Hazrat Khalifatul Masih Salis

Hazrat Khalifatul Masih Salis

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ

دنیا میں محبتیں اور پیار بانٹنے والے، دنیا کو حقیقی امن کا درس دینے والے عظیم روحانی وجود حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی ذات ،غیر معمولی  بچپن، تعلیمی سفر،پاکیزہ جوانی، اور آپ کے دور خلافت میں ہونے والی عظیم ترقیات اور روحانی بیداری کے سفر کوسمیٹے ہوئے یہ مختصر کتابچہ قارئین کے لئے سوچوں کے نئے زاویے متعین کررہا ہے۔


Book Content

Page 1

حضرت خلیفة المسیح الثالث تصنيف انجینئر محمود مجیب اصغر حضرت خلیفة المسیح الثالث دنیا میں محبتیں اور پیار بانٹنے والے عظیم روحانی وجود حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب علیہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالی کی ذات جماعت احمدیہ کے افق پر روشن ستارے کی طرح جگمگا رہی ہے.آپ کی زندگی کا ہر دور ہمارے لئے راہنما اور مشعل راہ ہے.آپ کے غیر معمولی بچپن اور پاکیزہ جوانی سے ہم کئی درس حاصل کر سکتے ہیں.اور اسی طرح آپ کے دور خلافت میں ہونے والی عظیم ترقیات اور روحانی بیداری کا سفر آج بھی ہمارے لئے سوچوں کے نئے زاویے متعین کرتا ہے.خلفائے احمدیت کی نصائح تحریکات اور ارشادات ہمیشہ برکتوں اور رحمتوں کے نئے دروازے کھولنے والے بن جاتے ہیں.اس کتاب کو پڑھتے ہوئے آپ بھی ان برکتوں اور رحمتوں کے حصول کے لئے کوشش کا عہد کر سکتے ہیں.

Page 2

1 پیش لفظ حضرت حافظ مرزا ناصراحمد خلیفۃ المسح الثالیؒ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ آسیح الثالث رحمہ اللہ تعالٰی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پوتے تھے.آپ کی پیدائش الہی بشارات کے تحت ہوئی اور بچپن سے ہی حضرت اماں جان نے آپ کی اپنے بیٹوں کی طرح پرورش فرمائی.آپ نہایت ذہین، علیم، منکسر المزاج مگر مصمم ارادہ کے مالک تھے.جب سے آپ نے ہوش سنبھالا ایک ہی خواہش آپ کے ذہن پر سوار رہتی کہ کسی طرح دین حق کی اشاعت اور خدمت میں آپ اپنا حصہ پیش کر سکیں.18 سال تک خلافت احمدیت کی عظیم الشان ذمہ داریوں کو سرانجام دینے کے بعد 8 اور 9 جون 1982ء کی درمیانی شب آپ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے.خود بھی اعلیٰ درجہ کی خدمات بجالائے اور ہمارے لئے بھی ایک اعلیٰ نمونہ چھوڑ گئے.اللہ تعالیٰ آپ سے راضی ہو.آمین ہو.میں نے اپنی عمر میں سینکڑوں مرتبہ قرآن کریم کا نہایت تدبر سے مطالعہ کیا ہے.اس میں ایک آیت بھی ایسی نہیں جو کہ دنیاوی معاملات میں ایک مسلم اور غیر مسلم میں تفریق کی تعلیم دیتی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ کرام نے لوگوں کے دلوں کو محبت، پیار اور ہمدردی سے جیتا تھا.اگر ہم بھی لوگوں کے دلوں کو فتح کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنا ہوگا.قرآن کریم کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے: سب سے محبت اور نفرت کسی سے نہیں Love for All, Hatred for None یہی طریقہ ہے دلوں کو جیتنے کا.اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں.“ مبشر پیدائش خطاب جلسہ سالانہ برطانیہ 15 اکتوبر 1980ء.بحوالہ دورہ مغرب صفحه 523، صفحہ 524) سیدنا حضرت حافظ مرزا ناصر احد خلیفہ المسح الثالث سیدنا حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمد امصلح الموعود کے فرزند ارجمند تھے.آپ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی عظیم الشان بشارتوں کے مطابق 16 نومبر 1909ء (2 ذی قعد 1327ھ ) بروز بدھ حضرت محمودہ بیگم صاحبہ ام ناصر کے بطن سے قادیان دارالامان میں پیدا ہوئے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے موعود نافلہ ( پوتے ) ہیں.اس کا پس منظر یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سب سے چھوٹے بیٹے مرزا مبارک احمد کی بچپن میں ہی صرف آٹھ سال کی عمر میں وفات ہو گئی.اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود کوکئی الہامات کے

Page 3

3 2 ذریعے بشارت دی کہ چوتھے بیٹے مبارک کے بدلے پانچواں بیٹا دیا جائے گا جو بطور نافلہ یعنی ایک دن حضرت اماں جان کے پاس محمد احمد منصور اور ناصر احمد متینوں بیٹھے ہوتا ہوگا.اس بارہ میں آپ کو کئی الہام ہوئے.ایک الہام میں اس کا نام بیٹی بتایا گیا.ان تھے.میں بھی تھی بچوں نے بات کی شاید حساب یا انگریزی ناصر احمد کو نہیں آتا ہمیں زیادہ الہامات میں سے ایک الہام کی تشریح میں حضرت مسیح موعود نے فرمایا ممکن ہے اس کی یہ تعبیر ہو آتا ہے.اتنے میں حضرت بھائی جان ( حضرت مصلح موعود ) تشریف لائے حضرت اماں که محمود ( حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفہ اسیح الثانی.ناقل ) کے ہاں لڑکا ہوگا جان نے فرمایا میاں قرآن شریف تو ضرور حفظ کراؤ مگر دوسری پڑھائی کا بھی انتظام کیونکہ نافلہ پوتے کو بھی کہتے ہیں“.ہو جائے کہیں ناصر دوسرے بچوں سے پیچھے نہ رہ جائے.مجھے یہ فکر ہے.اس پر جس طرح ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه 607) آپ مسکرائے تھے اور جو جواب آپ نے حضرت اماں جان کو دیا تھا وہ آج تک میرے ان خوش خبریوں کے پیش نظر بچپن میں ہی آپ کی مقدس دادی حضرت اماں جان (نصرت کانوں میں گونجتا ہے.فرمایا: جہاں بیگم صاحبہ ) نے آپ کو اپنا بیٹا بنالیا اور اپنی آغوش تربیت میں لے لیا.چنانچہ حضرت اماں جان کی بیٹی حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرماتی ہیں: ”حضرت اماں جان ناصر احمد کو بچپن میں اکثر یحیی کہا کرتیں اور فرماتی تھیں کہ یہ میرا مبارک ہے، بیٹی ہے، جو مجھے بدلہ مبارک کے ملا ہے.اماں جان! آپ اس کا بالکل فکر نہ کریں ایک دن یہ سب سے آگے ہوگا.انشاء اللہ (الفضل 25 جنوری 1965ء) چنانچہ اللہ تعالیٰ نے خلیفہ بنا کر آپ کو اپنے زمانے کے لوگوں میں سب سے آگے کر دیا.جب آپ کو اللہ تعالیٰ نے خلافت کے اعلیٰ منصب پر فائز کیا تو آپ نے خود بھی اس عظیم الشان بشارات ربانیہ مولفہ حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب صفحہ 17) پیشگوئی کے مصداق ہونے کا اپنی خلافت کے پہلے جلسہ سالانہ پر اعلان کیا.آپ کی پیدائش سے دو ماہ قبل حضرت مصلح موعود خلیفتہ اسیح الثانی نے بھی اپنے ایک خط میں لکھا: مجھے بھی خدا تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ میں تجھے ایک لڑکا دوں گا جو دین کا ناصر ہوگا اور ( دین حق ) کی خدمت پر کمر بستہ ہوگا.“ الفضل قادیان مورخہ 18اپریل 1910ء) حضرت مصلح موعود کو آپ کے بچپن سے ہی یقین تھا کہ یہ وہی بیٹا ہے جس کے بارے میں پہلے سے خبر دی گئی تھی.چنانچہ جب آپ قرآن کریم حفظ کر رہے تھے اور ساتھ دوسری تعلیم بھی حاصل کر رہے تھے تو حضرت اماں جان کو فکر پیدا ہوئی کہ آپ کہیں خاندان کے دوسرے بچوں سے تعلیم میں پیچھے نہ رہ جائیں.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ بیان فرماتی ہیں: پھر خدا نے فرمایا تھا کہ وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا.ایک ہی پیشگوئی بعض دفعہ کئی واقعات پر مشتمل ہوتی ہے کئی لحاظ سے یہ پیشگوئی پہلے بھی پوری ہو چکی ہے لیکن اس کے ایک معنی یہ بھی تھے کہ جن چارلڑکوں کی اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بشارت دی تھی ان میں سے جو چوتھا لڑکا حضرت مصلح موعود کے صلب سے پیدا ہوگا اور وہ بمنزلہ مبارک احمد ہوگا جیسا کہ خود حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی تحریر فرمایا ہے.سواس لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ پیشگوئی پوری ہوگئی ہے.“ خطاب جلسہ سالانہ ربوہ 21 دسمبر 1965ء)

Page 4

5 بیماری اور خلافت کی برکت سے شفاء ابھی حضرت مرزا ناصر احمد صاحب بہت چھوٹے تھے کہ بیمار ہو گئے.خلافت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفا دی.آپ کی ایک والدہ حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ بیان فرماتی ایک دعائیہ نظم بھی لکھی جو پڑھ کر سنائی گئی.ایک شعر یہ ہے.میرا ناصر میرا فرزند اکبر ملا ہے جس کو حق سے تاج و افسر قرآن کریم حفظ کرنے کے بعد آپ کو دینی علوم کی تحصیل کے لئے مدرسہ احمدیہ میں داخل ہیں کہ حضرت مصلح موعود کو حضرت خلیفہ اول سے بہت محبت تھی اور خلافت کا بے انتہا احترام تھا کروایا گیا.مدرسہ احمدیہ کی تعلیم مکمل کر کے آپ جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے.1929ء میں اور یہی سبق آپ نے اپنی اولا د کو دیا.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کو ایک خط میں یہ واقعہ لکھا اور پنجاب یونیورسٹی سے ”مولوی فاضل“ کی ڈگری حاصل کی اور پنجاب بھر میں تیسری پوزیشن لی.میں نے خود آپ سے سنا بھی ہوا ہے.فرمایا کہ جب مرزا ناصر احمد چھوٹے سے تھے شاید سال اس وقت آپ کی عمر 20 سال کی تھی.مولوی فاضل کرنے کے بعد آپ نے 1930ء میں ڈیڑھ سال کی عمر تھی تو بہت بیمار ہو گئے اور ادھر حضرت خلیفہ اول بیمار ہو گئے تو آپ اپنے بچہ کو میٹرک کا امتحان پاس کیا.چھوڑ کر حضرت خلیفہ اول کی خدمت میں حاضر ہو گئے بچہ کی حالت نازک ہوگئی گھر سے آدمی بچپن میں خدمت دین کی تڑپ بلانے آیا آپ نہیں گئے حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کے علم میں آیا تو آپ نے کہا جاؤ بچہ کے پاس.علاج وغیرہ بھی بتایا.آپ نے فرمایا میاں ! وہ صرف تمہارا بیٹا ہی نہیں حضرت مسیح موعود کا 66 پوتا بھی ہے.اس پر آپ گئے.اللہ تعالیٰ نے فضل کر دیا اور مرزا ناصر احمد صحت یاب ہو گئے.“ (ماہنامہ مصباح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث نمبر دسمبر 1982ء جنوری 1983 صفحہ 35) حفظ قرآن اور ابتدائی تعلیم آپ نے خود ایک مرتبہ فرمایا: میں نے جلسہ سالانہ کے موقع پر اپنے بچپن کے زمانہ میں جذبہ خدمت کے نہایت حسین نظارے دیکھے ہیں.ہم نے بچپن کی عمر میں بھی یہ کبھی نہیں سوچا تھا کہ ہماری چند گھنٹے کی ڈیوٹیاں لگیں گی...ہم صبح سویرے جاتے تھے اور رات کو دس بجے گیارہ بجے گھر واپس آتے تھے.“ (ماہنامہ تخمیذ الا ذبان ربوہ ناصر دین نمبر ا پریل 1983 ، صفحہ 11,10) آپ کے اس عزم کا اظہار آپ کے ان اشعار سے بھی ہوتا ہے جو آپ کی بچپن کی ڈائری حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمد صاحب کی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا.پہلے آپ نے قرآن کریم ناظرہ پڑھا.اس کے بعد آپ نے قرآن کریم حفظ کیا.تیرہ برس کی عمر میں آپ میں لکھے ہوئے تھے.نے قرآن کریم حفظ کیا اور 1922ء کے رمضان میں قادیان میں نماز تراویح پڑھائی اور قرآن کریم کا دور مکمل کیا جس کی خبر امریکہ سے شائع ہونے والے رسالہ ” دی مسلم سن رائز“ نے جولائی 1922ء میں دی.29 جون 1931ء کو حضرت مصلح موعود نے اپنے بچوں کی آمین منعقد کی اور اس کے لئے اخلاق میں میں افضل ، علم و ہنر میں اعلیٰ احمد کی راہ پر چل کر بدرالدجی بنوں گا جو کچھ کہوں زباں سے ناصر میں کر دکھاؤں ہو رحم اے خدایا تا تیرے فضل پاؤں

Page 5

7 CO بچپن کے مشاغل پڑھائی کے ساتھ ساتھ آپ کھیلوں میں بھی باقاعدہ حصہ لیتے تھے اور اپنی جسمانی علمی اور اخلاقی قومی کی نشو و نما کے لئے کوشاں رہتے.ایک مرتبہ بچپن کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: میں اپنے زمانہ میں ہا کی بھی کھیلتا رہا ہوں اسی طرح بعض دوسری کھیلیں بھی جس کا مجھے موقع ملا کھیلیتارہا ہوں یعنی فٹ بال بھی ، میروڈ بہ اور گلی ڈنڈا بھی اور کلائی پکڑنا بھی (جسے پنجابی میں بینی پکڑنا بھی کہتے ہیں ) وہ بھی کھیلتا رہا ہوں.اب نام لیتے وقت مجھے یاد آیا کہ بعض کھیلیں میں نے نہیں کھیلیں کیونکہ ان کے کھیلنے کا مجھے موقع نہیں ملا...میں نے سیر بھی کی ہے.سیر بھی بہترین ورزش ہے.پھر سیر کی ایک شکل بہت اچھی اور صحت مند غذا کے حصول کے لئے شکار کھیلنا ہے.چنانچہ میں شکار بھی کھیلیتارہا ہوں.پھر تیرا کی بھی کرتا رہا ہوں.“ لا ہور میں زمانہ طالب علمی (1934 1930) 1930ء میں آپ گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل ہوئے.جہاں سے 1934 ء میں آپ نے بی اے کا امتحان پاس کیا.گورنمنٹ کالج لاہور میں قیام کے دوران آپ نے احمدی طلباء کی ایک تنظیم ”عشرہ کاملہ“ کے نام سے بنائی جس کا منشور ( دین حق ) اور احمدیت کی طرف دعوت تھا.آپ نے لاہور کے مختلف کالجوں کے دس طلباء کو اس تنظیم کا رکن بنایا.آپ کو متفقہ طور پر اس تنظیم کا صدر منتخب کیا گیا.یہ تنظیم حضرت مسیح موعود کے اقتباسات دو ورقہ فولڈر پر شائع کر کے لا ہور کے مختلف کالجوں میں تقسیم کرتی تھی جس سے طالب علموں میں بحث مباحثہ کا شوق پیدا ہوا.ایسے ہی طلباء میں ایک مکرم ملک عبدالرحمن صاحب خادم تھے جو سلسلہ عالیہ احمدیہ کے چوٹی کے مناظروں میں شمار ہوئے جنہیں دو اور بزرگوں کے ساتھ حضرت مصلح موعود نے 1956ء (ماہنامہ تشخیذ الاذہان ناصرالدین نمبر صفحہ 14) آپ کو گھڑ سواری کا بھی شوق تھا ایک بار گھوڑے سے گرے اور کلائی کی ہڈی ٹوٹ گئی.میں ” خالد“ کا خطاب دیا.کالج میں قیام کے دوران آپ اعلیٰ اخلاق کا نمونہ تھے.آپ نے نہایت صبر اور شجاعت کا اظہار کیا.دراصل آپ بچپن سے نہایت اعلیٰ اخلاق کے مالک آپ نے ایک بار اپنے کالج کے زمانے کا واقعہ سنایا.فرمایا: میں جن دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھا کرتا تھا.ان دنوں کا مجھے ایک واقعہ یاد تھے صبر اور برداشت بہت تھی بہت وسیع حوصلہ تھے اور بہادر اور شجاع تھے.آپ نے کبھی وقت ضائع نہیں کیا.وقت کی پابندی کرتے تھے.وقت پر اُٹھنا ،سکول جانا،نمازوں کے لئے جانا، آ گیا.کالج میں چھٹی تھی.میں قادیان جارہا تھا ایک تیز قسم کا مخالف بھی گاڑی کے اسی ڈبے میں کھیلنے کے لئے جانا ، وقت پر کھانا کھانا اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کرنا.اس کے پیچھے حضرت اماں بیٹھ گیا.لاہور سے امرتسر تک وہ میرے سامنے سخت بدزبانی کرتا رہا اور میں مسکرا کر اسے جواب جان کی تربیت اور ذاتی توجہ کا بہت دخل تھا.آپ کی طبیعت میں کسی قسم کا لالچ نہیں تھا.ہر قسم کے دیتا رہا.جس وقت وہ امرتسر میں اتر اتو اس مسکراہٹ اور خوش خلقی کا اس پر یہ اثر ہوا تھا کہ وہ مجھے حرص سے بالا تھے.نفاست اور صفائی کا خاص خیال رکھتے تھے.کہنے لگا کہ اگر آپ جیسے داعی الی اللہ آپ کو دوسومل جائیں تو ہم لوگوں کو جیت لیں گے کیونکہ ⭑⭑⭑⭑⭑ میں نے آپ کو غصہ دلانے کی پوری کوشش کی مگر آپ تھے کہ ہنتے چلے جارہے تھے.“ ( بحوالة تشحيذ الا ذبان ناصر دین نمبر صفحہ 13,14)

Page 6

9 8 آپ کے تقوی وطہارت اور اعلیٰ کردار کا یہ عالم تھا کہ جب آپ خلیفہ منتخب ہوئے تو آپ کے اس زمانے کے ایک کلاس فیلو نے ایک احمدی پروفیسر ڈاکٹر پرویز پروازی صاحب سے کہا: انگلستان میں قیام اور پاکیزہ جوانی بھئی مبارک ہو.آپ کو نیا لیڈ ر خوب ملا ہے.ہم اکٹھے پڑھتے تھے اور ہم انہیں کہا کرتے تھے کہ آپ کے دادا جان کا تو ہمیں پتہ نہیں لیکن اگر آپ نبوت کا دعوی کر دیں تو ہم آپ کو مسیحا تسلیم کرلیں گے.“ (1938-1934) شادی کے ایک ماہ بعد آپ اعلی تعلیم کے لئے 6 ستمبر 1934ء کو انگلستان تشریف لے گئے (بحوالہ ماہنامہ خالدر بوہ سید نا ناصر نمبر اپریل مئی 1983 ء صفحہ 61) جہاں آپ کا چار سال قیام رہا.اس دوران ایک مرتبہ چند ماہ کے لئے واپس وطن تشریف حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ سے شادی لائے.انگلستان جانے سے پہلے حضرت مصلح موعود نے بہت قیمتی نصائح تحریر کر کے دیں جو بی اے کرنے کے بعد آپ قادیان تشریف لے گئے جہاں آپ کا اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے الفضل قادیان 11 ستمبر 1934ء میں شائع ہوئیں.آکسفورڈ سے آپ نے پولیٹیکل سائنس کے لئے آکسفورڈ (انگلستان) جانے کا پروگرام بنا.آپ کے والد حضرت مصلح موعود نے میں ایم اے آنرز کی ڈگری حاصل کی.9 نومبر 1938 ء کو مصر سے ہوتے ہوئے آپ واپس مناسب سمجھا کہ پہلے آپ کا نکاح کر دیں.چنانچہ 2 جولائی 1934ء کو حضرت نواب محمد علی قادیان پہنچے.صاحب اور حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کی بیٹی حضرت سیدہ منصورہ بیگم سے آپ کا نکاح ہوا.انگلستان میں قیام کے دوران آپ نے اپنے بزرگ والد کی نصائح پر پورا پورا عمل کیا اور 5اگست 1934ء کو مالیر کوٹلہ سے رخصتی عمل میں آئی اور 6 اگست 1934 ء کو آپ دلہن وہاں پر لوگوں نے آپ کی پاکیزہ زندگی کے مشاہدے کئے.چھٹیاں عموماً آپ خاندان مسیح موعود کو لے کر قادیان پہنچے جہاں ایک شاندار دعوت ولیمہ ہوئی.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کے کے بعض اور نو جوانوں کے ساتھ جو ان دنوں انگلستان پڑھ رہے تھے ، ڈیون شائر کی ایک انگریز بطن سے آپ کے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں.حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کیساتھ آپ کا خاتون کے فارم میں Paying Guest کے طور پر گزارتے تھے.47 سال کا لمبا ساتھ رہا.3 دسمبر 1981ء کو حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ کا انتقال ہوا.جب آپ خلیفہ بنے تو بیت الفضل لندن کے اس وقت کے امام بشیر احمد رفیق صاحب کے دریافت کرنے پر اس خاتون نے بتایا وہ سامنے کمرہ ہے جس میں وہ ہمیشہ ٹھہرا کرتے تھے اور صبح صبح جب میں ان کے کمرہ کے آگے سے گزرتی تو ایک عجیب بھنبھناہٹ کی مسحور کن آواز آیا کرتی تھی.ایک دن میں نے ناصر سے پوچھا کہ تم صبح سویرے کیا پڑھتے رہتے ہو جس میں کبھی ناغہ نہیں ہوتا تو ناصر نے بتایا کہ وہ اپنی مقدس کتاب قرآن کریم کی تلاوت کرتے ہیں.ایک شام کھانے کی میز پر یہ ذکر چل پڑا کہ مستقبل میں ان کے کیا ارادے ہیں.

Page 7

11 10 آپ نے فرمایا کہ میں خدمت ( دین حق) کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں اور اپنی زندگی اس مقصد کے لکھا اور فرمایا: لئے وقف کرنے کا عزم کئے بیٹھا ہوں مجھے اور کوئی خواہش نہیں...یہ خاتون کہنے لگیں کہ میرے منہ سے نکلا Oh, what a waste of time (یعنی یہ تو گویا وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ بھی نہیں) لیکن اب جب میں دیکھتی ہوں کہ وہ جماعت کے سر براہ ہیں تو ندامت ہوتی ہے کہ کتنا غلط فقرہ منہ سے نکل گیا تھا.“ با قاعده وقف زندگی (بحوالہ ماہنامہ خالد سید نا ناصر نمبر اپریل مئی 1983 ، صفحہ 170,169) 1934ء سے 1938 ء تک آپ کا قیام انگلستان میں رہا.اس دوران آپ یورپ کے بعض اور ملکوں میں بھی تشریف لے گئے.آپ کا دل ہمیشہ خدمت دین کے جذبات سے مچلتا رہتا.ایک مرتبہ جرمنی میں آپ نے خواب دیکھا کہ وہاں ہٹلر ہے جو آپ کو اپنا عجائب خانہ دکھاتا ہے جس میں ایک پتھر کا دل ہے جس پر لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ لکھا ہوا ہے.آپ اس وقت جرمنی میں تھے جب آپ نے اپنے بزرگ والد اور خلیفہ وقت کو زندگی وقف کرنے کا خط لکھا آپ نے لکھا: گو وقف کنندہ ہوں مگر دوبارہ اپنے آپ کو حضور کے سامنے پیش کرتا ہوں.بندہ اس وقت سے خدمت احمدیت کے لئے حاضر ہے اور سلسلہ کی غلامی کوسب عزتوں سے عزیز سمجھتا ہے اور سلسلہ کی خدمت سے علیحدہ رہتے ہوئے اپنی زندگی کو خالی اور فضول پاتا ہے.“ حضرت مصلح موعود کو اس خط سے بہت خوشی پہنچی حضور نے جواب میں ایک طویل خط اللہ تعالیٰ تمہارے ارادہ میں برکت ڈالے.میں خود اس بارہ میں باوجو د شدید احساس کے کچھ کہنا پسند نہیں کرتا تھا اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا تھا کہ وہ خود ہی تم کو نیک ارادہ کی توفیق دے.کیونکہ میرے نزدیک میری تحریک پر تمہارے ارادہ کو بدلنا تمہارے ثواب کو ضائع کر دیتا.سوالحمد للہ کہ تمہارا دل اس طرف متوجہ ہوا.“ ( بحوالہ حیات ناصر جلد اوّل صفحہ 107 تا 108)

Page 8

13 12 نئی بلڈنگ بنوا کر کالج ربوہ منتقل کیا جائے.آپ کامل اطاعت کے ساتھ فورار بوہ آ کر کالج کی قبل از خلافت خدمات کا اجمالی خاکہ عمارت بنوانے لگے اور سخت دھوپ میں کھڑے ہو کر نہایت تھوڑی رقم میں کالج کی عمارت مکمل (1965 1938) کروائی.1954ء میں کالج لاہور سے ربوہ منتقل ہوا.1965 ء تک آپ کالج کے پرنسپل کے طور پر کار ہائے نمایاں سرانجام دیتے رہے آپ کی انتھک محنت اور دعاؤں اور حکمت عملی کے نتیجہ با قاعده زندگی وقف کرنے کے بعد حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی خدمات 37 سال کے میں ربوہ جیسی بے آب و گیاہ جگہ پر کالج ملک کے چوٹی کے کالجوں کی صف میں آن کھڑا ہوا.لمبے عرصے پر پھیلی ہوئی ہیں جن کا آغاز 1938ء میں ہوا جب آپ آکسفورڈ سے اپنی تعلیم مکمل ڈور ڈور سے حتی کہ بیرونی ممالک سے بھی لوگ اپنے بچوں کو تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں داخل کر کے واپس قادیان پہنچے.حضرت مصلح موعود نے کئی قسم کی خدمات آپ کے سپرد کیں جن میں کروانے لگے.مسلسل اضافہ ہوتا رہا.حقیقت تو یہ ہے کہ آپ حضرت مصلح موعود کی وفات تک حضور کا مضبوط دست و بازو بن کر عظیم الشان خدمات دینیہ کی تو فیق پاتے رہے.پرنسپل جامعہ احمدیہ تعلیم الاسلام کالج جماعت کی ذیلی تنظیموں اور مرکزی اداروں کے لئے خدمات تدریسی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ آپ کو جماعت کی ذیلی تنظیموں اور مرکزی اداروں میں مسلسل خدمات کرنے کا موقع ملا.صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ اس عرصہ میں بنیادی طور پر آپ تعلیم و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہے.1938ء سے 1944 ء تک آپ جامعہ احمدیہ قادیان میں پڑھاتے رہے اور پھر پرنسپل بنا دیے گئے.1944ء میں تعلیم الاسلام کالج کے شروع ہونے پر حضرت مصلح موعود نے آپ کی خدمات کو کالج آپ 1939 ء تا 1950ء صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ اور 1950ء تا 1954ء نائب کی طرف منتقل کر دیا.آپ کالج کے بانی پرنسپل تھے.تعلیم الاسلام کا لج 1944ء سے 1947ء صدر مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے اور خلیفہ وقت کے تک قادیان میں تھا.پھر برصغیر کی تقسم اور پاکستان ہجرت کے بعد لاہور منتقل ہوا جہاں آپ نے منصوبوں کو عملی جامہ پہناتے رہے.وقار عمل، دستور اساسی ، لائحہ عمل ، سالانہ اجتماع، رساله خالد، حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی ہدایت پر آسمان کے نیچے صفوں پر ایک بوسیدہ عمارت میں کلاسیں دفتر خدام الاحمد یہ سب آپ ہی کے نمایاں کارنامے ہیں.شروع کیں اور بہت جلد تعلیم الاسلام کالج لاہور کے بہترین کالجوں میں شمار ہونے لگا.اس دوران آپ کو خلیفہ وقت کی ہدایت پر کئی ہنگامی کام کرنے کا موقع ملا جنہیں آپ نے اُس وقت آپ لاہور میں ہی رہائش پذیر تھے جب 1953ء کے مارشل لاء میں آپ کو اور نہایت کامیابی سے سرانجام دیا.چنانچہ 1944ء کے جلسہ دہلی میں جہاں حضرت خلیفہ اسیح حضرت مرزا شریف احمد صاحب کو ظالمانہ طور پر گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیا گیا.خلیفہ وقت الثانی نے مصلح موعود ہونے کا اعلان کیا تھا اور چالیس ہزار آدمیوں نے حملہ کیا تھا.آپ کچھ رضا اور جماعت کی دعاؤں سے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور چند ماہ بعد رہائی ہوئی.کار لے کر حفاظت پر مامور تھے.اسمبلی کے الیکشن کے دوران ہنگامی ڈیوٹی دی جب حضرت مصلح اس دوران آپ کو خلیفہ وقت کی طرف سے ارشاد ہوا کہ جماعت کے مرکز جدید ربوہ میں موعود نے الیکشن میں معاندین کے مقابلے پر چوہدری فتح محمد سیال صاحب کو کھڑا کیا تھا، بر صغیر

Page 9

15 14 کی تقسیم کے وقت پنجاب باؤنڈری کمیشن کے لئے مسلم اکثریت والے علاقوں کے ریکارڈ مبارک احمد صاحب کو سونپ دیا.تیار کرنے کا ہنگامی کام، پاکستان ہجرت کے وقت جماعت احمدیہ کے دائمی مرکز قادیان کی جماعت کے مرکزی اداروں کے لئے خدمات حفاظت کا کام جہاں علاقے کے مسلمان مردوزن بھی پناہ گزین تھے اور ہر طرف سے دشمن حملہ کر رہا تھا.آپ جان ہتھیلی پر رکھ کر کمال شجاعت سے تمام ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور پناہ گزیں عورتوں میں اپنی بیوی اور خاندان کی دیگر مستورات کے سارے کپڑے تقسیم کر دیئے، 1954ء کے بعد کا زمانہ آپ کی ذمہ داریوں میں غیر معمولی اضافے کا زمانہ ثابت ہوا.1955ء میں خلیفہ وقت نے آپ کو جماعت کے مرکزی ادارے صدر انجمن احمدیہ کا صدر ہجرت کے بعد پاکستان میں خدام الاحمدیہ کی تنظیم نو آزادی کشمیر کے لئے 1947 ء میں کشمیر کے بنا دیا.اس کے علاوہ آپ ناظر خدمت درویشاں قادیان ، ڈائر یکٹر تحریک جدیداور 1959ء محاذ پر جب پاکستان اور ہندوستان کی جنگ جاری تھی تب احمدی رضا کاروں کی ”فرقان بٹالین“ سے افسر جلسہ سالانہ کے طور پر خدمت پر مامور رہے.حضرت مصلح موعود کی لمبی بیماری کے دوران قائم ہوئی.بھارت کی طرف سے باقاعدہ فوج لڑ رہی تھی اور پاکستان کی طرف سے اکثر و بیشتر 1961ء میں ایک نگران بورڈ بنایا گیا آپ اس بورڈ کے بھی ممبر بنادیئے گئے.رضا کا رہی مصروف جہاد تھے.رضا کاروں کی فراہمی ، فوجی تربیت، محاذ پر بھجوانے کے متعلق صدر انجمن کے قواعد وضوابط کی تدوین واشاعت، اخراجات پر کنٹرول، خدمت قرآن اور ضروری انتظامات وغیرہ کے لئے حضرت مصلح موعود نے جو کمیٹی بنائی اس کے آپ صدر تھے.اشاعت دین، قادیان کے درویشوں کی فلاح و بہبود اور روابط ، تحریک جدید کے انتظامات، آپ نے فرقان بٹالین کے سلسلہ میں کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے اور اخباروں نے برملا ادارۃ المصنفین میں قرآن کریم، احادیث نبوی اور فقہ و تاریخ وغیرہ کی اشاعت کے کاموں میں اظہار کیا کہ تمام دینی جماعتوں میں سے جماعت احمد یہ اول نمبر پر رہی.مدد اور راہنمائی تعمیر کمیٹی ربوہ میں شمولیت، جلسہ سالانہ کے وسیع انتظامات ، جلسہ سالانہ پر تقاریر، صدر مجلس انصارالله مشاورت غرضیکہ خلیفہ وقت کے ماتحت جماعت کے پورے تنظیمی ڈھانچہ میں آپ نے بے مجلس خدام الاحمدیہ کے لئے پندرہ سال عظیم الشان خدمات کی توفیق پانے کے مثال خدمات کی توفیق پائی.بعد 1954ء میں حضرت مصلح موعود نے آپ کو مجلس انصار اللہ مرکز یہ کا صدر بنا دیا.اُس وقت ذمہ داریوں میں غیر معمولی اضافہ اور آپ کی قلبی کیفیت کسی نے کہا.”میاں صاحب اب آپ بھی بوڑھے ہو گئے ہیں.آپ نے فرمایا.” میں بوڑھا حضرت مصلح موعود پر 1954ء میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا جس کے بعد آپ لمبا عرصہ بیمار نہیں ہوا.بلکہ انصار اللہ جوان ہو گئی ہے.آپ نے مجلس انصار اللہ کی تنظیم نو کی، دفتر انصار اللہ تعمیر کروایا.سالانہ اجتماعات کا آغاز فرمایا.ماہنامہ انصار اللہ جاری کیا.علم انعامی، اشاعت رہے.حضرت مصلح موعود کی لمبی بیماری کے دوران تو آپ پر ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھتا ہی گیا.لٹریچر، سہ ماہی امتحان تعلیم القرآن ، سندھ میں غیر مسلموں میں دعوت الی اللہ اور دیگر انصار اللہ آپ حضرت مصلح موعود کے سب سے بڑے بیٹے تھے.اندرونی فتنے بھی تھے.باپ کی کی سرگرمیاں جو آج نظر آتی ہیں یہ سب آپ ہی کے جاری کردہ کام ہیں.آپ خلیفہ منتخب لمبی بیماری.جماعتی کام اور غیر معمولی ذمہ داریاں اوپر سے کئی قسم کی آزمائشیں.اگر کوئی اور ہونے کے ایک ڈیڑھ سال تک مجلس انصار اللہ کے صدر رہے اور پھر یہ منصب صاحبزادہ مرزا ہوتا تو گھبرا کر صبر کا دامن چھوڑ دیتا لیکن آپ ثابت قدم رہے اور اللہ تعالیٰ پر سارا بھروسہ رکھ

Page 10

17 16 کر خدمت میں لگے رہے اور اللہ تعالیٰ سے ہی مدد مانگتے رہے.مولوی ابوالمنیر نورالحق صاحب بیان کرتے ہیں کہ تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کی عمارت کے مشرقی جانب آپ کی رہائش گاہ تھی وہاں آپ کے پاس گل خان نامی ایک پٹھان چوکیدار تھے جو نہایت مخلص اور نیک آدمی تھے.1955ء سے انتخاب خلافت تک کے زمانہ میں اکثر آپ کے پاس بعض کاموں کے لئے آتا جاتا رہتا تھا میں نے ایک دن گل خان سے یہ پوچھا کہ سناؤ میاں صاحب کی زندگی کیسے گزرتی ہے؟ کہنے لگے رات گئے تک اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے کے بعد گھر آتے ہیں اور تھوڑی دیر آرام فرمانے کے بعد نماز تہجد کے لئے اپنے ڈرائینگ روم میں آجاتے ہیں اور بڑی آہ وزاری کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے آستانہ پر گر جاتے ہیں.وہ ایک لمباوقت رو رو کر خدا تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہتے ہیں.وہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت میاں صاحب کے اس عمل میں کبھی ناغہ نہیں دیکھا.“ (حیات ناصر جلد اوّل صفحہ 349) اللہ تعالیٰ کا نہیں ہاتھ اپنی خلافت کے دوران آپ نے ایک بار بیان کیا کہ بعض اوقات غیر معمولی جماعتی مصروفیات کی وجہ سے آپ کا لج میں اپنی پولیٹیکل سائنس کی کلاس کو پور ا وقت نہیں دے سکتے تھے اور پورا کورس ختم نہیں ہونے پاتا تھا لیکن بسا اوقات دعا کے نتیجے میں آپ کو خواب میں امتحانی انتخاب خلافت ثالثه ( 8 نومبر 1965ء) 5 نومبر 1965ء کو جمعہ تھا.حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ بیان فرماتی ہیں: حضرت مصلح موعود کی بیماری کے آخری ایام تھے (5 نومبر 1965 ء کو ) جمعہ کے دن مؤذن پوچھنے آیا کہ جمعہ کون پڑھائے ؟ عموماً آپ نے فرمانا شمس صاحب یعنی مولانا جلال الدین صاحب شمس.کبھی شمس صاحب مرحوم ربوہ سے باہر گئے ہوتے تو فرماتے مولانا ابوالعطاء صاحب یا قاضی محمد نذیر صاحب جمعہ پڑھا دیں.وفات سے دو تین دن پہلے جمعہ تھا مؤذن پوچھنے آیا تو آپ نے فرمایا.ناصر احمد مجھے اس وقت تعجب ہوا کہ اس سے پہلے مجھے یاد نہیں کبھی یہ کہا پھر دوبارہ پوچھا تو پھر یہی کہا ناصر احمد" دفتر کا آدمی اطلاع دینے گیا تو حضرت مرزا ناصر احمد صاحب جمعہ پر جانے کے لئے تیار ہورہے تھے.خیال بھی نہ تھا کہ جمعہ پڑھانا پڑے گا.حکم کی تعمیل کی.یہ بھی پر چہ دکھا دیا جاتا اور آپ طلباء کو بتائے بغیر ان سوالات پر مشتمل جامع نوٹس تیار کر کے چند لیکچروں میں اس مضمون کے متعلقہ حصے پڑھا دیتے تھے اور پولیٹیکل سائنس میں آپ کی کلاس کا نتیجہ باقی مضامین سے بہتر نکلتا.صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب صدر مجلس انصار الله پاکستان و ناظر دیوان صدر انجمن احمد یہ اور مکرم محمود احمد قمر صاحب مرحوم جو آپ کے شاگرد تھے انہوں نے اس امر کی شہادت دی.يقيناً خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک اشارہ تھا کہ آئندہ خلافت کی ذمہ داریاں ان پر پڑنے والی ہیں.“ (حیات ناصر جلد اوّل صفحہ 350) اس واقعہ کے دو دن بعد 7 اور 8 نومبر 1965ء کی درمیانی شب کو حضرت مصلح موعود کا

Page 11

19 18 وصال ہو گیا اناللہ وانا الیہ راجعون.مؤرخہ 8 نومبر 1965ء بروز سوموار بعد نماز عشاءحضرت خلیفہ خدا بناتا ہے مصلح موعود کی مقرر کردہ مجلس انتخاب کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے آپ کو خلافت کے اعلیٰ منصب پر فائز کر دیا.اس وقت آپ کی عمر 56 سال تھی.انتخاب مرزا عزیز احمد صاحب ناظر اعلیٰ کی صدارت میں بیت مبارک ربوہ میں ہوا.یہاں ایک اور تصرف الہی کا ذکر کرنا از دیا دایمان کا موجب ہوگا.ایک خطبہ جمعہ میں حضرت خلیفہ المسح الثالث نے فرمایا.مجھ سے کسی نے پوچھا کہ خلافت سے پہلے بھی آپ نے سوچا کہ خلیفہ بن جائیں گے؟ میں نے کہا aspire to it( کوئی عقل مند آدمی ایسا سوچ بھی نہیں سکتا ).No sane person can میری خلافت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد مجھے اللہ تعالیٰ نے الہام فرمایايَا دَاوُدُ إِنَّا جَعَلْنَكَ آپ کے ایک ساتھی مکرم پروفیسر محبوب عالم خالد صاحب بیان کرتے ہیں کہ انتخاب خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ.( ترجمہ: اے داؤد ! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے.ناقل ) خلافت کے وقت آپ کا غم سے برا حال تھا بعض ہم عصر صاحبزادگان مرزا مظفر احمد صاحب اور یہ بتانے کے لئے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں.خلافت کے بڑے تھوڑے عرصے کے وغیرہ آپ کے ساتھ نمازوں کی ادائیگی کے بعد بیت مبارک میں پہنچے اور پیچھے ستون کے عقب بعد ظہر کی نماز پڑھانے کے بعد میں واپس آیا اور دفتر کے اوپر کمرے میں سنتوں کی نیت میں اندھیرے میں سر جھکا کر بیٹھ گئے اور دعاؤں میں مصروف ہو گئے.آپ فرماتے ہیں مجھے جب باندھی تو میرے سامنے خانہ کعبہ آ گیا....اور میں نے سیدھا کر لیا منہ خانہ کعبہ کی طرف اور کچھ معلوم نہیں کیا کارروائی ہوئی اور کیسے آپ کا نام پیش ہوا آپ سر جھکائے بیٹھے ہوئے تھے نظارہ بند ہو گیا.جب کہ آپ کے انتخاب خلافت کا اعلان ہوا اور آپ کو پکڑ کر محراب کی طرف لے گئے.میں نے سوچا کہ یہ تو نہیں خدا کا منشاء کہ میں ہر دفعہ آ کر قبلہ ٹھیک کروایا کروں مطلب یہ کہ حیات ناصر جلد اوّل صفحہ 360 ) میں تمہارا منہ، جس مقصد کے لئے تمہیں کھڑا کیا ہے،اس سے ادھر اُدھر نہیں ہونے دوں گا.“ حیات ناصر جلد اول صفحہ 371,370) حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا عزم اور ایک تاریخی عہد کی تجدید جس طرح حضرت مصلح موعود نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال پر خدا حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب رفیق حضرت مسیح موعود ( جو پاکستان کے پہلے وزیرخارجہ اور علمی سطح پر صدر یو این او اور صدر عالمی عدالت انصاف ہیگ ہالینڈ کے عہدوں تک پہنچے ) اس وقت جزائر فجی میں سفر کی حالت میں تھے جب وہاں جماعت احمدیہ کے صدر صاحب کے نام حضرت مصلح موعود کے وصال کی بذریعہ تارخبر پہنچی وہ فرماتے ہیں.وہ رات میرے لئے سخت کرب کی رات تھی.پچھلے پہر میں نے خواب دیکھا جس کی واضح تعبیر تھی کہ خلیفہ کا انتخاب تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر عہد کیا تھا کہ :- ہو گیا ہے.منتخب ہونے والے خلیفہ کی عمر 56 سال ہے اور ان کی طبیعت میں بہت رشد، حیا اور حلم ہے.صبح ہونے پر میں نے موجود احباب سے یہ ذکر کر کے اپنا اندازہ بیان کیا کہ صاحبزادہ حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ منتخب ہوئے ہیں.تحدیث نعمت مولفہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب 688,687) وہ پیغام جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ تو نے نازل فرمایا ہے، میں اس کو دنیا کے کونے کونے میں پھیلا ؤں گا.“ (سوان فضل عمر جلد اول مصنفہ حضرت مرزا طاہراحمد خلیفہ مسیح الرابع) اسی طرح آپ نے حضرت مصلح موعود کے جنازے میں شامل ہونے والے پچاس ہزار

Page 12

20 21 احباب جماعت احمدیہ کے ساتھ مل کر اس عہد کی تجدید کی اور فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ نماز جنازہ ادا کرنے سے قبل ہم سب مل کر اپنے رب رؤف کو گواہ بنا کر اس مقدس منہ کی خاطر جو چند گھڑیوں میں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہونے والا ہے اپنے اس عہد کی تجدید کریں اور وہ عہد یہ ہے کہ ہم دین اور دین کی مصالح کو دنیا اور اس کے سب سامانوں اور اس کی ثروت اور وجاہت پر ہر حال میں مقدم رکھیں گے اور دنیا میں دین کی سر بلندی کے لئے مقدور بھر کوشش کرتے رہیں گے.“ حیات ناصر جلد اوّل صفحہ 363,364) دور خلافت (1982-1965) دور خلافت کے اہم واقعات اور تحریکات 1965ء 19 ء میں حضرت خلیفہ المسح الثالث کی خلافت کا آغاز اللہ تعالیٰ کی عظیم بشارتوں سے ہوا اور 1982ء میں اللہ تعالیٰ کے زندہ فضلوں کا امین بن کر اپنی تکمیل کو پہنچا.آپ نے اپنی خلافت کے آغاز پر جلسہ سالانہ پر فرمایا: میں تمام جماعت کو جو کہ یہاں موجود ہے اور پوری دنیا کو کامل یقین کے ساتھ یہ کہتا ہوں کہ آئندہ چھپیں تھیں سال کے اندر دنیا میں ایک عظیم الشان تغیر پیدا ہونے والا ہے.وہ دن قریب ہیں جب دنیا کے بہت سے ممالک کی اکثریت (دین حق ) کو قبول کر چکی ہوگی اور دنیا کی سب طاقتیں اور ملک بھی اس آنے والے روحانی انقلاب کو روک نہیں سکتے.“ فضل عمر فاؤنڈیشن (حیات ناصر جلد اوّل صفحہ 376) 1965ء میں آپ نے حضرت فضل عمر لریقہ اسیح الثانی کی یاد میں فضل عمر فاؤ نڈ یشن کا منصو بہ جاری کیا اور جماعت سے 25 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا ( اُس وقت یہ بہت بڑی رقم تھی) اللہ تعالیٰ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے الہا مابتایا.میں تینوں ایناں دیواں گا کہ تو رج جاویں گا.“ حیات ناصر جلد اوّل صفحہ 384)

Page 13

23 22 ر اس رقم سے خلافت لائبریری بنی اور ان بے شمار کاموں کا آغاز ہوا جن کا تعلق حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے علمی خزانوں اور تحریکات سے تھا اور اب تک جاری ہیں.آپ نے 1980ء کے دورہ مغرب کے دوران فرمایا: دو سب سے پہلے میری طرف سے فضل عمر فاؤنڈیشن کا منصوبہ پیش ہوا.جماعت نے اپنی ہمت اور توفیق کے مطابق اس میں حصہ لیا اس کے تحت بعض بنیادی نوعیت کے کام انجام دیئے گئے.یہ گو یا ابتدا تھی ان منصوبوں کی جو خدائی تدبیر کے ماتحت غلبہ دین حق ) کے تعلق میں جاری ہونے تھے.“ دورہ مغرب 1400 صفحہ 23) تعلیم واشاعت قرآن سے روشناس کرائیں.تفاسیر کی طباعت ہو، ہر زبان میں ہو.ہر ملک میں ہو.ہر قوم کے لئے ہو.ہر قبیلے کے لئے ہو...66 حیات ناصر جلد اول صفحہ 480,79) آپ کے دور خلافت میں دنیا بھر میں کئی ہوٹلوں اور لائبریریوں میں قرآن کریم رکھوائے گئے اور کثرت سے ملک کے سربراہوں اور اہم شخصیات کو تحفہ کے طور پر دئیے گئے.آپ کی خواہش تھی کہ Voice of Quran ( یعنی قرآن کی آواز ) کے نام سے ایک ریڈ یوٹیشن قائم کیا جائے جسے اللہ تعالیٰ نے اگلی خلافت کے دوران ایم ٹی اے کے ذریعہ سے پورا کیا.تین اہم امور خلافت کی ابتداء میں ہی آپ نے جماعت کی توجہ تین اہم امور کی طرف دلائی اور اس آپ نے ایک عظیم الشان کشفی نظارے کو دیکھ کر تعلیم القرآن اور وقف عارضی کا منصوبہ سلسلہ میں خطبات جمعہ ارشاد فرمائے.وہ تین اہم امور یہ ہیں.جاری کیا.اس کام کی نگرانی کے لئے ایک الگ نظارت بھی قائم فرمائی.آپ نے اشاعت قرآن کے کام کو آگے بڑھایا.آپ نے فرمایا: اشاعت قرآن کے سلسلہ میں تین مرحلے آتے ہیں.ایک یہ کہ متن قرآن کریم کو ہر ( احمدی) کے ہاتھ میں پہنچا دیا جائے.یہی نہیں بلکہ متن قرآن عظیم کو دنیا کے ہر انسان کے ہاتھوں تک پہنچایا جائے.دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا ترجمہ ہر قوم اور ہر ملک کی زبان میں کیا جائے تا کہ دنیا کے ہر خطہ کے لوگوں تک قرآن کریم کو اس کے معنے اور مفہوم کے ساتھ پہنچایا جا سکے..( تیسرا مرحلہ ) اس کا ترجمہ سمجھنے لگ جائیں تو ہم ان کو قرآن عظیم کی تفسیر نجات محض اللہ کے فضل پر منحصر ہے فروتنی اور انکساری کے اوصاف اختیار کرنا مسکینوں ، یتیموں اور اسیروں کو کھانا کھلانے کی ترغیب سورۃ البقرہ کی پہلی سترہ آیات حضرت خلیفہ المسح الثالث نے خلافت کے ابتدائی دور میں مستورات میں قرآن کریم کے ابتدائی حصے کے درس دیئے.سورۃ البقرہ کے پہلے دور کوع میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس بارے میں فرمایا: ایک رنگ میں قرآن کریم انہی تین نکتوں کے گرد گھومتا ہے یعنی یا متقیوں اور تقویٰ کے متعلق بتا رہا ہوتا ہے یا وہ کافروں اور کفر کے متعلق کچھ بیان

Page 14

25 24 کر رہا ہوتا ہے یا منافقوں کے متعلق اور اللہ تعالیٰ کا جس رنگ میں جس طریق پر ان پر غضب نازل ہوتا ہے اس کے متعلق کچھ فرمارہا ہوتا ہے.“ درس مستورات غیر مطبوعہ 14 مئی 1966ء) ”میرے دل میں یہ خواہش شدت سے پیدا کی گئی کہ قرآن کریم کی سورۃ البقرہ کی ابتدائی سترہ آیتیں ہر احمدی کو یاد ہونی چاہئیں اور ان کے معانی آنے چاہئیں اور جس حد تک ممکن ہوان کی تفسیر بھی آنی چاہیے اور پھر ہمیشہ دماغ میں وہ تحضر بھی رہنی چاہیے.“ حیات ناصر جلد اوّل صفحہ 458-457) پہلا دورہ مغرب اور بیت نصرت جہاں کا افتتاح حضرت خدریہ امسح الثالث محبت کے سفیر بن کر حضرت مسیح موعود کی نمائندگی میں دنیا کے جنگ اخبار نے لکھا: احمد یہ فرقہ کے سر براہ مرزا ناصر احمد نے تجویز پیش کی ہے کہ مسلمانوں کے مختلف فرقوں کو سات سال کی مدت کے لئے یہ طے کر لینا چاہیے کہ وہ آپس کے اختلافات بھلا کر دنیا میں ( دین حق ) کی ( دعوت) کے لئے سر توڑ کوشش کریں گے اور عبوری دور میں ایک دوسرے پر کسی قسم کی نکتہ چینی نہیں کریں گے.“ (جنگ کراچی 23 اگست 1967 ء ) بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے 1968ء میں گیمبیا میں ایک احمدی جناب ایف ایم سنگھاٹے صاحب گورنر جنرل کے دور افتادہ ملکوں میں بھی گئے اور اللہ تعالیٰ کی توحید اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور نور عہدے پر فائز ہوئے.ان کی درخواست پر انہیں حضرت مسیح موعود کا ایک کپڑا برکت کے لئے آپ نے بھیجا.اور اس طرح پہلی مرتبہ حضرت مسیح موعود کا الہام ”بادشاہ تیرے کپڑوں سے سے اقوام عالم کو منور کیا.آپ کا پہلا غیر ملکی دورہ 6 جولائی سے 24 اگست 1967 ء تک کا ہے.جس میں آپ برکت ڈھونڈیں گے ظاہر ہوا.مغربی جرمنی ، سوئٹرز لینڈ، ہالینڈ ، ڈنمارک اور برطانیہ تشریف لے گئے.ڈنمارک میں پہلی ( بیت قبولیت دعا الذکر کا سنگ بنیا درکھا گیا تھا.اس دورے کے دوران 21 جولائی کو آپ نے ( بیت ) نصرت جہاں کو پن ہیگن (ڈنمارک) کا افتتاح بھی فرمایا اور اسے تاریخ کا ایک عظیم واقعہ قرار دیا کیونکہ سکینڈے نیوین ممالک میں یہ پہلی ( بیت الذکر ) تھی جو جماعت احمدیہ نے بنائی.فرقوں کے درمیان اتحاد کی تحریک اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبولیت دعا کے بے شمار نشان عطاء فرمائے.ان میں سے ایک تحریر ہے کہ 1979ء میں آپ کی دعا سے پہلے احمدی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے فزکس میں سب سے بڑا عالمی انعام ” نوبیل پرائز حاصل کیا جس کی خدا تعالیٰ نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو قبل از وقت اطلاع دی تھی.اس طرح آپ کے دور میں حضرت مسیح موعود کا یہ نشان پہلے مغربی ممالک کے سفر سے واپسی پر آپ نے مسلمان فرقوں کو اپنے درمیان اتحاد پیدا ظاہر ہوا کہ کرنے کی تحریک فرمائی جس کی خبر کئی پاکستانی اخباروں نے شائع کی.میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ

Page 15

27 26 وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کردیں گے.دوسرا دورہ مغرب (و مغربی افریقہ) دو ( دین حق ) کے احیاء نو کے لئے آپ نے سپین کا سفر اختیار فرمایا.آپ کی کیفیت بڑی جذباتی تھی اور دل میں درد تھا کہ جہاں سات سو سال تک ( دین حق ) کا غلبہ رہا.اب وہاں ( دین حق ) کا نام و نشان نہیں رہا.ایک رات سخت کرب میں اور ساری رات مسلسل دعائیں کرتے ہوئے گزاری کہ اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا کرے کہ جماعت احمدیہ کو ( دین حق ) کی آپ نے دوسرا دورہ 4 اپریل سے 8 جون 1970 ء تک کیا اس دورے میں آپ یورپ احیاء نو کے لئے اپنی ( بیت الذکر ) بنانے کی اجازت مل جائے اور اپنا مشن ہاؤس بن جائے ابھی کے ممالک سوئٹزر لینڈ، برطانیہ، مغربی جرمنی اور سپین کے علاوہ مغربی افریقہ کے ممالک نائجیر یا، تک کرائے کے مکان میں مشن تھا.صبح کے وقت آپ کو سورۃ الطلاق کی آیت 4 کا ایک حصہ گھانا ، آئیوری کوسٹ، لائبیریا، گیمبیا اور سیرالیون بھی تشریف لے گئے.افریقی ممالک کے الہام ہوا جس کا مطلب ہے کہ جو شخص اللہ پر توکل رکھتا ہے اسے دوسرے ذرائع کی کوئی ضرورت دورے پر جانے کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا: نہیں رہتی اور وہ اس کے لئے کافی ہے.اللہ تعالیٰ جو اپنا مقصد بناتا ہے اسے ضرور پورا کر کے ان اقوام کے پاس جاؤں جو صدیوں سے مظلوم رہی ہیں جو صدیوں چھوڑتا ہے.یہ ہو گا اور ضرور ہوگا لیکن اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کا ایک اندازہ اور تخمینہ مقرر کیا ہوا سے حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عظیم روحانی فرزند مهدی ہے.تم فکر نہ کرو.اللہ کافی ہے وہ ہو کر رہے گا.معہود کے انتظار میں رہی ہیں جن میں سے استثنائی افراد کے علاوہ کسی کو بھی حضور فرماتے ہیں.حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کی زیارت نصیب نہیں ہوئی.پھر ان کے دلوں میں یہ تڑپ پیدا ہوئی کہ آپ کے خلفاء میں سے کوئی خلیفہ ان تک پہنچے صدیوں کے انتظار کے بعد اللہ تعالیٰ نے چاہا تو انہیں یہ موقع نصیب ہوگا.“ ”میرے دل میں بڑی تسلی پیدا ہوئی.“ (الفضل 18 جولائی 1970ء) نصرت جہاں سکیم 1970ء میں مغربی افریقہ کے دورے کے دوران آپ کو القاء ہوا کہ ان مظلوم اقوام کی فلاح و بہبود کے لئے مغربی افریقہ کے چھ ملکوں میں صحت اور تعلیم کے فروغ کے لئے ہسپتال اور (روز نامہ الفضل ربوہ 9 را پریل1970ء) سکول و کالج کھولے جائیں.آپ نے حضرت مصلح موعود کی خلافت کے سالوں کے برابر آپ نے ان قوموں کو پیار دیا جو مدتوں سے مظلوم چلی آ رہی تھیں آپ نے افریقی ممالک 51 لاکھ روپے کا جماعت سے مطالبہ کیا اور ڈاکٹروں اور پوسٹ گریجویٹ ٹیچروں کو اس مقصد کے سر براہوں سے بھی ملاقات کی جو بڑی محبت اور عزت واحترام سے پیش آئے جیسا کہ حضرت کے لئے زندگی وقف کرنے کیلئے کہا.جماعت کے مخلصین نے والہانہ لبیک کہا اور جتنی رقم کا مسیح موعود کو الہاما بتایا گیا تھا کہ وہ وقت آتا ہے بلکہ قریب ہے کہ خدا بادشاہوں اور امیروں کے دلوں میں تیری محبت ڈالے گا.“ مطالبہ کیا گیا تھا اس سے زیادہ رقم خلیفہ وقت کی خدمت میں پیش کر دی.کئی ڈاکٹروں اور پروفیسروں نے سرکاری نوکریاں چھوڑ کر وقف کے لئے پیش کر دیا اور چند سالوں میں گھانا، (اشتہار 20 فروری 1886ء) نائیجیریا، گیمبیا، سیرالیون، لائبیریا اور آئیوری کوسٹ میں سکولوں اور کلینکس کا جال بجھ گیا.آپ

Page 16

29 28 نے 1980ء کے جلسہ سالانہ پر فرمایا: نصرت جہاں سکیم کو اللہ تعالیٰ نے ایسی عظیم الشان کامیابی عطا کی ہے کہ ساری دنیا کے دماغ مل کر بھی اس کا تصور نہیں کر سکتے.“ تعمیر بیت اللہ کے 23 عظیم الشان مقاصد (Communism) اور سوشلزم (Socialism) انقلابات پر آپ کو بہت عبور حاصل تھا جو ایک دوسرے کے بعد رونما ہوئے ہیں.چین میں سوشلزم کے تصور کو ماؤزے تنگ نے بہت فروغ دیا.اس کی سرخ کتاب کا آپ اکثر ذکر کرتے تھے.آپ نے صاحبزادہ مرزا مبارک (حیات ناصر جلد اوّل صفحہ 540) احمد صاحب وکیل التبشیر سے چین کا دورہ بھی کروایا.آپ کے عہد خلافت میں چینی سفیر کا مرکز سلسلہ میں آنا اور آپ کو ملنا بہت اہم واقعہ ہے.( عجیب اتفاق ہے کہ حضرت عثمان کے عہد خلافت میں بھی ایک چینی سفیر کی مدینہ آمد ثابت ہے.) قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں آپ نے تعمیر بیت اللہ کے 23 عظیم الشان مقاصد اس واقعہ سے کچھ عرصہ بعد آپ نے ایک ملاقات میں (جس میں مولا نا مبشر احمد صاحب بیان فرمائے.آپ حضرت مسیح موعود کے الہام إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ حَلِيْمٍ کے مصداق تھے کاہلوں جواب ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد اور مفتی سلسلہ بھی ہیں شامل تھے ) اپنی ایک رؤیا کا اور حلیم کے معنی عقلمند اور سمجھ دار کے بھی ہوتے ہیں.جب آپ نے تعمیر بیت اللہ کے 23 عظیم ذکر کیا کہ آپ گھوڑوں پر کئی مربیان کو چین بھجوا رہے ہیں.الشان مقاصد بیان کئے تو جماعت کے کسی بزرگ نے آپ کو حضرت مسیح موعود کے اس الہام کی طرف توجہ دلائی.جو شخص کعبہ کی بنیاد کو ایک حکمت الہی کا مسئلہ سمجھتا ہے.وہ بڑا عقلمند ہے کیونکہ اس کو اسرار ملکوتی سے حصہ ہے.“ تیسرا دورہ یورپ تیسرا مغربی ممالک کا دورہ آپ نے 12 جولائی سے 24 ستمبر 1973 ء تک اختیار فرمایا اور (ازالہ اوہام صفحہ 635 بحوالہ تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه 185) انگلستان، مغربی جرمنی، ہالینڈ، سوئٹزرلینڈ، اٹلی ، سویڈن، ڈنمارک کے ممالک میں تشریف لے حضرت خلیفہ لمسیح الثالث کی طرف سے خلیفہ عبدالرحمن صاحب مرحوم آف کوئٹہ نے حج بدل کیا.مرزا خلیل احمد قمر صاحب نے وہ رپورٹ بھی دیکھی ہے جو آپ کے حج بدل کے سلہ میں تھی اس کے ساتھ پرائیویٹ سیکرٹری کی چٹھی بھی ہے.چین کے سفیر کی ربوہ آمد گئے.محدود وسائل کے باوجود یورپ میں ( دین حق ) کی ( دعوت ) اور قرآن کریم کی اشاعت کو وسیع تر کرنے کے لئے پر لیس لگانے کا جائزہ لیا.آپ نے اس دورہ کے دوران اپنے اس رؤیا کا ذکر بھی کیا جو آپ نے زمانہ طالب علمی میں دیکھا تھا.آپ نے جرمن قوم کے بظاہر پتھر دل پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا دیکھا تھا.آپ نے ایک انٹرویو میں فرمایا کہ پچاس سال تک انشاء اللہ جرمن قوم ( دین حق ) قبول 1972ء میں چین کے سفیر نے ربوہ کا دورہ کیا اور آپ سے شرف ملاقات حاصل کیا.دراصل دنیا میں رونما ہونے والا سرمایہ داری (Capitalism) اشتراکیت کرلے گی.

Page 17

31 30 صد سالہ جوبلی منصوبہ دسمبر 1973ء میں جلسہ سالانہ ربوہ پر آپ نے اپنی خلافت کا سب سے بڑا توسیعی منصوبہ جاری کیا.جس کا نام صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ ہے تا کہ احمدیت کے سوسال پورے ہونے پسند گندے ارادے لے کر آپ پر قاتلانہ حملہ کرنا چاہتے تھے.آپ کے ڈرائیور رحمت مرحوم نے خاکسار کو ایک بار بتایا کہ ہم خود پریشان تھے خدام ڈیوٹیاں دے رہے تھے لیکن خدا کا کچھ کرنا ایسا ہوا کہ یکدم کالے بادل آئے اور مجھے بھی پتہ نہیں چلا کہ آپ کب کار میں آکر بیٹھ گئے اور ہم تک سلسلہ کے کاموں میں تیزی اور عالمگیر وسعت پیدا کی جائے آپ فرمایا کرتے تھے کہ معجزانہ طور پر وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور انتہاء پسند عناصر جو اسلحہ چھپا کر کھڑے تھے ہمارے خدا نے ہمارے اندر ایک آگ لگا رکھی ہے کہ ہم نے (دین حق ) کو ساری دنیا میں غالب کرنا ہے.اس منصوبہ کا مقصد ساری دنیا میں اشاعت، تصنیف اور تعمیرات کے ذریعہ جس کا تذکرہ حضور نے 13 فروری 1974ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا.انتظار کرتے رہ گئے اور ہم خدا کے فضل سے بخیریت ربوہ پہنچ گئے.جماعت کے لئے یہ بہت نازک وقت تھا آپ ساری ساری رات جاگ کر اللہ تعالیٰ سے ( دین حق ) کا پیغام دنیا کے کناروں تک پہنچانا تھا اس منصو بہ کی مخالفت عالمی سطح پر شروع ہوئی دعائیں کرتے رہتے اور مخالفت اور ظلم و تشدد کے طوفان کے آگے ایک مضبوط چٹان بن کر کھڑے ہو گئے اور اس کا رخ موڑ کر رکھ دیا.کئی مصیبت زدہ احمدی آپ کی ملاقات کے لئے چنانچہ چند ہی ماہ بعد جماعت احمدیہ کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے لئے ایک زبر دست ربوہ آتے افسردہ چہروں کے ساتھ آپ کے پاس پہنچتے اور چہروں پر بشاشت اور ایمانی تازگی لے کر واپس لوٹتے.تحریک شروع کی گئی جس کی تفصیل 1974ء کا عظیم ابتلاء“ کے عنوان کے تحت دی جاری ہے.1974ء کا عظیم ابتلاء آپ کی خلافت کے دسویں سال 1974ء میں ایک عالمی سازش کے نتیجے میں پاکستان سے تر رکھو...مجسم دعا بن جاؤ اور ہر آن نصرت الہی کے منتظر رہو.آپ نے جماعت کو نصیحت فرمائی کہ ظلم کا جواب ظلم سے نہیں دینا.ایک پیغام میں فرمایا کہ صبر کرو اور دعائیں کرو.صبر کرو اور دعائیں کرو.صبر کرو اور دعائیں کرو اور اپنی سجدہ گاہ کو آنسوؤں میں احمدیت کی مخالفت میں ایک تحریک چلائی گئی.پہلے سے طے شدہ منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ربوہ کے ریلوے اسٹیشن پر ایک معمولی واقعہ کی آڑ میں سارے ملک میں جلوس، روزنامه الفضل ربوہ 8 جون 1974ء) ان دنوں اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاما خبر دی وَسعُ مَكَانَكَ إِنَّا كَفَيْنكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ جلسے، ہنگامے، ہڑتالیں، احمدیوں کا سوشل بائیکاٹ ،لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم ہو گیا.کہ استہزاء کا منصوبہ بنایا گیا ہے تم اپنے مکان وسیع کرتے جاؤ خدا تعالیٰ خود استہزاء کرنے والوں معاندین نے احمدیوں کی بیوت الذکر ، قرآن مجید کے نسخے، احادیث اور حضرت مسیح موعود کی کے لئے کافی ہے وہ خود ان سے نمٹ لے گا.کتب اور بعض جگہوں پر احمدیوں کے گھر نذرآتش کر دئیے.کاروبار تباہ ہوئے فیکٹریوں کو آگ معاندین کے مطالبے پر حکومت نے قومی اسمبلی کے سارے ایوان کو ایک خصوصی کمیٹی میں لگائی گئی.کئی احمدی راہ مولیٰ میں قربان کر دیئے گئے اکثر نے بڑی بشاشت سے قربانیاں دیں.تبدیل کر دیا اور یکم جولائی 1974 ء کو اعلان شائع ہوا کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کا حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو پہلے ایک تحقیقاتی ٹربیونل (Tribunal) میں بیان دینے مسئلہ قومی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی کے سپر د کر دیا گیا.کے لئے لاہور طلب کیا گیا جہاں پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی معجزانہ طور پر حفاظت فرمائی.بعض انتہاء (نوائے وقت لاہور یکم جولائی 1974 ء)

Page 18

33 32 حضرت خلیفہ المسیح الثالث ایک وفد کے ہمراہ اسلام آباد قومی اسمبلی کے سامنے پیش ہوتے لیکن جیسا کہ پہلے سے طے شدہ تھا ایک ترمیمی بل کے ذریعے احمدیوں کو غیر مسلم ادھر خدا تعالیٰ کی شان اس طرح ظاہر ہوئی کہ یہی مخالفت اشاعت دین کا باعث بنی اور رہے.اس وقت آپ کے ساتھ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب، شیخ محمد احمد مظہر صاحب، مولانا قرار دے دیا گیا.ابولعطاء صاحب جالندھری اور مولانا دوست محمد شاہد صاحب مؤرخ احمدیت شامل تھے.آپ نے 22 اور 23 جولائی 1974ء کو محضر نامہ پیش کیا اور گیارہ دن ( 5 تا 15،9 تا20 دائرہ دعوت الی اللہ میں وسعت پیدا ہوتی چلی گئی.کئی نئے مشن کھل گئے جن میں سویڈن، ناروے،اٹلی ، فرانس ، پین شامل ہیں.اگست 1974 ء ) آپ پر جرح ہوئی اور آپ ان کے اعتراضات کے جوابات دیتے رہے.ایک معاند مفتی محمود احمد جو کہ لیڈر آف اپوزیشن تھے ان کا ایک بیان لولاک رسالہ لائکپور میں اس طرح شائع ہوا.” جب اسمبلی ہال میں مرزا ناصراحمد آیا تو قمیض پہنے ہوئے اور شلوار اور شیروانی میں ملبوس ، بڑی پگڑی طرہ لگائے ہوئے تھا اور سفید داڑھی تھی تو ممبران نے دیکھ کر کہا.کیا یہ شکل کافر کی ہے؟ اور جب وہ بیان پڑھتا تو قرآن مجید کی آیتیں پڑھتا تھا اور جب حضور اکرم صلعم کا نام لیتا درود شریف بھی پڑھتا تھا تو ہمارے ممبر مجھے گھور گھور کر دیکھتے تھے کہ قرآن اور رسول کریم کے نام کے ساتھ درود پڑھتا ہے اور تم اسے کافر کہتے ہو؟“ ہفت روزہ لولاک لائلپور صفحہ 18,17 - 28 دسمبر 1975 ءالفرقان فروری 1972ء) جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا کہ اللہ استہزاء کرنے والوں کے لئے کافی ہے.چنانچہ استہزاء کے منصوبے کا آلہ کار بننے والی برسراقتدار حکومت جولائی 1977ء کے مارشل لاء کے ساتھ ختم ہوگئی جیسا کہ حضرت مصلح موعود نے پیشگوئی فرمائی تھی.میں ایسے شخص کو کہ جسے خدا تعالیٰ خلیفہ ثالث بنائے اسے بشارت دیتا ہوں.....اگر دنیا کی حکومتیں بھی اس سے ٹکرائیں گی تو وہ ریزہ ریزہ ہو جائیں گی.“ خلافت حقہ اسلامیہ خطاب مصلح موعود 28 دسمبر 1956ء) چوتھا دورہ یورپ چوتھا سفر آپ نے 5 اگست سے 29اکتوبر 1975ء تک فرمایا اور انگلستان، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، مغربی جرمنی ، ہالینڈ اور سوئٹزرلینڈ کا دورہ کیا.اس سفر کے جو بھی اور جس انداز میں بھی انہوں نے سوال کئے آپ انہیں اس رنگ میں جواب دیتے کہ ان دوران آپ نے جماعت احمد یہ انگلستان کے جلسہ سالانہ پر خطاب فرمائے اور سویڈن کے منہ بند ہو جاتے اور سوال کرنے والا خود شرمندہ ہو جاتا.اللہ تعالیٰ کی مدداور نصرت مسلسل کے شہر گوٹن برگ میں ( بیت ) ناصر کا سنگ بنیاد رکھا.آپ نے ناروے میں بھی بیت الذکر بنانے کی خواہش کا اظہار فرمایا تا کہ سیکنڈے نیوین ممالک میں اشاعت ( دین حق ) آپ کے شامل حال رہی.آپ نے ایک موقعہ پر فرمایا: ”انہوں نے 52 گھنٹے 10 منٹ میرے پر جرح کی اور 52 گھنٹے 10 منٹ میں نے خدا کے فرشتوں کو اپنے پہلو پر کھڑا پایا.“ جلد از جلد ہو سکے.اس دورے کا ایک مقصد بحالی صحت بھی تھا کیونکہ کئی ماہ سے آپ بیمار چلے آ رہے تھے.الفضل جلسہ سالانہ نمبر 1980 صفحہ 10) آپ نے کئی صحت افزاء مقامات کی سیر بھی کی.

Page 19

35 34 پانچواں دورہ مغرب و امریکہ موت سے نجات کے موضوع پر جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک بین الا قوامی کانفرنس منعقد مغربی ممالک کا پانچواں سفر آپ نے 20 جولائی 1976ء کور بوہ سے شروع کیا.اس سفر ہوئی.اس کا نفرنس میں دنیا بھر سے ڈیڑھ ہزار سے زائد نمائندگان نے شرکت کی ان میں میں آپ نے یورپ کے علاوہ امریکہ کو بھی پروگرام میں شامل فرمایا.آپ 21 جولائی کو لندن گیمبیا،سیرالیون، ماریشس، لائبیریا کے مندوبین کے علاوہ پولینڈ میں رومن کیتھولک چرچ کے دو پہنچے جہاں سے 25 جولائی کو امریکہ پہنچے.آپ کا براعظم امریکہ کا یہ پہلا دورہ تھا.امریکہ میں سرکاری مبصر اور برطانیہ کے کیتھولک آرچ بشپ کے ایک مبصر بھی شامل ہوئے جس کا چر چا دنیا آپ واشنگٹن، ڈیٹن، نیو یارک، نیو جرسی ، میڈیسن تشریف لے گئے.ڈیٹن کے میئر نے آپ کو بھر کے اخباروں میں ہوا اور بین الاقوامی سطح پر چوٹی کے عیسائیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کے لئے شہر کی چابی پیش کی.آپ نے امریکہ کے جلسہ ہائے سالانہ پر ولولہ انگیز خطاب فرمائے.مختلف مکاتب فکر کے گر جاؤں اور جماعت کے عمائدین کے درمیان دعوتوں کے اعلان شائع آپ نے 13 اگست 1976ء کو جماعت ہائے امریکہ کی طرف سے دی گئی الوداعی ہوئے.آخری دن آپ کے خطاب کے لئے مقرر تھا اس سلسلے میں لندن مشن کو دھمکیوں کے دعوت میں واشنگٹن میں روسی سفارت خانہ کے کلچرل اتاشی مسٹر محمد عثمانوف کو روس میں غلبہ (دین خطوط بھی موصول ہوئے.حق کی پیشگوئیوں سے بھی آگاہ فرمایا.(الفضل جلسہ سالانہ نمبر 1976ء) 24 جولائی سے 18 اگست تک آپ نے یورپین ممالک ناروے ،سویڈن، ڈنمارک اور 18/اگست کو آپ کینیڈا کے شہر ٹورنٹو پہنچے اور کینیڈا کے دورہ کے بعد 15 /اگست کو لندن پہنچے.مغربی جرمنی کا دورہ کیا جس کے بعد 19 اگست سے لندن بحالی صحت کے لئے قیام فرمایا اور بیت ناصر گوٹن برگ ( سویڈن ) 11 /اکتوبر 1978ء کوواپس ربوہ پہنچے.18 اگست کو آپ سویڈن کے شہر گوٹن برگ پہنچے جہاں آپ نے 20 اگست 1976 ء کو ساتواں اور آخری دورہ مغرب 1400ھ بیت ناصر کا افتتاح فرمایا.آپ کا ساتواں اور آخری دورہ مغرب تین براعظموں.یورپ، امریکہ، افریقہ کے تیرہ 29 اگست کو آپ ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن تشریف لے گئے اور یکم ستمبر تک سکنڈے ممالک پر مشتمل تھا جو چودھویں صدی ہجری کے آخری سال 26 جون سے 24 اکتوبر 1980ء نیوین ممالک کا دورہ مکمل کر کے جرمنی پہنچے اور جرمنی ،سوئٹزر لینڈ، ہالینڈ اور برطانیہ کا دورہ کرتے تک کے عرصہ پر محیط ہے.ہوئے 120اکتوبر کو واپس کراچی اور لاہور سے ہوتے ہوئے ربوہ پہنچے.اس طرح آپ کا دورہ جو 20 جولائی کو شروع ہوا تھا بے شمار برکات کا حامل ہوکر 20 اکتوبر کو تکمیل پذیر ہوا.چھٹا دورہ مغرب اور بین الاقوامی کانفرنس آپ جرمنی ، سوئٹزر لینڈ، آسٹریلیا، ڈنمارک، سویڈن، ناروے، ہالینڈ اور انگلینڈ تشریف لے گئے.اوسلو (ناروے) میں آپ نے اس ملک کی پہلی بیت الذکر بیت نور کا افتتاح فرمایا: 18 اگست سے 30 اگست تک آپ نے افریقہ کے ممالک نائجیر یا اور گھانا کا دورہ کیا چھٹا سفر آپ نے 8 مئی 1978ء کو شروع کیا.جرمنی، سوئٹزرلینڈ ، ہالینڈ کے ممالک کا دورہ جہاں سے براستہ لندن آپ کینیڈا تشریف لے گئے 4 ستمبر سے 11 ستمبر تک آپ نے کرتے ہوئے آپ 31 مئی کولندن پہنچے جہاں 2, 3, 4 جون 1978 ء کو حضرت مسیح کی صلیبی کینیڈا کا دورہ کیا.12 ستمبر کو آپ امریکہ تشریف لے گئے اور 23 ستمبر تک امریکہ کا دورہ مکمل کیا.

Page 20

37 36 24 ستمبر سے 13اکتوبر کے دوران آپ نے برطانیہ کے پانچ نئے مراکز کا افتتاح کیا تو کل کے ساتھ مسلسل دعاؤں میں لگے رہے اور اللہ تعالیٰ کی عظیم بشارت لے کر لوٹے وَمَنُ 5 اکتوبر کو جلسہ سالانہ برطانیہ کو رونق بخشی.9 اکتوبر کو بیت بشارت سپین کے سنگ بنیاد کی يَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا تاریخی تقریب ہوئی.19 اکتوبر کو لندن میں نماز عید پڑھائی اور 29 /اکتوبر 1980ءکو واپس ( ترجمہ ) اور جو کوئی اللہ پر توکل کرتا ہے وہ ( اللہ ) اس کے لئے کافی ہے.اللہ یقیناً اپنے ربوہ پہنچے.یہ آپ کی زندگی کا آخری دورہ مغرب ثابت ہوا.بیت بشارت پید رو آباد ( قرطبه ) مقصد کو پورا کر کے چھوڑتا ہے.اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر چھوڑا ہے.اللہ تعالیٰ نے جلد ہی سپین کی حکومت کے آئین میں اُن سے تبدیلیاں کروائیں اور مذہبی آزادی کی ضمانت دے دی گئی.سپین کی تاریخ میں یہ انقلاب عظیم تھا.اسلام کی نشاۃ اولی میں 711ء میں سپین طارق بن زیاد کے ذریعے فتح ہوا اور 1236 ء تک چنانچہ جب وہ وقت آگیا کہ جس کی بشارت دی گئی تھی تو دس سال کے عرصے کے اندراندر مسلمانوں کی حکومت رہی.جہاں سپین کی مساجد سے پانچ وقت اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی قرطبہ کے قریب بیت الذکر اور مشن ہاؤس بنانے کی حکومت کی طرف سے اجازت بھی مل گئی تھیں.اسلام کی پہلی تین صدیوں میں وہاں علوم وفنون نے بہت ترقی کی.بڑے بڑے عیسائی اور جگہ بھی مل گئی.آپ نے اس بیت الذکر کا نام بیت بشارت رکھا.9 اکتوبر 1980ء کے پادری پین کی مسلم عرب درس گاہوں سے آکر علوم حاصل کرتے رہے اور وہیں سے یورپ میں روزا برا تیمی دعاؤں کے ساتھ آپ نے بیت بشارت ( پید رو آباد ) قرطبہ کا اپنے دست مبارک علم و ترقی کی شمعیں روشن ہوئیں.اس کے بعد جب مسلمانوں پر عارضی کمزوری کا زمانہ آیا تو سے سنگ بنیاد رکھا اور 10 اکتوبر 1980ء کو جمعہ کی نماز ادا کی.ایک صحافی نے پوچھا.کیا یہ سپین پھر عیسائیت کی آغوش میں جا گرا.اسلام کا سپین سے نام و نشان مٹ گیا مسجد میں ویران درست ہے کہ سات سو سال بعد سپین میں یہ پہلی ( بیت الذکر ) بنائی جارہی ہے؟ آپ نے فرمایا: ہو گئیں.یہ بات درست ہے اور اگر کوئی اور ( بیت الذکر ) اس دوران بنی ہو تو آپ بتا ئیں.“ جب ( دین حق ) کی نشاۃ ثانیہ کا زمانہ آیا اور اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے ذریعے سپین میں ( دین حق ) کا احیاء نو ہو تو 1970ء میں حضرت خلیفہ دو دوره مغرب 1400ھ صفحہ 545) بیت الذکر کی تعمیر تو آپ کی زندگی میں ہی مکمل ہوگئی اور 10 ستمبر 1982ء کو افتتاح کا المسیح الثالث ایک روحانی فاتح بن کر سپین میں داخل ہوئے جیسا کہ امام بشیر احمد خان رفیق پروگرام بن گیا.آپ مئی 1982ء میں اپنا اور اپنے قافلے کا ویز الگوانے اسلام آباد تشریف لے صاحب روایت کرتے ہیں ، 25 مئی 1970 ء کو آپ لندن سے میڈرڈ (سپین) کا بذریعہ ہوائی گئے.وہاں 26 مئی کو آپ پر دل کے عارضہ کا حملہ ہو اور آپ سخت بیمار ہو گئے اور روبصحت نہ جہاز سفر کر رہے تھے.میڈرڈ کا ہوائی اڈا نظروں کے سامنے آیا تو حضور نے پیچھے مڑ کر فر مایا مجھے تو ہو سکے.طارق کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز میں سنائی دے رہی ہیں.کیا تم کو بھی سنائی دے رہی ہیں.اللہ تعلی کی اپنی مخفی حکمتیں ہیں آپ کا 9جون 1982ء کو اسلام آباد میں وصال ہوگیا اور (الفضل 5 مئی 1971ء) حضرت مرزا طاہر احمد خلیفتہ امسیح الرابع کے ہاتھوں آپ کے ہی طے شدہ پروگرام کے مطابق اس سارے دورے کے دوران آپ پر اضطراب کی کیفیت طاری رہی.آپ پورے 10 ستمبر 1982ء کو بیت بشارت سپین کا باقاعدہ افتتاح ہوا.

Page 21

39 38 چودھویں صدی ہجری کے آخر پر بیت بشارت پیدور آباد ( قرطبہ ) کی تعمیر حضرت خلیفہ بچیاں اپنے امتحان کے نتائج سے آپ کو آگاہ کریں.پوزیشن لینے والوں کے لئے تمغہ جات دینے کا سلسلہ شروع ہوا.آپ نے محنت، دعا اور اچھی غذا اور سویا بین اور سویا لیسی تھین کی طرف جماعت کے طلباء کو وقتاً فوقتاً توجہ دلائی.تعلیمی منصوبہ کے ضمیمہ کے طور پر آپ نے طلباء اور پروفیشنلز ،ڈاکٹر انجینئر زاور آرکیٹیکٹس لمسیح الثالث کا ایک بہت بڑا کارنامہ ہے.تعلیمی ترقی کا عظیم منصو به آپ کا یہ نظریہ تھا کہ بچوں کو جتنی زیادہ تعلیم دی جائے گی وہ اتنا ہی زیادہ قرآن کو سمجھیں وغیرہ کی تنظیمیں بھی قائم فرمائیں تا کہ اپنے اپنے فن میں احمدی امتیاز پیدا کریں اور جماعتی گے اس لئے آپ نے احمدی بچے کا کم از کم معیار تعلیم میٹرک اور دور دراز دیہاتی بچی کے لئے خدمات کی بھی توفیق پائیں.تعلیم کا کم از کم معیار بدل قرار دیا اور فرمایا کہ اس میں درجہ بدرجہ کئی مراحل آئیں گے.آپ دینی ستاره احمدیت اور دنیوی علم کی تفریق کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ ہر دنیوی علم جب تک نہ بگڑے وہ دینی علم ہے پہلے زمانہ میں مسلمانوں نے دنیوی علوم کو دینی علوم کے طور پر ہی حاصل کیا اور ان میں کمال حاصل کر کے دنیا کو بے انتہاء فیض پہنچایا.جلسہ سالانہ 1981ء کے موقع پر آپ نے جماعت کو ستارہ احمدیت کا تحفہ دیا.فرمایا جس طرح اس کا ئنات کی بنیاد لا اله الا اللہ ہے اسی طرح جماعت احمدیہ کا دل لا اله الا الله جب احمدی سائنس دان ڈاکٹر عبدالسلام نے جب 1979ء میں نوبیل انعام حاصل کیا تو ہے اس لئے ستارے کے دل (وسط) میں لا الہ الا اللہ لکھا گیا ہے چونکہ چودہ صدیاں گزر آپ نے تعلیمی منصوبہ بندی کا اعلان کیا اور اسے صد سالہ احمد یہ جوبلی منصوبہ کا ایک اہم حصہ قرار گئیں اس واسطے میں نے مناسب سمجھا کہ چودہ کونوں والا ستارہ احمدیت جماعت کو پیش دیا آپ نے یہ ہدایت فرمائی کہ ہر بچے کو اس کی ذہنی استعداد کے مطابق اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم کروں...سنت نبوی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا کوئی عظیم نشان دیکھا جائے تو اللہ اکبر کا نعرہ دلوائیں.فرمایا: جماعت کا کوئی ذہین بچہ چاہے وہ ماسکو میں ہو یا نیو یارک میں یا پاکستان کے اندر لگایا جائے اس واسطے ان چودہ کونوں میں اللہ اکبر لکھوا دیا ہے.یا باہر ، اس کا ذہن ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا.ہم ہر سال جماعت احمدیہ کی طرف سے سوا لاکھ روپے کے وظیفے ذہین طلباء کو دیں گے.یہ انعام نہیں یہ ان طالب علموں کا حق ہے.آپ نے ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو اس کمیٹی کا صدر مقرر کیا.پندرھویں صدی کا ماٹو (الفضل 29 دسمبر 1981ء) آپ کے دورِ خلافت میں چودھویں صدی ہجری کا اختتام ہوا.پندرہویں صدی کے آغاز....آپ کا نظر یہ تھا کہ ہم ( دین حق ) کو اس وقت تک نہیں پھیلا سکتے جب تک دشمنان ( دین حق کو تعلیم کے میدان میں شکست نہ دے دیں.آپ نے فرمایا: میرے دل میں یہ خواہش پیدا میں آپ نے فرمایا: پچھلی صدی میں میں نے تمہیں.دو ماٹو دیے تھے (۱) حمد اور (۲) عزم.ہوئی ہے کہ اگلے دس سال کے بعد آنے والے سو سال میں جس صدی کو میں غلبہ ( دین حق ) کی قیامت تک وہ قائم رہیں گے.لیکن اس صدی میں جو اور ذمہ داریاں ہیں ان کے مدنظر صدی کہتا ہوں ہمیں ایک ہزار سائنس دان اور محقق چاہئیں.آپ نے فرمایا تمام احمدی بچے اور میں کچھ اور اصولی ماٹو ز آپ کو دیتا ہوں.(۳) محبت و پیار..چوتھا مائو (۴) خدمت...اگر

Page 22

41 40 شخص دوسرے کی خدمت کے لئے تیار ہو جائے تو آج دنیا سےفسادمٹ سکتا ہے.حضرت سیدہ منصورہ بیگم کا وصال افتتاحی خطاب جلسه سالانہ 26 دسمبر 1980ء) انسان کا اس نے ہاتھ پکڑا اور اعلان کیا کہ اس ذرہ ناچیز سے میں دنیا میں انقلاب بپا کروں گا اور کر دیا.( تقریر جلسہ سالانہ ربوہ 27 دسمبر 1981ء) حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ سے نکاح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق آپ نے 11 اپریل 1982ء کو حضرت آپ کی خلافت کے سترھویں سال یہ سانحہ پیش آیا کہ آپ کی رفیقہ حیات حضرت سیدہ سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ بنت خان عبدالمجید خان صاحب کے ساتھ نکاح کیا اور خطبہ نکاح میں منصورہ بیگم صاحبہ کا مختصر علالت کے بعد 3 دسمبر 1981 ءکور بوہ میں انتقال ہو گیا.4دسمبر 1981ء کو عصر کے وقت ہزاروں عشاق خلافت کے ساتھ آپ نے ان کی فرمایا.ہمارے خاندان کی تاریخ میں یہ تیسر ا نکاح ہو رہا ہے کہ جو خود اس رشتہ کا دولہا بننے والا ہے وہ آپ ہی خطبہ نکاح پڑھنے والا ہے.فرمایا.میری دو حیثیتیں ہیں ایک مرزا ناصر احمد کی حیثیت نماز جنازہ پڑھائی اور قطعہ خاص میں حضرت مصلح موعود کے پہلو میں ایک قبر چھوڑ کر انہیں سپردخاک کیا گیا.1981 ء کا جلسہ سالانہ 1981ء کا جلسہ سالانہ آپ کا آخری جلسہ سالانہ ثابت ہوا.صد سالہ احمد یہ جوبلی منصہ کے تحت بڑی تیزی سے کام ہوئے فرمایا: ”اب ہم پندرہویں صدی ہجری ) میں خدا تعالیٰ کے بڑے عظیم الشان نشانوں کو دیکھنے کے لئے داخل ہو چکے ہیں...745 سال بعد سپین کی ( بیت الذکر) مکمل ہوگئی.پھر ہم پھیلیے مشرق کی طرف ، ابھی ادھر نہیں گئے.جاپان میں اللہ تعالیٰ نے ایک گھر کی خرید کا سامان پیدا کر دیا...پھر بڑی وسعت پیدا ہو رہی ہے.کینیڈا اور امریکہ میں....بڑی وسعت پیدا ہو رہی ہے افریقہ کے بہت سے حصوں میں....میں تو حیران ہوں، حیرت میں گم ہوں اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی عظمت میرے اس زمانہ میں اس بات سے ثابت ہوئی کہ میرے جیسے عاجز ہے مرزا ناصر احمد ہی اگر ہوتا تو دنیا میں کسی نئی شادی کی ضرورت نہیں تھی لیکن دوسری حیثیت ہے جماعت احمدیہ کے خلیفہ ہونے کی جس پر جماعت احمدیہ کے مردوں اور جماعت احمدیہ کی عورتوں کی تربیت کی ذمہ داری ڈالی گئی ہے.چنانچہ اس احساس کی آگ جہاں میرے اندر سلگتی رہی اور بڑی مشکل تھی میرے لئے.وہاں امریکہ سے لے کر دنیا کے دوسرے کنارے تک جماعت احمدیہ میں یہ احساس پیدا ہوا کہ دوسری شادی کرنی چاہیے مردوں نے بھی خط لکھے اور عورتوں کی طرف سے بھی مطالبہ آیا کہ خلیفہ وقت کی بیوی ، خلافت اور جماعت احمدیہ کی مستورات کے درمیان ایک قسم کاCushion ( رابطہ) ہوتی ہے.آپ نے خود بھی چالیس دن دعائیں کیں اور جماعت کے بعض بزرگوں سے بھی دعا ئیں کروائیں اور کئی مبشر خوابوں کے بعد عبدالمجید خان صاحب کو ان کی بیٹی طاہرہ صدیقہ کے لئے پیغام لکھ کر بھیجا.سیدہ طاہرہ صدیقہ صاحبہ کی والدہ کو پہلے سے خواب آچکی تھی کہ ان کی بیٹی طاہرہ کے لئے ایک بہت اونچا رشتہ آیا ہے.حضرت سیدہ طاہرہ صدیقہ نے پورے انشراح صدر سے یہ رشتہ قبول کیا.آپ نے فرمایا کہ تفاوت عمر کے با وجود انہوں نے بڑی ہمت اور عزم اور اخلاص اور خدا اور اس کے دین کے لئے محبت کی خاطر یہ رشتہ قبول کیا ہے.

Page 23

43 42 نئی نسلوں کی ذمہ داری آپ نے فرمایا: ”ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو چاہیے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور جماعت احمدیہ کی ترقی کی رفتار میں جو تیزی اور شدت پیدا ہو چکی ہے اور جماعت ہر سال پہلے سے زیادہ تعداد میں بڑھتی چلی جاتی ہے یہ ہر سال ہی پہلے سے زیادہ بڑھتی چلی جائے اور ہماری کسی نسل کی کمزوری کے نتیجہ میں اس میں کمزوری پیدانہ ہو.....دعا کریں کہ اے خدا جس غرض کے لئے تو نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مبعوث فرمایا ہے وہ غرض ہماری زندگیوں میں پوری ہو اور آپ کی بعثت کی غرض کو پورا کرنے کے لئے اب نئی نسلوں کے کندھوں پر بوجھ پڑنے ہیں.ہم اُن نئی نسلوں میں شامل ہیں.ہمارے بعد اور نئی نسلیں آئیں گی.میں بخیل نہیں ہوں.میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے جتنی تمہیں خدمت کی توفیق ملے.میں یہ کہتا ہوں کہ تمہیں مجھ سے بڑھ کر تو فیق ملے خدا تعالیٰ کی راہ میں قربانیاں دینے کی اور مجھ سے زیادہ تم اس کے فضلوں کے وارث بنو “ آپ نے جتنی تحریکات فرما ئیں ان کا مقصد یہی تھا کہ ہر شخص کی جسمانی، ذہنی، اخلاقی اور روحانی استعدادوں کی بکمال نشو ونما ہو اور وہ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے فی الواقع مفید اور کارآمد وجود بن سکے.چنانچہ آپ کی بعض متفرق تحریکات یہ ہیں: جماعت کے افراد کو قوی اور امین بنانے کی تحریک مجلس صحت کا قیام.خدام اور لجنہ کو الگ الگ کھیلوں کا کلب بنانے کی تحریک.سائیکل سواری اور سائیکل سفر.گھوڑے پالنے کی تحریک.چہروں پر بشاشت اور مسکراہٹ پیدا کرنے کی تحریک.(دینی) آداب و اخلاق کی ترویج کی تحریک تحریک وقف زندگی.مالی تحریکات.علمی میدان میں آگے بڑھنے کی تحریک.بیماری اور وفات سین کی بیت الذکر مکمل ہو چکی تھی.اور اس کے افتتاح کے لئے 10 ستمبر 1982ء کا دن مقرر ہو چکا تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث 23 مئی 1982 ء کور بوہ سے اسلام آباد تشریف لے گئے تا کہ ویزے لگوائیں لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا.آپ کا قیام بیت الفضل سیکٹر 8/2-F اسلام آباد میں تھا.وہیں نمازیں ہوتی تھیں.26 مئی بروز بدھ عشاء کی نماز کے دوران آپ کی طبیعت اچانک خراب ہو گئی.بقیہ نماز آپ نے بیٹھ کر پڑھائی.دراصل یہ دل کا افتتاحی خطاب جلسہ سالانہ ربوہ 26 دسمبر 1978ء) ابتدائی حملہ تھا.3 جون کو انگلستان کے مشہور ماہر امراض دل ڈاکٹر سٹیون جینکنز Dr.Steven) (Jankins کو بلوایا گیا.انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ 31 مئی کو دل کا شدید دورہ ہوا حضرت خلیفة المسیح الثالث کی متفرق تحریکات اس مختصر سی کتاب میں آپ کی سوانح اور تحریکات کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا صرف چند متفرق ہے.جس کے بعد بیماری انتہائی تشویش ناک صورت اختیار کر گئی اور چند ہی دنوں میں وہ واقعہ رونما ہو گیا جس کے قبول کرنے کے لئے ایک کروڑ سے زائد افراد جماعت احمد یہ عالمگیر جو آپ تحریکات کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے.آپ نے ایک خطبہ جمعہ میں فرمایا: قرآن کریم پر غور کرنے سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اصولی طور پر ہمیں چار قسم کی قوتیں کے بے حد چاہنے والے تھے اور جن کے دلوں اور دماغوں پر آپ سترہ اٹھارہ سالوں سے حکومت اور صلاحیتیں عطا ہوئی ہیں.(۱) جسمانی.(۲) ذہنی.(۳) اخلاقی اور (۴) روحانی.کر رہے تھے بالکل تیار نہ تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی تقدیر غالب آئی.چودھویں صدی سے پندرھویں

Page 24

45 44 میں نے اپنے خدا کی آواز کو بارہا سنا ہے اور اس نے مشکل وقتوں میں خود میری راہنمائی فرمائی ہے.“ (الفضل 28 راگست 1978ء) قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق اور محبت میں آپ ہر وقت سرشار رہتے صدی میں نہایت شاندار طریقے سے جماعت کو داخل کر کے اور شاہراہ غلبہ ( دین حق ) پر اللہ کے نتیجہ میں تھا.آپ حضرت مسیح موعود کے الہام عشق الہی وستے منہ پرولیاں ایہہ تیز قدموں پر ڈال کر اور ( دین حق) کے روشن مستقبل کا دلوں میں یقین محکم پیدا کر کے نشانی“ کے مصداق تھے.آپ اکثر کشوف و رؤیا اور الہام الہی سے مشرف ہوتے رہتے لیکن آپ 8 اور 9 جون 1982ء ( مطابق 16,15 شعبان 1402ھ ) منگل اور بدھ کی درمیانی شب اظہار بہت کم کرتے ، ایک بار فرمایا: پونے ایک بجے اپنے رفیق اعلیٰ مولا کریم کے حضور حاضر ہو گئے.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ 9 جون 1982 علی الصبح آپ کا جسم اطہر تابوت میں رکھ کر دعا اور صدقے کے بعد قافلہ ربوہ کی طرف روانہ ہوا جہاں دور دور سے آپ کے عشاق پہنچ کر آپ کے آخری دیدار سے فیض یاب ہوئے.معاندین نے فتنہ و فساد کے منصوبے بنائے لیکن اللہ تعالیٰ نے جماعت کی خود حفاظت فرمائی اور اپنے وعدوں کے مطابق خلافت کے نظام کو جاری رکھا.10 جون 1982ء کو تھے بنی نوع انسان کی ہمدردی اور خیر خواہی سے آپ کا دل سمندر کی طرح ٹھاٹھیں مارتا تھا.حضرت مصلح موعود کی قائم کردہ انتخاب خلافت کمیٹی کا صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب وکیل صبر وتحمل اور بردباری آپ کے اوصاف حمیدہ تھے.معاندین کی ایذا رسانیوں پر ہمیشہ مسکرادیا اعلیٰ کی صدارت میں اجلاس ہوا اور حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفتہ امسیح الرابع کرتے اور گالیاں سن کر دعا دو.پاکے دکھ آرام دو کی تعلیم پر عمل کرتے.دنیا کی کوئی منتخب ہوئے جنہوں نے دستور کے مطابق بیعت لینے کے بعد اپنے پیشر وخلیفہ نافله موعود حضرت طاقت اور کسی جابر و ظالم کا رعب آپ کے چہرے کی بشاشت اور مسکراہٹ نہ چھین سکا.آپ کا حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفتہ اسیح الثالث کی نماز جنازہ پڑھائی.نماز جنازہ میں ایک لاکھ دیا ہوا مائو Love for All Hatred for None قیامت تک زندہ رہے گا.افراد جماعت نے شرکت کی.آپ کو حضرت مصلح موعود کے پہلو میں سپردخاک کیا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ لصلوۃ والسلام کی پیشگوئیوں کے مطابق ( دین حق ) کے روشن مستقبل آپ کے زمانے میں بہت ترقیات ہوئیں.425 نئی بیوت الذکر تعمیر ہوئیں.قرآن کریم اور دائمی اور عالمگیر غلبہ پر آپ کو ایسا یقین تھا جیسے مستقبل کو آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہوں.کے کئی تراجم شائع ہوئے، دنیا بھر میں وسعتیں نصیب ہوئیں، جماعت ایک کروڑ افراد سے آپ فرمایا کرتے تھے کہ میں ( دین حق) کے ساری دنیا پر غالب آنے کے بارہ میں پر امید ہی نہیں پر یقین ہوں.اس لئے بھی کہ حالات اور زمانہ کی حرکت ہمارے حق میں ہے.“ تجاوز کر گئی.پاک سیرت دوره مغرب 1400 ھ صفحہ 288) آپ ابتلاؤں میں ثابت قدم رہنے والے اور کامیابیوں میں مزاج کے منکسر اور طبیعت حضرت خلیفہ المسیح الثالث کی سیرت کے کئی روشن پہلو ہیں لیکن سب سے روشن پہلو آپ کے غریب تھے فرماتے تھے "I am humblest of the humble" (ترجمہ: میں سب کی مقناطیسی شخصیت اور مسکراتا ہوا نورانی چہرہ تھا جو تعلق باللہ اور عشق الہی اور زبر دست تو کل علی سے زیادہ عاجز اور خاکسار ہوں) آپ نے افراط و تفریط کی دو پہاڑیوں کے درمیان (دین

Page 25

حق کے خوبصورت میدان میں قابل رشک زندگی بسر کی.آپ ہر آن دعاؤں میں لگے رہنے والے وجود تھے.آپ کو قبولیت دعا کا نشان عطا کیا گیا اور دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک لاکھوں کروڑوں لوگوں نے آپ کی دعاؤں کا اعجاز دیکھا.آپ کی پاک روح پر اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں اور سلام ہو ہر چپ سلسلہ تھا اس کا خدا سے ملا ہوا ہو کہ لب کشا ہو بلا کا خطیب تھا دیکھا ہے اس کو خلوت و جلوت میں بارہا وہ آدمی بہت عجیب و غریب تھا لکھو تمام عمر مگر پھر بھی تم علیم اُس کو دیکھا نہ پاؤ وہ تھا (عبید اللہ علیم ) Ün>>>>>Vek نام کتاب..حضرت خلیفة المسیح الثالث اشاعت طبع اوّل فجزاهم الله احسن الجزاء

Page 25