Language: UR
لجنہ اماء اللہ مرکزیہ قادیان کے زیر اہتمام مولانا موصوف کی کتاب 1984ء میں حضرت سیدہ ام متین مریم صدیقہ صاحبہ صدر لجنہ اماء اللہ مرکزیہ کے رقم فرمودہ دیباچہ کے ساتھ طبع کی گئی تھی تا لجنات اس عظیم المرتبت خاتون کے حالات زندگی، اخلاق عالیہ اور قابل تقلید اسوہ کی پیروی کرسکیں جنہیں حضرت محمد ﷺ کی زوجہ ہونے کا شرف حاصل ہوا اور آپ سب سے پہلے آپ ﷺ پر ایمان بھی لائیں۔ اسلام قبول کرتے ہی خدا تعالیٰ کی راہ میں عظیم الشان قربانیاں کرنے کی بھی توفیق پائی۔
سيدة النساء حضرت خديجة الكبرى صد ساله حین تشکر زیر اہتمام لجنہ اماء الله مرکز یہ قادیان
سيدة النساء حضر خديجة الكرامى مولانا دوست محمد شاہد مؤرخ احمدیت مجنہ اماء اللہ مرکزی قادیان
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّ عمل او تفصيلى لى رسوله الكريم رقم فرموده حضر سيد المرمي احمد الجاما الله كريم یہ کتابچہ جو مکرمی محترمی جناب مولانا دوست محمد صاحب شاہد نے تحریر فرمایا ہے اس عظیم المرتبت خاتون کے متعلق ہے جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ ہونے کا شرف حاصل ہوا.نہ صرف زوجہ ہونے کا بلکہ سب سے پہلے ایمان لانے والی خاتون ہونے کا بھی.آپ نے اللہ تعالیٰ کی خاطر عظیم قربانیاں پیش کیں.ہمارے لئے ضروری ہے کہ آپ کے حالات سے واقف ہوں دوسروں کو واقف کرائیں اور آپ کے نقش قدم پر چلنا فخر سمجھیں.پس میں سب بہنوں کو بھی تحریک کرتی ہوں کہ وہ اس کتا بچہ
کو خریدیں، پڑھیں اور بہنوں میں اس کے خریدنے کی تحریک کریں.اسی طرح لجنات کو بھی تحریک کرتی ہوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ تعداد میں اِس کو خریدیں اور بہنوں میں اس کے پڑھنے کی تحریک کریں لجنہ اماء اللہ کے لئے سال کے تعلیمی لائحہ عمل میں اِس کتاب کو مطالعہ کے لئے رکھا جا رہا ہے.خاکسار صدر لجنہ اماء الله مرکزیہ
I الله حضرت سيد خديجة الكبرى سید الکونین محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حدیث کے مطابق آنحضرت کی تحریم اول ام المؤمنین حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ خواتین جنت کی سردار ہیں.ایک بار حضرت جبرائیل علیہ السلام نے آنحضرت سے عرض کی کہ خدیجہ برتن میں کچھ لا رہی ہیں، آپ ان کو خدا کا اور میرا سلام پہنچا دیں لیے ایک اور موقعہ پر جبکہ حضرت جبرائیل آنحضور کے پاس تھے، حضرت سید ہ بھی آگئیں.حضرت جبرائیل نے فرمایا کہ ان کو جنت جامع الصغير للسيوطى جلد ۲ صفحه ۲ - استیعاب جلد ۲ صفحه ۷۴۰
کے ایک ایسے گھر کی بشارت سنا دیجیئے جو موتیوں کا ہوگا ئیے یہ مبارک الفاظ جن کا سر چشمہ بلا شبہ وحی ربانی ہے، حضرت خدیجہ کی سیرت کا الہامی خلاصہ ہیں، وجہ یہ کہ حضرت مسیح موعود و مہدی موعود کے نظریہ کے مطابق اسلامی بہشت اس دنیا کے ایمان اور عمل کا ایک ظل ہے.وہ کوئی نئی چیز نہیں جو باہر سے آکرہ انسان کو ملے گی.بلکہ انسان کی بہشت انسان کے اندرہی سے نکلتی ہے اور ہر ایک کا بہشت اُسی کا ایمان اور اُسی کے اعمالِ صالحہ ہیں ہیں اس حقیقت کے پیش نظر ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ حضرت خدیجہ کی حیات طیبہ کو اگر تشبیہ دی جاسکتی ہے تو ایک شاندار محل سے، جو آبدار موتیوں سے جگمگا رہا ہو.اور یہ حقیقت ہے کہ آپ کی سوانح ، سیرت اور اخلاق و شمائل کا ہر گوشہ گوہر یکتا نظر آتا ہے.حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا مشہور قریشی قبیلہ بنو اسد کی سیدہ رضی قبیلہ بنو اسد چشم و چراغ تھیں ، کنیت اقتم ہند، والد کا نام خویلد، اور والدہ کا فاطمہ بنت زائدہ.آپ کا سلسلہ نسب تین واسطوں سے جناب قصتی تک اسد الغابہ جلد ۵ صفحه ۴۳۸ زیر لفظ " خدیجه " ے اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ 24
پہنچتا ہے جو جد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑدادا تھے.آپ آنحضور کی ولادت سے ۵ سال پہلے شہر میں پیدا ہوئیں بیسن شعور تک پہنچیں تو اپنے بلند اخلاق کی بناء پر طاہرہ کے لقب سے مشہور ہوئیں.آپ کا پہلا نکاح ابو ہالہ سے ہوا ، ان کی وفات کے بعد آپ پہلے عقیق بن عائد سے اور پھر صفی بن امیہ سے بیاہی گئیں ، صفی بھی انتقال کر گئے اور آپ تیسری مرتبہ پھر بیوہ رہ گئیں لیے اسی زمانہ میں عرب کی جنگ "حرب الفجار چھڑ گئی جس میں آپ کے والد بھی مارے گئے.شوہر اور باپ کی وفات سے آپ پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے.ذریعہ معاش تجارت تھا جس کا کوئی نگران نہ رہا.اپنے اعزہ کو معاوضہ دے کر شام وغیرہ کی طرف بھیجتی رہیں.آپ خاندانی روایات کے مطابق فطر تا سخی اور فیاض تھیں، اپنا مال غریبوں، مسکینوں، یتیموں اور بیواؤں کی خبر گیری میں بے دریغ کٹا دیتی تھیں کہے اُن کی یہ نیکی اللہ جل شانہ کو ایسی پسند آئی کہ آپ کے قدموں میں دولت و ثروت کے انبار لگ گئے اور مکہ کی کے طبقات ابن سعد ( حالات خدیجد ض) کے اسیر الصحابیات » صفحه ۲۱-۲۲ د از مولانا سعید انصاری مولانا عبد السلام ندوی) و سیرت المصطفے ، بلدا صفحه ۱۷۳-۱۷۲ مولانامحمدا برایم ناسیالکوٹی)
پوری تجارت گویا آپ کے کنٹرول میں آگئی اور عرب میں آپ کی دولتمندی کی شہرت دُور دُور تک پھیل گئی.ایک بار مال کی روانگی کا وقت آیا تو حضرت ابوطالب نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ خدیجہ سے جا کر ملنا چاہیے.ان کا مال شام جائے گا بہتر ہو کہ آپ بھی ساتھ جائیں.آنحضرت کی پارسائی ، تقدس اور صداقت کا عام چر چاتھا اور آپ امین کے لقب سے پکارے جاتے تھے.حضرت خدیجہ کو اس گفت گو کی خبر ہوئی تو فورا پیغام بھیجا کہ آپ میرا مال تجارت لے کر شام کو تشریف لے جائیں، میں اوروں کی نسبت آپکو ڈ گنا معاوضہ پیش کروں گی.آنحضرت نے یہ شرط قبول فرمالی.حضرت خدیجہ نے اپنا غلام میسرہ آپ کے ہمراہ کر دیا.اس سفر میں عجیب غیبی برکتیں نمودار ہوئیں اور آنحضرت کی دعاؤں اور تدابیر اور دیانت و امانت کے نتیجہ میں خارق عادت رنگ میں نفع ہوا جس نے حضرت خدیجہ سے دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عقیدت و محبت کا ایک در یارواں کر دیا.اس کے بعد آنحضرت جب دوسری بار میرہ کے ساتھ سامان تجارت لے کر شام تشریف لے گئے تو دوران سفر بصرہ میں نسطورہ راہب نے میسرہ کو اپنی فراست و بصیرت سے خبر دی کہ آپ ہی نئی منتظر اور پیغمبر
آخر الزمان ہیں.خود میسرہ نے یہ نظارہ دیکھا کہ دو فرشتے اپنے پروں سے حضور پر سایہ کئے ہوئے ہیں اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ آنحضرت کی مگر میں واپسی کے وقت حضرت خدیجہ نے بھی مشاہدہ کیا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اونٹ پر تشریف لا رہے ہیں اور دو فرشتے حضور پر سایہ افگن ہیں.حضرت خدیجہ نے جب دوسری عورتوں کو یہ منظر دکھلایا تو وہ بھی دنگ رہ گئیں.بعد ازاں میسرہ نے بھی اپنے مشاہدات سفر بیان کئے تو ایک معتمد سہیلی کے ذریعہ حضور کی خدمت میں شادی کی درخواست کی جسے آنحضور نے بھی قدرے قاتل کے بعد منظور فرمالیا ابو طالب نے پانچ سو درہم مہر پرنکاح پڑھا جو کتب تاریخ میں ریکار ڈ ہے جنور کی عمر مبارک اُس وقت ۲۵ سال تھی اور حضرت خدیجہ کی چالیس سال - حضرت خدیجہ نے حلقہ زوجیت میں آنے کے بعد اپنی سب جائیداد اور مال در یتیم حضرت محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قدموں میں کسی بیرونی تحریک کے بغیر نچھاور کر دیا جس کی طرف آیت وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَاغْنی بھی اشارہ کر رہی ہے.سیدنا حضرت مصلح موعود (نتور اللہ مرقدہ) فرماتے ہیں:.له طبقات ابن سعد و روض الانف جل را صفحه ۱۲۲ و خصائص الکبری للسیوطی مواہب اللدنيه للقسطلانی
1." حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے حالات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ صرف ہزاروں روپے رکھنے والی خاتون نہیں تھیں بلکہ لاکھ پتی خاتون تھیں مستقل طور پر اُن کی طرف سے متعدد قافلے تجارت کے لئے شام کی طرف آتے جاتے تھے اور یہ وسیع کاروبار وہی شخص کر سکتا تھا جو اپنے لاکھوں روپے رکھتا ہو.جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو حضرت خدیجہ بن کی اس عدیم المثال قربانی کے نتیجہ میں دولت کے ڈھیروں ڈھیر یل گئے تو آپ نے وہ تمام مال قوم کے غرباء اور تا می ومساکین میں تقسیم کر کے اپنا دل ٹھنڈا کر لیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی بھی اولاد ہوئی وہ (سوائے حضرت صاحبزادہ ابراہیم کے ، حضرت خدیجہ ہی کے بطن مبارک سے ہوئی.اللہ تعالیٰ نے آنحضرت کو آپ سے تین فرزند اور چار صاحبزادیاں عطا فرمائیں جن کے نام یہ ہیں.حضرت قاسم ، حضرت طاہر، حضرت طيب ، حضرت زینب ، حضرت رقیہ ، حضرت ام کلثوم اور (ایم حسنین ) حضرت فاطمتہ الزہراء حضرت خدیجہ آیت اللہ تھیں جنہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ے تفسیر کبیر (والضحی صفحه ۱۰۷
仔 ربع صدی کی رفاقت نے رُوحانیت کی ایک نئی شان عطا کر دی اور ازدواجی دنیا میں پہلی بار ایک مثالی جنت ارضی کا ظہور ہوا.ایک مستشرق ایڈورڈ.ہے.جرجی ( EDWARD - - TURGI ) لکھتے ہیں :- "When he was about twenty-five years old, his marriage with Khadijah, a rich and noble widow of matronly virtues, brought him domestic contentment and happiness, and he could then easily afford to give him- self up to long and assidous reflection upon the nature and destiny of man.' آنحضرت کی عمر تیس برس کے قریب ہوئی تو (حضرت ) خدیجہ سے آپ کی شادی ہوئی جو ایک امیر اور شریف النفس بیوہ خاتون تھیں اور خاندانی امور میں بھی خاص انتظامی سلیقہ رکھتی تھیں.اس شادی کے بعد آنحضرت کو حقیقی سکون اور مسرت میسر آئی اور آپ اس قابل ہو گئے کہ انسانی فطرت اور اس کے مقصد حیات مسائل پر سلسل غور و فکر کر سکیں.سنت انبیاء کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دربار شرت کی بجائے گوشہ خلوت بہت محبوب تھا.حضور مکہ سے کئی میل دور غار حرا “Collier' Encyclopaedia Vol : 16, p.690.d
۱۲ میں تشریف لے جاتے اور کئی کئی دن اور راتیں عبادت و مراقبہ میں گذارتے حضرت خدیجہ نہایت اہتمام سے مدت قیام کے لئے ایسا کھانا تیار کر دیتیں جو موسمی اثرات سے محفوظ رہ سکے.خوراک ختم ہونے پر حضور واپس گھر تشریف لے آتے.حضرت خدیجہ توشہ تیار کر دیتیں اور آپ پھر عازم چرا ہو جاتے.ایک دفعہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت خدیجہ دونوں نے غار حرا میں اعتکاف کی نذر مانی یه کم اور رمضان کی تاریخ اور پیر کا دن آنحضرت کی چالیس سالہ زندگی کے لئے ہی نہیں دنیا بھر کے لئے ایک انقلاب عظیم کا پیش خیمہ ثابت ہوا.آپ حسب معمول نہایت یکسوئی سے اپنے خالق آسمانی کی یاد میں محو تھے کہ حضرت جبریل امیں نازل ہوئے اور نشر آنی وحی اِقْرَأَ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَق کا آغاز ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سخت گھبراہٹ کے عالم میں غار حرا سے اتر کر گھر کوٹے اور فرمایا مجھ پر کپڑا ڈال دور حضرت خدیجہ نے اپنے مقدس ترین خاوند کو فورا کپڑا اوڑھا دیا.جب ذرا اطمینان ہوا تو حضور نے سارا ماجرا کہہ سنایا اور فرمایا مجھے تو اپنے نفس کے متعلق ڈر پیدا ہو گیا ہے مگر حضرت خدیکر نہ جو آنحضور لله الخصائص الكبرى للسيوطي جلدا صفحه ۲۲۶ (ترجمه) زرقانی شرح مواہب اللدنیہ جلدا من و بحر محیط جلد ۲ صفحه ۲۹
جیسی سرتا پا نور اور خدا نما شخصیت کے روحانی اثرات بشیم خود ملاحظه کر چکی تھیں بے ساختہ پکار اُٹھیں :.كلا واللهِ مَا يُخْزِيكَ اللهُ أَبَدًا إِنَّكَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ - وَتَحْمِلُ الكَلَ وَتَكْسِبُ الْمَعْدُومَ وَتَقْرِى الضَّيْفَ وَتُعِيْنُ عَلَى نَوَابَ الْحَقِّ ل رسوا نہیں نہیں ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا.بخدا.اللہ تہ آپ کو کبھی رسہ نہیں کرے گا.آپ صلہ رحمی کرتے ہیں.لوگوں نے بوجھ اُٹھاتے ہیں.معدوم اخلاق کو آپ نے اپنی ذاتِ اقدس میں جمع کر لیا ہے.آپ مہمان نواز ہیں اور حق کی باتوں میں لوگوں کے مددگار بنتے ہیں.حضرت خدیجہ کی یہ گواہی نہ صرف رسالت محمدی کی صداقت کا دائمی نشان ہے بلکہ اس سے حضرت خدیجہ کی فصاحت و بلاغت ، خدا پر کامل یقین اور کامل محبت اور باریک نظری اور دینی فہم و دانش کا پتہ بھی لگتا ہے اور یہ دیکھ کر تو روح وجد کر اُٹھتی ہے کہ آپ کے اس تاریخی فقرہ میں (جو فصاحت و بلاغت کا بھی شاہکار ہے ، جملہ الہامی کتب خصوصاً ے بخاری جلدا صفحه ۳ (مصری)
۱۴ قرآن شریف کی تعلیمات کا نہایت حسین و جمیل عکس آگیا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں " قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں ایک توحید و محبت و اطاعت باری عزیز اسمہ.دوسرے ہمدردی اپنے بھائیوں اور بنی نوع کی یا لے دعوائی نبوت کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم (فداہ ابی و اتی) پر نماز فرض ہوئی تو آپ مکہ کے بلند حصہ میں تھے جہاں پانی کا چشمہ پھوٹ نکلا.حضرت جبریل نے وضو کیا پھر آنحضرت نے بھی اسی طرح وضو کیا.بعد ازان حضرت جبریل نے آپ کو ساتھ لے کر نماز پڑھی اور غائب ہو گئے.(اس کشفی نظارہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت مدیحہ نہ کے پاس تشریف لائے.آپ کے سامنے وضو کیا اور ساتھ لے کر اسی طرح نماز پڑھی جس طرح حضرت جبریل نے پڑھی تھی ہیے الغرض حضرت خدیجہ تاریخ اسلام میں پہلی خاتون تھیں جنہیں آنحضرت پر ایمان لانے کی سعادت نصیب ہوئی.یہی نہیں خدا کے عظیم الشان پیغمبر کی آواز دوسروں تک پہنچانے کا فریضہ بھی اُمت میں سب سے پہلے آپ ہی ے ازالہ اوہام صفحه ۵۵۰ (طبع اوّل) له ابن ہشام
۱۵ نے ادا کیا.چنانچہ آپ آنحضرت کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کی طرف لے گئیں جنہوں نے غار حرا کی تجلی کا واقعہ سنتے ہی اقرار کیا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسی جیسے اولو العزم نبی پر ظاہر ہوا تھا.ازاں بعد آپ نے بصری کے بحیرا راہب کو بھی آفتاب نبوت کے ظہور کی اطلاع دی بیلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلانِ رسالت نے سارے عرب کو مشتعل کر دیا، آنحضور نماز پڑھتے تو آپ پر خاک ڈال دی جاتی ، بازار سے گذرتے تو اوباش جمع ہو کر آوازیں کستے.اپنے مکان میں تشریف لاتے تو بار دگیر د کے مکانوں سے آپ کے گھر میں سنگ باری کی جاتی اور بعض دفعہ بکروں اور اونٹوں کی انٹریوں اور دوسری بدبو دار اور گندی چیزوں کا ڈھیر لگ جاتا.یہ وہ درد ناک ماحول تھا جس میں ام المؤمنین حضرت خدیجة الکبری نے اپنے بچوں کی تربیت اور اپنے محبوب ترین خاوند کی خدمت گذاری کا حق ادا کر دیا.امام محمد بن اسحاق امام المغازی فرماتے ہیں:.كانَتْ لَهُ وَزِيرَ صِدْقٍ عَلَى الْإِسْلَامِ يَشْكُرُ إِلَيْهَا و" وَيُهْلِكُ همه " سه سیرت حلبیہ جلد صفر ۳۹۴ تالیف علی بن به بان الدین الطلبی با سه ابن ہشام
حضرت خدیجہ اسلامی امور میں آنحضور کی مخلص وزیر تھیں.آپ اُنکے سامنے اپنی تکالیف بیان فرماتے اور وہ آپ کی ڈھارس بندھاتی تھیں حضرت ابن عبد البر القرطبی فرماتے ہیں :.فَكَانَ لا يَسْمَعُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ شَيْئًا يَكَرَمُهُ مِنْ رَةِ عَلَيْهِ وَتَكْذِيبِ لَهُ إِلَّا فَرَّجَ اللهُ عَنْهُ بِمَا تَشَبْتُهُ وَتُصَدِّقُهُ وَتُطَّفَفُ عَنْهُ وَ تُهَوَنُ عَلَيْهِ مَا يُلْقَى مِنْ قومه له آنحضرت کو مشرکوں کی تکذیب یا تردید سے جو صدمہ بھی پہنچتا حضرت خدیجہ کے پاس آکر دُور ہو جاتا تھا کیونکہ وہ آپ کی باتوں کی تصدیق کرتی تھیں اور مشرکین کے معاملہ کو آپ کے سامنے بے وقعت کر کے پیش کرتی تھیں.حضرت خدیجہ کی زندگی کا آخری امتحان محترم شنہ نبوی میں شروع ہوا جب کہ قریش مکہ نے مسلمانوں کے خلاف باقاعدہ معاہدہ کر کے اجتماعی اور منظم بائیکاٹ کیا اور آنحضرت اور حضرت خدیجہ اور دوسرے مظلوم صحابہ کو شعب ابی طالب میں (جو ایک پہاڑی درہ کی صورت میں تھا، محصور ہونا پڑا.نظر بندی کا یہ زمانہ قیامت سے کم نہیں تھا جس میں ایسے ایسے دردناک ه استیعاب جلد ۲ صفحہ ۷۴۰
k نظار سے دیکھتے ہیں آئے کہ اُن کے تصور سے آج بھی کلیجہ منہ کو آتا اور جگر پاش پاش ہو جاتا ہے.حکیم ابن حزام حضرت خدیجہ کے بھتیجے تھے.وہ کبھی کبھی اپنی پھوپھی کے لئے خفیہ خفیہ کھانا لے جاتے تھے مگر ایک دفعہ ابوجہل کو کیسی طرح اس کا علم ہو گیا تو اس بدبخت نے راستہ میں اسے بڑی سختی سے روک لیا ہے یہ ابتلاء عظیم برابر ڈھائی تین سال تک جاری رہا.بالآخر محہ کے بعض شرفاء کی مداخلت سے یہ ظالمانہ معاہدہ ختم ہوا مگر فاقوں نے اپنا اثر دکھلایا اور تھوڑے دنوں کے بعد ہی پہلے آنحضرت کے چا ابوطالب اور پھر آپ کی وفاشعار بیوی حضرت خدیجه ان ایام کرب و بلا کے مصائب و آلام کی تاب نہ لا کر انتقال فرما گئیں.إِنَّا لِلَّهِ وَ إِنَّا إِلَيْهِ راجِعُون - یه درد انگیز حادثه در رمضان نشانه نبوی کو پیش آیا جب کہ اُن کی عمر ۴ ۶ سالی ۶ ماہ تھی.نماز جنازہ اس وقت مشروع نہیں تھی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اشکبار آنکھوں اور غم رسیدہ دل کے ساتھ قبر میں اُترے اور اپنی چہیتی بیوی کی لاش سپرد خاک کر دی.حضرت خدیجہ کا مدفن مکہ کے شمال میں واقع پہاڑ جون ہے.یہ له ابن ہشام - سیرت خاتم النبنيتين ( از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب) نے طبقات ابن سعد"
۱۸ وہی پہاڑ ہے جس کی گھائی سے گزر کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے موقع پر مدینہ سے مکہ معظمہ میں رونق افروز ہوئے تھے.آپ کے مزار پر عرصہ تک ایک چوبی تابوت رکھا رہا نشہ میں اس کی حفاظت کے لئے ایک شاندار قبہ تعمیر کیا گیا جس کی مرمت ۱۲۹ میں ہوئی یہ بعض روایات کے مطابق اسی کے قریب حضرت عبد المطلب اور حضرت ابوطالب کی قبریں بھی ہیں.مکہ معظمہ کا یہ قدیم ترین قبرستان " جنّت معلمی کہلاتا ہے ذکاء الملک علامہ ڈاکٹر فریدون زمان محمد شجاع کے سفر نامہ حج و حرمین ۳ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس قبرستان کے جیتے ، کتنے اور تعمیرات انقلابات زمان کی بدولت مٹ چکی ہیں اور کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ کیس کی قبر ہے ؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ، ام المؤمنین سیدہ خدیجہ رضی الله عنها کی جدائی کا غم عمر بھر نہیں بھلا سکے.تاریخ کا مشہور واقعہ ہے کہ غزوہ بدر کے قیدیوں میں آپ کے داماد ابو العاص بھی تھے.ان کے فدیہ میں آنحضرت کی صاحبزادی حضرت زینب نے جو ابھی مکہ میں تھیں کچھ چیزیں بھیجیں جن میں وہ ہار بھی تھا جو آپ کی پیاری بیوی حضرت خدیجہ مانے جہیز میں اپنی بیٹی س مرءة الحرمین جلد اصفحه ۳۰-۳۱ از رفعت پاشای مطبوعہ مصر- اس کتاب میں حضرت خدیجہ کے قحبہ کی تصویر بھی دی گئی ہے :
19 دیا تھا.جونہی حضرت نبی کریم کی نظر اس ہار پر پڑی آپ کو حضرت خدیجہ کی یاد آگئی اور آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے تربتر ہو گئیں لیے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ گو میں نے حضرت خدیجہ مہ کو نہیں دیکھا لیکن مجھ کو جس قدر اُن پر رشک آتا کسی اور پر نہیں آتا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ ان کا تذکرہ فرمایا کرتے تھے.ایک بار انہوں نے حضور کی خدمت اقدس میں نہایت ادب سے عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ کیوں ایک بڑھیا کو یاد کرتے ہیں جو مر چکی ہے.خدا نے اُس سے اچھی بیویانی آپ کو عطا کی ہیں.یہ سُن کر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حساس اور نازک دل پر ایسی چوٹ لگی کہ آپؐ کی حالت برداشت سے باہر ہو گئی اور آپؐ نے درد بھرے الفاظ میں فرمایا :- " لا واللهِ مَا ابْدَلَى اللَّهُ خَيْرًا مِنْهَا أَمَنَتْ فِي إِذْ كَفَرَا النَّاسُ وَصَدَّ قَتْنِي إِذْكَذَ بَنِي النَّاسُ وَوَاستَني فِي مَا لَهَا إِذْ حَرَمَى النَّاسُ وَرَزَقَنِيَ اللهُ مِنْهَا او لا دا إِذْ حَرَمَنِى أَوْلَادَ النِّسَاءِ له ے صحیح مسلم جلد ۲ صفحہ ۳۳۳ اسد الغابه جلده صفحه ۲۳۸ - ۴۳۹- استیعاب جلد ۲ صفحه ۷۳۱ ہے
خدا کی قسم ! اللہ تعالیٰ نے مجھے خدیجہ کے بدلے اس سے بہتر کوئی بیوی نہیں دی.وہ مجھے پر ایمان لائی جبکہ اوروں نے کفر کیا، اُس نے میری تصدیق کی جب دوسروں نے میری تکذیب کی.اس نے اپنے مال سے میری غمخواری کی جب کہ لوگوں نے مجھے محروم کیا اور خدا تعالیٰ نے اس کے بطن سے مجھے اولاد بخشی جب کہ دوسری ازواج کو اس نے محروم رکھا.أم المؤمنین حضرت خدیجہ آج اس دنیا میں موجود نہیں.اور آپ کی قبر کے آثار بھی معدوم ہو چکے ہیں مگر آپ کا کام اور نام دونوں زندہ جاوید ہیں.اسی طرح آنحضرت کے مبارک ہونٹوں سے نکلے ہوئے تعریفی کلمات بھی فضائے بسیط سے میٹ نہیں سکتے.وہ یقیناً ہر عاشق رسول کے دل و دماغ میں محفوظ ہیں اور حشر تک گونجتے رہیں گے.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ، جلال اور تقدس
کے ابدی تخت پر بیٹھنے والے زندہ رسول اور نبیوں کے شہنشاہ محمد مصطفے صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اولین رفیقۂ حیات ہونے کی حیثیت سے یقینا ملکہ دو جہاں ہیں.رت محمد کی قسم ! دنیا کی کوئی بڑی سے بڑی طاقت نہ تو آپ کا یہ روحانی تاج چھین سکتی ہے اور نہ آپ کی آسمانی بادشاہت پر کبھی زوال آسکتا ہے.ہے فانیوں کی جاہ وحشمت پر بلا آو سے ہزار سلطنت تیری ہے جو رہتی ہے ہر دم برقرار اللهم صل عَلَى سَيدِ نَا وَمَوْلَانَا مُحَمَّدٍ وَعَلَى أَزْوَاج مُحَمَّدٍ وَ عَلَى الِ مُحَمَّدٍ وَبَارِك وَسَلَّمَ إِنَّكَ ـ مجيده
۲۲ روایت ہے کہ دسواں سال تھا عہد نبوت کا کہ ٹوٹا آخری رشتہ بھی انسانی حمایت کا ابو طالب سدھارے جانب ملک عدم آخر اُٹھا سر سے چا کا سایہ لطف و کرم آخر وہ اُم المسلمین جو ما در گیتی کی عزت ہے وہ اُم المسلمین ، قدموں کے نیچے جس کے جنت ہے خدیجہ طاہرہ یعنی نبی کی باوفا بی بی شریک راحت و اندوه پابند یابی بی
دیار جاودانی کی طرف راہی ہوئیں وہ بھی گئیں دنیا سے آخر سوئے فردوس بریں وہ بھی یہ بی بی تھیں ، وہ ہمدرد یتیمی تھے محمدؐ کے یہ دونوں غمگساران مت دیمی تھے محمدؐ کے مشیت کو مگر مد نظر تھی شاین یکتائی محمد کی یہ تنہائی ہی تھی سامان یکتائی ( ابو الاثر حفیظ جالندهری)
همدرد پرشنگ پریس جانند هر