Hazrat Khalifatul Masih IV

Hazrat Khalifatul Masih IV

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ

اپریل 2003ء میں ہم سے جدا ہونے والے عظیم وجود حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی سیرت و سوانح کے بارہ میں بالکل سادہ زبان اور عام فہم انداز میں لکھی جانے والی یہ کتاب مکرم محترم نصیر احمد انجم صاحب کی تالیف ہے۔ جس میں آپؒ کی سوانح اور سیرت کو الگ الگ اور خوبصورت انداز میں واقعاتی رنگ میں نہایت مؤثر رنگ میں پیش کیا گیا ہے۔


Book Content

Page 1

حضرت صرف احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے "حضرت خلیفة المسح الرابع رحم اللہ تعالی" ایک مشہور انگریزی اخبار مشہور شخصیات کا انٹرویو کر کے ان کی مصروفیات پر مبنی خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ ایک کالم بعنوان.....A Day in the Life of لکھتا تھا.اس نے جب حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع رحمہ الہ کا انٹرو یولیا اور آپ کی مصروفیات پر مبنی کالم شائع کرنا چاہا تو اس کا نام بدل کر یوں کر دیا A Life in the Day of Hazrat Mirza Tahir Ahmad تصنيف حقیقت بھی یہی ہے کہ آپ کا 22 سالہ دورِ خلافت خدمات دینیہ سے ایسا بھر پور ہے کہ انسانی عقل ان پر غور کر کے دنگ رہ جاتی ہے کہ کیسے یہ تمام کام ایک شخص کی زندگی میں سمٹ سکتے ہیں.آپ کے دورِ خلافت سے قبل کی زندگی بھی یقیناً ہمارے لئے ایک نمونہ ہے.آپ کے دورِ خلافت میں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ نے خوب ترقی کی اور خدا تعالیٰ کا یہ الہام اپنی پوری شان سے پورا ہوا کہ ”میں تیری...کوزمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا“.اور ہم اس اعتبار سے بھی خوش قسمت ہیں کہ نظامِ خلافت کی بدولت یہ فتوحات اور ترقیات ہمارے لئے دائگی کر دی گئی ہیں.

Page 2

1 پیش لفظ اپریل 2003ء میں ہم سے جدا ہونے والے عظیم وجود حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ صیح الرابع حمہ اللہ تعالی کی سیرت کے بارے میں یہ کتاب آپ کے ہاتھ میں ہے.اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ہمیں خلافتِ احمدیہ کے مظاہر کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین زیر نظر کتاب مکرم و محترم نصیر احمد صاحب انجم کی تصنیف ہے اور یہ اس کتاب کی پہلی اشاعت ہے بسم اللہ الرحمن الرحیم حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ 1907ء کی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے فرزند حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد جن کی عمر اُس وقت آٹھ سال تھی شدید بیمار ہو گئے.یہ بچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت پیارا تھا.آپ نے اپنے ایک شعر میں اسے جگر کا ٹکڑا“ قرار دیا ہے.ان کی بیماری کے دوران ایک صاحب نے خواب دیکھا کہ مبارک احمد کی شادی ہو رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم میں جب یہ بات لائی گئی تو آپ نے فرمایا.اس کی تعبیر تو موت ہے لیکن معبرین ( خوابوں کی تعبیر بتانے والوں ) نے یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کسی خواب کو ظاہری رنگ میں پورا کر دیا جائے تو بعض اوقات تعبیر ٹل جایا کرتی ہے.اس لئے آؤ مبارک احمد کی شادی کر دیں تا اللہ اسے شفا عطا فرمائے اور موت اس سے ٹل جائے.حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحب جو صاحبزادہ مبارک احمد صاحب کا علاج بھی کر رہے تھے.ان کی ایک بیٹی مریم تھی جس کی عمر اس وقت قریباً اڑھائی

Page 3

3 2 سال تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مریم کا رشتہ مبارک احمد کے لئے مانگا جو محترم ڈاکٹر صاحب نے بخوشی قبول کر لیا.چنانچہ 30 اگست 1907 ء کو دونوں کا نکاح پڑھ دیا گیا.پیارے بچو! ایسا نکاح یا رشتہ شرعی لحاظ سے جائز ہے جس میں دلہا اور دلہن کم عمر ہوں جب وہ جوان ہوں تو انہیں اجازت ہوتی ہے کہ چاہیں تو اس نکاح کو قائم رکھیں اور چاہیں تو ختم کرالیں.ہم بات کر رہے تھے سیدہ مریم اور صاحبزادہ مبارک احمد کے نکاح کی جو انجام پایا اور نکاح حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب نے پڑھا.لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا.نکاح کے چند روز بعد 16 ستمبر 1907ء کو صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب اللہ کو پیارے ہو گئے اور سیدہ مریم اڑھائی سال کی عمر میں بیوہ ہوگئیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خواہش ظاہر فرمائی کہ یہ لڑکی ہمارے گھر میں ہی رہ جائے تو بہتر ہے.خدا کی شان دیکھیں حضور انور کے لبوں سے نکلے ہوئے یہ الفاظ کیسے پورے ہوئے.قریباً 14 سال بعد 7 فروری 1921ء کو حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب سیدہ مریم سے نکاح کر کے انہیں اپنی زوجیت میں لے آئے اور سیدہ مریم کو یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا کہ آپ دو مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بہو بنیں اور یکے بعد دیگرے آپ کے دو بیٹوں کے عقد میں آئیں.سیدہ مریم کے نکاح ثانی کا اعلان حضرت سید محمد سرور شاہ صاحب نے کیا.آپ نے خطبہ نکاح میں یہ پیشگوئی فرمائی.میں بوڑھا ہوں.میں چلا جاؤں گا مگر میرا ایمان ہے کہ جس طرح سے پہلے سیدہ سے خادم دین پیدا ہوئے.اسی طرح اس سے بھی خادم دین ہی پیدا ہو نگے.یہ مجھے یقین ہے جو لوگ زندہ ہوں گے وہ دیکھیں گے.“ اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود کو سیدہ مریم کے بطن سے ایک ہی با عمر فرزند عطا فرمایا.جس کا نام طاہر احمد رکھا گیا.آپ 18 دسمبر 1928ء کو قادیان میں پیدا ہوئے.یہ عجیب اتفاق ہے کہ جس روز آپ کی پیدائش ہوئی اس سے اگلے روز قادیان میں پہلی دفعہ ریل گاڑی پہنچی اور جدید ذرائع نقل و حمل کے ذریعہ قادیان کا باقی دنیا سے الحاق کا آغاز ہوا.پیدائش اور پچپن آپ کی پیدائش خاندان کے لئے اس وجہ زیادہ خوشکن تھی کہ سیدہ مریم جو آپ کی پیدائش کے بعد اُم طاہر کہلانے لگیں ) کے ہاں دو بیٹیوں کی پیدائش کے بعد ایک بیٹا چھوٹی عمر میں ہی فوت ہو گیا تھا.اب خدا تعالیٰ نے نعم البدل کے طور پر یہ خوبصورت بچہ آپ کو عطا فرمایا.طاہر احمد کی آنکھیں بھوری اور بال باریک اور سیاہ تھے.ناک ستواں لیکن ذرا خدا تھی.رنگ گورا تھا.میانہ قد اور مناسب اور پھر تیلا جسم تھا.

Page 4

5 4 جب آپ کا دودھ چھڑایا گیا تو آپ کی دایہ آپ کو ڈیری فارم پر لے جاتی جہاں بھینس کے دودھ کی دھاریں آپ کو پلائی جاتیں.آپ بچپن میں بہت کم بیمار ہوئے.بہت شگفتہ مزاج ، ہنس مکھ تھے.شرارتیں بھی کرتے لیکن ایسی نہیں کہ کسی کا دل دکھے.ہمجولیوں کے ساتھ کھیلتے اور مقابلے کرتے.مثلاً دیوار پر چلنے کا مقابلہ یا بارش کے پانی سے بھرے ہوئے گھڑوں کو پھلانگنے کا مقابلہ، کچھ بڑے ہوئے تو فٹبال اور کبڈی میں بھر پور حصہ لیتے رہے.کبڈی میں تو آپ نے خاصی شہرت حاصل کی.آپ کے بچپن کے دلچسپ واقعات میں سے ایک واقعہ آپ کو بتاؤں.قادیان میں ایک کنواں کھودا جار ہا تھا.ننھے طاہر نے دن کے وقت مزدوروں کو دیکھا کہ وہ کس طرح رسہ کو پکڑ کر پاؤں کنویں کی دیوار سے اٹکا کر نیچے اُترتے جاتے ہیں اور پھر اسی طرح اوپر چڑھ کر باہر آتے ہیں.شام ڈھلے جب سب مزدور چلے گئے تو آپ نے بھی کنویں میں اترنے کی ٹھانی.جونہی رسہ پکڑا کنویں میں اترے اور لگے دیوار تلاش کرنے لیکن آپ کی ٹانگیں تو بہت چھوٹی تھیں اور دیوار تک پہنچ نہ سکتی تھیں نتیجہ یہ نکلا کہ آپ تیزی سے نیچے گرتے چلے گئے اور رسہ کی وجہ سے آپ کے ہاتھ چھلنی ہو گئے.اب آپ کو یہ ڈر تھا کہ امی جان نے زخمی ہاتھ دیکھے تو گھبرا جائیں گی چنانچہ آپ ڈاکٹر کے پاس گئے ، صرف مرہم ہاتھوں پر لگائی اور پٹی نہ باندھی، اس طرح اس تکلیف کو برداشت کرتے رہے لیکن اپنی والدہ کو پتہ نہ لگنے دیا کہ انہیں تکلیف ہوگی اور سزا ملنے کا بھی ڈر تھا.ایک مرتبہ آپ کبڈی کا میچ کھیل رہے تھے، مخالف ٹیم کے کھلاڑی کو اس مہارت اور زور سے قینچی کا داؤ لگایا کہ اس کی پنڈلی کی ہڈی ٹوٹ گئی.اس پر آپ بہت رنجیدہ ہوئے اور کبڈی کھیلنا ہی چھوڑ دیا.لیکن کچھ عرصہ بعد آپ کے دوستوں نے ایک میچ کے لئے بہت اصرار کیا کہ آپ اس اہم میچ میں ضرور ہماری ٹیم میں شامل ہوں کیونکہ دوسری ٹیم بڑی مضبوط ہے.آپ آمادہ ہوئے لیکن عجیب اتفاق کہ میچ کے دوران جس پہلے کھلاڑی کو آپ نے اپنا وہی مخصوص قینچی کا داؤ لگایا تو اس بیچارے کی بھی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی.اس کے بعد آپ نے کبڈی کو خیر آباد کہہ دیا یعنی کبڈی کھیلنا ترک کر دیا.البتہ کہڈی سے آپ کی دلچسپی ہمیشہ برقرار رہی.آپ ایک عمدہ تیراک بھی تھے.آپ بڑی مہارت سے گھڑ سواری بھی کیا کرتے تھے.آپ ایک جری اور باہمت انسان تھے.بچپن میں ہی آپ کے عزم کا حال ملاحظہ ہو.آپ کی ہمشیرہ صاحبزادی امتہ القیوم بیان کرتی تھیں کہ بچپن میں جب آپ سے پوچھا جاتا کہ بڑے ہو کر کیا ہو گے ؟ تو بڑی سنجیدگی سے جواب دیتے ” میں لوگوں کا گلہ بان بنوں گا.1934ء میں حضرت مصلح موعود نے تحریک جدید کا اعلان فرمایا اور وقف زندگی کی تحریک کی تو طاہر احمد جن کی عمر صرف نو سال تھی، نے بھی اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کر دیا اور باقاعدہ چندہ دینا شروع کر دیا.جو آپ اپنی جیب خرچ سے

Page 5

7 بچا کر دیا کرتے تھے.CO 6 تعلیم آپ نے قادیان سے تعلیم الاسلام سکول سے اپنی تعلیم کا آغاز کیا.تعلیم کے سلسلہ میں آپ نے نصابی کتب کے حوالہ سے تو کلاس میں خاص کارکردگی نہ دکھائی لیکن شروع سے ہی آپ کو مطالعہ کا بے پناہ شوق تھا اور غیر نصابی علمی کتب کا مطالعہ بڑے انہماک اور کثرت سے کیا کرتے تھے.مضامین میں سے آپ کو سائنس کا مضمون بہت پسند تھا کسی بھی رسالہ یا اخبار میں سائنس کی گہرائیوں سے متعلق مضمون دیکھتے تو پڑھے بغیر نہ رہتے.پھر بڑے ہو کر آپ کو سنجیدہ اور مذہبی مطالعہ کی طرف رغبت ہوئی.آپ کی والدہ ماجدہ کی خواہش تھی کہ آپ حافظ قرآن اور ڈاکٹر بنیں.یہ خواہش اس طرح پوری ہوئی کہ آپ ہو میو پیتھک ڈاکٹر بنے.ہزاروں مریض آپ کے دست شفاء کی بدولت صحت یاب ہوئے.آپ نے ہومیو پیتھی پر ایک کتاب بھی لکھی اسی طرح قرآن کریم کے متعدد حصے آپ کو یاد تھے اس کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کے معارف کا خزانہ آپ نے ہمیں عطا فر مایا جو آپ کے خطبات و دروس میں پایا جاتا ہے.آپ نے قرآن کریم کا ترجمہ بھی کیا جو شائع شدہ ہے.اس طرح حافظ قرآن بننے والی خواہش بھی ایک رنگ میں پوری ہوئی.1944ء میں آپ نے قادیان سے ہی میٹرک کا امتحان پاس کیا.امتحان کے دنوں میں ہی آپ کی والدہ شدید بیمار ہوئیں اور لاہور میں زیر علاج رہیں اس دوران آپ اپنے امتحان کی وجہ سے قادیان میں ہی رہے.اس بیماری کے دوران آپکی والدہ فوت ہو گئیں اور آپ کو قادیان میں ہی اس کی اطلاع ملی.یہ آپ کے لئے بہت تکلیف دہ موقع تھا لیکن آپ نے کمال صبر و ہمت کا مظاہر ہ کیا.بات آپکی تعلیم کی ہو رہی تھی.میٹرک کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی اور پھر پرائیویٹ بی.اے کیا.نت نئی غیر نصابی کتب کے مطالعہ سے خاصا لگاؤ تھا.ان دنوں اردو اور انگریزی ادبی کتب کا مطالعہ آپ شوق سے کرتے.شیکسپیئر، چارلس ڈکنز، کین ڈائل جیسے مصنفین کی کتب آپ نے کھنگال ڈالیں.1949 ء میں آپ نے جامعہ احمدیہ میں داخلہ لیا اور 1953ء میں امتیاز کے ساتھ درجہ شاہد پاس کیا.درجہ شاہد میں آپ کے مقالے کا عنوان النبوة فی الامۃ تھا.یہ مقالہ جامعہ احمدیہ میں اب بھی موجود ہے.1954ء میں آپ کے والد ماجد حضرت مصلح موعود پر ایک بد بخت نے چاقو سے حملہ کیا.زخم کے باعث آپ کو شدید تکلیف رہی اور اسی سلسلہ میں آپ علاج کے لئے انگلستان روانہ ہوئے.آپ کے ہمراہ جانے والے قافلہ میں حضرت مرزا طاہر احمد بھی شامل تھے.وہاں پہنچ کر یہ فیصلہ ہوا کہ آپ انگلستان میں رہ کر مزید تعلیم حاصل کریں.

Page 6

9 8 آپ کو سکول آف اور نینٹل اینڈ افریقن سٹڈ The School oOriental and African Studies میں داخلہ ملا.یوں آپ لندن یونیورسٹی کے طالبعلم بنے.جہاں آپ کو مختلف قوموں اور نسلوں کے افراد سے ملنے اور دوست بنانے کا موقع ملا.جس سے آپ نے خوب فائدہ اُٹھایا.آپ نے انگریزی زبان میں خوب مہارت حاصل کر لی اور اپنا مافی الضمیر ٹکسالی انگریزی میں ادا کرنے کے قابل ہو گئے.1957ء میں آپ واپس تشریف لے آئے.جب آپ لندن سے کراچی پہنچے تو آپ نے کوٹ پینٹ زیب تن کیا ہوا تھا.ایک دوست نے کہا کہ آپ یہاں اچکن اور شلوار پہنیں ورنہ لوگ کہیں گے کہ آپ پر اہل مغرب کا اثر ہو گیا ہے.آپ ریا کاری سے کوسوں دور تھے.آپ نے فوراً جواب دیا کہ نہیں.میں لوگوں کو اچھا لگنے کی وجہ سے اچکن نہیں پہنوں گا اور نہ اہل مغرب سے متاثر ہوکر میں نے سوٹ پہنا ہوا ہے.اس لئے اسی لباس میں ربوہ آئے.پیارے بچو! لباس تو انسان اپنی ستر پوشی اور زینت کے لئے پہنتا ہے.پس جو لباس بھی پہنا جائے اس میں یہ دونوں خصوصیات ضروری ہیں.اچکن اور شلوار قمیض بھی پیارا لباس ہے اور پینٹ کوٹ بھی اچھا ہے.حسب حالات انسان کوئی سالباس پہن سکتا ہے.بھر پور خدمات سلسلہ 1957ء میں ربوہ واپسی پر حضرت مصلح موعود نے اپنی اس سال جاری فرمودہ عظیم الشان تحریک " وقف جدید" کی نگرانی کا کام آپ کو سونپا اور آپ نے ناظم ارشاد وقف جدید کی حیثیت سے ملک کے طول و عرض کے دورے کئے بالخصوص دور دراز دیہات میں بسنے والے احمدیوں تک آپ بنفس نفیس پہنچے اور ان کے حالات کا مشاہدہ کیا.ان کی اصلاح اور تربیت اور تعلیم کے منصوبے بنائے.آپ 67-1966ء میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکز یہ کے صدر منتخب ہوئے.اس طرح احمدی نو جوانوں کی تربیت کے لئے آپ نے گراں قدرمساعی فرما ئیں.1979ء میں آپ صدر مجلس انصار اللہ مرکزی منتخب ہوئے.علاوہ ازیں آپ نائب افسر جلسہ سالانہ، ڈائریکٹر فضل عمرفاؤنڈیشن،امیر مقامی ربوہ اور دیگر جلیل القدر عہدوں پر فائز رہے.1974ء میں جماعت احمدیہ کا جو وفد قومی اسمبلی میں پیش ہوا.اسکے ایک ممبر آپ بھی تھے.شادی 1957ء میں لندن سے واپسی پر آپ کی شادی سیدہ آصفہ بیگم صاحبہ سے ہوئی.شادی کے بعد آپ کو حضرت مصلح موعود کی طرف سے تین بیڈ رومز پر مشتمل

Page 7

11 10 ایک گھر اور 125 ایکٹر زمین کا ایک قطعہ مل گیا.جہاں آپ نے زمینداری کے علاوہ بھینسیں بھی پال رکھی تھیں.آپ صبح سویرے نماز فجر کے بعد سائیکل پر اپنے گھر سے تین میل دور احمد عمر کے پاس واقع اپنے زرعی فارم پر جاتے اور دودھ لے کر گھر آتے.اس طرح ورزش بھی ہو جاتی اور تفریح بھی.اللہ تعالی نے آپ کو چار بیٹیوں سے نوازا.آپ ایک مثالی شوہر اور شفیق باپ تھے.آپ نے اپنی بچیوں کو بہت پیار دیا.انہیں احمد نگر لے جاتے جہاں آپ نے یک مچھلی فارم بھی بنوایا.سب خوب لطف اندوز ہوتے اور پیار ہی پیار میں آپ ان لی تربیت بھی فرماتے.رات کو انہیں کہانیاں بھی سناتے جو با عموم مذہبی موضوعات اور انبیاء کے واقعات پر مشتمل ہوتیں.منصب خلافت 8 اور 9 جون 1982ء کی درمیانی شب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کا وصال ہوا اور 10 جون 1982ء کو بیت مبارک ربوہ میں انتخاب خلافت کے لئے اجلاس ہوا جس میں حضرت مرزا طاہر احمد کو خلیفہ مسیح الرابع منتخب کیا گیا.آپ نے ہزاروں کی تعداد میں جمع ہونے والے احمدیوں سے بیعت لی.س طرح خوف کی حالت کا امن سے بدلنے کا عمل ایک مرتبہ پھر دہرایا گیا.بیعت کے بعد شام کو آپ نے حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی نماز جنازہ پڑھائی اور تدفین ہشتی مقبرہ میں ہوئی اندازا پچاس ہزار لوگ اس موقع پر حاضر تھے.خلیفہ منتخب ہونے کے بعد آپکی مصروفیات میں بے پناہ اضافہ ہو گیا.گو آپ پہلے ہی بہت فعال زندگی گزار رہے تھے لیکن اب تو دنیا بھر میں پھیلی ہوئی عالمگیر جماعت احمدیہ کی اصلاح کی ذمہ داری آپ پر تھی.آپ کا طریق یہ تھا کہ تہجد کے وقت جاگ جاتے.جب سے ہی آپ کی مصروفیات کا آغاز ہوتا جو رات گئے تک جاری رہتا.آپ دفتر کھلنے کے اوقات سے کافی پہلے دفتر آجایا کرتے تھے اور بسا اوقات رات دس بجے واپس گھر تشریف لے جاتے.روزانہ آنے والے سینکڑوں کی تعداد میں دعائیہ خطوط ، دفتری ڈاک، آئندہ کے منصوبے، ملاقاتیں، خطبات جمعہ، دیگر خطبات آپکی بے پناہ مصروفیات کے چند عناوین ہیں.یہی وجہ ہے کہ ایک مشہور انگریزی اخبار نے مشہور شخصیات کی مصروفیات پر مبنی کالم بعنوان......A Day in The life of کا عنوان حضرت صاحب کی مصروفیات کے حوالے سے بدل کر یوں کر دیا A life in The Day of Hazrat Mirza Tahir Ahmad.آپ نے ستمبر 1982ء میں خلیفہ منتخب ہونے کے بعد پہلا غیر ملکی دور فرمایا.10 ستمبر 1982ء کو آپ نے پید رو آباد سپین میں ( بیت ) بشارت کا افتتاح فرمایا.سپین میں سو سال بعد تعمیر ہونے والی جماعت احمدیہ کی یہ پہلی (بیت الذکر ) تھی.اگلے برس 1983 ء میں آپ مشرق بعید کے ملک سنگا پور، براعظم آسٹریلیا کے ممالک آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تشریف لے گئے.

Page 8

13 12 ہجرت برطانیہ 26 اپریل 1984 ء کو پاکستان کے ڈکٹیٹر ضیاء الحق نے ایک آرڈینینس جاری کیا جس کی رُو سے احمدیوں پر ایسی پابندیاں عاید کی گئیں کہ پاکستان میں ان کا جینا مشکل ہوکر رہ گیا.ان حالات میں خلیفہ وقت کا پاکستان میں رہ کر اپنے فرائض منصبی ادا کرنا ناممکن ہو گیا.ضیاء الحق کا منصوبہ بھی یہی تھا کہ کسی جھوٹے کیس کے ذریعہ خلیفہ اسے کو گرفتار کر لیا جائے.وہ یہ سمجھ چکا تھا کہ جماعت احمدیہ کی جان خلافت میں ہے.سب تنظیم، ترقی اور پھیلاؤ خلافت سے چمٹے رہنے کے باعث ہے.پس وہ خلیفہ وقت اور جماعت کو جدا کر کے جماعت احمدیہ کو ختم کرنا چاہتا تھا.پیارے بچو! اس کا منصو بہ واقعی خطر ناک تھا.لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے خدا کی جماعت سے ٹکر لی تھی.وہ چراغ جو خدا نے اپنے ہاتھ سے روشن کیا تھا.کیسے ممکن تھا کہ انسانی پھونکوں سے بجھ سکتا.بقول ثاقب زیروی صاحب بجھا سکیں انہیں آندھیاں جو چراغ ہم نے جلائے تھے کبھی لو ذرا سی جو کم ہوئی تو لہو سے ہم نے اُبھار دی جماعت کے عمائدین کے ساتھ صلاح مشورہ کرنے کے بعد خدائی اذن سے حضرت خلیفہ اسیح الرابع رحمہ اللہ نے پاکستان سے ہجرت کا فیصلہ کیا.دشمن نے آپ کی گرفتاری کا منصوبہ بنا لیا تھا اور ضیاء الحق کے دستخطوں سے یہ حکم جاری ہو چکا تھا کہ امام جماعت احمدیہ کو بیرون ملک جانے سے روکا جائے.لیکن خدا کی تقدیر کہ جو نام اس حکم نامہ میں تھاوہ مرزا ناصر احمد تھا.جو جماعت احمدیہ کے تیسرے امام تھے اور اس حکم سے دو سال پہلے ہی رحلت فرما چکے تھے اور اب امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب تھے.کراچی ائیر پورٹ کے حکام نے جب یہ دیکھا کہ نام مختلف ہے لیکن آپ کے پاسپورٹ پر امام جماعت احمد یہ لکھا ہوا ہے.رات کے دو بجے وہ کس دفتر سے تصدیق کراتے.حکام کی طرف سے.K.L.M کمپنی کے جہاز کو ایک گھنٹہ روکا گیا بالآخر حضور انور کے جہاز کو جانے کی اجازت مل گئی.جہاز روانہ ہو گیا اور آپ خدا کی حفاظت میں بخیریت ہالینڈ سے ہوتے ہوئے 30 اپریل 1984ء کولندن پہنچ گئے.دشمن کی تدبیر نا کام ہو چکی تھی.وہ تلملا کر رہ گیا.وہ کچھ نہ کر سکا.پانچ خفیہ اداروں کی نگرانی کے باوجود خدا نے آپ کو محفوظ رکھا.پیارے بچو! یہ یقیناً احمدیت کی سچائی کا ایک بڑا نشان تھا اور ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت کی یاد دلاتا ہے.جب آپ گھر کا پہرہ دینے والوں کی نظروں کے سامنے سے نکلے اور دوسو پچاس میل کا سفر طے کر کے بخیریت مدینہ پہنچ گئے اور کفار مکہ ہاتھ ملتے رہ گئے.

Page 9

15 14 قیام لندن لندن آنے کے بعد آپ کی ولولہ انگیز قیادت میں یورپ کی جماعتوں میں بالخصوص اور دنیا بھر کی جماعتوں میں بالعموم ایک بیداری کی لہر دوڑ گئی.1985ء سے آپ نے انگلینڈ سے باہر دیگر ممالک کے دوروں کا آغاز کر دیا.چنانچہ بعد میں آنے والے سالوں میں آپ نے جرمنی ، ہالینڈ ، فرانس بیلجیم ، براعظم افریقہ، براعظم آسٹریلیا، براعظم امریکہ کے بیشتر ملکوں کے دورے فرمائے.اسی طرح آپ سنگا پور اور انڈونیشیا بھی تشریف لے گئے اور 1991ء میں آپ نے قادیان (انڈیا) کا تاریخی دورہ کیا.1947ء میں قیام پاکستان کے بعد اہل قادیان نے چوالیس برس بعد پھر خلیفہ وقت کو اپنی سرزمین پر خوش آمدید کہا.آپ جہاں بھی نفس نفیس تشریف لے جاتے.وہاں کی جماعتوں میں ایک روح پھونک آتے.تربیت اور دعوت الی اللہ کے لحاظ سے ان کی رفتار میں تیزی آجاتی.آپ نے دعوت الی اللہ کی تحریک اس بھر پور انداز میں چلائی کہ احمدیوں کے ہر گھر میں داعی الی اللہ تیار ہونے لگے جو دنیا بھر میں اپنے گھروں سے نکل کران لوگوں تک پہنچے جو ایک خدا اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نا آشنا ہیں.انہیں دین حق کا پیغام حق پہنچاتے اور اس طرح سعید فطرت روحوں کا میلان جماعت احمدیہ کی طرف ہوا اور لاکھوں نفوس حلقہ بگوش احمدیت ہوئے.ایم.ٹی اے کا اجراء آپ کے قیام لندن کے کار ہائے نمایاں میں سے ایک اہم کام بجا طور پر ایم ٹی اے (M.T.A) کو قرار دیا جا سکتا ہے.جس کا آغاز 24 مارچ 1989 ء سے ہوا جب حضرت خلیفۃ امسیح الرابع کا پہلا خطبہ جمعہ بذریعہ ٹیلی فون جرمنی اور ماریشس کی جماعتوں نے سنا.اس کے بعد 13 جنوری 1992 کو حضورانور کا خطبہ جمعہ ایم.ٹی.اے پر نشر ہونے سے اس کی ہفتہ وار نشریات کا آغاز ہوا.جبکہ اپریل 1992 ء میں براہ راست خطبہ جمعہ نشر ہونا شروع ہو گیا.فروری 1993ء میں پہلی مرتبہ جلسہ سالانہ UK میں حضور انور کے خطاب براہ راست نشر ہوئے ، 7 جنوری 1994ء سے ایم.ٹی.اے کی روزانہ نشریات کا آغاز ہو گیا.اور پھر یکم اپریل 1996ء سے با قاعدہ 24 گھنٹے کی نشریات شروع ہوئیں.بلاشبہ حضرت خلیفہ اسیح الرابع ہی وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اس پودے کی آبیاری فرمائی اور آج یہ پودا ترقی کرتے ہوئے ایک تناور اور چھتنار درخت بن چکا ہے.M.T.A.1.M.T.A اور M.T.A العربیہ تین چینلز پر چوبیس گھنٹے دنیا بھر میں اس کی نشریات پیش کی جاتی ہیں اور خلیفہ وقت کی آواز براہ راست گل عالم میں پہنچ جاتی ہے.اس کے ساتھ ساتھ اب ہم بذریعہ انٹرنیٹ www.mta.tv کے ذریعہ بھی ان تینوں چینلز ہمہ وقت استفادہ کر سکتے ہیں.

Page 10

17 16 پیارے بچو! یہ دولت جہاں ہم احمدیوں کے لئے روحانی مائدہ ہے وہیں ہمارے دشمنوں سے خدا کا حسین انتقام بھی ہے پاکستان میں دشمن نے خلیفہ وقت کی آواز بند کرنا چاہی.احمدیوں اور خلیفہ وقت کا اٹوٹ رشتہ توڑنے کی ناپاک کوشش کی لیکن خدا نے یہ عجیب کام کیا کہ خلیفہ وقت کی آواز کل عالم کے سکوت کو چیرتی ہوئی ہر طرف روحانی نفے بکھیرنے لگی اور آج ہر احمدی کے گھر میں خلیفہ وقت کی آواز اور تصویر براہ راست پہنچتی ہے.ہجرت سے قبل جب آپ بیت اقصیٰ ربوہ میں خطبہ دیتے تھے تو صرف سینکڑوں کی تعداد میں وہی لوگ براہ راست آپ سے فیض رسانی کر سکتے تھے جو بیت اقصیٰ میں نماز جمعہ کے لئے حاضر ہوتے لیکن آج گھر بیٹھے ہم حضور انور کا خطبہ جمعہ و دیگر خطابات براہ راست سنتے اور دیکھتے ہیں.یقیناً یہ ہم احمدیوں کے حق میں خدا کا ایک زبر دست تائیدی نشان ہے.ہوا کے دوش پہ لاکھوں گھروں میں در آیا نکل گیا تھا جو گھر سے کبھی خدا کے لئے.M.T.A پر حضور نے ترجمۃ القرآن کل اس کا آغاز کیا.یہ کلاس ایم.ٹی.اے پر نشر ہوتی رہی.کل 305 کلاسیں نشر ہوئیں جس کا ثمر ہمیں قرآن کریم کے اُردو ترجمہ کی صورت میں ملا.حضور کی یہ خدمت قرآن آپکی یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں تازہ رکھے گی.آپ کو ہومیو پیتھی سے شغف تو خلافت سے قبل ہی تھا.جب آپ ناظم ارشاد وقف جدید تھے آپ نے ایک ڈسپنسری بنائی جہاں آپ خود بیماروں کو نسخہ جات اور ادویات فراہم کرتے.لندن جا کر بھی یہ سلسلہ جاری رہا..M.T.A پر آپ نے ہو میو پیتھی سے متعلق بھی لیکچر ز دیئے جو ایم.ٹی.اے پر نشر ہوئے انکی تعداد 198 ہے.اس طرح آپ نے اس طریقہ علاج کو دنیا بھر میں متعارف کرانے میں ایک اہم کردار ادا کیا.آپ کے ان پکچرز کا مجموعہ بھی کتابی شکل میں شائع ہو گیا ہے جس کا نام ”ہومیو پیتھی یعنی علاج بالمثل‘ ہے.جلسہ سالانہ اور عالمی بیعت آپ کی لندن موجودگی کے باعث جماعت احمد یہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کو ایک خاص اہمیت حاصل ہو گئی.ہر سال اس میں شریک ہونے والوں کی تعداد بڑھنے لگی.دنیا بھر سے احمدی جماعتوں کے نمائندگان جلسہ سالانہ میں جانے لگے.پھر 1997 ء سے ایک اور ایمان افروز روایت یعنی علمی بیعت“ اس جلسہ کا حصہ بن گئی ہے.ہر سال جماعت احمد یہ میں نئے شامل ہونے والوں میں سے جو جالسهہ.U.K میں شامل ہوتے وہ دیگر شرکائے جلسہ سمیت حضور کے ہاتھ پر بیعت کرتے.اس بیعت میں M.T.A کی براہ راست نشریات کے طفیل دنیا بھر کے احمدی تجدید عہد بیعت کرتے ہیں.یہ روایت تا حال جاری ہے.

Page 11

19 18 مباہلہ کا چیلنج جماعت احمدیہ کی تاریخ ابتلاؤں میں صبر و ثبات قدم سے بھری ہوئی ہے.اپریل 1984ء میں پاکستان کے جابر ڈکٹیٹر نے اینٹی احمد یہ آرڈینینس نمبر 20 Anti Ahmadiyya Ordinance جاری کیا جس کے باعث احمد یوں پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئیں.تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ اس دور میں احمدیوں پر اسلام علیکم کہنے پر اور شادی کارڈ پر بسم اللہ الرحمان الرحیم لکھنے پر بھی مقدمات درج ہوئے.آرڈینینس کے حکومتی اقدام سے شہ پا کر اور شر پسند ملاؤں کے اُکسانے پر احمدیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا.ان کے اموال اور جانیں لوٹی جانے لگیں.ان حالات میں امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے خدا کے حضور فریاد کی اور اسی کے اذن سے آپ نے جون 1988ء میں تمام معاندین کو مباہلے کا چیلنج دیا.پیارے بچو! قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ جب بحث مباحثہ اور دلائل سے سمجھانے کے باوجود کوئی نہ سمجھے تو بالآخر خدا کے مقرر کردہ انبیاء اور خلفاء بعض اوقات مخالفین کو مباہلے کا چیلنج دیتے ہیں.جس میں دونوں فریق اپنا معاملہ خدا کے حضور پیش کرتے ہیں.ہر فریق خدا کے حضور یہ دعا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بچے کی مددو نصرت فرمائے اور جھوٹے کولعنت اور ذلت سے دو چار کرے.اسی طرح کا چیلنج حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مدینہ منورہ میں نجران سے آئے ہوئے عیسائیوں کو دیا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی اپنے مخالف علماء کو مباہلے کا چیلنج دیا.اسی سنت کے مطابق حضرت خلیفہ اسیح الرائع نے بھی چیلنج دیا.خدا تعالیٰ نے اس مباہلہ کے حیرت انگیز اثرات ظاہر فرمائے.12 اگست 1988ء کے خطبہ جمعہ میں حضور نے ضیاء الحق کو متنبہ کیا اور پیشگوئی کے رنگ میں فرمایا کہ خدا کی تقدیر اسے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گی.پیارے بچو! اس خطبہ کے صرف پانچ دن بعد 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء الحق اپنے کئی ساتھیوں سمیت طیارے کے حادثے میں لقمہ اجل بن گیا.یہ 130-C طیارہ فضا میں پرواز کر رہا تھا کہ کسی نامعلوم وجہ سے گر کر تباہ ہو گیا اور جہاز کے ساتھ ساتھ اس کے مسافروں کے بھی ٹکڑے ہو کر رہ گئے خدا کی بات کتنی سچائی سے پوری ہوئی.لو ایک واقعہ اور سنو ،1983ء میں ایک مولوی اسلم قریشی جو ایک لفٹ آپریٹر تھا لیکن احمدیوں سے دشمنی کی بناء پر اب ” مولانا اسلم قریشی بن چکا تھا اچانک اپنے گھر سے غائب ہو گیا.ایک سوچی کبھی سازش کے تحت یہ الزام احمد یوں پر لگایا گیا کہ احمدیوں نے اسے حضرت مرزا طاہر احمد کے حکم سے قتل کر دیا ہے.اس جھوٹ کی س قدر تشہیر کی گئی جس کی کوئی حد نہیں.ہمارے خلاف جلسوں میں شائد ہی کوئی

Page 12

21 20 مولوی اس الزام کو دہرانے سے باز رہا ہو.احمدیوں اور امام جماعت کو کڑی سزا دینے کے مطالبے زور پکڑتے گئے.ادھر حکومتی ارکان بھی تیاری کرنے لگے کہ اس کیس میں حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کو ملوث کر کے گرفتار کر لیا جائے.لیکن خدا تعالیٰ کی خاص تائید سے آپ لندن ہجرت کر گئے لیکن مولویوں کی زبان پھر بھی بند نہ ہوئی.تب خدا تعالیٰ نے مباہلہ کے بعد آپ کی تائید اور سچائی ظاہر کر دی اور دشمن کے جھوٹ کا پول کھل گیا.ہوا یوں کہ ایک دن اچانک.P.T.V پر ایک ذمہ دار پولیس آفیسر کے ساتھ اسلم قریشی کو دکھایا گیا.آفیسر نے بتایا کہ اسلم قریشی کو پاک ایران سرحد سے گرفتار کیا گیا ہے اور اسلم قریشی نے اپنی زبان سے اقرار کیا کہ میں خود ایران چلا گیا تھا مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا.اسی مباہلہ کے ایک سال بعد 23 مارچ 1989ء کو جماعت احمد یہ عالمگیر نے صد سالہ جوبلی منائی کیونکہ 23 مارچ 1889ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پہلی بیعت لے کر جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھی تھی اور سو سال کے عرصہ میں وہ آواز جو قادیان کی بہستی سے خدا کے ایک برگزیدہ نے تنہا بلند کی تھی.دنیا کے بیشتر ممالک میں کروڑوں آوازوں کا روپ دھار چکی تھی.دیکھا بچو! خدا نے پے در پے فتوحات سے مباہلہ کا فیصلہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب اور جماعت احمدیہ کے حق میں کر دیا.آپ کی جاری فرمودہ تحریکات آپ نے اپنے عہد خلافت میں زبر دست اہمیت کی حامل تحریکات جماعت کے سامنے رکھیں جس پر احباب نے اپنی روایات کے مطابق والہانہ لبیک کہا.صرف چند تحریکات کا ذکر کرتا ہوں.بیوت الحمد کی تحریک 29 اکتوبر 1982ء کو آپ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد پہلی عالی تحریک جاری فرمائی.جس کے مطابق غرباء کے لئے 100 گھر تعمیر کر کے بطور تحفہ انہیں دیئے جانے کا اعلان آپ نے فرمایا.اللہ تعالی کے فضل سے آپ کی یہ تحریک اور خواہش پوری ہو چکی ہے 100 سے زائد گھر بنا کر غرباء میں تقسیم ہو چکے ہیں.بیوت الحمد کالونی میں کوارٹرز کے علاوہ بیت الذکر، پرائمری سکول اور ایک خوبصورت پارک بھی موجود ہے.دعوت الی اللہ کی تحریک 28 جنوری 1983 ء کے خطبہ جمعہ میں آپ نے احمدیوں کو داعی الی اللہ بننے کی تحریک کی.اس پر دعوت الی اللہ کے کام میں تیزی آئی اور پھر کروڑوں لوگ احمدیت میں داخل ہوئے.

Page 13

23 22 سیدنا بلال فنڈ 14 مارچ1986ء کو آپ نے اسیران راہ مولیٰ اور راہ مولیٰ میں قربان ہونے والے احمدیوں کے بچوں کی کفالت کے لئے سیدنا بلال فنڈ کے نام سے تحریک جاری فرمائی.یہ تحریک رواں دواں ہے اور اس کے ذریعہ اسیران اور راہِ مولی میں قربان ہونے والے احمدیوں کے خاندانوں کی مدد کی جاتی ہے.وقف نو آپ کی ایک اہم تحریک وقف تو ہے یہ تحریک آپ نے 3 اپریل 1987 ء کو جاری فرمائی.آپ نے فرمایا کہ والدین اپنے بچوں کو پیدائش سے قبل ہی دین خدا کے لئے وقف کریں.خدا سے عہد کریں کہ جو بھی اولا د اللہ تعالیٰ دے گا بیٹا ہو یا بیٹی وہ اسے دین کی خدمت کے لئے وقف کریں گے.اس پر احمدی والدین نے اپنے جگر گوشے دین کی خدمت کے لئے پیش کر دیئے اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے.اب تک میں ہزار سے زائد بچے اس تحریک کے مجاہدین میں شامل ہو چکے ہیں.جرمنی میں 100 ( بیوت الذکر) کی تحریک آپ نے مئی 1989ء میں فرمایا کہ جرمنی میں ہم 100 خدا کے گھر تعمیر کر گے.اس پر جماعت احمد یہ جرمنی تیزی سے کام کر رہی ہے اور اب تک 25 بیوت الذکر تعمیر ہو چکی ہیں.تحریک کفالت یکصد یتامیٰ جنوری 1991ء میں آپ نے یتامی کی کفالت کے لئے یہ تحریک جاری فرمائی.جواب تک جاری ہے.اس تحریک کا نام کفالت یکصد یتامیٰ تھا یعنی ایک سو تقیموں کی کفالت لیکن یہ تو آغاز تھا.اب خدا کے فضل سے اس تحریک کے ذریعہ سینکڑوں یتیم گھرانوں کی کفالت کے سامان ہو چکے ہیں اور یہ تحر یک جاری وساری ہے.تحریک مریم شادی فنڈ ، 21 فروری 2003ء کو خطبہ جمعہ میں آپ نے غریب بچیوں کی شادی میں مدد دینے کے لئے یہ تحریک جاری فرمائی.28 فروری کے خطبے میں آپ نے اس تحریک کا نام مریم شادی فنڈ تجویز فرمایا یہ آپ کے عہد کی آخری تحریک تھی.یہ تحریک بھی جاری ہے اور انشاء اللہ جاری رہے گی.یہ ایمان افروز بات ہے کہ آپکی پہلی تحریک بھی غرباء کے لئے تھی اور آخری تحریک میں غرباء کی مدد کرنے سے تعلق رکھتی ہے.تصنیفات حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے بہت سی کتب بھی تصنیف فرمائیں.آپ نثر کے علاوہ نظم بھی کہتے تھے.آپ کا شعری مجموعہ ” کلام طاہر“ کے نام سے

Page 14

25 24 شائع شدہ ہے.آپ کے خطبات کا مجموعہ ”خطبات طاہر“ کے نام سے شائع ہونا شروع ہو گیا ہے.علاوہ ازیں ہزار ہا گھنٹوں پر مشتمل درس القرآن، ترجمۃ القرآن، مجالس سوال وجواب کی ویڈیوز اور CDs کی شکل میں آپ نے ہمیں بہت بڑا علمی خزانہ عطا فرمایا ہے.آپ کی چند تصنیفات کے نام درج ذیل ہیں:.وصال ابن مریم مذہب کے نام پر خون ربوہ سے تل ابیب تک پر تبصرہ ورزش کے زینے سوانح فضل عمر جلد اول دوم ز حق الباطل 66 22 اپریل 2003ء کو حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفہ اسیح الخام ایدہ اللہ منتخب ہوئے.آپ نے حضرت خلیفہ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کی نماز جنازہ پڑھائی جس میں دنیا بھر سے ہزاروں احمدی شریک ہوئے.آپ کی تدفین امانتاً اسلام آباد (ٹلفورڈ ) لندن میں ہوئی.جبکہ بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کا یادگاری کتبہ نصب کیا گیا ہے.پیارے بچو! یہ تھے ہمارے پیارے آقا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ المسیح الرابع کے مختصر حالات زندگی.آئیے اب آپ کی عادات و خصائل کی ایک جھلک آپ کو دکھاؤں تا کہ آپ کی اعلی شخصیت کے چند پہلو آپ کو معلوم ہوسکیں.Christianity a Journey from Facts to Fiction, Islam's Response to Contemporary Issues, Revelation, Rationality, Knowledge and Truth.وفات آخر بھر پور اور کامیاب زندگی گزارنے کے بعد آپ لندن، انگلستان میں 19 اپریل 2003ء کو 75 سال کی عمر میں لندن میں اپنے مولا کے حضور حاضر ہو گئے.انا لله و انا اليه راجعون.

Page 15

27 26 سیرت کے چند دلکش پہلو عبادت الہی حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: مجھے وہ لمحہ بہت پیارا لگتا ہے جو ایک مرتبہ لندن میں New Years day کے موقع پر پیش آیا.یعنی اگلے روز نیا سال چڑھنے والا تھا اور عید کا سماں تھا.رات کے بارہ بجے سارے لوگ ٹریفالگر سکوائر (Trafalgar Square) میں اکٹھے ہو کر دنیا جہان کی بے حیائیوں میں مصروف ہو جاتے ہیں.کیونکہ جب رات کے بارہ بجتے ہیں تو پھر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی تہذیبی روک نہیں ، کوئی مذہبی روک نہیں ، ہر قسم کی آزادی ہے.اس وقت اتفاق سے وہ رات بوسٹن اسٹیشن پر آئی.مجھے خیال آیا جیسا کہ ہر احمدی کرتا ہے اس میں میرا کوئی خاص الگ مقام نہیں تھا.اکثر احمدی اللہ کے فضل سے ہر سال کا نیا دن اس طرح شروع کرتے ہیں کہ رات کے بارہ بجے عبادت کرتے ہیں.مجھے بھی موقع ملا.میں بھی وہاں کھڑا ہو گیا.اخبار کے کاغذ بچھائے اور دو نفل پڑھنے لگا.کچھ دیر کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا کہ.کوئی شخص میرے پاس آکر کھڑا ہو گیا ہے اور پھر نماز میں نے ابھی ختم نہیں کی تھی کہ مجھے سسکیوں کی آواز آئی چنانچہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ ایک بوڑھا انگریز ہے جو بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہا ہے.میں گھبرا گیا.میں نے کہا پتہ نہیں یہ سمجھا ہے میں پاگل ہو گیا ہوں اس لئے شاید بیچارہ میری ہمدردی میں رورہا ہے.میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے تو اس نے کہا کہ مجھے کچھ نہیں ہوا میری قوم کو کچھ ہو گیا ہے.ساری قوم اس وقت نئے سال کی خوشی میں بے حیائی میں مصروف ہے اور ایک آدمی ایسا ہے جو اپنے رب کو یاد کر رہا ہے.اس چیز نے اور اس موازنہ نے میرے دل پر اس قد را ثر کیا ہے کہ میں برداشت نہیں کر سکا.چنانچہ وہ بار بار کہتا تھا: God bless you.God bless you.God bless you.God bless you.خدا تمہیں برکت دے.خدا تمہیں برکت دے.خدا تمہیں برکت دے.خدا تمہیں برکت دے.) خطبه جمعه فرموده 20 /اگست 1982ء مطبوعہ الفضل ربوہ 31اکتوبر 1983ء) مکرم سید محمود احمد صاحب ناظر اصلاح وارشاد مرکز یہ بیان کرتے ہیں:.حضور نماز با جماعت کی بے انتہاء پابندی کرنے والے تھے.اس کا ثبوت ایک واقعہ نہیں بلکہ بہت سے واقعات ہیں.خاکسار نے بار ہا دیکھا کہ حضور جب بھی ربوہ سے باہر کے کئی روزہ دورہ سے واپس آتے تو پہلا سوال ہی یہ ہوتا کہ آجکل بیت

Page 16

29 28 مبارک میں نمازوں کے اوقات کیا ہیں اور یہ احتیاط اور تحقیق اس لئے ہوتی کہ اگر نمازوں کے اوقات بدل گئے ہوں تو اس کے مطابق بیت الذکر میں حاضر ہو سکیں اور نماز با جماعت سے رہ نہ جائیں.پھر جیسا کہ خاکسار عرض کر چکا ہے کہ دوسروں کو بھی نماز کی تلقین کرنا اور نمازی بنانے کی کوشش کرنا بھی آپ کی سیرت کا ایک خاص پہلو تھا اور اس کا انداز نرالا اور خوبصورت تھا.بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو خود تو اچھے نمازی ہوتے ہیں، باجماعت نماز کے پابند ہوتے ہیں لیکن اپنے تعلق داروں کے بارہ میں اتنے حساس اور نگران نہیں ہوتے جتنا کہ حضور رحمہ اللہ تھے.بے انتہا توجہ تھی کہ آپ کے اردگرد کوئی ایسا فرد نہ ہو جو نماز کے حوالہ سے کسی بھی کمزوری کا شکار ہو.خاکسار کے بچپن کی بات ہے اس وقت میری عمر انداز دس برس ہوگی.ٹی وی پر کوئی میچ چل رہا تھا.نماز ظہر میں ابھی کچھ وقت تھا.حضور نماز کے کے لئے تیار ہو کر جانے لگے.مجھے دیکھا، فرمانے لگے جانتے ہو شرک کیا ہے؟ شرک صرف بت پرستی نہیں بلکہ بڑا شرک یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اور اس سے محبت کا دعویٰ کرتا ہولیکن جب اس کی طرف آنے کے لئے پکارا جائے تو سنی ان سنی کر دے اور دنیاوی کاموں میں منہمک رہے.فرمایا ! یہ بہت بڑا شرک ہے.(ماہنامہ ” خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 6-5) نماز کا التزام حضرت خلیفہ مسیح الرابع کے پرائیویٹ سیکرٹری مکرم منیر احمد جاوید صاحب لکھتے ہیں:.” آپ کو نماز سے اس قدر عشق تھا کہ عام آدمی اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.آپ بیماری میں کمزوری کے باوجود کھڑے ہوکر نماز ادا کرتے رہے.آخری بیماری کے دوران شدید کمزوری کے باوجود آپ جس طرح سہارا لے کر اور چھوٹے چھوٹے قدم اُٹھاتے ہوئے بیوت الذکر میں نماز پڑھانے کے لئے تشریف لاتے اسے تو جماعت کبھی بھی بھلا نہیں سکتی.آپ کبھی بھی نماز کو قضا نہیں ہونے دیتے تھے.حضور حضر میں ہوتے اور موسم خواہ سرد ہوتا یا گرم.بارش ہو رہی ہوتی یا برف باری کا سماں ہوتا تو آپ کسی بھی قسم کی پرواہ کئے بغیر ہمیشہ خانہ خدا میں ہی جا کر نماز ادا کیا کرتے تھے.سفروں میں نماز پڑھنے کا حال بھی سن لیں.ناروے کے ایک سفر کے دوران ہم نے انتہائی سردی میں بحری جہاز کے کھلے ڈیک پر بھی آپ کی اقتداء میں نماز ادا کی ہوئی ہے اور اسی طرح سخت گرمی اور مچھروں کی یلغار کے وقت الاسکا میں بھی نمازیں پڑھی ہوئی ہیں.یورپ کے سفروں میں سڑک کے کنارے مناسب جگہ دیکھ کر نمازوں کے لئے رکنے کی ہدایت تو ہمیشہ جاری رہی.آپ کبھی

Page 17

31 30 نماز کو قضاء نہیں ہونے دیتے تھے.آپ کی زندگی تو قرة عينی فی الصلوۃ کا نمونہ تھی کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے.“ (ماہنامہ تحریک جدید سیدنا طاہر نمبر صفحہ 56) عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکرم منیر احمد جاوید صاحب لکھتے ہیں:.حضرت صاحب کی زندگی کا ایک بہت دلکش اور دیگر از پہلو آپ کا عشق محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہے جو ماں کی گود میں شیخ سعدی کے ان نعتیہ اشعار پر مشتمل اور یوں کوسن سن کر آپ کے دل میں پروان چڑھا.بَلَغَ الْعُلَى بِكَمَالِهِ كَشَفَ الدُّجى بِجَمَالِه حَسُنَتْ جَمِيعُ خِصَالِهِ صَلُّوْاعَلَيْهِ وَ الِه آپ نے بچپن میں پیدا ہونے والی اس محبت کی شمع کو ہمیشہ روشن رکھا.اسی نور اور روشنی سے ہمیشہ آپ کی پاکیزہ حیات منور رہی.چنانچہ جب بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مقدس نام آپ کی زبان پر آتا تو آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے تر ہو جاتیں، آواز بھرا جاتی اور بمشکل اپنے جذبات پر قا بو پا کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر مکمل فرمایا کرتے.آپ نے بار ہا خطبات کے ذریعہ جماعت کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام بھیجنے کی نصیحت فرما کر ان کے دلوں میں بھی یہ لولگادی کہ ہر کوئی صبح شام حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتا ہے.محبت قرآن (ماہنامہ تحریک جدید سید ناطاہر نمبر صفحہ 56) قرآن کریم سے آپ کو جو محبت تھی اس کا اظہار آپ کے دروس قرآن سے بھی ہوتا ہے اور آپ کی ترجمۃ القرآن کلاس سے بھی جس کے بارے میں آپ نے خود فرمایا.میں نے ترجمہ قرآن عربی گرامر کے تمام پہلوؤں کو سامنے رکھ کر تیار کیا ہے.میں نے بھی ترجمہ سیکھنے کے لئے دعائیں کی ہیں میری تعلیم القرآن کلاس میری زندگی کا ماحصل ہے.پس ترجمہ قرآن سیکھنے کے لئے اس سے فائدہ اُٹھا ئیں.الفضل انٹر نیشنل 19 تا 25 جون 1998 ء) آپ نے محبت قرآن سے لبریز ہو کر فرمایا:.آج اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی عظمت کی خاطر قرآنی دلائل کی تلوار میرے ہاتھ میں تھمائی ہے اور میں قرآن پر حملہ نہیں ہونے دوں گا.محمد رسول اللہ صلی اللہ

Page 18

33 32 علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں پر حملہ نہیں ہونے دوں گا.جس طرف سے آئیں، جس بھیس میں آئیں ان کے مقدر میں شکست اور نا مرادی لکھی جا چکی ہے.کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذریعے دوبارہ قرآن کریم کی عظمت کے گیت گانے کے جو دن آئے ہیں، آج یہ ذمہ داری مسیح موعود کی غلامی میں میرے سپر د ہے.آپ نے خود فرمایا:.قبولیت دعا درس القرآن فرمودہ 27 فروری 1994ء) جب بھی کوئی مشکل در پیش ہو تو آپ خدا کے حضور دعا میں لگ جائیں اگر آپ دعا کرنے کو اپنی عادت بنالیں تو ہر مشکل کے وقت آپ کو حیران کن طور پر خدا کی مدد ملے گی اور یہ وہ بات ہے جو میری ساری عمر کا تجربہ ہے اب جبکہ میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا ہوں تو میں یہ بتا تا ہوں کہ جب بھی ضرورت پڑی اور میں نے خدا کے حضور دعا کی تو میں کبھی ناکام نہیں ہوا.ہمیشہ اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول کی.مکرم سید نصیراحمد شاہ صاحب لکھتے ہیں:.(الفضل 5 اگست 1999ء) ایک بہت بڑی انٹرنیشنل سیٹلائیٹ کمپنی سے کافی معاملات طے ہو گئے اور معاہدوں کا آخری مرحلہ آیا تو سلسلہ کچھ آگے بڑھتا نظر نہ آتا.کسی پر اسرار وجہ سے 66 معاہدے کی آخری سٹیج مکمل نہ ہونے پارہی تھی.کچھ تفتیش کے بعد احساس ہوا کہ اس کمپنی کی ایک ڈائریکٹر جو ہمارے کیس کی انچارج تھی وہ بلا وجہ رکا وٹیں کھڑی کر رہی تھی اور محسوس ہوتا تھا کہ وہ کسی طرح بھی یہ معاہدے مکمل نہ ہونے دے گی.فکر مندی کے احساس تلے حضور انور رحمہ اللہ کی خدمت میں پریشانی کا اظہار کیا تو حضور نے محض اتنا فر مایا: "اچھا! اللہ فضل کرے گا." مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ حضور انور کے ارشاد کے ایک ہفتہ کے اندر اندر اس کمپنی کے سینئر ڈائریکٹر جو اس عورت کے افسر تھے ان کا فون مجھے آیا اور کہا کہ اب وہ یہاں کام نہیں کرتیں اور آپ کا کیس آج سے میں ڈیل (deal) کروں گا.“ خاکسار نے شاید زندگی میں قبولیت دعا کی ایسی واضح اور عیاں مثال نہ دیکھی تھی.یقین نہیں آتا تھا کہ ایک ڈائریکٹر جو کئی سال سے اتنی بڑی پوسٹ پر کام کر رہی تھی اچانک کمپنی نے اسے نکال کیسے دیا اور پھر خدا کی قدرت کا ایک اور نظارہ یہ تھا کہ سینئر ڈائریکٹر ایک ایسا فرشتہ صفت انسان ثابت ہوا کہ اس نے آگے چل کر ہر قدم پر ہماری مدد کی اور بے شمار رکاوٹیں دور کیں.حضور نے فرمایا:.اطاعت امام (ماہنامہ ” خالد.سیدنا طاہر نمبر صفحہ 269) میں آپ کو اپنا ایک واقعہ سناتا ہوں.ان دنوں کی بات ہے جن دنوں بنگلہ دیش

Page 19

35 34 میں بہت ہنگا مے ہو رہے تھے (اس وقت مشرقی بنگال کہلاتا تھا ) میں کراچی میں تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے ایک کام میرے سپر د کیا اور حکم دیا کہ فوری طور پر چلے جاؤ.میں نے پتہ کروایا تو ساری سیٹیں بک تھیں....( متعلقہ لوگوں نے کہا.ناقل ) سیٹ کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.کیونکہ ہمیں مسافر انتظار کرنے والوں میں ہیں.اگر کوئی سیٹ خالی ہوئی تو ہم ان کو دیں گے.آپ کے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.میں نے کہا اور کوئی جائے نہ جائے میں ضرور جاؤں گا کیونکہ مجھے حکم آگیا ہے.چنانچہ میں ائیر پورٹ چلا گیا وہاں لائن لگی ہوئی تھی ، مسافر انتظار کر رہے تھے.کچھ دیر بعد لوگوں کو کہا گیا کہ جہاز چل پڑا ہے.اس اعلان کے بعد سب لوگ چلے گئے.کوئی چانس والا باقی نہ رہا.میں وہاں کھڑا رہا.مجھے یقین تھا کہ ہوہی نہیں سکتا کہ میں نہ جاؤں.اچانک ڈیسک سے آواز آئی کہ ایک مسافر کی جگہ رہ گئی ہے کوئی ہے جس کے پاس ٹکٹ ہو؟ میں نے کہا میرے پاس ٹکٹ ہے.انہوں نے کہا دوڑ و جہاز ایک مسافر کا انتظار کر رہا ہے.مکرم ضیاء الرحمان وقف جدیدر بوہ لکھتے ہیں:.(الفضل 25 ستمبر 1998ء) خلافت کا دل میں غیر معمولی احترام تھا.بارہا ایسا ہوتا کہ آپ کسی ضروری کام میں مصروف ہوتے اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کا فون آ جاتا تو بلا توقف حضرت خلیفہ مسیح الثالث رحمہ اللہ کے پاس تشریف لے جاتے اور کسی قسم کا کوئی بھی توقف نہ کرتے.جو چیز بھی حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے لئے بازار سے خریدنا ہوتی تو میاں صاحب خود جاتے اور نہایت اعلیٰ اور پائیدار چیز خریدتے اور اگر مجھے خرید کر لانے کے لئے کہتے تو یہ ہدایت خاص طور پر فرماتے کہ سب سے عمدہ اور اعلیٰ چیز خریدنی ہے.بچوں پر شفقت (ماہنامہ ” خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 172) محترمہ صاحبزادی فائز و صاحبہ بیان کرتی ہیں:.ربوہ میں گرمیوں کے دنوں میں اکثر بجلی بند ہو جانے کی وجہ سے کمروں میں سخت گھٹن ہوتی تھی تو باہر صحن میں ہونا پڑتا.مجھے یاد ہے میں بہت چھوٹی سی تھی.بجلی غائب ہونے پر رات کو اٹھ کر باہر صحن میں گئے تو ابا کے ساتھ چار پائی پر سوئی.جس پر کوئی بستر وغیرہ نہیں تھا.اتا نے اپنا بازو میرے سر کے نیچے تکیہ کے طور پر رکھا ہوا تھا.صبح جب میری آنکھ کھلی تو آپ کا بازو اسی طرح میرے سر کے نیچے تھا.ابا ساری رات اسی کروٹ پر لیٹے رہے اور بازو پر چار پائی کے نشان پڑ چکے تھے.معلوم نہیں اس حالت میں آپ سو بھی سکے یا نہیں لیکن اپنے بچے کی تکلیف کے خیال سے بازو ہلا نا پسند نہیں کیا.

Page 20

37 36 ایک دفعہ مجھے یاد ہے ابا نے زمینوں پر دعوت کا انتظام کیا ہوا تھا اور بہت سے لوگ بھی وہاں موجود تھے.میرا بیٹا عثمان دواڑھائی سال کا تھا اور حضور کے ساتھ کھڑا ہو کر مچھلیاں پکڑنے کی کوشش کر رہا تھا.میں دوسری مہمان خواتین کے ساتھ سیر کیلئے آگے چلی گئی تھی.عثمان نے مچھلی پکڑنے کے شوق میں بہت جھک کر پانی کی طرف دیکھنا شروع کیا اور اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا اور تالاب میں گر گیا.اس وقت سیکیورٹی والے بھی اردگرد موجود تھے اور دوسرے لوگ بھی موجود تھے.مگر کسی کو فوری طور پر یہ جرأت نہیں ہوئی کہ چھلانگ لگا کر بچے کو نکال لے.یوں محسوس ہوتا تھا کہ سب ہی سنانے میں آگئے ہیں مگر حضور نے بغیر ایک لمحہ ضائع کئے فوراً پانی میں چھلانگ لگادی اور بچے کو باہر نکال لائے.ایسے حالات میں کچھ لمحے کیلئے تو انسان کو اپنی جان کا خوف ضرور روکتا ہے اور قوت فیصلہ کند ہو جاتی ہے مگر شاید حضور میں اس قسم کا کوئی خوف سرے سے تھا ہی نہیں.اس لئے آپ فوری طور پر ضرورت پڑنے پر عملی کوشش کرتے.(ماہنامہ ” خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 25-24) جانوروں پر شفقت مکرم عبد الغنی جہانگیر صاحب لندن بیان کرتے ہیں:.چند سال پہلے اکتو بر کی ایک شدید سردشام کے وقت مکرم میجر محمود احمد صاحب کی طرف سے ایک فون موصول ہوا جس میں مجھے ایک عجیب و غریب کیس سے نپٹنے کے لئے بیت الفضل کے ویٹنگ روم میں فورا پہنچنے کی تاکید کی گئی.میں حیران تھا کہ کس آدمی کی طرف ان کا اشارہ تھا.اسی شش و پنج میں میں وہاں پہنچا تو کیا دیکھا کہ آدمی نہیں وہ تو ایک کبوتر تھا جو میرا انتظار کر رہا تھا.میجر صاحب نے بتایا کہ اس کبوتر کولنگر خانے اور بیت الفضل کے کچن کے برتنوں میں چھلانگ لگا کر بچی کچھی چیزیں کھانے کی عادت ہے.مگر اس مرتبہ اس نے بد قسمتی سے چھلانگ لگانے سے پہلے برتن میں دیکھا نہیں، جب کہ برتن صفائی کے لئے پانی اور تیل سے بھرا ہوا رکھا تھا.اس وجہ سے کبوتر بے چارا تیل سے لت پت ہو گیا اور چونکہ اپنے پر خشک نہ کر سکتا تھا اس لئے اُڑنے کے قابل نہ رہا اور اسی حالت میں گھٹتے اور ٹھٹھرتے ہوئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے گھر کے دروازے تک پہنچا اور وہاں کونے میں بیٹھ کر کانپنے لگا.مغرب کی نماز سے واپس آتے ہوئے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے اسے اچانک دیکھا اور میجر صاحب سے فرمایا کہ ابھی اس کا کچھ بندوبست کریں.میجر صاحب نے یہ عرض کیا کہ میں (جہانگیر صاحب.ناقل ) اس کی دیکھ بھال کروں اور ساتھ ہی مجھے یہ بھی بتادیا کہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے کہ مجھے اس کی رپورٹ بھی دینی ہے کہ اس کا کیا حال ہے.میں نے کبوتر کو تین مرتبہ شیمپو کیا تا کہ اس کے پروں سے تیل صاف ہو جائے اور پھر اس کو اچھی طرح سے خشک کیا.اس کے بعد اس کو میں نے تین دن کے لئے

Page 21

39 38 اپنے دفتر میں رکھا اور کھلایا پلایا.تین دن بعد جب اسے حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ نے دیکھتے ہی فرمایا: ” کیا یہ وہی کبوتر ہے؟ آپ نے تو اسے مکمل طور پر بدل دیا ہے.میں چاہتا ہوں کہ آپ آج رات اسے فرنچ ملاقات پروگرام میں لے کر آئیں اور اس پر ایک مختصر ڈاکو منٹری بنائیں کہ اس کو کیا ہوا تھا اور کس طرح اس کی دیکھ بھال کی گئی ہے.چنانچہ اس رات فرنچ ملاقات پروگرام میں وہ خوش قسمت کبوتر star of' the show بن گیا.اس پروگرام میں حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کو کبوتر کی ساری کہانی سنائی گئی اور بعد ازاں اس کی مختصر ڈاکومنٹری بنا کرMTA پر دکھائی گئی.اس کے بعد کبوتر کو آزاد کر دیا گیا مگر وہ نہیں جانتا کہ وہ کس قدر خوش قسمت ہے جو حضور انور رحمہ اللہ تعالیٰ کی شفقت بھری توجہ کا مورد بنا.(ماہنامہ ” خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 147-148) مکرم رفیق احمد حیات صاحب بیان کرتے ہیں:.حضور رحمہ اللہ کا یہ معمول تھا کہ صبح سیر پر جاتے ہوئے اپنے ہمراہ کچھ روٹی کے ٹکڑے لے جایا کرتے تھے جو وہاں پر موجود پرندوں کو ڈالتے تھے.بیت الفضل کے احاطہ کے قریب کچھ لومڑیاں رہا کرتی تھیں جو باقاعدہ آیا کرتی تھیں.سیکورٹی والوں کو حضور انور کی طرف سے خاص ہدایت تھی کہ بیت الفضل کے گیٹ کے باہر گوشت رکھنے کا انتظام ہونا چاہئے اور وہ با قاعدہ آکر کھایا کرتی تھیں.(ماہنامہ ” خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 221) سادگی اور نفسی مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب لکھتے ہیں:.۱۹۷۴ ء میں قومی اسمبلی میں جماعت احمدیہ کی طرف سے محضر نامہ پیش کرنے کی تیاری ہورہی تھی.سلسلہ احمدیہ کے بہت سے علماء اور دیگر کارکن اس سلسلہ میں مصروف تھے.اس مسودہ کو فائنل کرنے کے بعد کاتبوں کے سپر د کرنا تھا.پانچ چھ کاتب دفتر ارشاد میں اس کام میں مصروف تھے.کھانے وغیرہ کا انتظام بھی تھا.پہلے مسودہ تیار کیا جاتا.پھر حضرت میاں صاحب اس کو دکھانے کے لئے حضرت خلیفہ امسیح الثالث رحمہ اللہ کے پاس لے جاتے آخری مرحلہ کا تبوں کا تھا.ایک دن دو پہر کے کھانے کا وقت تھا.حاضر احباب نے کھانا کھالیا.حضرت میاں صاحب حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ کے حضور حاضر تھے.واپس تشریف لائے تو فرمانے لگے خلیل کچھ کھانے کو ہے؟ ہمارا خیال تھا کہ میاں صاحب حضور سے مل کر گھر تشریف لے جائیں گے.اب ہمارے منہ پر ہوائیاں اڑنے لگیں.فرمانے لگے پریشان کیوں ہو.عرض کیا کھانا تو ختم ہو گیا ہے.فرمانے لگے برتن دیکھو شاید کچھ ہو.برتن میں بہت ہی کم سالن تھا مگر روٹی بالکل نہیں تھی.ابھی ہم نے برتن وغیرہ سمیٹے نہیں تھے.میز پر روٹی کے چند ٹکڑے پڑے تھے جن پر میاں صاحب کی نظر پڑ گئی.فرمانے لگے یہ روٹی تو

Page 22

41 40 ہے.آپ نے وہ ٹکڑے ایک ایک کر کے کھالئے اور خاکسار حیرانی سے دیکھتا رہا.محترم ضیاءالرحمان صاحب بیان کرتے ہیں:.(ماہنامہ ” خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 170) حضور رحمہ اللہ لنگر خانہ نمبر ۳ کے ناظم ہوا کرتے تھے.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم معاونین نے لنگر خانے میں ایک وقت کا کھانا کھا لیا تو کھانے کے بعد حضور تشریف لائے اور فرمانے لگے.تم نے کھانا کھا لیا ہے؟ میں نے عرض کیا جی میاں صاحب.فرمانے لگے میرے لئے کیوں نہیں رکھا.میں نے عرض کیا.میاں صاحب ابھی اور لے آتے ہیں.حضور نے فرمایا یہاں کچھ نہیں ہے اور سامنے نظر پڑی تو دیکھا کہ تازہ روٹیوں کے کچھ کنارے اور ٹکڑے پڑے ہوئے تھے جو ہم نے کھانا کھاتے ہوئے بچائے تھے.انہیں دیکھ کر فرمانے لگے.وہ سامنے جو ہے.چنانچہ حضور وہ کنارے کھانے لگ گئے.اسے دیکھ کر ہمیں سخت شرمندگی ہوئی کہ ہم نے کس طرح روٹیوں کے کنارے الگ کر کے کفران نعمت کیا ہے.اس طرح حضور نے ہمیں ایسا سبق دیا جو ہمیں کبھی نہیں بھولتا.(ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 172) مکرم عطاء المجیب صاحب را شد امام بیت الفضل لندن لکھتے ہیں:.حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی طبیعت بہت سادہ اور تکلفات سے پاک تھی.لباس بہت عمدہ ہوتا تھا لیکن تکلفات کا رنگ نہیں ہوتا تھا.مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ نماز جمعہ کے لئے تشریف لائے تو آپ کی قمیض کی کف پر بٹن نہیں لگا ہوا تھا.خطبہ جمعہ کے دوران جب MTA پر قریب سے تصویر دکھائی گئی تو عشاق کی باریک بین نظر نے اس بات کو خاص طور پر نوٹ کیا اور بعض فون ای روز آ گئے کہ آج حضور انور کی قمیض پر بٹن نہیں لگا ہوا تھا.ایک دوست نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک سفر کے دوران کھانے کا وقت ہوا تو حضور کی کاروں کا قافلہ ایک آبادی میں سڑک کے کنارے روکا گیا اور خدام نے فوری طور پر کسی مناسب جگہ کی تلاش شروع کی جہاں بیٹھ کر آرام سے کھانا کھایا جا سکے.اس عرصہ میں حضور نے اپنی کار کی ڈگی کھلوائی.اس میں کچھ بریڈ نظر آئی اور کچھ بچی ہوئی کھیر.آپ نے خود ہی اس کھیر کے سینڈوچ بنالئے اور ساتھیوں سے فرمایا کہ میرے لئے تو یہی کافی ہے تم اپنی پسند کی جگہ تلاش کر کے وہاں اپنی پسند کا کھانا کھالو.ہمدردی خلق (ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 304) مکرم منظور احمد سعید صاحب بیان کرتے ہیں:.ایک دفعہ ایک آدمی آیا اور حضور انور سے کہنے لگا مجھے کوئی پرانا سائیکل لے دیں.حضور نے مجھے فرمایا: منظور صاحب اسے کوئی پرانا سائیکل لے دیں.میں نے بازار سے پتہ کیا لیکن سائیکل نہ مل سکا.میں نے آ کر کہا حضور پُرانا سائیکل تو نہیں مل سکا.فرمانے لگے: پھر میرا یہ سائیکل اس کو دے دیں.چنانچہ میں نے حضور کا

Page 23

43 42 سائیکل اُسے دے دیا جو کہ بہت بہتر حالت میں تھا.آپ نے خود پیدل جانا گوارا کر لیا لیکن اس ضرورتمند کی ضرورت پوری کرتے ہوئے اپنا سائیکل اسے عطا فرما دیا.ایک دفعہ ایک دوست نے حضور رحمہ اللہ سے کہا کہ میں اپنی بیٹی کو کالج میں داخل کروانا چاہتا ہوں لیکن اس کا برقعہ پرانا ہے.اس مجبوری کی وجہ سے میں اپنی بیٹی کالج داخل نہیں کروارہا.حضور انور رحمہ اللہ نے مجھے فرمایا کہ ان کی بچی کو نیا بُرقعہ بھی لے دیں، نیا یونیفارم بھی خرید دمیں اور نئے بوٹ بھی دلواد ہیں.چنانچہ میں نے ایسا ہی کیا.خدائے رحیم و کریم نے اپنے محبوب بندے کے دل میں شروع ہی سے مخلوق خدا کی ہمدردی اور محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی.چنانچہ انہی جذبات مقدسہ کی بدولت حضور انور رحمہ اللہ نے ۱۹۶۰ء میں، جب کہ آپ ناظم ارشاد وقف جدید تھے ہومیو پیتھی کی مفت ادویہ دینے کا سلسلہ شروع کیا.آغاز میں اپنے گھر سے تیسرے پہر دوائیں دیتے تھے.۱۹۶۵ء میں آپ نے اپنی ہمشیرہ صاحبزادی امتہ احکیم بیگم صاحبہ کے گھر میں دوائیں رکھیں.مریض دن کے اوقات میں نسخہ لکھوا لیتے اور عصر کے بعد بیگم صاحبہ کے گھر سے صوفی عبد الغفور صاحب دوائیں دیتے تھے.یہ سلسلہ ۱۹۶۸ ء تک جاری رہا.جب وقف جدید میں با قاعدہ ڈسپنسری قائم ہوئی اس وقت تک تمام اخراجات آپ خود برداشت کرتے تھے.آپ کے اس فیض سے ہزاروں مریضوں کی مسیحائی ہوئی.حضور رحمہ اللہ غرباء کا بڑا خیال رکھتے تھے.بعض اوقات بوڑھی اور غریب عورتیں جب ڈسپنسری میں دوائی وغیرہ لینے آتیں تو آپ مجھے فرماتے سردی ہے انہیں گرم چادر لے دیں.چنانچہ میں آپ کے علم کی تقبیل میں انہیں گرم چادر میں دلوادیتا.ڈسپنسری کے اوقات میں ایک دن ایک بچہ آیا.حضور نے اسے پوچھا بچے کونسی دوائی لینی ہے.اُس نے کہا دوائی نہیں لینی.آپ نے فرمایا پھر کیا لینا ہے؟ اُس نے کہا کہ میرا ایک چھوٹا بھائی بھی ہے اور رات کو گرمی ہوتی ہے اور ہمیں مچھر کا تا ہے ہمارے پاس پنکھا نہیں.آپ ہمیں پنکھالے دیں.آپ نے پوچھا کون سا پنکھا چاہیے؟ اس نے کہا پیڈسٹل فین لے دیں.آپ نے انہیں وہ پنکھالے دیا اور تانگے پر رکھوا کر ان کے گھر پہنچا دیا.جب میں وقف جدید میں بطور کارکن آیا اس وقت ہمارا گھر دارالصدر میں ہوتا تھا اور میرے پاس سائیکل نہیں تھی.دفتری اوقات کے بعد جب میں پیدل گھر جارہا ہوتا تھا تو آپ مجھے اپنے ساتھ سائیکل پر بٹھا لیتے تھے اور سائیکل خود چلاتے تھے.میرے اصرار پر بھی سائیکل مجھے نہ چلانے دیتے اور فرماتے کہ پیچھے بیٹھ جائیں.میں عرض کرتا گرمی ہے پیچھے ہوا نہیں لگتی فرماتے آپ آگے آکر بیٹھے جائیں.(ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 177-175) محترمہ صاحبزادی امتہ الباسط صاحبہ نے بیان کیا:.

Page 24

45 44 حضرت صاحب رحمہ اللہ گھر پر ہی لوگوں کو دوائیاں دیا کرتے تھے.ایک دفعہ جلسہ کے دن تھے.جلسہ کے تیسرے دن ان کے ہاں ایک بچی پیدا ہوئی جو چھ گھنٹے کی ہوکر فوت ہوگئی ( یہ بچی عزیزہ مونا سے چھوٹی تھی ).آپ اس وقت جلسہ کی ڈیوٹی میں مصروف تھے.تھوڑی دیر کے لئے آئے، بچی کو دیکھا اور پھر چلے گئے.اگلے دن جلسہ تو ختم ہو چکا تھا لیکن دور دراز دیہات سے آئے ہوئے لوگ صبح فجر کے فوراً بعد ہی دوائیاں لینے کے لئے اکٹھے ہونے شروع ہو گئے.آپ ان کو دوائیاں دیتے رہے یہاں تک کہ گیارہ بج گئے.بھائی منصور بڑے غصہ میں آئے اور کہا کہ آپ ادھر دوائیاں دے رہے ہیں اُدھر حضرت صاحب (خلیفتہ امسیح الثالث) جنازہ کے لئے کھڑے تمہارا انتظار کر رہے ہیں.پھر منصور بھائی نے لوگوں کو ڈانٹا کہ تم لوگوں کو ذرا خیال نہیں کہ اس کی بیٹی کا جنازہ پڑا ہے اور تم بیٹھے ہو.لوگ سخت شرمندہ ہوئے کہ ہمیں تو انہوں نے بتایا ہی نہیں.آپ نے بھائی منصور سے کہا کہ بھائی ! یہ لوگ اتنی دور سے سال میں ایک دفعہ آتے ہیں.ابھی دوائیاں نہیں لے کر جائیں گے تو پھر کس وقت آئیں گے.دوبارہ آنا ان کے لئے مشکل ہوتا ہے اس لئے ان کو دوائیاں دے رہا ہوں.خیر جب آپ نے یہ سنا کہ حضور انتظار کر رہے ہیں تو فوراً چھوڑ کر چلے گئے.(ماہنامہ ” خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 47) احباب جماعت سے محبت ایک مرتبہ حضور رحمہ اللہ سے ایک احمدی بھائی کی ملاقات میں خاکسار ( مکرم عبد الغنی جہانگیر صاحب.ناقل ) بھی شامل تھا جو اپنے آنسوؤں پر قابونہ رکھ سکا جب اس نے حضور رحمہ اللہ کو بتایا کہ حضور ! میں اپنے فرائض کو پوری طرح ادا نہیں کر سکا اور اس کی وجہ سے میری بہت سے کوتا ہیاں ہیں وہ نہیں کر سکا جو آپ مجھ سے چاہتے تھے.براہ کرم مجھے معاف فرما دیں.اس پر حضور بھی آبدیدہ ہو گئے اور فرمایا:.ٹھیک ہے میں نے آپ کو لوگوں سے معاملات کرتے ہوئے دیکھا ہے اور آپ کے اندر تقویٰ پایا ہے.تقویٰ ہی ہے جس سے اللہ محبت کرتا ہے اور میں بھی اسی وجہ سے آپ سے محبت رکھتا ہوں.خالد سیدنا طاہر نمبر مارچ، اپریل 2004 صفحہ 149) مکرم مولانا عطاء المجیب راشد صاحب امام بیت الفضل لندن کینیڈا کے ایک غیر مسلم پروفیسر ڈاکٹر Gualter کا واقعہ بیان کرتے ہیں جنہوں نے حضور انور سے ملاقات کے بعد اپنے تاثرات کا اظہار یوں کیا:.پروفیسر صاحب جب حضور رحمہ اللہ سے ملاقات کے بعد باہر آئے تو انہوں نے کہا کہ امام صاحب سے مل کر ان کی باتوں سے میں نے یہ تاثر لیا کہ احمدی حضرات اپنے روحانی سربراہ سے بہت محبت کرتے ہیں اور بعد میں

Page 25

47 46 جب میں نے احمدیوں کے روحانی راہنما سے گفتگو کی تو اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ احمدی ضرور اپنے روحانی سربراہ سے بھر پور محبت کرتے ہیں لیکن حق یہ ہے کہ ان کا سر براہ احمدیوں سے ان سے بہت بڑھ کر محبت اور پیار کرنے والا ہے.کتنا صیح اور سچا تجزیہ ہے جو اس دانشور نے کیا.(ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 299) انفاق فی سبیل اللہ مکرم بشیر احمد صاحب، خادم حضرت خلیفہ امسیح الرابع بیان کرتے ہیں:.یہی آپ نے خطبوں یا جلسہ کے موقعہ پر اکثر دیکھا ہو کہ جب بھی کوئی مالی تحریک فرماتے تو سب سے پہلے اپنی طرف سے کافی بڑی رقم کی ادائیگی فرماتے اور تقریر کے دوران ہی فرما دیا کرتے کہ اتنی رقم میری طرف سے ہوگی اور پھر اس کی ادائیگی جلدی فرما دیا کرتے تھے.وو جب بیت الفتوح، مورڈن کے لئے مالی تحریک فرمائی تو سب سے پہلے اپنی طرف سے 50 ہزار پاؤنڈ کا وعدہ فرمایا جو کہ ادا کر دیا گیا.اس کے بعد جب دوسری دفعہ تحریک فرمائی تو اس کا دس فیصد خود ادا کرنے کا اعلان فرمایا جو کہ پانچ لاکھ پاؤنڈ بنتا تھا.جب خطبہ جمعہ کے بعد اُوپر اپنی رہائش گاہ پر تشریف لائے تو خاکسار نے عرض کی آج حضور انور نے دس فیصد خود دینے کا اعلان فرمایا ہے تو آپ کو علم ہے اس کا حصہ 50 ہزار پاؤند نہیں بلکہ پانچ لاکھ پاؤنڈ بنتا ہے.فرمایا جو کہہ دیا سوکہ دیا اس کو کم نہیں کر سکتا اور انشاء اللہ جلد از جلد ادا کر دوں گا.کیونکہ رقم زیاد تھی اور حضور انور اس کی ادائیگی کو لمبا نہیں کرنا چاہتے تھے اور بیت الفتوح" کے لئے رقم کی بھی سخت ضرورت تھی.اس لئے آپ کو اس کی ادائیگی کے لئے اپنی جائیداد کا ایک حصہ بیچنا پڑا (ماہنامہ خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 247) تا کہ اس میں تا خیر نہ ہو.مکرم محمد عثمان چا و صاحب مربی سلسلہ بیان کرتے ہیں کہ چینی ترجمعہ کی اشاعت کے جملہ اخراجات حضور رحمہ اللہ نے ذاتی جیب سے ادا کیے تا کہ اس کا ثواب آپ کے والد حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور آپ کی والدہ صاحبہ کو پہنچے.(ماہنامہ ”تحریک جدید سیدنا طاہر نمبر اگست ستمبر 2008ء صفحہ 22) مهمان نوازی مکرم سید نصیر احمد شاہ صاحب چیئر مین.M.T.A بیان کرتے ہیں:.ایک مرتبہ آپ کو علم ہوا کہ ایم ٹی اے پر کام کرنے والے کھانا نہیں کھا پاتے تو از راہ شفقت اپنے گھر سے ایم ٹی اے کے سٹاف کے لئے کھانا تیار کر کے بھجوانا شروع کر دیا اور یہ سلسلہ اس وقت تک جاری رہا جب تک آپ کو یقین نہیں ہو گیا کہ اب مناسب انتظام ہو گیا ہے.یہ شفقت کسی کے تکلیف کے اظہار کی بناء پر ہرگز نہیں تھی بلکہ آپ کی ذاتی توجہ کا نتیجہ تھا.آپ کی شفقت و محبت کے ایسے بے شمار واقعات ہیں جن کا حسین تجر بہ ہم میں ہر ایک نے ذاتی طور پر بار بار کیا..خالد سیدنا طاہر نمبر صفحہ 267)

Page 26

49 48 محنت و مشقت کی عادت حضور رحمہ اللہ نے فرمایا: کوئی میرے بارے میں شاید خیال کرتا ہو کہ میں نے محنت کا کوئی کام نہیں کیا، ورثہ ہی پایا ہے.اس لئے میں اپنی محنت کے حالات بتاتا ہوں.میں نے خود زمینداری کی ہے میں اتنی محنت کیا کرتا تھا کہ آپ میں سے بہت سے ایسی محنت نہیں کر سکتے.میں مزدوروں کی طرح اڑھائی من کی بوری اُٹھا تا رہا ہوں تا کہ کام کرنے والے مزدوروں کو پتہ لگے کہ یہ کام ایسا نہیں جو میں نہ کر سکوں.میں اپنی فصل کو اپنے سائیکل پر لاد کر گھر پہنچایا کرتا تھا.میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے اپنی زمین پر کام کیا کرتا تھا.میں نے لندن میں یہ کام کیا کہ اخبار کے بھاری بھاری پیکٹ رات سے صبح تک آٹھ گھنٹے مسلسل اٹھا کر رکھتا تھا اور جب ہم رکھتے تھے کہ کام ختم ہوا تو عین اس وقت دوسرا ٹرک پہنچ جاتا تھا.وہ کام ختم کرتے تو تیسرا ٹرک آجا تا تھا.اس میں اتنی شدید جسمانی مشقت ہوتی کہ گھر واپس آتا تو تھکن سے بخار چڑھ جاتا تھا.مگر میں آرام کر کے تھکاوٹ اُتار کر پھر کام پر پہنچ جاتا تھا.یہ کام میں نے مسلسل ایک ماہ تک انگلستان میں گرمیوں میں کیا.یہ نہ سمجھیں کہ محنت کی قدر نہیں جانتا.اب بھی اللہ کے فضل سے آپ لوگوں کی خاطر ہر قسم کی محنت کرتا ہوں.اس میں جسمانی محنت بھی شامل ہے.آپ سے ملاقاتیں کرتا ہوں.آپ کو پتہ نہیں کہ اس میں کتنی محنت صرف ہوتی ہے.جتنی خدا نے مجھے توفیق دی ہے اس کے مطابق محنت کرتا ہوں.اصل برکت محنت میں ہے.محنت کے وقار کو قائم کریں.اتنی محنت کریں کہ دنیا محنت کا طریق ہم سے سیکھے.(الفضل 7 جولائی 2000ء)

Page 27

50 نام کتاب حضرت خلیفة المسیح الرابع رحم اللہ تعالی اشاعت طبع اوّل

Page 27