Language: UR
حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ کی سیرت و سوانح پر مبنی یہ کتاب محترمہ رضیہ درد صاحبہ نے تحریر فرمائی اور پہلی دفعہ اکتوبر 1979ء میں مکرم صاجزادہ مرزا غلام احمد صاحب کے زمانہ صدارت میں شائع ہوئی۔ موجود ہ ایڈیشن ٹائپ شدہ ہے جس میں مختلف عنوان بنا کر آپ ؓ کی پاکیزہ سیرت اور دلچسپ سوانح کے واقعا ت کی جھلکیاں پیش کی گئی ہیں۔
سوانح المسیح حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نور اللہ مرقده تصنیف رضیه درد دیباچه توکل کے عظیم الشان پیکر محبت الہی میں سرتا پا ڈوبے ہوئے عشق قرآن کو اپنی زندگی کا مقصد بنائے ہوئے عشق رسول کی خوشبو سے معطر.گروہ آخرین کے اول المسامعین.قدرت ثانیہ کے پہلے مظہر حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب خلیفتہ امسیح الاوّل جنہوں نے امام زمانہ کی اس طرح اطاعت کی جس طرح نبض کی حرکت تنفس کی حرکت کی پیروی کرتی ہے اور اپنے اس عہد کو تادم آخر نبھایا کہ:.میں آپ کی راہ میں قربان ہوں، میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے" اور جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:.چہ خوش کو دے اگر ہر یک زانت نور دیں بودے ہمیں بُو دے اگر ہر دل پر از نور یقیں بُو دے اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک کو توفیق دے کہ ہم بھی اپنی زندگی کو اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے راستوں پر چلتے ہوئے گزاریں اور ایسی حالت میں دنیا سے رخصت ہوں کہ ہمارا پیارا خدا ہم سے راضی ہو.والسلام خاکسار
پیش لفظ حضرت خلیفہ اصبح الاول نور اللہ مرقدہ کی سیرت و سوانح پر بنی یہ کتاب محترمہ رضیه درد صاحبہ نے تحریر فرمائی اور پہلی مرتبہ اکتوبر 1979ء میں مکرم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب کے زمانہ صدارت میں شائع ہوئی.اس کے بعد 2000 ء میں یہ کتاب دوبارہ شائع کی گئی.اب خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی کے موقع پر یہ کتاب بعض ضروری تبدیلیوں کے ساتھ کمپوز کروا کے شائع کی جارہی ہے حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب خلیفة امسیح الاول خدا کا ایک پیارا بندہ ہندوستان کی ایک چھوٹی سی بستی میں اپنی دکان میں بیٹھا مریضوں کو دیکھ رہا تھا.اور دوائی دے رہا تھا.اچانک ڈاکیا آیا اور اس نیک آدمی کے ہاتھ میں ایک تار تھما دیا.خدا کے پیارے بندے نے جب تارکھولا تو پتہ چلا کہ یہ خدا کے مسیح موعود" کا تار ہے.خدا کے مسیح موعود نے لکھا تھا.بلا توقف دہلی پہنچو.وو خدا کا یہ بندہ تار پڑھتے ہی اٹھ کھڑا ہوا.سب مریضوں کو چھوڑا.گھر والوں کو بھی اطلاع نہ دی اور سیدھا ریلوے اسٹیشن کی طرف چل پڑا.جیب میں ہاتھ ڈال کر یہ بھی نہ دیکھا کہ دہلی جانے کے لئے کرایہ بھی ہے یا نہیں.خدا کے اس پیارے بندے کے ذہن میں ایک ہی بات تھی کہ خدا کے مسیح موعود نے کہا ہے کہ کوئی توقف نہیں کرنا اور دہلی آتا ہے، اس لئے اگر گھر گیا تو دیر ہو جائے گی.پیسے لینے گیا تو دیر ہو جائے گی.کسی کو بتانے لگ گیا تو دیر ہو جائے گی.خدا کا یہ پیارا بندہ قادیان سے امرتسر پہنچ گیا.وہاں جا کر معلوم ہوا کہ جیب میں جتنے پیسے تھے وہ سب ختم ہو گئے اور اب امرتسر سے دہلی جانے کا کرایہ بھی نہیں.مگر خدا کے اس پیارے بندے کو کسی کی پرواہ نہیں تھی.اس کو اپنے خدا پر یقین تھا.امرتسر کے اسٹیشن پر گاڑی آنے میں کچھ دیر تھی.خدا کا پیارا بندہ گاڑی
2 کے انتظار میں اسٹیشن پر ٹہل رہا تھا.ساری دنیا جہان کا مالک خدا اپنے پیارے بندے کی طرف دیکھ رہا تھا.خدا تعالیٰ کو اپنے اس پیارے بندے پر بہت پیار آیا جو کہ اس کے مسیح موعود کی فرمانبرداری میں اتنا دیوانہ اور بے قرار تھا.خدا نے اپنے فرشتوں کو حکم دیا کہ اس کے پیارے بندے کے پاس دہلی کا ٹکٹ اور سفر خرچ کی رقم بھیج دی جائے.اچانک خدا کے پیارے بندے نے دیکھا کہ ریلوے اسٹیشن پر ایک شخص اس کی طرف بڑھتا آ رہا ہے.جب وہ قریب آیا تو خدا کے پیارے بندے نے اسے پہچانا.یہ ایک ہندور کیس تھا اس ہندو نے عرض کیا کہ حضور ! میری بیوی سخت بیمار ہے اسے جا کر ذرا کی ذرا دیکھ آئیں.خدا کے پیارے بندے نے جواب دیا کہ میں خدا کے مسیح موعود کے بلاوے پر دہلی جا رہا ہوں.میں دیر نہیں کر سکتا کہیں آجا نہیں سکتا.اس ہندور کیں نے جواب دیا.میرا گھر بالکل نزدیک ہے.اور ابھی گاڑی آنے میں کچھ دیر باقی ہے.میں گاڑی کے آنے سے پہلے پہلے آپ کو واپس چھوڑ جاؤں گا.چنانچہ خدا کے پیارے بندے نے حامی بھر لی.ہندو رئیس خدا کے پیارے بندے کو گاڑی میں بٹھا کر اپنے گھر لے گیا.اور بیوی کا علاج کروانے کے بعد واپس اسٹیشن پر چھوڑ گیا.اور خدا کے پیارے بندے کے ہاتھ میں دہلی کا ٹکٹ اور کچھ نقد رقم تھما دی.اور بڑے ادب سے سلام کر کے چلا گیا.خدا کے پاک بندے نے اپنے رب کا شکر ادا کیا.اور گاڑی میں بیٹھ کر خدا کے مسیح موعود کے پاس پہنچ گیا.پیارے بچو! جانتے ہو خدا کا یہ پیارا بندہ کون تھا ؟ خدا کا یہ پیارا بندہ جماعت احمدیہ کے پہلے خلیفہ حضرت حافظ حاجی حکیم مولانا نورالدین صاحب تھے جو کہ خدا کے مسیح موعود و مہدی موعود حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی علیہ السلام کے بلاوے پر قادیان سے دہلی تشریف لے گئے تھے.حضور کا خاندان آپ کا اصل نام نورالدین تھا.1841ء کے قریب بھیرہ کے محلہ معماراں میں پیدا ہوئے.آپ کے والد صاحب کا نام حضرت حافظ غلام رسول صاحب اور والدہ صاحبہ کا نام نور بخت صاحبہ تھا.آپ کا شجرہ نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملتا ہے.آپ کے بزرگوں میں ولی، عالم، بادشاہ ،صوفی ، قاضی ، شہید ہر قسم کے بزرگ گذرے ہیں.آپ کا خاندان ہمیشہ سے ہی ایک اعلیٰ شان والا رہا ہے.پاکستان میں آپ کے افراد خاندان آج تک شہزادے کہلاتے ہیں.والد محترم آپ کے والد کو قرآن سے خاص عشق تھا.قرآن ہی زندگی کا پیارا مشغلہ تھا.ہزاروں روپے کے قرآن خرید تے.ملک کے کونوں میں پھیلا دیتے.بمبئی کے ایک تاجر کا کہنا ہے کہ میں تمہیں ہزار روپے کے قرآن مجید خرید کر بھیرہ گیا.آپ نے سب خرید لئے.بڑی بیٹی کی شادی پر جہیز میں آپ نے سب سے اوپر
LO 4 قرآن رکھ دیا.فرمایا.ہماری طرف سے یہی ہے.آپ بہت اچھے گھڑ سوار تھے.گھوڑیوں کا بہت شوق تھا.خدا نے مال و دولت دے رکھی تھی.شاہانہ طبیعت کے انسان تھے.خوشی چہرے سے ٹپکتی تھی.بچوں سے بڑا پیار فرماتے تھے.بڑے سے بڑے خرچ کی پرواہ نہ کرتے تھے.بچوں کی اچھی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے.آپ کا دستر خوان سیب، انار، انگور یعنی اچھے پھلوں سے بھرا رہتا تھا.بچوں کی دینی رنگ میں تربیت کرتے تھے.تعلیم کا بہت شوق تھا.مدن چند ایک ہندو عالم تھا.وہ کوڑھ کی بیماری میں مبتلا ہو گیا.یہ بیماری ایسی ہوتی ہے کہ گاؤں میں ایک شخص کو لگے تو سارا گاؤں بیمار ہو جاتا ہے اس لئے لوگوں نے شہر سے باہر اس کے رہنے کے لئے مکان بنوا دیا.آپ نے اس کے پاس اپنے ایک بیٹے یعنی حضرت خلیفہ انبیع الاول کے بھائی کو پڑھنے کے لئے بھیجا.لوگوں نے کہا کیا خوبصورت بچہ ہے.کیوں زندگی خطرے میں ڈالتے ہو.آپ نے جواب دیا.”مدن چند جتنا علم پڑھ کر اگر میرا بیٹا کوڑھی ہو گیا تو مجھے کچھ پرواہ نہیں.اچھا لباس پہنتے.خاص قسم کی لنگی استعمال کرتے جس پر بلا ضرور ہوتا، جو آپ کی بیٹیاں تیار کرتی تھیں.آپ اس پر فخر کرتے کہ میری بیٹیوں نے تیار کی ہے.آپ کے سات بیٹے اور دو بیٹیاں تھیں.حضرت خلیفہ المسیح الاوّل سب سے چھوٹے بیٹے تھے.والدہ محترمہ آپ کی والدہ محترمہ کا نام نور بخت صاحبہ تھا.جو اپنے خاوند کی طرح بہت ایک عورت تھیں.نماز کی پابند.باورچی خانے میں جائے نماز کھوٹی پر انکا رہتا.وقت ہوتا تو وہیں نماز پڑھ لیتیں.دین سے بہت واقف تھیں.قرآن مجید کو بہت سمجھتی تھیں.تیرہ برس کی عمر میں آپ نے قرآن مجید پڑھانا شروع کیا.ہزاروں نے آپ سے قرآن پڑھا.آپ کو بہت شوق تھا کہ آپ کی اولا د قرآنِ مجید سے محبت رکھے.چنانچہ سب بچوں کو قرآن سے خاص محبت تھی.پچاسی سال کی عمر تک پڑھاتی رہیں.حضرت خلیفتہ اسی الاول سے بہت پیار کرتی تھیں.چین کا زمانہ حضرت خلیفة المسیح الاول کا حافظہ بہت ہی اچھا تھا.حتی کہ آپ کو دودھ چھوڑ نا بھی یاد تھا.اس پر فضل یہ ہوا کہ ایسے گھر میں آنکھ کھلی جہاں ہر وقت اللہ اور رسول کا ذکر رہتا تھا.شروع میں آپ نے اپنی والدہ صاحبہ ہی کی گود میں قرآن اور انہیں سے پنجابی زبان میں دین کی کتابیں پڑھیں.پھر مدرسہ میں داخل ہوئے.نماز کا شوق مدرسے کی پڑھائی کے وقت سے ہی شروع ہو گیا تھا.آ کے استاد دوسرے بچوں کے ساتھ آپ کو نماز پڑھنے کے لئے بھیجا کرتے تھے.نماز کے ساتھ آہستہ آہستہ دعاؤں کا شوق بھی آپ کے دل میں پیدا ہو گیا.ایک دفعہ ایک لڑکے نے وضو کر لینے کے بعد سب کو کہا کہ نماز کون پڑھتا ہے.یہ کہہ کر اس نے اپنی پیشانی ایک کچی دیوار کے ساتھ رگڑی.جس سے مٹی کا نشان ماتھے پر نظر آنے لگا.اس طرح اس نے سب لڑکوں کو نماز نہ پڑھنے اور جھوٹ بولنے کی عادت ڈالنے کی کوشش کی.مگر آپ پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا بلکہ شوق اور بڑھ گیا.
6 مدرسے کے زمانے میں آپ کو کتابیں جمع کرنے کا شوق ہو گیا اور سہی آپ کا بچپن کا شوق تھا.عمر بھر کبھی کوئی کھیل نہیں کھیلا.صرف ایک ہی کھیل کھیلا ہے اور وہ تیرنا ہے.آپ کو تیرنا خوب آتا تھا.بعض دفعہ بڑے بڑے دریاؤں میں بھی تیرتے رہے ہیں.اس کے علاہ گھوڑے کی سواری کا بھی شوق تھا.خود فرماتے ہیں.ہم چھوٹے تھے.ہمارے والد صاحب لگام چھپا دیتے تھے.تا چھوٹے بچے تیز گھوڑوں پر سوار ہو کر گر نہ جائیں.مگر ہم گھوڑے کے گلے کی رہی ہی سے گھوڑے کو چلا لیتے تھے.آپ کے وطن میں پنجابی بولی جاتی تھی.پہلی دفعہ آپ نے ایک ہندوستانی سپاہی کو اردو زبان میں بات کرتے سنا.جسے آپ نے بے حد پسند کیا.حصول علم و ملا زمت 1853 ء کے قریب جب آپ کی عمر بارہ سال ہوئی ، آپ کو اپنے بڑے بھائی مولوی سلطان احمد صاحب کے پاس لاہور آنا پڑا.جنہوں نے مدرسہ کھول رکھا تھا.یہاں آ کر آپ کو ایک بیماری ہو گئی.اس وقت آپ کے دل میں طبی تعلیم کا شوق پیدا ہوا.مگر آپ کے بھائی صاحب نے آپ کو طب پڑھانے کی بجائے منشی محمد قاسم صاحب کے پاس فارسی کی تعلیم کے لئے بھیجوا دیا.دو سال کے بعد آپ بھیرہ واپس آ گئے.آپ کے بھائی صاحب نے عربی کی تعلیم دینی شروع کی.آپ نے بہت جلد عربی کی کتابیں پڑھنی شروع کر دیں.1857ء میں کلکتہ کے ایک تاجر آپ کے مکان میں آئے اور آپ کی پڑھائی کے بارہ میں کہا کہ آپ جو اس کو دوسری کتابیں پڑھاتے ہیں خدا کی کتاب کیوں نہیں پڑھاتے.اور اس کے ساتھ ہی ایک با ترجمہ قرآن شریف آپ کو دے دیا.چنانچہ آپ کے بھائی صاحب نے آپ کو وہی پڑھانا شروع کر دیا.اس وقت سے آپ کو قرآن مجید سے محبت پیدا ہوگئی جو کہ ساری عمر نہ صرف قائم رہی بلکہ مسلسل بڑھتی رہی.1855-56ء میں روم اور روس کی لڑائی جاری تھی آپ ان دنوں اپنے وطن بھیرہ میں تھے.آپ کے سب بہن بھائی ان کے بچے سب ایک رات گھر میں جمع تھے اور سوائے آپ کے سب شادی شدہ تھے.آپ نے اپنے ابا امی سے پوچھا کہ کتنے مسلمان مارے جاتے ہیں.آپ کے گھر میں اللہ کے فضل سے بہت رونق ہے.اگر مجھے اللہ کی راہ میں قربان کر دیں تو بہت ثواب ہو گا.اتنے سارے بچوں میں سے ایک کو اللہ کے رستے میں دے دینا کوئی بڑی بات نہیں.آپ کو خدا کے ہاں سے بہت ثواب ملے گا.مگر آپ کی والدہ صاحبہ نے کہا کہ میں اپنی زندگی میں یہ بات کیسے برداشت کر سکتی ہوں.میں چاہتی ہوں کہ جب میں مروں آپ میرے پاس ہوں.چند ہی دنوں کے بعد آپ کے ابا امی کے سامنے ہی باقی بچے فوت ہونے شروع ہو گئے حتی کہ سارا گھر خالی ہو گیا.آپ ان دنوں جموں میں تھے.ایک دفعہ وطن آئے.ایک کمرہ میں سوئے ہوئے تھے کہ آپ کی والدہ ساتھ کے کمرہ میں آئیں اور اتنی زور سے إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ پڑھا کہ آپ کی آنکھ کھل گئی.آپ نے اپنی والدہ کو صبر کی ہدایت کی.
9 8 اور عرض کیا.اماں جان! آپ کو معلوم ہے کہ گھر کیوں خالی ہو گیا ہے.فرمایا خوب یاد ہے یہ اس غلطی کا نتیجہ ہے جو میں نے آپ کی بات کا انکار کیا تھا.اور اب تو میں یہ بھی جانتی ہوں کہ میں اس وقت مروں گی جبکہ تم میرے پاس نہیں ہو گے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.(مرقاۃ الیقین صفحہ 200-199) 1858ء کے قریب جب آپ کی عمر 18 سال کی تھی آپ نے نارمل سکول راولپنڈی میں داخلہ لیا.اور اتنی اچھی کامیابی حاصل کی کہ آپ پنڈ دادنخان کے انگریزی سکول کے ہیڈ ماسٹر بنا دیئے گئے.چار سال تک ہیڈ ماسٹر رہے.جب آپ ہیڈ ماسٹر تھے تو ایک دفعہ وہاں انسپکٹر سکول آ گئے.آپ اس وقت کھانا کھا رہے تھے.آپ نے انہیں بھی کھانے کی دعوت دی.لیکن انہوں نے دعوت قبول کرنے کی بجائے کہا کہ آپ نے مجھے پہچانا نہیں؟ میں انسپکٹر ہوں اور میرا نام خدا بخش ہے.آپ نے جواب دیا آپ بہت ہی نیک آدمی ہیں.ماسٹروں کے ہاں کھانا نہیں کھاتے یہ کہہ کر آپ فوراً اپنی جگہ پر بیٹھ گئے.اور وہ بیچارہ اپنا گھوڑا خود ہی پکڑے انتظار کرتا رہا کہ شاید ابھی یہ کسی لڑکے کو میرا گھوڑا پکڑنے کے لئے بھیج دیں.جب آپ نے کوئی لڑکا نہ بھیجا.تو اس نے خود کہا کہ کسی لڑکے کو تو بھیج دیں جو میرا گھوڑا پکڑ لے.آپ نے جواب دیا کہ آپ مدرسوں کے گھر کا کھانا تو کھاتے ہی نہیں اس کو رشوت سمجھتے ہیں پھر ہم لڑکے کو گھوڑا پکڑنے کے لئے کیسے کہہ دیں کیونکہ پھر آپ کہیں گے کہ اس کو باندھ بھی دو.گھاس بھی ڈال دو.اتنی دیر میں اس کے نوکر آ گئے.انہوں نے گھوڑے کو باندھا.کھانا تیار کیا.اس نے کہا میں لڑکوں کا امتحان لوں گا.حضور لڑکوں کو تیار کر کے علیحدہ جا بیٹھے وہ خود ہی امتحان لیتا رہا.بعد میں کہنے لگا کہ سنا ہے آپ بڑے قابل ہیں اور بہت عمدہ سند حاصل کی ہے.شاید اس لئے اس قدر فخر ہے.آپ نے جواب دیا کہ ہم اس چھوٹے سے کاغذ کو خدا نہیں سمجھتے اور ایک شخص کو کہا کہ بھائی ذرا اس بت کو تو لاؤ.اور اس کے سامنے ہی اپنی سند کا کاننڈ پھاڑ ڈالا اور ثابت کر دیا کہ کسی چیز کو خدا کا شریک نہیں سمجھتے.اسے بہت افسوس ہوا اور وہ کہنے لگا کہ آپ کا یہ نقصان میری وجہ سے ہوا ہے.آپ فرماتے تھے کہ جب سے میں نے سند پھاڑی ہے.تب ہی سے میرے پاس اتنا روپیہ آتا ہے جس کی کوئی حد نہیں.خانہ کعبہ کے لئے سفر -25-24 سال کی عمر میں آپ خدا کے پہلے گھر کی زیارت کے لئے روانہ ہوئے.بمبئی سے روانگی کے وقت اپنے وطن کے پانچ آدمی حج کو جاتے ہوئے مل گئے.جن کی وجہ سے آپ کو جہاز میں بڑا آرام ملا.مکہ معظمہ کی برکت والی زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی راستہ میں اللہ تعالیٰ کی مدد کے کئی واقعات پیش آئے.آپ نے کسی سے سنا تھا کہ بیت اللہ نظر آتے ہی جو دعا کی جاتی ہے ضرور قبول ہو جاتی ہے.آپ نے بیت اللہ پہ نظر پڑتے ہی یہ دعا مانگی.کہ اے اللہ ! میں تو ہر وقت ضرورت مند ہوں.میں کون کون سی دعا مانگوں.پس میں یہی دعا مانگتا ہوں کہ جب میں ضرورت کے وقت جو کچھ تجھ سے مانگوں تو اسے قبول کر لیا کر.اس مبارک وقت کی یہ دعا خدا کے فضل سے ایسے شاندار رنگ میں پوری
11: 10- ہوئی کہ حیرت آتی ہے.بڑے بڑے عالموں سے آپ کی بڑی بڑی بحثیں ہوئیں اور دعا کی برکت سے آپ ہمیشہ کامیاب ہوئے.مکہ میں حضور نہ صرف خود پڑھتے تھے بلکہ دوسروں کو بھی اپنے علم سے بہت فائدہ پہنچاتے.وہاں آپ کو ڈاکٹری کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگئی مگر مصروفیت کی وجہ سے زیادہ وقت نہ دے سکے.مکہ میں آپ ڈیڑھ سال تک رہے.اس کے بعد مدینے کا ارادہ کر لیا.مدینہ پہنچتے ہی آپ حضرت شاہ عبد الغنی مجد دی رحمۃ اللہ علیہ تھا.آپ نے فوراً پکڑ لیا.اور سیر ہو کر کھایا.آپ فرماتے ہیں کہ میں نے کسی سے نہیں پوچھا کہ یہ کس نے بھیجا ہے.اور کہاں سے آیا ہے.کیونکہ مجھے علم تھا کہ یہ خدا نے بھیجا ہے.میں نے کھانے کا برتن (بیت الذکر ) کی دیوار کے ساتھ لٹکا دیا.جب میں آٹھ دس دن کے بعد واپس اس ( بیت الذکر ) میں آیا تو وہ برتن و ہیں لڑکا ہوا تھا.اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ یہ کھانا گاؤں کے کسی آدمی کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰ نے ہی بھجوایا ہے.کی خدمت میں حاضر ہوئے.انہوں نے ایک علیحدہ کمرہ رہنے کے لئے دیا.روٹی پکانے کی کوشش یہاں آپ صرف مدینہ کی برکتوں اور حضرت شاہ عبد الغنی مجد دی رحمۃ اللہ علیہ کے سے فائدہ اٹھانے کے لئے آئے تھے.صرف فارغ وقت میں ایک کتب خانہ میں تشریف لے جاتے.آپ تعلیم حاصل کرنے کے لئے لکھنؤ گئے وہاں پر رہنے کو تو ایک مکان مل گیا.مگر کھانا پکانے کا انتظام خود کرنا پڑا.روٹی کا وقت آیا تو چولہے میں آگ جلائی اس پر تو ارکھا.اب خیال آیا کہ روٹی گول کس طرح پکائی جائے.آخر سوچ دورِ طالب علمی کے چند دلچسپ واقعات سوچ کر اس کا حل یہ نکالا کہ آٹے کو بہت پتلا گھول لیا اور ایک برتن کے ذریعے اللہ میاں کی دعوت حضور ایک دفعہ ایک اچھے استاد کی تلاش میں وطن سے دور چلے گئے.ایسی حالت ہو گئی کہ تین دن ہو گئے اور کھانا نہ مل سکا ایک دن مغرب کے وقت ایک ( بيت الذکر ) میں گئے.کسی نے بھی نہ پوچھا.سب نماز پڑھ کر چلے گئے.آپ حیران اور بھوک سے بے حال وہاں بیٹھے تھے کہ باہر سے آواز آئی.نورالدین! نورالدین ! یہ کھانا آ کر جلد پکڑ لو.آپ گئے تو ایک ٹرے میں بڑا پر تکلف کھانا گرم توے پر بغیر کوئی گھی وغیرہ ڈالے خوبصورت دائرے کی شکل میں آٹا ڈال دیا.جب یہ روٹی قریباً آدمی پک گئی تو خیال آیا کہ اس کو الٹایا جائے روٹی کو الٹانے کی کوشش کی تو اس میں ناکامی ہوئی.چنانچہ یہ ترکیب سوچی کہ اوپر والے حصے کو پکانے کے لئے توے کو چولہے سے اتار کر آگ کے سامنے رکھ دیا.جب اوپر کا حصہ بھی اچھی طرح پک گیا تو اب روٹی کو توے سے اتارنے کا مسئلہ سامنے آیا.جب کسی طرح نہ اتری تو چاقو نکال لائے اور اس سے روٹی اتارنے کی کوشش کی.مگر روٹی نے اس طرح بھی توے سے اترنے سے انکار کر دیا.
13.12.اب آپ پریشان ہوئے اور گھر سے باہر نکل کر آسمان کی طرف منہ اٹھا کر دعا مانگی.اے خدایا! ایک جاہل کے سپر د روٹی پکانے کا کام کرنا اپنے رزق کو ضائع کرنا ہے.میں نالائق ہوں.مجھے کیا پستہ روٹی پکانا کیا ہوتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے آپ کی دعا سن لی اور جس استاد سے آپ پڑھتے تھے اسی کے گھر روٹی کھانے کا انتظام ہو گیا.نماز با جماعت رہ جانے پر آپ تعلیم حاصل کرنے کے لئے مدینہ منورہ میں مقیم تھے کہ ایک دن کسی وجہ سے ظہر کی نماز با جماعت آپ کو نہ مل سکی.آپ کو شدید رنج ہوا.آپ نے سوچا یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ یہ بخشش کے قابل ہی نہیں.خوف کے مارے آپ کا رنگ زرد پڑ گیا.مسجد کے اندر داخل ہونے سے بھی ڈر لگنے لگا.آپ مسجد کے دروازے کے باہر پہنچے تو دروازے پر ایک آیت لکھی دیکھی جس کا مطلب یہ تھا کہ اے خدا کے بندو! اگر تم کوئی گناہ کر بیٹھو تو اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوا کرو.وہ بہت ہی بخشنے والا اور رحیم ہے.اس آیت کو پڑھ کر آپ کی کچھ ڈھارس بندھی.پھر بھی آپ ڈرتے ہوئے اور حیرت زدہ ہو کر گھبراہٹ کی حالت میں مسجد میں داخل ہوئے.اور نماز پڑھنی شروع کی.نماز میں آپ نے گڑ گڑا کر یہ دعا مانگی.یا الہی! میرا یہ قصور معاف فرما دے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز با جماعت کتنی ضروری چیز ہے اور آپ اس کے کتنے پابند تھے.1868-69ء میں آپ دوبارہ مکہ تشریف لے آئے.حج کے مہینے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق کداء کے رستے سے مکہ میں داخل ہوئے.اللہ کے گھر کی برکتوں سے مالا مال ہو کر آپ مکہ معظمہ سے جدہ اور جدہ سے بذریعہ جہاز بمبئی واپس آگئے.آپ کی بہادری کا ایک واقعہ آپ کی عمر میں سال کے قریب تھی.جب آپ مکہ سے واپس آ کر اپنے وطن بھیرہ میں رہنے لگے.آپ کے وطن کے عالموں نے آپ کے دینی علم کا بہت مقابلہ کرنا چاہا اور علم کے میدان میں آپ کو ہرانے کی کوشش کرنی چاہی.جب ناکام ہو گئے تو آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا.لوگوں کو آپ کے خلاف بھڑ کا نا شروع کر دیا.آپ کی مخالفت کا اتنا زور ہوا کہ ایک شخص جو آپ کا دودھ شریک بھائی تھا.اس نے آپ کے دشمنوں سے کہا کہ میں نورالدین کو چھری مار کر ختم کر دوں گا.آپ کو بھی پتہ چل گیا.اور ایک رات عشاء کی نماز کے بعد آپ اس کے گھر چلے گئے.اس کی ماں کا چونکہ آپ نے دودھ پیا تھا.اس لئے وہ آپ سے پردہ تو کرتی ہی نہ تھیں.آپ ان کے گھر جا کر لیٹ گئے.سب نے سمجھا کہ آپ سو گئے ہیں.آپ کے دل میں یہ خیال تھا کہ دیکھیں یہ کس طرح چھری مارے گا.جب آدھی رات کا وقت ہوا تو اس کی ماں نے آپ کو جگایا اور کہا بیٹا ! تم اپنے گھر جاؤ.آپ نے کہا میں یہیں سوؤں گا.کیونکہ آدھی رات تو گزرگئی ہے.اس نے کہا.نہیں تم اپنے گھر جا کر سوؤ.آپ نے کہا میں اکیلا نہیں جاؤں گا.میرے دودھ شریک بھائی کو بھی میرے ساتھ بھیجو تا کہ وہ مجھے میرے مکان تک چھوڑ آئے.وہ آپ کے ساتھ چل پڑا.آپ نے جان بوجھ کر اس کو
15.14: پیچھے پیچھے رکھا اور خود آگے آگے چلے.لیکن اس نے کچھ نہ کیا.پھر جب آپ گھر کے دروازے پر پہنچے تو گھر کی سیڑھیوں کے اوپر کھڑے ہو کر اس کو نیچے کی سیڑھی پر کھڑا کر کے باتیں کرنے لگے.تاکہ وہ اطمینان سے چھری مار سکے.لیکن وہ اس قدر گھبرا گیا کہ اس نے آپ سے کہا کہ اب اجازت دیں.میں واپس جاتا ہوں.جب قتل کے ارادوں میں بھی ناکامی ہوئی تو مولویوں نے آپ کو بھیرہ سے نکال دینے کی تجاویز سوچنا شروع کر دیں.نانبائی اور تجام پر دباؤ ڈالا کہ وہ آپ کا بائیکاٹ کر دیں لیکن وہ اپنی جگہ پر اڑے رہے اور کسی کی بات نہ مانی.مولوی زیادہ ہونے کے باوجود آپ سے ڈرتے تھے.جب بھی اکٹھے بیٹھتے آپ کو برا بھلا کہتے.مگر بعض دفعہ جونہی ان کی نظر آپ پر پڑتی تو بالکل خاموش ہو جاتے.اور آپ کے سامنے آپ کے خلاف کوئی لفظ بھی نہ کہہ سکتے.وہ دلوں میں مانتے تھے کہ آپ بہت بڑے عاشق رسول ہیں.کہا کرتے تھے کہ دشمنی کے باوجود ہم ان کو ولی کہتے ہیں.بھیرہ میں سکول اور ہسپتال جاری کرنا حضرت مولوی صاحب نے بھیرہ میں آتے ہی قرآن وحدیث پڑھانا شروع کر دیا.شروع میں آپ نے حدیث کی کتاب مشکوۃ پڑھانی شروع کی.یہ درس آپ کی خاندانی مسجد میں ہوتا تھا.آپ کے والد صاحب بھی آپ کے درس میں شامل ہوا کرتے تھے.اس کے علاوہ دوسروں کی خدمت کے لئے ایک ہسپتال شروع کر دیا.غریبوں کو مفت دوا دیتے.آہستہ آہستہ مریضوں کا ہجوم آپ کے پاس جمع ہو گیا.آپ کے ہسپتال کی یہ خاص بات تھی کہ یہ ایک مکمل سکول بھی تھا جس میں قرآن وحدیث اور دوسرے علم بھی پڑھائے جاتے تھے.مکان بنانے کا واقعہ بھیرہ میں آپ کا ہسپتال ایک وسیع مکان میں تھا.اس جگہ پر آپ نے اپنے والد صاحب کے حکم سے کام شروع کیا تھا.مگر والد صاحب کی وفات کے بعد آپ کے بڑے بھائی سلطان احمد صاحب نے کہا کہ یہ مکان میرے روپے سے خریدا گیا تھا.اس لئے آپ یہ بات لکھ کر دے دیں.آپ نے بڑی خوشی سے یہ لکھ دیا کہ مکان کے پیسے میرے بھائی صاحب نے دیئے تھے اور شاگردوں سے کہا کہ دوائیاں اٹھا کر فلاں مسجد کے کمرے میں رکھ دو.اور اسی وقت مکان خالی کر دیا.شہر میں ایک سرکاری زمین تھی.آپ نے اپنے ایک دوست مستری سے کہا کہ تم اس پر مکان بناؤ.ایک ہندو سے کہا کہ تم روپیہ دے دو.مکان بننا شروع ہو گیا.وہاں کے تحصیلدار نے کہلا بھیجا.ایک تو مکان بغیر اجازت بنا نا ٹھیک نہیں پھر حکومت کی زمین میں مکان بنانا قانون کے خلاف ہے.ہم نے ڈپٹی کمشنر کو رپورٹ کر دی ہے.جس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ بنا بنایا مکان گرا دیا جائے گا.ڈپٹی کمشنر صاحب موقع پر آئے.اور آپ سے کہا کہ تم جانتے ہو کہ یہ سرکاری زمین ہے.آپ نے کہا.ہاں سارا شہر ہی سرکاری زمین ہے.انہوں نے پوچھا وہ کس
17: 16- طرح؟ آپ نے جواب دیا کہ اگر حکومت کو اس شہر پر فوجی میدان بنانا پڑے.تو کیا شہر کے لوگ انکار کر سکتے ہیں.اس نے کہا نہیں کر سکتے.آپ نے فرمایا.بس اسی طرح ہر زمین حکومت کی زمین ہی کہلاتی ہے.تب اس نے کہا کہ آپ کا مکان کتنے حصے میں بن سکتا ہے؟ آپ نے کہا ایک طرف سڑک ہے دوسری طرف بھی.اس کے درمیان جتنی زمین ہے اس پر مکان بن سکتا ہے اس نے کہا ابھی شروع کر دو.پھر کمیٹی والوں سے پوچھا کہ کوئی اعتراض ہے.انہوں نے کہا کہ ان کا مکان تو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے.ڈپٹی کمشنر صاحب بولے کہ آپ مکان بنائیں.اس طرح اللہ کی مدد سے آپ کا مکان بن گیا.بھوپال اور کشمیر کا سفر.منشی جمال الدین صاحب ریاست بھوپال کو آپ سے بہت محبت تھی اس کی وجہ سے وہ چاہتے تھے کہ آپ دوبارہ بھو پال تشریف لائیں.چنانچہ آپ نے ان کی دعوت قبول کر لی اور بھیرہ سے روانہ ہو گئے.کچھ مدت تک وہاں رہے.پھر ریاست کی ملازمت چھوڑ کر واپس آگئے.اس کے بعد مہاراجہ رنبیر سنگھ جو ریاست جموں وکشمیر کے والی تھے کی دعوت پر وہاں کی ملازمت اختیار کر لی.پانچ سو روپے ماہوار تنخواہ مقرر ہوئی.آپ کے ہاتھوں بہت سے ایسے بیمار ٹھیک ہوئے جن کی بیماری بہت مشکل کبھی جاتی تھی.ملازمت کے دوران ( دین حق ) کی تبلیغ کرتے رہے.تبلیغ اور تربیت کے اعتبار سے یہ زمانہ بہت اہم تھا.آپ کو قرآن سنانے کا بہت شوق تھا.ایک دفعہ آپ نے ہندوؤں کی مجلس میں چند روز قرآن سنایا وہاں ایک ہندو افسر کا بیٹا بھی آتا تھا.کہنے لگا کہ انہیں قرآن سنانے سے روکو.ورنہ میں مسلمان ہو جاؤں گا.قرآن بڑی اچھی کتاب ہے اس کا مقابلہ نہیں ہوسکتا اور نورالدین کے سنانے کا طریقہ بھی بہت خوبصورت ہے.1881ء میں ایک راجہ کے ساتھ ایک شہزادہ کی شادی پر تشریف لے گئے.آپ ہاتھی پر سوار تھے ایک اسپرنگ کی وجہ سے آپ زخمی ہو گئے.زخم خدا خدا کر کے ٹھیک ہوا تو ایک گھوڑی پر روانہ ہوئے.لیکن چار میل بعد آگے جانے کی طاقت نہ رہی تو کسی دوست نے پالکی کا انتظام کیا.آپ اس میں لیٹ گئے اور شکریہ میں قرآن مجید یاد کرنا شروع کر دیا.ایک مہینے کا سفر تھا.جب آپ جموں پہنچے تو چودہ پارے حفظ کر چکے تھے.باقی بعد میں یاد کئے.اس طرح آپ کو بھی اپنے بزرگوں کی طرح قرآن شریف زبانی یاد کرنے کی سعادت ملی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعارف ضلع گورداسپور کے ایک صاحب شیخ رکن الدین صاحب نے بتایا کہ ضلع گورداسپور کے ایک گاؤں قادیان میں ایک شخص حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے اسلام کے حق میں رسالے لکھے ہیں.آپ نے یہ سن کر حضرت صاحب کی خدمت میں خط لکھا اور کتابیں منگوائیں.مارچ 1885 ء سے کچھ پہلے کی بات ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پہلا اشتہار دیکھتے ہی پروانوں کی طرح جموں سے قادیان پہنچے.اور خدا کے اس بندے کو پہچان لیا.یہ اشتہار حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دعوئی سے متعلق تمام دنیا کے عالموں کو بھجوایا
19.18- تھا.اور حضرت خلیفہ مسیح الاول کو یہ اشتہار ایک ہندو کے ذریعہ ملا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام دعا میں مصروف تھے کہ یا اللہ ! اپنے دین حق کی خدمت کے لئے مجھے کوئی ساتھی دے.آپ کی دعا ئیں آسمان تک پہنچیں.اور خدا نے کشمیر سے حضرت مولوی نورالدین صاحب جیسا بہترین ساتھی بھیج دیا.اور وہ خبر پوری ہو گئی کہ امام مہدی کے ساتھی کشمیر سے بھی آئیں گے.اس وجہ سے آپ کا آنا ایک نشان تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی فرماتے تھے کہ خدا تعالیٰ نے میری دعائیں قبول کیں.اور مجھے ایک مخلص، پیار کرنے والا دوست دیا.جس کا نام اس کی نورانی صفات کی طرح نورالدین ہے.اسلام کے سرداروں میں سے ہے.بزرگوں کی نسل سے ہے.مجھے آپ کے ملنے سے ایسی خوشی ہوئی ہے کہ گویا کوئی اپنے ہی جسم کا ٹکڑا مل جائے.اور میں اس طرح خوش ہوا جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر فاروق " کے ملنے سے ہوئے تھے.مجھے سارے غم بھول گئے.جب میں نے آپ کو دیکھا.مجھے یقین ہو گیا کہ آپ ہی میری دعاؤں کا نتیجہ ہیں.فصل الخطاب“ کی تصنیف آپ جلد ہی دوبارہ قادیان تشریف لائے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے عرض کی کہ آپ کے لئے کیا خدمت کروں.فرمایا.خدمت یہی ہے کہ عیسائیوں کے مقابل پر ایک کتاب لکھیں.چنانچہ آپ نے ایک کتاب لکھی جو عیسائی مذہب کے خلاف بہت اچھی کتاب تھی اور بعض بچوں تک نے آپ کو اس پر مبارک باد بھی دی.اس کتاب کا نام "فصل الخطاب" ہے.آپ نے نوکری سے استعفے دے کر حضور کی خدمت میں آنے کا ارادہ کر لیا.حضور کو علم ہوا تو آپ نے مشورہ دیا کہ نوکری بالکل نہ چھوڑیں.چنانچہ حضور کی مرضی کے مطابق آپ کا استھلنے ہی منظور نہ ہوا.اور آپ کچھ دیر ریاست کشمیر میں ہی بیٹھ کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی دوستی کا حق ادا کرتے رہے.کشمیر میں آپ نے مسلمانوں کی بہت مدد کی.سرسید احمد خاں نے مسلمانوں کی ایک انجمن بنائی.اور حضرت خلیفہ امسیح الاول ہمیشہ اس کی مدد کرتے رہے.ایک برہمن خاندان کا نوجوان آپ کی دعوت الی اللہ سے مسلمان ہو گیا اور آپ کی وجہ سے ایک مسلمان خان بہادر شیخ عبد اللہ اسمبلی کا ممبر بن گیا.پہلی بیعت حضرت مولوی صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں یہ درخواست کر رکھی تھی کہ آپ جب بھی بیعت لیں تو سب سے پہلی بیعت میری ہو.جب حضور علیہ السلام کو خدا کی طرف سے بیعت کا حکم ملا تو 23 / مارچ 1889ء کو حضرت مولوی صاحب نے سب سے پہلے بیعت کی برکت حاصل کی.اور آپ کی درخواست پر حضور نے اپنے قلم سے بیعت کے الفاظ لکھ کر دے دیئے.27/ دسمبر 1891ء کو نماز ظہر کے بعد بیت اقصیٰ قادیان میں سب سے پہلا جلسہ سالانہ ہوا.اس میں 75 احمدی دوستوں نے حصہ لیا.اس جلسہ کی برکتوں سے حضرت مولوی صاحب نے بھی فائدہ اٹھایا.اور آپ نے اسی سال
21 20: جلسے کے مہمانوں کے لئے قادیان میں ایک مکان بنوایا.وطن کا خیال چھوڑ دیں ستمبر 1892ء میں آپ اپنے وطن بھیرہ واپس تشریف لے آئے اور ایک بہت بڑا ہسپتال اور مکان بنانا شروع کر دیا.ابھی یہ کام ختم نہ ہوا تھا کہ کسی کام سے لاہور تشریف لائے اور وہاں سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملنے قادیان تشریف لے گئے.حضور نے فرمایا.اب تو آپ فارغ ہیں.یہاں رہیں.آپ سمجھے دو چار روز کے لئے فرماتے ہیں.ایک ہفتہ خاموش رہے پھر حضور نے فرمایا آپ اکیلے میں اپنی بیوی کو بھی بلوا لیں.تب آپ سمجھے زیادہ دن رہنا پڑے گا.اور مکان اور ہسپتال کا کام بند کر وا دیا.چند روز بعد حضور نے فرمایا.کتابوں کا شوق ہے یہیں منگوا لیں.پھر ایک روز فرمایا دوسری بیوی بھی یہیں بلوا لیں.پھر فرمایا.وطن کا خیال چھوڑ دیں.اور پھر آپ نے خواب میں بھی کبھی وطن نہ دیکھا.قادیان آنے کے بعد کئی لوگوں نے آپ کو کہا کہ قادیان کی بجائے لاہور یا امرتسر میں ہسپتال بنا لیں.مگر آپ نے ان بڑے شہروں کی بجائے قادیان جیسا چھوٹا گاؤں پسند کیا.اور اپنے پیارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ رہنے لگے.صبح سویرے بیماروں کو دیکھتے.اس کے بعد لوگوں کو قرآن وحدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھایا کرتے.نماز عصر کے بعد روزانہ قرآن مجید کا درس دیتے تھے.مہمانوں کی امانتیں اپنے پاس رکھتے.غریبوں کی مدد کرتے.احمدیوں کو اچھے کاموں کے کرنے اور بُرے کاموں سے بچنے کی نصیحت کرتے رہتے تھے.صبح سے شام تک سوائے نمازوں کے وقت کے ایک ہی جگہ بیٹھے رہتے تھے.جس میں صرف چٹائی بچھی ہوتی.صبح کے وقت عورتوں میں بھی قرآن مجید کا درس دیا کرتے تھے.بیت اقصیٰ میں نماز جمعہ پڑھاتے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات کے بعد نمازیں بھی پڑھاتے رہے.آپ کو باقاعد و سیر کی عادت نہ تھی.لیکن کبھی کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ کو اپنے ساتھ سیر کے واسطے لے جایا کرتے تھے.جب قادیان میں کالج بنا تو آپ اس میں عربی پڑھاتے رہے.صدر انجمن احمد یہ کے صدر تھے.قادیان میں آپ کے خرچ کی صورت بظاہر ڈاکٹری کے سوا اور کچھ نہ تھی.آپ فرمایا کرتے تھے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے میری ضرورتیں پوری کرتا ہے.جنگ مقدس" میں شمولیت وو 22 رمئی سے 15 جون 1893 ء تک امرتسر میں ایک مشہور مباحثہ ہوا.جسے’ جنگِ مقدس“ کہتے ہیں.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور عیسائیوں کے پادری عبد اللہ آتھم کے درمیان تھا.اس مباحثہ میں حضرت خلیفہ امسیح الاوّل بھی تھے.ایک دفعہ کسی عیسائی نے سوال کیا کہ پندرہ دن امرتسر میں بحث ہوتی رہی مگر نتیجہ کیا نکلا.آپ نے فرمایا چار نتیجے نکلے.اول.عیسائیوں جیسا جھگڑالو دنیا میں کوئی نہیں.
·23: -22.دوسرے.مرزا صاحب بڑے حوصلے والے ہیں.تیسر ے.اب عیسائی ایک منٹ کے لئے بھی کسی مذہب کا مقابلہ نہیں کر سکتے.چوتھے.ہم بادشاہ ہیں.یہ چاروں نتائج تو میں نے پہلے ہی دن نکال لئے تھے.باقی پندرہ دنوں میں تو اور بہت سے نتیجے نکلے.عیسائی نے ان کی وجہ پوچھی.آپ نے جواب دیا.نمبر ا:- حضرت مرزا صاحب نے ایک اصول بتایا تھا کہ عقل مند جو دعویٰ کرے اس کی دلیل دے.اپنی طرف سے کچھ نہ کہے.آپ وعدہ کے باوجود اس کی طرف نہیں آئے اس لئے جھگڑالو ہیں..نمبر۲: - مرزا صاحب کا حوصلہ بہت بڑا ہے کہ پندرہ دن تک تم سے بحث کرتے رہے.میرے جیسا پہلے ہی دن ختم کر دیتا.نمبر ۳:- آپ اپنے مذہب کی سچائی کی دلیل کسی اور مذہب کے سامنے نہیں دے سکتے.اس لئے کسی مذہب کا مقابلہ نہیں کر سکتے.نمبر ۴:.ہم اس لئے بادشاہ ہیں کہ ہمارے دعوئی اور جواب کی دلیل ہماری پاک کتاب قرآن مجید میں موجود ہے.قمر مسیح کا انکشاف ایک بزرگ خلیفہ نورالدین صاحب جھوٹی ایک دفعہ محلہ خانیار سری نگر سے گذر رہے تھے کہ ایک قبر پر انہوں نے ایک بوڑھے اور بڑھیا کو بیٹھے دیکھا.اُن سے پوچھا یہ کس کی قبر ہے؟ جواب دیا نبی صاحب کی.انہوں نے کہا یہاں نبی کہاں سے آ گیا؟ انہوں نے جواب دیا.یہ نبی دور سے آیا تھا.اور کئی سو سال پہلے آیا تھا.اور یہ قبر شہزادہ نبی آصف کی قبر کے نام سے مشہور ہے.خلیفہ نورالدین صاحب جمھونی نے حضرت خلیفہ امسیح الاوّل سے ذکر کیا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ایک مجلس میں تشریف رکھے ہوئے تھے کہ آپ نے فرمایا.مجھے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السلام کسی ایسی جگہ کی طرف گئے تھے جیسے کشمیر.اس پر حضرت خلیفہ المسیح الاول نے خانیار والی قبر کا واقعہ حضور علیہ السلام کو بتایا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خلیفہ جمونی صاحب کو بلا یا اور فرمایا کہ اس سے متعلق اور معلومات حاصل کریں.دسمبر 1896ء کے آخر میں لاہور میں تمام مذاہب کا ایک جلسہ ہوا.جس کی صدارت آپ نے کی.اس جلسہ میں سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مضمون اللہ تعالیٰ کی خوشخبری کے مطابق سب مذہبوں کے مضامین پر بالا رہا.1898 ء کے آغاز میں قادیان سے ایک اخبار ”الحکم“ نکلنا شروع ہوا.اس کے کچھ عرصہ بعد ایک اور اخبار ” البدر“ کا اجراء ہوا.حضرت مولوی نورالدین صاحب دونوں اخباروں کی بہت مدد کرتے ، پیسے سے بھی اور اپنے مضمون لکھ کر بھی.آپ کو بچوں سے بہت محبت تھی.قادیان میں چھوٹے بچوں کی ایک انجمن ہمدردان اسلام تھی.آپ اکثر وہاں تشریف لے جاتے.اور بچوں کو اپنی پیاری پیاری باتیں سُناتے.آپ کے بیٹے میاں عبد الحئی صاحب نے قرآن ختم کیا.تو اس دن آپ بہت خوش تھے کہ آپ کے لاڈلے بیٹے نے آپ کی سب سے پیاری کتاب ختم کی تھی.میاں عبد اٹھی صاحب قرآن ختم کر کے آئے.تو آپ نے فرمایا
25.24 بیٹا! ہم تم سے دس باتیں چاہتے ہیں.ان میں سے ۱۷۱۰ آج تم نے کر لی ہیں قرآن شریف پڑھو پھر اُسے یاد کرو.پھر اس کا ترجمہ پڑھو.پھر اس پر عمل کرو.پھر اسی طرح ساری زندگی گزار و یہاں تک کہ تمہیں موت آ جائے.قرآن پڑھاؤ پھر یاد کراؤ.پھر ترجمہ سُناؤ.پھر عمل کرواؤ.پھر اسی حالت میں تم کو موت آجائے.آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کے مطابق اس خوشی میں ایک بہت بڑی دعوت کا انتظام کیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نورالدین صاحب کو بہشتی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے وقت لوگ اپنے حواس کھو بیٹھے تھے.جماعت کو بہت صدمہ تھا.لیکن جوشخص اس وقت صبر سے کام لے کر جماعت کو تسلی دلا رہا تھا.وہ حضرت خلیفہ امسیح الاوّل تھے.سب احمدیوں نے مل کر آپ سے بیعت خلافت کی درخواست کی.تو آپ نے فرمایا.میں دعا کے بعد جواب دوں گا.چنانچہ پانی منگوایا.نماز نفل ادا کی.سجدے میں گر کر بہت روئے.نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا.چلو ہم سب وہاں چلیں.جہاں ہمارے آقا کا جسم مبارک پڑا ہے.چنانچہ آپ مقبرہ کی آمد اور خرچ کا حساب رکھنے کا ارشاد فرمایا.اس کے بعد صدرانجمن احمد یہ کا تمام لوگوں سمیت باغ میں تشریف لے گئے.اس وقت حضور علیہ السلام کی نعش صدر مقرر فرمایا.حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نے 1906ء میں لڑکوں اور لڑکیوں کو نماز سمجھانے کے لئے ایک رسالہ بھی جاری کیا.جو بہت پسند کیا گیا.قدرت ثانیہ کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی برکتوں والی زندگی کے آخری چند دن آپ کے لئے بہت صبر کے دن تھے.آخری بیماری میں حضور نے آپ کو بلوایا اور فرمایا کوئی دوائی بتلائیں.ساتھ ہی فرمایا حقیقت میں تو دوا آسمان پر ہے.آپ دعا بھی کریں اور دوا بھی.مگر خدا کا فیصلہ یہی تھا اور خدا کے اس جرنیل کی واپسی کا وقت آگیا تھا کوئی دوا کام نہ آئی اور چودھویں صدی کا یہ روحانی سُورج اس جہان کو منور کر کے اگلے جہان میں چمکنے کے لئے اس دنیا سے غروب ہو گیا.انا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ مبارک باغ میں رکھی تھی.سب لوگ ارد گرد جمع تھے.جہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحب نے کھڑے ہو کر تمام جماعت کی طرف سے ایک تحریر پڑھی جس میں آپ کی خدمت میں بیعت کی درخواست کی تھی اور اس پر سب احمدیوں کے دستخط بھی تھے.آپ نے لوگوں کے سامنے ایک تقریر کی.فرمایا میری پچھلی زندگی پر غور کر لو.میں کبھی امام بننے کا خواہشمند نہیں ہوا.اگر خواہش ہے تو یہ کہ میرا مولا مجھ سے راضی ہو جائے.پھر فرمایا میں یہ بوجھ صرف اللہ ہی کے لئے اٹھاتا ہوں.اس درد بھری تقریر پر سب نے عرض کیا.ہم سب آپ کا ہر حکم مانیں گے.آپ ہمارے امام بنیں چنانچہ اس جگہ بارہ سو کے قریب لوگوں نے بیعت کی.مردوں کے بعد عورتوں نے بھی بیعت کی.سب سے اول با قاعدہ بیعت کرنے والی حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ ( حضرت اماں جان ) تھیں.
·27: ·26.خلافت کے وقت آپ کی عمر 67 سال کے قریب ہو چکی تھی.اب آپ کے کندھوں پر خلافت کا بوجھ بھی آن پڑا.جب آپ اکیلے ہوتے تو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی سے فرماتے.میاں جب سے حضرت صاحب فوت ہوئے ہیں.مجھے اپنا جسم خالی معلوم ہوتا ہے.دنیا خالی خالی نظر آتی ہے.میں لوگوں میں چلتا پھرتا اور کام کرتا ہوں مگر پھر بھی لگتا ہے دنیا میں کوئی چیز بھی باقی نہیں رہی.شروع میں اکثر وقت آپ تنہائی میں گزارتے، دعا میں مصروف رہتے.دعا کے لئے ایک علیحدہ کمرہ بنا دیا گیا تھا.زمانہ خلافت کے بعض نمایاں کام آپ کی خلافت کے زمانہ میں جو کام نمایاں اہمیت والے ہیں ان میں سے چند ایک درج ذیل کئے جاتے ہیں.نمبرا: - آپ کی خلافت کے شروع ہی میں با قاعدہ بیت المال کا محکمہ قائم کیا گیا.نمبر ۲:- حضرت مصلح موعود نے حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے مشورہ سے انجمن تحمید الا زبان کے زیرانتظام ایک پبلک لائبریری قائم کی.- نمبر ۳:.حضرت خلیفہ اول کی خلافت کے شروع ہی سے یہ خواہش تھی کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی یاد میں ایک دینی مدرسہ قائم ہونا چاہئے.یکم مارچ 1909 ء کو آپ نے اس کی بنیاد رکھی.جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک مشہور ( رفیق ) حضرت مولانا شیر علی صاحب کی تجویز کے مطابق مدرسہ احمدیہ " رکھا گیا.نمبر ۴:- اخبار " نور " جاری کیا گیا.نمبر ۵:- حضرت خلیفہ امسیح الاول نے 5 / مارچ 1910ء کو بعد نماز فجر اپنے مبارک ہاتھوں سے ( بیت) نور کی بنیاد رکھی اور (بیت الذکر ) کے موضوع پر ایک تقریر فرمائی.نمبر 4 : - اسی سال تعلیم الاسلام ہائی سکول کی عظیم الشان عمارت کی بنیاد بھی رکھی.نمبر ۷:.پہلے بیت اقصیٰ چونکہ تنگ تھی اس لئے عورتیں ابھی تک جمعہ میں آکر خطبہ نہیں سُن سکتی تھیں.آپ کے وقت میں بیت اقصیٰ کو بڑھانے کا کام مکمل ہوا.اور 21 جنوری 1910ء کے جمعہ میں احمدی عورتوں نے جن میں ( حضرت اماں جان ) بھی شامل تھیں نماز پڑھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 1905ء میں خواب کے ذریعہ یہ نظارہ دکھایا گیا تھا کہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ مسیح الاول گھوڑے پر سے گر پڑے ہیں.یہ خواب پوری ہوئی اور اس حادثہ میں جو ستر سال کی عمر میں آپ کو پہنچا.آپ کے سر پر سخت چوٹ لگی.اور بہت خون بہہ گیا.جس کی وجہ سے تین سال تک یہ بیماری کسی نہ کسی شکل میں چلتی رہی اور شروع میں سات ماہ تو آپ کو بستر پر ہی رہنا پڑا.آپ بیماری کے دوران نماز حضرت مصلح موعود سے پڑھواتے تھے.حضرت مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں کہ اس بیماری میں ایک دفعہ آپ نے رات کے وقت قلم دوات منگوائے اور ایک کاغذ پر صرف دو لفظ لکھے خلیفہ محمود.پھر اپنے ایک شاگرد کو وہ کاغذ دیا کہ لفافے میں بند کر کے اپنے پاس رکھو.مگر جب آپ ٹھیک ہو گئے تو آپ نے وہ لفافہ لے کر پھاڑ ڈالا.مگر
29.28.اس کے بعد بھی اپنی وفات تک مختلف طریقوں سے اللہ کی مرضی کے مطابق اس خیال کا اظہار فرماتے رہے کہ آئندہ خلافت اس وصیت کے مطابق ہی ہوگی.1913ء کے جلسہ سالانہ کے بارہ میں احمدی دوستوں نے فیصلہ کیا کہ وہ دو دن ہو.مگر حضرت خلیفہ امسیح الاوّل نے یہ حکم دیا کہ جلسہ پروگرام کے مطابق 26 سے 28 دسمبر تک تین دن رہے گا چنانچہ اسی کے مطابق ہوا.نمبر ۸ انجمن انصار اللہ کا قیام :- فروری 1911 ء میں حضرت خلیفہ امسیح الاول کی اجازت سے حضرت مصلح موعود نے ایک انجمن انصار اللہ کی بنیاد ڈالی.حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے فرمایا.میں بھی آپ کے انصار اللہ میں شامل ہوں.نمبر ۹: - حضرت خلیفتہ المسیح الاوّل نے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب اور حضرت شیخ محمد یوسف صاحب کو سنسکرت پڑھانے کے لئے ایک پنڈت کا انتظام کیا اور اس کا خرچ خود اٹھایا.نمبر ۱۰:.حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کی زندگی کے حالات شائع کرنے کا سب سے پہلا خیال اکبر شاہ خاں صاحب نجیب آبادی کے دل میں آیا.چنانچہ ان کی خواہش پر حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نے اپنے حالات زندگی لکھوائے اور 1912ء کے آخر میں ” مرقاۃ الیقین فی حیات نور الدین“ کے نام سے شائع کئے گئے." نمبر 1:- رسالہ احمدی خواتین احمدی عورتوں کی تربیت کے لئے اس وقت کوئی رسالہ نہیں تھا.چنانچہ 1912 ء سے رسالہ " احمدی خواتین لگانا شروع ہوا.نمبر ۱۲ : - اخبار ” الفضل“.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے 18 جون 1913ء سے اخبار ”الفضل “ جاری فرمایا.یہ نام خود حضرت خلیفہ اسیح الاوّل نے تجویز فرمایا تھا.66 نمبر ۱۳: ضلع گورداسپور میں ایک گاؤں اٹھوال ہے.جس کے غیر احمدی دوستوں نے مولوی ثناء اللہ صاحب کو احمدیوں سے بحث کے لئے بلوایا.مگر جب انہیں بتایا گیا کہ یہ بحث حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کے مسئلہ پر ہوگی تو انہوں نے صاف کہہ دیا کہ حضرت مسیح علیہ السلام کا جنازہ ہی پڑھ دو.جس پر سارا گاؤں احمدی ہو گیا.نمبر ۱۴:-1913ء کا جلسہ سالانہ آپ کی خلافت کا آخری جلسہ سالانہ تھا.اس میں آپ نے دوز بردست تقریریں کیں.آخری ایام اور وفات زخم کی بیماری سے ٹھیک ہونے کے باوجود آپ کی صحت گر رہی تھی اور دین کے کام بہت زور سے جاری تھے کہ جنوری 1914ء میں رات کو پیشاب کے لئے اٹھے تو گر پڑے یہی آپ کی آخری بیماری کا آغاز تھا.پھر بھی خدا کا کلام سُنانے میں ناغہ نہیں ہونے دیا.درس جاری رکھا.طبیعت زیادہ کمزور ہو گئی تو شام کا درس گھر میں جاری کر دیا.عورتوں میں درس دیتے رہے.باوجود سخت ضعف کے کھڑے ہو کر درس دیتے.ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ آرام کریں لیکن آپ نے فرمایا مجھے اس سے طاقت ملتی ہے.۲ فروری کو ایسے درد سے
31 30- درس دیا کہ سب پر رقت طاری ہو گئی.بعض چھینیں مار کر رونے لگے.اسی روز لوگوں کے کندھوں پر سہارا لے کر پہنچے اور بیٹھے بیٹھے درس دیا.فرمایا کہ جب میں مروں گا میری اولاد کے واسطے چندے ہرگز نہ لینا.ان کی مسکین یا یتیم کی طرح مدد نہ کرنا.میری اولا د کو بھی خدا اسی طرح دے گا جس طرح اس نے مجھے دیا.اپنے گھر والوں کو نصیحت فرمائی کہ دکھوں میں کبھی نہ گھبرانا.لا إله إلا اللہ پڑھتے رہنا.27 فروری کو جمعہ کی نماز کے بعد ڈولی میں بیٹھ کر حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کی کوٹھی میں تشریف لے گئے.راستے میں بورڈنگ ہاؤس کے پاس طالب علموں نے آپ کا استقبال کیا اس پر آپ نے ڈولی ٹھہرائی.بچوں کے لئے در د دل سے دُعا مانگی.اور مولوی محمد علی صاحب کو بلوا کر ارشاد فرمایا کہ مجھے تو اللہ تعالیٰ بہت ہی پیارا ہے اس نے دو کام بتائے ہیں تواضع اور خاکساری.اس کی میری طرف سے بچوں کو نصیحت کر دو.اور کہو ہرلڑ کا خیرات کرے اور ہرلڑ کا استغفار کرے.چنانچہ مولوی محمد علی صاحب نے مغرب کے بعد بچوں کو یہ نصیحت کی.4 / مارچ کو نماز عصر کے بعد حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کو اچانک ضعف محسوس ہونے لگا.اسی وقت آپ نے حضرت مولوی سرور شاہ صاحب کو قلم دوات لانے کا حکم دیا اور لیٹے لیٹے یہ وصیت لکھی.بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ نَحْمَدُهُ وَنُصَلِّي عَلَى رَسُولِهِ الكَرِيمِ خاکسار بقائمی حواس یہ لکھتا ہے.لَا إِلهُ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ میرے چھوٹے بچے ہیں.میرے گھر مال نہیں.ان کا اللہ حافظ ہے.ان کی پرورش یتامیٰ اور مساکین کے حساب سے نہ ہو.کچھ قرضہ حسنہ جمع کیا جائے.لائق لڑکے ادا کریں.یا کتب جائیداد وقف علی الاولاد ہو.میرا جانشین متقی ہو.ہر دلعزیز ہو.عالم باعمل ہو.حضرت صاحب کے پرانے اور نئے احباب سے سلوک میں چشم پوشی ، در گذر کو کام میں لائے.میں سب کا خیر خواہ تھا.وہ بھی خیر خواہ رہے.قرآن وحدیث کا درس جاری رہے.مولوی محمد علی صاحب نے آپ کے حکم پر تین دفعہ وصیت پڑھ کر سنائی اس کے بعد آپ نے وہ کاغذ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کو دے دیا.فرمایا محفوظ رکھیں.آپ کی یہ آخری وصیت گویا ایک بجلی تھی جس نے ہر شخص کو یہ احساس دلا دیا کہ ان کا پیارا اور محبوب امام جس کی برکتوں سے وہ ایک عرصہ تک فائدہ اٹھاتے رہے اب رخصت ہونے والا ہے.دل اس خطرے سے کانپ رہے تھے.ڈاکٹروں سے مشورے کئے گئے.عاجزی اور سوز سے دعائیں ہونے لگیں.۱۳ / مارچ بروز جمعہ آپ کی حالت نازک ہو گئی.آخر وہ درد والی گھڑی آگئی جس کے خیال سے مومنوں کے دل کانپ رہے تھے.بعد دو پہر دو بج کر بیس منٹ پر نماز کی حالت میں آپ اپنے مولیٰ سے جاملے.انا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ - وقات سے پہلے آپ نے اپنے بیٹے میاں عبدائی صاحب کو بلایا اور فرمایا لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ پر میرا ایمان ہے.اور اسی پر میں مرتا ہوں.حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سب اصحاب کو میں اچھا سمجھتا ہوں.حضرت
33.32.مرزا غلام احمد صاحب کو مسیح موعود اور خدا کا برگزیدہ انسان سمجھتا ہوں.مجھے ان سے اتنی محبت تھی کہ جتنی میں نے ان کی اولاد سے کی.تم سے نہیں کی.قوم کو خدا کے سپر د کرتا ہوں.تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا کی کتاب کو پڑھنا پڑھانا اور عمل کرنا.میں نے بہت کچھ دیکھا پر قرآن جیسی چیز نہ دیکھی.بے شک یہ خدا کی کتاب ہے باقی خدا کے سپرد.میاں عبدائی صاحب کے علاوہ آپ نے اپنی بیٹی امتہ اکئی صاحبہ کو پیغام دیا کہ میرے فوت ہو جانے کے بعد میاں صاحب (حضرت خلیفۃ اسیح الثانی) سے کہہ دینا کہ وہ عورتوں میں بھی درس دیا کریں.جمعہ کے دن سوا دو بجے کے قریب حضرت خلیفتہ المسح الاول کی وفات ہوئی.تقریباً چھپیں گھنٹے کے بعد دوسرے دن نماز عصر کے بعد جماعت احمدیہ نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کو دوسرا خلیفہ منتخب کر لیا.یہ انتخاب بیت نور میں ہوا.انتخاب سے پہلے حضرت نواب محمد علی خان صاحب نے ان دو ہزار لوگوں کو حضرت خلیفتہ امسیح الاوّل کی وصیت پڑھ کر سنائی.بیعت کے بعد دعا ہوئی.پھر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے کھڑے ہو کر درد سے بھری ہوئی تقریر فرمائی.فرمایا میں کمزور اور بہت ہی کمزور انسان ہوں مگر میں خدا سے اُمید رکھتا ہوں کہ جب اس نے مجھے خلیفہ بنایا تو وہ یہ بوجھ اٹھانے کی بھی طاقت دے گا میں تمہارے لئے دعا کروں گا.تم میرے لئے دعا کرو.دعا اور تقریر کے بعد حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے تعلیم الاسلام ہائی سکول کے میدان میں حضرت خلیفۃ اسبیع الاول کی نماز جنازہ پڑھائی.جس میں تقریبا دو ہزار مرد شریک ہوئے.پھر سب حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی نعش مبارک لے کر بہشتی مقبرہ کی طرف روانہ ہوئے.اور اس مبارک انسان کے مبارک جسم کو ہزاروں دعاؤں کے ساتھ اس کے محبوب سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پہلو میں سلا دیا.آپ نے ایک دفعہ سرسید سے خط لکھ کر پوچھا کہ جاہل آدمی پڑھ کر عالم بنتا ہے.عالم ترقی کر کے حکیم ہو جاتا ہے.حکیم ترقی کرتے کرتے صوفی بن جاتا ہے.مگر جب صوفی ترقی کرتا ہے تو کیا بنتا ہے.سرسید مرحوم نے جواب دیا جب صوفی ترقی کرتا ہے تو نورالدین بنتا ہے.تو شکل علی اللہ آپ کی زندگی کی سب سے پہلی اور نمایاں بات اللہ پر توکل ہے.جو آپ کی زندگی میں بڑی شان سے نظر آتی ہے.آپ کا خدا سے ایسا ذاتی تعلق تھا کہ آپ کی ہر ضرورت پوری کرنے کا خدا انتظام کر دیتا.اوراس بارہ میں آپ کی زندگی میں اتنے واقعات آئے جن کا شمار ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے.آپ فرمایا کرتے تھے.میری آمدنی کا راز خدا نے کسی کو بتانے کی اجازت نہیں دی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ کو کوئی ضرورت پڑی تو آپ نے دعا مانگی.مصلی اٹھایا تو ایک پونڈ پڑا ہوا تھا.اسی طرح ایک کشمیری دوست نے چارسور و پیہ بطور امانت دیئے.چند دن بعد اس کا تار آ گیا
35.34 کہ مجھے روپے کی ضرورت ہے.حضرت خلیفۃ المسیح الاول اس وقت اپنے ہسپتال میں بیٹھے ہوئے تھے کہ کچھ وقت کے بعد شاہ پور کے دو ہندو رئیس آئے اور ایک تھیلی میں پھل اور چار سو روپیہ نذرانہ پیش کیا.عشق قرآن دوسری بات آپ کی سیرت میں عشق قرآن تھی.آپ فرماتے ہیں.مجھے قرآن سے بڑھ کر کوئی چیز پیاری نہیں لگتی.ہزاروں کتابیں پڑھی ہیں ان سب میں مجھے خدا ہی کی کتاب پسند آئی.میرا تو اعتقاد ہے کہ اس کتاب کا ایک رکوع انسان کو بادشاہ سے بڑھ کر خوش قسمت بنا دیتا ہے.اسی طرح فرمایا میں نے قرآن کریم بہت پڑھا ہے.اب تو یہ میری غذا ہے اگر آٹھ پہر میں خود نہ پڑھوں اور نہ پڑھاؤں اور میرا بیٹا سامنے آکر نہ پڑھے تو مجھے سکون نہیں ملتا.سونے سے پہلے وہ آدھ پارہ مجھے سنا دیتا ہے.غرض میں قرآن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا.وہ میری غذا ہے.ایک دفعہ قرآن شریف کے درس کے لئے بیت اقصیٰ کی طرف تشریف لے جارہے تھے.آپ کو راستے میں اطلاع ملی کہ صوفی غلام محمد صاحب بی.اے نے قرآن مجید حفظ کر لیا ہے.آپ وہیں ایک دکان کی چٹائی پر سجدہ شکر میں گر گئے.آپ تیز بخار میں بھی درس قرآن کا ناغہ نہ ہونے دیتے تھے.ایک دفعہ بیت اقصیٰ میں درس دیتے ہوئے اچانک شدید ضعف ہو گیا.بیٹھ گئے.پھر لیٹ گئے.ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہو گئے.چلنے کی طاقت نہ رہی.چار پائی پر اُٹھا کر لائے گئے.مگر راستے میں جب بیت مبارک کے پاس پہنچے تو فرمایا.مجھے گھر نہ لے جاؤ.بیت مبارک میں لے جاؤ.باوجود اس تکلیف کے نماز مغرب کے بعد ایک رکوع کا درس دیا.پھر لوگ چار پائی پر اُٹھا کر گھر تک لائے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بے حد محبت آپ کی زندگی کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت اور اطاعت میں اُونچے مقام پر تھے.قادیان سے ایک منٹ باہر جانا آپ موت سمجھتے تھے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص ہزار روپیہ روزانہ بھی مجھے دے.تو پھر بھی میں حضرت صاحب کی محفل چھوڑ کر قادیان سے باہر جانا پسند نہ کروں گا.ایک دفعہ آپ کو اسہال کی بیماری تھی.حضرت صاحب کی طرف سے تقریر کا حکم ملا.چنانچہ اسی وقت باہر چلے گئے اور تقریباً تین گھنٹے تک تقریر کی.ایک دفعہ فرمایا.اگر میری لڑکی ہو اور مرزا صاحب اسے سوسال کے بوڑھے سے بیاہنا چاہیں تو میں ہرگز انکار نہیں کروں گا.ایک دفعہ نواب خان صاحب مرحوم تحصیلدار نے آپ سے عرض کیا کہ حضرت مرزا صاحب کی بیعت سے کیا فائدہ ہوا؟ فرمایا.مجھے بہت فائدے حاصل ہوئے ہیں.پہلے مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت بذریعہ خواب ہوا کرتی تھی اب بیداری میں بھی ہوتی ہے.(حیات نور صفحہ 194)
36.سید نا حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے پیار کرنے والے دوستوں میں سب سے زیادہ جس شخص کی تعریف فرماتے تھے.وہ حضرت مولوی نورالدین صاحب خلیفہ اسیح الاوّل تھے.فرماتے ہیں:."سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام ان کے نور اخلاص کی طرح نورالدین ہے.میں ان کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال سے کر رہے ہیں.ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں.“ پھر فرمایا:.' آپ ( مومنوں) کا فخر ہیں.آپ ایک بے مثال وجود ہیں“ پھر فرمایا:.میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایسا اعلیٰ درجے کا صدیق دیا.“ چه خوش بُو دے اگر ہر یک ز اُمت نور دیں بودے نہیں کودے اگر ہر دل پر از نور یقیں پودے ( نشان آسمانی ) کیا ہی اچھا ہوتا اگر امت میں سے ہر ایک نورالدین ہوتا ی بھی ہوتا اگر ہر دل نوریقین سے بھرا ہوتا.نام کتاب.سوانح حضرت خلیفة المسیح الاول اکتوبر 1979ء $2000.....طبع اوّل.طبع دوم.طبع سوم.جون 2004ء اس کتاب کی اشاعت میں مکرم قائد صاحب و عاملہ علاقہ سیالکوٹ و مکرم قائد صاحب و عاملہ ضلع فیصل آباد نے تعاون فرمایا ہے.فجزاهم الله احسن الجزاء ☆☆☆