Language: UR
احمد اکیڈمی ربوہ کی طرف سے شائع کردہ اس کتابچہ میں نہایت اختصار کے ساتھ خلافت احمدیہ کے مظہر رابع حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی سیرت و سوانح پیش کی گئی ہے جس میں آپ کے منصب خلافت پر فائز ہونے سے قبل کے حالات مرکزی طور پر درج ہیں اس دور کو بھی تین ادوار میں بانٹ کر پیش کیا گیا ہے۔ (الف) بچپن اور تعلیم و تربیت۔ (ب) خلافت ثانیہ میں دینی خدمات ۔ (ج) خلافت ثالثہ میں دینی خدمات نیز کلام طاہر میں سے نہایت وجد آفرین اور پر معارف نعتیہ کلام فرمودہ قبل از منصب خلافت کی بھی جھلکیاں درج کی گئی ہیں۔
لي الله تعالى
الة حضرت خلیفہ مسیح الرابع ريدة الله تعالى مولانا دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت احمد اكيد مو
1 بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستان میں (در شین)
ہوا میں تیرے فضلوں کا منادی فَسُبْحَانَ الَّذِي أَخْرَى الْأَعَادِي درشين)
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ حيم : الحمده ولك وَنَصَلَّى عَلَى رَسُولِهِ الكريم وَعَلَى الِهِ وَ أَصْحَابِهِ اجمعين مختصر سوانح قبلا برفت نهایت پیارا نام عربی زبان میں طاہر کے معنی پاک و صاف ستھرا ، منزه، بے عیب، عفیف اور مقدس کے ہوتے ہیں (المعجم الاعظم لسان العرب) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ نام اس درجہ پیارا تھا کہ حضورعلیہ الصلوة والسلام نے اپنے تیسرے بیٹے کا نام ظاہر رکھا ( ابن ہشام) حضرت مولانا عبید اللہ صاحب سمل نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ارجع المطالب في مناقب علی ابن ابی طالب کے مٹھ پر اپنی یہ حقیقی درج کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ چہارم ، شیر خدا حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ کا ایک نام الطاھر بھی ہے.حضرت ابن اثیر نے اُسد الغابہ میں ایک بزرگ صحابی طاہر بن ابی ہالہ کا ذکر فرمایا ہے
جو ام المؤمنین حضرت خدیجہ" کے خاندان میں سے تھے اور جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کے ایک علاقے کا گورنر بھی مقرر فرمایا تھا.علاوہ ازیں اسلامی لٹریچر سے ثابت ہے کہ گزشتہ چودہ صدیوں میں مدینہ ، حضرموت ، یمن ، مصر ، حمص، ٹیونس ، بغداد، الجزائر، خراسان قزوین ، طبرستان ، بخارا ، ہمعان ، سندھ اور دکن میں اس نام کی بہت سی نامور شخصیتیں گزری ہیں.یہ مشاہیر آمت مفتر، محدث ، فقیہ ، صوفی، مؤرخ ، قاری پنجوی، ادیب، حساب دان، طبیب ، سپہ سالار اور بادشاہ غرض کہ ہر طبقہ سے تعلق رکھتے تھے عجم المولفین از عمر رضا کحاله " المنجد في اللغه والاعلام " "دائرہ معارت اسلامیہ شائع کردہ پنجاب یونیورسٹی لاہور " قاموس المشاہیر از نظامی بدایونی فقہائے سند از محمد اسحق بھٹی ) حال ہی میں مزید تحقیق سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ مہدی موعود کے ایک فرنہ ند کا نام طاہر ہو گا.اس پیشگوئی کا ذکر مشہور شید محقق علامہ الحاج مرزا حسین طبرسی نوری (واللہ نے اپنی کتاب النجم الثاقب کے صفحہ ۴۱۲ پر کیا ہے :
حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کی ولادت آپ کے نہال اور ۱۹۲۸ء کی اہمیت 72 دین حق کی نشاۃ ثانیہ کے موجودہ دور میں یہ پیارا نام ایک ایسے خد انما وجود سے وابستہ ہوا ہے جو آسمان روحانیت کے برج چهارم پر ہمیشہ مہتاب بن کر چمکتا رہے گا.میری مراد جماعت احمدیہ کے موجودہ امام تمام سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالے بنصرہ العزیز سے ہے جو موعود آخر الزمان حضرت اقدس کے پوتے اور حضرت مصلح موعود کے لخت جگر اور آپ ہی کی خوبو اور آسمانی صفات و برکات کا ظل و عکس ہیں.آپ حضرت مصلح موعود کے حرم ثالث حضرت سیده ایم طاہر مریم بیگم صاحبہ کے بطن مبارک سے ۱۸ار دسمبر ۶۱۹۲۸ بمطابق در رجب ۱۳۴۷ھ کو پیدا ہوئے.(الفضل ۲۱ دسمبر ۱۹۲۸ء ص ) آپ کے نانا حضرت ڈاکٹر سید عبد الستار شاہ صاحب کلر سیداں تحصیل کہوٹہ ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور خاندان سادات کے چشم و چراغ تھے جن کا شجرہ نسب متعدد واسطوں کے ساتھ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفے احمد مجتبے صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ رابع حضرت علی المرتضی اسداللہ حث الغالب تک پہنچتا ہے.آپ کے پڑنا ناستید گل حسن شاہ حصنا صوفی منش
اور تارک الدنیا بزرگ تھے.آپ کو پیر کی مرید ہی سے نفرت تھی اسی لئے آپ اپنے اقربا کو دنیا داری میں منہمک دیکھ کر کلرسیداں سے موضع سہالہ چوہدراں میں (جہاں آجکل اسٹیشن ہے ) گوشہ نشین ہو گئے.اس کے قریب ہی ناڑاں سیداں میں ان کے مالکانہ حقوق تھے اور طبابت بھی کرتے تھے.حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحب نے اپنی خود نوشت سوانخ میں (جو شعبہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہے تحریر فرمایا ہے کہ سلطنت مغلیہ کے ایام میں کلر سیداں ایک مشہور قلعہ تھا جس کے تحت سترہ چھوٹے بڑے قلعے مضافات میں تھے.ایک وسیع علاقہ تھا جس کا انتظام سادات کے سپرد تھا.پانی پت کی تیسری لڑائی میں سادات کلر کی فوج اور کہوٹہ کے گکھڑوں کی فوج نے مرہٹوں کی فوج کے دانت کھٹے کر دیئے تھے.سکھوں کی عمل داری میں رنجیت سنگھ نے سادات کلر کے ساتھ عہد موالات قائم کیا ہوا تھا اور انہوں نے چیلیانوالی کی مشہور لڑائی میں انگریزوں کے خلاف سکھوں کی مدد کی تھی جس میں سکھوں اور ان کے مددگاروں کو شکست ہوئی.انگریزوں نے کلر کا قلعہ تو وہ خاک بنا دیا اور تمام
دو مملوکہ دیہات سے سادات محروم کر دیئے گئے بجز قصبہ کلر اور چند مواضع کی اراضی کے جس میں موضع ناڑہ سیداں بھی تھا جہاں حضرت سید گل حسن شاہ کے مالکانہ حقوق تائم رہے یہ قلمی ستوده حل حضرت گل حسن شاہ کے فرزند اور ہمارے امام تمام ایدہ اللہ تعالیٰ کے نانا حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحب عابد و زاہد اور تجاب الدعوات بزرگ اور صوفی مرتاض تھے.آپ ۱۹۰۱ ء میں حضرت اقدس کے دستِ مبارک پر بیعت سے مشرف ہوئے.آپ کی روایت ہے کہ ایک دن (حضرت اقدس )....باغ میں ایک چار پائی پر تشریف رکھتے تھے اور دوسری دو چار پائیوں پر مفتی محمد صادق صاحب اور شیخ رحمت اللہ مرحوم وغیرہ بیٹھے ہوئے تھے اور ایک بوری نیچے پڑی ہوئی تھی اس پر کیں دو چار آدمیوں سمیت بیٹھا ہوا تھا.میرے پاس مولوی عبد الستار خاں صاحب بزرگ بھی تھے.حضرت صاحب کھڑے تقریر فرمارہے تھے کہ اچانک حضور کی نظر مجھے پر پڑی تو فرمایا ڈاکٹر صاحب آپ میرے پاس چار پائی پر آکر بیٹھے جائیں.مجھے شرم محسوس ہوئی کہ میں حضور کے ساتھ برابر ہوکر
بیٹھوں حضور نے دوبارہ فرمایا کہ شاہ صاحب آپ میرے پاس چارپائی پر آجائیں.میں نے عرض کیا کہ حضور یکیں ہیں اچھا ہوں.تیسری بار حضور نے خاص طور پر فرمایا کہ آپ میری چارپائی پر آکر بیٹھ جائیں کیونکہ آپ سید ہیں اور آپ کا احترام ہم کو منظور ہے.(سیرت المہدی حصہ سوم صفحه ۲۷۴، ۲۷۵ مؤلفہ حضرت مرزه البشیر احمد صاحب ) حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے اپریل ۶۱۹۲۷ میں اپنی اولاد کے لئے ایک مفصل و حقیت تحریر فرمائی جس میں خاص طور پر یہ ہدایت دی کہ : " اپنی قوم سادات کی اصلاح اور بہبودی کے لئے بھی خاص کمر درد دل سے تم دعائیں مانگو اور ان کو خوب تبلیغ کرو ( وصیت صفحه ۲۴) حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب نے ۲۳ جون ۶۱۹۳۷ کو بعمر ہ ، سال انتقال کیا اور بہشتی مقبرہ قادیان میں مدفون ہوئے.حضرت صاجزادہ مرزا طاہر احمد صاحب کی ولادت با سعادت جیسا کہ اوپر ذکر آچکا ہے ۱۸- دسمبر ۱۹۲۸ء کو قریباً ۱۲ بجے دن کے ہوئی.
۱۹۲۸ء کا سال سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں بہت ہی مبارک سال ہے کیونکہ اس سال حضرت مصلح موعود نے سائمن کمیشن کی آمد پر سلمانان ہند کی رہنمائی فرمائی.گھروں میں درس جاری کرنے کی تحریک کی.جامعہ احمدیہ کے نام سے ایک عظیم الشان ادارہ قائم فرمایا.سیرت النبی کے بابرکت جلسوں کی بنیا د رکھی.ایک ماہ تک مسجد اقصی میں سورۃ یونس سے سورۃ کہف تک کا ایمان افروز درس دیا جس میں مرکز احمدیت کے علاوہ بیرونی احباب بھی بکثرت شامل ہوئے جن کی اکثریت گریجوایٹ وکلاء ، کالجوں کے طلباء اور حکومت کے معرہ عہدیداروں اور روس پر مشتمل تھی درس القرآن کی مصروفیات کے بعد حضور نے الفضل کے ذریعہ ضرور پورٹ پر اپنی رائے کا اظہار فرمایا جو نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح کے عنوان سے ۲ اکتوبر ۱۹۲۸ء سے ۱۲ نومبر ۶۱۹۲۸ تک سات قسطوں میں مکمل ہوا.یہ مضمون مسلمانوں کے حقوق اور ہنرور پورٹ کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا اور مسلمانوں کے سیاسی حلقوں میں ازحد مقبول ہوا.حضور کی اس عظیم الشان قومی خدمت کا غلغلہ بلند ہو ہی رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کو حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد جیسا فرزند ارجمند عطا فرمایا اور ساتھ ہی جماعت احمدیہ پر خدا تعالیٰ کا یہ خاص فضل نازل ہوا کہ بٹالہ سے قادیان تک کے سفر کی تکالیف کا بھی خاتمہ
ہو گیا اور آپ کی ولادت کے اگلے روز یعنی ۱۹.دسمبر ۱۹۲۸ء کو قادیان میں ریل گاڑی بھی پہنچ گئی.قادیان ریلوے کے افتتاح کی تقریب پر قادیان کے بہت سے احمدیوں کے علاوہ خود حضرت مصلح موعود تین بجے بہت سے احمدیوں کے دو پر امرتسر تشریف لے گئے.الفضل ۲۵ دسمبر ۶۱۹۲۸ و تاریخ احمدیت جلد ۱ صفحه ۱۸ تا ۱۲۱) حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی سوانح قبل از خلافت کو تین ادوار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے :.۱.بچپن اور تعلیم و تربیت.- خلافت ثانیہ میں دینی خدمات.صور خلافت ثالثہ میں دینی خدمات - :
۱۳ پہلا دور بچنے اور تعلیم و تربیت آپ کی پیاری والدہ حضرت سیده مریم بیگم صاحبہ ایک نهایت پارسا اور بزرگ خاتون تھیں.خدا تعالیٰ اور اس کے پاک رسول محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور پاک کتاب قرآن مجید سے آپ کو ایک بے نظیر محبت تھی اور آپ کی دلی خواہش تھی کہ آپ کی اولا د خصوصا آپ کے اکلوتے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب بھی اسی رنگ میں رنگین ہوں اور اسلام اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کے مثالی عاشق بنیں اور اس مقصد کے لئے آپ نہایت التزام اور تفریح اور عاجزی سے دعائیں کرتیں اور اپنی سجدہ گاہ کو آنسوؤں سے تر کر دیتیں چنانچہ حضرت صاجزادہ مرزا طاہر احمد صاحب ایدہ اللہ تعالی تحریر فرماتے ہیں:.تھی....اپنی اولاد کے لئے ہر قسم کی دینی ترقیات کے لئے بھی بہت دعائیں کرتی تھیں اور خاص طور پر میرے لئے کیونکہ امتی کے یہ الفاظ مجھے کبھی نہ بھولیں گے اور وہ وقت بھی
۱۴ کبھی نہ بھولے گا کہ جب ایک دفعہ آتھی کی آنکھیں غم سے ڈبڈبائی ہوئی تھیں آنسو چھلکنے کو تیار تھے اور امی نے بھرائی ہوئی آواز میں مجھے کہا کہ طاری ایکس نے تو خدا تعالیٰ سے دعا مانگی تھی کہ اسے بعد مجھے ایک ایسا لڑکا دے جو نیک اور صالح ہو اور حافظ قرآن " ردو الفضل ۱۴ اپریل ۱۹۴۴ء ص ) حضرت امہ طاہر دعا کے ساتھ ساتھ تربیت اولاد کے اسلامی اصولوں کی نہایت سختی سے پابندی کرتی تھیں اور کوئی موقع تربیت کا ہاتھ سے نہ بجانے دیتی تھیں.آپ کا انداز تربیت کتنا پر جذب، موثر اور دلکش ہوتا ؟ اس کا اندازہ ہ حضرت صاحبزادہ صاحب کے بیان فرمودہ چند واقعات سے بخوبی ہو سکتا ہے.مط اول : " اکثر ایسا ہوتا تھا کہ جب کبھی بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا یا اللہ تعالیٰ کی رحمت کا کوئی واقعہ سامنے آتا تو امی کہ اٹھتیں دیکھو طاری ! اللہ اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتا ہے اور اس کی مثال میں مجھے بعض دفعہ حضرت موسیٰ اور گڈریے کا قصہ سُنائیں اور کچھ اس انداز سے اور اس پیار بھرے لہجہ سے خدا کا ذکر کرتیں کہ ہر ہر لفظ گویا محبت کی کہانی ہوتا
۱۵ اور پھر اسی طرح خدا کے پاک کلام قرآن پاک سے بے انتہا محبت تھی.سوائے اِس کے کہ بیمار ہوں روزانہ صبح نماز سے فراغت حاصل کر کے قرآن کریم پڑھتی تھیں اور مجھے بھی پڑھنے کے لئے کہتی تھیں.جب میں پڑھتا تھا تو ساتھ ساتھ میری غلطیاں درست کرتی جاتی تھیں اور مجھے نماز پڑھانے کا ایسا شوق تھا کہ بچپن سے ہی کبھی پیار سے اور کبھی ڈانٹ کر مجھے نماز کے لئے مسجد میں بھیج دیا کرتی تھیں او اگر یکی کبھی کچھ کوتاہی کرتا تو بڑے افسوس اور حیرت سے کہتیں کہ طاری تم میرے ایک ہی بیٹے ہو میں نے خدا سے تمہارے پیدا ہونے سے پہلے بھی یہی دعا کی تھی کہ اسے میرے ربت مجھے ایسا لڑکا دے جو نیک ہو اور میری خواہش ہے کہ تم نیک بنو اور قرآن شریف حفظ کرو.اب تم نمازوں میں تو نہ کو تا ہی کیا کرو مگر جب میں نماز پڑھ لیتا توئیں دیکھتا کہ امتی کا چہرہ وفور مسرت سے تمتما اٹھتا اور مجھے بھی تسکین ہوتی.پھر مجھے اکثر کہتیں طاری قرآن کریم کی بہت عزت کیا کرو دوم : " امی ابا جان کی رضا کو اس قدر ضروری خیال کرتی لے یعنی حضرت مصلح موعود :
14 تھیں کہ بعض دفعہ بالکل چھوٹی چھوٹی باتوں پر جن کی طرف ہمارا خیال بھی نہ تھا اُمتی نظر رکھتی تھیں.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نے مچھلی کے شکار کو جانا چاہا.سب تیاری مکمل کر لی.بس صرف ابا جان سے پوچھنے کی کسر باقی رہ گئی.میں نے اقتی سے کہا کہ مجھے ابا جان سے اجازت لے دیں کیونکہ اور لوگوں کی طرح ہم بھی اپنے ابا جان سے متعلق کام اُمّی کے ذریعہ ہی کہ ایا کرتے تھے.امی نے پوچھا مگر ابا جان نے جواب دیا کہ تم کل جمعہ میں وقت پر نہیں پہنچ سکو گے مگر میں نے وعد کیا کہ ہم ضرور وقت پر پہنچ جائیں گے جس پر ابا جان نے اس شرط پر اجازت دے دی.اُمّی نے اجازت تو لے دی مگر یا ہر آکر مجھے کہا کہ طاری یکی تمہار سے ابا جان کی طرف سے محسوس کرتی ہوں کہ تمہارے ابا جان نے اجازت دل سے نہیں دی میں نہیں چاہتی کہ تم اپنے ابا جان کی مرضی کے خلاف کوئی کام کر و تم میری خاطر آج شکار پر نہ جاؤ کسی اور ون پہلے جانا.اگر چہ سب سامان مکمل تھا مگر اتنی نے مجھے کچھ اس طرح سے کہا کہ نہیں انکار نہ کر سکا اور....اس ٹرپ کا ارادہ چھوڑ دیا (الفصل ۱۴ اپریل ۱۹۴۴۷ صفحه ۴)
12 سوم : " روز مرہ کی گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے اولاد کی طرف خاص توجہ دینے کی فرصت نہیں ملی مگر ہم سے توقعات ایسی بلند رکھی ہوئی تھیں کہ گویا ۲۴ گھنٹے ہمیں پر کھپاتی ہیں ہماری غلطیوں پر سخت ناراض ہوتی تھیں اور بعض اوقات بدنی سزا بھی دیتی تھیں.زیادہ تر یختہ بیچنے کی ضد پر آتا تھا اگر کوئی بچے اپنی ضد پر اڑ تو بیٹھ جائے تو اس وقت تک نہیں چھوڑتی تھیں جب تک اس کی چند نہ توڑ لیں.نصائح عام طور پر اس رنگ میں کرتی تھیں کہ دل میں اتر جاتی تھیں.اگر کسی امر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حوالہ دینا ہو تو وہ ضرور دیتی تھیں.مثلاً ایک دفعہ بہشتی مقبرہ سے دعا کر کے واپس آ رہے تھے راستے میں کوئی شخص گزرا جس نے نہ ہمیں سلام کیا نہ میں نے اُسے.اس پر مجھ سے بہت مایوس ہوئیں کہ تمہیں اتنا بھی سلیقہ نہیں کہ راستہ چلتوں کو سلام کرو.میں نے کہا اُس نے بھی تو نہیں کہا تھا تو کہنے لگیں تمہیں اس سے کیا غرض ؟ - آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم تو سب کو پہلے سلام کیا کرتے تھے.پھر نصیحت کی کہ دیکھو خواہ کوئی واقف ہویا نا واقف ہو اُسے پہلے سلام کیا کرو“ (تابعین اصحاب احمد جلد سوم
۱۸ سيرة اسم طاہر مؤلفہ صلاح الدین نے ملک ایم.اسے ۲۱۰۲ در اصل یہ آسمانی تربیت تھی جس کا ظاہری انتظام اللہ تعالیٰ نے اپنی مصلحت کا ملہ سے حضرت ام طاہر کے سپرد فرمایا تھا.یہی وجہ ہے کہ اسکے حیرت انگیز اثرات بچپن میں ہی بہت ہی نمایاں رنگ میں ظاہر ہونے لگے.چنانچہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب معالج خصوصی حضرت مصلح موعود نے ایک دفعہ بتایا کہ : ور صاحبزادہ میاں طاہر احمد صاحب کا ایک عجیب واقعہ میں تا زیست نہ بھولوں گا.۱۹۳۹ ء کی بات ہے جبکہ حضرت مصلح موعود ناقل) ایدہ اللہ تعالیٰ دھرم سالہ میں قیام پذیر تھے اور جناب عبد الرحیم صاحب نیر بطور پرائیویٹ سیکرٹری حضور کے ہمراہ تھے.ایک دن نیر صاحب نے اپنے خاص لب ولہجہ کے ساتھ کہا کہ میاں طاہر احمد آپ نے یہ بات نہایت اچھی کہی ہے جس سے میرا دل بہت خوش ہوا ہے میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کو کچھ انعام دوں.بتلائیں آپ کو کیا چیز پسند ہے تو اس بچہ نے جس کی عمر اس وقت ہے.اسال تھی برجستہ کہا " اللہ نیر صاحب حیران ہو کر خاموش ہو گئے.میں نے کہا نیر صاحب ! اگر طاقت ہے تو اب میاں
19 طاہر احمد کی پسندیدہ چیز دیجیئے مگر آپ کیا دیں گے اس چیز کے لینے کے لئے تو آپ خود ان کے والد کے قدموں میں بھیجتے ہیں " د تابعین اصحاب احمد جلد سوم ص ۲۶۲ حضرت صاحبزادہ صاحب نے عرفان الہی کی آسمانی درس گاہ میں تربیت حاصل کرنے کے علاوہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل میں ظاہری علوم کے حصول میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا چنانچہ آپ نے ۱۹۴۴ میں تعلیم الاسلام ہائی سکول قادیان سے میٹرک کیا.اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف.ایس سی تک تعلیم حاصل کی ، دسمبر ۱۹۴۹ء کو جامعہ احمد یہ ربوہ میں داخلہ لیا اور ۱۹۵۳ء میں امتیازی شان سے شاہد کی ڈگری حاصل کی پھر مزید تعلیم کے لئے حضرت مصلح موعود کی بابرکت معیت میں اپریل ۱۹۵۵ء میں یورپ تشریف لے گئے جہاں آپ نے لندن یونیورسٹی کے سکول آن اور نیشل اسٹڈیز میں تعلیم حاصل کی اور 7 اکتوبر ، 1990ء کو ربوہ میں ۶۱۹۵۷ مراجعت فرما ہوئے.آپ کے ہمراہ صاحبزادہ سید محمود احمد صاحب ناصر بھی تھے.یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ آپ نے میٹرک کا امتحان اپنی پیاری والدہ
حضرت سیدہ ام طاہر کی تشویشناک علالت کے دوران دینا شروع کیا.۶.مارچ کو ریاضی کا پرچہ تھا کہ در مارچ ۱۹۴۴ء کو ان کا حادثه انتقال پیش آگیا جو پوری جماعت کے لئے گویا قیامت خیز زلزلہ تھا جس نے مخلصین جماعت کی بنیا د ہستی کو ہلا کر رکھ دیا مگر حضرت صاحبزادہ صاحب نے اس موقع پر صبر، وقار اور رضائے باری تعالیٰ کا جو بے نظیر نمونہ دکھایا اُس نے آپ کے اساتذہ کو بھی حیران کر دیا.چنانچہ میں محمد ابراہیم صاحب استاد تعلیم الاسلام ہائی سکول حال مبلغ امریکہ نے الفضل ۲۱ اپریل ۱۹۴۴ء میں لکھا کہ :- جناب سید ولی اللہ شاہ صاحب، بشارت الرحمن صاحب، صاجزادہ طاہر احمد صاحب اور خاکسار طاہر احمد کے کمرہ میں بیٹھے تھے طاہر احمد ریاضی کی تیاری کر رہا تھا کہ کسی عورت نے باہر صحن میں آکر روتے ہوئے کہنا شروع کر دیا کہ آپا جان فوت ہوگئیں.وفات تو یقیناً ہو چکی تھی لیکن ہم طاہر احمد کو فوراً بغیر اس کے کہ وہ ذہنی طور پر اس خبر کو سننے کے لئے تیار ہو یہ اطلاع نہ دینا چاہتے تھے....اس اثنا میں نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا طاہر احمد نے وضو کیا اور مسجد میں نماز کے لئے چلا گیا.پھر وہاں سے گھبرایا ہوا آیا کیونکہ اس کی تلاش ہو رہی تھی.دیوار پھاند کر اپنی امی کے بالائی صحن میں اترا اور پوچھا کہ کیا
بات ہے بستید ولی اللہ شاہ صاحب کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے اور کہا کہ فوت ہو گئیں.طاہر خاموشی اور سکون کا مجتہ بن کر تخت پوشش پر بیٹھ گیا اور اس قدر صبر کا مظاہرہ کیا کہ مجھے خیال آیا ایسا نہو غم اندر ہی اندر ان کو زیادہ تکلیف دے اس لئے ہم نے یہ کوشش کی کہ طاہر تھوڑا بہت روئے.طاہر بھی اب بھر چکا تھا اور ایک حد تک آنسو بہا کر اپنی امی ہاں اُس اُمتی کو جس کو ایک جہان رو رہا تھا یاد کیا اور کہا کہ مجھے دو تین مرتبہ ایسی خوا ہیں آچکی ہیں جن سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ نبی امی فوت ہو جائیں گی.ابھی چند روز ہوئے مجھے خواب میں اتھی نے کہا کہ میں اس چراغ کی طرح ہوں جو مجھنے سے پہلے ڈگمگا رہا ہویا
۲۲ دوسرا دور خلافت ثاني في خدمات یورپ سے واپسی کے بعد آپ خاص طور پر دینی خدمات میں سرگریم عمل ہو گئے.۱۲ نومبر ۱۹۵۸ء کو حضرت مصلح موعود نے آپ کو وقف جدید کی عظیم الشان اصلاح و تربیتی تنظیم کا ناظم ارشاد مقر فرمایا بی تنظیم ابھی ابتدائی دور میں سے گزر رہی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کی رہنمائی اور دعاؤں کے طفیل آپ کی کوششوں میں ایسی برکت ڈالی کہ آپکی قیادت میں اس نے برق رفتاری سے ترقی کرنا شروع کر دی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے ملک میں معلمین کا جال بچھ گیا اور اس کے شاندا رہتا ہے نے ایک عالم کو خیرہ کر دیا.علاوہ ازیں بی تنظیم رفتہ رفتہ مالی اعتبار سے بھی نہایت تحکم بنیا دوں مالی بھی پر کھڑی ہو گئی اور جہاں حضرت مصلح موعود کے عہد مبارک کی آخری مشاورت میں اس کا بجٹ ایک لاکھ ستر ہزار روپے تھا وہاں قدرت ثانیہ کے مظہرِ ثالث نوراللہ مرقدہ نے ۱۹۸۲ء کی مجلس مشاورت میں (جو حضور کے
۴۳ با برکت دور کی آخری مجلس مشاورت تھی اس کا بجٹ دس لاکھ پندرہ ہزا روپینظور فرمایا.ناظم ارشاد کے فرائض کے دوران آپ نے نومبر ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۶ ء تک نائب صدر خدام الاحمدیہ کے اہم فرائض نہایت خوش اسلوبی سے سر انجام دیئے.جلسہ سالانہ ۱۹۶۰ء میں آپ نے پہلی بار خطاب فرمایا جس کا عنوان تھا " تحریک وقف جدید کی اہمیت " اس پر اثر خطاب کے بعد خلافت ثانیہ کے عہد میں جلسہ سالانہ کے موقع پر آپ کی حسب ذیل موضوع پر نہایت بصیرت افروزہ تقاریر ہوئیں.ارتقائے انسانیت اور سنتی باری تعالیٰ (۶۱۹۶۲ ) " کیا نجات کفارہ پر موقوت ہے." ۲۶۱۹۶۳) " مصلح موعود سے متعلق پیش گوئی " ۱۹۶۱ء میں حضرت مصلح موعود کی منظوری سے آپ کو مہر افت کمیٹی کے فرائض سونے گئے جو آپ نے اپنی خداداد ذہانت ، قوت اجتها داور غیر معمولی فہم و فراست کے ساتھ انجام دیئے اور کئی اہم مسائل کے حل کرنے میں کمیٹی کے ارکان کی رہنمائی فرمائی خصوصا اسلام اور رہو کے باب میں جس کی وضاحت کے لئے آپ نے مجلس افتاء کی درخواست پڑ رہو کا مفہوم آیات قرآنی اور احادیث نبوی کی روشنی میں“ کے زیر عنوان ایک فاضلانہ مقالہ بھی سپر ویستلم فرمایا جو اس موضوع سے متعلق حضرت مولانا ابو العطاء صاحب (مرحوم) اور
۲۴ ملک سیف الرحمن صاحب مفتی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے تحقیقی مقالوں کے ساتھ شائع کیا گیا.خلافت ثانیہ کے عہد میں آپ نے لسانی تبلیغی اور تربیتی مساعی کے علاوہ قلمی جہاد کا بھی آغاز کیا.اس سلسلہ میں آپ کی سہیلی محققانہ تصنیف "مذہب کے نام پر خون اسی عہد مبارک میں منظر عام پر آئی اور پاک و ہند کے مقتدر اور ادبی حلقوں نے اس کو شاہر کار قرار دیتے ہوئے زبر دست خراج تحسین ادا
تیسرا دور خلافت ثالثہ میں بنی خدمات خلافت ثالثہ کے عہد مبارک میں آپ کی دینی مصروفیات نقطۂ عروج تک ئیں اور آپ نے خدمت دین کے لئے ایک بے مثال اور ان تھک جد وجہد کرکے اور اپنے تئیں خلیفہ وقت کا دست و بازو بن کر دکھا دیا.اس دور میں آپ نے نومبر ۱۹۶۶ء سے لے کر نومبر ۱۹۶۹ ء تک صدر مجلس خدام الاحمدیہ کی حیثیت سے نوجوانان احمدیت کی ایسی شاندار قیادت فرمائی کہ حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفة المسیح الثالث نور اللہ مرقده نے اس پر خاص طور پر اظہار خوشنودی فرمایا.یکم جنوری ۱۹۷۰ء کو آپ کی وسیع مصروفیتوں میں ایک اور اضافہ ہوا یعنی آپ کے سپر و فضل عمر فاؤنڈیشن کے ڈائر یکٹر کے اہم فرائض بھی پر ڈائریکٹر سوچنے گئے.۱۹۷۴ء کا سال جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک نئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.اس سال ایک طرف جماعت احمدیہ پاکستان کو حق و
۲۶ صداقت کی خاطر جان، مال اور عزت کی قربانیوں کا نیا ریکارڈ قائم کرنیکی جناب الہی سے توفیق ملی دوسری طرف ہمارے پیار سے امام، قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث حضرت حافظ مرزا ناصر احمد رحمہ اللہ نے جولائی اور اگست کے مہینوں میں پاکستان اسمبلی میں جماعت احمدیہ کے موقف کی حقانیت کو ناقابل تردید دلائل و براہین کے ساتھ واضح و ثابت کرنے کا حق ادا کیا.اس موقع پر حضور نوراللہ مرقدہ کی مبارک قیادت میں جماعتِ احمدیہ کا جو نمائندہ وفد اس ایوان میں گیا اس کے ایک ممتاز ممبر آپ تھے.یکم جنوری ۱۹۷۹ء سے آپ صدر مجلس انصار اللہ کے عہدہ پر فائز ہوئے جس کے نتیجہ میں مجلس کے اندر زندگی کی ایک نئی روح پیدا ہوئی اور متعد د انقلابی اقدامات کئے گئے اور نہ صرف مجلس کو مالی استحکام نصیب ہوا بلکہ اصلاح و ارشاد کے کاموں میں بے پناہ وسعت پیدا ہوگئی.پورے ملک میں علمی مذاکرات کا سلسلہ جاری کیا گیا جس کو کامیاب بنانے کے لئے آپ بہت سے مقامات پر نفس نفیس تشریف لے گئے اور حق و صداقت کی ترجمانی کا فریضہ ایسے شاندار طریق پر انجام دیا کہ اپنے تو رہے ایک طرف بیگانے بھی عش عش کر اُٹھے.۱۹۸۰ء میں آپ احمدیہ آرکیٹیکٹس اینڈ انجنیر نہ ایسوسی ایشن کے سر پوست مقرر ہوئے.اس سال پہلی بار مسجد مبارک میں درس قرآن بھی دیا.نیز
۲۷ احمدی انجنیئر ز نے جلسہ سالانہ ۶۱۹۸۰ پر انگریزی اور انڈونیشین زبان کے تراجم کا جو کامیاب تجربہ کیا وہ آپ کی نگرانی اور راہنمائی کا رہین منت تھا.جلسه سالانه ۶۱۹۸۱ پر قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے احمد یہ بکڈپو کا افتتاح فرمایا.اس مقدس تقریب کا انتظام آپ ہی کے ہاتھوں ہوا.خلافت ثالثہ کے مبارک دور میں آپ کے فلم سے بہت معلومات افزا اور حق و معرفت سے لبریز لٹریچر شائع ہوا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے غیر معمولی مقبولیت بخشی.اس دور میں آپ کی جو تصانیف شائع ہوئیں ان کی فہرست درج ذیل ہے :- ا احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟ ۲.وصال این مریم - آیت خاتم النبیین کا مفہوم - پیش گوئی مصلح موعود ۲ ۵ - ورزش کے زینے ۶.مودودی اسلام جماعت احمدیہ اور اسرائیلی حکومت ۸.سوانح فضل عمر جلد اول مؤخر الذکر تصنیف فضل عمر فاؤنڈیشن نے دسمبر 1960 ء میں آفسٹ پر نهایت دیدہ زیب کتابت اور طباعت کے ساتھ شائع کی.یہ قابل قدر اور معرکہ آرا کتاب جو بڑے سائز کے ۳۵۸ صفحات پر مشتمل ہے آپ نے نہایت
۲۸ محنت اور عرق ریزی سے مرتب فرمائی اور سوانخ اور تاریخ کے دلکش ادبی امتزاج سے آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے حقائق اور معلومات کا ایک بیش بہا خزانہ اس میں محفوظ کر دیا.خلافت ثالثہ کے عہد مبارک میں آپ نے جلسہ سالانہ کے سٹیج پر دریج ذیل عناوین پر تقاریر فرمائیں :.ار حضرت نبی کریم کی قوت قدسیہ ۲ - احمدیت نے دنیا کو کیا دیا؟.اسلام اور سوشلزم حضرت مصلح موعود کی خدمت قرآن ه حقیقت نماز (71996) ( ۶۱۹۹۸) (۱۹۹۹) (7196) (۴۱۹۷۲) اسلام کی نشاۃ ثانیہ خلیفتہ الرسول سے وابستہ ہے (۱۹۷۳) ے.اسلام کا بطل جلیل (۴۱۹۷۴).اسلام کی اشاعت کے لئے جماعت احمدیہ کی جانفشانی (۴۱۹۷۵) کے احمدیہ ۹ - قیام نماز ۱۰- فلسفه حج 11 - فضائل قرآن کریم (۱۹۷۶) (81964) (F196A) ۱۳ - غزوات میں آنحضرت صلی الہ علیہ وسلم ۲۶۱۹۸۱ - ۶۱۹۸۰-۶۱۹۷۹)
۲۹ چوتھا دور خليفة اسم الرابع كم خشية انتخاب قدرت ثانیہ کے مظہر ثالث سید نا حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے جون کی درمیانی شب کو اپنے مولائے حقیقی سے جاملے.انا للہ وانا الیہ راجعون.اگلے روزه ارجون ۱۹۸۲ء کو حضرت مصلح موعود کی مقرر فرموده مجلس انتخاب خلافت کا خصوصی اجلاس نماز ظہر کے بعد مسجد مبارک ربوہ میں منعقد ہوا جس میں حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفة امسیح الرابع منتخب ہوئے.اس طرح آپ کی مبارک زندگی کا چوتھا دور شروع ہوا یجیب بات یہ ہے کہ مستند تاریخ اسلام مثلاً طبری سے ثابت ہے کہ قرآن اول میں بھی خلافت را بعد کا قیام جون ہی کے مہینہ میں عمل میں آیا تھا کیونکہ قمری اعتبار سے وہ دن تھیں ذوالحجہ شر کا تھا جو شمسی کیلنڈر کے مطابق قطعی طور پر جون کے مہینہ میں آتا ہے.فتبارك الله احسن الخالقین سید نا و امامنا و مرشد نا حضرت خلیفہ مسیح الرابع ایدہ اللہ تعالے
: بنصرہ العزیز کی خلافت ایک موعود خلافت ہے جس کی نسبت حضرت بانی سلسلہ احمدیہ اور حضرت مصلح موعود کے ارشادات میں واضح پیش گوئیاں موجو د ہیں مثلاً حضرت مصلح موعود نے ار مارچ ۱۹۱۹ء کو جلسہ سالانہ پر تقریر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :- رو پہلے جو آدم آیا وہ جنت سے نکلا تھا مگر اب جو آدم آیا وہ اِس لئے آیا کہ لوگوں کو جنت میں داخل کر ہے.اسی طرح پہلے یوسف کو قید میں ڈالا گیا تھا مگر دوسرا یوسف قید سے نکالنے کے لئے آیا ہے.پہلے خلفاء میں سے بعض جیسے حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت علی کو دکھ دیا گیا مگر میں اُمید کرتا ہوں کہ حضرت اقدس....) کے زمانہ میں اللہ تعہ اس کا بھی ازالہ کرے گا اور ان کے خلفاء کے دشمن ناکام رہیں گے کیونکہ یہ وقت بدلہ لینے کا ہے اور خدا چاہتا ہے کہ اس کے پہلے بندے جن کو نقصان پہنچایا گیا ان کے بدلے لئے جائیں " د عرفان الهی مطبوعه ۲۸ دسمبر ۱۹۱۹ء قادیان ما ربَّنَا أَمَنَّا بِمَا اَنْزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ۹۴
ایک حیرت انگیز کشف سلسلہ احمدیہ کے ایک بزرگ آغا محمد عبد العزیز فاروقی نے ۱۹۳۰ء میں اپنا یہ کشف شائع کیا کہ :- آفتاب تیسری منزل اور برج ثور کے آخری دائرہ پر آپہنچا.انسانی مکھیوں نے اپنی بھنبھناہٹ شروع کر دی جس سے اُسکی صدائے عجیب نہ سنی گئی تا ہم نہایت مشکل سے ایک کمسن طفل مکتب نے اُس کے الفاظ بغور سُنے آفتاب برج جوزا پر پہنچتے ہی ایک مینارہ کی طرف لپکا جس کا طول ایک ہزار فیٹ تھا لیکن اب آفتاب ایک پرندہ کی شکل میں متمثل ہو گیا اس کے چار پر تھے.پہلے پڑ کے اگلے حصہ پر" نور" لکھا ہوا تھا اور دوسرے پر کے یا حصہ پر محمو د تیسرے پر کے عین وسط میں ناصر الدین اور چوتھے پر اہلِ بیت " کو کب دری صث مطبوعه ۶۱۹۳۰ از آغا محمد عبد العزیز فاروقی احمدی محق نوید یکی بمقام بڑھانہ تحصیل گوجرخاں ضلع راولپنڈی)
با جازت نظارت تالیف و انتشاحت قادیان ooooooooo المصباح في نجاة اب پیدا کر نوایی کتاب 19 r.انسائیکلو دُرى ولت احم ہے کے عہد خلافت کے کے تحصیل گو نجران ضلع راولپنڈی nooooooo بطور کمی در تیم پی او ویڈی Yo
پر آپہنچا.انسانی مکھیوں نے اپنی بھنبھناہٹ شروع کردی.جس سے اُس کی صدائی طبیب سنی گئی.تاہم نہایت مشکل سے ایک کمسن طفل مکتب نے اسکے الفاظ بغور نے آفتاب تریج جوزا پر پہنچتے ہی ایک منارہ کی طرف لپکا.جس کا طول ایک ہزار فیٹ تھا.لیکن اب آفتاب ایک پرندہ کی شکل میں متمثل ہو گیا اُسکے چار پر تھے.پہلے پر کے اگلے حصہ پر تور لکھا ہوا تھا.اور دوسرے پر کے حصہ پر محمود تیرے پڑ کے عین وسط میں ناصر الدین اور چوتھے پر اھل بیت ان چاروں پیروں کے زیر ایک زرد چاور اور ایک سرخ چادر تھی.سرخ چاور زمین پر گر پڑی اور زدو چادر آفتاب میں سما گئی تخمینا ہے نوں کے بعد آفتاب اسی منارہ بیعنا کے مین جنوب کی طرف غائب ہو گیا اور پھر سات ہے کشف میں نظر نہ آیا.وہی پیوست ستارہ دوبارہ چکا.جسکی شعاع مغرب پر زیادہ پڑ رہی ہیں.چند لمحوں کے بعد ستارہ زمین کی طرف اُسی منارہ کی طرف آیا اور ایک شریفی آواز کے ساتھ عَسَى أَن يَبْعَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُودا، پڑھتا ہوا دوبارہ ملک کی جانب گیا.معا ہی دوستارے ظاہر ہوئے.لیکن وہ تمام کے تمام روشن نہ تھے.بلکہ انکا نصف حصہ روشن، اور نصف تاریک تھا.یہ سنا ہے ابھی نمودار ہی ہوئے تھے کہ ایک ستارہ اُسی منارہ بیضا سے طلوع ہوا اور وہ اُس آفتاب کی مانند تھا.جو غروب ہو چکا ہے اس ستارہ کے طلوع ہوتے ہی دوسرے ستارے درہم ہو گئے.اور وہ دوست ہے جو نصف روشن اور نصف تاریک تھے.بالکل تاریک ہو کر ایک بستی میں جا پڑے وہ بستی جس کی بابت نبی نے فرمایا تھا کہ اسے شہر تو بھی کہیگا.کہ میں شہر تھا.تیری اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی.وقت قریب ہے کہ ایک راز تھا.جو آج سے بیس سال پہلے گزر چکا.بہت سے کانوں نے سنا گھر سوچا نہیں.آنکھوں نے دیکھا.مگر مشاہدہ نہ کیا.دماغوں میں گیا.گھر غور نہیں کیا گیا.پس آج میں مل الاعلان کہتا ہوں کہ اسے آدم کی نسل تیری خاطر جسے مبعوث کیا گیا تھا.اسے قبول کر لیا ہے کے رہنے والو؟ آؤ میں تمہیں تمہاری ہی کتاب سے اُس کے نشانات اُسکی علامات ملاؤں.مسلمان کہلانے والو؟ آن کلام مقدس سے ہی نہیں پیش گوئیاں بتلاؤں.حدیث موجود ہے
۳۴ ایک ایمان افروز روایت محترمه سیده فرخنده اختر بیگم صاحبه حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کی روایت ہے کہ :.اد میکن نے حضرت استید محمود اللہ شاہ صاحب سے دریافت کیا آپ حسنی سید ہیں یا حسینی ؟ اس پر آپ نے جواب دیا کہ یکس نے والد ماجد حضرت سید عبد الستار شاہ صاحب) سے سُنا ہے کہ ہم سینی سید ہیں.پھر خود ہی انہوں نے ذکر کیا کہ اُن کے والد نے ایک دفعہ خواب دیکھا عین جوانی کی حالت میں کہ ایک لشکر نے پڑاؤ ڈالا ہوا ہے.سپاہی اِدھر اُدھر پھر رہے ہیں اور یہیں کھڑا ایک طرف دیکھ رہا ہوں درمیان میں ایک بہت بڑا خیمہ نظر آتا ہے جس میں خوب روشنی ہے اور وہ روشنی چھن چھن کر خیمہ سے باہر آرہی ہے.اتنے میں میرے والد صاحب د یعنی حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب کے دادا جان نظر آتے ہیں اور فرماتے ہیں تمہیں تلاش کر رہا تھا آؤ چلو میں تم کوجیمہ میں لے جاؤں جہاں حضرت رسول کریم (محمد مصطفے) صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما ہیں.انہوں نے میرا
ہاتھ پکڑا اور خیمے کی طرف چل دئے جب خیمے کا پردہ ہٹا تو اس قدر روشنی تھی کہ آنکھیں چکا چوند ہو گئیں اور میری آنکھ کھل گئی.یہ خواب حضرت سید محمود اللہ شاہ صاحب نے میرے والد صاحب مرحوم و مغفور کو بھی بتائی تھی.حضرت شاہ صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہم بخاری سید ہیں کیونکہ ہم نجار کی طرف سے آئے تھے" مکتوب مورخه ، ر جولائی ۶۱۹۸۲ بنام مؤتریخ احمدیت )
ایک پُر شوکت پیشگوئی حمد کے گیت گائیں اور میں آپ کو ایک خوشخبری دیتا ہوں کی.یہ وہ آخری بڑے سے بڑا ابتدا ممکن ہو سکتا تھا جو آیا اور جماعت بڑی کامیابی کے ساتھ ایس امتحان سے گزرگئی اللہ تعالی کے فضلوں کا وارث بنتے ہوئے.آب آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ خلافت احمدیہ کو بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا جاعت بلوفت کے مقام پر پہنچ چکی ہے خدا کی نظرہیں.اور کوئی دشمن آنکھ ، کوئی دشمن دل کوئی دشمن کوشش اس جماعت کا بال بھی بیکا نہیں کر سکے گی اور خلافتِ احمدیہ انشاء اللہ تعالیٰ اسی شان کے ساتھ نشو ونما پاتی رہے گی جس شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے (حضرت اقدس....) سے وعدے فرمائے ہیں کہ کم از کم ایک ہزار سال تک یہ جماعت زندہ رہے گی.ر حضرت خلیفة أمسیح الرابع ایده الله تعالى منبره العريض
کلام طاہر ایده الله تعالى اسید نا حضرت خلیفه اسم الرابع ایده الله عالی بر اهترین کا نہایت وجد آفریں اور پر معارف نعتیہ کلام قبل از منصب خلافت )
ظهور خیر الانبیاء صلی اللہ علیہ و اک رات مفاسد کی وہ تیرہ و تار آئی جو نور کی ہر شمع ظلمات پر وار آئی تاریکی پر تاریکی ، اندھیرے پر اندھہرے ابلیس نے کی اپنے لشکر کی صف آرائی ہر سمت فساد اُٹھا عصبیان میں ڈوب گئے ایرانی و نارانی ، رومی و بخارائی اللہ رہا کوئی نہ کوئی پیام اُس کا طاغوت کے بندوں نے ہتھیا لیا نام اس کا تب عاش معلی سے ایک نور کا تخت اترا اک فوج فرشتوں کی ہمراہ سوار آئی اک ساعت نورانی خورشید سے روشن تر پہلو میں لئے جلو سے بے حد و شمار آئی کا فور ہوا باطل سب ظلم ہوئے زائل اُس شمس نے دکھلائی جب شاین خود آرائی اطیس ہوا غارت چوپٹ ہوا کام اس کا توحید کی یورش نے ڈر چھوڑا نہ باہم اس کا
۳۹ وہ پاک محمد ہے سب کا حبیب آقا انوار رسالت ہیں جس کی چمن آرائی مجبوبی و رعنائی کرتی ہیں طواف اُس کا قدموں پہ نشار اُس کی جمشیدی و دارائی نبیوں نے سجائی ہے جو بزم مہ و انجم واللہ اُسی کی ہے سب انب من آرائی دن رات درود اس پر ہر ادنی غلام اُس کا پڑھتا ہے بعد منت جیتے ہوئے نام اُس کا آیا وہ غنی جس کو جو اپنی دعا پہنچی ہم ڈر کے فقیروں کے بھی بخت استوار آئی ظاہر ہوا وہ جلوہ جو اُس نے نگہ پلیٹی تو حسن نظر اپنا سو چند نکھار آئی اسے چشم خزاں دیدہ کھل کھل کے سماں بدلا اسے فطرت خوابیدہ اٹھ اٹھ کہ بہار آئی نیوں کا امام آیا اللہ امام اُس کا سب تختوں سے اونچا ہے تخت عالی مقام اس کی
ہم اللہ کے آئینہ خانے سے شریعت کی له نکلی وہ دلہن ، کر کے جو سولہ سنگھار آئی اترا وه خد الطور سید محمد پر موسی کو نہ تھی جس کے دیدار کی یا رائی سب یادوں میں بہتر ہے وہ یاد کے کچھ لمحے جو اُس کے تصور کے تریموں میں گزار آئی وہ ماہ تمام اُس کا مودی تھا غلام اُس کا روتے ہوئے کرتا تھا وہ ذکر مدام ماس کا دل اُس کی محبت میں ہر لحظہ تھا رام اُس کا دل اخلاص میں کامل تھا وہ عاشق تام اُس کا وہ مرزا غلام احمد جس کا، در و بام اُس کا گھر اُس کا تھا، در اُس کا، نہ اس کا تھا، دام اُس کا یا رب بڑی چاہت کب لیتے ہیں نام اس کا کیوں آنکھ رہے تشنہ بھر دیئے جام اس کا د الفرقان“ نومبر، دسمبر ۱۹۷۶ء صفحه ۶۵ تا ۶۷) ے پڑھنے میں "سینائے " پڑھا جائے گا ::
۴۱ کے شاہ مکی و مد فی سید اتوری بزبان حضرت اقدس آسے شاہ مکی و مدنی سید الوری تجھ سا مجھے عزیز نہیں کوئی دوسرا تیرا غلام در ہوں ترا ہی اسیر عشق تو ہی مراجعیب ہے، محبوب کبریا تیر سے جلو میں اٹھ رہا ہے میرا ہر قدم چلتا ہوں خاک پا کو تری چومتا ہوا تو میرے دل کا نور ہے آسے جیان آرزو روش تجھی سے آنکھ ہے اسے نیر ہوئی ہیں جان و سیم سو تری گلیوں پہ ہیں نشار اولا د ہے سو وہ ترے قدموں پہ ہے خدا
تو وہ کہ میرے دل سے جگر تک اتر گیا یکی وہ کہ میرا کوئی نہیں ہے ترے سوا اے میرے والے مصطفے اسے میرے مجھے اے کاش ہمیں سمجھتی نہ اُمت جدا جدا رت جلیل کی ترا دل حلوہ گاہ ہے سینہ ترا جمال الہی کا مستقر قبلہ بھی تو ہے قبلہ نما بھی تیرا وجود شان خدا ہے تیری اداؤں میں جلوہ گر نور و بشر کا فرق مٹاتی ہے تیری ذات بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر تیرے حضور تر ہے مرا زانوئے ادب یکیں جانتا نہیں ہوں کوئی پیشوا دگر تیرے وجود کی ہوں میں وہ شایع باشمر جس پر ہر آن رکھتا ہے رب الوری نظر
۴۳ لیکن صد حیف ایسے بھی میں بعض با نصیب جو تجھ سے میرے قرب کی رکھتے نہیں خبر مجھ سے عناد و تنبض و عداوت ہے ان کا دیں اُن سے مجھے کلام نہیں لیکن اس قدر اسے وہ کہ مجھ سے رکھتا ہے پر خاش کا خیال اسے آں کہ سوئے من بدویدی بعد تبر ازه باغبان بترس که من شاخ مثمرم بعد از خدا لعشق محمد محمرم گر شفر این بود بخند اسخت کا فرم آزاد تیرا فیض زمانے کی قید سے بر سے ہے شرق و غرب پر یکساں تیرا کرم تو مشرقی نہ مغربی اسے نور شش جہات تیرا وطن عرب ہے نہ تیرا وطن مجسم
۴۴ تُو نے مجھے خرید لیا اک نگہ کے ساتھ آب تو ہی تو ہے تیرے سوا ئیں ہوں کا اعلدم ہر لحظہ بڑھ رہا ہے مرا تجھ سے پیار دیکھے سانسوں میں بس رہا ہے تیرا عشق دمیدم میری ہر ایک راہ تری سمت ہے رواں تیرے حضور اُٹھ رہا ہے میرا ہر دم اے کاش مجھ میں قوت پرواز ہو تو سیکس اُڑتے ہوئے بڑھوں ، تری جانب سوئے حرم تیرا ہی فیض ہے جو متاع حیات ہے این چشمه روال که بخلق خدا دیم یک قطره زنجر کمال محستند است جان و یطہ خدائے جمال محمد است خاکم نشار کو چیه آلی محمد است الفرقان، فروری ۱۹۷۶ صفحه ۱۴۱۱۳)
۴۵ صَلَى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّى وسلم حضرت سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم نبیوں میں افضل و اکرم صلی اللہ علیہ نام مستند کام مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہا ویٹی کا مل رہبر اعظم صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے جلوہ محسن کے آگے شرم سے نون وا بجھائے رمٹ گئے مہروماہ و انجم صلی اللہ علیہ وسلم اک جلوے میں آنا فانا.بھر دیا عالم کردیئے روشن اثر دکھن پورب پچھم صلی اللہ علیہ وسلم اول و آخر شارع و خاتم صلی اللہ علیہ وسلم ختم ہوئے جب گل نبیوں کے دور نبوت کے افسانے بند ہوئے عرفان کے چشمے فیض کے ٹوٹ گئے پیمانے
تب آئے وہ ساقی کوثر بست مئے عرفان عمیر پیر مغاں اوہ اظہر محکم پر تم پر تم لنڈھانے أطهر گھر آئیں گھنگھور گھٹائیں جھوم اٹھیں مخمور ہوائیں جھک گیا ابر رحمت ہاری.آپ حیات نو برسانے کی سیراب بلند می پستی ، زندہ ہو گئی بستی بستی کے نوشوں پر چھا گئی مستی.ایک ایک طرف بجرا پر کھانے بہہ نکلا عرفان کا قلزم صلی اللہ علیہ وسلم چارہ گروں کے ظلم کا چارا.دیکھیوں کا ابدادی آیا راہنما ہے راہرووں کا.رہبروں کا ہادی آیا عارف کو عرفان سکھائے متقیوں کو راہ دکھائے جس کے گیت نہ پور نے گائے.وہ سر دار منادی آیا وہ جس کی رحمت کے سائے یکساں مہر عالم پر چھائے وہ جس کو اللہ نے خود اپنی رحمت کی ردادی آیا
صدیوں کے مردوں کا محی صلی علیہ کیف یکی فسق و فجور کی ظالم موت دلوانے آزادی آیا شرف انسانی کا تقیم صلی اللہ علیہ وسلم شیریں بول - انفاس مطهر نیک خصال و پاک شمائل ز حامل فرقان.عالم و عامل علم و عمل دونوں میں کامل جو اُس کی سرکار میں پہنچا.اُس کی یوں پلٹا دی کایا جیسے کبھی بھی خام نہیں تھا.ماں نے جنا تھا گو یا کامل اُس کے فیض نگاہ سے وحشی بن گئے علم سکھانے والے معطی بن گئے شہرۂ عالم.اس عالی دربار کے سائل نبیوں کا سرتاج - ابنائے آدم کا معراج محمد ایک ہی جست میں طے کر ڈانے وصیل نہ کے سہفت مراحل ربت عظیم کا بندہ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم
وہ احسان کا افسوں گچھوں کا موہ لیا دل اپنے لنڈ کا کب دیکھا تھا پہلے کسی نے محسن کا پیکر اس خو بو کا نخوت کو ایثار میں بدلا.ہر نفرت کو پیار میں بدلا عاشق جاں نثار میں بدلا.پیاسا تھا جو خار ہو گا اُس کا ظہور ظہور خدا کا.دکھلایا گوں نور خدا کا شکدہ ہائے لات و منات پر طاری کر دیا عالم ہو کا توڑ دی ظلمات کا گھیرا.ڈور کیا ایک ایک اندھیرا جاء الحق وزهق الباطل إن الباطل كان زهوقاً...گاڑ دیا توحید کا پرچم صلی اللہ علیہ وسلم عقیدت کے پھول صفحہ ۸۷ تا ۸۹) مطبوع - فنون پریس - ۳۵ - رائل پارک لاہور ناشران : - جمال الدین انجم ، غلام متضی ظفر