Language: UR
اس کتاب میں مؤلف نے حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ کے سوانح حیات کے سلسلہ میں تمام ضروری امور دریافت کرکے انہیں یکجائی صورت میں مرتب کرنے کی قابل قدر سعی کی ہے۔ اس مسودہ کی تیاری اور ترتیب میں جماعت کے موقر اخبارات، الحکم، بدر،الفضل اور رسائل میں ریویو آف ریلجنز کی متعلقہ فائلوں سے مواد اخذ کیا گیا ہے۔ نیز مصنف کے بقول انہوں نے حضرت حافظ صاحب کے خاندانی حالات کے سلسلہ میں حضرت حافظ صاحب کے قریبی رشتہ داروں محترم پیر فیض احمد صاحب کیمبل پور، مکرم کیپٹن محمد اسلم صاحب ربوہ ، حافظ مبارک احمد صاحب سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ ربوہ اور محترمہ استانی مریم بیگم صاحبہ بیوہ حضرت حافظ صاحب ؓ سے کافی حد تک مددلی ہے۔ نیز مکرم مولوی عبدالرحمن صاحب انور اسسٹنٹ پرائیو یٹ سیکرٹری حضرت مصلح موعود اور مکرم مولوی محمد حسین صاحب فاضل سے ملاقاتیں کرکے بعض ضروری معلومات حاصل کی ہیں۔ اور شجرہ نسب حافظ صاحب ؓ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان مکرم مختار احمد صاحب سے لیکر اس کتابچہ میں شامل کیا گیا ہے۔ قریبا سو ا سو صفحات پر مشتمل یہ ٹائپ شدہ کتاب حضرت حافظ روشن علی صاحب ؓ کی سیرت و سوانح پر ایک قیمتی کتاب ہے۔
يَنْصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِنْ السَّمَاءِ (الهام مسیح موعود ) احمدیت کا ایک بطل جلیل حضرت حافظ روشن علی صاحب سیرت وسوانح مؤلفہ سُلطان احمد
2 1 پیش لفظ اللہ تعالیٰ کی قدیم سے یہ سنت چلی آئی ہے کہ وہ جب دنیا میں اپنے گمراہ بندوں کی رشد و ہدایت کے لئے اپنے برگزیدہ انبیاء اور ماموروں کو مبعوث کرتا ہے تو وہ انہیں بے یارو مددگار نہیں چھوڑتا.وہ نہ صرف خودا نہیں اپنی مدد اور نصرت سے نوازتا ہے بلکہ ایسی نیک جماعت بھی عطا فرماتا ہے جس کے افراد ان کے اعضاء اور جوارح بن کر اس کی لائی ہوئی تعلیم کو دنیا میں پھیلانے کا موجب ہوتے ہیں.اسی سنت کے ماتحت اللہ تعالیٰ نے اس زمانہ کے مامور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِيَ إِلَيْهِمُ مِنْ السَّمَاءِ کا وعدہ دیا اور عملی طور پر ایسے صحابہ عطا فرمائے جنہوں نے آپ کے پیغام کی اشاعت میں اپنا تن من دھن سب کچھ لگا دیا اور دنیوی حرص و آ ز کو چھوڑ کر دین کے ہی ہور ہے.خدا تعالیٰ ان کی مالی اور جانی قربانیوں اور نیکی اور تقوی کو دیکھ کر عرش پر خوش ہوا اور اپنے پاک کلام میں اصحاب الصُّفَةِ وَمَا أَدْراكَ مَا أَصْحَابُ الصُّفَّةِ کے الفاظ میں ان کی تعریف کی اور رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ کے قابل فخر سرٹیفکیٹ سے انہیں نوازا.یہ وہ جماعت تھی جس سے اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے اس دور میں اسلام کے احیاء کا کام لیا اور وہ اپنے اعمال افعال اخلاق عادات اطوار اور خدمت دین کے جوش اور جذبہ کی بناء پر اسلام کے دور اول کے صحابہ مثیل قرار پائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خودفرماتے ہیں: صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا“ اور فَمِهدَاهُمُ اقْتَدِة کے ماتحت ہم بعد میں آنے والوں پر ان کے پاک نمونہ کو اختیار کرنا فرض قرار دیا گیا ہے.اس پاک گروہ کے اکثر افراد اپنے مفوضہ کام کو سرانجام دے کر اس دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں اور ان میں سے ایک نہایت مختصر گروہ ہم میں موجود ہے جو اپنی عمروں کا اکثر حصہ گذار کر منهم من ينظر کے ماتحت اللہ تعالیٰ سے ملاقی ہونے کے منتظر ہیں.لہذا نو جوانان احمدیت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ اس برگزیدہ گروہ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں کہ یہ نعمت بعد میں ان کے ہاتھ نہیں آئے گی.ہم نے اگر نیکی اور تقویٰ میں ترقی کرنا ہے تو ہمیں اس برگزیدہ گروہ کی اتباع کرنا ہوگی اور ان کو ادب و احترام کی نظر سے دیکھنا ہو گا.حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : پس جن لوگوں نے...حضرت اقدس کو قبول کیا اور حضور کی صحبت میں رہے وہ بعد میں آنے والوں کے لئے استاد اور نمونہ کے طور پر ہیں.اگر لوگ ان کی اتباع میں کریں گے تو یہ خدا کا حکم ہے اور اگر ان کی حقارت کریں گے تو تقویٰ کے درجات میں ترقی نہیں کر سکیں گے.( الفضل ۲۷ نومبر ۱۹۱۹ء ) ایسے ہی پاک وجودوں میں سے ایک حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ تھے جس کے حالات زندگی اس کتابچہ میں خاکسار نے مرتب کرنے کی کوشش کی ہے.
4 3 خاکسار کو ذاتی طور پر حضرت حافظ صاحب کی پاک زندگی کا مشاہدہ کرنے کا موقعہ نہیں ملا کیونکہ آپ کی وفات کے وقت میری عمر قریباً پانچ سال تھی.لہذا خاکسار نے اس مضمون کی تیاری اور ترتیب میں جماعت احمدیہ کے موقر اخبارات، الحکم، بدر اور الفضل اور رسائل میں سے ریویو آف وو ريليجنز “ کے پرانے فائلوں سے مدد لی ہے.خاندانی حالات کے سلسلہ میں حضرت حافظ صاحب کے قریبی رشتہ داروں محترم پیر فیض احمد صاحب کیمبل پور، مکرم کیپٹن محمد اسلم صاحب ربوہ، استاذی المحترم حافظ مبارک احمد صاحب سابق پروفیسر جامعہ احمدیہ اور محترمہ استانی مریم بیگم صاحبہ بیوہ حضرت حافظ صاحب سے کافی حد تک مدد لی ہے.نیز مکرم مولوی عبدالرحمان صاحب انور اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری حضرت اقدس اور مکرم مولوی محمد حسین صاحب فاضل حال پروفیسر کلیتہ الطب جامعہ احمدیہ سے ملاقات کے دوران بعض معلومات حاصل کیں اور شجرہ نسب آپ کے خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک نو جوان مکرم مختار احمد صاحب سے ملا ہے جو اس کتا بچہ میں شامل کر دیا گیا ہے.بہر حال خاکسار نے اپنی طرف سے حضرت حافظ صاحب کے سوانح حیات کے سلسلہ میں تمام ضروری امور دریافت کر کے انہیں یکجائی صورت میں مرتب کرنے کی کوشش کی ہے.اگر احباب اسے پسند فرما ئیں تو خاکسار کے لئے دعا کریں اور اگر اس میں کوئی کمی نظر آئے تو اس سے از راہ کرم مطلع فرما ئیں تا کہ آئندہ اس کی اصلاح کی جاسکے.مقصودصرف یہ ہے کہ احباب جماعت اپنے جلیل القدر بزرگوں کے حالات کا علم حاصل کریں اور ان کے نیک نمونہ کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں.اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.( مولف ) خدا تعالیٰ نے صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : میں اس بات کے اظہار اور اس کے شکر کے ادا کرنے کے بغیر نہیں رہ سکتا کہ خدا تعالیٰ کے فضل وکرم نے مجھے اکیلا نہیں چھوڑا.میرے ساتھ تعلق اخوت پکڑنے والے اور اس سلسلہ میں داخل ہونے والے جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ سے قائم کیا ہے.محبت اور اخلاص کے رنگ سے ایک عجیب طرز پر رنگین ہیں.نہ میں نے اپنی محنت سے بلکہ خدا تعالیٰ نے اپنے خاص احسان سے یہ صدق سے بھری ہوئی روحیں مجھے عطا کی ہیں.“ (فتح اسلام ) میں حلفاً کہہ سکتا ہوں کہ کم از کم ایک لاکھ آدمی میری جماعت میں ایسے ہیں کہ بچے دل سے میرے پر ایمان لائے ہیں اور اعمال صالحہ بجالاتے ہیں اور باتیں سننے کے وقت اس قدر روتے ہیں کہ ان کے گریبان تر ہو جاتے ہیں.میں اپنے ہزار ہا بیعت کنندوں میں اس قدر تبدیلی دیکھتا ہوں کہ موسیٰ نبی کے پیروان سے جو ان کی زندگی میں ان پر ایمان لائے تھے ہزار ہا درجہ ان کو بہتر خیال کرتا ہوں اور ان کے چہروں پر صحابہ کے اعتقاد اور صلاحیت کا نور پاتا.ہوں.ہاں شاذ و نادر کے طور پر اگر کوئی اپنے فطرتی نقص کی وجہ سے صلاحیت میں کم رہا ہو تو وہ شاذ و نادر میں داخل ہیں.“ ( الذکر الحکیم نمبر ۴ ص ۱۷)
6 5 بسم الله الرحمن الرحیم نحمده و نصلی علی رسوله الكريم حضرت حافظ روشن علی صاحب خاندانی حالات: گیارھویں صدی ہجری میں سرزمین سابق پنجاب میں توحید و رسالت کی اشاعت اور تبلیغ اسلام میں سلسلہ قادریہ کی ایک شاخ خاندان نو شاہیہ سے منسلک صوفیاء کے ایک گروہ نے نہایت شاندار کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے ہیں.اس گروہ کے راہ نما حضرت حاجی محمد نوشہ گنج بخش قادری تھے.جنہوں نے اپنے مریدوں پر علوم و عرفان کے راز ہائے سربستہ منکشف کر کے روحانی تصرفات سے ان کی قلبی کیفیات کو تبدیل کر دیا اور ان کے تاریک دلوں کو روشن کر دیا.حضرت حاجی محمد نوشہ گنج بخش جالپ راجپوت خاندان کے ایک فرد تھے جو تحصیل پنڈ دادنخان ضلع جہلم کے قریباً ۳۵-۳۶ دیہات میں آباد ہے.ان دیہات میں سے موضع نین وال کو آپ کا مولد موطن ہونے کا فخر حاصل ہوا ہے آپ کو ابتدائے عمر سے ہی عبادت کا ایک خاص ذوق نصیب ہوا تھا اور اس ذوق کی وجہ سے آپ اپنے گاؤں کو خیر باد کہہ کر نکل آئے اور چلہ کشی کے سلسلہ میں مختلف جگہوں پر عبادت بجالاتے رہے اور آخر آپ نے مستقل طور پر دریائے چناب کے کنارہ کو منتخب کیا جہاں آپ عبادت اور یا دالہی میں مشغول رہے اور چلہ کشی کا عرصہ ختم کرنے کے بعد و ہیں ایک گاؤں فتح پور میں ڈیرہ ڈال دیا اور رشد و ہدایت کا فریضہ بجالانے لگا اور قریباً ۱۰۵ سال کی عمر میں اس دنیائے فانی میں گزارنے کے بعد ۸ / ربیع الاول ۱۰۶۴ء کو اپنے مالک حقیقی سے جاملے.فتح پور گاؤں کو ہی آپ کا مدفن ہونے کا فخر حاصل ہوالیکن چند سالوں کے بعد جب دریائے چناب نے اپنا رخ اس گاؤں کی طرف پھیرا تو یہ گاؤں اس کی لہروں کی تاب نہ لا سکا اور دریا کا ایک حصہ بن گیا.آپ کے مریدوں نے آپ کے تابوت کو فتح پور سے نکال کر قریب ہی ایک گاؤں رنمل نامی میں دفن کیا اور ہیں آپ کا مقبرہ تعمیر کیا.ر نمل اڑھائی تین ہزار نفوس کی آبادی پر مشتمل ایک گاؤں ہے جو گجرات پھالیہ روڈ پر گجرات سے قریباً میں کوس جانب غرب اور پھالیہ سے قریباً آٹھ کوس جانب شرق واقع ہے.سرگودھا گجرات روڈ پر واقع پولیس اسٹیشن پاہڑیانوالی سے یہ گاؤں قریباً تین میل کے فاصلہ پر واقع ہے.دور افتادہ ہونے کی وجہ سے اس گاؤں کو کوئی اہمیت حاصل نہ تھی.لیکن حاجی محمد نوشہ گنج بخش کے مزار مبارک کی وجہ سے یہ گاؤں ہزار ہا عقیدت مندوں کا مرجع ہے اور ہر سال اساڈھ مہینہ کے نصف ثانی میں جمعرات سے جمعرات آٹھ دن تک یہاں میلہ لگتا ہے.حضرت حاجی محمد نوش گنج بخش کے دو بیٹے تھے.۱.محمد برخوردار-۲- محمد ہاشم وفات کے قریب عام دنیوی رسم کے مطابق آپ نے اپنے بڑے بیٹے کو اپنا قائم مقام بنانا چاہا اور آنے والے معتقد مہمانوں کی خدمت اس کے سپرد کرنا چاہی لیکن آمدنی کے ذرائع محدود ہونے کی وجہ سے اس بوجھ کو برداشت کرنے سے اس نے انکار کر دیا لیکن چھوٹا بیٹا اس پر رضا مند ہو گیا.
8 7 چنا نچہ اب تک آپ کی گدی نشینی آپ کے اس بیٹے کی نسل میں چلی آ رہی ہے جو موضع رنمل میں آپ کے مزار کے قریب آباد ہے آپ کے بڑے بیٹے کی اولا د پاس ہی ایک گاؤں ساہن پال میں آباد ہے.شجرہ نسب: حافظ روشن علی صاحب کا نسب آٹھویں پشت پر حاجی محمد نوشہ گنج بخش کے اس چھوٹے لڑکے محمد ہاشم سے جو آپ کا روحانی طور پر قائم مقام بنا جا ملتا ہے.جس کی وجہ سے آپ کے خاندان کے لوگ ہاشمی بھی کہلاتے ہیں آپ کا شجرہ نسب یوں ہے.حضرت حاجی محمد نوشہ گنج بخش صاحب محمد ہاشم در یا دل سلطان محمد سعید شاہ دولہ نوشہ ثانی ابراہیم شاہ حافظ سبحان علی حافظ قمر الدین حافظ سلطان عالم میاں میراں بخش حافظ روشن علی صاحب حضرت حافظ صاحب کی پیدائش: حضرت حافظ روشن علی صاحب موضع رنمل میں انیسویں صدی کے - آخر میں پیدا ہوئے.آپ کے والد ماجد میراں بخش صاحب اپنی معمولی زرعی جائیداد میں کھیتی باڑی کے ذریعہ گذر اوقات کرتے تھے.لیکن قریباً ۳۵ سال کی عمر میں ہی ان کی وفات نے ان کی سوگوار بیوہ اور چار یتیم بچوں کی دنیا تاریک کر دی.خاوند کی وفات کے بعد چند ماہ تک رنمل میں ٹھہر نے کے بعد حضرت حافظ صاحب کی والدہ مسماۃ بخت روشن صاحبہ آپ کو اور آپ کے بھائیوں کو ساتھ لے کر اپنے میکے وزیر آباد میں آگئیں.جہاں ان کے والد حکیم چراغ دین صاحب نے ان سب کو اپنی پرورش میں لے لیا.ننھیال : حضرت حافظ صاحب کے ننھیال اچھے کھاتے پیتے خاندان سے تعلق رکھتے تھے.آپ کے ناناحکیم چراغ دین صاحب اور ان کے بھائی حکیم مہتاب دین صاحب آخر عمر تک اکٹھے ہی رہے.مؤخر الذکر کی کوئی اولاد نہ تھی.لیکن دونوں بھائیوں میں بڑی محبت تھی.اور پھر دونوں کی بیویاں حقیقی بہنیں تھیں جس کی وجہ سے حکیم مہتاب دین صاحب اور ان کی بیوی حکیم چراغ دین صاحب کے بچوں سے پدرانہ اور مادرانہ سلوک ہی کرتے تھے اور گھر کی مالی پوزیشن مشتر کہ آمد کی وجہ سے مضبوط تھی.حضرت حافظ صاحب کے دو ماموں تھے.ایک ڈاکٹر فضل احمد صاحب اور دوسرے مولوی نذیر احمد صاحب جو علی گڑھ کے گریجوایٹ تھے.اور ریاست جموں وکشمیر میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہے.ہوم منسٹر بھی رہے.حضرت حافظ صاحب آخری سالوں میں کشمیر کے سفروں میں انہی کے پاس قیام فرماتے رہے.
10 9 ابتدائی تعلیم اور قادیان میں آمد: حافظ صاحب کے والد جب فوت ہوئے آپ کی عمر چار پانچ سال کی تھی.آپ کی آنکھیں دکھتی تھیں.والد کی وفات کی وجہ سے گھر پر غم واندوہ چھایا تھا.کسی نے ان کے علاج کی طرف توجہ نہ دی.جس کی وجہ سے وہ زیادہ خراب ہو گئیں اور نتیجتاً آپ کی بینائی بہت کم ہو گئی.جس کی وجہ سے وزیر آباد آ کر آپ کی تعلیم کا کوئی انتظام نہ ہو سکا.بڑے بھائی نے تو گھر کی ضروریات کی وجہ سے ریلوے میں ملا زمت کر لی.اور چھوٹے بھائی رحمت علی صاحب کو جو زیادہ تعلیم یافتہ تھے.میڈیکل کالج میں داخل کرا دیا گیا.اور تیسرا بھائی بھی سکول میں داخل ہو گیا.لیکن حافظ صاحب اپنی بینائی کم ہونے کی وجہ سے سکول کی تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہے آپ کی عمر کوئی نو سال کے قریب گی کہ حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی ( جو رشتہ میں آپ کے ماموں تھے ) کے مشورہ پر آپ کو ان کے پاس بھجوا دیا گیا جہاں آپ نے کوئی پندرہ سولہ سال کی عمر میں قرآن کریم حفظ کر لیا.اور اس کے بعد آپ کے بڑے بھائی ڈاکٹر رحمت علی صاحب ( جو اس وقت افریقہ میں ملازم تھے ) ( کی ہدایت اور حضرت حافظ غلام رسول صاحب و زیر آبادی کے مشورہ سے آپ کو قادیان پہنچا دیا گیا.جہاں آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دست مبارک پر بیعت کر کے احمدیت میں شامل ہوئے اور تعلیم دین کے لئے آپ حضرت قاضی امیرحسین صاحب کے سپرد کئے گئے.پانچ سال کے قریب عرصہ تک آپ ان سال کے شاگر در ہے اور متعدد دینی کتب کے علاوہ حضرت خلیفہ اوّل کے ارشاد پر طب کی کتاب نفیسی، بھی حضرت قاضی صاحب سے درساً درسا پڑھی اور اس کے بعد حضرت خلیفہ اول نے آپ کو اپنے درس خاص میں لے لیا.قادیان آنے سے قبل آپ اواخر ۱۸۹۹ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت سے مشرف ہو چکے تھے.(ملاحظہ ہو احکم اردسمبر ۱۹۹ ص ۸) حضرت حافظ صاحب کے بھائی : حضرت حافظ صاحب ( جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے ) چار بھائی تھے.آپ سب سے چھوٹے تھے.سب سے بڑے بھائی پیر برکت علی صاحب تھے.والد کی وفات کے بعد گھر کا پورا بوجھ ان کے سر پر آپڑا.جس کی وجہ سے آپ نے تعلیم کو خیر باد کہہ کر ملازمت اختیار کر لی.اور پھر جب سب بھائی اپنے اپنے کاروبار میں لگ گئے تو یہ دوبارہ رنمل چلے گئے.جہاں آپ پنسار اور طب کی دوکان کرتے تھے.اپنے گاؤں اور اس کے ملحقہ قریباً نو دیہات پر مشتمل جماعت کے سیکرٹری مال تھے.یہ جماعت آپ کے زمانہ میں نہایت چست اور باہمت جماعت تھی جس کا سالانہ بجٹ ۱۷۸ روپے تھے.تبلیغ کا آپ کو جنون تھا.آپ نے متعد د تبلیغی لیکچر بھی وہاں کرائے.حضرت حافظ صاحب کو بھی متعدد بار رنمل بلا کر ان سے میلہ پر اور دوسرے مواقع پر وعظ کرائے اور ۱۹۱۵ء میں آپ کو بلا کر رنمل میں باجماعت نماز تراویح اور درس (ملاحظہ ہو الفضل ۲۳ / جولائی ۱۵ ص۲) قرآن کا انتظام کیا.آپ ۱۹۲۴ ء میں فوت ہوئے اور رنمل میں ہی دفن ہیں آپ نے اپنی یادگار ایک لڑکا فضل الرحمان چھوڑا ہے جو خدا تعالیٰ کے فضل سے اولاد کی نعمت سے مالا مال ہے.
12 11 دوسرے بھائی ڈاکٹر پیر رحمت علی صاحب تھے.جو سروس کے سلسلہ میں مشرقی افریقہ تشریف لے گئے جہاں ۱۸۹۸ء میں انہیں احمدیت قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اور غالباً ۱۹۰۳ء میں حضرت مسیح موعود کی زیارت بھی کرنا موقع ملا.باقی بھائی ان کی تحریک اور تبلیغ سے بعد میں احمدیت میں داخل ہوئے اور اس کے بعد وہاں آپ احمدیت کی مالی تبلیغی اور تنظیمی خدمات بجالاتے رہے.۱۰ جنوری ۱۹۰۴ء کو سمالی لینڈ میں جبکہ ایک زخمی کو پٹی کر رہے تھے ایک مجروح نے بھالا مار کر آپ کو ۲۷ - ۲۸ سال کی عمر میں شہید کر دیا.ڈاکٹر سید جلال صاحب ہاسپٹل اسٹنٹ سول ہسپتال بر بر ہ آپ کی موت کی خبر دیتے ہوئے لکھتے ہیں.جماعت افریقہ ان کو ماں باپ کے تعلق سے بھی زیادہ عزیز جانتے تھے کیونکہ اس دور خطہ میں انہوں نے ہی ہماری احمدی جماعت کا بیج بویا یہاں پر انہی کے طفیل سے جماعت احمد یہ کھڑی ہوئی.ان کی بردباری، حلیم مزاجی ، خشیت اللہ و زہد ہر ایک ان سے مین آدمیوں کے لئے ایک نمونہ تھی.باوجود اتنی تکالیف لڑائی کے وہ اپنے آقا کے حکم پہنچانے اور خطوط کا جواب دینے اور اپنے خدا کے حکم بجا لانے میں کبھی طبیعت میں کسل نہ لاتے تھے.“ الحکم، ارفروری ۱۹۰۴ ء ص ۵-۶ ) حضرت مولانا عبد الکریم صاحب تحریر فرماتے ہیں : مرحوم مغفور پر لے درجہ کے متقی تھے انہیں جمعیت باطن سکینت اور ورع اس درجہ کی حاصل تھی کہ ان سے گہری واقفیت رکھنے والے ان کی ولایت کے صدق دل سے قائل تھے.“ پھر فرماتے ہیں : ” ہمارے پیارے اور ما سوف رحمت علی صاحب نے زہد و ورع تقویٰ و طہارت اور ایمان اللہ کا وہ نمونہ دکھایا جو ہم سلسلہ احمدیہ کے بزرگ اور مشہور راست بازوں اور گذشتہ پاکبازوں کے سوا کسی مذہب اور مشرب کے برناؤ پیر میں نہیں پاتے.ان کی پاک اور متقیانہ زندگی کا اس سے زیادہ کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ جہاں جہاں وہ رہے محض ان کے چال چلن کو دیکھ کر بہت سے لوگوں نے خدا تعالیٰ کے بچے خلیفہ مسیح موعود و مہدی مسعود علیہ السلام کو شناخت کر لیا یہ بالکل صحیح اور حق بات ہے کہ رحمت علی مصفی آئینہ تھے حضرت مرسل اللہ علیہ السلام کے چہرہ مبارک کے دیدار کے لئے آخر میں لکھتے ہیں : د مغفور رحمت علی کے ہاتھ سے بہت سی جانیں اس لعنت ابدی سے بچ گئیں جو مسیح موعود مہدی علیہ السلام کے انکار اور کفر کے سبب سے نازل ہوتی ہے.“ ( الحکم ۱۰ / فروری ۱۹۰۴ ء ص ۶)
14 13 ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اپنے پیچھے صرف ایک لڑکی امتہ اللہ بیگم صاحبہ بطور یادگار چھوڑی جن کی شادی بعد میں جناب کیپٹن محمد اسلم صاحب سے کر دی گئی اور اس وقت آپ محلہ دارالصدر ربوہ میں مقیم ہیں.تیسرے بھائی پیرا کبر علی صاحب بھی نہایت مخلص احمدی تھے زمیندارہ کام کرتے تھے.بعد میں ضلع نواب شاہ (سندھ ) میں کچھ رقبہ زمین کا حاصل کر کے وہیں رہنے لگ گئے تھے.فروری ۱۹۲۰ء میں کچھ عرصہ تک بعارضہ دق وسل بیمار رہنے کے بعد را ہی ملک عدم ہوئے آپ کی نعش کو بہشتی مقبرہ قادیان میں دفن کیا گیا آپ نے ایک لڑکا اور ایک لڑکی اپنی یادگار چھوڑے ہیں.لڑکے کا نام عبد العلی ہے جن کی کوئی اولا د نہیں ہے.اور لڑ کی امتہ النصر صاحبہ کراچی میں ہیں.اور مکرم با بواحمد جان صاحب سے بیا ہی ہوئی ہیں.شادیاں : حضرت حافظ صاحب نے اپنی زندگی میں چار شادیاں کیں.آپ کی پہلی شادی آپ کی پھوپھی کی لڑکی محترمہ حیات نو ر صاحبہ سے ہوئی جو چند سال ازدواجی زندگی گزار کر ۱۹۱۱ء میں فوت ہو گئیں اس کے بعد دوسری شادی آپ نے حضرت مسیح موعود کے ایک مخلص صحابی حضرت منشی شادی خان صاحب کی لڑکی محترمہ استانی مریم بیگم صاحبہ سے دسمبر ۱۹۱۱ء میں کی.نکاح حضرت مولانا سید سرور شاہ صاحب نے پڑھا.تیسری شادی ۵/اکتوبر-۱۹۲۰ء کو آپ نے اپنے بھائی پیرا کبر علی صاحب کی بیوہ آمنہ صاحبہ بنت پیر دولت علی صاحب سکنه پنڈ عزیز ضلع گجرات سے کی جو آپ کی پہلی بیوی کی بھیجی تھی.نکاح حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھا.آپ کا یہ نکاح حضرت نے آپ کے بھائی پیرا کبر علی صاحب مرحوم کی ایک وصیت کے نتیجہ میں پڑھا.وفات کے وقت انہوں نے اپنی اس بیوی کو جواں عمر ہونے کی وجہ سے جناب حافظ صاحب سے شادی کر لینے کی وصیت کی تھی.آپ کی یہ بیوی بھی مختصر سی ازدواجی زندگی گزار کر فوت ہو گئیں.چوتھا نکاح آپ کا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے محترم امتہ المجید صاحبہ بنت حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی سے ۱۰ ستمبر ۱۹۲۵ء کو بعوض پانصد روپیہ مہر پڑھا.آپ کی اس بیوی نے آپ کی وفات کے بعد آپ کے بھتیجے پیر عبدالعلی صاحب سے شادی کر لی اور اب تک بفضل خدا زندہ موجود ہیں.اسی طرح محترمہ استانی مریم بیگم صاحبہ بھی بقید حیات ہیں.اپنی صحت کے زمانہ میں آپ لجنہ اماءاللہ کی بہترین کارکن رہی ہیں.تربیتی مضامین پر آپ کا قلم خدا تعالیٰ کے فضل سے خوب چلتا رہا ہے اسی طرح سیرت النبی کے متعلق متعد د مضامین جن میں سے بعض الفضل کے خاص نمبروں کی زینت بنے ہیں آپ کے قلم سے نکلے ہیں.لجنہ اماءاللہ کے اکثر اجتماعوں سے آپ خطاب کرتی رہیں.یہ بات بھی علم میں آئی ہے کہ آنحتر مہ میں حضرت حافظ روشن علی صاحب کا خاص رنگ پایا جاتا ہے.اپنے ہم جنسوں کی تربیت کی طرف متوجہ رہنا اور ان کی ایمانی اور علمی ترقی کے لئے ہر دم کوشاں رہنا ایک ایسا جذبہ ہے جو حضرت حافظ صاحب کی صحبت با برکت کا ہی اثر ہے آج کل بھی جب کہ آپ چلنے پھرنے سے قریباً معذور ہیں.محلہ کے اکثر بچے آپ کی زیر تربیت رہتے ہیں.اس طرح آپ کا نافع الناس وجود اب بھی لوگوں کے لئے برکت کا
16 15 موجب بن رہا ہے.اولاد حضرت حافظ صاحب نرینہ اولاد سے محروم رہے.ہاں آپ کی پہلی بیوی کے بطن سے ایک لڑکی امتہ الحق صاحب (دوسال ہوئے وفات پا گئی ہیں ) پیدا ہوئیں جو استاذی المحترم جناب حافظ مبارک احمد صاحب فاضل کے نکاح میں آئیں.(ملاحظہ ہو الفضل ۸۸/ جولائی ۱۹۲۴ء) محترم مولوی عبدالرحمان صاحب انور روایت فرماتے ہیں کہ آپ کو رؤیا کے ذریعہ مقدر اولاد کی روحانی حالت کا علم ہو چکا تھا جس کی وجہ سے آپ نے دعا کی کہ یا اللہ اگر میری اولاد نے دین کی خادم نہیں بننا تو مجھے ایسی اولا د عطا نہ فرما.چنانچہ آپ کی یہ دعا قبول ہوئی.اولاد کا ہونا کس انسان کے لئے موجب اطمینان نہیں ہو سکتا.لیکن دین کی خاطر اس عام فطرتی جذ بہ سے بھی کنارہ کشی کر لینا حضرت حافظ صاحب کے روحانی کمال کا ایک عجیب نمونہ ہے.تعلیمی زمانه: : حضرت حافظ صاحب کو قادیان کے قیام کے دوران میں خوراک اور لباس کی فکر سے آپ کے بڑے بھائی حضرت ڈاکٹر رحمت علی صاحب مرحوم نے آزاد رکھا.وہ آپ کو باقاعدہ اخراجات بھیجتے رہے.ان کی وفات کے بعد کچھ عرصہ تک آپ کی خوراک کا انتظام لنگر خانہ میں کیا گیا.اس طرح آپ اپنی تعلیم میں ہمہ تن مصروف رہے اور دنیا کی کوئی فکر اور تشویش آپ کی توجہ کو حصول تعلیم سے پھرا نہ سکی.کچھ عرصہ کے بعد حضرت نواب محمد علی صاحب کو اپنے بچوں کی تربیت کے لئے ایک مربی کی ضرورت پڑی اور آپ نے اس کام کے لئے حضرت حافظ صاحب کو چنا اور ساتھ ہی آپ کی پوشش و خوراک کا انتظام اپنی جیب خاص سے بصورت ماہوار گزارہ کر دیا.حضرت حافظ صاحب جہاں آپ کے بچوں کی تربیت کے فرائض سرانجام دیتے رہے وہاں آپ نے اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا.اساتذہ کرام کی رائے آپ کے متعلق: آپ کلاس میں اپنے استاد کی طرف پوری طرح متوجہ رہتے نہایت مو ڈب خلیق اور اپنے ہی کام میں منہمک رہنے والے تھے.اس لئے آپ کے ساتھ طلباء آپ کی تعظیم کرتے.اساتذہ کے آپ نہایت ہی فرمانبردار تھے.اور ان کا احترام اور ادب ہر دم آپ کے پیش نظر رہتا.حضرت حافظ غلام رسول صاحب وزیر آبادی فرماتے ہیں : ابتدائے عمر سے حافظ صاحب فرمانبردار تھے.اور آپ کا اتنا ادب کیا کرتے تھے کہ بہ سبب ادب اور حجاب کے بول و براز کے لئے باہر جانے کی اجازت بھی خود نہ لیتے بلکہ کسی طالب علم کے ذریعہ ہی اجازت مانگتے.‘، نیز آپ فرماتے ہیں : " حافظ روشن علی صاحب کی مرنج مرنجاں و خاموش طبیعت - نیکی.اپنے کام میں ہی منہمک رہنے اور
18 17 بہت ہی ادب کرنے اور زیادہ خوش الحان ہونے کی وجہ سے میں ان کو ہی طلباء کا امام بنایا کرتا تھا.طلباء بھی ان کا ادب کرتے اور ان کی تعظیم کرتے تھے.“ ذہانت اور حافظ الفضل ۶ راگست ۱۹۲۹ء ص ۷ ) حضرت حافظ صاحب نہایت ذہین تھے ذہن نہایت صافی تھا.آپ تلاوت کرتے وقت پچھلی آیات بتا سکتے تھے.عام حافظ ایسا نہیں کر سکتے.اگر ایک لفظ بھی رک جاتے تو وہ نئے سے پڑھنا شروع کر دیتے ہیں.مگر آپ میں یہ کمال پایا جاتا تھا کہ آپ الگ الگ آیات بھی بتا سکتے تھے اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کلام الہی آپ کی ذہنی آنکھوں کے سامنے کھلا پڑا ہے.پھر ایک بڑا کمال آپ میں یہ پایا جاتا تھا کہ کسی مضمون کے متعلق دریافت کرنے پر آپ فوراً قرآن کریم کی متعدد آیات بتا دیا کرتے تھے.گویا تمام قرآنی مضامین آپ کی ذہنی آنکھوں کے سامنے ہمیشہ موجود رہتے تھے اور ضرورت کے وقت آپ کو زیادہ سوچنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی.سید نا حضرت خليفة أسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے بھی آپ کے اس کمال کی تعریف کی ہے.آپ فرماتے ہیں : حافظ صاحب میں یہ بڑا کمال تھا کہ انہیں جب بھی کوئی مضمون بتا دیا جاتا تھا وہ اس مضمون کی آیتیں قرآن کریم سے فوراً نکال دیتے.اکثر تو پہلی دفعہ ہی صحیح آیت نکال دیا کرتے تھے اور اگر پہلی دفعہ صحیح آیت نہ بتا سکتے تو دوسری دفعہ ضرور صحیح آیات بتا دیتے تھے مگر ان کی وفات کے بعد مجھے اب تک کوئی ایسا آدمی نہیں ملا.ان کی زندگی میں مجھے مضمون تیار کرنے کے متعلق کبھی گھبراہٹ نہیں ہوا کرتی تھی کیونکہ میں جانتا تھا تقریر کرنے سے گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ پہلے میں ان کو اپنے پاس بٹھالوں گا اور وہ آستیں نکال نکال کر مجھے بتاتے چلے جائیں گے.“ ایک اور موقعہ پر فرمایا: الفضل ۲۶ ؍ جولائی ۱۹۴۴ء ص ۳) ایک دفعہ لاہور میں مجھے اچانک تقریر کرنی پڑی.حافظ روشن علی صاحب مرحوم جو آیات کا حوالہ نکالنے میں بہت مہارت رکھتے تھے ان کو میں نے پیچھے بیٹھا لیا اور مضمون بیان کرنا شروع کر دیا جب ضرورت ہوتی ان سے حوالہ دریافت کر لیتا.“ 66 ( الفضل.ار ستمبر ۱۹۳۸ء ص ۷ ) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی ایک موقعہ پر حضرت حافظ صاحب سے دریافت فرمایا کہ حافظ صاحب وہ کیا آیت ہے کہ جب خدا تعالیٰ کی آیت سے ٹھٹھا ہو تو اس مجلس میں نہ بیٹھو.اس پر آپ نے حتی یخوضو افی حديث وغیرہ والی آیت پڑھ کر سنائی.(سیرت المہدی حصہ اول ص ۲۲۰
20 19 حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر فرماتے ہیں: (میری) ہر بڑی تقریر کے مضمون کے اشارات کا بیشتر حصہ حضرت حافظ صاحب مرحوم لکھاتے تھے اور میں نہایت اطمینان سے زیادہ مطالعہ کئے بغیر تقریر سے پہلے مرحوم کے پاس جاتا اور کہتا کہ آج میں Moving Encyclopaedea of islam ( متحرک دائرۃ المعارف اسلام) کے مطالعہ کے لئے آیا ہوں اور بفضلہ تعالیٰ اس سے بھی کم وقت صرف کر کے جو برٹش میوزیم لائبریری لندن میں محض کتاب لینے کی اجازت حاصل کرنے میں خرچ ہوتا تھا علم کے زندہ خزانہ سے ضرورت کے مطابق دولت معلومات لے کر شاداں و فرحاں واپس ہوتا تھا.“ الفضل ۱۲؍ جولائی ۱۹۲۹ء ص ۸) آپ نہ صرف قرآن کریم کے حافظ تھے بلکہ آپ کلام مجید کا ترجمہ تحت اللفظ بھی بغیر متن پڑھے کے اسی روانی کے ساتھ کر سکتے تھے گویا آپ قرآن کریم کے ترجمہ کے بھی حافظ تھے.لندن میں دوماہ کے قیام میں آپ نے اکثر فقرات انگریزی سیکھ لئے تھے اور انگریزی خوانوں کے مذاق کے مطابق ان سے گفتگو نہایت عمدگی سے فرماتے تھے.گفتگو میں جو لفظ استعمال کرتے وہ ٹھیک طور پر کرتے اور انگریزی خوانوں کا مضحکہ نہ بنتے - انگلستان میں آپ انگریزی کے چند الفاظ اور ہاتھ کے دو تین اشاروں سے بعض انگریزوں سے مذہبی گفتگو فرما لیا کرتے تھے.آپ کی ذہانت کا ذکر کرتے ہوئے سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: انگلستان جاتے ہوئے ہم عدن میں اترے وہاں میں نے ایک عرب دکاندار سے عربی میں کھجوروں کا بھاؤ دریافت کیا.اس نے جو جواب دیا میں اسے سمجھ نہ سکا.میں نے دوبارہ یہ سمجھتے ہوئے کہ یہ میری بات سمجھا نہیں پھر اس سے وہی سوال کیا.اس نے پھر مجھے وہی جواب دیا میں پھر اس کی بات نہ سمجھ سکا.اسی طرح دو چار دفعہ ہم میں سوال یہ جواب ہوا.حافظ روشن علی صاحب مرحوم میرے پاس ہی کھڑے تھے وہ اس سوال و جواب کو سن کے بے اختیار ہنسنے لگے.میں نے حافظ صاحب سے پوچھا کہ آپ کیوں ہنس رہے ہیں تو انہوں نے کہ آپ عربی بول رہے ہیں اور وہ سمجھتا ہے کہ آپ پنجابی بول رہے ہیں اور صرف اندازہ لگا کر جواب اردو میں دے رہا ہے.لیکن آپ اس کے لہجہ کی وجہ سے سمجھ رہے ہیں کہ وہ عربی بول رہا ہے لیکن ایسی خراب زبان بول رہا یہ کہ آپ اسے سمجھ نہیں سکتے حالانکہ وہ عربی نہیں وہ اردو میں جواب دے رہا ہے.“ الفضل ۲۸ مارچ ۱۹۴۶ء ص ۶) آپ نہایت حاضر جواب تھے کوئی شخص بھی آپ کی مجلس میں رنجیدہ نہیں رہ سکتا تھا.مجلس میں بیٹھے ہوئے لوگ چاہے کسی مذاق کے ہوں حضرت
22 21 حافظ صاحب ان پر کبھی بار گراں محسوس نہیں ہوتے تھے.حضرت میر محمد اسحاق صاحب فرماتے ہیں کہ نہیں دیکھا.“ میں نے آپ سا ذہین حافظ اور قادرالکلام کوئی الفضل ۲۸ جون ۱۹۲۹ ء ص ۷ ) آپ کا حافظہ نہایت بے نظیر تھا.صفحات کے صفحات ایک دفعہ سن کر پھر دوبارہ سنا سکتے تھے.بلا مبالغہ ہزاروں اشعار عربی آپ کو یاد تھے.نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اکثر قصائد ہی آپ کو یاد تھے بلکہ آپ کی بعض عربی کتب بھی آپ کو یاد تھیں.سنا ہے کہ ۱۹۲۴ء میں یورپ کو جاتے ہوئے جب حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ دمشق میں قیام فرما ہوئے تو وہاں کسی تبلیغی غرض سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک عربی میں لکھی ہوئی کتاب کی ضرورت پڑی حضور نے حضرت حافظ صاحب سے اس کتاب کے ساتھ نہ ہونے کا افسوس کیا تو حضرت حافظ صاحب نے وہ کتاب زبانی سنانی شروع کر دی.محترم ڈاکٹر میجر شاہ نو انر صاحب فرماتے ہیں کہ حضرت حافظ صاحب کو کئی الفاظ انگریزی حضرت خلیفہ امسیح الاول کے اکثر نسخہ جات، انگریزی ادویہ کے نام، ان کی خوراک وغیرہ صحیح تلفظ اور مقدار میں یاد تھیں.حالانکہ آپ انگریزی نہیں جانتے تھے.(ملاحظہ ہو الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۲۹ء) محترم میاں عطاء اللہ صاحب مرحوم سابق امیر جماعت احمدیہ راولپنڈی فرماتے ہیں کہ انہوں نے خود آپ سے سنا فرماتے تھے کہ.ایک دفعہ مجھ سے کسی نے پوچھا کہ حافظ صاحب! کیا آپ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی 66 کتاب اعجاز امسیح ، پڑھی ہے.میں نے کہا کتاب کھولو.اس نے کھولی اور میں نے اسے پینتیس صفحے زبانی سنا یئے.( الفرقان ربوه بابت دسمبر ۱۹۶۰ء) جیسا کہ اوپر بیان ہو چکا ہے حضرت حافظ صاحب کی نظر بچپن میں ہی خراب ہو چکی تھی اور آپ کی صرف ایک آنکھ میں ہی کچھ بینا ئی تھی.آپ نہ لکھ سکتے تھے اور نہ پڑھ سکتے تھے اس لئے آپ نے تمام علوم محض سن کر تحصیل کئے اور ہر علم کے متعلق حوالوں کا ایک وسیع ذخیرہ ہر وقت آپ کے حافظہ میں موجود رہتا تھا اور بقول حضرت مولانا عبد الرحیم نیر آپ چلتا پھرتا انسائکلو پیڈیا آف اسلام تھے.تجر علمی : آپ اپنے زمانہ میں سلسلہ احمدیہ کے سب سے بڑے عالم تھے.قرآن و حدیچ کے علاوہ آپ نے ہر ایک اسلامی علم میں تجر حاصل کیا تھا.عیسائیت یہودیت اور آریہ مت وغیرہ مذاہب سے متعلق آپ کو نہایت اعلیٰ درجہ کی واقفیت حاصل تھی.کسی مذاہب وملت کا آدمی ہو اس سے آپ نہایت عمدگی سے گفتگو فرما سکتے تھے.آپ کی گفتگو نہایت مدلل اور استدلال نهایت وزن دار ہوتا.آپ جو مضمون لکھواتے نہایت مفید معلومات سے پر ہوتا تھا.حضرت میر محمد اسحاق صاحب تحریر فرماتے ہیں: آپ مذہبی میدان میں غیر مبائع ، غیر احمدی، آریہ ، سکھ، عیسائی اور سناتنی غرض ہر مذہب کے لوگوں سے
24 23 ہیں کہ : گفتگو اور مباحثہ کر سکتے تھے اور یہ خوبی حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے سوا اور کسی میں میں نے نہیں دیکھی.الفضل ۲۸ جون ۱۹۲۹ء ص ۷ ) سید نا حضرت امیر المومنین خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ” قاضی امیر حسین صاحب حافظ روشن علی صاحب اور مولوی محمد اسماعیل صاحب اپنے اپنے رنگ میں کامل تھے.قاضی صاحب علم حدیث کے ماہر تھے.حافظ صاحب قرآن کریم کی تفسیر کے اور مولوی صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے“.الفضل ۳۱ / مارچ ۱۹۴۴، ص۳) حضرت مولا نا عبد الرحیم صاحب نیز فر ماتے ہیں کہ حضرت خلیفہ المسیح اول کی ایک خاص یادگار دنیا میں نور قرآن سے فیض یافتہ حافظ القرآن حضرت مولا نا روشن علی ( مرحوم ) ہیں.“ الفضل ۱۲؍ جولائی ۱۹۲۹ ء ص ۸ محترم پیر فیض احمد صاحب جو خاندانی رشتہ کے لحاظ سے حافظ روشن علی صاحب کے بھائی ہیں اور آج کل کیمل پور میں رہائش پذیر ہیں.فرماتے ہیں رت خلیفہ اسیح الاول فرمایا کرتے تھے.”حضرت میں نے اپنے تمام روحانی علوم میاں محمود احمد (خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کو دے دیئے ہیں.اور تمام ظاہری علوم حافظ روشن علی صاحب کو دے دیئے ہیں.“ خود حضرت حافظ صاحب کو بھی اپنے اس مقام کا احساس تھا.چنانچہ مرض الموت میں جب کہ آپ کے شاگردوں نے آپ سے درخواست کی کہ بیماری کا لحاظ رکھتے ہوئے آپ کم گفتگو فرمایا کریں.تاصحت پر مزید برا اثر نہ پڑے تو آپ نے فرمایا: زندگی کا کوئی پتہ نہیں.جتنا کچھ ہو سکے.ابھی میں تم کو بتا دوں تو اچھا ہے.مجھے سب سے بڑا غم یہی ہے کہ میں ایسے وقت میں جا رہا ہوں کہ سلسلہ میں کوئی ایسا عالم نظر نہیں آتا جو تمہیں آگے چلائے مجھے خوف ہے کہ بعد میں یہ پڑھا ہوا بھی تمہیں بھول نہ جائے.کجا یہ کہ تم ترقی کرو جب کبھی ایسی باتیں ہوتیں.آپ ہمیشہ اس غم کا اظہار فرماتے.“ روایت محترم مولوی غلام احمد صاحب فاضل بد و ماهوی مندرجہ الفضل ۶ / اگست ۲۹ ء ص ۸ ) آپ کے تجر علمی کا اثر نہ صرف ہندوستان والوں پر تھا.بلکہ بیرونی ممالک کے علم دوست لوگ جن سے حضرت حافظ صاحب کی ملاقات ہوئی.وہ آپ کی علمی فوقیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.انگلستان میں ویمبلے کا نفرنس
26 25 میں تقریری پروگرام میں ایک اور لیکچرار کا نام کاٹ کر آپ کا نام رکھا گیا.اور پھر آپ نے تصوف کے متعلق جو ٹھوس معلومات اپنی تقریر میں پیش کیں مستشرقین یورپ بھی اس کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکے.ملک شام میں آپ کی تقریروں اور مباحثوں کی دھوم مچ گئی تھی.حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر نے آپ کے اس علمی پہلو کے متعلق لکھا ہے کہ : حافظ صاحب کی وفات سے نہ صرف جماعت احمدیہ کا نہ تلافی ہونے والا نقصان ہوا ہے اور خلافت ثانی کا مولا نا عبدالرحیم ثانی ہم سے جدا ہوا ہے.بلکہ دنیائے اسلام میں چونکہ حافظ صاحب کی سی جامع صفات رکھنے والا دوسرا آدمی نہ موجود تھا اور نہ ہے.اس لئے کل اسلامی دنیا کا نقصان ہوا ہے جس کا احساس متعصب ہندوستانی گونہ کریں.مگر ممالک اسلامیہ کے جن علماء اور عوام نے حضرت مرحوم کو ان کے دوران سفر شام و مصر میں دیکھا تھا.وہ اس کا احساس کئے بغیر نہ رہ سکتے.“ خطابی قابلیت : الفضل ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۲۹ء ص ۸ ) تقریر میں آپ احمدی جماعت میں بلا استثناء سب سے نمایاں حیثیت رکھتے تھے.بلا مبالغہ آپ نے ہزاروں تقریریں کیں اور پھر ملک کے ہر حصہ میں دیہات میں بھی اور شہروں میں بھی کیں.اور ہرفن کے ماہرین کے سامنے - کیں.اور ہر بار آپ نے اپنی صفائی وشتگی بیان کی وجہ سے حاضرین کی توجہ کو پورے طور پر جذب کر لیا.نیز آپ تكلموا الناس على قدر عقولهم کے مطابق ہر طبقہ کی شایان حال تقریر فرمایا کرتے تھے.آپ اپنے اس کمال کی وجہ سے متعدد اسلامی انجمنوں کی دعوت پر ان کے جلسوں میں شامل ہوئے.چنانچہ جون ۱۹۱۷ء پیر میلہ نوشاہیاں رنمل کی دعوت پر آپ نے حاضرین کے سامنے تقریر کی.انجمن احمد یہ جموں نے مارچ ۱۹۲۴ء اور پھر جنوری ۱۹۲۶ء میں آپ کو خاص دعوت دے کر اپنے جلسہ میں تقریریں کروائیں.ینگ مینز ایسوسی ایشن جموں نے آپ کو فروری ۱۹۲۴ء میں اپنے اجلاس سے خطاب کرنے کی دعوت دی.علی گڑھ میں یونیورسٹی کی ایک تقریب پر آپ نے اسلامک ہسٹری اور اسلام اور دیگر مذاہب کے مقابلہ پر زبردست تقریر کی.ستمبر ۱۹۲۴ء میں آپ نے جموں میں عالمگیر مذہب کے موضوع پر تقریر کی.اس تقریر نے اس قدر مقبولیت حاصل کی کہ صدر جلسہ جناب عبد العزیز صاحب ایم اے، ایل ایل بی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ نے بے ساختہ فرمایا : - الفضل ۱/۵ کتوبر ۱۹۲۶ ، ص ۹) جموں میں آج تک کسی سٹیج پر کوئی ایسا قابل قدر لیکچرار پیش نہیں ہوا.“ حضرو میں اکتوبر ۱۹۲۶ء میں آپ کے ایک لیکچر اسلام اور دیگر مذاہب میں شمولیت سے مخالفین نے بعض لوگوں کو منع کیا.لیکن جو لوگ لیکچر سننے کے لئے نہ آئے.انہوں نے اس کی شہرت سن کر منع کرنے والوں کا ناک
28 27 میں دم کر دیا.اور اپنے آپ کو بد قسمت شمار کیا.بعض لوگوں کی زبان سے یہ الفاظ نکلے کہ یہ مضمون آب زر سے لکھنے کے قابل ہے.(ملاحظہ ہو الفضل ۱۵ نومبر ۱۹۲۶، ص ۱۰) غرض آپ کی تقاریر نہایت مدلل نہایت موثر ، عالمانہ اور مستغنى عن التوصیف ہوتیں.سامعین پر ان کی وجہ سے ایک خاص قسم کا وجد طاری ہو جا تا تھا.حضرت حافظ صاحب کا طرز بیان نہایت عمدہ ہوتا تھا.آپ اپنے لیکچر میں اپنے دلائل کو اس طور سے بیان کرتے کہ ہر سننے والا اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق اسے اپنے حافظہ میں محفوظ کرتا چلا جاتا.اور جب تقریرین کر واپس آتا تو علم کا ایک خزانہ اپنے ساتھ لاتا.چنانچہ آپ کے ایک لیکچر توحید باری تعالی کی روئیداد لکھتے ہوئے مکرم عبد العزیز صاحب سیکرٹری تبلیغ گجرات لکھتے ہیں کہ : 6 جناب حافظ صاحب کا طرز ادا بھی عجیب تھا.آپ ایک دلیل بیان کرتے تھے اور اس ٹیچر کی طرح کہ جو کلاس کو کوئی سوال سمجھاتا ہے.نہایت وضاحت سے صاف اور سادہ مثالوں سے اس پر روشنی ڈالتے.اور سامعین کو ذہن نشین کراتے.“ الفضل ۵/اکتوبر ۱۹۲۶ء ص ۸ ) جلسہ سالانہ قادیان کی اسٹیج پر آپ کو ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۷ء تک برابر چودہ سال تقاریر کرنے کا موقعہ ملا ہے.۹ سال آپ نے صداقت مسیح موعود علیہ السلام کے موضوع پر تقریریں کی.لیکن ہر بار آپ نے نئے انداز اور نئے معیاروں سے اس مضمون کو بیان کر کے سامعین کو محظوظ کیا.آپ نے اپنی ایک تقریر میں اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ آپ نے اپنی تقریر کے لئے کیوں صداقت مسیح موعود کا موضوع تجویز کیا ہے.آپ فرماتے ہیں : حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا سچا ثابت ہونا ایسا ہے کہ اسلام کی صداقت قرآن کریم کی صداقت نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور خدا تعالیٰ کی ہستی اسی سے ثابت ہو جاتی ہے.پس وہ امر جس کے ثبوت پر سارے امور بچے ثابت ہو جاتے ہیں.اس کا بیان کرنا مقدم ہے یا کسی اور کا.تو یہ مضمون نہایت ضروری تھا.اس لئے میں نے اس کو اختیار کیا تا کہ سب امور صادق اور سچے ثابت ہو جائیں.چونکہ لوگوں نے کہہ دیا تھا کہ اسلام پرانے واقعات اور قصے کہانیاں ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آ کر ثابت کر دیا ہے اور مشاہدہ کرا دیا ہے کہ وہ قصے کہانیاں نہ تھے بلکہ صحیح واقعات تھے.پس آپ کی صداقت ثابت کرنے سے سب باتوں کی صداقت ثابت ہو جاتی ہے.“ ( الفضل ۲۲/ ۱۹ جولائی ۱۹۱۹ ء ص ۱۴) حضرت حافظ صاحب نہ صرف اردو زبان میں ہی تقریر کرنے کی مہارت تامہ رکھتے تھے بلکہ عربی میں بھی آپ ایسے ہی زور اور روانی کے ساتھ تقریر فرما سکتے تھے.چنانچہ اپنی زندگی میں آپ نے کئی گھنٹوں تک لمبی تقاریر عربی زبان میں کیں.پنجابی میں بھی آپ نے بعض تقاریر کیں.
30 29 مباحثات : حضرت حافظ صاحب بہترین مناظر بھی تھے اور مناظرہ میں نہایت سنجیدہ اور غیر دل آزار تھے.آپ کی یہ صفات ایسی تھیں کہ مخالف دشمن کا بھی ان کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکا.مولوی ثناء اللہ صاحب جن کے کئی ایک مباحثے آپ سے اور دوسرے احمدی مناظرین سے ہوئے.انہوں نے آپ کی وفات پر جو نوٹ اپنے اخبار اہل حدیث میں لکھا.اس میں آپ کی ان خوبیوں کو سراہا ہے.آپ کسی مذہب کی برائی بیان کئے بغیر اپنے مذہب کی خوبیاں بیان کرنے کے ساتھ دوسرے مذہب کی تعلیم کو اس کی مسلمہ کتب سے ثابت کرتے تھے.آپ نے اپنی زندگی میں بیسیوں مباحثے کئے جو غیر از جماعت علماء - عیسائی پادریوں اور آریوں سے ہوئے.کئی ایک مناظروں میں اہل سنت والجماعت کی طرف سے پیش ہوئے.لیکن کسی ایک موقعہ پر بھی مخالف فریق کو آپ کے خلاف کوئی شکایت کرنے کا موقعہ نہ ملا.مئی ۱۹۱۸ء میں آپ نے گجرات میں پنڈت شانتی سروپ اور پنڈت پور نانند صاحب سے ایک مشہور مباحثہ کیا.اس مباحثہ کے اختتام پر غیر از جماعت دوست اس قدر خوش ہوئے کہ آپ کو ہاتھوں پر آپ کی قیام گاہ تک پہنچانے کے لئے آمادہ وتیار ہو گئے.(ملاحظہ ہو الفضل ۸ر جون ۱۹۱۸ ر۲) مارچ ۱۹۲۳ء میں آپ آریوں سے ایک مباحثہ کے لئے دوبارہ گجرات تشریف لے گئے.آریہ مناظرین اس موقعہ پر مناظرہ سے کئی کترا گئے.آپ نے اس موقعہ پر مسلمانوں کو آریوں کے مقابل پر اسلام کی تائید میں دلائل نوٹ کرانے اور آریہ مذہب سے واقفیت کرانے کے لئے ایک عظیم الشان لیکچر گجرات میں دیا.اس کے متعلق گجرات کے ایک معز ز مسلمان جناب عبدالمالک صاحب شیخ نے لکھا.صحیح معنوں میں اس شکریہ کے مستحق حافظ روشن علی صاحب ہیں جنہوں نے اپنی تقاریر و مواعظ میں کوئی ایسا کلمہ زیب گلو نہیں فرمایا جو کہ کسی عقیدہ کے آدمی کے لئے باعث تکلیف یا رنج و ملال ہووے.بلکہ آریہ مذہب کی واقفیت جو انہوں نے عوام کو نہایت مؤثر و مدلل اور مفصل طریقہ سے کرائی اس پر ہر کس و ناکس کا دل عش عش اور صد مرحبا کے نعرے بلند کرتا ہے.“ آپ نے لکھا کہ : گجرات کا ہر بندہ مسلم حافظ روشن علی صاحب کا ثناء خواں ہے اور وہ تمام شکریہ کے مدارج ان کی ہی خدمت میں بصدق دل پیش کرتا ہے.گر قبول افتد ز ہے عز و شرف الفضل ۳ رمئی ۱۹۲۳ ، ص ۲) اپریل ۱۹۲۷ء کو آپ پٹھان کوٹ میں آریوں سے مباحثہ کے لئے تشریف لے گئے لیکن آریہ مناظر اپنے سابقہ تجربہ کی بناء پر اس مرد میدان کے ٹھوس علم اور مضبوط دلائل سے خوف زدہ ہو کر میدان چھوڑ گئے اس موقع پر
32 31 مسلمانان پٹھان کوٹ نے شہر میں جناب حافظ صاحب کا جلوس نکالا.اور کئی تقریر میں کرائیں.جن کے سننے کے لئے دور دور سے مسلمان بکثرت آئے.اور اس حامی دین اسلام کے بیان کردہ مواعظ سے مستفیض ہوئے نوجوانوں نے ان جلسوں کے انتظام میں نہایت جوش سے حصہ لیا.(ملاحظہ ہو الفضل ۲۹ ر ا پریل ۱۹۲۷ ء ص ۱) جن علماء سے آپ نے اپنی زندگی میں مناظرے کئے ان میں سے مسلمانوں سے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ، مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری اور مولوی ابراہیم صاحب سیالکوٹی اور آریوں میں سے پنڈت شانتی سروپ، پنڈت پورنانند پنڈت پریم ناتھ کے علاوہ مشہور آر یہ مناظر پنڈت دھرم بھکشو اور پنڈت رام چند دہلوی قابل ذکر ہیں.فروری ۱۹۲۳ء میں جلال پور جٹاں میں آپ نے ایک سنی، شیعہ مباحثہ میں اہل سنت و الجماعت کی طرف سے مسلمانان شہر کی دعوت پر ایک کامیاب مباحثہ کیا.اپنی افادیت کے پیش نظر منتظمین کی طرف سے کتابی شکل میں شائع کیا گیا.سید نا حضرت طلیقہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مباحثوں کی وجہ سے جماعت میں اتنے مقبول ہوئے کہ مجھے یاد ہے اس وقت ہمیشہ جماعتیں یہ لکھا کرتی تھیں کہ اگر حافظ روشن علی صاحب اور میر محمد اسحاق صاحب نہ آئے تو ہمارا کام نہیں چلے گا.( الفضل ۱۹ نومبر ۱۹۴۰، ص۴ ) تصوف : جیسا کہ ابتدائے مضمون میں بیان کیا گیا ہے.حضرت حافظ صاحب صوفیاء کے ایک مشہور خاندان سے تعلق رکھتے تھے.آپ کی پیدائش اور تربیت خاص تصوف کی فضا میں ہوئی.آپ نے نہ صرف اپنی زندگی میں تصوف کا نہایت غائز نظر سے مطالعہ کیا.بلکہ آپ میدان تصوف کے شاہ سوار تھے.انگلینڈ کے سفر میں آپ نے ویمبلے کا نفرنس میں تصوف کے موضوع پر ایک عظیم الشان تقریر فرمائی ہے اس تقریر میں آپ نے اپنا تعارف ان الفاظ میں کرایا ہے.راقم الحروف کا تعلق قادری نوشاہی سلسلہ کے ساتھ ہے.اس سلسلہ کے بانی محمد حاجی تھے.جو گیارہویں صدی ہجری میں گزرے ہیں.بوجہ علم و تقویٰ و پرہیز گاری کے ان کی بڑی مقبولیت ہوئی.حتی کہ ہندوستان کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو ان کے مریدین سے خالی ہو.ان کی وفات کے بعد اس سلسلہ کی خلافت گیارہ پشتوں سے ہوتی ہوئی اس خاکسار کو ملی.اور یہ خاکسار بطور ورثہ کے اس کا حامل ہے.میری پیدائش اور تعلیم و تربیت خاص تصوف کی فضا میں ہوئی ہے.اور میرے خاندان کے دوست لوگ عموماً علمی مذاق اور مزاج کے تھے جن کا اس زمانہ کے لوگوں پر بہت بڑا اثر تھا.-
34 33 عنفوان شباب ہی سے علمی شغل کے علاوہ مجاہدات اور ریاضات بھی میرا شغل رہا ہے.دراصل میری زندگی تحصیل علوم اور ریاضت میں گزری ہے.مدت گزری میں نے محسوس کیا تھا کہ ہمارا سلسلہ بھی صراط مستقیم سے دور جا پڑا ہے بجائے تقویٰ و طہارت و پرہیز گاری کی زندگی بسر کرنے کے وہ لوگ اتنے گر گئے تھے کہ ان میں مشرکانہ رسمیں پیدا ہو گئی تھیں.بجائے خداوند تعالیٰ کی محبت کے ان میں امرد پرستی آ گئی تھی.اس طریقے کے ممتاز لوگ عبادت اور ریاضت مراقبے اور غور وخوض میں مشغول رہتے تھے.اور ان کی زندگی دوسروں کے لئے مفید تھی.وہ خدا اور بنی نوع انسان سے اتنی محبت کرتے تھے کہ اپنے نفس کو بھول جاتے.لیکن اب ایک جھوٹی فراموشی نفس بھنگ اور شراب پی کر اور منوم بوٹیوں کے استعمال سے پیدا کی جاتی ہے..اگلے لوگ خداوند تعالیٰ کی یاد میں بے خود ہو جاتے.لیکن یہ لوگ مستی کی بے خودی میں درختوں اور ستونوں کے ساتھ الٹے لٹک کر شور وغل کیا کرتے ہیں.بجائے اس کے کہ باہر نکل کر لوگوں کی بھلائی کرتے.یہ لوگ اب آوارہ گردی کرتے ہیں.چنگ و رباب کے ساتھ رقص و سرور میں مبتلا ہیں اس آوارہ گردی کو یہ لوگ حج اور زیارت کہتے ہیں.بجائے محبت الہی کے ان کے دلوں میں امرد پرستی آگئی ہے.جس کو وہ عشق مجازی کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ عشق مجازی عشق حقیقی کا پیش خیمہ ہے اور بغیر اس کے عشق حقیقی حاصل نہیں ہو سکتا.یہ باتیں بہتوں کی تباہی کا باعث ہوئیں.تصوف کی آڑ میں وہ بہت سے گناہ کا ارتکاب کرنے لگے.جس کا نام اخلاق پر ہیز گاری تھا.وہ اب گر کر ان کے لئے رذالت اور عیاشی سے بدل گیا.ان حالات میں میں خدا کی طرف متوجہ ہوا.اور اس نے از راہ کرم بذریعہ الہام اور کشوف کے مجھ پر ظاہر کیا کہ حقیقی صوفی احمد قادیانی ہے اور چونکہ میرے مطالعہ علمی نے بھی یہی بات بتائی.اس لئے میں نے اس امر میں کچھ بھی پس و پیش نہیں کیا کہ اپنی اہم چیزوں کو اس سر چشمہ ہدایت سے سیراب ہونے کے لئے جو احمد قادیانی کی ذات میں پھوٹ پڑا ہے قربان کر دوں میں نے اس آسمانی شراب اور آب حیات کو نہایت خلوص و عقیدت سے چکھا.میں تمام لوگوں کو اس صداقت کی طرف دعوت دیتا ہوں جسے عشق الہی نے مجھ پر کھول دیا ہے.مبارک وہ جو حق کی پیروی کرتے ہیں.“ (مجمع البحرین - صفحہ آخر ) اس تقریر میں آپ نے ” تصوف اور اسلام“ کے عنوان کے ماتحت صحیح تصوف پیش کیا ہے.آپ فرماتے ہیں.اسلام اور ابتدائی تصوف کی تعلیم کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کا حقیقی تعلق خداوند تعالیٰ کے ساتھ ہونا
36 35 چاہئے.بیوی کی خبر گیری اور بچوں کی تعلیم و تربیت انسان کا فرض منصبی ہیں.اطاعت الہی کا غلط مفہوم سمجھ کر یکسوئی کے خیال سے اب صوفیوں نے ترک دنیا کا مسئلہ ایجاد کیا ہے ان کی مثال اس گھوڑے کی ہے جو بغیر بوجھ اور گاڑی کے دوڑتا ہو.لیکن بوجھ رکھنے اور جوا ڈالنے کے ساتھ ہی رک جاتا ہو.اور دولتیاں جھاڑ نے لگتا ہو.تصوف اور اسلام یہ چاہتا ہے کہ باوجود رکاوٹ اور زدوکوب کے انسان کھڑا ہونا.چلنا اور دوڑ نا سیکھے.تا کہ اس کے جو ہر ذاتی نکل جائیں.ان تمام لوگوں کی خبر گیری کرنا دراصل عبادت الہی کا ایک جزو ہے.یہی وجہ ہے کہ صوفیائے کرام نے اس قانون پر زور دیا ہے کہ لارھبانیة فی الاسلام آپ کی اس تقریر کے متعلق حضرت مولا نا عبدالرحیم صاحب نیر جو ان دنوں انگلینڈ کے مبلغ تھے تحریر کرتے ہیں کہ : مولانا کی آمد کی خبر سن کر اور منتظمان کانفرنس کے ارادہ کو مد نظر رکھ کر میں نے حافظ صاحب مرحوم کا نام ان کے خاندانی صوفی پیر ہونے کے سبب ان کی امتیازی خصوصیات کا ذکر کر کے پیش کر دیا جو سر آرنلڈ اور دوسرے مستشرقین نے پسند کیا اور دوسرے مقرر کا نام نکال کر حضرت حافظ صاحب کا نام رکھ دیا.کانفرنس نے آپ کے مضمون.آپ کی تلاوت قرآن اور مثنوی کے پڑھنے کو نہایت پسندیدگی کی نظر سے دیکھا اور مشرق کے ممتاز سبز عمامہ پوش لوگوں میں صوفی روشن علی کانفرنس والوں کی آنکھ میں خاص توجہ سے دیکھے گئے.“ الفضل ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۲۹ ء ص ۸) ویمبلے مذہبی کا نفرنس کے صدر کے ایک تار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ حافظ صاحب کی اس تقریر کو لنڈن میں کس قدر قبولیت حاصل ہوئی.چنانچہ وہ آپ کو ایک تار میں اطلاع دیتے ہیں : جناب صوفی حافظ روشن علی صاحب میں خوشی کے ساتھ آپ کو اس بات کی اطلاع دیتا ہوں کہ وہ لیکچر جو گذشتہ کا نفرنس مذاہب کے موقع پر پڑھے گئے.ان کو بہت جلد ایک جلد میں چھپوانے کا انتظام میسر ز گیرلڈ ڈک ورتھ اینڈ کو آف ہنری اینتھ سٹریٹ کرمنٹ گارڈن لنڈن ڈبلیو-سی کے ساتھ کر لیا گیا ہے.ایک جلد کی قیمت سولہ شلنگ ہوگی.محصول ڈاک اس کے علاوہ ہو گا.مجھے امید ہے کہ آپ ہر ممکن کوشش کر کے اپنے دوستوں میں یہ تحریک کریں گے کہ وہ براہ راست پبلشر سے اس کی کاپیاں منگوا ئیں اور ایک آپ کی ذات کے لئے بھیجی جاوے گی.آپ کا لیکچر تھوڑے سے اختصار کے بعد چھاپ دیا جائے گا.جس کے متعلق اس بات کی خاص طور پر خواہش کی جاتی ہے کہ کسی اور پبلشر کو اصل مسودہ نہ دیا
38 37 جاوے.کیونکہ میسرز ڈک ورتھ نے کمال مہربانی سے اس کام کے کرنے کا پورا ذمہ اٹھا لیا ہے.ہمیں مختلف اطراف سے خبریں پہنچ رہی ہیں کہ کانفرنس کو غیر معمولی کامیابی حاصل ہوئی ہے.میں اس موقع سے فائدہ اٹھا کر آپ کے اس کام میں حصہ لینے کا تہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں.آپ کا نہایت وفاشعار ،صدر منتظم کمیٹی.“ 66 الفضل ۲ مئی ۱۹۲۵، ص ۲) ہندوستان کے متعدد مشہور مقامت مثلاً بنگلور اور آگرہ وغیرہ میں آپ نے تصوف پر شاندار تقاریر فرمائی ہیں.ان تقاریر میں آپ نے صحیح اسلامی تصوف کو پیش کر کے دنیا کو اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اس وقت صحیح اسلامی تصوف کا نمونہ اگر پایا جاتا ہے تو صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وجود میں پایا جاتا ہے..قرآن مجید سے گہرا تعلق : - قرآن کریم کے ایک بہت بڑے عالم تھے.اور سلسلہ عالیہ احمد یہ میں انہیں تفسیر قرآن میں ایک بلند مقام حاصل تھا.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی آپ کو اس فن میں کامل ہونے کا سرٹیفکیٹ عطا فرمایا.قرآن کریم کی تعلیم حاصل کرنا اور اس کی تعلیم دینا آپ کا خاص اور پسندیدہ شغل تھا.بیسیوں دفعہ آپ نے قرآن کریم کا مکمل درس دیا.رمضان کے مہینہ میں آپ ظہر سے عصر تک با قاعدہ درس دیا کرتے.اور آپ کا یہ طریق ۱۹۱۴ء سے ۱۹۲۷ء تک جاری رہا.اس کے علاوہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ناسازی طبع کے دوران آپ کو اپنی جگہ درس قرآن کے لئے مقرر فرمایا آپ اس درس و تدریس کے کام سے کبھی اکتاتے نہیں تھے.کئی دفعہ ایسا بھی ہوا کہ ظہر اور عصر کے درمیان مسجد اقصیٰ میں قرآن کریم کا درس دیا.عشاء کے بعد وہاں بخاری شریف کا درس دیا.اور نماز فجر کے بعد مہمان خانہ میں قرآن شریف کی روحانی غذا بندگان خدا کو پہنچائی.حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ کو قرآن کریم سے شدید محبت اور عشق تھا.قرآن کریم آپ کی غذا تھی.قرآن کریم ہی آپ کی جان تھی.بعینہ وہی تعلق قرآن کریم سے حضرت حافظ صاحب کو تھا.آپ کی مجلس میں بھی ہمیشہ قرآن کریم کا ذکر رہتا اور آپ اس کا درس معمولاً بڑے شوق سے دیا کرتے.حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل آپ کے درس قرآن کریم کے متعلق تحریر فرماتے ہیں کہ : حافظ روشن علی صاحب مکرم جس جواں ہمتی و پیرانه فرزانگی و وسعت معلومات کے ساتھ رمضان المبارک میں ایک پارہ روزانہ درس بین الظهر والعصر دیتے رہے.وہ انہی کا حصہ تھا.اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے.آپ پہلے تمام پارے کی تلاوت فرماتے.پھر ترجمہ اردو سناتے مگر اس حسن ترتیب و احتیاط کے ساتھ کہ مجال کیا ہے جو کوئی آیت آگے پیچھے ہو جائے یا کوئی لفظ تو در کنار حرف بھی چھوٹ جائے.یہ مسلسل ترجمہ بغیر آیت ساتھ ساتھ
40 39 پڑھنے کے آپ کے کمال حافظہ و تجر علمی کی دلیل ہے.اس کے بعد ہر رکوع پر ایک تفسیری بیان دیتے.“ الفضل ۲۹ مئی ۱۹۲۲ ، ص ۱۰) حضرت میر محمد اسحاق صاحب فرماتے ہیں : بیسوں دفعہ خدا کی بزرگ کتاب کا پورا درس دیا.ہزاروں لوگ آپ کے علم سے مستفید ہونے والے ہیں.برسوں تک ہر رمضان میں شدید گرمیوں میں روزہ رکھ کر آپ ایک پارہ کا روزانہ درس دیتے رہے.اور وہ بھی اس طرح کہ پہلے پارہ پڑھ لیا کرتے.پھر بلا تامل ترجمہ بیان کرتے.پھر ضروری مطالب بیان فرماتے.قرآن کریم کے قریباً سب سے زیادہ عالم تھے اور صرف عالم ہی نہیں.بلکہ نہایت متقی اور باعمل عالم تھے.“ الفضل ۲۸ / جون ۱۹۲۹ء ص ۷ ) آپ کو قرآن کریم سے کس قدر عشق تھا.اس کے متعلق آپ کے شاگردمولانا غلام احمد صاحب بد و ملہوی کی زبان سے سنئے آپ فرماتے ہیں: آخری بیماری کے دنوں کا واقعہ ہے کہ رمضان شریف میں درس دینے کے متعلق ابھی کوئی فیصلہ نہ ہوا تھا اور رمضان بالکل قریب تھا آپ نے اس بات کا اظہار کیا کہ اگر امسال قرآن کریم کا درس نہ ہوا تو مجھے سخت تکلیف ہو گی.میں نہیں چاہتا کہ حضرت خلیفہ اول کا شروع کیا ہوا یہ مبارک کام بند ہو.اس کے متعلق کوشش کرنی چاہئے.چنانچہ اس سے اگلے روز صبح ہی حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں خط لکھوایا.اور جب تک آپ کو اطمینان نہیں ہو گیا.کہ درس کا انتظام ہو گیا ہے آپ کو چین نہیں آیا اور یہ معلوم ہونے پر کہ درس کا انتظام ہو گیا ہے بڑی خوشی کے ساتھ الحمد للہ کا لفظ کہا.اور اطمینان کا سانس لیا.پھر فرمایا.خدا کرے.اور مولوی صاحب ( حضرت مولوی سید سرور شاہ صاحب ) کو بہت بہت توفیق دے.کہ سارے رمضان میں سار ا درس قرآن ختم ہو جائے.جوں جوں مولوی صاحب کا درس با قاعدہ روزانہ ایک پارہ ہوتا جاتا.اتنا ہی آپ خوشی محسوس کرتے.ان کے لئے دعا کرتے اور اختتام پر مولوی سید سرور شاہ صاحب کو مبارک باد دی.“ (الفضل ۶ راگست ۱۹۲۹ء ص ۸ ) آپ علم تجوید کے ماہر اور بڑے خوش الحان قاری تھے.آپ کی قرات سن کر کئی غیر احمدی اور غیر مسلم بھی مسحور ہو جاتے تھے اور پھر نکات قرآنیہ بتاتے ہوئے انہیں نہ صرف اپنی طرف منسوب ہی نہیں کرتے تھے بلکہ ہر بات کی سند آپ اپنے بزرگ استاد حضرت خلیفۃ اصیح اول تک پہنچاتے.اور ہر ایک قرآنی نکتہ کو آپ کی طرف منسوب کرتے.اور اس میں بڑی راحت محسوس کرتے.آپ فرمایا کرتے تھے کہ اس سے زیادہ محسن کشی اور
42 41 احسان فراموشی کوئی نہیں کہ انسان اپنے چشمہ فیض کو سیر ہو جانے کے بعد بھول جائے.نیز فرمایا کرتے کہ خدا تعالیٰ کے انعامات اور برکات کے جذب کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنے بڑوں کا ذکر خیر کرتا رہے اور جو خوبی اسے کسی محسن سے حاصل ہوئی ہے اس خوبی کو اس محسن کی طرف ہی منسوب کرے.آپ درس دیتے ہوئے عربی لفظوں کے معانی بتاتے ہوئے قرآن کریم سے استشہاد پیش فرمایا کرتے اور اس کی نصیحت اپنے شاگردوں کو بھی فرماتے.سید نا حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے رمضان المبارک میں درس القرآن کی اختتامی دعا کے موقع پر فرمایا: حافظ روشن علی صاحب مرحوم جو ہمیشہ درس دیا کرتے تھے.میں سمجھتا ہوں ان کا بھی حق ہے کہ احباب انہیں اپنی دعاؤں میں یا درکھیں.“ الفضل ۲۷ جنوری ۱۹۳۵ء ص ۸ ) میدان تبلیغ کے کامیاب اور آزمودہ کار جرنیل : حضرت حافظ صاحب کو تبلیغ کا ایک جنون تھا.اور تبلیغ کرتے ہوئے غیر احمدی، غیر مبائع ، ہندو، سکھ، عیسائی، یہودی غرضیکہ ہر مذہب وملت کے ماننے والوں سے نہایت اعلیٰ پیمانہ پر گفتگو کر لیا کرتے تھے.خلافت ثانیہ کے قیام کے معا بعد حضرت حافظ صاحب نے ملک کے طوفانی دورے کر کے ایک طرف جماعت احمدیہ کے افراد کو خلاف کے ساتھ وابستہ کرنے میں عظیم تر کوششیں کیں.اور دوسری طرف ہندوستان کے ہر مذہب و ملت کے ماننے والوں کے ساتھ احمدیت اور اسلام کی صداقت کو واضح کیا.خدا تعالیٰ کی ہستی کو منوایا اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن مجید کی شان بیان کی.آپ جمہیر الصوت تھے.اور خوش الحان بھی تھے.صبر وتحمل کا مادہ آپ میں وافر پایا جاتا تھا.فتنہ و فساد کے وقت آپ کی طبیعت میں جوش پیدا نہ ہوتا تھا.آپ میں خوش خلقی ، خوش کلامی کی صفات اور ایک خاص قسم کا جذب اور کشش پائی جاتی تھی کہ لوگ آپ کی تقریر اور گفتگو کو نہایت توجہ اور شوق سے سنتے تھے.اور پھر آپ کی تقریر اور گفتگو اس قدر مؤثر اور مدلل ہوا کرتی تھی کہ سامعین اچھا اثر لئے بغیر رہ نہیں سکتے تھے.چنانچہ کئی دفعہ ایسا ہوا کہ ادھر آپ کسی جلسہ میں تقریر کر کے ہٹے اور ادھر بیسیوں آدمیوں نے بیعت کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دیا.ایک موقعہ پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ : ہم چاہتے ہیں کہ کچھ آدمی ایسے منتخب کئے جائیں جو تبلیغ کے کام کے واسطے اپنے آپ کو وقف کر دیں اور دوسری کسی بات سے غرض نہ رکھیں.ہر قسم کے مصائب اٹھائیں اور ہر جگہ پر نکلیں اور خدا کی باتیں پہنچائیں.صبر اور تحمل سے کام لینے والے آدمی ہوں.ان کی طبیعتوں میں جوش نہ ہو.ہر ایک سخت کلامی اور گالی کوسن کر آگے نرمی کے ساتھ جواب دینے کی طاقت رکھتے ہوں.جہاں دیکھیں کہ شرارت کا خوف ہے وہاں سے چلے جائیں اور فتنہ و
44 43 فساد کے درمیان اپنے آپ کو نہ ڈالیں اور جہاں دیکھیں کہ کوئی سعید آدمی ان کی بات سنتا ہے اس کو نرمی سے سمجھا ئیں آہستگی اور خوش خلقی سے اپنا کام کرتے ہوئے چلے جائیں.“ ( بحوالہ الفضل ۲۷ / مارچ ۱۹۲۲ ص ۹) اس اقتباس میں مبلغ کے لئے جن ضروری باتوں کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے وہ بدرجہ اتم حضرت حافظ صاحب میں پائی جاتی تھیں آپ نے تبلیغ اور تعلیم کے لئے اپنے آپ کو وقف کر رکھا تھا.اور ہر موقع ومحل میں ہر شہر اور قریہ اور ہر مذہب و ملت کے آدمیوں تک آپ نے خدا تعالیٰ کا پیغام پہنچایا.اور اس سلسلہ میں آپ نے نہ اپنی بیماری کا خیال کیا نہ آپ سفر کی صعوبتوں سے ڈرے اور نہ کسی اور کا خیال دل میں لائے اگر ایک اخبار میں آپ نے یہ خبر پڑھی کہ حضرت حافظ صاحب پشاور میں تبلیغی فریضہ سرانجام دینے تشریف لے گئے ہیں تو چند دن کے بعد ہی آپ سنیں گے کہ آپ بنگال کا دورہ کر رہے ہیں اور وہاں سے قادیان واپس آتے ہیں پھر سندھ کے دورہ پر روانہ ہو گئے ہیں.ہندوستان کے علاوہ آپ کو ممالک غیر میں بھی تبلیغ کا موقعہ ملا.۱۹۲۴ء میں جب آپ یورپ کے سفر پر تشریف لے گئے تو حضور کے ارشاد کے ماتحت آپ نے عرشہ جہاز پر یہودیوں کو پیغام حق پہنچایا.بیت المقدس میں یہودی علماء کو پیغام حق پہنچایا.(ملاحظہ ہو الفضل ۴ ستمبر ۱۹۲۴ ص۴) قاہرہ میں خلافت کے متعلق علماء کو مسلمانوں کی غلطیاں ٹھوکر میں اور تلون بتایا اور پھر ان کے سامنے اپنا عقیدہ بڑی وضاحت سے پیش کیا.(ملاحظہ ہو الفضل ۲ ستمبر ۱۹۲۴ ء ص ۵) شام میں آپ کو تبلیغ حق کا موقع ملا - دمشق میں کئی ایک تقاریر کیں.اور ان سے ہر فرقہ کے علماء نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق حظ اٹھایا - ایک تقریر کے متعلق نامہ نگار الفضل لکھتا ہے کہ : سب علماء خاموش ہیں.سب امراء اور شرفاء ہمہ تن گوش ہیں.تین گھنٹے ہو چکے ہیں.اکثر لوگ کھڑے تقریریسن رہے ہیں.“ ( الفضل ۶ ستمبر ۱۹۲۴ ء ص ۶) دمشق اور قاہرہ میں آپ انفرادی طور پر بھی رؤساء اور علماء سے ملے اور انہیں تبلیغ حق کی انگلینڈ میں آپ نے ویمبلے کا نفرنس کے موقعہ پر تصوف کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے اہل یورپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قبول کرنے کی دعوت دی.چند انگریزی الفاظ اور ہاتھوں کے بعض اشاروں کی مدد سے آپ نے انگریز تعلیم یافتہ طبقہ کو خدا تعالیٰ کے مامور کا پیغام پہنچا.پیرس میں نہ صرف آپ نے یہودیوں، عیسائیوں ، چینیوں، دہریوں مشرقی مصنفین اور مشرقی سفراء کو تبلیغ کی.بلکہ وہاں حضرت کے ارشاد کے ماتحت تبلیغی پروگرام مرتب کرنے والی ایک سب کمیٹی کے اجلاس کی صدارت بھی کی.(ملاحظہ ہو الفضل یکم دسمبر ۱۹۲۴ء) مرکز میں آپ مرکزی مبلغ کی حیثیت سے کام کرتے رہے اور تبلیغ کے سلسلہ میں آپ نے سابق صوبہ سرحد، صوبہ سندھ ، سابق صوبہ پنجاب، یو پی سی بی، برار ، اودھ ، بہار، مدراس، بنگال اور صوبہ بمبئی کے علاوہ قریباً تمام مشہور ریاستوں مثلاً
46 45 کشمیر، حیدر آباد دکن، میسور، پٹیالہ وغیرہ کے کامیاب دورے کئے.گویا آپ نے ہندوستان کے ہر کونہ میں پیغام مسیح پہنچایا.اور سچ تو یہ ہے کہ بڑے اعلیٰ طریق سے پہنچایا.ایک دفعہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے پنجاب کو تین تبلیغ حلقوں میں تقسیم کیا اور ان میں مبلغین کا تقرر کیا.اور فرمایا.ان علاقوں کی تقسیم سے یہ غرض ہے کہ آہستہ آہستہ تمام ملک کو اسی طرح تبلیغ کے لئے تقسیم کر دیا جائے جس طرح گورنمنٹ ضلع اور کمشنریاں بناتی ہے.اور ان میں کمشنر اور ڈپٹی کمشنر مقرر کرتی ہے.جو اپنے علاقہ کے ذمہ دار ہوتے ہیں.اسی طرح یہ مبلغ اپنے اپنے ضلع کے ذمہ دار ہوں گے.اور ان کا فرض ہوگا کہ وہ اس مدت میں ان ضلعوں کا نقشہ بدل دیں.الفضل ۱۶؍ مارچ ۱۹۲۲ء ص ۶) اس موقعہ پر حضور نے حافظ روشن علی صاحب کے سپر د ضلع گورداسپور کا علاقہ کیا اور فرمایا: حافظ صاحب کو گو فارغ نہیں کیا جا سکتا.مگر ان کے ساتھ مبلغین کلاس کے طالب علم ہیں اس لئے میری عقل کہتی ہے کہ جس قدر ان کے پاس وقت ہے ایک سال میں ہی اس ضلع میں کام کر سکتے ہیں.“ (الفضل ۱۶/ مارچ ۱۹۲۲ء ص ۶) مبلغین کے استاد : حضرت حافظ صاحب نہ صرف خود کامیاب مبلغ تھے.بلکہ مبلغ گر بھی تھے.تبلیغ کے میدان جہاد کے نہ صرف خود ایک کامیاب اور تجربہ کار جرنیل تھے.بلکہ آپ جرنیل گر بھی تھے.جماعت احمدیہ کی طرف سے قادیان میں جو سب سے پہلی باقاعدہ تبلیغی کلاس کھولی گئی.اس کے آپ پہلے اور ا کیلے استاد مقرر ہوئے.آپ نے اپنے طلباء کی اس طرح تربیت کی جس طرح ایک مرغی اپنے پروں کے نیچے رکھ کر اپنے بچوں کی تربیت و پرورش کرتی ہے اور حضرت حافظ روشن علی صاحب کو اس بات کا فخر حاصل ہے کہ جماعت احمدیہ کے تمام مبلغ بلا واسطہ یا بالواسطہ آپ کے ہی چشمہ علم سے سیراب ہوئے ہیں.اور پھر ان کے ذریعہ اکناف عالم میں سعید روحوں کو احمدیت میں شامل ہونے کی جو توفیق ملی ہے.اس کا ثواب صدقہ جاریہ کے طور پر یقینا آپ کو پہنچ رہا ہے.آپ کے تیارہ کردہ شاگردوں میں سے ایسے قابل اور فتح نصیب جرنیل پیدا ہوئے جنہوں نے تبلیغی جہاد کے ہر میدان میں کامیابیاں اور کامرانیاں حاصل کر کے آپ کے سر کو ہمیشہ ہی بلند رکھا.اور اپنی ان بے مثال سرگرمیوں کی وجہ سے آپ کے دو عظیم شاگردوں یعنی مولانا جلال الدین صاحب شمس اور مولانا ابو العطاء صاحب جالندھر کو جنہیں آپ کی زندگی میں آپ کی توجہ کا وافر حصہ ملا.” خالد کے قابل قدر خطاب سے نوازا گیا.(الفضل ۱۵ مارچ ۱۹۵۷ء) یہ بات قابل ذکر ہے کہ مبلغین کی ایک کلاس عارضی طور پر ۱۹۱۴ء میں بھی جاری کی گئی تھی جس میں تعلیمی قابلیت کا کوئی معیار نہ تھا.اس تبلیغی کلاس کی
48 47 گوسر پرستی حضرت میر محمد اسحاق صاحب فاضل کے سپر دھی.لیکن متعد د علماء اس میں لیکچر دیا کرتے تھے.اس کلاس کا دوبارہ اجراء بعد میں بھی کیا گیا.لیکن با قاعدہ کلاس کا ۱۹۲۰ ء میں اجراء ہوا.جس میں مولوی فاضل طلباء کو لیا گیا.اور اس میں کامیاب ہونے والوں کو مبلغ کے نام سے نوازا گیا.اس کی نگرانی تربیت اور تعلیم کا کام مکمل طور پر حضرت حافظ صاحب کے ہی سپر د تھا.اور اس غرض کے لئے کہ حضرت حافظ صاحب اپنا زیادہ وقت اس تبلیغی کلاس میں دے سکیں.ناظر تالیف واشاعت کی طرف سے مندرجہ ذیل اعلان شائع کیا گیا تھا.مبلغین تیار کرنے کے لئے حافظ روشن علی صاحب کو تالیف کے دفتر سے فارغ کر کے ایک با قاعدہ کلاس ان کے سپرد کی گئی ہے.جس کا کورس دو سال کا ہو گا.اور اس عرصہ میں حافظ صاحب کو دارالامان سے باہر نہ بھیجا جائے گا.تا کہ اس کلاس کا ہرج نہ ہو.اس لئے چاہئے کہ بیرون جات سے احباب ان کے بلوانے کے لئے کوئی درخواست نہ ارسال فرماویں.( الفضل ۲۷ رمئی ۱۹۲۰ء ) آپ کو تبلیغ کا کس قدر شوق تھا.اس کا اس بات سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ وفات سے چند منٹ قبل آپ نے اپنے موجود شاگردوں کو بلا کر فرمایا: ” میرے شاگرد ہمیشہ تبلیغ کرتے رہیں.“ الفضل ۲۸ / جون ۱۹۲۹ء صفحه ۲) انسان جب دیکھتا ہے کہ اب میں اس دنیا سے رخصت ہو رہا ہوں تو وہ اپنی بیوی بچوں اور عزیزوں کو ضروری نصائح کرتا ہے ایک دوسرے کا خیال رکھنے کی ہدایت دیتا ہے انہیں تسلی و تشفی دیتا ہے.لیکن حضرت حافظ صاحب کو موت کے قریب ترین وقت میں بھی اگر کسی چیز کا فکر تھا.تو وہ تبلیغ تھی اور اس کی بڑی فکرمندانہ انداز سے اپنے شاگردوں کو نصیحت فرما رہے ہیں.خویشوں کو تبلیغ : پھر حضرت حافظ صاحب میں ایک بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ اگر چہ آپ اپنے آبائی موضع رنمل سے چھوٹی عمر میں ہی آگئے تھے اور آپ نے بچپن کا زمانہ اور پھر نو جوانی کا ابتدائی حصہ وزیر آباد میں اپنے نہال کے پاس گذارا اور پھر قادیان تشریف لے آئے اور وہیں کے ہور ہے لیکن انذر عشیرتک الاقربین کی ہدایت کے ماتحت آپ نے اپنی برادری کو بھلایا نہیں.بلکہ جب بھی مفوضہ فرائض سے فرصت ملی.آپ موضع رنمل پہنچ جاتے رہے.اور اجتماعی تبلیغ کے علاوہ انفرادی طور پر بھی پیغام حق پہنچاتے رہے اور قرآن کریم کے حقائق و معارف سے بھی اپنے خاندان کے افراد کو بہرہ اندوز کرتے رہے.تبلیغی دوروں میں آپ کا قابل تقلید نمونہ : آپ کی نظر کمزور تھی اور نہ صرف آپ کی صحت زیادہ اچھی نہیں تھی بلکہ جسم بھی فربہ تھا.مگر اس کے باوجود آپ نے تبلیغ کے سلسلہ میں تمام ہندوستان کے طوفانی دورے کئے.اور کبھی بھی ان سفروں کی وجہ سے کسی تکلیف کا اظہار نہ کیا.آپ سفروں میں نہایت جفاکش تھے.سفر میں کسی دوسرے پر اپنا بوجھ نہیں ڈالتے تھے ہاں
50 49 دوسروں کا بوجھ بٹانے کے لئے ہر دم مستعد درہتے تھے.اور جب کسی سفر میں تبلیغی وفد یا کسی اور صورت میں قافلہ کے امیر ہوتے.تو آپ نے ہمیشہ اپنے رفقاء کے آرام و آسائش کا خیال رکھا.اور اپنی سہولت پر ان کے آرام کو مقدم رکھا آپ کے عمل میں صحیح خادما نہ کیفیت پائی جاتی تھی.اور سفر میں آپ اپنے ہمراہیوں سے نہایت نرم اور خوش اخلاق رہتے.مولانا جلال الدین صاحب شمس جو آپ کے شاگردوں میں سے خاص امتیاز کے حامل تھے.تحریر فرماتے ہیں کہ : ’آپ کے ساتھ میں نے دہلی، مونگھیر ، بھوپال، ڈیرہ دون ، منٹگمری ، پٹیالہ، سیالکوٹ، لاہور، نارووال، گجرات ، جلال پور جٹاں، مالیر کوٹلہ وغیرہ شہروں کا دورہ کیا.مگر ایک دفعہ بھی مجھے کسی قسم کی شکایت کا موقع نہ ملا.آپ نہایت متواضع بلکہ مجسم محبت تھے.آپ خوش مزاج ملنسار طبیعت رکھتے تھے.مجھے یاد ہے جب میں آپ کے ہمراہ بھوپال گیا.تو راستہ میں دہلی سے ہمیں بمبئی میل پر سوار ہونا پڑا.اس وقت مجبوراً سیکنڈ کلاس کا ٹکٹ لینا پڑتا تھا.اور اتنا کرا یہ ہمارے پاس نہ تھا آخر ایک سرونٹ ٹکٹ لیا.آپ ان دنوں کچھ مریض بھی تھے مگر یہ امر آپ پر سخت گراں گزرا.آپ بارہا مجھ سے راستہ میں سٹیشنوں پر اتر کر فرماتے.آؤ جگہیں تبدیل کر لیں.مگر میں نے منظور نہ کیا.66 الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۲۹، ص۲) شاگردوں سے محبت اور شفقت کا سلوک : حافظ صاحب کی عمر کا اکثر حصہ تعلیم اور تدریس میں ہی گذرا.اور اس وقت جماعت کا ہر نوجوان آپ کا شاگر د تھا.لیکن ۱۹۲۰ء سے جب کہ آپ کے سپر د تبلیغی کلاس کی گئی آپ تا وفات با قاعدہ معلم کے فرائض ادا کرتے رہے.آپ اپنے شاگردوں سے نہایت بے تکلف تھے.اور ان سے نہایت محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے.انہیں جس بات کی ضرورت ہوتی وہ بلا جھجھک آپ سے بیان کر دیتے.اور آپ خود ہی اسے انجمن میں پیش کر کے فیصلہ کرواتے.آپ شاگردوں کے حقوق کی ہر وقت نگہداشت فرماتے.ان کے حالات کا خیال رکھتے.اور ان کی دینی و دنیوی حالت کی اصلاح کے لئے پوری پوری کوشش فرماتے.اکثر ایسا ہوتا کہ شاگردوں کی تکلیف یا دکھ کا خود ہی احساس کر کے اس کا ازالہ فرما دیتے.انہیں آپ سے کہنے کی ضرورت بھی نہ پڑتی.اگر کوئی شاگرد چند دن نظر نہ آتا.تو کسی سے اس کے حالات در یافت فرماتے.اور اکثر خود اس کے گھر جا کر اس کا پتہ کرتے.مکرم مولوی غلام احمد صاحب بد و ملہوی فرماتے ہیں کہ حالت فالج میں بھی جب آپ بستر پر بے حرکت پڑے ہوئے تھے.آپ کو اپنے شاگردوں کا اس قدر خیال تھا کہ میری اور مولوی ابو العطاء صاحب جالندھری کی اہلیہ بیمار تھیں.آپ نے مستورات کو ہمارے گھروں میں بھیج کر حالات دریافت کئے.(ملاحظہ ہو الفضل ۷ را گست ۱۹۲۹ ء ص ۷ ) اپنے شاگردوں کی تعلیم کا کس قدر خیال تھا.وہ اس سے ظاہر ہے کہ جامعہ سے بوجہ بیماری آپ نے رخصت لی.جس کی وجہ سے لازماً طلباء کی تعلیم
52 51 کا ہرج ہونا تھا اس لئے آپ طلباء کو اپنے پاس بلا کر بعض کتب کے مطالعہ کا حکم دیتے.اور ان سے دریافت فرماتے رہتے کہ کس قدر مطالعہ وہ کر چکے ہیں.مکرم مولوی غلام احمد صاحب بد و ملهوی فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم میں سے بعض طلباء کے پاس کتا بیں نہ تھیں.آپ کو معلوم ہوا تو بہت دکھ ہوا.اور آپ پر اس قدر ترحم اور رقت کی حالت طاری ہوئی کہ آپ اونچی آواز سے با چشم نم دعا کرنے لگے.آپ نے اپنے منہ پر کپڑا لپیٹ لیا اور قریباً آدھ گھنٹہ نہایت عاجزی سے دعا کرتے رہے.بیماری کے آخری دنوں میں فرمایا کرتے.کبھی کوئی مسئلہ پوچھ لیا کرو.مجھے اس سے خوشی ہوتی ہے.“ ایک دفعہ فرمایا : ” میں نے مولوی اللہ دتا صاحب کو بعض کتابوں کے نام لکھائے تھے اگر صحت ہوئی تو اور بھی بتاؤں گا.تم ان کو نوٹ کر لو اور ان کا مطالعہ کر وا بھی تمہیں بہت کچھ کرنا ہے.“ ( الفضل ۶ راگست ۱۹۲۹ء ص ۷ ) وفات پر آپ کے شاگردوں کے تاثرات : آپ کے شاگرد آپ کو صرف معلم ہی نہیں سمجھتے تھے.بلکہ آپ کی بے پایاں شفقت اور کمال ہمدردی کی وجہ سے آپ کو اپنا باپ تصور کرتے تھے.یہی وجہ ہے کہ آپ کی وفات پر آپ کے شاگردوں نے ایک عظیم الشان نقصان کا احساس کیا.جس کی تلافی ہونا ناممکن ہے اور انہوں نے صدمہ کا اظہار اس رنگ میں کیا جس کی مثال نہیں پائی جاتی اور انہوں نے اجتماعی رنگ میں آپ کے متعلق قرار داد تعزیت پاس کر کے اپنے جذبات کا اظہار کیا اور جو لوگ اس وقت قادیان میں موجود نہ تھے.انہوں نے علیحدگی میں اپنے آنسو بہائے.مولانا جلال الدین صاحب شمس نے بلا دعر بیہ سے اپنے جذبات کا ان الفاظ میں اظہار فرمایا: ایسے شفیق اور مہربان استاد کا جدا ہونا کوئی معمولی حادثہ نہیں اے ہمارے محبوب اور بزرگ استاد تو ہمیں اپنی زندگی میں بھی محبوب تھا.اور بعد الموت بھی محبوب ہے.کون ہے جو تجھے مردہ کہہ سکے تو شہید ملت ہے تو زندہ ہے جب تک کہ یہ سلسلہ دنیا میں قائم ہے.اور جب تک کہ تیرے شاگر د زندہ ہیں.اور وہ اس کام کو جس کے لئے تو نے اپنی زندگی کو وقف کر دیا تھا جاری رکھیں گے.الوداع اے عندلیب گلشن احمد الوداع - جا اور مالک گلشن کی بزم میں خوش خوش جنت میں جا.ہاں ملیک مقتدر کے قرب میں جا اور مقعد صدق پر جلوہ افروز ہو.قابل رشک تھی تیری زندگی اور قابل رشک ہے تیری موت.“ الفضل ۲۶ ؍ جولائی ۱۹۲۹ء ص ۲)
54 53 پھر فرماتے ہیں : فُجِعَتْ جَمَاعَتُنَا بِمَوْتِ هَزَارِهَا فَغَدَتْ تُوَدِّعُ فِيْهِ كُلَّ قَرَارِهَا ثَكِلَتْ إِمَامًا جَهُبَدَا فِي شَخْصِهِ فَبَكَتْ عُيُونُ كِبَارِهَا وَصِغَارِهَا فَقَدَتْ خَطِيْبًا مُصْقِعًا بَعَاثَةً مَنْ لِلْمَعَارِفِ وَالْحَقَائِقِ بَعْدَهُ قَدْ كَانَ يَنْتَهِبُ الْقُلُوبِ بَيَانُهُ وَتَرَتُلُ الْآيَاتِ حِيْنِ جِهَارِهَا عَبِثَاً أُحَاوِلُ أَنْ أَعُدَّ فَضَائِلاً نَهَدَتْ إِلَيْهِ وَكَانَ مِنْ أَنْصَارِهَا يَارَبِّ اَدْخِلْهُ الْجِنَانَ بِرَحْمَةٍ وَامْنُنْ عَلَيْهِ بِظِلِهَا وَثَمَارِهَا عَضُدَا قَوِيّاً كَانَ مِنْ نَظَارِهَا وَارْحَمْ وَعَوّضْ عَنْهُ أُمَّتَكَ الَّتِي صَبَرَتْ عَلَيْهِ بِجُهْدِهَا وَقُصَارِهَا مَنْ مُحْسِنٌ وَقَا عَلَى أَوْتَارِهَا فَقَدَتْ خَطِيبًا مُصْقِعًا بَحَاثَةً عَضُدًا قَوِيّاً كَانَ مِنْ نَظَّارِهَا طَغَتِ الرِّيَاحُ عَلَى شَـذَا أَزْهَارِهَا ایک اور شاگر د مکرم مولوی محمد عبداللہ صاحب ان الفاظ میں آپ کی لِيُعِيدَ لِلاِسلامِ شَمْسَ فِخَارِهَا وَدَلِيلِه موت پر آنسو بہاتے ہیں : الهَمُّ يُقْلِقُ وَتَجَمُّلُ يَرُدَعْ حُشَاشَاةٌ لِبُعُدكَ شَيْخَنَا قَدْ كَانَ حِصْنَ رِيَاضِهَا وَبِهَدْمِـه قَدْ كَانَ مُجْتَهِدًا وَأَفُنـــى حَيَاتَهُ شَهِدَتْ لِقُوَّةِ بَأْسِهِ تبَةُ الْخَصِيمِ بِلَوْزِهَا بِفَرَارِهَا وَكَلامُهُ الوَفَّاحُ كَانَ لَالِيَّا مَنْظُومَةٌ قَدْزُيِّنَتْ بِخِيَارِهــا وَنكَاتُهُ كَانَتْ كَمِثْلِ خَرِيدَةٍ ازيَّنَتْ بِحُلِيْهَا وَشِعَارِهَا دَابَتُ ( الفضل ۲۷ دسمبر ۱۹۲۹ء ص ۱) وَالصَّبْرُ يَعْدِمُ وَ التَّفَرُّقُ يَجْمَعُ وَأصُولُ شَعُرِى مِنْ فِرَاقِكَ تَجْزَعُ وَالنَّوْمُ يَنْفُرِ مِنْ عُيُون جَمِيعِنَا وَالْفَرَحُ يَرْحَلُ وَ الْهُمُومُ تَجْمَعُ حَلَّتْ بِصُبُرِى بَعْدَ بُعْدِكَ حُرْقَةٌ وَالْقَلْبُ يَخْفِقُ وَالعُيُونُ تَدْمَعُ
56 55 حرَقْتُ فِي نَارٍ أَذَابَتْ مُهْجَتِي! وَغَدَا بِمَوْتِكَ صَبْرُنَا لَا يَرْجِعُ وَصَلَتْ إِلَيْكَ يَدْسَوَاءٌ عِندَهَا أَسَدٌ حَصْوُرٌ أَوْ عُذَابٌ أَبْقَعُ كُنَّا نَرَاكَ مَاتَلُمْ مُصِيبَةٌ إِلَّانَفَاهَاعَنُكَ قَلْبٌ أَشْجَعُ مَنْ لِلْمُنَاظِرِ وَالْمُبَارِ زِ بَعْدَانُ فَقَدَتْ بِفَقَدِكَ نَيْرٌ لَا يَطْلُعُ يَارَبَّنَا ارْحَمُ وَاسِعَامُتَوَا افِراً تالیف ہے.آپ نے ایک موقعہ پر فرمایا تھا کہ : فقہ کے معنے اصل تو سمجھنے اور سمجھ دار ہونے کے ہیں.مگر مسلمانوں کی اصطلاح میں فقہ ان احکام کے مدلل جاننے کا نام ہے جو عمل سے تعلق رکھتے ہوں.فقیہہ اس کو کہتے ہیں جو علم احکام دلیل کے ساتھ رکھتا ہو.“ (الفضل ۹؍ مارچ ۱۹۲۲ء ص ۹) وَاغْفِرْهُ غُفَرَاناً وَفَضْلُكَ أَوْسَعُ اور آپ سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ آپ ایک عظیم فقیہہ تھے.خلافت کا احترام : وَاسْكُنُهُ فِي الْفِرْدَوْس فَضْلًا دَائِمًا فقہ میں آپ کا مقام : جوَارٍ أَحْمَدَ إِنَّهُ يَتَشَفَّعُ : الفضل ۳۰ / دسمبر ۱۹۲۹ ، ص ۱) فقہ میں آپ کا مقام جماعت میں بہت بلند تھا.آپ اس علم میں عظیم مجتہد تھے.مدتوں آپ نے اس علم کی تحصیل کی اور بعد میں سالہا سال تک تدریس.خلافت ثانیہ کے اوائل سے آپ کو سلسلہ احمدیہ کا مفتی مقرر کیا گیا تھا.اور تا وفات آپ اس ممتاز عہدہ پر فائز رہے.آپ کے فتاویٰ نہایت مختصر لیکن مدلل ہوا کرتے تھے اور آپ ان کے بارہ میں کسی اثر کو قبول نہیں فرماتے تھے.آپ کی مشہور تالیف ” فقہ احمدیہ ہمارے جماعت میں فن فقہ پر واحد خلافت ثانیہ کے قیام کے وقت جب جماعت میں ایک زلزلہ آ گیا اور جماعت ایک عظیم فتنہ کا شکار ہوگئی تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ خلافت کی تائید میں چیدہ چیدہ علماء نے کام کیا.ان میں سے حضرت حافظ روشن علی صاحب کو خاص امتیاز حاصل ہے.آپ نے ان دنوں میں جماعتوں کے دورے کر کے بچھڑے ہوئے بھائیوں کو جماعت کے شیرازہ میں لا کر شامل کیا.اور بقول حضرت میر محمد الحق صاحب فاضل مرحوم ۱۹۱۳ء کے اختلاف کے موقع پر بہت سی روحوں کے حق پر قائم رہنے کا ثواب خدا چاہے تو آپ کو ہو گا.
58 57 آپ علی وجہ البصیرت اس بات پر قائم تھے کہ : نبی بنانا بھی اللہ کا کام ہے اور نبی کا نائب بنانا بھی اسی کا فعل ہے جیسے نبی کی نبوت کا ثبوت اللہ تعالیٰ اپنی خاص نصرت سے دیتا ہے.ایسے ہی ان کے جانشینوں کا ثبوت بھی اپنے فعل سے وہ دیتا ہے کیونکہ اس نے اپنے کلام میں یوں فرمایا ہے کہ خلیفہ میں بناؤں گا اور میں ہی ان کو تمکنت بخشوں گا.“ آپ کے دل میں خلافت کا احترام اور اس کی اہمیت کا احساس احد تک پایا جاتا تھا کہ آپ نے فرمایا: جس مسجد میں امام خلیفہ ہو اس میں دوسری جماعت مکروہ ہے.“ الفضل ۶ / جنوری ۱۹۲۱ء ص ۱۷) آپ نے اپنی زندگی میں کئی مباحثے غیر مبائعین سے کئے اور مولوی محمد علی صاحب ایم اے، اور ان کے رفقائے کارکو کھلی چٹھیاں لکھ کر اختلاف کو دور کرنے کی دعوت دی.آپ کی ان کوششوں کے نتیجہ میں ایک خاصی تعداد غیر مبائعین کی بیعت میں شامل ہوئی.آپ کی انہی سرگرمیوں کی وجہ سے آپ کو پیغام صلح نے یہ سرٹیفیکٹ دیا کہ : حافظ روشن علی صاحب ایک متشد دمحمودی تھے.محمود یت کی حمائت میں انہوں نے ہمیشہ غالیانہ سپرٹ کا اظہار کیا.“ ( پیغام صلح ۹ ر جولائی ۱۹۲۹ء ) انصار اللہ کی ابتدائی تنظیم میں آپ کی خدمات : ۱۹۱۱ء میں بعض جماعتی حالات کو مدنظر رکھ کر حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے حضرت خلیفہ اول کی منظوری اور اجازت سے ایک انجمن کا قیام عمل میں لایا جس کا نام انصار اللہ رکھا گیا.اس انجمن کے اہم فرائض میں سے تبلیغ کے کام کو وسیع کرنا جماعت کی تعلیمی حالت کو ترقی دینا.باہمی اتحاد پیدا کرنا.ذکر الہی پر زور دینا اور خلیفہ وقت کی اطاعت کرنا تھا ( تفصیل کے لئے دیکھیں احکام ۲۱/۲۸ فروری ۱۹۱۱ء ) اس انجمن کے ابتدائی ممبر صرف نو تھے.انجمن کی صدارت سید نا حضرت خلیفہ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے پاس تھی.اور اس کے جنرل سیکرٹری حضرت حافظ روشن علی صاحب تھے.حضرت حافظ صاحب نے صدرانجمن کی ہدایت کی روشنی میں انصار اللہ کے کام کو وسیع پیمانہ پر چلایا اور ممبروں کی تعداد میں نہ صرف جلدی خاصا اضافہ ہو گیا بلکہ ان کی دینی روح جوش اور ولولہ پہلے کی نسبت بہت زیادہ بڑھ گیا.اس انجمن نے مویدین خلافت کی تربیت کر کے انہیں اس طرح مضبوط کیا کہ باہمی اختلاف کرنے والوں کی امیدیں خاک میں مل گئیں.بیرونی تبلیغ کے سلسلہ میں ابتدائی مشن اسی انجمن کی کوششوں سے قائم کئے گئے.اسی طرح جماعت احمدیہ کی تبلیغ کی عمارت کی بنیادیں تعمیر کرنے والے یہی انصار اللہ کے چند ممبر تھے.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۹۱۲ء میں سفر حج کے لئے تشریف لے گئے تو آپ نے اپنی غیر حاضری میں قرعہ کے ذریعہ حضرت حافظ روشن علی صاحب کو امیر انصار اللہ مقرر فرمایا اور دوسرے ممبران کو آپ کی پوری اطاعت کرنے کی ہدایت فرمائی.(ملاحظہ ہو الحکم ۷ ستمبر ۱۹۱۲ ء ص ۵)
60 59 تعلیمی دوره: اپریل ۱۹۱۲ء میں حضرت امیر المومنین خلیفہ اسی الثانی رضی اللہ تعالی عنہ کی قیادت میں ایک چھ رکنی تعلیمی وفد نے ہندوستان کی عربی درس گاہوں کا دورہ کیا.اور مدرسہ احمدیہ کی ترقی کے سلسلہ میں نصاب اور طرز تعلیم کے متعلق معلومات مہیا کیں.یہ وفد ۲ را پریل ۱۹۱۲ء کو قادیان سے روانہ ہوا اور ۲۹ / اپریل ۱۹۱۲ء کو واپس آیا.اس وفد کے ارکان میں سے جن کا انتخاب حضرت خلیفہ اول کے مشورہ سے عمل میں لایا گیا تھا.ایک رکن حضرت حافظ روشن علی صاحب بھی تھے.آپ نے اس دورہ میں لکھنو ، کانپور، دہلی اور سہارنپور کے مدارس کے علاوہ دیوبند کے مشہور عالم عربی مدرسہ کا بھی معائنہ کیا.اور ضروری معلومات حاصل کیں.اس دورہ کے دوران بعض تبلیغی اغراض سے یہ وفد بنارس ، ہر دوار، گور وکل، شاہجہانپور، رامپور اور امروہہ بھی گیا.(تفصیل کے لئے دیکھیں الحکم ۱۴ / اپریل وے رمئی ۱۹۱۲ء) محکمہ قضا کے انچارج ۱۹۱۹ء میں جماعت کی وسعت کے پیش نظر اس کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے قادیان اور بیرون جات کے احباب کے مشورہ سے سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفہ ایسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جدید انتظام قائم کیا.آپ نے مرکز میں نظارت سسٹم قائم کیا اور پھر اس کے ماتحت بعض اور ضروری شعبہ جات قائم کئے تو حضرت حافظ روشن علی صاحب کو حضور نے افتاء کے فرائض سپر د کئے.(ملاحظہ ہو الفضل ۵/جنوری ۱۹۱۹ء) آپ قاضی کے عہدہ کے لئے نہایت موزوں فرد تھے.جماعت کے احمدی بچے جوان بوڑھے آپ سے محبت رکھتے تھے.اور دل و جان سے آپ کی خوبیوں کے قائل تھے.آپ نہایت بے شر تھے.کسی سے آپ کا جھگڑا نہ تھا.طبیعت نہایت مستغنی تھی.کسی سے لالچ نہ تھا.اور پھر اس کے ساتھ ساتھ آپ بڑے وجیہہ اور بارعب تھے.اور ایسے جذب اور کشش کے مالک تھے کہ ہر شخص آپ کی بات ماننے پر ہر وقت تیار ہو جاتا.چنانچہ آپ نے اپنی زندگی میں سینکڑوں لوگوں کے تنازعات کو بڑی کامیابی سے فیصل کیا.بہت سے لوگ آپ سے اپنے خانگی معاملات میں مشورہ بھی لیتے تھے.اور آپ پوری توجہ سے نہایت صائب مشورہ عطا فرمایا کرتے تھے.آپ ان کی خوشی اور غمی کی تقریبات میں شامل ہوتے اورعوامی مجالس میں ان کی نمائندگی کرتے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث ایدہ اللہ نے جب قرآن کریم حفظ کیا تو اہالیان قادیان نے اپنی طرف سے حضرت حافظ روشن علی صاحب کو حضور کی خدمت میں مبارک باد پیش کرنے کے لئے نمائندہ مقرر فرمایا.(ملاحظہ ہو الفضل ۲۱ - ۱۷/ اپریل ۱۹۲۲ء ص ۱) ان وجوہ کی بناء پر آپ کے فیصلہ سے لوگ مطمئن ہو جاتے تھے اور انہیں کوئی شکوہ باقی نہیں رہتا تھا.انہیں اس بات کا احساس ہو جاتا تھا کہ حق دار کو حق دے دیا گیا ہے اور کسی سے کوئی زیادتی نہیں ہوئی.اور جس قاضی کے متعلق عوام میں یہ احساس پیدا ہو جائے.اس سے بڑھ کر کامیاب قاضی اور کون ہوسکتا ہے..
62 61 بعض اور دینی خدمات حضرت مفتی محمد صادق صاحب جب اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے انگلینڈ تشریف لے گئے.تو ان کی جگہ سید نا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ کو صدرانجمن احمد یہ کاممبر مقررفرمایا.( الفضل ۲۹ جولائی ۱۹۱۹ء) آپ اس عہدہ پر تا وفات فائز رہے.نیز آپ مجلس شوری کے ممبر اور عرصہ تک نائب ناظر تالیف واشاعت بھی رہے.۱۹۱۶ء میں جماعت احمد یہ لدھیانہ نے دارالمیت کی جہاں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پہلی دفعہ بیعت لی تھی.از سر نو مرمت کی تو اس کے افتتاح کا فخر حضرت حافظ صاحب کو نصیب ہوا.چنانچہ آپ وہاں تشریف لے گئے اور وہاں افتتاح کی رسم ادا کرنے کے علاوہ دو دن تک بڑی کامیابی سے لیکچر دئیے.(ملاحظہ ہو الفضل ۱۹ / فروری ۱۹۱۶ء ) جولائی ۱۹۲۵ء میں آل مسلم پارٹیز کانفرنس امرتسر میں آپ نے شرکت کی اور وہاں آپ سب جیکٹ کمیٹی کے ممبر بھی چنے گئے.الفضل ۱۸ جولائی ۱۹۲۵ ، ص ۱) نومبر ۱۹۲۷ء میں آپ نے ندوۃ العلماء کے جلسہ منعقدہ امرتسر میں شرکت کی.( ملاحظہ ہوالفضل ۲۹ نومبر ۱۹۲۷ء ص۱) بہائی فتنہ کا بڑی مضبوطی سے مقابلہ کیا.( الفضل ۱۹ / فروری ۱۹۳۸ ء ص۳) تبلیغی اور تربیتی دوروں کے علاوہ آپ نے اپنی زندگی میں متعدد انتظامی دورے کئے جلسہ سالانہ کے چندہ کے لئے بھی آپ نے دورے کئے.مسجد لنڈن کی تعمیر کے سلسلہ میں آپ چندہ اکٹھا کرنے کے لئے متعد دشہروں میں گئے.اور بڑے کامیاب وکامران واپس لوٹے.جلسہ سالانہ کے موقع پر انتظام سٹیج و جلسہ گاہ اور بعض اور قسم کی ڈیوٹیاں آپ کے سپرد ہوئیں.جنہیں آپ نہایت احسن طور پر سر انجام فرماتے.جلسہ سالانہ کے موقعہ پر تحقیق حق کرنے والوں کے سوالات اور معترضین کے اعتراضات کے جوابات دینے کا فریضہ بھی آپ کے سپر د تھا.غرض آپ کی زندگی نہایت مصروف رنگ کی تھی.خدمت دین کے لئے جوش : خدمت دین کا آپ کو کامل عشق تھا اور کوئی موقعہ دینی خدمت کا آپ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے.مکرم مولا نا ابو العطاء صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ سیرت النبی کے جلسوں کے لئے مبلغ مقرر کئے جارہے تھے.میں نے بطور خبر آپ کی خدمت میں بھی ذکر کر دیا تو آپ نے فرمایا.ناظر صاحب سے کہنا کہ مجھے بھی کسی جگہ مقرر کر دیں زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.آئندہ سال شاید یہ موقعہ نہ ملے...کسی کے سہارے کسی قریب کے شہر چلا جاؤں گا.مجھ سے یہ بھی تو برداشت نہیں ہو سکتا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں جلسے ہوں اور میرا ان میں حصہ نہ ہو.66 ( الفضل ۹ رمئی ۱۹۳۰ ء ص ۹) آخری بیماری میں جبکہ آپ موت و زندگی کی کشمکش میں تھے.آ
64 63 نے الفضل کے سیرت النبی نمبر کے لئے آنحضرت کا بیماروں سے سلوک، کے عنوان پر ایک نہایت مختصر اور قیمتی مضمون لکھوایا جو آپ کی زندگی کا غالباً آخری مضمون ثابت ہوا.گویا جس آقائے نامدار کی لائی ہوئی تعلیم کو آپ عمر بھر پھیلاتے رہے اسی کے ذکر پر آپ کی عملی زندگی کا اختتام ہوا.اور آپ کی ساری زندگی خدمت دین میں ہی گذری - آپ کی زندگی کس قدر مصروف تھی.اس کا کسی قدر اندازہ حضرت امیر المومنین خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک تقریر کے لئے مندرجہ ذیل اقتباس سے لگ سکتا ہے.حضور فرماتے ہیں کہ : تیسرے حافظ روشن علی صاحب ہیں.علاوہ اس کے کہ وہ مبلغین کلاس کے مدرس ہیں.اور کام بھی کرتے ہیں.مدارس میں ایک مدرس نہیں ہوا کرتا.بلکہ کئی ہوتے ہیں مگر ان کے سپر د ایک جماعت کی گئی ہے.اس کے بعد ہمارا حق نہیں کہ ان سے پوچھیں اور کیا کام کرتے ہیں.لیکن علاوہ اس کے کہ وہ سلسلہ کے مفتی بھی ہیں.فتوے لکھتے ہیں درس بھی دیتے ہیں جب گلا کی خرابی اور بیماری کی وجہ سے میں درس نہیں دے سکتا.آج کل رمضان میں ایک پارہ سے زیادہ روزانہ درس دیتے ہیں.اس کے علاوہ باہر سے جو اعتراض آئیں ان کے جواب بھی لکھ دیتے ہیں.ان کے یہ کام بطور چندہ کے ہوتے ہیں.“ ( احمد یہ گزٹ مورخه ۲۶ فروری ۱۹۲۳ء ص ۱۶) حافظ روشن علی صاحب مرحوم کو میں نے دیکھا کہ وہ دین کے لئے اس طرح کام کرتے تھے جیسے گھڑی چلتی ہے اور کبھی تھکان محسوس نہیں کرتے تھے.رات ہو یا دن کبھی کام سے جی نہ چراتے تھے.“ سیاحت: الفضل ۱۴رجون ۱۹۳۴ء ص ۸) آپ کو اپنی زندگی میں ہندوستان کے تمام علاقوں کے علاوہ عدن ، شام، مصر، فرانس ، انگلستان اور یورپ کے کئی اور ممالک کی سیاحت کا موقع بھی ملا.جس کی وجہ سے آپ کا جنرل نالج بہت وسیع تھا.آپ نے ان علاقوں کے جغرافیائی اور معاشرتی حالات کا بغور مطالعہ کیا اور اس سے کئی ایک نتائج اخذ کئے.۱۹۲۶ء میں جب آپ بحالی صحت کے لئے کشمیر تشریف لے گئے تو آپ نے حضرت مسیح علیہ السلام کے آثار اور باقیات کو تلاش کرنا شروع کیا.اور دوران تحقیق مندرجہ ذیل انکشاف فرمایا :.سرینگر سے جو سڑک بارہ مولا کی طرف جاتی ہے اس پر سرینگر سے ساڑھے سات میل کے فاصلہ پر ایک گاؤں ہے جس کا نام لادی پور ہے اور لادی بنی یعقوب میں سے ہے.یہاں یہود نہیں رہتے.لیکن یہ نام کچھ معنے رکھتا ہے.یہ گاؤں معمولی نہیں.بہت بڑا گاؤں ہے.“ الفضل ۳ ستمبر ۱۹۲۶ ، ص ۲)
66 65 یورپ کے سفر کے متعلق آپ تحریر فرماتے ہیں کہ : ” مجھے یورپ کے سفر میں یہ عبرت ناک بات معلوم ہوئی کہ یہودی جو سب سے ذلیل سمجھے جاتے ہیں ان کے لئے یورپ کے ہر شہر اور ہر محلہ میں اپنی دکانیں ہر قسم کی ضروریات کی ہیں اور اہل یورپ اس بات سے پوری طرح آگاہ ہیں کہ یہودی کیا کھاتا ہے اور کیا نہیں کھاتا.لیکن مسلمانوں کی زندگی کا خوردنوش کے لحاظ سے نہ یورپ میں انتظام ہے اور نہ ایشیا میں اور اہل یورپ یہ نہیں جانتے کہ مسلمان کیا کھاتا ہے اور کیا نہیں کھاتا.میرے ایک عزیز دوست نے یہ واقعہ سنایا کہ وہ اپنے ایک انگریز دوست کے گھر گیا تو اس انگریز دوست کے گھر گیا تو اس انگریز نے بہت بڑی خاطر اس کی یہ کی کہ تلا ہوا خنزیر اس کے آگے لا رکھا.وہ کسی یہودی کے سامنے اس طریق خاطر کی جرات نہیں کر سکتا.اس واقعہ پر میں نے اپنے دوست کو سرزنش کی کہ تم نے انگریز کو دوست بنایا مگر اس بات سے آگاہ نہ کیا کہ مسلم کیا کھاتا ہے اور کیا نہیں کھاتا.“ الفضل ۳۰ ستمبر ۱۹۲۷ء ص ۸) حضرت حافظ صاحب نے اپنی ان سیاحتی معلومات کی بناء پر اور اپنے تجربہ کی روشنی میں اپنے طلباء کو تبلیغ کے لئے تیار کیا اور انہیں بعض ایسی ہدایات بھی دیں جو آئندہ زندگی میں ان کے کام آئیں.مثلاً مولا نا شمس صاحب جب بلا دعر بیہ میں تشریف لے جانے لگے تو آپ نے انہیں نصیحت کی کہ : یہ ممالک بھی کا بل سے کم نہیں ہیں.لہذا تین باتوں کا خیال رکھنا.اول اپنے قائم مقام پیدا کرنے کی ہر وقت کوشش کرنا.اس کے واسطے کسی اچھے شخص کو منتخب کر کے اس سے خاص دوستی کرنا کہ اگر تمہارے جسم کو روح سے علیحدہ کیا جائے تو فوراً وہ روح دوسرے جسم کے ساتھ کام کرنے لگ جائے.“ عبادت وزہد : الفضل ۲۶ جولائی ۱۹۲۹ء ص ۲) حضرت حافظ صاحب نہایت عابد وزاہد اور قائم اللیل انسان تھے ہر مشکل وقت میں بلکہ اپنی زندگی کے ہر لمحہ میں خدا تعالیٰ کی طرف جھکے رہتے تھے.آپ کی ساری زندگی ریاضت اور عبادت میں گزری اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ پر الہام و کشوف کا دروازہ کھول دیا.آپ خود اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں کہ جب میں نے اپنے خاندان کی حالت پر غور کیا اور دیکھا کہ اگر چہ ہمارے آباء واجداد محبت الہی میں فنا تھے اور دنیا سے منہ موڑ چکے تھے.مگر اب ان کی اولا د دنیا کی طرف مائل ہو چکی ہے اور ان کی دینی حالت ابتر ہو چکی ہے تو میں اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہوا.اور اس نے اپنے الہام اور کشوف کے ذریعہ مجھ پر یہ امر کھولا کہ اس وقت حقیقی صوفی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں.چنانچہ میں نے آپ کے قبول کرنے میں کوئی
68 67 پس و پیش نہ کیا.اور اپنا سب کچھ اس چشمہ ہدایت کے لئے قربان کر دیا.(ملاحظہ ہو مجمع البحرین) فرمایا: حضرت مولانا نور الدین صاحب خلیفہ المسیح الاول نے ایک دفعہ حافظ روشن علی نے میری تقریر ہوتے ہوئے آسمانی کھانا کھا لیا تھا.بیداری میں کباب اور پراٹھے کھاتا رہا.کلام امیر ص ۴۹ بدر ۳۱ اکتوبر ۱۹۱۲ء) حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب فرماتے ہیں کہ میں نے یہ ارشاد سن کر حافظ روشن علی صاحب سے مفصل حال پوچھا.تو انہوں نے فرمایا: ’ ایک دفعہ میں نے ابھی کھانا نہیں کھایا تھا.سبق کی انتظار میں بیٹھے بیٹھے کھانے کا وقت گزر گیا حتی کہ ہمارا حدیث کا سبق شروع ہو گیا میں اپنی بھوک کی پرواہ نہ کر کے سبق میں مصروف ہو گیا.اور آنحالیکہ میں بخوبی سبق پڑھنے والے طالب علم کی آواز سن رہا تھا.اور سب کچھ دیکھ رہا تھا کہ یکا یک سبق کا آواز مدھم ہوتا گیا.اور میرے کان اور آنکھیں باوجود بیداری کے سننے اور دیکھنے سے رہ گئے.اس حالت میں میرے سامنے کسی نے تازہ بتازہ تیا ر کیا ہوا کھانا لا رکھا.گھی میں تلے ہوئے پراٹھے اور بھنا ہوا گوشت تھا.میں خوب مزے لے لے کر کھانے لگ گیا.جب میں سیر ہو گیا تو میری یہ حالت منتقل ہو گئی.اور پھر مجھے کیا.سبق کی آواز سنائی دینے لگ گیا.مگر اس وقت تک بھی میرے منہ میں کھانے کی لذت موجود تھی.اور میرے پیٹ میں سیری کی طرح ثقل محسوس ہوتا تھا.اور سچ مچ جس طرح کھانا کھانے سے تازگی ہو جاتی ہے.وہی تازگی اور سیری مجھے میسر تھی.حالانکہ نہ میں کہیں گیا اور نہ کسی اور نے مجھے کھانا کھاتے دیکھا.“ ( کلام امیرص۵۰ بدر ۳۱ اکتوبر ۱۹۱۲ء) محترم ڈاکٹر میجر شاہنواز صاحب بیان فرماتے ہیں کہ آپ نے بیان ایک دفعہ سفر میں مجھ کو بہت تھکان ہو گئی اور فکر ہوا کہ آج تہجد کے لئے کیسے اٹھوں گا.اسی فکر میں سو گیا.آدھی رات کے بعد میرے منہ پر ایک خالی گلاس جو اوپر طاق میں پڑا تھا.زور سے گرا جس نے مجھ کو بیدار کر دیا.گو یا اللہ تعالیٰ نے عین دو بجے زور سے ہوا چلا کر گلاس کو گرا دیا - تا اس کا بندہ نماز تہجد ادا کرے.“ الفضل ۴ را کتوبر ۱۹۲۹ء ص ۷ ) آپ کو وفات کے وقت سے بھی آگاہ کر دیا تھا.جس کی وجہ سے آپ زیادہ سے زیادہ خدمت دین بجالانے کی کوشش میں لگے رہے اور شاگردوں کو بھی اپنے وجود سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی وصیت فرماتے رہے.آپ کی نزع کی حالت میں جو لوگ آپ کے پاس تھے وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ خدا تعالیٰ سے ملاقات کرنے کے لئے شدید بے قرار تھے.اور یہ کیفیت
70 69 آپ کی محبت الہی اور روحانیت کا عظیم نمونہ ہے.آپ اپنے شاگردوں کو بھی خدا تعالیٰ سے زیادہ سے زیادہ تعلق پیدا کرنے اور اس کی رضا کو حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنے کی نصیحت فرمایا کرتے.مولانا جلال الدین صاحب شمس کو ملک شام میں تبلیغ کے لئے روانہ ہوتے وقت نصائح آپ نے فرما ئیں ان میں سے ایک نصیحت یہ بھی تھی که: ایسی کوشش کرنا کہ خدا تعالیٰ سے براہ راست تعلق ہو جائے.اس کے بغیر راحت حقیقی نہیں مل سکتی.“ الفضل ۲۶ ؍ جولائی ۱۹۲۹ء ص ۲) خدا تعالیٰ کے وعدوں کو اور اس کی پیشگوئیوں کو پورا ہوتے دیکھ کر آپ بہت خوش ہوتے.اور خدا تعالیٰ کی حمد وشکر میں لگ جاتے.اور پھر ان کا ذکر مجالس میں کر کے آپ خوب مزے لیتے ، قادیان کے متعلق آپ فرماتے ہیں : اگر قادیان لاہور یا امرتسر کی طرح کوئی شہر ہوتا.یا کم از کم ریل گاڑی کا اسٹیشن ہی ہوتا تو میں کہتا کہ یہاں جو آیا ہے آرام کی خاطر اتر آیا ہو گا.لیکن اب جب کہ یہاں تک آنے کے لئے پکی سڑک بھی نہیں ہے.یکہ پیچھے پہنچتا ہے اور پیدل انسان پہلے آ جاتا ہے.مگر لوگ جوق در جوق آتے ہیں.تو میں عجب مزے لوٹتا ہوں اور ياتين من كل فج عمیق کی عجیب حلاوت حاصل کرتا ہوں.“ الفضل ۳۰ / جنوری ۱۹۱۶ ء ص ۸) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک دعا کا ذکر فرماتے ہوئے کہتے ہیں کہ : تم جانتے ہو کہ یہ ریلیں اور تاریں کیوں بنیں.ان کے بننے کی وجہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جہاد کو نکلے تو آپ کے دوستوں کو تکلیف ہوئی.آپ نے دعا کی اللهم اطولنا الارض اے خدا ہمارے لئے زمین کو لپیٹ دے.پس یہ آپ ہی کی دعا کی برکت ہے.میں تو جب ریل پر سوار ہوتا ہوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتا ہوں.(الفضل ۳۰ جولائی ۱۹۱۶ ء ص ۱۱) آپ دعا کے ساتھ ساتھ تدبیر کو بھی اختیار کرنے کے قائل تھے.اور تد بیر کو دعا کے لئے ایک ضروری ہتھیار خیال فرماتے تھے.مکرم مولوی محمد حسین صاحب فاضل ربوہ نے مجھ سے بیان کیا کہ جب میرا مولوی فاضل کا امتحان ہونے والا تھا تو میں حضرت حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا.اور عرض کیا کہ میں فلاں فلاں پر چہ میں بہت کمزور ہوں.اور بظاہر حالات کامیابی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.آپ دعا فرمائیں کہ خدا تعالیٰ مجھے امتحان میں کامیابی عطا فرمائے.حضرت حافظ صاحب نے فرمایا.بہت اچھا میں دعا کروں گا اور مجھے امید ہے کہ تم کامیاب بھی ہو جاؤ گے.لیکن ایک کام کرو.اور وہ یہ کہ اپنے سے کسی کمزور طالب کو کسی پر چہ کی تیاری کروا دو.مولوی صاحب فرماتے ہیں میں نے عرض کیا حافظ صاحب مجھ سے زیادہ کمزور لڑکا
72 71 کلاس میں اور کوئی نہیں.میں اسے کہاں سے تلاش کروں گا.آپ نے فرمایا کوشش کرو.میں تمہیں اس لئے یہ کام کرنے کی ہدایت کر رہا ہوں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ من كان في عون عمده كان الله في عونه جو شخص خدا کے کسی کمزور بندہ کی اعانت کرتا ہے خدا تعالیٰ اسے اپنی مدد سے نوازتا ہے.سواگر تم کسی کمزور طالب علم کو محنت کراؤ گے اور اسے کامیابی حاصل کرنے کے قابل بنا سکو گے تو اللہ تعالیٰ تم کو تمہاری کمزوریوں کے باوجود کامیاب کرے گا.اور پھر میں دعا بھی کروں گا.مولوی صاحب نے بتایا کہ میں نے اپنے سے کمزور طالب علم تلاش کرنے کی کوشش کی مگر وہ نہ ملا.اتفاقاً ایک طالب علم نے مجھ سے ہوشیار تھا.لیکن ایک پرچہ میں کمزور تھا.مجھے کہا کہ فلاں کتاب ہم مل کر پڑھ لیں.چنانچہ میں نے اس کی بات مان لی اور جب امتحان کا نتیجہ نکلا تو میں خدا تعالیٰ کے فضل سے کامیاب ہو گیا.اور یہ سب کچھ حضرت حافظ صاحب کی دعا اور آپ کی بتائی ہوئی تدبیر اختیار کرنے کا نتیجہ تھا.فرائض منصبی کا احساس آپ کو اپنے فرائض منصبی کا بہت احساس تھا.آپ اپنے کاموں کو بیگار کی طرح سرانجام نہ دیا کرتے تھے بلکہ اپنا کام سمجھ کر اور سنوار کر کرتے اور اپنی ضروریات آرام اور آسائش کو فرائض منصبی کے لئے قربان کرتے.بیمار ہوتے.سفر سے واپس آتے اور تھکے ہوئے.لیکن آپ نے کبھی اپنے فرائض منصبی سے رخصت حاصل نہ کی.رخصت کے نام سے آپ کو چڑ تھی.آپ اپنے شاگردوں کو بھی نصیحت فرماتے کہ رخصت کا نام نہ لیا کرو.زندگی میں تمہارے لئے رخصت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ہاں موت کے بعد تم مکمل آرام کر سکتے ہو.آپ کام کرنے میں راحت پاتے تھے.محنت آپ کی غذا تھی اور خدمت سلسلہ آپ کا نصب العین تھا.آپ طالب علم کو جب وہ بیمار ہوتا.رخصت دینے کی بجائے چار پائی پر لٹا دیتے.لیکن درس میں ضرور شریک کرتے.مرض الموت میں بھی جب کہ ڈاکٹروں نے حرکت کرنے سے بھی منع فرمایا تھا.اپنے شاگردوں کی تعلیم و تربیت سے آپ غافل نہ ہوئے.اپنے یا غیر کی خوشی اور آرام کی خاطر مفوضہ ڈیوٹی میں کوتاہی کرنے کو آپ گناہ کبیرہ سمجھتے.اور فرمایا کرتے.ہمیں وقات بہت کم دیا گیا ہے اور کام بہت زیادہ ہے اس لئے ہمیں اپنے وقت کو زیادہ سے زیادہ اپنے فرائض کی ادائیگی میں صرف کرنا چاہئے تا خدا تعالیٰ کے سامنے ہمیں شرمندگی نہ ہو.ایک موقعہ پر لجنہ اماءاللہ قادیان میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا کہ : - اپنے فرائض منصبی کو پہچانو.اور اس بات کو سمجھ لو کہ اگر تم نے اچھا نمونہ دکھایا تو آئندہ نسلیں اس سے فائدہ اٹھائیں گی.اور اگر تم نے برانمونہ دکھایا.تو آئندہ نسلوں کی گمراہی کا گناہ تم پر پڑے گا.تم تمام سستیوں، جھوٹ ، غیبت ، چوری اور گلے وغیرہ کو چھوڑ دو تا خدا تعالیٰ تمہارا مددگار ہو اور تم پر اپنے فضلوں کی بارش کرے.“ ( الفضل ۷ را پریل ۱۹۲۵ء ص ۷ )
74 73 قناعت : آپ کو قناعت کا مادہ وافر طور پر عطا کیا گیا تھا.آپ کو بہت کم گزارہ ملتا تھا اور دو بیویاں تھیں.جن کے اخراجات آپ کے ذمہ تھے.مگر آپ نے کبھی بھی کم گزارہ کا شکوہ نہ فرمایا.بلکہ ڈاکٹر شاہ نواز صاحب فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ نماز تراویح اور درس القرآن کے اختتام پر کچھ رقم آپ کی خدمت میں پیش کرنے کی تحریک کی گئی.تو فرمایا.میں اس بات کو پسند نہیں کرتا.مرکز والوں کی بات باہر والوں کے لئے حجت ہو جاتی ہے.اس لئے اس رسم کا یہاں ڈالنا میرے نز دیک ٹھیک نہیں.“ 66 (الفضل ۴ را کتوبر ۱۹۲۹ء ص ۷ ) حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حیدر آباد کے کسی دوست نے یک صد روپیہ نذرانہ کے طور پر آپ کی خدمت میں پیش کیا.لیکن آپ نے وہ رقم بیت المال میں جمع کرا دی اور اسے اپنی ذات پر خرچ نہ فرمایا اور کہا میں اپنا کوئی حق نہیں سمجھتا کہ ایسی رقم اپنی ذات پر خرچ کروں.حدیث میں ایک عامل کا واقعہ آیا ہے اس سے یہ استدلال ہوتا ہے کہ اس قسم کے ہدیہ کو بیت المال میں داخل ہونا چاہئے.(ملاحظہ ہوالحکم ۱۴ / مارچ ۱۹۳۴ء ص ۸ ) غرض کہ آپ کو جو کچھ ملتا تھا وہ گو آپ کی ضروریات کے لئے ناکافی تھا.مگر آپ کی قناعت اور خودداری کا یہ حال تھا کہ آپ کہیں بھی کسی کے سامنے دست سوال دراز نہ کرتے.انکسار آپ بحر العلوم تھے.جماعت میں آپ کو نہایت احترام کی نظر سے دیکھا جا تا تھا.لیکن آپ برتری کے کبھی خواہشمند نہ ہوئے.اور کسی امتیاز کی آپ نے خواہش نہ کی.آپ کو تبلیغ واشاعت کے کام اور اس کے خیال کے سوا اور کوئی تڑپ نہ تھی.اور اس بات کا جوش تھا کہ جن علوم سے اللہ تعالی نے آپ کو بہرہ مند کیا ہے انہیں دوستوں تک پہنچا ئیں اگر کوئی آپ کی تعریف کرتا.تو اسے منع فرما دیتے یا ذکر الہی میں اور دعا میں مصروف ہو جاتے.کبھی کسی شاگرد سے بات کر کے تعریف کرنے والے کی توجہ کو کسی دوسری طرف مبذول کرنے کی کوشش فرماتے.سفروں میں اپنے رفقاء کار کا خاص خیال رکھتے اور انہیں یہ محسوس نہ ہونے دیتے کہ آپ ان کے امیر الوفد ہیں یا انہیں ان پر کوئی امتیاز حاصل ہے.آپ کا کیریکٹر نہایت بلند اور بے داغ تھا.ذمہ داری کی روح : - آپ میں ذمہ داری کا احساس نہایت اعلیٰ طور پر پایا جاتا تھا.اور جو کام بھی آپ کے سپرد ہوتا.اپنے آپ کو کلی طور پر ذمہ دار سمجھتے ہوئے اسے کرتے.جماعتی کاموں میں اس احساس اور خیال سے حصہ لیتے کہ گویا خدا تعالیٰ نے آپ کو ہی ذمہ دار بنایا ہے.اور حقیقت یہی ہے کہ جب تک قوم کا ہر فرد اس بات کو محسوس نہ کرے کہ سب کام اسے ہی کرنے ہیں.اس وقت تک قوم ترقی نہیں کر سکتی.آپ نے یہی وصف اپنے شاگردوں میں بھی پیدا کرنے
76 75 کی کوشش کی.مولانا شمس صاحب کو تبلیغ پر روانہ ہوتے وقت آپ نے یہ نصیحت فرمائی کہ: فرمایا.سلسلہ احمدیہ کے متعلق یہ کبھی خیال نہ کرنا کہ خلیفہ یا کوئی اور اس کا ذمہ دار ہے.بلکہ اپنے ذہن میں اسی خیال کو پختہ کرو کہ یہ سلسلہ میرا ہے اور میں اس کا ذمہ دار ہوں.اور اپنے نیابت کا خیال نہ بٹھاؤ.بلکہ اصلیت کا.“ (الفضل ۲۶ ؍ جولائی ۱۹۲۹ء ص۲) اسی طرح ایک موقع پر اپنے ایک شاگرد مولانا ابو العطاء صاحب کو دوسروں کے کندھے پر بندوق چلا نا مردوں کا کام نہیں.تم یہ مت خیال کرو کہ وہاں فلاں آ جائے گا.تم خود اپنے آپ کو اکیلے ذمہ دار سمجھو.جب تک تم میں یہ روح نہ ہو گی.تم کامیاب نہیں ہو سکتے.“ بزدلی سے نفرت : ( الفضل ۹ رمئی ۱۹۳۰ء ص ۸ ) بزدلی کو آپ نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے.اور فرمایا کرتے کہ اگر بہادری اور جرات سے کوئی کام کیا جائے اور جماعت کو اس سے کوئی صدمہ نہ پہنچتا ہو.تو اس پر اگر نظام کی طرف سے تو بیخ بھی ہو جائے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کر لو.ہوسکتا ہے کہ تمہاری رائے غلط ہو اس لئے افسروں کا کام افسروں کے سپر د کرو.مگر سلسلہ کے لئے کسی ضروری بات سے چوکنا نہیں چاہئے.اگر آپ کے خیال میں کوئی اقدام اور کوئی حرکت سلسلہ کے مفاد کے لئے ضروری ہے تو اسے کرگزرو.یہ ایک نہایت قیمتی گر ہے.سادگی اور بے تکلفی : آپ سادہ طبیعت انسان تھے اور اپنے ہاتھ سے کام کرنے کو عار خیال نہیں فرماتے تھے بلکہ دوسروں کے کام بھی آتے تھے.اور ان کی مدد سے جی نہیں چراتے تھے آپ کی جسمانی بناوٹ اور نظر کی کمزوری آپ کی علمی زندگی میں کبھی روک نہ بنیں.تصنع اور بناوٹ سے آپ کو سخت نفرت تھی آپ میں بے تکلفی کمال درجہ کی پائی جاتی تھی.طالب علموں کو آپ یہ احساس نہیں ہونے دیتے تھے کہ آپ ان کے استاد ہیں اور آپ کی بے تکلفی کا ہی یہ نتیجہ تھا کہ آپ نے اپنے شاگردوں کو آزادانہ تحقیق کا خوگر بنا دیا.آپ کا جذبہ ہمدردی : آپ نہایت ہمدرد انسان تھے.لا تعدا د لوگ آپ کی ہمدردی سے فیضیاب ہوئے.آپ کی شفقت اور ہمدردی کا دائرہ بہت وسیع تھا ہر طبقہ کے لوگوں سے آپ کے تعلقات تھے.اور ان میں سے ہر ایک کی تکلیف کا آپ کو احساس تھا.یہی وجہ ہے کہ ہر طبقہ کے لوگ آپ سے محبت کرتے.کسی کو آپ سے نفرت اور حجاب نہ تھا.سبھی آپ کی تعظیم اور احترام کرتے تھے.آپ ہر خورد و کلاں سے نرمی سے پیش آتے.ہر ایک سے اظہار اخلاص کرتے.کسی
78 77 سے بغض اور دشمنی آپ کو نہیں تھی.ہر ایک انسان کے آپ خیر خواہ تھے.ایک دفعہ قادیان کے بعض احباب نے قیمتیں گراں ہو جانے کی وجہ سے اشیائے ضرور یہ بٹالہ سے خریدنی شروع کر دیں.آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے نہایت خفگی سے فرمایا.یہ غلطی ہے اور ان تاجروں پر ظلم ہے.یہ ہمارے ہی آسرے پر دکانیں کھولے ہوئے ہیں.ورنہ ان سے کون خرید نے آتا ہے.اگر ہم نے ان سے تعاون نہ کیا اور چیزیں نہ خریدیں تو ان کو تکلیف ہوگی.اور ان پر ظلم ہو گا.اس تجویز و عمل کے برعکس اگر آپ لوگ ہی ان سے خریدنا شروع کریں.تو ان کی تجارت چل جائے گی.اور آہستہ آہستہ کم منافع پر دینے لگیں گے.“ پابندی وقت : الفضل ۶ راگست ۱۹۲۹ ء ص ۸) وقت کے آپ بڑے پابند تھے آپ باقاعدہ گھڑی اپنے پاس رکھتے.اور ہر کام کے موقع پر آپ گھڑی دیکھتے.اور اپنے پروگرام سے ایک منٹ بھی ادھر ادھر نہ ہوتے.آپ کا وقت ایک با قاعدہ پروگرام کے ماتحت صرف ہوتا تھا.کبھی آپ نے فضول وقت ضائع نہیں کیا.جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے کہ آپ کو اس بات کا نہایت احساس تھا کہ انسان کے پاس وقت بہت کم ہے.اور کام بہت زیادہ.اس لئے اس کو زیادہ سے زیادہ وقت کام میں لگا نا چاہئے تا اس کے مفوضہ کام پورے ہوسکیں اگر وہ وقت کا ضیاع کرے گا تو وہ اپنے فرائض کو کسی صورت میں پورے طور پرا دا نہیں کر سکتا.معاملات کی صفائی : آپ لین دین میں بہت کھرے تھے.کسی دوکاندار کو آپ سے شکایت نہ تھی کہ آپ کی طرف سے کوئی رقم واجب الا دا زیادہ دیر سے ادا ہوئی.بلکہ آپ خود دوکانداروں کی تنگی کے وقت ان کے کام آتے اور طلباء کو بھی آپ اس امر کی نصیحت فرماتے کہ معاملات میں صفائی نہایت ضروری ہے.اس کے بغیر دنیا میں راحت نصیب نہیں ہو سکتی.مرض الموت میں آپ نے اس امر کا خاص طور پر اہتمام کیا کہ کسی فرد کا چاہے وہ دوکاندار ہو یا کوئی اور قرض آپ کے ذمہ واجب الا دانہ رہے.تنخواہ ملنے پر آپ پہلے اپنے قرض چکاتے اور پھر باقی رقم سے گھر کے اخراجات پورے کرتے.غالباً آپ کو قریب عرصہ میں اپنی وفات کا علم ہو چکا تھا.اس لئے آپ نے انتہائی کوشش سے قرضوں کو چکا دیا.خود تکلیف برداشت کر لی.لیکن پوری کوشش فرمائی کہ خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے کے وقت اس کے کسی بندہ کا قرض آپ کے ذمہ نہ ہو.گویا یہ ایک تیاری تھی جو آپ الہی دربار میں حاضر ہونے کے لئے فرمارہے تھے.غیرت دین: گو آپ اپنی ذات میں نہایت بردبار اور منکسر مزاج تھے.لیکن دین کے بارہ میں سخت غیور واقع ہوئے تھے.آپ نے تبلیغ کے سلسلہ میں ہر قسم کی بد زبانی بختی اور تکلیف برداشت کی.لیکن جب بھی کہیں دین کے لئے غیرت کا
80 79 سوال آیا.آپ نے اپنی پرواہ نہیں کی.آپ نے مصنوعی وجاہت دنیا کی ظاہر داری یا روا داری کے پردہ میں اپنی غیرت کو دبایا نہیں.بلکہ دشمن کے سامنے ڈٹ گئے.اور اسلام اور احمدیت کے رخ زیبا کو واضح کر کے معترض کے اثر کو زائل کر کے رکھ دیا.آپ کے دشمنوں کو بھی اعتراف ہے.کہ آپ دین کے لئے نہایت غیور واقع ہوئے تھے.آپ کے اسی جذبہ کی وجہ سے پیغام صلح لا ہور نے آپ کو متشد د محمودی اور محمودیت کے لئے غالیانہ سپرٹ کا اظہار کرنے والا قرار دیا اور اخبار اہل حدیث نے اسے راسخ فی الاعتقاد ہونے سے تعبیر کیا.خلیفہ اسیح الثانی سے محبت : سید نا حضرت خلیفہ امسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے آپ کو بہت محبت تھی.طالب علمی کے زمانہ میں آپ ان کے ایک ساتھی کی حیثیت سے رہے اور اس کے بعد آپ کے ہر دینی کام میں آپ کے معین و مددگار، خلافت کے عہدہ جلیلہ پر فائز ہو جانے کے بعد سب سے پہلے بیعت کرنے والوں میں سے ایک آپ تھے.اور اس کے بعد آپ کی تائید میں آپ نے اس قدر جوش سے حصہ لیا کہ مخالفین نے کٹر محمودی اور محمودیت کے پر چار میں غلو سے کام لینے والے کا خطاب دیا.آپ اپنی کسی تکلیف کا احساس حضور کو نہیں ہونے دیتے تھے.مبادا کہ آپ کو تکلیف پہنچے.اسی طرح آپ حضور کی صحت کا خاص خیال رکھتے.اور ہرایسی چیز سے احتیاط فرماتے جس کے نتیجہ میں حضور کی صحت پر برا اثر پڑنے کا خطرہ ہو.سفر یورپ پر روانہ ہونے سے چند دن قبل ہی آپ کے بڑے بھائی پیر برکت علی صاحب فوت ہو گئے اگر چہ آپ کا دل غم کی وجہ سے ڈوبا ہوا تھا لیکن رنج و غم کے آثار چہرہ پر ظاہر نہ ہونے دیئے تا حضور کو یہ احساس نہ ہو کہ آپ سفر پر جانے سے ہچکچا رہے ہیں.آپ نے حضور کے ارشاد کی اطاعت میں اپنے اس عظیم صدمہ کو بھی بھلا دیا اور پروگرام کے مطابق سفر پر روانہ ہو گئے آپ کا بلند مقام حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی نظر میں : حضرت خلیفتہ اسیح الثانی کی نظر میں آپ کو بہت مقام حاصل تھا.حضور سفروں میں ایک عالم کی حیثیت سے آپ کو اپنے ساتھ رکھتے.اپنی بیماری کے دوران اکثر آپ کو جمعہ پڑھانے اور درس القرآن دینے کا ارشاد فرمایا.یورپ کے سفر کے دوران آپ کی علمیت کا لحاظ رکھتے ہوئے حضور نے آپ کو ہمیشہ اپنے دائیں طرف چلنے کا ارشاد فرمایا ہوا تھا.پیرس میں تبلیغی مہموں کے لئے سوچ بچار کرنے والی کمیٹی کا آپ کو صدر تجویز کیا.حضور کی موجودگی میں آپ نے کئی جلسوں کی صدارت فرمائی.اپنے پرائیویٹ کاموں میں بھی حضور آپ کا مشورہ طلب فرماتے.اور اکثر آپ کے مشورہ پر عمل فرماتے.حضرت ام وسیم صاحبہ کے رشتہ کے سلسلہ میں آپ کو سلسلہ جنبانی کے لئے مقرر فرمایا - (ملاحظہ ہو الفضل ۹ / جنوری ۱۹۲۶ء) 9966 آپ کی وفات پر حضور نے آپ کو قابل قدر دوست زبر دست حامی اسلام ” عبدالکریم ثانی“ اور ”معزز اور پیارے بھائی کے خطابات سے نوازا اور آپ کی خدمات کی وجہ سے دنیا کی تمام احمد یہ جماعتوں کو آپ کا جنازہ ادا کرنے کی ہدایت فرمائی.آپ کے بھتیجہ عبد العلی صاحب کے نام
82 81 تعزیت کے خط میں آپ کی وفات ” قومی نقصان قرار دیا.چنانچہ حضور فرماتے ہیں : حافظ صاحب کی وفات ایک قومی نقصان ہے اور اس صدمہ میں تمام جماعت آپ لوگوں کے شریک حال الفضل ۵/ جولائی ۱۹۲۹ ء ص ۱۱) ہے.ایک اور موقعہ پر حضور نے تقریر کرتے ہوئے فرمایا: میں سمجھتا ہوں میں ایک نہایت وفا دار دوست کی نیک یاد کے ساتھ بے انصافی کروں گا.اگر اس موقعہ پر حافظ روشن علی صاحب کی وفات پر اظہار رنج و افسوس نہ کروں.حافظ صاحب مرحوم نہایت ہی مخلص اور بے نفس انسان تھے.میں نے ان کے اندر وہ روح دیکھی جسے اپنی جماعت میں پیدا کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خواہش تھی.ان میں تبلیغ کے متعلق ایسا جوش تھا کہ وہ کچھ کہلوانے کے محتاج نہ تھے.بہت لوگ مخلص ہوتے ہیں کام بھی اچھا کرتے ہیں.مگر اس امر کے محتاج ہوتے ہیں کہ دوسرے انہیں کہیں.یہ کام کرو تو وہ کریں.حافظ صاحب مرحوم کو میں نے دیکھا وہ سمجھتے تھے گو خدا تعالیٰ نے خلیفہ مقرر کیا ہے.مگر ہر مومن کا فرض ہے کہ ہر کام کی نگہداشت کرے اور اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھے.وہ اپنے آپ کو سلسلہ کا ایسا ہی ذمہ دار سمجھتے تھے.جیسا اگر کوئی مسلمان بالکل اکیلا رہ جائے اور وہ سمجھے یہ ان میں ایک نہایت ہی قابل قدر خوبی تھی.اور اس کا انکار ناشکری ہو گی.یہ خوبی پیدا کئے بغیر جماعت ترقی نہیں کر سکتی کہ ہر شخص محسوس کرے سب کام مجھے کرنا ہے اور تمام کاموں کا میں ذمہ دار ہوں.میں سمجھتا ہوں ایسے ہی لوگوں کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا تھا کہ اگر مجھے چالیس مومن میسر آ جائیں تو میں ساری دنیا کو فتح کر لوں.یعنی ان میں سے ہر ایک محسوس کرے کہ مجھ پر ہی جماعت کی ساری ذمہ داری ہے اور میرا فرض ہے کہ ساری دنیا کو فتح کروں.خدا کرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خواہش سے بہت بڑھ چڑھ کر ایسے لوگ ہوں.جیسا کہ نبیوں کے متعلق خدا تعالیٰ کی سنت ہے.ایسے چالیس آدمی نہیں بلکہ لاکھوں میسر کر دے جن میں سے ہر ایک یہ سمجھے کہ آسمان اور زمین کا بار اٹھانا اسی کا فرض الفضل ۷/جنوری ۱۹۳۰ء ص۳) ہے.حضرت میر محمد اسحاق صاحب فوت ہوئے تو حضور نے فرمایا.میر محمد اسحاق صاحب خدمات سلسلہ کے لحاظ سے غیر معمولی وجود تھے.در حقیقت میرے بعد علمی لحاظ سے جماعت کا فکر اگر کسی کو تھا تو ان کو رات دن قرآن و حدیث لوگوں کا پڑھانا ان کا مشغلہ تھا.وہ زندگی کے آخری
84 83 دور میں کئی بارموت کے منہ سے بچے.جلسہ سالانہ پر وہ ایسا اندھا دھند کام کرتے کہ کئی بار ان پر نمونیا کا حملہ ہوا.ایسے شخص کی وفات پر طبعا لوگوں میں یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اب ہم کیا کریں گے...حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم اس طرز کے آدمی تھے.ان کے بعد حافظ روشن علی صاحب مرحوم تھے اور تیسرے اس رنگ میں میر صاحب رنگین ( الفضل یکم اپریل ۱۹۴۴ء ص ۱) تھے.“ ایک دفعہ حضرت حافظ صاحب کی شادی ایک ایسی عورت سے تجویز ہوئی جس کے متعلق حضور کو علم تھا کہ وہ سل و دق کی مریضہ ہے آپ نے بڑے جوش سے فرمایا.ڈالنا چاہتا.“ میں سلسلہ کے ایک قیمتی وجود کو خطرہ میں نہیں الفضل ۴ را کتوبر ۱۹۲۹ ، ص ۷ ) ( خلافت ثانیہ کے ) ابتدائی زمانہ میں میں سمجھتا ہوں کہ جو کام حضرت حافظ روشن علی صاحب کو کرنے کا موقعہ ملا وہ کسی اور کو نہیں ملا.وہ صف اول کے جرنیل تھے.انہوں نے مخالفین خلافت سے متواتر مباحثات کئے اور ان پر خلافت کی ضرورت اور اہمیت واضح کی.( الفضل ۳۱ / جولائی ۱۹۴۹ ء ص ۵) یورپ کے سفر سے واپسی پر قادیان میں حضور کے ارشاد پر حضرت حافظ صاحب کی قیادت میں ہی احباب نے یہ دعا د ہرائی.ائِبُونَ تَاتِمُونَ عَابِدُونَ لِرَبِّنَا حَامِدُونَ صِدْقِ اللَّهُ وَعْدٌ وَنَصَرِ عَبْدَهُ وَيَرُمِ الْأَحْزَابِ وَحْدَه - (الفضل ۲۹ نومبر ۱۹۲۴ ء ص ۷ ) سندھ میں تحریک جدید انجمن احمدیہ کی زرعی جائیداد میں جب الگ الگ بستیاں آباد کرنے کی ضرورت پڑی تو حضور نے ان بستیوں کے نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اہم صحابہ کے ناموں کو زندہ رکھنے کے لئے ان کے نام پر رکھے.ان بستیوں میں ایک بستی کا نام حضرت حافظ روشن علی صاحب کی اہمیت و عظمت کے پیش نظر آپ کے نام مبارک پر روشن نگر“ رکھا.تا سلسلہ کی خاطر جو قربانی آپ نے پیش کی.اس کی یاد کو تازہ رکھا جا سکے.(ملاحظہ ہو الفضل ۲ را پریل ۱۹۴۴ء) آپ کی علمی یادگاریں : آپ کی نظر کمزور تھی.جس کی وجہ سے آپ خود کچھ نہیں لکھ سکتے تھے.اس لئے آپ کی تصانیف بہت شاذ ہیں آپ کی سب سے بڑی علمی یادگار آپ کا ترجمہ القرآن ہے جو آپ نے نہایت سلیس اردو میں مکمل کیا ہے.اور جماعت میں بہت مقبول ہے.اس ترجمہ کے ساتھ قرآن کریم کے مضامین کی ایک فہرست بھی لگا دی گئی ہے.اور فقہ احمد یہ جماعت احمدیہ کے مسلک کے مطابق فقہ کے ابتدائی اور موٹے موٹے مسائل پر یہ کتاب مشتمل ہے اور جن لوگوں کی دینی تعلیم بہت کم ہے ان کے لئے نہایت مفید کتاب ہے جو انہیں روزمرہ کی زندگی کے ساتھ واسطہ رکھنے والے مسائل سے واقفیت بہم پہنچاتی ہے.(۳) جلسہ سالانہ ۱۹۲۸ء کے موقعہ پر آپ نے جو تقریر فرمائی اور جس کا
86 85 عنوان صداقت مسیح موعود تھا.بعد میں علیحدہ علیحدہ طور پر چھپوا دی گئی.(۴) اسی طرح آپ نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۲ء کے موقعہ پر جو تقریر ” معیار صداقت انبیاء کے موضوع پر سکی وہ بھی بعد میں زیر طباعت سے آراستہ ہوئی.( ۵ )۱۹۲۳ء میں آپ نے جلال پور چٹاں ضلع گجرات میں شیعوں سے عظیم الشان مباحثہ کیا تھا.جو منتظمین نے اہل سنت و الجماعت جلال پور جٹاں کی طرف سے’الحق“ کے نام سے شائع کیا.(۶) آپ نے لنڈن میں تصوف کے موضوع پر جو تقریر کی وہ سید نا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی تقریر ( جو آپ نے بر موقعہ ویمبلے مذہبی کا نفرنس لنڈن ) کے ساتھ ” مجمع البحرین“ کے نام سے چھپی ہوئی موجود ہے.ایک یہ چند تصانیف ہیں جن کا لائبریری میں موجود ریکارڈ سے علم ہو سکا ہے.ہو سکتا ہے کہ اس کے علاوہ بھی بعض مضامین علیحدہ رنگ میں شائع ہوئے ہوں.ویسے جلسہ سالانہ کے موقع پر جو تقاریر آپ نے اپنی زندگی میں فرمائیں ان میں سے اکثر تقاریر عملہ الفضل کی طرف سے الفضل کے فائلوں میں محفوظ کر دی گئی ہیں اور تحقیق دین کا شوق رکھنے والوں کے لئے نہایت قیمتی اور دل چسپ موادان کے اندر موجود ہے.بیماری اور وفات : حضرت حافظ صاحب کئی سالوں سے ذیا بیطس کی مرض میں مبتلا تھے.آپ نے اس کی زیادہ پرواہ نہ کی صبح و شام علمی مشاغل میں مشغول رہے اور علاج معالجہ کی طرف زیادہ توجہ نہ کی.نتیجہ یہ ہوا کہ بیماری کے ساتھ ساتھ دماغی محنت نے صحت پر اور برا اثر ڈالا اور اصل مرض سے زیادہ اور عوارض پیدا ہو گئے.وفات سے کوئی دو سال قبل پیشاب میں ایلیپو من خارج ہونے لگ گئی.اور کچھ عرصہ کے بعد اعصابی قسم کے عوارض بھی لاحق ہو گئے اور گردے میں رکاوٹ کی وجہ سے خون میں زہریلے مواد پیدا ہو گئے.جن کی وجہ سے دل اور دماغ پر زہریلا اثر نمودار ہونے لگا.آپ کی بصارت پر بیماری کا نہایت نا خوشگوار اثر پڑا.ڈاکٹری مشورہ کے ماتحت آپ کی دماغی مشقت کم کرائی گئی.اور علاج کی طرف با قاعدہ توجہ کی گئی اور اس خیال سے کہ شاید تبدیلی آب و ہوا کی وجہ سے صحت پر کوئی اچھا اثر پڑ جائے.آپ کو کشمیر بھجوایا گیا.لیکن اس سے کوئی فائدہ پہنچنے کی بجائے بیماری میں اور زیادہ اضافہ ہو گیا دل کی حرکت تیز ہو گئی اور تنگی تنفس کے دورے پڑنے لگے.یہ دورے ہفتہ دو ہفتہ کے بعد ہو جاتے تھے.جامعہ احمدیہ سے جہاں بطور پروفیسر تعینات تھے.آپ کو دفتری طور پر چھ ماہ کی رخصت دلائی گئی.لیکن سردی کے بڑھنے کے ساتھ آپ کی تکلیف میں اضافہ ہوتا گیا.اور ایک وقت ایسا آیا کہ بیماری تشویشناک حالت تک بڑھ گئی.سلسلہ کے ایک جید عالم ہونے کی وجہ سے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کے علاج کی طرف خاص اور ذاتی طور پر توجہ فرمائی.اور آپ کے معالج محترم ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کے ساتھ مزید ڈاکٹروں کو بھی آپ کے علاج معالجہ پر خاص توجہ دینے کا ارشادفرمایا - چنانچہ آپ کے ارشاد کے ماتحت حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب مرحوم اور ڈاکٹر سید حبیب اللہ صاحب مرحوم نے محترم ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کے ساتھ مل کر باہمی مشورہ سے حضرت حافظ صاحب کا علاج کرنا شروع کیا.اور ان حضرات کی
88 87 شب و روز کی توجہ کے نتیجہ میں بیماری میں افاقہ ہونا شروع ہوا.اور صحت میں ترقی گو بتدریج ہو رہی تھی لیکن بہر حال یہ امید بندھنے لگی کہ تھوڑے عرصہ میں اگر خدا تعالیٰ نے چاہا تو آپ کو کامل شفا ہو جائے گی.حضرت حافظ صاحب کو علاج کے نتیجہ میں اس قد رافاقہ ہو گیا تھا کہ آپ نے جلسہ سالانہ ۱۹۲۸ء میں بطور سا مع شرکت فرمائی لیکن جلسہ سالانہ کے اگلے روز یعنی ۲۹ / دسمبر ۱۹۲۸ء کی شام کو دماغ میں جریان خون کی وجہ سے آپ کے دائیں جانب فالج کا شدید حملہ ہوا.جس کی وجہ سے گویائی پر بھی برا اثر پڑا.اور بیماری دوبارہ تشویشناک صورت اختیار کر گئی.لیکن چند گھنٹہ کی تگ و دو اور طبی امداد کے نتیجہ میں قدرے افاقہ کی صورت پیدا ہوگئی.اور بعد میں بتدریج صحت میں ترقی ہوتی گئی.قوت گویائی میں بھی نمایاں فرق پڑ گیا.ہاتھ پاؤں میں حرکت پیدا ہوگئی.اور وہ وقت بھی آ گیا کہ آپ چھڑی کا سہارا لے کر چل پھر بھی لیتے تھے.۱۹۲۹ ء کی شوریٰ میں آپ نے شمولیت فرمائی اور حسب معمول تلاوت قرآن کریم بھی کی.آپ نے ۱۴ ر ا پریل ۱۹۲۹ء کو ڈاکٹر میجر شاہ نواز صاحب کو اپنی صحت کے متعلق لکھا کہ : میری صحت اب محض خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ترقی کر رہی ہے.قریباً پچاس قدم تک لاٹھی کے سہارے چل سکتا ہوں.امید ہے وہ قا در خدا بہت جلد صحت دے گا.تیل عازف کی مالش ہو جاتی ہے.یہ خدا کا فضل تھا جو مجھ پر ہو گیا.ورنہ ایسی بیماری میں جانبر ہونا مشکل نظر آتا تھا.آب دعا جاری رکھیں.“ - الفضل ۴ اکتوبر ۱۹۲۹ ، ص ۷ ) بہر حال صحت میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا.لیکن جون ۱۹۲۹ء میں وفات سے کچھ دن قبل عوارض نے اچانک ایسی صورت اختیار کر لی کہ دوا تک جسم کے اندر پہنچانا محال ہو گیا.اور چند ہی روز میں آپ شدید نڈھال ہوئے.علاج معالجہ بے کا ر ہو کر رہ گیا.آخر اللہ تعالیٰ کی مشیت پوری ہوئی.اور آپ ۲۳ / جون ۱۹۲۹ء کی شام کو حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے اپنے مالک حقیقی سے جاملے اور اس طرح یہ علم و فضل کا آفتاب جو چھوٹے بڑے امیر وغریب اپنے اور پرائے سب کو یکساں طور پر اپنے خدا تعالیٰ کے نور سے مستفید کر رہا تھا.صفحہ عالم سے ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا - انا لله و انا اليـــه راجعون - آخر وقت تک آپ کے حواس قائم تھے.اور آپ اپنے شاگردوں اور دوسرے پاس بیٹھنے والوں سے باتیں کرتے رہے.آپ کی گفتگو سے معلوم ہوتا تھا کہ نہ صرف آپ کو اس دنیائے فانی سے کلی انقطاع کا علم ہو چکا ہے.بلکہ آپ اس کے لئے بے تاب و بے قرار ہیں.حضور کا تعزیتی تار حضرت حافظ صاحب کی وفات کے موقع پر حضرت خدید امتع الثانی رضی اللہ عنہ سری نگر کشمیر میں تھے.چنانچہ مقامی امیر جماعت مولانا شیر علی صاحب نے آپ کو اس صدمہ جانکاہ کے متعلق بذریعہ تا ر ا طلاع دی.آپ -
90 89 نے اس کے جواب میں ۲۴ جون کو مندرجہ ذیل تعزیت کا تار روانہ فرمایا.مولوی شیر علی صاحب کا تار حافظ روشن علی صاحب کی وفات کے متعلق پہنچا.انـــا الله و انـــا اليـــه راجعون.مجھے بہت ہی افسوس ہے کہ میں وہاں موجود نہیں ہوں تا کہ اس قابل قدر دوست اور زبر دست حامی اسلام کی نماز جنازہ خود پڑھا سکوں.حافظ صاحب مولوی عبد الکریم صاحب ثانی تھے.اور اس بات کے مستحق تھے کہ ہر ایک احمدی انہیں نہایت ہی عزت و توقیر کی نظر سے دیکھے.انہوں نے اسلام کی بڑی بھاری خدمت سرا نجام دی ہے.اور جب تک یہ مقدس سلسلہ دنیا میں قائم ہے انشاء اللہ ان کا کام کبھی نہ بھولے گا ان کی وفات ہمارے سلسلہ اور اسلام کے لئے ایک بڑا صدمہ ہے لیکن ہمیشہ ایسے ہی بڑے صدمے ہوتے ہیں.جنہیں اگر صبر کے ساتھ برداشت کیا جائے تو وہ خدا تعالیٰ کے فضلوں کے جاذب بن جاتے ہیں.ہم سب فانی ہیں.لیکن جس کام کے لئے ہم کھڑے کئے گئے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے جو موت و حیات کا پیدا کرنے والا ہے اور وہ غیر معلوم اسباب کے ذریعہ اپنے کام کی تائید کرے گا.چونکہ ہماری جماعت ہمارے پیارے اور معزز بھائی کی خدمات کی بہت ممنون ہے.اس لئے میں درخواست کرتا ہوں کہ تمام دنیا بھر کی احمد یہ جماعتیں آپ کا جنازہ پڑھیں.یہ آخری خدمت ہے جو ہم اپنے مرحوم بھائی کی ادا کر سکتے ہیں.لیکن یہ بدلہ ان بیش قیمت خدمات کے مقابلہ میں جو انہوں نے اسلام کے لئے کیں کیا حقیقت رکھتا ہے.میں احباب کے ساتھ سری نگر میں نماز جنازہ پڑھوں گا اگر لاش کے متغیر ہو جانے کا خوف نہ ہوتا.تو التوائے تدفین کی ہدایت دے کر میں اس آخری فرض کو ادا کرنے کے لئے خود قادیان آتا.اللہ تعالیٰ ان لوگوں پر جو ہم سے رخصت ہو گئے ہیں اور ان پر بھی جو زندہ ہیں اپنی رحمتیں نازل فرمائے.“ الفضل ۲۸ / جون ۱۹۲۹ء ص ۱) نماز جنازه و تدفین : حضرت حافظ صاحب کے رشتہ داروں کو آپ کی آخری زیارت اور نماز جنازہ میں شرکت کا موقعہ دینے کی غرض سے ۲۴ / جون ۱۹۲۹ء کی گاڑی تک انتظار کیا گیا.گیارہ بجے کے قریب آپ کا جنازہ حضرت نواب محمد علی خان صاحب کی کوٹھی سے کہ جہاں آپ آخری دنوں میں مقیم تھے اٹھایا گیا.قادیان اور بیرونی جماعتوں کے احباب کی ایک کثیر تعدا د ساتھ تھی.جن کے کندھوں پر یہ جسم اطہر باری باری منتقل ہوتے ہوئے باغ میں پہنچایا گیا.جہاں
92 91 حضرت مولانا شیر علی صاحب امیر مقامی نے ہزاروں افراد کی معیت میں نماز جنازہ ادا کی.اور اس کے بعد مسیح وقت کے اس بے مثال شیدائی - دربار خلافت کے انمول رتن میدان تبلیغ کے عظیم سالار عظیم شاگردوں کے عظیم اور مشفق استاد، ہمدرد خلائق وجود اور رسول و قرآن کے عاشق صادق کو بہشتی مقبرہ کی پاک سرزمین میں سپردخاک کر دیا گیا.اور اس طرح وہ پاک قطعہ زمین آپ کی آخری آرام گاہ بنا.جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تحریر فرمایا کہ: ایک جگہ مجھے دکھلائی گئی اور اس کا نام بہشتی مقبرہ رکھا گیا.اور ظاہر کیا گیا کہ وہ ان برگزیدہ جماعت کے لوگوں کی قبریں ہیں جو بہشتی ہیں.“ (الوصیت ) پھر فرمایا : میں دعا کرتا ہوں کہ اے میرے قادر خدا اس زمین کو میری جماعت میں سے ان پاک دلوں کی قبریں بنا جو فی الواقع تیرے لئے ہو چکے.اور دنیا کی اغراض کی ملونی ان کے کاروبار میں نہیں.آمین یارب العالمین.“ ( الوصیت ) جماعت کی طرف سے غیر معمولی طور پر غم والم کا اظہار : حضرت حافظ صاحب گونا گوں صفات کے مالک تھے اور نہ صرف نیکی و تقوی اور علم و قابلیت کے لحاظ سے ایسے انسان تھے.جو دنیا میں کبھی کبھار پیدا ہوتے ہیں بلکہ مفید خلائق اور نیکی کے مجسمہ تھے.آپ کے احسانات اپنوں اور غیروں قریباً سب پر تھے.اس لئے آپ کی وفات کا صدمہ غیر معمولی طور پر محسوس کیا گیا.حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام ،حضرت مولانا نورالدین صاحب خلیفہ اصیح الاول اور حضرت مولانا عبدالکریم صاحب کے صدمات کے بعد اس صدمہ نے جماعت کے افراد کے دلوں کو ہلا دیا اور ہر طبقہ اور ہر پیش کے لوگوں نے اس صدمہ کو اپنے لئے ایک عظیم صدمہ قرار دیا.میں اپنے مفوضہ کام کی وجہ سے الفضل اور الحکم کے فائلوں کا اکثر مطالعہ کرتا رہتا ہوں.میں نے محسوس کیا ہے کہ جس صدمہ کا اظہار آپ کی وفات پر کیا گیا وہ عظیم ہے اور یہ اس بات کی شہادت ہے کہ آپ کا وجود کوئی عام وجود نہ تھا.بلکہ ایسا وجود تھا جسے خدا تعالیٰ اپنی کسی مصلحت کی بناء پر کبھی کبھار دنیا میں بھیجتا ہے.اور جب وہ اسے واپس بلا لیتا ہے تو صدیوں تک اس کا انتظار کیا جاتا ہے.روز نامہ الفضل نے آپ کی وفات کے صدمہ کو غیر معمولی سانحہ اور روح میں کپکپی پیدا کر دینے والا واقعہ قرار دیتے ہوئے لکھا: آہ! علم و حکمت کا وہ آفتاب جو چھوٹے بڑے امیر وغریب اپنے پرائے سب کے لئے یکساں ضوفشاں تھا - ۲۳ / جون کی شام کو صلح عالم سے ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا.یعنی علامہ حافظ روشن علی صاحب کا انتقال ہو گیا.انا لله و انا اليه راجعون حضرت حافظ صاحب کیا بلحاظ تقوی وطہارت اور کیا بلحاظ علم و قابلیت
94 93 اور کیا بالحاظ عادات و اخلاق ایسے انسان تھے جو خدا تعالیٰ کی خاص جماعتوں میں بھی خاص طور پر ہی پیدا کئے جاتے ہیں.باوجود اس کے کہ آپ آ نکھوں سے قریباً معذور تھے اور لکھ پڑھ نہیں سکتے تھے پھر بھی آپ کی دینی علمیت اور قابلیت کا یہ عالم تھا کہ غیروں کو بھی کھلے دل سے اس کا اعتراف تھا.آپ کے بے شمار شاگردوں کو ہی آپ کی ذات پر فخر نہ تھا بلکہ آپ کے استاد حضرت خلیفہ امسیح الا ول کو بھی آپ پر ناز تھا اور سچ تو یہ ہے کہ اس بے نظیر استاد کے بے نظیر شاگرد نے جس طرح حیرت انگیز طریق سے اپنے استاد سے علم حاصل کیا اسی طرح مخلوق خدا کو کھلے دل سے مستفیض بھی کیا.اس وقت نہ صرف قادیان میں بلکہ ساری جماعت میں ایسے لوگ کم ہی ہوں گے جنہوں نے آپ سے کچھ نہ کچھ نہ سیکھا ہو.بلکہ بہت سے غیر از جماعت لوگوں کو بھی آپ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقعہ ملا.ایسے مفید خلائق اور نیکی مجسم انسان کا انتقال کوئی معمولی سانحہ نہیں جسموں کو ہلا دینے والا اور روح میں کپکپی پیدا کرنے والا واقعہ ہے کوئی شخص جو آپ سے تھوڑا بہت بھی تعارف رکھتا ہوا ایسا نہ ہو گا جسے آپ کی وفات کی خبرسن کر رنج و غم نہ ہو گا لیکن وہ جنہیں آپ سے روحانی فیض پہنچا.وہ جن کے لشکر کا یہ فتح نصیب جرنیل ہی نہیں بلکہ جرنیل گر تھا.ان کے غم والم کا کون اندازہ کر سکتا ہے.آہ! آج دربار خلافت کا ایک محبوب رتن چل بسا - آہ! آج ہمارے بزرگ ترین علماء کی بزم کو ایک چوٹی کا عالم خالی کر گیا.آہ ! آج ہمارے تبلیغ اسلام کے مجاہدوں کا سرلشکر اپنے جرنیلوں کو داغ مفارقت دے گیا.آہ! آج احباب کی محفل کو اپنی خوش گفتاری سے گرمانے والا اور خوش کلامی سے افسردہ دلوں کو ہنسانے والا ہمیشہ کے لئے خموش ہو گیا.آہ ! آج چھوٹوں کا شفیق اور ہم عصروں کا رفیق اٹھ گیا.پھر کون ہے جو رنج والم سے نڈھال نہ ہوا اور کون ہے جس کے لئے آپ کی مفارقت کا صدمہ جا کاہ نہ ہو.لیکن بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر اس لئے دل دوز آہ کے ساتھ ہر ایک کے منہ سے صرف إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجَعُونَ نکل رہا ہے.ہمارے دل میں درد، آنکھوں میں آنسو اور لب پر آہ ہے لیکن اس موت پر رشک بھی ہے.واللہ! جی چاہتا ہے ہم میں سے ہر ایک کی موت ایسی ہی موت ہو کہ خدا کی راہ میں اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ صرف کر دینا اور مخلوق خدا کی خدمت گذاری میں گداز ہو کر مرنا دراصل مرنا نہیں بلکہ جینا ہے اور جسے یہ زندگی حاصل ہو جائے اس سے بڑھ کر خوش قسمت اور کون ہوسکتا ہے.علامہ مرحوم و مغفور کی صفات اور خوبیاں اتنی غیر معمولی ہیں کہ نہ تو کسی ایک مضمون میں ان کا احاطہ کیا جا سکتا ہے اور نہ رنج والم کی حالت میں ایسا کرنا ممکن ہے اس کے لئے سکون قلب کی ضرورت ہے اور امید ہے حضرت حافظ صاحب مرحوم کے مخلص دوست اور شاگردان رشید جن کا حلقہ بفضل خدا بہت وسیع ہے اس کام کو خوش اسلوبی سے سرانجام دیں گے.“ الفضل ۲۸ / جون ۱۹۲۹ ، ص ۲) حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب نے آپ کی وفات پر
96 95 اظہار غم ان الفاظ میں کیا ہے.”دل حزیں میرا ہے آنکھ اشکبار ایک دم آتا نہیں مجھ کو قرار روح میری آج ہے اندوہ گیں کیا کہوں مجھ آه لب پر مصیبت کیا پڑی پر عشق تھا قرآں سے اس کی روح کو مرتبہ عالی وہ تھا اور داغدار کیوں تڑپ اٹھتا ہوں میں یوں بار بار کس کے غم میں حال میرا غیر ہے آہ ہم کس لئے روتا ہوں میں زار و نزار چھٹ گیا استاد وہ جس کے تھے احسان ہم پر بیشمار جس کی شاگردی ہمارا فخر تھا اس گلستاں کا وہ تھا گویا ہزار رکھتا تھا مگر جانتے سب ہیں کہ تھا وہ خاکسار امور دین میں غیور وہ گرچہ اپنی ذات میں تھا بردبار اس کے غم میں آج سب محزون ہیں دیکھتا جس کو ہوں خدمت دیں کے لئے وہ وقف تھا وہ ہے دلفگار چھوڑ کر دنیا کے سارے کاروبار اور سب کچھ کر چکا قربان جب نقد جاں بھی کر دیا آخر نثار صد مبارک تجھ کو اے روشن علی جس کی تلمیذی میں تھا اپنا وقار سرخرو ہے پیش کردگار حق تعالیٰ تجھے ނ خدمتیں تیری سبھی سبھی مقبول ہوں شہ سوار ہو تجھے حاصل رضا اللہ کی چل بسا ہے دار فانی چھوڑ کر وہ جو تھا اک دیں کا گوہر آبدار فوج حقانی کا واحد فرد فرد تھا خیل ربانی کا تھا درس و تدریس اس کا شغل تھا اتقا وہ اور زہد تھا اس کا شعار جاتا ہو راضی مدام پہ ہوں افضال اس کے بیشمار اور ہو خاصان حق میں تو شمار خوش ہو انبیاء کا تاجدار الفضل ۹؍ جولائی ۱۹۲۹، ص۲)
98 97 حضرت میر محمد اسحاق صاحب جن کے ساتھ عالم جوانی سے موت تک حضرت حافظ صاحب کو کام کرنا پڑا.درجنوں تبلیغی میں باہم اکٹھے رہے.مناظروں اور مباحثوں میں مل کر دشمنان اسلام کا متحد ہو کر مقابلہ کیا ان سے بڑھ کر بھلا حضرت حافظ صاحب کی سیرت اور شان کو کون جان سکتا ہے.آپ نے حضرت حافظ صاحب کی وفات کو اسلام اور احمدیت کے لئے ایک عظیم صدمہ قرار دیتے ہوئے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت نورالدین اعظم کو چھوڑ کر سلسلہ عالیہ احمدیہ کی تاریخ میں مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم کی وفات کے بعد کوئی حادثہ حافظ صاحب مرحوم کی وفات کے حادثہ جیسا نہیں ہوا.66 ( الفضل ۲۸ - جون ۱۹۲۹ ء ص ۷ ) حضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحب گو ہر حضرت حافظ صاحب کا مرثیہ کہتے ہوئے فرماتے ہیں : ” ہائے اے روشن علی اے واعظ شیر میں بیاں تیرا علم حافظ قرآنِ پاک و عالم دین متین و اتقا وہ تیرا درس دلربا وہ ترا صدق صفا - خلق میں وہ تیری تقریر دلکش دار با طرز سخن و صحبت خوش تیری ہم کو بھول سکتی ہی نہیں تیری ہر اک بات تھی راحت فزا و دلنشیں تو سراپا نور تھا اے پاکباز و پاک دل پہلوان حق تھا تو میدان علم و فضل میں تیرے دم سے آسماں رتبہ بنی تھی یہ زمیں تو ہر اک میداں میں لڑتا تھا صداقت کے لئے خدمتیں کیں دیں کی اور سچ تو یہ ہے خوب کیں تیرے علم وفضل کا دشمن کو بھی تھا اعتراف تیری عظمت ان کے دل میں ہو گئی تھی جاگزیں استقامت اور ہمت تجھ پر ہوتی تھی فدا تجھ پہ کرتی تھی شجاعت اور سعادت آفریں پاکبازی سے تری دشمن بھی حیراں تھے بہت رہتی تھی ناکام ان کی چشم ہائے عیب مبیں دل لبھاتی تھی وہ تیری صوفیانہ زندگی کان ہیں مشتاق تیری نغمہ سنجی کے بہت تیری خوش الحانیاں دنیا نہ بھولے گی کبھی تیری مداحی میں تھا رطب اللسان ہر نکتہ چیں کچھ ترنم اور بھی اے طوطی سدرہ نشیں یاد کر کے روئے گا تجھ کو ہر اک اہل یقیں سامنے آنکھوں کے لے آتا تھا بزم نور دیں ماہ رمضاں میں وہ تیرا درس قرآن مجید
100 99 تیرے استادوں کو شاگردی یہ تیری ناز تھا بزم علم و فضل میں ان کا رہا تو جانشیں دہر و دلکش تھی تیری خوش بیانی اے اخی تھی تیری شیریں کلامی رشک قند انگیں دور آخر میں بھی اپنے علم و زہد وفضل سے تو نے دنیا کو دکھا دی بزم دور اولیں تو نے جو عہد وفا باندھے تھے سب پورے کئے آفریں اے مرد میدان وفا صد آفریں مرتے دم تک خدمت دینی میں تو مصروف تھا یاد تھی تبلیغ تجھ کو وقت انفاس پسیس تربیت کی تو نے مخلوق خدا کی رات دن کیوں نہ راضی اور خوش ہو تجھ پہ رب العالمین کیا ہوا اگر قبر نے آغوش اپنی بند کی کھل گئی تیرے لئے آغوش خیر المرس تیری فرقت ماتم قوی و ملی ہے مگر مومن و محسن رہا جب تک کہ دنیا میں رہا سلمين قابل صد رشک ہے یہ موت تیری بالیقیں سرخرو ہو کر گیا تو پیش خیمہ المحسنین اے زہے قسمت کہ دنیا کی کشاکش سے چھٹا تو صحبت احمد ہے، ہے، اور فردوس بریں تو ہے ہم آغوش علیش جاوداں فردوس میں دل سے اٹھتے ہیں ہمارے نالہ ہائے آتشیں ہم کو دے روشن علی جیسے ہزاروں اے خدا تا کہ طول و عرض دنیا میں ہو پھر ترویج دیں الفضل ۵/ جولائی ۱۹۲۹، ص۲) مکرم ایم عبدالمجید صاحب طالب احمدی جہلمی نے آپ کی وفات پر لکھا کہ آپ کی وفات کی وجہ سے جوصد مہ جماعت کو پہنچا ہے اس صدمہ کی وجہ سے ہم افراد جماعت ساری عمر رویا کریں گے.چنانچہ آپ اپنے آنسو اشعار کی صورت میں یوں بہاتے ہیں : آنکھیں ہیں اشک بار تو دل سوگوار ہے ہر سانس ایک نالہ بے اختیار ہے تئیس جون کی شب غم ناک ! الاماں روشن علی سے عالم جيد جدا ہوئے غم آپ کی جدائی کا ہے دل پہ اس قدر دل چاک چاک ہو گیا صدمے سے نا گہاں چھوڑا جہاں کو راہی ملک بقا ہوئے آنسو ہیں اور ان میں ہے ڈوبی ہوئی نظر حاصل ہوا تھا آپ کو دنیا میں افتخار تھے آپ علم و فضل میں باہوش و ہوشیار
102 101 مخلص بھی تھے خلیق بھی تھے مہربان بھی ہوتے نہ تھے کسی سے کبھی بدگمان بھی تھے آپ قوم و مذہب و ملت کے رہنما تھے آپ ہر طرح سے طریقیت کے رہنما اوصاف آپ میں تھے ہزار اور بہتریں ایک ایک بات آپ کی گوہر تھی بالیقیں روئیں گے آپ کے لئے جب تک جئیں گے ہم جب تک ہے زیست یاد میں مضطر رہیں گے ہم بھولے گی آپ کو نہ کبھی وسعت جہاں مرنے کے بعد جیتی ہیں نیکوں کی نیکیاں طالب مری دعا کے یہ جملے قبول ہوں! جنت ہو اور آپ ہوں.رحمت کے پھول ہوں“ الفضل ۱۲؍ جولائی ۱۹۲۹ ، ص ۲) محترم ملک عبدالرحمان صاحب خادم مرحوم نے آپ کی وفات پر یوں صدمہ کا اظہار کیا.ہر طرف ہے آج کیوں رنج والم کا ہی سماں؟ آج کیوں تاریک ہے نظروں میں یہ سارا جہاں؟ کس کی فرقت کا ہے غم ہر اک کے سینہ میں نہاں ! کیوں ہماری بے کسی پر رو رہا ہے آسماں؟ آہ کیوں آتے نہیں ہم کو نظر روشن علی؟ ایک پل میں چل دیئے ہائے! کدھر روشن علی؟ اے علمبردار وحدت! حامی دین متیں! اے سراپا علم! تلمیذ رشید نور دیں ایک تو تھا محبط انوار رب العالمیں ایک تو تھا مشعل علم و ہدایت بھر دیں آج تیری موت نے سب کو پریشاں کر دیا حرف حرف آرزو حسرت کا دیواں کر دیا پیارے حافظ جی! ہے فرقت سخت ہم کو ناگوار ملت موعود مرسل اس لئے چشم ہر اہل بصیرت ہو گئی ہے اشکبار جوش حشت سے میں کرنے کو ہوں دامن تار تار جار ہے ہیں آپ ہم سے کس لئے منہ موڑ کر سوگوار ہے اس قدر احباب کے حلقے کو گریاں چھوڑ کر اور مقصد کچھ نہ جز تبلیغ تھا مد نظر یاد وہ دن جبکہ ہم رہتے تھے سب شیر و شکر یعنی دنیائے ہم کا ایک ہی تھا بحر و بر بلبلیں محو ترنم گرد گل ھیں بے خطر کر لیا گم دامن ظلمت میں دن کو شام نے کر دیا ہم کو پریشاں گردش ایام نے
104 103 یاد ہیں ہم کو عناول کی ترنم ریزیاں اور مرغان چمن کی ہر طرف نو خیزیاں شبکه برگ گل پہ شبنم کی تھیں عنبر ریزیاں بہر استیصال غم باد صبا کی تیزیاں ایک جھونکے میں فنا باد خزاں نے کر دیا آپ کو ہم سے جدا اس آسماں نے کر دیا وہ تری طرز ادا.رنگیں بیانی یاد ہے وہ ترا تقوی تری قرآن دانی یاد ہے جلسہ سالانہ پر شیریں بیانی یاد ہے یاد ہے وہ اسلام کے لیڈر کے ثانی یاد ہے آه! اب تو خواب کا عالم ہی آتا ہے نظر تیری شمع زندگی کا آ گیا وقت سحر ہاں مگر جانا بھی ہے پھر ہم سے ملنے کی دلیل یعنی اگلی زندگی ہو گی پنپنے کی دلیل جذب پانی ہے زمیں سے پھر نکلنے کی دلیل اور ہونا بند غنچے کا ہے کھلنے کی دلیل شرط یہ ہے کہ دعا کرنا ہمارے واسطے سلسبیل موت میں بہنا ہمارے واسطے الفضل ۲۳ / جولائی ۱۹۲۹ء ص ۲) مکرم مولوی محمد ایوب صاحب ثاقب میرزا خانی نے آپ کا مرثیہ دد کہتے ہوئے یوں لکھا قلزم علم شریعت اور دریائے علوم اس کے سینہ میں نہاں لولوئے لالائے علوم علوم کشور علم الہی میں سکندر کی مثال اور دانائے علوم پاک دارائے علوم اس کے ہاتھوں میں مزین خاتم علم و ادر وہ سلیمان کی طرح فرماں فرمائے چشم دل پر نور اس کی گو بصارت تھی ضعیف گوش ہوش اس کے تھے گویا چشم بینائے علوم کان کے رستہ سے اس نے پی لئے علم و ادب کیا کہوں سن سن کے اس نے کس طرح کھائے علوم موتیوں سے بھی گراں قدر اس نے پھیلائے علوم علم و فن کے لعل اگلتا تھا وہان پاک سے معدن علم و ہنر وہ مخزن فضل و کمال کتنے فاصلے ہو گئے جب اس نے بتلائے علوم عالم و فاضل پہ اس پر عامل کامل تھا وہ ایسا کامل تھا کہ اپنے علم کا عامل تھا وہ کون ایسا درس قرآن اب سنائے گا ہمیں کون اب رفق و مدار سے بٹھائے گا ہمیں
106 105 طوطئے شکر شکن کے آہ وہ نغمے کہاں کون حقانی ترانے اب سنائے گا ہمیں ہے ہزار نغمہ سنج احمدیت دم بخود وجد میں اور بے خودی میں کون لائے گا ہمیں اف جگانے والے نے ملک بقا کی راہ لی دیکھئے اب کون غفلت سے جگائے گا ہمیں خار بن کر اک خلش پیدا کرے گا روز و شب پر تو تھا اس میں نور الدین عالیجاہ کا نور دین احمد والا دوبارہ کر گیا وعظ شوکت سے بھرے کہہ کر بآواز بلند احمدیت کا جہاں میں بول بالا کر گیا منکران دین کو نیچا دکھا کر چل بسا کلمه اسلام دنیا میں اونچا کر گیا ہو گئی کمزوریاں بیماریاں کافور سب درد اب اس کی جدائی کا ستائے گا ہمیں نام اچھا لے گیا اور کام اچھا کر گیا احمد والا نشان کا نام لیوا چل بسا لے کے نام اللہ کا جان مسیحا چل بسا اس کا سودا ہے کہ دیوانہ بنائے گا ہمیں کون ایسا ساغر صافی پلائے گا ہمیں کیا کہیں اس کے بچھڑ جانے کا کتنا غم ہوا اس کے پراسرار لیکچر اس کے پرتاثیر وعظ اپنے دم پر کیا بنی جب آخر اس کا آخر اس کا دم ہوا یاد کر کے دوستوں میں اک بپا ماتم ہوا بن کے سودائی پھریں گے دشت و صحرا چھانتے ایک نشہ تھا کہ جس میں چور رہتے تھے مدام روٹھ کر احباب سے وہ مست ساقی اٹھ گیا بن کے مست ساغر صہبائے باقی اٹھ گیا پر ارادت کتنے شاگرد اپنے پیدا کر گیا ره نوجوانوں کو علوم حق کا شیدا کر گیا کے بیمار محبت نرگس مستانه وار اپنے شاگردوں کو مست چشم شہلا کر گیا مرنے والے میں اثر تھا عیسوی انفاس کا زندہ جاوید اک دنیا کو زندہ کر گیا بیعت دست مسیحا کا رہا پابند وہ خوب ہی اس نے نبھایا عہد جو باہم ہوا ہاں وہ دربار خلافت کا مرید باصفا بے تکلف دوستوں کا دوست اور یاروں کا یار عامل احکام مرشد با دل خورم ہوا بینوا کہتے تھے پیدا اک نیا حاتم ہوا
108 107 مبتلاؤں کا انہیں اور درد مندوں کا دوستوں کے درد وغم میں وہ شریک غم ہوا ان فضائل کا شرف ہے آج باغ خلد میں شکوه و شوکت و اجلال سے ویلکم ہوا حافظ حق آشنا اب امن و راحت میں رہو جنت الفردوس میں اور قصر جنت میں رہو درس قرآن یاد آتا ہے تمہارا کیا کہیں آه انداز بیاں وہ ہم جگر کی لیں خبر یا دل کو تھا میں اے اخی پیارا پیارا کیا کہیں ٹکڑے ٹکڑے دل.جگر ہے پارہ پارہ کیا کہیں آه قرآنی معارف آه اسرار حدیث ہاتھ سے کیا دے رہا ہے دل ہمارا کیا کہیں تھا ابھی اب اک خزانہ معرفت کا ہاتھ میں لے گیا ہے ساتھ اپنے روشنی چشم دل دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں کا تارا کیا کہیں بس تمہارے جاتے ہی سارا سماں جاتا رہا وہ زمین جاتی رہی وہ آسماں جاتا رہا جب تمہاری مرگ بے ہنگام کی پہنچی خبر تار کا پیغام بھیجا خطہ کشمیر سے حضرت والا کے دل پر کیا ہوا اس کا اثر آہ رخصت ہو گیا اسلام کا اک نام ظل نور الدین تھا اور پیکر عبدالکریم رہنمائے احمدیت دین حق کا راہبر احمدیت پر بھی اور اسلام پر اس کی وفات اس مصیبت کا غم و اندوہ مٹ ایک صدمہ ہے بڑا اک حادثہ دشوار تر سکتا نہیں سانحہ یہ نقش ہو گا لوح دل پر عمر بھر دل میں اٹھتا ہے کہ چل کر خطہ کشمیر سے بیٹھ جاتا ہے یہ دل آفت کا مارا کیا کہیں اڑ کے جا پہنچیں کہیں روشن علی کی نعش پر موسم گرما کی تابش اس کی مانع ہو گئی کیوں نہ ہو تم تھے مرید خاص اور استاد بھی یاد رکھنا ہم تمہارے یار تھے غم خوار تھے ان کے جسم پاک پر موسم نہ کر جائے اثر ہاں ارادت مند بھی اور صاحب ارشاد بھی ہمارے غم رہا تھے یار تھے دلدار تھے کچھ نہیں کہنے کے لائق ماجرائے درد دل دل میں گھٹ کر رہ گیا افسانہ سارا کیا کہیں وہ ہجوم عاشقاں علم و قرآن و حدیث بزم مستان الہی کا نظارہ کیا کہیں
110 109 شمع تھے تم تم پہ ہم گرتے رہے پروانہ وار ماہ تھے تم اور تمہارے گرد ہم پروار تھے اک زمانہ تھا تمہارے زور پر اڑتے تھے ہم تم ہمارے بال و پر تھے اور ہم پروار تھے دشمنوں کے آڑے آتے تھے سپر ہو کر بہم شہسوار فارسی کے تیغ جوہر دار تھے تم ہی تھے داروئے درد اور تم ہی تھے تیمار دار یاد ہے روز مصیب جب کہ ہم بیمار تھے کیا کہیں کیا دل پہ گذری جب ہوئے بیمار تم کچھ نہ کر سکتے تھے ہم مجبور اور لاچار تھے درد دل سے کہیں دعا ئیں تندرستی کے لئے لب پہ اپنے ورد یا ستار یا غفار تھے تم گئے ثاقب کو بھی جلدی بلا لیجئے وہاں اپنے پہلو میں جگہ دے کر لٹا لیجے وہاں“ (الفضل ۲ / جولائی ۱۹۲۹ء ص۲) اور بھی بہت سے حضرات نے اپنے غم واندوہ کا نثر اور نظم میں اظہار فرمایا مگر اس وقت میں طوالت کے خوف سے چند ایک اقتباسات دینے پر ہی اکتفا کر رہا ہوں.ان اقتباسات سے آپ کی سیرت کے کئی پہلو اجاگر ہوتے ہیں.مرنے والے کا جو اثر کسی انسان پر ہوتا ہے وہی اس کے جذبات کے اظہار کے وقت ظاہر ہوتا ہے اور دیکھنے والا یا پڑھنے والا ان جذبات کے اظہار سے ہی مرنے والے کی سیرت کے کئی پہلوؤں سے واقفیت حاصل کر لیتا ہے.قرار داد ہائے تعزیت: حضرت حافظ صاحب کی وفات پر جماعت کے متعدد اداروں ، آپ کے شاگردوں اور اکناف عالم میں پھیلی ہوئی جماعتوں نے ریزولیوشن پاس کئے.صدرانجمن احمدیہ نے اپنے ریزولیوشن میں حضرت حافظ صاحب کی بے نفس اور پر جوش عالمانہ اور فاضلانہ خدمات کا اعتراف کیا اور ان کی قابل قدر تبلیغی خدمات کو باقی احمدیوں کے لئے نمونہ قرار دے کر آپ کی وفات کو بلحاظ سے آپ کے علم وفضل اور اخلاص و زہد اور محنت و جانفشانی ایک قومی صدمہ قرار دیا چنانچہ لکھا ہے.یه مجلس حافظ روشن علی صاحب مرحوم کی بے نفس اور پر جوش عالمانہ اور فاضلانہ خدمات سلسلہ حقہ کا دلی اعتراف کرتے ہوئے ان کی وفات پر اظہار افسوس کرنی ہے اور ان کے پسماندگان اور دیگر اقرباء اور رشتہ داروں کے ساتھ اظہار ہمدردی کرتی ہے.حافظ صاحب مرحوم کی تبلیغی خدمات بہت ہی قابل قدر اور دوسرے احمدیوں کے واسطے ایک قابل تقلید نمونہ تھیں.جن کے سبب مجلس ان کی شکر گذار ہے اور ان کے حق میں دعائے مغفرت کرتی ہے حافظ صاحب مرحوم کی وفات بلحاظ ان کے علم وفضل اور اخلاص و زہد اور محنت و جانفشانی کے ایک قومی صدمہ ہے.
112 111 دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت میں بلند مقامات عطا فرمائے اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے بہت سے عالم و فاضل جماعت میں پیدا ہوں اور ہوتے رہیں.آمین.“ جامعہ احمدیہ کے عملہ اور طلباء نے اپنی قرارداد میں آپ کی خوبیوں، اخلاق فاضلہ تجر علمی اور بے نظیر تعلیم و تدریس کا ذکر کرنے کے بعد اس بات کا اظہار کیا کہ آپ کی وفات پر جس قدر بھی رنج و غم پیدا ہو کم ہے اور جس قدر بھی اس کا اظہار کیا جائے مناسب ہے.قرار داد یہ ہے.ہم تمام پروفیسران و طلبائے جامعہ احمدیہ نہایت رنج و غم سے اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ حضرت حافظ روشن علی صاحب رضی اللہ عنہ کی وفات حسرت آیات جامعہ احمدیہ کے لئے بالخصوص اور تمام سلسلہ عالیہ احمد یہ کے لئے بالعموم ایک سخت نقصان دہ واقعہ ہے ہم تمام پروفیسران اپنے محب شفیق اور ہم تمام طلبائے جامعہ اپنے محترم استاد کی بے وقت موت اور سخت شاق جدائی پر دل سے انا لله و انا اليه راجعون کہتے ہیں.جناب حافظ صاحب مرحوم رضی اللہ عنہ کی خوبیاں.آپ کے اخلاق آپ کے علم و تجر اور آپ کی بے نظیر تعلیم و تدریس کو یاد کر کے جس قدر بھی رنج والم پیدا ہو کم ہے اور جس قدر بھی اس کا اظہار کیا جائے عین مناسب ہے لیکن ہم بمطابق سنت نبوی یہی کہتے ہیں.العين تدمع والقلب يحزن ولا نقول الامايرضى به ربنا اور ہماری دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آ کی مغفرت فرما کر آپ کو اعلیٰ سے اعلیٰ مقام قرب کے درجات عطا فرمائے اور ہم کو اس صدمہ عظیمہ میں جناب حافظ صاحب مرحوم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اہل وعیال و دیگر تمام اقارب سے دلی ہمدردی ہے.خدا تعالیٰ ان کو صبر جمیل عطا فرمائے.“ حضرت حافظ صاحب کے شاگردوں نے اپنے ریزولیوشن میں کہا.” ہم تمام شاگردان حضرت حافظ روشن علی صاحب نہایت رنج و افسوس کے ساتھ اس امر کا اظہار کرتے ہیں کہ حضرت حافظ صاحب کی وفات حسرت آیات ان کے شاگردوں کے لئے بالخصوص اور تمام سلسلہ عالیہ احمدیہ کے لئے بالعموم ایک روح فرسا واقعہ اور ایک سخت نقصان دہ حادثہ ہے.ہم سب شاگرد اپنے نہایت مکرم و محترم ، بے حد شفیق و مربی خاص محسن استاد کی بے وقت وفات اور نہایت شاق جدائی پر دل سے انا للہ و انا اليه راجعون - اللهم اجرنا في معيبتنا واخلف لنا خيراً منها کہتے ہیں.حافظ صاحب نے جس کمال ہمدردی اور بے لوث محبت اور خاص توجہ سے ہمیں خدا تعالیٰ کی پاک کتاب اور احادیث اور دیگر علوم کی کتابیں
114 113 پڑھائیں اور اپنے اخلاق فاضلہ اور اسوہ حسنہ سے ہماری تربیت فرمائی تھی اور قدم قدم پر ہماری رہنمائی کی تھی اس کی نظیر ملنی مشکل ہے.آپ کی تمام خوبیوں اور علمی تجر اور بے حد حسانات کو یا د کر کے ہماری طبائع میں جس قدر بھی رنج و غم اور کرب پیدا ہو تھوڑا ہے اور اس کا جس قدر بھی اظہار کیا جائے وہ لائق ومناسب ہے.کیوں نہ ہو.لئن حسنت فيه المراثى و ذكريا لقد حسنت من قبل فيه المدائع لیکن حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں ہم یہی کہتے ہیں.ان العين تدمع والقلب يحزن ولانقول الاما يرضی به ربنا و انا بفراقك لمحزونون- ان الله ما اخذ و له ما اعطی و کل عنده باجل مسمی – ہماری دلی دعا ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے خاص فضل و کرم سے حضرت حافظ صاحب کو جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے اور اعلی علیین میں داخل کرے.ان کے درجات بلند فرمائے.ہمیں ان کی پسندیدہ و جاری کردہ باتوں پر عمل درآمد کرنے کی توفیق بخشے تا کہ ان کی روح مبارک کو خوشی پہنچے.آمین.( الفضل ۵/ جولائی ۱۹۲۹ء ص ۸) حضرت حافظ صاحب نے اپنی زندگی میں جماعت کی عورتوں کی تربیت کی طرف بھی خاص توجہ فرمائی تھی.اس لئے آپ کی وفات کی وجہ سے جماعت کے طبقہ نسواں نے بھی عظیم صدمہ محسوس کیا.لجنہ اماء اللہ قادیان نے آپ کی وفات پر مندرجہ ذیل ریزولیوشن پاس کیا.ہم ممبرات لجنہ اماءاللہ نہایت رنج و غم سے اس امر کا اظہار کرتی ہیں کہ حضرت حافظ روشن علی صاحب مرحوم کی وفات حسرت آیات سے ہمارے قلوب کو سخت صدمہ پہنچا ہے- انا لله و انا اليه راجعون - بے شک بظاہر یہ ایک بے وقت موت معلوم ہوتی ہے.لیکن اپنے کاموں کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.حافظ صاحب کی خوبیاں اظہر من الشمس ہیں آپ کا عالم بے مثال اور عامل بے نظیر ہونا کسی سے پوشیدہ نہیں.آپ کا رمضان شریف میں درس دینا مردوں کے علاوہ عورتوں کے لئے بھی ایک عجیب روحانی غذا تھی.حضرت خلیفۃ المسیح الاول کی دعا اور خواہش جو درس قرآن کے متعلق ہے اللہ تعالیٰ اسے ضائع نہیں کرے گا لیکن بظاہر ایسا عالی حوصلہ جوانمرد پیدا ہونا ناممکن سے معلوم ہوتا ہے.لجنہ اماءاللہ کے ساتھ بھی آپ کا مشفقانہ تعلق تھا.آپ بطور ایک والد کے ہر وقت ہماری تربیت کے لئے تیار رہتے.ہم جب چاہتیں لیکچر کے لئے آپ کو بلا تیں.انکار تو کجا آپ کی پیشانی پر بل بھی نہ آتا افسوس ہے کہ آج
116 115 ہم ان کی شفقت بھری ہدایات اور نصائح سے محروم ہیں اور اس لئے دلی تڑپ سے یہ دعا ہمارے سینوں سے نکلتی ہے کہ اے دو جہاں کے مالک حافظ صاحب کو اپنی جوار رحمت میں جگہ دے اور انہیں بے انتہا انعامات اخروی سے متمتع فرما.ان کے پسماندگان کو صبر جمیل عطا کر اور ہم سب کے اس نقصان کی تلافی فرما.آمین یا رب العالمین.الفضل ۲۶ ؍ جولائی ۱۹۲۹ء ص۲) غیروں کے تاثرات : آپ کی وفات کے صدمہ کا اپنے تو اپنے غیروں بلکہ دشمنوں نے بھی احساس کیا اور اپنے جذبات ہمدردی کا اظہار کیا.محترم سید کشفی شاہ صاحب نظامی آف رنگون نے لکھا کہ : علامہ حافظ روشن علی صاحب کی وفات حسرت آیات کی خبر سن کر مجھے سخت صدمہ ہوا ہے.انا للہ وانا اليه راجعون - جناب حافظ صاحب مرحوم جماعت احمدیہ کے جید عالم اور بے نظیر جرنیل تھے ان کے انتقال سے جو جانکاہ صدمہ ان کے لواحقین کو پہنچا ہے اس سے مجھے پوری دلی ہمدردی ہے.خدا تعالیٰ انہیں صبر کی توفیق بخشے اور صبر کا اجر عظیم عطا فرمائے.“ ( بحوالہ الفضل ۲ اگست ۱۹۲۹ ، ص ۲) اخبار اہل حدیث ۵/ جولائی ۱۹۲۹ء لکھتا ہے کہ.حافظ روشن علی قادیانی جماعت میں ایک قابل آدمی تھے.قطع نظر اختلاف رائے کے ہم کہتے ہیں کہ موصوف خوش قرآت خوش گو تھے.مناظرے میں متین اور غیر دل آزار تھے.مرزا صاحب کے راسخ مرید تھے.ہمیں ان کی وفات میں ان کے متعلقین سے ہمدردی ہے.“ ( بحواله الفضل ۹ رمئی ۱۹۳۰ء) معاصر پیغام صلح لاہور نے اپنے ۹ر جولائی ۱۹۲۹ء کے الیشوع میں لکھا کہ : اختلاف عقائد اور چیز ہے.انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے کہ اختلاف عقائد کے ہوتے ہوئے بھی دوسرے کے دکھ درد اور رنج و راحت میں اس کے شریک حال ہو.حافظ روشن علی صاحب ایک متشد د محمودی تھے.محمودیت کی حمایت میں انہوں نے ہمیشہ غالیانہ سپرٹ کا اظہار کیا.تا ہم ان میں بعض خوبیاں بھی تھیں.جن کی وجہ سے ان کی موت باعث افسوس ہے.حافظ صاحب حضرت مولانا مولوی نور الدین صاحب مرحوم کے شاگردوں میں سے تھے.نہایت ذہین ، خوش بیان ، خوش الحان اور عالم آدمی تھے.نہ صرف علوم اسلامیہ پر کافی عبور تھا.بلکہ غیر مذاہب سے بھی خاصی واقفیت رکھتے تھے اور آریہ سماج کے ساتھ کئی
118 117 ایک مناظرے انہوں نے کئے.“ یادگار قائم رکھنے کی تحریکیں : ( بحواله الفضل ۹ رمئی ۱۹۳۰ ، ص ۹) حضرت حافظ صاحب کی وفات کے بعد آپ کی یادگار قائم کرنے کے لئے متعد دتحریکات کی گئیں.آپ کے شاگردوں نے آپ کی یادگار کے طور پر ایک یتیم خانہ قائم کرنے کی تجویز پاس کی اور اس کے بعد اس کے لئے چندہ کی اپیل بھی کی گئی.رسالہ ریویو آف ریلیجنز قادیان کے مدیر محترم حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل نے لکھا کہ : حضرت علامہ حافظ صاحب کی یادگار قائم کرنے کا سوال در پیش ہے خواہ وہ اس صورت میں ہو کہ آپ کا ایک مکمل درس القرآن جلد سے جلد شائع کر دیا جائے.مولانا اللہ دتہ صاحب جالندھری اس کو مرتب فرما سکتے ہیں.دوم - ایک سہ ماہی رسالہ شائع ہوا کرے.جو تحقیقات علمی کا مخزن ہو.اس کا ہر مضمون ایک خاص شان رکھتا ہو جس میں مختلف علماء و فضلاء اپنے مطالعہ اور ریسرچ کا نچوڑ پیش کیا کریں.اس کے متعلق بشرط ضرورت و تحریک مفصل پھر لکھا جائے گا.“ ریویو آف ریلیجنز جولائی ۱۹۲۹ء ، ٹائٹل پیچ ص۲) لیکن افسوس کہ اس قسم کی کسی تجویز نے کوئی عملی صورت اختیار نہ کی.محرکین خود دوسرے کاموں میں مصروف ہو گئے.اور اس طرف توجہ نہ دے سکے.بہر حال نہ کوئی رسالہ نکلا نہ ہی یتیم خانہ قائم ہوا.ہاں میرے نزدیک آپ کی بہترین یادگار سلسلہ کا موجود تبلیغی نظام ہے آپ تبلیغ کے عاشق تھے.اور اس میں اپنا ہر داؤ لگائے بیٹھے تھے.آپ کے بعد نہ صرف آپ کے تیار کردہ مبلغ اس وقت تک تبلیغی میدان میں مصروف جہاد رہے.بلکہ آگے ان کے شاگردوں اور پھر ان کے شاگردوں کا ایک ایسا سلسلہ قائم ہو گیا ہے کہ جب تک جماعت احمد یہ باقی ہے یہ قائم رہے گا.اور صدقہ جاریہ کے طور پر اس کا ثواب حضرت حافظ صاحب کو پہنچتا رہے گا.اشعار میں تاریخ وفات : بعض شعرائے کرام نے آپ کی تاریخ وفات بھی نکالی ہے.چناچہ مکرم سید حسین صاحب ذوقی نے کہا.گفتار ذوقی ایں تاریخ نیک صفاتش مرد سعید از دنیا در خلد بریں حافظ روشن علی رسید ١٩٢٩ء (الفضل ۱۲؍ جولائی ۱۹۲۹ء) مکرم مولوی غلام احمد صاحب اختر اوچ شریف نے کہا : قاری علامه حافظ مولوی روشن علی از اتباع احمد از مرات او روشن علی ابلغ البلغاء استظہار دیں کامل ولی آنکه اسرار خفیه بود بروے ے منجلی
120 119 رحمت غفار تاریخ وفات اختر بگفت قاری علامه قابل مولوی روشن علی ١٩٢٩ء روایات : ( الفضل ۱۶؍ جولائی ۱۹۲۹ء) ۱۳۴۸ حضرت حافظ صاحب ایک لمبے عرصہ تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پاک مجالس میں حاضر ہوتے رہے اور آپ کے کلمات بابرکات سے مستفیض ہوتے رہے.حافظہ بلا کا نصیب ہوا تھا.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات سے آپ نے عملی طور پر فائدہ اٹھایا.اور ان سے جونور حاصل کیا وفات تک اس نور سے تاریک دلوں کو منور کرنے کا فرض بجالاتے رہے.لیکن چونکہ روایات کے بارہ میں آپ کچھ زیادہ محتاط واقع ہوئے تھے.اس لئے آپ سے زیادہ روایات مروی نہیں.ہاں بعض روایات بعض مواقع پر آپ نے بیان فرمائی ہیں وہ یہاں درج کی جاتی ہیں.آپ فرماتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عمل میں نے دیکھا ہے کہ باوجود اتنی کمزوری کے کہ آپ بیٹھ کر نماز پڑھتے تھے.لیکن جماعت سے ہی پڑھتے تھے.اور جب گھر پر پڑھتے تھے تو بھی جماعت کرا لیتے تھے.میں نے اپنی بیوی کو بھیجا کہ جا کر آپ کو گھر میں نماز پڑھتے دیکھے تو اس نے بتایا کہ آپ اتنی کمزوری کے باوجود کہ آگے پیچھے تکئے رکھتے تھے.لیکن نماز جماعت سے ہی پڑھتے تھے.“ ( الفضل ۳۰ /جنوری ۱۹۱۶ء) ۲ - حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کسی نے باجماعت ا نماز کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ ایاک نعبد سے تو جماعت ہی معلوم ہوتی ہے اکیلا تو ہے ہی نہیں.“ ( الفضل ۳۰ /جنوری ۱۹۱۶ء).جب حضرت مسیح موعود کے صاحبزادے مبارک احمد فوت ہوئے.تو یہ خبر سن کر میں نے اپنی بیوی کو کہا کہ حضرت اقدس کے گھر جاؤ اور دیکھو کہ آپ کے گھر میں اس وفات کا کیا اثر ہے وہ گئیں.اور واپس آ کر انہوں نے مجھے بتایا کہ بچہ کو نہلایا جا رہا ہے اور معلوم نہیں کہ حضرت صاحب اور بیوی صاحبہ کہاں ہیں.تھوڑی دیر کے بعد بچہ کو کفن پہنا کر باہر لایا گیا.اور چونکہ قبر کے تیار ہونے میں ابھی دی تھی.اس لئے باغ میں حضرت مسیح موعود بیٹھ گئے.اور حضرت خلیفہ اول کو مخاطب کر کے فرمایا.مولوی صاحب خوشیوں اور شادیوں کے دن کبھی کبھی میسر ہوا کرتے ہیں.پھر فرما یا مولوی صاحب ہمارے گھر میں یہ مبارک موقع کئی سال کے بعد آیا ہے.یہ کہہ کر فرمانے لگے لوگ ایسی ہی باتوں کو دیکھ کر کہہ دیا کرتے ہیں کہ یہ لوگ مجنون ہیں مگر ہم مجنون نہیں ہوتے.ایسے موقعہ پر ہمیں خوشی اس لئے ہوتی
122 121 ہے کہ خدا تعالیٰ سے انسان کی اصلاح کے لئے دو قانون بنائے ہیں.ایک قانون قضا ہے اور دوسرا قانون شریعت- قانون شریعت انسان کو دیا گیا ہے کہ وہ اسے اپنے طور پر استعمال کرے اور قانون قضا خدا تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہوا ہے مثلاً نماز انسان کی اصلاح اور پاکیزگی کے لئے ایک اعلیٰ ذریعہ ہے.اس کے متعلق انسان کو اختیار ہے کہ اگر وضو نہیں کر سکتا تو تیم کر کے پڑھ لے اگر کھڑا نہیں ہوسکتا تو بیٹھ کر پڑھ لے اگر بیٹھ بھی نہیں سکتا تو لیٹ کر پڑھ لے.لیکن جو انسان ان رعایتوں سے بھی فائدہ نہیں اٹھاتا.بلکہ اپنے نفس کی رعایت کرتا ہے وہ کب پاک ہو سکتا ہے.مگر قانون قضا خدا تعالیٰ کے اپنے ہاتھ میں ہے اس کے مطابق خدا تعالیٰ کسی کی اصلاح کے لئے جتنا ضروری سمجھتا ہے.اسے کانٹ چھانٹ دیتا ہے تو فرمایا چالیس سال کی نماز وہ کام نہیں کرتی.جو پانچ منٹ قضا کے حکم پر صبر کرنے سے ہوتا ہے.اب غور کرو جس راستہ کو چالیس سال کے عرصہ میں طے کرنا ہو.وہ پانچ منٹ میں طے ہو جائے تو کس قدرخوشی اور مسرت کا موقعہ ہوتا ہے.“ (الفضل ۲۲/ ۱۹؍ جولائی ۱۹۱۹ء) ۴." حضرت مسیح موعود نے ایک دفعہ سیر میں فرمایا تھا کہ اگر حضرت مسیح کی قبر کو کھولا جائے اور آپ کی نعش نکل آئے اور ہاتھ پاؤں پر صلیب کے نشانات ملیں تو مجھے اس قدر خوشی ہو کہ اگر کوئی شخص خوشی سے مرسکتا ہو تو میں اس دن مر جاؤں.(الفضل ۱۲ ستمبر ۱۹۲۱ء ص ۵) ۵- حضرت اقدس کی زندگی کا بچپن کا زمانہ تعلیم اور بعد کا چند سالہ زمانہ والد ماجد کے ارشاد کے مطابق سیالکوٹ میں ملازمت میں صرف ہوا.مگر آپ کو ملا زمت وغیرہ کی طرف طبعی رغبت نہ تھی.چونکہ آپ کے والد ، اس علاقہ کے رئیس تھے اور وہ چاہتے تھے کہ اس علاقہ کو دوبارہ حاصل کریں.اس لئے ان کا خیال تھا کہ کسی طرح ملا زمت وغیرہ کے ذریعہ یہ مقصد حاصل کرنا چاہئے.پس آپ کا ملازمت کرنا محض والد کے حکم کی فرمانبرداری میں تھا.ورنہ آپ کی طبیعت کا ابتداء ہی سے یہ تقاضا تھا کہ یاد خدا میں وقت صرف کریں.چنانچہ حضور نے سیالکوٹ سے اپنے والد کو پارسی زبان میں ایک خط لکھا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ دنیا میں ہر طرف موت کی گرم بازاری ہے اور زندگی کا کوئی اعتبار نہیں.اور خدا سے غفلت بڑھ گئی ہے.اس لئے میں آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ اپنی بقیہ زندگی یا د خدا میں صرف کروں بہ کہ دریا د کسے صبح کنم شامے چند ۶.میں نے حضرت اقدس سے سنا ہے آپ فرماتے ہیں
124 123 کہ اگر اللہ تعالیٰ مجھے پوچھے کہ تو کیا چاہتا ہے تو میں عرض کروں گا کہ مولا میں چاہتا ہوں کہ ایک حجرہ ہو اور تیرا خیال ہو.مجھے تو اس نے خود پکڑ کے نکالا ہے.“ ے.”حضرت اقدس کے والد صاحب کا خیال تھا کہ چونکہ اس میرے لڑکے کا دنیا کی طرف خیال نہیں ہے.اس لئے کہیں یہ بھوکا ہی نہ مرجائے.اس لئے انہوں نے اپنے بڑے صاحبزادے کو وصیت کی تھی کہ ان کے کھانے پینے کا خیال رکھنا.جب حضرت صاحب کے والد صاحب فوت ہوئے تو حضرت اقدس شادی شدہ تھے.مگر آپ کو جائیداد وغیرہ کا کوئی خیال نہ تھا.چنانچہ باوجود برابر کے حصہ دار ہونے کے حالت یہ تھی کہ آپ نے اپنے بڑے بھائی سے ایک دفعہ کھ رقم کسی کتاب کے خریدنے کے لئے مانگی تو انہوں نے کہا کہ آپ کچھ کام تو کرتے نہیں اور روپیہ مانگتے ہیں.اس سے یہ سمجھنا چاہئے کہ آپ کو اپنی جائیداد کا علم ہی نہ تھا.تھا مگر آپ کی اس طرف توجہ نہ تھی.لیکن ایک دفعہ آپ کو جائیداد کا خیال آیا ہے اور اس وقت آیا ہے جب دین کے لئے اس کی ضرورت پڑی اپنی ذاتی ضرورت کے وقت نہیں آیا.چنانچہ جب حضور نے براہین احمد یہ کتاب تائید اسلام میں لکھی تو اس کے ساتھ حضور نے انعامی اشتہار شائع فرمایا جس میں لکھا کہ اگر کوئی ان دلائل کا جواب دے تو میں اس کو اپنی دس ہزار روپیہ قیمتی جائیداد دے دوں گا.“ مسجد مبارک جو حضرت اقدس مسیح موعود کے دار کے ساتھ ملحق ہے.اس کا جو راستہ مہمان خانہ کی طرف سے آتا ہے اس کے آگے حضور کے چچا زاد بھائیوں نے دیوار کھینچ دی.آپ لوگوں میں سے جو نئے ہیں اس تکلیف کا اندازہ نہیں کر سکتے.جو اس وقت دیوار کی طرف سے حضرت اقدس اور احمدیوں کو ہوئی تھی.چنانچہ مسجد مبارک میں آنا ضروری ہوتا تھا اس واسطے آنے والے آتے تھے.مگر سیدھے رستہ سے بوجہ دیوار حائل ہونے کے نہیں آ سکتے تھے.اس لئے ان کو ایک بڑا چکر کاٹ کر آنا پڑتا تھا.یعنی حضرت خلیفہ اول کے مکان کے سامنے اور بڑ کے درخت کے نیچے سے ہو کر تمام چکر کاٹتے ہوئے مرزا سلطان احمد صاحب کے مکان کے اوپر حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کے مکان کے سامنے سے مسجد مبارک کے نیچے سے ہو کر پھر آنا ہوتا تھا.مگر راستہ کی جو حالت آپ اب دیکھتے ہیں وہ نہ تھی.بلکہ آج سے مختلف تھی.یعنی بارش کے علاوہ دوسرے دنوں میں بھی اس راستہ میں پانی کھڑا رہتا تھا.اور بارش میں اور زیادہ ہوتا تھا.جس میں سے گزر کر بمشکل مسجد میں احباب پہنچتے تھے.حضرت اقدس فرماتے
126 125 تھے کہ اس دیوار سے ہمیں یہ تکلیف پہنچی ہے کہ ہمارے مہمانوں کو تکلیف پہنچی ہے.اس وقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مکان کے سامنے ڈھاب ہوتی تھی.جواب بہت پُر ہو گئی ہے اور اکثر دفاتر مکانات و مدرسہ احمد یہ اسی ڈھاب کو پاٹ کر بنائے گئے ہیں.حالت اس وقت یہ تھی کہ لوگ ڈھاب میں سے مٹی بھی نہیں لینے دیتے تھے اور ٹوکریاں وغیرہ چھین کر لے جاتے تھے.مہمانوں کی تذلیل کسی مذہب میں بھی جائز نہیں.مگر یہاں کے لوگ حضرت اقدس کے پاس آنے والے مہمانوں کی سخت تذلیل کرتے تھے.اور جب وہ رفع حاجت کے لئے کھیتوں وغیرہ میں جاتے تھے تو یہ لوگ اس میں نہ صرف رکاوٹ ڈالتے تھے بلکہ کہتے تھے کہ اٹھا کر لے جاؤ.جب مینارہ اُسیح بننے لگا.تا کہ خدا کا نام اس پر سے بلند کیا جائے.تو اس کی ہندوؤں نے اس لئے مخالفت کی تھی کہ ان کے گھروں کی بے پردگی ہو گی.حالانکہ بڑے بڑے شہروں میں بلند سے بلند عمارتیں ہیں.مگر وہاں کوئی اس عذر سے کسی کی مخالفت نہیں کرتا.مگر یہاں کے ہندوؤں نے اس بارے میں بڑی مخالفت کی.کوئی احمدی مکان بناتا تھا تو گاؤں کے لوگ لاٹھیاں لے کر آ جاتے تھے کہ ہم مکان نہیں بنانے دیں گے.یہ سلوک تھا قادیان کے لوگوں کا حضرت مسیح موعود اور آپ کے پیروؤں سے.“ ۹ - ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے فرمایا تھا کہ اگر ہم اس گورنمنٹ کے ماتحت نہ ہوتے.بلکہ کسی مسلمان کہلانے والی سلطنت میں ہوتے تو ہمیں روز خبریں ملا کرتیں کہ آج فلاں دوست قتل ہو گیا.اور آج فلاں مارا گیا.“ 66 ( الفضل ۹ رجنوری ۱۹۲۲ء ص ۵ تا ۶ ) ۱۰- ایک دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سنا آپ فرما رہے تھے.اگر مخالفین کا وجود دنیا میں نہ ہوتا.تو قرآن شریف صرف اتنا ہی ہو تالا إِلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ الله - انہی کی مخالفت کا یہ نتیجہ ہے کہ انہوں نے سوالات اور اعتراضات کئے جس کی وجہ سے نئے نئے علوم اور حقائق اور معارف قرآن کریم میں بیان کئے گئے.جس طرح کہ چقماق کو جب تک لوہے پر نہیں مارا جاتا.آگ نہیں نکلتی.اور جب تک بچہ روتا نہیں.ماں کی چھاتیوں میں دودھ نہیں اترتا.جب تک گرمی کی شدت نہ ہو.بارش اور ٹھنڈی ہوائیں نہیں آتیں.اسی طرح اگر مخالفین نہ ہوں.اور وہ شکوک اور شبہات پیش نہ کریں تو نئے سے نئے علوم اور معارف بھی ظاہر نہ ہوں.“ (الفضل ۱۳ جون ۱۹۲۵ء ص ۶)
128 127 ۱۱ - حضرت صاحبزادہ بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ : بیان کیا مجھ سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ حضرت مسیح موعود نے جن دنوں میں ایا ارض مدقدد فاک مدمر والا قصیدہ اعجاز احمدی میں لکھا تو اسے دوبارہ پڑھنے پر باہر آ کر حضرت خلیفہ اول سے دریافت فرمانے لگے کہ مولوی صاحب کیا ایا بھی ندا کے لئے آتا ہے؟ عرض کیا گیا ہاں حضور بہت مشہور ہے.فرمایا شعر میں لکھا گیا ہے.ہمیں خیال نہیں تھا نیز حافظ صاحب بیان فرماتے ہیں کہ کئی دفعہ حضور فرماتے تھے کہ بعض الفاظ خود بخود ہمارے قلم سے لکھے جاتے ہیں اور ہمیں ان کے معنے معلوم نہیں ہوتے.حافظ صاحب کہتے ہیں کہ کئی دفعہ حضرت صاحب سے ایسا محاورہ لکھا جاتا تھا کہ جس کا عام لغت میں بھی استعمال نہ ملتا تھا.لیکن پھر بہت تلاش سے پتہ چل جاتا تھا.“ ( سیرت المہدی حصہ اول ص ۷۶ روایت نمبر ۱۰۲) ۱۲.بیان کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ جب میں شروع شروع میں قادیان آیا تو اس کے چند دن بعد ایک بڑا معمر شخص بھی یہاں آیا تھا.یہ شخص حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے مریدوں میں سے تھا.اور بیان کرتا تھا کہ میں سید صاحب مرحوم کے ساتھ حج میں ہمرکاب تھا.اور ان کے جنگوں میں بھی ان کے ساتھ رہا تھا.اور اپنی عمر قریباً سوا سو سال کی بتا تا تھا.قادیان میں آ کر اس نے حضرت صاحب کی بیعت کی.یہ شخص دیندار تہجد گزار تھا اور باوجود اس پیرانہ سالی کے بڑا مستعد تھا.دو چار دن - کے بعد وہ قادیان سے واپس جانے لگا.اور حضرت صاحب سے اجازت چاہی.تو آپ نے فرمایا کہ آپ اتنی جلدی کیوں جاتے ہیں.کچھ عرصہ اور قیام کریں.اس نے کہا کہ حضور کے واسطے موجب تکلیف نہیں بننا چاہتا.حضرت صاحب نے فرمایا نہیں ، آپ ٹھہریں ہمیں خدا کے فضل سے کوئی تکلیف نہیں ہے.ہم سب انتظام کر سکتے ہیں.چنانچہ وہ یہاں ڈیڑھ دو ماہ ٹھہرا.اور پھر چلا گیا.ایک دفعہ دوبارہ بھی وہ قادیان آیا تھا اور پھر اس کے بعد وہ فوت ہوگیا.حافظ صاحب نے بیان کیا کہ یہ شخص چونڈہ ضلع امرتسر کا تھا.“.( سیرت المہدی حصہ اول ص ۱۲۳ ۱۲۲، روایت نمبر ۱۳۵) ۱۳.بیان کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ ان سے ڈاکٹر محمد اسماعیل خان صاحب مرحوم نے بیان کیا تھا کہ ایک دفعہ جب کوئی جلسہ وغیرہ کا موقعہ تھا.اور ہم لوگ حضرت صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور مہمانوں کے
130 129 لئے باہر پلاؤ، زردہ وغیرہ پک رہا تھا کہ حضرت صاحب کے واسطے اندر سے کھانا آ گیا.ہم سمجھتے تھے کہ یہ بہت عمدہ کھانا ہوگا.لیکن دیکھا تو تھوڑا سا خشکہ تھا اور کچھ دال تھی.اور صرف ایک آدمی کی مقدار کا کھانا تھا.حضرت صاحب نے ہم لوگوں سے فرمایا.آپ بھی کھانا کھا لیں.چنانچہ ہم بھی ساتھ شامل ہو گئے.حافظ صاحب کہتے تھے کہ ڈاکٹر صاحب بیان کرتے تھے کہ اس کھانے سے ہم سب سیر ہو گئے.حالانکہ ہم بہت سے آدمی تھے.“ (سیرت المہدی حصہ اول روایت نمبر (۱۴۳) ۱۴.بیان کیا ہم سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ جب مینارہ اسیح کے بنے کی تیاری ہوئی.تو قادیان کے لوگوں نے افسران گورنمنٹ کے پاس شکائتیں کیں کہ اس منارہ کے بننے سے ہمارے مکانوں کی پردہ دری ہو گی.چنانچہ گورنمنٹ کی طرف سے ایک ڈپٹی قادیان آیا.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسجد مبارک کے ساتھ والے حجرہ میں ملا اس وقت قادیان کے بعض لوگ جو شکائیت کرنے والے تھے وہ بھی اس کے ساتھ تھے.حضرت صاحب سے ڈپٹی کی باتیں ہوتی رہیں اور اسی گفتگو میں حضرت صاحب نے ڈپٹی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ بڈھا مل بیٹھا ہے.آپ اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے لے کر آج تک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے کوئی موقعہ ملا ہو.اور میں نے فائدہ پہنچانے میں کوئی کمی کی ہو.اور پھر اسی سے پوچھیں کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقع ملا ہو تو اس نے مجھے تکلیف پہنچانے میں کوئی کسر چھوڑی ہو.حافظ صاحب نے بیان کیا کہ میں اس وقت بڈھا مل کی طرف دیکھ رہا تھا.اس نے شرم کے مارے اپنا سر نیچے اپنے زانوؤں میں دیا ہوا تھا اور اس کے چہرہ کا رنگ سپید پڑ گیا تھا.اور وہ ایک لفظ بھی منہ سے نہیں بول سکا.(سیرت المہدی حصہ اول ص ۱۳۴، روایت نمبر ۱۴۵) ۱۵ - ” بیان کیا مجھ سے حافظ روشن علی صاحب نے کہ ,, حضرت مولوی صاحب خلیفہ اول بیان فرماتے تھے کہ ایک دفعہ میں نے کسی شخص سے ایک زراعتی کنو آں ساڑھے تین ہزار روپیہ میں رہن لیا.مگر میں نے اس سے نہ کوئی رسید لی اور نہ کوئی تحریر کروائی.اور کنواں بھی اسی کے قبضہ میں رہنے دیا.کچھ عرصہ کے بعد میں نے اس کنویں کی آمد کا مطالبہ کیا تو وہ صاف منکر ہو گیا.اور رہن کا ہی انکار کر بیٹھا.جناب حافظ صاحب کہتے تھے کہ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ کسی نے یہ خبر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک پہنچا دی.اور مولوی صاحب کے نقصان پر افسوس کیا.مگر حضرت صاحب نے فرمایا.تمہیں ان کے نقصان کی فکر ہے -
132 131 مجھے ایمان کی فکر ہے مولوی صاحب نے کیوں دوسرے شخص کو ایسی حالت میں رکھا.جس سے اس کو بد دیانتی کا موقع ملا.اور کیوں اسلامی حکم کے مطابق اس سے کوئی تحریر نہ لی اور کیوں اس سے با قاعدہ قبضہ نہ حاصل کیا.“ (سیرت المہدی حصہ اول ص ۴۲،۱۴۱ ۱ روایت نمبر (۱۴۸) وو ۱۶ - حافظ روشن علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا اور میں نے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ جس جگہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جمعہ کے دن نماز میں سجدہ کیا کرتے تھے.وہاں سے کئی کئی دن تک بعد میں خوشبو آتی رہتی تھی.66 ( سیرت المہدی حصہ دوم ص ۲۰ روایت نمبر ۳۲۶) ۱۷- حافظ روشن علی صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ کسی دینی ضرورت کے ماتحت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حضرت مولوی نور الدین صاحب کو یہ لکھا کہ آپ یہ اعلان فرما دیں کہ میں حنفی المذہب ہوں حالانکہ پ جانتے تھے کہ حضرت مولوی صاحب عقیدہ اہل حدیث تھے.حضرت مولوی صاحب نے اس کے جواب میں حضرت صاحب کی خدمت میں ایک کارڈ ارسال کیا T جس میں لکھا.به مے سجادہ رنگین کن کرت پیر مغان گوید اس کے نیچے ” نور الدین حنفی کے الفاظ لکھ دیئے.اس کے بعد جب مولوی صاحب حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت صاحب نے مولوی صاحب سے دریافت کیا کہ مولوی صاحب حنفی مذہب کا اصول کیا ہے؟ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور اصول یہ ہے کہ قرآن شریف سب سے مقدم ہے اگر اس کے اندر کوئی مسئلہ نہ ملے.تو آنحضرت صلعم کے قول و فعل کو دیکھنا چاہئے.جس کا حدیث سے پتہ لگتا ہے اور اس کے بعد اجماع اور قیاس سے فیصلہ کرنا چاہئے.حضرت صاحب نے فرمایا.تو پھر مولوی صاحب آپ کا کیا مذہب ہے؟ مولوی صاحب نے عرض کیا کہ حضور میرا بھی یہی مذہب ہے اس پر حضرت نے اپنی جیب سے مولوی صاحب کا وہ کارڈ نکالا اور ان کی طرف پھینک کر مسکراتے ہوئے فرمایا کہ پھر اس کا کیا مطلب ہے؟ مولوی صاحب شرمندہ ہو کر خاموش ہو گئے.“ (سیرت المہدی حصہ دوم ص ۴۸ روایت نمبر ۷ ۳۵) کہ سالک بے خبر نبود ز راه و رسم منزلها
134 133 حضرت حافظ صاحب کا منظوم عربی کلام جَاءَ الْإِمَامُ فَابْشِرُوا يَا إِخْوَتِي اے میرے بھائی تمہیں خوشخبری ہو حضرت امام تشریف لائیں ہیں قُوْمُوا إِلَى اسْتَقْبَالِهِ يَا حِبَّتِي میرے پیار واٹھو.اُن کے استقبال کو چلیں فَاقْضُوا مَنَا يَاكُمُ بِوَجُهِ حَبِيبِكُمْ اپنی آرزوؤں کو اپنے حبیب کا چہرہ دیکھ کر پورا کرو لَا تَغْفَلُوا فَتَنَبَّهُوا بِالْقُوَّةِ غفلت مت کرو.ہمت کے ساتھ چوکس ہو جاؤ يَامَنْ دَعَوْتَ النَّاسَ وَقْتَ هِلَاكِهِمُ اے جس نے کہ لوگوں کی ہلاکت کے وقت دَعْوَى الْمُحِبِّ إِلَى جِنَانِ النِّعْمَةِ پیار کرنے والوں کی طرح نعمت کے باغوں کی طرف دعوت کی ہے أعْطِيتَ مِنْ رَّبِّ السَّمَاءِ رِسَالَةٌ تجھے آسماں کے رب کی طرف سے رسالت دی گئی ہے تُوَجْتَ مِنْ مَّوْلَاكَ تَاجَ الْعِزَّةِ اور تیرے مولیٰ نے تجھے عزت کا تاج پہنایا ہے يَا حَبَّذَا حِبًّا كَرِيمًا بِالْهُدَى اے بہت پیارے اور معزز دوست سیدھی راہ کی طرف هَادٍ وَّ مَهْدِ نَاطِقٌ بِالْحِكْمَةِ ہدایت کرنے والے (اور ) حکمت کی باتیں سنانے والے إِنَّا نَرَىٰ فِي وَجْهِكَ الْمُتَهَدِّلِ ہم تیرے چمکتے ہوئے چہرہ میں ایک ایسی روشنی دیکھتے ہیں نُوراً يُبَارِئُ الْبَدْرَ قَامِعُ ظُلْمَةِ جو کہ چاند کی روشنی سے مقابلہ کرتی اور ظلمت کو جڑ سے اکھیڑتی ہے وَاللَّهِ إِنَّكَ قَدُبُعِثْتَ لِخَيْرِنَا اللہ کی قسم ! تو تو ہماری بہتری کے لئے بھیجا گیا ہے بَطْلٌ مِّنَ الرَّحْمَنِ جِئْتَ بِعَظْمَةٍ تو ایک پہلوان ہے جو کہ رحمن کی طرف سے عظمت کے ساتھ آیا ہے يَا قَمَرَ أَرْضِ الْهِنْدِ نَوِرُ أَرْضِنَا اے ہند کی زمین کے چاند ہماری زمین کو روشن کر أَسْرِجُ سِرَاجَ قُلُوبِنَا بِالْمِنَّةٍ اور ہمارے دلوں کو اپنے احسان سے منور کر يَاغَيْتَ مَآءِ الْوَحْيِ رِدْءَ كِتَابِهِ اے وحی کی بارش کے پانی اور اس کی کتاب کے مددگار أَمْطِرُ عَلَى غَيْرَاءِ نَا بِالرَّحْمَةِ ہماری زمین پر رحمت کا مینہ برسا
136 Printed by Raqeem Press Islamabad U.K.135 أَنْجَيْتَنَا مِنْ شَرِّ قَوْمٍ هَالِكِ تو نے ہمیں خلاصی دی ایک ہلاک ہونے والی قوم کی شرارت سے وَهَدَيْتَنَا قِبَلِ الْإِلَهِ بِشَفْقَةٍ اور شفقت سے ہمیں حقیقی معبود کی طرف راہنمائی کی وَمُدَرِّجَ كَرِهَ الْكُمَاةُ نِزَالَهُ اور بہت سے بڑے بڑے بہادر کہ زبردست بھی ان کے مقابلے کو نا پسند کرے لَمَّا دَعَوُتَ مُحَارِبا بِالْقُدْرَةِ جب کہ تو نے زور کے ساتھ لڑنے کے لئے اُسے بُلایا تَرَكَ الْقِتَالَ وَ فَرَّ مِثْلَ نَعَامَةٍ چھوڑ دیا اس نے لڑائی کو اور شتر مرغ کی طرح بھاگا وَضَعَ السَّلَاحَ هُنَاكَ خَوْفٌ الْمِحْنَة اور محنت کیخوف سے اپنے ہتھیا روہیں پھینک دیئے اَنتَ الْمُظَفَّرُ وَالْكِمَى بِاَرْضِنَا تو ہی بہادر اور تُو ہی کامیاب ہماری سرزمین میں ہے مِنْ بَيْنِ ابْطَالِ تَفِمُّى بِنُهُبَةٍ تو ہی بڑے پہلوانوں کے درمیاں سے مال لے کر واپس آتا ہے.“ (البدر مورخہ یکم دسمبر ۱۹۰۴ء صفحه ۶ - ۷ )