Language: UR
حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے بعد جاری ہونے والے خلافت احمدیہ کے نظام میں تیسرے خلیفہ کے طو رپر چنا۔ مصنف موصوف کی اس کاوش میں سیرت و سوانح کا ایک حسین اجتماع ہے۔ محبت و عقیدت کے جذبات میں گندھی ہوئی اس مختصر کتاب میں اعداد وشمار اور حوالہ جات کا بھی خوب اہتمام کیا گیا ہے۔ یوں مختلف لحاظ سے یہ ایک اچھوتی کاوش ہے۔ کتاب کے آخر پر حضور رحمہ اللہ کے بصیرت افروز خطابات اور لیکچرز پر مشتمل بلند پایہ لٹریچر کی فہرست بھی مرتب کی گئی ہے۔
حضرت خليفة اسمع الثالث
خليفة السيح الثالث یح مولانا دوست محمد شاہد مورخ احمدية بفرمائیش جناب چوہدری رحمت علی افتا است شروعه کا شانہ رحمت را وارالعلوم شرقی راید الناشر أحمد اكيد مي
حضرت خالی اسی اثالث مولانا دوست محمد شاہد مورخ احمدیت بفرمائیش جناب چوہدری رحمت علی النضا ان مشروعه " کا شانه رحمت را دار العلوم شرقی ریو الناشر أحمد اكيد
= ។ ۲۹ ۵۳ ۶۳ فهرست شان خلافت ثالثه ایک ایمان افروند روایت سوانحی خاکہ سیرت حضرت خلیفہ اسیح الثانت و حضرت اقدس کی پیشگوئیوں کا شاندار ظہور عہد خلافت ثالثہ ہیں.بعض اہم تحریکات حضرت خلیفہ مسیح الثالث کا یادگار را در انقلاب انگیز لٹریچر.حضرت مصلح موعود کا ایک اہم رویاء OC
حضرت مصلح موعود کا تاریخی خط COCOCO Radian 26th Sep; السلام عليكم.عاشقی کے لیے خبر دی ہے کہ سے سمجھ ایک ایسا را دو لگا جو دینی کا ناصر ہوگا اور اسلام کیا اند و اسلام خارگ مینا کم کردستان
شانی خلافت ثالثہ خلیفہ خُدا نے جو تم کو دیا ہے عطاء الہی ہے فضل خدا ہے یہ مولا کا اک خاص احسان ہے وجود اس کا خود اسکی بریان ہے خلیفہ بھی ہے اور موعود بھی مبارک بھی ہے اور محمود بھی لبوں پر ترانہ ہے محمود کا زمانہ ، زمانہ ہے محمود کا ر حضرت سیدہ نواب مبار ک بیگم صاحبہ الفضل هم ا پریل ۱۹۰۰ اول)
ایک ایمان افروز روایت حضرت سید ہ نواب مبارک بیگم صاحبہ نوراله مرقدها تحریر فرماتی ہیں:.ایک دن حضرت اماں جان کے پاس محمد احمد منصور احمد اور ناصر احمد تینوں بیٹھے تھے.میں بھی تھی.بچوں نے بات کی شاید حساب یا انگریزی ناصر احمد کو نہیں آتا.ہمیں زیادہ آتا ہے.اتنے میں حضرت بھائی صاحب ر حضرت مصلح موعودان تشریف لائے.حضرت اماں جان نے فرمایا.کہ میاں قرآن شریف تو ضرور حفظ کر داد مگر دوسری پڑھائی کا بھی انتظام ساتھ ساتھ ہو جائے کہیں ناصر دوسرے بچوں سے پیچھے نہ رہ جائے مجھے یہ فکر ہے یا اس پر جس طرح آپ مسکرائے تھے اور جو جواب آپ نے حضرت اماں جان کو دیا تھا.وہ آج تک میرے کانوں میں گونجتا ہے.فرمایا : " اماں جان آپ اس کا فکر بالکل نہ کریں.ایک دن یہ سر سے آگے ہوگا.انشاء اللہ تعالیٰ" اب سوچتی ہوں کیسی اُن کے منہ کی بات خدا تعالیٰ نے پوری کردی.علم عامہ بھی اور علم خاص دینی میں بھی اور اب قبائے خلافت عطا فرما کر س سے آگے کر دیا.الفضل ۵ار جنوری ۶۱۹۷۹ )
بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم محمد وَ عَلى عَلَى رَسُولِهِ الكريم سوانحی خاکہ ہمارے محبوب امام عالی مقام سید نا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کی پیپر انوار و برکات زندگی کا ایک مختصر سا نقشہ درج ذیل ہے :- حضرت مصلح موعود خلیفتہ المسیح الثانی نے ۲۶ ستمبر نشہ کو اپنے ایک مکتوب میں انکشاف فرمایا کہ :.مجھے بھی خدا نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک ایسا لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہو گا اور اسلام کی خدمت پر کمر بستہ ہو گا " د الفضل ۸ را پریل ما (۱۹۱۵ هاگاه ولادت ۱۶ نومبر ۱۹۰۹ء تکمیل حفظ قرآن را پریل ۶۱۹۲۲ ) قادیان کی توسیع کے لئے شبانہ و قاره حمل ۱۲۷ تا ۲۸ دسمبر ۱۹۳۷ ء امتحان مولوی فاضل میں کامیابی جولائی ۱۹۲۹ء.بی.اے کی ڈگری ۱۹۳۲ء.پہلی شادی ۵ را گست ۱۹۳۴ء - سفیر ولایت ستمبر ۶۱۹۳۴ تا نومبر ۶۱۹۳۸ صدارت مجلس خدام الاحمدیر فروری ۱۹۳۹ و قا اکتوبر ۱۹۴۹ ۶.بعد انسان بحیثیت نائب صدر تا نومبر ۶۱۹۵۴ - پرنسپل جامعه احمد تیر - جون ۱۹۳۹ ء ما احمدية اپریل ۶۱۹۴۳ - پرنسی تعلیم الاسلام کالج رقادریان - لاہور - ربوہ ).
یکم مئی ۱۹۴۲ء سے لے کہ یہ نومبر ۶۱۹۶۵ - هجرت ۱۶ نومبر ۰۶۱۹۴۷ عظیم خدمات سلسله فرقان بالین جون ۱۹۴۸ ء تا جون ۱۹۵۰ ۶ - سنت یوسفی کے مطابق اسیری یکم اپریل ۱۹۵۳ ۶ تا ۲۸ مئی ۱۹۵۳ء - صدا انه مجلس انصار الله مرکز یہ نومبر ۱۹۵۴ و نام نومبر ۱۹۶۵ء - صدر صدر انجمن احمدیہ مئی ۱۹۵۵ ء تا نومبر 1970ء خلیفہ المسیح الثالث کی حیثیت سے آسمانی انتخاب په نومبر ۱۹۶۵ ء کی درمیانی شب کو آپ قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث کے روحانی منصب پر فائز ہوئے.فضل عمر فاؤنڈیشن کا قیام دسمبر ۱۹۶۵ء - آغاز تحریک تعلیم القرآن ۱۹ اپریل ۶۱۹۶۷ - دفتر رسوم تحریک جدید کا اجرا و ۲۲ را پریل ۱۹۶۶ء - سفر یورپ انه در جولائی ۱۹۶۷ ۶ تا ۲۴ اگست ۱۹۶۷ و د اسی سفر میں حضور نے مسجد نصرت جہاں ۶ کوین سیگن ڈنمارک کا افتتاح اپنے دست مبارک سے فرمایا.دورہ مغربی افریقه انه مرا پریل ۶۱۹۷ تا در جون ۱۹۷۰ء (نصرت جہاں ریزہ رو فنڈ اور " نصرت جہاں آگے بڑھ سکیم کی آفاقی تحریک اسی شہرہ آفاق دورہ کے دوران حضور پر القاء ہوئی.افتتاح خلافت لائبریری سے بوہ س را کتوبر ۱۹۷۱ء - افتتاح مسجد اقصی ۳۱ مارچ ۶۱۹۷۲ - آغازه گھوڑ دوڑ ٹورنامنٹ اور دسمبر ۱۹۷۲ ء - سفر انگلستان اند ۱۳ جولائی ۶۱۹۷۳ تا ۲۶ ستمبر ۱۹۷۳ء - جشن صد سالہ احمدیہ جو بلی کے لئے تحریک ۲۸ دسمبر ۶۱۹۷۳.پاکستان اسمبلی میں دین حق کی ترجمانی.۲۲ - ۲۳ جولائی ، دا تا ۱۰ اگست ۲۰ تا ۲۴ اگست ۶۱۹۷۴ سفر یورپ از
۱۵ را گست ۱۹۰۵ ۶ تا ۲۹ اکتوبر ۱۹۷۵ء - دورۀ امریکہ و کینیڈا انه جولائی ۱۹۷۶ ۶ تا ۲۰ اکتوبر ۶۱۹۷۷ - دورۂ یورپ برائے کسر صلیب کانفرنس انه در مئی ۱۹۷۸ ۶ نا ار اکتوبیہ ۱۹۷۸ء.جماعت کے لئے علمی منصوبه ۲۸ را اکتوبر ۶۱۹۷۹ - دوره مغرب ۱۴۰۰ هر انه ۲۶ جون ۱۹۸۰ ۶ تا ۲۰ ر اکتوبر ۱۹۸۰ء (اس تاریخی اور آخری غیر ملکی سفر کے اختتام پر حضور نے 9 اکتوبر ۱۹۸۰ ء کو ۴۴ ۷ سال کے بعد تعمیر ہونیوالی قرطبہ کی پہلی عظیم الشان مسجد کا سنگ بنیاد رکھا.یہ مسجد حضور کے مبارک عہد میں ہی پایہ تکمیل تک پہنچ گئی تھی.حضور نے اس کے افتتاح کیلئے ارستمبر ۱۹۸۷ ء کی تاریخ مقرنہ فرمائی اور حضور کے حکم پر اس کا اعلان بھی کر دیا گیا ، کلمہ توحید لا اله الا الله کے ورد کی عالمی تحریک ور نومبر ۶۱۹۸ - احمدیہ بک ڈپو کا افتتاح ۲۲ دسمبر ۶۱۹۸ جماعت احمدیہ کو ستارہ احمدیت کے اعزانہ کا عطا فرمانا ۱۲۸ دسمبر ۱۹۸۱ و دبر موقعه جلسه سالانه - سنگ بنیا د دفتر صد ساله جویلی ۲۳ مارچ ۶۱۹۸۲ - دوسری شادی اارا پریل ۱۹۸۲ء - حادثه انتقال ے جون ۱۹۸۲ء کی درمیانی شب کو پونے ایک بجے بیت الفضل ا لام باد میں آپ کی روح مبارک قفس عنصری سے پرواز کر کے اپنے آقا د مطاع حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے محبوب ترین فرزند جلیل کے قدموں میں پہنچ گئی جن کی خاطر آپ نے مسکراتے ہوئے چہرے سے ہزاروں تیرا اپنے قلب مبارک پر برداشت کئے.گالیاں سنیں
اور دعائیں دیں.اور جماعت کو دعائیں کرنے کا حکم دیتے ہوئے یہ عارفانہ نعرہ بلند کیا کہ : " محبت سکے لئے نفرت کسی سے نہیں.آہ ہماری حرومی قسمت ! ہمیں پتہ ہی نہ لگا اور خُدا کا پیارا ہم سے جُدا ہو گیا.گو حضور نے اپنے خطبوں اور مجالس میں اپنی جلد واپسی کے اشارے بھی فرمائے مگر ہمیں کب یقین آتا تھا ہے حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد روئے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شد
سیرت حضرت خلیق ایالات مجوز بانٹے سید نا دا ما منا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ رب جلیل کے خلیفہ موعود تھے جن کی نسبت ہزاروں سال قبل طالمو د میں خبردی گئی ہے اور دسویں صدی ہجری کے مجددِ اسلام حضرت امام عبد الوہاب شعرانی جمنے مختصر تذكرة قرطبیہ صفحہ ۱۳۰ میں یہ حیرت انگیز پیش گوئی فرمائی کہ آندلس کی سرزمین مہدی موعود کے زمانہ میں تکبیر کے ذریعہ سے فتح ہوگی اور اہل سپین مهدی موعود سے اسلام اسلامی شریعیت کے قیام میں اعانت کے طلبگار ہوں گے اور اس وقت مہدی موعود کا نائب " ناصر دین اسلام ہوگا سے ناصر دین ! تری روح مقدس کو سلام دین احمد کی نب ناب بڑھا دی تو نے دے کے اسپین کو اللہ کے گھر کا تحفہ محبت کفر میں اک شمع جلادی تو نے (ثاقب زیروی) یہ ہے وہ خُدا نما شخصیت جس کی مقدس سیرت کے سدا بہار درخت اور غیر محدود چمنستان کے چند پھول اس وقت پیش کرنا مقصود ہیں.انصاریہ دین کی مادر مہر بان سیدہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کسی نے دریافت کیا کہ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی صلی الہ علیہ وسلم دندان می دابی بارون شده ے.ظالمود جوزف بار کے باب پنجم ص ۳ مطبوعہ لندن ۶۱۸۷۸ :- اسی کتاب کا عکس ہمسالہ کے آخر میں ملاحظہ فرمائیے :
۱۲ کے شمائل و اخلاق کیا تھے ؟ اس سوال کا جامع مگر نہایت مختصر جوا حضرت سیدہ نے یہ دیا: "كَانَ خُلْقَهُ القُرآن کہ آپ مجسم قرآن تھے.اسی طرح حضرت خلیفتہ ایسیح الثالث رحمہ اللہ کی پاک سیرت کا خلاصہ بھی ان دو فقروں میں آسکتا ہے کہ " کان عُثْمَانَ وَقتِهِ وَخُلُقه حُب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) آپ عثمان وقت تھے اور آپ کا خلق تھا حب محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ) - اس اجمال کی تفصیل میں اشارۃ عرض کرتا ہوں کہ طبری ، طبقات ابن سعد اور دیگر مستند تواریخ کی چھان بین اور شمسی کیلنڈر کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ خلیفہ ثالث حضرت سید نا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہے.نومبر ۳۳ مہ کو مسند خلافت پر متمکن ہوئے اور جون (شہ) میں اپنے مولائے حقیقی کے آسمانی دربار میں حاضر ہو گئے.حضرت ہشام بن محمد اور ابو معشر کے نزدیک قمری اعتبار سے آپ کی عمر مبارک پچھتر سال تھی.آپ کا قد متوسط رنگ گندم گوئی اور شکل ایسی وجہ یہ تھی کہ ایک بار آنحضرت با صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مجھے جبریل نے کہا ہے کہ اگر آپ روئے زمین پر حضرت یوسف کا شبیہ دیکھنا چاہیں تو عثمان بن عفان کو دیکھ لیں میں ه با سیرت حلبیہ جلد ۳ ص ۴۲ : -:- سیرت حلبیہ جلدم مث ، طبقات ابن سعد، طبری -
آپ کی ریش مبارک گھنی اور سفید تھی.آپ نے عمر بھر خضاب نہیں * لگایا.آپ حیاء ، فیاضی اور محبت و شفقت کی گویا چلتی پھرتی تصویر اور حضرت ابن عباس کی رائے میں رُحَمَاء بَيْنَهُمْ کا مثالی نمونہ تھے کہ بالفاظ دیگر محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں" کے خلق محمدی کے آپ حقیقی معنوں میں علمبردارہ تھے.محاصرہ کے دوران جب آپ کو مفید وں کے خلاف جنگ کا مشورہ دیا گیا تو آپ نے کمال محبت و شفقت سے فرمایا کیا میں امت کا خون بہاؤں ؟ ایسا ہرگز نہ ہو گیا کہ آپ حافظ قرآن تھے اور آپ کے عہد مبارک میں قرآن مجید کی بکثرت اشاعت ہوئی.آپ تعمیرات کے بہت شائق تھے کیے اور آپکے زمانہ میں نہ صرف مسجد نبوی کی توسیع ہوئی بلکہ متعدد قومی عمارات اور مہمان خانے تعمیر ہوئے.شہنشاہ چین کا سفیر آپ ہی کے عہد میں چین سے مدینہ آیا ہے اور اسلام کے فدائی پہلی بارہ سہیں نہیں پہنچے گو اس کی مادی فتح اموی با دشاہ ولید بن عبد الملک کے شہرہ آفاق جرنیل طارق بن زیاد کے ذریعہ ہوئی.حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو ا اپنے عہد خلافت کے وسط آخر میں انتہائی درد انگیز مصائب حواد سے دو چا نہ ہونا پڑا حتی کہ مرکز استلام بھی فیتوں اور ہنگاموں کی نہ د در مسند احمد بن حنبل جلد ا ص : سه : در منثور للسیوطی جلد ه ص : ے :.مسند احمد بن جنبل جلد امت کے ملفوظات حضرت مسیح موعود جلد مت : شه : - تاریخ اشاعت اسلام د ر حضرت شیخ محمد علی ناپانی ینی شه - طبری حالت ۲۷ھر ہے
۱۴ میں آگیا.اور خلیفہ رسول کی حیثیت سے آپ کو نام نہاد مسلمانوں کے سامنے یہ اعلان کرنا پڑا کہ یں غیر مسلم نہیں ، مسلمان ہوں وَاشْهَدُ ان لا اله الا الله و اشهد انَ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُه له حضرت عثمان سے مروی ۱۴۶ احادیث میں سے دو حدیثیں خاص طور پر آپ کی حیات طیبہ پر حاوی نظر آتی ہیں.اول : - " خَيْرُكُمْ مَن تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَمَهُ " له - : " مَنْ مَّاتَ وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ لا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ یعنی تم میں سے بہتر وہی ہے جو قرآن سیکھنے اور سکھلائے اور جس نے دوم : - *1* لا اله الا اللہ کے علم پر انتقال کیا ، وہ جنت میں داخل ہو گیا.اگر کوئی عارف باللہ حضرت عثمان نے کے ان حالات زندگی پر نور فراست، خداداد ذہانت اور ایمانی قوت اور باریک نظری سے غور کرے تو وہ یقیناً اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ ان حالات میں اکیس ایسے ایمان افروز پہلو موجود ہیں جن میں سے ہر ایک کا عکس جمیل ہمارے محبوب امام عالی مقام سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احمد خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی سیرت اور آپ کے مبارک عہد خلافت کی شکل میں چشم فلک دیکھ چکی ہے حقیقت یہ ہے کہ خلافت ثالثہ کے ان دو تا جداروں میں ایسی گہری مما شلیقی اور مشابہتیں پائی جاتی ہیں کہ انسان سچ مچ خالق کائنات کی 44-40 ه: مسند احمد بن حنبل جلد ا :: له : ايضا : : ايضا :
۱۵ بے نظیر اور لاجواب مصوری کے اس آسمانی شاہکار پر دنگ رہ جاتا ہے اور زبان ہی نہیں قلب و روح بھی پکار اُٹھتے ہیں تو دوبارہ کر دئے حتی نے وہ معثمان غنی پیدا جولائی نشہ میں جبکہ پاکستان کی نیشنل اسمبلی کا اجلاس ہو رہا تھا.اور حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ بھی اس سلسلہ میں اسلام آباد میں قیام فرما تھے.برادرم محمد شفیق قیصر مرحوم کی ملاقات ایم.این.اسے ہوسٹل میں اسمبلی کے ایک اشتراکیت زدہ ممبر سے ہوئی.دوران ملاقات ان صاحب نے کہا کہ میں تو خُدا کے وجود کا بھی قائل نہیں تھا مگر اسمبلی میں آپ کے حضرت صاحب کو دیکھ کر اتنا ضرور کجھ گیا ہوں کہ اس کائنات میں کوئی تو ایسی ہستی موجود ہے جس نے ایسا نورانی چہرہ پیدا گیا ہے.جیسا کہ میں بتا چکا ہوں حضرت خلیفة الشيخ الثالث سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے کامل شبیہ اور مثیل تھے اور تواریخ و روایات سے ثابت ہے.آپ کی ذات گرامی اگرچہ بے شمار خوبیوں کی جامع اور لا تعداد صفات حسنات کی مرتع تھی مگر ان سب پر عشق رسول (صلی اللہ علیہ وسلم کا والہانہ رنگ اپنی پوری شان کے ساتھ چھایا رہا.آپ کو آنحضور سے بے پناہ شیفتگی اور عقیدت تھی.حضور کی ادبی تکلیف کو دیکھ کہ تڑپ جاتے تھے اور آپ کی رضا جوئی کے لئے اپنی کل کائنات نثار کرنے کو ہر وقت آمادہ رہتے تھے ہے اور یہ سب کچھ محبت و فدائیت کے اس جذبہ کی بدولت تھا جو حضرت عثمان نے : طبقات ابن سعد جلد تذکره عثمان سیرت حلبیہ جلد ۲ قلب و جلدی بین احمدین جیل جلد مد
14 کے مبارک وجود میں ایک بحر بیکراں کی طرح موجزن تھا.بالکل یہی کیفیت عثمان دقت سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ کی تھی.آپ کے دل میں بھی آنحضرت کا عیشق بلا مبالغہ سمندروں کی موجوں کی طرح ٹھاٹھیں مار رہا تھا.آپ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے احمد جتنے صلی اللہ علیہ وسلم کے عدیم المثال خدائی اور شیدائی تھے اور آپ کی زندگی کی ہر حرکت و سکون اور آپ کی سیرت اور اخلاق و شمائل کا ہر گوشہ اور آپ کی ہر تحریر و تقریہ زبانِ حال سے 6 بعد از خدا بعشق محمد محمرم کا اعلان عام کر رہی ہے.جیسا کہ حضور نے ربوہ کی مسجد اقصیٰ میں دار دسمبر ار کو فرمایا : پہلا پیار ہمارا اپنے رب کریم سے ہے اور پھر اس سے ہے جس نے ہمارے رب کی ہمیں راہیں دکھائیں یعنی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم......غرض ہمارے لئے خدا اور مصطفیٰ ہی کافی ہیں کسی اور کی ہمیں ضرورت نہیں ہے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو جو بے نظیر تعلق محبت تھا اس کا اندازہ حضور کے اپنے پیارے الفاظ سے بخوبی لگ سکتا ہے.فرمایا :- " ہم آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم) پر دل وجان سے فدا : - الفضل ۲۶ ر ا پریل ۶۱۹۷۶ :
16 ہیں.ہمارے دل آپ کی محبت سے لبریز ہیں.ہمارے وجود کا ذرہ ذرہ آپ کا احسان مند ہے.اگر ہمارے بچوں کو بے دریغ قتل کر دیا جائے تو اس صدمے کو تو ہم برداشت کر سکتے ہیں مگر ہم ایک لحظہ کے لئے یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی شخص ہمارے محبوب آقا حضرت خیرالانام خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں برا بھلا ہے.اے ۲۴ را گست ۱۹۷۴ ء کو یعنی قومی اسمبلی کی کارروائی کے آخری دن کا واقعہ ہے کہ ۹-۱۰ بجے شب کے قریب احمدیت سے متعلق سوال و جواب کا سلسلہ اختتام پذیر ہوا تو اس وقت کے اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رح سے درخواست کی کہ اب آپ بھی کچھ فرمائیں یہ منظر نہایت درجہ رقت آمیز تھا.حضور نے قرآن عظیم اپنے ہاتھ میں لیا اور فرمایا کہ : "میں نے اس ایوان میں پہلے دو روزہ جماعت کا محضر نامہ پڑھا.بعد ازاں گیارہ دن تک مجھ پر انتہائی سخت قسم کے سوالات کئے گئے.یہ ایام شدید گرمی کے بھی تھے اور میرے لئے انتہائی مصروفیت کے بھی.مجھے معلوم نہیں کہ دن کب چڑھا ہے اور رات کب آتی ہے.ان تیرہ دنوں میں اگر : " حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا خطاب فرموده ، جون ۶۱۹۷۲، مث
کوئی شخص میرے دل کو چیر کے دیکھ سکتا تو اسے معلوم ہو جاتا کہ اس میں خدا اور محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے سوا اور کچھ نہیں ہے ؟" اس تڑپا دینے والے مختصر خطاب کے بعد حضور رحمہ اللہ اسمبلی ہاں سے باہر تشریف لے آئے.حضرت خلیفة المسیح الثالث ” نے اپنے عہد خلافت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ارفع ترین اور اعلیٰ ترین شان بیان فرمائی.اس کے لفظ لفظ سے محبت رسول کے چشمے پھوٹتے ہیں.آپ آنھوڑ کے ارفع ترین مقام مظہر اتم الوہیت پر کس وجد آفرین پیرا یہ میں روشنی ڈالتے " ہر نبی جو دنیا کی طرف مبعوث ہوئے اور ہر وہ بزرگ جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور جلال کو قائم کیا وہ اپنے اپنے ظرف کے مطابق مظہر صفات باری بنالیکن وہ ایک ہی تھے یعنی حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاء صلی الله علیہ و آلہ وسلم جنہوں نے پورے طور پر اپنے وجود میں ان صفات باری کو جذب کیا.پھر اپنے وجود سے انہیں ظاہر کیا....ہی ایک وجود ہے جسے حقیقی اور کامل عرفان شئون باری عطا ہوا اور جو اللہ تعالیٰ کی صفات کا منظر تم ٹھہرے " کے تعظیم روحانی تجلیات ملت : ط
19 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہ لولاک قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :- محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہر دو جہان میں سب سے بالا ہے.لولاک لما خلقت الافلاك له وو اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود منصوبہ باری تعالے میں نہ ہوتا تو اس کائنات کو بھی پیدا نہ کیا جاتا.......آدم سے لیکر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک جتنے انبیاء، علماء ، اولیاء ، قطب اور بزرگ گزرے ہیں سب نے آپ سے فیض لیا ہے لیکن آپ پر کسی کا احسان نہیں ہے نہ لے شان محمد یتے کا دلکش نقشہ آپ کی زبان مبارک سے سینیئے.فرمایا :- مقام محمدیت عرش رب کریم ہے اور عرش رب کریم کے بعد کسی شیئی کا تصور ہی ممکن نہیں ہے گویا آپ کے بعد کسی نبی کے آنے کا سوال ہی نہیں ہے کیونکہ اس ارفع روحانی مقام کے بعد کوئی رفعت ممکن ہی نہیں “ سے اس سلسلہ میں آپ نے یہ نہایت پر شرکت اعلان بھی فرمایا کہ :.مقام محمد یت کی جو معرفت ہمیں حاصل ہے.آج وہ ہمارے ه :- اسلام مذہبی آزادی اور آزادی ضمیر کا ضامن ہے.مثا : : "ہمارے عقائد سے آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرار داد پر تبصر
غیر کو حاصل نہیں.اس میں شک نہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے اس وقت تک کروڑوں اربوں لوگ ایسے پیدا ہوئے جنہیں اپنے ظرف کے مطابق یہ معرفت ملی.ہم نے اس عرفان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ حاصل کیا ہے اور پہلوں کی طرح جنہیں یہ عرفان اور معرفت عطا ہوئی تھی.حقیقی معنیٰ اور عارفانہ لہنگ میں آج اگر کوئی خاتم الانبیاء زندہ باد کا نعرہ لگا سکتا ہے تو وہ ہم ہی ہیں.ہم جب خاتم الانبیاء زندہ باد ، ختم المرسلین زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں تو ہمارا یہ نعرہ عارفانہ نفرہ ہے......لیکن بعض دہ بھی ہیں جنہوں نے تاریخ کی دوریوں اور ماضی کے دھندلکوں میں اُفق انسانی پر دور سے ایک چمک تو دیکھی اور اس چمک سے وہ ایک حد تک گھاٹل بھی ہوئے لیکن ابھید رحمت ان پر نہیں ہر سا.ماضی کے دھندلکوں میں وہ جو ایک چمک انہیں نظر آئی.اس پر فریفتہ ہو کر اور اس کے عاشق ہو کر بھی وہ خاتم الانبیاء زندہ باد کا نعرہ لگا لیتے ہیں لیکن اُن کا نعرہ عمار فانی نعرہ نہیں ہے بلکہ مجوبانہ نعرہ ہے.وہ اس مقام کو پہچانتے تو نہیں صرف ایک جھلک کے وہ گھائل ہو چکے ہیں اور ہم خوسفی ہیں کہ وہ پاک وجود جو ہمارے دل اور ہمارے دماغ اور ہماری روح اور ہمارے جسم پر حکومت کرتا ہے اس
کے حق میں مجو بانہ نعرے بھی لگتے ہیں لیکن جب ختم نبوت زندہ باد کا نعرہ بلند ہو تو ایک احمدی کی روح کی گہرائیوں سے نکلنے والا عمار خانہ نعرہ ہی سر ہے زیادہ بلند ہونا چاہیئے کے لئے مقام محمد یتے کے اس حقیقی عرفان ہی کا نتیجہ تھا کہ حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اپنی پوری عمر خاتمیت محمدمی کی عظیم تخلیات سے پوری دنیا کو بقعہ نور بنانے کے لئے وقف کر دی اور اپنے رب کریم کے حضور یہ دعائیں کرتے ہوئے اپنی سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر کئے رکھی کہ :.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ہر دل میں موجزن ہوا اور ہر طرف سے خدا تعالیٰ کی حمد اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کی آوازہ توسیع انسانی کے کان میں پڑ رہی ہوا سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عالمگیر روحانی حکومت کے قیام ہی کیلئے آپ نے ۱۹۷۷ء سے ۱۹۸۰ ء تک بیرونی مالک کے چھ انقلاب انگیز سفر اختیار کئے.آپ کا آخری سفر جو چودھویں صدی ہجری کے آخندی سال (۱۴۰۰ ھ بمطابق ۱۹۸۰ء) میں ہوا.پورے چار ماہ کا تھا.اس سفر کے دوران آپ نے یورپ، افریقہ اور امریکہ کے تیرہ ممالک میں حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی پوری شان سے منادی فرمائی اور ان ممالک کے غیر مسلم دانشوروں ، سلاسفروں صحافیوں عظیم روحانی تجلیات فن : ه: - "المصابیح ص۳۵
اور سر بر آوردہ شخصیتوں کے قلوب و اذنان پر اسلام کا سکہ بٹھا دیا.آپ نے قطعی اور یقینی دلائل و براہین سے ثابت کر دکھایا کہ شرف انسانیت کے حقیقی علمبردار اور پوری انسانیت کے محسن اعظم اور رحمۃ للعالمین محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات مقدس ہے اور یہ کہ صرف اسلام ہی سچا مذہب ہے اور مستقبل میں رونما ہونے والی عالمگیر تباہی سے نجات کی صرف یہ صورت ہے کہ تمام اقوام عالم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں میں آجائیں.آپ نے ۱۴ اگست ۱۹۸۰ء کو لنڈن کی ایک پر ہجوم کا نفرنس میں اسلام کا شاندار اور کامیاب دفاع کرتے ہوئے دین مصطفیٰ کے بینظیر فضائل ومحاسن بیان فرمائے تو اخبار کے ایک رپورٹر نے پوچھا کہ یورپ کب اسلام قبول کرے گا ؟ اس پر حضور نے جو شاندار جواب زیادہ انگلستان کی فضاؤں میں ہمیشہ گو نجتا رہے گا.حضور نے فرمایا :- دو تم لوگ مہلک ہتھیا رہی جمع نہیں کر رہے بلکہ مسائل کے انبار بھی لگا رہے ہو.تمہارے مسائل بڑھتے ہی چلے جاہ ہے ہیں اور تمہیں ان کا کوئی حل نظر نہیں آرہا.ایک وقت آئے گا کہ تم مسائل کے حل کی تلاش میں اندھیرے میں ٹکریں مار رہے ہو گے اور ہر طرف راستہ مسدود پاؤ گے وہ وقت اسلام کا ہوگا اور میرے لئے موقع ہوگا کہ میں اسلام کی روشنی تمہارے سامنے پیش کروں.اُس وقت تم خود بخود اسلام کی طرف کھینچنے چلے آؤ گئے ہیں اس وقت کا منتظر ہوں اور وہ وقت ضرور آئیگا لے ه :- دوره مغرب کویر PAL
۲۳ آنحضرت صلی اللہ علہ وسلم کے عشاق نے اپنی گردنیں کٹوا دیں مگر حضور کے حکم سے سرتابی گوارا نہیں کی.اسی اخلاص د فدائیت کا شاندار نمونہ مدینہ میں حضرت عثمان بن عفان نے اور کربلا میں سید الشہداء حضرت امام حسین نے پیش فرمایا.عشق رسول عربی کی اسی روح اور جذبہ کو تازہ کرنے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ہم رمئی سایہ کو مسجد اقصیٰ ربوہ میں ایک دلولہ انگیز خطبہ دیا جس میں اُن لوگوں کو جو اس وقت پاکستان میں ختنہ و فساد برپا کرنا چاہتے تھے ، پوری قوت و شوکت سے متنبہ کیا کہ : اگر کسی وقت خدا نخواستہ حاکم وقت نہ رہے، ملک میں انار کی پھیل جائے اور حکومت وقت جان و مال کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھانے کے عملاً قابل نہ رہے اور ایک فانی فی اللہ مسلمان جنسی اپنے جذبات کو خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خاطر خدا تعالیٰ قابو میں کیا ہوا تھا.اسکی کان میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیاری آواز آئے.ان لنفسك عليك حق کہ تیرے نفس کا بھی تجھ پر حق ہے دَمن وَمَنْ قُتِل دونَ مَالِهِ فَهُو شهید یعنی تیرے مال و دولت کی حفاظت بھی تجھ پر ڈالی گئی ہے تو پھر اگر خدا نخواستہ ہمارے ملک میں بدامنی اور لاقانونیت پھیل جائے تو تم دیکھو گے کہ تم اپنی زندگی اور مال و دولت سے جو پیار کراتے ہو ، ہر احدی اس سے زیادہ موت سے پیا یہ کرتا
ہے.موت زندگی کا خاتمہ نہیں.ابدی زندگی کا ایک موڑ ہے.ہم مانتے ہیں کہ ہم بڑے کز در انسان ہیں.خطا کار ہیں لیکن ہمارے رب نے ہمیں دنیا میں اسلام کو غالب کہ ننے کے لئے آلہ کار بنایا ہے اس لئے اگر ہم......اپنی اس ذمہ داری کو نبھانے کے لئے قربانیاں دیتے چلے گئے تو ہمیں یقین ہے کہ جب یہاں آنکھ بند کر کے وہاں آنکھ کھلے گی تو ہم اپنے آپ کو اللہ کی گود میں پائیں گے.پھر فرمایا :- تمہیں پتہ لگ جائے گا کہ کہنے والے نے سچ کہا تھا ہے جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں " ہا تھے شیروں پر نہ ڈال اسے ردیہ ندارد و گزار ہم خداتعالی کی قدرتوں اور اسکی غیر معمولی پایہ کا مشاہدہ کرتے چلے آئے ہیں ہمیں اس کی قدرتوں پر محکم یقین ہے.ہم بھلا تم سے ڈریں گے ؟ ہم تو ساری دنیا سے بھی نہیں ڈرتے.جب انگریز سمجھتا تھا کہ اسکی دولت مشترکہ پر سورج غروب نہیں ہوتا.اس وقت اس نے احرار کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا.اس وقت بھی ہم نہیں ڈرے.نہ ہیں کوئی نقصان پہنچا.اب جبکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے حالات بدل گئے ہیں اورا حدیت پر سورج غروب نہیں ہوتا.ہم نے خدا تعالی کے تعظیم الشان
۲۵ نشان دیکھ لئے اب ہم اللہ کے سوا کسی اور سے بھلا کیوں ڈریں گے یا لے اب آخر میں مجھے اس بنیادی صداقت کا ذکر کرنا ہے کہ سیدنا و مولانا سيد الكل وافضل الرسل حضرت خاتم النبيين محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم چونکہ زندہ نبی ہیں اس لئے آپ کے سچے عاشقوں اور فدائیوں پر کبھی فنا وارد نہیں ہوتی ، نہ ہو سکتی ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت قدسیہ کے طفیل ان کے روحانی نقوش آسمان شہرت پر آفتاب ماہتاب کی طرح چمکتے رہتے ہیں اور ان کے نام اور کام کو دنیا میں ہمیشہ قائم رکھا جاتا ہے.ے ہرگز نمیرد آنکه دلش زنده شد بعشق ثبت است بر جریده عالم دوام شان سیدنا حضرت مسیح موعود و مهدی مسعود مجدد الف آخر عليه الصلواة والسلام بھی اپنے تجربہ کی بناء پر تحریمہ فرماتے ہیں کہ : تمام انبیاء اور صدیق مرنے کے بعد پھر زندہ ہو جاتے ہیں اور ایک نورانی جسم بھی انہیں عطا کیا جاتا ہے اور کبھی بیداری میں راست بازوں سے ملاقات بھی کرتے ہیں.تے ه طلت : آزاد کشمیر اسمبلی کی ایک قرار داد پر تبصرہ " سه : - ازالہ اوہام ص : ه:
اسی رہبانی سنت کے مطابق ہر احمدی علی وجہ البصیرت کہہ سکتا ہے کہ ہمارے محبوب امام سیدنا حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ کی زندگی بخش سیرت کے انقلابی آثار نہ صرف یہ کہ خُدا کے فضل وکرم سے قیامت تک تازہ اور زندہ و تابندہ رہیں گئے.بلکہ ان کی بنیاد پر انشاء اللہ اسلامی معاشرہ کی وہ سر بفلک اور عالی شان عمارت تعمیر ہوگی جس کے سامنے ماسکو ، پیکینگ لندن اور نیو یارک کی تہذیب و تمدن کے سارے نقش ونگار بالکل باند پڑ جائیں گے.اور ان کے حسین وجمال کا سب جادو ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا اور رب کعبہ کی قسم ! ساری دنیا حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے جمع ہو جائے گی جیسا کہ حضور رحمہ اللہ نے خُدا سے علم پاکر 19 نومبر ۱۹۸۰ء کو یہ پیشگوئی فرمائی کہ : " میری روحانی نگاہ دیکھ رہی ہے کہ خود بیجاری کے ہاتھ سے بتوں کو توڑ دیا جائے گا اور وہ کروڑوں) سینے جن میں ظلمات بھری ہوئی ہیں وہ شرک سے خالی ہو کر خدا اور محمد کے نور سے بھر جائیں گے.امت مسلمہ میں چودہویں صدی میں تکفیر کا بازار گرم بر ہا.یہ سب ختم ہو جائے گا.پندرھویں صدی اس کو ختم کر دے گی.میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ یہی اللہ کا منشاء
ہے.....کوئی بڑا اور کوئی چھوٹا نہیں رہے گا سائے ہی سارے ایک سطح پر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں کے ساتھ چھٹے ہوئے ہوں گے.تکبر کا سر توڑ دیا جائے گا.عاجزی، انکساری اور باہمی اخوت و بسیار اس کی جگہ لے لے گا.لڑائیاں جھگڑے ، عداوتیں اور رنجشیں دفن کر دی جائیں گی.اور امت مسلمہ پھر سے ایک ایسی بنیان مرصوص بن جائے گی کہ اس پر شیدان کا پہر والہ نا کام ہو جائے گا.صرف......اور صرف ایک اسوہ ہوں گے ہمارے لئے.محمد صلی اللہ علیہ وسلم.صرف ایک مفسر رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہوگا.مہدی ہمارا (علیہ السلام، اور ساری دنیا امت واحدہ بن جائے گی جیسا کہ قرآن کریم نے وعدہ دیا ہے" سے قسم اُس ذات کی جنسی محمد کو کیا پیدا قسم اس ذات کی جینے ہمیں اسکا کیا شیدا یقینا لشکر شیطان شکست فاش کھائے گا علم اسلام کا سا سے جہاں پر پہلہا ائے گا اللهُمَّ صَلِّ عَلَى نَبِيِّكَ وَحَبِيْبِكَ سَيْدِ الْاَنْبِيَاءِ ه : اختتامی خطاب طنت :
۲۸ وَخَيْرِ الْمُرْسَلِينَ وَخَاتَمِ الخَلِينَ مُحَمَّدِدٌ خُلَفَاءِ : وَآلِهِ وَاَصْحَابِهِ وَبَارِكْ وَسَلّم.
۲۹ حضرت اقدس کی پیشگوئوں کا انداز ہو عہد خلافت ثالثہ میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کا عہد مبارک آسمانی نشانوں سے بریز ہے جس میں حضرت اقدس کی متعدد پیش گوئیاں ایسے شاندار طریق پیر پوری ہوئیں کہ اسلام کی صداقت و حقانیت دنیا پہ ظاہر ہوگئی.ذیل میں بطور نمونہ اٹھارہ پیش گوئیوں کا ذکر کیا جاتا ہے.وہا توفیقی الا بالله العلى العظيم.بادشا ہونے کا ہر کرتے حاصل کرنا خدائے عز وجل نے حضرت اقدس کو مخاطب کر کے فرمایا :- میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے کہ بركات الدعاضت اس عظیم الشان خوشخبری کا پہلا ظہور حضور رحمہ اللہ کے عہد مبارک کے
ابتدائی ایام میں ہوا جبکہ جماعت احمدیہ گیمبیاد مغربی افریقہ کے پریذیڈنٹ الحاج ایف ایم سنگھاٹے اپنے ملک کی آزادی کے بعد اس کے سب سے پہلے گورنر جنرل مقررہ ہوئے اور حضور رحمہ اللہ کی نظر کرم سے آپ کو حضرت رس کے مقدس کپڑوں سے برکت حاصل کرنے کا اعزانہ حاصل ہوا.تعمیر کعبہ کے مقاصد اور ان کا فلسفہ (۲) حضرت اقدس کو الہاما بتایا گیا : - "جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت سے الہی کا مسئلہ سمجھتا ہے وہ وه بڑا عقلمندہ ہے کیونکہ اس کو اسرار ملکوتی سے حصہ ہے.ایک کی کو اولو العزم پیدا ہو گا " ران الر اولا م م وہ اولوالعزم جنسی شاء میں بہت اللہ کی تعمیر کے ٹیکس عظیم الشان تئیس مقاصد اور ان کے فلسفہ پر روشنی ڈالی وہ ہمارے امام رحمہ اللہ ہی تھے.لنڈن میں تبلیغ اسلام میں نے دیکھا کہ میں شہر لندن میں ایک منبر پر کھڑا ہوں در انگریزی زبان میں ایک نہایت مدلل بیان سے اسلام کی صداقت ظاہر کر رہا ہوں.بعد اس کے میں نے بہت سے پرند سے پکڑے جو چھوٹے چھوٹے درختوں پر بیٹھے ہوگئے تھے.سوئیں نے اس کی یہ تعبیر کی کہ اگر چہ میں نہیں مگر میری تحریریں لوگوں میں پھیلیں گی اور بہت سے راست بازنہ انگریز
۳۱ ۵۱۶۵۱۵ صداقت کا شکار ہو جائیں گے." (ازالہ او ہام" من " یہ رویاء ظاہری لحاظ سے بھی حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے انگلستان کے متعدد فروں کے ذریعہ بار بار پوری ہوئی.خصوصات شراء میں جبکہ حضور نے وائنڈزورتھ ٹاؤن ہاں لنڈن میں امن کا اسلامی پیغام دیا.اس کے گیارہ برس بعد لنڈن میں ہی کسر صلیب کا نفرنس ہوئی جب کسی آخری اجلاس سے حضور نے ایک بصیرت افروز خطاب فرمایا.جو پوری غیر مسلم دنیا پر اتمام حجت ہونے کے علاوہ کئی سعید روحوں کو حلقہ بگوش اسلام کرنے کا بھی باعث ہوا.بادشاہوں کا اظہار عقیدت م - الہام ہے :- " وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیرں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا." داشتهار ۲۰ فروری نشده) اس الہام کے عین مطابق نشاء کے مشہور عالم دورہ افریقہ کے دوران کئی سربراہان مملکت نے حضور رحمہ اللہ سے شرف ملاقات حاصل کر کے اپنی عقیدت و محبت کا ثبوت دیا.مثلاً میجر جنرل یعقوبو گردن سابق صدر نا نیجیریا ، مسٹر ولیم شب مین سابق صدر یا بیریا، بانجانیجاسی قائمقام صدر مملکت سیرالیون اور نشراء میں حضور رحمہ اللہ کے غانا تشریف لے جانے پر وہاں کے صدر مملکت ڈاکٹر ہلالیمان نے حضور سے ایک بار شرف ملاقات
۳۲ حاصل کیا.اسکی بعد دوسری بار خود درخواست کر کے دوسری ملاقات کی ان کے علاوہ دورہ مغرب مشکلاء کے دوران ہالینڈ کے وزیر اعظم بغیر کسی طے شدہ پروگرام کے خود خواہش کر کے ملے.غیر معمولی وسعت مکانی اء کا زمانہ انتہائی کسی میرسی اور گمنامی کا زمانہ تھا.حضرت اقدس کی مجلس میں ان دنوں شاید دو تین آدمی ہوں گے اور وہ بھی کبھی کبھی حاضر ہوتے ایسے وقت میں آپ کو الہام ہوا :- " وسع مكانك " (سراج منیر ) یعنی اپنے مکان کو وسیع کرو.آپ کی بانی تنگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے پاس روپیہ نہ تھا.اس لئے اس حکم الہی کی فوری تعمیل آپ نے اس طرح فرمائی کہ میاں عبداللہ سنورٹی کو اپنے دوست حکیم محد شریف صاحب کے ہاں امرتسر بھیجا.وہ ان کی معرفت امرتسر سے آدمی اور تھوڑا سا سامان لے آئے ادر الدار میں تین چھپر کھڑے کر دیئے گئے جو کئی سالوں کے بہ.ٹوٹ پھوٹ گئے.الہام ربانی کا گویا یہ پہلا بیچ تھا جو حضرت اقدس بانی احمدیت کی حیات طیبہ میں نہایت تیزی سے پھو لتا پھلتا گیا.یہاں تک کہ حضور کے نائبین کے عہد مبارک میں چمنستان کی صورت اختیار کر گیا.یہی الہام سلہ میں حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ کو بھی ہوا.جہاں تک حضرت مجھے کو
FF خلیفہ ایسی رحمہ اللہ کے عہد سعید کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کی پیشگوئی بین الاقوامی سطح پر نہایت آب و تاب سے پوری ہوئی.چنانچہ خدائی برکتوں سے معمور اس دور میں نہ صرف ربوده بلکہ بیرونی ممالک میں بھی بہت سی شاندار عمارتیں تعمیر ہو چکی ہیں.ربوہ میں جو عالیشان عمارت میں تعمیر ہوچکی ہیں وہ یہ ہیں :.مسجد اقطى - دفتر فضل عمر فاؤنڈیشن.خلافت لائیر مر ہیں.سرائے فضل عمر - سرائے محبت را - سرائے محبت - گیسٹ ہاؤس انصار الله سرائے خدمت (خدام الاحمدیہ - مخزن الكتب العلمیه را صد یہ بک ڈپو ) علاوہ انہیں دار السلام النصرت اور دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کی پرشکوہ عمارتیں بہت جلد پایہ تکمل کو پہنچ رہی ہیں.اسی طرح حضرت امام جماعت احمدیہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے ۲۳ مارچ شاہ کو دفتر صد سالہ جوبلی کا سنگ بنیا د بھی اپنے دست مبارک سے رکھا.خلافت ثالثہ میں ممالک بسیر دن میں بہت سے وسیع و عریض اور خوبصورت مساجد اوریشن با دستر کا اضافہ ہوا.جن میں سے مندرجہ ذیل خاص طور پر قابل ذکر ہیں.مسجد نصرت جہاں ، کوپن ہیگن (ڈنمارک، مسجد ناصر گوٹن برگ (سویڈن جامع مسجد ابادان (نائیجیریا، مسجد الارو ( نائیجیریا ، مسجد فضل عمر صدا (نجی) مسجد ناصر رٹرینیڈاڈ، مسجد احمدیه ومشن یا ڈس ڈھا کہ انبگلہ دیش ، مسجد احمدیه دمشن ہاؤس سرینگر مسجد طارق ( ماریشس المسجد سونگیه وتنزانی) - مشن ہاؤس سنگا پور مسجد بشارت پیدو آباد (سپین) مسجد احمد یہ نور مشن ہا ڈس
لهم سلام - اوسلور نار ہے، میشن ہاؤس ٹورنٹو (کینیڈا) مشن ہاؤس ناگویا (جاپان) مشن ہاؤس کیلگری (کینیڈا) مشن ہاؤس سالسبری (ز مباید سے) علاوہ ازیں انگلستان میں چھنٹے مراکزہ بھی قائم ہوئے.انقلاب ایران 어 ۵ار جنوری شاہ کو حضرت اقدس کو فارسی میں یہ الہام ہوا :- تزلزل در ایوان کسری فتاد که د بدر ۱۹ جنوری شاه صف ) یعنی شاہ ایران کے محل میں تزلزل پڑ گیا.یہ آسمانی خبر اپنی پوری شان کے ساتھ ایک بار پھر حضور رحمہ اللہ کے عہد مبارک میں یوری ہوئی جبکہ 14 جنوری شاہ کو شاہ ایران کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور ایران کے مذہبی رہنما روح اللہ خمینی بر میرا قتدار آ گئے.ایک دردناک المیہ - مندرجہ ذیل الہامات ، ستمبر گشاد کو پورے ہوئے :- (3) وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِي كَفَر برا این احمدیہ حصته پنجم صفحه ۶۴ حاشیه) ترجمہ ، اس مکر کرنے والے کے مکر کو یاد کہ جو تھے کافر ٹھہرائے گا.ر اليها مث ) رب، تبت يدًا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَ.مَا كَانَ لَهُ أَن يَدْخُلَ
۳۵ فِيْهَا الأَخَائِفًا وَمَا أَصَابَكَ فَمِنَ اللهِ - اَلْفِتْنَة مهُنَا نَاصْبِرَ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ أَلَا إِنَّهَا فِتْنَةٌ مِنَ اللهِ لَيُحِبَّ حُبَّا جَمَّا - حُبَّا مِنَ اللهِ الْعَزِيزِ الاكرَمِ عَطَاء غَيْرَ مَجْدُودِ وَفِي اللهِ أجْرُكَ وَيَرْضى عَنْكَ رَبُّكَ وَيُتِمَّ إِسْمَكَ دَ عَسَى أَنْ تُحِبُّوا شَيْئًا وَهُوَ شَرٌّ للمَ وعَسَى ان تكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرُ تَكُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ.وَ انْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ترجمہ :.ابو لہب ہلاک ہو گیا اور اسکی دونوں ہاتھ ہلاک ہو گئے.ر ایک وہ ہاتھ جب کسی ساتھ تکفیر نامہ کو پکڑا اور دوسرا دہ ہا تھ جسکی ساتھ مہر لگائی یا تکفیر نامہ رکھا، اس کو نہیں چاہیے تھا کہ اس کام میں دخل دیتا مگر ڈرتے ڈرتے اور جو تجھے رنج پہنچے گا وہ تو خدا کی طرف سے ہے.جب وہ ہامان تکفیر نامہ پر نہر لگا دے گا تو بڑا فتنہ برپا ہو گا.پس تو صبر کہ جیسا کہ ادلو العزم نبیوں نے صبر کیا.یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہوگا.تا وہ تجھ سے بہت محبت کرے.جو دائمی محبت ہے.جو کبھی منقطع نہیں ہوگی اور خُدا میں تیرا اجر ہے.خُدا تجھ سے راضی ہوگا اور تیرے نام کو پورا کرے گا بہت ایسی باتیں ہیں کہ تم چاہتے ہو مگر وہ تمہارے لئے اچھی نہیں اور بہت سی ایسی باتیں ہیں کہ تم.
نہیں چاہتے اور وہ تمہارے لئے اچھی ہیں اور خدا جانت ہے اور تم نہیں جانتے.یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ تکفیر ضروری تھی اور اس میں خدا کی حکمت تھی.مگر افسوس ان پر جن کے ذریعہ سے یہ حکمت اور مصلحت اہلی پوری ہوئی.اگر وہ پیدا نہ ہوتے تو اچھا تھا." دار یعین ۳ ۲۹۰۲۳ ہم پر کرم کیا ہے خُدا ئے بغیور نے پور سے ہوئے جو وعدے کئے تھے حضو نے ایک باون سالہ شخص کا عبرتناک انجام -> را بپریل شاہ کا دن مذہبی دنیا کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائیگا.کیونکہ اس دن حضرت مہدی موعود علیہ السلام کے متعدد الہامات اور کشون و رویاء ایک نئی شان سے منصہ شہود پر آئے.مثلاً الف جو شخص تیری طرف تیر چلائے گا.میں اُسی تیر سے اُس کا کام تمام کر دوں گا " (براہین احمدیہ حصہ پنجم حت (ہے) میں نے دیکھا کہ ایک بتی ہے اور گویا کہ ایک کبوتر ہمارے پاس ہے.وہ اس پر حملہ کرتی ہے.بار بار ہٹانے سے باز نہیں آتی.آخر میں نے کہا کہ آؤ اسے پھانسی دے دیں یا د ابد کا استمر مستشار )
.......(ج ) " ایک شخص کی موت کی نسبت خدائے تعالیٰ نے اعداد تھی میں مجھے خبر دی جس کا ماحصل یہ ہے کہ.اس کی عمر باون سال سے تجاو ہ نہیں کرے گی جب باون سال کے اندر قدم رکھے گا تر اسی سال کے اندرہی را ہٹی ملک بقا ہو گا ؟" د ازاله ادعام مشات ) اسلام کے خدا کا یہ زیر دست جلالی نشان پاکستان میں ظاہر ہوا اور اس نے ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا.علم و معرفت میں کمال ۹ - حضرت اقدس نے مارچ شالہ میں یہ حیرت انگیز پیش گوئی فرمائی کہ : " میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نوٹ اور اپنے دلائل اور نشانوں کی سے سب کا منہ بند کر دیں گے کہ تجليات الهیه ملت) اس پیشگوئی کا عالمی بزرگ میں پہلا ظہور شہور عالم سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام صاحب کی شخصیت سے ہوئی جنہیں شاہ میں ان کی بے مثال سائنسی خدمات کی بناء پر نوبل پرائز کا عالمی اعزاز حاصل ہوا جو عالیم اسلام کے لئے بالخصوص باعث شکر و امتنان پیدا.
احمدی طلباء کو علم و معرفت میں کمال عطا کرتے ہوئے حضور نے تعلیمی منصوبہ کا اجراء فرمایا.اس میں ادائیگی حقوق طلباء کے تحت طلباء کو وظائف اور انعامی تمغے دینے کی سکیم طے کی گئی جسی احمدی طلباء میں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا ہوا.لا اله الا اللہ کا ورد IAA ۱۰ تاریخ کا الہام ہے :- لا إله إلا الله - فاكتب وَاليُطْبَعُ و رَسَلُ فِي الْأَرْضِ د براہین احمدیہ حصہ سوم ۲۳ حاشیه در حاشیه یعنی لا إله إلا الله کو لکھو اور اسے چھپوایا جائے اور تمام دنیا میں بھیجا جائے.سبحان اللہ! حضرت احدیت کا ایک صدی پیشتر کایہ فرمان مبارک کس شان سے پورا ہو رہا ہے.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی ربانی تحریک کے مطابق چودھویں صدی ہجری کے آخری سال سے دنیا بھر کی تمام احمدی جماعتیں لا اله الا اللہ کا درد پورے التزام کے ساتھ کر رہی ہیں.اسی طرح خدائے ذوالجلال کی قادرا نہ تجلیات کا یہ پرکیف نظارہ بھی جسیم فلک دیکھ رہی ہے کہ عالمگیر جماعت احمدیہ کو حضور انور رحمہ اللہ تعالٰی کی طرف سے جلسہ سان شاہ کے موقع پر ستارہ احمدیت کا جو خصوصی اعزاز عطا ہوا اسکی چودہ کو نوں میں اللہ اکبر اور وسط میں لا اله الا الله
کا ہی پیارا کلمہ توحید لکھا ہے جو ممالک عالم میں بڑی کثرت سے چھپ چکا ہے.یہاں یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ لا الہ الا اللہ کے ورد سے قرآن مجید کی ایک عظیم الشان پیشگوئی بھی پوری ہوئی ہے.اللہ جل شانہ فرماتا ہے :- فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا السَّاعَةَ أَن نَاتِيَهُمْ بَنْتَة فَقَدْ جَاء اشْرَادُهَا فَانّى لَهُمْ إِذَا جَاءَتْهُمْ ذكر همه فَاعْلَمْ أَنَّهُ لا إِلهَ إِلَّا اللهُ (محمد : ۱۹ - ۲۰) یعنی وہ آخری فیصلہ کی گھڑی کا انتظار کر رہے ہیں کہ وہ ان کے پاس اچانک آجائے.سو اس کی علامتیں تو ظاہر ہو چکی ہیں اور جب اس کی اصل حقیقت اُن کے پاس پہنچے گی تو اس وقت انہیں کیا چیز نفع دے گی.اور یہ حقیقت جان لے کہ لا الہ الا الله لله (اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں...مشہور مفسر قرآن " خانمته المحققین حضرت علامہ ابو الفضل شها الدين محمود لوسی البغدادی (متوفی شاھ) نے " روح المعانی میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ بعض بزرگان سلف نے یہ عجیب نکتہ بتایا ہے کہ لفظ " بغتة کے حروف بحساب جمیل کبیر ۱۴۰۷ بنتے ہیں.پس یہ اسلامی انقلاب ۱۴۰۷ھ کے بعد بر پا ہو گا.اب یہ حقیقت ہے کہ دنیا بھر کی مسلم جماعتوں میں سے اگر کسی کا تعلق ۱۳۰۷ ہجری سے ہے تو وہ صرف جماعت احمدیہ ہے.کیونکہ جماعت احمدیر ۲۰ رجب شاد ھو
م کو قائم ہوئی.لہذا ۱۲۰۰ ہجری جماعت احمدیہ کے قیام کی دوسری ہجری صدی غلبہ اسلام کی صدی کا پہلا قمری سال ہو گا اور حضور رحمہ اللہ تعالیٰ اس دنیا کے پردہ پر واحد مقدس وجود تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے چودھویں صدی کے اختتام پر یہ القادر فرمایا کہ چودھویں صدی کا الودائع اور پندرھویں صدی کا استقبال لا اله الا اللہ کے ورد سے کیا جانا چاہیئے.داریم امر نہ صرف خلافت ثالثہ کی حقانیت کا چکتا ہوا نشان ہے بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی صداقت پر بھی زندہ بہ مان ہے.کیونکہ سورة محمد کی اسی آیت میں جہاں غلبہ اسلام کے لئے بختہ یعنی ۱۴۰۷ ہجری کے بعد آنے کی خبر دی گئی ہے ، وہاں اگلی آیت میں واضح الفاظ میں یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ : فَاعْلَمْ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ صاف دل کو کثرت اعجازہ کی حاجت نہیں اک نشاں کافی ہے گھیر دی میں ہو خوف کیر دگار جا سالانہ کے لئے قوموں کی تیاری 11 - حضرت اقدس بانی سلسلہ احمدیہ کے عہد مبارک کا پہلا جلسہ سالانہ شاہ میں ہوا جس میں صرف د مخلصین احمدیت نے شرکت فرمائی.اس جلسہ کے بعد حضور نے ، دسمبر تار کے اشتہار میں خُدا کے حکم سے یہ پیش گوئی فرمائی کہ : اس جلسہ کو معمولی انسانی جلسوں کی طرح خیال نہ کریں.یہ وہ امر
س کی خالص تائید حق اور اعلائے کلمہ اسلام پر بنیاد ہے اور اس کے لئے قومیں طیارہ کی ہیں جو عنقریب اس میں آئیں گی کیونکہ یہ اس قادر کا فعل ہے جس کے آگے کوئی بات انہونی نہیں " سید نا حضور یہ حمہ اللہ تعالیٰ کے مبارک دور کا ہر سالانہ جلسه (قادیان ربوده) اس پیشگوئی کی صداقت کا روشن ثبوت پیش کرتا رہا.چنانچہ پچھلے سال کشید میں اس بابرکت تقریب پر دو لاکھ سے زائد طیور ابراہیمی کا بے نظیر اجتماع ہوا.جس میں امریکہ ، کینیڈا ، ٹرینیڈاڈ ، فی انگلستان، جرمنی، ہالینڈ، ڈنمارک ، اردن، نائیجیریا، غانا، سیرالیون، کینیا، تنزانیہ، زیمبیا، ماریشس، انڈونیشیا وغیرہ جماعتوں کے وفود شامل ہوئے.حضور رحمہ اللہ کے عہد مبارک میں ہی اس پیش گوئی کے مطابق حضور کے ارشاد پر مختلف اقوام کے افراد و خود کی شکل میں جلسہ سالانہ میں شرکت کرنے کے لئے آنے شروع ہوئے.اور اب ان کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ ان کے لئے انگریزی اور انڈونیشی زبان میں رواں ترجمہ کا بند بست کیا گیا ہے.حضرت اقدس اس تائید ربانی کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرماتے ہیں:.فَقَالَ سَيَاتِيكَ الأناسُ وَنُصْرَتي مِنْ كُلِ فَج يَا تِينَ وَتَنْصُرُ وَتِلْكَ الْوَفُورُ النَّازِلُوْنَ بِدَارِنَا هُوَ الْوَعْدُ مِن رَّبِّي وَإِنْ شِئتَ فَاذْكُرُ د براہین احمدیہ حصہ پنجم جانا ، یعنی خدا نے کہا کہ لوگ تیری طرف آئیں گئے اور تیری مدد کریں گئے اور ہر ایک راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور تیری مدد کی جائے
۴۲ گی.پس بر گروه در گروه (وفوں) لوگ جو ہمارے گھر میں اُترتے ہیں یہ وہی خدائی وعدہ ہے اگر تو چاہے تو یاد کر.اشاعت دین حق کے جدید ذرائع ۱۲ - خدائے عزوجل نے جب حضرت اقدس کو دنیا بھر میں دین حق کی اشاعت کا فریضہ سونپا تو ساتھ ہی یہ وعدہ بھی فرمایا :.إني أَنَا الرَّحْمَنُ سَاجْعَلُ لَكَ سَهُولَة فِي كُلِّ امر (حقیقة الوحی منو میں رحمن ہیں.ہر ایک امر میں تجھے سہولت دُوں گا " چنانچہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے بابرکت دور میں پریس.ریڈیو.ٹیپ کا ڈور کیمرے ، ٹیلی ویژن ٹیلیکس - سلائیڈز - وی سی آر.فولڈر.اور مختلف زبانوں کی ترجمانی کے انڈکشن سسٹم (INDUCTION SYSTEM) تبلیغ حق کی خدمت میں روبہ عمل ہو چکے ہیں.اور یہ ایسی بات ہے جو حضرت اقدس کی صداقت کا زبر دست ثبوت ہے.مگر یادر ہے کہ یہ تو ابھی ابتداء ہے.غلبہ دین حق کی صدی میں جب احمد سائنسدانوں کو نئی سے نئی ایجادات کا موقع ملے گا تو دنیائے احمدیت کا نقشہ ہی بدل جائے گا.انشاء الله.نفوس اموال میں غیر معمولی برکرتے JAAY ۱۳ - اشتهار ۲۰ فروری تشکر میں یہ الہام درج ہے :-
۴۳ یکی تیرے خالص اور دلی خبتوں کا گر وہ بھی بڑھاؤں گا.اور ان کے نفوس و اموال میں برکت سجنٹوں گا." اس وعدہ ربانی کے مطابق جماعت احمدیہ کی تعداد خدا کے فضل سے ایک کروڑ سے بڑھ چکی ہے اور ان کے اموال میں جو غیر معمولی برکت بخشی گئی ہے اس کی علامت جماعت احمدیہ پاکستان کے تین مرکزی اداروں رصد را بنجمن احمدیه - تحریک بدید.وقف جدید ) کا ترقی پذیر بھیٹ بھی ہے جس میں ہر سال معجزانہ طور پر اضافہ ہو رہا ہے.حضرت مصلح موعود کے عہد مبارک کی آخری مجلس مشاورت ۱۹۶۵ء میں ان اداروں کے بجٹ کی رقوم کا نقشہ یہ تھا :- صدر انجمن احمدیہ پاکستان.تحریک جدید وقف جدید -- ۳۶,۲۴۹۲۰ -..1,4", مگر جلس مشاورت تصور میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے مندرجہ ذیل بجٹ منظور فرمائے :.صدر انجمن احمدیہ پاکستان ۰۰-۱,۳۹,۳۶,۹۸۲ تحریک جدید وقف جدید " ", 10 اک قطرہ اس کے فضل نے دریا بنا دیا میں خاک تھا اُسی نے ثریا بنا دیا
۴۴ ان اداروں کے علاوہ فضل عمر فاؤنڈیشن - نصرت جہاں ریزر و فنڈ.صد سالہ جو بھی فنڈ، انصار الله ، خدام الاحمدیہ ، لجنہ اماءاللہ اور دوسری تنظیموں کے آمد و خرچ کے میزانسے بھی پیش نظر رکھے جائیں تو جماعت احمدیہ کے اموالی میں برکت کے نشان کی عظمت اور بھی بڑھ جاتی ہے.ہمڈ دی بند گائے خدا کا پاک چشمہ رو ۱۴ - حضرت اقدس نے اشتہارم، مارچ شہداء میں بطور پیش گوئی جماعت احمدیہ کے قیام کی اغراض و مقاصد کا ذکر کرتے ہوئے تحریر فرمایا کہ: " وہ ایسے قوم کے ہمدرد ہوں کہ غریبوں کی پناہ ہو جائیں یتیموں کے لئے بطور باپوں کے بن جائیں اور اسلامی کاموں کے انجام دینے کے لئے عاشق زار کی طرح خدا ہونے کیلئے تیار ہوں اور تمام تر کوشش اس بات کے لئے کہیں کہ ان کی عام برکات دنیا میں پھیلیں اور رحمت اپنی اور ہمہ دی بندگان خُدا کا پاک چشمہ ہر یک دل سے نکل کر اور ایک جگہ اکٹھا ہو کر ایک دریا کی صورت میں بہتا ہوا نظر آدے " یہ آسمانی خبر ارضی بلال (افریقہ) میں نصرت جہاں آگے بڑھ سکیم کے ذریعہ نہایت آب و تاب سے پوری ہو رہی ہے اور اسلام اور خدمت انسانیت کی تارہ بیج میں ایک نیا سنہری باب ہے.یہ آسمانی منصوبہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالے کے حکم سے شہر میں سفر مغربی افریقہ کے دوران جباری فرمایا تھا.
۴۵ جسے اللہ تعالٰی نے گیارہ سالوں میں اتنی لا تعداد برکتوں سے نوازا ہے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے.اس منصوبہ کے تحت اس وقت نائیجیریا - نمانا گیمبیا - لا بیر یا اور سیرالیون میں یا شاندار ہسپتال در سو عظیم الشان سکول نہایت وسیع پیمانے پر دن رات خلق خدا کی خدمت میں سرگرم عمل ہیں اور نہ صرف یہ کہ ان ممالک کی ممتاز و مقتدر شخصیات بلکہ سربراہان مملکت بھی ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کر چکے ہیں.قرآن مجید کی عالمی اشاعت ۱۵ حضرت اقدس...سیا لکوٹ میں لالہ بھی سین صاحب وکیل کو قرآن کریم پڑھایا کر تے تھے.ایک دفعہ آپ نے ان کو یہ خواب سنایا کہ :.آج رات میں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا آپ مجھ کو بارگاہ ایزدی میں لے گئے اور وہاں سے مجھے ایک چیز ملی جس سے متعلق ارشاد ہوا کہ یہ سارے جہان کو تقسیم کرد و دسیرت احمد مصنفہ مولوی قدرت اللہ صاحب نوری ) یا ص ۱۸۲۱ جو چیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل حضرت اقدس کو عطا ہوئی اور جسے ساری دنیا میں پہنچانے کا حکم دیا گیا، وہ قرآن کریم ہی تھا جس کی خلافت ثالثہ.مبارک دور میں گذشتہ خلفائے احمدیت سے بڑھ کر اشاعت ہوئی اور کلام اللہ کے پھیلانے اور دنیا اور لائبریہ یوں تک پہنچانے کا سلسلہ عالمی سطح پر ایسی وسعت اختیار کر گیا کہ قبل انہیں تاریخ اسلام
۴۶ میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.اس ضمن میں حضور نے یورپ ، امریکہ او افریقہ کے ہوٹلوں میں قرآن کریم رکھنے کی ایک نہ یہ دست ہم جاری فرمائی جسکے تحت ان براعظموں کے درجنوں ممالک میں ہزاروں کی تعداد میں قرآن کریم کے نسخے ہوٹلوں میں رکھوائے گئے.علم و معرفت سے لبریز بلند پایہ لٹریچر - Y حضرت اقدس......کا الہام ہے :- " آسمان سے بہت دودھ اُترا ہے اسے محفوظ رکھو یا (حقیقۃ الوحی ص ) اس الہام میں حضرت ادریس اور آپ کے خلفاء کے بلند پایہ لٹریچر کی طرف اشارہ ہے جسے آسمانی دودھ سے تشبیہ دی گئی ہے حضرت خلیفتہ انہیں الثالث رحمہ اللہ کا بلند پایہ لٹریچر ۳۶ اہم مطبوعات پر مشتمل قریبا ۱۹۹۰ صفحات پر محیط ہے جس کی تفصیل خاکسار کے مقالہ مطبوعہ الفضل ۲۶ مئی ۶۱۹۸۲ میں شائع شدہ ہے.اور اس مضمون کے آخری حصہ میں شامل ہے.حضور کے اس لٹریچر کی شوکت و عظمت اور اثر انگیزی کا اندازہ لگانے کے لئے صرف ایک اقتباس ہدیہ قارئین کہتا ہوں.فرمایا : - مقام محمدیہ کی جو معرفت ہمیں حاصل ہے آج وہ ہمارےسے غیر کو حاصل نہیں.اس میں شک نہیں کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمانہ سے اس وقت تک کروڑوں اربوں لوگ ایسے پیدا
۴۷ ہوئے جنہیں اپنے اپنے ظرف کے مطابق یہ معرفت ملی ہم نے اس عرفان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عظیم روحانی فرزند کے ذریعہ حاصل کیا ہے اور پہلوں کی طرح جنہیں یہ عرفان اور معرفت عطا ہوئی تھی حقیقی معنی اور عارفانہ رنگ میں آج اگر کوئی خاتم الانبیاء زندہ باد کا نعرہ لگا سکتا ہے تو وہ ہم ہی ہیں ہم جب خاتم الانبیاء زنده باد - ختم المرسلین زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں.ہمارا یہ نعرہ عارفانہ نعرہ ہے.ہم اس حقیقت کو پہچانتے ہیں اور ہمارے دل کی گہرائی ہماری روح کی وسعتوں اور ہمارے جسم کے ذرہ ذرہ سے یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ خاتم الانبیاء زندہ باد ختم المرسلین زنده باد لیکن بعض وہ بھی ہو سکتے ہیں جنہوں نے تاریخ کی دوریوں اور ماضی کے دھندلکوں میں افق انسانی پر دور سے ایک چمک تو دیکھی اور اس چمک سے وہ ایک حد تک گھائل بھی ہوتے لیکن اسیر رحمت ان پر نہیں برسا.ماضی کے دھندلکوں میں وہ جو ایک چمک انہیں نظر آتی اس پر فریفتہ ہو کر ادرا کسی عاشق ہو کر وہ بھی خاتم الانبیاء زندہ باد کا نعرہ لگا لیتے ہیں لیکن ان کا نعرہ عارفانہ نعرہ نہیں ہے بلکہ مجھے بانہ نورہ ہے وہ اس مقام کو پہچانتے تو نہیں صرف ایک نظر کے وہ گھائل ہو چکے ہیں.اور ہم خوش ہیں کہ وہ
۴۸ پاک وجود جو ہمارے دل اور ہمارے دماغ اور ہماری مفرح اور ہمارے جسم پر حکومت کرتا ہے اس کے حق میں مجوبانہ نفرے بھی لگائے جاتے ہیں لیکن جب ختم نبوت زندہ باد کا نعہ بلند ہو تو ایک احمدی کی روح کی گہرائیوں سے نکلنے والا عارفانہ نعرہ ہی سر ہے بلند ہونا چاہیئے.و عظیم روحانی تجلیات منت انوار آسمانی کی عالمگیر ضیاء پاشیاں ۱۷.حضرت اقدس نے اپنی کتاب " تریاق القلوب "میں تحریر فرمایا چونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ تھا کہ میری نسل میں سے ایک بڑی بنیا د حمایت اسلام کی ڈالے گی اور اس میں سے وہ شخص پیدا کرے گا جو آسمانی روح اپنے اندر رکھتا ہوگا اس لئے اس نے پسند کیا کہ اس د خواجہ میر درد - ناقل خاندان کی لڑکی میرے نکاح میں لاوے اور اسکی وہ اولاد پیدا کرے جو ان نوروں کو جن کی میرے ہاتھ سے تخم ریزی ہوئی ہے دنیا میں زیادہ سے زیادہ پھیلا دے.اور عجیب اتفاق ہے کہ جس طرح سادات کی دادی کا نام شہر بانو تھا اسی طرح میری یہ بیوی جو آئندہ خاندانی کی ماں ہوگی اس کا نام نصرت جہاں بیگم ہے.یہ تفاؤل کے طور پر اس بات کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا نے تمام جہان کی مدد
۴۹ کے لئے میرے آئندہ خاندان کی بنیاد ڈالی ہے.یہ خدا تعالیٰ کی عادات ہے کہ کبھی ناموں میں بھی اس کی پیشگوئی مخفی ہوتی ہے " مت طبع اول) حضرت اقدس کی یہ پیشگوئی جس حیرت انگیز رنگ میں پوری ہوئی اور خلافت ثالثہ کے عہد مبارک میں حضرت اقدس کے لائے ہوئے حقیقی اسلام کے پیغام کو کس طرح دنیا کے چیتے چنیہ تک پہنچایا گیا.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسکا اعتراف دوسرے مسلمان زعماء کو بھی ہے.چنانچہ پاکستان کے نامور صحافی جناب عبد السلام خورشید نے اخبار مشرق مورخہ ۳۰ ر بون شکار کو سکھا :- ہم نے گذشتہ نصف صدی میں احمدیوں کی مخالفت میں محض جلسوں، جلوسوں اور مظاہروں اور کانفرنسوں اور تقریروں سے کام لیا لیکن احمدیوں نے خاموشی کے ساتھ پاؤں پھیلا لئے.اس وقت دنیا کے اکتیس ملکوں میں انہوں نے پچاس سے زیادہ احمد مشن قائم کر رکھے ہیں.ان کے زیر اہتمام تین سو چوالیس مسجدیں تعمیر ہوئیں.گھانا میں ایک سو اکسٹھ.انڈونیشیا میں ساٹھ سیرالیون میں چالیں ، نائیجیریا میں چالیس اور مشرقی افریقہ میں بہنیں.برطانیہ مریکہ ، جرمنی ، ڈنمارک، ہالینڈ وغیرہ میں بھی ان کی مساجد موجود ہیں انگریزی ، جرمن اور دوسری زبانوں میں سولہ رسالے جاری ہیں.بہت سی زبانوں میں قرآن حکیم کے تراجم چھاپیے جاچکے ہیں اور بانی سلسلہ اور دوسرے نمایاں افراد کی کتابیں بھی مختلف زبانوں میں
ج ہو کر دنیا بھر مں فروخت ہو رہی ہیں.چونکہ عامتہ المسلمین نے ایسی کوئی منظم کوشش نہیں کی اس لئے بیرونی دنیا کے بیشتر ممالک میں اسلام کی وہی تا دیل چالو ہے جو احمدی کرتے ہیں اور بعض افریقی ممالک میں تو احدنیت کو ہی اصل اسلام کا منظر سمجھا جا رہا ہے یہ اسلامی شوکتے رفتہ کا شاندار احیاء ۱۸ کتاب البریہ صا پر یہ الہام درج ہے :- میرا ٹوٹا ہوا مال مجھے ملے گا " اس پیش گوئی کا ایک پُر شوکت ظہور سرزمین سپین میں ہوا جہاں مسلمان بادشاہوں نے شاہ سے شاہ تک کسی نہ کسی خطہ میں پورے جلال اور تمکنت سے حکومت کی جب کسی بعد نئے حکمرانوں نے نہایت بے دردی سے اسلامی کتب خانوں کو جلا کر چرا غماں کیا.بے شمار مسلمان عورتوں کو مسجد میں بند کر کے بارود سے اڑا دیا گیا اور لاکھوں مسلمان یا زندہ جلا دیئے گئے یا ملک بد کر دیئے یا انہیں ارتداد پر مجبور کر دیا.صلیب بلند ہو گئی.طلال غروب ہو گیا.اور مسجد کے میناروں سے اذان کی آوازیں خاموش کردی گئیں.چودھویں صدی ہجری کے آخری ایام میں یکا یک سپین میں یہ عظیم اسلامی انقلاب برپا ہوتا کہ امام آخر الزمان کے نائب حضرت خلیفہ المسیح الثالث " کے مبارک ہاتھوں سے 4 اکتوبر نٹلہ کو قرطبہ کے ماحول میں پیدرد آباد کے مقام پر ایک
اه عظیم الشان مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور اس کی تکمیل بھی حضور رحمہ اللہ کے عہد خلافت میں ہی ہوئی.یہ مسجد فن تعمیر کا ایک نادر نمونہ ہے.ہمارہ سے موجودہ امام حضرت سید نا مرزا طاہر احمد خلیفہ المسیح الرابع ایدہ اللہ کے دست مبارک ہے.استمبر و ایڑ کو اس کا افت تاج عمل میں آچکا ہے.اس تاریخ ساز اور پرشکوہ تقریب کے نتیجہ میں ہسپانیہ اور ساڑھے سات سو سال کے بعد پھر سے اسلام کے آسمانی اور روحانی نوبت خانوں سے گونج اٹھا ہے اور مسلم اسپین کا تخیل جسے کبھی خواب سمجھا جاتا تھا اب جلد یا بدیر ایک حقیقت بنتا نظر آرہا ہے.اور وہ وقت دور نہیں جبکہ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی پیشادیوں کے مطابق صرف سپین ہی میں نہیں ساری دنیا پر دین حق کا پرچم پوری شان سے اہرا رہا ہوگا اور ہر ملک، ہر قوم بلکہ ہر دل میں خاتم الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ ولم کی حکومت قائم ہو جائے گی.اور ایک ہی خدا ہو گا اور ایک ہی پیشوا.جب کہ حضرت خلیفہ اصبح الثالث رحمہ اللہ نے سواء کے انقلاب انگیز جلسہ سالانہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا :- دوست میری بات یاد رکھیں ، یہ صدیوں کی بات نہیں ، درجنوں سالوں کی بات ہے کہ اشتراکی نظام بھی پیچھے چلا جائیگا اور پھر دوسری طاقتیں آگے آجائیں گی.اور ایک وقت میں وہ بھی پیچھے چلی جائیں گی.پھر خدا اور اسکا نام لینے والی جماعت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ
۵۲ وسلم کی طرف منسوب ہونیوالی جماعت قرآن کریم کے احکام کا ستہ دنیا میں قائم کرنے والی جماعت، اور اسلام کا جھنڈا دنیا کے گھر گھر میں گاڑنے والی جماعت آگے آئے گی اور پھر اس دنیا میں آخر دی جنت سے ملتی جلتی ایک جنت پیدا ہوگی اور ہر انسان کی خوشی کے سامان پیدا کئے جائیں گے.اور تلخیاں دور کر دی جائیں گی.اور مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کا انسان اپنی زندگی کی شاہراہ پہ خدا تعالیٰ کی حمد کے ترانے گاتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائیگا اور خدا تعالے کے قرب اور اس کے پیار کو زیادہ سے زیادہ حاصل کرتا چلا جائے گا.اور اس طرح وہ اپنی زندگی کے آخر میں اپنی منزل اپنے مقدر یعنی خاتمہ بالخیر تک پہنچ جائے گا.یہ عمل نسلاً بعد نسل رونما ہو گا اور پھر قیامت آجائے گی ہے تقریر جلسه سالانه ۱۹۹۲) اک بڑی مدت سے دیں کو کفر تھا کھاتا رہا اب یقیں سمجھو کہ آئے کفر کو کھانے کے دن دیں کی نصرت کے لئے اک آسمان پر شور ہے اب گیا وقت خراں آگئے ہیں پھیل لانے کے دن
۵۳ خلافت ثالثہ کے عہد مبارک کی تحریکات الم 14 فضل نگری فاؤنڈیشن کی تحریک.لقرآن وقف ہے عارضی کی تحریکے.بعد ریٹائرمنٹ کی تحریک.ٹھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریک مجلس ارشاد کا قیام اتحاد بین مسلمین کی تحریک.ہے جدید کے دفتر سوم کی تحریک.نده وقف جدید گے "دفتر اطفال" کا اجراء.یکر رسوم کے خلاف جہاد مجالس مومیان کا قیام سبیح و تحمید، درود شریف سے استغفار اور خاص دعاؤں کی تحریکات.سورۃ البقرہ کی ابتدائی سترہ آیات حفظ کرنے کی تحریک ہے.نصرت جہاں آگے بڑھا سکیم.صد سالہ احمدیہ جوبلی کی تحریک مدساله احمدیہ حویلی منصوبہ کا روحانی پروگرام.نام کی صدی کے لئے دس سالہ تحریک - لا اله الا اللہ کے درد کی تحریک ہے (10) احمدیون کی جسمانی نشو و نما کیلئے منصوبہ کا اعلان.کا مجلس توازن کا قیام -
۵۴ ہمارے محبوب امام سید نا حضرت خلیفتہ السیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے خدا تعالیٰ کے خاص القاء کے ماتحتے اپنے بابرکت عہد میں.جو مبارک تحریکات جاری فرمائیں ان میں سے بعض کا مختصر ذکر ذیل میں کیا جاتا ہے :.1 - وقف عارضی کی تحریک حضور رحمہ اللہ کوالہ تعالیٰ نے ایک روحانی نظارہ دکھایا کہ پوری زمین ایک سرے سے دوسرے سرے تک نوکر سے منور ہوگئی ہے اور پھر وہ نور" بشرن لكُم " کی عظیم بشارت کے الہامی الفاظ میں ڈھل گیا.اس کا ذکر کرتے ہوئے حضور فرماتے ہیں :- جو نور میں نے اس دن دیکھا تھا.وہ قرآن کریم کا نور ہے جو تعلیم القرآن کی سکیم اور وقف عارضی کی سکیم کے تحت دنیا میں پھیلایا جا رہا ہے " حضور نے اس سلسلہ میں فرما یا کہ :.الفضل ١٠ اگست ۱۶۱۹۹۶ " ہمیں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے رضا کار چاہئیں جو اپنے اوقات میں سے ایک حصہ قرآن کریم ناظرہ پڑھانے
۵۵ کے لئے یا جہاں ترجمہ سکھانے کی ضرورت ہو وہاں قرآن کریم کا ترجمہ سکھانے کے لئے دیں تا یہ اہم کام جلدی اور خوش اسلوبی سے کیا جا سکے؟.تحریک تعلیم القرآن والفضل ۱۹ فروری ۶۱۹۶۶ حضرت خلیفتہ اسی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک اہم تحریک تعلیم قرآن پاک کا اجراء کرتے ہوئے فرمایا :- ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ دو تین سال کے اندر ہمارا کوئی بچہ ایسا نہ رہے جسے قرآن کریم پڑھنانہ آتا ہوا د الفضل ۱۹ر فروری ۶۱۹۲۷ ) اپنی انتہائی کوشش کریں کہ جماعت کا ایک فرد بھی ایسا نہ رہے نہ بڑا نہ چھوٹا ، نہ مرد نہ شورت ، نه جوان نہ بچہ کہ جسے قرآن کریم ناظرہ پڑھنا نہ آتا ہو.جس نے اپنے ظرف کے مطابق قرآن کریم کے معارف حاصل کرنے کی کوشش نہ کی ہو " والفضل ۲۷ جولائی ۶۱۹۷۶ ٹھوکوں کو کھانا کھلانے کی تحریکے (71494 باہمی ہمدردی و اخوت کے سلسلہ میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے تمام عہدہ داران کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ :-
04 " آج میں ہر ایک کو جو ہماری کسی جماعت کا عہدہ دار ہے متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ ذمہ دار ہے اس بات کا کہ اس کے علاقہ میں کوئی احمدی بھوکا نہیں سوتا.دیکھو ئیں یہ کہہ کر اپنے فرض سے سبکدوش ہوتا ہوں کہ آپ کو خُدا کے سامنے جواب دہ ہونا پڑیگا اگر کسی وجہ سے آپ کا محلہ یا جماعت اس محتاج کی مدد کر نے کے قابل نہ ہو تو آپ کا فرض ہے کہ مجھے اطلاع دیں.میں اپنے رب سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مجھے توفیق دے گا کہ میں ایسے ضرورتمندوں کی ضرورتیں پوری کردوں.انشاء اللہ تعالیٰ ہے.یہ ایک اہم ذمہاری ہے.آپ کا فرض ہے کہ آپ اس کو ہر وقت یاد رکھیں.الفضل - ار مارچ ۱۹۶۶ء) چندہ " وقف جدید کے دفتر اطفال کا اجراء پاکستان بھر کے دیہاتی علاقوں میں اصلاح وارشاد کے کام کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی جاری فرمودہ خدائی تحریک "وقف جدید کے کام میں وسعت کے پیش نظر 1944 ء میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالے نے وقف جدید کے شعبہ اطفال و ناصرات کا قیام کرتے ہوئے فرمایا :- یں آج احمدی بچوں لڑکوں اور لڑکیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ اسے خُدا اور اس کی ہوں کے بجو اٹھواور آگے بڑھو اور تمہاسے بڑوں کی غفلت نتیجہ میں وقف جدید کے کام میںجو رخنہ پڑ گیا ہے اسے پر کردو ، رافض ، اکتوبر ۱۹۹۶
۵۷ ۵ - تحریک جدید کے دفتر سوم کا اجراء " ہ میں حضور نے دفتر سوم کا اجرا و کرتے ہوئے فرمایا :- چاہیئے کہ ہر فرد جماعت جو دفتر اول و دوم میں شامل نہیں ہو سکا اب دفتر سوم میں شامل ہونے کی جلد از جلد سعادت حاصل کرے اور یہ تبھی ہو سکتا ہے کہ ہم اس غرض کے لئے زیادہ جدو جہد کریں اور امراء صاحبان پورا پورا تعاون کریں ا د افضل سر نومبر ۱۹۶۷ء) بسیج و تحمید درود شریف تلفظ اور خاص دعاؤں کی تحریکات ستغفار سید نا حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے مارچ ۱۹۷۸ ء میں اس با برکت تحریک کو جماعت کے سامنے رکھا اور تاکید فرمائی کہ جماعت کا کوئی فرد بھی ایسا نہ رہے جو اس تحریک پر عمل نہ کرے.چنانچہ حضور نے اس تحریک کو جاری کرتے ہوئے فرمایا :- میں چاہتا ہوں کہ تمام جماعت کثرت کے ساتھ تسبیح، تحمید اور درود شریف پڑھنے والی بن جائے اس طرح کہ ہمارے بڑے ، مرد ہوں یا عورتیں، کم از کم دو سو بار تسبیح ، تحمید اور درود پڑھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کو الہام ہوا ہے یعنی سُبحَانَ الله وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ اللهِ الْعَظِيمُ اللَّهُمَّ صَلَّ عَلَى مُحَمَّدِ وَالِ مُحَمَّد اور ہمارے نوجوان بچے پندرہ سال سے پچیس سال
کی عمر کے ایک سو بار بر تسبیح اور درود پڑھیں اور ہمارے بچے سات سال سے پندرہ سال تک ۳۳ دفعہ یہ تسبیح اور درود پڑھیں اور ہماگہ بیچے اور بچیاں جن کی عمر سات سال سے کم ہے جو ابھی پڑھنا بھی نہیں جانتے اُن کے والدین یا ان کے سریر ست (اگر والدین نہ ہوں، ایسا انتظام کریں کہ مردہ بچہ یا بچی جو کچھ بولنے لگ گئی ہے.لفظ اٹھانے لگ گئی ہے.سات سال کی عمر تک ، ان سے تین دفعہ کم از کم یہ تسبیح اور درد کہلوایا جائے.اس طرح پر بڑے دہ ۲ سال سے زائد عمر کے دو سو دفعہ جوان کم از کم ایک سو بارا اور بچے ۳۳ بار اور بالکل چھوٹے بچے تین بار تسبیح اور تحمید کریں.پس جماعت کو چاہیئے کہ اپنی ذمہ داریوں کو مجھے اور کم از کم مذکورہ تعداد میں زیادہ سے زیادہ جس کو جتنی بھی توفیق ملے ، اس ذکر د درود کو پڑھے اور اس احساس کیساتھ ٹھے کر بڑی ذمہ داری ہے ہم تسبیح و تحمید اور درود پڑھنے کی.انسان اس وقت بڑے نازک دور میں سے گزر رہا ہے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلمہ دنیا کے لئے رحمت بن کے بھیجے گئے تھے اور آپ کی رحمتوں اور برکتوں کو کھینچنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا لازمی ہے.یاد رکھیں کہ جس وقت ہم نے دنیا کی فضاؤں کو خُدا کے ذکر اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے پیر کر دیا اس وقت شیطانی آواز خود بخود ان فضائل میں دب جائیگی اور اسلام غالب آجائیگا " 1
اسی سال حضور نے مندرجہ ذیل دعاؤں کی بھی تلقین فرمائی.لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ الْعَلِي الْعَظِيمِ بکثرت پڑھنے کی لتین فرمائی.والفضل ۲۷ جون ۱۶۱۹۲۸ اسْتَغْفِرُ الله رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبِ وَاتُوبُ التِياءِ ۲۵ سال سے اوپر عمر کے مرد و خواتین کم از کم ۱۰۰ بار - ۲۵ سال سے ۱۵ سال کے درمیان والے ۳۳ بار.۱۵ سے ۷ سال عمر والے گیارہ یا را دور سات سال سے چھوٹے تین با روزانہ پڑھیں.الفضل ۱۲ جولائی ۱۹۶۸ء) رب كل شي خادمكَ رَبِّ فَاحْفَقْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا.بکثرت پڑھنے کی تاکید فرمائی.والفضل ۱۷ اکتوبر ۱۸۱۹۲۸ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الكفرين طا ہر فرد جماعت کم از کم ۳ بارہ روزانہ پڑھے " دالفضل ۱۷؍ فروری ۶۱۹۷۸ - سورة البقرة کی ابتدائی سترہ آیات حفظ کرنیکی تحریک مورخه ۲ ستمبر ۱۹۷۹ء کو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے احمدیہ ہال کراچی میں خطبہ جمعہ ارشاد کرتے ہوئے تمام احباب جماعت کو یہ اہم تحریک فرمائی کہ : - "میرے دل میں یہ خواہش شدت سے پیدا کی گئی ہے کہ قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی ابتدائی سترہ آیتیں........ہر احمدی کو یاد ہونی چاہئیں اور ان کے معانی بھی آنے چاہئیں اور جس حد تک ممکن ہو
۶۰ ان کی تفسیر بھی آنی چاہیئے اور پھر ہمیشہ دماغ میں مستحضر بھی رہنی چاہیئے.د الفضل حکیم اکتوبر ۱۶۱۹۶۹ ه صد ساله احمد ته جوابی منصوبہ کا روحانی پروگرام حضور نے صد سالہ جوبلی اور غلبہ اسلام کے لئے ایک روحانی پروگرام بھی تجویز فرمایا جس کا خلاصہ یہ ہے :.ہر ماہ ایک نفلی روزہ رکھا جائے.(1) (P) ہر روز دو نفل نماز ظہر یا عشاء کے بعد ادا کئے جائیں.کم از کم سات بار روزانہ سورۃ فاتحہ بغور و تدبر کے ساتھ پڑھی جائے.(۴) هر روز ۳۳ ۳۳ بار درج ذیل دعاؤں کا درد کیا جائے : (1) اسْتَخْرُ اللهَ رَبِّي مِنْ كُلِّ ذَنْبِ وَاتُوبُ إِلَيْهِ (۲) سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَانَ الله العظيم.اللهمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ الِ مُحَمَّدٍ ط (۵) کم از کم گیارہ بار روزانہ یہ دُعائیں پڑھی جائیں :- رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَا مَنَا وانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ : (۳) اللهم إنا نَجْعَلُكَ فِي نَعُورِهِمْ وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ.اریکی علاوہ حضور نے اپنی زبان میں بھی بکثرت دعائیں کرنے کی تاکید فرمائی
تا کہ اللہ تعالیٰ ہماری حقیر قربانیوں کو قبول فرمائے.اس منصوبے کو ہر لحاظ سے کامیاب کرے اور ہم شاہراہ غلبہ اسلام پہ آگے ہی آگے الفضل یکم مارچ ۱۹۷۴ء ص ) بڑھتے چلے جائیں..غلبہ اسلام کی صدی کیلئے دس سالہ تحریک حضور نے ۲۸ اکتوبر ۱۹۹۹ ء کو سالانہ اجتماع انصار الله مرکز یہ کے آخری اجلاس میں غلبہ اسلام کی صدی کے استقبال کے لئے ایک دس سالہ پروگرام کا اعلان کیا.چنانچہ حضور نے ارشاد فرمایا :- در بلا استنشاء بر احمدی بچہ قاعدہ میسر نا انقرآن پڑھے جو احباب قرآن کریم ناظرہ جانتے ہیں وہ ترجمہ سیکھیں اور جو ترجمہ جانتے ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمودہ تفسیر سیکھیں جو خود اللہ تعالے نے نبی پاک کو سکھائی اور وہ تفسیر بھی سیکھیں جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے عطا کر وہ نور اور بصیرت و معرفت کے زیرٹ یہ خود کی.اس کے علاوہ ہر احدی بچہ کم از کم میٹرک ضرور پاس کرے اور غیر معمولی ذہانت او را علی صلاحیتوں کے حامل طلباء کو ان کی صلاحیتوں کے مطابق مزید ا علیٰ تعلیم دلانا جماعت کی ذمہ داری ہو گی.اس پروگرام کی آخری شق حضور نے یہ بیان فرمائی کہ سب احمدی اسلام کی حسین اخلاقی تعلیم والفضل ۲۹ اکتوبر ۱۹۷۹ پر قائم ہوں "
۹۲ فرمان مبارک حضرت مصلح موعود خلافت اسلام کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے اور اسلام کبھی ترقی نہیں کر سکتا جب تک خلافت نہ ہو.ہمیشہ علیہ خلفاء کے ذریعہ اسلام نے ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی عائشہ زید سے ترقی کریگا اور ہمیشہ خداتعالی خلفاء مقر کر تا رہا ہے اور آئندہ بھی خدا تعالیٰ یہی خلفاء مقررہ کر لیا.حال ہی میں ایک صنا یہ کا خط آیا ہے وہ لکھتے ہیں میں نے ایک شخص کو تبلیغ کی.وہ کہتا ہے اگر تمہا سے موجو دو خلیفہ کے بعد بھی مسلسل قائم رہا تو میں بیت ک گونگا میں مرجاؤنگا این مسیر بعد و حضرت مسیح موعودی تا مقام ہونگے انکے متعلق بھی ، اسی طرح کہا جائیگا.اور یاد رکھو اگر یہ جڑ رہی تو سب کچھ ہے گا اور ہماری جماعت دن بدن ترقی کرتی ہے د درس القرآن ماه مطبوعه نومبر اس او از حضر مصلح موعود ) گی
حضرت خلیفہ اسیح الثالثے کا یادگار انقلاب انگیز لٹریچر بلاشبہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے انقلاب انگیز خطابات کا ایک کثیر حصہ یا تو سلسلہ کے بیوائد و رسائل میں ریکارڈ ہے یا غیر مطبوعہ ہے مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ حضور کے جو مقدس افکار عالیہ اور گرانمایه فرمودات کتابی صورت میں منظر عام پر آچکے ہیں اور جن کی تعداد ۳۶ ہے.وہ بھی علم و عرفان کا ایک لاثانی اور غیر فانی خزانہ ہیں جس پر ایک نظر ڈالتے ہی انسان اپنے تئیں ایک نئے عالم میں پاتا ہے.اس کی روح وجد کر اٹھتی ہے.دل و سینہ زندہ ایمان و عرفان سے منور ہو جاتا ہے اور زبان بے ساختہ پکار اٹھتی ہے کہ یہ آسمان دودھ ہے.جس کے محفوظ رکھنے کا ارشاد نخود جناب الہی نے اپنے پاک الہام میں فرمایا ہے.(حقیقۃ الوحی صا اور یہ وہ شرتی وصل د بقا ہے
جو دست قدرت نے تشنہ روحوں کے لئے تیار کیا ہے.بلند پایہ لٹریچر ایک نظر میں ذیل میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے بصیرت افروز خطبات و تقاریر پر مشتمل بلند پایہ لٹریچر کی فہرست دی جاتی ہے جو مختلف اداروں کی طرف سے لہ سے اب تک کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے اور خلافت لائبریری اور شعبہ تاریخ احمدیت میں موجود ہے.یہ لٹریچر جیسا کہ مندرجہ ذیل تفصیل کے ظاہر ہو گا قریبا ۱۹۹۰ صفحات پر محیط ہے اور اکثرو بیشتر آفسٹ طباعت کا شاہکار ہے.حضور کی بعض مقبول عام مطبوعات کے تراجم دنیا کی مندرجہ ذیل اہم زبانوں میں بھی شائع ہوچکے ہیں :.انگریزی - جرمن - فرنج سپینش.انڈو نیشین کویتی رنجی، جاپانی.سواحیلی - تامل - ڈچ ڈینش - ا - تین اہم امور :- 91940-44 خطبات ۲۱ جنوری ۱۹۶۶ ۲۰۰۶ را پریل ۶۱۹۷۶، ۱۷ ر دیمی شاد صفحات ۲۷ ناشر نظارت اصلاح و ارشاد ربده - تحریک جدید دفتر سوم کا اجراء اور صدر انجمن حمدیہ کے چندوں کی صحیح بجٹوں کی تیاری اور ہر وقت وصولی کے متعلق نہریں سے ہدایات.-
۶۵ خطبه ۲۲ را پریل تائه - صفحات ۱۱ ناشر وکالت ماں تحریک جدید نظارت بیت المال آمد بشر آنی انوالہ خطبات از ۲۴ جون تا ۶ ستمبر تشاهد - صفحات ۱۰۸- ناشر نظارت اصلاح دار شاد ریده با تمام مولانا ابو المنیر نورالحقی صاحب مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفين ربوه.- مجاہدہ - - خطیه ۲۸ اکتوبر ستاره - صفحات ۱۵ - ناشر وکالت مال تحریک جدید انجمن احمدیہ.ه - خطبہ صدارت - -4- جلسہ تقسیم انعامات و اسناد تعلیم الاسلام کالج ربوہ نتشار صفحات ناشر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ تعمیر بیت اللہ کے ۲۳ عظیم الشان مقاصد.خطبات انه ۱۳ مارچ ۱۹۶۶ تا ۱۲ جون ۶۱۹۶۶ ناشر نظارت اصلاح و ارشاد با اتمام مولانا ابو المنیر نور الحق مینجنگ سے ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین رہوں.- امن کا پیغام اور ایک حرف انتباہ - تقریر ۲۰ خورانی شیر وانڈنه در نقد بان لندن - صفحات -
44 ناشر به نظارت اصلاح و ارشاد دیوه - - احمدی خواتین سے (حضور رحمہ اللہ کا اہم خطاب تقریه ۲۱ راکتو بر شششاء صفحات ۳۲ - ناشر، شعبہ اشاعت لجنہ اماء اشهر مرکز یہ کہ یوہ.4 - اعلان سال نو تحریک جدید ۳۵/۲۵/۲ - 40/40/8 خطبه ۲۵ اکتوبر شارع - صفحات ۱۶ ناشر، وکالت مال تحریک جدید ملوده $ 1944.۱۰.تعلیم القرآن کے دوسرے دور کا آغانہ..11 خطبه ۲۶ اپریل ۱۹۶۶ء صفحات ۱۶ ناشر، نظارت اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن ، ربوه - عظمت قرآن پاک.- قرآن کریم میں ہماری زندگی اور روح ہے (خطبہ ۲۸ مارچ ، صفات ناشر نظارت اصلاح و ارشاد تعلیم القرآن، ریوه - ۱۲ - اسلام کے اقتصادی نظام کے اصول اور فلسفہ.خطبات فتنه صفحات ۱۳۶ - ناشر نظارت اصلاح دارشاد با تمام مونانا ابوالمنیر نور الحق صاحب مینجنگ ڈائریکٹر ادارۃ المصنفین ربوه - 81960 ۱۳.ربوہ کے ماحول کو پاکیزہ رکھیں.(خطبه د جنوری مشلر )
46 صفحات ۳۵ ناشر مجلس خدام الاحمدیه مرکز یه مد بوده.- صفات باری کے مظہر اتم ، انسانیت کے محسن اعظم کی عظیم روحانی تجلیات " (خطبه ۲۰ ماسه نشه) صفحات ام ناشر - نظارت اصلاح دار شاد.در بوه - ۱۵- احمدی ڈاکٹروں سے بصیرت افروز خطاب ر تقریه ۲ اگست نشده صفحات ۲۵ - ناشر مجلس نفرت جہاں ربود - -۱- ایک بچے اور حقیقی خادم کے بارہ اوصاف.-14 تقریر ، راکتو بر نشده صفحات ۲۹ ناشر مجلس خدام الاحمدیه مرکز یه دیوه ۱۷- حالات حاضرہ کے متعلق ایک اہم خطبہ - (خطبہ ۱۲۶ نومبر شاید - صفحات ۱۵ - نانی نظارت اشاعت لٹریچر وتصنیف صدر انجمن احمد که بوده ۱۸ - پاکستان انتہائی قربانیوں کا مطالبہ کر رہا ہے.(خطیہ اس دیے صفحات ۸ - ناشر - نظارت اصلاح دار شاد ریده - 1965 1- مجلس ته مراد ان کی سات تربیتی کلاس سے حضورحم الله الخطاب خلاصه تقریه مار جون شاره - صفحات ۸ ناشر شعبه زود نویسی ربوه ۲۰.لجنہ اماءاللہ کے پندرہویں سالانہ مرکزی اجتماع سے بغیر افروز خطا ہے تقریر در صفحات ۲۵ - ناشر :- تعبیه اشاعت لجنہ اماء الله مرکزه یه به بوه
١٩٧٣ء ۲۱ - مقام محمد نیت کی تفسیر خطبه ۳۰ ر مادر شد صفحات ۱۳ - ناشر - نظارت اشاعت سریر و تصنیف صدر نبی احمدیه بود.۲۲ - کشمیر اسمبلی کی ایک سے قرار داد پر تبصرہ - (خطبہ ہم مٹی متشله صفحات 1 ناشر نظارت اشاعت لٹریچر و تصنیف صدا انجمن حمدیہ ریوه..14 ۲۱ - تعلیم القرآن اور وقف سے عارضی کی انہین ہے.۱۹۲۶ء تا ۱۹۷۳ ء کے خطبات کے اہم اقتباسات ، صفحات ۴۸.نانی نظارت اصلاح دارشان تعلیم القرآن و وقف عارضی ، بریده 196 ۲۴ حقوق انسانی اور آئین پاکستان.صفحات ۲۲ ناشر : جماعت احمدیہ لاہور - ۱۹۷۵ ۲۵ جلسہ سالانہ کی دعائیں (۱۹۶۵ء سے ۱۹۷۵ء تک) صفحات ۱۱۲ ناشر : - نظارت اشاعت سریر و تصنیف صد را نمین احمدی به توه ۲۶ - احمدی خواتین سے بصیرت افروز خطاب ( تقریره ۲ دسمبر شده صفحات ناشی : - لجنہ اماء الله مرکزیه به توه 1929.اسلام کو ترک کرنیوالے کاسلسلہ احمدی درمیانی خلافت سے کوئی تعلق نہیں.خطبہ ۳۰ اپریل تشد ، صفحات ۱۷- نامنی و نظارت اشاعت
لٹریچر و تصنیف صدر انجمن احمدیه ربوہ ۶۱۹۷.ہمارے عقائد - انفری ۲۳ اکتو بر شدید، صفحات ۲۶ ناشر : مجلس خدام ان صمدیر مرکز به ریوه ۲۹.ہمارے لئے خُدا اور محمد ہی کافی ہیں.خطبہ 10 دسمبر شار صفحات، ناشر :- احمد اکیڈمی.ربوہ - ۳۰ - اسلام مذہبی آزادی اور آزادی ضمیر کا ضامن ہے.(خطبات ۲۹ تمبر شگاه ۲۰۶ جنوری یه صفحات ۵۴ و ناشر : مجیب الرحمن صاحب درد ہے میکلوڈ روڈ لا ہوں.۳۱ - "المصابيح " تقاریر برائے مجند اما عاد له تا نشده صفحات ۳۵۲.نامشر و العبه اشاعت لجنہ اماء الله سرکہ یہ ربوہ.1969.۳۲- پیغام.بھارت کے دکھی احمدیوں کے نام.وہ مٹی انشاء ).صفحات ۱۳ ناشر بیٹھ محمد الیاس صاحب یاز گیری ریاست کرناٹک.۳۳ - جماعت سے خطاب فرموده سالانہ اجتماع انصار الله شاء صفحات ۱۶ نامنش - مجیب الدین صاحب درد ۲۷ میکلوڈ روڈ لاہور.14.مجله خدام الاحمد مرکز یہ کے چھتیسویں سالانہ جتماع سے اختتامی خطا ہے القريه از نو می نشده صفحات و ناشر :- عبد القدوس الثاني
بیت الظفر ۲ -۶۷ یونٹ - ۶ لطیف آباد حیدر آباد (سندھ) ۳۵ - دوره مغرب کله هم د حضور کے شہرہ آفاق تبلیغی و تربیتی دوره نشاء کی ایمان افروز رو د ا د ا در مبارک ارشادات کا دلآویز مرقع.صفحات ۵۶۰ مرتبه مسعود احمد خاں صاحب دہلوی مدیر الفضل ناشر: سید عبدالحی صاحب نظارت اشاعت لٹریچر تصنیف ہوہ.14 ۳۶ افتتاحی خطاب" جلسه سالانه شششاء) - صفحات ناشر : - مسجد فضل لندن A The London Mosque, 16 GRESSON HALL ROAD, LONDON SW18, 5QL, S.W ENGLAND.,
یا نے دیا مود کا سری جو پورا ہو چکا ہے از حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ نطلب العالی آج سے تریسٹھ سال قبل سالانہ جلسہ ماہ مارچ شاہ کے موقع پر حضر خلیفہ ایسے اثنانی نوراللہ مرقدہ نے اور مارچ 1919ء کو عرفان نے الہی " کے عنوان پر تقریر فرمائی.اس تقریر میں آپ نے بعض بشارتوں کا ذکر کر تے ہوئے کہا :- ان بشارتوں میں سے ایک یہ ہے کہ میں نے دیکھا کہ میں بیت الدعا میں بیٹھا تشہد کی حالت میں دعا کہ یہ نا ہوں کہ الہی میرا انجام این موجیں کہ حضرت ابراہیم کا ہوا.پھر جوش میں آکر کھڑا ہو گیا ہوں اور یہی دعا کر رہا ہوں کہ دروازہ کھلا ہے اور برمحمد اسمعیل صاحب اس میں کھڑے روشنی کر رہے ہیں.اسمعیل کے معنے ہیں ، خدا نے من کی اور ابراہیمی انجام سے مراد حضرت ابراہیم کا انجام ہے کہ اُن کے فوت ہونے پر خدا تعالے نے حضرت اسحاق اور حضرت ہمیں دو قا ئمقام کھڑے
کر دیئے.یہ ایک طرح کی بشارت ہے جسے آپ گوں..کو خوش ہو جانا چاہیئے " عرفان الہی من شائع شده ۲ دسمبر ) ہم خوش ہیں کہ اللہ تعالٰی نے اپنے پیارے بندے کو آج سے تریسٹھ سال پہلے جو ردیا دکھایا تھا وہ پورا ہو گیا اور جینے ثابت کر دیا کہ خدا قادر ہے جو چاہتا ہے کرتا ہے وہ عالم الغیب ہے اور جس کو چاہتا ہے وقت سے پہلے خبر دے دیتا ہے حضرت ابراہیم علیہ اسلام کی طرح اللہ تعالیٰ نے آپ کے بھی دو قائمقام کھڑے کر دئے اور دونوں آپ کے ہی جگر گوشے نشان پر دست ثبوت ہے آپ کی سچائی کا بھی اور آپ کے دونوں قائمقاموں کی سچائی کا بھی.الْحَمْدُ لِلَّهِ ثُمَّ العُمْدُ لِلَّهِ ذَالِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ : منبع فنون پرایس و سه رائل ایک ایمپور كتابة : محمد ارث ر خوشنویس اراسته بود
التذكرة في أحوال الموتى وأمور الآخرة للإمام الحافظ القرطي شمال تین لالالالالالالالالالالات في الانه ( تنبيه ) هذا الكتاب هو الأصل الذي طبع اختصاره منسوبا العارف الشعراني وان كان في الواقع ليس للشعراني احمد محم المنى نشره لأول مرة وحقوق الطبع محفوظة له يطلب من مطابع مدكور واولاده ۳۰ شارع عبد الخالق ثروت بالقاهرة تليفون ٥١٥٧١
-15- قال المؤلف رحمه الله لعل فتح المهدى يكون لها مرتين مرة بالقتال ومرة بالتكبير كما أنه يفتح كنيسة الذهب مرتين فإن المهدى إذا خرج بالمغرب على ما تقدم جاءت إليه أهل الأندلس فيقولون يا ولى الله أنصر جزيرة الأندلس فقد بلغت وتلف أهلها وتغلب عليها أهل الكفر والشرك من أبناء الروم فيبعث كتبه إلى جميع قبائل المغرب وهم قزولة وخذالة وقذالة وغيرهم من القبائل من أهل المغرب أن أنصروا دين الله وشريعة محمد صلى الله عليه وسلم فيأتون إليه من كل مكان ويجيبونه ويقفون عند أمره ويكون على مقدمته صاحب الخرطوم وهو صاحب الناقة الغرا وهو صاحب المهدى وناصر دين الإسلام وولى الله حقا فعند ذلك يبايعونه ثمانون ألف مقاتل بين فارس وراجل قد رضي الله عنهم أولئك حزب الله إلا أن حزب الله هم المفلحون فباعوا أنفسهم من الله والله ذو الفضل العظيم فيعبرون البحر حتى ينتهوا إلى حمص وهى أشبلية فيصعد المهدى المنبر في المسجد الجامع ويخطب خطبة بليغة فيأتى إليه أهل الأندلس فيبايعه جميع من بها من أهل الإسلام ثم.يخرج بجميع المسلمين متوجها إلى البلاد بلاد الروم فيفتح فيها سبعين مدينة من مدائن الروم يخرجها من أيدى العدو عنوة الحديث.وفيه ثم أن المهدى ومن معه يصلون إلى كنيسة الذهب فيجدون فيها أموالا فيأخذها المهدى فيقسمها بين الناس بالسوية ثم يجد فيها تابوت السكينة وفيها غفارة عيسى وعصى موسى عليهما السلام وهي العصا التي هبط بها آدم من الجنة حين أخرج منها وكان قيصر ملك الروم قد أخذها من بيت المقدس في جملة السي حين سي بيت المقدس واحتمل جميع ذلك إلى كنيسة الذهب فهو فيها إلى الآن حتى يأخذها المهدى فإذا أخذ المسلمون العصا تنازعوا عليها فكل منهم يريد أخذ العصا فإذا أراد الله تمام أهل الإسلام من الأندلس خذل الله رأيهم وسلب ذوى الألباب عقولهم فيقسمون العصا على أربعة أجزاء فيأخذ كل عسكر منهم جزءا وهم يومئذ أربع عساكر وإذا فعلوا ذلك رفع الظفر والنصر ووقع الخلاف في ذلك بينهم قال كعب الأحبار ويظهر عليهم أهل الشرك حتى يأتون البحر في بعث الله إليهم ملكا في صورة ايل فيجوز بهم القنطرة التي بناها ذو القرنين لهذا المعنى خاصة فيأخذ الناس وراءه حتى بأنوا الله عنهم.