Language: UR
حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضور ﷺ کے چوتھے خلیفہ راشد تھے۔ رشتہ میں آپ ؓحضور ﷺ کے چچازاد بھائی اور داماد تھے۔ آپ نیکی ، زہد، تقویٰ، شجاعت اور انکساری کے اعلیٰ خصائل کے ساتھ ساتھ نہایت اعلیٰ درجہ کی قائدانہ صلاحیتوں کے حامل تھے۔ آپؓ نے حضور ﷺ اور آپ کے بعد تینوں خلفائے راشدین سے محبت، عقیدت اور اطاعت و وفا کا تعلق خوب نبھایا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سیرت و سوانح کے درست حالات کا مطالعہ ہمیں نہ صرف بزرگان سلف کے اوصاف حمیدہ اپنانے اور پھران کی روشنی میں اپنی زندگیوں کو کامیاب بنانے والا ہوگا وہاں امت محمدیہ میں حضرت علی ؓ کے اصل مقام کے متعلق دو گروہوں کے افراط و تفریط والے نظریات و عقائد سے بچانے والا بھی ہوگا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ رضی حضرت علی بن ابی طالب حضرت علی کا نام ان پاک وجودوں میں شامل ہے جنہوں نے بہت ابتدائی دور میں آنحضرت ﷺ کی طرف سے بیان کردہ صداقتوں کو قبول کیا.کم عمری اور کمسنی کے باوجود اپنی فطری نیکی اور اعلیٰ صلاحیتوں کی بناء پر آپ نے سچائی کو پہچانا اور پھر تا دم آخر اس مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم ہو گئے کہ اپنی جان تک اس راہ میں فدا کر دی.تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے والے یہ عظیم اور پاک وجود ہمارے لئے راہنما ہیں.ان کے نقش قدم پر چل کر ہی ہم دین اور دنیا کی بھلائیاں حاصل کر سکتے ہیں.
1 پیش لفظ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت ﷺ کے چوتھے خلیفہ راشد تھے.رشتہ میں آپ حضورﷺ کے چازاد بھائی ، اور داماد تھے.آپ نیکی ، زہد، تقویٰ اور انکساری جیسے اعلیٰ خصائل کے ساتھ ساتھ اعلیٰ درجہ کی قائدانہ صلاحیات کے حامل تھے.آپ آنحضرت ﷺ اور آپ کے تینوں خلفاء راشدین سے محبت ، عقیدت اور وفا کا تعلق رکھتے تھے.اللہ کرے ہم سب اپنے بزرگان سلف کے اوصاف کو اپنانے والے ہوں اور کامیاب زندگی گزارنے والے ہوں.آمین بسم الله الرحمن الرحيم حضرت علی رضی اللہ عنہ نام ونسب ، خاندان اور پیدائش آپ کا نام علی تھا.کنیت ابوالحسن و ابوتر اب اور لقب حیدر تھا.آپ کے والد بزرگوار کا نام ابوطالب اور والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ بنت اسد تھا.حضرت علی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچا زاد بھائی تھے.آپ کی پیدائش آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے گیارہ برس قبل ہوئی.حضرت علی کے والدین کو یہ سعادت بھی نصیب ہوئی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش آپ کی والدہ کی وفات کے بعد اسی گھرانے میں ہوئی.یعنی اپنے چچا حضرت ابوطالب کے پاس اور حضرت ابوطالب نے بہت محبت اور شفقت کے ساتھ اپنے بھتیجے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کی اور اپنی وفات تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا جہاں تک ممکن ہوسکا ساتھ دیا اور کفار کے بالمقابل ہرا ہم موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے سینہ سپر رہے.ایسا ہی حضرت فاطمہ بنت اسد نے بھی ماں کی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پرورش کی.روایات کے مطابق حضرت فاطمہ بنت اسد نے اسلام قبول کر لیا تھا اور مدینہ ہجرت بھی کی اور وہیں انتقال فرمایا.ان کے انتقال پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قمیص مبارک انہیں پہنائی اور خود قبر میں لیٹ کر قبر کو متبرک کیا.لوگوں نے پوچھا تو فرمایا کہ ابو طالب کے بعد میں اس نیک سیرت خاتون کا ممنون احسان ہوں.(اسد الغابہ) یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا بچپن تو حضرت ابوطالب کی
3 2 کفالت میں گزارا.لیکن حضرت علیؓ کی پیدائش کے بعد حضرت ابوطالب کے مالی حالات کو اور اس دوران جب مسلمان ابھی چھپ چھپ کر عبادت کیا کرتے تھے تو حضرت علی بھی دیکھتے ہوئے ان کے بیٹوں کو آپ کے دوسرے قریبی رشتہ داروں نے پرورش کے لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس عبادت میں مصروف ہوتے.ایک روز حضرت اپنے پاس رکھ لیا.چنانچہ حضرت عباس نے جعفر کی کفالت اپنے ذمہ لی اور حضرت علیؓ کی ابوطالب نے حضرت علی کو عبادت کرتے ہوئے دیکھ کر پوچھا تو حضرت علی نے اپنے قبول اسلام خوش نصیبی یہ تھی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کفالت کے لیے اپنے پاس رکھ لیا.کا تذکرہ کیا.اس پر حضرت ابو طالب نے فرمایا کہ بیٹا! محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) جو کہتا ہے وہ صحیح (زرقانی جلداول) ہے اور تم اس کی بات پر عمل کرو کوئی حرج نہیں.شرف اسلام حضرت علی دس سال کی عمر کے تھے کہ انہوں نے حضرت خدیجہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو عبادت میں مصروف دیکھا.عبادت (اسدالغابہ) بچپن کے اس زمانے میں حضرت علی کا ایک واقعہ تاریخ میں ہمیشہ یا درکھا جانے والا کے اس طریق نے حضرت علی کے دل پر گہرا اثر کیا.آپ نے حیرت و استعجاب کے رنگ ہے جو بچوں اور نوجوانوں کے لیے قابل رشک ہے.میں پوچھا کہ آپ کیا کر رہے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی کو اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر اپنے تمام رشتہ داروں کو تبلیغ کے آگاہ کیا تو حضرت علیؓ نے بھی آپ کے اس طریق عبادت اور مذہب کو قبول کر لیا.اس لیے اکٹھا کیا اور ایک دعوت کا اہتمام کیا.اس دعوت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طرح بچوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کرنے والے حضرت علی تھے.آپ کی عمر اس عزیز و اقارب میں سے کم و بیش چالیس افراد شامل تھے.جن میں حضرت حمزہ ، حضرت وقت دس برس تھی.اسلام قبول کرنے کے بعد حضرت علیؓ نے مکی زندگی اور ایک تاریخی عہد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ میں تیرہ سال گزارے اور بچپن سے گزرتے ہوئے نو جوانی کی عمر کو پہنچے.اس عرصہ میں آپ کی خوش نصیبی یہ رہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت آپ کو مستقل نصیب رہی.کفار و عباس ، ابوطالب اور ابولہب وغیرہ بھی شامل تھے.آپ نے سب کو مخاطب ہو کر فرمایا: ”اے بنو عبدالمطلب ! خدا کی قسم میں تمہارے سامنے دنیا و آخرت کی بہترین نعمت پیش کرتا ہوں ، بولو تم میں سے کون اس شرط پر میرا ساتھ دیتا ہے کہ وہ میرا معاون و مددگار ہوگا.“ اس کے جواب میں سارے خاموش رہے.محفل پر سکوت طاری تھا.کسی کو بھی یہ توفیق مشرکین کی مجالس میں عموماً حضرت علی بھی آپ کے ساتھ ہوتے.ایک روایت میں حضرت نہ مل سکی کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید میں کوئی لفظ کہہ پاتا.یہ عالم دیکھ کر حضرت علی علی خود اس زمانے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کھڑے ہوئے اور یوں کہنے لگے: یچھے پیچھے اس طرح رہتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اونٹنی کے ساتھ ساتھ رہتا ہے اور اگر چہ کم عمری کے باعث آپ کوئی اہم کا رنامہ یا خدمت تو سرانجام نہ دے سکتے تھے لیکن سب سے اہم اور قابل ذکر بات یہی ہے کہ آپ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مستقل صحبت میسر رہی.گو میں عمر میں سب سے چھوٹا ہوں اور میری آنکھیں بھی دکھتی ہیں اور 66 میری ٹانگیں پتلی ہیں تا ہم میں آپ کا معاون ہوں گا اور دست و باز و بنوں گا.“ (طبری.مسند احمد بن حنبل)
4 5 ہجرت مدینہ اور جانثاری کا عدیم المثال کارنامہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سو جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اس وفادار اور جاں نثار عزیز کو اپنی نے جب مدینہ ہجرت فرمانے کا ارادہ کیا تو ہجرت کے اس سفر کے ساتھ دو ایسے صحابہ کا نام ہمیشہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائے گا کہ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت و وفا اور اعتماد کے رشتوں میں سب پر سبقت لے گئے.عشق و محبت کے باب میں سر فہرست آنے والے یہ دو نام تھے.پہلے حضرت ابوبکر صدیق اور دوسرے حضرت علی.حضرت ابوبکر کو تو یہ سعادت عظمی ملی کہ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمسفر بنے اور حضرت علیؓ کے حصہ میں یہ قربانی آئی کہ ہجرت کی پُر خطر رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی جگہ آپ کو لٹا دیا اور خود ہجرت فرما گئے.جگہ چھوڑ کر چلے گئے تو آخر تفتیش کے بعد ان نالائق بد باطن لوگوں نے تعاقب کیا اور چاہا کہ راہ میں کسی جگہ پا کر قتل کر ڈالیں اس وقت اور اس مصیبت کے سفر میں بجز ایک با اخلاص اور یکرنگ اور دلی دوست کے اور کوئی انسان آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نہ تھا.“ (سرمه چشم آریہ صفحہ 65،64، روحانی خزائن جلد نمبر 2 صفحہ 17،16 حاشیہ) حضرت علیؓ آنحضرت کے بھائی حضرت علی مکہ میں اس لیے رکے رہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جن لوگوں کی فدائیت اور جاں نثاری کا یہ عدیم المثال کارنامہ تھا جو حضرت علی نے بائیس ،تنیس امانتیں پڑی ہوئی تھیں، حضرت علی بحفاظت اُن لوگوں تک پہنچا دیں.ان تمام امور سے برس کی عمر میں سرانجام دیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس واقعہ کو اپنی تحریر میں یوں فارغ ہو کر حضرت علیؓ نے بھی مکہ کو الوداع کہا اور مدینہ ہجرت فرمائی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی قیام فرما ہوئے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انصار مدینہ اور کفار مکہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کرنے کا ارادہ کیا تو اللہ جل شانہ مہاجرین مکہ میں مؤاخات ( یعنی آپس میں ایک دوسرے کا بھائی بنایا جانا ) قائم فرمائی تو بیان فرمایا ہے: نے اپنے اس پاک نبی کو اس بدا رادہ کی خبر دے دی اور مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کر حضرت علی کو اپنا بھائی بنایا.جانے کا حکم فرمایا اور پھر بفتح و نصرت واپس آنے کی بشارت دی.بدھ کا روز اور دو پہر کا وقت اور سخت گرمی کے دن تھے جب یہ ابتلا منجانب اللہ ظاہر ہوا.اس مصیبت کی حالت میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایک نا گہانی طور پر اپنے قدیمی شہر کو چھوڑ نے لگے اور مخالفین نے مار ڈالنے کی نیت سے چاروں طرف سے اس مبارک گھر کو گھیر لیا.تب ایک جانی عزیز جس کا وجود محبت اور ایمان سے خمیر کیا گیا تھا جانبازی کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر باشارہ نبوی اس غرض سے منہ چھپا کر لیٹ رہا کہ تا مخالفوں کے جاسوس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے نکل جانے کی کچھ تفتیش نہ کریں اور اسی کو رسول اللہ سمجھ کر قتل کرنے کے لیے ٹھہرے رہیں.
7 6 غزوہ بدر حضرت علی کی غزوات میں شرکت اور جرات و بہادری کے جوہر مسلمان ستر قیدیوں اور مال غنیمت کے ساتھ واپس لوٹے.حضرت فاطمہ سے شادی جنگ بدر کے بعد اسی سال یعنی 2 ہجری میں حضرت علی کو آنحضرت کی مزید قربت کا شرف حاصل ہوا.وہ اس طرح کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بہت ہی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ الز ہرا سلسلہ غزوات میں سب سے پہلا معرکہ بدر کا معرکہ ہے.اس غزوہ کا نکاح حضرت علیؓ سے کیا.نکاح کے دس گیارہ ماہ بعد با قاعدہ رخصتی ہوئی.حضرت علیؓ نے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم 313 صحابہ کے ساتھ مدینہ سے بدر کے میدان اپنی زرہ بیچ کر شادی کے انتظامات کیے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نکاح کی طرف روانہ ہوئے.مسلمانوں کے لشکر کے آگے دو سیاہ جھنڈے لہرا رہے تھے.ان میں پڑھایا.دونوں میاں بیوی کو خیر و برکت کی دعا دی.حضرت حارث بن نعمان کے سے ایک جھنڈا حضرت علیؓ کے ہاتھ میں تھا.جنگ کے آغاز میں عرب کے دستور کے مطابق مکان میں حضرت علیؓ اپنی زوجہ مبارکہ کو لے کر رہائش کے لیے ٹھہرے.حضرت فاطمہ مبارزت کے موقع پر ( عرب میں دستور تھا کہ میدان جنگ میں جب دونوں لشکر صف بندی مختصر جہیز کے سامان اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کے کبھی نہ ختم ہونے کر لیتے تو ایک یا ایک سے زائد بہادر ترین افراد آگے آتے اور مد مقابل کو جنگ کے لیے والے خزانے کے ساتھ اپنے گھر سے رخصت ہوئیں اور حضرت علیؓ کے ساتھ عائلی بلاتے اور وہ الگ الگ ایک دوسرے کے ساتھ بہادری کے جوہر دکھاتے.اس انفرادی زندگی کا آغا ز فرمایا.مقابلہ کو ”مبارزت کہا جاتا تھا) قریش کی طرف سے تین بہادر مسلح افراد آئے اور مسلمانوں کو للکارا کہ کسی میں ہمت ہے تو ہمارے مقابل پر آئے.مشرکین کی طرف سے غزوہ اُحد 3 ہجری میں جنگ اُحد ہوئی.حضرت علیؓ نے اس جنگ میں بھی اپنی بہادری کے جوہر دکھائے.ایک موقع پر حضرت مصعب بن عمیر نے جب جھنڈے آنے والے عتبہ، شیبہ اور ولید تھے.انصار مدینہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کو نیچے گرنے سے بچانے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا تو اس جھنڈے کو بہادری کے اجازت لے کر ان کا مقابلہ کرنا چاہا تو عقبہ اور شیبہ نے کہا کہ یہ ہماری ٹکر کے لوگ نہیں، ساتھ آگے بڑھ کر تھامنے والے حضرت علی ہی تھے.ہمارے مقابلہ کے لوگ بھیجے جائیں.اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قریبی مشرکین کے علمبردار ابوسعد بن طلحہ نے جب مقابلہ کے لیے لکا را تو حضرت علیؓ نے عزیزوں میں سے تین کے نام لیے اور فرمایا کہ حمزہ! تم اٹھو ، علی ! تم اٹھو اور عبیدہ! تم اٹھو.ایسا وار کیا کہ وہ زمین پر گر گیا اور تڑپنے لگا.اسی جنگ میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم چنانچہ مسلمانوں کی طرف سے یہ مہاجرین ان کے مقابل پر آئے.حضرت حمزہ اور حضرت زخمی ہو کر گر گئے تو حضرت علیؓ اور حضرت طلحہ چند صحابہ کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم علی نے اپنے ایک ہی وار میں عقبہ اور ولید کا خاتمہ کر دیا اور حضرت علیؓ نے بعد میں اپنے کو ایک پہاڑ پر بحفاظت لے گئے.حضرت علیؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخم دوسرے ساتھی حضرت عبیدہ کی مدد کرتے ہوئے شیبہ کا بھی کام تمام کیا.اس کے بعد عام دھوئے.حضرت ابو عبیدہ بن الجراح نے خود کی کڑیاں آپ کے رخسار مبارک سے نکالیں.جنگ کا آغاز ہوا اور حضرت علیؓ نمایاں جنگجو بہادروں میں سے ایک تھے.اس جنگ سے اسی دوران حضرت فاطمہ بھی مدینہ سے اُحد کے میدان میں پہنچ چکی تھیں.حضرت فاطمہ
9 8 نے جب دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں سے خون بند نہیں ہو رہا تو چٹائی جلا حضرت علیؓ نے اس کی متکبرانہ رجز کا جواب اشعار ہی میں اس طرح دیا ھے أَنَا الَّذِي سَمَّتَنِي أُمِّي حَيْدَرَهُ کر اس کی راکھ سے زخموں کے منہ بند کیے.غزوہ خندق 5 ہجری میں غزوہ خندق پیش آیا.اس میں مدینہ کے اردگر دخندق کھود کر مسلمانوں نے دفاع کیا.کفار کبھی کبھی خندق میں گھس کر حملہ كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيْهِ الْمَنْظَرَهُ میں وہ ہوں جس کا نام میری ماں نے حیدر ( شیر ) رکھا ہے.کچھاروں کے مہیب کرتے تھے.ایک مرتبہ حملہ ہوا تو حضرت علیؓ نے چند ساتھیوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا.ڈراؤنے شیر کی مانند.جس کا چہرہ انتہائی بارعب ہوتا ہے.ان کے سردار عمر و بن عبدود نے کسی کو تنہا مقابلہ کی دعوت دی تو حضرت علی سامنے آئے.فتح مکہ رمضان 8ء میں مکہ پر فوج کشی کی تیاریاں شروع ہوئیں اور جب مکہ فتح ہوا 8ھ عمر و بن عبدود نے حضرت علیؓ کو دیکھ کر استہزاء کرتے ہوئے کہا کہ تم جاؤ میں تمہیں قتل نہیں اور وقت آیا کہ خانہ کعبہ کو بتوں کی آلائشوں سے پاک کیا جائے تو آنحضرت کرنا چاہتا.حضرت علی نے کہا لیکن میں تم کو قتل کرنا چاہتا ہوں وہ طیش میں آ کر گھوڑے سے صلی اللہ علیہ وسلم نے سب سے پہلے اس فریضہ کو ادا کیا آپ خانہ کعبہ کے گرد جس قدر بت تھے نیچے اُترا اور وار کیا.تھوڑی دیر کے مقابلہ کے بعد عمر و بن عبدود کو حضرت علیؓ نے مارڈالا.سب کو لکڑی سے گراتے جاتے تھے اور یہ آیت تلاوت فرماتے جاتے تھے.جَاءَ الْحَقُّ وَ دیگر غزوات مثلاً غزوہ بنو نضیر اور غزوہ بنو قریظہ میں بھی حضرت علیؓ نے شرکت کی اور زَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقاً.پھر خانہ کعبہ کے اندر سے حضرت ابراہیم و اسماعیل آپ کے ہاتھ میں جھنڈا ہوتا تھا.صلح حدیبیہ کے موقع پر جب کفار اور مسلمانوں کے درمیان علیہما السلام کی تصویروں کو وہاں سے ہٹایا اور تطہیر کعبہ کے بعد اندر داخل ہوئے.معاہدہ لکھنے کا وقت آیا تو حضرت علی نے ہی معاہدہ لکھا.فتح مکہ کے بعد اسی سال غزوہ حنین کا عظیم الشان معرکہ پیش آیا جس غزوہ حنین فتح خیبر 7 ہجری میں بد عہدی کرنے والے خیبر کے یہودیوں پر فوج کشی کی گئی.یہاں میں مد مقابل فریق نے تیروں کی بوچھاڑ کر دی.مجاہدین اس ناگہانی یہود کے بڑے بڑے قلعے تھے اور ان پر یہود کو بہت فخر تھا کہ یہ آسانی سے مصیبت سے ایسے پریشان ہوئے کہ بارہ ہزار نفوس میں سے صرف چند ثابت قدم رہ سکے تسخیر ہونے والے نہیں.متعدد دن گزر گئے اور مسلمانوں کو خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہو اور ان میں سے ایک حضرت علی بھی تھے.آپ نہ صرف پامردی اور استقلال کے ساتھ قائم سکی.ایک روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کل میں اس کو جھنڈا دوں گا جو خدا اور رہے بلکہ دشمنوں کے سردار پر حملہ کر کے اس کا کام تمام کر دیا اور دوسری طرف جو مجاہدین اس کے رسول کا محبوب ہے اور خیبر کی فتح اس کے ہاتھ سے مقدر ہے.صبح ہوئی تو آنحضرت ثابت قدم رہ گئے تھے وہ اس بے جگری کے ساتھ لڑے کہ مسلمانوں کی ابتری اور پریشانی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی کہاں ہے.حضرت علیؓ آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا کے باوجود دشمن کو شکست ہوئی.(سیرت ابن ہشام) تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلا کر ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا جس سے حضرت علی کو شفا ہو گئی.آپ نے جھنڈ ا حضرت علی کے ہاتھ میں پکڑایا.اہل بیت کی حفاظت 9 ہجری میں جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک کا قصد فرمایا تو حضرت علیؓ کو اہل بیت کی حفاظت کے لیے یہود کا سردار مرحب جو ایک نامی پہلوان تھا متکبرانہ انداز میں رجز پڑھتا ہوا نکلا.مدینہ میں رہنے کا حکم دیا.شیر خدا کو منافقین کی طعنہ زنی نے رنجیدہ کر دیا.آنحضرت صلی اللہ
11 10 علیہ وسلم کو اس حال کا علم ہوا تو ان کا غم دور کرنے کے لیے فرمایا : علی ! کیا تم اس بات کو پسند آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات حج سے واپسی کے بعد ابتدائے ماہ نہیں کرو گے کہ تمہاری نسبت میرے ساتھ ایسی ہو جیسا کہ ہارون کی موسیٰ کے ساتھ تھی.ربیع الاوّل 11 ہجری میں آنحضرت ( بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی مناقب علی ) صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے.حضرت علیؓ نے دوسرے اصحاب کے ساتھ نہایت تند ہی اور غزوہ تبوک سے واپسی کے بعد اسی سال آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر جانفشانی کے ساتھ تیمارداری اور خدمت گزاری کا فرض انجام دیا.ایک روز باہر آئے تو صدیق کو امیر حج بنا کر روانہ فرمایا.اسی اثناء میں سورۃ تو بہ نازل ہوئی.چنانچہ حضرت علی کو لوگوں نے پوچھا: اب حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج کیسا ہے؟ حضرت علی نے اطمینان بلا کر حکم دیا کہ وہ مکہ جا کر یہ سورۃ سنائیں.ظاہر کیا.دس روز کی مختصر علالت کے بعد 12 / ربیع الاول سوموار کے دن دو پہر کے وقت تبلیغ اسلام کے سلسلہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جانثاروں کو داغ مفارقت دیا.حضرت علیؓ چونکہ مہم یمن اور اشاعت اسلام وسلم نے رمضان 10 ہجری میں حضرت علی کو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ترین عزیز اور خاندان کے رکن تھے ، اس لیے منسل یمن جانے کا حکم دیا.انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! میں ایک ایسی قوم میں بھیجا جارہا اور تجہیز وتکفین کے تمام مراحل میں آپ شامل رہے.ہوں جس میں مجھ سے زیادہ معمر اور تجربہ کار لوگ موجود ہیں ان لوگوں کے جھگڑوں کا فیصلہ کرنا میرے لیے نہایت دشوار ہو گا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا دی کہ : ” اے خدا! اس کی زبان کو راست گو بنا اور اس کے دل کو ہدایت کے نور سے منور کر دے.“ ( کنزل العمال جلد 5 صفحہ (609) خلفاء سے تعلق سقیفہ بنی ساعدہ کی مجلس نے حضرت ابوبکر صدیق کی خلافت پر اتفاق کیا اور تقریباً تمام اہل مدینہ نے بیعت کی.حضرت علیؓ نے بھی حضرت ابو بکر کی بیعت کی اور آپ کے دست راست بن کر مشوروں میں شریک رہے.سوا دو برس کی خلافت کے بعد حضرت ابوبکر صدیق نے وفات پائی اور حضرت اور اس کے بعد خود اپنے دست اقدس سے آپ کے سر پر عمامہ باندھا اور سیاہ علم دے کر یمن کی طرف روانہ فرمایا.حضرت علیؓ کے یمن پہنچتے ہی یہاں کا رنگ بدل گیا اور حضرت علی عمر خلیفہ ہوئے.حضرت عمرؓ بڑی بڑی مہمات میں حضرت علیؓ سے بھی مشورہ فرماتے اور مرتضیٰ کی صرف چند روزہ تعلیم و تلقین سے لوگ اسلام کے شیدائی ہو گئے اور قبیلہ ہمدان حضرت علیؓ بھی نہایت دوستانہ اور مخلصانہ مشورے دیتے تھے.حضرت عمرؓ جب بیت المقدس گئے تو انہیں امیر مقامی بنا کر گئے.مسلمان ہو گیا.(فتح الباری جلد 8 صفحہ 152) حجۃ الوداع میں شرکت اسی سال یعنی 10 ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یادگار حج میں شریک ہوئے.( تاریخ ابن خلدون جلد 2 صفحہ 106) حضرت عمرؓ کے ساتھ اتحاد و یگانگت کا اخیر مرتبہ یہ تھا کہ باہم رشتہ مصاہرت قائم نے آخری حج کیا.حضرت علی بھی یمن سے آ کر اس ہو گیا.یعنی حضرت علیؓ کی صاحبزادی اُم کلثوم حضرت عمرؓ کے نکاح میں آئیں.حضرت عمر کے بعد حضرت عثمان کے عہد خلافت میں منافقین کا فتنہ وفساد شروع ہوا تو
13 12 حضرت علیؓ نے ان کے رفع کرنے کے لیے ان کو نہایت مخلصانہ مشورے دیے.جب منافقین نے نہایت سختی کے ساتھ حضرت عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا اور آخر میں یہاں تک آپ کے عہد خلافت میں کئی قابل ذکر کام ہوئے مثلاً : پہلے خلفاء کی طرح آپ بھی غریبوں اور ضرورت مندوں کی بہت مددکرتے تھے.شدت اختیار کی کہ آب و دانہ سے بھی محروم کر دیا تو حضرت علی محاصرہ کرنے والوں کے 2.شام کی سرحدوں پر فوجی چوکیاں قائم کیں.پاس تشریف لے گئے اور فرمایا کہ تم لوگوں نے جس قسم کا محاصرہ قائم کیا وہ نہ صرف اسلام 3 بیت المال کی حفاظت کا بہتر انتظام کیا.بلکہ انسانیت کے بھی خلاف ہے.کفار بھی مسلمانوں کو قید کر لیتے تو آب و دانہ سے محروم نہیں 4.کئی جگہوں پر فوجی چھاؤنیاں اور قلعے بنائے.کرتے.اس شخص نے تمہارا کیا نقصان کیا ہے جو ایسی سختی روا رکھتے ہو؟ محاصرین نے.دریائے فرات پر ایک بڑا پل بنایا جود جسر فرات کے نام سے مشہور ہے.حضرت علی کی سفارش کی کچھ پرواہ نہ کی اور محاصرہ میں سہولت پیدا کرنے سے قطعی انکار کر 6.مختلف جگہوں پر کنوئیں، نہریں اور جانوروں کے لیے چراگاہیں بنوائیں.دیا.حضرت علی شخصہ میں واپس چلے گئے.7.آپ کے زمانہ میں دارالخلافہ مدینہ سے کوفہ منتقل ہوا.( ابن اثیر جلد 3 صفحہ 129) کی نصیحت کرتے رہے.تا ہم اپنے دونوں صاحبزادوں کو احتیاطاً حفاظت کے لیے بھیج دیا جنہوں نے نہایت.آپ کے زمانے میں منافقوں نے شرارتوں کے ذریعہ مسلمانوں کو مسلمانوں سے لڑا دیا تندہی اور جانفشانی کے ساتھ مدافعت کی یہاں تک کہ اس کشمکش میں زخمی ہوئے لیکن تھا.آپ مسلمانوں میں صلح صفائی کراتے رہے اور مسلمانوں کو آپس میں اتفاق سے رہنے کثیر التعداد مفسدین کا رو کنا آسان نہ تھا.محاصرین دوسری طرف سے دیوار پھاند کر اندر گھس آئے اور خلیفہ وقت کو شہید کر ڈالا.حضرت علی کو معلوم ہوا تو اس سانحہ جا نگاہ پر حد 9.منافقوں اور دشمنوں کی سازش سے ایران میں کئی دفعہ بغاوت ہوئی جس میں بہت سے سادہ درجہ پریشان ہوئے اور جو لوگ حفاظت پر مامور تھے ان پر سخت ناراضگی ظاہر کی کہ تم لوگوں مسلمان بھی شامل ہوتے رہے.آپ ہمیشہ حوصلہ سے کام لیتے رہے اور مسلمانوں کو سمجھا بجھا کی موجودگی میں یہ واقعہ کس طرح پیش آیا.کر منافقوں کی شرارتوں سے آگاہ کرتے رہے.ایرانی آپ کی نرمی سے اتنے متاثر ہوئے حضرت عثمان کی شہادت کے تین دن بعد تک مسند خلافت خالی خلافت حضرت علیؓ کہ کہنے لگے اس مسلمان خلیفہ نے نوشیرواں کی یاد دلا دی ہے.رہی.اس عرصہ میں لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منافقین نے حضرت عثمان کو شہید کر کے یہ سمجھا تھا کہ اب ہم مسلمانوں کو ایک دوسرے اس منصب کے قبول کرنے کے لیے سخت اصرار کیا.انہوں نے پہلے اس بارگراں کے سے لڑا کر ان کی طاقت کمزور کر دیں گے اور آہستہ آہستہ اسلام کو ہی ختم کر دیں گے.حضرت اُٹھانے سے انکار کر دیا لیکن آخر میں مہاجرین و انصار کے اصرار پر ذمہ داری سنبھالنے پر علی منافقوں کی یہ چال سمجھتے تھے اس لیے آپ نے لڑائی ختم کر کے اور مختلف گروہوں میں صلح تیار ہوئے گئے اور اس واقعہ کے تیسرے دن 21 ذو الحجہ سوموار کے دن مسجد نبوی میں کرا کر جہاں امن و امان قائم کیا وہاں اگر چہ آپ پوری طرح حالات پر قابو نہ پا سکے.مگر پھر بھی بڑی حد تک منافقوں کی سازشوں کو نا کام اور بے اثر بنا دیا.حضرت علیؓ کے دست اقدس پر بیعت ہوئی.
15 14 شہادت منافقوں نے جب یہ دیکھا کہ حضرت علیؓ ان کی شرارتوں سے واقف ساتھ لطف و مدارت کی تاکید کی.کسی نے عرض کی امیر المومنین! آپ کے بعد ہم لوگ امام حسن ہو گئے ہیں اور انہوں نے مسلمان باغیوں سے بھی جو ان کی چال میں کے ہاتھ پر بیعت کریں.فرمایا: اس کے متعلق میں کچھ نہیں کہنا چاہتا.تم لوگ خود اس کو طے آگئے تھے صلح کرلی ہے تو وہ اس بات سے ڈر گئے کہ اب سارے مسلمان ہماری چال سمجھ کرو.اس کے بعد مختلف وصیتیں کیں.قاتل کے متعلق فرمایا کہ معمولی طور پر قصاص لینا.جائیں گے.(طبری صفحه 2461) بحث و مباحثہ کے بعد بالا تفاق یہ رائے قرار پائی کہ جب تک تین آدمی علی ، معاویہ اور تلوار زہر میں بجھی ہوئی تھی اس لیے نہایت تیزی کے ساتھ اس کا اثر تمام جسم میں عمرو بن العاص صفحہ ہستی پر موجود ہیں ہمیں کامیابی نہیں ہو سکتی چنا نچہ تین آدمی ان تینوں کو سرایت کر گیا اور اسی روز یعنی 17 رمضان 40 ہجری کی رات کو یہ فضل و کمال اور رشد و شہید کرنے کے لیے تیار ہو گئے.عبدالرحمن بن عجم نے کہا میں علی کے قتل کا ذمہ لیتا ہوں.ہدایت اور خلافت راشدہ کا ستارہ غروب ہو گیا حضرت امام حسنؓ نے خود اپنے ہاتھ سے اسی طرح نزال نے معاویہ اور عبد اللہ نے عمر و بن العاص کے قتل کا بیڑہ اُٹھایا اور تینوں اپنی تجہیز و تکفین کی.نماز جنازہ میں چار تکبیروں کی بجائے پانچ تکبیر یں کہیں اور کوفہ کے قریب اپنی مہم پر روانہ ہو گئے.کوفہ پہنچ کر ابن ملجم کے ارادہ کو قطام نامی ایک خارجی عورت نے اور ایک قبرستان میں سپردخاک کیا.زیادہ مستحکم کر دیا اور اس مہم میں کامیاب ہونے کے بعد اس سے شادی کا وعدہ کیا اور حضرت علی کا خون اس کا مہر قرار دیا.اخلاق و عادات اور ذاتی حالات (طبری جزء3 صفحہ 160) غرض رمضان 40 ہجری میں تینوں نے ایک ہی روز صبح کے وقت تینوں بزرگوں پر حملہ حضرت علی مرتضیٰ نے ایام طفولیت ہی سے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کیا.حضرت معاویہ اور حضرت عمرو بن العاص اتفاقی طور پر بچ گئے.حضرت معاویہ پر وار عاطفت میں تربیت پائی تھی اس لیے وہ قدرتاً محاسن اخلاق اور حسن تربیت کے نمونہ تھے.صحیح نہ ہوا.حضرت عمرو بن العاص اس دن امامت کے لیے نہیں آئے تھے ایک اور شخص ان آپ کی زبان کبھی کلمہ شرک و کفر سے آلودہ نہ ہوئی اور نہ آپ کی پیشانی غیر خدا کے آگے کا قائم مقام ہوا تھا ، وہ عمرو بن العاص کے دھو کہ میں مارا گیا.حضرت علی مسجد میں تشریف جھکی.جاہلیت کے ہر قسم کے گناہ سے مبرا اور پاک رہے.شراب کے ذائقہ سے جو عرب کی لائے اور ابن ملجم کو جو مسجد میں آکر سورہا تھا جگایا.جب آپ نے نماز شروع کی سجدہ میں گھٹی میں تھی کبھی بھی آپ کی زبان آشنا نہ ہوئی.گئے تو اسی حالت میں بد بخت ابن ملجم نے تلوار کا نہایت کاری وار کیا سر پر زخم آیا اور ابن ملجم امانت و دیانت آپ ایک امین کے تربیت یافتہ تھے اس لیے ابتدا ہی سے اس خلق سے متصف ہو گئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس (طبری صفحه 2458،2457) قریش کی امانتیں رہتی تھیں.جب آپ نے ہجرت فرمائی تو ان امانتوں کی واپسی کی ذمہ کولوگوں نے گرفتار کر لیا.حضرت علی اتنے سخت زخمی ہوئے تھے کہ زندگی کی کوئی امید نہ تھی اس لیے حضرت امام حسن داری حضرت علیؓ کے سپرد کی.اپنے عہد خلافت میں آپ نے مسلمانوں کی عظیم امانتداری اور امام حسین کو بلا کر نصائح کیں اور محمد بن حنفیہ ( یہ حضرت علی کی دوسری اہلیہ سے تھے ) کے فرمائی.اس کا اندازہ حضرت اُم کلثوم کے اس بیان سے ہوسکتا ہے کہ ایک دفعہ نارنگیاں
17 16 آئیں.امام حسن و امام حسین نے ایک ایک نارنگی اٹھالی.آپ نے دیکھا تو چھین کر لوگوں یہاں تک کہ ہاتھوں میں آبلے پڑ گئے.غرض اس محنت اور مشقت کے بعد ایک مٹھی کھجور میں اجرت میں ملیں.کھجور میں ساتھ لے کر بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ میں تقسیم کر دیں.مال غنیمت تقسیم فرماتے تھے تو برابر حصے لگا کر نہایت احتیاط سے قرعہ ڈالتے تھے کہ اگر وسلم نے تمام کیفیت سن کر نہایت شوق کے ساتھ کھانے میں ساتھ دیا.کچھ کمی بیشی رہ گئی ہو تو آپ اس سے بری ہو جائیں.ایک دفعہ اصفہان سے مال آیا اس میں ایک روٹی بھی تھی.حضرت علی نے تمام مال کے ساتھ اس روٹی کے بھی سات ٹکڑے کئے اور قرعہ ڈال کر تقسیم فرمایا.(مسند احمد جلد 1 صفحہ 135) ایام خلافت میں بھی زہد کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹا اور آپ کی زندگی میں کوئی فرق نہ آیا.موٹا لباس اور روکھا پھیکا کھانا ان کے لیے دنیا کی سب سے بڑی نعمت تھی.ایک دفعہ ایک دفعہ بیت المال کا تمام اندوختہ تقسیم کر کے اس میں جھاڑو دیا اور دورکعت نماز ادا عبداللہ بن زریر نامی ایک صاحب شریک طعام تھے.دستر خوان پر کھانا نہایت معمولی اور سادہ تھا.انہوں نے کہا.امیر المومنین! آپ کو پرندہ کے گوشت کا شوق نہیں ہے؟ فرمایا: فرمائی تا کہ بیت المال قیامت میں ان کی امانت و دیانت کا شاہد ر ہے.زُہر ابن زریر ! خلیفہ وقت کو مسلمانوں کے مال میں سے دو پیالوں کا حق ہے ایک خود کھائے اور آپ کی ذات گرامی زہد فی الدنیا کا نمونہ تھی.کوفہ تشریف لائے تو دار الامارت اپنے اہل کو کھلائے اور دوسرا خلق خدا کے سامنے پیش کرے.کی بجائے ایک میدان میں فروکش ہوئے اور فرمایا کہ عمر بن الخطاب نے ہمیشہ ہی ان عالی شان محلات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھا.مجھے بھی اس کی حاجت نہیں.میدان (مسند احمد جلد 1 صفحہ 78) گھر میں کوئی خادمہ نہ تھی.حضرت فاطمہ گھر کا سارا کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی میرے لیے بس کافی ہے.تھیں.ایک مرتبہ شفیق باپ کے پاس اپنی مصیبت بیان کرنے گئیں.حضرت سرور کائنات بچپن سے چھپیں چھبیس برس کی عمر تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے.صلی اللہ علیہ وسلم موجود نہ تھے اس لیے واپس آکرسور ہیں.تھوڑی دیر کے بعد حضرت عائشہ حضرت فاطمہ کے ساتھ شادی ہوئی تو علیحدہ مکان میں رہنے لگے.اس نئی زندگی کے ساز و کی اطلاع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لائے اور فرمایا: کیا تم کو ایک ایسی بات سامان کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ حضرت فاطمہ جوساز وسامان اپنے میکہ سے لائی تھیں نہ بتادوں جو ایک خادم سے کہیں زیادہ تمہارے لیے مفید ہو.اس کے بعد آپ نے تسبیح و اس میں کسی چیز کا بھی خاطر خواہ اضافہ نہ ہو سکا.چکی پیستے پیستے حضرت فاطمہ کے ہاتھوں میں تحمید کی تعلیم دی.چھالے پڑ گئے تھے.گھر میں اوڑھنے کی صرف ایک چادر تھی وہ بھی اس قدر مختصر کہ ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علیؓ سے اور حضرت فاطمہ سے فرمایا پاؤں چھپاتے تو سرنگا ہو جاتا اور سر چھپاتے تو پاؤں کھل جاتا.بھوک کی شدت ہوتی تو پیٹ کہ تم دونوں ہر نماز کے بعد دس بار سبحان الله ، دس بار الحمدالله اور دس بار الله اکبر سے پتھر باندھ لیتے.ایک دفعہ شدت بھوک میں گھر سے باہر نکلے کہ مزدوری کر کے کچھ کما پڑھ لیا کرو اور جب سونے لگو تو 33 بار سبحان الله 33 بار الحمدالله 34 بار الله اكبر لائیں.مدینہ کے مضافات میں دیکھا کہ ایک ضعیفہ کچھ اینٹ پتھر جمع کر رہی ہے.یہ خیال ہوا پڑھ لیا کرو.حضرت علی فرماتے ہیں کہ جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو اس کی کہ شاید اپنا باغ سیراب کرنا چاہتی ہے، اس کے پاس پہنچ کر اجرت طے کی اور پانی سینچنے لگے.تلقین کی میں نے اس کو چھوڑا نہیں.پوچھا کہ صفین ( ایک جنگ کا نام ہے ) کی شب میں
19 18 بھی نہیں ؟ فرمایا ! صفین کی شب میں بھی نہیں“ شجاعت شجاعت و بسالت حضرت علییؓ کا مخصوص وصف تھا جس میں آپ بے مثل تھے.آپ تمام غزوات میں شریک ہوئے اور سب میں اپنی شجاعت کے حضرت علی گو د نیا وی دولت سے تہی دامن تھے لیکن دل غنی انفاق فی سبیل اللہ تھا.کبھی کوئی سائل آپ کے در سے ناکام واپس نہیں ہوا.جو ہر دکھائے.اسلام میں سب سے پہلا غزوہ بدر پیش آیا.اس وقت حضرت علی نو جوان تھے حتی کہ گھر میں موجود تھوڑا بہت سامان تک دے دیتے.ایک دفعہ رات بھر باغ پہنچ کر لیکن اس عمر میں آپ نے تجربہ کار جنگجوؤں کے شانہ بشانہ جنگیں لڑیں.تھوڑے سے جو مزدوری میں حاصل کئے صبح کے وقت گھر تشریف لائے تو کچھ کو پسوا کر نے سب اٹھا کر اس کو دے دیا.انکساری غزوہ خندق میں بھی پیش پیش رہے.چنانچہ عرب کے مشہور پہلوان عمرو بن عبدود نے حریرہ پکوانے کا انتظام کیا.ابھی پک کر تیار ہی ہوا تھا کہ ایک مسکین نے صدا دی حضرت علی جب مبارزت طلب کی تو حضرت علی مرتضیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے میدان میں (بخاری) جانے کی اجازت چاہی.آپ نے ان کو اپنی تلوار عنایت فرمائی.خود اپنے دست مبارک سادگی اور انکساری حضرت علیؓ کی صفات میں سے ایک بہت اہم صفت ہے.سے ان کے سر پر عمامہ باندھا اور دعا کی ، خداوندا! تو اس کے مقابلہ میں ان کا مددگار ہو.اپنے ہاتھ سے محنت و مزدوری کرنے میں کوئی عار نہ تھا.لوگ مسائل پوچھنے آتے اس اہتمام سے آپ ابن عبدود کے مقابلہ میں تشریف لے گئے اور اس کو زیر کر کے تکبیر کا نعرہ تو آپ کبھی جوتا نا نکتے کبھی اونٹ چراتے اور کبھی زمین کھودتے ہوئے پائے جاتے.مارا جس سے مسلمانوں کو معلوم ہوا کہ انہوں نے اپنے حریف پر کامیابی حاصل کر لی ہے.مزاج میں بے تکلفی اتنی تھی کہ فرش خاک پر بے تکلف سو جاتے.ایک دفعہ آنحضرت غزوات میں غزوہ ہوا زن خاص اہمیت رکھتا ہے.اس میں تمام قبائل عرب کی متحدہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں ڈھونڈتے ہوئے مسجد میں تشریف لائے.دیکھا کہ بے تکلفی کے طاقت مسلمانوں کے خلاف اُمڈ آئی تھی.لیکن اس غزوہ میں بھی حضرت علی ہر موقع پر ممتاز ساتھ زمین پر سورہے ہیں.چادر پیٹھ کے نیچے سے سرک گئی ہے اور جسم غبار آلود ہو رہا ہے.رہے.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جن اکا بر صحابہ کو جھنڈے عنایت فرمائے ، ان میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ سادگی نہایت پسند آئی.خود دست مبارک سے ان کا بدن حضرت علی مرتضیٰ بھی شامل تھے.آغاز جنگ میں جب کفار نے دفعہ تیروں کا مینہ برسانا صاف کر کے محبت آمیز لہجہ میں فرمایا.تم یا ابا خراب شروع کیا تو مسلمانوں کے پاؤں اکھڑ گئے اور صرف چند ممتاز صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ ( بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی باب مناقب علی ) مٹی والے ! اب اٹھ بیٹھ.زبان نبوی کی عطا کی ہوئی یہ کنیت حضرت علی کو اس قدر علیہ وسلم کے ساتھ ثابت قدم رہے.ان میں ایک حضرت علی مرتضی بھی تھے.عہد نبوت کے محبوب تھی کہ جب کوئی اس سے مخاطب کرتا تو خوشی سے ہونٹوں پر تقسم کی لہر دوڑ جاتی.بعد خود ان کے زمانہ میں جو معر کے پیش آئے ان میں کبھی ان کے پائے ثبات میں لغزش ایام خلافت میں بھی سادگی قائم رہی.عموماً چھوٹی آستین اور اونچے دامن کا کرتہ پہنتے نہیں آئی.اور معمولی کپڑے کی تہہ بند باندھتے.بازار میں گشت کرتے پھرتے اگر کوئی تعظیماً ساتھ ہو دشمنوں سے حسن سلوک حدیث میں آیا ہے کہ ” بہادر وہ نہیں ہے جو دشمن کو پچھاڑ دے بلکہ وہ ہے جو اپنے نفس کو زیر کرے“ لیتا تو منع فرماتے کہ اس میں ولی کے لیے فتنہ اور مومن کے لیے ذلت ہے.( تاریخ طبری صفحہ 334) حضرت علی مرتضی اس میدان کے شہوار تھے.ان کی زندگی کا اکثر حصہ مخالفین کی معرکہ
21 20 آرائی میں گزرا.لیکن انہوں نے ہمیشہ دشمنوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا.ایک دفعہ ایک لڑائی امور میں شریک مشورہ کئے جاتے تھے.واقعہ افک میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے میں جب ان کا حریف گر کر برہنہ ہو گیا تو اس کو چھوڑ کر الگ کھڑے ہو گئے کہ اس کو گھر کے راز داروں میں جن لوگوں سے مشورہ کیا ان میں سے ایک حضرت علی بھی تھے.غزوہ شرمندگی نہ اٹھانی پڑے.جنگ جمل میں حضرت عائشہ ان کی حریف تھیں.لیکن جب ایک طائف میں آپ نے ان سے اتنی دیر تک سرگوشی فرمائی کہ لوگوں کو اس پر رشک ہونے لگا.شخص نے ان کے اونٹ کو زخمی کر کے گرایا تو خود حضرت علیؓ نے آگے بڑھ کر ان کی خیریت خلافت راشدہ کے زمانہ میں وہ حضرت ابو بکر و عمر دونوں کے مشیر تھے.چنانچہ حضرت دریافت کی اور ان کو ان کے طرفدار بصرہ کے رئیس کے گھر میں اتارا.حضرت عائشہ کی فوج ابوبکر صدیق نے مہاجرین و انصار میں جو مجلس شوری قائم کی تھی اس کے رکن حضرت علی بھی کے تمام زخمیوں نے بھی اس گھر کے ایک گوشے میں پناہ لی تھی.حضرت علی حضرت عائشہ سے تھے.حضرت عمرؓ کو ان کی رائے پر اتنا اعتماد تھا کہ جب کوئی مشکل معاملہ پیش آ جاتا تو حضرت ملنے کے لیے تشریف لے گئے لیکن ان پناہ گزیں دشمنوں سے کچھ تعرض نہیں کیا.جنگ جمل میں جو لوگ شریک جنگ تھے ان کی نسبت بھی عام منادی کرادی کہ بھاگنے والوں کا تعاقب نہ کیا جائے.زخمیوں کے اوپر گھوڑے نہ دوڑائے جائیں.مال غنیمت نہ لوٹا جائے.جو ہتھیار ڈال دے اس کو امان ہے.“ علی سے مشورہ کرتے تھے.حدیث کی کتابوں میں بہت سے ایسے پیچیدہ مقامات مذکور ہیں جن کا فیصلہ حضرت علیؓ نے کیا اور جب وہ فیصلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے فرمایا.مَا أَجِدُ فِيْهَا إِلَّا مَا قَالَ عَلِيٌّ میرے نزدیک بھی اس کا وہی فیصلہ ہے (مستدرک جلد 3 صفحہ 367) ان کا سب سے بڑا دشمن ان کا قاتل ابن ملجم ہوسکتا تھا لیکن انہوں نے اس کے متعلق جو علی نے کیا.“ جو آخری وصیت کی تھی وہ یہ تھی کہ اس سے معمولی طور پر قصاص لینا ، مثلہ نہ کرنا.یعنی اس کے ہاتھ پاؤں اور ناک نہ کاٹنا.ابن سعد میں ہے کہ جب وہ آپ کے سامنے لایا گیا تو فرمایا کہ (ازالۃ الخفاء صفحہ 262 عن حمید بن عبد اللہ بن یزید المدنی ) شاہ ولی اللہ صاحب نے ازالۃ الخفاء میں حضرت علیؓ کے محاسن اخلاق پر ایک نہایت اس کو اچھا کھانا کھلاؤ اور اس کو نرم بستر پر سلاؤ.اگر میں زندہ بچ گیا تو اس کے معاف کرنے جامع بحث کی ہے جس کا خلاصہ دینا یہاں مناسب ہوگا.وہ لکھتے ہیں.یا قصاص لینے کا مجھے اختیار حاصل ہوگا اور اگر میں مرگیا تو اس کو مجھ سے ملا دینا میں خدا کے سامنے اس سے جھگڑ لوں گا.(طبقات تذکرہ علی بن ابی طالب ) دشمنوں کے ساتھ حسن سلوک کی اس سے اعلیٰ مثال اور کیا ہوسکتی ہے؟ حضرت علی کے مشورہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا اور آپ کی رائے پر عہد نبوی ہی سے اعتماد کیا جاتا تھا چنانچہ آپ تمام اہم اصابت رائے ” وہ بڑے بڑے لوگوں کی سرشت میں جو عظیم الشان اخلاق داخل ہوتے ہیں مثلاً شجاعت ، قوت، حمیت اور وفا.وہ سب ان میں موجود تھے اور فیض ربانی نے ان سب کو اپنی مرضی میں صرف کیا اور ان کے ایک ایک خلق کے ساتھ اس فیض ربانی کی آمیزش سے ایک ایک مقام پیدا ہوا.ریاض النظرہ میں ہے کہ جب وہ راہ چلتے تھے تو ادھر ادھر جھکے ہوئے چلتے تھے اور جب کسی کا ہاتھ پکڑ لیتے
23 22 تھے تو وہ سانس تک نہیں لے سکتا تھا.وہ تقریبا فربہ اندام تھے.ان کی کلائیاں اور ہاتھ مضبوط تھے.نیز دل کے مضبوط تھے.جس شخص سے کشتی لڑتے اس کو پچھاڑ دیتے تھے.بہادر تھے اور جس سے جنگ میں مقابلہ کرتے اس پر غالب آتے تھے.ان کے تمام محاسن اخلاق میں ایک وفا تھی.ان کے محاسنِ اخلاق میں ایک خلق ان کی غیر معمولی دلیری تھی.لوگوں کی خوب خاطر مدارت کرتے تھے.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام حضرت علی کے بارے میں فرماتے ہیں: علی تو جامع فضائل تھا اور ایمانی قوت کے ساتھ تو ام تھا.“ وو (حجة الله ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ 182) قد میانہ، رنگ گندم گوں ، آنکھیں بڑی بڑی ، چہرہ پر رونق و خوبصورت ، سینہ علیه چوڑا ، باز و اور تمام بدن گٹھا ہوا ، پیٹ بڑا اور نکلا ہوا.سر پر بال بہت کم تھے اور شاید تمام عمر میں ایک مرتبہ بالوں میں مہندی کا خضاب کیا تھا.ازواج واولاد حضرت فاطمۃ الزہرا کے بعد حضرت علی نے مختلف اوقات میں حضرت معاویہؓ نے ضرار اسدی سے کہا کہ مجھ سے حضرت علی کے اوصاف بیان کرو.متعدد شادیاں کیں اور ان سے بکثرت اولاد ہوئی.ازواج میں کے نام یہ ہیں.امام حسن ، امام حسین ، محمد بن حنیفہ، عمر ☆.☆ انہوں نے کہا کہ امیر المومنین ! اس سے مجھے معاف فرمائیے.معاویہ نے اصرار کیا.ضرار حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، لیلی بنت مسعود، اسماء بنت عمیر وغیرہ ہیں.بولے.اگر اصرار ہے تو سینے.وہ بلند حوصلہ اور نہایت قوی تھے.فیصلہ کن بات کہتے تھے.جبکہ آپ کے 17 لڑکیاں اور 14 لڑکے تھے.ان میں سے جن سے سلسلہ نسل جاری رہا ان عادلانہ فیصلہ کرتے تھے.ان کے ہر جانب سے علم کا سر چشمہ پھوٹتا تھا.ان کے تمام اطراف سے حکمت ٹپکتی تھی.دنیا کی دلفریبی اور شادابی سے اجنبیت رکھتے اور رات کی وحشت نا کی سے انس رکھتے تھے.بڑے رونے والے اور بہت زیادہ غور وفکر کرنے والے تھے.چھوٹا لباس اور موٹا کھانا پسند تھا.ہم میں بالکل ہماری طرح رہتے تھے.جب ہم ان سے سوال کرتے تھے تو وہ ہمارا جواب دیتے تھے اور جب ہم ان سے انتظار کی درخواست کرتے تھے تو وہ ہمارا انتظار کرتے تھے.باوجود یہ کہ اپنی خوش خلقی سے ہم کو اپنے قریب کر لیتے تھے اور وہ خود ہم سے قریب ہو جاتے تھے.لیکن خدا کی قسم ان کی ہیبت سے ہم ان سے گفتگو نہیں کر سکتے تھے.وہ اہل دین کی عزت کرتے تھے.غریبوں کو مقرب بناتے تھے.ان کے انصاف سے ضعیف نا امید نہیں ہوتا تھا.رض یہ سن کر معا و بیڈ رو پڑے اور فرمایا " خدا ابوالحسن پر رقم کرے.خدا کی قسم اوہ ایسے ہی تھے.“