Language: UR
حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجہ محترمہ جو ایک مبارک نسل کی ماں بنیں، اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام و مرتبہ کی بدولت آپؑ کے تمام ماننے والوں کی ماں کہلائیں۔ حضرت اماں جان رضی اللہ عنھا کی سیرت و سوانح پر مشتمل یہ کتاب صاجزادی امت الشکور صاحبہ بنت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے تصنیف فرمائی۔ اس کتاب کی اہمیت اس پہلو سے مزید بڑھ جاتی ہے کہ اس کے ابتدائی مسودہ کے بعض حصوں کو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ نے بھی ملاحظہ فرمایاتھا۔
حضرت اماں جان حضرت اماں جان کو ہماری تعریف کی حاجت نہیں خدا نے جس وجود کی تعریف کر دی اُس کو اور کیا چاہیے ،مگر ہمارا بھی فرض ہے کہ جو عمر بھر دیکھا اُس کو آئندہ آنے والوں کے لیے ظاہر کر دیں.“ (حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ )
دیباچه بچو! گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لیے کچھ نہیں چھوڑ گئے.انہوں نے آسمان پر تمہارے لیے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا.“ یہ فقرات حضرت اماں جان نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے موقع پر اپنے بچوں سے مخاطب ہو کر فرمائے.یہ فقرات جہاں آپ کے خدا تعالیٰ پر کامل تو کل کی آئینہ داری کرتے ہیں.وہاں اپنے شوہر کے مقام ومرتبہ پر پختہ یقین کا عنوان بھی ہیں.آپ جامع خوبیوں کی مالک تھیں.انتہائی نیک ، تقوی شعار ، دعا گو اور اعلیٰ اخلاق آپ کا طرہ امتیاز تھا.آپ کی سیرت صرف ہماری خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ ہمارے بچوں اور نو جوانوں کے لیے بھی اسوہ ہے.اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم خود اس پر عمل کرنے والے بہنیں اور اپنے بچوں اور بچیوں میں بھی اس کو منتقل کرنے والے ہوں.آمین پیش لفظ حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم صاحبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زوجہ محترمہ جو ایک مبارک نسل کی ماں بنیں.اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مقام و مرتبہ کی بدولت آپ کے تمام ماننے والوں کی ماں کہلائیں.حضرت اماں جان کی سیرت و سوانح پر مشتمل یہ کتاب صاحبزادی امتہ الشکور صاحبہ بنت حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیفہ اسیح الثالث نے تصنیف فرمائی.اس کتاب کی اہمیت اس پہلو سے مزید بڑھ جاتی ہے کہ اس کے ابتدائی مسودہ کے بعض حصوں کو حضرت خلیفہ اسیح الثالث اور حضرت سیدہ منصورہ بیگم صاحبہ نے بھی ملاحظہ فرمایا.
1 له بسم اللہ الرحمن الرحیم حالات زندگی پیارے بچو! ہندوستان کے شہر دہلی میں ایک بزرگ بخارا سے آکر آباد ہوئے.ان کا نام خواجہ محمد طاہر تھا.ان دنوں ہندوستان پر شہنشاہ اور نگ زیب کی حکومت تھی.بادشاہ حضرت خواجہ محمد طاہر کو اپنا پیر مانتا تھا اور آپ کی بہت عزت کرتا تھا.سادات کا یہ خاندان اپنے سلسلہ نسب کی وجہ سے بہت معزز شمار ہوتا تھا.اس خاندان میں بہت سے بزرگ پیدا ہوئے اور اسی خاندان میں بارھویں صدی ہجری میں حضرت خواجہ محمد ناصر دہلوی کی پیدائش ہوئی.انہیں اس صدی کا ولی * کہا جاتا ہے اور ان کے بیٹے حضرت خواجہ میر درد کو بھی لوگ تیرھویں صدی کا ولی کہتے ہیں.انہی خواجہ میر در درحمۃ اللہ علیہ کی نسل میں حضرت سیّدہ نصرت جہاں بیگم پیدا ہوئیں جنہیں ہم حضرت اماں جان کہتے ہیں.آپ نے حضرت اماں جان کا نام سنا ہوگا اور آپ کو شوق بھی ہوگا کہ حضرت اماں جان والے اور نماز میں بڑی پابندی سے پڑھنے والے تھے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دعوی کے بعد آپ دونوں بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہو گئے.آپ کو تمام جماعتِ احمدیہ، حضرت اماں جان کے والدین ہونے کی وجہ سے، نانا جان اور نانی جان کے نام سے یاد کرتی ہے.حضرت نانا جان حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے جان نثار فدائی اور جماعت احمدیہ کے انتہائی مخلص خادم تھے.آپ (پیشہ کے لحاظ سے ) اوورسئیر تھے.قادیان میں جماعت کی سب ہی عمارتیں حضرت نانا جان کی بنائی ہوئی ہیں جن کو دیکھ کر ان کے دین کی خدمت کے شوق کا اندازہ ہوتا ہے.جس طرح حضرت نانا جان ایک اعلیٰ سید خاندان سے تعلق رکھتے تھے ایسے ہی حضرت نانی جان کا خاندان بھی بہت اونچا تھا.ان کا نھیال اور ددھیال سید تھا.حضرت اماں جان آپ دونوں کی اکلوتی بیٹی تھیں البتہ بیٹے دو تھے.بڑے بیٹے حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب اور چھوٹے بیٹے حضرت میر محمد الحق صاحب تھے.حضرت اماں جان کو اپنے دونوں بھائی بہت پیارے تھے اور دونوں ہی خدا کے فضل سے مخلص جان نثار احمدی اور دین کے خادم تھے.کی سیرت اور زندگی کے بارے میں آپ بھی کچھ جانیں.تو ہم نے سوچا کہ آپ کا یہ شوق پورا پیدائش اور بچپن کریں اور آپ کو اپنی عظیم روحانی ماں کی پیاری پیاری باتیں بتائیں.آپ کے والدین حضرت اماں جان کے والد میر ناصر نواب صاحب تھے اور آپ کی والدہ کا نام سید بیگم تھا.دونوں بے حد نیک اور سادہ تھے اور لوگ آپ کی بہت عزت کرتے تھے.یہ دونوں ہی دین کے پابند، خدا تعالیٰ اور اُس کے رسول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم سے بہت محبت کرنے ولی کے معنے دوست کے ہیں.اللہ تعالیٰ سے سچا پیار کرنے والوں کو ولی اللہ کہتے ہیں.حضرت اماں جان کی پیدائش 1865ء میں دہلی میں ہوئی.آپ کی پیدائش سے پہلے حضرت نانا جان کے حالات بہت تنگ تھے.بے کاری کا زمانہ تھا لیکن آپ کی پیدائش کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ حالات بہتر ہو گئے.کھوئی ہوئی جائیداد کا ایک حصہ واپس مل گیا اور ملازمت بھی مل گئی جس سے مالی حالات بہت اچھے ہو گئے.گویا آپ کی پیدائش پر ہی اللہ تعالیٰ نے ظاہر کر دیا کہ یہ ایک بابرکت خاتون ہے.حضرت نانا جان نے گھر ہی پر آپ کو تعلیم دی.قرآن کریم کی تعلیم کے علاوہ اُردولکھنا پڑھنا سکھایا.آپ بچپن ہی
4 3 سے بہت ذہین تھیں.بڑی سلیقے والی تھیں.آپ کی تربیت خالص دینی طرز پر ہوئی.چونکہ آپ لوگ دہلی کے رہنے والے تھے اس لیے آپ کا اُٹھنا بیٹھنا،کھانا پینا، پہنا اوڑھنا،غرض سب دہلی والوں کی طرح تھا.حضرت نانا جان نے آپ کا پہلا نام نصرت جہاں بیگم اور دوسرا نام عائشہ رکھا.آپ کی شادی اُس زمانہ میں لڑکیوں کی شادی بہت چھوٹی عمر میں کر دی جاتی تھی.آپ کے بھی بہت سے رشتے آئے لیکن آپ کے والدین کو کوئی رشتہ پسند ہی نہ آتا تھا.کوئی رشتہ نا نا جان کو پسند نہیں آیا تو کسی کا نانی جان نے انکار کر دیا.اصل میں نانا جان کو کسی بہت دین دار رشتہ کی تلاش تھی.جب آپ کی عمر اٹھارہ سال کی ہوگئی تو حضرت نانا جان نے گھبرا کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کولکھا کہ حضور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے نیک اور صالح داماد عطا کرے.“ اُدھر حضور کو اللہ تعالیٰ نے الہام کے ذریعہ بتایا کہ: میں نے ارادہ کیا ہے کہ تیری دوسری شادی کر دوں اور سب انتظام میں خود کروں گا.“ اور یہ بھی بتایا کہ: تیرا رشتہ دہلی کے ایک سید خاندان میں ہوگا.“ اس لیے جب حضرت نانا جان کا دعا کا خط پہنچا تو حضور نے اللہ تعالیٰ کی مرضی پر اپنے رشتہ کا پیغام بھیجا اور ساتھ ہی لکھ دیا کہ آپ مجھ پر نیک ظن ( یعنی اعتماد ) کر کے لڑکی کا نکاح مجھ سے کر دیں.اس وقت حضور کی پہلی بیوی موجود تھی.اس سے آپ کے دو بیٹے بھی تھے.بڑے کا نام تھا حضرت مرزا سلطان احمد اور چھوٹے تھے حضرت مرزا فضل احمد.لیکن چونکہ آپ کی پہلی بیوی کی طبیعت میں دنیا داری بہت تھی اور دینی حالت کمزور.اس لیے آپس میں بہت معمولی تعلق رہ گیا تھا اور حضور بہت بے آرامی کی زندگی گزار رہے تھے اس لیے اللہ نے چاہا کہ وہ آپ کی دوسری شادی کر دے.جب رشتہ آیا تو حضرت نانی جان کو یہ اعتراض ہوا کہ آپ پنجاب کے رہنے والے ہیں.آپ کا رہنا سہنا اور زبان دہلی والوں سے مختلف ہے.عمر بھی بڑی ہے.پہلے شادی بھی ہو چکی ہے.اس عرصہ میں حضرت اماں جان کے کئی رشتے آئے لیکن نانی جان کو وہ رشتے پسند نہ آئے اور آخر ایک دن فرمایا: اُن لوگوں سے تو غلام احمد ہزار درجہ بہتر ہے.“ چونکہ حضرت نانا جان پہلے ہی یہ چاہتے تھے آپ نے موقع غنیمت جان کر فورا ہی حامی بھری اور حضور کو رشتہ کی منظوری کی اطلاع دے دی.کچھ عرصہ بعد حضرت اماں جان بیاہ کر دہلی سے قادیان لائی گئیں.آپ کا نکاح جامع مسجد دہلی کے مشہور خطیب سید نذیر حسین دہلوی نے پڑھایا.رہن سہن اور زبان کے فرق کے باوجود حضرت اماں جان نے اپنے آپ کو اس ماحول میں نہایت خوبی سے ڈھال لیا.اس سے آپ کی سمجھ بو جھ ، لیاقت اور غیر معمولی خوبیوں کا پتہ چلتا ہے کیونکہ یہ کسی عام عورت کے بس کا کام نہ تھا.شروع میں تو آپ بہت گھبرا ئیں یہاں تک کہ حضرت نانی جان کو لکھ بھیجا کہ ”میں اس قدر گھبرائی ہوئی ہوں کہ شاید میں غم اور گھبراہٹ سے مر جاؤں گی.“ لیکن ایک ماہ بعد جب دہلی گئیں تو حضرت نانی جان کو خود ہی بتایا کہ ”مجھے تو انہوں 66
5 ،، نے بڑے آرام سے رکھا ہوا ہے میں یونہی گھبرا گئی تھی.شروع شروع میں آپ کا گھبرا جانا لیے ایک مبارک وجود سمجھتے.حضرت اماں جان کو بھی اس بات کا بہت احساس تھا اور بعض ایک قدرتی بات تھی.اس کے متعلق حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے بتایا کہ اماں جان دفعہ بڑی محبت اور نا ز سے کہا کرتیں کہ: نے ایک بار ذکر کیا کہ : ” جب تمہارے ابا مجھے بیاہ کر لائے تو یہاں سب خاندان والے سخت مخالف تھے ( شاید شادی کی وجہ سے ).گھر میں دو چار خادم مر د تھے اور ان بیچاروں کی روٹی بھی گھر والوں نے بند کر رکھی تھی.گھر میں عورت کوئی نہ تھی.صرف میرے ساتھ فاطمہ بیگم تھیں ( یہ خادمہ دہلی سے ساتھ آئی تھیں ) نہ وہ کسی کی زبان سمجھتی تھیں اور نہ ان کی کوئی سمجھے.شام کا وقت بلکہ رات تھی جب ہم پہنچے.تنہائی کا عالم، غیر وطن، میرے دل کی عجیب حالت تھی اور روتے روتے میرا بُرا حال تھا.نہ کوئی اپنا تسلی دینے والا ، نہ منہ دھلانے والا ، نہ کھلانے والا ، ( کوئی اپنا رشتہ دار نہ تھا) اکیلی حیرانی پریشانی میں آن کر اتری.کمرے میں ایک چار پائی پڑی تھی جس کی پائینتی پر ایک کپڑا پڑا تھا اس پر تھکی ہاری جو پڑی ہوں تو صبح ہوگئی.اگلی صبح حضور نے ایک خادمہ کوبلو ایا اور گھر میں آرام کا سب سامان کر دیا.“ بچو! اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کو ایک بہت بڑی عزت یہ عطا کی تھی کہ اماں جان کے اپنے خاندان کے ایک بزرگ کو اس شادی کے متعلق اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا تھا اور پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اس شادی کے متعلق الہام ہوا.گویا یہ شادی خدا کی عین مرضی کے مطابق تھی.ان باتوں کی وجہ سے دوسرے آپ کی ذاتی خوبیوں کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ سے بہت محبت کرتے اور آپ کی بہت عزت اور قدر کرتے تھے اور انہیں اپنے ” میرے آنے کے ساتھ آپ کی زندگی میں برکتوں کا دور شروع ہوا ہے.اس پر پر حضور مسکرا کر جواب دیتے: ہاں یہ ٹھیک ہے.“ حضرت اماں جان بھی حضور سے بہت محبت کرتی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے دوسینوں میں ایک ہی دل دھڑک رہا ہو.جس طرح عام میاں بیوی میں جھگڑے ہوتے ہیں ویسے ان دونوں میں کبھی کوئی جھگڑا نہ ہوتا.حضور حضرت اماں جان کے ساتھ پیار سے نرم لہجے میں بات کیا کرتے.گھر کے کاموں میں کبھی کوئی اونچ نیچ ہو بھی جاتی تو آپ کچھ نہ کہتے.ایک واقعہ حضرت اماں جان نے خودسنا یا کہ: میں پہلے پہل جب دہلی سے آئی تو مجھے معلوم ہوا کہ حضرت مسیح موعود ) کو گر والے چاول بہت پسند ہیں.میں نے بڑے شوق سے ان کے پکانے کا انتظام کیا.تھوڑے سے چاول منگوائے اور اس میں چار گنا گڑ ڈال دیا.وہ بالکل راب بن گئے.جب دیچی چولھے سے اُتاری اور چاول برتن میں نکالے تو دیکھ کر سخت رنج اور صدمہ ہوا کہ یہ تو خراب ہو گئے.ادھر کھانے کا وقت ہو گیا تھا.حیران تھی کہ اب کیا کروں.اتنے میں حضرت صاحب آگئے.میرے چہرے کو دیکھا جو رنج اور صدمہ سے رونے والوں کا سا بنا ہوا تھا.آپ دیکھ کر ہنسے اور فرمایا: پھر فرمایا: کیا چاول اچھے نہ پکنے کا افسوس ہے؟“
7 نہیں یہ تو بہت مزیدار ہیں.میری پسند کے مطابق پکے ہیں.ایسے ہی زیادہ گڑ والے تو مجھے پسند ہیں.یہ تو بہت ہی اچھے ہیں.اور پھر بہت خوش ہو کر کھائے.حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ حضرت صاحب نے مجھے خوش کرنے کو اتنی باتیں کیں کہ میرا دل بھی خوش ہو گیا.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اماں جان کو خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان سمجھتے تھے اور جو بات بھی وہ کرنے کو کہتیں پوری کوشش فرماتے کہ وہ پوری ہو جائے.ویسے بھی آپ فرمایا کرتے تھے کہ بیویوں کا بہت خیال رکھنا چاہیے.حضور کی مہربانیوں کی ایک مثال آپ کو سناؤں.ایک دفعہ دار مسیح کے اس حصہ میں جہاں حضور رہتے تھے وہاں ایک صحن ہے جس کی ایک کھڑ کی جنوب کی طرف محلہ کوچہ بندی میں کھلتی ہے.گرمیوں میں رات کو حضور اور آپ کے سب گھر والے اس صحن میں سویا کرتے تھے لیکن برسات کے موسم میں جب بارش ہوتی تو مشکل یہ پڑ جاتی کہ ساری چارپائیاں اُٹھا کر کمروں میں لے جانی پڑتیں.اس واسطے حضرت اماں جان نے یہ مشورہ دیا کہ اس صحن کے ایک حصہ پر چھت ڈال دی جائے.یعنی برآمدہ سا بنادیا جائے تا کہ بارش ہونے پر چار پائیاں اس کے اندر کی جاسکیں.حضور نے حکم فرما دیا کہ ایسا ہی کیا جائے.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور چند دوسرے رفقاء نے اعتراض کیا کہ ایسانہ کریں صحن کی شکل خراب ہو جائے گی، خوبصورتی ختم ہو جائے گی لیکن آپ نے سب کی باتیں سُن کر فرمایا کہ ٹھیک ہے لیکن چونکہ میری بیوی خدا کے نشانوں میں سے ایک نشان ہے اور میرے ان بیٹوں کی ماں ہے جن کے متعلق خدا نے مجھے بشارتیں دی ہیں اس لیے میں اس کی ہر بات مانتا ہوں.یہ برآمدہ بنا چاہیے.حضرت اماں جان خودا اپنا ایک واقعہ سنا یا کرتی تھیں کہ جب وہ نئی نئی قادیان آئیں تو انہیں روشنی میں سونے کی عادت تھی.جب آپ سو جاتیں تو حضور روشنی بجھا دیتے.پھر آپ کی آنکھ کھلتی تو آپ اندھیرا دیکھ کر گھبرا اُٹھتیں اور حضرت صاحب دوبارہ روشنی کر دیتے.آخر حضور کو ہی روشنی میں سونے کی عادت پڑ گئی.پھر تو یوں ہوا کہ گھر کے ہر کونے میں روشنی رہنے لگی ، سیڑھیاں کیا، غسل خانہ کیا، کمرہ کیا صحن کیا ، سب جگہ روشنی کی جاتی اور اس کے لیے ایک خاص خادم رکھا گیا.کبھی کبھا رحضرت اماں جان محبت سے حضور کو یاد دلایا کرتیں که آپ کو وہ وقت یاد ہے جب آپ روشنی میں سونہ سکتے تھے اور آب گھر کے کونے کونے میں روشنی نہ ہو تو آپ کو نیند نہیں آتی.“ حضرت صاحب یہ بات سُن کر ہمیشہ خوشی سے مُسکرا اُٹھتے.بچو! حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت اماں جان کو جتنے لوگوں نے بھی قریب سے دیکھا.مثلاً حضرت اماں جان کے دونوں بھائی.آپ کی اولاد، بہوئیں اور خادمائیں وغیرہ سب کا یہ کہنا ہے کہ یہ دونوں عام میاں بیوی کی طرح نہ تھے.آپ دونوں میں کبھی آپس میں جھگڑا نہ ہوتا.کسی بات پر لڑائی نہ ہوتی.اُدھر حضور حضرت اماں جان کی ہر بات مانتے اور پیار اور احسان کا سلوک کرتے تو ادھر حضرت اماں جان بھی حضور کی چھوٹی سے چھوٹی پسند نا پسند کا خیال رکھتیں.کھانا بھی اکثر خود پکا تیں یا پھر سامنے بیٹھ کر اپنی نگرانی میں پکواتیں.آپ کے دوسرے کاموں میں بھی اس طرح آپ کا ہاتھ بٹاتیں جیسے کوئی دوست اپنے دوست کا کام کر رہا ہے.حضور حضرت اماں جان کو تم کہہ کر بلاتے اور اردو زبان جو کہ اماں جان کی زبان تھی اس میں باتیں کرتے.کبھی کبھی پنجابی بھی بول لیا کرتے.حضرت اماں جان بھی آپ کو عزت سے حضور یا حضرت صاحب کہ کر بلایا کرتیں.غرض یہ جوڑا بے مثال تھا اور آپس کی
10 محبت ایسی تھی جو عام دیکھنے میں نہیں آتی.ایک بار جب حضرت اماں جان نماز پڑھنے لگیں تو نیت باندھنے سے پہلے آپ نے حضرت اقدس سے کہا کہ :.میں ہمیشہ یہ دُعا کرتی ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے آپ کا غم نہ دکھائے اور مجھے آپ سے پہلے اُٹھا لے.“ سی سن کر حضور نے فرمایا:.” اور میں ہمیشہ یہ دعا کرتا ہوں کہ تم میرے بعد زندہ رہو اور میں تم کو سلامت چھوڑ جاؤں.“ اور ایسا ہی ہوا حضرت اماں جان سے چوالیس سال پہلے آپ کی وفات ہو گئی.دل تو خون کے آنسور ورہا تھا لیکن زبان پر صرف انا للہ تھا اور بس.بلکہ وہاں پر موجود کچھ عورتوں نے اونچی آواز میں رونا شروع کیا تو آپ نے بڑے زور سے انہیں ڈانٹا اور فرمایا:- ” میرے تو خاوند تھے میں نہیں روتی تم رونے والی کون ہو.“ کچھ دیر بعد آپ نے اپنے بچوں کو جمع کیا اور انہیں نصیحت فرمائی:.بچو! گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لیے کچھ نہیں چھوڑ گئے.انہوں نے آسمان پر تمہارے لیے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے 66 جو تمہیں وقت پر ملتار ہے گا.“ حضور کا جنازہ لاہور سے قادیان لے جایا گیا.بٹالہ سے بیل گاڑی پر رکھا گیا حضرت اماں جان بھی رتھ پر سوار ساتھ ہی تھیں.حضرت بھائی عبدالرحمن صاحب قادیانی ڈیوٹی پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر حضرت اماں جان کا صبر ساتھ تھے.آپ سارا راستہ دعاؤں میں مشغول رہیں.مئی 1908ء کی 26 تاریخ تھی جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی حالت بہت خراب ہوگئی.حضرت اماں جان تڑپ تڑپ کر دعائیں کر رہی تھیں.کبھی سجدہ میں گر جاتیں کبھی بے قراری سے ٹہل کر دعا کرتیں کہ اے حتی و قیوم خدا! میری زندگی بھی تو ان کو دے دے.لیکن الہی تقدیر کے مطابق آپ کا وقت آن پہنچا تھا.جب آپ پر نزع کی حالت شروع ہوگئی تو حضرت اماں جان نے دعا کی: اے میرے پیارے خدا ! یہ تو ہمیں چھوڑتے ہیں ، لیکن تو ہمیں نہ چھوڑ یو.“ 66 آپ بار بار یہ الفاظ کہتی جاتی تھیں آخر دس بجے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سب کو تڑپتا چھوڑ کر اپنے آسمانی آقا سے جاملے.حضرت اماں جان نے اس وقت ایسا صبر کا نمونہ دکھایا جس کی مثال نہ مل سکے گی.جنازہ کو بہشتی مقبرہ کے ساتھ والے باغ میں رکھا گیا.حضرت اماں جان چہرہ مبارک دیکھنے آئیں تو پائینتی کی طرف کھڑے ہو کر نہایت وقار والی آواز میں بولیں تیری وجہ سے میرے گھر میں فرشتے اُترتے تھے اور خدا کلام کرتا وو تھا.یہ گواہی تھی جو حضرت اماں جان نے حضرت اقدس کی سچائی کی دی اور اس سے آپ کے ایمان کی مضبوطی اور حضرت اقدس سے عقیدت اور محبت کا پتہ چلتا ہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر سچے دل سے ایمان رکھتی تھیں اور آپ کے دعوئی اور الہامات کو سچا مانتی تھیں.کبھی بھی کسی قسم کا شک یا شبہ آپ کے دل میں پیدا نہ ہوا.تو بچو ! حضرت اماں جان پہلے دن سے ہی حضرت صاحب پر ایمان لے آئی تھیں اور دعوی سے پہلے بھی آپ کو بزرگ مانتی تھیں.اس جگہ ہم آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ سُناتے
12 11 ہیں جو اماں جان نے اپنی بیٹی حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کو سنایا.فرمانے لگیں کہ ” جب میں پہلی مرتبہ نئی نئی آئی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کی ایک بات کا مجھ پر بہت اثر ہوا اور وہ یہ کہ خادمہ دُودھ ابال رہی تھی.جب دُودھ میں جوش آرہا تھا تو اس نے ڈھکن اُتار دیا.اتفاق سے حضرت اقدس کی نظر پڑ گئی اور آپ نے فرمایا ”دودھ نگا ہے یہ ضرور پھٹ جائے گا.میرے دل میں خیال آیا کہ دُودھ کے اہال کے وقت ڈھکن اُتار ہی دیتے ہیں.یہ دُودھ بھلا کیوں پھٹے گا.مردوں کو کچھ خبر نہیں ہوتی اس لیے ایسا کہہ دیتے ہیں.میرے دل میں یہ خیال گزر ہی رہا تھا کہ اُسی وقت دُودھ پھٹ گیا.اس واقعہ سے میرے دل میں حضرت اقدس کا بہت رُعب طاری ہوا اور میں نے یقین کر لیا کہ یہ تو بہت بڑے بزرگ ہیں.“ حضور کی وفات کے بعد اماں جان بالکل بدل گئیں، آپ کا سکون اور اطمینان جاتا رہا.اس کی جگہ گھبراہٹ اور بے چینی نے لے لی.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے آپ کی زندگی کے بارہ میں لکھا کہ: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعد آپ میں ایک بہت بڑی تبدیلی پیدا ہوئی.پھر میں نے آپ کو پُرسکون اور مطمئن اور خاموش نہیں دیکھا.ہم بچوں کی وجہ سے بہت صبر دکھاتیں لیکن طبیعت میں بے حد گھبراہٹ اور بے قراری پیدا ہوگئی تھی جو پھر کبھی نہ گئی.یوں لگتا تھا جیسے آپ اس دنیا میں ہیں بھی اور نہیں بھی.آپ ایسے بے چین رہتیں جیسے آپ کا کچھ کھو گیا ہو.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے حضرت اماں جان کی غیر معمولی محبت کے بارے میں حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ بلھتی ہیں کہ : ”آپ اکثر سفر پر جاتی تھیں اور بظاہر اپنے آپ کو بہت بہلائے رکھتیں.عورتوں کو ساتھ لے کر باغ کی یا گاؤں کی سیر کو نکل جاتیں.گھر میں کچھ نہ کچھ کام کرواتی رہتیں.کھانا پکواتیں اور اکثر غریبوں میں تقسیم کرتیں (یہ کام آپ کو سب سے زیادہ پسند تھا ).لوگوں کا آنا جانا رہتا.اپنی اولاد کی دلچسپیاں تھیں.یہ سب کچھ تھا مگر حضور کے بعد پورا سکون آپ نے کبھی محسوس نہیں کیا.صاف معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی اپنا وقت کاٹ رہا ہے.ایک سفر ہے جسے طے کرنا ہے.کچھ کام ہیں جو جلد ہی کرنے ہیں.ظاہر میں ایک صبر کی چٹان تھیں لیکن ایک قسم کی گھبراہٹ تھی جو آپ پر ہر وقت طاری رہتی لیکن بچوں کی خاطر اپنا یہ غم چھپائے رکھتیں اور سب کی خوشی کا سامان کرتی تھیں.جب کوئی بچہ خاندان میں پیدا ہوتا تو خوشی کے ساتھ حضرت اقدس کی جدائی کا غم بھی تازہ ہو جاتا اور آپ اس بچہ کی آمد پر حضرت اقدس کو بہت یاد کرتیں.میں اپنے لیے ہی دیکھتی کہ حضرت صاحب کی وفات کے بعد ایک محبت کا چشمہ ہے جو اماں جان کے دل میں پھوٹ پڑا ہے اور بار بار فرمایا کرتیں کہ تمہارے ابا تمہاری ہر بات مان لیا کرتے اور میرے اعتراض کرنے پر فرماتے کہ لڑکیاں تو چار دن کی مہمان ہوتی ہیں یہ کیا یاد کرے گی.جو یہ کہتی ہے وہی کرو.“ غرض یہ محبت بھی حضرت صاحب کی محبت تھی جو آپ کے دل میں موجود تھی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بے حد خواہش تھی کہ آپ حج کریں لیکن حالات کی وجہ سے ایسا نہ کر سکے.حضرت اماں جان نے آپ کی وفات کے بعد آپ کی اس خواہش کو یاد رکھا اور اس طرح پورا کیا کہ ایک صاحب کو اپنے پاس سے رقم دے کر حضرت اقدس کی
14 13 طرف سے حج کرنے بھیجا.آپ کی عادت تھی کہ جب حضرت صاحب کی یاد آتی قرآن شریف پڑھنا شروع کر دیتیں.آپ اور بھی کئی طرح سے حضرت اقدس کی یاد میں زندہ رکھتیں.آپ کا یہ طریقہ تھا کہ روزانہ صبح بہشتی مقبرہ جا کر حضرت اقدس کے مزار پر دعا کیا کرتیں.حضور کو جو کھانے پسند تھے وہ پکوا کر یا خود پکا کر لوگوں کوکھلا تیں اور فرما تھیں:.کھاؤ! یہ حضرت صاحب کو بہت پسند تھا.“ حضرت اماں جان کو قادیان سے بھی بہت محبت تھی.جب پاکستان بننے کے بعد حضرت مصلح موعود مستقل طور پر ربوہ تشریف لے آئے تو ساتھ محترمہ آپا آمنہ صاحبہ ( بیگم چو ہدری عبداللہ خان صاحب ) بھی اماں جان کے ساتھ تھیں.وہ کہتی ہیں کہ جس مکان میں ہم نے کھانا کھایا حضرت اماں جان اس کے برآمدے میں تشریف رکھتی تھیں.میں جا کر پاس بیٹھ گئی.باتوں باتوں میں کچھ ایسا فقرہ میں نے کہا جس کا مطلب تھار بوہ قادیان جیسا لگتا ہے.یہ قادیان کا غم دور کر دے گا.حضرت اماں جان میرے پاس لیٹی ہوئی تھیں.جوش میں اٹھ کر بیٹھ گئیں.میرے کندھے کو ذرا جھٹک کر رنج سے بولیں:.تم اُس جگہ کو بھول جاؤ گی جہاں حضور ) دفن ہیں.“ ایک بار حضرت اماں جان مکرم عبداللہ صاحب کے گھر نیلا گنبد لا ہور تشریف لے گویا آپ کو وہ مکان جن میں کبھی حضور تشریف لے گئے تھے ، وہ را ہیں جن پر آپ کے قدم مبارک پڑے تھے ان سب سے محبت تھی اور آپ انہیں برکتوں والا خیال کرتیں.حضرت اماں جان کی ہر بات ، ہر کام یہ ظاہر کرتا تھا کہ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کتنی محبت اور عقیدت تھی.آپ کے رفقاء اور کچے پیار کرنے والے خادموں اور ان کی اولاد سے بھی بہت محبت رکھتی تھیں اور ان کی معمولی معمولی باتوں کا بھی خیال رکھتیں جیسے ایک ماں اپنے بچوں کا رکھتی ہے.یہاں ہم آپ کو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کائنا یا ہوا ایک واقعہ بتاتے ہیں جس سے حضرت اماں جان کے ایمان کی مضبوطی کا پتہ چلتا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے علم پا کر محمدی بیگم والی پیشگوئی فرمائی تو حضور نے دیکھا کہ حضرت اماں جان علیحدگی میں نماز پڑھ کر رو رو کر دعا کر رہی ہیں.بعد میں آپ نے پوچھا کہ کیا دعا کر رہی تھیں؟ حضرت اماں جان نے جواب میں بتایا کہ میں یہ کہہ رہی تھی ”خدایا ! تو اس پیشگوئی کو اپنے فضل اور قدرت سے پورا فرما “ آپ نے فرمایا! کہ ” تم یہ دعا کر رہی تھیں اور تم جانتی ہو کہ اس کے نتیجے میں تم پر سوکن آنی ہے.حضرت اماں جان نے بے ساختہ فرمایا ” خواہ کچھ ہو مجھے اپنی تکلیف کی پرواہ نہیں.میری خوشی اسی میں ہے کہ خدا کی بات اور آپ کی پیشگوئی پوری ہو.“ سوتیلے رشتہ داروں سے سلوک گئیں.ان کے گھر والوں نے آپ سے کہا کہ یہ گھر بہت تنگ ہے آپ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں بہتر مکان عطا کرے.یہ سُن کر حضرت اماں جان نے فرمایا: دو نہیں یہ مکان تمہارے لیے بڑا برکت والا ہے کیونکہ یہاں (حضور) تشریف لا چکے ہیں.اس مکان کو نہ چھوڑنا.“ جب آپ شادی کے بعد قادیان آئیں تو وہاں سب رشتہ داروں کو حضور کے خلاف دیکھا یہاں تک کہ جو چند خادم تھے ان کے خلاف بھی گھر والوں نے بائیکاٹ کیا ہوا تھا.حضور کا تعلق اپنی پہلی بیوی سے ان کے سلوک کی وجہ سے نہ ہونے کے برابر تھا اور آپ کوئی
16 15 ہیں سال سے علیحدہ زندگی گزار رہے تھے.گھر کی رشتہ دار عورتوں کا یہ حال تھا کہ وہ یہ بھی پسند نہ کرتیں کہ کوئی حضرت صاحب کو کھانے کی چیز ہی تحفہ کے طور پر بھیج دے اور نہ ہی خود کھانے پینے کا خیال رکھتیں.ان حالات میں حضرت اماں جان کا بیاہ کر آنا اور بر الگا لیکن اماں جان نے سب کچھ بھلا کر سب سے اچھا سلوک کیا اور حضور سے اجازت لے کر آپ کی پہلی بیوی بچوں اور بھاوج وغیرہ سے ملنا شروع کر دیا.آپ سب کا بہت خیال رکھتیں اور ضرورت کے وقت ان کے کام آتیں اور ہر طرح سے مددفرماتیں.حضرت اماں جان نے خود یہ واقعہ بتایا کہ ایک دفعہ حضرت مرزا سلطان احمد کی والدہ بیمار ہوئیں تو وہ انہیں پوچھنے گئیں.واپس آکر حضرت صاحب سے ذکر کیا کہ انہیں یہ تکلیف ہے.پہلے آپ خاموش رہے.پھر دوسری مرتبہ کہنے پر فرمایا ”میں تمہیں دو گولیاں دیتا ہوں.یہ دے آؤ مگر اپنی طرف سے دینا.میرا نام درمیان میں نہ آئے.“ حضرت اماں جان فرماتی تھیں کہ اور بھی کئی دفعہ حضور نے اشاروں اشاروں میں مجھ سے کہا کہ میں ایسے طریق پر کہ حضرت صاحب کا نام نہ آئے اپنی طرف سے مدد کر دیا کروں.سوئیں کر دیا کرتی تھی.“ ہزاروں کہانیاں آپ نے سنی ہوں گی جن میں سوکنوں کے آپس کے جھگڑے اور سوتیلی ماؤں کے خوفناک سلوک کا ذکر کیا جاتا ہے، لیکن حضرت اماں جان چونکہ عام عورتوں سے مختلف تھیں.ایک تو خود بھی نیک اور متقی تھیں اور بلند حوصلہ رکھتی تھیں دوسرے حضور کی صحبت اور تربیت کا اثر کہ آپ نے باوجود دشمنیوں کے حضرت صاحب کے رشتہ داروں اور اپنے سوتیلے بچوں اور سوکن سے ہمیشہ اچھا سلوک کیا.حضرت اماں جان کا مقام خدا کی نظر میں اپنے پاک ارادوں اور نیک کاموں کی برکت سے آپ نے اپنے خدا کی خوشنودی حاصل کر لی تھی اور آپ کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بہت سے الہام کیے.مثلاً ایک الہام میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس کو اپنی اس مبشر بیوی کی صحت کے لیے خود دعا سکھائی:- رَبِّ اَصِحُ زَوْجَتِى هذه (یعنی اے میرے خدا! میری اس بیوی کو بیمار ہونے سے بچا اور بیماری سے تندرست کر.) اس رشتے کو خدا نے ایک قابلِ شکر انعام قرار دیا اور فرمایا:- ( ترجمہ ) اس خدا کی تعریف ہے جس نے دامادی اور نسب ہر دو کی رُو سے تم پر احسان کیا.“ آپ کی عمر کے بارہ میں یہ الہامی دعا سکھائی گئی :- ( ترجمہ ) ”اے میرے رب ! میری عمر میں اور میرے ساتھی کی عمر میں غیر معمولی زیادتی فرما.“ اور یہ دعا غیر معمولی طور پر پوری ہوئی.آپ نے بہت لمبی عمر پائی اور جیسا کہ ایک الہام میں یہ بتایا گیا تھا کہ ” تو دور تک کی نسل دیکھے گا.آپ کی نسل کا یہ سلسلہ حضرت اماں جان سے چلنا تھا اس لیے آپ بھی اس الہام کی دوسری مخاطب تھیں اور یہ الہام آپ نے بڑی شان سے پورا ہوتے دیکھا.حضرت اماں جان کو خدا کا ساتھ حاصل تھا.الہام ہے کہ 66 ( ترجمہ ) میں تیرے اور تیری بیوی کے ساتھ ہوں.“ یعنی الہاماً بھی اللہ تعالیٰ کا ساتھ آپ کو حاصل تھا.آپ کی شادی کے بعد اللہ تعالیٰ نے حضور کو مخاطب کر کے فرمایا: - (ترجمہ) ”میری اس نعمت کو یاد رکھ جو میں نے تجھ پر کی ہے.میں نے
18 17 تیرے لیے خود اپنے ہاتھ سے اپنی رحمت اور قدرت کا یہ درخت لگایا.“ آپ کی اولاد اللہ تعالیٰ نے آپ کو دس بچے عطا کیے.پانچ کم عمری میں فوت ہو گئے اور پانچ نے الہاموں کے مطابق لمبی عمر پائی جو بچے کم عمری میں فوت ہوئے ان کے نام یہ ہیں:- ا.سب سے بڑی بیٹی صاحبزادی عصمت صاحبہ پیدائش: 15 اپریل 1886ء : وفات: جولائی 1891ء ۲.بشیر اول پیدائش: 7 راگست 1887ء : وفات: 4/نومبر 1888ء ۳.صاحبزادی شوکت صاحبه پیدائش: 1891ء : وفات: 1892ء ۴.صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب پیدائش: 14 جون 1899ء : وفات: 16 ستمبر 1907ء ۵.صاحبزادی امتہ النصیر صاحبه 28 جنوری 1903ء میں پیدا ہوئیں اور 3 دسمبر 1903ء کو فوت ہوگئیں.1 - حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب 12 جنوری 1889ء کو آپ کی پیدائش ہوئی.آپ جماعت احمدیہ کے دوسرے امام بنے.آپ کے متعلق «فضل عمر “ اور مصلح موعود کے الہام ہوئے.ایک لمبا عرصہ دین کی خدمت کرنے کے بعد 7 اور 8 نومبر کی درمیانی رات 1965ء میں وفات پاگئے.ود 2 حضرت مرزا بشیر احمد صاحب (ایم.اے) 20 اپریل 1893ء کو پیدا ہوئے.لمبی عمر پانے کے بعد ستمبر 1963 ء میں وفات پائی.آپ نے تمام عمر سلسلہ کی خدمت میں گزار دی.3.-3 حضرت مرزا شریف احمد صاحب آپ 24 رمئی 1895 ء کو پیدا ہوئے.آپ کے متعلق ایک الہام یہ تھا وہ بادشاہ آیا.آپ نے بھی لمبی عمر پائی اور سلسلہ کی خدمت میں لگے رہے.آپ کی وفات دسمبر 1961 ء میں ہوئی.جن بچوں کو اللہ تعالیٰ نے لمبی زندگی دی اور آگے نسل چلائی اور ان کے متعلق حضرت 4 - حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:- وو یہ پانچوں جو کہ نسلِ سیّدہ ہیں.“ یہ سب مبشر اولاد ہیں.ان سب کا مختصر تعارف یہ ہے:.آپ 2 مارچ 1897ء کو پیدا ہوئیں.آپ کے متعلق مشہور الہام یہ ہے ” نواب مبارکہ بیگم ، آپ بہت دُعا گو، عالم فاضل اور صابر وشاکر خاتون تھیں.خدمت دین میں لگی رہتیں.آپ کی وفات 23 رمئی 1977 ء کو ہوئی.
20 19 5.حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ 25 جون 1904ء کو پیدا ہوئیں.آپ کے متعلق مشہور الہام ہے ”ذحت کرام.“ آپ کی وفات 6 رمئی 1987 ء کو ہوئی.آپ کے ان پانچوں بچوں کو خدا تعالیٰ نے لمبی عمر سے نوازا.ان سب کو اولا د بھی عطا کی اور اماں جان نے اپنی دُور کی نسل بھی دیکھی یعنی اپنے پڑپوتے ، پڑپوتیاں، پڑانوا سے اور پڑنواسیاں دیکھیں.یہاں تک کہ جب آپ کی وفات ہوئی تو آپ کی زندہ نسل کی تعداد ایک سو گیارہ تھی اور 20 فوت ہو چکے تھے یعنی کل اولا دایک سو اکتیس ہے.یہ ایک بہت ہی غیر معمولی تعداد ہے جو کسی کو اپنی زندگی میں اپنی آنکھوں سے دیکھنی نصیب ہوئی.آپ کو خدا تعالیٰ نے بڑی عزتوں سے نوازا.آپ کے خاوند خدا کے مامور تھے.خدا تعالیٰ نے آپ کے بڑے بیٹے کو جماعت احمدیہ کی امامت عطا کی اور مصلح موعود کا خطاب دیا.1944ء میں جب حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے مصلح موعود ہونے کا دعوی کیا تو حضرت اماں جان نے اظہار تشکر کے طور پر تحریر کیا:- میں اپنے خدا کا کس طرح شکر یہ ادا کروں.کہ اس نے مجھ نا چیز کو اپنے پاک و بزرگ مسیح کی زوجیت کے لئے چُنا.اور میرے سر کو اپنے انتہائی انعام کے تاج سے مزین فرمایا.اور پھر میں اپنے خدا کا کس طرح شکر یہ ادا کروں کہ اس نے میرے بیٹے محمود کو مصلح موعود کے مقام پر فائز کر کے میری عمر کے آخری حصہ میں مجھے ایک دوسرا تاج عطا کیا.پس مجھے میرے اوپر کی طرف سے بھی تاج ملا اور میرے نیچے کی طرف سے بھی.اور یہ میرے خدا کا سراسر فضل و احسان ہے جس میں میری کسی خواہش اور کسی عمل اور کسی استحقاق کا ذرہ بھر بھی دخل نہیں اور یہ دوتاج میرا ہی حصہ نہیں ہیں بلکہ میری پیاری جماعت بھی ان میں میرے ساتھ برابر کی حصہ دار ہے مگر خدا کا ہر خاص و عام انعام اپنے ساتھ خاص ذمہ داریوں کو بھی لاتا ہے اور میری یہ دعا ہے کہ خدا تعالیٰ مجھے بھی اور جماعت کو بھی ان اہم ذمہ داریوں کے پورا کرنے کی توفیق دے جو اس کی طرف سے ہم پر عائد کی گئی ہیں.اے ہمارے خدا تو ایسا ہی کر.آمین والسلام ام محمود 5 اپریل 1944ء الفرقان مصلح موعود نمبر اپریل 1944 ، صفحہ 3) پھر ایک اور انعام اللہ تعالیٰ نے آپ کی وفات کے بعد آپ کو عطا کیا کہ آپ کا وہ پوتا جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو الہام ہوا :- نَافِلَةٌ لَّكَ 66 اس کو آپ نے اپنا بیٹا بنا کر خود ہی پرورش کی اور اپنے ہاتھوں سے تربیت دی.اللہ تعالیٰ نے اسے بھی جماعت احمدیہ کا تیسرا امام بنا دیا.یعنی حضرت مرزا ناصر احمد رحمہ اللہ.ان کی وفات کے بعد آپ کے ہی ایک اور پوتے یعنی حضرت مرزا طاہر احمد رحمہ اللہ تعالیٰ کو جماعت کا چوتھا امام مقرر کیا.(اور اب اللہ تعالیٰ نے آپ کے پڑپوتے اور حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے پوتے حضرت مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو پانچواں امام مقرر فرمایا ہے.)
22 21 حصہ دوم سیرت واخلاق آپ کو اللہ تعالیٰ نے کیوں اپنے مامور کے لیے چنا ؟ یہ بات آپ کی سیرت پر ایک نظر ڈال کر ہی پتہ چل جاتی ہے.آپ کی سیرت کی نمایاں بات آپ کی عبادت ہے.آپ پانچوں وقت کی نمازیں با قاعدگی اور بڑی توجہ اور اہتمام سے پڑھتی تھیں.صرف فرض نمازیں ہی نہیں بلکہ نماز تہجد اور نماز ضحی کی بھی پابند تھیں.نفلوں کے علاوہ بھی جب موقع ملتا آپ دل کا سکون نماز ہی میں حاصل کرتی تھیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب فرمایا کرتے کہ یہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیارا قول ہے کہ:- ” میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے.“ یہ حضرت اماں جان کو بھی ورثہ میں ملا تھا.نمازوں کے علاوہ بھی یہ حال تھا کہ ہر وقت اُٹھتے بیٹھتے ، چلتے پھرتے بلند آواز میں دُعائیں کیا کرتیں.بعض دفعہ بیٹھے بیٹھے ایک دم زور سے کہتیں ، یا اللہ ! اور دعا شروع کر دیتیں اور اس قدر تڑپ ہوتی تھی کہ پاس بیٹھنے والا بھی بے اختیار آپ کی دُعا میں شامل ہو جاتا.حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ فرمایا کرتیں کہ اس طرح بے قرار ہو کر دعا آپ کے ہونٹوں سے نکلتی جیسے دم گھٹ کر رُکا ہوا سانس دوبارہ چلتا ہے.کبھی کبھی مصرع یا شعر کی صورت میں دُعا کیا کرتیں.ایک بار لاہور میں ایک غیر آباد مسجد کو دیکھ کر آہ بھر کے فرمایا: الہی ! مسجد میں آباد ہوں گر جائیں گر جائیں ہے.“ آپ کی دعا میں پوری جماعت شامل ہوتی.سب کے لیے دعا کرتیں.اکثر کے نام گر جائیں، گر جا کی جمع ہے جو کہ عیسائیوں کی عبادت گاہ کو کہتے ہیں لے کر بڑی بے قراری سے دُعا کرتیں.ایک بار لیٹے لیٹے اس طرح یا اللہ کہا کہ میں گھبرا گئی ،مگر اس کے بعد یہ جملہ کہا ” میرے نیر کو بیٹا دے.“ اور خدا نے آپ کے تیر کو دو بیٹے عطا کیے.آپ صحیح معنوں میں پوری جماعت کی ماں تھیں.آپ نہ صرف خود نمازوں کی پابندی کرتیں بلکہ دوسرے لوگوں کو بھی اس کی تاکید کرتی رہتیں.کوئی خاص بات ہوتی ، چاہے وہ اپنے لیے ہو یا کسی اور کے لیے، تو سب سے دعا کرواتیں، خاص طور پر بچوں سے ضرور دعا کرواتیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ ” بچے معصوم ہوتے ہیں اس لیے خدا بچوں کی دعا بہت سنتا ہے.“ ایک واقعہ خان بہادر چوہدری ابوالہاشم خان صاحب کی بیوی نے سنایا کہ ایک دفعہ وہ اپنی پہلی بیٹی کی پیدائش کے بعد حضرت اماں جان کے پاس دعا کے لیے کہنے گئیں.نماز کا وقت ہو گیا اور جب اماں جان نماز پڑھ کر دوبارہ واپس آئیں تو ان سے پوچھا لڑ کیو! کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ انہوں نے جواب دیا.” بچے نے پیشاب وغیرہ کیا ہوا ہے گھر جا کر پڑھیں گے.‘اس پر فرمایا.دو بچوں کے بہانے سے نماز ضائع نہ کیا کرو اس طرح بچے خدا تعالی کی ناراضگی کی وجہ بنتے ہیں.بچہ تو خدا کا انعام ہے.“ آپ اکثر فرماتیں کہ دعا ضائع نہیں جاتی.اگر ایک رنگ میں قبول نہ ہو تو دوسرے رنگ میں قبول ہو جاتی ہے یا عبادت میں شمار ہوتی ہے.قادیان میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر میں ایک چھوٹا سا کمرہ ہے جسے بیت الدعا“ کہتے ہیں.یہ حضور اور اماں جان کے کمرے کے ساتھ بنا ہوا ہے اور ان کے کمرے سے ہی اس کمرے کو راستہ جاتا ہے.اماں جان نے اس کے دروازے سے لے حمد حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب غیر جو افریقہ کے پہلے مربی تھے.
24 23 کر داخلے کے دروازے تک ایک رسی باندھ کر اس پر پر دے لٹکائے ہوئے تھے اور ان پر دوں کے پیچھے اپنا پلنگ لگایا ہوا تھا تا کہ بیت الدعا میں آنے جانے والے لوگ آرام سے جاسکیں اور بے پردگی یا تکلیف نہ ہو.جماعت میں سے جو کوئی بھی بیت الدعا جانا چاہتا آپ بڑی خوشی سے اس کی اجازت دے دیتیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس کمرہ میں نفل پڑھتے اور دعائیں کیا کرتے.اس لیے اس کا نام ”بیت الدعا“ رکھا گیا.ایک بار ایک خاتون آئیں اور بیت الدعا میں نماز پڑھنے کی اجازت چاہی.آپ نے ہنس کر فرمایا:- ”ہم نے کوئی ٹیکس نہیں لگایا ہوا.“ پھر جب وہ خاتون کمرے میں داخل ہونے لگیں تو فرمایا : - ”ہاں ایک ٹیکس ہے کہ میرے لیے دعا کرنا.“ ایک بار مہاشہ محمد عمر صاحب (مربی) مولوی فاضل کا امتحان دینے سے پہلے بیت الدعا میں دعا کرنے کی غرض سے آئے.حضرت اماں جان سے اجازت مانگی.آپ نے کہا آٹھ اور نو کے درمیان آجانا.وہ کہتے ہیں میں وقت پر حاضر ہو گیا.دروازہ کھٹکھٹایا.ایک ملازمہ نکلی.پوچھنے پر بتایا کہ حضرت اماں جان کی اجازت سے بیت الدعا میں دعا کرنے حاضر ہوا ہوں.خادمہ نے کہا.” بعض خواتین کو اماں جان نے وہاں کھانے پر بلایا ہوا ہے آپ کل صبح آجائیں.میں نے کہا.آپ اتماں جان سے عرض کر دیں کہ میں آج ہی امتحان دینے جا رہا ہوں.اس پر وہ خادمہ اندر چلی گئی اور واپس نہ آئی.آخر پھر دروازہ کھٹکھٹایا تو مائی کا کو صاحبہ باہر آئیں.میں نے ساری بات ان سے عرض کی.میری بات سن کروہ اندر چلی گئیں اور تھوڑی ہی دیر میں آکر بتایا کہ حضرت اماں جان نے فرمایا ہے:.”ہم نے دعوت کا وقت ساڑھے نو بجے کر دیا ہے آپ آب دُعا کے لیے اندر جاسکتے ہیں.“ اس طرح آپ ہر ایک کی خواہش کو پورا کرتی تھیں.آپ اکثر یہ دعا ئیں بلند آواز میں پڑھا کرتی تھیں:.سُبْحَنَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ سُبْحَنَ اللَّهِ الْعَظِيمِ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ بِرَحْمَتِكَ أَسْتَغِيْتُ يَارَبِّي وَرَبَّ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ.جب قادیان سے ہجرت کر کے آئے تو آپ یہ دعا بھی بہت پڑھتی تھیں :- يَا حَفِيظٌ يَا عَزِيزُ يَارَفِيقُ رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا.ہم بچوں کو بھی یہ دعا سکھا دی تھی اور فرمایا کرتی تھیں کہ یہ دعا بہت پڑھا کرو.یہ اس زمانہ کا اسم اعظم ہے یعنی سب سے بڑی دعا ہے.جب بھی آپ سفر پر جاتیں تو یہ دعا ضرور کرتیں:.بِسْمِ اللَّهِ مَجْرِهَا وَمُرْسَهَا.خدا تعالیٰ اور اس کی کتاب اور اس کے رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کو بہت محبت تھی.قرآن کریم کی تلاوت آپ روزانہ کیا کرتیں.بلکہ اکثر لوگوں کا کہنا ہے کہ آپ کو کوئی بھی تکلیف ہوتی یا حضور کی یاد آتی تو آپ قرآن شریف پڑھنا شروع کر دیتیں.اپنے دل کا سکون قرآن شریف میں ڈھونڈتی اور حاصل کرتی تھیں.جب بھی کوئی مشکل وقت ہوتا سورۂ ٹیس کی تلاوت شروع کر دیتیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ نہ جانے لوگوں نے کیوں اتنی پیاری سورۃ کو صرف وفات کے وقت کے لیے مقرر کر دیا ہے حالانکہ حضور فرمایا کرتے تھے تکلیف میں سورہ یس پڑھی جائے تو تکلیف دور ہو جاتی ہے.حدیثیں سننے کا بے حد شوق تھا روزانہ خاندان کے کسی نہ کسی بچے کو بلا کر حدیث سُنا کرتیں.کبھی ان یتیم بچیوں میں سے جن کو آپ نے خود پالا تھا کسی ایک کو پاس بٹھا کر اس
26 25 سے حدیث پڑھوا کر سنا کرتیں.وفات کے قریب بیماری میں یہ شوق اس قدر بڑھ گیا تھا کہ سنانے والا تھک جاتالیکن آپ کی پیاس نہ بجھتی.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کرتیں.ایک مرتبہ ایک آدمی نے باغ کا پھل جبکہ ابھی آموں کو بور ہی لگا تھا، چھ سوروپے میں خریدنے کے لیے منشی صاحب کی معرفت کہلا بھیجا.حضرت اماں جان نے جواب میں انکار کر دیا کہ یہ تو نا جائز ہے.جب باغ کو پھل لگ گیا تو وہ بہت کم قیمت میں بکا.اس آدمی نے منشی صاحب سے کہا کہ چھ سوروپے لے لیتے تو اچھا تھا.اب دیکھو کتنے کم روپے ملے ہیں.اس پر منشی صاحب نے جواب دیا:- 66 اماں جان اس کو نا جائز سمجھتی ہیں ایسے روپے کیسے لے لیتا “ قیدیوں کو کھانا کھلانا بھی سنت ہے.اس لیے ایک دفعہ جب حضرت اماں جان بٹالہ تشریف لے گئیں تو آپ نے ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب سے کہا کہ پتہ کریں کہ یہاں جیل کے قیدیوں کو ہماری طرف سے عمدہ کھانا کھلانے کی اجازت مل سکتی ہے؟ انہوں نے اپنے کسی واقف کے ذریعہ اجازت حاصل کی اور حضرت اماں جان نے پچاس روپے انہیں کھانا تیار کرنے کے لیے دیے اور اس طرح قیدیوں کو عمدہ کھانا کھلایا گیا ( یہ شاید وہ قیدی تھے جو قرض کی وجہ سے قید میں تھے.) قدرتِ ثانیہ سے گہرا تعلق قدرت ثانیہ پر آپ کا دل سے ایمان تھا.امامِ وقت کی اطاعت کرنا اور ان کا ہر حکم ماننا اپنا فرض سمجھتی تھیں.قدرت ثانیہ کے مظہر اول حضرت مولانا نورالدین صاحب نے اس بات کی گواہی دی اور فرمایا:- ”جو اطاعت میری میاں محمود اور حضرت اماں جان نے کی ہے کسی نے بھی نہیں کی.“ ایک بار کسی کو بتایا کہ:- وو " حضرت بیوی صاحبہ ( یعنی حضرت اماں جان) نے جو کہ میرے ایسے حالات سے واقف ہیں ایک بار کچھ نقد روپیہ مجھے دیا اور کہا یہ آپ کے کھانے کے لیے ہے.ساتھ ہی کچھ رقم لنگر خانہ کے لیے دی اور کہا لیکن دوسرے حصے میں سے نہ دیں.“ اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کو امام وقت کے ساتھ کتنی عقیدت تھی.امام جماعت احمدیہ حضرت مولانا نورالدین صاحب آپ کو جو کوئی کام کہتے آپ وہ خود کر دیتیں.ایک دفعہ کا واقعہ ہے حضور کے پاس کچھ لڑ کے پڑھنے کے لیے آئے ہوئے تھے.ان میں ایک دیہاتی بھی تھا.ایک دن وہ کھانے پر رو پڑا.پوچھنے پر پتہ چلا کہ اسے کسی کی عادت ہے جو اسے ملتی نہیں.حضور نے حضرت اماں جان کو کہلوایا کہ یہ قصہ ہوا ہے.آپ اپنے گھر سے کسی بھیج دیا کریں.چنانچہ آپ روزانہ اس طالب علم کونسی بھجوا دیا کرتیں.ایک بار کچھ لحاف قابل مرمت تھے.حضور نے صوفی غلام محمد صاحب امرتسری سے فرمایا.یہ حضرت اماں جان کو بھجوا دیں.یہ سن کر انہیں بہت رنج ہوا کہ حضرت اماں جان سے ایسے کام کروائے جارہے ہیں.ان کی جو بُری سی شکل بنی دیکھی تو حضرت صاحب سمجھ گئے اور فرمایا: 66 ”انہوں نے مجھے کہا ہوا ہے کہ میں ان کو کام بتادیا کروں.“ حضرت اماں جان نے اپنے ہاتھ سے لحاف مرمت کر کے بھجوادیے.ایک بار حضور نے آپ سے فرمایا کہ آپ اپنی غیر احمدی رشتہ دار عورتوں سے تعلق پیدا کریں اور مشورہ دیا
28 27 کہ پہلے آپ ان کے گھر تشریف لے جائیں پھر انہیں بلائیں.حضرت اماں جان نے اپنے امام کا حکم مانا.ان عورتوں سے ملنا شروع کیا اور اس طرح خدا کے فضل سے بہت سی رشتہ دارخواتین احمدی ہوگئیں.حضرت اماں جان کا یہ طریق تھا کہ جب بھی آپ نے کسی دوسرے شہر جانا ہوتا تو حضور سے اجازت لے کر جاتیں اور ایسا ہی حضرت مصلح موعود کے وقت بھی ہوتا رہا.حضرت مصلح موعود گو آپ کے بیٹے تھے لیکن ان کے امام جماعت احمد یہ بننے کے بعد حضرت اماں جان نے ان کی اسی طرح عزت اور فرمانبرداری کی جیسا کہ امامِ وقت کی ہونی چاہیے.آپ کی مالی قربانیاں تحریک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں یا آپ کے بعد ایسی نہیں ہوئی جس میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیا ہو.تربیت اولاد تربیت اولاد کے متعلق آپ کا نمونہ مثالی تھا.اس بارہ میں حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ اپنے تجربات اس طرح بتاتی ہیں.تربیت کے اصولوں کے متعلق میں نے بہت سے لوگوں کو غور سے دیکھا، لیکن حضرت اماں جان سے بہتر کسی کو بھی نہ پایا.آپ نے سکول کالج میں تعلیم نہ پائی تھی ،گھر میں ہی معمولی اردو لکھنا پڑھنا سیکھا تھا لیکن اخلاق اور تربیت کے متعلق جو آپ کے اصول ہیں ان کو دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ محض خدا کا فضل اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تربیت کا سلسلہ احمدیہ کے لیے آپ نے بہت بڑی بڑی مالی قربانیاں دیں.جب حضرت نتیجہ تھا اور اس کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ سب کچھ کہاں سے سیکھا اور کس سے سیکھا.بچوں مسیح موعود علیہ السلام نے منارة امسیح بنانے کی تحریک کی اور آپ نے ایک سو ایک خدام کی تربیت کا پہلا اصول یہ تھا کہ بچے پر مکمل اعتماد ظاہر کر کے ماں باپ کے اعتبار کا بھرم سے فرمایا کہ آپ احباب سوسور و پیہ دیں، لیکن حضرت اماں جان نے ایک ہزار روپے کا وعدہ لکھوایا اور اپنا ہیلی کا ایک مکان بیچ کر یہ رقم ادا کر دی.جب حضرت مصلح موعود مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے تحریک جدید جاری فرمائی اور چندہ کا اعلان کیا تو حضرت اماں جان نے اس میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دفتر اول میں وفات تک 3142 روپے کا چندہ ادا کیا.اس کے علاوہ جو بھی چندہ کی تحریک ہوتی آپ اس میں ضرور حصہ لیتیں اور اچھی خاصی رقم ادا کرتیں.مثلاً سلسلہ کی بیوت الذکر مشن لنگر خانه، دفتر لجنہ اماءاللہ ، بیوت الذکر لندن و برلن وغیرہ وغیرہ.لنگر خانے کے لیے دیگوں کا مہیا کرنا.اخبار الفضل کے لیے امداد.غرض کہ کوئی بھی مالی رکھنا، جھوٹ سے نفرت، غیرت دکھانا اور روپے پیسے اور دنیاوی چیزوں کی پرواہ نہ کرنا آپ کا پہلا سبق ہوتا تھا.ہم لوگوں سے بھی یہی فرماتی رہیں کہ بچے میں یہ عادت ڈالو کہ وہ کہنا مان لے.پھر بے شک بچپن کی شرارت بھی آئے تو کوئی حرج نہیں جس وقت بھی روکا جائے گا رُک جائے گا.اگر ایک بار تم نے کہنا ماننے کی عادت ڈال دی تو پھر ہمیشہ اصلاح کی امیدرہے گی.ہمیں بھی یہی سکھا رکھا تھا.ہم لوگ یہ سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ماں باپ کی غیر موجودگی میں ، ان کی مرضی کے خلاف کوئی کام کریں.حضرت اماں جان ہمیشہ یہ فرمایا کرتیں کہ میرے بچے جھوٹ نہیں بولتے.یہی اعتبار ہمیں ہمیشہ جھوٹ سے بچاتا تھا بلکہ اس سے اور نفرت آتی تھی.مجھے آپ کا حتی کرنا کبھی یاد نہیں.
30 29 آپ یہ بھی فرمایا کرتیں کہ پہلے بچے کی تربیت پر پورا زور لگاؤ دوسرے بچے اس کا نمونہ دیکھ کر خود ہی ٹھیک چلیں گے.حضرت مرزا ناصر احمد صاحب رحمہ اللہ جن کی تربیت اماں جان کی گود میں ہوئی فرماتے کہ حضرت اماں جان کا یہ اصول تھا کہ بچوں کو مغرب کے بعد گھر سے باہر نہ رہنے دیتیں.اس اصول کی سختی سے پابندی فرماتیں.یہ حکم تھا کہ مغرب کی نماز پڑھ کر سیدھے گھر آؤ پھر باہر نہیں جانا سوائے عشاء کی نماز کے لیے.اور بڑے ہونے تک یہی پابندی رہتی.اور حضرت اماں جان کی تربیت کا انداز بالکل الگ تھا.آپ ڈانٹ ڈپٹ کر بالکل کوئی بات نہ کہتیں.ایک بار حضرت اماں جان نے کچھ بچوں کو کھانے پر بلایا ( یہ آپ کا دستور تھا) اس زمانہ میں زمین پر ہی دستر خوان بچھا دیا جاتا اور سب بیٹھ کر کھانا کھاتے.مجھے بھی کہا کہ آؤ سب کے ساتھ کھانا کھاؤ.میری عمر اس وقت بہت چھوٹی تھی اور جیسا کہ بچے ضِدّ کرتے ہیں میں نے بھی بچپن کی ناسمجھی کی وجہ سے انکار کر دیا.حضرت اماں جان نے ڈانٹنے کے بجائے فرمایا:- اچھا نہ کھاؤ ، لیکن یاد رکھنا کہ پھر بعد میں کھانا نہیں ملے گا.آخر کچھ دیر جھکنے کے بعد میں بھی ان بچوں کے ساتھ شامل ہو گیا.حضرت اماں جان تربیت کرنے کے لیے اس بات کا بھی خیال رکھتیں کہ گھر کے بچے اور دوسری یتیم لڑکیاں جو آپ کے گھر پل رہی تھیں اچھی عادتوں والے بچوں کے ساتھ ہی کھیلیں تا کہ ان میں کسی دوسرے گندے بچے کی بری عادت نہ پڑے اور بچے بری صحبت سے دور رہیں.آپ جب بھی کسی بچے کی کوئی بری بات دیکھتیں تو اس طرح نصیحت فرماتیں کہ اس کی اصلاح بھی ہو جائے اور خواہ مخواہ دوسروں کے سامنے شرمندگی بھی نہ اُٹھانی پڑے.حضرت اماں جان کے دل میں استاد کی بہت عزت تھی اور آپ کی یہی کوشش ہوتی کہ بچوں کے دل میں بھی استاد کا احترام ڈالا جائے اور بچے اپنے استاد کی عزت کریں.شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے استاد تھے.ایک دن ان کی بیوی حضرت اماں جان کے پاس بیٹھی ہوئی تھیں.میاں صاحب جو اس وقت ابھی بہت چھوٹے تھے ایک ربڑ کا سانپ لیے ہوئے آگئے اور ایک دم سے اسے ان کے سامنے چھوڑ دیا.اس طرح اچانک ایک سانپ دیکھ کر وہ خوف سے کانپنے لگیں.حضرت اماں جان نے ان کی حالت دیکھ کر انہیں تسلی دی کہ ” ہو! یہ تو ربڑ کا سانپ ہے تم ایسے ہی ڈر رہی ہو.“ اور ساتھ ہی اپنے بیٹے سے فرمایا :- میاں محمود ! یہ تمہارے استاد کی بیوی ہیں.یہ تم نے کیا کیا ؟“ وہ شرمندہ ہو گئے اور معافی مانگ کر بولے:.بچوں سے پیار 66 ”اماں جان مجھ سے بھول ہوگئی.“ اگر تربیت کے معاملے میں آپ کی کڑی نظر تھی تو دوسری طرف بچوں سے پیار بھی بہت تھا.ان کی چھوٹی چھوٹی بات کا بھی بہت احساس کرتیں.اپنے بچوں کے علاوہ جماعت کے بھی سارے بچوں سے آپ کو بہت محبت تھی.سب کو اپنی اولاد کی طرح سمجھتیں.انہیں کھلا پلا کر بہت خوش ہوتیں.ان سے خوشی کی باتیں کرتیں.لطیفے سنا تیں ، پہیلیاں بوجھواتیں، کہانیاں سنواتیں ، خود بھی بڑے شوق سے سنتیں.ایک دن عرفانی صاحب کی بیوی جن کا ذکر پہلے آچکا ہے اماں جان کے پاس آئیں اُس وقت حضرت مصلح موعود اپنی چھوٹی عمر میں حضرت اماں جان کے پاس بیٹھے تھے اور حضرت اماں
32 31 جان کی ملازمہ سردار سے کہانیاں سُن رہے تھے.عرفانی صاحب کی بیوی کو دیکھ کر سردار نے کہا ”میاں اب ان سے سنو خیر انہوں نے بھی ایک کہانی سنائی جو میاں محمود کو بہت پسند آئی.اگلے روز جب وہ حضرت اماں جان کے پاس گئیں تو میاں محمود انہیں دیکھ کر آگئے اور حضرت اماں جان کی گود میں بیٹھ کر بولے ”اماں جان محمود کی اماں آگئیں تم ان کو کہو کہانی سنائیں اور بار بار زور دینے لگے.آخر حضرت اماں جان بولیں.”بہ تمہیں خیال نہیں آتا میرا بچہ کہانی سنے کو کہ رہا ہے.وہ بولیں ”اماں جان ! دن کو کہانی اچھی لگے گی.“ آپ نے فرمایا ! نہیں.بس ہم دن کو ہی سنیں گے.“ جب وہ کہانی سنا رہی تھی تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی تشریف لے آئے اور پوچھا ”یہ کیا کہہ رہی ہیں.“ حضرت اماں جان نے بتایا کہ کہانی سنا رہی ہیں.آپ نے فرمایا.”ہاں ہاں سناؤ ، بچوں کو کہانیاں سنانے سے عقل بڑھتی ہے.“ حضرت اماں جان بچوں کے ہلکے پھلکے مذاق کا برا نہ مناتی تھیں، نہ ہی چھوٹی چھوٹی باتوں پر غصہ کرتی تھیں.ایک دفعہ حضرت اماں جان کے پاس چار بچیاں آئیں.آپ اٹھیں اور ان کے لیے چلغوزے لے کر آئیں.ان میں جو سب سے چھوٹی بچی تھی وہ شریر تھی.وہ اپنی بڑی بہن سے بولی.دیکھو طاہرہ! چلغوزے مت کھانا ورنہ اماں جان تمہیں ندیدہ سمجھیں گی.حضرت اماں جان اس کی یہ بات سن کر خوب ہنسیں اور بولیں میں بالکل تمہیں ندیدہ نہیں سمجھوں گی خوب بے تکلف ہو کر کھاؤ.عزیز رشتہ داروں اور اولاد سے محبت آپ کو اپنے تمام رشتہ داروں سے بہت محبت تھی.خاص طور پر اپنے بھائیوں اور اولاد کو بہت چاہتی تھیں.اپنی بہوؤں سے بیٹیوں کی طرح پیار کرتیں اور ان کا خیال رکھتیں.سب کی ضرورتوں کا خیال رکھتیں.رشتہ داروں کی دعوت کرنا ، پھر سب کو پسند کا کھانا پکا کر کھلا نا تو آپ کی خاص عادت تھی.ہر عید پر سب آپ کے مہمان ہوتے.آخر عمر تک سب کی دعوت کرتی رہیں.بلکہ بالکل آخر میں جب طبیعت کافی کمزور ہوگئی تو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو بلا کر فرمایا: ”میاں ! میری طبیعت کافی کمزور ہے.میرا دل کرتا ہے کہ کوئی رقم مجھ سے لے کر خاندان کی دعوت کا انتظام کر دے.اب خود میرے سے ہوتا نہیں.“ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے خود سارا انتظام کروا دیا.حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب بتاتے تھے کہ حضرت اماں جان کو اپنے بھائیوں کی تکلیف کا بہت احساس ہوتا تھا.جب مجھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے احباب نے میری خواہش کے مطابق ڈاکٹری پڑھنے کا ہی مشورہ دیا تو مالی پریشانی کی وجہ سے میں مشکل میں پڑ گیا اور میں مایوس ہو گیا کہ اب میرا داخلہ نہیں ہوسکتا.جب حضرت اماں جان کو پتہ چلا تو فورا بولیں ”تم شوق سے پڑھنے جاؤ.میں اپنے ذاتی خرچ میں سے تمہیں رقم دوں گی.کسی کو پتہ نہ چلے گا.“ یہ بات آپ نے اس لیے کی کہ میر صاحب کی غیرت کو چوٹ نہ لگے اور اس طرح خدا کے فضل سے میر صاحب اپنے وقت کے بہت بڑے اور اچھے سر جن بن گئے.بہوؤں کے ساتھ سلوک کے متعلق آپ کی بڑی بہو حضرت ام ناصر صاحبہ نے بتایا کہ جب میری شادی ہوئی میں گیارہ سال کی تھی.پہلے دن حضرت اماں جان نے مجھے اپنے ساتھ سلایا کہ بچی ہے اُداس ہو جائے گی.اور بعد میں بھی مجھے اتنا پیار دیا اور میرا خیال رکھا.وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ آپ کی محبت بڑھتی ہی گئی یہاں تک کہ میں اپنا میکہ بھول گئی.جیسے ایک ماں کی گود سے نکل کر دوسری ماں کی پیار بھری گود میں خدا نے مجھے بھیج دیا.
34 33 33 اولاد سے آپ کی محبت کا حال، حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اس طرح بیان کرتی ہیں کہ: " آپ بہترین ماں تھیں.آپ کا سینہ مامتا کے جذبات اور پیار سے بھرا ہوا تھا.آخر عمر تک بچوں کی چھوٹی چھوٹی بات کا خیال رکھتی رہیں.حضرت مصلح موعود کو بچپن میں میٹھے تاروں کے گولے جنہیں پنجاب میں ”مائی بڑھی دا جھاتا کہتے ہیں بہت پسند تھے.وہ جب بھی کسی بچے کو کھاتے دیکھتیں پیسے دے کر فوراً منگوا لیتیں اور فرماتیں جاؤ میاں محمود کو دے آؤ، انہیں بہت پسند ہے.اس طرح ہر وقت ان کے کھانے پینے کا خیال رہتا.اسی طرح کوئی چیز اگر حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کہ پسند کی پکی ہے تو کہتیں یہ میرے ”بشری“ کو پسند ہے کوئی جا کر اسے دے آؤ.اپنی آخری بیماری کے دنوں میں جب اکثر غنودگی کی حالت رہتی اس وقت بھی بچوں کا خیال رہتا.ایک دن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کو مرزا شریف احمد صاحب سمجھیں جو اس وقت بیماری کی وجہ سے لا ہور تھے.مجھے آہستہ سے کہنے لگیں شریف کو چائے پلوا دو کہیں سر میں درد نہ ہو جائے.حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ اپنے میاں کی وفات کے بعد میں نے اماں جان سے اتنی محبت پائی کہ مجھے اپنا غم بھول گیا.ایسے معلوم ہوتا تھا کہ جیسے میں دوبارہ ماں کی گود میں واپس آگئی ہوں.جب نئی نئی تقسیم ملک ہوئی اور قادیان سے لاہور آئے تو کسی کی بھی مالی حالت اچھی نہ تھی.ایک بار میں بازار گئی.ایک کپڑا بے حد پسند آیا، لیکن لے نہ سکی.واپس آکر باتوں باتوں میں اماں جان سے ذکر ہوا تو بولیں کس دکان پر دیکھا تھا؟ کیا رنگ تھا؟“ کہنے کو عام سی باتیں ہو رہی تھیں لیکن اگلے دن کیا دیکھتی ہوں کہ وہی قمیض کا ٹکڑا اتہاں جان لے کر آرہی ہیں کہ ”لو پکڑو اور سلوا کر پہنو کل سے مجھے نیند نہیں آئی کہ میری بچی دل مار کر خالی ہاتھ واپس آگئی.غرض حضرت اماں جان کو اپنی اولاد کی چھوٹی سے چھوٹی خواہش کا خیال رہتا اور اولاد کی تکلیف اپنی تکلیف سمجھتیں.یتیموں کا خیال یوں تو ہر یتیم کا خیال رکھتیں لیکن خاص طور پر جن بیتیم لڑکیوں کو آپ نے پالا ان.نہایت محبت اور پیار کا سلوک کیا.ان کی اپنے بچوں کی طرح تربیت کی.آپ انہیں خود نہلاتیں، سر میں دہی لگاتیں ، تیل ڈالتیں تا کہ سر میں خشکی نہ ہو جائے.اور یہ کام کرتے ہوئے آپ کے چہرے پر خوشی ہوتی.جب بچی سمجھنے کے قابل ہو جاتی تو اسے سب سے پہلے کلمہ پھر نماز ترجمے سے سکھاتیں.ابتدائی دینی تعلیم خود دیتیں.پھر کسی استانی کو مقرر کر کے قرآن شریف ختم کروا تیں.کھانا پکانا، سلائی کڑھائی سکھا تھیں.آمنہ نیک محمد صاحبہ کو بھی آپ نے ہی پالا اور یہ سب باتیں سکھائیں.سکول بھی بھیجا تا کہ دنیوی تعلیم بھی حاصل کرلیں.پھر ان سے چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی کتابیں سنتیں تا کہ اردو صحیح طریقہ پر بولنا آجائے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں سنتیں اور مطلب سمجھاتیں.تربیت بھی کرتیں.ساتھ ہی چھوٹی چھوٹی خوشی کا خیال بھی رکھتیں پھر ان لڑکیوں کی خود ہی شادی کی.ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت اماں جان کسی چھوٹے گاؤں کی طرف سیر کو نکلیں.ساتھ میں دو خادما ئیں امام بی اور مائی فجو بھی تھیں.جب آپ گاؤں کی ایک گلی میں سے گزریں تو دیکھا کہ گندی چیتھڑوں میں لپٹی ایک لڑکی پڑی ہے اور خربوزوں کے گندے چھلکے منہ میں ڈال رہی ہے.آپ نے اس کے پاس ٹھہر کر پوچھا یہ کون ہے؟‘ گاؤں کے چندلوگوں نے بتایا کہ یتیم ہے اور گونگی بہری ہے.آپ نے ایک خادمہ کو حکم دیا کہ اسے اسی وو
36 35 طرح لے چلو.وہ کوئی چھ سات سال کی ہوگی.اسے لے کر قادیان آئیں اور سیدھی ضرورت مندوں کی مدد لڑکیوں کے اس سکول میں پہنچیں جو اس وقت دار امیج میں ہی لگتا تھا.اس بچی کا حلیہ اتنا خوفناک تھا کہ وہاں کی سب لڑکیاں اسے دیکھ کر ڈر گئیں اور چیچنیں مار کر ادھر ادھر بھاگیں.اماں جان ان کی حالت دیکھ کر ہنس پڑیں اور فرمایا ” یہ ایک یتیم لاوارث بچی ہے.اسے تم نے ہی انسان بنانا ہے اس کا نام تیمی ہے.پھر خود ہی جا کر فینائل، کنگھا، تیل، کپڑوں کا جوڑا قیمتی، جوتی وغیرہ لے کر آئیں اور استانی میمونہ صاحبہ سے کہہ کر اسے نہلایا دھلوایا.صاف کپڑے پہنوائے.کنگھی چوٹی کروائی ، پھر اسے کھانا کھلایا.کچھ دنوں میں یہ بچی اماں جان کی توجہ اور خدا کے فضل سے حیوان سے انسان بن گئی.تیسرے چوتھے دن اماں جان اسے خود نہلاتیں ، جوئیں نکالتیں کنگھی چوٹی کرتیں.جیسے وہ ان کی ہی ہو.بچوں میں رہتے رہتے اسے اتنی عقل آگئی کہ وہ گھر کا کام کاج بھی کرنے لگ گئی.جب جوان ہوئی تو اماں جان نے اسے اپنے ہاتھوں سے بیاہ دیا.خادموں سے حسن سلوک اپنے خادموں سے بہت اچھا سلوک کرتیں اور ان کے آرام اور کھانے پینے کا بہت خیال رکھتیں.دکھ تکلیف میں ان کے کام آتیں.ایک دفعہ کسی عورت نے عرض کی کہ فلاں ملازمہ کہتی ہے روٹی تھوڑی ملتی ہے.آپ نے باورچی خانہ سے اس کا کھانا منگوایا اور اس میں اور سالن ڈال دیا.دو اور روٹیاں منگوا کر اس کی روٹی میں شامل کر دیں اور اپنے تولیے میں لپیٹ کر رکھ لیں اور فرمایا ” وہ بچوں والی ہے اُسے روٹی کم نہ دیا کرو.“ اور جب وہ ملازمہ آئی تو اس کا دل خوش کرنے کے لیے فرمایا ”دیکھو میں نے تمہاری روٹیاں اپنے تولیے میں لپیٹ کر رکھ دی ہیں تا کہ کم نہ ہوں.“ مکرم عبدالرحیم صاحب شر ما اپنا ایک واقعہ سناتے ہیں:.حضرت مرزا شریف احمد صاحب نے اپنی کوٹھی کا ایک کوارٹر ہمیں رہنے کے لیے دے دیا.اس وقت گھر کے پانچ افراد تھے اور تنخواہ بہت کم ، گذارہ مشکل سے ہوتا تھا.جب حضرت اماں جان کو ہماری تنگی کا پتہ چلا اور یہ کہ سارا گھر صرف 1/2 سیر دودھ پر گزارہ کرتا ہے تو آپ کو بے حد رحم آیا اور اپنی ایک گائے ہمیں بھیج دی.وہ گائے اچھی نسل کی تھی.سات آٹھ سیر دودھ دیتی تھی.اس گائے کا گھر میں آنا تھا کہ ایسی برکت ہوئی کہ کچھ دن میں ہی ہمارے حالات بدل گئے.“ اپنے کام خود ہاتھ سے کرنا حضرت اماں جان میں بے حد محنت کی عادت تھی.چھوٹے سے چھوٹا کام بھی خود اپنے ہاتھ سے کرنا پسند کرتی تھیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب بتایا کرتے کہ میں نے انہیں اپنی آنکھوں سے کئی بار کھانا پکاتے ، چرخہ کاتے، نواڑ بنتے بلکہ بھینسوں کے آگے چارہ ڈالتے دیکھا ہے.بعض دفعہ خود بھنگیوں کے سر پر کھڑے ہوکر صفائی کرواتی تھیں اور ان کے پیچھے لوٹے سے پانی ڈالتی جاتی تھیں.قادیان سے آکر بھی باوجود کمزوری کے اپنے اکثر کام خود کرتیں.بکسوں میں سے چیزیں خود نکالتیں اور رکھتی.کوئی ہنڈیا چڑھا دیتا تو بیٹھ کر خود چمچہ ہلانے لگتیں.سہارا لینا بالکل پسند نہ کرتیں.کوئی دینا چاہتا بھی تو فرماتیں میں خود چلوں گی ،سہارا نہ دو.“ 66
38 37 نہ صرف یہ کہ اپنا کام خود کرتیں بلکہ دوسروں کے کام میں بھی ہاتھ بٹانا آپ کی عادت تھی.محترمہ آمنہ بیگم چوہدری عبداللہ خان صاحب مرحوم کہتی ہیں کہ ایک دفعہ حضرت اماں جان ہمارے گھر آئیں.میری والدہ دودھ بلو رہی تھیں.چھوٹا بھائی رورہا تھا اماں جان نے بڑے پیار سے کہا :- اُٹھ کر بچے کو لے لو.“ اور خود بیٹھ کر دودھ بلو نے لگیں.خود ہی مکھن نکالا.اس کے بعد کافی عرصہ تک حضرت اماں جان کا یہ معمول رہا کہ آپ بہشتی مقبرہ جاتے ہوئے کسی نہ کسی عورت کو ہمارے گھر چھوڑ جاتیں جو دودھ وغیرہ بلوتی اور واپسی پر ساتھ لے جاتیں.غنا اور ایثار حضرت مصلح موعود فرماتے تھے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فوت ہوئے تو اس وقت ہمارے پاس گزارے کا کوئی سامان نہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اس وقت آرام ہے.سے فائدہ نہ ہوا مگر فلاں دوائی سے اب آرام ہے.حضرت اماں جان نے بڑے جوش سے فرمایا: تم یہ کیوں نہیں کہتیں کہ اس تدبیر میں خدا کی مرضی شامل تھی اور اب اُس کے فضل سے اور ایک بار کیا ہوا کہ ایک عورت نے ایک پیالہ حضرت اماں جان کی خدمت میں پیش کیا جس پر کچھ لکھا ہوا تھا اور کہا اس میں پانی ڈال کر پیجیے.آپ نے روک دیا اور فرمایا! ہم ایسا نہیں کرتے.یہ شرک ہے.“ ایک خاتون روزانہ ریڈیو پر خبریں سن کر اماں جان کو سنایا کرتی تھیں.ایک دن کوئی خبر سنا کر بولیں.صدقے جاؤں ریڈیو ایجاد کرنے والے کے، کیسی اچھی چیز ایجاد کی.گھر بیٹھ کر پوری دنیا کی خبریں سن لو، آواز سن لو.حضرت اماں جان نے بے ساختہ فرمایا صدقے جاؤں اپنے ربّ کے جس نے انسان کو اتنی عقل دی کہ وہ ایسی چیزیں ایجاد کر سکے.کچھ قرض بھی تھا.حضرت اماں جان نے جماعت سے نہیں کہا کہ وہ یہ قرض ادا کریں بلکہ آپ کی مہمان نوازی آپ کے پاس جوز یور تھا اسے بیچ کر حضور کا قرض ادا کر دیا.میں اس وقت بچہ تھا اور میرے لیے ان کی خدمت کرنے کا کوئی موقع نہ تھا مگر میرے دل پر ہمیشہ یہ اثر رہتا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کتنا محبت کرنے والا اور قربانی کرنے والا ساتھی دیا.شرک سے نفرت آپ کو شرک سے سخت نفرت تھی جس کی دو تین مثالیں ہم آپ کو سناتے ہیں.ایک دفعہ کوئی عورت اپنے کسی بیمار عزیز کا حال سنارہی تھی.آخر میں بولی.کسی علاج آپ کو مہمان نوازی کی بہت عادت تھی.جو بھی گھر آتا اس کی خاطر کرتیں.مہمانوں کا خیال رکھتیں اور ہر ایک کی عادت کے مطابق اس کو چیز پیش کرتیں.چوہدری فتح محمد صاحب سیال جب پہلے پہل قادیان آئے تو چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے.اس زمانہ میں حضرت اماں جان مہمان نوازی میں خاص طور پر حصہ لیتیں.سب مہمان حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ گول کمرے میں کھانا کھاتے تھے.پہلے دن جب چوہدری صاحب نے کھانا کھایا تو کھانے کے بعد حضرت اماں جان نے کسی شخص کو بھیج کر پوچھا کہ
40 39 کسی مہمان کو کسی خاص چیز کی ضرورت ہو تو بتا دے.چوہدری صاحب نے بے تکلفی سے کہہ دیا کہ ”مجھے کسی کی عادت ہے.تھوڑی دیر بعد دہی کی میٹھی لسی آگئی جو بعض دوسرے دوستوں نے بھی پی اور بعض نے چائے اور پان وغیرہ بھی منگوائے.خوش مزاجی حضرت اماں جان بے حد خوش مزاج تھیں، ہلکی پھلکی تفریح کو پسند فرماتیں.پیدل جاتیں اور ساتھ دُعا مانگتیں.یا اللہ! ساری دُنیا کے کھانوں کا مزا میرے حضرت صاحب کے کھانے میں آ جائے.حضرت اماں جان نے ایک دن ہنس کر کہا ” کیوں اصغری کی اماں کیا میرے بھائی کے کھانے کا بھی.( یعنی حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب جو اُس وقت لاہور میں پڑھتے تھے.) اصغری کی اماں جھٹ سے بولیں ”ہاں اللہ میاں ! بس میاں اسمعیل کے کھانے کا مزا نہ آئے.“ سیر کو جانا آپ کو بے حد پسند تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بھی آپ کے علم کی قدر اور ادبی ذوق ساتھ پیدل سیر کو جایا کرتیں.بعد میں بھی ایسا ہی کرتی رہیں.پکنک بھی کیا کرتیں ،ایک دفعہ آپ نے اپنے باغ میں آلو لگوائے اور حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ اور صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ اور دوسری لڑکیوں اور بہوؤں کو لے کر باغ میں سیر کے لیے تشریف لے گئیں.دوٹو کرے آلو ابلوا کر اچار رکھا اور اپنے باغ کے لوکاٹ اتروائے.چٹنی تیار کی، زمین پر دریاں بچھا کر سب نے یہ دعوت کھائی،لڑکیوں نے پینگ جھولی اور کھیلتی رہیں، خوب تفریح کی.آپ کو علم کی بہت قدرتھی اِس لیے تعلیم دینے والے کا خیال بھی بے حد رکھتیں.محترمہ اُستانی سیکینہ صاحبہ نے بتایا ” جب صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ پانچ چھ سال کی ہوئیں تو حضرت اماں جان نے مجھے ان کو پڑھانے پر مقرر کیا.میں نے ان کو اردو لکھنا پڑھنا سکھانا شروع کیا.اس عرصہ میں اماں جان نے مجھ پر اتنی مہربانیاں کیں اور میری زندگی کی ہر ضرورت کو پورا کیا کہ میری ساری فکریں جاتی رہیں اور جب محترمہ صاحبزادی ایک بار سیر کرتی ہوئی عرفانی صاحب کے گھر تشریف لے گئیں.ان کا گھر ڈھاب صاحبہ کی شادی ہوئی تو آپ نے قریب ہی زمین بھی دی کہ اس پر مکان بناؤ.کے کنارے پر تھا.حضرت اماں جان نے وہاں بچے اکٹھے کر کے کہا.لڑکو! مجھے تیر کے دکھاؤ.ڈھاب کے کنارے ایک درخت کے نیچے اپنی چارپائی بچھوائی اور وہاں بیٹھ کر بچوں کی تیرا کی دیکھتی رہیں.ان کے ساتھ حضرت اُمّم ناصر اور دوسری لڑکیاں بھی تھیں.کھانا بھی سب نے وہیں ڈھاب پر کھایا.آپ کی طبیعت میں مزاح بھی تھا.حضرت اماں جان کے پاس ایک عورت جنہیں سب اصغری کی اماں کہتے تھے کھانا پکایا کرتی تھیں.ان کی عادت تھی ہنڈیا میں چیچہ بلاقی حضرت اماں جان علم کی قدر بھی کرتیں اور خدا تعالیٰ نے انہیں علم عطا بھی کیا تھا.جب بھی کوئی کسی قسم کا اعتراض کرتا آپ ( دین ) کی تعلیم سے دلیل دے کر اس کا جواب دیتیں.بیگم سیٹھ عبداللہ بھائی نے بتایا کہ:- ایک مرتبہ ہم چند بہنیں حضرت اماں جان کے پاس بیٹھی تھیں.میں نے کپڑے کی چند گڑیاں دیکھیں جو بچوں کے کھیلنے کے لیے رکھی ہوئی تھیں میں نے عرض کیا.گڑ یاں کیوں رکھی ہیں دین نے تو منع فرمایا ہے.آپ نے بغیر بُر اما نے جواب دیا ”اصل بات
42 41 یہ ہے کہ دین حق نے اس چیز کو منع کیا ہے جو ہندو بُت بنا کر بڑی عزت سے گھروں میں رکھتے ہیں.ان کو خدا کی صفات دے کر عبادت کرتے ہیں اس لیے اللہ نے اس شرک کو روکنے کے لیے بُت بنانے سے منع فرمایا.عرب کے لوگ بھی جہالت کے زمانہ میں بتوں کی عبادت کرتے تھے.اس لیے اللہ کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو دُور کرنے کے لیے بتوں کے بنانے یا ر کھنے سے منع فرمایا لیکن اس قسم کے کھلونوں کو نہیں روکا.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا گڑیا سے کھیلا کرتی تھیں.اس قسم کی کسی بھی چیز کو اللہ کی صفت دیکر عبادت کی غرض سے گھر میں رکھنا بے حد گناہ اور شرک ہے.“ وہی خاتون کہتی ہیں کہ پھر میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور دوسرے احباب کی تصویریں دیکھ کر اعتراض کیا.اس پر حضرت اماں جان نے جواب دیا.حضرت صاحب کی تصویر عبادت یا پرستش کے لیے نہیں بلکہ یہ تو اس لیے ہے کہ جولوگ ڈور کے ملکوں میں رہتے ہیں وہ اس طرح اپنے امام کا چہرہ دیکھ لیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق ہے اور انگریز اور دوسرے مغربی ملکوں کے لوگ تصویر کو دیکھ کر انسان کے اخلاق وغیرہ کا اندازہ کر لیتے ہیں.یہ تصویر تو خود دعوت الی اللہ کا ذریعہ ہے.اگر صرف تصویر رکھنا منع ہوتا تو تم جو جیب میں روپیہ رکھتی ہو، بچوں کی کتابوں میں تصویریں ہوتی ہیں، پھر تو یہ سب منع ہوتا.میں نے کہا اس بات سے تصویر کا مسئلہ بھی سمجھ آ گیا.تیسرا واقعہ انہوں نے یہ سنایا کہ ایک مرتبہ میں نے دیکھا کہ بعض بیبیوں نے اپنے بالوں میں پراندے ڈال کر چوٹیوں کا بڑھایا ہوا تھا.میں نے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا: - یہ تو ریشم کے پراندے ہیں ( اصلی ) بالوں کے نہیں ان کا ڈالنا جائز ہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے ظالم لوگ عورتوں پر بڑے بڑے ظلم کرتے تھے.ان کے بال زبر دستی کاٹ کر بیچتے تھے اس لیے آپ نے منع فرمایا کہ عورتوں کے بالوں میں بال نہ ڈالے جائیں.ادبی ذوق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کسی اُردو لفظ کے خاص استعمال کے بارہ میں پوچھنا ہوتا تو سب سے پہلے حضرت اماں جان سے پوچھتے.اگر کوئی شبہ رہ جاتا تو پھر نانا جان یا نانی جان سے پوچھتے.اماں جان کبھی کبھی شعر بھی کہہ لیا کرتیں.ایک بار حضرت نواب مبار که بیگم صاحبہ جب مالیر کوٹلہ میں تھیں تو ان کو عید کے موقع پر یہ شعر لکھ بھیجے.تم تو اپنے گھر میں بیٹھی محترم و دلشاد ہو ہر طرح کے فکر و غم سے دُور ہو، آزاد ہو دیکھ کر بچوں کو اپنے گرد ہنستے کھیلتے فضل مولیٰ ނ مناقی عید کیا اعیاد * ہو حال کیا اُس کا بتاؤں جس کی بچی ہے جدا تم بھلا بیٹھی ہو اس کو پر اُسے تم یاد ہو ایک دفعہ حضرت مولانا نورالدین صاحب کے طالب علموں میں سے ایک نے جن کا نام مولوی نظام الدین تھا ایک کاغذ پر روٹی کی شکایت لکھ کر بھیجی جواندر سے پک کر آئی تھی.اگر روٹی یہی بڑھیا پکاوے کرو رخصت کہ پھر سب گھر کو جاوے والا عرض کرنا ہے عید کی جمع ضروری کہ ہو روٹی مصفا اور تنوری
44 43 یہ دونوں شعر تو ٹوٹے پھوٹے تھے.بس جو وہ لکھ سکے لکھ کر بھیج دیا، لیکن حضرت اماں جان نے اسی وقت اسی کاغذ کے پیچھے یہ شعر لکھ کر بھیج دیے ہمیں تو ہے یہی بڑھیا غنیمت جو روٹی کو پکا دیتی ہے بروقت جسے بڑھیا کے ہاتھوں کی نہ بھاوے تو لا وے اس کو جو اچھی پکاوے ثواب حاصل کرنے کا شوق چھوٹی سے چھوٹی بات بھی جس کے کرنے سے ثواب ملتا ہو، آپ ضرور کرتیں.ایک دفعہ حضرت اماں جان بیت الدعا میں نماز پڑھ رہی تھیں.پاس ہی ایک خاتون بیٹھی انہیں پنکھا جھل رہی تھیں جب حضرت اماں جان نماز پڑھ چکیں تو انہوں نے بھی وہیں نماز شروع کر دی.حضرت اماں جان نے پنکھا ہاتھ میں لے کر ان کو جھلنا شروع کر دیا.ان بے چاری رہتا.ایک بار ایک بھینس کو دو تین دن گتاوانہ ملا تو آپ نے خود جا کر اسے گتاوا ڈال دیا.آپ حساب میں بہت صاف تھیں.یعنی جب بھی کوئی چیز وغیرہ منگوا تیں اسی وقت اس کی رقم ادا کر دیتیں.ایک بار حضرت اماں جان نے بابو عبدالحمید صاحب سے کوئی چیز لا ہور سے منگوائی.انہوں نے وہ چیز لا دی لیکن اماں جان کو اس کی قیمت نہ بتائی.اتفاق سے حضرت اماں جان کو بھی قیمت پوچھنی یا دنہ رہی.ورنہ عام طریقہ یہ تھا کہ جب بھی کوئی چیز لے جا کر دی اسی وقت روپے دے دیے.بعد میں آپ کو یاد آیا تو آپ نے اُسی وقت بابو صاحب کو بلا بھیجا اور فرمایا: ” اس چیز کی کیا قیمت ہے؟ بتادی ہوتی تو میں آپ کو بلوانے کی بجائے پیسے ہی بھیج دیتی.بابو صاحب نے کہا کہ ” یہ تو میری طرف سے تحفہ ہے.میں نے جان کر قیمت نہیں بتائی.“ اماں جان نے فرمایا: دو نہیں جو میں چیز کہہ کر منگواؤں اس کی قیمت ضرور لینی پڑے گی.اور آپ نے زور دے کر قیمت ادا کر دی.نے گھبرا کر جلدی سے نماز ختم کر دی یہ سوچ کر کہ کہیں بے ادبی نہ ہو، توبہ توبہ کرنے لگیں.جانوروں پر شفقت حضرت اماں جان نے یہ سن کر فرمایا:- کیا میں ثواب حاصل نہ کروں.“ حسن انتظام اور لین دین حضرت اماں جان کی زمینیں شیخ نور احمد صاحب سنبھالا کرتے تھے لیکن آپ خود ان کی نگرانی کرتی تھیں.ان کو بلا کر پوچھتی رہتیں.مثلا فلاں کھیت میں مکئی کیوں بوئی گئی.اسے گندم اُگانے کے لیے چھوڑنا چاہیے تھا وغیرہ وغیرہ.جو مویشی پالے ہوتے تھے ان کا خیال 66 حضرت صاحبزادہ میاں شریف احمد صاحب کو بچپن سے ہی شکار کا بہت شوق تھا.حکیم عبدالعزیز خان بھی یہی شوق رکھتے اور اکثر ان کو اپنے ساتھ شکار پر لے جایا کرتے.ایک دفعہ کا واقعہ ہے مئی کا مہینہ تھا.حکیم صاحب نے حضرت میاں شریف احمد صاحب سے کہا.”میاں بندوق لا ؤ شکار پر چلیں.“ میاں صاحب خوش خوش بندوق لینے چلے گئے.واپس آ کر بولے ”اماں جان بندوق نہیں دیتیں.“ اس پر خان صاحب نے خود کہلا بھیجا کہ کچھ دیر کے لیے بندوق دے دیں.آپ نے جواب میں فرمایا.”آج کل پرندے انڈوں پر ہوتے ہیں.66
46 45 میں بھی بچوں والی ہوں.میں آج کل بندوق ہر گز نہیں دوں گی.درگزر کرنا معاف کر دینا آپ کی فطرت کا حصہ تھا.چھوٹی بات ہو یا بڑی اور کسی بات سے کیسی اسے اتنی دور کہاں لے گئے تھے؟ میں نے تو باہر صحن میں لے جانے کو کہا تھا.“ گھر میں کسی ملازمہ سے کوئی نقصان ہو جا تا یا کوئی چیز ٹوٹ جاتی تو اِنَّا لِلہ پڑھ کر خاموش ہو جاتیں.ڈانٹنے کے بجائے درگزر سے کام لینے کو ہی بہتر جانتیں.چغلی اور غیبت سے نفرت ہی تکلیف یا نقصان پہنچا ہو آپ درگزر کر دیتیں.ارشد قریشی صاحب ایک دلچسپ واقعہ سُناتے ہیں:- میں جب چھوٹا سا تھا حضرت اماں جان کے گھر آیا جایا کرتا تھا.ایک بار گیا تو دیکھا آپ گود میں اپنے پوتے (حضرت) میاں ناصر احمد کو لیے بیٹھی ہیں.مجھے دیکھ کر فرمایا: ”لڑکے کو ذرا باہر لے جاؤ.باہر سے ان کا مطلب شاید گھر کا صحن تھا.میں سمجھا گھر سے باہر لے جانے کو کہہ رہی ہیں کہ سیر کرالاؤں.میں ننھے معصوم کو گود میں اُٹھا کر خوش خوش باغ میں جا پہنچا.ٹھنڈی ہوا میں کھلا کر جب واپس ہوا تو دیکھا پیر افتخار احمد صاحب ہانپتے کانپتے بھاگے چلے آرہے ہیں.مجھے دیکھ کر انہیں تسلی ہوئی اور بولے ” تم بچے کو کہاں لیے پھرتے ہو.جلدی لاؤ سب جگہ تلاش ہورہی ہے.“ یہ سن کر میں جلدی جلدی ان کے ساتھ ہولیا.کیونکہ گھر میں بچے کو نہ دیکھ کر میری تلاش شروع ہو گئی تھی کہ یہ کدھر غائب ہو گیا.کئی عورتیں مرد میری تلاش میں ادھر ادھر دوڑا دیئے گئے تھے.میں ڈرتے ڈرتے گھر میں داخل ہوا.دل خوف سے کانپ رہا تھا کہ جانے اب میرے ساتھ کیا ہو، لیکن حضرت اماں جان پر نظر پڑتے ہی خوف دور ہو گیا اور دل میں اطمینان اور خوشی پیدا ہوئی.بجائے اظہارِ ناراضگی کرنے یا ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے وہ کھل کھلا کر ہنس پڑیں اور بولیں آپ کو چغلی، غیبت یا کسی کی غیر حاضری میں شکایت کرنا بہت ہی برا لگتا تھا.اس بات کو بہت نا پسند کرتی تھیں.ایک عورت تھی جس میں یہ کمزوری تھی.اس کو آپ نے سمجھایا کہ یہ باتیں اچھی نہیں لگتیں.اللہ میاں منع کرتا ہے.اس عورت نے سن کر فوراً کہا کہ آپ کو فلاں عورت نے بتایا ہوگا کہ میں ایسا کرتی ہوں.اماں جان اس بات پر بہت خفا ہوئیں اور کہا " تم بے وجہ بدظنی سے کام لے رہی ہو.“ قبولیت دعا بچو! جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ حضرت اماں جان کو دعاؤں پر بہت یقین تھا.آپ ہر وقت ہر بات کے لیے دعا کرتیں اور اللہ تعالیٰ آپ کی سنتا بھی بہت تھا.اس بارے میں ہم آپ کو ایک واقعہ سناتے ہیں.ماڑی بچیاں گاؤں میں ایک احمدی میاں اللہ رکھاڈ کا ندار تھے.وہ گاؤں سے غلہ خرید کر آس پاس یعنی اردگرد کی منڈیوں میں فروخت کرتے تھے.ایک دن وہ قادیان گئے تو ان کا گھوڑا خود بخود کھل کر بھاگ گیا یا اللہ جانے کوئی چور کھول کر لے گیا.وہ بے چارے بہت پریشان ہوئے.قادیان اور اس کے قریب جتنے گاؤں تھے سب جگہ تلاش کیا، مگر گھوڑا نہ ملا.مایوس ہو کر حضرت اماں جان کے پاس آئے اور دعا کی درخواست کی.آپ نے
48 47 ایک دعا کاغذ پر لکھ کر دی اور فرمایا.”میں بھی دعا کروں گی، آپ بھی یہ دعا پڑھتے جائیں اور دوبارہ گھوڑے کو تلاش کریں.انشاء اللہ مل جائے گا.“ میاں اللہ رکھا دعا پڑھتے ہوئے ساتھ ہی کا غذ کی سیاہی خشک کرنے کے لیے پھونکیں مارتے ہوئے لنگر خانہ سے تھوڑی دور گئے تھے کہ دیکھا گھوڑا دوڑتا ہوا سامنے آ رہا ہے اور اس طرح حضرت اماں جان کی دعا سے گھوڑا مل گیا.پیارے بچو! یہ سارے واقعات پڑھ کر اور جو کچھ بھی ہمیں حضرت ڈاکٹر میر محمد اسمعیل صاحب ، حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور حضرت مرزا بشیر احمد صاحب نے حضرت اماں جان کے متعلق بتایا ان تمام باتوں کو دیکھ کر ہم حضرت اماں جان کی سیرت کے بارے میں بلا تامل یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ بہت صدقہ و خیرات کرنے والی.ہر چندہ میں شریک ہونے والی تھیں.پانچوں وقت کی نماز پہلے وقت میں ادا کرتیں.بلکہ تہجد اور دوسرے نوافل بھی پڑھتیں.دل میں ہر وقت خدا کا خوف رہتا.آپ جہاں ایک خدمت گزار اور وفادار بیوی تھیں وہاں اولاد کے لیے ایسی ماں تھیں کہ جس کی مثال نہیں ملتی.گھر داری اور دوسرے انتظام بھی بڑے اعلی طریق پر کرتیں.بہت محنتی تھیں.صبر اور شکر سے کام لیتیں.بہت کھلے دل کی مالک تھیں.بہت بڑا دل تھا ان کا.کوئی کچھ بھی کہہ دے، کوئی تکلیف پہنچائے، کبھی بھی شکایت نہ کرتیں بلکہ ظاہر بھی نہ ہونے دیتیں.تکلیف دینے والا خود ہی خاموش اور شرمندہ ہو جاتا.شکوہ ، چغلی، غیبت نہ آپ کر تیں نہ سننا پسند کرتیں.دل میں کسی کے خلاف کوئی کینہ نہ تھا، محبت ہی محبت تھی.خدا کی محبت ، اُس کے رسول حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی محبت ، اُس کی کتاب سے محبت اور اُس کے بندوں کی محبت سے آپ کا دل بھرا رہتا.ہر ایک کے کام آنا، دکھ درد بانٹنا، ہر ایک خوشی میں دل سے شامل ہونا آپ کی فطرت تھی.خوش مزاج بھی تھیں اور شاعرہ بھی.ادب اور علم سے لگاؤ بھی تھا اور قدر بھی.بہت صفائی پسند تھیں.صاف ستھرالباس پہنتیں.خوشبو آپ کو بہت پسند تھی.حضور بھی آپ کے لیے عطر اور چنبیلی کا تیل خاص طور پر منگوایا کرتے.لباس کے ساتھ اپنا گھر بھی صاف ستھرا رکھتیں.آپ کا کمرہ ہر وقت اگر یتی اور ہرمل اور لوبان کی دھونی کی خوشبو سے مہکا رہتا.کھانے میں بھی سوکھی میتھی ڈالتیں تا کہ خوشبو آئے.آپ کے ننھیال کی طرف سے رشتہ کے ایک بھائی تھے جو غیر احمدی تھے، وہ ایک دفعہ سردیوں میں قادیان آئے.یوں تو قادیان اور قادیان والوں سے بہت متاثر ہوئے لیکن اپنی آپا نصرت جہاں بیگم نے آپ پر خاص اثر چھوڑا.وہ کہتے ہیں:.آپا صاحبہ کا یہ طریقہ تھا کہ وہ صبح صبح میرے پاس پہنچ جاتیں اور دروازہ کھٹکھٹا کر اندر آجاتیں، السلام علیکم کہہ کر باتیں شروع کر دیتیں.میں لحاف لیٹے پلنگ پر بیٹھا ہوتا اور وہ ٹہل ٹہل کر باتیں کرتی جاتیں.آواز میں کرارہ پن باقی تھا.نظر کام کرتی ہے.ہاتھ پاؤں مضبوط ، صحت اچھی ہے اور بڑی چست ہیں.بات کو غور سے سنتی ہیں اور ہر بات کا معقول جواب دیتی ہیں.زندگی کے ہر موضوع پر باتیں کرتی ہیں اور بے دھڑک اپنے خیالات کا اظہار کرتی ہیں.پان کا زیادہ شوق ہے.باتیں کرتی جاتی ہیں اور پان کھاتی جاتی ہیں.دتی والوں کا سا لباس ہے.کرتا اور تنگ پائجامہ، کرتا پر سویٹر پہن کر کشمیری شال اس طرح اوڑھتی ہیں کہ سر بھی ڈھک جاتا اور مفلر بھی معلوم ہوتا اور کوٹ پہن کر ان سب کو ایک جگہ کر لیتی ہیں.ایک ہاتھ میں تسبیح اور ایک میں دستانہ ہوتا ہے.صبح ہی نماز کے بعد گھر سے نکلتی ہیں.پہلے عزیزوں کے اور پھر دوستوں کے اور جماعت کے دوسرے مخلص احباب کے گھر جاتی ہیں.
50 49 اس میں حال پوچھنا اور بیماروں کی تیمارداری کرنا وغیرہ سب شامل ہوتا ہے.کہیں بچوں کا علاج کرتی ہیں کہیں بڑوں کی طبیعت پوچھتی ہیں.کسی جگہ دوا بتا تیں ہیں کہیں خود تیار کر کے دیتی ہیں.اور اس علاج معالجے میں..ان کی اچھی مہارت ہے.دس گیارہ بجے تک فارغ ہو کر گھر پہنچ جاتی ہیں.دو پہر کے کھانے کے بعد آرام کرتیں ہیں.عصر کی نماز تک گھر میں بہو بیٹوں سے ملتی ہیں.شام کو پھر سیر کے لیے نکل جاتی ہیں.اس پروگرام پر تقریباً روزانہ عمل کرتی ہیں.اس وقت ان کی عمر 54 سال ہے، مگر ارادہ میں جوان ہیں.اپنے عزم میں جوان ہیں عمل میں جوان ہیں.ایک بارعب کمانڈر کی طرح قادیان کی آبادی پر اثر ہے.جس طرح خلوص اور محبت سے ملتی ہیں اسی طرح رعب اور اثر سے کام لیتی ہیں.ان کاموں میں ان کو دلچسپی ہے اور ان کو ہی اپنا مشغلہ بنارکھا ہے جس طرح خاندان کوان کی ضرورت ہے.قوم اور مذہب کا لحاظ کیے بغیر ہر ایک سے حسن سلوک کے ساتھ ملتی ہیں.جو کچھ ممکن ہوتا ہے اس کی خدمت کرتی ہیں.اطمینان اور دلاسہ دیتی ہیں.“ غرض آپ بہت بلند اخلاق کی مالک تھیں.پیارے نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق حسنہ اور سنت اور حدیث پر پورے طریقہ پر چلنے والی تھیں.آپ کا یہ اعلیٰ نمونہ جماعت نے دیکھا اور آپ سے محبت کی اور محبت پائی.آپ جماعت کے لیے حقیقی ماں سے بھی بڑھ کر تھیں.آپ کی وفات دو جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو ساری جماعت اس طرح تڑپ تڑپ کر اور بلک بلک کر خدا کے حضور دعائیں مانگ رہی تھی جیسے کوئی اپنی سگی ماں کے لیے مانگ رہا ہو، لیکن خدا کی تقدیر آن پہنچی تھی، اُس کا بلاوا آ گیا تھا.25 دن کی بیماری کاٹ کر 20 اپریل 1952 ء کو آپ اپنے مولائے حقیقی سے جاملیں.آپ قادیان سے ہی ایک لٹھے کا تھان اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک کرتہ ساتھ لائی تھیں اور فرمایا کرتی تھیں کہ یہ میں نے اپنے کفن کے لیے رکھا ہوا ہے.چنانچہ آپ کو پہلے وہ متبرک کرتہ اور پھر وہی کفن پہنایا گیا اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں آپ کی تدفین ہوئی.حضرت مصلح موعود نے آپ کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا :- اس سال احمدیت کی تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ہوا اور وہ ہے حضرت اماں جان کی وفات.ان کا وجود ہمارے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام) کے درمیان کی ایک زنجیر کی طرح تھا...وہ ہمارے اور حضرت (مسیح موعود علیہ السلام) کے درمیان ایک زندہ واسطہ تھیں یہ واسطہ ان کی وفات سے ختم ہو گیا.“ اور حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ نے آپ کی وفات کے بعد ایک مضمون میں لکھا: - صرف اس لیے نہیں کہ اماں جان بہت زیادہ محبت کرنے والی ماں تھیں اور اس لیے نہیں کہ آج وہ اس دنیا میں نہیں ہیں تو ان کا ذکر خیر ہونا چاہیے اور اس لیے بھی نہیں کہ مجھے ان سے بہت محبت تھی بلکہ یہ حق اور صرف حق ہے کہ حضرت اماں جان کو اللہ تعالیٰ نے سچ سچ اس قابل بنایا تھا کہ وہ ان کو اپنے
51 ( مامور ) کے لیے چن لے.اپنی خاص نعمت کا خطاب دے کر اپنے ( مامور ) کو عطا کر دے.“ آخر میں لکھتی ہیں:.” میری ماں تو ایک بے بدل ماں تھیں ، سب احمدیوں کی ماں.وہ تو آب خاموش ہیں مگر ہم جب تک خدا ان سے ملائے گا نہیں ان کی جدائی کی کھٹک برا بر محسوس کرتے رہیں گے.“ عمر بھر کا چیش جاں بن کر یہ تڑپائے گی وہ نہ آئیں گی مگر یاد چلی آئے گی نام کتاب سیرت حضرت اماں جان