Hazrat Ch Zafrulla Khan

Hazrat Ch Zafrulla Khan

حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

عالمی سطح کے اعلیٰ ترین دنیاوی مناصب پر نہایت شان سے حکومت کرنے والے اور غیر معمولی عزت کے القابات اور اعزازات پانے والے اس وجود کی تمام دنیاوی رفعتیں اس عشق ِ حقیقی کا ادنیٰ سا ثمرہ تھیں جو عشق و وارفتگی آپ کو اپنے خالق و مالک ، اپنے آقا ومطاع حضرت محمد ﷺ اور اپنے مخدوموں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے احمدیت کے ساتھ  تھا۔ آپ نے زندگی کے ہر اہم موڑپر خلفائے وقت سے رہنمائی حاصل کی اور عرب و عجم میں دکھی انسانیت کی بے لوث خدمات کی توفیق پائی ۔ اہل دنیا کے ساتھ  رہتے ہوئے بھی دین ، عبادت اور خدمت کو مقدم رکھنے میں آپ کا نمونہ قابل تقلید ہے۔


Book Content

Page 1

صرف احمدی احباب کی تعلیم وتربیت کے لئے " حضرت سر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب حضرت خلیفہ امسیح الرابع رحمہ اللہ نے ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ ”میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور بشارتوں کی رو سے وہ سب کا منہ بند کریں گے.بیان کرتے ہوئے فرمایا: دو یہ پیشگوئی مختلف رنگ میں مختلف وجودوں کی شکل میں پوری ہوتی رہی مگر چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو خصوصیت کے ساتھ ظاہری طور پر بھی اس کو پورا کرنے کا اس رنگ میں موقع ملا کہ آپ نے اپنی سچائی کے نور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے بسا اوقات سب کے منہ بند کر دیے.سیاست کے میدان میں بھی ، وکالت کے میدان میں بھی اور ( دعوت الی اللہ ) کے میدان میں بھی ایسی عمدہ نمائندگی کی توفیق آپ کو عطا ہوئی کہ اپنے تو اپنے دشمن بھی 66 بے ساختہ پکار اٹھے کہ اس بطل جلیل نے بلاشبہ غیروں کے منہ بند کر دیئے.“ حضور نے اس کے بعد یہ بھی فرمایا کہ یہ وہم دل سے نکال دیں کہ ایک

Page 2

ظفر اللہ خاں ہمیں چھوڑ کر جارہا ہے تو آئندہ کے لئے ظفر اللہ خاں پیدا ہونے کے رستے بند ہو گئے.بکثرت اور بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسے عظیم الشان غلاموں کی خوشخبریاں دی گئیں جو ہمیشہ آتے چلے جائیں گے.آپ اپنی ہمتوں کو بلند کریں، ان تقویٰ کی راہوں کو اختیار کریں جو چوہدری صاحب اختیار کرتے رہے....خدا تعالیٰ کی رحمتیں بے شمار ہیں ، وسیع ہیں اس لئے آپ...اولاد در اولاد کو یہ بتاتے چلے جائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک نہیں، دو نہیں بکثرت ایسے غلام عطا فرمائے گا...جو عالمی شہرت حاصل کریں گے جو بڑے بڑے عالموں اور فلسفیوں کے منہ بند کر دیں گے اور قومیں ان سے برکت پائیں گی.“ خدا تعالیٰ ہمیں بھی ایسا بننے کی تو فیق عطا فرمائے.پیش لفظ بادی النظر میں دنیاوی لحاظ سے انتہائی اعلیٰ مقام والقابات پانے والے وجود حضرت سر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کی سیرت کے مطالعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی اصل محبت اور اصل لگن تو کچھ اور ہی تھی.یہ دنیاوی ترقیات تو اس عشق حقیقی کا ادنی سا ثمرہ تھیں.آپ کو اپنے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ام ، حضرت مسیح موعود اور خلفاء احمدیت سے کمال عشق تھا.آپ نے زندگی کے ہر اہم موڑ پر خلفاء احمدیت کی راہنمائی حاصل کی اور عرب و عجم میں دکھی انسانیت کی بے لوث خدمات کی توفیق پائی.خود بھی اعلیٰ درجہ کی خدمات بجالائے اور ہمارے لئے قابلِ تقلید نمونہ قائم فرما گئے.خلافت احمد یہ صد سالہ جو بلی کے اس بابرکت موقع پر خلافت کے جانثاروں کے بارے میں تعارفی کتب شائع کرنے کا سلسلہ جاری ہے.زیر کے قلم سے لکھی گئی ہے، اور سیاس نظر کتاب کی پہلی طاعت ہے.خاکسار اس کتاب کی تیاری میں لی معاونت کا تہہ دل سے شکر گزار ہے جزا اللہ تعالی (حمص العبر

Page 3

2 1 وجود بہت سارے ایسے اعزازات کا حامل ہوا جن میں اسے انفرادیت اور خاص امتیاز حاصل ہے.حضرت سر چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب مثلاً آپ پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ نامزد کئے گئے اور مسلسل سات سال تک اس عہدہ پر فائز رہنے والے واحد وجود بھی تھے، عالمی عدالت انصاف کے پہلے پاکستانی بیج ، نائب صدر اور پاکر صدر، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پہلے پاکستانی ۶ فروری ۱۸۹۳ء کو ضلع سیالکوٹ پاکستان کے ایک قصبہ ڈسکہ میں ایک معزز صدر، پہلے فرد جنہوں نے عالمی عدالت انصاف اور اقوام متحدہ دونوں کی سربراہی کا زمیندار خاندان کے ایک گھرانہ میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام ظفر اللہ خاں رکھا گیا.اعزاز حاصل کیا.اس کے علاوہ بھی ان گنت اعزاز اس شخص کے سینے پر سجے اس کے والد حضرت چوہدری نصر اللہ خاں ایک قابل وکیل تھے اور ایک صاحب علم اور دراصل یہ وجود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کئی الہامات کا خدا ترس آدمی تھے اور والدہ حضرت حسین بی بی صاحبہ ایک نیک اور پاکباز خاتون مصداق مظہر ا اور آپ کی کئی پیشگوئیوں کا ظہور اس کی ذات میں ہوا.تو یقینا آپ جان تھیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بحیثیت امام مہدی ظہور ہو چکا گئے ہوں گے کہ یہ وجود دنیائے احمدیت کے بطل جلیل حضرت چوہدری سر محمد تھا.چنانچہ اور بہت سے سعید فطرت لوگوں کی طرح اس گھرانہ کو بھی نور نبوت کو ظفر اللہ خاں صاحب ہیں.پہنچانے کی توفیق ملی اور دونوں میاں بیوی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم شہر سیالکوٹ سے کے رفیق بننے کی سعادت پاگئے.ان کے ہاں پیدا ہونے والا یہ بچہ جس کا ابھی ذکر کیا حاصل کی اور میٹرک کے بعد لاہور چلے آئے.یہاں گورنمنٹ کالج لاہور جیسے بلند پایہ جا چکا ہے بچپن میں کافی لمبا عرصہ آشوب چشم (آنکھوں کی ایک تکلیف دہ بیماری) کی معتبہ علمی درسگاہ سے انٹر میڈیٹ اور پھر گریجوایشن مکمل کی.اسی دوران ایک عظیم الشان سے بیمار رہا جس کی وجہ سے اس بات کا گمان بھی محال تھا کہ یہ عملی زندگی میں کوئی شرف جو آپ کو حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ گو آپ ۳ رستمبر ۱۹۰۴ء کو حضرت اقدس مسیح موعود کامیاب وجود بن سکے گا.لیکن اس کے بزرگ والدین کی دعائیں اور ان سے بھی علیہ الصلوۃ والسلام کی زیارت کا شرف دوران لیکھر لاہور حاصل کر چکے تھے اور اسی بڑھ کر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپکے مقدس خلفاء کی دن سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی اور حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے دعا ئیں اس وجود کے حق میں دربار الہی میں کچھ اس طرح شرف قبولیت پاگئیں کہ وہ د عادی پر مکمل ایمان رکھنے والا سمجھتے تھے اور بعد میں اپنی والدہ محترمہ اور والد محترم کی

Page 4

4 3 بیعت کے وقت بھی حضور کی خدمت میں حاضر ہو چکے تھے لیکن ۱۹۰۷ ء میں حضرت جہد کے میدان میں ہر اندرونی تجربے کے میدان میں آپ پر یہ احساس غالب رہا کہ مولانا حکیم نورالدین صاحب خلیفہ مسیح الاول کے تحریک فرمانے پر ماہ ستمبر میں میں نے اللہ کے ایک مامور کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ہے اور جہاں تک میرا بس چلتا قادیان حاضر ہوئے اور ۶ ار ستمبر ۱۹۰۷ء کو بعد نماز ظہر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ ہے جہاں تک مجھے خدا کی طرف سے توفیق عطا ہوتی ہے میں اس کے تقاضے پورے الصلوۃ والسلام کے مقدس ہاتھ پر بیعت کی سعادت پالی.کرتا رہوں گا اور خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ نہایت عمدگی کے ساتھ نہایت ہی اہمیت سے ان تقاضوں کو پورا کیا.“ (خطبہ جمعہ فرموده 6 ستمبر 1985 ء بحوالہ ماہنامہ خالد صفحہ 918 دسمبر جنوری 86-1985ء) ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشد خدائے بخشنده تعلق اور وابستگی کا گہرا رشتہ جو آپ کا حضرت بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ سے قائم ہوا اللہ نے تعالی نے آپ کو کسی وفا اور اخلاص کے ساتھ اسے نبھانے کی توفیق بخشی گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن مکمل کرنے کے بعد آپ کے والد صاحب آئے سیدنا حضرت خلیفہ اسیح الرابع کی زبان مبارک سے اس کا کچھ تذکرہ سنتے نے آپ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے انگلستان بھجوانے کا فیصلہ کیا.آپ نے خود بھی دعا کی اور سید نا حضرت خلیفہ امسیح الاول کو بھی دعا کی درخواست کی اور بارگاہ خلافت سے ہیں.آپ فرماتے ہیں: ایک دفعہ BBC کے نمائندہ نے انٹرویو لیتے ہوئے اچانک آپ پر سوال کیا اجازت کے بعد آپ نے یہ سفر اختیار فرمایا.قبل از سفر حضرت خلیفتہ المسح الاول نے کہ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ کیا ہے.بے تکلف سوچنے کے لئے ذرا بھی آپ کو نہایت کارآمد اور مفید نصائح سے بھی نوازا.تر ڈونہ کرتے ہوئے آپ نے فوراً یہ جواب دیا کہ میری زندگی کا سب سے بڑا واقعہ وہ حضرت چوہدری صاحب نے انگلستان قیام کے دوران نہ صرف قانون کی اعلیٰ تھا جب میں اپنی والدہ کے ساتھ حضرت (بانی سلسلہ احمدیہ ) کی خدمت میں حاضر تعلیم بارایٹ لاء کو اعزاز کے ساتھ مکمل کیا بلکہ پیغام حق پہنچانے کی بھی سعادت حاصل کرتے رہے.ہوا.آپ کے مبارک چہرے پر نظر ڈالی اور آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ تھما دیا.اس دن کے بعد پھر وہ ہاتھ آپ نے کبھی واپس نہیں لیا.مسلسل ہاتھ تھمائے رکھا ہے اور جو نومبر ۱۹۱۴ ء میں تکمیل تعلیم کے بعد آپ ہندوستان لوٹ آئے اور سیالکوٹ میں عظمتیں بھی آپ کو ملی ہیں اس وفا کے نتیجہ میں ملی ہیں.اس استقلال کے نتیجہ میں ملی قانون کی پریکٹس شروع کر دی.اس دوران بعض اہم جماعتی مقدمات میں بھی خدمت ہیں، نیکی پر صبر اختیار کرنے کے نتیجہ میں ملی ہیں، ہمیشہ اپنے آپ کو حضرت ( بانی سلسلہ کی توفیق پائی.تھوڑے ہی عرصہ بعد لاہور تشریف لے آئے اور وہاں قانون کی پریکٹس احمدیہ ) کے تابع فرمان کے طور پر زندہ رکھا.ہر میدان میں، ہر علم کے میدان ہر جدو کے ساتھ ساتھ ایک لمبا عرصہ بطور امیر جماعت احمد یہ لا ہور خدمت کی توفیق پائی.

Page 5

6 5 آپ کے والد محترم حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کو بھی جماعت کی اعلیٰ قائد اعظم محمد علی جناح آپ پر خاص اعتماد کیا کرتے تھے اور آپ ان کے خاص خدمات کی توفیق ملتی رہی ہے.آپ حضرت اقدس مسیح موعود کے رفیق اور جماعت رفقاء میں شامل تھے.چنانچہ اسی بناء پر باؤنڈری کمیشن (پاکستان اور ہندوستان کی کے قدیم خدمتگار تھے.پہلے پہل ابطور وکیل خدمت کی توفیق پاتے رہے اور جب سرحدوں کی تعیین کے لئے حکومت انگلستان کا قائم کردہ کمیشن ) کے سامنے بھی مسلمانوں کا مستقل وقف کر کے قادیان حاضر ہوئے تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح الموعود نے کیس آپ کو پیش کرنے کے لئے کہا اور آپ نے کشمیر کی پاکستان میں شمولیت کی کئی آپ کو صدر انجمن احمد یہ قادیان کا پہلا ناظر اعلیٰ مقرر فرمایا.آپ نے ۱۹۲۶ء میں با را قوام متحدہ میں بہت عمدہ رنگ میں وکالت کی.اسی لئے قائد اعظم نے قیام پاکستان وفات پائی.۴ ستمبر ۱۹۲۶ء کوسید نا حضرت مصلح موعود نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی کے بعد مملکت پاکستان کے دو نہایت وقیع عہدے آپ کے سامنے رکھے کہ جس کو اور بہشتی مقبرہ قادیان میں خاص قطعہ ( رفقاء) میں آپ کی تدفین عمل میں آئی.چاہیں قبول فرمائیں.آپ کی والدہ محترمہ حضرت حسین بی بی صاحبہ بہت نیک، پارسا اور صاحب (۱) چیف جسٹس آف پاکستان (۲) وزیر خارجه کشف والہام بزرگ تھیں.آپ سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چنانچہ حضرت چوہدری صاحب نے وزیر خارجہ بنا قبول کیا اور بطور وزیر خارجہ بیعت کا شرف حاصل کرنے میں اپنے خاوند محترم سے سبقت لے گئیں تھیں.آپ پاکستان کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کروانے کے علاوہ مقبوضہ کشمیر کے لئے بھی خلافت احمد یہ اور جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت گہری وابستگی اور اخلاص و وفا کا تعلق نہایت احسن رنگ میں خدمات کی توفیق پائی.آپ نے مسلسل سات سال یعنی رکھتی تھیں.اسی طرح اپنے بیٹے حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کیساتھ بھی ۱۹۵۴ ء تک بطور وزیر خارجہ اپنے فرائض منصبی نہایت ایمانداری محنت اور خلوص کے گہری محبت تھی.آپ کے متعلق تفصیل کے ساتھ ذکر حضرت چوہدری صاحب نے ساتھ ادا کئے.اپنی کتاب ” میری والدہ " میں کیا ہے اور یہ مضمون بہت جاذب اور پڑھنے سے تعلق بطور وزیر خارجہ اپنے فرائض سے سبکدوشی کے بعد ایک اور نہایت اعلیٰ اعزاز رکھتا ہے.آپ کے حصہ میں آیا، آپ کو ۱۹۵۴ء تا ۱۹۶۱ ء تک بطور جج اور نائب صدر عالمی عدالت حضرت چوہدری صاحب نے حضرت مصلح موعود کے ارشادات کے ماتحت انصاف ( انٹر نیشنل کورٹ آف جسٹس ) میں خدمات کی ادائیگی کی توفیق ملی.۱۹۶۱ء تحریک پاکستان کے ایک سرگرم کارکن کے طور پر بھی عظیم الشان خدمات انجام دیں میں عالمی عدالت انصاف سے سبکدوشی کے بعد حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کے جن میں سے ایک بطور صدر آل انڈیا مسلم لیگ کام کرنے کی توفیق پاتا ہے.دفاتر واقع نیو یارک میں آپ کو اپنا سفیر اور مستقل مندوب (نمائندہ) مقرر کیا جہاں

Page 6

8 7 ۱۹۶۴ ء تک آپ نے اس حیثیت میں فرائض ادا کئے.اسی دوران اقوام متحدہ کی ۱۹۲۴ ء ہی میں سیدنا حضرت مصلح موعود نے مذاہب عالم کا نفرنس ویمبلے لنڈن جنرل اسمبلی کے اجلاس منعقدہ ۱۹۶۲ ء ۱۹۶۳ء کی صدارت کے اعزازات بھی آپ میں شرکت کے لئے سفر یورپ اختیار فرمایا.اس دوران ویمبلے ہال لندن میں مذاہب عالم کا نفرنس میں سیدنا حضرت مصلح موعود کا معرکۃ آلاراء مضمون بعنوان ”احمدیت“ کے حصہ میں آئے.اب اگر حضرت چوہدری صاحب کی جماعتی خدمات پر نظر ڈالی جائے تو حضرت پڑھ کر سنانے کی سعادت بھی آپ کے حصہ میں آئی جس پر حضرت مصلح موعود نے چوہدری صاحب کو جس طرح اللہ تعالیٰ نے دنیا کی حسنات سے نوازا اور مندرجہ بالا خاص خوشنودی کا اظہار فرمایا.سید نا حضرت مصلح موعود کے اس پہلے سفر یورپ کے عالمی اعزازات عطا کئے اسی طرح دینی حسنات سے بھی اللہ تعالیٰ نے بہت نوازا اور دوران آپ نے حضور کے سیکرٹری کے فرائض بھی سرانجام دیئے.مقبول خدمات دینیہ کے بھی بے پناہ مواقع حضرت چوہدری صاحب کے حصہ میں ۱۹۲۷ء میں اخبار مسلم آؤٹ لک“ کے مقدمہ توہین عدالت کی مسلمانان آئے جن میں سے صرف چند کا اختصار کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے.حضرت مصلح موعود پنجاب کے وکلاء کی طرف سے بطور نمائندہ وکالت کی توفیق بھی آپ کو ملی.آپ نے نے آپ کو بطور جماعت احمدیہ لاہور مقرر فرمایا چنانچہ آپ ۱۹۱۹ ء تا ۱۹۳۵ ء یہ خدمات ناموس رسول ﷺ کے دفاع کا حق ادا کیا.اس طرح ہمارے پیارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی میلے کی شان کی عظیم خدمت کی توفیق پائی.اس موقع پر تاریخ بجالاتے رہے.اسی دوران جون ۱۹۲۱ء میں لارڈ ریڈنگ وائسرائے ہند کی خدمت میں جماعت صحافت میں جماعت احمدیہ کے مخالف مولوی ظفر علی خان بھی اپنے جذبات کا اظہار احمدیہ کا سپاسنامہ پڑھنے کیلئے آپ کو مقرر کیا گیا.فروری ۱۹۲۲ ء میں ڈیوک آف ونڈسر کئے بغیر نہ رہ سکے اور فرط جذبات میں آکر آبدیدہ ہو گئے اور آگے بڑھ کر آپ کے شہزاہ ویلز کی لاہور تشریف آوری کے موقع پر سیدنا حضرت مصلح موعود نے ان کو پیغام ہاتھ کا بوسہ لیا اور آپکو گلے سے لگالیا.حق پہنچانے کی غرض سے ایک رسالہ تحفہ شہزادہ و میلز کے نام سے تصنیف فرمایا.اس ماہ اپریل ۱۹۳۱ء میں بمقام دیلی لا رڈارون وائسرائے ہند کی حکومت میں پیغام رسالہ کو پرنس آف ویلز کو پیش کر نیوالے جماعت احمدیہ کے وفد میں آپ کو بھی شامل حق پر پر مشتمل سید نا حضرت مصلح موعود کی تالیف کردہ کتاب ”تحفہ لارڈارون“ پیش ہو نیکی تو فیق ملی ۱۹۳۳ ء کی مجلس مشاورت کے موقع پر سید نا حضرت مصلح موعود کی بطور کرنے کی سعادت بھی حضرت چوہدری صاحب کے حصہ میں آئی.سیکرٹری معاونت خدمت کی توفیق ملی اور اسی طرح ۱۷ دیگر مواقع پر بھی یہ سعادت ۱۹۳۲ ء میں آپکی والدہ محترمہ حضرت حسین بیا بی صاحبہ وفات پاگئیں.آپ حضرت چوہدری صاحب کے حصہ میں آئی.نے مرحومہ کے حالات زندگی اور ان کے اخلاص ووفا اور جماعت اور حضرت بانی

Page 7

10 سلسلہ عالیہ احمدیہ کے ساتھ محبت اور تقویٰ شعار زندگی کے بارہ میں متعدد واقعات پر ایک غیر مسلم مؤرخ کے اصرار پر اپنوں اور غیروں میں سیدنا حضرت مصلح موعود مبنی ایک کتابچہ ” میری والدہ کے نام سے تحریر فرمایا ہے.موصوفہ احمدیت کے حق میں کی ذات بابرکات کا تعارف کروانے کیلئے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں ننگی تلوار اور بہت با غیرت خاتون تھیں.سیدنا حضرت مصلح موعود نے اپنے دست کتاب ” حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ۱۹۴۲۴ء میں تالیف فرمائی.مبارک سے ان کے کتبہ کی عبارت تحریر فرمائی اور قادیان میں بہشتی مقبرہ کے قطعہ خاص سید نا حضرت مصلح موعود اور حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں صاحب دونوں کا ( رفقاء) میں اپنے خاوند محترم حضرت چوہدری نصر اللہ خاں صاحب کے ساتھ آپ کی آپس کا تعلق بے پناہ پیار و محبت، اخلاص و وفا اور دلی وابستگی پر مشتمل تھا اور اس شعر کا عملی مصداق تھا کہ تدفین عمل میں آئی.۱۹۳۹ء میں جماعت احمدیہ میں خلافت ثانیہ کے قیام پر پچیس سال پورے ہو گئے.اس موقع پر سید نا حضرت مصلح موعود کی اجازت سے آپ نے احباب جماعت احمدیہ کو اس مبارک موقع پر ایک معقول رقم بطور نذرانہ اپنے محبوب امام کی خدمت میں الفت کا تب مزا ہے کہ دونوں ہوں بے قرار دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی چنانچہ ایک طرف اگر حضرت چوہدری صاحب اپنے محبوب امام کے لئے ہر وقت پیش کرنیکی تحر یک فرمائی تا حضور اس کو جس طرح چاہیں اشاعت دین حق کی مہمات جذبہ محبت و وفا اور دلبستگی سے پُر رہتے تھے اور ہمہ وقت مشغول دعا ہوتے تھے تو عظیمہ میں استعمال فرمائیں.چنانچہ دسمبر ۱۹۳۹ء میں جلسہ سلور جوبلی قادیان کے دوسری طرف سید نا حضرت مصلح موعود بھی اپنے اس جاں نثار غلام اور فدائی خادم سے موقع پر آپ نے بطور نذرانہ ۱۳اکھ روپے کی خطیر رقم حضور اقدس کی خدمت میں پیش بہت پیار اور محبت کرتے تھے.چنانچہ اسی تعلق کی بناء پر اللہ تعالی نے ۱۷ یا ۱۸ رنومبر فرمائی اور اپنی طرف سے بطور نذرانہ ہزار روپے بھی پیش کئے.۱۹۵۳ء کو اپنے مقدس خلیفہ سید نا حضرت مصلح موعود کو حضرت چوہدری صاحب کے حضرت چوہدری صاحب کا وجود گویا سراپا قربانی تھا، بلکہ مجسمہ ایثار وفا تھا.بارہ میں قبل از وقت ایک رو یاد کھائی.اس رویاء کے ظہور کے بارے میں بیان کرتے چنانچہ سید نا حضرت مصلح موعود نے جون ۱۹۴۴ء میں جب احباب جماعت کو وقف ہوئے سید نا حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں.جائیداد کی تحریک فرمائی تو اُس وقت اس جاں نثار دین حق واحمدیت نے اپنی تمام ۱۷ ، ۱۸ نومبر ۱۹۵۳ ء کی بات ہے کہ میں نے رویا میں دیکھا کہ میں ایک جگہ جائیداد اپنے محبوب امام کے قدموں پر نچھاور کرتے ہوئے وقف کے لئے پیش کر ہوں.میاں بشیر احمد صاحب اور درد صاحب میرے ساتھ ہیں.کسی شخص نے مجھے ایک لفافہ لا کر دیا اور کہا کہ یہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کا ہے.میں نے اس لفافہ دی.

Page 8

12 11 کو کھولے بغیر یہ محسوس کیا کہ اس میں کسی عظیم الشان حادثہ کی خبر ہے جو چوہدری چوہدری صاحب کو تیرنا آتا ہے؟ خدا کرے اس حادثہ کی خبر معلوم کر کے کسی حکومت صاحب کی موت کی شکل میں پیش آیا ہے یا کوئی اور بڑا حادثہ ہے.میں نے درد نے ہوائی جہاز یا کشتیاں بچانے کے لئے بھیج دی ہوں تا کہ چوہدری صاحب اور صاحب سے کہا لفافہ کو جلدی کھولو اور اس میں سے کاغذ نکالو.درد صاحب نے لفافہ دوسرے لوگ بچ جائیں.“ کھولا.اس میں بہت سے کاغذ نکلتے آتے تھے.لیکن اصل بات جس کی خبر دی گئی تھی نظر نہیں آتی تھی آخر کا ر لفافہ میں صرف ایک دو کاغذرہ گئے لیکن اصل خبر کا پتہ نہ لگا.حضور نے اس رویا کی یہی تعبیر فرمائی کہ کوئی حادثہ سخت مہلک چوہدری صاحب کو پیش آنے والا ہے اور خدا تعالیٰ میاں بشیر احمد صاحب نے کہا پتہ نہیں چوہدری صاحب کے دماغ کو کیا ہو گیا ہے وہ انہیں اس سے بچالے گا کیونکہ وہ خود اس حادثہ کے متعلق سبھی خبر دے سکتے ہیں جب ایک اہم خبر لکھتے ہیں لیکن اچھی طرح بیان نہیں کرتے.میں نے کہا گھبراہٹ میں ایسا وہ محفوظ ہوں.“ ہو جاتا ہے.اس پر لفافہ میں جو دو کاغذ باقی رہ گئے تھے ان میں سے ایک کاغذ کو میں چوہدری صاحب اس وقت نیو یارک میں تھے.حضور نے انہیں اس منذ رخواب نے باہر کھینچا تو ایک فہرست تھی لیکن اصل واقعہ کا اس سے پتہ نہیں لگتا تھا.اس فہرست سے اطلاع دی اور خود بھی کثرت سے دعاؤں اور صدقات کا سلسلہ جاری رکھا.یہاں میں ایک نام سے پہلے ملک لکھا تھا اور آخر میں محمد لکھا تھا.درمیانی لفظ پڑھا نہیں جاتا تک کہ چوہدری صاحب خیریت سے کراچی پہنچ گئے.وہاں سے پنجاب آئے تو یہ سفر تھا.اس سے اتنا تو پتہ لگتا تھا کہ واقع میں کوئی اہم خبر ہے لیکن اصل واقعہ کا پتہ نہیں چلتا بھی بخیریت گزر گیا لیکن جب کراچی واپس گئے تو ریل گاڑی کو ٹھمپیر کے مقام پر ایک تھا.پھر لفافہ میں سے ایک اور شفاف کا غذ نکلا جو tracing paper تھا.میں اسے خوفناک حادثہ پیش آیا جس نے ملک بھر میں صف ماتم بچھا دی.مگر حضرت چوہدری دیکھنے لگا اور میں نے کہا یہ خبر ہے جو چوہدری صاحب نے ہم تک پہنچانی چاہی ہے مگر صاحب حضور کی رؤیا کے مطابق خارق عادت طور پر محفوظ رہے.بجائے کوئی واقعہ لکھنے کے اس کاغذ پر ایک لکیر کھینچی ہوئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ حضور فرماتے ہیں.جس جگہ پر یہ واقعہ ہوا چوہدری صاحب کے خط سے معلوم ایک ہوائی جہاز ہے جو مشرق سے مغرب کی طرف جا رہا ہے.آگے جا کر وہ لکیر یکدم ہوتا ہے کہ اس سے دس دس میل دور تک کوئی پکی سٹرک نہیں ہے صرف ریل کی پٹڑی ار بیوی (آزادہ تر چھا) صورت میں نیچے آجاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جہاز یکدم نیچے گزرتی ہے.اس لئے اعداد کے لئے اس جگہ تک موٹر نہیں آسکتی تھی.اس طرح وہ جگہ آگیا ہے.اس جگہ معلوم ہوتا ہے کہ نیچے کچھ جزیرے ہیں مجھے نیچے کی طرف عملاً جزیرے کی مانند تھی.میں سمجھتا ہوں کہ رویا میں ہوائی جہاز کا دکھا یا جانا اور واقعہ ریل سمند ر نظر آتا ہے.اس میں ہلکی ہلکی لہریں ہیں.میں خواب میں کہتا ہوں کہ نہ معلوم میں ہونا اور پھر یہ گاڑی بھی مشرق سے مغرب کو جارہی تھی.اس طرح دوسری سب

Page 9

14 13 باتوں کا ہونا بتا تا ہے کہ یہ ایک تقدیر مبرم تھی لیکن خدا تعالیٰ نے ہماری دعاؤں کو سن کر آپ کے حصہ میں ایک اور سعادت یہ بھی آئی کہ سید نا حضرت مصلح موعود نے اس حادثہ کو بجائے ہوائی جہاز کے ریل میں بدل دیا.ہوائی جہاز میں ایسا حادثہ پیش قاتلانہ حملہ کے بعد علاج کی خاطر جب ماہ جولائی ، اگست اور ستمبر ۱۹۵۵ء میں دوسرا آ جائے تو اس سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے لیکن یہی حادثہ اگر ریل میں پیش آجائے تو سفر یورپ اختیار فرمایا تو اس میں آپ کو بھی حضور کی مصاحبت کا شرف حاصل ہوا اور اس سے کسی انسان کا بچ جا ناممکن ہے اور پھر وہ ریل مشرق سے مغرب کو جارہی تھی.زیادہ تر رہائش و دیگر انتظامات کرنے کی خدمت وسعادت آپ ہی کے حصہ میں آئی.جب میں نے یہ واقعہ پڑھا تو میں نے محسوس کیا کہ میری وہ خواب پوری ہوگئی ہے.اس کے علاوہ اس سفر کے دوران متعدد مواقع پر حضور کی ترجمانی کے فرائض بھی آپ میں نے میاں بشیر احمد صاحب سے اس کا ذکر کیا جن کو میں یہ خواب اسی وقت بتا چکا تھا نے ادا کئے.دوران سفر حضرت چوہدری صاحب نے جس اخلاص و وفا اور جذبہ جب یہ آئی تھی.انہوں نے بھی کہا کہ واقعہ میں وہ خواب پوری ہوئی ہے.لیکن میں عشق و محبت کے ساتھ اپنے محبوب امام اور افراد قافلہ کی خدمت کی توفیق پائی آئیے نے اخبار میں یہ واقعہ پڑھ کر چوہدری صاحب کو یہ لکھنا پسند نہ کیا کہ میری رؤیاپوری اس کا کچھ ذکر حضرت سیدہ مہر آیا حرم سید نا حضرت مصلح موعود ( جو شریک سفر تھیں) ہوگئی ہے کیونکہ رویا میں انہوں نے پہلے اطلاع دی تھی اس لئے میں نے یہی پسند کیا کی زبانی سنتے ہیں.آپ بیان فرماتی ہیں: کہ وہ اطلاع دیں تو میں لکھوں گا.چنانچہ دوسرے ہی دن چوہدری صاحب کی تار آ گئی "حضرت فضل عمر کے سفر یورپ میں آپ تمام وقت حضور کے ساتھ ساتھ کہ آپ کی رؤیا پوری ہوگئی ہے اور خدا تعالیٰ نے مجھے اس حادثہ سے بچالیا ہے.یہاں رہے.حضور کا تمام کام اپنے ہاتھ سے کرتے.آپ کا سامان خود اٹھاتے رہے کیونکہ رویا کا سوال نہیں کہ وہ پوری ہوگئی بلکہ یہ ایک تقدیر مبرم تھی جو دعاؤں سے بدل گئی.وہاں ہمارے ہاں کی طرح سامان اٹھانے کے لئے قلی وغیرہ عام نہیں ہوتے.اول تو رویا میں خدا تعالیٰ نے مجھے ہوائی جہاز دکھایا تھا لیکن وہ واقعہ اسی جہت میں اور اسی شکل وہ لوگ اس قدر سامان سفر میں ساتھ رکھتے نہیں.یہاں سے روانگی سے قبل بھی میں ریل میں پورا ہوا.معلوم ہوتا ہے کہ ایسا ہونا تقدیر مبرم تھا لیکن خدا تعالیٰ نے کہا چلو چوہدری صاحب بڑے اصرار سے بار بار یہی پیغام بھجواتے رہے.سامان تھوڑالے ان کی بات بھی پوری ہو جائے اور اپنی بات بھی پوری ہو جائے واقعہ ہم ریل میں جائیں وہاں اس کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی.مگر تھوڑا تھوڑا کر کے بھی سامان اچھا کرا دیتے ہیں اس سے ہماری بات بھی پوری ہو جائے گی اور ان کی دعا بھی قبول ہو خاصا ہو گیا.لمصل 1) جائے گی.پس یہ واقعہ ہمارے لئے زائد یقین اور ایمان کا موجب ہے.“ دوران سفر جب و نفیس (اٹلی) پہنچے تو وہاں نہ کوئی تلی تھا نہ مزدور.مصلح ۸ فروری ۱۹۵۴ بحوالہ ماہنامہ خالد حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں نمبر دسمبر ۱۹۸۵ء جنوری ۱۹۸۶ صفه ۱۳ ۱۴) حضرت چوہدری صاحب نے تمام سامان اپنے کندھوں پر اٹھا اٹھا کر کا ر سے

Page 10

16 15 گنڈ ولے ((Gondola) وینیس شہر کی نہروں میں چلنے والی کشتیاں ) تک پہنچایا اور مسکراتے میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں.ہوئے فرمایا: دیکھا میں نہ کہتا تھا کہ اس قدر سامان نہ لے جائیں.خیر بیبیوں کو پتہ تھا قرآن کریم سے عشق بھی حضرت چوہدری صاحب کی حیات کا ایک زریں باب ظفر اللہ ساتھ ہے خود ہی سامان اُٹھاتا پھرے گا.چوہدری صاحب نے تو مزاحاً یہ ہے.آپ کو خدمت قرآن کا ایک نہایت اہم موقع اس طرح میسر آیا کہ حضرت مصلح بات کہی تھی مگر مجھے بہت احساس ہوا کہ ان پر یہ اتنا بوجھل کام آن پڑا ہے.وہ تو اپنے موعود نے انگریزی خواں طبقہ تک علوم قرآن کو پہنچانے اور قرآنی معارف ان کی زبان حبیب حضرت فضل عمر کے عشق و محبت میں اپنی ذات سے بے نیاز ہو کر سب کام کر میں میسر کرنے کی تحریک فرمائی تو آپ نے قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ کرنے کا ارادہ رہے تھے.اس زمانہ میں کسی کو دو چار پیسے مل جائیں یا اعلیٰ تعلیم حاصل کر لے تو وہ کیا.ایک طویل محنت شاقہ کے بعد اس کام کو ۱۹۷ ء میں مکمل کر لیا.گو جماعتی تاریخ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے لگتا ہے مگر چوہدری صاحب کو کمال سلیم فطرت ملی ہوئی تھی.میں قرآن کریم کا انگریزی ترجمہ اس سے قبل بھی کیا جا چکا تھا لیکن حضرت چوہدری آپ کو دیکھ کر حیرت ہوتی تھی کہ اتنی بڑی شخصیت اور انکسار کا یہ عالم.“ صاحب کے ترجمہ قرآن کی خوبی یہ ہے کہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی اصلح موعود نے (رساله خالد حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں نمبر دسمبر ۱۹۸۵ء جنوری ۱۹۸۶ء صفحه ۳۳٬۳۲) حضرت چوہدری صاحب کو ارشاد فرمایا تھا کہ قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کو تفسیر صغیر مارچ ۱۹۵۸ ء میں حضرت چوہدری صاحب کو حجاز مقدس کے بابرکت سفر کی کے ترجمہ کے اسلوب پر ڈھال دیا جائے.چنانچہ حضرت چوہدری صاحب نے اسی توفیق ملی اور آپ نے عمرہ کی سعادت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ روضہ رسول پر اسلوب پر ترجمہ قرآن کو مکمل کیا اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اسکے ابتدائی حصہ پر نظر حاضری اور دعا کی سعادت بھی پائی.اپنے اس سفر کے دوران آپ کی تعظیم المرتبت ثانی قمر الانبیاء صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے اور حضرت مولوی محمد دین شخصیت کے اعزاز میں سعودی فرمانروا جلالۃ الملک سلطان عبد العزیز ابن سعود نے نہ صاحب نے فرمائی تھی.حضرت چوہدری صاحب کی یہ عظیم خدمت قرآن ایک صدقہ صرف آپ سے ملاقات کی بلکہ شاہی مہمان خانہ میں ٹھہرایا.جاریہ ہے اور جب تک لوگ اس ترجمہ قرآن سے مستفید ہوتے رہیں گے حضرت مارچ ۱۹۶۷ء میں حضرت چوہدری صاحب کو حج بیت اللہ کی سعادت بھی ملی اور چوہدری صاحب کو اجر عظیم ملتا چلا جائیگا اور ان شاء اللہ العزیز یہ سلسلہ تا قیامت جاری اس دوران خانه خدا بیت اللہ کے طواف اور دیگر مناسک حج کی ادائیگی کے علاوہ رہے گا.روضہ رسول پر حاضری اور دعا کی سعادت بھی میسر آئی.اس سفر حج کے عشق و محبت فروری ۱۹۷۰ ء میں ہالینڈ کے شہر ہیگ (HAGUE) میں واقع بین الاقوامی عدالت سے لبریز حالات اور واقعات حضرت چوہدری صاحب کی خود نوشت تحدیث نعمت“ انصاف (International Court of Justice) کا آپ کو صدر یعنی چیف

Page 11

18 17 2فروری کو ختم ہوتی ہے.اس میعاد کے ختم ہونے سے قبل اقوام متحدہ میں ان پانچ جوں کی نشستیں پر کرنے کے لئے انتخاب ہوتا ہے.جب نئے جج اپنے فرائض 4 فروری جسٹس مقرر کیا گیا اور عہدہ کی مقررہ میعاد کے مطابق ۳ سال آپ نے یہ فرائض بخیر و وقت تک اس عدالت کے آٹھ صدر رہ چکے ہیں.دولاطینی امریکن، ایک شمالی امریکن، خوبی سرانجام دیئے.اس عہدہ پر آپ کا منتخب ہونا ایک خدائی بشارت کا ظہور اور کئی چار یورپین، ایک آسٹریلین ، میں پہلا ایشیائی صدر ہوں اور ایشیائی بھی وہ جو مغربی نشانات کا ظہور میں آنا تھا.چنانچہ اس واقعہ کی تفصیل کے بارے میں حضرت تہذیب اور ثقافت کی اقدار سے بیزار ہے اور جس کی یہ بیزاری اس کے عمل سے ظاہر چوہدری صاحب فرماتے ہیں: ہے لیکن اگر اُس کی مشیت نے ایک ناکارہ ہی کا انتخاب چاہا تو ”عالمی عدالت کے پندرہ جوں میں سے پانچ کی نو سالہ میعاد ہر تیسرے سال نیست از فضل وعطائے اوبعید کور باشد هر که از انکار دید قادر است و خالق ورب مجید ہر چہ خواہد می کند بخرش که دید؟ اس کی قدرتوں کی انتہا نہیں.اس انتخاب سے ۳۶ سال قبل میری والدہ صاحب سے سنبھال چکتے ہیں تو عدالت کا پہلا کام صدر کا انتخاب ہوتا ہے.صدارت کے مرحومہ نے ایک مبشر خواب دیکھا تھا ، جو ان کی وفات کے ۳۲ سال بعد اس انتخاب عہدے کی میعاد تین سال ہے.یہ انتخاب خفیہ رائے شماری کے ذریعے عمل میں آتا سے پورا ہوا.فالحمد للہ.جس رات انہوں نے خواب دیکھا اسی صبح کو مجھ سے بیان ہے.۱۹۷۰ ء میں اس انتخاب کے لئے ۱۸ / فروری کا دن تجویز ہوا.صدارت کے کیا کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں اپنے سیالکوٹ کے مکان کے فلاں لئے دو اور جوں کے ساتھ میرا نام بھی تجویز ہوا تھا.انتخاب کے لئے آٹھ آراء کی تائید کمرے میں ہوں اور اس کمرے کی کھڑکی کے باہر ایک نہایت دل لبھانے والا کتر ک نور ضروری ہے.انتخاب کی کارروائی دو دن ہوتی رہی.آخر کار مطلوبہ کثرت سے زائد آہستہ آہستہ کھڑکی کی ایک جانب سے دوسری جانب حرکت کر رہا ہے.جب کھڑ کی آراء میرے حق میں پائی گئیں اور بفضل اللہ میں صدر منتخب ہوا.فالحمد اللہ.میں ایک کے عین وسط میں پہنچا تو ایک پر شوکت آواز آئی ” ہو گا چیف جسٹس ظفر اللہ خاں نصر اللہ ضعیف عاجز پر تقصیر انسان ہوں.اپنے اندر کوئی خوبی نہیں دیکھتا.میرے دوسرے خاں کا بیٹا.اور خفیف سے وقفے کے بعد پھر اسی طرح یہ الفاظ دہرائے گئے ”چیف دونوں رفیق جن کے اسمائے گرامی انتخاب کی کارروائی میں سامنے آتے رہے کئی جسٹس ظفر اللہ خاں نصر اللہ خاں کا بیٹا.والدہ صاحبہ بفضل اللہ صاحبہ رؤیا وکشوف اعتبار سے مجھ پر فوقیت رکھتے ہیں.اللہ تبارک تعالی اپنی مصلحتوں کو خود ہی جانتا ہے تھیں اور ہم سب کئی بار دیکھ چکے تھے کہ اللہ تعالی محض اپنے فضل وکرم سے انہیں اس کوئی اور ان کا احاطہ نہیں کر سکتا.وہ فضل کرنا چاہے تو کوئی روک نہیں بن سکتا اور اگر رنگ میں نوازتا ہے.وہ خود بھی جانتی تھیں کہ رویا اور کشوف تعبیر طلب ہوتے ہیں اس کا فضل شامل حال نہ ہو تو کوئی کوشش کوئی تدبیر کوئی حیلہ کارگر نہیں ہو سکتا.اس اور ان کی اصل حقیقت اپنے وقت پر ہی جا کر آشکار ہوتی ہے.۱۹۴۷ء میں میں 66

Page 12

20 19 ہندوستان کی فیڈرل کورٹ کا سینئر حج تھا اور اگر تقسیم ملک کے بعد میں ہندوستان میں فائز ہونے پر میرا درجہ میرے پرانے رفقاء کے لحاظ سے پھر سب سے نیچے تھا.اب جو رہنے کا فیصلہ کرتا تو غالب قیاس یہی تھا کہ آزادی کا اعلان ہونے پر سپریم کورٹ کا غور کرتا ہوں تو میرا عدالت کی صدارت پر منتخب ہونا ضرور ایک اچنبھا ہے اور اس چیف جسٹس ہوتا.۳ جون ۱۹۴۷ء کو برطانوی وزیراعظم مسٹر ٹیلی نے تقسیم ملک کے بشارت کو پورا کرنے والی ہے جو انتخاب سے ۳۶ سال پہلے میری والدہ صاحبہ کو دی گئی طریق کار کا اعلان کیا اور اس پر میں نے فیڈرل کورٹ کی حجی سے استعفیٰ دے دیا جو تھی.والدہ صاحبہ نے خواب میں جو الفاظ سنے ان میں بھی اللہ تعالیٰ کی حکمت مرکوز ۱۰ جون سے عمل پذیر ہوا.اسی سال دسمبر کے تیسرے ہفتے میں جب میں اقوام متحدہ تھی.اول بطور تسلی اور تصدیق آواز پر شوکت تھی.پھر وہی الفاظ دہرائے گئے.اور میں پاکستانی وفد کی قیادت سے واپس لوٹا تو قائداعظم کی ہدایت کے ماتحت بھوپال الفاظ کی ابتداء ہی میں لفظ ” ہوگا ظاہر کرتا ہے کہ حالات خواہ موافق نظر آئیں یا نہ یہ جانے سے پہلے نوابزادہ لیاقت علی خاں صاحب کی خدمت میں لاہور حاضر ہوا.ہمارا فیصلہ ہے اور ہو کر رہے گا.پھر میرے نام کے ساتھ والد صاحب مرحوم کا نام انہوں نے جن امکانات کا ذکر فرمایا ان میں پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نصر اللہ خاں شامل ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ بخشش اس کی کا عہدہ بھی تھا لیکن ساتھ ہی انہوں نے فرمایا قائد اعظم چاہتے ہیں کہ تم وزارت خارجہ نصرت کا نشان ہوگی انسانی کوشش کا اس میں دخل نہیں ہوگا.فسبحان اللہ و بحمدہ ( تحدیث نعمت صفحه ۷۳۰ تا ۷۳۲) کا قلمدان سنبھالو.پاکستان کی سپریم کورٹ کے پہلے چیف جسٹس میاں عبدالرشید صاحب مقرر ہوئے.جب ان کی میعاد اختتام کے قریب پہنچی تو انہوں نے از راہ فروری ۱۹۷۳ء میں عالمی عدالت انصاف سے ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے نوازش پہلے ٹیلیفون پر اور پھر بالمشافہ مجھے رضا مند کرنے کی کوشش کی کہ میرا نام بطور اپنے تئیں خدمت دین کے لئے وقف کر دیا اور حسب ارشاد سید نا حضرت خلیفہ امسیح اپنے جانشین کے تجویز کریں لیکن میں بوجوہ رضامند نہ ہوا.۱۹۶۳ء کے عدالتی الثالث ( بیت) فضل لندن کی ملحقہ عمارت میں رہائش پذیر رہے اور ۱۹۸۳ ء تک انتخابات میں جب مجھے دوبارہ عالمی عدالت کی رکنیت کے لئے منتخب کیا گیا اس وقت وہیں قیام پذیر رہے.دوران قیام آپ نے احباب جماعت ہائے احمد یہ انگلستان کی عدالت کے اراکین میں سے کئی دوبارہ منتخب شدہ اور دوسہ بارہ منتخب شدہ تھے لیکن ان تربیت اور دعوت الی اللہ کی مساعی میں بہت راہ نمائی فرمائی اور تربیتی مساعی کے کے انتخاب بلا فصل ہوئے تھے.ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک رکن اپنی میعاد ختم کر کے دوران آپ نے انگلستان اور بیرون انگلستان متعدد دورہ جات بھی فرمائے.اس عدالت سے علیحدہ ہو چکا ہو اور وہ علیحدگی کے بعد وقفہ سے پھر منتخب کر لیا جائے.یہ دوران وسط نومبر تا وسط مارچ پاکستان میں قیام فرماتے اور جلسہ سالانہ میں شرکت کے صورت اب تک صرف میرے متعلق ہی پیدا ہوئی ہے.عدالت کی رکنیت پر دوبارہ علاوہ تصنیف اور دیگر علمی و جماعتی مصروفیات میں وقت گزرتا.

Page 13

22 21 ماہ جون ۱۹۸۲ ء میں جماعت احمدیہ کو جب اپنے محبوب امام سید نا حضرت خلیفہ یکم ستمبر ۱۹۸۵ ء کو احمدیت کا یہ بطل جلیل، سرزمین پاکستان کا نامور سپوت، کئی المسیح الثالث کی رحلت کا قیامت خیز دن دیکھنا پڑا تو اس موقع پر مجلس انتخاب خلافت نشانات کا مورد اور کئی الہامات کا مصداق عظیم الشان وجود۹۲ سال کی نفع رساں عمر کے اجلاس میں حضرت چوہدری صاحب نے بھی بفضل اللہ شمولیت کی اور پھر جب پا کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملا.حسب منشائے الہی سید نا حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحب خلیفہ اسیح الرابع آپ کا لمبی عمر پانا بھی اس ارشاد خداوندی کی تصدیق اور اس کی عظمت کا ثبوت منتخب ہوئے تو مجلس انتخاب کی بیعت لینے سے قبل حضور نے سب سے پہلے حضرت چوہدری صاحب کو رفقاء حضرت مسیح موعود کی نمائندگی میں اپنا ہاتھ اپنے ہاتھ پر رکھنے کا ارشاد اپنی اس خواہش کی تکمیل میں فرمایا کہ "سب سے پہلے بیعت کرنے والا تو وہ ہو ٹھہر جاتا ہے.(سورۃ الرعد آیت نمبر ۱۸) جس نے حضرت اقدس مسیح موعود کے مبارک ہاتھوں کو چھوا ہوا ہو.چنانچہ حضرت چوہدری صاحب کو یہ عظیم الشان خوش نصیبی اور سعادت بھی میسر آگئی.ہے کہ اور جہاں تک اس شخص کا تعلق ہے جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے تو وہ زمین میں چنانچہ آپ جیسے نفع رساں اور مفید وجود کو اللہ تعالیٰ نے لمبی عمر سے نوازا.کئی قوموں بلکہ ایک دنیا نے آپ سے استفادہ کیا اور برکت پائی.یقیناً بین الاقوامی آپ کی مالی قربانی اور دیگر نیکیاں آپ کے لئے صدقہ جاریہ کی صورت میں ۶ نومبر ۱۹۸۳ء میں انگلستان سے مستقل پاکستان واپسی کے بعد آپ کا زیادہ تر شہرت کی حامل آپ کی شخصیت ایک بہت ہی نافع الناس جود ثابت ہوئی.قیام اپنی کوٹھی واقع خورشید عالم روڈ شمالی چھاؤنی لاہور میں رہا.اس عرصہ میں آپ کو ضعف اور نقاہت بہت ہوگئی تھی لیکن ان ایام میں بھی نماز با جماعت کا بہت انشاء اللہ ہمیشہ آپ کے اجر میں اضافہ کرتی چلی جائیں گی.سید نا حضرت خلیفہ پابندی کے ساتھ التزام فرماتے رہے.حضرت خلیفہ مسیح الرابع سے بہت عشق اور امسیح الرائع نے آپ کی وفات پر آپ کا جو ذکر خیر فرمایا اس کی کچھ جھلکیاں محبت کا تعلق تھا.آپ کی سیرت اور حالات بیان کرتے ہوئے کثرت سے آپ کے مندرجہ ذیل ہیں.قریبی عزیزوں نے جو اپنے مشاہدات بیان کئے ہیں ان میں اس بات کا ذکر کیا ہے " آپ کے حق میں حضرت (بانی سلسلہ احمدیہ ) کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو کہ اکثر شدید بیماری میں بھی حضور کے بارہ میں دریافت فرمایا کرتے.حضور کی بار بار اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی اور اس بار بار عطا ہونے میں بھی ایک کثرت کا خیریت کے بارہ میں دریافت کرتے اور اپنی دعاؤں میں بکثرت حضرت امام نشان تھا جو آپ کو دیا گیا فرماتے ہیں: جماعت اور جماعت احمدیہ کے لئے دعائیں کیا کرتے.” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری

Page 14

24 23 جارہی تھیں.محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلے کو تمام دنیا میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر وہ دور اقوام متحدہ کی تاریخ میں اگر کسی ایک تعریف کے ساتھ یاد کیا جائے تو یونائیٹڈ میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال نیشنز کی تاریخ کا اخلاقی دور کہلائے گا.“ حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور بشارتوں کی رو سے وہ سب کا ”ویسے تو بکثرت ایسے احمدی ہیں جن سے قوموں نے فائدے اٹھائے لیکن منہ بند کریں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے وہاں ایک ذات میں ساری باتیں اکٹھی ہو گئیں.ایک سرچشمے سے جو حضرت (بانی گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی سلسلہ احمدیہ) کی غلامی پر فخر کیا کرتا تھا تمام اقوام عالم نے فائدہ اٹھایا اور سیراب اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا ہوئیں اور پھر قوموں کی بھر پور خدمت میں آپ کو خدا تعالٰی نے ایسے ایسے مواقع اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ نصیب فرمائے جبکہ نئی تاریخ کی شکلیں بن رہی تھیں اور جدید تاریخ کی نبیا دیں ڈالی بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.“ یہ پیشگوئی مختلف رنگ میں مختلف وجودوں کی شکل میں پوری ہوتی رہی مگر یہ وہم دل سے نکال دیں کہ ایک ظفر اللہ خاں ہمیں چھوڑ کر جا رہا ہے تو آئندہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کو خصوصیت کے ساتھ ظاہری طور پر بھی اس کو پورا کرنے کے لئے ظفر اللہ خاں پیدا ہونے کے رستے بند ہو گئے.بکثرت اور بار بار حضرت مسیح کا اس رنگ میں موقع ملا کہ آپ نے اپنی سچائی کے نور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسے عظیم الشان غلاموں کی خوشخبریاں دی گئیں جو ہمیشہ آتے سے بسا اوقات سب کے منہ بند کر دیئے.سیاست کے میدان میں بھی ، وکالت کے چلے جائیں گے اور ایک گزرے گا تو دوسرا اس کی جگہ لینے کے لئے آگے بڑھے گا.میدان میں بھی اور (دعوت الی اللہ ) کے میدان میں بھی ایسی عمدہ نمائندگی کی توفیق آپ اپنی ہمتوں کو بلند کریں، ان تقویٰ کی راہوں کو اختیار کریں جو چوہدری صاحب آپ کو عطا ہوئی کہ اپنے تو اپنے دشمن بھی بے ساختہ پکار اٹھے کہ اس بطل جلیل نے بلا اختیار کرتے رہے.ان وفا کی خصلتوں سے مزین ہوں جن سے وہ خوب مزین تھے.“ شبہ غیروں کے منہ بند کر دیئے.“ جماعت احمدیہ کو اس وصال پر صدمہ تو ہے، بڑا گہرا صدمہ ہے لیکن اس صدمے ”خدا تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسے مقام پر پہنچایا جہاں واقعہ ہر قوم نے اس کے نتیجہ میں مایوسی کا اثر نہیں ہونا چاہئے.خدا تعالی کی رحمتیں بے شمار ہیں، وسیع ہیں.سرچشمہ سے پانی پیا یعنی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی آپ کو صدارت نصیب ہوئی اور اس کی عطا کے دروازے کوئی بند نہیں کر سکتا اور جن راہوں میں وہ کھلتے ہیں وہ لامتناہی

Page 15

26 25 راہیں ہیں اس لئے آپ...اولا و در اولاد کو یہ بتاتے چلے جائیں کہ حضرت مسیح موعود توفیق پارہے ہیں.مکرمہ محترمہ امتہ الھی بیگم صاحبہ نے نومبر ۲۰۰۴ء میں وفات پائی علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک نہیں، دو نہیں بکثرت ایسے غلام عطا اور اللہ تعالی کے فضل سے بہشتی مقبرور بوہ میں دفن ہوئیں.فرمائے گا....جو عالمی شہرت حاصل کریں گے جو بڑے بڑے عالموں اور فلسفیوں حضرت چوہدری صاحب کو اللہ تعالی نے بے پناہ مال سے نوازا لیکن آپ جیسا کے منہ بند کر دیں گے اور قو میں ان سے برکت پائیں گی.ایک قوم یا دو قو میں ہی نہیں سراپا قربانی وجودصدیوں بعد پیدا ہوتا ہے.کئی اعلیٰ مناصب پر فائز رہنے کے باوجود کل عالم کی قومیں ان سے برکت پائیں گی.خدا کرے کہ بکثرت اور بار بار ہم ایسا نا در روزگاریخی تو کم ہی دیکھنے میں ملتا ہے جس نے اپنی ذات کو ہمیشہ نظر انداز کر حضرت (بانی سلسلہ احمدیہ ) کی اس پیشگوئی کو پورا ہوتا دیکھیں.دوسروں میں ہی نہیں کے خدا اور اس کے رسول کے دین کی اشاعت کے لئے ہمیشہ اپنے آپ کو کمر بستہ اپنوں میں بھی.غیروں کے گھروں میں نہیں اپنے گھروں میں بھی ہم اللہ تعالی کے رکھا.اپنا سب کچھ اللہ اور اس کے رسول کے قدموں پر قربان کر دیا.فضل کے ساتھ اس عظیم پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے دیکھیں.(آمین) بقول آپ کے بھتیجے مکرم چوہدری ادریس نصر اللہ خان صاحب ”حضرت باباجی سید نا حضرت مصلح موعود نے بھی کئی مرتبہ آپ کو کلمات خوشنودی سے نوازا.ایک انتہائی درجہ کے سخی تھے لاکھوں اور کروڑوں روپے کمائے لیکن اپنی ذات کے لئے محض مرتبہ تو یہاں تک فرمایا کہ " عزیزم چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب نے ساری عمر دین ضروریات کی حد تک رکھ کر باقی سب کچھ ضرورتمندوں کی بھلائی اور خدمت میں صرف کرتے رہے.آخر کار معاملہ یہاں تک پہنچا کہ اپنی ضروریات کے لئے ۶۰ یا ۷۰ کی خدمت میں لگائی ہے اور اس طرح میرا بیٹا ہونے کا ثبوت دیا ہے.“ اولاد پونڈ رکھتے تھے.اس کے علاوہ باقی آمدنی کو داہنی طور پر اپنی آمدنی کا حصہ ہی تصور نہیں (بحوالہ ماہنامہ خالد حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نمبر دسمبر ۱۹۸۵ء جنوری ۱۹۸۶ صفحه ۱۰۹) کیا کرتے تھے.سامان تعیش کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.آسائشوں کے معاملہ میں بھی بہت احتیاط سے کام لیتے تھے.موٹر کار جیسی چیز جسے آجکل کی ضروریات میں حضرت چوہدری صاحب کی واحد اولاد آپ کی صاحبزادی مکرمہ محترمہ امتہ الحی شمار کیا جاتا ہے اپنے لیے ضروری نہ سمجھتے تھے اور لمبا عرصہ یورپ میں بغیر گاڑی کے بیگم صاحبہ تھیں جن کی شادی حضرت چوہدری صاحب کے بھیجے چوہدری حمید نصر اللہ گزارا کرتے رہے.۱۹۶۳ ء سے لے کر اپنی وفات تک آپ نے بھی کا رنہیں رکھی.خاں صاحب ابن حضرت چوہدری عبداللہ خاں صاحب سے ہوئی جو ایک لمبے عرصہ آپ کا قیام ۱۹۶۳ء سے ۱۹۷۴ ء تک بطور حج عالمی عدالت انصاف ہالینڈ میں اور سے امیر جماعت احمدیہ ضلع لاہور کے علاوہ بطور صدر فضل عمر فاؤنڈیشن بھی خدمات کی فروری ۱۹۷۴ ء سے لیکر نومبر ۱۹۸۳ء تک انگلستان میں رہا گویا یورپ میں رہتے

Page 16

28 27 ہوئے بھی اپنی تن آسانی کے لئے یہ خرچ ان کو گوارا نہ ہوا.پیدل دفتر تشریف لے سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت کو جسے حضور نے اپنے درخت وجود جاتے اور بس پر واپسی ہوتی.انہیں دنوں میں آپ نے لاکھوں روپے کے خرچہ سے کی سرسبز شاخیں قرار دیا ہے ہمیشہ کثرت سے حضرت چوہدری صاحب جیسے نفع رساں لندن مشن ہاؤس کی موجودہ عمارت بنوانے کا اعزاز حاصل کیا اور لاکھوں روپے کے وجود عطا فرماتا چلا جائے.اور ہم سب کو بھی توفیق عطا فرمائے کہ حضرت چوہدری صاحب کی زندگی سے سبق سیکھتے ہوئے ان کی نیکیوں کو اپنانے کی کوشش کریں.نامور احمدی ادیب اور شاعر جناب ثاقب زیروی صاحب نے حضرت چوہدری محیر العقول داستا نہیں معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ حقیقت اور امر واقعہ ہے جس کے بے صاحب کی وفات پر اپنے تاثرات کا اظہار ایک نظم کی صورت میں کیا جس میں حضرت شمار لوگ معینی شاہد ہیں.سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس کے پاس کچھ نہیں ہوتا تھا مگر چوہدری صاحب کے سیرت اور اوصاف کا بڑے خوبصورت الفاظ میں ذکر کیا گیا ہے.وظائف بیوگان اور قیموں کی امداد کے طور پر دینے کی سعادت حاصل کی....آپکی کفایت شعاری اور انفاق فی سبیل اللہ کے واقعات تو پرانے زمانے کی اطمینان وسکون اور رضائے الہی کی لازوال دولت اسے میسر تھی.ہزاروں گھروں میں اس کے دم سے چراغ جلتے تھے.ان کی دعائیں ہی اس بے نفس وجود کا سرمایہ اور جائیداد تھی.تو جہاں تک مجھے علم ہے اس سخنی کی وفات کے وقت اس کی کوئی ظاہری جائیداد نہ تھی.“ ، (ماہنامہ خالد حضرت چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب نمبر دسمبر ۱۹۸۵ء جنوری ۱۹۸۶ صفحه ۱۲۹ ۱۳۰) وفات کے بعد حضرت چوہدری صاحب کو سیدنا حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے خاص ارشاد کے ماتحت بہشتی مقبرو ربوہ کے قطعہ خاص میں سپر د خاک کیا گیا.حضور نے آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اور خطبہ جمعہ میں آپ کو خاص طور پر شاندار خدمات دین پر بہترین خراج تحسین پیش فرمایا.اللہ تعالیٰ حضرت چوہدری صاحب کی روح پر اپنی بے پایاں رحمتیں اور برکتیں نازل فرماتا چلا جائے اور ان کی نیکیوں کو ان کی آئندہ نسلوں میں ہمیشہ جاری رکھے اور کیا شخص تھا کہ بانٹنے آیا تھا رنگ و نور سے مٹا گیا تاریکیوں کا نام جہاں سے گفتار میں تھا کھلتی بہاروں کا بانکپن رفتار ނ ہواؤں کو چلنا سکھا گیا دین خدا کی آبرو تھی مقصدِ حیات جہاں بھی پیار کا دریا بہا گیا

Page 17

29 لگتا تھا دیکھنے میں جو انسان کم سخن جب بولنے آیا زمانے چھا گیا تھی اس کی ذات مشعل انوار آگہی جینے کا زندگی کو قرینہ سکھا گیا ظفر اللہ خاں ! قائد اعظم کا دست راست عالم اپنی دھاک بٹھا کر چلا گیا O

Page 18

حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب...اول

Page 18