Hazrat Khalid Bin Walid

Hazrat Khalid Bin Walid

حضرت خالد بن ولید ؓ کی آپ بیتی

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ صحابہ و صحابیات رسول اللہ ﷺ

’’اللہ کی تلوار‘‘ کہلانے والے حضرت خالد بن ولیدؓ تاریخ اسلامی کے ابتدائی دور کا ایک اہم نام ہیں۔ آپؓ کی شخصیت کی عظمت کی گواہ آپ کی  شجاعت، زبردست قائدانہ صلاحیت اور معاملہ فہمی تھی لیکن آپؓ کی خلفائے راشدین سے بے پناہ محبت، سچی اطاعت اور عالم اسلام کے اندرونی و بیرونی دشمنوں کے مقابل پر سینہ سپر ہوجانا بھی کسی طور پر کم اہم نہیں ہے۔


Book Content

Page 1

له ضي عنه حضرت خالد بن ولید کی آپ بیتی دیباچه حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو عظیم الشان نشانات دیئے گئے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ آپ کے شدید ترین دشمن آپ پر ایمان لائے اور پھر انہوں نے ایسی عظیم الشان قربانیاں دیں کہ دنیا میں ان کی مثال تلاش کرنا مشکل ہے.ولید بن مغیرہ جو آپ کے پیغام کا شدید دشمن تھا اور جسے مرتے ہوئے بھی یہی خیال تھا کہ افسوس میں اس پیغام کو پھیلتا ہوا دیکھ رہا ہوں.اسی دشمن کا بیٹا خالد ایمان لایا اور ایسا ایمان لایا کہ آج لوگ اُن کی محبت میں اپنے بچوں کا نام اُن کے نام پر رکھتے ہیں.یہ ایک معجزہ تھا جو رسول اکرم کو دیا گیا کہ آپ کے دشمن جو آپ کو طعنے دیا کرتے تھے ان کی اولادیں اپنے آبا ؤ اجداد سے تعلق تو ڑ کر آپ کی غلامی میں آپ کی فرزندی میں آگئیں.اور خدا تعالیٰ کی بات بڑی شان سے پوری ہوئی کہ ”یقینا تیرا دشمن ہی بے اولا در ہے گا“

Page 2

1 پیش لفظ پیارے بچو! آنحضرت ﷺ پر ایمان لا کر امر ہو جانے والے جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے ایک بہت پیارا نام حضرت خالد بن ولید کا ہے.آپ کی شخصیت کی عظمت کی گواہی آپ کی شجاعت، زبر دست قائدانہ صلاحیت اور معاملہ فہمی سے بھی بڑھ کر خلافت نبوی سے آپ کی بے پناہ محبت اور سچی اطاعت دیتی ہے.شعبہ اشاعت مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے تحت ایسے خادمان خلافت کے حالات زندگی پر مبنی چھوٹی چھوٹی کتب شائع کرنے کا سلسلہ جاری ہے.یہ کتاب یکے از تصنیفات مکرم محمود مجیب اصغر صاحب ہے جو اولا مکرم محمود احمد صاحب شاہد کے دور صدارت میں شائع ہوئی.دوسری طباعت ستمبر 2000ء میں مکرم سید محمود احمد شاہ صاحب کے عرصہ صدارت میں ہوئی.اب خلافت احمد یہ صد سالہ جوبلی کے بابرکت موقع پر اس کتاب کو ایک بار پھر شائع کیا جا رہا ہے.اس کتاب کی اشاعت کے سلسلہ میں خاکسار مکرم مدثر احمد مزمل صاحب کے تعاون کا شکر گزار ہے.اللہ تعالیٰ اس کی اشاعت میں حصہ لینے والے تمام معاونین کو جزائے خیر دے.(آمین) والسلام خاکسار آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی مدح میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عربی منظوم کلام سے اقتباس اے خدا اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام اور درود بھیج اور اس کے آل پر جو مطہر اور طیب ہیں اور اس کے اصحاب پر جو دن کے میدانوں کے شیر اور راتوں کے راہب ہیں.اور دین کے ستارے ہیں.خدا کی خوشنودی ان سب کے شامل حال ہے.“ (روحانی خزائن جلد نمبر 14 صفحہ نمبر 17)

Page 3

3 2 تعارف میرا باپ ولید قبیلہ بنو مخزوم کا سردار اور مکہ کا رئیس اعظم تھا میری ماں کا نام لبابہ تھا.عرب میں قریش اور قریش کے قبیلوں میں سے بنو ہاشم ، بنو امیہ اور بنو مخزوم کی سب سے زیادہ عزت کی جاتی تھی.اُس زمانے میں مختلف قبیلوں کی اپنی اپنی حکومت ہوتی تھی.مکہ میں قریش حکومت کرتے تھے.قریش نے حکومت کے کام اپنی شاخوں میں بانٹے ہوئے تھے.ہمارے خاندان بنو جس روز میدان موتہ میں اسلام کے غازی عیسائی رومی فوجوں کے ساتھ جنگ مخزوم کے ذمہ جنگی معاملات تھے.ہمارا خاندان گھوڑے پالتا اور سدھا تا تھا.جن پر سوار لڑ رہے تھے اُسی روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ منورہ میں الہام الہی کے ذریعہ جنگ ہو کر قریش جنگ کرنے جاتے تھے.جنگی تیاریاں اور سامانِ جنگ فراہم کرنا اور قریش کے کے حالات کی اطلاع ہوئی.آپ نے اُسی وقت تمام مسلمانوں کو مسجد نبوی میں جمع کیا اور جنگی دستوں کو افسر مہیا کرنا بھی ہمارے خاندان کا کام تھا.اس لئے میرے ماحول نے بچپن منبر پر چڑھ کر فرمایا کہ: سے ہی مجھ پر بہت اثر کیا.میں جلد ہی ایک اچھا گھڑ سوار بن گیا.میں نے اپنے باپ سے لڑائی کے گر سیکھے.تیر کمان چلانے ، تلوار چلانے ، نیزے اور برچھی استعمال کرنے میں میں بہت جلد ماہر ہو گیا.میں اکثر گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کرنے جاتا تھا اور صحراؤں میں سفر تمہارے لشکر کی خبر یہ ہے کہ انہوں نے دشمن کا مقابلہ کیا زید شہید ہوا.اللہ نے اُس کو بخش دیا.اس کے بعد جعفر نے اسلامی جھنڈا اپنے ہاتھ میں لیا.دشمنوں کرتا پھرتا تھا.ہمارے گھر میں بہت پیسہ تھا اور میں دل کھول کر پیسہ خرچ کرتا تھا.میرے نے اُسے چاروں طرف سے گھیر لیا.یہاں تک کہ وہ بھی شہید ہوا.اللہ نے اس کو ماحول نے مجھے بہادر، نڈر اور جفاکش بنا دیا.میری صحت اچھی تھی اور میرا قد چھ فٹ سے بھی بھی بخش دیا.پھر عبداللہ بن رواحہ نے اسلامی جھنڈا اپنے ہاتھ میں لیا.وہ بھی دشمنوں سے لڑ کر شہید ہوا.یہ سب کے سب جنت میں اُٹھالئے گئے.ان تینوں کے بعد اسلامی جھنڈے کو خالد بن ولید نے اپنے ہاتھ میں لیا اور جنگ کی بگڑی ہوئی حالت کو سنبھالا.وہ میرے مقرر کردہ جرنیلوں میں سے نہیں 66 تھا وہ تو اللہ کی تلوار ہے.“ بلند ہو گیا.ہم سات بھائی تھے لیکن گھڑ سواری اور جنگی قابلیت میں میں سب سے آگے نکل گیا.میں نے جنگیں لڑنا اور فتح پانا اپنی زندگی کا مقصد بنالیا.مکہ کے سب بہادر لڑ کے میرے دوست بن گئے.جن میں حضرت عمرؓ ، عمر و بن العاص اور ابو جہل شامل تھے.ابو جہل کے بیٹے عکرمہ سے مجھے بہت پیار تھا.میری زندگی کے دو دور ہیں ایک وہ دور جب میرے خاندان نے رسول اللہ کی مخالفت وہ اللہ کی تلوار میں ہوں.میرا نام خالد ہے میں نے اپنی آنکھیں قریش کے قبیلہ بنو کی اور ہم نے رسول اللہ کے خلاف کئی جنگیں لڑیں.دوسرا وہ دور ہے جب میں نے اسلام مخزوم میں کھولیں.میں اپنے آقا محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش سے بارہ سال بعد مکہ قبول کیا اور مجھے اسلام کی خدمت کی توفیق ملی ، اور میرے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو بڑی میں پیدا ہوا.میں حضرت عمر کا ہم عمر تھا.میری کنیت ابوسلیمان ہے.بڑی فتوحات عرب ، فارس اور شام میں عطا فرمائیں.

Page 4

5 4 میری زندگی کا پہلا دور بیٹا محمد ہمیں دے دو تا کہ ہم اسے قتل کر دیں کیونکہ وہ ہمارے بجھوں کو بُرا بھلا کہتا ہے اور ایک خدا کو ماننے کے لئے کہتا ہے.ابو طالب نہ مانے اور کہنے لگے کہ یہ کیسا انصاف ہے کہ میں جب رسول اللہ نے دعویٰ نبوت فرما یا اُس وقت اکثر خاندانوں نے آپ کی مخالفت تمہارا بیٹا لے کر اُسے کھلاؤں پلاؤں اور تمہیں اپنا بیٹا دے دوں تا کہ تم اسے مارڈالو.خدا کی ان میں ایک ہمارا خاندان بنو مخزوم بھی تھا.ہمارے خاندان کی مخالفت کی وجہ یہ تھی کہ کی قسم یہ کبھی نہیں ہو سکتا ! اس کے بعد ہم نے رسول اللہ اور اُن کے ماننے والوں کو زیادہ دکھ رسول اللہ قبیلہ بنو ہاشم میں سے تھے اور بنو ہاشم سے بنو مخزوم کا عام طور پر جھگڑا رہتا تھا.اس دینے شروع کر دیے.حتی کہ مسلمانوں کے ایک حصہ کو حبشہ ہجرت کرنی پڑی جہاں ایک رحم خاندانی دشمنی کی وجہ سے ہم رسول اللہ کے دشمن بن گئے.ابوجہل جس نے رسول اللہ کو بہت دل با دشاہ نجاشی حکومت کرتا تھا.اور اُس کے ملک میں ہر ایک مذہب کے لوگ آرام سے رہ دُکھ دیئے وہ بھی ہمارے ہی خاندان میں سے تھا.اور میرے ایک چا کا بیٹا تھا.چنانچہ ایک سکتے تھے.لیکن قریش میں سے کچھ لوگ حبشہ کے بادشاہ کے پاس گئے ، تاکہ مسلمانوں کو وہاں سے نکلوا دیں.جو لوگ مسلمانوں کو نکلوانے بادشاہ کے پاس گئے تھے اُن میں میرا بھائی مرتبہ کسی نے ابو جہل سے پوچھا کہ تم رسول اللہ کو کیوں نہیں مان لیتے ؟ تو وہ کہنے لگا:.ہم اور بنو ہاشم ہمیشہ ایک دوسرے کے مخالف رہے.بنو ہاشم نے مہمانداریاں کیں تو ہم نے بھی کیں.انہوں نے خوں بہا دیئے تو ہم نے بھی بہا دیئے.انہوں نے فیاضیاں کیں تو ہم نے اُن سے بڑھ کر کیں.یہاں تک کہ جب ہم نے اُن کے کندھے کے ساتھ کندھا ملا دیا تو اب بنو ہاشم پیغمبری کے دعویدار بن بیٹھے ہیں.خدا کی قسم ہم اس پیغمبر پر کبھی ایمان نہیں لا سکتے.“ عمارہ بھی شامل تھا.نبوت ملنے کے تیرہ سال بعد تک رسول اللہ مکہ میں رہے.اور ہم آپ کو دکھ دیتے رہے حتی کہ آپ کے لئے مکہ میں رہنا ناممکن ہو گیا اور آپ اپنے صحابہ کو لے کر مدینہ ہجرت کر گئے.جہاں کئی لوگ مسلمان ہو چکے تھے اور رسول اللہ کی حفاظت کا ذمہ لے چکے تھے.میرا باپ رسول اللہ کی ترقی نہیں دیکھ سکتا تھا حتی کہ وہ اسی غم میں مر گیا.جب وہ بیمار تھا تو ایک دن رو پڑا.لوگوں نے پوچھا اے سردار! کیوں روتے ہو.اس نے کہا ” کیا تم سمجھتے (ابن ہشام) میرا باپ ولید بن مغیرہ اپنے خاندان کا سب سے بڑا سردار تھا وہ بھلا محمد صلی اللہ علیہ ہو کہ میں موت کے ڈر سے روتا ہوں؟ واللہ ! ایسا ہر گز نہیں.مجھے تو یہ غم ہے کہ محمد کا دین کہیں وسلم کو کیسے مان لیتا ! میرے باپ کی سمجھ میں یہ نہیں آتا تھا کہ مکہ کا سب سے بڑا آدمی تو وہ ہو پھیل نہ جائے اور محمد کا کہیں مکہ پر قبضہ نہ ہو جائے!‘ابوسفیان پاس ہی بیٹھا تھا.اُس نے کہا اور نبوت محمد کو مل جائے! اس لئے وہ رسول اللہ کا دشمن بن گیا.لیکن وہ چونکہ ایک شریف آدمی تھا.اس لئے اُس نے نہ کبھی رسول اللہ کو گالیاں دیں اور نہ کبھی ہاتھا پائی کی.رسول اللہ کے بزرگوں میں سے آپ کے چچا ابو طالب تھے.جو رسول اللہ پر کسی دشمن کو ہاتھ نہیں اُٹھانے دیتے تھے.ایک دفعہ قریش کے لوگ میرے ایک بھائی عمارہ کو اس بات کا غم نہ کرو جب تک ہم زندہ ہیں ایسا نہیں ہوگا.غزوہ بدر مرتے وقت اپنے باپ کی گفتگو نے ہم پر بہت اثر کیا.اور ہم نے رسول اللہ کے ابوطالب کے پاس لے گئے اور کہا کہ اس بڑے خاندان کے بیٹے عمارہ کو اپنا بیٹا بنالو اور اپنا خلاف جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا.رسول اللہ کو مدینہ گئے ہوئے ابھی دو سال بھی نہیں ہوئے

Page 5

7 6 تھے کہ ابو جہل ایک ہزار کا لشکر تیار کر کے مدینہ کی طرف روانہ ہوا.اس کے مقابلہ کے لئے فرمائے.لڑائی شروع ہوئی تو ہمارے قدم اکھڑ گئے اور ہماری فوج میدانِ جنگ سے رسول اللہ نے تین سو تیرہ صحابہ کا لشکر تیار کیا اور مدینہ سے باہر ابو جہل کے مقابلے کے لئے بھاگنے لگی.مسلمانوں نے ہمارا مال غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا.یہ دیکھ کر درّہ والے بدر کے مقام پر آئے.بدر کے میدان میں دونوں لشکروں کے درمیان جنگ ہوئی.ابو جہل مسلمانوں نے بھی درہ چھوڑ دیا.کی فوج میں میرے سوا میرے خاندان کے اکثر لوگ شامل تھے.ابوجہل اس جنگ میں مارا اس وقت میرے اور عکرمہ کے پاس سو سو سواروں کا ایک ایک دستہ تھا اور عمرو بن گیا اور ہمارے آدمیوں کو شکست ہوئی.رسول اللہ ہمارے کئی آدمیوں کو جنگی قیدی بنا کر العاص ہمارا سالا رتھا.جونہی مسلمانوں نے درہ چھوڑا میری نگاہ اس درہ پر پڑی.میں اپنا مدینہ لے گئے.جنگی قیدیوں میں میرا ایک بھائی ولید بن ولید بھی شامل تھا.ولید بن ولید کو دستہ لیکر اس درہ میں سے داخل ہو کر مسلمانوں پر پچھلی طرف سے حملہ آور ہوا.عکرمہ بھی مسلمانوں کی قید سے چھڑانے کیلئے ہم نے مسلمانوں کو چار ہزار درہم فدیہ دیا اور اُسے میدانِ جنگ کے دوسرے سرے سے گھوڑے دوڑا تا ہوا اپنے دستے کو لے کر میرے ساتھ واپس مکہ لے آئے.لیکن وہ رسول اللہ اور صحابہ کے اچھے سلوک کی وجہ سے قید کے دوران شامل ہو گیا.ہم دونوں نے مسلمانوں پر اس زور سے حملہ کیا کہ مسلمانوں کی فتح شکست میں ہی دل سے مسلمان ہو گیا تھا جس کا اعلان اُس نے مکہ آکر کیا.میں اور میرے دوسرے بھائی بدلنے لگی.اتنے میں ابوسفیان نے پیدل فوج اکٹھی کر کے مسلمانوں پر آگے سے حملہ کر دیا.ولید بن ولید پر بہت ناراض ہوئے اور کہا تم نے مسلمان ہی ہونا تھا تو فدیہ کیوں ادا کیا.اُس اس طرح یکدم چاروں طرف سے گھر جانے کی وجہ سے مسلمانوں کا بہت نقصان ہوا.اور نے جواب دیا کہ میں اگر قید کے دوران ہی مسلمان ہونے کا اعلان کرتا تو لوگ سمجھتے کہ میں رسول اللہ کے چہرہ مبارک پر بھی زخم آگئے.آپ کے دو دانت بھی شہید ہو گئے اور آپ بے فدیہ بچانے کے لئے مسلمان ہوا ہوں.اس کے بعد ہم نے ولید کو بڑے دُکھ پہنچائے تا کہ وہ ہوش ہو کر گر پڑے.لیکن آپ کی دعاؤں اور بہادری کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اسلام چھوڑ دے مگر وہ اپنے ایمان پر مضبوط رہا اور کچھ عرصہ بعد مدینہ چلا گیا.شدید نقصان سے بچالیا.جس کا ہم نے ارادہ کیا ہوا تھا.غزوہ اُحد غزوہ خندق مسلمانوں کے خلاف پہلا موقع مجھے غزوہ اُحد میں ملا.بدر کا بدلہ لینے کے لئے ہم نے تین ہزار کا لشکر تیار کیا اور ابوسفیان کی زیر کمان ہم مدینہ پر چڑھائی کرنے کے لئے اُحد ایک اور موقع مجھے مسلمانوں کے خلاف غزوہ خندق کے دوران ملا.اسلامی تاریخ میں پہاڑی تک پہنچ گئے جو مدینہ کے شمال میں صرف چار میل کے فاصلے پر ہے.مسلمان لشکر کی مسلمانوں پر یہ سب سے خطرناک حملہ تھا.ہم نے عرب کے تمام بڑے بڑے قبیلے اکٹھے تعداد ایک ہزار تھی.جن میں سے تین سو منافق ہماری تین گنا فوج دیکھ کر بھاگ گئے.اور کئے اور چوبیس ہزار کی فوج کے ساتھ مدینہ پر حملہ کر دیا.مسلمانوں کی کل تعداد تین ہزار تھی میدانِ جنگ میں صرف سات سو مسلمان رہ گئے.مسلمان فوج کے پیچھے اُحد کا پہاڑ تھا اور اس لئے اتنے بڑے لشکر کا مقابلہ کرنا مسلمانوں کے لئے ناممکن تھا.اس لئے مسلمانوں نے ایک جگہ پر پہاڑی میں ایک درہ تھا جو اُحد اور عینین کی پہاڑی کے درمیان ہے.اس درّہ مدینہ کے گرد ایک چوڑی اور گہری خندق کھود کر مدینہ کو ہمارے اچانک حملے سے محفوظ کر لیا.اسلامی فوج کو خطرہ ہو سکتا تھا اس لئے رسول اللہ نے وہاں پچاس تیر انداز مقرر ہم نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا.اور یہ محاصرہ ہیں دنوں تک جاری رہا.مدینہ کے جنوب میں

Page 6

9 8 یہودی رہتے تھے ہم نے یہودیوں کو اُکسایا کہ وہ مسلمانوں پر پیچھے سے حملہ کریں تا کہ آگے سے ہم اور پیچھے سے یہودی حملہ کر کے مسلمانوں کو تہس نہس کر دیں.ہماری فوج کا سپہ سالار غزوہ اُحد والا ابوسفیان تھا.صلح خلد يعيه غزوہ خندق کے بعد بھی ہمارے اور مسلمانوں کے درمیان کشمکش جاری رہی.ہم نے ہیں دن کے محاصرے سے تنگ آکر میں نے اور عکرمہ نے معاملات کو اپنے ہاتھوں مسلمانوں کا حج بند کیا ہوا تھا کیونکہ خانہ کعبہ مکہ میں تھا اور مسلمان مکہ میں داخل نہیں ہو سکتے میں لیا اور دو تین میل لمبی خندق پر کئی جگہ تیروں سے مسلمانوں پر بڑی شدت سے حملہ کر تھے.رسول اللہ کو مدینہ میں خواب آئی کہ وہ اپنے صحابہ کے ساتھ خانہ کعبہ کا طواف کر رہے ہیں.آپ چودہ سو صحابہ کو لے کر طواف کرنے مکہ کی طرف چل پڑے.ہم نے فیصلہ کیا کہ دیا.مسلمانوں کی تعداد تھوڑی تھی وہ مختلف ٹولیوں میں خندق کے اُن حصوں پر ا کٹھے ہو گئے جہاں ہم تیروں سے حملہ کر رہے تھے.اس موقع سے فائدہ اُٹھا کر جو جگہ خندق کی خالی رسول اللہ اور صحابہ کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے.قریش نے مجھے تین سو سواروں کا دستہ دے کر بھیجا کہ میں مسلمانوں کو راستے میں ہی روک لوں.میں مدینہ سے آنے والی ہو گئی تھی وہاں سے عکرمہ اپنے گھوڑوں کو دوڑا کر سات ساتھیوں کو لے کر خندق پار کرنے میں کامیاب ہو گیا.مسلمانوں کی طرف سے حضرت علیؓ آگے بڑھے اور مقابلہ کیا.سڑک پر اس درّہ کو روک کر کھڑا ہو گیا جہاں سے اس طرف سے آنے والے لوگ مکہ میں داخل ہوتے تھے.رسول اللہ نے اس طرف ایک چھوٹا سا دستہ روانہ فرمایا.میری توجہ اس طرف پھیر کر رسول اللہ صحابہ کو لے کر ایک اور راستے مکہ کے نزدیک مغرب میں حدیبیہ کے مقام تک پہنچ گئے.رسول اللہ کی اس جنگی حکمت نے مجھے بہت متاثر کیا.ہمارے دو تین آدمی مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے.عکرمہ مشکل سے جان بچا کر خندق پار کر کے واپس آ گیا.خندق پار کرتے ہوئے میرے چا عبداللہ کا بیٹا نوفل خندق میں گر کر ہلاک ہو گیا.حدیبیہ کے مقام پر رسول اللہ اور قریش کے درمیان ایک معاہدہ ہوا جس میں ایک شرط اس واقعے نے میرے دل پر بہت اثر کیا.میں نے ارادہ کیا کہ خندق پار کر کے چین ی تھی کہ دس سال کے لئے جنگ بند کی جاتی ہے اور یہ کہ رسول اللہ کو اس سال نہیں بلکہ اگلے لوں گا.اگلے روز میں نے اپنے دستے کو خندق سے کافی پیچھے ہٹایا اور تیزی سے گھوڑے سال حج کرنے کی اجازت ہوگی.اگلے سال رسول اللہ حج کرنے کے لئے مکہ آئے مجھے اسلام سے نفرت تھی اس لئے میں مکہ سے بھاگ گیا.میں یہ نہیں برداشت کر سکتا تھا کہ رسول اللہ مکہ میں میرے سامنے داخل ہوں.مسلمانوں کے خلاف میری یہ آخری کا رروائی تھی کیونکہ اس کے بعد میرے ذہن میں کچھ تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی اور مجھے اپنے مذہب پر دوڑا کر خندق پار کرنے میں کامیاب ہو گیا.مسلمانوں نے مجھے گھیرے میں لے لیا.میں نے ایک مسلمان پر حملہ کیا اور اسے شہید کر دیا اور تیزی سے اپنے دستے سمیت گھوڑے دوڑا کر خندق پار کر کے واپس آ گیا.اس واقعہ کے دو روز بعد بہت شدید آندھی آئی.ہماری فوج گھبرا گئی اور میدان چھوڑ شک ہونے لگا.کر بھاگنے لگی.تئیس (23) دن ہم نے مدینہ کو گھیرے رکھا.ہماری فوج مسلمانوں سے دس گنا زیادہ تھی پھر بھی ہم کامیاب نہ ہو سکے.مجھے اس واقعہ نے حیرت میں ڈال دیا.مسلمانوں کے ساتھ یقینا کوئی غیبی طاقت کام کر رہی تھی.قبول اسلام جب اللہ تعالیٰ نے مجھے نیکی کی ہدایت دینی چاہی تو میرے دل میں اسلام کی محبت پیدا

Page 7

11 10 فرما دی اور مجھ پر ہدایت کی راہ واضح فرما دی.میں نے اپنے دل میں کہا کہ میں رسول اللہ میں نے رسول اللہ سے عرض کیا کہ میں آپ کے خلاف کئی جنگوں میں لڑ چکا ہوں.کے خلاف سب جنگوں میں شامل ہوا اور سب میں ناکام ہوا.میں رسول اللہ کی فوجی مہارت میرے گناہوں کی معافی کے لئے دُعا فرما ئیں.آپ نے فرمایا.اسلام پچھلے سب گناہ کا قائل ہو گیا میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں غلطی پر ہوں اور رسول اللہ ضرور غالب معاف کر دیتا ہے اور میرے لئے دُعا فرمائی.آئیں گے.مسلمانوں کی تعداد بڑھ رہی تھی اور ہماری کم ہو رہی تھی میرا بھائی ولید بن ولید مسلمان ہو چکا تھا.میری خالہ میمونہ ۷ ھ میں رسول اللہ سے نکاح کر چکی تھیں.رسول اللہ کی توجہ نے مجھے اپنی طرف کھینچا.۷ھ میں جب آپ کعبہ کا طواف کرنے آئے تو میرا بھائی ولید بن ولید بھی ہمراہ تھا.آپ نے میرے بھائی ولید سے پوچھا کہ تمہارا بھائی خالد کہاں ہے؟ میرے بھائی نے عرض کی.”حضور ! خالد کو اللہ ہی لائے تو لائے.“ مدینہ پہنچ کر میرے بھائی ولید نے مجھے ایک خط لکھا کہ کس طرح رسول اللہ نے میرے بارے میں پوچھا تھا اور مجھے اسلام قبول کرنے کی دعوت دی.اُن ہی دنوں میں نے خواب دیکھا.کہ میں ایک ویران ، چٹیل اور تنگ جگہ پر ہوں پھر وہاں سے ایک سرسبز و شاداب علاقہ میں آ گیا ہوں.میں نے اسلام قبول کرنے کا پکا ارادہ کر لیا اور گھوڑے پر سوار ہو کر مدینہ کی طرف روانہ ہوا.مکہ سے باہر میری ملاقات عمرو بن العاص اور عثمان بن طلحہ سے ہوئی یہ دونوں میرے دوست اور قریش کے اُمراء کی اولاد تھے.یہ بھی اسی مقصد کے لئے مکہ سے نکلے تھے.ہم تینوں دوست مدینہ میں رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوئے.رسول اللہ کو علم ہوا تو آپ نے فرمایا.مسلمانو! مکہ نے اپنے جگر گوشے نکال کر تمہارے سامنے ڈال دیئے ہیں.“ ہم نے باری باری رسول اللہ کی بیعت کی اور مسلمان ہوگئے پہلی بیعت میں نے دوسری عمرو نے اور تیسری عثمان نے کی.اس وقت میری عمر ۴۳ سال تھی.اس کے بعد میں مدینہ میں آکر رہنے لگا اور میری زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا.

Page 8

13 12 میری زندگی کا دوسرا دور زمانہ نبوی میں میری جنگی مہمات جنگ موتہ اور سیف اللہ کا خطاب ملنا مغرب کے درہ سے داخل ہوا.اس دستے کے قائد زبیر تھے چوتھے دستے کا سالار میں تھا.میں شمال مشرق کے راستے سے داخل ہوا.میرے دستے کو روکنے کے لئے عکرمہ بن ابو جہل اور صفوان فوج لے کر سامنے سے آئے.عکرمہ میرا بھتیجا اور صفوان میرا بہنوئی تھا عکرمہ اور صفوان سے مقابلہ ہوا.یہ دونوں بھاگ گئے.رسول اللہ نے مکہ فتح کر کے قریش کو معاف کر دیا.آپ نے خانہ کعبہ میں رکھے ہوئے ابھی مجھے مدینہ آئے ہوئے دو تین ماہ ہی گزرے تھے کہ جمادی الاول ۸ ھ بمطابق تمام بتوں کو تو ڑ کر باہر پھینکوا دیا.کچھ بہت قریبی بستیوں میں ابھی باقی تھے جن میں سے عزئی ستمبر ۶۲۹ء میں اردن میں مجھے جنگ موتہ میں مسلمانوں کی طرف سے لڑنے کا موقع مل نامی ایک بت نخلہ میں تھا قریش کا یہ سب سے بڑا بت تھا جسے کئی قبائل پوجتے تھے.رسول گیا.خدا کی تقدیر نے کچھ اس طرح کام کیا کہ جنگ شروع ہوتے ہی رسول اللہ کے مقرر اللہ نے ہیں سواروں کا دستہ دے کر مجھے نخلہ روانہ فرمایا.میں جا کر عزمی کو تو ڑ آیا.آپ نے کردہ تینوں سالار باری باری شہید ہو گئے اور میدان جنگ میں ہی تین ہزار اسلامی لشکر کا فرمایا ” اب تمہاری سرزمین میں اس کی دوبارہ پو جا نہیں کی جائے گی.“ سالار اللہ تعالیٰ نے مجھے بنا دیا.میں بڑی بہادری سے لڑا.اس روز میرے ہاتھوں لڑتے نخلہ سے واپسی پر رسول اللہ نے مجھے مکہ کے جنوب میں تہامہ کی طرف اسلام کی دعوت لڑتے نو تلوار میں ٹوٹیں.میں اسلامی لشکر کو روم کی دو لاکھ عیسائی افواج سے بچا کر واپس دینے کے لئے بھیجا.میں نے تہامہ میں یلملم پہنچنا تھا جو مکہ سے پچاس میل دور تھا لیکن میں لانے میں کامیاب ہوا.رسول اللہ نے مجھے سیف اللہ یعنی اللہ کی تلوار کا خطاب دیا.فتح مکہ چند ماه بعد رمضان ۸ھ (بمطابق جنوری ۶۳۰ ء ) میں قریشِ مکہ نے معاہدہ حدیبیہ کی خلاف ورزی کی.رسول اللہ دس ہزار مسلمان مجاہدوں کے ساتھ مکہ کی طرف روانہ ہوئے.قریش کو اتنی بڑی طاقت کے مقابلہ کی مہلت ہی نہ ملی اور لڑائی کے بغیر مکہ فتح ہو گیا.ابھی مکہ سے پندرہ میل تک ہی گیا تھا تو قبیلہ بنو جذیمہ نے ہمارا راستہ روک لیا.میں نے اس کے کچھ لوگ قتل کر ڈالے جس کا قصاص رسول اللہ نے حضرت علی کو دے کر بھیجا کہ وہ ادا کر آئیں اور مجھے تنبیہ فرمائی.غزوہ حنین ابھی رسول اللہ مکہ میں ہی تھے کہ مشرق میں ہوازن اور ثقیف کے طاقتور قبائل بارہ اُن دنوں وادی مکہ میں داخل ہونے کے لئے چار دڑے تھے.رسول اللہ نے اسلامی ہزار کا لشکر تیار کر کے شوال ۰۸ھ بمطابق فروری ۶۳۰ ء میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم فرمایا.اور ہر ایک حصے پر ایک ایک افسر مقررفرمایا اور مکہ میں داخل تیار ہوئے اور کنین کی وادی میں اوطاس کے مقام پر اکٹھے ہوئے.ان کا سپہ سالا را یک تمیں ہونے کے لئے چاروں دڑے تقسیم کر دئیے.سب سے بڑا دستہ ابو عبیدہ کا تھا وہ شمالی درہ سالہ نوجوان مالک بن عوف تھا جو کہ بہت بہادر اور غصے والا انسان تھا.رسول اللہ نے بارہ سے گزرے.دوسرا دستہ جنوب سے داخل ہوا یہ دستہ حضرت علی کا تھا.تیسرا دستہ جنوب ہزار کا لشکر تیار کیا اور مکہ سے وادی حنین کی طرف روانہ ہوئے آپ نے مجھے سات سو

Page 9

15 14 سواروں کا ایک دستہ دے کر اسلامی فوج کے آگے آگے روانہ کیا.میں نے ذرا جلدی سے بڑ الشکر تیار کیا.اتنا بڑ الشکر اس سے پہلے کسی جنگ کے لئے دستیاب نہیں ہوا تھا.میں بھی کام لے کر اوطاس کے مقام پر دشمن پر حملہ کر دیا اور دشمن کی زد میں آکر زخمی ہو کر گھوڑے اس لشکر میں شامل تھا.رسول اللہ اس لشکر کو لے کر رجب ۰۹ ھ بمطابق اکتوبر ۶۳۰ ءشام کی سے گرا اور بے ہوش ہو گیا.باقی فوج پہنچنے پر باقاعدہ جنگ شروع ہوئی.پہلے تو مسلمانوں سرحد کی طرف روانہ ہوئے اور تبوک کے مقام تک پہنچ گئے.تبوک پہنچ کر معلوم ہوا کہ خطرہ کے قدم اکھڑ گئے لیکن دوبارہ رسول اللہ کی بہادری اور دعاؤں سے دشمن کو شکست فاش ہوئی ٹل گیا ہے کیونکہ رومی فوج سرحد سے ہٹ کر دمشق چلی گئی ہے.اور مالک بن عوف اپنے قبلے ثقیف کو لے کر طائف کے قلعہ کی طرف بھاگ گیا.میں جنگ ختم ہونے تک بے ہوش رہا.پھر رسول اللہ میرے پاس آئے آپ نے دعا کر کے میرے ساتھ امن کے معاہدے کئے اور انہیں اسلامی حکومت میں شامل فرمالیا.زخموں پر پھونکا.میں نے محسوس کیا کی میرے جسم میں دوبارہ جان آگئی.غزوہ طائف ہے.رسول اللہ نے تبوک کے مقام پر فوجی کیمپ لگایا اور شام کی سرحد پر آبا د قبائل عرب کے تبوک سے قدرے آگے ایک علاقہ دومتہ الجندل کے نام سے مشہور تھا جو آجکل الجوف کہلاتا ہے اس علاقہ پر قبیلہ کندہ کا ایک عیسائی شہزادہ اُکید رحکومت کرتا تھا.اس نے سرکشی رسول اللہ نے حکم دیا کہ ہم طائف پہنچ کر قلعہ کا محاصرہ کر لیں.اسلامی لشکر طائف کی دکھائی.اور آپ کی خدمت میں امن کے معاہدے کے لئے حاضر نہ ہوا.رسول اللہ نے طرف روانہ ہو گیا میں سارا راستہ ہر اول دستے کی قیادت کرتا رہا.۱۵ رشوال ۰۸ ھ بمطابق مجھے 400 سواروں کا دستہ دے کر اکیدرکو گرفتار کرنے کے لئے بھیجا.اکیدر کو شکار کا بہت ۵ فروری ۶۳۰ء کو ہم طائف پہنچے.دشمن قلعہ بند ہوگئے اور مسلمان فوج نے طائف کا شوق تھا.گرمیوں کا موسم تھا.چاندنی راتیں تھیں اکیدر رات کو نیل گائے کا شکار کرنے محاصرہ کر لیا.ہیں دنوں تک محاصرہ جاری رہا.سخت سردیوں کے دن تھے.مشورہ کیا گیا اور اپنے محل سے باہر نکلا.اس کا بھائی حستان بھی اس کے ساتھ تھا اور حفاظتی دستہ بھی.میں نے ۴/ذیقعدہ کو محاصرہ اُٹھا لیا گیا.حنین کا مال غنیمت تقسیم کر کے ہم رسول اللہ کے ساتھ مدینہ چند ساتھیوں کو لے کر اکیدر کا تعاقب کیا اس کے ساتھی حملہ آور ہوئے.اکیدر کا بھائی حستان روانہ ہو گئے اور ذیقعدہ کے آخر تک مدینہ پہنچ گئے.تبوک اور دومۃ الجندل کی مہمات مارا گیا میں نے اُکیدر کو گرفتار کر لیا اور اسے لے کر رسول اللہ کی خدمت میں تبوک حاضر ہوا.اُ کیدر نے بھاری فدیہ دے کر رسول اللہ کی اطاعت قبول کر لی.اس کے بعد ہم واپس ہجرت کا نواں سال تاریخ اسلام میں سالِ وفود کے نام سے مشہور ہے.کیونکہ اس مدینہ آ گئے.اس کے بعد سارا سال کوئی جنگی مہم پیش نہ آئی.سال عرب میں ہر طرف سے قبائل کے وفود رسول اللہ کے پاس مدینہ آتے اور اسلام قبول کرتے رہے.دیکھتے دیکھتے اسلام سارے عرب میں پھیل گیا.اس دوران یہ خبریں پہنچیں کہ رومیوں نے شام کی سرحد پر مدینہ کے شمال میں اپنی فوجیں جمع کر لی ہیں اور وہ مسلمانوں رسول اللہ کی زندگی میں میری آخری مہم اگلے سال ربیع الاول ۱۰ھ بمطابق جولائی ۶۳۱ء میں رسول اللہ نے 400 سواروں پر حملہ کرنا چاہتے ہیں.رسول اللہ نے اس لشکر کو سرحد پر ہی روکنے کے لئے تیس ہزار کا ایک کی جماعت کا سالار بنا کر مجھے نجران کے قبیلہ بنو حارثہ کے پاس بھیجا.میں نے نجران پہنچ کر

Page 10

17 16 اس قبیلے کو اسلام کی دعوت دی.انہوں نے اسلام قبول کرلیا.لیکن نجد میں قبیلہ اسد کے سردار طلیحہ نے مدینہ کے شمال کی طرف بُزاخہ میں جھوٹی نبوت میں نے رسول اللہ کی خدمت میں خط لکھا اور بنو حارثہ کے اسلام قبول کرنے کی اطلاع کا دعوی کر رکھا تھا.قبیلہ بنو تمیم کے سردار مالک بن نویرہ نے مدینہ کے شمال مشرق کی طرف دی.رسول اللہ بہت خوش ہوئے اور خط میں ارشاد فرمایا کہ اس قبیلے کے کچھ لوگ لے کر بطاح میں بغاوت کر رکھی تھی اور یمامہ میں مسیلمہ نے جھوٹی نبوت کا دعوی کر کے بغاوت مدینہ آؤں.مجھے مدینہ سے آئے ہوئے چھ ماہ ہو گئے تھے یہ عرصہ میں نے مبلغ کے طور پر کر دی تھی.اسی طرح تبوک اور دومتہ الجندل کے علاقوں میں قضاعہ اور ودیعہ قبائل نے گزارا.شوال ۱۰ھ بمطابق جنوری ۶۳۲ ء کو میں وفد لے کر رسول اللہ کی خدمت میں مدینہ بغاوت کر رکھی تھی.حاضر ہوا.ان باغیوں سے نمٹنے کے لئے حضرت ابو بکر نے گیارہ لشکر تیار کئے اور انہیں عرب میں اس کے کچھ عرصہ بعد ۱۲ / ربیع الاول ۱۰ھ مطابق ۵/ جون ۶۳۲ ء کو رسول اللہ فوت چاروں طرف بھیج دیا.ان گیارہ لشکروں میں سے ایک لشکر میرا تھا.مجھے طلیحہ اور مالک بن ہو گئے.اور اس طرح رسول اللہ کی زندگی میں میری یہ آخری مہم ثابت ہوئی.نویرہ کی طرف بھیجا گیا.خلافت راشدہ میں میری جنگی خدمات فتنہ بغاوت میں میری خدمات عرب کے شمال وسطی علاقہ میں خاتمہ بغاوت کیلئے مہم طلیحہ نجد میں بنو اسد کا سردار تھا.جو رسول اللہ کی زندگی میں مسلمان ہو کر اب خود جھوٹا میں جب بُزاخہ پہنچا تو طلیحہ کی فوج پہلے سے تیار تھی.اُس کی فوج کا سپہ سالا رطلیحہ کا رسول اللہ کی وفات کے بعد حضرت ابوبکر پہلے خلیفہ اور عرب کے بادشاہ ہوئے.نبی بن گیا تھا.اس نے کئی قبیلوں کو ملا کر بُزاخہ میں ایک بڑی فوج اکٹھی کر لی.ذوالقصہ اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں سارا عرب مسلمان ہو گیا تھا.آپ نے اپنی زندگی ابرق سے بھی باغی بھاگ کر بُزاخہ میں اس کی فوج میں شامل ہو گئے تھے.میں ہی دنیا کے بڑے بڑے بادشاہوں کو اسلام کا پیغام پہنچادیا تھا لیکن رسول اللہ کی وفات کے بعد کئی عرب قبائل نے بغاوت کر دی اور مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا.باغی قبائل مدینہ بھائی خبال تھا اور طلیحہ خود ایک چادر اوڑھ کر وحی کے انتظار میں ایک طرف بیٹھ کر لوگوں کو کے شمال مشرق میں ستر میل دور ابرق کے مقام پر اور مشرق میں چوبیس میل دور ذوالقصہ میں دھوکہ دے رہا تھا.میرے اور خبال کے لشکر کے درمیان لڑائی ہوئی خبال مارا گیا اور طلیحہ مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے جمع ہو گئے.سارے عالم اسلام اور خود حضرت ابوبکر کے لئے یہ کے لشکر کی بُری طرح پٹائی ہوئی اس حالت میں لوگ بار بار طلیحہ کے پاس جا کر وحی کے بڑا مشکل وقت تھا.دشمن خوش ہو رہے تھے کہ رسول اللہ کے مرنے کے ساتھ ہی اسلام بھی بارے میں پوچھتے.طلیحہ انہیں ٹالتا رہا.بالآخر لوگوں کو علم ہو گیا کہ طلیحہ جھوٹا ہے.طلیحہ اپنی دنیا سے مٹ جائے گا.حضرت ابو بکر کو ان باغیوں سے نمٹنے کے لئے جہاد کا اعلان کرنا پڑا.بیوی کو گھوڑے پر بٹھا کر میدان جنگ سے بھاگ گیا اور شام کی سرحد میں قبیلہ قضاعہ میں حضرت ابو بکر نے ایک لشکر لے کر باغیوں کو ذوالقصہ اور ا برق میں سزادی جہاں سے جا کر مقیم ہو گیا اور حضرت عمر کے زمانہ میں دوبارہ مسلمان ہو گیا.وہ ڈر کر بھاگ گئے اور مدینہ پر فوری حملے کا خطرہ ٹل گیا.طلیحہ کے ساتھی میدانِ جنگ سے بھاگ گئے میں نے اُن کا پیچھا کیا اور سزا دی.لیکن

Page 11

19 18 قبیلہ بنو غطفان والوں نے اکٹھے ہو کر ظفر کے مقام پر ایک عورت سلمی بنت مالک کو سردار ساتھ ملا کر مدینہ پر بھاری لشکر کے ساتھ حملہ کیا جائے.سجاح کو شکست ہوئی اس نے علاقہ بنا کر میری فوج کا سخت مقابلہ کیا اور بالآخر شکست کھائی.سلمیٰ بنت مالک بنو غطفان کے چھوڑ دینے پر صلح کر لی.ایک سردار کی بیٹی تھی اس کی ماں اُتم قرفہ بھی ایک بلند مرتبہ خاتون تھی.ایک جنگ میں سلمی سجاح نے اپنے مریدوں کو یمامہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا جہاں قبیلہ بنوحنیفہ میں قیدی بنا کر مدینہ لائی گئی تھی جہاں رسول اللہ نے اسے کنیز بنا کر حضرت عائشہ کو دے دیا ایک شخص مسیلمہ نبی بنا بیٹھا تھا وہ بھی پہلے مسلمان تھا بعد میں کہنے لگا کہ رسول اللہ کی زندگی تھا.سلمی خوش نہ تھی.حضرت عائشہ نے اُسے آزاد کر دیا.وہ اپنے قبیلہ میں واپس آکر قوم کی میں وہ آدھی نبوت کا مالک تھا اور رسول اللہ کی وفات کے بعد وہ پوری نبوت اور سارے سردار بن گئی اور اس بغاوت میں اسلام کی جانی دشمن بن گئی.بالآخر میرے ذریعے اپنے ملک کا مالک ہے.وہ عالم اسلام کے لئے سب سے خطرناک دشمن بن گیا.انجام کو پہنچی.سلمی کی موت کے بعد اس علاقے نے اطاعت قبول کر لی.میں نے اس مہم سے فارغ ہو کر حضرت ابو بکر کو خط لکھا.حضرت ابو بکر خوش ہوئے اور میری آئندہ کا میابی مسیلمہ کی طرف نکلے ہوئے تھے.سجاح اور مسیلمہ دونوں اپنی اپنی جگہ گھبرائے اور دونوں نے مل کر آپس میں شادی کر لی.مسیلمہ نے سجاح کے حق مہر میں فجر وعشاء کی نمازیں معاف کے لئے دعا فرمائی.بغاوت کے خاتمہ کیلئے میری دوسری مہم طلیحہ کی مہم سے فارغ ہو کر میں مالک بن نویرہ سے نمٹنے کے لئے بڑھا.مالک بن نویرہ قبیلہ بنو تمیم کا سردار تھا اور بحرین سے آگے عرب کے شمال مشرق میں بطاح میں رہتا تھا ۰۹ ھ میرالشکر بنو تمیم کے مرکز بطاح کی طرف بڑھ رہا تھا.اور دوسرا اسلامی لشکر عکرمہ لے کر کرنے کا اعلان کیا اور اس طرح شریعت کے ساتھ بھی مذاق کیا.میر الشکر جب بنو تمیم کے علاقے میں پہنچا تو سجاح کے ساتھی بھاگ گئے اور سجاح بھی بھاگ کر عراق چلی گئی.مالک بن نویرہ اکیلا رہ گیا اور سخت ڈر گیا.بطاح پہنچ کر میں نے مالک بن نویرہ کے کسی سپاہی کو نہ پایا.میں نے بطاح پر قبضہ کر کے کچھ سواروں کو بنو تمیم کی میں وہ اپنے قبیلے کے ساتھ مسلمان ہوا.رسول اللہ نے اُسے اپنے علاقے میں زکوۃ اکٹھی بستیوں کی طرف بھیجا.حضرت ابو بکر کے حکم کے مطابق میرے سپاہی ہر بستی کے باہر اذان دیتے.اگر بستی والے اس کے جواب میں اذان دیتے تو اس کا یہ مطلب ہوتا کہ بستی مسلمان کرنے پر مقرر فرمایا.کچھ عرصہ دیانتداری سے کام کرنے کے بعد رسول اللہ کی وفات کے بعد وہ باغی بن گیا.اس کے پاس اس وقت تک زکوۃ وغیرہ کی کافی رقم اکٹھی ہو چکی تھی.مالک بن نویرہ کی ایک رشتہ دار عورت سجاح تھی اس کی ماں عراق کی تھی.اس لئے ہے ورنہ اس بستی پر حملہ کر دیا جاتا.سجاح بھی عیسائی ہوگئی جب عرب میں طلیحہ اور مسیلمہ وغیرہ نے نبوت کے جھوٹے دعوے کئے.تو اُسے بھی نبی بننے کا شوق پیدا ہوا.اس نے کہا کہ نبی صرف مرد ہی نہیں ہوتے عورت بھی نبی ہوسکتی ہے.چنانچہ سجاح نے نبی ہونے کا دعویٰ کر دیا.چار ہزار لوگوں کو اپنا مرید بنالیا اور مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کی.مالک بن نویرہ نے اس کا ساتھ دیا.پہلے بنو تمیم کی بستیوں کے اکثر لوگ تو بہ کر کے دوبارہ مسلمان ہو گئے.مالک بن نویرہ اور اس کی بیوی کو گرفتار کر کے میرے سامنے پیش کیا گیا.جنگ یمامه بُزاخہ اور بطاح کی مہمات سے فارغ ہو کر حضرت ابوبکر نے مجھے مسیلمہ کی طرف یمامہ انہوں نے مل کر بنو تمیم کے ان قبائل پر حملہ کیا جو سجاح کو ابھی نبی نہیں مانتے تھے تا کہ ان کو جانے کا ارشاد فرمایا.وہاں مسیلمہ کی نقل و حرکت دیکھنے کے لئے عکرمہ اور شرحبیل اپنے

Page 12

21 20 لشکروں کے ساتھ پہلے سے موجود تھے.مسیلمہ کے پاس چالیس ہزار کی فوج تھی اور ایک بہترین انسان یعنی رسول اللہ کے چچا حمزہ کو اور حالت اسلام میں ایک بدترین انسان مسلمانوں کو اس سے پہلے کبھی اتنی بڑی فوج کا سامنا نہیں کرنا پڑا.اس لئے حضرت ابوبکر یعنی مسیلمہ کو قتل کیا.جنگ رات تک ہوتی رہی.اس جنگ میں مسیلمہ کی فوج کے اکیس ہزار نے عکرمہ اور شرحبیل کے لشکروں کو بھی میرے ماتحت کر دیا.میرے لشکر کی تعداد تیرہ ہزار لوگ مارے گئے اور بارہ سو مسلمان شہید ہوئے.ہوگئی.میں اپنے لشکر کو لے کر عقرباء کے مقام پر خیمہ زن ہوا.اور اتنی بڑی فوج کے ساتھ میں نے یمامہ کے نزدیک اپنا صدر مقام بنایا اور وہیں مقیم ہو کر انگلی فوجی کارروائی کے مقابلہ کرنے کا منصوبہ بنانے لگا.مسلمانوں نے ساری رات عبادت اور دعاؤں میں لئے حضرت ابو بکر کے حکم کا انتظار کرنے لگا.کچھ عرصے بعد جب باقی لشکروں نے بھی اس گزاری.شوال ااھ (بمطابق دسمبر ۶۳۲ء ) کی ایک صبح کو مسیلمہ کے ساتھ جنگ شروع فتنہ کا اپنے اپنے علاقہ میں خاتمہ کر لیا تو حضرت ابوبکر نے مجھے یہاں سے فارس کی ہوئی.یہ جنگ یمامہ کہلاتی ہے.بڑا سخت مقابلہ ہوا.پہلے مسلمان پسپا ہو کر عقر باء کے میدان سے بھاگے لیکن دوبارہ صف آراء ہو کر اپنے اپنے قبیلے کے ساتھ مقابلہ کے لئے آئے.میں نے چند بہادروں کو چن کر اپنا دستہ بھی بنایا اور پورے زور کے ساتھ مسیلمہ کے ساتھیوں پر حملہ کر دیا.عقر باء کا زبردست شہنشاہی سے ٹکر لینے کا حکم دیا.سلطنت فارس سے ٹکر جنگ یمامہ کے بعد میری فوج کا بیشتر حصہ اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہو گیا.کیونکہ میدان خون سے بھر گیا.مسیلمہ کے سپاہی بھاگنے لگے.مسیلمہ سات ہزار کی فوج سمیت ایک حضرت ابو بکر کے حکم کے مطابق ان لوگوں کو واپس بھیج دیا گیا تھا جو جنگ یمامہ کے بعد اپنے قریبی باغ میں گھس گیا جس کے اردگرد اونچی اور مضبوط دیواریں تھیں.اور باغ کا دروازہ گھر جانا چاہتے تھے.اور میرے پاس صرف دو ہزار فوج بچ گئی.ان حالات میں مجھے خلیفہ بند کر لیا.اسلامی فوج باغ کے اردگر داکٹھی ہوگئی میں کسی تدبیر کی تلاش میں اپنا دماغ ٹولنے وقت کی طرف سے فارس میں جہاد کرنے کا حکم ملا.یہ کوئی معمولی حکم نہ تھا کیونکہ فارس اور لگا.ایک تدبیر میرے دماغ میں آئی.ایک صحابی برات بن مالک کو باغ کی دیوار کے روم کی حکومتیں اس زمانہ میں دنیا کی سب سے بڑی حکومتیں تھیں جن کے ناموں سے ہی دنیا او پر سے باغ میں خاموشی سے داخل کر دیا گیا اور انہوں نے باغ کے پھاٹک پر مقرر دوتین دہلتی تھی.سپاہیوں کو قتل کر کے دروازہ کھول دیا.مسلمان تیزی سے باغ میں گھس گئے.بڑی سخت اس زمانے میں فارس کی حکومت تقریباً تمام براعظم ایشیا تک چھائی ہوئی تھی.فارس لڑائی ہوئی باغ انسانوں کے خون سے بھر گیا.مسیلمہ ہار ماننے کے لئے تیار نہ تھا اس کے جسے ایران بھی کہتے ہیں کا دارالحکومت مدائن تھا یمن اور عراق وغیرہ فارس کے صوبے تھے جو عرب کی سرحدوں کے ساتھ ساتھ تھے.فارس کا شہنشاہ کسری کہلاتا تھا.نبی کریم کے مرید اس کی حفاظت کر رہے تھے.حضرت حمزہ کا قاتل وحشی جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہو چکا تھا وہ بھی میری فوج میں زمانے میں خسرو پرویز کسری فارس یعنی فارس کا شہنشاہ تھا.شامل تھا.اس نے نشانہ باندھ کر اپنا نیزہ مسیلمہ کی طرف پھینکا.نیزہ مسیلمہ کے پیٹ میں آپ نے ےھ میں اسے ایک خط لکھا اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دی.خسرو لگا.مسیلمہ زمین پر گرا اور ایڑیاں رگڑتا ہوا مر گیا.وحشی کہا کرتا تھا کہ میں نے حالتِ کفر میں پرویز نے غصے میں آکر خط پھاڑ ڈالا.اور فارس کے صوبہ یمن کے گورنر باذان کو لکھا کہ وہ

Page 13

23 22 اس عربی نبی کو گرفتار کر لے.جب باذان کے سپاہی رسول اللہ کو گرفتار کرنے مدینہ پہنچے تو ایک بڑی تعداد تھی.میں ان کا سپہ سالا راعظم تھا.رسول اللہ کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعے خبر دی کہ خسرو کو اس گستاخی کی سزا میں اللہ تعالیٰ عراق کا علاقہ جہاں مجھے جہاد کرنے کا حکم ملا فارس کا سب سے قیمتی علاقہ تھا جس میں نے اسی کے بیٹے سے قتل کروا دیا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.باذان یہ معجزہ دیکھ کر اپنے قبیلے پاکستان کے دریائے سندھ اور مصر کے دریائے نیل جیسے دو بڑے بڑے دریا دجلہ اور فرات سمیت مسلمان ہو گیا اور یمن کا صوبہ فارس کی حکومت سے نکل گیا.اس لئے فارسیوں کو بہتے ہیں.طیسفون اور حیرا اس کے دو بڑے بڑے شہر تھے.طیسفون دریائے دجلہ کے مسلمانوں سے اور بھی زیادہ دشمنی ہوگئی.مدینہ میں کچھ لوگ ایسے تھے جو اوپر سے مسلمان دونوں طرف پھیلا ہوا تھا اور فارس کا دارالحکومت تھا عرب اسے مدائن کہتے تھے.حیرا اور اندر سے اسلام کے دشمن تھے اُنہیں منافق کہتے ہیں.اسی طرح مدینہ میں یہودی بھی دریائے فرات کے کنارے ایک مشہور شہر تھا جہاں ہر طرف چمک دمک اور چہل پہل نظر آتی رہتے تھے.اور یہ دونوں مسلمانوں کے دشمن تھے.جب انہیں مدینہ میں سے نکالا گیا تو تھی اس کے علاوہ ابلہ عراق کی مشہور بندرگاہ تھی جہاں ہندوستان ، چین اور کئی دوسرے انہوں نے بھی فارسیوں کو عرب پر حملہ کرنے کے لئے اُبھارا.ملکوں کے جہازر کتے تھے.مجھے حضرت ابو بکر نے یمامہ سے ابلہ ہی جانے کا حکم دیا تھا.رسول اللہ کی وفات کے بعد جب عرب میں بغاوت کا فتنہ بلند ہوا.تو فارس نے فارس کی فوج اپنے زمانہ کی سب سے طاقتور فوج تھی ان کے پاس اس زمانہ کے عرب پر حملہ کرنے کے لئے اپنی فوجیں عراق میں جمع کر دیں اس وقت حضرت ابو بکر بہترین اور مضبوط جنگی ہتھیار تھے.ان کے مقابلے میں میری فوج میں معمولی تجربہ رکھنے نے مثنی بن حارثہ کو ایک چھوٹا سا دستہ دے کر عراق کی طرف روانہ کیا تا کہ چھاپے مار مار والے لوگ تھے اور ان کے پاس سامانِ جنگ بھی معمولی قسم کا تھا تا ہم خلیفہ وقت کی دعائیں کر عراقی رئیسوں کو ڈرائے اور بغاوت ختم ہونے تک فارس کو عرب پر حملہ کرنے کی ہمارے ساتھ تھیں اور ہمیں خدا کی ذات پر بھروسہ تھا.جرات نہ ہو.اب بغاوت کا فتنہ ختم ہو چکا تھا اس لئے حضرت ابوبکر نے مجھے جنوبی عراق میں جہاد کرنے کے لئے ارشا د فر مایا.میرے پاس صرف دو ہزار کی فوج رہ گئی تھی.میں نے حضرت جنگ سلاسل میں نے یمامہ سے روانہ ہوتے وقت عراقی سرحد کے حکمران ہر مزکوخط لکھا کہ ”اسلام ابو بکر کو لکھا انہوں نے ایک شخص قعقاع بن عمرو کو مد ینہ سے کمک کے طور پر روانہ فرمایا.پر ایمان لاؤ اور سلامت رہو یا ہماری پناہ میں آجاؤ اور جزیہ ادا کرو.ورنہ میں ایسے لوگوں کو ادھر عراق میں جہاد کا اعلان سُن کر میری فوج کے وہ لوگ بھی آگئے جو جنگ یمامہ کے بعد لے کر آرہا ہوں جنہیں موت اتنی ہی پیاری ہے جتنی تمہیں زندگی.“ اپنے گھروں کو واپس چلے گئے تھے اور میری فوج روانہ ہونے سے پہلے دس ہزار تک پہنچ بُر مز نے کسری فارس کو اس کی اطلاع دی اور خود ایک بھاری فوج لے کر یمامہ سے گئی.میں یمامہ سے روانہ ہوا.راستے میں منی کی فوج بھی میرے ساتھ شامل ہوگئی اسی ابلہ جانے والے راستہ پر کاظمہ کے مقام پر مجھے روکنے کے لئے صف آرا ہو گیا.اس کی طرح اور بھی کئی لوگ جنہوں نے عراق کے جہاد کائنا تھا میری فوج میں آآکر شامل ہوتے فوج کے سپاہی راستہ روکنے کے لئے آپس میں لوہے کی زنجیریں باندھ کر کھڑے ہو گئے.رہے.اور میری فوج میں اٹھارہ ہزار مسلمان اکٹھے ہو گئے یہ جنگ کے لئے مسلمانوں کی میں نے اصل راستہ بدل لیا اور ابلہ کے دوسری طرف حفیر کے مقام پر پہنچ گیا.جب ہر مزکو

Page 14

25 24 ہوا تو وہ اپنی فوج لے کر حفیر چلا آیا.میں ایک اور راستے سے جوصحرا میں سے گزرتا تھا فارس.یہی دو حکومتیں تقریباً ساری دُنیا پر حکومت کرتی تھیں.اپنی فوج لے کر کا ظمہ پہنچ گیا.ہر مز کو پھر کا ظمہ آنا پڑا.میں نے ہر مز کی زنجیریں پہنی ہوئی پہلے روم کی حکومت تمام یورپ ،مصر اور ایشیائے کو چک تک پھیلی ہوئی تھی اور اس کا فوج کو تھکانے کے لئے یہ حربہ استعمال کیا تھا.کا ظمہ پہنچ کر میری اور بُر مز کی انفرادی لڑائی مرکز اٹلی کا شہر روم تھا بعد میں اس حکومت کے دوٹکڑے ہو گئے.مغربی حصے کا دارالحکومت تو ہوئی میں نے ہر مزکو زمین پر گرا لیا.ہرمز کے کچھ سپاہی دھوکہ دے کر تلواروں سے مجھ پر روم ہی رہا لیکن مشرقی حصے کا دارالحکومت قسطنطنیہ ہو گیا.مشرقی روم کا شہنشاہ بھی قیصر روم جھپٹے میری فوج انفرادی جنگ میں عہد شکنی نہیں کر سکتی تھی قریب تھا کہ میں مارا جاتا کہ حضرت کہلاتا تھا اور اس کا نام ہر قل تھا.ہر قل کی حکومت میں مصر، حبشہ ، فلسطین ، شام ، ایشیائے ابو بکر کی ایک آدمی پر مشتمل کمک قعقاع بن عمر و عین اس وقت پہنچا اور اس نے ہرمز کے ان کو چک اور بلقان کے ممالک تھے.ہر قل کی حکومت مذ ہباً عیسائی حکومت تھی.آدمیوں کو قتل کر دیا.بُر مزمیرے ہاتھوں مارا گیا اور اس کا تاج جس میں قیمتی ہیرے جڑے سلطنت روم میں شام ایک خوبصورت علاقہ تھا.اور اس کی سرحدیں جنوب میں عرب ہوئے تھے میرے قبضے میں آیا.پھر جنگ شروع ہوئی اور ہر مز کی فوج کو شکست فاش ہوئی.کے ساتھ ملتی تھیں.حلب حمص ، دمشق، شام کے بڑے بڑے شہر تھے.شام کے مغرب میں میں نے اُبلہ پر قبضہ کر لیا اور بہت سا مال غنیمت اور بُر مز کا تاج حضرت ابوبکر کے پاس انطاکیہ، بیروت ،صور، علہ ، جافہ، بحیرہ اور روم کے ساحل پر اس کی مشہور بندرگا ہیں تھیں.مدینہ بھیجا.اور فتح کی خوشخبری دی.حضرت ابو بکر بہت خوش ہوئے انہوں نے تاج مجھے جنوبی شام اور اردن پر عرب قبیلہ غستان کی نیم خود مختار حکومت تھی.اور ان کا دارالحکومت بصری واپس کر دیا اور فرمایا.یہ تمہارا حق ہے.وہ ایک قیمتی تاج تھا میں نے اسے ایک لاکھ درہم تھا.بصری رومیوں کا ایک اہم سرحدی شہر تھا.میں بیچا.یہ جنگِ سلاسل یعنی زنجیروں والی جنگ کہلاتی ہے جو کہ محرم ۱۲ھ مطابق اپریل ۶۳۳ء میں ہوئی.وسطی عراق کی فتح اہل شام کو مسلمانوں کے ساتھ مذہبی عداوت تھی.۷ھ میں بصری کے حاکم نے رسول اللہ کے اس قاصد کو قتل کر دیا تھا جو اس کے پاس رسول اللہ کا تبلیغی خط لے کر گیا تھا.ان سے دو جنگیں رسول اللہ کے زمانے میں ہو چکی تھیں جو جنگ موتہ اور غزوہ تبوک کے نام سے مشہور ہیں.رسول اللہ کی وفات کے بعد جب تمام عرب میں بدامنی پیدا ہوئی تو ہر قل نے اس کے بعد ربیع الاول ۱۲ھ مطابق جون ۶۳۳ ء تک میں نے دجلہ و فرات کا درمیانی اپنی فوجیں شام میں جمع کرنی شروع کر دیں.علاقہ بھی فتح کر لیا اور وہاں سے دو خطوط مدائن بھیجے.ایک دربار فارس میں اور دوسرا فارس حضرت ابو بکر نے ۱۲ھ کے آخر (بمطابق آغاز ۶۳۴ ء ) میں ایک دستہ شام کی سرحد پر کے عوام کے نام جن میں انہیں دعوت دی کہ مسلمانوں کی اطاعت قبول کرلو اور ہم تمہاری تیما کے مقام پر بھجوایا.اس دستے کا امیر میرا ہم نام ایک شخص خالد بن سعید تھا.رومیوں نے حفاظت کریں گے لیکن وہاں سے کوئی جواب نہ آیا.سلطنتِ رُوم سے ٹکر بہا کہ لکھا جا چکا ہے کہ اُس زمانے میں دنیا کی سب سے بڑی حکومتیں دو تھیں روم اور مسلمانوں کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی.خالد بن سعید نے حالات حضرت ابو بکر کو لکھے اور با قاعدہ جنگ کی اجازت مانگی.حضرت ابو بکر نے اجازت دے دی اور عکرمہ بن ابی جہل کو خالد بن سعید کی مدد کے لئے بھیجا.خالد بن سعید کا ٹکراؤ ایک رومی دستے سے ہوا جس کا سپہ سالا ربا ہان نامی ایک مشہور

Page 15

27 26 جنگجو تھا.اس نے خالد بن سعید کے لشکر کو اپنے نرغے میں پھنسا لیا.اتنے میں عکرمہ پہنچ گئے سالار کی حیثیت سے خدمات سرانجام دوں.اور مسلمانوں کو اس نازک صورتِ حال سے نکالا.صحرا کا خطرناک سفر شام میں خطر ناک حالات پیدا ہورہے تھے.ہر قل بڑی کثرت سے افواج شام میں اکٹھی کر رہا تھا.حضرت ابو بکر نے ۱۲ھ کے حج سے فارغ ہو کر شام میں جہاد کرنے کا اعلان اٹھارہ ہزار میں سے نو ہزار فوج لے کر میں ربیع الاول ۱۳ھ (بمطابق جون ۶۳۴ ء) کو حیرا سے روانہ ہوا.شام پہنچنے کے لئے میں نے ایک راستے کا انتخاب کیا جو ایک لق و دق صحرا فرمایا.مسلمانوں نے ہزاروں کی تعداد میں عرب کے اندر چاروں طرف سے مدینہ پہنچ کر میں سے گزرتا تھا.یہ راستہ تمام معلوم راستوں سے چھوٹا تھا.اگر ہم معروف راستوں سے شام کے جہاد کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا.حضرت ابو بکر نے شام میں جہاد کرنے کے لئے سات سات ہزار کے چارلشکر بنائے جاتے تو رومی فوجیں ہمارا راستہ روک لیتیں.اور ہم اصل محاذ پر نہ پہنچ سکتے.ہم نے یہ انتہائی اور ان میں مندرجہ ذیل سالار مقرر فرمائے اور ان کے لئے الگ الگ محاذ مقرر فرمائے.خطر ناک سفر پانچ دنوں میں ختم کیا.جون کا مہینہ ، گرم موسم اور دھوپ کی شدت سے صحرا کی تپتی ہوئی ریت اور پانی کا نام ونشان تک نہ تھا تا ہم بڑی ہمت اور دعاؤں سے یہ سفر مکمل ا.حضرت عمرو بن العاص فلسطین ۲.حضرت یزید بن ابوسفیان دمشق ۳.حضرت شرحبیل بن حسنه اردن ۴.حضرت ابو عبیدہ بن الجراح حمص ہوا.اور ہم پانچھ میں دن شام کی سرحد پر سوئی کے مقام پر پہیئے.تکمیل سفر یہاں میں نے اپنی فوج کا معائنہ کیا اور انہیں بلند ہمت پایا.میں نے نہ خود آرام کیا حضرت ابو بکر نے نصیحت فرمائی کی ہر ایک سالار ایک دوسرے سے رابطہ رکھے.اور اور نہ اپنی فوج کو آرام کرنے کی اجازت دی اور دمشق کی طرف بڑھنا شروع کیا راستے میں اگر اکٹھے ہو کر لڑنے کی نوبت آئے تو ان سب کے سپہ سالا را بو عبیدہ بن الجراح ہوں گے جو میں نے کئی چھوٹی چھوٹی فتوحات حاصل کیں.تین روز کے سفر کے بعد ہم دمشق سے ہیں کہ رسول اللہ کے پُرانے صحابی تھے اور ان دس پاکبازوں میں سے تھے جنہیں رسول اللہ میل دور ایک پہاڑی کے پاس پہنچے.یہاں ایک درہ تھا میں نے درے کے سب سے نے انہیں ان کی زندگی میں ہی جنت کی خوش خبری دے دی تھی.اور جو عشرہ مبشرہ کہلاتے اونچے حصے پر پہنچ کر اپنا جھنڈا گاڑ دیا.یہ درہ میرے جھنڈے کے نام پر بعد میں ثنیہ ہیں.یہ لشکر ایک ایک دن کے وقفے سے صفر ۱۳ھ (بمطابق اپریل ۶۳۴ء ) میں مدینہ سے العقاب ( یعنی درۂ عقاب ) مشہور ہو گیا.یہاں سے میں نے ابو عبیدہ کو بصری کے قریب ملنے کے لئے پیغام بھیجا اور میں خود دمشق کو ایک طرف چھوڑتا ہوا بصری کی طرف روانہ ہوا.روانہ ہوئے.ہر قل خود قسطنطنیہ سے شام آیا اور مسلمانوں سے آٹھ گنالشکر تیار کیا.حضرت ابو بکر کو جب اس صورتِ حال کا علم ہوا تو آپ نے فرمایا.واللہ ! میں خالد بن ولید کے ذریعے رومیوں اور شیطان کے ساتھیوں کو نیست و نابودکروں گا.(طبری) چنانچہ آپ نے مجھے عراق خط لکھا کہ نصف فوج لے کر فوراً شام پہنچوں اور اسلامی فوج کے سپہ بصری کی فتح حضرت ابو عبیدہ دریائے یرموک کے شمال مشرق میں حوران کے ضلع پر پہلے ہی قابض

Page 16

20 29 28 ہو چکے تھے.یزید اور شرحبیل کے لشکر بھی اُن کے ماتحت تھے.وہ وہاں سے بصری کی طرف با قاعدہ خوراک کا انتظام تھا.پانی اور کھجوروں پر گزارہ کر کے یہ فوج اجنبی راستوں پر آگے بڑھے.بصری دمشق کے قریب رومیوں کا ایک اہم سرحدی قصبہ تھا اور جنوبی شام اور اردن بڑھ رہی تھی.کا حکمران وہاں رہتا تھا.بصری کی حفاظت کے لئے رومیوں کی ایک بھاری فوج وہاں موجود تھی میری ملاقات ابو عبیدہ سے بصری کے محاذ پر ہوئی.اجنادین پہنچ کر میں نے اپنی فوجوں کا معائنہ کیا.اور انہیں کئی گنا فوج کے مقابلے پر ثابت قدم رہنے اور اپنے دین کی حفاظت کرنے کے لئے کہا.ادھر رومی فوج کے سپہ سالار بصری میرے پہنچنے پر جمادی الاول ۱۳ ھ (بمطابق جولائی ۶۶۳۴ ) کو فتح ہوا.بصری نے بھی اپنے افسروں کے سامنے تقریر کی اور انہیں بتایا کہ وہ ایک ایک مسلمان کے مقابلے پہلا اہم شہر تھا جو مسلمانوں نے شام میں فتح کیا.بصری کی فتح کی خبر میں نے حضرت ابو بکر پر تین تین ہیں.اس لئے وہ خوب ڈٹ کر لڑیں.کو بھجوائی اور شام کی سرحد میں داخل ہونے والی جنگی کامیابیوں سے اُن کو آگاہ کیا اور مال غنیمت بھی بھجوایا.اجنادین کی فتح لڑائی شروع ہونے سے پہلے رومیوں نے ایک عرب عیسائی میری فوجوں کی جاسوسی کرنے کے لئے بھیجا.اُس نے واپس جا کر رومی سپہ سالار کو بتایا کہ مسلمان تعداد میں تو ہم سے بہت تھوڑے ہیں لیکن ہم اُن سے کبھی جیت نہیں سکتے.کیونکہ ان کے مرد دن کو میدان جنگ میں لڑنے کے لئے تیار رہتے ہیں اور راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دعائیں کرتے ہیں جبکہ ہر قل کو جب میری آمد اور بصری کی فتح کا علم ہوا تو اس نے اپنی فوجیں اجنادین میں ہمارے فوجی راتوں کو شراب پیتے ہیں اور برائیوں میں مبتلا رہتے ہیں.ان سے مقابلہ جمع کرنی شروع کر دیں.اجنادین کے قریب شام، فلسطین اور اردن کی سرحدیں آپس میں کرنے کی بجائے زمین میں دھنس جانا زیادہ بہتر ہوگا.ملتی تھیں.ہر قل کا مقصد یہ تھا کہ دمشق، فلسطین اور اردن کی طرف جانے والی اسلامی فوجوں میں نے ۲۸ / جمادی الاوّل ۱۳ھ (بمطابق ۳۰ / جولائی ۶۶۳۴) کو اسلامی فوج کو کو اجنادین کے قریب شکست دے کر واپس صحرا میں بھگا دیا جائے.چنانچہ ہرقل کی میدان جنگ کے لئے وسیع کر کے پھیلا دیا.تا کہ انہیں رومی فوج گھیرے میں نہ لے سکے.اجنا دین میں نوے ہزار کی تعداد میں فوجیں جمع ہو گئیں.لڑائی شروع ہونے سے قبل ایک رومی افسر میرے ساتھ بات کرنے کے لئے آگے آیا اسلامی فوجوں نے جولائی ۶۳۴ ء کے تیسرے ہفتے میں بصری سے اجنادین کی طرف اور کہنے لگا ” اے عرب ! تجھے معلوم ہونا چاہیئے کہ تو نے ایک ایسے ملک پر چڑھائی کی ہے کوچ کیا.اس لشکر کی عجیب شان تھی.خدا اور رسول کے سچے عاشق اسلام کی خاطر اپنی جس میں کسی بادشاہ کو بھی داخل ہونے کی ہمت نہیں پڑی.دیکھو ہمارے پاس ریت کے جانیں قربان کرنے جا رہے تھے.اس فوج کی نہ تو کوئی باقاعدہ وردی تھی اور نہ اسے عام ذروں کی طرح لا تعداد فوج ہے تم اگر اپنی فوج کو اس ملک سے نکال لو تو تمہارے ہر سپاہی کو ملکوں کی فوجوں کی طرح سہولتیں حاصل تھیں.اپنے اپنے سادہ لباسوں میں ملبوس.سادہ ایک دینار اور ایک قبا اور ایک عمامہ عطا کیا جائے گا اور خود تمہیں سو دینار.سو قبا ئیں اور سو ہتھیاروں کے ساتھ سردیوں کے موسم میں یہ فوج اپنے سے تین چار گنا زیادہ طاقتور فوج کا عمامے دیئے جائیں گے.یہ ہے پیغام رومی فوجوں کے سپہ سالار کی طرف سے.مقابلہ کرنے جارہی تھی.نہ تو ان کے لئے باقاعدہ سڑکیں بنتی تھیں اور نہ ان کے لئے میں نے جواب دیا ”ہمارے پاس تین ہی باتیں ہیں جن میں سے ایک مان لو.یا

Page 17

31 30 اسلام قبول کرو یا جزیہ دو یا لڑائی کے لئے تیار ہو جاؤ.اس کے بغیر مسلمانوں کے ملک اپنی پچاس ہزار لاشیں چھوڑ کر یروشلم کی طرف بھاگ کر پناہ گزیں ہو گئے.اس جنگ میں چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.دینا ر اور قبا ئیں تو ہمیں فتح کے بعد مل ہی جائیں چارسو پچاس مسلمان شہید ہوئے.اجنادین فتح ہو گیا.مدینہ اطلاع پہنچی تو مدینہ کی فضا اللہ اکبر کے نعروں سے گونج اُٹھی.جنگ اجنادین کی کامیابی نے شام کو فتح کرنے کے لئے گے،، رومی افسر نے واپس جا کر اپنے رومی سپہ سالار کو میرا جواب پہنچایا.میرا جواب سُن کر راستہ کھول دیا.وہ غضبناک ہوا اور قسم کھائی کہ وہ ایک ہی حملہ میں مسلمانوں کو نیست و نابود کر دے گا.چنانچہ سورج ڈھلنے کے بعد رومی فوج نے حملہ کر دیا.کچھ مسلمان شہید ہوئے مسلمانوں نے آگے بڑھ کر جوا با حملہ کیا اور رات ہوگئی.دمشق کی تسخیر اجنادین کی جنگ سے فارغ ہو کر میں اپنی فوج کو لے کر یروشلم کے جنوب میں اس شہر رات کو رومی سپہ سالا رور دان نے میرے پاس ایک ایلچی بھیجا کہ وہ کل میرے ساتھ سے قدرے ہٹ کر دمشق کی طرف بڑھا.ایک دو مقامات پر رومیوں نے ہمارا راستہ روکا ملاقات کر کے صلح کی بات کرنا چاہتا ہے دراصل وہ مجھے قتل کرنے کا منصو بہ بنارہا تھا.اس کا لیکن شکست کھا کر پیچھے ہٹ گئے.میں بالآخر اپنی فوج لے کر دمشق پہنچ گیا.علم مجھے اس طرح ہوا کہ جو عیسائی عرب ایچی بن کر آیا اس پر میرا اتنا رعب طاری ہوا کہ اس دمشق کو ملک شام کی جنت کہا جاتا تھا.یہ ایک قلعہ نما شہر تھا.جس کی دیواریں پینتیس نے مجھے سارا منصوبہ بتا دیا اور بتایا کہ ملاقات کے وقت رومی فوج کے دس سپاہی ایک قریبی فٹ اونچی تھیں اور شہر میں داخل ہونے کے لئے چھ دروازے تھے.دمشق میں رومی فوج کی ٹیلے کے پیچھے چھپے ہوں گے جو مجھے ملاقات کے دوران قتل کر دیں گے.تعداد بارہ ہزارتھی.اس شہر میں ہر قل کی بیٹی اور اس کا خاوند رہتا تھا.ہر قل کے داماد کا نام تو ما منصو بہ چونکہ معلوم ہو چکا تھا اس لئے ہمارے دس آدمیوں نے اس موقع پر پہلے ہی تھا اور وہی ان فوجوں کا سپہ سالار تھا.اس کے ماتحت بڑے تجربہ کار سالار تھے.توما کے جا کر ان دس رومی سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا اور ان کی وردیاں خود پہن لیں.نائب کا نام عزا ز یر تھا جو بہت تجربہ کار جرنیل تھا.ہر قل نے انطاکیہ سے پانچ ہزار کی فوج کو جب میں اور ور دان ملاقات کے لئے اپنی فوجوں سے آگے بڑھے تو وردان نے عربوں دمشق کی فوج کی امداد کے لئے روانہ کیا.اس کے سالا رکلوس نے شہنشاہ روم سے وعدہ کیا کے بارے میں حقارت کا اظہار کیا.میں نے اسے اسلام قبول کرنے یا جزیہ دینے کی شرط پر صلح کہ وہ میرا سر نیزے پر مار لائے گا.“ کرنے کے لئے کہا.اس نے دس چھپے ہوئے رومیوں کو اشارہ کیا رومی لباس پہنے ہوئے دس سپاہی ٹیلے کے پیچھے سے تلواریں لے کر نمودار ہوئے لیکن وہ تو میرے سپاہی تھے.انہیں دیکھ کر لیں تا کہ پوری طرح میرا مقابلہ کر سکے.وردان گھبرایا.ان جاں شاروں کے قائد ضرار نے وردان کو ہمیشہ کی نیند سلا دیا.تو ما کو ہماری آمد کا علم ہوا تو اس نے کھانے پینے کی چیزیں کثرت سے شہر میں جمع کر میں نے اپنی فوجوں کو نئے سرے سے منظم کیا اور اپنے ساتھ عراق سے آئے ہوئے رومیوں کے سپہ سالار کی موت کی خبر رومی فوجوں پر بجلی بن کر گری.ان کے حوصلے لشکر میں سے چار ہزار گھوڑ سواروں پر مشتمل ایک متحرک دستہ تیار کیا.پست ہو گئے.لڑائی میں ان کے تمام بڑے بڑے سالار مارے گئے اور میدانِ جنگ میں مرج الصفر کے مقام پر رومی لشکر نے میرا راستہ روکنا چاہا.۱۹ / جمادی الاول ۱۳ھ

Page 18

33 33 32 (بمطابق ۱۹ اگست ۶۶۳۴) کولڑائی شروع ہوئی چونکہ ابھی کچھ فوج پیچھے سے آ رہی تھی اس کے وقت رومی فوجوں کو بے خبر چھوڑ کر چار ہزار سواروں کا متحرک دستہ لیکر درہ عقاب کی طرف گیا لئے میں نے رومیوں کو انفرادی لڑائی میں مصروف رکھا.ضرار.شرحبیل اور عبدالرحمن اور صبح تک وہاں پہنچ گیا.جنگ جاری تھی میں نے ایک عجیب نظارہ دیکھا.ایک سوار پیچھے بن ابی بکر اور کئی اور نوجوانوں نے بڑے بڑے رومی افسروں کو انفرادی لڑائی میں ہلاک سے گھوڑا دوڑاتا ہوا میرے پاس سے گزرا اس کے چہرہ پر نقاب تھا وہ گھوڑا دوڑا تا ہوا رومی کیا.رومیوں نے مجھے انفرادی مقابلے کے لئے بلایا میرے ہاتھوں کلوس اور عزازیر لشکر میں جاتا اور حملہ کر کے تیزی سے واپس آجاتا میں اس نقاب پوش کی بہادری سے بہت دونوں گرفتار ہوئے میں نے انہیں زنجیروں سے جکڑ کر قید کر لیا.اتنے میں باقی فوج بھی متاثر ہوا.میں نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو؟ اپنا چہرہ تو دکھاؤ! اس نے کہا کہ میرا نام خولہ ابو عبیدہ اور عمرو لے کر آگئے اور باقاعدہ جنگ شروع ہوگئی.دشمن بھاگ کر دمشق کے قلعہ ہے اور میں ضرار کی بہن ہوں اور میرا چہرہ تم نہیں دیکھ سکتے کیونکہ میں ایک مسلمان لڑکی ہوں اور پردہ کرتی ہوں.میں ضرار اور خولہ کے بہادر خاندان سے بہت متاثر ہوا.اس میں پناہ گزین ہو گئے.اگلے روز ۲۰ / جمادی الاول ۱۳ ھ (بمطابق ۲۰ اگست ۶۳۴ ۶ ) کو مسلمان فوج نے دوران رومی ضرار کو گرفتار کر کے حمص کی طرف لے گئے.میں نے ضرار کے نائب رافع کو دمشق کا محاصرہ کر لیا.دمشق کے اندر پندرہ سولہ ہزار رومی فوج اور شہر کے باشندے اور ایک سوسواروں کے ساتھ حمص روانہ کیا.ان سواروں میں خولہ بھی شامل تھی جو آخر کا راپنے اردگرد کے شہروں اور دیہاتوں کے لوگ پناہ گزیں تھے.بھائی کو دشمن سے رہا کر کے لے آئی.ہماری فوج کے مختلف دستے دمشق کے قلعہ کے باہر چھ دروازوں پر مقابلہ کے لئے ضرار واپس آ گیا.مسلمان دستے نے دشمن پر اتنا زور ڈالا کہ وہ شکست کھا کر حمص کی موجود تھے.مشرقی دروازہ کی طرف میں تھا.مغرب میں ابوعبیدہ تھے.شمال کی طرف طرف واپس بھاگ گئے اور دمشق کو کمک نہ پہنچ سکی.شرحبیل اور عمرو اور جنوب میں یزید اپنے اپنے دستے لے کر موجود تھے.ضرار جس نے اجنادین میں رومی سپہ سالار کے ساتھیوں کو مارا تھا دو ہزار سواروں کے متحرک دستے کے بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا.ساتھ رات کو قلعے کے دروازوں کے درمیان خالی حصوں پر گشت کیا کرتا تھا.تین ہفتے گزر گئے.میں واپس دمشق آ گیا اور محاصرہ کر لیا.محاصرہ بڑا سخت تھا محاصرہ توڑنے کی تو مانے میں راتوں کو جاگ جاگ کر دمشق میں داخل ہونے کے منصوبےسوچتارہتا تھا.ایک رومی قلعہ کے اندر سے مسلمانوں پر تیر اور پتھر برسا رہے تھے اور اس طرح محاصرے کو مرتبہ مجھے پتہ چلا کہ دمشق کے بڑے پادری کے گھر بیٹا پیدا ہوا ہے اور دمشق والوں نے اس خوشی میں رات خوب شراب پی ہے اور مست ہو کر سوئے پڑے ہیں.میں نے اس وقت ہر قل نے دمشق والوں کے کھانے پینے کے سامان سمیت دس بارہ ہزار کی فوج حمص اندر داخل ہونے کی سکیم بنائی اور فوج کو ہدایت کی کہ جب وہ اللہ اکبر کی آواز سنیں تو فوراً شہر کے راستے روانہ کی.میں نے ضرار کو پانچ ہزار سواروں کا دستہ دیا اور ان فوجوں کو روکنے کی فصیل کے پھاٹک پر حملہ کر دیں.کے لئے روانہ کیا.درہ عقاب کے پاس ضرار نے ہر قل کی فوج پر حملہ کر دیا.ہر قل کی فوج تعداد میں چند آدمیوں کو لے کر فصیل کے اندر اترنے میں کامیاب ہو گیا.پھاٹک کے میں بہت زیادہ تھی اس لئے انہوں نے ضرار کو گرفتار کر لیا.مجھے اطلاع ہوئی تو میں آدھی رات محافظوں کو قتل کر کے پھاٹک کھول دیا اور اللہ اکبر کے نعرے لگائے جسے سنتے ہیں ساری فوج

Page 19

35 34 شہر کے اندر داخل ہوگئی.دمشق والے اس اچانک حملے کے لئے تیار نہ تھے اس لئے وہ اس خلیفہ بن گئے ہیں.حضرت عمر نے اس میں یہ بھی لکھا میں تمہیں خالد بن ولید کی فوج کا سپہ اچانک حملے کی تاب نہ لا سکے اور اس طرح ۱۹ ؍ رجب ۱۳ ھ (بمطابق ۱۸ ستمبر ۶۳۴ء) کو سالار مقرر کرتا ہوں.“ 66 یہ خط ابو عبیدہ کو دمشق کے محاصرے کے دوران ہی مل گیا تھا لیکن انہوں نے اس دمشق فتح ہو گیا.تو مانے اندازہ لگایا کہ قلعے کے دوسرے دروازوں پر کوئی جنگی کا رروائی نہیں ہو رہی.نازک صورت حال اور فوج کی میرے ساتھ والہانہ محبت کی وجہ سے دمشق فتح ہونے تک اس اس نے یہاں ایک چال چلی.جس دروازے سے میں داخل ہوا اس کے بالکل مخالف سمت راز کو چھپائے رکھا.میں مغربی دروازے پر ابو عبیدہ سے رابطہ قائم کیا اور انہیں حالات سے بے خبر پا کر نہایت ۳/شعبان ۱۳ھ (بمطابق ۲ /اکتوبر ۶۳۴ء ) کی صبح کو لشکر اسلام کو اکٹھا کر کے حضرت چالا کی سے دمشق کا قلعہ پر امن طور پر مسلمانوں کے حوالے کرنے اور جزیہ ادا کرنے کی ابو بکر کی وفات اور حضرت عمرؓ کی خلافت کا اعلان کیا گیا.دمشق میں مقیم لشکر اسلام نے پیشکش کی.ابوعبیدہ نے رومیوں کے ہتھیار ڈالنے کی شرائط قبول کرلیں.صبح ہوئی تو ابو عبیدہ ایک طرف سے اپنے لشکر کے ساتھ دمشق کے مغربی دروازے سالار کی تبدیلی کا اعلان کیا گیا.سے امن وامان کے ساتھ شہر میں داخل ہوئے دوسری طرف سے میں تلوار کے زور سے دمشق کو فتح کرتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا.شہر کے عین مرکز میں ہماری ملاقات ہوئی اور دونوں کو صحیح صورت حال کا پتہ چلا لیکن چونکہ با قاعدہ معاہدہ ہو چکا تھا اس لئے میں نے اپنا فتح کیا ہوا علاقہ بھی واپس کر دیا اور ابو عبیدہ کی شرائط کے ساتھ تو ما کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کئے.سپہ سالار کے عہدے سے برطرفی ۲ شعبان ۱۳ھ بمطابق یکم اکتو بر ۱۳۴ء) کو میں نے حضرت ابوبکر کے نام ایک خط لکھا اس میں دمشق کی فتح اور ابو عبیدہ کی سادگی اور معاہدے کا ذکر کیا.حضرت ابو بکر کی نماز جنازہ غائب پڑھی اور حضرت عمر کی بیعت کا اقرار کیا.اس کے بعد سپہ کر لیا.میں نے دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے ایک عام سپاہی کے طور پر جنگیں لڑنے کا عہد حضرت ابوعبیدہ کے ماتحت میری جنگیں اس واقعہ کے جلد بعد دمشق کے قریب ابو القدس کے مقام پر حضرت ابو عبیدہ نے عبد اللہ بن جعفر" کو ایک مہم پر بھیجا انہیں رومی فوجوں نے گھیرے میں لے لیا.ابو عبیدہ مجھے کچھ کہتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کر رہے تھے انہوں نے مجھے عبداللہ کی مدد کے لئے کہا.میں نے عرض کیا.واللہ اگر حضرت عمر کسی کم عمر بچے کو بھی میرا امیر بنا دیتے تو ابھی یہ خط قاصد لے کر روانہ ہونے ہی والا تھا کہ ابوعبیدہ مجھے ایک طرف لے گئے اور میں اس کی بھی اطاعت کرتا.میں نے تو اپنی زندگی خدا کی راہ میں وقف کی ہوئی ہے.“ بتایا کہ حضرت ابو بکر فوت ہو چکے ہیں اور حضرت عمرؓ خلیفہ ہو چکے ہیں اور انہوں نے مجھے وہ چنانچہ میں گیا اور عبداللہ اور دوسرے مسلمانوں کی جان بچائی.خط دکھایا.جو حضرت عمرؓ نے حضرت ابو عبیدہ کے نام لکھا تھا میں نے اس میں پڑھا کہ حضرت میرے دل میں ابو عبیدہ کی بہت عزت تھی وہ ایک بزرگ انسان تھے میرے دوست ابو بکر ۲۴ / جمادی الآخر ۱۳ھ (بمطابق ۲۲ / اگست ۶۳۴ ء ) کو فوت ہوئے ہیں.حضرت عمرؓ تھے اور ابتدائی مسلمانوں میں سے تھے.رسول اللہ نے ان کو ان دس خوش قسمت اصحاب

Page 20

37 36 میں شامل فرمایا تھا جن کو اسی زندگی میں جنت کی بشارت دی گئی تھی اور وہ عشرہ مبشرہ کہلاتے تھے.حضرت عمر نے چھ ہزار مجاہدین ہماری مدد کے لئے بھجوائے اور ہماری ساری فوج کی تعداد چالیس ہزار ہوگئی جن میں ایک ہزار اصحاب رسول اللہ اور ایک سو وہ صحا بہ بھی شامل حضرت ابو عبیدہ بھی میرے بہت قدردان تھے اور ضروری کاموں میں مجھ سے ضرور تھے جنہوں نے جنگ بدر میں حصہ لیا تھا.مشورہ لے لیا کرتے تھے.جنگ یرموک مسلمان شام کا اکثر حصہ فتح کر چکے تھے ہر قل نے شدید انتقام لینے کا فیصلہ کیا.اس نے اپنے تمام ملکوں سے ایک زبردست فوج تیار کی جس میں بارہ قوموں کے لوگ شامل تھے جن میں شہزادے، امراء اور بڑے بڑے پادری سب شامل تھے.مئی ۶ ۶۳ ء تک ہر قل کے پاس ایک لاکھ پچاس ہزا ر ا فواج اکٹھی ہوگئیں.ہر قل نے اپنی فوج کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا اور تمیں تمہیں ہزار سپاہی پر ایک سالار مقرر کیا.ایک ماہ تک کوئی کارروائی نہ ہوئی.ماہان اور میری ملاقات ہوئی لیکن صلح نہ ہوسکی.رومی فوجوں کے درمیان پادری کھڑے صلیبیں لہرا رہے تھے اور ہزاروں عیسائیوں نے موت کی قسم کھا رکھی تھی.ابوعبیدہ نے مجھے جنگ کا منصوبہ بنانے کا حکم دیا.میں نے پیدل فوج کے کئی حصے کئے اور اسی طرح سواروں کا ایک اور متحرک دستہ بنایا اور کل فوج کو گیارہ میل لمبے محاذ پر پھیلا دیا.فوج کے دائیں حصے پر یزید سالار مقرر ہوئے ، بائیں پر عمرو بن العاص.درمیان میں ابو عبیدہ اور شرحبیل ، ابو عبیدہ کے فوجی افسروں میں عکرمہ بن ابو جہل اور میرا بیٹا عبد الرحمن بھی تھا.متحرک رسالے کی کمان ضرار کے پاس تھی.میں نے کچھ اس طرح منصو بہ بنایا کہ اس وقت تک دفاعی لڑائی لڑی جائے جب تک ان حالات میں ابو عبیدہ نے میرے ساتھ مشورہ کیا.میں نے مشورہ دیا کہ تمام اسلامی رومی فو جیں تھک نہ جائیں.مسلمان فوج کے پیچھے عورتوں اور بچوں کے خیموں کی ایک قطار افواج کو جابیہ کے قریب اکٹھا کر لیا جائے جابیہ کے مقام پر شام ، اردن اور فلسطین کے تھی.ہر دستے کے پیچھے ان کے بیوی بچے رکھے گئے.ابو عبیدہ نے عورتوں اور بچوں کو نصیحت کی کہ اگر کوئی مسلمان سپاہی بھاگ کر پیچھے آئے تو عورتیں اور بچے ان خیموں کے راستے ملتے تھے.رومی فوج کے دمشق پہنچنے سے پہلے ہی ابو عبیدہ اور میں دمشق والوں کو ان کا جزیہ بانس لے کر اور پتھر مار مار کر مرمت کریں.واپس کر کے جابیہ آگئے.دمشق کے لوگوں نے کہا.” آپ کا راج اور عدل ہم کو اس حالت ظلم و جبر سے زیادہ عزیز ہے جس میں ہم پہلے رہتے تھے.کسی فاتح قوم نے آج بلکہ اللہ کی مدد پر ہے.میں نے اور ابو عبید گانے اپنی فوجوں کو بتایا کہ فوج کی قوت کا انحصار اس کی تعداد پر نہیں تک جز یہ واپس نہیں کیا تھا.اگلے دن مسلمانوں اور عیسائیوں کے درمیان اس صدی کی سب سے بڑی جنگ جابیہ میں تمام اسلامی فوجوں کو رومی فوجوں کے پہنچنے سے پہلے ہی بلوالیا گیا.اسلامی ہونے والی تھی.دونوں فوجوں کی صفوں کے درمیان ایک میل کا فاصلہ تھا.مسلمانوں نے فوج جابیہ اور دریائے یرموک کے درمیان صف آرا ہوگئی.اتنے میں رومی فوج بھی ڈیڑھ تلاوت قرآن کریم اور دعاؤں میں رات بسر کی اور اگلے دن جنگ چنگاریوں سے شروع ہو لاکھ کی تعداد میں میدانِ یرموک میں پہنچ گئی.کر کئی دنوں بعد بے تحاشا بھڑکتی ہوئی آگ بن کر ختم ہوئی.

Page 21

39 38 رومیوں کا سالار اعظم ماہان زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گیا.میں سواروں کا ایک جنگ کے شروع میں انفرادی مقابلہ بازی ہوتی رہی.کئی رومی افسرموت کے گھاٹ اُتارے گئے.آہستہ آہستہ رومی سپہ سالار اعظم ماہان نے اپنی فوج کا انسانی سیلاب آگے دستہ لے کر اس کے پیچھے دمشق کی طرف گیا.ماہان جو کہ آرمینیا کا بادشاہ اور رومی فوج کا.بڑھایا اور جنگ شروع ہوگئی.تیراندازی ہوتی رہی.پھر تلواروں سے مقابلہ شروع ہوا.سالا راعظم تھا ایک عام مسلمان کے ہاتھوں مارا گیا.رومی فوج کا ایک حصہ تھکتا تو دوسرا تازہ دم حصہ آگے آجاتا.پھر تیسرا آتا اور مسلمانوں کا وہی دستہ اُن سب کا مقابلہ کرتا رہتا.ایک موقع پر عمر و بن العاص کا دستہ تین چار تازہ دم لشکروں کا مقابلہ کر کے ذرا میں جب دمشق پہنچا تو دمشق والوں نے میرا استقبال کیا اگلے روز میں پھر یرموک واپس آ گیا.جنگ یرموک مشرقی رومی شہنشاہی کی سب سے تباہ کن شکست تھی اور اس کے ساتھ ہی پیچھے ہٹا تو مسلمان عورتوں نے خیموں کے ڈنڈوں اور پتھروں سے ان کی مرمت کی حتی شام کی سرزمین پر رومی تسلط ختم ہو گیا.ہر قل شام چھوڑ کر قسطنطنیہ بھاگ گیا.کہ وہ آگے بڑھے اور دشمن پر ٹوٹ پڑے.دشمن نے اولوں کی طرح تیر مسلمانوں پر اس جنگ میں ستر ہزار رومی مارے گئے اور اسی ہزار بھاگ گئے.مسلمان شہداء کی برسائے اور کئی مسلمانوں کی آنکھوں میں تیر لگے.مسلمانوں نے بڑی بہادری سے تعداد چار ہزار تھی.جنگ یرموک اسلام کی ایک شاندار فتح تھی.دشمنوں کا مقابلہ کیا.بعض دفعہ عورتیں بھی مسلمانوں کے شانہ بشانہ میدان جنگ میں لڑیں.بیت المقدس کی فتح بڑے بڑے معزز قریشی شہزادے اس جنگ میں شہید ہوئے لڑائی پانچ دن تک ہوتی جابیہ سے ہم بیت المقدس کی طرف روانہ ہوئے.میں بھی ابوعبیدہا کے ہمراہ تھا.رومی رہی.چوتھا دن بڑا وحشت ناک تھا.عکرمہ اور ان کا بیٹا عمرو بڑی بہادری سے لڑے اور قلعہ بند ہو گئے.چار ماہ کے محاصرے کے بعد بیت المقدس والوں نے اس شرط پر ہتھیار دونوں نے جام شہادت نوش کیا.مسلمانوں نے اپنے جسموں کو وہ قوت اور برداشت ڈالنے کی پیش کش کی کہ صلح کے معاہدہ پر دستخط کرنے کے لئے خود مسلمانوں کے خلیفہ آئیں.حضرت ابو عبیدہ نے مدینہ حضرت عمرؓ کو لکھا.حضرت عمر ربیع الاول ۱۶ ھ (بمطابق اپریل دکھانے پر مجبور کیا جن کے لئے انسانی جسم بنائے ہی نہیں گئے تھے.پانچواں دن گزرا اور چھٹا دن آیا.جرجیر اور اسلامی فوج کے سپہ سالا راعظم ابوعبیدہ ۶۳۷ ء) کو شام تشریف لائے.کی انفرادی لڑائی ہوئی.جر جیر مارا گیا.ہم نے جابیہ میں حضرت عمر کا استقبال کیا.حضرت عمر کی بیت المقدس میں آمد مسلمانوں اس جنگ میں رومی بھاری تعداد میں مارے گئے.باقی ڈر کر دریائے یرموک اور رفاد کے لئے ایک بڑا واقعہ تھا.انہوں نے خلیفتہ المسلمین کو دیکھ کر بہت خوشیاں منائیں.کی وادی کے راستے سے نکلنے کے لئے بھاگے لیکن وہاں ضرار ایک دستے کے ساتھ پہلے ہی حضرت عمر سادہ لباس میں تھے.بعض لوگوں نے آپ کو تر کی گھوڑا اور لباس پیش کیا.موجود تھا.اس طرح رومی پھر چاروں طرف سے گھر گئے.خوب مقابلہ ہوا.بالآخر رومی آپ نے یہ کہہ کر رد فرما دیا کہ خدا نے ہمیں اسلام کی جو عزت دی ہے ہمارے لئے وہی کافی ہے.آپ اسی سادہ لباس میں بیت المقدس میں داخل ہوئے.پادریوں نے خود برباد ہو گئے اور میری سب سے بڑی جنگ اختتام کو پہنچی.

Page 22

41 40 بیت المقدس کی چابیاں حضرت عمرؓ کے حوالے کر دیں.میری آنکھوں کے سامنے مجھ سے جُدا ہوئے.میں نے اس غم کو بڑے صبر سے برداشت یہاں سے حضرت عمررؓ فتح شدہ علاقوں کا دورہ کر کے اور سرحدوں کی حفاظت کا انتظام کیا.ان ابتدائی سپہ سالاروں کے بعد حضرت عمرو بن العاص نے فوج کی قیادت سنبھالی.کر کے مدینہ تشریف لے گئے.بیت المقدس کے پادری کے ساتھ حضرت عمرؓ کے معاہدے پر میں نے بھی بطور گواہ دستخط کئے.فوج سے میری سبکدوشی مرعش سے واپسی پر بنی کندا کے ایک سردار اشعث بن قیس نے میری تعریف میں ایک قصیدہ پڑھا اور مجھے ایک عظیم فاتح قرار دیا.میں نے اسے خوش ہو کر دس ہزار درہم بطور انعام دیئے.یہ خبر حضرت عمر تک پہنچی تو انہوں نے مجھے مدینہ بلوایا اور فوج سے سبکدوش کر دیا.میں واپس حمص آکر فوج سے علیحدہ ہو گیا اور وہیں رہنے لگا.حضرت عمرؓ نے تین ہزار درہم سالانہ میرا وظیفہ مقررفرمایا.مجھے خوب علم ہے میری فوج سے سبکدوشی کسی سزا کی وجہ سے نہ تھی بلکہ یہ اس وجہ سے تھی کہ لوگ سمجھنے لگ گئے تھے کہ اسلامی فتوحات میری وجہ سے ہو رہی ہیں.حالانکہ میری جگہ کوئی اور بھی ہوتا تو وہ بھی فتوحات حاصل کرتا.دوستوں کی جدائی میرے ساتھی ابو عبیدہ ، شرحبیل ، یزید اور ضرار بھی جلد ہی مجھ سے ہمیشہ کے لئے جُدا ہو گئے.کیونکہ ۱۸ ھ (بمطابق جنوری، فروری ۶۳۹ ء) میں فلسطین میں طاعون کی جو وباء پھوٹی وہ ان سب کے لئے جان لیوا ثابت ہوئی.اس بیماری میں میری اولاد میں سے بھی کئی

Page 23

43 42 آخری بیماری اور وفات حضرت خالد بن ولید موت کی خبر آنا فانا سارے عالم اسلام میں پہنچ گئی.اور اس خبر سے مدینہ کے تمام لوگ افسردہ ہو گئے.حضرت عمرؓ کی آنکھیں بھی اشکبار ہو گئیں.حضرت خالد بن ولید نے اسلام لانے کے بعد بے شمار جنگیں لڑیں اور اب سبکدوش حمص والوں نے حضرت خالد بن ولید کی آرام گاہ شاہراہ حما پر ایک باغ کی مسجد میں ہونے کے بعد انہوں نے چار سال تک غیر فوجی زندگی گزاری.اس دوران وہ میدان بنائی جسے لوگ مسجد خالد بن ولید کہتے ہیں.حضرت خالد بن ولید نے اٹھاون سال جنگ میں نہیں تھے پھر بھی اسلامی فتوحات ہوتی رہیں.وہ بھی تمام مسلمانوں کی طرح اسلامی فتوحات پر خوش ہوتے رہے اور اپنے فوجی کارناموں کے بارے میں یادیں تازہ کرتے عمر پائی.رہے.حضرت خالد بن ولید ۲۱ ھ ( ۶۴۲ ء ) میں بیمار ہوئے.ایک دن ان کا ایک دوست اولاد حضرت خالد بن ولید کے تین بیٹے ہیں.سلیمان ان کا بڑا بیٹا تھا جو مصر کی جنگ میں لڑتا ان کے پاس عیادت کے لئے آیا اور ان کی چار پائی کے پاس بیٹھ گیا.حضرت خالد بن ولید ہوا شہید ہوا.مہاجر جو چوتھے خلیفہ حضرت علی کی فوج میں جنگ صفین میں شہید ہوا.کو کچھ سوچ کر رونا آگیا.اُس نے پوچھا خالد ! کیوں روتے ہو؟ میں نے اسے اپنے جسم عبدالرحمن جو ۴۶ ھ تک زندہ رہا.امیر معاویہ کے زمانہ میں کسی نے اسے زہر دے دیا تھا.کے ایک حصے سے کپڑا اُٹھا کر اپنے زخموں کے نشان دکھائے.ان کے سارے جسم پر زخموں ان کا ایک پوتا بھی انکا ہم نام تھا خالد بن عبد الرحمن بن خالد بن ولید.وہ بھی ان کی طرح بہادر تھا لیکن اس کی نسل آگے نہ چل سکی.واللہ اعلم بالصواب کے گہرے نشان تھے کہیں ایک بالشت کا فاصلہ بھی ایسا نہ تھا جہاں زخم کا نشان نہ ہو.انہوں نے اُسے کہا کہ میں سینکڑوں جنگوں میں شامل ہوا لیکن شہادت نصیب نہ ہوئی اور اب بستر پر مر رہا ہوں.مجھے زندگی میں سب کچھ ملا.جہاں گیا فتح حاصل کی.لیکن شہادت نصیب نہ ہوئی.اس دوست نے کہا خالد ! تمہیں یاد ہو گا رسول اللہ نے تمہیں ایک لقب دیا تھا.اللہ کی تلوار‘ تم شہید نہیں ہو سکتے تھے.اگر کوئی دشمن تمہیں شہید کر دیتا تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ دشمن نے اللہ کی تلوار توڑ دی ہے اور یہ کبھی نہیں ہوسکتا تھا.اس خیال نے حضرت خالد بن ولید لئے مرنا آسان کر دیا.انہوں نے اپنا پسندیدہ شعر گاتے گاتے اپنی جان اپنے خدا کے حضور پیش کی.وہ شعر یہ تھا: أَنَا فَارِسُ الصَّدِيدِ - أَنَا خَالِدُ بْنُ وَلِيْد أَنَا سَيْفُ اللَّهِ

Page 24

تعداد حضرت خالد بن ولید 1000....اس کتاب کی اشاعت میں مجلس خدام الاحمدیہ گلشن پارک لا ہور نے معاونت فرمائی ہے.فجر اهم الله احسن الجزاء

Page 24