Hazrat Imam Hussain

Hazrat Imam Hussain

حضرت امام حسین ؓ کا عظیم الشّان مقام

خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جون 1994ء
Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR

حضرت مرزا طاہر احمد، خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے مورخہ 17 جون 1994ء کو مسجد فضل لندن میں حضرت امام حسین ؓ کے حوالہ سے خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا تھا، جسے متعدد بار کتابچے کی صورت میں شائع کیا جاچکا ہے ، موجودہ ایڈیشن نظارت نشر و اشاعت قادیان کا شائع کردہ ہے۔ حضور رحمہ اللہ نے اپنے اس خطبہ جمعہ میں فضیلتوں والے مہینے محرم الحرام کے حوالہ سے حضرت محمد ﷺ کے اہل بیت اور آپ ﷺ کی آل کا دلنشین تذکرہ فرمایا ۔ اس نازک اور محبت بھرے موضوع کو امت نے صدیوں سے افراط و تفریط سےمشکل بنادیا تھا، حضور ؒ نے نہایت محبت اور حکمت سے موضوع پر روشنی ڈالی اور غلط فہمیاں دور کرکے اس مہینے کی برکات سے استفادہ کی راہ دکھائی۔


Book Content

Page 1

حضرت امام حسین کا عظیم الشان مقام از حضرت امام جماعت احمدیہ مرزا طاہر رحمہ اللہ تعالیٰ خطبہ جمعہ فرموده ۱۷ جون ۱۹۹۴ء بمقام بیت الفضل لنڈن

Page 2

نام کتاب مصنف سابقہ ایڈیشنز حالیہ طباعت تعداد : حضرت امام حسین کا عظیم الشان مقام حضرت خلیفۃ اصیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ 2014-2013 دسمبر 2015ء 1000 فضل عمر پرنٹنگ پریس قادیان نظارت نشر واشاعت قادیان ضلع گورداسپور، پنجاب،انڈیا.143516 : ISBN:978-81-7912-310-2 HADHRAT IMAM HUSIAN RA KA AZEEMUSHSHAN MUQAAM by Hadhrat Mirza Tahir Ahmad Khalifatul Masih iv ra مطبع

Page 3

بِسمِ اللهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ تشهد، تعوذ تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:.یہ مہینہ محرم الحرام ہے جس کی بہت سی فضیلتوں کا احادیث میں اور اسلامی لٹریچر میں ذکر ملتا ہے لیکن اس موقعہ پر آج کے خطبہ میں میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت ، آپ کی آل سے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ رشتہ ہے جس رشتے سے ہمارا خدا سے رشتہ بنتا ہے.پس آپ کی اولاد سے اس تعلق کا قائم نہ رہنا یا اولاد سے کسی قسم کا بغض ان دونوں رشتوں کو کاٹ دیتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد وہ اولاد نہیں تھی جس نے اپنا روحانی تعلق حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قائم نہ رکھا بلکہ وہ اولاد تھی جس نے اس تعلق کے تقاضوں میں اپنی جانیں دے دیں اور عظیم ترین قربانیاں پیش کیں.پس اس پہلو سے وہ جس کے دل میں اہل بیعت کا بغض ہے.حقیقت میں اُس کے دل میں محمد رسول اللہ کا بغض ہے اور اسلام کا بغض ہے اور اس کی کوئی نیکی حقیقی نیکی نہیں کہلا سکتی.یہ ایک طبعی حقیقت ہے کہ جس سے محبت ہو.اُس کے محبوب سے محبت ہو.جس سے محبت ہو اس سے جو محبت کرتے ہیں اُن سے بھی تعلق قائم ہو.اور یہ دونوں باتیں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بہت ہی پیاری اور مقدس بیٹی حضرت فاطمہ کی اولاد کو نصیب تھیں.اُن سے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت تھی اور وہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتے تھے اور پھر یہ خونی تعلق بھی تھا.اس لئے کسی مسلمان کے تصور میں بھی یہ بات نہی آسکتی کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے دوری تو در کنار اس کے وہم میں بھی یہ بات داخل ہو کہ میرا اُن سے کسی قسم کا تعلق ٹوٹ سکتا ہے اس کے بالکل بر عکس ایک گہری بے ساختہ محبت حقیقت میں اس کے ایمان پر گواہی ہوگی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار پر یہ محبت ایک ایسی پختہ اور دائمی گواہی دے گی کہ جس کو نظر

Page 4

(4) انداز نہیں کیا جاسکتا مگر اس کے برعکس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے پیدا ہونے والے محبت کرنے والوں اور محبوبوں کا ذکر تو محبت سے کیا جائے مگر اُن کا جن کا خونی رشتہ نہ بھی تھا مگر خونی رشتہ سے بڑھ کر اپنی جانیں انہوں نے آپ پر شارکیں اُن کا بغض سے ذکر کیا جائے اگر ایسا ہو تو ایسے شخص کے ایمان کے خلاف یہ گواہی بھی بہت مضبوط اور ناقابل تردید گواہی ٹھہرے گی.پس حقیقی اور سچی بیچ کی راہ وہی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے جس نے جس رنگ میں بھی تعلق باندھا خواہ خون کا رشتہ تھا یا نہ تھا.اُس سے طبعی بے ساختہ دل میں پیار پیدا ہو یہ سچی علامت ہے.انسان کے ایمان کی اور آنحضور سے حقیقی وابستگی کی.آج عالم اسلام نہ جانے کن اندھیروں میں بھٹک رہا ہے کہ یہ دلو محبتیں آپس میں پھٹ چکی ہیں اور ان دونوں کو ایک گھر میں جگہ نہیں نصیب.وہ لوگ جو اہل بیت کی محبت کا دعوی کرتے ہیں وہ اہل بیت کی محبت کے ساتھ آنحضور کے عشاق اور فدائیوں کا نفرت اور بغض سے ذکر کرنا بھی جزو ایمان سمجھتے ہیں جن کا ان معنوں میں خونی رشتہ نہیں تھا.جن معنوں میں حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کا خونی رشتہ تھا یا آپ کی اولاد کا تھا.اور اس طرح محبت میں زہر گھول دیتے ہیں اور اُس کے برعکس وہ لوگ جو صحابہ کرام کی عزت بلکہ گہری محبت اور عقیدت کو دل میں جگہ دیتے ہیں وہ سمجھتے ہیں اس کے ساتھ محرم کے دنوں میں شیعوں کے خلاف حرکت کرنا اور اُن کی مجالس کو درہم برہم کرنا ان کے جلوسوں میں مخل ہونا یہ بھی ایک ایمان کا حصہ ہے اور وہ رشتے جو باہم جوڑنے کے لئے بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتے تھے جو تمام عالم اسلام کو ایک جگہ اکٹھا کرنے میں ایک بہت ہی مضبوط کردار ادا کر سکتے تھے ان کو اکٹھا کرنے کی بجائے باہم تفریق کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے.پس محترم کے دن وہ دن نہیں ہیں جن میں یہ کہا جاسکتا کہ آج اہل بیت کی قربانیوں کی یاد میں تمام عالم اسلام اکٹھا ہو گیا ہے اور پہلی سب نفرتیں مٹ چکی ہیں.کوئی فرقے کی تفریق باقی نہیں رہی آج اس محبت کے صدقے ہم ایک ہاتھ ہر ایک جان کے نذرانے لئے ہوئے اکٹھے ہو رہے ہیں.اس کے برعکس ایک عجیب بات اخباروں میں پڑھتے اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر ذکر سنتے ہیں کہ محرم آ رہا ہے سخت خطرات ہیں بڑی دشمنیاں ہوں گی گلیوں میں

Page 5

(5) خون بہیں گے سر پٹھور ہوگی ایک دوسرے کو گالیاں دی جائیں گی اور اسلام کے دو بڑے حصہ یعنی شیعہ اور سنی اگر اس عرصہ میں گزشتہ محرم سے اب تک قریب آ بھی گئے تھے تو پھر دوبارہ ایک دوسرے سے ایسا پھٹیں گے کہ ان نفرتوں کی یاد آئیندہ محترم تک یاد رہے گی اس لئے حکومت ALERT ہورہی ہیں.بعض جگہ فوجوں کو بلایا جارہا ہے.بعض جگہ پولیس کے ریزرو کو حرکت دی جا رہی ہے اور کہا جارہا ہے کہ نہایت خطرے کے دن ہیں محبت میں خطرے ہیں.کیسے خطرے ہیں ؟ محبت تو خطروں کو مٹا دیا کرتی ہے.محبت تو خطروں کے ازالے میں کام آتی ہے.پس دونوں جگہ محبت میں جھوٹ شامل ہو گیا ہے.دونوں جگہ نظریں ٹیڑھی ہو گئی ہیں اور حقیقت حال کو دیکھنے سے کلیۂ عاری ہو چکی ہیں ورنہ یہ ناممکن تھا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت ان کے صحابہ ، آپ کے صحابہ اور آپ کے اہل بیت کے درمیان ایسی پھٹ جاتی کہ گویا ایک سے وابستگی اور دوسرے سے نفرت کے ہم معنی ہو جاتا.ایک سے نفرت دوسرے کی محبت کے مترادف ہو جاتا یہ تو ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تو محبت میں کوئی جھوٹ نہیں اُن محبت کا دعوی کرنے والوں میں ضرور جھوٹ ہے جو اُس محبت کو یہ رنگ دیتے ہیں.پس میں تمام اہل اسلام کو ان احمدیوں کی وساطت سے جو اس خطبے کوسن رہے ہیں یہ پیغام دیتا ہوں کہ یہ محرم کے دنوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ.دلی محبت پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا کریں اور سنیوں کا یہ کوئی حق نہیں ہے کہ وہ لوگ جو اہل بیت کی محبت میں جلوس نکالتے ہیں خواہ ان کی رسمیں پسند آئیں یا نہ آئیں ان کے محبت کے اظہار میں کسی طرح مخل ہوں اُن پر پتھراؤ کریں ان پر گولیاں چلائیں ان پر گالیوں کی بارش کریں یہ کیا انداز ہیں محبت کے.یہ تو دلوں میں گھٹی ہوئی اور گھولی جانے والی نفرتیں ہیں جو ابل ابل کر باہر آرہی ہیں پس جب تک حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق کو اور آپ سے سچی محبت کو تمام امت کو باہم باندھنے کا ذریعہ نہ بنایا جائے.اُس وقت تک امت کے مسائل حل نہیں ہو سکتے سب ہی حضور کی محبت کا دعوی کر کے ایک دوسرے کے خلاف نفرت کی تعلیم دیتے ہیں اور یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے ۷۲ حصوں میں امت کو تقسیم کر گیا اور آج تک ان کو ہوش نہیں آئی

Page 6

.پس جماعت احمد یہ کو آنحضور کی محبت کا پیغام اس رنگ میں امت کو دوبارہ دینے کی ضرورت ہے جس رنگ میں پہلی بار دیا گیا تھا.قرآن کریم نے جو دلوں کے باندھنے کا ذکر فرمایا ہے وہ اللہ کی نعمت کے ساتھ دلوں کو باندھنے کا ذکر فرمایا ہے اور اللہ کی نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور حقیقت یہ ہے کہ آپ ہی کی محبت نے ایک دوسرے کے دشمن قبائل کو یکجان کر دیا تھا وہ جو ایک دوسرے کی جان کے دشمن تھے وہ بھائیوں کی طرح بلکہ ان سے بھی بڑھ کر جان نثار کرنے والے دوست بن چکے تھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کو نکال کر اس کا تصور بھی قائم نہیں ہوسکتا تھا.ناممکن دکھائی دیتا تھا پس اگر چہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بالا رادہ ایسا کام نہیں کیا مگر اللہ نے آپ کی ذات میں آپ کی نعمت میں ایک ایسی غیر معمولی کشش رکھ دی تھی کہ ناممکن تھا کہ لوگ آپ کی ذات پر ایک مرکز کی حیثیت سے جمع نہ ہو جائیں.پس مرکز مدینہ نہ تھامرکز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے مرکز مکہ نہیں تھا.مرکز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تھے.جہاں کہیں آپ جاتے تھے وہیں مرکز منتقل ہوتا تھا.آپ بیٹھتے تھے تو اسلام کا مرکز آپ کی ذات میں بیٹھتا تھا.آپ اٹھتے تھے تو اسلام کا مرکز آپ کی ذات میں اُٹھتا تھا اور یہی وہ نقطہ تھا جو صحابہ کے عشق نے ہمیشہ کے لئے ہم پر حل کر دیا کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مرکز سے محبت اور آپ کی ذات میں اکھٹے ہونے کا نام ہی اسلامی وحدت ہے اور یہی توحید کا پیغام ہے جو آج ہمیں ساری دنیا کو دینا ہے کیونکہ سب سے زیادہ اس امت کا حق ہے کہ انہیں دوباره از مئہ گزشتہ کی یاد دلا کر ان زمانوں کے واسطے دے کر جن زمانوں میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد بھی تھی آپ کے صحابہ بھی تھے اور کسی کے دل پھٹے ہوئے نہیں تھے وہ تمام صحابہ جب حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کو دیکھتے تھے تو ان کی نظریں عشق اور فدائیت سے اُن پر پڑتی تھیں ان کے ذکر کو دیکھو کیسے کیسے پیار سے حدیثوں میں محفوظ کئے گئے ہیں کس طرح صحابہ اُن کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر سوار دیکھتے تھے نماز میں، جب سجدوں میں جاتے تھے تو کس طرح پیار سے ان کو اتار دیا کرتے تھے کس طرح ساتھ کھیلتے

Page 7

اور حرکت کرتے اور لاڈ پیار کرتے ہوئے دیکھتے تھے اور یوں لگتا تھا کہ تمام صحابہ کی آنکھوں میں دل پگھل پگھل کر آرہے ہیں وہ طرز بیان بتاتی ہیں کہ غیر معمولی عشق تھا.پس وہی اہل بیت ہیں وہی صحابہ ہیں.آنحضور کے وصال کے بعد تمہیں کیا جنون کو دا ہے کہ انہی اہل بیت اور انہی صحابہ کو ایک دوسرے کے دل پھاڑنے کے لئے استعمال کرنے لگے ہو وہ تو محبتوں کے پیغمبر تھے.عشق کے سمندر تھے.تم نے انہیں نفرتوں کے سمندر میں تبدیل کر دیا ہے.پس آج امت محمدیہ " کو یہ باتیں سمجھانے کی ضرورت ہے ورنہ یہ امت ، امت محمدیہ کہلانے کی مستحق نہیں رہے گی.ابھی چند دنوں تک آپ دیکھیں گے کہ محترم کے جلوس کراچی میں بھی نکلیں گے ، خیر پور میں بھی نکلیں گے ، ملتان میں بھی نکلیں گے، بہاول پور میں بھی اور لاہور میں بھی اور ہر جگہ غیر معمولی طور پر پولیس کی طاقت دو نفرت کرنے والے سمندروں کے بیچ میں دیوار کی طرح حائل ہوگی اور پھر وہ ینغِیانِ ہوں گے وہ ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کریں گے اور ان دیواروں کو توڑ کر ان کی نفرتیں پھلانگتی ہوئی دوسرے کے امن کو پارہ پارہ کر دیں گی اور اُن کی زندگیوں کو زہر آلود کر دیں گی.یہ کیا دن ہیں اور ان دنوں کے کیا تقاضے ہیں اور کیا یہ حرکتیں ہیں جو ان دنوں میں جاری ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ ظالم ملاں یہ الزام لگاتے ہیں کہ آپ نے اہل بیت کی عزت کی نہ صحابہ کی کی.ان کی یہ اہل بیت کی عرب تیں اور صحابہ کی عرب تیں تو ہر روز برسرِ عام گلیوں میں پھرتی ہیں اور جو کچھ کسر رہ جاتی ہے وہ محترم کے دنوں میں طشت از بام ہو جاتی ہے.کچھ بھی لکا چھپا باقی نہیں رہتا.مگر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ اور آگے آپ کے اہل بیت کے عشق میں حضرت مسیح موعود کی جو پاکیزہ تحریریں ہیں اُن پر جو مہریں لگائی گئی ہیں اُن پر تالے لگا دیئے گئے ہیں جو عشق کے اظہار میں انہیں اجازت نہیں کہ گلیوں میں کھل کر نکلیں.جو نفرتوں کے پیغام ہیں وہ گلیاں اُن کی ہیں وہ صحن اُن کے ہیں جب چاہیں جس طرح چاہیں نفرتوں کا اظہار جس ملک میں چاہیں کرتے پھریں یہ بڑا ظلم ہے یہ خود کشی ہے ایک.پس آج کے خطبہ کے لئے میں نے حضرت مسیح موعود کی چند تحریریں چنیں ہیں جو میں

Page 8

(8) آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اور یہی آج اُمت کا علاج ہے کہ ایک ہی زبان سے ایک ہی منہ سے صحابہ کے عشق کے قصے بھی بیان ہوں اور اہل بیت کے عشق کے قصے بھی بیان ہوں تا کہ پھر امت ان دو پاک ذرائع سے ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو جائے.یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں اور وہی مرکزیت اسلام کو دوبارہ نصیب ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.افسوس یہ لوگ نہیں سمجھتے کہ قرآن نے تو امام حسین کو رتبہ اہمیت کا بھی نہیں دیا.نزول مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۲۳) یہ وہ عبارت ہے جس کو لے کر مولویوں نے شور مچایا کہ دیکھو امام حسین کے خلاف کیسی سخت زبان استعمال کی گئی.”رتبہ ابنیت کا بھی نہیں دیا.کہتے ہیں دیکھو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں شمار نہیں کرتے.حضرت مسیح موعود کی یہ عبارت پوری پڑھتے تو ان کو پتہ چلتا کہ اگلے فقرے میں فرمایا ہے کہ آیت خاتم النبین بتا رہی ہے :.مَا كَانَ مُحَمَّدُ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ (سورۃ الاحزاب : ۴۱) کہ محمد تم میں سے کسی فرد کا بھی باپ نہیں ہے کسی مرد کا بھی باپ نہیں ہے تو یہ اشارہ اس طرف ہے کہ حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسین ہی نہیں صحابہ میں سے کوئی بھی ایسا نہیں جو جسمانی طور پر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ہو اور ہر ایک وہ ہے جو روحانی طور پر آپ کا بیٹا بن سکتا ہے.پس یہ تفریق دور کرنے کے لئے ایسا عجیب نکتہ ہے جو امت محمدیہ کے سامنے پیش فرمایا کہ تم خون کے رشتے سے ابنیت کی باتیں چھوڑ دو کیونکہ قرآن کریم نے ہر رشتے سے ابنیت کی باتیں ختم کر دیں ہیں.سوائے روحانی رشتے کے.

Page 9

مَا كَانَ مُحَمَّدْاَبَا احَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ - (سورۃ الاحزاب: ۴۱) رسول کا رشتہ سب سے برابر کا رشتہ ہو جاتا ہے اور اس رشتے میں جو روحانی بیٹا بنے گا اس کی راہ میں کوئی چیز حائل نہیں ہو سکتی اور جو روحانی بیٹا نہیں بنے گا ظاہری تعلق بھی اُس کے کسی کام نہیں آ سکتا.یہ وہ مضمون تھا جسے حضرت مسیح موعود نے بیان فرمایا اور ان ملانوں نے کیسے کیسے ظلم کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی خلاف یہ غلط باتیں منسوب کیں کہ گویا نعوذ باللہ من ذالک آپ کے دل میں نہ صحابہ کی عزت تھی نہ اہل بیت کی تھی.اب میں آپ کو حضرت مسیح موعود کے الفاظ میں بتا تا ہوں کہ آپ کے نزدیک اہل بیت کا کیا مقام تھا اور صحابہ کا کیا مقام تھا.فرماتے ہیں :.حضرت عیسی علیہ السلام اور امام حسین کے اصل مقام اور درجہ کا جتنا مجھ کوعلم ہے دوسرے کو ( ملفوظات جلد سوئم صفحه ۵۳۰ ) نہیں ہے 66 اور حضرت عیسی اور حضرت امام حسین کا کیا جوڑ ہے.نبیوں میں اپنی جان کی عظیم قربانی پیش کرنے میں حضرت عیسی کو ایک عجیب مرتبہ اور عجیب مقام حاصل ہے.نبیوں میں وہ ایک منفرد مقام ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے گزرے ہیں.جس طرح جس شان کے ساتھ حضرت عیسی نے حق کی خاطر اپنی جان کی قربانی پیش کی ہے اور صلیب کی اذیتیں قبول کی ہیں.پس دیکھیں ایک عارف باللہ کا کلام کس طرح ان باتوں کو جوڑتا ہے جس طرف ایک ظاہری نظر رکھنے والے کا تصور بھی نہیں جاسکتا.فرماتے ہیں:.حضرت عیسی اور امام حسین کے اصل مقام اور درجہ کا جتنا مجھے علم ہے دوسرے کو نہیں ہے کیونکہ جو ہری ہی جو ہر کی حقیقت کو سمجھتا ہے اس طرح پر دوسرے لوگ خواہ وہ امام حسین کو سجدہ کریں مگر وہ اُن کے رتبہ اور مقام سے محض نا واقف ہیں اور عیسائی خواہ حضرت عیسی کو خدا کا بیٹا یا خداجو چاہیں بنا دیں مگر وہ اُس کے اصل اتباع اور حقیقی مقام سے بے خبر ہیں اور ہم ہرگز تحقیر نہیں ( ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۳۰) اُن کی تحقیر مراد نہیں بلکہ واقعہ بیان کر رہے ہیں کہ جو سیح" کا جو حقیقی مرتبہ میرے دل پر روشن ہوا کرتے“.

Page 10

(10) ہے اور حسین کا جو حقیقی مرتبہ میرے دل پر روشن ہوا ہے وہ اُن کے سجدہ کرنے والوں کے دلوں پر بھی روشن نہیں اور سجدہ کرنا خود بتاتا ہے کہ مقام سے بے خبر ہیں.پس اُسی فقرہ میں اپنے کلام کی تائید میں ایک محکم دلیل بھی شامل فرما دی.وہ شان کیا ہے؟ فرماتے ہیں:.میں اس اشتہار کے ذریعہ سے اپنی جماعت کو اطلاع دیتا ہوں کہ ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ یزید ایک نا پاک طبع دنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنی اس میں موجود نہ تھے.یہ ہے اعلان حق کوئی پرواہ نہیں کہ سنی اس سے خوش ہوتے ہیں یا ناراض ہوتے ہیں حالانکہ آپ اہل سنت سے تعلق رکھتے تھے اہل تشیع میں شامل نہیں تھے اور امام تو درحقیقت دونوں سے بالا تھا کیونکہ آپ نے حکم و عدل کے طور پر دونوں کے درمیان فیصلے کرنے تھے.پس آپ دنیا کے خوف سے بالکل مستغنی اور بالا تھے.فرماتے ہیں:.یزید ایک نا پاک طبع دنیا کا کیڑا اور ظالم تھا اور جن معنوں کی رو سے کسی کو مومن کہا جاتا ہے وہ معنی اس میں موجود نہ تھے.مومن بننا کوئی سہل امر نہیں ہے.اللہ تعالیٰ ایسے شخصوں کی نسبت فرماتا ہے:.قَالَتِ الأَعْرَابُ أَمَتَا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوْا وَلَكِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَا مومن وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے اعمال ان کے ایمان پر گواہی دیتے ہیں جن کے دل پر ایمان لکھا جاتا ہے اور جو اپنے خدا اور اس کی رضا کو ہر ایک چیز پر مقدم کر لیتے ہیں.مجموعه اشتہارات جلد سوم صفحه ۵۴۴) پھر فرماتے ہیں یزید کے متعلق:.دنیا کی محبت نے اُس کو اندھا کر دیا تھا مگر حسین طاہر و مطہر تھا اور بلاشبہ ان برگزیدوں میں سے ہے جن کو خدا تعالیٰ اپنے ہاتھ سے صاف کرتا ہے اور اپنی محبت سے معمور کرتا ہے اور بلاشبہ

Page 11

(11) وہ سرداران بہشت میں سے ہے“.یہ حضرت امام حسین کے متعلق حضرت مسیح موعود کا موقف ہے اور زبان، ایک ایک لفظ بتا رہا ہے کہ بچے دل کی آواز ہے جو بے ساختہ بلا تکلف دل سے بلند ہورہی ہے.سردارانِ بہشت میں سے ہے اور ایک ذرہ کینہ رکھنا اس سے موجب سلب ایمان ہے اس امام کا تقوی اور محبت اور صبر اور استقامت اور زہد اور عبادت ہمارے لئے اسوہ حسنہ ہے اور ہم اس معصوم کی ہدایت کی اقتداء کرنے والے ہیں جو اسکو ملی تھی.تباہ ہو گیا وہ دل جو اس شخص کا دشمن ہے اور کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے.اب دیکھیں عملی رنگ میں اس مضمون کو کہاں سے کہاں تک پہنچادیا ہے زبان کے دعووں کی بات نہیں ہورہی.زنجیروں سے سینہ کوبی کی بات نہیں ہو رہی.فرمایا ہے جو عمل سے اُس سے محبت کرتا ہے اور اپنے عمل سے اس کی محبت کو سچا ثابت کر دیتا ہے یعنی حسین کا رنگ اختیار کر لیتا ہے وہی سنت اپنالیتا ہے جو حسین کی سنت تھی.فرماتے ہیں:.کامیاب ہو گیا وہ دل جو عملی رنگ میں اس کی محبت ظاہر کرتا ہے اور اُس کے ایمان اور اخلاق اور شجاعت اور تقوی اور استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش انعکاسی کے طور پر کامل پیروی کے ساتھ اپنے اندر لیتا ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۵۴۵، ۵۴۴) کون کون سے ہیں.ایمان ، اخلاق ، شجاعت یعنی بہادری تقوی یعنی خدا خوفی اور اپنی بات پر صبر کے ساتھ قائم ہو جانا اور کسی مخالفت کی پرواہ نہ کرنا.یعنی استقامت اور محبت الہی کے تمام نقوش اپنے دل پر منعکس کرتا ہے اور انہیں اپنا لیتا ہے جیسا کہ ایک صاف آئینہ ایک خوبصورت انسان کا نقش اپنے اندر لے لیتا ہے.پھر آپ فرماتے ہیں :.یہ لوگ دنیا کی آنکھوں سے پوشیدہ ہیں کون جانتا ہے اُن کی قدر مگر وہی جو انہی میں سے ہے

Page 12

(12) ، جو جیسا ہی دل رکھتا ہے ویسا ہی وہ محبت الہی میں پاک اور صاف کیا گیا ہے اور محبت کی آگ میں جلایا گیا ہے وہی ہے جو ان لوگوں کے حالات کو جانتا ہے.اُن کے تجارب سے واقف ہے غیر کی آنکھ باہر سے دیکھنے والی اس کی حقیقت کو پہچان نہیں سکتی.دنیا کی آنکھ اُن کو شناخت نہیں کر سکتی کیونکہ وہ دنیا سے بہت دور ہیں یہی وجہ حسین کی شہادت کی تھی.اب دیکھیں کیسا عظیم نکتہ ہے جو محبت اور معرفت کی نظر سے ہی دکھائی دیتا ہے یہ جلسوں میں پڑھا جانے والا نکتہ تو نہیں ہے.فرماتے ہیں:.یہی وجہ حسین کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.ایک سوسال کے شیعوں کے ماتم ایک طرف اور یہ فقرہ ایک طرف کیسی حقیقت کی روح پر انگلی رکھ دی ہے اُس کی شہادت کی یہی وجہ تھی کہ حسین شناخت نہیں کیا گیا.مگر افسوس کہ جیسا وہ کل شناخت نہیں کیا گیا تھا ایسا آج بھی شناخت نہیں کیا گیا.ورنہ حسین کے نام پر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق سے نفرتوں کی تعلیم نہ دی جاتی اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق حسین کا عذر رکھ کر اُن سے محبت کرنے والوں سے نفرت کی تعلیم نہ دیتے.پس شناخت کا جہاں تک معاملہ ہے خدا کے پیارے تو بعض دفعہ تو نہ اپنے وقت میں شناخت کئے جاتے ہیں نہ بعد میں شناخت کئے جاتے ہیں.مگر وہی اُن کو شناخت کرتا ہے جو ویسا دل رکھتا ہے ویسا مزاج اُس کو عطا ہوتا ہے ویسی فطرت ودیعت کی جاتی ہے وہی ہے جو حقیقت میں شناخت کا حق رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں :.یہی وجہ حسین کی شہادت کی تھی کیونکہ وہ شناخت نہیں کیا گیا.دنیا نے کس پاک اور برگزیدہ سے اُس کے زمانے میں محبت کی تا حسینن سے بھی محبت کی جاتی“.مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۵۴۵) یہاں یہ مراد نہیں کہ کوئی بھی محبت نہیں کرتا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ کے بڑے بڑے عشاق پیدا ہوئے ہر نبی کے وقت میں.حضرت عیسی کے زمانہ میں بھی کچھ عشاق

Page 13

(13) پیدا ہوئے.مگر مراد یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ قومی طور پر بڑی تعداد بہت بعد میں آنے والے محبت کی باتیں کرتے ہیں لیکن وہ لوگ یا ان کے مزاج کے لوگ جو اس برگزیدہ کی زندگی میں اُس زمانے میں ہوتے ہیں وہ اُس کو نہیں پہچانتے اور یہ حقیقت ہے.قرآن کریم میں اسی لئے حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام سے تعلق رکھنے والی قوم کو مخاطب کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ تم وہی ہو جس نے موسی کو اذیتیں دی تھیں.تم وہی ہو جو اس زمانے میں نبیوں کو قتل کیا کرتے تھے.حالانکہ وہ تو دو ہزار سال بعد پیدا ہوئے تھے وہ وہ کیسے ہو گئے ؟ مراد یہ ہے کہ تم ایسے لوگ ہو کہ تمہاری سرشت ایسی ہے اگر تم اس زمانے میں ہوتے تو وقت کے مقدس انسان کو پہچان نہ سکتے اور ضرور اس کی دشمنی اور عزبات اور جان کے در پے ہوتے اس کی دشمنی میں ، اس کی عزت اور جان کے در پے ہوتے لیکن اب تم اس کی محبت کی باتیں کرتے ہو.حضرت مسیح موعود ان لوگوں کا ذکر فرما رہے ہیں کہ یہ لوگ جب برگزیدہ لوگوں کی زندگی میں اس وقت سے حصہ پاتے ہیں تو کبھی اُن کو پہچان نہیں سکے اور جب وفات پا جاتے ہیں یا ویسے کسی وجہ سے اُن سے دور ہٹ جاتے ہیں.زمانے بدل جاتے ہیں اُس وقت پھر یہ اُن کی محبت کے گیت گاتے اور ان کے نام کو اچھالتے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں:.غرض یہ امر نہایت درجہ کی شقاوت اور بے ایمانی میں داخل ہے کہ حسین" کی یا کسی اور بزرگ کی جو ائمہ مظہرین میں سے ہے تحقیر کرتا ہے یا کوئی کلمہ استخفاف اُن کی نسبت اپنی زبان پر لاتا ہے.وہ اپنے ایمان کو ضائع کرتا ہے کیونکہ اللہ جل شانہ اس شخص کا دشمن ہو جاتا ہے جو اس کے برگزیدوں اور پیاروں کا دشمن ہے.جو شخص مجھے برا کہتا ہے یالعن وطعن کرتا ہے اس کے عوض میں کسی برگزیدہ اور محبوب الہی کی نسبت شوخی کا لفظ زبان پر لا ناسخت معصیت سمجھتا ہوں“.مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحه ۵۴۶،۵۴۵) جو مجھے برا سمجھتا ہے مجھ پر لعن و طعن کرتا ہے اس کا بدلہ میں معصومین سے نہیں لیتا اور شوخی کے طور پر اُن پر اپنا غصہ آ تار نا ایک سخت لعنت کی بات سمجھتا ہوں سخت گناہ سمجھتا ہوں.

Page 14

(14) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.اس میں کس ایمان دار کو کلام ہے کہ حضرت امام حسین اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہما خدا کے برگزیدہ اور صاحب کمال اور صاحب عفت اور عصمت آئمۃ الہدی تھے.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۲۴) یعنی ھدایت کے امام تھے ھدایت کے اماموں میں سے تھے.اور وہ بلا شبہ دونوں معنوں کی روح سے آنحضرت کی آل تھے.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۶۵) خون کے لحاظ سے بھی آل تھے اور روحانی وراثت کے لحاظ سے بھی آل تھے.د لیکن کلام اس بات میں ہے کہ کیوں آل کی اعلی قسم کو چھوڑا گیا اور ادٹی پر فخر کیا جاتا ہے.تعجب کہ وہ اعلیٰ قسم امام حسن اور حسین کے آل ہونے کی یا اور کسی کے آل ہونے کی جس کی روح سے وہ آنحضرت کے روحانی مال کے وارث ٹھہرتے ہیں اور بہشت کے سردار کہلاتے ہیں یہ لوگ اس کا تو کچھ ذکر نہیں کرتے اور ایک فانی رشتہ کو بار بار پیش کیا جاتا ہے.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۳۶۵) یہ وہ مغز ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین کی محبت رکھنے والوں کے تعلق میں بیان فرمارہے ہیں کہ ان کو اس پہلو سے اپنی اصلاح کرنی چاہیے.ان دونوں کا مرتبہ جس کے نتیجہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو روحانی طور پر بہت اعلیٰ مراتب پر فائز فرما دیا.وہ روحانی تعلق کی بناء پر تھا نہ کہ جسمانی رشتہ کی بناء پر.آپ نے فرما دیا سے مراد یہ ہے کہ آپ نے اُن کی اعلیٰ مراتب کی نشان دہی فرمائی اور ان کی شان میں بہت ہی پاکیزہ اور مقدس خیالات کا اظہار فرمایا.ان کے ان اعلیٰ مراتب پر فائز تو خدا نے فرمایا تھا مگ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے ہم نے اس کا ذکر سنا اس لئے آپ جب کہتے ہیں کہ وہ سرداران بہشت میں سے ہے تو گویا وہ بلا شبہ اللہ کا کلام ہے جو محمد رسول اللہ

Page 15

(15) صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا ہے.حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو اپنی طرف سے کسی کو سردار بہشت نہیں بنا سکتے تھے.تو آپ کی نظر مسیح موعود فر ماتے ہیں ان کے روحانی مراتب پر تھی ہرگز اس بات پر نہیں تھی کہ چونکہ میری بیٹی کی اولا د سے ہوں گے.میری بیٹی کی اولا د سے پیدا ہوں گے یا بیٹی کی پشت سے پیدا ہوں گے.اس لئے یہ سر دوران بہشت میں پس ان کا سرداران بہشت ہونا بتا تا ہے کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا روحانی ورثہ پایا ہے.آپ فرماتے ہیں اس اعلیٰ بات کا ذکر تم نہیں کرتے اور محرم کے مقام یا ویسے مجالس میں خونی رشتہ کی باتیں کرتے چلے جاتے ہو.اگر ایسا کرو گے تو دوسرے روحانی ورثہ پانے والوں کی طرف بھی محبت کی نگاہ پڑے گی.نفرت کی نگاہ ان پر نہیں پڑ سکتی.یہی وجہ تفریق ہے.یہی بیماری ہے جس کی نشاندہی حضرت مسیح موعود نے فرمائی اور جس طرف اب تو جہ کرنا ضروری ہے.تمام شیعوں کو میری نصیحت ہے کہ وہ اپنی مجالس میں جتنا چاہیں محبت کا اظہار کریں مگر روحانی تعلق سے ایسا کریں تو پھر وہی روحانی تعلق کی باتیں اُن کو حضرت ابوبکر صدیق سے بھی محبت کرنے پر مجبور کر دیں گی.تمام صحابہ کے لئے اُن کے دل میں محبت کے سوا کچھ نہیں رہے گا لیکن چونکہ جسمانی رشتہ پر زور دیا جاتا ہے اور اس پہلو سے صحابہ کو کلیتہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا دکھایا جاتا ہے گویا ایک الگ قوم ہے جس کا آپ سے اور آپ کے مقاصد سے کوئی تعلق نہیں اس لئے یہ نفرتیں رفتہ رفتہ اُن کے دلوں میں جاگزیں ہوئیں اور پھر بڑھتی چلی گئیں یہاں تک کہ بعض صحابہ اُن کے ایمان کا حصہ بن گیا اور اُس نے پھر یہ رد عمل دکھایا کہ سینیوں میں بھی سپاہ صحابہ جیسی چیزیں پیدا ہوئیں.اُن کے اعلیٰ مقاصد میں شیعوں کا خون بہانا اس طرح داخل ہو گیا جیسے اسلام کے دشمنوں کے خلاف جہاد صحابہ کے دلوں میں داخل تھا صحابہ کے دلوں میں اسلام کے خلاف تلوار اٹھانے والوں کے مقابل پر جہاد کا ایک جوش پایا جاتا تھا لیکن یہ ایک دفاعی جہاد تھا.اس میں نفرتوں کا کوئی تعلق نہیں تھا.یہ ان نفرتوں کے خلاف جہاد تھا جن نفرتوں کو صحابہ کا نشانہ بنایا جارہا تھا.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نشانہ بنایا جارہا

Page 16

(16) تھا.لیکن یہ جو آج ہم دیکھ رہے ہیں یہ بالکل برعکس قضہ ہے.سپاہ صحابہ کے دلوں میں شیعوں کی نفرت ہے جو موجزن ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ شیعوں میں سے کسی کا قتل کا یا ان میں سے کسی مجلسی کا قتل کرنا نہ صرف یہ کہ اللہ کے حضور اُن کے لئے اعلیٰ مراتب کا ضامن ہو جائے گا بلکہ بعض اُن میں سے مولوی یہ بیان کرتے ہیں کہ تم ایسا کرو اور اس کوشش میں تم مارے جاؤ تو تم سردارانِ بہشت میں شمار ہو گے.تم دیکھنا کہ کیسے کیسے پاک وجود تمہارے استقبال کے لئے جنت کے دروازے تک آتے ہیں.ایسے ایسے لغو قصے بیان کئے جاتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ ان قصوں کے ماننے والے دماغ کس قسم کے ہوں گے مگر ہمارے ملک میں بدقسمتی سے جہالت بہت ہے.اور یہی جہالت ہے جو اس تحریب کو مزید ہوا دے رہی ہے اور ان فاصلوں کو بڑھا رہی ہے.پس محترم میں محبت کی اور باہم رشتوں کو باندھنے کی تعلیم دینی ضروری ہے جیسا کہ مسیح موعود نے فرمایا ہے:.حقیقت یہ ہے کہ اول زور روحانی تعلق پر دینا ضروری ہے اور پھر جسمانی طور پر اگر تعلق ہے تو اس تعلق میں اضافہ ہوگا کمی نہیں ہو سکتی“.یعنی سونے پر سہاگے کا کام دے گا جسمانی تعلق.لیکن شرط ہے کہ پہلے روحانی تعلق قائم ہو.اور روحانی تعلق پر زور دیا جائے پھر زائد کے طور پر جب لوگوں کو جسمانی رشتہ دکھائی دے گا تو لازماً سب کو محبت ہوگی.پس سنیوں کو بجائے اس کے کہ نفرتوں کی تعلیم دیں اور اُن کے جلوسوں پر حملہ آور ہوں اور طرح طرح سے اُن کی راہیں روکیں یا کاٹیں یا اُن پر بم پھینکیں یا زبان سے گندی گالیوں کی گولہ باری کریں اُن کا فرض ہے کہ ایسے موقعہ پر اُن سے بڑھ کر صحابہ کے عشق کی باتیں کیا کریں اور اُن میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہلِ بیت کو جو صحابہ کا درجہ بھی رکھتے ہیں روحانی وارث بھی تھے اور روحانی وارثوں میں بھی بہت بلند مقام پر فائز تھے اُن کا ذکر بھی کریں اور دوسرے صحابہؓ کا ذکر بھی کریں.صدیقوں کا ذکر بھی کریں اور شہیدوں کا

Page 17

(17) ذکر بھی کریں.اور کثرت سے درود و سلام کی مجلسیں لگائیں اور اس میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کریں تو یہ دن کتنی برکت کے دن بن سکتے ہیں.بجائے اس کے کہ دونوں طرف ان دنوں کو نفرت پھیلانے کے لئے استعمال کیا جائے دونوں ایک دوسرے سے نیکی کی باتوں میں سبقت لے جانے کی کوشش کریں اور یہ بتائیں دُنیا کو کہ ہم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عشاق سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں.ہم آپ کے اہلِ بیت سے دوسروں کی نسبت زیادہ پیار رکھنے والے ہیں.اہل بیت کے ترانے اگر سارے سنی گانے شروع کر دیں.شیعوں کی آواز کو ڈبو سکتے ہیں اس آواز میں.اور زیادہ عشق کے ترانے گائیں اُن سے زیادہ بلند تر آواز میں اور اُن کو بتا ئیں کہ محض محبت کی باتیں ہی کافی ہیں نفرت کی باتیں بیان کرنا ضروری نہیں ہے.پس اس موقعہ کا اصلی علاج یہ ہے نہ پولیس علاج ہے نہ فوج علاج ہے.یہ علاج کتنے سالوں سے تم کرتے چلے آرہے ہو آج تو کہہ لیتے ہو کہ "را" کی وجہ سے ایسا ہوتا ہے.ہندوستان کے ایجنٹ ہیں جو یہ کام کروا رہے ہیں.کل تم کہا کرتے تھے کہ قادیانیوں کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے.احمدی ایجنٹ ہیں جوکر وار ہے ہیں.بھٹو صاحب کے زمانے میں بھی یہی ہوا اور ضیاء صاحب کے زمانے میں تو باقاعدہ دستور بن گیا تھا کہ حکومت کی طرف سے نوٹیفیکیشن جاری ہوتے تھے اور کہا جاتا تھا کہ احمدیوں کی نگرانی کرو بڑی سختی کے ساتھ تمام تر جاسوسی ان کے لئے وقف کر دو کیونکہ ہمارے علم میں یہ بات آئی ہے کہ محرم کے موقعہ پر احمدی سینیوں اور شیعوں میں فساد برپا کریں گے اور ظلم کی حد ہر دفعہ توجہ دشمنوں سے ہٹا کر دوستوں کی طرف کر دی جاتی تھی.ساری احمدیت کی تاریخ اس بات کو جھٹلا رہی ہے اور کئی پولیس افسران ان تحریروں کو پڑھ کر یہ کہا کرتے تھے اور بعض احمدیوں کے سامنے بات بیان کی کہ ہماری حکومت پتہ نہیں پاگل ہو گئی ہے.ان کو پتہ نہیں! احمدیوں کو مزاج ہی یہ نہیں ہے.کبھی ہوا ہے آج تک اُن کی سو سالہ تاریخ میں کہ احمدیوں نے فساد بر پاکئے ہوں ایک پر امن جماعت ہے ان کے خلاف فساد ہوئے ہیں.درست ہیں.لیکن آج تک ایک بھی ایسا واقعہ نہیں کہ جماعت احمدیہ نے کبھی

Page 18

(18) دوسروں میں فساد کے خیالات پھیلائے ہوں یا کسی طرح فساد پھیلانے میں دخل ہی دیا ہوکسی قسم کا.کامیابی تو دور کی بات ہے.کہتے ہیں اشارہ یعنی بعض پولیس افسران کی بات بتارہا ہوں انہوں نے اپنی لمبی سروس کا حوالہ دے کر کہا کہ میں جانتا ہوں کہ اس لمبے زمانہ میں جو پولیس میں سروس کی ہے اور میں حلف اُٹھا سکتا ہوں اس بات کا کہ احمدی مزاج میں فساد کر نا داخل نہیں کبھی مجھے آج تک کسی احمدی میں اشارہ بھی یہ بات دکھائی نہیں دی.تو کرتے کیا تھے یہ جنہوں نے شرارت کرنی ہوتی تھی.ان پر سے توجہ ہٹا کر جو شرارت کے خلاف ہوا کرتے تھے اُن کی طرف توجہ مرکوز کر دیا کرتے تھے.یعنی احمدیوں کی طرف اور پھر ان کو فساد کی کھلی چھٹی تھی جنہوں نے فساد کرانے تھے اور فساد کرانے ہیں شیعوں نے سینیوں نے اور پھر وہ کھلم کھلا اپنی سازشیں کرتے اور فساد کرتے اور فسادوں کے بعد ایک دفعہ بھی ان دشمن حکومتوں کو ایک ادنی سی بات بھی ہاتھ نہیں آئی کہ ثابت کر سکیں کہ یہ فساد احمد یوں نے کروایا تھا.مجھے یاد ہے انہی دنوں میں جب یہ کہا کرتے تھے کہ احمدیوں سے متابقہ رہو.کراچی میں ساری پولیس کی تو جہ احمدیوں کی طرف تھی.اُدھر کراچی میں شیعوں کے امام باڑے جل گئے شیعوں کو اُن کے گھروں میں زندہ جلا دیا گیا.وہ کون لوگ گئے تھے وہاں.کیا کوئی احمدی تھا ؟ تحقیق نے کیا ثابت کیا تھا کہ احمدیوں کا کوئی دور سے بھی اس بات سے تعلق نہ تھا.پس جب ایک قوم جھوٹ بولنے کی عادی ہو جائے اور عملا جھوٹ کی پرستش کرنا شروع کر دے تو جھوٹ کی ساری تدبیریں اپنے ہی خلاف اُٹھا کرتی ہیں.احمدی تو امن پیدا کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.اور احمدیوں سے آپ کبھی فساد کی بات نہیں دیکھیں گے.اب آپ کہتے ہیں کہ ”را“ نے ایسا کیا.اب ”را“ کیسے وہ دشمنیاں پیدا کر سکتی ہے جو تاریخ کے سینکڑوں سال گواہ ہیں کہ تمہارے دلوں میں مسلسل چلی آ رہی ہے.کم سے کم ایک ہزار سال گزر چکا ہے اس تاریخ کو کہ خود مسلمانوں نے مختلف وقتوں میں ایک دوسرے کے گھر جلائے ہیں.ایک دوسرے کی قبریں اکھاڑی ہیں.مردوں کو دوبارہ پھانسی دی گئی ہے اُن کے

Page 19

(19) پنجروں کو دوبارہ پھانسی پر لٹکا یا گیا ہے.یہ ہلاکوں خاں کا واقعہ بھول گئے ہو کہ ایک سنی دور میں بعض شیعوں پر مظالم ہوئے ہیں.اُس کے رد عمل کو طور پر شیعہ وزیر نے پھر انتقام لیا اور اُس نے ہلاکو خاں کو دعوت دی کہ آؤ اور اس ملک پر قبضہ کر لو.یہ تاریخ بتا رہی ہے.وہاں کون سی ”را تھی جو اپنا کام دکھاتی.میں ہندوستان کے حق میں بات نہیں کر رہا.میں کسی کے حق میں بھی بات نہیں کر رہا نہ کسی کے خلاف بات کر رہا ہوں.میں سمجھا رہوں کی حقیقت حال پر نظر رکھو.نفرتیں جہاں پرورش پاتی ہیں وہی جگہ ہے نگرانی کی اور ان نفرتوں کی پرورش میں اگر کوئی گھس کر مزید انگیخت کرے تو وہ ایسی کوشش کر سکتا ہے اس سے انکار نہیں.لیکن نفرتیں قائم ہیں تو یہ کوششیں پھر ضرور کامیاب ہونگی اور یہ عذر قابل تسلیم نہیں ہوگا کہ فلاں نے ایسا کر واد یا تم کرنے پر تیار بیٹھے تھے اُس نے جو تلوار نیچے گری ہوئی تھی اُٹھا کر تمہارے ہاتھ میں تھما دی اس سے زیادہ تو اس کا کوئی کام نہیں.لیکن کرتے تم ہو تمھاری نیتیں ہیں جن میں زہر گھلے ہوئے ہیں وہ نیتیں ہیں جو ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر سکتیں.وہ آنکھیں جو ایک دوسرے کو اچھا دیکھ نہیں سکتیں.ان نفرتوں کا علاج کرا ان نظروں کو درست کرنے کی کوئی تدبیر کرو.ان دلوں سے نفرتیں ہٹا کر ان میں محبتوں کے رس گھولنے کی کوشش کرو.اس کے سوا کوئی علاج ہی نہیں ہے اور یہ علاج امام وقت تمہیں بتا رہا ہے.حضرت مسیح موعود جو حکم ، عدل بن کر آئے تھے وہ سلیقہ سکھا رہے ہیں کہ دیکھو اس طرح صحابہؓ کی بھی تعریف کرو اس طرح اہلِ بیت کی بھی تعریف کرو ان پر بھی درود بھیجو.ان پر بھی درود بھیجو.ایک ہی ذریعہ ہے امت کے اکٹھے ہونے کا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :.یقیناً ہمارے نبی خیر الوریٰ صلی اللہ علیہ وسلم ، ہمارے رب اعلیٰ کی دونوں صفات رحمانیت اور رحیمیت کے مظہر تھے.پھر صحابہ رضوان اللہ علیہم حقیقت محمدیہ جلالیہ کے وارث ہوئے جیسا کہ پہلے تجھے معلوم ہو چکا ہے.(اعجاز اسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۵۱ ترجمه از عربی) اب ان صحابہ کے ذکر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اہلِ بیت یعنی خونی رشتہ

Page 20

(20) میں منسلک اور دوسروں سب کا اکٹھا ذکر فرما رہے ہیں اور تمام صحابہ کی تعریف فرما رہے ہیں.اس میں نعوذ باللہ اہلِ بیت اس تعریف سے خارج نہیں ہوئے.بلکہ جیسا کہ میں حوالے پڑھ چکا ہوں اوّل طور پر حضرت مسیح موعود کے پیش نظر ہیں.فرماتے ہیں :.پھر صحابہ حقیقت محمدیہ جلالیہ کے وارث ہوئے جیسا کہ تجھے معلوم ہو چکا ہے ان کی تلوار مشرکین کی جڑ کاٹنے کے لئے اُٹھائی گئی اور مخلوق پرستوں کے ہاں اُن کی ایسی کہانیاں مذکور ہیں جو بھلائی نہ جاسکیں گی اور انہوں نے صفت محمدیہ کا حق ادا کر دیا.اعجاز مسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۵۱ ترجمه از عربی) پس صفت محمدیہ کو صحابہ نے رائج فرمایا ہے یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے.وہ تمام صفاتِ حسنہ جو خونی رشتوں میں تعلق رکھنے والے اہلِ بیت میں تھیں تو تمام خوبیاں نہ ان کی ذاتی تھیں، نہ اُن کی ذات تھیں.وہ صفت محمدیہ کے مجازی ہونے کے نتیجہ میں تھیں.جو اس نکتے کو سمجھ جائے وہ ایک کے مقابل پر دوسرے سے نفرت کر ہی نہیں سکتا.کیونکہ صفتِ محمدیہ کی طرف پیٹھ رکھ کر صفت محمدیہ سے محبت نہیں کی جاسکتی.صفت محمدیہ پر حملہ آور ہوتے ہوئے صفتِ محمدیہ کے عشق کے گیت نہیں گائے جا سکتے.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کس اعلیٰ پیرایہ میں حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہی کو صحابہ میں جلوہ گر دکھایا.فرمایا وہاں بھی سیرت محمد یہ کام کر رہی ہے.یہاں بھی سیرت محمدیہ کا کام کر رہی ہے.اے سیرت محمدیہ کے عشاق کیا تم سیرت محمدیہ سے دشمنی کرو گے.پس جہاں حسن محمدی کے سوا کچھ ہے ہی نہیں.مِحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهُ وَالَّذِينَ مَعَهُ ( سورة الفتح آیت ۳۰) وہاں کسی اہلِ بیت یا غیر اہلِ بیت کی کوئی تفریق نہیں ہے.اور محسن ہے تو محمد کا حسن ہے.صلی اللہ علیہ وسلم.سیرت ہے تو محمد کی سیرت ہے.صلی اللہ علیہ وسلم.

Page 21

(21) اور صحابہ میں اگر کوئی مدح کی بات پائی جاتی ہے تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنانے کے نتیجے میں اور بعینہ یہی وجہ فضیلت کی اہل بیت میں پائی جاتی ہے.اس کے سوا کوئی وجہ نہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.اللہ تعالیٰ نے صحابہ کو اور اُن کے تابعین کو اسم محمد کا مظہر بنایا اور اُن کے ذریعہ رحمانی جلالی شان ظاہر کی اور انہیں غلبہ عطا کیا اور پے در پئے نعمتوں کے ذریعہ اُن کی نصرت اعجاز اسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۱۱۰ ترجمه از عربی ) فرمائی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ذکر میں فرماتے ہیں :.صحابہ رضوان اللہ علیہم کے زمانے میں تو یقین کے چشمے جاری تھے اور وہ خدائی نشانوں کو اپنی آنکھوں کو دیکھتے تھے اور انہی نشانوں کے ذریعہ سے خدا کے کلام پر انہیں یقین ہو گیا تھا اس لئے ان کی زندگی نہایت پاک ہوگئی تھی.اعجاز اسیح روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحه ۴۶۸) اب یہ وہ حصہ ہے جس کی کمی کی وجہ سے ساری اُمت یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے لوگوں میں فساد پیدا ہوا ہے.یہ وہ نقطہ ہے جس کو نہ سمجھنے کے ذریعہ.جس پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں.کیونکہ حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں کہ انہوں نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خدائی نشان دیکھے اور اپنی آنکھوں سے دیکھے اور اس ذریعہ سے خدا کے کلام پر انہیں یقین ہو گیا تھا اس لئے ان کی زندگی نہایت پاک ہوگئی تھی.پس جنہوں نے الہبی نشان دیکھے ہوں لازم ہے کہ ان کی زندگی پاک ہو.اور پاک زندگیوں میں یہ بدنو مہ نہیں دکھائی نہیں دے سکتے.جو محرم کے دنوں میں آپ دیکھتے ہیں.یہ ناممکن ہے کہ پاک دلوں سے دوسرے پاکوں کے خلاف نفرت اور بغض کے کلمے اس طرح نکلیں جس طرح پھوڑے سے پیپ نکلتی ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا پاک وجود صحتمند وجود ہوتا ہے.اس میں گندی پیپ کے پالے پھوڑے نہیں ہوا کرتے.پس جب بھی صحابہ کے خلاف شیعوں کی مجالس میں سخت قسم کی ظالمانہ زبان

Page 22

(22) استعمال کی جاتی ہے تو یہ دلوں کے پھوڑے ہیں جو سارا سال پکتے رہتے ہیں اور وہ پیپ اس وقت پھٹ کر اُچھل اچھل کر باہر نکلتی ہے بہت ہی بد بودار مواد ہے.جو باہر نکل کر گلیوں میں جاتا ہے اور ساری فضاء کو یہ بد بودار کر دیتا ہے.دوسری طرف مقابل پر دیکھیں.اگر وہ اُن کا مقابلہ کرنے والے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی کے نشان دیکھ کر اپنے دلوں کو پاک کر چکے ہوتے تو ایسے موقعہ پر استغفار سے کام لیتے.گند کا جواب گند سے نہ دیتے بلکہ اُن کے لئے دعا گو ہو جاتے.ان پر زیادہ رحم اور شفقت کرتے ان کو سمجھانے کے لئے سارا سال کا روائیاں کرتے اور دلائل کی دُنیا میں اُن کو گھسیٹ کر لاتے اور دلائل کے میدانوں میں یہ فیصلہ کرتے بجائے اس کے کہ تلوار کے میدان میں ایسے فیصلے کئے جائیں.پس ادھر بھی وہ پاک نمونے نہیں ہیں اُدھر بھی وہ پاک نمونے نہیں ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں اگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچا تعلق باندھنا ہے تو اس امام سے تعلق باندھے بغیر یہ سچا تعلق قائم نہیں ہو سکتا.جو امام ان پیشگوئیوں کے مطابق آیا ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے عطا فرمائی تھیں.وہ تعلق جو تیرہ سو سال سے تم کاٹ بیٹھے وہ تعلق تیرہ سوسال کے بعد دوبارہ جوڑنے کا وقت آیا ہے اور آسمان سے وہ رشی نیچے کی گئی جس رشتی سے وہ ہاتھ جدا ہو چکے تھے.اب ایک ہی راہ ہے کہ اُس رشتی کو دوبارہ مضبوطی سے پکڑ لو اور پھر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن میں پناہ لو.اس پناہ کے سوا اور کوئی پناہ نہیں ہے اور یہ پناہ امام وقت کے انکار کے ذریعہ میتر نہیں ہو سکتی.یہ پناہ صرف اس صورت میں نصیب ہوسکتی ہے اگر امام وقت کو تسلیم کرو.اُس سے محبت کا رشتہ باندھو.کیونکہ یہی محبت کا رشتہ سلسلہ وارخدا تک پہنچے گا.محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی محبت تمھارے دلوں میں پیدا کرے گا صحابہ کی سچی محبت کے سلیقے تمہیں سکھائے گا اہل بیت کی سچی محبت کی روح تمہیں عطا کرے گا.یہ صاحب عرفان محبت ہوگی جس کے نتیجہ میں دل پاک عمل پیدا ہوتا ہے.یہ ایسی محبت ہوگی جس کے نتیجہ میں دل پاک کئے جاتے ہیں اور پاک دل ایک دوسرے سے نفرت نہیں کیا کرتے.پاک دل آپس میں بٹ نہیں جایا کرتے بلکہ ایک ہاتھ پر جمع ہو جاتے ہیں اور امت محمدیہ کو دوبارہ ایک

Page 23

(23) ہاتھ پر جمع کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے جس امام کو بھیجا ہے.وہی ان روحانی رشتوں کا ضامن بن کر آیا ہے وہی ان روحانی رشتوں کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے منادی بنا کر بھیجا گیا ہے.تم اُس کی نداء پر کان دھر واطاعت اور محبت کے ساتھ اس کے حضور اپنے دلوں کو ان معنوں میں جھکا دو کہ جس طرف وہ بلاتا ہے دل لپکتے ہوئے ، لبیک کہتے ہوئے اس کی طرف دوڑے.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جس طرف وہ ان دلوں کو بلا رہا ہے ( یعنی تم سب کے دلوں کو ) وہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رستہ ہے اُس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں.وہ خدا کا رستہ ہے.اُس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں اسی کا نام صراط مستقیم ہے اسی سے وحدت ملی عطا ہوتی ہے.اسی سے تفرقے پھر وحدت کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں.پس اب سب حضرت مسیح موعود کی آواز پر لبیک کہیں اور اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ دور کی بات ہے تو ان نصیحتوں پر تو عمل کریں یا بتائیں کہ ان میں کیا نقص ہے.ان سے بہتر بات تو پیش کر کے دکھا ئیں.آپ تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت مسیح موعود وہی ہیں جو حکم اور عدل بن کر آئے تھے اور تمہارے درمیان انصاف سے فیصلہ کرنے والے ہیں.اب آپ کے فیصلے میں نے تمہیں سنا دئے ہیں.ان فیصلوں سے بہتر فیصلے کر کے تو دکھاؤ.بتاؤ تو سہی اس سے زیادہ اور کون سی پاک اور مؤثر راہ ہوسکتی ہے؟ جو مسلمانوں کے بٹے ہوئے دل پھر سے اکھٹے کر سکتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان اب تمہارے اختیار کی یا ہاں یا نہ کی بات نہیں رہی.امر واقعہ یہ ہے کہ سچا ایمان جن رستوں کی طرف بلاتا ہے ان رستوں سے انکار خود کشی کے مترادف ہو جایا کرتا ہے.تم انکار کرو گے بھی تو باتیں وہی مانی پڑیں گی جو سیح موعود کہتے ہیں.ان باتوں سے بہتر باتیں تمہارے فرشتے بھی سوچ نہیں سکتے کیونکہ یہ خدا کا کلام ہے.محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ آپ کی برکتوں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل پر نازل ہوا ہے.جو وحدت کے رستے آپ نے بتائے ہیں.اُن کوسوا اور کوئی وحدت کا رستہ نہیں ہے.پس اس رستے سے آؤ یا اُس رستے سے آؤ.طوعاً آؤ یا کرھا آؤ تمہیں مسیح موعود کی اگر بیعت نہیں کرنی تو باتوں کو لازماً ماننا پڑے گا اور اگر

Page 24

(24) نہیں مانو گے تو اسی طرح بٹے رہو گے.اسی طرح ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کی تعلیم دیتے رہو گے اور ہر سال بجائے اس کے کہ محترم امت محمدیہ کو ایک کرنے کا عظیم الشان نظارہ دکھائے ہر سال یہ محترم آپ لوگوں کو اور زیادہ متفرق کرتا چلا جائے آپ کے دلوں کو اور زیادہ کا تھا چلا جائے گا.اللہ تعالیٰ آپ کو عقل دے ہوش دے اور وہ سچی باتیں جو صاف اور پاک دل کو صاف دکھائی دیتی ہیں کسی دلیل کی حاجت نہیں رہتی.سچ تو خود اس طرح بولتا ہے کہ مومن کی پیشانی سے برستا ہے.سچ تو خود اس طرح بولتا ہے جیسے مشک خوشبو دیتا ہے.پس مسیح موعود کی باتوں میں وہ سچائی ہے جو مومن کی پیشانی کے نور کی طرح آپ کے چہرے سے برس رہی ہے آپ کی باتوں میں وہ سچائی ہے جو مشک کی طرح خوشبو رکھتی ہے اور خود بخود اٹھتی ہے اور فضاء کو مہکا دیتی ہے.پس ان باتوں پر غور سے کان دھروان کو اپنے دلوں میں جگہ دو.یہی ایک رستہ اُمت کو دوبارہ وحدت کی لڑیوں میں پرونے کا رستہ ہے.اس کے سوا اور کوئی رستہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.آمین.

Page 24