Hazrat Masih-e-Maud Ka Uslub-e-Jihad

Hazrat Masih-e-Maud Ka Uslub-e-Jihad

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسلوبِ جہاد

Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت مسیح موعود و مہدی معہود ؑ
جہاد

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے اسلوب جہاد کے موضوع پر مصنف نے ایک نئے زاویہ سے روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے، دراصل یہ مواد مولانا موصوف نے اولاً جلسہ سالانہ برطانیہ 2003ء کے موقع پر ایک تقریر میں پیش کیا جسے بعدازاں افادیت کے پیش نظر ضروری اضافوں کے بعد کتابی شکل دی گئی اور اس کے متعدد ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ زیر نظر ٹائپ شدہ ایڈیشن نظارت نشر و اشاعت قادیان کا طبع کردہ ہے۔ دور حاضر میں جہاد جیسے موضوع پر مشرق و مغرب میں تبادلہ خیال بھی روزافزوں ہے اور اپنے اپنے موقف کی تائید میں لٹریچر کی تیاری بھی عروج پر ہے، ایسے میں اس زمانہ کے حکم و عدل کے فتویٰ جہاد کی توضیح اور آپ کے جاری کردہ جہاد بالسیف کی عالمگیر افادیت سب پر عیاں ہے، زیر نظر کتاب میں حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلا م کے پیش کردہ اسلوب جہاد پر خاطر خواہ مواد جمع کرکے ثابت کیا گیا ہے کہ اب یہی کامیابی کی راہ ہے اور باقی سب حربے اور تدبیریں ناکامی و بربادی میں بڑھانے والی ہونگی۔


Book Content

Page 1

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسلوب جہاد م دشمن کو کیا ہم نے محبت پامال سیف کا کام قلم سے ہی دکھایا ہم نے (حضرت کا موجود

Page 2

حَمَامَتُنَا تَطِيرُ بِرِيشِ شَوْقٍ وَفِي مِنْقَارِهَا تُحَفُ السَّلَامِ سیدنا حضرت مسیح موعود کا اسلوبِ جہاد لئیق احمد طاہر مبلغ انگلستان

Page 3

نام کتاب: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اسلوب جہاد سابقہ ایڈیشنز : 2004ء ،2012ء حالیہ ایڈیشن : 2016 ء تعداد : 1000 ایک ہزار ) شائع کردہ: نظارت نشر و اشاعت قادیان مطبع ضلع گورداسپور، صوبہ: پنجاب (انڈیا)-143516 : فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان ISBN: Hadhrat Masih-i-Maudas Ka Uslub-i-Jihad In Urdu Language By Maulana Laeeq Ahmad Sahib Tahir of U.K

Page 4

بسم الله الرحمن الرحیم نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم وعلی عبدہ المسیح الموعود تعارف سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ہند میں دو واقعہ ہوئے ہیں ایک سید احمد صاحب کا اور دوسرا ہمارا ان کا کام لڑائی کرنا تھا.اُنہوں نے شروع کر دی.مگر اس کا اتمام ہمارے ہاتھوں مقدر تھا جو کہ اب اس زمانہ میں بذریعہ قلم ہورہا ہے.“ ( ملفوظات جلد ۴ صفحہ: ۱۹۲ پہلا ایڈیشن ، ملفوظات جلد دوم صفحه : ۵۰۱ جدید ایڈیشن مطبوعه نظارت نشر واشاعت، قادیان ۲۰۰۳ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آکر جہاد کے اسلوب کو یکسر بدل دیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث یضع الحرب کے مطابق تلوار کا کام قلم سے کیا.اسی قلم کے جہاد کو محترم مولانا لئیق احمد صاحب طاہر مبلغ انگلستان نے ایک نئے زاویہ سے ۲۰۰۳ء کے جلسہ سالانہ یوکے، کے موقعہ پر اپنی تقریر میں پیش فرمایا.یہ تقریر ساری دُنیا میں بڑی پسند کی گئی اور بعض لوگوں نے اس کو شائع کرنے کی خواہش بھی ظاہر فرمائی.چنانچہ اس خواہش کے پیش نظر آپ نے اس مسودہ کو کچھ اضافہ کے

Page 5

ساتھ اشاعت کے قابل بنایا.موصوف کی اس سے قبل بھی دو کتب سیر حضرت احمد علیہ السلام“ اور ” تاریخ احمدیت برطانیہ شائع ہو چکی ہیں.موصوف ایک کامیاب مبلغ کے ساتھ ساتھ بہترین مقرر اور مصنف بھی ہیں.اللہ تعالیٰ موصوف کو جزائے خیر عطا کرے اور اسلامی جہاد کے موضوع کو نئی طرز پر پیش کرنے کی موصوف نے جو کاوش کی ہے اس میں غیر معمولی برکت عطا کرے.اور بہتوں کی ہدایت کا موجب ہو.آمین والسلام خاکسار حافظ مخدوم شریف ناظر نشر و اشاعت قادیان

Page 6

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور دردمندوں کے ہمدرد بنیں.زمین پر صلح پھیلا دیں کہ اس سے ان کا دین پھیلے گا.( مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحه ۲۳۳)

Page 7

1 بسم اللہ الرحمن الرحیم سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اسلوب جہاد مَنْ قَتَلَ نَفْسا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا (المائد33:58) ترجمہ : ”جس نے بھی کسی ایسے نفس کو قتل کیا جس نے کسی دوسرے کی جان نہ 66 لی ہو یا زمین میں فسادنہ پھیلا یا ہوتو گویا اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا.“ جہاد کی تعلیم مومن کی زندگی کے ہر لمحے سے تعلق رکھتی ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا جہاد بچپن سے شروع ہوا اور بڑھاپے تک جاری رہا.یہ جہاد جبل نور پہ غار حرا میں اس شان سے جاری تھا کہ اس پر اللہ تعالیٰ کے فرشتے بھی عش عش کر رہے تھے.یہ جہاد اس وقت بھی جاری تھا جب آپ اکیلے خانہ کعبہ میں جا کر اپنے رب کریم کے ساتھ راز و نیاز کیا کرتے تھے.یہ جہاد طائف کی بستی میں اُس وقت بھی جاری تھا جب آپ بے سروسامانی کے عالم میں خون میں لت پت اَللّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ

Page 8

2 کی دعا میں مصروف تھے اور غار ثور میں بھی یہی جہاد جاری تھا اور یہ جہاد راتوں کے اس لمبے قیام کے دوران بھی جاری تھا جب کہ روایات کے مطابق لمبے قیام کی وجہ سے آپ کے پاؤں متورم ہو کے پھٹ جایا کرتے تھے اور یہ جہاد اس وقت اپنی انتہا اور اپنے انجام کو پہنچا جب آپ ہر آنکھ کو اشک بار چھوڑ کے في الرفيق الأعلى في الرفيق الأعلى کہتے ہوئے اپنے رب کے حضور حاضر ہو گئے.بعض وقتی لیکن اہم واقعات قوموں کی سوچ کے دھارے تبدیل کر دیتے ہیں.چنانچہ فی زمانہ.خودسوزی خود کش حملوں.نیو یارک ٹریڈ سنٹر یعنی Twin Towers پہ ہوائی جہازوں سے حملوں نیز دنیا بھر میں مسلمانوں کے Suicidal attacks کی وجہ سے کل عالم میں توجہ اسلامی جہاد.جہادی علماء اور terrorism کی طرف ہوگئی.اس تشدد کے چار قسم کے رد عمل ظاہر ہوئے.پہلا یہ کہ تمام مغربی ذرائع ابلاغ نے بغیر کسی تحقیق کے ان حملوں کی تمام تر ذمہ داری مسلمانوں پر ڈال دی.چنانچہ اولاً افغانستان کی تباہی اور پھر عراق پر ہولناک یلغار اسی رد عمل کا نتیجہ تھا.مغرب کی نظر میں اگر کوئی terrorist تھا تو یہی مسلمان تھے.اگر کوئی fundamentalist تھا تو یہی مقہور مسلمان تھے اور اگر کوئی extremist ہو سکتا تھا تو یہی مسلمان تھے جنہوں نے نیو یارک میں ہزاروں بے گناہوں کے خون سے ہولی کھیلی.دوسرا رد عمل یہ ظاہر ہوا کہ جہاں کروڑوں مسلمان.نیو یارک Twin

Page 9

3 Towers کے ہزاروں معصوموں کی دردناک ہلاکت پر خون کے آنسورور ہے تھے.چند ناعاقبت اندیشوں نے اس پر خوشی سے رقص کیا.طبلے بجائے اور مٹھائیاں تقسیم کیں.مغربی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا تو اسی تاک میں تھا.یہ مناظر بار بار دنیا کو دکھا کر باور کروایا گیا کہ یہ ہیں مسلمان.جن کے دل میں انسانیت کے لئے شمہ برابر بھی جگہ نہیں.یہ انسان نہیں.یہ ننگ انسانیت ہیں.چنانچہ ان چند درجن یا چند سونا عاقبت اندیشوں نے ساری دنیا میں مسلمانوں کو ذلیل اور خوار کیا.تیسرا رد عمل یہ ہوا کہ مغرب میں انصاف پسند طبقہ کی توجہ اس طرف ہوئی کہ یہ جو بلا تحقیق یک طرفہ سارا الزام مسلمانوں کے پلڑے میں ڈال دیا گیا ہے.ذرہ دیکھیں تو سہی کہ قرآن کریم اور اسلام اس بارہ میں کیا کہتے ہیں.چنانچہ ساری مغربی مارکیٹ سے دیکھتے دیکھتے قرآن کریم کے لاکھوں نسخے فروخت ہو گئے.جماعت احمدیہ کے لئے اللہ تعالیٰ نے تبلیغ کے لئے نئی راہیں کھول دیں.یوں سارا جہاں احمدیت کے لئے میدان تبلیغ بن گیا.کیونکہ کل عالم میں صرف ہم ہی تھے جو جہاد کے مسئلے پر اپنے موقف اور مسلک پر قائم رہ سکتے تھے.ہمیں کسی خوفناک رد عمل کو دیکھتے ہوئے کسی سے سمجھوتہ کرنے یاCompromise کرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی.اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے.ایک چوتھا اور انوکھا رد عمل تمام مشرقی اسلامی دنیا میں ظاہر ہوا.مغرب کی خون آشام نگاہیں دیکھ کر.مغرب کے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر وہ قوم جو جہاد جہاد کے نعرے لگایا کرتی تھی.وہ علماء جو دار الحرب دارالحرب کا پر چار کیا کرتے تھے.اور وہ

Page 10

4 جہادی علماء جو قتل مرتد قتل مرتد کہتے ہوئے کبھی تھکتے نہیں تھے.انہوں نے یک دم U-TURN لیا اور ساری مشرقی اسلامی دنیا میں کیاٹی وی (T.V) اور کیا ریڈیو کیا اخبارات اور کیا مسجد و منبر ومحراب ہر جگہ سے منادی ہونے لگی کہ اسلام تو ہے ہی صلح و آشتی کا مذہب ، اور مذہب بھائی چارہ کا نام ہے.مذہب نہیں سکھا تا آپس میں بیر رکھنا اسلام کے تو معنی ہی امن، صلح اور سلامتی کے ہیں.یہ وہ زبان تھی جو گزشتہ 100 سال سے جماعت احمد یہ انہیں سکھانے کے لئے ہزار جتن کر رہی تھی لیکن ان کی ایک ہی رٹ تھی کہ قادیانیوں اور مرزائیوں نے جہاد حرام قرار دے دیا ہے.نیو یارک ٹریڈ سنٹر پر ایک ہی حملہ نے انہیں مجبور کر دیا کہ جماعت احمدیہ کے اُسلوبِ جہاد کے سامنے اپنی گردنیں خم کر دیں.یہ ایک عجیب حیرت انگیز انقلاب تھا کہ جہاد کے مسلک سے متعلق مغربی دنیا تو پہلے ہی جماعت احمدیہ کے زندگی بخش پیغام سے متفق تھی.اب ساری مشرقی اسلامی دنیا بھی اسی موقف کے ساتھ کامل اتحاد اور اتفاق کا اعلانیہ اظہار کرنے پر مجبور ہوگئی گویا جہاد کے نکتہ نظر سے کل عالم میں احمدی ہی احمدی آباد تھے.یہ اعجاز تھا.سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اُس مخصوص اُسلوب جہاد کا جس کی طرف آپ روز اول سے مسلمانوں کو متوجہ فرمارہے تھے.اے کاش! امت مسلمہ نے جہاد کے مسئلہ پر مامور زمانہ حکم عدل اور وقت کے امام کی آواز پر کان دھرے ہوتے تو اُسے اُن دکھوں اور کرب میں سے گزرنا نہ پڑتا جس کی کسک آج مسلمان ہی نہیں غیر بھی محسوس کر رہے ہیں.

Page 11

5 جہاد کا لفظ اسلامی اصطلاح میں غیر معمولی وسعت کا حامل اور معانی کا ایک جہان سمیٹے ہوئے ہے.اس کے معنے اعلیٰ مقصد کے لئے مسلسل محنت شاقہ کرنا، مالی قربانیاں دینا.قرآن کریم اور اسوہ نبوی کی روشنی میں صلح و آشتی اور امن کا پیغام دینا، اصلاح نفس کے لئے خواہ وہ ذاتی ہو یا آئندہ نسلوں کی ، رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاک نمونہ کی روشنی میں ہمہ گیر، انتھک محنت اور منصوبہ بندی کرنا اور سب سے آخر پر خود حفاظتی اور ذاتی دفاع کے لئے وہی ہتھیار استعمال کرنا جود ثمن اسلام کے نابود کرنے کے لئے کرتا ہو.جہاد کے اس وسیع مفہوم کو محض جہاد بالسیف تک محدود کر دینا ایک ظلم عظیم اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات کی شدید بے حرمتی ہے.آپ کو جہاد کا جو عرفان حاصل تھا اس کا اندازہ اس سے کیجئے کہ سورۃ فرقان کی آیت وَجَاهِدُهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقة 2 : 53) مکہ میں نازل ہوتی ہے آپ اس واضح اور صریح حکم کے باوجود یکی زندگی کے دوران کسی کو تلوار میں بے نیام کرنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ ہمیشہ صبر، دعا، بخشش اور احسان اور ظلم کے مقابلہ میں عفو کی تلقین فرماتے رہے.اور وہ فانی فی اللہ اپنے نالہ وفغاں اور حسن خلق سے مخالف کے دلوں کی سرزمین فتح کرتا رہا.جس نے بالآخر آپ کو فتح مبین سے شاد کام کیا.ہمارے سید و مولا نے ایک غزوہ سے واپسی پر فرمایا

Page 12

6 رَجَعْنَا مِنَ الْجِهَادِ الْأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الْأَكْبَرِ (ردالمختار علی الدر المختار جلد 3 ص 235) ذرا غور فرمائیے کہ ایک ایسی جنگ جس میں آپ بنفس نفیس شریک ہوں.ایک ایسی جنگ جس میں صحابہ کرام اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لئے بیتاب ہوں.ایک ایسی جنگ جس میں صحابہ کے دلوں میں شہادت کی آرزو مچل رہی ہو اس جنگ کے بارہ میں حکمت اور دانائی کے شہنشاہ کا فرمان یہ ہو کہ یہ غزوہ جس میں جان تک قربان ہوسکتی ہے.اُس اسلامی جہاد کے مقابلہ میں جہاد اصغر ہے جو زندگی کے ایک ایک لمحہ پر حاوی ہے.اپنے نفس کی اصلاح اور اپنی آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت ایک نہ ختم ہونے والا جہاد ہے.یہ ایک ایسی قربانی ہے جو لمحہ لحہ ، سانس سانس عمر بھر دی جاتی ہے اور اسی لئے نفس کی اصلاح کے اس نا پیدا کنار عمل کا نام جہادا کبر رکھا گیا.یہاں یہ اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلمانوں کے مختلف فرقے اور جہادی علماء جس مخصوص جہاد کا پر چار کرنے لگے یہ تصور ان میں کیونکر پروان چڑھا.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد اس کا جواب دیتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں.” خدائی پیشگوئیوں میں بسا اوقات استعارہ کے رنگ میں کلام ہوتا ہے.مگر نا سمجھ لوگ اُسے حقیقت پر محمول کر لیتے ہیں.چنانچہ مسیح و مہدی کے متعلق جو اس قسم کے الفاظ آتے ہیں کہ اس کے دم سے کافرمریں گے یا یہ کہ وہ صلیب کو توڑے گا اور خنزیر کوقتل کرے گا اس سے کم علم لوگوں نے

Page 13

7 خیال کر لیا کہ شاید ان الفاظ میں ایک جنگ کرنے والے مصلح کی خبر دی گئی ہے.حالانکہ یہ سب استعارے تھے جن سے نشانات اور دلائل کی جنگ مراد تھی نہ کہ تیر و کمان کی جنگ.....مرادتھی 66 (سلسلہ احمدیہ صفحہ 81-280) ایک بار سید نا حضرت مسیح موعود نے خونی مہدی کی حدیثوں کی نسبت فرمایا سلطنت کے خیال سے وضع کی گئی ہیں ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 123) اسی طرح سیدنا حضرت مسیح موعود نے رسالہ ” گورنمنٹ انگریزی اور جہاد“ میں خونی مسیح اور خونی مہدی کے تصور کے بارہ میں یہ نکتہ معرفت تحریر فرمایا ہے کہ مسلمانوں نے جہاں یہ عقیدہ اپنا لیا کہ مسیح و مہدی آکر انہیں بے شمار دولت دیں گے.دنیا کا اقتدار انہیں مل جائے گا اور مہدی خون کی ہولی کھیلے گا.وہاں اسلام کو رسوا کرنے کے لئے عیسائیوں نے نہایت سرگرمی کے ساتھ اس غیر اسلامی عقیدہ کو بڑے شدومد کے ساتھ ہوا دی اور اس تکرار کے ساتھ اسے دہرایا کہ مسلمان سچ مچ اسے اسلام کی حقیقی تعلیم سمجھ کے خود بھی اسی رو میں بہہ گئے اور جہاد جہاد کے نعرے لگانے لگے.عیسائی در پردہ اسلام کو ذلیل کرنے کے لئے اور شدید نقصان پہنچانے کے لئے دجل سے کام لے رہے تھے لیکن شومئی قسمت مسلمان ان کی چال میں پھنس گئے اور اس نہایت مکروہ الزام کو اپنے سر تھوپ کراہی پر فخر کرنے لگے یہ مسلمانوں کی بدنصیبی اور سادہ لوحی تھی جس نے مسلمانوں میں جہاد کے بارہ میں ایسا مکروہ اور ظالمانہ تصور

Page 14

راسخ کر دیا کہ اب اس سے چھٹکارہ حاصل کرنا مشکل نظر آتا ہے.8 ( مجموعہ اشتہارات جلد 3 ص226) حضرت مسیح موعود نے جب خونی مہدی اور جنگجو مسیح کے آنے سے انکار کیا تو علماء نے آپ پر کفر کے فتوے لگانے شروع کئے.حضرت مسیح موعود نے بڑے ہلکے پھلکے انداز میں فرمایا:.”بے شک میں اقرار کرتا ہوں کہ میں نے ان لوگوں کا بڑا نقصان کیا ہے کہ میں نے ایسے خونی مہدی کا آنا سراسر جھوٹ ثابت کر دیا ہے جس کی نسبت ان لوگوں کا خیال تھا کہ وہ آکر بے شمار ان کو روپیہ دے گا مگر میں معذور ہوں.قرآن اور حدیث سے یہ بات بپائیہ ثبوت نہیں پہنچتی کہ دنیا میں کوئی ایسا مہدی آئے گا جو زمین کو خون میں غرق کر دے گا پس میں نے ان لوگوں کا بجز اس کے کوئی گناہ نہیں کیا کہ اس خیالی لوٹ مار کے روپیہ سے ان کو محروم کر دیا ہے.میں خدا سے پاک الہام پا کر یہ چاہتا ہوں کہ ان لوگوں کے اخلاق اچھے ہو جائیں اور وحشیانہ عادتیں دور ہو جائیں اور نفسانی جذبات سے ان کے سینے دھوئے جائیں اور ان میں آہستگی ا سنجیدگی اور حلم اور میانہ روی اور انصاف پسندی پیدا ہو جائے اور یہ اپنی اس گورنمنٹ کی ایسی اطاعت کریں کہ دوسروں کے لئے نمونہ بن جائیں اور یہ ایسے ہو جائیں کہ کوئی بھی فساد کی رگ ان میں باقی نہ رہے.“ اور ( مجموعہ اشتہارات جلد 3 ص143 مطبوعہ لنڈن)

Page 15

9 سید نا حضرت مسیح موعود کے اس اُسلوب جہاد سے جہادی علماء میں شدید مایوسی پیدا ہوئی.وہ تو منتظر تھے کہ خونی مہدی کے آنے پر دنیا جہان کی دولت انہیں مل جائے گی.ملکوں پر اقتدار حاصل ہوگا.دشمنوں کی لڑکیاں اور عورتیں ان کی لونڈیاں بنیں گی اور وہ خوب داد عیش دیں گے چنانچہ علمائے سوء نے کفر کے فتووں کا بازار گرم کر دیا.سیدنا حضرت مسیح موعود خونی مہدی کے بھیانک تصور کا ذکر کرتے ہوئے اپنے دلی دکھ اور غم کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں.میں آج کنز العمال کو دیکھ رہا تھا مہدی اور دجال کی نسبت پچاسی حدیثیں اس میں جمع کی گئی ہیں.سب حدیثوں میں یہی ہے کہ وہ آتے ہی یوں خون ریزی کرے گا اور یوں خلق خدا کے خون سے روئے زمین کو رنگین کرے گا.خدا جانے ان لوگوں کو جو ان حدیثوں کے وضاع تھے ( یعنی ایسی جھوٹی حدیثیں گھڑنے والے.ناقل ) سفا کی کی کس قدر پیاس اور خلق خدا کی جان لینے کی کتنی بھوک تھی.اور اُس وقت عقلیں کس قدر موٹی اور سطحی ہو گئی تھیں.یہ بات ان کی سمجھ میں نہ آئی کہ اصول تبلیغ اور ماموریت کے قطعا خلاف ہے کہ کوئی مامور آتے ہی بلا اتمام حجت کے تیغ زنی شروع کردے.......وہ مصلح ہی کیا ہوا.وہ خونریز مفسد ہوا.......میں ان حدیثوں کو پڑھ کر کانپ اٹھا اور دل میں گزرا اور بڑے درد کے ساتھ گزرا کہ اگر اب خدا تعالیٰ خبر نہ لیتا اور یہ سلسلہ (جماعت احمدیہ.ناقل ) قائم نہ کرتا جس نے اصل حقیقت سے

Page 16

10 خبر دینے کا ذمہ اٹھایا ہے، تو یہ مجموعہ حدیثوں کا اور تھوڑے عرصہ کے بعد بے شمار مخلوق کو مرتد کر دیتا.ان حدیثوں نے تو ( یعنی خونی مسیح اور خونی مہدی کے بارہ میں وضعی اور من گھڑت حدیثوں نے.ناقل ) اسلام کی بیخ کنی اور خطرناک ارتداد کی بنیا درکھ دی ہوئی ہے.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 121-17،120 /اکتوبر 1900ء) یہ تو ظاہر ہے جہادی علماء کو اقتدار اور حکومت کے لالچ نے اپنے مخصوص جہاد پر ابھارا.ورنہ اسلام کے حقیقت افروز ، مقدس جہاد میں جلسے جلوسوں ، مار پیٹ اور دھرنوں کی کہاں گنجائش ہے.اسلام کی مٹی پلید ہو تو ہوان جہادی علماء کو اس سے کچھ سروکار نہیں.یہ علماء اپنے مخصوص مقاصد کے لئے مدرسوں کے معصوم طلبہ کو برین واش کر سے قتل و غارت گری پر ابھارتے ہیں.ایسے ہی علماء کی انکمیت پر 17 1 اپریل 1900 ء کو علاقہ پشاور میں کسی سفاک پٹھان نے دو بے گناہ انگریزوں کو قتل کر دیا.اس پر ایک مجمع میں سید نا حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا.یہ جو دو انگریزوں کو مار دیا ہے.یہ کیا جہاد ہے؟ ایسے نابکار لوگوں نے اسلام کو بدنام کر رکھا ہے چاہئے تو یہ تھا کہ ان لوگوں کی ایسی خدمت کرتا اور ایسے عمدہ طور پر اُن سے برتاؤ کرتا کہ وہ اس کے اخلاق اور حسن سلوک کو دیکھ کر مسلمان ہو جاتے.“ مومن کا کام تو یہ ہے کہ اپنی نفسانیت کو کچل ڈالے.لکھا ہے کہ

Page 17

11 حضرت علی ایک کافر سے لڑے.حضرت علی نے اس کو نیچے گرا لیا اور اس کا پیٹ چاک کرنے کو تھے کہ اس نے حضرت علی پر تھوکا.حضرت علی یہ دیکھ کر اس کے سینہ پر سے اتر آئے.وہ کافر حیران ہوا اور پوچھا کہ اے علی ! یہ کیا بات ہے.آپ نے فرمایا کہ میرا جنگ تیرے ساتھ خدا کے واسطے تھا.لیکن جب تو نے میرے منہ پر تھوکا تو میرے نفس کا بھی کچھ حصہ مل گیا.اس پر میں نے تجھے چھوڑ دیا.“ ( ملفوظات جلد 2 صفحہ 50-49) سید نا حضرت مسیح موعود اپنے معرکتہ الآراء مضمون " گورنمنٹ انگریزی اور جہاد میں ایک عجیب نکتہ معرفت بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:.” اور میں اس وقت اپنی جماعت کو جو مجھے مسیح موعود مانتی ہے خاص طور پر سمجھا تا ہوں کہ وہ ہمیشہ ان ناپاک عادتوں سے پر ہیز کر یں مجھے خدا نے جو مسیح موعود کر کے بھیجا ہے اور حضرت مسیح ابن مریم کا جامہ مجھے پہنا دیا ہے.اس لئے میں نصیحت کرتا ہوں کہ شر سے پر ہیز کرو اور نوع انسان کے ساتھ حق ہمدردی بجالاؤ.اپنے دلوں کو بغضوں اور کینوں سے پاک کرو کہ اس عادت سے تم فرشتوں کی طرح ہو جاؤ گے کیا ہی گندہ اور نا پاک وہ مذہب ہے جس میں انسان کی ہمدردی نہیں.اور کیا ہی نا پاک وہ راہ ہے جو نفسانی بغض کے کانٹوں سے بھرا ہے.سوتم جو میرے ساتھ ہو.ایسے مت ہو.تم سوچو کہ مذہب سے حاصل کیا ہے.کیا یہی کہ ہر

Page 18

12 وقت مردم آزاری تمہارا شیوہ ہو؟....خدا کے لئے سب پر رحم کروتا آسمان سے تم پر رحم ہو.آؤ میں تمہیں ایک ایسی راہ سکھاتا ہوں جس سے تمہارا نور تمام نوروں پر غالب رہے اور وہ یہ ہے کہ تم تمام سفلی کینوں اور حسدوں کو چھوڑ دو اور ہمدرد نوع انسان ہو جاؤ اور خدا میں کھوئے جاؤ اور اس کے ساتھ اعلیٰ درجہ کی صفائی حاصل کرو کہ یہی وہ طریق ہے جس سے کرامتیں صادر ہوتی ہیں اور دعائیں قبول ہوتی ہیں اور فرشتے مدد کے لئے اترتے ہیں.مگر یہ ایک دن کا کام نہیں.ترقی کرو.ترقی کرو.اس دھوبی سے سبق سیکھو جو کپڑوں کو اول بھٹی میں جوش دیتا ہے اور دیئے جاتا ہے یہاں تک کہ آخر آگ کی تاثیر میں تمام میل اور چرک کو کپڑوں سے علیحدہ کر دیتی ہیں.تب صبح اُٹھتا ہے اور پانی پر پہنچتا ہے اور پانی میں کپڑوں کو تر کرتا ہے اور بار بار پتھروں پر مارتا ہے تب وہ میل جو کپڑوں کے اندر تھی اور ان کا جزو بن گئی تھی کچھ آگ سے صدمات اُٹھا کر اور کچھ پانی میں دھوبی کے بازو سے مار کھا کر یک دفعہ جدا ہونی شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ کپڑے ایسے سفید ہو جاتے ہیں جیسے ابتداء میں تھے.یہی انسانی نفس کے سفید ہونے کی تدبیر ہے.اور تمہاری ساری نجات اس سفیدی پر موقوف ہے.یہی وہ بات ہے جو قرآن شریف میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّهَا (سورة الشمس 10:91) یعنی وہ نفس نجات پا گیا جو طرح طرح کے میلوں اور چرکوں سے پاک کیا گیا.

Page 19

13 دیکھو میں ایک حکم لے کر آپ لوگوں کے پاس آیا ہوں.وہ یہ ہے کہ اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے.اور یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کہی بلکہ خدا کا یہی ارداہ ہے صحیح بخاری کی اس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے.يَضَعُ الحرب یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا“.اس کے بعد حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمد یہ بڑے جلال کے ساتھ ایک شہنشاہ کی طرح اپنی جماعت کو مخاطب کر کے فرماتے ہیں:.سو میں حکم دیتا ہوں کہ جو میری فوج میں داخل ہیں وہ ان خیالات کے مقام سے پیچھے ہٹ جائیں دلوں کو پاک کریں اور اپنے انسانی رحم کو ترقی دیں اور دردمندوں کے ہمدرد بنیں.زمین پر صلح پھیلا دیں کہ اس سے اُن کا دیں پھیلے گا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 233) حضرات ! سید نا حضرت مسیح موعود صلح اور آشتی اور محبت کے سفیر بن کے دنیا میں آئے.آپ نے فرمایا:.”ہماری طرف سے امان اور صلح کاری کا سفید جھنڈا بلند کیا گیا ہے...اپنے تئیں شریر کے حملہ سے بچاؤ مگر خود شریرانہ مقابلہ مت کرو.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 296-295)

Page 20

14 جہاد کے معنی انتہائی جدوجہد کے ہیں سید نا حضرت مسیح موعود قولی فعلی قلمی اور لسانی جہاد میں دن رات مصروف رہتے تھے.11 نومبر 1902ء بروز سہ شنبہ ظہر کے وقت حضور تشریف لائے اور احباب کو فر مایا کہ یہ وقت بھی ایک قسم کے جہاد کا ہے.میں رات کے تین تین بجے تک جاگتا ہوں اس لئے ہر ایک کو چاہئے کہ اس میں حصہ لے اور دینی ضرورتوں اور دینی کاموں میں دن رات ایک کر دے.( ملفوظات جلد 4 صفحہ 196) ایک دفعہ قادیان میں شدید گرمی پڑی.گلیاں سنسان ہو گئیں.بازار بند ہو گئے.ایسی گرمی کہ ہر شخص الامان والحفیظ پکار اٹھا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی نے شدت گرما کا ذکر کرتے ہوئے اپنے مخصوص شیریں اور دلر با انداز میں فرمایا کہ اس قدر شدید گرمی تھی کہ سب لوگ بے حال ہو گئے حتی کہ خدا کی مشین بھی بند ہوگئی مراد یہ تھی کہ حضرت مسیح موعود جو کسی حال میں کسی موسم میں کام سے نہیں تھکتے آپ بھی آرام پر مجبور ہو گئے.حضرت مسیح موعود کو جب یہ بات پہنچی تو آپ نے فرمایا کہ ہم نے تو اس موسم میں بھی ایک لحظہ کے لئے کام بند نہیں کیا.(ذکر حبیب صفحہ 161 از حضرت مفتی محمد صادق) 14 جولائی 1906ء کو ایک معزز خاندانی ہندو دیوان صاحب جو صرف ملاقات کے لئے قادیان آئے تھے.ظہر کی نماز سے قبل انہوں نے عرض کیا کہ مجھے

Page 21

15 لوگ ڈراتے تھے کہ مرزا صاحب تو کسی کے ساتھ بات نہیں کرتے اور ہندوؤں کے ساتھ بہت بد خلقی کے ساتھ پیش آتے ہیں.میں نے یہاں ہر بات اس کے برخلاف پائی ہے اور آپ کو اعلیٰ درجہ کا خلیق اور مہمان نواز دیکھا ہے.فرمایا:.”ہمارے اصول میں داخل نہیں کہ اختلاف مذہبی کے سبب کسی کے ساتھ بد خلقی کریں اور بدخلقی مناسب بھی نہیں کیونکہ نہایت کار ہمارے نزدیک غیر مذہب والا ایک بیمار کی مانند ہے جس کو صحت روحانی حاصل نہیں.پس بیمار تو اور بھی قابل رحم ہے جس کے ساتھ بہت خلق اور حلم اور نرمی کے ساتھ پیش آنا چاہئے.اگر بیمار کے ساتھ بدخلقی کی جاوے تو اس کی بیماری اور بھی بڑھ جائے گی.اگر کسی میں کجی اور غلطی ہے تو محبت کے ساتھ سمجھانا چاہئے.ہمارے بڑے اصول دو ہیں.خدا تعالیٰ کے ساتھ تعلق صاف رکھنا اور اس کے بندوں کے ساتھ ہمدردی اور اخلاق سے پیش آنا.(+190638/195 ( بدر جلد 2 نمبر 29 صفحہ 3، مورخہ 19 جولائی 1906ء) ایک دفعہ حضرت سیدنا و مولانا حکیم نورالدین خلیفہ اصبح الاول نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت عالیہ میں عرض کی کہ حضور مجھے کوئی مجاہدہ بتائیے.فرمایا عیسائیت کے غلط عقائد کے خلاف کتاب لکھیں.“ اس زمانہ میں مسلمانوں کی حالت یہ تھی کہ 6لاکھ مسلمان مرتد ہو کر عیسائی بن

Page 22

16 چکے تھے.بڑی بڑی مساجد کے علماء اسلام چھوڑ کر عیسائیت کی منادی کرنے لگے تھے.عیسائیوں نے اسلام کے خلاف برٹش ایمپائر کی بھر پور حمایت کے ساتھ 6 کروڑ کتب لکھی تھیں اور مسلمان عجیب بے بسی کے عالم میں تھے.چنانچہ حضرت مولانا حکیم نور الدین نے معرکۃ الآراء کتاب فَضْلُ الْخِطَابِ لِلْمُقَدَّمَةِ أَهْلِ الکتاب دو جلدوں میں تصنیف فرمائی.( حیات نور صفحہ 260 طبع اول 1963ء) پھر کچھ عرصہ کے بعد حضرت مولانا حکیم نورالدین نے دوبارہ عرض کی کہ حضور مجھے کوئی اور مجاہدہ بتائیں فرمایا’ آریہ سماج کے باطل عقائد کے خلاف کتاب لکھیں، چنانچہ آپ نے ” تصدیق براھین احمدیہ نامی کتاب تصنیف فرمائی.(حیات نور صفحہ 260 وحیات احمد از حضرت مولانا شیخ یعقوب علی عرفانی صفحہ 391) اپنی وفات سے صرف تین روز قبل 23 رمئی 1908ء بمقام لاہور قبیل نماز ظہر فرمایا:." آج ہی پیسہ اخبار میں ایک انگریز کا مضمون تھا اس نے کسی جگہ پر اپنے لیکچر میں بیان کیا کہ زمانہ پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ ہندو، مسلمان، عیسائیوں اور یہودیوں کو اتفاق کی ضرورت ہے.چنانچہ وہ لکھتا ہے کہ مسلمان یہودی اور نصرانی سب کے سب بلا امتیاز انسانی گروہ میں اتحاد و اتفاق دیکھنے کے مشتاق ہیں اور مہدی معہود کے آنے کا انتظار دیکھ رہے ہیں.جو کہ دیر یا سویر عالم وجود میں آکر تمام انسانوں میں یگانگت کا رشتہ

Page 23

17 قائم کر دے گا میں اس مہدی کے متعلق اپنی ذاتی رائے یہ رکھتا ہوں کہ وہ اہل قلم سے ہوگا اور اسی زبر دست آلہ کے ذریعہ سے اقوام عالم کے دلوں میں تخم ریگا نگت ہو سکے گا.“ پیسہ اخبار 23 رمئی 1908ء ، ملفوظات جلد 10 صفحہ 445) حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں:.میں اس دنیا کی حکومت اور ریاست کو نہیں چاہتا اور بغاوت کو سخت بدذاتی سمجھتا ہوں.میں کسی خونی مسیح کے آنے کا قائل نہیں اور نہ خونی مہدی کا منتظر صلح کاری سے حق کو پھیلانا میرا مقصد ہے، اور میں اُن تمام باتوں سے بیزار ہوں جو فتنہ کی باتیں ہوں یا جوش دلانے والے منصوبے ہوں.( مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 287) آپ فرماتے ہیں:.میں تو آیا اس جہاں میں ابن مریم کی طرح میں نہیں مامور از بهر جہاد و کارزار حضرت مسیح موعود نے مسلمانوں کو فتنہ وفساد سے باز رہنے کی تلقین فرمائی اور اپنے نور بصیرت سے مستقبل پہ نظر ڈالتے ہوئے یہ پیشگوئی فرمائی کہ اگر مسلمانوں کی فتنہ و فساد کی یہ حالت تبدیل نہ ہوئی تو دشمنانِ اسلام اس سے فائدہ اٹھا کر اسلام پر حملہ کریں گے.( مجموعہ اشتہارات جلد 1 صفحہ 47)

Page 24

18 لیکن وائے افسوس جب امت نے مامور زمانہ کی آواز پر کان نہ دھرے اور اپنی طرف توجہ مبذول کروانے کے لئے قرآن وسنت کے خلاف حربے استعمال کرنے شروع کئے کہیں خود سوزی اور کہیں خودکش حملے شروع کئے تا خوف و ہراس سے اپنی طرف توجہ مبذول کروائی جاسکے تو اس کے نتیجہ میں اسلام کا پاک نام سارے جہان میں ذلیل ہوا.اس کے بالمقابل اگر مسلمان اپنی مظلومیت کا واسطہ دے کر خدا تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتے اور صبر اور دعاؤں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت طلب کرتے تو اس کے نتائج ان کی توقع سے کہیں بڑھ کر نکلتے اور اسلام اور مسلمانوں کی نیک نامی میں اضافہ ہوتا.واضح رہے کہ ہمارا کوئی عمل جو قرآن اور سنت نبوی کے مخالف ہوگا اس سے ہم انسانیت کی نگاہوں سے بھی گریں گے اور خدا تعالیٰ اپنی تائید و نصرت کا ہاتھ بھی ہم سے اٹھا کر ہم سے بیزاری اور براءت کا اظہار کرے گا.ضروری ہے کہ اس جگہ اس اعتراض کا جواب دیا جائے جو جہاد کی حرمت سے متعلق حضرت مسیح موعود پر کیا جاتا ہے.ہمارا دعوی ہے کہ مخالفین احمدیت حضور کی کتب میں سے ایک حوالہ بھی پیش نہیں کر سکتے جس میں یہ ذکر ہو کہ جہاد سے متعلق نعوذ باللہ آیات قرآنیہ منسوخ قراردی جاتی ہیں.ہمارا چیلنج ہے کہ دشمنان احمدیت ایک بھی حوالہ پیش نہیں کر سکتے جس میں یہ ذکر ہو کہ حضور نے قیامت تک جہاد کو منسوخ قرار دے دیا ہے.

Page 25

19 آپ کا یہ عقیدہ تھا اور جماعت احمدیہ آج بھی اس پر قائم ہے کہ ایک پرامن حکومت کے سائے تلے رہتے ہوئے جو آپ کو مکمل مذہبی آزادی دیتی ہو.مذہب کے نام کی آڑ میں اسلام کی تبلیغ اور نفاذ کے لئے ، اس کے خلاف تلوار اٹھا کر جہاد کرنا قطعی طور پر حرام ہے.دیکھیں براہین احمدیہ جلد 3 ٹائٹل پیج ، اب مطبوعہ 1882ء) سید نا حضرت مسیح موعود نے فتنہ وفساد پیدا کرنے کے لئے اسلام کے پاک نام اور جہاد کے مقدس فرض کو Exploit کرنے سے منع فرمایا.چنانچہ آپ نے فرمایا:.اب چھوڑ دو جہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال اس شعر میں دین اور اب کے الفاظ میں حضرت مسیح موعود کا اُسلوب جہاد بیان کیا گیا ہے.فرمایا کہ ہمارے دین کی اشاعت کے لئے جنگوں کی اجازت نہیں ہے.اور یہ امر واقعہ ہے کہ دین کی اشاعت کیلئے حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی تلوار نہیں اٹھائی.اسلام کی ساری جنگیں دفاعی تھیں.ہاں جب دشمن نے تلوار کے زور سے اسلام کو مٹانا چاہا تو خدا تعالیٰ نے لمبے عرصہ کے بعد تلوار کا جواب تلوار سے دینے کی اجازت دی.فرمایا دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال یعنی اب وہ حالات نہیں جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہجرت کے

Page 26

20 بعد تھے.اس لئے اب قلم کے جواب میں نیز پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے جواب میں بندوق چلانے کی اجازت نہیں ہے.قلم کے جواب میں قلم سے جواب دیا جائے.ہاں جب حالات تبدیل ہو جا ئیں اور اسلام کے مٹانے کے لئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ جیسے حالات ایک بار پھر لوٹ آئیں تو جہاد کی ابدی آیات قرآنیہ ہمیں ایک بار پھر دفاعی جنگوں کے لئے دعوت مبارزت دے سکتی ہیں.اب حضور کی اس نظم کے چند اور اشعار سنئے جس میں حضور وضاحت سے فرمارہے ہیں کہ آج دین کی اشاعت کے لئے کیوں جنگوں کی ممانعت ہے.حضور فرماتے ہیں:.اب آگیا سیچ جو دیں کا امام ہے دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے اب آسماں سے نورِ خدا کا نزول ہے اب جنگ اور جہاد کا فتویٰ فضول ہے ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد دشمن اعتقاد منکر نبی کا ہے جو رکھتا ہے کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو کیوں بھولتے ہو تم يَضَعُ الحَرب“ کی خبر کیا یہ نہیں بخاری میں دیکھو تو کھول کر

Page 27

21 فرما چکا سید کونین مصطفے ہے عیسی مسیح جنگوں کا کردے گا التواء یہ حکم سُن کے بھی جو لڑائی کو جائے گا وہ کافروں سے سخت ہزیمت اٹھائے گا اک معجزہ کے طور پیشگوئی ہے نشاں کافی ہے سوچنے کو اگر اہل کوئی ہے القصہ یہ مسیح کے آنے کا ہے کر دے گا ختم آکے وہ دیں کی لڑائیاں ظاہر ہیں خود نشاں کہ زماں وہ زماں نہیں اب قوم میں ہماری وہ تاب و تواں نہیں اب تم میں خود وہ قوت و طاقت نہیں رہی سلطنت وہ رعب وہ شوکت نہیں رہی وہ وہ نام وہ نمود وہ دولت نہیں رہی وہ عزم مُقبلانه ہمت نہیں رہی وہ دنیا و دیں میں کچھ بھی لیاقت نہیں رہی ب تم کو غیر قوموں پر سبقت نہیں رہی سب پر یہ اک بلا ہے کہ وحدت نہیں رہی اک پھوٹ پڑ رہی ہے موڈت نہیں رہی

Page 28

22 تم مرگئے تمہاری وہ عظمت نہیں رہی صورت بگڑ گئی ہے وہ صورت نہیں رہی اب تم میں کیوں وہ سیف کی طاقت نہیں رہی بھید اس میں ہے یہی کہ وہ حاجت نہیں رہی اب کوئی تم پہ جبر نہیں غیر قوم کرتی نہیں ہے منع، صلوۃ اور صوم سے اے قوم تم پہ یار کی اب وہ نظر نہیں روتے رہو دعاؤں میں بھی وہ اثر نہیں کچھ کچھ جو نیک مرد تھے وہ خاک ہو گئے باقی جو تھے وہ ظالم سفاک ہو گئے اب تم تو خود ہی موردِ خشم خدا ہوئے اُس یار سے بشامت عصیاں جدا ہوئے اب غیروں سے لڑائی کے معنے ہی کیا ہوئے تم خود ہی غیر بن کے محل سزا ہوئے ایسا گماں کہ مہدی خونی بھی آئے گا اور کافروں کے قتل سے دیں کو بڑھائے گا اے غافلو یہ باتیں سراسر دروغ ہیں بہتاں ہیں بے ثبوت ہیں اور بے فروغ ہیں

Page 29

23 یارو جو مرد آنے کو تھا وہ تو آ چکا یہ راز تم کو شمس و قمر بھی بتا چکا اس تفصیل کا لب لباب یہ ہے کہ دینی اغراض کے لئے تبلیغ کیلئے ، اشاعت اسلام کے لئے، دین کے نام پر نہ کبھی سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تلوار اٹھائی نہ اب اس کی اجازت ہے.دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور جدال ہاں اسلام کی عزت و حرمت کیلئے ، اپنے وطن عزیز کی حفاظت کے لئے ، اپنی جان مال اور عزت کی حفاظت کے لئے ، دفاعی جنگوں سے اسلام منع نہیں کرتا لیکن اس کے لئے شرط ہے کہ دشمن پہل کرے.وَهُمْ بَدَءُ وَ كُمْ أَوَّلَ مَرَّدٍ (سورة توب 13 : 9) اس کے لئے لازم ہے کہ آپ مظلوم ہوں ظالم نہ ہوں.بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (سورة الحجج 2: 40) اگر یہ شرائط پوری ہوں اور ایک واجب الاطاعت امام کے سایہ تلے آپ کو دفاعی جنگ لڑنا پڑے تو رب کائنات کا یہ وعدہ ہے کہ إِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ (سورة الحج40:2) ہاں ! جنگ کا آخری نتیجہ ثابت کرے گا کہ یہ جنگ آپ نے قرآن اور سنت کی غلامی میں کی ہے یا محض نفس کے تکبر اور انانیت اور دیگر دنیوی مفادات کی خاطر.

Page 30

24 جماعت احمدیہ نے مادر وطن کی حفاظت کے لئے ہمیشہ صف اوّل کی قربانیاں پیش کیں.لیکن وائے افسوس جو لوگ ہمیں مطعون کرتے تھے کہ ہم جہاد کو حرام قرار دیتے ہیں وہ یہ برداشت نہ کر سکے کہ احمدی مار دوطن کی حفاظت کریں.وَاِنَّ اللهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرٌ اجمال اس تفصیل کی یہ ہے کہ کشمیر کی حفاظت کے لئے تقسیم ہند کے بعد جماعت احمدیہ نے رضا کارانہ طور پر فرقان فورس کے نام سے عظیم الشان قربانیاں پیش کیں اور سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح ثانی کی تحریک پر ہزاروں احمدی نوجوان اپنے کاروبار چھوڑ کر محاذ جنگ پر گئے اور ان کی شہادتوں اور قربانیوں کا اعتراف افواج پاکستان کے کمانڈر انچیف اور دیگر ذمہ دار حکام نے کیا اور جماعت احمدیہ کو شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا.یہ رضا کاروہ تھے جن کے تمام اخراجات جماعت احمدیہ نے برداشت کئے.کسی کی تنخواہ حکومت سے وصول نہیں کی.سیدنا حضرت خلیفہ ثانی نے اپنے کئی لخت جگر محاذ جنگ پر بھجوائے.انہیں دنوں میں 14 جولائی 1948ء کو ان مخصوص حالات میں دفاع کشمیر کے ذیل میں حضرت خلیفہ ثانی نے ایک منظوم کلام میں ارشاد فرمایا ہو چکا ہے ختم اب چکر تری تقدیر کا سونے والے اٹھ کہ وقت آیا ہے اب تدبیر کا کاغذی جامہ کو پھینک اور آہنی زرہیں پہن وقت اب جاتا رہا ہے شوخی تحریر کا

Page 31

25 سے عدو مدتوں کھیلا کیا ہے لعل و گوہر دکھا دے تو ذرا جوہر اُسے شمشیر کا اب کلام محمود الفضل 14 جولائی 1948ء) یہ کیسے اچنبھے کی بات ہے کہ دفاع وطن کیلئے جس جماعت نے ایسی بے لوث قربانیاں پیش کیں اس پر جہاد کی حرمت کا الزم لگانے والے اپنے نعمت کدوں میں بیٹھے بیچ و تاب کھانے لگے.ایک احراری نمائندہ نے اپنے غصہ کا اظہار ان الفاظ میں کیا اور نہایت گھناؤنا اور شرمناک الزام لگایا کہ ” جب مرزائیوں کے نام نہاد نبی نے ہمیشہ کے لئے جہاد کو حرام قرار دے دیا ہے تو کیا کشمیر میں محض مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور انہیں دھوکا دینے کی غرض سے تشریف لے گئے تھے.“ (آزاد کانفرنس نمبر ، 26 دسمبر 1950ء صفحہ 10 کالم 4) حالانکہ حضر مسیح موعود پکار پکار کرفرمارہے تھے کہ :.اس زمانہ میں جہاد، روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ کا جہاد یہی ہے کہ اعلائے کلمہ اسلام میں کوشش کریں.مخالفوں کے الزمات کا جواب دیں.دینِ متین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلائیں.“ پھر فرماتے ہیں:.” یہی جہاد ہے.جب تک کہ خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کرے.“ 66

Page 32

26 مکتوب بنام حضرت میر ناصر نواب صاحب مندرجہ رساله درود شریف صفحه 66 مؤلفه حضرت مولانا محمد اسماعیل ہلال پوریؒ) ” جب تک کہ خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کرے“ کے الفاظ سے یہ بات کلی طور پر عیاں ہے کہ مخصوص حالات میں جہاد کی ممانعت ہے.جب بھی یہ حالات تبدیل ہوں گے.امام وقت کے اذن سے جہاد کی حلت کا اعلان ہو جائے گا.جماعت احمدیہ پر الزام لگانے والے متشد د علماء کی ذہنی کیفیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ ہم جہاد کو حرام قرار دیتے ہیں اور دوسری طرف اگر ہم مادر وطن کے لئے سر بکف ہو کر قربانیاں دیں تو فکر سے ان کی نیند یں حرام ہو جاتی ہیں.کہتے ہیں ان کا کلمہ اور ہے اور جب ہم لا إله إلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللهِ کا کلمہ سینوں پر سجاتے ہیں تو ان کے خون کھول اٹھتے ہیں.پاکستان میں ہزاروں مقدمات احمد یوں پر اس لئے کئے گئے کہ یہ تو کلمہ طیبہ کو سجا کر کلمہ کی توہین کرتے ہیں.کہتے ہیں کہ احمدی حج نہیں کرتے اور حج سے روکنے کے لئے حکومتوں پر زور دے کر خود ہی پابند یاں بھی لگاتے ہیں.مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب اور خونی مهدی اسی قسم کی ایک دلچسپ صورت حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں پیدا ہوئی اس کی تفصیل مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 101 تا 114 میں بیان کی گئی ہے.اس

Page 33

27 کا خلاصہ یہ ہے کہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو دن رات مجالس میں خونی مہدی اور مسیح کی آمد کا پرچار کرتے نہیں تھکتے تھے اور پنجاب اور ہندوستان کے مولویوں کو بار بار یہ سبق دیتے تھے کہ مہدی معہود ضرور آئے گا اور وہ خلیفہ وقت اور صاحب السَيْف وَالْآمر ہوگا جو تلوار کے ساتھ دین کو پھیلائے گا.لیکن انہوں نے در پردہ نہایت خیانت اور دروغ گوئی سے گورنمنٹ کو یقین دلایا کہ وہ اس مہدی کے آنے کے منکر ہیں جو بنی فاطمہ سے آئے گا اور کافروں سے لڑے گا.چنانچہ انہوں نے 14 اکتوبر 1898ء کو خفیہ طور پر اپنے رسالہ اشاعت السنہ کا ایک ایڈیشن انگریزی میں نکالا جس میں گورنمنٹ کو مخاطب کر کے حضرت اقدس کے بارہ میں یہ لکھا کہ یہ شخص جو مدعی مہدویت ہے.یہ مہدی سوڈانی سے بھی زیادہ خطر ناک ہے.جب یہ طاقت پکڑ جائے گا تو گورنمنٹ سے ایسی ٹکر لے گا کہ مہدی سوڈانی گورنمنٹ کو بھول جائے گا.گونمنٹ کو چاہئے کہ فورا اس شخص کو گرفتار کرے.اور اپنی نسبت لکھا کہ میں چونکہ کسی ایسے مہدی کی آمد کا قائل نہیں ہوں اور ایسی تمام حدیثوں کو مجروح جانتا ہوں جن میں مہدی کی آمد کا ذکر ہے اس لئے میں اس کی مخالفت کرتا رہتا ہوں.سیدنا حضرت مسیح موعود نے ان کی دوغلی اور منافقانہ حالت سے پردہ اٹھانے کے لئے 29 دسمبر 1898ء کو علمائے پنجاب اور ہندوستان سے ایک اشتہار کے ذریعہ فتویٰ طلب کیا کہ ایسا شخص جو مہدی کے وجود سے منکر ہو اس کے حق میں تمہارا کیا فتویٰ ہے؟ ہندوستان کے چوٹی کے علماء اس سے یہ سمجھے کہ چونکہ حضرت مرزا صاحب

Page 34

28 خود مہدی ہونے کے دعویدار ہیں اس لئے لازماً کسی دوسرے مہدی کی آمد کے منکر ہوں گے چنانچہ انہوں نے نہایت شدومد کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں ایسے شخص کے بارہ میں فتویٰ دیا کہ وہ دائرہ اسلام سے خارج ، کافر ، دجال، بے ایمان، مفتری، کذاب جہنمی ، ضال اور فضل ہے.ان فتویٰ صادر کرنے والوں میں شیخ الکل مولانا نذیر حسین دہلوی، مولوی عبدالجبار غزنوی، مولوی عبد الحق غزنوی، مولوی احمد اللہ امرتسری، مولوی عبد اللہ پروفیسر اور کمنٹل کالج لاہور، مولوی عبد العزیز لدھیانوی، مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی ، مولوی محمد یعقوب دہلوی اور دیگر نامدار علماء شامل تھے.جب یہ فتویٰ شائع ہو گیا تو اس کے صرف 8 یوم بعد سید نا حضرت مسیح موعود نے 6 جنوری 1899 ء کو ضمیمہ اشتہار ہذا کے عنوان سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کی خط و کتابت شائع فرما دی جس میں انہوں نے حکومت کو یقین دلایا تھا کہ مہدی سے متعلق تمام حدیثیں جھوٹی ہیں کسی مہدی وہدی نے نہیں آنا اور نہ ہی اس نے حکومت کے خلاف جہاد کرنا ہے.ایسی تمام احادیث غلط اور نا درست ہیں اور یقینی طور پر وضعی اور جھوٹی ہیں.نمونہ کے طور پر اس کی چند سطور مع ترجمہ ہدیہ قارئین کی جاتی ہیں.The following is a list of articles in the ishat-us-Sunnah wherein the illegality of rebellion against or opposition to the Govt.and the true nature of jehad is explained.

Page 35

29 ترجمہ: ذیل میں فہرست اُن مضامین اشاعت السنہ کی ہے جن میں گونمنٹ کی مخالفت اور اس کے برخلاف بغاوت کا ناجائز ہونا اور جہاد کی اصل حقیقت کو بیان کیا ہے.اس کے بعد شیخ محمد حسین ایک ایک دو دوسطر میں نتیجہ اور لب لباب ان مضامین کا دیتا ہے جو اس نے مذکورہ بالا غرض کے لئے 1869ء سے لے کر 1896 ء تک لکھے.ان ہی مضامین میں وہ مہدی کے متعلق مضامین کا ذکر کرتا ہے جن کا وہ لب لباب صفحہ 5 میں اس طرح پر درج کرتا ہے.Criticism of traditions regarding the Mehdi and arguments showing their incorrectness.ترجمہ: ان حدیثوں پر جرح کی گئی ہے جو مہدی کے متعلق ہیں اور دلائل دیئے گئے ہیں جن سے ان حدیثوں کا غلط اور نا درست ہونا ثابت ہوتا ہے.Questioning the authenticity of traditions describing the signs of the Mehdi.ترجمہ:.جن حدیثوں میں مہدی کی علامات دی گئی ہیں اُن کے غیر وضعی ہونے پر شبہ ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 107-106 مطبوعہ لنڈن) جو نہی یہ ضمیمہ اشتہار شائع ہوا تو مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی شرم سے زمین میں گڑ گئے اور ان کی منافقت الم نشرح ہوگئی کہ انگریزی حکومت سے جا گیر ہتھیا نے

Page 36

30 کے لئے اپنے اور اپنے تمام ہم عصر علماء کے متفقہ عقیدہ کے برعکس صاف خونی مہدی کے ظہور سے انکار کر دیا.مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 101 تا 114 ) گو ہمارے نزدیک یہ سید نا حضرت مسیح موعود کے عظیم الشان اُسلوب جہاد کا اعجاز ہی تھا کہ اہل حدیث کا ایسا کھڑ اور کج راہنما، خواہ حکومت سے حصولِ جاگیر کے لئے ہی سہی ، خونی مہدی اور مسیح کے عقیدہ سے منحرف ہو کر حضرت مسیح موعود کے زبر دست علم کلام کے سامنے سر اطاعت خم کرنے پر مجبور ہو گیا.والحق ما شهدت به الاعداء یہاں ہم ایک انتہائی اہم جائزہ پیش کرنا چاہتے ہیں یہ جائزہ سیرۃ خاتم النبین صلی اللہ علیہ وسلم مؤلفہ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب اور سیرۃ النبی از جناب شبلی نعمانی کی مدد سے تیار کیا گیا ہے.ہم سب کا ایمان ہے کہ جہاد سے متعلق عظیم الشان پر حکمت تعلیم شارع اسلام سیدی مکی و مدنی سرکار دو عالم فخر موجودات صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مطہر پہ نازل ہوئی اور جہاد کا سب سے اعلیٰ اور اکمل اور ارفع عرفان ہمارے سید ومولا کونصیب ہوا اور آپ ہی نے اپنے پاک نمونہ سے شریعت حقہ کے اس حکم پر عمل فرما کے امت کے لئے ہمیشہ کے لئے ایک حسین قابل تقلید اسوہ حسنہ کی بنیا درکھی.ایک فہیم انسان یہ جان کر حیرت و استعجاب کے سمندر میں غرق ہو جاتا ہے کہ وہ جہاد جس کی طرف آج ساری امت کو علمائے اسلام بڑے شد و مد سے دعوت دے

Page 37

31 رہے ہیں یعنی جہاد بالسیف.حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس جہاد میں بنفس نفیس اپنی 63 سالہ زندگی میں صرف 126 یوم شریک ہوئے.اور اس جہاد بالسیف کی غرض سے آپ نے 290 ایام تک سفر کیا.گویا 22 ہزار چھ صد اسی (22680) دنوں میں سے آپ کل 126 دن جہاد بالسیف میں مصروف رہے.اگر 63 سال کی جگہ دعوی کے بعد کی 23 سالہ زندگی کے دن شمار کریں تو ان کی تعداد 8395 کے قریب بنتی ہے.اب اگر سرکار دو عالم ساری زندگی میں صرف 126 دن عملاً جہاد بالسیف کریں اور جہادی علماء کی ایک ہی رٹ ہو کہ جہاد بالسیف کے لئے کفن سروں سے باندھ لو اور ساری عمر ماردھاڑ کرتے پھرو، غیر نہ ملیں تو اپنوں ہی کی مسجدوں اور امام بارگاہوں پر قسمت آزمائی کرو.تو غور کیجئے کہ اس اسلوب جہاد کو ہمارے سید ومولا صلی اللہ علیہ وسلم کے جہاد سے کیا نسبت ہے؟ اس تاریخی جائزہ پر نظر ڈالنے سے یہ حقیقت اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جہاد بالسیف کو جہاد اصغر قرار دیا تو یہ کوئی فرضی یا جذباتی بات نہ تھی.آپ تو ہمیشہ وحی الہی کی روشنی میں کلام فرما یا کرتے تھے.چنانچہ 63 سالہ زندگی میں آپ نے 126 یوم جہاد بالسیف کیا اور 290 یوم اس جہاد کی خاطر سفر اختیار کیا اور باقی ساری زندگی یعنی 22264 ایام میں آپ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ ( سورة الجمعه 62 : 3)

Page 38

32 کے جہاد میں مصروف رہے.کیا جہاد بالسیف کو جہاد اصغر قرار دینے کا اس سے بڑا کوئی ثبوت پیش کیا جا سکتا ہے؟ سید نا حضرت مسیح موعود کے اسلوب جہاد نے آپ کے ماننے والوں میں کیسی پاک تبدیلی پیدا کی اور گزشتہ 100 سال میں جماعت احمدیہ نے کیسی شاندار تاریخ رقم کی یہ داستان بڑی دردناک اور بہت دل آویز ہے.جان دینا بہت مشکل کام ہے جبکہ اس کے مقابل پہ جان لینا بہت آسان ہے.1904ء میں سیدنا حضرت مسیح موعود کے سفر سیالکوٹ میں حضور کے ہم سفر حضرت مولانا برہان الدین صاحب جہلمی بھی تھے.بوڑھے کمزور اور منحنی جسم.آپ باقی ساتھیوں سے بچھڑ کر پیچھے رہ گئے.مخالف علماء نے آپ کو نرغہ میں لے لیا.زمین پر گرا کر اپنی دانست میں یوں رسوا کرنا چاہا کہ آپ کے منہ میں گوبر ڈال دیا.حضرت مولوی صاحب نے نعرہ مستانہ مارا اور فرمایا او برھانا ! ایہ نعمتاں کتھوں یعنی اے برہان الدین یہ نعمتیں روز روز اور ہر شخص کو کہاں نصیب ہوتی ہیں.الفضل 29 / مارچ 2003ءصفحہ 4) ย 14 / جولائی 1903ء کو حضرت صاحبزادہ عبداللطیف کا بل میں شہید کئے گئے.آپ کے 50 ہزار جاں نثار مرید موجود تھے.آپ نے کسی کو حکومت کے خلاف بغاوت کی تحریک نہ فرمائی.قادیان سے رخصت ہوئے تو فرمایا مجھے بار بار الہام ہوا کہ سرزمین کابل کے لئے اپنے سر کی بازی لگا دو.سید نا حضرت مسیح موعود نے فرمایا :.

Page 39

33 ایک گھنٹہ تک برابران پر پتھر برسائے گئے.حتی کہ ان کا جسم پتھروں میں چھپ گیا.مگر انہوں نے اُف تک نہ کی.ایک چیخ تک نہ ماری.“ ( ملفوظات جلد 10 صفحہ 140) 1974ء میں جماعت احمدیہ پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے گئے.یہ سب ظلم وستم بھٹو صاحب کی حکومت کے ایماء پر علماء کے ساتھ ملی بھگت کے نتیجہ میں ہوئے.پاکستان میں سینکڑوں شہروں ، قصبوں اور دیہات میں جانوں، مالوں اور عزتوں پر حملے کئے گئے.درجنوں احمدی شہید ہوئے اور اربوں کی جائیداد میں لوٹی گئیں.یکم جون 1974ء کو گوجرانوالہ میں مسجد احمد یہ اور مربی ہاؤس پر حملہ ہوا.گوجرانوالہ اور اس کے نواح میں 12 احمدی شہید کئے گئے.ان میں سے بعض کے کپڑے اتار کر اوپر کی منزلوں سے انہیں سڑکوں اور گلیوں میں گرایا گیا.8-8 گھنٹے تک ان کی نعشیں بغیر لباس کے پڑی رہیں.علماء اس طرح گو یا نفاذ اسلام کر رہے تھے.اس روز جب مربی ہاؤس پر دھاوا بولا گیا اور غریب مربی کے بستر ، کپڑے، کرسیاں ، چار پائیاں شرکائے جلوس اٹھا اٹھا کر بھاگنے لگے.کسی کے ہاتھ پنکھا لگا تو کسی کے ہاتھ چولہا اس موقع پر حضرت سید احمد علی شاہ صاحب کی اہلیہ محترمہ نے دونوں جوانوں سے جو سامان اٹھا اٹھا کر لیجا رہے تھے پوچھا:.بیٹا جو لے جانا ہے لے جاؤ لیکن بتاؤ تو سہی کہ یہ سلوک ہم سے کیوں کر رہے ہو.آخر ہمیں یہ کس گناہ کی سزادی جارہی ہے.ایک نوجوان اماں جی آپ کا کلمہ جو اور ہے!

Page 40

34 مربی صاحب کی بیگم ہمارا کلمہ لا إله إلا اللهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللہ.بیٹا بتاؤ تمہارا کلمہ کیا ہے؟ نوجوان اپنے ساتھی سے مجھے تو کلمہ نہیں آتا بتاؤ ہمارا کلمہ کیا ہے؟ ساتھی شرمندہ ہوکر : کلمہ تو مجھے بھی نہیں آتا.( خطاب حضرت سید احمد علی شاہ صاحب 5 ستمبر 1993ء اسلام آباد ملفورڈ) انہی دنوں سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بار بار جماعت کو یہ نصیحت فرمائی کہ ان لوگوں کے ظلم کے جواب میں کوئی ظلم نہ کرو.تم دیکھو گے کہ ان کی نسلیں آغوش احمدیت میں سکون تلاش کریں گی.نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی طرح ہم بھی اس وقت مکی دور سے گذر رہے ہیں.صبر اور دعاؤں سے کام لیں پھر پاکستان میں ہماری مظلومیت اور ہمارے رد عمل کو دیکھ کر لاکھوں افراد حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.ہمارا لاکھوں کا بجٹ کروڑوں اور اربوں میں تبدیل ہوا اور احمدیت عجیب شان کے ساتھ سر وقد ہوکر منصہ شہود پر جلوہ گر ہوئی.انہیں دنوں ایک علاقہ میں مولویوں نے حکومت کے شہ پر لوٹ مار شروع کی تو حکومت کی ایک بڑی پوسٹ پہ فائز ایک احمدی نے چیف منسٹر.مسٹر رامے کو متنبہ کیا کہ اگر احمدیوں نے بھی اس ظلم سے تنگ آکر آگوں کے مقابلہ پر آگئیں لگانا شروع کیں اور معصوم احمدیوں کی شہادتوں کے بدلے لینے شروع کئے تو حکومت کے لئے حالات کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا.جو نہی یہ بات امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا

Page 41

35 ناصر احمد صاحب کو پہنچی تو آپ نے فرمایا:.ہمارا کوئی رد عمل قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہوگا.ہم کسی معصوم اور بے قصور سے اپنا انتقام نہیں لیں گے.ایک موقع پر آپ نے فرمایا:.ہمارا انتقامSweet Revenge ہوگا یعنی ہم ظلم کا جواب عفو و درگز راور محبت سے دیں گے.1974ء میں جب حکومت نے سیاسی اغراض کے لئے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دیا تو بڑی بے تابی سے اس جستجو میں محو ہوگئی کہ دیکھیں اب اس جماعت کا رد عمل کیا ہوتا ہے.اُدھر امام وقت مسلسل جماعت کو دعاؤں اور عفو درگزر کی تلقین فرمارہے تھے.حکومت اس پر سخت پریشان تھی.اس موقع پر حضرت خلیفہ ثالث نے ایک سبق آموز کہانی سنائی.فرمایا کسی نے ایک اندھے کو کھانے پر مدعو کیا.دونوں کھانے کی میز پر کھانا کھانے لگے تھوڑی دیر کے بعد اندھے کو خیال آیا کہ کہیں میرا محسن میزبان مجھ سے زیادہ نہ کھا رہا ہو.لہذا اندھے نے تیزی سے کھانا شروع کیا اس پر میزبان نے اپنے ہاتھ کھینچ لئے پھر اندھے کو وہم ہوا کہ مجھے تو نظر نہیں آتا ممکن ہے میرا ساتھی اس سے بھی تیزی سے کھا رہا ہو.چنانچہ اندھے نے اور جلدی جلدی کھانا شروع کر دیا.میزبان اس کی یہ حالت دیکھ کر مسکراتا رہا پھر اندھے کو خیال آیا کہ ہوسکتا ہے ان کا ساتھی دونوں ہاتھوں سے کھا رہا ہو.چنانچہ اندھے نے دونوں ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیا.

Page 42

36 فرمایا جس طرح اس اندھے کو شرم نہیں آتی تھی اسی طرح ہمارے مخالفوں کی شرم وحیا کا جنازہ نکل چکا ہے.خود ہی یک طرفہ ہم پر الزام عائد کیا.خود ہی منصف بن بیٹھے اور خود ہی فیصلہ بھی دے دیا اور اب اس ٹوہ میں ہیں کہ ہم کیا رد عمل ظاہر کرتے ہیں.فرمایا:.ہمارا رد عمل قرآن وسنت میں تلاش کرو.انتم الاعلون ان کنتم مومنین(3:140) چنانچہ جب ہمارے خدا کو غیرت آئی تو یہ کشکول لے کر دنیا بھر میں زندگی کی بھیک مانگتے رہے لیکن کوئی ان کے کام نہ آیا.ہاں جسے سولی پر کھینچ کے مارا گیا وہ بھی شہید بن بیٹھا اور بعد میں مارنے والا بھی جب اس کی خاک اڑادی گئی.وہ بھی شہید !!! من تر املا بگوئم تو مرا حاجی بگو.الكفر ملة واحدة ضلع سرگودہا کے ایک علاقہ سے اطلاع آئی کہ احمدیوں کے گھروں کی ناکہ بندی کر دی گئی ہے.بچوں کو دودھ نہیں مل رہا.گھروں میں سقے پانی نہیں لے جاسکتے خاکروبوں پر اتنا دباؤ ہے کہ وہ احمدیوں کے گھروں میں صفائی کے لئے نہیں آسکتے.سید نا حضرت خلیفہ ثالث نے فرمایا کہ صبر کرو اور دعائیں کرو.پھر پیغام آیا کہ حالات بہت مخدوش ہیں.ہمیں دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر تم مرتد نہ ہوئے تو ہم تمہاری عورتوں کو بے آبروکر یں گے.کوئی علماء سے پوچھے یہ نفاذ اسلام کا انوکھا اسلوب انہوں نے کس سے سیکھا؟)

Page 43

37 اس پر سید نا حضرت خلیفہ ثالث نے بڑے جلال سے فرمایا کیا تمہاری عورتوں کی عزتیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات سے بڑھ کر ہیں.ان میں سے بعض کی نافوں میں ظالم دشمن نے نیزے مار کر انہیں شہید کر دیا تھا لیکن ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی.لہذا اصبر کرو اور دعائیں کرو.خدا آسمان سے تمہاری مدد کے لئے فرشتوں کو نازل فرمائے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.احمدیت کے شدید معاند جناب مولانا ظفر علی خان صاحب کے آخری ایام میں جماعت احمدیہ کے دوسرے خلیفہ سید نا حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے ان کے ساتھ کیسے سلوک فرمایا اس بارہ میں جناب احتجاج علی زبیری پروٹوکول آفیسر رقم طراز ہیں.دو 1956ء میں میں مری میں متعین تھا اس سال پہلی بار امام جماعت احمد یہ مرزا بشیر الدین محمود احمد زیورچ سے علاج کے بعد...مری تشریف لائے تھے انہیں ایک کوٹھی..خیبر لاج نامی الاٹ کی گئی تھی جس کا قبضہ مجھے دینا تھا میں نے اس کو ٹھی کا ان کے نمائندے کو اس وقت تک قبضہ نہ دیا جب تک ان سے پورا کرایہ وصول نہ کر لیا کہ محکمے کے ان دنوں ایسے ہی احکام تھے بعد میں مجھے معلوم ہوا جب یہ بات مرزا صاحب تک پہنچی تو انہوں نے فرمایا.میں خوش ہوں کہ انہوں نے اپنے فرائض دیانتداری سے انجام دیئے جب کہ حکومت کا قاعدہ یہ ہے کہ کرایہ پینگی ادا کیا جائے تو آپ نے ادا ئیگی سے پہلے کوٹھی کا قبضہ لینے کا مطالبہ ہی کیوں کیا ؟“

Page 44

38 کہنے لگا.اس کے چند دن بعد ایک روز میرا ایک انسپکٹر گھبرایا ہوا میرے پاس آیا اور وو....باہر مولانا کی موٹر آئی ہے.مولا نا بیمار بلکہ نیم بے ہوش ہیں اور ان کی بیگم صاحبہ فرماتی ہیں کہ الاٹ شدہ کوٹھی کا قبضہ ان کو دے دیا جائے.کرایہ کا چیک بعد میں دیا جائے گا.“ چونکہ ان دنوں حکومت نے سختی سے تاکید کی تھی کہ تمام کرایہ کی پیشگی وصولی کئے بغیر کسی کو کوٹھی کا قبضہ نہ دیا جائے خواہ الاٹی کوئی وی.آئی.پی ہی کیوں نہ ہو اس لئے میں نے پوچھا.بھی کون مولانا ہیں؟ ہم کرایہ وصول کئے بغیر قبضہ کیونکر دے سکتے ہیں.“ اس کے ساتھ ہی دفتر سے باہر نکل آیا کہ خود معلوم کر سکوں کہ کون صاحب ہیں؟ موٹر کے نزدیک گیا تو بیگم صاحبہ نے پھر وہی الفاظ دہرائے کہ مولانا کی طبیعت زیادہ خراب ہے آپ کوٹھی کا قبضہ دے دیجئے.بعد میں کرایہ ادا کر دیا جائے گا.“ مجھے جو نہی یہ معلوم ہوا کہ یہ مولانا ظفر علی خان ہیں تو فورا انسپکٹر کو حکم دیا کہ ابھی جا کر قبضہ دے دو اور ساتھ ہی میں نے دفتر آکر ایک دوست کو فون کیا کہ مجھے چھ سو روپے کی فوری ضرورت ہے.اتنا ہی کرایہ تھا کوٹھی کا...کچھ دیر بعد رقم آگئی اور میں نے اسے مولانا کے حساب میں جمع کرادیا اور خود کوٹھی پر پہنچا اور خاتون محترم سے عرض کیا کہ.

Page 45

39 وو....میں ان کو ٹھیوں کا افسر انچارج ہوں اور میرا فرض ہے کہ ایسے وقت میں آپ کی خدمت کروں اگر کسی چیز کی ضرورت ہو تو بلا تکلف ارشاد فرمائیں.“ محترمہ نے کچھ کرسیوں، ایک سونے کا پلنگ ، کموڈ اور دریوں کا مطالبہ فرمایا جو فورا پورا کر دیا گیا.اس کے بعد ایک بار پھر میں نے عرض کیا کہ جس وقت بھی کسی چیز کی ضرورت پڑے بلا تکلف مجھے حکم بھجوادیا جائے اور میں چوکیدار کو خاص طور پر ہدایت کر کے واپس اپنے دفتر آ گیا کہ وہ مولا نا اور ان کی فیملی کا خاص خیال رکھے.عبرت کی جا.........جس کوٹھی میں میری رہائش تھی وہ کا شیج، پہاڑی کے اوپر واقع تھا اور سامنے مولانا کی کوٹھی تھی درمیان میں سڑک تھی میں ہر روز صبح دفتر جاتے ہوئے مولانا کی مزاج پرسی کرتا، گھر سے کسی ضرورت کے بارے میں دریافت کرتا، دفتر سے واپسی پر بھی میرا یہی معمول تھا میں نے ہی نہیں سینکڑوں ( بلکہ ہزاروں بھی کہوں تو جھوٹ نہ ہوگا ) افراد نے دیکھا کہ مولانا کو ان کا ایک نوکر ( جو غالبا پٹھان تھا ) ہر روز صبح کوٹھی کے لان میں کرسی پر بٹھا دیا کرتا تھا اور کرسی کے ساتھ لگی پیٹی مولانا کی کمر سے باندھ دیتا تھا تا کہ مولانا بے ہوشی یا نیم بے ہوشی میں کرسی سے گر نہ پڑیں.مولانا غروب آفتاب تک اسی لان میں کرسی پر تن تنہا پڑے رہا کرتے اور کبھی کسی نے ان کے پاس گھر کا آدمی تو کیا خدمت گار بھی نہ دیکھا.

Page 46

40 مولانا کی اس وقت حالت یہ تھی (جس کا ہزاروں افراد نے مشاہدہ کیا ) کہ وہ نہ بول سکتے تھے نہ چل پھر سکتے تھے اور نہ اٹھ بیٹھ سکتے تھے مجبور اور معذور تھے.منہ سے ہر وقت رال ٹپکتی رہتی تھی اسی طرح پیشاب پاخانہ نکل جاتا اور انہیں سنبھالنے والا وہاں کوئی نہ ہوتا میرے پڑوس کی کوٹھی میں ایک کرنل صاحب رہا کرتے تھے جن کو میں اپنے کا ٹیج سے، مولانا کی کرسی کی طرف اشارہ کر کے کہا کرتا تھا.....دیکھو.یہ وہ شخص ہے جو جب جلسوں میں بولتا تھا.تو کوئی دو اس کا ثانی نہ تھا اس کا قلم تلوار اور زبان للکار تھی اس کی شہرت ہندوستان و پاکستان میں خود ایک مثالی تھی مگر آج اس شخص کا یہ حال ہے کہ کوئی پوچھنے اور دیکھنے والا بھی نہیں.“ میرے یہ کہتے ہی کرنل صاحب کے منہ سے بے ساختہ نکلا.یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے“

Page 47

41 ڈاکٹروں کا جواب ایک روز جب میری ڈیوٹی بطور پروٹوکول افسر تھی اور مجھے ایک اعلیٰ افسر سے ملنے کے لئے سرکٹ ہاؤس جانا تھا....میں اپنے معمول کے مطابق مولانا کی کوٹھی پر گیا....کہ وہاں جانا اور ان کے پاس ہی گند اور بد بو کی پروا کئے بغیر بیٹھ جانا اور ان کے پاؤں دباتے ہوئے دل ہی دل میں افسوس کرنا کہ ایک عظیم راہنما کے آخری ایام کس کسمپرسی سے گزر رہے ہیں.میرے روز کے پروگرام کا ایک حصہ بن چکا تھا...تو دیکھا کہ مولانا کمرے میں بستر پر بے ہوش پڑے ہوئے ہیں تمام بستر بد بو سے اٹا پڑا ہے میں نے کوٹھی کے دوسری طرف جا کر زور زور سے آواز میں دیں تو بہت دیر کے بعد نسوانی آواز آئی....میں نے کہا.وو....مولانا کی حالت بہت خراب معلوم ہوتی ہے اور انہیں دیکھنے والا کوئی نہیں ہے.“ اندر سے آواز آئی...کسی ڈاکٹر کو لا کر دکھا دیں.“ یہ سن کر مارے حیرت کے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا.مولانا کی کوٹھی کشمیر پوائنٹ جی پی او کے قریب تھی اور میں سرکٹ ہاؤس ( پنڈی پوائنٹ ) کی طرف جارہا تھا میں نے جاتے ہوئے تین ڈاکٹروں سے جو میرے دوست تھے درخواست کی کہ وہ جلد جا کر مولانا ظفر علی خان کو دیکھیں.واپسی پر میں نے باری باری تینوں سے دریافت کیا...کیوں بھئی مولانا کو دیکھ آئے ہو...تو سب نے ایک ہی جواب دیا.

Page 48

42 ز بیری صاحب ! ڈاکٹر لوگ گندگی وغیرہ سے تو نہیں گھبراتے.یہ ہمارا رات دن کا کام ہے مگر وہاں تو کوئی ہے ہی نہیں جس سے کچھ پوچھیں یا جو کچھ بتائے، بس آوازیں دے 66 دے کر واپس آگئے ہیں.“ یہ سن کر مجھے اتنا صدمہ اور دُکھ ہوا کہ جس کا اظہار لفظوں میں کرنا میرے بس میں نہیں اس وقت رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے.میرے دل میں نجانے کیا آئی میں وہاں سے سیدھا خیر لاج پہنچا اور کسی نہ کسی طرح مرزا صاحب تک شرف باریابی حاصل کیا.مرزا صاحب اس وقت قرآن کریم کی تفسیر لکھوانے میں مصروف تھے.مجھے دیکھتے ہی فرمایا.ز بیری صاحب آپ کیسے آئے اس وقت؟ میں نے عرض کی." حضور ! تخلیے میں ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں.آپ فورا اٹھ کھڑے ہوئے اور میرے کندھے پر دست شفقت رکھتے ہوئے مجھے ڈرائنگ روم میں لے گئے میں نے بہت رکتے جھجکتے...مختصر فقروں میں عرض کیا.وو...حضور حضرت مولانا ظفر علی خان بہت بیمار ہیں.انہیں دیکھنے والا اور ان کی تیمارداری کرنے والا کوئی نہیں.تین ڈاکٹروں کو بھجوایا تھا لیکن اہل خانہ کے عدم تعاون کی وجہ سے کوئی مدد نہیں کر سکے..یہ کہتے ہوئے میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں.66 مرزا صاحب نے فورا اپنے بیٹے ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کو آواز دی وہ آگئے تو پوچھا کہ ہمارے ساتھ اس وقت کتنے ڈاکٹر ہیں؟ اب یہ یاد نہیں رہا کہ

Page 49

43 انہوں نے کتنی تعداد بتائی.....دراصل جب آپ زیورچ سے مری تشریف لائے تھے تو ڈاکٹروں کی ایک کھیپ نے اپنا وقت آپ کی خدمت کے لئے وقف کر دیا تھا پھر آپ نے چند ڈاکٹروں کا نام لے کر حکم فرمایا کہ.وو یہ ڈاکٹر آج سے مولانا ظفر علی خان کا علاج کریں گے...جاؤان سے کہہ دو کہ فورا مولانا کو جا کر دیکھیں....جس دوائی کی ضرورت ہو وہ بازار سے خرید ہیں.جو دوائی مری سے نہ ملے اسے میری موٹر لے کر پنڈی سے لائیں علاج کا سارا خرچہ میں ادا کروں گا.“ میرے منہ سے یہ ارشاد سنتے ہی نکلا.اللہ اکبر.الحمد للہ جب تک مولا نا بیمار ہیں یہ سب ان کی تیمار داری کریں گے.ان کے آرام کا خیال رکھیں گے، سبحان اللہ...اب تم میری فکر نہ کرو بلکہ مولانا کا دھیان رکھو...بے شک یہ ظرف خدائے دو جہاں صرف اپنے خاص بندوں کو عطا فرماتا ہے.اپنے مرشد و آقا کی خدمت کے لئے آئے ہوئے ڈاکٹر یہ حکم سنتے ہی فورا مولانا ظفر علی خان کی خدمت میں پہنچ گئے کچھ دوائیاں دیں پھر کچھ انجیکشن لگائے اور اس وقت تک وہاں سے نہ ہلے جب تک آپ کی طبیعت نہ سنبھل گئی جب دوسری صبح ڈاکٹروں کی یہ ٹیم بعض احمدی حضرات کے ساتھ مولانا کی کوٹھی کی طرف چلی تو میں بھی ساتھ ہولیا.مولا نا حسب سابق تن تنہا ایک کرسی پر جس کے چاروں طرف ایک پٹی بندھی ہوئی تھی سر لٹکائے بیٹھے تھے منہ سے رالیں گر رہی تھیں پاجامہ پاخانے سے بھرا ہوا تھا

Page 50

44 اور اس قدر بد بو اور تعفن تھا کہ کھڑا ہونا دشوار تھا اور مولانا کے چاروں طرف لکھیوں کی بھنکار اور بھن بنا ہٹ تھی.مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب نے جھک کر مولانا کو بتایا کہ حضرت صاحب نے یہ ڈاکٹر صاحبان آپ کی خدمت میں بھیجے ہیں اور آپ کے علاج پر مامور فرمائے ہیں.مولانا نے یہ سن کر ایک بار سر اٹھایا اور جیسے کہا ہو کہ...” ہیں!“...مولانا ابوالمنیر نور الحق صاحب نے انہیں پھر قدرے بلند آواز میں بتایا کہ یہ ڈاکٹر صاحبان آپ کی خدمت کے لئے مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بھیجے ہیں اور انہیں آپ کے علاج....خدمت اور تیمار داری پر....مامور فرمایا ہے.یہ سنتے ہی مولانا نے ایک بار پھر سر اٹھایا....اور اس کے ساتھ ہی ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے.مجھے اس وقت یوں محسوس ہوا جیسے ان کا ہر آنسو کہہ رہا ہو.....کہ آج کہاں گئے میرے مداح اور نعرے لگانے والے.کہاں غائب ہو گئے ہیں زمنید ار اخبار کی کمائی کھانے والے.....یہ منظر دیکھ کر میری زبان پر بھی وہی مصرعہ جاری ہو گیا جو میرے پڑوسی کرنل صاحب مولانا کی اس کسمپرسی میں دیکھ کر پڑھا کرتے تھے.یہ عبرت کی جا ہے تماشہ نہیں ہے پھر یہ ڈاکٹر صاحبان اس وقت تک مولانا کی خدمت پر مامور رہے جب تک مولانا مری میں قیام فرمار ہے یہاں تک کہ وہاں سے اپنے آبائی گاؤں کرم آباد

Page 51

تشریف لے گئے.45 ہفت روزہ مہارت 15، 21 دسمبر 1995ء) ہمارے قارئین کرام غور فرما دیں کہ دنیا کی کونسی طاقت ہے جو سید نا حضرت مسیح موعود کے اس اُسلوب جہاد کو شکست دے سکے.

Page 52

46 باب دوئم سیدنا حضرت مسیح موعود کے اُسلوب جہاد پہ اب ہم ایک دوسرے پہلو سے روشنی ڈالتے ہیں.آپ کے اسلوب جہاد سے متعلق یہ اہم پہلو مد نظر رکھنا ضروری ہے کہ آپ جہاں مد مخالف سے تحریری یا زبانی مباحثہ ، مناظرہ یا گفتگو فرماتے ہوئے انتہائی ملائمت اور تمام تر آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے تھے وہاں عقلی و نقلی محکم دلائل کے ساتھ ایسا جواب دیتے تھے کہ ایک غیر متعصب انسان حضور کے جواب سے سرمو انحراف نہیں خصب انسان حضور کر سکتا تھا.اس کی چند ایک مثالیں ہدیہ قارئین کی جاتی ہیں.( یہ تمام حوالے ہم حیاتِ طیبہ مؤلفہ حضرت شیخ عبد القادر صاحب سابق سوداگر مل طبع اول اگست 1959 ء سے پیش کر رہے ہیں )

Page 53

47 1.حضرت اقدس کے قیام سیالکوٹ کے دوران پادری بٹلر صاحب ایم اے اکثر حضور کے ساتھ مذہبی مباحثے کیا کرتے تھے.ایک دفعہ پادری صاحب نے کہا کہ حضرت مسیح ناصری کے بے باپ پیدا ہونے میں یہ سر تھا کہ وہ مریم کے بطن سے پیدا ہوئے اور آدم کی شرکت سے جو گنہ گار تھا بری رہے.حضرت اقدس نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے.پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے؟ علاوہ ازیں بائبل کے مطابق تو عورت ہی نے آدم کو گناہ کی ترغیب دی تھی.پس چاہئے تو یہ تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے.اس پر پادری صاحب خاموش ہو گئے.(صفحہ 23) -2 براہین احمدیہ کی تصنیف کا ایک باعث یہ تھا کہ عیسائیوں کے علاوہ آریہ سماجی اور برہموسما جی اسلام اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر دل آزار حملے کر کے مسلمانوں کے خلاف منافرت کی فضا پیدا کر رہے تھے.حضور نے اس شدت سے سوامی دیانند بانی آریہ سماج اور بابا نرائن سنگھ سیکریٹری آریہ سماج امرتسر اور پنڈت کھڑک سنگھ کو دلائل و براہین کے ساتھ لا جواب کیا کہ پنڈت کھڑک سنگھ جو پر جوش آریہ سماجی تھے نہ صرف یہ کہ انہوں نے آریہ سماج سے توبہ کر لی بلکہ اسے چھوڑ کر عیسائی بن گئے.اور اخباروں میں صاف صاف شائع کر دیا کہ وید علوم الہی اور راستی سے بے نصیب ہیں اس لئے وہ خدا کا کلام نہیں ہو سکتے.(صفحہ 45) اسی طرح لا جواب ہو کر پنڈت دیا نند نے بھی اپنے بعض کلیدی عقائد سے

Page 54

تو بہ کر لی.48 3 مباحثہ لدھیانہ کے دوران موضوع زیر بحث یہ تھا کہ کیا قرآن کریم حدیث پر مقدم ہے یا حدیث قرآن کریم پر.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی اہل حدیث تھے اور حدیث کو قرآن پر مقدم قرار دیتے تھے.اور اسی کی رو سے حیات مسیح کو ثابت کرنے پر زور دے رہے تھے.حضرت مسیح موعود نے جب بخاری کی یہ حدیث پیش فرمائی کہ جو حدیث معارض قرآن ہو وہ چھوڑ دی جائے اور قرآن کو لے لیا جائے اس پر مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے بڑے غصہ میں کہا کہ یہ حدیث بخاری میں نہیں ہے.اور جو یہ حدیث بخاری میں ہو تو میری دونوں بیویوں پر طلاق ہے.اس طلاق کے لفظ سے تمام لوگ ہنس پڑے اور بعد میں کئی روز تک لوگوں سے مولوی صاحب کہتے رہے کہ نہیں نہیں میری دونوں بیویوں پر طلاق نہیں ہوئی اور نہ میں نے طلاق کا نام لیا تھا.اب جو دس ہیں سود وسو کو خبر تھی تو مولوی صاحب نے ہزاروں کو خبر دے دی.(صفحہ 83) -4 قرآن کریم اور احادیث میں ” توفی“ کا لفظ ذوی العقول کے لئے بیسیوں بلکہ سینکڑوں مرتبہ استعمال ہوا ہے اور حضرات علماء ہر جگہ اس کے معنی قبض روح اور وفات ہی کرتے ہیں لیکن یہی لفظ جب حضرت مسیح کے متعلق آئے تو اس کے معنی زنده بجسده العصر کی آسمان پر اُٹھائے جانے کے کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود نے علماء کو چیلنج کیا کہ اگر کوئی شخص قرآن کریم سے یا کسی حدیث سے یا اشعار وقصائد اظم و

Page 55

49 نثر قدیم وجدید عرب سے یہ ثبوت پیش کر ے کہ کسی جگہ توفی کا لفظ خدا تعالیٰ کا فعل ہونے کی حالت میں ذوی الروح کی نسبت استعمال کیا گیا ہو.وہ بجر قبض روح اور وفات دینے کے کسی اور معنی پر اطلاق پا گیا ہے یعنی قبض جسم کے معنوں میں بھی مستعمل ہوا ہے تو میں اللہ جل شانہ کی قسم کھا کر اقرار صحیح شرعی کرتا ہوں کہ ایسے شخص کو اپنا کوئی حصہ ملکیت کا فروخت کر کے مبلغ ہزار روپیہ نقد دوں گا اور آئندہ اس کی کمالات حدیث دانی اور قرآن دانی کا اقرار کرلوں گا.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 602 تا605 مطبوعہ لنڈن ) یہ کتاب 1891ء میں لکھی گئی تھی لیکن اب تک ساری دنیا کے کسی عالم ، عرب یا غیر عرب کو یہ توفیق نہیں ملی کہ یہ چیلنج قبول کر کے کوئی ایک مثال ہی اس کے خلاف پیش کر سکے.(حیات طیبہ صفحہ 87-88) 5.حضرت مولوی غلام نبی صاحب خوشابی ایک واعظ خوش بیان پر ہیز گار اور جید عالم تھے.مباحثہ لدھیانہ کی وجہ سے حضور کی مخالفت زوروں پر بھی وہ بھی اس مخالفت کی رو میں بہہ گئے اور حیات مسیح سے متعلق تقاریر کرنے لگے.ہزاروں لوگ ان کی تقاریر سننے کے لئے جمع ہوتے اور حضرت مرزا صاحب کے خلاف شدید منافرت پھیلتی گئی.ایک روز اُسی محلہ میں ان کی تقریر ہوئی جہاں حضور مقیم تھے.اور تقریر کے بعد مولوی صاحب ہزاروں کے جلوس کے ساتھ چلنے لگے، عین حضور کے

Page 56

50 مکان کے سامنے ان کی اتفاقا حضرت مسیح موعود کے ساتھ مڈ بھیڑ ہوگئی.اس کے بعد کیا ہوا اس کی تفصیل حضرت صاحبزادہ پیر سراج الحق صاحب نعمانی کی زبانی سنیئے.حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے السلام علیکم کہہ کر مصافحہ کے لئے ہاتھ بڑھایا اور مولوی صاحب نے وعلیکم السلام جواب میں کہہ کر مصافحہ کیا.خدا جانے اس مصافحہ میں کیا برقی قوت تھی اور کسی مقناطیسی طاقت، کیا روحانی کشش تھی کہ یہ اللہ سے ہاتھ ملاتے ہی مولوی صاحب ایسے از خود رفتہ ہوئے کہ کچھ چون و چرا نہ کر سکے اور سیدھے ہاتھ میں ہاتھ دیئے حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مردانہ مکان میں چلے آئے اور حضرت اقدس علیہ السلام کے سامنے دوزانو بیٹھ گئے اور باہر مولوی اور تمام سامعین وعظ حیرت میں کھڑے ہو گئے اور آپس گئے؟ میں یہ گفتگو ہوئی.نہیں تھا.ایک : ارے میاں یہ کیا ہوا ؟ اور مولوی صاحب نے یہ کیا حماقت کی کہ مرزا صاحب کے ساتھ ساتھ چلے دوسرا: مرزا جادوگر ہے.خبر نہیں کہ کیا جادو کر دیا ہوگا.ساتھ جانا مناسب تیسرا: مولوی صاحب دب گئے.مرزا کا رُعب بڑا ہے.رُعب میں آ گیا.چوتھا: اجی ! مرزا صاحب نے جو اتنا بڑا دعویٰ کیا ہے.مرزا خالی نہیں ہے.کیا

Page 57

51 یہ دعوی ایسے ویسے کا ہے؟ پانچواں : بات تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ مرزا رو پیہ والا ہے اور مولوی لالچی طامع ہوتے ہیں.مرزا نے کچھ لالچ دے دیا ہوگا.اور بعض نے کہا: مولوی صاحب عالم فاضل ہیں.مرزا کو سمجھانے اور نصیحت کرنے گئے ہیں.مرزا کو سمجھا کے اور توبہ کرا کے آویں گے اور دوسرے.یہ بات ٹھیک ہے.ایسا موقع ملاقات کا اور نصیحت کا بار بار نہیں ملتا.اب یہ موقعہ مل گیا.مرزا صاحب کو تو بہ کرا کے ہی چھوڑیں گے.اور عام لوگ کہنے لگے : مولوی پھنس گیا اور پھنس گیا.خواہ طمع میں خواہ علم میں.خواہ اور کسی صورت سے.مرزا بڑا چالاک اور علم والا ہے.وہ مولویوں کے گنڈوں پر نہیں ہے.مولوی : ( ایک زبان ہوکر ) مولوی صاحب مرزا کی خبر لینے کو گئے ہیں.دیکھنا تو سہی.مرزا کی کیسی گت بنتی ہے.مولوی مرزا سے علم میں کم نہیں ہے.طامع نہیں ہے.صاحب روزگار ہے.خدا اور رسول کو پہچانتا ہے.فاضل ہے.مرزا کو نیچا دکھا کے آئے گا اور سوا ان کے جو کچھ کسی کے منہ میں آتا تھا.وہ کہتا تھا اور ادھر خدا کی قدرت کا تماشا اور ارادہ الہی میں کیا تھا ؟ جب مولوی غلام نبی صاحب اندر مکان کے گئے تو چپ چاپ بیٹھے تھے.مولوی صاحب: حضرت! آپ نے وفات مسیح کا مسئلہ کہاں سے لیا ہے؟ حضرت اقدس: قرآن شریف سے اور حدیث شریف سے اور علماء ربانیین

Page 58

52 کے اقوال سے.بتلائیے؟ مولوی صاحب: کوئی آیت قرآن مجید میں وفات مسیح کے بارے میں ہو تو حضرت اقدس: لو یہ قرآن شریف رکھا ہے.آپ نے قرآن شریف دو جگہ سے کھول کر اور نشان کا غذ رکھ کر مولوی صاحب کے ہاتھ میں دیا.ایک مقام تو سورۃ آل عمران یعنی تیسرے پارہ کا تیسرا پاؤ اور دوسرا مقام سورۃ مائدہ کا آخری رکوع جو ساتویں پارہ میں ہے.اول میں آیت اور دوسرے میں يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنْتَ اَنْتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ تھا.مولوی صاحب دونوں مقاموں کی دونوں آیتیں دیکھ کر حیران اور ششدر رہ گئے اور کہنے لگے يُوَفِّيْهِمْ أُجُورَهُم بھی تو قرآن شریف میں ہے.اس کے کیا معنی ہوں گے.حضرت اقدس : ان آیتوں کے جو ہم نے پیش کی ہیں اُن کے اور معنی ہیں اور جو آمیتیں آپ نے پیش کی ہیں.اُن کے اور معنی ہیں.بات یہ ہے کہ یہ اور باب ہے اور وہ اور باب ہے.ذرا غور کریں اور سوچیں.مولوی صاحب : دو چار منٹ سوچ کر کہنے لگے.معاف فرمائیے.میری غلطی تھی جو آپ نے فرمایاوہ صحیح ہے.قرآن مجید آپ کے ساتھ ہے.

Page 59

53 حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا: جب قرآن مجید ہمارے ساتھ ہے تو آپ کس کے ساتھ ہیں.مولوی صاحب رو پڑے اور آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور ہچکی بندھ گئی اور عرض کیا کہ یہ خطا کار اور گنہگار بھی حضور کے ساتھ ہے.اس کے بعد مولوی صاحب روتے رہے اور سامنے مؤدب بیٹھے رہے.جب دیر ہوگئی تو لوگوں نے فریاد کرنی شروع کر دی اور لگے آواز دینے کہ جناب مولوی صاحب باہر تشریف لائیے.مولوی صاحب نے ان کی ایک بات کا بھی جواب نہ دیا.جب زیادہ دیر ہوئی تو وہ بہت چلائے مولوی صاحب نے کہلا بھیجا کہ تم جاؤ.میں نے تو حق دیکھ لیا اور حق پالیا.اب میرا تم سے کچھ کام نہیں ہے.تم اگر چاہو اور اپنا ایمان سلامت رکھنا چاہتے ہو تو آ جاؤ.اور تائب ہوکر اللہ تعالیٰ سے سرخرو ہو جاؤ اور اس امام کو مان لو.میں اس امام صادق سے کس طرح الگ ہوسکتا ہوں جو اللہ تعالیٰ کا موعود اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا موعود ہے.جس کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام بھیجا.چنانچہ وہ حدیث شریف یہ ہے.مَنْ أَدْرَكَ مِنْكُمْ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ فَلْيَقْرَتُهُ مِنَى السَّلَامَ مولوی صاحب یہ حدیث پڑھ کر حضرت اقدس کی طرف متوجہ ہو گئے اور آپ کے سامنے یہ حدیث دوبارہ بڑے زور سے پڑھی اور عرض کیا کہ میں اس وقت بموجب حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام کہتا ہوں اور میں بھی اپنی طرف سے اس حیثیت کا جو سلام کہنے والے نے سلام کہا اور جس کو جس

Page 60

54 حیثیت سے کہا گیا.سلام کہتا ہوں.حضرت اقدس علیہ السلام نے اس وقت ایک عجیب لہجہ اور عجیب آواز سے وعلیکم السلام فرمایا کہ دل سننے کی تاب نہ لائے اور مولوی صاحب مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے اس وقت حضرت اقدس کے چہرہ مبارک کا بھی اور ہی نقشہ تھا.جس کو میں پورے طور سے تحریر میں نہیں بیان کرسکتا.حاضرین و سامعین کا بھی ایک عجیب سرور سے پر حال تھا.پھر مولوی صاحب نے کہا اولیاء علماء امت نے سلام کہلا بھیجا اور اس کے انتظار میں چل بسے.آج اللہ تعالیٰ کا نوشتہ اور وعدہ پورا ہوا.یہ غلام نبی اس کو کیسے چھوڑے یہ مسیح موعود ہیں اور یہی امام مہدی موعود ہیں.یہی ہیں وہ یہی ہیں وہ.اور مسیح ابن مریم موسوی مرگئے.مر گئے.مر گئے.بلا شک مر گئے.وہ نہیں آئیں گے.آنے والے آگئے آگئے آگئے.بے شک وشبہ آگئے.تم جاؤ یا میری طرح سے آپ کے مبارک قدموں میں گرو تا کہ نجات پاؤ.اللہ تعالیٰ تم سے راضی اور رسول تم سے خوش ہو.منتظرین بیرون در کو جب یہ پیغام مولوی صاحب کا پہنچا.کیا مولوی ملا اور کیا خاص و عام سب کی زبان سے کافر کافر کافر کا شور بلند ہوا اور گالیوں کی بوچھاڑ پڑنے لگی اور سب لوگ منتشر ہو گئے اور بُرا بھلا کہتے ہوئے ادھر اُدھر گلیوں میں بھاگ گئے جو کہتے کہ مرزا جادوگر ہے ان کی چڑھ نبی.“ (حیات طیبہ صفحہ 89 تا 91)

Page 61

55 -6 مباحثہ جنگ مقدس سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ مباحثہ جو حضور نے 22 رمئی 1893ء سے لے کر 5 جون 1893 ء تک امرتسر کے مقام پر پادریوں کے ساتھ کیا.(عبد اللہ آتھم ، پادری ہنری مارٹن کلارک وغیرہ ) جنگ مقدس کے نام سے موسوم ہے.اس دوران ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس کی تفصیل یہ ہے کہ دورانِ مباحثہ میں ایک دن عیسائیوں نے خفیہ طور پر ایک اندھا، ایک بہرہ اور ایک لنگڑا مباحثہ کی جگہ میں لا کر ایک طرف بٹھا دیئے.اور پھر اپنی تقریر میں حضرت اقدس کو مخاطب کر کے کہا کہ آپ مسیح ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں.لیجئے یہ اندھے اور بہرے اور لنگڑے آدمی موجود ہیں.مسیح کی طرح ان کو ہاتھ لگا کر اچھا کر دیجئے.میر صاحب ( حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل) بیان کرتے ہیں کہ ہم سب حیران تھے کہ دیکھئے اب حضرت صاحب اس کا کیا جواب دیتے ہیں.پھر جب حضرت صاحب نے اپنا جواب لکھنا شروع کیا.تو فرمایا کہ میں تو اس بات کو نہیں مانتا کہ مسیح اس طرح ہاتھ لگا کر اندھوں اور بہروں اور لنگڑوں کو اچھا کر دیتا تھا.اس لئے

Page 62

56 مجھ پر یہ مطالبہ کوئی حجت نہیں ہو سکتا.ہاں البتہ آپ لوگ مسیح کے معجزے اس رنگ میں تسلیم کرتے ہیں اور دوسری طرف آپ کا یہ بھی ایمان ہے کہ جس شخص میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہے وہ وہی کچھ دکھا سکتا ہے جو مسیح دکھاتا تھا.پس میں آپ کا بڑا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اندھوں اور بہروں اور لنگڑوں کی تلاش سے بچا لیا.اب آپ ہی کا تحفہ آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے کہ اندھے ، بہرے اور لنگڑے حاضر ہیں.اگر آپ میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان ہے تو مسیح کی سنت پر آپ ان کو اچھا کردیں.میر صاحب بیان کرتے ہیں کہ حضرت صاحب نے جب یہ فرمایا تو پادریوں کی ہوائیاں اُڑ گئیں اور انہوں نے جھٹ اشارہ کر کے ان لوگوں کو وہاں سے رخصت کر دیا.-7 وو (حیات طیبہ صفحہ 127-128 ) سکھ مذہب سے متعلق حضرت مسیح موعود نے نہایت معرکۃ الآراء کتاب ست بچن، تصنیف فرمائی.علاوہ ازیں کئی اور کتب میں بھی اس موضوع پر نہایت محققانہ ریسرچ پیش فرمائی.یہاں صرف اس قدر لکھنا کافی ہوگا کہ جس مذہب کے بانی مبانی کے قبول اسلام کو آپ نے پہاڑوں جیسے دلائل سے ثابت کر دیا، بھلا اس مذہب کا باقی کیا بچا.چولا حضرت بابا نانک، پوتھی صاحب، حضرت بابا نانک کے مسلمان اساتذہ ، مسلمانوں کا آپ کی نماز جنازہ ادا کرنا.آپ کا حج بیت اللہ کرنا، مسلمان ملکوں کے سالہا سال کے سفر، مسلمانوں کے مزاروں پہ چلہ کشیاں ، بھائی بالا اور بھائی مردانہ کی جنم ساکھیاں، مسلمان عورت سے شادی کرنا، زنار پہننے

Page 63

57 (Baptism) کی رسم ادا کرنے سے بچپن میں ہی انکار کرنا وغیرہ وغیرہ.دلائل کا ایک بحر بے کراں ہے جن کی رو سے آپ نے حضرت بابا نانک کے بارہ میں ثابت فرمایا کہ آپ فی الواقع اسلام کے شیدائی ولی اللہ صاحب الہام بزرگ تھے.22 ستمبر 1895ءکوسیدنا حضرت مسیح موعود نے آریوں اور عیسائیوں کو مذہبی مباحثوں کی اصلاح کے لئے نوٹس اور گورنمنٹ آف انڈیا کو ایک میموریل بھجوایا.اس سے حضور کے طریق تبلیغ اور مخالفین کے خلاف مضبوط بنیادوں پر اتمام -8 حجت کرنے کا اندازہ ہوتا ہے.حضور نے تحریر فرمایا اول.کوئی فریق کسی دوسرے فریق پر ایسا اعتراض نہ کرے جو خود اس کی اپنی الہامی کتاب پر پڑتا ہو.دوم.ہر فریق اپنی مسلم اور مقبول کتابوں کی فہرست شائع کر دے اور کسی معترض کو یہ حق نہ ہو کہ ان کتب سے باہر کسی کتاب کے حوالہ سے اعتراض کرے.چنانچہ حضور نے جو مسلمہ مقبولہ کتابوں کی فہرست شائع فرمائی وہ یہ ہے.اول قرآن شریف ، دوم بخاری شریف، بشرطیکہ اس کی کوئی حدیث قرآن کریم کے مخالف نہ ہو.سوم صحیح مسلم بشرطیکہ اس کی کوئی حدیث قرآن کریم اور بخاری کے مخالف نہ ہو.چہارم.صحیح ترمذی، ابن ماجہ، مؤطا، نسائی ، ابوداؤد، دارقطنی، بشرطیکہ اس کی کوئی حدیث قرآن کریم اور صحیحین یعنی بخاری اور مسلم کے مخالف نہ ہو.آریوں اور عیسائیوں کو بھی آپ نے لکھا کہ آپ لوگ بھی اپنی مسلّمہ مقبولہ

Page 64

58 کتب کی فہرست شائع کر دیں اور فریقین اس امر کی پابندی کریں کہ کوئی ایسا اعتراض ایک دوسرے پر نہیں کریں گے جس کا ثبوت وہ ان کتب سے مہیانہ کرسکیں.ظاہر ہے کہ مذہبی فساد کو روکنے کے لئے یہ ایک نہایت ہی معقول تجویز تھی.آپ نے ہزاروں مسلمانوں کے دستخطوں سے گورنمنٹ آف انڈیا کی خدمت میں ایک میموریل بھی بھیجا.مگر افسوس کہ اس وقت گورنمنٹ نے اس طرف توجہ نہ کی.البتہ اس کے بہت سالوں کے بعد یہ قانون پاس کیا گیا کہ کسی مذہب کے بانی کو گالی دینا یا اس کی ہتک کرنا قانون کی رُو سے جرم ہے.-9 (حیات طیبہ صفحہ 148) عیسائیوں پر اتمام حجت.ایک ہزار روپیہ کا انعام 28 جنوری 1887ء کو حضور علیہ السلام نے چھ ہزار کی تعداد میں ایک اشتہار شائع کیا اور تمام مشہور پادریوں کو بذریعہ رجسٹری بھجوایا.لیکن کسی نامی گرامی پادری کو مقابلہ پر آنے کی جرات نہ ہوئی.حضور علیہ السلام کو تو خدا تعالیٰ نے کا سر صلیب کے منصب پر سرفراز فرمایا تھا.حضور نے پنجاب سے لے کر یورپ و امریکہ تک عیسائیوں کا پیچھا کیا اور وہ جو کبھی یہ گمان کر کے ہندوستان میں اسلام پر حملہ آوار ہوئے تھے کہ جلدی ہی ایسا وقت آنے والا ہے کہ یہاں مسلمان دیکھنے کو دنیا ترس جائے گی.انہیں اپنی جان چھڑانا مشکل ہوگئی.

Page 65

59 حضور نے محولہ بالا اشتہار میں فرمایا: میں اس وقت ایک مستحکم وعدے کے ساتھ یہ اشتہار شائع کرتا ہوں کہ اگر کوئی صاحب عیسائیوں میں سے یسوع کے نشانوں کو جو اس کی خدائی کی دلیل سمجھے جاتے ہیں میرے نشانوں اور فوق العادت خوارق سے قوت ثبوت اور کثرت تعداد میں بڑھے ہوئے ثابت کر سکیں تو میں ایک ہزار روپیہ بطور انعام دوں گا.میں سچ سچ اور حلفا کہتا ہوں کہ اس میں تخلف نہیں ہوگا.میں ایسے ثالث کے پاس یہ روپیہ جمع کراسکتا ہوں جس پر فریق ( مخالف ) کو اطمینان ہو.“ (حیات طیبہ صفحہ 158-159) حضرت مسیح ناصری سے متعلق کسی آیت قرآنیہ یا کسی حدیث مرفوع متصل میں لفظ ” آسمان دکھانے والے کو 20 ہزار روپیہ تاوان ادا کرنے کا اعلان 10- مسلمان نسلاً بعد نسل خاندانی اعتقاد کی بنا پر یہ یقین کرتے رہے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام آسمان پر اٹھا لئے گئے تھے اور آخری زمانہ میں جو اسلام کے ضعف اور اضمحلال کا زمانہ ہوگا بجسده العصری دمشق کے شرقی جانب آسمان سے

Page 66

نزول فرما دیں گے.60 خدا تعالیٰ نے الہاما سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خبر دی کہ اس عقیدہ کا قرآن وحدیث سے کوئی تعلق نہیں اور اس سے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی کسرشان ثابت ہوتی ہے.چنانچہ آپ نے بحیثیت کا سر صلیب حضرت مسیح ناصری کی طبعی وفات سے متعلق عقلی اور نقلی دلائل اس کثرت سے پیش فرمائے کہ آج عرب اور غیر عرب اسلامی ممالک کے فہیم علماء اور سکالرز کی بھاری تعداد آپ کے صعود جسمانی کے عقیدہ کو ترک کر چکی ہے.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 24 /جنوری 1898ءکو اپنی تصنیف لطیف " کتاب البریہ میں علماء اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے 20 ہزار روپے کا انعامی چیلنج دیا.واضح رہے کہ اس زمانہ کے 20 ہزار روپے ایک خطیر رقم تھی.حضور نے فرمایا:.پھر اگر پوچھا جائے کہ اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام اپنے جسم عصری کے ساتھ آسمان پر چڑھ گئے تھے؟ تو نہ کوئی آیت پیش کر سکتے ہیں اور نہ کوئی حدیث دکھلا سکتے ہیں.صرف نزول کے لفظ کے ساتھ اپنی طرف سے آسمان کا لفظ ملا کر عوام کو دھوکا دیتے ہیں.مگر یاد رہے کہ کسی حدیث مرفوع متصل میں آسمان کا لفظ پایا نہیں جاتا اور نزول کا لفظ محاورات عرب میں مسافر کے لئے آتا ہے اور نزیل مسافر کو کہتے ہیں.چنانچہ ہمارے ملک کا بھی یہی محاورہ ہے کہ ادب کے طور پر کسی وارد

Page 67

61 شہر کر پوچھا کرتے ہیں کہ آپ کہاں اترے ہیں.اور اس بول چال میں کوئی بھی یہ خیال نہیں کرتا کہ یہ شخص آسمان سے اترا ہے.اگر اسلام کے تمام فرقوں کی حدیث کی کتابیں تلاش کرو تو صحیح حدیث تو کیا وضعی حدیث بھی ایسی نہیں پاؤ گے جس میں یہ لکھا ہو کہ حضرت عیسیٰ جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر چلے گئے ہیں اور پھر کسی زمانہ میں زمین کی طرف واپس آئیں گے.اگر کوئی ایسی حدیث پیش کرے تو ہم ایسے شخص کو بیس ہزار روپیہ تک تاوان دے سکتے ہیں.اور تو بہ کرنا اور اپنی تمام کتابوں کا جلا دینا اس کے علاوہ ہوگا.“ حضرت اقدس کے اس چیلنج کو آج ساٹھ سال (اب تو سوسال ہونے کو ہیں.ناقل ) سے زیادہ عرصہ گزر گیا ہے.حضرات علماء نے ہزار ہا کتب کا مطالعہ کرنے کے بعد حیات مسیح کے مسئلہ پر سینکڑوں کتا میں لکھی ہیں لیکن کسی صاحب کو آج تک یہ تو فیق نہیں ہوسکی کہ حضور کے اس چیلنج کو قبول کر کے کوئی ایسی حدیث پیش کرتے جس میں جسم عنصری کے ساتھ حضرت مسیح کے آسمان پر جانے اور اترنے کا ذکر ہوتا.(حیات طیبہ صفحہ 186) کیا یہ سیدنا حضرت مسیح موعود کے علم لدنی اور قلم کا اعجاز نہیں کہ وہ علماء جنہوں نے گزشتہ سوسال میں سینکڑوں، ہزاروں کتب اور رسائل میں حیات مسیح “ ثابت کرنے کے لئے سعی لاحاصل کی ، ایک آیت یا ایک حدیث بھی متذکرہ بالا چینج کے مطابق پیش نہ کر سکے جس میں لفظ ” آسمان سید نا حضرت مسیح ناصری کے صعود ونزول

Page 68

62 کے بارہ میں استعمال ہوا ہو.11 - 1898ء کے اوائل میں ایک عیسائی احمد شاہ نے امہات المؤمنین کے نام سے ایک نہایت دل آزار کتاب شائع کی.جس سے مسلمانوں کے دل خون اور جگر چھلنی ہو گئے.جب وہ گندہ دہن ایک ہزار کتب مسلمانوں میں مفت تقسیم کر چکا تو انجمن حمایت اسلام لاہور نے گورنمنٹ پنجاب کو ایک میموریل بھجوایا کہ یہ کتاب ضبط کر لینی چاہئے.سیدنا حضرت مسیح موعود کو جب اس کا علم ہوا تو آپ نے اسے ناپسند فرمایا اور خود ایک میموریل تیار کر کے گورنمنٹ کو بھجوایا.حضور نے مسلمانوں کو بھی توجہ دلائی کہ جب کہ اس کتاب کی بکثرت اشاعت ہو چکی ہے تو اب اسے ضبط کرنے سے کیا حاصل.اب تو وقت ہے کہ اس کا جواب لکھ کر اسے مسلمانوں میں تقسیم کیا جائے تا سب مسلمان دفاع اسلام کا حق ادا کر سکیں.اور ان کے زخموں پر یہ جواب مرہم کا کام دیں.حضور نے یہ بھی فرمایا کہ پادریوں نے اس قسم کی سینکڑوں کتابیں مسلمانوں کا دل دکھانے اور ان کے جذبات مجروح کرنے کے لئے شائع کی ہیں.اس کا علاج تو یہ ہے کہ ان کا ترکی بہ ترکی جواب دیا جائے.اور اگر گونمنٹ اس طریق کو نا پسند کرتی ہے تو اسے آئندہ کے لئے مذہبی مناظرات میں دل آزار اور نا پاک کلمات کے استعمال کوحکما روک دینا چاہئے.(اشتہار 4 مئی 1898 ء حیات طیبہ صفحہ 188 )

Page 69

63 فونوگراف کی ایجاد اور ہندوؤں کو تبلیغ 12 سیدنا حضرت مسیح موعود کو یہ بڑا شوق تھا کہ تبلیغ اسلام کے نئے سے نئے مواقع تلاش کئے جائیں.چنانچہ انہیں ایام میں جن کا ہم ذکر رہے ہیں.حضرت نواب محمد علی خان صاحب آف مالیر کوٹلہ ایک فونوگراف خرید کر قادیان لائے.اس کے ساتھ آواز بھر نے کا سامان بھی تھا.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سے سورۃ انبیاء کا آخری رکوع پڑھوا کر اس میں بھرا اور حضرت اقدس کو ٹنا یا گیا.حضرت اقدس اس سے بہت محظوظ ہوئے.قادیان کے آریوں کو جب پتہ لگا کہ نواب صاحب فونوگراف لائے ہیں تو ایک عجوبہ چیز سمجھ کر کئی آریوں نے حضرت اقدس سے درخواست کی کہ ہم بھی فونوگراف سننا چاہتے ہیں.حضور نے فرمایا.بہت اچھا.آپ بھی کسی وقت آ جائیے.ادھر تو ان کو یہ کہا اور ادھر حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سے فرمایا کہ ” ہم تو فونوگراف سنا سنا نا جب تک کہ اس سے کوئی مفید کام نہ لیا جائے تضیع اوقات سمجھتے ہیں.کیوں نہ فونوگراف کے ذریعہ ان آریوں کو تبلیغ کی جائے.“ چنانچہ آپ نے چند اشعار لکھے اور مولوی عبد الکریم صاحب سے فرمایا کہ آپ انہیں خوش الحانی کے ساتھ پڑھ کر اس میں بند کر دیں.چنانچہ حضور کے حکم کی تعمیل کی گئی.جب آریہ صاحبان آگئے تو وہ اشعار سنائے گئے.جن کا پہلا شعر یہ ہے.

Page 70

64 آواز آرہی ہے یہ یہ فونو گراف ڈھونڈ و خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے اس طرح آریوں کی درخواست بھی منظور ہوگئی اور حضرت اقدس کا شوق تبلیغ بھی پورا ہو گیا.حیات طیبہ صفحہ 201-202) ان چند مثالوں سے اُمید ہے ہمارے قارئین کرام کو اندازہ ہوا ہوگا کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام امن اور سلامتی کا پیغام پہنچانے کے لئے (جس کا دوسرا نام، اسلام ہے ) کس طرح دلائل و براہین کے ساتھ فریق مخالف کے ساتھ مذاہب عالم کے میدان کا رزار میں فتح نصیب جرنیل کے طور پر چو کبھی لڑائی لڑرہے تھے.ایک ایسا جہاد جو نہ صرف قلب و ذہن کو مطمئن کرتا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دلوں میں ایک پاک روحانی انقلاب بھی بر پا کرتا ہے.جس میں ہر مذہب وملت سے تعلق رکھنے والے کے لئے اسلام کا زندگی بخش پیغام ہے.ہم آخر پر سیدنا حضرت مسیح موعود کا ایک اقتباس پیش کر کے اپنا مضمون ختم کرتے ہیں.آپ مجموعہ اشتہارات جلد 2 صفحہ 304 پر فرماتے ہیں:.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہو گا اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہو گا....سب ملتیں ہلاک ہوں

Page 71

65 گی مگر اسلام.اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا.نہ کند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا.لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نورا تارنے سے“ وہ مستعد روحیں اور پاک دل کون ہیں؟ وہ آپ ہی تو ہیں! جنہیں روشنی عطا کی جائے گی اور جن کے پاک دلوں پر نور اتارا جائے گا.کیونکہ آپ کے علاوہ آج دنیا میں رحمتہ للعالمین کے اُسلوب سے دلی محبت اور سچی پیروی کرنے والا کوئی نہیں.دعا ہے کہ یہ نور جلد از جلد ہر احمدی کے خانہ دل پر نازل ہو کر اسے مینارہ نور میں تبدیل کر دے اور اس کی ضوفشانی دور دور تک ہونے لگے اور سسکتی ہوئی انسانیت، احمدیت یعنی حقیقی اسلام کی آغوش میں آکر سکھ کا سانس لے.آمين اللهم آمين وأخر دعونا ان الحمد لله رب العالمين

Page 71