عزت و منزلت رتبہ اور قدردانی سب خدائے واحد سے حاصل کرنے کیلئے ارشاد فرمایا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمد یہ فرماتے ہیں: مسیح نے کہیں اپنی خدائی کا دعوی نہیں کیا.یہودیوں کے پتھراؤ کرنے پر اور اس کفر کے الزام پر انکار تو کی اور کتابی محاورہ پیش کر کے نجات پائی.اور اپنی خدائی کا کوئی ثبوت نہیں دیا.“ ( ملفوظات جلد سوئم صفحہ ۱۳۵ ۱۳۶ روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامہ ربوہ، پاکستان ) پس آپ نے خدا یا خدا کا بیٹا ہونے سے صاف انکار کیا جیسا کہ یوحنا باب ۱۰ آیت ۲۹ تا ۳۹ سے صاف معلوم ہوتا ہے: یسوع نے ( الزام کفر لگانے والوں کو کہا) کہ تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا ہے کہ میں نے کہا تم خدا ہو جبکہ اس نے انہیں خدا کہا جن کے پاس خدا کا کلام آیا اور کتاب مقدس کا باطل ہونا ممکن نہیں.تم اس شخص سے جسے باپ نے مقدس کر کے دنیا میں بھیجا کہتے ہو کہ تو کفر بکتا ہے اس لئے کہ اس نے کہا کہ میں خدا کا بیٹا ہوں.“ (یوحنا باب ۱۰ آیت ۳۴ تا ۳۵) حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمد یہ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ” جب مسیح کو یہودیوں نے اس کے کفر کے بدلے میں کہ یہ ابن اللہ ہونے کا دعویٰ

Page 188

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - کرتا ہے پتھراؤ کرنا چاہا تو اس نے انہیں صاف کہا کہ کیا تمہاری شریعت میں یہ نہیں لکھا کہ تم خدا ہو اب ایک دانشمند خوب سوچ سکتا ہے کہ اس الزام کے وقت تو چاہے تھا کہ مسیح اپنی پوری برئیت کرتے اور اپنی خدائی کے نشان دکھا کر انہیں ملزم کرتے اور اس حالت میں کہ ان پر کفر کا الزام لگایا گیا تھا تو ان کا فرض ہونا چاہئے تھا کہ اگر فی الحقیقت خدا یا خدا کے بیٹے تھے تو یہ جواب دیتے کہ یہ کفر نہیں بلکہ واقعی طور پر خدا یا خدا کا بیٹا ہوں اور میرے پاس اس کے ثبوت کیلئے تمہاری ہی کتابوں میں فلاں فلاں موقع پر صاف لکھا ہے کہ میں قادر مطلق ہوں عالم الغیب ہوں اور لاؤ میں دکھاؤں اور پھر اپنی قدرتوں اور طاقتوں سے ان کو خدائی نشانات بھی دکھا دیتے اور وہ کام جو انہوں نے خدائی کے پہلے دکھائے تھے ان کی فہرست الگ دے دیتے پھر ایسے بین ثبوت کے بعد کسی یہودی فقیہہ یا فریسی کی طاقت تھی کہ انکار کرتا وہ تو ایسے خدا کو سجدہ کرتے مگر بر خلاف اس کے آپ نے کیا تو یہ کیا کہ کہ دیا کہ تمہیں خدا لکھا ہے اب خدا ترس دل لیکر غور کریں یہ اپنی خدائی کا ثبوت دیا یا ابطال کیا.“ 188 ( ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۵ اروحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامہ ربوہ، پاکستان ) اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمد یہ فرماتے ہیں: ” اب ظاہر ہے کہ ایسے موقعہ پر کہ جب حضرت مسیح یہودیوں کی نظر میں اپنے ابن اللہ کہلانے کی وجہ سے کا فر معلوم ہوتے تھے اور انہوں نے اس کو سنگسار کرنا چاہا تو ایسے موقع پر کہ اپنی بریت یا اثبات دعوی کا موقع تھا مسیح کا فرض کیا تھا ہر ایک عقلمند سوچ سکتا ہے کہ اس موقع پر جو کہ کافر بنایا گیا حملہ کیا گیا سنگسار کرنے کا ارادہ کیا گیا.تو مسیح کا کام تھا اول یہ کہ اگر حقیقت میں حضرت مسیح خدا کے بیٹے تھے تو یوں جواب دیتے کہ یہ میرا دعوی حقیقت میں سچا ہے اور میں واقعی طور پر خدا کا بیٹا ہوں اور اس دعویٰ کے ثبوت کیلئے

Page 189

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - میرے پاس دو ثبوت ہیں ایک یہ کہ تمہاری کتابوں میں میری نسبت لکھا ہے کہ مسیح دراصل خدا کا بیٹا ہے بلکہ خود خدا ہے قادر مطلق ہے عالم الغیب ہے اور جو چاہتا ہے کرتا ہے اگر تم کو شبہ ہے تو لاؤ کتابیں پیش کرو میں ان کتابوں سے اپنی خدائی کا ثبوت تمہیں دکھلاؤں گا یہ تمہاری غلط فہمی ہے اور کم تو جہی اپنی کتابوں کی نسبت ہے کہ تم مجھے کا فرٹھہراتے ہو تمہاری کتابیں ہی تو مجھے خدا بنا رہی ہیں اور قادر مطلق بنا رہی ہیں پھر میں کافر کیوں کر ہوا بلکہ 189 تمہیں چاہے کہ اب تم میری پرستش اور سجدہ شروع کر دو کہ میں خدا ہوں.منصفین سوچ لیں کہ کیا الزام دور کرنے کیلئے اور اپنے آپ کو حقیقی طور پر بیٹا اللہ تعالیٰ کا ثابت کرنے کیلئے یہ جواب تھا کہ اگر میں نے بیٹا کہلایا تو کیا حرج ہو گیا تمہارے بزرگ بھی خدا کہلاتے رہے ہیں.اب اس سے صاف طور پر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے حقیقی طور پر ابن اللہ ہونے کا خدا ہونے کا کبھی دعویٰ نہیں کیا اور اس دعوئی میں اپنے تئیں ان تمام لوگوں کو ہم رنگ قرار دیا اور ا سبات کا اقرار کیا کہ انہیں کی موافق یہ دعویٰ بھی ہے.“ جنگ مقدس ص ۱۳۳ تا ۱۳۵ روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشرکۃ الاسلامہ ربوہ، پاکستان ) نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام مزید فرماتے ہیں: حضرت مسیح علیہ السلام نے کسی جگہ تثلیث کی تعلیم نہیں دی اور وہ جب تک زندہ رہے خدائے واحد لاشریک کی تعلیم دیتے رہے.ان کا وہ کلمہ جو صلیب پر چڑھائے جانے کے وقت ان کے منہ سے نکلا توحید پر دلالت کرتا ہے انہوں نے نہایت عاجزی سے کہاایلی ایلى لما شبقتنى یعنی اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.کیا جو شخص اس عاجزی سے خدا کو پکارتا ہے اور اقرار کرتا ہے کہ خدا میرا رب ہے اس کی نسبت کوئی نظمند گمان کر سکتا ہے کہ اس نے درحقیقت خدائی کا دعوئی

Page 190

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل کیا تھا.“ 190 چشمه مسیحی صفحه ۴۲ ۴۳ روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامہ ربوہ، پاکستان ) در اصل قرونِ اولیٰ میں عیسائیت دو گروہوں میں بٹی ہوئی تھی ایک عبرانی نسل کے عیسائی تھے جو کہ تو حید کے علمبردار تھے اور حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کو خدا کا فرستادہ رسول مانتے تھے تاریخ میں ان عیسائیوں کو یہودی مسیحی کے نام سے یاد کیا گیا ہے ان کو سلسلہ ابیونا اور نصاری بھی کہتے ہیں.دوسرا گروہ غیر قوموں میں سے عیسائیت قبول کرنے والوں کا تھا.ابتداء میں اس گروہ کے عقائد کچھ ایسے بگڑے ہوئے نہیں تھے.لیکن آہستہ آہستہ اس کلیسیا کے پیروکار یونانی فلسفہ کے تحت شرک کی راہوں پر گامزن ہو گئے.یہاں تک کہ اس گروہ نے Nicaca کونسل سے جو کہ ۳۳۵ء میں منعقد ہوئی موحدین کی شدید مخالفت کے باوجودالوہیت مسیح مجسم خدا.اور تثلیث کے عقائد منظور کرالئے.ابتدائی عیسائی جو کہ یہودی مسیحی تھے اور نصرانی یا نصاری کے نام سے موسوم تھے.ان کی ۱۰ خصوصیات ہیں.چنانچہ یہ خصوصیات کرسٹرسٹن ڈبل نے اپنی کتاب The Scrolls and the New Testament کے صفحہ ۲۹۳ پر لکھا ہے.وہ لکھتا ہے کہ : ابتدائی عیسائی : ا.ایک خدا کے قائل تھے جس نے دنیا پیدا کی.۲.وہ صرف متی کی عبرانی انجیل کو مانتے تھے جو کہ انکی تحویل میں تھی.۳.وہ پولوس کی تعلیمات کو رد کرتے تھے اور اس کو شریعت سے منحرف سمجھتے تھے.وہ ختنہ کراتے تھے.۵.وہ سبت مناتے تھے.۶.وہ شریعت کے مطابق یہودی طرز کی زندگی گزارتے تھے...وہ یسوع کی بلا باپ پیدائش کے قائل تھے.۸.وہ یسوع کو خدا کا بیٹا کہتے تھے.9.وہ یسوع کو کلمہ از لی اور خدانہیں مانتے تھے.۱۰.وہ بعث بعد الموت کے قائل تھے یعنی کسی کفارہ پر یقین نہیں

Page 191

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ از روئے قرآن و انجیل رکھتے تھے.ابتدائی عیسائی حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا ماننے کے باوجود خدا نہیں مانتے تھے جب حضرت مسیح کے بعض کلمات سے یہودیوں نے استدلال کیا کہ آپ انسان ہو کر خدائی کا دعویٰ کرتے ہیں تو آپ نے بتایا کہ تو رات میں مقدس لوگوں کو جنکے پاس خدا کا کلام آیا خدا کہا گیا انہی معنوں میں مجازی طور پر میں خدا کا بیٹا ہوں.“ 191 ( یوحنا باب ۱۰ آیت ۲۹ تا ۳۱ ) پس حضرت مسیح علیہ السلام کی یہ وضاحت قرون اولیٰ کے عیسائیوں کے پیش نظر رہی چنانچہ وہ بھی ابن اللہ کے خطاب کو توریت کے تابع اور مجازی معنوں میں سمجھتے تھے چوتھی صدی میں بھی ایسے عیسائی فاضل موجود تھے جو ابن اللہ کے لقب کی یہی تشریح پیش کرتے تھے چنانچہ ایک سریانی کلیسیا کے فادر Aphroates افرائے ٹس ہو گزرے ہیں جن کا زمانہ ۳۳۰ تا ۳۵۰ ہے.انہوں نے ۲۳ مواعظ تحریر کئے ہیں وہ اپنی ۷ ویں وعظ میں یہودیوں کے اعتراض کو نقل کر کے اس کا جواب دیتے ہیں قرون اولیٰ کا یہ قیمتی حوالہ F.C Canybear نے جو ایک ممتاز عیسائی عالم ہوگزرے ہیں اپنی کتاب The Origins of Christianity کے صفحہ ۱۸۴ پر درج کیا ہے.آپ نے لکھا: عیسائی ایک مصلوب انسان کی پرستش کرتے ہیں جس کا نام یسوع ہے.وہ اسے خدا مانتے ہیں پھر اسے خدا کا بیٹا بھی کہتے ہیں حالانکہ خدا بیٹوں سے پاک ہے.“ اس اعتراض کے جواب میں ممتاز عالم فرائے ٹس نے لکھا: وہ آدمی جو کہ خدا کی رضا کی راہوں پر چلنے والے ہیں انہیں خود خدا نے اپنا بیٹا اور اپنا دوست کہا ہے چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ کو چنا اسے اپنا خلیل ٹہرایا اور اپنا محبوب بنایا اور اپنی امت کا سردار مقرر کیا اسے استاد اور کا ہن کے لقب سے سرفراز کیا.تو

Page 192

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.اس نے اسے ان معنوں میں خدا کہا.چنانچہ تو رات میں لکھا ہے کہ میں نے تجھے فرعون ( خروج باب ۷ آیت ۱) 192 کیلئے گویا خدا ٹھہرایا.اور اس کے ساتھ ہی موسیٰ کو اپنا ایک کا بہن اور پیغمبر دے دیا چنانچہ ہارون کے متعلق لکھا ہے: تیرا بھائی ہارون تیری طرف سے فرعون سے مخاطب ہوگا فرعون کیلئے تو بطور خدا کے ہے مگر ہارون تیرا تر جمان ہے.“ خروج باب ۴ آیت ۱۶) اسی طرح کتاب مقدس میں لکھا ہے : تم اپنے خدا وند خدا کے بیٹے ہو.“ ہوسیع باب ا آیت ۱۱، استثناء باب ۱۴ آیت ۱) اور سلیمان کے متعلق اس نے کہا : گا.” وہ میرے لئے بطور بیٹے کے ہوگا.اور میں اس کے لئے بطور باپ کے ہوں ( ۲ سموئیل باب ۷ آیت ۱۴) پس ہم ان معنوں میں مسیح کو جن کے ذریعہ ہم نے خدا پایا خدا کا بیٹا کہتے ہیں جن معنوں میں اسرائیل کے متعلق لکھا ہے کہ وہ میرا پلوٹھا بیٹا ہے.(خروج باب ۴ آیت ۲۲) اور سلیمان کے متعلق لکھا ہے وہ میرے لئے بطور ایک بیٹے کے ہوگا.ہم اسے انہی معنوں میں خدا کہتے ہیں جن معنوں میں موسیٰ کو خدا کا نام دیا گیا.مزید برآں خدا کا لقب اس دنیا میں سب سے بڑا اعزاز ہے اور یہ اعزاز اللہ تعالیٰ اپنے اُن خاص الخاص بندوں کو عطا کرتا ہے جن کو چن لیتا ہے.(184 The Origins of Christianity page مطبوعہ لندن ) اس حوالے سے پتہ لگتا ہے کہ ابتدائی صدیوں میں عیسائی فرقے حضرت مسیح کو انہی معنوں میں ابن اللہ اور خدا کہتے تھے جن معنوں میں تو رات میں خدا کے فرستادوں اور فنافی اللہ وجودوں کو خدا اور ابن خدا کے لقب سے یاد کیا گیا ہے لیکن غیر قوموں سے آئے ہوئے عیسائی مشرکانہ عقائد کے زیر اثر حضرت

Page 193

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 193 مسیح کو خدا کا حقیقی بیٹا اور اقنوم ثانی سمجھنے لگ گئے اور اس طرح راہ ہدایت سے دور جا پڑے مذکورہ عیسائی عالم نے بعض اور حوالے بھی درج کئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ توحید کی چنگاری ابتدائی صدیوں میں فروزاں تھی بالکل دب نہیں گئی تھی.دوسری صدی کے نصف آخر میں ایک عیسائی رومی بیرسٹر M.Minucins llix نے لاطینی زبان میں عیسائیت کے دفاع میں ایک مکالمہ رقم کیا ہے عیسائی تاریخ میں یہ سب سے پہلا تحریری دفاع ہے.اس میں الوہیت مسیح کے الزام کی صاف لفظوں میں تردید کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ رومی اور یونانی اسطرح مصری فانی انسانوں کو خدا کے طور پر پوجتے ہیں.ہم تو ایسا نہیں کرتے.ہاں یہ ضرور ہے کہ ہم خدا کے فرستادے بندوں کو انتہائی عزت و تکریم کی نظر سے دیکھتے ہیں (182-181 The Origins of Christianity page) (مطبوعہ لندن) اسی طرح صاحب موصوف نے چوتھی صدی کے شروع کا ایک حوالہ دیا ہے چنانچہ Lactantius ایک لاطینی عیسائی عالم اپنی کتاب True wisdom میں لکھتے ہیں : اللہ تعالیٰ کے طریق عمل اور اس کے احکام کیا تھے اس کے متعلق نہ تو ہمیں اشتباہ میں چھوڑا گیا ہے اور نہ عدم واقفیت میں کیونکہ جب اللہ نے دیکھا کہ بدی اور جھوٹے معبودوں کے احکام نے لوگوں کے ذہنوں سے اس کا نام محو کر دیا ہے تو اس نے اپنے بیٹے کو جو فرشتوں کا سردار ہے اپنا خلیفہ بنا کر بنی نوع انسان کی طرف بھیجا تا کہ ان کو ناپاک اور باطل مذاہب سے ہٹا کر علم و حکمت اور کچے خدا کی پرستش کی طرف لاوے اور ایسا ہی ان کے ذہنوں کی جہالت سے عرفان کی جانب اور مجرمانہ کردار سے منصفانہ اعمال کی طرف راہنمائی کرے اللہ کی یہی راہیں ہیں جس پر اس نے یسوع کو گامزن ہونے کی ہدایت کی.یہی احکام ہیں جنہیں نگاہ میں رکھنے کی اس نے تعلیم دی.چنانچہ یسوع نے قابل تقلید طور پر اپنے اعتقاد کا مظاہرہ کیا.کیونکہ اس نے تعلیم دی کہ اللہ واحد

Page 194

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 194 ہے اور صرف اس کی پرستش کرنی چاہے.اس نے خود یہ کبھی نہ کہا کہ وہ اللہ ہے.وہ بھیجا تو اس غرض سے گیا تھا کہ متعدد خداؤں کی پرستش دور کرے اور واحد خدا کی پرستش کو قائم کرے اور اگر وہ کہتا کہ میں خدا ہوں تو وہ خدا کے پہلو بہ پہلو ایک اور کو لا کھڑا کرتا.اور بے وفائی کرتا ایسا کرنا واحد خدا کا وعظ کہنا اور اس کی منادی کرنا نہ ہوتا بلکہ اس جگہ جس نے اُسے بھیجا اپنے آپ کو آگے بڑھا کر اس کے مقام کو جس کے اظہار کے لئے وہ آیا تھا غصب کرتا اور اپنے تئیں اس سے جدا کر لینا ہوتا.صرف اس وجہ سے کہ اس نے اپنے کو وفادار ثابت کیا اور کسی قسم کی ناواجب بڑائی اپنے لئے اختیار نہ کی اور جس نے اسے بھیجا تھا اس کے احکام کو بجالانے کیلئے وقف کر دیا تھا اسے یہ صلہ دیا گیا کہ ہمیشہ ہمیش کیلئے کا ہن کی عزت بخشی گئی اور شہنشاہ کا مقام بخشا گیا اور منصف کا اختیار اور خدا کا نام بخشا گیا.(کتاب The Origin of Christianity صفحه 183 مطبوعہ لندن ) مذکورہ بالا حوالہ درج کرنے کے بعد صاحب موصوف لکھتے ہیں کہ اس سے یقینی بات کوئی اور نہیں ہوسکتی کہ ابن اللہ کا لقب جو کہ ابتدائی عیسائی تحریرات میں استعمال ہوا ہے.اس سے مراد محض خادم خدایا مسیح ہے.ابن اللہ کے لقب کا مقام الوہیت کا مظہر اس وقت قرار دیا گیا جب عیسائیت کا پیغام مشرک اقوام تک پہنچا اور وہ حلقہ بگوش عیسائیت ہونے لگے ان کے ہاں چونکہ بادشاہوں اور شہنشاھوں کو خدائی کا درجہ اور الوہیت کا مقام دیا جاتا تھا.اس لئے عیسائیوں میں بھی حضرت مسیح کی خدائی کا تصور پیدا ہو گیا.پھر لکھتے ہیں کہ : ابتدائی عیسائیوں کا یہ راسخ عقیدہ تھا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے جو یوحنا سے بپتسمہ لیا تھا اور ان پر روح القدس کا نزول ہوا اس وقت وہ خدا تعالیٰ کے نبی بنائے گئے اور مسیح کے مقام پر فائز ہوئے اس ابتدائی عیسائی عقیدہ کو راسخ الاعتقاد عیسائی مورخین

Page 195

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل نے یکسر نظر انداز کر دیا اور اس ابتدائی عقیدہ اور چوتھی اور پانچویں صدی کے رومن اور اسکندرین عیسائی علماء کے عقیدہ میں ایک گہری خلیج حائل ہوگئی.اس کے بعد یہی عیسائی عام قرآنی مسیح پر تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: مسلمانوں کے قرآن میں حضرت مسیح کے خدائی عقیدہ کو کفر قرار دیا گیا ہے اور اسے رڈ کر دیا گیا ہے اسطرح قرآن موجودہ عیسائیت کی نسبت ابتدائی عیسائیوں کے 195 قریب ترین ہے.چنانچہ قرآن کریم میں (سورۃ الزخرف : آیت ۶۰) لکھا ہے: ر مسیح اس کے سوا اور کچھ نہیں کہتا کہ وہ ہمارا ایک بندہ تھا جس پر ہم نے انعام کیا اور اسے اسطرح بنی اسرائیل کیلئے ایک مثال بنایا اور اسے ساعت آخر کا نشان بنایا گیا.متذکرہ بالا تبصرہ ایک بہت بڑے عیسائی عالم فریڈرک کارن والس کان بیئر ایم اے کا ہے جو یو نیورسٹی آکسفورڈ کالج اور برٹش اکیڈمی کے فیلو اور ایک ممتاز رکن گزرے ہیں.اس طرح ایک اور بہت بڑے عالم اور امریکہ کے مشہور فاضل پادری جو کہ مشہور مذہبی لیڈر اور سکالر ہیں اور ریورنڈ رڈاکٹر چارلس فرانس پوٹر کے نام سے موسوم ہیں.آپ نے کئی ڈگریاں حاصل کیں اور ڈاکٹر آف لٹریچر بھی ہیں.آپ نے ایک کتاب بحر مردار کے صحائف کے انکشاف پر لکھی ہے جس کا نام حضرت مسیح کی زندگی کے نامعلوم گوشوں کا انکشاف ہے."The Lost Years of Jesus Revealed" یہ کتاب گولڈ میڈل بک کمپنی نے شائع کی ہے.صاحب موصوف نے اس میں ثابت کیا ہے کہ جیسے جیسے صحائف قمران اشاعت پذیر ہورہے ہیں کلیسیا ئی عقائد کا بطلان دنیا میں منکشف ہورہا ہے.آپ لکھتے ہیں کہ: محققین کا یہ خیال ہے کہ یہ شخص (صحائف قمران کا صادق استاد ) قبل مسیح کی کوئی عظیم شخصیت ہے جو کہ حضرت مسیح کیلئے نمونہ اور لائحہ عمل تھے بعض لوگ کہتے ہیں کہ صادق استاد سے مراد خود مسیح ہیں بہر کیف جیسے جیسے صحیفوں کے طومار کھل رہے ہیں اور

Page 196

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 196 بیش بہا قطعات اور اوراق پڑھے جارہے ہیں مبرهن طور پر سامنے آ رہا ہے کہ وہ عجیب و غریب اور حیرت انگیز شخصیت جس کا نام صادق استاد ہے وہ زیادہ تر ایک بشر رسول یسوع نام کے مشابہہ ہے.نہ کہ اس روایتی یسوع کے جسے الوہیت کا اقنوم ثانی تسلیم کیا جاتا ہے.(By Rev.Doc.Charles Francis Poter printed by Gold Medal Books Co.1959 Page 128) (The completed Dead Sea Scrolls by Geza Vermes, published by Penguin Books Itd.27 Wrights Lane W8 5T2 London 1998) پھر لکھتے ہیں : یہ امر نظر انداز نہ کیجئے کہ اس کرہ ارض پر بسنے والے لوگوں کا بڑا حصہ ایسا ہے جو کہ باوجود انہیں سو سال کی عیسائی مشنریوں کی سرتوڑ کوشش کے یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ حضرت مسیح خدا تھے دوسرے مذاہب کے پیروکار مثلاً کنفیوشس اور بدھ کے ماننے والے حضرت مسیح کو عظیم مصلح اور رسول تصوّر فرماتے ہیں یعنی ایک بشرنہ کہ خدا.مسلمانوں کو جن کو ہم محمدن کہتے ہیں تو وہ برا مناتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ مسلمان خود کو تو حید کا دلدادہ سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم محمد کے پرستار نہیں بلکہ یہود کی طرح ایک خدا کو ماننے والے ہیں.ہم مسیح علیہ السلام اور موسیٰ علیہ السلام کی عزت کرتے ہیں اور انہیں نبی سمجھتے ہیں ہم محمد ﷺ کو سب سے بڑا نبی سمجھتے ہیں لیکن ہم ان کی پرستش نہیں کرتے.ہم خدائے واحد یعنی اللہ کے پرستار ہیں.اس طرح دنیا میں لکھوکھا حقیقی عزت کے قابل لوگ موجود ہیں جن میں سائنس دان فلاسفرحکماء معلمین اور دوسرے پیشوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جو کہ دنیائے عیسائیت میں رہتے ہیں لیکن ان کا عقیدہ یہ ہے کہ حضرت مسیح خدا نہ تھے.ہم عیسائیوں کو اپنی مردم شماری کے مطابق

Page 197

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل اس کرہ ارض کی آبادی کا تیسرا حصہ یعنی تقریباً ۷۵ کروڑ عیسائی ایسے سمجھتے ہیں جو کہ پہتمہ پائے ہوئے ہیں اور ان کا ننانوے فیصد یہ سمجھتا ہے کہ حضرت مسیح خدائے مجسم ہیں لیکن ان لوگوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں کہ جو عیسائی عقائد پر مطمئن نہیں ان کے دلوں میں بھی مخفی شکوک اور شبہات کی چنگاریاں سلگتی رہتی ہیں اور اب واد کی قمران کے غاروں کے انکشافات کے باعث یہ دبی دبی چنگاریاں شعلوں میں تبدیل ہو چکی ہیں.“ آخر میں لکھتے ہیں : 197 (صفحه ۱۲۳-۲۴ الحض ) ” ہم کافی مواد دے چکے ہیں جو کہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ صحیفے دراصل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام ہے جو کہ اس دور سے دلچسپی لینے والوں کو ملا ہے یہ طومار جو نکلا ہے یہی بتاتا ہے کہ حضرت مسیح جیسا کہ انہوں نے خود کہا ابن آدم ہیں نہ کہ اقنوم ثانی اور ابن اللہ جیسا کہ ان سے بعد کے پیروکار مدعی بن گئے ہیں.“ (The Lost Years of Jesus Revealed - page 127) (By Rev.Doc.Charles Francis Poter printed by Gold Medal Books Co.1959 Page 128) (By Faweett Publication Inc.) عہد نامہ جدید سے بھی ان باتوں کی تصدیق ہوتی ہے کہ حواری خدائے واحد کی عبادت کرتے تھے اور یسوع کو خدا نہیں سمجھتے تھے مثلاً لکھا ہے: ہم میں جو خدا کی روح سے خدا کی عبادت کرتے ہیں اور یسوع مسیح پر فخر کرے ہیں.(فلیپیوں باب ۳ آیت ۳) مگر بچے پرستار روح اور راستی سے باپ کی پرستش کرتے ہیں.( یوحنا باب ۴ آیت ۲۳) اسی طرح حواریوں کا ایمان مسیح کے متعلق باپ سے کم تر تھا اور بہت صاف تھا چنانچہ

Page 198

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 198 انہوں نے پولوس کا کلام شرک سمجھا کہ تم صحیح کے ہو اور مسیح خدا کا ہے.ہر ایک مرد کا سرمسیح ہے اور مسیح کا سرخدا ہے." (1 کرنتھیوں باب ۳ آیت ۳۳ باب ۱۱ آیت ۳) حواری سوائے باپ کے کسی کو خدا نہ کہتے تھے.”ہمارا ایک خدا ہے جو باپ ہے.“ (کرنتھیوں باب ۸ آیت ۴) پس اس اکیلے بچے خدا کی تعریف وہ مبارک اور اکیلا حاکم ہے بادشاہوں کا بادشاہ.خداوندوں کا خدا ہے.بقا صرف اس کو ہے وہ اس نور میں رہتا ہے جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا.اور اسے کسی انسان نے نہ دیکھا اور نہ دیکھ سکتا ہے.اس کی عزت اور اس کی سلطنت ابد تک رہے گی.آمین.( ا تيمتهیس باب ۶ آیت ۱۵-۱۶) پس اس بات میں کچھ مضائقہ نہیں کہ مسیح علیہ السلام خود بھی اور آپ کے ماننے والے خصوصاً ابتدائی عیسائی بھی تو حید خالص پر عمل پیرا تھے اور ایمان رکھتے تھے.وہ کسی اقنوم ثانی کے تصور کو نہ جانتے تھے اور تورات کے تابع فرمان ہوتے ہوئے مسیح کو خدا تعالیٰ کا فرستادہ اور مقرب الہی اور فنا فی اللہ انسان سمجھتے تھے اور عہد نامہ قدیم کے مروجہ محارہ کے مطابق آپ کو ابن اللہ کہتے تھے.موجودہ عیسائیت کے دلائل دربارہ الوہیت مسیح علیہ السلام اور اس کی حقیقت موجودہ عیسائیت انا جیل کے جن مقامات سے مسیح علیہ السلام کی الوہیت ثابت کرتی ہے اب ہم ان مقامات کا جائزہ لیتے ہیں سب سے قبل تو یوحنا کی انجیل کے آخری ابواب میں سے ۲۰ باب آیت ۲۸ کو پیش کیا جاتا ہے: تو مانے جواب میں اس سے کہا : اے میرے خداوند اے میرے خدا.

Page 199

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 199 یسوع نے کہا تو تو مجھے دیکھ کر ایمان لایا مبارک وہ ہیں جو بغیر دیکھے ایمان لائے.تو ما کا یہ قول اس وقت کا ہے جب مسیح علیہ السلام نے صلیب سے بچنے کے بعد اپنے زخم دکھائے اور پہلی پر جہاں کے رومی سپاہی نے بھالا مارا تھا ہاتھ ڈال کر دیکھنے کو کہا تھا چنا نچہ تجب سے تو مانے کہا اے میرے خدا ونداے میرے خدا.اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ یہ الفاظ تو مانے حضرت مسیح کی خدائی پہ یقین رکھتے ہوئے کہے تھے بلکہ اس سے تو صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ تو ما نے مسیح کو بنفس نفیس صلیبی زخموں سمیت صلیب سے بیچ کر اتر آنے پر تعجب سے اور آسمانی نشان کو پورا ہوتے دیکھ کر اپنے آسمانی خدا کو پکارا اور بہت حیران و ششدر ہوا جیسا کہ یہ عام بات ہے کہ حیرت اور استعجاب کے وقت ہر انسان کے منہ سے ایسے کلمات نکل جایا کرتے ہیں.اور ویسے بھی جیسا کہ یوحنا باب ۱۰ آیت ۲۹.۳۰ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے حواری تو رات کے محاورہ کے مطابق آپ کو معزز اور مقرب الی اللہ کے معنوں میں کبھی ایسا کہتے ہوں تو کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے ان کا اس سے ہر گز آپ کو حقیقی الہ کہنا مراد نہیں ہوتا تھا.ر رومیوں باب ۹ آیت ۵ کو بھی آپ کی خدائی کیلئے پیش کیا جاتا ہے لکھا ہے: اور جسم کی رو سے مسیح بھی اُن ہی میں سے ہوا خدا سب کے اوپر اور ابد تک خدائے محمود ہے آمین.یہ ترجمہ وہ ہے جو اردو کے نئے عہد نامے میں کیا گیا ہے.لیکن یہ ترجمہ درست نہیں.New English Bible میں ، جو ۱۹۶۱ء میں شائع ہوئی Oxford University) (1961) Press ، درست ترجمہ اس طرح کیا گیا ہے: ک جسم کی رو سے مسیح بھی ان ہی میں سے ہوا.“ اس کے بعد فقرہ ختم ہے اور فل سٹاپ ہے اور جو کا لفظ حذف ہے.اور آگے یہ نیا فقرہ لکھا ہے

Page 200

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل ”خدا سب کے اوپر اور ابد تک محمود ہے“ 200 گویا اس آیت کا صحیح ترجمہ کر کے الوھیت کا ذکر اس میں سے نکال دیا گیا ہے چنانچہ یہ اقتباس بھی سند نہ رہا.یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسیح سے دعامانگی گئی اس لئے وہ خدا ٹھہرا.اور اس کی تائید کیلئے عیسائیت کے پہلے شہید سٹیفن کا ذکر کرتے ہیں کہ اس نے کہا ”اے خداوند یسوع میری روح کو قبول کر پھر اس نے گھٹنے ٹیک کر بڑی آواز سے پکارا.” اے خداوند یہ گناہ ان کے ذمہ نہ لگا سٹیفن شہید نے مرتے وقت عاشقانہ رنگ میں محبت کا اظہار کیا ہے.واضح طور پر مسیح سے یہاں دعامانگنے کا کوئی ذکر نہیں ہے اس کے بالمقابل مسیح علیہ السلام کے دعامانگنے کا ذکر بڑے واضح رنگ متعدد بار نئے عہد نامے میں مذکور ہے پس جس سے دعا مانگی بھی گئی ہو تو وہ خود بھی دعا مانگنے کا محتاج ہے؟ چہ جائیکہ دعاسن کر قبول کرے اور اس بات کا بھی ثبوت درکار ہے کہ سٹیفن شہید نے مسیح علیہ السلام کو خداوند کن معنوں میں کہا تھا.کیا ان معنوں میں نہیں کہا ہوگا جن معنوں کی تخصیص یسوع نے خود کر دی تھی.اور ابتدائی حواری اسے اچھی طرح پہنچانتے تھے.اور انہی معنوں میں سٹیفن شہید کی بھی مراد تھی نہ کہ حقیقی خدا کے معنوں میں کہنا مراد تھی....متی کی انجیل میں لکھا ہے کہ : در مسیح کی پیدائش کے موقع پر یسعیا باب 8 آیت 8 کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ دیکھو ایک کنواری حاملہ ہوگی اور بیٹا بنے گی اور اس کا نام عمانویل رکھیں گے.“ ( متی باب ۱۰ آیت ۲۳) بعض عیسائی اس سے یہ استنباط کرتے ہیں کہ اس میں الوہیت مسیح کا ذکر ہے حالانکہ اگر عمانویل مسیح کا نام اور مسیح کی صفت تھی تو اس کا مفہوم یہ ہوا کہ خدا مسیح کے ساتھ ہے اور یہ کوئی ثبوت الوہیت نہیں بلکہ اس سے الوہیت مسیح کی تردید ہوتی ہے کیونکہ مسیح اور خدا دوالگ الگ وجود قرار

Page 201

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 201 پاتے ہیں نیز خدا کی ایسی معیت صرف مسیح کی کوئی ایسی خصوصیت نہیں بلکہ حضرت یعقوب کو مخاطب کر کے خدا فرماتا ہے ( پیدائش باب ۲۸ آیت (۱۵) انی ایماخ میں تیرے ساتھ ہوں.اگر متی کے اس حوالے سے اس رنگ میں استنباط الوہیت مسیح کے حق میں کیا جائے کہ لوگ کہیں گے کہ یہ ہمارا خدا ہے جو ہمارے ساتھ ہے تو یہ سراسر تحریف ہے.کیونکہ جو حوالہ یسعیاہ کا متی نے دیا ہے اس میں اس کا نام رکھیں گے.کے الفاظ ہیں.اور جس رنگ میں متی نے پیش کیا ہے کہ لوگ اس کا نام رکھیں گے یہ بات یسعیاہ کے حوالے میں کہیں موجود نہیں ہے.اگر فرض بھی کر لیں کہ یہ پیشگوئی حضرت مسیح پر منطبق ہوگئی تب بھی یہ کیسے ثابت ہو گیا کہ وہ خدا یا خدا کا بیٹا تھا ؟ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ پیشگوئی ہی سرے سے آپ پر چسپاں نہیں ہوتی جس کی کئی ایک وجوہات تھیں : اول : میسیج کی والدہ نے آپ کا نام عما نویل نہیں رکھا.اگر معنوی رنگ میں چسپاں کریں تو مسیح نے خود کہا ایلی ایلی لما سبقتانی.اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا.(مرقس ۱۵ آیت ۳۴) ہاں یہ پیشگوئی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر معنوی رنگ میں ضرور پوری ہوئی جنہوں نے اس وقت ، جب بڑے بڑے جری گھبرا جاتے ہیں، اپنے ساتھی حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو غار ثور میں فرمایا جس کا کلام پاک میں یوں ذکر آتا ہے : لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا.غم مت کر یقینا اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے.(سورة التوبه: آیت (۴۰) دوئم:.یسعیاہ نبی کی کتاب میں عبرانی زبان میں جو لفظ ہے ( هــا عــلـمـه ) ہے اور یہ لفظ کنواری غیر کنواری نو جوان عورت پر بولا جاتا ہے.اور عربی زبان میں وہاں اس کا ترجمہ ( مشاة ) جوان عورت کے کئے گئے ہیں.پس یہ پیشگوئی مسیح علیہ السلام پر سرے سے چسپاں ہی نہیں ہوتی

Page 202

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.202 بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر چسپاں ہوتی ہے جیسا اسمیں آگے چل کر لکھا ہے وہ دہی اور شہد کھائے گا اب مسیح علیہ السلام کے متعلق یہ ثابت نہیں کہ آپ دہی اور شہد کھایا کرتے تھے بلکہ شہد تو آنحضرت ﷺ کی مرغوب غذا تھی اور اسی طرح دودھ دہی بھی آپ ہی استعمال کرتے تھے.انا جیل میں مسیح کے متعلق تو صرف سرکہ، شراب ، مچھلی اور روٹی کا ذکر ہی ملتا ہے.آپ کی الوہیت کے ثبوت میں آپ کا ایک قول پیش کیا جاتا ہے جو آپ نے اپنے مخالفین کو کہا تھا کہ تم نیچے سے ہو اور میں اوپر سے ہوں تم اس جہان کے ہو میں اس جہان کا نہیں.اس فقرہ کے معنی بالکل صاف ہیں کہ اے یہود یو! میں نبی ہوں میرے علوم آسمانی ہیں تم زمینی علوم پر تکیہ کرتے ہوتم میرا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہو.یہ ایک عام محاورہ ہے ہم ایک شخص کو زمینی یا د نیا دار کہ دیتے ہیں اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ یہ شخص خدا سے تعلق نہیں رکھتا ہے بلکہ دنیا سے محبت کرتا ہے اسی طرح مسیح علیہ السلام نے بھی یہودیوں کو کہا کہ میں تمہاری طرح تقلیدی علوم کا اور زمینی فنون کا وارث نہیں بلکہ آسانی علوم کا وارث ہوں اسی فقرہ سے مسیح علیہ السلام کی الوہیت یوں بھی ثابت نہیں ہوتی کیونکہ آپ نے تمام حواریوں کو بھی اپنے ساتھ شامل فرمایا ہوا ہے چنانچہ مسیح علیہ السلام نے ایک جگہ پر حواریوں کے متعلق خدا سے دعا میں عرض کیا: اس لئے کہ جیسا میں دنیا کا نہیں ہوں وے بھی دنیا کے نہیں ہیں.“ ( یوحناباب ۱۷ آیت ۱۴) پھر ایک جگہ حواریوں کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں : اس لئے کہ دنیا کے نہیں ہو.“ ( یوحنا باب ۱۵ آیت ۱۹) پس اس فقرہ میں تو مسیح علیہ السلام کا کوئی امتیاز نہ رہا بلکہ تمام حواری بھی آپ کی الوہیت میں شریک ہو گئے.مسیح علیہ السلام نے کہا: میں اور باپ ایک ہیں.میں باپ میں ہوں اور باپ مجھ میں ہے.

Page 203

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 203 ان الفاظ میں بھی خدا تعالیٰ کے ساتھ کامل محبت کا اظہار ہے اگر اس فقرہ سے مسیح علیہ السلام کی الوہیت کا ثبوت نکالا جاتا ہے تو حواریوں کے متعلق بھی سفارش کرتے ہوئے مسیح علیہ السلام خدا تعالیٰ کے حضور کہتے ہیں: تا کہ وہ سب ایک ہو جائیں جیسا کہ اے باپ تو مجھ میں ہے اور میں تجھ سے ہوں کہ وہ بھی ہم میں ایک ہوں.( یوحنا باب ۱۷ آیت ۲۱ تا ۲۳) اب اگر ایک ہو جانے کے لفظ سے کوئی خدا ہوسکتا ہے تو تمام حواری بھی خدا ہونے چاہئیں.حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک اور جگہ فرمایا ہے: اُس روز تم مانو گے کہ میں اپنے باپ میں ہوں اور تم مجھ میں اور میں تم میں جس کے پاس میرے حکم ہیں اور وہ ان پر عمل کرتا ہے وہی مجھ سے محبت رکھتا ہے اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ میرے باپ کا پیارا ہوگا.“ ( یوحنا باب ۱۴ آیت ۲۱) پس محبت کے ساتھ تمام احکام الہی کے مطابق اعمالِ صالحہ بجالا نا ہی خدا میں ہونا ہوتا ہے اور یہ بات انتہائی قرب پر دلالت کرتی ہے نہ کہ خدائی پر....انجیل کا یہ حوالہ کہ: میں خدا سے نکلا ہوں تو مجھ سے پیدا ہوا.( یوحنا باب ۸ آیت ۲۴) ( عبرانیوں باب 1 آیت ۵) پیش کر کے بھی مسیح علیہ السلام کی خدائی ثابت کی جاتی ہے پورا حوالہ سامنے رکھا جائے تو مسیح علیہ السلام کے خدا سے نکلنے کی تشریح مسیح کی زبانی صفات ارسال مرسلین کا اظہار ہے جیسا کہ لکھا ہے: ”اگر خدا تمہارا باپ ہوتا تو تم مجھ سے محبت رکھتے اس لئے کہ میں خدا سے نکلا اور آیا ہوں کیونکہ میں آپ سے نہیں آیا بلکہ اس نے مجھے بھیجا.“ نیز مندرجہ ذیل اقتباسات بھی ملاحظہ فرماویں:

Page 204

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل.204 جوکوئی خدا سے ہوتا ہے وہ خدا کی باتیں سنتا ہے.(یوحنا باب ۸ آیت ۴۷) جو اُس کے نام پر ایمان لاتے ہیں...خدا سے پیدا ہوتے ہیں.جوکوئی راستبازی کے کام کرتا ہے وہ اس سے پیدا ہوا ہے.(یوحنا باب ۱ آیت ۱۲ ۱۳) ( یوحنا باب ۲ آیت ۲۹) جو کوئی محبت رکھتا ہے وہ خدا سے پیدا ہوتا ہے.( یوحنا باب ۵ آیت ۱) شاعروں میں سے بعض نے کہا کہ ہم تو اسکی نسل ہیں پس خدائی نسل ہو کر یہ خیال کرنا مناسب نہیں.(اعمال باب ۱۷ آیت ۲۸-۲۹).....سب ایک ہی نسل سے ہیں.(عبرانیوں باب ۲ آیت ۱۱) پس معلوم ہوا کہ کسی سے نکلنے یا کسی سے ہونے سے مراد تعلق اور قرب کا اظہار ہے نا کہ خدائی کا ثبوت.ورنہ مذکورہ بالا سب افراد کو خدا ماننا پڑے گا.یسوع کے لئے کل اور آج بلکہ ابد تک یکساں ہے.(عبرانیوں باب ۱۳ آیت ۸) اس سے بھی مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے متعلق استدلال کیا جاتا ہے حالانکہ تو رات میں صاف لکھا ہے:.پیشتر اس سے کہ پہاڑ پیدا ہوئے اور زمین اور دنیا کو تو نے بنایا ازل سے ابد (زبور باب ۹۰ آیت ۲) تک تو ہی خدا ہے.مجھ سے آگے کوئی خدا نہ بنا اور میرے بعد بھی کوئی خدا نہ ہوگا.یعیاه باب ۴۳ آیت ۱۰)...ملک صدق بے باپ بے ماں بے نسب نامہ ہے نہ اس کے دنوں کا شروع نہ زندگی کا آخر بلکہ خدا کے بیٹے کے مشابہ ٹھہرا.(عبرانیوں باب ۷ آیت ۳)

Page 205

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 205 اس طرح یہاں عہد نامہ قدیم کی رو سے مسیح کی ازلیت اور ابدیت باطل ہوگئی اور ملک صدق بھی آپ کی الوہیت میں شریک ہو گیا.نیز عہد نامہ جدید سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کیلئے کل اور آج یکساں نہ تھے اور نہ ہی آپ کو علم کے لحاظ سے ہی ازلی ابدی ہونے کا مقام حاصل تھا لکھا ہے.().انجیر کے درخت کا علم نہ ہوا کہ اس میں پھل ہے یا نہیں.(متی باب ۲۱ آیت ۱۹) (۲) مجھے کسی نے چھوا.(لوقا باب آیت ۵۴ مرقس باب ۵ آیت ۳۰) پس جس شخص کو معمولی باتوں کا بھی علم نہیں تھا اس کو ازلی ابدی اور اس کے لئے کل اور آج یکساں قرار دے دینا کیسا ظلم ہے.حضرت مسیح کا بے باپ ہونا بھی الوہیت مسیح کی صداقت کی دلیل سمجھی جاتی ہے حالانکہ حضرت آدم بن باپ اور بن ماں تھے تب انہیں بھی خدا ہونے کا حق حاصل اسی طرح ملک صدق سالم بھی مجسم خدا ہونے کا حقدار ٹھہرتا ہے.اور اگر بے باپ ہونا ہی دلیل الوہیت ہے تو ابتدائے آفرنیش میں پیدا ہونے والے بے باپ بے ماں بہت سی مخلوقات بھی خدائی کی حقدار ٹھہریں گی جبکہ آپ علیہ السلام کے بے باپ پیدا ہونے کا مسئلہ بھی بعض معترضین کے نزدیک مسلم نہیں ہے اور وہ تو حضرت مریم علیہ السلام پر الزام تراشی سے کام لیتے ہیں.ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ آدم نے گناہ کیا اس وجہ سے اس کی تمام نسل میں گناہ کا بیج بویا گیا اور تمام انسان گناہ میں گرفتار ہو گئے.مسیح چونکہ آدم کی پشت سے نہیں تھا اس لئے وہ گنہ گار نہ پیدا ہوا گناہ سے پاک صرف خدا ہے اس لئے مسیح خدا ہوا.اس دلیل میں بیان شدہ تمام دعاوی غیر صحیح ہیں ہم نمبر وار ان کا جائزہ لیتے ہیں....آدم کے گناہ کی وجہ سے اس کی نسل کا گناہ گار ٹھہر ناخدا کے عدل کے خلاف ہے یہ عدل

Page 206

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - نہیں کے باپ کے گناہ کرنے سے بیٹا خود بخود گنہگار قراردے دیا جائے.206....جو آدم کی پشت سے ہو وہ گنہگار ہوتا ہے یہ بات عقلاً اور نقلاً دونوں طرح غیر صحیح ہے عقلاً خدا کے عدل کے خلاف ہے اور نقلا یہ کہ لوقا باب ۱ آیت ۶ میں لکھا ہے.دونوں خدا کے حضور راستباز اور خداوند کے حکموں اور قانونوں پر بے عیب چلنے والے تھے یہ زکریا علیہ السلام اور ان کی بیوی کی تعریف ہے اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دونوں میاں بیوی بے گناہ تھے.پس یہ کہنا کہ آدم کی نسل سے سب گنہگار ہیں از روئے انجیل غلط ہوا.کیونکہ زکریا اور ان کی بیوی اولاد آدم تھے.“ یہ کہنا کہ جو آدم کی پشت سے ہوگا گنہ گار ہوگا اس طرح بھی درست نہیں.کیونکہ کئی وجود با وجود یکہ وہ نسل آدم سے نہیں مگر گناہ گار ہیں.مثلاً شیطان.سانپ تمام دیوتا.بھوت جنہیں مسیح اور ان کے حواری نکالا کرتے تھے.کیا یہ سب آدم کی نسل میں سے ہونے کی وجہ سے گناہ گار تھے؟ ظاہر بات ہے کہ نہیں.یہ کہنا ہے مسیح علیہ السلام بے گناہ تھے مسیح کے اپنے قول سے غلط ٹھہرتا ہے جیسا کہ آپ نے فرمایا: 66 مجھے نیک مت کہو.نیک صرف ایک ہے یعنی باپ جو آسمان پر ہے....یہ کہنا کہ مسح علیہ السلام اس وجہ سے بے گناہ ہیں کہ نسل آدم سے نہ تھے قطعی طور پر غلط ہے کیونکہ: ())...آدمی کا وہ گناہ جو بقول عیسائی صاحبان موروثی طور پر اب تک آدم کی نسل میں چلا آتا ہے اس کا اصل ذمہ دار (بمطابق پیدائش باب ۳ آیت اتا۶) آدم نہ تھا بلکہ حوا تھی.جس نے شیطان کے دھوکے میں آکر آدم کو بہکایا.پس مسیح بوجہ حوا کی اولاد ہونے کے گنہ گار ٹھہرا.(ب) دوسرے تو رات میں بھی لکھا ہے:

Page 207

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 207 وہ جوعورت سے پیدا ہوا ہے وہ کیونکر پاک ٹھہرے.(ایوب باب ۲۵ آیت ۵) اور وہ جو عورت سے پیدا ہوا ہے وہ کیونکر صادق ٹھہرے.(ایوب باب ۱۵ آیت ۱۵) چونکہ مسیح بے گناہ تھا اس لئے وہ خدا ہوا.مگر اس خدائی میں وہ اکیلا نہیں ذکریا بھی گناہ سے پاک تھا.اس لئے وہ بھی خدا ہوا ز کریا کی بیوی بھی گناہ سے پاک تھی اس لئے وہ بھی خدا بلکہ خدا کی بیوی ہوئی.اس حساب سے حضرت یحییٰ علیہ السلام کے ماں باپ دونوں خدا تھے اس لئے وہ بھی خدا ٹھہرا.بلکہ مسیح سے بڑا خدا اسے ہونا چاہئے.ملک صدق سالم بھی خدا ہونے کا مستحق ہے.کیونکہ وہ آدم کی اولاد سے نہ تھا اور جو اولاد آدم سے نہ ہو وہ گناہ سے پاک ہوتا ہے اور جو گناہ سے پاک ہوتا ہے وہ خدا ہوتا ہے پھر تمام فرشتے بھی خدا ہوئے کیونکہ وہ گناہ سے پاک ہیں تمام حیوانات چرند پرند بھی خدائی کے حق دار ہوئے اس فارمولے کے مطابق کیونکہ وہ بھی گناہوں میں آلودہ نہیں.پس مسیح علیہ السلام تو کیا اس دلیل کی رو سے تو ہزاروں لاکھوں خدا ٹھہرے.مسیح کی افضلیت اور خدائی کہاں رہی؟ ایک دلیل یہ بھی الوہیت مسیح کیلئے دی جاتی ہے کہ آپ تین دن مردہ رہ کر پھر زندہ ہو گئے اور آسمان پر چلے گئے.اوّل تو مرنا ہی الوہیت مسیح کے رد کیلئے کافی ہے.دوئم از روئے بائیل یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام جسم کے اعتبار سے مارے گئے اور روح کے اعتبار سے زندہ کئے گئے جیسا کہ لکھا ہے: وہ جسم کے اعتبار سے مارا گیا مگر روح کے اعتبار سے زندہ کیا گیا.“ پھر لکھا ہے: جس طرح یسوع مرکز جیا اسی طرح ہم بھی مر کر جیتے ہیں.(پطرس باب ۳ آیت ۱۸) (رومیوں باب ۶ آیت ۱۰ باب ۸ آیت ۱۱)

Page 208

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - تو پھر آپ کا جینا الوہیت مسیح کیلئے دلیل کیسے ٹھہرا !!! انجیل کی اندرونی شہادت 208 علاوہ ازیں حقیقت یہ ہے کہ مسیح علیہ السلام صلیب پر مارے ہی نہیں گئے تھے بلکہ زندہ اتارے گئے اور مشرقی ممالک کی طرف ہجرت کر گئے.اس موقف کے اختیار کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں جن کو اختصار سے درج کرتے ہیں:...مسیح علیہ السلام کا اپنے واقعہ صلیب کو یونس نبی کے واقعہ سے مشابہت دنیا اور یہ کہنا کہ یونس نبی کے نشان کے سوا کوئی اور نشان نہیں دیا جائے گا.( متی باب ۱۲ آیت ۲۹)...اور یونس علیہ السلام زندہ ہی مچھلی کے پیٹ میں گئے اور زندہ ہی پیٹ میں رہے.اور زندہ ہی نکالے گئے.( یوناه باب ۲ آیت ا تا ۱۰) پس اس طرح مسیح علیہ السلام بھی صلیب سے زندہ اتارے گئے اور زمین کے پیٹ میں رکھے گئے اور زندہ ہی رہے اور زندہ ہی نکالے گئے....پیلاطوس کی بیوی کو خواب آیا تھا اگر مسیح ہلاک ہو گیا تو پھر تم ہلاک ہو جاؤ گے.(متی باب ۲۷ آیت ۱۹) م لیکن وہ ہلاک نہ ہوئے.معلوم ہوا مسیح علیہ السلام بھی بچالئے گئے اور ہلاک نہیں ہوئے.اسی وجہ سے پیلاطوس اس کے چھوڑنے کی کوشش کرنے لگا.( یوحنا باب ۱۹ آیت ۲ امتی باب ۲۷ آیت ۲۳) حضرت مسیح علیہ السلام کی دعا ایلی ایلی لما شبقتنی.(متی باب ۲۷ آیت ۴۶) خدا کے فرستادوں کی دعاسنی جاتی ہے جیسے یوناہ کی دعا مچھلی کے پیٹ میں سنی گئی تھی....پیلاطوس نے ایک یہ تدبیر کی کہ جمعہ کے دن چھٹے گھنٹے میں اس کو صلیب پر چڑھایا اور

Page 209

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل نویں گھنٹے اس کو اتارلیا.209 (متی باب ۲۷ آیت ۵ تا ۴۵) رومیوں کے صوبہ دار اور سپاہی جو حفاظت پر مقرر تھے اور سب لوگ جو وہاں موجود تھے.اندھیرا اور بھونچال دیکھ کر بھاگ گئے.متی باب ۲۷ آیت ۵۴- لوقا باب ۲۳ آیت ۴۸) اس اثناء میں آپ کو اتار کر کہیں منتقل کر دینا زیادہ آسان ہو گیا.یہود کا دستور تھا کہ سبت کے دن کوئی نفعش صلیب پر نہ رکھیں.علاوہ ازیں آپ کی ہڈیاں بھی توڑی نہ گئیں جبکہ ساتھ کے دو چوروں کی ہڈیاں توڑی گئیں.نکلا.( یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۱ تا ۳۳) ایک سپاہی نے یسوع کی پہلی بھالے کی نوک سے چھیدی اور اس سے خون اور پانی ( یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۴) ظاہر ہے کہ مردہ کے جسم سے خون اسطرح بہہ نہیں نکلتا......یوسف آرمیتیا جو نامور مشیر تھا خود خدا کی بادشاہی کا منتظر تھا پیلاطوس کے پاس ہو کر نعش مانگی اور پیلاطوس نے یہ سن کر تعجب کا اظہار کیا کہ یسوع مر گیا ! اور شبہ کیا کہ وہ ایسا جلد مر گیا اور رومی صوبیدار سے دریافت کیا کہ کس قدر دیر ہوئی کہ یسوع مر گیا.( مرقس باب ۱۵ آیت ۴۳ ۴۴ ) یہ بات ظاہر ہے کہ ایک نو جوان اتنی جلدی ہرگز صرف ہاتھ پیر کے زخموں سے ( تین گھنٹوں میں ) مر نہیں سکتا تھا بلکہ مصلوب تو تین تین دن تک زندہ رہتے تھے....یوسف آرمتیا جو یسوع کا پوشیدہ شاگرد تھا اور با رسوخ آدمی تھا.باغ میں آپ کو لے جا کر ایک چٹان میں کھدی ہوئی غار نما قبر میں رکھا اور نقود یمس کو جو یسوع کا شاگرد اور حکیم تھا

Page 210

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل پچاس سیر مر اور عود ملا کر لایا.(یوحنا باب ۱۹ آیت ۳۸ تا ۴۱) 210 کتب طب میں مرہم عیسی ، مرہم رسل یا مرہم حوارین کا نسخہ موجود ہے جو حواریوں یعنی نقودیمس وغیرہ نے یسوع کے زخموں کیلئے تیار کیا تھا جس سے یسوع زخموں سے اچھا ہوا تھا اور یہ نسخه بطور یادگار کتب طب میں اب تک موجود ہے.تفصیل کیلئے دیکھیں مسیح ہندوستان میں صفحہ ۵۶-۵۷) (روحانی خزائن اول ایڈیشن مطبوعہ الشركة الاسلامیہ ربوہ، پاکستان )...جمعہ کی شام کو باغ والی قبر میں رکھا علاج کیا اور ہوش آنے پر نکال لے گئے اور اتوار کو مریم مگر لینی گئی تو نہ پایا.( یوحنا باب ۲۰ آیت ۲) ( یوحنا باب ۲۰ آیت ۱۵ تا ۱۹) یہ کہہ کر وہ پیچھے پھری اور یسوع کو کھڑے دیکھا اور نہ پہچانا کہ یہ یسوع ہے....یسوع نے اس سے کہا اے عورت تو کیوں روتی ہے کس کو ڈھونڈتی ہے؟ اس نے باغبان سمجھ کر اس سے کہا.میاں اگر تو نے اس کو یہاں سے اٹھایا ہو تو مجھے بتا دو کہ اسے کہاں رکھا ہے تا کہ میں اسے لے جاؤں.یسوع نے اس سے کہا مریم ؟ اس نے مڑ کر اس سے عبرانی زبان میں کہا ر بونی یعنی اے استاد مریم مگدینی نے آکر شاگردوں کو خبر دی کہ میں نے خداوند کو دیکھا اور اس نے مجھ سے باتیں کیں.پھر لوقا باب ۲۴ آیت ۳ میں ہے کہ آپ علیہ السلام ان سے ملے ( حواریوں) نے آپ کو نہ پہنچانا کیونکہ مسیح علیہ السلام دوبارہ پکڑے جانے سے بچنے کی خاطر باغبانوں کے لباس میں ملبوس تھے یہی وجہ ہوئی کہ مریم اور شاگرد فوراً پہچان نہ سکے.دوسرے صلیب سے اتارے جانے اور آپ کے علاج معالجے کے متعلق سب کو معلوم بھی نہ تھا صرف یوسف آرمیتا اور حکیم نفود یمس جانتے تھے.جیسا کہ یوحنا باب ۹ آیات ۳۸ تا ۴۱ میں اس کا ذکر ہے.....یسوع مریم مگدلینی کو نظر آیا اور پیغام دیا کہ باقی شاگردوں کوخبر کر دومگر شاگرد یہ سن کر کہ یسوع جاتا ہے اور ان کو دکھائی دیا یقینی نہ لائے.(مرقس باب ۱۶ آیت ۱۰-۱۱)

Page 211

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 211...پھر وہ اپنے شاگردوں کو دکھائی دیا مگر ان کے کہنے پر بھی باقی شاگر د یقین نہ لائے.(مرقس باب ۲۲ آیت ۱۲-۱۳) آخر وہ ان گیارہ شاگردوں پر ظاہر ہوا اور ان کی بے ایمانی اور سنگدلی پر ملامت کی کہ ( مرقس باب ۱۹ آیت ۱۴) وہ کیوں اس کے زندہ ہونے پر ایمان نہ لائے.متی کہتا ہے کہ شاگرد آخر تک اس کے زندہ ہونے پر شک کرتے رہے ( باب ۲۸ آیت ۱۷) لوقا کہتا ہے فرشتوں نے عورتوں کو صاف کہا تھا کہ یسوع زندہ ہے.( باب ۲۴ آیت ۲۳)...شاگردوں کو یقین دلانے کیلئے کہ میں ہی ہوں ان کو کہا کہ مجھے چھو کر دیکھو کیونکہ روح کو جسم اور ہڈی نہیں جیسا کہ مجھ میں جسم اور ہڈی دونوں دیکھتے ہو ساتھ ہی ہاتھ اور پیروں کے زخم دکھائے تا کہ یقین ہو جائے کہ مسیح جسم سمیت موجود ہے چنانچہ یسوع نے شاگردوں کو تسلی دی کہ وہ اس انسانی جسم کے ساتھ ہے اور مرا نہیں ہے.شاگروں کو مزید اطمینان دلانے کیلئے ان سے بھونی ہوئی مچھلی لیکر کھائی.(لوقا باب ۲۴ آیت ۴۱ تا ۴۳) تا کہ انہیں معلوم ہو جائے کہ یونا نبی والا نشان جس کا وعدہ کیا گیا تھا اپنی پوری شان کے ساتھ پورا ہو چکا ہے جو اس کی سچائی کا ثبوت ہے اور یہودی پلان کے مطابق وہ صلیب پر مر کر ملعون نہیں ہوا بلکہ صلیبی موت سے بچکر مرفوع ہو گیا ہے.اور وہ مقرب الہی ہے اور ان معنوں میں انجیل محاورہ کے مطابق خدا کا پیارا بیٹا ہے.مکتوب یروشلم ۱۸۷۳ میں مصر میں اسکندریہ کے آثار قدیمہ میں ایک قدیم راہب خانے سے واقعہ صلیب سے تھوڑا ہی عرصہ بعد کا لکھا ہوا ایک خط ملا ہے.جوایسینی فرقہ کے ایک راہب نے اپنے سلسلہ

Page 212

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 212 کے ایک اور رکن کو یروشلم سے اسکندریہ بھیجا تھا.یہ مکتوب ۱۹۰۷ء میں امریکن کمپنی شکا گونےAn (Eye Witness (Kissinger Publishing (LLC کے نام سے شائع کیا تھا.اس میں صلیب کے بعد کی زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے.لکھا ہے کہ مسیح نے کہا: میں یہ نہیں بتا سکتا کہ اب کہاں جاؤں گا کیونکہ میں اس امر کو مخفی رکھنا ضروری سمجھتا ہوں اور میں سفر بھی تنہا ہی کروں گا.“ اس خط میں یہ بھی لکھا ہے کہ: مسیح علیہ السلام کو صلیب سے زندہ اتار لیا گیا تھا اور ایسینی طبیب نقودیمس نے آپ کے زخموں کا علاج کیا تھا اور آپ خفیہ طور پر یروشلم سے ہجرت کر گئے.آگے چل کر لکھا ہے: جب حواریوں نے گھٹنے ٹیکے ہوئے تھے اور ان کے چہرے زمین کی طرف جھکے ہوئے تھے.یسوع اٹھا اور جلدی سے اس مجمع سے باہر چلا گیا لیکن شہر میں یہ افواہ پھیل گئی که یسوع بادل میں سے ہو کر آسمان پر چلا گیا (غالبا یہ خبر ان لوگوں نے تراشی تھی جو مسیح کے رخصت کے وقت موجود نہ تھے ) یا پہاڑ پر چڑھتے وقت ایسا ہوتا بھی ہے کہ بادل درمیان میں حائل ہو جاتے ہیں.“ مسیح علیہ السلام کا کفن جرمن سائنس دانوں کی ایک پارٹی نے آٹھ سال تک مسیح کے مزعومہ کفن کے متعلق تحقیق کر کے ۱۹۵۷ء میں دنیا کو اپنی تحقیقات کے نتائج سے آگاہ کیا ہے اور اس کی پوری تفصیل کرٹ برنا“ کی تصنیف ” اس لیفن میں ملتی ہے اٹلی کے شہر Turin میں یہ کفن موجود ہے جس میں مسیح کو صلیب سے اتارنے کے بعد لپیٹا گیا تھا اس کپڑے پر لگے ہوئے زخموں کے اور خون اور مرہموں

Page 213

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 213 اور دھنیت کے نشانات کو موجودہ زمانہ کی ترقی یافتہ فوٹو گرافی کی روشنی میں واضح کر رہے ہیں کہ مسیح جب صلیب سے اتارے گئے تھے تو زندہ تھے.سائنس دانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ جس واقعہ کو معجزہ سمجھا جاتا ہے.وہ طبعی واقعہ ہے.پوپ نہم نے اس کپڑے سے حاصل شدہ تصویر کو دیکھ کر کہا کہ یہ کسی انسانی ہاتھ کی بنائی ہوئی تصویر نہیں ہے.اناجیل کہتی ہیں کہ مسیح نے صلیب پر جان دے دی تھی مگر سائنس دان مقر ہیں کہ دل نے عمل کرنا بند نہیں کیا تھا.کپڑے کا خون کو جذب کرنا بتا تا ہے کہ مسیح صلیب سے اتارے جانے کے وقت زندہ تھے اس میں آپ کے سانس کا عمل جاری رہنے کی وجہ سے سینہ کے ڈبل نشان آئے ہیں یہ چادر معجزانہ طور پر ایک نیگیٹو میں تبدیل ہوگئی ہے ا ہے.صرف پہلو سے جو خون آخر تک رستا رہا وہ Positive ہے.جرمن سائنس دانوں کی اس تحقیق پر تبصرہ سکنڈے نیویا کے ایک اخبار Stock Holms Tidiningen Christr Iderlim Dierlim نے اپنی ۱۲ اپریل ۱۹۵۷ء کی اشاعت میں کیا ہے.بحیرہ مردار کے صحیفے " ۱۹۴۷ء میں ایک بدو کو اپنی بکری کی تلاش کے دوران ان کا علم ہوا یہ صحیفے مقدس لائبریری ہے.جو ابتدائی عیسائیوں نے محفوظ رکھنے کی غرض سے غاروں میں منتقل کر دی تھی The Dead Sea Cummunity by Kart Schvbert p 25 مطبوعہ A&C Black 1959 London) اس میں ایک نظموں کی کتاب ہے جس کو پڑھ کر یہ احساس ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کے یہ وہ گیت ہیں جو آپ نے صلیب سے بچ جانے کے بعد خدائی حمد سے سرشار ہو کر کہے تھے چند اقتباسات بطور نمونہ کے پیش ہیں:...اے میرے خداوند میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تیری نگا ہیں میری روح پر مرکوز ہیں تو نے مجھے ان کے غضب سے بچالیا ہے جو تیری جھوٹی حمد کرتے ہیں تو نے

Page 214

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - غریب کی جان بچائی جس کا خون وہ اس غرور کی تشہیر کے لئے بہانا چاہتے تھے کہ وہ تیرے عبادت گزار ہیں.(زبورم) 214 شرپسندوں کے کہنے پر مجھے لعنت و ملامت کیلئے چنا.لیکن اے میرے خدا تو زور آور کے ہاتھ سے بچانے کیلئے غریب اور بے آسرا کی مدد کو پہنچا تو نے مجھے ہمت عطا کی کہ میں ان کی شیطانی تدابیر اور رومنوں کے پاس مخبری کے خوف سے تیری عبادت کو ترک کرنے کے گناہ سے بچا رہا....اے میرے خدا میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تو نے میری روح کو زندگی کے بندھن میں باندھا ظالموں نے میری جان لینے کی کوشش کی کیونکہ میں تیرے عہد پر قائم ہوں انہوں نے سمجھا لیکن تیرے حضور میرا موقف محکم ہے..تیری ہی مرضی ہے کہ وہ میری جان پر قابو نہیں پاسکتے میرا قدم سچائی پر پوری طرح گامزن رہے گا اور میں یہود کے حلقوں میں تیرے نام کی ثنا کروں گا.(زبور۳)...خداوند میں تیری حمد کرتا ہوں کہ تو نے ایک غیر اور اجنبی ملک کے سفر میں بھی میرا ساتھ نہیں چھوڑا...تو بے بسی میں میرا آسرا ہوگا تو مجھے ایک اجنبی سرزمین میں لے آیا ہے.(زبور ۱۰) The Scrolls From the Dead Sea by Edmond and Geza Vermes, published by Penguin Books ltd.27, Wrights Lane W8 5T2 London 1998) حضرت مسیح علیہ السلام کی تصاویر انسائیکلو پیڈیا آف برٹیز کا جلد۱۴ میں حضرت مسیح کی تین تصاویر عیسائیوں کی طرف سے شائع ہوئی ہیں ان پر ایک نظر ڈالنے سے یہ بات معلوم ہو جاتی ہے کہ ایک آپ کی جوانی کی اور دوسری

Page 215

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل 215 ادھیڑ عمر کی تصویر ہے سوال پیدا ہوتا ہے کہ آپ کی بڑھاپے کی تصاویر کہاں سے آئی اور چرچ نے کیوں انہیں محفوظ رکھا ہوا ہے.نیز ان میں سے ایک وہ بھی ہے جو آپ کے کفن مسیح سے حاصل کی گئی ہے.یہ بھی اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ آپ بڑھاپے کی عمر کو پہنچے تھے.☆ کتاب Jesus in Rome را برٹ گریوز اور جوشوا پوڈرو نے اپنی کتاب میں تاریخی اور سائنسی شواہد سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے صلیب پر وفات نہیں پائی.آپ کا اپنے مادی جسم کے ساتھ آسمان پر جانا ثابت نہیں اور نہ ہی طبیعی لحاظ سے ممکن ہے یہ مصنفین لکھتے ہیں: اس امر پر کلیسیا کا اتفاق معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال کہ مسیح علیہ السلام کو ہ زیتون کے نزدیک حواریوں سے مادی جسم میں رخصت ہو کر کہاں گئے تھے.صرف ایمان کے ذریعے سے ہی حل ہو سکتا ہے مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ مسیح کے آسمان پر اٹھائے جانے کا عقیدہ جو ہری طبیعات Nuclear Physics کے پیچیدہ نتائج کے متناقض ہے.حضرت مسیح کے گوشت اور خون والے جسم کیلئے جو کائنات میں مشینی امداد کے بغیر پرواز کرنا ناممکن تھا یا ان کے جسم کے فوری طور پر Dematerialize ہو جانے کے نتیجہ میں ایسی جوہری طاقت پیدا ہوتی جو سارے یروشلم اور فلسطین کو تباہ کر کے رکھ دیتی اور تاریخ میں یہ حادثہ کبھی واقعہ نہیں ہوا.“ (4 Jesus in Rome page رابرٹ گریوز اور پیشو عاپوڈ رو مطبوعہ.Cassel & Co (1957 انجیل مرقس کا آخری ورق دنیائے عیسائیت نے انجیل کے آخری ابواب پر اس عقیدہ کی بنیاد رکھی ہے.لیکن طویل تحقیقات کے بعد علماء بائیبل نے 1946 ء میں Revised Standard Version میں

Page 216

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 216 متن میں سے یہ آیات خارج کر کے حاشیہ پر درج کر دی ہیں اس سلسلہ میں جان ولیم برگن کی تحقیقات یہ ہیں کہ انجیل مرقس کے باب آٹھ کی آٹھویں آیت کے بعد یونانی لفظ Teaos یعنی ختم شدہ لکھا ہوا تھا.(The Revision, Revised by J.W.Burgon B D Dean of Chichoster (510 page 1883 مطبوعہ 1883 J.Murray مشہور سکالرسی آرگریگوری نے لکھا ہے کہ : فریڈرک کارن والس کان بیر کو ایک قدیمی آرمینی نسخہ ملا ہے جس میں مرقس کی ان آیات کو پر بسٹر ارسٹن کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور ان کا مصنف مرقس نہیں ہے.“ دوسری طرف انہیں ایک انجیل مرقس کا نسخہ کوہ اتھ اس سے ملا ہے اس میں آخر میں لکھا ہے: اس کے بعد یسوع خود بھی مشرق سے ظاہر ہوا اور اس نے لوگوں کے ذریعہ مغرب تک مقدس بے عیب اور دائمی نجات کے پیغام کو پہنچایا.آمین.“ (Canan and the Text of the New Testament by C.R.Gregory page 511.Published by T & T Clark, Edinburgh 1970) مذکورہ بالا دلائل اور انکشافات جدیدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام کا صلیب پر مارا جانا اور مر کر دوبارہ زندہ ہونا ایک افسانہ ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں.چنانچہ ایسی کمزور بنیاد پر الوہیت مسیح کی عمارت تعمیر کرنا، دور اندیشی اور عقلمندی نہیں ہو سکتی بلکہ حقیت یہ ہے کہ آپ صلیب سے زندہ اتارے گئے اور علاج کے بعد تندرست ہوئے اور پھر مشرقی ممالک کی طرف ہجرت کر گئے.آپ کا مقبرہ سرینگر محلہ خانیار میں موجود ہے اور یہ کشمیر کا دارالخلافہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بانی جماعت احمدیہ نے اپنی کتاب ” مسیح ہندوستان میں بہت سے عقلی اور نقلی دلائل و براہین درج فرمائے ہیں اور ان تاریخی شواہد کے ساتھ ساتھ انا جیل سے ہمیں ایسے بیانات بھی ملتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مسیح علیہ السلام اس فانی جسم کے ساتھ آسمان پر نہیں

Page 217

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل گئے لکھا ہے کوئی آسمان پر نہیں گیا.پھر لکھا ہے مسیح پہلے بھی آسمان ہی سے آیا تھا.217 ( یوحنا باب ۲ آیت ۱۳) ( یوحنا باب ا آیت ۳۸ اور باب ۶ آیت ۶۲ ۶۳) لہذا جیسے وہ پہلے روحانی طور پر آسمان سے آیا تھا ویسے ہی روحانی طور پر اس کا رفع ہوا نہ کہ بزعم یہود صلیب پر مارے جانے کے بعد ملعون ہوا اور جیسا کہ انہوں نے کہا تھا کہ میں تمہارے لئے جگہ تیار کرنے جاتا ہوں.( یوحنا باب ۱۴ آیت ۳۲) آپ روحانی طور پر مرفوع ہو کر خدا کے مقرب ٹھہرے اور آپ کے شاگرد بھی جو آپ کے ساتھ تھے روحانی طور پر مرفوع ہوئے.عیسائی صاحبان یہ بھی کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں چونکہ آپ کو روح اللہ“ کہا گیا ہے اور اسی طرح ”روح منہ“ کے الفاظ بھی بیان ہوئے ہیں کلمة اللہ بھی کہا گیا ہے لہذا آ.خدائی مقام پر فائز ہیں.پس قرآن کریم میں کلمہ اور روح کے وہی معنی لینے درست ہوں گے جن معنوں میں قرآن مجید نے ان الفاظ کو استعال کیا ہے.قرآنی معنوں کو چھوڑ کر خود سے کچھ معنے کرنا کس طرح درست ہو سکتے ہیں؟ قرآن کریم نے مسیح کا مقام صرف رسول نبی اسرائیل قرار دیا ہے انہیں ہرگز ذات الہ بیان نہیں کیا.پھر قرآن کریم کے نزدیک اللہ تعالیٰ کے کلمات تو بے شمار ہیں.فرماتا ہے: قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي لَتَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ گلِممْتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًاه (سورة الكهف آیت ۱۱۰)

Page 218

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - ترجمہ: تو انہیں کہہ دے (کہ) اگر ( ہر ایک ) سمندر میرے رب کی باتوں (کے لکھنے ) کیلئے روشنائی بن جاتا ہے تو میرے رب کی باتوں کے ختم ہونے سے پہلے ( ہر ایک) سمندر ( کا پانی ختم ہو جا تا گو (اسے) زیادہ کرنے کیلئے ہم اتنا (ہی ) اور ( پانی سمندر میں ) ڈالتے.218 کہ اگر سمندر خدا کے کلمات کیلئے سیاہی بن جائیں تو خدا کے کلمات ختم ہونے سے پہلے سمندر ختم ہو جائیں.اب اگر کلمہ سے مراد الہی ذات ہو تو پھر تو لاکھوں کروڑوں بلکہ بے شمار خدا مانے پڑیں گے.حالانکہ قرآن مجید اللہ تعالیٰ کو احد قرار دیتا ہے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہیں دیتا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السلام کے لئے بھی فرماتا ہے : ثُمَّ سَوْهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهِ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ (سورة السجدة: آيت ١٠) ترجمہ: پھر اس کو مکمل طاقتیں دیں اور اس میں اپنی طرف سے روح ڈالی اور تمہارے لئے کان ، اور آنکھ ، اور دل بنائے.مگر تم بالکل شکر نہیں کرتے.نیز فرشتوں کو حکم دیا: فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِي فَقَعُوْالَهُ سَجِدِ يْنَ ٥ (سورة الحجر: آیت (۳۰) کہ جب میں اسے مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونکوں تو تم اس کے اعزاز کیلئے خدا کے حضور سجدہ میں گر جاؤ.اب اگر عیسائی صاحبان قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کو روح منہ کہنے کی وجہ سے ذات الہ قرار دیتے ہیں تو پھر انہیں آدم کو بھی ذات الہ ماننا چاہئے کیونکہ قرآن کریم تو آدم میں بھی خدائی روح کارفرما بتاتا ہے جب قرآن کریم حضرت مسیح علیہ السلام

Page 219

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل کا مقام ایک نبی اور رسول سے بلند قرار نہیں دیتا اور صاف فرماتا ہے: لَقَدْ كَفَرَ الَّذِيْنَ قَالُوا إِنَّ اللهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ.ط 219 (سورة المائدة: آیت (۱۸) کہ بے شک ان لوگوں نے کفر کیا ہے جنہوں نے کہا ہے کہ مسیح ابن مریم ہی اللہ ہے لہذا عیسائی صاحبان کو قرآن مجید کے حوالے سے یہ کہنے کا کوئی حق نہیں کہ مسیح کو روح منہ کہہ کر ذات الہ قرار دیا جائے.دراصل روح منه کہنے سے فقط یہ مراد ہے کہ مسیح کوئی نا پاک روح نہ تھا بلکہ خدا کی پاک روحوں میں سے ایک روح تھا.میسیج کو کلمہ اور روح منہ کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ یہودی مسیح کی بن باپ پیدائش کی وجہ سے ان پر نا پاک ولادت کا الزام لگاتے تھے اور حضرت مریم صدیقہ پر بھی اسی وجہ سے بہتان تراشی کرتے تھے.اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بتایا ہے کہ وہ پیشگوئی کے مطابق پیدا ہوئے تھے اور پاک روح رکھتے تھے.ناپاک روح نا تھے جیسا کہ یہود کا خیال تھا.بائیبل میں بھی خدا کی روح کا لفظ نبیوں اور پاک لوگوں کیلئے استعمال ہوا ہے اور انہیں ذات اله نہیں قرار دیا گیا.پیدائش باب ۴۱ آیت ۳۷ میں ہے کہ بادشاہ مصر نے حضرت یوسف کے متعلق کہا: سو فرعون نے اپنے خادموں سے کہا ہم کو ایسا آدمی جیسا یہ ہے جس میں خدا کی روح ہے مل سکتا ہے؟“ پھر خروج باب ۳۵ آیت ۳۱ میں لکھا ہے بطلی ایل کے متعلق کہ: وو ” دیکھو خداوند نے بطلی ایل بن لاوی کو جو یہوداہ کے قبیلہ میں سے ہے نام لیکر بلایا ہے اور اس نے اسے حکمت اور فہم اور دانش اور ہر طرح کی صنعت کیلئے روح اللہ سے

Page 220

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ از روئے قرآن و انجیل.معمور کیا.“ پھر اعمال باب ۲ آیت ۱۷ میں ہے کہ: 220 ” خدا نے کہا آخری دنوں میں ایسا ہوگا کہ میں اپنی روح میں سے لیکر ان پر نظر 66 ڈالوں گا اور تمہارے بیٹے اور بیٹیاں نبوت کریں گی.“ نیز دیکھیں: حر قیل باب ۳۷ آیت ۴ اگنتی باب ۲۴ آیت ۲ باب ۲۷ آیت ۱۸ خروج باب ۳۱ آیت ۳ دانیال باب ۴ آیت ۸-۹ یسعیاہ باب ۶۱ آیت انحمیاہ باب ۹ آیت ۳۰.لوقا باب ۱ آیت ۳۵.باب ۱ آیت ے.بابا آیت ۱۰.اعمال باب ۱۲ آیت ۴ کرنتھیوں باب ۱۳ آیت ۳۴) پس اس وجہ سے کہ آپ کو کلمتہ اللہ اور روح اللہ کہا گیا ہے از روئے قرآن کریم آپ کی الوہیت کو ثابت کرنا محال ہے جبکہ قرآن کریم صاف طور پر کہتا ہے: وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلَثَهُ، اِنْتَهُوا خَيْرًا لَّكُمْ (سورة النساء: آیت ۱۷۲) کہ خدا تین ہیں نہ کہا کرو اس سے باز آ جاؤ یہی تمہارے لئے بہتر ہے." وسیلہ" کا لفظ ”انا جیل میں حضرت مسیح علیہ السلام کے متعلق استعمال ہوا ہے جس کو بھی بعض لوگ آپ کی خدائی کیلئے بطور دلیل کے پیش کرتے ہیں.حالانکہ انا جیل میں وسیلہ بمعنی معرفت استعمال ہوا ہے جیسا کہ لکھا ہے: کیونکہ اس نے ایک دن ٹھہرایا ہے جس میں وہ راستی سے دنیا کی عدالت اس آدمی کی معرفت کرے گا جسے اس نے مقرر کیا ہے.“ (اعمال باب ۱۷ آیت ۳۱ ) ' تب بھی تو بہت برس تک ان کی برداشت کرتارہا اور اپنی روح سے یعنی اپنے نبیوں کی معرفت سے انہیں سمجھا تارہا ہے.“ نیز لکھا ہے: (نحمیاہ باب ۹ آیت ۳۰)

Page 221

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل تو نے روح القدس کے وسیلہ سے ہمارے باپ اپنے خادم داؤد کی زبانی فرمایا.“ 221 (اعمال باب ۱۴ آیت ۲۵) ان حوالہ جات کی رو سے تمام انبیاء انسانوں کیلئے وسیلہ ٹھہرے پھر حضرت مسیح علیہ السلام کی فضیلت کہاں باقی رہی ! لغت کی کتب میں بھی وسیلہ کے یہی معنی لکھے ہیں.الوسيلة ما يتقرب به الى الغير المنزلة عند الملوك.الدرجة.پس وسیلہ کے معنی مقرب الہی اور صاحب کے درج ہیں نہ کہ ذات الہی اور خدا کے.بعض لوگ مسیح علیہ السلام کے مجرات کو بھی آپ کی الوہیت کے لئے بطور ثبوت پیش کرتے ہیں جب کہ ویسے ہی معجزات دیگر انبیاء اور صلحاء بھی جو کہ انسان تھے پیش فرماتے رہے.مثلاً : مُردوں کو زندہ کرنا لو حلو الیسعیاہ نے مردے زندہ کئے.( سلاطین باب ۴ آیت ۳۵) ہو ی حزقیل نے ہزاروں مردے زندہ کئے.( حز قیل باب ۳۷ آیت ۱۰) (اسلاطین باب ۱۷ آیت ۲۲) ہے کہ ایلیا نے مردے زندہ کئے.ہلے الیسعیاہ کی لاش نے ایک مردہ زندہ کیا.(۲ سلاطین باب ۲۱ آیت ۲) موسیٰ اور ہارون نے لکڑی میں جان ڈالی.( خروج باب ۷ آیت ۱۰) موسیٰ اور ہارون نے گردو غبار کو جوئیں بنایا.(خروج باب ۷ آیت ۱۰) حمل حمله پطرس اور پولوس نے مردہ زندہ کیا.(اعمال) انجیل سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ مردوں سے مراد روحانی مردے ہیں نہ کہ جسمانی اور زندگی سے مراد یسوع پر ایمان لانا ہے.دیکھیں حوالے افسیوں باب ۲ آیت ۱ تا ۵.یوحنا باب ۱۷ آیت ۴)

Page 222

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل نہ کہ موت کے بعد دوبارہ جسمانی طور پر زندہ ہونا.222 ( دیکھیں حوالے یوحنا باب ۲۰ آیت ۲۱، کرنتھیوں باب ۱۵ آیت ۳۲) بیماروں کو اچھا کرنا یسعیاہ نے نعمان سپہ سالار کو ، جو کوڑھی تھا، اچھا کیا.یوسف نے اپنے باب یعقوب کو آنکھیں دیں.(۲ سلاطین باب ۵ آیت (۱۴) ( پیدائش باب ۴۶ آیت ۴۳) یہ بھی جاننا چا ہے کہ انجیل میں بیماروں سے مراد روحانی بیمار ہیں اور روحانی مردے ہیں.دیکھیں حوالے مرقس باب ۱۲ آیت ۷ اپطرس باب ۲ آیت ۲۴ منتی باب ۱۳ آیت ۱۳.باب ۱۵ آیت ۳۰ یوحنا باب ۹ آیت ۳۹ پطرس باب ۲ آیت ۲۴ کھانا بڑھانا و و ایلیا نے مٹھی بھر آئے اور تھوڑے تیل کو بڑھا دیا کہ وہ سال تک تمام نہ ہوا.ہ یسعیاہ نے تیل بڑھا دیا.( سلاطین باب ۱۷ آیت ۱۳ تا ۱۶) (۲ سلاطین باب ۴ آیت ۲) بغیر کشتی کے سمندر پر چلنا لله الله موسیٰ نے لٹھ مار کر سمندر پھاڑ دیا.( خروج باب ۱۴ آیت ۲۱) یوشع نے دریائے پر دن کو خشک کر دیا.(یوشع باب ۴ آیت ۱۳) ایلیاء نے دریا کے دوٹکڑے کر دیئے.(۲ سلاطین باب ۲ آیت ۸)

Page 223

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - انا جیل سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ معجزات الوہیت کا نہیں بلکہ ایمان کا ثبوت ہیں.متی باب ۱۰ آیت ا میں لکھا ہے: پھر اس نے بارہ شاگردوں کو پاس بلا کر ان کو ناپاک روحوں پر اختیار بخشا کہ ان کونکالیں اور ہر طرح کی بیماری اور ہر طرح کی کمزوری دور کریں.“ مرقس باب ۱۶ آیت ۱۲ تا ۱۸ میں لکھا ہے: ایمان لانے والوں کے درمیان یہ معجزے ہوں گے وہ میرے نام سے بدروحوں کو نکالیں گے.نئی نئی زبانیں بولیں گے سانپوں کو اٹھالیں گے کوئی ہلاک کرنے والی چیز پئیں گے تو ان کو کچھ ضرر نہ ہوگا.وہ بیماروں پر ہاتھ رکھیں گے تو اچھے ہو جائیں گے.اسی طرح یوحنا باب ۱۴ آیت ۱۲ میں لکھا ہے : میں تم سے سچ سچ کہتا ہوں کہ جو مجھ پر ایمان رکھتا ہے یہ کام میں جو کرتا ہوں وہ بھی کرے گا کیوں کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں 223 چنانچہ بعض اوقات منجزات اور نشانات ثبوت الوہیت تو کیا ثبوت صداقت بھی نہیں ہوتے.جیسا کہ مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں: کیونکہ جھوٹے مسیح اور جھوٹے نبی اُٹھ کھڑے ہوں گے اور ایسے بڑے نشان اور عجیب کام دکھائیں گے کہ اگر ممکن ہو تو برگزیدوں کو بھی گمراہ کرلیں.“ ( متی باب ۲۴ آیت ۲۴) انجیل کا مندرجہ ذیل اقتباس عیسائی صاحبان کی ان تمام موشگافیوں کیلئے جودہ الوہیت مسیح کے ثابت کرنے کیلئے کرتے ہیں ایک عمدہ تبصرہ ہے.لکھا ہے: اگر چہ انہوں نے خدا کو مان لیا ہے مگر اس کی خدائی کے لائق اس کی بڑائی اور

Page 224

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل شکر گزاری نہ کی بلکہ وہ باطل خیالات میں پڑ گئے ہیں اور ان کے بے سمجھ دلوں پر اندھیرا چھا گیا ہے وہ اپنے آپ کو دانا جتا کے بیوقوف بن گئے اور غیر فانی خدا کے جلال کو فانی انسانوں اور پرندوں اور چوپاؤں اور کیڑے مکوڑوں کی صورت میں بدل ڈالا.“ 224 (رومیوں باب ۱ آیت ۲۱ تا ۲۳) ہے صَاحِبُ البيت أدرِى مَا فِيهِ یعنی گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے.دلائل درباره تردید الوہیت مسیح علیہ السلام حضرت بانی جماعت احمد یہ مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی صداقت ثابت کرنے کیلئے اس زمانہ میں جو عظیم الشان امور سرانجام دیئے ہیں ان میں سے ایک عیسائی مذہب کے غلط عقائد اور باطل خیالات کا رڈ بھی ہے.اس لئے آپ کے پیش کردہ دلائل ہی یہاں پیش کئے جائیں گے کیونکہ آپ ہی حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق کا سر صلیب ہیں.الوہیت مسیح کا عقیدہ عیسائیت کیلئے رگ جان کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ ایک بنیادی اینٹ اور مرکزی نقطہ ہے جس پر عیسائیت کے عقائد.تثلیث وکفارہ کی عمارت استوار ہوتی ہے.پس اس ایک بنیاد کے غلط ثابت ہو جانے سے عیسائیت کے سب عقائد باطل قرار پاتے ہیں.کیوں کہ جب مسیح علیہ السلام کی الوہیت ہی نہ رہی تو تثلیث خود بخود دٹوٹ گئی اور جہاں آپ کی بشریت ثابت ہوئی وہاں ہی آپ کو خدا یا خدا کا بیٹا قرار دیکر اس سے نجات کیلئے کفارہ کا عقیدہ بنا لینے کا تارو پود بکھر گیا.پہلی دلیل : ابطال الوہیت صحیح کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اوّل دلیل استقرائی کو بیان فرمایا ہے.یہ دلیل آپ نے اپنے مباحثہ جنگ مقدس میں اول نمبر پر پیش فرمائی ہے.آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ مسیح علیہ السلام کا خدایا خدا کے بیٹے کے طور پر دنیا میں

Page 225

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل آنا استقراء کے خلاف ہے.اور اس دلیل کو قرآن کریم کی آیت 225 مَا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِهِ الرُّسُلُ.(سورة المائده : آیت (۷۶) میں بیان فرمایا گیا ہے.آپ علیہ السلام نے استقراء کی یہ تعریف بیان فرمائی کہ : استنقرا اس کو کہتے ہیں کہ جزئیات مشہودہ کا جہاں تک ممکن ہے تتبع کر کے باقی جزئیات کا انہی پر قیاس کر دیا جائے یعنی جس قدر جزئیات ہمارے سامنے ہوں یا تاریخی سلسلہ میں ان کا ثبوت مل سکتا ہو تو جو ایک خاص شان اور ایک خاص حالت قدرتی طور پر وہ رکھتے ہیں اس پر تمام جزئیات کا اس وقت تک قیاس کر لیں جب تک ان کے مخالف کوئی اور جز کی ثابت ہو کر پیش نہ ہو.“ جنگ مقدس صفحہ ۳۱ ۳۲ - روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان ) پھر استدلال فرماتے ہیں کہ: مسیحی تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مسیح ایک رسول اور نبی تھے اب نظر ڈال کر دیکھو تو ظاہر ہے سب نبی اور رسول انسان تھے اسی استقراء سے ثابت ہوا کہ حضرت مسیح بھی جو با اتفاق فریقین ( مسلمان و عیسائی ) رسول نبی تھے انسان ہی تھے کیونکہ کوئی رسول اور نبی خدا یا خدا کا بیٹا نہ تھا ( آپ علیہ السلام مزید وضاحت فرماتے ہیں) کہ قیاس استقرائی دنیا کے حقائق ثابت کرنے کیلئے اول درجہ کا مرتبہ رکھتی ہے.تو اس جہت سے اللہ جل شانہ نے سب سے پہلے قیاس استقرائی کو ہی پیش کیا ہے.اور فرمایا ہے.قد خلت من قبله الرسل.یعنی حضرت مسیح بے شک نبی تھے اور اللہ جل شانہ کے پیارے رسول تھے مگر وہ انسان تھے تم نظر اٹھا کر دیکھو کہ جب سے یہ سلسلہ تبلیغ اور کلام الہی کے نازل کرنے کا شروع ہوا ہے ہمیشہ اور قدیم سے انسان ہی رسالت کا مرتبہ پا کر دنیا میں آتے رہے

Page 226

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 226 ہیں یا کبھی اللہ تعالیٰ کا بیٹا بھی آیا ہے اور خلت کا لفظ اسطرف توجہ دلاتا ہے کہ جہاں تک تمہاری نظر تاریخی سلسلہ کو دیکھنے کیلئے وفا کر سکتی ہے اور تم گذشتہ لوگوں کا حال معلوم کر سکتے ہو خوب سوچو اور سمجھو کہ کبھی سلسلہ ٹوٹا بھی ہے کیا تم کوئی ایسی نظیر پیش کر سکتے ہو جس سے ثابت ہو سکے کہ یہ امرممکنات میں سے ہے پہلے بھی کبھی کبھی ہوتا آیا ہے.سو عقلمند آدمی اس جگہ زرا ٹھہر کر اللہ جل شانہ کا خوف کر کے دل میں سوچے کہ حادثات کا سلسلہ اس بات کو چاہتا ہے کہ اس کی نظیر بھی کبھی کسی زمانہ میں پائی جائے.جنگ مقدس صفحه 9 - روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان ) آپ علیہ السلام نے فرمایا: خدا کا کوئی فعل اس کی قدیم عادت سے مخالف نہیں اور عادت کثرت اور کلیت کو چاہتی ہے اگر در حقیقت بیٹے کو بھیجنا خدا کی عادت میں داخل ہے تو خدا کے بہت سے بیٹے چاہئیں تا عادت کا مفہوم جو کثرت کو چاہتا ہے ثابت ہوتا بعض بیٹے جنات کے لئے مصلوب ہوں اور بعض انسانوں کیلئے اور بعض ان مخلوقات کیلئے جو دوسرے اجرام میں آباد ہیں.یہ اعتراض بھی ایسا ہے کہ ایک لحظہ کے لئے بھی اس میں غور کرنا فی الفور عیسائیت کی تاریکی سے انسان کو چھوڑ دیتا ہے.کتاب البریہ صفحه ۵۹ - ۶۰ - روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان ) یہ دلیل جب عیسائی صاحبان کے سامنے پیش کی جاتی ہے اور مثال مانگی جاتی ہے تو مسیح علیہ السلام کی ہی مثال پیش کر دیتے ہیں.اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اور یہ کہو کہ آگے تو نہیں آیا مگر اب تو آ گیا ہے تو فن مناظرہ میں اس کا نام مصادره علی المطلوب ہے یعنی جو امر متنازعہ فیہ ہے اس کو بطور دلیل پیش کر دیا جائے مطلب یہ ہے کہ زیر بحث تو یہی امر ہے کہ حضرت مسیح اس سلسلہ متصلہ مرفوعہ کوتو ڑ کر کیونکر بحیثیت ابن اللہ ہونے

Page 227

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل کے دنیا میں آگئے.اور اللہ جل شانہ اس دلیل میں صاف توجہ دلاتا ہے کہ تم مسیح سے لیکر انبیاء کے انتہائی سلسلہ تک دیکھ لو جہاں سے سلسلہ نبوت شروع ہوا ہے کہ بجز انسان کے کبھی خدایا خدا کا بیٹا بھی دنیا میں آیا ہے.“ 227 جنگ مقدس صفحه ۳۲ - روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان ) پس مسیح علیہ السلام کا مسئلہ تو متنازعہ فیہ ہے اسے پیش نہیں کیا جاسکتا.کوئی مثال ہے نہیں تو استقرائی طور پر ثابت ہوا کہ مسیح علیہ السلام خدا کے بیٹے نہیں ہو سکتے بلکہ دیگر انبیاء اور رسولوں کی طرح ہی ایک نبی اور رسول تھے.کیونکہ خدا کا یہ طریق اور سنت نہیں کہ اس کے بیٹے ہوں اور وہ انہیں نبوت ورسالت کے لئے بھیجتا ہو.دوسری دلیل : حضرت مسیح علیہ السلام کی طرف منسوب دعوی الوہیت کے خلاف قرآن کریم آپ کی والدہ کے وجود کو پیش کر کے ایک دلیل دیتا ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی بیان فرمایا ہے آپ کی والدہ کا ہونا امر مسلم ہے خواہ مسلمان ہوں یا عیسائی سب یہ مانتے ہیں کہ آپ کی والدہ ماجدہ تھیں پس آپ کی والدہ کا وجود ہی آپ کی خدائی کے خلاف ایک بہت بڑی دلیل ہے.اوّل: اس طرح کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی والدہ چونکہ انسان تھیں اس لئے لازما حضرت مسیح علیہ السلام بھی اسی نوع یعنی انسانوں میں سے ایک انسان ہوں گے.دوئم: انکی والدہ کا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دوسرے وجود کے محتاج تھے اور جو محتاج ہو وہ خدا نہیں ہوسکتا.سوئم : جن اشیاء میں توالد و تناسل کا سلسلہ جاری ہوتا ہے وہ بالکتۃ الذات ہوتی ہیں پس جو وجودموت کا شکار ہوسکتا ہے اور عملاً ایسا ہوا بھی ہے تو وہ ہرگز خدا نہیں ہوسکتا.

Page 228

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: 228 وأمه صديقة یعنی حضرت مسیح کی والدہ راستباز تھیں.یہ بات نہایت ظاہر اور کھلی کھلی ہے کہ قانون قدرت اللہ جل شانہ کا اسی طریق پر واقع ہے کہ ہر ایک جاندار کی اولاد اس کی نوع کے موافق ہوا کرتی ہے مثلاً یہ دیکھو کہ جسقد رجانور ہیں مثلاً انسان گھوڑا اور گدھا اور ہر ایک پرندہ وہ اپنی اپنی نوع کے لحاظ سے وجود پذیر ہوتے ہیں یہ تو نہیں ہوتا کہ انسان کسی پرندہ سے پیدا ہو جائے یا پرندہ کسی انسان کے پیٹ سے نکلے.“ جنگ مقدس صفحہ ۱۰- روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیه، ربوہ پاکستان ) نیز فرمایا: دوسری دلیل اس کی (یعنی حضرت مسیح علیہ السلام کی ) عبودیت پر یہ ہے کہ اس کی ماں تھی جس سے وہ پید ہوا اور خدا کی کوئی ماں نہیں.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ، حصہ پنجم صفحه ۳۹۲- روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعہ الشركة الاسلامیہ ، ربوہ پاکستان ) پس ثابت ہوا کہ مسیح علیہ السلام کی والدہ کا وجود جس پر سب کا اتفاق ہے ان کے خدا یا خدا کا بیٹا نہ ہونے کی ایک بہت بڑی دلیل ہے.تیسری دلیل : حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے رد میں قرآن کریم نے ایک اور دلیل گانا یا کلانِ الطَّعَام میں بیان فرمائی ہے کہ مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ کھانا کھایا کرتے تھے اور یہی بات ان کے خدا نہ ہونے پر دلیل ہے.اوّل: اسطرح کہ جو کھانا کھائے وہ محتاج ہو گیا اور خدا تعالیٰ ہرقسم کی احتیاج سے پاک ہے.دوئم: کھانا وہی کھاتا ہے جس کا بدن تحلیل پذیر ہو اور خدا اس سے بلند تر ہے کہ اس میں تحلیل ہونے کی صفت ہو.

Page 229

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 229 سوئم: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ کھانا کھایا کرتے تھے گویا اب نہیں کھاتے.یعنی اب وہ زندہ نہیں ہیں انکی زندگی کیلئے کھانے کی احتیاج لازمی تھی.پس موت بھی الوہیت مسیح کی تردید کا ثبوت ہے.اس دلیل کے جواب میں عبد اللہ آتھم نے کہا تھا کہ : ہم اس شے مرئی کو جو کھانے پینے وغیرہ حاجات کے ساتھ ہے اللہ نہیں مانتے مگر مظہر اللہ ہم نے ابن اللہ جسم کو نہیں مانا ہم اللہ کو روح جانتے ہیں جسم نہیں.“ ( اثبات تثلیث فی توحید از عبداللہ انھم پنجاب ریلجیس سوسائیٹی ، لاہور ) یہ جواب تو دھو کے پر مبنی ہے کیونکہ سوال یہ ہے کہ مسیح کے اندر کون سی روح تھی اگر روح انسانی تھی تو اُن کو بیک وقت کامل خدا اور کامل انسان قرار نہیں دیا جا سکتا.کیونکہ جسم بھی انسان کا اور روح بھی انسان کی.اگر ان کے اندر روح خدائی تھی تو اول ان کو کامل خدا کہنا چاہئے.اور انسان نہیں کہنا چاہئے کیونکہ نام روح کی بنا پر دیا جاتا ہے نہ کہ جسم کی ظاہری شکل پر دوئم اس صورت میں روح خدائی جو ان کے اندر تھی اس کھانے پینے سے متاثر ہوئی تھی کیونکہ کھانے پینے کا اثر روح پر مسلم ہے اور یہ بات کہ خدائی روح کھانے پینے سے متاثر ہوئی باتفاق فریقین غلط ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: كَانَا يَا كَلانِ الطَّعَامِ یعنی وہ دونوں حضرت مسیح اور آپ کی والدہ صدیقہ کھانا کھایا کرتے تھے.اب آپ لوگ سمجھ سکتے ہیں کہ انسان کیوں کھانا کھاتا ہے کیوں کھانے کھانے کا محتاج ہے اس میں اصل بھید یہ ہے کہ ہمیشہ انسان کے بدن میں سلسلہ تحلیل کا جاری ہے یہاں تک کہ تحقیقات قدیمہ اور جدیدہ سے ثابت ہوتا ہے کہ چند سالوں میں پہلا جسم تحلیل ہو کر معدوم ہو جاتا ہے.اب جبکہ یہ حال ہے تو کس قدر مرتبہ خدائی سے بعید ہو گا کہ اپنے اللہ کا جسم بھی ہمیشہ اڑتا ہے اور تین چار برس کے بعد اور جسم آوے ماسوا اس کے کھانے کا محتاج ہونا بالکل اس مفہوم کا مخالف ہے.جو خدا تعالیٰ کی

Page 230

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - ذات میں مسلمہ ہے اب ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ان حاجت مندیوں سے بری نہیں تھے جو تمام انسانوں کو لگی ہوئی ہیں پس مسیح علیہ السلام خدا نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ کھانے پینے 66 کے محتاج تھے.“ 230 جنگ مقدس صفحہ ۱.روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان ) چوتھی دلیل : حضرت مسیح علیہ السلام کے حالات زندگی اور آپ کی زندگی کے واقعات انا جیل میں کسی قدر تفصیل سے موجود ہیں اور اس کتاب میں بھی ابتدائی تین ابواب آپ کی زندگی کے حالات کے متعلق تحریر کئے گئے ہیں ان حالات کے پڑھنے سے ایک منصف مزاج انسان اندازہ لگا سکتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی زندگی عام انسانوں کی طرح کی زندگی تھی.آپ کے کام کوئی خاص نمایاں حیثیت کے حامل نہیں تھے اور نہ آپ کا وجود اور آپ کے ان حالات کو دیکھ کر کوئی عقلمند انسان آپ کو خدا تسلیم کر سکتا ہے کہ انسانوں میں سے ایک انسان کہ جو غیر معمولی خصوصیت یا برتری بھی نہیں رکھتا اس کو خدا قرار دیا جائے اور اس کے ساتھی جو اسی کی طرح کے ہیں انہیں منصب الوہیت سے محروم کر دیا جائے.بس از روئے فلسفہ حضرت مسیح علیہ السلام کی خدائی ثابت کرنا محال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی دلیل کو ان الفاظ میں بیان فرماتے ہیں: عقلی عقیدے سب کلیت کے رنگ میں ہوتے ہیں کیونکہ قواعد کلیہ سے اُن کا استخراج ہوتا ہے لہذا ایک فلاسفر اگر اس بات کو مان لے کہ یسوع خدا ہے تو چونکہ دلائل کا حکم کلیت کا فائدہ بخشتا ہے، اس کو ماننا پڑتا ہے کہ پہلے بھی ایسے کروڑ باخدا گزرے ہیں اور آگے بھی ہو سکتے ہیں اور یہ باطل ہے.“ (کتاب البریہ صفه ۵۳ - روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان ) نیز فرماتے ہیں:

Page 231

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل ایک طرف تو یہ پادری لوگ کالجوں اور سکولوں میں فلسفہ اور منطق پڑھاتے ہیں اور دوسری طرف مسیح کو ابن اللہ اور اللہ مانتے ہیں.انگریزی منطق کی بنا تو منطق استقرائی ہی پر ہے پھر یہ کونسا استقراء ہے کہ یسوع ابن اللہ ہے.کون سی شکل پیدا کرتے ہوں گے یہی ہوگا کہ مثلاً اس قسم کے خواص جن لوگوں کے اندر ہوں وہ خدا یا خدا کے بیٹے ہوتے ہیں اور مسیح میں یہ خواص تھے.پس وہ بھی خدا یا خدا کا بیٹا تھا اس سے تو کثرت لازم آتی ہے.جو محال مطلق ہے میں تو جب اس پر غور کرتا ہوں تو حیرت بڑھتی ہی جاتی ہے نہیں معلوم یہ لوگ کیوں نہیں سوچتے.“ 231 ( ملفوظات جلد اول صفحه ۲۷۱- روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشرکة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان ) پس الوہیت مسیح کا عقیدہ فلسفہ اور عقل کے کلی قضیہ کی رو سے باطل ہے.پانچویں دلیل: الوہیت صیح کے خلاف ایک دلیل یہ ہے کہ ان کی الوہیت قیاس کے خلاف ہے.اس دلیل کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب براہین احمدیہ میں بیان فرمایا ہے اور آپ نے وضاحت فرمائی ہے کہ اگر حضرت عیسی علیہ السلام حضرت مریم کے پیٹ سے پیدا ہو کر خدا ہو سکتے ہیں تو پھر از روئے قیاس حضرت مریم کے باقی بچے بھی خدائی صفات سے متصف ہونے چاہئیں کیونکہ ایک رحم سے ایک ہی نوع کی پیدائش ہوتی ہے یہ بات خلاف قیاس ہے.کہ حضرت مریم کی اولاد میں سے ایک تو خدا ہوا اور باقی اس اعزاز سے محروم ہوں اور تمام دوسرے انسانوں کی طرح ہوں حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : کیا یہ ممکن ہے ایک ہی ماں یعنی مریم کے پیٹ سے پانچ بچے پیدا ہو کر ایک بچہ خدا کا بیٹا بلکہ خدا بن گیا اور چار باقی جور ہے ان بے چاروں کو خدائی سے کچھ بھی حصہ نہ ملا بلکہ قیاس یہ چاہتا ہے کہ جب کسی مخلوق کے پیٹ سے خدا بھی پیدا ہوسکتا ہے.یہ نہیں کہ ہمیشہ سے آدمی سے آدمی اور گدھی سے گدھا پیدا ہوتو جہاں کہیں کسی عورت کے پیٹ سے

Page 232

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 232 خدا پیدا ہوا پھر اس پیٹ سے کوئی مخلوق پیدا نہ ہو بلکہ جس قدر بچے پیدا ہوتے جائیں وہ سب خدا ہی ہوں.تا کہ وہ پاک رحم مخلوق کی شرکت سے منزہ رہے.اور فقط خداؤں ہی کے پیدا ہونے کی ایک کان ہو.پس قیاس متذکرہ بالا کی رو سے لازم تھا کہ حضرت مسیح کے دوسرے بھائی اور بہنیں بھی کچھ نہ کچھ خدائی میں سے بحرہ پاتے اور ان پانچوں حضرات کی والدہ تو رب الارباب ہی کہلاتی کیونکہ پانچوں حضرات روحانی وجسمانی قوتوں میں اس سے فیضیاب ہیں.“ براہین احمد یه صفحه ۴۴۲ حاشیہ نمبر ۱.روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان ) چھٹی دلیل : حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے رڈ میں ایک دلیل یہ ہے کہ ان کی الوہیت کا عقیدہ عیسائیوں کے اپنے مسلمات کے خلاف جاتا ہے.عیسائی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ حضرت مسیح خدا تھے اور مکمل خدائی صفات سے متصف تھے.اس کے ساتھ وہ یہ بھی اعتقاد رکھتے ہیں کہ باپ اور روح القدس بھی مکمل خدا تھے.اور یہ سب مل کر ایک خدا بنتا ہے.جس میں کسی قسم کی کوئی زیادتی یا فضیلت نہیں ہے.سوال یہ ہے کہ اگر تین وجودوں میں سے ہر ایک وجود کامل خدا ہے اور مکمل خدائی صفات کا مالک ہے.تو لازمی طور پر ان کے ملنے سے ایک اکمل ترین وجود بننا چاہئے لیکن ایسا خیال مسیحی عقائد کے مطابق باطل ہے.اب اگر یہ مانا جائے کہ یہ تینوں خدا با ہم ملکر ایک مکمل خدا بنتے ہیں تو پھر ان تینوں وجودوں میں سے ہر ایک کی الوہیت باطل ہو جاتی ہے کیونکہ خدا کا وجود ہر قسم کے نقص یا کمی سے پاک ہے.پس ان تینوں کامل وجودوں سے باہم مل کر ایک کامل خدا بننے سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ مسیح اپنی ذات میں کامل خدا نہ تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: حضرات عیسائی صاحبان کا یہ عقیدہ ہے کہ باپ بھی کامل اور بیٹا بھی کامل روح القدس بھی کامل اب جب تینوں کامل ہوئے تو ان تینوں کے ملنے سے اکمل ہونا چاہئے

Page 233

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 233 کیونکہ مثلاً یہ جب تین چیزیں۳.۳ سیر فرض کی جائیں تو وہ سب ملکر 9 سیر ہوں گی.یہ سخت اعتراض ہے.جس سے قطعی طور پر حضرت مسیح کی الوہیت کا بطلان ہوتا ہے“ جنگ مقدس صفحه ۱۱۴- روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان ) ساتویں دلیل: حضرت عیسی علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کو بھی آپ کی الوہیت کیلئے دلیل بنایا جاتا ہے.حالانکہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ بن باپ پیدائشیں ہوتی رہی ہیں جیسا کہ اس کتاب میں ہی ابتداء میں مسیح علیہ السلام کی بن باپ پیدائش کے تحت انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا سے چنگیز خان وغیرہ کی بن باپ پیدائشوں کی مثالیں دی گئی ہیں.تا ہم قرآن کریم نے آپ کی پیدائش کو حضرت آدم کی پیدائش کا مثیل قرار دیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: یادر ہے کہ خدا نے بے باپ پیدا ہونے میں حضرت آدم سے حضرت مسیح کو مشابہت دی ہے.اور یہ بات کہ کسی دوسرے انسان سے کیوں مشابہت نہیں دی یہ محض اس غرض سے ہے کہ تا ایک مشہور متعارف نظیر پیش کی جاتی کیونکہ عیسائیوں کو یہ دعویٰ تھا کہ بے باپ پیدا ہونا حضرت مسیح کا خاصہ ہے اور خدائی کی دلیل ہے.پس خدا نے اس حجت کو توڑنے کیلئے وہ نظیر پیش کی جو عیسائیوں کے نزدیک مسلم اور مقبول ہے.چنانچہ انجیل میں حضرت آدم کو بھی خدا کا بیٹا قرار دیا گیا ہے.“ تحفہ گولڑو یه صفحه ۱۲۲- روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان ) اور اس کا بے باپ اور بے ماں ہونا تسلیم کیا گیا ہے چنانچہ مسیح کا نسب نامہ لکھتے ہوئے اس کے آخر میں لوقا نے لکھا ہے : اور وہ آدم کا بیٹا تھا (ناقل ) اور وہ ( یعنی آدم ناقل ) خدا کا بیٹا تھا.“ (لوقا باب ۳ آیت ۳۸)

Page 234

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل حضرت مسیح موعود علیہ السلام لکھتے ہیں: 234 کہ عیسی کی مثال آدم کی مثال ہے.خدا نے اس کو مٹی سے پیدا کیا پھر اس کو کہا ہو جا سودہ ہو گیا.ایسا ہی عیسی بن مریم.مریم کے خون سے اور مریم کی منی سے پیدا ہوا اور پھر خدا نے کہا کہ ہو جا سودہ ہو گیا.بس اتنی بات میں کونسی خدائی اور کونسی خصوصیت پیدا ہو گئی.موسم برسات میں ہزار ہا کیڑے مکوڑے بغیر ماں باپ کے پیدا ہو جاتے ہیں.انہیں کوئی خدا نہیں ٹھہراتا.کوئی ان کی پرستش نہیں کرتا کوئی ان کے آگے سر نہیں جھکاتا پھر خوامخواہ حضرت عیسی علیہ السلام کی نسبت اتنا شور کرنا جہالت نہیں تو اور کیا ہے؟“ (براہین احمدیہ ، حصہ پنجم صفحه ۵۰-۵۱- روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعہ الشركة الاسلامیہ ، ربوہ پاکستان ) آٹھویں دلیل: الوہیت مسیح کے رد میں دوسرے زبر دست دلائل کے ساتھ ملا کر یہ بھی ایک قرینہ پیدا ہوا کہ عیسائی لوگوں میں بھی مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے متعلق مکمل اتفاق نہیں پایا جاتا.شروع زمانہ میں میسحیت میں ایسے فرقے پائے جاتے تھے اور اب بھی پائے جاتے ہیں جو ان کو محض ایک انسان اور خدا کا نبی سمجھتے ہیں.یہ اختلاف اس بات کا قرینہ ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کا مسئلہ کوئی قطعی اور یقینی مسئلہ نہیں ہے اور اذ جاء الاحتمال بطل الاستدلال (جب احتمال پیدا ہو جائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام عیسائیوں کے اس اختلاف کے بارے میں فرماتے ہیں: ایک طرف گھر میں پھوٹ پڑی ہوئی ہے.ایک صاحب حضرات عیسائیوں دو میں سے تو حضرت مسیح کو خدا ٹھہراتے ہیں اور دوسرا فرقہ ان کی تکذیب کر رہا ہے.“ جنگ مقدس صفحہ ۱۰۰- روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان ) جس اختلاف کا ذکر آپ نے فرمایا ہے اس کا ثبوت مندرجہ ذیل ایک حوالہ میں بھی مذکور

Page 235

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل ہے.ایک مشہور پادری مصنف Rev.E.R.Hull اپنی کتاب 235 "What Catholic Church is and What She Teaches" میں لکھتے ہیں : "Most Protestants believe that divinity of Christ is clearly taught in the Bible, yet the Socianians have argued with aparent sincerity that New Testament presents Christ merely as an inspired man" By Catholic Trust Socity 1934 نویں دلیل: حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے رڈ میں ایک اور دلیل یہ ہے کہ انسانی عقل کے نزدیک ان کا بطور خدا دنیا میں آنا ایک بے معنی اور غیر مفید کام ہے.پھر اس سے خدا کی حکمت پر بھی زد پڑتی ہے کیونکہ انسانوں کی اصلاح اور ارتقاء کیلئے وہ نمونہ پیش کرنا چاہے جس کی انسان پیروی بھی کر سکیں اور اس کے روحانی مقام تک ترقی کر سکتے ہوں.انسان کا خدا بننا ناممکن ہے.اس لئے خدا کا انسانی شکل میں ظہور پذیر ہو کر انسان کیلئے کوئی اسوہ یا نمونہ پیش کرنا انسانوں کیلئے بے کار ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس دلیل کو یوں بیان فرمایا ہے کہ : انسان اپنی انسانی حدود اور ہیئت کے اندر ترقی مدارج کرسکتا ہے نہ یہ کہ وہ خدا بھی بن سکتا ہے.جب انسان خدا بن نہیں سکتا.تو پھر ایسے نمونے کی کیا ضرورت ہے جس سے انسان فائدہ نہیں اٹھا سکتا.انسان کے واسطے ایسے نمونے کی ضرورت ہے جو کہ رسولوں کے رنگ میں ہمیشہ خدا کیطرف سے دنیا میں آیا کرتے ہیں نہ کہ خدائی نمونہ جس کی پیروی انسانی مقدرت سے بھی باہر اور بالاتر ہے.ہم حیران ہیں کہ کیا خدا کا منشا انسانوں کو خدا بنانے کا تھا کہ ان کے واسطے خدائی کا نمونہ بھیجنا تھا.“ ( ملفوظات، جلد دہم صفحہ ۲۱۷- روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان ) پھر فرماتے ہیں کہ :

Page 236

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل ”انسان کا کام یہ نہیں کہ وہ خدا بن جائے تو پھر اُسے ایسے نمونے کیوں دیئے جاتے ہیں جب کسی کو کوئی نمونہ دیا جاتا ہے تو اس سے نمونہ دینے والے کا یہ منشاء ہوتا ہے کہ اس نمونہ کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کی جائے اور پھر وہ اس شخص کی طاقت میں بھی ہوتا ہے کہ وہ اس نمونہ کے مطابق ترقی کر سکے.خدا جو فطرت انسانی کا خالق ہے اور اسے انسان کے متعلق پورا علم ہے کہ اس نے انسانی قومی میں یہ مادہ ہی نہیں رکھا کہ خدا بھی بن سکے تو پھر اس نے کیوں ایسی صریح غلطی کھائی کہ جس کام کے کرنے کی طاقت ہی انسان کو نہیں دی اس کام کے کرنے کے واسطے اسے مجبور کیا جاتا.کیا یہ ظلم صریح نہ ہوگا.رسالت اور نبوت کے درجہ تک تو انسان ترقی کر سکتا ہے کیونکہ وہ انسانی 236 طاقت میں ہے پس اگر حضرت مسیح خدا تھے تو ان کا آنا ہی لا حاصل ٹھہرتا ہے.“ ( ملفوظات جلد دہم صفحہ ۲۲۲ ۲۲۳- روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان ) دسویں دلیل.اگر نظریہ الوہیت کے مطابق تینوں اقانیم Co-eternal, Co-equal ہیں تو زمان و مکان کے لحاظ سے بقول پادری عبد اللہ آتھم صفت بے حدی اور بے نظیری کی طرح ان میں کوئی فرق نہیں تو ایک اقنوم کے باپ اور دوسرے کیلئے بیٹا کہلانے کی کیا وجہ ہے.باپ اور بیٹا ہونا تو درجہ یا زمانی تاخیر کا متقاضی ہے.اگر اس قسم کا کوئی تقدم و تأخرنہیں تو کلام الہی میں یہ لغو کام کیوں کیا.کیا وجہ تخصیص ہے کہ اس کو بیٹے کا نام دیا اور دوسرے کو باپ کا.کیا اس نام میں تبدیلی کی جاسکتی ہے کیا جس کو اس وقت تک اب کہا جاتا رہا اس کو ابن اور جس کو ابن کہا جاتا رہا ہے اس کو اب کہا جاسکتا ہے اگر نہیں تو کئی وجہ یا صفت ہوگی جس کی وجہ سے ایک کو دوسرے کا نام نہیں دیا جا سکتا.گویا ایک اقنوم میں ایسی امتیازی صفت ہے اور ان اقانیم میں صفات کی کمی بیشی ہے جو خدا کی ذات میں با اتفاق فریقین نہیں ہو سکتی.لہذا حضرت مسیح علیہ السلام کوالہ ماننا خلاف عقل فعل ٹھہرتا ہے.

Page 237

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 237 گیارھویں دلیل: ایک اور بات نہایت قابل غور ہے کسی چیز کا کسی چیز سے ہونا تین طرح کا ہو سکتا ہے.اوّل: خالق سے مخلوق ہونا.خالق اپنی پوری طاقت اور کامل قوت سے ایک سے ایک چیز پیدا کرے.دوئم : ایک چیز کے دو یا کئی ٹکڑے ہو جائیں تو یہ کہہ دیتے ہیں کہ یہ ٹکڑے فلاں چیز سے پیدا ہو گئے ہیں.سوم: کیمیاوی طور پر دو چیزوں کے ملنے سے تیسری وقوع پذیر ہو جائے.ظاہر ہے کہ قانونِ قدرت میں یہی ہوتا ہے کہ دو یعنی نر اور مادہ کے باہم ملنے سے جنین بنتا ہے.اب اس تمہید کے بعد غور کریں کہ قرآن کریم حضرت مسیح علیہ السلام کو خدا کا بیٹا کہنے پر کس طرح ملزم قرار دیتا ہے.فرمایا: أَنَّى يَكُونُ لَهُ وَلَدٌ وَلَمْ تَكُنْ لَّهُ صَاحِبَةٌ ترجمہ: اس کی کوئی اولاد کہاں سے ہوگئی جب کہ اُس کی کوئی بیوی ہی نہیں.(سورة الانعام : آیت ۱۰۲) مطلب یہ ہے کہ اے نادانو! خدا کا بیٹا کہتے ہو.اگر وہ مخلوق الہی ہے تو کوئی بحث نہیں ہے اس سے بھی اتفاق ہے اور اگر کہا جاوے کہ وہ خدا کا جزء ہے تو تم اس کو تسلیم نہیں کرتے.اب رہی تیسری بات کہ خدا کی کوئی بیوی ہو.اور وہ دونوں ملیں تو تب ایک تیسر ا وجود یعنی مسیح ظہور پذیر ہو.لیکن اس کا بھی تم انکار کرتے ہو.خدا کی کوئی صاحبہ (بیوی) نہیں مانتے.سو تم نہ تو مسیح کو خدا کی مخلوق مانتے ہو نہ اس کا ٹکڑا اور نہ اس کو دو چیزوں کا نتیجہ تو پھر اور کون سا ذریعہ ہے جس سے میسج کو ابن اللہ سمجھا جائے.بارھویں دلیل: حضرت مسیح کے اعتقاد کے مطابق عہد نامہ قدیم مقدس کتاب

Page 238

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 238 ہے.جس کا باطل ہو نا ممکن نہیں.حضرت مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ یہ نہ سمجھو کہ میں تو رات کو منسوخ کرنے آیا ہوں.اب تو رات میں وضاحنا وصراحتا خالص تو حید کی تعلیم دی گئی ہے اور یہ تو حید کی مدعی ہے.تثلیث کا یا واحد خدا کے علاوہ کسی اور کا تصور وہاں پایا نہیں جاتا اور یہ تصور عہد نامہ قدیم کے بالکل منافی ہے.پس تو رات کی سچائی جو حضرت مسیح علیہ السلام کو مسلّم ہے اس عقیدہ کے ابطال کیلئے کافی گواہی ہے.تیرهویں دلیل: بسیجی نقطہ نظر سے باپ بیٹا اور روح القدس برابر کے ازلی ابدی اقنوم ہیں.مگر مسیح علیہ السلام فرماتے ہیں: کہ جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھلائے گا.اسی لئے کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا.لیکن جو سنے گا وہی کہے گا اور تمہیں آئندہ کی خبریں 66 دے گا.“ (یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۳ تا ۱۵) مذکورہ حوالہ روح القدس کے مقام کو باپ کے مقام سے کم ثابت کرتا ہے حضرات عیسائی صاحبان یہاں روح الحق سے مراد روح القدس لیتے ہیں.اور غور نہیں کرتے کہ روح القدس تو ان کے اصول کے مطابق خود خدا ہے تو پھر وہ کس سے سنے گا.چودھویں دلیل: بسیجی مسئلہ الوہیت مسیح اور تثلیث کو بالائے عقل قرار دیتے ہیں اور اس کی صداقت کا بنیادی ثبوت یہ دیتے ہیں کہ یہ مسئلہ کلام الہی میں بیان ہوا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ انجیل میں کہیں تثلیث اور الوہیت مسیح کا ذکر نہیں اور اگر بغرضِ محال اسے ہم مان بھی لیں تو تثلیث اور الوہیت ثابت نہیں ہوتے کیونکہ عہد نامہ جدید کا الہامی ہونا ہی مشکوک ہے.یہ کتابیں کچھ انسانوں نے.جن میں سے بعض کے نام بھی معلوم نہیں لکھی ہیں.خطوط اور کتب کا یہ دعویٰ ہی نہیں کہ وہ الہامی ہیں.مزید برآں نیا عہد نامہ اگر الہامی کتاب تھا اور اس میں الوہیت اور تثلیث کا خلاف عقل یا کم از کم بالائے عقل مسئلہ درج تھا تو اس کی حفاظت ہونی چاہئے تھی تا کہ

Page 239

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 239 لوگوں کو ثبوت ملتا، خواہ مسئلہ ان کی سمجھ میں آتا یا نہ آتا.مگر اس نام نہاد کلام الہی کا محفوظ نہ رہنا اس کا سا را اعتبار گنوا دیتا ہے.اس کے متعلق دو حوالے درج کئے جاتے ہیں تاکہ کسی قدر یہ تو معلوم ہو سکے کہ بائیبل کی الہا می حیثیت کیا ہے.1: چنانچہ Bible Dictionary (مطبوعہ 1973 از Miller J.Lane) زیرلفظ New Testament صفحہ ۴۳۹ پر لکھا ہے: "D.N.T represents a large body of Christian literature written before the 4th century when after a long controversy, the present canon was adopted.2.The New Testament & Its Making and Meaning" by Albert میں لکھا ہے.Barnett "How ever highly and desiredly Christians have valued and continue to value the New Testament.The fact is that instead of producing christianity, the new testament was it self the product of the developing Christian movement.This collection of writings that became the New Testament and the individual books that found a place in that collection came into existance as phases of the growth of the church.Yet from the outset Christian has a Bible, The old Testament was the scripture of the premetive church, and its proper interpretation rather than its supplimentation by the addition of the new books was the preferance of Christian readers for more that a century, In no instances were the books that now make up the New Testament written for inclusion in a Bible." ان حوالوں سے عہد نامہ جدید کی حیثیت کا علم ہوتا ہے کہ ایک کثیر تعدا دلٹریچر میں سے تھوڑ سا

Page 240

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعویٰ از روئے قرآن و انجیل - 240 چنا گیا اور عہد نامہ جدید وقت کی ضرورت اور چرچ کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ وقوع پذیر ہوا.پس جو چھوڑ دیا گیا وہ بھی ویسا ہی اہم تھا جیسے ان اناجیل اربعہ کو اہمیت دی جاتی ہے.اس باب کے مطالعہ سے یہ تو معلوم ہوا ہوگا کہ حضرت مسیح علیہ السلام نے کبھی الوہیت کا دعوی نہیں کیا بلکہ تمام عمر توحید کی منادی کرتے رہے اور آپ پر ابتدا ایمان لانے والے بھی تو حید کے علمبردار تھے.مگر بہت بعد میں مشرک غیر اقوام کی تسلی کی خاطر الوہیت مسیح کا مسئلہ ایجاد کیا گیا تا کہ ان کی تعداد یعنی Quantity کو حاصل کیا جا سکے لیکن اس بات کا خیال نہ کیا گیا کہ عیسائیت ، جو یہودیت کا بچہ تھا ، اس کی Quality میں سرے سے ہی بگاڑ پیدا ہوتا چلا جارہا ہے اور عیسائی صاحبان اناجیل، جن کی اپنی الہامی حیثیت کچھ بھی نہیں ہے ، کے بعض مقامات سے تاویلات کے رنگ میں استدلال کرنے لگ گئے اور اس طرح انہوں نے اپنے مذہب کو کلیپ مسخ کر دیا.

Page 241

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل باب ضمیم کفاره 241 ہمیشہ سے انسان اپنے پیدا کرنے والے خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے جد و جہد کرتا آیا ہے.جس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ قرب خداوندی پانے کی لگن انسانی فطرت میں پائی جاتی ہے.اس کے ساتھ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ انسان اپنی سستی یا غفلت یا آسانی کا خواہاں ہونے کی وجہ سے اس مقصد کے حصول کے لئے آسان راستے تلاش کرتا رہتا ہے اور اپنے نفس کو مطمئن کرنے کے لئے بعض خود تراشیدہ دلائل پیش کرنے لگ جاتا ہے.حضرت موسیٰ نے خطاؤں کے کفارہ کے لئے بکرے کی قربانی کی تعلیم دی تھی.( گفتی باب ۲۸ آیت (۲۲) اور ساتھ یہ بھی فرمایا تھا کہ اعمال صالحہ جو خدا وند کو پسند ہیں بجالاؤ تاکہ تمہارا بھلا ہو.(استثناء باب ۶ آیت ۱۸) مگر کفارے کی قربانی کا اثر یہود کی طبیعت پر اتنا گہرا پڑا کہ جب بخت نصر شاہ بابل نے بیت المقدس کو مسمار کر دیا تو چونکہ قربانیاں اسی جگہ ہوتی تھیں انکو ایسا لگا کہ گویا آئیندہ گناہ بخشوانے کا کوئی ذریعہ اب ان کے پاس نہیں رہا.اور بہت سے لوگ اس وجہ سے تارک الدنیا ہو گئے.( جیوئش انسائیکلو پیڈیا جلد اول صفحه ۲۸۷ بحوالہ تو سفتا باب ۱۵ آیت۲) (Encyclopedia Judaica Jerusalem by Keter Publishing House Ltd.1972 - Jerusalem - Israel) اور ایک بڑے عالم جو شا بن حنانیہ نے واویلا کرتے ہوئے کہا:

Page 242

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 66 و ہم پر افسوس اب ہمارے گناہوں کا کفارہ کس طرح ہوگا.“ 242 ( جیوئش انسائیکلو پیڈیا جلد اول کالم اول بحوالہ ۴ اسد را باب ۹ آیت ۳۶) (Encyclopedia Judaica Jerusalem by Keter Publishing House Ltd.1972 - Jerusalem - Israel) حالانکہ سابق انبیاء کا مقصد جانوروں کی قربانی سے صرف نفس کی قربانی کی طرف توجہ مبذول کرانا تھا جو یہود بھول گئے تھے.چنانچہ بعد کے انبیاء نے اسی کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی جیسا کہ ہوسیع باب ۱۴ کی آیت ۳ اور باب کی آیت ۲۲ اور آیت ۲۴ نیز یسعیاہ باب ۶ آیت ۶ - ۸، باب ا آیت ۱۹۱۶ میں صاف طور پر لکھا ہے: کہ اب تم ہونٹوں کے بچھڑے نذر گر دانو “ یعنی مناجات کرو.نیز فرمایا: پاتا ہے." کہ عام بچھڑا یا بکرا کفارہ نہیں بنتا بلکہ تو ب اور تیج اور تحمید سے انسان گناہ کے اثر سے نجات نیز فرمایا: ”کہ اب آگے کو جھوٹے ہدیے مت لاؤ اور فرمایا: کہ اپنے تئیں دھود اور آپ کو پاک کرو اپنے برے کاموں کو میری آنکھوں کے سامنے سے دور کرو، بد فعل سے باز آؤ ، نیکو کاری سیکھو، انصاف کے پیرو ہو جاؤ ، مظلوموں کی مدد کرو، یتیموں کی فریاد رسی کرو، بیواؤں کے حامی ہو جاؤ.اب آؤ کہ ہم با ہم حجت کریں.خداوند کہتا ہے اگر چہ تمہارے گناہ قرمزی ہوویں پر برف کی مانند سفید ہو جائیں گے اور ہر چندوے ارغوانی ہوویں پر اُون کی مانند جلے ہو جائیں گے.“ چنانچہ بکروں ، بیلوں اور پلوٹھوں کی قربانی کی عظمت تو یہود کے دلوں سے کچھ کم ہوئی مگر ایک اور قسم کا کفارہ انہوں نے ایجاد کر لیا.اور وہ یہ کہ ہمارے بزرگوں کی تکالیف ہماری قوم کے

Page 243

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعولی از روئے قرآن و انجیل.243 گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہیں.یہی خیال تھا جس نے بعد میں مسیحی کفارہ کے عقیدہ کے بننے میں مدد کی.حالانکہ انبیاء یہود بھی قرآن کریم کے بیان کردہ اصولوں کو مانتے تھے.کہ: وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى.(سورة بنی اسرائیل : آیت ١٦ ) کہ کوئی بوجھ اٹھانے والی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائی گی.مسیحیوں نے یہ عقیدہ اختیار کر لیا کہ مسیح نے صلیب پر جان دے کر مسیحیوں کے گناہوں کو اٹھا لیا.اور موسیٰ نے جس قربانی کا حکم دیا تھا وہ دراصل مسیح کی آمد کی خبر تھی اور مراد اس سے یہ تھی کہ خدا کا ایک بڑہ یعنی مسیح دنیا میں آکر قربان ہوگا.اور دنیا کے گناہ اٹھا لے گا.وہ کہتے ہیں کہ ایک برہ میں یہ طاقت نہیں کہ وہ دوسروں کے گناہ اٹھالے لیکن خدا کے بیٹے میں یہ طاقت ہے کہ وہ دوسروں کے گناہ اٹھالے.وہ یہود کے اس خیال کو کہ وہ ان کے بزرگوں نے قربانیاں دیکر ان کے گناہ کا کفارہ ادا کر دیا اسطرح تبدیل کر دیا اور کہنے لگے کہ وہ بزرگ بہر حال گناہ گار تھے اور گناہ گار گناہ گار کا بوجھ کیسے اٹھا سکتا ہے.پس مسیح جو بے گناہ تھا وہ اس قابل تھا کہ دوسروں کے گناہ اٹھائے چنانچہ وہ دوسروں کے گناہوں کی وجہ سے صلیب پر لٹکایا گیا.نیز کفارہ مسیح کی نسبت وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ گناہ انسان کو آدم کے گناہ کے نتیجہ میں ورثہ میں ملا لیکن چونکہ مسیح بلا باپ تھے اس لئے وہ آدم کے گناہ کے وارث نہ تھے چنانچہ بوجہ بے گناہ ہونے کے وہ انسانوں کے گناہوں کا کفارہ ہو سکتے تھے.عجیب بات ہے کہ مسیح کے بے گناہ ہونے اور صلیب پر چڑھ کر لوگوں کے گناہ اٹھا لینے کے متعلق حضرت مسیح علیہ السلام کا اپنا قول کہیں بھی منقول نہیں ہے کیونکہ حضرت مسیح کی تعلیم سراسر اس کے خلاف ہے البتہ حواریوں کے بعض اقوال ہیں جن سے سمجھ لیا گیا ہے کہ آپ تو رات کی رو سے بوجہ صلیب پر لٹکائے جانے کے (نعوذ باللہ ) لعنتی موت سے فوت ہوئے تھے اور یہ موت دوسرے

Page 244

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - گناہ گاروں کے لئے تھی تا کہ وہ ان کے لئے کفارہ ہو جائیں.حضرت مسیح علیہ السلام خود بدلے کی قربانی بصورت کفارہ کے قائل نہیں.فرماتے ہیں: ” اور جو کوئی اپنی صلیب اٹھا کے میرے پیچھے نہیں آتا میرے لائق نہیں.“ 244 ( متی باب ۱۰ آیت ۳۸) یعنی آپ نے ہر شخص کا خود اپنی صلیب اٹھا کر پیچھے آنا ضروری قرار دیا ہے.یعنی نجات کے لئے ہر ایک کا اپنے گناہوں کی پاداش میں خود دکھ اٹھانا ضروری قرار دیا ہے.یہ نہیں کہ مسیح کا صلیب پر لٹکنا دوسروں کی نجات کا ذریعہ بن گیا ہے چنانچہ خروج باب ۳۲ آیت ۳۳ میں لکھا ہے: جس نے میرا گناہ کیا ہے میں اس کے نام کو اپنے دفتر سے مٹا دوں گا.“ مسیحی کفارہ کی بنیاد اس بات پر بھی رکھی گئی ہے کہ انسان کو ورثہ میں گناہ ملا اس لئے وہ اس پر غالب نہیں آسکتا.گویا انسان کی فطرت ہی گناہ گار ہے.یہ بات ایسی ہے کہ جو عملاً درست ثابت نہیں ہوتی.بائیبل سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے وجود ایسے ہوئے ہیں جو بے گناہ تھے پس نہ یہ بات درست ہے کہ سب گناہ گار پیدا ہوئے بوجہ ورثے کے گناہ کے اور نہ یہ بات درست ہے کہ کفارہ پر ایمان لائے بغیر کوئی پاک نہیں ہوسکتا.لکھا ہے: ” نوح اپنے قرنوں میں صادق اور کامل تھا اور نوح خدا کے ساتھ ساتھ چلتا تھا.“ ( پیدائش باب ۶ آیت ۹) نوح نے خدا کے لئے ایک مدیح بنایا اور اسمیں اللہ تعالیٰ کی عبادت کی.جب نوح نے عبادت کی تو خداوند نے خوشنودی کی بو سونگھی اور خداوند نے اپنے دل میں کہا کہ انسان کے لئے میں زمین کو پھر کبھی لعنت نہ کروں گا.“ ( پیدائش باب ۸ آیت ۲۱)

Page 245

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل پھر نوح علیہ السلام کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوئے.ان سے فرمایا: ”دنیا کے سب گھرانے تجھ سے برکت پاوینگے.“ ( پیدائش باب ۱۲) پھر ابراہیم کے زمانے میں ملک صادق سالیم کو راستی کا بادشاہ لکھا گیا ہے.نیز فرمایا: 245 ( عبرانیوں باب ۷ آیت ۲) یہ بے باپ بے ماں بے نسب نامہ جس کے نہ دنوں کا شروع نہ زندگی کا آخر مگر خدا کے بیٹے کا مشابہ ٹھہرا کے ہمیشہ کا ہن رہتا ہے.“ ( عبرانیوں باب ۷ آیت ۲) گویا ملک صادق سالیم جو راستی اور سلامتی کا بادشاہ تھا وہ بے باپ بھی تھا اور بے ماں بھی تھا اور وہ خدا کے بیٹے کا مشابہ تھا.ایسا شخص تو یقینا سب سزاؤں سے بچا ہوا تھا.یہاں کوئی عیسائی کہہ سکتا ہے کہ ملک صادق سالیم نے اس لئے نجات پائی کہ وہ بے ماں باپ تھا ورثہ کے گناہ اسے حاصل نہ تھا مگر سوال یہ ہے کہ اگر بے ماں بے باپ مصلحین دنیا کومل چکے تھے تو پھر مسیح کی کیا ضرورت تھی.اسی طرح اسحاق ، یعقوب ، یوسف ، موسی ، داوڈ سب کی نیکی اور پاکبازی کا اقرار بائیل میں موجود ہے.اب سوال یہ ہے کہ مسیح سے پہلے اتنے لوگ کفارہ مسیح پر ایمان لائے بغیر نجات پاگئے تو آئیندہ کیوں نجات نہیں پاسکتے جس طرح پہلوں نے نجات پائی ویسے ہی بعد کے لوگ بھی نجات پائیں گے لہذا مسیح کی قربانی یا اسکے کفارہ کی ضرورت نہیں رہتی.اور پھر حضرت مسیح علیہ السلام صرف عورت کے پیٹ سے پیدا ہوئے تھے آدم کا گناہ بھی تو ا کی وجہ سے ہوا تھا جو بھی ایک عورت تھی اس سے یہ معلوم ہوا کہ صرف عورت سے پیدا ہونے والا تو کسی طرح بھی ورثہ کے گناہ سے بچ نہیں سکتا اور زیادہ گناہ گار قرار پاتا ہے.نیز جو برکتیں حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کی نسل کو عطا فرمائی گئیں تھیں ان سے بھی حضرت مسیح

Page 246

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 246 بوجہ بے باپ ہونے کے بے نصیب ہو گئے.اور وہ خود بھی اپنے متعلق کہتے ہیں کہ نیک تو کوئی نہیں مگر ایک یعنی خدا پر اگر تو زندگی میں داخل ہونا چاہتا ہے تو حکموں پر عمل کر.(متی باب ۱۹ آیت ۱۶-۱۷) نیز اس طرح خود مسیح علیہ السلام بھی اپنے کو صلیبی موت سے بچانا چاہتے تھے جیسے کہ بائییل معلوم ہوتا ہے اگر وہ آپ کفارہ کی غرض سے دنیا میں آئے تھے تو پکڑوانے والے یہود اسکر یوطی کو تو انعام ملنا چاہئے تھا.لیکن آپ تو خود یہ دعاما نگتے رہے کہ : اے میرے باپ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹال دے.(متی باب ۲۶ آیت ۳۹) اگر وہ گناہ گاروں کے گناہ اٹھانے آئے تھے تو روروکر اور سجدوں میں گر کر اس موت سے بچنے کی دعانہ کرتے اور نہ حواریوں کو اس کے لئے دعا کرنے کو کہتے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک انکاری شخص کو ز بر دستی اور ظلماً صلیب پر چڑھا کر کفارہ کی غرض سے مارڈالنا کہاں کا انصاف ہے.بقول انا جیل آپ نے کہا: ايلى ايلى لما شبقتني 66 ( متی باب ۲۷ آیت (۴۶) اے میرے خدا اے میرے خدا تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ہے.اگر خدا کی رضامندی یہی تھی تو آپ کو رضامند ہو جانا چاہئے تھا.مگر ایسا نہیں ہوا اور آپ نے شکوہ شروع کر دیا.اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کفارہ کا تانا باناسب غلط اور خود تراشیدہ عقیدہ ہے.آپ اس غرض کے لئے تشریف نہیں لائے تھے.پھر آپ صلیب پر فوت بھی نہیں ہوئے.آپ نے واقعہ ء صلیب کو حضرت یونس نبی کے واقعہ سے مشابہت دی ہے.اور آپ نے کہا ہے کہ اس زمانہ کے بدکاروں کو یونس نبی کے سوا کوئی

Page 247

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل نشان نہیں دیا جائے گا.اور یونس مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے اور زندہ ہی نکالے گئے.247 (متی باب ۱۲ آیت ۳۹) ( یوناه باب ۲ آیت ۱ تا ۱۰) اور خدا ترسی کے سبب سے آپ علیہ السلام کی دعائیں بھی سنی گئیں تھیں اور صلیب پر زندہ رہے تھے اور زندہ ہی اتارے گئے تھے.اور اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو بچانے کے لئے تدبیر شروع کر دی تھی.پیلاطوس کی بیوی کو خواب آیا: 66 اگر مسیح ہلاک ہو گیا تو پھر تم ہلاک ہو جاؤ گے.“ ( متی باب ۲۷ آیت ۱۹) لیکن چونکہ وہ ہلاک نہیں ہوئے اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ مسیح بیچالئے گئے تھے.پیلاطوس نے یہ تدبیر کی کہ جمعہ کے دن چھٹے گھنٹے صلیب پر چڑھایا اور نویں گھنٹے اتار لیا.متی باب ۲۷ آیت ۴۵-۵) اندھیرا اور بھونچال دیکھ کر سب لوگ بھاگ گئے.(متی باب ۵۴ لوقا باب ۲۳ آیت ۴۸ ) اس اثناء میں آپ کو اتار کر کہیں منتقل کرنا آسان ہو گیا.آپ کی ہڈیاں بھی توڑی نہیں گئیں جبکہ ساتھ کے دو چوروں کی ہڈیاں توڑی گئیں.( یوحنا باب ۱۹ آیت ۱۳-۳۳) ایک سپاہی نے یسوع کی پہلی بھالے کی نوک سے چھیدی تو اس سے خون اور پانی نکلا ( یوحنا باب ۱۹ آیت (۳۴) ظاہر ہے کہ مردہ کے جسم سے خون اسطرح بہہ نہیں نکلتا.یوسف آرمیتیا جو نامور مشیر تھا اور خود خدا کی بادشاہی کا منتظر تھا پیلاطوس سے مانگ کر آپ کا جسم لے گیا ( مرقس باب ۱۵ آیت ۴۳ ۴۴) اور جب اس نے نعش مانگی تو یہ لفظ مصلحۂ بولا کیونکہ تین

Page 248

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 248 گھنٹے میں ایک نوجوان صلیب پر مرنہیں سکتا اس وجہ سے پیلاطوس نے حیرانگی کا ظہار کیا مگر بعد میں خاموش ہو گیا ( جب اصل بات معلوم ہو گئی ).یوسف آرمیتیا نے آپ کو ایک چٹان میں کھدی ہوئی غار نما قبر میں رکھا جو اس کے باغ میں تھی اور نفقو دیمس نے ، جو یسوع کا شاگر داور حکیم تھا، مر ہم حوار بین یا مرہم عیسی تیار کی اور آپ کے جسم پر لگائی اور آپکو کپڑے میں لپیٹ دیا گیا کہ آپ کو زخموں سے آرام آجائے اور مکمل شفا ہو جائے.پھر ہوش آنے پر آپ کو وہاں سے نکال لیا گیا.اتوار کو مریم مگر لینی گئی تو نہ پایا ( یوحنا باب ۲۰ آیت ۲۰) وہ جب وہاں سے مڑی تو یسوع کو کھڑے دیکھا اور نہ پہنچانا کہ یسوع ہے یسوع نے اس سے کہا کہ اے عورت تو کیوں روتی ہے کس کو ڈھونڈتی ہے.اس نے باغبان سمجھ کر اس سے کہا میاں اگر تو نے اس کو یہاں سے اٹھایا ہو تو مجھے بتا دو.یسوع نے اس سے کہا: مریم! اس نے مڑ کر اور پہچان کر عبرانی میں کہا ر بونی اے استاد.پھر آکر حواریوں کو بتایا کہ میں نے خداوند کو دیکھا اور باتیں کیں.“ (لوقا باب ۲۴ آیت ۳) پھر آپ حواریوں کو ملے.پکڑے جانے کے خوف سے آپ باغبان کے لباس میں تھے اس لئے پہچانے نہ گئے.آپ کے علاج معالجے کے متعلق سب کو معلوم بھی نہ تھا جیسا کہ یوحنا باب ۹ آیت ۳۸.۴۱ میں ذکر ہے.شاگردوں کے یقین دلانے کے لئے کہ وہ زندہ ہیں اور حضرت یونس کے مشابہ معجزہ وقوع پذیر ہو گیا ہے.ان کو کہا: کہ مجھے چھو کر دیکھو روح کو جسم اور ہڈی نہیں جیسا کہ مجھ میں جسم اور ہڈی دونوں دیکھتے ہو.“ ساتھ ہی ہاتھ اور پیروں کے زخم دکھائے تاکہ یقین ہو جائے کہ مسیح جسم سمیت زندہ ہے.

Page 249

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل 249 شاگردوں کی مزید تستی اور اطمینان کے لئے ان سے بھنی ہوئی مچھلی لیکر کھائی.(لوقا باب ۲۴ آیت ۴۱ ۴۳) تا کہ سب کو معلوم ہو جائے کہ وہ یہودی پلان کے مطابق صلیب پر مر کر ملعون نہیں ہوئے.بلکہ صلیبی موت سے بچ کر مرفوع الی اللہ ہوئے ہیں.اور خدا تعالیٰ کے سچے نبی ہیں.پس ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ کفارہ کا عقیدہ جسکی بنیاد آپ کی صلیبی موت پر رکھی گئی ہے بے بنیاد عقیدہ ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کو صلیبی موت سے بچا لیا تھا اور سچ تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کسی پر بھی نا کردہ ورثے کے گناہ کا بوجھ نہیں لا دتا اور نہ ہی ایسا عاجز ہے کہ کسی کا گناہ بلا مبادلہ بخش نہیں سکتا.

Page 250

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل باب دہم انجیل یوحنا کی ابتدائی آیات کا صحیح مفہوم 250 یوجنا کی ابتدائی آیات کی بنیاد پر تثلیث اور الوہیت مسیح کامل تیار کیا گیا تھا اور اسی اساس پر ۳۲۵ عیسوی میں ہونے والی عیسائی کونسل میں حضرت مسیح علیہ السلام کو خدائی کا درجہ دیا گیا تھا اور عیسائی مذہب میں شرک کا دروازہ کھول دیا گیا تھا.عام تراجم میں یوجنا کی انجیل مندرجہ ذیل آیات سے شروع ہوتی ہے: ابتداء میں کلام تھا اور کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام خدا تھا.سب چیزیں انہیں کے وسیلے سے پیدا ہوئیں اور جو کچھ پیدا ہوا ہے اس میں سے کوئی چیز بھی اس کے بغیر پیدا نہیں ہوئی.“ ( یوحنا باب ا آیت اتا۴) ان آیات سے الوہیت مسیح ثابت کرنے والے مفسرین لکھتے ہیں : کہ متی اور لوقا نے خداوند مسیح کا جسمانی نسب نامہ لکھا ہے متی نے ابراہیم تک اور لوقا نے آدم تک مسیح کا نسب نامہ دکھلایا ہے اور یوحنا رسول مسیح کی دوسری ماہیت یعنی الوہیت کا نسب نامہ دکھلاتا ہے.“ ( تفسیر انجیل یوحنا ملقب به منتها الافکار صفحه ۵ مصنفہ پادری ربرٹ کلارک ایم اے سیکرٹری چرچ مشن سوسائٹی پنجاب وسندھ اور پادری مولوی عما والدین لائیر ڈی ڈی ۱۸۸۸ء) متی اور لوقا کے پیش کردہ مسیح علیہ السلام کے جسمانی نسب ناموں کی حقیقت تو ہم ابتدائی ابواب

Page 251

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 251 میں لکھ آئے ہیں.اب ہم یوحنا کے پیش کردہ الوہی نسب نامے کی حقیقت پر سے پردہ اٹھاتے ہیں.یوحنا کی ابتدائی آیات کی صحیح حیثیت موجودہ زمانہ میں جب ناقدانہ نظر سے بائیل کا مطالعہ کیا گیا تو معلوم ہوا کہ بہت سے مقامات پر لفظی اور معنوی تحریف واقع ہو چکی ہے چنانچہ مذکورہ آیات میں بھی انجیل کے قدیم اور مستند نسخوں میں اختلاف ہے اور اناجیل کے نئے تراجم کے حواشی میں ان اختلافات کی نشاندہی کر دی گئی ہے.حقیقت یہ ہے کہ یوحنا کی ابتدائی آیات میں جس فقرے کا ترجمہ ” کلام خدا تھا“ کیا جاتا ہے وہاں یونانی میں خدا کیلئے لفظ ” تھیو آس“ کے ساتھ حرف تعریف موجود نہیں اور کلام خدا کے ساتھ تھا“ کے فقرے میں حرف تعریف موجود ہے.گویا یونانی محاورہ کے مطابق ” کلام خدا تھا“ کے فقرے میں خدا تھیو اُس سے مراد خدائے واحد نہیں بلکہ خدا کی طرح مقدس اور بابرکت ہونے کا مفہوم ہے.پس یہاں کلام کو عین خدا نہیں قرار دیا گیا.گرامر کے اس فرق کو نئے عہد نامہ کی گرامر کی کتاب نے بیان کیا ہے.(A manual Grammer of greek, New Testament by Dana & Mantey by Machmillain Co.1947) چنانچہ نئے عہد نامہ کے نسخہ ویٹی کن میں جو پوپ کی لائبریری میں موجود ہے کلام کو حرف تعریف کے بغیر محض تھیو آس کہا گیا ہے.سریانی نسخہ انجیل پشیتہ میں کلام خدا تھا کی بجائے خدا کا کلام تھا درج ہے یہ نسخہ پانچویں صدی سے کلیسیاء مشرق کا مستند ترجمہ سمجھا جاتا تھا.قدیم نسخوں میں دوسرا فقرہ بھی مختلف فیہ ہے عام نسخوں میں ہے کہ یسوع کے وسیلے سے د نیا پیدا ہوئی.پنج من ولسن نے مندرجہ ذیل ترجمہ دیا ہے:

Page 252

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل وہ دنیا میں تھا.دنیا اس کے وسیلے سے روشن ہوئی.“ 252 (ڈائگلاٹ از واچ ٹاور بائیبل سوسائٹی ، انار کلی لاہور، پاکستان ) سریانی نسخہ انجیل پشتیہ میں بایں الفاظ ہے: ” وہ دنیا میں تھا اور دنیا اس کے ہاتھ کے نیچے تھی.کتاب مقدس تر جمہ از جارج لیزا ) تیسرا فقرہ سریانی نسخہ چشتیہ میں بایں الفاظ ہے: اور کلام ختم ہوا اور ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اس کا جلال دیکھا ایسا جلال جو کہ فضل اور سچائی سے معمور ہے جیسے باپ کے پلو ٹھے کا جلال“.ظاہر ہے کہ باپ کا پلوٹھا ہے.بائیبل کے ریوائزڈ ورشن میں حاشیہ پر نوٹ دیا گیا ہے کہ: خدائے باپ کے اکلوتے کی بجائے ایک باپ کے اکلوتے بیٹے کی طرح بھی ترجمہ درست ہے.جیمز بافٹ کٹلر ٹوکری جے بی فلپ کے ترجمہ اور اسی طرح Basic Bible اور بعض دیگر تراجم میں اس دوسری صورت کو ترجیح دی گئی ہے.گویا یسوع کو یہاں خدا کا اکلوتا بیٹا نہیں کہا گیا بلکہ مراد یہ ہے کہ یسوع کا جلال ایسا تھا جیسے کسی باپ کے اکلوتے کی شان.سریانی نسخہ میں اکلوتے کی بجائے پلوٹھے کے الفاظ ہیں اور بائیل میں انبیائے بنی اسرائیل کو خدا کا پلوٹھا بیٹا کہا گیا ہے.جیسا کہ لکھا ہے: ”اسرائیل میرا بیٹا بلکہ میرا پلوٹھا ہے.(خروج باب ۱۴ آیت ۲۲) یہاں ایک پلوٹھا بیٹا ترجمہ کیا جائے تو یہاں اس صورت میں حضرت مسیح علیہ السلام کی کوئی تخصیص باقی نہیں رہتی.چوتھا فقرہ بھی قدیم نسخوں میں بہت مختلف ہے.نیوانگلش بائییل جو کہ انگلستان کے کلیسیا اسکاٹ لینڈ کے کلیساء اور برطانیہ کے بڑے بڑے مذہبی اداروں کی طرف سے بڑی تحقیق کے بعد شائع ہوتی ہے اس کے حاشیہ پر متن کی مختلف صورتیں دی گئی ہیں.اور عام ترجمہ یہ ہے:

Page 253

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوئی از روئے قرآن و انجیل - 253 ”خدا کوکسی نے کبھی نہیں دیکھا.اکلوتا بیٹا جوخدا کی گود میں ہے اس نے اس کو ظاہر کیا.“ ( یوحنا باب ا آیت ۱۸) نیوانگلش بائیبل کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ قدیم نسخوں میں اس عبارت کی صورتیں اور بھی ہیں.خدا کوکسی نے بھی نہیں دیکھا لیکن صرف ایک نے جو خود خدا ہے اسی نے اُسے ظاہر کیا.خدا.گویا اس فقرہ کی بڑی صورتیں ہیں بعض نسخوں میں صرف ایک (شخص) کے الفاظ ہیں.بعض میں اکلوتا بیٹا کے اور بعض میں خود خدا کے اور بعض میں ” پلوٹھا بیٹا کے متن میں تغیر تبدل کی یہ ایک بہت بڑی اور مین مثال ہے.ان شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرون اولیٰ سے انجیل یوحنا کا پہلا ورق انسانی دستبرد اور تغیر وتبدل کا تختہ مشق بنارہا ہے اور دیباچہ میں تبدیلیاں کرنے کے بعد الو ہیت مسیح کی بنیاد رکھی گئی ہے اور اسی کی بنیاد پر ۳۲۵ ء میں ہونے والی عیسیقہ کی کونسل میں الوہیت مسیح کا عقیدہ منظور کروالیا گیا تھا.مذکورہ انکشافات کے پیش نظر انجیل کے نئے تراجم میں تبدیلی کر دی گئی ہے.نیوانگلش بائیل میں دیباچہ انجیل با ایں الفاظ درج ہے: ” جب تمام چیزوں کا آغاز ہوا تو کلام اس سے پیشتر موجود تھا.کلام خدا کے ساتھ بسا ہوا تھا اور جو خدا تھا وہ کلام تھا اور اسی کے وسیلے سے تمام چیزیں معرض وجود میں آئیں.جیمس مافٹ نے ان آیات کا ترجمہ یہ کیا ہے: ابتداء میں کلام تھا.کلام خدا کے ساتھ تھا اور کلام الوھی صفت تھا وہ ازل سے خدا کے ساتھ تھا.ساری چیز میں اس کے وسیلے سے پیدا ہوئیں.“ جے پی فلپ نے اس کا ترجمہ یہ کیا ہے:

Page 254

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل ابتداء میں اس نے خود کو ظاہر کیا.یہ ذاتی ظہور وہ کلمہ تھا جو خدا کے ساتھ تھا اور خدا تھا ساری چیزیں اس کے وسیلہ سے پیدا ہوئیں.سریانی نسخہ پیشتیہ میں ہے: ابتداء میں کلمہ تھا اور یہی کلمہ خدا کے ساتھ تھا اور خدا وہ کلمہ تھا.ہر چیز اس کے وسیلے 254 سے پیدا ہوئی.آیات کا صحیح مفہوم ( ترجمه از جارج لیمزا ) ان تراجم سے ظاہر ہے کہ یہاں کلمہ سے مراد ہرگز حضرت مسیح علیہ السلام نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی صفت کلام ہے اور اس کا کلمہ کن مراد ہے جو کہ خدا کا سب سے پہلا ظہور ہے.اور خدا تعالیٰ کا قول کبھی بے تاثیر نہیں ہوتا وہ کہتا ہے ” ہو جا تو ہو جاتا ہے اسی کن سے کائنات کا ظہور ہوا.اور مسیح کا بھی جیسا کہ مریم کو جب فرشتے نے حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش کی بشارت دی اور کہا کہ جو قول خدا کی طرف سے ہے وہ ہر گز بے تاثیر نہیں ہوگا تو آپ نے آگے سے جواب دیا اور کہا ” دیکھ میں خداوند کی بندی ہوں میرے لئے تیرے قول کے موافق ہو یہی خدا کا قول اور کلمہ ہے جو کن کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور خدا کی مرضی دنیا میں ظہور پذیر ہوتی رہتی ہے.جے بی فلپ کا ترجمہ بہت واضح ہے.صرف اتنی ترمیم کی گنجائش ہے کہ تھیو آس“ کے معنی الوہی صفت کے ہیں کلمہ کو خدا نہیں کہا گیا بلکہ الوہی صفت کہا گیا ہے اس ترمیم کے ساتھ ترجمہ یوں ہوگا: ابتداء میں اللہ نے خود کو ظاہر کیا یہ خدائی ظہور وہ کلمہ تھا جو خدا کے ساتھ تھا اور وہ ( الوھی صفت تھا) ساری چیزیں اس کے وسیلے سے پیدا ہوئیں.“ اس ترجمہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ کن یا اس کی صفتِ کلام اس سے جدا نہیں بلکہ

Page 255

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.255 ازل سے اس کے ساتھ ہے.ہر چیز اس کے کلمہ کن سے پیدا ہوئی ہے.کلمہ کن الوہی صفت ہے آگے لکھا ہے کہ حضرت مسیح بھی اس کلمہ کن کے ظہور ہیں.کلمہ مجسم ہوا اور ہمارے درمیان رہا“ پس کلام کے مجسم ہونے میں اسطرف اشارہ ہے کہ کلام اور یسوع الگ الگ ہیں تجسم سے پہلے یسوع کلمہ نہ تھا.ایک عظیم متفق آرا بیچ سٹرا چن انجیل یوحنا کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: کلام مجسم ہوا کے لفظ پر یسوع کی ذات کے اردگر د عیسائی الہیات کا تانا بانا بنا گیا ہے.لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ یوحنا خود تجسم خدا کے نظریہ سے واقف نہ تھا اس کا سادہ تصور یہ تھا کہ کلمہ جو کہ ازل سے موجود ہے انسانی صورت میں ظاہر ہوا.“ (The Fourth Gospel by R.H Strachan published by Christian Students Movements, London - 1959) اسی طرح انسائیکلو پیڈیا آف برٹین کا میں زیر لفظ یسوع یہ تحریر ہے کہ: دیباچہ انجیل میں حضرت مسیح کو خدا نہیں کہا گیا.اور نہ لوگوں کو عبرانی اور یونانی فلسفہ میں خدا کے طور پر پیش کیا گیا ہے چنانچہ یوحنا کی ابتدائی آیات میں حضرت مسیح کو کلمہ از لی ثابت کرنے کیلئے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی گواہی میں بھی تبدیلی کی گئی ہے.“ گواہی کے الفاظ ہیں : وہ جو میرے بعد آتا ہے مجھ سے مقدم ہے کیونکہ مجھ سے پہلے ہے.“ ( یوحنا باب ۱ آیت ۱۵) ریوائز ڈایڈیشن کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ کچھ قدیم نسخوں میں یہ عبارت مختلف ہے ان نسخوں میں جو عبارت دی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مذکورہ بشارت میں حضرت یحیی کے الفاظ نہیں

Page 256

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل 256 ہیں بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کے ہیں اور اس سے مراد موعود نبی ہے جو کہ حضرت مسیح علیہ السلام کے بعد آنے والا تھا.نبی موعود کے متعلق یہودیوں کے صحف مقدسہ اور احادیث میں لکھا ہے کہ وہ آخر میں آئے گا مگر اس کا نام سب سے پہلے رکھا گیا اس حقیقت کی طرف مسیح علیہ السلام نے بھی توجہ دلائی ہے کہ: وہ جو میرے بعد آتا ہے مجھ سے مقدم ہے کیونکہ وہ مجھ سے پہلے تھا صاف ظاہر ہے کہ افضل الانبیاء حضرت مسیح نہیں تھے بلکہ ان کے بعد آنے والا تھا.“ ( یوحنا باب ۱ آیت ۱۵) پس ان حقائق سے یہ معلوم ہوا کہ یوحنا کی ابتدائی آیات تحریف کا شکار ہیں جس کی بنیاد پر الوہیت مسیح کی عمارت کھڑی کرنا دانشمندی نہیں.دوئم، تراجم در تراجم ہونے کی وجہ سے بھی غلط مفہوم لیا گیاور نہ ابتدائی حواری اس مفہوم کے قائل نہ تھے اور یہ بھی ہے کہ الوہیت مسیح کے عقیدہ کو ایجاد کرنے کیلئے بھی یوحنا کی ابتدائی آیات میں تصرف کیا گیا ہے جو قدیم نسخوں کے انکشافات سے کھل کر سامنے آ گیا ہے.ان آیات کا صحیح مفہوم اس کے سوا اور کچھ بھی نہیں تھا کہ ابتداء میں خدا کی دیگر صفات کی طرح کلام کرنے کی صفت بھی تھی اور یہ صفت دیگر صفات کی طرح خدا کے وجود کے ساتھ تھی.سب سے پہلے خدا کی اس صفت کا ظہور ہوا اور خدا کے کن کہنے سے تمام موجودات ظہور میں آنے لگیں اور زندگی کا ظہور عمل میں آیا.اور حقیقی زندگی خدا کا نور ہے جو انبیاء کے ذریعہ دنیا میں ظاہر ہوتا ہے.یا وہ حقیقی نور ہے جس کے متعلق فرمایا کہ جو میرے بعد آتا ہے وہ مجھ سے مقدم ٹھہرا کیونکہ وہ مجھ سے پہلے ہے اور وجہ تخلیف کا ئنات ہے جیسا کہ وارد ہوا ہے لَولاک لما خَلَقْتُ الافلاک.اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کرنا مقصود نہ ہوتا تو میں کا ئنات کو تخلیق نہ کرتا.

Page 257

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل حرف آخر حضرت مسیح ناصری علیہ السلام کا دعویٰ 257 یہود تین وجودوں کے منتظر تھے.مسیح ، وہ نبی اور ایلیاء.ایلیا بصورت یوحنا کے مبعوث ہو چکا تھا اور خود کو حضرت عیسی علیہ السلام نے مسیح قرار دیا ہے جیسا کہ لکھا ہے: عورت نے اس سے کہا میں جانتی ہوں کہ مسیح جو خرسنس کہلاتا ہے.آنے والا ہے جب وہ آئے گا تو ہمیں سب باتیں بتا دے گا.یسوع نے اس سے کہا میں جو تجھ سے ( یوحنا باب ۴ آیت ۲۶) بول رہا ہوں وہی ہوں.آپ نے کہیں بھی اپنے آپ کو نبی اور رسول کے علاوہ اور کچھ قرار نہیں دیا.اور آپ نے اپنے بعد آنے والے ایک مددگار کی بھی پیشگوئی فرمائی ہے لکھا ہے: میرا جانا تمہارے لئے فائدہ مند ہے کیونکہ اگر میں نہ جاؤں تو وہ مدد گار تمہارے پاس نہ آئے گا لیکن اگر جاؤں گا تو اسے تمہارے پاس بھیج دوں گا.( یوحنا باب ۱۶ آیات۷ ) اسی طرح آپ کی نبوت کی حقیقت بھی یہی ہے کہ آپ تو رات پر عمل کرانے کیلئے تشریف لائے تھے اور خود بھی اس پر عمل پیرا تھے.چنانچہ روحانی چلہ کشی اور روحانی آزمائش کے دوران بھی آپ تو رات کے احکامات سے راہنمائی حاصل کرتے رہے آپ نے بالصراحت فرمایا : یہ نہ سمجھو کہ میں تو رات یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا ہوں.کیونکہ میں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ملے گا جب تک سب کچھ

Page 258

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل پورا نہ ہو جائے.(متی باب ۵ آیت ۷ تا ۱۹) 258 حضرت مسیح علیہ السلام شریعت موسوی کے تابع نبی تھے لیکن آپ کی شخصیت کو بعد میں آنے والوں نے اپنے خیالات کی بھینٹ چڑھا دیا جیسا کہ نیو اامریکن لائبریری سے چھپنے والی The Uses of the Past by Robert Miller - New American Library Press میں تسلیم کیا گیا.دوسرا بڑا دعویٰ جس کا دعویدار آپ کو قرار دیا جاتا ہے آپ کا دعوی الوہیت ہے.یہ وہ دعویٰ ہے جس کی وجہ سے عیسائیت میں شرک کا دروازہ کھلا اور مادہ پرستی ہونے لگی اور یہ بھی انجیل کے ایک محاورہ کو غلط معنی پہنانے سے ہوا.عہد نامہ قدیم وجدید میں ابن“ کا لفظ کسی شدید تعلق کے اظہار کیلئے بیان ہوا ہے.جیسا کہ آپ نے یوحناء اباب ۳۱ تا ۳۴ میں واضح فرمایا ہے.آپ کو استعارة ابن اللہ کہا گیا.قرب خداوندی جو آپ کو حاصل تھا اس کو بیان کرنے کیلئے ورنہ آپ میں کوئی خدائی صفات نہ تھیں کہ آپ کو اس وجہ سے خدایا اس کا اقنوم سمجھا جائے.آپ ایک اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی تھے جن کے سپرد یہ کام تھا کہ توریت کی تعلیم کی حکمتوں کو کھول کر بیان کریں اور آپ کا مشن عالمگیر بھی نہ تھا بلکہ بنی اسرائیل تک محدود تھا جیسا کہ قرآن کریم نے بھی آپ کو رسولاً إِلى نَبِي إِسْرَائِیل کہا اور انجیل میں بھی یہی آیا ہے کہ: میں بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا اور کسی کے پاس نہیں بھیجا گیا.(متی ۱۵ آیت ۲۲) ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ملے گا.جب تک سب کچھ پورا نہ ہو جائے.(متی ۵ آیت ۱۹) یعنی جب تو رات کی بیان کردہ عظیم الشان پیشگوئی نبی آخر الزمان کی آمد کے متعلق پوری ہوگی تو پھر تورات منسوخ ہوگی.گویا آپ نے اپنا زمانہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک

Page 259

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.259 قرار دیا ہے.اس لحاظ سے آپ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بطور ار ہاص تھے.اس لئے ضروری تھا کہ اپنے پیروکاروں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قبول کرنے کی وصیت کر جاتے.چنانچہ یہی وہ بات تھی جس کے اظہار پر یہود برانگیختہ ہوتے تھے کہ انعام نبوت ان سے لیکر دوسری قوم یعنی بنو اسماعیل کو دے دیا جائے گا آپ نے تاکستان کی مثال میں بھی اسطرف اشارہ فرمایا اور کئی پیشگوئیاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بیان فرمائیں اور کہا کہ : ” مجھے تم سے اور بھی بہت سی باتیں کہنی ہیں مگر اب تم ان کی برداشت نہیں رکھتے.لیکن جب وہ یعنی سچائی کا روح آئے گا تو تم کو تمام سچائی کی راہ دکھائے گا.“ ( یوحنا باب ۱۶ آیت ۱۲ تا ۱۳) حضرت مسیح علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی عظمت اور بزرگی کو بھی قائم فرمایا اور پیشگوئی فرمائی کہ وہ وقت آتا ہے کہ تم نہ اس پہاڑ پر باپ کی پرستش کرو گے اور نہ یروشلم میں.“ ( یوحنا باب ۴ آیت ۲۱) اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عبادت خداوندی کا قیام یروشلم میں نہیں ہوگا بلکہ کہیں اور ہوگا اور وہ مقام کعبہ ہی ہو سکتا ہے اسی وجہ سے ابتدائی عیسائی زائرین کا کعبہ کی زیارت کرنے کا ثبوت ملتا ہے.سیرت ابن ہشام جلد اول صفحہ ۲۱۲ میں لکھا ہے کہ تعمیر کعبہ کے وقت سریانی زبان میں لکھی ہوئی ایک کتاب اور بعض روایات کے مطابق کتبہ ملا تھا جس میں مناجات لکھی ہوئی تھیں.جو کسی ابتدائی زمانہ کے عیسائی زائر نے تحریر کی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ زائر حضرت مسیح علیہ السلام ہی تھے.تحریف بائیبل سے آگاہ کرنا بھی حضرت مسیح علیہ السلام کا مشن تھا چنانچہ خطبات کا منائین میں لکھا ہے: دو ہمیں اور ہمارے پیغمبر کو وہ نگاہ بصیرت دی گئی ہے جس سے ہم تو رات کے

Page 260

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.محترف حصوں کو صاف پہچان لیتے ہیں.“ 260 باب ہشتم میں آپ کی طرف منسوب دعوی الوہیت کی حقیقت پر روشنی ڈالی گئی ہے.حضرت مسیح علیہ السلام نے بذات خود کہیں دعوی الوہیت نہیں فرمایا بلکہ یہ امر بھی سامنے آیا ہے کہ ابتدائی عیسائی تو حید کے علمبردار تھے اس کیلئے تاریخی ثبوت پیش کئے گئے ہیں.F.C Conybeare کی کتاب The Origins of Christianity مطبوعہ لندن اور یورا نڈر ڈاکٹر چارلس فرانسس پوٹر کی کتاب The Lost Year of Jesus Revealed مطبوعہ میڈل بک کمپنی ، لندن اور اسی طرح کرسٹر سٹین ڈریل کی کتاب The Scrolls and the New Testament نے اس سلسلہ میں کافی مواد فراہم کیا ہے.عیسائی صاحبان نے جن دلائل سے آپکی طرف دعوئی الوہیت کو منسوب کیا ہے انکی چھان بین کرنے کے بعد انکی تردید کی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریرات سے انکے ابطال میں دلائل درج کر دیئے گئے ہیں.جہاں باب اول میں آپ کے جسمانی نسب نامہ کی حقیقت بیان کر دی گئی ہے وہاں آخری باب میں آپ کے الوہی نسب نامہ کی حقیقت بھی بیان کی گئی ہے.یوحنا کی ابتدائی آیات کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ آپ کا الوہی نسب نامہ ہے حالانکہ مختلف تراجم کا مقابلہ کرنے اور گرائمر کے اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دیکھا گیا تو اس کے سوا اور کچھ بھی منکشف نہیں ہوا کہ آپ علیہ السلام خدا تعالیٰ کے کلمہ کن کے نتیجہ میں ظاہر ہوئے اور اسمیں مسیح علیہ السلام کی کوئی خصوصیت نہیں تھی بلکہ تمام کائنات اور اس کا زرہ زرہ کلہ کن کا مرہون منت ہے.بالآخر حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام کے ایک خوبصورت اقتباس پر اس کتاب کو اختتام تک پہنچا تا ہوں.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:

Page 261

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل.قرآنی تعلیم نے ہم پر کھول دیا ہے کہ ابن مریم پر یہ سب جھوٹے الزام ہیں.انجیل میں تثلیث کا نام ونشان نہیں.ایک عام محاورۃ لفظ ابن اللہ کا جو پہلی کتابوں میں آدم سے لیکر آخر تک ہزاروں لوگوں پر بولا گیا تھا وہی عام لفظ حضرت مسیح کے حق میں انجیل میں آ گیا پھر بات کا بتنگڑ بن گیا.یہاں تک حضرت مسیح اسی لفظ کی بنیاد پر خدا بھی بن گئے حالانکہ نہ کبھی مسیح نے خدائی کا دعویٰ کیا اور نہ کبھی خودکشی کی خواہش ظاہر کی جیسا کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر ایسا کرتا تو راستبازوں کے دفتر سے اُن کا نام کا ٹا جاتا یہ بھی مشکل سے یقین ہوتا ہے کہ ایسے شرمناک جھوٹ کی بنیاد حواریوں کے خیالات کی برگشتگی نے پیدا کی ہو کیونکہ ان کی نسبت جیسا کہ انجیل میں بیان کیا گیا ہے یہ صیح بھی ہو کہ وہ موٹی عقل کے آدمی اور جلد تر غلطی کھانے والے تھے لیکن ہم اس بات کو قبول نہیں کر سکتے کہ وہ ایک نبی کی صحبت یافتہ ہوکر ایسے بے ہودہ خیالات کی جنس کو اپنی ہتھیلی پر لئے پھرتے تھے.مگر انجیل کے حواشی پر نظر غور کرنے سے اصل حقیقت یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ ساری چالبازیاں حضرت پولوس کی ہے جس نے پولیٹیکل چالبازوں کی طرح عمیق مکروں سے کام لیا.غرض جس ابن مریم کی قرآن نے ہم کو خبر دی ہے وہ اسی ازلی ابدی ہدایت کا پابند تھا جو ابتدا سے بنی آدم کیلئے مقرر کی گئی ہے.لہذا اس کی نبوت کیلئے قرآنی ثبوت کافی ہے گوانجیل کی رو سے کتنے ہی شکوک و شبہات اس کی نبوت کے بارے میں پیدا ہوں.“ والسلام على من اتبع الهدى راقم خاکسار غلام احمد 261 نور القرآن نمبر اصفحه ۴۲-۴۳- روحانی خزائن ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان )

Page 262

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل فہرست کتب مطالعہ شدہ برائے کتاب حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل نمبر شمار قرآن کریم 1 نام کتاب 262 2 تفسیر کبیر جلد چہارم تالیف حضرت مصلح موعود ایڈیشن اول مطبوعہ ادارۃ المصنفین ، ربوہ 3 4 5 9 7 8 9 پاکستان تفسیر صغیر جلد چہارم تالیف حضرت مصلح موعود ایڈیشن اول مطبوعہ ادارۃ المصنفین ، ربوہ - پاکستان تفسیر جامع البیان یعنی تفسیر ابن جریر تالیف ابی جعفر محمد بن جریر المبری، دار المعارف، بیروت - لبنان تنوير المقياس حاشيه للقنوى على البيضا وی مطبوعہ دارالمعارف، بیروت لبنان جلالين مع کمالین تالیف علامہ جلال الدین محمد بن احمد شافعی مطبوعہ دارابن کثیر دمشق و بیروت معالم التنزیل مطبوعہ دارالمعارف ، بیروت - لبنان غایة البرہان مطبوعہ دار المعارف، بیروت - لبنان غرائب القرآن نور فاؤنڈیشن انٹرنیشنل، لاہور.پاکستان 10 تاج العروس تالیف محب الدین ابی الفیض محمد مرتضى الحمين الواسطی، دارالکتب العلمیہ ، لبنان 11 صحاح جوہری تالیف ابی نصر اسماعیل بن حماد جوہری، دارالکتب العلمیہ ، لبنان 12 صحیح بخاری از ابوعبدالله محمد بن اسماعیل بخاری، مکتبہ رحمانیہ، اردو بازار، لاہور.پاکستان 13 صحیح مسلم از مسلم بن حجاج نیشاپوری.مطبوعہ دارالاحیاء التسرات العزلی، بیروت 14 دار قطنی ، مطبوعہ مکتبہ رحمانی اردو بازار لاہور - پاکستان

Page 263

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 15 مواهب اللہ نیہ مصنفہ علامہ قسطلانی مطبوعہ دارالمعارف بیروت - لبنان 16 اخبار مکہ مصنفہ علامہ از رقی” مطبوعہ دارالمعارف بیروت - لبنان 17 سیرۃ ابن ہشام مصنفہ علامہ ارز قی" دار البیان العربی- مصر 18 ترجمه سیرت ابن ہشام از شیخ محمداحمد پانی پتی مطبوعہ لاہور 1969ء 263 19 کشتی نوح از حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ.پاکستان 20 چشمه مسیحی از حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام ایڈیشن اول مطبوعہ الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان 21 جنگ مقدس از حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام ایڈیشن اول مطبوعہ الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان 22 مسیح ہندوستان میں از حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام ایڈیشن اوّل مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ.پاکستان 23 براہین احمدیہ جلد اول از حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان براہین احمدیہ جلد پنجم از حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ.پاکستان 25 کتاب البریه از حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام ایڈیشن اول مطبوعہ 26 الشركة الاسلامیہ، ربوہ.پاکستان تحفہ گولڑو یہ از حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام ایڈیشن اول مطبوعہ الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان

Page 264

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 264 27 ملفوظات جلد اول از حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ.پاکستان 28 ملفوظات جلد سوم از حضرت مرزا غلام احمد مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام ایڈیشن اول مطبوعه الشركة الاسلامیہ، ربوہ پاکستان 29 احمدیہ پاکٹ بک از ملک عبد الرحمن صاحب خادم گجرات (پنجاب) پاکستان 20 نومبر 1952ء 30 ایک نئی انجیل کا انکشاف از شیخ عبد القادر صاحب محقق مطبوعہ لاہور آرٹ پر لیس انار کلی ، لاہور.پاکستان 31 صحائف القمران از شیخ عبد القادر صاحب محقق مطبوعہ لاہور آرٹ پرلیس انار کلی لاہور.پاکستان بائیبل ( عہد نامہ قدیم وجدید ) ، بائیبل سوسائیٹی ، انار کلی لاہور - پاکستان 33 قاموس کتاب المقدس ترجمہ و تالیف ڈاکٹر جارج ای پوسٹ ایم.ڈی مطبوعہ لندن 34 بائیل ڈکشنری از جان ڈی ڈیوس 1973.Royal Publishers Inc 35 عبرانی بائیبل ، مطبوعہ بائیبل سوسائیٹی ، انار کلی لاہور.پاکستان 36 نیوانگلش با ئیمیل 1961 Oxford University Press 37 کتاب مقدس ترجمه از جارج لیزا، بائیبل سوسائیٹی ، انارکلی لاہور.پاکستان طالمود آف جیزس Ist printed in USA, Canada produced in Jerusalem- Israel 38 طالمود آف بب مطبوعه -Keter Publishing House Ltd.Jerusalem Israel 39 40 مسیح کی شان از پادری برکت اللہ ایم.اے مطبوعہ پنجاب ریلیجیس سوسائیٹی ، لاہور 6

Page 265

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 265 41 تحریف انجیل و صحت انجیل از پادری ڈبلیو منچن ایم.اے مطبوعہ پنجاب ریــلیــجـيـس سوسائیٹی ،لاہور 42 اتفاق البشير بن مطبوعہ بیروت منتهی الافکار از رابرٹ کلارک و مولوی عمادالدین مطبوعہ پنجاب ریلیجیس سوسائیٹی ، 43 لاہور 44 اثبات تثلیث فی التوحید از عبد اللہ آتھم مطبوعہ پنجاب ریلیجیس سوسائیٹی ،لاہور 45 مسیحی تصور خدا از بشپ سٹیفن نیل مطبوعہ پنجاب ریلیجیس سوسائیٹی ، لاہور 46 تاریخ کلیسیا از پادری کین ڈبلیو پی ہیرس بی.اے ( کر چنین نالج سوسائٹی، لاہور ) 47 ینابیع امسیحیت از خواجہ کمال الدین صاحب ایم.اے مطبوعہ انارکلی لاہور، پاکستان مرقس کا آخری ورق از شیخ عبدالقادر صاحب محقق لاہور آرٹ پر لیس ، انار کلی لاہور 49 خطبات کلم نائین مطبوعہ ادارہ اسلامیات، کراچی لاہور - پاکستان 50 فلپ حواری کی انجیل مطبوعہ ادارہ اسلامیات، کراچی لاہور.پاکستان 51 ڈائیگلاٹ از واچ ٹاور بائیبل سوسائٹی ، انار کلی ، لاہور Pe از پرنسپل اے.جے گر یوایم.اے Peaks Commentary of Bible | published by Thomas Nelson & Sons Ltd.London 1962 52 53 == 54 Interpreters Commentary of Bible شائع شدہ ابینگڈن پرلیس 1971ء | Concised Bible Commentary از ریورنڈرڈ بلیو کے کلارک | published in London by Macmillan 1953 Dictionary of The Christ and the Gospel از پیسنگو | published in London by Macmillan 1953 | Black's Bible Dictionary by Miller J.Lane 1973 55 56

Page 266

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 57 266 Basic Bible از جیمز بافٹ کٹلر ٹوکری جے بی قلب (published in London) 8 اپا کرفل نیوٹسٹا منٹ از ایم آر جیمس published in London by Oxford University Association 1924 Oxford Junior Encyclopedia published in Oxford, London 1957 Encyclopedia of Britanica published by William Benton 1943 59 60 (London/ Chicago) Encyclopedia Biblica edited by The Rev T.K Cheyne M.A, D.D published by Adams Charles Black, London.The Chamber's Encyclopedia published in London.Encyclopedia of Religious and Atheist published in London The Book of Knowledge by Gordon Stowell published in London by The Waverly Book Co.Ltd.1955 61 62 63 64 The Gospel According to Thomas published in London by Harper & Brother 1959 65 Rise of Christanity از بشپ بارنس published in London by Longman's Green & Co.1997 66 66 The Scrolls and Christian Origins by Mathew Black published by N.Y Charles Scribner's & Sons 1961 67 Jesus in Quran by Geoffery Parrinder published by Sheldon Press 1976 68 80 Unknown Life of Jesus by Nicolas Notovitch published by Dragon Key Press 2002 Jesus in Rome از رابرٹ گریوز اور یشوعا پوڈرو published by Cassel & Co.1957 The Uses of the Past از رابرٹ متر نیو یارک امریکن لائبریری پریس 69 69 70 71

Page 267

267 حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 72 73 Canon and the Text of the Testament از سی آر گریگوری The Scrolls and New Testament از کرسٹرسٹن ڈربل published by T&T Clark, Edinburg 1907 The Origins of Christanity by F.C Canybear published in London 74 The Lost Year of Jesus Revealed از ریورنڈر ڈاکٹر چارلس فرانس پوٹر مطبوعہ Fawcett Publications Inc.1959 An Eye Witness امریکن بک کمپنی ، شکاگو Kissinger Publishing LLC 75 76 Das Lenin by Kurt Burna 77 78 The Dead Sea Community by Kurt Schubert published in London by A&C Black 1959 The Scrolls from the Dead Sea by Edmund published by Penguin Books Ltd.London The Fourth Gospel by R.H Strachan published by Student Christian Movement London 1959 79 80 60 The Life of Jehoshua by Franz Hartman M.D published in London 1909 81 The Life of Jesus by Ernest Renan published by Watts & Co.London 1935 82 The Revision Revised by J.W Burgon published by J.Murray 83 1883.What Catholic Chruch Is and What She Teaches by E.R Hull published by London Catholic Truth Socity 1939 84 The New Testament and Its Making and Meaning by Albert 85 85 Barnett published by Abingdon Press, London.

Page 268

268 حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - A.M Manval Grammer of Greek New Testament by Dana & | Mantey published by Macmillan Co.1947.86 The Life According to St.John by Philip Loyd, Mowbray, LONDON 1936.87 The Gospel According to St.Mark by H.B Swete published by | Macmillian 1920 The Gospel According to St.Thomas by A Lullavmant | published by Macmillian 1920 The Christ at Round Table published by Abingdon Press 1928.88 89 88 90 90 The Secret Sayings of Jesus By Robert M.Grant & David Noel | Freedman published by Contana Books, London, 1960.91 92 رسالہ جات Muslim World 93 رسالہ الفرقان ماہ نومبر 1967ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس، ربوہ ، پاکستان 94 رساله الفرقان ماہ اگست 1955 ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس، ربوہ، پاکستان 95 رساله الفرقان ماہ ستمبر اکتوبر 1958ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیں، ربوہ، پاکستان 96 97 98 99 100 روز نامہ الفضل جولائی 1962 ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس، ربوہ، پاکستان روز نامہ الفضل جنوری 1967 ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس، ربوہ، پاکستان روز نامہ الفضل جون 1965 ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس، ربوہ، پاکستان روزنامه الفضل اکتوبر 1965 ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیس، ربوہ، پاکستان روزنامه الفضل مئی 1965 ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس، ربوہ، پاکستان 101 روز نامه الفضل اگست 1963ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پرلیس، ربوہ، پاکستان 102 روز نامه الفضل مارچ 1962ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پریس، ربوہ، پاکستان

Page 269

حضرت مسیح علیہ السلام کا دعوی از روئے قرآن و انجیل - 103 روز نامہ الفضل جون 1962 ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیں، ربوہ، پاکستان 104 269 روزنامه الفضل اپریل 1949ء مطبوعہ ضیاء الاسلام پر لیں، ربوہ، پاکستان 105 بائیبل کی الہامی حیثیت از قاضی محمد نذیر صاحب فاضل ناظر اصلاح وارشاد از مهتهم صاحب نشر واشاعت صدر انجمن احمدیہ، پاکستان 106 پولوس موجودہ عیسائیت کا بانی از محمد اجمل شاہد مربی سلسله احمدیه از مهتم صاحب نشر و اشاعت صدرا انجمن احمد یہ، پاکستان 107 حضرت مسیح مشرق میں از مهتم صاحب نشر واشاعت صد را مجمن احمد یہ ربوہ 108 انجیل مرقس کا آخری ورق از شیخ عبد القادر صاحب محقق لاہور آرٹ پریس، انار کلی، لاہور 109 ندائے حق از حضرت میر محمد اسحاق صاحب از مهتم صاحب نشر واشاعت صدر انجمن احمدیه پاکستان 110 حضرت مریم" کا سفر کشمیر از محمد اسد اللہ صاحب کشمیری فاضل از مهتم صاحب نشر واشاعت صدرانجمن احمدیہ، پاکستان 111 اناجیل کا یسوع اور قرآن کا عیسی از قاضی محمد یوسف صاحب پشاور از مہتمم صاحب ن واشاعت صدر انجمن احمد یہ، پاکستان 112 انجیل برناباس اردو ترجمہ حمد حلیم انصاری صاحب مطبوعہ ادارہ اسلامیات، کراچی 2003 ء 113 The Complete Dead Sea Scrolls in English by Geza | Vermes, published by Penguin Books Ltd.London 1998 |Encyclopedia Judaica Jerusalem by Keter Publishing 114 House Ltd.produced and printed in Jerusalem ISRAEL 1972.

Page 269