Hazrat Ch Fateh Muhammad Sial

Hazrat Ch Fateh Muhammad Sial

حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب ؓ

Author: Other Authors

Language: UR

UR
سیرۃ اصحاب احمد ؑ

حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب دینی و دنیاوی لحاظ سے اہم مقام رکھتے تھے، اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بہت بڑے زمیندار تھے۔ خلیفہ وقت کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آپ کو نہ صرف انگلستان بلکہ بیرون ملک کے لئے جماعت احمدیہ کا پہلا مبلغ بننے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ اپنے وطن سے بہت دور واقع ملکوں کی طرف نہایت قلیل وسائل کے ساتھ سفرکئے ، لوگوں تک پیغام حق پہنچایااور کئی سعید روحیں آپ کے ذریعہ سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوئیں۔ تبلیغی مہمات کے بعد وطن واپس آئے تو کئی اہم اور مرکزی عہدوں پر فائز رہے اور گراں قدر خدمات کی توفیق پائی۔ علاوہ دنیاوی کامیابیوں اور مناصب کے آپ کی سیرت کا نمایاں پہلو خداتعالیٰ سے انتہائی قرب کا تعلق اور تقویٰ کا اعلیٰ مقام تھا۔


Book Content

Page 1

صرف احمدی احباب کی تعلیم و تربیت کے لئے حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب“ حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب دینی و دنیوی لحاظ سے اہم مقام رکھتے حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب تھے.بہت تعلیم یافتہ اور بڑے زمیندار بھی تھے.حضرت خلیفہ اسیح کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آپ کو نہ صرف انگلستان بلکہ بیرون ملک کیلئے جماعت احمدیہ کا پہلا مربی ہونے کی سعادت نصیب ہوئی.آپ نے انگلستان کے علاوہ بعض دوسرے ممالک کے سفر بھی کئے اور پیغام دین حق کو لوگوں تک پہنچایا اور کئی سعید روحیں اس سلسلہ میں شامل ہوئیں.پھر واپس تشریف لائے تو کئی اہم عہدوں پر فائز رہے اور گراں قدر خدمات کی توفیق پاتے رہے.آپ کی سیرت کا ایک نمایاں پہلو جس کا واضح احساس اس کتاب کے مطالعہ سے ہوتا ہے وہ آپ کا خدا تعالیٰ سے انتہائی قرب کا تعلق اور تقویٰ کا اعلیٰ مقام ہے.اللہ تعالیٰ ہم سب کو بھی ان کے نیک نمونوں کو اپنانے کی توفیق عطا فرمائے.

Page 2

1 پیش لفظ حضرت الحاج مولانا نورالدین صاحب خلیفہ مسیح الاول نور اللہ مرقدہ نے جب ولایت میں احمدیہ مشن کا آغاز فرمانے کی خواہش کا اظہار فرمایا تو اس بات کی تحریک فرمائی کہ کوئی نوجوان اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے وقف کرے.اس وقت ایک نوجوان نے اپنے آپ کو اس خدمت کے لئے پیش کیا.خلیفہ وقت نے اس قربانی کو قبول فرمایا اور لندن روانگی کا ارشاد ہوا.اس نوجوان نے اپنے سفر اور دیگر خرچ کا انتظام بھی خود کیا اور کسی قسم کے مطالبہ کے بغیر اتنے لمبے سفر کو روانہ ہو گیا.وہ نو جوان ہمارے ایک پیارے بزرگ حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال رفیق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے.آئیے ان کے زندگی کے بارہ میں مختصر سی معلومات حاصل کریں.حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب ۱۹۳ء کا واقعہ ہے کہ دعوت الی اللہ کی مہم کے پیش نظر حضرت خلیفہ المسیح الاول نے جماعت سے اپیل کی کہ ہمیں لندن مشن میں ایک مربی کی ضرورت ہے کوئی مناسب دوست جانے کے لئے تیار ہوں تو اپنا نام دیں.یہ وہ پہلا موقع تھا کہ جب خلیفہ وقت ملک سے باہر دعوت الی اللہ کے لئے باقاعدہ مربی بھجوانے کی تحریک فرما رہے تھے.اس موقع پر ایک نوجوان جس کا رنگ سرخ وسفید تھا، خوبصورت خدو خال ، درمیانہ قد ، وجیہہ چہرہ.آنکھیں چمکدار ،خوبصورت ناک، خوبصورت داڑھی اور گول چہرہ تھا.نہایت سادہ مگر صاف ستھرا لباس زیب تن کیے آگے بڑھا اور اپنے پیارے آقا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اشاعت دین حق کی اس عظیم مہم کے لئے اپنا نام پیش کیا.اس نوجوان کا یہ عمل کوئی اتفاق نہ تھا بلکہ

Page 3

3 2 تقدیر الہی کا نتیجہ تھا یہ وہی نوجوان تھا کہ جس کے والد محترم نے اسے بچپن میں قادیان بعد ان تعلیم حاصل کرنے کے لئے اس نیت سے بھیجا تھا کہ بڑا ہو کر کوئی دین کا کام کرے اور ستمبر ۱۹۰۷ء میں جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کے سامنے وقف زندگی کی پر زور تحریک فرمائی تو اس آواز پر لبیک کہنے والوں میں دوسرے نمبر پر اسی نوجوان کا نام تھا اور اس کے نام کے سامنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا تھا "منظور.حضرت خلیفہ امسح الاول نے بخوشی اس نوجوان کا وقف قبول فرمایا اور فوری انگلستان جانے کی ہدیت فرمائی.اس وقت جماعت کے پاس اتنے مالی وسائل نہ تھے کہ ایک مربی کو انگلستان بھجوانے کا انتظام کر سکے.لیکن اس حوصلہ مند نوجوان نے مصمم ارادہ کر لیا کہ پیارے آقا کی آواز پر لبیک کہا ہے تو اسے اب عملی جامہ بھی بینا کر رہنا ہے چنانچہ کسی قسم کے مطالبہ کے بغیر یہ نوجوان لندن جانے کی تیاری کرنے لگا.روانگی سے قبل جب ملاقات کے لئے حضور انور کی خدمت میں حاضر ہوا اور روانگی کی اجازت طلب کی تو حضرت خلیفہ امسیح الاول نے دریافت فرمایا کہ کرائے کا کیا انتظام کیا ہے؟ یہ نو جوان ابھی خاموش ہی تھے کہ حضور کی خدمت میں یک خادم رقعہ اور ایک رومال میں بندھی کچھ رقم لا یا.یہ پانچ سو اور کچھ روپے تھے جو حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے بھجوائے تھے.حضور نے یہ رقم آپ کو عنایت فرمائی.مجلس میں چرچا ہو گیا کہ پہلا مربی پانچ سو روپے لے کر لندن جا رہا ہے.ایک سو پانچ روپے حضرت میر ناصر نواب صاحب نے دیئے اور بعض لوگوں نے ایک ایک دو دو روپے دیئے چنانچہ یہ پہلا مربی احمدیت 780 روپے کی قلیل رقم لے کر اپنے مشن پر روانہ ہوا.نہ کوئی نئے کپڑے خریدے نہ کچھ اور.صرف ڈیڑھ صد روپے کی کتب خریدیں اور ایک لمبے سفر پر روانہ ہو گیا.جولائی 1913ء میں وہ لندن پہنچا جہاں دراصل اس کے زمانہ طالبعلمی کا دیکھا ہوا خواب پورا ہونا مقصود تھا جس میں اس نے دیکھا تھا کہ وہ یورپ میں دینِ حق کا پیغام پہنچائیں گے.پیارے ساتھیو! یہ نوجوان حضرت چوہدری فتح محمد صاحب سیال تھے.آپ کے والد محترم کا نام حضرت چوہدری نظام الدین صاحب تھا جن کا آبائی وطن جوڑا کلاں تحصیل قصور ہے اور آپ وہاں کے بہت بڑے زمیندار تھے.1884ء میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب براہین احمدیہ ملی اور 1899ء میں آپ بیعت کر کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خدام میں شامل ہو گئے.آپ ایک پر جوش داعی الی اللہ تھے.29 مارچ 1942ء کو بعمر 85 سال آپ اپنے مولی حقیقی سے جاملے.

Page 4

5 4 حضرت فتح محمد سیال صاحب کی پیدائش جوڑا کلاں میں 1887ء میں ہوئی.1899ء میں جب حضرت نظام الدین صاحب قادیان تشریف لائے تو آپ کے صاحبزادہ حضرت فتح محمد سیال صاحب بھی ساتھ تھے اور اسی وقت مسیح پاک کی بیعت کی سعادت حاصل کی.حضرت چوہدی فتح محمد سیال صاحب فرماتے ہیں کہ جب میں قادیان آیا ان دنوں غالبًا معروف احمدیوں کی تعداد ایک ہزار سے زائد نہ تھی.اس وقت نہ کوئی تارگھر تھا اور نہ بجلی تھی ، نہ ریل تھی اور نہ آج سی رونق تھی.مہمان خانہ میں اکثر مہمان مٹی کے پیالوں میں پانی پیتے اور وہی سائن کے لئے استعمال ہوتے تھے.آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں جوڑا میں حاصل کی اور پھر 1900ء میں قادیان آگئے اور دسویں جماعت تک یہیں تعلیم حاصل کی.1910ء میں آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی.اے کیا اور 1912ء میں علی گڑھ یونیورسٹی سے ایم.اے کی ڈگری حاصل کی.آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں حضرت اقدس مسیح موعود کے ساتھ ایک خاص عقیدت اور قرب کا تعلق تھا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود نے کسی سفر پر جانا تھا حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے خود آپ کا نام ساتھ جانے والوں میں لکھوایا اور نام لکھنے والوں سے کہا کہ شاید آپ لوگوں نے فتح محمد کا نام اس لئے چھوڑ دیا کہ وہ تو بہر حال پہنچ جائیگا.آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے بہت محبت تھی ایک دفعہ حضور یکہ پر گورداسپور گئے تو چوہدری فتح محمد صاحب اور عبدالرحمان صاحب دوڑتے ہوئے ساتھ گئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی آپ سے بہت محبت رکھتے تھے چنانچہ جب رات کے وقت تار دینے کی ضرورت پڑتی تو حضور آپ ہی کو بٹالہ بھجوایا کرتے تھے.زمانہ طالب علمی میں جب آپ لاہور میں مقیم تھے حضور علیہ السلام آپ کو اپنی تصانیف بذریعہ ڈاک مفت ارسال فرماتے اور اگر کبھی آپ کسی تعطیل کے دوران قادیان نہ پہنچتے تو حضور علیہ السلام دریافت فرماتے کہ فتح محمد کیوں نہیں آیا؟ اسی طرح جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے رفقاء کا ایک وفد گورو ہر سہائے ضلع فیروز پور حضرت بابا گرونانک صاحب کے تبرکات دیکھنے کے لئے بھیجا تو آپ کو بھی اس میں شامل فرمایا اور اپنی کتاب چشمہ معرفت میں آپ کا تذکرہ اسی وفد میں فرمایا.حضرت چوہدری صاحب کا یہ پیار اور محبت کا تعلق خاندان حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کرام کے ساتھ بھی اسی طرح مضبوط اور قائم رہا.حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب (خلیفہ اسیح الثانی) سے آپ کی دوستی بچپن سے ہی تھی.حضور نے 1900ء میں ایک مجلس قائم کی جس کا نام حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے انجمن

Page 5

7 6 تحمید الاذہان رکھا.اس بارہ میں حضرت خلیفہ امسیح الثانی نے فرمایا ” میں نے تفخیذ الاذہان جاری کیا تو جن لوگوں نے ابتداء میں میری مدد کی ان میں چوہدری صاحب بھی شامل تھے.“ (الفضل2،مارچ1960ء) ای طرح چوہدری فتح محمد صاحب سیال کو حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے ساتھ بہت سے سفروں میں ساتھ رہنے کی توفیق بھی ملی.چنانچہ ان سفروں میں سفر لا ہور سفر قصور ،سفر گورداسپور ، اور سفر سندھ وغیرہ شامل ہیں.20، فروری 1944ء کو ہوشیار پور کے اس مکان المعروف طویلہ کے سامنے جس میں 1886ء میں حضرت اقدس مسیح موعود نے چالیس دن چلہ کشی کی اور آپ کو مصلح موعود کی عظیم بشارت دی گئی ایک جلسہ منعقد کیا گیا تا اس نشان رحمت کے پورا ہونے کا اعلان کیا جائے.حضرت چوہدری صاحب بھی اس جلسہ میں شامل تھے.بلکہ ان چند احباب میں سے تھے جنہوں نے حضرت صاحب کی معیت میں اس بابرکت کمرہ میں جا کر دعا کرنے کی توفیق پائی.حضرت خلیفۃ ابیع الاول کی زوجہ اول کے بطن سے حضور کی نواسی ہاجرہ بیگم صاحبہ حضرت چوہدری صاحب کے عقد میں آئیں.1908ء میں جب خلافتِ اولیٰ کا انتخاب ہوا تو آپ نے بھی بیعت کی اور اس عہد کو خوب نبھایا.آپ کا خلافت سے ایسا عشق و وفا کا تعلق تھا کہ بیعت خلافت ثانیہ کے موقع پر آپکا بیعت کا مخط آنے سے قبل ہی الفضل میں آپ کو خلافت سے وابستہ قرار دے دیا گیا.یہ تعلق یکطرفہ نہ تھا.حضرت خلیفہ اسیح الثانی کو بھی آپ سے بہت پیار تھا.1917 ء کا واقعہ ہے کہ آپ گروں کی وجہ سے بیمار تھے.ایک رات اس قدر تکلیف تھی کہ حضرت میر محمد اسماعیل صاحب کو بلوایا گیا.حضرت میر صاحب نے دوائی لگائی اور واپس جا کر حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے ذکر فر مایا کہ فتح محمد کی دائیں آنکھ تقریبا ضائع ہو چکی ہے اور آنکھ کی پتیلی سے لے کر آنکھ کے آخر تک زخم ہے.اس پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی اور حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم صاحبہ کے 1924ء میں حضرت خلیفہ اسی انانی دور کایورپ پر تشریف لے گئے تو اس دلوں میں درد اور ترحم پیدا ہوا اور دونوں ہستیوں نے آپ کے لئے دعا کی.رات کو وقت بھی آپ کو معیت کی سعادت نصیب ہوئی.حضرت خلیفہ اسبیع الاول کے حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے رویا میں دیکھا کہ آپ حضور کے سامنے بیٹھے ہیں اور ساتھ تو آپ کا روحانی رشتہ کے ساتھ ساتھ جسمانی رشتہ بھی تھا.وہ اس طرح کہ آپ کی دونوں آنکھیں صحیح سلامت ہیں.چنانچہ اس بشارت الہی کے مطابق آپ

Page 6

9 8 بالکل صحت یاب ہو گئے.اس بات کا تذکرہ ابتداء میں کیا جا چکا ہے کہ حضرت چوہدری صاحب بیرون ملک جانے والے پہلے مربی سلسلہ تھے.آپ 22، جون 1913ء کو انگلستان کے لئے روانہ ہوئے.انگلستان پہنچ کر بھی آپ کو بہت نامساعد حالات سے گزرنا پڑا جسے آپ نے بڑے صبر و قتل اور اللہ تعالی کی رضا میں راضی رہ کر گزارا.انگلستان قیام کے دوران آپ کو اللہ تعالیٰ نے بھر پور خدمت دین کی توفیق عطا فرمائی.بیسیوں بھٹکی روحیں آپ کے ذریعہ ہدایت کی راہ پر گامزن ہوئیں.حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے احکام اور ہدایات کے ماتحت آپ کے ذریعہ احمدیت کا پیغام انگلستان، سکاٹ لینڈ ، ویلز ،فرانس، اٹلی اور ڈربن تک پہنچا.اپریل 1914ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے حکم کے تحت آپ کے ذریعہ لندن میں پہلا احد یہ مرکز دعوت الی اللہ بھی قائم ہوا.اس دوران تقریباً دو سال کے عرصہ میں دینِ حق کا پیغام پہنچانے کے لئے آپ نے مختلف سوسائٹیوں ،کلبوں اور لائبریریوں میں ایک پچاس کے قریب لیکچر دیئے.کئی ایک پمفلٹ شائع کئے.آپ کے انگلستان میں قیام کے دوران کئی انگریزوں نے احمدیت قبول کرنے کی سعادت پائی.فروری 1916 ء میں آپ ہندوستان واپس آگئے.نے 1919ء میں دوبارہ حضور کے حکم کی تعمیل میں لندن مشن کا چارج لیا.چوہدری صاحب کے انگلستان میں قیام کے دوران آپ کے کام کی رپورٹس الفضل میں شائع ہوتی رہتی تھیں.ایک دفعہ چوہدری صاحب ساوتھ سی انگلستان میں لیکچر دینے کے لئے تشریف لے گئے.ایک انگریز ملاقات کے لئے آیا اور بتایا کہ مجھے رویا میں ایک ہندوستانی جو آپ کے علاوہ کوئی اور ہے نے یہ بتایا تھا کہ ساؤتھ سی (south sea) میں ایک ہندوستانی (مؤمن ) آئیگا جو تم کو ( دینِ حق ) سکھائے گا.چنانچہ یہ نوجوان اپنے ہاتھ سے بیعت فارم پر کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوا.انگلستان کے قیام کے دوران ابتدائی ایام میں جب آپ کو کام میں بہت دشواری محسوس ہوئی اور آپ کے مشن کی مخالفت میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تو آپ آستانہ الہی پر جھک گئے.آپ کو الہاماً بشارت دی گئی کہ ”میاں محمود کی بیعت پشاور سے بہار تک کے لوگ کریں گے اور پھر آواز آئی اللہ اکبر اللہ اکبر چوہدری صاحب فرماتے ہیں اس کے بعد میں نے دیکھا کہ غیر معمولی طور پر مجھ پر علوم کا انکشاف ہوا اور لیکچر دینے کے لئے میرا سینہ کھول دیا گیا ور نہ میرے لیے یہ بات بہت مشکل تھی.انگلستان سے

Page 7

11 10 واپس آنے کے بعد بھی آپ کو مختلف عہدوں پر خدمت دین کی بھر پور توفیق ملتی رہی.حضرت علیہ اس اثانی کی نظرشفقت آپ پر پڑتی رہی.چنانچہ 1982ء میں جب بدھی تحریک زور پرتھی تو حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے " شدھی کو روکنے کے لئے ایک وفد تیار کیا جس کے امیر چوہدری صاحب ہی تھے.حضرت اماں جان اس وفد کو الوداع کرنے کے لئے خود دور تک ساتھ گئیں اور دعاؤں سے رخصت کیا.1940ء میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے انصار اللہ کی بنیاد رکھی اور حضرت مولوی شیر علی صاحب کو اس کا پریذیڈنٹ مقرر فرمایا اور ان کی اعانت کے لئے تین سیکرٹریان مقرر فرمائے جن میں سے ایک حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب تھے.اسی طرح ایک موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے نصرت گرلز ہائی سکول کے تعلیمی نصاب میں اصلاح کے لئے ایک کمیشن مقرر فرمایا، حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب اس کمیشن کے ممبر تھے.1922ء میں شہزادہ ویلز کے مملکتِ ہند میں ورود کے موقع پر حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے ایک کتاب تحفہ شہزادہ و میز تحریر فرمائی.حضور نے شہزادہ کو کتاب دینے کے لئے ایک وفد لا ہور بھیجا اس وفد میں حضرت چوہدری صاحب بھی شامل تھے اسی طرح جب آل مسلم پارٹیز کانفرنس میں شمولیت کے لئے ایک وفد بھجوایا گیا تو چوہدری صاحب اسکا بھی حصہ تھے.حضرت چوہدری صاحب کو جن مختلف عہدوں پر خدمت کی توفیق ملی وہ درج ذیل ہیں: (۱) ۱۹۰۶ء انجمن تشخیذ الاذھان کے اعزازی ممبر (۲) ۱۹۱۳ء تا ۱۹۱۷ ء انچارج لندن مشن (۳) 1911 ۱۹۱۷ ء تا ۱۹۱۹ ء افسر صیغہ اشاعت ( دینِ حق ) (۴) ۱۹۱۸ء سیکرٹری انجمن ترقی دین حق ) (۵) ۱۹۱۹ء تا جولائی ۱۹۲۱ ء لندن مشن کے امیر (۲) ۱۹۲۲ ء ناظر تالیف واشاعت (۷) ۱۹۲۳ تا ۱۹۲۴ ء امیر وفد برائے شدھی تحریک (۸) ۱۹۲۴ ء نائب ناظر محکمہ انسداد اور ناظر محکمہ انسداد (۹) جولائی ۱۹۴۲ ، بطور سیکرٹری ( دعوت الی اللہ ) ، وفد دورہ یورپ کے ممبر (۱۰) دسمبر ۱۹۲۴ ء تا ۱۹۵۰ ء ناظر دعوت و ( دعوت الی اللہ ) (۱۱) ۱۹۳۱ تا۱۹۳۲ مناظر تعلیم و تربیت (۱۲) فروری ۱۹۳۷ ، نظارت اعلیٰ کا چارج لیا (۱۳) ۱۹۴۰ سیکرٹری مجلس انصار الله (۱۴) ۱۹۴۰ ء تا ۱۹۴۷ ء امیر مقامی ( دعوت الی اللہ )

Page 8

13 12 (۱۵) ۱۹۵۰ ء ریٹائر ہوئے (۱۶) ۱۹۵۴ء تا ۱۹۶۰ ء ناظر اصلاح وارشاد حضرت چوہدری صاحب نے ان تمام عہدوں پر فائز ہو کر ایک چست سپاہی کی مانند اپنے فرائض سرانجام دیئے.آپ ایک وسیع تجربہ رکھنے والے انسان تھے.انگلستان کے علاوہ آپ کو مصر فلسطین اور دمشق، جنوبی افریقہ میں کیپ ٹاؤن اور ڈرین کے سفروں کا بھی موقع ملا.ان سفروں کے دوران اللہ تعالی نے آپ کو حج بیت اللہ کا بھی موقع عنایت فرمایا.چوہدری صاحب کی زندگی میں جو وصف ابھر کر سامنے آتا ہے وہ آپ کی دعوت الی اللہ ہے.آپ مجسم دعوت الی اللہ تھے ، آپ کو نہ دھوپ کی پرواہ تھی نہ بارش کی ، نہ بھوک اور نہ پیاس کی بس ایک ہی لگن اور شوق تھا اور وہ یہ کہ دعوت الی اللہ کی جائے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں کو جماعت احمدیہ میں شامل کیا جائے.اس سلسلہ میں چوہدری صاحب نے بہت کام کیا اور کئی ایک جماعتیں قائم کیں.چونکہ آپ ناظر (اصلاح وارشاد ) بھی تھے اس لئے آپ خود مختلف جماعتوں کے دورے کرتے اور لوگوں کو دعوت الی اللہ کے میدان میں اترنے کی تحریک فرماتے اسی سلسلہ میں آپ نے مختلف مقامات پر متعد دلیکچر ز بھی دیئے.آپ کو دعوت الی اللہ کا اتنا شغف تھا کہ ہر ایک کو دعوت الی اللہ کرتے.حضرت چوہدری صاحب 1947 ء میں پنجاب اسمبلی ہندوستان کے رکن بھی رہے.آپ تند ہی سے وطن کی خدمت کر رہے تھے کہ 12 ستمبر 1947ء کو ایک جھوٹے قتل کے الزام میں آپ کو گر فتار کر لیا گیا اور بعض اور دوستوں کے ساتھ آپ کو قید و بند کی مشکلات سے گزرنا پڑا.اس دور اسیری میں آپ کی شخصیت کے کئی پہلو واضح ہو کر سامنے آئے.جیل میں بھی آپ احمدیوں کے امیر اور امام الصلوۃ تھے.آپ روزانہ بعد فجر درس قرآن دیا کرتے تھے.آپ نے ہر قسم کے مصائب صبر وشکر سے جھیلے.آپ کے خدا تعالیٰ سے خاص قرب اور تعلق کے نشان ظاہر ہوئے.جیل میں بھی آپ کو اپنے سے زیادہ قادیان کی فکر تھی.وہاں بھی آپ قادیان کی حفاظت کے لئے دعاؤں میں مصروف تھے.چوہدری صاحب نے دعوت الی اللہ کو جیل میں بھی جاری رکھا اور کئی بیعتیں کروا ئیں.ایک دفعہ ایک شخص کے بارہ میں سب نے فیصلہ کیا کہ وہ کبھی شرارت سے باز نہیں آتا اس لئے اس کو کوئی منہ نہ لگائے.حضرت چوہدری صاحب نے فرمایا نہیں، ایک کام تم سب اپنے ذمہ لے لوتم دعا کرو اور میں اس کو دعوت الی اللہ کرتا ہوں یا تم اس کو دعوت الی اللہ کرو میں اس کے لئے دعا کرتا ہوں اس طرح اس کو چھوڑ نا مناسب نہیں اس پر اتمام حجت کر کے چھوڑو.آپ کو اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین تھا، بار با دعوت الی اللہ کرنے کے لئے چوہدری صاحب متعدی بیماروں میں جا بیٹھتے کہ جن سے بیماری پھیلنے کا خطرہ ہوتا ہے.آپ انہیں دعوت الی اللہ الی

Page 9

15 14 کرتے.جب آپ کو دوست منع کرتے تو فرماتے بیماری میں آدمی کا دل نرم ہوتا ہے.اور جہاں تک بیماری کا تعلق ہے کیا اللہ تعالیٰ مجھے اس بیماری میں مبتلا کر دیگا؟ بے فکر ر ہیں.جیل کے قیام کے دوران آپ کے ذریعہ پچاس لوگ احمدیت میں داخل ہوئے.اسی طرح ایک دوست بٹالہ کے تھے انہوں نے چوہدری صاحب سے ایک دفعہ پوچھا کہ آپ اتنے مطمئن کیسے ہیں.چوہدری صاحب نے بتایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے بشارت دی ہے کہ بخیر و عافیت جیل سے رہا ہو جاؤ گے.اس پر اس شخص نے کہا کہ آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے بھی ایسا اطمینان بخش نظارہ دکھائے.چوہدری صاحب نے دعا کرنے کا وعدہ کر لیا.چند دن بعد اس شخص نے رویاء میں دیکھا کہ وہ پاکستان چلے گئے ہیں اور جیل کے دروازے کھل گئے ہیں رشتہ دار لینے آئے ہیں اور مٹھائیاں تقسیم ہو رہی ہیں.اس کے بعد وہ دوست بھی احمدی ہو گئے.چوہدری صاحب کی شخصیت کا غیر احمدی قیدیوں پر بہت اثر تھا.آپ نے انہیں اپنی ایک اور رویا بتائی کہ آموں کے موسم میں وہ رہا ہو جائیں گے.وہ لوگ بہت حیران تھے کہ کس طرح ایک شخص اتنے یقین سے اپنے رویاء کی بناء پر کہہ سکتا ہے کہ وہ ان کے ساتھ آموں کے موسم میں رہا ہو جا ئینگے حالانکہ حالات نہایت ہی خطر ناک تھے اور یہی سمجھا جاتا تھا کہ تمام قیدیوں کو اذیتیں دے کرموت کے گھاٹ اتار دیا جائیگا.لیکن تعجب کی بات ہے کہ جب دونوں حکومتوں نے قیدیوں کا تبادلہ منظور کیا تو اس کے لئے کئی تاریخیں مقرر کی گئیں مگر جب تک آموں کا موسم نہ آیا وہ تاریخیں تبدیل ہوتی رہیں.چنانچہ جب ۷، اپریل 1948 ء کو اس خواب کے مطابق سارے قیدی رہا کر دئیے گئے تو ان میں سے 54 لوگوں نے بیعت کر لی.اسی قید کے دوران چوہدری صاحب کی سیرت کا ایک اور روشن پہلو شفقت علیٰ خلق اللہ اس طرح سامنے آیا کہ آپ خود قیدیوں کا خیال رکھتے.اگر کوئی قیدی بیمار ہو جاتا تو اسے چائے وغیرہ بنوا کر دیتے اور دوا کا انتظام کرواتے اور دودھ وغیرہ کا انتظام بھی کرتے.چوہدری صاحب تقریبا چھ ماہ اور چھبیس دن جیل میں رہے اور بہت سی پیاسی روحوں کو احمدیت کے آب حیات سے سیراب کرنے کے بعد بفضلِ اللہ تعالیٰ باعزت بری ہوئے.حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب کی سیرت کا مطالعہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ چوہدری صاحب ایک خدا رسیدہ انسان تھے.نمازوں کی پابندی کرنے والے.تہجد گزار اور نوافل کے پابند تھے.جوانی کے زمانے میں نماز کی پابندی کی وجہ سے کالج والوں میں آپ " لوٹے اور جائے نماز والا چوہدری " کے نام سے مشہور تھے.آپ کو اللہ تعالی کی ذات پر کامل تو کل تھا.اپنے کام کے لئے پوری کوشش کرتے تھے.مگر اپنی کوشش پر کامیابی کے لئے انحصار نہ کرتے تھے.بلکہ یہ یقین رکھتے تھے کہ اللہ تعالی کو اگر منظور ہوگا تو کام ہو جائے اور کوشش کے ساتھ ساتھ دعاؤں میں لگے رہتے.حضرت چوہدری صاحب نے وطن کی خدمت میں سیاسی کردار بھی ادا کیا

Page 10

17 16 جس کا آغاز 1935ء میں ہوا جب آپ نے پنجاب اسمبلی میں ممبر شپ حاصل کرنے کے لئے الیکشن میں حصہ لیا اور فتحیاب ہوئے.یہ فتح صرف چوہدری صاحب کی فتح نہ تھی بلکہ ایک لحاظ سے احرار کے مقابلہ پر احمدیت کی فتح بھی تھی کیونکہ احمدیوں کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی حضرت چوہدری صاحب کو ہی ووٹ دیا اور اس طرح احراریت کو مسترد کر دیا گیا.چوہدری صاحب ایک غیور انسان تھے الیکشن کے دنوں میں آپ تحصیل بٹالہ کے ایک رئیس سردار مالک سنگھ کے پاس امداد حاصل کرنے کے لئے گئے تو اس نے کورا جواب دے دیا.اس پر آپ نے فرمایا ہماری کامیابی کا انحصار آپ کی امداد پر نہیں ، اصل کامیابی تو اللہ کی مدد سے حاصل ہو گی تم بیشک پورے زور سے ہماری مخالفت کرو! اگر خدا کی طرف سے ہمارے لیے کامیابی مقدر ہے تو نہ تمہاری امداد مجھے کامیاب کروا سکتی ہے اور نہ مخالفت نا کام کر سکتی ہے.چوہدری صاحب کو قرآن مجید سے بھی عشق کی حد تک تعلق تھا.ایک دفعہ آپ کے گھر چوری ہو گئی جس کی خبر آپ کو نہ ہوئی بعد فجر آپ نے درس قرآن دینا شروع کر دیا اندر سے بیگم صاحبہ نے آپ کو چوری کی اطلاع دی مگر آپ بدستور درس میں منہمک رہے.پھر دوبارہ اطلاع دی گئی تو آپ نے فرمایا میں کیا کروں.چوہدری صاحب درس میں اتنے محو تھے کہ سامان کی فکر ہی نہ کی.اللہ تعالی کا ایسا فضل ہوا کہ بعد میں آپ کو چوری شدہ سارا سامان مل گیا.چوہدری صاحب کی زندگی نہایت سادہ تھی ، آپ ہر قسم کا کھانا کھا لیتے کوئی تکلف نہ کرتے.ایک دفعہ ایک گاؤں میں گئے تو گاؤں والوں نے خاطر تواضع کی اور کہا ہم آپ کو دودھ پلا دیتے ہیں مگر اس میں جاگ لگادی ہے.چوہدری صاحب فرمانے لگے جاگ ہی لگائی ہے زہر تو نہیں ڈالا تم لے آؤ کوئی بات نہیں.اسی طرح آپ لباس بھی سادہ زیب تن فرماتے اور مخاطب کی طبیعت کے مطابق کلام کرتے.کسی گاؤں میں جا کر جب تقریر کرتے تو دیہاتیوں کی سمجھ کے مطابق عام فہم اور بالکل سادہ الفاظ میں ایسی تقریر کرتے کہ بچوں اور بوڑھوں تک کو آپ کا مضمون یاد ہو جاتا.اگر چہ چوہدری صاحب بہت تعلیم یافتہ تھے اور بڑے زمیندار تھے اور دنیاوی لحاظ سے ایک مقام رکھنے والے تھے اور جماعتی لحاظ سے ایک انتہائی اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے مگر اس کے باوجود اپنے غریب ساتھیوں سے اس طرح ملتے اور باتیں کرتے تھے کہ جس طرح دو برابری کے دوست با ہم بے تکلف ہوتے ہیں.اور ایک دوسرے کا حال دریافت کرتے ہیں.یہاں تک کہ ان کی چھوٹی چھوٹی باتیں اور مسائل بھی دریافت کرتے اور ان کے حل کے لئے مناسب مشورہ بھی دیتے اور اپنی طرف سے ہر ممکن امداد بھی کرتے تھے.چوہدری صاحب بہت فراخ دل، حوصلہ مند اور مہمان نواز تھے.آپ کی انکساری اور مہمان نوازی اس حد تک ہوتی کہ اس خدمت پر مہمان بھی شرما جاتا.اگر کسی مہمان کی تکلیف کا علم ہوتا تو آپ کو بہت دکھ ہوتا.آپ اپنے ساتھی کارکنان کو ہمیشہ نصیحت فرماتے کہ حضرت

Page 11

19 18 اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے بذریعہ الہام فرمایا تھا کہ لَا تُصَعِّر لِخَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَستَم مِّنَ النَّاسِ 66 آپ فرماتے حضور آئے اور خدا کے پاس چلے گئے ان الہامات کے مخاطب حضور کے بعد ہم لوگ ہیں اس لئے ہر آنے والے کو خوش خلقی اور فراخ دلی سے ملو اور ہر آنے والا تم سے مل کر خوش ہو اور اس کا دل تسلی پائے.حضرت چوہدری صاحب مظلوموں کی مدد کو اپنا فرض جانتے تھے اور علاقہ کا ہر مظلوم بغیر تفریق رنگ ونسل و مذہب حضرت چوہدری صاحب کو اپنا ہمدرد اور غمگسار سمجھتا تھا.مظلوموں کی امداد ایسے رنگ میں فرماتے تھے کہ مظلوم کا ایک پیسہ بھی خرچ نہ ہوتا.چوہدری صاحب کی سیرت کا ایک اہم پہلو غض بصر بھی تھا.آپ ہمیشہ اپنی آنکھوں کو نیچا رکھتے.آپ کے وقت میں جو دوست انگلستان میں رہتے تھے بتاتے ہیں کہ آپ سڑک پر چلتے تو اپنی آنکھیں اس قدر نیچے رکھتے کہ حادثہ کا شکار ہو جانے کا ڈر رہتا تھا.چوہدری صاحب آخری دم تک اپنے ان تمام اوصاف حمیدہ کے ساتھ حق کا علم بلند کرنے کے لئے کوشاں رہے.اور بالآخر 28 فروری 1960ء کواچانک دل کا دورہ پڑنے سے مولی حقیقی سے جاملے.آپ وفات سے قبل بیمار نہ تھے.آپ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے آپ کا وصیت نمبر 3480 ہے.اسی روز سہ پہر ساڑھے چار بجے کے بعد دار لضیافت کے سامنے والے گھاس کے میدان میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور بعد ازاں بہشتی مقبرہ ربوہ میں قطعہ رفقاء میں تدفین عمل میں آئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی نے آپ کو مفکر“ کے لقب سے نوازا تھا.آپ کی وفات پر حضور نے فرمایا اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ انہیں اعلیٰ علتین میں جگہ دے اور اس کے فرشتے ان کو لینے کے لئے آگے آئیں اور اللہ تعالی کی برکتیں ہمیشہ ان پر اور ان کے خاندان پر نازل ہوتی رہیں.(آمین) حضرت چوہدری صاحب نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف اوقات میں کل سات شادیاں کیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کو بیٹے بھی عطا فرمائے اور بیٹیاں بھی.جن کے اسماء درج ذیل ہیں: ا: مکرمہ آمنہ بیگم صاحبہ ۲: مکرمہ عائشہ صدیقہ صاحبہ ۳: مکرم چوہدری صالح محمد سیال صاحب : مکرم چوہدری ناصر محمد سیال صاحب (داماد حضرت خلیفہ المسیح الثانی) ۵: مگر مه سلمیٰ بیگم صاحبه ۶:.مکرمہ منیرہ بیگم صاحبہ ۷:.میجر منصور احمد صاحب سیال مکرمہ امتہ الشافی سیال صاحبہ

Page 12

20 ۹: مکرم مظفر احمد سیال صاحب ۱۰: مکرمہ طاہرہ بیگم صاحبہ : مکرمہ عزیزہ بشری سیال صاحبہ ۱۲:.مکرمہ امتہ السلام صاحبہ ۱۳: محترمہ امتہ الحی صاحبہ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ محض اپنے فضل سے ہمیں اپنے پیاروں کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہر آن اور ہر لحظہ ہمارے پیارے آقا کی آنکھیں ہم سب احمدیوں کی طرف سے ٹھنڈی رکھے اور ہم سب کو اشاعت دین حق میں حضور کا ممد و معاون بنائے.آمین حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب نام کتاب اشاعت.طبع اوّل

Page 12